1
زمانہ غیبۃ کبری میں خمس کے احکام سید عبدالعلی موسوی
1
فأما من كان من الفقهاء صائنا لنفسه ،حافظا لدينه ،مخالفا على هواه، مطيعا ألمر مواله ،فللعوام أن يقلدوه ،وذلك ال يكون إال بعض فقهاء الشيعة ال جميعهم ،فإنه من ركب من القبايح والفواحش مراكب فسقة العامة فال تقبلوا منا عنه شيئا ،وال كرامة ،وإنما كثر التخليط فيما يتحمل عنا أهل البيت لذلك ألن الفسقة يتحملون عنا فيحرفونه بأسره بجهلهم ،ويضعون األشياء على غير وجهها لقلة معرفتهم ،وآخرون يتعمدون الكذب علينا ليجروا من عرض الدنيا ما هو زادهم إلى نار جهنم ،ومنهم قوم (نصاب) ال يقدرون على القدح فينا ،يتعلمون بعض علومنا الصحيحة فيتوجهون به عند شيعتنا، وينتقصون بنا عند نصابنا ،ثم يضيفون إليه أضعاف وأضعاف أضعافه من األكاذيب علينا التي نحن براء منها ،فيتقبله المستسلمون من شيعتنا ،على أنه من علومنا ،فضلوا وأضلوا وهم أضر على ضعفاء شيعتنا من جيش يزيد على الحسين بن علي عليه السالم وأصحابه، فإنهم يسلبونهم األرواح واألموال پس فقہاء میں سے وہ جو اپنے نفس کا محافظ ہو ،اپنے دین کا نگہبان ہو ،اپنی خوائشات کا مخالف ہو اور اپنے موال کے امر کا مطیع ہو ،عوام کو ایسے فقہاء کی تقلید کرنے چاہیے -یہ شرائط بعض فقہاء میں پائی جاتی ہیں نہ کہ تمام فقہاء میں۔ عامہ کے فاسق فقہاء کی طرح جو بھی عمل قبیح اور فسق و فجور کا مرتکب ہو ،اس کے ہماری طرف منسوب کیے گئے مطالب کو قبول نہ کرو ،اور ان کا احترام نہ کرو۔ بے شک ہماری بہت سے احادیث عمدا مخلوط ہو گئی ہیں ،کیونکہ فاسقین ہمارے
2
کالم کو سنتے ہیں اور جہالت کے سبب ان تمام کو تحریف کر دیتے ہیں اور اپنی کم علمی کی وجہ سے دوسرے معنی اخذ کرتے ہیں اور دوسرا گروہ جان بوجھ کر ہم پر بہتان لگاتا ہے تاکہ دنیا کے اموال اس کے ذریعے حاصل کر سکیں اور وہ اموال ان کے لیے جہنم کے آگ کے شعلوں میں اضافہ کر دیں گے ان میں سے ایک گروہ مذہب کا دشمن ہے جو ہماری مذمت و قدح پر قادر نہیں ،یہ لوگ ہماری بعض صحیح علوم کو حاصل کرتے ہیں اور شیعوں تک پہنچاتے ہیں اور دشمنوں سے ہماری عیب جوئی کرتے ہیں اور اس جھوٹ کے کئی گناہ برابر ہمارے اوپر الزام جھوٹ کا اضافہ کرتے ہیں ۔ ہم ان تمام باتوں سے پاک و مبرہ ہیں لیکن افسوس کے ہماری مطیع و فرمانبردار شیعہ اسے ہمارے علوم و مطالب و اقوال سمجھ کر قبول کرتے ہیں ،پس وہ گمراہ ہو گئے اور دوسروں کو بھی انہوں نے منحرف کر دیا۔ حسین ہمارے کمزور شیعوں پر ان افراد کا ضرر اور نقصان امام ؑ حسین پر لشکر یزید کے نقصان اور ضرر پہنچانے اور اصحاب ؑ سے زیادہ ہے کیونکہ ایسے افراد ان کی روح کو بھی تاراج کرتے ہیں اور ان کے اموال کو بھی غارت کرتے ہیں۔ (االحتجاج طبرسی ،جلد ،2صفحہ )263
3
فہرست
مقدمہ
4
وه روايات جو عمومی طور پر شيعوں کے ليے خمس کے حالل ہونے کا 8 ذکر کرتی ہيں وه روايات جو قيام امام زمانہ عليہ السالم تک شيعوں کے ليے خمس کے 21 حالل ہونے کا بيان کرتی ہيں خمس کی تقسيم کون کرے گا؟
27
وه روايات جن سے خمس نہ دينے والوں پر حجت قائم کی جاتی ہے
30
زمانہ غيبۃ ميں خمس کی تقسيم کے بارے ميں شيعہ علماء کا اختالف 41 تو پهر غريب سادات کا کيا کريں؟
53
خالصہ
56
4
مقدمہ غيبۃ کبری ميں اہل تشيع ہر طرف سے مسائل ميں گهرے ہوئے ہيں ،اور اس کی وجہ يہ ہے کہ ہم لوگوں نے اہل بيت عليهم السالم کے احکامات سے تمسک نہيں رکها۔ اس کا فائده ان لوگوں نے اٹهايا جو دين کو تجارت بنا چکے ہيں ۔ اور جيسا کہ ابهی ہم نے امام عليہ السالم کے الفاظ ميں پڑها کہ انہوں نے کچه صحيح علوم سيکه ليے ،اور اہل تشيع کے سامنے انہيں پيش کر کے يہ دهوکہ دے ديا کہ ہم اہل بيت عليهم السالم کی تعليمات پيش کر رہے ہيں؛ ائمہ عليهم السالم کے مطابق يہ يزيد کی فوج سے بدتر ہيں دين ميں شکوک و شبہات اس انداز سے پيدا کر ديے گئے ہيں کہ آج آپ کو اگر کوئی بهی شخص عبا و قبا پہن کر ،نام کے ساته عالمہ لگا کر ،کچه بهی کہہ دے ،تو آپ ميں يہ ہمت ہی نہيں ہو گی کہ اس سے سوال کريں کہ محترم! يہ بات آپ ہميں معصومين عليهم السالم کے الفاظ ميں دکها ديں کبهی ان مولويوں سے سوال کر کے ديکه ليجيے گا ،آپ کو اندازه ہو جائے گا ان مولويوں نے اپنی معيشت کے ليے خمس کے ضمن ميں بهی بہت جهوٹ بولے ہيں ،اور لوگوں کو گمراه کيا ہے اگر آپ سے ميں يہ سوال کروں کہ جناب! خمس کا کيا کرنا ہے؟ تو آپ بڑے آرام سے جواب ديں گے کہ جناب! کرنا کيا ہے ،بس دو حصے بنانے ہيں ،ايک جس مجتہد کی ہم تقليد کر رہے ہيں ،اسے دينا ہے۔۔۔۔۔يہ سہم امام ہے۔ اور دوسرا حصہ سادات کو دے ديں گے اب اگر ميں آپ سے يہ سوال کروں کہ يہ کس امام کے قول ميں آيا ہے تو؟؟؟
5
کتنی روايات آپ ميرے سامنے پيش کر سکيں گے؟ ہاں يہ الگ بات کہ آپ خوش فمہی کا شکار بنے ہوئے ہيں ،اور کہہ ديں گے کہ ہميں تو نہيں پتہ ،مگر ہمارے مجتہد کو پتہ ہے ،انہوں نے بہت سے کتب پڑهی ہيں اور وه تو بس وہی کہتے ہيں جو امام عليہ السالم کہتے ہيں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی ليے ہم نے سوچا کہ کيوں نے ايک مقالہ اس موضوع پر لکها جائے، تاکہ کم سے کم آپ کو يہ تو معلوم ہو کہ ايسا نہيں ہے جيسا کہ آپ کو يقين دال ديا گيا ہے مثال کے طور پر ہم سستانی صاحب کی رائے ديکهتے ہيں موصوف اپنی توضيح المسائل 1ميں فتوی ديتے ہيں ( )1804ضروری ہے کہ خمس دو حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ اس کا ایک حصہ سادات کا حق ہے اور ضروری ہے کہ کسی فقیر سید یا یتیم سید یا ایسے سید کو دیا جائے جو سفر میں ناچار ہو گیا ہو۔ اور دوسرا حصہ امام علیہ السالم کا ہے جو ضروری ہے کہ موجودہ زمانے میں جامع الشرائط مجتہد کو دیا جائے یا ایسے کاموں پر جس کی مجتہد اجازت دے ،خرچ کیا جائے ۔ اور احتیاط الزم یہ ہے کہ وہ مرجع اعلم ہو اور عمومی مصلحتوں سے آگاہ ہو۔
بشير حسين نجفی صاحب فرماتے ہيں
1
توضيح المسائل ،صفحہ ،273-272جامعہ تعليمات اسالمی ،کراچی ،پاکستان
6
مسئلہ :1843خمس دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہیے ۔ اس کا ایک حصہ سادات کا حق جو حاکم شرع کی اجازت سے کسی محتاج یا یتیم سید کو ،ایسے سید کو دینا چاہیے جو سفر میں ناچار ہو گیا ہو ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور دوسرا حصہ امام علیہ السالم کا ہے جو موجودہ زمانے میں جامع الشرائط مجتہد کو دینا چاہیے یا ایسے کام پر خرچ کرنا چاہیے جس کی وہ مجتہد اجازت دے لیکن اگر انسان یہ چاہے کہ امام علیہ السالم کا حصہ ایسے مجتہد کو دے جس کی وہ تقلید نہ کرتا ہو ،تو احتیاط واجب کی بنا پر اسے چاہیے کہ ایسا کرنے کے لیے اس مجتہد کی اجازت لے جس کی وہ تقلید کرتا ہو اور اسے یہ اجازت اس صورت میں لینی ہو گی کہ مرجع تقلید میں دو شرطیں پائی جائیں ایک یہ کہ والیت فقیہ مطلقہ کا قائل ہو اور اپنے آپ کو مسلمان کے لیے واجب االطاعت سمجھے اور دوسرے یہ کہ وہ حکم دے کہ سہم امام اس تک پہنچایا جائے۔ اور ان شرطوں میں سے کوئی ایک بھی شرط ختم ہو جائے تو اس کی دوسرے مجتہد کو 2 دینے کے لیے اپنے مرجع کی اجازت لینے کی ضرورت نہیں بشير صاحب نے دو نکتے اور بهی دے ديے۔ ايک تو يہ کہ اگر آپ نے سادات کو بهی دينا ہے ،تو اجازت مجتہد سے لينا ہو گی۔ اب بهلے ہی وه خود غير سيد ہو۔ حاالنکہ اس صورت ميں تو وه يقينی طور پر خمس دينے والوں ميں ہے اور دوسرا يہ کہ واليت فقيہ مطلقہ کا قائل ہو اور وه خود کو واجب االطاعت بهی سمجهے ۔۔۔۔۔ اب ہللا جانے يہ کن احاديث معصومين عليهم السالم ميں انہوں نے پڑه ليا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فاضل لنکرانی صاحب فرماتے ہيں 2
توضيح المسائل از بشير حسين نجفی ،صفحہ ،386-385ايليا پرنٹرز الہور ،پاکستان
7
