Aqwaal e imam ali a s from nahjal ul balagha digital kitabat

Page 1


‫فہرست‬ ‫اقوال‬

‫‪١‬‬

‫تا‬

‫‪٣٠‬‬

‫اقوال‬

‫‪٣١‬‬

‫تا‬

‫‪۶٠‬‬

‫اقوال‬

‫‪۶١‬‬

‫تا‬

‫‪٩٠‬‬

‫اقوال‬

‫‪٩١‬‬

‫تا‬

‫‪١٢٠‬‬

‫اقوال‬

‫‪١٢١‬‬

‫تا‬

‫‪١۵٠‬‬

‫اقوال‬

‫‪١۵١‬‬

‫تا‬

‫‪١٨٠‬‬

‫اقوال‬

‫‪١٨١‬‬

‫تا‬

‫‪٢١٠‬‬

‫اقوال‬

‫‪٢١١‬‬

‫تا‬

‫‪٢۴٠‬‬

‫اقوال‬

‫‪٢۴١‬‬

‫تا‬

‫‪٢٧٠‬‬

‫اقوال‬

‫‪٢٧١‬‬

‫تا‬

‫‪٣٠٠‬‬

‫اقوال‬

‫‪٣٠١‬‬

‫تا‬

‫‪٣٣٠‬‬

‫اقوال‬

‫‪٣٣١‬‬

‫تا‬

‫‪٣۶٠‬‬

‫اقوال‬

‫‪٣۶١‬‬

‫تا‬

‫‪٣٩٠‬‬

‫اقوال‬

‫‪٣٩١‬‬

‫تا‬

‫‪۴٢٠‬‬

‫اقوال‬

‫‪۴٢١‬‬

‫تا‬

‫‪۴۵٠‬‬

‫اقوال ‪ ۴۵١‬تا ‪۴٨٠‬‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫اقوال‬ ‫ِ‬

‫امام‬

‫تاليف‪:‬‬

‫علی‬

‫)عليہ‬

‫عالمہ‬

‫السالم‬

‫شريف‬

‫(از‬

‫رضی‬

‫نہج‬

‫البالغہ‬

‫عليہ‬

‫رحمہ‬

‫اردو ترجمہ و شرح‪ :‬حجت االسالم موالنا مفتی جعفر حسين صاحب قبلہ‬ ‫اماميہ‬

‫ناشر‪:‬‬

‫خانہ‪،‬‬

‫کتب‬

‫حويلی‪،‬‬

‫مغل‬

‫دروازه‪،‬‬

‫موچی‬ ‫الہور ‪ ،8‬پاکستان‬ ‫اقوال ‪ ١‬تا ‪٣٠‬‬

‫اس باب ميں سواالت کے جوابات اور چھوٹے چھوٹے حکيمانہ جملوں کا‬ ‫انتخاب درج ہے جو مختلف اغراض و مقاصد کے سلسلہ ميں بيان کئے گئے‬ ‫ہيں‬

‫‪ 1‬فتنہ و فساد ميں اس طرح رہو جس طرح اونٹ کا وه بچہ جس نے ابھی اپنی‬ ‫عمر کے دو سال ختم کئے ہوں کہ نہ تو اس کی پيٹھ پر سواری کی جاسکتی‬ ‫ہے اور نہ اس کے تھنوں سے دودھ دوہا جاسکتا ہے‬ ‫لبون دودھ دينے والی اونٹنی کو اورابن اللبون اس کے دو سالہ بچے کو کہتے ہيں اور وه اس عمر ميں نہ سوار ی کے قابل ہوتا ہے‬ ‫‪,‬اور نہ اس کے تھن ہی ہوتے ہيں کہ ان سے دودھ دوہا جاسکے ‪.‬اسے ابن اللبون اس ليے کہاجاتا ہے کہ اس دو سال کے عرصہ ميں‬ ‫اس‬

‫کی‬

‫ماں‬

‫عموما ً‬

‫دوسرا‬

‫بچہ‬

‫دے‬

‫کر‬

‫دودھ‬

‫دينے‬

‫لگتی‬

‫ہے‬

‫‪.‬‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫مقصد يہ ہے کہ انسان کو فتنہ و فساد کے موقع پر اس طرح رہنا چاہيے کہ لوگ اسے ناکاره سمجھ کر نظر انداز کرديں اور کسی‬ ‫جماعت ميں اس کی شرکت کی ضرورت محسوس نہ ہو ‪.‬کيونکہ فتنوں اور ہنگاموں ميں الگ تھلگ رہنا ہی تباه کاريوں سے بچا سکتا‬ ‫ہے ‪.‬البتہ جہاں حق و باطل کا ٹکراؤ ہو وہاں پر غير جانبداری جائز نہيں اور نہ اسے فتنہ و فساد سے تعبير کياہے ‪.‬بلکہ ايسے موقع‬ ‫پر حق کی حمايت اور باطل کی سرکوبی کے ليے کھﮍا ہونا واجب ہے ‪.‬جيسے جمل و صفين کی جنگوں ميں حق کا ساتھ دينا ضروری‬ ‫اور باطل سے نبرد آزما ہو نا الزم تھا ‪.‬‬

‫‪ 2‬جس نے طمع کو اپنا شعار بنايا ‪,‬اس نے اپنے کو سبک کيا اور جس نے‬ ‫اپنی پريشان حالی کا اظہار کيا وه ذلت پر آماده ہوگيا ‪,‬اور جس نے اپنی زبان‬ ‫کو قابو ميں نہ رکھا ‪,‬اس نے خود اپنی بے وقعتی کا سامان کر ليا ‪.‬‬

‫‪ 3‬بخل ننگ و عار ہے اور بزدلی نقص و عيب ہے اورغربت مرد زيرک و‬ ‫دانا کی زبان کو دالئل کی قوت دکھانے سے عاجز بنا ديتی ہے اور مفلس اپنے‬ ‫شہرميں ره کر بھی غريب الوطن ہوتا ہے اور عجز ودرماندگی مصيبت ہے‬ ‫اور صبر شکيبائی شجاعت ہے اور دنيا سے بے تعلقی بﮍی دولت ہے اور‬ ‫پرہيز‬

‫گاری‬

‫ايک‬

‫بﮍی‬

‫سپر‬

‫ہے‬

‫‪.‬‬

‫‪ 4‬تسليم و رضا بہترين مصاحب اور علم شريف ترين ميراث ہے اور علمی و‬ ‫عملی اوصاف خلعت ہيں اور فکر صاف شفاف آئينہ ہے ‪.‬‬

‫‪ 5‬عقلمند کا سينہ اس کے بھيدوں کا مخزن ہوتا ہے اور کشاده روئی محبت و‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫دوستی کا پھندا ہے اور تحمل و برد باری عيبوں کا مدفن ہے ‪) .‬يا اس فقره‬ ‫کے بجائے حضرت نے يہ فرمايا کہ (صلح صفائی عيبوں کو ڈھانپنے کا‬ ‫ذريعہ‬

‫‪.‬‬

‫ہے‬

‫‪ 6‬جو شخص اپنے کو بہت پسند کرتا ہے وه دوسروں کو ناپسند ہوجاتا ہے اور‬ ‫صدقہ کامياب دوا ہے ‪,‬اور دنيا ميں بندوں کے جو اعمال ہيں وه آخرت ميں ان‬ ‫کی آنکھوں کے سامنے ہوں گے‬ ‫يہ ارشاد تين جملوں پر مشتمل ہے ;پہلے جملہ ميں خود پسندی سے پيدا ہونے والے نتائج و اثرات کا ذکر کيا ہے کہ اس سے‬ ‫دوسروں کے دلوں ميں نفرت و حقارت کا جذبہ پيدا ہوتا ہے ‪.‬چنانچہ جو شخص اپنی ذات کو نماياں کرنے کے لے بات بات ميں اپنی بر‬ ‫تر ی کا مظاہر ه کرتا ہے وه کبھی عزت و احترام کی نگاه سے نہيں ديکھا جاتااور لو گ اس کی تفو ق پسندانہ ذہنيت کو ديکھتے‬ ‫ہوئے اس سے نفر ت کرنے لگتے ہيں اور اسے اتنا بھی سمجھنے کو تيار نہيں ہوتے جتنا کچھ وه ہے چہ جائيکہ جو کچھ وه اپنے‬ ‫آپ‬

‫کو‬

‫سمجھتا‬

‫ہے‬

‫وہی‬

‫کچھ‬

‫اسے‬

‫سمجھ‬

‫ليں‬

‫‪.‬‬

‫دوسرا جملہ صدقہ کے متعلق ہے اور اسے ايک «کامياب دوا» سے تعبير کيا ہے کيونکہ جب انسان صدقہ وخيرات سے محتاجوں اور‬ ‫ناداروں کی مدد کرتا ہے تو وه د ل کی گہرايوں سے ا س کے ليے دعائے صحت و عافيت کرتے ہيں جو قبوليت حاصل کرکے اس کی‬ ‫شفايابی کا باعث ہوتی ہے ‪.‬چنانچہ پيغمبر اکر م کا ارشاد ہے کہ راو و امرضا کم بالصدقہ ‪.‬اپنے بيماروں کا عال ج صدقہ سے کرو ‪.‬‬ ‫تيسرا جملہ حشر ميں اعمال کے بے نقا ب ہو نے کے متعلق ہے کہ انسان ا س دنيا ميں جو اچھے اور برے کام کرتا ہے وه حجاب‬ ‫عنصری کے حائل ہونے کی وجہ سے ظاہر ی حواس سے ادراک نہيں ہوسکتے ‪.‬مگر آخرت ميں جب ماديت کے پردے اٹھاديئے جائيں‬ ‫گے تو وه اس طرح آنکھوں کے سامنے عياں ہوجائيں گے کہ کسی کے ليے گنجائش انکار نہ رہے گی ‪.‬چنانچہ ارشاد الہی ہے ‪.‬‬ ‫ا س دن لوگ گروه گروه )قبروں سے (اٹھ کھﮍے ہو ں گے تاکہ وه اپنے اعمال کو ديکھيں توجس نے ذره بھر نيکی کی ہوگی وه اسے‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫ديکھ لے گا او ر جس نے ذره بھر بھی برائی کی ہوگی وه اسے ديکھ لے گا ‪.‬‬

‫‪ 7‬يہ انسان تعجب کے قابل ہے کہ وه چربی سے ديکھتا ہے اور گوشت کے‬ ‫لوتھﮍے سے بولتا ہے اور ہڈی سے سنتا ہے اور ايک سوراخ سے سانس ليتا‬ ‫ہے‪.‬‬

‫‪ 8‬جب دنيا )اپنی نعمتوں کو لے کر(کسی کی طرف بﮍھتی ہے تو دوسروں کی‬ ‫خوبياں بھی اسے عاريت دے ديتی ہے ‪.‬اور جب اس سے رخ موڑ ليتی ‪,‬تو‬ ‫خود اس کی خوبياں بھی اس سے چھين ليتی ہے ‪.‬‬ ‫مقصد يہ ہے کہ جس کابخت ياور اور دنيا اس سے ساز گار ہوتی ہے اور اہل دنيا اس کی کارگزاريوں کو بﮍھا چﮍھا کر بيان کرتے ہيں‬ ‫اور دوسروں کے کارناموں کا سہرا بھی اس کے سر باندھ ديتے ہيں اور جس کے ہاتھ سے دنيا جاتی رہتی ہے اور نحوست کی گھٹا‬ ‫اس پر چھا جاتی ہے اس کی خوبيوں کو نظر انداز کرديتے ہيں اور بھولے سے بھی اس کا نام زبان پر النا گوار انہيں کرتے ‪.‬‬

‫دوستند آنکہ راز مانہ نواحت دشمنند آنکہ رازمانہ فگند‬

‫‪ 9‬لوگوں سے اس طريقہ سے ملو کہ اگر مرجاؤ تو تم پر روئيں اور زند ه رہو‬ ‫تو تمہارے مشتاق ہوں ‪.‬‬ ‫جو شخص لوگوں کے ساتھ نرمی اور اخالق کا برتاؤ کرتا ہے ‪.‬لوگ اس کی طرف دست تعاون بﮍھاتے ا س کی عزت و توقير کرتے اور‬ ‫اس کے مرنے کے بعد اس کی ياد ميں آنسو بہاتے ہيں۔ لہٰ ذ ا انسان کو چاہيے کہ وه اس طرح مرنجاں مرنج زندگی گزارے کہ کسی کو‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫اس سے شکايت نہ پيدا ہو اور نہ اس سے کسی کو گزند پہنچے تاکہ اسے زندگی ميں دوسروں کی ہمدردی حاصل ہو ‪,‬اور مرنے کے‬ ‫بعد‬

‫بھی‬

‫اسے‬

‫اچھے‬

‫لفظو‬

‫ں‬

‫ميں‬

‫ياد‬

‫کيا‬

‫جائے‬

‫‪.‬‬

‫چناں بانيک و بد سرکن کہ بعد از مرونت عرفی مسلمانت بز مزم شويدو کافر بسو زاند‬

‫‪ 10‬دشمن پر قابو پاؤ تو اس قابو پانے کا شکرانہ اس کو معاف کر دينا قرار دو‬ ‫‪.‬‬ ‫عفو و درگزر کا محل وہی ہوتا ہے جہاں انتقام پر قدرت ہو ‪,‬اور جہاں قدرت ہی نہ ہو وہاں انتقام سے ہاتھ اٹھا لينا ہی مجبوری کا نتيجہ‬ ‫ہوتا جس پر کوئی فضيلت مرتب نہيں ہوتی ‪.‬البتہ قدرت و اقتدارکے ہوتے ہوئے عفو درگذر سے کام لينا فضيلت انسانی کا جوہر اور ﷲ‬ ‫کی اس بخشی ہوئی نعمت کے مقابلہ ميں اظہار شکر ہے ‪.‬کيونکہ شکر کا جذبہ اس کا مقتضی ہو تا ہے کہ انسان ﷲ کے سامنے تذلل و‬ ‫انکسارسے جھکے جس سے اس کے دل ميں رحم و رافت کے لطيف جذبات پيدا ہوں گے اور غيظ وغضب کے بھﮍکتے ہوئے شعلے‬ ‫ٹھنڈے پﮍجائيں گے جس کے بعد انتقام کا کوئی داعی ہی نہ رہے گا کہ وه اس قوت و قدرت کو ٹھيک ٹھيک کام ميں النے کی بجائے‬ ‫اپنے غضب کے فرو کر نے کا ذريعہ قرار دے‬

‫‪ 11‬لوگوں ميں بہت درمانده وه ہے جو اپنی عمر ميں کچھ بھالئی اپنے ليے نہ‬ ‫حاصل کرسکے ‪,‬اور اس سے بھی زياده درمانده وه ہے جو پاکر اسے کھو‬ ‫دے ‪.‬‬ ‫خوش اخالقی و خنده پيشانی سے دوسر وں کو اپنی طرف جذب کرنا اور شيريں کالمی سے غيروں کو اپنانا کوئی دشوار چيز نہيں ہے‬ ‫کيونکہ اس کے ليے نہ جسمانی مشقت کی ضرورت اور نہ دماغی کد و کاوش کی حاجت ہوتی ہے اور دوست بنانے کے بعد دوستی اور‬ ‫تعلقات کی خوشگواری کو باقی رکھنا تو اس سے بھی زياده آسان ہے کيونکہ دوستی پيدا کرنے کے ليے پھر بھی کچھ نہ کچھ کرنا‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫پﮍتا ہے مگر اسے باقی رکھنے کے ليے تو کوئی مہم سرکرنا نہيں پﮍتی ‪.‬لہٰ ذا جو شخص ايسی چيز کی بھی نگہداشت نہ کر سکے‬ ‫جسے صر ف پيشانی کی سلو ٹيں دور کر کے باقی رکھا جاسکتا ہے اس سے زياده عاجز و درمانده کون ہوسکتا ہے ‪.‬‬ ‫مقصد يہ ہے کہ انسان کو ہر ايک سے خو ش خلقی و خنده روئی سے پيش آنا چاہيے تاکہ لوگوں اس سے وابستگی چاہيں اور اس کی‬ ‫دوستی کی طرف ہاتھ بﮍھائيں ‪.‬‬

‫‪ 12‬جب تمہيں تھوڑی بہت نعمتيں حاصل ہوں تو ناشکری سے انہيں اپنے تک‬ ‫پہنچنے‬

‫‪13‬جسے‬

‫سے‬

‫قريبی‬

‫پہلے‬

‫چھوڑ‬

‫ديں‬

‫بھگا‬

‫اسے‬

‫بيگانے‬

‫نہ‬

‫دو‬

‫مل‬

‫جائيں‬

‫‪.‬‬

‫گے‬

‫‪.‬‬

‫‪ 14‬ہر فتنہ ميں پﮍ جانے واال قابل عتاب نہيں ہوتا ‪.‬‬ ‫جب سعد ابن ابی وقا ص ‪,‬محمد ابن مسلمہ اور عبدﷲ ابن عمر نے اصحاب جمل کے مقابلہ ميں آپ کا ساتھ دينے سے انکا ر کيا تو اس‬ ‫موقع پر يہ جملہ فرمايا مطلب يہ ہے کہ يہ لوگ مجھ سے ايسے منحرف ہوچکے ہيں کہ ان پر نہ ميری بات کا کچھ اثر ہوتا ہے اور نہ‬ ‫ان پرميری عتاب و سرزنش کار گر ثابت ہوتی ہے‬

‫‪15‬سب معا ملے تقدير کے آگے سر نگوں ہيں يہاں تک کہ کبھی تدبير کے‬ ‫نتيجہ‬

‫ميں‬

‫موت‬

‫ہوجاتی‬

‫ہے‬

‫‪.‬‬

‫‪16‬پيغمبر صلی ﷲ عليہ وآلہ وسلم کی حديث کے متعلق کہ بﮍھاپے کو‬ ‫)خضاب کے ذريعہ(بدل دو ‪.‬اور يہود سے مشابہت اختيار نہ کرو ‪.‬آپ عليہ‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫السّالم سے سوال کياگيا ‪,‬تو آپ عليہ السّالم نے فرمايا کہ پيغمبر صلی ﷲ عليہ‬ ‫وآلہ وسلم نے يہ اس موقع کے ليے فرمايا تھا ‪.‬جب کہ دين )والے( کم تھے‬ ‫اور اب جب کہ اس کا دامن پھيل چکا ہے اور سينہ ٹيک کر جم چکا ہے تو ہر‬ ‫شخص کو اختيار ہے ‪.‬‬ ‫مقصد يہ ہے کہ چونکہ ابتدائے اسالم ميں مسلمانوں کی تعداد کم تھی اس ليے ضرورت تھی کہ مسلمانوں کی جماعتی حيثيت کو برقرار‬ ‫رکھنے کے ليے انہيں يہوديوں سے ممتاز رکھا جائے ‪.‬اس ليے آنحضرت سے خضاب کا حکم ديا کہ جو يہوديوں کے ہاں مرسوم نہيں‬ ‫ہے ‪.‬اس کے عالوه يہ مقصد بھی تھا کہ وه دشمن کے مقابلہ ميں ضعيف و سن رسيده دکھائی نہ ديں ‪.‬‬

‫‪ 17‬ان لوگوں کے بارے ميں کہ جو آپ کے ہمراه ہوکر لﮍنے سے کناره کش‬ ‫رہے ‪.‬فرمايا ان لوگوں نے حق کو چھوڑديا اور باطل کی بھی نصرت نہيں کی‬ ‫‪.‬‬ ‫موسی‬ ‫يہ ارشاد ان لوگوں کے متعلق ہے جو اپنے کو غير جانبدار ظاہر کرتے تھے ‪.‬جيسے عبدﷲ ابن عمر ‪,‬سعد ابن ابی وقاص ‪,‬ابو‬ ‫ٰ‬ ‫اشعری ‪,‬احنف ابن قيس اور انس ابن مالک وغيره‪.‬بيشک ان لوگوں نے کھل کر باطل کی حمايت نہيں کی ‪.‬مگر حق کی نصر ت سے ہاتھ‬ ‫اٹھا لينا بھی ايک طرح سے باطل کو تقويت پہنچانا ہے‪.‬اس ليے ان کا شمار مخالفين حق کے گروه ہی ميں ہو گا ‪.‬‬

‫‪18‬جو شخص اميد کی راه ميں ميں بگ ٹُٹ دوڑتا ہے وه موت سے ٹھوکر‬ ‫کھاتا‬

‫ہے‬

‫‪.‬‬

‫‪19‬بامروت لوگو ں کی لغزشوں سے درگزر کرو ‪).‬کيونکہ (ان ميں سے جو‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫بھی لغزش کھا کر گرتا ہے تو ﷲ اس کے ہاتھ ميں ہاتھ دے کر اسے اوپر‬ ‫ہے‬

‫اٹھاليتا‬

‫‪.‬‬

‫‪ 20‬خوف کا نتيجہ ناکامی اور شرم کانتيجہ محرومی ہے اور فرصت کی‬ ‫گھﮍياں )تيزرو( ابر کی طرح گزر جاتی ہيں ‪.‬ل ٰہذا بھالئی کے ملے ہوئے‬ ‫موقعوں کو غنيمت جانو‪.‬‬ ‫عوام ميں ايک چيز خواه کتنی ہی معيوب خيال کی جائے اور تحقير آميز نظر وں سے ديکھی جائے اگر اس ميں کوئی واقعی عيب نہيں‬ ‫ہے تو اس سے شرمانا سراسر نادانی ہے کيونکہ اس کيوجہ سے اکثر ان چيز وں سے محروم ہونا پﮍتا ہے جو دنيا وآخرت کی‬ ‫کاميابيوں اور کامرانيوں کا باعث ہوتی ہيں ‪.‬جيسے کوئی شخص اس خيال سے کہ لو گ اسے جاہل تصور کريں گے کسی اہم اور‬ ‫ضرور ی بات کے دريافت کرنے ميں عار محسوس کرے تو يہ بے موقع و بے محل خودداری اس کے ليے علم ودانش سے محرومی‬ ‫کا سبب بن جائے گی ‪,‬اس ليے کوئی ہوشمند انسان سيکھنے اور دريافت کرنے ميں عار نہيں محسوس کرے گا ‪.‬چنانچہ ايک سن‬ ‫رسيده شخص سے کہ جو بﮍھاپے کے باوجود تحصيل علم کرتا تھا کہا گيا کہ ما تستح ٌی ان تتعلم علی الکبر»تمہيں بﮍھاپے ميں پﮍھتے‬ ‫ہوئے شرم نہيں آتی ‪.‬اس نے جواب ميں کہا کہ« اناال استحی من الجھل علی الکبر فکيف استحی من التعلم علی الکبر »جب مجھے‬ ‫بﮍھاپے ميں جہالت سے شرم نہيں آئی تو اس بﮍھاپے ميں پﮍھنے سے شرم کيسے آسکتی ہے ‪.‬البتہ جن چيزوں ميں واقعی برائی‬ ‫مفسد ہو ان کے ارتکاب سے شرم محسوس کرنا انسانيت اور شرافت کا جوہر ہے جيسے وه اعمال ناشائستہ کہ جو شروع وعقل اور‬ ‫مذہب و اخالق کی رو سے مذموم ہيں ‪.‬بہر حال حياء کی پہلی قسم قبيح اور دوسر ی قسم حسن ہے ‪.‬چنانچہ پيغمبر اکرم کا ارشاد ہے ‪.‬‬ ‫حيا کی دو قسميں ہيں ايک وه جو بتقاضائے عقل ہوتی ہے ‪.‬يہ حيا علم و دانائی ہے ‪.‬اور ايک وه جو حماقت کے نتيجہ ميں ہوتی ہے ‪.‬‬ ‫يہ سراسر جہل و نادانی ہے ‪.‬‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫‪ 21‬ہمارا ايک حق ہے اگر وه ہميں ديا گيا تو ہم لے ليں گے ‪.‬ورنہ ہم اونٹ‬ ‫کے پيچھے والے پٹھوں پر سوار ہوں گے ‪.‬اگرچہ شب روی طويل ہو ‪.‬‬ ‫سيد رضی فرماتے ہيں کہ يہ بہت عمده اور فصيح کالم ہے اس کا مطلب يہ ہے کہ اگر ہميں ہمارا حق نہ دياگيا ‪,‬تو ہم ذليل و خوار‬ ‫سمجھے جائيں گے اورمطلب اس طرح نکلتا ہے کہ اونٹ کے پيچھے کے حصہ پر رديف بن کر غالم اور قيدی يا ا س قسم کے لوگ‬ ‫ہی‬

‫سوار‬

‫ہوا‬

‫کرتے‬

‫تھے‬

‫سيد رضی عليہ الرحمتہ کے تحرير کرو معنی کا ماحصل يہ ہے کہ حضر ت فرمانا چاہتے ہيں کہ اگر ہمارے حق کا کہ جوامام مفترض‬ ‫الطاعتہ ہونے کی حيثيت سے دوسروں پر واجب ہے اقرار کرليا گيا اور ہميں ظاہری خالفت کا موقع دياگيا تو بہتر ورنہ ہميں ہر طرح‬ ‫کی مشقتوں اور خواريوں کو برداشت کرنا پﮍے گا ‪,‬اور ہم اس تحقير و تذليل کی حالت ميں زندگی کا ايک طويل عرصہ گزارنے پر‬ ‫ہوں‬

‫مجبور‬

‫گے‪.‬‬

‫بعض شارخين نے اس معنی کے عالوه اور معنی بھی تحرير کئے ہيں ‪.‬اور وه يہ کہ اگر ہميں ہمارے مرتبہ سے گرا کر اونٹ کے پٹھے‬ ‫پر سوار ہوتا ہے وه آگے ہوتا ہے اوربعض نے يہ معنی کہے ہيں کہ اگر ہمار ا حق دے ديا گيا تو ہم اسے لے ليں گے ‪,‬اور اگرنہ ديا‬ ‫گيا‪,‬تو اس سوار کی مانند نہ ہوں گے جو اپنی سواری کی باگ دوسرے کے ہاتھ ميں دے ديتا ہے ‪.‬کہ وه جدھر اسے لے جانا چاہے لے‬ ‫جائے ‪.‬بلکہ اپنے مطالبہ حق پر برقرار رہيں گے خواه مدت دراز کيوں نہ گزر جائے اور کبھی اپنے حق سے دستبردار ہوکر غضب‬ ‫کرنے والوں کے سامنے سر تسليم خم نہ کريں گے ‪.‬‬

‫‪ 22‬جسے اس کے اعمال پيچھے ہٹا ديں اسے حسب و نسب آگے نہيں بﮍھا‬ ‫سکتا‬

‫‪.‬‬

‫‪ 23‬کسی مضطرب کی داد فرياد سننا ‪,‬اور مصيبت زده کو مصيبت سے‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫چھٹکارا‬

‫نا‬

‫دال‬

‫بﮍے‬

‫بﮍے‬

‫کا‬

‫گناہوں‬

‫کفاره‬

‫‪.‬‬

‫ہے‬

‫‪ 24‬اے آدم عليہ السّالم کے بيٹے جب تو ديکھے کہ ﷲ تجھے پے درپے‬ ‫نعمتيں دے رہا ہے اور تو اس کی نافرمانی کررہا ہے تو اس سے ڈرتے رہنا ‪.‬‬ ‫جب کسی کو گناہوں کے باوجود پے درپے نعمتيں حاصل ہورہی ہوں ‪,‬تو وه اس غلط فہمی ميں مبتال ہوجاتا ہے کہ ﷲ اس سے خوش‬ ‫ہے اور يہ اس کی خوشنودی و نظر کرم کا نتيجہ ہے ‪.‬حاالنکہ نعمتوں ميں زيادتی شکر گزاری کی صورت ميں ہوتی ہے ‪.‬اور ناشکری‬ ‫کے‬

‫نتيجہ‬

‫ميں‬

‫نعمتوں‬

‫کا‬

‫سلسلہ‬

‫قطع‬

‫ہوجاتا‬

‫ہے‬

‫‪.‬جيسا‬

‫کہ‬

‫ﷲ‬

‫سبحانہ‬

‫کا‬

‫ارشاد‬

‫ہے‬

‫‪.‬‬

‫اگر تم نے شکر کيا تو ميں تمہيں اور زياده نعمتيں دوں گا او ر اگر ناشکر ی کی تو پھر ياد رکھو کہ ميرا عذاب سخت عذاب ہے ‪.‬‬ ‫لہٰ ذا عصيان و ناسپاسی کی صورت ميں برابر نعمتو ں کاملنا ﷲ کی خوشنود ی و رضا مند ی کا ثمره نہيں ہوسکتا اورنہ يہ کہا جاسکتا‬ ‫ہے کہ ﷲ نے اس صورت ميں اسے نعمتيں دے کر شبہہ ميں ڈال ديا ہے کہ وه نعمتوں کی فراوانی کو اس کی خوشنودی کا ثمره‬ ‫سمجھے ‪.‬کيونکہ جب وه يہ سمجھ رہا ہے کہ وه خطا کار عاصی ہے اور گناه کو گناه اور برائی کو برائی سمجھ کر اس کا مرتکب ہو‬ ‫رہا ہے ‪,‬تو اشتباه کی کيا وجہ کہ وه ﷲ کی خوشنودی و رضامندی کا تصور کرے بلکہ اسے يہ سمجھنا چاہيے کہ يہ ايک طرح کی‬ ‫آزمائش اور مہلت ہے تاکہ جب اس کی طغيانی و سر کشی انتہا کو پہنچ جائے تو اسے دفعتا ً گرفت ميں لے ليا جائے ‪.‬لہٰ ذا ايسی صورت‬ ‫ميں اسے منتظر رہنا چاہيے کہ کب اس پر غضب الہی کا ورود ہو اور يہ نعمتيں اس سے چھين لی جائيں ‪.‬اور محرومی و نامرادی کی‬ ‫عقوبتوں ميں اسے جکﮍ ليا جائے ‪.‬‬

‫‪25‬جس کسی نے بھی کوئی بات دل ميں چھپا کہ رکھنا چاہی وه اس کی زبان‬ ‫سے بے ساختہ نکلے ہوئے الفاظ اور چہره کے آثار سے نماياں ضرور ہو‬ ‫جاتی ہے ‪.‬‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫انسان جن باتوں کو دوسروں سے چھپانا چاہتا ہے ‪,‬وه کسی نہ کسی وقت زبان سے نکل ہی جاتی ہےں اور چھپانے کی کو شش ناکام‬ ‫ہو کر ره جاتی ہے ‪.‬وجہ يہ ہے کہ عقل مصلحت انديش اگرچہ انہيں پوشيده رکھنا چاہتی ہے ‪.‬مگر کبھی کسی اور اہم معاملہ ميں الجھ‬ ‫کر ادھر سے غافل ہو جاتی ہے اور وه بے اختيار لفظوں کی صورت ميں زبان سے نکل جاتی ہيں اور جب عقل ملتفت ہوتی ہے تو تير‬ ‫از کمان جستہ واپس پلٹايا نہيں جاسکتا اور اگر يہ صورت نہ بھی پيش آئے اور عقل پورے طور سے متنبہ و ہوشيار رہے‪,‬تب بھی وه‬ ‫پوشيده نہيں ره سکتيں ‪.‬کيونکہ چہرے کے خط وخال ذہنی تصورات کے غماز اور قلبی کيفيات کے آئينہ دار ہوتے ہيں ‪.‬چنانچہ چہرے‬ ‫کی سرخی سے شرمندگی کا اور زردی سے خوف کا بخوبی پتہ چل سکتا ہے ‪.‬‬

‫‪ 26‬مرض ميں جب تک ہمت ساتھ دے چلتے پھرتے رہو ‪.‬‬ ‫مقصد يہ ہے کہ جب تک مرض شدت اختيار نہ کر ے اسے اہميت نہ دينا چاہيے کيونکہ اہميت دينے سے طبيعت احساس مرض سے‬ ‫متاثر ہوکر اس کے اضافہ کا باعث ہوجاياکر تی ہے ‪.‬اس ليے چلتے پھرتے رہنا اور اپنے کو صحت مند تصور کرنا تحليل مرض کے‬ ‫عالوه طبيعت کی قوت مدافعت کو مضحمل ہونے نہيں ديتا اور اس کی قوت کو معنوی کو برقرار رکھتا ہے اور قوت معنوی چھوٹے‬ ‫موٹے مرض کو خود ہی دبايا کرتی ہے بشرطيکہ مرض کے وہم ميں مبتال ہوکر اسے سپر انداختہ ہونے پر مجبور نہ کرديا جائے ‪.‬‬

‫‪27‬‬

‫زہد‪،‬‬

‫بہترين‬

‫کا‬

‫زہد‬

‫رکھنا‬

‫مخفی‬

‫ہے‬

‫‪.‬‬

‫‪ 28‬جب تم )دنيا کو ( پيٹھ دکھا رہے ہو ‪.‬اور موت تمہاری طرف رخ کئے‬ ‫ہوئے‬

‫بﮍھ‬

‫رہی‬

‫ہے‬

‫تو‬

‫پھر‬

‫مالقات‬

‫ميں‬

‫دير‬

‫کيسی‬

‫؟‬

‫‪ 29‬ڈرو !ڈرو !اس ليے کہ بخدا اس نے اس حد تک تمہاری پرده پوشی کی‬ ‫ہے‬

‫‪,‬کہ‬

‫گويا‬

‫تمہيں‬

‫بخش‬

‫ديا‬

‫ہے‬

‫‪.‬‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫‪ 30‬حضرت عليہ السّالم سے ايمان کے متعلق سوال کيا گيا تو آپ نے فرمايا‬ ‫‪.‬ايمان چار ستونوں پر قائم ہے ‪.‬صبر ‪,‬يقين ‪,‬عدل اور جہاد ‪ .‬پھرصبر کی چار‬ ‫شاخيں ہيں ‪.‬اشتياق ‪,‬خوف ‪,‬دنيا سے بے اعتنائی اور انتظار ‪.‬اس ليے کہ جو‬ ‫جنت کا مشتاق ہو گا ‪,‬وه خواہشوں کو بھال دے گا اور جو دوزخ سے خوف‬ ‫کھائے گا وه محرمات سے کناره کشی کرے گا اور جو دنيا سے بے اعتنائی‬ ‫اختيار کر ے گا ‪,‬وه مصيبتوں کو سہل سمجھے گا اور جسے موت کا انتظار‬ ‫ہو گا ‪,‬وه نيک کاموں ميں جلدی کرے گا ‪.‬اور يقين کی بھی چار شاخيں ہيں‬ ‫‪.‬روشن نگاہی ‪,‬حقيقت رسی ‪,‬عبرت اندوزی اور اگلوں کا طور طريقہ ‪.‬چنانچہ‬ ‫جو دانش و آگہی حاصل کرے گا اس کے سامنے علم و عمل کی راہيں واضح‬ ‫ہو جائيں گی ‪.‬اور جس کے ليے علم وعمل آشکار ہو جائے گا ‪,‬وه عبرت سے‬ ‫آشنا ہوگا وه ايسا ہے جيسے وه پہلے لوگوں ميں موجود رہا ہو اور عدل کی‬ ‫بھی چار شاخيں ہيں ‪,‬تہوں تک پہنچنے والی فکر اور علمی گہرائی اور فيصلہ‬ ‫کی خوبی اور عقل کی پائيداری ‪.‬چنانچہ جس نے غور و فکر کيا ‪,‬وه علم کی‬ ‫گہرائيوں ميں اترا ‪,‬وه فيصلہ کے سر چشموں سے سيراب ہوکر پلٹا اور جس‬ ‫نے حلم و بردباری اختيار کی ‪.‬اس نے اپنے معامالت ميں کوئی کمی نہيں کی‬ ‫اور لوگوں ميں نيک نام ره کر زندگی بسر کی اورجہاد کی بھی چار شاخيں‬ ‫ہيں ‪.‬امر بالمعروف ‪,‬نہی عن المنکر ‪,‬تمام موقعوں پر راست گفتاری اور‬ ‫بدکرداروں سے نفرت ‪.‬چنانچہ جس نے امر بالمعروف کيا ‪,‬اس نے مومنين کی‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫پشت مضبوط کی ‪,‬اور جس نے نہی عن المنکر کيا اس نے کافروں کو ذليل کيا‬ ‫اور جس نے تمام موقعوں پر سچ بوال ‪,‬اس نے اپنا فرض اداکرديا اور جس نے‬ ‫فاسقوں کو براسمجھا اور ﷲ کے ليے غضبناک ہوا ﷲ بھی اس کے ليے‬ ‫دوسروں پر غضبناک ہو گا اور قيامت کے دن اس کی خوشی کا سامان کرے‬ ‫گا‪.‬‬

‫اقوال امام علی )عليہ السالم (از نہج البالغہ‬ ‫ِ‬ ‫اقوال ‪ ٣١‬تا ‪۶٠‬‬ ‫‪ 31‬کفر بھی چار ستونوں پر قائم ہے ‪.‬حد سے بﮍھی ہوئی کاوش ‪,‬جھگﮍا لُو پن‬ ‫‪,‬کج روی اور اختالف ‪.‬تو جو بے جا تعمق و کاوش کرتا ہے ‪ ,‬وه حق کی‬ ‫طرف رجوع نہيں ہوتا اور جو جہالت کی وجہ سے آئے دن جھگﮍے کرتا ہے‬ ‫‪ ,‬وه حق سے ہميشہ اندھا رہتا ہے اور جو حق سے منہ موڑ ليتا ہے ‪.‬وه‬ ‫اچھائی کو برائی اور برائی کو اچھائی سمجھنے لگتا ہے اور گمراہی کے نشہ‬ ‫ميں مدہوش پﮍا رہتا ہے اور جو حق کی خالف ورزی کرتا ہے ‪ ,‬اس کے‬ ‫راستے بہت دشوار اور اس کے معامالت سخت پيچيده ہو جاتے ہيں اور بچ‬ ‫نکلنے کی راه اس کے ليے تنگ ہو جاتی ہے ‪,‬شک کی بھی چار شاخيں ہيں‬ ‫‪,‬کٹھ حجتی خوف سرگردانی اور باطل کے آگے جبيں سائی ‪.‬چنانچہ جس نے‬ ‫لﮍائی جھگﮍ ے کو شيوه بناليا ‪,‬اس کی رات کبھی صبح سے ہمکنار نہيں ہو‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫سکتی اور جس کو سامنے کی چيزوں نے ہول ميں ڈال ديا ‪,‬وه الٹے پير پلٹ‬ ‫جاتا ہے اور جو شک و شبہہ ميں سر گرداں رہتا ہے ‪.‬اسے شياطين اپنے‬ ‫پنجوں سے روند ڈالتے ہيں اور جس نے دنيا و آخرت کی تباہی کے آگے سر‬ ‫تسليم خم کرديا‪.‬وه دوجہاں ميں تباه و برباد ہوا ‪.‬‬ ‫سيد رضی فرماتے ہيں کہ ہم نے طوالت کے خوف اور اس خيال سے کہ اصل مقصد جو اس بات کا ہے فوت نہ ہو ‪,‬بقيہ کالم کو چھوڑ‬ ‫ديا ہے ‪.‬‬

‫‪ 32‬نيک کام کر نے واال خود اس کام سے بہتر اور برائی کا مرتکب ہونے‬ ‫واال‬

‫خود‬

‫اس‬

‫سے‬

‫برائی‬

‫بدتر‬

‫ہے‬

‫‪.‬‬

‫‪ 33‬سخاوت کرو ‪,‬ليکن فضول خرچی نہ کرو اور جز رسی کرو ‪,‬مگر بخل‬ ‫‪.‬‬

‫نہيں‬

‫‪ 34‬بہتر ين دولت مند ی يہ ہے کہ تمناؤں کو ترک کرے‪.‬‬

‫‪ 35‬جو شخص لوگوں کے بار ے ميں جھٹ سے ايسی باتيں کہہ ديتا ہے جو‬ ‫انہيں ناگوار گزريں ‪,‬تو پھر وه اس کے ليے ايسی باتيں کہتے ہيں کہ جنہيں وه‬ ‫جانتے‬

‫نہيں‬

‫‪.‬‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫‪ 36‬جس نے طول طويل اميديں باندھيں ‪,‬اس نے اپنے اعمال بگاڑ ليے ‪.‬‬

‫‪ 37‬اميرالمومنين عليہ السّالم سے شام کی جانب روانہ ہو تے وقت مقام انبار‬ ‫کے زمينداروں کا سامنا ہوا ‪,‬تو وه آپ کو ديکھ کر پياده ہو گئے اور آپ کے‬ ‫سامنے دوڑنے لگے ‪.‬آپ نے فرمايا يہ تم نے کيا کيا ؟انہوں نے کہا کہ يہ‬ ‫ہمارا عام طريقہ ہے ‪.‬جس سے ہم اپنے حکمرانوں کی تعظيم بجاال تے ہيں ‪.‬آپ‬ ‫نے فرمايا ‪.‬خدا کی قسم اس سے تمہارے حکمرانوں کو کچھ بھی فائده نہيں‬ ‫پہنچتا البتہ تم اس دنيا ميں اپنے کو زحمت و مشقت ميں ڈالتے ہو ‪,‬اور آخرت‬ ‫ميں اس کی وجہ سے بدبختی مول ليتے ہو ‪,‬وه مشقت کتنی گھاٹے والی ہے‬ ‫جس کا نتيجہ سزائے اخروی ہو ‪ ,‬اور وه راحت کتنی فائده مند ہے جس کا‬ ‫دوزخ‬

‫نتيجہ‬

‫امان‬

‫سے‬

‫‪.‬‬

‫ہو‬

‫‪ 38‬اپنے فرزند حضرت حسن عليہ السالم سے فرمايا مجھ سے چار‪ ,‬اور پھر‬ ‫چار باتيں ياد رکھو ‪.‬ان کے ہوتے ہوئے جو کچھ کرو گے ‪,‬وه تمہيں ضرر نہ‬ ‫پہنچائے گا سب سے بﮍی ثروت عقل و دانش ہے اور سب سے بﮍی ناداری‬ ‫حماقت و بے عقلی ہے اور سب سے بﮍی وحشت غرور خود بينی ہے اور‬ ‫سب‬

‫سے‬

‫بﮍا‬

‫جوہر‬

‫ذاتی‬

‫حسن‬

‫اخالق‬

‫ہے‬

‫‪.‬‬

‫اے فرزند !بيوقوف سے دوستی نہ کرنا کيونکہ وه تمہيں فائده پہنچانا چاہے گا‬ ‫‪,‬تو نقصان پہنچائے گا ‪.‬اور بخيل سے دوستی نہ کرنا کيونکہ جب تمہيں اس‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫کی مدد کی انتہائی احتياج ہوگی ‪,‬وه تم سے دور بھاگے گا ‪.‬اور بدکردار سے‬ ‫دوستی نہ کرنا ‪,‬وه تمہيں کوڑيوں کے مول بيچ ڈالے گا اور جھوٹے سے‬ ‫دوستی نہ کرنا کيونکہ وه سراب کے مانند تمہارے ليے دور کی چيزوں کو‬ ‫قريب اور قريب کی چيزوں کو دور کر کے دکھائے گا ‪.‬‬

‫‪ 39‬مستحبات سے قرب الہی نہيں حاصل ہوسکتا ‪,‬جب کہ وه واجبات ميں‬ ‫سدراه‬

‫‪.‬‬

‫ہوں‬

‫‪ 40‬عقل مند کی زبان اس کے دل کے پيچھے ہے اور بے قوف کا دل اس کی‬ ‫زبان کے پيچھے ہے ‪.‬‬ ‫سيد رضی کہتے ہيں کہ يہ جملہ عجيب و پاکيزه معنی کا حال ہے‪.‬مقصد يہ ہے کہ عقلمند اس وقت زبان کھولتا ہے جب دل ميں سوچ‬ ‫بچار اور غور و فکر سے نتيجہ اخذ کر ليتا ہے ‪.‬ليکن بے وقو ف بے سوچے سمجھے جو منہ ميں آتا ہے کہہ گذرتا ہے ‪.‬اس طرح‬ ‫گويا عقلمند کی زبان اس کے تابع ہے اور بے وقوف کا دل اس کی زبان کے تابع ہے ‪.‬‬

‫‪ 41‬يہی مطلب دوسرے لفظوں ميں بھی حضرت سے مروی ہے اور وه يہ کہ‬ ‫«بے وقوف کا دل اس کے منہ ميں ہے اور عقلمند کی زبان اس کے دل ميں‬ ‫ہے‬

‫»‪.‬بہر‬

‫حال‬

‫ان‬

‫دونوں‬

‫جملوں‬

‫کا‬

‫مقصد‬

‫ايک‬

‫ہے‬

‫‪.‬‬

‫‪ 42‬اپنے ايک ساتھی سے اس کی بيماری کی حالت ميں فرمايا ‪.‬ﷲ نے‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫تمہارے مرض کو تمہارے گناہوں کو دور کرنے کا ذريعہ قرار ديا ہے‬ ‫‪.‬کيونکہ خود مرض کا کوئی ثواب نہيں ہے ‪.‬مگر وه گناہوں کو مٹاتا ‪,‬اور انہيں‬ ‫اس طرح جھاڑ ديتا ہے جس طرح درخت سے پتے جھﮍتے ہيں‪ .‬ہاں ! ثواب‬ ‫اس ميں ہوتا ہے کہ کچھ زبان سے کہا جائے اور کچھ ہاتھ پيروں سے کيا‬ ‫جائے ‪,‬اورخدا وند عالم اپنے بندوں ميں سے نيک نيتی اور پاکدامنی کی وجہ‬ ‫سے جسے چاہتا ہے جنت ميں داخل کرتا ہے ‪.‬‬ ‫سيدرضی فرماتے ہيں کہ حضرت نے سچ فرمايا کہ مرض کا کوئی ثواب نہيں ہے کيونکہ مرض تو اس قسم کی چيزوں ميں سے ہے‬ ‫جن ميں عوض کا استحقاق ہوتا ہے ‪.‬اس ليے کہ عوض ﷲ کی طرف سے بندے کے ساتھ جو امر عمل ميں آئے ‪.‬جيسے دکھ ‪,‬درد‬ ‫‪,‬بيماری وغير ه ‪ .‬اس کے مقابلہ ميں اسے ملتا ہے ‪.‬اور اجر و ثواب وه ہے کہ کسی عمل پر اسے کچھ حاصل ہو ‪.‬لہٰ ذا عوض اور ہے‬ ‫‪,‬اور اجر اور ہے اس فرق کو اميرالمومنين عليہ السالم نے اپنے علم روشن اور رائے صائب کے مطابق بيان فرما ديا ہے ‪.‬‬

