Who is responsoble mulla or mr

Page 1

‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪1‬‬

‫ذلت و رسوائی کا ذمہ دار‪،‬‬ ‫مسٹر یا م اَُّل؟‬ ‫الحمدہلل وسَّلم علی عبادہ الذین اصطفی‬

‫روزنامہ نوائے وقت کے سنڈے میگزین ‪/۲۲‬اپریل ‪۲۰۰۲‬ء میں ”ہماری ذلت و رسوائی کا سبب‬ ‫کیا ہے؟“ کے عنوان سے جناب محمد اختر چشتی پسروری صاحب کا ایک کالم شائع ہوا ہے‪،‬‬ ‫جس کے مندرجات سے پریشان ہوکر ہومیو ڈاکٹر جناب حافظ اقبال مسعود صاحب سیالکوٹ نے‬ ‫راقم الحروؾ کو اپنے مکتوب کے ساتھ اس کی کٹنگ بھیج کر فرمائش کی ہے کہ اس کو بؽور‬ ‫پڑھوں اور اس کا جواب لکھوں‪ ،‬جناب ڈاکٹر اقبال مسعود صاحب کا کہنا ہے کہ‪:‬‬ ‫” آپ کے مضامین اکثر رسالہ ختم نبوت میں پڑھتا ہوں اور جس طرح اسَّلمی اقدار پر پڑنے‬ ‫والی ضرب کا آپ جواب دیتے ہیں‪ ،‬اس سے نہ صرؾ ہماری علمی صَّلحیت میں اضافہ ہوتا‬ ‫ہے بلکہ ایمان کو بھی جَّل ملتی ہے‪ ،‬گزشتہ ہفتے سیالکوٹ میں چھپنے والے نوائے وقت‬ ‫سنڈے میگزین میں ایک مضمون نظر سے گزرا‪ ،‬میرے دل دماغ نے اس مضمون سے قطعا ً‬ ‫ناراضگی کا اظہار کیا‪ ،‬پتہ نہیں ایسا لگتا ہے کہ لکھنے والے نے انصاؾ نہیں کیا‪ ،‬میرا فوراً‬ ‫ذہن آپ کی طرؾ گیا‪ ،‬جناب کو اس لئے زحمت دی کہ اس کو بؽور پڑھیں‪ ،‬اگر لکھنے والے‬ ‫نے انصاؾ کیا ہے تو ٹھیک! وگرنہ اس کا جواب ضرور لکھئے گا‪ ،‬اورمہربانی سے اس کا‬ ‫جواب جب لکھیں تو مجھے بھی آگاہ کریں‪ ،‬تاکہ میں اپنی اصَّلح کرلوں۔“‬ ‫راقم الحروؾ نہ تو ڈاکٹر اقبال مسعود صاحب سے واقؾ ہے اور نہ ہی جناب محمد اختر چشتی‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 2‬پسرو ری سے‪ ،‬تاہم ڈاکٹر صاحب کے خط سے ان کی سَّلمتی ٴ فکر اور جناب محمد اختر چشتی‬ ‫صاحب کی تحریر سے ان کی بیمار ذہنیت اور علماء دشمنی کا اندازہ ہوتا ہے۔ جناب محمد اختر‬ ‫چشتی صاحب کے نام کے ساتھ ”چشتی“ کے الحقے سے اول وہلہ میں دل و دماغ میں یہی‬ ‫تصور ابھرتا ہے کہ موصوؾ بھی حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری قدس سرہ کی فکر‬ ‫و فلسفہ یا ان کے سلسلہ سلوک و احسان سے متعلق یا متاثر ہوں گے‪ ،‬مگر افسوس! کہ ان کی‬ ‫تحریر و کالم پڑھتے ہی یہ احساس و تاثر یکسر کافور ہوجاتا ہے‪ ،‬بلکہ ایسا لگتا ہے کہ انہوں‬ ‫نے یہ الحقہ بھی کسی خاص مصلحت یا حکمت کے تحت لگایا ہے‪ ،‬عین ممکن ہے کہ وہ دین‪،‬‬ ‫اہل دین کی توہین و تنقیص یا ان سے نفرت و بیزاری کے زہر‬ ‫مذہب‪ ،‬مسجد ‪ ،‬م اَُّل‪ ،‬مولوی اور ِ‬ ‫کو ”چشتی“ نسبت کے ؼَّلؾ میں لپیٹ کر سادہ لوح مسلمانوں اور عام انسانوں کے دل و دماغ‬ ‫میں اتارنا چاہتے ہوں؟ بہرحال کچھ بھی ہو‪ ،‬موصوؾ کا مضمون پڑھنے کے بعد ہر وہ مسلمان‬ ‫جس کو دین و مذہب‪ ،‬مسجد و مدرسہ اور م اَُّل و مولوی سے ذرہ بھر تعلق‪ ،‬یا سَّلمتی ٴ فکر سے‬ ‫کچھ بھی عَّلقہ ہو‪ ،‬وہ یہی سمجھے گا کہ موصوؾ نے مدارس‪ ،‬مساجد اور علماء کے ساتھ نہ‬ ‫صرؾ یہ کہ انصاؾ نہیں کیا‪ ،‬بلکہ ان کی بے جا مخالفت کرکے حق و انصاؾ کا خون اور‬ ‫اپنے بؽض ِ باطن کا اظہار کیا ہے۔ ذیل میں ہم چشتی صاحب کے کالم کے مندرجات کی‬ ‫فلسفہ پیش کرنے کی کوشش کرنا چاہیں گے‪:‬‬ ‫روشنی میں ان کی فکر و‬ ‫ٴ‬ ‫‪” …:۱‬چشتی“ صاحب دین‪ ،‬اہل دین‪،‬مساجد‪ ،‬مدارس اور علماء مخالفت میں ایسے حواس باختہ‬ ‫ہوئے کہ وہ اپنے مضمون کی ابتدا عَّلمہ اقبال کے اس شعر سے کر بیٹھے‪ ،‬جس میں عَّلمہ‬ ‫صاحب نے ”چشتی“ صاحب کے موقؾ کے برعکس صوفی و م اَُّل کی خدمات کو سَّلم عقیدت‬ ‫پیش‬ ‫سَّلم‬ ‫کہ‬

‫کیا‬

‫ہے‪،‬‬

‫مَّلحظہ‬

‫از‬

‫ہو‪:‬‬ ‫ما‬

‫پیؽام‬

‫”عَّلمہ‬ ‫صوفی‬ ‫خدا‬

‫اقبال‬

‫ایک‬

‫کا‬

‫فارسی‬ ‫م اَُّل‬

‫و‬ ‫گفتند‬

‫شعر‬

‫ہے‪:‬‬ ‫سَّلم‬ ‫مارا‬

‫عَّلمہ اقبال اس شعر میں فرماتے ہیں کہ‪:‬میں صوفی و م اَُّل کو سَّلم پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 3‬خدا کا پیؽام ہم تک پہنچایا ہے۔“ بَّلشبہ عَّلمہ اقبال نے اپنے اس شعر میں صوفی و م اَُّل کی‬ ‫خدمات کو جس خوبصورت انداز میں خراج عقیدت پیش کیا ہے وہ اپنی جگہ ایک بے مثال‬ ‫حقیقت ہے ‪ ،‬اس لئے کہ امت مسلمہ تک ہللا کا پیؽام پہنچانے اور امت کے دین و ایمان کی‬ ‫حفاظت کا ذریعہ صرؾ اور صرؾ یہی صوفی و م اَُّل رہا ہے‪ ،‬اگر خدانخواستہ یہ نہ ہوتے یا ان‬ ‫کو بیچ سے نکال دیا جائے تو امت کا ہللا‪ ،‬رسول سے جیسا کچھ ربط و تعلق ہے‪ ،‬شاید وہ بھی‬ ‫نہ رہتا۔ لکھنے کو تو جناب چشتی صاحب نے عَّلمہ اقبال کا یہ شعر لکھ دیا‪ ،‬مگر ؼالبا ً اس‬ ‫کے فوراً بعد ان کو اپنی ؼلطی کا احساس ہوگیا کہ میں نے یہ کیا لکھ دیا؟ کیونکہ اس سے تو‬ ‫میں نے عَّلمہ کی زبانی صوفی و م اَُّل کی عظمت و برتری کا اظہار و اعَّلن کردیا ہے۔ چونکہ‬ ‫چشتی صاحب کو ُم اَّل و صوفی سے خداواسطے کا بؽض و عناد تھا‪ ،‬اس لئے عَّلمہ اقبال‬ ‫مرحوم کے اس اعتراؾ حقیقت کو بنیاد بناتے ہوئے انہوں نے صوفی و م اَُّل کے ساتھ ساتھ‬ ‫بیچارے عَّلمہ اقبال مرحوم کو بھی آڑے ہاتھوں لے لیا‪ ،‬اور انہیں بھی اپنی تنقید کے نشانہ پر‬ ‫رکھ‬

‫چنانچہ‬

‫لیا‪،‬‬

‫ہیں‪:‬‬

‫فرماتے‬

‫” لیکن اس کی تشریح سے انہوں نے خدا جبرئیل اور محمد مصطفی کو حیرت میں ڈال دیا ہے‬ ‫اور‬

‫تینوں‬

‫حیران‬

‫ہیں‬

‫کہ‬

‫یہ‬

‫ہم‬

‫نے‬

‫کب‬

‫کہا‬

‫تھا؟“‬

‫ماشاء ہللا‪...‬چشتی صاحب نے اس اعتراؾ حقیقت کی پاداش میں عَّلمہ اقبال کی کس‬ ‫خوبصورتی اور سلیقہ مندی سے خبر لی ہے؟ اور ان کی کیسی عمدہ درگت بنائی ہے؟ چنانچہ‬ ‫اس بیچارے کو ہللا‪ ،‬رسول اور جبرئیل کی مخالفت کے بدترین تمؽہ سے سرفراز فرمادیا۔ چشتی‬ ‫صاحب کے ”فلسفیانہ“ کالم اور ”بلیػ عارفانہ کَّلم“ کا معنی و مفہوم سمجھنے کے لئے‪ ،‬پہلے تو‬ ‫اہل قلم سے اس کی مراد سمجھنے میں‬ ‫ہم نے خود اس کو متعدد بار پڑھا‪ ،‬اس کے بعد کئی ایک ِ‬ ‫معاونت چاہی‪ ،‬تو سب نے یہی فرمایا کہ عَّلمہ اقبال مرحوم کا یہی شعر اور اعتراؾ حقیقت ہی‬ ‫چشتی صاحب کی آنکھ کا کانٹا ہے‪ ،‬جس کی بنا پر عَّلمہ اقبال‬

