فہرست اقوال
١
تا
٣٠
اقوال
٣١
تا
۶٠
اقوال
۶١
تا
٩٠
اقوال
٩١
تا
١٢٠
اقوال
١٢١
تا
١۵٠
اقوال
١۵١
تا
١٨٠
اقوال
١٨١
تا
٢١٠
اقوال
٢١١
تا
٢۴٠
اقوال
٢۴١
تا
٢٧٠
اقوال
٢٧١
تا
٣٠٠
اقوال
٣٠١
تا
٣٣٠
اقوال
٣٣١
تا
٣۶٠
اقوال
٣۶١
تا
٣٩٠
اقوال
٣٩١
تا
۴٢٠
اقوال
۴٢١
تا
۴۵٠
اقوال ۴۵١تا ۴٨٠
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
اقوال ِ
امام
تاليف:
علی
)عليہ
عالمہ
السالم
شريف
(از
رضی
نہج
البالغہ
عليہ
رحمہ
اردو ترجمہ و شرح :حجت االسالم موالنا مفتی جعفر حسين صاحب قبلہ اماميہ
ناشر:
خانہ،
کتب
حويلی،
مغل
دروازه،
موچی الہور ،8پاکستان اقوال ١تا ٣٠
اس باب ميں سواالت کے جوابات اور چھوٹے چھوٹے حکيمانہ جملوں کا انتخاب درج ہے جو مختلف اغراض و مقاصد کے سلسلہ ميں بيان کئے گئے ہيں
1فتنہ و فساد ميں اس طرح رہو جس طرح اونٹ کا وه بچہ جس نے ابھی اپنی عمر کے دو سال ختم کئے ہوں کہ نہ تو اس کی پيٹھ پر سواری کی جاسکتی ہے اور نہ اس کے تھنوں سے دودھ دوہا جاسکتا ہے لبون دودھ دينے والی اونٹنی کو اورابن اللبون اس کے دو سالہ بچے کو کہتے ہيں اور وه اس عمر ميں نہ سوار ی کے قابل ہوتا ہے ,اور نہ اس کے تھن ہی ہوتے ہيں کہ ان سے دودھ دوہا جاسکے .اسے ابن اللبون اس ليے کہاجاتا ہے کہ اس دو سال کے عرصہ ميں اس
کی
ماں
عموما ً
دوسرا
بچہ
دے
کر
دودھ
دينے
لگتی
ہے
.
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
مقصد يہ ہے کہ انسان کو فتنہ و فساد کے موقع پر اس طرح رہنا چاہيے کہ لوگ اسے ناکاره سمجھ کر نظر انداز کرديں اور کسی جماعت ميں اس کی شرکت کی ضرورت محسوس نہ ہو .کيونکہ فتنوں اور ہنگاموں ميں الگ تھلگ رہنا ہی تباه کاريوں سے بچا سکتا ہے .البتہ جہاں حق و باطل کا ٹکراؤ ہو وہاں پر غير جانبداری جائز نہيں اور نہ اسے فتنہ و فساد سے تعبير کياہے .بلکہ ايسے موقع پر حق کی حمايت اور باطل کی سرکوبی کے ليے کھﮍا ہونا واجب ہے .جيسے جمل و صفين کی جنگوں ميں حق کا ساتھ دينا ضروری اور باطل سے نبرد آزما ہو نا الزم تھا .
2جس نے طمع کو اپنا شعار بنايا ,اس نے اپنے کو سبک کيا اور جس نے اپنی پريشان حالی کا اظہار کيا وه ذلت پر آماده ہوگيا ,اور جس نے اپنی زبان کو قابو ميں نہ رکھا ,اس نے خود اپنی بے وقعتی کا سامان کر ليا .
3بخل ننگ و عار ہے اور بزدلی نقص و عيب ہے اورغربت مرد زيرک و دانا کی زبان کو دالئل کی قوت دکھانے سے عاجز بنا ديتی ہے اور مفلس اپنے شہرميں ره کر بھی غريب الوطن ہوتا ہے اور عجز ودرماندگی مصيبت ہے اور صبر شکيبائی شجاعت ہے اور دنيا سے بے تعلقی بﮍی دولت ہے اور پرہيز
گاری
ايک
بﮍی
سپر
ہے
.
4تسليم و رضا بہترين مصاحب اور علم شريف ترين ميراث ہے اور علمی و عملی اوصاف خلعت ہيں اور فکر صاف شفاف آئينہ ہے .
5عقلمند کا سينہ اس کے بھيدوں کا مخزن ہوتا ہے اور کشاده روئی محبت و Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
دوستی کا پھندا ہے اور تحمل و برد باری عيبوں کا مدفن ہے ) .يا اس فقره کے بجائے حضرت نے يہ فرمايا کہ (صلح صفائی عيبوں کو ڈھانپنے کا ذريعہ
.
ہے
6جو شخص اپنے کو بہت پسند کرتا ہے وه دوسروں کو ناپسند ہوجاتا ہے اور صدقہ کامياب دوا ہے ,اور دنيا ميں بندوں کے جو اعمال ہيں وه آخرت ميں ان کی آنکھوں کے سامنے ہوں گے يہ ارشاد تين جملوں پر مشتمل ہے ;پہلے جملہ ميں خود پسندی سے پيدا ہونے والے نتائج و اثرات کا ذکر کيا ہے کہ اس سے دوسروں کے دلوں ميں نفرت و حقارت کا جذبہ پيدا ہوتا ہے .چنانچہ جو شخص اپنی ذات کو نماياں کرنے کے لے بات بات ميں اپنی بر تر ی کا مظاہر ه کرتا ہے وه کبھی عزت و احترام کی نگاه سے نہيں ديکھا جاتااور لو گ اس کی تفو ق پسندانہ ذہنيت کو ديکھتے ہوئے اس سے نفر ت کرنے لگتے ہيں اور اسے اتنا بھی سمجھنے کو تيار نہيں ہوتے جتنا کچھ وه ہے چہ جائيکہ جو کچھ وه اپنے آپ
کو
سمجھتا
ہے
وہی
کچھ
اسے
سمجھ
ليں
.
دوسرا جملہ صدقہ کے متعلق ہے اور اسے ايک «کامياب دوا» سے تعبير کيا ہے کيونکہ جب انسان صدقہ وخيرات سے محتاجوں اور ناداروں کی مدد کرتا ہے تو وه د ل کی گہرايوں سے ا س کے ليے دعائے صحت و عافيت کرتے ہيں جو قبوليت حاصل کرکے اس کی شفايابی کا باعث ہوتی ہے .چنانچہ پيغمبر اکر م کا ارشاد ہے کہ راو و امرضا کم بالصدقہ .اپنے بيماروں کا عال ج صدقہ سے کرو . تيسرا جملہ حشر ميں اعمال کے بے نقا ب ہو نے کے متعلق ہے کہ انسان ا س دنيا ميں جو اچھے اور برے کام کرتا ہے وه حجاب عنصری کے حائل ہونے کی وجہ سے ظاہر ی حواس سے ادراک نہيں ہوسکتے .مگر آخرت ميں جب ماديت کے پردے اٹھاديئے جائيں گے تو وه اس طرح آنکھوں کے سامنے عياں ہوجائيں گے کہ کسی کے ليے گنجائش انکار نہ رہے گی .چنانچہ ارشاد الہی ہے . ا س دن لوگ گروه گروه )قبروں سے (اٹھ کھﮍے ہو ں گے تاکہ وه اپنے اعمال کو ديکھيں توجس نے ذره بھر نيکی کی ہوگی وه اسے
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
ديکھ لے گا او ر جس نے ذره بھر بھی برائی کی ہوگی وه اسے ديکھ لے گا .
7يہ انسان تعجب کے قابل ہے کہ وه چربی سے ديکھتا ہے اور گوشت کے لوتھﮍے سے بولتا ہے اور ہڈی سے سنتا ہے اور ايک سوراخ سے سانس ليتا ہے.
8جب دنيا )اپنی نعمتوں کو لے کر(کسی کی طرف بﮍھتی ہے تو دوسروں کی خوبياں بھی اسے عاريت دے ديتی ہے .اور جب اس سے رخ موڑ ليتی ,تو خود اس کی خوبياں بھی اس سے چھين ليتی ہے . مقصد يہ ہے کہ جس کابخت ياور اور دنيا اس سے ساز گار ہوتی ہے اور اہل دنيا اس کی کارگزاريوں کو بﮍھا چﮍھا کر بيان کرتے ہيں اور دوسروں کے کارناموں کا سہرا بھی اس کے سر باندھ ديتے ہيں اور جس کے ہاتھ سے دنيا جاتی رہتی ہے اور نحوست کی گھٹا اس پر چھا جاتی ہے اس کی خوبيوں کو نظر انداز کرديتے ہيں اور بھولے سے بھی اس کا نام زبان پر النا گوار انہيں کرتے .
دوستند آنکہ راز مانہ نواحت دشمنند آنکہ رازمانہ فگند
9لوگوں سے اس طريقہ سے ملو کہ اگر مرجاؤ تو تم پر روئيں اور زند ه رہو تو تمہارے مشتاق ہوں . جو شخص لوگوں کے ساتھ نرمی اور اخالق کا برتاؤ کرتا ہے .لوگ اس کی طرف دست تعاون بﮍھاتے ا س کی عزت و توقير کرتے اور اس کے مرنے کے بعد اس کی ياد ميں آنسو بہاتے ہيں۔ لہٰ ذ ا انسان کو چاہيے کہ وه اس طرح مرنجاں مرنج زندگی گزارے کہ کسی کو
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
اس سے شکايت نہ پيدا ہو اور نہ اس سے کسی کو گزند پہنچے تاکہ اسے زندگی ميں دوسروں کی ہمدردی حاصل ہو ,اور مرنے کے بعد
بھی
اسے
اچھے
لفظو
ں
ميں
ياد
کيا
جائے
.
چناں بانيک و بد سرکن کہ بعد از مرونت عرفی مسلمانت بز مزم شويدو کافر بسو زاند
10دشمن پر قابو پاؤ تو اس قابو پانے کا شکرانہ اس کو معاف کر دينا قرار دو . عفو و درگزر کا محل وہی ہوتا ہے جہاں انتقام پر قدرت ہو ,اور جہاں قدرت ہی نہ ہو وہاں انتقام سے ہاتھ اٹھا لينا ہی مجبوری کا نتيجہ ہوتا جس پر کوئی فضيلت مرتب نہيں ہوتی .البتہ قدرت و اقتدارکے ہوتے ہوئے عفو درگذر سے کام لينا فضيلت انسانی کا جوہر اور ﷲ کی اس بخشی ہوئی نعمت کے مقابلہ ميں اظہار شکر ہے .کيونکہ شکر کا جذبہ اس کا مقتضی ہو تا ہے کہ انسان ﷲ کے سامنے تذلل و انکسارسے جھکے جس سے اس کے دل ميں رحم و رافت کے لطيف جذبات پيدا ہوں گے اور غيظ وغضب کے بھﮍکتے ہوئے شعلے ٹھنڈے پﮍجائيں گے جس کے بعد انتقام کا کوئی داعی ہی نہ رہے گا کہ وه اس قوت و قدرت کو ٹھيک ٹھيک کام ميں النے کی بجائے اپنے غضب کے فرو کر نے کا ذريعہ قرار دے
11لوگوں ميں بہت درمانده وه ہے جو اپنی عمر ميں کچھ بھالئی اپنے ليے نہ حاصل کرسکے ,اور اس سے بھی زياده درمانده وه ہے جو پاکر اسے کھو دے . خوش اخالقی و خنده پيشانی سے دوسر وں کو اپنی طرف جذب کرنا اور شيريں کالمی سے غيروں کو اپنانا کوئی دشوار چيز نہيں ہے کيونکہ اس کے ليے نہ جسمانی مشقت کی ضرورت اور نہ دماغی کد و کاوش کی حاجت ہوتی ہے اور دوست بنانے کے بعد دوستی اور تعلقات کی خوشگواری کو باقی رکھنا تو اس سے بھی زياده آسان ہے کيونکہ دوستی پيدا کرنے کے ليے پھر بھی کچھ نہ کچھ کرنا
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
پﮍتا ہے مگر اسے باقی رکھنے کے ليے تو کوئی مہم سرکرنا نہيں پﮍتی .لہٰ ذا جو شخص ايسی چيز کی بھی نگہداشت نہ کر سکے جسے صر ف پيشانی کی سلو ٹيں دور کر کے باقی رکھا جاسکتا ہے اس سے زياده عاجز و درمانده کون ہوسکتا ہے . مقصد يہ ہے کہ انسان کو ہر ايک سے خو ش خلقی و خنده روئی سے پيش آنا چاہيے تاکہ لوگوں اس سے وابستگی چاہيں اور اس کی دوستی کی طرف ہاتھ بﮍھائيں .
12جب تمہيں تھوڑی بہت نعمتيں حاصل ہوں تو ناشکری سے انہيں اپنے تک پہنچنے
13جسے
سے
قريبی
پہلے
چھوڑ
ديں
بھگا
اسے
بيگانے
نہ
دو
مل
جائيں
.
گے
.
14ہر فتنہ ميں پﮍ جانے واال قابل عتاب نہيں ہوتا . جب سعد ابن ابی وقا ص ,محمد ابن مسلمہ اور عبدﷲ ابن عمر نے اصحاب جمل کے مقابلہ ميں آپ کا ساتھ دينے سے انکا ر کيا تو اس موقع پر يہ جملہ فرمايا مطلب يہ ہے کہ يہ لوگ مجھ سے ايسے منحرف ہوچکے ہيں کہ ان پر نہ ميری بات کا کچھ اثر ہوتا ہے اور نہ ان پرميری عتاب و سرزنش کار گر ثابت ہوتی ہے
15سب معا ملے تقدير کے آگے سر نگوں ہيں يہاں تک کہ کبھی تدبير کے نتيجہ
ميں
موت
ہوجاتی
ہے
.
16پيغمبر صلی ﷲ عليہ وآلہ وسلم کی حديث کے متعلق کہ بﮍھاپے کو )خضاب کے ذريعہ(بدل دو .اور يہود سے مشابہت اختيار نہ کرو .آپ عليہ Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
السّالم سے سوال کياگيا ,تو آپ عليہ السّالم نے فرمايا کہ پيغمبر صلی ﷲ عليہ وآلہ وسلم نے يہ اس موقع کے ليے فرمايا تھا .جب کہ دين )والے( کم تھے اور اب جب کہ اس کا دامن پھيل چکا ہے اور سينہ ٹيک کر جم چکا ہے تو ہر شخص کو اختيار ہے . مقصد يہ ہے کہ چونکہ ابتدائے اسالم ميں مسلمانوں کی تعداد کم تھی اس ليے ضرورت تھی کہ مسلمانوں کی جماعتی حيثيت کو برقرار رکھنے کے ليے انہيں يہوديوں سے ممتاز رکھا جائے .اس ليے آنحضرت سے خضاب کا حکم ديا کہ جو يہوديوں کے ہاں مرسوم نہيں ہے .اس کے عالوه يہ مقصد بھی تھا کہ وه دشمن کے مقابلہ ميں ضعيف و سن رسيده دکھائی نہ ديں .
17ان لوگوں کے بارے ميں کہ جو آپ کے ہمراه ہوکر لﮍنے سے کناره کش رہے .فرمايا ان لوگوں نے حق کو چھوڑديا اور باطل کی بھی نصرت نہيں کی . موسی يہ ارشاد ان لوگوں کے متعلق ہے جو اپنے کو غير جانبدار ظاہر کرتے تھے .جيسے عبدﷲ ابن عمر ,سعد ابن ابی وقاص ,ابو ٰ اشعری ,احنف ابن قيس اور انس ابن مالک وغيره.بيشک ان لوگوں نے کھل کر باطل کی حمايت نہيں کی .مگر حق کی نصر ت سے ہاتھ اٹھا لينا بھی ايک طرح سے باطل کو تقويت پہنچانا ہے.اس ليے ان کا شمار مخالفين حق کے گروه ہی ميں ہو گا .
18جو شخص اميد کی راه ميں ميں بگ ٹُٹ دوڑتا ہے وه موت سے ٹھوکر کھاتا
ہے
.
19بامروت لوگو ں کی لغزشوں سے درگزر کرو ).کيونکہ (ان ميں سے جو Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
بھی لغزش کھا کر گرتا ہے تو ﷲ اس کے ہاتھ ميں ہاتھ دے کر اسے اوپر ہے
اٹھاليتا
.
20خوف کا نتيجہ ناکامی اور شرم کانتيجہ محرومی ہے اور فرصت کی گھﮍياں )تيزرو( ابر کی طرح گزر جاتی ہيں .ل ٰہذا بھالئی کے ملے ہوئے موقعوں کو غنيمت جانو. عوام ميں ايک چيز خواه کتنی ہی معيوب خيال کی جائے اور تحقير آميز نظر وں سے ديکھی جائے اگر اس ميں کوئی واقعی عيب نہيں ہے تو اس سے شرمانا سراسر نادانی ہے کيونکہ اس کيوجہ سے اکثر ان چيز وں سے محروم ہونا پﮍتا ہے جو دنيا وآخرت کی کاميابيوں اور کامرانيوں کا باعث ہوتی ہيں .جيسے کوئی شخص اس خيال سے کہ لو گ اسے جاہل تصور کريں گے کسی اہم اور ضرور ی بات کے دريافت کرنے ميں عار محسوس کرے تو يہ بے موقع و بے محل خودداری اس کے ليے علم ودانش سے محرومی کا سبب بن جائے گی ,اس ليے کوئی ہوشمند انسان سيکھنے اور دريافت کرنے ميں عار نہيں محسوس کرے گا .چنانچہ ايک سن رسيده شخص سے کہ جو بﮍھاپے کے باوجود تحصيل علم کرتا تھا کہا گيا کہ ما تستح ٌی ان تتعلم علی الکبر»تمہيں بﮍھاپے ميں پﮍھتے ہوئے شرم نہيں آتی .اس نے جواب ميں کہا کہ« اناال استحی من الجھل علی الکبر فکيف استحی من التعلم علی الکبر »جب مجھے بﮍھاپے ميں جہالت سے شرم نہيں آئی تو اس بﮍھاپے ميں پﮍھنے سے شرم کيسے آسکتی ہے .البتہ جن چيزوں ميں واقعی برائی مفسد ہو ان کے ارتکاب سے شرم محسوس کرنا انسانيت اور شرافت کا جوہر ہے جيسے وه اعمال ناشائستہ کہ جو شروع وعقل اور مذہب و اخالق کی رو سے مذموم ہيں .بہر حال حياء کی پہلی قسم قبيح اور دوسر ی قسم حسن ہے .چنانچہ پيغمبر اکرم کا ارشاد ہے . حيا کی دو قسميں ہيں ايک وه جو بتقاضائے عقل ہوتی ہے .يہ حيا علم و دانائی ہے .اور ايک وه جو حماقت کے نتيجہ ميں ہوتی ہے . يہ سراسر جہل و نادانی ہے .
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
21ہمارا ايک حق ہے اگر وه ہميں ديا گيا تو ہم لے ليں گے .ورنہ ہم اونٹ کے پيچھے والے پٹھوں پر سوار ہوں گے .اگرچہ شب روی طويل ہو . سيد رضی فرماتے ہيں کہ يہ بہت عمده اور فصيح کالم ہے اس کا مطلب يہ ہے کہ اگر ہميں ہمارا حق نہ دياگيا ,تو ہم ذليل و خوار سمجھے جائيں گے اورمطلب اس طرح نکلتا ہے کہ اونٹ کے پيچھے کے حصہ پر رديف بن کر غالم اور قيدی يا ا س قسم کے لوگ ہی
سوار
ہوا
کرتے
تھے
سيد رضی عليہ الرحمتہ کے تحرير کرو معنی کا ماحصل يہ ہے کہ حضر ت فرمانا چاہتے ہيں کہ اگر ہمارے حق کا کہ جوامام مفترض الطاعتہ ہونے کی حيثيت سے دوسروں پر واجب ہے اقرار کرليا گيا اور ہميں ظاہری خالفت کا موقع دياگيا تو بہتر ورنہ ہميں ہر طرح کی مشقتوں اور خواريوں کو برداشت کرنا پﮍے گا ,اور ہم اس تحقير و تذليل کی حالت ميں زندگی کا ايک طويل عرصہ گزارنے پر ہوں
مجبور
گے.
بعض شارخين نے اس معنی کے عالوه اور معنی بھی تحرير کئے ہيں .اور وه يہ کہ اگر ہميں ہمارے مرتبہ سے گرا کر اونٹ کے پٹھے پر سوار ہوتا ہے وه آگے ہوتا ہے اوربعض نے يہ معنی کہے ہيں کہ اگر ہمار ا حق دے ديا گيا تو ہم اسے لے ليں گے ,اور اگرنہ ديا گيا,تو اس سوار کی مانند نہ ہوں گے جو اپنی سواری کی باگ دوسرے کے ہاتھ ميں دے ديتا ہے .کہ وه جدھر اسے لے جانا چاہے لے جائے .بلکہ اپنے مطالبہ حق پر برقرار رہيں گے خواه مدت دراز کيوں نہ گزر جائے اور کبھی اپنے حق سے دستبردار ہوکر غضب کرنے والوں کے سامنے سر تسليم خم نہ کريں گے .
22جسے اس کے اعمال پيچھے ہٹا ديں اسے حسب و نسب آگے نہيں بﮍھا سکتا
.
23کسی مضطرب کی داد فرياد سننا ,اور مصيبت زده کو مصيبت سے Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
چھٹکارا
نا
دال
بﮍے
بﮍے
کا
گناہوں
کفاره
.
ہے
24اے آدم عليہ السّالم کے بيٹے جب تو ديکھے کہ ﷲ تجھے پے درپے نعمتيں دے رہا ہے اور تو اس کی نافرمانی کررہا ہے تو اس سے ڈرتے رہنا . جب کسی کو گناہوں کے باوجود پے درپے نعمتيں حاصل ہورہی ہوں ,تو وه اس غلط فہمی ميں مبتال ہوجاتا ہے کہ ﷲ اس سے خوش ہے اور يہ اس کی خوشنودی و نظر کرم کا نتيجہ ہے .حاالنکہ نعمتوں ميں زيادتی شکر گزاری کی صورت ميں ہوتی ہے .اور ناشکری کے
نتيجہ
ميں
نعمتوں
کا
سلسلہ
قطع
ہوجاتا
ہے
.جيسا
کہ
ﷲ
سبحانہ
کا
ارشاد
ہے
.
اگر تم نے شکر کيا تو ميں تمہيں اور زياده نعمتيں دوں گا او ر اگر ناشکر ی کی تو پھر ياد رکھو کہ ميرا عذاب سخت عذاب ہے . لہٰ ذا عصيان و ناسپاسی کی صورت ميں برابر نعمتو ں کاملنا ﷲ کی خوشنود ی و رضا مند ی کا ثمره نہيں ہوسکتا اورنہ يہ کہا جاسکتا ہے کہ ﷲ نے اس صورت ميں اسے نعمتيں دے کر شبہہ ميں ڈال ديا ہے کہ وه نعمتوں کی فراوانی کو اس کی خوشنودی کا ثمره سمجھے .کيونکہ جب وه يہ سمجھ رہا ہے کہ وه خطا کار عاصی ہے اور گناه کو گناه اور برائی کو برائی سمجھ کر اس کا مرتکب ہو رہا ہے ,تو اشتباه کی کيا وجہ کہ وه ﷲ کی خوشنودی و رضامندی کا تصور کرے بلکہ اسے يہ سمجھنا چاہيے کہ يہ ايک طرح کی آزمائش اور مہلت ہے تاکہ جب اس کی طغيانی و سر کشی انتہا کو پہنچ جائے تو اسے دفعتا ً گرفت ميں لے ليا جائے .لہٰ ذا ايسی صورت ميں اسے منتظر رہنا چاہيے کہ کب اس پر غضب الہی کا ورود ہو اور يہ نعمتيں اس سے چھين لی جائيں .اور محرومی و نامرادی کی عقوبتوں ميں اسے جکﮍ ليا جائے .
25جس کسی نے بھی کوئی بات دل ميں چھپا کہ رکھنا چاہی وه اس کی زبان سے بے ساختہ نکلے ہوئے الفاظ اور چہره کے آثار سے نماياں ضرور ہو جاتی ہے . Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
انسان جن باتوں کو دوسروں سے چھپانا چاہتا ہے ,وه کسی نہ کسی وقت زبان سے نکل ہی جاتی ہےں اور چھپانے کی کو شش ناکام ہو کر ره جاتی ہے .وجہ يہ ہے کہ عقل مصلحت انديش اگرچہ انہيں پوشيده رکھنا چاہتی ہے .مگر کبھی کسی اور اہم معاملہ ميں الجھ کر ادھر سے غافل ہو جاتی ہے اور وه بے اختيار لفظوں کی صورت ميں زبان سے نکل جاتی ہيں اور جب عقل ملتفت ہوتی ہے تو تير از کمان جستہ واپس پلٹايا نہيں جاسکتا اور اگر يہ صورت نہ بھی پيش آئے اور عقل پورے طور سے متنبہ و ہوشيار رہے,تب بھی وه پوشيده نہيں ره سکتيں .کيونکہ چہرے کے خط وخال ذہنی تصورات کے غماز اور قلبی کيفيات کے آئينہ دار ہوتے ہيں .چنانچہ چہرے کی سرخی سے شرمندگی کا اور زردی سے خوف کا بخوبی پتہ چل سکتا ہے .
26مرض ميں جب تک ہمت ساتھ دے چلتے پھرتے رہو . مقصد يہ ہے کہ جب تک مرض شدت اختيار نہ کر ے اسے اہميت نہ دينا چاہيے کيونکہ اہميت دينے سے طبيعت احساس مرض سے متاثر ہوکر اس کے اضافہ کا باعث ہوجاياکر تی ہے .اس ليے چلتے پھرتے رہنا اور اپنے کو صحت مند تصور کرنا تحليل مرض کے عالوه طبيعت کی قوت مدافعت کو مضحمل ہونے نہيں ديتا اور اس کی قوت کو معنوی کو برقرار رکھتا ہے اور قوت معنوی چھوٹے موٹے مرض کو خود ہی دبايا کرتی ہے بشرطيکہ مرض کے وہم ميں مبتال ہوکر اسے سپر انداختہ ہونے پر مجبور نہ کرديا جائے .
27
زہد،
بہترين
کا
زہد
رکھنا
مخفی
ہے
.
28جب تم )دنيا کو ( پيٹھ دکھا رہے ہو .اور موت تمہاری طرف رخ کئے ہوئے
بﮍھ
رہی
ہے
تو
پھر
مالقات
ميں
دير
کيسی
؟
29ڈرو !ڈرو !اس ليے کہ بخدا اس نے اس حد تک تمہاری پرده پوشی کی ہے
,کہ
گويا
تمہيں
بخش
ديا
ہے
.
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
30حضرت عليہ السّالم سے ايمان کے متعلق سوال کيا گيا تو آپ نے فرمايا .ايمان چار ستونوں پر قائم ہے .صبر ,يقين ,عدل اور جہاد .پھرصبر کی چار شاخيں ہيں .اشتياق ,خوف ,دنيا سے بے اعتنائی اور انتظار .اس ليے کہ جو جنت کا مشتاق ہو گا ,وه خواہشوں کو بھال دے گا اور جو دوزخ سے خوف کھائے گا وه محرمات سے کناره کشی کرے گا اور جو دنيا سے بے اعتنائی اختيار کر ے گا ,وه مصيبتوں کو سہل سمجھے گا اور جسے موت کا انتظار ہو گا ,وه نيک کاموں ميں جلدی کرے گا .اور يقين کی بھی چار شاخيں ہيں .روشن نگاہی ,حقيقت رسی ,عبرت اندوزی اور اگلوں کا طور طريقہ .چنانچہ جو دانش و آگہی حاصل کرے گا اس کے سامنے علم و عمل کی راہيں واضح ہو جائيں گی .اور جس کے ليے علم وعمل آشکار ہو جائے گا ,وه عبرت سے آشنا ہوگا وه ايسا ہے جيسے وه پہلے لوگوں ميں موجود رہا ہو اور عدل کی بھی چار شاخيں ہيں ,تہوں تک پہنچنے والی فکر اور علمی گہرائی اور فيصلہ کی خوبی اور عقل کی پائيداری .چنانچہ جس نے غور و فکر کيا ,وه علم کی گہرائيوں ميں اترا ,وه فيصلہ کے سر چشموں سے سيراب ہوکر پلٹا اور جس نے حلم و بردباری اختيار کی .اس نے اپنے معامالت ميں کوئی کمی نہيں کی اور لوگوں ميں نيک نام ره کر زندگی بسر کی اورجہاد کی بھی چار شاخيں ہيں .امر بالمعروف ,نہی عن المنکر ,تمام موقعوں پر راست گفتاری اور بدکرداروں سے نفرت .چنانچہ جس نے امر بالمعروف کيا ,اس نے مومنين کی Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
پشت مضبوط کی ,اور جس نے نہی عن المنکر کيا اس نے کافروں کو ذليل کيا اور جس نے تمام موقعوں پر سچ بوال ,اس نے اپنا فرض اداکرديا اور جس نے فاسقوں کو براسمجھا اور ﷲ کے ليے غضبناک ہوا ﷲ بھی اس کے ليے دوسروں پر غضبناک ہو گا اور قيامت کے دن اس کی خوشی کا سامان کرے گا.
اقوال امام علی )عليہ السالم (از نہج البالغہ ِ اقوال ٣١تا ۶٠ 31کفر بھی چار ستونوں پر قائم ہے .حد سے بﮍھی ہوئی کاوش ,جھگﮍا لُو پن ,کج روی اور اختالف .تو جو بے جا تعمق و کاوش کرتا ہے ,وه حق کی طرف رجوع نہيں ہوتا اور جو جہالت کی وجہ سے آئے دن جھگﮍے کرتا ہے ,وه حق سے ہميشہ اندھا رہتا ہے اور جو حق سے منہ موڑ ليتا ہے .وه اچھائی کو برائی اور برائی کو اچھائی سمجھنے لگتا ہے اور گمراہی کے نشہ ميں مدہوش پﮍا رہتا ہے اور جو حق کی خالف ورزی کرتا ہے ,اس کے راستے بہت دشوار اور اس کے معامالت سخت پيچيده ہو جاتے ہيں اور بچ نکلنے کی راه اس کے ليے تنگ ہو جاتی ہے ,شک کی بھی چار شاخيں ہيں ,کٹھ حجتی خوف سرگردانی اور باطل کے آگے جبيں سائی .چنانچہ جس نے لﮍائی جھگﮍ ے کو شيوه بناليا ,اس کی رات کبھی صبح سے ہمکنار نہيں ہو Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
سکتی اور جس کو سامنے کی چيزوں نے ہول ميں ڈال ديا ,وه الٹے پير پلٹ جاتا ہے اور جو شک و شبہہ ميں سر گرداں رہتا ہے .اسے شياطين اپنے پنجوں سے روند ڈالتے ہيں اور جس نے دنيا و آخرت کی تباہی کے آگے سر تسليم خم کرديا.وه دوجہاں ميں تباه و برباد ہوا . سيد رضی فرماتے ہيں کہ ہم نے طوالت کے خوف اور اس خيال سے کہ اصل مقصد جو اس بات کا ہے فوت نہ ہو ,بقيہ کالم کو چھوڑ ديا ہے .
32نيک کام کر نے واال خود اس کام سے بہتر اور برائی کا مرتکب ہونے واال
خود
اس
سے
برائی
بدتر
ہے
.
33سخاوت کرو ,ليکن فضول خرچی نہ کرو اور جز رسی کرو ,مگر بخل .
نہيں
34بہتر ين دولت مند ی يہ ہے کہ تمناؤں کو ترک کرے.
35جو شخص لوگوں کے بار ے ميں جھٹ سے ايسی باتيں کہہ ديتا ہے جو انہيں ناگوار گزريں ,تو پھر وه اس کے ليے ايسی باتيں کہتے ہيں کہ جنہيں وه جانتے
نہيں
.
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
36جس نے طول طويل اميديں باندھيں ,اس نے اپنے اعمال بگاڑ ليے .
37اميرالمومنين عليہ السّالم سے شام کی جانب روانہ ہو تے وقت مقام انبار کے زمينداروں کا سامنا ہوا ,تو وه آپ کو ديکھ کر پياده ہو گئے اور آپ کے سامنے دوڑنے لگے .آپ نے فرمايا يہ تم نے کيا کيا ؟انہوں نے کہا کہ يہ ہمارا عام طريقہ ہے .جس سے ہم اپنے حکمرانوں کی تعظيم بجاال تے ہيں .آپ نے فرمايا .خدا کی قسم اس سے تمہارے حکمرانوں کو کچھ بھی فائده نہيں پہنچتا البتہ تم اس دنيا ميں اپنے کو زحمت و مشقت ميں ڈالتے ہو ,اور آخرت ميں اس کی وجہ سے بدبختی مول ليتے ہو ,وه مشقت کتنی گھاٹے والی ہے جس کا نتيجہ سزائے اخروی ہو ,اور وه راحت کتنی فائده مند ہے جس کا دوزخ
نتيجہ
امان
سے
.
ہو
38اپنے فرزند حضرت حسن عليہ السالم سے فرمايا مجھ سے چار ,اور پھر چار باتيں ياد رکھو .ان کے ہوتے ہوئے جو کچھ کرو گے ,وه تمہيں ضرر نہ پہنچائے گا سب سے بﮍی ثروت عقل و دانش ہے اور سب سے بﮍی ناداری حماقت و بے عقلی ہے اور سب سے بﮍی وحشت غرور خود بينی ہے اور سب
سے
بﮍا
جوہر
ذاتی
حسن
اخالق
ہے
.
اے فرزند !بيوقوف سے دوستی نہ کرنا کيونکہ وه تمہيں فائده پہنچانا چاہے گا ,تو نقصان پہنچائے گا .اور بخيل سے دوستی نہ کرنا کيونکہ جب تمہيں اس Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
کی مدد کی انتہائی احتياج ہوگی ,وه تم سے دور بھاگے گا .اور بدکردار سے دوستی نہ کرنا ,وه تمہيں کوڑيوں کے مول بيچ ڈالے گا اور جھوٹے سے دوستی نہ کرنا کيونکہ وه سراب کے مانند تمہارے ليے دور کی چيزوں کو قريب اور قريب کی چيزوں کو دور کر کے دکھائے گا .
39مستحبات سے قرب الہی نہيں حاصل ہوسکتا ,جب کہ وه واجبات ميں سدراه
.
ہوں
40عقل مند کی زبان اس کے دل کے پيچھے ہے اور بے قوف کا دل اس کی زبان کے پيچھے ہے . سيد رضی کہتے ہيں کہ يہ جملہ عجيب و پاکيزه معنی کا حال ہے.مقصد يہ ہے کہ عقلمند اس وقت زبان کھولتا ہے جب دل ميں سوچ بچار اور غور و فکر سے نتيجہ اخذ کر ليتا ہے .ليکن بے وقو ف بے سوچے سمجھے جو منہ ميں آتا ہے کہہ گذرتا ہے .اس طرح گويا عقلمند کی زبان اس کے تابع ہے اور بے وقوف کا دل اس کی زبان کے تابع ہے .
41يہی مطلب دوسرے لفظوں ميں بھی حضرت سے مروی ہے اور وه يہ کہ «بے وقوف کا دل اس کے منہ ميں ہے اور عقلمند کی زبان اس کے دل ميں ہے
».بہر
حال
ان
دونوں
جملوں
کا
مقصد
ايک
ہے
.
42اپنے ايک ساتھی سے اس کی بيماری کی حالت ميں فرمايا .ﷲ نے Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
تمہارے مرض کو تمہارے گناہوں کو دور کرنے کا ذريعہ قرار ديا ہے .کيونکہ خود مرض کا کوئی ثواب نہيں ہے .مگر وه گناہوں کو مٹاتا ,اور انہيں اس طرح جھاڑ ديتا ہے جس طرح درخت سے پتے جھﮍتے ہيں .ہاں ! ثواب اس ميں ہوتا ہے کہ کچھ زبان سے کہا جائے اور کچھ ہاتھ پيروں سے کيا جائے ,اورخدا وند عالم اپنے بندوں ميں سے نيک نيتی اور پاکدامنی کی وجہ سے جسے چاہتا ہے جنت ميں داخل کرتا ہے . سيدرضی فرماتے ہيں کہ حضرت نے سچ فرمايا کہ مرض کا کوئی ثواب نہيں ہے کيونکہ مرض تو اس قسم کی چيزوں ميں سے ہے جن ميں عوض کا استحقاق ہوتا ہے .اس ليے کہ عوض ﷲ کی طرف سے بندے کے ساتھ جو امر عمل ميں آئے .جيسے دکھ ,درد ,بيماری وغير ه .اس کے مقابلہ ميں اسے ملتا ہے .اور اجر و ثواب وه ہے کہ کسی عمل پر اسے کچھ حاصل ہو .لہٰ ذا عوض اور ہے ,اور اجر اور ہے اس فرق کو اميرالمومنين عليہ السالم نے اپنے علم روشن اور رائے صائب کے مطابق بيان فرما ديا ہے .
43جناب ابن ارت کے بارے ميں فرمايا .خدا خباب ابن ارت پر رحمت اپنی شامل حال فرمائے وه اپنی رضا مند ی سے اسالم الئے اور بخوشی ہجرت کی تعالی کے فيصلوں پر راضی رہے اور اور ضرور ت بھر قناعت کی اور ﷲ ٰ مجاہد انہ شان سے زندگی بسر کی . حضرت خباب ابن ارت پيغمبر کے جليل القدر صحابی اور مہاجرين اولين ميں سے تھے .انہوں نے قريش کے ہاتھوں طرح طرح کی مصيبتيں اٹھائيں .چلچالتی دھوپ ميں کھﮍے کئے گئے آگ پر لٹائے گئے .مگر کسی طرح پيغمبر اکرم کا دامن چھوڑنا گوارا نہ کيا .بدر سالم کا ساتھ ديا.مدينہ چھوڑ کر کو اور دوسرے معرکوں ميں رسالت مآب کے ہمرکاب رہے .صفين و نہروان ميں اميرالمومنين عليہ ال ّ فہ ميں سکو نت اختيار کر لی تھی .چنانچہ يہيں پر 73برس کی عمر ميں 39ہجری ميں انتقال فرمايا .نماز جنازه اميرالمومنين عليہ
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
سالم نے پﮍھائی اور بيرون کوفہ دفن ہوئے اور حضرت نے يہ کلمات ترحم ان کی قبر پر کھﮍے ہو کر فرمائے . ال ّ
44خوشا نصيب اس کے جس نے آخرت کو ياد رکھا ,حساب و کتاب کے ليے عمل کيا .ضرورت بھر قناعت کی اور ﷲ سے راضی و خوشنود رہا .
