MERITEHREER786@GMAIL.COM
انسان کامل
1
انسان
آمد
کامل
اندر
جہان
جان
ہرکس
جان ِ
ا
جہاں
محمد
آمد
وبس
اس وقت بیٹھے بٹھائے یہ خیال آتا ہے کہ اس خدائے الیزال ذات بے مثال کی بے انتہاء مخلوقات ہے„ اس میں سے اس نے انسانی مخلوق کو اپنی خالفت کا جامہ پہنا کر آراستہ وپیراستہ کیا ہے„ مگر چونکہ اس خالفت کا تمغہ حاصل کرنے والے بھی مقدار میں کچھ کم نہ تھے„ اس وجہ سے اس غیر محدود ذات ستودہ صفات نے ان میں سے بعض افراد کو اپنی درگاہ لم یزلی کارکن بناکر اپنی مرضیات پاس شدہ کی اطاعت کے لئے انبیاء بناکر دنیا میں پیدا کیا اور ان کو ہمرازی عطا کرکے اپنے اسرار مضمرہ کا منشاء انکشاف قرار دیا„ ان کو اس عہدہ داری کی صداقت کے لئے عالمات بھی عطا فرمائیں„ جس کو معجزہ سے تعبیر کیا جاتا ہے„ تاکہ عام افراد انسان نبی کو غیر نبی سے ممتاز کر لیں„ اس کے بعد ضروری ہے کہ اس محبوبوں کے محبوب„ شاہوں کے شاہ نے اپنی ازلی کچہری کا کسی کو افسر اور اپنی درگاہ ابدی کا صدر نشین جو وزیر اعظم یا معلول اول کہالئے جانے کا مستحق ہو„ جس پر فعل تخلیق کا اثر تام بالذات اور سب سے پہلے ہواہو„ ضرور پیدا کیا ہوگا„ ورنہ صدارت کی کرسی خالی ہی رہ جاتی ہے اور افسری کا چولہ بے نیل مرام رہ جاتا ہے۔ میرے معزز ناظرین! سوال یہ ہوتاہے کہ وہ فرد„ افرا ِد انسان سے کون ہے؟ اس کی تعیین کا معیار کیا ہے؟ اس کے جواب میں تحیر اور پریشانی کی کچھ ضرورت نہیں ہے„ دونوں جوال میں اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ اور بے تکے مضمون میں عرض کرتا ہوں ۔ گر قبول افتد رہے عز وشرف۔ بات یہ ہے کہ جو فر ِد انسان اپنے خالق بے چون وچگوں کے اتباع اور جانشینی میں سب سے زیادہ کامل اور
MERITEHREER786@GMAIL.COM 2اکمل پایا جائے ․․․یعنی جس کی عادات روحانی اور اخالقی„ جس کا کالبود جسمانی„ جس کے حاالت یقظانی اور منامی اس واجب الوجود ”مستجمع لجمیع صفات الکمال کے ساتھ بہ نسبت اپنی جمیع نوع کے زیادہ ملتے جلتے ہوں وہی آپ کا مطلوب ہے․․․ جس کو روح الکائنات کہئے یا انسان کامل کہئے یا معلول اول سے تعبیر کیجئے„ غرض عنوانات مختلفہ ہیں„ معنون واحد ہے„ یہ معیار اور کسوٹی ہے„ پرکھ لینا بہت آسان ہے„ خصوصا جبکہ علم تاریخ انسان نے اس جنگل کو خس وخاشاک سے بالکل صاف میدان بنا رکھا ہو۔ انہیں اراکین درگاہ حضرات انبیاء علیہم السالم کے حاالت کی ورق گردانی کیجئے۔ میں اس وسیع مضمون کو مختصر پیرایہ میں تحریر کرتا ہوں„ دنیا کا بچپن بالکل اندھیرے میں ہے„ کیونکہ انبیائی سلسلہ میں پہلے نبی حضرت آدم علی نبینا وعلیہ الصالة والتسلیم ہیں جوکہ واقعی اس پروردگار عالم کے مقرب ٰ اعلی مظہر ہیں„ کیونکہ ان کی پہلی وہ ذات ہے„ جس بندے اور اس بارگاہ خداوندی کے ایک کو خالفت کا جبہ پہناکر دنیا میں بھیجا گیا„ لیکن ان کی خالفت اور عظمت اس سے زیادہ بلند ہوکر صدارت تک نہیں پہنچی„ کیونکہ ان کی سوانح میں گندم خوری کا واقعہ اگرچہ فی نفسہ ان کی اس منزلت اور مرتبت کو دھبہ نہیں لگاتا„ لیکن تاہم عصیان صوری ہونے کی وجہ سے انسان کامل ہونے سے روک بنجاتا ہے„ یہ ہی واقعہ ایک مست بارگاہ الست کو اس کہنے پر مجبور من ملک
کرتا بودم وفردوس
بریں جایم
بود
ہے: آدم آورد دریں ملک خراب
آبادم
اصل یہ ہے کہ اس احکم الحاکمین کو یہ منظور نہ تھا کہ حضرت آدم علیہ السالم تمام مخلوقات کا نچوڑ بن کر روح الکائنات کہالئے جاویں۔ دنیا کے ہوش سنبھالنے کے بعد حضرت نوح علیہ السالم خدا کے پیغمبر اس عالم میں تشریف التے ہیں اور زمانہ کو خرابیوں سے پاک کرنے کا قصد کرتے ہیں اور اس میں بڑی تندہی سے کام لیتے ہیں„ لیکن صدہا برسوں کے بعد ان کی اس گراں مایہ کوشش کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چند گنے چنے لوگ جاد ٴہ کجی سے راہ راست ٰ موسی علی نبینا وعلیہ الصالة والتسلیم اختیار کرتے ہیں ان کے بعد نبوت کے سرتاج حضرت
MERITEHREER786@GMAIL.COM 3منبر رسالت پر جلوہ افروز ہوتے ہیں اور اس معبود حقیقی کے اوامر ونواہی کی بہت اچھی طرح اشاعت کرتے ہیں اور ان لوگوں کو جو قعر ضاللت میں گرے ہوئے تھے سیدھا راستہ بتال کر منزل مقصود تک پہنچا دیتے ہیں„ آہ! اس زمانہ میں کہ جب سرکشی اور طغیانی اپنے وسیع دریا میں بڑے زوروں سے موجزن تھی„ آپ کیسی تکالیف کے متحمل ہوکر حق کی تلقین فرماتے ہیں„ آپ کی منزلت کا کچھ ٹھکانا ہے„ آپ بالواسطہ قادرو قیوم سے متکلم ہوتے ہیں مگر چونکہ اس حقیقی معبود نے تمام عالم کے لئے رحمت تو ایک اور ہی ذات کو پسند فرما ٰ موسی کلیم ہللا علیہ التحیة والتسلیم ایک خاص قوم گم گشتہ راہ رکھا تھا„ اس وجہ سے حضرت چراغ ہدایت مقرر ہوئے„ ادھر آپ کا جالل وغضب حد کو پہنچا ہوا ہے„ بنی اسرائیل کے لئے ِ ت قلب جو صفت رحمت کو بھڑکا دینے والی شے قبطی کا واقعہ اس پر شاہد ِعدل ہے۔ نیز رق ِ ت نازک پر استغاثہ کرنے اور ہے آپ میں حد کمال سے کمتر ہے„ جس کا اندازہ فرعون کے وق ِ آپ ک ا اس پر ترس نہ کھانے سے ہوسکتا ہے۔ دنیا کے سن رسیدہ ہوجانے کے بعد ایک بڑے ٰ عیسی علی نبینا وعلیہ الصالة والتسلیم مبعوث ہوتے ہیں اور اس مالک اولوا العزم نبی حضرت دوجہان „ خالق کون ومکان کی مرضیات اور غیر مرضیات کا اشتہار دیتے ہیں اور اس کی توحید کا سبق پڑھا تے ہیں۔ غرض اپنے نصب العین کو بہت خوبی کے ساتھ پورا کردیتے ہیں„ جیساکہ ایک سچے نبی„ خدا کے مقرب بندے کو کرنا چاہئے„ لیکن اس مرتبہ ٴصدارت کے کرسی نشین یہ حضرت بھی نہیں قرار دئے جاتے„ اسی وجہ سے یہ بھی ایک محدود مخلوق کے لئے باعث ہدایت بنائے جاتے ہیں اور ان کے پیرواں ان کے دامن ِعصمت کو خدائی کی تہمت سے گرد آلودہ کرتے ہیں„ کیونکہ ایک حادث فنا ہو جانی والی چیز کو خدا ماننا اس کو معیوب کردینا ہے۔ اس میں وہ خود اگرچہ معذور ہیں لیکن استدالل اسی امر پر ہے کہ اس قادر ٰ عیسی علیہ التحیة والتسلیم قیوم کو یہ منظور ہی نہیں ہے کہ جمیع کائنات کے سردار حضرت بنائے جاویں․․․ عرب کے اخالق اور مذہب کا یہ حال ہے کہ بت پرستی ان کا شعار ہے اکثر بتوں پر ان کی قربانیاں چڑھائی جاتی ہیں„ ہر قبیلہ کے خاص خاص بت اور خاص خاص مندر
MERITEHREER786@GMAIL.COM 4یا شوالے ہوتے ہیں اور مختلف مندروں کے پجاریوں میں اکثر خونریزی کی نوبت آتی ہے„ جہالت اپنا جدا رنگ دکھاتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ
فرماتے ہیں کہ ہمارے اسالف زمانہ
جاہلیت میں جنگل جارہے ہیں„ راستہ میں اگر کوئی خوبصورت پتھر ملجاتا ہے تو اس کو خدا بناکر اس کی عبادت کرتے ہیں„ دوسرے روز اس سے زیادہ خوبصورت کوئی اور پتھر ملجاتاہے تو کل کے پتھر سے جس کو معبود بنایا تھا آج استنجاء کرکے پھینک دیتے ہیں„ غرض ان کو نہ مذہب عیسوی نے کچھ فائدہ پہنچایا نہ مذہب موسوی مرتبہ ٴ انسانیت میں اوج ورفعت بخش بن سکا„ عیسائیوں نے عرب کو پانچ سو برس تعلیم وتلقین کی„ اس پر بھی کچھ اکا دکا عیسائی کہیں کہیں نظر آتے تھے„ مذہب عیسائی سے مذہب موسوی بمراتب زیادہ عرب میں قوت رکھتا تھا۔ حالت یہ تھی کہ سب قبائل میں باہم اس قدر حسد اور نفاق تھااور اختالف قوم اور تخالف مذہب کی وجہ سے ایک دوسرے کا ایسا عدو جان تھا کہ اسی باہمی خصومت وعناد کے باعث اہل عشر اور اہل بال اور یونانیوں اور رومیوں اور فارسیوں نے مختلف صوبجات شمالی ومشرقی اور اضالع جنوبی ومغربی پر قبضہ کرلیا تھا„ جب زمانہ کی تیرگی نے بہت عروج پکڑ لیا اور دنیا ظلمت سے پُر ہوگئی اور خدائے الیزال نے عالم کو روشن کرنا چاہا„ ٰ عیسی علیہ السالم تک سب انبیاء جس کی بشارت حضرت آدم علیہ السالم سے لے کر حضرت علیہم السالم دیتے چلے آئے تھے„ جس کی شہادت انجیل متی کے تیسرے باب میں اس قول سے
ہوتی
ہے:
”کہ وہ میرے بعد آتا ہے„ مجھ سے زور آور ہے کہ میں اس کی جوتیاں اٹھانے کے بھی قابل نہیں„ وہ تمہیں روح قدس اور آگ سے غوطہ دے گا اور وہ اپنی کھیتیاں کو خوب صاف کرے گا اور اپنے گیہوں کھیتی میں جمع کرے گا پھر بھوسے کو اس آگ میں جالئے گا جو کبھی نہیں
