MERITEHREER786@GMAIL.COM
چست کپڑے اور واٹرپروؾ میک اپ کا حکم
1
چست
کیا
کپڑے
فرماتے
اور
ہیں
علماء
واٹر
کرام
پروؾ
ومفتیان
میک
عظام
اپ
اس
کا
مسئلہ
حکم!
میں
:
․․․․:۱عورتوں کے لئے چست کپڑے پہننا اس طور پر کہ ان کے اعضاء واضح طور پر جھلکنے لگیں„ یہ کیسا ہے؟ اسی طرح جو درزی یہ کپڑے بناتے ہیں ان کی کمائی حالل ہے یا نہیں؟ ․․․․:۲عورتوں کا واٹر پروؾ میک اپ کروانا„ جن میں حرام اشیاء کا استعمال ہوتا ہے„ آیا یہ جائز ہے نہیں؟ مستفتی:عبد
الرشید
نارتھ
کراچی
الجواب بعون الوہاب
ٰ تعالی نے لباس کو انسانی جسم چھپانے کے ساتھ ساتھ زینت کا ذریعہ بھی واضح رہے کہ ہللا بنایاہے„ لہذا اگرایسا لباس ہو جس سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوتا تو پھر شرعا ً ایسا لباس پہننا نہ عورتوں کے لئے جائز ہے اور نہ ہی مردوں کے لئے جائز ہے۔ لہذا عورتوں کے لئے ایسا چست یا باریک لباس جس کو پہننے سے ان کا جسم نظر آئے یا اعضاء کی ساخت اور بناوٹ واضح ہو رہی ہو„ ایسا لباس„ شریعت کے مزاج اور لباس کے مقصد کے خالؾ ہونے کی بناء پر ناجائز اور حرام ہے۔ایسا لباس پہننے والی عورتوں کے بارے میں سخت وعیدیں آئی ہیں۔ حدیث شریؾ میں ہے:
MERITEHREER786@GMAIL.COM 2
ٰ (مشکوة): ”رب کاسیات عاریات مائالت ممیالت الیدخلن الجنة والیجدن ریحہا“۔
ترجمہ”․․․․:بہت سی لباس پہننے والی عورتیں ننگی کے حکم میں ہیں جو خود مائل ہوتی ہیں „ دوسروں کو مائل کرتی ہیں„ ایسی عورتیں نہ جنت میں داخل ہوں گی اور نہ ہی اس کی بو گی“۔
پائیں ٰ فتاوی شامی میں ہے: ”قولہ :ونساء کاسیات عاریات„ قال النووی
(قیل معناہ :کاسیات من نعمة ہللا„ عاریات من شکرہا وقیل معناہ:
تستر بعض بدنہا وتکشؾ بعضہ اظہارا بجمالہا ونحوہ :وقیل معناہ :تلبس ثوبا رقیقا یصؾ لون بدنہا)“۔ (مسلم دار الفکر کتاب اللباس والزینة ص )۶۵۹:قولہ ”:ممیالت مائالت“ قال النووی :اما مائالت فقیل معناہ :من طاعة ہللا وما یلزمہن حفظہ„ ممیالت :ای یعلمن ؼیرہن فعلہن المذموم“ اھ (فتح الملہم )۲۲۲/۴
پس جو درزی عورتوں یا مردوں کے لئے ایسے کپڑے سیتے ہوں جوچست اور اتنے تنگ ہوں کہ پہننے والے کے جسم کی بناوٹ ظاہر ہوتی ہو تو ایسے کپڑے سینا چونکہ جائز نہیں„ اس ٰ ہوگی۔فتاوی شامی میں ہے: لئے ایسے درزی حضرات وخواتین کی کمائی مکروہ ”فاذا ثبت کراہة لبسہا للتختم„ ثبت کراہة بیعہا وصیؽہا لما فیہ من االعانة علی ماال یجوز„ وکل ما ادی الی ماالیجوز„ الیجوز“ ( ۳۶۲/۶فصل فی اللبس کتاب الخطر واالباحة ط:سعید)
․․․:۲عورتوں کا واٹرپروؾ میک اپ کرانا اگر اس میں کوئی حرام اور نجس اشیاء شامل نہ ہوں تو جائز ہے لیکن ایسے میک اپ کے بعد وضو اور ؼسل کرنے کے لئے اس کو دور کرنااور ہٹانا ضروری ہے„ ورنہ وضو اور ؼسل نہ ہوگا۔ اسی طرح ایسا میک اپ جس میں خنزیر یا کسی بھی ناپاک چیز کے اجزاء شامل ہوں اس کا استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ ٰ فتاوی عالمگیری میں ہے: ”وقال
ابو
حنیفة
والینتفع
الجواب
صحیح
محمد
عبد
من
الخنزیر الجواب المجید
بجلدہ
والؼیرہ صحیح دین
․․․․“
()۳۵۴/۵ کتبہ پوری
MERITEHREER786@GMAIL.COM 3
محمد
عارؾ
شفیق
سید سہیل علی
ب الحمدہلل
ٰ علی
وسالم
عبادہ
اصطفی
الذین
!
گزشتہ دنوں روزنامہ جنگ کراچی کے توسط سے جناب ندیم احمد کراچی کا ایک مختصر مگر چبھتا ہوا سال موصول ہوا کہ” :آج کل پوری دنیا میں مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے اور یہ ظلم ٰ تعالی کی مدد کیوں نہیں آتی؟“ کرنے والے ؼیر مسلم ہیں تو مسلمانوں پر ہللا بالشبہ یہ سوال آج کل تقریبا ً ہر دین دار مسلمان کی زبان پر ہے اور اس کے دل و دماغ کو پریشان کئے ہوئے ہے اور اسے سمجھ نہیں آتا کہ اگر مسلمان حق پر ہیں اور یقینا حق پر ہیں، ٰ نصاری اور کفار و تو ان کی مدد کیوں نہیں کی جاتی اور ان کے اعداء و مخالفین یہود و ٰ تعالی کا جوش انتقام حرکت میں کیوں نہیں آتا؟ مشرکین ،جو یقینا باطل پر ہیں ،کے خالؾ ہللا ٰ نصاری کو مسلمانوں اور ان کو تہس نہس کیوں نہیں کردیا جاتا؟ یا کفار و مشرکین اور یہود و پر فوقیت و برتری کیونکر حاصل ہے؟ اور ان کو اس قدر ڈھیل کیوں دی جارہی ہے؟ اس کے برعکس
مسلمانوں
کو
روزبروز
ذلت
و
ادبار
کا
سامنا
کیونکر
ہے؟
اس سوال کے جواب میں راقم الحروؾ نے جو کچھ لکھا ،مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسے قارئین بینات
کی
خدمت
میں
پیش
کردیا
جائے،
مالحظہ
ہو:
برادر عزیز! آپ کا سوال معقول اور بجا ہے ،کیونکہ اس وقت دنیا بھر میں مسلمانوں پر جس قدر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور مسلمان جس قدر ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں، شاید ہی کسی دوسری قوم پر کبھی ایسا وقت آیا ہو؟اس سب کے باوجود مسلمانوں کے حق میں
MERITEHREER786@GMAIL.COM 4ہللا کی مدد کا نہ آنا،واقعی قابل تشویش ہے،اور آپ کی طر ح ہر مسلمان اس تشویش میں مبتال ہے۔ ٰلہذا آپ کے سوال کے جواب کے سلسلہ میں چند باتیں عرض کرنا چاہوں گا ،اگر آپ نے ان کو ذہن نشین کرلیا تو امید ہے کہ انشؤہللا آپ کو مسلمانوں کے حق میں ہللا کی مدد نہ آنے کے و
اسباب
سمجھ
وجوہ
گے۔
آجائیں
ٰ تعالی کی مدد سے کیوں محروم دراصل یہاں دو امور ہیں ،ایک یہ کہ تمام مسلمان عموما ً ہللا ٰ تعالی کے دین کے ہیں؟ دوسرے یہ کہ خاص طور پر وہ نیک صالح مسلمان ،جو واقعی ہللا محافظ ہیں ،ان پر مصائب و بالیا کے پہاڑ کیوں توڑے جارہے ہیں ؟ ان کے حق میں ہللا کی مدد آنے میں تاخیر کیوں ہورہی ہے؟ اور ان کے دشمنوں کو اس قدر ڈھیل کیوں دی جارہی ہے؟ اول :سب سے پہلے یہ کہ تمام مسلمان ہللا کی مدد سے کیوں محروم ہیں؟ اس سلسلہ میں عرض ہے: …:۱اس وقت مسلمان من حیث القوم مجموعی اعتبار سے تقریبا ً بدعملی کا شکار ہوچکے ہیں۔ شوق شہادت کا فقدان ہے ،بلکہ مسلمان بھی ...اال ذوق عبادت اور …:۲اس وقت مسلمانوں میں ِ ِ ماشاء
ہللا...
