1
2
مراقبہ کا مقبرہ پیشکار :عدم وجود ای میلMazbukhari@hotmail.com : الئک پیج www.facebook.com/Addam.wajood :
صلوۃ ہی کا سادہ ترین مطلب مراقبہ ہے؟ مگر کیسے؟ ٰ اس کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں؟ اور پھر صلوۃ سے مالتے ہیں۔ اس کے ڈانڈے قرآنی ٰ
3
فہرست -1 -2 -3 -4 -5 -6 -7 -8 -9 -10 -11 -12 -13 -14 -15 -16 -17 -18 -19 -20 -21 -22 -23 -24 -25 -26 -27 -28 -29 -30
مراقبہ کا اصل مقصد ''مائنڈ کو آف کرنا ہے۔ مراقبہ کیا ہے؟ مراقبہ ہی عبادت ہے۔ ال الہ کو اال ہللا بنتے دیکھنا مراقبہ ہے۔ غار حراء کی تنہائی میں پہلی موت اور دوسرا جنم قرب سے ہی قیام ہے۔ ٰ المصطفے کا غار حراء میں مراقبہ کرنا۔ محمد امرت روایات مین کھ گئی) دوروایات (یہ ٓ نبی اور فرشتوں کی مروجہ تعریف واقعہ معراج کے وقوع پر راویوں کا شدید اخالف پہلی وحی اور واقعہ معراج والطور ،وکتاب مسطور فی رق منشور عام آدمی اور نبی میں فرق جدید دور کا روبوٹک مشینی آدمی اپنا ارتقاء دیکھنا مراقبہ ہے۔ اب اور یہاں مراقبہ مائنڈ کو آف کرنے واال سوئچ ہے۔ انسان کا قلب تاریک ہے یا روشن روشنی اور نور میں فرق روشنی اور نور کا منبع زمانہ قدیم کے آرٹسٹ قوت باصرہ کا اولین ادراک نور اور نروان صلوۃ نور تک پہنچانے کا راستہ ہے۔ ٰ مراقبہ شعور کا جنم ہے۔ خودی کا عرفان کچھوے اور مچھلی کی دلچسپ کہانی عشق اور مراقبہ صلوۃ کی نماز ٰ
4
مراقبہ کا اصل مقصد ''مائنڈ کو آف کرنا ہے''۔ مراقبہ کا مطلب میڈیٹیشن کہالتا ہے۔ میڈیٹیشن بالکل میڈیکیشن کی طرح ہے ،ایک جسمانی ہے تو دوسرا روحانی۔ ان الفاظ کا ظاہری مطلب مختلف ہونے کے باوجود باطنی مقصد ایک ہی ہے ح ٰتی کہ ان دونوں الفاظ کا ماخذ تک ایک ہے۔ میڈیکیشن کی ضروت صرف بیمار کو پڑھتی ہے ،صحت مند کو نہیں ہوتی۔ بیمار کون ہوتا ہے؟ مروجہ روایتی معنوں میں جو صحت مند نہیں ،وہ بیمار ہے۔ کوئی بھی دوا کسی بیمار کو صحت نہیں دیتی ،دے بھی نہیں سکتی کیونکہ صحت تو کہیں آتی جاتی ہی نہیں ،وہیں ہوتی ہے۔ وہیں رہتی ہے۔ صحت اگر ایک دریا ہے تو بیماری اس کے راستہ کا پتھر ،جو اس کے بہ اؤ میں ٹہراؤ التا ہے ،روانی میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔ صحت ایک شفاف آئینہ کی طرح ہے اور بیماری اس پر پڑی گرد۔ کوئی دوا کسی دریا کی روانی یا آئینہ کو چمک نہیں دیتی ،صرف یہ رکاوٹ ہٹانے اور گرد جھاڑنے میں مدد فراہم کرتی ہے ،اور بس ،باقی سب پہلے سے موجود ہوتا ہے ،زیادہ سے زیادہ اسے صحت کی بحالی کہا جاسکتا ہے۔ صحت فطری کیفیت ،مستقل خاصیت اور اندرونی حالت ہے جبکہ بیماری غیر فطری ،عارضی اور بیرونی مداخلت ہے۔ صحت مند انسان قدرت سے ہم آہنگ ہوتا ہے اور یہی ہم آہنگی اسے فطری بنا دیتی ہے جبکہ بیمار آدمی قدرت سے برسر پیکار ہوتا ہے اور یہی تضاد اسے غیر فطری بنا دیتا ہے۔ بیمار آدمی صحت اور بیماری میں تقسیم ہو جاتا ہے ،یہی تقسیم اسے بیمار اور یہی بیماری اسے تقسیم کرتی ہے۔ ہر بیمارتقسیم ہے ،ہر بیمار منقسم ہے۔ بیمار آدمی کو ہی بیماری اور صح ت کے فرق کا اندازہ ہوتا ہے جبکہ کسی نارمل انسان کو بیماری ہی نہیں صحت کا پتہ بھی نہیں چلتا۔ ہمیں اپنے سر کی موجودگی کا احساس بھی صرف درد کی صورت م یں ہوتا ہے۔ نارمل انسان قدرتی و فطری ہوتا ہے ،بیمار نہ غیر بیمار ،وہ نارمل ہوتا ہے ،نیوٹرل ہوتا ہے ،بس ہوتا ہے۔ نارمل انسان بیماری اور صحت میں منقسم نہیں ہوتا ،ان میں کوئی فرق نہیں کرتا ،اسی لیے بیمار نہیں کہالتا۔ بیمار آدمی انہیں تقسیم کرتا ہے ،الگ شمار ک رتا ہے ،اسی لیے بیمار پڑھتا ہے۔ دوا کا اصل کام آدمی کو قدرتی اور نارمل بنانا ہے ،صحت کی تقسیم سازی کی اس بیماری سے نجات دالنا ہے۔ تقسیم ہوتے ہی صحت اور بیماری ایک دوسرے کے ڈوئل بن جاتے ہیں۔ اس جسمانی ڈوئلٹی کے خاتمے کا نام میڈیکیشن ہے جبکہ روحانی ڈوئلٹی کا خاتمہ میڈٹیشن کہالتا ہے۔ ایک جسمانی ہے بیماریوں سے نجات دالتی ہے دوسری روحانی کثافتوں سے آزاد کراتی ہے۔ دونوں کا مقصد طریقہ کار تک ایک ہے۔ ایک جسم کو خالص بناتی ہے دوسری روح کو پاک کرتی ہے ،دونوں کا مقصد اور طریقہ کار تک ایک ہے۔ ایک جسم کو خالص بناتی ہے ،دوسری روح کو پاک کرتی ہے ،ایکی جسم کو ایک کرتی ہے دوسری روح کو نیک
5
کرتی ہے۔ دونوں کا مقصد انسان کو قدرتی ،فطری اور نارمل بنانا ہے۔ ایک کا شعبہ مادی ہے اور دوسرے کا روحانی۔ تاہم میڈیکیشن میں جعلسازی کی طرح میڈیٹیشن میں بھی رنگ بازی نے اپنا اثر دکھایا اور اب میڈیٹیشن کا مطلب سوچ و بچار کیا جاتا ہے۔ میڈیٹیشن کا اصل مطلب و مقصد کچھ سوچنا نہیں بالکل کچھ بھی نہ سوچنا ہے۔ سوچنے کا تعلق مائنڈ سے ہے ،جب ہم کچھ بھی نہیں سوچتے تو مائنڈ آرام کرتا ہے یا دوسرے لفظوں میں جب مائنڈ آرام کرتا ہے صرف اس وقت ہم کچھ نہیں سوچتے۔ جب مائنڈ آرام کرتا ہے تو پھر کوئی سوچ پیدا نہیں ہوتی اور جب کوئی سوچ پیدا نہیں ہوتی تو کوئی خواہش بھی جنم نہیں لیتی کیونکہ ہر خواہش کسی نہ کسی سوچ ہی کا دوسرا نام ہے۔ مراقبہ مائنڈ کو آف کرنا ہے اور مائنڈ آف ہوتے ہی ہر سوچ صاف ہو جاتی ہے۔ مراقبہ کا مقصد مائنڈ کو شامل کرنا نہیں بلکہ مسترد کرنا ہے۔