مسئلہ :1901خمس کو دو حصوں میں تقسیم کا جائے ،ایک حصہ سہم سادات ہے اور احتیاط واجب کی بنا پر اس کو مجتہد جامع الشرائط کی اجازت سے فقیر سید یا یتیم سید یا اس سید کو دیا جائے جو سفر میں بے خرچ ہو جائے ،اور دوسرا آدھا حصہ سہم امام علیہ السالم ہے جو اس زمانہ میں مجتہد جامع الشرائط کو دیا جائے یا ایسے مصرف میں صرف 3 کیا جائے کہ جس کی اجازت وہ مجتہد دیدے ۔۔۔۔ يہاں پر بهی وہی بات؛ کہ سادات کو دينے کے ليے بهی مجتہد کی اجازت۔۔۔۔۔۔ 1977ميں والنوا يونيورسٹی اور ٹيپمل يونيورسٹی ميں ايک ريسرچ کی گئی ،اور ايک بات معلوم ہوئی ،جسے Illusory truth effect کہتے ہيں۔ اس کا مطلب يہ ہے کہ اگر آپ کے سامنے کئی بار جهوٹ بوال جائے تو آپ اسے سچ سمجه بيٹهيں گے۔ جيسا کہ ايک نازی شخص تهے، جوزف گويبل ،اس نے بهی کہا Repeat a lie often enough and it becomes the truth اب خمس کو لے کر يہ باتيں اتنی کر دی گئی ہيں کہ لوگوں کو يہ يقين ہو چکا ہے کہ خمس اسی طرح تقسيم ہوتا ہے۔ تو چليے ہم ہللا کا نام لے کر آپ کی خدمت ميں احاديث معصومين عليهم السالم پيش کرتے ہيں۔ پهر آپ خود ديکهيے گا کہ حقيقت ہے کيا۔۔۔۔۔۔
3
توضيح المسائل از فاضل لنکرانی ،صفحہ ،373
8
وہ روایات جو عمومی طور پر شیعوں کے لیے خمس کے حالل ہونے کا ذکر کرتی ہیں
روایت نمبر 1
شيخ طوسی اس روايت کو پيش کرتے ہيں سعد بن عبد ہللا عن أبي جعفر عن العباس بن معروف عن حماد بن عيسى عن حريز بن عبد ہللا عن أبي بصير وزرارة ومحمد بن مسلم عن أبي جعفر عليه السالم قال :قال أمير المؤمنين علي بن أبي طالب عليه السالم :هلك الناس في بطونهم وفروجهم ألنهم لم يؤدوا إلينا حقنا ،أال وان شيعتنا من ذلك .وآباءهم في حل امام باقر علیہ السالم فرماتے ہیں کہ امیر المومنین علیہ السالم نے فرمایا :لوگ اپنے پیٹ اور شرم گاہ کی وجہ سے ہالکت میں پڑھ گئے ہیں کیونکہ وہ ہمارا حق نہیں دے رہے ،سوائے ہمارے شیعوں اور ان کے آبا 4 و اجداد کے ،کیونکہ ہم نے ان کے لیے اسے حالل قرار دیا
عالمہ مجلسی نے مالذ االخيار ،جلد ،6صفحہ 394پر اسے صحیح قرار ديا
4
تہذيب االحکام ،جلد ،4صفحہ 138-137
9
ياد رہے کہ شيخ صدوق نے بهی اس روايت کو اپنی سند کے ساته علل 5 الشرائع ميں درج کيا ہے اگرچہ يہاں پر يہ اعتراض کيا جا سکتا ہے کہ گذشتہ روايت ميں " ہمارے حق" کی وضاحت نہيں کی گئی ،مگر اس کے ليے ہم شيخ صدوق کی کتاب علل الشرائع سے يہ باب نقل کرتے ہيں جس ميں انہوں نے مذکوره باال روايت کو درج کيا
باب (– 106 ) العلة التي من أجلھا جعلت الشیعة في حل من الخمس باب :106وہ وجہ کے جس کے سبب شیعوں کے لیے خمس کو حالل کیا گیا
روایت نمبر -:2
اس باب ميں شيخ صدوق ايک اور روايت نقل کرتے ہيں
حدثنا محمد بن الحسن رضي ہللا عنه قال :حدثنا محمد بن الحسن الصفار عن العباس بن معروف عن حماد بن عيسى عن حريز عن زرارة عن أبي جعفر 5
علل الشرائع ،جلد ،2صفحہ 377؛ اردو ترجمے ميں يہ جلد ،2صفحہ 298پر موجود ہے
10
(ع) أنه قال :إن أمير المؤمنين (ع) حللهم من الخمس ء يعني الشيعة ء ليطيب .مولدهم
امام باقر علیہ السالم نے فرمایا کہ امیر المومنین علیہ السالم نے اپنے شیعوں کے لیے خمس کو حالل قرار دیا تاکہ ان کی والدت پاکیزہ رہے
اس روايت کے سارے راويان ثقہ اور جليل القدر ہيں۔
6
6
ان راويان کی توثيق کے ليے ہم آغہ جواہری کی کتاب ،المفيد من معجم الرجال الحديث ديکهتے ہيں محمد بن حسن بن احمد بن وليد شيخ صدوق کے مشائخ ميں ہيں۔ آغہ جواہری نے المفيد من معجم الرجال الحديث ،صفحہ 513پر انہيں ثقہ ثقہ اور عين قرار ديا ۔ يہ وثاقت کے اونچے درجات مانے جاتے ہيں اسی طرح المفيد کے صفحہ 515پر محمد بن حسن الصفار کو ثقہ اور جليل القدر قرار ديا المفيد ،صفحہ 302پر عباس بن معروف کو ثقہ قرار ديا حماد بن عيسی کو صفحہ 195پر ثقہ قرار ديا حريز کو صفحہ 131پر ثقہ قرار ديا زراره بن اعين کو صفحہ 228پر ثقہ قرار ديا۔ يہ کسی تعارف کے محتاج نہيں۔
11
روایت نمبر 3 عالمہ کلينی نے يہ روايت نقل کی ہے
علي بن إبراھیم ،عن أبیه ،عن ابن محبوب ،عن ضریس الكناسي قال :قال أبو عبد هللا علیه السالم :من أین دخل على الناس الزنا؟ قلت :ال أدري جعلت فداك ،قال :من قبل خمسنا أھل البیت ،إال شیعتنا األطیبین ،فإنه محلل لھم .لمیالدھم امام صادق علیہ السالم نے ضریس سے پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو کہ لوگوں میں زنا کہاں سے داخل ہوتا ہے؟ جواب دیا کہ نہیں معلوم۔ اس پر امام علیہ السالم نے فرمایا کہ ہم اہل البیت کو خمس نہ دینے کی وجہ سے ،سوائے ہمارے شیعوں کے جو پاک والدت رکھتے ہیں کیونکہ ہم 7 نے ان کے لیے اسے حالل قرار دیا
اس روايت کو عالمہ مجلسی نے مراة العقول ،جلد ،6صفحہ 278پر حسن قرار ديا تاہم ياد رہے کہ اس کی وجہ يہ ہے کہ عالمہ مجلسی ابراہيم بن ہاشم ،والد علی ابن ابراہيم کو ممدوح مانتے تهے۔ اس کے برعکس کئی لوگ ان کو ثقہ مانتے ہيں ،جيسا کہ سيد الخوئی8۔ اور اس صورت ميں يہ صحیح کے درجے پر ہو گی
7
الکافی ،جلد ،1صفحہ 546 معجم رجال الحديث ،جلد ،1صفحہ 2918
12
روایت نمبر 4
شيخ طوسی نے يہ روايت نقل کی ہے وعنه عن أبي جعفر عن الحسن بن علي الوشا عن أحمد ابن عائذ عن أبي سلمة سالم بن مكرم وهو أبو خديجة عن أبي عبد ہللا عليه السالم قال :قال له :رجل وانا حاضر :حلل لي الفروج ففزع أبو عبد ہللا عليه السالم! فقال له رجل ليس يسألك ان يعترض الطريق إنما يسألك خادما يشتريها أو امرأة يتزوجها أو ميراثا يصيبه أو تجارة أو شيئا أعطاه فقال :هذا لشيعتنا حالل الشاهد منهم والغائب والميت منهم والحي ،وما يولد منهم إلى يوم القيامة فهو لهم حالل ،اما وہللا ال يحل إال لمن أحللنا له ،وال وہللا ما أعطينا أحدا ذمة وما .عندنا الحد عهد وال الحد عندنا ميثاق ابو خدیجہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے امام الصادق علیہ السالم سے سوال کیا ،اور میں اس وقت موجود تھا ،کہ ہمارے لیے شرمگاہوں کو حالل کر دیں۔ اس پر امام علیہ السالم گھبرا گئے۔ ایک شخص بوال کہ یہ آپ سے کوئی معترض طریقے کی اجازت نہیں مانگ رہا بلکہ یہ آپ سے سوال کر رہا ہے کہ اگر یہ کوئی خادمہ خریدے یا کسی عورت سے شادی کرے یا میراث میں کچھ پائے یا تجارت کرے ،یا کوئی شے اسے ملے( تو اس میں خمس کی معافی کا طلبگار ہے)۔ اس پر امام علیہ السالم نے جواب دیا کہ یہ ہمارے شیعوں کے لیے حالل ہے جو موجود ہیں یا غائب، زندہ ہیں یا مردہ ،یا جنہوں نے قیامت تک پیدا ہونا ہے ان کے لیے حالل ہے۔ خدا کی قسم یہ ان کے لیے حالل ہے جن کے لیے ہم اس حالل کریں۔
13
خدا کی قسم (تم لوگوں کے سوا) ہم نے اس کی اجازت کسی اور کو نہیں 9 دی اور نہ ہی کسی اور سے کوئی وعدہ کیا ہے
اس روايت پر عالمہ مجلسی نے مالذ االخيار ،جلد ،6صفحہ 390پر يہ حکم لگايا " مشہور قول کے بنا پر ضعیف ہے ،مگر صحیح ہونا ممکن ہے کیونکہ ابو خدیجہ کو شیخ نجاشی نے ثقہ مانا ہے" يعنی باقی سند صحیح ہے ،صرف سالم بن مکرم ابو خديجہ پر اختالف ہے۔ اور اس کی وجہ يہ ہے کہ شيخ طوسی نے انہيں ضعيف کہا ،جبکہ 10 شيخ نجاشی نے انہيں "ثقۃ ثقہ" کہا تاہم شيخ علی نمازی شاہرودی نے اپنی تحقيق ميں انہيں ثقہ مانا 11۔ اور عالمہ 12 حلی نے بهی اسی روایت کو صحیح قرار ديا
9
تہذيب االحکام ،جلد ،4صفحہ 137 10
رجال النجاشی ،صفحہ ،188راوی نمبر 501 11
مستدرکات علم رجال الحديث ،شيخ علی نمازی ،جلد ،4صفحہ 10 12
مختلف الشيعہ ،جلد ،3صفحہ 341پر يوں درج کيا ہے احت ّج الشيخ بما رواه سالم بن مكرم في الصحيح ،عن الصادقء عليه السالمء قال :قال رجل و أنا حاضر :حلّل لي الفروج ،ففزع أبو عبد ّ الل -عليه السالم -فقال له رجل :ليس
14
روایت نمبر 5
