Insanay kamil shared by meritehreer786@gmail com

Page 1

‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬

‫انسان کامل‬

‫‪1‬‬

‫انسان‬

‫آمد‬

‫کامل‬

‫اندر‬

‫جہان‬

‫جان‬

‫ہرکس‬

‫جان‬ ‫ِ‬

‫ا‬

‫جہاں‬

‫محمد‬

‫آمد‬

‫وبس‬

‫اس وقت بیٹھے بٹھائے یہ خیال آتا ہے کہ اس خدائے الیزال ذات بے مثال کی بے انتہاء‬ ‫مخلوقات ہے„ اس میں سے اس نے انسانی مخلوق کو اپنی خالفت کا جامہ پہنا کر آراستہ‬ ‫وپیراستہ کیا ہے„ مگر چونکہ اس خالفت کا تمغہ حاصل کرنے والے بھی مقدار میں کچھ کم نہ‬ ‫تھے„ اس وجہ سے اس غیر محدود ذات ستودہ صفات نے ان میں سے بعض افراد کو اپنی‬ ‫درگاہ لم یزلی کارکن بناکر اپنی مرضیات پاس شدہ کی اطاعت کے لئے انبیاء بناکر دنیا میں پیدا‬ ‫کیا اور ان کو ہمرازی عطا کرکے اپنے اسرار مضمرہ کا منشاء انکشاف قرار دیا„ ان کو اس‬ ‫عہدہ داری کی صداقت کے لئے عالمات بھی عطا فرمائیں„ جس کو معجزہ سے تعبیر کیا جاتا‬ ‫ہے„ تاکہ عام افراد انسان نبی کو غیر نبی سے ممتاز کر لیں„ اس کے بعد ضروری ہے کہ اس‬ ‫محبوبوں کے محبوب„ شاہوں کے شاہ نے اپنی ازلی کچہری کا کسی کو افسر اور اپنی درگاہ‬ ‫ابدی کا صدر نشین جو وزیر اعظم یا معلول اول کہالئے جانے کا مستحق ہو„ جس پر فعل تخلیق‬ ‫کا اثر تام بالذات اور سب سے پہلے ہواہو„ ضرور پیدا کیا ہوگا„ ورنہ صدارت کی کرسی خالی‬ ‫ہی رہ جاتی ہے اور افسری کا چولہ بے نیل مرام رہ جاتا ہے۔ میرے معزز ناظرین! سوال یہ‬ ‫ہوتاہے کہ وہ فرد„ افرا ِد انسان سے کون ہے؟ اس کی تعیین کا معیار کیا ہے؟ اس کے جواب‬ ‫میں تحیر اور پریشانی کی کچھ ضرورت نہیں ہے„ دونوں جوال میں اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ‬ ‫اور بے تکے مضمون میں عرض کرتا ہوں ۔ گر قبول افتد رہے عز وشرف۔ بات یہ ہے کہ جو‬ ‫فر ِد انسان اپنے خالق بے چون وچگوں کے اتباع اور جانشینی میں سب سے زیادہ کامل اور‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 2‬اکمل پایا جائے ․․․یعنی جس کی عادات روحانی اور اخالقی„ جس کا کالبود جسمانی„ جس کے‬ ‫حاالت یقظانی اور منامی اس واجب الوجود ”مستجمع لجمیع صفات الکمال کے ساتھ بہ نسبت‬ ‫اپنی جمیع نوع کے زیادہ ملتے جلتے ہوں وہی آپ کا مطلوب ہے․․․ جس کو روح الکائنات‬ ‫کہئے یا انسان کامل کہئے یا معلول اول سے تعبیر کیجئے„ غرض عنوانات مختلفہ ہیں„ معنون‬ ‫واحد ہے„ یہ معیار اور کسوٹی ہے„ پرکھ لینا بہت آسان ہے„ خصوصا جبکہ علم تاریخ انسان نے‬ ‫اس جنگل کو خس وخاشاک سے بالکل صاف میدان بنا رکھا ہو۔ انہیں اراکین درگاہ حضرات‬ ‫انبیاء علیہم السالم کے حاالت کی ورق گردانی کیجئے۔ میں اس وسیع مضمون کو مختصر‬ ‫پیرایہ میں تحریر کرتا ہوں„ دنیا کا بچپن بالکل اندھیرے میں ہے„ کیونکہ انبیائی سلسلہ میں پہلے‬ ‫نبی حضرت آدم علی نبینا وعلیہ الصالة والتسلیم ہیں جوکہ واقعی اس پروردگار عالم کے مقرب‬ ‫ٰ‬ ‫اعلی مظہر ہیں„ کیونکہ ان کی پہلی وہ ذات ہے„ جس‬ ‫بندے اور اس بارگاہ خداوندی کے ایک‬ ‫کو خالفت کا جبہ پہناکر دنیا میں بھیجا گیا„ لیکن ان کی خالفت اور عظمت اس سے زیادہ بلند‬ ‫ہوکر صدارت تک نہیں پہنچی„ کیونکہ ان کی سوانح میں گندم خوری کا واقعہ اگرچہ فی نفسہ‬ ‫ان کی اس منزلت اور مرتبت کو دھبہ نہیں لگاتا„ لیکن تاہم عصیان صوری ہونے کی وجہ سے‬ ‫انسان کامل ہونے سے روک بنجاتا ہے„ یہ ہی واقعہ ایک مست بارگاہ الست کو اس کہنے پر‬ ‫مجبور‬ ‫من ملک‬