‫‪ 43‬جناب ابن ارت کے بارے ميں فرمايا ‪.‬خدا خباب ابن ارت پر رحمت اپنی‬ ‫شامل حال فرمائے وه اپنی رضا مند ی سے اسالم الئے اور بخوشی ہجرت کی‬ ‫تعالی کے فيصلوں پر راضی رہے اور‬ ‫اور ضرور ت بھر قناعت کی اور ﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫مجاہد انہ شان سے زندگی بسر کی ‪.‬‬ ‫حضرت خباب ابن ارت پيغمبر کے جليل القدر صحابی اور مہاجرين اولين ميں سے تھے ‪.‬انہوں نے قريش کے ہاتھوں طرح طرح کی‬ ‫مصيبتيں اٹھائيں ‪.‬چلچالتی دھوپ ميں کھﮍے کئے گئے آگ پر لٹائے گئے ‪.‬مگر کسی طرح پيغمبر اکرم کا دامن چھوڑنا گوارا نہ کيا ‪.‬بدر‬ ‫سالم کا ساتھ ديا‪.‬مدينہ چھوڑ کر کو‬ ‫اور دوسرے معرکوں ميں رسالت مآب کے ہمرکاب رہے ‪.‬صفين و نہروان ميں اميرالمومنين عليہ ال ّ‬ ‫فہ ميں سکو نت اختيار کر لی تھی ‪.‬چنانچہ يہيں پر ‪ 73‬برس کی عمر ميں ‪ 39‬ہجری ميں انتقال فرمايا ‪.‬نماز جنازه اميرالمومنين عليہ‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫سالم نے پﮍھائی اور بيرون کوفہ دفن ہوئے اور حضرت نے يہ کلمات ترحم ان کی قبر پر کھﮍے ہو کر فرمائے ‪.‬‬ ‫ال ّ‬

‫‪ 44‬خوشا نصيب اس کے جس نے آخرت کو ياد رکھا ‪,‬حساب و کتاب کے ليے‬ ‫عمل کيا ‪.‬ضرورت بھر قناعت کی اور ﷲ سے راضی و خوشنود رہا ‪.‬‬

‫‪ 45‬اگر ميں مومن کی ناک پر تلواريں لگاؤں کہ وه مجھے دشمن رکھے ‪,‬تو‬ ‫متاع دنيا کافر کے آگے‬ ‫جب بھی وه مجھ سے دشمنی نہ کرے گا ‪.‬اور اگر تمام‬ ‫ِ‬ ‫ڈھير کر دوں کہ وه مجھے دوست رکھے تو بھی وه مجھے دوست نہ رکھے‬ ‫گا اس ليے کہ يہ وه فيصلہ ہے جو پيغمبر امی صلی ﷲ عليہ وآلہ وسلم کی‬ ‫زبان‬

‫سے‬

‫ہو‬

‫گيا‬

‫ہے‬

‫آپ‬

‫کہ‬

‫نے‬

‫فرمايا‬

‫‪:‬‬

‫اے علی عليہ السّالم ! کوئی مومن تم سے دشمنی نہ رکھے گا اور کوئی منافق‬ ‫تم‬

‫محبت‬

‫سے‬

‫نہ‬

‫کرے‬

‫گا‪.‬‬

‫‪ 46‬وه گناه جس کا تمہيں رنج ہو ﷲ کے نزديک اس نيکی سے کہيں اچھا ہے‬ ‫جو تمہيں خود پسند بنا دے‪.‬‬ ‫جو شخص ارتکاب گناه کے بعد ندامت و پشيمانی محسوس کرے اور ﷲ کی بارگاه ميں توبہ کر ے وه گناه کی عقوبت سے محفوظ اور‬ ‫توبہ کے ثواب کا مستحق ہوتا ہے اور جو نيک عمل بجا النے کے بعد دوسروں کے مقابلہ ميں برتری محسوس کرتا ہے اور اپنی نيکی‬ ‫پر گھمنڈ کرتے ہوئے يہ سمجھتا ہے کہ اب اس کے ليے کوئی کھٹکا نہيں رہا وه اپنی نيکی کو برباد کرديتا ہے اور حسن عمل کے‬ ‫ثواب سے محروم رہتا ہے ‪.‬ظاہر ہے کہ جو توبہ سے معصيت کے داغ کو صاف کر چکا ہو وه اس سے بہتر ہوگا جو اپنے غرور کی‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫وجہ سے اپنے کئے کرائے کو ضائع کرچکا ہو اور توبہ کے ثواب سے بھی اس کا دامن خالی ہو ‪.‬‬

‫‪ 47‬انسان کی جتنی ہمت ہو اتنی ہی اس کی قدر و قيمت ہے اور جتنی مروت‬ ‫اور جوانمردی ہوگی اتنی ہی راست گوئی ہو گی ‪,‬اور جتنی حميت و خودداری‬ ‫ہو گی اتنی ہی شجاعت ہو گی اور جتنی غيرت ہوگی اتنی ہی پاک دامنی ہو‬ ‫‪.‬‬

‫گی‬

‫‪ 48‬کاميابی دور انديشی سے وابستہ ہے اور دور انديشی فکر و تدبر کو کام‬ ‫ميں النے سے اور تدبر بھيدوں کو چھپاکر رکھنے سے ‪.‬‬

‫‪ 49‬بھوکے شريف اور پيٹ بھرے کمينے کے حملہ سے ڈرتے رہو ‪.‬‬ ‫مطلب يہ ہے کہ باعزت و باوقار آدمی کبھی ذلت و توہين گوارا نہيں کرتا ‪.‬اگر اس کی عزت و وقار پر حملہ ہوگا تو وه بھو کے شير کی‬ ‫طرح جھپٹے گا اور ذلت کی زنجيروں کو توڑ کر رکھ دے گا اور اگر ذليل و کم ظرف کو اس کی حيثيت سے بﮍھا ديا جائے گا تو اس کا‬ ‫ظرف چھلک اٹھے گا اور وه اپنے کو بلند مرتبہ خيال کرتے ہوئے دوسروں کے وقار پر حملہ آور ہو گا ‪.‬‬

‫‪ 50‬لوگوں کے دل صحرائی جانور ہيں ‪,‬جو کہ ان کو سدھائے گا ‪,‬اس کی‬ ‫طرف جھکيں گے ‪.‬‬ ‫اس قول سے اس نظريہ کی تائيد ہوتی ہے کہ انسانی قلوب اصل فطرت کے لحاظ سے وحشت پسند واقع ہوئے ہيں اور ان ميں انس و‬ ‫محبت کا جذبہ ايک اکتسابی جذبہ ہے ‪.‬چنانچہ جب انس و محبت کے دواعی اسباب پيدا ہوتے ہيں تو وه مانوس ہو جاتے ہيں اور جب‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫اس کے دواعی ختم ہوجاتے ہيں يا اس کے خالف نفرت کے جذبات پيدا ہوتے ہيں تو وحشت کی طرف عود کر جاتے ہيں اور پھر بﮍ ی‬ ‫مشکل‬

‫سے‬

‫محبت‬

‫کی‬

‫پر‬

‫راه‬

‫گامز‬

‫ن‬

‫ہوتے‬

‫ہيں‬

‫‪.‬‬

‫مرنجا ں و لے راکہ ايں مرغ وحشی زبامے کہ برخوست مشکل نشنيد‬

‫‪ 51‬جب تک تمہارے نصيب ياور ہيں تمہارے عيب ڈھکے ہوئے ہيں‪.‬‬

‫‪ 52‬معاف کر نا سب سے زياده اسے زيب ديتا ہے جو سزادينے پر قادر ہو‪.‬‬

‫‪ 53‬سخاوت وه ہے جو بن مانگے ہو ‪,‬اور مانگے سے دينا يا شرم ہے يا‬ ‫سے‬

‫بدگوئی‬

‫‪.‬‬

‫بچنا‬

‫‪ 54‬عقل سے بﮍھ کر کوئی ثروت نہيں اور جہالت سے بﮍھ کر کوئی بے‬ ‫مائيگی نہيں ‪.‬ادب سے بﮍھ کر کوئی ميراث نہيں اور مشوره سے زياده کوئی‬ ‫چيز‬

‫معين‬

‫مددگار‬

‫و‬

‫نہيں‬

‫‪.‬‬

‫‪ 55‬صبر دو طرح کا ہوتاہے ايک ناگوار باتوں پر صبر اور دوسرے پسنديده‬ ‫چيزوں‬

‫سے‬

‫صبر‪.‬‬

‫‪ 56‬دولت ہو تو پرديس ميں بھی ديس ہے اور مفلسی ہو تو ديس ميں بھی‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫پرديس‬

‫‪ 57‬قناعت وه سرمايہ ہے جو ختم نہيں ہو سکتا‪.‬‬ ‫«عالمہ رضی فرماتے ہيں کہ يہ کالم پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ وآلہ وسلم سے بھی مروی ہے »‪.‬‬ ‫قناعت کا مفہوم يہ ہے کہ انسان کو جو ميسر ہو اس پر خوش و خرم رہے اور کم ملنے پر کبيده خاطر و شاکی نہ ہو اور اگر تھوڑے پر‬ ‫مطمئن نہيں ہو گا تو رشوت ‪,‬خيانت اور مکر و فريب ايسے محرمات اخالقی کے ذريعہ اپنے دامن حرص کو بھر نے کی کوشش کرے‬ ‫گا ‪.‬کيونکہ حرص کا تقاضا ہی يہ ہے جس طرح بن پﮍے خواہشات کو پورا کيا جائے اور ان خواہشات کا سلسلہ کہيں پر رکنے نہيں پاتا‬ ‫‪,‬کيونکہ ايک خواہش کا پورا ہونا دوسری خواہش کی تمہيد بن جايا کرتا ہے اور جوں جوں انسان کی خواہش کاميابی سے ہمکنار ہوتی‬ ‫ہے اس کی احتياج بﮍھتی ہی جاتی ہے ‪.‬اس ليے کبھی محتاجی و بے اطمينانی سے نجات حاصل نہيں کر سکتا اگر اس بﮍھتی ہوئی‬ ‫خواہش کو روکا جاسکتا ہے تو وه صرف قناعت سے کہ جو ناگزير ضرورتوں کے عالوه ہر ضرورت سے مستغنی بنا ديتی ہے اور‬ ‫الزوال سرمايہ ہے جو ہميشہ کے ليے فارغ البال کرديتا ہے ‪.‬‬

‫‪58‬‬

‫مال‬

‫نفسانی‬

‫کا‬

‫خواہشوں‬

‫سر‬

‫چشمہ‬

‫ہے‬

‫‪.‬‬

‫‪ 59‬جو )برائيوں سے (خوف دالئے وه تمہارے ليے مژده سنانے والے کے‬ ‫مانند‬

‫ہے‬

‫‪.‬‬

‫‪ 60‬زبان ايک ايسا درنده ہے کہ اگر اسے کھال چھوڑ ديا جائے تو پھاڑ کھائے‬ ‫‪.‬‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫اقوال امام علی )عليہ السالم (از نہج البالغہ‬ ‫ِ‬ ‫اقوال ‪ ۶١‬تا ‪٩٠‬‬ ‫‪ 61‬عورت ايک ايسا بچھو ہے جس کے لپٹنے ميں بھی مزه آتا ہے ‪.‬‬

‫‪ 62‬جب تم پرسالم کيا جائے تو اس سے اچھے طريقہ سے جواب دو ‪.‬اور جب‬ ‫تم پر کوئی احسان کرے تو اس سے بﮍھ چﮍھ کر بدلہ دو ‪,‬اگرچہ اس صورت‬ ‫ميں‬

‫بھی‬

‫فضيلت‬

‫پہل‬

‫کرنے‬

‫والے‬

‫ہی‬

‫کی‬

‫ہوگی‬

‫‪.‬‬

‫‪ 63‬سفارش کرنے واال اميدوار کے ليے بمنزلہ پرد بال ہوتا ہے ‪.‬‬

‫‪ 64‬دنيا والے ايسے سواروں کے مانند ہيں جو سو رہے ہيں اور سفر جاری‬ ‫ہے‬

‫‪65‬‬

‫‪.‬‬

‫دوستوں‬

‫کو‬

‫کھو‬

‫دينا‬

‫غريب‬

‫الوطنی‬

‫ہے‬

‫‪.‬‬

‫‪ 66‬مطلب کا ہاتھ سے چال جانا اہل کے آگے ہاتھ پھيالنے سے آسان ہے ‪.‬‬

‫‪ 67‬نااہل کے سامنے حاجت پيش کرنے سے جو شرمندگی حاصل ہوتی ہے وه‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫محرومی کے اندوه سے کہيں زياده روحانی اذيت کا باعث ہوتی ہے ‪.‬اس ليے‬ ‫کے مقصد سے محرومی کو برداشت کيا جاسکتا ہے ‪.‬مگر ايک دنی و فر و‬ ‫مايہ کی زير باری ناقابل برداشت ہوتی ہے ‪.‬چنانچہ ہر باحميت انسان نا اہل‬ ‫کے ممنون احسان ہونے سے اپنی حرمان نصيبی کو ترجيح دے گا ‪,‬اور کسی‬ ‫پست و دنی کے آگے دست سوال دراز کرنا گوارا نہ کرے گا ‪.‬‬

‫‪ 67‬تھوڑا دينے سے شرماؤ نہيں کيونکہ خالی ہاتھ پھيرنا تو اس سے بھی‬ ‫گری‬

‫ہوئی‬

‫بات‬

‫ہے‬

‫‪.‬‬

‫‪68‬عفت فقر کا زيور ہے اور شکر دولت مندی کی زينت ہے ‪.‬‬

‫‪ 69‬اگر حسب منشا تمہارا کام نہ بن سکے تو پھر جس حالت ميں ہو مگن رہو ‪.‬‬

‫‪ 70‬جاہل کو نہ پاؤ گے مگر يا حد سے آگے بﮍھا ہو ‪,‬اور يا اس سے بہت‬ ‫‪.‬‬

‫پيچھے‬

‫‪ 71‬جب عقل بﮍھتی ہے ‪,‬تو باتيں کم ہو جاتی ہيں ‪.‬‬ ‫بسيار گوئی پريشان خيالی کا اور پريشان خيالی عقل کی خامی کا نتيجہ ہوتی ہے ‪.‬اور جب انسان کی عقل کامل اور فہم پختہ ہوتا ہے تو‬ ‫اس کے ذہن اور خياال ت ميں توازن پيد ا ہوجاتا ہے ‪.‬اور عقل دوسرے قوائے بدنيہ کی طرح زبان پر بھی تسلط و اقتدار حاصل کر ليتی‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫ہے جس کے نتيجہ ميں زبان عقل کے تقاضوں سے ہٹ کر اور بے سوچے سمجھے کھلنا گوارا نہيں کرتی اور ظاہر ہے کہ سوچ بچار‬ ‫کے‬

‫بعد‬

‫جو‬

‫کالم‬

‫‪,‬وه‬

‫ہوگا‬

‫مختصر‬

‫اور‬

‫زوائد‬

‫سے‬

‫پاک‬

‫ہوگا‬

‫‪.‬‬

‫مروچوں عقلس بيفزائد بکا ہددر سخن تانيا بدفرصت گفتار نکشايد ذہن‬

‫‪ 72‬زمانہ جسموں کو کہنہ و بوسيده اور آرزوؤں کو دور کرتا ہے ‪.‬جو زمانہ‬ ‫سے کچھ پا ليتا ہے ‪.‬وه بھی رنج سہتا ہے اور جو کھو ديتا ہے وه تو دکھ‬ ‫جھيلتا‬

‫ہی‬

‫ہے‬

‫‪.‬‬

‫‪ 73‬جو لوگوں کا پيشوا بنتا ہے تو اسے دوسروں کو تعليم دينے سے پہلے‬ ‫اپنے کو تعليم دينا چاہيے اور زبان سے درس اخال ق دينے سے پہلے اپنی‬ ‫سيرت و کردار سے تعليم دينا چاہيے ‪.‬اورجو اپنے نفس کی تعليم و تاديب‬ ‫کرلے ‪,‬وه دوسروں کی تعليم و تاديب کرنے والے سے زياده احترام کا مستحق‬ ‫ہے‬

‫‪.‬‬

‫‪ 74‬انسان کی ہر سانس ايک قدم ہے جو اسے موت کی طرف بﮍھائے ليے‬ ‫جارہا ہے‪.‬‬ ‫يعنی جس طرح ايک قدم مٹ کر دوسرے قدم کے ليے جگہ خالی کرتا ہے اور يہ قدم فرسائی منزل کے قرب کا باعث ہوتی ہے ‪ ,‬يونہی‬ ‫زندگی کی ہر سانس پہلی سانس کے ليے پيغام فنا بن کر کاروان زندگی کو موت کی طرف بﮍھائے ليے جاتی ہے ‪.‬گويا جس سانس کی‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫آمد کو پيغام حيات سمجھا جاتا ہے ‪,‬وہی سانس زندگی کے ايک لمحے کے فنا ہو نے کی عالمت اورمنزل موت سے قرب کا باعث ہوتی‬ ‫ہے کيونکہ ايک سانس کی حيات دوسری سانس کے ليے موت ہے اور انہی فنا بردوش سانسوں کے مجموعے کا نا م زندگی ہے ‪#‬‬

‫ہر‬

‫عمر‬

‫نفس‬

‫کی‬

‫گزشتہ‬

‫ہے‬

‫ميت‬

‫فانی‬

‫زندگی نام ہے مرمر کے جيے جانے کا‬

‫‪ 75‬جوچيز شمار ميں آئے اسے ختم ہونا چاہيے اور جسے آنا چاہيے ‪,‬وه آکر‬ ‫رہے‬

‫‪.‬‬

‫گا‬

‫‪ 76‬جب کسی کام ميں اچھے برے کی پہچان نہ رہے توآغاز کو ديکھ کر انجام‬ ‫کو پہچان لينا چاہيے ‪.‬‬ ‫ايک بيج کو ديکھ کر کاشتکار يہ حکم لگا سکتا ہے کہ اس سے کو ن سا درخت پيدا ہوگا ‪.‬اس کے پھل پھول اور پتے کيسے ہوں گے‬ ‫‪,‬اس کا پھيالؤ اور بﮍھاؤ کتنا ہو گا ‪.‬اسی طرح ايک طالب علم سعی و کوشش کو ديکھ کر اس کی کاميابی پر ‪,‬اور دوسرے کی آرام طلبی‬ ‫و غفلت کو ديکھ کر اس کی ناکامی پر حکم لگايا جاسکتا ہے ‪,‬کيونکہ ادائل اواخر کے اور مقدمات ‪,‬نتائج کے آئينہ دار ہوتے ہيں ‪.‬لہٰ ذا‬ ‫کسی چيز کا انجام سجھائی نہ ديتا ہو تو اس کی ابتداء کو ديکھا جائے ‪.‬اگر ابتداء بری ہوگی تو انتہا بھی بری ہو گی اور اگر ابتداء‬ ‫اچھی‬

‫تو‬

‫ہوگی‬

‫انتہا‬

‫بھی‬

‫اچھی‬

‫ہوگی‬

‫‪.‬‬

‫سالے کہ نکواست ازبہارش پيدا‬

‫‪ 77‬جب ضرار ابن ضمرة صنبائی معاويہ کے پاس گئے اور معاويہ نے‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫اميرالمومنين عليہ السّالم کے متعلق ان سے سوال کيا ‪,‬تو انہوں نے کہاکہ ميں‬ ‫اس امر کی شہادت ديتا ہوں کہ ميں نے بعض موقعوں پر آپ کو ديکھا جب کہ‬ ‫رات اپنے دامن ظلمت کو پھيال چکی تھی ‪.‬تو آپ محراب عبادت ميں استاده‬ ‫ريش مبارک کو ہاتھوں ميں پکﮍے ہوئے مار گزيده کی طرح تﮍپ رہے تھے‬ ‫اورغم رسيده کی طرح رو رہے تھے اور کہہ رہے تھے ‪.‬‬ ‫اے دنيا ! اے دنيا دور ہو مجھ سے ‪.‬کياميرے سامنے اپنے کو التی ہے؟ يا‬ ‫ميری دلداده و فريفتہ بن کر آئی ہے ‪.‬تيرا وه وقت نہ آئے )کہ تو مجھے فريب‬ ‫دے سکے(بھال يہ کيونکر ہو سکتا ہے ‪,‬جاکسی اور کو جل دے مجھے تيری‬ ‫خواہش نہيں ہے ‪.‬ميں تو تين بار تجھے طالق دے چکا ہوں کہ جس کے بعد‬ ‫رجوع کی گنجائش نہيں ‪.‬تيری زندگی تھوڑی ‪ ,‬تيری اہميت بہت ہی کم اور‬ ‫تيری آرزو ذليل و پست ہے افسوس زا ِد راه تھوڑا ‪ ,‬راستہ طويل سفر دور‬ ‫دراز اور منزل سخت ہے ‪.‬‬ ‫اس روايت کا تتمہ يہ ہے کہ جب معاويہ نے ضرار کی زبان سے يہ واقعہ سنا تو ا س کی آنکھيں اشکبار ہو گئيں اور کہنے لگا کہ خدا‬ ‫ابو الحسن پر رحم کرے وه واقعا ًايسے ہی تھے ‪,‬پھر ضرار سے مخاطب ہو کر کہا کہ اے ضرار ان کی مفارقت ميں تمہارے رنج و‬ ‫اندوه کی کيا حالت ہے ضرا ر نے کہا کہ بس يہ سمجھ لو کہ ميرا غم اتنا ہی ہے جتنا اس ماں کاہوتا ہے جس کی گود ميں اس کا اکلوتا‬ ‫بچہ ذبح کر ديا جائے ‪.‬‬

‫‪ 78‬ايک شخص نے اميرالمومنين عليہ السالم سے سوال کيا کہ کيا ہمارا اہل‬ ‫شام سے لﮍنے کے ليے جانا قضا و قدر سے تھا؟ تو آپ نے ايک طويل جواب‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫ديا‬

‫‪.‬جس‬

‫کا‬

‫ايک‬

‫منتخب‬

‫حصہ‬

‫يہ‬

‫ہے‬

‫‪.‬‬

‫خدا تم پر رحم کرے شايد تم نے حتمی و الزمی قضاء و قدر سمجھ ليا ہے )کہ‬ ‫جس کے انجام دينے پر ہم مجبور ہيں (اگر ايسا ہوتا تو پھر نہ ثواب کا کوئی‬ ‫سوال پيدا ہوتا نہ عذاب کا نہ وعدے کے کچھ معنی رہتے نہ وعيد کے ‪.‬خدا‬ ‫وند عالم نے تو بندوں کو خود مختار بناکر مامو ر کيا ہے اور )عذاب سے‬ ‫(ڈراتے ہوئے نہی کی ہے۔ اُس نے سہل و آسان تکليف دی ہے اور دشواريوں‬ ‫سے بچائے رکھا ہے وه تھوڑے کئے پر زياده اجر ديتا ہے ‪.‬ا س کی نافرمانی‬ ‫اس ليے نہيں ہوتی کہ وه دب گيا ہے اور نہ اس کی اطاعت اس ليے کی جاتی‬ ‫ہے کہ اس نے مجبور کر رکھا ہے اس نے پيغمبروں کو بطور تفريح نہيں‬ ‫بھيجا اور بندوں کے ليے کتابيں بے فائده نہيں اتاری ہيں اور نہ آسمان و زمين‬ ‫اور جو کچھ ان دونوں کے درميان ہے ان سب کو بيکار پيدا کيا ہے ‪.‬يہ تو ان‬ ‫لوگوں کا خيال ہے ‪.‬جنہوں نے کفر اختيار کيا آتش جہنم کے عذاب سے‬ ‫اس روايت کا تتمہ يہ ہے پھر اس شخص نے کہا کہ وه کون سی قضاء و قدر تھی جس کی وجہ سے ہميں جانا پﮍا آپ نے کہا کہ‬ ‫قضاکے معنی حکم باری کے ہيں جيسا کہ ارشاد ہے ‪.‬وقضی ربّک اال تعبدوا اال اياه اور تمہارے پروردگار نے تو حکم دے ديا ہے کہ‬ ‫اس کے سوا کسی کی پرستش نہ کرنا ‪.‬يہاں پر قضی بمعنی امر کے ہے ‪.‬‬

‫‪ 79‬حکمت کی بات جہاں کہيں ہو ‪,‬اسے حاصل کرو ‪,‬کيونکہ حکمت منافق کے‬ ‫سينہ ميں بھی ہوتی ہے ‪.‬ليکن جب تک اس )کی زبان(سے نکل کر مومن کے‬ ‫سينہ ميں پہنچ کر دوسر ی حکمتوں کے ساتھ بہل نہيں جاتی تﮍپتی رہتی ہے ‪.‬‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫‪ 80‬حکمت مومن ہی کی گمشده چيز ہے اسے حاصل کرو ‪,‬اگرچہ منافق سے‬ ‫لينا‬

‫‪.‬‬

‫پﮍے‬

‫‪ 81‬ہرشخص کی قيمت وه ہنر ہے ‪,‬جو اس شخص ميں ہے ‪.‬‬ ‫سيد رضی فرماتے ہيں کہ يہ ايک ايسا انمول جملہ ہے کہ نہ کوئی حکيمانہ بات اس کے ہم وزن ہو سکتی ہے ‪,‬اور نہ کوئی جملہ اس کا‬ ‫ہم‬

‫پايہ‬

‫ہوسکتا‬

‫ہے‬

‫‪.‬‬

‫انسان کی حقيقی قيمت اس کا جوہر علم و کمال ہے ‪.‬وه علم و کمال کی جس بلندی پر فائز ہوگا ‪,‬اسی کے مطابق اس کی قدر و منزلت‬ ‫ہوگی چنانچہ جوہر شناس نگاہيں شکل و صورت ‪,‬بلندی قدو قامت اور ظاہری جاه و حشمت کو نہيں ديکھتيں بلکہ انسان کے ہنر کو‬ ‫ديکھتی ہيں اور اسی ہنر کے لحاظ سے اس کی قيمت ٹھہراتی ہيں ‪.‬مقصد يہ ہے کہ انسان کو اکتساب فضائل و تحصيل علم و دانش ميں‬ ‫جدوجہد کرنا چاہيے‪.‬‬

‫‪ 82‬تمہيں ايسی پانچ باتوں کی ہدايت کی جاتی ہے‪ .‬کہ اگر انہيں حاصل کرنے‬ ‫کے ليے اونٹوں کو ايﮍ لگا کر تيز ہنگاؤ‪ ,‬تو وه اسی قابل ہوں گی ‪.‬تم ميں سے‬ ‫کوئی شخص ﷲ کے سوا کسی سے آس نہ لگائے اور اس کے گناه کے عالوه‬ ‫کسی شے سے خو ف نہ کھائے اور اگر تم ميں سے کسی سے کوئی ايسی‬ ‫بات پوچھی جائے کہ جسے و ه نہ جانتا ہو تو يہ کہنے ميں نہ شرمائے کہ ميں‬ ‫نہيں جانتا اور اگر کوئی شخص کسی بات کو نہيں جانتا تو اس کے سيکھنے‬ ‫ميں شرمائے نہيں ‪,‬اور صبر و شکيبائی اختيار کرو کيونکہ صبر کو ايمان‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫سے وہی نسبت ہے جو سر کو بدن سے ہوتی ہے‪.‬اگر سر نہ ہو تو بدن بيکار‬ ‫ہے ‪,‬يونہی ايمان کے ساتھ صبر نہ ہو تو ايمان ميں کوئی خوبی نہيں ‪.‬‬ ‫ہر کر اصبر نيست ايمان نيست‬

‫‪ 83‬ايک شخص نے آپ کی بہت زياده تعريف کی حاالنکہ وه آپ سے عقيدت‬ ‫و ارادت نہ رکھتا تھا ‪,‬تو آپ نے فرمايا جو تمہاری زبان ہر ہے ميں اس سے‬ ‫کم ہوں اور جو تمہارے دل ميں ہے اس سے زياده ہوں‪.‬‬

‫‪ 84‬تلوار سے بچے کھچے لوگ زياده باقی رہتے ہيں اور ان کی نسل زياده‬ ‫ہوتی‬

‫‪.‬‬

‫ہے‬

‫‪ 85‬جس کی زبان پر کبھی يہ جملہ نہ آئے کہ «ميں نہيں جانتا »‪.‬تو وه چوٹ‬ ‫کھانے‬

‫کی‬

‫جگہو‬

‫ں‬

‫پر‬

‫چوٹ‬

‫کھا‬

‫رہتا‬

‫کر‬

‫ہے‬

‫‪.‬‬

‫‪ 86‬بوڑھے کی رائے مجھے جوان کی ہمت سے زياده پسند ہے )ايک روايت‬ ‫ميں يوں ہے کہ بوڑھے کی رائے مجھے جوان کے خطره ميں ڈٹے رہنے‬ ‫سے‬

‫زياده‬

‫پسند‬

‫ہے‬

‫(‬

‫‪ 87‬اس شخص پر تعجب ہوتا ہے کہ جو توبہ کی گنجائش کے ہوتے ہوئے‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫مايوس‬

‫جائے‬

‫ہو‬

‫‪ 88‬ابو جعفر محمد ابن علی الباقر عليہ السالم نے روايت کی ہے کہ‬ ‫اميرالمومنين‬

‫عليہ‬

‫السّالم‬

‫نے‬

‫فرمايا‬

‫‪.‬‬

‫دنيا ميں عذاب خدا سے دو چيزيں باعث امان تھيں ايک ان ميں سے اٹھ گئی‬ ‫‪,‬مگر دوسری تمہارے پاس موجود ہے ‪.‬ل ٰہذا اسے مضبوطی سے تھامے رہو‬ ‫‪.‬وه امان جو اٹھالی گئی وه رسول ﷲ صلی عليہ وآلہ وسلم تھے اور وه امان‬ ‫جو باقی ره گئی ہے وه توبہ و استغفار ہے جيسا کہ ﷲ سبحانہ نے فرمايا‪«.‬ﷲ‬ ‫لوگوں پر عذاب نہيں کرے گا جب تک تم ان ميں موجود ہو »‪.‬ﷲ ان لوگوں پر‬ ‫عذاب نہيں اتارے گا ‪,‬جب کہ يہ لوگ توبہ و استغفار کررہے ہوں گے ‪.‬‬ ‫سيد رضی عليہ الرحمتہ فرماتے ہيں کہ يہ بہترين استخراج اور عمد ه نکتہ آفرينی ہے ‪.‬‬

‫‪ 89‬جس نے اپنے اور ﷲ کے مابين معامالت کو ٹھيک رکھا ‪,‬تو ﷲ اس کے‬ ‫اور لوگوں کے معامالت سلجھائے رکھے گا اور جس نے اپنی آخرت کو‬ ‫سنوار ليا ‪.‬تو خدا اس کی دنيا بھی سنوار دے گا اور جو خود اپنے کو وعظ و‬ ‫پند کرلے ‪,‬تو ﷲ کی طرف سے اس کی حفاظت ہوتی رہے گی‪.‬‬

‫‪ 90‬پورا عالم و دانا وه ہے جو لوگوں کو رحمت خدا سے مايو س او ر اس کی‬ ‫طرف سے حاصل ہونے والی آسائش و راحت سے نا اميد نہ کرے ‪,‬اور نہ‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫انہيں ﷲ کے عذاب سے بالکل مطمئن کر دے ‪.‬‬

‫اقوال امام علی )عليہ السالم (از نہج البالغہ‬ ‫ِ‬ ‫اقوال ‪ ٩١‬تا ‪١٢٠‬‬ ‫‪ 91‬يہ دل بھی اسی طرح اکتا جاتے ہيں جس طرح بدن اکتا جاتے ہيں۔ل ٰہذا‬ ‫)جب ايسا ہوتو(ان کے ليے لطيف حکيمانہ نکات تالش کرو۔‬

‫‪ 92‬وه علم بہت بے قدروقيمت ہے جو زبان تک ره جائے‪ ،‬اور وه علم بہت بلند‬ ‫مرتبہ‬

‫ہے‬

‫جو‬

‫اعضا‬

‫و‬

‫جوارح‬

‫سے‬

‫نمودار‬

‫ہو‪.‬‬

‫‪ 93‬تم ميں سے کوئی شخص يہ نہ کہے کہ «اے ﷲ! ميں تجھ سے فتنہ و‬ ‫آزمائش سے پناه چاہتا ہوں اس ليے کہ کوئی شخص ايسا نہيں جو فتنہ کی لپيٹ‬ ‫ميں نہ ہو‪ ،‬بلکہ جو پناه مانگے وه گمراه کرنے والے فتنوں سے پناه مانگے‬ ‫کيونکہ ﷲ سبحانہ کا ارشاد ہے اور اس بات کو جانے رہو کہ تمہارا مال اور‬ ‫اوالد فتنہ ہے اس سے مراد يہ ہے کہ ﷲ لوگوں کومال اور اوالد کے ذريعے‬ ‫آزماتا ہے تاکہ يہ ظاہر ہو جائے کہ کون اپنی قسمت پر شاکرہے اگرچہ ﷲ‬ ‫سبحانہ ان کو اتنا جانتا ہے کہ وه خود بھی اپنے کو اتنا نہيں جانتے۔ليکن يہ‬ ‫آزمائش اس ليے ہے کہ وه افعال سامنے آئيں جن سے ثواب و عذاب کا‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫استحقاق پيدا ہوتا ہے کيونکہ بعض اوالد نرينہ کو چاہتے ہيں‪ ،‬اور لﮍکيوں سے‬ ‫کبيده خاطر ہوتے ہيں اور بعض مال بﮍھانے کو پسند کرتے ہيں اور بعض‬ ‫شکستہ حالی کو برا سمجھتے ہيں۔‬ ‫سيد رضی فرماتے ہيں کہ يہ ان عجيب و غريب باتوں ميں سے ہے جو تفسير کے سلسلہ ميں آپ سے وارد ہوئی ہيں۔‬

‫‪ 94‬آپ سے دريافت کيا گيا کہ نيکی کياچيز ہے توآپ نے فرمايا کہ نيکی يہ‬ ‫نہيں کہ تمہارے مال و اوالد ميں فراوانی ہوجائے۔بلکہ خوبی يہ ہے کہ تمہارا‬ ‫علم زياده اور حلم بﮍا ہو‪ ،‬اور تم اپنے پروردگار کی عباد ت پر ناز کرسکو اب‬ ‫اگر اچھا کام کرو۔تو ﷲ کا شکر بجاالؤ‪ ،‬اور اگر کسی برائی کا ارتکاب کرو۔تو‬ ‫توبہ و استغفار کرو‪ ،‬اور دنيا ميں صرف دو شخصوں کے ليے بھالئی‬ ‫ہے۔ايک و ه جو گناه کرے تو توبہ سے سے اس کی تالفی کرے اور دوسرا وه‬ ‫جو‬

‫کام‬

‫نيک‬

‫ميں‬

‫تيز‬

‫ہو‪.‬‬

‫گام‬

‫‪ 95‬جو عمل تقوی ٰ کے ساتھ انجام ديا جائے وه تھوڑا نہيں سمجھا جاسکتا‪ ،‬اور‬ ‫مقبول‬

‫ہونے‬

‫واال‬

‫عمل‬

‫تھوڑ‬

‫اکيونکر‬

‫ہوسکتا‬

‫ہے‬

‫؟‬

‫‪ 96‬انبياء سے زياده خصوصيت ان لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو ان کی الئی‬ ‫ہوئی چيزوں کازياده علم رکھتے ہوں )پھر آپ نے اس آيت کی تالوت‬ ‫فرمائی(ابراہيم سے زياده خصوصيت ان لوگوں کی تھی جو ان کے فرمانبردار‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫تھے۔اور اب اس نبی اور ايمان النے والوں کو خصوصيت‬ ‫ہے۔)پھرفرمايا(حضرت محمد مصطفی صلی ﷲ عليہ وآلہ وسلم کا دوست وه‬ ‫ہے جو ﷲ کی اطاعت کرے اگرچہ ان سے کوئی قرابت نہ رکھتا ہو‪ ،‬اور ان‬ ‫کا دشمن وه ہے جو ﷲ کی نافرمانی کرے‪ ،‬اگرچہ نزديکی قرابت رکھتا ہو۔‬

‫‪ 97‬ايک خارجی کے متعلق آپ عليہ السّالم نے سنا کہ وه نماز شب پﮍھتا ہے‬ ‫اور قرآن کی تالوت کرتا ہے توآپ نے فرمايا يقين کی حالت ميں سونا شک‬ ‫کی‬

‫ميں‬

‫حالت‬

‫نماز‬

‫پﮍھنے‬

‫سے‬

‫بہتر‬

‫ہے۔‬

‫‪ 98‬جب کوئی حديث سنو تو اسے عقل کے معيار پر پرکھ لو‪,‬صرف نقل الفاظ‬ ‫پر بس نہ کرو‪ ،‬کيونکہ علم کے نقل کرنے والے تو بہت ہيں اور اس ميں غور‬ ‫ہيں۔‬

‫کم‬

‫کرنے‬

‫والے‬

‫‪ 99‬ايک شخص کو انا‬

‫و انا اليہ راجعون‪),‬ہم ﷲ کے ہيں اور ﷲ کی طرف‬

‫پلٹنا ہے (کہتے سنا تو فرمايا کہ ہمارا يہ کہنا کہ «ہم ﷲ کے ہيں »‪.‬اس کے‬ ‫مالک ہونے کا اعتراف ہے اور يہ کہنا کہ ہميں اسی کی طرف پلٹنا ہے۔يہ‬ ‫اپنے‬

‫ليے‬

‫فنا‬

‫کا‬

‫اقرار‬

‫ہے‪.‬‬

‫‪ 100‬کچھ لوگوں نے آپ عليہ السّالم کے روبرو آپ عليہ السّالم کی مدح و‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫ستائش کی‪ ،‬تو فرمايا۔اے ﷲ! تومجھے مجھ سے بھی زياده جانتا ہے‪ ،‬اور ان‬ ‫لوگوں سے زياده اپنے نفس کوميں پہچانتا ہوں۔اے خدا جو ان لوگوں کاخيال‬ ‫ہے ہميں اس سے بہتر قرار دے اور ان )لغزشوں (کو بخش دے جن کا انہيں‬ ‫نہيں‪.‬‬

‫علم‬

‫‪101‬حاجت روائی تين چيزوں کے بغير پائدار نہيں ہوتی۔اسے چھوٹا‬ ‫سمجھاجائے تاکہ وه بﮍی قرار پائے اسے چھپايا جائے تاکہ وه خود بخود ظاہر‬ ‫ہو‪ ،‬اور اس ميں جلدی کی جائے تاکہ وه خوش گوار ہوں۔‬

‫‪ 102‬لوگوں پر ايک ايسا زمانہ بھی آئے گا جس ميں وہی بارگاہوں ميں مقرب‬ ‫ہوگا جو لوگوں کے عيوب بيان کرنے واال ہو‪ ,‬اور وہی خوش مذاق سمجھا‬ ‫جائے گا‪ ,‬جو فاسق و فاجر ہو اور انصا ف پسند کو کمزور و ناتواں سمجھا‬ ‫جائے گا صدقہ کو لوگ خساره اور صلہ رحمی کو احسان سمجھيں گے اور‬ ‫عبادت لوگوں پر تفو ق جتالنے کے ليے ہوگی۔ايسے زمانہ ميں حکومت کا‬ ‫دارومدار عورتوں کے مشورے‪ ،‬نو خيز لﮍکوں کی کار فرمائی اور خواجہ‬ ‫سراؤں‬

‫کی‬

‫تدبير‬

‫و‬

‫رائے‬

‫پر‬

‫ہوگا‪.‬‬

‫‪ 103‬آپ کے جسم پر ايک بوسيده اور پيوند دار جامہ ديکھا گيا تو آپ سے اس‬ ‫کے بارے ميں کہاگيا‪ ،‬آپ نے فرمايا !اس سے دل متواضع اور نفس رام ہوتا‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫ہے اور مومن اس کی تاسی کرتے ہيں۔دنيا اورآخرت آپس ميں دو ناساز گار‬ ‫دشمن اور دو جدا جدا راستے ہيں۔چنانچہ جو دنيا کو چاہے گا اور اس سے دل‬ ‫لگائے گا۔وه دونوں بمنزلہ مشرق و مغرب کے ہيں اور ان دونوں سمتوں کے‬ ‫درميان چلنے واال جب بھی ايک سے قريب ہوگا تو دوسرے سے دور ہونا‬ ‫پﮍے گا۔پھر ان دونوں کا رشتہ ايسا ہی ہے جيسا دو سوتوں کاہوتا ہے۔‬

‫‪ 104‬نوف ابن فضالہ بکالی کہتے ہيں کہ ميں نے ايک شب اميرالمومنين عليہ‬ ‫السالم کو ديکھاکہ وه فرش خواب سے اٹھے ايک نظر ستاروں پر ڈالی اور‬ ‫پھر فرمايا اے نوف !سوتے ہو يا جاگ رہے ہو ؟ميں نے کہا کہ يا‬ ‫اميرالمومنين‬

‫عليہ‬

‫السّالم‬

‫جاگ‬

‫رہا‬

‫ہوں۔فرمايا‬

‫!‬

‫اے‬

‫نوف!‬

‫خوشانصيب ان کے کہ جنہوں نے دنيا ميں زہد اختيار کيا‪ ،‬اور ہمہ تن آخرت‬ ‫کی طرف متوجہ رہے۔يہ وه لوگ ہيں جنہوں نے زمين کو فرش‪ ،‬مٹی کو بستر‬ ‫اور پانی کو شربت خوش گوار قرار ديا۔قرآن کو سينے سے لگايا اور دعا کو‬ ‫سپر بنايا‪ .‬پھر حضرت مسيح کی طرح دامن جھاڑ کر دنيا سے الگ ہوگئے‪.‬‬ ‫اے نوف ! داؤد عليہ السالم رات کے ايسے ہی حصہ ميں اٹھے اور فرمايا کہ‬ ‫يہ وه گھﮍی ہے کہ جس ميں بنده جو بھی دعا مانگے مستجاب ہوگی سوا اس‬ ‫شخص کے جو سرکاری ٹيکس وصول کرنے واال‪ ،‬يا لوگوں کی برائياں کرنے‬ ‫واال‪ ،‬يا ) کسی ظالم حکومت کی( پوليس ميں ہو يا سارنگی يا ڈھول تاشہ‬ ‫بجانے واال ہو‪.‬‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫سيد رضی کہتے ہيں کہ عرطبہ کے معنی سارنگی اورکوبہ کے معنی ڈھول کے ہيں اور ايک قول يہ ہے کہ عرطبہ کے معنی ڈھول اور‬ ‫کوبہ کے معنی طنبوره کے ہيں۔‬

‫‪ 105‬ﷲ نے چند فرائض تم پرعائد کئے ہيں انہيں ضائع نہ کرو۔اورتمہارے‬ ‫حدود کار مقرر کر ديئے گئے ہيں ان سے تجاوز نہ کرو‪.‬اس نے چند چيز وں‬ ‫سے تمہيں منع کيا ہے اس کی خالف ورزی نہ کرو‪ ،‬اور جن چند چيزوں کا‬ ‫اس نے حکم بيان نہيں کيا‪ ،‬انہيں بھولے سے نہيں چھوڑ ديا‪.‬ل ٰہذا خواه مخواه‬ ‫انہيں‬

‫جاننے‬

‫کی‬

‫کوشش‬

‫نہ‬

‫کرو‪.‬‬

‫‪ 106‬جو لوگ اپنی دنيا سنوارنے کے ليے دين سے ہاتھ اٹھاليتے ہيں تو خدا‬ ‫اس دنياوی فائده سے کہيں زياده ان کے ليے نقصان کی صورتيں پيدا کرديتا‬ ‫ہے۔‬

‫‪ 107‬بہت سے پﮍھے لکھوں کو )دين سے( بے خبری تباه کرديتی ہے‬ ‫اورجوعلم ان کے پاس ہوتا ہے انہيں ذرا بھی فائده نہيں پہنچاتا۔‬

‫‪ 108‬اس انسان سے بھی زياده عجيب وه گوشت کا ايک لوتھﮍا ہے جو اس کی‬ ‫ايک رگ کے ساتھ آويزاں کردياگيا ہے اور وه دل ہے جس ميں حکمت و‬ ‫دانائی کے ذخيرے ہيں اور اس کے برخالف بھی صفتيں پائی جاتی ہيں اگر‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫اسے اميد کی جھلک نظر آتی ہے تو طمع اسے ذلت ميں مبتال کر تی ہے اور‬ ‫اگر طمع ابھرتی ہے تو اسے حرص تباه وبرباد کرديتی ہے۔اگر نااميدی اس پر‬ ‫چھا جاتی ہے تو حسرت و اندوه اس کے ليے جان ليوا بن جاتے ہيں اور اگر‬ ‫غضب اس پر طاری ہوتا ہے تو غم و غصہ شدت اختيار کرليتا ہے اور اگر‬ ‫خوش و خوشنود ہوتا ہے تو حفظ ماتقدم کو بھول جاتاہے اور اگر اچانک اس‬ ‫پر خوف طاری ہوتاہے تو فکر و انديشہ دوسری قسم کے تصورات سے اسے‬ ‫روک ديتا ہے۔اگر امن امان کا دور دوره ہوتا ہے تو غفلت اس پر قبضہ کرليتی‬ ‫ہے اور اگر مال دولتمند ی اسے سرکش بناديتی ہے اور اگر اس پر کوئی‬ ‫مصيبت پﮍتی ہے تو بے تابی و بے قرار ی اسے رسوا کر ديتی ہے۔اور اگر‬ ‫فقر و فاقہ کی تکليف ميں مبتال ہو۔تو مصيبت و ابتالء اسے جکﮍليتی ہے اور‬ ‫اگر بھوک اس پر غلبہ کرتی ہے۔ ناتوانی اسے اٹھنے نہيں ديتی اور اگر شکم‬ ‫پری بﮍھ جاتی ہے تو يہ شکم پری اس کے ليے کرب و اذيت کا باعث ہوتی‬ ‫ہے کوتاہی اس کے ليے نقصان رساں اور حد سے زيادتی اس کے ليے تباه‬ ‫کن‬

‫ہوتی‬

‫ہے۔‬

‫‪ 109‬ہم )اہلبيت (ہی وه نقطہ اعتدال ہيں کہ پيچھے ره جانے والے کو اس سے‬ ‫آکر ملنا ہے اور آگے بﮍھ جانے والے کو اس کی طرف پلٹ کر آنا ہے۔‬

‫‪ 110‬حکم خدا کا نفاذ وہی کر سکتا ہے جو )حق معاملہ ميں( نرمی نہ برتے‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫عجز و کمزوری کا اظہار نہ کرے اور حرص و طمع کے پيچھے نہ لگ‬ ‫جائے۔‬

‫‪111‬سہل ابن حنيف انصار ی حضرت کو سب لوگو ں ميں زياده عزيز تھے يہ‬ ‫جب آپ کے ہمراه صفين سے پلٹ کر کوفہ پہنچے تو انتقال فرماگئے جس پر‬ ‫حضرت‬

‫نے‬

‫فرمايا‪.‬‬

‫اگر پہاڑبھی مجھے دوست رکھے گا تووه بھی ريزه ريزه ہو جائے گا۔‬ ‫سيد رضی فرماتے ہيں کہ چونکہ اس کی آزمائش کﮍی اور سخت ہوتی ہے۔اس ليے مصيبتيں اس کی طرف لپک کر بﮍھتی ہيں اور‬ ‫ايسی آزمائش انہی کی ہوتی ہے جو پرہيز گار نيکو کار منتخب و برگزيده ہوتے ہيں اور ايسا ہی آپ کا دوسرا ارشاد ہے۔‬