شيخ طوسی نے يہ روايت نقل کی ہے سعد بن عبد ہللا عن أحمد بن محمد بن أبي نصر عن أبي عمارة عن الحرث بن المغيرة النصري عن أبي عبد ہللا عليه السالم قال :قلت له ان لنا أمواال من غالت وتجارات ونحو ذلك ،وقد علمت أن لك فيها حقا قال :فلم أحللنا إذا لشيعتنا إال لتطيب والدتهم وكل من والى آبائي فهم في حل مما في أيديهم من .حقنا فليبلغ الشاهد الغائب حارث بن مغیرہ نصری نے امام صادق علیہ السالم سے سوال کیا :ہمارے پاس اپنی فصلوں اور تجارت وغیرہ سے کافی مال ہوتا ہے ،اور ہمیں معلوم ہے کہ اس میں آپ کا حق ہے (تو ہم کیا کریں؟)۔ امام نے جواب دیا کہ ہم نے اسے اپنے شیعوں کے لیے حالل قرار دیا تاکہ ان کی والدتیں پاکیزہ ہوں ،اور ہر وہ جو ہمارے آباء کی والیت کا قائل ہے ،اس کے لیے وہ سب کچھ جائز ہے جو اس کے ہاتھ میں ہے ،پس حاضرین کو چاہیے 13 کہ یہ خبر ان تک پہنچا دیں جو موجود نہیں
اس روايت کی سند ميں سعد بن عبدہللا ،احمد بن محمد بن ابی نصر اور حارث بن مغيره نصری کا شمار شيعہ رجال کے جليل القدر راويان ميں يتزوجها ،أو ميراثا يسألك أن يعترض الطريق ،إنما يسألك خادما يشتريها ،أو امرأة ّ :يصيبه ،أو تجارة أو شيئا أعطيه ،فقال هذا لشيعتنا حالل ،الشاهد منهم و الغائب ،و الميت منهم و الحي ،و ما يولد منهم الى يوم الل ال يح ّل إال لمن أحللنا له ،ال و ّ القيامة فهو لهم حالل ،اما و ّ الل ما أعطينا أحدا ذمة ،و ما عندنا ألحد عهد ،و ال ألحد عندنا ميثاق 13
تہذيب االحکام ،جلد ،4صفحہ 143
15
ہوتا ہے۔ خاص طور پر احمد بن محمد بن ابی نصر کا شمار اصحاب االجماع ميں ہوتا ہے14۔ سيد صادق روحانی نے اسے اپنی کتاب ،فقہ صادق ،جلد ،11صفحہ 63 پر صحیح قرار ديا نيز اس روايت کو شيخ حسن بن شہيد الثانی نے اپنی کتاب ،منتقی الجمان جلد ،2صفحہ 443پر درج کيا۔ اور اس کتاب ميں انہوں نے يہ فرمايا تها 15 کہ اس ميں صحيح و حسن درجے کی احاديث ہوں گی۔
روایت نمبر 6
شيخ طوسی اس روايت کو نقل کرتے ہيں محمد بن الحسن الصفار عن يعقوب بن يزيد عن الحسن بن علي الوشا عن :القاسم بن بريد عن الفضيل عن أبي عبد ہللا عليه السالم قال من وجد برد حبنا في كبده فليحمد ہللا على أول النعم ،قال :قلت جعلت فداك ما أول النعم؟ قال :طيب الوالدة ،ثم قال أبو عبد ہللا عليه السالم :قال أمير المؤمنين عليه السالم لفاطمة عليها السالم :أحلي نصيبك من الفئ آلباء شيعتنا .ليطيبوا ،ثم قال أبو عبد ہللا عليه السالم إنا أحللنا أمهات شيعتنا آلبائهم ليطيبوا 14
معجم رجال الحديث ،جلد ،3صفحہ 21-20 15
اگر انہوں نے اس کتاب ميں کہيں پر ضعيف کو درج کيا ،تو اس کو ساته ہی بيان بهی کيا۔ مگر اس روايت کے ساته ہميں ضعف کے بارے ميں ان کی جانب سے کچه بهی نہيں ملتا
16
امام الصادق علیہ السالم نے فرمایا کہ تم میں سے جو اپنے جگر میں ہماری محبت کی ٹھنڈک پائے ،تو وہ پہلی نعمت کا شکر ادا کرے۔ پوچھا گیا کہ پہلی نعمت کیا ہے؟ جواب دیا کہ پاکیزہ والدت۔ پھر امام نے فرمایا کہ امیر المومنین علیہ السالم نے بی بی فاطمہ علیہا السالم سے کہا کہ آپ شیعوں کے آباء کے لیے مال فئے میں سے اپنا حصہ حالل کر دیں تاکہ ان کی والدت پاکیزہ ہو۔ پھر امام نے فرمایا کہ ہم نے شیعوں کے ماؤں کو 16 ان کے باپ کے لیے حالل کر دیا تاکہ ان کی والدت پاک ہو
عالمہ مجلسی نے مالذ االخيار ،جلد ،6صفحہ 417پر صحيح قرار ديا
روایت نمبر 7
شيخ طوسی و شيخ صدوق نے يہ روايت نقل کی
وروي عن علي بن مهزيار أنه قال " :قرأت في كتاب ألبي جعفر عليه السالم إلى رجل يسأله أن يجعله في حل من مأكله ومشربه من الخمس ،فكتب عليه :السالم بخطه " من أعوزه شئ من حقي فهو في حل علی بن مہزیار نے کہا کہ میں نے امام ابو جعفر علیہ السالم کی وہ تحریر پڑھی جو آپ نے ایک شخص کے سوال کے جواب میں تحریر کی تھی کہ 16
تہذيب االحکام ،جلد ،4صفحہ 143
17
ہمارے لیے جو کچھ ہم نے خمس میں سے کھا پی لیا ہے ،اسے حالل کر دیں۔ آپ نے جواب دیا :جس کو ہمارے حق میں سے کسی شے کی سخت تو ؑ 17 ضرورت ہو تو وہ اس کے لیے حالل ہے
عالمہ مجلسی نے مالذ االخيار ،جلد ،6صفحہ 417پر اس روايت کو صحيح قرار ديا
روایت نمبر 8 شيخ صدوق نے يہ روايت نقل کی وروى محمد بن مسلم عن أحدهما عليهما السالم قال " :إن أشد ما فيه الناس يوم القيامة أن يقوم صاحب الخمس فيقول :يا رب خمسي .وقد طيبنا ذلك لشيعتنا لتطيب والدتهم أو لتزكوا والدتهم امام علیہ السالم فرماتے ہیں کہ قیامت والے دن سب سے سخت وقت وہ ہو گا جو خمس کے حقدار کھڑے ہو کر کہیں گے کہ اے رب! ہمارا خمس۔ مگر ہم نے اسے اپنے شیعوں کے لیے یہ حالل و مباح 18کر دیا تاکہ ان 19 کی والدت پاکیزہ ہو 17
تہذيب االحکام ،جلد ،4صفحہ 143؛ من ال يحضره الفقيہ ،جلد ،2صفحہ 44 18
من ال يحضره الفقيہ کے کچه نسخوں ميں يوں ہے "و قد احللنا" يعنی ہم نے حالل کر ديا
18
روایت نمبر 9
شيخ طوسی نے يہ روايت نقل کی علي بن الحسن بن فضال عن جعفر بن محمد بن حكيم عن عبد الكريم بن عمرو الخثعمي عن الحرث بن المغيرة النصري قال :دخلت على أبي جعفر عليه السالم فجلست عنده فإذا نجية قد استأذن عليه فاذن له فدخل فجثى على ركبتيه ثم قال :جعلت فداك اني أريد ان أسألك عن مسألة وہللا ما أريد بها إال فكاك رقبتي من النار فكأنه رق له فاستوى جالسا فقال له :يا نجية سلني فال تسألني اليوم عن شئ إال أخبرتك به ،قال جعلت فداك ما تقول في فالن وفالن قال :يا نجية ان لنا الخمس في كتاب ہللا ولنا األنفال ولنا صفو األموال ،وهما وہللا أول من ظلمنا حقنا في كتاب ہللا ،وأول من حمل الناس على رقابنا، ودماؤنا في أعناقهما إلى يوم القيامة بظلمنا أهل البيت ،وان الناس ليتقلبون في حرام إلى يوم القيامة بظلمنا أهل البيت ،فقال نجية :انا هلل وانا إليه راجعون ثالث مرات هلكنا ورب الكعبة قال :فرفع فخذه عن الوسادة فاستقبل القبلة فدعا :بدعاء لم أفهم منه شيئا إال انا سمعناه في آخر دعائه وهو يقول اللهم انا قد أحللنا ذلك لشيعتنا) قال :ثم أقبل إلينا بوجهه ،وقال :يا نجية ما على ( .فطرة إبراهيم عليه السالم غيرنا وغير شيعتنا
مالحظہ ہو حاشيہ از عالمہ علی اکبر غفاری 19
من ال يحضره الفقيہ ،جلد ،2صفحہ 43
19
حرث بن مغیرہ کہتے ہیں کہ میں امام باقر علیہ السالم کے پاس گیا ،اور بیٹھ گیا۔ پھر وہ نجیۃ آیا ،اور اجازت مانگی۔ اجازت ملنے پر وہ گیا اور دو آپ پر قربان! میں ایک سوال پوچھنا چاہتا زانو بیٹھ گیا ۔ پھر بوال :میں ؑ ہوں ،اور خدا کی قسم! میرا مقصد یہ ہے کہ میں اپنی گردن آتش جہنم امام سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور اسے کہا کہ اے نجیۃ سے آزاد کر دوں۔ ؑ آج سوال کرو اور میں اس کا جواب دوں گا۔ اس نے پوچھا کہ میں قربان جاؤں! آپ فالں فالں کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ امام نے جواب دیا :اے نجیۃ! ہمارے لیے کتاب هللا میں ٰخمس تھا اور انفال اور برگزیدہ مال؛ مگر ان دونوں ہمارے حق پر ظلم کیا اور لوگوں کو ہمارے گردن پر سوار کیا، اور ہم پر ظلم کے سبب لوگوں کے گردنوں میں ہمارا خون ڈال دیا تا روز قیامت ،اور لوگ ہم پر ظلم کرنے کے سبب تا روز قیامت حرام میں ہیں نجیۃ نے اس پر کہا :ان ہلل و ان الیہ راجعون۔ رب کعبہ کی قسم! ہم ہالک ہوئے۔ اس کے بعد امام علیہ السالم نے قبلہ رخ ہو کر دعا مانگی جو ہمیں سمجھ نہ آئی مگر اس کے آخر میں امام کے یہ الفاظ ہم نے سنے "اے هللا! ہم نے اسے اپنے شیعوں کے لیے حالل کر دیا" پھر اپنا چہرہ ہماری طرف کر کے کہا کہ اے نجیہ! ہمارے اور ہمارے 20 شیعوں کے عالوہ کوئی بھی فطرت ابراہیمی پر نہیں ہے روایت نمبر 10
شيخ صدوق اور شيخ طوسی نے يہ روايت نقل کی
20
تہذيب االحکام ،جلد ،4صفحہ 145
20
