Tight dress & water proof make up

Page 1

‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬

‫چست کپڑے اور واٹرپروؾ‬ ‫میک اپ کا حکم‬

‫‪1‬‬

‫چست‬

‫کیا‬

‫کپڑے‬

‫فرماتے‬

‫اور‬

‫ہیں‬

‫علماء‬

‫واٹر‬

‫کرام‬

‫پروؾ‬

‫ومفتیان‬

‫میک‬

‫عظام‬

‫اپ‬

‫اس‬

‫کا‬

‫مسئلہ‬

‫حکم!‬

‫میں‬

‫‪:‬‬

‫‪․․․․:۱‬عورتوں کے لئے چست کپڑے پہننا اس طور پر کہ ان کے اعضاء واضح طور پر‬ ‫جھلکنے لگیں„ یہ کیسا ہے؟ اسی طرح جو درزی یہ کپڑے بناتے ہیں ان کی کمائی حالل ہے یا‬ ‫نہیں؟‬ ‫‪ ․․․․:۲‬عورتوں کا واٹر پروؾ میک اپ کروانا„ جن میں حرام اشیاء کا استعمال ہوتا ہے„ آیا یہ‬ ‫جائز ہے نہیں؟‬ ‫مستفتی‪:‬عبد‬

‫الرشید‬

‫نارتھ‬

‫کراچی‬

‫الجواب بعون الوہاب‬

‫ٰ‬ ‫تعالی نے لباس کو انسانی جسم چھپانے کے ساتھ ساتھ زینت کا ذریعہ بھی‬ ‫واضح رہے کہ ہللا‬ ‫بنایاہے„ لہذا اگرایسا لباس ہو جس سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوتا تو پھر شرعا ً ایسا لباس پہننا نہ‬ ‫عورتوں کے لئے جائز ہے اور نہ ہی مردوں کے لئے جائز ہے۔ لہذا عورتوں کے لئے ایسا‬ ‫چست یا باریک لباس جس کو پہننے سے ان کا جسم نظر آئے یا اعضاء کی ساخت اور بناوٹ‬ ‫واضح ہو رہی ہو„ ایسا لباس„ شریعت کے مزاج اور لباس کے مقصد کے خالؾ ہونے کی بناء‬ ‫پر ناجائز اور حرام ہے۔ایسا لباس پہننے والی عورتوں کے بارے میں سخت وعیدیں آئی ہیں۔‬ ‫حدیث شریؾ میں ہے‪:‬‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪2‬‬

‫ٰ‬ ‫(مشکوة‪):‬‬ ‫”رب کاسیات عاریات مائالت ممیالت الیدخلن الجنة والیجدن ریحہا“۔‬

‫ترجمہ‪”․․․․:‬بہت سی لباس پہننے والی عورتیں ننگی کے حکم میں ہیں جو خود مائل ہوتی ہیں‬ ‫„ دوسروں کو مائل کرتی ہیں„ ایسی عورتیں نہ جنت میں داخل ہوں گی اور نہ ہی اس کی بو‬ ‫گی“۔‬

‫پائیں‬ ‫ٰ‬ ‫فتاوی شامی میں ہے‪:‬‬ ‫”قولہ‪ :‬ونساء کاسیات عاریات„ قال النووی‬

‫(قیل معناہ‪ :‬کاسیات من نعمة ہللا„ عاریات من شکرہا وقیل معناہ‪:‬‬

‫تستر بعض بدنہا وتکشؾ بعضہ اظہارا بجمالہا ونحوہ‪ :‬وقیل معناہ‪ :‬تلبس ثوبا رقیقا یصؾ لون بدنہا)“۔ (مسلم‬ ‫دار الفکر کتاب اللباس والزینة ص‪ )۶۵۹:‬قولہ ‪”:‬ممیالت مائالت“ قال النووی ‪ :‬اما مائالت فقیل معناہ‪ :‬من‬ ‫طاعة ہللا وما یلزمہن حفظہ„ ممیالت‪ :‬ای یعلمن ؼیرہن فعلہن المذموم“ اھ (فتح الملہم ‪)۲۲۲/۴‬‬

‫پس جو درزی عورتوں یا مردوں کے لئے ایسے کپڑے سیتے ہوں جوچست اور اتنے تنگ ہوں‬ ‫کہ پہننے والے کے جسم کی بناوٹ ظاہر ہوتی ہو تو ایسے کپڑے سینا چونکہ جائز نہیں„ اس‬ ‫ٰ‬ ‫ہوگی۔فتاوی شامی میں ہے‪:‬‬ ‫لئے ایسے درزی حضرات وخواتین کی کمائی مکروہ‬ ‫”فاذا ثبت کراہة لبسہا للتختم„ ثبت کراہة بیعہا وصیؽہا لما فیہ من االعانة علی ماال یجوز„ وکل ما ادی الی‬ ‫ماالیجوز„ الیجوز“ (‪ ۳۶۲/۶‬فصل فی اللبس کتاب الخطر واالباحة ط‪:‬سعید)‬

‫‪ ․․․:۲‬عورتوں کا واٹرپروؾ میک اپ کرانا اگر اس میں کوئی حرام اور نجس اشیاء شامل نہ‬ ‫ہوں تو جائز ہے لیکن ایسے میک اپ کے بعد وضو اور ؼسل کرنے کے لئے اس کو دور‬ ‫کرنااور ہٹانا ضروری ہے„ ورنہ وضو اور ؼسل نہ ہوگا۔ اسی طرح ایسا میک اپ جس میں‬ ‫خنزیر یا کسی بھی ناپاک چیز کے اجزاء شامل ہوں اس کا استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔‬ ‫ٰ‬ ‫فتاوی عالمگیری میں ہے‪:‬‬ ‫”وقال‬

‫ابو‬

‫حنیفة‬

‫والینتفع‬

‫الجواب‬

‫صحیح‬

‫محمد‬

‫عبد‬

‫من‬

‫الخنزیر‬ ‫الجواب‬ ‫المجید‬

‫بجلدہ‬

‫والؼیرہ‬ ‫صحیح‬ ‫دین‬

‫․․․․“‬

‫(‪)۳۵۴/۵‬‬ ‫کتبہ‬ ‫پوری‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪3‬‬

‫محمد‬

‫عارؾ‬

‫شفیق‬

‫سید سہیل علی‬

‫ب‬ ‫الحمدہلل‬

‫ٰ‬ ‫علی‬

‫وسالم‬

‫عبادہ‬

‫اصطفی‬

‫الذین‬

‫!‬

‫گزشتہ دنوں روزنامہ جنگ کراچی کے توسط سے جناب ندیم احمد کراچی کا ایک مختصر مگر‬ ‫چبھتا ہوا سال موصول ہوا کہ‪” :‬آج کل پوری دنیا میں مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے اور یہ ظلم‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی کی مدد کیوں نہیں آتی؟“‬ ‫کرنے والے ؼیر مسلم ہیں تو مسلمانوں پر ہللا‬ ‫بالشبہ یہ سوال آج کل تقریبا ً ہر دین دار مسلمان کی زبان پر ہے اور اس کے دل و دماغ کو‬ ‫پریشان کئے ہوئے ہے اور اسے سمجھ نہیں آتا کہ اگر مسلمان حق پر ہیں اور یقینا حق پر ہیں‪،‬‬ ‫ٰ‬ ‫نصاری اور کفار و‬ ‫تو ان کی مدد کیوں نہیں کی جاتی اور ان کے اعداء و مخالفین یہود و‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی کا جوش انتقام حرکت میں کیوں نہیں آتا؟‬ ‫مشرکین‪ ،‬جو یقینا باطل پر ہیں‪ ،‬کے خالؾ ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫نصاری کو مسلمانوں‬ ‫اور ان کو تہس نہس کیوں نہیں کردیا جاتا؟ یا کفار و مشرکین اور یہود و‬ ‫پر فوقیت و برتری کیونکر حاصل ہے؟ اور ان کو اس قدر ڈھیل کیوں دی جارہی ہے؟ اس کے‬ ‫برعکس‬

‫مسلمانوں‬

‫کو‬

‫روزبروز‬

‫ذلت‬

‫و‬

‫ادبار‬

‫کا‬

‫سامنا‬

‫کیونکر‬

‫ہے؟‬

‫اس سوال کے جواب میں راقم الحروؾ نے جو کچھ لکھا‪ ،‬مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسے قارئین‬ ‫بینات‬

‫کی‬

‫خدمت‬

‫میں‬

‫پیش‬

‫کردیا‬

‫جائے‪،‬‬

‫مالحظہ‬

‫ہو‪:‬‬

‫برادر عزیز! آپ کا سوال معقول اور بجا ہے‪ ،‬کیونکہ اس وقت دنیا بھر میں مسلمانوں پر جس‬ ‫قدر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور مسلمان جس قدر ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں‪،‬‬ ‫شاید ہی کسی دوسری قوم پر کبھی ایسا وقت آیا ہو؟اس سب کے باوجود مسلمانوں کے حق میں‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 4‬ہللا کی مدد کا نہ آنا‪،‬واقعی قابل تشویش ہے‪،‬اور آپ کی طر ح ہر مسلمان اس تشویش میں مبتال‬ ‫ہے۔‬ ‫ٰلہذا آپ کے سوال کے جواب کے سلسلہ میں چند باتیں عرض کرنا چاہوں گا‪ ،‬اگر آپ نے ان کو‬ ‫ذہن نشین کرلیا تو امید ہے کہ انشؤہللا آپ کو مسلمانوں کے حق میں ہللا کی مدد نہ آنے کے‬ ‫و‬

‫اسباب‬

‫سمجھ‬

‫وجوہ‬

‫گے۔‬

‫آجائیں‬

‫ٰ‬ ‫تعالی کی مدد سے کیوں محروم‬ ‫دراصل یہاں دو امور ہیں‪ ،‬ایک یہ کہ تمام مسلمان عموما ً ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی کے دین کے‬ ‫ہیں؟ دوسرے یہ کہ خاص طور پر وہ نیک صالح مسلمان‪ ،‬جو واقعی ہللا‬ ‫محافظ ہیں‪ ،‬ان پر مصائب و بالیا کے پہاڑ کیوں توڑے جارہے ہیں ؟ ان کے حق میں ہللا کی‬ ‫مدد آنے میں تاخیر کیوں ہورہی ہے؟ اور ان کے دشمنوں کو اس قدر ڈھیل کیوں دی جارہی‬ ‫ہے؟‬ ‫اول‪ :‬سب سے پہلے یہ کہ تمام مسلمان ہللا کی مدد سے کیوں محروم ہیں؟ اس سلسلہ میں عرض‬ ‫ہے‪:‬‬ ‫‪ …:۱‬اس وقت مسلمان من حیث القوم مجموعی اعتبار سے تقریبا ً بدعملی کا شکار ہوچکے ہیں۔‬ ‫شوق شہادت کا فقدان ہے‪ ،‬بلکہ مسلمان بھی ‪...‬اال‬ ‫ذوق عبادت اور‬ ‫‪ …:۲‬اس وقت مسلمانوں میں‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ماشاء‬

‫ہللا‪...‬‬

‫کفار‬

‫و‬

‫مشرکین‬

‫کی‬

‫طرح‬

‫موت‬

‫ڈرنے‬

‫سے‬

‫لگے‬

‫ہیں۔‬

‫‪ …:۳‬اس وقت تقریبا ً مسلمانوں کو دین‪ ،‬مذہب‪ ،‬ایمان‪ ،‬عقیدہ سے زیادہ اپنی‪ ،‬اپنی اوالد اور اپنے‬ ‫خاندان‬

‫کی‬

‫راحت‬

‫دنیاوی‬

‫و‬

‫آرام‬

‫کی‬

‫فکر‬

‫ہے۔‬

‫‪ …:۴‬آج کل مسلمان‪...‬اال ماشاء ہللا‪...‬موت‪ ،‬مابعد الموت‪ ،‬قبر‪ ،‬حشر‪ ،‬آخرت‪ ،‬جہنم اور جنت کی‬ ‫فکر و احساس سے بے نیاز ہوچکے ہیں اور انہوں نے کافر اقوام کی طرح اپنی کامیابی و‬ ‫ناکامی کا مدار دنیا اور دنیاوی اسباب و ذرائع کو بنالیا ہے‪ ،‬اس لئے تقریبا َ َ​َ سب ہی اس کے‬ ‫حصول‬