مراقبہ کیا ہے؟ مراقبہ کے معنوی ماخذ تک پہنچ کر ہی اس کا حقیقی مطلب اخذ کیا جا سکتا ہے۔ جسے آج ہم میڈیٹیشن کہتے ہیں ،اسے سنسکرت میں ہزاروں سال سے دھیانا کہا جاتا ہے ،بدھا کی پالی زبان میں اسے جھانا کہا گیا۔ بدھ مت چین پہنچا تو یہی جھانا وہاں چانا کہالیا۔ جاپان پہنچتے پہنچتے یہ زن بن گیا ،کوریا میں اس زن کو سیون کہا گیا۔ بدھ مت کے ساتھ ویت نام پہنچنے پر اس نے تھئین کا نام اختیار کر لیا۔ پورے جنوب مشرقی ایشیاء میں گھومنے پھرنے اور نام بدلنے کے باوجود اس کا مطلب تبدیل نہ ہوا۔ دھیانا ،جھانا ،چانا ،زن ،سیون ،تھئین کا مطلب ''درشن ،دیار ،دیکھنا'' ہے۔ انگریزی میں اس کا ترجمہ لُ ِکنگ نہیں بلکہ واچنگ بنتا ہے۔ اردو لفظ دھیان کا ماخذ یہی سنسکرت لفظ دھیانا ہے اسی دھیان یا دھیانا سے گیان جنم لیتا ہے کہ جو انگریزی میں واچنگ کہالتا ہ ے۔ اسی دھیانا ،جھانا ،چانا وغیرہ کا عربی متبادل مراقبہ ہے اور اسی مراقبہ کو فقہ بھی کہتے ہیں۔ ہر گیان دھیان سے ہے ،ہر علم مراقبہ میں ہے ،مراقبہ پھول ہے اور علم اس کی خوشبو۔ بد قسمتی سے میڈیٹیشن کی طرح مراقبہ کا ترجمہ بھی سوچ و بچار ہی کیا جاتا ہے جو کہ انت ہائی غلط اور حقیقی روح سے بالکل الٹ ہے۔ اسی حوالے سے فقہ کا مطلب بھی جاننے کے بجائے ماننا ہو گیا۔ مراقبہ کا سادہ ترین مطلب بھی بغور دیکھنا ہی بنتا ہے لیکن دھیانا کے دیکھنے اور مراقبہ کے دیکھنے میں تھوڑا فرق ہے۔ دھیانا ،جھانا ،چانا وغیرہ کے الفاظ بہت خوبصور ت ہیں اور ان کا مطلب بھی اتنا ہی حسین و دلکش ہے لیکن یہ الفاظ و مطالب مزید وضاحت کے محتاج ہیں۔ ِکسے دیکھنا؟ کیسے دیکھنا؟ کہاں سے دیکھنا؟ کیوں دیکھنا؟ دلکش الفاظ اور دل نشین مطلب کے باوجود یہ سوال جواب طلب رہ جاتے ہیں۔ لفظ مراقبہ کو اس قسم کی کوئی وضاحتی مح تاجی درپیش نہیں اور اس کا دیکھنا اس طرح کا کوئی سوال دست بستہ بھی نہیں دکھاتا۔ دھیانا کے دیکھنے اور مراقبہ کے دیکھنے میں فرق دیکھنے کے لیے لفظ مراقبہ کو بغور دیکھنا پڑیگا یعنی مراقبہ پر دھیانا کی ضرورت ہے۔ اس
6
ایک لفظ کو سمجھنا ہر طرح کی عبادت سمجھنا ہے ،یہ لفظ عبادت سمجھ کر ہی سمجھا جا سکتا ہے۔
مراقبہ ہی عبادت ہے۔ مراقبہ کا ایک ماخز لفظ رق ہے کہ جسکا مطلب عبد یا غالم بننا ہے۔ اسی رق سے مراقبہ بنا، اسی عبد سے عبادت بنی۔ مراقبہ ہی عبادت ہے۔ اور عبادت ہی مراقبہ ہے۔ یہ دونوں ایک ہی حالت کے دو نام ہیں۔ الراق کا مطلب '' عبدیت ،غالمی ،بہت پتلی کھال جس پر لکھا جائے ،سفید کاغز کا تختہ'' ہے۔ لفظ ورق یہیں سے اخز کیا گیا ہے۔ بہت پتلی ،باریک اور لطیف چیز کو رقیق کہتے ہیں یعنی اتنی پتلی ،باریک اور لطیف ''جھلی'' جو کسی چیز کے درمیان آکر اسے یوں ظا ہر کرے کہ اس کا اپنا وجود باطن ہو جائے۔ الرق اصل میں برزخ ہی کی نشاندہی کرتے ہیں ،برزخ کا لغوی مطلب ''دو چیزوں کے درمیان کی روک ،ابتداء اور آخر کے درمیان کی حالت'' ہے۔ مراق کا مطلب ''بطن ،پیٹ کا نرم و پتال حصہ'' ہے۔ اور بطن کا مطلب ''ہر چیز کا اندرونی حصہ ،پوشیدہ'' ۔ ہے۔ ہللا کا ایک نام باطن بھی بتایا جاتا ہے۔ رقا کا مطلب منقطع ہونا، صلح کرنا ،خشک کرنا ہے ،صلح کرانے والے کو الرقو کہتے ہیں۔ المرقاۃ المرقاۃ کا مطلب ''سیڑھی ،زینہ'' ہے۔ نگہبانی کرنے کو رقبہ ،راقبہ کہتے ہیں اور زندگی بھر ،ہمیشہ کے لیے دے دینے کو ارقبہ کہتے ہیں۔ تراقباء کا مطلب ''ایک دوسرے کی نگہبانی ،محافظ ہے۔ رقیب کا عمومی مطلب تو مخالف ،دشمن یا مقابل لیا جاتا ہے لیکن اس کا لغوی مطلب محافظ ،نگہبان ہے۔ عمومی و لغوی دونوں معنی اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔ نگرانی کرنے کی اونچی جگہ مرقب کہالتی ہے۔ اور دوربین کو کہتے ہی مرقب ہیں۔ اتنے الفاظ چھاننے کے بعد اب ہم لفظ مراقبہ کا حقیقی ترجمہ کرنے اور صحیح مطلب جاننے کے قابل ہو سکے ہیں۔ بہت دور کی چیز کو بہت قریب سے دیکھنا مراقبہ ہے۔ دور بین کا خوردبین بن جانا مراقبہ ہے۔ خود ہی دوربین اور خ ود ہی خوردبین بن جانا مراقبہ ہے۔ اونچی جگہ سے نگرانی کرنا مراقبہ ہے۔ اونچی جگہ سے نیچے دیکھا جاتا ہے۔ نیچے دیکھنا مراقبہ ہے۔ نگرانی کا یہ مقام بھی بڑا عجیب ہے ،ا نسان دیکھتا نیچے ہے لیکن اسے نظر اوپر آتا ہے۔ یہاں نیچے اوپر ہے اور اوپر نیچے کیونکہ یہاں سے نیچے دیکھنا اصل میں اندر دیکھنا ہے اور اندر ہی حقیقت میں اوپر ہے۔ نگرانی کے اس اونچے مقام سے نیچے دیکھنا اندر دیکھنا ہے اور اندر دیکھنا اوپر دیکھنا ہے۔ یہی باہر سے اندر دیکھنا مراقبہ ہے۔ ایک ہی لمحہ میں اونچ نیچ کا یہ معجزہ دیکھنا مراقبہ ہے۔ اندر ہہی اوپر ہے ،اوپر اندر ہے ،لفظ مراقبہ نے آسمان کی حقیقت بھی واضح کر دی۔ اس ایک لفظ نے آسمان کے تمام تصورات زمین پر پٹخ دیئے۔ ان آسمانوں کی یہی زمین بوسی دیکھنا مراقبہ ہے۔
7