بجھتی“۔
وہ آفتاب جہاں تاب جس کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السالم کے الڈلے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السالم نے اس خشک جنگل کو بسایا„ جہاں سبزی کا نشان نہیں تھا اور خدا سے اس کے
MERITEHREER786@GMAIL.COM 5ظہور کی دعا کی ․․․․ جس نے قلیل مدت میں بے یار مددگار بے مادر پدر عالم میں ہل چل مچادی„ جس نے اس تیرہ وتاریک زمانہ کی ایسی کایا پلٹ دی„ جس کی نظیر صفحہ عالم پر ابتد اء دنیا سے نہ جب تک نظر آئی تھی اور نہ اس کے بعدتا قیامت وقوع میں آوے گی„ یہ ہی وہ ذات ہے جس نے اپنے روحانی انجذا بات سے اس سرکشی اور آوارہ قوم کو راستی کا سبق پڑھادیا„ جس نے اس خشک صحرا کو ایسا سرسبز اور شاداب کردیا کہ آج وہ ملک تہذیب اور شائستگی کا منبع اور مصدر خیال کیا جاتا ہے„ جس کی مقناطیسی قوت نے ایسی کشش کی کہ وہ جنگجو قوم کہ جو خانہ جنگی اپنا شعار اور عاجزی اور انکساری اپنا عار خیال کرتی تھی„ اپنے آبائی اجدادی طریقہ کو چھوڑ کر اس امر کی مدعی ہے کہ جہاں ہمارے سردار سرور کائنات„ تاجدار مدینہ کا جہاں پسینہ گرے ہم وہاں اپنا خون گرانے کو تیار ہیں„ جس کے اخالق کی یہ حالت ہے کہ طرح طرح کی تکلیفیں برداشت کررہے ہیں„ لیکن بددعا کا لفظ بھی کبھی زبان پر نہیں آتا„ آپ کی جو بات ہے وہللا! وہ دوسرے اہل مذاہب کے لئے قابل رشک ہے„ تمام محبوبوں کا محبوب اور تمام کائنات کی جان وہی ذات ہے: وہی ہے مخدوم خادموں کا وہی تو معشوق عاشقاں ہے یہ رتبہ ملکوت میں کہاں کہ سدرة المنتہی مکاں ہے
آپ کے وہ کارنامے جو اصول فطرت سے بالکل ملے جلے تھے„ جس کے ذریعہ سے آپ روح الکائنات کہالئے گئے„ کسی نے آپ کو معلول اول کا لقب دیا„ کسی نے انسان کامل کہہ کر پکارا ”بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر“
ب صدارت کے کرسی نشین کی شناخت کا معیار کیا ہے„ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ منص ِ اب میں اس برترذات کی سوانح سناتا ہوں جس کی خلقت عالم کی مخلوقیت کی راز مضمر ہے۔ پہلے مذکور ہوچکا ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں کوئی حکومت اور قانون نہ ہو„ جہاں خونریزی اور قتل معمولی بات ہو„ جہاں کے باشندے وحشت اور غارتگری میں درندوں کے
