دیوتا کی بھینٹ

Page 1

‫دیوتا کی بھینٹ‬ ‫سعید سعدی‬ ‫ابوبکر اور ج واد آج ص بح سے بہت خ وش تھے۔‬ ‫اور کی وں نہ ہوتے ب ات ہی کچھ ایس ی تھی‬ ‫دراصل ان کے چھوٹے چچا ج و کہ کچھ عرصے‬ ‫سے یونائیٹ ڈ نیش نز کے ای ک پ روجیکٹ کے‬ ‫سلس لے میں نائیجیری ا میں عارض ی ط ور پ ر‬ ‫رہائش پذیر تھے اور اپنے کسی ضروری کام کے‬ ‫سلس لے میں پاکس تان آئے ہوئے تھے اب واپس‬ ‫جارہے تھے۔ اب وبکر اور ج واد نے بھی اپ نے امی‬ ‫ابو سے اجازت لے کر ان کے ساتھ گرمیوں کی‬ ‫چھٹیاں نائیجیریا میں گزارنے کا پروگرام بن ا لی ا‬ ‫تھ ا۔ اور زور و ش ور سے اپ نی تی اریوں میں‬ ‫مص روف تھے۔ ان کی فالئٹ ک راچی سے روانہ‬ ‫وقت مقررہ پر وہ ل وگ ائرپ ورٹ پہنچ‬ ‫ہونی تھی۔‬ ‫ِ‬ ‫گئے جب تک وہ امیگریشن کے مراحل سے گ زر‬ ‫ک ر ان در پہنچے بورڈن گ ش روع ہو چکی تھی۔‬ ‫پاکستان سے نائیجیری ا ک ا س فر ب ڑے آرام سے‬ ‫کٹ ا اور پھ ر آخرک ار وہ ل وگ نائیجیری ا پہنچ ہی‬ ‫گئے۔‬ ‫‪Page 1 of 34‬‬


‫نائیجیری ا پہنچ ک ر اب وبکر اور ج واد دون وں بہت‬ ‫خوش تھے ۔ جب وہ اپنے انک ل کے ف ارم ہ اؤس‬ ‫پہنچے ج و کہ "ابوج ا" شہر کے مض افات میں‬ ‫شہر سے کچھ فاصلے پر واقع تھ ا‪ ،‬ت و وہ ان ان‬ ‫کی چچی نے ان ک ا اس تقبال کی ا‪ ،‬لیکن انہیں‬ ‫وہاں عالقے کے ل وگ اور ف ارم ہاؤس کے‬ ‫مالزمین ڈرے سہمے سے لگے‪ ،‬ہر ط رف خ وف‬ ‫کا راج تھا۔‬ ‫انکل نے جب چچی سے استفسار کیا ت و انہ وں‬ ‫نے بتایا کہ چند دن قبل ان کی ٹیم کے دو اف راد‬ ‫جنگل میں کس ی ک ام سے گ ئے تھے لیکن پھ ر‬ ‫جب ک افی دی ر ت ک واپس نہیں آئے ت و ان کی‬ ‫تالش میں کچھ لوگ ان کے پیچھے گئے لیکن وہ‬ ‫بھی ت ا ح ال ال پتہ ہیں‪ ،‬یہی وجہ ہے کہ پ ورے‬ ‫عالقے میں سراس میگی پھیلی ہوئی ہے اور ہ ر‬ ‫شخص خوف کا شکار ہے۔ یہ سن ک ر انک ل بھی‬ ‫پریشان ہو گئے لیکن ان لوگ وں کے پہنچ نے کے‬ ‫بعد اس قسم کا مزید کوئی واقعہ پیش نہیں آی ا‬ ‫اور لوگ آہستہ آہستہ روزانہ کی عام زن دگی کی‬ ‫طرف لوٹنے لگے۔‬ ‫‪---‬‬‫‪Page 2 of 34‬‬


‫چند دن اپنے چچا کے فارم ہاؤس پر گزارنے کے‬ ‫بعد ان کے چچاج ان نے جنگ ل میں کیمپن گ ک ا‬ ‫پروگ رام بنای ا۔ اب وبکر اور ج واد کی ت و جیسے‬ ‫خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اتوار کی ایک خوش گوار‬ ‫صبح وہ لوگ نماز فجر ادا کر کے چچ ا اور چچی‬ ‫کے س اتھ ان کی وین میں پکن ک کے ل یے روانہ‬ ‫ہو گئے ۔ جنگل کے عین درمیان ایک دریا بہتا تھ ا‬ ‫ان کی منزل وہی دریا تھا۔ برسات کا موسم تھ ا‬ ‫اور دری ا ب ڑے زورو ش ور سے بہہ رہ ا تھ ا لیکن‬ ‫کناروں پر اس کا زور پھ ر بھی کچھ کم ہی تھ ا۔‬ ‫دریا ک و دیکھ ک ر اب وبکر اور ج واد نے نہانے ک ا‬ ‫پروگرام بنا لیا۔ چچا ج ان نے بہت من ع کی ا مگ ر‬ ‫آخرکار انہیں اس شرط پر ماننا ہی پ ڑا کہ زی ادہ‬ ‫دور نہیں ج ائیں گے اور دری ا کے کن ارے کے‬ ‫قریب ہی رہیں گے۔ چچ ا ج ان ان کی چچی کے‬ ‫س اتھ ص اف جگہ کیمپ لگ انے کی تی اری میں‬ ‫مصروف ہو گئے جبکہ ان دونوں نے دری ا ک ا رخ‬ ‫کر لیا۔‬ ‫یہ دونوں لڑکے بڑے آفت کے پرکالے ہیں ۔‬ ‫چچی چچ ا کے س اتھ ک ام میں ہاتھ بٹ اتے ہوئے‬ ‫بولیں ۔‬ ‫‪Page 3 of 34‬‬


‫مگر ذہین بھی تو اتنے ہی ہیں ۔‬ ‫چچا جان بولے۔‬ ‫ہاں یہ تو ہے شرارتی بچے ع ام ط ور پ ر بال کے‬ ‫ذہین بھی ہوتے ہیں۔‬ ‫چچی نے چچا کی ہاں میں ہاں مالئی۔‬ ‫ویسے یہ دونوں عام بچوں سے کہیں زیادہ ذہین‬ ‫اور ۔۔۔۔‬ ‫ابھی چچا جان نے اتنا ہی کہا تھا کہ ان کو دریا‬ ‫کی طرف سے ابوبکر اور جواد کی چیخ وں کی‬ ‫آوازیں س نائی دیں۔ دون وں گھ برا ک ر دری ا کی‬ ‫سمت دوڑے لیکن کن ارے پ ر پہنچ ک ر انہیں دور‬ ‫دور تک دونوں بچ وں میں سے ک وئی بھی نظ ر‬ ‫نہیں آیا۔ دون وں پریش انی کے ع الم میں اب وبکر‬ ‫اور جواد کا نام پکارنے لگے لیکن وہ اں دور دور‬ ‫تک کوئی ذی روح موجود نہیں تھا۔‬ ‫‪---‬‬‫ٹان گ میں ش دید تکلی ف سے اب وبکر کی جب‬ ‫آنکھ کھلی ت و اس نے اپ نے آپ ک و ای ک انج ان‬ ‫جگہ پایا۔ اس نے چچا ج ان ‪ ،‬چچی اور ج واد ک و‬ ‫‪Page 4 of 34‬‬