ال الہ کو اال ہللا بنتے دیکھنا مراقبہ ہے۔ لفظ رقیب کے سارے مطالب اصل میں ڈوئل کے قالب ہیں۔ رقیب کا ہر معنی ڈوئل کی نشانی ہے۔ ''رقیب کا مطلب ڈوئل'' ۔ ڈوئلس ایک دوسرے کے دشمن ،مخالف و مقابل ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے نگران و محافظ بھی ہوتے ہیں کیونکہ دونوں کا وجود ایک دوسرے سے ہوتا ہے۔ دونوں ایک کا دوسرا ہوتے ہیں۔ ایک ہی رسی کے مخلتف سرے ہوتے ہیں۔ رقیب کے دونوں قسم کے معنی ہر قسم کے ڈوئلس پر سو فیصد درست بیٹھتے ہیں۔ ڈوئلس حقیقی معنوں میں ایک دوسرے کے رقیب ہیں۔ ہر ڈوئل رقیب ہے ،ہر رقیب ڈوئل ہے۔ ہللا کا ایک نام رقیب بھی بتایا جاتا ہے۔ نگران اور محافظ کے معنوں میں یہ بات تو ٹھیک ہے لیکن دشمن ،مخالف اور مقابل کے معنوں میں اسی لفظ کا مطلب الہ ہو جاتا ہے۔ ہللا کسی کا دشمن ،مخالف یا مقابل نہیں اور نہ ہی کوئی اس کا دشمن ،مخالف ،یا مقابل ہے۔ اسی لیے تو وہ ہللا ہے۔ اس کے بر عکس ہر الہ کسی نہ کسی کا دشمن ،مخالف یا مقابل ہے اور کوئی نہ کوئی اس کا دشمن ،مخالف یا مقابل بھی ہے ،اسی لیے تو یہ الہ ہے۔ الہ رقیب ہے اور رقیب ڈوئل ،یوں انگریزی کا ڈوئل اصل میں عربی الہ ہے۔ ہر قسم کے ڈوئل اور ہر طرح کہ الہ کی تمام خصوصیات کی اس ایک لفظ رقیب سے بھرپور وضاحت ہو جاتی ہے۔ رقیب ان کا خصوصی نام ہے۔ رقابت جنکا عمومی کام ہے۔ اس رقیب کو ڈوئل ،تو اسی رقابت کو ڈوئلیٹی کہا گیا۔ ہر قسم کے ڈوئل کو محض ایک لفظ الہ کا نام دینے اور پھر اس ایک لفظ سے ڈوئلٹی جیسے گھمبیر اور پیچیدہ ترین مسئلہ کو اتنی آسانی سے سلجھانے کا سارا کریڈٹ محمد المصط ٰفے کو جاتا ہے۔ انسانی تاریخ کے تمام انبیاء و صوفیاء نے صرف اس ایک مسئلہ کی گھتیاں سلجھا کر سمجھانے میں اپنی عمریں لگا دیں ٰ المصطفے نے محض ایک لفظ سے قطرے میں سمندر اور زرے میں کائنات لیکن محمد سمودی۔ الہ ہر قسم کے ڈوئل کا نا م تو الالہ اس ڈوئلٹی کا اختتام ہے۔ الہ رقیب تو الالہ اس رقابت کا انجام ہے۔ ڈوئل اور ڈوئلیٹی کے موضوع ہر اب تک جو کچھ بھی لکھا گیا ،یاد دہانی کے لیے اس سب کا یہاں حوالہ پیش کیا جا سکتا ہے۔ فیوژن ،کولیژن ،انرجی ،نور ،برزخ، بھنور ،مرکز ،بلیک ہول ،سرنڈر ،پہلی موت ،دوسرا جنم وغیرہ جیسے عنوانات کی فائلیں ذہن میں کھولی جا سکتی ہیں۔ اب تک کی تمام گفتگو اس ایک مقام کا انتساب کہی جا سکتی ہے۔ ہر ڈوئل رقیب ،ہر رقیب الہ۔ اور ہر ڈوئلیٹی رقابت ہے ،تو ان سب کا مراقبہ سے کیا تعلق؟ صلح کرانے والے کو الرقو کہتے ہیں۔ ان ڈ وئلس میں صلح ہوتے دیکھنا مراقبہ ہے۔ ان رقیبوں کو قریب آتے دیکھنا مراقبہ ہے۔ یہ ڈوئلس رقیب قریب آتے ہی ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں، ایک د وسرے میں ضم اور مدغم ہو جاتے ہیں۔ ان ڈوئلس رقیبون کا ٹکراؤں ،انضمام ،ادغام دیکھنا مراقبہ ہے۔ نیوکلیئر فیژن یاقلبی مالپ دیکھن ا مراقبہ ہے۔ انرجی کا اخراج و اجزاب دیکھنا مراقبہ ہے۔ مادے کو انرجی اور انرجی کو نور بنتے دیکھنا مراقبہ ہے۔ ڈوئلٹی کا اختتام دیکھنا مراقبہ ہے۔ رقابت کا انجام دیکھنا مراقبہ ہے۔ ڈوئلس کو یونٹ بنتے دیکھنا مراقبہ ہے۔ رقیب کو رفیق بنتے دیکھنا مراقبہ ہے۔ ڈوئلس ی ا رقیبوں کا سرنڈر دیکھنا مراقبہ ہے۔ ڈوئلٹی کو
8
یونٹی میں ڈھلتے دیکھنا مراقبہ ہے۔ رقابت کو قربت میں بدلتے دیکھنا مراقبہ ہے۔ یہ نقطہ تبدل دیکھنا مراقبہ ہے ،ہر نقطہ تبدل دیکھنا مراقبہ ہے۔ اپنا مرکز ،محور ،درمیان ،حال ،برزخ دیکھنا مراقبہ ہے۔ اپنا بلیک ہول دیکھنا مراقبہ ہے۔ خود کو اس بلیک ہول میں گرتے دیکھنا مراقبہ ہے اور اس بلیک ہول سے ستارہ بن کر نمودار ہوتے دیکھنا مراقبہ ہے۔ اپنی پہلی موت دیکھنا مراقبہ ہے ،اپنا دوسرا جنم دیکھنا مراقبہ ہے۔ مراقبہ محض دیکھنا نہیں بلکہ مشاہدہ کرنا ہے۔ صرف زبانی کالمی اشہد انا کہن ا نہیں بلکہ شاہد بننا اور اپنا مشہد دیکھنا مراقبہ ہے۔ شہید ہونا اور شہادت دیکھنا مراقبہ ہے۔ اسی ڈوئل اور رقیب کو الہ کہا گیا ،اسی الہ کو ال ہوتے دیکھنا مراقبہ ہے۔ ال الہ دیکھنا مراقبہ ہے۔ ال الہ کو اال ہللا بنتے دیکھنا مراقبہ ہے۔ خود اور خدا کا ٹکراؤ ،انضم ام ،ادغام دیکھنا مراقبہ ہے۔ خود کو خدا میں پھیلتے دیکھنا مراقبہ ہے۔ خود کو خود میں سمٹتے دیکھنا مراقبہ ہے ،خود کو خدا بنتے دیکھنا مراقبہ ہے۔ مراقبہ کے ان معنوں تک پہنچانے واال ایک لفظ مرقاۃ ہے کہ جسکا مطلب ''سیڑھی یا زینہ ہے۔ خود کو اپنے اندر ،مرکز قلب میں اترتے اور فلک پہ چڑھتے دیکھنا مراقبہ ہے۔ انتہائی پتلی، نہایت بار یک جھلی دیکھنا مراقبہ ہے۔ برزخ دیکھنا مراقبہ ہے۔ ورق پڑھنا اور رق دیکھنا مراقبہ ہے۔ اپنی کتاب پڑھنا اور ام الکتاب دیکھنا مرقبہ ہے۔ لوح محفوظ دیکھنا مراقبہ ہے۔ بطن کو مراق کہتے ہیں ،اپنے بطن ک ا ظہور دیکھنا مراقبہ ہے ،اپنے باطن کو ظاہر ہوتے دیکھنا مراقبہ ہے۔ یاد ریے کہ ہللا کا ایک نام باطن بھی بتایا جاتا ہے۔ باطن کا ظاہر ہونا ہللا کا ظاہر ہونا ہے ،باطن کو دیکھنا ہللا کو دیکھنا ہے۔ اپنا بطن دیکھنا مراقبہ ہے ،باطن دیکھنا مراقبہ ہے، ہللا کو دیکھنا مراقبہ ہے۔
