طلاق

Page 1

‫طال‬

‫پیش ک ر‬ ‫م صود حسنی‬ ‫فری ابوزر برقی کت خ نہ‬ ‫اگس‬


‫کی صرف تحریری طال واقع ہوتی ہے؟‬ ‫موضوع‪ :‬طال‬ ‫سوال پوچھنے والے ک ن ‪ :‬سونی خ ن‬ ‫م ‪ :‬راولپنڈی‬ ‫سوال نمبر ‪4265‬‬ ‫السال ع یک م تی ص ح ! میرا ن سونی ہے اور میں طال‬ ‫کے مت ایک مسئ ہ پوچھن چ ہتی ہوں۔ میرے شوہر نے ‪5‬‬ ‫س ل پہ ے مجھے ایک طال دی لیکن پھر ص حہو گئی اور ہ‬ ‫لوگ اکٹھے رہن شروع ہوگئے۔ پھر ‪ 4‬س ل کے ب د ہم را جھگڑا‬ ‫ہوا تو انہوں نے ایک اور طال دی اور کہ کہ میرے گھر سے‬ ‫نکل ج ‘ میرا تمہ را کوئی رشتہ نہیںہے۔ اس کے ب د ہم را‬ ‫جھگڑا ہوا تو کہنے لگے میری طرف سے ت ف ر ہو‪ ،‬کہ نی‬ ‫خت ہوئی‪ ،‬ج نکل ج میرے گھر سے۔ م تی ص ح میں نے‬ ‫یہ ں ‪ 3‬م تی ص حب ن سے اس ب رے میں دی ف کی ہے تو س‬ ‫نے طال کے واقع ہونے ک فتوی دی ‪ ،‬مگر میرے میکے اور‬ ‫سسرال والے یہ فتویم ننے کے لیے تی ر نہیں ہیں۔ وہ کہتے‬ ‫ہیں کہ غصے میں طال نہیںہوتی اور یہ بھی کہ طال ج تک‬ ‫لکھ کر نہ دی ج ئے نہیں ہوتی۔ م تی ص ح میں بہ پریش ن‬ ‫ہوں‘ ایک س ل سے اسی اذی سے گزر رہی ہوں۔ میرا شوہر‬


‫مجھ سے ازدواجی ت بھی ق ئ کرت ہے اسے روکنے کی‬ ‫کوشش کروںتو برا بھال کہت ہے۔‬ ‫براہ مہرب نی راہنم ئی فرم دیں۔ شکریہ‬ ‫جوا‬ ‫شدید غصے میں ج انس ن اپنے ہوش و حواس کھو دیت ہے‬ ‫اور اسے اپنے عمل‘ اس کے نت ئج ک ادراک نہیں رہت تو ق نون‪،‬‬ ‫ع ل اور شری اس ب پر مت ہیں کہ اس وق انس ن پر‬ ‫احک الگو نہیں ہوتے۔ اگر آپ کے شوہر نے بھی ایسی ہی‬ ‫کی ی میں طال دی تھی تو واقع نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس‬ ‫اگر غصہ شدید نہیں تھ اور آپ کے شوہر ہوش و حواس‬ ‫میںتھے تو طال واقع ہوچکی ہے۔ طال دیتے وق ان کی کی‬ ‫کی ی تھی؟ اس ک فیص ہ آپ کے شوہر نے کرن ہے اور اسی‬ ‫کے مط ب طال کے واقع ہونے ی نہ ہونے ک حک ہوگ ۔‬ ‫طال زب نی دی ج ئے ی لکھ کر‘ ہر دو صور میں واقع ہوج تی‬ ‫ہے۔ اگر ب ئ ہوش و حواس شوہر نے زب نی طال دی ہے تو‬ ‫واقع ہوچکی ہے۔‬ ‫وہللا و رسولہ اع ب لصوا ۔‬ ‫م تی‪ :‬محمد شبیر ق دری‬ ‫ت ریخ اش ع ‪04-07-2017 :‬‬ ‫‪http://www.thefatwa.com/urdu/questionID/4265/%DA%A9%DB%8C%D8%A7-%D8%B5%D8%B1%D9%8‬‬


‫‪1-%D8%AA%D8%AD%D8%B1%DB%8C%D8%B1%DB%8C-%D8%B7%D9%84%D8%A7%D9%82-%D9%88%‬‬ ‫‪D8%A7%D9%82%D8%B9-%DB%81%D9%88%D8%AA%DB%8C-%DB%81%DB%92/‬‬

‫کی ایک وق میںدی گئی تین طال واقع ہوتی ہیں؟‬ ‫موضوع‪ :‬طال‬ ‫سوال پوچھنے والے ک ن ‪ :‬محمد فیض ن‬ ‫م ‪:‬نم و‬ ‫سوال نمبر ‪4225‬‬ ‫شوہر نے جھگڑے کے دوران بیوی کو تین طال دیں‪ ،‬اس نے‬ ‫ایک ہی س نس میں کہ تجھے میری طرف سے تین طال ‪ ،‬کی یہ‬ ‫طال واقع ہو گئی؟‬ ‫جوا‬ ‫آپ نے سوال میں ن مکمل صورتح ل بی ن کی‪ ،‬جھگڑے کی‬ ‫نوعی اور شوہر کی کی ی کے ب رے میں واضح نہیں کی اس‬ ‫لیے ہ حتمی فیص ہ کرنے سے ق صر ہیں۔ ت ہ اگر شوہر نے‬ ‫جھگڑے کے دوران شدید غصے کی ح ل میں طال دی ہے‪،‬‬ ‫ب د میں اسے احس س ہوا کہ جو کچھ وہ کہہ بیٹھ ہے‘ نہیں کہن‬ ‫چ ہت تھ تو طال واقع نہیں ہوئی۔ وہ بطور می ں بیوی کے ایک‬ ‫دوسرے کے س تھ رہ سکتے ہیں۔ اس کی مزید وض ح کے‬ ‫لیے مالحظہ کیجیے‪ :‬کی شدید غصے میں دی گئی طال واقع‬


‫ہوتی ہے؟‬ ‫اس کے برعکس اگر غصے کی شد ایسی نہیں تھی‪ ،‬شوہر کے‬ ‫ہوش و حواس ق ئ تھے‪ ،‬جھگڑے کے ب د بھی اس نے طال‬ ‫کے فیص ے کو درس ہی کہ تو طال واقع ہو گئی ہے۔ اگر اس‬ ‫نے تین دی ہیں تو تین ہی واقع ہوئی ہیں۔‬ ‫وہللا و رسولہ اع ب لصوا ۔‬ ‫م تی‪ :‬محمد شبیر ق دری‬ ‫ت ریخ اش ع ‪29-05-2017 :‬‬ ‫‪http://www.thefatwa.com/urdu/questionID/4225/%DA%A9%DB%8C%D8%A7-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D9‬‬ ‫‪%88%D9%82%D8%AA-%D9%85%DB%8C%DA%BA%E2%80%8C-%D8%AF%DB%8C-%DA%AF%D8%A6%DB%8C-%D‬‬ ‫‪8%AA%DB%8C%D9%86-%D8%B7%D9%84%D8%A7%D9%82-%D9%88%D8%A7%D9%82%D8%B9-%DB%81%D9%8‬‬ ‫‪8%D8%AA%DB%8C-%DB%81%DB%8C%DA%BA/‬‬

‫ایک مح ل کی تین طال‬ ‫السال ع یک ‪،‬‬ ‫اہ ی ن بز ‪ ،‬جیس کہ پہ ے عرض کی ج چک ہے کہ تین طال‬ ‫کے مسئ ے میں ن چیز پہ ے بھی ت صیل بی ن کر چک ہے۔ وہی‬ ‫موضوع ڈھونڈ کر پیش کر رھ ہوں دوب رہ دیکھ لیں۔‬ ‫ی د رکھیں کہ تین طالقیں خواہ ایک ہی مح ل میں ہوں واقع ہو‬


‫ج تی ہیں۔ ا یہ عور اس مرد پر حرا ہے‪ ،‬اس حرا کو حالل‬ ‫ک فتوی دینے والے بھی لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور مرد تو‬ ‫حرا میں مبتال ہو ہی گی ۔ جہ ں تک حاللہ کی ب ہے تو حاللہ‬ ‫کرنے اور کروانے والے دونوں پر رسول ہللا ص ی ہللا ع یہ‬ ‫وس نے ل ن کہی ہے۔ اس ب کو ایسے سمجھیں کہ ایک‬ ‫آدمی کے تین مک ن ہوں اور وہ غصے میں کسی دوسرے کے‬ ‫ن لگ دے۔ پھر اول تو وہ یہ نہیں کہ سکت کہ میرے پ س‬ ‫اختی ر تو تین مک نوں ک تھ لیکن ایک مح ل میں ایک ہی لگ‬ ‫سکت ہے‪ ،‬م و نہیں طال کے م م ے میں یہ منط کہ ں چ ی‬ ‫ج تی ہے۔ دوسرا یہ کہ اگر ب د میں رشو دے کر ی نی حاللے‬ ‫کی طرح حرا ک کرکے مک ن اپنے ہی ن رہنے دے ی یہ کہ‬ ‫ک غذ پھ ڑ کے ثبو غ ئ کر دے تو یہی کہ ج ئے گ کہ حرا‬ ‫ک کی ۔ پس حاللہ کرنے والے حرا ک کرتے ہیں لیکن اس‬ ‫سے ایک مح ل کی تین ط قوں کے ب د حرا کو حالل نہیں کی ج‬ ‫سکت ۔‬ ‫ہللا ت لی س کو ع ل اور سمجھ دے اور رسول ہللا ص ی ہللا‬ ‫ع یہ وس اور صح بہ رضی ہللا عنھ حصوص خ ء ارب ہ‬ ‫رضی ہللا عنھ کے رستے پر چ نے کی توفی عط فرم ئے۔‬ ‫مع السال ‪،‬‬ ‫ہم یوں رشید۔‬


‫مھت‬

‫قدر‬

‫‪mahta...@gmail.com‬‬ ‫‪Date: 2013-05-11 19:51 GMT+03:00‬‬ ‫}‪Subject: Re: {23224‬‬ ‫جدہ میں سیمین ر ‪ -‬طال آس ن اور خ ع مشکل کیوں؟ اس ک‬ ‫حل کی ہے؟‬ ‫وع یک السال و رحمہ جزاک ہللا خیر جن ہم یوں ص ح اپ‬ ‫نے حوالوں کے س تھ ب واضح فرم دی‪ ،‬جیس کہ پہ ے‬ ‫عرض کر چک ہوں یہ میرا مسئ ہ نہیں ع م ک میدان ہے اپ نے‬ ‫ت صیال درج فرم کر ع م سے مزید تح ی کو اس ن فرم دی ۔‬ ‫ویسے ایک ب عمومی طور پر اہل سن یہ کہتے ہیں کہ بھ ئی‬ ‫ت گولی ں تو تین چالو او گنو ایک کی کرشمہ ہے ایک گولی‬ ‫کے بج ئے تین دا دیں اور کہتے ہو کہ ایک ہی لگی ۔ جزاک‬ ‫ہللا خیر‬ ‫مہت‬

‫قدر‬


‫‪Mahtab Qadr‬‬ ‫میں جہ ں بھی رہوں س ر میں ہوں‬ ‫میرا اص ی وطن مدینہ‬

‫ہے‬

‫‪2013/5/11 Humayun Rasheed‬‬ ‫>‪<rana.humay...@gmail.com‬‬ ‫السال ع یک‬ ‫مخ ص ص ح نے ٹھیک فرم ی کہ اس میں دو مکتبہ فکر ہیں۔‬ ‫اہل سن والجم ع کے نزدیک ایک ہی مج س کی تین طال‬ ‫سے تین واقع ہو ج تی ہیں اور اہل تشیع کے ھ ں ایک ہی ہوتی‬ ‫ہے۔ ع م ء نے اس فر کی تصریح کی ہے‘ یہ ں ایک حوالہ‬ ‫پیش ہے۔ مشہور ع ل اور ف یہ شمس األئم محمد بن أحمد‬ ‫ھ) نے اپنی کت المبسوط میں اس کی‬ ‫السرخسي (وف‬ ‫تصریح کی ہے؛‬ ‫وھذہ المس ل مخت ف فیھ بینن وبین الشی ع فص ین ( أحدھم‬ ‫) ۔۔۔ ( والث ني ) أنه إذا ط ھ ثالث جم ی ع ثالث عندن والزیدی‬ ‫من الشی ی ولون ت ع واحدة واإلم می ی ولون ال ی ع شيء‬ ‫ویزعمون أنه قول ع ي كر ہللا وجھه۔ ب الرد ع من ق ل إذا‬


‫ط‬

‫لغیر السن ال ی ع۔‬

‫اور اس مسئ ے (ی نی طال دینے کے طری ے) میں ہم رے اور‬ ‫شی ہ کے درمی ن اختالف ہے (پہال اختالف) ۔۔۔ (دوسرا) یہ کہ‬ ‫اگر ایک ہی ل ظ ی جم ے میں تین طالقیں دے دیں تو ہم رے‬ ‫ھ ں تو تین ہی ہوئیں‘ اور زیدی شی ہ کے ھ ں ایک ہی ہوئی اور‬ ‫ام میہ (اثن عشری) کے ھ ں طال ہی نہیں ہوئی (ش ئد اس لئے‬ ‫کہ گن ہ ک ک کی اور گن ہ پر کوئی شرعی حک مرت نہیں ہوت‬ ‫وہللا اع ) اور گم ن کرتے ہیں کہ یہ ع ی کر ہللا وجہہ ک کہن‬ ‫ہے۔‬ ‫میرا م صد کسی مس کی بحث کو شروع کرن نہیں ہے۔ میں‬ ‫سمجھت ہوں کہ ایسی ب یہ ں کرنی ہی نہیں چ ہئے‘ لیکن ج‬ ‫کسی نے ب کر دی تو اسے واضح کرن ضروری ہے کیونکہ‬ ‫التب س ہو رھ ہے۔ امید ہے کہ حضرا آئندہ ایسی ب نہیں‬ ‫کریں گے جس میں ت صیل ہو۔ یہ فور ف ہی بحث کی ئے نہیں‬ ‫بن ‘ اس لئے اہل سن والجم ع کے مخت ف ادوار میں دئیے‬ ‫گئے فت وی میں سے چند پیش خدم ہیں ت کہ کسی کو شک اور‬ ‫شبہ نہ رہے‘ ب قی ت صیل کسی ع ل کے پ س ج کر پوچھی ج‬ ‫سکتی ہے۔ میں ب ر ب ر اہل سن والجم ع ک ن اس لئے لے‬ ‫رھ ہوں کہ حرا حالل ک مسئ ہ ہے کسی کو دھوکہ نہ ہو کہ‬ ‫کس ب رے میں ب کر رھ ہوں۔‬ ‫ام بخ ری رحمہ ہللا کے شیخ أبو بكر عبد الرزا الصن ني‘‬


‫ھ‘ نے اپنی مصنف میں ب ب ندھ ہے “ب المط‬ ‫والد‬ ‫ثالث “ اور صح بہ رضی ہللا عنھ اجم ین (جو کہ سن اور حالل‬ ‫حرا کو ہ سے زی دہ ج ننے والے تھے) کے فت وی ذکر کئے۔‬ ‫عن م مر عن األعمش عن إبراھی عن ع م ق ل ج ء رجل إل‬ ‫ابن مس ود ف ل إني ط امرأتي تس وتس ین وإني س ل ف یل‬ ‫لي قد ب ن مني ف ل ابن مس ود ل د أحبوا أن ی رقوا بین وبینھ‬ ‫ق ل فم ت ول رحم ہللا فظن أنه سیرخص له ف ل ثالث تبینھ‬ ‫من وس ئرھ عدوان۔ عن م مر عن الزھر عن س ل عن ابن‬ ‫عمر ق ل من ط امرأته ثالث ط وعص ربه۔ عن م مر ق ل‬ ‫أخبرني ابن ط وس عن أبیه ق ل ك ن ابن عب س إذا سئل عن رجل‬ ‫یط امرأته ثالث ق ل لو ات ی ہللا ج ل ل مخرج ‪ ،‬وال یزیدہ ع‬ ‫ذل ۔ عن م مر عن أیو عن مج ھد ق ل سئل ابن عب س عن رجل‬ ‫ط امرأته عدد النجو ق ل إنم یك یه من ذل رأس الجوزاء۔ عن‬ ‫ابن جریج ق ل أخبرني عبد الحمید بن رافع عن عط ء ب د وف ته أن‬ ‫رجال ق ل البن عب س رجل ط امرأته مئ ف ل ابن عب س ی خذ‬ ‫من ذل ثالث ویدع سب وتس ین۔ عن ابن جریج ق ل ق ل مج ھد‬ ‫عن ابن عب س ق ل ق ل له رجل ی أب عب س ط امرأتي ثالث‬ ‫ف ل ابن عب س ی أب عب س یط أحدك فیستحم ‪ ،‬ث ی ول ی أب‬ ‫عب س عصی رب وف رق امرأت ۔ عن الثور عن عمرو بن مرة‬ ‫عن س ید بن جبیر ق ل ج ء ابن عب س رجل ف ل ط امرأتي‬ ‫أل ‪ ،‬ف ل ابن عب س ثالث تحرمھ ع ی وب یتھ ع ی وزرا اتخذ‬ ‫آی ہللا ھزوا۔‬


‫ع مہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی ابن مس ود رضی ہللا عنہ کے‬ ‫پ س آی اور کہ میں نے اپنی بیوی کو نن نوے طالقیں دے دی‬ ‫ہیں‘ میں نے (لوگوں سے) پوچھ تو کہتے ہیں کہ وہ ع یحدہ ہو‬ ‫گئی‘ ابن مس ود نے کہ کہ لوگ یہ ب پسند کرتے ہیں کہ ت‬ ‫میں اور اس میں ع یحدگی ہو ج ئے‘ (اس آدمی نے) کہ آپ پر‬ ‫ہللا رح کرے آپ کی کہتے ہیں؟ پس اس نے گم ن کی کہ ش ئد‬ ‫ابن مس ود کوئی آس نی ک راستہ نک لیں گے (مثال یہی کہ ایک‬ ‫مج س میں دی گئی س ری ایک ہیں) پس کہ (ابن مس ود نے)‬ ‫تین سے وہ ع یحدہ ہو گئی ب قی تو ت نے دشمنی کی ہے (ہللا‬ ‫کے حک سے کہ تمہیں تین سے زی دہ ک اختی ر ہی نہیں تھ اور‬ ‫ف ئدہ بھی نہیں تھ )۔ ابن عمر رضی ہللا کے بیٹے اپنے والد سے‬ ‫روای کرتے ہیں کہ جس نے اپنی بیوی کو تین طالقیں دیں تو‬ ‫طال ہو گئی لیکن اس نے اپنے ر کی ن فرم نی کی (کیونکہ‬ ‫ایک دینی چ ہئے تھی)۔ ط س کہتے ہیں کہ میرے والد نے بت ی‬ ‫کہ ج ابن عب س سے پوچھ ج ت کہ فالں نے اپنی بیوی کو تین‬ ‫طالقیں دے دیں تو کہتے اگر ت وی اختی ر کرت تو ہللا رستہ بھی‬ ‫دکھ دیت (کیونکہ ایک طال کے ب د رجوع ہو سکت ہے تین‬ ‫کے ب د نہیں‘ بس خود رستہ بند کی )‘ اور اس سے زائد کچھ نہ‬ ‫کہتے۔ مج ھد کہتے ہیں کہ ابن عب س سے ایک آدمی کے ب رے‬ ‫میں پوچھ گی کہ اس نے اپنی بیوی کو ست روں کی ت داد کے‬ ‫برابر طالقیں دے دیں‘ تو ابن عب س نے جوا دی اسے تو جوزا‬ ‫ک سر ہی ک فی تھ (ی نی ست روں کے ایک خ ص جھرمٹ کے‬


‫سرے پر موجود تین ست رے)۔ عط ء کہتے ہیں کہ ابن عب س‬ ‫سے پوچھ گی کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو سو طالقیں دے‬ ‫دیں‘ تو کہنے لگے تین تو اس کی ہیں ب قی ست نوے کو چھوڑ‬ ‫دے۔ مج ھد کہتے ہیں کہ ابن عب س رضی ہللا عنہ نے بی ن کی‬ ‫کہ ایک آدمی آی اور کہنے لگ اے ابو عب س میں نے اپنی بیوی‬ ‫کو تین طالقیں دے دی ہیں‘ پس کہ ابن عب س نے (خود کالمی‬ ‫کرتے ہوئے) اے ابو عب س ایک آدمی طال کی حم ق کرت ہے‬ ‫پھر کہت ہے اے ابو عب س‘ (پھر آدمی کی طرف جوا دی ) تو‬ ‫نے اپنے ر کی ن فرم نی کی اور تیری بیوی تجھ سے ع یحدہ‬ ‫ہو گئی۔ س ید بی ن کرتے ہیں کہ ایک آدمی ابن عب س کے پ س‬ ‫آی اور کہ میں نے اپنی بیوی کو ہزار طالقیں دے دی ہیں‘ کہ‬ ‫ابن عب س نے کہ وہ تو تین سے ہی تجھ پر حرا ہو گئی ب قی ت‬ ‫پر بھ ر ہیں (کیونکہ) تو نے ہللا کی ب ک مذا اڑای (ی نی‬ ‫زی دہ سے زی دہ تو تین تھیں ت نے ہزار کیوں دیں)۔‬ ‫پس م و ہوا کہ لوگ ایک ہی ب ر طال دے کر آتے اور فتوی‬ ‫لیتے تو انہیں یہی کہ ج ت کہ تین سے ک ہو گی ۔ اگر ایک مح ل‬ ‫کی شرط ہوتی تو ضرور کہتے کہ بھئی پریش ن کیوں ہو ایک ہی‬ ‫مح ل میں دی ہے تو ایک ہی ہوئی رجوع کر لو۔‬ ‫ھ‘ کسی‬ ‫أبو الولید محمد بن أحمد بن رشد الم لکی‘ والد‬ ‫ت رف کے محت ج نہیں‘ خالف کے ق ضی ال ض ة تھے اہل سن‬ ‫والجم ع کے تم مس لک پر اپنے دور کے س سے بڑے‬


‫ع ل تھے‘ اور آج بھی اگر ت بل مذاھ پر ب ہوتی ہے تو ان‬ ‫کی ب کو م ن ج ت ہے۔ اپنی کت “بدای المجتھد“ جو کہ‬ ‫صرف اس لئے لکھی کہ ف ہ ء کے اختالف کو ذکر کریں‘ ص ف‬ ‫لکھتے ہیں؛‬ ‫جمھور ف ھ ء األمص ر ع أن الطال ب ظ الثالث حكمه حك‬ ‫الط الث لث ۔ الب األول في م رف الطال الب ئن والرج ي۔‬ ‫تم شہروں کے ف ہ ء ک کہن ہے کہ ایک ل ظ میں دی گئی تین‬ ‫طالقیں تین ہی ہوتی ہیں۔‬ ‫ھ‘ جو کہ‬ ‫موف الدین ابن قدام الم دسي الحنب ي‘ والد‬ ‫ف ہ حنب ی میں سند م نے ج تے ہیں۔ اپنی کت “المغني “ جو کہ‬ ‫انہوں نے ف ہ ء کے مس لک بی ن کرنے اور ت بل کی ئے لکھی‘‬ ‫میں فرم تے ہیں؛‬ ‫وإن ط ثالث بك م واحدة وقع الثالث وحرم ع یه حت تنكح‬ ‫زوج غیرہ وال فر بین قبل الدخول وب دہ رو ذل عن ابن‬ ‫عب س وأبي ھریرة وابن عمر وعبد ہللا بن عمرو وابن مس ود‬ ‫وأنس وھو قول أكثر أھل ال من الت ب ین واألئم ب دھ ۔ فصل‬ ‫ط ثالث بك م واحدة۔‬ ‫اگر ایک ہی ک مہ سے تین طالقیں دے دیں تو تین واقع ہو گئیں‬ ‫اور عور اس پر حرا ہو گئی یہ ں تک کہ کسی اور سے نک ح‬ ‫کر لے (اور وہ شوہر بھی فو ہو ج ئے ی طال دے دے) اور‬


‫فر نہیں ہے کہ طال رخصتی سے پہ ے دی ی ب د۔ یہی روای‬ ‫کی گی ہے ابن عب س‘ ابو ھریرہ‘ ابن عمر‘ ابن عمرو‘ ابن‬ ‫مس ود اور انس رضی ہللا عنھ سے‘ اور یہی کہن ہے اکثر‬ ‫ت ب ین اور آئمہ ک ۔‬ ‫ھ‘ اپنی‬ ‫ع ي بن س یم ن المرداو الدمش ي الحنب ي‘ والد‬ ‫کت “اإلنص ف“ میں جو کہ ف ہ ء کے اختالف لکھنے کی ئے‬ ‫تحریر کی گئی فرم تے ہیں؛‬ ‫وإن ط ھ ثالث مجموع قبل رج واحدة ط ثالث وإن ل‬ ‫ینوھ ع الصحیح من المذھ نص ع یه مرارا وع یه األصح‬ ‫بل األئم األرب وأصح بھ في الجم ۔ ب سن الطال وبدعته۔‬ ‫اور اگر تین طالقیں دے دیں اکٹھی پہ ی سے رجوع کئے بغیر تو‬ ‫تین ہی ہو گئیں اگرچہ نی نہ کی ہو‘ یہی ہم رے مس ک (حنب ی)‬ ‫ک صحیح ترین قول ہے‘ اور اس پر دلیل کئی ب ر گزر چکی‘ اور‬ ‫اسی پر ق ئ ہیں اصح ب کہ چ روں آئمہ ب لجم ہ۔‬ ‫ھ‘ جو کہ کسی ت رف‬ ‫جالل الدین السیوطي الش ف ی‘ والد‬ ‫کے محت ج نہیں “الح و ل ت و “ میں ایک مسئ ے میں‬ ‫فرم تے ہیں؛‬ ‫مس ل ‪ :‬رجل ط امرأته واحدة ث خرج من عندھ ف یه شخص‬ ‫بزوجت ؟ ق ل ط تھ سب ین فھل ی ع ع یه الثالث؟‬ ‫ف لم ف‬ ‫الجوا ‪ :‬ن ی ع ع یه الثالث م اخذة ب قرارہ۔ كت الصدا ‪ -‬ب‬


‫الطال ‪ -‬مس ئل مت رق ۔‬ ‫مسئ ہ؛ آدمی نے اپنی بیوی کو ایک طال دی پھر گھر سے نکال‬ ‫اور رستے میں ایک آدمی مال‘ پوچھ اپنی بیوی سے کی کی ؟‬ ‫اس نے کہ ستر طالقیں دے دیں‘ پس کی تین طالقیں ہو گئیں؟‬ ‫جوا ؛ جی ھ ں اس پر تین ہو گئیں اس کے اپنے اقرار کی وجہ‬ ‫سے۔‬ ‫زین الدین أبو الس دا منصور بن یونس البھوتي المصری‘‬ ‫ھ‘ زی دہ پرانے نہیں ہیں‘ اپنی کت “كش ف‬ ‫والد‬ ‫ال ن ع“ میں فرم تے ہیں؛‬ ‫وإن ط ھ ) أ ط رجل زوجته ( ثالث بك م ) حرم نص (‬ ‫ووق ویروى ذل عن عمر وع ي وابن مس ود وابن عب س وابن‬ ‫عمر۔ ب سن الطال وبدعته۔‬ ‫اور اگر اسے طال دی) ی نی آدمی نے اپنی بیوی کو طال دی (‬ ‫(تین ایک ہی ک مے سے) تو عور حرا ہو گئی واضح دلیل کی‬ ‫وجہ سے‘ اور یہی مروی ہے عمر‘ ع ی‘ ابن مس ود‘ ابن عب س‬ ‫اور ابن عمر سے۔‬ ‫اوپر مذکور حوالے ج ن بوجھ کر مخت ف مکتبہ ھ ئے فکر سے‬ ‫لئے گئے حن ی‘ حنب ی‘ م لکی اور ش ف ی ت کہ کوئی یہ نہ کہے‬ ‫کہ کسی ایک مس ک ک کہن ہے۔‬


‫اور اجم ع کسے کہیں گے جبکہ ب ہمی سیکڑوں اختالف کے‬ ‫ب وجود تم لوگ اس مسئ ے میں ایک ہی ب کر رہے ہیں۔‬ ‫جہ ں تک ل ظی استدالل کی ب ہے تو بڑی عجی ب کی‬ ‫موصوف نے کہ تین کو ایک م ن لی ج ئے‘ گوی ایک مح ل میں‬ ‫دئیے گئے تین روپے ایک ہو گئے‘ ایک محل میں م رے گئے‬ ‫تین جوتے ایک ہو گئے‘ سبح ن ہللا۔‬ ‫جہ ں تک قرآن اور حدیث سے استدالل ک ت ہے کہ اہل سن‬ ‫والجم ع اور شی ہ میں اختالف کیوں‘ ی ب ض اوق اہل سن‬ ‫والجم ع کے ہی کسی ع ل نے جمہور ام کے خالف غ طی‬ ‫سے فتوی دی ‘ تو اس کی ئے کسی ع ل کے پ س ج کر ت صیل‬ ‫سے ب کرنی چ ہئے۔ یہ جگہ اس ک کی ئے موزوں نہیں ہے‘‬ ‫بس اتن ج ن لیں کہ اگر آپ ک ت اہل سن والجم ع سے ہے‬ ‫تو ایک ہی مج س کی تین طالقیں تین ہی ہوں گی‘ بیوی آپ پر‬ ‫حرا ہو گئی‘ حاللہ کرن حرا ہے‘ پہ ے ہوش میں رہن تھ ۔‬ ‫ب قی مس لک کے لوگ اپنے اعتم د کے دانشوروں سے پوچھ کر‬ ‫عمل کریں۔‬ ‫مع السال‬


‫ہم یوں رشید۔‬ ‫‪2013/5/11 Syed Raheem‬‬ ‫>‪<syedrah...@gmail.com‬‬ ‫ب اختالف کی بھی ہے اور استدالل کی بھی اور یہ مسئ ہ ی نی‬ ‫تین طال ک ایک شم ر کرن کوئی ایس مسئ ہ نہیں ہے کہ چند‬ ‫برسوں پہ ے وجود میں آی ب کہ یہ س س ہ صح بہ کے دور تک‬ ‫دراز ہیں اور فری ین کی اپنے اپنے دالئل ہیں مندرجہ ذیل لنک‬ ‫دیکھئے س ودی عر کی اسالمی تح ی ی ادارے نے اس پر‬ ‫ک فی مدلل بحث کی ہے اور فری ین کے استدالل اور جوا‬ ‫استدالل ک اح طہ کی ہے مالحظہ ہو مج ۃ البحوث االسالمیۃ‬ ‫ال دد الث لث (یہ بحث عربی میں ہے اور اس ک کچھ حصہ دار‬ ‫ال و دیوبند سے اردو میں نشر ہوا ہے‬ ‫‪http://www.alifta.net/Fatawa/FatawaChapters.aspx?View=Tree&NodeI‬‬ ‫‪D=498&PageNo=1&BookID=2‬‬

‫سید رحی عمری‬ ‫‪From: BAZMe...@googlegroups.com‬‬


‫‪[mailto:BAZMe...@googlegroups.com‬‬ ‫‪On Behalf Of aapka Mukhlis‬‬ ‫‪Sent: 10 May 2013 21:33‬‬ ‫‪To: BAZMe...@googlegroups.com‬‬ ‫جدہ میں سیمین ر ‪ -‬طال آس ن }‪Subject: Re: {23186‬‬ ‫اور خ ع مشکل کیوں؟ اسک حل کی ہے؟‬ ‫عورتوں کے مزاج کی وجہ سے خ ع ک طری ہ مشکل رکھ گی‬ ‫ہے‬ ‫کیونکہ عورتیں بہ جذب تی ہوتی ہیں‬ ‫بہ ج د بے انتہ غصے میں آج تی ہیں‬ ‫اسی وجہ سے جہن میں عورتوں کی ت داد زی دہ ہوگی کہ‬ ‫اگر شوہر ہمیشہ اس کی خواہش‬

‫پوری کرت رہے‬

‫لیکن اگر ایک ب ر نہ کرے تو عور یہ کہتی ہے کہ میں نے‬ ‫تجھ سے کبھی خوشی نہیں پ ئی‬ ‫اگر خ ع بھی اس طرح آس ن ہوتی تو نصف سے زی دہ ش دی ں‬ ‫ٹوٹ چکی ہوتیں‬ ‫رہی طال کی ب‬


‫تو وہ بھی اتنی آس ن نہیں ہے‬ ‫لیکن اس میں ف ہی اختالف پ ی ج ت ہے‬ ‫ایک مکت فکرایک ہی مج س میں تین ب ر طال کہ دینے کو‬ ‫تین حتمی طال م نت ہے‬ ‫ایک مکت فکر کے مط ب شرعی طور پر بھی اور زب ن کے‬ ‫اصولوں کے مط ب بھی اور منط ی طور پر یہ ایک ہی طال‬ ‫ن فذ ہوتی ہے‬ ‫چ ہے ایک مج س میں کتنی ب ر بھی کہ ج ئے‬ ‫کہ تین ب ر کہنے کے ب وجود بھی عم ی طور پر تو ایک ہی ب ر‬ ‫چھوڑا ہے۔‬

‫‪From: Tanwir Phool tan...@gmail.com‬‬


To: BAZMe...@googlegroups.com Sent: Friday, May 10, 2013 12:46 AM Subject: Re: {23160} ‫ طال آس ن اور خ ع مشکل کیوں؟ اسک حل‬- ‫جدہ میں سیمین ر‬ ‫کی ہے؟‬ Humayun Sb

YahaaN naam nihaad aa'lim ki baat ho rahi hai jo foran talaaq naafiz honay kaa fatwaa de deta hai , phir paisay le kar Halaalaa karta hai. Keya aap aiesoN ko durust samajhtay haiN?Wassalam.