وروي عن يونس بن يعقوب قال " :كنت عند أبي عبد ہللا عليه السالم فدخل عليه رجل من القماطين فقال :جعلت فداك تقع في أيدينا األرباح واألموال وتجارات نعرف أن حقك فيها ثابت وإنا عن ذلك مقصرون؟ فقال عليه السالم: " ما أنصفناكم إن كلفناكم ذلك اليوم یونس بن یعقوب نے روایت کی کہ میں امام صادق علیہ السالم کے پاس تھا کہ ایک بچوں کے پوتڑے بنانے واال ایک شخص آیا ،اور کہا کہ میں آپ پر قربان! ہمیں اپنے مال و تجارت سے نفع ہوتا ہے ،اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اس میں آپ کا حق ثابت ہے ،اب اگر ہم اس میں تقصیر /کمی کریں تو؟ امام علیہ السالم نے فرمایا کہ اگر ہم آج بھی تم سے یہ کہیں کہ 21 تم اسے ادا کرو ،تو ہم نے تم سے انصاف نہیں کیا
يہ روايت دو مختلف اسناد سے نقل ہوئی ہے 22جو ايک دوسرے کو قوی بناتی ہيں
21
تہذيب االحکام ،جلد ،4صفحہ 138؛ من ال يحضره الفقيہ ،جلد ،2صفحہ 44 22
شيخ صدوق کی سند يوں ہے عن ابيہ ،عن سعد بن عبدہللا عن محمد بن حسين بن ابی الخطاب عن حکم بن مسکين عن يونس بن يعقوب (مالحظہ ہو منتقی الجمان ،جلد ،2صفحہ 444 شيخ طوسی کی سند يوں ہے سعد عن أبي جعفر عن محمد بن سنان عن يونس بن يعقوب
21
وہ روایات جو قیام امام زمانہ علیہ السالم تک شیعوں کے لیے خمس کے حالل ہونے کا بیان کرتی ہیں روایت نمبر 1
ہميں يہ روايت ملتی ہے محمد بن يحيى ،عن أحمد بن محمد ،عن ابن محبوب ،عن عمر بن يزيد قال رأيت مسمعا بالمدينة وقد كان حمل إلى أبي عبد ہللا عليه السالم تلك السنة ماال فرده أبو عبد ہللا عليه السالم فقلت له :لم رد عليك أبي عبد ہللا المال الذي حملته إليه؟ قال :فقال لي :إني قلت له حين حملت إليه المال :إني كنت وليت البحرين الغوص فأصبت أربعمائة ألف درهم وقد جئتك بخمسها بثمانين ألف درهم وكرهت أن أحبسها عنك وأن أعرض لها وهي حقك الذي جعله ہللا تبارك وتعالى في أموالنا ،فقال :أو ما لنا من األرض وما أخرج ہللا منها إال الخمس يا أبا سيار؟ إن األرض كلها لنا فما أخرج ہللا منها من شئ فهو لنا ،فقلت له :وأنا أحمل إليك المال :كله؟ فقال :يا أبا سيار قد طيبناه لك وأحللناك منه فضم إليك مالك ،وكل ما في أيدي شيعتنا من األرض فهم فيه محللون حتى يقوم قائمنا فيجبيهم طسق (ء) ما كان في أيديهم ويترك األرض في أيديهم وأما ما كان في أيدي غيرهم فإن كسبهم من األرض حرام عليهم حتى يقوم قائمنا ،فيأخذ األرض من أيديهم ويخرجهم صغرة (ع).23 23
الکافی ،ج ،1صفحہ 408
22
. اس روايت کا اردو ترجمہ ہم عالمہ ظفر حسن صاحب کی زبانی دکهاتے ہيں عمر بن یزید سے مروی ہے کہ میں مسمع کو مدینہ میں کہتے سنا کہ میں اس سال کچھ مال امام جعفر صادق علیہ السالم کے پاس لے گیا۔ آپ نے اسے رد کر دیا۔ میں نے پوچھا کیوں رد کیا۔ اس نے حضرت سے کہا :میں بحرین میں غوطہ خوری پر مامور ہوا ،اور وہاں سے میں نے چار الکھ درہم کے موتی حاصل کئے جس کا خمس اسی ہزار درہم آپ کی خدمت میں الیا ہوں۔ میں نے اس امر کو برا سمجھا کہ جو آپ کا حق ہے، اسے روکوں اور روگردانی کروں۔ جبکہ هللا نے ہمارے اموال میں اس حق کو مقرر فرمایا ہے۔ آپ نے فرمایا :کیا زمین اور اس کی پیداوار میں ہمارا حق بس خمس ہی ہے۔ اے ابو سیار! تمام روئے زمین ہمارے لیے ہے جو کچھ ان زمینوں سے پیدا ہو وہ سب ہمارے لیے ہے۔ میں نے کہا: میں کل مال حاضر کر دوں فرمایا :اے ابو سیار! ہم نے اس کو تمہارے لیے پاک قرار دیا اور حالل و جائز کیا۔ اس کو اپنے مال میں شامل کر لو ہمارے شیعوں کے پاس جو کچھ از قسم زمین ہے وہ ان کے لیے حالل ہے جب تک قائم آل محمد کا ظہور ہو۔ وہ دشمنوں سے زمین کو نکال لیں گے اور ان کو ذلت سے باہر 24 کر دیں گے۔
عالمہ مجلسی نے مراة العقول ،جلد ،4صفحہ 347پر اس روايت کو صحیح قرار ديا ہے 24
اصول کافی ،اردو ترجمہ ،جلد ،2صفحہ 431-430
23
اس روايت ميں واضح طور پر ديکها جا سکتا ہے کہ ابو سيار نے کل چار الکه درہم کمائے ،اور اس کا پانچواں حصہ (اسی ہزار) وه امام عليہ السالم کے پاس لے کر آئے۔ يعنی صرف سہم امام نہيں ،بلکہ مکمل خمس امام کو ال کر ديا اور امام عليہ السالم نے ان سے قبول نہ فرمايا بلکہ کہا کہ امام القائم عليہ السالم کے ظہور تک اسے شيعوں کے ليے حالل قرار ديا
يہ روايت ہميں تہذيب االحکام ميں ايک اور سند کے ساته بهی ملتی ہے اس ميں کچه الفاظ مختلف ہيں۔ ميں اس حصے کو نقل کرتا ہوں
یا أبا سیار قد طیبناہ لك وحللناك منه فضم إلیك مالك وكل ما كان في أیدي شیعتنا من األرض فھم محللون ،ویحل لھم ذلك إلى أن یقوم قائمنا.25 اے ابو سیار! ہم نے تمہارے لیے اسے پاک کیا ،اور اسے تمہارے لیے حالل کر دیا تو اس کے تم مالک ہو۔ اور وہ سب کچھ جو ہمارے شیعوں کے ہاتھوں میں زمین میں سے ،وہ ان کے لیے حالل کر دیا گیا گیا ہے اس وقت تک جب ہمارا قائم قیام کرے اس روايت کو بهی عالمہ مجلسی نے مالذ االخيار فی فهم تہذيب االخبار، جلد ،6صفحہ 418ميں صحیح قرار ديا
روایت نمبر 2 25
تہذيب االحکام ،جلد ،4صفحہ 144
24
شيخ طوسی يہ روايت نقل کرتے ہيں
محمد بن الحسن الصفار عن الحسن بن الحسن ومحمد بن علي بن محبوب وحسن بن علي ومحسن بن علي بن يوسف جميعا عن محمد بن سنان عن حماد بن طلحة صاحب السابري عن معاذ بن كثير بياع األكسية عن أبي عبد ہللا عليه السالم قال :موسع على شيعتنا ان ينفقوا مما في أيديهم بالمعروف، فإذا قام قائمنا عليه السالم حرم على كل ذي كنز كنزه حتى يأتوه به يستعين .به
امام صادق علیہ السالم فرماتے ہیں کہ ہمارے شیعوں کے یہ گنجائش ہے کہ جو کچھ ان کے ہاتھ میں ہے ،اسے اچھے طریقے سے خرچ کریں۔ جب قائم علیہ السالم قیام کرے گا تو پھر مال رکھنے والے کا مال رکھنا حرام ہو گا جب تک ان کے پاس نہ لے آئے تاکہ القائم علیہ السالم اس 26 سے مستفید ہوں
روایت نمبر -:3
يہ کافی اہم روايت اس وجہ سے ہے کہ يہ ہمارے زمانے کے امام عليہ السالم سے مروی ہے۔ آپ نے اس کا يہ حصہ الزمی طور پر انہی خمس کے طلبگاروں سے سنا ہو گا جس ميں ہے 26
تہذيب االحکام ،جلد ،4صفحہ 143
25
وأما الحوادث الواقعة فارجعوا فیھا إلى رواة حدیثنا فإنھم حجتي علیكم وأنا 27 حجة هللا علیھم اردو ترجمے ميں يوں لکها گيا ہے . مسائل الشریعہ میں ہماری احادیث کے راویوں کی طرف رجوع کرو ،وہ تم پر ہماری حجت ہیں ،اور میں ان پر حجت ہوں حوادث الواقعہ کا ترجمہ نئے رونما ہونے والے واقعات بهی کيا جا سکتا ہے جو بات اس ميں اہم ہے ،وه يہ ہے کہ اس روايت ميں امام نے راويان حديث کی طرف رجوع کرنے کا حکم ديا ،مگر آپ اکثر ديکهيں گے کہ مولوی حضرات اسے مجتہدين کی طرف لے جاتے ہيں۔ اس روايت پر سير حاصل بحث کے ليے ہمارا مقالہ "تقليد فی الميزان" پڑهيے مگر اس سے زياده اہم بات يہ ہے کہ اسی روايت ميں امام سے خمس کے بارے ميں بهی سوال ہوا۔ اور ہميں يہ ملتا ہے وأما الخمس فقد أبیح لشیعتنا وجعلوا منه في حل إلى وقت ظھور أمرنا لتطیب والدتھم وال تخبث.28 خمس کو میں نے اپنے شیعوں کے لیے وقت ظہور تک حالل قرار دے دیا ہے تا کہ ان کی والدت پاکیزہ ہو (اور خباثت نہ آئے) امام القائم عليہ السالم نے بالکل واضح الفاظ ميں بتا ديا کہ ظہور تک خمس شيعوں کے ليے حالل ہے
27
کمال الدين و تمام النعمۃ ،جلد ،2صفحہ 512 28
کمال الدين ،جلد ،2صفحہ 513
26
کمال تو يہ ہے کہ مولوی حضرات اپنے فائدے کی بات تو اس ميں سے لے ليتے ہيں ،مگر اس حصے کو کبهی بهی پيش نہيں کرتے
27