‫‪ 112‬جو ہم اہل بيت سے محبت کرے اسے جامہ فقر پہننے کے ليے آماده‬ ‫رہناچاہيے۔‬ ‫سيد رضی کہتے ہيں کہ حضرت کے اس ارشا د کے ايک اور معنی بھی کئے گئے ہيں جس کے ذکر کا يہ محل نہيں ہے۔‬ ‫شايد اس روايت کے دوسرے معنی يہ ہوں کہ جو ہميں دوست رکھتا ہے اسے دنياطلبی کے ليے تگ و دو نہ کرنا چاہيے خواه اس کے‬ ‫نتيجہ ميں اسے فقر و افالس سے دو چار ہونا پﮍے بلکہ قناعت اختيار کرتے ہوئے دنيا طلبی سے الگ رہنا چاہيے۔‬

‫‪ 113‬عقل سے بﮍھ کر کوئی مال سود مند اور خود بينی سے بﮍھ کر کوئی‬ ‫تنہائی وحشتناک نہيں اور تدبر سے بﮍھ کر کوئی عقل کی بات نہيں اور کوئی‬ ‫ٰ‬ ‫تقوی کے مثل نہيں اور خوش خلقی سے بہتر کوئی ساتھی اور ادب‬ ‫بزرگی‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫کے مانند کوئی ميراث نہيں اور توفيق کے مانند کوئی پيشرو اور اعمال خير‬ ‫سے بﮍھ کر کوئی تجارت نہيں اور ثواب کا ايسا کوئی نفع نہيں اور کوئی‬ ‫پرہيز گاری شبہات ميں توقف سے بﮍھ کر نہيں اور حرام کی طرف بے‬ ‫رغبتی سے بﮍھ کر کوئی زہد اور تفکر اور پيش بينی سے بﮍھ کر کوئی علم‬ ‫نہيں اور ادائے فرائض کے مانند کوئی عبادت اور حيا و صبر سے بﮍھ کر‬ ‫کوئی ايمان نہيں اور فروتنی سے بﮍھ کر کوئی سرفرازی نہيں اور علم کے‬ ‫مانند کوئی بزرگی وشرافت نہيں حلم کے مانند کوئی عزت اور مشوره سے‬ ‫مضبوط‬

‫پشت‬

‫کوئی‬

‫نہيں‬

‫پناه‬

‫‪ 114‬جب دنيا اور اہل دنيا ميں نيکی کا چلن ہو‪ ،‬اور پھر کوئی شخص کسی‬ ‫سؤ ظن‬ ‫ايسے شخص سے کہ جس سے رسوائی کی کوئی بات ظاہر نہيں ہوئی ِ‬ ‫رکھے تو اس نے اس پر ظلم و زيادتی کی اور جب دنيا واہل دنيا پر شر و‬ ‫فساد کا غلبہ ہو اور پھر کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے حسن ظن‬ ‫رکھے تو اس نے )خود ہی اپنے کو ( خطرے ميں ڈاال‪.‬‬

‫‪ 115‬امير المومنين عليہ السالم سے دريافت کيا گيا کہ آپ عليہ السّالم کا حال‬ ‫کيسا ہے ؟ تو آپ عليہ السّالم نے فرمايا کہ ا س کا حال کيا ہوگا جسے زندگی‬ ‫موت کی طرف ليے جارہی ہو‪ ،‬اور جس کی صحت بيماری کا پيش خيمہ ہو‬ ‫اور‬

‫جسے‬

‫اپنی‬

‫پناه‬

‫گاه‬

‫سے‬

‫گرفت‬

‫ميں‬

‫لے‬

‫ليا‬

‫جائے۔‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫‪ 116‬کتنے ہی لوگ ايسے ہيں جنہيں نعمتيں دے کر رفتہ رفتہ عذاب کا‬ ‫مستحق بنايا جاتا ہے اور کتنے ہی لوگ ايسے ہيں جو ﷲ کی پرده پوشی سے‬ ‫دھوکا کھائے ہوئے ہيں اور اپنے بارے ميں اچھے الفاظ سن کر فريب ميں پﮍ‬ ‫گئے ہيں اور مہلت دينے سے زياده ﷲ کی جانب سے کوئی بﮍی آزمائش نہيں‬ ‫ہے۔‬

‫‪ 117‬ميرے بارے ميں دو قسم کے لوگ تباه و برباد ہوئے۔ايک وه چاہنے واال‬ ‫جو حد سے بﮍھ جائے اور ايک وه دشمنی رکھنے واال جو عداوت رکھے۔‬

‫‪ 118‬موقع کو ہاتھ سے جانے دينا رنج و اندوه کا باعث ہوتا ہے۔‬

‫‪ 119‬دنيا کی مثال سانپ کی سی ہے جو چھونے ميں نرم معلوم ہوتا ہے مگر‬ ‫اس کے اندر زہر ہالہل بھرا ہوتا ہے‪ ،‬فريب خورده جاہل اس کی طرف کھينچتا‬ ‫ہے‬

‫اور‬

‫ہوشمند‬

‫و‬

‫دانا‬

‫اس‬

‫سے‬

‫بچ‬

‫کر‬

‫رہتا‬

‫ہے۔‬

‫‪ 120‬حضرت سے قريش کے بارے ميں سوال کيا گيا تو آپ نے فرمايا کہ‬ ‫)قبيلہ(بنی مخزوم قريش کا مہکتا ہوا پھول ہيں‪ ،‬ان کے مردوں سے گفتگو اور‬ ‫ان کی عورتوں سے شادی پسنديده ہے اور بنی عبد شمس دور انديش اور پيٹھ‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫پيچھے کی اوجھل چيزوں کی پوری روک تھا م کرنے والے ہيں ليکن ہم )بنی‬ ‫ہاشم (توجو ہمارے ہاتھ ميں ہوتا ہے اسے صرف کر ڈالتے ہيں‪ ،‬اور موت آنے‬ ‫پر جان ديتے ہيں۔ بﮍے جوانمرد ہوتے ہيں اور يہ بنی )عبد شمس (گنتی ميں‬ ‫زياده حيلہ باز اور بدصورت ہوتے ہيں اور ہم خوش گفتار خير خواه اور خوب‬ ‫صورت ہوتے ہيں۔‬

‫اقوال امام علی )عليہ السالم (از نہج البالغہ‬ ‫ِ‬ ‫اقوال ‪ ١٢١‬تا ‪١۵٠‬‬ ‫‪ 121‬ان دونوں قسم کے عملوں ميں کتنا فرق ہے ايک وه عمل جس کی لذت‬ ‫مٹ جائے ليکن اس کا وبال ره جائے اور ايک وه جس کی سختی ختم ہوجائے‬ ‫ليکن‬

‫اس‬

‫کا‬

‫اجر‬

‫وثواب‬

‫رہے‬

‫باقی‬

‫‪.‬‬

‫‪ 122‬حضرت ايک جنازه کے پيچھے جارہے تھے کہ ايک شخص کے ہنسنے‬ ‫کی‬

‫آواز‬

‫سنی‬

‫جس‬

‫پر‬

‫آپ‬

‫نے‬

‫فرمايا‪.‬‬

‫گويا اس دنيا ميں موت ہمارے عالوه دوسروں کے ليے لکھی گئی ہے او‬ ‫رگويا يہ حق )موت (دوسروں ہی پر الز م ہے اور گويا جن مرنے والوں کو ہم‬ ‫ديکھتے ہيں ‪,‬وه مسافر ہيں جو عنقريب ہماری طرف پلٹ آئيں گے ‪.‬ادھر ہم‬ ‫انہيں قبروں ميں اتارتے ہيں ادھر ان کا ترکہ کھانے لگتے ہيں گويا ان کے بعد‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫ہم ہميشہ رہنے والے ہيں ‪.‬پھر يہ کہ ہم نے ہر پندو نصيحت کرنے والے کو وه‬ ‫مرد ہو يا عور ت بھال ديا ہے اور ہر آفت کا نشانہ بن گئے ہيں ‪.‬‬

‫‪ 123‬خوشانصيب اس کے کہ جس نے اپنے مقام پر فروتنی اختيا ر کی جس‬ ‫کی کمائی پاک و پاکيزه نيت نيک اورخصلت و عادت پسنديده رہی جس نے‬ ‫اپنی ضرورت سے بچا ہو امال خداکی راه ميں صرف کيا بے کار باتوں سے‬ ‫اپنی زبان کو روک ليا ‪,‬مردم آزادی سے کناره کش رہا ‪,‬سنت اسے ناگوار نہ‬ ‫ہوئی اور بدعت کی طرف منسوب نہ ہوا ‪.‬‬ ‫سيد‬

‫رضی‬

‫کہتے‬

‫ہيں‬

‫‪.‬‬

‫کہ کچھ لو گوں نے اس کالم کو اور اس سے پہلے کالم کو رسول ﷲ صلی عليہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب کيا ہے ‪.‬‬

‫‪ 124‬عورت کا غير ت کر نا کفر ہے ‪,‬اور مرد کا غيور ہونا ايمان ہے ‪.‬‬ ‫مطلب يہ ہے کہ جب مر دکو چار عورتيں تک کر نے کی اجازت ہے تو عورت کا سوت گوارا نہ کر نا حالل خدا سے ناگواری کا اظہار‬ ‫اور ايک طرح سے حالل کو حرام سمجھنا ہے اور يہ کفر کے ہمپايہ ہے ‪,‬اور چونکہ عورت کے ليے متعدد شوہر کرنا جائز نہيں ہے‬ ‫‪,‬اس ليے مرد کا اشتراک گوارا نہ کرنا اس کی غيرت کا تقاضا اور حرام خدا کو حرام سمجھنا ہے اور يہ ايمان کے مترادف ہے ‪.‬‬ ‫مردوعورت ميں يہ تفريق اس ليے ہے تاکہ توليد و بقائے نسل انسانی ميں کوئی روک پيدا نہ ہو ‪,‬کيونکہ يہ مقصد اسی صورت ميں‬ ‫بدرجہ اتم حاصل ہوسکتا ہے جب مرد کے ليے تعددازواج کی اجازت ہو ‪,‬کيونکہ ايک مرد سے ايک ہی زمانہ ميں متعدد اوالديں‬ ‫ہوسکتی ہيں اور عور ت اس سے معذورو قاصر ہے کہ وه متعدد مردوں کے عقد ميں آنے سے متعدد اوالديں پيدا کرسکے ‪.‬کيونکہ‬ ‫زمانہ حمل ميں دوباره حمل کا سوال ہی پيدا نہيں ہوتا ‪.‬اس کے عالوه اس پر ايسے حاالت بھی طاری ہوتے رہتے ہيں کہ مرد کو اس‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫سے کناره کشی اختيا ر کرنا پﮍتی ہے ‪ .‬چنانچہ حيض اور رضاعت کا زمانہ ايساہوتاہی ہے جس سے توليد کا سلسلہ رک جاتا ہے اور‬ ‫اگرمتعدد ازواج ہونگی تو سلسلہ توليد جاری ره سکتا ہے کيونکہ متعدد بيويوں ميں سے کوئی نہ کوئی بيوی ان عوارض سے خالی‬ ‫ہوگی‬

‫سے‬

‫جس‬

‫نسل‬

‫انسانی‬

‫ترقی‬

‫کی‬

‫کا‬

‫مقصد‬

‫حاصل‬

‫ہوتا‬

‫رہے‬

‫گا‬

‫‪.‬‬

‫کيونکہ‬

‫مرد کے ليے ايسے مواقع پيدا نہيں ہوتے کہ جو سلسلہ توليد ميں روک بن سکيں ‪.‬اس ليے خدا وند عالم نے مردوں کے ليے تعدد‬ ‫ازواج کو جائز قرار ديا ہے ‪,‬اور عورتوں کے ليے يہ صورت رکھی کہ وه بوقت واحد متعدد مردوں کے عقد ميں آئيں ‪.‬کيونکہ ايک‬ ‫عورت کا کئی شوہر کرنا غيرت و شرافت کے بھی منافی ہے اور اس کے عالوه ايسی صورت ميں نسب کی بھی تميز نہ ہوسکے گی کہ‬ ‫کون کس کی صلب سے ہے چنانچہ امام رضا عليہ السالم سے ايک شخص نے دريافت کيا کہ کيا وجہ ہے کہ مر دايک وقت ميں چار‬ ‫بيويا‬

‫نتک‬

‫کر‬

‫سکتا‬

‫ہے‬

‫اور‬

‫عورت‬

‫ايک‬

‫وقت‬

‫ميں‬

‫ايک‬

‫مرد‬

‫سے‬

‫زياده‬

‫شوہر‬

‫نہيں‬

‫کرسکتی‬

‫‪.‬‬

‫حضرت نے فرمايا کہ مرد جب متعدد عورتوں سے نکاح کر ے گا تو اوالد بہرصورت اسی کی طرف منسوب ہوگی اور اگر عورت کے‬ ‫دو ‪2‬يا دو سے زياده شوہر ہوں گے تو يہ معلوم نہ ہوسکے گا کہ کو ن کس کی اوالد اور کس شوہر سے ہے لہٰ ذا يسی صورت ميں‬ ‫نسب مشتبہ ہو کر ره جائے گا اور صحيح باپ کی تعيين نہ ہوسکے گی ‪.‬اور امر اس مولود کے مفاد کے بھی خالف ہوگا ‪.‬کيونکہ کوئی‬ ‫بھی بحيثيت باپ کے اس کی تربيتکی طرف متوجہ نہ ہوگا جس سے وه اخالق و آداب سے بے بہره اور تعليم و تربيت سے محروم‬ ‫ہوکر ره جائے گا ‪.‬‬

‫‪ 125‬ميں اسالم کی ايسی صحيح تعريف بيان کر تا ہوں جو مجھ سے پہلے‬ ‫کسی نے بيان نہيں کی ‪.‬اسالم سر تسليم خم کر نا ہے اور سر تسليم جھکانا يقين‬ ‫ہے اور يقين تصديق ہے اور تصديق اعتراف فرض کی بجاآوری ہے اور‬ ‫فرض‬

‫کی‬

‫بجاآوری‬

‫عمل‬

‫ہے‬

‫‪.‬‬

‫‪ 126‬مجھے تعجب ہوتا ہے بخيل پر کہ وه جس فقرو ناداری سے بھاگنا چاہتا‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫ہے ‪,‬ا س کی طرف تيزی سے بﮍھتا ہے اور جس ثروت و خوش حالی کا‬ ‫طالب ہوتا ہے وہی اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے وه دنيا ميں فقيروں کی سی‬ ‫زندگی بسر کرتا ہے اورآخرت ميں دولت مندوں کا سا اس سے محاسبہ ہوگا‬ ‫‪,‬اور مجھے تعجب ہوتا ہے ‪.‬متکبر و مغرور پر کہ جس کل ايک نطفہ تھا ‪,‬او‬ ‫ر کل کو مردا ر ہوگا ‪.‬اور مجھے تعجب ہے اس پر جو ﷲ کی پيدا کی ہوئی‬ ‫کائنات کو ديکھتا ہے اورپھر اس کے وجود ميں شک کرتا ہے اور تعجب ہے‬ ‫اس پر جو مرنے والوں کو ديکھتا ہے اور پھر موت کو بھولے ہوئے ہے ‪.‬اور‬ ‫تعجب ہے اس پر کہ جو پہلی پيدائش کو ديکھتا ہے اور پھر دوباره اٹھاءے‬ ‫جانے سے انکار کرتاہے اور تعجب ہے ا س پر جو سرائے فانی کو آباد کرتا‬ ‫ہے‬

‫اور‬

‫منزل‬

‫جاودانی‬

‫کو‬

‫چھوڑ‬

‫ديتا‬

‫ہے‬

‫‪.‬‬

‫‪ 127‬جو عمل ميں کوتاہی کرتا ہے ‪,‬وه رنج و اندوه ميں مبتال رہتا ہے اور جس‬ ‫کے مال و جان ميں ﷲ کا کچھ حصہ نہ ہو ﷲ کو ايسے کی کوئی ضرورت‬ ‫نہيں‬

‫‪.‬‬

‫‪ 128‬شروع سردی ميں سردی سے احتياط کرو اور آخر ميں اس کاخير مقدم‬ ‫کر و ‪,‬کيونکہ سردی جسموں ميں وہی کرتی ہے ‪,‬جو وه درختو نميں کرتی ہے‬ ‫کہ ابتدائ ميں درختوں کو جھلس ديتی ہے ‪,‬اور انتہا ميں سرسبز و شاداب‬ ‫کرتی ہے‪.‬‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫موسم خزاں مينسردی سے بچاؤاس ليے ضروری ہے کہ موسم کی تبديلی سے مزاج ميں انحراف پيدا ہوجاتا ہے ‪,‬اور نزلہ و زکام اور‬ ‫کھانسی وغيره کی شکايت پيدا ہوجاتی ہے ‪.‬وجہ يہ ہوتی ہے کہ بد ن گرمی کے عادی ہوچکے ہوتے ہيں کہ ناگا ه سردی سے دوچار‬ ‫ہونا پﮍتا ہے جس سے دماغ کے مسامات سکﮍجاتے ہيں ‪,‬اور مزاج ميں برودت و پيوست بﮍھ جاتی ہے چنانچہ گرم پانی سے غسل‬ ‫کرنے کے بعد فورا ًٹھنڈے پانی سے نہانا اسی ليے مضر ہے کہ گرم پانی سے مسامات کھل چکے ہوتے ہيں جس کی وجہ سے وه‬ ‫پانی‬

‫کے‬

‫اثرات‬

‫کو‬

‫فوراًقبول‬

‫کرليتے‬

‫ہيں‬

‫اور نتيجہ ميں حرارت غريزی کو نقصان پہنچتا ہے البتہ موسم بہار ميں سردی سے بچاؤ کی ضرورت نہيں ہوتی اور نہ وه صحت کے‬ ‫ليے نقصان ده ثابت ہوتی ہے کيونکہ پہلے ہی سے سردی کے عادی ہوچکے ہوتے ہيں اس ليے بہار کی معتدل سردی بدن پر‬ ‫ناخوشگوار اثرنہيں ڈالتی ‪,‬بلکہسردی کا زور ٹوٹنے سے بدن ميں حرارت و رطوبت بﮍھ جاتی ہے جس سے نشوونما ميں قوت آتی ہے‬ ‫‪,‬حرارت غزيری ابھرتی ہے اور جسم ميں نمو طبيعت ميں شگفتگی اور روح ميں باليدگی پيدا ہوتی ہے ‪.‬‬ ‫اسی طرح عالم نباتا ت پر بھی تبديلی موسم کا يہی اثر ہوتا ہے چنانچہ موسم خزاں ميں برودت و پيوست کے غالب آنے سے پتے‬ ‫مرجھا جاتے ہيں روح نباتاتی افسرده ہو جاتی ہے ‪,‬چمن کی حسن و تازگی مٹ جاتی ہے اور سبزه زاروں پر موت کی سی کيفيت طاری‬ ‫ہوجاتی ہے اور موسم بہار ان کے ليے زندگی کا پيغام لے کر آتا ہے او ربار آور ہواؤں کے چلنے سے پتے اور شگوفے پھوٹنے‬ ‫لگتے ہيں اور شجر سر سبز و شاداب اور دشت و صحرا سبزه پوش ہوجاتے ہيں ‪.‬‬

‫‪ 129‬ﷲ کی عظمت کا احساس تمہاری نظروں ميں کائنات کو حقير و پست‬ ‫کردے‪.‬‬

‫‪ 130‬صفين سے پلٹتے ہوئے کوفہ سے باہر قبرستان پر نظر پﮍی تو فرمايا‪:‬‬ ‫اے وحشت افزا گھروں ‪,‬اجﮍے مکانوں اور اندھيری قبروں کے رہنے‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫والو!اے خاک نشينو !اے عالم غربت کے ساکنوں اے تنہائی اور الجھن ميں‬ ‫بسر کرنے والو !تم تيز رو ہو جو ہم سے آگے بﮍھ گئے ہو اور ہم تمہارے‬ ‫نقش قدم پر چل کر تم سے مال چاہتے ہيں ‪.‬اب صورت يہ ہے کہ گھروں ميں‬ ‫دوسرے بس گئے ہيں بيويوں سے اوروں نے نکاح کر ليے ہيں اور تمہار ا‬ ‫مال و اسباب تقسيم ہوچکا ہے يہ تو ہمارے يہاں کی خبر ہے ‪.‬اب تمہارے يہاں‬ ‫کی‬

‫کيا‬

‫خبر‬

‫ہے‪.‬‬

‫)پھر حضرت اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمايا(اگر انہيں بات‬ ‫ٰ‬ ‫تقوی‬ ‫کرنے کی اجازت دی جائے ‪.‬تو يہ تمہيں بتائيں گے کہ بہترين زاد راه‬ ‫ہے‬

‫‪.‬‬

‫‪ 131‬ايک شخص کو دنيا کی برائی کرتے ہوئے سنا تو فرمايا !اے دنيا کی‬ ‫برائی کرنے والے اس کے فريب ميں مبتال ہو نے والے !اور غلط سلط باتوں‬ ‫کے دھوکے ميں آنے والے !تم اس پر گرويده بھی ہوتے ہو ‪,‬اور پھر اس کی‬ ‫مذمت بھی کرتے ہو ‪.‬کيا تم دنيا کو مجرم ٹھہرنے کا حق رکھتے ہو؟يا وه‬ ‫تمہيں مجرم ٹھہرائے تو حق بجانب ہے ؟دنيا نے کب تمہارے ہوش وحواس‬ ‫سلب کئے اور کس بات سے فريب ديا ؟کيا ہالکت و کہنگی سے تمہارے باپ‬ ‫دادا کے بے جان ہو کر گر نے سے يا مٹی کے نيچے تمہاری ماؤں کی خواب‬ ‫گاہوں سے ؟کتنی تم نے بيماروں کی ديکھ بھال کی ‪,‬اور کتنی دفعہ تو خود‬ ‫تيمار دار ی کی اس صبح کو کہ جب نہ دوا کارگر ہوتی نظر آتی تھی ‪,‬اور نہ‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫تمہارا رونا دھونا ان کے ليے کچھ مفيد تھا ‪ .‬تم ان کے ليے شفا کے خواہشمند‬ ‫تھے اور طبيبوں سے دوا دارو پوچھتے پھرتے تھے ان ميں سے کسی ايک‬ ‫کے ليے بھی تمہارا انديشہ فائده مند ثابت نہ ہو سکا اور تمہارا اصل مقصد‬ ‫حاصل نہ ہوا اوراپنی چاره سازی سے تم موت کو ا س بيمار سے نہ ہٹا سکے‬ ‫تو دنيا نے تو اس کے پردے ميں خود تمہار ا انجا م اور اس کے ہالک ہونے‬ ‫سے خود تمہاری ہالکت کا نقشہ تمہيں دکھايا ديا بالشبہ دنيا اس شخص کے‬ ‫ليے جو باور کرے ‪,‬سچائی کا گھر ہے اور جو اس کی ان باتوں کو سمجھے‬ ‫اس کے ليے امن و عافيت کی منزل ہے اور اس سے زادراه حاصل کرلے‬ ‫‪,‬اس کے ليے دولتمندی کی منزل ہے اور جو اس سے نصيحت حاصل کر ے‬ ‫‪,‬اس کے ليے وعظ ونصيحت کا محل ہے ‪.‬وه دوستان خدا کے ليے عبادت کی‬ ‫جگہ ‪,‬ﷲ کے فرشتوں کے ليے نماز پﮍھنے کا مقام وحی الہی کی منزل اور‬ ‫اولياء ﷲ کی تجارت گاه ہے انہوں نے اس ميں فضل و رحمت کا سودا کيا اور‬ ‫اس ميں رہتے ہوئے جنت کو فائده ميں حاصل کيا تو اب کون ہے جو دنيا کی‬ ‫برائی کرے ‪,‬جب کہ اس نے اپنے جدا ہونے کی اطالع دے دی ہے چنانچہ‬ ‫اس نے اپنی ابتالء سے ابتالئ کا پتہ ديا ہے اور اپنی مسرتوں سے آخرت کی‬ ‫مسرتو ں کا شوق داليا ہے ‪,‬وه رغبت دالنے اور ڈرانے خوفزده کرنے اور‬ ‫متنبہ کرنے کے ليے شام کو امن و عافيت کا اور صبح کو درد و اندوه کا پيغام‬ ‫لے کر آتی ہے توجن لوگوں نے شرمسار ہوکر صبح کی وه اس کی برائی‬ ‫کرنے لگے ‪.‬اور دوسرے لوگ قيامت کے دن اس کی تعريف کريں گے کہ‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫دنيا نے ان کو آخرت کی ياد دالئی تو انہو ں نے ياد رکھا اور اس نے انہيں‬ ‫خبر دی تو انہوں نے تصديق کی اور اس نے انہيں پند و نصيحت کی تو انہوں‬ ‫نے نصيحت حاصل کی ‪.‬‬ ‫ہر متکلم و خطيب کی زبان منجے ہوئے موضوع پر زور بيان دکھاياکرتی ہے اور اگر سے موضوع سخن بدلنا پﮍے تو نہ ذہن کا م‬ ‫کرے گا اور نہ زبان کی گويائی ساتھ دے گی ‪,‬مگر جس کے ذہن ميں صالحيت تصرف اور دماغ ميں قوت و فکر ہو ‪,‬وه جس طرح‬ ‫چاہے کالم کو گردش دے سکتا ہے اور جس موضوع پر چاہے «قادر الکالمی»کے جو ہر دکھاسکتا ہے ‪.‬چنانچہ وه زبان جو ہميشہ دنيا‬ ‫کی مذمت اور اس کی فريب کار يوں کو بے نقاب کرنے ميں کھلتی تھی جب اس کی مدح ميں کھلتی ہے تو وہی قدرت کالم و قوت‬ ‫استدالل نظر آتی ہے جو اس زبان کا طره امتياز ہے اور پھر الفاظ کو توصيفيسانچہ ميں ڈھالنے سے نظر يہ ميں کوئی تبديلی نہيں ہو‬ ‫تی اور راہوں کے الگ الگ ہونے کے با وجود منزلگہ مقصود ايک ہی رہتی ہے ‪.‬‬

‫‪ 132‬ﷲ کا ايک فرشتہ ہر روز يہ ندا کر تا ہے ‪.‬کہ موت کے ليے اوالد پيدا‬ ‫کرو ‪,‬برباد ہونے کے ليے جمع کرو اور تباه ہونے کے ليے عمارتيں کھﮍی‬ ‫‪.‬‬

‫کرو‬

‫‪« 133‬دنيا »اصل منز ل قرار کے ليے ايک گزرگاه ہے ‪.‬اس ميں دو ‪2‬قسم‬ ‫کے لوگ ہيں ‪:‬ايک وه جنہوں نے اس ميناپنے نفس کو بيچ کر ہالک کر ديا‬ ‫اورايک‬

‫وه‬

‫جنہوں‬

‫نے‬

‫اپنے‬

‫نفس‬

‫کو‬

‫خريدکرآزاد‬

‫کرديا‪.‬‬

‫‪ 134‬دوست اس وقت تک دوست نہيں سمجھا جاسکتا جب تک کہ وه اپنے‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫بھائی کی تين موقعوں پر نگہداشت نہ کرے ‪ ,‬مصيبت کے موقع پر اس کے‬ ‫پس‬

‫پشت‬

‫اور‬

‫اس‬

‫کے‬

‫مرنے‬

‫کے‬

‫بعد‬

‫‪.:‬‬

‫‪ 135‬جس شخص کو چار چيزيں عطا ہوئی ہيں وه چار چيزوں سے محروم‬ ‫نہيں رہتا ‪,‬جو دعا کرے وه قبوليت سے محروم نہيں ہوتا ‪ .‬جسے توبہ کی‬ ‫توفيق ہو ‪,‬وه مقبوليت سے نااميد نہيں ہوتا جسے استغفار نصيب ہو وه مغفرت‬ ‫سے محروم نہيں ہوتا ‪.‬اور جوشکرکرے وه اضافہ سے محروم نہيں ہوتا اور‬ ‫اس کی تصديق قرآن مجيد سے ہوتی ہے ‪.‬چنانچہ دعا کے متعلق ارشاد الہی‬ ‫ہے‪:‬تم مجھ سے مانگو ميں تمہاری دعا قبول کرونگا ‪.‬اور استغفار کے متعلق‬ ‫ارشاد فرمايا ہے ‪.‬جو شخص کوئی برا عمل کرے يا اپنے نفس پر ظلم کرے‬ ‫پھر ﷲ سے مغفرت کی دعا مانگے تو وه ﷲ کو بﮍا بخشنے واال اور رحم‬ ‫کرنے واال پائے گا ‪.‬اور شکر کے بارے ميں فرمايا ہے اگر تم شکر کرو گے‬ ‫تو ميں تم پر )نعمت ميں (اضافہ کروں گا ‪.‬اور توبہ کے ليے فرمايا ہے ‪.‬ﷲ ان‬ ‫ہی لوگوں کی توبہ قبول کرتا ہے جو جہالت کی بناء پر کوئی بری حرکت نہ‬ ‫کر بيٹھيں پھر جلدی سے توبہ کر ليں تو خدا ايسے لوگوں کی توبہ قبول کرتا‬ ‫ہے‬

‫اور‬

‫خدا‬

‫جاننے‬

‫واال‬

‫اور‬

‫حکمت‬

‫واالہے‬

‫‪.‬‬

‫‪ 136‬نماز ہر پرہيز گار کے ليے باعث تقرب ہے اور حج ہر ضعيف و ناتواں‬ ‫زکوة ہوتی ہے ‪,‬اور بدن کی ٰ‬ ‫کا جہاد ہے ‪.‬ہر چيز کی ٰ‬ ‫زکوة روزه ہے اور‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫دعوت‬

‫کا‬

‫‪137‬‬

‫صدقہ‬

‫شوہر‬

‫جہاد‬

‫کے‬

‫سے‬

‫ذريعہ‬

‫حسن‬

‫معاشرت‬

‫ہے‬

‫‪.‬‬

‫روزی‬

‫طلب‬

‫کرو‬

‫‪.‬‬

‫‪ 138‬جسے عوض کے ملنے کا يقين ہو وه عطيہ دينے ميں دريا دلی دکھاتا‬ ‫ہے‬

‫‪139‬‬

‫‪.‬‬

‫جتنا‬

‫خرچ‬

‫‪.‬اتنی‬

‫ہو‬

‫امداد‬

‫ہی‬

‫ملتی‬

‫ہے‬

‫‪.‬‬

‫‪ 140‬جو ميانہ روی اختيار کرتاہے وه محتاج نہيں ہوتا ‪.‬‬

‫‪141‬متعلقين کی کمی دو قسموں ميں سے ايک قسم کی آسودگی ہے ‪.‬‬

‫‪142‬‬

‫‪143‬‬

‫ميل‬

‫محبت‬

‫غم‬

‫پيدا‬

‫کر‬

‫آدھا‬

‫نا‬

‫عقل‬

‫کا‬

‫بﮍھاپا‬

‫نصف‬

‫حصہ‬

‫ہے‬

‫ہے‬

‫‪.‬‬

‫‪.‬‬

‫‪ 144‬مصيبت کے اندازه پر ﷲ کی طرف صبر کی ہمت حاصل ہوتی ہے ‪.‬جو‬ ‫شخص مصيبت کے وقت ران پر ہاتھ مارے اس کا عمل اکارت ہوجاتا ہے ‪.‬‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫‪ 145‬بہت سے روزه دار ايسے ہيں جنہيں روزوں کا ثمره بھوک پياس کے‬ ‫عالوه کچھ نہيں ملتا اور بہت سے عابد شب زنده دار ايسے ہيں جنہيں عبادت‬ ‫کے نتيجہ ميں جاگنے اور زحمت اٹھانے کے سوا کچھ حاصل نہيں ہوتا‬ ‫‪.‬زيرک و دانا لوگوں کا سونا اور روزه نہ رکھنا بھی قابل ستائش ہوتا ہے‪.‬‬

‫‪ 146‬صدقہ سے اپنے ايمان کی نگہداشت کرو ‪,‬او ر دعا سے مصيبت و ابتالئ‬ ‫کی‬

‫‪147‬‬

‫لہروں‬

‫کميل‬

‫ابن‬

‫کو‬

‫زياد‬

‫دور‬

‫نخعی‬

‫کہتے‬

‫کرو‬

‫ہيں‬

‫‪.‬‬

‫کہ‬

‫‪:‬‬

‫اميرالمومنين علی ابن ابی طالب عليہ السالم نے ميرا ہاتھ پکﮍا اور قبر ستان‬ ‫کی طرف لے چلے جب آبادی سے باہر نکلے تو ايک لمبی آه کی ‪.‬پھر فرمايا‪:‬‬ ‫اے کميل !يہ دل اسرار و حکم کے ظروف ہيں ان ميں سب سے بہتر وه ہے‬ ‫جو زياده نگہداشت کرنے واال ہو ‪.‬ل ٰہذا تو جو ميں تمہيں بتاؤں اسے ياد رکھنا ‪.‬‬ ‫ديکھو!تين قسم کے لو گ ہوتے ہيں ايک عالم ربانی دوسرا متعلم کہ جو نجات‬ ‫کی راه پر برقرار رہے اور تيسرا عوام الناس کا وه پست گروه ہے کہ جو ہر‬ ‫پکارنے والے کے پيچھے ہوليتا ہے اور ہر ہو اکے رخ پر مﮍ جاتا ہے ‪.‬نہ‬ ‫انہوں نے نور علم سے کسب ضيا کيا ‪,‬نہ کسی مضبوط سہارے کی پناه لی ‪.‬‬ ‫اے کميل !يا د رکھو‪,‬کہ علم مال سے بہتر ہے )کيونکہ(علم تمہاری نگہداشت‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫کرتا ہے اورمال کی تمہيں حفاظت کرنا پﮍتی ہے اور مال خرچ کرنے سے‬ ‫گھٹتا ہے ليکن علم صرف کرنے سے بﮍھتا ہے ‪,‬اورمال و دولت کے نتائج و‬ ‫اثرات‬

‫مال‬

‫کے‬

‫فنا‬

‫ہونے‬

‫سے‬

‫فنا‬

‫ہوجاتے‬

‫ہيں‬

‫‪.‬‬

‫اے کميل !علم کی شناسائی ايک دين ہے کہ جس کی اقتدا کی جاتی ہے اسی‬ ‫سے انسان اپنی زندگی ميں دوسروں سے اپنی اطاعت منواتا ہے اور مرنے‬ ‫کے بعد نيک نامی حاصل کرتا ہے ‪.‬ياد رکھو کہ علم حاکم ہو تا ہے اور مال‬ ‫محکوم‬

‫‪.‬‬

‫اے کميل !مال اکٹھا کرنے والے زنده ہونے کے باوجود مرده ہوتے ہيں اور‬ ‫علم حاصل کرنے والے رہتی دنيا تک باقی رہتے ہيں ‪ ,‬بے شک ان کے اجسام‬ ‫نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہيں ‪.‬مگر ان کی صورتيں دلوں ميں موجود رہتی‬ ‫ہيں )اس کے بعد حضرت نے اپنے سينہ اقدس کی طر ف اشاره کيا‬ ‫اورفرمايا(ديکھو!يہاں علم کا ايک بﮍا ذخيره موجود ہے کا ش اس کے اٹھانے‬ ‫والے مجھے مل جاتے ‪,‬ہاں مال ‪,‬کوئی تو‪,‬يا ايسا جو ذہين تو ہے مگر ناقابل‬ ‫اطمينان ہے اور جودنيا کے ليے دين کو آلہ کا ر بنا نے واالہے اور ﷲ کی ان‬ ‫نعمتوں کی وجہ سے اس کے بندوں پر اور اس کی حجتوں کی وجہ سے اس‬ ‫کے دوستوں پر تفوق و برتری جتالنے واال ہے ‪.‬يا جو ارباب حق و دانش کا‬ ‫مطيع توہے مگر اس کے دل کے گوشوں ميں بصيرت کی روشنی نہيں ہے‬ ‫‪,‬بس ادھر ذرا سا شبہہ عارض ہو ا کہ اس کے دل ميں شکوک و شبہات کی‬ ‫چنگارياں بھﮍکنے لگيں تو معلوم ہونا چاہيے کہ نہ يہ اس قابل ہے اور نہ وه‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫اس قابل ہے يا ايسا شخص ملتا ہے کہ جو لذتوں پر مٹا ہوا ہے اور بآسانی‬ ‫خواہش نفسانی کی راه پر کھنچ جانے واال ہے يا ايسا شخص جو جمع آوری و‬ ‫ذخير ه اندوزی پر جان ديئے ہوءے ہے يہ دونوں بھی دين کے کسی امر کی‬ ‫رعايت و پاسداری کرنے والے نہيں ہيں ان دونوں سے انتہائی قريبی شباہت‬ ‫چرنے والے چوپائے رکھتے ہيں ‪.‬اسی طرح تو علم کے خزينہ داروں کے‬ ‫مرنے‬

‫سے‬

‫علم‬

‫ختم‬

‫ہوجاتا‬

‫ہے‬

‫ہا ں !مگر زمين ايسے فرد خالی نہيں رہتی کہ جو خد اکی حجت کو برقرا ر‬ ‫رکھتا ہے چاہے وه ظاہر و مشہور ہو ا يا خائف و پنہاں تاکہ ﷲ کی دليليں اور‬ ‫نشان مٹنے نہ پائيں اور وه ہيں ہی کتنے اور کہاں پر ہيں ‪-‬؟خدا کی قسم وه تو‬ ‫گنتی ميں بہت تھوڑے ہوتے ہيں ‪,‬اور ﷲ کے نزديک قدرومنزلت کے لحاظ‬ ‫سے بہت بلند ‪.‬خدا وند عالم ان کے ذريعہ سے اپنی حجتوناور نشانيوں کی‬ ‫حفاظت کرتا ہے ‪.‬يہاں تک کہ وه ان کو اپنے ايسوں کے سپرد کرديں اور‬ ‫اپنے ايسوں کے دلوں مينانہيں بوديں ‪.‬علم نے انہيں ايک دم حقيقت و بصيرت‬ ‫کے انکشافات تک پہنچا ديا ہے ‪.‬وه يقين و اعتماد کی رو ح سے گھل مل گئے‬ ‫ہيں اور ان چيز وں کو جنہيں آرام پسند لوگوں نے دشوار قرار دے رکھا تھا‬ ‫اپنے ليے سہل و آسان سمجھ ليا ہے اور جن چيزوں سے جاہل بھﮍک اٹھتے‬ ‫ہيں ان سے وه جی لگائے بيٹھے ہيں ‪.‬وه ايسے جسموں کے ساتھ دنياميں‬ ‫اعلی سے وابستہ ہيں يہی لوگ‬ ‫رہتے سہتے ہيں کہ جن کی روحيں مالئ‬ ‫ٰ‬ ‫توزمين ميں ﷲ کے نائب اور اس کے دين کی طرف دعوت دينے والے ہيں‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫‪.‬ہائے ان کی ديد کے ليے ميرے شوق کی فراوانی )پھر حضرت نے کميل‬ ‫سے فرمايا(اے کميل !)مجھے جو کچھ کہنا تھا کہہ چکا (اب جس وقت چاہو‬ ‫واپس جاؤ‪.‬‬ ‫کميل ابن زياد نخعی رحمتہ ﷲ اسرار امامت کے خزينہ دار اور اميرالمومنين کے خواص اصحاب ميں سے تھے ‪,‬علم و فضل ميں بلند‬ ‫مرتبہ اور زہد و درع ميں امتياز خاص کے حامل تھے ‪.‬حضرت کی طرف سے کچھ عرصہ تک ہيت کے عامل رہے ‪38‬ئھج ميں ‪09‬برس‬ ‫کی عمر ميں حجاج ابن يوسف ثقفی کے ہاتھ سے شہيد ہوئے اور بيرون کوفہ دفن ہوئے ‪.‬‬

‫‪ 148‬انسان اپنی زبان کے نيچے چھپا ہو ا ہے ‪.‬‬ ‫مطلب يہ ہے کہ انسان کی قدرو قيمت کا اندازه اس کی گفتگو سے ہوجاتا ہے ‪.‬کيونکہ ہر شخص کی گفتگو اس کی ذہنيواخالقی حالت‬ ‫کی آئينہ دار ہوتی ہے جس سے اس کے خياالت و جذبات کا بﮍی آسانی سے اندازه لگايا جاسکتا ہے ‪.‬لہٰ ذا جب تک وه خامو ش ہے اس‬ ‫کا عيب و ہنر پوشيده ہے اور جب انسان کی زبان کھلتی ہے تو اس کا جوہر نمايا ں ہوجاتا ہے ‪.‬‬

‫مرد پنہاں است در زير زبان خوشيتن قيمت و قدرش نداتی تانياءد در سخن‬

‫‪ 149‬جو شخص اپنی قدرو منزلت کو نہيں پہچانتا وه ہالک ہو جاتا ہے ‪.‬‬

‫‪ 150‬ايک شخص نے آپ سے پندو موعظت کی درخواست کی ‪,‬تو فرمايا!‬ ‫تم کوان لوگوں ميں سے نہ ہونا چاہيے کہ جو عمل کے بغير حسن انجا م کی‬ ‫اميد رکھتے ہيں اور اميد يں بﮍھاکر تو بہ کو تاخير ميں ڈال ديتے ہيں جو دنيا‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫کے بارے ميں زاہدوں کی سی باتيں کرتے ہيں مگر ان کے اعمال دنيا طلبوں‬ ‫کے سے ہوتے ہيں ‪.‬اگر دنيا انہيں ملے تو وه سير نہيں ہوتے اور اگر نہ ملے‬ ‫تو قناعت نہيں کرتے جو انہيں مالہے اس پر شکر سے قاصر رہتے ہيں اور‬ ‫جو بچ رہا اس کے اضافہ کے خواہشمند رہتے ہيں دوسروں کو منع کرتے ہيں‬ ‫اور خود باز نہيں آتے اور دوسروں کو حکم ديتے ہيں ايسی باتوں کا جنہيں‬ ‫خود بجانہيں التے نيکوں کو دوست رکھتے ہيں مگر ان کے سے اعمال نہيں‬ ‫کرتے اور گنہگاروں سے نفرت و عناد رکھتے ہيں حاالنکہ وه خود انہی ميں‬ ‫داخل ہيں اپنے گناہوں کی کثرت کے باعث موت کو برا سمجھتے ہيں مگر جن‬ ‫گناہونکی وجہ سے موت کو ناپسند کرتے ہيں انہی پر قائم ہيں ‪.‬اگر بيمار پﮍتے‬ ‫ہيں تو پشيمان ہوتے ہيں ‪ .‬جب بيماری سے چھٹکارا پاتے ہيں تواترانے لگتے‬ ‫ہيں ‪.‬اور مبتال ہوتے ہيں تو ان پر مايوسی چھا جاتی ہے ‪.‬جب کسی سختی و‬ ‫ابتال ميں پﮍتے ہيں تو الچار و بے بس ہوکر دعائيں مانگتے ہيں اور جب فراخ‬ ‫دستی نصيب ہوتی ہے تو فريب ميں مبتال ہو کر منہ پھير ليتے ہيں ‪.‬ان کا نفس‬ ‫خيالی باتوں پر انہيں قابو ميں لے آتا ہے اور وه يقينی باتوں پر اسے نہيں‬ ‫دباليتے ‪.‬دوسروں کے ليے گناه سے زياده خطره محسوس کرتے ہيں اور اپنے‬ ‫ليے اپنے اعمال سے زياده جزا کے متوقع رہتے ہيں ‪.‬اگر مالدار ہوجاتے ہيں‬ ‫تو اترانے لگتے ہيں اور اگر فقير ہوجاتے ہيں تو نااميد ہوجاتے ہيں اور سستی‬ ‫کرنے لگتے ہيں ‪.‬جب عمل کرتے ہيں تو اس ميں سستی کرتے ہيں اور جب‬ ‫مانگنے پرآتے ہيں تو اصرار ميں حد سے بﮍھ جاتے ہيں ‪.‬اگر ان پر خواہش‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫نفسانی کا غلبہ ہوتا ہے تو گناه جلد سے جلد کرتے ہيں ‪,‬اور توبہ کو تعويق ميں‬ ‫ڈالتے رہتے ہيں ‪,‬اگر کوئی مصيبت الحق ہوتی ہے تو جماعت اسالمی کے‬ ‫خصوصی امتيازات سے الگ ہوجاتے ہيں ‪.‬عبرت کے واقعات بيان کرتے ہيں‬ ‫مگر خود عبرت حاصل نہيں کرتے اور وعظ و نصيحت ميں زور باندھتے ہيں‬ ‫مگر خود اس نصيحت کا اثر نہيں ليتے چنانچہ وه بات کرنے ميں تو اونچے‬ ‫رہتے ہيں ‪.‬مگر عمل ميں کم ہی کم رہتے ہيں ‪.‬فانی چيزوں ميں نفسی نفسی‬ ‫کرتے ہيں اور باقی رہنے والی چيزوں ميں سہل انگاری سے کام ليتے ہيں وه‬ ‫نفع کو نقصان اور نقصا ن کو نفع خيال کرتے ہيں ‪.‬موت سے ڈرتے ہيں ‪.‬مگر‬ ‫فرصت کا موقع نکل جانے سے پہلے اعمال ميں جلدی نہيں کرتے ‪.‬دوسرے‬ ‫کے ايسے گناه کو بہت بﮍا سمجھتے ہيں جس سے بﮍے گناه کو خود اپنے ليے‬ ‫چھوٹا خيال کرتے ہيں ‪.‬اور اپنی ايسی اطاعت کو زياده سمجھتے ہيں جسے‬ ‫دوسرے سے کم سمجھتے ہيں ‪.‬ل ٰہذا وه لوگوں پر معترض ہوتے ہيں اور اپنے‬ ‫نفس کی چکنی چپﮍی باتوں سے تعريف کرتے ہيں ‪.‬دولتمندوں کے ساتھ طرب‬ ‫ونشاط ميں مشغول رہنا انہيں غريبوں کے ساتھ محفل ذکر ميں شرکت سے‬ ‫زياده پسند ہے اپنے حق ميں دوسرے کے حق ميں اپنے خالف حکم لگاتے‬ ‫ہيں ليکن کبھی يہ نہيں کرتے کہ دوسرے کے حق ميں اپنے خالف حکم‬ ‫لگائيں ‪.‬اوروں کو ہدايت کرتے ہيں اور اپنے کو گمراہی کی راه پر لگا تے ہيں‬ ‫وه اطاعت ليتے ہيں اور خود نافرمانی کرتے ہيں او رحق پوراپور ا وصول‬ ‫کرليتے ہيں مگر خود انہيں کرتے ‪.‬وه اپنے پروردگا ر کو نظر انداز کر کے‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫مخلوق سے خو ف کھاتے ہيں اور مخلوقات کے بارے ميں اپنے پروردگار‬ ‫سے نہيں ڈرتے ‪.‬‬ ‫سيد رضی فرماتے ہيں کہ اگر اس کتاب ميں صرف ايک يہی کالم ہوتا تو کامياب موعظہ اور موثر حکمت اور چشم بينا رکھنے والے‬ ‫کے ليے بصيرت اور نظر و فکر کرنے والے کے ليے عبرت کے اعتبار سے بہت کافی تھا ‪.‬‬