‫بہت آوازیں دیں مگر کوئی جواب نہ مال۔ اس نے‬ ‫اٹھ نے کی کوش ش کی مگ ر گھٹ نے میں ش دید‬ ‫درد کی لہر دوڑ گ ئی اور اس کی آنکھ وں کے‬ ‫سامنے تمام مناظر گھوم گئے جو اس کے ساتھ‬ ‫پیش آئے تھے۔ اسے ی اد آی ا کہ جب وہ اور ج واد‬ ‫دریا کنارے ایک دوسرے پر پانی اچھ ال رہے تھے‬ ‫تو اچان ک ای ک مگ رمچھ نے کہیں سے آک ر اس‬ ‫کی ٹانگ دبوچ لی تھی۔ ابوبکر نے ش دید تکلی ف‬ ‫کے باوجود کافی جدوجہد کے بعد اپنی ٹان گ ت و‬ ‫چھڑا لی تھی لیکن اس کی ٹان گ پ ر بہت گہرے‬ ‫زخم آئے تھے جن سے خ ون ابھی ت ک رس رہ ا‬ ‫تھا۔ مگرمچھ سے ٹانگ چھڑانے کے بع د اس ک و‬ ‫صرف اتنا یاد رہا تھا کہ اسے ایک زبردست دھکا‬ ‫لگا تھا اور نق اہت کی وجہ سے وہ اپ نے ہ وش و‬ ‫حواس کھو بیٹھا تھ ا اور اب کہیں ج اکر پتہ نہیں‬ ‫کتنی دیر کے بعد اسے ہوش آیا تھا۔‬ ‫ش دید تکلی ف کے ب اوجود اس نے ہمت ک ر کے‬ ‫اٹھ نے کی کوش ش کی اور کھ ڑے ہونے میں‬ ‫کامی اب بھی ہوگی ا لیکن ابھی چن د ق دم ہی چال‬ ‫ہوگ ا کہ تکلی ف اور نق اہت کی وجہ سے دھ ڑام‬ ‫سے گر پڑا۔ اس کے زخم وں سے مت واتر خ ون‬ ‫‪Page 5 of 34‬‬


‫رس رہا تھا۔ اس نے اپنی آستین پھاڑ کر زخم پر‬ ‫پٹی باندھی اور پھ ر اٹھ ک ر چل نے کی کوش ش‬ ‫کی کچھ ہی فاصلہ طے کیا ہوگا کہ دوبارہ گر پڑا‬ ‫اور اس دفعہ اس پر پھر غش ی ط اری ہ و گ ئی‬ ‫اور اسے کسی چیز کا ہوش نہ رہا۔‬ ‫‪---‬‬‫جواد کی جب آنکھ کھلی تو اس نے اپنے آپ کو‬ ‫کچھ عجیب حلیے والے عجیب و غریب جنگلیوں‬ ‫کے درمی ان پای ا۔ وہ س ب اس کے اوپ ر جھکے‬ ‫ہوئے اس ک و غ ور سے دیکھ رہے تھے۔ ان کے‬ ‫چہرے ات نے خوفن اک ل گ رہے تھے کہ ج واد کے‬ ‫منہ سے غیر ارادی طور پر چیخ نکل گئی ۔ جواد‬ ‫کو آنکھیں کھولتا دیکھ ک ر اور پھ ر اس کی چیخ‬ ‫س ن ک ر س ارے جنگلی پیچھے ہٹ گ ئے۔ اور دو‬ ‫انتہائی کالے بھجنگ حبشی آگے بڑھے اور ج واد‬ ‫کو ب ازوؤں سے پک ڑ ک ر اٹھای ا۔ ج واد ک ا جس م‬ ‫جیسے ہی سیدھا ہوا اسے اپنی کمر میں ش دید‬ ‫درد ک ا احس اس ہوا ۔ اسے ی اد آی ا کہ جب ای ک‬ ‫خونخوار مگرمچھ نے ابوبکر پر حملہ کیا تھ ا ت و‬ ‫‪Page 6 of 34‬‬


‫اس نے اب وبکر ک و مگ رمچھ کے ج بڑے سے‬ ‫چھڑانے کے ل یے مگ رمچھ کی پیٹھ پ ر چھالن گ‬ ‫الگا کر اسے ق ابو کرن ا چاہا تھ ا۔ لیکن مگ رمچھ‬ ‫نے اپنی دم کو لہرایا تھا جو کہ جواد کی پیٹھ پ ر‬ ‫بہت زور سے لگی تھی اور وہ اچھ ل ک ر دری ا‬ ‫کے بیچ میں آ گ را تھ ا اور پھ ر اس کی آنکھ وں‬ ‫کے سامنے اندھیرا چھا گیا تھا۔‬ ‫دون وں خوفن اک ش کل والے حبش ی اسے ل یے‬ ‫ہوئے ایک بڑے سے سرکنڈوں اور گھاس پھونس‬ ‫سے ب نے جھون پڑے میں داخ ل ہوئے۔ ج واد نے‬ ‫دیکھ ا کہ ان در ای ک بوڑھ ا جنگلی جھون پڑے کے‬ ‫بیچ وں بیچ زمین پ ر براجم ان ہے اور اس کے‬ ‫گ رد ک افی س ارے شیشے کے مرتب انوں اور‬ ‫مختلف عجیب و غ ریب اوزاروں کی موج ودگی‬ ‫سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ جنگلیوں کا طبیب ہے۔‬ ‫ج واد ک و اس کے س امنے زمین پ ر ڈال ک ر وہ‬ ‫دونوں جنگلی پیچھے ہٹ گئے اور طبیب اٹھ ک ر‬ ‫جواد کے پ اس آ گی ا۔ ق ریب آک ر اس نے کس ی‬ ‫ل فہم زب ان میں کچھ کہ ا اور ای ک جنگلی‬ ‫ناقاب ِ‬ ‫نے اس ی زب ان مین اس ک و ج واب دی ا۔ ج واب‬ ‫‪Page 7 of 34‬‬


‫سن کر طبیب نے ی وں س ر ہالی ا جیسے س اری‬ ‫بات اس کی سمجھ میں آگئی ہو۔‬ ‫پھر ای ک جنگلی آگے بڑھ ا اور اس نے ج واد ک و‬ ‫پکڑ کر زمین پر الٹا لٹا دیا جس کے بع د ط بیب‬ ‫نے ایک مرتبان سے ایک مرہم جواد کی کمر پ ر‬ ‫چوٹ پر لگانا شروع ک ر دی ا۔ م رہم کے زخم پ ر‬ ‫لگتے ہی جواد کو ایسا محسوس ہوا جیسے اس‬ ‫کی کمر پ ر آگ کے انگ ارے رکھ دیے گ ئے ہوں۔‬ ‫اس کے منہ سے غیر ارادی طور پر چیخیں نک ل‬ ‫گئیں۔‬ ‫مرہم لگانے کے بعد دونوں جنگلی جواد ک و اٹھ ا‬ ‫ک ر ای ک اور جھون پڑے میں لے آئے ج و کہ پہلے‬ ‫والے سے نس بتا ً چھوٹ ا تھ ا اور ان در زمین پ ر‬ ‫گھ اس پھ ونس کے بس تر کے س وا کچھ نہ تھ ا۔‬ ‫جواد کو اس گھاس کے بستر پ ر لٹ انے کے بع د‬ ‫دونوں جنگلی جھونپڑے سے نکل گئے۔ ج واد ک ا‬ ‫ناقابل برداشت تھا اور شاید درد کی ش دت‬ ‫درد‬ ‫ِ‬ ‫کی وجہ سے ہی جل د اس پ ر غش ی ط اری ہ و‬ ‫گئی اور وہ درد کی شدت سے بے نیاز ہوکر نیند‬ ‫کی آغوش میں سوگیا۔‬ ‫‪Page 8 of 34‬‬