‫و‬

‫تحصیل‬

‫کے‬

‫لئے‬

‫دیوانہ‬

‫وار‬

‫دوڑ‬

‫رہے‬

‫ہیں۔‬

‫ٰ‬ ‫تعالی کی ذات پر اعتماد‪ ،‬بھروسہ اور توکل‬ ‫‪ …:۵‬اس وقت ‪...‬اال ماشاء ہللا‪ ...‬مسلمانوں کا ہللا‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 5‬نہیں رہا‪ ،‬اس لئے وہ دنیا اور دنیاوی اسباب و وسائل کو سب کچھ باور کرنے لگے ہیں۔‬ ‫‪ …:۶‬جب سے مسلمانوں کا ہللا کی ذات سے رشتہ عبدیت کمزور ہوا ہے‪ ،‬انہوں نے عبادات و‬ ‫اعمال کے عالوہ قریب قریب سب ہی کچھ چھوڑ دیا ہے‪ ،‬حتی کہ بارگاہ ٰالہی میں رونا‪ ،‬بلبالنا‬ ‫اور‬

‫دعائیں‬

‫بھی‬

‫مانگنا‬

‫دیا‬

‫چھوڑ‬

‫ہے۔‬

‫‪ …:۷‬جس طرح کفر و شرک کے معاشرہ اور بے خدا قوموں میں بدکرداری‪ ،‬بدکاری‪ ،‬چوری‪،‬‬ ‫ڈکیتی‪ ،‬شراب نوشی‪ ،‬حرام کاری ‪ ،‬حرام خوری‪ ،‬جبر ‪ ،‬تشدد‪ ،‬ظلم اور ستم کا دور دورہ ہے‪،‬‬ ‫ٹھیک اسی طرح نام نہاد مسلمان بھی ان برائیوں کی دلدل میں سرتاپا ؼرق ہیں۔‬ ‫‪ …:۸‬معدودے چند‪ ،‬ہللا کے جو بندے‪ ،‬اس ؼالظت کدہ میں نور کی کرن اور امید کی روشنی‬ ‫ثابت ہوسکتے تھے‪ ،‬ان پر ہللا کی زمین تنگ کردی گئی‪ ،‬چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ جو مسلمان‬ ‫قرآن و سنت‪ ،‬دین و مذہب کی پاسداری اور اسوئہ نبوت کی راہ نمائی میں زندگی گزارنا چاہتے‬ ‫تھے‪ ،‬انہیں تشدد پسند‪ ،‬دہشت گرد‪ ،‬رجعت پسنداورملک و ملت کے دشمن وؼیرہ کہہ کر‬ ‫ٹھکانے‬

‫گیا۔‬

‫لگادیا‬

‫‪ …:۹‬نام نہاد مسلمانوں نے کافر اقوام کے پروپیگنڈہ سے متاثر ہوکر اور ان کی ترجمانی کا‬ ‫فریضہ انجام دے کر دین و مذہب سے وابستگی رکھنے والے مخلصین کے خالؾ ایسا طوفان‬ ‫بدتمیزی برپا کیا اور ان کو اس قدر مطعون و بدنام کیا کہ کوئی سیدھا سادا مسلمان‪ ،‬اسالم اور‬ ‫اسالمی‬

‫کو‬

‫شعائر‬

‫اپناتے‬

‫ہوئے‬

‫گھبراتا‬

‫بھی‬

‫ہے۔‬

‫‪ …:۱۲‬اسالم دشمن میڈیا‪ ،‬اخبارات‪ ،‬رسائل و جرائد میں اسالم اور مسلمانوں کو اس قدر‬ ‫خطرناک‪ ،‬نقصان دہ‪ ،‬ملک و ملت دشمن اور امن مخالؾ باور کرایا گیا کہ اب خود مسلمان‬ ‫معاشرہ‬

‫ان‬

‫کو‬

‫اپنانے‬

‫اور‬

‫گلے‬

‫لگانے‬

‫پر‬

‫آمادہ‬

‫نہیں۔‬

‫‪ …:۱۱‬مادیت پسندی نے نام نہاد مسلمان کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ اب اس کو حالل و حرام‬ ‫کی تمیز تک نہیں رہی‪ ،‬چنانچہ ‪....‬اال ماشاء ہللا ‪....‬اب کوئی مسلمان حالل و حرام کی تمیز کرتا‬ ‫ہو‪ ،‬اس لئے مسلم معاشرہ میں بھی‪ ،‬سود‪ ،‬جوا‪ ،‬رشوت‪ ،‬الٹری‪ ،‬انعامی اسکیموں کا دور دورہ‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 6‬ہے۔‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی کا ان کے خالؾ اعالن جنگ ہے۔‬ ‫‪ …:۱۲‬جو لوگ سود خوری کے مرتکب ہوں‪ ،‬ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی سے حالت جنگ میں ہیں‪ ،‬اور جن لوگوں سے‬ ‫ظاہر ہے جو مسلمان سود خور ہیں‪ ،‬وہ ہللا‬ ‫اعالن‬ ‫ِ‬

‫جنگ‬

‫ہو‪،‬‬

‫کیا‬

‫ان‬

‫کی‬

‫مدد‬

‫کی‬

‫جائے‬

‫گی؟‬

‫‪ …:۱۳‬جو معاشرہ عموما ً چوری ڈکیتی‪ ،‬مار دھاڑ‪ ،‬اؼوا برائے تاوان‪ ،‬جوئے‪ ،‬الٹری‪ ،‬انعامی‬ ‫اسکیموں اور رشوت پر پل رہا ہو‪ ،‬اور جہاں ظلم و تشدد عروج پر ہو‪ ،‬جہاں کسی ؼریب کی‬ ‫عزت و ناموس اور مال و دولت محفوظ نہ ہو‪ ،‬وہاں ہللا کی رحمت نازل ہوگی یا ہللا کا ؼضب؟‬ ‫پھر یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ کفر کے ساتھ حکومت چل سکتی ہے‪ ،‬مگر ظلم کے ساتھ‬ ‫نہیں چل سکتی‪ ،‬اس لئے کہ ہللا کی مدد مظلوم کے ساتھ ہوتی ہے۔ چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو‬ ‫اور ظالم چاہے مسلمان ہی کیوں نہ ہو‪ ،‬ہللا کی مدد سے محروم ہوتا ہے۔‬ ‫‪ …:۱۴‬جس قوم اور معاشرہ کی ؼذا‪ ،‬لباس‪ ،‬گوشت‪ ،‬پوست حرام مال کی پیداوار ہوں‪ ،‬ان کی‬ ‫دعائیں‬

‫قبول‬

‫”عن ابی ھریرة‬

‫نہیں‬

‫ہوتیں‪،‬جیساکہ‬

‫حدیث‬

‫شریؾ‬

‫میں‬

‫ہے‪:‬‬

‫امرالمومنین بماامربہ المرسلین‬ ‫قال‪ :‬قال رسول اللہا‪:‬ان ہللا طیب ال یقبل اال طیبا َ َ​َ‪،‬وان ہللا‬ ‫ی‬

‫ٰ‬ ‫تعالی‪” :‬یا ایھا الذین آمنوا کلوا من طیبات‬ ‫فقال‪” :‬یاایھا الرسل کلوا من الطیبات واعملوا صالحا“ وقال‬ ‫مارزقناکم“ ثم ذکرالرجل یطیل السفر اشعث اؼبر یمد یدیہ ٰ‬ ‫الی السماء یارب‪،‬یارب‪ ،‬ومطعمہ حرام‪،‬ومشربہ‬ ‫ٰ‬ ‫ٰ‬ ‫(مشکوة‪،‬ص‪)۲۴۱:‬‬ ‫فانی یستجاب لذالک‪،‬رواہ مسلم۔“‬ ‫حرام ‪،‬وملبسہ حرام ‪،‬وؼذی بالحرام‬

‫ترجمہ‪”....:‬حضرت ابو ہریرہ رضی ہللا عنہ آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم سے نقل فرماتے ہیں‬ ‫ٰ‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی نے‬ ‫تعالی پاک‪ ،‬پاکیزہ ہیں اور پاک‪ ،‬پاکیزہ ہی قبول فرماتے ہیں‪ ،‬اور بے شک ہللا‬ ‫کہ ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی کا ارشاد ہے‪” :‬اے‬ ‫مومنوں کو بھی وہی حکم دیا ہے جو رسولوں کو حکم دیا تھا‪ ،‬پس ہللا‬ ‫رسولوں کی جماعت پاکیزہ چیزوں میں سے کھاإ اور اعمال صالحہ کرو“ اسی طرح مومنوں‬ ‫سے فرمایا‪ ” :‬اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاإ جو ہم نے تمہیں دی ہیں“ پھر آپ‬ ‫صلی ہللا علیہ وسلم نے ایک آدمی کا ذکر فرمایا جو طویل سفر کی وجہ سے ؼبار آلود اور‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 7‬پراگندہ بال ہے اور دونوں ہاتھ آسمان کی طرؾ پھیالکر کہتا ہے‪ :‬اے رب! ‪،‬اے رب! حاالنکہ‬ ‫اس کا کھانا حرام کا‪ ،‬پینا حرام کا‪ ،‬لباس حرام کا اور اس کی ؼذا حرام کی ہے‪ ،‬تو اس کی دعا‬ ‫کیونکر‬

‫ہوگی؟“‬

‫قبول‬

‫مقبوالن ٰالہی‪ ،‬جو مخلوق خدا کی اس مجبوری اور مقہوری پر کڑھتے ہیں ‪،‬‬ ‫‪ …:۱۵‬بایں ہمہ وہ‬ ‫ِ‬ ‫روتے ہیں‪ ،‬بلبالتے ہیں اور مسلمانوں کے لئے بارگا ِہ ٰالہی میں دعائیں کرنا چاہتے ہیں‪ ،‬ان کو‬ ‫بارگاہ ٰالہی سے یہ کہہ کر روک دیا جاتا ہے کہ اپنی ذات کے لئے اور اپنی ضرورت کے لئے‬ ‫دعا کرو‪ ،‬میں قبول کروں گا لیکن عام لوگوں کے حق میں تمہاری دعا قبول نہیں کروں گا۔‬ ‫ارشاد‬

‫چنانچہ‬ ‫”عن انس بن مالک‬

‫ہے‪:‬‬

‫نبوی‬

‫یدعوالمومن للجماعة فالیستجاب لہ‪ ،‬یقول‬ ‫اراہ مرفوعا َ َ​َ قال‪:‬یؤ تی علی الناس زمان‬ ‫ی‬

‫ہللا‪:‬ادعنی لنفسک ولمایحزبک من خاصة امرک فاجیبک‪ ،‬واماالجماعة فال!انھم اؼضبونی۔ وفی روایة‪:‬فانی‬ ‫ؼضبان۔“‬

‫علیھم‬

‫الرقائق‬

‫(کتاب‬

‫ص‪)۱۵۵،۳۸۴:‬‬

‫ترجمہ‪”....:‬حضرت انس رضی ہللا عنہ آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ‬ ‫آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا‪ :‬لوگوں پر ایک ایسا دور آئے گا کہ مومن‪ ،‬مسلمانوں کی‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی فرمائیں گے‪ ،‬تو اپنی‬ ‫جماعت کے لئے دعا کرے گا‪ ،‬مگر قبول نہیں کی جائے گی‪ ،‬ہللا‬ ‫ذات کے لئے اور اپنی پیش آمدہ ضروریات کے لئے دعا کر‪ ،‬میں قبول کروں گا‪ ،‬لیکن عام‬ ‫لوگوں کے حق میں قبول نہیں کروں گا‪ ،‬اس لئے کہ انہوں نے مجھے ناراض کرلیا ہے اور‬ ‫ایک‬