‫اقوال امام علی )عليہ السالم (از نہج البالغہ‬ ‫ِ‬ ‫اقوال ‪ ١۵١‬تا ‪١٨٠‬‬ ‫‪ 151‬ہر شخص کا ايک انجام ہے۔ اب خواه وه شيريں ہو يا تلخ۔‬

‫‪ 152‬ہر آنے والے کے ليے پلٹنا ہے اور جب پلٹ گيا تو جيسے کبھی تھا ہی‬ ‫نہيں۔‬

‫‪ 153‬صبر کرنے واال ظفرو کامرانی سے محروم نہيں ہوتا‪ ،‬چاہے اس ميں‬ ‫طويل‬

‫زمانہ‬

‫لگ‬

‫جائے‪.‬‬

‫‪ 154‬کسی جماعت کے فعل پر رضا مند ہونے واال ايسا ہے جيسے اس کے‬ ‫کام ميں شريک ہو۔ اور غلط کام ميں شريک ہو نے والے پر دو گناه ہيں۔ ايک‬ ‫اس پر عمل کرنے کا اور ايک اس پر رضا مند ہونے کا۔‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫‪ 155‬عہد و پيمان کی ذمہ داريوں کو ان سے وابستہ کرو جو ميخوں کے‬ ‫ايسے‬

‫ہوں۔‬

‫)مضبوط(‬

‫‪ 156‬تم پر اطاعت بھی الزم ہے ان کی جن سے ناواقف رہنے کی بھی تمہيں‬ ‫معافی نہيں۔‬ ‫خداوند عالم نے اپنے عدل و رحمت سے جس طرح دين کی طرف رہبری و رہنمائی کر نے کے ليے انبياء کا سلسلہ جاری کيا اسی طرح‬ ‫سالم‬ ‫سلسلہ نبوت کے ختم ہونے کے بعد دين کو تبديلی و تحريف سے محفوظ رکھنے کے ليے امامت کا نفاذ کيا تاکہ ہر امام عليہ ال ّ‬ ‫اپنے اپنے دور ميں تعليمات الہيہ کو خواہش پرستی کی زد سے بچا کر اسالم کے صحيح احکام کی رہنمائی کرتا رہے اور جس طرح‬ ‫شريعت کے مبلغ کی معرفت واجب اسی طرح شريعت کے محافظ کی بھی معرفت ضروری ہے اور جاہل کو اس ميں معذور نہيں قرارديا‬ ‫جاسکتا۔ کيونکہ منصب امامت پر صدہا ايسے دالئل و شواہد موجود ہيں جن سے کسی بابصيرت کے ليے گنجائش انکار نہيں ہوسکتی‬ ‫چنانچہ‬

‫پيغمبر‬

‫اکرم‬

‫صلی‬

‫ﷲ‬

‫عليہ‬

‫وآلہ‬

‫وسلم‬

‫کا‬

‫ارشاد‬

‫ہے‬

‫کہ‪:‬‬

‫جو شخص اپنے دور حيات کے امام کو نہ پہچانے اور دنيا سے اٹھ جائے‪ ،‬اس کی موت کفر و ضاللت کی موت ہے۔‬ ‫ابن ابی الحديد نے بھی اس ذات سے کہ جس سے ناواقفيت و جہالت عذر مسمو ع نہيں بن سکتی حضرت کی ذات کو مراد ليا ہے اور‬ ‫ان کی اطاعت کا اعتراف اور منکر امامت کے غير ناجی ہونے کا اقرار کرتے ہوئے تحرير کيا ہے کہ‪:‬‬ ‫جو شخص حضرت علی عليہ السالم کی امامت سے جاہل اور اس کی صحت و لزوم کا منکر ہو وه ہمارے اصحاب کے نزديک ہميشہ‬ ‫کے ليے جہنمی ہے‪.‬نہ اسے نماز فائده دے سکتی ہے نہ روزه۔ کيونکہ معرفت امامت ان بنيادی اصولوں ميں شمار ہوتی ہے جو دين‬ ‫کے مسلمہ ارکان ہيں۔ البتہ ہم آپ کی امامت کے منکر کو کافر کے نام سے نہيں پکارتے بلکہ اسے فاسق خارجی اور بے دين وغيره‬ ‫کے ناموں سے ياد کرتے ہيں اور شيعہ ايسے شخص کو کافر سے تعبير کرتے ہيں‪ ،‬اور يہی ہمارے اصحاب اور ان ميں فر ق ہے۔‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫مگر صرف لفظی فرق ہے کوئی واقعی اور معنوی فرق نہيں ہے‪) .‬شرح ابن ابی الحديد‪ ،‬جلد ‪ ،4‬صفحہ ‪(1319‬‬

‫‪ 157‬اگر تم ديکھو‪ ،‬تو تمہيں دکھايا جاچکا ہے اور اگر تم ہدايت حاصل کرو‬ ‫تو تمہيں ہدايت کی جاچکی ہے اور اگر سننا چاہو تو تمہيں سنايا جاچکا ہے۔‬

‫‪ 158‬اپنے بھائی کو شرمنده احسان بنا کر سر زنش کرو اور لطف و کرم کے‬ ‫ذريعہ سے اس کے شر کو دور کرو۔‬ ‫اگر برائی کا جواب برائی سے اور گالی کا جواب گالی سے ديا جائے‪ ،‬تواس سے دشمنی کا دروازه کھل جاتا ہے۔ اور اگر برائی سے‬ ‫پيش آنے والے کے ساتھ نرمی و مالئمت کا رويہ اختيار کيا جائے تو وه بھی اپنا رويہ بدلنے پر مجبور ہوجائے گا۔ چنانچہ ايک دفعہ‬ ‫امام حسن عليہ السالم بازار مدينہ ميں سے گزر رہے تھے کہ ايک شامی نے آپ کی جاذب نظر شخصيت سے متاثر ہوکر لوگوں سے‬ ‫دريافت کيا کہ يہ کو ن ہيں؟ اسے بتايا گيا کہ يہ حسن ابن علی عليہ السالم ہيں۔ يہ سن کر اس کے تن بدن ميں آگ لگ گئی اور آپ کے‬ ‫سالم نے فرمايا کہ معلوم ہوتا‬ ‫قريب آکر انہيں بر ا بھال کہنا شروع کيا۔ مگر آپ خاموشی سے سنتے رہے جب وه چپ ہوا توآپ عليہ ال ّ‬ ‫ہے کہ تم يہاں نووارد ہو؟ اس نے کہا کہ ہاں ايسا ہی ہے۔ فرمايا کہ پھر تم ميرے ساتھ چلو ميرے گھر ميں ٹھہرو‪ ،‬اگر تمہيں کوئی‬ ‫حاجت ہو گی تو ميں اسے پورا کروں گا‪ ،‬اور مالی امداد کی ضرورت ہوگی تو مالی امداد بھی دوں گا۔ جب اس نے اپنی سخت و درشت‬ ‫باتوں کے جواب ميں يہ نرم روی و خوش اخالقی ديکھی‪ ،‬تو شرم سے پانی پانی ہو گيا اور اپنے گناه کا اعتراف کرتے ہوئے عفو کا‬ ‫طالب ہوا‪ ،‬اورجب آپ سے رخصت ہوا تو روئے زمين پر ان سے زياده کسی کی قدر و منزلت ا س کی نگاه ميں نہ تھی۔‬

‫اگر مرد ی احسن الی من اساء‬

‫‪ 159‬جوشخص بدنامی کی جگہوں پر اپنے کو لے جائے تو پھر اسے برا نہ‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫کہے‬

‫جو‬

‫اس‬

‫بدظن‬

‫سے‬

‫ہو‪.‬‬

‫‪ 160‬جو اقتدار حاصل کرليتا ہے جانبدار ی کرنے ہی لگتا ہے۔‬

‫‪ 161‬جو خود رائی سے کام لے گا‪ ،‬وه تباه و برباد ہو گا اور جو دوسروں سے‬ ‫مشوره لے گا وه ان کی عقلوں ميں شريک ہو جائے گا۔‬

‫‪ 162‬جو اپنے راز کو چھپائے رہے گا اسے پورا قابو رہے گا۔‬

‫‪163‬‬

‫فقيری‬

‫سب‬

‫سے‬

‫بﮍی‬

‫موت‬

‫ہے۔‬

‫‪ 164‬جو ايسے کا حق ادا کرے کہ جو اس کا حق ادا نہ کرتا ہو‪ ،‬تو وه اس کی‬ ‫پرستش‬

‫کرتا‬

‫ہے۔‬

‫‪ 165‬خالق کی معصيت ميں کسی مخلوق کی اطاعت نہيں ہے۔‬

‫‪ 166‬اگر کوئی شخص اپنے حق ميں دير کرے تو اس پر عيب نہيں لگايا‬ ‫جاسکتا۔ بلکہ عيب کی بات يہ ہے کہ انسان دوسرے کے حق پر چھاپا مارے۔‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫‪ 167‬خود پسندی ترقی سے مانع ہوتی ہے‪.‬‬ ‫جو شخص جويائے کمال ہوتا ہے اور يہ سمجھتا ہے کہ ابھی وه کمال سے عاری ہے‪ ،‬اس سے منزل کمال پر فائز ہونے کی توقع کی‬ ‫جاسکتی ہے۔ ليکن جو شخص اس غلط فہمی ميں مبتال ہو کہ وه تمام و کمال ترقی کے مدارج طے کرچکا ہے وه حصول کمال کے ليے‬ ‫سعی و طلب کی ضرورت محسوس نہيں کرے گا۔ کيونکہ وه بزعم خود کمال کی تمام منزليں ختم کرچکاہے اب اسے کوئی منزل نظرہی‬ ‫نہيں آتی کہ اس کے ليے تگ ودو کرے چنانچہ يہ خود پسند برخود غلط انسان ہميشہ کمال سے محروم ہی رہے گا۔ اور يہ خود پسند ی‬ ‫اس کے ليے ترقی کی راہيں مسدود کردے گی۔‬

‫‪ 168‬آخرت کا مرحلہ قريب اور )دنيا ميں( باہمی رفاقت کی مدت کم ہے۔‬

‫‪169‬‬

‫آنکھ‬

‫والے‬

‫کے‬

‫ليے‬

‫صبح‬

‫روشن‬

‫ہوچکی‬

‫ہے۔‬

‫‪ 170‬ترک گناه کی منزل بعد ميں مدد مانگنے سے آسان ہے۔‬ ‫اول مرتبہ ميں گناه سے باز رہنا اتنا مشکل نہيں ہوتا‪ ،‬جتنا گناه سے مانوس اور اس کی لذت سے آشنا ہونے کے بعد کيونکہ انسان‬ ‫جس چيز کا خو گر ہوجاتا ہے اس کے بجا النے ميں طبيعت پر بار محسوس نہيں کرتا۔ ليکن اسے چھوڑنے ميں لوہے لگ جاتے ہيں‬ ‫اور جوں جوں عادت پختہ ہوتی جاتی ہے۔ ضمير کی آواز کمزور پﮍجاتی ہے اور توبہ ميں دشوارياں حائل ہوجاتی ہيں۔ لہٰ ذا يہ کہہ کر دل‬ ‫کو ڈھارس ديتے رہنا کہ «پھر توبہ کر ليں گے »‪.‬اکثر بے نتيجہ ثابت ہوتا ہے۔ کيونکہ جب ابتداء ميں گناه سے دستبردار ہونے ميں‬ ‫دشواری محسوس ہورہی ہے تو گناه کی مدت کو بﮍھا لے جانے کے بعد توبہ دشوار تر ہوجائے گی۔‬

‫‪171‬بسا اوقات ايک دفعہ کا کھانا بہت دفعہ کے کھانوں سے مانع ہوجاتا ہے۔‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫يہ ايک مثل ہے جو ايسے موقعوں پر استعمال ہوتی ہے جہاں کوئی شخص ايک فائده کے پيچھے اس طرح کھو جائے کہ اسے‬ ‫دوسرے فائدوں سے ہاتھ اٹھا لينا پﮍے جس طرح وه شخص کہ جو ناموافق طبع يا ضرورت سے زياده کھالے تو اسے بہت سے‬ ‫کھانوں سے محروم ہونا پﮍتا ہے۔‬

‫‪ 172‬لوگ اس چيز کے دشمن ہوتے ہيں جسے نہيں جانتے۔‬ ‫انسان جس علم وفن سے واقف ہوتا ہے اسے بﮍی اہميت ديتا ہے اور جس علم سے عاری ہوتاہے اسے غير اہم قرار دے کر اس کی‬ ‫تنقيص و مذمت کرتا ہے۔ وجہ يہ ہے کہ وه يہ ديکھتا ہے کہ جس محفل ميں اس علم و فن پر گفتگو ہوتی ہے۔ اسے ناقابل اعتنا سمجھ‬ ‫کر نظر انداز کر ديا جاتا ہے جس سے وه ايک طرح کی سبکی محسوس کرتا ہے اور يہ سبکی اس کے ليے اذيت کا باعث ہوتی ہے‬ ‫اور انسان جس چيز سے بھی اذيت محسوس کر ے گا اس سے طبعا ًنفرت کرے گا اور اس سے بغض رکھے گا۔ چنانچہ افالطون سے‬ ‫دريافت کيا گيا کہ کيا وجہ ہے کہ نہ جاننے واال جاننے والے سے بغض رکھتا ہے مگر جاننے واال نہ جاننے والے سے بغض و عناد‬ ‫نہيں رکھتا ؟اس نے کہا کہ چونکہ نہ جاننے واال اپنے اندر ايک نقص محسوس کرتا ہے اور يہ گمان کرتا ہے کہ جاننے واال اس کی‬ ‫جہالت کی بنا پر اسے حقير و پست سمجھتا ہوگا جس سے متاثر ہوکر وه اس سے بغض رکھتا ہے اور جاننے واال اس کی جہالت کے‬ ‫نقص سے بری ہوتا ہے اس ليے وه يہ تصور نہيں کرتا کہ نہ جاننے واال اسے حقير سمجھتا ہوگا۔ اس ليے کوئی وجہ نہيں ہوتی کہ وه‬ ‫اس سے بغض رکھے۔‬

‫‪ 173‬جو شخص مختلف رايوں کا سامنا کرتا ہے وه خطا و لغزش کے مقاما ت‬ ‫کو‬

‫پہچان‬

‫ليتا‬

‫ہے۔‬

‫‪ 174‬جو شخص ﷲ کی خاطر سنان غضب تيز کرتا ہے‪ ،‬وه باطل کے‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫سورماؤں کے قتل پر توانا ہو جاتا ہے۔‬ ‫جو شخص محض ﷲ کی خاطر باطل سے ٹکرانے کے ليے اٹھ کھﮍا ہوتا ہے۔ اسے خداوند عالم کی طرف سے تائيد و نصرت حاصل‬ ‫ہوتی ہے اور کمزوری و بے سروسامانی کے باوجود باطل قوتيں اس کے عزم ميں تزلزل اور ثبات قدم ميں جنبش پيدا نہيں کرسکتيں‬ ‫اور اگر اس کے اقدام ميں ذاتی غرض شريک ہو تو اسے بﮍی آسانی سے اس کے اراده سے باز رکھا جاسکتاہے۔ چنانچہ سيد نعمت‬ ‫جز ائری عليہ الرحمہ نے زہرا الربيع ميں تحرير کيا ہے کہ ايک شخص نے کچھ لوگوں کو ايک درخت کی پرستش کرتے ديکھا تو اُس‬ ‫نے جذبہ دينی سے متاثر ہوکر اس درخت کو کاٹنے کا اراده کيا اور جب تيشہ لے کر آگے بﮍھا تو شيطان نے اس کا راستہ روکا اور‬ ‫پوچھا کہ کيا اراده ہے؟ اس نے کہا کہ ميں اس درخت کو کاٹناچاہتا ہوں تاکہ لوگ مشرکانہ طريق عبادت سے باز رہيں۔ شيطان نے کہا‬ ‫کہ تمہيں اس سے کيا مطلب وه جانيں اور ا ن کاکام‪ ،‬مگر وه اپنے اراده پر جما رہا جب شيطان نے ديکھا کہ يہ ايسا کرہی گزرے گا‪،‬‬ ‫تواس نے کہا کہ اگر تم واپس چلے جاؤ تو ميں تمہيں چار درہم ہر روز ديا کروں گا۔ جو تمہيں بستر کے نيچے سے مل جايا کريں گے‬ ‫يہ سن کر اس کی نيت ڈانواں ڈول ہونے لگی اور کہا کہ کيا ايسا ہوسکتا ہے؟ اس نے کہا کہ تجربہ کرکے ديکھ لو‪ ،‬اگر ايسا نہ ہو ا‬ ‫درخت کے کاٹنے کا موقع پھر بھی تمہيں مل سکتا ہے۔ چنانچہ وه اللچ ميں آکر پلٹ آيا اور دوسرے دن وه درہم اسے بستر کے نيچے‬ ‫سے مل گئے۔ مگر دو چار روز کے بعد يہ سلسلہ ختم ہوگيا۔ اب وه پھر طيش ميں آيا۔ اور تيشہ لے کر درخت کی طرف بﮍھا کہ شيطان‬ ‫نے آگے بﮍھ کر کہا کہ اب تمہارے بس ميں نہيں کہ تم اسے کاٹ سکو‪ ،‬کيونکہ پہلی دفعہ تم صرف ﷲ کی رضامند ی حاصل کرنے کے‬ ‫ليے نکلے تھے اور اب چند پيسوں کی خاطر نکلے ہو۔ لہٰ ذا تم نے ہاتھ اٹھايا تو ميں تمہاری گردن توڑ دوں گا۔ چنانچہ وه بے نيل مرام‬ ‫پلٹ آيا۔‬

‫‪ 175‬جب کسی امر سے دہشت محسوس کرو تو اس ميں پھاند پﮍو‪ ،‬اس ليے‬ ‫کہ کھٹکا لگا رہنا اس ضرر سے کہ جس کا خوف ہے‪ ،‬زياده تکليف ده چيز‬ ‫ہے۔‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫‪176‬‬

‫سر‬

‫برآورده‬

‫ہونے‬

‫کا‬

‫ذريعہ‬

‫سينہ‬

‫کی‬

‫وسعت‬

‫ہے۔‬

‫‪ 177‬بد کار کی سر زنش نيک کو اس کا بدلہ دے کر کرو۔‬ ‫مقصد يہ ہے کہ اچھوں کو ان کی حسن کارکردگی کا پورا پورا صلہ دينا اور ان کے کارناموں کی بنا پر ان کی قدر افزائی کرنا بروں کو‬ ‫بھی اچھائی کی راه پر لگا تا ہے۔ اور يہ چيز اخالقی مواعظ اور تنبيہ و سرزنش سے زياده موثر ثابت ہوتی ہے کيونکہ انسان طبعا ً ان‬ ‫چيزوں کی طرف راغب ہوتا ہے جن کے نتيجہ ميں اسے فوائد حاصل ہوں اور اس کے کانوں ميں مدح و تحسين کے ترانے گونجيں۔‬

‫‪ 178‬دوسرے کے سينہ سے کينہ و شرکی جﮍ اس طرح کاٹو کہ خود اپنے‬ ‫سينہ سے اسے نکال پھينکو‪.‬‬ ‫اس جملہ کے دومعنی ہو سکتے ہيں۔ ايک يہ کہ اگر تم کسی کی طرف سے دل ميں کينہ رکھو گے تو وه بھی تمہاری طرف سے کينہ‬ ‫رکھے گا۔ لہٰ ذا اپنے د ل کی کدورتوں کو مٹا کر اس کے دل سے بھی کدورت کو مٹا دو۔ کيونکہ دل دل کا آئينہ ہوتا ہے۔ جب تمہارے‬ ‫آئينہ دل ميں کدورت کا زنگ باقی نہ رہے گا‪ ،‬تو اس کے دل سے بھی کدورت جاتی رہے گی اور اسی ليے انسان دوسرے کے دل کی‬ ‫صفائی کااندازه اپنے دل کی صفائی سے بآسانی کرليتا ہے۔ چنانچہ ايک شخص نے اپنے ايک دوست سے پوچھا کہ تم مجھے کتنا‬ ‫ک اپنے دل سے پوچھو‪.‬يعنی جتنا تم مجھے دوست رکھتے ہو اتنا ہی ميں تمہيں دوست رکھتا‬ ‫سل قَلبَ َ‬ ‫چاہتے ہو؟ اس نے جواب ميں کہا َ‬ ‫ہوں۔‬ ‫دوسرے معنی يہ ہيں کہ اگر يہ چاہتے ہو کہ دوسرے کو برائی سے روکو تو پہلے خود اس برائی سے باز آؤ‪ .‬اس طرح تمہاری‬ ‫نصيحت دوسرے پر اثر انداز ہوسکتی ہے ورنہ بے اثر ہوکر ره جائے گی۔‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫‪ 179‬ضد اور ہٹ دھرمی صحيح رائے کو دور کرديتی ہے۔‬

‫‪ 180‬اللچ ہميشہ کی غالمی ہے۔‬

‫اقوال امام علی )عليہ السالم (از نہج البالغہ‬ ‫ِ‬ ‫اقوال ‪ ١٨١‬تا ‪٢١٠‬‬ ‫‪ 181‬کوتاہی کا نتيجہ شرمندگی اوراحتياط و دور انديشی کا نتيجہ سالمتی ہے‪.‬‬

‫‪ 182‬حکيمانہ بات سے خاموشی اختيار کرنے ميں بھالئی نہيں جس طرح‬ ‫جہالت‬

‫بات‬

‫کی‬

‫ميں‬

‫کوئی‬

‫اچھائی‬

‫نہيں۔‬

‫‪ 183‬جب دو مختلف دعوتيں ہوں گی‪ ,‬تو ان ميں سے ايک ضرور گمراہی کی‬ ‫ہوگی۔‬

‫دعوت‬

‫‪ 184‬جب سے مجھے حق دکھايا گيا ہے ميں نے اس ميں کبھی شک نہيں کيا۔‬

‫‪ 185‬نہ ميں نے جھوٹ کہا ہے نہ مجھے جھوٹی خبر دی گئی ہے نہ ميں خود‬ ‫گمراه‬

‫ہوا‪،‬‬

‫نہ‬

‫مجھے‬

‫گمراه‬

‫کيا‬

‫گيا۔‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫‪ 186‬ظلم ميں پہل کرنے واال کل )مذامت سے( اپنا ہاتھ اپنے دانتوں سے کاٹتا‬ ‫ہوگا۔‬

‫‪187‬‬

‫‪188‬‬

‫چل‬

‫جو‬

‫حق‬

‫سے‬

‫چالؤقريب‬

‫منہ‬

‫موڑ‬

‫تا‬

‫ہے‪،‬‬

‫ہے۔‬

‫تباه‬

‫ہوجاتا‬

‫ہے۔‬

‫‪ 189‬جسے صبر رہائی نہيں دالتا‪ ،‬اسے بے تابی و بے قرار ی ہالک کر ديتی‬ ‫ہے۔‬

‫‪ 190‬العجب کيا خالفت کا معيار بس صحابيت اور قرابت ہی ہے۔‬ ‫سيد رضی کہتے ہيں کہ اس مضمون کے اشعار بھی حضرت سے مروی ہيں جو يہ ہيں۔ اگر تم شوری کے ذريعہ لوگوں کے سياه و‬ ‫سفيد کے مالک ہوگئے ہو تو يہ کيسے جب کہ مشوره دينے کے حقدار افراد غير حاضر تھے اور اگر قرابت کی وجہ سے تم اپنے‬ ‫حريف پر غالب آئے ہو تو پھر تمہارے عالوه دوسر ا نبی کا زياده حقدار اور ان سے زياده قريبی ہے۔‬

‫‪191‬دنيا ميں انسان موت کی تير اندازی کا ہدف اور مصيبت و ابتالء کی‬ ‫غارت گری کی جوالنگاه ہے جہاں ہر گھونٹ کے ساتھ اچھو اور ہر لقمہ ميں‬ ‫گلو گير پھندا ہے اور جہاں بنده ايک نعمت اس وقت تک نہيں پاتا جب تک‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫دوسری نعمت جدا نہ ہو جائے اور اس کی عمر کا ايک دن آتا نہيں جب تک‬ ‫کہ ايک دن اس کی عمر کا کم نہ ہوجائے ہم موت کے مددگار ہيں اور ہماری‬ ‫جانيں ہالکت کی زد پر ہيں تو اس صورت ميں ہم کہاں سے بقا کی اميد کر‬ ‫سکتے ہيں جب کہ شب و روز کسی عمارت کو بلند نہيں کرتے مگر يہ کہ‬ ‫حملہ آور ہو کر جو بنايا ہے اسے گراتے اور جو يکجا کيا ہے اسے بکھير تے‬ ‫ہيں۔‬

‫ہوتے‬

‫‪ 192‬اے فرزند آدم عليہ السّالم! تو نے اپنی غذا سے جو زياده کمايا ہے اس‬ ‫دوسرے‬

‫ميں‬

‫خزانچی‬

‫کا‬

‫ہے۔‬

‫‪ 193‬دلوں کے ليے رغبت و ميالن‪ ،‬آگے بﮍھنا اور پيچھے ہٹنا ہوتا ہے۔ ل ٰہذا‬ ‫ان سے اس وقت کام لو جب ان ميں خواہش و ميالن ہو‪ ،‬کيونکہ دل کو مجبور‬ ‫کرکے کسی کام پر لگايا جائے تو اسے کچھ سجھائی نہيں ديتا۔‬

‫‪ 194‬جب غصہ مجھے آئے تو کب اپنے غصہ کو اتاروں کيا اس وقت کہ جب‬ ‫انتقام نہ لے سکوں اور يہ کہا جائے کہ صبر کيجئے۔ يا اس وقت کہ جب انتقام‬ ‫پر‬

‫قدرت‬

‫ہو‬

‫اور‬

‫کہا‬

‫جائے‬

‫کہ‬

‫بہتر‬

‫ہے‬

‫درگزر‬

‫کيجئے۔‬

‫‪ 195‬آپ کا گزر ہوا ايک گھورے کی طر ف سے جس پر غالظتيں تھيں۔‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫فرمايا۔ يہ وه ہے جس کے ساتھ بخل کرنے والوں نے بخل کيا تھا‪.‬ايک اور‬ ‫روايت ميں ہے کہ اس موقع پر آپ نے فرمايا ‪:‬يہ وه ہے جس پر تم لوگ کل‬ ‫ايک‬

‫دوسرے‬

‫پر‬

‫رشک‬

‫کرتے‬

‫تھے۔‬

‫‪ 196‬تمہار ا وه مال اکارت نہيں گيا جو تمہارے ليے عبرت و نصيحت کا‬ ‫باعث بن جائے۔‬ ‫جو شخص مال و دولت کھو کر تجربہ و نصيحت حاصل کرے اسے ضياع مال کی فکر نہ کر نا چاہيے اور مال کے مقابلہ ميں تجربہ کو‬ ‫گراں سمجھنا چاہيے۔ کيونکہ مال تو يوں بھی ضائع ہوجاتا ہے مگر تجربہ آئنده کے خطرات سے بچالے جاتا ہے۔ ايک عالم سے جو‬ ‫مالدار ہونے کے بعد فقير و نادار ہوچکا تھا‪ ،‬پوچھا گيا کہ تمہارا مال کيا ہوا ؟ اس نے کہا کہ ميں نے اس سے تجربات خريد ليے ہيں‬ ‫جو ميرے ليے مال سے زياده فائده مند ثابت ہوئے ہيں۔ لہٰ ذا سب کچھ کھو دينے کے بعد بھی ميں نقصان ميں نہيں رہا ہوں۔‬

‫‪ 197‬يہ دل بھی اسی طرح تھکتے ہيں جس طرح بدن تھکتے ہيں۔ لہٰذا )جب‬ ‫ايسا ہو تو (ان کے ليے لطيف حکيمانہ جملے تالش کرو‬ ‫‪198‬جب خوار ج کا قول «الَ حُک َم اِالﱠ ٰ ّ‬ ‫ﷲ »)حکم ﷲ سے مخصوص ہے (سنا‬ ‫تو فرمايا ‪:‬يہ جملہ صحيح ہے مگرجو اس سے مراد ليا جاتا ہے وه غلط ہے۔‬

‫‪ 199‬بازاری آدميوں کی بھيﮍ بھاڑ کے بارے ميں فرمايا‪ :‬يہ وه لوگ ہوتے ہيں‬ ‫کہ مجتمع ہوں تو چھا جاتے ہيں۔ جب منتشر ہوں تو پہچانے نہيں جاتے۔ ايک‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫قول يہ ہے کہ آپ نے فرمايا ‪:‬کہ جب اکٹھا ہوتے ہيں تو باعث ضرر ہوتے ہيں‬ ‫اور جب منتشر ہوجاتے ہيں تو فائده مند ثابت ہوتے ہيں لوگوں نے کہا کہ ہميں‬ ‫ان کے مجتمع ہونے کا نقصان تو معلوم ہے مگر ان کے منتشر ہونے کا فائده‬ ‫کيا ہے؟ آپ نے فرمايا کہ پيشہ ور اپنے اپنے کاروبار کی طرف پلٹ جاتے‬ ‫ہيں تو لوگ ان کے ذريعہ فائده اٹھاتے ہيں جيسے معمار اپنی )زير تعمير‬ ‫(عمار ت کی طرف جوالہا اپنے کاروبار کی جگہ کی طرف اور نانبائی اپنے‬ ‫تنور‬

‫کی‬

‫طرف‪.‬‬

‫‪ 200‬آپ کے سامنے ايک مجرم اليا گيا جس کے ساتھ تماشائيوں کا ہجوم تھا‬ ‫توآ پ نے فرمايا ‪:‬ان چہروں پر پھٹکار کہ جو ہر رسوائی کے موقع پر ہی‬ ‫نظر‬

‫آتے‬

‫ہيں۔‬

‫‪201‬ہر انسان کے ساتھ دو فرشتے ہوتے ہيں جو اس کی حفاظت کرتے ہيں‬ ‫اور جب موت کا وقت آتا ہے تو وه اس کے اور موت کے درميان سے ہٹ‬ ‫جاتے ہيں اور بے شک انسان کی مقرره عمر اس کے ليے ايک مضبوط سپر‬ ‫ہے‪.‬‬

‫‪ 202‬طلحہ وزبير نے حضرت سے کہا کہ ہم اس شرط پر آپ کی بيعت کرتے‬ ‫ہيں کہ اس حکومت ميں آپ کے ساتھ شريک رہيں گے۔ آپ نے فرمايا کہ نہيں‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫بلکہ تم تقويت پہنچانے اور ہاتھ بٹانے ميں شريک اور عاجزی اور سختی کے‬ ‫موقع‬

‫مددگار‬

‫پر‬

‫گے‪.‬‬

‫ہو‬

‫‪ 203‬اے لوگو! ﷲ سے ڈرو کہ اگر تم کچھ کہو تو وه سنتا ہے اور دل ميں‬ ‫چھپاکر رکھو تو وه جان ليتا ہے اس موت کی طر ف بﮍھنے کا سرو سامان‬ ‫کرو کہ جس سے بھاگے تو وه تمہيں پالے گی اور اگر ٹھہرے تو وه تمہيں‬ ‫گرفت ميں لے لے گی اور اگر تم اسے بھول بھی جاؤ تو وه تمہيں ياد رکھے‬ ‫گی۔‬

‫‪ 204‬کسی شخص کا تمہارے حسن سلوک پر شکر گزا ر نہ ہونا تمہيں نيکی‬ ‫اور بھالئی سے بددل نہ بنا دے اس ليے کہ بسا اوقات تمہاری اس بھالئی کی‬ ‫وه قدر کرے گا‪ ،‬جس نے اس سے کچھ فائده بھی نہيں اٹھايا اور اس ناشکرے‬ ‫نے جتنا تمہاراحق ضائع کيا ہے‪ ،‬اس سے کہيں زياده تم ايک قدردان کی قدر‬ ‫دانی سے حاصل کرلو گے اور خدا نيک کام کرنے والوں کو دوست رکھتا‬ ‫ہے۔‬

‫‪ 205‬ہر ظرف اس سے کہ جو اس ميں رکھا جائے تنگ ہوتا جاتا ہے‪ ،‬مگر‬ ‫علم‬

‫کا‬

‫ظرف‬

‫وسيع‬

‫ہوتا‬

‫جاتا‬

‫ہے۔‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫‪ 206‬بردبار کو اپنی بردباری کا پہال عوض يہ ملتا ہے۔ کہ لوگ جہالت‬ ‫دکھانے‬

‫والے‬

‫کے‬

‫خالف‬

‫اس‬

‫کے‬

‫طرفدار‬

‫ہوجاتے‬

‫ہيں۔‬

‫‪ 207‬اگر تم بردبار نہيں ہو تو بظاہر برد بار بننے کی کوشش کرو‪ ،‬کيونکہ‬ ‫ايسا کم ہوتا ہے کہ کوئی شخص کسی جماعت سے شباہت اختيار کرے اور ان‬ ‫ميں سے نہ ہو جائے۔‬ ‫مطلب يہ ہے کہ اگر انسان طبعا ً حليم و برد بار ہو تو سے برد بار بننے کی کوشش کرنا چاہيے۔ اس طرح کہ اپنی افتاده طبيعت کے‬ ‫خالف حلم و بردباری کا مظاہره کرے اگرچہ طبيعت کا رخ موڑنے ميں کچھ زحمت محسوس ہوگی مگر اس کا نتيجہ يہ ہو گا کہ آہستہ‬ ‫آہستہ حلم طبعی خصلت کی صور ت اختيار کر لے گا اور پھر تکلف کی حاجت نہ رہے گی کيونکہ عادت رفتہ رفتہ طبيعت ثانيہ بن جايا‬ ‫کرتی ہے۔‬

‫‪ 208‬جو شخص اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے وه فائده اٹھاتا ہے اور جو غفلت‬ ‫کرتا ہے وه نقصان ميں رہتا ہے جو ڈرتا ہے وه )عذاب سے (محفوظ ہو جاتا‬ ‫ہے اور جو عبرت حاصل کرتا ہے وه بينا ہوجاتا ہے اور جو بينا ہوجاتا ہے وه‬ ‫بافہم ہوجاتا ہے اور جو بافہم ہوتا ہے اسے علم حاصل ہوتا ہے۔‬

‫‪ 209‬يہ دنيا منہ زور ی دکھانے کے بعد پھر ہماری طرف جھکے گی جس‬ ‫طرح کاٹنے والی اونٹنی اپنے بچے کی طرف جھکتی ہے۔ اس کے بعد‬ ‫حضرت نے اس آيت کی تالوت فرمائی۔ ہم يہ چاہتے ہيں کہ جو لوگ زمين‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫ميں کمزور کرديئے گئے ہيں‪ ،‬ان پر احسان کريں اور ان کو پيشوا بنائيں اور‬ ‫انہی کو اس زمين کا مالک بنائيں۔‬ ‫يہ ارشاد امام منتظر کے متعلق ہے جو سلسلہ امامت کے آخری فرد ہيں۔ ان کے ظہور کے بعد تمام سلطنتيں اور حکومتيں ختم ہوجائيں‬ ‫گی‬

‫اور‬

‫«ليظھره‬

‫علی‬

‫الدين‬

‫کلہ‬

‫»کا‬

‫مکمل‬

‫نمونہ‬

‫نگاہوں‬

‫کے‬

‫سامنے‬

‫آجائے‬

‫گا‬

‫سالم آخر زمان آيد پديد‬ ‫ہر کسے رادو لتے از آسمان آيد پديد دولت آل علی عليہ ال ّ‬

‫‪ 210‬ﷲ سے ڈرو اس شخص کے ڈرنے کے مانند جس نے دنيا کی وابستگيوں‬ ‫کو چھوڑ کر دامن گردان ليا اور دامن گردان کر کوشش ميں لگ گيا اور‬ ‫اچھائيوں کے ليے اس وقفہ حيات ميں تيز گامی کے ساتھ چال اور خطروں‬ ‫کے پيش نظر اس نے نيکيوں کی طرف قدم بﮍھايا اور اپنی قرار گاه اور اپنے‬ ‫اعمال کے نتيجہ اور انجام کار کی منزل پر نظر رکھی۔‬

‫اقوال امام علی )عليہ السالم (از نہج البالغہ‬ ‫ِ‬ ‫اقوال ‪ ٢١١‬تا ‪٢۴٠‬‬ ‫‪ 211‬سخاوت عزت آبر و کی پاسبان ہے بُرد باری احمق کے منہ کا تسمہ ہے‪،‬‬ ‫درگزر کرنا کاميابی کی ٰ‬ ‫زکوة ہے‪ ،‬جو غداری کرے اسے بھول جانا اس کا‬ ‫بدل ہے۔ مشوره لينا خود صحيح راستہ پا جانا ہے جو شخص رائے پر اعتماد‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫کرکے بے نياز ہوجاتا ہے وه اپنے کو خطره ميں ڈالتا ہے۔ صبر مصائب و‬ ‫حوادث کا مقابلہ کرتا ہے۔ بيتابی و بيقرار ی زمانہ کے مدد گاروں ميں سے‬ ‫ہے۔ بہتر ين دولتمندی آرزوؤں سے ہاتھ اٹھا لينا ہے۔ بہت سی غالم عقليں‬ ‫اميروں کی ہوا و ہوس کے بارے ميں دبی ہوئی ہيں۔ تجربہ و آزمائش کی‬ ‫نگہداشت حسن توفيق کا نتيجہ ہے دوستی و محبت اکتسابی قرابت ہے جو تم‬ ‫سے رنجيده و دل تنگ ہو اس پر اطمينا ن و اعتماد نہ کرو۔‬

‫‪ 212‬انسان کی خود پسندی اس کی عقل کے حريفوں ميں سے ہے۔‬ ‫مطلب يہ ہے کہ جس طرح حاسد محسود کی کسی خوبی و حسن کو نہيں ديکھ سکتا‪ ،‬اسی طرح خود پسندی عقل کے جوہر کا ابھرنا‬ ‫اور اس کے خصائص کا نماياں ہونا گوارا نہيں کرتی۔ جس سے مغرور خود بين انسان ان عادات و خصائل سے محروم رہتا ہے‪ ،‬جو‬ ‫عقل کے نزديک پسنديده ہوتے ہيں۔‬

‫‪ 213‬تکليف سے چشم پوشی کر و۔ ورنہ کبھی خوش نہيں ره سکتے۔‬ ‫ہر شخص ميں کوئی نہ کوئی خامی ضرور ہوتی ہے۔ اگر انسان دوسروں کی خاميوں اور کمزوريوں سے متاثر ہوکر ان سے عليحدگی‬ ‫اختيار کرتا جائے‪ ،‬تو رفتہ رفتہ وه اپنے دوستوں کو کھودے گا‪ ،‬اور دنيا ميں تنہا اور بے يارو مددگار ہوکر ره جائے گا‪ ،‬جس سے اس‬ ‫کی زندگی تلخ اور الجھنيں بﮍھ جائيں گی۔ ايسے موقع پر انسان کو يہ سوچنا چاہيے کہ اس معاشره ميں اسے فرشتے نہيں مل سکتے‬ ‫کہ جن سے اسے کبھی کوئی شکايت پيدا نہ ہو اسے انہی لوگو ں ميں رہنا سہنا اور انہی لوگوں ميں زندگی گزارنا ہے۔ لہٰ ذا جہاں تک‬ ‫ہوسکے ان کی کمزوريوں کو نظر انداز کرے اور ان کی ايذا رسانيوں سے چشم پوشی کر تا رہے۔‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫‪ 214‬جس )درخت( کی لکﮍی نرم ہو اس کی شاخيں گھنی ہوتی ہيں۔‬ ‫جو شخص تند خو اور بدمزاج ہو‪ ,‬وه کبھی اپنے ماحول کو خوش گوار بنانے ميں کامياب نہيں ہوسکتا۔ بلکہ اس کے ملنے والے بھی‬ ‫اس کے ہاتھوں‪ ،‬ناالں اور اس سے بيزار رہيں گے اور جو خوش خلق اور شيريں زبان ہولوگ اس کے قرب کے خواہاں اور اس کی‬ ‫دوستی کے خواہشمند ہوں گے اور وقت پﮍنے پر اس کے معاون و مددگار ثابت ہوں گے جس سے وه اپنی زندگی کو کامياب بنا لے‬ ‫جاسکتا ہے۔‬

‫‪215‬‬

‫‪216‬‬

‫مخالفت‬

‫جو‬

‫صحيح‬

‫منصب‬

‫پاليتا‬

‫رائے‬

‫ہے‬

‫دست‬

‫برباد‬

‫کو‬

‫درازی‬

‫کرديتی‬

‫ہے۔‬

‫لگتا‬

‫ہے۔‬

‫کرنے‬

‫‪ 217‬حاالت کے پلٹوں ہی ميں مردوں کے جوہر کھلتے ہيں۔‬

‫‪218‬‬

‫دوست‬

‫کا‬

‫حسد‬

‫کرنا‬

‫دوستی‬

‫کی‬

‫خامی‬

‫ہے۔‬

‫‪ 219‬اکثر عقلوں کا ٹھوکر کھا کر گرنا طمع و حرص کی بجلياں چمکنے‬ ‫پرہوتا ہے۔‬ ‫جب انسان طمع و حرص ميں پﮍ جاتا ہے تو رشوت‪ ،‬چوری‪ ،‬خيانت‪ ،‬سود خور ی اور اس قبيل کے دوسرے اخالقی عيوب اس ميں پيدا‬ ‫ہوجاتے ہيں اور عقل ان باطل خواہشوں کی جگمگاہٹ سے اس طرح خير ه ہوجاتی ہے کہ اسے ان قبيح افعال کے عواقب و نتائج نظر‬ ‫ہی نہيں آتے کہ وه اسے روکے ٹوکے اور اس خواب غفلت سے جھنجھوڑے البتہ جب دنيا سے رخت سفر باندھنے پر تيار ہوتاہے اور‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫ديکھتا ہے کہ جو کچھ سميٹا تھا وه يہيں کے ليے تھا ساتھ نہيں لے جاسکتا‪ ،‬تو اس وقت آنکھيں کھلتی ہيں۔‬

‫‪ 220‬يہ انصاف نہيں ہے کہ صرف ظن و گمان پر اعتماد کرتے ہوئے فيصلہ‬ ‫جائے۔‬

‫کيا‬

‫‪ 221‬آخرت کے ليے بہت برا توشہ ہے بندگا ن خدا پر ظلم و تعدی کرنا۔‬

‫‪ 222‬بلند انسان کے بہتر ين افعال ميں سے يہ ہے کہ وه ان چيزوں سے چشم‬ ‫پوشی‬

‫کرے‬

‫جنہيں‬

‫وه‬

‫نہيں‬

‫جانتا‬

‫ہے۔‬

‫‪ 223‬جس پر حيا نے اپنا لباس پہنا ديا ہے اس کے عيب لوگوں کی نظروں کے‬ ‫سامنے نہيں آسکتے۔‬ ‫جو شخص حيا کے جو ہر سے آراستہ ہوتا ہے اس کے ليے حيا ايسے امور کے ارتکاب سے مانع ہوتی ہے جو معيوب سمجھے جاتے‬ ‫ہيں۔ اس ليے اس ميں عيب ہوتا ہی نہيں کہ دوسرے ديکھيں اور اگر کسی امر قبيح کا اس سے ارتکاب ہو بھی جاتا ہے تو حيا کی وجہ‬ ‫سے عالنيہ مرتکب نہين ہوتا کہ لوگوں کی نگاہيں اس کے عيب پر پﮍسکيں۔‬

‫‪ 224‬زياده خاموشی رعب و ہيبت کا باعث ہوتی ہے۔ اور انصاف سے دوستوں‬ ‫ميں اضافہ ہوتا ہے لطف و کرم سے قدر و منزلت بلند ہوتی ہے جھک کر‬ ‫ملنے سے نعمت تمام ہوتی ہے۔ دوسروں کا بوجھ بٹانے سے الزما ً سرداری‬ ‫حاصل ہوتی ہے اور خوش رفتاری سے کينہ ور دشمن مغلوب ہوتا ہے اور‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫سر پھر ے آدمی کے مقابلہ ميں بردباری کرنے سے اس کے مقابلہ ميں اپنے‬ ‫زياده‬

‫طرفدار‬

‫ہيں۔‬

‫ہوجاتے‬

‫‪ 225‬تعجب ہے کہ حاسد جسمانی تندرستی پر حسد کرنے سے کيوں غافل‬ ‫ہوگئے‪.‬‬ ‫حاسد دوسروں کے مال و جاه پر تو حسد کرتا ہے۔ مگر ان کی صحت و توانائی پر حسد نہيں کرتا حاالنکہ يہ نعمت تمام نعمتوں سے‬ ‫زياده گرانقدر ہے۔ وجہ يہ ہے کہ دولت و ثروت کے اثرات ظاہری طمطراق اور آرام و آسائش کے اسباب سے نگاہوں کے سامنے‬ ‫ہوتے ہيں اور صحت ايک عمومی چيز قرار پاکر نا قدری کا شکار ہوجا تی ہے اور اسے اتنا بے قدر سمجھا جاتا ہے کہ حاسد بھی‬ ‫اسے حسد کے قابل نہيں سمجھتے۔ چنانچہ ايک دولت مند کو ديکھتا ہے تو ا س کے مال ودولت پر اسے حسد ہوتا ہے اور ايک مزدور‬ ‫کو ديکھا کہ جو سر پر بوجھ اٹھائے دن بھر چلتا پھرتا ہے تو وه اس کی نظر وں ميں قابل حسد نہيں ہوتا۔ گويا صحت و توانائی اس‬ ‫کے نزديک حسد کے الئق چيز نہيں ہے کہ اس پر حسد کرے البتہ جب خود بيمار پﮍتا ہے تواسے صحت کی قدر و قيمت کا اندازه ہوتا‬ ‫ہے اور اس موقع پر اسے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے زياده قابل حسد يہی صحت ہے جو اب تک اس کی نظرو ں ميں کوئی اہميت نہ‬ ‫تھی‪.‬‬

‫رکھتی‬ ‫مقصد يہ ہے کہ صحت کو ايک گرانقدر نعمت سمجھنا چاہيے اور اس کی حفاظت و نگہداشت کی طر ف متوجہ رہنا چاہيے‬

‫‪ 226‬طمع کرنے واال ذلت کی زنجيروں ميں گرفتار رہتا ہے۔‬

‫‪ 227‬آپ سے ايمان کے متعلق پوچھا گيا تو فرمايا کہ ايمان دل سے پہچاننا‪،‬‬ ‫زبان‬

‫سے‬

‫اقرار‬

‫کرنا‬

‫اور‬

‫اعضا‬

‫سے‬

‫عمل‬

‫کرنا‬

‫ہے‪.‬‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫‪ 228‬جو دنيا کے ليے اندوہناک ہو وه قضا و قدر الہی سے ناراض ہے اور جو‬ ‫اس مصيبت پر کہ جس ميں مبتال ہے شکوه کرے تو وه اپنے پروردگار کا‬ ‫شاکی ہے اور جو کسی دولت مند کے پاس پہنچ کر اس کی دولتمندی کی وجہ‬ ‫سے جھکے تو اس کا دو تہائی دين جاتا رہتا ہے اور جو شخص قرآن کی‬ ‫تالوت کرے پھر مر کر دوزخ ميں داخل ہو تو ايسے ہی لوگوں ميں سے ہوگا‪،‬‬ ‫جو ﷲ کی آيتوں کا مذاق اڑاتے تھے اور جس کا دل دنيا کی محبت ميں وارفتہ‬ ‫ہوجائے تو اس کے دل ميں دنيا کی يہ تين چيزيں پيوست ہوجاتی ہيں۔ ايسا غم‬ ‫کہ جو اس سے جدا نہيں ہوتا اور ايسی حرص کہ جو اس کا پيچھا نہيں‬ ‫چھوڑتی‬