‫‪2013/5/9‬‬ ‫‪Humayun Rasheed‬‬ ‫>‪<rana.humay...@gmail.com‬‬ ‫پھول ض ح ‪ ،‬ب یہ ہے کہ ج فورمز پہ مسئ ہ بی ن کرنے کی‬ ‫بج ئے ع م ء اور ف ہ ء کو برا بھال کہ ج ئے گ تو یہی نتیجه‬ ‫نک ے گ کہ نہ طال کی شن ع م و ہو گی نہ حاللے کی‬ ‫حرم ‪ .‬اور یہ ہللا ک عذا ہے کہ لوگ برے ک موں میں پڑ‬ ‫ج ئیں اور سمجھ نے والوں کو بھی برا بھال کہتے رہیں‪.‬‬ ‫‪.‬مع السال ‪ .‬ہم یوں‬ ‫"‪On May 9, 2013 11:03 PM, "Tanwir Phool‬‬ ‫‪<tan...@gmail.com> wrote:‬‬ ‫محتر ع ی ف کی ص ح‬ ‫السال ع یک و رحم ہللا و برک تہ‬


‫یہ ہم رے ف ہ ک کرشمہ ہے کہ طال ک عمل آس ن‬ ‫نظر آت ہے ورنہ سورہ طال اور سورہ ب رہ میں‬ ‫ت صیل موجود ہے شرط یہ ہے کہ ہ اندھی ت ید سے‬ ‫گریز کریں طال کو آس ن بن نے کے ب د اس ک حل‬ ‫نک لنے کے لئے حاللہ ک جو طری ہ اپن ی ج ت ہے‬ ‫وہ ن ج ئز ہے کیونکہ حضور ص ی ہللا ع یہ و آلہ وس‬ ‫نے حاللہ کرنے اور کروانے والے پر ل ن فرم ئی ہے‬

‫‪2013/5/9‬‬


‫>‪aleem khan <aleem...@yahoo.com‬‬ ‫السال ع یک‬ ‫مس م ن م شرے میں آج طال جتنی آس ن ہوگئی ہے خ ع اتنی‬ ‫ہی مشکل ہوگئی ہے ۔ اگرچہ اسال نے عور کو مرد کے برابر‬ ‫ح و دیئے ہیں لیکن اسالمی ق نون کی پدر ش ہی ت بیر نے آج‬ ‫عور کو بغ و پر مجبور کردی ہے۔ صحیح اسالمی ت یم ‪،‬‬ ‫مس پرسنل ال اور ہندوست نی دستور کی روشنی میں ایک اہ‬ ‫گ تگو میں شرک کی درخواس ہے۔‬ ‫‪Seminar Organized by SocioReforms‬‬ ‫‪Society‬‬ ‫‪Why Talaq easy and Khula impossible in‬‬ ‫?‪Muslim Society‬‬ ‫?‪What is the solution‬‬

‫‪Speakers: Advocate Osman Shaheed,‬‬


Prosecutor General AP High Court and Aleem Khan Falaki Friday, 10th May, 2pm Imdtly after Friday prayer At: Shadaab Hall, Azizia, Jeddah Ladies are most welcome as the issues to be discussed are mostly concerned with the the women. Ladies are requested to avoid bringing the children below 10 years. Zubair H Shaikh 7/23/14 Translate message to English ،‫وع یک السال و رحمتہ ہللا و برک تہ‬ ‫ ہللا‬،‫اس بحث میں تم محترمین نے اخالص ک مظ ہرہ کی ہے‬ ‫ اس خ کس ر کے ع و مط ل ہ میں ایک‬-‫ت لی جزائے خیر دے‬ ‫عرصہ یہ موضوع رہ کیونکہ ایک ج ن پہچ ن کے ص ح اور‬ ‫انکے اہل و عی ل اس مسئ ہ میں یوں الجھے کہ کبھی نکل نہ‬


‫سکے‪ ،‬اور یہی نہیں کہ دونوں می ں بیوی کی دنی اور آخر دا‬ ‫پر لگ گئی ب کہ اوالد اور عزیز و اق ر بھی تک یف کے دور‬ ‫سے گزرتے رہے‪ ،‬پھر دین سے اور بھی دور ہوتے چ ے‬ ‫گئے‪......‬مسئ ہ اس لئے بھی پیچیدہ ہوگی تھ کہ شوہر و بیوی‬ ‫دو مخت ف مس ک اور مکت فکر کے م ننے والے تھے‪ ،‬خ وند‬ ‫سنی اور زوجہ ک ت اہل تشیع سے تھ ‪ -‬دور جدید میں‬ ‫جسطرح م شرہ تغیر اور ترقی پذیر ہورہ ہے اور جس رفت ر‬ ‫اور ت داد کے س تھ ام کی ایک اچھی خ صی ت داد مخت ف‬ ‫مم لک میں اس قس کے ازدواجی بندھن میں بندھ رہی ہے‪،‬‬ ‫انہیں میں یہ می ں اور بیوی بھی شم ر ہوتے تھے‪ .....‬ایسے‬ ‫طب ہ میں زی دہ تر ت ی ی فتہ حضرا ہوتے ہیں جو دین کو‬ ‫جم ہ اور عیدین تک محدود رکھتے ہیں اور صرف طال کی‬ ‫صور میں انہیں دین اور ع م ئے دین اور م تی ن کرا ی د آتے‬ ‫ہیں‪ ..‬لیکن دین چونکہ ایسے کسی بھی حضرا کو دین سے‬ ‫ع نہیں کرت اس لئے مسئ ہ ک حل تو دین کے حوالے سے ہی‬ ‫انہیں م ن چ ہیے‪ ،‬خ صکر جبکہ انہیں یہ حل م کی قوانین اور‬ ‫نظ سے م نے کے امک ن نہیں ہوتے‪ ،‬ی وہ خود ایسی کو ئی‬ ‫توقع نہیں کرتے‪ ،‬ی ان میں انک م د نظر نہیں آت ‪ .....‬خیر جو‬ ‫بھی ہو‪ ،‬اس تیز رفت ر اور تغیر پذیر م شرے کو اگر مست بل‬ ‫کے وسیع پس منظر میں دیکھیں تو ایسے م مال ک اوسط‬ ‫بہ زی دہ ہونے کے امک ن نظرآتے ہیں جہ ں نک ح مس کی‬ ‫اتح د ک ب عث نظر آئیگ اور طال مس کی تص د ک ب عث بن‬


‫ج ئیگی‪......‬اور چونکہ بنی دی ایم ن اور ام ک اجم لی اعت د و‬ ‫اتح د اس ک ت ضہ کرت ہے کہ اس حل کو تالش کرنے پر‬ ‫ضروری بحث و مب حثہ ہوں اور چو طرفہ ع م ئے کرا اور‬ ‫م تی ن کرا تک یہ مس ئل پہنچنے‪ ،‬پھر چ ہے جس کسی بھی‬ ‫ذرائع سے پہنچے‪.....‬ورنہ ایسے مسئ وں میں الجھے ہوئے‬ ‫حضرا کو نک ح اور ش دی کی مسرتوں میں اور تہذی جدیدہ‬ ‫کی آنکھیں خیرہ کر دینے والی روشنیوں میں تین کی ایک‬ ‫طال ک بھی گم ن نہیں ہوت ‪ .‬یہی کثیر ت داد اس مسئ ہ ک من س‬ ‫حل نہ م نے پر مست بل قری میں دین و ام کو مخت ف فتنوں‬ ‫میں مبتال کرنے ک ب عث بھی بنے گی ‪-‬ام مس مہ کی بے حد‬ ‫ق یل ت داد چونکہ ت وی کے م ی ر پر پوری اترتی ہے اور اول تو‬ ‫ان میں ایسے مسئ ے در پیش ہونے کے امک ن بہ ک ہوتے‬ ‫ہیں لیکن اگر مسئ ہ در پیش ہو بھی ج ت ہے تو ان کے لئے دین‬ ‫ک ہر ایک حل ق بل قبول ہوت ہے‪ ،‬لیکن اول الذکر حضرا کی‬ ‫کثیر ت داد کے لئے بہرح ل حل تو درک ر ہے‪ ....‬اس خ کس ر‬ ‫ط ل ع نے اسی وجہ سے پچھ ی بحث میں‪ ،‬جو " ثن خوان‬ ‫مشر ‪ ".....‬عنوان کے تح کی گئی تھی‪ ،‬اپنی ح یر تجویز‬ ‫پیش کی تھی‪ ،‬جو ہو سکت ہے بحث کے مرکزی ن طہ نظر سے‬ ‫ہٹ کر کی گئی ہو لیکن اس تجویز سے کچھ اور ی بہتر حل‬ ‫س منے نظر آ سکتے ہیں ‪ -‬وہللا ھو ع ل ب لصوا ‪ ...‬ب قی‬ ‫‪..‬ع م ئے دین بہتر سمجھ سکتے ہیں‬ ‫خ کس ر‬


‫زبیر‬ ‫‪sabirrahbar10‬‬ ‫‪7/24/14‬‬ ‫طال لغ میں چھوڑ دینے اور جدائی اختی ر کرنے کو کہتے‬ ‫ہیں اصطالح شرع میں مرد ک عور کو مخصوص ال ظ کے‬ ‫ذری ہ قید نک ح سے رہ کر دین ہے۔‬ ‫طال دینے ک ح شوہر کو ح صل ہے‪ ،‬وہ اپنے ح میں ب‬ ‫اختی ر ہے کہ م ول اسب کی بن پر اپن اختی ر است م ل کرے‬ ‫اور اپنی منکوحہ سے دس بردار ہو ج ئے‪ ،‬لیکن اسال طال‬ ‫کو ن پسند فرم ت ہے‪ ،‬نبی کری ﷺ ک ارش د گرامی ہے۔‬ ‫)ابغض الحالل ال ہللا الطال ‪’’ (.‬‬ ‫ہللا کے نزدیک حالل چیزوں میں س سے ن پسندیدہ چیز طال‬ ‫ہے۔‬ ‫اسی م ہو کی ایک دوسری حدیث میں رسول کری ﷺ نے‬ ‫‪:‬ارش د فرم ی‬ ‫)م احل ہللا شیئ ابغض الیه من الطال ‪’’ (‘‘.‬‬ ‫ہللا نے جو چیزیں حالل کی ہیں ان میں س سے ن پسندیدہ اس‬


‫کے نزدیک طال ہے۔‬ ‫‪:‬ایک اور ارش د نبوی ہے‬ ‫)تزوجو وال تط ِّ وا ف ن ہللا ال یح الذواقین والذواق ‪’’۳( ‘‘.‬‬ ‫ش دی ں کرو اور طال نہ دو اس لیے کہ ہللا ت لی مزہ چکھنے‬ ‫والوں اور مزہ چکھنے والیوں کو محبو نہیں رکھت ۔‬ ‫اگر نک ح اور طال ک م صد صرف اتن ہے کہ خواہش ن س نی‬ ‫کی تکمیل ہو تو اسال ہرگز ایسے نک ح کی حوص ہ افزائی نہیں‬ ‫کرت ‪ ،‬پھر می ں بیوی کے درمی ن عالحدگی طال کے ذری ہ ہو ی‬ ‫خ ع کے ذری ہ دونوں صورتیں ہللا کے نزدیک ن پسندیدہ اور‬ ‫مبغوض ہیں۔‬ ‫‪:‬رسول ک ئن‬

‫ﷺ نے عورتوں کے س س ہ میں ارش د فرم ی‬

‫ایم امراة سئ‬ ‫)رائح الجن ‪(‘‘.‬‬

‫زوجھ طالق في غیر م ب س فحرا ع یھ ’’‬

‫جو عور بغیر کسی وجہ کے اپنے شوہر سے طال ط‬ ‫تو اس پر جن کی خوشبو حرا ہے۔‬

‫کرے‬

‫اس ارش د رسول کی روشنی میں پت چال کہ بغیر کسی وجہ‬ ‫شرعی کے طال دین اور عور ک طال ط کرن ہللا کی‬ ‫ن راضگی ک سب ہے۔ اسال نے مرد کو طال دینے کی ازادی‬ ‫دی ہے‪ ،‬مگر اس شرط کے س تھ کہ طال کے عالوہ اور کوئی‬


‫چ رہ ک ر نہ ہو۔ اس س س ے میں قران مجید نے یہ ت ی دی ہے‬ ‫کہ اگر بیوی پسند نہ ہو تو جہ ں تک ممکن ہو اس کے س تھ نب ہ‬ ‫‪:‬کی کوشش کی ج ئے۔ ر کری ک ارش د ہے‬ ‫وع شروھن ب لم روف ف ن كرھتموھن ف س ان تكرھوا شیئ و ’’‬ ‫)یج ل ہللا فیه خیرا كثیرا‪(.‬‬ ‫اور ان سے اچھ برت و کرو‪ ،‬پھر اگر وہ تمھیں پسند نہ ائیں تو‬ ‫قری ہے کہ کوئی چیز تمھیں ن پسند ہو اور ہللا اس میں بہ‬ ‫)بھالئی رکھے۔(کنز االیم ن‬ ‫مذکورہ ای سے یہ سب مال کہ اگر بیوی بد خ ہو ی قبول‬ ‫صور نہ ہو تو طال دینے میں ج دی نہیں کرنی چ ہیے‪ ،‬ممکن‬ ‫ہے کہ خ ل ک ئن اسی بیوی سے الئ اور نیک اوالد بخشے‬ ‫جو دنی اور ع بی کی بھالئی ک سب بنے۔‬ ‫شوہر پر الز ہے کہ وہ بیوی کی اصالح کے لیے کوئی م تدل‬ ‫راہ اختی ر کرے اور اس کے س تھ محب و ال سے پیش ائے‪،‬‬ ‫اصالح کی تم تر کوششوں کے ب وجود کوئی موثر صور نظر‬ ‫نہ ائے تو شوہر کو یہ ح ح صل ہے کہ اپنی منکوحہ کو طال‬ ‫دے دے‪ ،‬لیکن ایک ہی س تھ تینوں طال نہ دے کہ ایک س تھ‬ ‫تین طال دینے والے پر رسول ہللا ﷺ غض ن ک ہوتے ہیں۔‬ ‫‪:‬حدیث شریف میں ہے‬ ‫عن محمود بن لبید ق ل اخبر رسول ہللا ص‬

‫ہللا ع یه وس ‪’’ .‬‬


‫عن رجل ط امراته ث ث تط ی جمی ف غضب ن ث ق ل‬ ‫بكت ہللا عز وجل وان بین اظھرك حت ق رجل ف ل ی‬ ‫ای‬ ‫)رسول ہللا اال اقت ه‪(‘‘.‬‬ ‫محمود ابن لبید سے مروی ‪ ،‬وہ فرم تے ہیں کہ رسول ہللا ﷺ‬ ‫کو خبر دی گئی کہ ایک ادمی نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین‬ ‫طالقیں دے دیں‪ ،‬تو اپ غض ن ک ہو کر کھڑے ہو گئے‪ ،‬پھر‬ ‫ارش د فرم ی کی ہللا کی کت کے س تھ کھیل کی ج رہ ہے‪ ،‬ج‬ ‫کہ میں تمہ رے درمی ن موجود ہوں‪ ،‬یہ ں تک کہ ایک شخص‬ ‫نے اٹھ کر عرض کی ‪ ،‬ی رسول ہللا کی میں اسے قتل نہ کر دوں؟‬ ‫اس حدیث سے ث ب ہوا کہ ایک س تھ تین طالقیں دین شری‬ ‫کے خالف ہے اور شری کی اس خالف ورزی کی وجہ سے ہللا‬ ‫اور اس کے رسول کی ن راضگی کے س تھ بس اوق بہ س ری‬ ‫دنی وی دشواریوں اور رسوائیوں ک س من بھی کرن پڑت ہے‪ ،‬اگر‬ ‫ہ اسال کے بت ئے ہوئے ق نون پر عمل کریں تو ہللا و رسول کی‬ ‫گرف اور دنی وی رسوائیوں سے بچ سکتے ہیں۔‬ ‫‪:‬طال کی قسمیں‬ ‫ا ہ ذیل کی سطروں میں طال کے ت‬ ‫‪:‬اور ضروری ت صیال پیش کرتے ہیں‬

‫سے کچھ بنی دی‬

‫طال جس طرح بھی دی ج ئے واقع ہو ج ئے گی‪ ،‬مگر اسالمی‬ ‫ق نون اس ب کی اج ز دیت ہے کہ یہ ت ری اور جدائی بھی‬


‫بہتر طری ے سے ہو۔ طال دینے کی ب ض صورتیں پسندیدہ اور‬ ‫ب ض ن پسندیدہ ہیں۔ اس لح ظ سے ف ہ ے اسال نے طال کی‬ ‫تین قسمیں بی ن فرم ئی ہیں ‪ -‬طال احسن‪ ،‬طال حسن‪ ،‬طال‬ ‫بدعی۔‬ ‫‪:‬طال احسن‬ ‫جن ای میں عور م ہ واری سے پ ک ہو اور اس سے‬ ‫م رب (ہ بستری) بھی نہ کی گئی ہو‪ ،‬ان ای میں صرف ایک‬ ‫طال دی ج ئے۔ اس میں دوران عد مرد کو رجوع ک ح رہت‬ ‫ہے اور عد گزرنے کے ب د عور ب ئنہ ہو ج تی ہے۔ ی نی‬ ‫اپنے شوہر سے مکمل طور پر عالحدہ ہو ج تی ہے‪ ،‬ا وہ جس‬ ‫سے چ ہے نک ح کرے اور اگر اسی شوہر سے دوب رہ نک ح کرن‬ ‫چ ہے تو فری ین کی رض مندی سے دوب رہ بغیر حاللہ کے نک ح‬ ‫ہو سکت ہے۔‬ ‫‪:‬طال حسن‬ ‫جن ای میں عور پ ک ہو اور م رب بھی نہ کی ہو‪ ،‬ان ای‬ ‫میں ایک طال دی ج ئے‪ ،‬اور ایک م ہواری گزر ج ئے تو بغیر‬ ‫م رب کے دوسری طال دی ج ئے‪ ،‬اور دوسری م ہواری گزر‬ ‫ج ئے تو بغیر م رب کیے تیسری طال دی ج ئے‪ ،‬اس کے ب د‬ ‫ج تیسری م ہ واری گزر ج ئے گی تو عور مغ ظہ ہو ج ئے‬ ‫گی‪ ،‬اور ا حاللہ کے بغیر اس سے دوب رہ ع د نہیں ہو سکت ۔‬


‫‪:‬طال بدعی‬ ‫اس کی تین صورتیں ہیں ( ) ایک مج س میں تین طال یک‬ ‫ب رگی دی ج ئے خواہ ایک ک مہ سے مثال ت کو تین طالقیں دیں۔‬ ‫ی چند ک م سے مثال کہے ت کو طال دی‪ ،‬ت کو طال دی‪ ،‬ت‬ ‫کو طال دی۔ ( ) عور کی م ہ واری کے ای میں اس کو ایک‬ ‫طال دی ج ئے‪ ،‬اس طال سے رجوع کرن واج ہے۔ (‪ )۳‬جن‬ ‫ای میں عور سے م رب کی ہو ان ای میں عور کو ایک‬ ‫طال دی ج ئے‪ ،‬طال بدعی کسی بھی صور میں ہو اس ک‬ ‫دینے واال گنہگ ر ہوت ہے۔‬ ‫‪:‬صریح اور کن یہ‬ ‫جن ال ظ سے طال واقع ہوتی ہے وہ دو طرح کے ہیں۔ صریح‬ ‫اور کن یہ۔‬ ‫‪:‬صریح‬ ‫وہ ال ظ ہیں جس سے طال مراد ہون ظ ہر ہو ‪ ،‬چ ہے وہ‬ ‫کسی زب ن کے ال ظ ہوں اور اس ل ظ کو سنتے ہی ذہن فورا‬ ‫طال کی طرف ج ئے۔ عرف میں اس ک اور کوئی م نی نہ‬ ‫سمجھ ج ئے‪ ،‬مثال شوہر نے بیوی سے کہ ‪ :‬میں نے تجھے‬ ‫طال دی‪ ،‬تجھے طال دی‪ ،‬تو مط ہ ہے‪ ،‬تو ط ل ہے‪ ،‬میں‬ ‫تجھے طال دیت ہوں‪ ،‬اے مط ہ‪ ،‬میں نے تجھے چھوڑا۔‬ ‫وغیرہ۔‬


‫اگر طال کے ال ظ بگ ڑ کر کہے‪ ،‬جیسے طال ‪ ،‬تال ‪ ،‬طالک‪،‬‬ ‫تالک‪ ،‬تالکھ‪ ،‬تالکھ‪ ،‬تالخ‪ ،‬تالخ‪ ،‬تال ‪ ،‬طال ‪ ،‬ب کہ توت ے کی‬ ‫زب ن سے تال ‪ ،‬یہ س صریح کے ال ظ ہیں۔ ان س ال ظ ک‬ ‫حک یہ ہے کہ طال واقع ہو ج ئے گی‪ ،‬اگرچہ کچھ نی نہ کی‬ ‫ہو۔ یہ ال ظ ہنسی مذا میں کہے‪ ،‬ی سنجیدگی سے غصے اور‬ ‫نشے کی ح ل میں کہے ی ع ح ل میں۔ ان ال ظ سے ایک ی‬ ‫دو مرتبہ طال دی تو طال رج ی ہوگی‪ ،‬ی نی مرد عد کے‬ ‫اندر بیوی کو بغیر نک ح لوٹ سکت ہے۔ اس عمل کو شری کی‬ ‫اصطالح میں ”رج “ کہتے ہیں‪ ،‬اور عد گزر ج نے کے ب د‬ ‫رج نہیں کر سکت ۔ ہ ں ب ہمی رض مندی سے دوب رہ بغیر‬ ‫حاللہ نک ح ہوسکت ہے۔ اگر تین دف ہ دے دی تو بیوی طال‬ ‫دینے والے پر مکمل طور پر حرا ہو ج ئے گی۔ اس صور میں‬ ‫بغیر حاللہ اس کے لیے حالل نہیں ہو سکتی۔‬ ‫‪:‬کن یہ‬ ‫ایسے ال ظ جو طال ہی کے لیے خ ص نہ ہوں‪ ،‬ب کہ طال کے‬ ‫عالوہ اور م نوں میں بھی است م ل ہوتے ہوں‪ ،‬مثال اظہ ر غض‬ ‫‪ ،‬ن ر ‪ ،‬بیزاری اور ڈانٹ پھٹک ر کے لیے‪ ،‬جیسے‪ ،‬ج ‪ ،‬نکل‪،‬‬ ‫چل‪ ،‬روانہ ہو‪ ،‬اٹھ‪ ،‬کھڑی ہو‪ ،‬پردہ کر‪ ،‬دوپٹہ اوڑھ‪ ،‬ن ڈال‪،‬‬ ‫ہٹ‪ ،‬سرک‪ ،‬جگہ چھوڑ‪ ،‬گھر خ لی کر‪ ،‬دور ہو‪ ،‬چل دور‪ ،‬وغیرہ۔‬ ‫ان ال ظ سے اس شرط پر طال پڑے گی ج کہ شوہر نے طال‬ ‫کی نی کی ہو۔ ی قرینے اور ح ال بت ئیں کہ یہ ں طال ہی مراد‬


‫ہوگی۔ مثال شوہر طال کی دھمکی دے رہ تھ ‪ ،‬ی عور طال‬ ‫ط کر رہی تھی‪ ،‬اسی دوران شوہر نے یہ ال ظ ادا کیے ‪ ،‬تو‬ ‫ایسی صور میں طال پڑ ج ئے گی‪ ،‬چ ہے اس نے طال کی‬ ‫نی کی ہو ی نہ کی ہو۔ اور واضح رہے کہ کن یہ کے ال ظ سے‬ ‫جو طال واقع ہوتی ہے وہ ب ئن ہوتی ہے‪ ،‬ایک ہو ی دو‪ ،‬اس‬ ‫میں شوہر کو رجوع ک ح نہیں۔‬ ‫صریح اور کن یہ کے ال ظ سے جو طال واقع ہوتی ہے‪ ،‬ان کی‬ ‫حک اور نتیجہ کے اعتب ر سے تین قسمیں ہیں‪ ،‬رج ی‪ ،‬ب ئن‪،‬‬ ‫مغ ظہ۔‬ ‫‪:‬طال رج ی‬ ‫جس سے عور فی الح ل نک ح سے نہیں نک تی‪ ،‬عد کے‬ ‫اندر اگر شوہر رج کر لے تو وہ بدستور اس کی زوجہ رہے‬ ‫گی‪ ،‬ہ ں عد گزر ج ئے اور رج نہ کرے تو اس وق نک ح‬ ‫سے نکل ج ئے گی‪ ،‬پھر بھی ب ہمی رض مندی سے دونوں اپس‬ ‫میں نک ح کر سکتے ہیں۔‬ ‫‪:‬طال ب ئن‬ ‫جس سے عور فورا نک ح سے نکل ج تی ہے‪ ،‬ہ ں اپسی‬ ‫رض مندی سے عد کے اندر ی ب د عد دونوں اپس میں نک ح‬ ‫کر سکتے ہیں۔‬ ‫‪:‬طال مغ ظہ‬


‫جس سے عور فورا نک ح سے نکل ج تی ہے‪ ،‬اس صور‬ ‫میں دونوں ک اپس میں نک ح کبھی نہیں ہو سکت ج تک کہ‬ ‫حاللہ نہ ہو۔ طال مغ ظہ تین طالقوں سے ہوتی ہے‪ ،‬تینوں ایک‬ ‫س تھ دی ہو ی برسوں کے ف ص ے سے۔‬ ‫‪:‬عد‬ ‫شوہر سے جدائی کے ب د عورتوں کے لیے شری نے کچھ‬ ‫مخصوص ای مت ین کیے ہیں کہ ان ای میں عور کسی‬ ‫دوسرے مرد سے نک ح نہ کرے‪ ،‬اسی ک ن عد ہے۔ عد ک‬ ‫م صد یہ ہے کہ شوہر کی جدائی سے بیوی غ و افسوس کرے‪،‬‬ ‫اور اس ب سے اطمین ن بھی ح صل کر لے کہ ا س ب ہ شوہر‬ ‫سے رح میں م دہ تولید نہیں ہے۔ یہ مخصوص ای (عد )‬ ‫گزارنے کے ب د ج عور دوسری ش دی کرے گی تو بچہ کی‬ ‫نسب اختالط ک شبہہ نہیں ہوگ کہ یہ بچہ کس ک ہے‪ ،‬س ب ہ‬ ‫شوہر ک ی موجودشوہر ک ۔‬ ‫‪:‬عد کی مد‬ ‫مط ہ مدخولہ (جو شوہر سے صحب کر چکی ہو‪ ،‬جسے‬ ‫م ہواری اتی ہو) کہ عد تین حیض ہے۔ مط ہ ح م ہ کی عد‬ ‫وضع حمل ہے۔ مط ہ ائسہ (پچ س ی اس سے زائد عمر والی‬ ‫عور کہ جسے حیض ان بند ہو ج ت ہے) کی عد تین م ہ‪ ،‬اور‬ ‫غیر مدخولہ (جس نے ابھی شوہر سے صحب نہ کی ہو) کی‬ ‫عد کچھ نہیں۔( ) مو کی عد غیر ح م ہ کے لیے چ ر‬


‫مہینے دس دن ہے۔( ) اور ح م ہ کے لیے وضع حمل ہے۔ بچہ‬ ‫کے اعض ظ ہر ہو چکے ہوں اور اس ط ہو گی تو عد خت نہ‬ ‫ہوئی۔‬ ‫شرط ان ض ع ھذہ ال دة ان یكون م وض قد استب ن خ ه ف ن ’’‬ ‫ل یستبن خ ه راس ب ن اس ط ع او مضغ ل تن ض ال دة‪‘‘.‬‬ ‫)(‬ ‫‪:‬طال دینــــــے ک اسالمی طری ہ‬ ‫طال دین یوں تو بہ مذمو ف ل ہے۔لیکن اگر طال دین‬ ‫ضروری ہو کہ اس کے بغیر کوئی چ رہ نہیں تو اس ک طری ہ یہ‬ ‫ہے کہ دو حیضوں کے درمی ن پ کی کے ای میں ایک طال‬ ‫رج ی دے بشرطے کہ ان ای میں بیوی سے م رب نہ کی ہو۔‬ ‫اس شکل میں اگر شوہر بیوی کو دوب رہ نک ح میں الن چ ہے تو‬ ‫رج کر لے ‪ ،‬ی نی عد کے اندر بیوی سے کہے کہ میں نے‬ ‫تجھے نک ح میں واپس لے لی ‪ ،‬ی ت سے رج کی ی میں نے‬ ‫تجھ کو روک لی ‪ ،‬ی یہ کہے کہ میں نے اپنی زوجہ سے رج‬ ‫کی‪ ،‬یہ س رج کے ال ظ ہیں۔‬ ‫شوہر نے عد کے اندر رج نہیں کی اور عد کے ای گزر‬ ‫گئے تو اس صور میں بغیر حاللہ کے نک ح ہو سکت ہے۔‬ ‫دوسری طال دینے کے لیے دوسرے طہر (پ کی کے ای ) ک‬ ‫انتظ ر کرے اور اس میں بھی صرف ایک ہی طال دے‪،‬‬


‫بشرطے کہ اس میں بھی مج م نہ کی ہو۔ ان ای میں دونوں‬ ‫کو خو اچھی طرح سوچنے سمجھنے ک موقع مل ج ئے گ ‪،‬‬ ‫اور اگر ب بنتی ہوئی دکھ ئی دے تو عد کے اندر رج اور‬ ‫ب د عد بغیر حاللہ نک ح بھی ہو سکت ہے اور دونوں بدستور‬ ‫می ں بیوی کی حیثی سے رہ سکتے ہیں۔ اس مہ میں بھی‬ ‫اگر رویہ میں تبدی ی نہیں ائی اور فیص ہ چھوڑنے ہی ک رہ تو‬ ‫تیسرے طہر میں طال دے کر بیوی سے ہمیشہ کے لیے الگ‬ ‫ہو ج ئے۔ اور احسن طری ہ یہ ہے کہ تیسری طال نہ دے ب کہ‬ ‫دو ہی پر اکت کرے اور عد گزر ج نے دے ۔ ا دونوں عالحدہ‬ ‫ہو ج ئیں گے اور ہر ایک جس سے چ ہے نک ح کر سکت ہے ‪،‬‬ ‫اس ک ف ئدہ یہ ہوگ کہ کبھی یہ زوجین پھر نک ح کرن چ ہیں تو‬ ‫بغیر حاللہ کے نک ح کر سکتے ہیں‪ ،‬اور تیسری دف ہ ہونے کے‬ ‫ب د بغیر حاللہ کے ان دونوں کو اکٹھ ہون حرا ہے۔‬ ‫‪:‬ہللا تب رک و ت لی ک ارش د گرامی ہے‬ ‫واذا ط ت ال ِّنس ء فب غن اج ھن ف مسكوھن بم روف او س ِّرحوھن ’’‬ ‫)بم روف‪(.‬‬ ‫اور ج ت عورتوں کو طال دو اور ان کی می د (مد ) الگے‬ ‫(پوری ہو ج ئے) تو اس وق تک ی بھالئی کے س تھ روک لو ی‬ ‫)نکوئی کے س تھ چھوڑ دو۔(کنز االیم ن‬ ‫‪:‬ایک دوسری جگہ ارش د فرم ت ہے‬


‫ن ف مس‬ ‫)الطال مرت ۪‬

‫بم روف او تسریح ب حس نؕ ‪(.‬‬

‫یہ طال (رج ی) دو ب ر تک ہے‪ ،‬پھر بھالئی کے س تھ روک لین‬ ‫)ہے‪ ،‬ی نکوئی کے س تھ چھوڑ دین ہے۔(کنز االیم ن‬ ‫‪:‬اور فرم ت ہے‬ ‫ف ن ط ھ فال تحل له من ب د حت تنكح زوج غیرہؕ ف ن ط ھ‬ ‫)فال جن ح ع یھم ان یتراج ‪(.‬‬ ‫پھر اگر تیسری طال اسے دی تو ا وہ عور اسے حالل نہ‬ ‫ہوگی ج تک دوسرے خ وند کے پ س نہ رہے‪ ،‬پھر وہ دوسرا‬ ‫اگر اسے طال دے دے تو ان دونوں پر گن ہ نہیں کہ پھر اپس‬ ‫)میں مل ج ئیں۔ (کنز االیم ن‬ ‫قران کری کی ت ی تو یہ ہے کہ ن خوشگوار ح ال میں طال‬ ‫کے بغیر کوئی چ رہ ک ر نہ ہو تو طال دی ج ئے ‪ ،‬وہ بھی‬ ‫یکب رگی تینوں نہیں ب کہ تین مرتبہ میں‪ ،‬جیس کہ ذکر ہوا۔ لیکن‬ ‫اج ہم رے اس م شرے میں جو طال دینے کی رفت ر ہے وہ‬ ‫ایک جدا گ نہ نوعی کی ح مل ہے۔ کھ نے میں نمک ک ہو گی ی‬ ‫زی دہ ہو گی ‪ ،‬ن دانستہ طور پر شوہر کے مزاج کے خالف کوئی‬ ‫ب ہو گئی‪ ،‬حک کی بج اوری میں کچھ دیر ہو گئی ‪ ،‬غرض کہ‬ ‫چھوٹی چھوٹی لغزشوں پر تیور بدل ج تے ہیں‪ ،‬اور غصہ ک‬ ‫اظہ ر طال کے ذری ہ کی ج ت ہے۔ ایک اور دو طال پر صبر‬ ‫نہیں ہوت تو تین ی اس سے بھی تج وز کر ج تے ہیں‪ ،‬اس کے‬


‫ب د افسوس کرتے ہیں اور م تی ن کرا کے پ س ج کر طرح‬ ‫طرح کے حی ے بہ نے سے فتوی لین چ ہتے ہیں کہ میں نے‬ ‫ایسے ایسے کہ تھ ‪ ،‬اگر گنج ئش ہو تو بت ئی ج ئے‪ ،‬ایسے ہی‬ ‫طال دینے والوں پر ہللا اور اس کے رسول کی ل ن ہے۔‬ ‫‪:‬رج‬

‫ک بہترین طری ہ‬

‫رج ک طری ہ یہ ہے کہ کسی ل ظ سے رج کرے اور‬ ‫رج پر دو ع دل شخصوں کو گواہ کرے اور عور کو بھی‬ ‫اس کی خبر کر دے ت کہ عد کے ب د کسی اور سے نک ح نہ کر‬ ‫لے‪ ،‬اور اگر کر لی تو ت ری کر دی ج ئے‪ ،‬چ ہے دخول (ہ‬ ‫بستری) بھی کر چک ہو۔ اس لیے کہ یہ نک ح نہ ہوا‪ ،‬اور اگر‬ ‫قول (ل ظ) سے رج کی مگر گواہ نہ کی ‪ ،‬ی گواہ بھی کی مگر‬ ‫عور کو خبر نہ دی تو مکروہ خالف سن ہے‪ ،‬مگر رج ہو‬ ‫ج ئے گی۔ اور اگر ف ل سے رج کی (جیسے اس سے وطی‬ ‫کی ‪،‬شہو کے س تھ بوسہ لی ‪ ،‬ی اس کی شر گ ہ کی طرف نظر‬ ‫کی) تو رج ہو گئی‪ ،‬مگر مکروہ ہے۔ چ ہیے کہ پھر گواہوں‬ ‫کے س منے رج کے ال ظ کہے۔ (جوہرہ‪ ،‬بہ ر شری ‪ ،‬ق نون‬ ‫)شری‬ ‫‪:‬یک ب رگی تین طال دینے کے ن ص ن‬ ‫اسال نے شوہرکو طال دینے ک اختی ر دی ہے‪ ،‬لیکن اس ک‬ ‫ہرگز یہ مط نہینکہ شری کے بت ئے ہوئے ق نون کے خالف‬ ‫اپن اختی ر است م ل کر کے ہللا اور اس کے رسول کے عت کو‬


‫دعو دی ج ئے۔اح دیث کریمہ میں نبی کری ﷺنے یکب رگی‬ ‫تین طال دینے والوں پر ن راضگی اور غصہ ک اظہ ر کی ہے‪،‬‬ ‫گزشتہ ص حہ میں ایک حدیث حضر محمود بن لبید کی روای‬ ‫سے گزری کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو یک ب رگی تین‬ ‫طالقیں دیں۔ ج رسول ہللا ﷺ کو م و ہوا تو اپ غصہ سے‬ ‫کھڑے ہو گئے اور فرم ی کہ کت ہللا سے کھیل کی ج رہ ہے‪،‬‬ ‫ج کہ میں تمہ رے درمی ن موجود ہوں۔‬ ‫‪:‬ام عبد الرزا روای کرتے ہیں‬ ‫عن س ل عن ابن عمر ق ل من ط‬ ‫)ربه‪۳(‘‘.‬‬

‫امراته ث ث ط ِّ‬

‫وعص ’’‬

‫حضر س ل حضر ابن عمر رضی ہللا عنہ سے بی ن کرتے‬ ‫ہیں‪ ،‬جس نے اپنی بیوی کو تین طالقیں دیں‪ ،‬وہ واقع ہو گئیں‬ ‫اور طال دینے والے نے یکب رگی تین طال دے کر اپنے ر‬ ‫کی ن فرم نی کی۔‬ ‫‪:‬ام ابو بکر بن ابی شیبہ روای کرتے ہیں‬ ‫عن واقع ابن سبح ن ق ل سئل عمران بن حصین عن رجل ط‬ ‫)امراته ثالث في مج س ق ل اث بر ِّبه وح ِّرم ع یه امراته‪(‘‘.‬‬

‫’’‬

‫واقع بن سبح ن سے مروی کہ عمران بن حصین رضی ہللا عنہ‬ ‫سے ایک ایسے ادمی کے ب رے میں پوچھ گی جس نے اپنی‬ ‫بیوی کو ایک مج س میں تین طالقیں دے دیں‪ ،‬تو انھوں نے‬


‫فرم ی کہ اس شخص نے اپنے ر کی ن فرم نی کی اور اس کی‬ ‫بیوی اس پر حرا ہو گئی۔‬ ‫‪:‬ایک جگہ اور لکھتے ہیں‬ ‫عن انس ق ل ك ن عمر اذا اتي برجل قد ط‬ ‫)مج س او ج ه ضرب وفر بینھ ‪(‘‘.‬‬

‫امراته ثالث في ’’‬

‫حضر انس سے مروی انھوں نے فرم ی کہ حضر عمر رضی‬ ‫ہللا عنہ کے پ س ج کوئی ایس ادمی پیش کی ج ت جس نے‬ ‫اپنی بیوی کو ایک ہی مج س میں تین طالقیں دی ہوں تو اپ‬ ‫اسے تک یف دہ م ر م رتے اور زوجین میں ت ری کر دیتے۔‬ ‫مذکورہ اح دیث سے م و ہوا کہ بیک وق تین طالقیں دین گن ہ‬ ‫اور شرعی مص حتوں کے خالف ہے‪ ،‬شری اسالمی ک منش تو‬ ‫یہ ہے کہ زوجین ایک مرتبہ رشتہ ازدواج میں جڑنے کے ب د ت‬ ‫حی بحسن و خوبی نب ہ کریں‪ ،‬اور یہ رشتہ توڑنے کی کوشش‬ ‫نہ کریں۔ ہ ں اگر نب ہ کے س رے راستے بند ہو چکے ہوں‪ ،‬اور‬ ‫ایک دوسرے کی زندگی اجیرن ہو تو ایسے موقع پر شری‬ ‫اسالمیہ جدائی کی اج ز دیتی ہے ت کہ دونوں اپن اپن مست بل‬ ‫بن ئیں۔ ایسے موقع پر شوہر طال دے‪ ،‬لیکن گنج ئش ب قی‬ ‫رکھے ت کہ ائندہ کے لیے راہ ہموار رہے‪ ،‬کیوں کہ بس اوق‬ ‫ادمی تین طالقیں یک ب رگی دے دیت ہے‪ ،‬ب د میں پشیم ن ہوت‬ ‫ہے۔‬


