MERITEHREER786@GMAIL.COM 1
ذلت و رسوائی کا ذمہ دار، مسٹر یا م اَُّل؟ الحمدہلل وسَّلم علی عبادہ الذین اصطفی
روزنامہ نوائے وقت کے سنڈے میگزین /۲۲اپریل ۲۰۰۲ء میں ”ہماری ذلت و رسوائی کا سبب کیا ہے؟“ کے عنوان سے جناب محمد اختر چشتی پسروری صاحب کا ایک کالم شائع ہوا ہے، جس کے مندرجات سے پریشان ہوکر ہومیو ڈاکٹر جناب حافظ اقبال مسعود صاحب سیالکوٹ نے راقم الحروؾ کو اپنے مکتوب کے ساتھ اس کی کٹنگ بھیج کر فرمائش کی ہے کہ اس کو بؽور پڑھوں اور اس کا جواب لکھوں ،جناب ڈاکٹر اقبال مسعود صاحب کا کہنا ہے کہ: ” آپ کے مضامین اکثر رسالہ ختم نبوت میں پڑھتا ہوں اور جس طرح اسَّلمی اقدار پر پڑنے والی ضرب کا آپ جواب دیتے ہیں ،اس سے نہ صرؾ ہماری علمی صَّلحیت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ ایمان کو بھی جَّل ملتی ہے ،گزشتہ ہفتے سیالکوٹ میں چھپنے والے نوائے وقت سنڈے میگزین میں ایک مضمون نظر سے گزرا ،میرے دل دماغ نے اس مضمون سے قطعا ً ناراضگی کا اظہار کیا ،پتہ نہیں ایسا لگتا ہے کہ لکھنے والے نے انصاؾ نہیں کیا ،میرا فوراً ذہن آپ کی طرؾ گیا ،جناب کو اس لئے زحمت دی کہ اس کو بؽور پڑھیں ،اگر لکھنے والے نے انصاؾ کیا ہے تو ٹھیک! وگرنہ اس کا جواب ضرور لکھئے گا ،اورمہربانی سے اس کا جواب جب لکھیں تو مجھے بھی آگاہ کریں ،تاکہ میں اپنی اصَّلح کرلوں۔“ راقم الحروؾ نہ تو ڈاکٹر اقبال مسعود صاحب سے واقؾ ہے اور نہ ہی جناب محمد اختر چشتی
MERITEHREER786@GMAIL.COM 2پسرو ری سے ،تاہم ڈاکٹر صاحب کے خط سے ان کی سَّلمتی ٴ فکر اور جناب محمد اختر چشتی صاحب کی تحریر سے ان کی بیمار ذہنیت اور علماء دشمنی کا اندازہ ہوتا ہے۔ جناب محمد اختر چشتی صاحب کے نام کے ساتھ ”چشتی“ کے الحقے سے اول وہلہ میں دل و دماغ میں یہی تصور ابھرتا ہے کہ موصوؾ بھی حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری قدس سرہ کی فکر و فلسفہ یا ان کے سلسلہ سلوک و احسان سے متعلق یا متاثر ہوں گے ،مگر افسوس! کہ ان کی تحریر و کالم پڑھتے ہی یہ احساس و تاثر یکسر کافور ہوجاتا ہے ،بلکہ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے یہ الحقہ بھی کسی خاص مصلحت یا حکمت کے تحت لگایا ہے ،عین ممکن ہے کہ وہ دین، اہل دین کی توہین و تنقیص یا ان سے نفرت و بیزاری کے زہر مذہب ،مسجد ،م اَُّل ،مولوی اور ِ کو ”چشتی“ نسبت کے ؼَّلؾ میں لپیٹ کر سادہ لوح مسلمانوں اور عام انسانوں کے دل و دماغ میں اتارنا چاہتے ہوں؟ بہرحال کچھ بھی ہو ،موصوؾ کا مضمون پڑھنے کے بعد ہر وہ مسلمان جس کو دین و مذہب ،مسجد و مدرسہ اور م اَُّل و مولوی سے ذرہ بھر تعلق ،یا سَّلمتی ٴ فکر سے کچھ بھی عَّلقہ ہو ،وہ یہی سمجھے گا کہ موصوؾ نے مدارس ،مساجد اور علماء کے ساتھ نہ صرؾ یہ کہ انصاؾ نہیں کیا ،بلکہ ان کی بے جا مخالفت کرکے حق و انصاؾ کا خون اور اپنے بؽض ِ باطن کا اظہار کیا ہے۔ ذیل میں ہم چشتی صاحب کے کالم کے مندرجات کی فلسفہ پیش کرنے کی کوشش کرنا چاہیں گے: روشنی میں ان کی فکر و ٴ ” …:۱چشتی“ صاحب دین ،اہل دین،مساجد ،مدارس اور علماء مخالفت میں ایسے حواس باختہ ہوئے کہ وہ اپنے مضمون کی ابتدا عَّلمہ اقبال کے اس شعر سے کر بیٹھے ،جس میں عَّلمہ صاحب نے ”چشتی“ صاحب کے موقؾ کے برعکس صوفی و م اَُّل کی خدمات کو سَّلم عقیدت پیش سَّلم کہ
کیا
ہے،
مَّلحظہ
از
ہو: ما
پیؽام
”عَّلمہ صوفی خدا
اقبال
ایک
کا
فارسی م اَُّل
و گفتند
شعر
ہے: سَّلم مارا
عَّلمہ اقبال اس شعر میں فرماتے ہیں کہ:میں صوفی و م اَُّل کو سَّلم پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے
MERITEHREER786@GMAIL.COM 3خدا کا پیؽام ہم تک پہنچایا ہے۔“ بَّلشبہ عَّلمہ اقبال نے اپنے اس شعر میں صوفی و م اَُّل کی خدمات کو جس خوبصورت انداز میں خراج عقیدت پیش کیا ہے وہ اپنی جگہ ایک بے مثال حقیقت ہے ،اس لئے کہ امت مسلمہ تک ہللا کا پیؽام پہنچانے اور امت کے دین و ایمان کی حفاظت کا ذریعہ صرؾ اور صرؾ یہی صوفی و م اَُّل رہا ہے ،اگر خدانخواستہ یہ نہ ہوتے یا ان کو بیچ سے نکال دیا جائے تو امت کا ہللا ،رسول سے جیسا کچھ ربط و تعلق ہے ،شاید وہ بھی نہ رہتا۔ لکھنے کو تو جناب چشتی صاحب نے عَّلمہ اقبال کا یہ شعر لکھ دیا ،مگر ؼالبا ً اس کے فوراً بعد ان کو اپنی ؼلطی کا احساس ہوگیا کہ میں نے یہ کیا لکھ دیا؟ کیونکہ اس سے تو میں نے عَّلمہ کی زبانی صوفی و م اَُّل کی عظمت و برتری کا اظہار و اعَّلن کردیا ہے۔ چونکہ چشتی صاحب کو ُم اَّل و صوفی سے خداواسطے کا بؽض و عناد تھا ،اس لئے عَّلمہ اقبال مرحوم کے اس اعتراؾ حقیقت کو بنیاد بناتے ہوئے انہوں نے صوفی و م اَُّل کے ساتھ ساتھ بیچارے عَّلمہ اقبال مرحوم کو بھی آڑے ہاتھوں لے لیا ،اور انہیں بھی اپنی تنقید کے نشانہ پر رکھ
چنانچہ
لیا،
ہیں:
فرماتے
” لیکن اس کی تشریح سے انہوں نے خدا جبرئیل اور محمد مصطفی کو حیرت میں ڈال دیا ہے اور
تینوں
حیران
ہیں
کہ
یہ
ہم
نے
کب
کہا
تھا؟“
ماشاء ہللا...چشتی صاحب نے اس اعتراؾ حقیقت کی پاداش میں عَّلمہ اقبال کی کس خوبصورتی اور سلیقہ مندی سے خبر لی ہے؟ اور ان کی کیسی عمدہ درگت بنائی ہے؟ چنانچہ اس بیچارے کو ہللا ،رسول اور جبرئیل کی مخالفت کے بدترین تمؽہ سے سرفراز فرمادیا۔ چشتی صاحب کے ”فلسفیانہ“ کالم اور ”بلیػ عارفانہ کَّلم“ کا معنی و مفہوم سمجھنے کے لئے ،پہلے تو اہل قلم سے اس کی مراد سمجھنے میں ہم نے خود اس کو متعدد بار پڑھا ،اس کے بعد کئی ایک ِ معاونت چاہی ،تو سب نے یہی فرمایا کہ عَّلمہ اقبال مرحوم کا یہی شعر اور اعتراؾ حقیقت ہی چشتی صاحب کی آنکھ کا کانٹا ہے ،جس کی بنا پر عَّلمہ اقبال
صوفی و م اَُّل کے ساتھ چشتی
صاحب کے مجرموں کی فہرست میں شامل ہوگئے ہیں ،تاہم اگر بالفرض خدانخواستہ چشتی
MERITEHREER786@GMAIL.COM 4صاحب کے ”مافوق الفطرت “کالم کا معنی و مفہوم سمجھنے میں ہم سے ؼلطی ہوئی ہے یا ہم نے ان کی مراد سمجھنے میں لؽزش کھائی ہے تو ہم درخواست کریں گے کہ آں موصوؾ اپنے دوسرے قارئین کے ساتھ ساتھ اگر اس جاہل مطلق کی بھی اصَّلح فرمادیں تو بے حد عنایت ہوگی۔ چ شتی صاحب! اگر بُرا نہ منائیں تو ہم عرض کریں گے کہ ان کی جانب سے عَّلمہ اقبال مرحوم کے اس بے ؼبار شعر کی یہ خوبصورت تشریح” :کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا ،بھان …:۲
متی
نے
کنبہ
چشتی
جوڑا“ صاحب
سے
زیادہ مزید
کوئی
حیثیت لکھتے
نہیں
رکھتی۔ ہیں:
ٰ اعلی تعلیم یافتہ علماء حضرات اور مذہبی ”اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں عربی کے اسکالروں کی تعداد بہت کم ہے جو پورے ملک کی بڑی بڑی مساجد اور دینی اداروں میں خدمات انجام دے رہے ہیں ،لیکن شہر و دیہات کی الکھوں مساجد میں ۲۰فیصد امام مسجد اور مؤذن حضرات کم پڑھے لکھے اور روایتی ُم اَّل ہی پوری قوم کی مذہبی رہنمائی کررہے ہیں۔ عَّلمہ اقبال کا اشارہ انہی لوگوں کی طرؾ ہے ،جو صرؾ ناظرہ قرآن کریم یا حفظ کرنے کے عَّلوہ چند احادیث یاد کرکے ملک کے بے شمار بچوں کو اسَّلمی تعلیم دے رہے ہیں۔“ موصوؾ چشتی صاحب کی اس عبارت سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس ”عالمانہ“ تشریح و تفسیر کو عَّلمہ اقبال مرحوم کے کھاتے میں ڈالنا چاہتے ہیں ،اسی لئے وہ وضاحت کناں ہیں کہ” :عَّلمہ کا اشارہ انہی لوگوں کی طرؾ ہے۔“ سوا ل یہ ہے کہ عَّلمہ نے یہ تشریح کہاں فرمائی ہے؟ یا عَّلمہ کا یہ اشارہ ان کے مذکورہ باال شعر کے کس لفظ سے ماخوذ یا مترشح ہے؟؟ ہاتوا برہانکم ان کنتم صادقین!!
