Ghaibat

Page 1

‫‪1‬‬

‫زمانہ غیبۃ کبری میں خمس‬ ‫کے احکام‬ ‫سید عبدالعلی موسوی‬


‫‪1‬‬

‫فأما من كان من الفقهاء صائنا لنفسه‪ ،‬حافظا لدينه‪ ،‬مخالفا على هواه‪،‬‬ ‫مطيعا ألمر مواله‪ ،‬فللعوام أن يقلدوه‪ ،‬وذلك ال يكون‬ ‫إال بعض فقهاء الشيعة ال جميعهم‪ ،‬فإنه من ركب من القبايح والفواحش‬ ‫مراكب فسقة العامة فال تقبلوا منا عنه شيئا‪ ،‬وال كرامة‪ ،‬وإنما كثر‬ ‫التخليط فيما يتحمل عنا أهل البيت لذلك ألن الفسقة يتحملون عنا‬ ‫فيحرفونه بأسره بجهلهم‪ ،‬ويضعون األشياء على غير وجهها لقلة‬ ‫معرفتهم‪ ،‬وآخرون يتعمدون الكذب علينا ليجروا من عرض الدنيا ما‬ ‫هو زادهم إلى نار جهنم‪ ،‬ومنهم قوم (نصاب) ال يقدرون على القدح‬ ‫فينا‪ ،‬يتعلمون بعض علومنا الصحيحة فيتوجهون به عند شيعتنا‪،‬‬ ‫وينتقصون بنا عند نصابنا‪ ،‬ثم يضيفون إليه أضعاف وأضعاف أضعافه‬ ‫من األكاذيب علينا التي نحن براء منها‪ ،‬فيتقبله المستسلمون من‬ ‫شيعتنا‪ ،‬على أنه من علومنا‪ ،‬فضلوا وأضلوا وهم أضر على ضعفاء‬ ‫شيعتنا من جيش يزيد على الحسين بن علي عليه السالم وأصحابه‪،‬‬ ‫فإنهم يسلبونهم األرواح واألموال‬ ‫پس فقہاء میں سے وہ جو اپنے نفس کا محافظ ہو‪ ،‬اپنے دین کا‬ ‫نگہبان ہو‪ ،‬اپنی خوائشات کا مخالف ہو اور اپنے موال کے امر کا‬ ‫مطیع ہو‪ ،‬عوام کو ایسے فقہاء کی تقلید کرنے چاہیے‪ -‬یہ شرائط‬ ‫بعض فقہاء میں پائی جاتی ہیں نہ کہ تمام فقہاء میں۔‬ ‫عامہ کے فاسق فقہاء کی طرح جو بھی عمل قبیح اور فسق و‬ ‫فجور کا مرتکب ہو‪ ،‬اس کے ہماری طرف منسوب کیے گئے‬ ‫مطالب کو قبول نہ کرو‪ ،‬اور ان کا احترام نہ کرو۔ بے شک ہماری‬ ‫بہت سے احادیث عمدا مخلوط ہو گئی ہیں‪ ،‬کیونکہ فاسقین ہمارے‬


‫‪2‬‬

‫کالم کو سنتے ہیں اور جہالت کے سبب ان تمام کو تحریف کر‬ ‫دیتے ہیں اور اپنی کم علمی کی وجہ سے دوسرے معنی اخذ کرتے‬ ‫ہیں اور دوسرا گروہ جان بوجھ کر ہم پر بہتان لگاتا ہے تاکہ دنیا‬ ‫کے اموال اس کے ذریعے حاصل کر سکیں اور وہ اموال ان کے‬ ‫لیے جہنم کے آگ کے شعلوں میں اضافہ کر دیں گے‬ ‫ان میں سے ایک گروہ مذہب کا دشمن ہے جو ہماری مذمت و قدح‬ ‫پر قادر نہیں‪ ،‬یہ لوگ ہماری بعض صحیح علوم کو حاصل کرتے‬ ‫ہیں اور شیعوں تک پہنچاتے ہیں اور دشمنوں سے ہماری عیب‬ ‫جوئی کرتے ہیں اور اس جھوٹ کے کئی گناہ برابر ہمارے اوپر‬ ‫الزام جھوٹ کا اضافہ کرتے ہیں ۔ ہم ان تمام باتوں سے پاک و‬ ‫مبرہ ہیں لیکن افسوس کے ہماری مطیع و فرمانبردار شیعہ اسے‬ ‫ہمارے علوم و مطالب و اقوال سمجھ کر قبول کرتے ہیں‪ ،‬پس وہ‬ ‫گمراہ ہو گئے اور دوسروں کو بھی انہوں نے منحرف کر دیا۔‬ ‫حسین‬ ‫ہمارے کمزور شیعوں پر ان افراد کا ضرر اور نقصان امام‬ ‫ؑ‬ ‫حسین پر لشکر یزید کے نقصان اور ضرر پہنچانے‬ ‫اور اصحاب‬ ‫ؑ‬ ‫سے زیادہ ہے کیونکہ ایسے افراد ان کی روح کو بھی تاراج‬ ‫کرتے ہیں اور ان کے اموال کو بھی غارت کرتے ہیں۔‬ ‫(االحتجاج طبرسی‪ ،‬جلد ‪ ،2‬صفحہ ‪)263‬‬


‫‪3‬‬

‫فہرست‬

‫مقدمہ‬

‫‪4‬‬

‫وه روايات جو عمومی طور پر شيعوں کے ليے خمس کے حالل ہونے کا‬ ‫‪8‬‬ ‫ذکر کرتی ہيں‬ ‫وه روايات جو قيام امام زمانہ عليہ السالم تک شيعوں کے ليے خمس کے‬ ‫‪21‬‬ ‫حالل ہونے کا بيان کرتی ہيں‬ ‫خمس کی تقسيم کون کرے گا؟‬

‫‪27‬‬

‫وه روايات جن سے خمس نہ دينے والوں پر حجت قائم کی جاتی ہے‬

‫‪30‬‬

‫زمانہ غيبۃ ميں خمس کی تقسيم کے بارے ميں شيعہ علماء کا اختالف ‪41‬‬ ‫تو پهر غريب سادات کا کيا کريں؟‬

‫‪53‬‬

‫خالصہ‬

‫‪56‬‬


‫‪4‬‬

‫مقدمہ‬ ‫غيبۃ کبری ميں اہل تشيع ہر طرف سے مسائل ميں گهرے ہوئے ہيں‪ ،‬اور‬ ‫اس کی وجہ يہ ہے کہ ہم لوگوں نے اہل بيت عليهم السالم کے احکامات‬ ‫سے تمسک نہيں رکها۔ اس کا فائده ان لوگوں نے اٹهايا جو دين کو تجارت‬ ‫بنا چکے ہيں ۔ اور جيسا کہ ابهی ہم نے امام عليہ السالم کے الفاظ ميں پڑها‬ ‫کہ انہوں نے کچه صحيح علوم سيکه ليے‪ ،‬اور اہل تشيع کے سامنے انہيں‬ ‫پيش کر کے يہ دهوکہ دے ديا کہ ہم اہل بيت عليهم السالم کی تعليمات پيش‬ ‫کر رہے ہيں؛ ائمہ عليهم السالم کے مطابق يہ يزيد کی فوج سے بدتر ہيں‬ ‫دين ميں شکوک و شبہات اس انداز سے پيدا کر ديے گئے ہيں کہ آج آپ کو‬ ‫اگر کوئی بهی شخص عبا و قبا پہن کر‪ ،‬نام کے ساته عالمہ لگا کر‪ ،‬کچه‬ ‫بهی کہہ دے‪ ،‬تو آپ ميں يہ ہمت ہی نہيں ہو گی کہ اس سے سوال کريں کہ‬ ‫محترم! يہ بات آپ ہميں معصومين عليهم السالم کے الفاظ ميں دکها ديں‬ ‫کبهی ان مولويوں سے سوال کر کے ديکه ليجيے گا‪ ،‬آپ کو اندازه ہو‬ ‫جائے گا‬ ‫ان مولويوں نے اپنی معيشت کے ليے خمس کے ضمن ميں بهی بہت‬ ‫جهوٹ بولے ہيں‪ ،‬اور لوگوں کو گمراه کيا ہے‬ ‫اگر آپ سے ميں يہ سوال کروں کہ جناب! خمس کا کيا کرنا ہے؟ تو آپ‬ ‫بڑے آرام سے جواب ديں گے کہ جناب! کرنا کيا ہے‪ ،‬بس دو حصے‬ ‫بنانے ہيں‪ ،‬ايک جس مجتہد کی ہم تقليد کر رہے ہيں‪ ،‬اسے دينا ہے۔۔۔۔۔يہ‬ ‫سہم امام ہے۔ اور دوسرا حصہ سادات کو دے ديں گے‬ ‫اب اگر ميں آپ سے يہ سوال کروں کہ يہ کس امام کے قول ميں آيا ہے‬ ‫تو؟؟؟‬


‫‪5‬‬

‫کتنی روايات آپ ميرے سامنے پيش کر سکيں گے؟‬ ‫ہاں يہ الگ بات کہ آپ خوش فمہی کا شکار بنے ہوئے ہيں‪ ،‬اور کہہ ديں‬ ‫گے کہ ہميں تو نہيں پتہ‪ ،‬مگر ہمارے مجتہد کو پتہ ہے‪ ،‬انہوں نے بہت‬ ‫سے کتب پڑهی ہيں اور وه تو بس وہی کہتے ہيں جو امام عليہ السالم‬ ‫کہتے ہيں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫اسی ليے ہم نے سوچا کہ کيوں نے ايک مقالہ اس موضوع پر لکها جائے‪،‬‬ ‫تاکہ کم سے کم آپ کو يہ تو معلوم ہو کہ ايسا نہيں ہے جيسا کہ آپ کو يقين‬ ‫دال ديا گيا ہے‬ ‫مثال کے طور پر ہم سستانی صاحب کی رائے ديکهتے ہيں‬ ‫موصوف اپنی توضيح المسائل‪ 1‬ميں فتوی ديتے ہيں‬ ‫(‪ )1804‬ضروری ہے کہ خمس دو حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ اس کا‬ ‫ایک حصہ سادات کا حق ہے اور ضروری ہے کہ کسی فقیر سید یا یتیم‬ ‫سید یا ایسے سید کو دیا جائے جو سفر میں ناچار ہو گیا ہو۔ اور دوسرا‬ ‫حصہ امام علیہ السالم کا ہے جو ضروری ہے کہ موجودہ زمانے میں‬ ‫جامع الشرائط مجتہد کو دیا جائے یا ایسے کاموں پر جس کی مجتہد‬ ‫اجازت دے‪ ،‬خرچ کیا جائے ۔ اور احتیاط الزم یہ ہے کہ وہ مرجع اعلم ہو‬ ‫اور عمومی مصلحتوں سے آگاہ ہو۔‬

‫بشير حسين نجفی صاحب فرماتے ہيں‬

‫‪1‬‬

‫توضيح المسائل‪ ،‬صفحہ ‪ ،273-272‬جامعہ تعليمات اسالمی‪ ،‬کراچی‪ ،‬پاکستان‬


‫‪6‬‬

‫مسئلہ ‪ :1843‬خمس دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہیے ۔ اس کا ایک‬ ‫حصہ سادات کا حق جو حاکم شرع کی اجازت سے کسی محتاج یا یتیم سید‬ ‫کو‪ ،‬ایسے سید کو دینا چاہیے جو سفر میں ناچار ہو گیا ہو‪ ،‬۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور‬ ‫دوسرا حصہ امام علیہ السالم کا ہے جو موجودہ زمانے میں جامع‬ ‫الشرائط مجتہد کو دینا چاہیے یا ایسے کام پر خرچ کرنا چاہیے جس کی‬ ‫وہ مجتہد اجازت دے لیکن اگر انسان یہ چاہے کہ امام علیہ السالم کا حصہ‬ ‫ایسے مجتہد کو دے جس کی وہ تقلید نہ کرتا ہو‪ ،‬تو احتیاط واجب کی بنا‬ ‫پر اسے چاہیے کہ ایسا کرنے کے لیے اس مجتہد کی اجازت لے جس کی‬ ‫وہ تقلید کرتا ہو اور اسے یہ اجازت اس صورت میں لینی ہو گی کہ مرجع‬ ‫تقلید میں دو شرطیں پائی جائیں ایک یہ کہ والیت فقیہ مطلقہ کا قائل ہو‬ ‫اور اپنے آپ کو مسلمان کے لیے واجب االطاعت سمجھے اور دوسرے‬ ‫یہ کہ وہ حکم دے کہ سہم امام اس تک پہنچایا جائے۔ اور ان شرطوں میں‬ ‫سے کوئی ایک بھی شرط ختم ہو جائے تو اس کی دوسرے مجتہد کو‬ ‫‪2‬‬ ‫دینے کے لیے اپنے مرجع کی اجازت لینے کی ضرورت نہیں‬ ‫بشير صاحب نے دو نکتے اور بهی دے ديے۔ ايک تو يہ کہ اگر آپ نے‬ ‫سادات کو بهی دينا ہے‪ ،‬تو اجازت مجتہد سے لينا ہو گی۔ اب بهلے ہی وه‬ ‫خود غير سيد ہو۔ حاالنکہ اس صورت ميں تو وه يقينی طور پر خمس دينے‬ ‫والوں ميں ہے‬ ‫اور دوسرا يہ کہ واليت فقيہ مطلقہ کا قائل ہو اور وه خود کو واجب‬ ‫االطاعت بهی سمجهے ۔۔۔۔۔‬ ‫اب ہللا جانے يہ کن احاديث معصومين عليهم السالم ميں انہوں نے پڑه ليا‬ ‫ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬ ‫فاضل لنکرانی صاحب فرماتے ہيں‬ ‫‪2‬‬

‫توضيح المسائل از بشير حسين نجفی‪ ،‬صفحہ ‪ ،386-385‬ايليا پرنٹرز الہور‪ ،‬پاکستان‬