‫روایت‬

‫میں‬

‫ہے‬

‫کہ‬

‫میں‬

‫ان‬

‫سے‬

‫ناراض‬

‫ہوں۔“‬

‫‪ …:۱۶‬پھر یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ آسمان سے اچھے یا بُرے فیصلے اکثریت‬ ‫کے عمل اور بدعملی کے تناظر میں نازل ہوتے ہیں‪ ،‬اس لئے باآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے‬ ‫کہ مسلم معاشرہ کی اکثریت کے اعمال و افعال اور سیرت و کردار کا کیا حال ہے؟ کیا ایسا‬ ‫معاشرہ جہاں دین‪ ،‬دینی اقدار کا مذاق اڑایا جاتا ہو‪ ،‬جہاں قرآن و سنت کا انکار کیا جاتا ہو‪،‬‬ ‫جہاں اس میں تحریؾ کی جاتی ہو‪ ،‬جہاں ان کو من مانے مطالب ‪ ،‬مفاہیم اور معانی پہنائے‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 8‬جاتے ہوں‪ ،‬جہاں حدود ہللا کا انکار کیا جاتا ہو‪ ،‬جہاں سود کو حالل اور شراب کو پاک کہا جاتا‬ ‫ہو‪ ،‬جہاں زنا کاری و بدکاری کو تحفظ ہو‪ ،‬جہاں ظلم و تشدد کا دور دورہ ہو‪ ،‬جہاں مسلمان‬ ‫کہالنا دہشت گردی کی عالمت ہو‪ ،‬جہاں بے قصور معصوموں کو کافر اقوام کے حوالہ کیا جاتا‬ ‫ہو‪ ،‬جہاں بدکار و مجرم معزز اور معصوم ذلیل ہوں‪ ،‬جہاں توہین رسالت کو ٹھنڈے پیٹوں‬ ‫باؼیان نبوت کو اقتدار کی چھتری مہیا ہو‪ ،‬جہاں محافظین دین و‬ ‫برداشت کیا جاتا ہو‪ ،‬جہاں‬ ‫ِ‬ ‫شریعت کو پابند سالسل کیا جاتا ہو‪ ،‬جہاں کلمہ حق کہنے والوں کو گولیوں سے چھلنی کیا جاتا‬ ‫ٰ‬ ‫نصاری کی خوشنودی کے لئے‬ ‫ہو‪ ،‬جہاں کافر اقوام کی کاسہ لیسی کی جاتی ہو‪ ،‬جہاں یہود و‬ ‫مس لم ممالک پر اسالم دشمنوں کی چڑھائی کو سند جواز مہیا کی جاتی ہو‪ ،‬جہاں دینی مدارس و‬ ‫مساجد پر چڑھائی کی جاتی ہو‪ ،‬ان پر بمباری کی جاتی ہو‪ ،‬ہزاروں معصوموں کو خاک و خون‬ ‫میں تڑ پایا جاتا ہو‪ ،‬ان پر فاسفورس بم گراکر ان کا نام و نشان مٹایا جاتا ہو‪ ،‬جہاں مسلمان‬ ‫طالبا ت اور پردہ نشین خواتین کو درندگی کا نشانہ بنایا جاتا ہو‪ ،‬ان کی الشوں کی بے حرمتی‬ ‫کی جاتی ہو‪ ،‬ان کے جسم کے چیتھڑے اڑائے جاتے ہوں‪ ،‬ان کو دفن کرنے کے بجائے ان کی‬ ‫الشوں کو جالیا جاتا ہو‪ ،‬جہاں تاتاری اور نازی مظالم کی داستانیں دہرائی جاتی ہوں‪ ،‬جہاں دین‬ ‫دار طبقہ اور علماء و صلحاء پر زمین تنگ کی جاتی ہو‪ ،‬جہاں اؼیار کی خوشنودی کے لئے‬ ‫اپنے شہریوں کے خالؾ آپریشن کلین اپ کئے جاتے ہوں‪ ،‬جہاں ہزاروں ‪،‬الکھوں مسلمانوں کو‬ ‫اپنے گھروں سے نقل مکانی پر مجبور کیا جاتا ہو‪ ،‬جہاں دین و شریعت کا نام لینا جرم اور‬ ‫عریانی فحاشی‪ ،‬پتنگ ب ازی اور میراتھن ریس کی سرپرستی کی جاتی ہو‪ ،‬جہاں عریانی و‬ ‫فحاشی کو روشن خیالی و اعتدال پسندی کا نام دیا جاتا ہو‪ ،‬جہاں دینی مدارس بند اور قحبہ خانے‬ ‫ب اقتدار ‪ ۲۲/۲۲‬الکھ روپے‬ ‫نان شبینہ کے محتاج ہوں اور اربا ِ‬ ‫کھولے جاتے ہوں‪ ،‬جہاں عوام ِ‬ ‫ایک رات ہوٹل کے قیام کا کرایہ ادا کرتے ہوں‪ ،‬جہاں اپنے اقتدار اور حکومت کے تحفظ کے‬ ‫لئے دین و مذہب اور شرم و حیاء کی تمام حدود کو پھالنگا جاتا ہو‪ ،‬وہاں ہللا کی رحمت نازل‬ ‫ہوگی؟‬

‫یا‬

‫ہللا‬

‫کا‬

‫عذاب‬

‫و‬

‫عقاب؟؟؟‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 9‬بالشبہ آج کا دور دجالی فتنے اور نئے نئے نظریات کا دور ہے‪ ،‬زمانہ بوڑھا ہوچکا ‪ ،‬ہم جنس‬ ‫پرستی کو قانونی جواز حاصل ہوچکا‪ ،‬ناچ گانے کی محفلیں عام ہوچکیں‪ ،‬دیکھا جائے تو یہ‬ ‫قرب قیامت کا وقت ہے‪ ،‬اس وقت مسلمانوں سے ہللا کی حفاظت و مدد اٹھ چکی ہے‪ ،‬مسلمانوں‬ ‫کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں‪ ،‬سچی بات یہ ہے کہ یہ ہللا کی ناراضگی‪ ،‬ظاہر داری‪ ،‬چاپلوسی‪،‬‬ ‫انانیت‪ ،‬خود پسندی اور امت کے زوال کا وقت ہے‪ ،‬فتنہ و فساد عروج پر ہیں‪ ،‬خیر سے محروم‬ ‫ٰ‬ ‫نصاری کی نقالی‬ ‫لوگوں کی کثرت ہے اور خدا کی لعنت و ؼضب کا وقت ہے‪ ،‬اور یہود و‬ ‫کامیابی کی معراج شمار ہونے لگی ہے۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایسے لوگوں اور‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی کے ہاں کیا قدر و قیمت ہوسکتی ہے؟ چنانچہ ایسے ہی دور کے لوگوں‬ ‫معاشرہ کی ہللا‬ ‫کے‬

‫میں‬

‫بارہ‬

‫”عن مرداس االسلمی‬ ‫الیبالیھم‬

‫ہللا‬

‫شریؾ‬

‫حدیث‬

‫ہے‬

‫میں‬

‫‪:‬‬

‫کہ‬

‫ٰ‬ ‫‪،‬وتبقی حفالة کحفالة الشعیر اوالتمر‬ ‫قال النبی ا‪:‬یذھب الصالحون االول فاالول‬ ‫بالة۔“(صحیح‬

‫کتاب‬

‫بخاری‬

‫الرقائق‪،‬‬

‫ص‪،۹۵۲:‬‬

‫ج‪)۲:‬‬

‫ترجمہ‪” ...:‬حضرت مرداس اسلمی رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی ہللا علیہ‬ ‫وسلم نے فرمایا‪ :‬نیک لوگ یکے بعد دیگرے رخصت ہوتے جائیں گے‪ ،‬جیسے چھٹائی کے بعد‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی ان کی‬ ‫ردی جو یا کھجوریں باقی رہ جاتی ہیں‪ ،‬ایسے ناکارہ لوگ رہ جائیں گے کہ ہللا‬ ‫کوئی‬

‫نہیں‬

‫پرواہ‬

‫گا۔“‬

‫کرے‬

‫ٰ‬ ‫تعالی کی مدد کا‬ ‫‪ …:۱۷‬اس کے عالوہ یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ‪ :‬مسلمانوں کے لئے ہللا‬ ‫وعدہ ضرور ہے لیکن ساتھ ہی ہللا کی مدد آنے کے لئے یہ شرط بھی ہے کہ‪:‬‬ ‫”یاایھاالذین‬

‫آمنوا‬

‫ان‬

‫ینصرکم‬

‫تنصرواہللا‬

‫ویثبت‬

‫اقدامکم“‬

‫(محمد‪)۷:‬‬

‫ٰ‬ ‫تعالی تمہاری مدد کریں گے‪ ،‬اور تمہارے‬ ‫ترجمہ‪”....:‬اگر تم ہللا کے دین کی مدد کروگے تو ہللا‬ ‫قدموں‬

‫کو‬

‫ثابت‬

‫کریں‬

‫گے۔“‬

‫ٰ‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی نے بھی‬ ‫تعالی کے دین کی مدد چھوڑ دی ہے‪ ،‬ہللا‬ ‫ٰلہذا جب سے مسلمانوں نے ہللا‬ ‫مسلمانوں سے اپنی رحمت و عنایت اور مدد کا ہاتھ اٹھالیا ہے‪ ،‬چنانچہ آج ہر طرؾ مسلمانوں پر‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 10‬کافر اس طرح ٹوٹ رہے ہیں جس طرح دسترخوان پر چنے ہوئے کھانے پر لوگ ٹوٹتے ہیں۔‬ ‫چنانچہ‬

‫حدیث‬

‫”عن ثوبان‬

‫شریؾ‬

‫ہے‪:‬‬

‫میں‬

‫کماتداعی اآلکلة ٰ‬ ‫ٰ‬ ‫ٰ‬ ‫الی قصعتھا‪ ،‬فقال‬ ‫تداعی علیکم‬ ‫قال‪:‬قال رسول اللہا ‪ :‬یوشک االمم ان‬

‫قائل‪:‬ومن قلة نحن یومئذٍ؟ قال‪:‬بل انتم یومئ ٍذ کثیر! ولکنکم ؼثاء کؽثاء السیل‪ ،‬ولینزعن ہللا من صدورعدوکم‬ ‫المھابة منکم ‪،‬ولیقذفن ہللا فی قلوبکم الوھن!فقال قائل‪:‬یارسول ہللا!وماالوھن؟قال‪:‬حب الدنیاوکراھیة‬ ‫ص‪)۵۹:‬‬

‫الموت!“(ابوداإد‬

‫ترجمہ‪ ”....:‬حضرت ثوبان رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے‬ ‫ارشاد فرمایا‪ :‬وہ وقت قریب آتا ہے‪ ،‬جب تمام کافر قومیں تمہارے مٹانے کے لئے‪....‬مل کر‬ ‫سازشیں کریں گی‪....‬اور ایک دوسرے کو اس طرح بالئیں گی جیسے دسترخوان پر کھانا‬ ‫کھانے والے ‪....‬لذیذ‪....‬کھانے کی طرؾ ایک دوسرے کو بالتے ہیں‪ ،‬کسی نے عرض کیا‪ :‬یا‬ ‫رسول ہللا! کیا ہماری قلت تعداد کی وجہ سے ہمارا یہ حال ہوگا؟ فرمایا‪ :‬نہیں! بلکہ تم اس وقت‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی تمہارے‬ ‫تعداد میں بہت ہوگے‪ ،‬البتہ تم سیالب کی جھاگ کی طرح ناکارہ ہوگے‪ ،‬یقینا ہللا‬ ‫دشمنوں کے دل سے تمہارا رعب اور دبدبہ نکال دیں گے‪ ،‬اور تمہارے دلوں میں بزدلی ڈال‬ ‫دیں گے‪ ،‬کسی نے عرض کیا‪ :‬یا رسول ہللا! بزدلی سے کیا مراد ہے؟ فرمایا‪ :‬دنیا کی محبت اور‬ ‫موت‬

‫نفرت۔“‬

‫سے‬

‫بتالیا جائے جس معاشرہ کا یہ حال ہو‪ ،‬اور جن مسلمانوں کے اعمال و اخالق کا یہ منظر نامہ‬ ‫ہو‪،‬‬

‫وہاں‬

‫ہللا‬

‫مدد‬

‫کی‬

‫آئے‬

‫گی‬

‫یا‬

‫ہللا‬

‫کا‬

‫عذاب؟‬

‫دوم ‪ :‬رہی یہ بات کہ کفار و مشرکین اور اؼیار کے مظالم کا شکار صرؾ اور صرؾ دین دار‬ ‫مسلمان‬