غار حراء کی تنہائی ٰ المصطفے نبوت سے قبل غار حراء میں عبادت کیا کرتے تھے ،جب بتایا جاتا ہے کہ محمد پوچھا جائے کہ ابھی نبوت ملی نہیں ،کوئی نماز وغیرہ ہے نہیں تو پھر وہ غار حراء میں کیا ٰ المصطفی غار عبادت کرتے تھے؟ اس پر انتہائی بے دلی سے جواب دیا جاتا ہے کہ محمد حراء کی تنہائی میں مراقبہ کیا کرتے تھے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جس عبادت میں محمد ٰ المصطفے کو نبوت ملی ،اس عبادت کا اس مروجہ اسالم میں کوئی ذکر نہیں ملتا۔ جس مراقبہ ٰ المصطفے کو ہللا سے قریب کیا ،محمد کو احد سے مال کر احمد بنا دیا ،بڑے بڑے نے محمد نامور محدثین ،مفسرین اور فقہاء نے وہ مراقبہ کرنے کی بجائے اس کا زکر تک نہ کیا اور اصل بات ہی گول کر گئے۔ روایتی تاریخ میں بتایا جاتا ہے کہ اسی مراقبہ کی حالت میں پہلی وحی اقراء باسم ربک الذی خلق '' ،پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا''۔ (سورہ علق )01:نازل ہوئی۔ اقراء کا ترجمہ ''پڑھ'' کیا جاتا ہے اور یہیں سے پڑھے لکھے محدث، ٰ المصطفے کو ان پڑھ ثابت کرنے پر راوی ،مفسر اور فقہاء اپنی قیاس آرائیوں کے تحت محمد
9
تل جاتے ہیں۔ پہلی وحی کے سلسلے میں جو محیر العقول ''واقعہ'' پیش کیا جاتا ہے وہ تحسین نبوت نہیں بلکہ توہین رسالت کے زمرے میں آتا ہے۔ اقراء کا مطلب صرف پڑھ یا پڑھو نہیں بلکہ پڑھانا بھی ہے اور لغات میں یہی زیادہ مستعمل بھی ہے لیکن پڑھے لکھے مولویوں کو ٰ المصطفے کو ان پڑھ ثابت کرنے میں زیادہ سے ذیادہ مزہ آتا ہے ،اسی لیے وہ مزے لے محمد لے کر اپنے مطلب کے لیے اقراء کا صرف ایک ہی مطلب بتاتے ہیں۔ اقراء کے دیگر مطالب '' پہنچانا ،واپس ہونا ،پھرنا ،عبادت کرنا ،بروقت ہونا'' بنتے ہیں۔ اقراء کا ایک اہم مطلب ''قریب'' ہونا'' ہے ،یاد رہے کہ یہ آیت ،وحی مراقبہ کی حالت میں نازل ہوئی تھی۔ قراء کا ایک مطلب ''پڑھنا ،پہنچانا ،جمع کرنا ،اکھٹا کرنا ،حاملہ ہونا ،حاملہ کا جننا' ہے۔ تقراء کا مطلب ''عبادت کرنا ،جاننا ،عالم پونا'' ہے۔ عبادت گزار کو القراء اور المتقری کہتے ہیں۔ پہلی آیت کا آسان اور سیدھا سا ترجمہ پڑھانا بھی ہوسکتا تھا یا پھر پہنچاؤ ،عبادت کرو ،جانو ،عالم بنو وغیرہ بھی ہوسکتا تھا لیکن نہیں ابو جہل کی پڑھی لکھی اوالد ہر صورت میں محمد المصط ٰفے کو ان پڑھ ثابت کرنا چاہتی ہے ،اسی لیے یہ بصیرتی اندھے اپنے آباؤ اجداد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بصاتری اندھے بھی بنے ہوئے ہیں اور اتنے مطالب کے باوجود صرف ایک مطلب پر گرے پڑے ہیں۔ عربی میں نزدیکی اور کوکھ کے لیے ایک ہی لفظ القرب استعمال ہوتا ہے۔ عربی میں قرب کا مطلب صرف نزدیک یا قریب نہیں بلکہ بہت قریب ،بہت ہی زیادہ قریب ہے ،اتنا قریب کہ جیسے بچہ ماں کی کوکھ یا بطن میں ہوتا ہے۔ تلوار کا میان میں ڈالنا قرب کہالتا ہے۔ قرب کا مطلب دو کا ایک ہو جانا ہے۔ اسی لیے قربت اور کوکھ کے لیے ایک ہی لفظ استعمال ہوتا ہے۔ دنیا کی کسی اور زبان میں قربت کی اس سے بہتر اور خوبصورت وضاحت ممکن نہیں۔ قربانی کا لفظ اسی قرب سے بنا ہے کہ جسکا مطلب اتنا قریب ہوجانا کہ میں اور تو کا فرق خ تم ہو جائے۔ ہللا کا قرب حاصل کرنے کا مطلب یہی ہے کہ انسان ہللا کے ساتھ ایسے مل جائے ،ایسے ایک ہو جائے کہ جیسے بچہ ماں کی کوکھ میں اس کے ساتھ ایک ہوتا ہے۔ محمد ٰ المصطفے نے ہللا کو رحمان اور رحیم اسی لیے کہا۔ ماں کی کوکھ یا بچہ دانی کو رحم کہتے ہیں اور رحمان اور رحیم کا اصل ماخز یہی رحم ہے۔ ہللا کو رب بھی اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جس کا مطلب پرورش کرنے واال ہے۔ کوکھ یا بچہ دانی میں بچے کی پرورش کے قدرتی انتظام کو ربوبیت کہا جاتا ہے ،یہیں سے لفظ رب بنا۔ رب کا ایک مطلب ''جمع کرنا'' بھی ہے، مختلف پھلوں کو شیرے میں جمع کرنا مربہ کہالتا ہے۔ یہودیوں اور عیسائیوں نے ہللا کو باپ کا درجہ دیدیا ،خ ود مسلمانوں میں بھی اسی ڈگر پر چلتے ہوئے ہللا کے لیے مزکر کا جنسی صیغہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اول تو ہللا کو مزکر یا مونث حوالوں سے پکارنا ہی غلط ہے اور اگر لسانی مجبوریوں کے تحت ایسا کرنا بھی پڑے تو پھر اسے مونث حوالہ زیادہ مناسب ہے کہ وہ باپ کی طرح نہیں بلکہ ماں کی طرح ہے۔
10
پہلی موت اور دوسرا جنم سورۃ علق کی دسویں آیت ''عبدا اذا صلّٰی'' میں صلّٰی کا زکر ہے۔ جب پوچھا جائے کہ چند ہی آیتوں بعد صلّٰی کا کیا مطلب ہوا؟ بھال چند آیتوں کے بعد کونسی نماز ہو سکتی ہے؟ کسی نماز ہو سکتی ہے؟ اس موقع پر بھی بنا بنایا گھڑا گھڑایا سا جواب دے دیا جاتا ہے کہ رکوع و سجود میں بس یہی چند آیات بار بار پڑھی جاتی تھیں۔ سورۃ علق کی آخری آیت کے آخری دو الفاظ نے صلّٰی کی بھرپور وضاحت کر کے ان محدثوں ،مفسروں اور فقہاء کی سازشی ملی بھگت کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ عہ وسجد َوقت َِرب (سورۃ علق )19خبردار اس کا کہنا ہر گز نہ ماننا اور سجدہ کر ک اَالَ َال ت ُ ِط ِِ ُ اور قریب ہوجا'' ۔ لفظ سجدہ کی بھر پور وضاحت پہلے ہوچکی ہے اور سرنڈر کے نام سے پورا ایک سلسلہ اس پر مخصوص کیا جاچکا ہے۔ البتہ آیت کا آخری لفظ سجدہ کی وضاحت طلب ہے۔ اقترب کا ترجمہ '''قریب ہوجا'' کیا جاتا ہے۔ جوکہ نامکمل ہے۔ اقترب کا مطلب صرف قریب ہو جانا نہیں بلکہ ایک دوسرے کے قریب ہوجانا ہے۔ اگر آیت کا مروجہ و مفسرہ ترجمہ ہی کر لیا جائے تو پھر بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس کے قریب ہوجا؟ کیسے قریب ہوجا؟ اس آیت کے ان آخری دو الفاظ میں پورا دین اور اس کی پر تشریح بالکل صاف شفاف بیاں و عیاں کر دی گئی ہے۔ عجیب بات ہے کہ نزول کے اعتبار سے پہلی ہی سورہ کا پہال لفظ اقراء ہے اور آخری لفظ اقترب اور اس سورۃ کے درمیان میں لفظ صلّٰی (نماز)۔ پہلے لفظ کا ایک مطلب بھی قرب ہے اور آخری لفظ کا ہر مطلب ہی قرب ہے۔ پہال لفظ بھی عبادت ہے اور آخری لفظ بھی عبادت ہے اور ان کے درمیان صلّٰی ہے کہ جو اسی عبادت کی وضاحت ہے۔ یہ قرب ہی عبادت ہے اور عبادت یہی قرب ہے۔ یہ قرب کیا ہے؟ لفظ سجدہ سے اس کی بھی وضاحت کر دی گئی اور یہ سجدہ کیسا ہے؟ لفظ اقترب سے اسے بھی واضح کر دیا گیا۔ سجد اور قرب ایک دوسرے کی لفظی وضاحت کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی معنوی صراحت بھی کرتے ہیں۔ سجدہ کا مطلب ٹکریں مارنا نہیں بلکہ ٹکرانا ،قریب النا ہے جسے فیوژن یا کولیژن بھی کہا جاتا ہے۔ سجدہ کا سادہ ترین مطلب قریب ہونا ،قریب کرنا ہے اور اقترب کا مطلب بھی قریب ہونا قریب کرنا ہے۔ اس لحاظ سے ان دونوں کا مطلب قریب ہونا قریب کرنا ہے۔ قریب یا قرب کا مطلب ''اتنا قریب کہ ایک ہو جانا'' ہے۔ قرب کے معنوں میں کوکھ کا لفظ اس کا ثبوت ہے۔ قربت کا م طلب ہی ایک ہوجا ہے۔ یوں سجدہ اور قرب کا مطلب ایک ہی ہے ،دونوں کا مطلب ایک ہوجانا ہے۔ وسجد اقترب کا سادہ ترجمہ تو سجدہ کر ،قریب ہوجا بنتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب قریب کر ،قریب ہوجا یا ایک کر ،ایک ہوجا بھی ہوسکتا ہے۔ ایک اور بات جو غور طلب ہے ،پہال حصہ کرنا ہے یعنی سجدہ کر ،قریب کر ،ایک کر ،دوراحصہ ہونا ہے یعنی قریب ہو، ایک ہو۔ اب ان دو الفاظ سے پورے دین اور اس کی ہر تشریح کی بھرپور وضاحت کی جا سکتی ہے۔ یہ دو الفاظ سمجھ کر پورا دین سمجھا جا سکتا ہے۔ قرب اصل میں قربت یا قرابت
11
ہے اور اس کا متضاد رقابت ہے ،قرابت کو یونٹی اور رقابت کو ڈوئلٹی کہتے ہیں۔ رقیبوں /ڈوئلس کا انضمام ،ادغام ،مالپ ،مالقات ،فیوژن ،کولیژن ،ٹکراؤ ،درنڈر ،سجدہ یا قرب ہی رقابت کا خاتمہ اور ڈوئلٹی کی موت ہے۔ رقابت کے اسی خاتمہ سے قرابت کا آغاز ہے، ڈوئلٹی کی اسی موت پر یونٹی کا جنم ہے۔ قرب پر ہی رقابت کی موت ہے ،قرب سے ہی قرابت کا جنم ہے۔ قرب پر ہی موت ہے ،قرب سے ہی جنم ہے۔ پہال حصہ بیرونی حالت ہے اور دوسرا حصہ اندرونی کیفیت کا نام ہے۔ پہال حصہ کام دوسرا حصہ انعام ہے۔ پہال حصہ پہلی موت اور دوسرا حصہ دوسرا جنم ،اب پتہ چال کہ قرب کے معنوں میں کوکھ کیوں چھپی ہے؟ قرب کا ایک مطلب نزدیکی اور دوسرا کوکھ ہے۔ پہلے حصہ پر پہلے مطلب کا اطالق ہوتا ہے اور دوسرے حصہ پر دوسرا مطلب منطبق ہوتا ہے۔ سجدہ پہلی موت ہے اور قرب دوسرا جنم۔
قرب سے ہی قیام ہے۔ دوسرے جنم کے لیے دین اسالم میں ''قیام''کی اصطالح استعمال ہوتی ہے کہ جس سے لفظ قیامت بھی بنا۔ مفسرین نے عیسائی اثرات کے تحت قیامت کا مطلب ڈے آف ججمنٹ سمجھ لیا اور اتنی خوبصو رت اسالمی اصطالح پر عیسائیت کی خرافات چسپاں کر کے اسے بھی دیگر اصطالحات کی طرح خوفناک بنا دیا۔ اب قیامت کا تصور لوگوں کو ڈرانے دھمکانے اور کنٹرول میں رکھ نے کے لیے تازیانے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ دوسرے جنم کی اصطالح کو سب مزاہب نے گال گھونٹ دیا۔ ھندوستانی پنڈتوں نے اسے خرافات کی بھینٹ چڑھا دیا، عیسائی پادریوں نے بپتسمی کے پانی میں غرق کر دیا جبکہ ایرانی مفسروں نے عربستان کے صحرا میں زندہ گور کر دیا۔ قرب پر ہی سجدہ ہے ،قرب پر ہی قیام ہے۔ ڈوئلٹی کا سارا فلسفہ اور پہلی موت و دوسرا جنم کی ساری تفصیل ''وسجد اقترب'' میں سما دی گئی ہے۔ اب ان الفاظ کا کسی بھی حوالے سے ترجمہ کیا جائے ،اس کا مطلب و مقصد ایک ہی بنتا ہے۔ مفسرین نے ''اور سجدہ کر اور قریب ہوجا'' پر ہی اکتفا کیا ہے لیکن یہ وضاحت نہیں کی کہ ''قریب ہونا'' سے کیا مراد ہے؟ کس کے قریب ہوجا؟ قربت کا تعلق سمجھنے اور پہلی موت و دوسرا جنم کی اصطالحات جاننے کے بعد ہی سجدہ کرنے اور قریب ہونے کو بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ اس سجدہ کر ،قریب ہوجا۔ کو کئی حوالوں سے مزید واضح کیا جاسکتا ہے۔ ڈوئلس کا سجدہ کرانا ہی جنت کا قرب پانا ہے۔ رقابت مٹانا ہی قرابت پانا ہے۔ ڈوئلس کو ایک دوسرے کے قریب کر ،خود ڈیوائین سے قریب ہوجا۔۔۔۔ الہ کو قریب کر ہللا سے قریب ہوجا۔ ڈوئلٹی مار کر یونٹی میں زندہ ہوجا۔ پہلی موت مرکر دوسرا جنم ہوجا۔ خود کو قریب کر، خدا سے قریب ہوجا۔ خود قرب خدا ہوجا۔ خود خدا ہوجا۔ یہی قرب نزدیکی ہے ،یہی قرب کوکھ ہے۔ اسی قرب پہ سجدہ ہے ،اسی قرب پہ قیام ہے ،اسی قرب پہ پہلی موت ہے ،اسی قرب سے دوسرا جنم ہے۔ ہللا کا ایک نام رقیب اسی قرب کے حوالے سے ہی بہتر طور پر سمجھا جا
12
سکتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خدا کو بنانے واال یہ قرب خود کہاں ہے؟ کہاں ہوتا ہے؟ اس کے قرب و جوار کا کوئی اتہ پتہ؟ رقیب جہاں رفیق ہوتا ہے ،ڈوئل جہاں یونٹ بنتا ہے، رقابت جہاں قرابت میں ڈھلتی ہے ،ڈوئلٹی جہاں یونٹی میں بدلتی ہے ،یہ مقام اعتدال اور نقطہ تبدل قرب کہالتا ہے۔ یہ قرب بالکل وہی ہے کہ جسے اب تک ہم نے درمیان ،حال ،مرکز، ٰ مصلی کا نام دیا۔ بلیک ہول برزخ اور محور ،قلب ،بھنور ،بلیک ہول ،برزخ ،مشہد ،مسجد اور دوسرا جنم جیسی اصطالحات سمجھنے میں کسی کو اگر کوئی مسئلہ درپیش بھی تھا تو قرب کے ایک معنی کوکھ نے وہ بھی حل کر دیا۔ جس نقطہ پہ سجدہ ہے ،اسی نقطہ پہ صلّٰی نماز ٰ مصلی بھی ہے ،یہی قرب سجدہ ہے ،اسی پہ بھی ہے۔ اسی لیے تو یہ قرب مسجد بھی ہے اور مسجد ہے۔ یہی قرب صلّٰی ہے ،اسی پہ مصلّٰی ہے۔ یہی قرب دوسروں کو بتانا ،سمجھانا، پہنچانا ،پڑھانا ،ہی اقراء ہے اور یہی قرب دیکھنا مراقبہ ہے۔ مراقبہ کی طرح یہ لفظ قرب بھی بہت وسیع المعنی ہے۔ ڈوئلٹی کا سرا فلسفہ اس ایک لفظ میں سمایا ہوا ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ قرب دیکھنا مراقبہ ہے تو اس کا مطلب یہ بھی بنتا ہے کہ نقطہ تبدل دیکھنا مراقبہ ہے ،مقام اعتدال دیکھنا مراقبہ ہے۔ اپنا مرکز ،محور ،درمیان ،بلیک ہول ،برزخ ،مشہد ،مسجد ،مصلّٰی دیکھنا مراقبہ ہے۔ ڈوئلٹی کا خاتمہ دیکھنا مراقبہ ہے ،یونٹی کا آغاز دیکھنا مراقبہ ہے۔ اپنی پہلی موت دیکھنا مراقبہ ہے ،اپنا دوسرا جنم دیکھنا مراقبہ ہے۔
ٰ المصطفے کا غار حراء میں مراقبہ کرنا۔ محمد ٰ المصطفے نوجوانی سے ہی تجارت کے پیشے سے منسلک ہوگئے۔ ان کے اخالق ،کردار محمد الکبر نے اپنا تمام ٰ اور پیشہ ورانہ مہارت کی شہرت پر مکہ کی ایک مالدار بیوہ خاتون خدیجہ ٰ المصطفے کے سپرد کردیا۔ تھوڑے ہی عرصہ میں مال اسباب تجارت کی غرض سے محمد ٰ المصطفے سے شادی کا پیغام بھیجوا دیا اور یوں 25 الکبری اتنی متاثر ہوئیں کہ محمد ٰ خدیجہ ٰ الکبری کی شادی ہوگئی جو ہر لحاظ سے انتہائی المصطفے اور 45سالہ خدیجہ سالہ محمد ٰ کامیاب شادی قرار دی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد روایتی ،غیر روایتی تاریخ خاموش ہو جاتی ٰ المصطفے کو مکہ کے قریب غار حراء ہے یا کر دی جاتی ہے۔ چند سال بعد یہی تاریخ محمد مین مراقبہ کرتے ہوئے بتاتی ہے اور اسی مراقبے کے دوران وحی کا نزول ہوتا ہے اور پھر ٰ المصطفے تاجر نہیں ہے، وہ نبوت کا اعالن کر دیتے ہیں۔ غار حراء میں مراقبہ کر نیواال محمد نبوت کا اعالن کرنے واال محمد المصط ٰفے بھی تاجر نہیں ہے ،تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چند ٰ المصطفے کی تجارت کہاں گئی؟ شادی اور وحی الکبری کی دولت اور محمد ٰ سالوں میں خدیجۃ کے درمیانی عرصہ کے بارے یہ تاریخ بالکل خاموش ہے۔ اس سے المحالہ یہی نتیجہ اخذ کیا ٰ المصطفے بھی اپنی ساری دولت و تجارت ترک جاسکتا ہے کہ دیگر کئی انبیاء کی طرح محمد کر کے تالش حق کے لیے مراقبہ میں مصروف ہوگئے ہونگے ،تاہم ان کے اس فیصلہ میں ان
13
کی عزیزہ بیوی کی مکمل و بھر پور حمایت شامل ہوگی۔ یہ نتیجہ اخذ کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ شادی کے بعد تاریخ محمد المصط ٰفے کو جس طرح پیش کرتی ہے وہ دولت مند تاجر دکھائی نہیں دیتے۔ پہلی وحی کے بعد کی تاریخ ہر قسم کی روایات سے بھری پڑی ہے ،اس کے باوجود ہجرت کے موقع پر بھی وہ خالی ہاتھ ہی نظر آتے ہیں۔
دو روایات مزہب اسالم کی تاریخ میں دو روایات کو خصوصی بلکہ بنیادی مقام حاصل ہے ،ایک روایت پہلی وحی کے نزول کے حوالے سے ہے اور دوسری ''واقعہ معراج'' سے متعلق ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مروجہ مزہب اسالم کی ساری عمارت انہی دو روایات پر استوار ہے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ ان دونوں روایات کا بغور جائزہ لینے سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ان کی تخلیق کسی یہودی مجوسی ذہن کی اختراع ہے۔ پہلی روایت کے ذریعے آسمان ،خدا ،فرشتے ،نبوت ،وحی اور نزول سے متعلق اسالمی نظریات کو یہودی مجوسی روایات سے تبدیل کر دیا گیا۔ صرف ایک جھوٹی ،گھڑت ،اختراعی روایت نے دین اسالم کی بنیادیں تک ہال کر رکھ دیں۔ دوسری روایت نے عبادت کا مفہوم تک بدل دیا۔ اقرا باسم ربک الذی خلق (سورۃ العلق )01 :کو پہلی وحی اور آیت قرار دیا جاتا ہے ،مفسرین کے مطابق ''یہ سب سے پہلی وحی ہے جو نبی پر اس وقت آئی جب آپ غار حراء میں مصروف عبادت تھے۔ فرشتے نے آکر کہا ،پڑھ ،آپ نے فرمایا ،میں تو پڑھا ہو ہی نہیں ہوں ،فرشتے نے آپ کو پکڑ کر زور سے بھینچا اور کہا ،پڑھ، آپ نے پھر وہی جواب دیا۔ اس طرح تین مرتبہ اس نے آپ کو بھینچا''۔ حوالہ حسب توقع معمول صحیح بخاری ،ایسی اختراعات کی سب سے بڑی فیکٹری صحیح بخاری ہی ہے۔ ابھی پہلی وحی نازل نہیں ہوئی ،پہلی آیت نہیں اتری ،ابھی نبوت ملی نہیں ،تو پھر مصروفیت کیا ہے؟ عبادت کیسی ہے؟ مراقبہ کا لفظ لکھتے وقت مفسرین کے ہاتھ کانپنے لگتے ہیں،اسی لیے یہ بیچارے عبادت یا مصروف عبادت کے الفاظ سے کام چالتے ہیں۔ اس عبادت کی نوعیت پر اصرار کیا جائے تو انہیں مجبورا مراقبہ کا نام لینا پڑھتا ہے ،اس لفظ کی ادائیگی ان لوگوں کے لیے شروع سے ہی مسئلہ رہی ہے۔ ایسے موقعوں پر انکے بلند بانگ گلے پست تنگی کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں۔ ان راویوں ،محدثوں ،مفسروں اور فقہاء کو باال آخر یہ ماننا پڑتا ہے ٰ المصطفے مراقبہ میں مصروف تھے اور اس مراقبہ کو کہ پہلی وحی کے نزول کے وقت محمد عبادت ہی قرار دیا جاتا ہے۔