…:۳جناب چشتی صاحب قوم و ملک کی ذلت و رسوائی کے اسباب بیان کرتے ہوئے مزید لکھتے
ہیں:
MERITEHREER786@GMAIL.COM ” 5پاکستان میں چار پانچ اضَّلع اٹک ،میانوالی ،سرگودھا ،فیصل آباد ،جھنگ اور ملتان وؼیرہ میں صرؾ روایتی مولوی تیار کئے جاتے ہیں ،جو سارے ملک کی مساجد میں دینی خدمات انجام دے رہے ہیں ،آپ جس مسجد کے مولوی یا خطیب کے متعلق معلوم کریں گے تو ان میں سے اکثر مولوی حضرات کا تعلق انہی اضَّلع میں سے کسی ایک سے ہوگا ،کیونکہ ان لوگوں نقطہ نظر صرؾ یہی ہوتا ہے کہ کا دین سے تعلق کم اور روزگار سے زیادہ ہوتا ہے ،ان کا ٴ مدرسہ سے نکل کر دوسرے شہروں یا دیہات میں جاکر کسی نہ کسی مسجد میں ا مامت موذن کے طور پر اپنے کام کی ابتدأ کرنا ہے ،جو بعدازاں موقع ملنے پر وہ سنبھالنا یا کم از کم ٴ امام مسجد کے مرتبہ تک پہنچ جاتے ہیں ،اس طرح یہ لوگ اپنی اپنی مسجد میں بچوں کو دینی تعلیم
شروع
دینا
ہیں۔
کردیتے
“
اگر چشتی صاحب صوفی ،م اَُّل ،مولوی ،مسجد و مدرسہ کی مخالفت میں حواس باختہ نہیں ہوئے تو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ دینی مدارس و مکاتب کا سلسلہ صرؾ ان چند اضَّلع تک محدود نہیں ،بلکہ بحمدہللا! پورے پاکستان کے ہر شہر ،قصبہ ،دیہات اور قریہ قریہ تک پھیَّل ہوا ہے، کیا سرحد ،بلوچستان اور سندھ میں دینی مدارس و مکاتب کا جال بچھا ہوا نہیں؟ کیا ملک بھر میں سرحد کے علماء کی کثرت نہیں؟ کیا بلوچستان میں دینی فضا اور دین داری کا بول باال نہیں؟ کیا سندھ دین اور دینی مدارس و مکاتب سے خالی ہے؟ کیا کراچی ،حیدر آباد ،نواب شاہ، ٰ ٹنڈوالہ یار وؼیرہ میں دینی مدارس قوم کو روحانی الڑکانہ ،شکارپور ،سکھر ،ٹھٹھہ ،سجاول، ؼذا مہیا نہیں کررہے ؟ کیا مظفر گڑھ ،علی پور ،لیہ ،کوٹ ادو ،ڈیرہ ؼازی خان ،تونسہ ،ڈیرہ اسماعیل خان ،بہاول پور ،بہاول نگر ،خانیوال ،رحیم یار خان ،صادق آباد ،وہاڑی ،گوجرانوالہ، الہور ،گجرات ،کوئٹہ ،سبی ،مستونگ ،خضدار ،پنج گور ،تربت ،چمن ،اکوڑہ خٹک ،پشاور، مانسہرہ ،بنوں ،کوہاٹ ،سوات ،مردان میں دینی مدارس نہیں ہیں؟ کیا ہزارہ ،مانسہرہ ،اوگی، بٹگرام اور آزاد کشمیر کے اضَّلع اس سعادت سے محروم ہیں؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو اس ”گوہر
افشانی“
کا
کیا
معنی؟
MERITEHREER786@GMAIL.COM 6دوم …:آپ کا یہ ارشاد کہ ”ان لوگوں کا دین سے تعلق کم اور روزگار سے زیادہ ہوتا ہے“ کیا یہ ان دین دار اور مخلصین پر کھلی تہمت و افترأ نہیں؟ کیا آپ نے ان مخلصین کے دلوں میں جھانک کر دیکھا ہے کہ یہ لوگ دنیا کے لئے دین پڑھتے ہیں؟ کیا آپ نے حدیث نبوی ”ہَّل شققت قلبہ“...کیا آپ نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا؟ ...کی مخالفت نہیں کی؟ کیا آپ نے دین پڑھنے والے مخلصین اور دین دار گھرانوں اور مسلم والدین کی توہین و تضحیک نہیں کی؟ کیا آپ نے اس سے دین دشمنوں کے موقؾ کی تائید نہیں کی؟ کیا آپ نے قرآن و حدیث پڑھنے والوں کی حوصلہ شکنی نہیں کی؟ کیا آپ نے دینی مدارس و مکاتب میں قوت ال یموت پر گزارہ کرکے امت تک دینی اور قرآنی تعلیم پہنچانے والوں کی پیٹھ میں چھرا نہیں گھونپا؟ چشتی صاحب! آپ کے نام سے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ خیر سے آپ بھی مسلمان ہیں اور آپ کا تعلق بھی کسی مسلمان گھرانے سے ہے ،مگر گستاخی معاؾ! آپ کی تحریر سے ایسا لگتا ہے کہ آپ اپنے مستشرق اساتذہ اور ملحد ماحول سے اس قدر متاثر ہیں کہ آپ کو دین، دینی مدارس ،مساجد ،م اَُّل ،مولوی اور صوفی سے چڑ سی ہوگئی ہے اور آپ ان کی توہین و تنقیص کا کوئی موقع ضائع کرنا نہیں چاہتے ،اگر آپ خدا کا پیؽام خدا کی مخلوق تک یا علوم نبوت امت تک خود نہیں پہنچاسکتے اور آپ کی معاشی و معاشرتی مجبوریاں اس کی اجازت نہیں دیتیں تو کم از کم ایسے لوگ جو سب کچھ داؤ پر لگاکر ہللا کا پیؽام ،ہللا کی مخلوق تک پہنچانے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں ،ان کی مخالفت یا کم از کم حوصلہ شکنی تو نہ کریں۔ سوم…: آپ جن مدارس و مکاتب اور روایتی مولویوں کی توہین و تنقیص اور ان کی قدر و منزلت گھٹانے کے درپے ہیں ،آپ کو شاید اس کا اندازہ نہ ہو کہ انہی روایتی مولویوں کی برکت سے ٰ اعلی امت کا اسَّلم سے رشتہ و رابطہ استوار ہے ،آپ جیسے لکھے پڑھے روشن خیال اور دماغ اسکالروں کو تو شاید کبھی دور افتادہ دیہاتوں اور پسماندہ بستیوں میں جانے کا موقع ہی نہ مَّل ہو ،اور شاید آپ کی بھاری بھرکم ذمہ داریاں اس کی اجازت بھی نہ دیں اور یقینا آپ کو اس ک ی ضرورت بھی نہ ہوگی۔ مگر جہاں ؼربت و افَّلس ،جہالت و ناخواندگی کا عفریت منہ
MERITEHREER786@GMAIL.COM 7کھولے کھڑا ہو ،جہاں دنیا جہان کی این جی اوز اور ؼیر مسلم مشنریاں مختلؾ انداز ،حیلوں اور بہانوں سے مسلمانوں کے دین و مذہب ،ایمان و اسَّلم پر حملہ آور ہوں ،وہاں یہی روایتی م اَُّل ہی ان کے مقابلہ میں سیسہ پَّلئی ہوئی دیوار بن کر کھڑا ہے ،اور امت کے دین و ایمان کی ڈوبتی کشتی کا پاسبان ہے ،اگر یہ م اَُّل نہ ہوتا تو کب کی امت دین و ایمان ،مذہب و ملت اور اسَّلمی اخَّلق و تہذیب کو خیر باد کہہ چکی ہوتی! چشتی صاحب! کبھی آپ نے سندھ، بلوچستان ،سرحد ا ور پنجاب کے دور افتادہ اور پسماندہ دیہاتیوں کے دین و مذہب کی خبر لی؟ یا کبھی ان کے ایمان و اخَّلق بچانے کے لئے کسی سوچ و فکر کی زحمت گوارا کی؟ جناب چشتی صاحب! شاید ہماری بات آپ کو سمجھ نہ آئے اور آئے گی بھی نہیں ،کیونکہ آپ ہمیں بھی انہیں روایتی مولویوں کی جماعت کا رکن یا ترجمان سمجھیں گےٰ ،لہذا اس کے لئے ایک خالص دنیاوی تعلیم یافتہ اور سی ایس پی افسر کی شہادت سنئے اور اندازہ لگایئے کہ اس روایتی م اَُّل یا معمولی لکھے پڑھے کی خدمات کی کیا اہمیت ہے؟ لیجئے پڑھیئے اور سر دھنیئے! ”برہام پور گنجم ،سنگَّلخ پہاڑوں اور خاردار جنگل میں گھرا ہوا ایک گاؤں تھا ،جس میں مسلمانوں کے بیس پچیس گھرانے آباد تھے۔ ان کی معاشرت ہندوانہ اثرات میں اس درجہ ڈوبی ہوئی تھی کہ رومیش علی ،صفدر پانڈے ،محمود محنتی ،کلثوم دیوی اور بھادئی جیسے نام رکھنے کا رواج عام تھا ،گاؤں میں ایک نہایت مختصر کچی مسجد تھی ،جس کے دروازے پر اکثر تاال پڑا رہتا تھا ،جمعرات کی شام دروازے کے باہر ایک مٹی کا دیا جَّلدیا جاتا تھا ،کچھ لوگ نہا دھوکر آتے تھے اور مسجد کے تالے کو چوم کر ہفتہ بھر کے لئے اپنے دینی فرائض سے سبکدوش ہوجاتے تھے۔ ہر دوسرے تیسرے مہینے ایک مولوی صاحب اس گاؤں میں آکر ایک دو روز کے لئے مسجد آباد کر جایا کرتے تھے ،اس دوران میں اگر کوئی شخص وفات پاگیا ہوتا ،تو مولوی صاحب اس کی قبر پر جاکر فاتحہ پڑھتے تھے ،بیماروں کو تعویذ لکھ دیتے تھے اور اپنے اگلے دورے تک جانور ذبح کرنے کے لئے چند چھریوں پر تکبیر پڑھ
MERITEHREER786@GMAIL.COM 8جا تے تھے ،اس طرح مولوی صاحب کی برکت سے گاؤں والوں کا دین اسَّلم کے ساتھ ایک کچا سا رشتہ بندھا رہتا تھا۔ برہام پور گنجم کے اس گاؤں کو دیکھ کر زندگی میں پہلی بار میرے دل میں مسجد کے م اَُّل کی عظمت کا کچھ احساس پیدا ہوا ،ایک زمانے میں م اَُّل اور سرکار انگلشیہ کی عمل داری مولوی کے القاب علم و فضل کی عَّلمت ہوا کرتے تھے ،لیکن ِ میں جیسے جیسے ہماری تعلیم اور ثقافت پر مؽربی اقدار کا رنگ و روؼن چڑھتا گیا ،اسی رفتار سے م اَُّل اور مولوی کا تقدس بھی پامال ہوتا گیا ،رفتہ رفتہ نوبت بایں جا رسید کہ یہ دونوں تعظیمی اور تکریمی الفاظ تضحیک و تحقیر کے ترکش کے تیر بن گئے ،داڑھی والے ٹھوٹھ اور ناخواندہ لوگوں کو مذاق ہی مذاق میں م اَُّل کا لقب ملنے لگا ،کالجوں یونیورسٹیوں اور دفتروں میں کوٹ پتلون پہنے بؽیر دینی رجحان رکھنے والوں کو طنز و تشنیع کے طور پر مولوی کہا جاتا تھا ،مسجد کے اماموں پر جمعراتی ،شبراتی ،عیدی ،بقر عیدی ،اور فاتحہ درود پڑھ کر روٹیاں توڑنے والے ،قل اعوذیئے م اَُّلؤں کی پھبتیاں کسی جانے لگیں ،لُو سے جھلس جانے والی گرم دوپہروں میں خس کی ٹٹیاں لگاکر پنکھوں (یہ ایئرکولر اور ایئر کنڈیشنر کے عام ہونے سے پہلے کی بات ہے) کے نیچے بیٹھنے والے یہ بھول گئے کہ محلے کی مسجد میں ظہر کی اذان ہر روز عین وقت پر اپنے آپ کس طرح ہوتی رہتی ہے؟ کڑ کڑاتے جاڑے میں نرم و گرم لحافوں میں لپٹے ہوئے اجسام کو اس بات پر کبھی حیرت نہیں ہوئی کہ اتنی صبح منہ اندھیرے اٹھ کر فجر کی اذان اس قدر پابندی سے کون دے جاتا ہے؟ دن ہو یا رات، آندھی ہو یا طوفان ،امن ہو یا فسادُ ،دور ہو یا نزدیک ،ہر زمانے میں شہر شہر ،گلی گلی ،قریہ قریہ ،چھوٹی بڑی پکی مسجدیں اسی ایک م اَُّل کے دم سے آباد تھیں ،جو خیرات کے ٹکڑوں پر مدرسے میں پڑھا تھا اور دربدر کی ٹھوکریں کھاکر ،گھر بار سے دور کہیں ہللا کے گھر میں سرچھپاکر بیٹھ رہا تھا ،اس کی پشت پر نہ کوئی تنظیم تھی ،نہ کوئی فنڈ تھا ،نہ کوئی تحریک تھی ،اپنوں کی بے اعتنائی ،بیگانوں کی مخاصمت ،ماحول کی بے حسی اور معاشرے کی کج ادائی کے باوجود اس نے نہ اپنی وضع قطع کو بدال اورنہ اپنے لباس کی مخصوص وردی کو
MERITEHREER786@GMAIL.COM 9چھوڑا ،اپنی استطاعت اور دوسرے کی توفیق کے مطابق اس نے کہیں دین کی شمع ،کہیں د ین کا شعلہ ،کہیں دین کی چنگاری کو روشن رکھا ،بہرام پور گنجم کے گاؤں کی طرح جہاں دین کی چنگاری بھی گل ہوچکی تھی ،م اَُّل نے اس کی راکھ ہی کو سمیٹ کر با ِد مخالؾ کے جھونکوں میں اُڑ جانے سے محفوظ رکھا ،یہ م اَُّل کا ہی فیض تھا کہ کہیں کام کے مسلمان ،کہیں نام کے مسلمان ،کہیں محض نصؾ مسلمان ثابت و سالم برقرار رہے اور جب سیاسی میدان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان آبادی کے اعدادو شمار کی جنگ ہوئی تو ان سب کا اندراج مردم شماری کے صحیح کالم میں موجود تھا ،برصؽیر کے مسلمان عموما ً اور پاکستان کے مسلمان خصوصا ً م اَُّلکے اس احسان عظیم سے کسی طرح سبکدوش نہیں ہوسکتے ،جس نے کسی نہ کسی طرح ،کسی نہ کسی حد تک ان کے تشخص کی بنیاد کو ہر دور اور ہر زمانے میں
قائم
رکھا۔“
(شہاب
نامہ،
ص،۲۴۰:
)۲۴۱
چہارم …:آنجناب فرماتے ہیں کہ اٹک ،میانوالی ،سرگودھا ،فیصل آباد ،جھنگ اور ملتان میں صرؾ روایتی مولوی تیار کئے جاتے ہیں ،جناب چشتی صاحب! میں نہیں سمجھتا کہ آنجناب نے یہ مضمون ہوش و حواس میں لکھا ہے؟ ممکن ہے آپ نے کسی کے کہنے یا سنی سنائی معلومات پر قلم ا ٹھایا ہو ،ورنہ جو آدمی پنجاب کے ایک مشہور شہر پسرور میں رہتا ہو ،یقین نہیں آتا کہ وہ ان عَّلقوں کی دینی فضا ،دینی مدارس سے اس قدر ال علم و جاہل ہو؟ کیا ہم جناب چشتی صاحب سے پوچھ سکتے ہیں کہ جامعہ امدادیہ فیصل آباد ،دارالعلوم فیصل آباد، جامعہ عبیدیہ ،دارالقرآن فیصل آباد ،ادارہ دعوت و ارشاد ،مدرسہ فتح العلوم چنیوٹ ،مدرسہ عربیہ تعلیم القرآن ختم نبوت چناب نگر ،جامعہ محمودیہ جھنگ ،دارالعلوم جھنگ ،جامعہ عثمانیہ شور کوٹ ،جامعہ خیرالمدارس ،جامعہ قاسم العلوم ،دارالعلوم رحیمیہ ملتان ،جامعہ عمر بن خطاب ،جامعہ باب العلوم کہروڑ پکا ،جامعہ فاروقیہ شجاع آباد ،دارالعلوم کبیر واال ،جامعہ قادریہ حنفیہ ملتان ،جامعہ مفتاح العلوم ،مدرسہ سراج العلوم سرگودھا ،جامعہ حقانیہ ساہیوال، سرگودھا وؼیرہ ،داراالرشاد اٹک ،اشاعت القرآن حضرو ،مدرسہ عربیہ سعدیہ سراجیہ میانوالی،