‫کرتا‬ ‫بودم وفردوس‬

‫بریں جایم‬

‫بود‬

‫ہے‪:‬‬ ‫آدم آورد دریں ملک خراب‬

‫آبادم‬

‫اصل یہ ہے کہ اس احکم الحاکمین کو یہ منظور نہ تھا کہ حضرت آدم علیہ السالم تمام مخلوقات‬ ‫کا نچوڑ بن کر روح الکائنات کہالئے جاویں۔ دنیا کے ہوش سنبھالنے کے بعد حضرت نوح علیہ‬ ‫السالم خدا کے پیغمبر اس عالم میں تشریف التے ہیں اور زمانہ کو خرابیوں سے پاک کرنے کا‬ ‫قصد کرتے ہیں اور اس میں بڑی تندہی سے کام لیتے ہیں„ لیکن صدہا برسوں کے بعد ان کی‬ ‫اس گراں مایہ کوشش کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چند گنے چنے لوگ جاد ٴہ کجی سے راہ راست‬ ‫ٰ‬ ‫موسی علی نبینا وعلیہ الصالة والتسلیم‬ ‫اختیار کرتے ہیں ان کے بعد نبوت کے سرتاج حضرت‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 3‬منبر رسالت پر جلوہ افروز ہوتے ہیں اور اس معبود حقیقی کے اوامر ونواہی کی بہت اچھی‬ ‫طرح اشاعت کرتے ہیں اور ان لوگوں کو جو قعر ضاللت میں گرے ہوئے تھے سیدھا راستہ‬ ‫بتال کر منزل مقصود تک پہنچا دیتے ہیں„ آہ! اس زمانہ میں کہ جب سرکشی اور طغیانی اپنے‬ ‫وسیع دریا میں بڑے زوروں سے موجزن تھی„ آپ کیسی تکالیف کے متحمل ہوکر حق کی تلقین‬ ‫فرماتے ہیں„ آپ کی منزلت کا کچھ ٹھکانا ہے„ آپ بالواسطہ قادرو قیوم سے متکلم ہوتے ہیں‬ ‫مگر چونکہ اس حقیقی معبود نے تمام عالم کے لئے رحمت تو ایک اور ہی ذات کو پسند فرما‬ ‫ٰ‬ ‫موسی کلیم ہللا علیہ التحیة والتسلیم ایک خاص قوم گم گشتہ راہ‬ ‫رکھا تھا„ اس وجہ سے حضرت‬ ‫چراغ ہدایت مقرر ہوئے„ ادھر آپ کا جالل وغضب حد کو پہنچا ہوا ہے„‬ ‫بنی اسرائیل کے لئے‬ ‫ِ‬ ‫ت قلب جو صفت رحمت کو بھڑکا دینے والی شے‬ ‫قبطی کا واقعہ اس پر شاہد ِعدل ہے۔ نیز رق ِ‬ ‫ت نازک پر استغاثہ کرنے اور‬ ‫ہے آپ میں حد کمال سے کمتر ہے„ جس کا اندازہ فرعون کے وق ِ‬ ‫آپ ک ا اس پر ترس نہ کھانے سے ہوسکتا ہے۔ دنیا کے سن رسیدہ ہوجانے کے بعد ایک بڑے‬ ‫ٰ‬ ‫عیسی علی نبینا وعلیہ الصالة والتسلیم مبعوث ہوتے ہیں اور اس مالک‬ ‫اولوا العزم نبی حضرت‬ ‫دوجہان „ خالق کون ومکان کی مرضیات اور غیر مرضیات کا اشتہار دیتے ہیں اور اس کی‬ ‫توحید کا سبق پڑھا تے ہیں۔ غرض اپنے نصب العین کو بہت خوبی کے ساتھ پورا کردیتے ہیں„‬ ‫جیساکہ ایک سچے نبی„ خدا کے مقرب بندے کو کرنا چاہئے„ لیکن اس مرتبہ ٴصدارت کے‬ ‫کرسی نشین یہ حضرت بھی نہیں قرار دئے جاتے„ اسی وجہ سے یہ بھی ایک محدود مخلوق‬ ‫کے لئے باعث ہدایت بنائے جاتے ہیں اور ان کے پیرواں ان کے دامن ِعصمت کو خدائی کی‬ ‫تہمت سے گرد آلودہ کرتے ہیں„ کیونکہ ایک حادث فنا ہو جانی والی چیز کو خدا ماننا اس کو‬ ‫معیوب کردینا ہے۔ اس میں وہ خود اگرچہ معذور ہیں لیکن استدالل اسی امر پر ہے کہ اس قادر‬ ‫ٰ‬ ‫عیسی علیہ التحیة والتسلیم‬ ‫قیوم کو یہ منظور ہی نہیں ہے کہ جمیع کائنات کے سردار حضرت‬ ‫بنائے جاویں․․․ عرب کے اخالق اور مذہب کا یہ حال ہے کہ بت پرستی ان کا شعار ہے اکثر‬ ‫بتوں پر ان کی قربانیاں چڑھائی جاتی ہیں„ ہر قبیلہ کے خاص خاص بت اور خاص خاص مندر‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 4‬یا شوالے ہوتے ہیں اور مختلف مندروں کے پجاریوں میں اکثر خونریزی کی نوبت آتی ہے„‬ ‫جہالت اپنا جدا رنگ دکھاتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ‬

‫فرماتے ہیں کہ ہمارے اسالف زمانہ‬

‫جاہلیت میں جنگل جارہے ہیں„ راستہ میں اگر کوئی خوبصورت پتھر ملجاتا ہے تو اس کو خدا‬ ‫بناکر اس کی عبادت کرتے ہیں„ دوسرے روز اس سے زیادہ خوبصورت کوئی اور پتھر‬ ‫ملجاتاہے تو کل کے پتھر سے جس کو معبود بنایا تھا آج استنجاء کرکے پھینک دیتے ہیں„‬ ‫غرض ان کو نہ مذہب عیسوی نے کچھ فائدہ پہنچایا نہ مذہب موسوی مرتبہ ٴ انسانیت میں اوج‬ ‫ورفعت بخش بن سکا„ عیسائیوں نے عرب کو پانچ سو برس تعلیم وتلقین کی„ اس پر بھی کچھ اکا‬ ‫دکا عیسائی کہیں کہیں نظر آتے تھے„ مذہب عیسائی سے مذہب موسوی بمراتب زیادہ عرب میں‬ ‫قوت رکھتا تھا۔ حالت یہ تھی کہ سب قبائل میں باہم اس قدر حسد اور نفاق تھااور اختالف قوم‬ ‫اور تخالف مذہب کی وجہ سے ایک دوسرے کا ایسا عدو جان تھا کہ اسی باہمی خصومت وعناد‬ ‫کے باعث اہل عشر اور اہل بال اور یونانیوں اور رومیوں اور فارسیوں نے مختلف صوبجات‬ ‫شمالی ومشرقی اور اضالع جنوبی ومغربی پر قبضہ کرلیا تھا„ جب زمانہ کی تیرگی نے بہت‬ ‫عروج پکڑ لیا اور دنیا ظلمت سے پُر ہوگئی اور خدائے الیزال نے عالم کو روشن کرنا چاہا„‬ ‫ٰ‬ ‫عیسی علیہ السالم تک سب انبیاء‬ ‫جس کی بشارت حضرت آدم علیہ السالم سے لے کر حضرت‬ ‫علیہم السالم دیتے چلے آئے تھے„ جس کی شہادت انجیل متی کے تیسرے باب میں اس قول‬ ‫سے‬