45اگر ميں مومن کی ناک پر تلواريں لگاؤں کہ وه مجھے دشمن رکھے ,تو متاع دنيا کافر کے آگے جب بھی وه مجھ سے دشمنی نہ کرے گا .اور اگر تمام ِ ڈھير کر دوں کہ وه مجھے دوست رکھے تو بھی وه مجھے دوست نہ رکھے گا اس ليے کہ يہ وه فيصلہ ہے جو پيغمبر امی صلی ﷲ عليہ وآلہ وسلم کی زبان
سے
ہو
گيا
ہے
آپ
کہ
نے
فرمايا
:
اے علی عليہ السّالم ! کوئی مومن تم سے دشمنی نہ رکھے گا اور کوئی منافق تم
محبت
سے
نہ
کرے
گا.
46وه گناه جس کا تمہيں رنج ہو ﷲ کے نزديک اس نيکی سے کہيں اچھا ہے جو تمہيں خود پسند بنا دے. جو شخص ارتکاب گناه کے بعد ندامت و پشيمانی محسوس کرے اور ﷲ کی بارگاه ميں توبہ کر ے وه گناه کی عقوبت سے محفوظ اور توبہ کے ثواب کا مستحق ہوتا ہے اور جو نيک عمل بجا النے کے بعد دوسروں کے مقابلہ ميں برتری محسوس کرتا ہے اور اپنی نيکی پر گھمنڈ کرتے ہوئے يہ سمجھتا ہے کہ اب اس کے ليے کوئی کھٹکا نہيں رہا وه اپنی نيکی کو برباد کرديتا ہے اور حسن عمل کے ثواب سے محروم رہتا ہے .ظاہر ہے کہ جو توبہ سے معصيت کے داغ کو صاف کر چکا ہو وه اس سے بہتر ہوگا جو اپنے غرور کی
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
وجہ سے اپنے کئے کرائے کو ضائع کرچکا ہو اور توبہ کے ثواب سے بھی اس کا دامن خالی ہو .
47انسان کی جتنی ہمت ہو اتنی ہی اس کی قدر و قيمت ہے اور جتنی مروت اور جوانمردی ہوگی اتنی ہی راست گوئی ہو گی ,اور جتنی حميت و خودداری ہو گی اتنی ہی شجاعت ہو گی اور جتنی غيرت ہوگی اتنی ہی پاک دامنی ہو .
گی
48کاميابی دور انديشی سے وابستہ ہے اور دور انديشی فکر و تدبر کو کام ميں النے سے اور تدبر بھيدوں کو چھپاکر رکھنے سے .
49بھوکے شريف اور پيٹ بھرے کمينے کے حملہ سے ڈرتے رہو . مطلب يہ ہے کہ باعزت و باوقار آدمی کبھی ذلت و توہين گوارا نہيں کرتا .اگر اس کی عزت و وقار پر حملہ ہوگا تو وه بھو کے شير کی طرح جھپٹے گا اور ذلت کی زنجيروں کو توڑ کر رکھ دے گا اور اگر ذليل و کم ظرف کو اس کی حيثيت سے بﮍھا ديا جائے گا تو اس کا ظرف چھلک اٹھے گا اور وه اپنے کو بلند مرتبہ خيال کرتے ہوئے دوسروں کے وقار پر حملہ آور ہو گا .
50لوگوں کے دل صحرائی جانور ہيں ,جو کہ ان کو سدھائے گا ,اس کی طرف جھکيں گے . اس قول سے اس نظريہ کی تائيد ہوتی ہے کہ انسانی قلوب اصل فطرت کے لحاظ سے وحشت پسند واقع ہوئے ہيں اور ان ميں انس و محبت کا جذبہ ايک اکتسابی جذبہ ہے .چنانچہ جب انس و محبت کے دواعی اسباب پيدا ہوتے ہيں تو وه مانوس ہو جاتے ہيں اور جب
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
اس کے دواعی ختم ہوجاتے ہيں يا اس کے خالف نفرت کے جذبات پيدا ہوتے ہيں تو وحشت کی طرف عود کر جاتے ہيں اور پھر بﮍ ی مشکل
سے
محبت
کی
پر
راه
گامز
ن
ہوتے
ہيں
.
مرنجا ں و لے راکہ ايں مرغ وحشی زبامے کہ برخوست مشکل نشنيد
51جب تک تمہارے نصيب ياور ہيں تمہارے عيب ڈھکے ہوئے ہيں.
52معاف کر نا سب سے زياده اسے زيب ديتا ہے جو سزادينے پر قادر ہو.
53سخاوت وه ہے جو بن مانگے ہو ,اور مانگے سے دينا يا شرم ہے يا سے
بدگوئی
.
بچنا
54عقل سے بﮍھ کر کوئی ثروت نہيں اور جہالت سے بﮍھ کر کوئی بے مائيگی نہيں .ادب سے بﮍھ کر کوئی ميراث نہيں اور مشوره سے زياده کوئی چيز
معين
مددگار
و
نہيں
.
55صبر دو طرح کا ہوتاہے ايک ناگوار باتوں پر صبر اور دوسرے پسنديده چيزوں
سے
صبر.
56دولت ہو تو پرديس ميں بھی ديس ہے اور مفلسی ہو تو ديس ميں بھی Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
پرديس
57قناعت وه سرمايہ ہے جو ختم نہيں ہو سکتا. «عالمہ رضی فرماتے ہيں کہ يہ کالم پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ وآلہ وسلم سے بھی مروی ہے ». قناعت کا مفہوم يہ ہے کہ انسان کو جو ميسر ہو اس پر خوش و خرم رہے اور کم ملنے پر کبيده خاطر و شاکی نہ ہو اور اگر تھوڑے پر مطمئن نہيں ہو گا تو رشوت ,خيانت اور مکر و فريب ايسے محرمات اخالقی کے ذريعہ اپنے دامن حرص کو بھر نے کی کوشش کرے گا .کيونکہ حرص کا تقاضا ہی يہ ہے جس طرح بن پﮍے خواہشات کو پورا کيا جائے اور ان خواہشات کا سلسلہ کہيں پر رکنے نہيں پاتا ,کيونکہ ايک خواہش کا پورا ہونا دوسری خواہش کی تمہيد بن جايا کرتا ہے اور جوں جوں انسان کی خواہش کاميابی سے ہمکنار ہوتی ہے اس کی احتياج بﮍھتی ہی جاتی ہے .اس ليے کبھی محتاجی و بے اطمينانی سے نجات حاصل نہيں کر سکتا اگر اس بﮍھتی ہوئی خواہش کو روکا جاسکتا ہے تو وه صرف قناعت سے کہ جو ناگزير ضرورتوں کے عالوه ہر ضرورت سے مستغنی بنا ديتی ہے اور الزوال سرمايہ ہے جو ہميشہ کے ليے فارغ البال کرديتا ہے .
58
مال
نفسانی
کا
خواہشوں
سر
چشمہ
ہے
.
59جو )برائيوں سے (خوف دالئے وه تمہارے ليے مژده سنانے والے کے مانند
ہے
.
60زبان ايک ايسا درنده ہے کہ اگر اسے کھال چھوڑ ديا جائے تو پھاڑ کھائے . Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
اقوال امام علی )عليہ السالم (از نہج البالغہ ِ اقوال ۶١تا ٩٠ 61عورت ايک ايسا بچھو ہے جس کے لپٹنے ميں بھی مزه آتا ہے .
62جب تم پرسالم کيا جائے تو اس سے اچھے طريقہ سے جواب دو .اور جب تم پر کوئی احسان کرے تو اس سے بﮍھ چﮍھ کر بدلہ دو ,اگرچہ اس صورت ميں
بھی
فضيلت
پہل
کرنے
والے
ہی
کی
ہوگی
.
63سفارش کرنے واال اميدوار کے ليے بمنزلہ پرد بال ہوتا ہے .
64دنيا والے ايسے سواروں کے مانند ہيں جو سو رہے ہيں اور سفر جاری ہے
65
.
دوستوں
کو
کھو
دينا
غريب
الوطنی
ہے
.
66مطلب کا ہاتھ سے چال جانا اہل کے آگے ہاتھ پھيالنے سے آسان ہے .
67نااہل کے سامنے حاجت پيش کرنے سے جو شرمندگی حاصل ہوتی ہے وه Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
محرومی کے اندوه سے کہيں زياده روحانی اذيت کا باعث ہوتی ہے .اس ليے کے مقصد سے محرومی کو برداشت کيا جاسکتا ہے .مگر ايک دنی و فر و مايہ کی زير باری ناقابل برداشت ہوتی ہے .چنانچہ ہر باحميت انسان نا اہل کے ممنون احسان ہونے سے اپنی حرمان نصيبی کو ترجيح دے گا ,اور کسی پست و دنی کے آگے دست سوال دراز کرنا گوارا نہ کرے گا .
67تھوڑا دينے سے شرماؤ نہيں کيونکہ خالی ہاتھ پھيرنا تو اس سے بھی گری
ہوئی
بات
ہے
.
68عفت فقر کا زيور ہے اور شکر دولت مندی کی زينت ہے .
69اگر حسب منشا تمہارا کام نہ بن سکے تو پھر جس حالت ميں ہو مگن رہو .
70جاہل کو نہ پاؤ گے مگر يا حد سے آگے بﮍھا ہو ,اور يا اس سے بہت .
پيچھے
71جب عقل بﮍھتی ہے ,تو باتيں کم ہو جاتی ہيں . بسيار گوئی پريشان خيالی کا اور پريشان خيالی عقل کی خامی کا نتيجہ ہوتی ہے .اور جب انسان کی عقل کامل اور فہم پختہ ہوتا ہے تو اس کے ذہن اور خياال ت ميں توازن پيد ا ہوجاتا ہے .اور عقل دوسرے قوائے بدنيہ کی طرح زبان پر بھی تسلط و اقتدار حاصل کر ليتی
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
ہے جس کے نتيجہ ميں زبان عقل کے تقاضوں سے ہٹ کر اور بے سوچے سمجھے کھلنا گوارا نہيں کرتی اور ظاہر ہے کہ سوچ بچار کے
بعد
جو
کالم
,وه
ہوگا
مختصر
اور
زوائد
سے
پاک
ہوگا
.
مروچوں عقلس بيفزائد بکا ہددر سخن تانيا بدفرصت گفتار نکشايد ذہن
72زمانہ جسموں کو کہنہ و بوسيده اور آرزوؤں کو دور کرتا ہے .جو زمانہ سے کچھ پا ليتا ہے .وه بھی رنج سہتا ہے اور جو کھو ديتا ہے وه تو دکھ جھيلتا
ہی
ہے
.
73جو لوگوں کا پيشوا بنتا ہے تو اسے دوسروں کو تعليم دينے سے پہلے اپنے کو تعليم دينا چاہيے اور زبان سے درس اخال ق دينے سے پہلے اپنی سيرت و کردار سے تعليم دينا چاہيے .اورجو اپنے نفس کی تعليم و تاديب کرلے ,وه دوسروں کی تعليم و تاديب کرنے والے سے زياده احترام کا مستحق ہے
.
74انسان کی ہر سانس ايک قدم ہے جو اسے موت کی طرف بﮍھائے ليے جارہا ہے. يعنی جس طرح ايک قدم مٹ کر دوسرے قدم کے ليے جگہ خالی کرتا ہے اور يہ قدم فرسائی منزل کے قرب کا باعث ہوتی ہے ,يونہی زندگی کی ہر سانس پہلی سانس کے ليے پيغام فنا بن کر کاروان زندگی کو موت کی طرف بﮍھائے ليے جاتی ہے .گويا جس سانس کی
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
آمد کو پيغام حيات سمجھا جاتا ہے ,وہی سانس زندگی کے ايک لمحے کے فنا ہو نے کی عالمت اورمنزل موت سے قرب کا باعث ہوتی ہے کيونکہ ايک سانس کی حيات دوسری سانس کے ليے موت ہے اور انہی فنا بردوش سانسوں کے مجموعے کا نا م زندگی ہے #
ہر
عمر
نفس
کی
گزشتہ
ہے
ميت
فانی
زندگی نام ہے مرمر کے جيے جانے کا
75جوچيز شمار ميں آئے اسے ختم ہونا چاہيے اور جسے آنا چاہيے ,وه آکر رہے
.
گا
76جب کسی کام ميں اچھے برے کی پہچان نہ رہے توآغاز کو ديکھ کر انجام کو پہچان لينا چاہيے . ايک بيج کو ديکھ کر کاشتکار يہ حکم لگا سکتا ہے کہ اس سے کو ن سا درخت پيدا ہوگا .اس کے پھل پھول اور پتے کيسے ہوں گے ,اس کا پھيالؤ اور بﮍھاؤ کتنا ہو گا .اسی طرح ايک طالب علم سعی و کوشش کو ديکھ کر اس کی کاميابی پر ,اور دوسرے کی آرام طلبی و غفلت کو ديکھ کر اس کی ناکامی پر حکم لگايا جاسکتا ہے ,کيونکہ ادائل اواخر کے اور مقدمات ,نتائج کے آئينہ دار ہوتے ہيں .لہٰ ذا کسی چيز کا انجام سجھائی نہ ديتا ہو تو اس کی ابتداء کو ديکھا جائے .اگر ابتداء بری ہوگی تو انتہا بھی بری ہو گی اور اگر ابتداء اچھی
تو
ہوگی
انتہا
بھی
اچھی
ہوگی
.
سالے کہ نکواست ازبہارش پيدا
77جب ضرار ابن ضمرة صنبائی معاويہ کے پاس گئے اور معاويہ نے Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
اميرالمومنين عليہ السّالم کے متعلق ان سے سوال کيا ,تو انہوں نے کہاکہ ميں اس امر کی شہادت ديتا ہوں کہ ميں نے بعض موقعوں پر آپ کو ديکھا جب کہ رات اپنے دامن ظلمت کو پھيال چکی تھی .تو آپ محراب عبادت ميں استاده ريش مبارک کو ہاتھوں ميں پکﮍے ہوئے مار گزيده کی طرح تﮍپ رہے تھے اورغم رسيده کی طرح رو رہے تھے اور کہہ رہے تھے . اے دنيا ! اے دنيا دور ہو مجھ سے .کياميرے سامنے اپنے کو التی ہے؟ يا ميری دلداده و فريفتہ بن کر آئی ہے .تيرا وه وقت نہ آئے )کہ تو مجھے فريب دے سکے(بھال يہ کيونکر ہو سکتا ہے ,جاکسی اور کو جل دے مجھے تيری خواہش نہيں ہے .ميں تو تين بار تجھے طالق دے چکا ہوں کہ جس کے بعد رجوع کی گنجائش نہيں .تيری زندگی تھوڑی ,تيری اہميت بہت ہی کم اور تيری آرزو ذليل و پست ہے افسوس زا ِد راه تھوڑا ,راستہ طويل سفر دور دراز اور منزل سخت ہے . اس روايت کا تتمہ يہ ہے کہ جب معاويہ نے ضرار کی زبان سے يہ واقعہ سنا تو ا س کی آنکھيں اشکبار ہو گئيں اور کہنے لگا کہ خدا ابو الحسن پر رحم کرے وه واقعا ًايسے ہی تھے ,پھر ضرار سے مخاطب ہو کر کہا کہ اے ضرار ان کی مفارقت ميں تمہارے رنج و اندوه کی کيا حالت ہے ضرا ر نے کہا کہ بس يہ سمجھ لو کہ ميرا غم اتنا ہی ہے جتنا اس ماں کاہوتا ہے جس کی گود ميں اس کا اکلوتا بچہ ذبح کر ديا جائے .
78ايک شخص نے اميرالمومنين عليہ السالم سے سوال کيا کہ کيا ہمارا اہل شام سے لﮍنے کے ليے جانا قضا و قدر سے تھا؟ تو آپ نے ايک طويل جواب Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
ديا
.جس
کا
ايک
منتخب
حصہ
يہ
ہے
.
خدا تم پر رحم کرے شايد تم نے حتمی و الزمی قضاء و قدر سمجھ ليا ہے )کہ جس کے انجام دينے پر ہم مجبور ہيں (اگر ايسا ہوتا تو پھر نہ ثواب کا کوئی سوال پيدا ہوتا نہ عذاب کا نہ وعدے کے کچھ معنی رہتے نہ وعيد کے .خدا وند عالم نے تو بندوں کو خود مختار بناکر مامو ر کيا ہے اور )عذاب سے (ڈراتے ہوئے نہی کی ہے۔ اُس نے سہل و آسان تکليف دی ہے اور دشواريوں سے بچائے رکھا ہے وه تھوڑے کئے پر زياده اجر ديتا ہے .ا س کی نافرمانی اس ليے نہيں ہوتی کہ وه دب گيا ہے اور نہ اس کی اطاعت اس ليے کی جاتی ہے کہ اس نے مجبور کر رکھا ہے اس نے پيغمبروں کو بطور تفريح نہيں بھيجا اور بندوں کے ليے کتابيں بے فائده نہيں اتاری ہيں اور نہ آسمان و زمين اور جو کچھ ان دونوں کے درميان ہے ان سب کو بيکار پيدا کيا ہے .يہ تو ان لوگوں کا خيال ہے .جنہوں نے کفر اختيار کيا آتش جہنم کے عذاب سے اس روايت کا تتمہ يہ ہے پھر اس شخص نے کہا کہ وه کون سی قضاء و قدر تھی جس کی وجہ سے ہميں جانا پﮍا آپ نے کہا کہ قضاکے معنی حکم باری کے ہيں جيسا کہ ارشاد ہے .وقضی ربّک اال تعبدوا اال اياه اور تمہارے پروردگار نے تو حکم دے ديا ہے کہ اس کے سوا کسی کی پرستش نہ کرنا .يہاں پر قضی بمعنی امر کے ہے .
79حکمت کی بات جہاں کہيں ہو ,اسے حاصل کرو ,کيونکہ حکمت منافق کے سينہ ميں بھی ہوتی ہے .ليکن جب تک اس )کی زبان(سے نکل کر مومن کے سينہ ميں پہنچ کر دوسر ی حکمتوں کے ساتھ بہل نہيں جاتی تﮍپتی رہتی ہے . Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
80حکمت مومن ہی کی گمشده چيز ہے اسے حاصل کرو ,اگرچہ منافق سے لينا
.
پﮍے
81ہرشخص کی قيمت وه ہنر ہے ,جو اس شخص ميں ہے . سيد رضی فرماتے ہيں کہ يہ ايک ايسا انمول جملہ ہے کہ نہ کوئی حکيمانہ بات اس کے ہم وزن ہو سکتی ہے ,اور نہ کوئی جملہ اس کا ہم
پايہ
ہوسکتا
ہے
.
انسان کی حقيقی قيمت اس کا جوہر علم و کمال ہے .وه علم و کمال کی جس بلندی پر فائز ہوگا ,اسی کے مطابق اس کی قدر و منزلت ہوگی چنانچہ جوہر شناس نگاہيں شکل و صورت ,بلندی قدو قامت اور ظاہری جاه و حشمت کو نہيں ديکھتيں بلکہ انسان کے ہنر کو ديکھتی ہيں اور اسی ہنر کے لحاظ سے اس کی قيمت ٹھہراتی ہيں .مقصد يہ ہے کہ انسان کو اکتساب فضائل و تحصيل علم و دانش ميں جدوجہد کرنا چاہيے.
82تمہيں ايسی پانچ باتوں کی ہدايت کی جاتی ہے .کہ اگر انہيں حاصل کرنے کے ليے اونٹوں کو ايﮍ لگا کر تيز ہنگاؤ ,تو وه اسی قابل ہوں گی .تم ميں سے کوئی شخص ﷲ کے سوا کسی سے آس نہ لگائے اور اس کے گناه کے عالوه کسی شے سے خو ف نہ کھائے اور اگر تم ميں سے کسی سے کوئی ايسی بات پوچھی جائے کہ جسے و ه نہ جانتا ہو تو يہ کہنے ميں نہ شرمائے کہ ميں نہيں جانتا اور اگر کوئی شخص کسی بات کو نہيں جانتا تو اس کے سيکھنے ميں شرمائے نہيں ,اور صبر و شکيبائی اختيار کرو کيونکہ صبر کو ايمان Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
سے وہی نسبت ہے جو سر کو بدن سے ہوتی ہے.اگر سر نہ ہو تو بدن بيکار ہے ,يونہی ايمان کے ساتھ صبر نہ ہو تو ايمان ميں کوئی خوبی نہيں . ہر کر اصبر نيست ايمان نيست
83ايک شخص نے آپ کی بہت زياده تعريف کی حاالنکہ وه آپ سے عقيدت و ارادت نہ رکھتا تھا ,تو آپ نے فرمايا جو تمہاری زبان ہر ہے ميں اس سے کم ہوں اور جو تمہارے دل ميں ہے اس سے زياده ہوں.
84تلوار سے بچے کھچے لوگ زياده باقی رہتے ہيں اور ان کی نسل زياده ہوتی
.
ہے
85جس کی زبان پر کبھی يہ جملہ نہ آئے کہ «ميں نہيں جانتا ».تو وه چوٹ کھانے
کی
جگہو
ں
پر
چوٹ
کھا
رہتا
کر
ہے
.
86بوڑھے کی رائے مجھے جوان کی ہمت سے زياده پسند ہے )ايک روايت ميں يوں ہے کہ بوڑھے کی رائے مجھے جوان کے خطره ميں ڈٹے رہنے سے
زياده
پسند
ہے
(
87اس شخص پر تعجب ہوتا ہے کہ جو توبہ کی گنجائش کے ہوتے ہوئے Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
مايوس
جائے
ہو
88ابو جعفر محمد ابن علی الباقر عليہ السالم نے روايت کی ہے کہ اميرالمومنين
عليہ
السّالم
نے
فرمايا
.
دنيا ميں عذاب خدا سے دو چيزيں باعث امان تھيں ايک ان ميں سے اٹھ گئی ,مگر دوسری تمہارے پاس موجود ہے .ل ٰہذا اسے مضبوطی سے تھامے رہو .وه امان جو اٹھالی گئی وه رسول ﷲ صلی عليہ وآلہ وسلم تھے اور وه امان جو باقی ره گئی ہے وه توبہ و استغفار ہے جيسا کہ ﷲ سبحانہ نے فرمايا«.ﷲ لوگوں پر عذاب نہيں کرے گا جب تک تم ان ميں موجود ہو ».ﷲ ان لوگوں پر عذاب نہيں اتارے گا ,جب کہ يہ لوگ توبہ و استغفار کررہے ہوں گے . سيد رضی عليہ الرحمتہ فرماتے ہيں کہ يہ بہترين استخراج اور عمد ه نکتہ آفرينی ہے .
89جس نے اپنے اور ﷲ کے مابين معامالت کو ٹھيک رکھا ,تو ﷲ اس کے اور لوگوں کے معامالت سلجھائے رکھے گا اور جس نے اپنی آخرت کو سنوار ليا .تو خدا اس کی دنيا بھی سنوار دے گا اور جو خود اپنے کو وعظ و پند کرلے ,تو ﷲ کی طرف سے اس کی حفاظت ہوتی رہے گی.
90پورا عالم و دانا وه ہے جو لوگوں کو رحمت خدا سے مايو س او ر اس کی طرف سے حاصل ہونے والی آسائش و راحت سے نا اميد نہ کرے ,اور نہ Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
انہيں ﷲ کے عذاب سے بالکل مطمئن کر دے .
اقوال امام علی )عليہ السالم (از نہج البالغہ ِ اقوال ٩١تا ١٢٠ 91يہ دل بھی اسی طرح اکتا جاتے ہيں جس طرح بدن اکتا جاتے ہيں۔ل ٰہذا )جب ايسا ہوتو(ان کے ليے لطيف حکيمانہ نکات تالش کرو۔
92وه علم بہت بے قدروقيمت ہے جو زبان تک ره جائے ،اور وه علم بہت بلند مرتبہ
ہے
جو
اعضا
و
جوارح
سے
نمودار
ہو.
93تم ميں سے کوئی شخص يہ نہ کہے کہ «اے ﷲ! ميں تجھ سے فتنہ و آزمائش سے پناه چاہتا ہوں اس ليے کہ کوئی شخص ايسا نہيں جو فتنہ کی لپيٹ ميں نہ ہو ،بلکہ جو پناه مانگے وه گمراه کرنے والے فتنوں سے پناه مانگے کيونکہ ﷲ سبحانہ کا ارشاد ہے اور اس بات کو جانے رہو کہ تمہارا مال اور اوالد فتنہ ہے اس سے مراد يہ ہے کہ ﷲ لوگوں کومال اور اوالد کے ذريعے آزماتا ہے تاکہ يہ ظاہر ہو جائے کہ کون اپنی قسمت پر شاکرہے اگرچہ ﷲ سبحانہ ان کو اتنا جانتا ہے کہ وه خود بھی اپنے کو اتنا نہيں جانتے۔ليکن يہ آزمائش اس ليے ہے کہ وه افعال سامنے آئيں جن سے ثواب و عذاب کا Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
استحقاق پيدا ہوتا ہے کيونکہ بعض اوالد نرينہ کو چاہتے ہيں ،اور لﮍکيوں سے کبيده خاطر ہوتے ہيں اور بعض مال بﮍھانے کو پسند کرتے ہيں اور بعض شکستہ حالی کو برا سمجھتے ہيں۔ سيد رضی فرماتے ہيں کہ يہ ان عجيب و غريب باتوں ميں سے ہے جو تفسير کے سلسلہ ميں آپ سے وارد ہوئی ہيں۔
94آپ سے دريافت کيا گيا کہ نيکی کياچيز ہے توآپ نے فرمايا کہ نيکی يہ نہيں کہ تمہارے مال و اوالد ميں فراوانی ہوجائے۔بلکہ خوبی يہ ہے کہ تمہارا علم زياده اور حلم بﮍا ہو ،اور تم اپنے پروردگار کی عباد ت پر ناز کرسکو اب اگر اچھا کام کرو۔تو ﷲ کا شکر بجاالؤ ،اور اگر کسی برائی کا ارتکاب کرو۔تو توبہ و استغفار کرو ،اور دنيا ميں صرف دو شخصوں کے ليے بھالئی ہے۔ايک و ه جو گناه کرے تو توبہ سے سے اس کی تالفی کرے اور دوسرا وه جو
کام
نيک
ميں
تيز
ہو.
گام
95جو عمل تقوی ٰ کے ساتھ انجام ديا جائے وه تھوڑا نہيں سمجھا جاسکتا ،اور مقبول
ہونے
واال
عمل
تھوڑ
اکيونکر
ہوسکتا
ہے
؟
96انبياء سے زياده خصوصيت ان لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو ان کی الئی ہوئی چيزوں کازياده علم رکھتے ہوں )پھر آپ نے اس آيت کی تالوت فرمائی(ابراہيم سے زياده خصوصيت ان لوگوں کی تھی جو ان کے فرمانبردار Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
تھے۔اور اب اس نبی اور ايمان النے والوں کو خصوصيت ہے۔)پھرفرمايا(حضرت محمد مصطفی صلی ﷲ عليہ وآلہ وسلم کا دوست وه ہے جو ﷲ کی اطاعت کرے اگرچہ ان سے کوئی قرابت نہ رکھتا ہو ،اور ان کا دشمن وه ہے جو ﷲ کی نافرمانی کرے ،اگرچہ نزديکی قرابت رکھتا ہو۔
97ايک خارجی کے متعلق آپ عليہ السّالم نے سنا کہ وه نماز شب پﮍھتا ہے اور قرآن کی تالوت کرتا ہے توآپ نے فرمايا يقين کی حالت ميں سونا شک کی
ميں
حالت
نماز
پﮍھنے
سے
بہتر
ہے۔
98جب کوئی حديث سنو تو اسے عقل کے معيار پر پرکھ لو,صرف نقل الفاظ پر بس نہ کرو ،کيونکہ علم کے نقل کرنے والے تو بہت ہيں اور اس ميں غور ہيں۔
کم
کرنے
والے
99ايک شخص کو انا
و انا اليہ راجعون),ہم ﷲ کے ہيں اور ﷲ کی طرف
پلٹنا ہے (کہتے سنا تو فرمايا کہ ہمارا يہ کہنا کہ «ہم ﷲ کے ہيں ».اس کے مالک ہونے کا اعتراف ہے اور يہ کہنا کہ ہميں اسی کی طرف پلٹنا ہے۔يہ اپنے
ليے
فنا
کا
اقرار
ہے.
100کچھ لوگوں نے آپ عليہ السّالم کے روبرو آپ عليہ السّالم کی مدح و Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
ستائش کی ،تو فرمايا۔اے ﷲ! تومجھے مجھ سے بھی زياده جانتا ہے ،اور ان لوگوں سے زياده اپنے نفس کوميں پہچانتا ہوں۔اے خدا جو ان لوگوں کاخيال ہے ہميں اس سے بہتر قرار دے اور ان )لغزشوں (کو بخش دے جن کا انہيں نہيں.
علم
101حاجت روائی تين چيزوں کے بغير پائدار نہيں ہوتی۔اسے چھوٹا سمجھاجائے تاکہ وه بﮍی قرار پائے اسے چھپايا جائے تاکہ وه خود بخود ظاہر ہو ،اور اس ميں جلدی کی جائے تاکہ وه خوش گوار ہوں۔
102لوگوں پر ايک ايسا زمانہ بھی آئے گا جس ميں وہی بارگاہوں ميں مقرب ہوگا جو لوگوں کے عيوب بيان کرنے واال ہو ,اور وہی خوش مذاق سمجھا جائے گا ,جو فاسق و فاجر ہو اور انصا ف پسند کو کمزور و ناتواں سمجھا جائے گا صدقہ کو لوگ خساره اور صلہ رحمی کو احسان سمجھيں گے اور عبادت لوگوں پر تفو ق جتالنے کے ليے ہوگی۔ايسے زمانہ ميں حکومت کا دارومدار عورتوں کے مشورے ،نو خيز لﮍکوں کی کار فرمائی اور خواجہ سراؤں
کی
تدبير
و
رائے
پر
ہوگا.
103آپ کے جسم پر ايک بوسيده اور پيوند دار جامہ ديکھا گيا تو آپ سے اس کے بارے ميں کہاگيا ،آپ نے فرمايا !اس سے دل متواضع اور نفس رام ہوتا Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
ہے اور مومن اس کی تاسی کرتے ہيں۔دنيا اورآخرت آپس ميں دو ناساز گار دشمن اور دو جدا جدا راستے ہيں۔چنانچہ جو دنيا کو چاہے گا اور اس سے دل لگائے گا۔وه دونوں بمنزلہ مشرق و مغرب کے ہيں اور ان دونوں سمتوں کے درميان چلنے واال جب بھی ايک سے قريب ہوگا تو دوسرے سے دور ہونا پﮍے گا۔پھر ان دونوں کا رشتہ ايسا ہی ہے جيسا دو سوتوں کاہوتا ہے۔
104نوف ابن فضالہ بکالی کہتے ہيں کہ ميں نے ايک شب اميرالمومنين عليہ السالم کو ديکھاکہ وه فرش خواب سے اٹھے ايک نظر ستاروں پر ڈالی اور پھر فرمايا اے نوف !سوتے ہو يا جاگ رہے ہو ؟ميں نے کہا کہ يا اميرالمومنين
عليہ
السّالم
جاگ
رہا
ہوں۔فرمايا
!
اے
نوف!
خوشانصيب ان کے کہ جنہوں نے دنيا ميں زہد اختيار کيا ،اور ہمہ تن آخرت کی طرف متوجہ رہے۔يہ وه لوگ ہيں جنہوں نے زمين کو فرش ،مٹی کو بستر اور پانی کو شربت خوش گوار قرار ديا۔قرآن کو سينے سے لگايا اور دعا کو سپر بنايا .پھر حضرت مسيح کی طرح دامن جھاڑ کر دنيا سے الگ ہوگئے. اے نوف ! داؤد عليہ السالم رات کے ايسے ہی حصہ ميں اٹھے اور فرمايا کہ يہ وه گھﮍی ہے کہ جس ميں بنده جو بھی دعا مانگے مستجاب ہوگی سوا اس شخص کے جو سرکاری ٹيکس وصول کرنے واال ،يا لوگوں کی برائياں کرنے واال ،يا ) کسی ظالم حکومت کی( پوليس ميں ہو يا سارنگی يا ڈھول تاشہ بجانے واال ہو. Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
سيد رضی کہتے ہيں کہ عرطبہ کے معنی سارنگی اورکوبہ کے معنی ڈھول کے ہيں اور ايک قول يہ ہے کہ عرطبہ کے معنی ڈھول اور کوبہ کے معنی طنبوره کے ہيں۔
105ﷲ نے چند فرائض تم پرعائد کئے ہيں انہيں ضائع نہ کرو۔اورتمہارے حدود کار مقرر کر ديئے گئے ہيں ان سے تجاوز نہ کرو.اس نے چند چيز وں سے تمہيں منع کيا ہے اس کی خالف ورزی نہ کرو ،اور جن چند چيزوں کا اس نے حکم بيان نہيں کيا ،انہيں بھولے سے نہيں چھوڑ ديا.ل ٰہذا خواه مخواه انہيں
جاننے
کی
کوشش
نہ
کرو.
106جو لوگ اپنی دنيا سنوارنے کے ليے دين سے ہاتھ اٹھاليتے ہيں تو خدا اس دنياوی فائده سے کہيں زياده ان کے ليے نقصان کی صورتيں پيدا کرديتا ہے۔
107بہت سے پﮍھے لکھوں کو )دين سے( بے خبری تباه کرديتی ہے اورجوعلم ان کے پاس ہوتا ہے انہيں ذرا بھی فائده نہيں پہنچاتا۔
108اس انسان سے بھی زياده عجيب وه گوشت کا ايک لوتھﮍا ہے جو اس کی ايک رگ کے ساتھ آويزاں کردياگيا ہے اور وه دل ہے جس ميں حکمت و دانائی کے ذخيرے ہيں اور اس کے برخالف بھی صفتيں پائی جاتی ہيں اگر
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
اسے اميد کی جھلک نظر آتی ہے تو طمع اسے ذلت ميں مبتال کر تی ہے اور اگر طمع ابھرتی ہے تو اسے حرص تباه وبرباد کرديتی ہے۔اگر نااميدی اس پر چھا جاتی ہے تو حسرت و اندوه اس کے ليے جان ليوا بن جاتے ہيں اور اگر غضب اس پر طاری ہوتا ہے تو غم و غصہ شدت اختيار کرليتا ہے اور اگر خوش و خوشنود ہوتا ہے تو حفظ ماتقدم کو بھول جاتاہے اور اگر اچانک اس پر خوف طاری ہوتاہے تو فکر و انديشہ دوسری قسم کے تصورات سے اسے روک ديتا ہے۔اگر امن امان کا دور دوره ہوتا ہے تو غفلت اس پر قبضہ کرليتی ہے اور اگر مال دولتمند ی اسے سرکش بناديتی ہے اور اگر اس پر کوئی مصيبت پﮍتی ہے تو بے تابی و بے قرار ی اسے رسوا کر ديتی ہے۔اور اگر فقر و فاقہ کی تکليف ميں مبتال ہو۔تو مصيبت و ابتالء اسے جکﮍليتی ہے اور اگر بھوک اس پر غلبہ کرتی ہے۔ ناتوانی اسے اٹھنے نہيں ديتی اور اگر شکم پری بﮍھ جاتی ہے تو يہ شکم پری اس کے ليے کرب و اذيت کا باعث ہوتی ہے کوتاہی اس کے ليے نقصان رساں اور حد سے زيادتی اس کے ليے تباه کن
ہوتی
ہے۔
109ہم )اہلبيت (ہی وه نقطہ اعتدال ہيں کہ پيچھے ره جانے والے کو اس سے آکر ملنا ہے اور آگے بﮍھ جانے والے کو اس کی طرف پلٹ کر آنا ہے۔
110حکم خدا کا نفاذ وہی کر سکتا ہے جو )حق معاملہ ميں( نرمی نہ برتے Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
عجز و کمزوری کا اظہار نہ کرے اور حرص و طمع کے پيچھے نہ لگ جائے۔
111سہل ابن حنيف انصار ی حضرت کو سب لوگو ں ميں زياده عزيز تھے يہ جب آپ کے ہمراه صفين سے پلٹ کر کوفہ پہنچے تو انتقال فرماگئے جس پر حضرت
نے
فرمايا.
اگر پہاڑبھی مجھے دوست رکھے گا تووه بھی ريزه ريزه ہو جائے گا۔ سيد رضی فرماتے ہيں کہ چونکہ اس کی آزمائش کﮍی اور سخت ہوتی ہے۔اس ليے مصيبتيں اس کی طرف لپک کر بﮍھتی ہيں اور ايسی آزمائش انہی کی ہوتی ہے جو پرہيز گار نيکو کار منتخب و برگزيده ہوتے ہيں اور ايسا ہی آپ کا دوسرا ارشاد ہے۔
112جو ہم اہل بيت سے محبت کرے اسے جامہ فقر پہننے کے ليے آماده رہناچاہيے۔ سيد رضی کہتے ہيں کہ حضرت کے اس ارشا د کے ايک اور معنی بھی کئے گئے ہيں جس کے ذکر کا يہ محل نہيں ہے۔ شايد اس روايت کے دوسرے معنی يہ ہوں کہ جو ہميں دوست رکھتا ہے اسے دنياطلبی کے ليے تگ و دو نہ کرنا چاہيے خواه اس کے نتيجہ ميں اسے فقر و افالس سے دو چار ہونا پﮍے بلکہ قناعت اختيار کرتے ہوئے دنيا طلبی سے الگ رہنا چاہيے۔
113عقل سے بﮍھ کر کوئی مال سود مند اور خود بينی سے بﮍھ کر کوئی تنہائی وحشتناک نہيں اور تدبر سے بﮍھ کر کوئی عقل کی بات نہيں اور کوئی ٰ تقوی کے مثل نہيں اور خوش خلقی سے بہتر کوئی ساتھی اور ادب بزرگی Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
کے مانند کوئی ميراث نہيں اور توفيق کے مانند کوئی پيشرو اور اعمال خير سے بﮍھ کر کوئی تجارت نہيں اور ثواب کا ايسا کوئی نفع نہيں اور کوئی پرہيز گاری شبہات ميں توقف سے بﮍھ کر نہيں اور حرام کی طرف بے رغبتی سے بﮍھ کر کوئی زہد اور تفکر اور پيش بينی سے بﮍھ کر کوئی علم نہيں اور ادائے فرائض کے مانند کوئی عبادت اور حيا و صبر سے بﮍھ کر کوئی ايمان نہيں اور فروتنی سے بﮍھ کر کوئی سرفرازی نہيں اور علم کے مانند کوئی بزرگی وشرافت نہيں حلم کے مانند کوئی عزت اور مشوره سے مضبوط
پشت
کوئی
نہيں
پناه
114جب دنيا اور اہل دنيا ميں نيکی کا چلن ہو ،اور پھر کوئی شخص کسی سؤ ظن ايسے شخص سے کہ جس سے رسوائی کی کوئی بات ظاہر نہيں ہوئی ِ رکھے تو اس نے اس پر ظلم و زيادتی کی اور جب دنيا واہل دنيا پر شر و فساد کا غلبہ ہو اور پھر کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے حسن ظن رکھے تو اس نے )خود ہی اپنے کو ( خطرے ميں ڈاال.
