دیوتا کی بھینٹ سعید سعدی ابوبکر اور ج واد آج ص بح سے بہت خ وش تھے۔ اور کی وں نہ ہوتے ب ات ہی کچھ ایس ی تھی دراصل ان کے چھوٹے چچا ج و کہ کچھ عرصے سے یونائیٹ ڈ نیش نز کے ای ک پ روجیکٹ کے سلس لے میں نائیجیری ا میں عارض ی ط ور پ ر رہائش پذیر تھے اور اپنے کسی ضروری کام کے سلس لے میں پاکس تان آئے ہوئے تھے اب واپس جارہے تھے۔ اب وبکر اور ج واد نے بھی اپ نے امی ابو سے اجازت لے کر ان کے ساتھ گرمیوں کی چھٹیاں نائیجیریا میں گزارنے کا پروگرام بن ا لی ا تھ ا۔ اور زور و ش ور سے اپ نی تی اریوں میں مص روف تھے۔ ان کی فالئٹ ک راچی سے روانہ وقت مقررہ پر وہ ل وگ ائرپ ورٹ پہنچ ہونی تھی۔ ِ گئے جب تک وہ امیگریشن کے مراحل سے گ زر ک ر ان در پہنچے بورڈن گ ش روع ہو چکی تھی۔ پاکستان سے نائیجیری ا ک ا س فر ب ڑے آرام سے کٹ ا اور پھ ر آخرک ار وہ ل وگ نائیجیری ا پہنچ ہی گئے۔ Page 1 of 34
نائیجیری ا پہنچ ک ر اب وبکر اور ج واد دون وں بہت خوش تھے ۔ جب وہ اپنے انک ل کے ف ارم ہ اؤس پہنچے ج و کہ "ابوج ا" شہر کے مض افات میں شہر سے کچھ فاصلے پر واقع تھ ا ،ت و وہ ان ان کی چچی نے ان ک ا اس تقبال کی ا ،لیکن انہیں وہاں عالقے کے ل وگ اور ف ارم ہاؤس کے مالزمین ڈرے سہمے سے لگے ،ہر ط رف خ وف کا راج تھا۔ انکل نے جب چچی سے استفسار کیا ت و انہ وں نے بتایا کہ چند دن قبل ان کی ٹیم کے دو اف راد جنگل میں کس ی ک ام سے گ ئے تھے لیکن پھ ر جب ک افی دی ر ت ک واپس نہیں آئے ت و ان کی تالش میں کچھ لوگ ان کے پیچھے گئے لیکن وہ بھی ت ا ح ال ال پتہ ہیں ،یہی وجہ ہے کہ پ ورے عالقے میں سراس میگی پھیلی ہوئی ہے اور ہ ر شخص خوف کا شکار ہے۔ یہ سن ک ر انک ل بھی پریشان ہو گئے لیکن ان لوگ وں کے پہنچ نے کے بعد اس قسم کا مزید کوئی واقعہ پیش نہیں آی ا اور لوگ آہستہ آہستہ روزانہ کی عام زن دگی کی طرف لوٹنے لگے۔ ---Page 2 of 34
چند دن اپنے چچا کے فارم ہاؤس پر گزارنے کے بعد ان کے چچاج ان نے جنگ ل میں کیمپن گ ک ا پروگ رام بنای ا۔ اب وبکر اور ج واد کی ت و جیسے خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اتوار کی ایک خوش گوار صبح وہ لوگ نماز فجر ادا کر کے چچ ا اور چچی کے س اتھ ان کی وین میں پکن ک کے ل یے روانہ ہو گئے ۔ جنگل کے عین درمیان ایک دریا بہتا تھ ا ان کی منزل وہی دریا تھا۔ برسات کا موسم تھ ا اور دری ا ب ڑے زورو ش ور سے بہہ رہ ا تھ ا لیکن کناروں پر اس کا زور پھ ر بھی کچھ کم ہی تھ ا۔ دریا ک و دیکھ ک ر اب وبکر اور ج واد نے نہانے ک ا پروگرام بنا لیا۔ چچا ج ان نے بہت من ع کی ا مگ ر آخرکار انہیں اس شرط پر ماننا ہی پ ڑا کہ زی ادہ دور نہیں ج ائیں گے اور دری ا کے کن ارے کے قریب ہی رہیں گے۔ چچ ا ج ان ان کی چچی کے س اتھ ص اف جگہ کیمپ لگ انے کی تی اری میں مصروف ہو گئے جبکہ ان دونوں نے دری ا ک ا رخ کر لیا۔ یہ دونوں لڑکے بڑے آفت کے پرکالے ہیں ۔ چچی چچ ا کے س اتھ ک ام میں ہاتھ بٹ اتے ہوئے بولیں ۔ Page 3 of 34
مگر ذہین بھی تو اتنے ہی ہیں ۔ چچا جان بولے۔ ہاں یہ تو ہے شرارتی بچے ع ام ط ور پ ر بال کے ذہین بھی ہوتے ہیں۔ چچی نے چچا کی ہاں میں ہاں مالئی۔ ویسے یہ دونوں عام بچوں سے کہیں زیادہ ذہین اور ۔۔۔۔ ابھی چچا جان نے اتنا ہی کہا تھا کہ ان کو دریا کی طرف سے ابوبکر اور جواد کی چیخ وں کی آوازیں س نائی دیں۔ دون وں گھ برا ک ر دری ا کی سمت دوڑے لیکن کن ارے پ ر پہنچ ک ر انہیں دور دور تک دونوں بچ وں میں سے ک وئی بھی نظ ر نہیں آیا۔ دون وں پریش انی کے ع الم میں اب وبکر اور جواد کا نام پکارنے لگے لیکن وہ اں دور دور تک کوئی ذی روح موجود نہیں تھا۔ ---ٹان گ میں ش دید تکلی ف سے اب وبکر کی جب آنکھ کھلی ت و اس نے اپ نے آپ ک و ای ک انج ان جگہ پایا۔ اس نے چچا ج ان ،چچی اور ج واد ک و Page 4 of 34