‫‪7‬‬

‫مسئلہ ‪ :1901‬خمس کو دو حصوں میں تقسیم کا جائے‪ ،‬ایک حصہ سہم‬ ‫سادات ہے اور احتیاط واجب کی بنا پر اس کو مجتہد جامع الشرائط کی‬ ‫اجازت سے فقیر سید یا یتیم سید یا اس سید کو دیا جائے جو سفر میں بے‬ ‫خرچ ہو جائے‪ ،‬اور دوسرا آدھا حصہ سہم امام علیہ السالم ہے جو اس‬ ‫زمانہ میں مجتہد جامع الشرائط کو دیا جائے یا ایسے مصرف میں صرف‬ ‫‪3‬‬ ‫کیا جائے کہ جس کی اجازت وہ مجتہد دیدے ۔۔۔۔‬ ‫يہاں پر بهی وہی بات؛ کہ سادات کو دينے کے ليے بهی مجتہد کی‬ ‫اجازت۔۔۔۔۔۔‬ ‫‪ 1977‬ميں والنوا يونيورسٹی اور ٹيپمل يونيورسٹی ميں ايک ريسرچ کی‬ ‫گئی‪ ،‬اور ايک بات معلوم ہوئی‪ ،‬جسے‬ ‫‪Illusory truth effect‬‬ ‫کہتے ہيں۔ اس کا مطلب يہ ہے کہ اگر آپ کے سامنے کئی بار جهوٹ بوال‬ ‫جائے تو آپ اسے سچ سمجه بيٹهيں گے۔ جيسا کہ ايک نازی شخص تهے‪،‬‬ ‫جوزف گويبل‪ ،‬اس نے بهی کہا‬ ‫‪Repeat a lie often enough and it becomes the truth‬‬ ‫اب خمس کو لے کر يہ باتيں اتنی کر دی گئی ہيں کہ لوگوں کو يہ يقين ہو‬ ‫چکا ہے کہ خمس اسی طرح تقسيم ہوتا ہے۔‬ ‫تو چليے ہم ہللا کا نام لے کر آپ کی خدمت ميں احاديث معصومين عليهم‬ ‫السالم پيش کرتے ہيں۔ پهر آپ خود ديکهيے گا کہ حقيقت ہے کيا۔۔۔۔۔۔‬

‫‪3‬‬

‫توضيح المسائل از فاضل لنکرانی‪ ،‬صفحہ ‪،373‬‬


‫‪8‬‬

‫وہ روایات جو عمومی طور پر شیعوں کے لیے خمس‬ ‫کے حالل ہونے کا ذکر کرتی ہیں‬

‫روایت نمبر ‪1‬‬

‫شيخ طوسی اس روايت کو پيش کرتے ہيں‬ ‫سعد بن عبد ہللا عن أبي جعفر عن العباس بن معروف عن حماد بن عيسى‬ ‫عن حريز بن عبد ہللا عن أبي بصير وزرارة ومحمد بن مسلم عن أبي جعفر‬ ‫عليه السالم قال‪ :‬قال أمير المؤمنين علي بن أبي طالب عليه السالم‪ :‬هلك‬ ‫الناس في بطونهم وفروجهم ألنهم لم يؤدوا إلينا حقنا‪ ،‬أال وان شيعتنا من ذلك‬ ‫‪.‬وآباءهم في حل‬ ‫امام باقر علیہ السالم فرماتے ہیں کہ امیر المومنین علیہ السالم نے‬ ‫فرمایا‪ :‬لوگ اپنے پیٹ اور شرم گاہ کی وجہ سے ہالکت میں پڑھ گئے ہیں‬ ‫کیونکہ وہ ہمارا حق نہیں دے رہے‪ ،‬سوائے ہمارے شیعوں اور ان کے آبا‬ ‫‪4‬‬ ‫و اجداد کے ‪ ،‬کیونکہ ہم نے ان کے لیے اسے حالل قرار دیا‬

‫عالمہ مجلسی نے مالذ االخيار‪ ،‬جلد ‪ ،6‬صفحہ ‪ 394‬پر اسے صحیح قرار‬ ‫ديا‬

‫‪4‬‬

‫تہذيب االحکام‪ ،‬جلد ‪ ،4‬صفحہ ‪138-137‬‬


‫‪9‬‬

‫ياد رہے کہ شيخ صدوق نے بهی اس روايت کو اپنی سند کے ساته علل‬ ‫‪5‬‬ ‫الشرائع ميں درج کيا ہے‬ ‫اگرچہ يہاں پر يہ اعتراض کيا جا سکتا ہے کہ گذشتہ روايت ميں " ہمارے‬ ‫حق" کی وضاحت نہيں کی گئی‪ ،‬مگر اس کے ليے ہم شيخ صدوق کی‬ ‫کتاب علل الشرائع سے يہ باب نقل کرتے ہيں جس ميں انہوں نے مذکوره‬ ‫باال روايت کو درج کيا‬

‫باب ‪(– 106‬‬ ‫) العلة التي من أجلھا جعلت الشیعة في حل من الخمس‬ ‫باب ‪ :106‬وہ وجہ کے جس کے سبب شیعوں کے لیے خمس کو حالل کیا‬ ‫گیا‬

‫روایت نمبر ‪-:2‬‬

‫اس باب ميں شيخ صدوق ايک اور روايت نقل کرتے ہيں‬

‫حدثنا محمد بن الحسن رضي ہللا عنه قال‪ :‬حدثنا محمد بن الحسن الصفار عن‬ ‫العباس بن معروف عن حماد بن عيسى عن حريز عن زرارة عن أبي جعفر‬ ‫‪5‬‬

‫علل الشرائع‪ ،‬جلد ‪ ،2‬صفحہ ‪377‬؛ اردو ترجمے ميں يہ جلد ‪ ،2‬صفحہ ‪ 298‬پر‬ ‫موجود ہے‬


‫‪10‬‬

‫(ع) أنه قال‪ :‬إن أمير المؤمنين (ع) حللهم من الخمس ء يعني الشيعة ء ليطيب‬ ‫‪.‬مولدهم‬

‫امام باقر علیہ السالم نے فرمایا کہ امیر المومنین علیہ السالم نے اپنے‬ ‫شیعوں کے لیے خمس کو حالل قرار دیا تاکہ ان کی والدت پاکیزہ رہے‬

‫اس روايت کے سارے راويان ثقہ اور جليل القدر ہيں۔‬

‫‪6‬‬

‫‪6‬‬

‫ان راويان کی توثيق کے ليے ہم آغہ جواہری کی کتاب‪ ،‬المفيد من معجم الرجال‬ ‫الحديث ديکهتے ہيں‬ ‫محمد بن حسن بن احمد بن وليد شيخ صدوق کے مشائخ ميں ہيں۔ آغہ جواہری نے‬ ‫المفيد من معجم الرجال الحديث ‪ ،‬صفحہ ‪ 513‬پر انہيں ثقہ ثقہ اور عين قرار ديا ۔ يہ‬ ‫وثاقت کے اونچے درجات مانے جاتے ہيں‬ ‫اسی طرح المفيد کے صفحہ ‪ 515‬پر محمد بن حسن الصفار کو ثقہ اور جليل القدر‬ ‫قرار ديا‬ ‫المفيد‪ ،‬صفحہ ‪ 302‬پر عباس بن معروف کو ثقہ قرار ديا‬ ‫حماد بن عيسی کو صفحہ ‪ 195‬پر ثقہ قرار ديا‬ ‫حريز کو صفحہ ‪ 131‬پر ثقہ قرار ديا‬ ‫زراره بن اعين کو صفحہ ‪ 228‬پر ثقہ قرار ديا۔ يہ کسی تعارف کے محتاج نہيں۔‬


‫‪11‬‬

‫روایت نمبر ‪3‬‬ ‫عالمہ کلينی نے يہ روايت نقل کی ہے‬

‫علي بن إبراھیم‪ ،‬عن أبیه‪ ،‬عن ابن محبوب‪ ،‬عن ضریس الكناسي قال‪ :‬قال‬ ‫أبو عبد هللا علیه السالم‪ :‬من أین دخل على الناس الزنا؟ قلت‪ :‬ال أدري جعلت‬ ‫فداك‪ ،‬قال‪ :‬من قبل خمسنا أھل البیت‪ ،‬إال شیعتنا األطیبین‪ ،‬فإنه محلل لھم‬ ‫‪.‬لمیالدھم‬ ‫امام صادق علیہ السالم نے ضریس سے پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو کہ‬ ‫لوگوں میں زنا کہاں سے داخل ہوتا ہے؟ جواب دیا کہ نہیں معلوم۔ اس پر‬ ‫امام علیہ السالم نے فرمایا کہ ہم اہل البیت کو خمس نہ دینے کی وجہ‬ ‫سے‪ ،‬سوائے ہمارے شیعوں کے جو پاک والدت رکھتے ہیں کیونکہ ہم‬ ‫‪7‬‬ ‫نے ان کے لیے اسے حالل قرار دیا‬

‫اس روايت کو عالمہ مجلسی نے مراة العقول‪ ،‬جلد ‪ ،6‬صفحہ ‪ 278‬پر حسن‬ ‫قرار ديا‬ ‫تاہم ياد رہے کہ اس کی وجہ يہ ہے کہ عالمہ مجلسی ابراہيم بن ہاشم‪ ،‬والد‬ ‫علی ابن ابراہيم کو ممدوح مانتے تهے۔ اس کے برعکس کئی لوگ ان کو‬ ‫ثقہ مانتے ہيں‪ ،‬جيسا کہ سيد الخوئی‪8‬۔ اور اس صورت ميں يہ صحیح کے‬ ‫درجے پر ہو گی‬

‫‪7‬‬

‫الکافی‪ ،‬جلد ‪ ،1‬صفحہ ‪546‬‬ ‫معجم رجال الحديث‪ ،‬جلد ‪ ،1‬صفحہ ‪2918‬‬


‫‪12‬‬

‫روایت نمبر ‪4‬‬

‫شيخ طوسی نے يہ روايت نقل کی ہے‬ ‫وعنه عن أبي جعفر عن الحسن بن علي الوشا عن أحمد ابن عائذ عن أبي‬ ‫سلمة سالم بن مكرم وهو أبو خديجة عن أبي عبد ہللا عليه السالم قال‪ :‬قال له‬ ‫‪:‬رجل وانا حاضر‪ :‬حلل لي الفروج ففزع أبو عبد ہللا عليه السالم! فقال‬ ‫له رجل ليس يسألك ان يعترض الطريق إنما يسألك خادما يشتريها أو امرأة‬ ‫يتزوجها أو ميراثا يصيبه أو تجارة أو شيئا أعطاه فقال‪ :‬هذا لشيعتنا حالل‬ ‫الشاهد منهم والغائب والميت منهم والحي‪ ،‬وما يولد منهم إلى يوم القيامة فهو‬ ‫لهم حالل‪ ،‬اما وہللا ال يحل إال لمن أحللنا له‪ ،‬وال وہللا ما أعطينا أحدا ذمة وما‬ ‫‪.‬عندنا الحد عهد وال الحد عندنا ميثاق‬ ‫ابو خدیجہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے امام الصادق علیہ السالم سے‬ ‫سوال کیا‪ ،‬اور میں اس وقت موجود تھا‪ ،‬کہ ہمارے لیے شرمگاہوں کو‬ ‫حالل کر دیں۔ اس پر امام علیہ السالم گھبرا گئے۔ ایک شخص بوال کہ یہ‬ ‫آپ سے کوئی معترض طریقے کی اجازت نہیں مانگ رہا بلکہ یہ آپ سے‬ ‫سوال کر رہا ہے کہ اگر یہ کوئی خادمہ خریدے یا کسی عورت سے شادی‬ ‫کرے یا میراث میں کچھ پائے یا تجارت کرے‪ ،‬یا کوئی شے اسے ملے(‬ ‫تو اس میں خمس کی معافی کا طلبگار ہے)۔ اس پر امام علیہ السالم نے‬ ‫جواب دیا کہ یہ ہمارے شیعوں کے لیے حالل ہے جو موجود ہیں یا غائب‪،‬‬ ‫زندہ ہیں یا مردہ‪ ،‬یا جنہوں نے قیامت تک پیدا ہونا ہے ان کے لیے حالل‬ ‫ہے۔ خدا کی قسم یہ ان کے لیے حالل ہے جن کے لیے ہم اس حالل کریں۔‬


‫‪13‬‬

‫خدا کی قسم (تم لوگوں کے سوا) ہم نے اس کی اجازت کسی اور کو نہیں‬ ‫‪9‬‬ ‫دی اور نہ ہی کسی اور سے کوئی وعدہ کیا ہے‬

‫اس روايت پر عالمہ مجلسی نے مالذ االخيار‪ ،‬جلد ‪ ،6‬صفحہ ‪ 390‬پر يہ‬ ‫حکم لگايا‬ ‫" مشہور قول کے بنا پر ضعیف ہے‪ ،‬مگر صحیح ہونا ممکن ہے کیونکہ‬ ‫ابو خدیجہ کو شیخ نجاشی نے ثقہ مانا ہے"‬ ‫يعنی باقی سند صحیح ہے‪ ،‬صرف سالم بن مکرم ابو خديجہ پر اختالف‬ ‫ہے۔ اور اس کی وجہ يہ ہے کہ شيخ طوسی نے انہيں ضعيف کہا‪ ،‬جبکہ‬ ‫‪10‬‬ ‫شيخ نجاشی نے انہيں "ثقۃ ثقہ" کہا‬ ‫تاہم‬ ‫شيخ علی نمازی شاہرودی نے اپنی تحقيق ميں انہيں ثقہ مانا‪ 11‬۔ اور عالمہ‬ ‫‪12‬‬ ‫حلی نے بهی اسی روایت کو صحیح قرار ديا‬

‫‪9‬‬

‫تہذيب االحکام‪ ،‬جلد ‪ ،4‬صفحہ ‪137‬‬ ‫‪10‬‬

‫رجال النجاشی‪ ،‬صفحہ ‪ ،188‬راوی نمبر ‪501‬‬ ‫‪11‬‬

‫مستدرکات علم رجال الحديث‪ ،‬شيخ علی نمازی‪ ،‬جلد ‪ ،4‬صفحہ ‪10‬‬ ‫‪12‬‬

‫مختلف الشيعہ‪ ،‬جلد ‪ ،3‬صفحہ ‪ 341‬پر يوں درج کيا ہے‬ ‫احت ّج الشيخ بما رواه سالم بن مكرم في الصحيح‪ ،‬عن الصادقء عليه السالمء قال‪ :‬قال‬ ‫رجل و أنا حاضر‪ :‬حلّل لي الفروج‪ ،‬ففزع أبو عبد ّ‬ ‫الل‪ -‬عليه السالم‪ -‬فقال له رجل‪ :‬ليس‬