‫‪---‬‬‫ص بح س ویرے ج واد کی آنکھ چڑی وں کے ش ور‬ ‫سے کھلی ۔ ابھی وہ اپنے اوپر گ زرے ح االت ک ا‬ ‫اندازہ لگا ہی رہا تھا کہ ایک جنگلی اس کے ل ئے‬ ‫تازہ پھل اور پانی رکھ کر چال گیا۔ تازہ پھ ل دیکھ‬ ‫کر جواد کی بھوک چمک اٹھی پیاس بھی ش دت‬ ‫سے محسوس ہو رہی تھی۔‬ ‫بس پھر کی ا تھ ا ج واد کے ہ اتھ س ب کچھ ختم‬ ‫ک رنے کے بع د ہی رکے۔ جیسے ہی اس نے کھ ا‬ ‫پی ک ر اللہ ک ا ش کر ادا کی ا اس ی وقت وہی‬ ‫دون وں جنگلی جھون پڑے میں داخ ل ہوئے اور‬ ‫اسے دونوں ہاتھوں سے پک ڑ ک ر جھون پڑے سے‬ ‫باہر نکاال اور جھونپڑوں کے درمی ان ای ک وس یع‬ ‫میدان میں نصب بانس کی صلیب پر لے جا ک ر‬ ‫باندھ دیا۔ دوپہر ڈھلنے تک جواد وہاں اکیال بن دھا‬ ‫رہا اور جنگلیوں کی بستی کے لوگ اپنے روزمرہ‬ ‫کے ک اموں میں مص روف رہے۔ اس دوران دو‬ ‫تین دفعہ ایسا ہوا کہ بستی کے کچھ بچے گروپ‬ ‫کی ش کل میں اس کے ق ریب آتے اور پھ ر‬ ‫‪Page 9 of 34‬‬


‫عجیب و غ ریب آوازیں نک التے ہوئے وہاں سے‬ ‫بھاگ جاتے۔‬ ‫ش ام سے کچھ پہلے دو تین جنگلی وں نے آک ر‬ ‫می دان کے درمی ان آگ روش ن ک ردی جس کے‬ ‫بع د چہروں اور نیم ب رہنہ جس موں پ ر عجیب و‬ ‫غ ریب ڈی زائن بن ائے جنگلی می دان کے چ اروں‬ ‫طرف سے آ ک ر می دان کے وس ط میں آگ کے‬ ‫گرد جمع ہونا شروع ہوگ ئے۔ اور تھ وڑی ہی دی ر‬ ‫میں ایک جم غفیر وہاں اکٹھ ا ہوکر خوش ی سے‬ ‫اچھل کود اور شور شرابے میں مصروف ہوگی ا۔‬ ‫اسی اثنا میں ایک سمت سے جنگلی وں ک ا ای ک‬ ‫گ روہ ای ک ب ڑی س ی پ الکی اٹھ ائے نم ودار ہوا۔‬ ‫پ الکی میں ای ک بھ اری ڈی ل ڈول واال جنگلی‬ ‫براجمان تھا جو کہ اپنے حلیے سے اس بستی کا‬ ‫سردار لگ رہا تھا۔ پالکی ب ردار ج واد کے ق ریب‬ ‫آک ر رک گ ئے اور انہوں نے پ الکی زمین پ ر‬ ‫آہستگی سے رکھ دی۔ سردار نے اپنا بای اں ہ اتھ‬ ‫ہوا میں بلند کر کے س ب ک و خ اموش ہونے ک ا‬ ‫اش ارہ کی ا اور چ اروں ط رف س ناٹا چھ ا گی ا۔‬ ‫س ردار کے ہاتھ کے نیچے ہوتے ہی مجم ع میں‬ ‫سے ایک جنگلی آگے بڑھا بے سری ک رخت آواز‬ ‫‪Page 10 of 34‬‬


‫میں کچھ گ انے لگ ا س اتھ ہی اس نے آگ کے‬ ‫چ اروں ط رف اچھ ل اچھ ل ک ر بے ہنگم رقص‬ ‫بھی ش روع کردی ا۔ اس جنگلی ک ا بے ہنگم ن اچ‬ ‫ابھی ج اری تھ ا کہ می دان کی ای ک س مت سے‬ ‫عجیب س ا ش ور اٹھ ا اور س ب کے س ب اس‬ ‫طرف متوجہ ہو گئے۔‬ ‫ج واد کی س مجھ میں نہیں آرہا تھ ا کہ یہ اس‬ ‫کے س اتھ ہو کی ا رہا ہے اور کی ا ہونے واال ہے‪،‬وہ‬ ‫بھی شور سن کر اس ط رف دیکھ نے لگ ا جس‬ ‫طرف سارے مت وجہ تھے لیکن تھ وڑی دی ر میں‬ ‫اسے جو منظر نظر آی ا اس سے اس پ ر س کتہ‬ ‫طاری ہو گیا۔‬ ‫‪---‬‬‫وہ دونوں بہت پریش ان تھے ۔ ای ک ک ا ن ام ش ارا‬ ‫اور دوسرے کا نام جارا تھا۔‬ ‫یار دو دن ہوگ ئے مگ ر ہمیں اب ت ک ک وئی بھی‬ ‫اپنے کام کا انسان نہیں مال۔‬ ‫شارا نے کہا۔‬ ‫‪Page 11 of 34‬‬


‫ہاں یار ۔۔ اگ ر ک ل ت ک ہم ک وئی آدمی ڈھون ڈنے‬ ‫میں ناک ام رہے ت و س ردار کے س امنے کس منہ‬ ‫سے جائیں گے؟‬ ‫جارا نے مایوس لہجے میں شارا سے کہا۔‬ ‫کس منہ سے جانا ہے اس ی منہ کے س اتھ چلیں‬ ‫گے۔‬ ‫شارا نے ایک لمبی سانس لیکر ایک گ رے ہوئے‬ ‫درخت کے تنے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔‬ ‫یہ م ذاق ک ا وقت نہیں ہے ی ار س نجیدگی سے‬ ‫سوچو کہ اگر ک ل ت ک ہم کامی اب نہیں ہوئے ت و‬ ‫سردار ہمارا کیا حشر کرے گا۔۔ مجھے ت و س وچ‬ ‫کر ہی ہول اٹھ رہے ہیں۔‬ ‫جارا نے بھی ایک درخت کے تنے سے ٹیک لگاتے‬ ‫ہوئے کہا۔‬ ‫ٹھی ک ہے س وچتے ہیں لیکن فی الح ال ت و میں‬ ‫تھوڑی دیر آرام کروں گ ا۔ ش ارا نےاپ نی آنکھیں‬ ‫بند کرتے ہوئے کہا۔‬ ‫شارا کو آنکھیں بند کرتے دیکھ کر جارا اٹھ کھڑا‬ ‫ہوا اور پریشانی کے عالم میں ادھر ادھ ر ٹہل نے‬ ‫‪Page 12 of 34‬‬