بہت آوازیں دیں مگر کوئی جواب نہ مال۔ اس نے اٹھ نے کی کوش ش کی مگ ر گھٹ نے میں ش دید درد کی لہر دوڑ گ ئی اور اس کی آنکھ وں کے سامنے تمام مناظر گھوم گئے جو اس کے ساتھ پیش آئے تھے۔ اسے ی اد آی ا کہ جب وہ اور ج واد دریا کنارے ایک دوسرے پر پانی اچھ ال رہے تھے تو اچان ک ای ک مگ رمچھ نے کہیں سے آک ر اس کی ٹانگ دبوچ لی تھی۔ ابوبکر نے ش دید تکلی ف کے باوجود کافی جدوجہد کے بعد اپنی ٹان گ ت و چھڑا لی تھی لیکن اس کی ٹان گ پ ر بہت گہرے زخم آئے تھے جن سے خ ون ابھی ت ک رس رہ ا تھا۔ مگرمچھ سے ٹانگ چھڑانے کے بع د اس ک و صرف اتنا یاد رہا تھا کہ اسے ایک زبردست دھکا لگا تھا اور نق اہت کی وجہ سے وہ اپ نے ہ وش و حواس کھو بیٹھا تھ ا اور اب کہیں ج اکر پتہ نہیں کتنی دیر کے بعد اسے ہوش آیا تھا۔ ش دید تکلی ف کے ب اوجود اس نے ہمت ک ر کے اٹھ نے کی کوش ش کی اور کھ ڑے ہونے میں کامی اب بھی ہوگی ا لیکن ابھی چن د ق دم ہی چال ہوگ ا کہ تکلی ف اور نق اہت کی وجہ سے دھ ڑام سے گر پڑا۔ اس کے زخم وں سے مت واتر خ ون Page 5 of 34
رس رہا تھا۔ اس نے اپنی آستین پھاڑ کر زخم پر پٹی باندھی اور پھ ر اٹھ ک ر چل نے کی کوش ش کی کچھ ہی فاصلہ طے کیا ہوگا کہ دوبارہ گر پڑا اور اس دفعہ اس پر پھر غش ی ط اری ہ و گ ئی اور اسے کسی چیز کا ہوش نہ رہا۔ ---جواد کی جب آنکھ کھلی تو اس نے اپنے آپ کو کچھ عجیب حلیے والے عجیب و غریب جنگلیوں کے درمی ان پای ا۔ وہ س ب اس کے اوپ ر جھکے ہوئے اس ک و غ ور سے دیکھ رہے تھے۔ ان کے چہرے ات نے خوفن اک ل گ رہے تھے کہ ج واد کے منہ سے غیر ارادی طور پر چیخ نکل گئی ۔ جواد کو آنکھیں کھولتا دیکھ ک ر اور پھ ر اس کی چیخ س ن ک ر س ارے جنگلی پیچھے ہٹ گ ئے۔ اور دو انتہائی کالے بھجنگ حبشی آگے بڑھے اور ج واد کو ب ازوؤں سے پک ڑ ک ر اٹھای ا۔ ج واد ک ا جس م جیسے ہی سیدھا ہوا اسے اپنی کمر میں ش دید درد ک ا احس اس ہوا ۔ اسے ی اد آی ا کہ جب ای ک خونخوار مگرمچھ نے ابوبکر پر حملہ کیا تھ ا ت و Page 6 of 34
اس نے اب وبکر ک و مگ رمچھ کے ج بڑے سے چھڑانے کے ل یے مگ رمچھ کی پیٹھ پ ر چھالن گ الگا کر اسے ق ابو کرن ا چاہا تھ ا۔ لیکن مگ رمچھ نے اپنی دم کو لہرایا تھا جو کہ جواد کی پیٹھ پ ر بہت زور سے لگی تھی اور وہ اچھ ل ک ر دری ا کے بیچ میں آ گ را تھ ا اور پھ ر اس کی آنکھ وں کے سامنے اندھیرا چھا گیا تھا۔ دون وں خوفن اک ش کل والے حبش ی اسے ل یے ہوئے ایک بڑے سے سرکنڈوں اور گھاس پھونس سے ب نے جھون پڑے میں داخ ل ہوئے۔ ج واد نے دیکھ ا کہ ان در ای ک بوڑھ ا جنگلی جھون پڑے کے بیچ وں بیچ زمین پ ر براجم ان ہے اور اس کے گ رد ک افی س ارے شیشے کے مرتب انوں اور مختلف عجیب و غ ریب اوزاروں کی موج ودگی سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ جنگلیوں کا طبیب ہے۔ ج واد ک و اس کے س امنے زمین پ ر ڈال ک ر وہ دونوں جنگلی پیچھے ہٹ گئے اور طبیب اٹھ ک ر جواد کے پ اس آ گی ا۔ ق ریب آک ر اس نے کس ی ل فہم زب ان میں کچھ کہ ا اور ای ک جنگلی ناقاب ِ نے اس ی زب ان مین اس ک و ج واب دی ا۔ ج واب Page 7 of 34
سن کر طبیب نے ی وں س ر ہالی ا جیسے س اری بات اس کی سمجھ میں آگئی ہو۔ پھر ای ک جنگلی آگے بڑھ ا اور اس نے ج واد ک و پکڑ کر زمین پر الٹا لٹا دیا جس کے بع د ط بیب نے ایک مرتبان سے ایک مرہم جواد کی کمر پ ر چوٹ پر لگانا شروع ک ر دی ا۔ م رہم کے زخم پ ر لگتے ہی جواد کو ایسا محسوس ہوا جیسے اس کی کمر پ ر آگ کے انگ ارے رکھ دیے گ ئے ہوں۔ اس کے منہ سے غیر ارادی طور پر چیخیں نک ل گئیں۔ مرہم لگانے کے بعد دونوں جنگلی جواد ک و اٹھ ا ک ر ای ک اور جھون پڑے میں لے آئے ج و کہ پہلے والے سے نس بتا ً چھوٹ ا تھ ا اور ان در زمین پ ر گھ اس پھ ونس کے بس تر کے س وا کچھ نہ تھ ا۔ جواد کو اس گھاس کے بستر پ ر لٹ انے کے بع د دونوں جنگلی جھونپڑے سے نکل گئے۔ ج واد ک ا ناقابل برداشت تھا اور شاید درد کی ش دت درد ِ کی وجہ سے ہی جل د اس پ ر غش ی ط اری ہ و گئی اور وہ درد کی شدت سے بے نیاز ہوکر نیند کی آغوش میں سوگیا۔ Page 8 of 34