کفار
و
مشرکین
کی
طرح
موت
ڈرنے
سے
لگے
ہیں۔
…:۳اس وقت تقریبا ً مسلمانوں کو دین ،مذہب ،ایمان ،عقیدہ سے زیادہ اپنی ،اپنی اوالد اور اپنے خاندان
کی
راحت
دنیاوی
و
آرام
کی
فکر
ہے۔
…:۴آج کل مسلمان...اال ماشاء ہللا...موت ،مابعد الموت ،قبر ،حشر ،آخرت ،جہنم اور جنت کی فکر و احساس سے بے نیاز ہوچکے ہیں اور انہوں نے کافر اقوام کی طرح اپنی کامیابی و ناکامی کا مدار دنیا اور دنیاوی اسباب و ذرائع کو بنالیا ہے ،اس لئے تقریبا َ ََ سب ہی اس کے حصول
و
تحصیل
کے
لئے
دیوانہ
وار
دوڑ
رہے
ہیں۔
ٰ تعالی کی ذات پر اعتماد ،بھروسہ اور توکل …:۵اس وقت ...اال ماشاء ہللا ...مسلمانوں کا ہللا
MERITEHREER786@GMAIL.COM 5نہیں رہا ،اس لئے وہ دنیا اور دنیاوی اسباب و وسائل کو سب کچھ باور کرنے لگے ہیں۔ …:۶جب سے مسلمانوں کا ہللا کی ذات سے رشتہ عبدیت کمزور ہوا ہے ،انہوں نے عبادات و اعمال کے عالوہ قریب قریب سب ہی کچھ چھوڑ دیا ہے ،حتی کہ بارگاہ ٰالہی میں رونا ،بلبالنا اور
دعائیں
بھی
مانگنا
دیا
چھوڑ
ہے۔
…:۷جس طرح کفر و شرک کے معاشرہ اور بے خدا قوموں میں بدکرداری ،بدکاری ،چوری، ڈکیتی ،شراب نوشی ،حرام کاری ،حرام خوری ،جبر ،تشدد ،ظلم اور ستم کا دور دورہ ہے، ٹھیک اسی طرح نام نہاد مسلمان بھی ان برائیوں کی دلدل میں سرتاپا ؼرق ہیں۔ …:۸معدودے چند ،ہللا کے جو بندے ،اس ؼالظت کدہ میں نور کی کرن اور امید کی روشنی ثابت ہوسکتے تھے ،ان پر ہللا کی زمین تنگ کردی گئی ،چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ جو مسلمان قرآن و سنت ،دین و مذہب کی پاسداری اور اسوئہ نبوت کی راہ نمائی میں زندگی گزارنا چاہتے تھے ،انہیں تشدد پسند ،دہشت گرد ،رجعت پسنداورملک و ملت کے دشمن وؼیرہ کہہ کر ٹھکانے
گیا۔
لگادیا
…:۹نام نہاد مسلمانوں نے کافر اقوام کے پروپیگنڈہ سے متاثر ہوکر اور ان کی ترجمانی کا فریضہ انجام دے کر دین و مذہب سے وابستگی رکھنے والے مخلصین کے خالؾ ایسا طوفان بدتمیزی برپا کیا اور ان کو اس قدر مطعون و بدنام کیا کہ کوئی سیدھا سادا مسلمان ،اسالم اور اسالمی
کو
شعائر
اپناتے
ہوئے
گھبراتا
بھی
ہے۔
…:۱۲اسالم دشمن میڈیا ،اخبارات ،رسائل و جرائد میں اسالم اور مسلمانوں کو اس قدر خطرناک ،نقصان دہ ،ملک و ملت دشمن اور امن مخالؾ باور کرایا گیا کہ اب خود مسلمان معاشرہ
ان
کو
اپنانے
اور
گلے
لگانے
پر
آمادہ
نہیں۔
…:۱۱مادیت پسندی نے نام نہاد مسلمان کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ اب اس کو حالل و حرام کی تمیز تک نہیں رہی ،چنانچہ ....اال ماشاء ہللا ....اب کوئی مسلمان حالل و حرام کی تمیز کرتا ہو ،اس لئے مسلم معاشرہ میں بھی ،سود ،جوا ،رشوت ،الٹری ،انعامی اسکیموں کا دور دورہ
MERITEHREER786@GMAIL.COM 6ہے۔ ٰ تعالی کا ان کے خالؾ اعالن جنگ ہے۔ …:۱۲جو لوگ سود خوری کے مرتکب ہوں ،ہللا ٰ تعالی سے حالت جنگ میں ہیں ،اور جن لوگوں سے ظاہر ہے جو مسلمان سود خور ہیں ،وہ ہللا اعالن ِ
جنگ
ہو،
کیا
ان
کی
مدد
کی
جائے
گی؟
…:۱۳جو معاشرہ عموما ً چوری ڈکیتی ،مار دھاڑ ،اؼوا برائے تاوان ،جوئے ،الٹری ،انعامی اسکیموں اور رشوت پر پل رہا ہو ،اور جہاں ظلم و تشدد عروج پر ہو ،جہاں کسی ؼریب کی عزت و ناموس اور مال و دولت محفوظ نہ ہو ،وہاں ہللا کی رحمت نازل ہوگی یا ہللا کا ؼضب؟ پھر یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ کفر کے ساتھ حکومت چل سکتی ہے ،مگر ظلم کے ساتھ نہیں چل سکتی ،اس لئے کہ ہللا کی مدد مظلوم کے ساتھ ہوتی ہے۔ چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو اور ظالم چاہے مسلمان ہی کیوں نہ ہو ،ہللا کی مدد سے محروم ہوتا ہے۔ …:۱۴جس قوم اور معاشرہ کی ؼذا ،لباس ،گوشت ،پوست حرام مال کی پیداوار ہوں ،ان کی دعائیں
قبول
”عن ابی ھریرة
نہیں
ہوتیں،جیساکہ
حدیث
شریؾ
میں
ہے:
امرالمومنین بماامربہ المرسلین قال :قال رسول اللہا:ان ہللا طیب ال یقبل اال طیبا َ ََ،وان ہللا ی
ٰ تعالی” :یا ایھا الذین آمنوا کلوا من طیبات فقال” :یاایھا الرسل کلوا من الطیبات واعملوا صالحا“ وقال مارزقناکم“ ثم ذکرالرجل یطیل السفر اشعث اؼبر یمد یدیہ ٰ الی السماء یارب،یارب ،ومطعمہ حرام،ومشربہ ٰ ٰ (مشکوة،ص)۲۴۱: فانی یستجاب لذالک،رواہ مسلم۔“ حرام ،وملبسہ حرام ،وؼذی بالحرام
ترجمہ”....:حضرت ابو ہریرہ رضی ہللا عنہ آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم سے نقل فرماتے ہیں ٰ ٰ تعالی نے تعالی پاک ،پاکیزہ ہیں اور پاک ،پاکیزہ ہی قبول فرماتے ہیں ،اور بے شک ہللا کہ ہللا ٰ تعالی کا ارشاد ہے” :اے مومنوں کو بھی وہی حکم دیا ہے جو رسولوں کو حکم دیا تھا ،پس ہللا رسولوں کی جماعت پاکیزہ چیزوں میں سے کھاإ اور اعمال صالحہ کرو“ اسی طرح مومنوں سے فرمایا ” :اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاإ جو ہم نے تمہیں دی ہیں“ پھر آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے ایک آدمی کا ذکر فرمایا جو طویل سفر کی وجہ سے ؼبار آلود اور
MERITEHREER786@GMAIL.COM 7پراگندہ بال ہے اور دونوں ہاتھ آسمان کی طرؾ پھیالکر کہتا ہے :اے رب! ،اے رب! حاالنکہ اس کا کھانا حرام کا ،پینا حرام کا ،لباس حرام کا اور اس کی ؼذا حرام کی ہے ،تو اس کی دعا کیونکر
ہوگی؟“
قبول
مقبوالن ٰالہی ،جو مخلوق خدا کی اس مجبوری اور مقہوری پر کڑھتے ہیں ، …:۱۵بایں ہمہ وہ ِ روتے ہیں ،بلبالتے ہیں اور مسلمانوں کے لئے بارگا ِہ ٰالہی میں دعائیں کرنا چاہتے ہیں ،ان کو بارگاہ ٰالہی سے یہ کہہ کر روک دیا جاتا ہے کہ اپنی ذات کے لئے اور اپنی ضرورت کے لئے دعا کرو ،میں قبول کروں گا لیکن عام لوگوں کے حق میں تمہاری دعا قبول نہیں کروں گا۔ ارشاد
چنانچہ ”عن انس بن مالک
ہے:
نبوی
یدعوالمومن للجماعة فالیستجاب لہ ،یقول اراہ مرفوعا َ ََ قال:یؤ تی علی الناس زمان ی
ہللا:ادعنی لنفسک ولمایحزبک من خاصة امرک فاجیبک ،واماالجماعة فال!انھم اؼضبونی۔ وفی روایة:فانی ؼضبان۔“
علیھم
الرقائق
(کتاب
ص)۱۵۵،۳۸۴:
ترجمہ”....:حضرت انس رضی ہللا عنہ آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا :لوگوں پر ایک ایسا دور آئے گا کہ مومن ،مسلمانوں کی ٰ تعالی فرمائیں گے ،تو اپنی جماعت کے لئے دعا کرے گا ،مگر قبول نہیں کی جائے گی ،ہللا ذات کے لئے اور اپنی پیش آمدہ ضروریات کے لئے دعا کر ،میں قبول کروں گا ،لیکن عام لوگوں کے حق میں قبول نہیں کروں گا ،اس لئے کہ انہوں نے مجھے ناراض کرلیا ہے اور ایک
روایت
میں
ہے
کہ
میں
ان
سے
ناراض
ہوں۔“
…:۱۶پھر یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ آسمان سے اچھے یا بُرے فیصلے اکثریت کے عمل اور بدعملی کے تناظر میں نازل ہوتے ہیں ،اس لئے باآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسلم معاشرہ کی اکثریت کے اعمال و افعال اور سیرت و کردار کا کیا حال ہے؟ کیا ایسا معاشرہ جہاں دین ،دینی اقدار کا مذاق اڑایا جاتا ہو ،جہاں قرآن و سنت کا انکار کیا جاتا ہو، جہاں اس میں تحریؾ کی جاتی ہو ،جہاں ان کو من مانے مطالب ،مفاہیم اور معانی پہنائے