‫لگا۔ کبھی وہ ایک ہاتھ ک ا مک ا دوس رے ہ اتھ کی‬ ‫ہتھیلی پر مارتا تو کبھی پاؤں پٹخنے لگتا۔ اور پھر‬ ‫جب اسے شارا کے خوفناک خ راٹے س نائی دیے‬ ‫ت و وہ چون ک ک ر اس کی ط رف دیکھ نے لگ ا۔‬ ‫تھوڑی دی ر ت و وہ بغ یر پل ک جھپک ائے ش ارا ک و‬ ‫دیکھت ا رہا جیسے س وچ رہا ہو کہ اس پریش انی‬ ‫کے عالم میں کوئی کیسے سو سکتا ہے اور پھر‬ ‫ایک طرف کو چل پڑا۔‬ ‫خوش ی اور مس رت آم یز بلن د آوازیں س ن ک ر‬ ‫شارا کی آنکھ ای ک جھٹکے سے کھ ل گ ئی چن د‬ ‫لمحوں تک تو اس کی سمجھ میں کچھ نا آیااور‬ ‫پھر یک دم اٹھ ک ر بیٹھ گی ا اور جس ط رف سے‬ ‫آوازیں آرہی تھیں اس ط رف دوڑپ ڑا۔ ابھی‬ ‫تھوڑی دور ہی گیا ہوگا کہ اسے کچھ فاص لے پ ر‬ ‫جارا نظر آی اجو کہ جھ ک ک ر کچھ دیکھ رہا تھ ا۔‬ ‫ش ارا ف ورا ً بھاگت ا ہوا اس کے ق ریب پہنچ ا ت و‬ ‫اسے ای ک بیہ وش لڑک ا زمین پ ر پ ڑا نظ ر آی ا‬ ‫جسے جارا جھک کر دیکھ رہا تھا۔‬

‫‪Page 13 of 34‬‬


‫دونوں نے خوشی کے عالم میں ایک دوسرے کو‬ ‫مسکراتے ہوئے دیکھا اور پھر دونوں نے مل ک ر‬ ‫اس بیہوش لڑکے کو اٹھای ا اور ت یزی سے اپ نے‬ ‫گاؤں کی سمت روانہ ہوگئے۔‬ ‫ان دھیرا ہونے سے کچھ پہلے وہ ل وگ اس ل ڑکے‬ ‫کو لے کر اپنے گاؤں پہنچ گ ئے۔ گ اؤں وال وں نے‬ ‫ان دونوں کو دیکھ کر خوش ی اور مس رت سے‬ ‫بھرپور نعرے لگانے ش روع ک ر دیے۔ نع روں کی‬ ‫گ ونج میں وہ دون وں اس ل ڑکے ک و اٹھ ائے‬ ‫سیدھے سردار کی جھونپڑی کے س امنے پہنچے۔‬ ‫سردار جو کہ نعرے سن کر اپنی جھون پڑی سے‬ ‫باہر نکل آیا تھا س یدھا ان کے پ اس پہنچ ا۔ ج ارا‬ ‫اور شارا نے بے ہوش لڑکے کو زمین پر لٹ ا دی ا‬ ‫اور سردار کے سامنے جھک کر بولے ۔‬ ‫سردار شامبو ہم اس لڑکے ک و دیوت ا کی بھینٹ‬ ‫کے ل یے لے آئے ہیں۔ اب ہم ارا دیوت ا ہم سے‬ ‫خوش ہو جائے گا اور پھر جاما قبیلہ ہمارے شاما‬ ‫قبیلے کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا اور ان جنگلوں‬ ‫پر صرف اور صرف ہماری حکومت ہوگی۔‬

‫‪Page 14 of 34‬‬


‫اسے لے جاکر قید ک ردو ‪ ،‬ط بیب سے کہ و اس‬ ‫کی مرہم پٹی کرے کل تک اس کا ٹھیک ہونا بہت‬ ‫ضروری ہے۔ کیونکہ دیوت ا زخمی کی بھینٹ نہیں‬ ‫لی تے اس ل یے ط بیب سے کہو کہ وہ ف وری اث ر‬ ‫کرنے والی جڑی بوٹیوں ک ا اس تعمال ک رے اور‬ ‫اس کو جس جھونپڑی میں رکھ ا ج ائے اس کے‬ ‫گرد پہرا سخت ہون ا چ اہیے کی ونکہ جام ا ق بیلے‬ ‫والے ہم اری ت اک میں ہیں کہ کہیں ان سے پہلے‬ ‫ہم دیوتا کو بھینٹ نہ چڑھا دیں‪ -‬جاؤ لے جاؤ اس‬ ‫کو۔‬ ‫سردار شامبو خوش ہوکر بوال ۔‬ ‫دونوں نے اس لڑکے کو اٹھ ا ک ر ای ک جھون پڑے‬ ‫میں موجود گھاس کے بس تر پ ر ال ک ر ڈال دی ا۔‬ ‫کچھ دیر بعد ان کے گاؤں کا طبیب آیا جو م رہم‬ ‫پٹی کا سامان اپ نے س اتھ الی ا تھ ا۔ زخم وں پ ر‬ ‫مرہم لگ انے کے بع د ط بیب نے ج ارا اور ش ارا‬ ‫سے مخاطب ہو کر کہا۔‬ ‫میرے اس جادوئی م رہم سے ک ل ص بح س ورج‬ ‫نکلنے سے پہلے یہ بالکل ٹھیک ہو جائے گا۔‬

‫‪Page 15 of 34‬‬


‫ط بیب کے ج انے کے بع د ش ارا اور ج ارا اپ نے‬ ‫ن یزے لے ک ر جھون پڑے کے س امنے پہرا دی نے‬ ‫کھڑے ہوگئے۔‬ ‫شکر ہے ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے۔‬ ‫جارا نے کہا۔‬ ‫بھ ئی مجھے ت و نین د آ رہی ہےتھ وڑی دی ر بع د‬ ‫مجھے اٹھا دینا۔‬ ‫ش ارا جھون پڑی کی دی وار سےٹیک لگ اتے ہوئے‬ ‫بوال۔‬ ‫اور تھ وڑی ہی دی ر میں ش ارا کے خ راٹے رات‬ ‫کی خاموشی میں گونجنے لگے۔‬ ‫ج ارا بھی وہیں بیٹھ ک ر کچھ س وچنے لگ ا کہ‬ ‫اچان ک اسے اپ نے س ر کے پچھلے حصے میں‬ ‫ش دید تکلی ف ک ا احس اس ہوا اور اس ک ا ذہن‬ ‫تاریکی میں ڈوبتا چال گیا۔‬ ‫‪----‬‬

‫‪Page 16 of 34‬‬


‫رامبی درخت پ ر چڑھ ا پھ ل کھ ا رہ ا تھ ا گوم و‬ ‫بھاگتا ہوا آیا اور بوال۔‬ ‫رامبی‪ ،‬رامبی غض ب ہوگی ا ‪ ،‬ش اما ق بیلے والے‬ ‫دیوتا کی بھینٹ لے آئے ہیں۔‬ ‫یہ س نتے ہی رام بی جھٹ پٹ درخت سے نیچے‬ ‫اترا اور بوال۔‬ ‫مگر وہ بھینٹ چڑھ ا نہیں س کیں گے ۔۔ آؤ م یرے‬ ‫ساتھ۔‬ ‫‪---‬‬‫ان دھیرا پھی ل چک ا تھ ا ۔ دو س ائے چپکے چپکے‬ ‫شاما قبیلے کی حدود میں داخل ہوئے اور براب ر‬ ‫آگے بڑھ تے چلے گ ئے۔ کچھ دور انہیں ای ک‬ ‫جھون پڑی کے ب اہر دو پہری دار نظ ر آئے ۔ پہلے‬ ‫سائے نے دوسرے سے مخاطب ہو کر کہا۔‬ ‫گومو تم یہیں رکو اور جب بھیڑیے کی آواز س نو‬ ‫تو سامنے والی جھونپڑی میں آجانا۔‬ ‫یہ کہہ ک ر رام بی س امنے والی جھون پڑی کی‬ ‫پچھلی طرف بڑھا۔ اور پہریداروں کے عقب میں‬ ‫‪Page 17 of 34‬‬