---ص بح س ویرے ج واد کی آنکھ چڑی وں کے ش ور سے کھلی ۔ ابھی وہ اپنے اوپر گ زرے ح االت ک ا اندازہ لگا ہی رہا تھا کہ ایک جنگلی اس کے ل ئے تازہ پھل اور پانی رکھ کر چال گیا۔ تازہ پھ ل دیکھ کر جواد کی بھوک چمک اٹھی پیاس بھی ش دت سے محسوس ہو رہی تھی۔ بس پھر کی ا تھ ا ج واد کے ہ اتھ س ب کچھ ختم ک رنے کے بع د ہی رکے۔ جیسے ہی اس نے کھ ا پی ک ر اللہ ک ا ش کر ادا کی ا اس ی وقت وہی دون وں جنگلی جھون پڑے میں داخ ل ہوئے اور اسے دونوں ہاتھوں سے پک ڑ ک ر جھون پڑے سے باہر نکاال اور جھونپڑوں کے درمی ان ای ک وس یع میدان میں نصب بانس کی صلیب پر لے جا ک ر باندھ دیا۔ دوپہر ڈھلنے تک جواد وہاں اکیال بن دھا رہا اور جنگلیوں کی بستی کے لوگ اپنے روزمرہ کے ک اموں میں مص روف رہے۔ اس دوران دو تین دفعہ ایسا ہوا کہ بستی کے کچھ بچے گروپ کی ش کل میں اس کے ق ریب آتے اور پھ ر Page 9 of 34
عجیب و غ ریب آوازیں نک التے ہوئے وہاں سے بھاگ جاتے۔ ش ام سے کچھ پہلے دو تین جنگلی وں نے آک ر می دان کے درمی ان آگ روش ن ک ردی جس کے بع د چہروں اور نیم ب رہنہ جس موں پ ر عجیب و غ ریب ڈی زائن بن ائے جنگلی می دان کے چ اروں طرف سے آ ک ر می دان کے وس ط میں آگ کے گرد جمع ہونا شروع ہوگ ئے۔ اور تھ وڑی ہی دی ر میں ایک جم غفیر وہاں اکٹھ ا ہوکر خوش ی سے اچھل کود اور شور شرابے میں مصروف ہوگی ا۔ اسی اثنا میں ایک سمت سے جنگلی وں ک ا ای ک گ روہ ای ک ب ڑی س ی پ الکی اٹھ ائے نم ودار ہوا۔ پ الکی میں ای ک بھ اری ڈی ل ڈول واال جنگلی براجمان تھا جو کہ اپنے حلیے سے اس بستی کا سردار لگ رہا تھا۔ پالکی ب ردار ج واد کے ق ریب آک ر رک گ ئے اور انہوں نے پ الکی زمین پ ر آہستگی سے رکھ دی۔ سردار نے اپنا بای اں ہ اتھ ہوا میں بلند کر کے س ب ک و خ اموش ہونے ک ا اش ارہ کی ا اور چ اروں ط رف س ناٹا چھ ا گی ا۔ س ردار کے ہاتھ کے نیچے ہوتے ہی مجم ع میں سے ایک جنگلی آگے بڑھا بے سری ک رخت آواز Page 10 of 34
میں کچھ گ انے لگ ا س اتھ ہی اس نے آگ کے چ اروں ط رف اچھ ل اچھ ل ک ر بے ہنگم رقص بھی ش روع کردی ا۔ اس جنگلی ک ا بے ہنگم ن اچ ابھی ج اری تھ ا کہ می دان کی ای ک س مت سے عجیب س ا ش ور اٹھ ا اور س ب کے س ب اس طرف متوجہ ہو گئے۔ ج واد کی س مجھ میں نہیں آرہا تھ ا کہ یہ اس کے س اتھ ہو کی ا رہا ہے اور کی ا ہونے واال ہے،وہ بھی شور سن کر اس ط رف دیکھ نے لگ ا جس طرف سارے مت وجہ تھے لیکن تھ وڑی دی ر میں اسے جو منظر نظر آی ا اس سے اس پ ر س کتہ طاری ہو گیا۔ ---وہ دونوں بہت پریش ان تھے ۔ ای ک ک ا ن ام ش ارا اور دوسرے کا نام جارا تھا۔ یار دو دن ہوگ ئے مگ ر ہمیں اب ت ک ک وئی بھی اپنے کام کا انسان نہیں مال۔ شارا نے کہا۔ Page 11 of 34
ہاں یار ۔۔ اگ ر ک ل ت ک ہم ک وئی آدمی ڈھون ڈنے میں ناک ام رہے ت و س ردار کے س امنے کس منہ سے جائیں گے؟ جارا نے مایوس لہجے میں شارا سے کہا۔ کس منہ سے جانا ہے اس ی منہ کے س اتھ چلیں گے۔ شارا نے ایک لمبی سانس لیکر ایک گ رے ہوئے درخت کے تنے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ یہ م ذاق ک ا وقت نہیں ہے ی ار س نجیدگی سے سوچو کہ اگر ک ل ت ک ہم کامی اب نہیں ہوئے ت و سردار ہمارا کیا حشر کرے گا۔۔ مجھے ت و س وچ کر ہی ہول اٹھ رہے ہیں۔ جارا نے بھی ایک درخت کے تنے سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا۔ ٹھی ک ہے س وچتے ہیں لیکن فی الح ال ت و میں تھوڑی دیر آرام کروں گ ا۔ ش ارا نےاپ نی آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا۔ شارا کو آنکھیں بند کرتے دیکھ کر جارا اٹھ کھڑا ہوا اور پریشانی کے عالم میں ادھر ادھ ر ٹہل نے Page 12 of 34