‫بیک وق تین طال دینے کے س س ہ میں جو حدیثیں پیش کی‬ ‫گئیں ان سے یہ سب مال کی یکب رگی تینوں طال واقع کرنے‬ ‫واال ب رگ ہ خدا و رسول ک مجر ہے‪ ،‬ایسے شخص پر خدا اور‬ ‫رسول کی ل ن ہوتی ہے‪ ،‬اور وہ شخص ن فرم نی ک مرتک‬ ‫ہوت ہے‪ ،‬اور دنی کے اندر ایسے شخص کو س سے زی دہ‬ ‫رسوائی ک س من اس وق کرن پڑت ہے ج جدائی کے ب د پھر‬ ‫دونوں کی محب عود کر اتی ہے اور دوب رہ بغیر حاللہ نک ح‬ ‫کرن ممکن نہیں ہوت ۔ اسالمی ق نون یہ ہے کہ ج شوہر طال‬ ‫مغ ظہ دے چک ہو تو اس عور سے دوب رہ نک ح نہیں کر‬ ‫سکت ‪ ،‬ج تک کہ وہ کسی دوسرے سے نک ح نہ کر لے اور وہ‬ ‫اس سے لطف اندوز ہونے کے ب د طال نہ دے دے۔‬ ‫‪:‬ر کری ارش د فرم ت ہے‬ ‫)ف ن ط ھ فال تحل له من ب د حت تنكح زوج غیر ؕہ (‬ ‫پھر اگر تیسری ب ر اسے طال دی تو ا وہ عور اسے حالل‬ ‫)نہ ہوگی‪ ،‬ج کہ دوسرے خ وند کے پ س نہ رہے۔(کنز االیم ن‬ ‫یہ ایک ایسی شرط ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو طال‬ ‫دین چ ہے گ تو پہ ے خو سمجھ لے گ اور اس وق تک طال‬ ‫نہیں دے گ ج تک کہ یہ فیص ہ نہ کر لے کہ ا اس عور‬ ‫کے س تھ ازدواجی رشتہ ب قی نہیں رکھن ہے‪ ،‬دنی میں اس سے‬ ‫بڑی رسوائی اور شرمندگی اور کی ہو سکتی ہے کہ مط ہ بیوی‬ ‫عد گزار کر دوسرے سے نک ح کرے‪ ،‬اور اس شوہر سے‬


‫قرب بھی کرے‪ ،‬پھر وہ طال دے دے ت دوب رہ عد گزار کر‬ ‫شوہر اول اسے اپنے نک ح میں الئے‪ ،‬اس کو کہتے ہیں تھوک‬ ‫کر چ ٹن ۔ اگر ع ل سے ک لی ج ئے اور ق نون شری کے‬ ‫مط ب اپنے نک ح و طال کے م مال انج دیے ج ئیں تو اس‬ ‫طرح کے رسوا کن دن دیکھنے کو نہ م یں۔‬ ‫‪:‬مسئ ہ حاللہ‬ ‫حاللہ کی صور یہ ہے کہ اگر عور مدخولہ (ی نی شوہر‬ ‫سے صحب کر چکی ہے) تو طال کی عد پوری ہونے کے‬ ‫ب د کسی اور سے نک ح صحیح کرے اور شوہر ث نی اس عور‬ ‫سے وطی بھی کر لے‪،‬ا اس شوہر ث نی کے طال ی مو کے‬ ‫ب د عد پوری ہونے پر شوہر اول سے نک ح ہو سکت ہے‪ ،‬اور‬ ‫اگر عور مدخولہ نہیں ہے تو پہ ے شوہر کے طال دینے کے‬ ‫ب د فورا دوسرے سے نک ح کر سکتی ہے کہ اس کے لیے عد‬ ‫)نہیں۔(‬ ‫ب ض لوگ طال مغ ظہ دینے کے ب د پھر اسی عور کو نک ح‬ ‫میں النے کے لیے یہ طری ہ اختی ر کرتے ہیں کہ مط ہ ک نک ح‬ ‫کسی سے کرا دیتے ہیں‪ ،‬ندام اور رسوائی سے بچنے کے‬ ‫لیے ہ بستری سے پہ ے شوہر ث نی کو کسی چیز ک اللچ دے‬ ‫کر یہ کہہ دیتے ہیں کہ خ و اگرچہ ہو‪ ،‬لیکن خ و صحیحہ (ہ‬ ‫بستری) نہ ہو‪ ،‬ایس کرنے والوں کو نبی کری ﷺ ک ارش د‬ ‫‪:‬س منے رکھن چ ہیے‬


‫عن ع ئش ان رجال ط امراته ثالث فتزوج فط فسئل النبي ’’‬ ‫ص ہللا ع یه وس اتحل لالول ق ل ال حت یذو عسی تھ كم‬ ‫)ذا االول‪(‘‘.‬‬ ‫حضر ع ئشہ رضی ہللا عنہ سے مروی کہ ایک شخص نے‬ ‫اپنی بیوی کو طال دی تو اس عور نے دوسرے سے ش دی‬ ‫کر لی‪ ،‬پھر اس نے بھی طال دے دی‪ ،‬تو نبی کری ﷺ سے‬ ‫دری ف کی گی کہ کی وہ پہ ے شوہر کے لیے حالل ہو سکتی‬ ‫ہے؟ حضور نے ارش د فرم ی کہ اس وق تک حالل نہیں ہو‬ ‫سکتی ج تک کہ دوسرا شوہر پہ ے شوہر کی طرح اس سے‬ ‫لطف اندوز نہ ہو لے۔‬ ‫اس حدیث سے ث ب ہوا کہ محض دوسرے شوہر سے نک ح کر‬ ‫لین ک فی نہیں ب کہ دونوں ک ایک دوسرے سے بہ ذری ہ صحب‬ ‫لطف اندوز ہون ضروری ہے‪ ،‬صحب نہ پ ئے ج نے کی صور‬ ‫میں پہ ے شوہر سے نک ح بھی درس نہ ہوگ ‪ ،‬ب کہ ایس کرن‬ ‫صریح حرا ک ری ہے۔‬ ‫اور جو شخص اپنی مط ہ کو صرف اپنے لیے حالل کرنے کی‬ ‫خ طر دوسرے سے نک ح کرات ہے‪ ،‬اور دوسرا صرف حاللہ کی‬ ‫نی سے نک ح کرت ہے تو ایسے افراد پر رسول کری ﷺنے‬ ‫‪:‬ل ن فرم ئی ہے‬ ‫عن عبد ہللا بن مس ود ق ل ل ن رسول ہللا ص‬

‫ہللا ع یه وس ’’‬


‫)المح ِّل والمح ل له‪(‘‘.‬‬ ‫حضر عبد ہللا ابن مس ود رضی ہللا عنہ سے روای ہے کہ‬ ‫رسول ہللاﷺ نے حاللہ کرنے والے اور جس کے لیے حاللہ‬ ‫کی گی ‪ ،‬دونوں پر ل ن فرم ئی ہے۔‬ ‫پہال شوہر اس لیے ل ن ک مستح ہے کہ وہ اس ف ل قبیح ک‬ ‫سب بن ‪ ،‬اور دوسرا اس لیے کہ اس نے نک ح جدائی کے لیے‬ ‫کی ‪ ،‬ج کہ نک ح ک م صد یہ ہے کہ می ں بیوی مواف کے‬ ‫س تھ ت حی رشتہ ازدواج میں منس ک رہیں۔‬ ‫اگر کسی نے بہ ارادہ حاللہ نک ح صحیح کی تو نک ح توہو ج ئے‬ ‫گ ‪ ،‬لیکن دونوں شوہر بے حی اور بد تمیز گردانے ج ئیں گے‪،‬‬ ‫اسی لیے ان پر ل ن کی گئی ہے‪ ،‬حدیث میں ایسے شخص‬ ‫کو”تیس مست ر“ (کرائے ک س نڈ) کہ گی ہے۔‬ ‫اسال میں حاللہ کی مشروعی اس لیے نہیں ہے کہ اس کی اڑ‬ ‫میں اف ل قبیحہ کو فرو دی ج ئے ‪،‬ب کہ یہ شکل تو اس لیے‬ ‫ہے کہ ج ادمی حاللہ ک تصور کرے تو طال مغ ظہ جیسی‬ ‫مذمو حرک سے ب ز رہے۔ ہ ں اگر کسی نے طال شدہ عور‬ ‫سے مست ال رکھنے ہی کے لیے نک ح کی ‪ ،‬لیکن کسی وجہ سے‬ ‫نب ہ نہ ہو سک اور اس نے بھی طال دے دی تو ا وہ عور‬ ‫شوہر اول کے لیے حالل ہو ج ئے گی۔ اور اس صور میں کسی‬ ‫پر ل ن بھی نہ ہوگی۔ یہ شوہر اول کے لیے حالل ہونے کی ایک‬


‫شرعی صور ہے۔‬ ‫‪:‬ح ل حیض میں طال کی مم ن‬ ‫حیض کی ح ل میں طال دین حرا ہے‪ ،‬لیکن اگر کسی نے‬ ‫ان ای میں طال دے دی تو واقع ہو ج ئے گی‪ ،‬اور طال دینے‬ ‫واال گنہ گ ر ہوگ ‪ ،‬اس لیے کہ اس نے ف ل حرا ک ارتک کی ‪،‬‬ ‫ان ای میں طال دینے کی مم ن اس لیے ائی ہے کہ عموم‬ ‫ان دنوں عورتیں چڑچڑی اور بد مزاج ہوج تی ہیں‪ ،‬اچھی ب‬ ‫بھی انھیں بری م و ہوتی ہے‪ ،‬ان ای میں اگر عور کی طرف‬ ‫سے کوئی ن زیب حرک ص در ہو ج ئے تو اس پر شوہر کو دل‬ ‫برداشتہ نہیں ہون چ ہیے کہ یہ اس کی مجبوری ہے‪ ،‬اور دونوں‬ ‫ک جسم نی ت بھی ان دنوں ب قی نہیں رہت ۔ ج کہ ان ای کے‬ ‫عالوہ ب قی دنوں میں دونوں شیر و شکر بن کر رہتے ہیں‪،‬‬ ‫انھیں وجوہ کی بن پر نبی کری ﷺ نے ای حیض میں طال‬ ‫دینے سے منع فرم ی ہے۔‬ ‫مس شریف میں ہے کہ حضر عبد ہللا بن عمر رضی ہللا عنہم‬ ‫نے اپنی بیوی کو ح ل حیض میں طال دی‪ ،‬حضر عمر رضی‬ ‫ہللا عنہ نے اس ک تذکرہ رسول ہللاﷺ سے کی ‪ ،‬اپ نے سن‬ ‫‪:‬کر ن راضگی ک اظہ ر کی اور فرم ی‬ ‫مرہ ف یراج ھ حت تحیض حیض مست ب سوى حیضتھ التي ’’‬ ‫ط ھ ف ن بدا له ان یط ِّ ھ ف یط ِّ ہ ط ھرا ِّمن حیضتھ قبل ان‬


‫)یمسھ ق ل فذال الطال ل دة كم امر ہللا‪( ‘‘.‬‬ ‫ابن عمر کو حک دو کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کرے یہ ں تک‬ ‫کہ جس حیض میں اس نے طال دی ہے اس کے عالوہ ایک‬ ‫اور حیض گزر ج ئے اس کے ب د طال دین چ ہے تو دے دے‪،‬‬ ‫لیکن اس شرط کے س تھ کہ وہ اس حیض سے پ ک ہو گئی ہو‪،‬‬ ‫اور اس سے مج م بھی نہ ہوئی ہو کہ یہ ہللا کے حک کے‬ ‫مط ب طال ک وق ہے۔‬ ‫‪:‬خ ع‬ ‫بیوی شوہر کو کچھ م ل و اسب دے کر ی مرد کے ذمہ جو‬ ‫کچھ ب قی ہے اسے م ف کر کے بدلے میں طال ح صل کر لے‪،‬‬ ‫اسے شری میں خ ع کہ ج ت ہے‪ ،‬جس طرح شوہر کو طال ک‬ ‫ح دی گی اسی طرح عور کے لیے بھی خ ع کی گنج ئش‬ ‫رکھی گئی۔‬ ‫‪:‬قران مجید ک ارش د ہے‬ ‫ال یحل لك ان ت خذوا مم اتیتموھن شیـ اال ان یخ ف اال ی یم‬ ‫ہللا ف ن خ ت اال ی یم حدود ہللا فال جن ح ع یھم فیم‬ ‫حدود ؕ‬ ‫افتد بهؕ ت حدود ہللا فال ت تدوھ و من یت د حدود ہللا ف ولى‬ ‫)ھ الظ مون‪( .‬‬ ‫تمھیں حالل نہیں کہ جو کچھ عورتوں کو دی ہے اس میں سے‬ ‫کچھ بھی واپس لو‪ ،‬مگر ج دونوں کو اندیشہ ہوکہ ہللا کی حدیں‬


‫ق ئ نہ رکھیں گے‪ ،‬پھر اگر تمھیں اندیشہ ہو کہ وہ دونوں ہللا‬ ‫کی حدیں ق ئ نہ رکھیں گے‪ ،‬تو ان پر کچھ گن ہ نہیں‪ ،‬اس میں‬ ‫کہ بدلہ دے کر عور چھٹی لے۔ یہ ہللا کی حدیں ہیں ‪ ،‬ان سے‬ ‫تج وز نہ کرو‪ ،‬اور جو ہللا کی حدوں سے تج وز کریں تو وہ‬ ‫لوگ ظ ل ہیں۔‬ ‫یہ ای جمی ہ بن عبد ہللا کے ب میں ن زل ہوئی۔ یہ جمی ہ ث ب‬ ‫بن قیس ابن شم س کے نک ح میں تھیں۔ اور شوہر سے کم ل‬ ‫ن ر رکھتی تھیں۔ رسول خدا ﷺ کے حضور میں اپنے شوہر‬ ‫کی شک ی الئیں‪ ،‬اور کسی طرح ان کے پ س رہنے پر راضی نہ‬ ‫ہوئیں۔ ت ث ب نے کہ کہ میں نے ان کو ایک ب دی ہے‪ ،‬اگر یہ‬ ‫میرے پ س رہن گوارہ نہیں کرتیں‪ ،‬اور مجھ سے عالحدگی‬ ‫چ ہتی ہیں تو وہ ب مجھے واپس کریں‪ ،‬میں ان کو ازاد کر‬ ‫دوں‪ ،‬جمی ہ نے اس کو منظور کی ‪ ،‬ث ب نے ب لے لی اور‬ ‫طال دے دی۔‬ ‫مسئ ہ‪ :‬خ ع طال ب ئن ہوت ہے۔ مسئ ہ‪:‬خ ع میں ل ظ خ ع ک ذکر‬ ‫ضروری ہے۔ مسئ ہ‪:‬اگر جدائی کی ط گ ر عور ہو تو خ ع‬ ‫میں م دار مہر سے زائد لین مکروہ ہے‪ ،‬اور اگر عور کی‬ ‫طرف سے نشوز (ن ر و ن فرم نی) نہ ہو‪ ،‬مرد ہی عالحدگی‬ ‫چ ہے تو مرد کو طال کے عوض م ل لین مط مکروہ‬ ‫)ہے۔(خزائن ال رف ن‬ ‫طال کی طرح خ ع بھی شری‬

‫میں ن پسندیدہ چیز ہے‪ ،‬حدیث‬


‫شریف میں ہے‪،‬جو عور بال وجہ خ ع ک مط لبہ کرے اس پر‬ ‫ہللا‪ ،‬اس کے فرشتے اور تم انس ن کی ل ن ہے۔‬ ‫جہ ں تک ممکن ہو خواتین اسال خ ع سے پرہیز کریں‪ ،‬اور اس‬ ‫ب پر نظر رکھیں کہ ہو سکت ہے کہ ہللا ت لی نے اسی جوڑے‬ ‫میں کوئی بھالئی رکھی ہو۔‬ ‫‪):‬م ود (گ شدہ‬ ‫جس گ شدہ مرد کی مو و زندگی ک ح ل نہ م و ہو وہ‬ ‫م ود الخبر ہے۔ م ود کی بیوی کے لیے مذہ حن ی میں یہ‬ ‫حک ہے کہ وہ اپنے شوہر کی عمر نوے ( ) س ل ہونے تک‬ ‫انتظ ر کرے (جو اس زم نے میں بہ دشوار ہے‪ ،‬لہذا بہ وجہ‬ ‫ضرور شدیدہ) م ود کی عور کو حضر سیدن ام م لک‬ ‫رضی ہللا ت لی عنہ کے مذہ پر عمل کی رخص ہے۔ ان کے‬ ‫مذہ پر عور ض ع کے س سے بڑے سنی صحیح ال یدہ‬ ‫ع ل کے حضور فسخ نک ح ک دعوی کرے۔ وہ ع ل اس ک‬ ‫دعوی سن کر چ ر س ل کی مد م رر کرے‪ ،‬اگر م ود کی‬ ‫عور نے کسی ع ل کے پ س اپن دعوی پیش نہ کی اور بطور‬ ‫خود چ ر س ل انتظ ر کرتی رہی تو یہ عد حس میں شم ر نہ‬ ‫ہوگ ‪ ،‬ب کہ دعوی کے ب د چ ر س ل کی مد درک ر ہے۔ اس مد‬ ‫میں اس کے شوہر کی مو و زندگی ک ح ل م و کرنے کی ہر‬ ‫ممکن کوشش کریں۔ ج یہ مد گزر ج ئے اور اس کے شوہر‬ ‫کی مو و زندگی کے س س ے میں کچھ م و نہ ہو سکے تو‬


‫وہ عور اسی ع ل کے حضور استغ ثہ پیش کرے‪ ،‬اس وق وہ‬ ‫ع ل اس کے شوہر پر مو ک حک کرے گ ‪ ،‬پھر عور عد‬ ‫وف (چ ر مہینے دس دن) گزار کر چ ہے تو کسی سنی صحیح‬ ‫ال یدہ سے نک ح کر سکتی ہے۔ اس سے پہ ے اس ک نک ح‬ ‫کسی سے ہرگز ہرگز ج ئز نہیں۔ اور جہ ں س ط ن اسال و ق ضی‬ ‫شرع نہ ہوں وہ ں ض ع ک س سے بڑا سنی صحیح ال یدہ ع ل‬ ‫)ہی اس ک ق ئ م ہے نہ کہ گ وں کے جہال کی پنچ ی ۔(‬ ‫‪:‬کورٹ کی طال‬ ‫شوہر نے طال نہیں دی ب کہ بیوی ی اس کے میکے والوں نے‬ ‫موجودہ ہندوست نی کورٹ اور کچہری سے طال ن مہ ح صل کی‬ ‫تو ایسی طال ہرگز ق بل قبول نہ ہوگی کہ طال دینے ک اختی ر‬ ‫شوہر کو ح صل ہے نہ کہ کورٹ کے حک کو۔ قران کری ک‬ ‫‪:‬ارش د ہے‬ ‫)بیدہ ع دة ال ِّنك ح‪۳(.‬‬ ‫شوہر کے ہ تھ میں نک ح کی گرہ ہے۔‬ ‫کورٹ کی طال سے عور کو دوسرا نک ح کرن حرا ‪ ،‬سخ‬ ‫حرا ہے۔ ج تک کہ شوہر خود طال نہ دے۔‬ ‫‪:‬تین طال تین ہے نہ کہ ایک‬ ‫غیر م دین جو خود کو اہل حدیث کہتے ہین ور چ روں ام موں‬


‫(ام ابو حنی ہ‪ ،‬ام م لک‪ ،‬ام ش ف ی‪ ،‬ام احمد بن حنبل‬ ‫رضی ہللا عنہ ) میں سے کسی کی ت ید نہیں کرتے۔ طال کے‬ ‫س س ہ میں ان کے نزدیک یہ مسئ ہ ہے کہ اگر کسی نے یک‬ ‫ب رگی تین طال دی تو تین نہیں ب کہ ایک ہی پڑے گی‪ ،‬ی نی‬ ‫شوہر طال شدہ بیوی سے عد کے اندر رج کر کے اسے‬ ‫بدستور اپنی بیوی بن سکت ہے‪ ،‬اور عد کے ای گزرنے کے‬ ‫ب د بغیر حاللہ اسی سے نک ح بھی کر سکت ہے۔ ج کہ صح بہ‬ ‫و ت ب ین اور ائمہ کرا کےنزدیک یہ مس ہے کہ یکب رگی دی‬ ‫ہوئی تین طال تین ہی واقع ہوتی ہے اور بیوی فورا نک ح سے‬ ‫نکل ج تی ہے‪ ،‬بغیر حاللہ کے ا دوب رہ اس کی بیوی نہیں بن‬ ‫سکتی‪ ،‬قران و حدیث سے یہی ث ب ہے۔‬ ‫عوا اہل سن سے گزارش ہے کہ اپنے مس ئل ع م ے اہل سن‬ ‫کی ب رگ ہ میں لے ج ئیں اور ان سے صحیح مس ئل م و کریں‬ ‫اور پھر عمل کریں‪ ،‬گزشتہ اورا میں اس س س ہ کی کچھ‬ ‫حدیثیں گزر چکیں۔ مزید م وم کے لیے چند سطور پیش‬ ‫خدم ہیں۔‬ ‫حضر ن فع رضی ہلل عنہ فرم تے ہیں کہ ایک شخص نے عبد‬ ‫ہللا ابن عمر رضی ہللا عنہم سے ح ئضہ (شوہر جس سے‬ ‫صحب کر چک ہو) کی طال کے ب رے میں پوچھ تو انھوں نے‬ ‫اس کو وہی بت ی جو رسول ہللاﷺنے ان سے فرم ی تھ ‪ ،‬وہ‬ ‫‪:‬یہ ہے‬


‫حدیث‪ :‬اگر تونے اپنی عور کو ایک طال ی دو طال یک‬ ‫ب رگی دی ہے تو بے شک رسول ہللا ﷺنے اس طال کے‬ ‫ب رے میں مجھے رج ک حک فرم ی ہے۔ اور اگر تونے‬ ‫یکب رگی تین طالقیں دی ہیں تو تیری عور تجھ پر حرا ہو‬ ‫گئی‪ ،‬ج تک دوسرے شوہر سے نک ح نہ کرے‪ ،‬اور ی ین تونے‬ ‫یکب رگی تین طال دے کر اپنے ر کی ن فرم نی کی۔ اس میں‬ ‫)جو طال کے ب رے میں اس نے تمھیں حک دی ۔(‬ ‫‪:‬نواسہ رسول حضر ام حسن رضی ہللا عنہ فرم تے ہیں‬ ‫حدیث‪ :‬میں نے رسول ہللا ﷺ کو فرم تے ہوئے سن کہ جو‬ ‫شخص اپنی بیوی کو تین طال دے ہر طہر (پ کی کے ای ) میں‬ ‫ی ایک ایک کر کے‪ ،‬ی ہر مہینے کے شروع میں ایک ایک‪ ،‬ی‬ ‫یک ب رگی تینوں دے دے تو اس کی بیوی اس پر اس وق تک‬ ‫حالل نہیں ہوگی ج تک کہ دوسرے شوہر سے نک ح نہ کر‬ ‫)لے۔(‬ ‫عالمہ احمد بن محمد الص وی ع یہ الرحمہ ت سیر ص وی میں‬ ‫‪:‬ای ‪” :‬ف ن ط ھ فال تحل له “ کے تح لکھتے ہیں‬ ‫اور ای ک یہ م نی ہے کہ اگر تین طالقیں ث ب ہو ج ئیں چ ہے‬ ‫ایک دف ہ میں دی ہوں ی چند دفع میں تو اس کے لیے عور‬ ‫حالل نہیں رہے گی۔ اگر کسی نے اپنی عور سے کہ ‪ ،‬تجھے‬ ‫تین طالقیں تو تین ہی واقع ہوں گی‪ ،‬اس مسئ ہ پر س ک ات‬


‫ہے۔ اور یہ قول کرن کہ یکب رگی دی ہوئی تین طال ایک ہی‬ ‫واقع ہوتی ہے۔ یہ ابن تیمیہ حنب ی کے عالوہ اور کسی ک قول‬ ‫نہیں‪ ،‬اور ابن تیمیہ کے اس قول ک اس کے مذہ حنب ی کے‬ ‫ائمہ نے خود رد کی ہے۔ یہ ں تک کہ ع م ے کرا نے فرم ی کہ‬ ‫)ابن تیمیہ گ راہ اور گ راہ گر ہے۔ (‬ ‫‪:‬شیخ االسال عالمہ بدر الدین عینی ش رح بخ ری فرم تے ہیں‬ ‫جمہور ع م ‪ ،‬ت ب ین اور ان کے ب د والے مثال ام اوزاعی‪ ،‬ام‬ ‫نخ ی‪ ،‬ام ثوری‪ ،‬ام ابو حنی ہ اور ان کے اصح ام م لک‬ ‫اور ان کے اصح ‪ ،‬ام ش ف ی اور ان کے اصح ‪ ،‬ام احمد‬ ‫اور ان کے اصح ‪ ،‬ام ابو ثور‪ ،‬ام عبید اور دوسرے بیش تر‬ ‫ع م ک یہی مذہ ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کو یک ب رگی‬ ‫تین طال دے ‪،‬تینوں واقع ہوں گی‪ ،‬اور وہ گنہ گ ر ہوگ جو اس‬ ‫کی مخ ل کرت ہے‪ ،‬وہ براے ن ہے اور اہل سن ک‬ ‫)مخ لف۔(‬ ‫‪:‬طال کے ب د شوہر کی ذمہ داری ں‬ ‫جس طرح ح ل نک ح میں بیوی کے کھ نے پینے اور رہنے‬ ‫سہنے ک انتظ شوہر کے ذمہ ہوت ہے اسی طرح ب د طال‬ ‫زم نہ عد میں بھی مط ہ (طال شدہ) کے س رے اخراج‬ ‫طال دینے والے کے ذمہ ہوں گے وہ اپنے روز مرہ کے‬ ‫اخراج کے مط ب من س طری ے سے اپنی مط ہ کے‬ ‫‪:‬اخراج پورے کرے‪ ،‬قران کری ک ارش د ہے‬


‫)و ل مط‬

‫ف (‬ ‫م ت ع ب لم ر و ؕ‬

‫اور طال والیوں کے لیے من س طور پر ن ن و ن ہ ہے۔‬ ‫مط ہ عد کے ای اسی شوہر ہی کے گھر میں گزارے کہ یہی‬ ‫‪:‬شری ک حک ہے۔ ر کری ک ارش د ہے‬ ‫اسكنوھن من حیث سكنت ِّمن وجدك و ال تض روھن لتض ِّی وا‬ ‫ن (‬ ‫)ع یھ ؕ‬ ‫طال والیوں کو وہ ں رکھو جہ ں خود رہتے ہو اور ان پر تنگی‬ ‫کے ارادہ سے انھیں ضرر نہ پہنچ و۔‬ ‫تین طال دینے کے ب د مط ہ ک طال دینے والے سے پردہ‬ ‫ضروری ہے‪ ،‬لہذا پردے ک پورا اہتم کی ج ئے۔ اس کے گھر‬ ‫میں اگر پردے ک م ول انتظ نہ ہو سکے ی اس سے کوئی‬ ‫خطرہ محسوس ہو تو مط ہ کسی دوسری جگہ منت ل ہو سکتی‬ ‫ہے‪ ،‬مثال اپنے میکے چ ی ج ئے کہ اس سے زی دہ مح وظ جگہ‬ ‫کوئی دوسری نہیں ہو سکتی۔‬ ‫اگر اس شوہر سے عور کے چھوٹے بچے ہوں (لڑکے س‬ ‫س ل تک اور لڑکی ں ب لغ ہونے تک) تو وہ اپنی م ں کے پ س‬ ‫پرورش پ نے کے ح دار ہیں‪ ،‬اور ان کے اخراج ب پ پر‬ ‫الز ہوں گے۔ ان بچوں کی م ں صرف بچوں کی پرورش کی‬ ‫خ طر دوسری ش دی نہیں کرتی تو ج تک بچے اس کی پرورش‬ ‫میں رہیں گے ان کے اخراج ب پ کے ذمہ ہوں گے۔ ہ ں وہ‬


‫عور ش دی کر لے تو بچوں کی پرورش ک ح خت ہو ج ئے‬ ‫گ۔‬ ‫‪:‬م خذ و مراجع‬ ‫‪.‬سنن ابو داود‪ ،‬ج‪ ، :‬ص‪:‬‬ ‫سنن ابي داود‪ ،‬ص‪:‬‬

‫‪ ،‬رشیدیہ‪ ،‬دھ ی ) (‬

‫) (‬

‫ج مع صغیر مع فیض ال دیر ث لث‪ ،‬ص‪:‬‬ ‫‪.‬ل ح فظ جالل لدین السیوطي‬ ‫سنن ابن م جه ‪ ،‬ب‬

‫‪ ،‬حدیث‬

‫كراھی الخ ع ل مراة‪ ،‬ص‪:‬‬

‫قران مجید‪ ،‬پ رہ‪ ، :‬سورة النس ء‪ ،‬ركوع‬ ‫رواہ النس ئي‪ ،‬مشكوة المص بیح‪ ،‬ب‬ ‫ص‪:‬‬ ‫الب رة‪:‬‬

‫‪ ،‬الطال ‪:‬‬

‫الب رة‪ ،‬ای ‪۳ :‬‬ ‫پ رہ‪، :‬‬ ‫الب رة‪ ،‬ع‪۳:‬‬

‫) (‬

‫‪ ،‬ای ‪:‬‬

‫) (‬

‫الخ ع والطال ‪( ) ،‬‬

‫) (‬ ‫) (‬

‫فت وی ع لمگیر ‪ ،‬مصر ‪ ،‬ج د اول‪ ،‬ص‪۳:‬‬ ‫)‬

‫‪(۳) ،۳‬‬

‫‪-‬‬

‫) (‬

‫( ‪........................‬‬

‫مصنف عبد الرزا ‪ ،‬ج‪ ، :‬ص‪:‬‬

‫‪۳‬‬

‫)‪( ۳‬‬

‫)‬

‫(‬


‫مصنف ابن ابی شیبہ ‪،‬ج‪ ، :‬ص‪:‬‬

‫‪،‬‬

‫)‬

‫(‬

‫مصنف ابن ابی شیبہ ‪،‬ج‪ ، :‬ص‪:‬‬

‫‪،‬‬

‫)‬

‫(‬

‫پ رہ‪ ، :‬الب رة‪ ،‬ع‪۳:‬‬

‫(‬

‫)‬

‫بھ ر شری ‪ ،‬ج‪ ، :‬ص‪ ، :‬از صدر الشری ه عالمه‬ ‫‪.‬محمد امجد ع ي اعظمي قدس سرہ‬ ‫بخ ر شریف‪ ،‬ج‪ ، :‬كت‬ ‫‪.‬اکیڈمي‪ ،‬بمبئي‬

‫الطال ‪ ،‬ص‪:‬‬

‫‪ ،‬ر؂ض‬

‫دارمي‪ ،‬ابن م جه ‪ ،‬بحواله مشكوة المص بیح‪ ،‬ب‬ ‫‪.‬المط ه ثالث ‪ ،‬ص‪:‬‬ ‫صحیح مس شریف‪ ،‬اول کت‬ ‫پ رہ‪ ، :‬الب رة‪ ،‬ع‪۳:‬‬

‫الطال رض اکیڈمی‪،‬‬

‫)‬

‫)‬

‫(‬ ‫(‬ ‫)‬

‫(‬

‫(‬

‫فت وى فیض الرسول‪ ،‬ج‪ ، :‬ص‪:‬‬ ‫‪.‬م م تي جالالدین احمد امجد‬ ‫الب رة‪۳ :‬‬

‫)‬

‫)‬

‫(‬

‫‪ ،‬م خص از ف یه‬

‫)‬

‫(‬

‫)‪( ۳‬‬

‫صحیح بخ ر ‪ ،‬ج‪ ، :‬ص‪:‬‬ ‫‪ ،‬رض اكیڈمي‪ ،‬بمبئي‬ ‫‪.‬ص‪:‬‬ ‫دار قطنی‪ ،‬ج‪ ، :‬ص‪۳ :‬‬ ‫ح شی الص و ع‬

‫)‬

‫و صحیح مس ‪ ،‬ج‪، :‬‬ ‫(‬

‫الجاللین‪ ،‬ج‪ ، :‬ص‪:‬‬

‫)‬

‫(‬

‫)‬

‫(‬


‫عمدة ال ری شرح بخ ری‪ ،‬ج‪ ، :‬ص‪۳۳:‬‬ ‫الطال ‪:‬‬ ‫٭٭٭٭٭‬

‫)‬

‫( الب رة‪:‬‬

‫)‬

‫)‬ ‫(‬

‫(‬


‫‪Syed _Mukarram_Niyaz‬‬ ‫‪7/24/14‬‬ ‫مجھے ذاتی طور پر ہم یوں ص ح کے ان جم وں پر اعتراض‬ ‫‪ :‬ہے‬ ‫ی د رکھیں کہ تین طالقیں خواہ ایک ہی مح ل میں ہوں واقع ہو‬ ‫ج تی ہیں۔ ا یہ عور اس مرد پر حرا ہے‪ ،‬اس حرا کو حالل‬ ‫ک فتوی دینے والے بھی لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور مرد تو‬ ‫حرا میں مبتال ہو ہی گی ۔‬ ‫ہ تو سمجھتے ہیں کہ ایسے متن زعہ جم ے کہنے سے جہ ں‬ ‫تک ممکن ہو احتراز کرن چ ہیے۔‬ ‫خ ص طور پر ان رمیشن تکن لوجی کے اس ع می دور میں اس‬ ‫طرح کے فتوی (ہم ری حیدرآب دی زب ن میں ‪ :‬ایک م ر دو‬ ‫ٹکڑے) ۔۔۔ عوا میں الجھن اور دین سے مزید دوری ک سب ہی‬ ‫بنتے ہیں۔‬ ‫جس طرح عب دا کے بہ سے م مال میں ع م ء ک اختالف‬ ‫ہے اسی طرح یہ م م ہ بھی ہے۔ لہذا اس طرح کے م مال‬ ‫میں کوئی حتمی فیص ہ (یوں کہ جیسے وحی ن زل ہوئی ہو۔)‬ ‫دینے سے ممکنہ گریز بہتر عمل ہے۔‬


‫کی‬

‫ہم رے عہد کے ن مور و م تبر ع م ء نے اس ب سے ات‬ ‫ہے کہ تنگ نظری اور مس کی عصبی سے ک لینے کے‬ ‫بج ئے اس مسئ ہ کو لوگوں کے س منے اس طور سے پیش کرن‬ ‫چ ہیے کہ یہ ایک اختالفی مسئ ہ ہے اور دالئل دونوں طرف‬ ‫موجود ہیں۔ اگر کوئی شخص تین یکج ئی طالقوں کو ایک قرار‬ ‫دینے والے مس ک کو اختی ر کرت ہے تو اس کی پوری گنج ئش‬ ‫اسال کے اندر موجود ہے اور اس سے کوئی گمراہی ہرگز الز‬ ‫نہیں آتی۔‬ ‫‪ :‬اقتب س بشکریہ‬ ‫ایک مج س کی تین طال ‪---‬مجموعہ م ال ع میہ (عط ء ہللا‬ ‫)حنیف بھوجی نی‬ ‫‪ :‬اس ضمن کی مزید کت‬ ‫ایک مج س کی تین طالقیں اور ان ک شرعی حل (اسالمیہ)‬ ‫)(عبدالرحمن کیالنی‬ ‫ایک مج س میں تین طالقیں اور اس ک شرعی حل (ح فظ صالح‬ ‫)الدین یوسف‬ ‫‪http://groups.google.com/group/BAZMeQALAM‬‬ ‫‪www.urduaudio.com‬‬ ‫‪http://hudafoundation.org/‬‬