MERITEHREER786@GMAIL.COM 8جاتے ہوں ،جہاں حدود ہللا کا انکار کیا جاتا ہو ،جہاں سود کو حالل اور شراب کو پاک کہا جاتا ہو ،جہاں زنا کاری و بدکاری کو تحفظ ہو ،جہاں ظلم و تشدد کا دور دورہ ہو ،جہاں مسلمان کہالنا دہشت گردی کی عالمت ہو ،جہاں بے قصور معصوموں کو کافر اقوام کے حوالہ کیا جاتا ہو ،جہاں بدکار و مجرم معزز اور معصوم ذلیل ہوں ،جہاں توہین رسالت کو ٹھنڈے پیٹوں باؼیان نبوت کو اقتدار کی چھتری مہیا ہو ،جہاں محافظین دین و برداشت کیا جاتا ہو ،جہاں ِ شریعت کو پابند سالسل کیا جاتا ہو ،جہاں کلمہ حق کہنے والوں کو گولیوں سے چھلنی کیا جاتا ٰ نصاری کی خوشنودی کے لئے ہو ،جہاں کافر اقوام کی کاسہ لیسی کی جاتی ہو ،جہاں یہود و مس لم ممالک پر اسالم دشمنوں کی چڑھائی کو سند جواز مہیا کی جاتی ہو ،جہاں دینی مدارس و مساجد پر چڑھائی کی جاتی ہو ،ان پر بمباری کی جاتی ہو ،ہزاروں معصوموں کو خاک و خون میں تڑ پایا جاتا ہو ،ان پر فاسفورس بم گراکر ان کا نام و نشان مٹایا جاتا ہو ،جہاں مسلمان طالبا ت اور پردہ نشین خواتین کو درندگی کا نشانہ بنایا جاتا ہو ،ان کی الشوں کی بے حرمتی کی جاتی ہو ،ان کے جسم کے چیتھڑے اڑائے جاتے ہوں ،ان کو دفن کرنے کے بجائے ان کی الشوں کو جالیا جاتا ہو ،جہاں تاتاری اور نازی مظالم کی داستانیں دہرائی جاتی ہوں ،جہاں دین دار طبقہ اور علماء و صلحاء پر زمین تنگ کی جاتی ہو ،جہاں اؼیار کی خوشنودی کے لئے اپنے شہریوں کے خالؾ آپریشن کلین اپ کئے جاتے ہوں ،جہاں ہزاروں ،الکھوں مسلمانوں کو اپنے گھروں سے نقل مکانی پر مجبور کیا جاتا ہو ،جہاں دین و شریعت کا نام لینا جرم اور عریانی فحاشی ،پتنگ ب ازی اور میراتھن ریس کی سرپرستی کی جاتی ہو ،جہاں عریانی و فحاشی کو روشن خیالی و اعتدال پسندی کا نام دیا جاتا ہو ،جہاں دینی مدارس بند اور قحبہ خانے ب اقتدار ۲۲/۲۲الکھ روپے نان شبینہ کے محتاج ہوں اور اربا ِ کھولے جاتے ہوں ،جہاں عوام ِ ایک رات ہوٹل کے قیام کا کرایہ ادا کرتے ہوں ،جہاں اپنے اقتدار اور حکومت کے تحفظ کے لئے دین و مذہب اور شرم و حیاء کی تمام حدود کو پھالنگا جاتا ہو ،وہاں ہللا کی رحمت نازل ہوگی؟
یا
ہللا
کا
عذاب
و
عقاب؟؟؟
MERITEHREER786@GMAIL.COM 9بالشبہ آج کا دور دجالی فتنے اور نئے نئے نظریات کا دور ہے ،زمانہ بوڑھا ہوچکا ،ہم جنس پرستی کو قانونی جواز حاصل ہوچکا ،ناچ گانے کی محفلیں عام ہوچکیں ،دیکھا جائے تو یہ قرب قیامت کا وقت ہے ،اس وقت مسلمانوں سے ہللا کی حفاظت و مدد اٹھ چکی ہے ،مسلمانوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں ،سچی بات یہ ہے کہ یہ ہللا کی ناراضگی ،ظاہر داری ،چاپلوسی، انانیت ،خود پسندی اور امت کے زوال کا وقت ہے ،فتنہ و فساد عروج پر ہیں ،خیر سے محروم ٰ نصاری کی نقالی لوگوں کی کثرت ہے اور خدا کی لعنت و ؼضب کا وقت ہے ،اور یہود و کامیابی کی معراج شمار ہونے لگی ہے۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایسے لوگوں اور ٰ تعالی کے ہاں کیا قدر و قیمت ہوسکتی ہے؟ چنانچہ ایسے ہی دور کے لوگوں معاشرہ کی ہللا کے
میں
بارہ
”عن مرداس االسلمی الیبالیھم
ہللا
شریؾ
حدیث
ہے
میں
:
کہ
ٰ ،وتبقی حفالة کحفالة الشعیر اوالتمر قال النبی ا:یذھب الصالحون االول فاالول بالة۔“(صحیح
کتاب
بخاری
الرقائق،
ص،۹۵۲:
ج)۲:
ترجمہ” ...:حضرت مرداس اسلمی رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا :نیک لوگ یکے بعد دیگرے رخصت ہوتے جائیں گے ،جیسے چھٹائی کے بعد ٰ تعالی ان کی ردی جو یا کھجوریں باقی رہ جاتی ہیں ،ایسے ناکارہ لوگ رہ جائیں گے کہ ہللا کوئی
نہیں
پرواہ
گا۔“
کرے
ٰ تعالی کی مدد کا …:۱۷اس کے عالوہ یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ :مسلمانوں کے لئے ہللا وعدہ ضرور ہے لیکن ساتھ ہی ہللا کی مدد آنے کے لئے یہ شرط بھی ہے کہ: ”یاایھاالذین
آمنوا
ان
ینصرکم
تنصرواہللا
ویثبت
اقدامکم“
(محمد)۷:
ٰ تعالی تمہاری مدد کریں گے ،اور تمہارے ترجمہ”....:اگر تم ہللا کے دین کی مدد کروگے تو ہللا قدموں
کو
ثابت
کریں
گے۔“
ٰ ٰ تعالی نے بھی تعالی کے دین کی مدد چھوڑ دی ہے ،ہللا ٰلہذا جب سے مسلمانوں نے ہللا مسلمانوں سے اپنی رحمت و عنایت اور مدد کا ہاتھ اٹھالیا ہے ،چنانچہ آج ہر طرؾ مسلمانوں پر
MERITEHREER786@GMAIL.COM 10کافر اس طرح ٹوٹ رہے ہیں جس طرح دسترخوان پر چنے ہوئے کھانے پر لوگ ٹوٹتے ہیں۔ چنانچہ
حدیث
”عن ثوبان
شریؾ
ہے:
میں
کماتداعی اآلکلة ٰ ٰ ٰ الی قصعتھا ،فقال تداعی علیکم قال:قال رسول اللہا :یوشک االمم ان
قائل:ومن قلة نحن یومئذٍ؟ قال:بل انتم یومئ ٍذ کثیر! ولکنکم ؼثاء کؽثاء السیل ،ولینزعن ہللا من صدورعدوکم المھابة منکم ،ولیقذفن ہللا فی قلوبکم الوھن!فقال قائل:یارسول ہللا!وماالوھن؟قال:حب الدنیاوکراھیة ص)۵۹:
الموت!“(ابوداإد
ترجمہ ”....:حضرت ثوبان رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :وہ وقت قریب آتا ہے ،جب تمام کافر قومیں تمہارے مٹانے کے لئے....مل کر سازشیں کریں گی....اور ایک دوسرے کو اس طرح بالئیں گی جیسے دسترخوان پر کھانا کھانے والے ....لذیذ....کھانے کی طرؾ ایک دوسرے کو بالتے ہیں ،کسی نے عرض کیا :یا رسول ہللا! کیا ہماری قلت تعداد کی وجہ سے ہمارا یہ حال ہوگا؟ فرمایا :نہیں! بلکہ تم اس وقت ٰ تعالی تمہارے تعداد میں بہت ہوگے ،البتہ تم سیالب کی جھاگ کی طرح ناکارہ ہوگے ،یقینا ہللا دشمنوں کے دل سے تمہارا رعب اور دبدبہ نکال دیں گے ،اور تمہارے دلوں میں بزدلی ڈال دیں گے ،کسی نے عرض کیا :یا رسول ہللا! بزدلی سے کیا مراد ہے؟ فرمایا :دنیا کی محبت اور موت
نفرت۔“
سے
بتالیا جائے جس معاشرہ کا یہ حال ہو ،اور جن مسلمانوں کے اعمال و اخالق کا یہ منظر نامہ ہو،
وہاں
ہللا
مدد
کی
آئے
گی
یا
ہللا
کا
عذاب؟
دوم :رہی یہ بات کہ کفار و مشرکین اور اؼیار کے مظالم کا شکار صرؾ اور صرؾ دین دار مسلمان
ہی
کیوں
ہیں؟
ب اقتدار نے ہللا کو ناراض کر رکھا ہے تو ان کی سزا ان نہتے اگر بدکردار مسلمانوں اور اربا ِ ٰ تعالی کی مدد کیوں نہیں آتی؟ چاہئے معصوموں کو کیوں دی جاتی ہے؟ اور ان کے حق میں ہللا تو یہ تھا کہ جرم و سزا کے فلسفہ کے تحت سزا بھی ان ہی لوگوں کو دی جاتی ،جنہوں نے ہللا