‫اور‬

‫ايسی‬

‫اميد‬

‫کہ‬

‫جو‬

‫بر‬

‫نہيں‬

‫آتی۔‬

‫‪ 229‬قناعت سے بﮍھ کر کوئی سلطنت اور خو ش خلقی سے بﮍھ کر کوئی‬ ‫عيش و آرام نہيں ہے۔ حضرت سے اس آيت کے متعلق دريافت کياگيا کہ «ہم‬ ‫اس کو پاک و پاکيزه زندگی ديں گے »؟ آپ نے فرمايا کہ وه قناعت ہے۔‬ ‫حسن خلق کو نعمت سے تعبير کرنے کی وجہ يہ ہے کہ جس طرح نعمت باعث لذت ہوتی ہے اسی طرح انسان خوش اخالقی و نرمی‬ ‫سے دوسروں کے دلوں کو اپنی مٹھی ميں لے کر اپنے ماحول کو خوش گوار بناسکتا ہے۔ اور اپنے ليے لذت و راحت کا سامان کر نے‬ ‫ميں کامياب ہوسکتا ہے اور قناعت کو سرمايہ و جاگير اس ليے قرار ديا ہے کہ جس طرح ملک و جاگير احتياج کو ختم کرديتی ہے اسی‬ ‫طرح جب انسان قناعت اختيار کرليتا ہے اور اپنے رزق پر خوش رہتا ہے تو وه خلق سے مستغنی اور احتياج سے دور ہوتا ہے۔‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫ہر قانع شد بخشک و تر شہ بحر و برداشت‬

‫فراخ روزی کئے ہوئے ہو اس کے ساتھ شرکت کرو‪،‬‬ ‫‪ 230‬جس کی طرف‬ ‫ِ‬ ‫کيونکہ اس ميں دولت حاصل کرنے کا زياده امکان اور خوش نصيبی کا زياده‬ ‫ہے۔‬

‫قرينہ‬

‫‪231‬خدا وند عالم کے ارشاد کے مطابق کہ ﷲ تمہيں عدل و احسان کا حکم ديتا‬ ‫ہے۔‬

‫فرمايا‬

‫!‬

‫عدل‬

‫انصاف‬

‫ہے‬

‫اور‬

‫احسان‬

‫لطف‬

‫و‬

‫کرم۔‬

‫‪ 232‬جو عاجز و قاصر ہاتھ سے ديتا ہے اسے بااقتدار ہاتھ سے ملتا ہے۔‬ ‫سيد رضی کہتے ہيں کہ اس جملہ کا مطلب يہ ہے کہ انسان اپنے مال ميں سے کچھ خير و نيکی کی راه ميں خر چ کرتا ہے اگرچہ وه کم‬ ‫ہو‪ ،‬مگر خداوند عالم اس کا اجر بہت زياده قرارديتا ہے اور اس مقام پر دو ہاتھوں سے مراد دو نعمتيں ہيں اور اميرالمومنين عليہ‬ ‫السالم نے بنده کی نعمت اور پروردگار کی نعمت ميں فرق بتايا ہے کہ وه تو عجز و قصور کی حامل ہے اور و ه بااقتدار ہے۔ کيونکہ ﷲ‬ ‫کی عطاکرده نعمتيں مخلوق کی دی ہوئی نعمتوں سے ہميشہ بدر جہا بﮍھی چﮍھی ہوتی ہيں۔ اس ليے کہ ﷲ ہی کی نعمتيں تمام نعمتوں‬ ‫کا سر چشمہ ہيں۔ لہٰ ذا ہر نعمت انہی نعمتوں کی طرف پلٹتی ہے‪ ،‬اور انہی سے وجود پاتی ہے۔‬

‫‪233‬‬

‫اپنے‬

‫فرزند‬

‫امام‬

‫حسن‬

‫عليہ‬

‫السّالم‬

‫سے‬

‫فرمايا‬

‫‪:‬‬

‫کسی کو مقابلہ کے ليے خود نہ للکارو۔ ہاں اگر دوسرا للکارے تو فورا ًجواب‬ ‫دو۔ اس ليے کہ جنگ کی خود سے دعوت دينے واال زيادتی کرنے واال ہے‪،‬‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫اور زيادتی کرنے واال تباه ہوتا ہے۔‬ ‫مقصد يہ ہے کہ اگر دشمن آماده پيکار ہو اور جنگ ميں پہل کرے تو اس موقع پر اس کی روک تھا م کے ليے قد م اٹھا نا چاہيے اور از‬ ‫خود حملہ نہ کرنا چاہيے۔ کيونکہ يہ سرا سر ظلم و تعدی ہے اور جو ظلم وتعدی کا مرتکب ہوگا‪ ،‬وه اس کی پاداش ميں خاک مذلت پر‬ ‫سالم ہميشہ دشمن کے للکارنے پر ميدان ميں آتے اور خود سے دعوت مقابلہ نہ ديتے‬ ‫پچھاڑ ديا جائے گا۔ چنانچہ اميرالمومنين عليہ ال ّ‬ ‫تھے۔‬

‫چنانچہ‬

‫ابن‬

‫الحديد‬

‫تحرير‬

‫کرتے‬

‫ہيں۔‬

‫ہمارے سننے ميں نہيں آياکہ حضرت نے کبھی کسی کو مقابلہ کے ليے للکا ر ا ہو بلکہ جب مخصوص طور پر آپ کو دعوت مقابلہ دی‬ ‫جاتی تھی يا عمومی طور پر دشمن للکارتا تھا‪ ،‬تو اس کے مقابلہ ميں نکلتے تھے اور سے قتل کرديتے تھے۔ )شرح ابن ابی الحديد‪،‬‬ ‫جلد ‪ ،4‬صفحہ ‪(344‬‬

‫‪ 234‬عورتوں کی بہتر ين خصلتيں وه ہيں جو مردوں کی بدترين صفتيں ہيں۔‬ ‫غرور‪ ،‬بزدلی اور کنجوسی اس ليے کہ عورت جب مغرور ہوگی‪ ،‬تو وه کسی‬ ‫کو اپنے نفس پر قابو نہ دے گی اور کنجوس ہوگی تو اپنے اور شوہر کے مال‬ ‫کی حفاظت کرے گی اور بزدل ہوگی تو وه ہر اس چيز سے ڈرے گی جو پيش‬ ‫گی۔‬

‫آئے‬

‫‪ 235‬آپ عليہ السّالم سے عرض کياگيا کہ عقلمند کے اوصاف بيان کيجئے۔‬ ‫فرمايا! عقلمند وه ہے جو ہر چيز کو اس کے موقع و محل پر رکھے۔ پھر آپ‬ ‫سے کہا گيا کہ جاہل کا وصف بتايئے تو فرمايا ميں بيان کر چکا۔‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫سيد رضی فرماتے ہيں کہ مقصد يہ ہے کہ جاہل وه ہے جو کسی چيز کو اس کے موقع و محل پر نہ رکھے۔ گويا حضرت کا اسے نہ‬ ‫بيان کر نا ہی بيان کرنا ہے۔ کيونکہ اس کے اوصاف عقلمند کے اوصاف کے برعکس ہيں۔‬

‫‪ 236‬خد ا کی قسم تمہاری يہ دنيا ميرے نزديک سور کی انتﮍيوں سے بھی‬ ‫زياده‬

‫ذليل‬

‫ہے‬

‫جو‬

‫کسی‬

‫کوڑھی‬

‫کے‬

‫ہاتھ‬

‫ميں‬

‫ہوں۔‬

‫پيش نظر‬ ‫‪ 237‬ايک جماعت نے ﷲ کی عبادت ثواب کی رغبت و خواہش کے‬ ‫ِ‬ ‫کی‪ ،‬يہ سودا کرنے والوں کی عبادت ہے اور ايک جماعت نے خوف کی وجہ‬ ‫سے اس کی عبادت کی‪ ،‬اور يہ غالموں کی عبادت ہے او ر ايک جماعت نے‬ ‫ازروئے شکر و سپاس گزاری اس کی عبادت کی‪ ،‬يہ آزادوں کی عبادت ہے۔‬

‫‪ 238‬عورت سراپا برائی ہے اور سب سے بﮍی برائی اس ميں يہ ہے کہ اس‬ ‫کے‬

‫بغير‬

‫چاره‬

‫نہيں۔‬

‫‪ 239‬جو شخص سستی و کاہلی کرتاہے وه اپنے حقوق کو ضائع وبرباد کرديتا‬ ‫ہے اور جو چغل خور کی بات پر اعتماد کر تا ہے‪ ،‬وه دوست کو اپنے ہاتھ‬ ‫سے‬

‫کھو‬

‫ديتا‬

‫ہے‪.‬‬

‫‪ 240‬گھر ميں ايک غصبی پتھر اس کی ضمانت ہے کہ وه تباه و بربا د ہوکر‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫رہے گا۔‬ ‫سيد رضی فرماتے ہيں کہ ايک روايت ميں يہ کالم رسالت مآب صلی ﷲ عليہ وآلہ وسلم سے منقول ہوا ہے اور اس ميں تعجب ہی کيا‬ ‫ہے کہ دونوں کے کالم ايک دوسرے کے مثل ہوں کيونکہ دونوں کا سر چشمہ تو ايک ہی ہے‪.‬‬

‫اقوال امام علی )عليہ السالم (از نہج البالغہ‬ ‫ِ‬ ‫اقوال ‪ ٢۴١‬تا ‪٢٧٠‬‬ ‫‪ 241‬مظلوم کے ظالم پر قابو پانے کا دن اس دن سے کہيں زياده ہوگا جس ميں‬ ‫ظالم مظلوم کے خالف اپنی طاقت دکھاتا ہے۔‬ ‫دنيا ميں ظلم سہہ لينا آسان ہے‪ .‬مگر آخرت ميں اس کی سزا بھگتنا آسان نہيں ہے۔ کيونکہ ظلم سہنے کا عرصہ زندگی بھر کيوں نہ ہو‬ ‫پھر بھی محدود ہے۔ اور ظلم کی پاداش جہنم ہے‪ ،‬جس کا سب سے زياده ہولنا ک پہلو ہے کہ وہا ں زندگی ختم نہ ہو گی کہ موت دوزخ‬ ‫کے عذاب سے بچا لے جائے چنانچہ ايک ظالم اگر کسی کو قتل کر ديتا ہے تو قتل کے ساتھ ظلم کی حد بھی ختم ہوجائے گی‪ ،‬اور اب‬ ‫اس کی گنجائش نہ ہو گی کہ اس پر مزيد ظلم کيا جاسکے مگر اس کی سزا يہ ہے کہ اسے ہميشہ کے ليے دوزخ ميں ڈاال جائے کہ‬ ‫جہاں‬

‫اپنے‬

‫وه‬

‫کئے‬

‫کی‬

‫سزا‬

‫رہے۔‬

‫بھگتتا‬

‫پنداشت ستمگر کہ جفا برما کرد درگرد ن او بماند ر برما بگذشت‬

‫‪ 242‬ﷲ سے کچھ تو ڈرو‪ ،‬چاہے وه کم ہی ہو‪ ،‬اور اپنے اور ﷲ کے درميان‬ ‫کچھ‬

‫تو‬

‫پرده‬

‫رکھو‪،‬‬

‫چاہے‬

‫وه‬

‫باريک‬

‫ہی‬

‫سا‬

‫ہو۔‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫‪ 243‬جب )ايک سوال کے ليے( جوابات کی بہتات ہوجائے توصحيح بات‬ ‫چھپ جايا کرتی ہے۔‬ ‫اگر کسی سوال کے جواب ميں ہر گوشہ سے آوازيں بلند ہونے لگيں۔ تو ہر جواب نئے سوال کا تقاضا بن کر بحث و جدل کا دروازه‬ ‫کھول دے گا اور جوں جوں جوابات کی کثرت ہوگی‪ ،‬اصل حقيقت کی کھوج اور صحيح جواب کی سراغ رسائی مشکل ہوجائے گی۔‬ ‫کيونکہ ہر شخص اپنے جواب کو صحيح تسليم کرانے کے ليے ادھر ادھر سے دالئل فراہم کرنے کی کوشش کرے گا جس سے سارا‬ ‫معاملہ الجھاؤ ميں پﮍجائے گا۔ اور يہ خواب کثرت تعبير سے خواب پريشان ہو کر ره جائے گا۔‬

‫تعالی کے ليے ہر نعمت ميں حق ہے تو جو اس حق کو ادا‬ ‫‪ 244‬بے شک ﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫کرتا ہے‪ ،‬ﷲ اس کے ليے نعمت کو اوربﮍھاتا ہے۔ اور جو کوتاہی کرتا ہے وه‬ ‫موجوده‬

‫نعمت‬

‫کو‬

‫بھی‬

‫خطره‬

‫ميں‬

‫ڈالتا‬

‫ہے۔‬

‫‪ 245‬جب مقدرت زياده ہوجاتی ہے تو خواہش کم ہوجاتی ہے۔‬

‫‪ 246‬نعمتوں کے زائل ہونے سے ڈرتے رہو کيونکہ ہر بے قابو ہوکر نکل‬ ‫جانے‬

‫والی‬

‫چيز‬

‫پلٹا‬

‫نہيں‬

‫کرتی۔‬

‫‪ 247‬جذبہ کرم رابطہ قرابت سے زياده لطيف و مہر بانی کا سبب ہوتا ہے۔‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫‪ 248‬جو تم سے حسن ظن رکھے‪ ،‬اس کے گمان کو سچاثابت کرو۔‬

‫‪ 249‬بہترين عمل وه ہے جس کے بجاالنے پر تمہيں اپنے نفس کو مجبور کرنا‬ ‫پﮍے۔‬

‫‪ 250‬ميں نے ﷲ سبحانہ کو پہچانا ارادوں کے ٹوٹ جانے‪,‬نيتوں کے بدل‬ ‫جانے‪ ،‬اور ہمتوں کے پست ہوجانے سے۔‬ ‫ارادوں کے ٹوٹنے اور ہمتوں کے پست ہونے سے خداوند عالم کی ہستی پر اس طرح استدالل کيا جاسکتا ہے کہ مثالً ايک کام کے‬ ‫کرنے کا اراده ہوتا ہے‪ ،‬مگر وه اراده فعل سے ہمکنار ہونے سے پہلے ہی بدل جاتا ہے اور اس کی جگہ کوئی اور اراده پيدا ہوجاتا‬ ‫ہے۔ يہ ارادوں کا ادلنا بدلنااور ان ميں تغير و انقالب کا رونما ہونا اس کی دليل ہے کہ ہمارے ارادوں پر ايک باال دست قوت کا ر فرما‬ ‫ہے جو انہيں عدم سے وجود اور وجود سے عدم ميں النے کی قوت و طاقت رکھتی ہے‪ ،‬اور يہ امر انسان کے احاطہ اختيا رسے باہر‬ ‫ہے۔ لہٰ ذ ا اسے اپنے مافوق ايک طاقت کو تسليم کرنا ہوگا کہ جو ارادوں ميں ردو بدل کرتی رہتی ہے۔‬

‫‪ 251‬دنيا کی تلخی آخرت کی خوشگواری ہے اور دنيا کی خوشگواری آخرت‬ ‫کی‬

‫تلخی‬

‫ہے۔‬

‫‪ 252‬خداوند عالم نے ايمان کا فريضہ عائد کيا شرک کی آلودگيوں سے پاک‬ ‫کرنے کے ليے۔ اور نماز کو فرض کيا رعونت سے بچانے کے ليے اور‬ ‫زکوة کو رزق کے اضافہ کا سبب بنانے کے ليے‪ ،‬اور روزه کو مخلوق کے‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫اخالص کو آزمانے کے ليے اور حج کو دين کو تقويت پہنچانے کے ليے‪ ،‬اور‬ ‫اصالح‬ ‫جہاد کو اسالم کو سرفرازی بخشنے کے ليے‪ ،‬اور امر بالمعروف کو‬ ‫ِ‬ ‫خالئق کے ليے اور نہی عن المنکر کو سرپھروں کی روک تھام کے ليے اور‬ ‫حقوق قرابت کے ادا کرنے کو )يار و انصار کی( گنتی بﮍھانے کے ليے اور‬ ‫ِ‬ ‫قصاص کو خونريزی کے انسداد کے ليے اور حدود شرعيہ کے اجراء کو‬ ‫محرمات کی اہميت قائم کرنے کے ليے اور شراب خوری کے ترک کو عقل‬ ‫کی حفاظت کے ليے اور چوری سے پرہيز کو پاک بازی کا باعث ہونے کے‬ ‫ليے اور زنا سے بچنے کو نسب کے محفوظ رکھنے کے ليے اور اغالم کے‬ ‫انکار حقوق کے مقابلہ ميں ثبوت‬ ‫ترک کو نسل بﮍھانے کے ليے اور گواہی کو‬ ‫ِ‬ ‫مہيا کرنے کے ليے اور جھوٹ سے علحيدگی کو سچائی کا شرف آشکارا‬ ‫قيام امن کو خطروں سے تحفظ کے ليے اور امانتوں کی‬ ‫کرنے کے ليے اور ِ‬ ‫حفاظت کو امت کا نظام درست رکھنے کے ليے اور اطاعت کو امامت کی‬ ‫عظمت‬

‫ظاہر‬

‫کرنے‬

‫کے‬

‫ليے‬

‫‪ 253‬آپ)عليہ السالم ( فرمايا کرتے تھے کہ اگر کسی ظالم سے قسم لينا ہو تو‬ ‫اس سے اس طرح حلف اٹھواؤ کہ وه ﷲ کی قوت و توانائی سے بری ہے؟‬ ‫کيونکہ جب وه اس طرح جھوئی قسم کھائے گا تو جلد اس کی سزا پائے گا اور‬ ‫جب يوں قسم کھائے کہ قسم اُس ﷲ کی جس کے عالوه کوئی معبود نہيں تو‬ ‫جلد اس کی گرفت نہ ہو گی‪ ،‬کيونکہ اُس نے ﷲ کو وحدت و يکتائی کے ساتھ‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫ياد‬

‫ہے۔‬

‫کيا‬

‫‪ 254‬اے فرزن ِد آدم! اپنے مال ميں اپنا وصی خود بن اور جو تو چاہتا ہے کہ‬ ‫تيرے بعد تيرے مال ميں سے خير خيرات کی جائے‪ ،‬وه خود انجام دے دے۔‬

‫‪ 255‬غصہ ايک قسم کی ديوانگی ہے کيونکہ غصہ ور بعد ميں پشيمان ضرور‬ ‫ہوتا ہے اور اگر پشيمان نہيں ہوتا تو اُس کی ديوانگی پختہ ہے۔‬

‫‪256‬‬

‫حسد‬

‫کی‬

‫کمی‬

‫بدن‬

‫تندرستی‬

‫کی‬

‫کا‬

‫سبب‬

‫ہے۔‬

‫‪ 257‬کميل ابن زياد نخعی سے فرمايا‪ :‬اے کميل! اپنے عزيز و اقارب کو ہدايت‬ ‫کرو کہ وه اچھی خصلتوں کو حاصل کرنے کے ليے دن کے وقت نکليں اور‬ ‫رات کو سو جانے والے کی حاجت روائی کو چل کھﮍے ہوں ۔ اُس ذات کی‬ ‫ت شنوائی تمام آوازوں پر حاوی ہے‪ِ ،‬جس کسی نے بھی کسی‬ ‫قسم جس کی قو ِ‬ ‫لطف خاص خلق‬ ‫کے دل کو خوش کيا تو ﷲ اُس کے ليے اُس سرور سے ايک‬ ‫ِ‬ ‫فرمائے گا کہ جب بھی اُس پر کوئی مصيبت نازل ہو تو وه نشيب ميں بہنے‬ ‫والے پانی کی طرح تيزی سے بﮍھے اور اجنبی اونٹوں کو ہنکانے کی طرح‬ ‫اس‬

‫مصيبت‬

‫کو‬

‫ہنکا‬

‫کر‬

‫دور‬

‫کر‬

‫دے۔‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫‪258‬‬

‫جب‬

‫تنگدست‬

‫ہو‬

‫جاؤ‬

‫تو‬

‫صدقہ‬

‫کے‬

‫ذريعے‬

‫بچو۔‬

‫‪ 259‬غداروں سے وفا کرنا ﷲ کے نزديک غداری ہے اور غداروں کے ساتھ‬ ‫غداری‬

‫کرنا‬

‫ﷲ‬

‫کے‬

‫نزديک‬

‫عين‬

‫وفا‬

‫ہے۔‬

‫‪ 260‬کتنے ہی لوگ ايسے ہيں جنہيں نعمتيں دے کر رفتہ رفتہ عذاب کا‬ ‫مستحق بنايا جاتا ہے اور کتنے ہی لوگ ايسے ہيں کہ جو ﷲ کی پرده پوشی‬ ‫سے دھوکا کھائے ہوئے ہيں اوراپنے بارے ميں اچھے الفاظ سن کر فريب ميں‬ ‫پﮍ گئے اور مہلت دينے سے زياده ﷲ کی جانب سے کوئی بﮍی آزمائش نہيں‬ ‫ہے۔‬ ‫سيد رضی کہتے ہيں کہ يہ کالم پہلے بھی گذر چکا ہے مگر يہاں اس ميں کچھ عمده اور مفيد اضافہ ہے۔‬

‫‪ 261‬جب اميرالمومنين عليہ السالم کو يہ اطالع ملی کہ معاويہ کے ساتھيوں‬ ‫نے )شہر(انبار پر دھاوا کيا تو آپ بنفس نفيس پياده پا چل کھﮍے ہوئے۔ يہاں‬ ‫تک کہ نخيلہ تک پہنچ گئے‪ ،‬اتنے ميں لوگ بھی آپ کے پاس پہنچ گئے اور‬ ‫کہنے لگے يا امير المومنين عليہ السّالم ! ہم دشمن سے نپٹ ليں گے۔ آ پ کے‬ ‫تشريف لے جانے کی ضرورت نہيں۔ آپ نے فرمايا کہ تم اپنے سے تو ميرا‬ ‫بچاؤ کر نہيں سکتے دوسروں سے کيا بچاؤ کرو گے۔ مجھ سے پہلے رعايا‬ ‫اپنے حاکموں کے ظلم و جورکی شکايت کيا کرتی تھی مگر ميں آج اپنی‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫رعيت کی زيادتيوں کا گلہ کرتا ہوں‪ ،‬گويا کہ ميں رعيت ہوں اور وه حاکم اور‬ ‫ميں حلقہ بگوش ہوں اور وه فرمانروا۔‬ ‫)سيد رضی کہتے ہيں کہ (جب اميرالمومنين عليہ السالم نے ايک طويل کال م کے ذيل ميں کہ جس کا منتخب حصہ ہم خطب ميں درج کر‬ ‫چکے ہيں يہ کلمات ارشاد فرمائے توآ پ کے اصحاب ميں سے دو شخص اٹھ کھﮍے ہوئے اور ان ميں سے ايک نے کہا کہ يا امير‬ ‫سالم مجھے اپنی ذات اور اپنے بھائی کے عالوه کسی پر اختيا ر نہيں تو آپ ہميں حکم ديں ہم اسے بجاالئيں گے جس‬ ‫المومنين عليہ ال ّ‬ ‫پر حضر ت نے فرمايا کہ ميں جو چاہتا ہوں وه تم دوآدميوں سے کہاں سرانجا م پاسکتا ہے۔‬

‫‪ 262‬بيان کيا گيا ہے کہ حارث ابن حوط حضرت کی خدمت ميں حاضر ہوا‬ ‫اور کہا کہ کيا آپ کے خيال ميں اس کا گمان بھی ہوسکتا ہے کہ اصحاب جمل‬ ‫تھے؟‬

‫گمراه‬

‫حضرت نے فرمايا کہ اے حارث !تم نے نيچے کی طرف ديکھا اوپر کی طر‬ ‫ف نگا ه نہيں ڈالی‪ ،‬جس کے نتيجہ ميں تم حيران و سر گردان ہوگئے ہو‪ ،‬تم‬ ‫حق ہی کو نہيں جانتے کہ حق والوں کو جانو اور باطل ہی کو نہيں پہچانتے‬ ‫کہ‬

‫باطل‬

‫راه‬

‫کی‬

‫پر‬

‫چلنے‬

‫کو‬

‫والوں‬

‫پہچانو۔‬

‫حارث نے کہا کہ ميں سعد ابن مالک اور عبدﷲ ابن عمر کے ساتھ گوشہ گزيں‬ ‫ہوجاؤں‬ ‫حضرت‬

‫گا۔‬ ‫نے‬

‫فرمايا‬

‫کہ‬

‫!‬

‫سعد اور عبدﷲ ابن عمر نے حق کی مدد کی‪ ،‬اور نہ باطل کی نصرت سے‬ ‫ہاتھ اٹھايا۔‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫سالم کی رفاقت وہمنوائی‬ ‫سعد ابن مالک )سعد ابن ابی وقا ص(اورعبدﷲ ابن عمر ان لوگوں ميں سے تھے جو امير المومنين عليہ ال ّ‬ ‫سے منہ موڑے ہوئے تھے۔ چنانچہ سعد ابن ابی وقاص تو حضر ت عثمان کے قتل کے بعد ايک صحرا کی طرف منتقل ہوگئے اور وہيں‬ ‫زندگی گزار دی‪ ،‬اور حضرت کی بيعت نہ کرنا تھی نہ کی اور عبدﷲ ابن عمر نے اگرچہ بيعت کر لی تھی۔ مگر جنگوں ميں حضرت کا‬ ‫ساتھ دينے سے انکا ر کرديا تھا اور اپنا عذر يہ پيش کيا تھا کہ ميں عبادت کے ليے گوشہ دينی اختيار کرچکاہوں اب حرب و پيکار‬ ‫سے‬

‫کوئی‬

‫سروکار‬

‫رکھنا‬

‫نہيں‬

‫چاہتا۔‬

‫عذر ہائے ايں چنين نزد خرد بيشکے عذرے است بدتر از گناه‬

‫‪ 263‬باد شاه کا نديم و مصاحب ايسا ہے جيسے شير پر سوار ہونے واال کہ اس‬ ‫کے مرتبہ پر رشک کيا جاتا ہے وه اپنے موقف سے خوب واقف ہے۔‬ ‫مقصد يہ ہے کہ جسے بارگاه سلطانی ميں تقرب حاصل ہوتا ہے لوگ اس کے جاه و منصب اور عزت و اقبال کو رشک کی نگاہوں سے‬ ‫ديکھتے ہيں‪ ،‬مگر خود اسے ہر وقت يہ دھﮍکا لگا رہتا ہے کہ کہيں بادشاه کی نظريں اس سے پھر نہ جائيں‪ ،‬اور وه ذلت و رسوائی يا‬ ‫موت و تباہی کے گﮍھے ميں نہ جاپﮍے جيسے شير سوار کہ لوگ اس سے مرعوب ہوتے ہيں اور وه اس خطره ميں گھرا ہوتا ہے کہ‬ ‫کہيں شير اسے پھاڑنہ کھائے يا کسی مہلک گﮍھے ميں نہ جاگرائے‪.‬‬

‫‪ 264‬دوسروں کے پسماندگان سے بھالئی کرو۔ تاکہ تمہارے پسماند گان پر‬ ‫بھی‬

‫نظرشفقت‬

‫پﮍے۔‬

‫‪ 265‬جب حکماء کا کال م صحيح ہو تو وه دوا ہے اور غلط ہوتو سراسر مرض‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫ہے‪.‬‬ ‫علمائے مصلحين کا طبقہ اصالح کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے‪ ،‬اور فساد کا بھی کيونکہ عوام ان کے زير اثر ہوتے ہيں اور ان کے قول و‬ ‫عمل کو صحيح و معيار ی سمجھتے ہوئے اس سے استفاده کرتے اور اس پر عمل پيرا ہوتے ہيں۔ اس صورت ميں اگر ان کی تعليم‬ ‫اصال ح کی حامل ہوگی تو اس کے نتيجہ ميں ہزارو ں افراد صالح و رشد سے آراستہ ہوجائيں گے اور اگر اس ميں خرابی ہوگی تو اس‬ ‫کے نتيجہ ميں ہزاروں افراد گمراہی و بے راہروی ميں مبتال ہوجائيں گے‪.‬اسی ليے کہا جاتا ہے کہ جب عالم ميں فساد رونما ہوتا ہے تو‬ ‫اس فساد کا اثر ايک دنيا پر پﮍتا ہے۔‬

‫‪ 266‬حضرت سے ايک شخص نے سوال کيا کہ ايمان کی تعريف کيا ہے؟ آپ‬ ‫نے فرمايا کہ کل ميرے پاس آنا تاکہ ميں تمہيں اس موقع پربتاؤں کہ دوسرے‬ ‫لوگ بھی سن سکيں کہ اگر تم بھول جاؤتو دوسرے ياد رکھيں۔ اس ليے کالم‬ ‫بھﮍکے ہوئے شکار کے مانند ہوتاہے کہ اگر ايک کی گرفت ميں آجاتا ہے اور‬ ‫دوسرے کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔‬ ‫)سيد رضی کہتے ہيں کہ(حضرت نے اس کے بعد جواب ديا وه آپ کا يہ ارشا د تھا کہ «االيمان علی اربع شعب ») ايمان کی چار قسميں‬ ‫ہيں (‬

‫‪ 267‬اے فرزند آدم عليہ السّالم ! اس دن کی فکر کا بارجو ابھی آيا نہيں‪ ،‬آج‬ ‫کے اپنے دن پر نہ ڈال کہ جو آچکا ہے۔ اس ليے کہ اگرايک دن بھی تيری‬ ‫عمر‬

‫کا‬

‫باقی‬

‫ہوگا‪،‬‬

‫توﷲ‬

‫تيرا‬

‫رزق‬

‫تجھ‬

‫تک‬

‫پہنچائے‬

‫گا۔‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫‪ 268‬اپنے دوست سے بس ايک حد تک محبت کرو کيونکہ شايد کسی دن وه‬ ‫تمہارا دشمن ہوجائے اور دشمن کی دشمنی بس ايک حد تک رکھو ہوسکتا ہے‬ ‫کہ‬

‫کسی‬

‫دن‬

‫وه‬

‫تمہار‬

‫دوست‬

‫ا‬

‫ہوجائے۔‬

‫‪ 269‬دنيا ميں کام کرنے والے دو قسم کے ہيں ايک وه جو دنيا کے ليے سر‬ ‫گرم عمل رہتا ہے اور اسے دنيا نے آخرت سے روک رکھا ہے۔ وه اپنے‬ ‫پسماندگا ن کے ليے فقر و فاقہ کا خوف کرتا ہے مگر اپنی تنگدستی سے‬ ‫مطمئن ہے تو وه دوسروں کے فائده ہی ميں پوری عمر بسر کرديتاہے اور‬ ‫ايک وه ہے جو دنيا ميں ره کر اس کے ليے عمل کرتا ہے تو اسے تگ ودو‬ ‫کئے بغير دنيا بھی حاصل ہوجاتی ہے اور اس طرح وه دونوں حصوں کو‬ ‫سميٹ ليتا ہے اور دونوں گھر وں کا مالک بن جاتا ہے وه ﷲ کے نزديک‬ ‫باوقار ہوتا ہے اور ﷲ سے کوئی حاجت نہيں مانگتا جو ﷲ پوری نہ کرے۔‬

‫‪ 270‬بيان کيا گيا ہے کہ عمر ابن خطاب کے سامنے خانہ کعبہ کے زيورات‬ ‫اور ان کی کثرت کا ذکر ہوا تو کچھ لوگوں نے ان سے کہا کہ اگرآپ ان‬ ‫زيورات کو لے ليں اور انہيں مسلمانوں کے لشکر پر صرف کرکے ان کی‬ ‫روانگی کا سامان کريں تو زياده باعث اجر ہوگا‪ ،‬خانہ کعبہ کو ان زيورات کی‬ ‫کيا ضرورت ہے۔ چنانچہ عمر نے اس کا اراده کر ليا اور اميرالمومنين عليہ‬ ‫السالم‬

‫سے‬

‫اس‬

‫کے‬

‫بار‬

‫ے‬

‫ميں‬

‫مسئلہ‬

‫پوچھا۔‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫آپ نے فرمايا کہ جب قرآن مجيد نبی اکرم صلی ﷲ عليہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا‬ ‫تو اس وقت چار قسم کے اموال تھے‪ ،‬ايک مسلمانوں کا ذاتی مال تھا اسے آپ‬ ‫نے ان کے وارثوں ميں ان کے حصہ کے مطابق تقسيم کرنے کا حکم ديا۔‬ ‫دوسرا مال غنيمت تھا‪ ،‬اسے اس کے مستحقين پر تقسيم کيا۔ تيسرا مال خمس‬ ‫تعالی نے خاص مصارف مقرر کرديئے۔ چوتھے ٰ‬ ‫زکوة و‬ ‫تھا‪ ،‬اس مال کے ﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫صدقات تھے۔ انہيں ﷲ نے وہاں صرف کرنے کاحکم ديا جو ان کامصرف ہے۔‬ ‫يہ خانہ کعبہ کے زيورات اس زمانہ ميں بھی موجود تھے ليکن ﷲ نے ان کو‬ ‫ان کے حال پر رہنے ديا اور ايسا بھولے سے تو نہيں ہوا‪ ،‬اور نہ ان کا وجود‬ ‫اس پر پوشيده تھا۔ ل ٰہذا آپ بھی انہيں وہيں رہنے ديجئے جہاں ﷲ اور اس کے‬ ‫رسول نے انہيں رکھاہے۔ يہ سن کر عمر نے کہا کہ اگر آپ نہ ہوتے تو ہم‬ ‫رسوا ہوجاتے اور زيورات ان کی حالت پر رہنے ديا۔‬

‫اقوال امام علی )عليہ السالم (از نہج البالغہ‬ ‫ِ‬ ‫اقوال ‪ ٢٧١‬تا ‪٣٠٠‬‬ ‫‪ 271‬روايت کی گئی ہے کہ حضرت کے سامنے دو آدميوں کو پيش کيا گيا‬ ‫جنہوں نے بيت المال ميں چوری کی تھی ايک تو ان ميں غالم اور خود بيت‬ ‫المال کی ملکيت تھا‪ ،‬اور دوسرا لوگوں ميں سے کسی کی ملکيت ميں تھا۔ آپ‬ ‫نے فرمايا کہ «يہ غالم جو بيت المال کا ہے اس پر حد جاری نہيں ہوسکتی‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫کيونکہ ﷲ کا مال ﷲ کے مال ہی نے کھايا ہے ليکن دوسرے پر حد جاری‬ ‫چنانچہ‬

‫ہوگی۔‬

‫اس‬

‫ہاتھ‬

‫کا‬

‫کرديا۔‬

‫قطع‬

‫‪ 272‬اگران پھسلنوں سے بچ کر ميرے پرجم گئے توميں بہت سی چيزوں ميں‬ ‫تبديلی کر دوں گا۔‬ ‫اس سے انکار نہيں کيا جاسکتا کہ پيغمبر اسالم کے بعد دين ميں تغيرات رونما ہونا شروع ہوگئے اور کچھ افراد نے قياس و رائے سے‬ ‫کام لے کر احکا م شريعت ميں ترميم و تنسيخ کی بنياد ڈال دی۔ حاالنکہ حکم شرعی ميں تبديلی کا کسی کو حق نہيں پہنچتا‪ ،‬کہ وه قرآ ن‬ ‫و سنت کے واضح احکام کو ٹھکر ا کر اپنے قياسی احکا م کا نفاذ کرے۔ چنانچہ قرآن کريم ميں طالق کی يہ واضح صورت بيان ہوئی‬ ‫ہے کہ “الطالق م ّر ٰتن” طالق ) رجعی کہ جس ميں بغير محلل کے رجوع ہوسکتی ہے (دو مرتبہ ہے مگر حضرت عمر نے بعض مصالح‬ ‫کے پيش نظر ايک ہی نشست ميں تين طالقوں کے واقع ہونے کا حکم دے ديا۔ اسی طرح ميراث ميں عول کا طريقہ رائج کيا گيا اورنماز‬ ‫جنازه ميں چار تکبيروں کو رواج ديا يونہی حضرت عثمان نے نماز جمعہ ميں ايک اذان بﮍھا دی اور قصر کے موقع پر پوری نماز کے‬ ‫پﮍھنے کا حکم ديا اور نماز عيد ميں خطبہ کو نماز پر مقدم کر ديا‪.‬اور اسی طرح کے بے شمار احکام وضع کرليے گئے جس سے‬ ‫صحيح‬

‫احکام‬

‫بھی‬

‫غلط‬

‫احکام‬

‫کے‬

‫ساتھ‬

‫مخلوط‬

‫ہوکر‬

‫بے‬

‫اعتماد‬

‫گئے۔‬

‫بن‬

‫اميرالمومنين عليہ السالم جو شريعت کے سب سے زياده واقف کار تھے وه ان احکام کے خالف احتجاج کرتے اور صحابہ کے خالف‬ ‫اپنی‬

‫رائے‬

‫رکھتے‬

‫تھے‬

‫چنانچہ‬

‫ابن‬

‫ابی‬

‫الحديد‬

‫نے‬

‫تحرير‬

‫کيا‬

‫ہے‬

‫کہ‬

‫‪:‬‬

‫سالم شرعی احکام و قضايا ميں صحابہ کے خالف رائے رکھتے‬ ‫ہمارے ليے اس ميں شک کی گنجائش نہيں کہ اميرالمومنين عليہ ال ّ‬ ‫تھے‪.‬‬ ‫جب حضرت ظاہری خالفت پر متمکن ہوئے تو ابھی آپ کے قد م پوری طرح سے جمنے نہ پائے تھے کہ چاروں طر ف سے فتنے اٹھ‬ ‫کھﮍے ہوئے اور ان الجھنوں سے آخر وقت تک چھٹکارا حاصل نہ کرسکے جس کی وجہ سے تبديل شده احکام ميں پوری طرح ترميم‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫نہ ہوسکی‪ ،‬اور مرکز سے دور عالقوں ميں بہت غلط سلط احکام رواج پاگئے۔ البتہ وه طبقہ جو آپ سے وابستہ تھا‪ ،‬وه آپ سے احکام‬ ‫شريعت کو دريافت کرتا تھا‪ ،‬اور انہيں محفوظ رکھتا جس کی وجہ سے صحيح احکام نابو د اور غلط مسائل ہمہ گير نہ ہوسکے۔‬

‫‪ 273‬پورے يقين کے ساتھ اس امر کو جانے رہو کہ ﷲ سبحانہ نے کسی بندے‬ ‫کے ليے چاہے اس کی تدبيريں بہت زبردست اس کی جستجو شديد اور اس کی‬ ‫ترکيبيں طاقت ور ہوں اس سے زائد رزق قرار نہيں ديا جتنا کہ تقدير الہی ميں‬ ‫اس کے ليے مقرر ہوچکا ہے۔ اور کسی بندے کے ليے اس کمزوری و بے‬ ‫چارگی کی وجہ سے لوح محفو ظ ميں اس کے مقرره رزق تک پہنچنے ميں‬ ‫رکاوٹ نہيں ہوتی۔ اس حقيقت کو سمجھنے واال اور اس پر عمل کر نے واال‬ ‫سود و منفعت کی راحتوں ميں سب لوگوں سے بﮍھ چﮍھ کر ہے اور اسے‬ ‫نظر انداز کرنے اوراس ميں شک و شبہ کرنے واال سب لوگوں سے زياده‬ ‫زياں کاری ميں مبتالہے بہت سے وه جنہيں نعمتيں ملی ہيں‪ ،‬نعمتوں کی بدولت‬ ‫کم کم عذا ب کے نزديک کئے جارہے ہيں‪ ،‬اور بہت سوں کے ساتھ فقر فاقہ‬ ‫کے پرده ہيں ﷲ کا لطف وکرم شامل حال ہے ل ٰہذا اسے سننے والے شکر‬ ‫زياده اور جلد بازی کم کر اور جو تيری روزی کی حدہے اس پر ٹھہرا ره‪.‬‬

‫‪ 274‬اپنے علم کو اور اپنے يقين کو شک نہ بناؤ جب جان ليا تو عمل کرو‪،‬‬ ‫اور جب يقين پيدا ہوگيا تو آگے بﮍھو۔‬ ‫علم و يقين کا تقاضا يہ ہے کہ اس کے مطابق عمل کيا جائے اور اگراس کے مطابق عمل ظہور ميں نہ آئے تواسے علم ويقين سے‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫تعبير نہيں کيا جاسکتا چنانچہ اگر کوئی شخص يہ کہے کہ مجھے يقين ہے کہ فالں راستہ ميں خطرات ہيں اور وه بے خطر راستہ کو‬ ‫چھوڑ کر اسی پر خطر راستہ ميں راه پيمائی کرے‪ ،‬تو کون کہہ سکتاہے کہ وه اس راه کے خطرات پر يقين رکھتا ہے۔ جبکہ اس يقين‬ ‫کا نتيجہ يہ ہو نا چاہيے کہ وه اس راستہ ہر چلنے سے احتراز کرتا۔ اسی طرح جو شخص حشرونشراور عذاب و ثواب پر يقين رکھتا ہو‬ ‫وه دنيا کی غفلتوں سے مغلوب ہو کر آخرت کو نظر انداز نہيں کرسکتا اور نہ عذاب و عقاب کے خوف سے عمل ميں کوتاہی کا مرتکب‬ ‫ہوسکتاہے۔‬

‫‪ 275‬طمع گھاٹ پر اتارتی ہے مگر سيراب کئے بغير پلٹا ديتی ہے۔ ذمہ داری‬ ‫کا بوجھ اٹھاتی ہے مگر اسے پورا نہيں کرتی۔ اور اکثر ايسا ہوتا ہے کہ پانی‬ ‫پينے والے کو پينے سے پہلے ہی اچھو ہوجاتا ہے۔ اور جتنی کسی مرغوب و‬ ‫پسنديده چيز کی قدر و منزلت زياده ہوتی ہے اتنا ہی اسے کھودينے کا رنج‬ ‫زياده ہوتا ہے۔ آرزوئيں ديده و بصيرت کو اندھا کرديتی ہيں اور جو نصيب‬ ‫ميں‬

‫ہوتا ہے پہنچنے کی‬

‫کوشش‬

‫کئے‬

‫بغير‬

‫مل‬

‫جاتا ہے۔‬

‫‪ 276‬اے ﷲ !ميں تجھ سے پناه مانگتا ہوں اس سے کہ ميرا ظاہر لوگوں کی‬ ‫چشم ظاہر بين ميں بہتر ہو اور جو اپنے باطن ميں چھپائے ہوئے ہوں‪ ،‬وه‬ ‫ِ‬ ‫تيری نظروں ميں برا ہو۔ درآں حاليکہ ميں لوگوں کے دکھاوے کے ليے اپنے‬ ‫نفس سے ان چيزوں سے نگہداشت کروں۔ جن سب سے تو آگا ه ہے۔ اس طرح‬ ‫لوگوں کے سامنے تو ظاہر کے اچھا ہونے کی نمائش کروں اور تيرے سامنے‬ ‫اپنی بداعماليوں کو پيش کر تا رہوں جس کے نتيجہ ميں تيرے بندوں سے‬ ‫تقرب حاصل کر ں‪ ،‬اور تيری خوشنوديوں سے دور ہی ہوتا چالجاؤں۔‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫‪) 277‬کسی موقع پرقسم کھاتے ہوئے ارشاد فرمايا(اس ذات کی قسم جس کی‬ ‫ب تار کے باقی مانده حصہ کو بسر کرديا۔ جس کے‬ ‫بدولت ہم نے ايسی ش ِ‬ ‫چھٹتے ہی روز ِدرخشاں ظاہر ہوگا ايسا اور ايسا نہيں ہوا‪.‬‬

‫‪ 278‬وه تھوڑ اعمل جو پابندی سے بجااليا جاتا ہے زياده فائده مند ہے اس کثير‬ ‫عمل‬

‫سے‬

‫کہ‬

‫جس‬

‫سے‬

‫دل‬

‫اکتا‬

‫جائے۔‬

‫‪ 279‬جب مستحبات فرائض ميں س ِد راه ہوں تو انہيں چھوڑ دو‪.‬‬

‫‪ 280‬جو سفرکی دوری کو پيش نظر رکھتا ہے وه کمر بستہ رہتاہے۔‬

‫‪ 281‬آنکھوں کا ديکھنا حقيقت ميں ديکھنا نہيں کيونکہ آنکھيں کبھی اپنے‬ ‫اشخاص سے غلط بيانی بھی کرجاتی ہيں مگر عقل اس شخص کو جو اس سے‬ ‫نصيحت‬

‫چاہے‬

‫کبھی‬

‫فريب‬

‫نہيں‬

‫ديتی۔‬

‫‪ 282‬تمہارے اور پند و نصيحت کے درميان غفلت کا ايک بﮍا پرده حائل ہے۔‬

‫‪ 283‬تمہارے جاہل دولت زياده پاجاتے ہيں اور عالم آئنده کے توقعات ميں‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫رکھے‬

‫مبتال‬

‫ہيں۔‬

‫جاتے‬

‫‪ 284‬علم کا حاصل ہوجانا‪ ،‬بہانے کرنے والوں کے عذر کو ختم کرديتا ہے۔‬

‫‪ 285‬جسے جلدی سے موت آجاتی ہے وه مہلت کا خواہاں ہوتا ہے اور جسے‬ ‫مہلت‬

‫دی‬

‫زندگی‬

‫گئی‬

‫ہے‬

‫وه‬

‫ٹال‬

‫مٹول‬

‫کرتارہتا‬

‫ہے۔‬

‫‪ 286‬لوگ کسی شے پر «واه واه »نہيں کرتے مگر يہ کہ زمانہ اس کے ليے‬ ‫ايک‬

‫برا‬

‫دن‬

‫چھپائے‬

‫ہوئے‬

‫ہے۔‬

‫‪ 287‬آپ سے قضا و قدر کے متعلق پوچھا گيا تو آپ عليہ السّالم نے فرمايا !‬ ‫يہ ايک تاريک راستہ ہے اس ميں قدم نہ اٹھاؤ‪.‬ايک گہرا سمندر ہے۔ اس ميں‬ ‫نہ اترو ﷲ کا ايک راز ہے اسے جاننے کی زحمت نہ اٹھاؤ‪.‬‬