‫ہی‬

‫کیوں‬

‫ہیں؟‬

‫ب اقتدار نے ہللا کو ناراض کر رکھا ہے تو ان کی سزا ان نہتے‬ ‫اگر بدکردار مسلمانوں اور اربا ِ‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی کی مدد کیوں نہیں آتی؟ چاہئے‬ ‫معصوموں کو کیوں دی جاتی ہے؟ اور ان کے حق میں ہللا‬ ‫تو یہ تھا کہ جرم و سزا کے فلسفہ کے تحت سزا بھی ان ہی لوگوں کو دی جاتی ‪،‬جنہوں نے ہللا‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 11‬کو ناراض کررکھا ہے‪ ،‬مگر اس کے برعکس ہو یہ رہا ہے کہ نیک صالح مسلمان‪ ،‬اور دین و‬ ‫مذہب کے متوالے ‪،‬کفار کے مظالم کی تلوار سے ذبح ہورہے ہیں‪ ،‬ان کو بے نام کیا جارہا ہے‪،‬‬ ‫ان کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جارہا ہے‪ ،‬ان کی جان و مال اور عزت و ناموس برباد کی‬ ‫جارہی ہے‪ ،‬ان پر ہللا کی زمین تنگ کی جارہی ہے‪ ،‬اپنے اور پرائے سب ہی ان کے دشمن اور‬ ‫ان کی جان کے پیاسے ہیں‪ ،‬کوئی بھی ان کے لئے کلمہ خیر کہنے کا روادار نہیں ہے‪ ،‬بلکہ ان‬ ‫پر ہر طرؾ سے آگ و آہن کی بارش اور بارود کی یلؽار ہے‪ ،‬آخر ایسا کیوں ہے؟؟‬ ‫ّٰ‬ ‫نصرہللا قریب“ ‪...‬بے شک ہللا کی مدد قریب ہے‪ ...‬کا وعدہ کب‬ ‫اسی طرح ارشاد ٰالہی ‪”:‬اال ان‬ ‫پورا‬ ‫اس‬

‫ہوگا؟‬ ‫سلسلہ‬

‫میں‬

‫بھی‬

‫چند‬

‫معروضات‬

‫پیش‬

‫کرنا‬

‫چاہوں‬

‫گا‪:‬‬

‫‪ …:۱‬دنیا باخدا مسلمانوں کے لئے قید خانہ اور کفار و مشرکین کے لئے جنت ہے‪ ،‬چنانچہ‬ ‫حدیث‬

‫میں‬

‫شریؾ‬

‫ہے‪:‬‬

‫”عن ابی ہریرة رضی ہللا عنہ قال‪ ،‬قال رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم‪” :‬الدنیا سجن المإمن وجنة الکافر“‬ ‫(ترمذی‬

‫ص‪۵۶:‬‬

‫ج‪)۲:‬‬

‫ترجمہ‪” …:‬حضرت ابوہریرہ رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم‬ ‫نے ارشاد فرمایا کہ‪ :‬دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے اور کافر کے لئے جنت ہے۔“‬ ‫یعنی دنیا میں عموما ً کافر کی نسبت‪ ،‬ایک مومن کو آفات و مصائب کا سامنا زیادہ کرنا پڑتا ہے‪،‬‬ ‫جس کا معنی یہ ہے کہ کافر کی دنیاوی کروفر اور راحت و آرام اور مومن کی تکلیؾ و تعذیب‬ ‫کو دیکھ کر پریشان نہیں ہونا چاہئے‪ ،‬بلکہ مومن کی دنیا کی تکلیؾ و تعذیب اور مصائب و آالم‬ ‫کا‪ ،‬اس کی جنت کے ساتھ اور کافر کی ظاہری کروفر‪ ،‬خوش عیشی اور راحت و آرام کا اس‬ ‫کی جہنم کے ساتھ مقابلہ کیا جائے تو سمجھ آجائے گا کہ جس طرح کافر کی دنیاوی راحت و‬ ‫آسائش کی‪ ،‬اس کی جہنم کی سزا کے مقابلہ میں کچھ حیثیت نہیں‪ ،‬اسی طرح مسلمان کی دنیا‬ ‫کی عارضی تکالیؾ و مشکالت اس کی جنت اور آخرت کی راحت و آرام کے مقابلہ میں کچھ‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 12‬حیثیت‬

‫رکھتیں۔‬

‫نہیں‬

‫‪ …:۲‬دنیا دارالعمل اور آخرت دارالجزا ہے اور ظاہر ہے جو شخص عملی میدان میں جتنا‬ ‫محنت و مشقت اور جہد و مجاہدہ برداشت کرے گا‪ ،‬بعد میں اسی تناسب سے اسے راحت و آرام‬ ‫میدان عمل میں جتنا کوتاہی کرے گا‪ ،‬بعد میں اسی تناسب سے‬ ‫میسر آئے گا اور جو شخص‬ ‫ِ‬ ‫اُسے ذلت و رسوائی اور فضیحت و شرمندگی کا سامنا کرنا ہوگا‪ ،‬ٹھیک اسی طرح مقربین‬ ‫بارگا ِہ خداوندی کو بھی آخرت کی کھیتی یعنی دنیا میں جہد مسلسل اور محنت و مشقت کا سامنا‬ ‫ہے‪ ،‬مگر عاقبت و انجام کے اعتبار سے جلد یا بدیر راحت و آرام ان کا مقدر ہوگا‪ ،‬دوسری‬ ‫طرؾ کافر اگرچہ یہاں ہر طرح کی راحت و آرام سے سرفراز ہیں‪ ،‬مگر مرنے کے ساتھ ہی‬ ‫عذاب جہنم کی شکل میں ان کی راحت و آرام اور ظلم و عدوان کا ثمرہ ان کے سامنے آجائے‬ ‫گا۔‬ ‫‪ …:۳‬کسی مسلمان کی تخلیق کا مقصد دنیا اور اس کی راحتوں کا حصول نہیں‪ ،‬بلکہ مسلمان‬ ‫کو جنت اور جنت کی الزوال و ابدی نعمتوں کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور جنت کا حصول کچھ‬ ‫آسان نہیں‪ ،‬بلکہ جنت کے سامنے یا اردگرد مشکالت و مصائب کی باڑھ لگائی گئی ہے اور‬ ‫دوزخ کے اردگرد خواہشات کی باڑھ کی گئی ہے‪ ،‬جیسا کہ حدیث شریؾ میں ہے‪:‬‬ ‫”عن انس رضی ہللا عنہ ان رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم قال‪ :‬حفت الجنة بالمکارہ وحفت النار بالشہوات۔“‬ ‫ص‪۸۲:‬ج‪)۲:‬‬

‫(ترمذی‬

‫ترجمہ‪” …:‬حضرت انس رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے‬ ‫فرمایا‪ :‬جنت کے گرد ناگواریوں اورمشقتوں کی باڑھ کی گئی ہے‪ ،‬اور دوزخ کے گرد خواہشات‬ ‫کی‬

‫باڑھ‬

‫کی‬

‫گئی‬

‫ہے۔“‬

‫اس لئے کسی نیک صالح مسلمان کا دنیا میں مشکالت و مصائب اور مکروہات سے دوچار ہونا‬ ‫حصول جنت میں کامیابی کی نشانی ہے‪ ،‬اور کفار و مشرکین اور معاندین کے لئے‬ ‫دراصل‬ ‫ِ‬ ‫ب نار و سقر سے دوچار ہونے‬ ‫دنیاوی راحت و آرام یا خواہشات نفسانیہ کا مہیا ہونا ان کے عذا ِ‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 13‬کی‬

‫ہے۔‬

‫عالمت‬

‫ٰ‬ ‫تعالی اپنے بندوں کو آخرت کے عذاب سے بچانے کے لئے دنیا ہی میں‬ ‫‪ …:۴‬بعض اوقات ہللا‬ ‫انہیں مصائب و تکالیؾ میں مبتال فرماتے ہیں„ تاکہ اس کی کمی کوتاہیوں کا معاملہ یہیں نمٹ‬ ‫جائے اور آخرت میں ان کو کسی عذاب سے دوچار نہ ہونا پڑے‪ ،‬چنانچہ حدیث شریؾ میں ہے‪:‬‬ ‫”عن انس‬ ‫اراد‬

‫ہللا علیہ وسلم اذا اراد ٰ ّ‬ ‫ہللا صلی ٰ ّ‬ ‫قال‪ :‬قال رسول ٰ ّ‬ ‫ہللا بعبدہ الخیر عجل لہ العقوبة فی الدنیا‪ ،‬واذا‬

‫ّٰ‬ ‫ہللا‬

‫بعبدہ‬

‫الشر‬

‫امسک‬

‫عنہ‬

‫بذنبہ‬

‫حتی‬

‫یوافی‬

‫بہ‬

‫یوم‬

‫القیامة۔‬

‫ہللا علیہ وسلم قال‪ :‬ان عظم الجزاء مع عظم البأل‪ ،‬وان ٰ ّ‬ ‫وبہذا االسناد عن النبی صلی ٰ ّ‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا اذا احب قوما ً ابتالہم‪،‬‬ ‫فمن‬

‫رضی‬

‫فلہ‬

‫الرضا‬

‫ومن‬

‫سخط‬

‫فلہ‬

‫السخط۔“‬

‫(ترمذی‪،‬‬

‫ص‪،۶۲:‬ج‪)۲:‬‬

‫ترجمہ‪” …:‬حضرت انس رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی کسی بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتے ہیں‪ ،‬تو دنیا میں ہی اس‬ ‫ارشاد فرمایا‪ :‬جب ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی کسی بندے کے ساتھ شر کا ارادہ فرماتے ہیں تو‬ ‫کو فوری سزا دے دیتے ہیں اور جب ہللا‬ ‫اس کے گناہ کی سزا موخر کردیتے ہیں‪ ،‬یہاں تک کہ قیامت کے دن اس کو پوری سزا دیں گے۔‬ ‫نیز آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندے کو جتنا بڑا ابتالء پیش آئے‪ ،‬اتنی بڑی جزا‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی جب کسی قوم سے محبت فرماتے ہیں تو اسے‬ ‫اس کو ملتی ہے اور بے شک ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی سے‪ ...‬راضی‬ ‫‪...‬مصائب و آالم سے‪ ...‬آزماتے ہیں‪ ،‬پس جو شخص ‪...‬ہر حالت میں ا ہلل‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی کی رضا مندی ہے اور جو شخص ناراض ہوا اس کے لئے ناراضی‬ ‫رہا‪ ،‬اس کے لئے ہللا‬ ‫ہے۔“‬ ‫اس حدیث کی تشریح میں حضرت اقدس موالنا محمد یوسؾ لدھیانوی شہید‬

‫لکھتے ہیں‪:‬‬

‫ٰ‬ ‫تعالی کسی بندے کے ساتھ خیر کا‬ ‫” اس حدیث میں دو مضمون ارشاد ہوئے‪ ،‬ایک یہ کہ جب ہللا‬ ‫ارادہ فرماتے ہیں تو اس کی ؼلطیوں اور کوتاہیوں کی سزا دنیا ہی میں دے دیتے ہیں‪ ،‬اس کی‬ ‫سزا کو آخرت پر نہیں اٹھا رکھتے‪ ،‬بلکہ مختلؾ مصائب میں اس کو مبتال کرکے پاک و صاؾ‬ ‫کردیتے ہ یں۔ چنانچہ اگر اس کو کانٹابھی چبھتا ہے تو وہ بھی اس کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتا‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 14‬ہے‪ ،‬اور اگر لکھنے والے کے ہاتھ سے قلم گر جاتا ہے تو وہ بھی اس کے لئے کفارہ بن جاتا‬ ‫ہے۔ اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ کسی بندئہ مومن کو کوئی تکلیؾ اور صدمہ یا‬ ‫پریشانی پیش آ ئے اسے اپنے گناہوں کا خمیازہ سمجھنا چاہئے۔ دوسری یہ کہ بندئہ مومن کا‬ ‫مصائب و آالم میں مبتال ہونا اس کے مردود ہونے کی عالمت نہیں‪ ،‬بلکہ اس کے ساتھ حق‬ ‫ٰ‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی شانہ نے اس کے گناہوں کے کفارہ کا دنیا ہی میں‬ ‫تعالی شانہ کا لطؾ و انعام ہے کہ حق‬ ‫فرمادیا۔‬