‫‪sabirrahbar10‬‬ ‫‪7/24/14‬‬ ‫ڈاکٹر سید شج ع ع ی ق دری‬ ‫طال ثالثہ کے احک ومس ئل‬ ‫ہم رے م شرے میں ا طال ک رواج کچھ بڑھت ہی چالج رہ‬ ‫ہے‪ ،‬جہ ں ذراغصہ ای فورا طال دے دی‪ ،‬پھر ایک دودی ج ئیں‬ ‫ت بھی م م ہ ہ تھ میں رہت ہےمگر ج نتے ہینکہ ب لکل ت‬ ‫اسی وق خت ہوگ ج تین طال دی ج ئے ‪ ،‬اس لیے تین‬ ‫دیتے ہیں۔ پھر فورا ہی ندام ہوتی ہے‪ ،‬ا ع م ء کی طرف ر‬ ‫جو ع کرنے سے قبل بڈھے بڑھیوں سے مسئ ہ دری ف ہوت‬ ‫ہے‪ ،‬کوئی کچھ کہت ہےاورکوئی کچھ۔بہر ح ل پھر کسی نہ کسی‬ ‫طرح ع م ءتک پہنچتے ہین ورکو شش کرتے ہیں کہ کسی نہ‬ ‫کسی طرح بیوی ان کے پ س حس س ب رہے۔ ع م ء سے‬ ‫کہتے ہیں کہ کچھ گنج ئش نک لئے‪ ،‬مگر یہ م و نہیں کہ تم‬ ‫دنی کے ع م ء مل کر بھی شری کے احک میں سے کسی‬ ‫حک ک ن طہ بھی ادھر سے ادھر نہیں کرسکتے‪ ،‬کبھی یہ کہتے‬


‫ہیں کسی دوسرے ام کے قول پر عمل کرلی ج ئے تو کیس‬ ‫ہے؟ بڑا افسوس ہے‪،‬اج اپنی ضرور کے تح اپنے ام کو‬ ‫چھوڑنے کے لیے تی ر ہوگئے توکل خدانخواستہ اپنی غرض‬ ‫سے مذہ تبدیل کرنے پر بھی رض مندی ظ ہر کردیں گے‪ ،‬پھر‬ ‫چ روں ام موں میں سے کوئی بھی نہیں کہت کہ تین طالقوں کے‬ ‫ب د بھی بیوی حس س ب بیوی رہ سکتی ہے ‪ ،‬کبھی غیر م د‬ ‫وں کی مسجد سے فتوی لے اتے ہیں‪ ،‬غرض چ ہتے ہیں مذہ‬ ‫ک ن لے کر ی فتوی ک سہ را لے کر حرا کو حالل کرلیں‪ ،‬یہ‬ ‫نہیں سوچتے کہ یہ س ری زندگی ک م م ہ ہے‪ ،‬یہ اوالد ک‬ ‫م م ہ ہے اورپھر تم نس ک م م ہ ہے ۔ج دول ظوں سے‬ ‫ایک اجنبی عور اپ کی بیوی بن گئی توتین ل ظوں سے اگر‬ ‫زوجی سے خ رج ہوج ئے تواس میں حیر کی کی ب ہے۔‬ ‫مس م ن بھ ئیو!نم ز‪،‬روزہ اوردوسری عب دا میں ہم ری‬ ‫کوت ہی ں ظ ہر ہیں‪ ،‬خدا راک ازک ایسے گن ہوں سے ضروربچئے‬ ‫جن میں خدانخوستہ اگر اپ مبتال ہوگئے توتم زندگی ب کہ اس‬ ‫کے ب د بھی اپ گن ہوں کے سمندرمیں غر رہیں گے۔ اپنے‬ ‫غصہ کو شرعی حدود میں رکھئے اورتین طال دینے سے‬ ‫بچیئے۔ اس مختصر مضمون میں بت ی گی ہے کہ تین طال بیک‬ ‫وق بھی واقع ہوج ئیں گی۔ یہی فیص ہ قران‪ ،‬حدیث‪ ،‬صح بہ‬ ‫اورام کے ات سے ث ب ہے‪ ،‬اس کے خالف س غ ط ہے۔‬ ‫بحث میں مخ ل ین کے صرف ان دالئل ک رد کی گی ہے جن پر‬ ‫انہیں بہ گھمنڈ ہے اورجوع طور پر وہ است م ل کرتے ہیں‪،‬‬


‫ظ ہر ہے اس موضوع پر بہ کچھ کہ ج سکت ہے اورہم رے‬ ‫بزرگوں نے بہ کچھ کہ ہے ۔ ب لخصوص مبسوط‪ ،‬فتح ال دیر‪،‬‬ ‫بدائع الصن ئع ‪،‬فت وی اع ی حضر الش ہ احمد رض خ ں بر ی و‬ ‫ی رحمۃ ہللا ع یہ نے اس مسئ ہ ک فیص ہ ہی کردی ہے۔‬ ‫تین طال ک مسئ ہ‪:‬اج کل عموم مرد کو ج غصہ ات ہے‪ ،‬وہ‬ ‫اپنی بیوی سے اس قس کے ال ظ کہہ دیت ہے۔ ج میں نے تجھ‬ ‫کو تین طال دی ‪ ،‬ب کہ کبھی کبھی تو تین سے زائد طال بھی‬ ‫دیدی ج تی ہے ‪ ،‬یہ ایک ن ق بل انک رح ی ہے کہ لوگ تین‬ ‫طال اسی لیے دیتے ہیں کہ وہ خو ج نتے ہیں کہ بیوی سے‬ ‫اس سے ک میں پیچھ نہیں چھوٹ سکت ہے۔ ب د میں جو کچھ‬ ‫ہوت ہے وہ صرف بہ نہ س زی‪ ،‬درو گوئی اورحرا شدہ چیز کو‬ ‫حالل کر نے کی س ی الح صل ہوت ہے۔‬ ‫اگر کسی مولوی سے غ ط بی نی کرکے حالل لکھوابھی لی ہے‪،‬‬ ‫تو ح ی پھر بھی اپنی جگہ برقرار رہے گی‪ ،‬تم زندگی حرا‬ ‫ک ری ہوگی اور اوالددراوالد اس گن ہ کے ن پ ک اثرا چ تے‬ ‫رہیں گے۔‬ ‫تین طال کے ب د عور حرا ہوج تی ہے‪:‬قران کری میں ہے‬ ‫’’الطال مرتن ف مس ک بم روف اوتسریح ب حس ن‘ (سورہ‬ ‫)الب رہ‬ ‫طال دو مرتبہ ہے پھر ی تو اچھے طری ہ سے روک لین ہے ی‬ ‫اچھ ئی کے س تھ (بیوی) چھوڑ دین ہے۔‬


‫ت سیر کبیر اوردوسری ت سیر میں ہے کہ یہ ای اس موق ہ پر‬ ‫ن زل ہوئی ج ا المومنین سیدہ ع ئشہ رضی ہللا ت لی عنہ سے‬ ‫ایک عور نے شک ی کی کہ میرا شوہر مجھ کو طال دیت رہت‬ ‫ہے اورپھر رجوع کرلیت ہے ۔اپ نے یہ واق ہ رسول ہللا ص ی ہللا‬ ‫ت لی ع یہ وس سے ذکر کی تو یہ ای ن زل ہوئی۔ ( ام محمد‬ ‫‪:‬ج د‪:‬‬ ‫)فخرالدین رازی ت سیر کبیر ص حہ‬ ‫اس ای ک م ہو یہ ہے کہ وہ طال جس کے ب د رجوع ک ح‬ ‫ب قی رہت ہے دومرتبہ ہے (گوی جو م صود ہے وہ ح ہے‬ ‫رجوع ک بی ن ہے نہ یہ کہ طال ع یحدہ ع یحدہ دین الز ہے۔)‬ ‫دو طال کے ب د ا دو ہی صورتیں ہیں‪ ،‬ی تورجوع کرلی ج ئے‬ ‫اوراگر یہ س س ہ مزید چ ن ممکن نہ ہوتو پھر تیسری طال بھی‬ ‫دے دی ج ئے۔‬ ‫چن نچہ مشہور م سر ابوبکر الجص ص اپنی ت سیر میں اس ای‬ ‫کے تح لکھتے ہیں ’’قد ذکر فی م ن ہ وجوہ احدھ انہ بی ن‬ ‫ل طال الذی تثب م ہ الرج ۃ والث نی انہ بی ن لطال السنۃ‘‘‬ ‫احک ال ران ج د ‪:‬‬ ‫ی نی اس ای کے م نی میں مخت ف وجوہ ذکرکی گئی ہیں‪ ،‬ان‬ ‫میں سے ایک یہ ہے کہ یہ اس طال ک ذکر ہے جس میں‬ ‫رج ک ح ب قی رہت ہے اور دو سرے یہ کہ یہ طال سن ک‬ ‫طری ہ ہے۔‬


‫ابوبکر جص ص نے اورت ویال بھی لکھی ہیں‪ ،‬لیکن اہل ع‬ ‫سے مخ ی نہیں کہ م سرین قوی اورض یف‪ ،‬اپنوں اور غیروں‬ ‫سبھی کے اقوال ن ل کرتے ہیں ۔ اصل قدروقیم ائمہ مذہ کے‬ ‫اقوال ہی کی ہے۔ لہذا کسی م سر کی م سرانہ بحث سے خواہ‬ ‫مخواہ پریش ن ہونے کی ضرور نہیں۔‬ ‫ہ حن ی بھی یہی کہتے ہیں کہ طال مت ر طور پر دی ج نی‬ ‫چ ہیئے‪ ،‬یہی سن طری ہ ہے‪ ،‬لیکن اس ک مط یہ کہ ں سے‬ ‫ہواکہ اگرکوئی مسنون طری ہ اختی ر نہ کرے تووہ ف ل جوایک‬ ‫ع قل وب لغ سے ص در ہورہ ہے اورب لکل صریح ہے‪ ،‬واقع ہی‬ ‫نہ ہو؟ ہ ں سن طری ہ ترک کرنے ک گن ہ ہوگ ۔ ہم ری شری‬ ‫میں الت داد احک ایسے ہیں جن کے اداکرنے کے لیے مسنون‬ ‫طری ے بت ئے گئے ہیں‪ ،‬مگر اس پر س ک ات ہے کہ اگر‬ ‫کوئی شخص ان ک موں کو مسنون طری ہ پرادا نہ کرے ت بھی‬ ‫وہ ادا ہوج ئیں گے اگر چہ ترک سن ک گن ہ رہے گ ۔‬ ‫ع طور پر م سرین نے جوکچھ لکھ ہے‪ ،‬اس ک خالصہ یہی‬ ‫ہے کہ طال مت ر طورپر دین چ ہیے‪ ،‬نہ یہ کہ تین طالقوں کے‬ ‫دینے کی مم ن کی گئی ہے‪ ،‬تواس قدر میں ہ بھی مت ہیں۔‬ ‫اگرکوئی شخص اپنی بیوی کوایک د دوطالقیں دے توکی واقع‬ ‫ہو ج ئے گی ی نہیں؟ اگرنہیں تو دالئل سے ث ب کیجئے‪ ،‬اوراگر‬ ‫دوطالقیں یکد واقع ہوسکتی ہے توتین کیوں واقع نہیں ہوسکتی‬ ‫)ہیں‪’’:‬ول مط ِّ مت ع ب لم ر و ف ‘‘ (سورہ الب رہ ای‬


‫اور طال دی گئی عورتوں کے لیے رواج کے مط ب س م ن‬ ‫ہے’’وان ط تموھن من قبل ان تمسوھن ‘‘(سورہ الب رہ ای‬ ‫) ‪۳‬‬ ‫اوراگر ت ان کو صحب سے پہ ے طال دے دو۔‬ ‫ی ایھ الذین امنوا اذا نکحت المومن‬

‫ث ط تموھن‘‘‬

‫اے ایم ن والو! ج ت مومنہ عورتوں سے نک ح کرو پھر ان کو‬ ‫طال دو۔‬ ‫ان ای میں اوران ہی جیسی ای میں طال اوراس کے احک‬ ‫ک ذکر ہے مگر یہ کہیں نہیں بت ی گی ہے کہ یہ طال ع یحدہ‬ ‫ع یحدہ دی گئیں ہوں ی یکد ‪ ،‬ج دونوں امور ک مذکور نہیں‬ ‫تواس کو قواعد کے مط ب ع ہی رہن چ ہئے۔‬ ‫اح دیث شری ہ‪:‬اح دیث صحیحہ سے بھی یہی ث ب ہے کہ تین‬ ‫طال واقع ہوج تی ہیں ‪ ،‬خواہ یک د دی ج ئیں ی کہ ع یحدہ‬ ‫ع یحدہ۔‬ ‫حضر ابن عمر رضی ہللا عنہم نے اپنی بیوی کو حیض کی‬ ‫ح ل میں طال دیدی تھی‪ ،‬پھر اپ نے یہ سوچ کہ دوحیضوں‬ ‫میں دوطال مزید دے دیں‪ ،‬ج رسول اکر ص ی ہللا ت لی ع یہ‬ ‫وس کو اس واق ہ کی اطالع م ی توفرم ی اے ابن عمر!ہللا ت لی‬ ‫نے ت کو یہ حک تو نہیں دی ہے‪ ،‬ت نے خالف سن کی ‪ ،‬سن‬ ‫طری ہ یہ ہے کہ ت ہرطہر میں اپنی بیوی کو ایک طال دو۔‬


‫چن نچہ اپ نے مجھے رجوع ک حک دی (کیونکہ ایک ہی طال‬ ‫دی تھی) اورفرم ی کہ ج پ ک ہوج ئے تو ت اس کو طال دے‬ ‫دین ‪ ،‬ی روک رکھن ‪ ،‬انہوں نے عرض کی‪ ،‬ی رسول ہللا ص ی ہللا‬ ‫ت لی ع یہ وس اگرمیں اس کو تین طال دے دیت تو کی میرے‬ ‫لیے پھرحالل ہوج تی؟ اپ نے فرم ی نہیں اوریہ گن ہ کی ب‬ ‫ہوتی۔‬ ‫)ق ضی محمدثن ء ہللا ت سیر مظہری ص حہ‪:‬‬

‫‪۳‬ج د‪( :‬‬

‫سند حدیث‪:‬اس حدیث کو دار قطنی اورابن ابی شیبہ نے اپنی‬ ‫مصنف میں روای کی ہے‪ ،‬بیہ ی نے اس پر یہ اعتراض کی ہے‬ ‫کہ اس کی سند میں عط ء خراس نی نے کچھ زی دا کی ہیں جن‬ ‫میں ان ک کوئی مت بع نہیں اور چونکہ وہ ض یف ہین س لیے ان‬ ‫کی زی دا غیر مت ب ہ م بول نہ ہوں گی مگر خدا بھال کر ے‬ ‫عالمہ ابن ہم ک کہ انہوں نے مت ب ث ب کردی اورفرم ی کہ‬ ‫رزی نے اس روای کی مت ب کی ہے اور طبرانی نے بھی‬ ‫)اسے روای کی ہے ۔ ( فتح ال دیر‬ ‫طال دے دی تھی مگر حضور ص ی ہللا ت لی ع یہ وس نے‬ ‫پھر بھی رجوع کرادی تھ ۔ یہ عج اہل حدیث ہیں کہ صحیح‬ ‫حدیثوں کو م نتے ہی نہیں ان سے زی دہ اچھے اہل حدیث تو وہ‬ ‫ہوئے جو اپنے اوپر اہ حدیث ک لیبل نہیں لگ تے ہیں‪ ،‬اوروہ‬ ‫حدیثوں کو تس ی کرتے ہیں۔‬ ‫مس شریف کے ش رح ج یل ال در محدث اسی حدیث کی ب ب‬


‫فرم تے ہیں ’’ام حدیث ابن عمر ن لروای الصحیحۃ التی ذکرھ‬ ‫مس وغیرہ انہ ط ہ واحدة‘‘(ابوزکری نواوی شرح مس‬ ‫ج د‪:‬‬ ‫)ص حہ‪:‬‬ ‫ابن عمر کے واق ہ میں صحیح روای جن کو ام مس وغیرہ‬ ‫نے ذکرکی ہے ‪ ،‬یہ ہیں کہ انہوں نے اپنی بیوی کو ایک ہی‬ ‫طال دی تھی۔‬ ‫ام بخ ری نے تو بخ ری شریف میں مست ل ایک ب ق ئ کی‬ ‫ہے جس ک ن ہے۔’’ من اج ز الطال الث ث‘‘ی نی اس ب میں‬ ‫ان لوگو ں کے لیے دالئل ہیں جو تین طال کو واقع قرار دیتے‬ ‫ہیں۔ حیر ہے کہ اہ حدیث ص حب ن اس س س ے میں ام بخ ری‬ ‫تک کو اچھ نہیں سمجھتے ح النکہ وہ اورموق وں پر ان ک ذکر‬ ‫بڑے زور شور سے کرتے ہیں۔‬ ‫صحیح بخ ری شریف میں ہے کہ ‪ :‬فط ہ ثالث ‪ ،‬ی نی حضر‬ ‫عمر رضی ہللا ت لی عنہ نے اپنی بیوی کو تین طالقیں دے دیں‬ ‫اور یہ واق ہ حضور ص ی ہللا ت لی ع یہ وس کی موجودگی ک‬ ‫ہے۔ چن نچہ اس کے ب د یہ ں می ں بیوی میں جدائی کرا د ی‬ ‫جد‪:‬‬ ‫)گئی۔(بخ ری و مس ص حہ‪:‬‬ ‫ظ ہر ہے اگر تین طال واقع نہ ہوتی تو رسول ہللا ص ی ہللا‬ ‫ت لی ع یہ وس فر م تےکہ یہ واقع نہ ہوئیں اورکبھی بھی اپ‬ ‫ایک لغوک کے ہوتے ہوئے خ مو ش نہ رہتے۔‬


‫سندحدیث‪:‬اس حدیث کی صح میں کسی کو کال نہیں اس حدیث‬ ‫کو بخ ری شریف ص حہ‪ 91:‬جزدو اورمس کے عالوہ نس ئی‬ ‫اورابوداود وغیرہ نے بھی بی ن کی ہے۔‬ ‫صحیح بخ ری شریف میں حضر ع ئشہ رضی ہللا عنہ سے‬ ‫روای ہے’’ان رجال ط امراتہ ث ث فتزوج فط فسئل النبی‬ ‫ص ی ہللا ع یہ وس اتحل لالول ق ل ال حتی یذو عسی تہ کم ذا‬ ‫‘‘االول‬ ‫)بخ ری شریف ص حہ‪:‬‬

‫جد‪( :‬‬

‫ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طال دے دی اس نے‬ ‫دوسرے شخص سے ش دی کرلی اس نے بھی طال دے دی پھر‬ ‫اپ سے دری ف کی گی کہ کی وہ پہ ے شوہر کے لیے حالل ہے؟‬ ‫اپ نے فرم ی نہیں‪،‬ت وقتیکہ پہ ے شوہر کی طرح دوسرا بھی‬ ‫اس سے صحب نہ کرے۔‬ ‫اس حدیث سے ث ب ہوا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین‬ ‫طال دے تو ا یہ عور پہ ے شوہر کے لیے بال حاللہ شرعیہ‬ ‫حالل نہیں ہوتی۔ یہ فتوی خود حضور ص ی ہللا ت لی ع یہ وس‬ ‫کے زم نہ ک ہے۔ اس میں یہ نہیں لکھ کہ انہوں نے تین طال‬ ‫ع یحدہ ع یحدہ دی تھیں اورخود نبی کری ص ی ہللا ت لی ع یہ‬ ‫وس نے بھی یہ ت صیل م و نہیں کی۔ اگر یہ ضروری ہوت تو‬ ‫حضور ضرور ان سے یہ ت صیل م و کرتے کہ الگ الگ طال‬ ‫دی ی ایک ب ر۔‬


‫ط رجل امراتہ ثالث قبل ان یدخل بہ ث بدالہ یندحہ فج ء ’’‬ ‫یست تی ق ل فذہب م ہ فس ل اب ھریرة وابن عب س ف ل ال ینکحہ‬ ‫حتی تنکح زوج غیرہ ف ل انم ک ن الطال ای ھ واحدة ق ل ابن‬ ‫عب س ارس من یدک م ک ن لک من فضل‘‘( موط ام محمد‬ ‫)ص حہ ‪:‬‬ ‫ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طال دی صحب کرنے سے‬ ‫پہ ے پھر اس نے چ ہ کہ اس سے نک ح لوٹ لے توفتوی لین‬ ‫چ ہ ۔ کہتے ہیں کہ میں است ت ء لے کر گی اورابوہریرہ سے‬ ‫پوچھ توانہوں نے فرم ی ت اس سے دوب رہ نک ح نہیں‬ ‫کرسکتے یہ ں تک کہ وہ دوسرے شخص سے نک ح نہ کرلے‪،‬‬ ‫تواس شخص نے کہ یہ توایک ہی طال ہوا‪ ،‬توابن عب س رضی‬ ‫ہللا ت لی عنہ نے فرم ی میرے پ س تمہ رے لیے جو بھالئی کی‬ ‫ب تھی تمہیں بت ی ۔‬ ‫مخ ل ین ک استدالل اوراس ک جوا ‪:‬وہ حضرا جن کے نزدیک‬ ‫بیک وق تین طال دینے سے ایک ہی طال واقع ہوتی ہے‪،‬‬ ‫‪:‬ع طور پر مندرجہ ذیل اح دیث پیش کرتے ہیں‬ ‫ابن عب س رضی ہللا عنہ سے مروی ہے کہ رک نہ بن عبد یزید‬ ‫نے اپنی بیوی کو ایک ہی نشس میں تین طال دے دی‪ ،‬پھران‬ ‫کو اس ک شدید صدمہ ہوا‪ ،‬رسول ہللا ص ی ہللا ت لی ع یہ وس‬ ‫نے ان سے دری ف کی ‪ ،‬ت نے کیسے طال دی تھی؟ وہ بولے‬ ‫میں نے ان کو تین طال دی تھی۔ اپ نے فرم ی کہ ایک ہی‬


‫نشس میں؟ وہ بولے‪ ،‬جی ہ ں! اپ نے فرم ی بے شک یہ ایک‬ ‫ہی ہے‪،‬اگرت چ ہو تو رجوع کرلو‪ ،‬چن نچہ اپ نے رجوع کرلی‬ ‫)۔(مسند ام احمد‬ ‫جوا ‪ :‬اس حدیث کے ب رے میں صح ح ستہ میں سے ایک‬ ‫کت کے مصنف ج یل ال در محدث ابوادود فرم تے ہیں’’حدیث‬ ‫ن فع بن عجیر وعبدہللا بن ع ی بن یزید بن رک نۃ عن ابیہ عن جدہ‬ ‫ان رک نۃ ط امراتہ فردھ الیہ النبی ص ی ہللا ع یہ وس اصح‬ ‫الن ولدالرجل واہ ہ اع بہ ان رک نہ ط امراتہ البتۃ فج ہ النبی‬ ‫)ص ی ہللا ع یہ وس واحد ة ‘‘ (ابوداود ص حہ‪:‬‬ ‫ن فع بن عجیر اور عبدہللا بن ع ی بن یزید بن رک نہ کی روای‬ ‫اپنے ب پ کے واسطہ سے اپنے دادا سے کہ رک نہ نے اپنی‬ ‫بیوی کو طال دی تورسول ہللا ص ی ہللا ت لی ع یہ وس نے‬ ‫رجوع کرادی زی دہ صحیح ہے۔( ی نی ابن عب س کی حدیث کی بہ‬ ‫نسب ) کیونکہ انس ن کی اوالد اورگھر والے ہی ایسے م مال‬ ‫کی زی دہ خبر رکھتے ہیں۔بے شک رک نہ نے اپنی بیوی کو طال‬ ‫البتہ دی تھی‪ ،‬اس کو رسول ہللا ص ی ہللا ت لی ع یہ وس نے‬ ‫ایک طال قراردی ۔‬ ‫ح ی یہ ہے کہ حضر ام ابوداود ک استدالل ب لکل ع ل کے‬ ‫عین مط ب ہے۔ طال ایک گھری و واق ہ ہوتی ہے‪،‬ظ ہر ہے کہ‬ ‫ابن عب س کی بہ نسب خود رک نہ کے بیٹے و پوتے اس م م ہ‬ ‫پرزی دہ صحیح روشنی ڈال سکتے تھے۔ عربی ک مشہور م ولہ‬


‫ہے ’’ ص ح البی ادری بم فیہ‘‘ ی نی گھر ک بھیدی لنک‬ ‫ڈھ ئے۔ چن نچہ انہو ں نے بی ن کردی کہ یہ طال البتہ تھی۔ ل ظ‬ ‫البتہ کن ی میں سے ہے‪ ،‬اس سے ایک طال ک ارادہ کرن‬ ‫درس ہے ۔ رہی ابن عب س کی روای تو وہ انہوں نے اپنی فہ‬ ‫کے مط ب البتہ کو بم نی ثالث کے لیتے ہوئے روای کردی‬ ‫ہوگی۔ چن نچہ ش رح بخ ری عالمہ ابن حجر نے اس توجیہ کو‬ ‫)م ول قراردی ہے ۔(عالمہ ابن حجر‪ ،‬فتح الب ری‬ ‫عالوہ ازیں ابن عب س والی روای میں ایک راوی محمد بن‬ ‫اسح ہیں جو حدیث میں ض یف ہیں‪ ،‬اور پھرس سے زی دہ‬ ‫عجی ب یہ ہے کہ ابن عب س رضی ہللا عنہم ک اپن فتوی خود‬ ‫اپنی روای کے خالف موجود ہے۔‬ ‫ابن عب س رضی ہللا عنہ ک فتوی‪:‬حضر مج ہد کہتے ہیں کہ‬ ‫میں ابن عب س رضی ہللا عنہ کے لڑکے کے پ س تھ ‪ ،‬اسی اثن‬ ‫میں ایک شخص ای اوراس نے کہ میں نے اپنی بیوی کو تین‬ ‫طال دی ہے ۔ابن عب س قدرے خ موش ہوئے تومیں سمجھ کہ‬ ‫ا یہ اس کو رجوع ک حک دیں گے(کیونکہ ان کی روای سے‬ ‫یہی ث ب ہوت ہے۔) پھر وہ بولے ت لوگ احم نہ ب تیں کرتے‬ ‫ہو۔(ی نی بیک وق تین طال دیتے ہو۔) پھر کہتے ہو اے ابن‬ ‫!عب س! اے ابن عب س‬ ‫ابوداود کہتے ہیں کہ اس حدیث کو حمید اعرج نے مج ہد سے ‪،‬‬ ‫ش بہ نے عمروبن مرہ عن س ید بن جبیر‪ ،‬ایو نے اورابن‬


‫جریح نے عکرمہ بن خ لد عن س ید بن جبیر‪ ،‬اور ابن جریح نے‬ ‫عمروبن دین ر سے ان س نے ابن عب س رضی ہللا عنہ سے‬ ‫روای کرتے ہوئے فرم ی کہ انہوں نے تین طالقوں کو واقع‬ ‫م ن ۔ ی نی یہ کہ تین طال تین ہی ہونگی۔‬ ‫(ابوداود‬ ‫‪،‬ج د‪:‬‬ ‫)شریف ص حہ ‪:‬‬ ‫ج ایک شخص خود ہی اپنی روای کردہ حدیث کے خالف فتوی‬ ‫ص در کررہ ہے توکی یہ اس امر ک کھال ہواثبو نہیں کہ ی‬ ‫تواس نے روای سے رجوع کرلی ‪ ،‬کیوں کہ روای اس کی اپنی‬ ‫فہ سے تھی ی اس نے اس کی کوئی ت ویل کی۔ بہر ح ل جو خود‬ ‫ابن عب س ک فتوی بھی ہے کہ بیک وق دی ج نے والی تین‬ ‫طال ن فذ ہے توا جھگڑا کی رہ گی ؟ اسی روای میں ’’ط‬ ‫امراتہ ثالث ‘‘ک ل ظ موجود ہے جو مت ہ طورپر بیک وق تین‬ ‫طالقوں کے لیے مست مل ہیں۔اس سے پتہ چال کہ دوسرے‬ ‫م م پران ال ظ کو ع یحدہ ع یحدہ تین طالقوں پرمحمول کرن‬ ‫تک ف ہے۔‬ ‫دوسری حدیث غیر م دین یہ پیش کرتےہیں’’عن ابن عب س ق ل‬ ‫ک ن الطال ع ی عہد رسول ہللا ص ی ہللا ع یہ وس وابی بکر‬ ‫وسنتین من خالفہ عمر طال الثالث واحدة ف ل عمر بن الخط‬ ‫ان الن س قد است ج وا فی امر ک ن لہ فیہ ان ة ف ومضـین ہ ع یہ‬ ‫‘‘ف مض ہ ع یہ‬ ‫مس شریف ص حہ‪:‬‬

‫ج د‪ :‬؍ا بوداودشریف ص حہ‪( :‬‬


‫)‬ ‫ابن عب س سے روای ہے انہوں نے کہ رسول ہللا ص ی ہللا‬ ‫ت لی ع یہ وس اورابوبکر کے عہدمیں اورحضر عمر کے‬ ‫زم نہ خالف میں دوس ل تک تین طال ایک تھی توعمر رضی‬ ‫ہللا عنہ نے فرم ی بے شک لوگوں نے اس ک میں ج دی کی‬ ‫جس میں ان کے لیے مہ تھی‪ ،‬ک ش ہ اس کو ان پرن فذ‬ ‫کردیں پھر اپ نے اس کو ان پرن فذ کردی ۔‬ ‫یہی حدیث ط وس اپنے ب پ سے روای کرتے ہیں کہ ابو الصہب‬ ‫نے ابن عب س سے دری ف کی ’’ات انم ک ن الثالث تج ل‬ ‫واحدة ع ے عہدہ النبی ص ی ہللا ع یہ وس وابی بکر وثالث من‬ ‫‘‘ام رة عمر ف ل ابن عب س ن‬ ‫)مس شریف ص حہ‪:‬‬

‫ج د‪( :‬‬

‫ترجمہ)کی اپ کو م و ہے کہ حضور ص ی ہللا ت لی ع یہ (‬ ‫وس اورابوبکر کے عہد میں اورحضر عمر کے زم نہ خالف‬ ‫کے تین س ل تک تین طالقوں کو ایک ہی کردی ج ت تھ توابن‬ ‫عب س نے فرم ی ‪ ،‬ہ ں’’ان ہی‘‘ ابوالصہب ء نے ابن عب س سے‬ ‫کہ ’’ھ من ھن تک ال یکن ص ی ہللا ع یہ وس وابی بکر واحدة‬ ‫ف ل قدک ن ذالک ف م ک ن فی عہد عمر تت بع الن س فی الطال‬ ‫ج د‪:‬‬ ‫(مس شریف ص حہ‪:‬‬ ‫)ف ج زہ ع یہ ‘‘‬ ‫الئیے! اپنی عجی ب توں سے کی تین طال رسول ہللا ص ی ہللا‬


‫ت لی ع یہ وس اورابوبکر کے عہد میں ایک نہ تھی‪ ،‬وہ بولے‬ ‫بیشک ایس ہی تھ ‪،‬پھر حضر عمر رضی ہللا عنہ کے عہد میں‬ ‫لوگ پے درپے طال دینے لگے تواپ نے اس کو ان پر ن فذ‬ ‫کردی ۔‬ ‫یہ ہے وہ روای جس سے غیر م دین استدالل کرتے ہیں اور‬ ‫کہتے ہیں کہ حضور ص ی ہللا ت لی ع یہ وس اورابوبکر کے‬ ‫عہد میں تین طال ایک ہی سمجھی ج تی تھی۔ لہذا ا بھی ایس‬ ‫ہی ہون چ ہئے۔‬ ‫جوا ‪:‬یہ ں ق بل غور امر یہ ہے کہ یہ مسئ ہ م مولی نوعی ک‬ ‫نہیں حالل وحرا ک مسئ ہ ہے۔کی یہ ممکن ہے کہ حضر عمر‬ ‫رضی ہللا عنہ جس کی ش ن یہ ہے کہ ح عمر کی زب ن پرج ری‬ ‫ہوت تھ ‪،‬جو اپ کے دل میں ات ‪ ،‬وہ وحی بن کرن زل ہوت ‪ ،‬جن کی‬ ‫پیروی ک خود سرک ردوع ل ص ی ہللا ت لی ع یہ وس نے ہمیں‬ ‫حک دی ہے۔ رسول اکر ص ی ہللا ع یہ وس اور حضر ابوبکر‬ ‫کی سن کو بدل دیں؟ اورحالل کو حرا قرار دے دیں ؟ اورپھر‬ ‫صرف حضر عمر ہی ک م م ہ نہیں‪ ،‬حضر عثم ن‪ ،‬حضر‬ ‫ع ی‪ ،‬عشرہ مبشرہ‪ ،‬اورخود حضر ابن عب س رضی ہللا عنہ‬ ‫اورتم صح بہ رضی ہللا عنہ ‪،‬حضر عمر کے اتنے اہ‬ ‫فیص ے پر مت ہوگئے‪ ،‬برائے ن اختالف نہیں کی ‪ ،‬اورنہ کسی‬ ‫نے یہ کہ کہ اے عمر !ت کوسن رسول اورسن ابوبکر بدلنے‬ ‫ک کی ح ہے؟ ح النکہ اس زم نہ میں خ ی ہ کی ذا تن ید سے‬


‫ب التر نہیں تھی۔ حضر عمررضی ہللا عنہ کے کرتے ک واق ہ‬ ‫مشہو رہے۔ کئی مس ئل میں اپنے دوسرے صح بہ کے اقوال کی‬ ‫طرف رجوع کرلی تھ ‪ ،‬کی یہ س کچھ اس امر کی واضح دلیل‬ ‫نہیں کہ حضر عمر رضی ہللا عنہ ک فیص ہ سن رسول ہللا‬ ‫اورسن ابوبکر کے مط ب ہی تھ ‪ ،‬کیوں کہ وہ حضرا منش ء‬ ‫رسول کو بہ نسب ہم ری زائد سمجھتے تھے‪ ،‬اورہم ری بہ‬ ‫نسب عمل پر بھی زائد حریص تھے‪ ،‬ا ہم رے س منے‬ ‫دوراستے ہیں۔ ایک طرف توتم صح بہ کرا رضی ہللا عنہ ک‬ ‫اجم ع اورات (جو ی ین منش ء رسول کے خالف نہیں ہوسکت‬ ‫ہے) اوردوسری طرف غیر م دین کے چندمولوی ص حب ن ک‬ ‫دعوائے حدیث دانی ہے۔ ا مس م ن خودفیص ہ کرلیں انہیں کس‬ ‫کی ب م نن ہے؟‬ ‫ائیے ا ذرامحدثین نے اس روای کے مت‬ ‫‪:‬وہ مالحظہ فرم ئیں‬

‫جو کچھ کہ ہے‬

‫ام نووی ابن عب س کی اس روای کے مت فرم تے‬ ‫ہیں’’ھذہ الروایۃ البی داود ض ی ۃ رواہ ایو السنحتی نی عن قو‬ ‫‘‘مجہولین عن ط وس عن ابن عب س فال یحتج بہ‬ ‫ابوداود کی یہ روای ض یف ہے۔ اسے ایو سختی نی نے‬ ‫مجہول لوگوں سے‪ ،‬ط وس سے‪ ،‬ابن عب س سے روای کی ہے۔‬ ‫لہذا اس سے استدالل درس نہیں۔‬ ‫اس حدیث میں ابن عب س تین طال ک حک نہیں بی ن کررہے‬


‫ہیں‪ ،‬ب کہ محض ایک واق ہ ک ذکر کررہے ہیں کہ لوگ پہ ے‬ ‫زم نہ میں اج کل کی طرح تین طال نہیں دیتے تھے ب کہ ایک‬ ‫ہی دی کرتے تھے۔ حدیث کے ال ظ اس س س ے میں بہ واضح‬ ‫ہیں۔’’ انم الثالث تج ل واحدة‘‘ ی نی تین طال جو اج کل دی‬ ‫ج رہی ہے (کیو ں کہ الف ال عہد ک ہے) ان کی بج ئے ایک ہی‬ ‫دی ج تی تھی۔ قران کری میں بہ م م پرج ل اس م نی میں‬ ‫مست مل ہوا ہے جیسے ‘’’اج ل االلہۃ الہ واحدة‘‘ کی اس نے کئی‬ ‫م بودوں کوایک کردی ہے؟ ا اس ک مط یہ نہیں کہ مثال‬ ‫سوپچ س م بودوں کو چھوڑ کر ایک ہی م بود برح ک اعت د‬ ‫کی ہے۔لہـذا لوگوں ک یہ کہن کہ ج حضور کے زم نہ میں تین‬ ‫طال دی ہی نہیں ج تی تھی توایک کس چیز کو کہ ج ت تھ ‪،‬‬ ‫درس نہیں۔‬ ‫عالمہ نووی فرم تے ہیں ‪ ،‬اس روای ک م ہو یہ ہے کہ ابتداء‬ ‫میں ج کوئی شخص اپنی بیوی سے ’’ ان ط ل ‪،‬ان ط ل ‪،‬ان‬ ‫ط ل ‘‘ کہت اورا س کی مراد اس سے نہ تو ت کید کی ہوتی اورنہ‬ ‫استین ف‪ ،‬ب کہ مط کہہ دیت ‘‘ توایک ہی طال کے واقع ہونے‬ ‫ک حک دی ج ت تھ ‪ ،‬کیوں کہ وہ حضرا اس سے ع طورپر‬ ‫استین ف مراد نہیں لیتے تھے ب کہ ت کید ک ارادہ کرتے تھے‬ ‫مگر حضر عمر رضی ہللا عنہ کے عہد میں اس ل ظ ک است م ل‬ ‫بہ ہوگی اورلوگ ع طور پر اس سے استین ف ک ارادہ کرنے‬ ‫لگے تو اس کو غ ل پرمحمول کرتے ہوئے تین طالقوں ک حک‬ ‫کی ج نے لگ اوردوسرے جواب بھی ہیں‪ ،‬جو مبسوط کت میں‬