‫صوفی و م اَُّل کے ساتھ چشتی‬

‫صاحب کے مجرموں کی فہرست میں شامل ہوگئے ہیں‪ ،‬تاہم اگر بالفرض خدانخواستہ چشتی‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 4‬صاحب کے ”مافوق الفطرت “کالم کا معنی و مفہوم سمجھنے میں ہم سے ؼلطی ہوئی ہے یا ہم‬ ‫نے ان کی مراد سمجھنے میں لؽزش کھائی ہے تو ہم درخواست کریں گے کہ آں موصوؾ اپنے‬ ‫دوسرے قارئین کے ساتھ ساتھ اگر اس جاہل مطلق کی بھی اصَّلح فرمادیں تو بے حد عنایت‬ ‫ہوگی۔ چ شتی صاحب! اگر بُرا نہ منائیں تو ہم عرض کریں گے کہ ان کی جانب سے عَّلمہ اقبال‬ ‫مرحوم کے اس بے ؼبار شعر کی یہ خوبصورت تشریح‪” :‬کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا‬ ‫‪،‬بھان‬ ‫‪…:۲‬‬

‫متی‬

‫نے‬

‫کنبہ‬

‫چشتی‬

‫جوڑا“‬ ‫صاحب‬

‫سے‬

‫زیادہ‬ ‫مزید‬

‫کوئی‬

‫حیثیت‬ ‫لکھتے‬

‫نہیں‬

‫رکھتی۔‬ ‫ہیں‪:‬‬

‫ٰ‬ ‫اعلی تعلیم یافتہ علماء حضرات اور مذہبی‬ ‫”اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں عربی کے‬ ‫اسکالروں کی تعداد بہت کم ہے جو پورے ملک کی بڑی بڑی مساجد اور دینی اداروں میں‬ ‫خدمات انجام دے رہے ہیں‪ ،‬لیکن شہر و دیہات کی الکھوں مساجد میں ‪ ۲۰‬فیصد امام مسجد اور‬ ‫مؤذن حضرات کم پڑھے لکھے اور روایتی ُم اَّل ہی پوری قوم کی مذہبی رہنمائی کررہے ہیں۔‬ ‫عَّلمہ اقبال کا اشارہ انہی لوگوں کی طرؾ ہے ‪ ،‬جو صرؾ ناظرہ قرآن کریم یا حفظ کرنے کے‬ ‫عَّلوہ چند احادیث یاد کرکے ملک کے بے شمار بچوں کو اسَّلمی تعلیم دے رہے ہیں۔“‬ ‫موصوؾ چشتی صاحب کی اس عبارت سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس ”عالمانہ“ تشریح و‬ ‫تفسیر کو عَّلمہ اقبال مرحوم کے کھاتے میں ڈالنا چاہتے ہیں‪ ،‬اسی لئے وہ وضاحت کناں ہیں‬ ‫کہ‪” :‬عَّلمہ کا اشارہ انہی لوگوں کی طرؾ ہے۔“ سوا ل یہ ہے کہ عَّلمہ نے یہ تشریح کہاں‬ ‫فرمائی ہے؟ یا عَّلمہ کا یہ اشارہ ان کے مذکورہ باال شعر کے کس لفظ سے ماخوذ یا مترشح‬ ‫ہے؟؟‬ ‫ہاتوا برہانکم ان کنتم صادقین!!‬

‫‪ …:۳‬جناب چشتی صاحب قوم و ملک کی ذلت و رسوائی کے اسباب بیان کرتے ہوئے مزید‬ ‫لکھتے‬

‫ہیں‪:‬‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ ” 5‬پاکستان میں چار پانچ اضَّلع اٹک‪ ،‬میانوالی‪ ،‬سرگودھا‪ ،‬فیصل آباد‪ ،‬جھنگ اور ملتان وؼیرہ‬ ‫میں صرؾ روایتی مولوی تیار کئے جاتے ہیں‪ ،‬جو سارے ملک کی مساجد میں دینی خدمات‬ ‫انجام دے رہے ہیں‪ ،‬آپ جس مسجد کے مولوی یا خطیب کے متعلق معلوم کریں گے تو ان میں‬ ‫سے اکثر مولوی حضرات کا تعلق انہی اضَّلع میں سے کسی ایک سے ہوگا‪ ،‬کیونکہ ان لوگوں‬ ‫نقطہ نظر صرؾ یہی ہوتا ہے کہ‬ ‫کا دین سے تعلق کم اور روزگار سے زیادہ ہوتا ہے‪ ،‬ان کا‬ ‫ٴ‬ ‫مدرسہ سے نکل کر دوسرے شہروں یا دیہات میں جاکر کسی نہ کسی مسجد میں ا مامت‬ ‫موذن کے طور پر اپنے کام کی ابتدأ کرنا ہے‪ ،‬جو بعدازاں موقع ملنے پر وہ‬ ‫سنبھالنا یا کم از کم ٴ‬ ‫امام مسجد کے مرتبہ تک پہنچ جاتے ہیں‪ ،‬اس طرح یہ لوگ اپنی اپنی مسجد میں بچوں کو دینی‬ ‫تعلیم‬

‫شروع‬

‫دینا‬

‫ہیں۔‬

‫کردیتے‬

‫“‬

‫اگر چشتی صاحب صوفی‪ ،‬م اَُّل‪ ،‬مولوی‪ ،‬مسجد و مدرسہ کی مخالفت میں حواس باختہ نہیں ہوئے‬ ‫تو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ دینی مدارس و مکاتب کا سلسلہ صرؾ ان چند اضَّلع تک محدود‬ ‫نہیں‪ ،‬بلکہ بحمدہللا! پورے پاکستان کے ہر شہر‪ ،‬قصبہ‪ ،‬دیہات اور قریہ قریہ تک پھیَّل ہوا ہے‪،‬‬ ‫کیا سرحد‪ ،‬بلوچستان اور سندھ میں دینی مدارس و مکاتب کا جال بچھا ہوا نہیں؟ کیا ملک بھر‬ ‫میں سرحد کے علماء کی کثرت نہیں؟ کیا بلوچستان میں دینی فضا اور دین داری کا بول باال‬ ‫نہیں؟ کیا سندھ دین اور دینی مدارس و مکاتب سے خالی ہے؟ کیا کراچی‪ ،‬حیدر آباد‪ ،‬نواب شاہ‪،‬‬ ‫ٰ‬ ‫ٹنڈوالہ یار وؼیرہ میں دینی مدارس قوم کو روحانی‬ ‫الڑکانہ‪ ،‬شکارپور‪ ،‬سکھر‪ ،‬ٹھٹھہ‪ ،‬سجاول‪،‬‬ ‫ؼذا مہیا نہیں کررہے ؟ کیا مظفر گڑھ‪ ،‬علی پور‪ ،‬لیہ‪ ،‬کوٹ ادو‪ ،‬ڈیرہ ؼازی خان‪ ،‬تونسہ‪ ،‬ڈیرہ‬ ‫اسماعیل خان‪ ،‬بہاول پور‪ ،‬بہاول نگر‪ ،‬خانیوال ‪،‬رحیم یار خان ‪ ،‬صادق آباد‪ ،‬وہاڑی‪ ،‬گوجرانوالہ‪،‬‬ ‫الہور‪ ،‬گجرات‪ ،‬کوئٹہ‪ ،‬سبی‪ ،‬مستونگ‪ ،‬خضدار‪ ،‬پنج گور‪ ،‬تربت‪ ،‬چمن‪ ،‬اکوڑہ خٹک‪ ،‬پشاور‪،‬‬ ‫مانسہرہ‪ ،‬بنوں‪ ،‬کوہاٹ‪ ،‬سوات‪ ،‬مردان میں دینی مدارس نہیں ہیں؟ کیا ہزارہ‪ ،‬مانسہرہ‪ ،‬اوگی‪،‬‬ ‫بٹگرام اور آزاد کشمیر کے اضَّلع اس سعادت سے محروم ہیں؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو اس‬ ‫”گوہر‬