115امير المومنين عليہ السالم سے دريافت کيا گيا کہ آپ عليہ السّالم کا حال کيسا ہے ؟ تو آپ عليہ السّالم نے فرمايا کہ ا س کا حال کيا ہوگا جسے زندگی موت کی طرف ليے جارہی ہو ،اور جس کی صحت بيماری کا پيش خيمہ ہو اور
جسے
اپنی
پناه
گاه
سے
گرفت
ميں
لے
ليا
جائے۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
116کتنے ہی لوگ ايسے ہيں جنہيں نعمتيں دے کر رفتہ رفتہ عذاب کا مستحق بنايا جاتا ہے اور کتنے ہی لوگ ايسے ہيں جو ﷲ کی پرده پوشی سے دھوکا کھائے ہوئے ہيں اور اپنے بارے ميں اچھے الفاظ سن کر فريب ميں پﮍ گئے ہيں اور مہلت دينے سے زياده ﷲ کی جانب سے کوئی بﮍی آزمائش نہيں ہے۔
117ميرے بارے ميں دو قسم کے لوگ تباه و برباد ہوئے۔ايک وه چاہنے واال جو حد سے بﮍھ جائے اور ايک وه دشمنی رکھنے واال جو عداوت رکھے۔
118موقع کو ہاتھ سے جانے دينا رنج و اندوه کا باعث ہوتا ہے۔
119دنيا کی مثال سانپ کی سی ہے جو چھونے ميں نرم معلوم ہوتا ہے مگر اس کے اندر زہر ہالہل بھرا ہوتا ہے ،فريب خورده جاہل اس کی طرف کھينچتا ہے
اور
ہوشمند
و
دانا
اس
سے
بچ
کر
رہتا
ہے۔
120حضرت سے قريش کے بارے ميں سوال کيا گيا تو آپ نے فرمايا کہ )قبيلہ(بنی مخزوم قريش کا مہکتا ہوا پھول ہيں ،ان کے مردوں سے گفتگو اور ان کی عورتوں سے شادی پسنديده ہے اور بنی عبد شمس دور انديش اور پيٹھ Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
پيچھے کی اوجھل چيزوں کی پوری روک تھا م کرنے والے ہيں ليکن ہم )بنی ہاشم (توجو ہمارے ہاتھ ميں ہوتا ہے اسے صرف کر ڈالتے ہيں ،اور موت آنے پر جان ديتے ہيں۔ بﮍے جوانمرد ہوتے ہيں اور يہ بنی )عبد شمس (گنتی ميں زياده حيلہ باز اور بدصورت ہوتے ہيں اور ہم خوش گفتار خير خواه اور خوب صورت ہوتے ہيں۔
اقوال امام علی )عليہ السالم (از نہج البالغہ ِ اقوال ١٢١تا ١۵٠ 121ان دونوں قسم کے عملوں ميں کتنا فرق ہے ايک وه عمل جس کی لذت مٹ جائے ليکن اس کا وبال ره جائے اور ايک وه جس کی سختی ختم ہوجائے ليکن
اس
کا
اجر
وثواب
رہے
باقی
.
122حضرت ايک جنازه کے پيچھے جارہے تھے کہ ايک شخص کے ہنسنے کی
آواز
سنی
جس
پر
آپ
نے
فرمايا.
گويا اس دنيا ميں موت ہمارے عالوه دوسروں کے ليے لکھی گئی ہے او رگويا يہ حق )موت (دوسروں ہی پر الز م ہے اور گويا جن مرنے والوں کو ہم ديکھتے ہيں ,وه مسافر ہيں جو عنقريب ہماری طرف پلٹ آئيں گے .ادھر ہم انہيں قبروں ميں اتارتے ہيں ادھر ان کا ترکہ کھانے لگتے ہيں گويا ان کے بعد Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
ہم ہميشہ رہنے والے ہيں .پھر يہ کہ ہم نے ہر پندو نصيحت کرنے والے کو وه مرد ہو يا عور ت بھال ديا ہے اور ہر آفت کا نشانہ بن گئے ہيں .
123خوشانصيب اس کے کہ جس نے اپنے مقام پر فروتنی اختيا ر کی جس کی کمائی پاک و پاکيزه نيت نيک اورخصلت و عادت پسنديده رہی جس نے اپنی ضرورت سے بچا ہو امال خداکی راه ميں صرف کيا بے کار باتوں سے اپنی زبان کو روک ليا ,مردم آزادی سے کناره کش رہا ,سنت اسے ناگوار نہ ہوئی اور بدعت کی طرف منسوب نہ ہوا . سيد
رضی
کہتے
ہيں
.
کہ کچھ لو گوں نے اس کالم کو اور اس سے پہلے کالم کو رسول ﷲ صلی عليہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب کيا ہے .
124عورت کا غير ت کر نا کفر ہے ,اور مرد کا غيور ہونا ايمان ہے . مطلب يہ ہے کہ جب مر دکو چار عورتيں تک کر نے کی اجازت ہے تو عورت کا سوت گوارا نہ کر نا حالل خدا سے ناگواری کا اظہار اور ايک طرح سے حالل کو حرام سمجھنا ہے اور يہ کفر کے ہمپايہ ہے ,اور چونکہ عورت کے ليے متعدد شوہر کرنا جائز نہيں ہے ,اس ليے مرد کا اشتراک گوارا نہ کرنا اس کی غيرت کا تقاضا اور حرام خدا کو حرام سمجھنا ہے اور يہ ايمان کے مترادف ہے . مردوعورت ميں يہ تفريق اس ليے ہے تاکہ توليد و بقائے نسل انسانی ميں کوئی روک پيدا نہ ہو ,کيونکہ يہ مقصد اسی صورت ميں بدرجہ اتم حاصل ہوسکتا ہے جب مرد کے ليے تعددازواج کی اجازت ہو ,کيونکہ ايک مرد سے ايک ہی زمانہ ميں متعدد اوالديں ہوسکتی ہيں اور عور ت اس سے معذورو قاصر ہے کہ وه متعدد مردوں کے عقد ميں آنے سے متعدد اوالديں پيدا کرسکے .کيونکہ زمانہ حمل ميں دوباره حمل کا سوال ہی پيدا نہيں ہوتا .اس کے عالوه اس پر ايسے حاالت بھی طاری ہوتے رہتے ہيں کہ مرد کو اس
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
سے کناره کشی اختيا ر کرنا پﮍتی ہے .چنانچہ حيض اور رضاعت کا زمانہ ايساہوتاہی ہے جس سے توليد کا سلسلہ رک جاتا ہے اور اگرمتعدد ازواج ہونگی تو سلسلہ توليد جاری ره سکتا ہے کيونکہ متعدد بيويوں ميں سے کوئی نہ کوئی بيوی ان عوارض سے خالی ہوگی
سے
جس
نسل
انسانی
ترقی
کی
کا
مقصد
حاصل
ہوتا
رہے
گا
.
کيونکہ
مرد کے ليے ايسے مواقع پيدا نہيں ہوتے کہ جو سلسلہ توليد ميں روک بن سکيں .اس ليے خدا وند عالم نے مردوں کے ليے تعدد ازواج کو جائز قرار ديا ہے ,اور عورتوں کے ليے يہ صورت رکھی کہ وه بوقت واحد متعدد مردوں کے عقد ميں آئيں .کيونکہ ايک عورت کا کئی شوہر کرنا غيرت و شرافت کے بھی منافی ہے اور اس کے عالوه ايسی صورت ميں نسب کی بھی تميز نہ ہوسکے گی کہ کون کس کی صلب سے ہے چنانچہ امام رضا عليہ السالم سے ايک شخص نے دريافت کيا کہ کيا وجہ ہے کہ مر دايک وقت ميں چار بيويا
نتک
کر
سکتا
ہے
اور
عورت
ايک
وقت
ميں
ايک
مرد
سے
زياده
شوہر
نہيں
کرسکتی
.
حضرت نے فرمايا کہ مرد جب متعدد عورتوں سے نکاح کر ے گا تو اوالد بہرصورت اسی کی طرف منسوب ہوگی اور اگر عورت کے دو 2يا دو سے زياده شوہر ہوں گے تو يہ معلوم نہ ہوسکے گا کہ کو ن کس کی اوالد اور کس شوہر سے ہے لہٰ ذا يسی صورت ميں نسب مشتبہ ہو کر ره جائے گا اور صحيح باپ کی تعيين نہ ہوسکے گی .اور امر اس مولود کے مفاد کے بھی خالف ہوگا .کيونکہ کوئی بھی بحيثيت باپ کے اس کی تربيتکی طرف متوجہ نہ ہوگا جس سے وه اخالق و آداب سے بے بہره اور تعليم و تربيت سے محروم ہوکر ره جائے گا .
125ميں اسالم کی ايسی صحيح تعريف بيان کر تا ہوں جو مجھ سے پہلے کسی نے بيان نہيں کی .اسالم سر تسليم خم کر نا ہے اور سر تسليم جھکانا يقين ہے اور يقين تصديق ہے اور تصديق اعتراف فرض کی بجاآوری ہے اور فرض
کی
بجاآوری
عمل
ہے
.
126مجھے تعجب ہوتا ہے بخيل پر کہ وه جس فقرو ناداری سے بھاگنا چاہتا Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
ہے ,ا س کی طرف تيزی سے بﮍھتا ہے اور جس ثروت و خوش حالی کا طالب ہوتا ہے وہی اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے وه دنيا ميں فقيروں کی سی زندگی بسر کرتا ہے اورآخرت ميں دولت مندوں کا سا اس سے محاسبہ ہوگا ,اور مجھے تعجب ہوتا ہے .متکبر و مغرور پر کہ جس کل ايک نطفہ تھا ,او ر کل کو مردا ر ہوگا .اور مجھے تعجب ہے اس پر جو ﷲ کی پيدا کی ہوئی کائنات کو ديکھتا ہے اورپھر اس کے وجود ميں شک کرتا ہے اور تعجب ہے اس پر جو مرنے والوں کو ديکھتا ہے اور پھر موت کو بھولے ہوئے ہے .اور تعجب ہے اس پر کہ جو پہلی پيدائش کو ديکھتا ہے اور پھر دوباره اٹھاءے جانے سے انکار کرتاہے اور تعجب ہے ا س پر جو سرائے فانی کو آباد کرتا ہے
اور
منزل
جاودانی
کو
چھوڑ
ديتا
ہے
.
127جو عمل ميں کوتاہی کرتا ہے ,وه رنج و اندوه ميں مبتال رہتا ہے اور جس کے مال و جان ميں ﷲ کا کچھ حصہ نہ ہو ﷲ کو ايسے کی کوئی ضرورت نہيں
.
128شروع سردی ميں سردی سے احتياط کرو اور آخر ميں اس کاخير مقدم کر و ,کيونکہ سردی جسموں ميں وہی کرتی ہے ,جو وه درختو نميں کرتی ہے کہ ابتدائ ميں درختوں کو جھلس ديتی ہے ,اور انتہا ميں سرسبز و شاداب کرتی ہے. Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
موسم خزاں مينسردی سے بچاؤاس ليے ضروری ہے کہ موسم کی تبديلی سے مزاج ميں انحراف پيدا ہوجاتا ہے ,اور نزلہ و زکام اور کھانسی وغيره کی شکايت پيدا ہوجاتی ہے .وجہ يہ ہوتی ہے کہ بد ن گرمی کے عادی ہوچکے ہوتے ہيں کہ ناگا ه سردی سے دوچار ہونا پﮍتا ہے جس سے دماغ کے مسامات سکﮍجاتے ہيں ,اور مزاج ميں برودت و پيوست بﮍھ جاتی ہے چنانچہ گرم پانی سے غسل کرنے کے بعد فورا ًٹھنڈے پانی سے نہانا اسی ليے مضر ہے کہ گرم پانی سے مسامات کھل چکے ہوتے ہيں جس کی وجہ سے وه پانی
کے
اثرات
کو
فوراًقبول
کرليتے
ہيں
اور نتيجہ ميں حرارت غريزی کو نقصان پہنچتا ہے البتہ موسم بہار ميں سردی سے بچاؤ کی ضرورت نہيں ہوتی اور نہ وه صحت کے ليے نقصان ده ثابت ہوتی ہے کيونکہ پہلے ہی سے سردی کے عادی ہوچکے ہوتے ہيں اس ليے بہار کی معتدل سردی بدن پر ناخوشگوار اثرنہيں ڈالتی ,بلکہسردی کا زور ٹوٹنے سے بدن ميں حرارت و رطوبت بﮍھ جاتی ہے جس سے نشوونما ميں قوت آتی ہے ,حرارت غزيری ابھرتی ہے اور جسم ميں نمو طبيعت ميں شگفتگی اور روح ميں باليدگی پيدا ہوتی ہے . اسی طرح عالم نباتا ت پر بھی تبديلی موسم کا يہی اثر ہوتا ہے چنانچہ موسم خزاں ميں برودت و پيوست کے غالب آنے سے پتے مرجھا جاتے ہيں روح نباتاتی افسرده ہو جاتی ہے ,چمن کی حسن و تازگی مٹ جاتی ہے اور سبزه زاروں پر موت کی سی کيفيت طاری ہوجاتی ہے اور موسم بہار ان کے ليے زندگی کا پيغام لے کر آتا ہے او ربار آور ہواؤں کے چلنے سے پتے اور شگوفے پھوٹنے لگتے ہيں اور شجر سر سبز و شاداب اور دشت و صحرا سبزه پوش ہوجاتے ہيں .
129ﷲ کی عظمت کا احساس تمہاری نظروں ميں کائنات کو حقير و پست کردے.
130صفين سے پلٹتے ہوئے کوفہ سے باہر قبرستان پر نظر پﮍی تو فرمايا: اے وحشت افزا گھروں ,اجﮍے مکانوں اور اندھيری قبروں کے رہنے
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
والو!اے خاک نشينو !اے عالم غربت کے ساکنوں اے تنہائی اور الجھن ميں بسر کرنے والو !تم تيز رو ہو جو ہم سے آگے بﮍھ گئے ہو اور ہم تمہارے نقش قدم پر چل کر تم سے مال چاہتے ہيں .اب صورت يہ ہے کہ گھروں ميں دوسرے بس گئے ہيں بيويوں سے اوروں نے نکاح کر ليے ہيں اور تمہار ا مال و اسباب تقسيم ہوچکا ہے يہ تو ہمارے يہاں کی خبر ہے .اب تمہارے يہاں کی
کيا
خبر
ہے.
)پھر حضرت اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمايا(اگر انہيں بات ٰ تقوی کرنے کی اجازت دی جائے .تو يہ تمہيں بتائيں گے کہ بہترين زاد راه ہے
.
131ايک شخص کو دنيا کی برائی کرتے ہوئے سنا تو فرمايا !اے دنيا کی برائی کرنے والے اس کے فريب ميں مبتال ہو نے والے !اور غلط سلط باتوں کے دھوکے ميں آنے والے !تم اس پر گرويده بھی ہوتے ہو ,اور پھر اس کی مذمت بھی کرتے ہو .کيا تم دنيا کو مجرم ٹھہرنے کا حق رکھتے ہو؟يا وه تمہيں مجرم ٹھہرائے تو حق بجانب ہے ؟دنيا نے کب تمہارے ہوش وحواس سلب کئے اور کس بات سے فريب ديا ؟کيا ہالکت و کہنگی سے تمہارے باپ دادا کے بے جان ہو کر گر نے سے يا مٹی کے نيچے تمہاری ماؤں کی خواب گاہوں سے ؟کتنی تم نے بيماروں کی ديکھ بھال کی ,اور کتنی دفعہ تو خود تيمار دار ی کی اس صبح کو کہ جب نہ دوا کارگر ہوتی نظر آتی تھی ,اور نہ Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
تمہارا رونا دھونا ان کے ليے کچھ مفيد تھا .تم ان کے ليے شفا کے خواہشمند تھے اور طبيبوں سے دوا دارو پوچھتے پھرتے تھے ان ميں سے کسی ايک کے ليے بھی تمہارا انديشہ فائده مند ثابت نہ ہو سکا اور تمہارا اصل مقصد حاصل نہ ہوا اوراپنی چاره سازی سے تم موت کو ا س بيمار سے نہ ہٹا سکے تو دنيا نے تو اس کے پردے ميں خود تمہار ا انجا م اور اس کے ہالک ہونے سے خود تمہاری ہالکت کا نقشہ تمہيں دکھايا ديا بالشبہ دنيا اس شخص کے ليے جو باور کرے ,سچائی کا گھر ہے اور جو اس کی ان باتوں کو سمجھے اس کے ليے امن و عافيت کی منزل ہے اور اس سے زادراه حاصل کرلے ,اس کے ليے دولتمندی کی منزل ہے اور جو اس سے نصيحت حاصل کر ے ,اس کے ليے وعظ ونصيحت کا محل ہے .وه دوستان خدا کے ليے عبادت کی جگہ ,ﷲ کے فرشتوں کے ليے نماز پﮍھنے کا مقام وحی الہی کی منزل اور اولياء ﷲ کی تجارت گاه ہے انہوں نے اس ميں فضل و رحمت کا سودا کيا اور اس ميں رہتے ہوئے جنت کو فائده ميں حاصل کيا تو اب کون ہے جو دنيا کی برائی کرے ,جب کہ اس نے اپنے جدا ہونے کی اطالع دے دی ہے چنانچہ اس نے اپنی ابتالء سے ابتالئ کا پتہ ديا ہے اور اپنی مسرتوں سے آخرت کی مسرتو ں کا شوق داليا ہے ,وه رغبت دالنے اور ڈرانے خوفزده کرنے اور متنبہ کرنے کے ليے شام کو امن و عافيت کا اور صبح کو درد و اندوه کا پيغام لے کر آتی ہے توجن لوگوں نے شرمسار ہوکر صبح کی وه اس کی برائی کرنے لگے .اور دوسرے لوگ قيامت کے دن اس کی تعريف کريں گے کہ Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
دنيا نے ان کو آخرت کی ياد دالئی تو انہو ں نے ياد رکھا اور اس نے انہيں خبر دی تو انہوں نے تصديق کی اور اس نے انہيں پند و نصيحت کی تو انہوں نے نصيحت حاصل کی . ہر متکلم و خطيب کی زبان منجے ہوئے موضوع پر زور بيان دکھاياکرتی ہے اور اگر سے موضوع سخن بدلنا پﮍے تو نہ ذہن کا م کرے گا اور نہ زبان کی گويائی ساتھ دے گی ,مگر جس کے ذہن ميں صالحيت تصرف اور دماغ ميں قوت و فکر ہو ,وه جس طرح چاہے کالم کو گردش دے سکتا ہے اور جس موضوع پر چاہے «قادر الکالمی»کے جو ہر دکھاسکتا ہے .چنانچہ وه زبان جو ہميشہ دنيا کی مذمت اور اس کی فريب کار يوں کو بے نقاب کرنے ميں کھلتی تھی جب اس کی مدح ميں کھلتی ہے تو وہی قدرت کالم و قوت استدالل نظر آتی ہے جو اس زبان کا طره امتياز ہے اور پھر الفاظ کو توصيفيسانچہ ميں ڈھالنے سے نظر يہ ميں کوئی تبديلی نہيں ہو تی اور راہوں کے الگ الگ ہونے کے با وجود منزلگہ مقصود ايک ہی رہتی ہے .
132ﷲ کا ايک فرشتہ ہر روز يہ ندا کر تا ہے .کہ موت کے ليے اوالد پيدا کرو ,برباد ہونے کے ليے جمع کرو اور تباه ہونے کے ليے عمارتيں کھﮍی .
کرو
« 133دنيا »اصل منز ل قرار کے ليے ايک گزرگاه ہے .اس ميں دو 2قسم کے لوگ ہيں :ايک وه جنہوں نے اس ميناپنے نفس کو بيچ کر ہالک کر ديا اورايک
وه
جنہوں
نے
اپنے
نفس
کو
خريدکرآزاد
کرديا.
134دوست اس وقت تک دوست نہيں سمجھا جاسکتا جب تک کہ وه اپنے Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
بھائی کی تين موقعوں پر نگہداشت نہ کرے ,مصيبت کے موقع پر اس کے پس
پشت
اور
اس
کے
مرنے
کے
بعد
.:
135جس شخص کو چار چيزيں عطا ہوئی ہيں وه چار چيزوں سے محروم نہيں رہتا ,جو دعا کرے وه قبوليت سے محروم نہيں ہوتا .جسے توبہ کی توفيق ہو ,وه مقبوليت سے نااميد نہيں ہوتا جسے استغفار نصيب ہو وه مغفرت سے محروم نہيں ہوتا .اور جوشکرکرے وه اضافہ سے محروم نہيں ہوتا اور اس کی تصديق قرآن مجيد سے ہوتی ہے .چنانچہ دعا کے متعلق ارشاد الہی ہے:تم مجھ سے مانگو ميں تمہاری دعا قبول کرونگا .اور استغفار کے متعلق ارشاد فرمايا ہے .جو شخص کوئی برا عمل کرے يا اپنے نفس پر ظلم کرے پھر ﷲ سے مغفرت کی دعا مانگے تو وه ﷲ کو بﮍا بخشنے واال اور رحم کرنے واال پائے گا .اور شکر کے بارے ميں فرمايا ہے اگر تم شکر کرو گے تو ميں تم پر )نعمت ميں (اضافہ کروں گا .اور توبہ کے ليے فرمايا ہے .ﷲ ان ہی لوگوں کی توبہ قبول کرتا ہے جو جہالت کی بناء پر کوئی بری حرکت نہ کر بيٹھيں پھر جلدی سے توبہ کر ليں تو خدا ايسے لوگوں کی توبہ قبول کرتا ہے
اور
خدا
جاننے
واال
اور
حکمت
واالہے
.
136نماز ہر پرہيز گار کے ليے باعث تقرب ہے اور حج ہر ضعيف و ناتواں زکوة ہوتی ہے ,اور بدن کی ٰ کا جہاد ہے .ہر چيز کی ٰ زکوة روزه ہے اور Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
دعوت
کا
137
صدقہ
شوہر
جہاد
کے
سے
ذريعہ
حسن
معاشرت
ہے
.
روزی
طلب
کرو
.
138جسے عوض کے ملنے کا يقين ہو وه عطيہ دينے ميں دريا دلی دکھاتا ہے
139
.
جتنا
خرچ
.اتنی
ہو
امداد
ہی
ملتی
ہے
.
140جو ميانہ روی اختيار کرتاہے وه محتاج نہيں ہوتا .
141متعلقين کی کمی دو قسموں ميں سے ايک قسم کی آسودگی ہے .
142
143
ميل
محبت
غم
پيدا
کر
آدھا
نا
عقل
کا
بﮍھاپا
نصف
حصہ
ہے
ہے
.
.
144مصيبت کے اندازه پر ﷲ کی طرف صبر کی ہمت حاصل ہوتی ہے .جو شخص مصيبت کے وقت ران پر ہاتھ مارے اس کا عمل اکارت ہوجاتا ہے . Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
145بہت سے روزه دار ايسے ہيں جنہيں روزوں کا ثمره بھوک پياس کے عالوه کچھ نہيں ملتا اور بہت سے عابد شب زنده دار ايسے ہيں جنہيں عبادت کے نتيجہ ميں جاگنے اور زحمت اٹھانے کے سوا کچھ حاصل نہيں ہوتا .زيرک و دانا لوگوں کا سونا اور روزه نہ رکھنا بھی قابل ستائش ہوتا ہے.
146صدقہ سے اپنے ايمان کی نگہداشت کرو ,او ر دعا سے مصيبت و ابتالئ کی
147
لہروں
کميل
ابن
کو
زياد
دور
نخعی
کہتے
کرو
ہيں
.
کہ
:
اميرالمومنين علی ابن ابی طالب عليہ السالم نے ميرا ہاتھ پکﮍا اور قبر ستان کی طرف لے چلے جب آبادی سے باہر نکلے تو ايک لمبی آه کی .پھر فرمايا: اے کميل !يہ دل اسرار و حکم کے ظروف ہيں ان ميں سب سے بہتر وه ہے جو زياده نگہداشت کرنے واال ہو .ل ٰہذا تو جو ميں تمہيں بتاؤں اسے ياد رکھنا . ديکھو!تين قسم کے لو گ ہوتے ہيں ايک عالم ربانی دوسرا متعلم کہ جو نجات کی راه پر برقرار رہے اور تيسرا عوام الناس کا وه پست گروه ہے کہ جو ہر پکارنے والے کے پيچھے ہوليتا ہے اور ہر ہو اکے رخ پر مﮍ جاتا ہے .نہ انہوں نے نور علم سے کسب ضيا کيا ,نہ کسی مضبوط سہارے کی پناه لی . اے کميل !يا د رکھو,کہ علم مال سے بہتر ہے )کيونکہ(علم تمہاری نگہداشت Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
کرتا ہے اورمال کی تمہيں حفاظت کرنا پﮍتی ہے اور مال خرچ کرنے سے گھٹتا ہے ليکن علم صرف کرنے سے بﮍھتا ہے ,اورمال و دولت کے نتائج و اثرات
مال
کے
فنا
ہونے
سے
فنا
ہوجاتے
ہيں
.
اے کميل !علم کی شناسائی ايک دين ہے کہ جس کی اقتدا کی جاتی ہے اسی سے انسان اپنی زندگی ميں دوسروں سے اپنی اطاعت منواتا ہے اور مرنے کے بعد نيک نامی حاصل کرتا ہے .ياد رکھو کہ علم حاکم ہو تا ہے اور مال محکوم
.
اے کميل !مال اکٹھا کرنے والے زنده ہونے کے باوجود مرده ہوتے ہيں اور علم حاصل کرنے والے رہتی دنيا تک باقی رہتے ہيں ,بے شک ان کے اجسام نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہيں .مگر ان کی صورتيں دلوں ميں موجود رہتی ہيں )اس کے بعد حضرت نے اپنے سينہ اقدس کی طر ف اشاره کيا اورفرمايا(ديکھو!يہاں علم کا ايک بﮍا ذخيره موجود ہے کا ش اس کے اٹھانے والے مجھے مل جاتے ,ہاں مال ,کوئی تو,يا ايسا جو ذہين تو ہے مگر ناقابل اطمينان ہے اور جودنيا کے ليے دين کو آلہ کا ر بنا نے واالہے اور ﷲ کی ان نعمتوں کی وجہ سے اس کے بندوں پر اور اس کی حجتوں کی وجہ سے اس کے دوستوں پر تفوق و برتری جتالنے واال ہے .يا جو ارباب حق و دانش کا مطيع توہے مگر اس کے دل کے گوشوں ميں بصيرت کی روشنی نہيں ہے ,بس ادھر ذرا سا شبہہ عارض ہو ا کہ اس کے دل ميں شکوک و شبہات کی چنگارياں بھﮍکنے لگيں تو معلوم ہونا چاہيے کہ نہ يہ اس قابل ہے اور نہ وه Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
اس قابل ہے يا ايسا شخص ملتا ہے کہ جو لذتوں پر مٹا ہوا ہے اور بآسانی خواہش نفسانی کی راه پر کھنچ جانے واال ہے يا ايسا شخص جو جمع آوری و ذخير ه اندوزی پر جان ديئے ہوءے ہے يہ دونوں بھی دين کے کسی امر کی رعايت و پاسداری کرنے والے نہيں ہيں ان دونوں سے انتہائی قريبی شباہت چرنے والے چوپائے رکھتے ہيں .اسی طرح تو علم کے خزينہ داروں کے مرنے
سے
علم
ختم
ہوجاتا
ہے
ہا ں !مگر زمين ايسے فرد خالی نہيں رہتی کہ جو خد اکی حجت کو برقرا ر رکھتا ہے چاہے وه ظاہر و مشہور ہو ا يا خائف و پنہاں تاکہ ﷲ کی دليليں اور نشان مٹنے نہ پائيں اور وه ہيں ہی کتنے اور کہاں پر ہيں -؟خدا کی قسم وه تو گنتی ميں بہت تھوڑے ہوتے ہيں ,اور ﷲ کے نزديک قدرومنزلت کے لحاظ سے بہت بلند .خدا وند عالم ان کے ذريعہ سے اپنی حجتوناور نشانيوں کی حفاظت کرتا ہے .يہاں تک کہ وه ان کو اپنے ايسوں کے سپرد کرديں اور اپنے ايسوں کے دلوں مينانہيں بوديں .علم نے انہيں ايک دم حقيقت و بصيرت کے انکشافات تک پہنچا ديا ہے .وه يقين و اعتماد کی رو ح سے گھل مل گئے ہيں اور ان چيز وں کو جنہيں آرام پسند لوگوں نے دشوار قرار دے رکھا تھا اپنے ليے سہل و آسان سمجھ ليا ہے اور جن چيزوں سے جاہل بھﮍک اٹھتے ہيں ان سے وه جی لگائے بيٹھے ہيں .وه ايسے جسموں کے ساتھ دنياميں اعلی سے وابستہ ہيں يہی لوگ رہتے سہتے ہيں کہ جن کی روحيں مالئ ٰ توزمين ميں ﷲ کے نائب اور اس کے دين کی طرف دعوت دينے والے ہيں Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
.ہائے ان کی ديد کے ليے ميرے شوق کی فراوانی )پھر حضرت نے کميل سے فرمايا(اے کميل !)مجھے جو کچھ کہنا تھا کہہ چکا (اب جس وقت چاہو واپس جاؤ. کميل ابن زياد نخعی رحمتہ ﷲ اسرار امامت کے خزينہ دار اور اميرالمومنين کے خواص اصحاب ميں سے تھے ,علم و فضل ميں بلند مرتبہ اور زہد و درع ميں امتياز خاص کے حامل تھے .حضرت کی طرف سے کچھ عرصہ تک ہيت کے عامل رہے 38ئھج ميں 09برس کی عمر ميں حجاج ابن يوسف ثقفی کے ہاتھ سے شہيد ہوئے اور بيرون کوفہ دفن ہوئے .
148انسان اپنی زبان کے نيچے چھپا ہو ا ہے . مطلب يہ ہے کہ انسان کی قدرو قيمت کا اندازه اس کی گفتگو سے ہوجاتا ہے .کيونکہ ہر شخص کی گفتگو اس کی ذہنيواخالقی حالت کی آئينہ دار ہوتی ہے جس سے اس کے خياالت و جذبات کا بﮍی آسانی سے اندازه لگايا جاسکتا ہے .لہٰ ذا جب تک وه خامو ش ہے اس کا عيب و ہنر پوشيده ہے اور جب انسان کی زبان کھلتی ہے تو اس کا جوہر نمايا ں ہوجاتا ہے .
مرد پنہاں است در زير زبان خوشيتن قيمت و قدرش نداتی تانياءد در سخن
149جو شخص اپنی قدرو منزلت کو نہيں پہچانتا وه ہالک ہو جاتا ہے .
150ايک شخص نے آپ سے پندو موعظت کی درخواست کی ,تو فرمايا! تم کوان لوگوں ميں سے نہ ہونا چاہيے کہ جو عمل کے بغير حسن انجا م کی اميد رکھتے ہيں اور اميد يں بﮍھاکر تو بہ کو تاخير ميں ڈال ديتے ہيں جو دنيا Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
کے بارے ميں زاہدوں کی سی باتيں کرتے ہيں مگر ان کے اعمال دنيا طلبوں کے سے ہوتے ہيں .اگر دنيا انہيں ملے تو وه سير نہيں ہوتے اور اگر نہ ملے تو قناعت نہيں کرتے جو انہيں مالہے اس پر شکر سے قاصر رہتے ہيں اور جو بچ رہا اس کے اضافہ کے خواہشمند رہتے ہيں دوسروں کو منع کرتے ہيں اور خود باز نہيں آتے اور دوسروں کو حکم ديتے ہيں ايسی باتوں کا جنہيں خود بجانہيں التے نيکوں کو دوست رکھتے ہيں مگر ان کے سے اعمال نہيں کرتے اور گنہگاروں سے نفرت و عناد رکھتے ہيں حاالنکہ وه خود انہی ميں داخل ہيں اپنے گناہوں کی کثرت کے باعث موت کو برا سمجھتے ہيں مگر جن گناہونکی وجہ سے موت کو ناپسند کرتے ہيں انہی پر قائم ہيں .اگر بيمار پﮍتے ہيں تو پشيمان ہوتے ہيں .جب بيماری سے چھٹکارا پاتے ہيں تواترانے لگتے ہيں .اور مبتال ہوتے ہيں تو ان پر مايوسی چھا جاتی ہے .جب کسی سختی و ابتال ميں پﮍتے ہيں تو الچار و بے بس ہوکر دعائيں مانگتے ہيں اور جب فراخ دستی نصيب ہوتی ہے تو فريب ميں مبتال ہو کر منہ پھير ليتے ہيں .ان کا نفس خيالی باتوں پر انہيں قابو ميں لے آتا ہے اور وه يقينی باتوں پر اسے نہيں دباليتے .دوسروں کے ليے گناه سے زياده خطره محسوس کرتے ہيں اور اپنے ليے اپنے اعمال سے زياده جزا کے متوقع رہتے ہيں .اگر مالدار ہوجاتے ہيں تو اترانے لگتے ہيں اور اگر فقير ہوجاتے ہيں تو نااميد ہوجاتے ہيں اور سستی کرنے لگتے ہيں .جب عمل کرتے ہيں تو اس ميں سستی کرتے ہيں اور جب مانگنے پرآتے ہيں تو اصرار ميں حد سے بﮍھ جاتے ہيں .اگر ان پر خواہش Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
نفسانی کا غلبہ ہوتا ہے تو گناه جلد سے جلد کرتے ہيں ,اور توبہ کو تعويق ميں ڈالتے رہتے ہيں ,اگر کوئی مصيبت الحق ہوتی ہے تو جماعت اسالمی کے خصوصی امتيازات سے الگ ہوجاتے ہيں .عبرت کے واقعات بيان کرتے ہيں مگر خود عبرت حاصل نہيں کرتے اور وعظ و نصيحت ميں زور باندھتے ہيں مگر خود اس نصيحت کا اثر نہيں ليتے چنانچہ وه بات کرنے ميں تو اونچے رہتے ہيں .مگر عمل ميں کم ہی کم رہتے ہيں .فانی چيزوں ميں نفسی نفسی کرتے ہيں اور باقی رہنے والی چيزوں ميں سہل انگاری سے کام ليتے ہيں وه نفع کو نقصان اور نقصا ن کو نفع خيال کرتے ہيں .موت سے ڈرتے ہيں .مگر فرصت کا موقع نکل جانے سے پہلے اعمال ميں جلدی نہيں کرتے .دوسرے کے ايسے گناه کو بہت بﮍا سمجھتے ہيں جس سے بﮍے گناه کو خود اپنے ليے چھوٹا خيال کرتے ہيں .اور اپنی ايسی اطاعت کو زياده سمجھتے ہيں جسے دوسرے سے کم سمجھتے ہيں .ل ٰہذا وه لوگوں پر معترض ہوتے ہيں اور اپنے نفس کی چکنی چپﮍی باتوں سے تعريف کرتے ہيں .دولتمندوں کے ساتھ طرب ونشاط ميں مشغول رہنا انہيں غريبوں کے ساتھ محفل ذکر ميں شرکت سے زياده پسند ہے اپنے حق ميں دوسرے کے حق ميں اپنے خالف حکم لگاتے ہيں ليکن کبھی يہ نہيں کرتے کہ دوسرے کے حق ميں اپنے خالف حکم لگائيں .اوروں کو ہدايت کرتے ہيں اور اپنے کو گمراہی کی راه پر لگا تے ہيں وه اطاعت ليتے ہيں اور خود نافرمانی کرتے ہيں او رحق پوراپور ا وصول کرليتے ہيں مگر خود انہيں کرتے .وه اپنے پروردگا ر کو نظر انداز کر کے Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
مخلوق سے خو ف کھاتے ہيں اور مخلوقات کے بارے ميں اپنے پروردگار سے نہيں ڈرتے . سيد رضی فرماتے ہيں کہ اگر اس کتاب ميں صرف ايک يہی کالم ہوتا تو کامياب موعظہ اور موثر حکمت اور چشم بينا رکھنے والے کے ليے بصيرت اور نظر و فکر کرنے والے کے ليے عبرت کے اعتبار سے بہت کافی تھا .
اقوال امام علی )عليہ السالم (از نہج البالغہ ِ اقوال ١۵١تا ١٨٠ 151ہر شخص کا ايک انجام ہے۔ اب خواه وه شيريں ہو يا تلخ۔
152ہر آنے والے کے ليے پلٹنا ہے اور جب پلٹ گيا تو جيسے کبھی تھا ہی نہيں۔
153صبر کرنے واال ظفرو کامرانی سے محروم نہيں ہوتا ،چاہے اس ميں طويل
زمانہ
لگ
جائے.