MERITEHREER786@GMAIL.COM 11کو ناراض کررکھا ہے ،مگر اس کے برعکس ہو یہ رہا ہے کہ نیک صالح مسلمان ،اور دین و مذہب کے متوالے ،کفار کے مظالم کی تلوار سے ذبح ہورہے ہیں ،ان کو بے نام کیا جارہا ہے، ان کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جارہا ہے ،ان کی جان و مال اور عزت و ناموس برباد کی جارہی ہے ،ان پر ہللا کی زمین تنگ کی جارہی ہے ،اپنے اور پرائے سب ہی ان کے دشمن اور ان کی جان کے پیاسے ہیں ،کوئی بھی ان کے لئے کلمہ خیر کہنے کا روادار نہیں ہے ،بلکہ ان پر ہر طرؾ سے آگ و آہن کی بارش اور بارود کی یلؽار ہے ،آخر ایسا کیوں ہے؟؟ ّٰ نصرہللا قریب“ ...بے شک ہللا کی مدد قریب ہے ...کا وعدہ کب اسی طرح ارشاد ٰالہی ”:اال ان پورا اس
ہوگا؟ سلسلہ
میں
بھی
چند
معروضات
پیش
کرنا
چاہوں
گا:
…:۱دنیا باخدا مسلمانوں کے لئے قید خانہ اور کفار و مشرکین کے لئے جنت ہے ،چنانچہ حدیث
میں
شریؾ
ہے:
”عن ابی ہریرة رضی ہللا عنہ قال ،قال رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم” :الدنیا سجن المإمن وجنة الکافر“ (ترمذی
ص۵۶:
ج)۲:
ترجمہ” …:حضرت ابوہریرہ رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے اور کافر کے لئے جنت ہے۔“ یعنی دنیا میں عموما ً کافر کی نسبت ،ایک مومن کو آفات و مصائب کا سامنا زیادہ کرنا پڑتا ہے، جس کا معنی یہ ہے کہ کافر کی دنیاوی کروفر اور راحت و آرام اور مومن کی تکلیؾ و تعذیب کو دیکھ کر پریشان نہیں ہونا چاہئے ،بلکہ مومن کی دنیا کی تکلیؾ و تعذیب اور مصائب و آالم کا ،اس کی جنت کے ساتھ اور کافر کی ظاہری کروفر ،خوش عیشی اور راحت و آرام کا اس کی جہنم کے ساتھ مقابلہ کیا جائے تو سمجھ آجائے گا کہ جس طرح کافر کی دنیاوی راحت و آسائش کی ،اس کی جہنم کی سزا کے مقابلہ میں کچھ حیثیت نہیں ،اسی طرح مسلمان کی دنیا کی عارضی تکالیؾ و مشکالت اس کی جنت اور آخرت کی راحت و آرام کے مقابلہ میں کچھ
MERITEHREER786@GMAIL.COM 12حیثیت
رکھتیں۔
نہیں
…:۲دنیا دارالعمل اور آخرت دارالجزا ہے اور ظاہر ہے جو شخص عملی میدان میں جتنا محنت و مشقت اور جہد و مجاہدہ برداشت کرے گا ،بعد میں اسی تناسب سے اسے راحت و آرام میدان عمل میں جتنا کوتاہی کرے گا ،بعد میں اسی تناسب سے میسر آئے گا اور جو شخص ِ اُسے ذلت و رسوائی اور فضیحت و شرمندگی کا سامنا کرنا ہوگا ،ٹھیک اسی طرح مقربین بارگا ِہ خداوندی کو بھی آخرت کی کھیتی یعنی دنیا میں جہد مسلسل اور محنت و مشقت کا سامنا ہے ،مگر عاقبت و انجام کے اعتبار سے جلد یا بدیر راحت و آرام ان کا مقدر ہوگا ،دوسری طرؾ کافر اگرچہ یہاں ہر طرح کی راحت و آرام سے سرفراز ہیں ،مگر مرنے کے ساتھ ہی عذاب جہنم کی شکل میں ان کی راحت و آرام اور ظلم و عدوان کا ثمرہ ان کے سامنے آجائے گا۔ …:۳کسی مسلمان کی تخلیق کا مقصد دنیا اور اس کی راحتوں کا حصول نہیں ،بلکہ مسلمان کو جنت اور جنت کی الزوال و ابدی نعمتوں کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور جنت کا حصول کچھ آسان نہیں ،بلکہ جنت کے سامنے یا اردگرد مشکالت و مصائب کی باڑھ لگائی گئی ہے اور دوزخ کے اردگرد خواہشات کی باڑھ کی گئی ہے ،جیسا کہ حدیث شریؾ میں ہے: ”عن انس رضی ہللا عنہ ان رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم قال :حفت الجنة بالمکارہ وحفت النار بالشہوات۔“ ص۸۲:ج)۲:
(ترمذی
ترجمہ” …:حضرت انس رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا :جنت کے گرد ناگواریوں اورمشقتوں کی باڑھ کی گئی ہے ،اور دوزخ کے گرد خواہشات کی
باڑھ
کی
گئی
ہے۔“
اس لئے کسی نیک صالح مسلمان کا دنیا میں مشکالت و مصائب اور مکروہات سے دوچار ہونا حصول جنت میں کامیابی کی نشانی ہے ،اور کفار و مشرکین اور معاندین کے لئے دراصل ِ ب نار و سقر سے دوچار ہونے دنیاوی راحت و آرام یا خواہشات نفسانیہ کا مہیا ہونا ان کے عذا ِ
MERITEHREER786@GMAIL.COM 13کی
ہے۔
عالمت
ٰ تعالی اپنے بندوں کو آخرت کے عذاب سے بچانے کے لئے دنیا ہی میں …:۴بعض اوقات ہللا انہیں مصائب و تکالیؾ میں مبتال فرماتے ہیں„ تاکہ اس کی کمی کوتاہیوں کا معاملہ یہیں نمٹ جائے اور آخرت میں ان کو کسی عذاب سے دوچار نہ ہونا پڑے ،چنانچہ حدیث شریؾ میں ہے: ”عن انس اراد
ہللا علیہ وسلم اذا اراد ٰ ّ ہللا صلی ٰ ّ قال :قال رسول ٰ ّ ہللا بعبدہ الخیر عجل لہ العقوبة فی الدنیا ،واذا
ّٰ ہللا
بعبدہ
الشر
امسک
عنہ
بذنبہ
حتی
یوافی
بہ
یوم
القیامة۔
ہللا علیہ وسلم قال :ان عظم الجزاء مع عظم البأل ،وان ٰ ّ وبہذا االسناد عن النبی صلی ٰ ّ ٰ ہللا اذا احب قوما ً ابتالہم، فمن
رضی
فلہ
الرضا
ومن
سخط
فلہ
السخط۔“
(ترمذی،
ص،۶۲:ج)۲:
ترجمہ” …:حضرت انس رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ٰ تعالی کسی بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتے ہیں ،تو دنیا میں ہی اس ارشاد فرمایا :جب ہللا ٰ تعالی کسی بندے کے ساتھ شر کا ارادہ فرماتے ہیں تو کو فوری سزا دے دیتے ہیں اور جب ہللا اس کے گناہ کی سزا موخر کردیتے ہیں ،یہاں تک کہ قیامت کے دن اس کو پوری سزا دیں گے۔ نیز آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندے کو جتنا بڑا ابتالء پیش آئے ،اتنی بڑی جزا ٰ تعالی جب کسی قوم سے محبت فرماتے ہیں تو اسے اس کو ملتی ہے اور بے شک ہللا ٰ تعالی سے ...راضی ...مصائب و آالم سے ...آزماتے ہیں ،پس جو شخص ...ہر حالت میں ا ہلل ٰ تعالی کی رضا مندی ہے اور جو شخص ناراض ہوا اس کے لئے ناراضی رہا ،اس کے لئے ہللا ہے۔“ اس حدیث کی تشریح میں حضرت اقدس موالنا محمد یوسؾ لدھیانوی شہید
لکھتے ہیں:
ٰ تعالی کسی بندے کے ساتھ خیر کا ” اس حدیث میں دو مضمون ارشاد ہوئے ،ایک یہ کہ جب ہللا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کی ؼلطیوں اور کوتاہیوں کی سزا دنیا ہی میں دے دیتے ہیں ،اس کی سزا کو آخرت پر نہیں اٹھا رکھتے ،بلکہ مختلؾ مصائب میں اس کو مبتال کرکے پاک و صاؾ کردیتے ہ یں۔ چنانچہ اگر اس کو کانٹابھی چبھتا ہے تو وہ بھی اس کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتا
MERITEHREER786@GMAIL.COM 14ہے ،اور اگر لکھنے والے کے ہاتھ سے قلم گر جاتا ہے تو وہ بھی اس کے لئے کفارہ بن جاتا ہے۔ اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ کسی بندئہ مومن کو کوئی تکلیؾ اور صدمہ یا پریشانی پیش آ ئے اسے اپنے گناہوں کا خمیازہ سمجھنا چاہئے۔ دوسری یہ کہ بندئہ مومن کا مصائب و آالم میں مبتال ہونا اس کے مردود ہونے کی عالمت نہیں ،بلکہ اس کے ساتھ حق ٰ ٰ تعالی شانہ نے اس کے گناہوں کے کفارہ کا دنیا ہی میں تعالی شانہ کا لطؾ و انعام ہے کہ حق فرمادیا۔
انتظام
اس ک ے برعکس جس بندے کے ساتھ شر کا ارادہ فرماتے ہیں اسے گناہوں کے باوجود ڈھیل ٰ تعالی کی نظر میں بہت معزز ہے اور مہلت دیتے ہیں ،وہ احمق یہ سمجھتا ہے کہ وہ ہللا حاالنکہ اس کے ساتھ مکرو استدراج کا معاملہ ہورہا ہے کہ اس کی معصیتوں اور نافرمانیوں کے باوجود اسے ڈھیل دی جارہی ہے ،اور قیامت کے دن جب بارگا ِہ خداوندی میں پیش ہوگا، ٰ تعالی شانہ محض اپنے اسے اس کی بدعملیوں کا پورا پورا بدلہ چکا دیا جائے گا ،اال یہ کہ حق فضل و احسان سے عفو و درگزر کا معاملہ فرمائے ...بشرطیکہ وہ مسلمان ہو کیونکہ کفر و شرک