خمس کی تقسیم کون کرے گا؟ ہم پہلے ہی ايک روايت ديکه چکے ہيں کہ ابو سيار مسمع نے چار الکه درہم کمائے ،اور اس ميں سے اسی ہزار درہم وه امام عليہ السالم کے پاس اليا۔ يعنی اس کا پانچواں حصہ چليے اس ضمن ميں ايک اور روايت ديکهتے ہيں شيخ کلينی نے يہ روايت درج کی أحمد ،عن أحمد بن محمد بن أبي نصر ،عن الرضا علیه السالم قال :سئل عن قول هللا عزوجل " :واعلموا أنما غنمتم من شئ فأن ہلل خمسه وللرسول ولذي القربى ( " )1فقیل له :فما كان ہلل فلمن ھو؟ فقال :لرسول هللا صلى هللا علیه وآله وما كان لرسول هللا فھو لالمام فقیل له :أفرأیت إن كان صنف من االصناف أكثر وصنف أقل ،ما یصنع به؟ قال :ذاك إلى االمام أرأیت رسول هللا صلى هللا علیه وآله كیف یصنع؟ ألیس إنما كان یعطي على ما .یرى؟ كذلك االمام امام رضا علیہ السالم سے سوال اس آیت کے بارے میں سوال ہوا " واعلموا أنما غنمتم من شئ فأن ہلل خمسه وللرسول ولذي القربى" کہ هللا کا حصہ کس کے لیے ہے؟ امام نے فرمایا کہ رسول هللا صلی هللا علیہ و آلہ وسلم کے لیے ،اور جو ان کے لیے ہے ،وہ امام کے لیے ہے۔ پھر سوال ہوا کہ اگر مستحقین کے گروہ میں کچھ زیادہ ہوں اور کچھ کم تو کیا کیا جائے گا؟َ امام نے جواب دیا کہ وہ امام کی مرضی ہے ،کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ رسول هللا صلی هللا علیہ و آلہ وسلم نے کیا؟ کیا وہ
28
اپنی صوابدید کے مطابق خرچ نہیں کرتے تھے؟ پس ویسے ہی امام کے 29 لیے ہے عالمہ مجلسی نے اس روايت کو مراة العقول ،جلد ،6صفحہ 270ميں صحيح قرار ديا اسی طرح کی ايک روايت تہذيب االحکام اور الکافی ميں بهی ملتی ہے روايت کافی طويل ہے ،ہم اس کا کچه حصہ پيش کر رہے ہيں امام موسی عليہ السالم سے منقول ہے ويقسم بينهم الخمس على ستة اسهم ،سهم هلل عز وجل وسهم لرسول ہللا صلى ہللا عليه وآله ،وسهم لذي القربى ،وسهم لليتامى وسهم للمساكين ،وسهم البناء السبيل ،فسهم ہللا وسهم رسوله لرسول ہللا صلى ہللا عليه وآله ،وسهم ہللا وسهم رسوله لولي االمر بعد رسول ہللا صلى ہللا عليه وآله وراثة فله ثالثة اسهم سهمان وراثة وسهم مقسوم له من ہللا فله نصف الخمس كمال ،ونصف الخمس الباقي بين أهل بيته سهم اليتامهم وسهم لمساكينهم وسهم البناء سبيلهم يقسم بينهم على الكفاف والسعة ما يستغنون به في سنتهم ،فان فضل عنهم شئ يستغنون عنه فهو للوالي ،وان عجز أو نقص عن استغنائهم كان على الوالي ان ينفق من عنده بقدر ما يستغنون به وانما صار عليه أن يمونهم الن له ما فضل عنهم اور پھر اس خمس کو چھ حصوں میں تقسیم کرتے۔ سہم هللا ،سہم رسول، سہم ذی القربی ،سہم یتیم ،سہم مسکین اور مسافروں کا سہم۔ سہم هللا رسول کے لیے ہے ،اور یہ دونوں بعد از رسول ولی امر کے لیے ہیں۔ پس ان کے لیے تین سہم ہوئے یعنی نصف خمس۔ اور باقی نصف ان کی اہل بیت کے لیے یوں ہے کہ یتیموں کا سہم ،مسکینوں کا سہم اور 29
الکافی ،جلد ،1صفحہ 544
29
مسافروں کا سہم۔ اور امام ان کے درمیان اس طرح سے انہیں تقسیم کرے گا کہ وہ ان کے لیے ایک سال تک کافی ہو۔ اگر وہ مال اس سے زیادہ ہوا ،تو پھر وہ ولی/امام کا ہو گا ،تاہم اگر وہ کم ہوا ،تو پھر یہ ولی پر ہو گا کہ ان کو اتنا دے کہ وہ بے نیاز ہو سکیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر 30 وہ مال زیادہ ہو تو وہ ملے گا بھی امام کو
اس ضمن ميں ہم محمد حسين ڈهکو کی کتاب ،قوانين الشريعہ ،جلد ،1 صفحہ 448پر ان کی تحقيق پڑهتے ہيں "جو کچھ احادیث ال محمد تتبع و استقراء سے واضح و آشکارہ ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ امام وقت کی موجودگی میں ہر دو سہم (سہم امام و سہم سادات کرام) خدمت امام میں پیش کیے جائیں گے اور وہ سہم سادات کو ان کے استحقاق کے مطابق ان پر صرف کریں گے۔ اگر ان کا حصہ ان کی ضروریات کے لیے ناکافی ہو تو امام اپنے حصے سے بطور تتمہ و تکملہ ان کو دیں گے۔۔۔۔۔"
اس آخری نکتے پر توجہ ديں کہ اگر سادات کے پاس سال گذارنے کے وسائل نہ ہوں تو امام اپنے حصے سے ان کو مال ديں گے کبهی غور کيجيے گا کہ آپ کے ارد گرد کتنے سيد آج غربت کا شکار ہيں۔ کيا آج کے يہ خمس خور مولوی اس بات کو توجہ دے رہے ہيں؟ اس بات پر توجہ ديجيے گا۔۔۔۔۔۔
30
الکافی ،جلد ،1صفحہ 540؛ تہذيب االحکام ،جلد ،4صفحہ 128
30
وہ روایات جن سے خمس نہ دینے والوں پر حجت قائم کی جاتی ہے
روایت نمبر 1
شيخ صدوق نے روايت نقل کی ،ہم اسے وسائل الشيعہ سے نقل کرتے ہيں
محمد بن علي بن الحسين في (إكمال الدين) عن محمد بن أحمد السناني وعلي بن أحمد بن محمد الدقاق والحسين بن إبراهيم بن أحمد بن هشام المؤدب وعلي بن عبد ہللا الوراق جميعا عن أبي الحسين محمد بن جعفر األسدي قال :كان فيما ورد على [من] الشيخ أبي جعفر محمد بن عثمان العمري قدس ہللا روحه في جواب مسائلي إلي صاحب الدار عليه السالم :وأما ما سألت عنه من أمر من يستحل ما في يده من أموالنا ويتصرف فيه تصرفه في ماله من غير أمرنا :فمن فعل ذلك فهو ملعون ونحن خصماؤه ،فقد قال النبي صلى ہللا عليه وآله المستحل من عترتي ما حرم ہللا ملعون على لساني ولسان كل نبي مجاب، فمن ظلمنا كان من جملة الظالمين لنا ،وكانت لعنة ہللا عليه لقوله عز وجل: ﴿أال لعنة ہللا على الظالمين﴾ (ع) ء إلى أن قال :ء وأما ما سألت عنه من أمر الضياع التي لناحينا هل يجوز القيام بعمارتها وأداء الخراج منها وصرف ما يفضل من دخلها إلى الناحية احتسابا لألجر وتقربا إليكم ؟ فال يحل ألحد أن !يتصرف في مال غيره بغير إذنه ،فكيف يحل ذلك في مالنا؟
31
من فعل شيئا من ذلك لغير (خ) أمرنا (ط) فقد استحل مناما حرم عليه ،ومن .أكل من مالنا (ح) شيئا فإنما يأكل في بطنه نارا وسيصلى سعيرا ابو حسین االسدی کہتے ہیں کہ مجھے جو جواب شیخ ابو جعفر العمری کی طرف سے موصول ہوا ،جس میں امام زمانہ علیہ السالم نے میرے مسائل کا جواب دیا تھا ،اس میں تھا اور جہاں تک تمہارے سوال اس کے بارے میں جو ہمارے اس مال کو جو اس کے پاس ہے ،اسے اپنے لیے حالل سمجھتا ہے اور اس میں تصرف کرتا ہے جیسے کہ اپنے مال میں بغیر ہماری اجازت کے ،تو جس نے ایسا کیا ،وہ ملعون ہے ،اور ہم اس کے دشمن ہیں۔ رسول هللا صلی هللا علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے میری عترت کے حق میں سے کچھ اپنے لیے حالل سمجھا ،وہ میری اور ہر نبی کی زبان سے ملعون ہے ،پس جس نے ہم پر ظلم کیا ،وہ ظالمین میں ہے ،اور هللا کی لعنت ہے اس پر جیسا کہ هللا نے کہا "آگاہ ہو جاؤ هللا کی ظالمین پر لعنت ہو"۔ اور جہاں تک یہ سوال کہ جو ہماری زمینیں آباد کرے اور خراج ادا کرے اور باقی کو تقرب الہی کے لیے بھیجے؟ تو کسی کو بھی جائز نہیں کہ دوسرے کا مال میں تصرف کرے بغیر اس کی اذن کے ،تو پھر ہمارے مال میں کیوں جائز ہو؟ جو ایسا کرے گا کہ ہماری اجازت کے بغیر اپنے لیے حالل قرار دے گا جو اس پر حرام ہے ،اور ہمارے مال میں سے کھائے گا کچھ بھی ،پس اس نے اپنے پیٹ کو آگ سے بھرا جو عنقریب 31 بھڑک اٹھے گی
اس سند کے بارے ميں عالمہ خوئی صاحب کی رائے ديکهتے ہيں۔ ابو جعفر محمد بن حسين االسدی کے بارے ميں بيان کرتے ہوئے کہتے ہيں 31
وسائل الشيعہ ،جلد ،9صفحہ 540
32
وطریق الصدوق إلیه :علي بن أحمد بن موسى ،والحسین بن إبراھیم بن أحمد ابن ھاشم المؤدّب ،ومحمد بن أحمد السناني :رضي ّ اّلل عنھم ؤ ،عن أبي الحسین محمد بن جعفر االسدي الكوفي ،والطریق غیر صحیح ال ّن مشایخ الصدوق لم یرد فیھم توثیق شیخ صدوق کی ان تک سند یوں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ سند صحیح نہیں کیونکہ 32 شیخ صدوق کے مشائخ کی توثیق وارد نہیں
سند کے ضعف سے قطع نظر ،اس روايت ميں ہميں کافی اہم باتيں معلوم ہوتی ہيں، ايک تو يہ کہ امام عليہ السالم نے واضح طور پر بتايا کہ يہ ان لوگوں کے ليے ہے جو ائمہ عليهم السالم کا مال بغير ان کی اجازت کے خرچ کريں، اور ائمہ عليهم السالم نے اپنے شيعوں کو اس کی اجازت دی ہے ،جو کہ ہم پہلے ہی کافی روايات ميں دکهال چکے ہيں مگر سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ جو يہ دعوی کر رہے ہيں کہ ہم نائبين امام ہيں ،اس وجہ سے ان کا حصہ ہميں ديا جائے۔۔۔۔۔ ان کے پاس کيا دليل ہے؟ کيا وه ہميں ايک بهی روايت دکها سکتے ہيں کہ جس ميں امام عليہ السالم نے يہ کہا ہو کہ ميری غيبۃ ميں تم خمس کے دو حصے کرنا ،اور سہم امام اس مجتہد کو دينا کہ جس کی تم تقليد کرتے ہو؟ دوسرا يہ کہ اگر وه شخص تقرب الہی کے ليے بهی وه مال خرچ کر رہا ہو ،تو اس کی اجازت نہيں ہے۔ يہ اہم نکتہ اس ليے ہے کہ اکثر سہم امام کے طلبگار يہی نعره لگاتے ہيں کہ ہم اس سے اچهے کام کرتے ہيں 32