MERITEHREER786@GMAIL.COM ٰ دعوی کا پیش کرنا جو تمام ملک 6مشابہ جہالت اور الیعقلی میں انعام سے بدتر ہوں„ ایک ایسے کے نزدیک عجیب اور جملہ قبائل میں مخالفت کی فوری آگ لگادینے واال ہو„ کچھ آسان نہ تھا۔ ٰ دعوی کا ایسی حالت میں سرسبز ہونا کہ کروڑوں اشخاص کی انتہائی مخالفت اس کے پھر اس ملیامیٹ کرنے پر دل سے „ جان سے„ زرسے„ مال سے سالہا سال متفق رہی ہو„ بالکل تائید ربانی کا ثبوت ہے„ مفصل واقعات کے ضمن میں نبی ا کے اخالق ومحاسن„ صفات ومحامد کی چمک ایسی نمایاں ہے جیسے ریت میں کندن اور ان واقعات سے ہی یہ پتہ لگتا ہے کہ مظلومی وبیچارگی اور قوت وسطوت کی متضاد حالتوں میں یکساں سادگی وغربت کے ساتھ زندگی پورا کرنے واال وہی شخص ہوسکتا ہے جس کے دل پر ناموس ٰالہی نے قبضہ کرلیا اور اسے عالئق دنیوی سے پاک کردیا ہو۔ نبی ا کی زندگی کے مبارک واقعات ہرملک اور ہر طبقہ کے فرد اور جماعتوں کے لئے بہترین نمونہ اور مثال ہیں„ میں اس سرخی کے تحت میں مختصر طور پر آنحضرت اکے اخالق کا جو ”علمنی ربی فاحسن تأدیبی“ کا مصداق ہیں„ ذکر کروں گا۔خلق محمدی„ ایسا لفظ ہے کہ اب بہترین بزرگوں کے عادات واخالق„ اطوار وشمائل کے اظہار کے لئے مشتبہ بہ بن گیا ہے۔ ایک یورپین مؤرخ لکھتا ہے کہ :آنحضرت ا خندہ رو اور ملنسار„ خاموش رہنے والے„ ذکر خدا میں مشغول رہنے والے„ لغویات سے دور„ بیہودہ پن سے نفور„ بہترین رائے„ بہترین عقل والے تھے۔ انصاف کے معاملہ میں قریب وبعید آنحضرت ا کے نزدیک برابر ہوتا تھا۔ مساکین سے محبت فرمایا کرتے تھے„ غرباء میں رہ کر خوش ہوتے„ کسی فقیر کو اس کی تنگدستی کی وجہ سے اس کو حقیر نہ سمجھا کرتے اور کسی بادشاہ کو بادشاہی کی وجہ سے بڑا نہ جانتے„ اپنے پاس بیٹھنے والوں کی تالیف قلوب کرتے„ جاہلوں کی حرکات پر صبر فرمایا کرتے „ سفید زمین پر ․․․بالکسی مسند وفرش کے ․․․ نشست فرمایا کرتے„ اپنے جوتے کو خود گانٹھ لیتے„ اپنے کپڑے میں خود پیوند لگالیا کرتے تھے „ دشمن اور کافر سے کشادہ پیشانی سے مالکرتے تھے„ کنبہ والوں اور خادموں پر بہت زیادہ مہربان تھے„ حضرت انس
نے دس سال تک خدمت کی„ اس عرصہ میں ان کو کبھی ․․․ہونھ․․․
MERITEHREER786@GMAIL.COM 7تک نہ فرمایا„ زبان مبارک پر کبھی کوئی گندی بات یاگالی نہیں آتی تھی„ کسی پر لعنت نہیں کی۔ سکوت اور کالم
نبی کریم ا اکثر خاموش رہا کرتے تھے„ بالضرورت کبھی گفتگو نہ فرماتے„ آنحضرت ا نہایت شیریں کالم اور کمال فصیح تھے„ گفتگو ایسی دل آویز ہوتی تھی کہ سننے والے کے دل وروح پر قبضہ کر لیتی تھی„ اسی سبب سے کفار سحر اور جادو کے ساتھ موصوف کرتے تھے„ سلسلہ سخن ایسا مرتب ہوتا تھا کہ جس میں مضامین میں کچھ خلل نہ ہوتا تھا۔ ٴ ہنسنا „رونا
نبی کریم ا کبھی کھل کھال کر ہنسانہ کرتے تھے„ تبسم ہی آپ کا ہنسنا تھا „ نماز تہجد میں بسا اوقات آپ روپڑتے تھے۔ مرض ومریض