‫ہوتی‬

‫ہے‪:‬‬

‫”کہ وہ میرے بعد آتا ہے„ مجھ سے زور آور ہے کہ میں اس کی جوتیاں اٹھانے کے بھی قابل‬ ‫نہیں„ وہ تمہیں روح قدس اور آگ سے غوطہ دے گا اور وہ اپنی کھیتیاں کو خوب صاف کرے‬ ‫گا اور اپنے گیہوں کھیتی میں جمع کرے گا پھر بھوسے کو اس آگ میں جالئے گا جو کبھی‬ ‫نہیں‬

‫بجھتی“۔‬

‫وہ آفتاب جہاں تاب جس کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السالم کے الڈلے بیٹے حضرت اسماعیل‬ ‫علیہ السالم نے اس خشک جنگل کو بسایا„ جہاں سبزی کا نشان نہیں تھا اور خدا سے اس کے‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 5‬ظہور کی دعا کی ․․․․ جس نے قلیل مدت میں بے یار مددگار بے مادر پدر عالم میں ہل چل‬ ‫مچادی„ جس نے اس تیرہ وتاریک زمانہ کی ایسی کایا پلٹ دی„ جس کی نظیر صفحہ عالم پر‬ ‫ابتد اء دنیا سے نہ جب تک نظر آئی تھی اور نہ اس کے بعدتا قیامت وقوع میں آوے گی„ یہ ہی‬ ‫وہ ذات ہے جس نے اپنے روحانی انجذا بات سے اس سرکشی اور آوارہ قوم کو راستی کا سبق‬ ‫پڑھادیا„ جس نے اس خشک صحرا کو ایسا سرسبز اور شاداب کردیا کہ آج وہ ملک تہذیب اور‬ ‫شائستگی کا منبع اور مصدر خیال کیا جاتا ہے„ جس کی مقناطیسی قوت نے ایسی کشش کی کہ‬ ‫وہ جنگجو قوم کہ جو خانہ جنگی اپنا شعار اور عاجزی اور انکساری اپنا عار خیال کرتی تھی„‬ ‫اپنے آبائی اجدادی طریقہ کو چھوڑ کر اس امر کی مدعی ہے کہ جہاں ہمارے سردار سرور‬ ‫کائنات„ تاجدار مدینہ کا جہاں پسینہ گرے ہم وہاں اپنا خون گرانے کو تیار ہیں„ جس کے اخالق‬ ‫کی یہ حالت ہے کہ طرح طرح کی تکلیفیں برداشت کررہے ہیں„ لیکن بددعا کا لفظ بھی کبھی‬ ‫زبان پر نہیں آتا„ آپ کی جو بات ہے وہللا! وہ دوسرے اہل مذاہب کے لئے قابل رشک ہے„ تمام‬ ‫محبوبوں کا محبوب اور تمام کائنات کی جان وہی ذات ہے‪:‬‬ ‫وہی ہے مخدوم خادموں کا وہی تو معشوق عاشقاں ہے یہ رتبہ ملکوت میں کہاں کہ سدرة المنتہی مکاں ہے‬