‫‪14‬‬

‫روایت نمبر ‪5‬‬

‫شيخ طوسی نے يہ روايت نقل کی ہے‬ ‫سعد بن عبد ہللا عن أحمد بن محمد بن أبي نصر عن أبي عمارة عن الحرث‬ ‫بن المغيرة النصري عن أبي عبد ہللا عليه السالم قال‪ :‬قلت له ان لنا أمواال من‬ ‫غالت وتجارات ونحو ذلك‪ ،‬وقد علمت أن لك فيها حقا قال‪ :‬فلم أحللنا إذا‬ ‫لشيعتنا إال لتطيب والدتهم وكل من والى آبائي فهم في حل مما في أيديهم من‬ ‫‪.‬حقنا فليبلغ الشاهد الغائب‬ ‫حارث بن مغیرہ نصری نے امام صادق علیہ السالم سے سوال کیا‪ :‬ہمارے‬ ‫پاس اپنی فصلوں اور تجارت وغیرہ سے کافی مال ہوتا ہے‪ ،‬اور ہمیں‬ ‫معلوم ہے کہ اس میں آپ کا حق ہے (تو ہم کیا کریں؟)۔ امام نے جواب دیا‬ ‫کہ ہم نے اسے اپنے شیعوں کے لیے حالل قرار دیا تاکہ ان کی والدتیں‬ ‫پاکیزہ ہوں‪ ،‬اور ہر وہ جو ہمارے آباء کی والیت کا قائل ہے‪ ،‬اس کے لیے‬ ‫وہ سب کچھ جائز ہے جو اس کے ہاتھ میں ہے‪ ،‬پس حاضرین کو چاہیے‬ ‫‪13‬‬ ‫کہ یہ خبر ان تک پہنچا دیں جو موجود نہیں‬

‫اس روايت کی سند ميں سعد بن عبدہللا‪ ،‬احمد بن محمد بن ابی نصر اور‬ ‫حارث بن مغيره نصری کا شمار شيعہ رجال کے جليل القدر راويان ميں‬ ‫يتزوجها‪ ،‬أو ميراثا‬ ‫يسألك أن يعترض الطريق‪ ،‬إنما يسألك خادما يشتريها‪ ،‬أو امرأة ّ‬ ‫‪:‬يصيبه‪ ،‬أو تجارة أو شيئا أعطيه‪ ،‬فقال‬ ‫هذا لشيعتنا حالل‪ ،‬الشاهد منهم و الغائب‪ ،‬و الميت منهم و الحي‪ ،‬و ما يولد منهم الى يوم‬ ‫الل ال يح ّل إال لمن أحللنا له‪ ،‬ال و ّ‬ ‫القيامة فهو لهم حالل‪ ،‬اما و ّ‬ ‫الل ما أعطينا أحدا ذمة‪ ،‬و‬ ‫ما عندنا ألحد عهد‪ ،‬و ال ألحد عندنا ميثاق‬ ‫‪13‬‬

‫تہذيب االحکام‪ ،‬جلد ‪ ،4‬صفحہ ‪143‬‬


‫‪15‬‬

‫ہوتا ہے۔ خاص طور پر احمد بن محمد بن ابی نصر کا شمار اصحاب‬ ‫االجماع ميں ہوتا ہے‪14‬۔‬ ‫سيد صادق روحانی نے اسے اپنی کتاب‪ ،‬فقہ صادق‪ ،‬جلد ‪ ،11‬صفحہ ‪63‬‬ ‫پر صحیح قرار ديا‬ ‫نيز اس روايت کو شيخ حسن بن شہيد الثانی نے اپنی کتاب‪ ،‬منتقی الجمان‬ ‫جلد ‪ ،2‬صفحہ ‪ 443‬پر درج کيا۔ اور اس کتاب ميں انہوں نے يہ فرمايا تها‬ ‫‪15‬‬ ‫کہ اس ميں صحيح و حسن درجے کی احاديث ہوں گی۔‬

‫روایت نمبر ‪6‬‬

‫شيخ طوسی اس روايت کو نقل کرتے ہيں‬ ‫محمد بن الحسن الصفار عن يعقوب بن يزيد عن الحسن بن علي الوشا عن‬ ‫‪:‬القاسم بن بريد عن الفضيل عن أبي عبد ہللا عليه السالم قال‬ ‫من وجد برد حبنا في كبده فليحمد ہللا على أول النعم‪ ،‬قال‪ :‬قلت جعلت فداك ما‬ ‫أول النعم؟ قال‪ :‬طيب الوالدة‪ ،‬ثم قال أبو عبد ہللا عليه السالم‪ :‬قال أمير‬ ‫المؤمنين عليه السالم لفاطمة عليها السالم‪ :‬أحلي نصيبك من الفئ آلباء شيعتنا‬ ‫‪.‬ليطيبوا‪ ،‬ثم قال أبو عبد ہللا عليه السالم إنا أحللنا أمهات شيعتنا آلبائهم ليطيبوا‬ ‫‪14‬‬

‫معجم رجال الحديث‪ ،‬جلد ‪ ،3‬صفحہ ‪21-20‬‬ ‫‪15‬‬

‫اگر انہوں نے اس کتاب ميں کہيں پر ضعيف کو درج کيا‪ ،‬تو اس کو ساته ہی بيان‬ ‫بهی کيا۔ مگر اس روايت کے ساته ہميں ضعف کے بارے ميں ان کی جانب سے‬ ‫کچه بهی نہيں ملتا‬


‫‪16‬‬

‫امام الصادق علیہ السالم نے فرمایا کہ تم میں سے جو اپنے جگر میں‬ ‫ہماری محبت کی ٹھنڈک پائے‪ ،‬تو وہ پہلی نعمت کا شکر ادا کرے۔ پوچھا‬ ‫گیا کہ پہلی نعمت کیا ہے؟ جواب دیا کہ پاکیزہ والدت۔ پھر امام نے فرمایا‬ ‫کہ امیر المومنین علیہ السالم نے بی بی فاطمہ علیہا السالم سے کہا کہ آپ‬ ‫شیعوں کے آباء کے لیے مال فئے میں سے اپنا حصہ حالل کر دیں تاکہ‬ ‫ان کی والدت پاکیزہ ہو۔ پھر امام نے فرمایا کہ ہم نے شیعوں کے ماؤں کو‬ ‫‪16‬‬ ‫ان کے باپ کے لیے حالل کر دیا تاکہ ان کی والدت پاک ہو‬

‫عالمہ مجلسی نے مالذ االخيار‪ ،‬جلد ‪ ،6‬صفحہ ‪ 417‬پر صحيح قرار ديا‬

‫روایت نمبر ‪7‬‬

‫شيخ طوسی و شيخ صدوق نے يہ روايت نقل کی‬

‫وروي عن علي بن مهزيار أنه قال‪ " :‬قرأت في كتاب ألبي جعفر عليه السالم‬ ‫إلى رجل يسأله أن يجعله في حل من مأكله ومشربه من الخمس‪ ،‬فكتب عليه‬ ‫‪:‬السالم بخطه‬ ‫" من أعوزه شئ من حقي فهو في حل‬ ‫علی بن مہزیار نے کہا کہ میں نے امام ابو جعفر علیہ السالم کی وہ تحریر‬ ‫پڑھی جو آپ نے ایک شخص کے سوال کے جواب میں تحریر کی تھی کہ‬ ‫‪16‬‬

‫تہذيب االحکام‪ ،‬جلد ‪ ،4‬صفحہ ‪143‬‬


‫‪17‬‬

‫ہمارے لیے جو کچھ ہم نے خمس میں سے کھا پی لیا ہے‪ ،‬اسے حالل کر‬ ‫دیں۔‬ ‫آپ نے جواب دیا‪ :‬جس کو ہمارے حق میں سے کسی شے کی سخت‬ ‫تو ؑ‬ ‫‪17‬‬ ‫ضرورت ہو تو وہ اس کے لیے حالل ہے‬

‫عالمہ مجلسی نے مالذ االخيار‪ ،‬جلد ‪ ،6‬صفحہ ‪ 417‬پر اس روايت کو‬ ‫صحيح قرار ديا‬

‫روایت نمبر ‪8‬‬ ‫شيخ صدوق نے يہ روايت نقل کی‬ ‫وروى محمد بن مسلم عن أحدهما عليهما السالم قال‪ " :‬إن أشد ما فيه الناس‬ ‫يوم القيامة أن يقوم صاحب الخمس فيقول‪ :‬يا رب خمسي‪ .‬وقد طيبنا ذلك‬ ‫لشيعتنا لتطيب والدتهم أو لتزكوا والدتهم‬ ‫امام علیہ السالم فرماتے ہیں کہ قیامت والے دن سب سے سخت وقت وہ‬ ‫ہو گا جو خمس کے حقدار کھڑے ہو کر کہیں گے کہ اے رب! ہمارا خمس۔‬ ‫مگر ہم نے اسے اپنے شیعوں کے لیے یہ حالل و مباح‪ 18‬کر دیا تاکہ ان‬ ‫‪19‬‬ ‫کی والدت پاکیزہ ہو‬ ‫‪17‬‬

‫تہذيب االحکام‪ ،‬جلد ‪ ،4‬صفحہ ‪143‬؛ من ال يحضره الفقيہ‪ ،‬جلد ‪ ،2‬صفحہ ‪44‬‬ ‫‪18‬‬

‫من ال يحضره الفقيہ کے کچه نسخوں ميں يوں ہے‬ ‫"و قد احللنا" يعنی ہم نے حالل کر ديا‬


‫‪18‬‬

‫روایت نمبر ‪9‬‬

‫شيخ طوسی نے يہ روايت نقل کی‬ ‫علي بن الحسن بن فضال عن جعفر بن محمد بن حكيم عن عبد الكريم بن‬ ‫عمرو الخثعمي عن الحرث بن المغيرة النصري قال‪ :‬دخلت على أبي جعفر‬ ‫عليه السالم فجلست عنده فإذا نجية قد استأذن عليه فاذن له فدخل فجثى على‬ ‫ركبتيه ثم قال‪ :‬جعلت فداك اني أريد ان أسألك عن مسألة وہللا ما أريد بها إال‬ ‫فكاك رقبتي من النار فكأنه رق له فاستوى جالسا فقال له‪ :‬يا نجية سلني فال‬ ‫تسألني اليوم عن شئ إال أخبرتك به‪ ،‬قال جعلت فداك ما تقول في فالن وفالن‬ ‫قال‪ :‬يا نجية ان لنا الخمس في كتاب ہللا ولنا األنفال ولنا صفو األموال‪ ،‬وهما‬ ‫وہللا أول من ظلمنا حقنا في كتاب ہللا‪ ،‬وأول من حمل الناس على رقابنا‪،‬‬ ‫ودماؤنا في أعناقهما إلى يوم القيامة بظلمنا أهل البيت‪ ،‬وان الناس ليتقلبون في‬ ‫حرام إلى يوم القيامة بظلمنا أهل البيت‪ ،‬فقال نجية‪ :‬انا هلل وانا إليه راجعون‬ ‫ثالث مرات هلكنا ورب الكعبة قال‪ :‬فرفع فخذه عن الوسادة فاستقبل القبلة فدعا‬ ‫‪:‬بدعاء لم أفهم منه شيئا إال انا سمعناه في آخر دعائه وهو يقول‬ ‫اللهم انا قد أحللنا ذلك لشيعتنا) قال‪ :‬ثم أقبل إلينا بوجهه‪ ،‬وقال‪ :‬يا نجية ما على (‬ ‫‪.‬فطرة إبراهيم عليه السالم غيرنا وغير شيعتنا‬

‫مالحظہ ہو حاشيہ از عالمہ علی اکبر غفاری‬ ‫‪19‬‬

‫من ال يحضره الفقيہ‪ ،‬جلد ‪ ،2‬صفحہ ‪43‬‬


‫‪19‬‬

‫حرث بن مغیرہ کہتے ہیں کہ میں امام باقر علیہ السالم کے پاس گیا‪ ،‬اور‬ ‫بیٹھ گیا۔ پھر وہ نجیۃ آیا‪ ،‬اور اجازت مانگی۔ اجازت ملنے پر وہ گیا اور دو‬ ‫آپ پر قربان! میں ایک سوال پوچھنا چاہتا‬ ‫زانو بیٹھ گیا ۔ پھر بوال‪ :‬میں ؑ‬ ‫ہوں‪ ،‬اور خدا کی قسم! میرا مقصد یہ ہے کہ میں اپنی گردن آتش جہنم‬ ‫امام سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور اسے کہا کہ اے نجیۃ‬ ‫سے آزاد کر دوں۔ ؑ‬ ‫آج سوال کرو اور میں اس کا جواب دوں گا۔ اس نے پوچھا کہ میں قربان‬ ‫جاؤں! آپ فالں فالں کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ امام نے جواب دیا‪ :‬اے‬ ‫نجیۃ! ہمارے لیے کتاب هللا میں ٰخمس تھا اور انفال اور برگزیدہ مال؛ مگر‬ ‫ان دونوں ہمارے حق پر ظلم کیا اور لوگوں کو ہمارے گردن پر سوار کیا‪،‬‬ ‫اور ہم پر ظلم کے سبب لوگوں کے گردنوں میں ہمارا خون ڈال دیا تا روز‬ ‫قیامت‪ ،‬اور لوگ ہم پر ظلم کرنے کے سبب تا روز قیامت حرام میں ہیں‬ ‫نجیۃ نے اس پر کہا ‪ :‬ان ہلل و ان الیہ راجعون۔ رب کعبہ کی قسم! ہم ہالک‬ ‫ہوئے۔‬ ‫اس کے بعد امام علیہ السالم نے قبلہ رخ ہو کر دعا مانگی جو ہمیں‬ ‫سمجھ نہ آئی مگر اس کے آخر میں امام کے یہ الفاظ ہم نے سنے‬ ‫"اے هللا! ہم نے اسے اپنے شیعوں کے لیے حالل کر دیا"‬ ‫پھر اپنا چہرہ ہماری طرف کر کے کہا کہ اے نجیہ! ہمارے اور ہمارے‬ ‫‪20‬‬ ‫شیعوں کے عالوہ کوئی بھی فطرت ابراہیمی پر نہیں ہے‬ ‫روایت نمبر ‪10‬‬

