پروفیسر طارق حبیب کی کتاب
کشف ذات کی آرزو کا شاعر ) ن م راشد پر ڈاکٹر وزیر آغا کے مقالت(
پر تبصرہ
سرگودھا، شعبہ اردو ،جامعہ نام :نجم السحر ،بی
کشف ذات کی آرزو کا شاعر نام کتاب:
کشف ذات کی آرزو کا شاعر )ن م راشد
پرڈاکٹر وزیر آغا کے مقالت( مرتب ومحقق:
پروفیسر طارق حبیب
سن اشاعت:
۲۰۱۰ء
صفحات:
۱۸۴
قیمت:
۲۷۵روپے
ناشر:
دوست پبلی کیشنز ،اسلم آباد ،پاکستان زیر نظر کتاب ،شاعری میں طرز نو کے بانی ،معروف
شاعرن۔م۔ راشد پر تحریر کردہ ڈاکٹر وزیر آغا کے مقالت پر مشتمل ہے۔ اس کے مرتب و محقق جامعہ سرگودھا میں اردو زبان وادب کے ہر دل عزیز استاد پروفیسر طارق حبیب ہیں۔ تحقیقی لحاظ سے ان کی یہ کاوش بہت شاندار اور محققین کے لیے ماخذ و مصدر کی حیثیت رکھتی ہے۔ کتاب کے مشمولت پر بات کرنے سے پہلے ،اس کے ابتدائی تاثر اور ظاہری شکل و صورت کو دیکھتے ہیں۔اس کتاب کی بہت بڑی خصوصیت اس کا ظاہری حسن ہے۔جیسے ڈاکٹر وزیر آغا نظم سے یہ مطالبہ
2
کرتے ہیں کہ ”وہ اپنے جسمانی لمس سے میرے خون میں ہیجانی کیفیت
پیدا کردے“ )(۱ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ڈاکٹروزیرآغا لکھتے ہیں ”:جو نظم پہلی ہی ق ٔرات میں مجھے یوں احساسی سطح پرمتاثر نہ کرسکے ؛ میں اسے جسمانی لمس سے تہی قرار دیتا ہوں۔ اب اگر مجھے بتایا جائے کہ اس نظم میں تو فلں انوکھا خیال ،بلند آدرش یا انقلبی نظریہ پیش ہوا ہے تو میرے لیے یہ سب بے معنی ہے۔۔۔۔نظم سے میرا پہل مطالبہ یہ ہے کہ وہ اپنے جسمانی لمس سے میرے خون میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا کردے؛ اگر وہ اس میں کامیاب نہیں ،تو پھر اسے دوسری بار پڑھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔“ ) وزیرآغا ،یاران سپِرپل)راشدکی ایک نظم کا تجزیہ(،مشمولہ:کشف ذات کی آرزوکاشاعر ،طارق حبیب،ص ۱۳۳۔(
بعینہ کسی کتاب کی ظاہری شکل وصورت قاری کے ساتھ پہل جذباتی تعلق قائم کرتی ہے۔اس کتاب کی عمدہ جلد بننندی، سرورق اور اس کے رنگوں کا انتخاب اور سب سے بڑھ کر اعل ٰ ی درجے کنا کاغنذ ،ینہ سنب خصوصنیات ابتندائی طنور پرکتناب کنو حاصل کرنے پر اکساتی ہیں۔ اپنی ملکیت میں لینے پر مجبور کرتی ہیں۔ ہمارے جیسے طالب علموں کے لیے اس کتنناب کننو اپنننے پنناس رکھنے ہی سے تفاخر اور برتری کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ اب بات کرتے ہیں کتاب کے مشمولت کی۔ ”تقدیم“ کے نام سے کتاب کا آغازیہ معروف محقق ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے تحریر کیا ہے۔ انھوں نے رواں صدی کو راشد کی صدی سے 3
موسوم کرتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ گزشتہ ادوار میں راشد کو مشکل پسند شاعر قرار دے کر اس کی نگارشات سے گریز کا رویہ اختیار کیا گیا ،لیکن موجودہ صدی میں ،اس کے برعکس ،تفہیم راشد کی سعی میں اضافہ ہوا ہے۔انھوں نے ڈاکٹر وزیر آغا کی تحسین کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ نصف صدی سے راشد کے فکروفن پر مسلسل غوروفکر کرتے رہے ہیں۔اور اب ان کے نتائج فکر کو پروفیسر طارق حبیب نے یکجا کرکے ،افادہ عام کے لیے جمع کردیا ہے۔ ”پیش گفتار“ میں مرتب نے سال ۲۰۱۰ء کو میرتقی میر کے دوسوسالہ یوم وفات ،محمد حسین آزادکے صدسالہ یوم وفات ، راشد کے صدسالہ یوم ولدت اور ڈاکٹر وزیر آغا کی وفات کے حوالے سے اردو ادب کے لحاظ سے بہت اہم سال قرار دیا ہے۔اسی پس منظر میں انھوں نے اپنی اس کتاب کو ن۔م۔راشد اور ہ توصیف و تحسین ڈاکٹروزیر آغا کی خدمات کے اعتراف میں ٔہدی کے طور پر پیش کیا ہے۔ انھوں نے بانوے لوگوں کی ایک طویل فہرست پیش کی ہے جنھوں نے راشد پر کسی نہ کسی حوالے سےلکھا ہے۔ ان سب میں سےڈاکٹروزیر آغا کے مضامین کو تمام محققین کے لیے مشعل پِ راہ قرار دیا ہے۔
4
یہ کتاب تحقیقی لحاظ سے ایک شاندار کاوش ہے۔محققین کے لیے یقینا ماخذ و مصدر کی حیثیت رکھتی ہے۔ مرتب نے ہردو شخصیات کے سرَیر وسوانح ،پوری تفصیل کے ساتھ ،نہایت عرق ریزی سے جمع کردیے ہیں۔ پہلے ن۔م۔راشد کے سوانح حیات، علمی وادبی خدمات اور ان پر کیے گئے تحقیقی کام کا اشاریہ زمانی ترتیب سے جمع کردیا ہے۔اس کے فورا بعد اسی انداز سے ڈاکٹروزیر آغا کا بنیادی سوانحی خاکہ ،علمی وادبی خدمات اور ان پر کیے گئے تحقیقی کام کااشاریہ مرتب کردیا ہے۔ ان بنیادی تحقیقی معلومات کے ذخیرہ کے بعد ،ڈاکٹر وزیر آغا کے علمی و ادبی مقالت شامل کیے گئے ہیں۔ان میں پہل مقالہ ”نئی اردو نظم“ اور دوسرا
”آزاد نظم “ ہے۔یہ دونوں
مقالت اگرچہ براہ راست راشد سے متعلق نہیں ہیں،لیکن ان میں راشد کے انداز نگارش اوراسلوب کا تعارف اور جواز نہایت خوبی سے بیان کیا گیا ہے۔ڈاکٹر وزیر آغا نے ان مقالت میں اردو ادب میں آزاد نظم کی آمد،اس کی حیثیت و حقیقت اور تاریخ پر عالمانہ بحث کی ہے۔ تیسرا مقالہ ”ن۔م۔راشد:بغاوت کی ایک مثال“ کے عنوان سے ہے۔ اس میں مقالہ نگار نے راشد کی شاعری کے پس پشت نفسیاتی اور تاریخی عوامل کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ 5
راشد کی اس الگ تھلگ روش نے ادبی دنیا میں یقینا ایک کھلبلی مچادی تھی۔ ان پر کئی طرح کے الزامات لگائے گئے۔ رائج روش اور اسلوب سے بغاوت کا مجرم قرار دیا گیا۔ لیکن ڈاکٹر وزیر آغا نے راشد کی اس روش کوبغاوت کے بجائےاجتہادکا نام دیا ہے ۔انھوں نے اجتہاد اور بغاوت میں فرق کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اجتہاد میں تعمیر کی صورت مضمر ہے اور بغاوت محض تخریب کا نام ہے۔ )(۲چنانچہ راشد نے رائج اسلوب کو ترک کرکے،محض بغاوت نہیں کی بلکہ اس میں پیراہی اظہار اجتہاد کرتے ہوئے ،اردو ادب کو ایک متبادل اور ٔمو ثر ٔ دیا ہے۔ اگرچہ علمہ اقبال نے بھی مروج اسلوب سے ہٹ کرلکھا ،لیکن ان کا اسلوب نگارش نفسیاتی طورپر مطمئن اور بلند خیالی سے مرکب ہے جبکہ اس کے برعکس راشد کا اسلوب غیرمطمئن ،ناآسودہ اور فرسٹریشن کا شکار ہے۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۲۔ وزیرآغا ،ن م راشد :بغاوت کی ایک مثال،مشمولہ:کشف ذات کی آرزوکاشاعر، طارق حبیب ،ص ۱۳۳۔
چوتھا مقالہ ”اردو شاعری کا مزاج اور ن م راشد“ کے عنوان سے ہے۔یہ مقالہ اختصار اور جامعیت کی خصوصیات کا حامل ہے۔ڈاکٹروزیرآغا کم لفظوں میں بڑی بات کہنے کا ملکہ رکھتے ہیں۔انھوں نے اس مقالے میں اقبال کے بعد اردو شاعری 6