‫پہنچ گی ا۔ اس نے دیکھ ا کہ ای ک س و رہا ہے اور‬ ‫دوسرا کسی سوچ میں گم ہے۔ رام بی نے اپ نی‬ ‫کھڑی ہتھیلی کا زوردار وار جاگنے والے پہری دار‬ ‫کی گدی پر رسید کیا اور پہریدار بغیر کوئی آواز‬ ‫نکالے ڈھیر ہوگی ا۔ پھ ر وہ آگے بڑھ ا اور احتیاط ا ً‬ ‫ایک ہاتھ سونے والے شخص کو بھی رسید کردیا‬ ‫۔ اس کے بعد وہ جھونپڑے کے اندر داخل ہ و گی ا‬ ‫اندر ایک لڑکا گھاس کے بستر پ ر بے ہ وش پ ڑا‬ ‫تھا ی ا ش اید س و رہا تھ ا ۔ اس نے جھون پڑی کے‬ ‫دروازے کے پاس کھڑے ہو کر بھ یڑیے کے رونے‬ ‫جیسی آواز نکال کر گومو کو اشارہ دی ا۔ تھ وڑی‬ ‫دی ر میں گوم و بھی ان در آ چک ا تھ ا۔ دون وں نے‬ ‫مزید وقت ضایع کیے بغ یر اس ل ڑکے ک و اٹھای ا‬ ‫اور وہاں سے نکل آئے۔ رات بھر سفر ک رنے کے‬ ‫بعد جب وہ تھک کر چور ہوگئے تو کچھ دی ر آرام‬ ‫کرنے کی خاطر ایک محف وظ جگہ دیکھ ک ر رک‬ ‫گئے۔ کچھ دی ر بع د ان دون وں نے دیکھ ا کہ اس‬ ‫لڑکے کو ہوش آرہا ہے تو ان دونوں نے ہر طرف‬ ‫اگی لمبی گھاس کو ب ل دے ک ر رس ی تی ار کی‬ ‫جس سے انہوں نے لڑکے کو اچھی ط رح بان دھ‬ ‫دی ا۔ کچھ دی ر سس تانے کے بع د دون ون نے اپن ا‬ ‫سفر پھر شروع کردیا۔ دوپہر ڈھلے وہ لوگ اپ نے‬ ‫‪Page 18 of 34‬‬


‫گاؤں پہنچ چکے تھے۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے اس‬ ‫لڑکے کو صلیب تی ار ک رکے اس سے بان دھا اور‬ ‫اس کو اٹھا کر گ اؤں کے ب ڑے می دان پہنچ گ ئے‬ ‫جہاں پہلے سے بھینٹ کا جشن منایا ج ا رہا تھ ا۔‬ ‫اس وقت ت ک اس ل ڑکے ک و بھی پ وری ط رح‬ ‫ہوش آچکا تھ ا اور بے بس ی اور بےچ ارگی سے‬ ‫اپنے اطراف کا جائزہ لے رہ ا تھ ا لیکن کچھ بھی‬ ‫کرنے سے قاص ر تھ ا۔ جیسے ہی وہ می دان میں‬ ‫داخل ہوئے وہ لڑکا وہاں کا منظر دیکھ ک ر اپ نی‬ ‫چیخ ضبط نہیں ک ر س کا اور ای ک دل دوز "نہیں"‬ ‫اس کے منہ سے چیخ کی ص ورت میں برآم د‬ ‫ہوگیا۔‬ ‫‪---‬‬‫ل یقین تھ ا۔‬ ‫جواد نے جو منظر دیکھا تھا وہ ناقاب ِ‬ ‫اس کے بھائی ابوبکر کو وہ لوگ باندھ کر ال رہے‬ ‫تھے۔ اب وبکر نے بھی اس ی وقت اس ک و دیکھ ا‬ ‫اور حیرانی سے چال اٹھا۔ اسی وقت جاما ق بیلے‬ ‫کے سردار جامبو کے حکم سے اب وبکر ک و بھی‬ ‫جواد کے قریب کھڑا ک ر کے بان دھ دی ا گی ا۔ اور‬ ‫‪Page 19 of 34‬‬


‫موت کا رقص پھر زوروش ور سے ش روع ہوگی ا۔‬ ‫تم ام ق بیلے والے ب ڑے ج وش و خ روش سے‬ ‫رقص ک ر رہے تھے اور س ورج اپ نی کرن وں ک ا‬ ‫لبادہ آہستہ آہستہ سمیٹ رہا تھا۔ جب آس مان پ ر‬ ‫اندھیرا چھا گی ا ت و س ردار کے اش ارے پ ر ای ک‬ ‫خوفناک شکل کا بت االؤ کے پاس ال کر رکھ دیا‬ ‫گیااور تمام جنگلی اس بت کے س امنے س جدے‬ ‫میں گر گئے۔ تقریبا ً ایک منٹ ت ک س ب اس کے‬ ‫سامنے سجدے میں گرے رہے اور پھر دو زانو ہو‬ ‫ک ر بیٹھ گ ئے۔ س ب مسلس ل دائیں ب ائیں ہل تے‬ ‫ہوئے کسی قسم کے منتر کا جاپ ک ر رہے تھے۔‬ ‫اس کے بع د دو جنگلی جنہوں نے ہ اتھوں میں‬ ‫بڑے بڑے تیز دھ ار چھ رے پک ڑے ہوئے تھے آگے‬ ‫بڑھے اور چھرے ہوا میں لہراتے ہوئے ابوبکر اور‬ ‫جواد کے اردگ رد وحش یانہ رقص ش روع کردی ا۔‬ ‫ابوبکر اور ج واد دم س ادھے یہ س اری ک اروائی‬ ‫دیکھ رہے تھے مگ ر ہاتھ بن دھے ہونے کی وجہ‬ ‫سے دون وں کچھ بھی نہیں کرس کتے تھے۔ ان‬ ‫دونوں جنگلیوں کا رقص کافی دیر جاری رہا اور‬ ‫پھر اچانک وہ دونوں رک کر ان کی جانب بڑھنے‬ ‫لگے۔ انہوں نے ہاتھوں میں پکڑے چھرے سیدھے‬ ‫کر لیے تھے اور ان کی خونخوار آنکھوں سے ان‬ ‫‪Page 20 of 34‬‬