‫انتظام‬

‫اس ک ے برعکس جس بندے کے ساتھ شر کا ارادہ فرماتے ہیں اسے گناہوں کے باوجود ڈھیل‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی کی نظر میں بہت معزز ہے‬ ‫اور مہلت دیتے ہیں‪ ،‬وہ احمق یہ سمجھتا ہے کہ وہ ہللا‬ ‫حاالنکہ اس کے ساتھ مکرو استدراج کا معاملہ ہورہا ہے کہ اس کی معصیتوں اور نافرمانیوں‬ ‫کے باوجود اسے ڈھیل دی جارہی ہے‪ ،‬اور قیامت کے دن جب بارگا ِہ خداوندی میں پیش ہوگا‪،‬‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی شانہ محض اپنے‬ ‫اسے اس کی بدعملیوں کا پورا پورا بدلہ چکا دیا جائے گا‪ ،‬اال یہ کہ حق‬ ‫فضل و احسان سے عفو و درگزر کا معاملہ فرمائے‪ ...‬بشرطیکہ وہ مسلمان ہو کیونکہ کفر و‬ ‫شرک‬

‫کی‬

‫معافی‬

‫نہیں‬

‫ہے‪...‬ناقل۔‬

‫ٰ‬ ‫تعالی شانہ کا لطؾ قہر کی شکل میں ہوتا‬ ‫اس حدیث پاک سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کبھی حق‬ ‫ہے اور کبھی قہر لطؾ کی شکل میں‪ ،‬اس نکتہ کو حضرات عارفین خوب سمجھتے ہیں‪ ،‬ور نہ‬ ‫عام لوگوں کی نظر اس پر نہیں جاتی۔“ (دنیا کی حقیقت ص‪ ،۱۹۸ ،۱۹۷:‬ج‪)۱:‬‬ ‫‪ …:۵‬دنیا کا اصول ہے کہ جس سے زیادہ تعلق خاطر ہو یا جس کو کسی الئق بنانا ہو‪ ،‬اس کو‬ ‫کڑی آزمائش و امتحان سے گزارا جاتا ہے‪ ،‬اور اس کی چھوٹی چھوٹی حرکت و سکون پر‬ ‫گرفت کی جاتی ہے‪ ،‬چنانچہ اسی موقع پر فرمایا گیا ہے کہ‪” :‬حسنات االبرار سیئات المقربین“‬ ‫‪...‬ابرار کی نیکیاں مقربین کی سیئات شمار ہوتی ہیں‪ ...‬یعنی مقربین کا مقام اتنا اونچا ہے کہ جو‬ ‫کام ابرار کریں اور وہ نیکی کہالئے‪ ،‬اگر وہی کام مقربین کریں تو ان کے درجہ کے اعتبار‬ ‫سے وہ بھی سیئہ اور گناہ شمار ہوتا ہے‪ ،‬گویا نیک و صالح مسلمان درجہ قرب ٰالہی پر فائز ہیں‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 15‬اور ان کو آخرت میں جن مراتب ِ عالیہ سے سرفراز کرنا ہے‪ ،‬دنیاوی تکالیؾ و مشکالت کی‬ ‫بھٹی‬

‫ڈال‬

‫میں‬

‫کر‬

‫ان‬

‫کو‬

‫بنانے‬

‫کندن‬

‫سعی‬

‫کی‬

‫جارہی‬

‫کی‬

‫ہے۔‬

‫ٰ‬ ‫تعالی سے قرب ہوگا اس کو اسی تناسب سے مصائب و بالیا اور شدائد و‬ ‫‪ …:۶‬جس کا جتنا ہللا‬ ‫محن‬

‫دوچار‬

‫سے‬

‫کیا‬

‫جائے‬

‫چنانچہ‬

‫گا‪،‬‬

‫شریؾ‬

‫حدیث‬

‫میں‬

‫ہے‪:‬‬

‫”عن مصعب بن سعد عن ابیہ قال قلت‪ ،‬یا رسول ہللا! ای الناس اشد بالءً؟ قال‪ :‬االنبیؤ ثم األمثل‬ ‫فیتبلی الرجل ٰ‬ ‫ٰ‬ ‫علی حسب دینہ فان کان فی دینہ صلبا ً اشتد بالئہ‪ ،‬وان کان فی دینہ رقة‬ ‫فاألمثل‪،‬‬ ‫ابتلی علی حسب دینہ‪ ،‬فما یبرح البالء بالعبد حتی یترکہ یمشی علی االرض وما علیہ خطیئة۔“‬ ‫(ترمذی‪،‬‬

‫ص‪)۶۲:‬‬

‫ج‪،۲:‬‬

‫ترجمہ‪ ” …:‬حضرت سعد بن ابی وقاص رضی ہللا عنہ سے روایت ہے‪ ،‬وہ فرماتے ہیں کہ میں‬ ‫نے عرض کیا‪ :‬یا رسول ہللا! سب سے زیادہ آزمائش کس کی ہوتی ہے؟ فرمایا‪ :‬انبیاء علیہم‬ ‫السالم کی‪ ،‬پھر جو ان سے قریب تر ہو‪ ،‬پھر جو ان سے قریب تر ہو‪ ،‬آدمی کو اس کے دین کے‬ ‫مطابق آزمایا جاتا ہے‪ ،‬پس اگر وہ اپنے دین میں پختہ ہو تو اس کی آزمائش بھی کڑی ہوتی ہے‪،‬‬ ‫اگر اس کے دین میں کمزوری ہو تو اسے اس کے دین کی بقدر آزمائش میں ڈاال جاتا ہے‪ ،‬پس‬ ‫آزمائش بندے کے ساتھ ہمیشہ رہتی ہے‪ ،‬یہاں تک کہ اس کو ایسا کرکے چھوڑتی ہے کہ وہ‬ ‫زمین‬

‫پر‬

‫ایسی‬

‫حالت‬

‫میں‬

‫چلتا‬

‫کہ‬

‫ہے‬

‫اس‬

‫پر‬

‫کوئی‬

‫گناہ‬

‫نہیں‬

‫رہتا۔“‬

‫اس لئے موجودہ کیا‪ ،‬ہمیشہ سے مصائب و مشکالت اور شدائد و محن ہللا کے مقربین کا طرئہ‬ ‫امتیاز‬

‫ہے۔‬

‫رہا‬

‫پیمانہ خلوص‪ ،‬اخالص‪ ،‬صبر‪ ،‬تحمل‪ ،‬تسلیم ‪ ،‬رضا‪،‬‬ ‫‪ …:۷‬بعض اوقات مقربین بارگا ِہ ٰالہی کے‬ ‫ی‬ ‫عزم‪ ،‬ہمت‪ ،‬دینی پختگی اور تصلّب کو ناپنے کے لئے ان پر امتحانات و آزمائشیں آتی ہیں‪،‬‬ ‫کہ‬

‫جیسا‬

‫ٰالہی‬

‫ارشا ِد‬

‫ہے‪:‬‬

‫الؾ‪” …:‬ولنبلونکم بشئی من الخوؾ والجوع ونقص من االموال واألنفس والثمرات‪ ،‬وبشر الصابرین‪ ،‬الذین‬ ‫اذا‬

‫اصابتہم‬

‫مصیبة‬

‫قالوا‬

‫اناہلل‬

‫وانا‬

‫الیہ‬

‫راجعون۔“‬

‫(البقرہ‪:‬‬

‫‪)۱۵۵‬‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 16‬ترجمہ‪”…:‬اور ہم تمہارا امتحان کریں گے کسی قدر خوؾ سے اور فاقہ سے اور مال اور جان‬ ‫اور پھلوں کی کمی سے ۔اور آپ ایسے صابرین کو بشارت سنادیجئے کہ ان پر جب کوئی‬ ‫ٰ‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی کے‬ ‫تعالی ہی کی ملک ہیں اور ہم سب ہللا‬ ‫مصیبت پڑتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو ہللا‬ ‫جانے‬

‫پاس‬

‫ہیں۔“‬

‫والے‬

‫ب‪” …:‬ا ٓل ٓم‪ ،‬احسب ال ّناس ان یترکوا ان یقولوا آم ّنا وہم الیفتنون‪ ،‬ولقد فت ّنا الّذین من قبلہم فلیعلمنّ ٰ ّ‬ ‫ہللا الّذین‬ ‫صدقوا‬

‫الکٰذبین۔“‬

‫ولیعلمنّ‬

‫‪)۱،۲،۳‬‬

‫(عنکبوت‪:‬‬

‫ترجمہ‪ ” …:‬کیا یہ سمجھتے ہیں لوگ‪ ،‬کہ چھوٹ جائیں گے اتنا کہہ کر کہ ہم یقین الئے اور ان‬ ‫کو جانچ نہ لیں گے‪ ،‬اور ہم نے جانچا ہے ان کو جو ان سے پہلے تھے‪ ،‬سو البتہ معلوم کرے گا‬ ‫ہللا‬

‫لوگ‬

‫جو‬

‫سچے‬

‫اور‬

‫ہیں‬

‫البتہ‬

‫معلوم‬

‫کرے‬

‫گا‬

‫جھوٹوں‬

‫کو۔“‬

‫ج‪” …:‬عن خباب بن االرت قال‪ :‬شکونا الی ال ّنبی صلّی ٰ ّ‬ ‫ہللا علیہ وسلم وہو متوسّد برد ًة لہ فی ظ ّل الکعبة‬ ‫فقلنا‪ :‬اال تستنصرلنا‪ ،‬اال تدعو ٰ ّ‬ ‫ہللا لنا؟ قال کان الرّ جل فی من قبلکم یحفرلہ فی االرض فیجعل فیہا فیجاء‬ ‫بالمنشار فیوضع ٰ‬ ‫علی رأسہ فیشق باثنین وما یصدّہ عن دینہ‪ ،‬ویمشط بامشاط الحدید مادون لحمہ من عظم او‬ ‫عصب‬

‫وما‬

‫یصدہ‬

‫ذلک‬

‫عن‬

‫ترجمہ‪” …:‬حضرت خباب بن االرت‬

‫دینہ‪...‬۔“‬

‫(صحیح‬

‫بخاری‪،‬‬

‫ص‪،۵۱۲:‬‬

‫ج‪)۱:‬‬

‫سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم بیت ہللا‬

‫کے سائے میں اپنی چادر سے ٹیک لگاکر تشریؾ فرما تھے‪ ،‬کہ ہم نے آپ سے‪ ...‬کفار کے‬ ‫مظالم کی شکایت کرتے ہوئے‪ ...‬عرض کیا‪ ،‬یا رسول ہللا! آپ ہمارے لئے ہللا سے مدد اور دعا‬ ‫کیوں نہیں مانگتے؟‪ ...‬آپ یہ سن کر ایک دم سیدھے ہوکر بیٹھ گئے‪ ...‬اور فرمایا‪ :‬تم سے پہلے‬ ‫لوگوں میں سے ایک شخص کے لئے گڑھا کھودا جاتا‪ ،‬اسے اس میں کھڑا کیا جاتا اور اس کے‬ ‫سر پر آری چالکر اسے چیر کر دو ٹکڑے کردیا جاتا‪ ،‬مگر یہ سب کچھ اس کو اس کے دین‬ ‫سے نہ ہٹاسکا‪ ،‬اسی طرح کسی کے جسم پر لوہے کی کنگھی چالکر اس کا گوشت اور پٹھے‬ ‫اس کی ہڈیوں سے اُدھیڑ دیئے جاتے‪ ،‬مگر یہ سب کچھ اس کو اس کے دین سے نہیں ہٹاسکتا۔“‬ ‫گویا ان حضرات کو اپنے دین و مذہب کی خاطر اس قدر اذیتیں دی گئیں اور انہوں نے اس پر‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 17‬صبر و برداشت کیا تو تمہیں بھی ان معمولی تکالیؾ پر حوصلہ نہیں ہارنا چاہئے بلکہ صبر و‬ ‫برداشت سے ک ام لینا چاہئے اور ہللا کی نصرت و مدد پر نگاہ رکھنی چاہئے جلد یا بدیر ہللا کی‬ ‫آکر‬

‫مدد‬

‫گی۔‬

‫رہے‬

‫ٰ‬ ‫تعالی دنیا میں اپنے مقربین کو تکالیؾ و مصائب سے دوچار کرکے دراصل ان کی‬ ‫‪ …:۸‬ہللا‬ ‫اعمال حسنہ کا پورا پورا بدلہ اور جزا دنیا کے بجائے آخرت میں دینا چاہتے ہیں‪،‬‬ ‫نیکیوں اور‬ ‫ِ‬ ‫کہ‬