لگا۔ کبھی وہ ایک ہاتھ ک ا مک ا دوس رے ہ اتھ کی ہتھیلی پر مارتا تو کبھی پاؤں پٹخنے لگتا۔ اور پھر جب اسے شارا کے خوفناک خ راٹے س نائی دیے ت و وہ چون ک ک ر اس کی ط رف دیکھ نے لگ ا۔ تھوڑی دی ر ت و وہ بغ یر پل ک جھپک ائے ش ارا ک و دیکھت ا رہا جیسے س وچ رہا ہو کہ اس پریش انی کے عالم میں کوئی کیسے سو سکتا ہے اور پھر ایک طرف کو چل پڑا۔ خوش ی اور مس رت آم یز بلن د آوازیں س ن ک ر شارا کی آنکھ ای ک جھٹکے سے کھ ل گ ئی چن د لمحوں تک تو اس کی سمجھ میں کچھ نا آیااور پھر یک دم اٹھ ک ر بیٹھ گی ا اور جس ط رف سے آوازیں آرہی تھیں اس ط رف دوڑپ ڑا۔ ابھی تھوڑی دور ہی گیا ہوگا کہ اسے کچھ فاص لے پ ر جارا نظر آی اجو کہ جھ ک ک ر کچھ دیکھ رہا تھ ا۔ ش ارا ف ورا ً بھاگت ا ہوا اس کے ق ریب پہنچ ا ت و اسے ای ک بیہ وش لڑک ا زمین پ ر پ ڑا نظ ر آی ا جسے جارا جھک کر دیکھ رہا تھا۔
Page 13 of 34
دونوں نے خوشی کے عالم میں ایک دوسرے کو مسکراتے ہوئے دیکھا اور پھر دونوں نے مل ک ر اس بیہوش لڑکے کو اٹھای ا اور ت یزی سے اپ نے گاؤں کی سمت روانہ ہوگئے۔ ان دھیرا ہونے سے کچھ پہلے وہ ل وگ اس ل ڑکے کو لے کر اپنے گاؤں پہنچ گ ئے۔ گ اؤں وال وں نے ان دونوں کو دیکھ کر خوش ی اور مس رت سے بھرپور نعرے لگانے ش روع ک ر دیے۔ نع روں کی گ ونج میں وہ دون وں اس ل ڑکے ک و اٹھ ائے سیدھے سردار کی جھونپڑی کے س امنے پہنچے۔ سردار جو کہ نعرے سن کر اپنی جھون پڑی سے باہر نکل آیا تھا س یدھا ان کے پ اس پہنچ ا۔ ج ارا اور شارا نے بے ہوش لڑکے کو زمین پر لٹ ا دی ا اور سردار کے سامنے جھک کر بولے ۔ سردار شامبو ہم اس لڑکے ک و دیوت ا کی بھینٹ کے ل یے لے آئے ہیں۔ اب ہم ارا دیوت ا ہم سے خوش ہو جائے گا اور پھر جاما قبیلہ ہمارے شاما قبیلے کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا اور ان جنگلوں پر صرف اور صرف ہماری حکومت ہوگی۔
Page 14 of 34
اسے لے جاکر قید ک ردو ،ط بیب سے کہ و اس کی مرہم پٹی کرے کل تک اس کا ٹھیک ہونا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ دیوت ا زخمی کی بھینٹ نہیں لی تے اس ل یے ط بیب سے کہو کہ وہ ف وری اث ر کرنے والی جڑی بوٹیوں ک ا اس تعمال ک رے اور اس کو جس جھونپڑی میں رکھ ا ج ائے اس کے گرد پہرا سخت ہون ا چ اہیے کی ونکہ جام ا ق بیلے والے ہم اری ت اک میں ہیں کہ کہیں ان سے پہلے ہم دیوتا کو بھینٹ نہ چڑھا دیں -جاؤ لے جاؤ اس کو۔ سردار شامبو خوش ہوکر بوال ۔ دونوں نے اس لڑکے کو اٹھ ا ک ر ای ک جھون پڑے میں موجود گھاس کے بس تر پ ر ال ک ر ڈال دی ا۔ کچھ دیر بعد ان کے گاؤں کا طبیب آیا جو م رہم پٹی کا سامان اپ نے س اتھ الی ا تھ ا۔ زخم وں پ ر مرہم لگ انے کے بع د ط بیب نے ج ارا اور ش ارا سے مخاطب ہو کر کہا۔ میرے اس جادوئی م رہم سے ک ل ص بح س ورج نکلنے سے پہلے یہ بالکل ٹھیک ہو جائے گا۔
Page 15 of 34
ط بیب کے ج انے کے بع د ش ارا اور ج ارا اپ نے ن یزے لے ک ر جھون پڑے کے س امنے پہرا دی نے کھڑے ہوگئے۔ شکر ہے ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے۔ جارا نے کہا۔ بھ ئی مجھے ت و نین د آ رہی ہےتھ وڑی دی ر بع د مجھے اٹھا دینا۔ ش ارا جھون پڑی کی دی وار سےٹیک لگ اتے ہوئے بوال۔ اور تھ وڑی ہی دی ر میں ش ارا کے خ راٹے رات کی خاموشی میں گونجنے لگے۔ ج ارا بھی وہیں بیٹھ ک ر کچھ س وچنے لگ ا کہ اچان ک اسے اپ نے س ر کے پچھلے حصے میں ش دید تکلی ف ک ا احس اس ہوا اور اس ک ا ذہن تاریکی میں ڈوبتا چال گیا۔ ----
Page 16 of 34
رامبی درخت پ ر چڑھ ا پھ ل کھ ا رہ ا تھ ا گوم و بھاگتا ہوا آیا اور بوال۔ رامبی ،رامبی غض ب ہوگی ا ،ش اما ق بیلے والے دیوتا کی بھینٹ لے آئے ہیں۔ یہ س نتے ہی رام بی جھٹ پٹ درخت سے نیچے اترا اور بوال۔ مگر وہ بھینٹ چڑھ ا نہیں س کیں گے ۔۔ آؤ م یرے ساتھ۔ ---ان دھیرا پھی ل چک ا تھ ا ۔ دو س ائے چپکے چپکے شاما قبیلے کی حدود میں داخل ہوئے اور براب ر آگے بڑھ تے چلے گ ئے۔ کچھ دور انہیں ای ک جھون پڑی کے ب اہر دو پہری دار نظ ر آئے ۔ پہلے سائے نے دوسرے سے مخاطب ہو کر کہا۔ گومو تم یہیں رکو اور جب بھیڑیے کی آواز س نو تو سامنے والی جھونپڑی میں آجانا۔ یہ کہہ ک ر رام بی س امنے والی جھون پڑی کی پچھلی طرف بڑھا۔ اور پہریداروں کے عقب میں Page 17 of 34