‫افشانی“‬

‫کا‬

‫کیا‬

‫معنی؟‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 6‬دوم‪ …:‬آپ کا یہ ارشاد کہ ”ان لوگوں کا دین سے تعلق کم اور روزگار سے زیادہ ہوتا ہے“ کیا‬ ‫یہ ان دین دار اور مخلصین پر کھلی تہمت و افترأ نہیں؟ کیا آپ نے ان مخلصین کے دلوں میں‬ ‫جھانک کر دیکھا ہے کہ یہ لوگ دنیا کے لئے دین پڑھتے ہیں؟ کیا آپ نے حدیث نبوی ”ہَّل‬ ‫شققت قلبہ“‪...‬کیا آپ نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا؟‪ ...‬کی مخالفت نہیں کی؟ کیا آپ نے دین‬ ‫پڑھنے والے مخلصین اور دین دار گھرانوں اور مسلم والدین کی توہین و تضحیک نہیں کی؟ کیا‬ ‫آپ نے اس سے دین دشمنوں کے موقؾ کی تائید نہیں کی؟ کیا آپ نے قرآن و حدیث پڑھنے‬ ‫والوں کی حوصلہ شکنی نہیں کی؟ کیا آپ نے دینی مدارس و مکاتب میں قوت ال یموت پر‬ ‫گزارہ کرکے امت تک دینی اور قرآنی تعلیم پہنچانے والوں کی پیٹھ میں چھرا نہیں گھونپا؟‬ ‫چشتی صاحب! آپ کے نام سے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ خیر سے آپ بھی مسلمان ہیں اور‬ ‫آپ کا تعلق بھی کسی مسلمان گھرانے سے ہے‪ ،‬مگر گستاخی معاؾ! آپ کی تحریر سے ایسا‬ ‫لگتا ہے کہ آپ اپنے مستشرق اساتذہ اور ملحد ماحول سے اس قدر متاثر ہیں کہ آپ کو دین‪،‬‬ ‫دینی مدارس‪ ،‬مساجد‪ ،‬م اَُّل‪ ،‬مولوی اور صوفی سے چڑ سی ہوگئی ہے اور آپ ان کی توہین و‬ ‫تنقیص کا کوئی موقع ضائع کرنا نہیں چاہتے‪ ،‬اگر آپ خدا کا پیؽام خدا کی مخلوق تک یا علوم‬ ‫نبوت امت تک خود نہیں پہنچاسکتے اور آپ کی معاشی و معاشرتی مجبوریاں اس کی اجازت‬ ‫نہیں دیتیں تو کم از کم ایسے لوگ جو سب کچھ داؤ پر لگاکر ہللا کا پیؽام‪ ،‬ہللا کی مخلوق تک‬ ‫پہنچانے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں‪ ،‬ان کی مخالفت یا کم از کم حوصلہ شکنی تو نہ کریں۔ سوم‪…:‬‬ ‫آپ جن مدارس و مکاتب اور روایتی مولویوں کی توہین و تنقیص اور ان کی قدر و منزلت‬ ‫گھٹانے کے درپے ہیں‪ ،‬آپ کو شاید اس کا اندازہ نہ ہو کہ انہی روایتی مولویوں کی برکت سے‬ ‫ٰ‬ ‫اعلی‬ ‫امت کا اسَّلم سے رشتہ و رابطہ استوار ہے‪ ،‬آپ جیسے لکھے پڑھے روشن خیال اور‬ ‫دماغ اسکالروں کو تو شاید کبھی دور افتادہ دیہاتوں اور پسماندہ بستیوں میں جانے کا موقع ہی‬ ‫نہ مَّل ہو‪ ،‬اور شاید آپ کی بھاری بھرکم ذمہ داریاں اس کی اجازت بھی نہ دیں اور یقینا آپ کو‬ ‫اس ک ی ضرورت بھی نہ ہوگی۔ مگر جہاں ؼربت و افَّلس‪ ،‬جہالت و ناخواندگی کا عفریت منہ‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 7‬کھولے کھڑا ہو‪ ،‬جہاں دنیا جہان کی این جی اوز اور ؼیر مسلم مشنریاں مختلؾ انداز‪ ،‬حیلوں‬ ‫اور بہانوں سے مسلمانوں کے دین و مذہب‪ ،‬ایمان و اسَّلم پر حملہ آور ہوں‪ ،‬وہاں یہی روایتی‬ ‫م اَُّل ہی ان کے مقابلہ میں سیسہ پَّلئی ہوئی دیوار بن کر کھڑا ہے‪ ،‬اور امت کے دین و ایمان کی‬ ‫ڈوبتی کشتی کا پاسبان ہے‪ ،‬اگر یہ م اَُّل نہ ہوتا تو کب کی امت دین و ایمان‪ ،‬مذہب و ملت اور‬ ‫اسَّلمی اخَّلق و تہذیب کو خیر باد کہہ چکی ہوتی! چشتی صاحب! کبھی آپ نے سندھ‪،‬‬ ‫بلوچستان‪ ،‬سرحد ا ور پنجاب کے دور افتادہ اور پسماندہ دیہاتیوں کے دین و مذہب کی خبر لی؟‬ ‫یا کبھی ان کے ایمان و اخَّلق بچانے کے لئے کسی سوچ و فکر کی زحمت گوارا کی؟ جناب‬ ‫چشتی صاحب! شاید ہماری بات آپ کو سمجھ نہ آئے اور آئے گی بھی نہیں‪ ،‬کیونکہ آپ ہمیں‬ ‫بھی انہیں روایتی مولویوں کی جماعت کا رکن یا ترجمان سمجھیں گے‪ٰ ،‬لہذا اس کے لئے ایک‬ ‫خالص دنیاوی تعلیم یافتہ اور سی ایس پی افسر کی شہادت سنئے اور اندازہ لگایئے کہ اس‬ ‫روایتی م اَُّل یا معمولی لکھے پڑھے کی خدمات کی کیا اہمیت ہے؟ لیجئے پڑھیئے اور سر‬ ‫دھنیئے!‬ ‫”برہام پور گنجم‪ ،‬سنگَّلخ پہاڑوں اور خاردار جنگل میں گھرا ہوا ایک گاؤں تھا‪ ،‬جس میں‬ ‫مسلمانوں کے بیس پچیس گھرانے آباد تھے۔ ان کی معاشرت ہندوانہ اثرات میں اس درجہ ڈوبی‬ ‫ہوئی تھی کہ رومیش علی‪ ،‬صفدر پانڈے‪ ،‬محمود محنتی‪ ،‬کلثوم دیوی اور بھادئی جیسے نام‬ ‫رکھنے کا رواج عام تھا‪ ،‬گاؤں میں ایک نہایت مختصر کچی مسجد تھی‪ ،‬جس کے دروازے پر‬ ‫اکثر تاال پڑا رہتا تھا‪ ،‬جمعرات کی شام دروازے کے باہر ایک مٹی کا دیا جَّلدیا جاتا تھا‪ ،‬کچھ‬ ‫لوگ نہا دھوکر آتے تھے اور مسجد کے تالے کو چوم کر ہفتہ بھر کے لئے اپنے دینی فرائض‬ ‫سے سبکدوش ہوجاتے تھے۔ ہر دوسرے تیسرے مہینے ایک مولوی صاحب اس گاؤں میں آکر‬ ‫ایک دو روز کے لئے مسجد آباد کر جایا کرتے تھے‪ ،‬اس دوران میں اگر کوئی شخص وفات‬ ‫پاگیا ہوتا‪ ،‬تو مولوی صاحب اس کی قبر پر جاکر فاتحہ پڑھتے تھے‪ ،‬بیماروں کو تعویذ لکھ‬ ‫دیتے تھے اور اپنے اگلے دورے تک جانور ذبح کرنے کے لئے چند چھریوں پر تکبیر پڑھ‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 8‬جا تے تھے‪ ،‬اس طرح مولوی صاحب کی برکت سے گاؤں والوں کا دین اسَّلم کے ساتھ ایک‬ ‫کچا سا رشتہ بندھا رہتا تھا۔ برہام پور گنجم کے اس گاؤں کو دیکھ کر زندگی میں پہلی بار‬ ‫میرے دل میں مسجد کے م اَُّل کی عظمت کا کچھ احساس پیدا ہوا‪ ،‬ایک زمانے میں م اَُّل اور‬ ‫سرکار انگلشیہ کی عمل داری‬ ‫مولوی کے القاب علم و فضل کی عَّلمت ہوا کرتے تھے‪ ،‬لیکن‬ ‫ِ‬ ‫میں جیسے جیسے ہماری تعلیم اور ثقافت پر مؽربی اقدار کا رنگ و روؼن چڑھتا گیا‪ ،‬اسی‬ ‫رفتار سے م اَُّل اور مولوی کا تقدس بھی پامال ہوتا گیا‪ ،‬رفتہ رفتہ نوبت بایں جا رسید کہ یہ‬ ‫دونوں تعظیمی اور تکریمی الفاظ تضحیک و تحقیر کے ترکش کے تیر بن گئے‪ ،‬داڑھی والے‬ ‫ٹھوٹھ اور ناخواندہ لوگوں کو مذاق ہی مذاق میں م اَُّل کا لقب ملنے لگا‪ ،‬کالجوں یونیورسٹیوں اور‬ ‫دفتروں میں کوٹ پتلون پہنے بؽیر دینی رجحان رکھنے والوں کو طنز و تشنیع کے طور پر‬ ‫مولوی کہا جاتا تھا‪ ،‬مسجد کے اماموں پر جمعراتی‪ ،‬شبراتی‪ ،‬عیدی‪ ،‬بقر عیدی‪ ،‬اور فاتحہ درود‬ ‫پڑھ کر روٹیاں توڑنے والے‪ ،‬قل اعوذیئے م اَُّلؤں کی پھبتیاں کسی جانے لگیں‪ ،‬لُو سے جھلس‬ ‫جانے والی گرم دوپہروں میں خس کی ٹٹیاں لگاکر پنکھوں (یہ ایئرکولر اور ایئر کنڈیشنر کے‬ ‫عام ہونے سے پہلے کی بات ہے) کے نیچے بیٹھنے والے یہ بھول گئے کہ محلے کی مسجد‬ ‫میں ظہر کی اذان ہر روز عین وقت پر اپنے آپ کس طرح ہوتی رہتی ہے؟ کڑ کڑاتے جاڑے‬ ‫میں نرم و گرم لحافوں میں لپٹے ہوئے اجسام کو اس بات پر کبھی حیرت نہیں ہوئی کہ اتنی‬ ‫صبح منہ اندھیرے اٹھ کر فجر کی اذان اس قدر پابندی سے کون دے جاتا ہے؟ دن ہو یا رات‪،‬‬ ‫آندھی ہو یا طوفان‪ ،‬امن ہو یا فساد‪ُ ،‬دور ہو یا نزدیک‪ ،‬ہر زمانے میں شہر شہر ‪،‬گلی گلی‪ ،‬قریہ‬ ‫قریہ‪ ،‬چھوٹی بڑی پکی مسجدیں اسی ایک م اَُّل کے دم سے آباد تھیں‪ ،‬جو خیرات کے ٹکڑوں پر‬ ‫مدرسے میں پڑھا تھا اور دربدر کی ٹھوکریں کھاکر‪ ،‬گھر بار سے دور کہیں ہللا کے گھر میں‬ ‫سرچھپاکر بیٹھ رہا تھا‪ ،‬اس کی پشت پر نہ کوئی تنظیم تھی‪ ،‬نہ کوئی فنڈ تھا‪ ،‬نہ کوئی تحریک‬ ‫تھی‪ ،‬اپنوں کی بے اعتنائی‪ ،‬بیگانوں کی مخاصمت‪ ،‬ماحول کی بے حسی اور معاشرے کی کج‬ ‫ادائی کے باوجود اس نے نہ اپنی وضع قطع کو بدال اورنہ اپنے لباس کی مخصوص وردی کو‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 9‬چھوڑا‪ ،‬اپنی استطاعت اور دوسرے کی توفیق کے مطابق اس نے کہیں دین کی شمع‪ ،‬کہیں د ین‬ ‫کا شعلہ‪ ،‬کہیں دین کی چنگاری کو روشن رکھا‪ ،‬بہرام پور گنجم کے گاؤں کی طرح جہاں دین‬ ‫کی چنگاری بھی گل ہوچکی تھی‪ ،‬م اَُّل نے اس کی راکھ ہی کو سمیٹ کر با ِد مخالؾ کے‬ ‫جھونکوں میں اُڑ جانے سے محفوظ رکھا‪ ،‬یہ م اَُّل کا ہی فیض تھا کہ کہیں کام کے مسلمان‪ ،‬کہیں‬ ‫نام کے مسلمان‪ ،‬کہیں محض نصؾ مسلمان ثابت و سالم برقرار رہے اور جب سیاسی میدان میں‬ ‫ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان آبادی کے اعدادو شمار کی جنگ ہوئی تو ان سب کا اندراج‬ ‫مردم شماری کے صحیح کالم میں موجود تھا‪ ،‬برصؽیر کے مسلمان عموما ً اور پاکستان کے‬ ‫مسلمان خصوصا ً م اَُّلکے اس احسان عظیم سے کسی طرح سبکدوش نہیں ہوسکتے‪ ،‬جس نے‬ ‫کسی نہ کسی طرح‪ ،‬کسی نہ کسی حد تک ان کے تشخص کی بنیاد کو ہر دور اور ہر زمانے‬ ‫میں‬