MERITEHREER786@GMAIL.COM 10جامعہ قادریہ بھکر بھی روایتی مدارس ہیں؟ اور ان میں روایتی مولوی بنائے جاتے ہیں؟ جہاں کی اکثریت میں دورئہ حدیث کے عَّلوہ تخصصات بھی کرائے جاتے ہیں۔ چشتی صاحب کچھ تو خدا کا خوؾ کریں! مدارس ،مساجد اور م اَُّلو مولوی اور صوفی کی مخالفت میں حقائق سے اؼماض نہ کریں اور یہ بات ذہن میں رکھیں کہ یہ دین ہللا کا باغ ہے اور اس باغ کا مالک کائنات کا مالک ہے ،وہ جس طرح باغ لگانا جانتا ہے ،اسی طرح اس کی حفاظت و صیانت اور اس کے لئے رجال کار پیدا کرنا اور ان کو اپنے اس عظیم کام کے لئے منتخب کرنا بھی جانتا ہے ،میری اور آپ کی مخالفت سے نہ صرؾ یہ کہ یہ چراغ نہیں بجھے گا ،بلکہ انشاء ہللا مدہم بھی نہیں ہوگا ،کیونکہ ارشاد ٰالہی ہے: وانورہللا بافواہہم ٰ ّ ّٰ وہللا متم نورہ ولوکرہ الکافرون“ لیطفو ”یریدون ٴ
علوم نبوت حاصل کرنے والوں کی توہین و …:۴جناب چشتی صاحب دین ،دینی تعلیم اور ِ تخفیؾ
ہوئے
کرتے
ارشاد
ہیں:
فرماتے
” ہمارے دیہات اور شہروں میں کم آمدنی والے لوگ اسکول کی بھاری فیس اور بچے کے وزن سے زیادہ وزنی کتابوں کا بوجھ نہ اٹھاسکنے کی وجہ سے اپنے بچوں کو مسجد میں دینی تعلیم کے لئے بھیج دیتے ہیں ،ستم کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے بعض کھاتے پیتے لوگ بھ ی اس قدر مذہبی ہوتے ہیں کہ وہ بھی اپنے بچوں کو چار چھ جماعتوں تک اسکول میں پڑھانے کے بعد دینی تعلیم کے لئے مسجد میں ڈال دیتے ہیں ،جہاں پر مسجد اور مدرسہ کے مولوی حضرات کا کسی دوسرے بڑے تعلیمی ادارے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی سرکاری
یا
ؼیر
سرکاری
ادارہ
اسے
باقاعدہ
کنٹرول
کرتا
ہے۔“
جناب چشتی صاحب! نے اس پیراگراؾ میں بیک جنبش قلم کئی ایک ایسے ارشادات فرمائے ہیں ،جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ،مثَّلً ” :ان مدارس میں کم آمدنی والے اور ؼریب و نادار ،حضرات کے بچے پڑھتے ہیں یا جو اسکول کی فیس نہیں برداشت کرسکتے
MERITEHREER786@GMAIL.COM 11وہی اپنے بچوں کو مساجد و مدارس میں بھیجتے ہیں اور زیادہ تر دیہات کے لوگ ہی اس طرؾ
توجہ
کرتے
ہیں۔“
اے کاش! کہ چشتی صاحب نے کبھی کسی مدرسہ کی زیارت کی ہوتی؟ یا انہوں نے کسی مدرسہ کے طلبہ کا سروے کیا ہوتا ،تو ان کو معلوم ہوتا کہ ان مدارس میں کون لوگ پڑھتے ہیں؟ اور ان کی مالی حالت کیا ہے؟ یا ان کے والدین اپنے بچوں کو کس وجہ سے پڑھا تے ہیں؟ اور وہ معاشی اعتبار سے مفلوک ہیں؟ یا خوشحال؟ وہ اسکولوں کی فیس دے سکتے تھے یا نہیں؟ چشتی صاحب! اگر آپ اپنے راحت کدہ سے نکل کر کسی دینی مدرسہ میں جانے کی زحمت گو ارہ کرلیتے تو آپ کو اندازہ ہوتا کہ ان دینی مدارس میں جہاں ؼربأ اور فقرأ کے بچے پڑھتے ہیں ،وہاں کثیر تعداد ،ان طلبہ کی بھی ہے ،جو خیر سے کروڑ نہیں ارب پتی ہیں، اور وہ نہ صرؾ مدرسہ کے مطبخ سے کھانا نہیں کھاتے ،بلکہ وہ الکھوں روپے کے فنڈ مدرسہ میں دے کر دینی تعلیم کی اشاعت و ترویج کی سعادت بھی حاصل کرتے ہیں۔ چشتی صاحب! امریکا ،افریقہ ،برطانیہ ،فرانس ،اٹلی ،جرمنی ،سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا ،مَّلئیشیا وؼیرہ کے طلبہ معاشی مجبوری کے لئے نہیں ،دینی تعلیم کے شوق سے دینی مدارس میں پڑھنے آتے ہیں۔ چلئے! اگر کوئی محروم القسمت مال دار اپنے بچوں کو دین نہیں پڑھاتا یا آپ کی طرح اس کو مدارس میں دینی تعلیم حاصل کرنے میں عار محسوس ہوتی ہے تو آپ ہی بتَّلئیں اس میں مَّل ،مولوی ،صوفی ،مسجد و مدرسہ یا دین کا کیا قصور ہے؟ چشتی صاحب! اگر آپ نے حدیث پڑھی ہوتی تو آپ کو اندازہ ہوتا کہ آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہنے والے بھی زیادہ تر ؼرباء و فقراء ہی تھے ،کیا حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہنے والوں کو بھی آپ یہ طعنہ دیں گے کہ وہ معاشی مسائل سے مجبور ہوکر کفر سے ایمان کی طرؾ آئے تھے؟ کیا آپ ان کے بارہ میں بھی یہ ریمارکس دیں گے کہ” :ان لوگوں کا دین سے تعلق کم اور روزگار سے زیادہ تھا؟“ اگر مدرسہ صفہ میں پڑھنے اور رہنے والے محض دین و مذہب کی خاطر پڑھتے تھے اور ان کا یہ کارنامہ الئق
MERITEHREER786@GMAIL.COM 12تقلید تھا ،تو آج چودہ سو سال بعد ان کے نقش قدم پر چلنے والے اور مادہ پرست دنیا اور ہوأ و ہوس کو خیر باد کہہ کر اپنے ”روشن“ مستقبل کو ”تاریک“ کرنے والے فرزانے بھی الئق مَّلمت نہیں بلکہ باعث صد تبریک ہیں۔ اسی طرح آپ کا یہ ارشاد بھی سراسر ؼلط اور مضحکہ خیز ہے کہ ” ان روایتی مدارس کا کسی بڑے تعلیمی ادارے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، اور ان کو سرکاری و ؼیر سرکاری کوئی ادارہ باقاعدہ کنٹرول نہیں کرتا“ اس لئے کہ پاکستان بھر کے دینی مدارس مکاتب اور جامعات کا حسب مسلک اپنا اپنا ایک وفاق ہے اور وہ تمام مدارس اس کے ساتھ ملحق ہیں اور ان کی تعلیمی نگرانی اور دیکھ بھال کا باقاعدہ نظام ہے ،ان کے ساالنہ امتحان ہوتے ہیں ،ان کے پرچے بنتے ہیں ان کے ممتحن ہوتے ہیں اور حسب استعداد و صَّلحیت کامیاب ہونے والوں کی درجہ بندی کے اعتبار سے سند جاری کی جاتی ہے اور ناکام ہونے والوں کا محاسبہ کیا جاتا ہے ،چنانچہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان ،تنظیم المدارس ،اتحاد المدار س ،وفاق المدارس سلفیہ وؼیرہ نام کے دینی مدارس کے متعدد وفاق سرگرم عمل ہیں اور ان سب کا ایک متحدہ وفاق ”اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ“ کے نام سے بھی ہے ،جو ملک بھر کے مختلؾ مدارس کے اہم مسائل کے حل کے لئے سرگرم عمل ہے۔ ہماری اطَّلع کے مطابق وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ساتھ ملک بھر کے بارہ ہزار سے زائد چھوٹے بڑے دینی مدارس و مکاتب اور جامعات منسلک ہیں ،اور اس کی جانب سے تمام دینی مدارس کے الحاق و انسَّلک کی سند جاری کی جاتی ہے اور جو مدارس تعلیمی یا انتظامی میدان میں کوتاہی کے مرتکب پائے جائیں ،ان کی سند الحاق ختم کردی جاتی ہے اور ہر تین سال بعد اس سند الحاق کی تجدید کی جاتی ہے اور ساالنہ اس وفاق کے تحت تقریبا ً الکھوں بچے اور بچیاں امتحان دیتے ہیں ،چنانچہ گزشتہ سال وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے تحت ایک الکھ سے زائد طلبہ و طالبات نے امتحان دیا۔ چشتی صاحب! اگر آپ احمقوں کی جنت میں ب نصؾ النہار کی تکذیب و انکار کے مترادؾ ہے۔ نہیں رہتے تو ان حقائق کی تکذیب آفتا ِ …:۵جناب چشتی صاحب! دینی مدارس اور مولوی کے خَّلؾ اپنے بؽض و عداوت کا اظہار