154کسی جماعت کے فعل پر رضا مند ہونے واال ايسا ہے جيسے اس کے کام ميں شريک ہو۔ اور غلط کام ميں شريک ہو نے والے پر دو گناه ہيں۔ ايک اس پر عمل کرنے کا اور ايک اس پر رضا مند ہونے کا۔ Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
155عہد و پيمان کی ذمہ داريوں کو ان سے وابستہ کرو جو ميخوں کے ايسے
ہوں۔
)مضبوط(
156تم پر اطاعت بھی الزم ہے ان کی جن سے ناواقف رہنے کی بھی تمہيں معافی نہيں۔ خداوند عالم نے اپنے عدل و رحمت سے جس طرح دين کی طرف رہبری و رہنمائی کر نے کے ليے انبياء کا سلسلہ جاری کيا اسی طرح سالم سلسلہ نبوت کے ختم ہونے کے بعد دين کو تبديلی و تحريف سے محفوظ رکھنے کے ليے امامت کا نفاذ کيا تاکہ ہر امام عليہ ال ّ اپنے اپنے دور ميں تعليمات الہيہ کو خواہش پرستی کی زد سے بچا کر اسالم کے صحيح احکام کی رہنمائی کرتا رہے اور جس طرح شريعت کے مبلغ کی معرفت واجب اسی طرح شريعت کے محافظ کی بھی معرفت ضروری ہے اور جاہل کو اس ميں معذور نہيں قرارديا جاسکتا۔ کيونکہ منصب امامت پر صدہا ايسے دالئل و شواہد موجود ہيں جن سے کسی بابصيرت کے ليے گنجائش انکار نہيں ہوسکتی چنانچہ
پيغمبر
اکرم
صلی
ﷲ
عليہ
وآلہ
وسلم
کا
ارشاد
ہے
کہ:
جو شخص اپنے دور حيات کے امام کو نہ پہچانے اور دنيا سے اٹھ جائے ،اس کی موت کفر و ضاللت کی موت ہے۔ ابن ابی الحديد نے بھی اس ذات سے کہ جس سے ناواقفيت و جہالت عذر مسمو ع نہيں بن سکتی حضرت کی ذات کو مراد ليا ہے اور ان کی اطاعت کا اعتراف اور منکر امامت کے غير ناجی ہونے کا اقرار کرتے ہوئے تحرير کيا ہے کہ: جو شخص حضرت علی عليہ السالم کی امامت سے جاہل اور اس کی صحت و لزوم کا منکر ہو وه ہمارے اصحاب کے نزديک ہميشہ کے ليے جہنمی ہے.نہ اسے نماز فائده دے سکتی ہے نہ روزه۔ کيونکہ معرفت امامت ان بنيادی اصولوں ميں شمار ہوتی ہے جو دين کے مسلمہ ارکان ہيں۔ البتہ ہم آپ کی امامت کے منکر کو کافر کے نام سے نہيں پکارتے بلکہ اسے فاسق خارجی اور بے دين وغيره کے ناموں سے ياد کرتے ہيں اور شيعہ ايسے شخص کو کافر سے تعبير کرتے ہيں ،اور يہی ہمارے اصحاب اور ان ميں فر ق ہے۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
مگر صرف لفظی فرق ہے کوئی واقعی اور معنوی فرق نہيں ہے) .شرح ابن ابی الحديد ،جلد ،4صفحہ (1319
157اگر تم ديکھو ،تو تمہيں دکھايا جاچکا ہے اور اگر تم ہدايت حاصل کرو تو تمہيں ہدايت کی جاچکی ہے اور اگر سننا چاہو تو تمہيں سنايا جاچکا ہے۔
158اپنے بھائی کو شرمنده احسان بنا کر سر زنش کرو اور لطف و کرم کے ذريعہ سے اس کے شر کو دور کرو۔ اگر برائی کا جواب برائی سے اور گالی کا جواب گالی سے ديا جائے ،تواس سے دشمنی کا دروازه کھل جاتا ہے۔ اور اگر برائی سے پيش آنے والے کے ساتھ نرمی و مالئمت کا رويہ اختيار کيا جائے تو وه بھی اپنا رويہ بدلنے پر مجبور ہوجائے گا۔ چنانچہ ايک دفعہ امام حسن عليہ السالم بازار مدينہ ميں سے گزر رہے تھے کہ ايک شامی نے آپ کی جاذب نظر شخصيت سے متاثر ہوکر لوگوں سے دريافت کيا کہ يہ کو ن ہيں؟ اسے بتايا گيا کہ يہ حسن ابن علی عليہ السالم ہيں۔ يہ سن کر اس کے تن بدن ميں آگ لگ گئی اور آپ کے سالم نے فرمايا کہ معلوم ہوتا قريب آکر انہيں بر ا بھال کہنا شروع کيا۔ مگر آپ خاموشی سے سنتے رہے جب وه چپ ہوا توآپ عليہ ال ّ ہے کہ تم يہاں نووارد ہو؟ اس نے کہا کہ ہاں ايسا ہی ہے۔ فرمايا کہ پھر تم ميرے ساتھ چلو ميرے گھر ميں ٹھہرو ،اگر تمہيں کوئی حاجت ہو گی تو ميں اسے پورا کروں گا ،اور مالی امداد کی ضرورت ہوگی تو مالی امداد بھی دوں گا۔ جب اس نے اپنی سخت و درشت باتوں کے جواب ميں يہ نرم روی و خوش اخالقی ديکھی ،تو شرم سے پانی پانی ہو گيا اور اپنے گناه کا اعتراف کرتے ہوئے عفو کا طالب ہوا ،اورجب آپ سے رخصت ہوا تو روئے زمين پر ان سے زياده کسی کی قدر و منزلت ا س کی نگاه ميں نہ تھی۔
اگر مرد ی احسن الی من اساء
159جوشخص بدنامی کی جگہوں پر اپنے کو لے جائے تو پھر اسے برا نہ Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
کہے
جو
اس
بدظن
سے
ہو.
160جو اقتدار حاصل کرليتا ہے جانبدار ی کرنے ہی لگتا ہے۔
161جو خود رائی سے کام لے گا ،وه تباه و برباد ہو گا اور جو دوسروں سے مشوره لے گا وه ان کی عقلوں ميں شريک ہو جائے گا۔
162جو اپنے راز کو چھپائے رہے گا اسے پورا قابو رہے گا۔
163
فقيری
سب
سے
بﮍی
موت
ہے۔
164جو ايسے کا حق ادا کرے کہ جو اس کا حق ادا نہ کرتا ہو ،تو وه اس کی پرستش
کرتا
ہے۔
165خالق کی معصيت ميں کسی مخلوق کی اطاعت نہيں ہے۔
166اگر کوئی شخص اپنے حق ميں دير کرے تو اس پر عيب نہيں لگايا جاسکتا۔ بلکہ عيب کی بات يہ ہے کہ انسان دوسرے کے حق پر چھاپا مارے۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
167خود پسندی ترقی سے مانع ہوتی ہے. جو شخص جويائے کمال ہوتا ہے اور يہ سمجھتا ہے کہ ابھی وه کمال سے عاری ہے ،اس سے منزل کمال پر فائز ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ ليکن جو شخص اس غلط فہمی ميں مبتال ہو کہ وه تمام و کمال ترقی کے مدارج طے کرچکا ہے وه حصول کمال کے ليے سعی و طلب کی ضرورت محسوس نہيں کرے گا۔ کيونکہ وه بزعم خود کمال کی تمام منزليں ختم کرچکاہے اب اسے کوئی منزل نظرہی نہيں آتی کہ اس کے ليے تگ ودو کرے چنانچہ يہ خود پسند برخود غلط انسان ہميشہ کمال سے محروم ہی رہے گا۔ اور يہ خود پسند ی اس کے ليے ترقی کی راہيں مسدود کردے گی۔
168آخرت کا مرحلہ قريب اور )دنيا ميں( باہمی رفاقت کی مدت کم ہے۔
169
آنکھ
والے
کے
ليے
صبح
روشن
ہوچکی
ہے۔
170ترک گناه کی منزل بعد ميں مدد مانگنے سے آسان ہے۔ اول مرتبہ ميں گناه سے باز رہنا اتنا مشکل نہيں ہوتا ،جتنا گناه سے مانوس اور اس کی لذت سے آشنا ہونے کے بعد کيونکہ انسان جس چيز کا خو گر ہوجاتا ہے اس کے بجا النے ميں طبيعت پر بار محسوس نہيں کرتا۔ ليکن اسے چھوڑنے ميں لوہے لگ جاتے ہيں اور جوں جوں عادت پختہ ہوتی جاتی ہے۔ ضمير کی آواز کمزور پﮍجاتی ہے اور توبہ ميں دشوارياں حائل ہوجاتی ہيں۔ لہٰ ذا يہ کہہ کر دل کو ڈھارس ديتے رہنا کہ «پھر توبہ کر ليں گے ».اکثر بے نتيجہ ثابت ہوتا ہے۔ کيونکہ جب ابتداء ميں گناه سے دستبردار ہونے ميں دشواری محسوس ہورہی ہے تو گناه کی مدت کو بﮍھا لے جانے کے بعد توبہ دشوار تر ہوجائے گی۔
171بسا اوقات ايک دفعہ کا کھانا بہت دفعہ کے کھانوں سے مانع ہوجاتا ہے۔ Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
يہ ايک مثل ہے جو ايسے موقعوں پر استعمال ہوتی ہے جہاں کوئی شخص ايک فائده کے پيچھے اس طرح کھو جائے کہ اسے دوسرے فائدوں سے ہاتھ اٹھا لينا پﮍے جس طرح وه شخص کہ جو ناموافق طبع يا ضرورت سے زياده کھالے تو اسے بہت سے کھانوں سے محروم ہونا پﮍتا ہے۔
172لوگ اس چيز کے دشمن ہوتے ہيں جسے نہيں جانتے۔ انسان جس علم وفن سے واقف ہوتا ہے اسے بﮍی اہميت ديتا ہے اور جس علم سے عاری ہوتاہے اسے غير اہم قرار دے کر اس کی تنقيص و مذمت کرتا ہے۔ وجہ يہ ہے کہ وه يہ ديکھتا ہے کہ جس محفل ميں اس علم و فن پر گفتگو ہوتی ہے۔ اسے ناقابل اعتنا سمجھ کر نظر انداز کر ديا جاتا ہے جس سے وه ايک طرح کی سبکی محسوس کرتا ہے اور يہ سبکی اس کے ليے اذيت کا باعث ہوتی ہے اور انسان جس چيز سے بھی اذيت محسوس کر ے گا اس سے طبعا ًنفرت کرے گا اور اس سے بغض رکھے گا۔ چنانچہ افالطون سے دريافت کيا گيا کہ کيا وجہ ہے کہ نہ جاننے واال جاننے والے سے بغض رکھتا ہے مگر جاننے واال نہ جاننے والے سے بغض و عناد نہيں رکھتا ؟اس نے کہا کہ چونکہ نہ جاننے واال اپنے اندر ايک نقص محسوس کرتا ہے اور يہ گمان کرتا ہے کہ جاننے واال اس کی جہالت کی بنا پر اسے حقير و پست سمجھتا ہوگا جس سے متاثر ہوکر وه اس سے بغض رکھتا ہے اور جاننے واال اس کی جہالت کے نقص سے بری ہوتا ہے اس ليے وه يہ تصور نہيں کرتا کہ نہ جاننے واال اسے حقير سمجھتا ہوگا۔ اس ليے کوئی وجہ نہيں ہوتی کہ وه اس سے بغض رکھے۔
173جو شخص مختلف رايوں کا سامنا کرتا ہے وه خطا و لغزش کے مقاما ت کو
پہچان
ليتا
ہے۔
174جو شخص ﷲ کی خاطر سنان غضب تيز کرتا ہے ،وه باطل کے
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
سورماؤں کے قتل پر توانا ہو جاتا ہے۔ جو شخص محض ﷲ کی خاطر باطل سے ٹکرانے کے ليے اٹھ کھﮍا ہوتا ہے۔ اسے خداوند عالم کی طرف سے تائيد و نصرت حاصل ہوتی ہے اور کمزوری و بے سروسامانی کے باوجود باطل قوتيں اس کے عزم ميں تزلزل اور ثبات قدم ميں جنبش پيدا نہيں کرسکتيں اور اگر اس کے اقدام ميں ذاتی غرض شريک ہو تو اسے بﮍی آسانی سے اس کے اراده سے باز رکھا جاسکتاہے۔ چنانچہ سيد نعمت جز ائری عليہ الرحمہ نے زہرا الربيع ميں تحرير کيا ہے کہ ايک شخص نے کچھ لوگوں کو ايک درخت کی پرستش کرتے ديکھا تو اُس نے جذبہ دينی سے متاثر ہوکر اس درخت کو کاٹنے کا اراده کيا اور جب تيشہ لے کر آگے بﮍھا تو شيطان نے اس کا راستہ روکا اور پوچھا کہ کيا اراده ہے؟ اس نے کہا کہ ميں اس درخت کو کاٹناچاہتا ہوں تاکہ لوگ مشرکانہ طريق عبادت سے باز رہيں۔ شيطان نے کہا کہ تمہيں اس سے کيا مطلب وه جانيں اور ا ن کاکام ،مگر وه اپنے اراده پر جما رہا جب شيطان نے ديکھا کہ يہ ايسا کرہی گزرے گا، تواس نے کہا کہ اگر تم واپس چلے جاؤ تو ميں تمہيں چار درہم ہر روز ديا کروں گا۔ جو تمہيں بستر کے نيچے سے مل جايا کريں گے يہ سن کر اس کی نيت ڈانواں ڈول ہونے لگی اور کہا کہ کيا ايسا ہوسکتا ہے؟ اس نے کہا کہ تجربہ کرکے ديکھ لو ،اگر ايسا نہ ہو ا درخت کے کاٹنے کا موقع پھر بھی تمہيں مل سکتا ہے۔ چنانچہ وه اللچ ميں آکر پلٹ آيا اور دوسرے دن وه درہم اسے بستر کے نيچے سے مل گئے۔ مگر دو چار روز کے بعد يہ سلسلہ ختم ہوگيا۔ اب وه پھر طيش ميں آيا۔ اور تيشہ لے کر درخت کی طرف بﮍھا کہ شيطان نے آگے بﮍھ کر کہا کہ اب تمہارے بس ميں نہيں کہ تم اسے کاٹ سکو ،کيونکہ پہلی دفعہ تم صرف ﷲ کی رضامند ی حاصل کرنے کے ليے نکلے تھے اور اب چند پيسوں کی خاطر نکلے ہو۔ لہٰ ذا تم نے ہاتھ اٹھايا تو ميں تمہاری گردن توڑ دوں گا۔ چنانچہ وه بے نيل مرام پلٹ آيا۔
175جب کسی امر سے دہشت محسوس کرو تو اس ميں پھاند پﮍو ،اس ليے کہ کھٹکا لگا رہنا اس ضرر سے کہ جس کا خوف ہے ،زياده تکليف ده چيز ہے۔ Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
176
سر
برآورده
ہونے
کا
ذريعہ
سينہ
کی
وسعت
ہے۔
177بد کار کی سر زنش نيک کو اس کا بدلہ دے کر کرو۔ مقصد يہ ہے کہ اچھوں کو ان کی حسن کارکردگی کا پورا پورا صلہ دينا اور ان کے کارناموں کی بنا پر ان کی قدر افزائی کرنا بروں کو بھی اچھائی کی راه پر لگا تا ہے۔ اور يہ چيز اخالقی مواعظ اور تنبيہ و سرزنش سے زياده موثر ثابت ہوتی ہے کيونکہ انسان طبعا ً ان چيزوں کی طرف راغب ہوتا ہے جن کے نتيجہ ميں اسے فوائد حاصل ہوں اور اس کے کانوں ميں مدح و تحسين کے ترانے گونجيں۔
178دوسرے کے سينہ سے کينہ و شرکی جﮍ اس طرح کاٹو کہ خود اپنے سينہ سے اسے نکال پھينکو. اس جملہ کے دومعنی ہو سکتے ہيں۔ ايک يہ کہ اگر تم کسی کی طرف سے دل ميں کينہ رکھو گے تو وه بھی تمہاری طرف سے کينہ رکھے گا۔ لہٰ ذا اپنے د ل کی کدورتوں کو مٹا کر اس کے دل سے بھی کدورت کو مٹا دو۔ کيونکہ دل دل کا آئينہ ہوتا ہے۔ جب تمہارے آئينہ دل ميں کدورت کا زنگ باقی نہ رہے گا ،تو اس کے دل سے بھی کدورت جاتی رہے گی اور اسی ليے انسان دوسرے کے دل کی صفائی کااندازه اپنے دل کی صفائی سے بآسانی کرليتا ہے۔ چنانچہ ايک شخص نے اپنے ايک دوست سے پوچھا کہ تم مجھے کتنا ک اپنے دل سے پوچھو.يعنی جتنا تم مجھے دوست رکھتے ہو اتنا ہی ميں تمہيں دوست رکھتا سل قَلبَ َ چاہتے ہو؟ اس نے جواب ميں کہا َ ہوں۔ دوسرے معنی يہ ہيں کہ اگر يہ چاہتے ہو کہ دوسرے کو برائی سے روکو تو پہلے خود اس برائی سے باز آؤ .اس طرح تمہاری نصيحت دوسرے پر اثر انداز ہوسکتی ہے ورنہ بے اثر ہوکر ره جائے گی۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
179ضد اور ہٹ دھرمی صحيح رائے کو دور کرديتی ہے۔
180اللچ ہميشہ کی غالمی ہے۔
اقوال امام علی )عليہ السالم (از نہج البالغہ ِ اقوال ١٨١تا ٢١٠ 181کوتاہی کا نتيجہ شرمندگی اوراحتياط و دور انديشی کا نتيجہ سالمتی ہے.
182حکيمانہ بات سے خاموشی اختيار کرنے ميں بھالئی نہيں جس طرح جہالت
بات
کی
ميں
کوئی
اچھائی
نہيں۔
183جب دو مختلف دعوتيں ہوں گی ,تو ان ميں سے ايک ضرور گمراہی کی ہوگی۔
دعوت
184جب سے مجھے حق دکھايا گيا ہے ميں نے اس ميں کبھی شک نہيں کيا۔
185نہ ميں نے جھوٹ کہا ہے نہ مجھے جھوٹی خبر دی گئی ہے نہ ميں خود گمراه
ہوا،
نہ
مجھے
گمراه
کيا
گيا۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
186ظلم ميں پہل کرنے واال کل )مذامت سے( اپنا ہاتھ اپنے دانتوں سے کاٹتا ہوگا۔
187
188
چل
جو
حق
سے
چالؤقريب
منہ
موڑ
تا
ہے،
ہے۔
تباه
ہوجاتا
ہے۔
189جسے صبر رہائی نہيں دالتا ،اسے بے تابی و بے قرار ی ہالک کر ديتی ہے۔
190العجب کيا خالفت کا معيار بس صحابيت اور قرابت ہی ہے۔ سيد رضی کہتے ہيں کہ اس مضمون کے اشعار بھی حضرت سے مروی ہيں جو يہ ہيں۔ اگر تم شوری کے ذريعہ لوگوں کے سياه و سفيد کے مالک ہوگئے ہو تو يہ کيسے جب کہ مشوره دينے کے حقدار افراد غير حاضر تھے اور اگر قرابت کی وجہ سے تم اپنے حريف پر غالب آئے ہو تو پھر تمہارے عالوه دوسر ا نبی کا زياده حقدار اور ان سے زياده قريبی ہے۔
191دنيا ميں انسان موت کی تير اندازی کا ہدف اور مصيبت و ابتالء کی غارت گری کی جوالنگاه ہے جہاں ہر گھونٹ کے ساتھ اچھو اور ہر لقمہ ميں گلو گير پھندا ہے اور جہاں بنده ايک نعمت اس وقت تک نہيں پاتا جب تک Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
دوسری نعمت جدا نہ ہو جائے اور اس کی عمر کا ايک دن آتا نہيں جب تک کہ ايک دن اس کی عمر کا کم نہ ہوجائے ہم موت کے مددگار ہيں اور ہماری جانيں ہالکت کی زد پر ہيں تو اس صورت ميں ہم کہاں سے بقا کی اميد کر سکتے ہيں جب کہ شب و روز کسی عمارت کو بلند نہيں کرتے مگر يہ کہ حملہ آور ہو کر جو بنايا ہے اسے گراتے اور جو يکجا کيا ہے اسے بکھير تے ہيں۔
ہوتے
192اے فرزند آدم عليہ السّالم! تو نے اپنی غذا سے جو زياده کمايا ہے اس دوسرے
ميں
خزانچی
کا
ہے۔
193دلوں کے ليے رغبت و ميالن ،آگے بﮍھنا اور پيچھے ہٹنا ہوتا ہے۔ ل ٰہذا ان سے اس وقت کام لو جب ان ميں خواہش و ميالن ہو ،کيونکہ دل کو مجبور کرکے کسی کام پر لگايا جائے تو اسے کچھ سجھائی نہيں ديتا۔
194جب غصہ مجھے آئے تو کب اپنے غصہ کو اتاروں کيا اس وقت کہ جب انتقام نہ لے سکوں اور يہ کہا جائے کہ صبر کيجئے۔ يا اس وقت کہ جب انتقام پر
قدرت
ہو
اور
کہا
جائے
کہ
بہتر
ہے
درگزر
کيجئے۔
195آپ کا گزر ہوا ايک گھورے کی طر ف سے جس پر غالظتيں تھيں۔ Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
فرمايا۔ يہ وه ہے جس کے ساتھ بخل کرنے والوں نے بخل کيا تھا.ايک اور روايت ميں ہے کہ اس موقع پر آپ نے فرمايا :يہ وه ہے جس پر تم لوگ کل ايک
دوسرے
پر
رشک
کرتے
تھے۔
196تمہار ا وه مال اکارت نہيں گيا جو تمہارے ليے عبرت و نصيحت کا باعث بن جائے۔ جو شخص مال و دولت کھو کر تجربہ و نصيحت حاصل کرے اسے ضياع مال کی فکر نہ کر نا چاہيے اور مال کے مقابلہ ميں تجربہ کو گراں سمجھنا چاہيے۔ کيونکہ مال تو يوں بھی ضائع ہوجاتا ہے مگر تجربہ آئنده کے خطرات سے بچالے جاتا ہے۔ ايک عالم سے جو مالدار ہونے کے بعد فقير و نادار ہوچکا تھا ،پوچھا گيا کہ تمہارا مال کيا ہوا ؟ اس نے کہا کہ ميں نے اس سے تجربات خريد ليے ہيں جو ميرے ليے مال سے زياده فائده مند ثابت ہوئے ہيں۔ لہٰ ذا سب کچھ کھو دينے کے بعد بھی ميں نقصان ميں نہيں رہا ہوں۔
197يہ دل بھی اسی طرح تھکتے ہيں جس طرح بدن تھکتے ہيں۔ لہٰذا )جب ايسا ہو تو (ان کے ليے لطيف حکيمانہ جملے تالش کرو 198جب خوار ج کا قول «الَ حُک َم اِالﱠ ٰ ّ ﷲ »)حکم ﷲ سے مخصوص ہے (سنا تو فرمايا :يہ جملہ صحيح ہے مگرجو اس سے مراد ليا جاتا ہے وه غلط ہے۔
199بازاری آدميوں کی بھيﮍ بھاڑ کے بارے ميں فرمايا :يہ وه لوگ ہوتے ہيں کہ مجتمع ہوں تو چھا جاتے ہيں۔ جب منتشر ہوں تو پہچانے نہيں جاتے۔ ايک Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
قول يہ ہے کہ آپ نے فرمايا :کہ جب اکٹھا ہوتے ہيں تو باعث ضرر ہوتے ہيں اور جب منتشر ہوجاتے ہيں تو فائده مند ثابت ہوتے ہيں لوگوں نے کہا کہ ہميں ان کے مجتمع ہونے کا نقصان تو معلوم ہے مگر ان کے منتشر ہونے کا فائده کيا ہے؟ آپ نے فرمايا کہ پيشہ ور اپنے اپنے کاروبار کی طرف پلٹ جاتے ہيں تو لوگ ان کے ذريعہ فائده اٹھاتے ہيں جيسے معمار اپنی )زير تعمير (عمار ت کی طرف جوالہا اپنے کاروبار کی جگہ کی طرف اور نانبائی اپنے تنور
کی
طرف.
200آپ کے سامنے ايک مجرم اليا گيا جس کے ساتھ تماشائيوں کا ہجوم تھا توآ پ نے فرمايا :ان چہروں پر پھٹکار کہ جو ہر رسوائی کے موقع پر ہی نظر
آتے
ہيں۔
201ہر انسان کے ساتھ دو فرشتے ہوتے ہيں جو اس کی حفاظت کرتے ہيں اور جب موت کا وقت آتا ہے تو وه اس کے اور موت کے درميان سے ہٹ جاتے ہيں اور بے شک انسان کی مقرره عمر اس کے ليے ايک مضبوط سپر ہے.
202طلحہ وزبير نے حضرت سے کہا کہ ہم اس شرط پر آپ کی بيعت کرتے ہيں کہ اس حکومت ميں آپ کے ساتھ شريک رہيں گے۔ آپ نے فرمايا کہ نہيں Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
بلکہ تم تقويت پہنچانے اور ہاتھ بٹانے ميں شريک اور عاجزی اور سختی کے موقع
مددگار
پر
گے.
ہو
203اے لوگو! ﷲ سے ڈرو کہ اگر تم کچھ کہو تو وه سنتا ہے اور دل ميں چھپاکر رکھو تو وه جان ليتا ہے اس موت کی طر ف بﮍھنے کا سرو سامان کرو کہ جس سے بھاگے تو وه تمہيں پالے گی اور اگر ٹھہرے تو وه تمہيں گرفت ميں لے لے گی اور اگر تم اسے بھول بھی جاؤ تو وه تمہيں ياد رکھے گی۔
204کسی شخص کا تمہارے حسن سلوک پر شکر گزا ر نہ ہونا تمہيں نيکی اور بھالئی سے بددل نہ بنا دے اس ليے کہ بسا اوقات تمہاری اس بھالئی کی وه قدر کرے گا ،جس نے اس سے کچھ فائده بھی نہيں اٹھايا اور اس ناشکرے نے جتنا تمہاراحق ضائع کيا ہے ،اس سے کہيں زياده تم ايک قدردان کی قدر دانی سے حاصل کرلو گے اور خدا نيک کام کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
205ہر ظرف اس سے کہ جو اس ميں رکھا جائے تنگ ہوتا جاتا ہے ،مگر علم
کا
ظرف
وسيع
ہوتا
جاتا
ہے۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
206بردبار کو اپنی بردباری کا پہال عوض يہ ملتا ہے۔ کہ لوگ جہالت دکھانے
والے
کے
خالف
اس
کے
طرفدار
ہوجاتے
ہيں۔
207اگر تم بردبار نہيں ہو تو بظاہر برد بار بننے کی کوشش کرو ،کيونکہ ايسا کم ہوتا ہے کہ کوئی شخص کسی جماعت سے شباہت اختيار کرے اور ان ميں سے نہ ہو جائے۔ مطلب يہ ہے کہ اگر انسان طبعا ً حليم و برد بار ہو تو سے برد بار بننے کی کوشش کرنا چاہيے۔ اس طرح کہ اپنی افتاده طبيعت کے خالف حلم و بردباری کا مظاہره کرے اگرچہ طبيعت کا رخ موڑنے ميں کچھ زحمت محسوس ہوگی مگر اس کا نتيجہ يہ ہو گا کہ آہستہ آہستہ حلم طبعی خصلت کی صور ت اختيار کر لے گا اور پھر تکلف کی حاجت نہ رہے گی کيونکہ عادت رفتہ رفتہ طبيعت ثانيہ بن جايا کرتی ہے۔
208جو شخص اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے وه فائده اٹھاتا ہے اور جو غفلت کرتا ہے وه نقصان ميں رہتا ہے جو ڈرتا ہے وه )عذاب سے (محفوظ ہو جاتا ہے اور جو عبرت حاصل کرتا ہے وه بينا ہوجاتا ہے اور جو بينا ہوجاتا ہے وه بافہم ہوجاتا ہے اور جو بافہم ہوتا ہے اسے علم حاصل ہوتا ہے۔
209يہ دنيا منہ زور ی دکھانے کے بعد پھر ہماری طرف جھکے گی جس طرح کاٹنے والی اونٹنی اپنے بچے کی طرف جھکتی ہے۔ اس کے بعد حضرت نے اس آيت کی تالوت فرمائی۔ ہم يہ چاہتے ہيں کہ جو لوگ زمين Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
ميں کمزور کرديئے گئے ہيں ،ان پر احسان کريں اور ان کو پيشوا بنائيں اور انہی کو اس زمين کا مالک بنائيں۔ يہ ارشاد امام منتظر کے متعلق ہے جو سلسلہ امامت کے آخری فرد ہيں۔ ان کے ظہور کے بعد تمام سلطنتيں اور حکومتيں ختم ہوجائيں گی
اور
«ليظھره
علی
الدين
کلہ
»کا
مکمل
نمونہ
نگاہوں
کے
سامنے
آجائے
گا
سالم آخر زمان آيد پديد ہر کسے رادو لتے از آسمان آيد پديد دولت آل علی عليہ ال ّ
210ﷲ سے ڈرو اس شخص کے ڈرنے کے مانند جس نے دنيا کی وابستگيوں کو چھوڑ کر دامن گردان ليا اور دامن گردان کر کوشش ميں لگ گيا اور اچھائيوں کے ليے اس وقفہ حيات ميں تيز گامی کے ساتھ چال اور خطروں کے پيش نظر اس نے نيکيوں کی طرف قدم بﮍھايا اور اپنی قرار گاه اور اپنے اعمال کے نتيجہ اور انجام کار کی منزل پر نظر رکھی۔
اقوال امام علی )عليہ السالم (از نہج البالغہ ِ اقوال ٢١١تا ٢۴٠ 211سخاوت عزت آبر و کی پاسبان ہے بُرد باری احمق کے منہ کا تسمہ ہے، درگزر کرنا کاميابی کی ٰ زکوة ہے ،جو غداری کرے اسے بھول جانا اس کا بدل ہے۔ مشوره لينا خود صحيح راستہ پا جانا ہے جو شخص رائے پر اعتماد Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
کرکے بے نياز ہوجاتا ہے وه اپنے کو خطره ميں ڈالتا ہے۔ صبر مصائب و حوادث کا مقابلہ کرتا ہے۔ بيتابی و بيقرار ی زمانہ کے مدد گاروں ميں سے ہے۔ بہتر ين دولتمندی آرزوؤں سے ہاتھ اٹھا لينا ہے۔ بہت سی غالم عقليں اميروں کی ہوا و ہوس کے بارے ميں دبی ہوئی ہيں۔ تجربہ و آزمائش کی نگہداشت حسن توفيق کا نتيجہ ہے دوستی و محبت اکتسابی قرابت ہے جو تم سے رنجيده و دل تنگ ہو اس پر اطمينا ن و اعتماد نہ کرو۔
212انسان کی خود پسندی اس کی عقل کے حريفوں ميں سے ہے۔ مطلب يہ ہے کہ جس طرح حاسد محسود کی کسی خوبی و حسن کو نہيں ديکھ سکتا ،اسی طرح خود پسندی عقل کے جوہر کا ابھرنا اور اس کے خصائص کا نماياں ہونا گوارا نہيں کرتی۔ جس سے مغرور خود بين انسان ان عادات و خصائل سے محروم رہتا ہے ،جو عقل کے نزديک پسنديده ہوتے ہيں۔
213تکليف سے چشم پوشی کر و۔ ورنہ کبھی خوش نہيں ره سکتے۔ ہر شخص ميں کوئی نہ کوئی خامی ضرور ہوتی ہے۔ اگر انسان دوسروں کی خاميوں اور کمزوريوں سے متاثر ہوکر ان سے عليحدگی اختيار کرتا جائے ،تو رفتہ رفتہ وه اپنے دوستوں کو کھودے گا ،اور دنيا ميں تنہا اور بے يارو مددگار ہوکر ره جائے گا ،جس سے اس کی زندگی تلخ اور الجھنيں بﮍھ جائيں گی۔ ايسے موقع پر انسان کو يہ سوچنا چاہيے کہ اس معاشره ميں اسے فرشتے نہيں مل سکتے کہ جن سے اسے کبھی کوئی شکايت پيدا نہ ہو اسے انہی لوگو ں ميں رہنا سہنا اور انہی لوگوں ميں زندگی گزارنا ہے۔ لہٰ ذا جہاں تک ہوسکے ان کی کمزوريوں کو نظر انداز کرے اور ان کی ايذا رسانيوں سے چشم پوشی کر تا رہے۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
214جس )درخت( کی لکﮍی نرم ہو اس کی شاخيں گھنی ہوتی ہيں۔ جو شخص تند خو اور بدمزاج ہو ,وه کبھی اپنے ماحول کو خوش گوار بنانے ميں کامياب نہيں ہوسکتا۔ بلکہ اس کے ملنے والے بھی اس کے ہاتھوں ،ناالں اور اس سے بيزار رہيں گے اور جو خوش خلق اور شيريں زبان ہولوگ اس کے قرب کے خواہاں اور اس کی دوستی کے خواہشمند ہوں گے اور وقت پﮍنے پر اس کے معاون و مددگار ثابت ہوں گے جس سے وه اپنی زندگی کو کامياب بنا لے جاسکتا ہے۔
215
216
مخالفت
جو
صحيح
منصب
پاليتا
رائے
ہے
دست
برباد
کو
درازی
کرديتی
ہے۔
لگتا
ہے۔
کرنے
217حاالت کے پلٹوں ہی ميں مردوں کے جوہر کھلتے ہيں۔
218
دوست
کا
حسد
کرنا
دوستی
کی
خامی
ہے۔
219اکثر عقلوں کا ٹھوکر کھا کر گرنا طمع و حرص کی بجلياں چمکنے پرہوتا ہے۔ جب انسان طمع و حرص ميں پﮍ جاتا ہے تو رشوت ،چوری ،خيانت ،سود خور ی اور اس قبيل کے دوسرے اخالقی عيوب اس ميں پيدا ہوجاتے ہيں اور عقل ان باطل خواہشوں کی جگمگاہٹ سے اس طرح خير ه ہوجاتی ہے کہ اسے ان قبيح افعال کے عواقب و نتائج نظر ہی نہيں آتے کہ وه اسے روکے ٹوکے اور اس خواب غفلت سے جھنجھوڑے البتہ جب دنيا سے رخت سفر باندھنے پر تيار ہوتاہے اور
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
ديکھتا ہے کہ جو کچھ سميٹا تھا وه يہيں کے ليے تھا ساتھ نہيں لے جاسکتا ،تو اس وقت آنکھيں کھلتی ہيں۔
220يہ انصاف نہيں ہے کہ صرف ظن و گمان پر اعتماد کرتے ہوئے فيصلہ جائے۔
کيا
221آخرت کے ليے بہت برا توشہ ہے بندگا ن خدا پر ظلم و تعدی کرنا۔
222بلند انسان کے بہتر ين افعال ميں سے يہ ہے کہ وه ان چيزوں سے چشم پوشی
کرے
جنہيں
وه
نہيں
جانتا
ہے۔
223جس پر حيا نے اپنا لباس پہنا ديا ہے اس کے عيب لوگوں کی نظروں کے سامنے نہيں آسکتے۔ جو شخص حيا کے جو ہر سے آراستہ ہوتا ہے اس کے ليے حيا ايسے امور کے ارتکاب سے مانع ہوتی ہے جو معيوب سمجھے جاتے ہيں۔ اس ليے اس ميں عيب ہوتا ہی نہيں کہ دوسرے ديکھيں اور اگر کسی امر قبيح کا اس سے ارتکاب ہو بھی جاتا ہے تو حيا کی وجہ سے عالنيہ مرتکب نہين ہوتا کہ لوگوں کی نگاہيں اس کے عيب پر پﮍسکيں۔
224زياده خاموشی رعب و ہيبت کا باعث ہوتی ہے۔ اور انصاف سے دوستوں ميں اضافہ ہوتا ہے لطف و کرم سے قدر و منزلت بلند ہوتی ہے جھک کر ملنے سے نعمت تمام ہوتی ہے۔ دوسروں کا بوجھ بٹانے سے الزما ً سرداری حاصل ہوتی ہے اور خوش رفتاری سے کينہ ور دشمن مغلوب ہوتا ہے اور Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
سر پھر ے آدمی کے مقابلہ ميں بردباری کرنے سے اس کے مقابلہ ميں اپنے زياده
طرفدار
ہيں۔
ہوجاتے
225تعجب ہے کہ حاسد جسمانی تندرستی پر حسد کرنے سے کيوں غافل ہوگئے. حاسد دوسروں کے مال و جاه پر تو حسد کرتا ہے۔ مگر ان کی صحت و توانائی پر حسد نہيں کرتا حاالنکہ يہ نعمت تمام نعمتوں سے زياده گرانقدر ہے۔ وجہ يہ ہے کہ دولت و ثروت کے اثرات ظاہری طمطراق اور آرام و آسائش کے اسباب سے نگاہوں کے سامنے ہوتے ہيں اور صحت ايک عمومی چيز قرار پاکر نا قدری کا شکار ہوجا تی ہے اور اسے اتنا بے قدر سمجھا جاتا ہے کہ حاسد بھی اسے حسد کے قابل نہيں سمجھتے۔ چنانچہ ايک دولت مند کو ديکھتا ہے تو ا س کے مال ودولت پر اسے حسد ہوتا ہے اور ايک مزدور کو ديکھا کہ جو سر پر بوجھ اٹھائے دن بھر چلتا پھرتا ہے تو وه اس کی نظر وں ميں قابل حسد نہيں ہوتا۔ گويا صحت و توانائی اس کے نزديک حسد کے الئق چيز نہيں ہے کہ اس پر حسد کرے البتہ جب خود بيمار پﮍتا ہے تواسے صحت کی قدر و قيمت کا اندازه ہوتا ہے اور اس موقع پر اسے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے زياده قابل حسد يہی صحت ہے جو اب تک اس کی نظرو ں ميں کوئی اہميت نہ تھی.
رکھتی مقصد يہ ہے کہ صحت کو ايک گرانقدر نعمت سمجھنا چاہيے اور اس کی حفاظت و نگہداشت کی طر ف متوجہ رہنا چاہيے
226طمع کرنے واال ذلت کی زنجيروں ميں گرفتار رہتا ہے۔
227آپ سے ايمان کے متعلق پوچھا گيا تو فرمايا کہ ايمان دل سے پہچاننا، زبان
سے
اقرار
کرنا
اور
اعضا
سے
عمل
کرنا
ہے.