معجم رجال الحديث ،جلد ،16صفحہ 165
33
روایت نمبر 2
عالمہ کلينی نے يہ روايت نقل کی سهل ،عن أحمد بن المثنى قال :حدثني محمد بن زيد الطبري قال :كتب رجل من تجار فارس من بعض موالي أبي الحسن الرضا عليه السالم يسأله االذن .في الخمس فكتب إليه بسم ہللا الرحمن الرحيم ،إن ہللا واسع كريم ،ضمن على العمل الثواب وعلى الضيق الهم ،ال يخل مال إال من وجه أحله ہللا وإن الخمس عوننا على ديننا وعلى عياالتنا وعلى موالينا ،وما نبذله ونشتري من أعراضنا ممن نخاف سطوته ،فال تزووه عنا وال تحرموا أنفسكم دعاءنا ما قدرتم عليه ،فإن إخراجه مفتاح رزقكم وتمحيص ذنوبكم ،وما تمهدون ألنفسكم ليوم فاقتكم والمسلم من .يفي هلل بما عهد إليه وليس المسلم من أجاب باللسان وخالف بالقلب ،والسالم محمد بن زید طبری کہتے ہیں کہ فارس کے کچھ تاجروں نے جو امام رضا علیہ السالم کے موالی تھے ،انہوں نے امام کو خط لکھا کہ ہمیں خمس کی اجازت دی جائے۔ اس پر امام علیہ السالم نے جواب لکھا ﷽ هللا واسع و کریم ہے۔ اس نے نیک عمل کرنے پر ثواب اور گناہ پر سزا کا وعدہ کیا ہے ۔ مال حالل نہیں ہوتا مگر سوائے اس طریقے کے کہ جو هللا نے بتالیا ہے۔ اس خمس کے سبب ہم دین و اہل و عیال ہر موالیان کا خیال کرتے ہیں۔ خرچ کرتے ہیں ،خریدتے ہیں اور اپنے دشمنوں سے اپنا بچاؤ کرتے ہیں۔ اس لیے اسے نہ روکو اور ہماری دعاؤں سے خود کو دور نہ کرو۔ اس کی ادائیگی تماری رزق کی ضامن ہے ،اور گناہوں کی بخشش کا
34
ذریعہ ہے ،اور فاقے والے دن ،یعنی قیامت ،کا ذخیرہ ہے۔ مسلمان وہ ہے کہ جو هللا سے عہد کو پورا کرے ،اور وہ مسلمان نہیں جو زبان سے تو 33 دعوی کرے ،مگر دل سے مخالفت۔ والسالم
عالمہ مجلسی نے مراة العقول ،جلد ،6صفحہ 547پر اس روايت پر حکم لگايا "ضعیف علی المشہور" سند کے ضعف سے قطع نظر چند اہم پہلو ہمارے سامنے ضرور ہونے چاہيں ايک تو يہ کہ ہم معتبر روايات ميں ديکه چکے ہيں کہ ائمہ عليهم السالم نے "اپنے شيعوں" کے ليے خمس کو حالل کيا تها ،اور اس روايت ميں ہميں ايک جملہ ملتا ہے " مسلمان وہ ہے کہ جو هللا سے عہد کو پورا کرے ،اور وہ مسلمان نہیں جو زبان سے تو دعوی کرے ،مگر دل سے مخالفت۔" يہ الفاظ ان لوگوں کے اہل تشيع ميں سے ہونے پر سواليہ نشان لگاتے ہيں ياد رہے کہ امام رضا عليہ السالم مامون کے ولی عہد تهے ،اور ظاہر ہے کہ کئی لوگ ان کا اس سبب تقرب حاصل کرنے کے چکر ميں ہوں گے دوسرا اہم پہلو يہ ہے کہ اگر ،اور ميں دوباره کہتا ہوں کہ اگر مان بهی ليا جائے کہ اس موقع پر امام رضا عليہ السالم نے خمس کے شيعوں کے حالل ہونے کو ختم بهی کيا ہو ،اور ظاہر ہے کہ يہ ايک مفروضہ ہے ،تو 33
الکافی ،جلد ،1صفحہ 548-547
35
بهی اس کا آج کے زمانے ميں اطالق نہيں کيا جا سکتا کيونکہ آج کے امام نے اسے حالل کيا ہے اگر کوئی يہ نکتہ اٹهائے کہ امام زمانہ والی توقيع تو سند کے لحاظ سے ضعيف ہے ،تو يہ روايت بهی سند کے لحاظ سے ضعيف ہے ،پهر اس صورت ميں اس سے بهی استدالل قائم نہيں کيا جا سکتا
روایت نمبر 3
الکافی کی اگلی روايت ميں ہميں يہ ملتا ہے
وبهذا االسناد ،عن محمد بن زيد قال :قدم قوم من خراسان على أبي الحسن الرضا عليه السالم فسألوه أن يجعلهم في حل من الخمس ،فقال :ما أمحل هذا تمحضونا بالمودة بألسنتكم وتزوون عنا حقا جعله ہللا لنا وجعلنا له وهو .الخمس ال نجعل ،ال نجعل ،ال نجعل الحد منكم في حل
اسی سند کے ساتھ مروی ہے کہ محمد بن زید نے کہا کہ خراسان سے ایک قوم امام رضا علیہ السالم کے پاس آئی ،اور ان سے سوال کیا کہ خمس کو ہمارے لیے حالل کیا جائے۔ امام نے جواب دیا "یہ کیا حیلہ ہے کہ تم زبان سے تو ہماری محبت کا اظہار کرتے ہو ،مگر ہمارا حق روکتے ہو جا هللا نے ہمارے لیے قرار دیا ،اور وہ خمس ہے۔ ہم تم میں سے کسی ایک کے لیے بھی اسے نہیں حالل کرتے ،نہیں حالل کرتے
36
عالمہ مجلسی نے اس سند پر بهی وہی حکم لگايا ،يعنی ضعیف علی المشہور۔ ديکهيے مراة العقول ،جلد ،6صفحہ 286
اگر آپ دوباره پچهلی حديث پر ہمارا تجزيہ پڑهيں ،تو آپ کو يہ روايت بهی ويسے ہی لگے گی کچه لوگ ہيں ،جو امام کے پاس آ کر زبانی دعوی کرتے ہيں ؛ اور امام اسے رد کرتے ہيں صاف ظاہر ہے کہ يہ شيعہ نہيں تهے۔
روایت نمبر 4
يہ روايت ايک بار ميرے سامنے پيش کی گئی ،بنيادی وجہ يہ ہے کہ اسنادی طور پر روايت کافی مضبوط ہے ،اس وجہ سے پيش کرنے والے نے اس سے دليل پکڑی اب ہو سکتا ہے کہ يہ روايت آپ حضرات کے سامنے بهی پيش کی جائے، اس وجہ سے ميں نے سوچا کہ اس کی وضاحت کرتا چلوں عالمہ کلينی و شيخ طوسی نے اس روايت کو نقل کيا علي بن إبراهيم ،عن أبيه قال :كنت عند أبي جعفر الثاني عليه السالم إذ دخل عليه صالح بن محمد بن سهل وكان يتولى له الوقف بقم (ء) ،فقال يا سيدي اجعلني من عشرة آالف في حل ،فإني أنفقتها ،فقال له :أنت في حل ،فلما خرج صالح ،قال أبو جعفر عليه السالم :أحدهم يثب على أموال حق آل محمد وأيتامهم ومساكينهم و فقرائهم وأبناء سبيلهم فيأخذه ثم يجئ فيقول :اجعلني في
37
حل ،أتراه ظن أني أقول :ال أفعل ،وہللا ليسألنهم ہللا يوم القيامة عن ذلك سؤاال .حثيثا ابراہیم بن ہاشم فرماتے ہیں کہ ہم امام تقی علیہ السالم کے پاس تھے کہ صالح بن محمد بن سہل آیا ،وہ قم میں وقف کا متولی تھا۔ اس نے کہا کہ میرے سردار! میں نے دس ہزار استعمال کر لیے ہیں ،وہ مجھے حالل کر دیں۔ امام نے فرمایا کہ تمہارے لیے حالل کر دیے۔ جب صالح چال گیا ،تو محمد اور ان کے یتیمیوں، امام علیہ السالم نے فرمایا :اس نے آل ؐ مسکینوں ،غریبوں ،اور مسافروں کے حق پر حملہ کیا ،اور پھر میرے پاس آ کر کہتا ہے کہ میرے لیے حالل کر دیں ،اس کا گمان تھا کہ میں ایسا نہ کروں گا۔ خدا کی قسم ! هللا قیامت والے دن ان سے سوال کرے 34 گا اب يہ روايت خمس کے بارے ميں ہے نہيں ،بلکہ "وقف" کے بارے ميں ہے۔ صالح بن محمد امام کے وقف کا متولی تها ،اور اس ميں سے پيسے کها گيا تها۔ وقف يہ ہے کہ آپ کوئی شے کسی نيک مقصد کے ليے مختص کر ديں۔ يہ آپ کی ملکيت سے نکل جاتی ہے ،مثال آپ طلباء کے ليے کتب وقف کر ديں۔ کوئی کنواں وقف کر ديں۔ اب اگر کوئی باغ وغيره کی آمدنی کو وقف کيا ہے ،تو اس کا متولی بهی بنايا جا سکتا ہے مثال کے طور پر سستانی صاحب کی ويب سائٹ پر يہ لکها ہے
34
الکافی ،جلد ،1صفحہ 548
38
۲۶۹۴۔ جو چیز کسی شخص نے وقف کی ہو اگر اس نے اس کا متولی بھی معین کیا ہو تو ضروری ہے کہ ہدایات کے مطابق عمل ہو
https://www.sistani.org/urdu/book/61/3656/
مجهے نہيں معلوم کہ اس سے خمس پر کيوں دليل لی جا رہی ہے؟ ہاں اگر يہ دليل لی جائے کہ آل محمد کا مال کها جائيں تو عذاب ہے ،تو اس صورت ميں تو يہ بات ان لوگوں پر صادق آتی ہے کہ جنہوں نے خود کا نائب امام بنا کر ان کا حصہ بٹورنا شروع کيا ہوا ہے ۔ کيا ان کے پاس کوئی دليل ہے کہ امام عليہ السالم نے کہا ہو کہ ہمارا حصہ انہيں دو؟؟؟ مگر ہوتا يہ ہے کہ اس طرح کی روايات دکها کر لوگوں کو ڈرا ديا جاتا ہے ،اور پهر ان سے خمس لے ليا جاتا ہے