بیمار کو طبیب حاذق سے عالج کرانے کا ارشاد فرماتے اور پرہیز کرنے کا حکم فرماتے۔ ت بیماراں عیاد ِ
صحابہ کرام
میں سے جو کوئی بیمار ہوجاتا اس کی عیادت فرمایا کرتے تھے„ عیادت کے
وقت مریض کے پاس بیٹھ جاتے„ بیمار کو تسلی دیتے „ ایک یہودی کا لڑکا آپ کی خدمت کیا کرتا تھا„ اس کی عیادت کو بھی تشریف لے گئے۔ عالج :
ت مرض میں دوا کا استعمال فرمایا کرتے اور لوگوں کو عالج کرنے کا ارشاد فرماتے۔ حال ِ
MERITEHREER786@GMAIL.COM 8
ارباب فضل کی قدر ومنزلت
حضرت سعد بن معاذ
جوغزو ٴہ خندق میں سخت زخمی ہوگئے تھے۔ بنو قریظہ نے اپنا حکم
اور منصف کرکے بالیا تھا „جب وہ مسجد تک پہنچے تو آپ نے اپنے صحابہ کرام
سے جو
قبیلہ اوس کے تھے فرمایا: ”قوموا الی سیدکم“
اپنے سردار کی پیشوائی کو جاؤ۔ خادم کے لئے دعا:
حضرت انس بن مالک
نے دس سال تک مدینہ میں آنحضرت ا کی خدمت کی„ اس عرصہ میں
ان سے کبھی یہ نہ کہا کہ :یہ کام کیوں کیا ۔ ایک روز ان کے حق میں دعا فرمائی: ”اللہم اکثر مالہ وولدہ وبارک لہ ما اعطیتہ“
ٰالہی! اسے مال بھی بہت دے اور اوالد بھی زیادہ دے اور جو کچھ اسے عطا کیا جاوے„ اس میں برکت بھی دے۔ ادب اور تواضع
مجلس میں کبھی پاؤں پھیال کر نہ بیٹھتے „ جو کوئی ملجاتا اسے سالم پہلے خود کرتے„ مصافحہ کے لئے پہلے خود ہاتھ پھیال دیتے۔ شفقت ورافت
-:۱حضرت عائشہ صدیقہ
فرماتی ہیں کہ کوئی شخص بھی آنحضرت ا سے اچھے خلق میں
برابر نہ تھا„ اگر کوئی صحابی بالتا یا کوئی گھر کا آدمی بالتا آپ اس کے جواب میں ”لبیک“
MERITEHREER786@GMAIL.COM ․․․ 9حاضر․․․ ہی فرمایا کرتے ۔ -:۲عبادت نافلہ چھپ کر ادا فرمایا کرتے„ تاکہ امت پر اس قدر عبادت کرنا شاق نہ گذرے۔ -:۳جب کسی معاملہ میں دو صورتیں سامنے آتیں تو آسان صورت کو اختیار فرماتے۔ -:۴ہللا پاک سے معاہدہ کیا کہ جس کسی شخص کو میں دشنام اور لعنت کروں وہ دشنام اور لعنت اس کے حق میں گناہوں کا کفارہ„ رحمت وبخشش اور قرب کا ذریعہ بنادے۔ -:۵فرمایا کہ :ایک دوسرے کی باتیں مجھے نہ سنایا کرو„ میں چاہتاہوں کہ دنیا سے جاؤں تو سب کی طرف سے صاف سینہ جاؤں۔ -:۶فاطمہ نامی چوری کی„ لوگوں نے حضرت اسامہ
ایک عورت نے مکہ میں
سے پوچھا جو رسول ہللا اکو بہت پیارے تھے„ سفارش
کرائی„ نبی کریم ا نے فرمایا :کیا تم حدود ٰالہی میں سفارش کرتے ہو„ سنو! اگر فاطمہ بنت محمد بھی ایسا کرتیں تو میں حد جاری کرتا۔ -:۷ایک صحابی
کہتے ہیں کہ وہ ایک روز آنحضرت