‫‪ 288‬ﷲ جس بندے کو ذليل کرنا چاہتا ہے اسے علم و دانش سے محروم‬ ‫کرديتاہے۔‬

‫‪ 289‬عہد ماضی ميں مير اايک دينی بھائی تھا اور وه ميری نظروں ميں اس‬ ‫وجہ سے باعزت تھا کہ دنيااس کی نظروں ميں پست و حقير تھی۔ اس پر پيٹ‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫کے تقاضے مسلط نہ تھے۔ ل ٰہذا جوچيز اُسے ميسر نہ تھی اس کی خواہش نہ‬ ‫کرتا تھا اور جو چيز ميسر تھی اسے ضرورت سے زياده صرف ميں نہ التا‬ ‫تھا۔ وه اکثر اوقات خاموش رہتا تھا اور اگر بولتا تھا تو بولنے والوں کو چپ‬ ‫کراديتا تھا اور سوال کرنے والوں کی پياس بجھا ديتا تھا۔ يوں تو وه عاجز و‬ ‫کمزور تھا‪ ،‬مگر جہاد کا موقع آجائے تو وه شير بيشہ اور وادی کا اژدھا تھا۔‬ ‫وه جو دليل و برہان پيش کرتا تھا‪ ،‬وه فيصلہ کن ہوتی تھی۔ وه ان چيزوں ميں‬ ‫کہ جن ميں عذر کی گنجائش ہوتی تھی‪ ،‬کسی کو سرزنش نہ کرتا تھا جب تک‬ ‫کہ اس کے عذر معذرت کو سن نہ لے وه کسی تکليف کا ذکر نہ کرتا تھا‪ ،‬مگر‬ ‫اس وقت کہ جب اس سے چھٹکارا پا ليتا تھا‪ ،‬وه جو کرتا تھا‪ ،‬وہی کہتا تھا اور‬ ‫جو نہيں کرتا تھا وه اسے کہتا نہيں تھا‪.‬اگر بولنے ميں اس پر کبھی غلبہ پا بھی‬ ‫ليا جائے تو خاموشی ميں اس پر غلبہ حاصل نہيں کيا جاسکتا تھا‪.‬وه بولنے‬ ‫سے زياده سننے کا خواہشمند رہتا تھا اور جب اچانک اس کے سامنے‬ ‫دوچيزيں آجاتی تھيں تو ديکھتا تھا کہ ان دونوں ميں سے ہوائے نفس کے زياده‬ ‫قريب کون ہے تو وه اس کی مخالفت کرتا تھا۔ ل ٰہذا تمہيں ان عادات و خصائل‬ ‫کو حاصل کرنا چاہيے اور ان پر عمل پيرا اور ان کا خواہشمند رہنا چاہيے اگر‬ ‫ان تما م کا حاصل کرنا تمہاری قدرت سے باہر ہو تو اس بات کو جانے رہو کہ‬ ‫تھوڑی سی چيز حاصل کرنا پور ے کے چھوڑ دينے سے بہتر ہے۔‬ ‫حضرت نے اس کالم ميں جس شخص کو بھائی کے لفظ سے ياد کرتے ہوئے اس کے عادات و شمائل کا تذکره کيا ہے اس بعض نے‬ ‫حضرت ابو ذر غفار ی‪ ،‬بعض نے عثمان ابن مظعون اور بعض نے مقداد ابن اسود کو مراد ليا ہے مگر بعيد نہيں کہ اس سے کوئی فرد‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫خاص مراد نہ ہو کيونکہ عرب کا يہ عام طريقہ کالم ہے کہ وه اپنے کالم ميں اپنے بھائی يا ساتھی کا ذکر کرجاتے تھے‪ ،‬اور کوئی‬ ‫معين شخص ان کے پيش نظر نہيں ہوتا تھا۔‬

‫‪ 290‬اگر خداوند عالم نے اپنی معصيت کے عذاب سے نہ ڈرايا ہوتا‪ ،‬جب بھی‬ ‫اس کی نعمتوں پر شکر کا تقاضا يہ تھا کہ اس کی معصيت نہ کی جائے۔‬

‫‪ 291‬اشعث ابن قيس کو اس کے بيٹے کا پرسا ديتے ہوئے فرمايا‪:‬‬

‫اے اشعث !اگرتم اپنے بيٹے پر رنج ومالل کرو تو يہ خون کا رشتہ اس کا سزا‬ ‫وار ہے‪ ،‬اور اگرصبر کرو تو ﷲ کے نزديک ہر مصيبت کا عوض ہے۔ اے‬ ‫اشعث !اگرتم نے صبر کيا تو تقدير الہی نافذ ہوگی اس حال ميں کہ تم اجر و‬ ‫ثواب کے حقدار ہو گے اور اگر چيخے چالئے‪ ،‬جب بھی حکم قضا کا جاری‬ ‫ہو کر رہے گا۔ مگر اس حال ميں کہ تم پر گناه کا بوجھ ہوگا۔ تمہارے ليے بيٹا‬ ‫مسرت کا سبب ہوا حاالنکہ وه ايک زحمت و آزمائش تھا اور تمہارے ليے رنج‬ ‫واندوه کا سبب ہوا حاالنکہ وه )مرنے سے (تمہارے ليے اجر و رحمت کا‬ ‫باعث‬

‫ہوا‬

‫ہے۔‬

‫‪ 292‬رسول ﷲ صلی عليہ وآلہ وسلم کے دفن کے وقت قبر پر يہ الفاظ کہے۔‬ ‫صبر عموماًاچھی چيز ہے سوائے آپ کے غم کے اور بيتابی و بے قراری‬ ‫عموما ًبری چيز ہے سوائے آپ کی وفات کے اور بالشبہ آپ کی موت کا‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫صدمہ عظيم ہے‪ ،‬اور آپ سے پہلے اور آپ کے بعد آنے والی مصيبت سبک‬ ‫ہے‪.‬‬

‫‪ 293‬بے وقوف کی ہم نشينی اختيا ر نہ کرو کيونکہ وه تمہارے سامنے اپنے‬ ‫کاموں کو سجا کر پيش کرے گا اور يہ چاہے گا کہ تم اسی کے ايسے ہوجاؤ‪.‬‬ ‫بے وقوف انسان اپنے طريق کار کو صحيح سمجھتے ہوئے اپنے دوست سے بھی يہی چاہتا ہے کہ وه اس کا سا طور طريقہ اختيار‬ ‫کرے‪ ،‬اور جيسا وه خود ہے ويسا ہی وه ہوجائے‪.‬اس کے يہ معنی نہيں ہيں کہ وه يہ چاہتاہے کہ اس کا دوست بھی اس جيسا بے‬ ‫وقوف ہوجائے۔ کيونکہ وه اپنے کو بے وقوف ہی کب سمجھتا ہے جو يہ چاہے اوراگر سمجھتا ہوتا تو بے وقو ف ہی کيوں ہوتا۔ بلکہ‬ ‫اپنے کو عقلمند اور اپنے طريقہ کار کو صحيح سمجھتے ہوئے وه اپنے دوست کو بھی اپنے ہی ايسا «عقلمند»ديکھنا چاہتا ہے۔ اس‬ ‫ليے وه اپنی رائے کو سجا کر اس کے سامنے پيش کرتا ہے اور اس پر عمل پيرا ہونے کا اس سے خواہش مند ہوتاہے اور ہوسکتا‬ ‫ہے کہ اس کا دوست اس کی باتوں سے متاثر ہوکر اس کی راه پرچل پﮍے۔ اس ليے اس سے الگ تھلگ رہنا ہی مفيد ثابت ہوسکتا ہے۔‬

‫‪ 294‬آپ سے دريافت کيا گيا کہ مشرق و مغرب کے درميان کتنا فاصلہ ہے‬ ‫؟آپ‬

‫نے‬

‫فرمايا‬

‫«سورج‬

‫کا‬

‫ايک‬

‫دن‬

‫کا‬

‫راستہ»‪.‬‬

‫‪ 295‬تين قسم کے تمہارے دوست ہيں اور تين قسم کے دشمن۔ دوست يہ ہيں‬ ‫‪:‬تمہارا دوست‪ ،‬تمہارے دوست کا دوست‪ ،‬اور تمہارے دشمن کا دشمن اور‬ ‫دشمن يہ ہيں ‪:‬تمہار ا دشمن‪ ،‬تمہارے دوست کا دشمن اورتمہارے دشمن کا‬ ‫دوست۔‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫‪ 296‬حضرت نے ايک ايسے شخص کو ديکھا کہ وه اپنے دشمن کو ايسی چيز‬ ‫کے ذريعہ سے نقصان پہنچانے کے درپے ہے جس ميں خود اس کو بھی‬ ‫نقصان پہنچے گا‪ ،‬تو آ پ نے فرمايا کہ تم اس شخص کی مانند ہوجو اپنے‬ ‫پيچھے والے سوار کو قتل کرنے کے ليے اپنے سينہ ميں نيزه مارے۔‬

‫‪ 297‬نصيحتيں کتنی زياده ہيں اور ان سے اثر لينا کتنا کم ہے۔‬ ‫اگر زمانہ کے حوادث و انقالبات پر نظر کی جائے اور گزشتہ لوگوں کے احوال و واردات کو ديکھا اور ان کی سرگزشتوں کو سناجائے‬ ‫تو ہر گوشہ سے عبرت کی ايک ايسی داستان سنی جاسکتی ہے جو روح کو خواب غفلت سے جھنجھوڑنے پند و نصيحت کرنے اور‬ ‫عبر ت و بصيرت دالنے کا پورا سرو سامان رکھتی ہے۔ چنانچہ دنيا ميں ہرچيز کا بننا اور بگﮍنا اور پھولوں کا کھلنا اور مرجھانا‬ ‫جام بقا کے حاصل‬ ‫سبزے کا لہلہانا اور پامال ہونا اور ہر ذره کا تغير وتبدل کی آماجگاه بننا ايسا درس عبرت ہے جو سيراب زندگی سے ِ‬ ‫کرنے کے توقعا ت ختم کرديتا ہے۔ بشرطيکہ ديکھنے والی آنکھيں اور سننے والے کان ان عبرت افزا چيزوں سے بند نہ ہوں۔‬

‫کاخ جہاں پراست نہ ذکر گزشتگاں ليکن کسيکہ گوش دہد‪ ،‬ايں مذاکم است;‬

‫‪ 298‬جو لﮍائی جھگﮍے ميں حد سے بﮍھ جائے وه گنہگار ہوتا ہے اور جو‬ ‫اس ميں کمی کرے‪ ،‬اس پر ظلم ڈھائے جاتے ہيں اور جو لﮍتا جھگﮍتا ہے اس‬ ‫کے‬

‫ليے‬

‫مشکل‬

‫ہوتا‬

‫ہے‬

‫کہ‬

‫وه‬

‫خوف‬

‫خدا‬

‫قائم‬

‫رکھے۔‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫‪ 299‬وه گناه مجھے اندوہناک نہيں کرتا جس کے بعد مجھے مہلت مل جائے‬ ‫کہ ميں دو رکعت نماز پﮍھوں اور ﷲ سے امن و عافيت کاسوال کروں۔‬

‫‪ 300‬اميرالمومنين عليہ السالم سے دريافت کيا گيا کہ خداوند عالم اس کثير‬ ‫التعداد مخلوق کا حساب کيونکر لے گا؟ فرمايا جس طرح اس کی کثرت کے‬ ‫باوجود روزی انہيں پہنچاتا ہے۔ پوچھا وه کيونکر حساب لے گا جب کہ مخلوق‬ ‫اسے ديکھے گی نہيں؟ فرمايا جس طرح انہيں روزی ديتا ہے اور وه اسے‬ ‫ديکھتے نہيں۔‬

‫اقوال امام علی )عليہ السالم (از نہج البالغہ‬ ‫ِ‬ ‫اقوال ‪ ٣٠١‬تا ‪٣٣٠‬‬ ‫‪ 301‬تمہارا قاصد تمہاری عقل کا ترجمان ہے اور تمہاری طرف سے کامياب‬ ‫ترين‬

‫ترجمانی‬

‫کرنے‬

‫واال‬

‫تمہارا‬

‫خط‬

‫ہے۔‬

‫‪ 302‬ايسا شخص جو سختی و مصيبت ميں مبتال ہو۔ جتنا محتاج دعا ہے‪ ،‬اس‬ ‫سے کم وه خير وعافيت سے ہے۔ مگر انديشہ ہے کہ نہ جانے کب مصيبت‬ ‫آجائے۔‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫‪ 303‬لوگ اسی دنيا کی اوالد ہيں اور کسی شخص کو اپنی ماں کی محبت پر‬ ‫لعنت‬

‫نہيں‬

‫مالمت‬

‫جاسکتی۔‬

‫کی‬

‫‪ 304‬غريب و مسکين ﷲ کا فرستاده ہوتا ہے تو جس نے اس سے اپنا ہاتھ‬ ‫روکا اس نے خدا سے ہاتھ روکا اور جس نے اسے کچھ ديا اس نے خدا کو‬ ‫ديا۔‬

‫‪305‬‬

‫ت‬

‫غير‬

‫مند‬

‫کبھی‬

‫زنا‬

‫نہيں‬

‫کرتا۔‬

‫‪ 306‬مدت حيات نگہبانی کے ليے کافی ہے۔‬ ‫مطلب يہ ہے کہ الکھ آسمان کی بجليا ں کﮍکيں‪ ،‬حوادث کے طوفان امڈيں‪ ،‬زمين ميں زلزلے آئيں اور پہاڑ آپس ميں ٹکرائيں‪ ،‬اگر زندگی‬ ‫باقی ہے تو کوئی حادثہ گزند نہيں پہنچا سکتا اور نہ صرصر موت شمع زندگی کو بجھا سکتی ہے کيونکہ موت کا ايک وقت مقرر ہے‬ ‫اور اس مقرره وقت تک کوئی چيز سلسلہ حيات کو قطع نہيں کر سکتی‪ ،‬اس لحاظ سے بال شبہ موت خود زندگی کی محافظ و نگہبان‬ ‫ہے۔‬

‫«موت کہتے ہيں جسے ہے پاسبان زندگی »‬

‫‪ 307‬اوالد کے مرنے پہ آدمی کو نيند آجاتی ہے مگر مال کے چھن جانے پر‬ ‫اسے نيند نہيں آتی‪.‬‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫سيد رضی فرماتے ہيں کہ اس کا مطلب يہ ہے کہ انسان اوالد کے مرنے پر صبر کر ليتا ہے مگر مال کے جانے پر صبر نہيں کرتا۔‬

‫‪ 308‬باپوں کی باہمی محبت اوالد کے درميان ايک قرابت ہواکرتی ہے اور‬ ‫محبت کوقرابت کی اتنی ضرورت نہيں جتنی قرابت کو محبت کی۔‬

‫‪ 309‬اہل ايمان کے گمان سے ڈرتے رہو‪ ،‬کيونکہ خداوند عالم نے حق کو ان‬ ‫کی‬

‫زبانوں‬

‫پر‬

‫قرار‬

‫ديا‬

‫ہے‪.‬‬

‫‪ 310‬کسی بندے کا ايمان اس وقت تک سچا نہيں ہوتا جب تک اپنے ہاتھ ميں‬ ‫موجود ہونے والے مال سے اس پر زياده اطمينان نہ ہو جو قدرت کے ہاتھ ميں‬ ‫ہے۔‬

‫‪ 311‬جب حضرت بصره ميں وارد ہوئے تو انس بن مالک کو طلحہ و زبير‬ ‫کے پاس بھيجا تھا کہ ان دونوں کو کچھ وه اقوال ياد دالئيں جو آپ عليہ السّالم‬ ‫کے بارے ميں انہوں نے خود پيغمبر اکر م صلی ﷲ عليہ وآلہ وسلم سے سنے‬ ‫ہيں۔ مگر انہوں نے اس سے پہلوتہی کی‪ ،‬اور جب پلٹ کر آئے تو کہا کہ وه‬ ‫بات مجھے ياد نہيں رہی اس پر حضرت نے فرمايا اگر تم جھو ٹ بول رہے‬ ‫ہو تو اس کی پاداش ميں خداوند عالم ايسے چمکدار داغ ميں تمہيں مبتال کرے‪،‬‬ ‫کہ جسے دستار بھی نہ چھپا سکے۔‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫)سيد رضی فرماتے ہيں کہ( سفيد داغ سے مراد برص ہے چنانچہ انس مر ض ميں مبتال ہوگئے جس کی وجہ سے ہميشہ نقاب پوش‬ ‫دکھائی‬

‫تھے‪.‬‬

‫ديتے‬

‫عالمہ رضی نے اس کالم کے جس مورد و عمل کی طرف اشاره کيا ہے وه يہ ہے کہ جب حضرت نے جنگ جمل کے موقع پر انس ابن‬ ‫مالک کو طلحہ وزبير کے پاس اس مقصد سے بھيجا کہ وه انہيں پيغمبر کا قول انکما استقاتالن عليا و انتھالہ ظالمان )تم عنقريب علی‬ ‫سالم سے جنگ کر و گے اور تم ان کے حق ميں ظلم و زيادتی کرنے والے ہوگے (ياد دالئيں‪ ،‬تو انہوں نے پلٹ کر يہ ظاہر کيا‬ ‫عليہ ال ّ‬ ‫کہ وه اس کا تذکر ه بھو ل گئے تو حضرت نے ان کے ليے يہ کلمات کہے۔ مگر مشہور يہ ہے کہ حضرت نے يہ جملہ اس موقع پر‬ ‫فرمايا‬

‫جب‬

‫پيغمبر‬

‫آپ‬

‫صلعم‬

‫کے‬

‫ارشاد‬

‫اس‬

‫کی‬

‫تصديق‬

‫چاہی‬

‫کہ‪:‬‬

‫“جس کا ميں موال ہوں اس کے علی بھی موال ہيں۔ اے ﷲ جو علی کو دوست رکھے تو بھی اسے دوست رکھ اور جو انہيں دشمن‬ ‫رکھے‬

‫تو‬

‫بھی‬

‫اسے‬

‫دشمن‬

‫رکھ۔”‬

‫چنانچہ متعدد لوگو ں نے اس کی گواہی دی۔ مگر انس بن مالک خاموش رہے جس پر حضرت نے ان سے فرمايا کہ تم بھی تو غدير خم‬ ‫سالم ميں بوڑھا ہوچکا ہوں اب ميری‬ ‫کے موقع پر موجود تھے پھر اس خاموشی کی کيا وجہ ہے؟ انہوں نے کہا يا اميرالمومنين عليہ ال ّ‬ ‫ياد داشت کا م نہيں کرتی جس پر حضرت نے ان کے ليے بددعا فرمائی۔ چنانچہ ابن قيتبہ تحرير کرتے ہيں کہ‪:‬‬ ‫سالم نے انس ابن مالک سے رسول ﷲ کے ارشاد اے ﷲ جو علی کو دوست رکھے تو‬ ‫“لوگوں نے بيان کيا ہے کہ اميرالمومنين عليہ ال ّ‬ ‫بھی اسے دوست رکھ اور جو انہيں دشمن رکھے تو بھی اسے دشمن رکھ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ميں بوڑھا ہوچکا ہوں‬ ‫اور اسے بھول چکا ہوں تو آپ نے فرمايا کہ اگر تم جھوٹ کہتے ہو تو خدا تمہيں ايسے بر ص ميں مبتال کرے جسے عمامہ بھی نہ‬ ‫چھپا‬

‫سکے۔”‬

‫ابن ابی الحديد نے بھی اسی قول کی تائيد کی ہے اور سيد رضی کے تحرير کرده واقعہ کی ترديد کرتے ہوئے تحرير کيا ہے کہ‪:‬‬ ‫سيد رضی نے جس واقعہ کی طرف اشاره کيا ہے حضرت نے انس کو طلحہ و زبير کی طرف روانہ کيا تھا ايک غير معروف واقعہ ہے‬ ‫اگر حضرت نے اس کالم کی ياد دہانی کے ليے انہيں بھيجا ہوتا کہ جو پيغمبر نے ان دونوں کے بارے ميں فرمايا تھا تو يہ بعيد ہے کہ‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫وه پلٹ کر يہ کہيں کہ ميں بھول گيا تھا۔ کيونکہ جب وه حضرت سے الگ ہوکر روانہ ہوئے تھے تو اس وقت يہ اقرار کيا تھا کہ پيغمبر‬ ‫کا يہ ارشاد ميرے علم ميں ہے اور مجھے ياد ہے پھر کس طرح يہ ہوسکتا ہے کہ وه ايک گھﮍی يا ايک دن کے بعد يہ کہيں کہ ميں‬ ‫بھول گيا تھا‪ ،‬اور اقرار کے بعد انکا ر کريں۔ يہ ايک نہ ہونے والی بات ہے۔)شرح ابن ابی الحديد‪ ،‬جلد ‪ ،4‬صفحہ ‪(388‬‬

‫‪ 312‬دل کبھی مائل ہوتے ہيں اور کبھی اچاٹ ہو جاتے ہيں۔ ل ٰہذا جب مائل‬ ‫ہوں‪ ،‬اس وقت انہيں مستحبات کی بجا آوری پرآماده کرو۔ اور جب اچاٹ ہوں‬ ‫تو‬

‫پر‬

‫واجبات‬

‫کرو۔‬

‫اکتفا‬

‫‪ 313‬قرآن ميں تم سے پہلے کی خبر ميں تمہارے بعد کے واقعات اور تمہارے‬ ‫حاالت‬

‫درميانی‬

‫ليے‬

‫کے‬

‫ہيں۔‬

‫احکام‬

‫‪ 314‬جدھر سے پتھر آئے اسے ادھر ہی پلٹا دو کيونکہ سختی کا دفيعہ سختی‬ ‫ہی‬

‫‪315‬‬

‫سے‬

‫اپنے‬

‫منشی‬

‫ہوسکتا‬

‫عبيدﷲ‬

‫ابن‬

‫ابی‬

‫ہے۔‬

‫سے‬

‫رافع‬

‫فرمايا‬

‫‪:‬‬

‫دوات ميں صو ف ڈاال کر و‪ ،‬اور قلم کی زبان النبی رکھا کرو۔ سطروں کے‬ ‫درميان فاصلہ زياده چھوڑا کرو اور حروف کو ساتھ مال کر لکھا کرو کہ يہ‬ ‫خط‬

‫کی‬

‫ديده‬

‫زيبی‬

‫کے‬

‫ليے‬

‫منا‬

‫سب‬

‫ہے۔‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫‪ 316‬ميں اہل ايمان کا يعسوب ہوں اور بدکرداروں کا يعسوب مال ہے۔‬ ‫)سيد رضی فرماتے ہيں کہ (اس کا مطلب يہ ہے کہ ايمان والے ميری پيروی کرتے ہيں اور بدکردار مال و دولت کا اسی طرح اتباع‬ ‫کرتے ہيں جس طرح شہد کی مکھيا ں يعسوب کی اقتدا کرتی ہيں اور يعسوب اس مکھی کو کہتے ہيں جو ان کی سردار ہوتی ہے۔‬

‫‪ 317‬ايک يہودی نے آپ سے کہا کہ ابھی تم لوگوں نے اپنے نبی کودفن نہيں‬ ‫کيا تھا کہ ان کے بارے ميں اختالف شروع کرديا۔ حضرت نے فرمايا ہم نے‬ ‫ان کے بارے ميں اختال ف نہيں کيا۔ بلکہ ان کے بعد جانشينی کے سلسلہ ميں‬ ‫اختالف ہوا مگر تم تو وه ہوکہ ابھی دريائے نيل سے نکل کر تمہارے پير‬ ‫خشک بھی نہ ہوئے تھے کہ اپنے نبی سے کہنے لگے کہ ہمارے ليے بھی‬ ‫توموسی عليہ السّالم‬ ‫ايک ايسا خدا بنا ديجئے جيسے ان لوگوں کے خدا ہيں۔‬ ‫ٰ‬ ‫نے کہا کہ بيشک تم ايک جاہل قوم ہو‪.‬‬ ‫اس يہودی کی نکتہ چينی کا مقصد يہ تھا کہ مسلمانوں کے باہمی اختالف کو پيش کر کے رسول اکرم صلی ﷲ عليہ وآلہ وسلم کی نبوت‬ ‫کو ايک اختالفی امر ثابت کرلے‪ ،‬مگر حضرت نے يہ لفظ فيہ کے بجائے لفظ عنہ فرماکر اختالف کا مورد واضح کر ديا کہ وه اختالف‬ ‫رسول کی نبو ت کے بارے ميں نہ تھا بلکہ ان کی نيابت و جانشينی کے سلسلہ ميں تھا۔ اور پھر يہوديوں کی حالت پر تبصره کرتے‬ ‫ہوئے فرماتے ہيں کہ يہ لوگ جو آج پيغمبر کے بعد مسلمانوں کے باہمی اختالف پر نقدکر رہے ہيں خود ان کی حالت يہ تھی کہ حضرت‬ ‫موسی کی زندگی ہی ميں عقيده توحيد ميں متزلزل ہوگئے تھے چنانچہ جب وه اہل مصر کی غالمی سے چھٹکارا پاکر دريا کے پار اتر‬ ‫ٰ‬ ‫موسی سے کہنے لگے کہ ہمارے ليے بھی ايک ايسی مورتی بنا‬ ‫ے تو سينا کے بت خانہ ميں بچھﮍے کی ايک مورتی ديکھ کر حضرت‬ ‫ٰ‬ ‫سالم نے کہا کہ تم اب بھی ويسے ہی جاہل ہو‪ ,‬جيسے مصر ميں تھے تو جس قوم ميں توحيد کی‬ ‫ديجئے۔ جس پر حضرت‬ ‫ٰ‬ ‫موسی عليہ ال ّ‬ ‫تعليم پانے کے بعد بھی بت پرستی کا جذبہ اتنا ہو کہ وه ايک بت کو ديکھ کر تﮍپنے لگے اور يہ چاہے کہ اس کے ليے بھی ايک بت‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫خانہ بنا ديا جائے اس کو مسلمانوں کے کسی اختالف پر تبصره کرنے کا کيا حق پہنچتا ہے۔‬

‫‪ 318‬حضرت سے کہا گيا کہ آپ کس وجہ سے اپنے حريفوں پرغالب آتے‬ ‫رہے ہيں تو آپ نے فرمايا کہ ميں جس شخص کا بھی مقابلہ کر تا تھا وه اپنے‬ ‫خالف ميری مدد کرتا تھا۔‬ ‫)سيد رضی فرماتے ہيں کہ (حضرت نے اس امر کی طرف اشاره کيا ہے کہ آپ کی ہيبت دلو ں پر چھا جاتی تھی۔‬ ‫جو شخص اپنے حريفوں سے مرعوب ہو جائے‪ ،‬اس کا پسپا ہونا ضروری سا ہوجاتا ہے کيونکہ مقابلہ ميں صرف جسمانی طاقت کا‬ ‫ہونا ہی کافی نہيں ہوتا۔ بلکہ دل کا ٹھہراؤ اورحوصلہ کی مضبوطی بھی ضروری ہے۔ اور جب وه ہمت ہار دے گا اور يہ خيال دل ميں‬ ‫سالم کے حريف کی ہوتی تھی کہ و‬ ‫جما لے گا کہ مجھے مغلوب ہی ہونا ہے تو مغلوب ہو کر رہے گا۔ يہی صورت امير المومنين عليہ ال ّ‬ ‫ه ان کی مسلمہ شجاعت سے اس طرح متاثر ہوتا تھا کہ اسے موت کا يقين ہو جاتا تھا۔ جس کے نتيجہ ميں اس کی قوت معنوی و خود‬ ‫اعتمادی ختم ہوجاتی تھی اورآخر يہ ذہنی تاثر اسے موت کی راه پر ال کھﮍا کرتا تھا۔‬

‫‪ 319‬اپنے فرزند محمد ابن حنفيہ سے فرمايا ! اے فرزند ! ميں تمہارے ليے‬ ‫فقر و تنگدستی سے ڈرتا ہوں ل ٰہذا فقر و ناداری سے ﷲ کی پناه مانگو۔ کيونکہ‬ ‫يہ دين کے نقص‪ ،‬عقل کی پريشانی اور لوگوں کی نفرت کا باعث ہے۔‬

‫‪ 320‬ايک شخص نے ايک مشکل مسئلہ آپ سے دريافت کيا‪ ،‬تو آپ نے فرمايا۔‬ ‫سمجھنے کے ليے پوچھو‪ ،‬الجھنے کے ليے نہ پوچھو۔ کيونکہ وه جاہل جو‬ ‫سيکھنا چاہتا ہے مثل عالم کے ہے اور وه عالم جو الجھنا چاہتا ہے وه مثل‬ ‫جاہل‬

‫کے‬

‫ہے۔‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫‪ 321‬عبد ﷲ ابن عباس نے ايک امر ميں آپ کو مشوره ديا جو آپ کے نظر يہ‬ ‫کے خالف تھا۔ تو آپ نے ان سے فرمايا۔ تمہارا يہ کام ہے کہ مجھے رائے‬ ‫دو۔ اس کے بعد مجھے مصلحت ديکھنا ہے۔ اور اگر ميں تمہاری رائے کو نہ‬ ‫مانوں‪ ،‬تو تمہيں ميری اطاعت الزم ہے۔‬ ‫سالم کو يہ مشوره ديا تھا کہ طلحہ و زبير کو کوفہ کی حکومت کا پروانہ لکھ ديجئے اور‬ ‫عبدﷲ ابن عباس نے امير المومنين عليہ ال ّ‬ ‫معاويہ کو شام کی واليت پر برقرار رہنے ديجئے‪ ،‬يہاں تک کہ آپ کے قد م مضبوطی سے جم جائيں اور حکومت کو استحکام حاصل‬ ‫ہوجائے جس کے جواب ميں حضرت نے فرمايا کہ ميں دوسروں کی دنيا کی خاطر اپنے دين کو خطره ميں نہيں ڈال سکتا لہٰ ذا تم اپنی‬ ‫بات منوانے کے بجائے ميری بات کو سنو اور ميری اطاعت کرو۔‬

‫‪ 322‬وارد ہوا ہے کہ جب حضرت صفين سے پلٹتے ہوئے کوفہ پہنچے تو‬ ‫قبيلہ شبام کی آبادی سے ہوکر گزرے۔ جہاں صفين کے کشتوں پر رونے کی‬ ‫آواز آپ کے کانوں ميں پﮍی اتنے ميں حرب ابن شرجيل شبامی جو اپنی قوم‬ ‫کے سربرآورده لوگوں ميں سے تھے‪ ،‬حضرت کے پاس آئے تو آپ نے اس‬ ‫سے فرمايا ! کياتمہارا ان عورتوں پر بس نہيں چلتا جو ميں رونے کی آوازيں‬ ‫سن رہا ہوں اس رونے چالنے سے تم انہيں منع نہيں کرتے؟ حرب آگے بﮍھ‬ ‫کر حضرت کے ہمرکاب ہو ليے درآں حاليکہ حضرت سوار تھے تو آپ نے‬ ‫فرمايا ! پلٹ جاؤ تم۔ ايسے آدمی کا مجھ ايسے کے ساتھ پياده چلنا والی کے‬ ‫ليے‬

‫فتنہ‬

‫اور‬

‫مومن‬

‫کے‬

‫ليے‬

‫ذلت‬

‫ہے۔‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫‪ 323‬نہروان کے دن خوارج کے کشتوں کی طرف ہو کر گزرے تو فرمايا !‬ ‫تمہارے ليے ہالکت و تباہی ہو جس نے تمہيں ورغاليا‪ ،‬اس نے تمہيں فريب‬ ‫ديا۔ کہاگياکہ يا امير المومنين عليہ السّالم کس نے انہيں ورغاليا تھا؟فرمايا کہ‬ ‫گمراه کرنے والے شيطان اور برائی پر ابھارنے والے نفس نے کہ جس نے‬ ‫انہيں اميدوں کے فريب ميں ڈاال اور گناہوں کا راستہ ان کے ليے کھول ديا۔‬ ‫فتح و کامرانی کے ان سے وعدے کئے اور اس طرح انہيں دوزخ ميں‬ ‫ديا۔‬

‫جھونک‬

‫‪ 324‬تنہائيوں ميں ﷲ‬ ‫تعالی کی مخالفت کرنے سے ڈرو۔ کيونکہ جو گواه ہے‬ ‫ٰ‬ ‫وہی‬

‫ہے‪.‬‬

‫حاکم‬

‫‪ 325‬جب آپ کو محمد ابن ابی بکر رحمتہ ﷲ عليہ کے شہيد ہونے کی خبر‬ ‫پہنچی توآپ نے فرمايا ہميں ان کے مر نے کا اتنا ہی رنج و قلق ہے جتنی‬ ‫دشمنوں کو اس کی خوشی ہے۔ بالشبہ ان کا ايک دشمن کم ہوا۔ اور ہم نے‬ ‫ايک‬

‫دوست‬

‫کھو‬

‫کو‬

‫ديا۔‬

‫تعالی آدمی کے عذر کو قبول نہيں کرتا‪،‬‬ ‫‪ 326‬وه عمر کہ جس کے بعد ﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫ساٹھ‬

‫برس‬

‫کی‬

‫ہے۔‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫‪ 327‬جس پر گناه قابو پا لے‪ ،‬وه کامران نہيں اور شرکے ذريعہ غلبہ پانے واال‬ ‫حقيقتا ً‬

‫مغلوب‬

‫ہے۔‬

‫‪ 328‬خدا وند عالم نے دولتمندوں کے مال ميں فقيروں کا رزق مقرر کيا ہے‬ ‫ل ٰہذا اگر کوئی فقير بھوکا رہتا ہے تو اس ليے کہ دولت مند نے دولت کو سميٹ‬ ‫ليا ہے اور خدائے بزرگ و برتر ان سے اس کا مواخذه کرنے واال ہے۔‬

‫‪ 329‬سچاعذر پيش کرنے سے يہ زياده دقيع ہے کہ عذر کی ضرورت ہی نہ‬ ‫پﮍے۔‬ ‫مطلب يہ ہے کہ انسان کو اپنے فرائض پر اس طرح کار بند ہونا چاہيے کہ اسے معذرت پيش کرنے کی نوبت ہی نہ آئے۔ کيونکہ معذرت‬ ‫ميں ايک گونہ کوتاہی کی جھلک اور ذلت کی نمود ہوتی ہے‪ ،‬اگرچہ وه صحيح و درست ہی کيوں نہ ہو۔‬

‫‪ 330‬ﷲ کا کم سے کم حق جو تم پر عائد ہوتا ہے يہ ہے کہ اس کی نعمتوں‬ ‫سے گناہوں ميں مدد نہ لو‪.‬‬ ‫کفران نعمت وناسپاسی کے چنددرجے ہيں۔ پہال درجہ يہ ہے کہ انسان نعمت ہی کی تشخيص نہ کرسکے‪ ،‬جيسے آنکھوں کی روشنی‪،‬‬ ‫زبان کی گويائی‪ ،‬کانوں کی شنوائی اور ہاتھ پيروں کی حرکت کو سن ﷲ کی بخشی ہوئی نعمتيں ہيں۔ مگر بہت سے لوگوں کو ان کے‬ ‫نعمت ہونے کا احساس ہی نہيں ہوتا کہ ان ميں شکر گزاری کا جذبہ پيدا ہو‪ .‬دوسرا درجہ يہ ہے کہ نعمت کو ديکھے اور سمجھے۔ مگر‬ ‫اس کے مقابلہ ميں شکر بجا نہ الئے‪ .‬تيسرادرجہ يہ ہے کہ نعمت بخشنے والے کی مخالفت و نافرمانی کرے۔ چوتھا درجہ يہ ہے کہ‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫اسی کی دی ہوئی نعمتوں کو اطاعت و بندگی ميں صرف کر نے کے بجائے اس کی معصيت و نافرمانی ميں صرف کرے يہ کفران نعمت‬ ‫کا سب سے بﮍا درجہ ہے۔‬

‫اقوال امام علی )عليہ السالم (از نہج البالغہ‬ ‫ِ‬ ‫اقوال ‪ ٣٣١‬تا ‪٣۶٠‬‬ ‫‪ 331‬جب کاہل اور ناکاره افراد عمل ميں کوتاہی کرتے ہيں تو ﷲ کی طرف‬ ‫سے يہ عقلمند وں کے ليے ادائے فرض کا ايک بہترين موقع ہوتا ہے۔‬

‫‪332‬‬

‫حکام‬

‫ﷲ‬

‫کی‬

‫سر‬

‫زمين‬

‫ميں‬

‫اس‬

‫کے‬

‫پاسبان‬

‫ہيں۔‬

‫‪ 333‬مومن کے متعلق فرمايا! مومن کے چہرے پر بشاشت اور دل ميں غم و‬ ‫اندوه ہوتا ہے۔ ہمت اس کی بلند ہے اور اپنے دل ميں وه اپنے کو ذليل سمجھتا‬ ‫ہے سر بلندی کو برا سمجھتا ہے اور شہرت سے نفرت کرتا ہے اس کا غم بے‬ ‫پاياں اور ہمت بلند ہوتی ہے۔ بہت خاموش ہمہ وقت مشغو ل‪ ،‬شاکر‪ ،‬صابر‪،‬‬ ‫فکر ميں غرق‪ ,‬دست طلب بﮍھانے ميں بخيل‪ ،‬خوش خلق اور نرم طبيعت ہوتا‬ ‫ہے اور اس کا نفس پتھر سے زياده سخت اور خود غالم سے زياده متواضع‬ ‫ہوتا‬

‫ہے۔‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫‪ 334‬اگر کوئی بنده مدت حيات اور اس کے انجا م کو ديکھے تو اميدوں اور‬ ‫ان‬

‫کے‬

‫فريب‬

‫سے‬

‫نفرت‬

‫کرنے‬

‫لگے۔‬

‫‪ 335‬ہر شخص کے مال ميں دو حصہ دار ہوتے ہيں۔ ايک وارث اور دوسرے‬ ‫حوادث‪.‬‬

‫‪ 336‬جس سے مانگا جائے وه اس وقت تک آزاد ہے‪ ،‬جب تک وعده نہ کرے۔‬

‫‪ 337‬جو عمل نہيں کرتا اور دعا مانگتا ہے وه ايسا ہے جيسے بغير حليہ کمان‬ ‫کے‬

‫تير‬

‫چالنے‬

‫واال‪.‬‬

‫‪ 338‬علم دو طرح کا ہوتا ہے‪ ،‬ايک وه جو نفس ميں بس جائے اور ايک وه جو‬ ‫صرف سن ليا گياہو اور سناسنايا فائده نہيں ديتا جب تک وه دل ميں راسخ نہ‬ ‫ہو۔‬

‫ت رائے اقبال و دولت سے وابستہ ہے اگر يہ ہے تو وه بھی ہوتی‬ ‫‪ 339‬اصاب ِ‬ ‫ہے اور اگر يہ نہيں تو وه بھی نہيں ہوتی‪.‬‬ ‫جب کسی کا بخت ياور اور اقبال اوج و عروج پر ہوتا ہے تو اس کے قدم خود بخود منزل مقصود کی طر ف بﮍھنے لگتے ہيں۔ اور ذہن‬ ‫و فکر کو صحيح طريق کار کے طے کرنے ميں کوئی الجھن نہيں ہوتی اور جس کا اقبال ختم ہونے پر آتا ہے وه روشنی ميں بھی‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫ٹھوکريں کھاتا ہے اور ذہن وفکر کی قوتيں معطل ہوکر ره جاتی ہيں۔ چنانچہ جب بنی برمک کا زوال شروع ہوا تو ان ميں سے دس‬ ‫آدمی ايک امر ميں مشوره کرنے کے ليے جمع ہوگئے مگر پوری رد و کد کے بعد بھی کسی صحيح نتيجہ تک نہ پہنچ سکے۔ يہ ديکھ‬ ‫يحيی نے کہا کہ خدا کی قسم يہ ہمارے زوال کا پيش خيمہ اور ہمارے ادبار کی عالمت ہے کہ ہم دس آدمی بھی کوئی فيصلہ نہ کر‬ ‫کر‬ ‫ٰ‬ ‫سکيں۔ ورنہ جب ہمارا نير و اقبال بام عروج پر تھا تو ہمارا ايک آدمی ايسی دس دس گتھيوں کو بﮍی آسانی سے سلجھا ليتا تھا۔‬

‫‪ 340‬فقر کی زينت پاکدامنی اور تونگری کی زينت شکر ہے۔‬

‫‪ 341‬ظالم کے ليے انصاف کا دن اس سے زياده سخت ہوگا‪ ،‬جتنا مظلوم پر‬ ‫ظلم‬

‫دن۔‬

‫کا‬

‫‪ 342‬سب سے بﮍی دولت مندی يہ ہے کہ دوسروں کے ہاتھ ميں جو ہے اس‬ ‫کی‬

‫آس‬

‫نہ‬

‫رکھی‬

‫جائے۔‬

‫‪ 343‬گفتگوئيں محفوظ ہيں اور دلوں کے بھيد جانچے جانے والے ہيں۔ ہر‬ ‫شخص اپنے اعمال کے ہاتھوں ميں گروی ہے اور لوگوں کے جسموں ميں‬ ‫نقص اور عقلوں ميں فتور آنے واال ہے مگر وه کہ جسے ﷲ بچائے رکھے۔‬ ‫ان ميں پوچھنے واال الجھانا چاہتا ہے اور جواب دينے واال )بے جانے بوجھے‬ ‫جواب کی(زحمت اٹھاتا ہے جو ان ميں درست رائے رکھتا ہے۔ اکثر خوشنودی‬ ‫و ناراضگی کے تصورات اسے صحيح رائے سے موڑ ديتے ہيں اور جو ان‬ ‫ميں عقل کے لحاظ سے پختہ ہوتا ہے بہت ممکن ہے کہ ايک نگا ه اس کے دل‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫پر‬

‫اثر‬

‫کردے‬

‫اور‬

‫ايک‬

‫کلمہ‬

‫اس‬

‫ميں‬

‫انقالب‬

‫پيدا‬

‫کردے۔‬

‫‪ 344‬اے گروه مردم! ﷲ سے ڈرتے رہو کيونکہ کتنے ہی ايسی باتوں کی اميد‬ ‫باندھنے والے ہيں جن تک پہنچتے نہيں اور ايسے گھر تعمير کرنے والے ہيں‬ ‫جن ميں رہنا نصيب نہيں ہوتا اور ايسا مال جمع کرنے والے ہيں جسے‬ ‫چھوڑجاتے ہيں حاالنکہ ہوسکتا ہے کہ اسے غلط طريقہ سے جمع کيا ہو يا‬ ‫کسی کا حق دبا کر حاصل کيا ہو۔ اس طرح اسے بطور حرام پايا ہو اور اس‬ ‫کی وجہ سے گناه کا بوجھ اٹھايا ہو‪ ،‬تو اس کا وبال لے کر پلٹے اور اپنے‬ ‫پروردگار کے حضور رنج و افسوس کرتے ہوئے جا پہنچے دنيا و آخرت‬ ‫دونوں‬

‫ميں‬

‫گھاٹا‬

‫اٹھايا۔‬

‫يہی‬

‫تو‬

‫کھلم‬

‫کھال‬

‫گھاٹا‬

‫ہے۔‬

‫‪ 345‬گناه تک رسائی کا نہ ہوتا بھی ايک صورت پاکدامنی کی ہے۔‬

‫‪ 346‬تمہاری آبرو قائم ہے جسے دست سوال دراز کرنا بہا ديتا ہے۔ ل ٰہذا يہ‬ ‫خيال رہے کہ کس کے آگے اپنی آبرو ريزی کر رہے ہو۔‬

‫‪ 347‬کسی کو اس کے حق سے زياده سراہنا چاپلوسی ہے اور حق ميں کمی‬ ‫کرنا‬

‫کوتاه‬

‫بيانی‬

‫ہے‬

‫يا‬

‫حسد‪.‬‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫‪ 348‬سب سے بھاری گناه وه ہے کہ جس کا ارتکاب کرنے واال اسے سبک‬ ‫سمجھے۔‬ ‫چھوٹے گناہوں ميں بے باکی و بے اعتنائی کا نتيجہ يہ ہوتا ہے کہ انسان گناه کے معاملہ ميں بے پرواه سا ہوجاتا ہے اور رفتہ رفتہ يہ‬ ‫عادات اسے بﮍے بﮍے گناہوں کی جرات دال ديتی ہے اور پھر وه بغير کسی جھجک کے ان کا مرتکب ہونے لگتا ہے۔ لہٰ ذا چھوٹے‬ ‫گناہوں کو بﮍے گناہوں کا پيش خيمہ سمجھتے ہوئے ان سے احتراز کر نا چاہيے تاکہ بﮍے گناہوں کے مرتکب ہونے کی نوبت ہی نہ‬ ‫آئے۔‬

‫‪ 349‬جو شخص اپنے عيوب پر نظر رکھے گا وه دوسروں کی عيب جوئی‬ ‫سے باز رہے گا۔ اور جو ﷲ کے ديئے ہوئے رزق پر خوش رہے گا‪ ،‬وه نہ‬ ‫ملنے والی چيز پر رنجيده نہيں ہو گا۔ جو ظلم کی تلوار کھينچتا ہے وه اسی‬ ‫سے قتل ہوتا ہے جو اہم امور کو زبردستی انجام دينا چاہتا ہے۔ وه تباه و بر باد‬ ‫ہوتا ہے‪ ،‬جو اٹھتی ہوئی موجوں ميں پھاندتا ہے‪ ،‬وه ڈوبتا ہے‪ ،‬جو بدنامی کی‬ ‫جگہوں پر جائے گا‪ ،‬وه بدنام ہوگا‪ ،‬جو زياده بولے گا‪ ،‬وه زياده لغزشيں کرے‬ ‫ٰ‬ ‫ٰ‬ ‫تقوی کم ہوگا‬ ‫تقوی کم ہوگا اور جس ميں‬ ‫گا اور جس ميں حيا کم ہو اس ميں‬ ‫اس کا دل مرده ہوجائے گا۔ اور جس کا دل مرده ہوگيا وه دوزخ ميں جا پﮍا۔ جو‬ ‫شخص لوگوں کے عيوب کو ديکھ کر نا ک بھول چﮍھائے اور پھر انہيں اپنے‬ ‫ليے چاہے اور سرا سرا حمق ہے قناعت ايسا سرمايہ ہے جو ختم نہيں ہوتا۔‬ ‫جو موت کو زياده ياد رکھتا ہے وه تھوڑی سی دنيا پر بھی خوش ہو رہتا ہے۔‬ ‫جو شخص يہ جانتا ہے کہ اس کاقول بھی عمل کا ايک جز ہے‪ ،‬وه مطلب کی‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫کے‬

‫بات‬

‫کالم‬

‫عالوه‬

‫کرتا۔‬

‫نہيں‬

‫‪ 350‬لوگوں ميں جو ظالم ہو اس کی تين عالمتيں ہيں ‪:‬وه ظلم کرتا ہے اپنے‬ ‫سے باال ہستی کی خالف ورزی سے‪ ،‬اور اپنے سے پست لوگوں پر قہر و‬ ‫سے‬

‫تسلط‬

‫اور‬

‫ظالموں‬

‫کمک‬

‫کی‬

‫و‬

‫امداد‬

‫کرتا‬

‫ہے۔‬

‫‪351‬جب سختی انتہا کوپہنچ جائے تو کشائش و فراخی ہوگی اور جب ابتالء‬ ‫ومصيبت کی کﮍياں تنگ ہوجائيں تو راحت و آسائش حاصل ہوتی ہے۔‬