‫شيخ صدوق اور شيخ طوسی نے يہ روايت نقل کی‬

‫‪20‬‬

‫تہذيب االحکام‪ ،‬جلد ‪ ،4‬صفحہ ‪145‬‬


‫‪20‬‬

‫وروي عن يونس بن يعقوب قال‪ " :‬كنت عند أبي عبد ہللا عليه السالم فدخل‬ ‫عليه رجل من القماطين فقال‪ :‬جعلت فداك تقع في أيدينا األرباح واألموال‬ ‫وتجارات نعرف أن حقك فيها ثابت وإنا عن ذلك مقصرون؟ فقال عليه السالم‪:‬‬ ‫" ما أنصفناكم إن كلفناكم ذلك اليوم‬ ‫یونس بن یعقوب نے روایت کی کہ میں امام صادق علیہ السالم کے پاس‬ ‫تھا کہ ایک بچوں کے پوتڑے بنانے واال ایک شخص آیا‪ ،‬اور کہا کہ میں‬ ‫آپ پر قربان! ہمیں اپنے مال و تجارت سے نفع ہوتا ہے‪ ،‬اور ہمیں یہ بھی‬ ‫معلوم ہے کہ اس میں آپ کا حق ثابت ہے‪ ،‬اب اگر ہم اس میں تقصیر ‪/‬کمی‬ ‫کریں تو؟ امام علیہ السالم نے فرمایا کہ اگر ہم آج بھی تم سے یہ کہیں کہ‬ ‫‪21‬‬ ‫تم اسے ادا کرو‪ ،‬تو ہم نے تم سے انصاف نہیں کیا‬

‫يہ روايت دو مختلف اسناد سے نقل ہوئی ہے ‪ 22‬جو ايک دوسرے کو قوی‬ ‫بناتی ہيں‬

‫‪21‬‬

‫تہذيب االحکام‪ ،‬جلد ‪ ،4‬صفحہ ‪ 138‬؛ من ال يحضره الفقيہ‪ ،‬جلد ‪ ،2‬صفحہ ‪44‬‬ ‫‪22‬‬

‫شيخ صدوق کی سند يوں ہے‬ ‫عن ابيہ‪ ،‬عن سعد بن عبدہللا عن محمد بن حسين بن ابی الخطاب عن حکم بن مسکين‬ ‫عن يونس بن يعقوب (مالحظہ ہو منتقی الجمان‪ ،‬جلد ‪ ،2‬صفحہ ‪444‬‬ ‫شيخ طوسی کی سند يوں ہے‬ ‫سعد عن أبي جعفر عن محمد بن سنان عن يونس بن يعقوب‬


‫‪21‬‬

‫وہ روایات جو قیام امام زمانہ علیہ السالم تک شیعوں‬ ‫کے لیے خمس کے حالل ہونے کا بیان کرتی ہیں‬ ‫روایت نمبر ‪1‬‬

‫ہميں يہ روايت ملتی ہے‬ ‫محمد بن يحيى‪ ،‬عن أحمد بن محمد‪ ،‬عن ابن محبوب‪ ،‬عن عمر بن يزيد قال‬ ‫رأيت مسمعا بالمدينة وقد كان حمل إلى أبي عبد ہللا عليه السالم تلك السنة‬ ‫ماال فرده أبو عبد ہللا عليه السالم فقلت له‪ :‬لم رد عليك أبي عبد ہللا المال الذي‬ ‫حملته إليه؟‬ ‫قال‪ :‬فقال لي‪ :‬إني قلت له حين حملت إليه المال‪ :‬إني كنت وليت البحرين‬ ‫الغوص فأصبت أربعمائة ألف درهم وقد جئتك بخمسها بثمانين ألف درهم‬ ‫وكرهت أن أحبسها عنك وأن أعرض لها وهي حقك الذي جعله ہللا تبارك‬ ‫وتعالى في أموالنا‪ ،‬فقال‪ :‬أو ما لنا من األرض وما أخرج ہللا منها إال الخمس يا‬ ‫أبا سيار؟ إن األرض كلها لنا فما أخرج ہللا منها من شئ فهو لنا‪ ،‬فقلت له‪ :‬وأنا‬ ‫أحمل إليك المال‪ :‬كله؟‬ ‫فقال‪ :‬يا أبا سيار قد طيبناه لك وأحللناك منه فضم إليك مالك‪ ،‬وكل ما في أيدي‬ ‫شيعتنا من األرض فهم فيه محللون حتى يقوم قائمنا فيجبيهم طسق (ء) ما كان‬ ‫في أيديهم ويترك األرض في أيديهم وأما ما كان في أيدي غيرهم فإن كسبهم‬ ‫من األرض حرام عليهم حتى يقوم قائمنا‪ ،‬فيأخذ األرض من أيديهم ويخرجهم‬ ‫صغرة (ع‪).23‬‬ ‫‪23‬‬

‫الکافی‪ ،‬ج ‪ ،1‬صفحہ ‪408‬‬


‫‪22‬‬

‫‪.‬‬ ‫اس روايت کا اردو ترجمہ ہم عالمہ ظفر حسن صاحب کی زبانی دکهاتے‬ ‫ہيں‬ ‫عمر بن یزید سے مروی ہے کہ میں مسمع کو مدینہ میں کہتے سنا کہ‬ ‫میں اس سال کچھ مال امام جعفر صادق علیہ السالم کے پاس لے گیا۔ آپ‬ ‫نے اسے رد کر دیا۔ میں نے پوچھا کیوں رد کیا۔ اس نے حضرت سے‬ ‫کہا‪ :‬میں بحرین میں غوطہ خوری پر مامور ہوا‪ ،‬اور وہاں سے میں نے‬ ‫چار الکھ درہم کے موتی حاصل کئے جس کا خمس اسی ہزار درہم آپ کی‬ ‫خدمت میں الیا ہوں۔ میں نے اس امر کو برا سمجھا کہ جو آپ کا حق ہے‪،‬‬ ‫اسے روکوں اور روگردانی کروں۔ جبکہ هللا نے ہمارے اموال میں اس‬ ‫حق کو مقرر فرمایا ہے۔ آپ نے فرمایا‪ :‬کیا زمین اور اس کی پیداوار میں‬ ‫ہمارا حق بس خمس ہی ہے۔ اے ابو سیار! تمام روئے زمین ہمارے لیے‬ ‫ہے جو کچھ ان زمینوں سے پیدا ہو وہ سب ہمارے لیے ہے۔ میں نے کہا‪:‬‬ ‫میں کل مال حاضر کر دوں‬ ‫فرمایا‪ :‬اے ابو سیار! ہم نے اس کو تمہارے لیے پاک قرار دیا اور حالل و‬ ‫جائز کیا۔ اس کو اپنے مال میں شامل کر لو ہمارے شیعوں کے پاس جو‬ ‫کچھ از قسم زمین ہے وہ ان کے لیے حالل ہے جب تک قائم آل محمد کا‬ ‫ظہور ہو۔ وہ دشمنوں سے زمین کو نکال لیں گے اور ان کو ذلت سے باہر‬ ‫‪24‬‬ ‫کر دیں گے۔‬

‫عالمہ مجلسی نے مراة العقول‪ ،‬جلد ‪ ،4‬صفحہ ‪ 347‬پر اس روايت کو‬ ‫صحیح قرار ديا ہے‬ ‫‪24‬‬

‫اصول کافی‪ ،‬اردو ترجمہ‪ ،‬جلد ‪ ،2‬صفحہ ‪431-430‬‬


‫‪23‬‬

‫اس روايت ميں واضح طور پر ديکها جا سکتا ہے کہ ابو سيار نے کل چار‬ ‫الکه درہم کمائے‪ ،‬اور اس کا پانچواں حصہ (اسی ہزار) وه امام عليہ السالم‬ ‫کے پاس لے کر آئے۔ يعنی صرف سہم امام نہيں‪ ،‬بلکہ مکمل خمس امام کو‬ ‫ال کر ديا‬ ‫اور امام عليہ السالم نے ان سے قبول نہ فرمايا بلکہ کہا کہ امام القائم عليہ‬ ‫السالم کے ظہور تک اسے شيعوں کے ليے حالل قرار ديا‬

‫يہ روايت ہميں تہذيب االحکام ميں ايک اور سند کے ساته بهی ملتی ہے اس‬ ‫ميں کچه الفاظ مختلف ہيں۔ ميں اس حصے کو نقل کرتا ہوں‬

‫یا أبا سیار قد طیبناہ لك وحللناك منه فضم إلیك مالك وكل ما كان في أیدي‬ ‫شیعتنا من األرض فھم محللون‪ ،‬ویحل لھم ذلك إلى أن یقوم قائمنا‪.25‬‬ ‫اے ابو سیار! ہم نے تمہارے لیے اسے پاک کیا‪ ،‬اور اسے تمہارے لیے‬ ‫حالل کر دیا تو اس کے تم مالک ہو۔ اور وہ سب کچھ جو ہمارے شیعوں‬ ‫کے ہاتھوں میں زمین میں سے‪ ،‬وہ ان کے لیے حالل کر دیا گیا گیا ہے‬ ‫اس وقت تک جب ہمارا قائم قیام کرے‬ ‫اس روايت کو بهی عالمہ مجلسی نے مالذ االخيار فی فهم تہذيب االخبار‪،‬‬ ‫جلد ‪ ،6‬صفحہ ‪ 418‬ميں صحیح قرار ديا‬

‫روایت نمبر ‪2‬‬ ‫‪25‬‬

‫تہذيب االحکام‪ ،‬جلد ‪ ،4‬صفحہ ‪144‬‬


‫‪24‬‬

‫شيخ طوسی يہ روايت نقل کرتے ہيں‬

‫محمد بن الحسن الصفار عن الحسن بن الحسن ومحمد بن علي بن محبوب‬ ‫وحسن بن علي ومحسن بن علي بن يوسف جميعا عن محمد بن سنان عن‬ ‫حماد بن طلحة صاحب السابري عن معاذ بن كثير بياع األكسية عن أبي عبد‬ ‫ہللا عليه السالم قال‪ :‬موسع على شيعتنا ان ينفقوا مما في أيديهم بالمعروف‪،‬‬ ‫فإذا قام قائمنا عليه السالم حرم على كل ذي كنز كنزه حتى يأتوه به يستعين‬ ‫‪.‬به‬

‫امام صادق علیہ السالم فرماتے ہیں کہ ہمارے شیعوں کے یہ گنجائش ہے‬ ‫کہ جو کچھ ان کے ہاتھ میں ہے‪ ،‬اسے اچھے طریقے سے خرچ کریں۔‬ ‫جب قائم علیہ السالم قیام کرے گا تو پھر مال رکھنے والے کا مال رکھنا‬ ‫حرام ہو گا جب تک ان کے پاس نہ لے آئے تاکہ القائم علیہ السالم اس‬ ‫‪26‬‬ ‫سے مستفید ہوں‬

‫روایت نمبر ‪-:3‬‬

‫يہ کافی اہم روايت اس وجہ سے ہے کہ يہ ہمارے زمانے کے امام عليہ‬ ‫السالم سے مروی ہے۔ آپ نے اس کا يہ حصہ الزمی طور پر انہی خمس‬ ‫کے طلبگاروں سے سنا ہو گا جس ميں ہے‬ ‫‪26‬‬

‫تہذيب االحکام‪ ،‬جلد ‪ ،4‬صفحہ ‪143‬‬


‫‪25‬‬

‫وأما الحوادث الواقعة فارجعوا فیھا إلى رواة حدیثنا فإنھم حجتي علیكم وأنا‬ ‫‪27‬‬ ‫حجة هللا علیھم‬ ‫اردو ترجمے ميں يوں لکها گيا ہے ‪.‬‬ ‫مسائل الشریعہ میں ہماری احادیث کے راویوں کی طرف رجوع کرو‪ ،‬وہ‬ ‫تم پر ہماری حجت ہیں‪ ،‬اور میں ان پر حجت ہوں‬ ‫حوادث الواقعہ کا ترجمہ نئے رونما ہونے والے واقعات بهی کيا جا سکتا‬ ‫ہے‬ ‫جو بات اس ميں اہم ہے‪ ،‬وه يہ ہے کہ اس روايت ميں امام نے راويان‬ ‫حديث کی طرف رجوع کرنے کا حکم ديا‪ ،‬مگر آپ اکثر ديکهيں گے کہ‬ ‫مولوی حضرات اسے مجتہدين کی طرف لے جاتے ہيں۔ اس روايت پر‬ ‫سير حاصل بحث کے ليے ہمارا مقالہ "تقليد فی الميزان" پڑهيے‬ ‫مگر اس سے زياده اہم بات يہ ہے کہ اسی روايت ميں امام سے خمس کے‬ ‫بارے ميں بهی سوال ہوا۔ اور ہميں يہ ملتا ہے‬ ‫وأما الخمس فقد أبیح لشیعتنا وجعلوا منه في حل إلى وقت ظھور أمرنا‬ ‫لتطیب والدتھم وال تخبث‪.28‬‬ ‫خمس کو میں نے اپنے شیعوں کے لیے وقت ظہور تک حالل قرار دے دیا‬ ‫ہے تا کہ ان کی والدت پاکیزہ ہو (اور خباثت نہ آئے)‬ ‫امام القائم عليہ السالم نے بالکل واضح الفاظ ميں بتا ديا کہ ظہور تک خمس‬ ‫شيعوں کے ليے حالل ہے‬

‫‪27‬‬

‫کمال الدين و تمام النعمۃ‪ ،‬جلد ‪ ،2‬صفحہ ‪512‬‬ ‫‪28‬‬

‫کمال الدين‪ ،‬جلد ‪ ،2‬صفحہ ‪513‬‬


‫‪26‬‬

‫کمال تو يہ ہے کہ مولوی حضرات اپنے فائدے کی بات تو اس ميں سے‬ ‫لے ليتے ہيں‪ ،‬مگر اس حصے کو کبهی بهی پيش نہيں کرتے‬