پہنچ گی ا۔ اس نے دیکھ ا کہ ای ک س و رہا ہے اور دوسرا کسی سوچ میں گم ہے۔ رام بی نے اپ نی کھڑی ہتھیلی کا زوردار وار جاگنے والے پہری دار کی گدی پر رسید کیا اور پہریدار بغیر کوئی آواز نکالے ڈھیر ہوگی ا۔ پھ ر وہ آگے بڑھ ا اور احتیاط ا ً ایک ہاتھ سونے والے شخص کو بھی رسید کردیا ۔ اس کے بعد وہ جھونپڑے کے اندر داخل ہ و گی ا اندر ایک لڑکا گھاس کے بستر پ ر بے ہ وش پ ڑا تھا ی ا ش اید س و رہا تھ ا ۔ اس نے جھون پڑی کے دروازے کے پاس کھڑے ہو کر بھ یڑیے کے رونے جیسی آواز نکال کر گومو کو اشارہ دی ا۔ تھ وڑی دی ر میں گوم و بھی ان در آ چک ا تھ ا۔ دون وں نے مزید وقت ضایع کیے بغ یر اس ل ڑکے ک و اٹھای ا اور وہاں سے نکل آئے۔ رات بھر سفر ک رنے کے بعد جب وہ تھک کر چور ہوگئے تو کچھ دی ر آرام کرنے کی خاطر ایک محف وظ جگہ دیکھ ک ر رک گئے۔ کچھ دی ر بع د ان دون وں نے دیکھ ا کہ اس لڑکے کو ہوش آرہا ہے تو ان دونوں نے ہر طرف اگی لمبی گھاس کو ب ل دے ک ر رس ی تی ار کی جس سے انہوں نے لڑکے کو اچھی ط رح بان دھ دی ا۔ کچھ دی ر سس تانے کے بع د دون ون نے اپن ا سفر پھر شروع کردیا۔ دوپہر ڈھلے وہ لوگ اپ نے Page 18 of 34
گاؤں پہنچ چکے تھے۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے اس لڑکے کو صلیب تی ار ک رکے اس سے بان دھا اور اس کو اٹھا کر گ اؤں کے ب ڑے می دان پہنچ گ ئے جہاں پہلے سے بھینٹ کا جشن منایا ج ا رہا تھ ا۔ اس وقت ت ک اس ل ڑکے ک و بھی پ وری ط رح ہوش آچکا تھ ا اور بے بس ی اور بےچ ارگی سے اپنے اطراف کا جائزہ لے رہ ا تھ ا لیکن کچھ بھی کرنے سے قاص ر تھ ا۔ جیسے ہی وہ می دان میں داخل ہوئے وہ لڑکا وہاں کا منظر دیکھ ک ر اپ نی چیخ ضبط نہیں ک ر س کا اور ای ک دل دوز "نہیں" اس کے منہ سے چیخ کی ص ورت میں برآم د ہوگیا۔ ---ل یقین تھ ا۔ جواد نے جو منظر دیکھا تھا وہ ناقاب ِ اس کے بھائی ابوبکر کو وہ لوگ باندھ کر ال رہے تھے۔ اب وبکر نے بھی اس ی وقت اس ک و دیکھ ا اور حیرانی سے چال اٹھا۔ اسی وقت جاما ق بیلے کے سردار جامبو کے حکم سے اب وبکر ک و بھی جواد کے قریب کھڑا ک ر کے بان دھ دی ا گی ا۔ اور Page 19 of 34
موت کا رقص پھر زوروش ور سے ش روع ہوگی ا۔ تم ام ق بیلے والے ب ڑے ج وش و خ روش سے رقص ک ر رہے تھے اور س ورج اپ نی کرن وں ک ا لبادہ آہستہ آہستہ سمیٹ رہا تھا۔ جب آس مان پ ر اندھیرا چھا گی ا ت و س ردار کے اش ارے پ ر ای ک خوفناک شکل کا بت االؤ کے پاس ال کر رکھ دیا گیااور تمام جنگلی اس بت کے س امنے س جدے میں گر گئے۔ تقریبا ً ایک منٹ ت ک س ب اس کے سامنے سجدے میں گرے رہے اور پھر دو زانو ہو ک ر بیٹھ گ ئے۔ س ب مسلس ل دائیں ب ائیں ہل تے ہوئے کسی قسم کے منتر کا جاپ ک ر رہے تھے۔ اس کے بع د دو جنگلی جنہوں نے ہ اتھوں میں بڑے بڑے تیز دھ ار چھ رے پک ڑے ہوئے تھے آگے بڑھے اور چھرے ہوا میں لہراتے ہوئے ابوبکر اور جواد کے اردگ رد وحش یانہ رقص ش روع کردی ا۔ ابوبکر اور ج واد دم س ادھے یہ س اری ک اروائی دیکھ رہے تھے مگ ر ہاتھ بن دھے ہونے کی وجہ سے دون وں کچھ بھی نہیں کرس کتے تھے۔ ان دونوں جنگلیوں کا رقص کافی دیر جاری رہا اور پھر اچانک وہ دونوں رک کر ان کی جانب بڑھنے لگے۔ انہوں نے ہاتھوں میں پکڑے چھرے سیدھے کر لیے تھے اور ان کی خونخوار آنکھوں سے ان Page 20 of 34