میں بدلتی ہوئی صورتوں کو بیان کیا ہے۔ان کے خیال میں اقبال کے بعد اردو نظم میں دو رویے پیدا ہوئے ہیں۔ ایک وہ جو اقبال سے متاثر ہے اور دوسرا داخلیت کے اس رجحان کی عکاسی کرتا ہے جس نے اقبال کی راہ سے منحرف ہوکر نئی راہ تلش کی ہے۔اس کے علم بردار میرا جی ہیں۔ ان کا کلم باطن اور خارج کا دلکش امتزاج ہے۔ داخلیت کے رجحان کو دیکھا جائے تو راشدا ور خالد کے ہاں فرد کی کلبلہٹ موجود ہے،جس کی انتہائی صورت راشد کے ہاں پائی جاتی ہے۔وہ داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر روایت سے بغاوت کرتا،نئے سانچوں اور نئی جہتوں کو تلش کرتا نظر آتا ہے۔مقالے کے آخر میں راشد کی شاعری کے چند نمونے دیے گئے ہیں،جن میں انسان کی بے ل”ایران میں اطمینانی کی کیفیت ،تڑپ اور کراہ جھلکتی ہے۔مث ا”ً اجنبی“ کا یہ شعر: بس ایک ہی عنکبوت کا جال ہے کہ جس میں
ہم
ایشیا ئی اسیر تڑپ رہے ہیں۔)(۳ پانچواں مقالہ ”راشد کا ' لا-انسان'“ ہے۔ اس میں ڈاکٹروزیر آغانے راشد کے اس شعری مجموعے کا جائزہ پیش کیا ہے۔ان کے نزدیک راشد کے انسان کا دوسرا نام ”تمنا“ ہے،جس کو وہ سیال شے سے تعبیر کرتے ہیں۔اور یہ کیفیت برگساں کے ایلن وائٹل سے 7
مشابہ ہے۔یہ انسانی شکستیں،کامرانیاں ،آرزوئیں اور نامرادیاں بنیادی طور پر ایک تڑپ اور لگن ہونے کے باعث انسان کو ارتقاء پزیر ہونے اور تخلیقی سطح پر زندہ رکھنے میں مدد دیتی ہیں۔ چھٹا مقالہ ” ن م راشد“ کے عنوان سے ہے۔اس میں ڈاکٹر صاحب نے علمہ اقبال کے بعد جدید اردو نظم کی ترویج اور فروغ کے ضمن میں تین نام :تصدق حسین خالد،میرا جی اور ن م راشد کا ذکرکیا ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۳۔ وزیرآغا ،اردوشاعری کامزاج اور ن م راشد،مشمولہ:کشف ذات کی
آرزوکاشاعر ،طارق حبیب ،ص ۱۰۶۔ ہے۔ ان تینوں میں سے خالد نے جدید نظم گوشعرا ء کو بہت کم متاثر کیا ہے۔بلکہ بعض ناقدین کی رائے میں خالد نے اپنے بیش تر نظموں کے خیال انگریزی نظموں سے اخذ کیے ،لیکن اس بات کا اعتراف نہیں کیا۔ خالد کے برعکس میرا جی اور راشدنے جدید نظم کے فروغ اور اس کی وسعت کے لیے جو کام کیا ہے اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔میرا جی کے لہجے میں نرمی اور گھلوٹ ہے،جبکہ راشد کا کلم پہاڑی ندی سے مشابہ ہے جس میں شورموجود ہوتاہے۔میرا جی پوری طرح اپنی دھرتی سے منسلک ہیں لیکن راشد اپنے معاشرے میں ایک اجنبی ہے۔میرا جی نے اپنی معاشرتی یا مذہبی اقدار کو چیلنج نہیں کیا ،جبکہ 8
ان کے برعکس راشد کی حیثیت ایک باغی کی ہے۔وہ زیادہ تر وطن سے باہر ہی رہے اور آخر تک تذبذب کی کیفیت میں رہے۔ان کی جڑیں اپنی دھرتی اور روایات کے ساتھ جڑی ہوئی نہیں تھیں۔لیکن دوسری طرف ان کی یہی خصوصیت ان کی شاعری کو مقامیت سے نکل کر آفاقیت میں داخل کرتی ہے۔ان کا مجموعہ” لا-انسان“ کائناتی سطح کو چھونے کی ایک کاوش قرار دیا جاسکتاہے۔ ساتواں مقالہ ”تخلیقی عمل،فنون لطیفہ میں“ ہے۔ڈاکٹر وزیر آغا نے اس مقالے میں رقص کو فنون لطیفہ میں سب سے قدیم فن قراردیا ہے۔یہ فن انفرادی اور اجتماعی سطح پر اظہارذات کا ایک انداز ہے۔