‫قائم‬

‫رکھا۔“‬

‫(شہاب‬

‫نامہ‪،‬‬

‫ص‪،۲۴۰:‬‬

‫‪)۲۴۱‬‬

‫چہارم‪ …:‬آنجناب فرماتے ہیں کہ اٹک ‪،‬میانوالی‪ ،‬سرگودھا‪ ،‬فیصل آباد‪ ،‬جھنگ اور ملتان میں‬ ‫صرؾ روایتی مولوی تیار کئے جاتے ہیں ‪،‬جناب چشتی صاحب! میں نہیں سمجھتا کہ آنجناب‬ ‫نے یہ مضمون ہوش و حواس میں لکھا ہے؟ ممکن ہے آپ نے کسی کے کہنے یا سنی سنائی‬ ‫معلومات پر قلم ا ٹھایا ہو‪ ،‬ورنہ جو آدمی پنجاب کے ایک مشہور شہر پسرور میں رہتا ہو‪ ،‬یقین‬ ‫نہیں آتا کہ وہ ان عَّلقوں کی دینی فضا‪ ،‬دینی مدارس سے اس قدر ال علم و جاہل ہو؟ کیا ہم‬ ‫جناب چشتی صاحب سے پوچھ سکتے ہیں کہ جامعہ امدادیہ فیصل آباد‪ ،‬دارالعلوم فیصل آباد‪،‬‬ ‫جامعہ عبیدیہ‪ ،‬دارالقرآن فیصل آباد‪ ،‬ادارہ دعوت و ارشاد‪ ،‬مدرسہ فتح العلوم چنیوٹ‪ ،‬مدرسہ‬ ‫عربیہ تعلیم القرآن ختم نبوت چناب نگر‪ ،‬جامعہ محمودیہ جھنگ‪ ،‬دارالعلوم جھنگ‪ ،‬جامعہ‬ ‫عثمانیہ شور کوٹ‪ ،‬جامعہ خیرالمدارس‪ ،‬جامعہ قاسم العلوم‪ ،‬دارالعلوم رحیمیہ ملتان‪ ،‬جامعہ عمر‬ ‫بن خطاب‪ ،‬جامعہ باب العلوم کہروڑ پکا‪ ،‬جامعہ فاروقیہ شجاع آباد‪ ،‬دارالعلوم کبیر واال‪ ،‬جامعہ‬ ‫قادریہ حنفیہ ملتان‪ ،‬جامعہ مفتاح العلوم‪ ،‬مدرسہ سراج العلوم سرگودھا‪ ،‬جامعہ حقانیہ ساہیوال‪،‬‬ ‫سرگودھا وؼیرہ‪ ،‬داراالرشاد اٹک‪ ،‬اشاعت القرآن حضرو‪ ،‬مدرسہ عربیہ سعدیہ سراجیہ میانوالی‪،‬‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 10‬جامعہ قادریہ بھکر بھی روایتی مدارس ہیں؟ اور ان میں روایتی مولوی بنائے جاتے ہیں؟ جہاں‬ ‫کی اکثریت میں دورئہ حدیث کے عَّلوہ تخصصات بھی کرائے جاتے ہیں۔ چشتی صاحب کچھ‬ ‫تو خدا کا خوؾ کریں! مدارس ‪ ،‬مساجد اور م اَُّلو مولوی اور صوفی کی مخالفت میں حقائق سے‬ ‫اؼماض نہ کریں اور یہ بات ذہن میں رکھیں کہ یہ دین ہللا کا باغ ہے اور اس باغ کا مالک‬ ‫کائنات کا مالک ہے‪ ،‬وہ جس طرح باغ لگانا جانتا ہے‪ ،‬اسی طرح اس کی حفاظت و صیانت اور‬ ‫اس کے لئے رجال کار پیدا کرنا اور ان کو اپنے اس عظیم کام کے لئے منتخب کرنا بھی جانتا‬ ‫ہے‪ ،‬میری اور آپ کی مخالفت سے نہ صرؾ یہ کہ یہ چراغ نہیں بجھے گا‪ ،‬بلکہ انشاء ہللا مدہم‬ ‫بھی نہیں ہوگا‪ ،‬کیونکہ ارشاد ٰالہی ہے‪:‬‬ ‫وانورہللا بافواہہم ٰ ّ‬ ‫ّٰ‬ ‫وہللا متم نورہ ولوکرہ الکافرون“‬ ‫لیطفو‬ ‫”یریدون‬ ‫ٴ‬

‫علوم نبوت حاصل کرنے والوں کی توہین و‬ ‫‪ …:۴‬جناب چشتی صاحب دین‪ ،‬دینی تعلیم اور‬ ‫ِ‬ ‫تخفیؾ‬

‫ہوئے‬

‫کرتے‬

‫ارشاد‬

‫ہیں‪:‬‬

‫فرماتے‬

‫” ہمارے دیہات اور شہروں میں کم آمدنی والے لوگ اسکول کی بھاری فیس اور بچے کے وزن‬ ‫سے زیادہ وزنی کتابوں کا بوجھ نہ اٹھاسکنے کی وجہ سے اپنے بچوں کو مسجد میں دینی تعلیم‬ ‫کے لئے بھیج دیتے ہیں ‪ ،‬ستم کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے بعض کھاتے پیتے لوگ‬ ‫بھ ی اس قدر مذہبی ہوتے ہیں کہ وہ بھی اپنے بچوں کو چار چھ جماعتوں تک اسکول میں‬ ‫پڑھانے کے بعد دینی تعلیم کے لئے مسجد میں ڈال دیتے ہیں‪ ،‬جہاں پر مسجد اور مدرسہ کے‬ ‫مولوی حضرات کا کسی دوسرے بڑے تعلیمی ادارے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی‬ ‫سرکاری‬

‫یا‬

‫ؼیر‬

‫سرکاری‬

‫ادارہ‬

‫اسے‬

‫باقاعدہ‬

‫کنٹرول‬

‫کرتا‬

‫ہے۔“‬

‫جناب چشتی صاحب! نے اس پیراگراؾ میں بیک جنبش قلم کئی ایک ایسے ارشادات فرمائے‬ ‫ہیں‪ ،‬جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں‪ ،‬مثَّلً ‪” :‬ان مدارس میں کم آمدنی والے اور‬ ‫ؼریب و نادار‪ ،‬حضرات کے بچے پڑھتے ہیں یا جو اسکول کی فیس نہیں برداشت کرسکتے‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 11‬وہی اپنے بچوں کو مساجد و مدارس میں بھیجتے ہیں اور زیادہ تر دیہات کے لوگ ہی اس‬ ‫طرؾ‬