‫آپ کے وہ کارنامے جو اصول فطرت سے بالکل ملے جلے تھے„ جس کے ذریعہ سے آپ روح‬ ‫الکائنات کہالئے گئے„ کسی نے آپ کو معلول اول کا لقب دیا„ کسی نے انسان کامل کہہ کر‬ ‫پکارا‬ ‫”بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر“‬

‫ب صدارت کے کرسی نشین کی شناخت کا معیار کیا ہے„‬ ‫میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ منص ِ‬ ‫اب میں اس برترذات کی سوانح سناتا ہوں جس کی خلقت عالم کی مخلوقیت کی راز مضمر ہے۔‬ ‫پہلے مذکور ہوچکا ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں کوئی حکومت اور قانون نہ ہو„ جہاں‬ ‫خونریزی اور قتل معمولی بات ہو„ جہاں کے باشندے وحشت اور غارتگری میں درندوں کے‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫ٰ‬ ‫دعوی کا پیش کرنا جو تمام ملک‬ ‫‪ 6‬مشابہ جہالت اور الیعقلی میں انعام سے بدتر ہوں„ ایک ایسے‬ ‫کے نزدیک عجیب اور جملہ قبائل میں مخالفت کی فوری آگ لگادینے واال ہو„ کچھ آسان نہ تھا۔‬ ‫ٰ‬ ‫دعوی کا ایسی حالت میں سرسبز ہونا کہ کروڑوں اشخاص کی انتہائی مخالفت اس کے‬ ‫پھر اس‬ ‫ملیامیٹ کرنے پر دل سے „ جان سے„ زرسے„ مال سے سالہا سال متفق رہی ہو„ بالکل تائید‬ ‫ربانی کا ثبوت ہے„ مفصل واقعات کے ضمن میں نبی ا کے اخالق ومحاسن„ صفات ومحامد کی‬ ‫چمک ایسی نمایاں ہے جیسے ریت میں کندن اور ان واقعات سے ہی یہ پتہ لگتا ہے کہ مظلومی‬ ‫وبیچارگی اور قوت وسطوت کی متضاد حالتوں میں یکساں سادگی وغربت کے ساتھ زندگی پورا‬ ‫کرنے واال وہی شخص ہوسکتا ہے جس کے دل پر ناموس ٰالہی نے قبضہ کرلیا اور اسے عالئق‬ ‫دنیوی سے پاک کردیا ہو۔ نبی ا کی زندگی کے مبارک واقعات ہرملک اور ہر طبقہ کے فرد اور‬ ‫جماعتوں کے لئے بہترین نمونہ اور مثال ہیں„ میں اس سرخی کے تحت میں مختصر طور پر‬ ‫آنحضرت اکے اخالق کا جو ”علمنی ربی فاحسن تأدیبی“ کا مصداق ہیں„ ذکر کروں گا۔خلق‬ ‫محمدی„ ایسا لفظ ہے کہ اب بہترین بزرگوں کے عادات واخالق„ اطوار وشمائل کے اظہار کے‬ ‫لئے مشتبہ بہ بن گیا ہے۔ ایک یورپین مؤرخ لکھتا ہے کہ‪ :‬آنحضرت ا خندہ رو اور ملنسار„‬ ‫خاموش رہنے والے„ ذکر خدا میں مشغول رہنے والے„ لغویات سے دور„ بیہودہ پن سے نفور„‬ ‫بہترین رائے„ بہترین عقل والے تھے۔ انصاف کے معاملہ میں قریب وبعید آنحضرت ا کے‬ ‫نزدیک برابر ہوتا تھا۔ مساکین سے محبت فرمایا کرتے تھے„ غرباء میں رہ کر خوش ہوتے„‬ ‫کسی فقیر کو اس کی تنگدستی کی وجہ سے اس کو حقیر نہ سمجھا کرتے اور کسی بادشاہ کو‬ ‫بادشاہی کی وجہ سے بڑا نہ جانتے„ اپنے پاس بیٹھنے والوں کی تالیف قلوب کرتے„ جاہلوں کی‬ ‫حرکات پر صبر فرمایا کرتے „ سفید زمین پر ․․․بالکسی مسند وفرش کے ․․․ نشست فرمایا‬ ‫کرتے„ اپنے جوتے کو خود گانٹھ لیتے„ اپنے کپڑے میں خود پیوند لگالیا کرتے تھے „ دشمن‬ ‫اور کافر سے کشادہ پیشانی سے مالکرتے تھے„ کنبہ والوں اور خادموں پر بہت زیادہ مہربان‬ ‫تھے„ حضرت انس‬