14
نبی اور فرشتوں کی مروجہ تعریف تمام مزاہب کے چوغا پوش ٹھیکیدار جس قسم کا آسمان ہمارے سروں پہ تانے ہیں ،اس قسم کے کسی آسمان کے کسی آسمان کا کہیں کوئی وجود نہیں۔ مولویوں نے وحی اور اس کے نزول کا جو عجیب و غریب اصول تراشا ہ ے ،وہ انتہائی بھونڈا اور فضول ہے ،حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ جب اس طرح کا کوئی آسماں ہی نہیں ،وحی کے نزول کا یہ صحیح بیاں ہی نہیں ،تو پھر روایتی قسم کا فرشتہ کہاں سے آگیا؟ اسالم میں اس طرح کے فرشتے کا کوئی تصور نہیں۔ البتہ سورج و آتش پرستوں میں سخت گیر فرشتوں کا تصور عام تھا۔ وہیں فرشتے کا یہ مخصوص کردار ،رومنوں اور یہودیوں پہ ''نازل'' ہوا ،جہاں سے یہ پھر عیسائیت میں سرائیت کر گیا۔ یونانی عقائد کے مطابق انکے بارہ اہم خدا (دیوتا) کوہ لمپس پہ رہتے تھے اور ان کا بادشاہ زیوس جو آسمانوں اور طوفانوں کو بھی کن ٹرول کرتا تھا۔ روم میں ویسٹا نامی دیوی کی پوجا کی جاتی تھی۔ ہر گھر اور ہر شہر میں اس کی ایک یادگار بنائی جاتی ،روم میں ویسٹا دیوی کی یادگار کے آتشدان میں آگ مسلسل روشن رکھی جاتی تھی اور اس خدمت پر مامور چھ کنواری لڑکیوں کو ویسٹا ویرگنس کہا جاتا۔ فارسی دیوتا متھرا اور مصری دیوی عیسس بھی رومنوں میں بہت مقبول تھے اور پورے رومن ایمپائر میں ان کی بھی پوجا کی جاتی تھی۔ یونانی اور رومی سپر نیچرل قوتوں پر بڑا اعتماد رکھتے تھے۔ مستقبل کی پیشن گوئی اور دیوتاؤں کو مرضی جاننے کے لیے مخلتف ٹونے ٹوٹکے بھی کئے جاتے۔ یونان میں ایسے ماہرین نجوم کو دیوی دیوتاؤ کا نمائندہ سمجھتے ہوئے ان کی گفتگو کالم دیوتا قرار دیا جاتا تھا۔ یونانیوں اور رومنوں کا عقیدہ تھا کہ دیوی ،دیوتا انہی پیشن گوئی کرنے والوں کے ذریعے ہی لوگوں تک اپنا پیغام پہنچاتے ہیں۔ یہی تصور آگے چل کر نبی کی مروجہ تعریف بن گیا اور سپر نیچرل قوتوں کو فرشتے بنا دیا گیا .کانسٹنٹائن نے 325ء میں اس دور کی تمام خرافات کو نیقیۃ عقیدہ میں مجتمع کر کے عیسائیت کا نام دے دیا اور اس پر ایک نئے سرکاری مزہب کا ٹھپہ بھی لگا دیا۔ یہ مافوق الفطرت خرافاتی تصورات عباسی دور میں اسالم پر بھی مسلط کر دیئے گئے۔ مزہب اسالم میں نبی اور فرشتے کا مروجہ تصور انہی عناصر کی دین ہے ،اس کا دین اسالم سے کوئی تعلق نہیں۔ دین اسالم کو مزہب اسالم بنانے میں فرشتے اور نبی کے اس عجیب و غریب تصور نے کلیدی کردار ادا کیا۔
واقعہ معراج کے وقوع پر راویوں کا شدید اخالف پہلی وحی اور معراج کو الگ الگ روایات سے الگ الگ واقعات بتایا جاتا ہے۔ مولوی معراج کو جس طرح واقعہ بنا کر پیش کرتے ہیں ،اگر معراج اسی طرح کا واقعی کوئی حقیقی واقعہ ٰ المصطفے کی زندگی اور اسالمی تاریخ کا اہم ترین واقعہ بنتا اور اس تھا تو پھر وہ یقینا محمد اہم ترین واقعہ کی واقعاتی شہادتوں کے سلسلہ میں کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہونا چاہیئے تھا
15
لیکن حیرت انگیز حقیقت تو یہ ہے کہ اس ا ہم ترین واقعہ کے وقوع کی تاریخ پر راویوں، محدثوں ،مفسروں اور فقہاء میں شدید اختالف تو سالوں پر محیط ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے اور بعض اسے بعد از ہجرت قرار دیتے تھے ،تاہم بعد ازاں پریشانیوں سے بچنے کے لیے اس کے قبل از ہجرت پر اتفاق کر لیا گیا لیکن اس سلسلے میں بھی کوئی تاریخی شواہد پیش کرنے کی زحمت گوارا نہ کی گئی ،بس مان لیا گیا ،اتفاق کر لیا گیا لیکن اس نام نہاد اتفاق کے باوجود بھی اختالف بر قرار رہا۔ اب ایک نیا مسئلہ پیدا ہو گیا، بعض کہتے ہیں کہ معراج کا واقعہ ہجرت سے ایک سال قبل ہوا جبکہ بعض کا اصرار ہے کہ یہ ہجرت سے کئی سال پہلے پیش آیا۔ مہینے اور تاریخوں کا اختالف بھی الگ سے اپنی جگہ قائم و دائم ہے۔ محمد المصط ٰفے کی زندگی اور اسالمی تاریخ کے سب سے اہم ''واقعہ'' کی شہادت کا یہ حال ہے تو پھر دیگر روایات کی حقیقت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ روایتی و غیر روایتی گرد و غبار کے باوجود ایک بات صاف عیاں ہے کہ محمد المصطفیے پہلی وحی کے نزول کے وقت مراقبہ میں تھے۔ مراقبہ کا ایک زینہ مرقَ َِا ہے کہ جسکا مطلب ''سیڑھی یا زینہ'' ہے ،معراج کا مطلب بھی سیڑھی ہے معراج سے متعلق محمد المصط ٰفے کی ایک ع ِر َج دیی اِلَی ال َس َمآء یعنی مجھے آسمان پر لیجایا یا چڑھایا گیا ،کا بڑا حوالہ دیا جاتا ہے۔ حدیث ُ اس حدیث میں لفظ السمآء یا آسمان کو صحیح معنوں میں سمجھ لیا جائے تو ساری حقیقت خود بخود واضح ہو جاتی ہے۔