کے ع زائم ص اف نمای اں تھے۔ اب ای ک جنگلی جواد اور ایک ابوبکر کے سامنے کھ ڑا تھ ا ۔ پھ ر انہوں نے اپنے ہاتھوں کو وار کرنے کے لیے بلن د کیا ہی تھا اسی لمحے میدان کی دوسری ج انب سے چیخ و پک ار کی آوازوں کے س اتھ دو ت یر سیدھے ان دونوں جنگلی وں کی پش ت میں آک ر پیوس ت ہوگ ئے اور وہ دون وں بغ یر ک وئی آواز نک الے ڈھ یر ہوتے چلے گ ئے۔ اس سے پہلے کہ میدان میں دوزان و بیٹھے دوس رے جنگلی وں اور ان کے سردار کو کچھ سمجھ میں آتا میدان پ ر ت یروں کی بوچھ اڑ ش روع ہو گ ئی۔ اور چ اروں طرف بھگدڑ مچ گئی۔ اب وبکر اور ج واد ح یرانی سے پیش آنے والے یہ واقع ات دیکھ رہے تھے اور س وچ رہے تھے کہ ش اید ت یر چالنے والے ان دونوں ک و بچ اتے ہوئے ص رف جنگلی وں ہی ک و نشانہ بن ا رہے ہیں کی ونکہ ت یر واقعی ص رف ان دونوں کے دائیں بائیں سے سنس ناتے ہوئے گ زر رہے تھے۔ ----
Page 21 of 34
ج ارا کی آنکھ اس وقت کھلی جب اس کے منہ پر پانی کے چھین ٹے م ارے ج ا رہے تھے۔ اس نے آنکھیں کھ ول ک ر ادھ ر ادھ ر نظ ر دوڑائی اس وقت ص بح ہ و چکی تھی اور س ردار ش امبو ک ا خ اص آدمی گ وچی اس کے س امنے کھ ڑا تھ ا۔ جارا کو ہوش میں آتا دیکھ کر گوچی بوال۔ جارا وہ لڑکا کہاں ہے س ردار نے اس ک و حاض ر کرنے ک ا حکم دی ا ہے اور تم آرام سے س و رہے ہو؟ ج ارا نے جھون پڑے کی ط رف دیکھ ا جس ک ا دروازہ چوپٹ کھال تھ ا اور ان در ک ا خ الی منظ ر صاف نظر آرہا تھا۔ وہ ایک جھٹکے سے ہڑبڑا ک ر اٹھ بیٹھ ا۔ اس کے نزدی ک ہی ش ارا پ ڑا ہ وا تھ ا جس کی گردن ایک طرف ڈھلکی ہوئی تھی اور ص اف نظ ر آرہا تھ ا کہ اس کی گ ردن کی ہ ڈی ٹ وٹ چکی ہے۔ ج ارا نے انتہائی پریش انی سے گوجی کی طرف دیکھا گ وجی نے اپ نے آدمی وں کو اشارہ کیا اور کہا ۔
Page 22 of 34
لے چل و اس غ دار ک و س ردار کے پ اس آج اس کی بھینٹ چڑھائیں گے۔ گوجی کے آدمیوں نے آگے بڑھ کر جارا کو ق ابو کر لیا ۔ جارا نے مزاحمت کی کوش ش کی لیکن ان کے آگے اس کی ای ک نہ چلی۔ اور اس کے چہرے پر مردنی چھا گئی۔ سردار شامبو بےچینی سے اپ نے جھون پڑے میں ٹہل رہا تھا کہ اسی لمحے گوجی کے آدمی ج ارا کو لیے ان در داخ ل ہوئے۔ گ وجی نے س ردار ک و سارا واقعہ سنایا تو سردار غصے سے دھاڑا۔ قیدی کہاں ہے جارا؟؟ سردار رات کو پہرا دیتے ہوئے شارا ت و س و گی ا تھ ا لیکن میں ج اگ رہا تھ ا کہ اچان ک کس ی نے معرے سر کے پچھلے حصے پر وار کیا تھ ا ۔ اس کے بع د مجھے کچھ ہوش نہیں رہا تھ ا۔ س ردار مجھے تو یہ جاما قبیلے والوں کی سازش لگ تی ہے۔ جارا نے اپنے سر سے الزام اتارنے کی کوش ش کرتے ہوئے جواب دیا۔ Page 23 of 34
اسی وقت ایک جنگلی نے اندر آ ک ر س ردار ک و ان کے جاسوس کے آنے کی اطالع دی۔ اسے فورا ً اندر بھیجو۔ سردار نے کہا۔ تھوڑی دیر میں جاسوس اندر داخل ہوا۔ کہو کیا خبر الئے ہو؟ سردار نے پوچھا۔ سردار میں نے جاما قبیلے کے دو اف راد ک و آپ کے قیدی کو لیکر اپنے ق بیلے کی ط رف ج اتے دیکھ ا ہے ابھی وہ راس تے میں ہی ہوں گے ان کی رفتار زیادہ تیز نہیں تھی۔ جاسوس نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔ گوجی ہمارے جنگجوؤں ک و ف ورا ً اکٹھ ا ک رو ہم ابھی اسی وقت ان کے پیچھے ج ائیں گے۔ جام ا قبیلے کو ہم آج تہس نہس کر کے رکھ دیں گے۔۔۔ جاؤ۔۔۔
Page 24 of 34
غصے کے م ارے س ردار کے منہ سے جھ اگ نکلنے لگی تھی ۔ گوجی سردار کی بات سن کر فورا ً باہر نکل کر جاچکا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں قبیلے کے تمام جوان جنگلی ہتھیاروں سے لیس میدان میں جمع تھے۔ سردار ش امبو کے حکم پ ر ان کی مختص ر س ی ف وج انتہائی ت یز رفت اری کے س اتھ جام ا ق بیلے کی سمت بڑھنے لگی۔ اندھیرا ہونے سے ذرا پہلے وہ سب کے سب جاما قبیلے کے ب اہر موج ود تھے۔ س ردار ش امبو کے اش ارے پ ر س ب پھی ل ک ر انتہائی خاموش ی سے آگے بڑھ نے لگے۔ جام ا قبیلہ ایک می دان میں جم ع تھ ا جہ اں م وت ک ا رقص جاری تھ ا۔ جیسے ہی رقص ک رنے وال وں نے بندھے ہوئے لڑکوں پر وار کرنے کی کوشش کی اس لمحے س ردار ش امبو نے اپ نے آدمی وں کو حملہ کرنے کا حکم دے دیا ۔ ان کا پہال نش انہ وہ دونوں تھے جن کے ہاتھوں میں چھرے تھے۔ ان لڑک وں ک و ہم دیوت ا کی بھینٹ چڑھ ائیں گے اس ل ئے ان ک ا ب ال بھی بیک ا نہین ہون ا چ اہئے، لیکن جاما قبیلے کا کوئی آدمی بچ کے نا نکل نے پائے۔ Page 25 of 34