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
228جو دنيا کے ليے اندوہناک ہو وه قضا و قدر الہی سے ناراض ہے اور جو اس مصيبت پر کہ جس ميں مبتال ہے شکوه کرے تو وه اپنے پروردگار کا شاکی ہے اور جو کسی دولت مند کے پاس پہنچ کر اس کی دولتمندی کی وجہ سے جھکے تو اس کا دو تہائی دين جاتا رہتا ہے اور جو شخص قرآن کی تالوت کرے پھر مر کر دوزخ ميں داخل ہو تو ايسے ہی لوگوں ميں سے ہوگا، جو ﷲ کی آيتوں کا مذاق اڑاتے تھے اور جس کا دل دنيا کی محبت ميں وارفتہ ہوجائے تو اس کے دل ميں دنيا کی يہ تين چيزيں پيوست ہوجاتی ہيں۔ ايسا غم کہ جو اس سے جدا نہيں ہوتا اور ايسی حرص کہ جو اس کا پيچھا نہيں چھوڑتی
اور
ايسی
اميد
کہ
جو
بر
نہيں
آتی۔
229قناعت سے بﮍھ کر کوئی سلطنت اور خو ش خلقی سے بﮍھ کر کوئی عيش و آرام نہيں ہے۔ حضرت سے اس آيت کے متعلق دريافت کياگيا کہ «ہم اس کو پاک و پاکيزه زندگی ديں گے »؟ آپ نے فرمايا کہ وه قناعت ہے۔ حسن خلق کو نعمت سے تعبير کرنے کی وجہ يہ ہے کہ جس طرح نعمت باعث لذت ہوتی ہے اسی طرح انسان خوش اخالقی و نرمی سے دوسروں کے دلوں کو اپنی مٹھی ميں لے کر اپنے ماحول کو خوش گوار بناسکتا ہے۔ اور اپنے ليے لذت و راحت کا سامان کر نے ميں کامياب ہوسکتا ہے اور قناعت کو سرمايہ و جاگير اس ليے قرار ديا ہے کہ جس طرح ملک و جاگير احتياج کو ختم کرديتی ہے اسی طرح جب انسان قناعت اختيار کرليتا ہے اور اپنے رزق پر خوش رہتا ہے تو وه خلق سے مستغنی اور احتياج سے دور ہوتا ہے۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
ہر قانع شد بخشک و تر شہ بحر و برداشت
فراخ روزی کئے ہوئے ہو اس کے ساتھ شرکت کرو، 230جس کی طرف ِ کيونکہ اس ميں دولت حاصل کرنے کا زياده امکان اور خوش نصيبی کا زياده ہے۔
قرينہ
231خدا وند عالم کے ارشاد کے مطابق کہ ﷲ تمہيں عدل و احسان کا حکم ديتا ہے۔
فرمايا
!
عدل
انصاف
ہے
اور
احسان
لطف
و
کرم۔
232جو عاجز و قاصر ہاتھ سے ديتا ہے اسے بااقتدار ہاتھ سے ملتا ہے۔ سيد رضی کہتے ہيں کہ اس جملہ کا مطلب يہ ہے کہ انسان اپنے مال ميں سے کچھ خير و نيکی کی راه ميں خر چ کرتا ہے اگرچہ وه کم ہو ،مگر خداوند عالم اس کا اجر بہت زياده قرارديتا ہے اور اس مقام پر دو ہاتھوں سے مراد دو نعمتيں ہيں اور اميرالمومنين عليہ السالم نے بنده کی نعمت اور پروردگار کی نعمت ميں فرق بتايا ہے کہ وه تو عجز و قصور کی حامل ہے اور و ه بااقتدار ہے۔ کيونکہ ﷲ کی عطاکرده نعمتيں مخلوق کی دی ہوئی نعمتوں سے ہميشہ بدر جہا بﮍھی چﮍھی ہوتی ہيں۔ اس ليے کہ ﷲ ہی کی نعمتيں تمام نعمتوں کا سر چشمہ ہيں۔ لہٰ ذا ہر نعمت انہی نعمتوں کی طرف پلٹتی ہے ،اور انہی سے وجود پاتی ہے۔
233
اپنے
فرزند
امام
حسن
عليہ
السّالم
سے
فرمايا
:
کسی کو مقابلہ کے ليے خود نہ للکارو۔ ہاں اگر دوسرا للکارے تو فورا ًجواب دو۔ اس ليے کہ جنگ کی خود سے دعوت دينے واال زيادتی کرنے واال ہے،
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
اور زيادتی کرنے واال تباه ہوتا ہے۔ مقصد يہ ہے کہ اگر دشمن آماده پيکار ہو اور جنگ ميں پہل کرے تو اس موقع پر اس کی روک تھا م کے ليے قد م اٹھا نا چاہيے اور از خود حملہ نہ کرنا چاہيے۔ کيونکہ يہ سرا سر ظلم و تعدی ہے اور جو ظلم وتعدی کا مرتکب ہوگا ،وه اس کی پاداش ميں خاک مذلت پر سالم ہميشہ دشمن کے للکارنے پر ميدان ميں آتے اور خود سے دعوت مقابلہ نہ ديتے پچھاڑ ديا جائے گا۔ چنانچہ اميرالمومنين عليہ ال ّ تھے۔
چنانچہ
ابن
الحديد
تحرير
کرتے
ہيں۔
ہمارے سننے ميں نہيں آياکہ حضرت نے کبھی کسی کو مقابلہ کے ليے للکا ر ا ہو بلکہ جب مخصوص طور پر آپ کو دعوت مقابلہ دی جاتی تھی يا عمومی طور پر دشمن للکارتا تھا ،تو اس کے مقابلہ ميں نکلتے تھے اور سے قتل کرديتے تھے۔ )شرح ابن ابی الحديد، جلد ،4صفحہ (344
234عورتوں کی بہتر ين خصلتيں وه ہيں جو مردوں کی بدترين صفتيں ہيں۔ غرور ،بزدلی اور کنجوسی اس ليے کہ عورت جب مغرور ہوگی ،تو وه کسی کو اپنے نفس پر قابو نہ دے گی اور کنجوس ہوگی تو اپنے اور شوہر کے مال کی حفاظت کرے گی اور بزدل ہوگی تو وه ہر اس چيز سے ڈرے گی جو پيش گی۔
آئے
235آپ عليہ السّالم سے عرض کياگيا کہ عقلمند کے اوصاف بيان کيجئے۔ فرمايا! عقلمند وه ہے جو ہر چيز کو اس کے موقع و محل پر رکھے۔ پھر آپ سے کہا گيا کہ جاہل کا وصف بتايئے تو فرمايا ميں بيان کر چکا۔ Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
سيد رضی فرماتے ہيں کہ مقصد يہ ہے کہ جاہل وه ہے جو کسی چيز کو اس کے موقع و محل پر نہ رکھے۔ گويا حضرت کا اسے نہ بيان کر نا ہی بيان کرنا ہے۔ کيونکہ اس کے اوصاف عقلمند کے اوصاف کے برعکس ہيں۔
236خد ا کی قسم تمہاری يہ دنيا ميرے نزديک سور کی انتﮍيوں سے بھی زياده
ذليل
ہے
جو
کسی
کوڑھی
کے
ہاتھ
ميں
ہوں۔
پيش نظر 237ايک جماعت نے ﷲ کی عبادت ثواب کی رغبت و خواہش کے ِ کی ،يہ سودا کرنے والوں کی عبادت ہے اور ايک جماعت نے خوف کی وجہ سے اس کی عبادت کی ،اور يہ غالموں کی عبادت ہے او ر ايک جماعت نے ازروئے شکر و سپاس گزاری اس کی عبادت کی ،يہ آزادوں کی عبادت ہے۔
238عورت سراپا برائی ہے اور سب سے بﮍی برائی اس ميں يہ ہے کہ اس کے
بغير
چاره
نہيں۔
239جو شخص سستی و کاہلی کرتاہے وه اپنے حقوق کو ضائع وبرباد کرديتا ہے اور جو چغل خور کی بات پر اعتماد کر تا ہے ،وه دوست کو اپنے ہاتھ سے
کھو
ديتا
ہے.
240گھر ميں ايک غصبی پتھر اس کی ضمانت ہے کہ وه تباه و بربا د ہوکر
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
رہے گا۔ سيد رضی فرماتے ہيں کہ ايک روايت ميں يہ کالم رسالت مآب صلی ﷲ عليہ وآلہ وسلم سے منقول ہوا ہے اور اس ميں تعجب ہی کيا ہے کہ دونوں کے کالم ايک دوسرے کے مثل ہوں کيونکہ دونوں کا سر چشمہ تو ايک ہی ہے.
اقوال امام علی )عليہ السالم (از نہج البالغہ ِ اقوال ٢۴١تا ٢٧٠ 241مظلوم کے ظالم پر قابو پانے کا دن اس دن سے کہيں زياده ہوگا جس ميں ظالم مظلوم کے خالف اپنی طاقت دکھاتا ہے۔ دنيا ميں ظلم سہہ لينا آسان ہے .مگر آخرت ميں اس کی سزا بھگتنا آسان نہيں ہے۔ کيونکہ ظلم سہنے کا عرصہ زندگی بھر کيوں نہ ہو پھر بھی محدود ہے۔ اور ظلم کی پاداش جہنم ہے ،جس کا سب سے زياده ہولنا ک پہلو ہے کہ وہا ں زندگی ختم نہ ہو گی کہ موت دوزخ کے عذاب سے بچا لے جائے چنانچہ ايک ظالم اگر کسی کو قتل کر ديتا ہے تو قتل کے ساتھ ظلم کی حد بھی ختم ہوجائے گی ،اور اب اس کی گنجائش نہ ہو گی کہ اس پر مزيد ظلم کيا جاسکے مگر اس کی سزا يہ ہے کہ اسے ہميشہ کے ليے دوزخ ميں ڈاال جائے کہ جہاں
اپنے
وه
کئے
کی
سزا
رہے۔
بھگتتا
پنداشت ستمگر کہ جفا برما کرد درگرد ن او بماند ر برما بگذشت
242ﷲ سے کچھ تو ڈرو ،چاہے وه کم ہی ہو ،اور اپنے اور ﷲ کے درميان کچھ
تو
پرده
رکھو،
چاہے
وه
باريک
ہی
سا
ہو۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
243جب )ايک سوال کے ليے( جوابات کی بہتات ہوجائے توصحيح بات چھپ جايا کرتی ہے۔ اگر کسی سوال کے جواب ميں ہر گوشہ سے آوازيں بلند ہونے لگيں۔ تو ہر جواب نئے سوال کا تقاضا بن کر بحث و جدل کا دروازه کھول دے گا اور جوں جوں جوابات کی کثرت ہوگی ،اصل حقيقت کی کھوج اور صحيح جواب کی سراغ رسائی مشکل ہوجائے گی۔ کيونکہ ہر شخص اپنے جواب کو صحيح تسليم کرانے کے ليے ادھر ادھر سے دالئل فراہم کرنے کی کوشش کرے گا جس سے سارا معاملہ الجھاؤ ميں پﮍجائے گا۔ اور يہ خواب کثرت تعبير سے خواب پريشان ہو کر ره جائے گا۔
تعالی کے ليے ہر نعمت ميں حق ہے تو جو اس حق کو ادا 244بے شک ﷲ ٰ کرتا ہے ،ﷲ اس کے ليے نعمت کو اوربﮍھاتا ہے۔ اور جو کوتاہی کرتا ہے وه موجوده
نعمت
کو
بھی
خطره
ميں
ڈالتا
ہے۔
245جب مقدرت زياده ہوجاتی ہے تو خواہش کم ہوجاتی ہے۔
246نعمتوں کے زائل ہونے سے ڈرتے رہو کيونکہ ہر بے قابو ہوکر نکل جانے
والی
چيز
پلٹا
نہيں
کرتی۔
247جذبہ کرم رابطہ قرابت سے زياده لطيف و مہر بانی کا سبب ہوتا ہے۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
248جو تم سے حسن ظن رکھے ،اس کے گمان کو سچاثابت کرو۔
249بہترين عمل وه ہے جس کے بجاالنے پر تمہيں اپنے نفس کو مجبور کرنا پﮍے۔
250ميں نے ﷲ سبحانہ کو پہچانا ارادوں کے ٹوٹ جانے,نيتوں کے بدل جانے ،اور ہمتوں کے پست ہوجانے سے۔ ارادوں کے ٹوٹنے اور ہمتوں کے پست ہونے سے خداوند عالم کی ہستی پر اس طرح استدالل کيا جاسکتا ہے کہ مثالً ايک کام کے کرنے کا اراده ہوتا ہے ،مگر وه اراده فعل سے ہمکنار ہونے سے پہلے ہی بدل جاتا ہے اور اس کی جگہ کوئی اور اراده پيدا ہوجاتا ہے۔ يہ ارادوں کا ادلنا بدلنااور ان ميں تغير و انقالب کا رونما ہونا اس کی دليل ہے کہ ہمارے ارادوں پر ايک باال دست قوت کا ر فرما ہے جو انہيں عدم سے وجود اور وجود سے عدم ميں النے کی قوت و طاقت رکھتی ہے ،اور يہ امر انسان کے احاطہ اختيا رسے باہر ہے۔ لہٰ ذ ا اسے اپنے مافوق ايک طاقت کو تسليم کرنا ہوگا کہ جو ارادوں ميں ردو بدل کرتی رہتی ہے۔
251دنيا کی تلخی آخرت کی خوشگواری ہے اور دنيا کی خوشگواری آخرت کی
تلخی
ہے۔
252خداوند عالم نے ايمان کا فريضہ عائد کيا شرک کی آلودگيوں سے پاک کرنے کے ليے۔ اور نماز کو فرض کيا رعونت سے بچانے کے ليے اور زکوة کو رزق کے اضافہ کا سبب بنانے کے ليے ،اور روزه کو مخلوق کے Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
اخالص کو آزمانے کے ليے اور حج کو دين کو تقويت پہنچانے کے ليے ،اور اصالح جہاد کو اسالم کو سرفرازی بخشنے کے ليے ،اور امر بالمعروف کو ِ خالئق کے ليے اور نہی عن المنکر کو سرپھروں کی روک تھام کے ليے اور حقوق قرابت کے ادا کرنے کو )يار و انصار کی( گنتی بﮍھانے کے ليے اور ِ قصاص کو خونريزی کے انسداد کے ليے اور حدود شرعيہ کے اجراء کو محرمات کی اہميت قائم کرنے کے ليے اور شراب خوری کے ترک کو عقل کی حفاظت کے ليے اور چوری سے پرہيز کو پاک بازی کا باعث ہونے کے ليے اور زنا سے بچنے کو نسب کے محفوظ رکھنے کے ليے اور اغالم کے انکار حقوق کے مقابلہ ميں ثبوت ترک کو نسل بﮍھانے کے ليے اور گواہی کو ِ مہيا کرنے کے ليے اور جھوٹ سے علحيدگی کو سچائی کا شرف آشکارا قيام امن کو خطروں سے تحفظ کے ليے اور امانتوں کی کرنے کے ليے اور ِ حفاظت کو امت کا نظام درست رکھنے کے ليے اور اطاعت کو امامت کی عظمت
ظاہر
کرنے
کے
ليے
253آپ)عليہ السالم ( فرمايا کرتے تھے کہ اگر کسی ظالم سے قسم لينا ہو تو اس سے اس طرح حلف اٹھواؤ کہ وه ﷲ کی قوت و توانائی سے بری ہے؟ کيونکہ جب وه اس طرح جھوئی قسم کھائے گا تو جلد اس کی سزا پائے گا اور جب يوں قسم کھائے کہ قسم اُس ﷲ کی جس کے عالوه کوئی معبود نہيں تو جلد اس کی گرفت نہ ہو گی ،کيونکہ اُس نے ﷲ کو وحدت و يکتائی کے ساتھ Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
ياد
ہے۔
کيا
254اے فرزن ِد آدم! اپنے مال ميں اپنا وصی خود بن اور جو تو چاہتا ہے کہ تيرے بعد تيرے مال ميں سے خير خيرات کی جائے ،وه خود انجام دے دے۔
255غصہ ايک قسم کی ديوانگی ہے کيونکہ غصہ ور بعد ميں پشيمان ضرور ہوتا ہے اور اگر پشيمان نہيں ہوتا تو اُس کی ديوانگی پختہ ہے۔
256
حسد
کی
کمی
بدن
تندرستی
کی
کا
سبب
ہے۔
257کميل ابن زياد نخعی سے فرمايا :اے کميل! اپنے عزيز و اقارب کو ہدايت کرو کہ وه اچھی خصلتوں کو حاصل کرنے کے ليے دن کے وقت نکليں اور رات کو سو جانے والے کی حاجت روائی کو چل کھﮍے ہوں ۔ اُس ذات کی ت شنوائی تمام آوازوں پر حاوی ہےِ ،جس کسی نے بھی کسی قسم جس کی قو ِ لطف خاص خلق کے دل کو خوش کيا تو ﷲ اُس کے ليے اُس سرور سے ايک ِ فرمائے گا کہ جب بھی اُس پر کوئی مصيبت نازل ہو تو وه نشيب ميں بہنے والے پانی کی طرح تيزی سے بﮍھے اور اجنبی اونٹوں کو ہنکانے کی طرح اس
مصيبت
کو
ہنکا
کر
دور
کر
دے۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
258
جب
تنگدست
ہو
جاؤ
تو
صدقہ
کے
ذريعے
بچو۔
259غداروں سے وفا کرنا ﷲ کے نزديک غداری ہے اور غداروں کے ساتھ غداری
کرنا
ﷲ
کے
نزديک
عين
وفا
ہے۔
260کتنے ہی لوگ ايسے ہيں جنہيں نعمتيں دے کر رفتہ رفتہ عذاب کا مستحق بنايا جاتا ہے اور کتنے ہی لوگ ايسے ہيں کہ جو ﷲ کی پرده پوشی سے دھوکا کھائے ہوئے ہيں اوراپنے بارے ميں اچھے الفاظ سن کر فريب ميں پﮍ گئے اور مہلت دينے سے زياده ﷲ کی جانب سے کوئی بﮍی آزمائش نہيں ہے۔ سيد رضی کہتے ہيں کہ يہ کالم پہلے بھی گذر چکا ہے مگر يہاں اس ميں کچھ عمده اور مفيد اضافہ ہے۔
261جب اميرالمومنين عليہ السالم کو يہ اطالع ملی کہ معاويہ کے ساتھيوں نے )شہر(انبار پر دھاوا کيا تو آپ بنفس نفيس پياده پا چل کھﮍے ہوئے۔ يہاں تک کہ نخيلہ تک پہنچ گئے ،اتنے ميں لوگ بھی آپ کے پاس پہنچ گئے اور کہنے لگے يا امير المومنين عليہ السّالم ! ہم دشمن سے نپٹ ليں گے۔ آ پ کے تشريف لے جانے کی ضرورت نہيں۔ آپ نے فرمايا کہ تم اپنے سے تو ميرا بچاؤ کر نہيں سکتے دوسروں سے کيا بچاؤ کرو گے۔ مجھ سے پہلے رعايا اپنے حاکموں کے ظلم و جورکی شکايت کيا کرتی تھی مگر ميں آج اپنی Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
رعيت کی زيادتيوں کا گلہ کرتا ہوں ،گويا کہ ميں رعيت ہوں اور وه حاکم اور ميں حلقہ بگوش ہوں اور وه فرمانروا۔ )سيد رضی کہتے ہيں کہ (جب اميرالمومنين عليہ السالم نے ايک طويل کال م کے ذيل ميں کہ جس کا منتخب حصہ ہم خطب ميں درج کر چکے ہيں يہ کلمات ارشاد فرمائے توآ پ کے اصحاب ميں سے دو شخص اٹھ کھﮍے ہوئے اور ان ميں سے ايک نے کہا کہ يا امير سالم مجھے اپنی ذات اور اپنے بھائی کے عالوه کسی پر اختيا ر نہيں تو آپ ہميں حکم ديں ہم اسے بجاالئيں گے جس المومنين عليہ ال ّ پر حضر ت نے فرمايا کہ ميں جو چاہتا ہوں وه تم دوآدميوں سے کہاں سرانجا م پاسکتا ہے۔
262بيان کيا گيا ہے کہ حارث ابن حوط حضرت کی خدمت ميں حاضر ہوا اور کہا کہ کيا آپ کے خيال ميں اس کا گمان بھی ہوسکتا ہے کہ اصحاب جمل تھے؟
گمراه
حضرت نے فرمايا کہ اے حارث !تم نے نيچے کی طرف ديکھا اوپر کی طر ف نگا ه نہيں ڈالی ،جس کے نتيجہ ميں تم حيران و سر گردان ہوگئے ہو ،تم حق ہی کو نہيں جانتے کہ حق والوں کو جانو اور باطل ہی کو نہيں پہچانتے کہ
باطل
راه
کی
پر
چلنے
کو
والوں
پہچانو۔
حارث نے کہا کہ ميں سعد ابن مالک اور عبدﷲ ابن عمر کے ساتھ گوشہ گزيں ہوجاؤں حضرت
گا۔ نے
فرمايا
کہ
!
سعد اور عبدﷲ ابن عمر نے حق کی مدد کی ،اور نہ باطل کی نصرت سے ہاتھ اٹھايا۔ Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
سالم کی رفاقت وہمنوائی سعد ابن مالک )سعد ابن ابی وقا ص(اورعبدﷲ ابن عمر ان لوگوں ميں سے تھے جو امير المومنين عليہ ال ّ سے منہ موڑے ہوئے تھے۔ چنانچہ سعد ابن ابی وقاص تو حضر ت عثمان کے قتل کے بعد ايک صحرا کی طرف منتقل ہوگئے اور وہيں زندگی گزار دی ،اور حضرت کی بيعت نہ کرنا تھی نہ کی اور عبدﷲ ابن عمر نے اگرچہ بيعت کر لی تھی۔ مگر جنگوں ميں حضرت کا ساتھ دينے سے انکا ر کرديا تھا اور اپنا عذر يہ پيش کيا تھا کہ ميں عبادت کے ليے گوشہ دينی اختيار کرچکاہوں اب حرب و پيکار سے
کوئی
سروکار
رکھنا
نہيں
چاہتا۔
عذر ہائے ايں چنين نزد خرد بيشکے عذرے است بدتر از گناه
263باد شاه کا نديم و مصاحب ايسا ہے جيسے شير پر سوار ہونے واال کہ اس کے مرتبہ پر رشک کيا جاتا ہے وه اپنے موقف سے خوب واقف ہے۔ مقصد يہ ہے کہ جسے بارگاه سلطانی ميں تقرب حاصل ہوتا ہے لوگ اس کے جاه و منصب اور عزت و اقبال کو رشک کی نگاہوں سے ديکھتے ہيں ،مگر خود اسے ہر وقت يہ دھﮍکا لگا رہتا ہے کہ کہيں بادشاه کی نظريں اس سے پھر نہ جائيں ،اور وه ذلت و رسوائی يا موت و تباہی کے گﮍھے ميں نہ جاپﮍے جيسے شير سوار کہ لوگ اس سے مرعوب ہوتے ہيں اور وه اس خطره ميں گھرا ہوتا ہے کہ کہيں شير اسے پھاڑنہ کھائے يا کسی مہلک گﮍھے ميں نہ جاگرائے.
264دوسروں کے پسماندگان سے بھالئی کرو۔ تاکہ تمہارے پسماند گان پر بھی
نظرشفقت
پﮍے۔
265جب حکماء کا کال م صحيح ہو تو وه دوا ہے اور غلط ہوتو سراسر مرض
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
ہے. علمائے مصلحين کا طبقہ اصالح کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے ،اور فساد کا بھی کيونکہ عوام ان کے زير اثر ہوتے ہيں اور ان کے قول و عمل کو صحيح و معيار ی سمجھتے ہوئے اس سے استفاده کرتے اور اس پر عمل پيرا ہوتے ہيں۔ اس صورت ميں اگر ان کی تعليم اصال ح کی حامل ہوگی تو اس کے نتيجہ ميں ہزارو ں افراد صالح و رشد سے آراستہ ہوجائيں گے اور اگر اس ميں خرابی ہوگی تو اس کے نتيجہ ميں ہزاروں افراد گمراہی و بے راہروی ميں مبتال ہوجائيں گے.اسی ليے کہا جاتا ہے کہ جب عالم ميں فساد رونما ہوتا ہے تو اس فساد کا اثر ايک دنيا پر پﮍتا ہے۔
266حضرت سے ايک شخص نے سوال کيا کہ ايمان کی تعريف کيا ہے؟ آپ نے فرمايا کہ کل ميرے پاس آنا تاکہ ميں تمہيں اس موقع پربتاؤں کہ دوسرے لوگ بھی سن سکيں کہ اگر تم بھول جاؤتو دوسرے ياد رکھيں۔ اس ليے کالم بھﮍکے ہوئے شکار کے مانند ہوتاہے کہ اگر ايک کی گرفت ميں آجاتا ہے اور دوسرے کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ )سيد رضی کہتے ہيں کہ(حضرت نے اس کے بعد جواب ديا وه آپ کا يہ ارشا د تھا کہ «االيمان علی اربع شعب ») ايمان کی چار قسميں ہيں (
267اے فرزند آدم عليہ السّالم ! اس دن کی فکر کا بارجو ابھی آيا نہيں ،آج کے اپنے دن پر نہ ڈال کہ جو آچکا ہے۔ اس ليے کہ اگرايک دن بھی تيری عمر
کا
باقی
ہوگا،
توﷲ
تيرا
رزق
تجھ
تک
پہنچائے
گا۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
268اپنے دوست سے بس ايک حد تک محبت کرو کيونکہ شايد کسی دن وه تمہارا دشمن ہوجائے اور دشمن کی دشمنی بس ايک حد تک رکھو ہوسکتا ہے کہ
کسی
دن
وه
تمہار
دوست
ا
ہوجائے۔
269دنيا ميں کام کرنے والے دو قسم کے ہيں ايک وه جو دنيا کے ليے سر گرم عمل رہتا ہے اور اسے دنيا نے آخرت سے روک رکھا ہے۔ وه اپنے پسماندگا ن کے ليے فقر و فاقہ کا خوف کرتا ہے مگر اپنی تنگدستی سے مطمئن ہے تو وه دوسروں کے فائده ہی ميں پوری عمر بسر کرديتاہے اور ايک وه ہے جو دنيا ميں ره کر اس کے ليے عمل کرتا ہے تو اسے تگ ودو کئے بغير دنيا بھی حاصل ہوجاتی ہے اور اس طرح وه دونوں حصوں کو سميٹ ليتا ہے اور دونوں گھر وں کا مالک بن جاتا ہے وه ﷲ کے نزديک باوقار ہوتا ہے اور ﷲ سے کوئی حاجت نہيں مانگتا جو ﷲ پوری نہ کرے۔
270بيان کيا گيا ہے کہ عمر ابن خطاب کے سامنے خانہ کعبہ کے زيورات اور ان کی کثرت کا ذکر ہوا تو کچھ لوگوں نے ان سے کہا کہ اگرآپ ان زيورات کو لے ليں اور انہيں مسلمانوں کے لشکر پر صرف کرکے ان کی روانگی کا سامان کريں تو زياده باعث اجر ہوگا ،خانہ کعبہ کو ان زيورات کی کيا ضرورت ہے۔ چنانچہ عمر نے اس کا اراده کر ليا اور اميرالمومنين عليہ السالم
سے
اس
کے
بار
ے
ميں
مسئلہ
پوچھا۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
آپ نے فرمايا کہ جب قرآن مجيد نبی اکرم صلی ﷲ عليہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا تو اس وقت چار قسم کے اموال تھے ،ايک مسلمانوں کا ذاتی مال تھا اسے آپ نے ان کے وارثوں ميں ان کے حصہ کے مطابق تقسيم کرنے کا حکم ديا۔ دوسرا مال غنيمت تھا ،اسے اس کے مستحقين پر تقسيم کيا۔ تيسرا مال خمس تعالی نے خاص مصارف مقرر کرديئے۔ چوتھے ٰ زکوة و تھا ،اس مال کے ﷲ ٰ صدقات تھے۔ انہيں ﷲ نے وہاں صرف کرنے کاحکم ديا جو ان کامصرف ہے۔ يہ خانہ کعبہ کے زيورات اس زمانہ ميں بھی موجود تھے ليکن ﷲ نے ان کو ان کے حال پر رہنے ديا اور ايسا بھولے سے تو نہيں ہوا ،اور نہ ان کا وجود اس پر پوشيده تھا۔ ل ٰہذا آپ بھی انہيں وہيں رہنے ديجئے جہاں ﷲ اور اس کے رسول نے انہيں رکھاہے۔ يہ سن کر عمر نے کہا کہ اگر آپ نہ ہوتے تو ہم رسوا ہوجاتے اور زيورات ان کی حالت پر رہنے ديا۔
اقوال امام علی )عليہ السالم (از نہج البالغہ ِ اقوال ٢٧١تا ٣٠٠ 271روايت کی گئی ہے کہ حضرت کے سامنے دو آدميوں کو پيش کيا گيا جنہوں نے بيت المال ميں چوری کی تھی ايک تو ان ميں غالم اور خود بيت المال کی ملکيت تھا ،اور دوسرا لوگوں ميں سے کسی کی ملکيت ميں تھا۔ آپ نے فرمايا کہ «يہ غالم جو بيت المال کا ہے اس پر حد جاری نہيں ہوسکتی Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
کيونکہ ﷲ کا مال ﷲ کے مال ہی نے کھايا ہے ليکن دوسرے پر حد جاری چنانچہ
ہوگی۔
اس
ہاتھ
کا
کرديا۔
قطع
272اگران پھسلنوں سے بچ کر ميرے پرجم گئے توميں بہت سی چيزوں ميں تبديلی کر دوں گا۔ اس سے انکار نہيں کيا جاسکتا کہ پيغمبر اسالم کے بعد دين ميں تغيرات رونما ہونا شروع ہوگئے اور کچھ افراد نے قياس و رائے سے کام لے کر احکا م شريعت ميں ترميم و تنسيخ کی بنياد ڈال دی۔ حاالنکہ حکم شرعی ميں تبديلی کا کسی کو حق نہيں پہنچتا ،کہ وه قرآ ن و سنت کے واضح احکام کو ٹھکر ا کر اپنے قياسی احکا م کا نفاذ کرے۔ چنانچہ قرآن کريم ميں طالق کی يہ واضح صورت بيان ہوئی ہے کہ “الطالق م ّر ٰتن” طالق ) رجعی کہ جس ميں بغير محلل کے رجوع ہوسکتی ہے (دو مرتبہ ہے مگر حضرت عمر نے بعض مصالح کے پيش نظر ايک ہی نشست ميں تين طالقوں کے واقع ہونے کا حکم دے ديا۔ اسی طرح ميراث ميں عول کا طريقہ رائج کيا گيا اورنماز جنازه ميں چار تکبيروں کو رواج ديا يونہی حضرت عثمان نے نماز جمعہ ميں ايک اذان بﮍھا دی اور قصر کے موقع پر پوری نماز کے پﮍھنے کا حکم ديا اور نماز عيد ميں خطبہ کو نماز پر مقدم کر ديا.اور اسی طرح کے بے شمار احکام وضع کرليے گئے جس سے صحيح
احکام
بھی
غلط
احکام
کے
ساتھ
مخلوط
ہوکر
بے
اعتماد
گئے۔
بن
اميرالمومنين عليہ السالم جو شريعت کے سب سے زياده واقف کار تھے وه ان احکام کے خالف احتجاج کرتے اور صحابہ کے خالف اپنی
رائے
رکھتے
تھے
چنانچہ
ابن
ابی
الحديد
نے
تحرير
کيا
ہے
کہ
:
سالم شرعی احکام و قضايا ميں صحابہ کے خالف رائے رکھتے ہمارے ليے اس ميں شک کی گنجائش نہيں کہ اميرالمومنين عليہ ال ّ تھے. جب حضرت ظاہری خالفت پر متمکن ہوئے تو ابھی آپ کے قد م پوری طرح سے جمنے نہ پائے تھے کہ چاروں طر ف سے فتنے اٹھ کھﮍے ہوئے اور ان الجھنوں سے آخر وقت تک چھٹکارا حاصل نہ کرسکے جس کی وجہ سے تبديل شده احکام ميں پوری طرح ترميم
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
نہ ہوسکی ،اور مرکز سے دور عالقوں ميں بہت غلط سلط احکام رواج پاگئے۔ البتہ وه طبقہ جو آپ سے وابستہ تھا ،وه آپ سے احکام شريعت کو دريافت کرتا تھا ،اور انہيں محفوظ رکھتا جس کی وجہ سے صحيح احکام نابو د اور غلط مسائل ہمہ گير نہ ہوسکے۔
273پورے يقين کے ساتھ اس امر کو جانے رہو کہ ﷲ سبحانہ نے کسی بندے کے ليے چاہے اس کی تدبيريں بہت زبردست اس کی جستجو شديد اور اس کی ترکيبيں طاقت ور ہوں اس سے زائد رزق قرار نہيں ديا جتنا کہ تقدير الہی ميں اس کے ليے مقرر ہوچکا ہے۔ اور کسی بندے کے ليے اس کمزوری و بے چارگی کی وجہ سے لوح محفو ظ ميں اس کے مقرره رزق تک پہنچنے ميں رکاوٹ نہيں ہوتی۔ اس حقيقت کو سمجھنے واال اور اس پر عمل کر نے واال سود و منفعت کی راحتوں ميں سب لوگوں سے بﮍھ چﮍھ کر ہے اور اسے نظر انداز کرنے اوراس ميں شک و شبہ کرنے واال سب لوگوں سے زياده زياں کاری ميں مبتالہے بہت سے وه جنہيں نعمتيں ملی ہيں ،نعمتوں کی بدولت کم کم عذا ب کے نزديک کئے جارہے ہيں ،اور بہت سوں کے ساتھ فقر فاقہ کے پرده ہيں ﷲ کا لطف وکرم شامل حال ہے ل ٰہذا اسے سننے والے شکر زياده اور جلد بازی کم کر اور جو تيری روزی کی حدہے اس پر ٹھہرا ره.
274اپنے علم کو اور اپنے يقين کو شک نہ بناؤ جب جان ليا تو عمل کرو، اور جب يقين پيدا ہوگيا تو آگے بﮍھو۔ علم و يقين کا تقاضا يہ ہے کہ اس کے مطابق عمل کيا جائے اور اگراس کے مطابق عمل ظہور ميں نہ آئے تواسے علم ويقين سے
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
تعبير نہيں کيا جاسکتا چنانچہ اگر کوئی شخص يہ کہے کہ مجھے يقين ہے کہ فالں راستہ ميں خطرات ہيں اور وه بے خطر راستہ کو چھوڑ کر اسی پر خطر راستہ ميں راه پيمائی کرے ،تو کون کہہ سکتاہے کہ وه اس راه کے خطرات پر يقين رکھتا ہے۔ جبکہ اس يقين کا نتيجہ يہ ہو نا چاہيے کہ وه اس راستہ ہر چلنے سے احتراز کرتا۔ اسی طرح جو شخص حشرونشراور عذاب و ثواب پر يقين رکھتا ہو وه دنيا کی غفلتوں سے مغلوب ہو کر آخرت کو نظر انداز نہيں کرسکتا اور نہ عذاب و عقاب کے خوف سے عمل ميں کوتاہی کا مرتکب ہوسکتاہے۔
275طمع گھاٹ پر اتارتی ہے مگر سيراب کئے بغير پلٹا ديتی ہے۔ ذمہ داری کا بوجھ اٹھاتی ہے مگر اسے پورا نہيں کرتی۔ اور اکثر ايسا ہوتا ہے کہ پانی پينے والے کو پينے سے پہلے ہی اچھو ہوجاتا ہے۔ اور جتنی کسی مرغوب و پسنديده چيز کی قدر و منزلت زياده ہوتی ہے اتنا ہی اسے کھودينے کا رنج زياده ہوتا ہے۔ آرزوئيں ديده و بصيرت کو اندھا کرديتی ہيں اور جو نصيب ميں
ہوتا ہے پہنچنے کی
کوشش
کئے
بغير
مل
جاتا ہے۔
276اے ﷲ !ميں تجھ سے پناه مانگتا ہوں اس سے کہ ميرا ظاہر لوگوں کی چشم ظاہر بين ميں بہتر ہو اور جو اپنے باطن ميں چھپائے ہوئے ہوں ،وه ِ تيری نظروں ميں برا ہو۔ درآں حاليکہ ميں لوگوں کے دکھاوے کے ليے اپنے نفس سے ان چيزوں سے نگہداشت کروں۔ جن سب سے تو آگا ه ہے۔ اس طرح لوگوں کے سامنے تو ظاہر کے اچھا ہونے کی نمائش کروں اور تيرے سامنے اپنی بداعماليوں کو پيش کر تا رہوں جس کے نتيجہ ميں تيرے بندوں سے تقرب حاصل کر ں ،اور تيری خوشنوديوں سے دور ہی ہوتا چالجاؤں۔ Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
) 277کسی موقع پرقسم کھاتے ہوئے ارشاد فرمايا(اس ذات کی قسم جس کی ب تار کے باقی مانده حصہ کو بسر کرديا۔ جس کے بدولت ہم نے ايسی ش ِ چھٹتے ہی روز ِدرخشاں ظاہر ہوگا ايسا اور ايسا نہيں ہوا.
278وه تھوڑ اعمل جو پابندی سے بجااليا جاتا ہے زياده فائده مند ہے اس کثير عمل
سے
کہ
جس
سے
دل
اکتا
جائے۔
279جب مستحبات فرائض ميں س ِد راه ہوں تو انہيں چھوڑ دو.
280جو سفرکی دوری کو پيش نظر رکھتا ہے وه کمر بستہ رہتاہے۔
281آنکھوں کا ديکھنا حقيقت ميں ديکھنا نہيں کيونکہ آنکھيں کبھی اپنے اشخاص سے غلط بيانی بھی کرجاتی ہيں مگر عقل اس شخص کو جو اس سے نصيحت
چاہے
کبھی
فريب
نہيں
ديتی۔
282تمہارے اور پند و نصيحت کے درميان غفلت کا ايک بﮍا پرده حائل ہے۔
283تمہارے جاہل دولت زياده پاجاتے ہيں اور عالم آئنده کے توقعات ميں Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
رکھے
مبتال
ہيں۔
جاتے
284علم کا حاصل ہوجانا ،بہانے کرنے والوں کے عذر کو ختم کرديتا ہے۔
285جسے جلدی سے موت آجاتی ہے وه مہلت کا خواہاں ہوتا ہے اور جسے مہلت
دی
زندگی
گئی
ہے
وه
ٹال
مٹول
کرتارہتا
ہے۔
286لوگ کسی شے پر «واه واه »نہيں کرتے مگر يہ کہ زمانہ اس کے ليے ايک
برا
دن
چھپائے
ہوئے
ہے۔
287آپ سے قضا و قدر کے متعلق پوچھا گيا تو آپ عليہ السّالم نے فرمايا ! يہ ايک تاريک راستہ ہے اس ميں قدم نہ اٹھاؤ.ايک گہرا سمندر ہے۔ اس ميں نہ اترو ﷲ کا ايک راز ہے اسے جاننے کی زحمت نہ اٹھاؤ.