‫درج ہیں۔‬ ‫چ روں ام موں ک فیص ہ‪:‬ب ض لوگ سوچتے ہینکہ کسی‬ ‫دوسرے ام کے مس ک پرایسے وق عمل کرلین چ ہیے‪ ،‬مگر‬ ‫انہیں م و ہون چ ہیے کہ تم دنی کے مس م نوں کی اکثری ان‬ ‫چ ر ام موں کی م دہے‪ ،‬ابوحنی ہ‪ ،‬م لک‪ ،‬ش فع‪ ،‬احمد بن حنبل‪،‬‬ ‫اوران چ روں ک مت ہ فیص ہ ہے کہ تین طالقوں کے ب دعور‬ ‫حرا ہوج تی ہے۔(شرح ام نووی ع ی مس شریف‬ ‫)ص حہ‪:‬‬ ‫یکد تین طال دین بری ب ہے‪:‬یک د تین طال دینے سے‬ ‫طال واقع ہوج ئے گی مگریہ گن ہ کی ب ہے اورحضور ص ی‬ ‫ہللا ت لی ع یہ وس نے اس پرسخ ن راـضگی ک اظہ ر فرم ی‬ ‫ہے۔‬ ‫محمود بن لبید سے روای ہے کہ’’اخبررسول ہللا ص ی ہللا ع یہ‬ ‫وس عن رجل ط امراتہ ث ث تط ی جمی ف غضب ن ث ق ل‬ ‫بکت ہللا وان بین اظہر ک حتی ق رجل وق ل ی رسول ہللا‬ ‫ای‬ ‫‘‘اال اقت ہ‬ ‫ترجمہ)حضور اکر ص ی ہللا ت لی ع یہ وس کو خبری دی گئی (‬ ‫کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طالقیں ایک د دیدیں‪ ،‬اپ‬ ‫سن کر ن راضگی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور فرم ی کی میرے‬ ‫ہوتے ہوئے ہللا کی کت سے مذا کی ج ت ہے؟ یہ ں تک کہ‬ ‫ایک صح بی اٹھ کھڑے ہوئے اورعرض کی ی رسول ہللا ! کی‬


‫میں اس کو قتل نہ کردوں؟‬ ‫ضروری گذارش‪:‬ب ض دوستوں ک خی ل ہے کہ عورتوں کے‬ ‫مص ئ اور ان کی تک لیف دیکھتے ہوئے اس مسئ ے میں کچھ‬ ‫لچک اورگنج ئش پیداکرنی چ ہیے۔ میں خود شد سے اس امر‬ ‫ک ق ئل ہوں کہ فروع میں جہ ں تک ممکن ہو اہل حضرا اجتہ د‬ ‫فرم ئیں اورمس م نوں کے لیے راہیں تالش کریں‪ ،‬لیکن اس کے‬ ‫لیے کچھ شرائط ہوتے ہیں‪،‬اگرکوئی مسئ ہ نی ہوتو اس پرکچھ‬ ‫بحث وتمحیص ہوسکتی ہے اور اس ن سے اس ن راہ تالش کی‬ ‫ج سکتی ہے لیکن جس مسئ ہ ک فیص ہ ہوچک ہو‪،‬صح بہ‪،‬‬ ‫ت ب ین‪ ،‬تبع ت ب ین‪ ،‬ائمہ مجتہدین فیص ہ دے چکے ہوں اورام‬ ‫مس مہ کی بڑی اکثری اس فیص ہ کو تس ی کرچکی ہوتو ا اس‬ ‫میں مزید کی گنج ئش ب قی رہ ج تی ہے؟‬ ‫رہے وہ مص ئ جو طال کے ب دطرفین کے لیے پیدا ہوج تے‬ ‫ہیں۔ ضروری ہےکہ لوگونکو اس مصیب میں پڑنے سے پہ ے‬ ‫ہی مط ع کردی ج ئے ۔ میں یہ سمجھنے سے ق صر ہوں کہ ج‬ ‫دنی وی قوانین جو خود انس نوں نے بن ئے ہیں‪،‬ان کے مط ب‬ ‫سخ سے سخ سزائیں موجود ہیں اورن فذ ہیں ان پرکچھ‬ ‫اعتراض نہیں ہوت ‪ ،‬وہللا اوراس کے رسول ص ی ہللا ت لی ع یہ‬ ‫وس کے جس ق نو ن سے مجرمین کو تک یف پہنچتی ہے‪ ،‬اس‬ ‫پر اعتراض کیوں کی ج ت ہے‪ ،‬اگریہی رجح ن رہ تواسال کی‬ ‫بنی دی ت یم ک تح ظ بھی ن ممکن ہوج ئے گ ۔‬


‫انتب ہ ‪:‬ق رئین پرواضح ہوکہ ایک ہی وق میں تین طال دینے‬ ‫سے تینوں طال واقع ہونے کے س س ے میں ع م ء دیوبند بھی‬ ‫مت ہیں۔ ان سے بھی فتوی ح صل کرکے ش مل اش ع کردی‬ ‫‪:‬گی ہے‪ ،‬ذیل میں مالحظہ فرم ئیں‬ ‫سواال ‪ ) (:‬کی فرم تے ہیں ع م ئے دین وم تی ن شرع متین بیچ‬ ‫اس مسئ ہ کے کہ زید اپنی بیوی کوایک ہی وق میں اگر تین‬ ‫طال دے توکی حک ہے ای طال ہوگی ی نہیں؟‬ ‫نیز ب ض حضرا یہ کہتے ہیں کہ ایک ہی وق میں تین ) (‬ ‫طال ایک ہی ہوگی۔‬ ‫برائے کر مسئ ہ ک جوا مدلل تحریر فرم کر ممنون فرم ئیں۔‬ ‫س ئل ‪ :‬سید ش ہ ترا الح ق دری ‪،‬اپریل ‪1981‬ء‬ ‫الجوا ب سمہ ت لی‪:‬۔ اگرکوئی شخص اپنی بیوی کو بیک وق‬ ‫ایک ک مہ میں تین طال دے توتینوں طال واقع ہوتی ہیں‬ ‫اوراگر تین طال بیک وق تین ک م میں دیں توپھر تینوں واقع‬ ‫ہوں گی اگر بیوی مدخو ل بہ ہو‪ ،‬اسی پرس ف ص لحین ک اجم ع‬ ‫ہے ح فظ ابن حجر عس النی نے فتح الب ری ج دنمبر ؍ میں اس‬ ‫پراجم ع ن ل کی ہے اوریہی مذہ عبدہللا ابن عب س رضی ہللا‬ ‫عنہم ک ہے جس کو ح فظ نے فتح الب ری میں ن ل فرم ی ہے۔‬ ‫قران کری سے بھی یہی م ہو ہے کیوں کہ ہللا ت لی نے‬ ‫دوطالقوں کے ذکر کرنے کے ب د فرم ی ’’ف ن ط ہ فال تحلَ لہ‬


‫من ب د حتی تنکح زوج غیرہ‘‘ف ء ت ی مع الوصل کے لیے ہے‬ ‫جس ک مط یہ ہوا کہ تیسری طال اگردو طالقوں کے ب د‬ ‫متصل ہوتو تینوں طال واقع ہوکر بغیر حاللہ کے کوئی صور‬ ‫تح یل کی نہیں ہے۔ قران سے یہی مسئ ہ واضح طورپر م و‬ ‫ہوت ہے اوراسی پرام نووی نے شرح مس ج د ؍پرائمہ ارب ہ‬ ‫؍ بخ ری شریف‬ ‫اورس ف وخ ف ک اجم ع ن ل کی ہے ص حہ‪:‬‬ ‫کی حدیث ہے’’عن ع ئشۃ ان رجال ط امراتہ ثالث فتزوج‬ ‫فط نسئل النبی ص ی ہللا ع یہ وس اتحل االول ق ل ال حتی یذو‬ ‫ج د‪:‬‬ ‫)ع یتہ کم زاتہ االول‘‘( بخ ری شریف ص حہ‪:‬‬ ‫حضر ع ئشہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو‬ ‫تین طال دی ۔اس کے مت انحضور ص ی ہللا ت لی ع یہ وس‬ ‫سے پوچھ گی کہ کی پہ ے خ وند کے لیے حالل ہوسکتی ہے؟‬ ‫انحضور نے فرم ی کہ نہیں ج تک کہ دوسرا خ وند اس سے‬ ‫لطف اندوز نہ ہو‪ ،‬جیس پہال خ وند لطف اندوز ہواتھ ۔‬ ‫اسی قس کی ایک اورروای بھی حضر ع ئشہ سے موجود‬ ‫ہے۔ سنن کبری میں حضر عمر رضی ہللا عنہ سے مروی ہے‬ ‫کہ جو شخص اپنی بیوی کو تین طال دے توج تک دوسرے‬ ‫خ وند سے نک ح نہ کرے پہ ے کے لیے حالل نہیں ہے۔ یہی‬ ‫مذہ عبدہللا بن عب س ک ہے جس کو سنن کبری ص حہ‪:‬‬ ‫ج د‪ :‬میں ن ل کی ہے ۔مسند ام احمد میں انس بن م لک سے‬ ‫مروی ہے کہ انحضر ص ی ہللا ت لی ع یہ وس سے یہ دری ف‬


‫کی گی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طال دے دی پھر‬ ‫اسی عور نے دوسرے شخص سے نک ح کی اوراس نے اس‬ ‫کو طال قبل الدخول دی ‪،‬تو کی یہ عور اپنے پہ ے شوہر کے‬ ‫لیے حالل ہے؟ اپ نے فرم ی نہیں‪،‬ج تک شوہر ث نی شوہراول‬ ‫)کی طرح مب شر نہ کر ے ۔ (ت سیر ابن کبیر‬ ‫سنن بیہ ی میں سویدبن غ ہ سے مروی ہے کہ ع ئشہ خثمیہ‬ ‫حضر حسن بن ع ی کی زوجی میں تھیں‪ ،‬ج حضر ع ی‬ ‫شہید ہوئے توخثمیہ نے حضر حسن کوخالف کی‬ ‫مب رکب ددیحضر حسن کو یہ ب ن گوار گذری کہ اپ کو حضر‬ ‫ع ی کی شہ د سے خوشی ہوئی۔‬ ‫فرم نے لگے’’ اذھبی ف ن طالل ثالث ‘‘حضر حسن نے اس ک‬ ‫ب یہ مہراوردس ہزار درہ بھیج دیئے‪ ،‬ع ئشہ خثمیہ کو صدمہ‬ ‫ہوا‪ ،‬حضر حسن نے فرم ی کہ اگرمیں اپنے جدامجد ک یہ قول‬ ‫نہ سنت تورجوع کرت ۔ وہ قول یہ ہے کہ جوشخص اپنی بیوی کو‬ ‫تین طال دے حیض کے وق ی اورکسی طرح تووہ اس کے‬ ‫لیے حالل نہیں‪ ،‬یہ ں تک کہ دوسرے شوہر سے نک ح کرے اور‬ ‫بھی بہ سے روای ہیں جن کے ن ل کرنے کی یہ ں گنج ئش‬ ‫نہیں۔‬ ‫دوسرے مسئ ہ میں ب ض مدعی ن حدیث نے دوسرا مس ک‬ ‫اختی ر کی ہے اوروہ یہ کہ تین طال بیک وق ایک ہوتی ہے‬ ‫جن ک استدالل اس حدیث سے ہے جوابن عب س رضی ہللا عنہ‬


‫سے مروی ہے‪ ،‬جس کے راوی حضر ط وس ہیں‪ ،‬وہ یہ ہے‬ ‫کہ انحضور ص ی ہللا ت لی ع یہ وس اورحضر ابوبکر‬ ‫اورحضر عمر کے ابتدائی دوس ل میں تین طال ایک ہوتی تھی‬ ‫۔ حضر عمر نے فرم ی کہ لوگوں نے اپنے م م ہ میں ج د‬ ‫ب زی سے ک لی ‪ ،‬ح النکہ ان کو سمجھنے ک وق ح صل تھ ۔‬ ‫ہ کیوں تینوں کو ان پر ن فذ نہ کریں چن نچہ حضر عمر نے‬ ‫)تینوں ن فذ کیں ۔ (مس شریف‬ ‫اس روای کے بہ سے م ول جواب دیئے گئے ہیں جن میں‬ ‫س سے اس ن جوا یہ ہے کہ یہ غیر مدخول بہ کے ب رے‬ ‫میں ہے جس کو’’ان ط ل ‪ ،‬ان ط ل ‪ ،‬ان ط ل ‘‘ کہ ج ئے تو‬ ‫اس صور میں ایک طال واقع ہوتی ہے‪ ،‬پھر ج لوگوں نے‬ ‫مدخول بہ کو بھی کہن شروع کی توحضر عمر نے فرم ی کہ‬ ‫تینوں ن فذ ہوں گی۔ نیزق ضی شوک نی نے ام احمدبن حنبل سے‬ ‫ن ل کی ہے کہ ط وس کی روای اپنے دوسرے س تھیوں کے‬ ‫خالف ہے‪ ،‬کیوں کہ وہ اس کے خالف ن ل کرتے ہیں۔ (نیل‬ ‫االوط ر) ی یہ روای منسوخ ہے۔ جیس کہ ابوداود کی روای‬ ‫سے م و ہوت ہے ی پہ ے زم نے کے لوگ تث یث ت کید کے لیے‬ ‫کرتے تھے۔ مجھے ب دمیں ت سیس کرتے ہوئے بھی ت کیدظ ہر‬ ‫کی توحضر عمر نے ظ ہر پرعمل کرتے ہوئے ت کید کوک ل د‬ ‫بن ی ۔ ح صل یہ ہے کہ حضر عمر رضی ہللا عنہ پر یہ گم ن‬ ‫کرن کہ انہوں نے حضر محمد ص ی ہللا ت لی ع یہ وس‬ ‫اورابوبکر کے فیص ہ کے خالف فیص ہ کی ‪ ،‬نہ ی ب ید‬


‫اورحضر عمر کی ش ن اتب ع سے کوسوں دور ہے۔‬ ‫ف ط وہللا السال‬ ‫کتبہ رض ء الح ع ہللا عنہ‬ ‫ج م ۃ ال و االسالمیہ عالمہ بنوری ٹ ون کراچی نمبر‪5‬‬ ‫جم دی الث نیہ ‪1401‬ھ‪3‬‬ ‫الجوا دو‬ ‫)ت خیص فتو ی دارال و کراچی(‬ ‫قرانی ای و اح دیث رسول ہللا ص ی ہللا ت لی ع یہ وس ‪،‬‬ ‫اجم ع صح بہ کرا رضوان ہللا ت لی ع یہ اجم ین‪ ،‬ت ب ین‪ ،‬تبع‬ ‫ت ب ین‪ ،‬ائمہ اورجمہورام ک اس پر ات اوراجم ع چال ارہ ہے‬ ‫کہ اگرکوئی شخص اپنی بیوی کو تین طال دے دے توتینوں‬ ‫واقع ہوج ئیں گی‪ ،‬چ ہے ایک ہی ل ظ میندے۔ (ہر ح ل میں تین‬ ‫طال واقع ہوں گی) البتہ عور اگر مدخولہ بہ ہوتوالگ الگ‬ ‫کہنے کی صور میں صرف پہ ی طال واقع ہوگی‪ ،‬اوراس سے‬ ‫وہ ب ئن ہوج ئے گی اورب قی دولغو ہوج ئیں گی۔‬ ‫اس مسئ ہ میں چند غیر م دین کے عالوہ جن میں ح فظ ابن‬ ‫تیمیہ اورح فظ ابن قی اوران کے متب ین ش مل ہیں۔ جمہور کی‬ ‫کسی نے بھی مخ ل نہیں کی اور مخ ل کیونکر کرتے ‪ ،‬ج‬ ‫کہ خود انحضر ص ی ہللا ت لی ع یہ وس کے زم نہ مب رکہ‬


‫میں تین طال کو تین ہی قرار دی گی اوراپ کے ب د صح بہ کرا‬ ‫ک اس پر اجم ع رہ ہے۔جو حضرا ایک مج س میں دی گئی‬ ‫تین طالقوں کوایک طال ہونے کے ق ئل ہیں‪ ،‬ان کے پ س ایک‬ ‫بھی صحیح مرفوع روای موجود نہیں ہے جو ایک مج س میں‬ ‫تین طال دینے سے ایک طال ہونے پر دالل کرنے والی ہو‪،‬‬ ‫اس کے برخالف ذخیرہ اح دیث میں عہد رس ل کے مت دد‬ ‫موجو دہیں جن سے ایک مج س میں تین طال دینے‬ ‫واق‬ ‫سے ہی طال واقع ہونے ک ثبو م ت ہے۔ ہللا ت لی ہمیں‬ ‫جمہور ام کے س تھ منس ک رہنے کی توفی عط فرم ئے۔‬ ‫وہللا اع ب لصوا‬ ‫اح ر عبدالشکور کشمیری‬ ‫داراالفت ء دارال و کراچی‬ ‫‪13‬؍‪6‬؍‪1401‬ھ‬


‫الجوا صحیح‪ :‬اح ر محمد ت ی عثم نی ع ی عنہ‪ ،‬دار االفت ء‬ ‫دارال و کراچی‬ ‫طال ثالثہ ک اسالمی تصور‬ ‫م تی محمد نظ الدین رضوی‬ ‫ہللا ت لی فرم ت ہے’الطال مرتن ف مس ک بم روفَاوتسریح‬ ‫‘‘ ب حس ن‬ ‫)سورہ الب رہ‬

‫(‬

‫طال دو ب رتک ہے پھر بھالئی کے س تھ روک لین ہے ی‬ ‫بھالئی کے س تھ چھوڑ دین ۔‬ ‫اس کے ب د ای ‪ ۳‬؍میں فرم ی گی ’ف ن ط ہ فال تحلَ لہ من‬ ‫ب د حتی تنکح زوج غیرہ‬ ‫پھر اگر شوہر نے اسے (تیسری) طال دے دی تو ا وہ عور‬ ‫اسے حالل نہ ہوگی یہ ں تک کہ دوسرے شوہر کے پ س رہے۔‬ ‫‪ :‬ان ای‬

‫میں تینوں طالقوں ک حک بی ن کی گی ہے‬

‫٭ایک اور دو طال تک شوہر کو رج ک اختی ر ہے‪ ،‬چ ہے تو‬ ‫عور کو واپس کر لے اور چ ہے تو چھوڑ دے۔‬ ‫٭تیسری طال کے ب د رج‬

‫ک اختی ر نہ رہے گ اور عور‬


‫بغیر حاللہ اس کے لیے حالل نہ ہوگی۔‬ ‫حک تینوں طال ک بی ن کر دی گی ‪ ،‬لیکن کسی بھی طال کے‬ ‫س تھ یہ شرط نہیں ذکر کی گئی کہ وہ الگ مج س میں ہو‪ ،‬ب کہ‬ ‫ان احک کو مط ‪،‬بالشرط و قید رکھ اور ق عدہ یہ ہے کہ‬ ‫مط اپنے اطال پر ج ری ہوت ہے۔لہذا قران حکی میں ہر‬ ‫طال ک جو حک بی ن کی گی ہے وہ بہر ح ل ج ری ہوگ ‪ ،‬خواہ‬ ‫شوہر نے ایک ہی مج س میں دوسری ی تیسری طال دی ہوی‬ ‫الگ الگ مج س میں۔ ہ ں اگر قران پ ک میں یہ ہوت ‪’’:‬ف ن ط ہ‬ ‫فی مج س اخر‘‘( اگر تیسری طال الگ مج س میں دے دی) تو‬ ‫مج س کی شرط ق بل اعتن ء ہوتی لیکن قران حکی میں ایس کہیں‬ ‫بھی نہین س لیے یہ شرط قران پر زی دتی ہے ۔‬ ‫عالوہ ازیں عربی زب ن ک ق عدہ ہے کہ ’’ف ‘‘ ت ی مع ال ور‬ ‫کے لیے ہے ی نی جس چیز پر ف ء داخل ہوتی ہے وہ چیز ف ء‬ ‫کے م قبل کے ب د فورا ہوتی ہے‪ ،‬جیسے کسی نے کہ ’’ج ء نی‬ ‫زید ف مرو‘‘ ای زید پھر عمرو تو اس ک مط یہ ہے کہ عمر و‬ ‫زید کے ب د فورا ای اور اگر انے میں کچھ دیر ہو تو عر ف ء‬ ‫کے جگہ ’’ث ‘’ ال تے ہیں ۔ قران حکی میں تیسری طال ک ذکر‬ ‫’’ث ‘‘ کے ل ظ سے نہیں‪ ،‬ب کہ ف ء کے ل ظ سے ہے ‪،‬تو اس ک‬ ‫صریح مط یہ ہوا کہ دو طال کے ب د اگر اسی مج س میں‬ ‫فورا بال ت خیر تیسری طال دے دی تو یہ طال بھی ن فذ ہو‬ ‫ج ئے گی کہ ’’فورا‘‘ ک ل ظ اسی وق ص د ائے گ ج کہ‬


‫مج س ایک ہو‪ ،‬اصول ف ہ کی مشہور کت‬ ‫‪:‬االنوار‘‘ میں ہے‬

‫’’من ر‘‘ اور‘‘ نور‬

‫وال ء ل وصل والت ی ‪ ،‬ای لکون الم طوف موصوال ب لم طوف ’’‬ ‫ع یہ مت ب لہ بال مہ ۃ فیتراخی الم طوف عن الم طوف ع یہ‬ ‫بزم ن‪ ،‬و ان قل ذلک الزم ن بحیث ال یدرک اذ لو ل یکن الزم ن‬ ‫)ف صالاصال ک ن م رن تست مل فیہ ک مۃ مع‘‘(ص حہ‪۳:‬‬ ‫حرف ف ء ت ی مع الوصل کے لیے ہے ی نی یہ بت نے کے لیے‬ ‫ہے کہ م طوف‪ ،‬م طوف ع یہ کے ب د ہے اور س تھ ہی بال مہ‬ ‫اس سے متصل بھی ہے‪ ،‬تو م طوف ک زم نہ م طوف ع یہ کے‬ ‫ب د ہوگ ‪ ،‬اگر چہ وہ زم نہ اتن ک ہو کہ اس ک احس س نہ ہو‬ ‫سکے‪ ،‬کیوں کہ اگر زم نہ ب لکل ہی ف صل نہ ہو تو م رن ہوگ‬ ‫اور م ر ن بت نے کے لیے ’’مع‘‘ ک ل ظ است م ل کی ج ت ہے۔‬ ‫غیر م دوں کے نزدیک بھی حرف ف ء ک یہی م ہو ہے۔چن نچہ‬ ‫ان کے ام مجتہد مال نذیرحسین دہ وی نے اپنی کت ’’ م ی ر‬ ‫الح ‘‘ کے اخر میں جمع بین الصالتین کی بحث میں یہ لکھ‬ ‫‘‘ہے‪’’:‬ف ء ترتی بے مہ کے لیے ہے۔‬ ‫یہ قران حکی ک اعج ز ہے کہ کت و سن ک ن لےکر جو فتنہ‬ ‫قر قی م میں اٹھ ی ج نے واال تھ اس ک سد ب اس نے‬ ‫اپنے نظ بی ن کے ذری ہ تنزیل کے وق ہی فرم دی ۔‬ ‫صح ح ستہ کی مشہور کت‬

‫’’سنن ابن م جہ شریف‘‘ میں ایک‬


‫ب ہے’’ب من ط‬ ‫تین طال ک بی ن۔‬

‫ثالث فی مج س واحد‘‘ ایک مج س میں‬

‫پھر اس کے تح یہ حدیث ن ل کی ہے‪:‬حضر ع مر ش بی‬ ‫رضی ہللا ت لی عنہ نے ف طمہ بن قیس سے کہ کہ اپ مجھے‬ ‫اپنی طال ک واق ہ بت ئیں‪ ،‬تو انہوں نے کہ ‪’’:‬ط نی زوجی‬ ‫ثالث ‪ ،‬وہو خ رج الی الیمن ف ج ز ذلک رسول ہللا ص ی ہللا ت لی‬ ‫‘‘ع یہ وس‬ ‫ترجمہ)میرے شوہر نے یمن کے لیے( گھر سے) نک تے وق (‬ ‫مجھے تین طال دے دیں‪ ،‬تو ہللا کے رسول ص ی ہللا ت لی ع یہ‬ ‫وس نے تینوں طال ن فذ فرم دیں۔‬ ‫سنن ابن م جہ ص حہ‪:‬‬ ‫یمن کو نک تے وق تین طال دینے‘‘ کے ل ظ سے عی ں ہو ’’‬ ‫رہ ہے کہ ف طمہ بن قیس کے شوہر نے ایک ہی مج س میں‬ ‫تینوں طال دی تھی‪ ،‬اس کی ت ئید اسی حدیث کی دوسری روای‬ ‫سے ہوتی ہے‪ ،‬جسے حدیث کی مستند کت ’’دار قطنی‘‘ مین ن‬ ‫ال ظ میں ن ل کی گی ہے’’ان ح ص بن المغیرہ ط امرا تہ‬ ‫ف طمۃ بن قیس ع ی عہد رسول ہللا ص ی ہللا ع یہ وس ث ث‬ ‫‘‘تط ی فی ک مۃ واحدة ف ب نہ منہ النبی ص ی ہللا ع یہ وس ۔‬ ‫ح ص بن مغیرہ نے اپنی بیوی ف طمہ بن قیس کو رسول ہللا‬ ‫ص ی ہللا ت لی ع یہ وس کے زم نے میں ایک ہی جم ہ مینتین‬


‫طال دے دی‪ ،‬تو نبی کری ص ی ہللا ت لی ع یہ س نے دونوں‬ ‫کو ایک دوسرے سے جدا کر دی ۔ (دار قطنی ص حہ ‪، ۳‬‬ ‫)ج د‪:‬‬ ‫حدیث پ ک کی دونوں روایتوں سے ث ب ہوت ہے کہ ایک مج س‬ ‫میں اور ایک ہی جم ہ میں دی گئی تین طالقوں کو رسول ہللا‬ ‫ص ی ہللا ت لی ع یہ وس نے ن فذ کر دی ‪ ،‬یہی وجہ ہے کہ محدث‬ ‫ابن م جہ نے اس حدیث کو ’’ایک مج س میں تین طال ‘’ کے‬ ‫عنوان کے تح ن ل کی ہے۔‬ ‫مشہورصح بی رسول حضر عب دہ بن ص م رضی ہللا ت لی‬ ‫عنہ ک بی ن ہے کہ ان کے والد نے اپنی بیوی کو ایک ہزار‬ ‫طالقیں دے دیں‪ ،‬میننے رسول ہللا ص ی ہللا ع یہ وس سے اس‬ ‫ک مسئ ہ پوچھ تو اپ نے فرم ی ’’ب ن بث ث فی م صیۃ ہللا ت لی‬ ‫‘‘و ب ی تسع م ئۃ و سبع و تس ون عدوان وظ م‬ ‫ترجمہ)تین طالقوں سے عور نک ح سے نکل گئی‪ ،‬مگر شوہر (‬ ‫ہللا ک ن فر م ن و م صی ک ر ہوا ‪،‬اور ب یہ نو سو ست نوے‬ ‫) طال ظ و سرکشی ہے۔‬ ‫(‬ ‫صنف عبد الرزا ‪ ،‬ص حہ‪ ،۳ ۳:‬ج د‪ :‬؍ دارقطنی‪،‬‬ ‫)ص حہ‪ ، ۳۳:‬ج د‪:‬‬

‫(‬

‫ظ ہر ہے کہ یہ ہزار طال ہزار مج سوں میں نہیں دی گئیں‪،‬ب کہ‬ ‫غصہ کی وجہ سے ایک ہی مج س مینس طال دی گئیں‪ ،‬خواہ‬


‫ایک ک مہ میں‪ ،‬ی لگ ت ر کئی ک موں میں۔س ج نتے ہیں کہ ج‬ ‫شوہروں کو طال ک جوش ات ہے تو وہ ایک س تھ بہ سی‬ ‫طال دے بیٹھتے ہیں۔‬ ‫حضر عبد ہللا بن عمر رضی ہللا ت لی عنہم سے روای ہے‬ ‫کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی ح ل مینطال دے دی تو‬ ‫اس کی وجہ سے رسول ہللا ص ی ہللا ت لی ع یہ وس غض‬ ‫ن ک ہو گئے اور انہیں رج ک حک دی ‪ ،‬تو انہوں نے پوچھ‬ ‫ی رسو ل ہللا !ارای لو ط تہ ثالث ؟ ق ل اذا قد عصی ربک‪،‬و‬ ‫‘‘ب ن منک امراتک‬ ‫ی رسول ہللا !اگر میں نے اسے تین طال دے دی ہوتی ت کی‬ ‫حک ہوت ؟ اپ نے فرم ی ت خدا کے ن فرم ن ہوتے اور تمہ ری‬ ‫بیوی تمہ رے نک ح سے نکل ج تی ۔‬ ‫اس حدیث پ ک سے دو ب تیں م و ہوئیں۔ ایک یہ کہ حیض کی‬ ‫ح ل میں طال دین گن ہ ہے‪ ،‬اسی لیے رسول ہللا ص ی ہللا ت لی‬ ‫ع یہ وس غض ن ک ہوئے تھے‪ ،‬یوں ہی تین طال ایک س تھ‬ ‫دین بھی گن ہ و م صی ہے۔‬ ‫دوسری ب یہ کہ حیض کی ح ل میں بھی اگر کوئی ایک س تھ‬ ‫تین طال دے دے تو تینوں طال پڑ ج ئیں گی اورعور نک ح‬ ‫سے نکل ج ئے گی کیوں کہ حضر ابن عمر نے جو سوال‬ ‫پوچھ تھ اس ک مط یہی ہے کہ ایک طال پر تو رج ک‬ ‫حک ہے لیکن اگر میں نے ایک کے بج ئے تین طال دے دی‬


‫ہوتی ت کی حک ہوت ؟ کی اس صور میں بھی رج ک اختی ر‬ ‫رہت ؟ اس سے ص ف ظ ہر ہے کہ ان ک سوال ایک س تھ تین‬ ‫طال کے ب رے میں تھ اور وہ بھی ایسی ح ل میں ج کہ‬ ‫عور ح ئضہ ہو۔‬ ‫غورفرم ئیے‪ ،‬یہ ں دو طرح سے خدائے پ ک کی ن فرم نی ک‬ ‫‪:‬ارتک ہو رہ ہے‬ ‫ایک تو حیض کی ح ل میں طال دینے ک ۔ )‪(1‬‬ ‫دوسر ے ایک س تھ تین طال دینے ک ۔ )‪(2‬‬ ‫پھر بھی رسول پ ک ص ی ہللا ت لی ع یہ وس نے واضح ال ظ‬ ‫میں یہ حک سن دی کہ طال پڑ ج ئے گی۔ عور نک ح سے‬ ‫نکل ج ئے گی‪ ،‬تو اگر کوئی ایک ہی ن فرم نی ک ارتک کرے کہ‬ ‫طہر کی ح ل میں ایک س تھ تین طال دے دے تو اس صور‬ ‫میں بدرجہ اولی تینوں طال پڑ ج ئیں گی۔‬ ‫ن فع بن عجیر بن عبد یزید بن رک نہ روای کرتے ہیں کہ‬ ‫حضر رک نہ نے اپنی بیوی سہیمہ کو ’’طال بتہ‘‘ دے دی پھر‬ ‫انہوں نے نبی کری ص ی ہللا ت لی ع یہ وس کو واق ہ کی خبر‬ ‫دی اور عرض کی کہ خدا کی قس میں نے صرف ایک طال کی‬ ‫نی کی تھی۔رسول ہللا ص ی ہللا ت لی ع یہ وس نے پوچھ ‪ :‬خدا‬ ‫کی قس تو نے صرف ایک ہی طال کی نی کی تھی؟تو رک نہ‬ ‫نے عرض کی کہ خدا کی قس میں نے صرف ایک ہی طال کی‬


‫نی کی تھی تو رسول ہللا ص ی ہللا ت لی ع یہ وس نے ان کی‬ ‫بیوی انہیں لوٹ دی۔‬ ‫(سنن ابی داود‪ ،‬ص حہ‪ ،۳ :‬ج د‬ ‫)‪1:‬؍ابن م جہ ص حہ‪:‬‬ ‫یہ روای ہے حضر رک نہ کے ایک پوتے حضر ن فع بن‬ ‫عجیر کی اور انہیں کے دوسرے پوتے عبد ہللا بن ع ی نے بھی‬ ‫یہ واق ہ اسی طرح بی ن کی ہے۔ البتہ ان کی روای میں سرک ر‬ ‫کے جوا کے یہ ال ظ بھی من ول ہیں’’ہو ع ی م ارد ‘‘ طال‬ ‫)وہی پڑی جس کی تو نے نی کی۔(ایض‬ ‫بتہ ‘‘ ک ل ظ مصدر ہے اور مصدر فرد ح ی ی ک بھی احتم ل ’’‬ ‫رکھت ہے اور فرد حکمی ک بھی۔ طال ک فرد ح ی ی ایک ہے‬ ‫اور فرد حکمی تین‪ ،‬تو طال بتہ کے ل ظ میں ’’ایک‘‘ اور‬ ‫’’تین‘‘ دونوں ہی افراد ک احتم ل ہے۔ا کسی بھی ایک احتم ل‬ ‫کی ت یین ہو گی’’ بی ن نی ‘‘ سے۔ اسی لیے حضر رک نہ نے‬ ‫خود ہی اپنی نی بت دی کہ میں نے ایک طال مرادلی ہے‪ ،‬مگر‬ ‫ایک طال مراد لینے میں چوں کہ تہم ک شبہ ہے کہ بیوی کو‬ ‫بچ نے کے لیے احتم ل ک ف ئدہ اٹھ ی ‪ ،‬اس لیے انہوں نے قس‬ ‫بھی کھ لی کہ شبہ تہم کی صور میں بی ن نی ک اعتب ر قس‬ ‫کے س تھ ہی ہوت ہے اور اس کی مزید توثی کے لیے رسول ہللا‬ ‫ص ی ہللا ت لی ع یہ وس نے ان سے دوب رہ قس لی۔ اس سے‬ ‫ص ف ظ ہر ہے کہ اگر حضر رک نہ نے’’طال بتہ‘‘ سے تین‬ ‫طال مراد لی ہوتی تو ان کی بیوی پر تین طال مغ ظہ واقع‬