‫توجہ‬

‫کرتے‬

‫ہیں۔“‬

‫اے کاش! کہ چشتی صاحب نے کبھی کسی مدرسہ کی زیارت کی ہوتی؟ یا انہوں نے کسی‬ ‫مدرسہ کے طلبہ کا سروے کیا ہوتا‪ ،‬تو ان کو معلوم ہوتا کہ ان مدارس میں کون لوگ پڑھتے‬ ‫ہیں؟ اور ان کی مالی حالت کیا ہے؟ یا ان کے والدین اپنے بچوں کو کس وجہ سے پڑھا تے‬ ‫ہیں؟ اور وہ معاشی اعتبار سے مفلوک ہیں؟ یا خوشحال؟ وہ اسکولوں کی فیس دے سکتے تھے‬ ‫یا نہیں؟ چشتی صاحب! اگر آپ اپنے راحت کدہ سے نکل کر کسی دینی مدرسہ میں جانے کی‬ ‫زحمت گو ارہ کرلیتے تو آپ کو اندازہ ہوتا کہ ان دینی مدارس میں جہاں ؼربأ اور فقرأ کے‬ ‫بچے پڑھتے ہیں‪ ،‬وہاں کثیر تعداد‪ ،‬ان طلبہ کی بھی ہے‪ ،‬جو خیر سے کروڑ نہیں ارب پتی ہیں‪،‬‬ ‫اور وہ نہ صرؾ مدرسہ کے مطبخ سے کھانا نہیں کھاتے‪ ،‬بلکہ وہ الکھوں روپے کے فنڈ‬ ‫مدرسہ میں دے کر دینی تعلیم کی اشاعت و ترویج کی سعادت بھی حاصل کرتے ہیں۔ چشتی‬ ‫صاحب! امریکا‪ ،‬افریقہ‪ ،‬برطانیہ‪ ،‬فرانس‪ ،‬اٹلی‪ ،‬جرمنی‪ ،‬سعودی عرب‪ ،‬متحدہ عرب امارات‪،‬‬ ‫انڈونیشیا‪ ،‬مَّلئیشیا وؼیرہ کے طلبہ معاشی مجبوری کے لئے نہیں‪ ،‬دینی تعلیم کے شوق سے‬ ‫دینی مدارس میں پڑھنے آتے ہیں۔ چلئے! اگر کوئی محروم القسمت مال دار اپنے بچوں کو دین‬ ‫نہیں پڑھاتا یا آپ کی طرح اس کو مدارس میں دینی تعلیم حاصل کرنے میں عار محسوس ہوتی‬ ‫ہے تو آپ ہی بتَّلئیں اس میں مَّل‪ ،‬مولوی‪ ،‬صوفی‪ ،‬مسجد و مدرسہ یا دین کا کیا قصور ہے؟‬ ‫چشتی صاحب! اگر آپ نے حدیث پڑھی ہوتی تو آپ کو اندازہ ہوتا کہ آنحضرت صلی ہللا علیہ‬ ‫وسلم کی دعوت پر لبیک کہنے والے بھی زیادہ تر ؼرباء و فقراء ہی تھے‪ ،‬کیا حضور صلی ہللا‬ ‫علیہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہنے والوں کو بھی آپ یہ طعنہ دیں گے کہ وہ معاشی مسائل‬ ‫سے مجبور ہوکر کفر سے ایمان کی طرؾ آئے تھے؟ کیا آپ ان کے بارہ میں بھی یہ ریمارکس‬ ‫دیں گے کہ‪” :‬ان لوگوں کا دین سے تعلق کم اور روزگار سے زیادہ تھا؟“ اگر مدرسہ صفہ میں‬ ‫پڑھنے اور رہنے والے محض دین و مذہب کی خاطر پڑھتے تھے اور ان کا یہ کارنامہ الئق‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 12‬تقلید تھا‪ ،‬تو آج چودہ سو سال بعد ان کے نقش قدم پر چلنے والے اور مادہ پرست دنیا اور ہوأ و‬ ‫ہوس کو خیر باد کہہ کر اپنے ”روشن“ مستقبل کو ”تاریک“ کرنے والے فرزانے بھی الئق‬ ‫مَّلمت نہیں بلکہ باعث صد تبریک ہیں۔ اسی طرح آپ کا یہ ارشاد بھی سراسر ؼلط اور‬ ‫مضحکہ خیز ہے کہ ” ان روایتی مدارس کا کسی بڑے تعلیمی ادارے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا‪،‬‬ ‫اور ان کو سرکاری و ؼیر سرکاری کوئی ادارہ باقاعدہ کنٹرول نہیں کرتا“ اس لئے کہ پاکستان‬ ‫بھر کے دینی مدارس مکاتب اور جامعات کا حسب مسلک اپنا اپنا ایک وفاق ہے اور وہ تمام‬ ‫مدارس اس کے ساتھ ملحق ہیں اور ان کی تعلیمی نگرانی اور دیکھ بھال کا باقاعدہ نظام ہے‪ ،‬ان‬ ‫کے ساالنہ امتحان ہوتے ہیں‪ ،‬ان کے پرچے بنتے ہیں ان کے ممتحن ہوتے ہیں اور حسب‬ ‫استعداد و صَّلحیت کامیاب ہونے والوں کی درجہ بندی کے اعتبار سے سند جاری کی جاتی ہے‬ ‫اور ناکام ہونے والوں کا محاسبہ کیا جاتا ہے‪ ،‬چنانچہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان‪ ،‬تنظیم‬ ‫المدارس ‪ ،‬اتحاد المدار س‪ ،‬وفاق المدارس سلفیہ وؼیرہ نام کے دینی مدارس کے متعدد وفاق‬ ‫سرگرم عمل ہیں اور ان سب کا ایک متحدہ وفاق ”اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ“ کے نام سے بھی‬ ‫ہے‪ ،‬جو ملک بھر کے مختلؾ مدارس کے اہم مسائل کے حل کے لئے سرگرم عمل ہے۔ ہماری‬ ‫اطَّلع کے مطابق وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ساتھ ملک بھر کے بارہ ہزار سے زائد‬ ‫چھوٹے بڑے دینی مدارس و مکاتب اور جامعات منسلک ہیں‪ ،‬اور اس کی جانب سے تمام دینی‬ ‫مدارس کے الحاق و انسَّلک کی سند جاری کی جاتی ہے اور جو مدارس تعلیمی یا انتظامی‬ ‫میدان میں کوتاہی کے مرتکب پائے جائیں‪ ،‬ان کی سند الحاق ختم کردی جاتی ہے اور ہر تین‬ ‫سال بعد اس سند الحاق کی تجدید کی جاتی ہے اور ساالنہ اس وفاق کے تحت تقریبا ً الکھوں‬ ‫بچے اور بچیاں امتحان دیتے ہیں‪ ،‬چنانچہ گزشتہ سال وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے تحت‬ ‫ایک الکھ سے زائد طلبہ و طالبات نے امتحان دیا۔ چشتی صاحب! اگر آپ احمقوں کی جنت میں‬ ‫ب نصؾ النہار کی تکذیب و انکار کے مترادؾ ہے۔‬ ‫نہیں رہتے تو ان حقائق کی تکذیب آفتا ِ‬ ‫‪ …:۵‬جناب چشتی صاحب! دینی مدارس اور مولوی کے خَّلؾ اپنے بؽض و عداوت کا اظہار‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 13‬کرتے ہوئے فرماتے ہیں‪” :‬ان کا نصاب بھی یکساں نہیں ہوتا‪ ،‬ہر ایک مسجد کے مولوی کا اپنا‬ ‫قانون ہوتا ہے‪ ،‬وہ تعلیمی لحاظ سے کسی ضابطے کا پابند نہیں ہوتا‪ ،‬اکثر مولوی حضرات کا‬ ‫اپنے شاگردوں کے ساتھ رویہ نہایت متشددانہ ہوتا ہے‪ ،‬اور وہ اپنے شاگردوں کے لئے جَّلد‬ ‫سے کم نہیں ہوتے‪ ،‬ان کے تشدد سے ڈر کر بھاگنے والے طلبہ کو وزنی زنجیر ڈال کر رکھا‬ ‫جاتا ہے ‪ ،‬امام مسجد ہی بچوں کو پڑھاتا ہے‪ ،‬خود ہی امتحان لیتا ہے اور خود ہی پاس کرکے‬ ‫دستار فضیلت سجادیتا ہے‪ ،‬اس‬ ‫بچوں کے والدین کو بلواکر کامیاب طلبہ کے سر پر خود ہی‬ ‫ِ‬ ‫تقریب کا نام رسم دستار بندی ہوتا ہے یعنی یہ سارا کام ہر مولوی اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا‬ ‫راگ‬

‫کے‬

‫مترادؾ‬

‫چَّلتا‬

‫ہے۔“‬

‫چشم بددور! چشتی صاحب کی معلومات کا اندازہ لگایئے کہ‪ ”:‬ان مدارس کا نصاب یکساں نہیں‬ ‫ہوتا“ اگر ایسا ہوتا تو دینی مدارس اپنے نصاب کے تحفظ کی خاطر حکومت سے جنگ کیوں‬ ‫اصول فقہ‪،‬‬ ‫لڑتے؟ کیا چشتی صاحب کو معلوم نہیں کہ دینی مدارس کا نصاب قرآن‪ ،‬سنت‪ ،‬فقہ‬ ‫ِ‬ ‫اصول تفسیر‪ ،‬منطق‪ ،‬فلسفہ‪ ،‬معانی‪ ،‬بدیع کے عَّلوہ صرؾ و نحو‪،‬‬ ‫اصول حدیث‪ ،‬تفسیر‪،‬‬ ‫حدیث‪،‬‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫درس‬ ‫انگلش‪ ،‬اردو‪ ،‬ریاضی‪ ،‬سائنس‪ ،‬کمپیوٹر‪ ،‬کے مضامین پر مشتمل ہوتا ہے اور یہ نصاب‬ ‫ِ‬ ‫نظامی کے نام سے مشہور و متعارؾ ہے۔ کیا یہ حق و سچ نہیں کہ امریکا‪ ،‬برطانیہ اور‬ ‫بیرونی قوتیں ان دینی مدارس کے اس خالص دینی‪ ،‬مذہبی نصاب سے خائؾ ہیں؟ کیا اس کو‬ ‫جھٹَّل نا ممکن ہے کہ اپنے آقاؤں کے اشارہ پر ہماری حکومت دینی مدارس کے نصاب میں‬ ‫تبدیلی کی خواہش میں ہلکان ہے؟ اگر ان مدارس کا کوئی نصاب نہ ہوتا تو حکومت کو اس مہم‬ ‫ب مدارس کو اس ک ے لئے مجبور کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ چشتی صاحب!‬ ‫چَّلنے یا اربا ِ‬ ‫اگر دینی مدارس کے اساتذہ کا اپنے تَّلمذہ کے ساتھ متشددانہ رویہ ہوتا ہے یا ان کو زنجیروں‬ ‫میں ڈال کر رکھا جاتا ہے‪ ،‬تو آنجناب نے اس کی کوئی ایک آدھ مثال ہی پیش کی ہوتی؟ اگر‬ ‫بالفرض ایسا ہوتا تو آپ جیسے اسَّلم اور مدارس دشمن زمین و آسمان کو سر پر نہ اٹھالیتے؟‬ ‫کیا دنیا بھر کی این جی اوز اور ہیومن رائٹس کی انجمنیں شور قیامت نہ برپا کردیتیں؟ اگر نہیں‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 14‬اور یقینا ً نہیں تو اس ڈفلی بجانے اور مدارس کو بدنام کرنے کا کیا معنی؟ چشتی صاحب! مولوی‬ ‫روز اول سے منظم ہے اور اس کا نظام مربوط ہے‪ ،‬اس کا انداز ناصحا نہ اور مشفقانہ ہے‪،‬‬ ‫ِ‬ ‫باوجود اس کے کہ دین پڑھنے والوں کے لئے دنیاوی اور سرکاری مَّلزمتوں کے دروازے بند‬ ‫ہیں‪ ،‬پھر بھی بقول آپ کے‪” :‬اچھے کھاتے پیتے مسلمان اپنے بچوں کو دینی مدارس میں تعلیم‬ ‫کے لئے داخل کرادیتے ہیں“ دوسری طرؾ دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والوں کی‬ ‫کثرت کا یہ عالم ہے کہ بڑے دینی مدارس میں داخلہ ملنا مشکل ہے‪ ،‬اور خود دینی مدارس بھی‬ ‫ہمیشہ اپنی کوتاہ دامنی کے باعث دینی تعلیم حاصل کرنے والوں سے معذرت خواہ رہتے ہیں‪،‬‬ ‫کیا اب بھی کہا جائے کہ ان میں تشدد ہوتا ہے؟ اگر مدارس میں تشدد ہوتا یا ان میں طلبہ کو‬ ‫زنجیریں ڈالی جاتیں تو دینی مدارس میں پڑھنے کون آتا؟ چشتی صاحب! اگر آپ بُرا نہ منائیں‬ ‫تو آپ کی اطَّلع کے لئے عرض ہے کہ ہمارے مدارس و مکاتب میں تشدد و مارپیٹ کی سختی‬ ‫سے ممانعت ہے‪ ،‬یقین نہ آئے تو ملک بھر کی سب سے اسَّلمی دینی مدارس کی چین اقرأ‬ ‫روضة االطفال ٹرسٹ کے مدارس اور ملک بھر میں پھیلی ہوئی اس کی ایک سو چھپن‬ ‫برانچوں میں جاکر دیکھ لیجئے ! چھپن ہزار سے زائد طلبہ کے والدین‪ ،‬اساتذہ اور خود ان‬ ‫مدارس میں پڑھنے والے طلبہ سے پوچھ کر دیکھئے کہ وہاں مارپیٹ اور تشدد کی کس قدر‬ ‫سختی سے ممانعت ہے؟ چشتی صاحب! دینی مدارس اور ان کا نظام و نصاب ماشاء ہللا منظم و‬ ‫مربوط ہے اور ان کا انداز تعلیم بھی دنیا بھر کے ترقی یافتہ اسکولوں‪ ،‬کالجوں اور‬ ‫یونیورسٹیوں سے کسی اعتبار سے کم نہیں ہے‪ ،‬ہاں البتہ آپ کو اور صرؾ آپ کو ہی ان سے‬ ‫اختَّلؾ ہے اور آپ ان کے خَّلؾ اکیلے اپنی ڈفلی اپنا راگ االپ رہے ہیں! جناب چشتی‬ ‫صاحب! عین ممکن ہے کہ آپ نے جس نام نہاد مدرسہ یا مکتب میں پڑھا ہو‪ ،‬وہاں کے نام نہاد‬ ‫ظالم مَّل نے آپ کے ساتھ ”ؼیر انسانی“ سلوک کیا ہو‪ ،‬آپ پر ناروا تشدد کیا ہو‪ ،‬یا آپ کی‬ ‫شرارتوں سے مجبور ہوکر اس نے آپ کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں‪ ،‬پاؤں میں زنجیر اور بیڑیاں‬ ‫ڈالی ہوں‪ ،‬تو ہم برمَّل کہیں گے کہ اس روایتی اور نام نہاد مَّل کا یہ کردار قابل صد نفرت ہے‪،‬‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 15‬اور آپ کے ساتھ اس نے بے جا ظلم کیا ہے‪ ،‬مگر ایک ظالم کے ”مخصوص حاالت“ میں ظلم‬ ‫کو جواز بناکر آپ تمام دینی مدارس‪ ،‬مکاتب کے نظام اور علماء کے کردار کو ہدؾ تنقید‬ ‫بنائیں‪،‬‬