‫نے دس سال تک خدمت کی„ اس عرصہ میں ان کو کبھی ․․․ہونھ․․․‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 7‬تک نہ فرمایا„ زبان مبارک پر کبھی کوئی گندی بات یاگالی نہیں آتی تھی„ کسی پر لعنت نہیں‬ ‫کی۔‬ ‫سکوت اور کالم‬

‫نبی کریم ا اکثر خاموش رہا کرتے تھے„ بالضرورت کبھی گفتگو نہ فرماتے„ آنحضرت ا نہایت‬ ‫شیریں کالم اور کمال فصیح تھے„ گفتگو ایسی دل آویز ہوتی تھی کہ سننے والے کے دل وروح‬ ‫پر قبضہ کر لیتی تھی„ اسی سبب سے کفار سحر اور جادو کے ساتھ موصوف کرتے تھے„‬ ‫سلسلہ سخن ایسا مرتب ہوتا تھا کہ جس میں مضامین میں کچھ خلل نہ ہوتا تھا۔‬ ‫ٴ‬ ‫ہنسنا „رونا‬

‫نبی کریم ا کبھی کھل کھال کر ہنسانہ کرتے تھے„ تبسم ہی آپ کا ہنسنا تھا „ نماز تہجد میں بسا‬ ‫اوقات آپ روپڑتے تھے۔‬ ‫مرض ومریض‬

‫بیمار کو طبیب حاذق سے عالج کرانے کا ارشاد فرماتے اور پرہیز کرنے کا حکم فرماتے۔‬ ‫ت بیماراں‬ ‫عیاد ِ‬

‫صحابہ کرام‬

‫میں سے جو کوئی بیمار ہوجاتا اس کی عیادت فرمایا کرتے تھے„ عیادت کے‬

‫وقت مریض کے پاس بیٹھ جاتے„ بیمار کو تسلی دیتے „ ایک یہودی کا لڑکا آپ کی خدمت کیا‬ ‫کرتا تھا„ اس کی عیادت کو بھی تشریف لے گئے۔‬ ‫عالج ‪:‬‬

‫ت مرض میں دوا کا استعمال فرمایا کرتے اور لوگوں کو عالج کرنے کا ارشاد فرماتے۔‬ ‫حال ِ‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪8‬‬

‫ارباب فضل کی قدر ومنزلت‬

‫حضرت سعد بن معاذ‬

‫جوغزو ٴہ خندق میں سخت زخمی ہوگئے تھے۔ بنو قریظہ نے اپنا حکم‬

‫اور منصف کرکے بالیا تھا „جب وہ مسجد تک پہنچے تو آپ نے اپنے صحابہ کرام‬

‫سے جو‬

‫قبیلہ اوس کے تھے فرمایا‪:‬‬ ‫”قوموا الی سیدکم“‬

‫اپنے سردار کی پیشوائی کو جاؤ۔‬ ‫خادم کے لئے دعا‪:‬‬

‫حضرت انس بن مالک‬

‫نے دس سال تک مدینہ میں آنحضرت ا کی خدمت کی„ اس عرصہ میں‬

‫ان سے کبھی یہ نہ کہا کہ‪ :‬یہ کام کیوں کیا ۔ ایک روز ان کے حق میں دعا فرمائی‪:‬‬ ‫”اللہم اکثر مالہ وولدہ وبارک لہ ما اعطیتہ“‬