‫جیسا‬

‫شریؾ‬

‫حدیث‬

‫ہے‪:‬‬

‫میں‬

‫” یود اہل العافیة یوم القیامة حین یعطی اہل البالء الثواب لو ان جلودہم کانت قرضت فی الدنیا بالمقاریض۔“‬ ‫(ترمذی‬

‫ج‪)۲:‬‬

‫ص‪۶۳:‬‬

‫ترجمہ‪” …:‬قیامت کے دن جب اہل ِ مصائب کو بدلہ عطا کیا جائے گا تو اہل عافیت‪...‬جو ان‬ ‫مصیبتوں سے محفوظ رہے‪...‬یہ آرزو کریں گے کہ کاش! دنیا میں ان کے چمڑے قینچیوں سے‬ ‫کاٹ‬

‫جاتے۔“‬

‫دیئے‬

‫ٰ‬ ‫تعالی اپنے بندوں کی مدد اور نصرت پر قادر ہے‪ ،‬وہ چاہے تو کسی عام‬ ‫‪ …:۹‬بالشبہ ہللا‬ ‫مظلوم کی مدد کے لئے آسمان سے فرشتے نازل کرسکتا ہے اور نہ چاہے تو بنی اسرائیل‬ ‫جام شہادت نوش‬ ‫جیسی ناہنجار قوم کے ہاتھوں اپنے مقرب و مقدس انبیاء علیہم السالم کو ِ‬ ‫اہل حق نہ دل چھوٹا کرتے ہیں اور نہ مایوس و بزدل‬ ‫کرادے‪ ،‬مگر بایں ہمہ خدا پرست اور ِ‬ ‫ہوتے‬

‫ہیں؟‬

‫جیسا‬

‫کہ‬

‫قرآن‬

‫کریم‬

‫میں‬

‫ہے‪:‬‬

‫‪.‬‬

‫الؾ‪” …:‬ویقتلون النبیین بؽیر الحق“ (البقرہ‪... )۶۱:‬اور وہ بنی اسرائیل‪ ...‬خون کرتے تھے‬ ‫پیؽمبروں‬

‫ناحق‪...‬‬

‫کا‬

‫ب‪” …:‬ویقتلون االنبیاء بؽیر حق‪ ،‬ذالک بما عصوا وکانوا یعتدون“ (آل عمران‪ ...)۱۱۲:‬اور قتل کرتے‬ ‫رہے ہیں پیؽمبروں کا ناحق‪ ،‬یہ اس واسطے کہ نافرمانی کی انہوں نے اور حد سے نکل گئے‪...‬‬ ‫ہللا وما ضعفوا وما استکانوا ٰ ّ‬ ‫ج‪” …:‬وکؤیّن من ّنبی ٰقتل معہ ربیّون کثیر فما وہنوا لما اصابہم فی سبیل ٰ ّ‬ ‫وہللا‬ ‫یحبُّ‬

‫الصّابرین۔“‬

‫(آل‬

‫عمران‪:‬‬

‫‪)۱۴۶‬‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 18‬ترجمہ‪ ” …:‬اور بہت نبی ہیں جن کے ساتھ ہوکر لڑتے ہیں بہت خداکے طالب‪ ،‬پھر نہ ہارے ہیں‬ ‫کچھ تکلیؾ پہنچنے سے‪ ،‬ہللا کی راہ میں اور نہ سست ہوئے ہیں اور نہ دب گئے ہیں اور ہللا‬ ‫کرتا‬

‫محبت‬

‫ثابت‬

‫ہے‬

‫رہنے‬

‫قدم‬

‫سے۔‬

‫والوں‬

‫“‬

‫ٰ‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی حضرات‬ ‫تعالی کی مدد فوراً آجائے‪ ،‬بلکہ بعض اوقات ہللا‬ ‫‪ …:۱۲‬ضروری نہیں کہ ہللا‬ ‫انبیاء کرام علیہم السالم کی مدد و نصرت میں بھی اتنی تاخیر فرماسکتے ہیں کہ وہ مایوسی کے‬ ‫قریب‬

‫جیسا‬

‫ہوجائیں‪،‬‬

‫کہ‬

‫کریم‬

‫قرآن‬

‫ہے‪:‬‬

‫میں‬

‫الؾ‪” …:‬حتی اذا استیئس الرسل وظنوا انہم قد کذبوا جاء ہم نصرنا فنجی من نشاء وال یرد بؤسنا عن القوم‬ ‫(یوسؾ‪)۱۱۲:‬‬

‫المجرمین۔“‬

‫ترجمہ‪ ” …:‬یہاں تک کہ پیؽمبر‪...‬اس بات سے‪...‬مایوس ہوگئے اور ان پیؽمبروں کو گمان ؼالب‬ ‫ہوگیا کہ ہمارے فہم نے ؼلطی کی‪ ،‬ان کو ہماری مدد پہنچی‪ ،‬پھر‪...‬اس عذاب سے‪...‬ہم نے جس‬ ‫کو‬

‫چاہا‬

‫وہ‬

‫بچالیا‬

‫گیا‬

‫اور‬

‫ہمارا‬

‫عذاب‬

‫مجرم‬

‫لوگوں‬

‫سے‬

‫نہیں‬

‫ہٹتا۔“‬

‫ب‪” …:‬ام حسبتم ان تدخلوا الج ّنة ولمّا یؤتکم مثل الّذین خلوا من قبلکم مسّتہم البؤساء والضّرّ اء وزلزلوا حتی‬ ‫ّٰ‬ ‫ٰ‬ ‫نصرہللا قریب۔“ (البقرہ‪)۲۱۴ :‬‬ ‫متی نصر ہللا‪ ،‬اال ان‬ ‫یقول الرسول والذین آمنوا معہ‬

‫ترجمہ‪ ” …:‬کیا تم کو یہ خیال ہے کہ جنت چلے جاإگے حاالنکہ تم پر نہیں گزرے حاالت ان‬ ‫لوگوں جیسے جو ہوچکے تم سے پہلے کہ پہنچی ان کو سختی اور تکلیؾ اور جھڑ جھڑائے‬ ‫گئے‪ ،‬یہاں تک کہ کہنے لگا رسول اور جو اس کے ساتھ ایمان الئے کب آوے گی ہللا کی مدد؟‬ ‫سن‬

‫رکھو‬

‫ہللا‬

‫کی‬

‫مدد‬

‫قریب‬

‫ہے۔“‬

‫اس سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ کفار و مشرکین کے مقابلہ میں نیک و صالح مسلمانوں‬ ‫کے لئے فوراً نصرت ٰالہی کا آنا کوئی ضروری نہیں‪ ،‬اس کے عالوہ مدد و نصرت ٰالہی میں‬ ‫تاخیر کا ہوجانا جہاں کفار و مشرکین اور ان کے موقؾ کی صداقت کی دلیل نہیں‪ ،‬وہاں نیک‬ ‫صالح اور متقین و مومنین کے بارگا ِہ ٰالہی میں مبؽوض و مقہور ہونے کی عالمت بھی نہیں‪،‬‬ ‫دور حاضر کے نیک و صالح مومنین و متقین‪ ،‬اپنی جگہ کتنا ہی مقرب بارگاہ ٰالہی کیوں‬ ‫کیونکہ ِ‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 19‬نہ ہوں‪ ،‬بہرحال وہ حضرات انبیاء کرام علیہم السالم کے مرتبہ و مقام کو نہیں پہنچ سکتے‪ٰ ،‬لہذا‬ ‫دور حاضر‬ ‫اگر حضرات انبیاء کرام علیہم السالم کی مدد و نصرت میں تاخیر ہوسکتی ہے تو ِ‬ ‫کے نیک صالح مومنین و مجاہدین کی مدد میں تاخیر کیوں نہیں ہوسکتی؟‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی موجودہ صورت حال میں جہاں اہل ِ‬ ‫‪ …:۱۱‬اس سب سے ہٹ کر سچی بات یہ ہے کہ ہللا‬ ‫ایمان کو مصائب و آالم سے دوچار کرکے ان کے درجات بلند کرنا چاہتے ہیں‪ ،‬وہاں ان بدباطن‬ ‫کفار و مشرکین اور نام نہاد مسلمانوں پر اتمام حجت کرنا چاہتے ہیں‪ ،‬تاکہ کل قیامت کے دن وہ‬ ‫ت حال کا اندازہ نہیں ہوسکا تھا۔‬ ‫یہ نہ کہہ سکیں کہ ہمیں ؼوروفکر کی مہلت اور صحیح صور ِ‬ ‫الؽرض موجودہ صورت حال سے جہاں نیک صالح لوگوں اور مقربین بارگا ِہ ٰالہی کے درجات‬ ‫بلند ہورہے ہیں‪ ،‬وہاں ان بدباطنوں کو ڈھیل دی جارہی ہے‪ ،‬چنانچہ ارشاد ٰالہی ہے‪” :‬واملی لہم ان‬

‫کیدی متین“ (القلم‪ ... )۴۵:‬اور میں ان کو ڈھیل دیتا ہوں مگر میری تدبیر ؼالب ہے‪ ،‬اسی‬ ‫طرح‪” :‬وانتظروا انا منتظرون“ (ھود‪...)۱۲۲:‬تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی انتظار کررہے ہیں‪...‬‬ ‫مرنے کے بعد معلوم ہوگا کہ کون فائدہ میں تھا اور کون نقصان میں؟؟‬ ‫فسوؾ‬

‫ٰ‬ ‫تری‬

‫اذا‬

‫انکشؾ‬

‫الؽبار‬

‫اتحت رجلک فرس ام حمار‬

‫ن‬ ‫ٹی„ وی„ ویڈیو اور سی ڈیز وؼیرہ میں دکھائی دینے والی شکلوں پر ممنوع اورحرام تصویر‬ ‫کے احکام کے اجراء یا استثناء کے لئے ان تصاویر کی حقیقت وماہیت پر فنی تحقیقات سے‬ ‫اہل فن کا کام ہے„ ہمیں ان شکلوں کا شرعی حکم معلوم کرنے کے لئے ظاہری‬ ‫بحث کرنا تو ِ‬ ‫صورتحال اور گرد وپیش کے واقعاتی پہلوإں کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ -۱ 20‬دیگر پہلوإں سے قطع نظرباطل اس وقت ملکی اور عالمی سطح پر ”میڈیا“ کو مإثر ہتھیار‬ ‫کے طور پر استعمال کررہا ہے اور اس ہتھیار کو آگ وبارود سے زیادہ مإثر سمجھا جارہا ہی„‬ ‫ایسے حاالت میں ہم ان ذرائع سے دور رہ کر „ ان کے میڈیا وار سے اپنا دفاع کیسے کرسکتے‬ ‫ہیں؟! اسالم کے متعلق شکوک وشبہات „ بے بنیاد الزامات اور پروپیگنڈوں کا دفعیہ کس طرح‬ ‫ہوسکتا ہے؟ یہ پہلو بھی ؼور طلب ہے „ بلکہ ایسی حقیقت واقعی ہے جس سے انکار مشکل‬ ‫ہے۔‬ ‫‪ -۲‬جہاں تک ٹی„ وی „ ویڈیو اور سی ڈیز وؼیرہ کی تصاویر کا تعلق ہے‪ ،‬اس حوالہ سے‬ ‫تصویر کی لؽوی واصطالحی تعریفات کے پیچوں میں وقت صرؾ کرنے کی بجائے تصویر‬ ‫کے مرحلہ وار مختلؾ ارتقائی ادوار کو سامنے رکھا جائے اور تصویر کے مقاصد اوراہداؾ‬ ‫پر ؼور کیا جائے تو امید ہے مسئلہ بآسانی سمجھ آجائے گا„ زیادہ الجھاإ اور پیچیدگی نہیں‬ ‫گی۔‬