‫یہ‬

‫بہرحال‬

‫ہے۔‬

‫زیادتی‬

‫‪ …:۶‬چشتی صاحب کو یہ بھی اعتراض ہے کہ‪” :‬مولوی حضرات سرکاری یا ؼیر سرکاری‬ ‫جگہ پر قبضہ کرکے مسجد بنالیتے ہیں‪ ،‬اور پاکستان میں سڑکوں پر ‪ ۰۰‬فیصد تجاوزات‬ ‫مساجد‪ ،‬واپڈا اور ٹیلی فون کے کھمبوں کی وجہ سے ہیں‪ ،‬ان کا کہنا ہے کہ ہمارا موجودہ مسجد‬ ‫بنانے‬

‫کا‬

‫نظام‬

‫متحدہ‬

‫ہندوستان‬

‫کے‬

‫مندر‬

‫بنانے‬

‫متاثر‬

‫سے‬

‫ہے۔“‬

‫اے کاش! چشتی صاحب نے اپنا زور قلم مسجد و مَّل کے بجائے بے دینی کے مراکز‪ ،‬مشنری‬ ‫اسکولوں‪ ،‬ارتدادی اداروں‪ ،‬قادیانی‪ ،‬ذکری‪ ،‬منکرین ِ حدیث اور ملحدین کے مراکز کے خَّلؾ‬ ‫صرؾ کیا ہوتا؟ کیا ان کو جگہ جگہ این جی اوز کے مراکز ‪،‬اسَّلم دشمن اڈوں اور مسلمانوں‬ ‫کی جیبوں سے رقم بٹورتے ہسپتال اور اسکول بھی کبھی نظر آئے؟ آخر ان کو مسجد و مدرسہ‬ ‫ہی کیوں کھٹکتا ہے؟ کیا پاکستان اور اس کی سرکاری امَّلک پر ان کا حق ہے؟ جو ان کو شیر‬ ‫مادر‬

‫سمجھ‬

‫کر‬

‫‪…:۲‬‬

‫چشتی‬

‫صاحب‬

‫ہضم‬ ‫کو‬

‫کررہے‬ ‫یہ‬

‫بھی‬

‫ہیں؟‬ ‫شکایت‬

‫آخر‬ ‫ہے‬

‫کیوں؟‬ ‫کہ‬

‫‪:‬‬

‫” ان مولویوں کی وجہ سے ہم ملک بھر میں ایک دن عید نہیں کرسکتے۔“‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی کی ذات پر کرنا چاہئے کہ اس نے ملک‬ ‫حضور گستاخی معاؾ! یہ اعتراض تو آپ کو ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی‬ ‫بھر میں ایک وقت میں سورج و چاند کے طلوع و ؼروب کا نظام کیوں نہیں بنایا؟ اگر ہللا‬ ‫مؽربی ممالک‪ ،‬مؽربی عَّلقوں یا سطح زمین سے اونچے عَّلقوں میں چاند پہلے نکال دیں اور‬ ‫مشرقی یا زیریں عَّلقوں میں وہی چاند دوسرے دن دکھَّل دے تو اس میں مولوی کا کیا قصور‬ ‫ہے؟ حضور! ہللا کا رسول تو یہ اعَّلن کرتا ہے کہ‪” :‬چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ‬ ‫کر روزہ افطار کرو (عید کرو)۔“ مگر آپ ہیں کہ کہتے ہیں چاند نظر آئے یا نہ نظر آئے ایک‬ ‫ہی دن عید ہونی چاہئے‪ ،‬اگر آپ کی یہ منطق مان لی جائے تو کیا خیال ہے کل کَّلں آپ یہ نہ‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 16‬فرمائیں گے کہ پوری اسَّلمی دنیا‪ ،‬بلکہ دنیا بھر کے پورے مسلمان ایک ہی دن روزہ رکھیں‬ ‫اور عید کریں‪ ،‬کیا یہ ممکن ہوگا؟ کہ جہاں ابھی سورج ؼروب ہی نہیں ہوا وہاں چاند کیونکر‬ ‫نظر آئے گا؟ پھر یہ بھی ممکن ہے کہ کل کَّلں آپ فرمائیں کہ ایک ہی وقت میں فجر اور‬ ‫مؽرب کی نماز ادا کی جائے‪ ،‬کیا خیال ہے کہ پشاور اور سرحد کے باالئی عَّلقوں میں سورج‬ ‫ؼروب ہوچکا ہوگا مگر سندھ کے مطلع پر سورج چمک رہا ہوگا لیکن آپ کی تجویز اور حکم‬ ‫پر مؽرب کی نماز کا ادا کرنا الزم ہوگا‪ ،‬اسی طرح جب پشاور اور باالئی عَّلقوں میں صبح‬ ‫کے وقت سورج نکل چکا ہوگا اور دوسری طرؾ کراچی اور مضافات میں سورج نکلنے میں‬ ‫ابھی نصؾ گھ نٹہ باقی ہوگا تو کیا اس وقت پشاور اور کراچی والوں کو ایک وقت میں فجر کی‬ ‫نماز ادا کرنا ممکن ہوگا؟ چشتی صاحب! ہوش کے ناخن لیں اور قدرت ٰالہی کے کرشموں میں‬ ‫دخل‬ ‫‪…:۲‬‬

‫دینے‬ ‫چشتی‬

‫کی‬ ‫صاحب‬

‫کو‬

‫حماقت‬ ‫یہ‬

‫بھی‬

‫نہ‬ ‫شکایت‬

‫کریں۔‬ ‫ہے‬

‫کہ‪:‬‬

‫”مذہبی علماء اب تک دنیاوی اور دوسری زبانوں کی تعلیم کی مخالفت کرتے چلے آرہے ہیں‪،‬‬ ‫دوسری طرؾ ایک حدیث مبارکہ بھی بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم نے فرمایا کہ ‪”:‬علم حاصل‬ ‫کرو چاہے تمہیں چین تک جانا پڑے۔“ قابل ؼور بات ہے کہ کیا ان دنوں چین میں بہت عربی‬ ‫پڑھائی جاتی تھی؟ اس کا مطلب تو یہ تھا کہ مسلمانوں کو دنیا کا ہر علم حاصل کرنا چاہئے‬ ‫لیکن یہ خدا کے بندے عربی کے سوا ہر علم کی مخالفت کرتے چلے آرہے ہیں۔“‬ ‫چشتی صاحب! علماء نے بحمدہللا عربی کے عَّلوہ کسی دوسری زبان سیکھنے کی کبھی‬ ‫مخالفت نہیں کی‪ ،‬یہ آپ کی بھول ہے‪ ،‬اگر ایسا ہوتا تو اسَّلمی لٹریچر عربی کے عَّلوہ کسی‬ ‫دوسری زبان میں نہ ہوتا‪ ،‬حاالنکہ بحمدہللا عربی کے عَّلوہ اردو‪ ،‬فارسی‪ ،‬ہندی‪ ،‬سنسکرت‪،‬‬ ‫مرہٹی‪ ،‬انگلش‪ ،‬فرانسیسی اور ڈچ زبان میں ضروری اسَّلمی تعلیمات کی کتب موجود ہیں‪ ،‬بلکہ‬ ‫اسَّلم کے مرکز سعودی عرب سے تو دنیا بھر کی زبانوں میں اسَّلمی لٹریچر تیار کرکے تقسیم‬ ‫کیا جات ا ہے اور رابطہ عالم اسَّلمی مستقل یہ خدمت انجام دے رہا ہے۔ اس کے عَّلوہ پاکستان‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 17‬کے علماء جن سے آپ کو شکایت ہے کہ وہ عربی کے عَّلوہ کسی دوسری زبان سیکھنے کے‬ ‫مخالؾ ہیں‪ ،‬ان کے دینی مدارس کے نصاب میں انگلش کے مضامین کو خصوصی اہمیت سے‬ ‫پڑھا یا جاتا ہے‪ ،‬بلکہ کئی ایک مدارس میں اس کے باقاعدہ تخصصات کرائے جاتے ہیں اور ان‬ ‫ہی روایتی مدارس سے باقاعدہ انگریزی ماہناموں کا اجرأ ہوچکا ہے اور انگلش تراجم کا مستقل‬ ‫تحفہ قادیانیت‪ ،‬آپ کے مسائل اور ان‬ ‫شعبہ قائم ہے‪ ،‬چنانچہ تفسیر عثمانی‪ ،‬تفسیر معارؾ القرآن‪،‬‬ ‫ٴ‬ ‫کا حل‪ ،‬اختَّلؾ امت اور صراطِ مستقیم کے انگلش تراجم ہوچکے ہیں۔ اس کے عَّلوہ ماہنامہ‬ ‫بینات‪ ،‬ماہنامہ البَّلغ‪ ،‬ماہنامہ الفاروق کے انگلش ایڈیشن انہی مدارس سے شائع ہوتے ہیں۔ جہاں‬ ‫تک علماء کی طرؾ سے انگلش سے احتراز اور پرہیز کا تعلق ہے وہ ایک خاص وقت کے‬ ‫سرکار انگلشیہ ہم پر مسلط تھی اور اس‬ ‫لئے تھا اور وہ بھی صرؾ اس لئے کہ کسی زمانہ میں‬ ‫ِ‬ ‫کی کوشش تھی کہ ہندوستان پر انگریزی تسلط کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان اور اس کی تہذیب‬ ‫بھی مسلط کی جائے‪ ،‬اس لئے اس وقت کے علماء نے مسلمانوں کے دین و مذہب اور اسَّلمی‬ ‫تہذیب و ثقافت کو بچانے کے لئے شدت سے انگریزی کی مخالفت کی تھی۔ جب ہندوستان سے‬ ‫انگریزی اقتدار کا تسلط ختم ہوگیا اور انگریز ہندوستان سے بوریا بستر لپیٹ کر چَّل گیا تو خود‬ ‫مسلمانوں نے انگریزی عَّلقوں اور ممالک کے لوگوں کو دینی تعلیم و تہذیب اور اسَّلم و ایمان‬ ‫کی دعوت دینے کے لئے نہ صرؾ انگریزی سیکھنے کی اجازت دے دی‪ ،‬بلکہ اس طرؾ‬ ‫خصوصی توجہ فرمائی‪ ،‬یہی وجہ ہے کہ آج تمام دینی مدارس میں انگریزی پڑھائی جاتی ہے‬ ‫اور دینی مدارس کے نصاب میں میٹرک کرنا الزم قرار دیا جاچکا ہے اور انہی دینی مدارس‬ ‫ٰ‬ ‫اعلی مناصب پر‬ ‫کے جدید تعلیم یافتہ افراد فوج‪ ،‬پولیس‪ ،‬اسکول‪ ،‬کالج اور یونیورسٹیوں میں‬ ‫خدمات انجام دے رہے ہیں‪ٰ ،‬لہذا آج بھی علماء اور دین دار مسلمانوں کا یہی موقؾ ہے کہ‬ ‫ضرور انگریزی سیکھی جائے مگر اس کی تہذیب و ثقافت کو نہ اپنایا جائے۔ جہاں تک آپ کی‬ ‫پیش کردہ حدیث کا تعلق ہے کہ‪” :‬علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین تک جانا پڑے۔“ پہلی بات‬ ‫تو یہ ہے کہ اس حدیث کو اہل علم و تحقیق نے موضوع اور منگھڑت قرار دیا ہے اور ایک‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 18‬موضوع و منگھڑت روایت کو بنیاد بناکر علماء کو مطعون کرنا یا اس کو انگریزی زبان‬ ‫اہل علم“ کا ہی کام ہوسکتا ہے۔ تاہم‬ ‫سیکھنے کا جواز اور استدالل بنانا‪ ،‬چشتی صاحب جیسے ” ِ‬ ‫اگر اس حدیث کو تسل یم بھی کرلیا جائے تو اس کا معنی یہ ہے کہ علم سے دینی علم کا حصول‬ ‫مراد ہے‪ ،‬اور چین کا لفظ انتہائی سفر کے لئے بوال گیا ہے‪ ،‬کیونکہ اس وقت چین عربوں کے‬ ‫لئے بعید ترین ملک تھا‪ ،‬جس کا معنی یہ ہوگا کہ علم دین کی تحصیل کے لئے بعید سے بعید‬ ‫سفر‬