سردار شامبو ایک طرف کھڑا اپ نے آدمی وں ک و ہدایات دے رہا تھا۔ پھر تیروں کی برس ات میں دون وں اط راف کے ہتھیار آپس میں ٹک رانے لگے۔ دون وں ق بیلے کے لوگوں میں سے ک وئی بھی ب زدلی دکھ انے ک و تیار نہیں تھا۔ ---تیروں کی اچانک برسات نے ابوبکر اور جواد کو چونک نے پ ر مجب ور کردی ا ج و اب سے پہلے زندگی سےتقریبا ً م ایوس ہوچکے تھے۔ ج واد نے ابوبکر سے کہا۔ بھائی ان حاالت میں ہمارا بندھے رہنا ٹھی ک نہیں ۔ ہمیں ان رس یوں سے آزاد ہونے کی کوش ش کرنی چاہیے۔ مگر کیسے ؟ ان کمبختوں نے ہمارے ہاتھوں ک و اتنی مضبوطی سے باندھا ہے کہ کھل تے ہی نہیں ۔
Page 26 of 34
ابوبکر نے اپنے ہاتھوں ک و رس یوں کی قی د سے آزاد کرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ شاما ق بیلے والے اب آگ لگے ت یروں سے حملہ کر رہے تھے۔ ایک جلتا ہوا تیر اب وبکر کے بن دھے ہوئے ہاتھوں کے بالک ل ق ریب آک ر لگ ا ۔ اب وبکر کے ذہن میں اچانک ایک خیال آیا۔ وہ بوال۔ جواد تم اس تیر کی آگ کو پھونک مار کر میرے ہاتھ کی رسیوں کی طرف بڑھ انے کی کوش ش کرو۔ لیکن بھائی اس طرح آپ کا ہاتھ بھی جل س کتا ہے۔ جواد نے پریشان ہوتے ہوئے کہا۔ لیکن رسیاں بھی تو کمزور پڑ ج ائیں گی جل نے سے۔۔ اس وقت ہمارے پاس اور کوئی چ ارہ نہیں ہے۔ جلدی کرو۔ ابوبکر جلدی جلدی بوال۔ جواد کو بھی بات سمجھ میں آگ ئی اور اس نے آگ ک و پھونک وں سے ت یز ک رنے کی کوش ش شروع کردی۔
Page 27 of 34
تھ وڑی ہی دی ر میں اب و بک ر کے ہ اتھوں کی رس یوں نے آگ پک ڑ لی تھی۔ اس ک ا ہ اتھ بھی ساتھ ہی جل نے لگ ا تھ ا لیکن اس وقت س وائے تکلیف برداشت ک رنے کے اور ک وئی چ ارہ نہیں تھ ا۔تھ وڑی ہی دی ر میں اب وبکر نے ای ک جھٹکے سے اپنے ہاتھ کو رسیوں کی قی د سے آزاد ک را لیا اور اپ نے پ یر کی رس یاں کھول نے لگ ا۔ اپ نی رسیاں کھ ول ک ر وہ ج واد کی ط رف بڑھ ا اور اس ک و بھی رس یوں سے آزاد ک ر دی ا۔ تم ام جنگلی اس وقت آپس میں لڑائی میں مصروف تھے اس لیے ان کی طرف کسی نے ت وجہ نہیں کی اور وہ دونوں درخت وں کی آڑ میں جن گ کے میدان کی مخالف سمت میں بھاگنے لگے۔ ---چچا جان اور چچی جان دون وں دری ا کے کن ارے پریشانی کی حالت میں کچھ دیر کھڑے رہے اور جب ان ک و یقین ہو گی ا کہ اب وبکر اور ج واد ک ا دور دور ت ک ک وئی ن ام و نش ان نہیں ہے ت و وہ سیدھے قریبی پولیس سٹیش ن پہنچے اور تم ام Page 28 of 34
حاالت پولیس کو بی ان ک ردیے۔ چ ونکہ چچاج ان یواین او کے مشن پر تھے اس لیے پولیس ف ورا ً حرکت میں آ گئی۔ دونوں بچوں کو ڈھونڈنے کے لیے سپاہیوں کے دو دستے ترتیب دیے گئے ای ک کو دری ا کی ط رف اور دوس رے ک و جنگ ل کی طرف روانہ ک ر دی ا گی ا۔ دری ا کی س مت ج انے والی ٹیم کے ساتھ چچاجان اور ٹیم کے س ربراہ انسپکٹر ڈیوڈ بھی تھے۔ کیا آپ ک و اچھی ط رح ی اد ہے کہ جب آپ دری ا کے کنارے پہنچے تو وہاں دور دور تک کوئی نہیں تھا؟ انسپکٹر نے چچاجان سے دریافت کیا۔ جی ہاں۔ چچا جان نے مختصر جواب دیا۔ ارے ای ک ب ات ابھی ی اد آئی ہے کہ میں نے دری ا میں سرخ رنگ کی کوئی چیز بہ تی دیکھی تھی ج و کہ ورا ً م یری نظ روں سے اوجھ ل ہ و گ ئی تھی اس لیے مجھے خیال ہی نہیں رہا۔ چچا ج ان نے مزید بتایا۔ اور آپ کے دونوں بھتیجوں نے الل رن گ کی ٹی شرٹس پہنی ہوئی تھیں۔ انسپکٹر نے کہا۔ Page 29 of 34