MERITEHREER786@GMAIL.COM 13کرتے ہوئے فرماتے ہیں” :ان کا نصاب بھی یکساں نہیں ہوتا ،ہر ایک مسجد کے مولوی کا اپنا قانون ہوتا ہے ،وہ تعلیمی لحاظ سے کسی ضابطے کا پابند نہیں ہوتا ،اکثر مولوی حضرات کا اپنے شاگردوں کے ساتھ رویہ نہایت متشددانہ ہوتا ہے ،اور وہ اپنے شاگردوں کے لئے جَّلد سے کم نہیں ہوتے ،ان کے تشدد سے ڈر کر بھاگنے والے طلبہ کو وزنی زنجیر ڈال کر رکھا جاتا ہے ،امام مسجد ہی بچوں کو پڑھاتا ہے ،خود ہی امتحان لیتا ہے اور خود ہی پاس کرکے دستار فضیلت سجادیتا ہے ،اس بچوں کے والدین کو بلواکر کامیاب طلبہ کے سر پر خود ہی ِ تقریب کا نام رسم دستار بندی ہوتا ہے یعنی یہ سارا کام ہر مولوی اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ
کے
مترادؾ
چَّلتا
ہے۔“
چشم بددور! چشتی صاحب کی معلومات کا اندازہ لگایئے کہ ”:ان مدارس کا نصاب یکساں نہیں ہوتا“ اگر ایسا ہوتا تو دینی مدارس اپنے نصاب کے تحفظ کی خاطر حکومت سے جنگ کیوں اصول فقہ، لڑتے؟ کیا چشتی صاحب کو معلوم نہیں کہ دینی مدارس کا نصاب قرآن ،سنت ،فقہ ِ اصول تفسیر ،منطق ،فلسفہ ،معانی ،بدیع کے عَّلوہ صرؾ و نحو، اصول حدیث ،تفسیر، حدیث، ِ ِ درس انگلش ،اردو ،ریاضی ،سائنس ،کمپیوٹر ،کے مضامین پر مشتمل ہوتا ہے اور یہ نصاب ِ نظامی کے نام سے مشہور و متعارؾ ہے۔ کیا یہ حق و سچ نہیں کہ امریکا ،برطانیہ اور بیرونی قوتیں ان دینی مدارس کے اس خالص دینی ،مذہبی نصاب سے خائؾ ہیں؟ کیا اس کو جھٹَّل نا ممکن ہے کہ اپنے آقاؤں کے اشارہ پر ہماری حکومت دینی مدارس کے نصاب میں تبدیلی کی خواہش میں ہلکان ہے؟ اگر ان مدارس کا کوئی نصاب نہ ہوتا تو حکومت کو اس مہم ب مدارس کو اس ک ے لئے مجبور کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ چشتی صاحب! چَّلنے یا اربا ِ اگر دینی مدارس کے اساتذہ کا اپنے تَّلمذہ کے ساتھ متشددانہ رویہ ہوتا ہے یا ان کو زنجیروں میں ڈال کر رکھا جاتا ہے ،تو آنجناب نے اس کی کوئی ایک آدھ مثال ہی پیش کی ہوتی؟ اگر بالفرض ایسا ہوتا تو آپ جیسے اسَّلم اور مدارس دشمن زمین و آسمان کو سر پر نہ اٹھالیتے؟ کیا دنیا بھر کی این جی اوز اور ہیومن رائٹس کی انجمنیں شور قیامت نہ برپا کردیتیں؟ اگر نہیں
MERITEHREER786@GMAIL.COM 14اور یقینا ً نہیں تو اس ڈفلی بجانے اور مدارس کو بدنام کرنے کا کیا معنی؟ چشتی صاحب! مولوی روز اول سے منظم ہے اور اس کا نظام مربوط ہے ،اس کا انداز ناصحا نہ اور مشفقانہ ہے، ِ باوجود اس کے کہ دین پڑھنے والوں کے لئے دنیاوی اور سرکاری مَّلزمتوں کے دروازے بند ہیں ،پھر بھی بقول آپ کے” :اچھے کھاتے پیتے مسلمان اپنے بچوں کو دینی مدارس میں تعلیم کے لئے داخل کرادیتے ہیں“ دوسری طرؾ دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والوں کی کثرت کا یہ عالم ہے کہ بڑے دینی مدارس میں داخلہ ملنا مشکل ہے ،اور خود دینی مدارس بھی ہمیشہ اپنی کوتاہ دامنی کے باعث دینی تعلیم حاصل کرنے والوں سے معذرت خواہ رہتے ہیں، کیا اب بھی کہا جائے کہ ان میں تشدد ہوتا ہے؟ اگر مدارس میں تشدد ہوتا یا ان میں طلبہ کو زنجیریں ڈالی جاتیں تو دینی مدارس میں پڑھنے کون آتا؟ چشتی صاحب! اگر آپ بُرا نہ منائیں تو آپ کی اطَّلع کے لئے عرض ہے کہ ہمارے مدارس و مکاتب میں تشدد و مارپیٹ کی سختی سے ممانعت ہے ،یقین نہ آئے تو ملک بھر کی سب سے اسَّلمی دینی مدارس کی چین اقرأ روضة االطفال ٹرسٹ کے مدارس اور ملک بھر میں پھیلی ہوئی اس کی ایک سو چھپن برانچوں میں جاکر دیکھ لیجئے ! چھپن ہزار سے زائد طلبہ کے والدین ،اساتذہ اور خود ان مدارس میں پڑھنے والے طلبہ سے پوچھ کر دیکھئے کہ وہاں مارپیٹ اور تشدد کی کس قدر سختی سے ممانعت ہے؟ چشتی صاحب! دینی مدارس اور ان کا نظام و نصاب ماشاء ہللا منظم و مربوط ہے اور ان کا انداز تعلیم بھی دنیا بھر کے ترقی یافتہ اسکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں سے کسی اعتبار سے کم نہیں ہے ،ہاں البتہ آپ کو اور صرؾ آپ کو ہی ان سے اختَّلؾ ہے اور آپ ان کے خَّلؾ اکیلے اپنی ڈفلی اپنا راگ االپ رہے ہیں! جناب چشتی صاحب! عین ممکن ہے کہ آپ نے جس نام نہاد مدرسہ یا مکتب میں پڑھا ہو ،وہاں کے نام نہاد ظالم مَّل نے آپ کے ساتھ ”ؼیر انسانی“ سلوک کیا ہو ،آپ پر ناروا تشدد کیا ہو ،یا آپ کی شرارتوں سے مجبور ہوکر اس نے آپ کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ،پاؤں میں زنجیر اور بیڑیاں ڈالی ہوں ،تو ہم برمَّل کہیں گے کہ اس روایتی اور نام نہاد مَّل کا یہ کردار قابل صد نفرت ہے،
MERITEHREER786@GMAIL.COM 15اور آپ کے ساتھ اس نے بے جا ظلم کیا ہے ،مگر ایک ظالم کے ”مخصوص حاالت“ میں ظلم کو جواز بناکر آپ تمام دینی مدارس ،مکاتب کے نظام اور علماء کے کردار کو ہدؾ تنقید بنائیں،
یہ
بہرحال
ہے۔
زیادتی