ا کے سامنے دری کا رنگین کپڑا پہن کر گئے„ آپ نے ہٹ ہٹ فرمایا اور چھڑی سے ان کے شکم میں چو نکا بھی دیا„ میں نے کہا :یا رسول ہللا! میں تو قصاص لوں گا آنحضرت نے جھٹ اپنا شکم برہنہ کرکے میرے سامنے کردیا۔ -:۱مکہ میں سخت قحط پڑا یہاں تک کہ لوگوں نے مردار اور ہڈیاں بھی کھانی شروع کردیں„ ابو سفیان بن حرب ان دنوں دشمن غالی تھا„ نبی کریم ا کی خدمت میں آیا„ عرض کیا کہ :آپ تو لوگوں کو صلہ رحمی„ سلوک یا قرابت داری کی تعلیم دیا کرتے ہیں„ دیکھئے! آپ کی قوم ہالک ہور ہی ہے„ خدا سے دعا کیجئے„ نبی کریم ا نے دعا فرمائی اور خوب بارش ہوئی۔ -:۲حضرت سمامہ بن آثال
نے نجد سے مکہ کو جانے واال
غلہ بند کردیا„ اس لئے کہ اہل مکہ آنحضرت اکے دشمن ہیں„ آنحضرت انے ایسا کرنے سے منع فرمادیا۔ :۳۔حدیبیہ کے میدان میں آنحضرت ا مسلمانوں کے ساتھ نماز صبح پڑھ رہے تھے ستر „ اسی آدمی کوہ تنعیم سے اترے„ تاکہ مسلمانوں کو نماز ہی میں قتل کردیں„ یہ سب گرفتار ہوگئے اور نبی کریم ا نے بالکسی معاوضہ اور سزا کے آزاد کر دیا۔ جود وکرم
MERITEHREER786@GMAIL.COM 10سائل کو کبھی رد نہ فرماتے„ زبان مبارک پر حرف انکار نہ التے„ اگر کچھ بھی دینے کو نہ ہوتا تو عذر کرتے„ گویا کوئی شخص معافی چاہتاہے۔ ایک شخص نے آکر سوال کیا„ فرمایا: میرے پاس اس وقت تو کچھ نہیں ہے„ تم کسی شخص سے ادھار لے لو„ میں اس کو اتار دوں گا۔ عفو ورحم
-:۱حضرت عائشہ طیبہ
کا قول ہے کہ نبی کریم انے اپنی ذات مبارک کی بابت کسی سے
انتقام نہیں لیا۔ -:۲جنگ احد میں کافروں نے نبی کریم اکے دانت توڑے„ سر پھوڑا„ حضورا ایک غار میں گر گئے تھے„ صحابہ کرام
نے عرض کیا کہ ان پر بددعا فرمایئے!نبی کریم
انے فرمایا :میں لعنت کرنے کے لئے نہیں بھیجا گیا ہوں اور یہ فرمایا کہ اے خدا! میری قوم کو ہدایت فرما„ وہ مجھے جانتے نہیں ہیں۔ -:۳ایک درخت کے نیچے نبی کریم ا سو گئے„ تلوار شاخ سے آویزاں کردی„ غورث بن الحراث آیا„ تلوار نکال کر نبی کریم اکو گستاخانہ جگایا„بوال: اب تم کو کون بچاوے گا؟ فرمایا :ہللا! وہ چکر کھاکر گر پڑا„ آنحضرت انے تلوار اٹھالی„ فرمایا: اب تجھے کون بچاسکتا ہے؟ حیران ہوگیا„ فرمایا :جاؤ میں بدال نہیں لیا کرتا۔ -:۴ایک گستاخ نے آنحضرت اکی بیٹی حضرت زینب
کے نیزہ مارا„ وہ ہودج سے گر پڑیں اور حمل ساقط ہوگیا
اور باآلخر یہی صدمہ ان کی موت کا باعث ہوا اس نے عفو کی التجاء کی„ معاف فرمادیا۔ ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ زمانہ جاہلیت سے لے کر جن باتوں پر قبائل میں باہمی جنگ وجدل چال ٰ دعوی اور آتا ہے„ میں سب کو معدوم کرتا ہوں اور سب سے پہلے اپنے خاندان کے خون کا اپنے
چچا
کی
رقوم
قرضہ
کو
معاف
کرتا
(مأخوذ:الرشاد ۱۳۳۴ھ) اشاعت ۲۰۰۲ماہنامہ بینات ,ربیع االول ۱۴۲۱ھ اپریل ۲۰۰۲ء ,جلد ,17شمارہ 3
ہوں۔