‫سے‬

‫بھی‬

‫گریز‬

‫نہ‬

‫کیا‬

‫جائے۔‬

‫‪ …:۰‬چشتی صاحب کا اپنے کالم کا یہ عنوان قائم کرنا کہ ‪”:‬ہماری ذلت و رسوائی کا سبب کیا‬ ‫ہے؟“ پھر اس کے بعد پورے کالم میں علماء کو رگیدنا اور دینی مدارس کی توہین و تنقیص‬ ‫کرنا‪ ،‬اس بات کی بین اور واضح دلیل ہے کہ ان کے نزدیک اس وقت دنیا بھر میں یا کم از کم‬ ‫پاکستان میں مسلمانوں کی ذلت و رسوائی کا سبب صرؾ اور صرؾ م اَُّل و مولوی اور روایتی‬ ‫دینی مدارس ہیں‪ ،‬اگر یہ مدارس اور مولوی نہ ہوتے تو نامعلوم دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی‬ ‫ہوتی؟ اور عالمی طور پر پاکستان کا وقار و معیار کس قدر بلند ہوچکا ہوتا؟ چشتی صاحب!‬ ‫گستاخی معاؾ! پاکستان یا مسلمانوں کی ذلت و رسوائی کا سبب م اَُّل و مولوی یا روایتی دینی‬ ‫مدارس و مساجد کے بجائے‪ ،‬جدید تعلیم یافتہ حضرات‪ ،‬بیورو کریسی‪ ،‬اسٹیبلشمنٹ اور آپ‬ ‫جیسے لکھے پڑھے حضرات ہی ہیں‪ ،‬اس لئے کہ م اَُّل مولوی کے ذمہ جو کام اور ڈیوٹی لگی‬ ‫تھی‪ ،‬بحمدہللا! روز اول سے آج تک وہ اس کو بحسن و خوبی نبھارہا ہے‪ ،‬مثَّلً م اَُّل‪ ،‬مولوی‪،‬‬ ‫صوفی اور دینی مدارس کے ذمہ تھا کہ وہ مسلمانوں کو دین و مذہب سے آشنا کریں‪ ،‬ہللا کی‬ ‫مخلوق کو ہللا کا پیؽام پہنچائیں‪ ،‬امت کو قرآن و حدیث سے روشناس کرائیں‪ ،‬جائز و ناجائز‪،‬‬ ‫حرام و حَّلل‪ ،‬پاک و ناپاک سے آگاہ کریں‪ ،‬ان کو اسَّلم کے فرائض‪ ،‬سنن‪ ،‬آداب کی تعلیم دیں‪،‬‬ ‫معاشی و اقتصادی مسائل سے مطلع کریں‪ ،‬مسلمانوں کو نماز‪ ،‬روزہ‪ ،‬حج‪ٰ ،‬‬ ‫زکوة‪ ،‬نکاح‪ ،‬طَّلق‪،‬‬ ‫خریدوفروخت‪ ،‬شفعہ‪ ،‬وکالت‪ ،‬کفالت‪ ،‬طہارت‪ ،‬ؼسل‪ ،‬وضو‪ ،‬تیمم‪ ،‬موت‪ ،‬میت‪ ،‬جنازہ‪ ،‬تکفین و‬ ‫تدفین کے احکام بتَّلئیں‪ ،‬کفر ‪ ،‬اسَّلم‪ ،‬ارتداد‪ ،‬زندقہ‪ ،‬منافقت کی نشاندہی کریں‪ ،‬حدود‪ ،‬قصاص‪،‬‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 19‬تعزیرات کی تفصیَّلت بتَّلئیں‪ ،‬اگر کوئی طالع آزما مسلمانوں کو شکوک و شبہات میں مبتَّل‬ ‫کرے تو اس کا دفاع کریں‪ ،‬اس کا جواب دیں‪ ،‬مناظرہ‪ ،‬مباہلہ کی ضرورت پیش آئے تو اسَّلم‬ ‫اور مسلمانوں کی نمائندگی کریں‪ ،‬مسلمانوں کی نمازوں‪ ،‬جنازوں‪ ،‬نکاح و طَّلق کے معاملہ میں‬ ‫علوم نبوت کی تعلیم دیں‪ ،‬آپ ہی‬ ‫علوم قرآن اور‬ ‫ان کی مدد کریں‪ ،‬مسلمان بچوں کو قرآن‪،‬‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫بتَّلئیں کہ م اَُّل و مولوی نے آج تک ان میں سے کس میدان میں پیٹھ دکھائی ہے؟ یا کس شعبہ‬ ‫میں ا س نے اپنے فرائض میں کوتاہی برتی ہے؟ اس نے آپ کو مولوی دیئے‪ ،‬مدرس دیئے‪،‬‬ ‫موذن دیئے‪ ،‬مفتی دیئے ‪،‬محقق دیئے‪ ،‬مقرر دیئے‪ ،‬حافظ دیئے‪ ،‬قاری دیئے اور آپ کو اچھے‬ ‫شہری دیئے‪ ،‬پھر اس کا سب کچھ اول آخر ملک کے لئے ہے‪ ،‬اس نے کبھی کسی کے کہنے‬ ‫پر اپنا موقؾ نہیں بدال‪ ،‬ملک سے ؼداری نہیں کی‪ ،‬وہ ملک کا سرمایہ لوٹ کر نہیں بھاگا‪ ،‬اس‬ ‫نے کسی ملک کی امیگریشن نہیں لی۔ اس کے مقابلہ میں آپ جیسے لکھے پڑھے حضرات اور‬ ‫بیوروکریٹ جو ملک کے سیاہ و سفید کے مالک تھے‪ ،‬ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ ملک کے‬ ‫نظم و نسق کو چَّلئیں‪ ،‬ملک کو معاشی‪ ،‬اقتصادی اور انتظامی معامَّلت میں ترقی سے ہمکنار‬ ‫ک ریں‪ ،‬بین االقوامی طور پر ملک کی عزت و وقار کو بحال کریں‪ ،‬ملک کو ایک اسَّلمی فَّلحی‬ ‫ریاست بنائیں‪ ،‬عوام کے مسائل کو حل کریں‪ ،‬ملک میں امن و امان قائم کریں‪ ،‬ملک سے‬ ‫چوری‪ ،‬ڈکیتی‪ ،‬مار دھاڑ‪ ،‬قتل و ؼارت گری کا خاتمہ کریں‪ ،‬آجر و اجیر اور حاکم و محکوم کو‬ ‫ان کے حقوق و فرائض اور ذمہ داریوں کا احساس دالئیں‪ ،‬عدل و انصاؾ کا بول باال کریں‪ ،‬ظلم‬ ‫و تعدی کا خاتمہ کریں‪ ،‬تعلیم و صحت کا انتظام کریں اور نئی نسل کو تعلیم و تربیت سے‬ ‫آراستہ کریں‪ ،‬انہیں ملک و قوم کا وفادار بنائیں اور قوم کو اچھے شہری مہیا کریں۔ اب آپ ہی‬ ‫بتائیں پاکستان کو معرض وجود میں آئے ہوئے ‪ ۶۱‬سال کا طویل عرصہ ہوچکا ‪ ،‬ان اکسٹھ‬ ‫سالوں میں آپ کے سرکاری خزانہ پر چلنے والے اسکولوں‪ ،‬تعلیمی اداروں‪ ،‬ان سے نکلنے‬ ‫والے اسکالروں‪ ،‬بیوروکریٹوں اور حکمرانوں نے ملک و قوم کو کیا دیا؟ کتنے سائنس دان‬ ‫دیئے؟ کتنے محقق دیئے؟ کتنے ملک و قوم کے خیر خواہ دیئے؟ ان کی برکت سے ملک نے‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 20‬کیا ترقی کی؟ ملکی مصنوعات میں کتنا اضافہ ہوا؟ معاشی و اقتصادی اعتبار سے ملک کتنا‬ ‫آگے بڑھا؟ پاکستان کے ‪ ۶۱‬سال کی ترقی کی رفتار کا جائزہ لیجئے تو اندازہ ہوگا کہ اس نے‬ ‫ترقی معکوس کی ہے‪ ،‬دوسری طرؾ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والے انڈیا کا جائزہ لیجئے تو وہ‬ ‫آج ہر میدان میں ہم سے کہیں آگے ہے‪ ،‬اس نے ہر میدان میں نمایاں ترقی کی ہے‪ ،‬اس نے‬ ‫درآمدات و برآمدات میں نام پیدا کیا ہے‪ ،‬اس کی مصنوعات دنیا بھر میں پہنچ چکی ہیں‪ ،‬وہ‬ ‫وہیکل مصنوعات میں چائنا اور جاپان سے کندھا مَّلنے کی پوزیشن میں ہے‪ ،‬اس نے ایٹمی‬ ‫میدان میں نام کمایا ہے‪ ،‬ؼرض ہر میدان میں اس نے اپنے افراد پیدا کئے ہیں‪ ،‬اور ان کا ہر‬ ‫شہری اپنے ملک و قوم کا خیر خواہ ہے۔ جب کہ پاکستان کا یہ حال ہے کہ اس کی اپنی کوئی‬ ‫پالیسی نہیں‪ ،‬ہمت نہیں‪ ،‬جرأت نہیں‪ ،‬امریکا اور یورپی قوتوں کا کاسہ لیس ہے‪ ،‬ان کے اشارئہ‬ ‫ابروئے چشم پر سب کچھ ڈھیر کرنے کو تیار ہے‪ ،‬اپنے شہری پکڑ پکڑ کر امریکا کے حوالہ‬ ‫کئے جارہے ہیں؟ حد تو یہ ہے کہ ہمیں اپنے ملک کے نظم و نسق کو چَّلنے کے لئے وزیر‬ ‫مشیر نہیں ملتے‪ ،‬چنانچہ ہمیں وزیر اعظم کے لئے کبھی امریکا سے معین قریشی منگوانا پڑتا‬ ‫ہے تو کبھی شوکت عزیز۔ آپ ہی فیصلہ فرمادیں کہ ہماری ذلت و رسوائی کا سبب مَّل‪ ،‬مولوی‬ ‫ہے یا سرکاری اسکول و کالج اور یونیورسٹی کا لکھا پڑھا بیوروکریٹ؟ پھر یہ بھی سوچنے‬ ‫کی بات ہے کہ ہمارا نوجوان طبقہ اور اسکولوں کالجوں کی پیدوار اپنے ملک و قوم کی خدمت‬ ‫کرنے کے بجائے امریکا‪ ،‬کینیڈا اور یورپ کی ایمیگریشن لے کر باہر بھاگ رہا ہے اور کیوں‬ ‫نہ ہو کہ اس کو اپنے ملک میں اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے‪ ،‬یہی وجہ ہے کہ وہ کبوتروں کی‬ ‫مانند ایک ایک کرکے اؼیار کے آشیانوں پر جمع ہورہے ہیں‪ ،‬آپ ہی بتَّلئیں کہ ہماری ذلت و‬ ‫رسوائی کا سبب یہ م اَُّل و مولوی ہے یا آپ جیسے ننگ دین وطن؟ جن کی مفاد پرستی اور‬ ‫حرص و طمع کی وجہ سے ہمیں یہ سننے کو ملتا ہے کہ‪” :‬پاکستانی قوم ایسی بے ؼیرت اور‬ ‫اللچی ہے کہ اگر اس کو اپنی ماں بیچ کر پیسے حاصل کرنا پڑیں تو وہ اس سے بھی دریػ نہیں‬ ‫کرتی؟ جناب چشتی صاحب !اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر بتَّلیئے کہ م اَُّل و مولوی نے آپ کو‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 21‬ملکی ترقی سے کب روکا تھا؟ اس نے آپ کو کب کہا تھا کہ ایٹم بم نہ بنایئے؟ اس نے آپ کو‬ ‫کب کاریں‪ ،‬موٹریں‪ ،‬بسیں اور ٹرک بنانے سے منع کیا تھا؟ اس نے کب کہا تھا کہ آپ ہوائی‬ ‫جہاز نہ بنائیں؟ اس نے کب کہا تھا کہ قوم کو ریلیؾ نہ دیں؟ اس نے کب کہا تھا کہ ملک میں‬ ‫سڑکیں اور پل نہ بنائیں؟ اس نے کب کہا تھا کہ اپنے ملک کی دولت لوٹ کر باہر کے بینکوں‬ ‫میں جمع کرائیں؟ اس نے کب کہا تھا کہ آزاد عدلیہ پر شب خون ماریں؟ اس نے کب کہا تھا کہ‬ ‫ملک میں امن و امان قائم نہ کریں؟ اس نے کب کہا تھا کہ اپنے ملک اور قوم کو امریکا کی‬ ‫گود میں ڈال دیں؟ اس نے کب کہا تھا کہ اپنے شہریوں کو پکڑ کر امریکا کے حوالے کریں؟‬ ‫اس نے کب کہا تھا کہ اپنے ملک کی معدنیات سے فائدہ نہ اٹھائیں؟ اس نے کب کہا تھا کہ‬ ‫پیٹرول اور گیس نہ نکالیں؟ اس نے کب کہا تھا کہ انڈیا سے معاہدہ کر کے اپنے دریا بند‬ ‫کروادیں؟ اس نے کب کہا تھا کہ ڈیم نہ بنائیں؟ اس نے کب کہا تھا کہ آئل ریفائنریاں نہ لگائیں؟‬ ‫اس نے کب کہا تھا کہ قوم و ملک پر مہنگائی کا عفریت مسلط کریں؟ آپ ہی بتَّلئیں کہ ذلت و‬ ‫رسوائی کا سبب کون ہے‪ :‬م اَُّل و مولوی یا ملک کے سیاہ سفید کا مالک بیوروکریٹ سرمایہ دار‬ ‫اور سیاست دان؟ چشتی صاحب! اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتَّلیئے کہ ملک کو دو لخت کس نے‬ ‫کیا؟ نوے ہزار فوجی کس نے گرفتار کروائے؟ مسئلہ کشمیر کو التوا ء میں کس نے ڈاال؟‬ ‫محسن پاکستان اور ایٹمی سائنس دان کو کس نے ذلیل کیا؟ اس کو‬ ‫کارگل سے پیچھے کون ہٹا؟‬ ‫ِ‬ ‫پابند سَّلسل کس نے کیا؟ ملک کو افراط زر کا شکار کس نے کیا؟ روپے کی قدر میں کمی کس‬ ‫کی برکت سے ہوئی؟ بینک سے قرضے لے کر کس نے معاؾ کرائے؟ بینک فراڈ کس نے‬ ‫کئے؟ ملکی خزانہ کو شیر مادر سمجھ کر کس نے ہضم کیا؟ بینک کرپٹ کون ہوئے؟ نیب اور‬ ‫احتساب کے سامنے ننگے کون ہوئے؟ اربوں روپوں کی امَّلک کو کوڑیوں کے عوض کس نے‬ ‫فروخت کیا؟ کے‪ -‬ای‪ -‬ایس‪ -‬سی‪ ،‬ٹی این ٹی جیسے نفع بخش اداروں کو کس نے فروخت کیا؟‬ ‫پاکستان اسٹیل مل کو نیَّلم کرنے کا منصوبہ کس نے بنایا؟ ملک بھر کے سرکاری بینک اور ان‬ ‫کی کھربوں کی جائیدادیں کس نے نیَّلم کیں؟ بینک آؾ پنجاب کی دو برانچوں میں‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ )۴۰۰۰۰۰۰۰۰۰( 22‬چار ارب روپے کا ؼبن کس نے کیا؟ اسی بینک کے آڈٹ کے دوران ظاہر‬ ‫ہونے والے (‪)۱۳۰۰۰۰۰۰۰۰۰‬تیرہ ارب روپے سے زائد کا فراڈ کس نے کیا؟ ایم پی ون‬ ‫تنخواہ اسکیل کے تحت ‪ ۶‬سال تک ‪ ۰۰‬فاضل افراد کو (‪)۳۵۰۰۰۰‬ساڑھے تین سے‬ ‫(‪ )۲۰۰۰۰۰‬سات الکھ ماہانہ کس نے عطا کئے؟ ذرا اندازہ تو لگایئے کہ ان چھ سالوں میں‬ ‫پاکستانی خزانہ کو کس قدر نقصان ہوا ہوگا؟ چنانچہ فی کس (‪ )۲۰۰۰۰۰‬سات الکھ کے حساب‬ ‫سے ‪ ۰۰‬افراد پر ماہانہ (‪)۶۰۳۰۰۰۰۰‬چھ کروڑ ترانوے الکھ ‪،‬ساالنہ (‪ )۶۲۳۱۶۰۰۰۰۰‬چھ‬ ‫ارب تئیس کروڑ اور سولہ الکھ‪ ،‬جبکہ چھ سال میں (‪ )۳۲۳۲۰۶۰۰۰۰۰‬سینتیس ارب اڑتیس‬ ‫کروڑ اور چھیانوے الکھ روپے‪ ،‬ان ریٹائرڈ اور فاضل افراد کی نذر کس نے کئے؟ جو خیر‬ ‫سے اپنی مدت مَّلزمت پوری کرچکے تھے اور ان کا کوئی خاص مصرؾ بھی نہ تھا ۔‬ ‫(دیکھئے‬

‫روزنامہ‬

‫جنگ‬

‫کا‬

‫اداتی‬

‫صفحہ‪،‬‬

‫‪/۶‬مئی‬

‫‪۲۰۰۲‬ء)‬

‫اسی‬

‫طرح‬

‫(‪)۴۵۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰‬ساڑھے چار کھرب کے سرکاری مکانات اپنے منظور نظر افراد کو‬ ‫کوڑیوں کے دام کس نے االٹ کئے؟ (دیکھئے روزنامہ جنگ کراچی‪/۱۲ ،‬اپریل ‪۲۰۰۲‬ء)‬ ‫چشتی صاحب! ہماری بیوروکریسی کے یہ کارنامے ہماری ذلت و رسوائی کا سبب ہیں یا عزت‬ ‫کا؟ اور یہ بھی بتَّلیئے کہ یہ م اَُّل و مولوی نے انجام دیئے یا لکھے پڑھے بیوروکریٹس نے؟‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی‬ ‫امید ہے میری یہ چند گزارشات آپ کی ؼلط فہمی دور کرنے کے لئے کافی ہوں گی۔ ہللا‬ ‫ہمیں عقل سلیم نصیب فرمائے اور دوسروں پر کیچڑ اچھالنے کی بجائے اپنے محاسبہ کی توفیق‬ ‫نصیب فرمائے۔ آمین۔‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی علی خیر خلقہ‬ ‫وصلی ہللا‬

‫سیّدنا محمد وآلہ واصحابہ اجمعین‬

‫ٰ‬ ‫االخری ‪۱۴۲۰‬ھ جوالئی ‪۲۰۰۲‬ء‪ ,‬جلد ‪ ,17‬شمارہ ‪6‬‬ ‫اشاعت ‪ ۲۰۰۲‬ماہنامہ بینات ‪ ,‬جمادی‬


Turn static files into dynamic content formats.

Create a flipbook
Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.