،اس نے گاڑی پوسٹ آفس کے باہر روک دی ابا یہ لیجیے آپ یہ 100روپے رکھ لیجیے جب پینشن لے چکیں گے تو رکشے میں گھر چلے جائیے گا"، مجھے دفتر سے دیر ہو رہی ہے"۔۔ ،بوڑھے باپ کو ُاتار کر وہ تیزی سے گاڑی چلتا ہوا آگے نکل گیا افضل چند لمحے بیٹے کی دور جاتی ہوئی گاڑی کو دیکھتا رہا پھر ایک ہاتھ میں پینشن کے کاغذ اور ایک ہاتھ میں بیٹے کا دیا ہوا سو روپے کا نوٹ پکڑے وہ ُاس لمبی سی قطار کے آخرمیں جا کر کھڑا ہو گیا جس میں ُاسی جیسے بہت سے بوڑھے کھڑے تھے ،سب کے چہروں پر عمر رفتہ کے نشیب و فراز پرانی قبروں پر لگے ُدھندلے کتبوں کی مانند کندہ تھے۔ آج پینشن لینے کا دن تھا ،قطار لمبی ہوتی جارہی تھی ،پوسٹ آفس کی جانب سے پینشن کی رقم ادا کرنے کا عمل خاصا سست تھا۔ سورج آگ برساتا تیزی سے منزلیں طے کرنے میں مصروف تھا ،بے رحم تپتی دھوپ بوڑھوں کو بے حال کرنے لگی ،کچھ ُادھر ہی قطار میں ہی بیٹھ گئے ،افضل بھی بے حال ہونے لگاُ ،اس نے ،اپنے آپ کو سنبھالنے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا اور لڑکھڑا کر ُادھر قطار میں ہی بیٹھ گیا اچانک ذہن کے پردے پر اپنے بیٹے کا بچپن ناچنے لگا ،وہ جب کبھی اچھلتے کودتے گر جاتا تو وہ کیسے دوڑ کر ُاسے اپنی بانہوں میں اٹھا لیتا تھا ،اس کے کپڑوں سے دھول جھاڑتاُ ،اس کے آنسو نکلنے سے پہلے ہی ُاسے پچکارتا ،پیار کرتا ،مگر آج وہ خود لڑکھڑا کر دھول میں لتھڑ رہا تھا اور ُاسے اٹھانے وال ُاسے یہاں اس طرح چھوڑ کر چل گیا تھا۔ ،وہ مٹھی کھول کر 100روپے کے اس نوٹ کو دیکھنے لگا جو صبح بیٹا ُاس کے ہاتھ میں تھما کر چل گیا تھا