288ﷲ جس بندے کو ذليل کرنا چاہتا ہے اسے علم و دانش سے محروم کرديتاہے۔
289عہد ماضی ميں مير اايک دينی بھائی تھا اور وه ميری نظروں ميں اس وجہ سے باعزت تھا کہ دنيااس کی نظروں ميں پست و حقير تھی۔ اس پر پيٹ Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
کے تقاضے مسلط نہ تھے۔ ل ٰہذا جوچيز اُسے ميسر نہ تھی اس کی خواہش نہ کرتا تھا اور جو چيز ميسر تھی اسے ضرورت سے زياده صرف ميں نہ التا تھا۔ وه اکثر اوقات خاموش رہتا تھا اور اگر بولتا تھا تو بولنے والوں کو چپ کراديتا تھا اور سوال کرنے والوں کی پياس بجھا ديتا تھا۔ يوں تو وه عاجز و کمزور تھا ،مگر جہاد کا موقع آجائے تو وه شير بيشہ اور وادی کا اژدھا تھا۔ وه جو دليل و برہان پيش کرتا تھا ،وه فيصلہ کن ہوتی تھی۔ وه ان چيزوں ميں کہ جن ميں عذر کی گنجائش ہوتی تھی ،کسی کو سرزنش نہ کرتا تھا جب تک کہ اس کے عذر معذرت کو سن نہ لے وه کسی تکليف کا ذکر نہ کرتا تھا ،مگر اس وقت کہ جب اس سے چھٹکارا پا ليتا تھا ،وه جو کرتا تھا ،وہی کہتا تھا اور جو نہيں کرتا تھا وه اسے کہتا نہيں تھا.اگر بولنے ميں اس پر کبھی غلبہ پا بھی ليا جائے تو خاموشی ميں اس پر غلبہ حاصل نہيں کيا جاسکتا تھا.وه بولنے سے زياده سننے کا خواہشمند رہتا تھا اور جب اچانک اس کے سامنے دوچيزيں آجاتی تھيں تو ديکھتا تھا کہ ان دونوں ميں سے ہوائے نفس کے زياده قريب کون ہے تو وه اس کی مخالفت کرتا تھا۔ ل ٰہذا تمہيں ان عادات و خصائل کو حاصل کرنا چاہيے اور ان پر عمل پيرا اور ان کا خواہشمند رہنا چاہيے اگر ان تما م کا حاصل کرنا تمہاری قدرت سے باہر ہو تو اس بات کو جانے رہو کہ تھوڑی سی چيز حاصل کرنا پور ے کے چھوڑ دينے سے بہتر ہے۔ حضرت نے اس کالم ميں جس شخص کو بھائی کے لفظ سے ياد کرتے ہوئے اس کے عادات و شمائل کا تذکره کيا ہے اس بعض نے حضرت ابو ذر غفار ی ،بعض نے عثمان ابن مظعون اور بعض نے مقداد ابن اسود کو مراد ليا ہے مگر بعيد نہيں کہ اس سے کوئی فرد
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
خاص مراد نہ ہو کيونکہ عرب کا يہ عام طريقہ کالم ہے کہ وه اپنے کالم ميں اپنے بھائی يا ساتھی کا ذکر کرجاتے تھے ،اور کوئی معين شخص ان کے پيش نظر نہيں ہوتا تھا۔
290اگر خداوند عالم نے اپنی معصيت کے عذاب سے نہ ڈرايا ہوتا ،جب بھی اس کی نعمتوں پر شکر کا تقاضا يہ تھا کہ اس کی معصيت نہ کی جائے۔
291اشعث ابن قيس کو اس کے بيٹے کا پرسا ديتے ہوئے فرمايا:
اے اشعث !اگرتم اپنے بيٹے پر رنج ومالل کرو تو يہ خون کا رشتہ اس کا سزا وار ہے ،اور اگرصبر کرو تو ﷲ کے نزديک ہر مصيبت کا عوض ہے۔ اے اشعث !اگرتم نے صبر کيا تو تقدير الہی نافذ ہوگی اس حال ميں کہ تم اجر و ثواب کے حقدار ہو گے اور اگر چيخے چالئے ،جب بھی حکم قضا کا جاری ہو کر رہے گا۔ مگر اس حال ميں کہ تم پر گناه کا بوجھ ہوگا۔ تمہارے ليے بيٹا مسرت کا سبب ہوا حاالنکہ وه ايک زحمت و آزمائش تھا اور تمہارے ليے رنج واندوه کا سبب ہوا حاالنکہ وه )مرنے سے (تمہارے ليے اجر و رحمت کا باعث
ہوا
ہے۔
292رسول ﷲ صلی عليہ وآلہ وسلم کے دفن کے وقت قبر پر يہ الفاظ کہے۔ صبر عموماًاچھی چيز ہے سوائے آپ کے غم کے اور بيتابی و بے قراری عموما ًبری چيز ہے سوائے آپ کی وفات کے اور بالشبہ آپ کی موت کا Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
صدمہ عظيم ہے ،اور آپ سے پہلے اور آپ کے بعد آنے والی مصيبت سبک ہے.
293بے وقوف کی ہم نشينی اختيا ر نہ کرو کيونکہ وه تمہارے سامنے اپنے کاموں کو سجا کر پيش کرے گا اور يہ چاہے گا کہ تم اسی کے ايسے ہوجاؤ. بے وقوف انسان اپنے طريق کار کو صحيح سمجھتے ہوئے اپنے دوست سے بھی يہی چاہتا ہے کہ وه اس کا سا طور طريقہ اختيار کرے ،اور جيسا وه خود ہے ويسا ہی وه ہوجائے.اس کے يہ معنی نہيں ہيں کہ وه يہ چاہتاہے کہ اس کا دوست بھی اس جيسا بے وقوف ہوجائے۔ کيونکہ وه اپنے کو بے وقوف ہی کب سمجھتا ہے جو يہ چاہے اوراگر سمجھتا ہوتا تو بے وقو ف ہی کيوں ہوتا۔ بلکہ اپنے کو عقلمند اور اپنے طريقہ کار کو صحيح سمجھتے ہوئے وه اپنے دوست کو بھی اپنے ہی ايسا «عقلمند»ديکھنا چاہتا ہے۔ اس ليے وه اپنی رائے کو سجا کر اس کے سامنے پيش کرتا ہے اور اس پر عمل پيرا ہونے کا اس سے خواہش مند ہوتاہے اور ہوسکتا ہے کہ اس کا دوست اس کی باتوں سے متاثر ہوکر اس کی راه پرچل پﮍے۔ اس ليے اس سے الگ تھلگ رہنا ہی مفيد ثابت ہوسکتا ہے۔
294آپ سے دريافت کيا گيا کہ مشرق و مغرب کے درميان کتنا فاصلہ ہے ؟آپ
نے
فرمايا
«سورج
کا
ايک
دن
کا
راستہ».
295تين قسم کے تمہارے دوست ہيں اور تين قسم کے دشمن۔ دوست يہ ہيں :تمہارا دوست ،تمہارے دوست کا دوست ،اور تمہارے دشمن کا دشمن اور دشمن يہ ہيں :تمہار ا دشمن ،تمہارے دوست کا دشمن اورتمہارے دشمن کا دوست۔ Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
296حضرت نے ايک ايسے شخص کو ديکھا کہ وه اپنے دشمن کو ايسی چيز کے ذريعہ سے نقصان پہنچانے کے درپے ہے جس ميں خود اس کو بھی نقصان پہنچے گا ،تو آ پ نے فرمايا کہ تم اس شخص کی مانند ہوجو اپنے پيچھے والے سوار کو قتل کرنے کے ليے اپنے سينہ ميں نيزه مارے۔
297نصيحتيں کتنی زياده ہيں اور ان سے اثر لينا کتنا کم ہے۔ اگر زمانہ کے حوادث و انقالبات پر نظر کی جائے اور گزشتہ لوگوں کے احوال و واردات کو ديکھا اور ان کی سرگزشتوں کو سناجائے تو ہر گوشہ سے عبرت کی ايک ايسی داستان سنی جاسکتی ہے جو روح کو خواب غفلت سے جھنجھوڑنے پند و نصيحت کرنے اور عبر ت و بصيرت دالنے کا پورا سرو سامان رکھتی ہے۔ چنانچہ دنيا ميں ہرچيز کا بننا اور بگﮍنا اور پھولوں کا کھلنا اور مرجھانا جام بقا کے حاصل سبزے کا لہلہانا اور پامال ہونا اور ہر ذره کا تغير وتبدل کی آماجگاه بننا ايسا درس عبرت ہے جو سيراب زندگی سے ِ کرنے کے توقعا ت ختم کرديتا ہے۔ بشرطيکہ ديکھنے والی آنکھيں اور سننے والے کان ان عبرت افزا چيزوں سے بند نہ ہوں۔
کاخ جہاں پراست نہ ذکر گزشتگاں ليکن کسيکہ گوش دہد ،ايں مذاکم است;
298جو لﮍائی جھگﮍے ميں حد سے بﮍھ جائے وه گنہگار ہوتا ہے اور جو اس ميں کمی کرے ،اس پر ظلم ڈھائے جاتے ہيں اور جو لﮍتا جھگﮍتا ہے اس کے
ليے
مشکل
ہوتا
ہے
کہ
وه
خوف
خدا
قائم
رکھے۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
299وه گناه مجھے اندوہناک نہيں کرتا جس کے بعد مجھے مہلت مل جائے کہ ميں دو رکعت نماز پﮍھوں اور ﷲ سے امن و عافيت کاسوال کروں۔
300اميرالمومنين عليہ السالم سے دريافت کيا گيا کہ خداوند عالم اس کثير التعداد مخلوق کا حساب کيونکر لے گا؟ فرمايا جس طرح اس کی کثرت کے باوجود روزی انہيں پہنچاتا ہے۔ پوچھا وه کيونکر حساب لے گا جب کہ مخلوق اسے ديکھے گی نہيں؟ فرمايا جس طرح انہيں روزی ديتا ہے اور وه اسے ديکھتے نہيں۔
اقوال امام علی )عليہ السالم (از نہج البالغہ ِ اقوال ٣٠١تا ٣٣٠ 301تمہارا قاصد تمہاری عقل کا ترجمان ہے اور تمہاری طرف سے کامياب ترين
ترجمانی
کرنے
واال
تمہارا
خط
ہے۔
302ايسا شخص جو سختی و مصيبت ميں مبتال ہو۔ جتنا محتاج دعا ہے ،اس سے کم وه خير وعافيت سے ہے۔ مگر انديشہ ہے کہ نہ جانے کب مصيبت آجائے۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
303لوگ اسی دنيا کی اوالد ہيں اور کسی شخص کو اپنی ماں کی محبت پر لعنت
نہيں
مالمت
جاسکتی۔
کی
304غريب و مسکين ﷲ کا فرستاده ہوتا ہے تو جس نے اس سے اپنا ہاتھ روکا اس نے خدا سے ہاتھ روکا اور جس نے اسے کچھ ديا اس نے خدا کو ديا۔
305
ت
غير
مند
کبھی
زنا
نہيں
کرتا۔
306مدت حيات نگہبانی کے ليے کافی ہے۔ مطلب يہ ہے کہ الکھ آسمان کی بجليا ں کﮍکيں ،حوادث کے طوفان امڈيں ،زمين ميں زلزلے آئيں اور پہاڑ آپس ميں ٹکرائيں ،اگر زندگی باقی ہے تو کوئی حادثہ گزند نہيں پہنچا سکتا اور نہ صرصر موت شمع زندگی کو بجھا سکتی ہے کيونکہ موت کا ايک وقت مقرر ہے اور اس مقرره وقت تک کوئی چيز سلسلہ حيات کو قطع نہيں کر سکتی ،اس لحاظ سے بال شبہ موت خود زندگی کی محافظ و نگہبان ہے۔
«موت کہتے ہيں جسے ہے پاسبان زندگی »
307اوالد کے مرنے پہ آدمی کو نيند آجاتی ہے مگر مال کے چھن جانے پر اسے نيند نہيں آتی. Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
سيد رضی فرماتے ہيں کہ اس کا مطلب يہ ہے کہ انسان اوالد کے مرنے پر صبر کر ليتا ہے مگر مال کے جانے پر صبر نہيں کرتا۔
308باپوں کی باہمی محبت اوالد کے درميان ايک قرابت ہواکرتی ہے اور محبت کوقرابت کی اتنی ضرورت نہيں جتنی قرابت کو محبت کی۔
309اہل ايمان کے گمان سے ڈرتے رہو ،کيونکہ خداوند عالم نے حق کو ان کی
زبانوں
پر
قرار
ديا
ہے.
310کسی بندے کا ايمان اس وقت تک سچا نہيں ہوتا جب تک اپنے ہاتھ ميں موجود ہونے والے مال سے اس پر زياده اطمينان نہ ہو جو قدرت کے ہاتھ ميں ہے۔
311جب حضرت بصره ميں وارد ہوئے تو انس بن مالک کو طلحہ و زبير کے پاس بھيجا تھا کہ ان دونوں کو کچھ وه اقوال ياد دالئيں جو آپ عليہ السّالم کے بارے ميں انہوں نے خود پيغمبر اکر م صلی ﷲ عليہ وآلہ وسلم سے سنے ہيں۔ مگر انہوں نے اس سے پہلوتہی کی ،اور جب پلٹ کر آئے تو کہا کہ وه بات مجھے ياد نہيں رہی اس پر حضرت نے فرمايا اگر تم جھو ٹ بول رہے ہو تو اس کی پاداش ميں خداوند عالم ايسے چمکدار داغ ميں تمہيں مبتال کرے، کہ جسے دستار بھی نہ چھپا سکے۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
)سيد رضی فرماتے ہيں کہ( سفيد داغ سے مراد برص ہے چنانچہ انس مر ض ميں مبتال ہوگئے جس کی وجہ سے ہميشہ نقاب پوش دکھائی
تھے.
ديتے
عالمہ رضی نے اس کالم کے جس مورد و عمل کی طرف اشاره کيا ہے وه يہ ہے کہ جب حضرت نے جنگ جمل کے موقع پر انس ابن مالک کو طلحہ وزبير کے پاس اس مقصد سے بھيجا کہ وه انہيں پيغمبر کا قول انکما استقاتالن عليا و انتھالہ ظالمان )تم عنقريب علی سالم سے جنگ کر و گے اور تم ان کے حق ميں ظلم و زيادتی کرنے والے ہوگے (ياد دالئيں ،تو انہوں نے پلٹ کر يہ ظاہر کيا عليہ ال ّ کہ وه اس کا تذکر ه بھو ل گئے تو حضرت نے ان کے ليے يہ کلمات کہے۔ مگر مشہور يہ ہے کہ حضرت نے يہ جملہ اس موقع پر فرمايا
جب
پيغمبر
آپ
صلعم
کے
ارشاد
اس
کی
تصديق
چاہی
کہ:
“جس کا ميں موال ہوں اس کے علی بھی موال ہيں۔ اے ﷲ جو علی کو دوست رکھے تو بھی اسے دوست رکھ اور جو انہيں دشمن رکھے
تو
بھی
اسے
دشمن
رکھ۔”
چنانچہ متعدد لوگو ں نے اس کی گواہی دی۔ مگر انس بن مالک خاموش رہے جس پر حضرت نے ان سے فرمايا کہ تم بھی تو غدير خم سالم ميں بوڑھا ہوچکا ہوں اب ميری کے موقع پر موجود تھے پھر اس خاموشی کی کيا وجہ ہے؟ انہوں نے کہا يا اميرالمومنين عليہ ال ّ ياد داشت کا م نہيں کرتی جس پر حضرت نے ان کے ليے بددعا فرمائی۔ چنانچہ ابن قيتبہ تحرير کرتے ہيں کہ: سالم نے انس ابن مالک سے رسول ﷲ کے ارشاد اے ﷲ جو علی کو دوست رکھے تو “لوگوں نے بيان کيا ہے کہ اميرالمومنين عليہ ال ّ بھی اسے دوست رکھ اور جو انہيں دشمن رکھے تو بھی اسے دشمن رکھ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ميں بوڑھا ہوچکا ہوں اور اسے بھول چکا ہوں تو آپ نے فرمايا کہ اگر تم جھوٹ کہتے ہو تو خدا تمہيں ايسے بر ص ميں مبتال کرے جسے عمامہ بھی نہ چھپا
سکے۔”
ابن ابی الحديد نے بھی اسی قول کی تائيد کی ہے اور سيد رضی کے تحرير کرده واقعہ کی ترديد کرتے ہوئے تحرير کيا ہے کہ: سيد رضی نے جس واقعہ کی طرف اشاره کيا ہے حضرت نے انس کو طلحہ و زبير کی طرف روانہ کيا تھا ايک غير معروف واقعہ ہے اگر حضرت نے اس کالم کی ياد دہانی کے ليے انہيں بھيجا ہوتا کہ جو پيغمبر نے ان دونوں کے بارے ميں فرمايا تھا تو يہ بعيد ہے کہ
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
وه پلٹ کر يہ کہيں کہ ميں بھول گيا تھا۔ کيونکہ جب وه حضرت سے الگ ہوکر روانہ ہوئے تھے تو اس وقت يہ اقرار کيا تھا کہ پيغمبر کا يہ ارشاد ميرے علم ميں ہے اور مجھے ياد ہے پھر کس طرح يہ ہوسکتا ہے کہ وه ايک گھﮍی يا ايک دن کے بعد يہ کہيں کہ ميں بھول گيا تھا ،اور اقرار کے بعد انکا ر کريں۔ يہ ايک نہ ہونے والی بات ہے۔)شرح ابن ابی الحديد ،جلد ،4صفحہ (388
312دل کبھی مائل ہوتے ہيں اور کبھی اچاٹ ہو جاتے ہيں۔ ل ٰہذا جب مائل ہوں ،اس وقت انہيں مستحبات کی بجا آوری پرآماده کرو۔ اور جب اچاٹ ہوں تو
پر
واجبات
کرو۔
اکتفا
313قرآن ميں تم سے پہلے کی خبر ميں تمہارے بعد کے واقعات اور تمہارے حاالت
درميانی
ليے
کے
ہيں۔
احکام
314جدھر سے پتھر آئے اسے ادھر ہی پلٹا دو کيونکہ سختی کا دفيعہ سختی ہی
315
سے
اپنے
منشی
ہوسکتا
عبيدﷲ
ابن
ابی
ہے۔
سے
رافع
فرمايا
:
دوات ميں صو ف ڈاال کر و ،اور قلم کی زبان النبی رکھا کرو۔ سطروں کے درميان فاصلہ زياده چھوڑا کرو اور حروف کو ساتھ مال کر لکھا کرو کہ يہ خط
کی
ديده
زيبی
کے
ليے
منا
سب
ہے۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
316ميں اہل ايمان کا يعسوب ہوں اور بدکرداروں کا يعسوب مال ہے۔ )سيد رضی فرماتے ہيں کہ (اس کا مطلب يہ ہے کہ ايمان والے ميری پيروی کرتے ہيں اور بدکردار مال و دولت کا اسی طرح اتباع کرتے ہيں جس طرح شہد کی مکھيا ں يعسوب کی اقتدا کرتی ہيں اور يعسوب اس مکھی کو کہتے ہيں جو ان کی سردار ہوتی ہے۔
317ايک يہودی نے آپ سے کہا کہ ابھی تم لوگوں نے اپنے نبی کودفن نہيں کيا تھا کہ ان کے بارے ميں اختالف شروع کرديا۔ حضرت نے فرمايا ہم نے ان کے بارے ميں اختال ف نہيں کيا۔ بلکہ ان کے بعد جانشينی کے سلسلہ ميں اختالف ہوا مگر تم تو وه ہوکہ ابھی دريائے نيل سے نکل کر تمہارے پير خشک بھی نہ ہوئے تھے کہ اپنے نبی سے کہنے لگے کہ ہمارے ليے بھی توموسی عليہ السّالم ايک ايسا خدا بنا ديجئے جيسے ان لوگوں کے خدا ہيں۔ ٰ نے کہا کہ بيشک تم ايک جاہل قوم ہو. اس يہودی کی نکتہ چينی کا مقصد يہ تھا کہ مسلمانوں کے باہمی اختالف کو پيش کر کے رسول اکرم صلی ﷲ عليہ وآلہ وسلم کی نبوت کو ايک اختالفی امر ثابت کرلے ،مگر حضرت نے يہ لفظ فيہ کے بجائے لفظ عنہ فرماکر اختالف کا مورد واضح کر ديا کہ وه اختالف رسول کی نبو ت کے بارے ميں نہ تھا بلکہ ان کی نيابت و جانشينی کے سلسلہ ميں تھا۔ اور پھر يہوديوں کی حالت پر تبصره کرتے ہوئے فرماتے ہيں کہ يہ لوگ جو آج پيغمبر کے بعد مسلمانوں کے باہمی اختالف پر نقدکر رہے ہيں خود ان کی حالت يہ تھی کہ حضرت موسی کی زندگی ہی ميں عقيده توحيد ميں متزلزل ہوگئے تھے چنانچہ جب وه اہل مصر کی غالمی سے چھٹکارا پاکر دريا کے پار اتر ٰ موسی سے کہنے لگے کہ ہمارے ليے بھی ايک ايسی مورتی بنا ے تو سينا کے بت خانہ ميں بچھﮍے کی ايک مورتی ديکھ کر حضرت ٰ سالم نے کہا کہ تم اب بھی ويسے ہی جاہل ہو ,جيسے مصر ميں تھے تو جس قوم ميں توحيد کی ديجئے۔ جس پر حضرت ٰ موسی عليہ ال ّ تعليم پانے کے بعد بھی بت پرستی کا جذبہ اتنا ہو کہ وه ايک بت کو ديکھ کر تﮍپنے لگے اور يہ چاہے کہ اس کے ليے بھی ايک بت
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
خانہ بنا ديا جائے اس کو مسلمانوں کے کسی اختالف پر تبصره کرنے کا کيا حق پہنچتا ہے۔
318حضرت سے کہا گيا کہ آپ کس وجہ سے اپنے حريفوں پرغالب آتے رہے ہيں تو آپ نے فرمايا کہ ميں جس شخص کا بھی مقابلہ کر تا تھا وه اپنے خالف ميری مدد کرتا تھا۔ )سيد رضی فرماتے ہيں کہ (حضرت نے اس امر کی طرف اشاره کيا ہے کہ آپ کی ہيبت دلو ں پر چھا جاتی تھی۔ جو شخص اپنے حريفوں سے مرعوب ہو جائے ،اس کا پسپا ہونا ضروری سا ہوجاتا ہے کيونکہ مقابلہ ميں صرف جسمانی طاقت کا ہونا ہی کافی نہيں ہوتا۔ بلکہ دل کا ٹھہراؤ اورحوصلہ کی مضبوطی بھی ضروری ہے۔ اور جب وه ہمت ہار دے گا اور يہ خيال دل ميں سالم کے حريف کی ہوتی تھی کہ و جما لے گا کہ مجھے مغلوب ہی ہونا ہے تو مغلوب ہو کر رہے گا۔ يہی صورت امير المومنين عليہ ال ّ ه ان کی مسلمہ شجاعت سے اس طرح متاثر ہوتا تھا کہ اسے موت کا يقين ہو جاتا تھا۔ جس کے نتيجہ ميں اس کی قوت معنوی و خود اعتمادی ختم ہوجاتی تھی اورآخر يہ ذہنی تاثر اسے موت کی راه پر ال کھﮍا کرتا تھا۔
319اپنے فرزند محمد ابن حنفيہ سے فرمايا ! اے فرزند ! ميں تمہارے ليے فقر و تنگدستی سے ڈرتا ہوں ل ٰہذا فقر و ناداری سے ﷲ کی پناه مانگو۔ کيونکہ يہ دين کے نقص ،عقل کی پريشانی اور لوگوں کی نفرت کا باعث ہے۔
320ايک شخص نے ايک مشکل مسئلہ آپ سے دريافت کيا ،تو آپ نے فرمايا۔ سمجھنے کے ليے پوچھو ،الجھنے کے ليے نہ پوچھو۔ کيونکہ وه جاہل جو سيکھنا چاہتا ہے مثل عالم کے ہے اور وه عالم جو الجھنا چاہتا ہے وه مثل جاہل
کے
ہے۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
321عبد ﷲ ابن عباس نے ايک امر ميں آپ کو مشوره ديا جو آپ کے نظر يہ کے خالف تھا۔ تو آپ نے ان سے فرمايا۔ تمہارا يہ کام ہے کہ مجھے رائے دو۔ اس کے بعد مجھے مصلحت ديکھنا ہے۔ اور اگر ميں تمہاری رائے کو نہ مانوں ،تو تمہيں ميری اطاعت الزم ہے۔ سالم کو يہ مشوره ديا تھا کہ طلحہ و زبير کو کوفہ کی حکومت کا پروانہ لکھ ديجئے اور عبدﷲ ابن عباس نے امير المومنين عليہ ال ّ معاويہ کو شام کی واليت پر برقرار رہنے ديجئے ،يہاں تک کہ آپ کے قد م مضبوطی سے جم جائيں اور حکومت کو استحکام حاصل ہوجائے جس کے جواب ميں حضرت نے فرمايا کہ ميں دوسروں کی دنيا کی خاطر اپنے دين کو خطره ميں نہيں ڈال سکتا لہٰ ذا تم اپنی بات منوانے کے بجائے ميری بات کو سنو اور ميری اطاعت کرو۔
322وارد ہوا ہے کہ جب حضرت صفين سے پلٹتے ہوئے کوفہ پہنچے تو قبيلہ شبام کی آبادی سے ہوکر گزرے۔ جہاں صفين کے کشتوں پر رونے کی آواز آپ کے کانوں ميں پﮍی اتنے ميں حرب ابن شرجيل شبامی جو اپنی قوم کے سربرآورده لوگوں ميں سے تھے ،حضرت کے پاس آئے تو آپ نے اس سے فرمايا ! کياتمہارا ان عورتوں پر بس نہيں چلتا جو ميں رونے کی آوازيں سن رہا ہوں اس رونے چالنے سے تم انہيں منع نہيں کرتے؟ حرب آگے بﮍھ کر حضرت کے ہمرکاب ہو ليے درآں حاليکہ حضرت سوار تھے تو آپ نے فرمايا ! پلٹ جاؤ تم۔ ايسے آدمی کا مجھ ايسے کے ساتھ پياده چلنا والی کے ليے
فتنہ
اور
مومن
کے
ليے
ذلت
ہے۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
323نہروان کے دن خوارج کے کشتوں کی طرف ہو کر گزرے تو فرمايا ! تمہارے ليے ہالکت و تباہی ہو جس نے تمہيں ورغاليا ،اس نے تمہيں فريب ديا۔ کہاگياکہ يا امير المومنين عليہ السّالم کس نے انہيں ورغاليا تھا؟فرمايا کہ گمراه کرنے والے شيطان اور برائی پر ابھارنے والے نفس نے کہ جس نے انہيں اميدوں کے فريب ميں ڈاال اور گناہوں کا راستہ ان کے ليے کھول ديا۔ فتح و کامرانی کے ان سے وعدے کئے اور اس طرح انہيں دوزخ ميں ديا۔
جھونک
324تنہائيوں ميں ﷲ تعالی کی مخالفت کرنے سے ڈرو۔ کيونکہ جو گواه ہے ٰ وہی
ہے.
حاکم
325جب آپ کو محمد ابن ابی بکر رحمتہ ﷲ عليہ کے شہيد ہونے کی خبر پہنچی توآپ نے فرمايا ہميں ان کے مر نے کا اتنا ہی رنج و قلق ہے جتنی دشمنوں کو اس کی خوشی ہے۔ بالشبہ ان کا ايک دشمن کم ہوا۔ اور ہم نے ايک
دوست
کھو
کو
ديا۔
تعالی آدمی کے عذر کو قبول نہيں کرتا، 326وه عمر کہ جس کے بعد ﷲ ٰ ساٹھ
برس
کی
ہے۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
327جس پر گناه قابو پا لے ،وه کامران نہيں اور شرکے ذريعہ غلبہ پانے واال حقيقتا ً
مغلوب
ہے۔
328خدا وند عالم نے دولتمندوں کے مال ميں فقيروں کا رزق مقرر کيا ہے ل ٰہذا اگر کوئی فقير بھوکا رہتا ہے تو اس ليے کہ دولت مند نے دولت کو سميٹ ليا ہے اور خدائے بزرگ و برتر ان سے اس کا مواخذه کرنے واال ہے۔
329سچاعذر پيش کرنے سے يہ زياده دقيع ہے کہ عذر کی ضرورت ہی نہ پﮍے۔ مطلب يہ ہے کہ انسان کو اپنے فرائض پر اس طرح کار بند ہونا چاہيے کہ اسے معذرت پيش کرنے کی نوبت ہی نہ آئے۔ کيونکہ معذرت ميں ايک گونہ کوتاہی کی جھلک اور ذلت کی نمود ہوتی ہے ،اگرچہ وه صحيح و درست ہی کيوں نہ ہو۔
330ﷲ کا کم سے کم حق جو تم پر عائد ہوتا ہے يہ ہے کہ اس کی نعمتوں سے گناہوں ميں مدد نہ لو. کفران نعمت وناسپاسی کے چنددرجے ہيں۔ پہال درجہ يہ ہے کہ انسان نعمت ہی کی تشخيص نہ کرسکے ،جيسے آنکھوں کی روشنی، زبان کی گويائی ،کانوں کی شنوائی اور ہاتھ پيروں کی حرکت کو سن ﷲ کی بخشی ہوئی نعمتيں ہيں۔ مگر بہت سے لوگوں کو ان کے نعمت ہونے کا احساس ہی نہيں ہوتا کہ ان ميں شکر گزاری کا جذبہ پيدا ہو .دوسرا درجہ يہ ہے کہ نعمت کو ديکھے اور سمجھے۔ مگر اس کے مقابلہ ميں شکر بجا نہ الئے .تيسرادرجہ يہ ہے کہ نعمت بخشنے والے کی مخالفت و نافرمانی کرے۔ چوتھا درجہ يہ ہے کہ
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
اسی کی دی ہوئی نعمتوں کو اطاعت و بندگی ميں صرف کر نے کے بجائے اس کی معصيت و نافرمانی ميں صرف کرے يہ کفران نعمت کا سب سے بﮍا درجہ ہے۔
اقوال امام علی )عليہ السالم (از نہج البالغہ ِ اقوال ٣٣١تا ٣۶٠ 331جب کاہل اور ناکاره افراد عمل ميں کوتاہی کرتے ہيں تو ﷲ کی طرف سے يہ عقلمند وں کے ليے ادائے فرض کا ايک بہترين موقع ہوتا ہے۔
332
حکام
ﷲ
کی
سر
زمين
ميں
اس
کے
پاسبان
ہيں۔
333مومن کے متعلق فرمايا! مومن کے چہرے پر بشاشت اور دل ميں غم و اندوه ہوتا ہے۔ ہمت اس کی بلند ہے اور اپنے دل ميں وه اپنے کو ذليل سمجھتا ہے سر بلندی کو برا سمجھتا ہے اور شہرت سے نفرت کرتا ہے اس کا غم بے پاياں اور ہمت بلند ہوتی ہے۔ بہت خاموش ہمہ وقت مشغو ل ،شاکر ،صابر، فکر ميں غرق ,دست طلب بﮍھانے ميں بخيل ،خوش خلق اور نرم طبيعت ہوتا ہے اور اس کا نفس پتھر سے زياده سخت اور خود غالم سے زياده متواضع ہوتا
ہے۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
334اگر کوئی بنده مدت حيات اور اس کے انجا م کو ديکھے تو اميدوں اور ان
کے
فريب
سے
نفرت
کرنے
لگے۔
335ہر شخص کے مال ميں دو حصہ دار ہوتے ہيں۔ ايک وارث اور دوسرے حوادث.
336جس سے مانگا جائے وه اس وقت تک آزاد ہے ،جب تک وعده نہ کرے۔
337جو عمل نہيں کرتا اور دعا مانگتا ہے وه ايسا ہے جيسے بغير حليہ کمان کے
تير
چالنے
واال.
338علم دو طرح کا ہوتا ہے ،ايک وه جو نفس ميں بس جائے اور ايک وه جو صرف سن ليا گياہو اور سناسنايا فائده نہيں ديتا جب تک وه دل ميں راسخ نہ ہو۔
ت رائے اقبال و دولت سے وابستہ ہے اگر يہ ہے تو وه بھی ہوتی 339اصاب ِ ہے اور اگر يہ نہيں تو وه بھی نہيں ہوتی. جب کسی کا بخت ياور اور اقبال اوج و عروج پر ہوتا ہے تو اس کے قدم خود بخود منزل مقصود کی طر ف بﮍھنے لگتے ہيں۔ اور ذہن و فکر کو صحيح طريق کار کے طے کرنے ميں کوئی الجھن نہيں ہوتی اور جس کا اقبال ختم ہونے پر آتا ہے وه روشنی ميں بھی
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
ٹھوکريں کھاتا ہے اور ذہن وفکر کی قوتيں معطل ہوکر ره جاتی ہيں۔ چنانچہ جب بنی برمک کا زوال شروع ہوا تو ان ميں سے دس آدمی ايک امر ميں مشوره کرنے کے ليے جمع ہوگئے مگر پوری رد و کد کے بعد بھی کسی صحيح نتيجہ تک نہ پہنچ سکے۔ يہ ديکھ يحيی نے کہا کہ خدا کی قسم يہ ہمارے زوال کا پيش خيمہ اور ہمارے ادبار کی عالمت ہے کہ ہم دس آدمی بھی کوئی فيصلہ نہ کر کر ٰ سکيں۔ ورنہ جب ہمارا نير و اقبال بام عروج پر تھا تو ہمارا ايک آدمی ايسی دس دس گتھيوں کو بﮍی آسانی سے سلجھا ليتا تھا۔
340فقر کی زينت پاکدامنی اور تونگری کی زينت شکر ہے۔
341ظالم کے ليے انصاف کا دن اس سے زياده سخت ہوگا ،جتنا مظلوم پر ظلم
دن۔
کا
342سب سے بﮍی دولت مندی يہ ہے کہ دوسروں کے ہاتھ ميں جو ہے اس کی
آس
نہ
رکھی
جائے۔
343گفتگوئيں محفوظ ہيں اور دلوں کے بھيد جانچے جانے والے ہيں۔ ہر شخص اپنے اعمال کے ہاتھوں ميں گروی ہے اور لوگوں کے جسموں ميں نقص اور عقلوں ميں فتور آنے واال ہے مگر وه کہ جسے ﷲ بچائے رکھے۔ ان ميں پوچھنے واال الجھانا چاہتا ہے اور جواب دينے واال )بے جانے بوجھے جواب کی(زحمت اٹھاتا ہے جو ان ميں درست رائے رکھتا ہے۔ اکثر خوشنودی و ناراضگی کے تصورات اسے صحيح رائے سے موڑ ديتے ہيں اور جو ان ميں عقل کے لحاظ سے پختہ ہوتا ہے بہت ممکن ہے کہ ايک نگا ه اس کے دل Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
پر
اثر
کردے
اور
ايک
کلمہ
اس
ميں
انقالب
پيدا
کردے۔
344اے گروه مردم! ﷲ سے ڈرتے رہو کيونکہ کتنے ہی ايسی باتوں کی اميد باندھنے والے ہيں جن تک پہنچتے نہيں اور ايسے گھر تعمير کرنے والے ہيں جن ميں رہنا نصيب نہيں ہوتا اور ايسا مال جمع کرنے والے ہيں جسے چھوڑجاتے ہيں حاالنکہ ہوسکتا ہے کہ اسے غلط طريقہ سے جمع کيا ہو يا کسی کا حق دبا کر حاصل کيا ہو۔ اس طرح اسے بطور حرام پايا ہو اور اس کی وجہ سے گناه کا بوجھ اٹھايا ہو ،تو اس کا وبال لے کر پلٹے اور اپنے پروردگار کے حضور رنج و افسوس کرتے ہوئے جا پہنچے دنيا و آخرت دونوں
ميں
گھاٹا
اٹھايا۔
يہی
تو
کھلم
کھال
گھاٹا
ہے۔
345گناه تک رسائی کا نہ ہوتا بھی ايک صورت پاکدامنی کی ہے۔
346تمہاری آبرو قائم ہے جسے دست سوال دراز کرنا بہا ديتا ہے۔ ل ٰہذا يہ خيال رہے کہ کس کے آگے اپنی آبرو ريزی کر رہے ہو۔
347کسی کو اس کے حق سے زياده سراہنا چاپلوسی ہے اور حق ميں کمی کرنا
کوتاه
بيانی
ہے
يا
حسد.
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
348سب سے بھاری گناه وه ہے کہ جس کا ارتکاب کرنے واال اسے سبک سمجھے۔ چھوٹے گناہوں ميں بے باکی و بے اعتنائی کا نتيجہ يہ ہوتا ہے کہ انسان گناه کے معاملہ ميں بے پرواه سا ہوجاتا ہے اور رفتہ رفتہ يہ عادات اسے بﮍے بﮍے گناہوں کی جرات دال ديتی ہے اور پھر وه بغير کسی جھجک کے ان کا مرتکب ہونے لگتا ہے۔ لہٰ ذا چھوٹے گناہوں کو بﮍے گناہوں کا پيش خيمہ سمجھتے ہوئے ان سے احتراز کر نا چاہيے تاکہ بﮍے گناہوں کے مرتکب ہونے کی نوبت ہی نہ آئے۔
349جو شخص اپنے عيوب پر نظر رکھے گا وه دوسروں کی عيب جوئی سے باز رہے گا۔ اور جو ﷲ کے ديئے ہوئے رزق پر خوش رہے گا ،وه نہ ملنے والی چيز پر رنجيده نہيں ہو گا۔ جو ظلم کی تلوار کھينچتا ہے وه اسی سے قتل ہوتا ہے جو اہم امور کو زبردستی انجام دينا چاہتا ہے۔ وه تباه و بر باد ہوتا ہے ،جو اٹھتی ہوئی موجوں ميں پھاندتا ہے ،وه ڈوبتا ہے ،جو بدنامی کی جگہوں پر جائے گا ،وه بدنام ہوگا ،جو زياده بولے گا ،وه زياده لغزشيں کرے ٰ ٰ تقوی کم ہوگا تقوی کم ہوگا اور جس ميں گا اور جس ميں حيا کم ہو اس ميں اس کا دل مرده ہوجائے گا۔ اور جس کا دل مرده ہوگيا وه دوزخ ميں جا پﮍا۔ جو شخص لوگوں کے عيوب کو ديکھ کر نا ک بھول چﮍھائے اور پھر انہيں اپنے ليے چاہے اور سرا سرا حمق ہے قناعت ايسا سرمايہ ہے جو ختم نہيں ہوتا۔ جو موت کو زياده ياد رکھتا ہے وه تھوڑی سی دنيا پر بھی خوش ہو رہتا ہے۔ جو شخص يہ جانتا ہے کہ اس کاقول بھی عمل کا ايک جز ہے ،وه مطلب کی Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
کے
بات
کالم
عالوه
کرتا۔
نہيں
350لوگوں ميں جو ظالم ہو اس کی تين عالمتيں ہيں :وه ظلم کرتا ہے اپنے سے باال ہستی کی خالف ورزی سے ،اور اپنے سے پست لوگوں پر قہر و سے
تسلط
اور
ظالموں
کمک
کی
و
امداد
کرتا
ہے۔
351جب سختی انتہا کوپہنچ جائے تو کشائش و فراخی ہوگی اور جب ابتالء ومصيبت کی کﮍياں تنگ ہوجائيں تو راحت و آسائش حاصل ہوتی ہے۔
352اپنے اصحاب ميں سے ايک سے فرمايا زن و فرزند کی زياده فکر ميں نہ رہو ،اس ليے کہ اگر وه دوستان خدا ہيں تو خدا اپنے دوستوں کو برباد نہ ہونے دے گا اور اگر دشمنان خدا ہيں تو تمہيں دشمنان خدا کی فکروں اور دھندوں
پﮍنے
ميں
مطلب
سے
کيا۔
ہی
353سب سے بﮍا عيب يہ ہے کہ اس عيب کو بر ا کہو ،جس کے مانند خود تمہارے اندر موجود ہے۔ اس سے بﮍھ کر اور عيب کيا ہوسکتا ہے کہ انسان دوسروں کے ان عيوب پر نکتہ چينی کرے جو خود اس کے اندر بھی پائے جاتے ہوں ،تقاضائے عدل تو يہ ہے کہ وه دوسروں کے عيوب پر نظر کرنے سے پہلے اپنے عيوب پر نظرکرے اور سوچے کہ عيب ،عيب ہے
وه
دوسرے
کے
اند
ر
پايا
جائے
يا
اپنے
اندر
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
ہمہ عيب خلق ديدن نہ مروت است و مروی نگہے بخويشين کن کہ ہمہ گنا ه داری
354حضرت کے سامنے ايک نے دوسرے شخص کو فرزند کے پيد ا ہونے پر مبارکباد ديتے ہوئے کہا کہ «شہسوار مبارک ہو».جس پر حضرت نے فرمايا کہ يہ نہ کہو کہ تم بخشنے والے )خدا( کے شکر گزار ہوئے يہ بخشی ہوئی نعمت تمہيں مبارک ہو ،يہ اپنے کمال کو پہنچے اور اس کی نيکی و تمہيں
سعادت
ہو۔
نصيب
355حضرت کے عمال ميں سے ايک شخص نے ايک بلند عمار ت تعمير کی جس پر آپ نے فرمايا۔ چاندی کے سکوں نے سر نکاال ہے۔ بالشبہ يہ عمار ت تمہاری
ثروت
کی
غمازی
کرتی
ہے.