‫‪352‬اپنے اصحاب ميں سے ايک سے فرمايا زن و فرزند کی زياده فکر ميں نہ‬ ‫رہو‪ ،‬اس ليے کہ اگر وه دوستان خدا ہيں تو خدا اپنے دوستوں کو برباد نہ‬ ‫ہونے دے گا اور اگر دشمنان خدا ہيں تو تمہيں دشمنان خدا کی فکروں اور‬ ‫دھندوں‬

‫پﮍنے‬

‫ميں‬

‫مطلب‬

‫سے‬

‫کيا۔‬

‫ہی‬

‫‪353‬سب سے بﮍا عيب يہ ہے کہ اس عيب کو بر ا کہو‪ ،‬جس کے مانند خود‬ ‫تمہارے اندر موجود ہے۔‬ ‫اس سے بﮍھ کر اور عيب کيا ہوسکتا ہے کہ انسان دوسروں کے ان عيوب پر نکتہ چينی کرے جو خود اس کے اندر بھی پائے جاتے‬ ‫ہوں‪ ،‬تقاضائے عدل تو يہ ہے کہ وه دوسروں کے عيوب پر نظر کرنے سے پہلے اپنے عيوب پر نظرکرے اور سوچے کہ عيب‪ ،‬عيب‬ ‫ہے‬

‫وه‬

‫دوسرے‬

‫کے‬

‫اند‬

‫ر‬

‫پايا‬

‫جائے‬

‫يا‬

‫اپنے‬

‫اندر‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫ہمہ عيب خلق ديدن نہ مروت است و مروی نگہے بخويشين کن کہ ہمہ گنا ه داری‬

‫‪354‬حضرت کے سامنے ايک نے دوسرے شخص کو فرزند کے پيد ا ہونے‬ ‫پر مبارکباد ديتے ہوئے کہا کہ «شہسوار مبارک ہو»‪.‬جس پر حضرت نے‬ ‫فرمايا کہ يہ نہ کہو کہ تم بخشنے والے )خدا( کے شکر گزار ہوئے يہ بخشی‬ ‫ہوئی نعمت تمہيں مبارک ہو‪ ،‬يہ اپنے کمال کو پہنچے اور اس کی نيکی و‬ ‫تمہيں‬

‫سعادت‬

‫ہو۔‬

‫نصيب‬

‫‪355‬حضرت کے عمال ميں سے ايک شخص نے ايک بلند عمار ت تعمير کی‬ ‫جس پر آپ نے فرمايا۔ چاندی کے سکوں نے سر نکاال ہے۔ بالشبہ يہ عمار ت‬ ‫تمہاری‬

‫ثروت‬

‫کی‬

‫غمازی‬

‫کرتی‬

‫ہے‪.‬‬

‫‪356‬حضرت سے کہا گيا کہ اگر کسی شخص کو گھر ميں چھوڑ کر اس کا‬ ‫دروازه بند کرديا جائے تو اس کی روزی کدھر سے آئے گی؟ فرمايا‪:‬‬ ‫جدھر سے اس کی موت آئے گی۔‬ ‫اگر خداوند عالم کی مصلحت اس امر کی مقتضی ہو کہ وه کسی ايسے شخص کو زنده رکھے جسے کسی بند جگہ ميں محصور کردياگيا‬ ‫ہو‪ ،‬تو وه اس ليے سروسامان زندگی مہيا کرکے اسے زنده رکھنے پر قادر ہے اور جس طرح بند دروازے موت کو نہيں روک سکتے‪،‬‬ ‫اسی طرح رزق سے بھی مانع نہيں ہوسکتے۔ کيونکہ اس قادر مطلق کی قدرت دونوں پر يکساں کار فرما ہے‪.‬‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫مقصد يہ ہے کہ انسان کو رزق کے معاملہ ميں قانع ہونا چاہيے کيونکہ جو اس کے مقدر ميں ہے وه جہا ں کہيں بھی ہوگا‪ ،‬اسے بہر‬ ‫صورت‬

‫گا‬

‫ملے‬

‫می رسد در خانہ در بستہ روزی چوں اجل حرص داردايں چنيں آشفتہ خاطر خلق را‬

‫‪357‬حضرت نے ايک جماعت کو ان کے مرنے والے کی تعزيت کرتے ہوئے‬ ‫فرمايا کہ «موت کی ابتداء تم سے نہيں ہوئی ہے اور نہ اس کی انتہا تم پر ہے‬ ‫يہ تمہارا ساتھی مصروف سفر رہتا تھا۔ اب بھی يہی سمجھو کہ وه اپنے کسی‬ ‫سفرميں ہے اگر وه آگيا تو بہتر‪ ،‬ورنہ تم خود اس کے پاس پہنچ جاؤگے»۔‬

‫‪358‬اے لوگو! چاہيے کہ ﷲ تم کو نعمت و آسائش کے موقع پر بھی اسی طرح‬ ‫خائف و ترساں ديکھے جس طرح تمہيں عذاب سے ہراساں ديکھتا ہے۔ بيشک‬ ‫جسے فراخ دستی حاصل ہو‪ ،‬اور وه اسے کم کم عذاب کی طرف بﮍھنے کا‬ ‫سبب نہ سمجھے تو اس نے خوفناک چيز سے اپنے کو مطمئن سمجھ ليا اور‬ ‫جو تنگدست ہو اور وه اسے آزمائش نہ سمجھے تو اس نے اس ثواب کو ضائع‬ ‫کرديا۔‬

‫کہ‬

‫جس‬

‫کی‬

‫اميد‬

‫وآرزو‬

‫کی‬

‫جاتی‬

‫ہے‪.‬‬

‫‪359‬اے حرص و طمع کے اسيرو! باز آؤ کيونکہ دنيا پر ٹوٹنے والوں کو‬ ‫حوادث‬

‫زمانہ‬

‫کے‬

‫دانت‬

‫پيسنے‬

‫ہی‬

‫کا‬

‫انديشہ‬

‫کرنا‬

‫چاہيے۔‬

‫اے لوگو! خود ہی اپنی اصالح کا ذمہ لو‪ ,‬اور اپنی عادتوں کے تقاضوں سے‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫موڑلو۔‬

‫منہ‬

‫‪360‬کسی کے منہ سے نکلنے والی بات ميں اگر اچھائی کاپہلو نکل سکتا ہو‪،‬‬ ‫تو اس کے بارے ميں بدگمانی نہ کرو۔‬

‫اقوال امام علی )عليہ السالم (از نہج البالغہ‬ ‫ِ‬ ‫اقوال ‪ ٣۶١‬تا ‪٣٩٠‬‬ ‫تعالی سے کوئی حاجت طلب کرو‪ ،‬تو پہلے رسول ﷲ صلی ﷲ‬ ‫‪361‬جب ﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫عليہ وآلہ وسلم پر درود بھيجو‪ ،‬پھر اپنی حاجت مانگو‪ ،‬کيونکہ خداوند عالم اس‬ ‫سے بلند تر ہے کہ اس سے دوحاجتيں طلب کی جائيں اور وه ايک پوری‬ ‫اور‬

‫کردے‬

‫ايک‬

‫لے۔‬

‫روک‬

‫‪362‬جسے اپنی آبرو عزيز ہو‪ ،‬وه لﮍائی جھگﮍے سے کناره کش رہے۔‬

‫‪363‬امکان پيداہونے سے پہلے کسی کام ميں جلد بازی کرنا اور موقع آنے پر‬ ‫دير‬

‫کرنا‬

‫دونوں‬

‫حماقت‬

‫ميں‬

‫داخل‬

‫ہيں۔‬

‫‪364‬جو بات نہ ہونے والی ہو اس کے متعلق سوال نہ کرو۔ اس ليے کہ جو‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫ہے‪،‬‬

‫وہی‬

‫ليے‬

‫تمہارے‬

‫ہے۔‬

‫کافی‬

‫‪365‬فکر ايک روشن آئينہ ہے‪ ،‬عبر ت اندوزی ايک خير خواه متنبہ کرنے‬ ‫والی چيز ہے‪ ،‬نفس کی اصالح کے ليے يہی کافی ہے کہ جن چيزوں کو‬ ‫دوسروں‬

‫کے‬

‫ليے‬

‫برا‬

‫سمجھتے‬

‫ہو‬

‫ان‬

‫سے‬

‫بچ‬

‫کر‬

‫رہو۔‬

‫‪366‬علم عمل سے وابستہ ہے۔ ل ٰہذا جو جانتا ہے وه عمل بھی کرتا ہے اور علم‬ ‫عمل کو پکارتا ہے۔ اگروه لبيک کہتا ہے تو بہتر‪ ،‬ورنہ وه بھی اس سے‬ ‫رخصت‬

‫ہوجاتا‬

‫ہے۔‬

‫‪367‬اے لوگو! دنيا کا سازوسامان سوکھا سﮍا بھوسا ہے جو وبا پيد ا کرنے‬ ‫واالہے۔ ل ٰہذ ا اس چراگاه سے دور رہو کہ جس سے چل چالؤ باطمينان منزل‬ ‫کرنے سے زياده فائده مند ہے اورصرف بقدر کفاف لے لينا اس دولت و ثروت‬ ‫سے زياده برکت واال ہے اس کے دولت مندوں کے ليے فقر طے ہوچکا ہے‬ ‫اور اس سے بے نياز رہنے والوں کو راحت کا سہارا ديا گيا ہے۔ جس کو اس‬ ‫کی سج دھج لبھا ليتی ہے‪ ،‬وه انجام کار اس کی دونوں آنکھوں کو اندھا کرديتی‬ ‫ہے اور جو اس کی چاہت کو اپنا شعار بنا ليتا ہے وه اس کے دل کو ايسے‬ ‫غموں سے بھر ديتی ہے جو دل کی گہرائيوں ميں تالطم برپا کر تے ہيں يوں‬ ‫کہ کبھی کوئی فکر اسے گھيرے رہتی ہے‪ ،‬اور کبھی کوئی انديشہ اسے‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫رنجيده بنائے رہتا ہے۔ وه اسی حالت ميں ہوتا ہے کہ اس کا گالگھوٹاجانے لگتا‬ ‫ہے اور وه بيابان ميں ڈال ديا جاتا ہے اس عالم ميں کہ اس کے دل کی دونوں‬ ‫رگيں ٹوٹ چکی ہوتی ہيں۔ ﷲ کو اس کا فنا کرنا سہل اور اس کے بھائی بندوں‬ ‫کا اسے قبر ميں اتارنا آسان ہوجاتا ہے‪.‬مومن دنيا کو عبرت کی نگاه سے‬ ‫ديکھتاہے اور اس سے اتنی ہی غذا حاصل کرتا ہے۔ جتنی پيٹ کی ضرورت‬ ‫مجبور کرتی ہے اور اس کے بارے ميں ہر بات کو بغض و عناد کے کانوں‬ ‫سے سنتا ہے اگر کسی کے متعلق يہ کہا جاتا ہے کہ وه مال دار ہو گيا ہے تو‬ ‫پھر يہ بھی کہنے ميں آتا ہے کہ نادار ہو گيا ہے اگر زندگی پر خوشی کی‬ ‫جاتی ہے تو مرنے پرغم بھی ہوتا ہے۔ يہ حالت ہے حاالنکہ ابھی وه دن نہيں‬ ‫آيا‬

‫کہ‬

‫جس‬

‫ميں‬

‫پوری‬

‫مايوسی‬

‫چھا‬

‫جائے‬

‫گی۔‬

‫‪368‬ﷲ سبحانہ نے اپنی اطاعت پرثواب اور اپنی معصيت پر سزا اس ليے‬ ‫رکھی ہے کہ اپنے بندوں کوعذاب سے دور کرے اور جنت کی طرف‬ ‫گھيرکرلے‬

‫جائے‪.‬‬

‫‪369‬لوگوں پر ايک ايسا دور آئے گا جب ان ميں صرف قرآن کے نقوش اور‬ ‫اسالم کا صر ف نام باقی ره جائے گا‪ ،‬اس وقت مسجديں تعمير و زينت کے‬ ‫لحا ظ سے آباد اور ہدايت کے اعتبار سے ويران ہوں گی۔ ان ميں ٹھہرنے‬ ‫والے اور انہيں آباد کرنے والے تمام اہل زمين ميں سب سے بدتر ہوں گے‪ ،‬وه‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫فتنوں کا سرچشمہ اور گناہوں کا مرکز ہو ں گے جو ان فتنوں سے منہ موڑ ے‬ ‫گا‪ ،‬انہيں انہی فتنوں کی طرف پلٹائيں گے اور جوقدم پيچھے ہٹائے گا‪ ،‬انہيں‬ ‫دھکيل کر ان کی طرف الئيں گے۔ ارشاد الہی ہے کہ «مجھے اپنی ذات کی‬ ‫قسم ميں ان لوگوں پر ايسا فتنہ نازل کروں گا جس ميں حليم و بردبار کو‬ ‫حيران‬

‫سر‬

‫و‬

‫چھوڑ‬

‫گردان‬

‫دوں‬

‫گا‬

‫»‪.‬‬

‫چنانچہ وه ايسا ہی کرے گا‪ ،‬ہم ﷲ سے غفلت کی ٹھوکروں سے عفو کے‬ ‫ہيں۔‬

‫خواستگار‬

‫‪370‬جب بھی آپ منبر پر رونق افروز ہوتے تو ايسا اتفاق کم ہوتا تھا کہ خطبہ‬ ‫سے‬

‫پہلے‬

‫يہ‬

‫کلما‬

‫ت‬

‫نہ‬

‫فرمائيں۔‬

‫اے لوگو! ﷲ سے ڈرو‪,‬کيونکہ کوئی شخص بے کار پيدا نہيں کياگيا کہ وه‬ ‫کھيل کود ميں پﮍ جائے‪ ،‬اور نہ اسے بے قيد و بند چھوڑ ديا گيا ہےکہ بيہودگيا‬ ‫ں کرنے لگے اور دنيا جو اس کے ليے آراستہ و پيراستہ ہے اس آخرت کا‬ ‫عوض نہيں ہوسکتی جس کو اس کی غلط نگاه نے بری صورت ميں پيش کيا‬ ‫ہے وه فريب خورده جو اپنی بلند ہمتی سے دنيا حاصل کرنے ميں کامياب ہو‬ ‫اس دوسرے شخص کے مانند نہيں ہوسکتا جس نے تھوڑا بہت آخرت کا حصہ‬ ‫حاصل‬

‫کرليا‬

‫ہو۔‬

‫ٰ‬ ‫تقوی سے زياده با وقار‬ ‫‪371‬کوئی شرف اسالم سے بلند تر نہيں کوئی بزرگی‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫نہيں‪ ،‬کوئی پناه گاه پرہيز گاری سے بہتر نہيں‪ ،‬کوئی سفارش کرنے واال توبہ‬ ‫سے بﮍھ کر کامياب نہيں‪ ،‬کوئی خزانہ قناعت سے زياده بے نياز کرنے واال‬ ‫نہيں کوئی مال بقدر کفاف پر رضا مند رہنے سے بﮍھ کرفقر و احتياج کا دور‬ ‫کرنے واال نہيں۔ جوشخص قدر حاجت پر اکتفا کرليتا ہے وه آسائش و راحت‬ ‫پاليتا ہے۔ اورآرام و آسودگی ميں منزل بنا ليتا ہے۔ خواہش و رغبت‪ ،‬رنج و‬ ‫تکليف کی کليد اور مشقت و اندو ه کی سوار ی ہے‪.‬حرص تکبر اور حسد‬ ‫گناہوں ميں پھاند پﮍنے کے محرکا ت ہيں اور بدکرداری تمام برے عيوب کو‬ ‫حاوی‬

‫ہے۔‬

‫‪372‬جابر ابن عبدﷲ انصار ی سے فرمايا اے جابر! چارقسم کے آدميوں سے‬ ‫دين و دنيا کا قيام ہے عالم جو اپنے علم کو کام ميں التا ہو‪,‬جاہل جو علم کے‬ ‫حاصل کرنے ميں عار نہ کرتا ہو‪,‬سخی جو داد و دہش ميں بخل نہ کرتا ہو‪،‬‬ ‫اور فقير جو آخرت کو دنيا کے عوض نہ بيچتا ہو۔ تو جب عالم اپنے علم کو‬ ‫برباد کرے گا‪ ،‬توجاہل اس کے سيکھنے ميں عار سمجھے گا اور جب دولت‬ ‫مند نيکی و احسان ميں بخل کرے گا تو فقير اپنی آخرت دنيا کے بدلے بيچ‬ ‫ڈالے‬

‫گا۔‬

‫اے جابر ! جس پرﷲ کی نعمتيں زياده ہوں گی لوگوں کی حاجتيں بھی اس کے‬ ‫دامن سے زياده وابستہ ہوں گی ل ٰہذا جوشخص ان نعمتوں پرعائد ہونے والے‬ ‫حقوق کو ﷲ کی خاطر ادا کرے گا‪ ،‬وه ان کے ليے دوام و ہميشگی کا سامان‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫کرے گا اور جو ان واجب حقوق کے ادا کرنے کے ليے کھﮍا نہيں ہو گا وه‬ ‫انہيں‬

‫فنا‬

‫و‬

‫بربادی‬

‫کی‬

‫زد‬

‫پر‬

‫لے‬

‫آئے‬

‫گا۔‬

‫ليلی فقيہ سے‬ ‫‪373‬ابن جرير طبری نے اپنی تاريخ ميں عبدالرحمٰ ن ابن ابی ٰ‬ ‫روايت کی ہے اور يہ ان لوگوں ميں سے تھے جو ابن اشعث کے ساتھ حجا ج‬ ‫سے لﮍنے کے ليے نکلے تھے کہ وه لوگوں کو جہاد پر ابھارنے کے ليے‬ ‫کہتے تھے کہ جب اہل شام سے لﮍنے کے ليے بﮍھے تو ميں نے علی عليہ‬ ‫السالم‬

‫کو‬

‫فرماتے‬

‫سنا۔‬

‫اے اہل ايمان ! جو شخص ديکھے کہ ظلم و عدوان پر عمل ہو رہا ہے اور‬ ‫برائی کی طرف دعوت دی جارہی ہے اور وه دل سے اسے برا سمجھے‪ ،‬تو‬ ‫وه )عذاب سے (محفوظ اور )گناه سے( بری ہو گيا‪ ،‬اور جوزبان سے اسے برا‬ ‫کہے وه ماجور ہے صرف دل سے بر اسمجھنے والے سے افضل ہے اور جو‬ ‫شخص شمشير بکف ہو کر اس برائی کے خالف کھﮍا ہوتا کہ ﷲ کا بول باال‬ ‫ہو‪ ،‬اور ظالموں کی بات گر جائے تو يہی وه شخص ہے جس نے ہدايت کی‬ ‫راه کو پاليا اور سيدھے راستے پر ہوليا اور اس کے دل ميں يقين نے روشنی‬ ‫پھيال‬

‫دی۔‬

‫‪374‬اسی انداز پرحضرت کا ايک يہ کالم ہے لوگوں ميں سے ايک وه ہے جو‬ ‫برائی کو ہاتھ‪ ،‬زبان اور دل سے برا سمجھتا ہے۔ چنانچہ اس نے اچھی‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫خصلتوں کو پورے طور پر حاصل کر ليا ہے اور ايک وه ہے جو زبان اور‬ ‫دل سے براسمجھتا ہے ليکن ہاتھ سے اسے نہيں مٹاتا تو اس نے اچھی‬ ‫خصلتوں ميں سے دوخصلتوں سے ربط رکھا اور ايک خصلت کو رائيگاں کر‬ ‫ديا اور ايک وه ہے جو دل سے بر ا سمجھتا ہے ليکن اسے مٹانے کے ليے‬ ‫ہاتھ اور زبان کسی سے کام نہيں ليتا اس نے تين خصلتوں ميں سے دوعمده‬ ‫خصلتوں کو ضائع کرديا‪ ،‬اور صرف ايک سے وابستہ رہا اور ايک وه ہے جو‬ ‫نہ زبان سے‪ ،‬نہ ہاتھ سے اور نہ دل سے برائی کی روک تھام کرتا ہے‪ ،‬يہ‬ ‫زندوں‬

‫ميں‬

‫)چلتی‬

‫پھرتی‬

‫ہوئی‬

‫(الش‬

‫ہے۔‬

‫اعمال خير اور جہاد فی سبيل ﷲ‪ ،‬امر‬ ‫تمہيں معلوم ہونا چاہيے کہ تمام‬ ‫ِ‬ ‫بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مقابلہ ميں ايسے ہيں‪ ،‬جيسے گہرے دريا‬ ‫ميں لعاب دہن کے ريزے ہوں يہ نيکی کا حکم دينا اور برائی سے روکنا ايسا‬ ‫نہيں ہے کہ اس کی وجہ سے موت قبل از وقت آجائے‪ ،‬يا رزق معين ميں کمی‬ ‫ہوجائے اور ان سب سے بہتر وه حق بات ہے جو کسی جابر حکمرا ن کے‬ ‫سامنے‬

‫جائے۔‬

‫کہی‬

‫‪375‬ابو حجيفہ سے روايت ہے کہ انہوں نے امير المومنين عليہ السّالم کو‬ ‫فرماتے‬

‫سنا‬

‫کہ‬

‫!‬

‫پہال جہاد کہ جس سے تم مغلوب ہو جاؤگے‪ ،‬ہاتھ کا جہاد ہے۔ پھر زبان کا‪،‬‬ ‫پھر دل کا جس نے د ل سے بھالئی کو اچھائی اور برائی کو بر ا نہ سمجھا‪،‬‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫اسے الٹ پلٹ کر ديا جائے گا۔ اس طرح کہ اوپر کا حصہ نيچے اور نيچے کا‬ ‫اوپر‬

‫حصہ‬

‫کرديا‬

‫گا۔‬

‫جائے‬

‫‪376‬حق گراں‪ ،‬مگر خوش گوار ہوتا ہے اور باطل ہلکا‪,‬مگر وبا پيداکرنے واال‬ ‫ہے۔‬

‫ہوتا‬

‫‪377‬اس امت کے بہترين شخص کے بارے ميں بھی ﷲ کے عذاب سے بالکل‬ ‫مطمئن نہ ہو جاؤ‪.‬کيونکہ ﷲ سبحانہ کا ارشاد ہے کہ «گھاٹا اٹھانے والے لوگ‬ ‫ہی ﷲ کے عذاب سے مطمئن ہوبيٹھے ہيں »‪.‬اور اس امت کے بدترين آدمی‬ ‫کے بارے ميں بھی ﷲ کی رحمت سے مايوس نہ ہو جاؤ کيونکہ ارشاد الہی‬ ‫ہے کہ «خداکی رحمت سے کافروں کے عالوه کوئی اورنااميد نہيں ہوتا »‪.‬‬

‫‪378‬بخل تمام برے عيوب کا مجموعہ ہے اور ايسی مہار ہے جس سے‬ ‫ہربرائی‬

‫کی‬

‫طرف‬

‫کھنچ‬

‫کر‬

‫جاياجا‬

‫سکتا‬

‫ہے۔‬

‫‪379‬رزق دو طرح کا ہوتا ہے۔ ايک وه جس کی تال ش ميں تم ہو‪ ،‬اور ايک وه‬ ‫جوتمہاری جستجو ميں ہے۔ اگر تم اس تک نہ پہنچ سکو گے‪ ،‬تو وه تم تک‬ ‫پہنچ کررہے گا۔ ل ٰہذ ا اپنے ايک دن کی فکر پر سال بھر کی فکريں نہ الدو۔‬ ‫جو ہر دن کارزق ہے وه تمہارے ليے کافی ہے‪ ،‬تو ﷲ ہر نئے دن جو روزی‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫اس نے تمہارے ليے مقرر کر رکھی ہے وه تمہيں دے گا اور تمہاری عمر کا‬ ‫کوئی سال باقی نہيں ہے تمہيں معلوم ہونا چاہيے کہ کوئی طلبگارتمہارے رزق‬ ‫کی طرف تم سے آگے بﮍھ نہيں سکتا اور نہ کوئی غلبہ پانے واال اس ميں تم‬ ‫پر غالب آسکتا ہے اور جو تمہارے ليے مقدر ہوچکا ہے اس کے ملنے ميں‬ ‫کبھی تاخير نہ ہوگی‪.‬‬ ‫)سيد رضی فرماتے ہيں کہ( يہ کالم اسی باب ميں پہلے بھی درج ہوچکا ہے۔ مگر يہاں کچھ زياده وضاحت و تشريح کے ساتھ تھا‪,‬اس‬ ‫ليے ہم نے اس کا اعاده کيا ہے اس قاعده کی بناء پر جو کتا ب کے ديباچہ ميں گزر چکا ہے۔‬

‫‪380‬بہت سے لوگ ايسے دن کا سامنا کرتے ہيں جس سے انہيں پيٹھ پھرانا‬ ‫نہيں ہوتا۔ اور بہت سے ايسے ہوتے ہيں کہ رات کے پہلے حصہ ميں ان پر‬ ‫رشک کيا جاتا ہے اورآخر ی حصہ ميں ان پر رونے واليوں کا کہرام بپاہوتا‬ ‫ہے‪.‬‬

‫‪381‬کالم تمہارے قيد وبند ميں ہے جب تک تم نے اسے کہا نہيں ہے اور جب‬ ‫کہہ ديا‪ ،‬تو تم اس کی قيد و بند ميں ہو۔ ل ٰہذا اپنی زبان کی اسی طرح حفاظت‬ ‫کرو جس طرح اپنے سونے چاندی کی کرتے ہو کيونکہ بعض باتيں ايسی‬ ‫ہوتی ہيں جو کسی بﮍی نعمت کو چھين ليتی اور مصيبت کو نازل کرديتی ہيں۔‬

‫‪382‬جو نہيں جانتے اسے نہ کہو‪ ،‬بلکہ جوجانتے ہو‪ ،‬وه بھی سب کاسب نہ‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫کہو۔ کيونکہ ﷲ سبحانہ نے تمہارے تمام اعضا پر کچھ فرائض عائد کئے ہيں‬ ‫جن‬

‫ذريعہ‬

‫کے‬

‫قيامت‬

‫کے‬

‫دن‬

‫پر‬

‫تم‬

‫حجت‬

‫الئے‬

‫گا۔‬

‫‪383‬اس بات سے ڈرتے رہو کہ ﷲ تمہيں اپنی معصيت کے وقت موجود اور‬ ‫اپنی اطاعت کے وقت غير حاضر پائے تو تمہارا شمار گھاٹا اٹھانے والوں ميں‬ ‫ہو گا‪.‬جب قوی ودانا ثابت ہونا ہو تو ﷲ کی اطاعت پر اپنی قو ت دکھاؤاور‬ ‫کمزور‬

‫بننا‬

‫ہو‬

‫تواس‬

‫کی‬

‫سے‬

‫معصيت‬

‫کمزوری‬

‫دکھاؤ‪.‬‬

‫‪384‬دنيا کی حالت ديکھتے ہوئے اس کی طرف جھکنا جہالت ہے اور حسن‬ ‫عمل کے ثواب کا يقين رکھتے ہوئے اس ميں کوتاہی کرنا گھاٹا اٹھانا ہے۔ اور‬ ‫پرکھے بغير ہر ايک پر بھروسا کرلينا عجز و کمزور ی ہے۔‬

‫‪385‬ﷲ کے نزديک دنيا کی حقارت کے ليے يہی بہت ہے کہ ﷲ کی معصيت‬ ‫ہوتی ہے تو اس ميں اور اس کے يہاں کی نعمتيں حاصل ہوتی ہيں تو اسے‬ ‫سے۔‬

‫چھوڑنے‬

‫‪386‬جو شخص کسی چيز کو طلب کرے تو اسے يا اس کے بعض حصہ کو‬ ‫پالے‬

‫گا۔‬

‫)جونيده‬

‫يا‬

‫بنده‬

‫(‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫‪387‬وه بھالئی بھالئی نہيں جس کے بعد دوزخ کی آگ ہو۔ اور وه برائی برائی‬ ‫نہيں جس کے بعد جنت ہو۔ جنت کے سامنے ہر نعمت حقير‪ ،‬اور دوزخ کے‬ ‫مقابلہ‬

‫ہر‬

‫ميں‬

‫راحت‬

‫مصيبت‬

‫ہے۔‬

‫‪388‬اس بات کو جانے رہو کہ فقر و فاقہ ايک مصيبت ہے‪ ،‬اور فقر سے زياده‬ ‫سخت جسمانی امراض ہيں اور جسمانی امراض سے زياده سخت دل کا روگ‬ ‫ہے۔ ياد رکھو کہ مال کی فراوانی ايک نعمت ہے اور مال کی فراوانی سے‬ ‫بہتر صحت بدن ہے‪ ،‬اور صحت بد ن سے بہتر دل کی پرہيز گاری ہے۔‬

‫‪389‬جسے عمل پيچھے ہٹائے‪ ،‬اسے نسب آگے نہيں بﮍھا سکتا )ايک دوسری‬ ‫روايت ميں اس طرح ہے (جسے ذاتی شرف و منزلت حاصل نہ ہو اسے آباؤ‬ ‫اجداد‬

‫کی‬

‫منزلت‬

‫کچھ‬

‫فائده‬

‫نہيں‬

‫پہنچا‬

‫سکتی۔‬

‫‪390‬مومن کے اوقات تين ساعتوں پر منقسم ہوتے ہيں ايک وه کہ جس ميں‬ ‫اپنے پروردگار سے رازو نياز کی باتيں کرتا ہے۔ اور ايک وه جس ميں اپنے‬ ‫معاش کا سروسامان کرتا ہے اور وه کہ جس ميں حالل و پاکيزه لذتوں ميں‬ ‫اپنے نفس کو آزاد چھوڑ ديتا ہے۔ عقلمند آدمی کو زيب نہيں ديتا کہ وه گھر‬ ‫سے دور ہو‪ ،‬مگر تين چيزوں کے ليے «معاش»کے بندوبست کے ليے يا امر‬ ‫آخرت کی طرف قدم اٹھانے کے ليے يا ايسی لذت اندوزی کے ليے کہ جو‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫حرام نہ ہو‪.‬‬

‫اقوال امام علی )عليہ السالم (از نہج البالغہ‬ ‫ِ‬ ‫اقوال ‪ ٣٩١‬تا ‪۴٢٠‬‬ ‫‪391‬دنيا سے بے تعلق رہو ‪,‬تاکہ ﷲ تم ميں دنيا کی برائيوں کا احساس پيدا‬ ‫کرے ‪.‬اور غافل نہ ہو اس ليے کہ تمہاری طرف سے غافل نہيں ہوا جائے گا ‪.‬‬

‫‪392‬بات کرو ‪,‬تاکہ پہچانے جاؤکيونکہ آدمی اپنی زبا ن کے نيچے پوشيده ہے‬ ‫‪.‬‬

‫‪393‬جو دنيا سے تمہيں حاصل ہوا اسے لے لو اور جو چيز رخ پھير لے اس‬ ‫سے منہ موڑ ے رہو ‪.‬اور اگر ايسا نہ کر سکو تو پھر تحصيل و طلب ميں‬ ‫ميانہ‬

‫اختيار‬

‫روی‬

‫‪.‬‬

‫کرو‬

‫‪394‬بہت سے کلمے حملہ سے زياده اثر ونفوذ رکھتے ہيں ‪.‬‬

‫‪395‬جس‬

‫چيز‬

‫پر‬

‫قناعت‬

‫کر‬

‫لی‬

‫جائے‬

‫و‬

‫ه‬

‫کافی‬

‫ہے‬

‫‪.‬‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫‪396‬موت ہو اور ذلت نہ ہو ‪.‬کم ملے اور دوسروں کو وسيلہ بنانا نہ ہو ‪,‬جسے‬ ‫بيٹھے بٹھائے نہيں ملتا اسے اٹھنے سے بھی کچھ حاصل نہيں ہوگا زمانہ دو‪2‬‬ ‫دنوں پر منقسم ہے ايک دن تمہارے موافق اور ايک تمہارے مخالف ‪.‬جب‬ ‫موافق ہوتو اتراؤ نہيں ‪ .‬اور جب مخالف ہو تو صبر کرو ‪.‬‬

‫‪397‬بہترين خوشبو مشک ہے جس کا ظرف ہلکا اورمہک عطر بار ہے ‪.‬‬

‫‪398‬فخر و سر بلندی کو چھوڑ دو ‪,‬تکبر و غرو ر کو مٹاؤ اور قبر کو ياد‬ ‫رکھو‬

‫‪.‬‬

‫‪399‬ايک حق فرزند کا باپ پر ہوتا ہے اور ايک حق باپ کا فرزند پر ہوتا ہے‬ ‫‪.‬باپ کا فرزند پر يہ حق ہے کہ وه سوائے ﷲ کی معصيت کے ہر با ت ميں‬ ‫اس کی اطاعت کرے اور فرزند کا باپ پر يہ حق ہے کہ اس کا نام اچھا تجويز‬ ‫کرے ‪,‬اچھے اخالق و آداب سے آراستہ کرے اور قرآن کی اسے تعليم دے ‪.‬‬

‫‪400‬چشم بد ‪,‬افسوس ‪,‬سحر اورفال نيک ان سب ميں واقعيت ہے ‪.‬البتہ فال بد‬ ‫اور ايک بيماری کا دوسرے کو لگ جانا غلط ہے ‪ .‬خوشبو سونگھنا ‪,‬شہد‬ ‫کھانا‪,‬سواری کرنا اور سبزے پر نظرکرنا غم و اندوه اور قلق و اضطراب کو‬ ‫دور کرتا ہے ‪.‬‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫طيره کے معنی فال بد اور تفا ل کے معنی فال نيک کے ہوتے ہيں ‪.‬شرعی لحاظ سے کسی چيز سے برا شگون لينا کوئی حقيقت نہيں‬ ‫رکھتا اور يہ صرف توہمات کا کر شمہ ہے اس بد شگوفی کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ کيومرث کےبيٹوں نے رات کے پہلے حصہ ميں‬ ‫مرغ کی اذان سنی اور اتفاق سے اسی رات کو کيومرث کا انتقال ہوگيا جس سے انہيں يہ تو ہم ہو ا کہ مرغ کا بے وقت اذان دينا کسی‬ ‫خبر غم کا پيش خيمہ ہوتاہے چنانچہ انہوں نے اس مرغ کو ذبح کر ديا ‪,‬اور بعد ميں مختلف حادثوں کا مختلف چيزوں سے خصوصی‬ ‫تعلق‬

‫قائم‬

‫کرلياگيا‪.‬‬

‫البتہ فال نيک لينے ميں کوئی مضائقہ نہيں ‪.‬چنانچہ جب ہجرت پيغمبر کے بعد قريش نے يہ اعالن کيا کہ جو آنحضرت کو گرفتار کرے گا‬ ‫‪,‬تو اسے سو اونٹ انعام ميں ديئے جائيں گے تو ابو بريده اسلمی اپنے قبيلہ کے ستر آدميوں کے ہمراه آپ کے تعاقب ميں روانہ ہوا ‪.‬‬ ‫اور جب ايک منزل پرآمنا سامنا ہوا توآنحضرت نے پوچھا تم کون ہو اس نے کہا کہ بريده ابن خصيب۔ حضرت نے يہ نام سنا تو فرمايا‬ ‫برادمرنا ہمار امعاملہ خوشگوار ہوگيا ‪.‬پھر پوچھا کہ کس قبيلہ سے ہو ؟اس نے کہا کہ اسلم سے ‪.‬تو فرمايا کہ سلمنا ہم نے سالمتی‬ ‫پائی ‪.‬پھر دريافت کيا کہ کس شاخ سے ہواس نے کہا کہ بنی سہم سے ‪.‬تو فرمايا کہ خرج سھمک تمہارا تير نکل گيا ‪.‬بريده اس انداز‬ ‫سے گفتگو اور حسن گفتار سے بہت متاثر ہوا ‪.‬اور پوچھا کہ آپ کون ہيں فرمايا کہ مح ّمد ابن عبدﷲ يہ سن کر بے ساختہ اس کی زبان‬ ‫سے نکال ‪.‬اشھد انّک رسول ﷲ )صلی ﷲ عليہ وآلہ وسلم (اور قريش کے انعام سے دستبردار ہوکر دولت ايمان سے ماال مال ہوگيا ‪.‬‬

‫‪401‬لوگوں سے ان کے اخالق و اطوار ميں ہمرنگ ہونا ان کے شر سے‬ ‫محفوظ‬

‫ہوجاناہے‬

‫‪.‬‬

‫‪402‬ايک ہم کالم ہونے والے سے کہ جس نے اپنی حيثيت سے بﮍھ کر ايک‬ ‫بات کہی تھی ‪,‬فرمايا تم پر نکلتے ہی اڑنے لگے اور جوان ہونے سے پہلے‬ ‫بلبالنے لگے ‪.‬‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫)سيد رضی فرماتے ہيں کہ (اس فقره ميں شکير سے مراد وه پر ہيں جوپہلے پہل نکلتے ہيں اور ابھی مضبوط و مستحکم نہيں ہونے‬ ‫پاتے ‪ ,‬اور سقب اونٹ کے بچے کوکہتے ہيں اور وه اس وقت بلبالتاہے ‪.‬جب جوان ہوتا ہے‪.‬‬

‫‪403‬جو شخص مختلف چيز وں کا طلب گار ہوتا ہے اس کی ساری تدبيريں‬ ‫ناکا‬

‫م‬

‫ہوجاتی‬

‫ہيں‬

‫‪«.‬طلب‬

‫الکل‬

‫فوت‬

‫الکل‬

‫»‪.‬‬

‫‪404‬حضرت سے الحول وال قوة اال با )قوت وتوانائی نہيں مگر ﷲ کے سبب‬ ‫سے (کے معنی دريافت کئے گئے تو آپ نے فرمايا کہ ہم خدا کے ساتھ کسی‬ ‫چيز کے مالک نہيں اس نے جن چيزوں کا ہميں مالک بنايا ہے بس ہم انہيں پر‬ ‫اختيار رکھتے ہيں ‪.‬تو جب اس نے ہميں ايسی چيز کا مالک بنا يا جس پر وه ہم‬ ‫سے زياد ه اختيا ر رکھتا ہے تو ہم پر شرعی ذمہ دارياں عائد کيں ‪.‬اور جب‬ ‫اس چيز کو واپس لے گا تو ہم سے اس ذمہ داری کو بھی بر طرف کردے گا ‪.‬‬ ‫مطلب يہ ہے کہ انسان کو کسی شے پر مستقالً تملک و اختيار حاصل نہيں بلکہ يہ حق ملکيت و قوت تصرف قدرت کا بخشا ہوا ايک‬ ‫عطيہ ہے اور جب تک يہ تملک و اختيار باقی رہتا ہے ‪.‬تکليف شرعی بر قرار رہتی ہے اور اسے سلب کرليا جاتا ہے تو تکليف بھی‬ ‫برطرف ہوجاتی ہے ‪.‬کيونکہ ايسی صورت ميں تکليف کا عائد کرنا تکليف مااليطاق ہے جو کسی حکيم و دانا کی طرف سے عائد نہيں‬ ‫ہوسکتی ‪.‬چنانچہ ﷲ سبحانہنے اعضا و جوارح ميں اعمال کے بجاالنے کی قوت و ديعت فرمانے کے بعد ان سے تکليف متعلق کی‬ ‫‪.‬لہٰ ذاجب تک يہ قوت باقی رہے گی ان سے تکليف کا تعلق رہے گا ‪.‬اور اس قوت کے سلب کرلينے کے بعد تکليف بھی برطرف ہوجائے‬ ‫زکوة کا فريضہ اسی وقت عائد ہوتا ہے جب دولت ہو ‪,‬اور جب دولت چھين لے گا ‪.‬تو اس کے نتيجہ ميں ٰ‬ ‫گی ‪,‬جيسے ٰ‬ ‫زکوة کا وجوب بھی‬ ‫ساقط کر دے گا ‪.‬کيونکہ ايسی صور ت ميں تکليف کا عائد کرنا عقالًقبيح ہے ‪.‬‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫‪405‬عمار بن ياسر کو جب مغير ه ابن شعبہ سے سوال وجواب کرتے سنا تو‬ ‫ان سے فرمايا !اے عمار اسے چھوڑ دو اس نے دين سے بس وه ليا ہے جو‬ ‫اسے دنيا سے قريب کر ے اور اس نے جان بوجھ کراپنے کو اشتباه ميں ڈال‬ ‫رکھا ہے تاکہ ان شبہات کو اپنی لغزشوں کے ليے بہانہ قرار دے سکے ‪.‬‬

‫‪406‬ﷲ کے يہاں اجر کے ليے دولتمندوں کا فقيروں سے عجز و انکساری‬ ‫برتنا کتنا اچھا ہے اور اس سے اچھا فقرا کا ﷲ پر بھروسہ کرتے ہوئے‬ ‫دولتمندوں‬

‫مقابلہ‬

‫کے‬

‫غرور‬

‫ميں‬

‫پيش‬

‫سے‬

‫ہے‬

‫آنا‬

‫‪.‬‬

‫‪407‬ﷲ نے کسی شخص کو عقل وديعت نہيں کی ہے مگر يہ کہ وه کسی دن‬ ‫اس‬

‫کے‬

‫‪408‬جو‬

‫حق‬

‫ذريعہ‬

‫سے‬

‫‪409‬دل‬

‫آنکھوں‬

‫‪ٰ 410‬‬ ‫تقوی‬

‫تمام‬

‫سے‬

‫اسے‬

‫ٹکرائے‬

‫تباہی‬

‫گا‪,‬حق‬

‫اسے‬

‫کا‬

‫خصلتوں‬

‫سے‬

‫دے‬

‫گا‬

‫‪.‬‬

‫پچھاڑ‬

‫صحيفہ‬

‫کا‬

‫بچائے‬

‫گا‬

‫‪.‬‬

‫سرتاج‬

‫ہے‬

‫ہے‬

‫‪.‬‬

‫‪.‬‬

‫‪411‬جس ذات نے تمہيں بولنا سکھايا ہے اسی کے خالف اپنی زبان کی تيزی‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫صرف نہ کرو ‪.‬اور جس نے تمہيں راه پر لگا يا ہے اس کے مقابلہ ميں‬ ‫کا‬

‫فصاحت ُگفتار‬

‫نہ‬

‫مظاہره‬

‫‪.‬‬

‫کرو‬

‫‪412‬تمہارے نفس کی آراستگی کے ليے يہی کافی ہے کہ جس چيز کو اوروں‬ ‫کے ليے ناپسند کرتے ہو ‪,‬اس سے خود بھی پرہيز کرو ‪.‬‬

‫‪413‬جو انمردوں کی طرح صبر کرے ‪,‬نہيں تو ساده لوحوں کی طرح بھو ل‬ ‫بھال‬

‫چپ‬

‫کر‬

‫‪.‬‬

‫ہوگا‬

‫‪414‬ايک دوسری روايت ميں ہے کہ آپ نے اشعث ابن قيس کو تعزيت ديتے‬ ‫ہوئے فرمايا ‪:‬اگر بزرگوں کی طرح تم نے صبر کيا تو خير !ورنہ چوپاؤں کی‬ ‫طرح‬

‫دن‬

‫ايک‬

‫‪415‬دنيا‬

‫بھول‬

‫کے‬

‫جاؤگے‬

‫متعلق‬

‫‪.‬‬

‫فرمايا!‬

‫دنيا دھوکے باز ‪,‬نقصان رساں اور رواں دواں ہے ‪.‬ﷲ نے اپنے دوستوں کے‬ ‫ليے اسے بطور ثواب پسند نہيں کيا ‪,‬اور نہ دشمنوں کے ليے اسے بطور سزا‬ ‫پسند کيا‪.‬اہل دنيا سواروں کے مانند ہيں کہ ابھی انہوں نے منزل کی ہی تھی کہ‬ ‫ہنکانے‬

‫والے‬

‫نے‬

‫انہيں‬

‫للکارا‬

‫‪,‬اور‬

‫چل‬

‫ديئے‬

‫‪.‬‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫‪416‬اپنے فرزند حسن عليہ السالم سے فرمايا ‪:‬اے فرزند دنيا کی کوئی چيز‬ ‫اپنے پيچھے نہ چھوڑ و ‪.‬اس ليے کہ تم دو‪ 2‬ميں سے ايک کے ليے چھوڑ و‬ ‫گے ‪.‬ايک وه جو اس مال کو خدا کی اطاعت ميں صرف کرے گا تو جو مال‬ ‫تمہارے ليے بدبختی کا سبب بنا وه اس کے ليے راحت وآرام کا باعث‬ ‫ہوگا‪.‬ياوه ہوگا جو اسے خدا کی معصيت ميں صرف کرے ‪,‬تو وه تمہارے جمع‬ ‫کر ده مال کی وجہ سے بد بخت ہوگا اور اس صورت ميں تم خدا کی معصيت‬ ‫ميناس کے معين و مدد گار ہوگے ‪,‬اور ان دونوں ميں سے ايک شخص بھی‬ ‫ايسا نہيں کہ اسے اپنے نفس پر ترجيح دو ‪.‬‬ ‫سيد رضی فرماتے ہيں کہ يہ کال م ايک دوسری صورت ميں بھی روايت کيا گيا ہے جو يہ ہے‬ ‫جو مال تمہارے ہاتھ ميں ہے تم سے پہلے اس کے مالک دوسرے تھے ‪.‬اور يہ تمہاربعد دوسروں کی طرف پلٹ جائے گا اور تم ميں‬ ‫سے دو ميں سے ايک کے ليے جمع کرنے والے ہو ‪.‬ايک وه جو تمہارے جمع کئے ہوئے مال کو خد اکی اطاعت ميں صرف کرے گا‬ ‫‪.‬تو جو مال تمہارے ليے بدبختيکا سبب ہوا وه اس کے ليے سعادت و نيک بختی کا سبب ہوگا وه جو اس مال سے ﷲ کی معصيت کرے‬ ‫تو جو تم نے اس کے ليے جمع کيا وه تمہارے ليے بد بختيکا سبب ہوگا اور ان دونوں ميں سے ايک بھی اس قابل نہيں کہ اسے اپنی‬ ‫پشت کو گرانبار کرو ‪,‬جو گزر گيا اس کے ليے ﷲ کی رحمت اور جو باقی ره گيا ہے اس کے ليے رزق الہی کے اميدوارر ہو ‪.‬‬

‫‪417‬ايک کہنے والے نے آپ کے سامنے استغفرﷲ کہا‪.‬تو آپ نے اس سے‬ ‫فرمايا‬

‫‪.‬‬

‫تمہاری ماں تمہارا سوگ منائے کچھ معلوم بھی ہے کہ استغفار کياہے‬ ‫؟استغفار بلند منزلت لوگوں کامقام ہے اور يہ ايک ايسا لفظ ہے جو چھ باتوں‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫پر حاوی ہے ‪.‬پہلے کہ جو ہوچکااس پر نادم ہو ‪,‬دوسرے ہميشہ کے ليے اس‬ ‫کے مرتکب نہ ہونے کاتہيا کرنا ‪,‬تيسرے يہ کہ مخلوق کے حقوق ادا کرنا يہاں‬ ‫تک کہ ﷲ کے حضور ميں اس حالت ميں پہنچو کہ تمہارا دامن پاک و صاف‬ ‫اورتم پر کوئی مواخذه نہ ہو‪.‬چوتھے يہ کہ جو فرائض تم پر عائد کئے ہوئے‬ ‫تھے ‪,‬اور تم نے انہيں ضائع کردياتھا ‪.‬انہيں اب پورے طور پر بجاالؤ‬ ‫‪.‬پانچويں يہ کہ جو گوشت )کل (حرام سے نشونما پاتا رہا ہے ‪,‬اس کو غم و‬ ‫اندوه سے پگھالؤيہاں تک کے کھال کو ہڈيوں سے مالدو کہ پھرسے ان‬ ‫دونوں کے درميان نيا گوشت پيدا ہو‪,‬چھٹے يہ کہ اپنے جسم کو اطاعت کے‬ ‫رنج سے آشنا کرو ‪.‬جس طرح اسے گناه کی شيرينی سے لذت اندوز کيا ہے‬ ‫‪.‬تو‬