‫کے ع زائم ص اف نمای اں تھے۔ اب ای ک جنگلی‬ ‫جواد اور ایک ابوبکر کے سامنے کھ ڑا تھ ا ۔ پھ ر‬ ‫انہوں نے اپنے ہاتھوں کو وار کرنے کے لیے بلن د‬ ‫کیا ہی تھا اسی لمحے میدان کی دوسری ج انب‬ ‫سے چیخ و پک ار کی آوازوں کے س اتھ دو ت یر‬ ‫سیدھے ان دونوں جنگلی وں کی پش ت میں آک ر‬ ‫پیوس ت ہوگ ئے اور وہ دون وں بغ یر ک وئی آواز‬ ‫نک الے ڈھ یر ہوتے چلے گ ئے۔ اس سے پہلے کہ‬ ‫میدان میں دوزان و بیٹھے دوس رے جنگلی وں اور‬ ‫ان کے سردار کو کچھ سمجھ میں آتا میدان پ ر‬ ‫ت یروں کی بوچھ اڑ ش روع ہو گ ئی۔ اور چ اروں‬ ‫طرف بھگدڑ مچ گئی۔ اب وبکر اور ج واد ح یرانی‬ ‫سے پیش آنے والے یہ واقع ات دیکھ رہے تھے‬ ‫اور س وچ رہے تھے کہ ش اید ت یر چالنے والے ان‬ ‫دونوں ک و بچ اتے ہوئے ص رف جنگلی وں ہی ک و‬ ‫نشانہ بن ا رہے ہیں کی ونکہ ت یر واقعی ص رف ان‬ ‫دونوں کے دائیں بائیں سے سنس ناتے ہوئے گ زر‬ ‫رہے تھے۔‬ ‫‪----‬‬

‫‪Page 21 of 34‬‬


‫ج ارا کی آنکھ اس وقت کھلی جب اس کے منہ‬ ‫پر پانی کے چھین ٹے م ارے ج ا رہے تھے۔ اس نے‬ ‫آنکھیں کھ ول ک ر ادھ ر ادھ ر نظ ر دوڑائی اس‬ ‫وقت ص بح ہ و چکی تھی اور س ردار ش امبو ک ا‬ ‫خ اص آدمی گ وچی اس کے س امنے کھ ڑا تھ ا۔‬ ‫جارا کو ہوش میں آتا دیکھ کر گوچی بوال۔‬ ‫جارا وہ لڑکا کہاں ہے س ردار نے اس ک و حاض ر‬ ‫کرنے ک ا حکم دی ا ہے اور تم آرام سے س و رہے‬ ‫ہو؟‬ ‫ج ارا نے جھون پڑے کی ط رف دیکھ ا جس ک ا‬ ‫دروازہ چوپٹ کھال تھ ا اور ان در ک ا خ الی منظ ر‬ ‫صاف نظر آرہا تھا۔ وہ ایک جھٹکے سے ہڑبڑا ک ر‬ ‫اٹھ بیٹھ ا۔ اس کے نزدی ک ہی ش ارا پ ڑا ہ وا تھ ا‬ ‫جس کی گردن ایک طرف ڈھلکی ہوئی تھی اور‬ ‫ص اف نظ ر آرہا تھ ا کہ اس کی گ ردن کی ہ ڈی‬ ‫ٹ وٹ چکی ہے۔ ج ارا نے انتہائی پریش انی سے‬ ‫گوجی کی طرف دیکھا گ وجی نے اپ نے آدمی وں‬ ‫کو اشارہ کیا اور کہا ۔‬

‫‪Page 22 of 34‬‬


‫لے چل و اس غ دار ک و س ردار کے پ اس آج اس‬ ‫کی بھینٹ چڑھائیں گے۔‬ ‫گوجی کے آدمیوں نے آگے بڑھ کر جارا کو ق ابو‬ ‫کر لیا ۔ جارا نے مزاحمت کی کوش ش کی لیکن‬ ‫ان کے آگے اس کی ای ک نہ چلی۔ اور اس کے‬ ‫چہرے پر مردنی چھا گئی۔‬ ‫سردار شامبو بےچینی سے اپ نے جھون پڑے میں‬ ‫ٹہل رہا تھا کہ اسی لمحے گوجی کے آدمی ج ارا‬ ‫کو لیے ان در داخ ل ہوئے۔ گ وجی نے س ردار ک و‬ ‫سارا واقعہ سنایا تو سردار غصے سے دھاڑا۔‬ ‫قیدی کہاں ہے جارا؟؟‬ ‫سردار رات کو پہرا دیتے ہوئے شارا ت و س و گی ا‬ ‫تھ ا لیکن میں ج اگ رہا تھ ا کہ اچان ک کس ی نے‬ ‫معرے سر کے پچھلے حصے پر وار کیا تھ ا ۔ اس‬ ‫کے بع د مجھے کچھ ہوش نہیں رہا تھ ا۔ س ردار‬ ‫مجھے تو یہ جاما قبیلے والوں کی سازش لگ تی‬ ‫ہے۔‬ ‫جارا نے اپنے سر سے الزام اتارنے کی کوش ش‬ ‫کرتے ہوئے جواب دیا۔‬ ‫‪Page 23 of 34‬‬


‫اسی وقت ایک جنگلی نے اندر آ ک ر س ردار ک و‬ ‫ان کے جاسوس کے آنے کی اطالع دی۔‬ ‫اسے فورا ً اندر بھیجو۔‬ ‫سردار نے کہا۔‬ ‫تھوڑی دیر میں جاسوس اندر داخل ہوا۔‬ ‫کہو کیا خبر الئے ہو؟‬ ‫سردار نے پوچھا۔‬ ‫سردار میں نے جاما قبیلے کے دو اف راد ک و آپ‬ ‫کے قیدی کو لیکر اپنے ق بیلے کی ط رف ج اتے‬ ‫دیکھ ا ہے ابھی وہ راس تے میں ہی ہوں گے ان‬ ‫کی رفتار زیادہ تیز نہیں تھی۔‬ ‫جاسوس نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔‬ ‫گوجی ہمارے جنگجوؤں ک و ف ورا ً اکٹھ ا ک رو ہم‬ ‫ابھی اسی وقت ان کے پیچھے ج ائیں گے۔ جام ا‬ ‫قبیلے کو ہم آج تہس نہس کر کے رکھ دیں گے۔۔۔‬ ‫جاؤ۔۔۔‬

‫‪Page 24 of 34‬‬


‫غصے کے م ارے س ردار کے منہ سے جھ اگ‬ ‫نکلنے لگی تھی ۔ گوجی سردار کی بات سن کر‬ ‫فورا ً باہر نکل کر جاچکا تھا۔‬ ‫تھوڑی ہی دیر میں قبیلے کے تمام جوان جنگلی‬ ‫ہتھیاروں سے لیس میدان میں جمع تھے۔ سردار‬ ‫ش امبو کے حکم پ ر ان کی مختص ر س ی ف وج‬ ‫انتہائی ت یز رفت اری کے س اتھ جام ا ق بیلے کی‬ ‫سمت بڑھنے لگی۔ اندھیرا ہونے سے ذرا پہلے وہ‬ ‫سب کے سب جاما قبیلے کے ب اہر موج ود تھے۔‬ ‫س ردار ش امبو کے اش ارے پ ر س ب پھی ل ک ر‬ ‫انتہائی خاموش ی سے آگے بڑھ نے لگے۔ جام ا‬ ‫قبیلہ ایک می دان میں جم ع تھ ا جہ اں م وت ک ا‬ ‫رقص جاری تھ ا۔ جیسے ہی رقص ک رنے وال وں‬ ‫نے بندھے ہوئے لڑکوں پر وار کرنے کی کوشش‬ ‫کی اس لمحے س ردار ش امبو نے اپ نے آدمی وں‬ ‫کو حملہ کرنے کا حکم دے دیا ۔ ان کا پہال نش انہ‬ ‫وہ دونوں تھے جن کے ہاتھوں میں چھرے تھے۔‬ ‫ان لڑک وں ک و ہم دیوت ا کی بھینٹ چڑھ ائیں گے‬ ‫اس ل ئے ان ک ا ب ال بھی بیک ا نہین ہون ا چ اہئے‪،‬‬ ‫لیکن جاما قبیلے کا کوئی آدمی بچ کے نا نکل نے‬ ‫پائے۔‬ ‫‪Page 25 of 34‬‬