…:۶چشتی صاحب کو یہ بھی اعتراض ہے کہ” :مولوی حضرات سرکاری یا ؼیر سرکاری جگہ پر قبضہ کرکے مسجد بنالیتے ہیں ،اور پاکستان میں سڑکوں پر ۰۰فیصد تجاوزات مساجد ،واپڈا اور ٹیلی فون کے کھمبوں کی وجہ سے ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ ہمارا موجودہ مسجد بنانے
کا
نظام
متحدہ
ہندوستان
کے
مندر
بنانے
متاثر
سے
ہے۔“
اے کاش! چشتی صاحب نے اپنا زور قلم مسجد و مَّل کے بجائے بے دینی کے مراکز ،مشنری اسکولوں ،ارتدادی اداروں ،قادیانی ،ذکری ،منکرین ِ حدیث اور ملحدین کے مراکز کے خَّلؾ صرؾ کیا ہوتا؟ کیا ان کو جگہ جگہ این جی اوز کے مراکز ،اسَّلم دشمن اڈوں اور مسلمانوں کی جیبوں سے رقم بٹورتے ہسپتال اور اسکول بھی کبھی نظر آئے؟ آخر ان کو مسجد و مدرسہ ہی کیوں کھٹکتا ہے؟ کیا پاکستان اور اس کی سرکاری امَّلک پر ان کا حق ہے؟ جو ان کو شیر مادر
سمجھ
کر
…:۲
چشتی
صاحب
ہضم کو
کررہے یہ
بھی
ہیں؟ شکایت
آخر ہے
کیوں؟ کہ
:
” ان مولویوں کی وجہ سے ہم ملک بھر میں ایک دن عید نہیں کرسکتے۔“ ٰ تعالی کی ذات پر کرنا چاہئے کہ اس نے ملک حضور گستاخی معاؾ! یہ اعتراض تو آپ کو ہللا ٰ تعالی بھر میں ایک وقت میں سورج و چاند کے طلوع و ؼروب کا نظام کیوں نہیں بنایا؟ اگر ہللا مؽربی ممالک ،مؽربی عَّلقوں یا سطح زمین سے اونچے عَّلقوں میں چاند پہلے نکال دیں اور مشرقی یا زیریں عَّلقوں میں وہی چاند دوسرے دن دکھَّل دے تو اس میں مولوی کا کیا قصور ہے؟ حضور! ہللا کا رسول تو یہ اعَّلن کرتا ہے کہ” :چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر روزہ افطار کرو (عید کرو)۔“ مگر آپ ہیں کہ کہتے ہیں چاند نظر آئے یا نہ نظر آئے ایک ہی دن عید ہونی چاہئے ،اگر آپ کی یہ منطق مان لی جائے تو کیا خیال ہے کل کَّلں آپ یہ نہ
MERITEHREER786@GMAIL.COM 16فرمائیں گے کہ پوری اسَّلمی دنیا ،بلکہ دنیا بھر کے پورے مسلمان ایک ہی دن روزہ رکھیں اور عید کریں ،کیا یہ ممکن ہوگا؟ کہ جہاں ابھی سورج ؼروب ہی نہیں ہوا وہاں چاند کیونکر نظر آئے گا؟ پھر یہ بھی ممکن ہے کہ کل کَّلں آپ فرمائیں کہ ایک ہی وقت میں فجر اور مؽرب کی نماز ادا کی جائے ،کیا خیال ہے کہ پشاور اور سرحد کے باالئی عَّلقوں میں سورج ؼروب ہوچکا ہوگا مگر سندھ کے مطلع پر سورج چمک رہا ہوگا لیکن آپ کی تجویز اور حکم پر مؽرب کی نماز کا ادا کرنا الزم ہوگا ،اسی طرح جب پشاور اور باالئی عَّلقوں میں صبح کے وقت سورج نکل چکا ہوگا اور دوسری طرؾ کراچی اور مضافات میں سورج نکلنے میں ابھی نصؾ گھ نٹہ باقی ہوگا تو کیا اس وقت پشاور اور کراچی والوں کو ایک وقت میں فجر کی نماز ادا کرنا ممکن ہوگا؟ چشتی صاحب! ہوش کے ناخن لیں اور قدرت ٰالہی کے کرشموں میں دخل …:۲
دینے چشتی
کی صاحب
کو
حماقت یہ
بھی
نہ شکایت
کریں۔ ہے
کہ:
”مذہبی علماء اب تک دنیاوی اور دوسری زبانوں کی تعلیم کی مخالفت کرتے چلے آرہے ہیں، دوسری طرؾ ایک حدیث مبارکہ بھی بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم نے فرمایا کہ ”:علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین تک جانا پڑے۔“ قابل ؼور بات ہے کہ کیا ان دنوں چین میں بہت عربی پڑھائی جاتی تھی؟ اس کا مطلب تو یہ تھا کہ مسلمانوں کو دنیا کا ہر علم حاصل کرنا چاہئے لیکن یہ خدا کے بندے عربی کے سوا ہر علم کی مخالفت کرتے چلے آرہے ہیں۔“ چشتی صاحب! علماء نے بحمدہللا عربی کے عَّلوہ کسی دوسری زبان سیکھنے کی کبھی مخالفت نہیں کی ،یہ آپ کی بھول ہے ،اگر ایسا ہوتا تو اسَّلمی لٹریچر عربی کے عَّلوہ کسی دوسری زبان میں نہ ہوتا ،حاالنکہ بحمدہللا عربی کے عَّلوہ اردو ،فارسی ،ہندی ،سنسکرت، مرہٹی ،انگلش ،فرانسیسی اور ڈچ زبان میں ضروری اسَّلمی تعلیمات کی کتب موجود ہیں ،بلکہ اسَّلم کے مرکز سعودی عرب سے تو دنیا بھر کی زبانوں میں اسَّلمی لٹریچر تیار کرکے تقسیم کیا جات ا ہے اور رابطہ عالم اسَّلمی مستقل یہ خدمت انجام دے رہا ہے۔ اس کے عَّلوہ پاکستان
MERITEHREER786@GMAIL.COM 17کے علماء جن سے آپ کو شکایت ہے کہ وہ عربی کے عَّلوہ کسی دوسری زبان سیکھنے کے مخالؾ ہیں ،ان کے دینی مدارس کے نصاب میں انگلش کے مضامین کو خصوصی اہمیت سے پڑھا یا جاتا ہے ،بلکہ کئی ایک مدارس میں اس کے باقاعدہ تخصصات کرائے جاتے ہیں اور ان ہی روایتی مدارس سے باقاعدہ انگریزی ماہناموں کا اجرأ ہوچکا ہے اور انگلش تراجم کا مستقل تحفہ قادیانیت ،آپ کے مسائل اور ان شعبہ قائم ہے ،چنانچہ تفسیر عثمانی ،تفسیر معارؾ القرآن، ٴ کا حل ،اختَّلؾ امت اور صراطِ مستقیم کے انگلش تراجم ہوچکے ہیں۔ اس کے عَّلوہ ماہنامہ بینات ،ماہنامہ البَّلغ ،ماہنامہ الفاروق کے انگلش ایڈیشن انہی مدارس سے شائع ہوتے ہیں۔ جہاں تک علماء کی طرؾ سے انگلش سے احتراز اور پرہیز کا تعلق ہے وہ ایک خاص وقت کے سرکار انگلشیہ ہم پر مسلط تھی اور اس لئے تھا اور وہ بھی صرؾ اس لئے کہ کسی زمانہ میں ِ کی کوشش تھی کہ ہندوستان پر انگریزی تسلط کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان اور اس کی تہذیب بھی مسلط کی جائے ،اس لئے اس وقت کے علماء نے مسلمانوں کے دین و مذہب اور اسَّلمی تہذیب و ثقافت کو بچانے کے لئے شدت سے انگریزی کی مخالفت کی تھی۔ جب ہندوستان سے انگریزی اقتدار کا تسلط ختم ہوگیا اور انگریز ہندوستان سے بوریا بستر لپیٹ کر چَّل گیا تو خود مسلمانوں نے انگریزی عَّلقوں اور ممالک کے لوگوں کو دینی تعلیم و تہذیب اور اسَّلم و ایمان کی دعوت دینے کے لئے نہ صرؾ انگریزی سیکھنے کی اجازت دے دی ،بلکہ اس طرؾ خصوصی توجہ فرمائی ،یہی وجہ ہے کہ آج تمام دینی مدارس میں انگریزی پڑھائی جاتی ہے اور دینی مدارس کے نصاب میں میٹرک کرنا الزم قرار دیا جاچکا ہے اور انہی دینی مدارس ٰ اعلی مناصب پر کے جدید تعلیم یافتہ افراد فوج ،پولیس ،اسکول ،کالج اور یونیورسٹیوں میں خدمات انجام دے رہے ہیںٰ ،لہذا آج بھی علماء اور دین دار مسلمانوں کا یہی موقؾ ہے کہ ضرور انگریزی سیکھی جائے مگر اس کی تہذیب و ثقافت کو نہ اپنایا جائے۔ جہاں تک آپ کی پیش کردہ حدیث کا تعلق ہے کہ” :علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین تک جانا پڑے۔“ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس حدیث کو اہل علم و تحقیق نے موضوع اور منگھڑت قرار دیا ہے اور ایک