قدیم تہذیبوں کے آثارمیں بھی رقص کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔رقص مغربی شاعری کا ایک شاداب موضوع ہے ،لیکن اردوشاعری میں اس کوزیادہ پزیرائی نہیں ملی۔حفیظ جالندھری اور راشد کے ہاں رقص سے متعلق شاعری موجود ہے لیکن اس کا موضوع محض رقص نہیں بلکہ کچھ دوسری کیفیات کے زیر اثر رقص کو موضوع بنایا گیا ہے۔جدید اردو شاعری میں یوسف ظفراور قیوم نظر نے رقص کے موضوع پر دو خوب صورت نظمیں لکھی ہیں۔
9
آٹھواں مقالہ”تحلیقی عمل“ میں فنون لطیفہ کے علوہ زندگی کے دوسرے شعبوں میں تخلیقی عمل کا بیان ہے۔ان میں کوزہ گری قدیم زمانے سے نہایت اہم فن ہے۔راشد نے بھی اس موضوع پر ”حسن کوزہ گر“ کے عنوان سے لکھاہے۔ نواں مقالہ ”یاران سرپل:راشد کی ایک نظم کا تجزیہ“ ہے۔ ڈاکٹروزیر آغا نے اس مقالے میں راشد کی اس نظم کا تجزیہ کیاہے۔انھوں نے اعتراف کیا ہے کہ پہلی ق ٔرات میں وہ اس کے مفہوم تک رسائی حاصل نہیں کرسکے ،لیکن نظم کی پراسرار فضا نے انھیں متاثر کیا۔ان کے بقول یہ ایسے لوگوں کی داستان ی مقصد کے لیے اپنے گھروں کی عافیت کو ہے جو کسی اعل ٰ چھوڑ کرمشکلت کواختیار کرتے ہیں۔یہ ایک علمتی نظم دنیاوں کے درمیان پل کو اہمیت حاصل ہے۔ یہ پل ہےجس میں دو ٔ ایک سوالیہ نشان کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی لرزتی اور ڈولتی ہوئی کیفیت میں لوگوں کے فیصلہ کرنا مشکل ہورہا ہے کہ وہ واپس جائیں یا اپنے مقصد کے حصول کے لیے اس پل کو پار کرجائیں۔ آخری مقالہ مرتب پروفیسر طارق حبیب کے قلم سے ہے۔یہ مقالہ پوری کتاب کانچوڑ ہے۔ یہ “راشد شناسی میں ڈاکٹر وزیر آغا کا حصہ” کے نام سے ہے۔ اس میں مرتب نے ڈاکٹر وزیر آغا کے 10
راشد شناسی کے موضوع پر لکھے گئے پانچ مقالت کی روشنی میں ،بحیثیت نقاد ان کے مقام و مرتبے کا ذکرکیاہے۔ان کے نزدیک ڈاکٹر صاحب شعر فہمی کا ذوق رکھنے کے ساتھ ساتھ ایک صاحب علم شخصیت ہیں۔وہ اپنی رائے کی تائید میں ٹھوس علمی دلئل پیش کرتے ہیں۔ اور کسی قسم کے تعصب یا ڈر اور خوف کا شکار نہیں ہوتے ،بلکہ ج ٔرات مندانہ اور بے لگ رائے دیتے ہیں۔راشد شناسی پر ان کا کام مستقبل کے نقادوں کے لیے ایک بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ آخر میں ڈاکٹر وزیر آغا کے نام راشد کے تین خطوط شامل کیے ہیں ،جو کہ ہردو اصحاب کے باہمی تعلق کو بخوبی واضح کرتے ہیں۔ فن تحقیق و تصنیف کے لحاظ سے یہ کتاب بہت اعل ٰ ی درجے کی ہے۔ اس میں ان تمام لوازمات کا پوری طرح خیال رکھا گیا ہےجو تحقیق وتصنیف کے میدان میں ضروری ہیں۔ کتاب میں حوالہ جات کا خصوصی اہتمام کیا گیاہے۔ ماخذات کی فہرست ،الف بائی ترتیب سے ،نہایت احتیاط سے مرتب کی گئی ہے۔آخر میں قارئین و محققین کے استفادے کے لیے اشخاص، کتب ،اماکن،رسائل اور اداروں کا اشاریہ بھی مرتب کیا گیا ہے جو اس کتاب کو مزید مفیداور ٔموقر بنادیتا ہے۔ کتاب کی پروف 11
ریڈنگ نہایت دقت نظر سے کی گئی ہے اور راقم کو سوائے ایک مقام کے کہیں پروف ریڈنگ کا سہو نظر نہیں آیا۔اور وہ صفحہ ۲۱کی تیسری سطر پر سن ہجری کے ساتھ“ھ” کے بجائے ،عیسوی سن کا نشان “ء” لکھا گیا ہے۔
12