‫رہے‬

‫ہم سب جانتے ہیں کہ تصویر سازی کی ابتدائی صورت مٹی„ پتھر یا جمادات وؼیرہ کے‬ ‫مجسمے ہیں جو آثار قدیمہ اور ثقافت کے نام پر اب بھی ہرجگہ موجود ہیں ‪،‬پھر ہاتھ سے رنگ‬ ‫وروؼن سے بھر پور تصویر سازی کا ایک طریقہ بھی متعارؾ ہوا اور اب بھی ”فن مصوری “‬ ‫معروؾ ہے„ اس سے آگے پھر کیمرے وؼیرہ کا دور آیا جسے بحث وتمحیص کے بعد پرانی‬ ‫تصویر سازی اور مجسمہ سازی کی ترقی پذیر صورت تسلیم کرلیا گیا اور کیمرے سے محفوظ‬ ‫ہونے والی صورت پر” تصویر محرّ م“ کا حکم لگایا گیا„ حاالنکہ مٹی وجمادات سے بننے والی‬ ‫تصویر اور کاؼذی تصویر میں بہت واضح فرق ہے„ اب تصویر کشی کا یہ مقصد برقی لہروں‬ ‫کی وساطت سے حاصل ہورہا ہے اور محفوظ ہورہا ہے„ جسے ہم ویڈیو اور سی ڈیز وؼیرہ کی‬ ‫مددسے‬

‫ب‬ ‫حس ِ‬

‫منشاء‬

‫دیکھ‬

‫سکتے‬

‫ہیں۔‬

‫مجسمہ سازی سے لے کر سی„ ڈیز کی تصاویر تک„ ہر دور میں تصویر کا مقصد ُمصوّ ر کے‬ ‫نقش ونگار اور شکل وشبہات کی شناخت وحکایت ہے„ ویڈیو اور سی„ ڈیز وؼیرہ کی تصاویر‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫بدرجہ اتم پورا کر رہی ہیں اور ان تصاویر میں عدم استقرار کا شبہ بھی نہیں‬ ‫‪ 21‬اس مقصد کو‬ ‫ی‬ ‫ہوسکتا„ کیونکہ ویڈیو کیسٹ کا فیتہ یا سی ڈیز کی لہریں ان تصاویر کا مستقر ہیں„ ہاں یہ ہے کہ‬ ‫یہ استقرار مجسموں اور کاؼذی تصاویر کے استقرار سے زیادہ لطیؾ وباریک ہے جسے ہم‬ ‫سائنس وٹیکنالوجی کی ترقی سے تعبیر کر سکتے ہیں„ مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ ویڈیو یا سی‬ ‫ڈیز کی تصاویر چونکہ مجسموں اور کاؼذی تصاویر سے مختلؾ ہیں„ لہذا یہ تصاویر محرمہ‬ ‫سے‬

‫ہیں„‬

‫خارج‬

‫بات‬

‫یہ‬

‫قابل ِ‬

‫فہم‬

‫نہیں۔‬

‫اس پر مستزاد یہ کہ استقرار کی شرط تصویر کے لئے محض اکابر کا اجتہاد ہے‪ ،‬کوئی‬ ‫منصوص ومنقول نہیں ہے„ جس کے نتیجہ میں یہ کہا جاسکے کہ استقرار کی شرط نہ ہونے‬ ‫کی صورت میں ُمصوَّ ر کی حکایت کرنے والی شکلوں کو تصویر کے حکم سے خارج مانا‬ ‫جائے‬

‫گا„‬

‫قطعا ً‬

‫ایسا‬

‫نہیں۔‬

‫البتہ ”تصویر“ کو فی نفسہ ناجائز مانتے ہوئے بعض ضروری مواقع کا استثناء بہرحال ممکن‬ ‫ہے اور ضرورت پر عمل کے قواعد پر ؼور سے ضرورت کے احکام بیان ہوسکتے ہیں۔‬ ‫بعض حضرات کے بقول دینی مقاصد کے لئے ذرائع ابالغ کا مطلق استعمال جائز ہے„ ان‬ ‫حضرات کی فکر کی اساس یہ ہے کہ باطل نے ذرائع ابالغ کو اس طرح اپنے قبضہ میں لے‬ ‫رکھا ہے کہ وہ اپن ی ہرگمراہ کن بات کو چند لمحوں میں پوری دنیا تک پہنچا سکتا ہے اور‬ ‫پہنچا رہا ہے اور اس دور میں احوال وافکار کو رخ دینے میں میڈیا سے مإثر کردار کسی اور‬ ‫ذریعہ کا ہرگز نہیں„ اس مکتب فکر کی اس منطق پر تبصرہ کئے بؽیر دوسری رائے ذکر‬ ‫کرتے ہیں جس رائے کے حامل امت کے وہ علماء کرام ہیں جن کے تصلب فی الدین کی وجہ‬ ‫سے امت مسلمہ انہیں اپنا مقتدی اور پیشوا مانتی ہے„ ان حضرات کی رائے کی بنیاد یہ ہے کہ‬ ‫اس حد تک تو تمام اہل علم متفق ہیں کہ موجودہ میڈیائی وسائل کا جائز استعمال کم اور ناجائز‬ ‫استعمال زیادہ ہے۔ دین ودنیا کے اصول کے مطابق ان کے استعمال کو جواز کا کلی سرٹیفکٹ‬ ‫نہیں دیا جاسکتا„ جب یہ حقیقت مسلم ہے تو اس بات میں کسی کو شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم دین‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 22‬کی نشر واشاعت اور تبلیػ وتعلیم کے لئے ناجائز ذرائع کے استعمال کے قطعا ً مکلؾ نہیں ہیں„‬ ‫بلکہ اس سے بڑھ کر یہ صراحتیں جابجا موجود ہیں کہ ازالہ ی منکر کے لئے منکر کو استعمال‬ ‫کرنا ناجائز ہے„ مثالً اگر کسی کے بدن یا کپڑے پر ناپاک چیز لگ جائے تو اسے پاک کرنے‬ ‫کے لئے ہرمائع چیز کا استعمال کافی نہیں ہوتا„ بلکہ صرؾ وہ مائع ضروری ہوتا ہے جو خود‬ ‫بھی پاک ہو اور اس میں نجاست ․․․ناپاکی․․․ کو دور کرنے کی صالحیت بھی ہو„ مثال کے‬ ‫طور پر اگر کوئی شخص نجاست کے ازالہ کے لئے پیشاب استعمال کرے تو جسم والی نجاست‬ ‫مٹ بھی جائے‪ ،‬تب بھی پاک ی کا مقصد حاصل نہیں ہوسکتا ‪،‬کیونکہ ناپاک چیز کے استعمال کی‬ ‫بناء پر پہلے سے موجود ناپاکی میں کمی تو نہیں آئی „ بلکہ اضافہ ہوا ہے‪ ،‬لیکن اگر اسی‬ ‫مقصد کے لئے پانی استعمال کیا جائے تو بالشبہ پاکی کا مقصد حاصل ہوجائے گا۔ بعینہ سمجھنا‬ ‫چاہئے کہ ہم منہیات اور منکرات کے میناروں پر چڑھ کر دفاع دین اور تبلیػ دین کے بلند‬ ‫وبانگ‬

‫دعوے‬

‫طرح‬

‫کس‬

‫کررہے‬

‫ہیں؟‬

‫پس دفاع دین اور تبلیػ دین کے حوالہ سے آسان اور سیدھا راستہ وہی ہے جس پر چلتے ہوئے‬ ‫ہمارے اسالؾ نے ہمیں دین پہنچایا اور ہم مسلمان ہیں ‪،‬یہ زمانی حقیقت ہے کہ اگر دنیا دجالی‬ ‫شر وفساد سے بھرنے جائے گی تو اسالمی امن وسالمتی اور خیر وعافیت کا دور بھی ضرور‬ ‫پلٹ کر آئے گا‪ ،‬ہمیں ہراقدام سے پہلے انجام کے بارے میں بھی فکر مند ہونا چاہئے۔‬ ‫اشاعت ‪ ۲۲۲۸‬ماہنامہ بینات ‪ ,‬ربیع الثانی ‪۱۴۲۹‬ھ‪ ,‬جلد ‪ ,17‬شمارہ ‪4‬‬ ‫‪‬‬

‫پچھال مضمون‪ :‬ایک بے سند” حدیث قدسی“ کی تحقیق‬

‫ت‬ ‫اسالم اور اسالمی نظام ِ حیات„ ایک پاک وصاؾ معاشرے کی تعمیر اور انسانی اخالق وعادات‬ ‫کی تہذیب کرتا ہے۔ اسالم نے جہالت کے رسم ورواج اور اخالق وعادات کو جو ہرقسم کے فتنہ‬ ‫وفساد سے لبریز تھے„ یکسر بدل کر ایک مہذب معاشرے اور تہذیب کی داغ بیل ڈالی„ جس‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 23‬سے عام انسان کی زندگی میں امن „ چین اور سکون ہی سکون درآیا۔ اسالم اپنے ماننے والوں‬ ‫کی تہذیب اور پُرامن معاشرے کے قیام کے لئے جو پہلی تدبیر اختیار کرتا ہے„ وہ ہے‪ :‬انسانی‬ ‫جذبات کو ہرقسم کے ہیجان سے بچانا„ وہ مرد اور عورت کے اندر پائے جانے والے فطری‬ ‫میالنات کو اپنی جگہ باقی رکھتے ہوئے انہیں فطری انداز کے مطابق محفوظ اور تعمیری انداز‬ ‫دیتاہے„ قرآن حکیم میں سورہ نور میں بڑی وضاحت سے ایک ایک بات کو کھول کھول کر‬ ‫بیان کردیا گیا ہے„ ہرعمل کی تہذیب کردی گئی ہے„ اس سورہ کی آیت نمبر‪ ۳۱ :‬میں ارشاد‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی‬

‫باری‬

‫ہے‪:‬‬

‫للمومنات یؽضضن من ابصارھن ویحفظن فروجھن والیبدین زینتھن االماظھر منھاولیضربن بخمرھن‬ ‫”وقل ی‬ ‫ٰ‬ ‫علی‬

‫جیوبھن‬

‫زینتھن۔“‬

‫والیبدین‬

‫ترجمہ۔” اور مسلمان عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں‬ ‫کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں„ مگر جو اس میں سے کھال رہتا ہے اور‬ ‫اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ ہونے دیں“۔‬ ‫سورہ‬

‫‪۹۵:‬میں‬

‫احزاب‬

‫ہے‪:‬‬

‫ارشاد‬

‫فالیوذین‬ ‫المومنین یدنین علیھن من جالبیبھن ‪،‬ذلک ادنی ان یعرفن‬ ‫ی‬ ‫”یاایھا النبی قل الزواجک وبناتک ونساء ی‬ ‫‪،‬وکان‬

‫ؼفوراَ َ​َرحیما َ َ​َ“‬

‫ہللا‬

‫ترجمہ‪:‬۔”اے نبی! ا اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے‬ ‫اوپر چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں„ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے„ تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ‬ ‫ستائی‬

‫جائیں„‬

‫ٰ‬ ‫تعالی‬

‫ہللا‬

‫ؼفور‬

‫ورحیم‬

‫ہے“۔‬

‫انسانی تاریخ شاہد ہے کہ ہر زمانے میں عورتوں میں زیب وزینت „ بناإ سنگھار اور بننا سنورنا‬ ‫رائج رہا ہے„ یہ اس کی فطرت اور جبلت بھی کہی جاسکتی ہے„ ہرعورت کی یہ فطری خواہش‬ ‫ہوتی‬