‫‪27‬‬

‫خمس کی تقسیم کون کرے گا؟‬ ‫ہم پہلے ہی ايک روايت ديکه چکے ہيں کہ ابو سيار مسمع نے چار الکه‬ ‫درہم کمائے‪ ،‬اور اس ميں سے اسی ہزار درہم وه امام عليہ السالم کے پاس‬ ‫اليا۔ يعنی اس کا پانچواں حصہ‬ ‫چليے اس ضمن ميں ايک اور روايت ديکهتے ہيں‬ ‫شيخ کلينی نے يہ روايت درج کی‬ ‫أحمد‪ ،‬عن أحمد بن محمد بن أبي نصر‪ ،‬عن الرضا علیه السالم قال‪ :‬سئل‬ ‫عن قول هللا عزوجل‪ " :‬واعلموا أنما غنمتم من شئ فأن ہلل خمسه وللرسول‬ ‫ولذي القربى (‪ " )1‬فقیل له‪ :‬فما كان ہلل فلمن ھو؟ فقال‪ :‬لرسول هللا صلى‬ ‫هللا علیه وآله وما كان لرسول هللا فھو لالمام فقیل له‪ :‬أفرأیت إن كان صنف‬ ‫من االصناف أكثر وصنف أقل‪ ،‬ما یصنع به؟ قال‪ :‬ذاك إلى االمام أرأیت‬ ‫رسول هللا صلى هللا علیه وآله كیف یصنع؟ ألیس إنما كان یعطي على ما‬ ‫‪.‬یرى؟ كذلك االمام‬ ‫امام رضا علیہ السالم سے سوال اس آیت کے بارے میں سوال ہوا‬ ‫" واعلموا أنما غنمتم من شئ فأن ہلل خمسه وللرسول ولذي القربى"‬ ‫کہ هللا کا حصہ کس کے لیے ہے؟ امام نے فرمایا کہ رسول هللا صلی هللا‬ ‫علیہ و آلہ وسلم کے لیے‪ ،‬اور جو ان کے لیے ہے‪ ،‬وہ امام کے لیے ہے۔‬ ‫پھر سوال ہوا کہ اگر مستحقین کے گروہ میں کچھ زیادہ ہوں اور کچھ کم‬ ‫تو کیا کیا جائے گا؟َ امام نے جواب دیا کہ وہ امام کی مرضی ہے ‪ ،‬کیا تم‬ ‫نہیں دیکھتے ہو کہ رسول هللا صلی هللا علیہ و آلہ وسلم نے کیا؟ کیا وہ‬


‫‪28‬‬

‫اپنی صوابدید کے مطابق خرچ نہیں کرتے تھے؟ پس ویسے ہی امام کے‬ ‫‪29‬‬ ‫لیے ہے‬ ‫عالمہ مجلسی نے اس روايت کو مراة العقول‪ ،‬جلد ‪ ،6‬صفحہ ‪ 270‬ميں‬ ‫صحيح قرار ديا‬ ‫اسی طرح کی ايک روايت تہذيب االحکام اور الکافی ميں بهی ملتی ہے‬ ‫روايت کافی طويل ہے‪ ،‬ہم اس کا کچه حصہ پيش کر رہے ہيں‬ ‫امام موسی عليہ السالم سے منقول ہے‬ ‫ويقسم بينهم الخمس على ستة اسهم‪ ،‬سهم هلل عز وجل وسهم لرسول ہللا صلى‬ ‫ہللا عليه وآله‪ ،‬وسهم لذي القربى‪ ،‬وسهم لليتامى وسهم للمساكين‪ ،‬وسهم البناء‬ ‫السبيل‪ ،‬فسهم ہللا وسهم رسوله لرسول ہللا صلى ہللا عليه وآله‪ ،‬وسهم ہللا‬ ‫وسهم رسوله لولي االمر بعد رسول ہللا صلى ہللا عليه وآله وراثة فله ثالثة‬ ‫اسهم سهمان وراثة وسهم مقسوم له من ہللا فله نصف الخمس كمال‪ ،‬ونصف‬ ‫الخمس الباقي بين أهل بيته سهم اليتامهم وسهم لمساكينهم وسهم البناء سبيلهم‬ ‫يقسم بينهم على الكفاف والسعة ما يستغنون به في سنتهم‪ ،‬فان فضل عنهم شئ‬ ‫يستغنون عنه فهو للوالي‪ ،‬وان عجز أو نقص عن استغنائهم كان على الوالي‬ ‫ان ينفق من عنده بقدر ما يستغنون به وانما صار عليه أن يمونهم الن له ما‬ ‫فضل عنهم‬ ‫اور پھر اس خمس کو چھ حصوں میں تقسیم کرتے۔ سہم هللا‪ ،‬سہم رسول‪،‬‬ ‫سہم ذی القربی‪ ،‬سہم یتیم‪ ،‬سہم مسکین اور مسافروں کا سہم۔ سہم هللا‬ ‫رسول کے لیے ہے‪ ،‬اور یہ دونوں بعد از رسول ولی امر کے لیے ہیں۔‬ ‫پس ان کے لیے تین سہم ہوئے یعنی نصف خمس۔ اور باقی نصف ان کی‬ ‫اہل بیت کے لیے یوں ہے کہ یتیموں کا سہم‪ ،‬مسکینوں کا سہم اور‬ ‫‪29‬‬

‫الکافی‪ ،‬جلد ‪ ،1‬صفحہ ‪544‬‬


‫‪29‬‬

‫مسافروں کا سہم۔ اور امام ان کے درمیان اس طرح سے انہیں تقسیم کرے‬ ‫گا کہ وہ ان کے لیے ایک سال تک کافی ہو۔ اگر وہ مال اس سے زیادہ‬ ‫ہوا‪ ،‬تو پھر وہ ولی‪/‬امام کا ہو گا‪ ،‬تاہم اگر وہ کم ہوا‪ ،‬تو پھر یہ ولی پر ہو‬ ‫گا کہ ان کو اتنا دے کہ وہ بے نیاز ہو سکیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر‬ ‫‪30‬‬ ‫وہ مال زیادہ ہو تو وہ ملے گا بھی امام کو‬

‫اس ضمن ميں ہم محمد حسين ڈهکو کی کتاب‪ ،‬قوانين الشريعہ‪ ،‬جلد ‪،1‬‬ ‫صفحہ ‪ 448‬پر ان کی تحقيق پڑهتے ہيں‬ ‫"جو کچھ احادیث ال محمد تتبع و استقراء سے واضح و آشکارہ ہوتا ہے‪،‬‬ ‫وہ یہ ہے کہ امام وقت کی موجودگی میں ہر دو سہم (سہم امام و سہم‬ ‫سادات کرام) خدمت امام میں پیش کیے جائیں گے اور وہ سہم سادات کو‬ ‫ان کے استحقاق کے مطابق ان پر صرف کریں گے۔ اگر ان کا حصہ ان کی‬ ‫ضروریات کے لیے ناکافی ہو تو امام اپنے حصے سے بطور تتمہ و‬ ‫تکملہ ان کو دیں گے۔۔۔۔۔"‬

‫اس آخری نکتے پر توجہ ديں کہ اگر سادات کے پاس سال گذارنے کے‬ ‫وسائل نہ ہوں تو امام اپنے حصے سے ان کو مال ديں گے‬ ‫کبهی غور کيجيے گا کہ آپ کے ارد گرد کتنے سيد آج غربت کا شکار ہيں۔‬ ‫کيا آج کے يہ خمس خور مولوی اس بات کو توجہ دے رہے ہيں؟ اس بات‬ ‫پر توجہ ديجيے گا۔۔۔۔۔۔‬

‫‪30‬‬

‫الکافی‪ ،‬جلد ‪ ،1‬صفحہ ‪540‬؛ تہذيب االحکام‪ ،‬جلد ‪ ،4‬صفحہ ‪128‬‬


‫‪30‬‬

‫وہ روایات جن سے خمس نہ دینے والوں پر حجت قائم‬ ‫کی جاتی ہے‬

‫روایت نمبر ‪1‬‬

‫شيخ صدوق نے روايت نقل کی‪ ،‬ہم اسے وسائل الشيعہ سے نقل کرتے ہيں‬

‫محمد بن علي بن الحسين في (إكمال الدين) عن محمد بن أحمد السناني وعلي‬ ‫بن أحمد بن محمد الدقاق والحسين بن إبراهيم بن أحمد بن هشام المؤدب وعلي‬ ‫بن عبد ہللا الوراق جميعا عن أبي الحسين محمد بن جعفر األسدي قال‪ :‬كان‬ ‫فيما ورد على [من] الشيخ أبي جعفر محمد بن عثمان العمري قدس ہللا روحه‬ ‫في جواب مسائلي إلي صاحب الدار عليه السالم‪ :‬وأما ما سألت عنه من أمر‬ ‫من يستحل ما في يده من أموالنا ويتصرف فيه تصرفه في ماله من غير أمرنا‬ ‫‪:‬فمن فعل ذلك فهو ملعون ونحن خصماؤه‪ ،‬فقد قال النبي صلى ہللا عليه وآله‬ ‫المستحل من عترتي ما حرم ہللا ملعون على لساني ولسان كل نبي مجاب‪،‬‬ ‫فمن ظلمنا كان من جملة الظالمين لنا‪ ،‬وكانت لعنة ہللا عليه لقوله عز وجل‪:‬‬ ‫﴿أال لعنة ہللا على الظالمين﴾ (ع) ء إلى أن قال‪ :‬ء وأما ما سألت عنه من أمر‬ ‫الضياع التي لناحينا هل يجوز القيام بعمارتها وأداء الخراج منها وصرف ما‬ ‫يفضل من دخلها إلى الناحية احتسابا لألجر وتقربا إليكم ؟ فال يحل ألحد أن‬ ‫!يتصرف في مال غيره بغير إذنه‪ ،‬فكيف يحل ذلك في مالنا؟‬


‫‪31‬‬

‫من فعل شيئا من ذلك لغير (خ) أمرنا (ط) فقد استحل مناما حرم عليه‪ ،‬ومن‬ ‫‪.‬أكل من مالنا (ح) شيئا فإنما يأكل في بطنه نارا وسيصلى سعيرا‬ ‫ابو حسین االسدی کہتے ہیں کہ مجھے جو جواب شیخ ابو جعفر العمری‬ ‫کی طرف سے موصول ہوا‪ ،‬جس میں امام زمانہ علیہ السالم نے میرے‬ ‫مسائل کا جواب دیا تھا‪ ،‬اس میں تھا‬ ‫اور جہاں تک تمہارے سوال اس کے بارے میں جو ہمارے اس مال کو جو‬ ‫اس کے پاس ہے‪ ،‬اسے اپنے لیے حالل سمجھتا ہے اور اس میں تصرف‬ ‫کرتا ہے جیسے کہ اپنے مال میں بغیر ہماری اجازت کے‪ ،‬تو جس نے‬ ‫ایسا کیا‪ ،‬وہ ملعون ہے‪ ،‬اور ہم اس کے دشمن ہیں۔ رسول هللا صلی هللا‬ ‫علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے میری عترت کے حق میں سے‬ ‫کچھ اپنے لیے حالل سمجھا‪ ،‬وہ میری اور ہر نبی کی زبان سے ملعون‬ ‫ہے‪ ،‬پس جس نے ہم پر ظلم کیا‪ ،‬وہ ظالمین میں ہے‪ ،‬اور هللا کی لعنت ہے‬ ‫اس پر جیسا کہ هللا نے کہا "آگاہ ہو جاؤ هللا کی ظالمین پر لعنت ہو"۔‬ ‫اور جہاں تک یہ سوال کہ جو ہماری زمینیں آباد کرے اور خراج ادا کرے‬ ‫اور باقی کو تقرب الہی کے لیے بھیجے؟ تو کسی کو بھی جائز نہیں کہ‬ ‫دوسرے کا مال میں تصرف کرے بغیر اس کی اذن کے‪ ،‬تو پھر ہمارے‬ ‫مال میں کیوں جائز ہو؟ جو ایسا کرے گا کہ ہماری اجازت کے بغیر اپنے‬ ‫لیے حالل قرار دے گا جو اس پر حرام ہے‪ ،‬اور ہمارے مال میں سے‬ ‫کھائے گا کچھ بھی‪ ،‬پس اس نے اپنے پیٹ کو آگ سے بھرا جو عنقریب‬ ‫‪31‬‬ ‫بھڑک اٹھے گی‬

‫اس سند کے بارے ميں عالمہ خوئی صاحب کی رائے ديکهتے ہيں۔ ابو‬ ‫جعفر محمد بن حسين االسدی کے بارے ميں بيان کرتے ہوئے کہتے ہيں‬ ‫‪31‬‬

‫وسائل الشيعہ‪ ،‬جلد ‪ ،9‬صفحہ ‪540‬‬


‫‪32‬‬

‫وطریق الصدوق إلیه‪ :‬علي بن أحمد بن موسى‪ ،‬والحسین بن إبراھیم بن‬ ‫أحمد ابن ھاشم المؤدّب‪ ،‬ومحمد بن أحمد السناني ‪ :‬رضي ّ‬ ‫اّلل عنھم ؤ‪ ،‬عن‬ ‫أبي الحسین محمد بن جعفر االسدي الكوفي‪ ،‬والطریق غیر صحیح ال ّن‬ ‫مشایخ الصدوق لم یرد فیھم توثیق‬ ‫شیخ صدوق کی ان تک سند یوں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ سند صحیح نہیں کیونکہ‬ ‫‪32‬‬ ‫شیخ صدوق کے مشائخ کی توثیق وارد نہیں‬