روایت نمبر -:5 شيخ صدوق نے يہ روايت نقل کی حدثنا أبو جعفر محمد بن محمد الخزاعي رضي ہللا عنه قال :حدثنا أبو علي ابن أبي الحسين االسدي ،عن أبيه رضي ہللا عنه قال :ورد علي توقيع من الشيخ أبي جعفر محمد بن عثمان العمري ء قدس ہللا روحه ء إبتداء لم يتقدمه سؤال " بسم ہللا الرحمن الرحيم لعنة ہللا والمالئكة والناس أجمعين على من استحل من مالنا درهما " قال أبو الحسين االسدي رضي ہللا عنه :فوقع في نفسي أن ذلك فيمن استحل من مال الناحية درهما دون من أكل منه غير مستحل له .وقلت في نفسي :إن ذلك في جميع من استحل محرما ،فأي فضل في ذلك للحجة عليه السالم على غيره ؟ قال :فوالذي بعث محمدا بالحق بشيرا
39
لقد نظرت بعد ذلك في التوقيع فوجدته قد انقلب إلى ما وقع في نفسي " :بسم ہللا الرحمن الرحيم لعنة ہللا والمالئكة والناس أجمعين على من أكل من مالنا ".درهما حراما ابو حسین االسدی کہتے ہیں کہ ابو جعفر عمری نے مجھے توقیع دی امام زمانہ علیہ السالم کی جانب سے ،میرے سوال پوچھنے سے پہلے ،جس میں لکھا تھا ﷽ هللا و مالئکہ و تمام انسانوں کی لعنت ہو اس پر ہمارے مال میں سے ایک درھم کو بھی حالل سمجھے ابو حسین اسدی کہتے ہیں کہ میرے دل میں آیا کہ یہ تو کسی حرام کو حالل سمجھنے والے کے لیے ثابت ہے ،پھر امام علیہ السالم کی اس میں محمد کو حق کے ساتھ کیا فضیلت ہے؟ پھر اس ذات کی قسم جس نے ؐ بشارت دینے واال بنا کر بھیجا ،جب میں نے اس توقیع کو دیکھا تو اس میں تھا ﷽ هللا و مالئکہ و تمام انسانوں کی لعنت ہو اس پر ہمارے مال میں سے ایک 35 درھم بھی حرام طریقے سے کھائے
اب اس روايت کے الفاظ کو لے بهی شيعہ حضرات کو ڈرانے کا بندوبست کيا جاتا ہے
35
کمال الدين و تمام النعمہ ،صفحہ 522
40
حاالنکہ يہ بهی ان لوگوں پر صادق آتا ہے جو يہ کہہ کر جهوٹ بول رہے ہيں کہ سہم امام تو آپ اس مجتہد کو دو جس کی تقليد کر رہے ہو اب يہ کس روايت ميں ہے؟ کس امام نے ان کو اجازت دی؟ کيا جهوٹ بول کر لوگوں سے سہم امام اکٹها کر کے کهانے واال ملعون نہ ہوا؟؟؟ اگر اسنادی طور پر اس روايت کا جائزه ليا جائے ،تو اس ميں محمد بن محمد الخزاعی کا آغہ جواہری نے المفيد من معجم رجال الحديث ،صفحہ 575پر مجہول کہا ہے
خالصہ
اس طرح کی روايات کو استعمال کر کے شيعہ حضرات کو ڈرا ديا جاتا ہے کہ اگر آپ خمس نہيں دو گے ،تو بربادی آپ کا مقدر ہے حاالنکہ آپ غور سے پڑهيں گے تو معلوم ہو گا کہ ان ميں زياده تر تو شيعان اہل بيت کے بارے ميں ہيں ہی نہيں۔ اور اوپر سے ان ميں کئی ضعيف السند ہے۔ باقی ہر جگہ ميں تو يہ خمس خور علم الرجال کے نعرے بلند کرتے نظر آتے ہيں ،مگر يہاں پر بالکل خاموشی اختيار کر ليتے ہيں اور آج کے شيعہ حضرات کی يہ ال علمی ان کو اچها خاصا بزنس دے رہی ہے
41
زمانہ غیبۃ میں خمس کی تقسیم کے بارے میں شیعہ علماء کا اختالف آج کل کے زمانے ميں يہ بات کافی حيران کن لگتی ہے کيونکہ اس قدر شور مچايا جا چکا ہے کہ آپ کو يہ بات ہی صحيح لگے گی کہ خمس کے دو حصے کرنے ہيں ،اور پهر آدها حصہ سادات کو دے دينا ہے ،اور آدها اس مجتہد کو جس کی آپ تقليد ميں ہو مگر حقيقت يہ ہے کہ اس ضمن ميں شديد اختالف ہے مثال کے طور پر حمزه بن عبدالعزيز الديلمی سالر کا تعلق پانچويں صدی ہجری سے ہے۔ مشہور شيعہ فقيہ ہيں ،اور ان کی کتاب ،المراسم فی الفقہ االمامی ،کافی مشہور ہے اس کتاب ميں صفحہ 141پر فرماتے ہيں و فی هذا الزمان قد احلونا فيما نتصرف فيہ من ذلک کرما و فضال لنا خاصہ اس زمانے میں (یعنی غیبۃ کبری میں) یہ ہمارے لیے حالل کر دی گئی ہے تو ہم اس میں تصرف کر سکتے ہیں ،اور یہ ہمارے لیے خاص کرم و فضل ہے
اگر ہم اس معاملے پر تحقيق کريں تو معلوم پڑے گا کہ اس ضمن ميں 15 مختلف اقوال ہيں۔
42
مقالے کو طوالت سے بچانے کے ليے ہم اس کے ليے محمد حسين ڈهکو کی تحقيق پيش کرتے ہيں۔ يہ انہوں نے اپنی کتاب ،قوانين الشريعہ ،جلد ،1 صفحہ 449پر درج کی ہے اپنا وقت بچانے کے ليے ميں انہی کی کتاب سے اسکين يہاں پر لگا رہا ہوں
43
44
45
46
47
48
اس تحقيق پر ہماری رائے يہ ہے کہ کسی بهی شے ميں حجت صرف قول معصوم عليہ السالم ہے وگرنہ اس کی کوئی اہميت نہيں مثال کے طور يہ کہنا کہ خمس نکال کر رکه ديا جائے ،اور جب انتقال ہونے لگے تو کسی کو وصيت کر دی جائے کہ آگے لے کر جايا جائے يا يہ کہ خمس کو نکال کر زمين ميں دفن کر ديا جائے يہ کس حديث ميں مروی ہے؟؟؟ لوگوں کو حیران و پریشان کرنے کے لیے تو یہ بہترین حکمت عملی معلوم ہوتی ہے کہ انہیں کہا جائے کہ زمین میں دفنا دو یا کسی کو دے دو وغیرہ؛ اور جب وہ کہے کہ جناب یہ تو قابل عمل نہیں تو کہا جائے کہ اچھا چلو پھر ہمیں دے دو ،ہمیں کسی جگہ لگا دیں گے ديکهيے حجت صرف امام عليہ السالم کا قول ہے۔ اگر تو کسی امام نے يہ کہا ہے کہ زمين ميں دفنا دو يہ کچه بهی اور ،پهر تو ہميں منظور ہے، وگرنہ کسی غير معصوم کا قول حجت نہيں دو روايات دوباره آپ کی خدمت ميں پيش کرتے ہيں محمد بن يحيى ،عن أحمد بن محمد ،عن ابن محبوب ،عن عمر بن يزيد قال رأيت مسمعا بالمدينة وقد كان حمل إلى أبي عبد ہللا عليه السالم تلك السنة ماال فرده أبو عبد ہللا عليه السالم فقلت له :لم رد عليك أبي عبد ہللا المال الذي حملته إليه؟ قال :فقال لي :إني قلت له حين حملت إليه المال :إني كنت وليت البحرين الغوص فأصبت أربعمائة ألف درهم وقد جئتك بخمسها بثمانين ألف درهم وكرهت أن أحبسها عنك وأن أعرض لها وهي حقك الذي جعله ہللا تبارك وتعالى في أموالنا ،فقال :أو ما لنا من األرض وما أخرج ہللا منها إال الخمس يا
49
أبا سيار؟ إن األرض كلها لنا فما أخرج ہللا منها من شئ فهو لنا ،فقلت له :وأنا أحمل إليك المال :كله؟ فقال :يا أبا سيار قد طيبناه لك وأحللناك منه فضم إليك مالك ،وكل ما في أيدي شيعتنا من األرض فهم فيه محللون حتى يقوم قائمنا فيجبيهم طسق (ء) ما كان في أيديهم ويترك األرض في أيديهم وأما ما كان في أيدي غيرهم فإن كسبهم من األرض حرام عليهم حتى يقوم قائمنا ،فيأخذ األرض من أيديهم ويخرجهم صغرة (ع).36 عمر بن یزید سے مروی ہے کہ میں مسمع کو مدینہ میں کہتے سنا کہ میں اس سال کچھ مال امام جعفر صادق علیہ السالم کے پاس لے گیا۔ آپ نے اسے رد کر دیا۔ میں نے پوچھا کیوں رد کیا۔ اس نے حضرت سے کہا :میں بحرین میں غوطہ خوری پر مامور ہوا ،اور وہاں سے میں نے چار الکھ درہم کے موتی حاصل کئے جس کا خمس اسی ہزار درہم آپ کی خدمت میں الیا ہوں۔ میں نے اس امر کو برا سمجھا کہ جو آپ کا حق ہے، اسے روکوں اور روگردانی کروں۔ جبکہ هللا نے ہمارے اموال میں اس حق کو مقرر فرمایا ہے۔ آپ نے فرمایا :کیا زمین اور اس کی پیداوار میں ہمارا حق بس خمس ہی ہے۔ اے ابو سیار! تمام روئے زمین ہمارے لیے ہے جو کچھ ان زمینوں سے پیدا ہو وہ سب ہمارے لیے ہے۔ میں نے کہا: میں کل مال حاضر کر دوں فرمایا :اے ابو سیار! ہم نے اس کو تمہارے لیے پاک قرار دیا اور حالل و جائز کیا۔ اس کو اپنے مال میں شامل کر لو ہمارے شیعوں کے پاس جو کچھ از قسم زمین ہے وہ ان کے لیے حالل ہے جب تک قائم آل محمد کا
36
الکافی ،ج ،1صفحہ 408
50
ظہور ہو۔ وہ دشمنوں سے زمین کو نکال لیں گے اور ان کو ذلت سے باہر 37 کر دیں گے۔ اس روايت ميں واضح طور پر ديکها جا سکتا ہے کہ چار الکه ميں سے اسی ہزار وه لے کر امام عليہ السالم کے پاس آئے ،اور امام نے ان سے کہا کہ اسے اپنے مال ميں شامل کر لو۔۔۔۔۔۔۔ يعنی وه 5/1حصہ لے کر آئے ،اور اس ميں کوئی تقسيم ہميں نظر نہيں آتی ايک اور روايت ديکهيے خود امام زمانہ عليہ السالم سے جو روايت نقل ہوئی ،وه يہ ہے وأما الخمس فقد أبیح لشیعتنا وجعلوا منه في حل إلى وقت ظھور أمرنا لتطیب والدتھم وال تخبث.38 خمس کو میں نے اپنے شیعوں کے لیے وقت ظہور تک حالل قرار دے دیا ہے تا کہ ان کی والدت پاکیزہ ہو (اور خباثت نہ آئے) اب اس پر خود ڈهکو صاحب نے صفحہ 452پر يہ کہا "اگرچہ اس توقیع مبارک کے ظاہری الفاظ سے علی االطالق خمس کی اباحت مترشح ہوتی ہے لیکن جمع بین االولہ کا تقاضہ یہ ہے کہ اس تعبیر کو مجاز پر محمول کیا جائے اور اس حلت و اباحت کو امام کے اپنے حق (سہم امام) کے ساتھ مخصوص کیا جائے کیونکہ ہر شخص اپنے حق کے مباح کرنے کا مجاز ہوتا ہے نہ کہ دوسروں کے حقوق کا"