‫سردار شامبو ایک طرف کھڑا اپ نے آدمی وں ک و‬ ‫ہدایات دے رہا تھا۔‬ ‫پھر تیروں کی برس ات میں دون وں اط راف کے‬ ‫ہتھیار آپس میں ٹک رانے لگے۔ دون وں ق بیلے کے‬ ‫لوگوں میں سے ک وئی بھی ب زدلی دکھ انے ک و‬ ‫تیار نہیں تھا۔‬ ‫‪---‬‬‫تیروں کی اچانک برسات نے ابوبکر اور جواد کو‬ ‫چونک نے پ ر مجب ور کردی ا ج و اب سے پہلے‬ ‫زندگی سےتقریبا ً م ایوس ہوچکے تھے۔ ج واد نے‬ ‫ابوبکر سے کہا۔‬ ‫بھائی ان حاالت میں ہمارا بندھے رہنا ٹھی ک نہیں‬ ‫۔ ہمیں ان رس یوں سے آزاد ہونے کی کوش ش‬ ‫کرنی چاہیے۔‬ ‫مگر کیسے ؟ ان کمبختوں نے ہمارے ہاتھوں ک و‬ ‫اتنی مضبوطی سے باندھا ہے کہ کھل تے ہی نہیں‬ ‫۔‬

‫‪Page 26 of 34‬‬


‫ابوبکر نے اپنے ہاتھوں ک و رس یوں کی قی د سے‬ ‫آزاد کرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔‬ ‫شاما ق بیلے والے اب آگ لگے ت یروں سے حملہ‬ ‫کر رہے تھے۔ ایک جلتا ہوا تیر اب وبکر کے بن دھے‬ ‫ہوئے ہاتھوں کے بالک ل ق ریب آک ر لگ ا ۔ اب وبکر‬ ‫کے ذہن میں اچانک ایک خیال آیا۔ وہ بوال۔‬ ‫جواد تم اس تیر کی آگ کو پھونک مار کر میرے‬ ‫ہاتھ کی رسیوں کی طرف بڑھ انے کی کوش ش‬ ‫کرو۔‬ ‫لیکن بھائی اس طرح آپ کا ہاتھ بھی جل س کتا‬ ‫ہے۔ جواد نے پریشان ہوتے ہوئے کہا۔‬ ‫لیکن رسیاں بھی تو کمزور پڑ ج ائیں گی جل نے‬ ‫سے۔۔ اس وقت ہمارے پاس اور کوئی چ ارہ نہیں‬ ‫ہے۔ جلدی کرو۔‬ ‫ابوبکر جلدی جلدی بوال۔‬ ‫جواد کو بھی بات سمجھ میں آگ ئی اور اس نے‬ ‫آگ ک و پھونک وں سے ت یز ک رنے کی کوش ش‬ ‫شروع کردی۔‬

‫‪Page 27 of 34‬‬


‫تھ وڑی ہی دی ر میں اب و بک ر کے ہ اتھوں کی‬ ‫رس یوں نے آگ پک ڑ لی تھی۔ اس ک ا ہ اتھ بھی‬ ‫ساتھ ہی جل نے لگ ا تھ ا لیکن اس وقت س وائے‬ ‫تکلیف برداشت ک رنے کے اور ک وئی چ ارہ نہیں‬ ‫تھ ا۔تھ وڑی ہی دی ر میں اب وبکر نے ای ک جھٹکے‬ ‫سے اپنے ہاتھ کو رسیوں کی قی د سے آزاد ک را‬ ‫لیا اور اپ نے پ یر کی رس یاں کھول نے لگ ا۔ اپ نی‬ ‫رسیاں کھ ول ک ر وہ ج واد کی ط رف بڑھ ا اور‬ ‫اس ک و بھی رس یوں سے آزاد ک ر دی ا۔ تم ام‬ ‫جنگلی اس وقت آپس میں لڑائی میں مصروف‬ ‫تھے اس لیے ان کی طرف کسی نے ت وجہ نہیں‬ ‫کی اور وہ دونوں درخت وں کی آڑ میں جن گ کے‬ ‫میدان کی مخالف سمت میں بھاگنے لگے۔‬ ‫‪---‬‬‫چچا جان اور چچی جان دون وں دری ا کے کن ارے‬ ‫پریشانی کی حالت میں کچھ دیر کھڑے رہے اور‬ ‫جب ان ک و یقین ہو گی ا کہ اب وبکر اور ج واد ک ا‬ ‫دور دور ت ک ک وئی ن ام و نش ان نہیں ہے ت و وہ‬ ‫سیدھے قریبی پولیس سٹیش ن پہنچے اور تم ام‬ ‫‪Page 28 of 34‬‬


‫حاالت پولیس کو بی ان ک ردیے۔ چ ونکہ چچاج ان‬ ‫یواین او کے مشن پر تھے اس لیے پولیس ف ورا ً‬ ‫حرکت میں آ گئی۔ دونوں بچوں کو ڈھونڈنے کے‬ ‫لیے سپاہیوں کے دو دستے ترتیب دیے گئے ای ک‬ ‫کو دری ا کی ط رف اور دوس رے ک و جنگ ل کی‬ ‫طرف روانہ ک ر دی ا گی ا۔ دری ا کی س مت ج انے‬ ‫والی ٹیم کے ساتھ چچاجان اور ٹیم کے س ربراہ‬ ‫انسپکٹر ڈیوڈ بھی تھے۔‬ ‫کیا آپ ک و اچھی ط رح ی اد ہے کہ جب آپ دری ا‬ ‫کے کنارے پہنچے تو وہاں دور دور تک کوئی نہیں‬ ‫تھا؟‬ ‫انسپکٹر نے چچاجان سے دریافت کیا۔‬ ‫جی ہاں۔ چچا جان نے مختصر جواب دیا۔‬ ‫ارے ای ک ب ات ابھی ی اد آئی ہے کہ میں نے دری ا‬ ‫میں سرخ رنگ کی کوئی چیز بہ تی دیکھی تھی‬ ‫ج و کہ ورا ً م یری نظ روں سے اوجھ ل ہ و گ ئی‬ ‫تھی اس لیے مجھے خیال ہی نہیں رہا۔ چچا ج ان‬ ‫نے مزید بتایا۔‬ ‫اور آپ کے دونوں بھتیجوں نے الل رن گ کی ٹی‬ ‫شرٹس پہنی ہوئی تھیں۔ انسپکٹر نے کہا۔‬ ‫‪Page 29 of 34‬‬