‫ہوتی۔ اگر تین طال کے پڑنے ک احتم ل نہ ہوت تو حضر‬ ‫رک نہ‪ ،‬نہ تو قس کھ تے اور نہ ہی رسول ہللا ص ی ہللا ت لی‬ ‫ع یہ وس قس لیتے‪ ،‬ایسی صور میں قس لین اور قس کھ ن‬ ‫دونوں لغو ہوت ‪ ،‬لیکن ج رسول ہللا ص ی ہللا ت لی ع یہ وس‬ ‫نے قس لی اور حضر رک نہ نے قس کھ ئی تو اس سے یہ‬ ‫ث ب ہوا کہ اگر ان کی نی تین طال کی ہوتی تو گو کہ وہ ل ظ‬ ‫انہوں نے ایک مج س میں اور ایک ہی دف ہ میں کہ تھ ‪،‬ت ہ‬ ‫سرک ر ع یہ الص وة والسال ک فیص ہ یہی ہوت ‪’’ :‬ہوع ی م‬ ‫ارد ‘‘طال وہی پڑی جس کی تو نے نی کی‪،‬ی نی تین طال ۔‬ ‫حضر مج ہد فرم تے ہیں کہ میں حضر ابن عب س رضی ہللا‬ ‫ت لی عنہم کی خدم میں ح ضر تھ ‪ ،‬ایک شخص ان کے پ س‬ ‫ای اور عرض کی کہ ’’انہ ط امراتہ ثالث ‘‘اس نے اپنی بیوی‬ ‫کو تین طال دے دی ہیتو حضر ابن عب س خ موش رہے‪ ،‬یہ ں‬ ‫تک کہ مجھے یہ گم ن ہونے لگ کہ یہ اسے رج ک حک دیں‬ ‫گے‪ ،‬کچھ دیر ب د فرم ی ‪ :‬ت میں ایک ادمی حم ق کر بیٹھت‬ ‫ہے‪ ،‬پھر کہت ہے‪ :‬اے ابن عب س‪ ،‬اے ابن عب س! ح النکہ ہللا‬ ‫ت لی نے فرم دی ہے‪’’:‬و من یت ہللا یج ل لہ مخرج ‘‘جو ہللا‬ ‫سے ڈرت ہے ہللا اس کے لیے (گنج ئش کی) راہ نک ل دیت‬ ‫ہے۔اور ت تو ہللا سے ڈرے نہیں‪ ،‬تو میں تمہ رے لیے کوئی‬ ‫گنج ئش کی راہ نہیں پ ت ’’عصی ربک و ب ن منک امراتک‘‘تو‬ ‫نے اپنے ر کی ن فرم نی کی اور تیری بیوی تیرے نک ح سے‬ ‫‪،‬ج د‪:‬‬ ‫)نکل گئی۔(سنن ابی داود شریف‪ ،‬ص حہ‬


‫حضر مج ہد کے عالوہ حضر س ید بن جبیر‪ ،‬حضر عط ‪،‬‬ ‫حضر م لک بن ح رث‪ ،‬حضر عمرو بن دین ر رضی ہللا ت لی‬ ‫عنہ نے بھی حضر ابن عب س ک یہی فتوی بی ن کی ہے۔‬ ‫چن نچہ ابو داود شریف میں ہے’’روی ہذا الحدیث حمید االعرج‬ ‫وغیرہ عن مج ہد و عن س ید بن جبیر و عن عط ء و عن م لک‬ ‫بن الح رث و عن عمرو بن دین ر عن ابن عب س‪ ،‬ک ہ ق لوا فی‬ ‫‘‘الطال الثالث انہ اج زہ ‪ ،‬ق ل‪ :‬وب ن منک‬ ‫اس حدیث کو حمید اعرج وغیرہ نے مج ہد‪ ،‬س ید بن جبیر‪ ،‬عط ‪،‬‬ ‫م لک ابن ح رث اور عمرو بن دین ر سے روای کی ہے کہ یہ‬ ‫س حضرا بی ن فرم تے ہیں کہ حضر ابن عب س نے س ئل‬ ‫کی تینوں طالقونکو ن فذ کر دی اور فرم ی کہ تیری عور نک ح‬ ‫سے نکل گئی۔‬ ‫)اودائود شریف ص‪:‬‬

‫ج د‪( :‬‬

‫اسی نوع کے ایک دوسرے واق ہ کے ب رے میں حضر ابن‬ ‫عب س رضی ہللا ت لی عنہم نے یہی فتوی ص در کی ۔ چن نچہ‬ ‫حدیث کی مستند کت موط ام م لک میں ہے کہ ایک شخص‬ ‫نے حضر عبد ہللا بن عب س سے کہ ’’انی ط امراتی م ئۃ‬ ‫تط ی ۃ فم ذا تری ع ی؟‘‘میں نے اپنی بیوی کو سو طال دے‬ ‫ڈالی ہیں‪ ،‬تو اپ مجھے کی فرم تے ہیں؟‬ ‫اس کے جوا میں حضر ابن عب س نے فرم ی ’’ط منک‬ ‫بثالث‪ ،‬و سبع و تس ون اتخذ بہ ای ہللا ہزوا‪ ،‬رواہ فی‬


‫الموط ‘‘تیری عور پر تین طال پڑ گئیں اور ست نوے طال‬ ‫دے کر تو نے ہللا کی ایتوں کے س تھ ٹھٹھ کی ہے۔‬ ‫)مشکوة المص بیح بحوالہ موط ام م لک ‪،‬ص حہ‪:‬‬

‫(‬

‫ان ابن عب س و اب ہریرة و عبد ہللا بن عمرو بن ال ص سئ وا‬ ‫عن البکر یط ہ زوجہ ثالث ؟ فک ہ ق لوا‪ :‬ال تحل لہ حتی تنکح‬ ‫‘‘زوج غیرہ۔‬ ‫حضر ابن عب س‪ ،‬حضر ابو ہریرہ اور حضر عبد ہللا بن‬ ‫عمرو بن ال ص رضی ہللا ت لی عنہ سے سوال کی گی کہ‬ ‫دوشیزہ کو اس ک شوہر تین طال دے دے تو اس ک حک کی‬ ‫ہے؟ تو ان س حضرا نے فرم ی کہ وہ عور اپنے شوہر کے‬ ‫لیے حالل نہ رہی‪ ،‬ت وقتیکہ حاللہ نہ ہو ج ئے۔‬ ‫طح وی شریف‪ ،‬ص حہ‪ ،۳۳:‬ج د‪ :‬؍ مصنف عبد الرزا‬ ‫)‪،‬ص حہ‪ ۳۳۳ :‬ج د‪:‬‬

‫(‬

‫دوشیزہ‘‘ سے مراد وہ عور ہے جس کے س تھ اس کے ’’‬ ‫شوہر نے ابھی جم ع نہ کی ہو نہ خ و واقع ہوئی ہواسے ف ہ ء‬ ‫کی اصطالح میں ’’غیر مدخولہ‘‘ کہتے ہیں۔غیر مدخولہ کے‬ ‫ب رے میں س ک ات ہے کہ اگر اس ک شوہر الگ الگ‬ ‫نشستوں میں اسے تین طال دے تو اس پر صرف ایک ہی طال‬ ‫پڑے گی‪ ،‬کیوں کہ اس عور ک رشتہ نک ح شوہر سے خو‬ ‫مضبوط نہیں ہوت ‪ ،‬اس لیے ایک ہی طال سے وہ نک ح سے‬


‫نکل ج تی ہے اور ب یہ طال لغو ہوتی ہیں‪ ،‬ب کہ اگر ایک ہی‬ ‫مج س میں شوہر اسے طال دے لیکن تین ب ر میں دے تو بھی‬ ‫ب الت ایک ہی طال پڑے گی۔ وجہ وہی ہے جو بی ن ہوئی ‪،‬‬ ‫غیر مدخولہ پر تین طال پڑنے کی صرف ایک ہی صور ہے‬ ‫‪:‬اور وہ یہ کہ‬ ‫٭ شوہر اسے ایک ہی مج س میں طال دے ۔‬ ‫٭ایک ہی مرتبہ اور ایک ہی ک مہ میں تین طال دے‪ ،‬مثال یہ‬ ‫کہے کہ میں نے ت کو تین طال دی ۔‬ ‫اس لیے غیر مدخولہ کے ب رے میں حضر ابن عب س‪ ،‬حضر‬ ‫ابو ہریرہ‪ ،‬حضر عبد ہللا بن عمرو بن ال ص رضی ہللا ت لی‬ ‫عنہ ک درج ب ال فتوی اس امر ک قط ی و ی ینی ثبو ہے کہ‬ ‫ایک مج س اور ایک ک مہ میں دی ہوئی تینوں طال تین واقع‬ ‫ہوتی ہیں۔‬ ‫اس حدیث کی دوسری روای موط ام م لک میں ہے‪ ،‬اس وجہ‬ ‫سے یہ امر روز روشن کی طرح عی ں ہو کر ث ب ہو ج ت ہے‪،‬‬ ‫‪:‬ا دوسری روای بھی مالحظہ کیجیے‬ ‫محمد بن ای س بن بکیر سے روای ہے کہ ایک شخص نے اپنی‬ ‫بیوی کے س تھ دخول سے پہ ے اسے تین طال دے دی‪ ،‬پھر‬ ‫ان ک خی ل اس عور سے نک ح ک ہوا تو وہ فتوی پوچھنے‬ ‫ائے‪ ،‬میں بھی ان کے س تھ گی ‪ ،‬انہوں نے حضر عبد ہللا بن‬


‫عب س اور حضر ابو ہریرسے اس کے ب رے میں دری ف‬ ‫کی ‪،‬تو دونوں حضرا نے فرم ی ’’النری ان تنکحہ حتی تنکح‬ ‫زوج غیرہ‪ ،‬ق ل‪ :‬ف نم ک ن طالقی ای ہ واحدة؟ ف ل ابن عب س‪:‬‬ ‫‘‘انک ارس من یدک م ک ن لک من فضل۔‬ ‫اس عور کے س تھ تیرا نک ح حالل نہیں ت انکہ وہ دوسرے‬ ‫شخص کے پ س رہے‪( ،‬ی نی حاللہ کرائے) اس شخص نے کہ‬ ‫کہ میں نے تو اسے صرف ایک دف ہ طال دی ہے؟ تو حضر‬ ‫ابن عب س نے فرم ی کہ تیرے لیے جو مزید (دو دف ہ طال‬ ‫دینے ک ) اختی ر تھ تو نے اسے بھی اپنے ہ تھ سے گنوا دی ۔‬ ‫‪ ،‬ج د‪۳:‬‬ ‫؍‬ ‫)(فتح ال دیر ص حہ‪:‬‬ ‫ی نی ایک ہی دف ہ میں ج تو نے تینوں طال دے دی تو تجھے‬ ‫ا مزیدطال دینے ک اختی ر نہ رہ کہ شوہر تین ہی طال ک‬ ‫م لک ہوت ہے۔‬ ‫اس حدیث پ ک سے بہ کھل کر یہ ب ث ب ہوگئی کہ ایک‬ ‫مج س اور ایک ک مہ میں دی ہوئی تین طال تین پڑتی ہیں۔‬ ‫حضر ع مہ فرم تے ہیں کہ ایک شخص حضر ابن مس ود‬ ‫رضی ہللا ت لی عنہ کی خدم میں ح ضر ہوا اور عرض کی’’انی‬ ‫ط امراتی تس و تس ین ف ل لہ ابن مس ود‪ ،‬ثالث تبینہ و‬ ‫س ئر ہن عدوان‘‘میں نے اپنی بیوی کو نن نوے ( )طال دی‬ ‫ہیں تو حضر ابن مس ود نے فرم ی ‪ :‬تین طالقوں سے وہ نک ح‬ ‫سے نکل گئی اور ب یہ طال تیری سرکشی ہیں۔ (مصنف‬


‫)عبدالرزا ‪ ،‬ص‪:‬‬

‫‪۳‬‬

‫حبی بن ث ب کہتے ہیں کہ ایک شخص حضر ع ی بن ابو‬ ‫ط ل کی خدم میں ای اور عرض کی’’انی ط امراتی ال‬ ‫‘‘‪،‬ف ل لہ ع ی ‪:‬ب ن منک بثالث و اقس س ئرہن ع ی نس ئک‬ ‫) طال دے دی ہے تو‬ ‫میں نے اپنی بیوی کو ایک ہزار(‬ ‫حضر ع ی نے فرم ی ‪ :‬تین طال سے تو تیری عور تجھ‬ ‫سے جدا ہو گئی اور ب یہ طالقیں اپنی دوسری بیویوں میں ت سی‬ ‫(مصنف عبد الرزا ‪ ،‬ن ہ فی فتح ال دیر‬ ‫)کردو۔‬ ‫ایک شخص نے حضر ابن مس ود رضی ہللا ت لی عنہ سے‬ ‫عرض کی ’’انی ط امراتی ثم نی تط ی ف ل م قیل لک؟ ف ل‬ ‫‘‘‪ :‬قیل لی‪’’ :‬ب ن منک‘’ ق ل صدقوا‪ ،‬ہو مثل م ی ولون۔‬ ‫میں نے اپنی بیوی کو اٹھ(‪ )8‬طال دے دی ہے تو حضر ابن‬ ‫مس ود نے پوچھ ‪ ،‬تمہیں اس ک حک کی بت ی گی ؟‪ ،‬س ئل نے‬ ‫کہ مجھے یہ بت ی گی ہے کہ تیری عور تجھ سے جدا ہو گئی‪،‬‬ ‫تو حضر ابن مس ود نے فرم ی صح بہ نے سچ بت ی ‪ ،‬حک وہی‬ ‫)ہے جو وہ بت رہے ہیں۔(موط ام م لک‬ ‫حضر ابن مس ود رضی ہللا ت لی عنہ کی تصدی سے ظ ہر‬ ‫یہی ہے کہ اس حک پر صح بہ کرا ک اجم ع تھ ۔‬ ‫یہ اور اس طرح کے بہ سے اث ر صح بہ ن ل کرنے کے ب د‬ ‫ام ابن ہم کم ل الدین حن ی رحمۃ ہللا ع یہ فرم تے ہیں’’ایک‬


‫مج س کی تین طال کے تین ہونے پر صح بہ کرا ک اجم ع‬ ‫ظ ہر ہے‪ ،‬کیوں کہ جس وق خ ی ہ راشد حضر عمر ف رو‬ ‫اعظ رضی ہللا ت لی عنہ نے تینوں طال ن فذ فرم ئی تھی‪ ،‬کہیں‬ ‫من ول نہیں کہ اس وق کسی بھی صح بی رسول نے اپ کی‬ ‫مخ ل ہو۔‬ ‫عالوہ ازیں ن ل اجم ع میں صرف اس ن ل ک اعتب ر ہے جو‬ ‫مجتہدین سے من ول ہو ‪،‬اور ایک الکھ صح بہ کرا میں ف ہ کی‬ ‫ت داد بیس سے زی دہ نہیں۔جیسے خ ء‪ ،‬عب دلہ زید بن ث ب‬ ‫‪،‬م ذ بن جبل‪ ،‬انس‪ ،‬ابو ہریرہ‪ ،‬اور چند صح بہ رضی ہللا ت لی‬ ‫عنہ ‪ ،‬ب قی صح بہ انہیں کی طرف رجوع کرکے مس ئل دری ف‬ ‫کرلی کرتے تھے اورہ نے اکثر مجتہدین صح بہ سے یہ صریح‬ ‫ن ل پیش کردی کہ مج س واحد کی تین طال تین ہی ہوتی ہے‬ ‫اوراس ب میں ان ک کوئی مخ لف ظ ہر نہ ہوا‪ ،‬توح کے‬ ‫ب دکی رہ ‪ ،‬سوائے گمراہی کے‪ ،‬اسی وجہ سے ہم را مذہ یہ‬ ‫ہے کہ اگر کسی ح ک نے ایک مج س کی تین طالقوں کے ایک‬ ‫طال ہونے ک فیص ہ کی تو وہ ن فذ نہ ہوگ ‪ ،‬کیوں کہ اس میں‬ ‫‪،‬ج د‪۳:‬‬ ‫)اجتہ د ج ئزنہیں‘‘۔(فتح ال دیر‪ ،‬ص حہ‪:‬‬ ‫حجۃ االسال ام جص ص رازی حن ی رحمۃ ہللا ت لی ع یہ کت‬ ‫وسن واث ر صح بہ سے استدالل کے ب د فرم تے ہیں’’ف لکت‬ ‫‘‘والسنۃ وإجم ع الس ف توج إی ع الثالث م وإن ک ن م صیۃ‬ ‫ح صل کال یہ کہ کت‬

‫ہللا‪ ،‬سن رسول ہللا اوراجم ع صح بہ‬


‫سے ث ب ہوت ہے کہ ایک س تھ دی گئی تینوں طال الزم ایک‬ ‫س تھ واقع ہوتی ہیں اگرچہ یہ گن ہ ہے۔‬ ‫)احک ال ران ص حہ‪:‬‬

‫‪ ،۳‬ج د‪( :‬‬

‫طح وی شریف میں ہے’’لم ک ن ف ل اصح رسول ہللا ص ی ہللا‬ ‫ت لی ع یہ وس جمی ف ال یج بہ الحجۃ ک ن کذلک ایض ‪،‬‬ ‫‘‘اجم عہ ع ی ال ول إجم ع یج بہ الحجۃ‬ ‫ج تم اصح رسول ص ی ہللا ت لی ع یہ وس ک ف ل واج‬ ‫الحج ہے تویوں ہی قول عمر ف رو رضی ہللا ت لی عنہ پران‬ ‫ک اجم ع بھی واج الحج ہوگ ۔‬ ‫) ص حہ‪:‬‬

‫؍‬

‫‪،‬ج د‪( :‬‬

‫طحط وی ع ی الدر المخت ر میں ہے’’من انکر وقوع الثالث ف د‬ ‫خ لف اإلجم ع ولو حک ح ک ب ن الث ث ت ع واحدة ل ین ذ حکمہ‬ ‫‘‘النہ ال یسو فیہ اإلجتہ د‬ ‫جس نے ایک مج س کی تین طال کے تین ہونے ک انک ر کی ‪،‬‬ ‫اس نے اجم ع کی مخ ل کی‪ ،‬لہذا اگرکوئی ح ک تین طالقوں‬ ‫کے ایک طال ہونے ک فیص ہ ص در کردے تو اس ک فیص ہ ن فذ‬ ‫نہ ہوگ کیوں کہ اجم عی مسئ ے میں اجتہ د کی گنج ئش نہیں‬ ‫ہوتی۔‬ ‫اجم ع کی مخ ل‬

‫ج ئز نہیں‪ ،‬اس کی دلیل قران حکی کی یہ ای‬


‫کریمہ ہے ’’ و من یش ق الرسول من ب د م تب ِّین لہ الھدی ویتبع‬ ‫غیرسبیل المومنین نولِّہ م تولی ونص ہ جہن وس ئ مصیرا۔‘‘(‬ ‫)سورہ نس ‪ :‬ای ‪:‬‬ ‫اورجورسول ک خالف کرے ب داس کے کہ ح راستہ اس پر کھل‬ ‫چک اورمس م نوں کی راہ سے جدا راہ چ ے ہ اسے اس کے‬ ‫ح ل پر چھوڑ دیں گے اوراسے دوزخ میں داخل کریں گے اورکی‬ ‫ہی بری جگہ پ ٹنے کی۔‬ ‫یہ ای اس ب کی دلیل ہے کہ اجم ع حج ہے ‪ ،‬اس کی‬ ‫مخ ل ج ئز نہیں ۔‬ ‫)مدارک شریف(‬ ‫اوراس سے یہ بھی ث ب ہواکہ مس م نوں ک راستہ ہی صراط‬ ‫مست ی ہے۔‬ ‫ازالہ شبہ‪:‬کت وسن اوراجم ع صح بہ کے برخالف دو روایتوں‬ ‫سے یہ شبہ ہوت ہے کہ ایک مج س کی تین طال تین نہ ہوں‬ ‫گی‪،‬ب کہ ان سے صرف ایک طال واقع ہوگی‪،‬وہ روایتیں یہ‬ ‫‪:‬ہیں‬ ‫ابن جریح کہتے ہیں کہ مجھے ابورافع کے لڑکوں میں سے‬ ‫ب ض نے خبر دی کہ عکرمہ نے بت ی کہ حضر ابن عب س نے‬ ‫فرم ی ’’ط ابورک نۃا رک نۃ…ث ق ل‪ :‬راجع امراتک ا رک نۃ‪،‬‬ ‫‘‘ق ل‪ :‬إنی ط تہ ثالث ی رسول ہللا!ق ل قد ع م راج ہ‬


‫ابو رک نہ نے ا رک نہ کوطال دے دی‪،‬رسول ہللا ص ی ہللا ت لی‬ ‫ع یہ وس نے فرم ی ’’اپنی بیوی ا رک نہ کولوٹ لو‘‘ انہوں نے‬ ‫عرض کی ی رسول ہللا! میں نے تواسے تین طال دے دی ہے‪،‬‬ ‫اپ نے فرم ی ’’ مجھے م و ہے‪ ،‬ت اسے (نک ح کرکے) لو ٹ‬ ‫‘ ‘ لو‬ ‫‪،‬ج د‪( :‬‬

‫)سنن ابی داود‪،‬ص حہ‪:‬‬

‫حضر ط وس روای کرتے ہیں کہ حضر ابن عب س نے‬ ‫فرم ی رسول ہللا ص ی ہللا ت لی ع یہ وس اورحضر ابوبکر‬ ‫رضی ہللا ت لی عنہ کے زم نے میں نیز حضر عمر رضی ہللا‬ ‫ت لی عنہ کی خالف کے دوس ل تک تین طال ایک م نی ج تی‬ ‫تھی توحضر عمر بن خط نے فرم ی ’’جس ب میں لوگوں‬ ‫کے لیے ڈھیل تھی اس میں انہوں نے ج د ب زی کردی‪،‬ہ اسے‬ ‫ان پر ن فذ کردیں گے پھراپ نے ان پر اسے ن فذ فرم دی ۔‬ ‫)مس شریف ص حہ‪:‬‬

‫‪،‬‬

‫‪ ،‬ج د‪( :‬‬

‫ان حدیثوں سے م و ہوت ہے کہ حضر عمر ف رو کے‬ ‫زم نے میں تین طال کو تین قرار دی گی ۔ اس سے پہ ے تین‬ ‫طالقوں کو ایک ہی طال م ن ج ت تھ ‪،‬لیکن اس استدالل کی‬ ‫حیثی ایک شبہ ض یف سے زی دہ نہیں اس کی قدرے تشریح یہ‬ ‫‪:‬ہے‬ ‫حدیث اول ض یف ومنکر ہے‪ ،‬اس کے راوی مجہول لوگ )‪(1‬‬


‫ہیں’’ام الروایۃ التی رواھ المخ ل ون ان رک نۃ ط‬ ‫‘‘واحدة فروایۃ ض ی ۃ عن قو مجہولین‬

‫ثالث فج ہ‬

‫یہ روای کہ رک نہ نے تین طال دی تھی اوررسول ہللا نے اسے‬ ‫ایک طال قرار دی ‪ ،‬ض یف روای ہے جس کے راوی مجہول‬ ‫‪ ،‬ج د‪:‬‬ ‫)لوگ ہیں۔(شرح صحیح مس ص‪:‬‬ ‫ام ابوزکری نووی ش ف ی رحمۃ ہللا ت لی ع یہ نے یہ انکش ف‬ ‫فرم ی ۔‬ ‫طال ک م م ہ عموم گھرمیں پیش ات ہے۔ اس لیے گھر )‪(2‬‬ ‫والوں کو واق ہ ک صحیح ع ہوت ہے اورگھر کے لوگوں کی‬ ‫روای یہ ہے کہ رک نہ نے ’’طال بتہ‘‘ دی تھی اور خود رک نہ‬ ‫نے حضور ص ی ہللا ت لی ع یہ وس کے درب ر میں قس کھ‬ ‫کریہ اعتراف کی تھ کہ ان کی نی ایک طال کی تھی لیکن اس‬ ‫کے برخالف تین طال کی روای گھر والوں کے عالوہ دوسروں‬ ‫کی ہے توم م ہ طال میں گھر والوں کی روای کے خالف‬ ‫دوسروں کی روای م بول نہ ہوگی۔ چن نچہ محدث ج یل الش ن‬ ‫حضر ام ابوداود رحمۃ ہللا ت لی ع یہ ن فع بن عجیر‬ ‫اورعبدہللا بن ع ی رضی ہللا ت لی عنہم کی’’طال بتہ‘‘ والی‬ ‫روایتوں کو ن ل کرکے فرم تے ہیں‪’’:‬ق ل ابو داود‪ :‬وھذا اصح‬ ‫من حدیث ابن جریح ان رک نۃ ط امراتہ ثالث النہ اھل بیتہ وہ‬ ‫اع بہ وحدیث ابن جریح رواہ عن ب ض بنی ابی رافع‘‘ (سنن‬ ‫)ابی داود شریف‪ ،‬ص حہ‪۳ :‬؍ ‪ ۳‬ج د‪:‬‬


‫ابوداود کہتے ہیں کہ یہ حدیث ابن جریح کی اس روای سے‬ ‫رک نہ نے اپنی بیوی کو تین طال دی تھی صحیح ہے‪ ،‬اس لیے‬ ‫کہ ’’طال بتہ‘‘ کے راوی رک نہ کے گھروالے ہیں اورگھر‬ ‫والوں کو واق ہ ک صحیح ع زی دہ ہوت ہے اورابن جریح کی‬ ‫روای توابورافع کے ب ض لڑکوں نے کی ہے۔(جورک نہ کے اہل‬ ‫خ ندان سے نہیں)۔‬ ‫محدث ابوداود ایک اورم پرابن جریج والی روای ن ل کرنے‬ ‫کے ب د فرم تے ہیں‪:‬ابوداود نے کہ کہ ن فع بن عجیر اورعبدہللا‬ ‫بن ع ی کی یہ روای کہ رک نہ نے اپنی بیوی کو طال بتہ دی‬ ‫تھی اورنبی ص ی ہللا ت لی ع یہ وس نے انہیں رک نہ کو لوٹ دی‬ ‫تھ صحیح ہے۔ اس لیے کہ یہ لوگ رک نہ کی اوالد ہیں اوراہل‬ ‫وعی ل کواس ب ک خو ع تھ کہ رک نہ نے اپنی بیوی‬ ‫کوصرف طال بتہ دی ہے۔ اس لیے نبی کری ص ی ہللا ت لی‬ ‫ع یہ وس نے (رک نہ سے قس لے کر) اسے ایک طال‬ ‫‪،‬جد‪:‬‬ ‫) قراردی ۔(سنن ابی داود‪،‬ص‪:‬‬ ‫ام ابوزکری نووی شرح صحیح مس شریف میں یہ لکھنے‬ ‫کے ب دکہ تین طال والی روای کے راوی مجہول لوگ ہیں‬ ‫اوروہ روای ض یف ہے‪ ،‬صراح فرم تے ہیں کہ’’وإنم‬ ‫‘‘الصحیح منہ م قدمن ہ انہ ط ہ البتۃ‬ ‫صحیح روای توصرف وہ روای ہے جو ہ پہ ے ن ل کرائے کہ‬ ‫‪،‬ج د‪:‬‬ ‫)رک نہ نے’’طال بتہ‘‘دی تھی۔ (ص حہ‪:‬‬


‫ایک اورمحدث ام ابن حجر ش ف ی فرم تے ہیں’’إن اب داود رجح‬ ‫ان رک نۃ إنم ط امراتہ البتۃ کم اخر جہ ھومن طری اہل بی‬ ‫رک نۃ وھو ت یل قو لجواز ان یکون ب ض رواتہ حمل ’’البتۃ‘‘‬ ‫ع ی الثالث‪ ،‬ف ل‪ ،‬ط ہ ثالث فبہذہ النکتۃ ی ف اإل ستدالل بحدیث‬ ‫‘‘ابن عب س۔‬ ‫محدث ابوداود نے اس روای کو ترجیح دی ہے کہ رک نہ نے‬ ‫اپنی بیوی کومحض’’ طال بتہ‘‘ دی تھی‪ ،‬کیو نکہ اس حدیث‬ ‫کے راوی رک نہ کے اہل وعی ل ہیں اوریہ مضبوط دلیل ہے‬ ‫اورابن جریج والی روای میں یہ ممکن ہے کہ ب ض راویوں نے‬ ‫ل ظ’’ البتۃ‘‘ کوتین طال پرمحمول کرکے یہ روای کردی ہو کہ‬ ‫انہوں نے تین طال د ی تھی تواس نکتہ کی وجہ سے ابن‬ ‫عب س کی اس روای سے استدالل س قط االعتب ر ہوگ ۔‬ ‫)فتح الب ری ص حہ‪،۳ ۳ :‬ج د‪( :‬‬ ‫مط یہ ہے کہ ل ظ’’البتۃ ‘‘ایک طال ک بھی احتم ل رکھت ہے‬ ‫اورتین طال ک بھی جیس کہ گزرا توکسی راوی نے اس ل ظ‬ ‫کے دوسرے احتم ل کوس منے رکھتے ہوئے’’ البتۃ‘‘ کی جگہ’’‬ ‫ثالث ‘‘ ’’تین‘‘ روای کردی ‪ ،‬ح النکہ رک نہ نے ل ظ ’’ث ث ‘‘ سے‬ ‫طال نہ دی تھی ‪ ،‬ب کہ ل ظ’’البتۃ‘‘ سے دی تھی۔‬ ‫حضر ابن عب س رـضی ہللا ت لی عنہ کے حوالہ سے )‪(3‬‬ ‫مجہول راویوں نے جوحدیث روای کی ہے کہ رک نہ نے تین‬ ‫طال دی اوررسول ہللا ص ی ہللا ت لی ع یہ وس نے اسے ایک‬


‫قرار دی ‪ ،‬یہ حدیث اس لیے بھی ن ق بل عمل اورس قط االستدالل‬ ‫ہے کہ حضر ابن عب س کے فت وی اس کے برخالف ہیں جن‬ ‫میں سے چ ر فت وی ہ نے گذشتہ ص ح میں ن ل کیے‬ ‫ہیں۔صح بہ کرا میں سے کسی بھی صح بی سے یہ ن ممکن ہے‬ ‫کہ وہ رسول ہللا کی حدیث روای کریں پھر اس کے ب داس کے‬ ‫خالف فتوی ص در کریں۔اسی لیے ع م فرم تے ہیں کہ اگرکوئی‬ ‫صح بی حدیث رسول کی روای کے ب داس کے خالف عمل‬ ‫کرے‪ ،‬ی فتوی دے تویہ اس ب کی دلیل ہے کہ وہ حدیث ی‬ ‫توب د میں منسوخ ہوگئی ی کسی کی گڑھی ہوئی ہے‪ ،‬اس لیے‬ ‫ق بل عمل نہیں۔ چن نچہ’’ نواالنوار‘‘ میں ہے’’والمروی عنہ اذا‬ ‫عمل بخالفہ ب دالروایۃ مم ھو خالف ی ین س ط ال مل بہ النہ م‬ ‫خ ل ہ ل وقوف ع ی نسخہ او موضوعتہ ف د س ط االحتج ج بہ‘‘‬ ‫‪/‬‬ ‫(نوراالنوراص حہ‪:‬‬ ‫حدیث ک راوی روای کے ب د ج اس کے خالف عمل کرے‬ ‫اوریہ عمل حدیث کے خالف ہون ی ینی ہوتواس حدیث سے عمل‬ ‫س قط ہوج ئے گ ‪ ،‬اس لیے کہ راوی نے اس حدیث کے منسوخ‬ ‫ہونے پر اگ ہ ہوکر اس کی مخ ل کی ہے ی وہ حدیث گڑھی‬ ‫ہوئی ہے۔ لہذا اس سے استدالل س قط ہوج ئے گ ۔غرض کہ تین‬ ‫طال کوایک قرار دینے والی حدیث تین تین طرح سے ن ق بل‬ ‫‪ :‬عمل اورن ق بل استدالل ہے‬ ‫اس لیے کہ یہ حدیث ض یف ومنکر ہے‪ ،‬اس کے راوی ‪(1):‬‬


‫مجہول افراد ہیں۔‬ ‫اس لیے کہ یہ حدیث حضر رک نہ کے اہل وعی ل کی ‪(2):‬‬ ‫روای کے خالف ہے۔‬ ‫اس لیے کہ راوی حدیث حضر ابن عب س ک فتوی اس ‪(3):‬‬ ‫کے خالف ہے۔‬ ‫دوسری حدیث جسے حضر ط وس نے حضر ابن عب س سے‬ ‫روای کی ہے کہ رسول ہللا ص ی ہللا ت لی ع یہ وس اورحضر‬ ‫ابوبکر صدی رضی ہللا عنہ کے دورمیں اورحضر عمر رضی‬ ‫ہللا ت لی عنہ کی خالف کے ابتدائی دوس لوں میں تین طال ایک‬ ‫‪:‬م نی ج تی تھی‪ ،‬یہ بھی دووجہ سے ن ق بل استدالل ہے‬ ‫یہ حدیث مط ہے‪،‬جس کے عمو میں مدخولہ کو تین )‪(1‬‬ ‫طال دے ی غیر مدخولہ کو‪ ،‬ایک س تھ ایک ک مہ میں تین طال‬ ‫دے ی کئی دف ہ میں اورکئی ک موں میں‪،‬ایک مج س میں تین‬ ‫طال دے ی الگ الگ کئی مج سوں میں‪ ،‬بہرح ل تین طال ایک‬ ‫ہی طال م نی ج تی تھی‪ ،‬ح النکہ یہ بالشبہ قط ی ین اجم ع‬ ‫ام کے خالف ہے اورام ک اجم ع گمرہی پرنہیں ہوسکت ‪ ،‬اس‬ ‫لیے یہ حدیث اپنے عمو واطال کے لح ظ سے ن ق بل حج‬ ‫ہے۔‬ ‫حضر ابن عب س رضی ہللا عنہم کے فت وی اس حدیث )‪(2‬‬ ‫کے بھی خالف ہیں‪ ،‬لہذا اس حیثی سے بھی ہے حدیث اپنے‬


‫عمو کے س تھ ق بل حج نہ رہی۔‬ ‫ان دونوں وجوہ کے پیش نظر اس حدیث سے یہ استدالل نہیں‬ ‫کی ج سکت کہ ایک مج س کی تین طال ایک ہی ہوئی ہے‪،‬‬ ‫کیوں کہ اس حدیث کے عمو میں جیسے ایک مج س داخل ہے‪،‬‬ ‫ویسے ہی تین مج سیں بھی توداخل ہیں‪ ،‬س تھ ہی تین طہر بھی‬ ‫توش مل ہیں‪،‬توپھر یہ بھی استدالل کی ج سکت ہے کہ تین مج س‬ ‫میں اورتین طہر میں اورتین ک م میں دی گئی تین طال بھی‬ ‫ایک ہی طال ہوگی‪ ،‬ح ال نکہ اس ک ق ئل کوئی بھی نہیں‪،‬‬ ‫توم و ہواکہ یہ حدیث موو ل ہے‪ ،‬اسی لیے ع م ئے ام نے‬ ‫اس کی کئی ت وی یں فر م ئیں ان میں سے ایک ت ویل یہ ہے کہ‬ ‫یہ حدیث خ ص غیرمدخولہ کے مت ہے۔ عہدرس ل اورعہد‬ ‫صدی ی میں اورخالف ف روقی کے ابتدائی دوس لوں تک غیر مد‬ ‫خو لہ کوج کوئی طال دیت تو الگ الگ ایک ایک طال‬ ‫دیت ‪،‬اس لیے ب د کی دوطال لغوہوج تی اوراعتب ر صرف پہ ی‬ ‫والی طال ک ہوت ‪ ،‬لیکن ب دمیں حضر عمر ف رو رـضی ہللا‬ ‫ت لی عنہ کے عہد میں لوگ ایک س تھ اسے تین طال دینے‬ ‫لگے۔ اس لیے ا تینوں طالقوں ک اعتب ر ضروری تھ ‪ ،‬یہی‬ ‫پوری ام مس مہ ک موقف بھی ہے۔اس ت ویل کی ت ئید ابوداود‬ ‫‪:‬شریف کی اس حدیث سے ہوتی ہے‬ ‫حضر ط وس کہتے ہیں کہ ابوالصہب ء ن کے ایک شخص‬ ‫حضر ابن عب س سے اکثر سوال پوچھتے رہتے تھے‪ ،‬انہوں‬


‫نے عرض کی کہ کی اپ کو م و ہے کہ شوہر اپنی غیر مدخولہ‬ ‫بیوی کوتین طال دے دیت تواسے رسول ہللا ص ی ہللا ت لی ع یہ‬ ‫وس اورابوبکر صدی کے زم نے میں اورعمر ف رو کی‬ ‫خالف کے ابتدائی دورمیں ایک طال قراردی ج ت تھ ؟ حضر‬ ‫ابن عب س نے فرم ی کیو ننہیں‪ ،‬شوہر ج اپنی بیوی کے س تھ‬ ‫دخول (خ و ی جم ع) سے پہ ے تین طال دے دیت توعہد‬ ‫رس ل وعہد صدی ی میں اورعمر ف رو کی خالف کے ابتدائی‬ ‫عہدمیں اسے ایک طال م ن ج ت تھ پھر ج حضر عمر نے‬ ‫یہ مش ہدہ کی کہ لوگ ایک س تھ تین طال دینے لگے ہیں تواپ‬ ‫نے فرم ی کہ تینوں طال ان پرف فذ کردو۔‬ ‫)ص حہ‪:‬‬