356حضرت سے کہا گيا کہ اگر کسی شخص کو گھر ميں چھوڑ کر اس کا دروازه بند کرديا جائے تو اس کی روزی کدھر سے آئے گی؟ فرمايا: جدھر سے اس کی موت آئے گی۔ اگر خداوند عالم کی مصلحت اس امر کی مقتضی ہو کہ وه کسی ايسے شخص کو زنده رکھے جسے کسی بند جگہ ميں محصور کردياگيا ہو ،تو وه اس ليے سروسامان زندگی مہيا کرکے اسے زنده رکھنے پر قادر ہے اور جس طرح بند دروازے موت کو نہيں روک سکتے، اسی طرح رزق سے بھی مانع نہيں ہوسکتے۔ کيونکہ اس قادر مطلق کی قدرت دونوں پر يکساں کار فرما ہے.
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
مقصد يہ ہے کہ انسان کو رزق کے معاملہ ميں قانع ہونا چاہيے کيونکہ جو اس کے مقدر ميں ہے وه جہا ں کہيں بھی ہوگا ،اسے بہر صورت
گا
ملے
می رسد در خانہ در بستہ روزی چوں اجل حرص داردايں چنيں آشفتہ خاطر خلق را
357حضرت نے ايک جماعت کو ان کے مرنے والے کی تعزيت کرتے ہوئے فرمايا کہ «موت کی ابتداء تم سے نہيں ہوئی ہے اور نہ اس کی انتہا تم پر ہے يہ تمہارا ساتھی مصروف سفر رہتا تھا۔ اب بھی يہی سمجھو کہ وه اپنے کسی سفرميں ہے اگر وه آگيا تو بہتر ،ورنہ تم خود اس کے پاس پہنچ جاؤگے»۔
358اے لوگو! چاہيے کہ ﷲ تم کو نعمت و آسائش کے موقع پر بھی اسی طرح خائف و ترساں ديکھے جس طرح تمہيں عذاب سے ہراساں ديکھتا ہے۔ بيشک جسے فراخ دستی حاصل ہو ،اور وه اسے کم کم عذاب کی طرف بﮍھنے کا سبب نہ سمجھے تو اس نے خوفناک چيز سے اپنے کو مطمئن سمجھ ليا اور جو تنگدست ہو اور وه اسے آزمائش نہ سمجھے تو اس نے اس ثواب کو ضائع کرديا۔
کہ
جس
کی
اميد
وآرزو
کی
جاتی
ہے.
359اے حرص و طمع کے اسيرو! باز آؤ کيونکہ دنيا پر ٹوٹنے والوں کو حوادث
زمانہ
کے
دانت
پيسنے
ہی
کا
انديشہ
کرنا
چاہيے۔
اے لوگو! خود ہی اپنی اصالح کا ذمہ لو ,اور اپنی عادتوں کے تقاضوں سے Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
موڑلو۔
منہ
360کسی کے منہ سے نکلنے والی بات ميں اگر اچھائی کاپہلو نکل سکتا ہو، تو اس کے بارے ميں بدگمانی نہ کرو۔
اقوال امام علی )عليہ السالم (از نہج البالغہ ِ اقوال ٣۶١تا ٣٩٠ تعالی سے کوئی حاجت طلب کرو ،تو پہلے رسول ﷲ صلی ﷲ 361جب ﷲ ٰ عليہ وآلہ وسلم پر درود بھيجو ،پھر اپنی حاجت مانگو ،کيونکہ خداوند عالم اس سے بلند تر ہے کہ اس سے دوحاجتيں طلب کی جائيں اور وه ايک پوری اور
کردے
ايک
لے۔
روک
362جسے اپنی آبرو عزيز ہو ،وه لﮍائی جھگﮍے سے کناره کش رہے۔
363امکان پيداہونے سے پہلے کسی کام ميں جلد بازی کرنا اور موقع آنے پر دير
کرنا
دونوں
حماقت
ميں
داخل
ہيں۔
364جو بات نہ ہونے والی ہو اس کے متعلق سوال نہ کرو۔ اس ليے کہ جو Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
ہے،
وہی
ليے
تمہارے
ہے۔
کافی
365فکر ايک روشن آئينہ ہے ،عبر ت اندوزی ايک خير خواه متنبہ کرنے والی چيز ہے ،نفس کی اصالح کے ليے يہی کافی ہے کہ جن چيزوں کو دوسروں
کے
ليے
برا
سمجھتے
ہو
ان
سے
بچ
کر
رہو۔
366علم عمل سے وابستہ ہے۔ ل ٰہذا جو جانتا ہے وه عمل بھی کرتا ہے اور علم عمل کو پکارتا ہے۔ اگروه لبيک کہتا ہے تو بہتر ،ورنہ وه بھی اس سے رخصت
ہوجاتا
ہے۔
367اے لوگو! دنيا کا سازوسامان سوکھا سﮍا بھوسا ہے جو وبا پيد ا کرنے واالہے۔ ل ٰہذ ا اس چراگاه سے دور رہو کہ جس سے چل چالؤ باطمينان منزل کرنے سے زياده فائده مند ہے اورصرف بقدر کفاف لے لينا اس دولت و ثروت سے زياده برکت واال ہے اس کے دولت مندوں کے ليے فقر طے ہوچکا ہے اور اس سے بے نياز رہنے والوں کو راحت کا سہارا ديا گيا ہے۔ جس کو اس کی سج دھج لبھا ليتی ہے ،وه انجام کار اس کی دونوں آنکھوں کو اندھا کرديتی ہے اور جو اس کی چاہت کو اپنا شعار بنا ليتا ہے وه اس کے دل کو ايسے غموں سے بھر ديتی ہے جو دل کی گہرائيوں ميں تالطم برپا کر تے ہيں يوں کہ کبھی کوئی فکر اسے گھيرے رہتی ہے ،اور کبھی کوئی انديشہ اسے Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
رنجيده بنائے رہتا ہے۔ وه اسی حالت ميں ہوتا ہے کہ اس کا گالگھوٹاجانے لگتا ہے اور وه بيابان ميں ڈال ديا جاتا ہے اس عالم ميں کہ اس کے دل کی دونوں رگيں ٹوٹ چکی ہوتی ہيں۔ ﷲ کو اس کا فنا کرنا سہل اور اس کے بھائی بندوں کا اسے قبر ميں اتارنا آسان ہوجاتا ہے.مومن دنيا کو عبرت کی نگاه سے ديکھتاہے اور اس سے اتنی ہی غذا حاصل کرتا ہے۔ جتنی پيٹ کی ضرورت مجبور کرتی ہے اور اس کے بارے ميں ہر بات کو بغض و عناد کے کانوں سے سنتا ہے اگر کسی کے متعلق يہ کہا جاتا ہے کہ وه مال دار ہو گيا ہے تو پھر يہ بھی کہنے ميں آتا ہے کہ نادار ہو گيا ہے اگر زندگی پر خوشی کی جاتی ہے تو مرنے پرغم بھی ہوتا ہے۔ يہ حالت ہے حاالنکہ ابھی وه دن نہيں آيا
کہ
جس
ميں
پوری
مايوسی
چھا
جائے
گی۔
368ﷲ سبحانہ نے اپنی اطاعت پرثواب اور اپنی معصيت پر سزا اس ليے رکھی ہے کہ اپنے بندوں کوعذاب سے دور کرے اور جنت کی طرف گھيرکرلے
جائے.
369لوگوں پر ايک ايسا دور آئے گا جب ان ميں صرف قرآن کے نقوش اور اسالم کا صر ف نام باقی ره جائے گا ،اس وقت مسجديں تعمير و زينت کے لحا ظ سے آباد اور ہدايت کے اعتبار سے ويران ہوں گی۔ ان ميں ٹھہرنے والے اور انہيں آباد کرنے والے تمام اہل زمين ميں سب سے بدتر ہوں گے ،وه Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
فتنوں کا سرچشمہ اور گناہوں کا مرکز ہو ں گے جو ان فتنوں سے منہ موڑ ے گا ،انہيں انہی فتنوں کی طرف پلٹائيں گے اور جوقدم پيچھے ہٹائے گا ،انہيں دھکيل کر ان کی طرف الئيں گے۔ ارشاد الہی ہے کہ «مجھے اپنی ذات کی قسم ميں ان لوگوں پر ايسا فتنہ نازل کروں گا جس ميں حليم و بردبار کو حيران
سر
و
چھوڑ
گردان
دوں
گا
».
چنانچہ وه ايسا ہی کرے گا ،ہم ﷲ سے غفلت کی ٹھوکروں سے عفو کے ہيں۔
خواستگار
370جب بھی آپ منبر پر رونق افروز ہوتے تو ايسا اتفاق کم ہوتا تھا کہ خطبہ سے
پہلے
يہ
کلما
ت
نہ
فرمائيں۔
اے لوگو! ﷲ سے ڈرو,کيونکہ کوئی شخص بے کار پيدا نہيں کياگيا کہ وه کھيل کود ميں پﮍ جائے ،اور نہ اسے بے قيد و بند چھوڑ ديا گيا ہےکہ بيہودگيا ں کرنے لگے اور دنيا جو اس کے ليے آراستہ و پيراستہ ہے اس آخرت کا عوض نہيں ہوسکتی جس کو اس کی غلط نگاه نے بری صورت ميں پيش کيا ہے وه فريب خورده جو اپنی بلند ہمتی سے دنيا حاصل کرنے ميں کامياب ہو اس دوسرے شخص کے مانند نہيں ہوسکتا جس نے تھوڑا بہت آخرت کا حصہ حاصل
کرليا
ہو۔
ٰ تقوی سے زياده با وقار 371کوئی شرف اسالم سے بلند تر نہيں کوئی بزرگی Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
نہيں ،کوئی پناه گاه پرہيز گاری سے بہتر نہيں ،کوئی سفارش کرنے واال توبہ سے بﮍھ کر کامياب نہيں ،کوئی خزانہ قناعت سے زياده بے نياز کرنے واال نہيں کوئی مال بقدر کفاف پر رضا مند رہنے سے بﮍھ کرفقر و احتياج کا دور کرنے واال نہيں۔ جوشخص قدر حاجت پر اکتفا کرليتا ہے وه آسائش و راحت پاليتا ہے۔ اورآرام و آسودگی ميں منزل بنا ليتا ہے۔ خواہش و رغبت ،رنج و تکليف کی کليد اور مشقت و اندو ه کی سوار ی ہے.حرص تکبر اور حسد گناہوں ميں پھاند پﮍنے کے محرکا ت ہيں اور بدکرداری تمام برے عيوب کو حاوی
ہے۔
372جابر ابن عبدﷲ انصار ی سے فرمايا اے جابر! چارقسم کے آدميوں سے دين و دنيا کا قيام ہے عالم جو اپنے علم کو کام ميں التا ہو,جاہل جو علم کے حاصل کرنے ميں عار نہ کرتا ہو,سخی جو داد و دہش ميں بخل نہ کرتا ہو، اور فقير جو آخرت کو دنيا کے عوض نہ بيچتا ہو۔ تو جب عالم اپنے علم کو برباد کرے گا ،توجاہل اس کے سيکھنے ميں عار سمجھے گا اور جب دولت مند نيکی و احسان ميں بخل کرے گا تو فقير اپنی آخرت دنيا کے بدلے بيچ ڈالے
گا۔
اے جابر ! جس پرﷲ کی نعمتيں زياده ہوں گی لوگوں کی حاجتيں بھی اس کے دامن سے زياده وابستہ ہوں گی ل ٰہذا جوشخص ان نعمتوں پرعائد ہونے والے حقوق کو ﷲ کی خاطر ادا کرے گا ،وه ان کے ليے دوام و ہميشگی کا سامان Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
کرے گا اور جو ان واجب حقوق کے ادا کرنے کے ليے کھﮍا نہيں ہو گا وه انہيں
فنا
و
بربادی
کی
زد
پر
لے
آئے
گا۔
ليلی فقيہ سے 373ابن جرير طبری نے اپنی تاريخ ميں عبدالرحمٰ ن ابن ابی ٰ روايت کی ہے اور يہ ان لوگوں ميں سے تھے جو ابن اشعث کے ساتھ حجا ج سے لﮍنے کے ليے نکلے تھے کہ وه لوگوں کو جہاد پر ابھارنے کے ليے کہتے تھے کہ جب اہل شام سے لﮍنے کے ليے بﮍھے تو ميں نے علی عليہ السالم
کو
فرماتے
سنا۔
اے اہل ايمان ! جو شخص ديکھے کہ ظلم و عدوان پر عمل ہو رہا ہے اور برائی کی طرف دعوت دی جارہی ہے اور وه دل سے اسے برا سمجھے ،تو وه )عذاب سے (محفوظ اور )گناه سے( بری ہو گيا ،اور جوزبان سے اسے برا کہے وه ماجور ہے صرف دل سے بر اسمجھنے والے سے افضل ہے اور جو شخص شمشير بکف ہو کر اس برائی کے خالف کھﮍا ہوتا کہ ﷲ کا بول باال ہو ،اور ظالموں کی بات گر جائے تو يہی وه شخص ہے جس نے ہدايت کی راه کو پاليا اور سيدھے راستے پر ہوليا اور اس کے دل ميں يقين نے روشنی پھيال
دی۔
374اسی انداز پرحضرت کا ايک يہ کالم ہے لوگوں ميں سے ايک وه ہے جو برائی کو ہاتھ ،زبان اور دل سے برا سمجھتا ہے۔ چنانچہ اس نے اچھی Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
خصلتوں کو پورے طور پر حاصل کر ليا ہے اور ايک وه ہے جو زبان اور دل سے براسمجھتا ہے ليکن ہاتھ سے اسے نہيں مٹاتا تو اس نے اچھی خصلتوں ميں سے دوخصلتوں سے ربط رکھا اور ايک خصلت کو رائيگاں کر ديا اور ايک وه ہے جو دل سے بر ا سمجھتا ہے ليکن اسے مٹانے کے ليے ہاتھ اور زبان کسی سے کام نہيں ليتا اس نے تين خصلتوں ميں سے دوعمده خصلتوں کو ضائع کرديا ،اور صرف ايک سے وابستہ رہا اور ايک وه ہے جو نہ زبان سے ،نہ ہاتھ سے اور نہ دل سے برائی کی روک تھام کرتا ہے ،يہ زندوں
ميں
)چلتی
پھرتی
ہوئی
(الش
ہے۔
اعمال خير اور جہاد فی سبيل ﷲ ،امر تمہيں معلوم ہونا چاہيے کہ تمام ِ بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مقابلہ ميں ايسے ہيں ،جيسے گہرے دريا ميں لعاب دہن کے ريزے ہوں يہ نيکی کا حکم دينا اور برائی سے روکنا ايسا نہيں ہے کہ اس کی وجہ سے موت قبل از وقت آجائے ،يا رزق معين ميں کمی ہوجائے اور ان سب سے بہتر وه حق بات ہے جو کسی جابر حکمرا ن کے سامنے
جائے۔
کہی
375ابو حجيفہ سے روايت ہے کہ انہوں نے امير المومنين عليہ السّالم کو فرماتے
سنا
کہ
!
پہال جہاد کہ جس سے تم مغلوب ہو جاؤگے ،ہاتھ کا جہاد ہے۔ پھر زبان کا، پھر دل کا جس نے د ل سے بھالئی کو اچھائی اور برائی کو بر ا نہ سمجھا، Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
اسے الٹ پلٹ کر ديا جائے گا۔ اس طرح کہ اوپر کا حصہ نيچے اور نيچے کا اوپر
حصہ
کرديا
گا۔
جائے
376حق گراں ،مگر خوش گوار ہوتا ہے اور باطل ہلکا,مگر وبا پيداکرنے واال ہے۔
ہوتا
377اس امت کے بہترين شخص کے بارے ميں بھی ﷲ کے عذاب سے بالکل مطمئن نہ ہو جاؤ.کيونکہ ﷲ سبحانہ کا ارشاد ہے کہ «گھاٹا اٹھانے والے لوگ ہی ﷲ کے عذاب سے مطمئن ہوبيٹھے ہيں ».اور اس امت کے بدترين آدمی کے بارے ميں بھی ﷲ کی رحمت سے مايوس نہ ہو جاؤ کيونکہ ارشاد الہی ہے کہ «خداکی رحمت سے کافروں کے عالوه کوئی اورنااميد نہيں ہوتا ».
378بخل تمام برے عيوب کا مجموعہ ہے اور ايسی مہار ہے جس سے ہربرائی
کی
طرف
کھنچ
کر
جاياجا
سکتا
ہے۔
379رزق دو طرح کا ہوتا ہے۔ ايک وه جس کی تال ش ميں تم ہو ،اور ايک وه جوتمہاری جستجو ميں ہے۔ اگر تم اس تک نہ پہنچ سکو گے ،تو وه تم تک پہنچ کررہے گا۔ ل ٰہذ ا اپنے ايک دن کی فکر پر سال بھر کی فکريں نہ الدو۔ جو ہر دن کارزق ہے وه تمہارے ليے کافی ہے ،تو ﷲ ہر نئے دن جو روزی Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
اس نے تمہارے ليے مقرر کر رکھی ہے وه تمہيں دے گا اور تمہاری عمر کا کوئی سال باقی نہيں ہے تمہيں معلوم ہونا چاہيے کہ کوئی طلبگارتمہارے رزق کی طرف تم سے آگے بﮍھ نہيں سکتا اور نہ کوئی غلبہ پانے واال اس ميں تم پر غالب آسکتا ہے اور جو تمہارے ليے مقدر ہوچکا ہے اس کے ملنے ميں کبھی تاخير نہ ہوگی. )سيد رضی فرماتے ہيں کہ( يہ کالم اسی باب ميں پہلے بھی درج ہوچکا ہے۔ مگر يہاں کچھ زياده وضاحت و تشريح کے ساتھ تھا,اس ليے ہم نے اس کا اعاده کيا ہے اس قاعده کی بناء پر جو کتا ب کے ديباچہ ميں گزر چکا ہے۔
380بہت سے لوگ ايسے دن کا سامنا کرتے ہيں جس سے انہيں پيٹھ پھرانا نہيں ہوتا۔ اور بہت سے ايسے ہوتے ہيں کہ رات کے پہلے حصہ ميں ان پر رشک کيا جاتا ہے اورآخر ی حصہ ميں ان پر رونے واليوں کا کہرام بپاہوتا ہے.
381کالم تمہارے قيد وبند ميں ہے جب تک تم نے اسے کہا نہيں ہے اور جب کہہ ديا ،تو تم اس کی قيد و بند ميں ہو۔ ل ٰہذا اپنی زبان کی اسی طرح حفاظت کرو جس طرح اپنے سونے چاندی کی کرتے ہو کيونکہ بعض باتيں ايسی ہوتی ہيں جو کسی بﮍی نعمت کو چھين ليتی اور مصيبت کو نازل کرديتی ہيں۔
382جو نہيں جانتے اسے نہ کہو ،بلکہ جوجانتے ہو ،وه بھی سب کاسب نہ Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
کہو۔ کيونکہ ﷲ سبحانہ نے تمہارے تمام اعضا پر کچھ فرائض عائد کئے ہيں جن
ذريعہ
کے
قيامت
کے
دن
پر
تم
حجت
الئے
گا۔
383اس بات سے ڈرتے رہو کہ ﷲ تمہيں اپنی معصيت کے وقت موجود اور اپنی اطاعت کے وقت غير حاضر پائے تو تمہارا شمار گھاٹا اٹھانے والوں ميں ہو گا.جب قوی ودانا ثابت ہونا ہو تو ﷲ کی اطاعت پر اپنی قو ت دکھاؤاور کمزور
بننا
ہو
تواس
کی
سے
معصيت
کمزوری
دکھاؤ.
384دنيا کی حالت ديکھتے ہوئے اس کی طرف جھکنا جہالت ہے اور حسن عمل کے ثواب کا يقين رکھتے ہوئے اس ميں کوتاہی کرنا گھاٹا اٹھانا ہے۔ اور پرکھے بغير ہر ايک پر بھروسا کرلينا عجز و کمزور ی ہے۔
385ﷲ کے نزديک دنيا کی حقارت کے ليے يہی بہت ہے کہ ﷲ کی معصيت ہوتی ہے تو اس ميں اور اس کے يہاں کی نعمتيں حاصل ہوتی ہيں تو اسے سے۔
چھوڑنے
386جو شخص کسی چيز کو طلب کرے تو اسے يا اس کے بعض حصہ کو پالے
گا۔
)جونيده
يا
بنده
(
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
387وه بھالئی بھالئی نہيں جس کے بعد دوزخ کی آگ ہو۔ اور وه برائی برائی نہيں جس کے بعد جنت ہو۔ جنت کے سامنے ہر نعمت حقير ،اور دوزخ کے مقابلہ
ہر
ميں
راحت
مصيبت
ہے۔
388اس بات کو جانے رہو کہ فقر و فاقہ ايک مصيبت ہے ،اور فقر سے زياده سخت جسمانی امراض ہيں اور جسمانی امراض سے زياده سخت دل کا روگ ہے۔ ياد رکھو کہ مال کی فراوانی ايک نعمت ہے اور مال کی فراوانی سے بہتر صحت بدن ہے ،اور صحت بد ن سے بہتر دل کی پرہيز گاری ہے۔
389جسے عمل پيچھے ہٹائے ،اسے نسب آگے نہيں بﮍھا سکتا )ايک دوسری روايت ميں اس طرح ہے (جسے ذاتی شرف و منزلت حاصل نہ ہو اسے آباؤ اجداد
کی
منزلت
کچھ
فائده
نہيں
پہنچا
سکتی۔
390مومن کے اوقات تين ساعتوں پر منقسم ہوتے ہيں ايک وه کہ جس ميں اپنے پروردگار سے رازو نياز کی باتيں کرتا ہے۔ اور ايک وه جس ميں اپنے معاش کا سروسامان کرتا ہے اور وه کہ جس ميں حالل و پاکيزه لذتوں ميں اپنے نفس کو آزاد چھوڑ ديتا ہے۔ عقلمند آدمی کو زيب نہيں ديتا کہ وه گھر سے دور ہو ،مگر تين چيزوں کے ليے «معاش»کے بندوبست کے ليے يا امر آخرت کی طرف قدم اٹھانے کے ليے يا ايسی لذت اندوزی کے ليے کہ جو Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
حرام نہ ہو.
اقوال امام علی )عليہ السالم (از نہج البالغہ ِ اقوال ٣٩١تا ۴٢٠ 391دنيا سے بے تعلق رہو ,تاکہ ﷲ تم ميں دنيا کی برائيوں کا احساس پيدا کرے .اور غافل نہ ہو اس ليے کہ تمہاری طرف سے غافل نہيں ہوا جائے گا .
392بات کرو ,تاکہ پہچانے جاؤکيونکہ آدمی اپنی زبا ن کے نيچے پوشيده ہے .
393جو دنيا سے تمہيں حاصل ہوا اسے لے لو اور جو چيز رخ پھير لے اس سے منہ موڑ ے رہو .اور اگر ايسا نہ کر سکو تو پھر تحصيل و طلب ميں ميانہ
اختيار
روی
.
کرو
394بہت سے کلمے حملہ سے زياده اثر ونفوذ رکھتے ہيں .
395جس
چيز
پر
قناعت
کر
لی
جائے
و
ه
کافی
ہے
.
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
396موت ہو اور ذلت نہ ہو .کم ملے اور دوسروں کو وسيلہ بنانا نہ ہو ,جسے بيٹھے بٹھائے نہيں ملتا اسے اٹھنے سے بھی کچھ حاصل نہيں ہوگا زمانہ دو2 دنوں پر منقسم ہے ايک دن تمہارے موافق اور ايک تمہارے مخالف .جب موافق ہوتو اتراؤ نہيں .اور جب مخالف ہو تو صبر کرو .
397بہترين خوشبو مشک ہے جس کا ظرف ہلکا اورمہک عطر بار ہے .
398فخر و سر بلندی کو چھوڑ دو ,تکبر و غرو ر کو مٹاؤ اور قبر کو ياد رکھو
.
399ايک حق فرزند کا باپ پر ہوتا ہے اور ايک حق باپ کا فرزند پر ہوتا ہے .باپ کا فرزند پر يہ حق ہے کہ وه سوائے ﷲ کی معصيت کے ہر با ت ميں اس کی اطاعت کرے اور فرزند کا باپ پر يہ حق ہے کہ اس کا نام اچھا تجويز کرے ,اچھے اخالق و آداب سے آراستہ کرے اور قرآن کی اسے تعليم دے .
400چشم بد ,افسوس ,سحر اورفال نيک ان سب ميں واقعيت ہے .البتہ فال بد اور ايک بيماری کا دوسرے کو لگ جانا غلط ہے .خوشبو سونگھنا ,شہد کھانا,سواری کرنا اور سبزے پر نظرکرنا غم و اندوه اور قلق و اضطراب کو دور کرتا ہے . Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
طيره کے معنی فال بد اور تفا ل کے معنی فال نيک کے ہوتے ہيں .شرعی لحاظ سے کسی چيز سے برا شگون لينا کوئی حقيقت نہيں رکھتا اور يہ صرف توہمات کا کر شمہ ہے اس بد شگوفی کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ کيومرث کےبيٹوں نے رات کے پہلے حصہ ميں مرغ کی اذان سنی اور اتفاق سے اسی رات کو کيومرث کا انتقال ہوگيا جس سے انہيں يہ تو ہم ہو ا کہ مرغ کا بے وقت اذان دينا کسی خبر غم کا پيش خيمہ ہوتاہے چنانچہ انہوں نے اس مرغ کو ذبح کر ديا ,اور بعد ميں مختلف حادثوں کا مختلف چيزوں سے خصوصی تعلق
قائم
کرلياگيا.
البتہ فال نيک لينے ميں کوئی مضائقہ نہيں .چنانچہ جب ہجرت پيغمبر کے بعد قريش نے يہ اعالن کيا کہ جو آنحضرت کو گرفتار کرے گا ,تو اسے سو اونٹ انعام ميں ديئے جائيں گے تو ابو بريده اسلمی اپنے قبيلہ کے ستر آدميوں کے ہمراه آپ کے تعاقب ميں روانہ ہوا . اور جب ايک منزل پرآمنا سامنا ہوا توآنحضرت نے پوچھا تم کون ہو اس نے کہا کہ بريده ابن خصيب۔ حضرت نے يہ نام سنا تو فرمايا برادمرنا ہمار امعاملہ خوشگوار ہوگيا .پھر پوچھا کہ کس قبيلہ سے ہو ؟اس نے کہا کہ اسلم سے .تو فرمايا کہ سلمنا ہم نے سالمتی پائی .پھر دريافت کيا کہ کس شاخ سے ہواس نے کہا کہ بنی سہم سے .تو فرمايا کہ خرج سھمک تمہارا تير نکل گيا .بريده اس انداز سے گفتگو اور حسن گفتار سے بہت متاثر ہوا .اور پوچھا کہ آپ کون ہيں فرمايا کہ مح ّمد ابن عبدﷲ يہ سن کر بے ساختہ اس کی زبان سے نکال .اشھد انّک رسول ﷲ )صلی ﷲ عليہ وآلہ وسلم (اور قريش کے انعام سے دستبردار ہوکر دولت ايمان سے ماال مال ہوگيا .
401لوگوں سے ان کے اخالق و اطوار ميں ہمرنگ ہونا ان کے شر سے محفوظ
ہوجاناہے
.
402ايک ہم کالم ہونے والے سے کہ جس نے اپنی حيثيت سے بﮍھ کر ايک بات کہی تھی ,فرمايا تم پر نکلتے ہی اڑنے لگے اور جوان ہونے سے پہلے بلبالنے لگے .
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
)سيد رضی فرماتے ہيں کہ (اس فقره ميں شکير سے مراد وه پر ہيں جوپہلے پہل نکلتے ہيں اور ابھی مضبوط و مستحکم نہيں ہونے پاتے ,اور سقب اونٹ کے بچے کوکہتے ہيں اور وه اس وقت بلبالتاہے .جب جوان ہوتا ہے.
403جو شخص مختلف چيز وں کا طلب گار ہوتا ہے اس کی ساری تدبيريں ناکا
م
ہوجاتی
ہيں
«.طلب
الکل
فوت
الکل
».
404حضرت سے الحول وال قوة اال با )قوت وتوانائی نہيں مگر ﷲ کے سبب سے (کے معنی دريافت کئے گئے تو آپ نے فرمايا کہ ہم خدا کے ساتھ کسی چيز کے مالک نہيں اس نے جن چيزوں کا ہميں مالک بنايا ہے بس ہم انہيں پر اختيار رکھتے ہيں .تو جب اس نے ہميں ايسی چيز کا مالک بنا يا جس پر وه ہم سے زياد ه اختيا ر رکھتا ہے تو ہم پر شرعی ذمہ دارياں عائد کيں .اور جب اس چيز کو واپس لے گا تو ہم سے اس ذمہ داری کو بھی بر طرف کردے گا . مطلب يہ ہے کہ انسان کو کسی شے پر مستقالً تملک و اختيار حاصل نہيں بلکہ يہ حق ملکيت و قوت تصرف قدرت کا بخشا ہوا ايک عطيہ ہے اور جب تک يہ تملک و اختيار باقی رہتا ہے .تکليف شرعی بر قرار رہتی ہے اور اسے سلب کرليا جاتا ہے تو تکليف بھی برطرف ہوجاتی ہے .کيونکہ ايسی صورت ميں تکليف کا عائد کرنا تکليف مااليطاق ہے جو کسی حکيم و دانا کی طرف سے عائد نہيں ہوسکتی .چنانچہ ﷲ سبحانہنے اعضا و جوارح ميں اعمال کے بجاالنے کی قوت و ديعت فرمانے کے بعد ان سے تکليف متعلق کی .لہٰ ذاجب تک يہ قوت باقی رہے گی ان سے تکليف کا تعلق رہے گا .اور اس قوت کے سلب کرلينے کے بعد تکليف بھی برطرف ہوجائے زکوة کا فريضہ اسی وقت عائد ہوتا ہے جب دولت ہو ,اور جب دولت چھين لے گا .تو اس کے نتيجہ ميں ٰ گی ,جيسے ٰ زکوة کا وجوب بھی ساقط کر دے گا .کيونکہ ايسی صور ت ميں تکليف کا عائد کرنا عقالًقبيح ہے .
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
405عمار بن ياسر کو جب مغير ه ابن شعبہ سے سوال وجواب کرتے سنا تو ان سے فرمايا !اے عمار اسے چھوڑ دو اس نے دين سے بس وه ليا ہے جو اسے دنيا سے قريب کر ے اور اس نے جان بوجھ کراپنے کو اشتباه ميں ڈال رکھا ہے تاکہ ان شبہات کو اپنی لغزشوں کے ليے بہانہ قرار دے سکے .
406ﷲ کے يہاں اجر کے ليے دولتمندوں کا فقيروں سے عجز و انکساری برتنا کتنا اچھا ہے اور اس سے اچھا فقرا کا ﷲ پر بھروسہ کرتے ہوئے دولتمندوں
مقابلہ
کے
غرور
ميں
پيش
سے
ہے
آنا
.
407ﷲ نے کسی شخص کو عقل وديعت نہيں کی ہے مگر يہ کہ وه کسی دن اس
کے
408جو
حق
ذريعہ
سے
409دل
آنکھوں
ٰ 410 تقوی
تمام
سے
اسے
ٹکرائے
تباہی
گا,حق
اسے
کا
خصلتوں
سے
دے
گا
.
پچھاڑ
صحيفہ
کا
بچائے
گا
.
سرتاج
ہے
ہے
.
.
411جس ذات نے تمہيں بولنا سکھايا ہے اسی کے خالف اپنی زبان کی تيزی Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
صرف نہ کرو .اور جس نے تمہيں راه پر لگا يا ہے اس کے مقابلہ ميں کا
فصاحت ُگفتار
نہ
مظاہره
.
کرو
412تمہارے نفس کی آراستگی کے ليے يہی کافی ہے کہ جس چيز کو اوروں کے ليے ناپسند کرتے ہو ,اس سے خود بھی پرہيز کرو .
413جو انمردوں کی طرح صبر کرے ,نہيں تو ساده لوحوں کی طرح بھو ل بھال
چپ
کر
.
ہوگا
414ايک دوسری روايت ميں ہے کہ آپ نے اشعث ابن قيس کو تعزيت ديتے ہوئے فرمايا :اگر بزرگوں کی طرح تم نے صبر کيا تو خير !ورنہ چوپاؤں کی طرح
دن
ايک
415دنيا
بھول
کے
جاؤگے
متعلق
.
فرمايا!
دنيا دھوکے باز ,نقصان رساں اور رواں دواں ہے .ﷲ نے اپنے دوستوں کے ليے اسے بطور ثواب پسند نہيں کيا ,اور نہ دشمنوں کے ليے اسے بطور سزا پسند کيا.اہل دنيا سواروں کے مانند ہيں کہ ابھی انہوں نے منزل کی ہی تھی کہ ہنکانے
والے
نے
انہيں
للکارا
,اور
چل
ديئے
.
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
416اپنے فرزند حسن عليہ السالم سے فرمايا :اے فرزند دنيا کی کوئی چيز اپنے پيچھے نہ چھوڑ و .اس ليے کہ تم دو 2ميں سے ايک کے ليے چھوڑ و گے .ايک وه جو اس مال کو خدا کی اطاعت ميں صرف کرے گا تو جو مال تمہارے ليے بدبختی کا سبب بنا وه اس کے ليے راحت وآرام کا باعث ہوگا.ياوه ہوگا جو اسے خدا کی معصيت ميں صرف کرے ,تو وه تمہارے جمع کر ده مال کی وجہ سے بد بخت ہوگا اور اس صورت ميں تم خدا کی معصيت ميناس کے معين و مدد گار ہوگے ,اور ان دونوں ميں سے ايک شخص بھی ايسا نہيں کہ اسے اپنے نفس پر ترجيح دو . سيد رضی فرماتے ہيں کہ يہ کال م ايک دوسری صورت ميں بھی روايت کيا گيا ہے جو يہ ہے جو مال تمہارے ہاتھ ميں ہے تم سے پہلے اس کے مالک دوسرے تھے .اور يہ تمہاربعد دوسروں کی طرف پلٹ جائے گا اور تم ميں سے دو ميں سے ايک کے ليے جمع کرنے والے ہو .ايک وه جو تمہارے جمع کئے ہوئے مال کو خد اکی اطاعت ميں صرف کرے گا .تو جو مال تمہارے ليے بدبختيکا سبب ہوا وه اس کے ليے سعادت و نيک بختی کا سبب ہوگا وه جو اس مال سے ﷲ کی معصيت کرے تو جو تم نے اس کے ليے جمع کيا وه تمہارے ليے بد بختيکا سبب ہوگا اور ان دونوں ميں سے ايک بھی اس قابل نہيں کہ اسے اپنی پشت کو گرانبار کرو ,جو گزر گيا اس کے ليے ﷲ کی رحمت اور جو باقی ره گيا ہے اس کے ليے رزق الہی کے اميدوارر ہو .
417ايک کہنے والے نے آپ کے سامنے استغفرﷲ کہا.تو آپ نے اس سے فرمايا
.
تمہاری ماں تمہارا سوگ منائے کچھ معلوم بھی ہے کہ استغفار کياہے ؟استغفار بلند منزلت لوگوں کامقام ہے اور يہ ايک ايسا لفظ ہے جو چھ باتوں Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
پر حاوی ہے .پہلے کہ جو ہوچکااس پر نادم ہو ,دوسرے ہميشہ کے ليے اس کے مرتکب نہ ہونے کاتہيا کرنا ,تيسرے يہ کہ مخلوق کے حقوق ادا کرنا يہاں تک کہ ﷲ کے حضور ميں اس حالت ميں پہنچو کہ تمہارا دامن پاک و صاف اورتم پر کوئی مواخذه نہ ہو.چوتھے يہ کہ جو فرائض تم پر عائد کئے ہوئے تھے ,اور تم نے انہيں ضائع کردياتھا .انہيں اب پورے طور پر بجاالؤ .پانچويں يہ کہ جو گوشت )کل (حرام سے نشونما پاتا رہا ہے ,اس کو غم و اندوه سے پگھالؤيہاں تک کے کھال کو ہڈيوں سے مالدو کہ پھرسے ان دونوں کے درميان نيا گوشت پيدا ہو,چھٹے يہ کہ اپنے جسم کو اطاعت کے رنج سے آشنا کرو .جس طرح اسے گناه کی شيرينی سے لذت اندوز کيا ہے .تو
418حلم
اب
و
کہو
تحمل
ايک
«استغفرﷲ
پورا
قبيلہ
».