‫سند کے ضعف سے قطع نظر‪ ،‬اس روايت ميں ہميں کافی اہم باتيں معلوم‬ ‫ہوتی ہيں‪،‬‬ ‫ايک تو يہ کہ امام عليہ السالم نے واضح طور پر بتايا کہ يہ ان لوگوں کے‬ ‫ليے ہے جو ائمہ عليهم السالم کا مال بغير ان کی اجازت کے خرچ کريں‪،‬‬ ‫اور ائمہ عليهم السالم نے اپنے شيعوں کو اس کی اجازت دی ہے‪ ،‬جو کہ‬ ‫ہم پہلے ہی کافی روايات ميں دکهال چکے ہيں‬ ‫مگر سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ جو يہ دعوی کر رہے ہيں کہ ہم نائبين امام‬ ‫ہيں‪ ،‬اس وجہ سے ان کا حصہ ہميں ديا جائے۔۔۔۔۔ ان کے پاس کيا دليل ہے؟‬ ‫کيا وه ہميں ايک بهی روايت دکها سکتے ہيں کہ جس ميں امام عليہ السالم‬ ‫نے يہ کہا ہو کہ ميری غيبۃ ميں تم خمس کے دو حصے کرنا‪ ،‬اور سہم‬ ‫امام اس مجتہد کو دينا کہ جس کی تم تقليد کرتے ہو؟‬ ‫دوسرا يہ کہ اگر وه شخص تقرب الہی کے ليے بهی وه مال خرچ کر رہا‬ ‫ہو‪ ،‬تو اس کی اجازت نہيں ہے۔ يہ اہم نکتہ اس ليے ہے کہ اکثر سہم امام‬ ‫کے طلبگار يہی نعره لگاتے ہيں کہ ہم اس سے اچهے کام کرتے ہيں‬ ‫‪32‬‬

‫معجم رجال الحديث‪ ،‬جلد ‪ ،16‬صفحہ ‪165‬‬


‫‪33‬‬

‫روایت نمبر ‪2‬‬

‫عالمہ کلينی نے يہ روايت نقل کی‬ ‫سهل‪ ،‬عن أحمد بن المثنى قال‪ :‬حدثني محمد بن زيد الطبري قال‪ :‬كتب رجل‬ ‫من تجار فارس من بعض موالي أبي الحسن الرضا عليه السالم يسأله االذن‬ ‫‪.‬في الخمس فكتب إليه‬ ‫بسم ہللا الرحمن الرحيم‪ ،‬إن ہللا واسع كريم‪ ،‬ضمن على العمل الثواب وعلى‬ ‫الضيق الهم‪ ،‬ال يخل مال إال من وجه أحله ہللا وإن الخمس عوننا على ديننا‬ ‫وعلى عياالتنا وعلى موالينا‪ ،‬وما نبذله ونشتري من أعراضنا ممن نخاف‬ ‫سطوته‪ ،‬فال تزووه عنا وال تحرموا أنفسكم دعاءنا ما قدرتم عليه‪ ،‬فإن إخراجه‬ ‫مفتاح رزقكم وتمحيص ذنوبكم‪ ،‬وما تمهدون ألنفسكم ليوم فاقتكم والمسلم من‬ ‫‪.‬يفي هلل بما عهد إليه وليس المسلم من أجاب باللسان وخالف بالقلب‪ ،‬والسالم‬ ‫محمد بن زید طبری کہتے ہیں کہ فارس کے کچھ تاجروں نے جو امام‬ ‫رضا علیہ السالم کے موالی تھے‪ ،‬انہوں نے امام کو خط لکھا کہ ہمیں‬ ‫خمس کی اجازت دی جائے۔ اس پر امام علیہ السالم نے جواب لکھا‬ ‫﷽‬ ‫هللا واسع و کریم ہے۔ اس نے نیک عمل کرنے پر ثواب اور گناہ پر سزا کا‬ ‫وعدہ کیا ہے ۔ مال حالل نہیں ہوتا مگر سوائے اس طریقے کے کہ جو هللا‬ ‫نے بتالیا ہے۔ اس خمس کے سبب ہم دین و اہل و عیال ہر موالیان کا خیال‬ ‫کرتے ہیں۔ خرچ کرتے ہیں‪ ،‬خریدتے ہیں اور اپنے دشمنوں سے اپنا بچاؤ‬ ‫کرتے ہیں۔ اس لیے اسے نہ روکو اور ہماری دعاؤں سے خود کو دور نہ‬ ‫کرو۔ اس کی ادائیگی تماری رزق کی ضامن ہے‪ ،‬اور گناہوں کی بخشش کا‬


‫‪34‬‬

‫ذریعہ ہے‪ ،‬اور فاقے والے دن‪ ،‬یعنی قیامت‪ ،‬کا ذخیرہ ہے۔ مسلمان وہ ہے‬ ‫کہ جو هللا سے عہد کو پورا کرے‪ ،‬اور وہ مسلمان نہیں جو زبان سے تو‬ ‫‪33‬‬ ‫دعوی کرے‪ ،‬مگر دل سے مخالفت۔ والسالم‬

‫عالمہ مجلسی نے مراة العقول‪ ،‬جلد ‪ ،6‬صفحہ ‪ 547‬پر اس روايت پر حکم‬ ‫لگايا‬ ‫"ضعیف علی المشہور"‬ ‫سند کے ضعف سے قطع نظر‬ ‫چند اہم پہلو ہمارے سامنے ضرور ہونے چاہيں‬ ‫ايک تو يہ کہ ہم معتبر روايات ميں ديکه چکے ہيں کہ ائمہ عليهم السالم‬ ‫نے "اپنے شيعوں" کے ليے خمس کو حالل کيا تها‪ ،‬اور اس روايت ميں‬ ‫ہميں ايک جملہ ملتا ہے‬ ‫" مسلمان وہ ہے کہ جو هللا سے عہد کو پورا کرے‪ ،‬اور وہ مسلمان نہیں‬ ‫جو زبان سے تو دعوی کرے‪ ،‬مگر دل سے مخالفت۔"‬ ‫يہ الفاظ ان لوگوں کے اہل تشيع ميں سے ہونے پر سواليہ نشان لگاتے ہيں‬ ‫ياد رہے کہ امام رضا عليہ السالم مامون کے ولی عہد تهے‪ ،‬اور ظاہر ہے‬ ‫کہ کئی لوگ ان کا اس سبب تقرب حاصل کرنے کے چکر ميں ہوں گے‬ ‫دوسرا اہم پہلو يہ ہے کہ اگر‪ ،‬اور ميں دوباره کہتا ہوں کہ اگر مان بهی ليا‬ ‫جائے کہ اس موقع پر امام رضا عليہ السالم نے خمس کے شيعوں کے‬ ‫حالل ہونے کو ختم بهی کيا ہو‪ ،‬اور ظاہر ہے کہ يہ ايک مفروضہ ہے‪ ،‬تو‬ ‫‪33‬‬

‫الکافی‪ ،‬جلد ‪ ،1‬صفحہ ‪548-547‬‬


‫‪35‬‬

‫بهی اس کا آج کے زمانے ميں اطالق نہيں کيا جا سکتا کيونکہ آج کے امام‬ ‫نے اسے حالل کيا ہے‬ ‫اگر کوئی يہ نکتہ اٹهائے کہ امام زمانہ والی توقيع تو سند کے لحاظ سے‬ ‫ضعيف ہے‪ ،‬تو يہ روايت بهی سند کے لحاظ سے ضعيف ہے‪ ،‬پهر اس‬ ‫صورت ميں اس سے بهی استدالل قائم نہيں کيا جا سکتا‬

‫روایت نمبر ‪3‬‬

‫الکافی کی اگلی روايت ميں ہميں يہ ملتا ہے‬

‫وبهذا االسناد‪ ،‬عن محمد بن زيد قال‪ :‬قدم قوم من خراسان على أبي الحسن‬ ‫الرضا عليه السالم فسألوه أن يجعلهم في حل من الخمس‪ ،‬فقال‪ :‬ما أمحل هذا‬ ‫تمحضونا بالمودة بألسنتكم وتزوون عنا حقا جعله ہللا لنا وجعلنا له وهو‬ ‫‪.‬الخمس ال نجعل‪ ،‬ال نجعل‪ ،‬ال نجعل الحد منكم في حل‬

‫اسی سند کے ساتھ مروی ہے کہ محمد بن زید نے کہا کہ خراسان سے‬ ‫ایک قوم امام رضا علیہ السالم کے پاس آئی‪ ،‬اور ان سے سوال کیا کہ‬ ‫خمس کو ہمارے لیے حالل کیا جائے۔ امام نے جواب دیا "یہ کیا حیلہ ہے‬ ‫کہ تم زبان سے تو ہماری محبت کا اظہار کرتے ہو‪ ،‬مگر ہمارا حق‬ ‫روکتے ہو جا هللا نے ہمارے لیے قرار دیا‪ ،‬اور وہ خمس ہے۔ ہم تم میں‬ ‫سے کسی ایک کے لیے بھی اسے نہیں حالل کرتے‪ ،‬نہیں حالل کرتے‬


‫‪36‬‬

‫عالمہ مجلسی نے اس سند پر بهی وہی حکم لگايا‪ ،‬يعنی ضعیف علی‬ ‫المشہور۔ ديکهيے مراة العقول‪ ،‬جلد ‪ ،6‬صفحہ ‪286‬‬

‫اگر آپ دوباره پچهلی حديث پر ہمارا تجزيہ پڑهيں‪ ،‬تو آپ کو يہ روايت‬ ‫بهی ويسے ہی لگے گی‬ ‫کچه لوگ ہيں‪ ،‬جو امام کے پاس آ کر زبانی دعوی کرتے ہيں ؛ اور امام‬ ‫اسے رد کرتے ہيں‬ ‫صاف ظاہر ہے کہ يہ شيعہ نہيں تهے۔‬

‫روایت نمبر ‪4‬‬

‫يہ روايت ايک بار ميرے سامنے پيش کی گئی‪ ،‬بنيادی وجہ يہ ہے کہ‬ ‫اسنادی طور پر روايت کافی مضبوط ہے‪ ،‬اس وجہ سے پيش کرنے والے‬ ‫نے اس سے دليل پکڑی‬ ‫اب ہو سکتا ہے کہ يہ روايت آپ حضرات کے سامنے بهی پيش کی جائے‪،‬‬ ‫اس وجہ سے ميں نے سوچا کہ اس کی وضاحت کرتا چلوں‬ ‫عالمہ کلينی و شيخ طوسی نے اس روايت کو نقل کيا‬ ‫علي بن إبراهيم‪ ،‬عن أبيه قال‪ :‬كنت عند أبي جعفر الثاني عليه السالم إذ دخل‬ ‫عليه صالح بن محمد بن سهل وكان يتولى له الوقف بقم (ء)‪ ،‬فقال يا سيدي‬ ‫اجعلني من عشرة آالف في حل‪ ،‬فإني أنفقتها‪ ،‬فقال له‪ :‬أنت في حل‪ ،‬فلما خرج‬ ‫صالح‪ ،‬قال أبو جعفر عليه السالم‪ :‬أحدهم يثب على أموال حق آل محمد‬ ‫وأيتامهم ومساكينهم و فقرائهم وأبناء سبيلهم فيأخذه ثم يجئ فيقول‪ :‬اجعلني في‬


‫‪37‬‬

‫حل‪ ،‬أتراه ظن أني أقول‪ :‬ال أفعل‪ ،‬وہللا ليسألنهم ہللا يوم القيامة عن ذلك سؤاال‬ ‫‪.‬حثيثا‬ ‫ابراہیم بن ہاشم فرماتے ہیں کہ ہم امام تقی علیہ السالم کے پاس تھے کہ‬ ‫صالح بن محمد بن سہل آیا‪ ،‬وہ قم میں وقف کا متولی تھا۔ اس نے کہا کہ‬ ‫میرے سردار! میں نے دس ہزار استعمال کر لیے ہیں‪ ،‬وہ مجھے حالل کر‬ ‫دیں۔ امام نے فرمایا کہ تمہارے لیے حالل کر دیے۔ جب صالح چال گیا‪ ،‬تو‬ ‫محمد اور ان کے یتیمیوں‪،‬‬ ‫امام علیہ السالم نے فرمایا‪ :‬اس نے آل‬ ‫ؐ‬ ‫مسکینوں‪ ،‬غریبوں‪ ،‬اور مسافروں کے حق پر حملہ کیا‪ ،‬اور پھر میرے‬ ‫پاس آ کر کہتا ہے کہ میرے لیے حالل کر دیں‪ ،‬اس کا گمان تھا کہ میں‬ ‫ایسا نہ کروں گا۔ خدا کی قسم ! هللا قیامت والے دن ان سے سوال کرے‬ ‫‪34‬‬ ‫گا‬ ‫اب يہ روايت خمس کے بارے ميں ہے نہيں‪ ،‬بلکہ "وقف" کے بارے ميں‬ ‫ہے۔ صالح بن محمد امام کے وقف کا متولی تها‪ ،‬اور اس ميں سے پيسے‬ ‫کها گيا تها۔‬ ‫وقف يہ ہے کہ آپ کوئی شے کسی نيک مقصد کے ليے مختص کر ديں۔ يہ‬ ‫آپ کی ملکيت سے نکل جاتی ہے‪ ،‬مثال آپ طلباء کے ليے کتب وقف کر‬ ‫ديں۔ کوئی کنواں وقف کر ديں۔‬ ‫اب اگر کوئی باغ وغيره کی آمدنی کو وقف کيا ہے‪ ،‬تو اس کا متولی بهی‬ ‫بنايا جا سکتا ہے‬ ‫مثال کے طور پر سستانی صاحب کی ويب سائٹ پر يہ لکها ہے‬

‫‪34‬‬

‫الکافی‪ ،‬جلد ‪ ،1‬صفحہ ‪548‬‬


‫‪38‬‬

‫‪۲۶۹۴‬۔ جو چیز کسی شخص نے وقف کی ہو اگر اس نے اس کا متولی‬ ‫بھی معین کیا ہو تو ضروری ہے کہ ہدایات کے مطابق عمل ہو‬

‫‪https://www.sistani.org/urdu/book/61/3656/‬‬

‫مجهے نہيں معلوم کہ اس سے خمس پر کيوں دليل لی جا رہی ہے؟‬ ‫ہاں اگر يہ دليل لی جائے کہ آل محمد کا مال کها جائيں تو عذاب ہے‪ ،‬تو‬ ‫اس صورت ميں تو يہ بات ان لوگوں پر صادق آتی ہے کہ جنہوں نے خود‬ ‫کا نائب امام بنا کر ان کا حصہ بٹورنا شروع کيا ہوا ہے ۔ کيا ان کے پاس‬ ‫کوئی دليل ہے کہ امام عليہ السالم نے کہا ہو کہ ہمارا حصہ انہيں دو؟؟؟‬ ‫مگر ہوتا يہ ہے کہ اس طرح کی روايات دکها کر لوگوں کو ڈرا ديا جاتا‬ ‫ہے‪ ،‬اور پهر ان سے خمس لے ليا جاتا ہے‬