MERITEHREER786@GMAIL.COM 18موضوع و منگھڑت روایت کو بنیاد بناکر علماء کو مطعون کرنا یا اس کو انگریزی زبان اہل علم“ کا ہی کام ہوسکتا ہے۔ تاہم سیکھنے کا جواز اور استدالل بنانا ،چشتی صاحب جیسے ” ِ اگر اس حدیث کو تسل یم بھی کرلیا جائے تو اس کا معنی یہ ہے کہ علم سے دینی علم کا حصول مراد ہے ،اور چین کا لفظ انتہائی سفر کے لئے بوال گیا ہے ،کیونکہ اس وقت چین عربوں کے لئے بعید ترین ملک تھا ،جس کا معنی یہ ہوگا کہ علم دین کی تحصیل کے لئے بعید سے بعید سفر
سے
بھی
گریز
نہ
کیا
جائے۔
…:۰چشتی صاحب کا اپنے کالم کا یہ عنوان قائم کرنا کہ ”:ہماری ذلت و رسوائی کا سبب کیا ہے؟“ پھر اس کے بعد پورے کالم میں علماء کو رگیدنا اور دینی مدارس کی توہین و تنقیص کرنا ،اس بات کی بین اور واضح دلیل ہے کہ ان کے نزدیک اس وقت دنیا بھر میں یا کم از کم پاکستان میں مسلمانوں کی ذلت و رسوائی کا سبب صرؾ اور صرؾ م اَُّل و مولوی اور روایتی دینی مدارس ہیں ،اگر یہ مدارس اور مولوی نہ ہوتے تو نامعلوم دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہوتی؟ اور عالمی طور پر پاکستان کا وقار و معیار کس قدر بلند ہوچکا ہوتا؟ چشتی صاحب! گستاخی معاؾ! پاکستان یا مسلمانوں کی ذلت و رسوائی کا سبب م اَُّل و مولوی یا روایتی دینی مدارس و مساجد کے بجائے ،جدید تعلیم یافتہ حضرات ،بیورو کریسی ،اسٹیبلشمنٹ اور آپ جیسے لکھے پڑھے حضرات ہی ہیں ،اس لئے کہ م اَُّل مولوی کے ذمہ جو کام اور ڈیوٹی لگی تھی ،بحمدہللا! روز اول سے آج تک وہ اس کو بحسن و خوبی نبھارہا ہے ،مثَّلً م اَُّل ،مولوی، صوفی اور دینی مدارس کے ذمہ تھا کہ وہ مسلمانوں کو دین و مذہب سے آشنا کریں ،ہللا کی مخلوق کو ہللا کا پیؽام پہنچائیں ،امت کو قرآن و حدیث سے روشناس کرائیں ،جائز و ناجائز، حرام و حَّلل ،پاک و ناپاک سے آگاہ کریں ،ان کو اسَّلم کے فرائض ،سنن ،آداب کی تعلیم دیں، معاشی و اقتصادی مسائل سے مطلع کریں ،مسلمانوں کو نماز ،روزہ ،حجٰ ، زکوة ،نکاح ،طَّلق، خریدوفروخت ،شفعہ ،وکالت ،کفالت ،طہارت ،ؼسل ،وضو ،تیمم ،موت ،میت ،جنازہ ،تکفین و تدفین کے احکام بتَّلئیں ،کفر ،اسَّلم ،ارتداد ،زندقہ ،منافقت کی نشاندہی کریں ،حدود ،قصاص،
MERITEHREER786@GMAIL.COM 19تعزیرات کی تفصیَّلت بتَّلئیں ،اگر کوئی طالع آزما مسلمانوں کو شکوک و شبہات میں مبتَّل کرے تو اس کا دفاع کریں ،اس کا جواب دیں ،مناظرہ ،مباہلہ کی ضرورت پیش آئے تو اسَّلم اور مسلمانوں کی نمائندگی کریں ،مسلمانوں کی نمازوں ،جنازوں ،نکاح و طَّلق کے معاملہ میں علوم نبوت کی تعلیم دیں ،آپ ہی علوم قرآن اور ان کی مدد کریں ،مسلمان بچوں کو قرآن، ِ ِ بتَّلئیں کہ م اَُّل و مولوی نے آج تک ان میں سے کس میدان میں پیٹھ دکھائی ہے؟ یا کس شعبہ میں ا س نے اپنے فرائض میں کوتاہی برتی ہے؟ اس نے آپ کو مولوی دیئے ،مدرس دیئے، موذن دیئے ،مفتی دیئے ،محقق دیئے ،مقرر دیئے ،حافظ دیئے ،قاری دیئے اور آپ کو اچھے شہری دیئے ،پھر اس کا سب کچھ اول آخر ملک کے لئے ہے ،اس نے کبھی کسی کے کہنے پر اپنا موقؾ نہیں بدال ،ملک سے ؼداری نہیں کی ،وہ ملک کا سرمایہ لوٹ کر نہیں بھاگا ،اس نے کسی ملک کی امیگریشن نہیں لی۔ اس کے مقابلہ میں آپ جیسے لکھے پڑھے حضرات اور بیوروکریٹ جو ملک کے سیاہ و سفید کے مالک تھے ،ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ ملک کے نظم و نسق کو چَّلئیں ،ملک کو معاشی ،اقتصادی اور انتظامی معامَّلت میں ترقی سے ہمکنار ک ریں ،بین االقوامی طور پر ملک کی عزت و وقار کو بحال کریں ،ملک کو ایک اسَّلمی فَّلحی ریاست بنائیں ،عوام کے مسائل کو حل کریں ،ملک میں امن و امان قائم کریں ،ملک سے چوری ،ڈکیتی ،مار دھاڑ ،قتل و ؼارت گری کا خاتمہ کریں ،آجر و اجیر اور حاکم و محکوم کو ان کے حقوق و فرائض اور ذمہ داریوں کا احساس دالئیں ،عدل و انصاؾ کا بول باال کریں ،ظلم و تعدی کا خاتمہ کریں ،تعلیم و صحت کا انتظام کریں اور نئی نسل کو تعلیم و تربیت سے آراستہ کریں ،انہیں ملک و قوم کا وفادار بنائیں اور قوم کو اچھے شہری مہیا کریں۔ اب آپ ہی بتائیں پاکستان کو معرض وجود میں آئے ہوئے ۶۱سال کا طویل عرصہ ہوچکا ،ان اکسٹھ سالوں میں آپ کے سرکاری خزانہ پر چلنے والے اسکولوں ،تعلیمی اداروں ،ان سے نکلنے والے اسکالروں ،بیوروکریٹوں اور حکمرانوں نے ملک و قوم کو کیا دیا؟ کتنے سائنس دان دیئے؟ کتنے محقق دیئے؟ کتنے ملک و قوم کے خیر خواہ دیئے؟ ان کی برکت سے ملک نے