ہے
.
4196بيچاره آدمی کتنا بے بس ہے موت اس سے نہاں ,بيمارياں اس سے پوشيده اور اس کے اعمال محفوظ ہيں .مچھر کے کاٹنے سے چيخ اٹھتاہے ,اچھو لگنے سے مرجاتا ہے اور پسينہ اس ميں بدبو پيدا کر ديتا ہے .
420وارد ہوا ہے کہ حضرت اپنے اصحاب کے درميان بيٹھے ہوئے تھے ,کہ ان کے سامنے سے ايک حسين عورت کا گزر ہوا جسے انہوں نے ديکھنا Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
شروع
جس
کيا
پر
حضرت
نے
فرمايا:
ان مردوں کی آنکھيں تاکنے والی ہيں اور يہ نظر باز ی ان کی خواہشات کو برانگيختہ کرنے کاسبب ہے ل ٰہذا تم ميں سے کسی کی نظر ايسی عورت پر پﮍے کہ جو اسے اچھی معلوم ہوتو اسے اپنی زوجہ کی طرف متوجہ ہونا چاہيے کيونکہ يہ عورت بھی اس عورت کے مانند ہے .يہ سن کر ايک خارجی نے کہا کہ خدااس کافرکو قتل کر ے يہ کتنا برا فقيہ ہے .يہ سن کر لوگ اسے قتل کرنے اٹھے.حضرت نے فرمايا کہ ٹھہرو !زياده سے زياده گالی کا بدلہ گالی ہوسکتا ہے ,يااس کے گناه ہی سے درگزر کرو .
اقوال امام علی )عليہ السالم (از نہج البالغہ ِ اقوال ۴٢١تا ۴۵٠ 421اتنی عقل تمہارے ليے کافی ہے کہ جو گمراہی کی راہوں کو ہدايت کے راستوں
سے
الگ
کر
کے
تمہيں
دکھا
دے۔
422اچھے کا م کر و اور تھوڑی سی بھالئی کو بھی حقير نہ سمجھو۔ کيونکہ چھوٹی سی نيکی بھی بﮍی اور تھوڑی سی بھالئی بھی بہت ہے۔ تم ميں سے کوئی شخص يہ نہ کہے کہ اچھے کام کے کرنے ميں کوئی دوسرا مجھ سے زياده سزاوار ہے۔ ورنہ خدا کی قسم ايسا ہی ہوکر رہے گا۔ کچھ نيکی والے Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
ہوتے ہيں اور کچھ برائی والے۔ جب تم نيکی يا بدی کسی ايک کو چھوڑ دو گے ،تو تمہارے بجائے اس کے اہل اسے انجام دے کر رہيں گے
423جو اپنے اندرونی حاالت کو درست رکھتا ہے خدا اس کے ظاہر کو بھی درست کر ديتا ہے۔ اور جو دين کے ليے سرگرم عمل ہوتا ہے ،ﷲ اس کے دنيا کے کاموں کو پوراکر ديتا ہے اور جو اپنے اور ﷲ کے درميان خوش معاملگی رکھتا ہے۔ خدا اس کے اور بندوں کے درميان کے معامالت ٹھيک ہے.
کرديتا
424حلم وتحمل ڈھانکنے واال پرده اور عقل کاٹنے والی تلوار ہے۔ ل ٰہذا اپنے اخالق کے کمزور پہلو کو حلم وبردباری سے چھپاؤ ,اور اپنی عقل سے خواہش
نفسانی
کا
مقابلہ
کرو۔
425بندوں کی منفعت رسائی کے ليے ﷲ کچھ بندگان خدا کو نعمتوں سے مخصوص کرليتا ہے۔ ل ٰہذا جب تک وه ديتے دالتے رہتے ہيں ،ﷲ ان نعمتوں کو ان کے ہاتھوں ميں برقرار رکھتا ہے اور جب ان نعمتوں کو روک ليتے ہيں تو ﷲ ان سے چھين کر دوسروں کی طرف منتقل کرديتا ہے۔
426کسی بندے کے ليے مناسب نہيں کہ وه دو چيزوں پر بھروسا کرے۔ ايک Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
صحت اور دوسرے دولت کيونکہ ابھی تم کسی کو تندرست ديکھ رہے تھے، کہ وه ديکھتے ہی ديکھتے بيمار پﮍجاتاہے ،اور ابھی تم اسے دولتمند ديکھ رہے
کہ
تھے
و
فقير
ہوجاتاہے۔
نادار
427جو شخص اپنی حاجت کا گلہ کسی مرد مومن سے کرتا ہے۔ گويا اس نے ﷲ کے سامنے اپنی شکايت پيش کی۔ اور جو کافر کے سامنے گلہ کرتا ہے گويا
428ايک
نے
اس
عيد
اپنے
ﷲ
کی
شکايت
کی۔
کے
موقع
پر
فرمايا
:
عيد صرف اس کے ليے ہے جس کے روزوں کو ﷲ نے قبول کيا ہو ،اور اس کے قيام )نماز (کو قدر کی نگاه سے ديکھتاہو ،اور ہروه دن کہ جس ميں ﷲ کی معصيت نہ کی جائے عيد کا دن ہے. اگر حس و ضمير زنده ہوتو گناه کی تکليف ده ياد سے اطمينا ن قلب جاتا رہتا ہے۔ کيونکہ طمانيت و مسرت اسی وقت حاصل ہوتی ہے جب روح گناه کے بوجھ سے ہلکی اور دامن معصيت کی آالئش سے پاک ہو اور سچی خوشی زمانہ اور وقت کی پابند نہيں ہوتی بلکہ انسان جس دن چاہے گناه سے بچ کر اس مسرت سے کيف اندوز ہوسکتا ہے اور يہی مسرت حقيقی مسرت اور عيد کا پيغام ہوگی۔
ہر شب شب قدر است اگر قدر بدانی!
429قيامت کے دن سب سے بﮍی حسرت اس شخص کی ہوگی جس نے ﷲ Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
کی نافرمانی کرکے مال حاصل کياہو ،اور اس کا وارث وه شخص ہوا ہو جس نے اسے ﷲ کی اطاعت ميں صرف کيا ہو کہ يہ تو اس مال کی وجہ سے جنت ميں داخل ہوا ،اور پہال اس کی وجہ سے جہنم ميں گيا.
430لين دين ميں سب سے زياده گھاٹا اٹھا نے واال اور دوڑ دھوپ ميں سب سے زياده ناکام ہونے واال وه شخص ہے جس نے مال کی طلب ميں اپنے بدن کو بوسيده کر ڈاال ہو۔ مگر تقدير نے اس کے ارادوں ميں اس کا ساتھ نہ ديا ہو۔ ل ٰہذا وه دنيا سے بھی حسرت ليے ہوئے گيا اور آخرت ميں بھی اس کی پاداش کيا۔
کاسامنا
431رزق دو طرح کا ہوتا ہے ايک وه جو خود ڈھونڈتا ہے اور ايک وه جسے ڈھونڈا جاتا ہے چنانچہ جو دنيا کا طلبگار ہوتا ہے ،موت اس کو ڈھونڈتی ہے۔ يہاں تک کہ دنيا سے اسے نکال باہر کرتی ہے اور جو شخص آخرت کاخواستگار ہوتا ہے ،دنيا خود اسے تالش کرتی ہے يہاں تک کہ وه اس سے تمام
و
کمال
اپنی
روزی
حاصل
کر
ليتا
ہے.
432دوستان خدا وه ہيں کہ جب لوگ دنيا کے ظاہر کو ديکھتے ہيں تو وه اس کے باطن پر نظر کرتے ہيں اور جب لوگ اس کی جلد ميسر آجانے والی نعمتوں ميں کھو جاتے ہيں ،تو وه آخرت ميں حاصل ہونے چيزوں ميں منہمک Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
رہتے ہيں اور جن چيزوں کے متعلق انہيں يہ کھٹکا تھا کہ وه انہيں تباه کريں گی ،انہيں تباه کرکے رکھ ديا اور جن چيزوں کے متعلق انہوں نے جان ليا کہ وه انہيں چھوڑ دينے والی ہيں انہيں انہوں نے خود چھوڑ ديا اور دوسروں کے دنيا زياده سميٹنے کوکم خيال کيا ،اور اسے حاصل کرنے کو کھو نے کے برابر جانا۔ وه ان چيزوں کے دشمن ہيں جن سے دوسروں کی دوستی ہے اور ان چيزوں کے دوست ہيں جن سے اوروں کو دشمنی ہے ان کے ذريعہ سے قرآن کا علم حاصل ہوا قرآن کے ذريعہ سے ا ن کا علم ہوا اور ان کے ذريعہ سے کتاب خدا محفوظ اور وه اس کے ذريعہ سے برقرار رہيں۔ وه جس چيز کی اميد رکھتے ہيں اس سے کسی چيز کو بلند نہيں سمجھتے اور جس چيز سے خائف ہيں اس سے زياده کسی شے کو خوفناک نہيں جانتے.
433لذتوں کے ختم ہونے اور پاداشوں کے باقی رہنے کو ياد رکھو۔
434آز ماؤ تاکہ اس سے نفرت کرو۔ سيد رضی فرماتے ہيں کہ کچھ لوگوں نے اس فقرے کی جناب رسالت مآب سے روايت کی ہے ،مگر اس کے کالم اميرالمومنين عليہ سالم ہونے کے مويدات ميں سے ہے وه جسے ثعلب نے بيان کيا ہے۔ وه کہتے ہيں کہ مجھ سے ابن اعرابی نے بيان کيا کہ ماموں ال ّ نے کہاکہ اگر حضرت علی عليہ السالم نے يہ نہ کہا ہوتا کہ «آزماؤ تاکہ اس سے نفرت کرو ».تو ميں يوں کہتا کہ دشمنی کرواس سے تاکہ آزماؤ.
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
435ايسا نہيں کہ ﷲ کسی بندے کے ليے شکر کا دروازه کھولے اور )نعمتوں کی( افزائش کا دروازه بند کر دے اور کسی بندے کے ليے دعا کا دروازه کھولے اور درقبوليت کو اس کے ليے بند رکھے اور کسی بندے کے ليے تو بہ کا دروازه کھولے اور مغفرت کا دروازه اس کے ليے بندکردے۔
436لوگوں ميں سب سے زياده کرم و بخشش کا وه اہل ہے جس کا رشتہ اشراف
سے
ملتا
ہو۔
437آپ سے دريافت کيا گيا کہ عدل بہتر ہے يا سخاوت؟ فرمايا عدل تمام امور کو ان کے موقع و محل پر رکھتا ہے ،اور سخاوت ان کو ان کی حدوں سے باہر کرديتی ہے عدل سب کی نگہداشت کر تا ہے ،اور سخاوت اسی سے مخصوص ہوگی۔ جسے ديا جائے۔ ل ٰہذا عدل سخاوت سے بہتر و برتر ہے۔
438لوگ جس چيز کونہيں جانتے اس کے دشمن ہوجاتے ہيں۔
)439زہد کی مکمل تعريف قرآ ن کے دو جملوں ميں ہے ( ارشاد الہی ہے۔ جو چيز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے اس پر رنج و نہ کرو ،اور جو چيز خدا تمہيں دے اس پر اتراؤ نہيں ل ٰہذا جو شخص جانے والی چيز پر افسوس نہيں کرتا اور آنے والی چيز پر اتراتا نہيں ،اس نے زہد کو دونوں سمتوں سے Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
ليا۔
سميٹ
440نيند دن کی مہموں ميں بﮍ ی کمزوری پيدا کر نے والی ہے۔
441حکومت
لوگوں
ليے
کے
آزمائش
کا
ميدان
ہے.
442تمہارے ليے ايک شہر دوسرے شہر سے زياده حقدار نہيں )بلکہ (بہتر ين شہر
وه
ہے
جو
تمہارا
بوجھ
اٹھائے۔
443جب مالک اشتر رحمتہ ﷲ کی خبر شہادت آئی ،تو فرمايا: مالک! اور مالک کيا شخص تھا۔ خدا کی قسم اگر وه پہاڑ ہوتا تو ايک کوه بلند ہوتا ،اور اگر وه پتھر ہوتا تو ايک سنگ گراں ہوتا کہ نہ تو اس کی بلنديوں تک کوئی سم پہنچ سکتا اور نہ کوئی پرنده وہاں تک پر مار سکتا۔ سيد رضی کہتے ہيں کہ فنداس پہاڑ کو کہتے ہيں ،جو دوسرے پہاڑوں سے الگ ہو.
444وه تھوڑا عمل جس ميں ہميشگی ہو اس سے زياده ہے ،جو دل تنگی کا باعث
ہو.
445اگر کسی آدمی ميں عمده و پاکيزه خصلت ہو تو ويسی ہی دوسری Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
خصلتوں کے متوقع رہو۔ انسان ميں جو بھی اچھی يا بری خصلت پائی جاتی ہے ،وه اس کی افتاده و طبيعت کی وجہ سے وجود ميں آتی ہے اور اگر طبيعت ايک خصلت کی مقتضی ہے ،تو اس خصلت سے ملتے جلتے ہوئے دوسرے خصائل کی بھی مقتضی ہوگی۔ اس ليے کہ طبيعت کے تقاضے دونوں جگہ پر يکساں کار فرما ہوتے ہيں ،چنانچہ ايک شخص اگر ٰ زکوة و خمس ادا کرتا ہے ،تواس کے معنی يہ ہيں کہ اس کی طبيعت ممسک و بخيل نہيں۔ لہٰ ذا اس سے يہ توقع بھی کی جاسکتی ہے کہ وه دوسرے امور خير ميں بھی خرچ کرنے سے دريغ نہيں کرے گا۔ اسی طرح اگر کوئی جھوٹ بولتا ہے تو اس سے يہ اميد بھی کی جاسکتی ہے ،کہ وه غيبت بھی کرے گا۔ کيونکہ يہ دونوں عادتيں ايک دوسرے سے ملتی جلتی ہيں۔
446فرزوق کے باپ غالب ابن صعصعہ سے باہمی گفتگو کے دوران فرمايا: وه تمہارے بہت سے اونٹ کيا ہوئے؟ کہا کہ حقوق کی ادائيگی نے انہيں منتشر کرديا۔ فرمايا کہ :يہ تو ان کا انتہائی اچھا مصرف ہوا۔
447جو شخص احکام فقہ کے جانے بغير تجارت کرے گا ،وه ربا ميں مبتال گا۔
ہوجائے
448جو شخص ذرا سی مصيبت کو بﮍی اہميت ديتا ہے۔ ﷲ اسے بﮍی مصيبتوں
ميں
مبتال
کرديتا
ہے۔
449جس کی نظر ميں خود اپنے نفس کی عزت ہوگی وه اپنی نفسانی خواہشوں Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
کو
وقعت
بے
سمجھے
گا۔
450کوئی شخص کسی دفعہ ہنسی مذاق نہيں کرتا مگر يہ کہ وه اپنی عقل کا ايک حصہ اپنے سے الگ کر ديتا ہے۔
اقوال امام علی )عليہ السالم (از نہج البالغہ ِ اقوال ۴۵١تا ۴٨٠ 451جو تمہاری طر ف جھکے اس سے بے اعتنائی برتنا اپنے خط ونصيب ميں خساره کرنا ہے ،اور جوتم سے بے رخی اختيار کرے ،اس کی طرف جھکنا
نفس
کی
ذلت
ہے۔
452اصل فقر و غنا )قيامت ميں (ﷲ کے سامنے پيش ہونے کے بعد ہوگا۔
453زبير ہميشہ ہمارے گھر کا آدمی رہا يہاں تک کہ اس کا بدبخت بيٹا عبدﷲ نمودار
ہوا۔
454فرزند آدم کو فخر ومباہات سے کيا ربط ،جب کہ اس کی ابتدائ نطفہ اور انتہا مردار ہے ،وه نہ اپنے ليے روز ی کاسامان کر سکتا ہے ،نہ موت کو Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
اپنے سے ہٹا سکتا ہے۔ اگر انسان اپنی تخليق کی ابتدائی صورت اور جسمانی شکست و ريخت کے بعد کی حالت کا تصور کرے ،تو وه فخر وغرور کے بجائے اپنی حقارت و پستی کا اعتراف کر نے پر مجبور ہوگا۔ کيونکہ وه ديکھے گا کہ ايک وقت تھا ،کہ صفحہ ہستی پر ا س کا نام ونشان بھی نہ تھا کہ خدا وند عالم نے نطفہ کے ايک حقير قطره سے اس کے وجود کی بنياد رکھی جو شکم مادر ميں ايک لوتھﮍے کی صورت ميں رونما ہوا۔ اور غليظ خون سے پلتا اور نشونما پاتا رہا اور جب جسمانی تکميل کے بعد زمين پر قدم رکھا تو اتنا بے بس اور الچار کہ نہ بھوک پياس پر اختيار ،نہ مرض و صحت پر قابو ،نہ نفع نقصان ہاتھ ميں ،اور نہ موت و حيات بس ميں ،نہ معلوم کب ہاتھ پيروں کی حرکت جواب دے جائے حس و شعور کی قوتيں ساتھ چھوڑ جائيں ،آنکھوں کا نور چھن جائے اور کانوں کی سماعت سلب ہوجائے، او رکب موت روح کوجسم سے الگ کرے,اور اسے گلنے سﮍنے کے ليے چھوڑجائے ،تاکہ چيل ،گدھيں اسے نوچيں ،ياقبر ميں اسے کھائيں۔
کيﮍے
مابال من اولہ نطفۃ وجيفۃ ٰاخر ه يفخر ;
455حضر ت سے پوچھا گيا کہ سب سے بﮍا شاعر کون ہے ؟فرمايا کہ شعرا کی دوڑ ايک روش پر نہ تھی کہ گوئی سبقت لے جانے سے ان کی آخری حد کو پہچانا جائے ،اور اگر ايک کو ترجيح دينا ہی ہے تو پھر ملک ضليل )گمراه بادشاه(ہے۔ مطلب يہ ہے کہ شعراء ميں موازنہ اسی صورت ميں ہوسکتا ہے ،جب ان کے توسن فکر ايک ہی ميدان سخن ميں جوالنياں دکھائيں اور جب کہ ايک روش دوسرے کی روش سے جدا اور ايک کا اسلوب کالم دوسر ے اسلوب کالم سے مختلف ہے ،تو يہ فيصلہ کرنا بہت مشکل ہے کہ کو ن ميدان ہار گيا اور کون سبقت لے گيا۔ چنانچہ مختلف اعتبارات سے ايک دوسرے پر ترجيح دی جاتی ہے ،اور اگر
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
کوئی کسی لحاظ سے اور کوئی کسی لحاظ سے شعرا سمجھا جاتا رہا ہے جيسا کہ مشہور مقولہ ہے کہ : عرب کا سب سے بﮍا شاعر امرئالقيس ہے جب وه سوار ہوا اور اعشی جب وه کسی چيز کا خواہشمند ہواور نابغہ جب اسے خو ف و ہو.
ہراس
ليکن اس تقييد کے باوجود امراء القيس حسن تخييل و لطف ومحا کات اور ان چھوتی تشبيہات اور نادر استعارات کے لحاظ سے طبقہ اولی کے شعراء ميں سب سے اونچی سطح پر سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ اس کے اکثر اشعا ر عام معيار اخالق سے گرئے ہوئے اور ٰ فحش مضامين پر مشتمل ہيں ،مگر اس فحش نگار ی کے باوجود اس کی فنی عظمت سے انکار نہيں کيا جاسکتا۔ اس ليے کہ فن کار صرف فنی زاويہ نگار سے شعر کے حسن و قبيح کو ديکھتا ہے اور دوسری حيثيات کو جوفن ميں دخيل نہيں ہوتيں ،نظر انداز کرديتا ہے۔ بہرحال امر اء القيس عرب کانامور شاعر تھا ،اور اس کا باپ حجر کندی سالطين کنده کے آخری فرد اورصاحب علم و سپاه تھا اور بنی تغلب کے مشہور شاعر وسخن ران کليباور مہلہل اس کے ماموں ہوتے تھے اس ليے فطری رجحان کے عالوه يہ اپنے ننھيال کی طرف سے بھی شعر وسخن کا ورثہ دار تھا اور سرزمين نجد کی آزاد فضا اور عيش و تغم کے گہوارے ميں تربيت پانے کی وجہ سے شوره پستی و سرمستی اس کے ضمير ميں رچ بس گئی تھی۔ چنانچہ حسن وعشق اور نغمہء و شعر کی کيف آور فضاؤں ميں پوری طرح کھو گيا۔ باپ نے باز رکھنا چاہا ،مگراس کا کوئی نصيحت کار گر نہ ہوئی۔ آخر اس نے مجبو ر ہوکر اسے الگ کرديا الگ ہونے کے بعد اس کے ليے کوئی روک ٹوک نہ تھی۔ پوری طرح عيش و عشرت دينے پر اتر آيا۔ اور جب اپنے باپ کے مارے جانے کی اسے خبر ہوئی تواس کے قصاص کے ليے کمر بستہ ہو ا او رمختلف قبيلوں کے چکر لگائے تاکہ ان سے مدد حاصل کرے اور جب کہيں سے امداد حاصل نہ ہوئی ،تو قيصر روم کے ہاں جاپہنچا اور اس سے مدد کا طالب ہوا۔ بيان کيا جاتا ہے کہ وہاں بھی اس نے ايک ناشائستہ حرکت کی جس سے قيصر روم نے اسے ٹھکانے لگانے کے ليے ايک زہرآلوده پيراہن ديا۔ جس کے پہنتے ہی زہر کا اثر اس کے جسم ميں سرايت کر گيا اور اسی زہر کے نتيجہ ميں اس کی موت واقع ہوئی اور نقره ميں دفن ہوا۔
456کيا کوئی جوانمرد ہے جو اس چبائے ہوئے لقمہ )دنيا( کو اس کے اہل Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
کے ليے چھوڑدے تمہارے نفسوں کی قيمت صرف جنت ہے۔ ل ٰہذاجنت کے عالوه
ر
او
کسی
قيمت
پر
انہيں
نہ
بيچو.
457دو ايسے خواہشمند ہيں جو سير نہيں ہوتے طالب علم اور طلبگار دنيا۔
458ايمان کی عالمت يہ ہے کہ جہاں تمہارے ليے سچائی باعث نقصان ہو، اسے جھو ٹ پر ترجيح دو,خواه وه تمہارے فائده کا باعث ہو رہا ہو ،اور تمہاری باتيں ،تمہارے عمل سے زياده نہ ہوں اور دوسرے کے متعلق بات کرنے
ميں
ﷲ
کا
خوف
کرتے
رہو۔
459تقدير ٹھہرائے ہوئے انداز ے پر غالب آجاتی ہے۔ يہاں تک کہ چاره سازی ہی تباہی و آفت بن جاتی ہے۔ سيد رضی فرماتے ہيں کہ يہ مطلب اس سے مختلف لفظوں ميں پہلے بھی گزر چکا ہے.
460برد باری اور صبردونوں کا ہميشہ ہميشہ کا ساتھ ہے اور يہ دونوں بلند ہمتی
کا
نتيجہ
ہيں۔
461کمزور کا يہی زور چلتا ہے کہ وه پيٹھ پيچھے برائی کرے۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
462بہت سے لوگ اس وجہ سے فتنہ ميں مبتال ہوجاتے ہيں کہ ان کے بارے اچھے
ميں
کا
خياالت
کياجاتاہے۔
اظہار
463دنيا ايک دوسری منزل کے ليے پيدا کی گئی ہے نہ اپنے )بقاودوام کے( ليے۔
464بنی اميہ کے ليے ايک مرودارواد )مہلت کا ميدان (ہے جس ميں وه دوڑ لگا رہے ہيں جب ان ميں باہمی اختالف رونما ہو تو پھر بجو بھی ان پر حملہ کريں تو ان پر غالب آجائيں گے۔ )سيد رضی فرماتے ہيں کہ(مرودار واد مفعل کے وزن پر ہے اور اس کے معنی مہلت و فرصت دينے کے ہيں اور يہ بہت فصيح اور سالم نے ان کے زمانہ مہلت کو ايک ميدان سے تشبيہہ دی ہے جس ميں انتہا کی حد تک عجيب و غريب کالم ہے گويا آپ عليہ ال ّ پہنچنے
کے
ليے
دوڑے
جائيں
گے
تو
ان
کا
نظام
درہم
برہم
ہوجائے
گا۔
يہ پيشن گوئی بنی اميہ کی سلطنت کے زوال کے متعلق ہے جو حر ف بحرف پوری ہوئی۔ اس سلطنت کی بنياد معاويہ ابن ابی سفيان نے رکھی اور نوے برس گياره مہينے اور تيره دن کے بعد 132ہجری ميں مروان الحمار پر ختم ہوگئی بنی اميہ کا دور ظلم و ستم اور قہر و استبداد کے لحاظ سے آپ اپنی نظير تھا۔ اس عہد کے مطلق العنان حکمرانوں نے ايسے ايسے مظالم کئے کہ جن سے اسالم کا دامن داغدار ،تاريخ کے اوراق سياه اور روح انسانيت مجروح نظر آتی ہے۔ انہوں نے اپنے شخصی اقتدار کو برقرار رکھنے کے ليے ہر تباہی و بربادی کو جائز قرار دے ليا تھا مکہ پر فوجوں کی يلغار خانہ کعبہ پر آگ برسائی ،مدينہ کو اپنی بيہمانہ خواہشوں کا مرکز بنايا اور مسلمانوں کے قتل عام سے خون کی ندياں بہا ديں۔ آخر ان سفاکيوں اور خونريزيوں کے نتيجہ ميں ہر طرف بغاوتيں اور سازشيں اٹھ کھﮍی ہوئيں اور ان کے اندرونی خلفشار اور باہمی رزم آرائی نے ان کی بربادی کا راستہ ہموار کرديا۔ اگرچہ سياسی
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
اضطراب ان ميں سے پہلے ہی سے شروع ہوچکا تھا مگر وليد ابن يزيد کے دور ميں کھلم کھال نزاع کا دروازه کھل گيا اور ادھر چپکے چپکے بنی عباس نے بھی پر پرزے نکالنا شروع کئے اور مروان الحمار کے دور ميں خالفت الہيہ کے نام سے ايک تحريک شروع کردی اور اس تحريک کو کامياب بنانے کے ليے انہيں ابو مسلم خراسانی ايسا امير سپاه مل گيا جو سياسی حاالت و واقعات کا جائزه لينے کے عالوه فنون حرب ميں بھی پوری مہارت رکھتا تھا۔ چنانچہ اس نےخراسان کو مرکز قرار دے کر امو يوں کے خالف ايک
جال
اور
بچھاديا
عباسيوں
کو
برسر
النے
اقتدار
ميں
کامياب
ہوگيا۔
يہ شخص ابتد اء ميں گمنام اور غير معروف تھا.چنانچہ اسی گمنامی و پستی کی بنا پر حضرت نے اسے اور اس کے ساتھيوں کو بجو ادنی لوگوں کے ليے بطور استعاره استعمال ہوتا ہے۔ سے تعبير کيا ہے کہ جو ٰ
465انصار کی مدح و توصيف ميں فرمايا خدا کی قسم انہوں نے اپنی خوش حالی سے اسالم کی اس طرح تربيت کی ،جس طرح يکسالہ بچھﮍے کو پاال پوسا
جاتا
ہے۔
اپنے
کريم
ہاتھو
ں
اور
زبانوں
کے
ساتھ۔
466آنکھ عقب کے ليے تسمہ ہے۔ سيد رضی فرماتے ہيں کہ يہ کالم عجيب و غريب استعارات ميں سے ہے گويا آپ نے عقب کو ظرف سے اور آنکھ کو تسمہ سے تشبيہہ دی ہے اور تسمہ کھول ديا جائے تو برتن ميں جو کچھ ہوتا ہے۔ رک نہيں سکتا مشہور واضح ہے کہ يہ پيغمبر صلی ﷲ عليہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے۔ مگر کچھ لوگوں نے اسے امير المومنين عليہ السالم سے بھی روايت کيا ہے چنانچہ مبرد نے اس کا اپنی کتاب «المقتضب»باب اللفظ بالحروف ميں ذکر کيا ہے اور ہم نے اپنی کتاب «مجازات اآلثار النبويہ»ميں اس استعار ه کے متعلق بحث کی ہے
467ايک
کالم
کے
ضمن
آپ
نے
فرمايا:
لوگوں کے امور کا ايک حاکم و فرماں روا ذمہ دار ہوا جو سيدھے پر چال اور Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
دوسروں کو اس راه پر لگايا۔ يہاں تک کہ دين نے اپنا سينہ ٹيک ديا.
468لوگوں پر ايک ايسا گزند پہنچانے واال دور آئے گا ،جس ميں مالدار اپنے مال ميں بخل کرے گا حاالنکہ اسے يہ حکم نہيں۔ چنانچہ ﷲ سبحانہ کا ارشاد ہے کہ «آپس ميں حسن سلوک کو فراموش نہ کرو »اس زمانہ ميں شرير لوگ اٹھ کھﮍے ہوں گے اور نيکو کار ذليل خوار سمجھے جائيں گے اور مجبور اور بے بس لوگوں سے خريد و فروخت کی جائے گی.حاالنکہ رسول ﷲ صلی عليہ وآلہ وسلم نے مجبور و مضطر لوگوں سے )اونے پونے (خريدنے کومنع کيا ہے۔ مجبور و مضطر لوگوں سے معاملہ عموما ًاس طرح ہوتا ہے کہ ان کی احتياج و ضرور ت سے ناجائز فائده اٹھا کر ان سے سستے داموں چيزيں خريد لی جاتی ہيں ،اور مہنگے داموں ان کے ہاتھ فروخت کی جاتی ہيں۔ اس پريشان حالی ميں ان کی مجبوری و بے بسی سے فائده اٹھانے کی کوئی مذہب اجازت نہيں ديتا اورنہ آئين اخالق ميں اس کی کوئی گنجائش ہے کہ دوسرے کی اضطراری کيفيت سے نفع اندوزی کی راہيں نکالی جائيں۔
469ميرے بارے ميں دوقسم کے لوگ ہالکت ميں مبتال ہوں گے۔ ايک محبت ميں حد سے بﮍھ جانے واال اور دوسرا جھوٹ و افترا باندھنے واال۔ سيد رضی کہتے ہيں کہ حضر ت کايہ قول اس ارشاد کے مانند ہے کہ ميرے بارے ميں دوقسم کے لوگ ہالک ہوئے ايک محبت ميں غلو کرنے واال ،اور دوسرا دشمنی و عناد رکھنے واال۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
470حضرت سے توحيد و عدل کے متعلق سوال کياگيا توآپ نے فرمايا: توحيد يہ ہے کہ اسے اپنے وہم و تصور کا پابند نہ بناؤ اور يہ عدل ہے کہ اس پر الزامات نہ لگاؤ. عقيده توحيد اس وقت تک کامل نہيں ہوتا جب تک اس ميں تنزيہ کی آميزش نہ ہو۔ يعنی اسے جسم وصورت اور مکان و زمان کے حدود سے باال ترسمجھتے ہوئے اپنے اوہام و ظنون کا پابند نہ بنايا جائے کيونکہ جسے اوہام و ظنون کا پابند بنايا جائے گا ،وه خدا نہيں ہوگا بلکہ ذہن انسانی کی پيداوار ہوگا اور ذہنی قوتيں ديکھی بھالی ہوئی چيزوں ہی ميں محدود رہتی ہيں۔ لہٰ ذا انسان جتنا گﮍھی ہوئی تمثيلوں اور قوت و اہمہ کی خيال آرائيوں سے اسے سمجھنے کی کوشش کرے گا ،اتنا ہی حقيقت سے دور ہوتا جائے گا۔ چنانچہ امام
محمد
باقر
السالم
عليہ
کا
ارشاد
ہے،
جب بھی تم اسے اپنے تصور و وہم کا پابند بناؤگے وه خدا نہيں رہے گا بلکہ تمہاری طرح کی مخلوق اور تمہاری ہی طر ف پلٹنے والی کوئی
ہوگی۔
چيز
اور عدل يہ ہے کہ ظلم و فبح کی جتنی صورتيں ہوسکتی ہيں ان کی ذات باری سے نفی کی جائے اور اسے ان چيزوں سے متہم نہ کيا جائے کہ جو بری اور بے فائده ہيں اورجنہيں عقل اس کے ليے کسی طرح تجويز نہيں کرسکتی۔ چنانچہ قدرت کا ارشاد ہے۔ تمہارے پروردگار کی بات سچائی اور عدل کے ساتھ پوری ہوئی۔ کوئی چيز اس کی باتوں ميں تبديلی پيدا نہيں کرسکتی۔
471حکمت کی بات سے خاموشی اختيار کرنا کوئی خوبی نہيں جس طرح جہالت
کے
ساتھ
بات
کرنے
ميں
کوئی
بھالئی
نہيں۔
بار الہٰا! ہميں فرمانبردار ابروں سے 472طلب باراں کی ايک دعا ميں فرماياِ : سيراب کر ،نہ اُن ابروں سے جو سرکش اور منہ زور ہوں Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
سيد رضی کہتے ہيں کہ يہ کالم عجيب و غريب فصاحت پر مشتمل ہے ۔ اس طرح کہ امير المومنين عليہ السالم نے کﮍک ،چمک ،ہوا اور بجلی والے بادلوں کو اُن اونٹوں سے تشبيہ دی ہے کہ جو اپنی منہ زوری سے زمين پر پير مار کر پاالن پھينک ديتے ہوں اور اپنے سواروں کو گرا ديتے ہوں ۔ اور ان خوفناک چيزوں سے خالی ابر کو ان اونٹنيوں سے تشبيہ دی ہے جو دوہنے ميں مطيع ہوں اور سواری کرنے ميں سوار کی مرضی کے مطابق چليں ۔
473حضرت)عليہ السالم ( سےکہا گيا کہ اگر آپ سفيد بالوں کو )خضاب سے( بدل ديتے تو بہتر ہوتا۔ اس پر حضرت)عليہ السالم ( نے فرمايا کہ خضاب زينت ہے اور ہم لوگ سوگوار ہيں ۔ ت پيغمبر ﷺ مراد لی ہے۔ سيد رضی کہتے ہيں کہ حضرت نے اس سے وفا ِ
474وه مجاہد جو خدا کی راه ميں شہيد ہو ،اُس شخص سے زياده اجر کا مستحق نہيں ہے جو قدرت و اختيار رکھتے ہوئے پاک دامن رہے۔ کيا بعيد ہے کہ
پاکدامن
فرشتوں
ميں
سے
ايک
فرشتہ
ہو
جائے۔
475قناعت ايسا سرمايہ ہے جو ختم ہونے ميں نہيں آتا۔ سيد رضی کہتے ہيں کہ بعض لوگوں نے اس کالم کو پيغمبر ﷺ سے روايت کيا ہے۔
476جب زياد ابن ابيہ کو عبد ﷲ ابن عباس کی قائم مقامی ميں فارس اور اس کے ملحقہ عالقوں پر عامل مقرر کيا تو ايک باہمی گفتگو کے دوران ميں کہ جس ميں اسے پيشگی مالگزاری کے وصول کرنے سے روکنا چاہا يہ کہا: Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
عدل کی روش پر چلو۔ بے راه روی اور ظلم سے کناره کشہ کرو کيونکہ بے راه روی کا نتيجہ يہ ہو گا کہ انہيں گھر بار چھوڑنا پﮍے گا اور ظلم انہيں تلوار
اٹھانے
کی
دعوت
دے
گا۔
477سب سے بھاری گناه وه ہے جسے مرتکب ہونے وال سُبک سمجھے
478ﷲ نے جاہلوں سے اس وقت تک سيکھنے کا عہد نہيں ليا جب تک جاننے والوں سے يہ عہد نہيں ليا کہ وه سکھانے ميں دريغ نہ کريں ۔
479بدترين بھائی وه ہے جس کے ليے زحمت اٹھانا پﮍے۔ سيد رضی کہتے ہيں کہ يہ اس ليےکہ مقدور سے زياده تکليف ،رنج و مشقت کا سبب ہوتی ہے اور جس بھائی کے ليے تکلف کيا جائے ،اُس سے الزمی طور پر زحمت پہنچے گی۔ لہذا وه بُرا بھائی ہوا۔
480جب کوئی مومن اپنے کسی بھائی کا احتشام کرے تو يہ اُس سے جدائی کا سبب ہو گا۔ سيد رضی کہتے ہيں کہ حشم واحشام کے معنی ہيں غضبناک کرنا ،اور ايک معنی ہيں شرمنده کرنا۔ اور احتشام کے معنی ہيں "اس سے غصہ يا خجالت کا طالب ہونا اور ايسا کرنے سے جدائی کا امکان غالب ہوتا ہے۔
اختتام Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
سيد
رضی
اس
کتاب
کے
اختتام
پر
ہيں
لکھتے
:
پايان کار کی منزل ہے کہ ہم امير المومنين)عليہ السالم ( کے اب يہ ہمارا ِ منتخب کالم کا سلسلہ ختم کريں ۔ ہم ﷲ سبحانہ کی بارگاه ميں شکر گزار ہيں کہ اُس نے ہم پر يہ احسان کيا کہ ہميں توفيق دی کہ ہم حضرت کے منتشر کالم کو يک جا کريں اور دور دست کالم کو قريب الئيں ۔ ہمارا اراده ہے جيسا کہ پہلے طے کر چکے ہيں کہ ان ابواب ميں سے ہر باب کے آخر ميں کچھ ساده ورق چھوڑ ديں تاکہ جو کالم اب تک ہاتھ نہيں لگا اُسے قابو ميں ال سکيں اور جو ملے اُسے درج کر ديں ۔ شايد ايسا کالم جو اس وقت ہماری نظروں سے اوجھل ہے۔ بعد ميں ہمارے ليے ظاہر ہو اور دور ہونے کے بعد ہمارے دامن ميں سمٹ آئے۔ ہميں توفيق حاصل ہے تو ﷲ سے اور اسی پر ہمارا بھروسا ہے اور وہی ہمارے ليے کافی اور اچھا کارساز ہے۔ يہ
کتاب
ماه
رجب
سن
400
ہجری
ميں
اختتام
کو
پہنچی
وصلی ﷲ علی سيدنا محمد خاتم الرسل ،والھادی الی خير السبل والہ الطاہرين، و اصحابہ نجوم اليقين
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com