‫روایت نمبر ‪-:5‬‬ ‫شيخ صدوق نے يہ روايت نقل کی‬ ‫حدثنا أبو جعفر محمد بن محمد الخزاعي رضي ہللا عنه قال‪ :‬حدثنا أبو علي‬ ‫ابن أبي الحسين االسدي‪ ،‬عن أبيه رضي ہللا عنه قال‪ :‬ورد علي توقيع من‬ ‫الشيخ أبي جعفر محمد بن عثمان العمري ء قدس ہللا روحه ء إبتداء لم يتقدمه‬ ‫سؤال " بسم ہللا الرحمن الرحيم لعنة ہللا والمالئكة والناس أجمعين على من‬ ‫استحل من مالنا درهما " قال أبو الحسين االسدي رضي ہللا عنه‪ :‬فوقع في‬ ‫نفسي أن ذلك فيمن استحل من مال الناحية درهما دون من أكل منه غير‬ ‫مستحل له‪ .‬وقلت في نفسي‪ :‬إن ذلك في جميع من استحل محرما‪ ،‬فأي فضل‬ ‫في ذلك للحجة عليه السالم على غيره ؟ قال‪ :‬فوالذي بعث محمدا بالحق بشيرا‬


‫‪39‬‬

‫لقد نظرت بعد ذلك في التوقيع فوجدته قد انقلب إلى ما وقع في نفسي‪ " :‬بسم‬ ‫ہللا الرحمن الرحيم لعنة ہللا والمالئكة والناس أجمعين على من أكل من مالنا‬ ‫‪ ".‬درهما حراما‬ ‫ابو حسین االسدی کہتے ہیں کہ ابو جعفر عمری نے مجھے توقیع دی امام‬ ‫زمانہ علیہ السالم کی جانب سے ‪ ،‬میرے سوال پوچھنے سے پہلے‪ ،‬جس‬ ‫میں لکھا تھا‬ ‫﷽‬ ‫هللا و مالئکہ و تمام انسانوں کی لعنت ہو اس پر ہمارے مال میں سے ایک‬ ‫درھم کو بھی حالل سمجھے‬ ‫ابو حسین اسدی کہتے ہیں کہ میرے دل میں آیا کہ یہ تو کسی حرام کو‬ ‫حالل سمجھنے والے کے لیے ثابت ہے‪ ،‬پھر امام علیہ السالم کی اس میں‬ ‫محمد کو حق کے ساتھ‬ ‫کیا فضیلت ہے؟ پھر اس ذات کی قسم جس نے‬ ‫ؐ‬ ‫بشارت دینے واال بنا کر بھیجا‪ ،‬جب میں نے اس توقیع کو دیکھا تو اس‬ ‫میں تھا‬ ‫﷽‬ ‫هللا و مالئکہ و تمام انسانوں کی لعنت ہو اس پر ہمارے مال میں سے ایک‬ ‫‪35‬‬ ‫درھم بھی حرام طریقے سے کھائے‬

‫اب اس روايت کے الفاظ کو لے بهی شيعہ حضرات کو ڈرانے کا بندوبست‬ ‫کيا جاتا ہے‬

‫‪35‬‬

‫کمال الدين و تمام النعمہ‪ ،‬صفحہ ‪522‬‬


‫‪40‬‬

‫حاالنکہ يہ بهی ان لوگوں پر صادق آتا ہے جو يہ کہہ کر جهوٹ بول رہے‬ ‫ہيں کہ سہم امام تو آپ اس مجتہد کو دو جس کی تقليد کر رہے ہو‬ ‫اب يہ کس روايت ميں ہے؟ کس امام نے ان کو اجازت دی؟ کيا جهوٹ بول‬ ‫کر لوگوں سے سہم امام اکٹها کر کے کهانے واال ملعون نہ ہوا؟؟؟‬ ‫اگر اسنادی طور پر اس روايت کا جائزه ليا جائے‪ ،‬تو اس ميں محمد بن‬ ‫محمد الخزاعی کا آغہ جواہری نے المفيد من معجم رجال الحديث‪ ،‬صفحہ‬ ‫‪ 575‬پر مجہول کہا ہے‬

‫خالصہ‬

‫اس طرح کی روايات کو استعمال کر کے شيعہ حضرات کو ڈرا ديا جاتا‬ ‫ہے کہ اگر آپ خمس نہيں دو گے‪ ،‬تو بربادی آپ کا مقدر ہے‬ ‫حاالنکہ آپ غور سے پڑهيں گے تو معلوم ہو گا کہ ان ميں زياده تر تو‬ ‫شيعان اہل بيت کے بارے ميں ہيں ہی نہيں۔ اور اوپر سے ان ميں کئی‬ ‫ضعيف السند ہے۔ باقی ہر جگہ ميں تو يہ خمس خور علم الرجال کے‬ ‫نعرے بلند کرتے نظر آتے ہيں‪ ،‬مگر يہاں پر بالکل خاموشی اختيار کر‬ ‫ليتے ہيں‬ ‫اور آج کے شيعہ حضرات کی يہ ال علمی ان کو اچها خاصا بزنس دے‬ ‫رہی ہے‬


‫‪41‬‬

‫زمانہ غیبۃ میں خمس کی تقسیم کے بارے میں شیعہ‬ ‫علماء کا اختالف‬ ‫آج کل کے زمانے ميں يہ بات کافی حيران کن لگتی ہے کيونکہ اس قدر‬ ‫شور مچايا جا چکا ہے کہ آپ کو يہ بات ہی صحيح لگے گی کہ خمس کے‬ ‫دو حصے کرنے ہيں‪ ،‬اور پهر آدها حصہ سادات کو دے دينا ہے‪ ،‬اور آدها‬ ‫اس مجتہد کو جس کی آپ تقليد ميں ہو‬ ‫مگر حقيقت يہ ہے کہ اس ضمن ميں شديد اختالف ہے‬ ‫مثال کے طور پر حمزه بن عبدالعزيز الديلمی سالر کا تعلق پانچويں صدی‬ ‫ہجری سے ہے۔ مشہور شيعہ فقيہ ہيں‪ ،‬اور ان کی کتاب‪ ،‬المراسم فی الفقہ‬ ‫االمامی‪ ،‬کافی مشہور ہے‬ ‫اس کتاب ميں صفحہ ‪ 141‬پر فرماتے ہيں‬ ‫و فی هذا الزمان قد احلونا فيما نتصرف فيہ من ذلک کرما و فضال لنا خاصہ‬ ‫اس زمانے میں (یعنی غیبۃ کبری میں) یہ ہمارے لیے حالل کر دی گئی‬ ‫ہے تو ہم اس میں تصرف کر سکتے ہیں‪ ،‬اور یہ ہمارے لیے خاص کرم و‬ ‫فضل ہے‬

‫اگر ہم اس معاملے پر تحقيق کريں تو معلوم پڑے گا کہ اس ضمن ميں ‪15‬‬ ‫مختلف اقوال ہيں۔‬


‫‪42‬‬

‫مقالے کو طوالت سے بچانے کے ليے ہم اس کے ليے محمد حسين ڈهکو‬ ‫کی تحقيق پيش کرتے ہيں۔ يہ انہوں نے اپنی کتاب‪ ،‬قوانين الشريعہ‪ ،‬جلد ‪،1‬‬ ‫صفحہ ‪ 449‬پر درج کی ہے‬ ‫اپنا وقت بچانے کے ليے ميں انہی کی کتاب سے اسکين يہاں پر لگا رہا‬ ‫ہوں‬


43


44


45


46


47


‫‪48‬‬

‫اس تحقيق پر ہماری رائے يہ ہے کہ کسی بهی شے ميں حجت صرف قول‬ ‫معصوم عليہ السالم ہے‬ ‫وگرنہ اس کی کوئی اہميت نہيں‬ ‫مثال کے طور يہ کہنا کہ خمس نکال کر رکه ديا جائے‪ ،‬اور جب انتقال‬ ‫ہونے لگے تو کسی کو وصيت کر دی جائے کہ آگے لے کر جايا جائے‬ ‫يا يہ کہ خمس کو نکال کر زمين ميں دفن کر ديا جائے‬ ‫يہ کس حديث ميں مروی ہے؟؟؟‬ ‫لوگوں کو حیران و پریشان کرنے کے لیے تو یہ بہترین حکمت عملی‬ ‫معلوم ہوتی ہے کہ انہیں کہا جائے کہ زمین میں دفنا دو یا کسی کو دے دو‬ ‫وغیرہ؛ اور جب وہ کہے کہ جناب یہ تو قابل عمل نہیں تو کہا جائے کہ‬ ‫اچھا چلو پھر ہمیں دے دو‪ ،‬ہمیں کسی جگہ لگا دیں گے‬ ‫ديکهيے حجت صرف امام عليہ السالم کا قول ہے۔ اگر تو کسی امام نے يہ‬ ‫کہا ہے کہ زمين ميں دفنا دو يہ کچه بهی اور‪ ،‬پهر تو ہميں منظور ہے‪،‬‬ ‫وگرنہ کسی غير معصوم کا قول حجت نہيں‬ ‫دو روايات دوباره آپ کی خدمت ميں پيش کرتے ہيں‬ ‫محمد بن يحيى‪ ،‬عن أحمد بن محمد‪ ،‬عن ابن محبوب‪ ،‬عن عمر بن يزيد قال‬ ‫رأيت مسمعا بالمدينة وقد كان حمل إلى أبي عبد ہللا عليه السالم تلك السنة‬ ‫ماال فرده أبو عبد ہللا عليه السالم فقلت له‪ :‬لم رد عليك أبي عبد ہللا المال الذي‬ ‫حملته إليه؟‬ ‫قال‪ :‬فقال لي‪ :‬إني قلت له حين حملت إليه المال‪ :‬إني كنت وليت البحرين‬ ‫الغوص فأصبت أربعمائة ألف درهم وقد جئتك بخمسها بثمانين ألف درهم‬ ‫وكرهت أن أحبسها عنك وأن أعرض لها وهي حقك الذي جعله ہللا تبارك‬ ‫وتعالى في أموالنا‪ ،‬فقال‪ :‬أو ما لنا من األرض وما أخرج ہللا منها إال الخمس يا‬


‫‪49‬‬

‫أبا سيار؟ إن األرض كلها لنا فما أخرج ہللا منها من شئ فهو لنا‪ ،‬فقلت له‪ :‬وأنا‬ ‫أحمل إليك المال‪ :‬كله؟‬ ‫فقال‪ :‬يا أبا سيار قد طيبناه لك وأحللناك منه فضم إليك مالك‪ ،‬وكل ما في أيدي‬ ‫شيعتنا من األرض فهم فيه محللون حتى يقوم قائمنا فيجبيهم طسق (ء) ما كان‬ ‫في أيديهم ويترك األرض في أيديهم وأما ما كان في أيدي غيرهم فإن كسبهم‬ ‫من األرض حرام عليهم حتى يقوم قائمنا‪ ،‬فيأخذ األرض من أيديهم ويخرجهم‬ ‫صغرة (ع‪).36‬‬ ‫عمر بن یزید سے مروی ہے کہ میں مسمع کو مدینہ میں کہتے سنا کہ‬ ‫میں اس سال کچھ مال امام جعفر صادق علیہ السالم کے پاس لے گیا۔ آپ‬ ‫نے اسے رد کر دیا۔ میں نے پوچھا کیوں رد کیا۔ اس نے حضرت سے‬ ‫کہا‪ :‬میں بحرین میں غوطہ خوری پر مامور ہوا‪ ،‬اور وہاں سے میں نے‬ ‫چار الکھ درہم کے موتی حاصل کئے جس کا خمس اسی ہزار درہم آپ کی‬ ‫خدمت میں الیا ہوں۔ میں نے اس امر کو برا سمجھا کہ جو آپ کا حق ہے‪،‬‬ ‫اسے روکوں اور روگردانی کروں۔ جبکہ هللا نے ہمارے اموال میں اس‬ ‫حق کو مقرر فرمایا ہے۔ آپ نے فرمایا‪ :‬کیا زمین اور اس کی پیداوار میں‬ ‫ہمارا حق بس خمس ہی ہے۔ اے ابو سیار! تمام روئے زمین ہمارے لیے‬ ‫ہے جو کچھ ان زمینوں سے پیدا ہو وہ سب ہمارے لیے ہے۔ میں نے کہا‪:‬‬ ‫میں کل مال حاضر کر دوں‬ ‫فرمایا‪ :‬اے ابو سیار! ہم نے اس کو تمہارے لیے پاک قرار دیا اور حالل و‬ ‫جائز کیا۔ اس کو اپنے مال میں شامل کر لو ہمارے شیعوں کے پاس جو‬ ‫کچھ از قسم زمین ہے وہ ان کے لیے حالل ہے جب تک قائم آل محمد کا‬

‫‪36‬‬

‫الکافی‪ ،‬ج ‪ ،1‬صفحہ ‪408‬‬


‫‪50‬‬

‫ظہور ہو۔ وہ دشمنوں سے زمین کو نکال لیں گے اور ان کو ذلت سے باہر‬ ‫‪37‬‬ ‫کر دیں گے۔‬ ‫اس روايت ميں واضح طور پر ديکها جا سکتا ہے کہ چار الکه ميں سے‬ ‫اسی ہزار وه لے کر امام عليہ السالم کے پاس آئے‪ ،‬اور امام نے ان سے‬ ‫کہا کہ اسے اپنے مال ميں شامل کر لو۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫يعنی وه ‪ 5/1‬حصہ لے کر آئے‪ ،‬اور اس ميں کوئی تقسيم ہميں نظر نہيں‬ ‫آتی‬ ‫ايک اور روايت ديکهيے‬ ‫خود امام زمانہ عليہ السالم سے جو روايت نقل ہوئی‪ ،‬وه يہ ہے‬ ‫وأما الخمس فقد أبیح لشیعتنا وجعلوا منه في حل إلى وقت ظھور أمرنا‬ ‫لتطیب والدتھم وال تخبث‪.38‬‬ ‫خمس کو میں نے اپنے شیعوں کے لیے وقت ظہور تک حالل قرار دے دیا‬ ‫ہے تا کہ ان کی والدت پاکیزہ ہو (اور خباثت نہ آئے)‬ ‫اب اس پر خود ڈهکو صاحب نے صفحہ ‪ 452‬پر يہ کہا‬ ‫"اگرچہ اس توقیع مبارک کے ظاہری الفاظ سے علی االطالق خمس کی‬ ‫اباحت مترشح ہوتی ہے لیکن جمع بین االولہ کا تقاضہ یہ ہے کہ اس تعبیر‬ ‫کو مجاز پر محمول کیا جائے اور اس حلت و اباحت کو امام کے اپنے حق‬ ‫(سہم امام) کے ساتھ مخصوص کیا جائے کیونکہ ہر شخص اپنے حق کے‬ ‫مباح کرنے کا مجاز ہوتا ہے نہ کہ دوسروں کے حقوق کا"‬