جی جی بالکل۔ چچا جان نے اثبات میں سر ہالیا۔ پھ ر ت و دری ا میں ان کی تالش فض ول ہے۔ انسپکٹر ڈیوڈ بولے۔ دراص ل آپ ل وگ جہاں تھے وہاں سے کچھ ہی دور پ ر دری ا ک ا پ اٹ ک افی چوڑا اور کم گہرا ہو جات ا ہے اور وہیں سے دری ا کا رخ بھی مڑت ا ہے۔ اس ل یے م یرا خی ال ہے وہ دری ا کی بج ائے دری ا کے کن ارے جنگ ل میں ہ و س کتے ہیں۔ انس پکٹر نے س ر ہالتے ہوئے حتمی لہجے میں کہا۔ اس وقت تک وہ دریا کے کنارے پہنچ چکے تھے ۔ کچھ دیر وہاں آس پاس دیکھ نے کے بع د ان کی ٹیم نے رپ ورٹ دی کہ ان کی وہ اں تالش ک ا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا اس لیے انسپکٹر ڈیوڈ نے ان کو واپس جانے کا کہا اور چچ ا ج ان سے ب ولے اب ہم ک و جنگ ل والی ٹیم کے ج واب ک ا انتظار کرنا پڑے گا۔ اور واپس ہو گئے۔ اگال س ارا دن انہوں نے جنگ ل میں تالش ک رنے کے بع د جب رات کہری ہونے لگی ت و ان ک و مجبورا ً تالش کا ک ام روکن ا پ ڑا۔ وہ واپس ہورہے تھے کہ اچان ک ان ک و اپ نی جیپ کی ہی ڈالئٹس Page 30 of 34
کی روشنی میں کچھ فاصلے پر ایک ہاتھ ہلتا ہوا دکھائی دیا۔ انسپکٹر ڈیوڈ نے فورا ً جیپ روک دی تھی۔ ---جواد اور ابوبکر کافی دور نک ل آئے تھے اور دل ہی دل میں ش کر ادا ک ر رہے تھے کہ ابھی ت ک کسی جنگلی کو ان کے تعاقب میں آنے کا خیال ہی نہیں آیا تھا۔ شاید وہ لوگ اپنی جنگ میں اس بری طرح مص روف تھے کہ ان دون وں کے نک ل جانے کی کس ی ک و خ بر ہی نہیں ہوئی تھی۔ ان کو بالکل اندازہ نہیں تھا کہ وہ دونوں کس سمت ج ا رہے تھے بس ان کی کوش ش یہی تھی کہ جت نی جل دی ہو س کے اس خ ونی می دان اور خوفن اک خونخ وار جنگلی وں سے دور بہت دور نکل کر کسی محفوظ جگہ پہنچ جائیں۔ ابوبکر کی ٹان گ اور ہاتھ زخمی تھے جبکہ ج واد بھی کم ر کی تکلی ف سے زی ادہ ت یز نہیں بھ اگ سکتا تھا۔ پھر بھی دونوں نے ہمت نہیں ہاری اور ایک دوسرے کو سہارا دیتے ہوئے تیزی سے آگے Page 31 of 34
ب ڑھے چلے ج ا رہے تھے۔ لیکن دون وں تھ ک ک ر چور ہو چکے تھے اور پھر ایک وقت ایس ا آی ا کہ جیسے دون وں کی ہمت ج واب دے چکی ہ و اور پھر دونوں لہرا کر نیچے گر پڑے۔ ابوبکر تو اسی وقت بے ہوش ہو گی ا ج واد کی ح الت بھی کچھ کم خ راب نہ تھی لیکن بیہوش ہوتے ہوئے اس کی آنکھوں میں روشنی پڑی جو کہ شاید کس ی گاڑی کی ہیڈالئٹس کی روشنی تھی۔ اس کا ہاتھ غ یر ارادی ط ور پ ر ہوا میں بلن د ہوا اور پھ ر وہ بھی ہوش و حواس سے بےگانہ ہو گیا۔ ---اب وبکر کی جب آنکھ کھلی ت و وہ ای ک آرام دہ بستر پر تھا ۔ اس کے زخم وں پ ر پٹی اں بن دھی ہوئی تھیں اور ساتھ والے بیڈ پر ج واد بیٹھ ا اس ک و ہوش میں آت ا دیکھ ک ر خ وش ہو رہا تھ ا۔ سامنے لگے صوفے پر چچا ج ان اور چچی ج ان بیٹھے تھے ج و اب اٹھ ک ر اس کے پ اس آ چکے تھے ۔ ان کے چہروں سے بھی خوش ی ظ اہر ہ و رہی تھی۔ Page 32 of 34
ات نے میں دروازہ کھال اور انس پکٹر ڈی وڈ ای ک ڈاکٹر کے س اتھ ان کے کم رے میں داخ ل ہوئے اور چچا جان سے بولے۔ مجھے خوشی ہے کہ دونوں بچے صحیح س المت مل گئے ہیں ۔ ان کے زخم کچھ ہی دن میں من دمل ہ و ج ائیں گے اور کل تک آپ ان دونوں کو اپ نے س اتھ لے جا سکیں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے خوش خبری سنائی۔ ایک بات اور ۔۔ انس پکٹر ص احب چچ ا ج ان سے بولے۔۔ کل ایک واقعہ اور جنگ ل میں پیش آی ا ہے جس کی وجہ آپ کے یہ دون وں بچے ہیں۔ہمیں ہم ارے مخ بروں نے رپ ورٹ دی ہے کہ ان کی وجہ سے دو انتہائی خونخ وار جنگلی ق بیلے آپس میں ل ڑنے کی وجہ سے ختم ہو گ ئے ہیں۔ وہ ایسے ط اقتور ق بیلے تھے جن سے حک ومت بھی پن اہ مانگتی تھی اور ان کے عالقے سے عام لوگ وں کو دور رکھا جات ا تھ ا ۔ لیکن پھ ر بھی وہ بھ ولے بھٹکے لوگوں کو پکڑ کر اپنے دیوتاؤں کی بھینٹ Page 33 of 34
چڑھا دیا کرتے تھے۔ لیکن اب یہ سارا جنگل اس خوف سے آزاد ہو چک ا ہے۔ اور اس ک ا سہرا ان دونوں ب اہمت ،ب ا ع زم اور باحوص لہ بچ وں کے سر ہے۔ انسپکٹر کی بات کے دوران کم رے میں موج ود تمام لوگ ان دونوں ک و مس کراتی نگ اہوں سے دیکھ رہے تھے اور انس پکٹر کی ب ات ختم ہوتے ہی اب وبکر اور ج واد کے چہروں پ ر مس کراہٹ دوڑنے لگی۔ ختم شد----
Page 34 of 34