‫ٰالہی! اسے مال بھی بہت دے اور اوالد بھی زیادہ دے اور جو کچھ اسے عطا کیا جاوے„ اس‬ ‫میں برکت بھی دے۔‬ ‫ادب اور تواضع‬

‫مجلس میں کبھی پاؤں پھیال کر نہ بیٹھتے „ جو کوئی ملجاتا اسے سالم پہلے خود کرتے„‬ ‫مصافحہ کے لئے پہلے خود ہاتھ پھیال دیتے۔‬ ‫شفقت ورافت‬

‫‪-:۱‬حضرت عائشہ صدیقہ‬

‫فرماتی ہیں کہ کوئی شخص بھی آنحضرت ا سے اچھے خلق میں‬

‫برابر نہ تھا„ اگر کوئی صحابی بالتا یا کوئی گھر کا آدمی بالتا آپ اس کے جواب میں ”لبیک“‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪․․․ 9‬حاضر․․․ ہی فرمایا کرتے ۔ ‪ -:۲‬عبادت نافلہ چھپ کر ادا فرمایا کرتے„ تاکہ امت پر اس‬ ‫قدر عبادت کرنا شاق نہ گذرے۔ ‪-:۳‬جب کسی معاملہ میں دو صورتیں سامنے آتیں تو آسان‬ ‫صورت کو اختیار فرماتے۔ ‪ -:۴‬ہللا پاک سے معاہدہ کیا کہ جس کسی شخص کو میں دشنام اور‬ ‫لعنت کروں وہ دشنام اور لعنت اس کے حق میں گناہوں کا کفارہ„ رحمت وبخشش اور قرب کا‬ ‫ذریعہ بنادے۔ ‪ -:۵‬فرمایا کہ‪ :‬ایک دوسرے کی باتیں مجھے نہ سنایا کرو„ میں چاہتاہوں کہ دنیا‬ ‫سے جاؤں تو سب کی طرف سے صاف سینہ جاؤں۔ ‪-:۶‬فاطمہ نامی‬ ‫چوری کی„ لوگوں نے حضرت اسامہ‬

‫ایک عورت نے مکہ میں‬

‫سے پوچھا جو رسول ہللا اکو بہت پیارے تھے„ سفارش‬

‫کرائی„ نبی کریم ا نے فرمایا‪ :‬کیا تم حدود ٰالہی میں سفارش کرتے ہو„ سنو! اگر فاطمہ بنت محمد‬ ‫بھی ایسا کرتیں تو میں حد جاری کرتا۔ ‪-:۷‬ایک صحابی‬

‫کہتے ہیں کہ وہ ایک روز آنحضرت‬

‫ا کے سامنے دری کا رنگین کپڑا پہن کر گئے„ آپ نے ہٹ ہٹ فرمایا اور چھڑی سے ان کے‬ ‫شکم میں چو نکا بھی دیا„ میں نے کہا‪ :‬یا رسول ہللا! میں تو قصاص لوں گا آنحضرت نے جھٹ‬ ‫اپنا شکم برہنہ کرکے میرے سامنے کردیا۔ ‪-:۱‬مکہ میں سخت قحط پڑا یہاں تک کہ لوگوں نے‬ ‫مردار اور ہڈیاں بھی کھانی شروع کردیں„ ابو سفیان بن حرب ان دنوں دشمن غالی تھا„ نبی کریم‬ ‫ا کی خدمت میں آیا„ عرض کیا کہ‪ :‬آپ تو لوگوں کو صلہ رحمی„ سلوک یا قرابت داری کی تعلیم‬ ‫دیا کرتے ہیں„ دیکھئے! آپ کی قوم ہالک ہور ہی ہے„ خدا سے دعا کیجئے„ نبی کریم ا نے دعا‬ ‫فرمائی اور خوب بارش ہوئی۔ ‪-:۲‬حضرت سمامہ بن آثال‬