‫‪،‬ج د‪( :‬‬

‫مس شریف کی حدیث جو حضر ابن عب س سے مروی ہے‬ ‫اس کے ال ظ’’قد استج وا فی امر ک ن لہ ان ة‘‘ ک بھی م د‬ ‫یہی ہے کہ الگ الگ تین طال میں ڈھیل تھی‪ ،‬لیکن انہوں نے‬ ‫ج دب زی کرکے ایک س تھ تینوں طال دین شروع کردی ۔‬ ‫اس حدیث پ ک سے بہ کھل کریہ ث ب ہواکہ حضر ابن عب س‬ ‫کی دوسری روای جس سے تین طال کے ایک ہونے ک شبہ‬ ‫پیداہورہ تھ اس ک ت خ ص اس صور سے ہے ج کہ‬ ‫شوہر نے اپنی غیر مدخولہ کوتین ب ر تین طال دی ہواوراس‬ ‫ب میں ہم را مذہ یہی ہے کہ غیر مدخولہ کواس طرح طال‬ ‫دی ج ئے تو صرف ایک طال پڑے گی‪،‬س تھ ہی یہ بھی م و‬


‫ہوگی کہ خالف ف روقی میں لوگوں کی ع د تبدیل ہوچکی تھی‬ ‫اوروہ تین ب ر میں طال دینے کے بج ئے ایک س تھ ہی دف ۃ‬ ‫تین طال دینے لگے تھے‪ ،‬اس لیے حضر عمر ف رو رضی‬ ‫ہللا ت لی عنہ نے اسے صح بہ کرا کی موجودگی میں تین طال‬ ‫قراردی ‪ ،‬کیوں کہ ا صور مسئ ہ بدل چکی تھی اوریہی ہم را‬ ‫مذہ ہے۔ چونکہ حضر عمر ک یہ فیص ہ شری اسالمیہ کے‬ ‫عین مط ب تھ ‪ ،‬اس لیے صح بہ کرا نے بالانک ر نکیراسے‬ ‫تس ی فرم ی جوان کے اجم ع کی دلیل ہے۔‬ ‫الح صل کت ہللا‪ ،‬سن رسول ہللا اوراجم ع ام سے یہ ث ب‬ ‫ہوگی کہ اگر کوئی مس م ن اپنی مدخولہ بیوی کوایک مج س میں‬ ‫تین طال دے دے خواہ ایک دف ہ مینی کئی دف ہ میں توبہر ح ل‬ ‫اس پر تینوں طالقیں واقع ہوج ئیں گی اوراگر اپنی غیر مدخولہ‬ ‫بیوی کوایک مج س میں ایک س تھ تین طال دے توبھی تینو ں‬ ‫طال پڑج ئیں گی‪ ،‬ہ ں اگرغیرمدخولہ کوایک مج س میں ی‬ ‫مت دد مج لس میں‪ ،‬کئی مرتبہ میں‪ ،‬ی کئی ک م میں الگ الگ‬ ‫تین طال دے تو صرف پہ ی طال پڑے گی اورب دکی دوطال‬ ‫لغو ہو ں گی ۔‬ ‫یہی مذہ تم حن یوں‪،‬م لکیوں‪،‬ش ف یون ورحنب یوں ک ہے‬ ‫اوریہی مذہ صح بہ کرا ک ہے اور یہی اح دیث سے ث ب ہے۔‬ ‫اس کے خالف اگرکوئی ح ک مس ی غیر مس فیص ہ دے گ تو‬ ‫وہ ن فذ نہ ہوگ ب کہ ک ل د وب طل ہوگ ۔ وہللا ت لی اع‬


‫طال ثالثہ اورمخت ف افک رو نظری‬ ‫موالن غال رسول س یدی‬ ‫ت خیص‪:‬محمد ص بررہبر مصب حی‬ ‫بیک وق تین طالقوں ک حک ‪:‬ام ابوحنی ہ اورام م لک کے‬ ‫نزدیک بیک وق تین طال دین بدع اور گن ہ ہے ۔ ام ش ف ی‬ ‫کے نزدیک بیک وق تین طال دین ہرچند کہ مستح کے خالف‬ ‫ہے ت ہ گن ہ نہیں ہے اور اس مسئ ہ میں دو قول ہیں‪ :‬ایک قول‬ ‫میں ام ش ف ی کے مواف ہیں اوردوسرے قول میں ام‬ ‫ابوحنی ہ کے س تھ ہیں۔‬ ‫عالمہ ابن قدامہ حنب ی‪ ،‬ام احمد کے دونوں قولوں کی‬ ‫وض ح کرتے ہوئے لکھتے ہیں‪:‬بیک وق تین طالقوں کے‬ ‫دینے میں ام احمد سے مخت ف روای ہیں۔ایک روای یہ ہے‬ ‫کہ یہ حرا نہیں ہے اوریہی ام ش ف ی ک مذہ ہے۔ حضر‬ ‫حسن بن ع ی‪ ،‬حضر عبدالرحمن بن عوف اورش بی ک بھی‬ ‫یہی نظریہ ہے ۔کیونکہ حضر عویمر عجالنی نے ج اپنی‬ ‫بیوی سے ل ن کی توکہ ‪ ،‬ی رسول ہللا! ا اگر میں نے ا س کو‬ ‫اپنے پ س رکھ تومیرا اسے تہم لگ ن جھوٹ ہوگ ‪،‬اوررسول‬ ‫ہللا ص ی ہللا ت لی ع یہ وس کے حک دینے سے پہ ے اس کو‬ ‫)تین طال دے دی۔ (بخ ری ومس‬ ‫اوراس س س ے میں نبی ص ی ہللا ت لی ع یہ وس ک انک ر‬


‫من ول نہیں ہے‪ ،‬نیزبخ ری اورمس میں ہے ۔حضر ع ئشہ‬ ‫رضی ہللا عنہ بی ن کرتی ہیں کہ حضر رف عہ کی بیوی نے‬ ‫رسول ہللا ص ی ہللا ت لی ع یہ وس کی خدم میں ح ضر ہوکر‬ ‫عرض کی ‪ ،‬ی رسول ہللا! رف عہ نے مجھے طال البتہ(مغ ظہ)‬ ‫دے دی اورحضر ف طمہ بن قیس رضی ہللا عنہ بی ن کرتی ہیں‬ ‫کہ ان کے خ وند نے پیغ کے ذری ہ ان کو تین طالقیں بھیجیں‪،‬‬ ‫اورع ی دلیل یہ ہے کہ ج طال مت ر طورپر دین ج ئز ہے‬ ‫توایک س تھ تین طال دین بھی ج ئز ہے۔‬ ‫ام احمد سے دوسری روای ہے کہ بیک وق تین طال دین‬ ‫بدع اورحرا ہے۔ حضر عمر‪ ،‬حضر ع ی‪ ،‬حضر ابن‬ ‫مس ود‪ ،‬حضر ابن عب س‪ ،‬اورحضر ابن عمر ک ی‬ ‫‪...‬‬


‫‪aapka10‬‬ ‫‪7/24/14‬‬ ‫ایک مج س کی تین طالقوں ک شرعی حک کت‬ ‫روشنی میں‬

‫وسن کی‬

‫ابوالحسن ع وی‬ ‫‪:‬طال دینے ک صحیح طری ک ر‬ ‫شری‬ ‫ہے کہ‬

‫اسالمیہ میں طال دینے ک صحیح شرعی طری ہ ک ر یہ‬

‫۔ بیوی کو ایک وق میں ایک ہی طال دی ج ئے۔‪1‬‬ ‫۔ اور یہ طال بھی ح ل طہر میں ہو۔‪2‬‬ ‫۔ اور اس طہر میں ہو کہ جس میں بیوی سے مب شر ی ت‬ ‫زوجی ق ئ نہ کی ہو۔‬

‫‪2‬‬

‫پس ایسے طہر میں کہ جس میں بیوی سے مب شر نہ کی ہو‪،‬‬ ‫ایک طال دین طال سنی کہالت ہے جبکہ ایک وق میں تین‬ ‫طالقیں دین ی حیض و ن س کی ح ل میں طال دین ی جس طہر‬ ‫میں بیوی سے ت ق ئ کی ہو‪ ،‬اس میں طال دین ‪ ،‬طال‬


‫بدعی ہے ی نی سن کے مط ب نہیں ہے اور بدع ہے۔‬ ‫ج عور کو ح ل طہر میں ایک وق میں ایک طال دی‬ ‫ج ئے تو یہ طال ‪ ،‬طال رج ی کہالتی ہے اور اس کی عد تین‬ ‫) اگر اس عد میں خ وند رجوع کر‬ ‫حیض ہے۔ (الب رة ‪:‬‬ ‫لے توعور اس کے نک ح میں ب قی رہے گی ۔ اور اگر خ وند‬ ‫ح ل طہر میں ایک طال دینے کے ب د رجوع نہ کرے تو عد‬ ‫گزرنے کے ب د عور اپنے خ وند سے جدا ہو ج تی ہے لیکن‬ ‫‪ :‬اس صور میں عور کے پ س دو اپشن ہوتے ہیں‬ ‫۔ چ ہے تواپنے س ب ہ خ وند سے دوب رہ نک ح کر لے۔‪1‬‬ ‫۔ اگر چ ہے تو کسی اور مرد سے نک ح کر لے۔‪2‬‬ ‫طال کی یہ صور طال احسن کہالتی ہے کہ جس میں ایک‬ ‫طال کے ذری ے دوران عد رجوع نہ کر کے بیوی کو ف ر کر‬ ‫دی ج ت ہے اور اس میں اپس میں دوب رہ نک ح ک اپشن بھی‬ ‫موجود ہے۔ ہم رے ہ ں جہ ل کے سب سے عوا ‪ ،‬ب کہ عرضی‬ ‫ذری ے ایک )‪ (client‬نویس اور وکالء تک بھی اپنے کالئنٹ‬ ‫ہی وق میں تین طالقوں کے تحریری نوٹس بھجوا دیتے ہیں‬ ‫ح النکہ یہ طرزعمل سراسر شری کے خالف ہے۔ ایک روای‬ ‫‪:‬کے ال ظ ہیں‬ ‫محمود بن لبید ق ل ‪ :‬اخبر رسول ہللا ص ی ہللا ع یہ وس عن رجل‬ ‫ط امراتہ ثالث تط ی جمی ف غضب ن ث ق ل ‪ :‬ای‬


‫بکت ہللا وان بین اظھرک حتی ق رجل وق ل ‪ :‬ی رسول ہللا‬ ‫االاقت ہ۔(سنن النس ئی‪ ،‬کت الطال ‪ ،‬ب الثالث المجموعۃوم فیہ‬ ‫)من التغ یظ‬ ‫محمود بن لبید سے روای ہے کہ ہللا کے رسولﷺ کو ’’‬ ‫ایک شخص کے ب رے خبر دی گئی کہ جس نے ایک ہی س تھ‬ ‫اپنی بیوی کو تین طالقیں دے دی تھیں۔ اپﷺ (یہ سن کر )‬ ‫غصے سے کھڑے ہو گئے اور اپﷺ نے فرم ی ‪ :‬کی کت‬ ‫ہللا کو کھیل تم شہ بن لی گی ہے جبکہ میں ابھی تمہ رے درمی ن‬ ‫موجود ہوں۔ (ہللا کے رسول ﷺ کو اس قدر شدید غصے میں‬ ‫دیکھ کر ح ضرین مج س میں سے) ایک شخص نے کہ ‪ :‬کی میں‬ ‫اسے (ی نی ایک س تھ تین طالقیں دینے والے کو) قتل کر‬ ‫‘‘دوں؟‬ ‫‪ :‬اسی طرح ارش د ب ری ت لی ہے‬ ‫)الطال مرت ن (الب رة ‪:‬‬ ‫‘‘ طال دو مرتبہ ہے۔ ’’‬ ‫اس ای مب رکہ میں’ط ت ن‘ ی نی دو طالقیں نہیں کہ ہے ب کہ یہ‬ ‫کہ ہے کہ طال دو مرتبہ ہے ی نی ایک ب ر ایک طال ہے اور‬ ‫پھر دوسری ب ر کسی دوسرے وق میں دوسری طال ہو گی۔‬ ‫پس ایک وق میں ایک ہی طال ج ئز ہے ۔(ت سیر احسن البی ن‬ ‫‪ :‬ص ‪ ،‬موالن صالح الدین یوسف‪ ،‬مطبع ش ہ فہد کمپ یکس‪،‬‬


‫)مدینہ منورہ‪ ،‬مم ک س ودی عر‬ ‫‪:‬ایک وق کی تین طالقوں ک شرعی حک‬ ‫ایک وق کی تین طالقوں کے ب رے اہل ع میں اختالف ہے ۔‬ ‫ب ض اہل ع کے نزدیک ایک وق کی تین طالقیں تین ہی شم ر‬ ‫ہوتی ہیں اور پ کست ن میں ع طور حن ی ع م ک موقف یہ ہے‬ ‫کہ ایک وق میں تین طالقیں دین ‪،‬طال بدعی ہے اور ایس‬ ‫کرنے واال گن گ ر ہے لیکن تین طالقیں واقع ہو ج ئیں گی جبکہ‬ ‫اہل ع کی ایک دوسری جم ع ک موقف یہ ہے کہ ایک وق‬ ‫میں تین طالقیں ‪ ،‬طال بدعی ہیں اوراس ک مرتک گن ہ گ ر ہو‬ ‫گ لیکن یہ تین طالقیں ایک ہی طال شم ر ہوں گی۔ پ کست ن میں‬ ‫ب ض حن ی ع م اور ع طور اہل حدیث ع م ک یہی موقف ہے۔‬ ‫ہم ری رائے میں دوسرا موقف ہی راجح ‪ ،‬کت وسن اور‬ ‫‪:‬م صد شری کے مط ب ہے۔ ایک روای کے ال ظ ہیں‬ ‫عن ابن عب س ق ل ط رک نۃ بن عبد یزید اخو بن مط امراتہ‬ ‫ثالث فی مج س واحد‪ ،‬فحزن ع یھ حزن شدیدا‪ ،‬ق ل ‪ :‬فس لہ‬ ‫رسول ہللا ص ی ہللا ع یہ وس ‪:‬کیف ط تھ ؟ ق ل ‪ :‬ط تھ ثالث ‪،‬‬ ‫ق ل ‪ :‬ف ل ‪ :‬فی مج س واحد ؟ ق ل ‪ :‬ن ‪ ،‬ق ل ‪ :‬ف نم ت ک واحدة‪،‬‬ ‫ف رج ھ ان شئ ‪ ،‬ق ل ‪ :‬فرج ھ ‪ ،‬فک ن ابن عب س یری انم‬ ‫‪ ،‬موسسۃ الرس لۃ‪،‬‬ ‫الطال عند کل طھر ۔(مسند احمد ‪ :‬؍‬ ‫)بیرو‬


‫حضر عبد ہللا بن عب س سے روای ہے کہ حضر رک نہ ’’‬ ‫بن عبد یزید نے اپنی بیوی کو ایک ہی مج س میں تین طالقیں‬ ‫دے دیں اور اس پر شدید غمگین ہوئے۔ راوی کہتے ہیں کہ ہللا‬ ‫کے رسول ﷺ نے ان صح بی سے دری ف فرم ی ‪ :‬ت نے‬ ‫اپنی بیوی کو کیسے طال دی ہے؟ حضر رک نہ نے عرض‬ ‫کی ‪ :‬میں نے اسے تین طالقیں دی ہیں۔ ہللا کے رسول ﷺ‬ ‫نے فرم ی ‪ :‬کی ایک ہی وق میں تین طالقیں ؟ رک نہ نے‬ ‫عرض کی ‪ :‬جی ہ ں ! ہللا کے رسول ﷺ نے فرم ی ‪ :‬یہ‬ ‫صرف ایک ہی طال ہے۔ پس اگر تو چ ہت ہے تو اپنی بیوی‬ ‫سے رجوع کر لے۔ پس رک نہ ﷺنے اپنی بیوی سے رجوع‬ ‫کر لی ۔ ابن عب س ک کہن تھ کہ ہر طہر میں ایک طال ہو گی۔‬ ‫(ی نی خ وند نے اگر تین طالقیں دینی ہو تو ایک س تھ دینے کی‬ ‫بج ئے ہر طہر میں ایک طال دے گ ی نی ایک ایک مہینے کے‬ ‫‘‘وق ے کے س تھ دوسری اور تیسری طال دے گ )۔‬ ‫ہللا کے رسول ﷺ کی زندگی میں ‪،‬حضر ابو بکر کی‬ ‫خالف اور حضر عمر کی خالف کے ابتدائی دو س لوں میں‬ ‫ایک ہی وق کی تین طالقیں ایک ہی شم ر ہوتی تھیں۔ حضر‬ ‫عمر کے زم نے میں ایک ہی مج س میں تین طالقیں دینے ک‬ ‫رجح ن بہ بڑھ گی تو حضر عمر نے صح بہ سے مشورہ کی‬ ‫کہ ایسے شخص کی کی سزا تجویز کرنی چ ہیے جو ایک ہی‬ ‫وق میں تین طالقیں دیت ہے جبکہ شری نے سختی سے اس‬


‫سے منع فرم ی ہے۔ صح بہ کی ب ہمی مش ور سے یہ طے‬ ‫پ ی کہ ایسے شخص کی سزا یہ ہے کہ اس پر تین طالقیں ق نون‬ ‫‪:‬ن فذ کر دی ج ئیں۔ ایک روای کے ال ظ ہیں‬ ‫عن ابن عب س رضی ہللا عنہ ق ل ک ن الطال ع ی عھد رسول ہللا‬ ‫ص ی ہللا ع یہ وس وابی بکر وسنتین من خالفۃ عمر‪ ،‬طال‬ ‫الثالث واحدة۔ ف ل عمر بن الخط ان الن س قد است ج وا فی امر‬ ‫قد ک ن لھ فیہ ان ة ف وامضین ھ ع یہ ف مض ہ ع یھ ۔(صحیح‬ ‫)مس ‪ ،‬کت الطال ‪ ،‬ب طال الثالث‬ ‫حضر عبد ہللا بن عب س سے روای سے ہللا کے رسول ’’‬ ‫ﷺ کے زم نہ‪ ،‬حضر ابو بکر کے دور خالف اور حضر‬ ‫عمر کے دورخالف کے ابتدائی دو س لوں میں تین طالقیں ایک‬ ‫ہی شم ر ہوتی تھیں۔ پس حضر عمر نے کہ کہ لوگوں نے‬ ‫طال کے م م ے میں ج دی کی ہے(ی نی ایک ہی وق میں تین‬ ‫طالقیں دینے لگے ہیں) ح النکہ انہیں اس ب رے مہ دی گئی‬ ‫تھی( کہ وہ تین طہر ی تین مہینوں میں تین طالقیں دیں)۔ پس‬ ‫اگر ہ ایسے لوگوں پر تین طالقیں ج ری کر دیں۔ پس حضر‬ ‫‘‘عمر نے انہیں تین طالقوں کے طور ج ری کر دی ۔‬ ‫پس اس وق سے اہل ع میں یہ اختالف چال ا رہ ہے کہ ایک‬ ‫وق کی تین طالقیں ایک ہی شم ر ہوں گی ی تین۔ حن ی اہل ع‬ ‫ک کہن یہ ہے کہ حضر عمر رضی ہللا عنہ ک یہ فیص ہ‬ ‫اگرچہ سی سی اور ق نونی نوعی ک تھ لیکن )‪(judgement‬‬


‫چونکہ اس میں صح بہ کی ایک بڑی جم ع کی مش ور بھی‬ ‫ش مل تھی لہذا ہم رے لیے حضر عمر ک فیص ہ حج‬ ‫ہے جبکہ اہل ع کی دوسری جم ع ک کہن یہ ہے )‪(binding‬‬ ‫کہ حضر عمر ک یہ فیص ہ سی س و قض سے ت رکھت‬ ‫ہے جو اس وق کے لوگوں کے لیے تو بطور ق نون‪ ،‬الزمی‬ ‫کی حیثی رکھت ہے لیکن ب د میں انے والے )‪(binding‬امر‬ ‫ع م ‪ ،‬م تی ن کرا اور جج حضرا کے لیے اس فیص ے کی‬ ‫سے زی دہ کچھ نہیں )‪ (precedent‬حیثی ایک عدالتی نظیر‬ ‫‪ (primary‬ہے اور ج یہ عدالتی فیص ہ اصل ق نون‬ ‫سے ٹکرا رہ ہو گ تو اس )‪source of islamic law‬‬ ‫صور میں اصل ق نون کو ترجیح دی ج ئے گی ی نی حدیث‬ ‫کی یہ )‪(judgement‬رک نہ کو ترجیح ہو گی۔ اور اس فیص ہ‬ ‫توجیح کی ج ئے گی کہ یہ فیص ہ ضرور کے نظریہ کے تح‬ ‫عبوری اور وق دور کے لیے ایک صدارتی ارڈیننس‬ ‫کی حیثی رکھت تھ ۔ )‪(ordinance‬‬ ‫ام ابن قی رحمہ ہللا نے لکھ ہے کہ صح بہ میں حضر عبد‬ ‫ہللا بن عب س‪ ،‬زبیر بن عوا ‪ ،‬عبد الرحمن بن عوف‪ ،‬ایک روای‬ ‫کے مط ب حضر ع ی اور عبد ہللا بن مس ود رضی ہللا عنہ‬ ‫ک بھی یہی فتوی ہے کہ ایک وق کی تین طالقیں ایک ہی شم ر‬ ‫ہوتی ہیں۔ ت ب ین میں سے حضر عکرمہ‪ ،‬ط وس اور تبع‬ ‫ت ب ین میں محمدبن اسح ‪ ،‬خالص بن عمرو‪ ،‬ح رث عک ی‪ ،‬داود‬ ‫بن ع ی اور ب ض اہل ظ ہر‪ ،‬ب ض م لکیہ‪ ،‬ب ض حن یہ اور ب ض‬


‫حن ب ہ ک بھی یہی موقف رہ ہے کہ ایک مج س کی تین طالقیں‬ ‫ایک ہی شم ر ہوں گی۔(اعال الموق ین ‪۳ :‬؍ ‪ ،‬اغ ثۃ ال ھ ن ‪:‬‬ ‫) ؍ ‪۳۳‬۔ ‪۳‬‬ ‫یہ بی ن کرن بھی ف ئدہ سے خ لی نہ ہو گ کہ ‪1929‬ء میں مصر‬ ‫میں حن ی‪ ،‬م لکی‪ ،‬ش ف ی او رحنب ی اہل ع کی ایک جم ع کی‬ ‫س رش پر وضع کیے ج نے والے ایک ق نون کے ذری ے ایک‬ ‫وق کی مت دد طالقوں کو ق نون ایک ہی طال شم ر کی ج ت‬ ‫ہے۔ اسی قس ک ق نون سوڈان میں ‪1935‬ء میں‪ ،‬اردن میں‬ ‫‪1951‬ء میں‪ ،‬ش میں ‪ 1953‬ء میں‪ ،‬مراکش میں ‪1958‬ء‬ ‫میں‪ ،‬عرا میں ‪1909‬ء میں اور پ کست ن میں ‪1961‬ء میں‬ ‫ن فذ کی گی ۔(ایک مج س کی تین طالقیں اور ان ک شرعی حل‬ ‫‪ ،‬مطبع دار السال ‪ ،‬الہور‬ ‫)‪:‬ص‬ ‫ایک مج س کی تین طالقوں کو ایک شم رکرنے والوں میں‬ ‫م صر حن ی ع م میں م روف دیوبندی ع ل دین موالن س ید‬ ‫احمد اکبر اب دی (انڈی )‪،‬موالن عبد الح ی ق سمی (ج م ہ حن یہ‬ ‫گ برگ‪ ،‬الہور) اور ج م ہ ازہر کے ف ر التحصیل بری وی حن ی‬ ‫ع ل دین موالن پیر کر ش ہ (س ب جج سپری اپی یٹ شری‬ ‫بنچ‪ ،‬پ کست ن) وغیرہ بھی ش مل ہیں۔ م صر ع م ئے عر میں‬ ‫شیخ ازہر شیخ محمود ش تو حن ی (ج م ہ ازہر‪ ،‬مصر) ‪ ،‬ڈاکٹر‬ ‫وہبہ الزحی ی ش ف ی (دمش ‪ ،‬ش ) ‪ ،‬شیخ جم ل الدین ق سمی‬ ‫‪،‬شیخ سید رشید رض مصری اور ڈاکٹر یوسف قرض وی نے بھی‬


‫ایک وق کی تین طالقوں کو ایک ہی شم ر کی ہے۔ ان اہل اع‬ ‫کے ت صی ی فت وی ج کے لیے درج ذیل کت کی طرف رجوع‬ ‫‪:‬کریں‬ ‫ایک مج س کی تین طالقیں اور ان ک شرعی حل ‪ ،‬ح فظ صالح (‬ ‫الدین یوسف‪ ،‬مشیر وف قی شرعی عدال ‪ ،‬پ کست ن‪ ،‬مطبع دار‬ ‫)السال ‪ ،‬الہور‬ ‫‪http://groups.google.com/group/BAZMeQAL‬‬ ‫‪AM‬‬ ‫‪www.urduaudio.com‬‬ ‫‪http://hudafoundation.org/‬‬


‫‪Zubair H Shaikh‬‬ ‫‪7/24/14‬‬ ‫سبح ن ہللا‪ ،‬آپ تم محتر و موقر حضرا نے اخالص اور‬ ‫مستند حوالوں کے س تھ طال کے مس یل پر مدلل بحث کی ہے‬ ‫‪ ...‬ہللا ت لی س کو جزائے خیر دے‪ ....‬جو کچھ بھی مس کی‬ ‫اختالف واقع ہوئے ہیں وہ ج تک ہللا سبح ن ت لی چ ہے‬ ‫رہے ی نہ رہے لیکن یہ ب تو طے ہے کہ تم ایمہ کرا اور‬ ‫ع م ئے کرا نے اپنی تم زندگی ت وی کے س تھ دینی خدم‬ ‫میں عر ریزی کرتے ہوئے گزاردی اور انک اجر ہللا کے پ س‬ ‫مح وظ ہے‪ ،‬اور س ک بڑا اجر ہی ہوگ انش ہللا ‪ ،‬اس لئے اس‬ ‫کے آگے انکی ت وی وں اور دلی وں پر بحث انہیں کے ق ئ م‬ ‫کر سکتے ہیں‪....‬مس کی بحث و مب حث اور قران و حدیث کی‬ ‫ت وی وں اور دلی وں ک م ش ہللا ک فی ذخیرہ موجود ہے اور اسے‬ ‫صرف دین سے قرب رکھنے والے پڑھتے ہیں اور انہیں کے‬ ‫درمی ن یہ بحث بھی ہوتی رہتی ہے جو ب کل ضروری بھی ہے‪،‬‬ ‫لیکن اسکے س تھ س تھ مس م ن الن س کی کثیر ت داد کے مسئ ہ‬ ‫‪ ..‬ک ق بل ن ذ حل بھی ضروری ہے‪..‬اور طال کے مسئ ہ میں‬ ‫‪...‬کے تح ضروری ہے‬


‫ہللا ت لی اس خ کس ر ک مدع اہل ع و نظر تک پہنچ ئے اور ان‬ ‫کے ذری ہ ع م ئے دین تک‪ ..‬اس ط ل ع ک یہ ں موقف‬ ‫مس کی بحث اور دلیل و ت ویل کے بج ئے یہ ہے کہ دین کے‬ ‫دائرے میں وہ حل پیش کی ج ئے جس سے ع مس م نوں میں‬ ‫غیر ضروری اور غیر اصولی طال ک رحج ن ک ہو‪ ....‬ایک خال‬ ‫ہے جسے پرکرن بے حد ضروری ہے اور جو فی الح ی‬ ‫مس م ن الن س اور ع م ئے کرا کے درمی ن پ ی ج ت ہے اور‬ ‫جس ک سب ایک کثیر ت داد کی دین سے دوری ہے‪ ...‬جہ ں‬ ‫مس م نوں ک ایک بڑا طب ہ دین کو صرف طال اور نم ز جن زہ‬ ‫تک محدود کر کے رکھت ہے اور پیدائیش سے لے کر ب یہ تم‬ ‫عمر غیر دینی اصولوں کی پیروی میں گزارت ہے‪ ...‬انہیں قرآن‬ ‫واح دیث کی ان دلی وں اور ت وی وں کی نہ ہی سوجھ بوجھ ہے‬ ‫اور نہ ہی وہ اسے سمجھن چ ہتے ہیں ‪ ....‬لیکن نہ ہی دین نے‬ ‫اور جید ایمہ کرا اور ع م ئے کرا نے انکی اس کوت ہی ک یہ‬ ‫مط لی ہے کہ انکے دینی مس ئل کے حل پیش کرنے سے پہ و‬ ‫تہی کی ج ئے‪ .....‬ب کہ انکی تو یہ کوشش رہی ہے کہ وہ ایسے‬ ‫دین سے دور مس م نوں تک پہنچن چ ہتے ہیں‪ ...‬ا کسی نہ‬ ‫کسی کو یہ خال پر کرن ہوگ اور پل ک ک کرن ہوگ اور زمینی‬ ‫ح ئ ع م ئے کرا اور م تی ن کرا تک پہنچ نے ہونگے ت کہ‬ ‫‪...‬طال کے مس ئل ک حل بطور 'ح ظ م ت د ' ح صل کی ج ئے‬ ‫لیتے ہوئے اور ‪Preventive Measures‬‬ ‫ہوتے ہوئے‪ ....‬اور دور جدید میں اس پل کی ‪pro-active‬‬


‫ذمہ داری اہل ع و نظر و خبر بہتر طور سے انج دے سکتے‬ ‫ہیں‪ ،‬خ صکر وہ جو دور جدید کے عوا الن س کے بھی قری‬ ‫‪....‬ہیں اور دین اور ع م ئے دین کے بھی‬ ‫زمینی ح ئ وہی ہیں جس ک تذکرہ ب رہ اہل فکر و نظر کرتے‬ ‫ہیں‪ ....‬اول تو نک ح اور طال کے ضمن میں جو دلی یں اور‬ ‫ت وی یں ہیں انہیں دور جدید کے مس م نوں کی اکثری نہ ہی‬ ‫سمجھتی ہے اور نہ سمجھن چ ہتی ہے‪ ....‬انکی کی دینی تربی‬ ‫ایک الگ مو ضوع ہے جس پر یہ ں بحث بے ج ہے ‪ ....‬اس‬ ‫لئے نک ح ن مہ کے س تھ ایک ق نونی قرار داد ہوسکتی ہے جس‬ ‫میں ع فہ زب ن میں‪ ،‬ب کہ انکی اپنی اپنی م دری زب ن میں‬ ‫اختص ر کے س تھ نک ح و طال کے م مال کو پیش کی‬ ‫ج سکت ہے‪ ،‬مس کی ترجیح کے س تھ لیکن بغیر مس کی بحث‬ ‫کے س تھ کہ ع مس م ن کو اس بحث سے کوئی واسطہ نہیں‬ ‫اور نہ ہی وہ رکھن چ ہت ہے‪ ،‬بھ ے یہ اسکی ن اہ ی ہے‪......‬‬ ‫لیکن وہ نک ح کو ایک دینی فریضہ سمجھ کر انج دین ضرور‬ ‫چ ہت ہے‪ ،‬اور یہ نکتہ بے حد اہ ہے کہ وہ کہیں نہ کہیں دین‬ ‫سے جڑا ہے اور مست بل میں قوی امک ن ہیں کہ وہ دین سے‬ ‫اور بھی قری ہوج ئے ‪ .....‬الغرض نک ح اور طال کے ضمن‬ ‫میں ایک مختصر ع فہ ق نونی قرارداد اور ممکن ہوسکے تو‬ ‫دس منٹ ک مختصر تربیتی پروگرا اگر نک ح سے قبل ی عین‬ ‫نک ح خوانی کے وق دونوں فری کے لئے الز کر دی ج ئے تو‬ ‫اس خ کس ر کے خی ل میں دین میں اسکی کوئی مم ن نہیں‬


‫ہوگی‪ ....‬دور جدید کے اکثر نک ح ی نک ح ن موں کی حیثی دین‬ ‫سے دور رہنے والوں کے نزد ق نونی قراردار کی نہیں ہے ‪..‬‬ ‫ع بول چ ل کی زب ن میں اسے نک ح کے دو بول ہی کہ ج ت‬ ‫ہے‪ ...‬نک ح کو آس ن کرنے کے احک ک اس قدر غ ط مط اخذ‬ ‫کی گی ہے کہ اس کی اہمی ا ش دی کی طویل رسموں میں‬ ‫اتنی ہی رہ گئی ہے جتنی ہوائی جہ ز میں چڑھنے کے لئے بے‬ ‫قرار مس فر کو بورڈنگ پ س کے حصول کی ہوتی ہے‪ ...‬دنی‬ ‫کے اکثر مس مم لک کے ق نون دنیوی اور دینی نظ ک‬ ‫مجموعہ وا قع ہوئے ہیں اور خ لص اسالمی نہیں ہیں اس لئے‬ ‫بھی نک ح ن مہ کی مس حیثی تبھی تک ق ئ رہتی ہے ج تک‬ ‫‪...‬طال در پیش نہیں ہوتی‬ ‫‪ ....‬وہللا ہو ع ل ب لصوا‬ ‫خ کس ر‬ ‫زبیر‬


‫‪Rana Humayun Rasheed‬‬ ‫‪7/28/14‬‬ ‫جن مکر نی ز ص ح ‪ ،‬جیس کہ آپ ج نتے ہیں کہ ب ض‬ ‫اختالف صح بہ رضی ہللا عنھ اور ت ب ین رحمھ ہللا سے چ ت آ‬ ‫رھ ہے‪ ،‬مثال رفع الیدین اور ف تحہ خ ف االم وغیرہ۔ ان کے‬ ‫اختالف سے کوئی بھی انک رنہیں کرت ۔ لیکن جس مسئ ے میں‬ ‫اختالف ہی نہ رھ ہو اس میں اختالف کرن کہ ں کی ع مندی‬ ‫ہے؟ آپ کو م و ہو گ کہ ک ر مکہ نے کہ تھ کہ ایک دن ہ‬ ‫آپکے خدا کی عب د کرتے ہیں ایک دن آپ ہم رے کی کریں۔‬ ‫بظ ہر یہ وسیع نظری ہی تھی لیکن اسال نے اسے مسترد کر‬ ‫دی ۔ جن محتر ‪ ،‬مث ل تھوڑی سخ ہے لیکن وسیع نظری اور‬ ‫حد سے گزرنے میں فر ہے۔ وسیع نظری ہمیں قبول ہے لیکن‬ ‫حد سے گزرن نہیں۔‬ ‫اگر آپ ایک مح ل کی تین طالقوں کے ایک ہونے کو مس ک‬ ‫م نتے ہیں تو برائے مہرب نی ان س ف ص لحین ی نی صح بہ‬ ‫رضی ہللا عنھ ‪ ،‬ت ب ین آئمہ اور محدثین رحمھ ہللا ک ن بت ئیے‬ ‫جو اسکے ق ئل تھے اور فتوی دیتے تھے کیونکہ قرآن اور‬ ‫حدیث کو میں اور آپ تو غ ط سمجھ سکتے ہیں صح بہ نہیں۔‬ ‫جبکہ ایک جم ے کی تین طال کے تین ہونے ک صح بہ اور‬ ‫ت ب ین رضی ہللا عنھ ک فتوی اسی گ تگو میں میں پہ ے مع‬


‫عربی متن اور حوالے کے ذکر کر چک ہوں دوب رہ مالحظہ فرم‬ ‫لیں۔ ی نی پہ ی صدی میں کون صح بی اور ت ب ی رضی ہللا عنہ‬ ‫تین کے ایک ہونے ک فتوی دیت تھ ۔‬ ‫امید ہے نکتے ک نکتے کے س تھ ہی جوا دیں گے۔ اور اگر‬ ‫س ف ص لحین رحمھ ہللا ک فتوی ایک جم ے کی تین ک تین م نن‬ ‫ہی ہے تو اسکی مخ ل کو مس ک کیسے م ن ج سکت ہے‬ ‫جبکہ دوسری صدی میں آئمہ ارب ہ سیکڑوں اختالف کے‬ ‫ب وجود بھی اس مسئ ے میں مت ہیں۔‬ ‫نوٹ‪ :‬جن ص ح کی کت آپ نے رابط میں بھیجی ہے انہوں‬ ‫نے بہ جگہوں پر خی ن کی ہے جسک پھر ذکر کریں گے کہ‬ ‫اس رستے پر نک نے سے کوئی ف ئدہ نہیں ہو گ ۔‬ ‫مع السال ‪،‬‬ ‫ہم یوں رشید۔‬