کی
معافی
نہیں
ہے...ناقل۔
ٰ تعالی شانہ کا لطؾ قہر کی شکل میں ہوتا اس حدیث پاک سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کبھی حق ہے اور کبھی قہر لطؾ کی شکل میں ،اس نکتہ کو حضرات عارفین خوب سمجھتے ہیں ،ور نہ عام لوگوں کی نظر اس پر نہیں جاتی۔“ (دنیا کی حقیقت ص ،۱۹۸ ،۱۹۷:ج)۱: …:۵دنیا کا اصول ہے کہ جس سے زیادہ تعلق خاطر ہو یا جس کو کسی الئق بنانا ہو ،اس کو کڑی آزمائش و امتحان سے گزارا جاتا ہے ،اور اس کی چھوٹی چھوٹی حرکت و سکون پر گرفت کی جاتی ہے ،چنانچہ اسی موقع پر فرمایا گیا ہے کہ” :حسنات االبرار سیئات المقربین“ ...ابرار کی نیکیاں مقربین کی سیئات شمار ہوتی ہیں ...یعنی مقربین کا مقام اتنا اونچا ہے کہ جو کام ابرار کریں اور وہ نیکی کہالئے ،اگر وہی کام مقربین کریں تو ان کے درجہ کے اعتبار سے وہ بھی سیئہ اور گناہ شمار ہوتا ہے ،گویا نیک و صالح مسلمان درجہ قرب ٰالہی پر فائز ہیں
MERITEHREER786@GMAIL.COM 15اور ان کو آخرت میں جن مراتب ِ عالیہ سے سرفراز کرنا ہے ،دنیاوی تکالیؾ و مشکالت کی بھٹی
ڈال
میں
کر
ان
کو
بنانے
کندن
سعی
کی
جارہی
کی
ہے۔
ٰ تعالی سے قرب ہوگا اس کو اسی تناسب سے مصائب و بالیا اور شدائد و …:۶جس کا جتنا ہللا محن
دوچار
سے
کیا
جائے
چنانچہ
گا،
شریؾ
حدیث
میں
ہے:
”عن مصعب بن سعد عن ابیہ قال قلت ،یا رسول ہللا! ای الناس اشد بالءً؟ قال :االنبیؤ ثم األمثل فیتبلی الرجل ٰ ٰ علی حسب دینہ فان کان فی دینہ صلبا ً اشتد بالئہ ،وان کان فی دینہ رقة فاألمثل، ابتلی علی حسب دینہ ،فما یبرح البالء بالعبد حتی یترکہ یمشی علی االرض وما علیہ خطیئة۔“ (ترمذی،
ص)۶۲:
ج،۲:
ترجمہ ” …:حضرت سعد بن ابی وقاص رضی ہللا عنہ سے روایت ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا :یا رسول ہللا! سب سے زیادہ آزمائش کس کی ہوتی ہے؟ فرمایا :انبیاء علیہم السالم کی ،پھر جو ان سے قریب تر ہو ،پھر جو ان سے قریب تر ہو ،آدمی کو اس کے دین کے مطابق آزمایا جاتا ہے ،پس اگر وہ اپنے دین میں پختہ ہو تو اس کی آزمائش بھی کڑی ہوتی ہے، اگر اس کے دین میں کمزوری ہو تو اسے اس کے دین کی بقدر آزمائش میں ڈاال جاتا ہے ،پس آزمائش بندے کے ساتھ ہمیشہ رہتی ہے ،یہاں تک کہ اس کو ایسا کرکے چھوڑتی ہے کہ وہ زمین
پر
ایسی
حالت
میں
چلتا
کہ
ہے
اس
پر
کوئی
گناہ
نہیں
رہتا۔“
اس لئے موجودہ کیا ،ہمیشہ سے مصائب و مشکالت اور شدائد و محن ہللا کے مقربین کا طرئہ امتیاز
ہے۔
رہا
پیمانہ خلوص ،اخالص ،صبر ،تحمل ،تسلیم ،رضا، …:۷بعض اوقات مقربین بارگا ِہ ٰالہی کے ی عزم ،ہمت ،دینی پختگی اور تصلّب کو ناپنے کے لئے ان پر امتحانات و آزمائشیں آتی ہیں، کہ
جیسا
ٰالہی
ارشا ِد
ہے:
الؾ” …:ولنبلونکم بشئی من الخوؾ والجوع ونقص من االموال واألنفس والثمرات ،وبشر الصابرین ،الذین اذا
اصابتہم
مصیبة
قالوا
اناہلل
وانا
الیہ
راجعون۔“
(البقرہ:
)۱۵۵
MERITEHREER786@GMAIL.COM 16ترجمہ”…:اور ہم تمہارا امتحان کریں گے کسی قدر خوؾ سے اور فاقہ سے اور مال اور جان اور پھلوں کی کمی سے ۔اور آپ ایسے صابرین کو بشارت سنادیجئے کہ ان پر جب کوئی ٰ ٰ تعالی کے تعالی ہی کی ملک ہیں اور ہم سب ہللا مصیبت پڑتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو ہللا جانے
پاس
ہیں۔“
والے
ب” …:ا ٓل ٓم ،احسب ال ّناس ان یترکوا ان یقولوا آم ّنا وہم الیفتنون ،ولقد فت ّنا الّذین من قبلہم فلیعلمنّ ٰ ّ ہللا الّذین صدقوا
الکٰذبین۔“
ولیعلمنّ
)۱،۲،۳
(عنکبوت:
ترجمہ ” …:کیا یہ سمجھتے ہیں لوگ ،کہ چھوٹ جائیں گے اتنا کہہ کر کہ ہم یقین الئے اور ان کو جانچ نہ لیں گے ،اور ہم نے جانچا ہے ان کو جو ان سے پہلے تھے ،سو البتہ معلوم کرے گا ہللا
لوگ
جو
سچے
اور
ہیں
البتہ
معلوم
کرے
گا
جھوٹوں
کو۔“
ج” …:عن خباب بن االرت قال :شکونا الی ال ّنبی صلّی ٰ ّ ہللا علیہ وسلم وہو متوسّد برد ًة لہ فی ظ ّل الکعبة فقلنا :اال تستنصرلنا ،اال تدعو ٰ ّ ہللا لنا؟ قال کان الرّ جل فی من قبلکم یحفرلہ فی االرض فیجعل فیہا فیجاء بالمنشار فیوضع ٰ علی رأسہ فیشق باثنین وما یصدّہ عن دینہ ،ویمشط بامشاط الحدید مادون لحمہ من عظم او عصب
وما
یصدہ
ذلک
عن
ترجمہ” …:حضرت خباب بن االرت
دینہ...۔“
(صحیح
بخاری،
ص،۵۱۲:
ج)۱:
سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم بیت ہللا
کے سائے میں اپنی چادر سے ٹیک لگاکر تشریؾ فرما تھے ،کہ ہم نے آپ سے ...کفار کے مظالم کی شکایت کرتے ہوئے ...عرض کیا ،یا رسول ہللا! آپ ہمارے لئے ہللا سے مدد اور دعا کیوں نہیں مانگتے؟ ...آپ یہ سن کر ایک دم سیدھے ہوکر بیٹھ گئے ...اور فرمایا :تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک شخص کے لئے گڑھا کھودا جاتا ،اسے اس میں کھڑا کیا جاتا اور اس کے سر پر آری چالکر اسے چیر کر دو ٹکڑے کردیا جاتا ،مگر یہ سب کچھ اس کو اس کے دین سے نہ ہٹاسکا ،اسی طرح کسی کے جسم پر لوہے کی کنگھی چالکر اس کا گوشت اور پٹھے اس کی ہڈیوں سے اُدھیڑ دیئے جاتے ،مگر یہ سب کچھ اس کو اس کے دین سے نہیں ہٹاسکتا۔“ گویا ان حضرات کو اپنے دین و مذہب کی خاطر اس قدر اذیتیں دی گئیں اور انہوں نے اس پر
MERITEHREER786@GMAIL.COM 17صبر و برداشت کیا تو تمہیں بھی ان معمولی تکالیؾ پر حوصلہ نہیں ہارنا چاہئے بلکہ صبر و برداشت سے ک ام لینا چاہئے اور ہللا کی نصرت و مدد پر نگاہ رکھنی چاہئے جلد یا بدیر ہللا کی آکر
مدد
گی۔
رہے
ٰ تعالی دنیا میں اپنے مقربین کو تکالیؾ و مصائب سے دوچار کرکے دراصل ان کی …:۸ہللا اعمال حسنہ کا پورا پورا بدلہ اور جزا دنیا کے بجائے آخرت میں دینا چاہتے ہیں، نیکیوں اور ِ کہ
جیسا
شریؾ
حدیث
ہے:
میں
” یود اہل العافیة یوم القیامة حین یعطی اہل البالء الثواب لو ان جلودہم کانت قرضت فی الدنیا بالمقاریض۔“ (ترمذی
ج)۲:
ص۶۳:
ترجمہ” …:قیامت کے دن جب اہل ِ مصائب کو بدلہ عطا کیا جائے گا تو اہل عافیت...جو ان مصیبتوں سے محفوظ رہے...یہ آرزو کریں گے کہ کاش! دنیا میں ان کے چمڑے قینچیوں سے کاٹ
جاتے۔“
دیئے
ٰ تعالی اپنے بندوں کی مدد اور نصرت پر قادر ہے ،وہ چاہے تو کسی عام …:۹بالشبہ ہللا مظلوم کی مدد کے لئے آسمان سے فرشتے نازل کرسکتا ہے اور نہ چاہے تو بنی اسرائیل جام شہادت نوش جیسی ناہنجار قوم کے ہاتھوں اپنے مقرب و مقدس انبیاء علیہم السالم کو ِ اہل حق نہ دل چھوٹا کرتے ہیں اور نہ مایوس و بزدل کرادے ،مگر بایں ہمہ خدا پرست اور ِ ہوتے
ہیں؟
جیسا
کہ
قرآن
کریم
میں
ہے:
.
الؾ” …:ویقتلون النبیین بؽیر الحق“ (البقرہ... )۶۱:اور وہ بنی اسرائیل ...خون کرتے تھے پیؽمبروں
ناحق...