‫ہے‬

‫کہ‬

‫وہ‬

‫بہت‬

‫خوبصورت‬

‫نظر‬

‫آئے۔‬

‫ہرزمانے میں بناإ سنگھار کے معیار بدلتے رہتے ہیں„ لیکن زینت کا داعیہ چونکہ فطرت میں‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 24‬موجود ہوتا ہے„اس لئے عورت اپنے آپ کو خوبصورت سے خوبصورت بنانے کے تمام جتن‬ ‫اور حربے استعمال کرتی ہے„ اسالم عورت کی اس فطرت پر کسی قسم کی پابندی نہیں لگاتا „‬ ‫بلکہ اس کی اس خواہش اور فطرت کو تسلیم کرتا ہے„ ہاں اس کی تنظیم وتہذیب کرتے ہوئے‬ ‫ضابطہ بندی ضرور کرتا ہے۔ اسالم یہ چاہتا ہے کہ عورت کا تمام ترحسن وجمال„ اس کی تمام‬ ‫زیب وزینت اور آرائش وسنگھار میں اس کے ساتھ صرؾ اس کا شوہر شریک ہو„ کوئی دوسرا‬ ‫شریک نہ ہو„ عورت اپنی آرائش اور جمال صرؾ اپنے مرد کے لئے کرے۔‬ ‫اگر دیکھا جائے تو عورت درحقیقت تمام تر سنگھار وآرائش مرد کو اپنی طرؾ متوجہ کرنے‬ ‫اور اس کی خصوصی توجہ کے حصول کے لئے ہی کرتی ہے„ اسالم ایسا دین ہے جو انسان‬ ‫کی زندگی کے ایک ایک لمحے کی تہذیب کرتا ہے„ ان کے لئے پاکیزہ طریقہ وضع کرتا ہے„‬ ‫تاکہ کوئی مسلمان اور اہل ایمان کسی طریقے سے کسی برائی میں مبتال نہ ہو اور ان کے‬ ‫میالنات جائز طریقوں تک محدود رہیں„ ہللا ہی ہے جو تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا حکم‬ ‫دیتا ہے„ جس سے انسانی فطرت کی نفسیاتی تعلیم وتربیت ہوتی ہے۔ عورت کے حسن وجمال‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی نے اس کے شوہر کی دل بستگی اور توجہ کے لئے محدود‬ ‫کو اس کی زیب وزینت کو ہللا‬ ‫کردیا ہے„ تاکہ وہ اپنی ساری توجہ اپنی بیوی کی طرؾ مرکوز رکھے اور اس کی عورت‬ ‫ؼیروں‬

‫کی‬

‫ہوس‬

‫ناک‬

‫سے‬

‫نظروں‬

‫محفوظ‬

‫ومامون‬

‫رہے۔‬

‫ٰ‬ ‫تعالی نے شوہر اور بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے۔ یہ ان کی قربت اور ہم‬ ‫ہللا‬ ‫نفسی کی عالمت ہے„ اسالم جب پردے کی تاکید کرتا ہے تو اس سے مراد ایک نہایت پاک‬ ‫وصاؾ‬

‫سوسائٹی‬

‫کا‬

‫قیام‬

‫ہے۔‬

‫اگر ہم اپنے چاروں اطراؾ نظر ڈالیں تو بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ احکام ٰالہی سے‬ ‫اعراض اور روگردانی کے کیسے کیسے بھیانک اور عبرت ناک مناظر سامنے آرہے ہیں۔‬ ‫مؽربی دنیا خصوصا ً یورپ اور امریکی معاشرے میں جہاں کسی قسم کے پردے اور حجاب کا‬ ‫گزر نہیں„ جہاں ہرطرؾ لطؾ اندوزی„ ہیجان خیزی „ شہوت پرستی اور گوشت پوست کی لذت‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 25‬اندوزی کا سامان ہورہا ہے „ ایسے ایسے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں جن سے ہر وقت جنسی‬ ‫ہیجان پیدا کیا جارہا ہے„ جس کے نتیجے میں جنسی پیاس بڑھتی جارہی ہے جو کسی طرح‬ ‫بجھتی ہی نہیں„ انسان کی خوابیدہ حیوانیت کو جگادیا گیا ہے اور انسان بے قید شہوت رانی کا‬ ‫شکار ہوگیا ہے„ اس کے اعصاب اور نفسیات کے اندر ہیجان خیز امراض پیدا ہورہے ہیں۔‬ ‫مرد اور عورت میں ایک دوسرے کے لئے کشش ایک فطری امر ہے اور یہ انسان میں تخلیقی‬ ‫ب خالفت کی ذمہ داریوں‬ ‫طور پر ودیعت کی گئی ہے„ کیونکہ انسان کو اس زمین پر اپنے منص ِ‬ ‫کو پورا کرنا ہے„ اس زندگی کا بڑا اور اہم حصہ زمین پر زندگی کے تسلسل کو قائم رکھنا ہے„‬ ‫اس لئے یہ کشش دائمی ہے۔ یہ کشش ہی انسان کو ایک دوسرے کے قریب التی ہے„ عورت‬ ‫اور مرد کے مالپ سے ایک خاندان ایک گھر انہ وجود پاتا ہے اور دونوں ایک دوسرے کے‬ ‫ذریعہ فطری تسکین پاتے ہیں اور افزائش نسل کے ذریعے ایک خاندان کی تشکیل کا ذریعہ‬ ‫بنتے ہیں اور اگر کہیں دونوں فریقوں کے درمیان نا آسودگی رہے„ اپنے فطری تقاضوں کی‬ ‫تسکین نہ کر سکیں تو پھر بے چینی اور بے قراری جنم لیتی ہے جو اعصاب پر اثر انداز ہوتی‬ ‫ہے‬

‫اور‬

‫انسان‬

‫کو‬

‫برائی‬

‫کی‬

‫طرؾ‬

‫ابھارتی‬

‫ہے۔‬

‫امریکہ اور یورپ کا معاشرہ ہمارے سامنے ہے„ جہاں ہر طرؾ ہرقسم کی جنسی آزادی عام‬ ‫ہے„ مرد عورتوں سے مطمئن نہیں„ عورتیں مردوں سے نا آسودہ ہیں„ جنسی تسکین وآسودگی‬ ‫کے لئے تمام ؼیر فطری طریقے استعمال کرنے کے باوجود نا آسودگی سے دو چار ہیں„ مرد‬ ‫مردوں سے„ عورت عورتوں سے اور حیوانات تک سے اختالط ومالپ کے باوجود ایک ہیبت‬ ‫ناک نا آسودگی کا شکار ہیں۔ وہاں کھلے عام ہرقسم کی بے پردگی„ فحاشی„ عریانی اور تمام‬ ‫ؼیر فطری طریقوں کے باوجود جوبے چینی اور بے کلی„ عام پائی جاتی ہے„ اسالم اپنے‬ ‫ماننے‬

‫والوں کو ان‬

‫تمام خرابیوں سے‬

‫بچاتا ہے‬

‫اور‬

‫بچائے رکھتا ہے۔‬

‫ایسے تمام ممالک جہاں ہرقسم کا جسمانی مالپ عریانی اور جنسی بے راہ روی عام ہے„ ہرقسم‬ ‫کی قید وبند سے وہ آزادہیں„ان کے نزدیک تمام ممکن شکلیں جائز ہیں„ لیکن اس کے باوجود ان‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 26‬کی جنسی پیاس جن ون کی حد تک بڑھ گئی ہے اوران کی تسکین کا نام ونشان تک مٹ گیا ہے„‬ ‫جس کے باعث وہاں جنسی اور نفسیاتی بیماریوں کا ایک طوفان امڈ آیا ہے„ ایسے تمام مسائل‬ ‫سے وہ معاشرے دوچار ہیں جو جنسی محرومی„ نا آسودگی سے پیدا ہوتے ہیں„ اس کے باوجود‬ ‫وہاں جنسی تعلقات اور مالپ مویشیوں اورحیوانات کی طرح راستوں پر عام دیکھا جاسکتا ہے„‬ ‫جب کہ اسالم جو انسان کے ہرجذبے کی نا صرؾ تطہیر کرتا ہے„ بلکہ انہیں پاک صاؾ کرتا‬ ‫ہے„ انہیں تہذیب وشائستگی سے ہم کنار کرتا ہے اور اپنے ماننے والوں کو ایک آسودہ اور پُر‬ ‫سکون زندگی بسر کرنے میں بھی مدد فراہم کرتا ہے۔عورتوں کا بے پردہ ہونا„ بے حجاب ہونا „‬ ‫فیشن کو اپنانا„ بن سنور کر ؼیرمردوں کے سامنے آنا„ انہیں دعوت نظارہ دینا„ بے پردگی اور‬ ‫بے حجابی کے نام پر شعائر اسالمی کو پامال کرنا„ یہ سب اسالمی نہیں „ مؽربی اور ؼیر‬ ‫اسالمی معاشرت اور روایات ہیں جن کے بھیانک نتائج ہمارے سامنے ہیں۔‬ ‫اسالم نے اسالمی معاشرے کا ذوق ہی بدل دیا ہے„ لوگوں کے جمالی احساسات کو بدل دیا ہے„‬ ‫اسالم کے ماننے والوں کے لئے حسن وجمال کی تمام حیوانی ادائیں مطلوب ومستحسن نہیں‬ ‫رہیں„ بلکہ اسالم حسن وجمال کا ایک مہذب رنگ ڈھنگ اور معیار قائم کرتا ہے„ جس میں‬ ‫ہرطرح کی عریانی سے بچاجاتا ہے اور سنجیدگی„ وقار اور پاکیزہ جمال کا ذوق پیدا کرتا ہے‬ ‫جو انسان کے اور ایک اہل ایمان کے الئق ہوتا ہے۔اسالم ایک سچی مومنہ عورت کی تربیت‬ ‫اس انداز سے کرتاہے کہ وہ نا صرؾ اپنے حسن وجمال کا درست طریقے سے استعمال‬ ‫کرسکے اور اپنی تمام معاشی„ معاشرتی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ اپنی فطری جبلی ضرورتوں‬ ‫اور‬

‫تقاضوں‬

‫کو‬

‫بھی‬

‫فطرت‬

‫کے‬

‫عین‬

‫مطابق‬

‫پورا‬

‫کرسکے۔‬

‫آج دور جدید کی بظاہر ترقی یافتہ خواتین دو مردوں کے شانہ بشانہ ہم قدم ہوکر چلنا پسند کرتی‬ ‫ہیں اور بے حجابی وبے پردگی کی علمبردار ہیں۔ اگر وہ اپنی دیانتداری سے خود اپنا جائزہ لیں‬ ‫اور اپنی نگاہ میں ایک دقیانوسی با پردہ„ باشرع خاتون کا جائزہ لیں تو انہیں بخوبی اندازہ ہو‬ ‫جائے گا کہ معاشرے میں مردوں کے شانہ بشانہ چلنے میں انہیں کیسی کیسی ٹھوکریں کھانا‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 27‬پڑتی ہیں„ کیسی کیسی مشکالت سے دو چار ہونا پڑتا ہے اور دن بھر کی بک بک„ جھک‬ ‫جھک کے بعد رات اپنے شوہر کی قربت میں بسر کرتی ہیں تو کیا وہ دونوں جسمانی وروحانی‬ ‫طور پر جنسی ونفسانی طور پر اس قدر آسودہ ومطمئن ہوپاتے ہیں جس قدرایک پردہ نشین‬ ‫وخانہ دار خاتون اپنے خلوص سے آسودگی اور طمانینت حاصل کرتی ہے؟ اس کی یہ آسودگی„‬ ‫یہ طمانینت واطمینان اسالمی شعائر پر عمل پیراہونے کے باعث ہوتی ہے„ وہ اپنے گھر تک‬ ‫محدود ہوکر ہللا اور اس کے رسول ا کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل پیرا ہوکر خود کو اپنے‬ ‫گھر تک محفوظ ومامون رکھ کر اپنے گھر„ اپنے بچوں کی تہذیب وتربیت کرکے جس آرام‬ ‫وسکون کو حاصل کرلیتی ہے„ وہ کبھی بھی کسی بھی طرح ایک بے پردہ„ بے حجاب خاتون‬ ‫جو‬

‫پھرتی‬

‫دربدر‬

‫حاصل‬

‫ہے„‬

‫نہیں‬

‫کرسکتی۔‬

‫پردے کے اسالمی احکام کا مقصد ومطلب ہی یہ ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو بے راہ‬ ‫وروی„ فحاشی„ بے حیائی اور شہوانی فتنہ انگیزی سے بچائے اور وہ خفیہ شہوانی جذبات نہ‬ ‫بھڑ‬

‫کنے‬

‫پائیں‬

‫جو‬

‫عورت‬

‫کے‬

‫بے‬

‫پردہ‬

‫ہونے سے‬

‫بھڑک‬

‫سکتے‬

‫ہیں۔‬

‫ٰ‬ ‫تعالی توفیق دے توہرمرد اور عورت کو سورت نورکاترجمہ اور تفسیر سیکھنا چاہئے‬ ‫اگر ہللا‬ ‫اشاعت ‪ ۲۲۲۸‬ماہنامہ بینات ‪ ,‬ربیع الثانی ‪۱۴۲۹‬ھ‪ ,‬جلد ‪ ,17‬شمارہ ‪4‬‬


Turn static files into dynamic content formats.

Create a flipbook
Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.