MERITEHREER786@GMAIL.COM 20کیا ترقی کی؟ ملکی مصنوعات میں کتنا اضافہ ہوا؟ معاشی و اقتصادی اعتبار سے ملک کتنا آگے بڑھا؟ پاکستان کے ۶۱سال کی ترقی کی رفتار کا جائزہ لیجئے تو اندازہ ہوگا کہ اس نے ترقی معکوس کی ہے ،دوسری طرؾ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والے انڈیا کا جائزہ لیجئے تو وہ آج ہر میدان میں ہم سے کہیں آگے ہے ،اس نے ہر میدان میں نمایاں ترقی کی ہے ،اس نے درآمدات و برآمدات میں نام پیدا کیا ہے ،اس کی مصنوعات دنیا بھر میں پہنچ چکی ہیں ،وہ وہیکل مصنوعات میں چائنا اور جاپان سے کندھا مَّلنے کی پوزیشن میں ہے ،اس نے ایٹمی میدان میں نام کمایا ہے ،ؼرض ہر میدان میں اس نے اپنے افراد پیدا کئے ہیں ،اور ان کا ہر شہری اپنے ملک و قوم کا خیر خواہ ہے۔ جب کہ پاکستان کا یہ حال ہے کہ اس کی اپنی کوئی پالیسی نہیں ،ہمت نہیں ،جرأت نہیں ،امریکا اور یورپی قوتوں کا کاسہ لیس ہے ،ان کے اشارئہ ابروئے چشم پر سب کچھ ڈھیر کرنے کو تیار ہے ،اپنے شہری پکڑ پکڑ کر امریکا کے حوالہ کئے جارہے ہیں؟ حد تو یہ ہے کہ ہمیں اپنے ملک کے نظم و نسق کو چَّلنے کے لئے وزیر مشیر نہیں ملتے ،چنانچہ ہمیں وزیر اعظم کے لئے کبھی امریکا سے معین قریشی منگوانا پڑتا ہے تو کبھی شوکت عزیز۔ آپ ہی فیصلہ فرمادیں کہ ہماری ذلت و رسوائی کا سبب مَّل ،مولوی ہے یا سرکاری اسکول و کالج اور یونیورسٹی کا لکھا پڑھا بیوروکریٹ؟ پھر یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ ہمارا نوجوان طبقہ اور اسکولوں کالجوں کی پیدوار اپنے ملک و قوم کی خدمت کرنے کے بجائے امریکا ،کینیڈا اور یورپ کی ایمیگریشن لے کر باہر بھاگ رہا ہے اور کیوں نہ ہو کہ اس کو اپنے ملک میں اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ وہ کبوتروں کی مانند ایک ایک کرکے اؼیار کے آشیانوں پر جمع ہورہے ہیں ،آپ ہی بتَّلئیں کہ ہماری ذلت و رسوائی کا سبب یہ م اَُّل و مولوی ہے یا آپ جیسے ننگ دین وطن؟ جن کی مفاد پرستی اور حرص و طمع کی وجہ سے ہمیں یہ سننے کو ملتا ہے کہ” :پاکستانی قوم ایسی بے ؼیرت اور اللچی ہے کہ اگر اس کو اپنی ماں بیچ کر پیسے حاصل کرنا پڑیں تو وہ اس سے بھی دریػ نہیں کرتی؟ جناب چشتی صاحب !اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر بتَّلیئے کہ م اَُّل و مولوی نے آپ کو
MERITEHREER786@GMAIL.COM 21ملکی ترقی سے کب روکا تھا؟ اس نے آپ کو کب کہا تھا کہ ایٹم بم نہ بنایئے؟ اس نے آپ کو کب کاریں ،موٹریں ،بسیں اور ٹرک بنانے سے منع کیا تھا؟ اس نے کب کہا تھا کہ آپ ہوائی جہاز نہ بنائیں؟ اس نے کب کہا تھا کہ قوم کو ریلیؾ نہ دیں؟ اس نے کب کہا تھا کہ ملک میں سڑکیں اور پل نہ بنائیں؟ اس نے کب کہا تھا کہ اپنے ملک کی دولت لوٹ کر باہر کے بینکوں میں جمع کرائیں؟ اس نے کب کہا تھا کہ آزاد عدلیہ پر شب خون ماریں؟ اس نے کب کہا تھا کہ ملک میں امن و امان قائم نہ کریں؟ اس نے کب کہا تھا کہ اپنے ملک اور قوم کو امریکا کی گود میں ڈال دیں؟ اس نے کب کہا تھا کہ اپنے شہریوں کو پکڑ کر امریکا کے حوالے کریں؟ اس نے کب کہا تھا کہ اپنے ملک کی معدنیات سے فائدہ نہ اٹھائیں؟ اس نے کب کہا تھا کہ پیٹرول اور گیس نہ نکالیں؟ اس نے کب کہا تھا کہ انڈیا سے معاہدہ کر کے اپنے دریا بند کروادیں؟ اس نے کب کہا تھا کہ ڈیم نہ بنائیں؟ اس نے کب کہا تھا کہ آئل ریفائنریاں نہ لگائیں؟ اس نے کب کہا تھا کہ قوم و ملک پر مہنگائی کا عفریت مسلط کریں؟ آپ ہی بتَّلئیں کہ ذلت و رسوائی کا سبب کون ہے :م اَُّل و مولوی یا ملک کے سیاہ سفید کا مالک بیوروکریٹ سرمایہ دار اور سیاست دان؟ چشتی صاحب! اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتَّلیئے کہ ملک کو دو لخت کس نے کیا؟ نوے ہزار فوجی کس نے گرفتار کروائے؟ مسئلہ کشمیر کو التوا ء میں کس نے ڈاال؟ محسن پاکستان اور ایٹمی سائنس دان کو کس نے ذلیل کیا؟ اس کو کارگل سے پیچھے کون ہٹا؟ ِ پابند سَّلسل کس نے کیا؟ ملک کو افراط زر کا شکار کس نے کیا؟ روپے کی قدر میں کمی کس کی برکت سے ہوئی؟ بینک سے قرضے لے کر کس نے معاؾ کرائے؟ بینک فراڈ کس نے کئے؟ ملکی خزانہ کو شیر مادر سمجھ کر کس نے ہضم کیا؟ بینک کرپٹ کون ہوئے؟ نیب اور احتساب کے سامنے ننگے کون ہوئے؟ اربوں روپوں کی امَّلک کو کوڑیوں کے عوض کس نے فروخت کیا؟ کے -ای -ایس -سی ،ٹی این ٹی جیسے نفع بخش اداروں کو کس نے فروخت کیا؟ پاکستان اسٹیل مل کو نیَّلم کرنے کا منصوبہ کس نے بنایا؟ ملک بھر کے سرکاری بینک اور ان کی کھربوں کی جائیدادیں کس نے نیَّلم کیں؟ بینک آؾ پنجاب کی دو برانچوں میں
MERITEHREER786@GMAIL.COM )۴۰۰۰۰۰۰۰۰۰( 22چار ارب روپے کا ؼبن کس نے کیا؟ اسی بینک کے آڈٹ کے دوران ظاہر ہونے والے ()۱۳۰۰۰۰۰۰۰۰۰تیرہ ارب روپے سے زائد کا فراڈ کس نے کیا؟ ایم پی ون تنخواہ اسکیل کے تحت ۶سال تک ۰۰فاضل افراد کو ()۳۵۰۰۰۰ساڑھے تین سے ( )۲۰۰۰۰۰سات الکھ ماہانہ کس نے عطا کئے؟ ذرا اندازہ تو لگایئے کہ ان چھ سالوں میں پاکستانی خزانہ کو کس قدر نقصان ہوا ہوگا؟ چنانچہ فی کس ( )۲۰۰۰۰۰سات الکھ کے حساب سے ۰۰افراد پر ماہانہ ()۶۰۳۰۰۰۰۰چھ کروڑ ترانوے الکھ ،ساالنہ ( )۶۲۳۱۶۰۰۰۰۰چھ ارب تئیس کروڑ اور سولہ الکھ ،جبکہ چھ سال میں ( )۳۲۳۲۰۶۰۰۰۰۰سینتیس ارب اڑتیس کروڑ اور چھیانوے الکھ روپے ،ان ریٹائرڈ اور فاضل افراد کی نذر کس نے کئے؟ جو خیر سے اپنی مدت مَّلزمت پوری کرچکے تھے اور ان کا کوئی خاص مصرؾ بھی نہ تھا ۔ (دیکھئے
روزنامہ
جنگ
کا
اداتی
صفحہ،
/۶مئی
۲۰۰۲ء)
اسی
طرح
()۴۵۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ساڑھے چار کھرب کے سرکاری مکانات اپنے منظور نظر افراد کو کوڑیوں کے دام کس نے االٹ کئے؟ (دیکھئے روزنامہ جنگ کراچی/۱۲ ،اپریل ۲۰۰۲ء) چشتی صاحب! ہماری بیوروکریسی کے یہ کارنامے ہماری ذلت و رسوائی کا سبب ہیں یا عزت کا؟ اور یہ بھی بتَّلیئے کہ یہ م اَُّل و مولوی نے انجام دیئے یا لکھے پڑھے بیوروکریٹس نے؟ ٰ تعالی امید ہے میری یہ چند گزارشات آپ کی ؼلط فہمی دور کرنے کے لئے کافی ہوں گی۔ ہللا ہمیں عقل سلیم نصیب فرمائے اور دوسروں پر کیچڑ اچھالنے کی بجائے اپنے محاسبہ کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین۔ ٰ تعالی علی خیر خلقہ وصلی ہللا
سیّدنا محمد وآلہ واصحابہ اجمعین
ٰ االخری ۱۴۲۰ھ جوالئی ۲۰۰۲ء ,جلد ,17شمارہ 6 اشاعت ۲۰۰۲ماہنامہ بینات ,جمادی