کا
ب” …:ویقتلون االنبیاء بؽیر حق ،ذالک بما عصوا وکانوا یعتدون“ (آل عمران ...)۱۱۲:اور قتل کرتے رہے ہیں پیؽمبروں کا ناحق ،یہ اس واسطے کہ نافرمانی کی انہوں نے اور حد سے نکل گئے... ہللا وما ضعفوا وما استکانوا ٰ ّ ج” …:وکؤیّن من ّنبی ٰقتل معہ ربیّون کثیر فما وہنوا لما اصابہم فی سبیل ٰ ّ وہللا یحبُّ
الصّابرین۔“
(آل
عمران:
)۱۴۶
MERITEHREER786@GMAIL.COM 18ترجمہ ” …:اور بہت نبی ہیں جن کے ساتھ ہوکر لڑتے ہیں بہت خداکے طالب ،پھر نہ ہارے ہیں کچھ تکلیؾ پہنچنے سے ،ہللا کی راہ میں اور نہ سست ہوئے ہیں اور نہ دب گئے ہیں اور ہللا کرتا
محبت
ثابت
ہے
رہنے
قدم
سے۔
والوں
“
ٰ ٰ تعالی حضرات تعالی کی مدد فوراً آجائے ،بلکہ بعض اوقات ہللا …:۱۲ضروری نہیں کہ ہللا انبیاء کرام علیہم السالم کی مدد و نصرت میں بھی اتنی تاخیر فرماسکتے ہیں کہ وہ مایوسی کے قریب
جیسا
ہوجائیں،
کہ
کریم
قرآن
ہے:
میں
الؾ” …:حتی اذا استیئس الرسل وظنوا انہم قد کذبوا جاء ہم نصرنا فنجی من نشاء وال یرد بؤسنا عن القوم (یوسؾ)۱۱۲:
المجرمین۔“
ترجمہ ” …:یہاں تک کہ پیؽمبر...اس بات سے...مایوس ہوگئے اور ان پیؽمبروں کو گمان ؼالب ہوگیا کہ ہمارے فہم نے ؼلطی کی ،ان کو ہماری مدد پہنچی ،پھر...اس عذاب سے...ہم نے جس کو
چاہا
وہ
بچالیا
گیا
اور
ہمارا
عذاب
مجرم
لوگوں
سے
نہیں
ہٹتا۔“
ب” …:ام حسبتم ان تدخلوا الج ّنة ولمّا یؤتکم مثل الّذین خلوا من قبلکم مسّتہم البؤساء والضّرّ اء وزلزلوا حتی ّٰ ٰ نصرہللا قریب۔“ (البقرہ)۲۱۴ : متی نصر ہللا ،اال ان یقول الرسول والذین آمنوا معہ
ترجمہ ” …:کیا تم کو یہ خیال ہے کہ جنت چلے جاإگے حاالنکہ تم پر نہیں گزرے حاالت ان لوگوں جیسے جو ہوچکے تم سے پہلے کہ پہنچی ان کو سختی اور تکلیؾ اور جھڑ جھڑائے گئے ،یہاں تک کہ کہنے لگا رسول اور جو اس کے ساتھ ایمان الئے کب آوے گی ہللا کی مدد؟ سن
رکھو
ہللا
کی
مدد
قریب
ہے۔“
اس سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ کفار و مشرکین کے مقابلہ میں نیک و صالح مسلمانوں کے لئے فوراً نصرت ٰالہی کا آنا کوئی ضروری نہیں ،اس کے عالوہ مدد و نصرت ٰالہی میں تاخیر کا ہوجانا جہاں کفار و مشرکین اور ان کے موقؾ کی صداقت کی دلیل نہیں ،وہاں نیک صالح اور متقین و مومنین کے بارگا ِہ ٰالہی میں مبؽوض و مقہور ہونے کی عالمت بھی نہیں، دور حاضر کے نیک و صالح مومنین و متقین ،اپنی جگہ کتنا ہی مقرب بارگاہ ٰالہی کیوں کیونکہ ِ
MERITEHREER786@GMAIL.COM 19نہ ہوں ،بہرحال وہ حضرات انبیاء کرام علیہم السالم کے مرتبہ و مقام کو نہیں پہنچ سکتےٰ ،لہذا دور حاضر اگر حضرات انبیاء کرام علیہم السالم کی مدد و نصرت میں تاخیر ہوسکتی ہے تو ِ کے نیک صالح مومنین و مجاہدین کی مدد میں تاخیر کیوں نہیں ہوسکتی؟ ٰ تعالی موجودہ صورت حال میں جہاں اہل ِ …:۱۱اس سب سے ہٹ کر سچی بات یہ ہے کہ ہللا ایمان کو مصائب و آالم سے دوچار کرکے ان کے درجات بلند کرنا چاہتے ہیں ،وہاں ان بدباطن کفار و مشرکین اور نام نہاد مسلمانوں پر اتمام حجت کرنا چاہتے ہیں ،تاکہ کل قیامت کے دن وہ ت حال کا اندازہ نہیں ہوسکا تھا۔ یہ نہ کہہ سکیں کہ ہمیں ؼوروفکر کی مہلت اور صحیح صور ِ الؽرض موجودہ صورت حال سے جہاں نیک صالح لوگوں اور مقربین بارگا ِہ ٰالہی کے درجات بلند ہورہے ہیں ،وہاں ان بدباطنوں کو ڈھیل دی جارہی ہے ،چنانچہ ارشاد ٰالہی ہے” :واملی لہم ان
کیدی متین“ (القلم ... )۴۵:اور میں ان کو ڈھیل دیتا ہوں مگر میری تدبیر ؼالب ہے ،اسی طرح” :وانتظروا انا منتظرون“ (ھود...)۱۲۲:تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی انتظار کررہے ہیں... مرنے کے بعد معلوم ہوگا کہ کون فائدہ میں تھا اور کون نقصان میں؟؟ فسوؾ
ٰ تری
اذا
انکشؾ
الؽبار
اتحت رجلک فرس ام حمار
ن ٹی„ وی„ ویڈیو اور سی ڈیز وؼیرہ میں دکھائی دینے والی شکلوں پر ممنوع اورحرام تصویر کے احکام کے اجراء یا استثناء کے لئے ان تصاویر کی حقیقت وماہیت پر فنی تحقیقات سے اہل فن کا کام ہے„ ہمیں ان شکلوں کا شرعی حکم معلوم کرنے کے لئے ظاہری بحث کرنا تو ِ صورتحال اور گرد وپیش کے واقعاتی پہلوإں کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔
MERITEHREER786@GMAIL.COM -۱ 20دیگر پہلوإں سے قطع نظرباطل اس وقت ملکی اور عالمی سطح پر ”میڈیا“ کو مإثر ہتھیار کے طور پر استعمال کررہا ہے اور اس ہتھیار کو آگ وبارود سے زیادہ مإثر سمجھا جارہا ہی„ ایسے حاالت میں ہم ان ذرائع سے دور رہ کر „ ان کے میڈیا وار سے اپنا دفاع کیسے کرسکتے ہیں؟! اسالم کے متعلق شکوک وشبہات „ بے بنیاد الزامات اور پروپیگنڈوں کا دفعیہ کس طرح ہوسکتا ہے؟ یہ پہلو بھی ؼور طلب ہے „ بلکہ ایسی حقیقت واقعی ہے جس سے انکار مشکل ہے۔ -۲جہاں تک ٹی„ وی „ ویڈیو اور سی ڈیز وؼیرہ کی تصاویر کا تعلق ہے ،اس حوالہ سے تصویر کی لؽوی واصطالحی تعریفات کے پیچوں میں وقت صرؾ کرنے کی بجائے تصویر کے مرحلہ وار مختلؾ ارتقائی ادوار کو سامنے رکھا جائے اور تصویر کے مقاصد اوراہداؾ پر ؼور کیا جائے تو امید ہے مسئلہ بآسانی سمجھ آجائے گا„ زیادہ الجھاإ اور پیچیدگی نہیں گی۔
رہے
ہم سب جانتے ہیں کہ تصویر سازی کی ابتدائی صورت مٹی„ پتھر یا جمادات وؼیرہ کے مجسمے ہیں جو آثار قدیمہ اور ثقافت کے نام پر اب بھی ہرجگہ موجود ہیں ،پھر ہاتھ سے رنگ وروؼن سے بھر پور تصویر سازی کا ایک طریقہ بھی متعارؾ ہوا اور اب بھی ”فن مصوری “ معروؾ ہے„ اس سے آگے پھر کیمرے وؼیرہ کا دور آیا جسے بحث وتمحیص کے بعد پرانی تصویر سازی اور مجسمہ سازی کی ترقی پذیر صورت تسلیم کرلیا گیا اور کیمرے سے محفوظ ہونے والی صورت پر” تصویر محرّ م“ کا حکم لگایا گیا„ حاالنکہ مٹی وجمادات سے بننے والی تصویر اور کاؼذی تصویر میں بہت واضح فرق ہے„ اب تصویر کشی کا یہ مقصد برقی لہروں کی وساطت سے حاصل ہورہا ہے اور محفوظ ہورہا ہے„ جسے ہم ویڈیو اور سی ڈیز وؼیرہ کی مددسے
ب حس ِ
منشاء
دیکھ
سکتے
ہیں۔
مجسمہ سازی سے لے کر سی„ ڈیز کی تصاویر تک„ ہر دور میں تصویر کا مقصد ُمصوّ ر کے نقش ونگار اور شکل وشبہات کی شناخت وحکایت ہے„ ویڈیو اور سی„ ڈیز وؼیرہ کی تصاویر
MERITEHREER786@GMAIL.COM بدرجہ اتم پورا کر رہی ہیں اور ان تصاویر میں عدم استقرار کا شبہ بھی نہیں 21اس مقصد کو ی ہوسکتا„ کیونکہ ویڈیو کیسٹ کا فیتہ یا سی ڈیز کی لہریں ان تصاویر کا مستقر ہیں„ ہاں یہ ہے کہ یہ استقرار مجسموں اور کاؼذی تصاویر کے استقرار سے زیادہ لطیؾ وباریک ہے جسے ہم سائنس وٹیکنالوجی کی ترقی سے تعبیر کر سکتے ہیں„ مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ ویڈیو یا سی ڈیز کی تصاویر چونکہ مجسموں اور کاؼذی تصاویر سے مختلؾ ہیں„ لہذا یہ تصاویر محرمہ سے