‫نے نجد سے مکہ کو جانے واال‬

‫غلہ بند کردیا„ اس لئے کہ اہل مکہ آنحضرت اکے دشمن ہیں„ آنحضرت انے ایسا کرنے سے‬ ‫منع فرمادیا۔ ‪:۳‬۔حدیبیہ کے میدان میں آنحضرت ا مسلمانوں کے ساتھ نماز صبح پڑھ رہے تھے‬ ‫ستر „ اسی آدمی کوہ تنعیم سے اترے„ تاکہ مسلمانوں کو نماز ہی میں قتل کردیں„ یہ سب گرفتار‬ ‫ہوگئے اور نبی کریم ا نے بالکسی معاوضہ اور سزا کے آزاد کر دیا۔‬ ‫جود وکرم‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 10‬سائل کو کبھی رد نہ فرماتے„ زبان مبارک پر حرف انکار نہ التے„ اگر کچھ بھی دینے کو نہ‬ ‫ہوتا تو عذر کرتے„ گویا کوئی شخص معافی چاہتاہے۔ ایک شخص نے آکر سوال کیا„ فرمایا‪:‬‬ ‫میرے پاس اس وقت تو کچھ نہیں ہے„ تم کسی شخص سے ادھار لے لو„ میں اس کو اتار دوں‬ ‫گا۔‬ ‫عفو ورحم‬

‫‪-:۱‬حضرت عائشہ طیبہ‬

‫کا قول ہے کہ نبی کریم انے اپنی ذات مبارک کی بابت کسی سے‬

‫انتقام نہیں لیا۔ ‪ -:۲‬جنگ احد میں کافروں نے نبی کریم اکے دانت توڑے„ سر پھوڑا„ حضورا‬ ‫ایک غار میں گر گئے تھے„ صحابہ کرام‬

‫نے عرض کیا کہ ان پر بددعا فرمایئے!نبی کریم‬

‫انے فرمایا‪ :‬میں لعنت کرنے کے لئے نہیں بھیجا گیا ہوں اور یہ فرمایا کہ اے خدا! میری قوم‬ ‫کو ہدایت فرما„ وہ مجھے جانتے نہیں ہیں۔ ‪-:۳‬ایک درخت کے نیچے نبی کریم ا سو گئے„ تلوار‬ ‫شاخ سے آویزاں کردی„ غورث بن الحراث آیا„ تلوار نکال کر نبی کریم اکو گستاخانہ جگایا„بوال‪:‬‬ ‫اب تم کو کون بچاوے گا؟ فرمایا‪ :‬ہللا! وہ چکر کھاکر گر پڑا„ آنحضرت انے تلوار اٹھالی„ فرمایا‪:‬‬ ‫اب تجھے کون بچاسکتا ہے؟ حیران ہوگیا„ فرمایا‪ :‬جاؤ میں بدال نہیں لیا کرتا۔ ‪-:۴‬ایک گستاخ نے‬ ‫آنحضرت اکی بیٹی حضرت زینب‬

‫کے نیزہ مارا„ وہ ہودج سے گر پڑیں اور حمل ساقط ہوگیا‬

‫اور باآلخر یہی صدمہ ان کی موت کا باعث ہوا اس نے عفو کی التجاء کی„ معاف فرمادیا۔ ارشاد‬ ‫فرمایا کرتے تھے کہ زمانہ جاہلیت سے لے کر جن باتوں پر قبائل میں باہمی جنگ وجدل چال‬ ‫ٰ‬ ‫دعوی اور‬ ‫آتا ہے„ میں سب کو معدوم کرتا ہوں اور سب سے پہلے اپنے خاندان کے خون کا‬ ‫اپنے‬

‫چچا‬

‫کی‬

‫رقوم‬

‫قرضہ‬

‫کو‬

‫معاف‬

‫کرتا‬

‫(مأخوذ‪:‬الرشاد ‪۱۳۳۴‬ھ)‬ ‫اشاعت ‪ ۲۰۰۲‬ماہنامہ بینات ‪ ,‬ربیع االول ‪۱۴۲۱‬ھ اپریل ‪۲۰۰۲‬ء‪ ,‬جلد ‪ ,17‬شمارہ ‪3‬‬

‫ہوں۔‬


Turn static files into dynamic content formats.

Create a flipbook
Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.