‫‪418‬حلم‬

‫اب‬

‫و‬

‫کہو‬

‫تحمل‬

‫ايک‬

‫«استغفرﷲ‬

‫پورا‬

‫قبيلہ‬

‫»‪.‬‬

‫ہے‬

‫‪.‬‬

‫‪4196‬بيچاره آدمی کتنا بے بس ہے موت اس سے نہاں ‪,‬بيمارياں اس سے‬ ‫پوشيده اور اس کے اعمال محفوظ ہيں ‪.‬مچھر کے کاٹنے سے چيخ اٹھتاہے‬ ‫‪,‬اچھو لگنے سے مرجاتا ہے اور پسينہ اس ميں بدبو پيدا کر ديتا ہے ‪.‬‬

‫‪420‬وارد ہوا ہے کہ حضرت اپنے اصحاب کے درميان بيٹھے ہوئے تھے ‪,‬کہ‬ ‫ان کے سامنے سے ايک حسين عورت کا گزر ہوا جسے انہوں نے ديکھنا‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫شروع‬

‫جس‬

‫کيا‬

‫پر‬

‫حضرت‬

‫نے‬

‫فرمايا‪:‬‬

‫ان مردوں کی آنکھيں تاکنے والی ہيں اور يہ نظر باز ی ان کی خواہشات کو‬ ‫برانگيختہ کرنے کاسبب ہے ل ٰہذا تم ميں سے کسی کی نظر ايسی عورت پر‬ ‫پﮍے کہ جو اسے اچھی معلوم ہوتو اسے اپنی زوجہ کی طرف متوجہ ہونا‬ ‫چاہيے کيونکہ يہ عورت بھی اس عورت کے مانند ہے ‪.‬يہ سن کر ايک‬ ‫خارجی نے کہا کہ خدااس کافرکو قتل کر ے يہ کتنا برا فقيہ ہے ‪.‬يہ سن کر‬ ‫لوگ اسے قتل کرنے اٹھے‪.‬حضرت نے فرمايا کہ ٹھہرو !زياده سے زياده‬ ‫گالی کا بدلہ گالی ہوسکتا ہے ‪,‬يااس کے گناه ہی سے درگزر کرو ‪.‬‬

‫اقوال امام علی )عليہ السالم (از نہج البالغہ‬ ‫ِ‬ ‫اقوال ‪ ۴٢١‬تا ‪۴۵٠‬‬ ‫‪421‬اتنی عقل تمہارے ليے کافی ہے کہ جو گمراہی کی راہوں کو ہدايت کے‬ ‫راستوں‬

‫سے‬

‫الگ‬

‫کر‬

‫کے‬

‫تمہيں‬

‫دکھا‬

‫دے۔‬

‫‪422‬اچھے کا م کر و اور تھوڑی سی بھالئی کو بھی حقير نہ سمجھو۔ کيونکہ‬ ‫چھوٹی سی نيکی بھی بﮍی اور تھوڑی سی بھالئی بھی بہت ہے۔ تم ميں سے‬ ‫کوئی شخص يہ نہ کہے کہ اچھے کام کے کرنے ميں کوئی دوسرا مجھ سے‬ ‫زياده سزاوار ہے۔ ورنہ خدا کی قسم ايسا ہی ہوکر رہے گا۔ کچھ نيکی والے‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫ہوتے ہيں اور کچھ برائی والے۔ جب تم نيکی يا بدی کسی ايک کو چھوڑ دو‬ ‫گے‪ ،‬تو تمہارے بجائے اس کے اہل اسے انجام دے کر رہيں گے‬

‫‪423‬جو اپنے اندرونی حاالت کو درست رکھتا ہے خدا اس کے ظاہر کو بھی‬ ‫درست کر ديتا ہے۔ اور جو دين کے ليے سرگرم عمل ہوتا ہے‪ ،‬ﷲ اس کے‬ ‫دنيا کے کاموں کو پوراکر ديتا ہے اور جو اپنے اور ﷲ کے درميان خوش‬ ‫معاملگی رکھتا ہے۔ خدا اس کے اور بندوں کے درميان کے معامالت ٹھيک‬ ‫ہے‪.‬‬

‫کرديتا‬

‫‪424‬حلم وتحمل ڈھانکنے واال پرده اور عقل کاٹنے والی تلوار ہے۔ ل ٰہذا اپنے‬ ‫اخالق کے کمزور پہلو کو حلم وبردباری سے چھپاؤ‪ ,‬اور اپنی عقل سے‬ ‫خواہش‬

‫نفسانی‬

‫کا‬

‫مقابلہ‬

‫کرو۔‬

‫‪425‬بندوں کی منفعت رسائی کے ليے ﷲ کچھ بندگان خدا کو نعمتوں سے‬ ‫مخصوص کرليتا ہے۔ ل ٰہذا جب تک وه ديتے دالتے رہتے ہيں‪ ،‬ﷲ ان نعمتوں‬ ‫کو ان کے ہاتھوں ميں برقرار رکھتا ہے اور جب ان نعمتوں کو روک ليتے‬ ‫ہيں تو ﷲ ان سے چھين کر دوسروں کی طرف منتقل کرديتا ہے۔‬

‫‪426‬کسی بندے کے ليے مناسب نہيں کہ وه دو چيزوں پر بھروسا کرے۔ ايک‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫صحت اور دوسرے دولت کيونکہ ابھی تم کسی کو تندرست ديکھ رہے تھے‪،‬‬ ‫کہ وه ديکھتے ہی ديکھتے بيمار پﮍجاتاہے‪ ،‬اور ابھی تم اسے دولتمند ديکھ‬ ‫رہے‬

‫کہ‬

‫تھے‬

‫و‬

‫فقير‬

‫ہوجاتاہے۔‬

‫نادار‬

‫‪427‬جو شخص اپنی حاجت کا گلہ کسی مرد مومن سے کرتا ہے۔ گويا اس نے‬ ‫ﷲ کے سامنے اپنی شکايت پيش کی۔ اور جو کافر کے سامنے گلہ کرتا ہے‬ ‫گويا‬

‫‪428‬ايک‬

‫نے‬

‫اس‬

‫عيد‬

‫اپنے‬

‫ﷲ‬

‫کی‬

‫شکايت‬

‫کی۔‬

‫کے‬

‫موقع‬

‫پر‬

‫فرمايا‬

‫‪:‬‬

‫عيد صرف اس کے ليے ہے جس کے روزوں کو ﷲ نے قبول کيا ہو‪ ،‬اور اس‬ ‫کے قيام )نماز (کو قدر کی نگاه سے ديکھتاہو‪ ،‬اور ہروه دن کہ جس ميں ﷲ‬ ‫کی معصيت نہ کی جائے عيد کا دن ہے‪.‬‬ ‫اگر حس و ضمير زنده ہوتو گناه کی تکليف ده ياد سے اطمينا ن قلب جاتا رہتا ہے۔ کيونکہ طمانيت و مسرت اسی وقت حاصل ہوتی ہے‬ ‫جب روح گناه کے بوجھ سے ہلکی اور دامن معصيت کی آالئش سے پاک ہو اور سچی خوشی زمانہ اور وقت کی پابند نہيں ہوتی بلکہ‬ ‫انسان جس دن چاہے گناه سے بچ کر اس مسرت سے کيف اندوز ہوسکتا ہے اور يہی مسرت حقيقی مسرت اور عيد کا پيغام ہوگی۔‬

‫ہر شب شب قدر است اگر قدر بدانی!‬

‫‪429‬قيامت کے دن سب سے بﮍی حسرت اس شخص کی ہوگی جس نے ﷲ‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫کی نافرمانی کرکے مال حاصل کياہو‪ ،‬اور اس کا وارث وه شخص ہوا ہو جس‬ ‫نے اسے ﷲ کی اطاعت ميں صرف کيا ہو کہ يہ تو اس مال کی وجہ سے جنت‬ ‫ميں داخل ہوا‪ ،‬اور پہال اس کی وجہ سے جہنم ميں گيا‪.‬‬

‫‪430‬لين دين ميں سب سے زياده گھاٹا اٹھا نے واال اور دوڑ دھوپ ميں سب‬ ‫سے زياده ناکام ہونے واال وه شخص ہے جس نے مال کی طلب ميں اپنے بدن‬ ‫کو بوسيده کر ڈاال ہو۔ مگر تقدير نے اس کے ارادوں ميں اس کا ساتھ نہ ديا ہو۔‬ ‫ل ٰہذا وه دنيا سے بھی حسرت ليے ہوئے گيا اور آخرت ميں بھی اس کی پاداش‬ ‫کيا۔‬

‫کاسامنا‬

‫‪431‬رزق دو طرح کا ہوتا ہے ايک وه جو خود ڈھونڈتا ہے اور ايک وه جسے‬ ‫ڈھونڈا جاتا ہے چنانچہ جو دنيا کا طلبگار ہوتا ہے‪ ،‬موت اس کو ڈھونڈتی ہے۔‬ ‫يہاں تک کہ دنيا سے اسے نکال باہر کرتی ہے اور جو شخص آخرت‬ ‫کاخواستگار ہوتا ہے‪ ،‬دنيا خود اسے تالش کرتی ہے يہاں تک کہ وه اس سے‬ ‫تمام‬

‫و‬

‫کمال‬

‫اپنی‬

‫روزی‬

‫حاصل‬

‫کر‬

‫ليتا‬

‫ہے‪.‬‬

‫‪432‬دوستان خدا وه ہيں کہ جب لوگ دنيا کے ظاہر کو ديکھتے ہيں تو وه اس‬ ‫کے باطن پر نظر کرتے ہيں اور جب لوگ اس کی جلد ميسر آجانے والی‬ ‫نعمتوں ميں کھو جاتے ہيں‪ ،‬تو وه آخرت ميں حاصل ہونے چيزوں ميں منہمک‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫رہتے ہيں اور جن چيزوں کے متعلق انہيں يہ کھٹکا تھا کہ وه انہيں تباه کريں‬ ‫گی‪ ،‬انہيں تباه کرکے رکھ ديا اور جن چيزوں کے متعلق انہوں نے جان ليا کہ‬ ‫وه انہيں چھوڑ دينے والی ہيں انہيں انہوں نے خود چھوڑ ديا اور دوسروں کے‬ ‫دنيا زياده سميٹنے کوکم خيال کيا‪ ،‬اور اسے حاصل کرنے کو کھو نے کے‬ ‫برابر جانا۔ وه ان چيزوں کے دشمن ہيں جن سے دوسروں کی دوستی ہے اور‬ ‫ان چيزوں کے دوست ہيں جن سے اوروں کو دشمنی ہے ان کے ذريعہ سے‬ ‫قرآن کا علم حاصل ہوا قرآن کے ذريعہ سے ا ن کا علم ہوا اور ان کے ذريعہ‬ ‫سے کتاب خدا محفوظ اور وه اس کے ذريعہ سے برقرار رہيں۔ وه جس چيز‬ ‫کی اميد رکھتے ہيں اس سے کسی چيز کو بلند نہيں سمجھتے اور جس چيز‬ ‫سے خائف ہيں اس سے زياده کسی شے کو خوفناک نہيں جانتے‪.‬‬

‫‪433‬لذتوں کے ختم ہونے اور پاداشوں کے باقی رہنے کو ياد رکھو۔‬

‫‪434‬آز ماؤ تاکہ اس سے نفرت کرو۔‬ ‫سيد رضی فرماتے ہيں کہ کچھ لوگوں نے اس فقرے کی جناب رسالت مآب سے روايت کی ہے‪ ،‬مگر اس کے کالم اميرالمومنين عليہ‬ ‫سالم ہونے کے مويدات ميں سے ہے وه جسے ثعلب نے بيان کيا ہے۔ وه کہتے ہيں کہ مجھ سے ابن اعرابی نے بيان کيا کہ ماموں‬ ‫ال ّ‬ ‫نے کہاکہ اگر حضرت علی عليہ السالم نے يہ نہ کہا ہوتا کہ «آزماؤ تاکہ اس سے نفرت کرو »‪.‬تو ميں يوں کہتا کہ دشمنی کرواس سے‬ ‫تاکہ آزماؤ‪.‬‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫‪435‬ايسا نہيں کہ ﷲ کسی بندے کے ليے شکر کا دروازه کھولے اور )نعمتوں‬ ‫کی( افزائش کا دروازه بند کر دے اور کسی بندے کے ليے دعا کا دروازه‬ ‫کھولے اور درقبوليت کو اس کے ليے بند رکھے اور کسی بندے کے ليے تو‬ ‫بہ کا دروازه کھولے اور مغفرت کا دروازه اس کے ليے بندکردے۔‬

‫‪ 436‬لوگوں ميں سب سے زياده کرم و بخشش کا وه اہل ہے جس کا رشتہ‬ ‫اشراف‬

‫سے‬

‫ملتا‬

‫ہو۔‬

‫‪437‬آپ سے دريافت کيا گيا کہ عدل بہتر ہے يا سخاوت؟ فرمايا عدل تمام امور‬ ‫کو ان کے موقع و محل پر رکھتا ہے‪ ،‬اور سخاوت ان کو ان کی حدوں سے‬ ‫باہر کرديتی ہے عدل سب کی نگہداشت کر تا ہے‪ ،‬اور سخاوت اسی سے‬ ‫مخصوص ہوگی۔ جسے ديا جائے۔ ل ٰہذا عدل سخاوت سے بہتر و برتر ہے۔‬

‫‪438‬لوگ جس چيز کونہيں جانتے اس کے دشمن ہوجاتے ہيں۔‬

‫‪)439‬زہد کی مکمل تعريف قرآ ن کے دو جملوں ميں ہے ( ارشاد الہی ہے۔ جو‬ ‫چيز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے اس پر رنج و نہ کرو‪ ،‬اور جو چيز خدا‬ ‫تمہيں دے اس پر اتراؤ نہيں ل ٰہذا جو شخص جانے والی چيز پر افسوس نہيں‬ ‫کرتا اور آنے والی چيز پر اتراتا نہيں‪ ،‬اس نے زہد کو دونوں سمتوں سے‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫ليا۔‬

‫سميٹ‬

‫‪440‬نيند دن کی مہموں ميں بﮍ ی کمزوری پيدا کر نے والی ہے۔‬

‫‪441‬حکومت‬

‫لوگوں‬

‫ليے‬

‫کے‬

‫آزمائش‬

‫کا‬

‫ميدان‬

‫ہے‪.‬‬

‫‪442‬تمہارے ليے ايک شہر دوسرے شہر سے زياده حقدار نہيں )بلکہ (بہتر ين‬ ‫شہر‬

‫وه‬

‫ہے‬

‫جو‬

‫تمہارا‬

‫بوجھ‬

‫اٹھائے۔‬

‫‪443‬جب مالک اشتر رحمتہ ﷲ کی خبر شہادت آئی‪ ،‬تو فرمايا‪:‬‬ ‫مالک! اور مالک کيا شخص تھا۔ خدا کی قسم اگر وه پہاڑ ہوتا تو ايک کوه بلند‬ ‫ہوتا‪ ،‬اور اگر وه پتھر ہوتا تو ايک سنگ گراں ہوتا کہ نہ تو اس کی بلنديوں‬ ‫تک کوئی سم پہنچ سکتا اور نہ کوئی پرنده وہاں تک پر مار سکتا۔‬ ‫سيد رضی کہتے ہيں کہ فنداس پہاڑ کو کہتے ہيں‪ ،‬جو دوسرے پہاڑوں سے الگ ہو‪.‬‬

‫‪444‬وه تھوڑا عمل جس ميں ہميشگی ہو اس سے زياده ہے‪ ،‬جو دل تنگی کا‬ ‫باعث‬

‫ہو‪.‬‬

‫‪445‬اگر کسی آدمی ميں عمده و پاکيزه خصلت ہو تو ويسی ہی دوسری‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫خصلتوں کے متوقع رہو۔‬ ‫انسان ميں جو بھی اچھی يا بری خصلت پائی جاتی ہے‪ ،‬وه اس کی افتاده و طبيعت کی وجہ سے وجود ميں آتی ہے اور اگر طبيعت ايک‬ ‫خصلت کی مقتضی ہے‪ ،‬تو اس خصلت سے ملتے جلتے ہوئے دوسرے خصائل کی بھی مقتضی ہوگی۔ اس ليے کہ طبيعت کے تقاضے‬ ‫دونوں جگہ پر يکساں کار فرما ہوتے ہيں‪ ،‬چنانچہ ايک شخص اگر ٰ‬ ‫زکوة و خمس ادا کرتا ہے‪ ،‬تواس کے معنی يہ ہيں کہ اس کی طبيعت‬ ‫ممسک و بخيل نہيں۔ لہٰ ذا اس سے يہ توقع بھی کی جاسکتی ہے کہ وه دوسرے امور خير ميں بھی خرچ کرنے سے دريغ نہيں کرے گا۔‬ ‫اسی طرح اگر کوئی جھوٹ بولتا ہے تو اس سے يہ اميد بھی کی جاسکتی ہے‪ ،‬کہ وه غيبت بھی کرے گا۔ کيونکہ يہ دونوں عادتيں ايک‬ ‫دوسرے سے ملتی جلتی ہيں۔‬

‫‪446‬فرزوق کے باپ غالب ابن صعصعہ سے باہمی گفتگو کے دوران فرمايا‪:‬‬ ‫وه تمہارے بہت سے اونٹ کيا ہوئے؟ کہا کہ حقوق کی ادائيگی نے انہيں‬ ‫منتشر کرديا۔ فرمايا کہ ‪:‬يہ تو ان کا انتہائی اچھا مصرف ہوا۔‬

‫‪447‬جو شخص احکام فقہ کے جانے بغير تجارت کرے گا‪ ،‬وه ربا ميں مبتال‬ ‫گا۔‬

‫ہوجائے‬

‫‪448‬جو شخص ذرا سی مصيبت کو بﮍی اہميت ديتا ہے۔ ﷲ اسے بﮍی‬ ‫مصيبتوں‬

‫ميں‬

‫مبتال‬

‫کرديتا‬

‫ہے۔‬

‫‪449‬جس کی نظر ميں خود اپنے نفس کی عزت ہوگی وه اپنی نفسانی خواہشوں‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫کو‬

‫وقعت‬

‫بے‬

‫سمجھے‬

‫گا۔‬

‫‪450‬کوئی شخص کسی دفعہ ہنسی مذاق نہيں کرتا مگر يہ کہ وه اپنی عقل کا‬ ‫ايک حصہ اپنے سے الگ کر ديتا ہے۔‬

‫اقوال امام علی )عليہ السالم (از نہج البالغہ‬ ‫ِ‬ ‫اقوال ‪ ۴۵١‬تا ‪۴٨٠‬‬ ‫‪451‬جو تمہاری طر ف جھکے اس سے بے اعتنائی برتنا اپنے خط ونصيب‬ ‫ميں خساره کرنا ہے‪ ،‬اور جوتم سے بے رخی اختيار کرے‪ ،‬اس کی طرف‬ ‫جھکنا‬

‫نفس‬

‫کی‬

‫ذلت‬

‫ہے۔‬

‫‪452‬اصل فقر و غنا )قيامت ميں (ﷲ کے سامنے پيش ہونے کے بعد ہوگا۔‬

‫‪453‬زبير ہميشہ ہمارے گھر کا آدمی رہا يہاں تک کہ اس کا بدبخت بيٹا عبدﷲ‬ ‫نمودار‬

‫ہوا۔‬

‫‪454‬فرزند آدم کو فخر ومباہات سے کيا ربط‪ ،‬جب کہ اس کی ابتدائ نطفہ اور‬ ‫انتہا مردار ہے‪ ،‬وه نہ اپنے ليے روز ی کاسامان کر سکتا ہے‪ ،‬نہ موت کو‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫اپنے سے ہٹا سکتا ہے۔‬ ‫اگر انسان اپنی تخليق کی ابتدائی صورت اور جسمانی شکست و ريخت کے بعد کی حالت کا تصور کرے‪ ،‬تو وه فخر وغرور کے بجائے‬ ‫اپنی حقارت و پستی کا اعتراف کر نے پر مجبور ہوگا۔ کيونکہ وه ديکھے گا کہ ايک وقت تھا‪ ،‬کہ صفحہ ہستی پر ا س کا نام ونشان بھی‬ ‫نہ تھا کہ خدا وند عالم نے نطفہ کے ايک حقير قطره سے اس کے وجود کی بنياد رکھی جو شکم مادر ميں ايک لوتھﮍے کی صورت‬ ‫ميں رونما ہوا۔ اور غليظ خون سے پلتا اور نشونما پاتا رہا اور جب جسمانی تکميل کے بعد زمين پر قدم رکھا تو اتنا بے بس اور الچار‬ ‫کہ نہ بھوک پياس پر اختيار‪ ،‬نہ مرض و صحت پر قابو‪ ،‬نہ نفع نقصان ہاتھ ميں‪ ،‬اور نہ موت و حيات بس ميں‪ ،‬نہ معلوم کب ہاتھ پيروں‬ ‫کی حرکت جواب دے جائے حس و شعور کی قوتيں ساتھ چھوڑ جائيں‪ ،‬آنکھوں کا نور چھن جائے اور کانوں کی سماعت سلب ہوجائے‪،‬‬ ‫او رکب موت روح کوجسم سے الگ کرے‪,‬اور اسے گلنے سﮍنے کے ليے چھوڑجائے‪ ،‬تاکہ چيل‪ ،‬گدھيں اسے نوچيں‪ ،‬ياقبر ميں اسے‬ ‫کھائيں۔‬

‫کيﮍے‬

‫مابال من اولہ نطفۃ وجيفۃ ٰاخر ه يفخر ;‬

‫‪455‬حضر ت سے پوچھا گيا کہ سب سے بﮍا شاعر کون ہے ؟فرمايا کہ شعرا‬ ‫کی دوڑ ايک روش پر نہ تھی کہ گوئی سبقت لے جانے سے ان کی آخری حد‬ ‫کو پہچانا جائے‪ ،‬اور اگر ايک کو ترجيح دينا ہی ہے تو پھر ملک ضليل‬ ‫)گمراه بادشاه(ہے۔‬ ‫مطلب يہ ہے کہ شعراء ميں موازنہ اسی صورت ميں ہوسکتا ہے‪ ،‬جب ان کے توسن فکر ايک ہی ميدان سخن ميں جوالنياں دکھائيں اور‬ ‫جب کہ ايک روش دوسرے کی روش سے جدا اور ايک کا اسلوب کالم دوسر ے اسلوب کالم سے مختلف ہے‪ ،‬تو يہ فيصلہ کرنا بہت‬ ‫مشکل ہے کہ کو ن ميدان ہار گيا اور کون سبقت لے گيا۔ چنانچہ مختلف اعتبارات سے ايک دوسرے پر ترجيح دی جاتی ہے‪ ،‬اور اگر‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫کوئی کسی لحاظ سے اور کوئی کسی لحاظ سے شعرا سمجھا جاتا رہا ہے جيسا کہ مشہور مقولہ ہے کہ ‪:‬‬ ‫عرب کا سب سے بﮍا شاعر امرئالقيس ہے جب وه سوار ہوا اور اعشی جب وه کسی چيز کا خواہشمند ہواور نابغہ جب اسے خو ف و‬ ‫ہو‪.‬‬

‫ہراس‬

‫ليکن اس تقييد کے باوجود امراء القيس حسن تخييل و لطف ومحا کات اور ان چھوتی تشبيہات اور نادر استعارات کے لحاظ سے طبقہ‬ ‫اولی کے شعراء ميں سب سے اونچی سطح پر سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ اس کے اکثر اشعا ر عام معيار اخالق سے گرئے ہوئے اور‬ ‫ٰ‬ ‫فحش مضامين پر مشتمل ہيں‪ ،‬مگر اس فحش نگار ی کے باوجود اس کی فنی عظمت سے انکار نہيں کيا جاسکتا۔ اس ليے کہ فن کار‬ ‫صرف فنی زاويہ نگار سے شعر کے حسن و قبيح کو ديکھتا ہے اور دوسری حيثيات کو جوفن ميں دخيل نہيں ہوتيں‪ ،‬نظر انداز کرديتا‬ ‫ہے۔‬ ‫بہرحال امر اء القيس عرب کانامور شاعر تھا‪ ،‬اور اس کا باپ حجر کندی سالطين کنده کے آخری فرد اورصاحب علم و سپاه تھا اور بنی‬ ‫تغلب کے مشہور شاعر وسخن ران کليباور مہلہل اس کے ماموں ہوتے تھے اس ليے فطری رجحان کے عالوه يہ اپنے ننھيال کی طرف‬ ‫سے بھی شعر وسخن کا ورثہ دار تھا اور سرزمين نجد کی آزاد فضا اور عيش و تغم کے گہوارے ميں تربيت پانے کی وجہ سے شوره‬ ‫پستی و سرمستی اس کے ضمير ميں رچ بس گئی تھی۔ چنانچہ حسن وعشق اور نغمہء و شعر کی کيف آور فضاؤں ميں پوری طرح‬ ‫کھو گيا۔ باپ نے باز رکھنا چاہا‪ ،‬مگراس کا کوئی نصيحت کار گر نہ ہوئی۔ آخر اس نے مجبو ر ہوکر اسے الگ کرديا الگ ہونے کے بعد‬ ‫اس کے ليے کوئی روک ٹوک نہ تھی۔ پوری طرح عيش و عشرت دينے پر اتر آيا۔ اور جب اپنے باپ کے مارے جانے کی اسے خبر‬ ‫ہوئی تواس کے قصاص کے ليے کمر بستہ ہو ا او رمختلف قبيلوں کے چکر لگائے تاکہ ان سے مدد حاصل کرے اور جب کہيں سے‬ ‫امداد حاصل نہ ہوئی‪ ،‬تو قيصر روم کے ہاں جاپہنچا اور اس سے مدد کا طالب ہوا۔ بيان کيا جاتا ہے کہ وہاں بھی اس نے ايک ناشائستہ‬ ‫حرکت کی جس سے قيصر روم نے اسے ٹھکانے لگانے کے ليے ايک زہرآلوده پيراہن ديا۔ جس کے پہنتے ہی زہر کا اثر اس کے جسم‬ ‫ميں سرايت کر گيا اور اسی زہر کے نتيجہ ميں اس کی موت واقع ہوئی اور نقره ميں دفن ہوا۔‬

‫‪456‬کيا کوئی جوانمرد ہے جو اس چبائے ہوئے لقمہ )دنيا( کو اس کے اہل‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫کے ليے چھوڑدے تمہارے نفسوں کی قيمت صرف جنت ہے۔ ل ٰہذاجنت کے‬ ‫عالوه‬

‫ر‬

‫او‬

‫کسی‬

‫قيمت‬

‫پر‬

‫انہيں‬

‫نہ‬

‫بيچو‪.‬‬

‫‪457‬دو ايسے خواہشمند ہيں جو سير نہيں ہوتے طالب علم اور طلبگار دنيا۔‬

‫‪458‬ايمان کی عالمت يہ ہے کہ جہاں تمہارے ليے سچائی باعث نقصان ہو‪،‬‬ ‫اسے جھو ٹ پر ترجيح دو‪,‬خواه وه تمہارے فائده کا باعث ہو رہا ہو‪ ،‬اور‬ ‫تمہاری باتيں‪ ،‬تمہارے عمل سے زياده نہ ہوں اور دوسرے کے متعلق بات‬ ‫کرنے‬

‫ميں‬

‫ﷲ‬

‫کا‬

‫خوف‬

‫کرتے‬

‫رہو۔‬

‫‪459‬تقدير ٹھہرائے ہوئے انداز ے پر غالب آجاتی ہے۔ يہاں تک کہ چاره‬ ‫سازی ہی تباہی و آفت بن جاتی ہے۔‬ ‫سيد رضی فرماتے ہيں کہ يہ مطلب اس سے مختلف لفظوں ميں پہلے بھی گزر چکا ہے‪.‬‬

‫‪460‬برد باری اور صبردونوں کا ہميشہ ہميشہ کا ساتھ ہے اور يہ دونوں بلند‬ ‫ہمتی‬

‫کا‬

‫نتيجہ‬

‫ہيں۔‬

‫‪461‬کمزور کا يہی زور چلتا ہے کہ وه پيٹھ پيچھے برائی کرے۔‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫‪462‬بہت سے لوگ اس وجہ سے فتنہ ميں مبتال ہوجاتے ہيں کہ ان کے بارے‬ ‫اچھے‬

‫ميں‬

‫کا‬

‫خياالت‬

‫کياجاتاہے۔‬

‫اظہار‬

‫‪463‬دنيا ايک دوسری منزل کے ليے پيدا کی گئی ہے نہ اپنے )بقاودوام کے(‬ ‫ليے۔‬

‫‪464‬بنی اميہ کے ليے ايک مرودارواد )مہلت کا ميدان (ہے جس ميں وه دوڑ‬ ‫لگا رہے ہيں جب ان ميں باہمی اختالف رونما ہو تو پھر بجو بھی ان پر حملہ‬ ‫کريں تو ان پر غالب آجائيں گے۔‬ ‫)سيد رضی فرماتے ہيں کہ(مرودار واد مفعل کے وزن پر ہے اور اس کے معنی مہلت و فرصت دينے کے ہيں اور يہ بہت فصيح اور‬ ‫سالم نے ان کے زمانہ مہلت کو ايک ميدان سے تشبيہہ دی ہے جس ميں انتہا کی حد تک‬ ‫عجيب و غريب کالم ہے گويا آپ عليہ ال ّ‬ ‫پہنچنے‬

‫کے‬

‫ليے‬

‫دوڑے‬

‫جائيں‬

‫گے‬

‫تو‬

‫ان‬

‫کا‬

‫نظام‬

‫درہم‬

‫برہم‬

‫ہوجائے‬

‫گا۔‬

‫يہ پيشن گوئی بنی اميہ کی سلطنت کے زوال کے متعلق ہے جو حر ف بحرف پوری ہوئی۔ اس سلطنت کی بنياد معاويہ ابن ابی سفيان‬ ‫نے رکھی اور نوے برس گياره مہينے اور تيره دن کے بعد ‪ 132‬ہجری ميں مروان الحمار پر ختم ہوگئی بنی اميہ کا دور ظلم و ستم اور‬ ‫قہر و استبداد کے لحاظ سے آپ اپنی نظير تھا۔ اس عہد کے مطلق العنان حکمرانوں نے ايسے ايسے مظالم کئے کہ جن سے اسالم کا‬ ‫دامن داغدار‪ ،‬تاريخ کے اوراق سياه اور روح انسانيت مجروح نظر آتی ہے۔ انہوں نے اپنے شخصی اقتدار کو برقرار رکھنے کے ليے‬ ‫ہر تباہی و بربادی کو جائز قرار دے ليا تھا مکہ پر فوجوں کی يلغار خانہ کعبہ پر آگ برسائی‪ ،‬مدينہ کو اپنی بيہمانہ خواہشوں کا مرکز‬ ‫بنايا اور مسلمانوں کے قتل عام سے خون کی ندياں بہا ديں۔ آخر ان سفاکيوں اور خونريزيوں کے نتيجہ ميں ہر طرف بغاوتيں اور‬ ‫سازشيں اٹھ کھﮍی ہوئيں اور ان کے اندرونی خلفشار اور باہمی رزم آرائی نے ان کی بربادی کا راستہ ہموار کرديا۔ اگرچہ سياسی‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫اضطراب ان ميں سے پہلے ہی سے شروع ہوچکا تھا مگر وليد ابن يزيد کے دور ميں کھلم کھال نزاع کا دروازه کھل گيا اور ادھر‬ ‫چپکے چپکے بنی عباس نے بھی پر پرزے نکالنا شروع کئے اور مروان الحمار کے دور ميں خالفت الہيہ کے نام سے ايک تحريک‬ ‫شروع کردی اور اس تحريک کو کامياب بنانے کے ليے انہيں ابو مسلم خراسانی ايسا امير سپاه مل گيا جو سياسی حاالت و واقعات کا‬ ‫جائزه لينے کے عالوه فنون حرب ميں بھی پوری مہارت رکھتا تھا۔ چنانچہ اس نےخراسان کو مرکز قرار دے کر امو يوں کے خالف‬ ‫ايک‬

‫جال‬

‫اور‬

‫بچھاديا‬

‫عباسيوں‬

‫کو‬

‫برسر‬

‫النے‬

‫اقتدار‬

‫ميں‬

‫کامياب‬

‫ہوگيا۔‬

‫يہ شخص ابتد اء ميں گمنام اور غير معروف تھا‪.‬چنانچہ اسی گمنامی و پستی کی بنا پر حضرت نے اسے اور اس کے ساتھيوں کو بجو‬ ‫ادنی لوگوں کے ليے بطور استعاره استعمال ہوتا ہے۔‬ ‫سے تعبير کيا ہے کہ جو ٰ‬

‫‪465‬انصار کی مدح و توصيف ميں فرمايا خدا کی قسم انہوں نے اپنی خوش‬ ‫حالی سے اسالم کی اس طرح تربيت کی‪ ،‬جس طرح يکسالہ بچھﮍے کو پاال‬ ‫پوسا‬

‫جاتا‬

‫ہے۔‬

‫اپنے‬

‫کريم‬

‫ہاتھو‬

‫ں‬

‫اور‬

‫زبانوں‬

‫کے‬

‫ساتھ۔‬

‫‪466‬آنکھ عقب کے ليے تسمہ ہے۔‬ ‫سيد رضی فرماتے ہيں کہ يہ کالم عجيب و غريب استعارات ميں سے ہے گويا آپ نے عقب کو ظرف سے اور آنکھ کو تسمہ سے‬ ‫تشبيہہ دی ہے اور تسمہ کھول ديا جائے تو برتن ميں جو کچھ ہوتا ہے۔ رک نہيں سکتا مشہور واضح ہے کہ يہ پيغمبر صلی ﷲ عليہ‬ ‫وآلہ وسلم کا ارشاد ہے۔ مگر کچھ لوگوں نے اسے امير المومنين عليہ السالم سے بھی روايت کيا ہے چنانچہ مبرد نے اس کا اپنی کتاب‬ ‫«المقتضب»باب اللفظ بالحروف ميں ذکر کيا ہے اور ہم نے اپنی کتاب «مجازات اآلثار النبويہ»ميں اس استعار ه کے متعلق بحث کی ہے‬

‫‪467‬ايک‬

‫کالم‬

‫کے‬

‫ضمن‬

‫آپ‬

‫نے‬

‫فرمايا‪:‬‬

‫لوگوں کے امور کا ايک حاکم و فرماں روا ذمہ دار ہوا جو سيدھے پر چال اور‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫دوسروں کو اس راه پر لگايا۔ يہاں تک کہ دين نے اپنا سينہ ٹيک ديا‪.‬‬

‫‪468‬لوگوں پر ايک ايسا گزند پہنچانے واال دور آئے گا‪ ،‬جس ميں مالدار اپنے‬ ‫مال ميں بخل کرے گا حاالنکہ اسے يہ حکم نہيں۔ چنانچہ ﷲ سبحانہ کا ارشاد‬ ‫ہے کہ «آپس ميں حسن سلوک کو فراموش نہ کرو »اس زمانہ ميں شرير لوگ‬ ‫اٹھ کھﮍے ہوں گے اور نيکو کار ذليل خوار سمجھے جائيں گے اور مجبور‬ ‫اور بے بس لوگوں سے خريد و فروخت کی جائے گی‪.‬حاالنکہ رسول ﷲ‬ ‫صلی عليہ وآلہ وسلم نے مجبور و مضطر لوگوں سے )اونے پونے (خريدنے‬ ‫کومنع کيا ہے۔‬ ‫مجبور و مضطر لوگوں سے معاملہ عموما ًاس طرح ہوتا ہے کہ ان کی احتياج و ضرور ت سے ناجائز فائده اٹھا کر ان سے سستے‬ ‫داموں چيزيں خريد لی جاتی ہيں‪ ،‬اور مہنگے داموں ان کے ہاتھ فروخت کی جاتی ہيں۔ اس پريشان حالی ميں ان کی مجبوری و بے بسی‬ ‫سے فائده اٹھانے کی کوئی مذہب اجازت نہيں ديتا اورنہ آئين اخالق ميں اس کی کوئی گنجائش ہے کہ دوسرے کی اضطراری کيفيت‬ ‫سے نفع اندوزی کی راہيں نکالی جائيں۔‬

‫‪469‬ميرے بارے ميں دوقسم کے لوگ ہالکت ميں مبتال ہوں گے۔ ايک محبت‬ ‫ميں حد سے بﮍھ جانے واال اور دوسرا جھوٹ و افترا باندھنے واال۔‬ ‫سيد رضی کہتے ہيں کہ حضر ت کايہ قول اس ارشاد کے مانند ہے کہ ميرے بارے ميں دوقسم کے لوگ ہالک ہوئے ايک محبت ميں‬ ‫غلو کرنے واال‪ ،‬اور دوسرا دشمنی و عناد رکھنے واال۔‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫‪470‬حضرت سے توحيد و عدل کے متعلق سوال کياگيا توآپ نے فرمايا‪:‬‬ ‫توحيد يہ ہے کہ اسے اپنے وہم و تصور کا پابند نہ بناؤ اور يہ عدل ہے کہ اس‬ ‫پر الزامات نہ لگاؤ‪.‬‬ ‫عقيده توحيد اس وقت تک کامل نہيں ہوتا جب تک اس ميں تنزيہ کی آميزش نہ ہو۔ يعنی اسے جسم وصورت اور مکان و زمان کے‬ ‫حدود سے باال ترسمجھتے ہوئے اپنے اوہام و ظنون کا پابند نہ بنايا جائے کيونکہ جسے اوہام و ظنون کا پابند بنايا جائے گا‪ ،‬وه خدا‬ ‫نہيں ہوگا بلکہ ذہن انسانی کی پيداوار ہوگا اور ذہنی قوتيں ديکھی بھالی ہوئی چيزوں ہی ميں محدود رہتی ہيں۔ لہٰ ذا انسان جتنا گﮍھی‬ ‫ہوئی تمثيلوں اور قوت و اہمہ کی خيال آرائيوں سے اسے سمجھنے کی کوشش کرے گا‪ ،‬اتنا ہی حقيقت سے دور ہوتا جائے گا۔ چنانچہ‬ ‫امام‬

‫محمد‬

‫باقر‬

‫السالم‬

‫عليہ‬

‫کا‬

‫ارشاد‬

‫ہے‪،‬‬

‫جب بھی تم اسے اپنے تصور و وہم کا پابند بناؤگے وه خدا نہيں رہے گا بلکہ تمہاری طرح کی مخلوق اور تمہاری ہی طر ف پلٹنے والی‬ ‫کوئی‬

‫ہوگی۔‬

‫چيز‬

‫اور عدل يہ ہے کہ ظلم و فبح کی جتنی صورتيں ہوسکتی ہيں ان کی ذات باری سے نفی کی جائے اور اسے ان چيزوں سے متہم نہ کيا‬ ‫جائے کہ جو بری اور بے فائده ہيں اورجنہيں عقل اس کے ليے کسی طرح تجويز نہيں کرسکتی۔ چنانچہ قدرت کا ارشاد ہے۔‬ ‫تمہارے پروردگار کی بات سچائی اور عدل کے ساتھ پوری ہوئی۔ کوئی چيز اس کی باتوں ميں تبديلی پيدا نہيں کرسکتی۔‬

‫‪471‬حکمت کی بات سے خاموشی اختيار کرنا کوئی خوبی نہيں جس طرح‬ ‫جہالت‬

‫کے‬

‫ساتھ‬

‫بات‬

‫کرنے‬

‫ميں‬

‫کوئی‬

‫بھالئی‬

‫نہيں۔‬

‫بار الہٰا! ہميں فرمانبردار ابروں سے‬ ‫‪ 472‬طلب باراں کی ايک دعا ميں فرمايا‪ِ :‬‬ ‫سيراب کر‪ ،‬نہ اُن ابروں سے جو سرکش اور منہ زور ہوں‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫سيد رضی کہتے ہيں کہ يہ کالم عجيب و غريب فصاحت پر مشتمل ہے ۔ اس طرح کہ امير المومنين عليہ السالم نے کﮍک‪ ،‬چمک‪ ،‬ہوا‬ ‫اور بجلی والے بادلوں کو اُن اونٹوں سے تشبيہ دی ہے کہ جو اپنی منہ زوری سے زمين پر پير مار کر پاالن پھينک ديتے ہوں اور‬ ‫اپنے سواروں کو گرا ديتے ہوں ۔ اور ان خوفناک چيزوں سے خالی ابر کو ان اونٹنيوں سے تشبيہ دی ہے جو دوہنے ميں مطيع ہوں‬ ‫اور سواری کرنے ميں سوار کی مرضی کے مطابق چليں ۔‬

‫‪ 473‬حضرت)عليہ السالم ( سےکہا گيا کہ اگر آپ سفيد بالوں کو )خضاب‬ ‫سے( بدل ديتے تو بہتر ہوتا۔ اس پر حضرت)عليہ السالم ( نے فرمايا کہ‬ ‫خضاب زينت ہے اور ہم لوگ سوگوار ہيں ۔‬ ‫ت پيغمبر ﷺ مراد لی ہے۔‬ ‫سيد رضی کہتے ہيں کہ حضرت نے اس سے وفا ِ‬

‫‪ 474‬وه مجاہد جو خدا کی راه ميں شہيد ہو‪ ،‬اُس شخص سے زياده اجر کا‬ ‫مستحق نہيں ہے جو قدرت و اختيار رکھتے ہوئے پاک دامن رہے۔ کيا بعيد ہے‬ ‫کہ‬

‫پاکدامن‬

‫فرشتوں‬

‫ميں‬

‫سے‬

‫ايک‬

‫فرشتہ‬

‫ہو‬

‫جائے۔‬

‫‪ 475‬قناعت ايسا سرمايہ ہے جو ختم ہونے ميں نہيں آتا۔‬ ‫سيد رضی کہتے ہيں کہ بعض لوگوں نے اس کالم کو پيغمبر ﷺ سے روايت کيا ہے۔‬

‫‪ 476‬جب زياد ابن ابيہ کو عبد ﷲ ابن عباس کی قائم مقامی ميں فارس اور اس‬ ‫کے ملحقہ عالقوں پر عامل مقرر کيا تو ايک باہمی گفتگو کے دوران ميں کہ‬ ‫جس ميں اسے پيشگی مالگزاری کے وصول کرنے سے روکنا چاہا يہ کہا‪:‬‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫عدل کی روش پر چلو۔ بے راه روی اور ظلم سے کناره کشہ کرو کيونکہ بے‬ ‫راه روی کا نتيجہ يہ ہو گا کہ انہيں گھر بار چھوڑنا پﮍے گا اور ظلم انہيں‬ ‫تلوار‬

‫اٹھانے‬

‫کی‬

‫دعوت‬

‫دے‬

‫گا۔‬

‫‪ 477‬سب سے بھاری گناه وه ہے جسے مرتکب ہونے وال سُبک سمجھے‬

‫‪ 478‬ﷲ نے جاہلوں سے اس وقت تک سيکھنے کا عہد نہيں ليا جب تک‬ ‫جاننے والوں سے يہ عہد نہيں ليا کہ وه سکھانے ميں دريغ نہ کريں ۔‬

‫‪ 479‬بدترين بھائی وه ہے جس کے ليے زحمت اٹھانا پﮍے۔‬ ‫سيد رضی کہتے ہيں کہ يہ اس ليےکہ مقدور سے زياده تکليف‪ ،‬رنج و مشقت کا سبب ہوتی ہے اور جس بھائی کے ليے تکلف کيا‬ ‫جائے‪ ،‬اُس سے الزمی طور پر زحمت پہنچے گی۔ لہذا وه بُرا بھائی ہوا۔‬

‫‪ 480‬جب کوئی مومن اپنے کسی بھائی کا احتشام کرے تو يہ اُس سے جدائی‬ ‫کا سبب ہو گا۔‬ ‫سيد رضی کہتے ہيں کہ حشم واحشام کے معنی ہيں غضبناک کرنا‪ ،‬اور ايک معنی ہيں شرمنده کرنا۔ اور احتشام کے معنی ہيں "اس‬ ‫سے غصہ يا خجالت کا طالب ہونا اور ايسا کرنے سے جدائی کا امکان غالب ہوتا ہے۔‬

‫اختتام‬ ‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


‫سيد‬

‫رضی‬

‫اس‬

‫کتاب‬

‫کے‬

‫اختتام‬

‫پر‬

‫ہيں‬

‫لکھتے‬

‫‪:‬‬

‫پايان کار کی منزل ہے کہ ہم امير المومنين)عليہ السالم ( کے‬ ‫اب يہ ہمارا‬ ‫ِ‬ ‫منتخب کالم کا سلسلہ ختم کريں ۔ ہم ﷲ سبحانہ کی بارگاه ميں شکر گزار ہيں‬ ‫کہ اُس نے ہم پر يہ احسان کيا کہ ہميں توفيق دی کہ ہم حضرت کے منتشر‬ ‫کالم کو يک جا کريں اور دور دست کالم کو قريب الئيں ۔ ہمارا اراده ہے جيسا‬ ‫کہ پہلے طے کر چکے ہيں کہ ان ابواب ميں سے ہر باب کے آخر ميں کچھ‬ ‫ساده ورق چھوڑ ديں تاکہ جو کالم اب تک ہاتھ نہيں لگا اُسے قابو ميں ال سکيں‬ ‫اور جو ملے اُسے درج کر ديں ۔ شايد ايسا کالم جو اس وقت ہماری نظروں‬ ‫سے اوجھل ہے۔ بعد ميں ہمارے ليے ظاہر ہو اور دور ہونے کے بعد ہمارے‬ ‫دامن ميں سمٹ آئے۔ ہميں توفيق حاصل ہے تو ﷲ سے اور اسی پر ہمارا‬ ‫بھروسا ہے اور وہی ہمارے ليے کافی اور اچھا کارساز ہے۔‬ ‫يہ‬

‫کتاب‬

‫ماه‬

‫رجب‬

‫سن‬

‫‪400‬‬

‫ہجری‬

‫ميں‬

‫اختتام‬

‫کو‬

‫پہنچی‬

‫وصلی ﷲ علی سيدنا محمد خاتم الرسل‪ ،‬والھادی الی خير السبل والہ الطاہرين‪،‬‬ ‫و اصحابہ نجوم اليقين‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com‬‬


Turn static files into dynamic content formats.

Create a flipbook
Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.