ہیں„
خارج
بات
یہ
قابل ِ
فہم
نہیں۔
اس پر مستزاد یہ کہ استقرار کی شرط تصویر کے لئے محض اکابر کا اجتہاد ہے ،کوئی منصوص ومنقول نہیں ہے„ جس کے نتیجہ میں یہ کہا جاسکے کہ استقرار کی شرط نہ ہونے کی صورت میں ُمصوَّ ر کی حکایت کرنے والی شکلوں کو تصویر کے حکم سے خارج مانا جائے
گا„
قطعا ً
ایسا
نہیں۔
البتہ ”تصویر“ کو فی نفسہ ناجائز مانتے ہوئے بعض ضروری مواقع کا استثناء بہرحال ممکن ہے اور ضرورت پر عمل کے قواعد پر ؼور سے ضرورت کے احکام بیان ہوسکتے ہیں۔ بعض حضرات کے بقول دینی مقاصد کے لئے ذرائع ابالغ کا مطلق استعمال جائز ہے„ ان حضرات کی فکر کی اساس یہ ہے کہ باطل نے ذرائع ابالغ کو اس طرح اپنے قبضہ میں لے رکھا ہے کہ وہ اپن ی ہرگمراہ کن بات کو چند لمحوں میں پوری دنیا تک پہنچا سکتا ہے اور پہنچا رہا ہے اور اس دور میں احوال وافکار کو رخ دینے میں میڈیا سے مإثر کردار کسی اور ذریعہ کا ہرگز نہیں„ اس مکتب فکر کی اس منطق پر تبصرہ کئے بؽیر دوسری رائے ذکر کرتے ہیں جس رائے کے حامل امت کے وہ علماء کرام ہیں جن کے تصلب فی الدین کی وجہ سے امت مسلمہ انہیں اپنا مقتدی اور پیشوا مانتی ہے„ ان حضرات کی رائے کی بنیاد یہ ہے کہ اس حد تک تو تمام اہل علم متفق ہیں کہ موجودہ میڈیائی وسائل کا جائز استعمال کم اور ناجائز استعمال زیادہ ہے۔ دین ودنیا کے اصول کے مطابق ان کے استعمال کو جواز کا کلی سرٹیفکٹ نہیں دیا جاسکتا„ جب یہ حقیقت مسلم ہے تو اس بات میں کسی کو شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم دین
MERITEHREER786@GMAIL.COM 22کی نشر واشاعت اور تبلیػ وتعلیم کے لئے ناجائز ذرائع کے استعمال کے قطعا ً مکلؾ نہیں ہیں„ بلکہ اس سے بڑھ کر یہ صراحتیں جابجا موجود ہیں کہ ازالہ ی منکر کے لئے منکر کو استعمال کرنا ناجائز ہے„ مثالً اگر کسی کے بدن یا کپڑے پر ناپاک چیز لگ جائے تو اسے پاک کرنے کے لئے ہرمائع چیز کا استعمال کافی نہیں ہوتا„ بلکہ صرؾ وہ مائع ضروری ہوتا ہے جو خود بھی پاک ہو اور اس میں نجاست ․․․ناپاکی․․․ کو دور کرنے کی صالحیت بھی ہو„ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص نجاست کے ازالہ کے لئے پیشاب استعمال کرے تو جسم والی نجاست مٹ بھی جائے ،تب بھی پاک ی کا مقصد حاصل نہیں ہوسکتا ،کیونکہ ناپاک چیز کے استعمال کی بناء پر پہلے سے موجود ناپاکی میں کمی تو نہیں آئی „ بلکہ اضافہ ہوا ہے ،لیکن اگر اسی مقصد کے لئے پانی استعمال کیا جائے تو بالشبہ پاکی کا مقصد حاصل ہوجائے گا۔ بعینہ سمجھنا چاہئے کہ ہم منہیات اور منکرات کے میناروں پر چڑھ کر دفاع دین اور تبلیػ دین کے بلند وبانگ
دعوے
طرح
کس
کررہے
ہیں؟
پس دفاع دین اور تبلیػ دین کے حوالہ سے آسان اور سیدھا راستہ وہی ہے جس پر چلتے ہوئے ہمارے اسالؾ نے ہمیں دین پہنچایا اور ہم مسلمان ہیں ،یہ زمانی حقیقت ہے کہ اگر دنیا دجالی شر وفساد سے بھرنے جائے گی تو اسالمی امن وسالمتی اور خیر وعافیت کا دور بھی ضرور پلٹ کر آئے گا ،ہمیں ہراقدام سے پہلے انجام کے بارے میں بھی فکر مند ہونا چاہئے۔ اشاعت ۲۲۲۸ماہنامہ بینات ,ربیع الثانی ۱۴۲۹ھ ,جلد ,17شمارہ 4
پچھال مضمون :ایک بے سند” حدیث قدسی“ کی تحقیق
ت اسالم اور اسالمی نظام ِ حیات„ ایک پاک وصاؾ معاشرے کی تعمیر اور انسانی اخالق وعادات کی تہذیب کرتا ہے۔ اسالم نے جہالت کے رسم ورواج اور اخالق وعادات کو جو ہرقسم کے فتنہ وفساد سے لبریز تھے„ یکسر بدل کر ایک مہذب معاشرے اور تہذیب کی داغ بیل ڈالی„ جس
MERITEHREER786@GMAIL.COM 23سے عام انسان کی زندگی میں امن „ چین اور سکون ہی سکون درآیا۔ اسالم اپنے ماننے والوں کی تہذیب اور پُرامن معاشرے کے قیام کے لئے جو پہلی تدبیر اختیار کرتا ہے„ وہ ہے :انسانی جذبات کو ہرقسم کے ہیجان سے بچانا„ وہ مرد اور عورت کے اندر پائے جانے والے فطری میالنات کو اپنی جگہ باقی رکھتے ہوئے انہیں فطری انداز کے مطابق محفوظ اور تعمیری انداز دیتاہے„ قرآن حکیم میں سورہ نور میں بڑی وضاحت سے ایک ایک بات کو کھول کھول کر بیان کردیا گیا ہے„ ہرعمل کی تہذیب کردی گئی ہے„ اس سورہ کی آیت نمبر ۳۱ :میں ارشاد ٰ تعالی
باری
ہے:
للمومنات یؽضضن من ابصارھن ویحفظن فروجھن والیبدین زینتھن االماظھر منھاولیضربن بخمرھن ”وقل ی ٰ علی
جیوبھن
زینتھن۔“
والیبدین
ترجمہ۔” اور مسلمان عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں„ مگر جو اس میں سے کھال رہتا ہے اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ ہونے دیں“۔ سورہ
۹۵:میں
احزاب
ہے:
ارشاد
فالیوذین المومنین یدنین علیھن من جالبیبھن ،ذلک ادنی ان یعرفن ی ”یاایھا النبی قل الزواجک وبناتک ونساء ی ،وکان
ؼفوراَ ََرحیما َ ََ“
ہللا
ترجمہ:۔”اے نبی! ا اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں„ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے„ تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی
جائیں„
ٰ تعالی
ہللا
ؼفور
ورحیم
ہے“۔
انسانی تاریخ شاہد ہے کہ ہر زمانے میں عورتوں میں زیب وزینت „ بناإ سنگھار اور بننا سنورنا رائج رہا ہے„ یہ اس کی فطرت اور جبلت بھی کہی جاسکتی ہے„ ہرعورت کی یہ فطری خواہش ہوتی
ہے
کہ
وہ
بہت
خوبصورت
نظر
آئے۔
ہرزمانے میں بناإ سنگھار کے معیار بدلتے رہتے ہیں„ لیکن زینت کا داعیہ چونکہ فطرت میں
MERITEHREER786@GMAIL.COM 24موجود ہوتا ہے„اس لئے عورت اپنے آپ کو خوبصورت سے خوبصورت بنانے کے تمام جتن اور حربے استعمال کرتی ہے„ اسالم عورت کی اس فطرت پر کسی قسم کی پابندی نہیں لگاتا „ بلکہ اس کی اس خواہش اور فطرت کو تسلیم کرتا ہے„ ہاں اس کی تنظیم وتہذیب کرتے ہوئے ضابطہ بندی ضرور کرتا ہے۔ اسالم یہ چاہتا ہے کہ عورت کا تمام ترحسن وجمال„ اس کی تمام زیب وزینت اور آرائش وسنگھار میں اس کے ساتھ صرؾ اس کا شوہر شریک ہو„ کوئی دوسرا شریک نہ ہو„ عورت اپنی آرائش اور جمال صرؾ اپنے مرد کے لئے کرے۔ اگر دیکھا جائے تو عورت درحقیقت تمام تر سنگھار وآرائش مرد کو اپنی طرؾ متوجہ کرنے اور اس کی خصوصی توجہ کے حصول کے لئے ہی کرتی ہے„ اسالم ایسا دین ہے جو انسان کی زندگی کے ایک ایک لمحے کی تہذیب کرتا ہے„ ان کے لئے پاکیزہ طریقہ وضع کرتا ہے„ تاکہ کوئی مسلمان اور اہل ایمان کسی طریقے سے کسی برائی میں مبتال نہ ہو اور ان کے میالنات جائز طریقوں تک محدود رہیں„ ہللا ہی ہے جو تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے„ جس سے انسانی فطرت کی نفسیاتی تعلیم وتربیت ہوتی ہے۔ عورت کے حسن وجمال ٰ تعالی نے اس کے شوہر کی دل بستگی اور توجہ کے لئے محدود کو اس کی زیب وزینت کو ہللا کردیا ہے„ تاکہ وہ اپنی ساری توجہ اپنی بیوی کی طرؾ مرکوز رکھے اور اس کی عورت ؼیروں