‫جی جی بالکل۔ چچا جان نے اثبات میں سر ہالیا۔‬ ‫پھ ر ت و دری ا میں ان کی تالش فض ول ہے۔‬ ‫انسپکٹر ڈیوڈ بولے۔ دراص ل آپ ل وگ جہاں تھے‬ ‫وہاں سے کچھ ہی دور پ ر دری ا ک ا پ اٹ ک افی‬ ‫چوڑا اور کم گہرا ہو جات ا ہے اور وہیں سے دری ا‬ ‫کا رخ بھی مڑت ا ہے۔ اس ل یے م یرا خی ال ہے وہ‬ ‫دری ا کی بج ائے دری ا کے کن ارے جنگ ل میں ہ و‬ ‫س کتے ہیں۔ انس پکٹر نے س ر ہالتے ہوئے حتمی‬ ‫لہجے میں کہا۔‬ ‫اس وقت تک وہ دریا کے کنارے پہنچ چکے تھے ۔‬ ‫کچھ دیر وہاں آس پاس دیکھ نے کے بع د ان کی‬ ‫ٹیم نے رپ ورٹ دی کہ ان کی وہ اں تالش ک ا‬ ‫کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا اس لیے انسپکٹر ڈیوڈ‬ ‫نے ان کو واپس جانے کا کہا اور چچ ا ج ان سے‬ ‫ب ولے اب ہم ک و جنگ ل والی ٹیم کے ج واب ک ا‬ ‫انتظار کرنا پڑے گا۔ اور واپس ہو گئے۔‬ ‫اگال س ارا دن انہوں نے جنگ ل میں تالش ک رنے‬ ‫کے بع د جب رات کہری ہونے لگی ت و ان ک و‬ ‫مجبورا ً تالش کا ک ام روکن ا پ ڑا۔ وہ واپس ہورہے‬ ‫تھے کہ اچان ک ان ک و اپ نی جیپ کی ہی ڈالئٹس‬ ‫‪Page 30 of 34‬‬


‫کی روشنی میں کچھ فاصلے پر ایک ہاتھ ہلتا ہوا‬ ‫دکھائی دیا۔ انسپکٹر ڈیوڈ نے فورا ً جیپ روک دی‬ ‫تھی۔‬ ‫‪---‬‬‫جواد اور ابوبکر کافی دور نک ل آئے تھے اور دل‬ ‫ہی دل میں ش کر ادا ک ر رہے تھے کہ ابھی ت ک‬ ‫کسی جنگلی کو ان کے تعاقب میں آنے کا خیال‬ ‫ہی نہیں آیا تھا۔ شاید وہ لوگ اپنی جنگ میں اس‬ ‫بری طرح مص روف تھے کہ ان دون وں کے نک ل‬ ‫جانے کی کس ی ک و خ بر ہی نہیں ہوئی تھی۔ ان‬ ‫کو بالکل اندازہ نہیں تھا کہ وہ دونوں کس سمت‬ ‫ج ا رہے تھے بس ان کی کوش ش یہی تھی کہ‬ ‫جت نی جل دی ہو س کے اس خ ونی می دان اور‬ ‫خوفن اک خونخ وار جنگلی وں سے دور بہت دور‬ ‫نکل کر کسی محفوظ جگہ پہنچ جائیں۔‬ ‫ابوبکر کی ٹان گ اور ہاتھ زخمی تھے جبکہ ج واد‬ ‫بھی کم ر کی تکلی ف سے زی ادہ ت یز نہیں بھ اگ‬ ‫سکتا تھا۔ پھر بھی دونوں نے ہمت نہیں ہاری اور‬ ‫ایک دوسرے کو سہارا دیتے ہوئے تیزی سے آگے‬ ‫‪Page 31 of 34‬‬


‫ب ڑھے چلے ج ا رہے تھے۔ لیکن دون وں تھ ک ک ر‬ ‫چور ہو چکے تھے اور پھر ایک وقت ایس ا آی ا کہ‬ ‫جیسے دون وں کی ہمت ج واب دے چکی ہ و اور‬ ‫پھر دونوں لہرا کر نیچے گر پڑے۔ ابوبکر تو اسی‬ ‫وقت بے ہوش ہو گی ا ج واد کی ح الت بھی کچھ‬ ‫کم خ راب نہ تھی لیکن بیہوش ہوتے ہوئے اس‬ ‫کی آنکھوں میں روشنی پڑی جو کہ شاید کس ی‬ ‫گاڑی کی ہیڈالئٹس کی روشنی تھی۔ اس کا ہاتھ‬ ‫غ یر ارادی ط ور پ ر ہوا میں بلن د ہوا اور پھ ر وہ‬ ‫بھی ہوش و حواس سے بےگانہ ہو گیا۔‬ ‫‪---‬‬‫اب وبکر کی جب آنکھ کھلی ت و وہ ای ک آرام دہ‬ ‫بستر پر تھا ۔ اس کے زخم وں پ ر پٹی اں بن دھی‬ ‫ہوئی تھیں اور ساتھ والے بیڈ پر ج واد بیٹھ ا اس‬ ‫ک و ہوش میں آت ا دیکھ ک ر خ وش ہو رہا تھ ا۔‬ ‫سامنے لگے صوفے پر چچا ج ان اور چچی ج ان‬ ‫بیٹھے تھے ج و اب اٹھ ک ر اس کے پ اس آ چکے‬ ‫تھے ۔ ان کے چہروں سے بھی خوش ی ظ اہر ہ و‬ ‫رہی تھی۔‬ ‫‪Page 32 of 34‬‬


‫ات نے میں دروازہ کھال اور انس پکٹر ڈی وڈ ای ک‬ ‫ڈاکٹر کے س اتھ ان کے کم رے میں داخ ل ہوئے‬ ‫اور چچا جان سے بولے۔‬ ‫مجھے خوشی ہے کہ دونوں بچے صحیح س المت‬ ‫مل گئے ہیں ۔‬ ‫ان کے زخم کچھ ہی دن میں من دمل ہ و ج ائیں‬ ‫گے اور کل تک آپ ان دونوں کو اپ نے س اتھ لے‬ ‫جا سکیں گے۔‬ ‫ڈاکٹر صاحب نے خوش خبری سنائی۔‬ ‫ایک بات اور ۔۔ انس پکٹر ص احب چچ ا ج ان سے‬ ‫بولے۔۔‬ ‫کل ایک واقعہ اور جنگ ل میں پیش آی ا ہے جس‬ ‫کی وجہ آپ کے یہ دون وں بچے ہیں۔ہمیں ہم ارے‬ ‫مخ بروں نے رپ ورٹ دی ہے کہ ان کی وجہ سے‬ ‫دو انتہائی خونخ وار جنگلی ق بیلے آپس میں‬ ‫ل ڑنے کی وجہ سے ختم ہو گ ئے ہیں۔ وہ ایسے‬ ‫ط اقتور ق بیلے تھے جن سے حک ومت بھی پن اہ‬ ‫مانگتی تھی اور ان کے عالقے سے عام لوگ وں‬ ‫کو دور رکھا جات ا تھ ا ۔ لیکن پھ ر بھی وہ بھ ولے‬ ‫بھٹکے لوگوں کو پکڑ کر اپنے دیوتاؤں کی بھینٹ‬ ‫‪Page 33 of 34‬‬


‫چڑھا دیا کرتے تھے۔ لیکن اب یہ سارا جنگل اس‬ ‫خوف سے آزاد ہو چک ا ہے۔ اور اس ک ا سہرا ان‬ ‫دونوں ب اہمت‪ ،‬ب ا ع زم اور باحوص لہ بچ وں کے‬ ‫سر ہے۔‬ ‫انسپکٹر کی بات کے دوران کم رے میں موج ود‬ ‫تمام لوگ ان دونوں ک و مس کراتی نگ اہوں سے‬ ‫دیکھ رہے تھے اور انس پکٹر کی ب ات ختم ہوتے‬ ‫ہی اب وبکر اور ج واد کے چہروں پ ر مس کراہٹ‬ ‫دوڑنے لگی۔‬ ‫ختم شد‪----‬‬

‫‪Page 34 of 34‬‬


Turn static files into dynamic content formats.

Create a flipbook
Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.