‫‪37‬‬

‫اصول کافی‪ ،‬اردو ترجمہ‪ ،‬جلد ‪ ،2‬صفحہ ‪431-430‬‬ ‫‪38‬‬

‫کمال الدين‪ ،‬جلد ‪ ،2‬صفحہ ‪513‬‬


‫‪51‬‬

‫قارئين کرام! جو روايت آپ کی خدمت ميں ہم نے الکافی سے پيش کی‬ ‫ہے‪ ،‬وه جس باب سے ہے‪ ،‬اس کا نام ہے‬

‫ان االرض کلھا لالمام علیہ السالم‬ ‫یعنی کل زمین امام علیہ السالم کی ملکیت ہے‬ ‫اور اگر آپ روايت پر توجہ ديں‪ ،‬تو مسمع نے جب امام عليہ السالم سے‬ ‫کہا کہ ميں نے چار الکه کمائے اور اس ميں سے يہ اسی ہزار کا خمس‬ ‫ہے‪ ،‬تو امام عليہ السالم نے کيا کہا؟‬ ‫کیا زمین اور اس کی پیداوار میں ہمارا حق بس خمس ہی ہے۔ اے ابو‬ ‫سیار! تمام روئے زمین ہمارے لیے ہے جو کچھ ان زمینوں سے پیدا ہو‬ ‫وہ سب ہمارے لیے ہے۔ میں نے کہا‪ :‬میں کل مال حاضر کر دوں‬ ‫اور ڈهکو صاحب ہميں يہ بتا رہے ہيں کہ امام بس اپنے حق کو مباح کر‬ ‫سکتے ہيں؟؟؟‬ ‫ہاں اس مقام پر خمس کهانے والوں کو فوری طور پر سادات کی ہمدردی‬ ‫جاگ اٹهتی ہے کہ يہ کيا کريں گے؟‬ ‫مگر آپ کبهی غور کرنا‪ ،‬کئی سادات غربت کا شکار ہيں۔ ہاں خمس کے يہ‬ ‫بيوپاری اس رقم پر زندگی گذار رہے ہيں – ہاں لوگوں کو دکهانے کے‬ ‫ليے وه يہ مال اچهے کاموں ميں بهی لگاتے ہيں‪ ،‬مگر جيسا کہ ايک‬ ‫روايت ميں ہم نے ديکها تها کہ امام زمانہ عليہ السالم نے فرمايا‬ ‫وأما ما سألت عنه من أمر الضياع التي لناحينا هل يجوز القيام بعمارتها وأداء‬ ‫الخراج منها وصرف ما يفضل من دخلها إلى الناحية احتسابا لألجر وتقربا‬ ‫إليكم ؟ فال يحل ألحد أن يتصرف في مال غيره بغير إذنه‪ ،‬فكيف يحل ذلك في‬ ‫!مالنا؟‬


‫‪52‬‬

‫من فعل شيئا من ذلك لغير (خ) أمرنا (ط) فقد استحل مناما حرم عليه‪ ،‬ومن‬ ‫‪.‬أكل من مالنا (ح) شيئا فإنما يأكل في بطنه نارا وسيصلى سعيرا‬ ‫اور جہاں تک یہ سوال کہ جو ہماری زمینیں آباد کرے اور خراج ادا کرے‬ ‫اور باقی کو تقرب الہی کے لیے بھیجے؟ تو کسی کو بھی جائز نہیں کہ‬ ‫دوسرے کا مال میں تصرف کرے بغیر اس کی اذن کے‪ ،‬تو پھر ہمارے‬ ‫مال میں کیوں جائز ہو؟ جو ایسا کرے گا کہ ہماری اجازت کے بغیر اپنے‬ ‫لیے حالل قرار دے گا جو اس پر حرام ہے‪ ،‬اور ہمارے مال میں سے‬ ‫کھائے گا کچھ بھی‪ ،‬پس اس نے اپنے پیٹ کو آگ سے بھرا جو عنقریب‬ ‫‪39‬‬ ‫بھڑک اٹھے گی‬ ‫تو سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ کيا ان کو امام عالی مقام عليہ السالم نے يہ‬ ‫اجازت دی ہے کہ تم لوگ ميرے سہم کو وصول کرو؟؟؟‬ ‫يہ بہت اہم سوال ہے جس کا جواب کبهی نہيں ديا جاتا‬ ‫کوئی ايک روايت يہ دکها ديں کہ جس ميں امام عليہ السالم نے يہ کہا ہو‬ ‫کہ سہم امام اس مجتہد کو دے دو جس کی تم تقليد کرتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫‪39‬‬

‫وسائل الشيعہ‪ ،‬جلد ‪ ،9‬صفحہ ‪540‬‬


‫‪53‬‬

‫تو پھر غریب سادات کا کیا کریں؟‬ ‫جب کوئی اور بات نہيں بن پڑتی تو پهر يہاں پر فوری طور پر سادات کا‬ ‫درد جاگ اٹهتا ہے‪ ،‬اور يہ نعره بلند کر ديا جاتا ہے کہ غريب سادات کا کيا‬ ‫بنے گا؟‬ ‫حاالنکہ حقيقت يہ ہے کہ آپ کو کئی سادات آج بهی کسمپرسی کی حالت‬ ‫ميں مليں گے‬ ‫جب کہ خمس بٹورنے والوں نے اپنی پوری مشينری کا کهڑا کر ديا ہے‬ ‫بلکہ ابهی مجهے ايک موصوف نے کہا کہ ديکهيے ہمارے علماء کتنے‬ ‫اچهے ہيں کہ ذاکرين کے برعکس مفت ميں مجالس پڑهتے ہيں‬ ‫ميں نے انہيں يہی کہا کہ محترم! وه مفت ميں نہيں پڑهتے‪ ،‬ان کو باقاعده‬ ‫تنخواه ملتی ہے۔ اور وه يہ "مفت" اسی ليے کر رہے ہيں کہ "اپنے آقاؤں"‬ ‫کے مشن کو آگے بڑها سکيں‬ ‫جہاں تک يہ سوال کہ سادات کيا کريں گے‪ ،‬تو اس بات کو ضرور ياد‬ ‫رکهيے گا کہ يہ خمس کا مباح و حالل ہونا صرف "شيعوں" کے ليے ہے۔‬ ‫نہ کہ ان کے ليے جو صرف حب اہلبيت عليهم السالم کے دعويدار نظر‬ ‫آئيں۔‬ ‫آپ اس شخص کے بارے ميں کيا کہيں گے جو خود مع اہل و عيال تو‬ ‫عيش و عشرت کی زندگی گزارے مگر اس کے قريب سادات کسمپرسی‬ ‫کے حال ميں ہوں؟ وه آپ کے سامنے يہ دعوے کرے کہ ميں تو پکا شيعہ‬ ‫ہوں‪ ،‬تو کيا اس بات کو تسليم کيا جا سکتا ہے؟‬


‫‪54‬‬

‫کيا آپ کو ائمہ عليهم السالم نے سادات کی مدد کرنے سے منع کيا ہوا ہے؟‬ ‫اگر انہوں نے اپنے شيعوں پر کرم کر ديا اور اپنا حق ان کے ليے حالل‬ ‫کر ديا تو کيا اس کا مطلب يہ ليا جائے کہ ان کی اوالد کو کچه بهی نہ ديا‬ ‫جائے؟‬ ‫اس ضمن ميں ہم من ال يحضره الفقيہ کی طرف رجوع کرتے ہيں‬ ‫شيخ صدوق نے ايک پورا باب من ال يحضرة الفقيہ ميں درج کيا ہے جس‬ ‫کا نام ہے‬ ‫علی کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا ثواب‬ ‫اوالد ؑ‬

‫‪40‬‬

‫اس ميں وه يہ روايت درج کرتے ہيں‬ ‫رسول هللا صلی هللا علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ میں قیامت کے دن ‪4‬‬ ‫قسم کے لوگوں کی شفاعت کروں گا خواہ وہ اپنے ساتھ ساری دنیا کے‬ ‫گناہ ہی کیوں نہ لے آئیں ۔‬ ‫(‪ )1‬وہ شخص جو میری اوالد کی نصرت و مدد کرے‬ ‫(‪ )2‬وہ شخص جو میری اوالد کی تنگدستی میں اس کے لیے اپنا مال‬ ‫خرچ کرے‬ ‫(‪ )3‬وہ شخص جس نے اپنی زبان و دل سے میری اوالد سے محبت کی‬ ‫(‪ )4‬وہ شخص جس نے میری اوالد کی حاجت روائی کی کوشش کی جب‬ ‫‪41‬‬ ‫لوگ اسے چھوڑ دیں‬

‫من ال يحضرة الفقيہ‪ ،‬ج ‪ ،2‬صفحہ ‪42‬۔ اردو ترجمہ ميں ج ‪ ،2‬صفحہ ‪4840‬‬ ‫من ال يحضرة الفقيہ‪ ،‬ج ‪ ،2‬صفحہ ‪42‬۔ اردو ترجمہ ميں ج ‪ ،2‬صفحہ ‪ ، 48‬روايت‬ ‫نمبر ‪172641‬‬


‫‪55‬‬

‫اس سے اگلی روايت ميں شيخ صدوق نے يہ روايت بيان کی کہ جن لوگوں‬ ‫نے آل رسول صلی ہللا عليہ و آلہ وسلم کو پناه دی ہو‪ ،‬يا نيکی کی ہو يا‬ ‫انہيں کپڑے ديے ہوں يا کهانا کهاليا ہو تو اس کا صلہ رسول ہللا صلی ہللا‬ ‫عليہ و آلہ وسلم قيامت ميں يہ ديں گے کہ انہيں وہاں لے جائيں جہاں ان‬ ‫کے اور اهل بيت اطہار عليهم السالم کے مابين کوئی حجاب نہيں ہو گا‬ ‫جو لوگ يہ سوال اٹهاتے ہيں کہ سادات کيا کريں‪ ،‬تو ميرا ان سے سوال يہ‬ ‫ہے کہ اگر خمس نہ ہو‪ ،‬تو کيا سادات کو آپ نے بے آسرا چهوڑ دينا ہے؟‬ ‫حاالنکہ آپ کبهی خود جا کر ديکهو تو آپ کو بے شمار سادات بے آسرا‬ ‫ہی مليں گے‪ ،‬وه بهی اس وقت جب خمس کے بيوپاری ہر طرف سے‬ ‫"خمس‪ ،‬خمس" کے نعرے مارتے نظر آئيں گے‬ ‫سوال يہ ہے کہ اگر ائمہ عليہم السالم نے آپ پر فضل و کرم کر ہی ديا‪،‬‬ ‫اور آپ کے ليے خمس کو مباح کر ديا‪ ،‬تو کيا اس کا صلہ يہ ديں کہ‬ ‫سادات کو بے آسرا چهوڑ ديں؟؟؟ جبکہ اس کا ثواب آپ اوپر دی گئی دو‬ ‫روايات ميں ديکه بهی چکے ہيں۔۔۔۔۔۔‬ ‫اس بات کو بهی الزمی طور پر ياد رکهيے گا کہ یہ کرم و فضل ائمہ‬ ‫علیھم السالم کا اپنے شیعوں پر ہے کہ خمس کو ان کے لیے مباح قرار‬ ‫دیا ہے‬ ‫جيسا کہ محقق سالر نے بهی اپنی کتاب‪ ،‬المراسم فی الفقہ االمامی‪ ،‬ميں کہا‬ ‫تها۔‬ ‫اگر آپ سادات کی عزت نہ کريں‪ ،‬ان کا خيال نہ رکهيں‪ ،‬تو پهر يہ دعوی‬ ‫کہ ہم شيعہ ہيں‪ ،‬اور ہمارے ليے خمس مباح کيا گيا ہے‪ ،‬بے معنی ہو جاتا‬ ‫ہے‬


‫‪56‬‬

‫خالصہ کالم‬ ‫ديکهيے امت پر خمس کے فرض ہونے ميں کوئی شک نہيں۔‬ ‫اور يہ بات بهی معلوم ہونی چاہيے کہ فرائض کے ساته کچه شرائط بهی‬ ‫ہوتی ہيں۔ مثال کے طور پر رمضان کے مہينے ميں روزے فرض ہيں‪،‬‬ ‫تاہم اگر کوئی شخص کسی مجبوری کے تحت سفر کر رہا ہو تو اس‬ ‫صورت ميں وه روزه نہيں رکهے گا‬ ‫اسی طرح حج بهی فرض ہے اور اس ميں بهی کوئی شک نہيں۔ تاہم اس‬ ‫کے بهی شرائط ہيں‬ ‫اب خمس حق ہے امام کا۔ اور امام نے بذات خود اسے اپنے شيعوں کے‬ ‫ليے مباح کر ديا ہے‬ ‫اگر کوئی اور شخص اس بات کا دعوی کرے کہ امام کا يہ حق ہميں ديا‬ ‫جائے‪ ،‬تو اس پر الزم ہے کہ وه امام کی جانب سے روايت پيش کرے جس‬ ‫ميں زمانہ غيبۃ ميں خمس انہيں ادا کرنے کا حکم ہو‬ ‫صرف يہ دکهانا کہ خمس فرض ہے اس وجہ سے ہميں دو‪ ،‬يہ کوئی معنی‬ ‫نہيں رکهتا‬ ‫جہاں تک سادات کی بات ہے‪ ،‬ان کا احترام واجب ہے۔ اگر آپ ان کا احترام‬ ‫نہيں کر رہے‪ ،‬اور ان کی مدد نہيں کر رہے‪ ،‬تو يقين رکهيے کہ آپ کے‬ ‫تشيع پر ايک بہت بڑا سوال ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬


57


Turn static files into dynamic content formats.

Create a flipbook
Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.