کی
ہوس
ناک
سے
نظروں
محفوظ
ومامون
رہے۔
ٰ تعالی نے شوہر اور بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے۔ یہ ان کی قربت اور ہم ہللا نفسی کی عالمت ہے„ اسالم جب پردے کی تاکید کرتا ہے تو اس سے مراد ایک نہایت پاک وصاؾ
سوسائٹی
کا
قیام
ہے۔
اگر ہم اپنے چاروں اطراؾ نظر ڈالیں تو بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ احکام ٰالہی سے اعراض اور روگردانی کے کیسے کیسے بھیانک اور عبرت ناک مناظر سامنے آرہے ہیں۔ مؽربی دنیا خصوصا ً یورپ اور امریکی معاشرے میں جہاں کسی قسم کے پردے اور حجاب کا گزر نہیں„ جہاں ہرطرؾ لطؾ اندوزی„ ہیجان خیزی „ شہوت پرستی اور گوشت پوست کی لذت
MERITEHREER786@GMAIL.COM 25اندوزی کا سامان ہورہا ہے „ ایسے ایسے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں جن سے ہر وقت جنسی ہیجان پیدا کیا جارہا ہے„ جس کے نتیجے میں جنسی پیاس بڑھتی جارہی ہے جو کسی طرح بجھتی ہی نہیں„ انسان کی خوابیدہ حیوانیت کو جگادیا گیا ہے اور انسان بے قید شہوت رانی کا شکار ہوگیا ہے„ اس کے اعصاب اور نفسیات کے اندر ہیجان خیز امراض پیدا ہورہے ہیں۔ مرد اور عورت میں ایک دوسرے کے لئے کشش ایک فطری امر ہے اور یہ انسان میں تخلیقی ب خالفت کی ذمہ داریوں طور پر ودیعت کی گئی ہے„ کیونکہ انسان کو اس زمین پر اپنے منص ِ کو پورا کرنا ہے„ اس زندگی کا بڑا اور اہم حصہ زمین پر زندگی کے تسلسل کو قائم رکھنا ہے„ اس لئے یہ کشش دائمی ہے۔ یہ کشش ہی انسان کو ایک دوسرے کے قریب التی ہے„ عورت اور مرد کے مالپ سے ایک خاندان ایک گھر انہ وجود پاتا ہے اور دونوں ایک دوسرے کے ذریعہ فطری تسکین پاتے ہیں اور افزائش نسل کے ذریعے ایک خاندان کی تشکیل کا ذریعہ بنتے ہیں اور اگر کہیں دونوں فریقوں کے درمیان نا آسودگی رہے„ اپنے فطری تقاضوں کی تسکین نہ کر سکیں تو پھر بے چینی اور بے قراری جنم لیتی ہے جو اعصاب پر اثر انداز ہوتی ہے
اور
انسان
کو
برائی
کی
طرؾ
ابھارتی
ہے۔
امریکہ اور یورپ کا معاشرہ ہمارے سامنے ہے„ جہاں ہر طرؾ ہرقسم کی جنسی آزادی عام ہے„ مرد عورتوں سے مطمئن نہیں„ عورتیں مردوں سے نا آسودہ ہیں„ جنسی تسکین وآسودگی کے لئے تمام ؼیر فطری طریقے استعمال کرنے کے باوجود نا آسودگی سے دو چار ہیں„ مرد مردوں سے„ عورت عورتوں سے اور حیوانات تک سے اختالط ومالپ کے باوجود ایک ہیبت ناک نا آسودگی کا شکار ہیں۔ وہاں کھلے عام ہرقسم کی بے پردگی„ فحاشی„ عریانی اور تمام ؼیر فطری طریقوں کے باوجود جوبے چینی اور بے کلی„ عام پائی جاتی ہے„ اسالم اپنے ماننے
والوں کو ان
تمام خرابیوں سے
بچاتا ہے
اور
بچائے رکھتا ہے۔
ایسے تمام ممالک جہاں ہرقسم کا جسمانی مالپ عریانی اور جنسی بے راہ روی عام ہے„ ہرقسم کی قید وبند سے وہ آزادہیں„ان کے نزدیک تمام ممکن شکلیں جائز ہیں„ لیکن اس کے باوجود ان
MERITEHREER786@GMAIL.COM 26کی جنسی پیاس جن ون کی حد تک بڑھ گئی ہے اوران کی تسکین کا نام ونشان تک مٹ گیا ہے„ جس کے باعث وہاں جنسی اور نفسیاتی بیماریوں کا ایک طوفان امڈ آیا ہے„ ایسے تمام مسائل سے وہ معاشرے دوچار ہیں جو جنسی محرومی„ نا آسودگی سے پیدا ہوتے ہیں„ اس کے باوجود وہاں جنسی تعلقات اور مالپ مویشیوں اورحیوانات کی طرح راستوں پر عام دیکھا جاسکتا ہے„ جب کہ اسالم جو انسان کے ہرجذبے کی نا صرؾ تطہیر کرتا ہے„ بلکہ انہیں پاک صاؾ کرتا ہے„ انہیں تہذیب وشائستگی سے ہم کنار کرتا ہے اور اپنے ماننے والوں کو ایک آسودہ اور پُر سکون زندگی بسر کرنے میں بھی مدد فراہم کرتا ہے۔عورتوں کا بے پردہ ہونا„ بے حجاب ہونا „ فیشن کو اپنانا„ بن سنور کر ؼیرمردوں کے سامنے آنا„ انہیں دعوت نظارہ دینا„ بے پردگی اور بے حجابی کے نام پر شعائر اسالمی کو پامال کرنا„ یہ سب اسالمی نہیں „ مؽربی اور ؼیر اسالمی معاشرت اور روایات ہیں جن کے بھیانک نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ اسالم نے اسالمی معاشرے کا ذوق ہی بدل دیا ہے„ لوگوں کے جمالی احساسات کو بدل دیا ہے„ اسالم کے ماننے والوں کے لئے حسن وجمال کی تمام حیوانی ادائیں مطلوب ومستحسن نہیں رہیں„ بلکہ اسالم حسن وجمال کا ایک مہذب رنگ ڈھنگ اور معیار قائم کرتا ہے„ جس میں ہرطرح کی عریانی سے بچاجاتا ہے اور سنجیدگی„ وقار اور پاکیزہ جمال کا ذوق پیدا کرتا ہے جو انسان کے اور ایک اہل ایمان کے الئق ہوتا ہے۔اسالم ایک سچی مومنہ عورت کی تربیت اس انداز سے کرتاہے کہ وہ نا صرؾ اپنے حسن وجمال کا درست طریقے سے استعمال کرسکے اور اپنی تمام معاشی„ معاشرتی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ اپنی فطری جبلی ضرورتوں اور
تقاضوں
کو
بھی
فطرت
کے
عین
مطابق
پورا
کرسکے۔
آج دور جدید کی بظاہر ترقی یافتہ خواتین دو مردوں کے شانہ بشانہ ہم قدم ہوکر چلنا پسند کرتی ہیں اور بے حجابی وبے پردگی کی علمبردار ہیں۔ اگر وہ اپنی دیانتداری سے خود اپنا جائزہ لیں اور اپنی نگاہ میں ایک دقیانوسی با پردہ„ باشرع خاتون کا جائزہ لیں تو انہیں بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ معاشرے میں مردوں کے شانہ بشانہ چلنے میں انہیں کیسی کیسی ٹھوکریں کھانا
MERITEHREER786@GMAIL.COM 27پڑتی ہیں„ کیسی کیسی مشکالت سے دو چار ہونا پڑتا ہے اور دن بھر کی بک بک„ جھک جھک کے بعد رات اپنے شوہر کی قربت میں بسر کرتی ہیں تو کیا وہ دونوں جسمانی وروحانی طور پر جنسی ونفسانی طور پر اس قدر آسودہ ومطمئن ہوپاتے ہیں جس قدرایک پردہ نشین وخانہ دار خاتون اپنے خلوص سے آسودگی اور طمانینت حاصل کرتی ہے؟ اس کی یہ آسودگی„ یہ طمانینت واطمینان اسالمی شعائر پر عمل پیراہونے کے باعث ہوتی ہے„ وہ اپنے گھر تک محدود ہوکر ہللا اور اس کے رسول ا کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل پیرا ہوکر خود کو اپنے گھر تک محفوظ ومامون رکھ کر اپنے گھر„ اپنے بچوں کی تہذیب وتربیت کرکے جس آرام وسکون کو حاصل کرلیتی ہے„ وہ کبھی بھی کسی بھی طرح ایک بے پردہ„ بے حجاب خاتون جو
پھرتی
دربدر
حاصل
ہے„
نہیں
کرسکتی۔
پردے کے اسالمی احکام کا مقصد ومطلب ہی یہ ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو بے راہ وروی„ فحاشی„ بے حیائی اور شہوانی فتنہ انگیزی سے بچائے اور وہ خفیہ شہوانی جذبات نہ بھڑ
کنے
پائیں
جو
عورت
کے
بے
پردہ
ہونے سے
بھڑک
سکتے
ہیں۔
ٰ تعالی توفیق دے توہرمرد اور عورت کو سورت نورکاترجمہ اور تفسیر سیکھنا چاہئے اگر ہللا اشاعت ۲۲۲۸ماہنامہ بینات ,ربیع الثانی ۱۴۲۹ھ ,جلد ,17شمارہ 4