‫‪aapka10‬‬ ‫‪7/28/14‬‬ ‫طال دین ہوت ہے ی طال کہن ؟‬ ‫طال ک مط چھوڑن ہوت ہے۔ چ ہے مرد سو ب ر یہ ال ظ کہے‬ ‫عم ی طورپر تو ایک ہی ب ر چھوڑا ہے۔‬ ‫آپ یہ مث ل دیتے ہیں کہ تین پتھر م ر کر تین شم ر کریں ایک‬ ‫کیوں شم ر کرتے ہین‬ ‫لیکن اگر ایک ب رپتھر م ر کر تین ب ر کہے کہ میں نے پتھر م را‬ ‫میں نے پتھر م را میں نے پتھر م را۔ تو کی اس نے تین پھر‬ ‫م رے؟‬ ‫ایک ب ر کھ ن کھ کر تین ب ر کہے کہ میں نے کھ ن کھ ی تو‬ ‫عم ی طور پر کھ ن تو اس نے ایک ہی ب ر کھ ی‬ ‫اسی طرح ج ایک موقع پر مرد طال دیت ہے تو وہ ایک ہی‬ ‫موقع ہوت ہے کیونکہ اس نے کسی ایک سب سے عم ی طور‬ ‫پر ایک ہی ب ر چھوڑا ہے۔ ج دو اور ایسے مواقع ہو ج ئیں تو‬ ‫اس ک مط گزارہ ممکن نہیں‬ ‫ایک طال سوچ سمجھ کر دی ج تی ہے۔ اس کے بہ سے‬ ‫اسب ہو سکتے ہیں۔اس کے لیے توتین طہر واال طری ے پر‬


‫آس نی سے عمل ہو سکت ہے۔‬ ‫ایک طال کسی ایک خ ص موقع پر انتہ ئی اشت ل کے ع ل میں‬ ‫دی ج تی ہے۔اس میں انس ن اپنی جذب تی کمزوری اور وقتی‬ ‫اشت ل کی وجہ سے کئی ب ر کہہ دیت ہے۔ آپ اس صور میں‬ ‫اس کی واپسی ک راستہ ہی بند کردیتے ہیں۔ فطری طری ہ یہی‬ ‫نظر آت ہے کہ ایک مج س کی طال ایک ہی ہو۔ اس پر میں ایک‬ ‫مضمون قرآن و سن کی روشنی میں بھیج چک ہوں۔ ش ید آپ‬ ‫کی نظر سے نہیں گزرا۔‬ ‫مخ ص‬ ‫‪sabirrahbar10‬‬ ‫‪7/28/14‬‬ ‫مخ ص ص ح اسالمی اصول ع ل کسوٹی پر نہیں تولے ج تے‬ ‫ہیں ۔میں نے اس ت سے قران وحدیث کی روشنی میں کئی‬ ‫مض مین بھیجے ہیں ۔اپ اس ک سنجیدگی سے س تھ مط ل ہ‬ ‫کریں ۔عہد صح بہ میں کوئی ایسی مث ل نہیں م تی ہے جہ ں تین‬ ‫طال کوایک شم ر کی گئی ہو۔ ہ ں حدیث رک نہ کوسمجھنے میں‬ ‫کچھ لوگ ف ش غ طی کربیٹھے ہیں اوراسی ایک حدیث کی بنی د‬


‫پر اسال کے ایک مستحک اصول سے چھیڑ کرنے کی جرا کی‬ ‫ج رہی ہے۔‬ ‫جن کوئی بھی سخ ق نون جر سے ب ز رکھنے کی ئے‬ ‫بن ی ج ت ہے اورطال بھی اسال میں سخ ن پسندہ مب ح قراردی‬ ‫گئی ہے اگر کوئی اسالمی اصول کے پرواکئے بغیر طال دیت‬ ‫ہے تواسے سزا ضرور م نی چ ہئے ت کہ دوسرونکی ئے تمثتیل‬ ‫بن سکے نہ کہ اس کے س تھ ہمدردانہ س وک اختی ربرتی ج ئے‬ ‫۔‬ ‫میں یہ ں حدیث رک نہ پر ایک مضمون پوسٹ کررہ ہوں۔‬ ‫مالحظہ فرم ئیں‬ ‫حدیث رک نہ ک تح ی ی ج ئزہ‬ ‫موالن کوثر ام ق دری‬ ‫اہل ع اس ب سے بخوبی واقف ہینکہ ایک س تھ دی ج نے‬ ‫والی تین طال تین ہی شم ر ہوتی ہیں۔ عہد رس ل ص ی ہللا ع یہ‬ ‫وس ی دور خالف صدی ی و ف روقی میں بھی تین ہی شم ر‬ ‫ہوتی رہی ہیں۔ لہذا یہ ام مس مہ ک اجم عی مسئ ہ بن گی اور‬ ‫اس پر صح بہ‪ ،‬ت ب ین‪ ،‬تبع ت ب ین‪ ،‬ائمہ مجتہدین اور ع م ء‬ ‫مت دمین ومت خرین نے اپنے اپنے زم نے میں فت وے ص در‬


‫کیے‪ ،‬جنہیں ف ہ ارب ہ کی کت بوں میں ب س نی دیکھ ج سکت‬ ‫ہے۔ نیز اس کی صراح بھی مت دد کت بوں میں مل سکتی ہے۔‬ ‫ام نووی نے فرم ی ‪’’:‬وقد اخت ف ال م ء فی من ق ل المراتہ ان‬ ‫ط ل ثالث ف ل الش ف ی و م لک و ابو حنی ہ و احمد وجم ہیر‬ ‫)ال م ء من الس ف و الخ ف ی ع الثالث۔‘‘ (‪1‬‬ ‫ع م ے کرا ک اس میں اختالف ہے کہ جس شخص نے اپنی‬ ‫بیوی سے کہ ‪:‬تجھے تین طال ‪ ،‬تو ام ش ف ی‪ ،‬ام م لک‪،‬‬ ‫ام ابوحنی ہ‪ ،‬ام احمدا ور جمہور ع م ے س ف و خ ف نے‬ ‫فرم ی کہ وہ تین طال واقع ہو ج ئیں گی۔‬ ‫ام ہم حن ی نے فرم ی ‪’’:‬ذہ جمہور من الصح بۃ والت ب ین و‬ ‫)من ب دہ من ائمۃ المس مین الی انہ ی ع الثالث‘‘(‪2‬‬ ‫جمہور صح بہ و ت ب ین اور اس کے ب د کے ائمہ مس مین اس‬ ‫ب کی طرف گئے ہیں کہ تین طالقینواقع ہو ج ئیں گی۔‬ ‫عالمہ عینی فرم تے ہیں‪’’:‬مذہ جم ہیر ال م ء من الت ب ین و من‬ ‫ب دہ من االوزاعی و النخ ی والثوری وابوحنی ۃ و اصح بہ و‬ ‫م لک واصح بہ والش ف ی و اصح بہ واحمد و اصح بہ واسح و‬ ‫ابو ثور و ابو عبید واخرون کثیر ع ی ان من ط امراتہ ث ث و‬ ‫)ق ن و لکنہ ی ث ۔ (‪3‬‬ ‫جمہور ع م ء‪ ،‬ت ب ین‪ ،‬تبع ت ب ین مثال ام اوزاعی‪ ،‬ام نخ ی‪،‬‬ ‫ام ابو س ی ن ثوری‪ ،‬ام ابو حنی ہ اور ان کے تالمذہ‪ ،‬ام‬


‫م لک اور ان کے تالمذہ‪ ،‬ام ش ف ی اور ان کے تالمذہ‪ ،‬ام‬ ‫احمد اور ان کے تالمذہ‪ ،‬ام اسح ‪ ،‬ابوثور‪،‬ابوعبید اور‬ ‫دوسرے کثیر ع م ء ک مذہ یہ ہے کہ جو اپنی بیوی کو تین‬ ‫طال دے گ تو وہ تین واقع ہو ج ئیں گی‪،‬ہ ں وہ گنہگ ر ہوگ ۔‬ ‫عالمہ ابن رشد فرم تے ہیں‪’’:‬جمہور ف ہ ء االمص ر ع ی ان‬ ‫)الطال ب ظ الثالث حکمہ حک الط ۃ الثالثۃ۔‘‘ (‪4‬‬ ‫تم بالد اسالمیہ کے جمہور ف ہ ء اس پر ہیں کہ ایک ل ظ سے‬ ‫تین طال دینے ک وہی حک ہے جو تیسری طال ک حک ہے۔‬ ‫مذکورہ عب را سے یہ ت ریخی شہ د ح صل ہوئی کہ بیک وق‬ ‫دی ج نے والی تین طال تین ہی شم ر ہوتی رہی ہیں‪ ،‬عہد‬ ‫رس ل سے س تویں واٹھویں صدی ہجری تک جمہور ع م ء ک‬ ‫یہی موقف رہ اور اس کے ب د کے ع م ء ف ہ ء نے بھی اسی پر‬ ‫فتوی ج ری فرم ی ۔ ع یدہ کے اعتب ر سے ع م ء دیوبند خواہ جو‬ ‫کچھ بھی ہوں لیکن وہ بھی اس مسئ ہ میں اہ سن وجم ع کے‬ ‫مش ئخ کے قول پرہی فتوی دیتے رہے ہیں۔‬ ‫ہندوست ن کے مش ہیر ع م ء و ف ہ ء مثال م کراسال ام احمد‬ ‫رض ق دری بری وی‪ ،‬صدر الشری ہ موالن امجد ع ی گھوسوی‪،‬‬ ‫م ک ال م ء موالن ظ ر الدین ق دری ‪ ،‬صدر االف ضل موالن ن ی‬ ‫الدین مراداب دی‪ ،‬ح فظ م موالن عبد ال زیز محدث مب رکپوری‪،‬‬ ‫ت ج الشری ہ حضر م تی اختر رض خ ں ق دری ازہری ‪ ،‬محدث‬ ‫کبیر عالمہ ضی ء المصط ی ق دری گھوسوی و دیگر فضالئے‬


‫اسال ک بھی یہی نظریہ ہے اور اسی کے یہ پ بند بھی ہیں۔‬ ‫خو د س ودی حکوم کے سرک ری م تی ن نے بھی بحث و‬ ‫تح ی ‪،‬ت تیش و تن ید کے ب د اسی موقف کی ت ئید کی ہے۔‬ ‫ع م ئے س ودیہ عربیہ نے اپنے ف ہی سمین ر میں کچھ اسی‬ ‫طرح طے کی ‪’’:‬ب د االطالع ع ی البحث الم د من االم نۃ ال مۃ‬ ‫لہیئۃ کب ر ال م ء والم د من قبل ال جنۃ الدائمۃ ل بحوث واالفت ء‬ ‫فی موضوع الطال الثالث ب ظ واحد۔ و ب د دراسۃ المسئ ۃ و‬ ‫تداول الرای واست راض االقوال التی ق فیہ و من قشۃ م ع ی‬ ‫کل قول من ایراد توصل المج س ب کثریتہ الی اختی رال ول بوقوع‬ ‫الطال الثالث ب ظ واحد ثالث ‘‘۔( (‪5‬‬ ‫ایک ل ظ سے تین طال واقع ہونے کے موضوع پر مج س‬ ‫ع م ء کب ر کے سکریٹریٹ کی گذشتہ تح ی اور مج س ق ئمہ‬ ‫برائے تح ی وافت ء کے فٹ نوٹ سے مط ع ہونے کے ب د اور‬ ‫مسئ ہ کی تح ی ‪ ،‬تب دلہ خی ل اور اس ب رے میں کہی گئی ب توں‬ ‫کے ج ئزے اور ہر ب پر وارد ہونے والے اعتراض پر‬ ‫مب حثے کے ب د مج س اکثری رائے کے س تھ اس نتیجے پر‬ ‫پہنچی ہے کہ ایک ل ظ سے تین طال واقع ہونے ک قول مخت ر‬ ‫ہے اور مج س ک یہی فیص ہ ہے۔‬ ‫یہ ں یہ بھی عرض کرت چ وں کہ اس اجم لی مسئ ہ کے خالف‬ ‫ابن تیمیہ نے راہ اپن ئی اور اج ان کے م ننے والوں کی ایک‬ ‫چھوٹی سی ٹولی اسی راہ پر گ مزن ہے اور ابن تیمیہ کے‬


‫م دین سیدھے س دھے مس م نوں کو ض یف روایتیں سن کر یہ‬ ‫ب ور کرانے کی س ی الح صل کر رہے ہیں کہ تم مس م ن‬ ‫حدیث کے خالف عمل کر رہے ہیں اور پوری دنی میں صرف اور‬ ‫صرف ہ ہی ہیں جو سن صحیحہ پر ک ربند ہیں۔ اس لیے‬ ‫ضروری ہے کہ ہ دیکھیں کہ ان روایتوں ک م ی ر کی ہے جن‬ ‫سے اس اہ مسئ ہ میں ابن تیمیہ کے پیروک ر استدالل کرتے‬ ‫ہیں۔‬ ‫’’‬ ‫عن ابن عب س ق ل ط رک نہ بن عبد یزید اخو بنی مط‬ ‫امراتہ ثالث فی مج س واحد فحزن ع یہ حزن شدیدا‪ ،‬ق ل‪ ،‬فس لہ‬ ‫رسول ہللا ص ی ہللا ع یہ وس کیف ط ہ ق ل ط تہ ثالث ق ل ف ل‬ ‫فی مج س واحد ق ل ن ق ل انم ت ک واحدة ف رج ہ ان شئ ق ل‬ ‫( فراج ہ ‘‘۔) ‪6‬‬ ‫حضر ابن عب س رضی ہللا عنہ نے فرم ی کہ رک نہ نے اپنی‬ ‫بیوی کو ایک ہی مج س میں تین طالقیں دے ڈالی‪ ،‬پھر اپ کو‬ ‫سخ غ الح ہوا‪ ،‬درب ر رسول ﷺ میں ح ضر ہوئے ‪،‬‬ ‫عرض کی ‪ ،‬سرک ر نے فرم ی کس طرح طال دیے؟ عرض گذار‬ ‫ہوئے‪ :‬میں نے اسے تین طالقیں دی‪ ،‬فرم ی ‪ :‬ایک ہی مج س‬ ‫میں؟ عرض کی ‪ :‬ہ ں‪ ،‬فرم ی ‪ :‬وہ ایک ہی طال ہے‪ ،‬چ ہو تو‬ ‫رجوع کر سکتے ہو‪ ،‬تو انہوں نے رجوع کر لی ‘‘۔ اس حدیث‬ ‫کے ب رے مین المہ ابن جوزی فرم تے ہیں‪’’:‬ہذا حدیث ال یصح‬ ‫ابن اسح مجروح و داود اشد منہ ض ‘‘یہ حدیث صحیح نہیں‬


‫ہے۔ اس کی سند ک ایک راوی ابن اسح مجروح ہے اور‬ ‫دوسرا راوی داود اس سے بھی زی دہ ض یف ہے۔‬ ‫( )ام ابن حب ن نے کہ ‪’’:‬فیج مج نبۃ روایتۃ‘‘‪7‬‬ ‫اس کی روای‬

‫سے اجتن‬

‫کرن واج ہے۔‬

‫ام نس ئی نے فرم ی ’’محمد بن اسح‬ ‫ابن اسح قوی نہیں۔‬

‫لیس ب ل وی‘‘‪( )8‬‬

‫داود بن حصین کے ب رے میں ابن حجر فرم تے ہیں‪’’:‬ق ل‬ ‫الس جی منکر الحدیث یتہ برای الخوارج‘‘ وہ فرقہ خ رجیہ ک‬ ‫داعی ہے۔‬ ‫ابن المدینی نے کہ ‪’’:‬م روی عن عکرمۃ فمنکر‘‘ ان کی‬ ‫عکرمہ سے مروی س کے س منکر ہیں۔‬ ‫ام ابن ح ت نے کہ ۔’’لو ال ان م لک روی عنہ لترک حدیثہ‘‘اگر‬ ‫ام م لک نے ان سے روای نہ لی ہوتی تو ان سے روای لین‬ ‫ترک کر دی ج ت ۔‬ ‫ابن عیینہ کہتے ہیں‪’’:‬کن نت ی حدیث داود‘‘ ہ ان کی حدیثوں‬ ‫سے پرہیز کرتے تھے۔‬ ‫ابو زرعہ کہتے ہیں‪’:‬لین الحدیث۔‘‘ ‪( )9‬حدیث میں کمزور ہے۔‬ ‫سمذکورہ حدیث تو مسند ام احمد میں بھی ہے جس کی سند کی‬ ‫ح ی اپ کے س منے ہے لیکن یہی حدیث ام ابو داود نے‬


‫بھی اپنی سنن میں لی ہے جس کی سند میں ب ض بنورافع ہے‬ ‫چونکہ راوی ک ن نہینہے ۔اس لیے اس کی حدیث ‪ ،‬حدیث‬ ‫مجہول کے درجہ میں ائمہ نے شم ر کی ہے۔‬ ‫جم ع غیر م دین کے بہ بڑے ع ل عالمہ ابن حز فرم تے‬ ‫ہیں‪’’:‬م ن لہ شیئ احتجوابہ غیر ہذا و ہذا ال یصح النہ عن غیر‬ ‫)مسمی من بنی ابی رافع وال حجۃ فی مجہول‘‘(‪10‬‬ ‫ہم رے ع میں اس حدیث کے سوا ان لوگوں کی اور کوئی دلیل‬ ‫نہیں ہے اور یہ حدیث صحیح نہیں ہے‪ ،‬کیونکہ ابو رافع کی‬ ‫اوالد میں سے جس شخص سے یہ روای ہے اس ک ن نہیں‬ ‫لی گی ۔‬ ‫ہ ں! ب ض محدثین نے اس ب کی صراح کی ہے کہ راوی‬ ‫مجہول نہیں‪ ،‬م و ہے اور وہ محمد بن عبید ہللا بن ابی رافع‬ ‫ہے۔ اس لیے اس صور میں یہ حدیث مجہول نہیں ہو سکتی تو‬ ‫ا ہ اس راوی کے ب رے میں بھی م و کر لیں۔‬ ‫ح فظ ابن حجر عس النی تحریر فرم تے ہیں‪’’:‬ق ل البخ ری منکر‬ ‫الحدیث‘‘ ام بخ ری نے کہ یہ منکر الحدیث ہے۔‬ ‫ق ل ابن م ین لیس بشئی‘‘ ابن م ین نے کہ یہ کوئی چیز نہیں۔’’‬ ‫‘‘ق ل ابو ح ت ض یف الحدیث منکر الحدیث جدا ذاہ ۔’’‬ ‫ابو ح ت نے کہ یہ ض یف الحدیث ‪،‬منکر الحدیث اور ذاہ‬


‫الحدیث ہے۔‬ ‫ق ل ابن عدی ہو فی عدا شی ۃ الکوفۃ ویروی من ال ض ئل اشی ء ’’‬ ‫)ال یت بع ع یہ ۔‘‘(‪11‬‬ ‫ابن عدی نے کہ یہ کوفہ کے شی ہ میں سے ہے اور فض ئل میں‬ ‫اس نے ایسی روای بی ن کی ہیں جن ک کوئی مت بع نہیں ہے ۔‬ ‫برق نی نے دار قطنی سے روای کی کہ یہ متروک ہے۔یہی وہ‬ ‫ن ئص ہیں جن کی بن ء پر حدیث رک نہ (ی نی مذکورہ حدیث) کو‬ ‫اہل ع نے ض یف قرار دی ہے ۔‬ ‫چن نچہ ام نووی فرم تے ہیں‪’’:‬ام الروایۃ التی رواہ المخ ل ون‬ ‫ان رک نۃ ط ثالث فج ہ واحدة فروایۃ ض ی ۃ عن قو مجہولین‬ ‫)۔‘‘(‪12‬‬ ‫رہی وہ روای جس کو مخ ل ین نے روای کی کہ رک نہ نے اپنی‬ ‫بیوی کو تین طال دی تو حضور نے ایک ہی ن فذ فرم ئی‪ ،‬یہ‬ ‫روای ض یف ہے جو مجہول لوگوں سے مروی ہے۔‬ ‫ام ابن تیمیہ نے کہ ‪’’:‬و حدیث رک نۃ ض یف عند ائمۃ الحدیث‬ ‫ض ہ احمد والبخ ری و ابو عبید و ابن حز ب ن رواتہ لیسوا‬ ‫)موصوفین ب ل دل والضبط۔‘‘(‪13‬‬ ‫حدیث رک نہ ائمہ محدثین کے نزدیک ض یف ہے ۔اس کو ض یف‬ ‫کہنے والوں میں ام احمد‪ ،‬ام بخ ری‪ ،‬ابو عبید‪ ،‬اور ابن حز‬ ‫ہیں کیونکہ اس کے راوی عدل و ضبط والے نہیں تھے۔‬


‫غیر م دین اپنے مس ک کی ت ئید میں جو حدیث پیش کرتے ہیں‪،‬‬ ‫اس کی سند کی ح ی س منے اگئی۔ ا اس کے متن پر غور‬ ‫کیجیے تو م و ہوگ کہ متن میں بھی کچھ الٹ پھیر ہے۔اس‬ ‫لیے کہ یہی محتر رک نہ کی حدیث جو دوسری صحیح سند کے‬ ‫س تھ ائی ہے۔ اس میں ط ثالث کی جگہ البتہ ک ل ظ ای‬ ‫ہے‪،‬ی نی انہوں نے طال نہیں دی تھ ب کہ طال بتہ دی تھی۔‬ ‫طال بتہ والی حدیث مت دد سندوں سے مروی ہے۔ ام ترمذی‬ ‫نے اس کو ذیل کی سندوں کے س تھ استخراج فرم ی ہے۔ سند و‬ ‫متن مالحظہ کیجیے‪’’:‬حدثن ہن د‪ ،‬ن قبیصۃ‪ ،‬عن جریر بن ح ز ‪،‬‬ ‫عن الزبیر بن س د‪ ،‬عن عبد ہللا بن یزید بن رک نۃ‪،‬عن ابیہ‪ ،‬عن‬ ‫جدہ‪ ،‬ق ل‪ :‬اتی النبی ص ی ہللا ع یہ وس ف ی رسول ہللا!‬ ‫ص ی ہللا ع یہ وس انی ط امراتی البتۃ‪ ،‬ف ل‪ :‬م ارد بہ ؟‬ ‫)ق ‪ :‬واحدة‪ ،‬ق ل‪ :‬وہللا؟ ق ‪ :‬وہللا فہو م ارد ۔‘‘(‪14‬‬ ‫‪:‬اس سند کے راویوں کے ب رے میں ائمہ فن کہتے ہیں‬ ‫ہن دکے ب رے میں ح فظ ابن حجر نے لکھ ہے کہ ام احمد )‪(1‬‬ ‫بن حنبل نے کہ ت ہن د کو الز رکھو ۔ام ابو ح ت نے کہ وہ‬ ‫بہ سچے ہیں۔ قتیبہ نے کہ ‪ :‬میں نے دیکھ کہ وکیع ہن د سے‬ ‫زی دہ کسی کی ت ظی نہیں کرتے تھے۔ ام نس ئی نے کہ کہ وہ‬ ‫ث ہ ہیں۔ام ابن حب ن نے بھی ان ک ث میں ذکر کی ہے۔‬ ‫قبیصہ کے ب رے میں ح فظ ابن حجر لکھتے ہیں‪’’:‬سئل ابو )‪(2‬‬ ‫زرعۃ عن قبیصۃ و ابی ن ی ف ل ک ن قبیصۃ افضل‬


‫الرج ین۔‘‘ح فظ ابو زرعہ سے قبیصہ اور ابو ن ی کے ب رے میں‬ ‫پوچھ گی تو فرم ی ان دونوں میں قبیصہ افضل ہیں۔‬ ‫ق ل ابن ابی ح ت س ل ابی عن قبیصۃ ف ل قبیصۃ اع ی عندی ’’‬ ‫وہو صدو ‘‘ابن ح ت کہتے ہیں ۔ میں نے اپنے والد سے قبیصہ‬ ‫کے ب رے میں پوچھ تو انہوں نے کہ ‪،‬قبیصہ بہ سچے ہیں۔‬ ‫‘‘ق ل اسح‬

‫بن سی ر ‪،‬م رای اح ظ منہ من الشیوخ’’‬

‫اسح بن سی ر نے کی ۔ میں نے شیوخ میں سے قبیصہ سے‬ ‫بڑھ کر کوئی ح فظ نہیں دیکھ ۔‬ ‫ق ل النس ئی لیس بہ ب س ‘‘ام نس ئی نے کہ ان سے روای ’’‬ ‫میں کوئی حرج نہیں۔‬ ‫‘‘ ذکرہ ابن حب ن فی’’الث‬ ‫)ام ابن حب ن نے ث‬

‫’’‬ ‫میں ان ک ذکر کی ہے۔ (‪16‬‬

‫جریر بن ح ز کے ب رے میں ح فظ ابن حجر لکھتے )‪(3‬‬ ‫ہیں‪’’:‬ق ل موسی م رای حم دا ی ظ احدا ت ظیمہ جریر بن‬ ‫‘‘ح ز ۔‬ ‫موسی کہتے ہیں کہ میں نے دیکھ کہ حم د جتنی ت ظی جریر بن‬ ‫ح ز کی کرتے تھے کسی اور کی نہیں کرتے تھے۔‬ ‫‘‘ق ل عثم ن الدارمی عن ابن م ین ث ۃ’’‬


‫عثم ن دارمی نے ابن م ین سے ن ل کی کہ یہ ث ہ ہیں۔‬ ‫ق ل الدوری س ل یحی عن جریر بن ح ز و ابی االشہ ف ل ’’‬ ‫جریراحسن حدیث منہ و اسند‘‘دوری کہتے ہیں میں نے یحی‬ ‫سے پوچھ کہ جریر بن ح ز اور ابواالشہ میں کس کی روای‬ ‫بہتر ہے‪ ،‬تو فرم ی کہ جریر کی روای احسن و اسند ہے۔‬ ‫ق ل ابو ح ت صدو ص لح ‘‘ ابو ح ت نے کہ یہ بہ سچے ’’‬ ‫)اور نیک ہیں۔ (‪17‬‬ ‫زبیر بن س ید کے ب رے میں ح فظ ابن حجر تحریر فرم تے )‪(4‬‬ ‫ہیں‪ ’’:‬ق ل الدوری عن ابن م ین ث ۃ ‪،‬ق ل الدار قطنی ی تبرہ بہ‪ ،‬و‬ ‫)ذکرہ ابن حب ن فی ث ‘‘(‪18‬‬ ‫دوری نے ابن م ین سے ن ل کی کہ یہ ث ہ ہیں۔ دار قطنی نے کہ‬ ‫یہ م تبر ہیں۔ ام ابن حب ن نے ث میں ان ک ذکر کی ۔‬ ‫عبد ہللا بن ع ی بن یزید بن رک نہ۔یہ خود حضر رک نہ کے )‪(5‬‬ ‫اہل بی سے ہیں ‪،‬ام ابن حب ن نے ان ک ذکر ث میں کی ہے‬ ‫) (‪19‬‬ ‫مذکورہ ب الت صیل سے م و ہوا کہ طال بتہ والی حدیث کے‬ ‫جم ہ راوی صحیح وث ہ ہیں۔ لہذا یہ حدیث صحیح ہے۔موالن‬ ‫حبی الرحمن اعظمی اس عنوان پر ن یس بحث کرتے ہوئے رق‬ ‫طراز ہیں‪:‬عالمہ شوک نی نے نیل االوط ر میں لکھ ہے‪ ’’:‬اثب‬ ‫)م روی فی قصۃ رک نۃ انہ ط ہ البتۃ الثالث ‘‘(‪20‬‬


‫س سے زی دہ صحیح ب روای رک نہ کے قصے میں یہ ہے‬ ‫کہ انہوں نے ل ظ بتہ سے طال دی نہ کہ ثالث سے۔‬ ‫اور ح فظ ابن حجر نے مسند احمد کی یہی روای ذکر کے ب و‬ ‫المرا میں لکھ ہے‪’’:‬وقد روی ابو داود من وجہ اخر احسن منہ‬ ‫)ان رک نۃ ط امراتہ سہیمۃ البتۃ‘‘ (‪22‬‬ ‫ام ابوداود نے ایک دوسرے طری ے سے جو مسند احمد کے‬ ‫طری ہ سے بہتر ہے‪،‬روای کی ہے کہ رک نہ نے اپنی بیوی‬ ‫سہیمہ کو ل ظ بتہ سے طال دی۔یہی وجہ ہے کہ ابوداود‪ ،‬ابن‬ ‫حب ن ‪،‬ح ک ‪ ،‬دارقطنی اور طن فسی نے بتہ والی حدیث کی تصحیح‬ ‫)کی ہے ۔(‪23‬‬ ‫ا افت نی روز کی طرح واضح ہو گی کہ جمہور ع م ء اسال‬ ‫ک موقف صحیح حدیث سے ث ب ہے۔ جبکہ غیروں کے موقف‬ ‫کی بنی د ض یف حدیث پر ہے اور چونکہ یہ مسئ ہ ب حالل و‬ ‫حرا سے مت ہے‪،‬اس لئے اس ب میں صحیح حدیث کی‬ ‫موجودگی میں ض یف ومخ لف حدیث سے استدالل ج ئز نہیں۔‬ ‫؎شرح مس ‪ ،‬ج د اول ص‪1478‬‬ ‫؎فتح ال دیر ج د‪3:‬؍ ص‪225:‬‬ ‫؎عمدة ال ری شرح بخ ری ج د ‪20‬؍ص‪333:‬‬ ‫؎بدایۃ المجتہد ج د‪ :‬؍ ص‪457:‬‬


‫‪؎:‬ابح ث ہیئۃ کب ر ال م ء ج د اول ص‪5408‬‬ ‫‪؎:‬مسند ام احمد ج داول ص‪6408‬‬ ‫‪؎:‬ال ل المتن ہیہ‪ ،‬بیرو ج د دو ص‪7640‬‬ ‫‪؎:‬الض ء والمتروکین ص ‪8230‬‬ ‫‪؎:‬تہذی التہذی ج د دو ص ‪9349‬‬ ‫‪؎:‬المح ی ج د دہ ص‪10168‬‬ ‫‪؎:‬تہذی التہذی ج د‪:5‬؍ ص‪11724‬‬ ‫؎شرح مس نووی ج د اول ‪12478‬‬ ‫‪؎:‬توضیح االحک شرح ب و المرا ج د ‪:5‬؍ ص‪1320‬‬ ‫‪؎:‬ترمذی ج د ‪:‬اول ص‪14140‬‬ ‫‪؎:‬تہذی التہذی ج‪ :11‬ص ‪1571‬‬ ‫‪؎:‬تہذی التہذی ج‪:5‬؍ ص‪16323,24‬‬ ‫؎تہذی التہذی ج د‪1‬؍ ص‪؎18 :545‬تہذی التہذی ج د‪2‬؍ ‪17‬‬ ‫‪:‬ص ‪468‬‬ ‫‪؎:‬کت‬

‫الث‬

‫ج د ‪ :7‬؍ ص ‪1915‬‬

‫‪:‬االعال المرفوعۃ فی حک الط‬ ‫‪؎:‬ترمذی ج د ‪:‬اول ص‪14140‬‬

‫المجموعۃ ص‪22,21,2040‬‬


‫‪؎:‬تہذی التہذی ج‪ :11‬ص ‪1571‬‬ ‫‪؎:‬تہذی التہذی ج‪:5‬؍ ص‪16323,24‬‬ ‫؎تہذی التہذی ج د‪1‬؍ ص‪؎18 :545‬تہذی التہذی ج د‪2‬؍ ‪17‬‬ ‫‪:‬ص ‪468‬‬ ‫‪؎:‬کت‬

‫الث‬

‫ج د ‪ :7‬؍ ص ‪1915‬‬

‫االعال المرفوعۃ فی حک الط‬ ‫‪:‬ص‪40‬‬

‫المجموعۃ ‪23,22,21,20‬‬

‫‪Rana Humayun Rasheed‬‬ ‫‪7/28/14‬‬ ‫جن‬

‫ص بر ص ح ‪ ،‬بج فرم ی ۔‬

‫ع ی طور پر بھی اس پر بحث ہو سکتی ہے اور قرآن و سن‬ ‫کے دالئل کے س تھ بھی۔ لیکن اسطرح تو نہ میں تیری م نوں نہ‬ ‫تو میری والی ب چ تی رہے گی۔ اسی لئے میں نے یہ تجویز‬ ‫پیش کی تھی کہ صح بہ‪ ،‬ت ب ین‪ ،‬مجتھدین اور محدثین رضی ہللا‬ ‫عنھ کے فت وی پہ ے ذکر کر دئیے ج ئیں ت کہ یہ تو م و ہو‬ ‫کہ صدر اول میں یہ مس ک تھ بھی کہ نہیں۔ اگر نہیں تھ تو م ن‬ ‫لی ج ئے صدر اول والے بھی قرآن اور سن کو نہ سمجھ سکے‬ ‫اور اسکے خالف فتوی دیتے رہے۔ حیر ت ہوتی ہے کہ لوگ‬


‫خود کو س ی کہتے ہیں اور س ف ک فتوی پیش نہیں کر پ تے۔‬ ‫بہرح ل میرے خی ل میں مزید کسی ب سے پہ ے اگر مزعومہ‬ ‫مس ک کے صدر اول کے فت وی پیش ہو ج ئیں تو من س ہے۔‬ ‫مع السال ۔‬ ‫ہم یوں رشید۔‬ ‫‪https://groups.google.com/forum/#!topic/bazmeqalam/Ouobi0uxf4g‬‬

‫فتوی نمبر ‪2001 :‬‬ ‫یکب رگی کی تین طالقیں )‪(498‬‬ ‫شروع از عبد الوحید س جد‬ ‫‪ September 2012 11:14 AM‬بت ریخ ‪04 :‬‬ ‫السال ع یك ورحم ہللا وبرك ته‬ ‫ایک آدمی نے مورخہ ۔ ۔ کو اپنی زوجہ کو ایک ہی‬ ‫مج س میں یکب رگی تین طالقیں دے دی تھیں۔ ا اپنی بیوی‬ ‫سے رجوع کرن چ ہت ہے جبکہ بیوی اپنے والدین کے گھر ت‬ ‫میری صور ح ل کو س منے رکھتے ہوئے سے رہ رہی ہے ۔‬ ‫قرآن وسن کی روشنی میں ’’مسئ ہ رجوع‘‘ واضح کیجئے؟‬


‫الجوا ب ون الوھ‬

‫بشرط صح الس ال‬

‫!وع یک السال ورحم ہللا وبرک ته‬ ‫!الحمد ہلل‪ ،‬والصالة والسال ع‬

‫رسول ہللا‪ ،‬أم ب د‬

‫آ پ کی مسئولہ صور میں ایک طال واقع ہو چکی ہے کیونکہ‬ ‫یکب رگی تین طالقیں ایک طال ہوتی ہے صحیح مس ج د اول‬ ‫میں ہے‬ ‫‪:‬ص‬ ‫عن ابن عب س ق ل ‪ :‬ک ن الطال ع ی عھد رسول اہللاﷺ‪« ،‬‬ ‫)وأبی بکر ‪ ،‬وسنتین من خالف عمر طال الثالث واحدة»(الحدیث‬ ‫تین طالقیں رسول ہللاﷺاور ابوبکر کے زم نہ میں اور عمر‬ ‫بن خط ‪ ฀‬کی خالف کے دو س ل ایک ہی طال ہوتی تھی۔‬ ‫ایک طال کے ب د عد کے اندر رجوع بال نک ح درس ہے‬ ‫وب ولتھن أح بردِّھن في ذل إن أرادوا إص ح ‪--‬ب رة‪228‬‬ ‫اور خ وند ان کے بہ ح دار ہیں س تھ پھیر لینے ان کے کے ’’‬ ‫بیچ اس کے اگر چ ہیں ص ح کرن ‘‘ اآلیۃ اور ایک طال کے ب د‬ ‫عد گذر ج ئے تو اسی بیوی سے نی نک ح درس ہے‬ ‫وإذا ط ت ٱل ِّنس ء فب غن أج ھن فال ت ض وھن أن ینكحن أزوجھن‬ ‫إذا ترضوا بینھ بٱلم روف ‪ --‬ب رة‪232‬‬ ‫اور ج طال دو ت عورتوں کو پس پہنچیں عد اپنی کو پس ’’‬


‫م منع کرو ان کو یہ کہ نک ح کریں خ وندوں اپنے سے ج‬ ‫راضی ہوں آپس میں س تھ اچھی طرح کے‘‘اآلیۃ۔صور مسئولہ‬ ‫ہے ظ ہر ہے عد تو گذر‬ ‫میں دی گئی ا‬ ‫میں طال‬ ‫چکی ہے لہذا می ں بیوی ا ب ہمی رض مندی کے س تھ شروط‬ ‫نک ح کی پ بندی میں نی نک ح کر سکتے ہیں۔‬ ‫وب ہلل التوفی‬ ‫احک و مس ئل‬ ‫طال کے مس ئل ج‪1‬ص ‪343‬‬ ‫محدث فتوی‬ ‫‪http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/2001/64/498‬‬


Turn static files into dynamic content formats.

Create a flipbook
Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.