37
اصول کافی ،اردو ترجمہ ،جلد ،2صفحہ 431-430 38
کمال الدين ،جلد ،2صفحہ 513
51
قارئين کرام! جو روايت آپ کی خدمت ميں ہم نے الکافی سے پيش کی ہے ،وه جس باب سے ہے ،اس کا نام ہے
ان االرض کلھا لالمام علیہ السالم یعنی کل زمین امام علیہ السالم کی ملکیت ہے اور اگر آپ روايت پر توجہ ديں ،تو مسمع نے جب امام عليہ السالم سے کہا کہ ميں نے چار الکه کمائے اور اس ميں سے يہ اسی ہزار کا خمس ہے ،تو امام عليہ السالم نے کيا کہا؟ کیا زمین اور اس کی پیداوار میں ہمارا حق بس خمس ہی ہے۔ اے ابو سیار! تمام روئے زمین ہمارے لیے ہے جو کچھ ان زمینوں سے پیدا ہو وہ سب ہمارے لیے ہے۔ میں نے کہا :میں کل مال حاضر کر دوں اور ڈهکو صاحب ہميں يہ بتا رہے ہيں کہ امام بس اپنے حق کو مباح کر سکتے ہيں؟؟؟ ہاں اس مقام پر خمس کهانے والوں کو فوری طور پر سادات کی ہمدردی جاگ اٹهتی ہے کہ يہ کيا کريں گے؟ مگر آپ کبهی غور کرنا ،کئی سادات غربت کا شکار ہيں۔ ہاں خمس کے يہ بيوپاری اس رقم پر زندگی گذار رہے ہيں – ہاں لوگوں کو دکهانے کے ليے وه يہ مال اچهے کاموں ميں بهی لگاتے ہيں ،مگر جيسا کہ ايک روايت ميں ہم نے ديکها تها کہ امام زمانہ عليہ السالم نے فرمايا وأما ما سألت عنه من أمر الضياع التي لناحينا هل يجوز القيام بعمارتها وأداء الخراج منها وصرف ما يفضل من دخلها إلى الناحية احتسابا لألجر وتقربا إليكم ؟ فال يحل ألحد أن يتصرف في مال غيره بغير إذنه ،فكيف يحل ذلك في !مالنا؟
52
من فعل شيئا من ذلك لغير (خ) أمرنا (ط) فقد استحل مناما حرم عليه ،ومن .أكل من مالنا (ح) شيئا فإنما يأكل في بطنه نارا وسيصلى سعيرا اور جہاں تک یہ سوال کہ جو ہماری زمینیں آباد کرے اور خراج ادا کرے اور باقی کو تقرب الہی کے لیے بھیجے؟ تو کسی کو بھی جائز نہیں کہ دوسرے کا مال میں تصرف کرے بغیر اس کی اذن کے ،تو پھر ہمارے مال میں کیوں جائز ہو؟ جو ایسا کرے گا کہ ہماری اجازت کے بغیر اپنے لیے حالل قرار دے گا جو اس پر حرام ہے ،اور ہمارے مال میں سے کھائے گا کچھ بھی ،پس اس نے اپنے پیٹ کو آگ سے بھرا جو عنقریب 39 بھڑک اٹھے گی تو سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ کيا ان کو امام عالی مقام عليہ السالم نے يہ اجازت دی ہے کہ تم لوگ ميرے سہم کو وصول کرو؟؟؟ يہ بہت اہم سوال ہے جس کا جواب کبهی نہيں ديا جاتا کوئی ايک روايت يہ دکها ديں کہ جس ميں امام عليہ السالم نے يہ کہا ہو کہ سہم امام اس مجتہد کو دے دو جس کی تم تقليد کرتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
39
وسائل الشيعہ ،جلد ،9صفحہ 540
53
تو پھر غریب سادات کا کیا کریں؟ جب کوئی اور بات نہيں بن پڑتی تو پهر يہاں پر فوری طور پر سادات کا درد جاگ اٹهتا ہے ،اور يہ نعره بلند کر ديا جاتا ہے کہ غريب سادات کا کيا بنے گا؟ حاالنکہ حقيقت يہ ہے کہ آپ کو کئی سادات آج بهی کسمپرسی کی حالت ميں مليں گے جب کہ خمس بٹورنے والوں نے اپنی پوری مشينری کا کهڑا کر ديا ہے بلکہ ابهی مجهے ايک موصوف نے کہا کہ ديکهيے ہمارے علماء کتنے اچهے ہيں کہ ذاکرين کے برعکس مفت ميں مجالس پڑهتے ہيں ميں نے انہيں يہی کہا کہ محترم! وه مفت ميں نہيں پڑهتے ،ان کو باقاعده تنخواه ملتی ہے۔ اور وه يہ "مفت" اسی ليے کر رہے ہيں کہ "اپنے آقاؤں" کے مشن کو آگے بڑها سکيں جہاں تک يہ سوال کہ سادات کيا کريں گے ،تو اس بات کو ضرور ياد رکهيے گا کہ يہ خمس کا مباح و حالل ہونا صرف "شيعوں" کے ليے ہے۔ نہ کہ ان کے ليے جو صرف حب اہلبيت عليهم السالم کے دعويدار نظر آئيں۔ آپ اس شخص کے بارے ميں کيا کہيں گے جو خود مع اہل و عيال تو عيش و عشرت کی زندگی گزارے مگر اس کے قريب سادات کسمپرسی کے حال ميں ہوں؟ وه آپ کے سامنے يہ دعوے کرے کہ ميں تو پکا شيعہ ہوں ،تو کيا اس بات کو تسليم کيا جا سکتا ہے؟
54
کيا آپ کو ائمہ عليهم السالم نے سادات کی مدد کرنے سے منع کيا ہوا ہے؟ اگر انہوں نے اپنے شيعوں پر کرم کر ديا اور اپنا حق ان کے ليے حالل کر ديا تو کيا اس کا مطلب يہ ليا جائے کہ ان کی اوالد کو کچه بهی نہ ديا جائے؟ اس ضمن ميں ہم من ال يحضره الفقيہ کی طرف رجوع کرتے ہيں شيخ صدوق نے ايک پورا باب من ال يحضرة الفقيہ ميں درج کيا ہے جس کا نام ہے علی کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا ثواب اوالد ؑ
40
اس ميں وه يہ روايت درج کرتے ہيں رسول هللا صلی هللا علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ میں قیامت کے دن 4 قسم کے لوگوں کی شفاعت کروں گا خواہ وہ اپنے ساتھ ساری دنیا کے گناہ ہی کیوں نہ لے آئیں ۔ ( )1وہ شخص جو میری اوالد کی نصرت و مدد کرے ( )2وہ شخص جو میری اوالد کی تنگدستی میں اس کے لیے اپنا مال خرچ کرے ( )3وہ شخص جس نے اپنی زبان و دل سے میری اوالد سے محبت کی ( )4وہ شخص جس نے میری اوالد کی حاجت روائی کی کوشش کی جب 41 لوگ اسے چھوڑ دیں
من ال يحضرة الفقيہ ،ج ،2صفحہ 42۔ اردو ترجمہ ميں ج ،2صفحہ 4840 من ال يحضرة الفقيہ ،ج ،2صفحہ 42۔ اردو ترجمہ ميں ج ،2صفحہ ، 48روايت نمبر 172641
55
اس سے اگلی روايت ميں شيخ صدوق نے يہ روايت بيان کی کہ جن لوگوں نے آل رسول صلی ہللا عليہ و آلہ وسلم کو پناه دی ہو ،يا نيکی کی ہو يا انہيں کپڑے ديے ہوں يا کهانا کهاليا ہو تو اس کا صلہ رسول ہللا صلی ہللا عليہ و آلہ وسلم قيامت ميں يہ ديں گے کہ انہيں وہاں لے جائيں جہاں ان کے اور اهل بيت اطہار عليهم السالم کے مابين کوئی حجاب نہيں ہو گا جو لوگ يہ سوال اٹهاتے ہيں کہ سادات کيا کريں ،تو ميرا ان سے سوال يہ ہے کہ اگر خمس نہ ہو ،تو کيا سادات کو آپ نے بے آسرا چهوڑ دينا ہے؟ حاالنکہ آپ کبهی خود جا کر ديکهو تو آپ کو بے شمار سادات بے آسرا ہی مليں گے ،وه بهی اس وقت جب خمس کے بيوپاری ہر طرف سے "خمس ،خمس" کے نعرے مارتے نظر آئيں گے سوال يہ ہے کہ اگر ائمہ عليہم السالم نے آپ پر فضل و کرم کر ہی ديا، اور آپ کے ليے خمس کو مباح کر ديا ،تو کيا اس کا صلہ يہ ديں کہ سادات کو بے آسرا چهوڑ ديں؟؟؟ جبکہ اس کا ثواب آپ اوپر دی گئی دو روايات ميں ديکه بهی چکے ہيں۔۔۔۔۔۔ اس بات کو بهی الزمی طور پر ياد رکهيے گا کہ یہ کرم و فضل ائمہ علیھم السالم کا اپنے شیعوں پر ہے کہ خمس کو ان کے لیے مباح قرار دیا ہے جيسا کہ محقق سالر نے بهی اپنی کتاب ،المراسم فی الفقہ االمامی ،ميں کہا تها۔ اگر آپ سادات کی عزت نہ کريں ،ان کا خيال نہ رکهيں ،تو پهر يہ دعوی کہ ہم شيعہ ہيں ،اور ہمارے ليے خمس مباح کيا گيا ہے ،بے معنی ہو جاتا ہے
56
خالصہ کالم ديکهيے امت پر خمس کے فرض ہونے ميں کوئی شک نہيں۔ اور يہ بات بهی معلوم ہونی چاہيے کہ فرائض کے ساته کچه شرائط بهی ہوتی ہيں۔ مثال کے طور پر رمضان کے مہينے ميں روزے فرض ہيں، تاہم اگر کوئی شخص کسی مجبوری کے تحت سفر کر رہا ہو تو اس صورت ميں وه روزه نہيں رکهے گا اسی طرح حج بهی فرض ہے اور اس ميں بهی کوئی شک نہيں۔ تاہم اس کے بهی شرائط ہيں اب خمس حق ہے امام کا۔ اور امام نے بذات خود اسے اپنے شيعوں کے ليے مباح کر ديا ہے اگر کوئی اور شخص اس بات کا دعوی کرے کہ امام کا يہ حق ہميں ديا جائے ،تو اس پر الزم ہے کہ وه امام کی جانب سے روايت پيش کرے جس ميں زمانہ غيبۃ ميں خمس انہيں ادا کرنے کا حکم ہو صرف يہ دکهانا کہ خمس فرض ہے اس وجہ سے ہميں دو ،يہ کوئی معنی نہيں رکهتا جہاں تک سادات کی بات ہے ،ان کا احترام واجب ہے۔ اگر آپ ان کا احترام نہيں کر رہے ،اور ان کی مدد نہيں کر رہے ،تو يقين رکهيے کہ آپ کے تشيع پر ايک بہت بڑا سوال ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
57