پہلی وحی اور واقعہ معراج معراج کا لفظ عرج سے ماخوذ ہے اور اس کا مطلب اٹھانا ،لے جانا یا چڑھانا ہے۔ عروج کا لفظ بھی اسی سے بنا ہے اور یہ عرج بھی بلندی و آسمان کے معنوں میں ہی استعمال ہوتا ہے۔ آسمان کہیں باہر نہیں ،یہیں اندر ہے۔ عروج اونچائی پہ بہت دور نہیں ،گہرائی میں بہت قریب ہے۔ اوپر چڑھنا اصل میں گہرائی میں اترنا ہے۔ یہ اندر ہی مرکز و محور ہے ،یہ اندر ہی قلب و قرب ہے۔ اس سیڑھی پہ چڑھ کر اپنے قلب و قرب میں اتر کر ہی آسمان پہ چڑھا جا سکتا ہے۔ اپنے اندر اترنا ہی آسمان پہ چڑھنا ہے۔ آسمان پہ چڑھنا اصل میں اپنے اندر اترنا ہے۔ مرقَ َِا مراقبہ کی سیڑھی ہے اور معراج عرج کا زینہ۔ یہ سیڑھی بھی عجیب زینہ ہے۔ انسان اس پہ چڑھتا اوپر ہے لیکن اترتا نیچے ہے ،جاتا باہر ہے مگر آتا اندر ہے۔ ہر اوپر اصل میں عرج مراقبہ ہے اور مراقبہ اندر ہے۔ ان معنوں میں مراقبہ اور عرج ہم معنی ہو جاتے ہیں۔ ُ عرج۔ معراج اسی سیڑھی پہ چڑھ کر اپنے قلب میں اترنا ہے اور یہی قلب میں اترنا آسمان پہ ُ چڑھنا ہے۔ وحی اسی قلب پہ نازل ہوتی ہے۔ نازل ہونے کا مطلب ہی پھوٹنا ہے ،اوپر سے نیچے اترنا اصل میں اندر سے باہر آنا ہے ،پہلی وحی اور معراج دو مختلف واقعات نہیں بلکہ ایک ہی حالت کی کیفیت ہے ،ایک ہی حقیقت کی وضاحت ہے۔ جعلساز راویوں نے حقیقت کو
16
خرافات میں بدلنے کے لیے قلبی کیفیات کو گھڑت واقعات میں بدل دیا۔ اسی لیے تو اسالمی تاریخ کے اہم ترین ''واقعہ'' کی تاریخ کا تعین آج تک درد سر بنا ہو ہے۔ صرف آسمان سے متعلق مروجہ تصور اگر ٹھیک کر لیا جائے تو ساری الجھنیں خود بخود درست ہوجاتی ہیں لیکن ایسا نہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ سارے مزہب کی تمام رونقیں اسی آسمان سے لگی ہیں ،جنت ،دوزخ اسی آسمان پہ سجی ہیں۔ آسمان کا تصور دھڑام ہوتے ہی سارے مزہاب زمین بوس ہوجائں گے۔ اسی آسمان کو دیکھنا مراقبہ ہے۔ عرج دیکھنا مراقبہ ہے ،عروج دیکھنا مراقبہ ہے ،معراج دیکھنا مراقبہ ہے۔
والطور ،وکتاب مسطور فی رق منشور ٰ المصطفے مراقبہ میں تھے اور مراقبہ کا سادہ ترین مطلب دیکھنا پہلی وحی کے موقع پر محمد ہے۔ مراقبہ پہلے ہے اور اقراء بعد میں ،اس لیے دیکھنا دکھانا پہلے دیکھا جانا چاہیئے اور ٰ المصطفے مراقبہ میں پڑھنا پڑھانا بعد میں پڑھانا چاہیئے۔ اقراء کے نزول کے وقت محمد ٰ المصطفے کیا دیکھ تھے ،محمد المصط ٰفے دیکھ رہے تھے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محمد رہ ے تھے؟ انہوں نے ایسا کیا دیکھا کہ جسے پڑھنے پڑھانے ،بتانے ،سمجھانے ،پہنچانے کے لیے اقراء کی پہلی آیت نازل ہوئی ،پہلی وحی پھوٹی۔ اس کا جواب بھی قرآن نے ہی دے دیا ہے۔ والطور ،وکتاب مسطور فی رق منشور (سورۃ الطور)03،01 :۔ قسم ہے طور کی ،اور لکھی ہوئی کتاب کی ،جو رق میں منشور ہے۔ ان آیات کا پہلے بھی حوالہ دیا جاچکا ہے اور لفظ رق منشور کے ترجمہ و تفسیر میں مولوی کے جمناسٹک کے مظاہرے بھی دیکھے جاچکے ہیں۔ رق کا مطلب ''پتلی جھلی'' اور منشور کا ''کھال ہوا شاہی فرمان'' کر دیا جاتا ہے۔ اب یہ دو مطالب ساتھ لگا کر ہم ساری عمر لگے رہیں ،چھوٹی سی آیت کا ترجمہ نہیں ہو پائے گا۔ نَشَر ،نشر ،انشر کا مطلب '' افشاں کرنا ،ظاہر کرنا ،پھیلنا ،پھیالنا ،پتے نکالنا ،مردہ کرنا'' ہے۔ نباء کا مطلب بھی یہی ہے یعنی ظاہر ہونا ،پھلنا پھولنا۔ اسی لیے زمین سے اگنے والے ہر قسم کے سبزے کو نبات کہتے ہیں اور یہیں سے لفظ نباتات ہے اور نبوت کا ایک ماخذ بھی یہی لفظ نبات ہے۔ نبوت کا لغوی مطلب ہی ''درخت کی ٹہنی نکلنا'' ہے ،پودے کو تنبیت اور اگنے کی جگہ کو منبت کہتے ہیں۔ بادل اٹھانے والی ہوائیں نشور کہالتی ہیں ،ایسی ہوائیں جو پانی سے بوجھل ہوں ،برسنے ہی والی ہوں ،خالی ہونے کے قریب ہوں۔ اس حوالے سے منشور کا مطلب '' جو برس چکا ہو ،خالی ہو چکا ہو ،صفر ہو چکا ہو ،زندہ ہو چکا ہو ،پتے نکال چکا ہو، پھل پھول چکا ہوِ ،کھل ُکھل چکا ہو ،ظاہر ہو چکا ہو ،بنتا ہے۔ شاہی فرمان کے ساتھ ساتھ کھال ہوا اسی مناسبت سے لگایا جاتا ہے۔ منشور کو سادہ ترین سطح پر مسطور کے معنوں میں بھی لیا جاتا ہے ،لیا جاسکتا ہے کہ جس کا مطلب ''لکھ دیا گیا ہوا'' ہے ،اسے مکتوب اور کتاب بھی کہتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اور سماجی تنظیمیں بھی لفظ نشور کا بے دریغ استعمال کرتی ہیں۔
17
اس حوالے سے منشور سے مراد ضا بطہ ،الئحہ عمل یا ہدایت نامہ ہے۔ مفسرین ''کتاب مسطور'' کا ترجمہ لوح محفوظ بھی کرتے ہیں۔ لفظ منشور کی اس وضاحت کے بعد اب ہم اس آیت فی رق منشور کا مناسب ترجمہ کر سکتے ہیں یعنی جو رق میں نشر ،ظاہر ،افشاں کر دی گئی ہے ،جو رق میں پھیال دی گئی ہے پھیلی ہوئی ہے ،جو رق میں کھول دی گئی ہے ،کھلی ہوئی ہے ،جو رق سے پھوٹ رہی ہے نازل ہو رہی ہے اندر سے باہر آرہی ہے ،جو رق میں زندہ کر دی گئی ہے ،جو رق میں برسادی گئی ہے خالی کر دی گئی ہے ،صفر کر دی گئی ہے یعنی جو رق پہ ساری کی ساری لکھ دی گئی ہے ،الئحہ عمل بنادی گئی ہے ،ہدایت نامہ بنا دی گئی ہے ،منشور بنادی گئی ہے۔ یہ سب اسی کتاب مسطور ہی کا زکر ہے کہ جسے لوح محفوظ ،ام الکتاب یا صرف کتاب بھی کہا جاتا ہے۔ سورۃ الطور کی پہلی تین آیتوں کا سادہ سا ترجمہ یوں ہو سکتا ہے ''قسم ہے طور کی اور اس کتاب مسطور لوح محفوظ ،ام الکتاب کی کہ جو ساری کی ساری رق میں لکھ دی گئی ہے ،ظاہر یا افشا کر دی گئی ہے ،جو رق سے پھوٹ رہی ہے ،جو رق سے نازل ہو رہی ہے'' ۔ مراقبہ کا اہم ترین ماخذ سورۃ طور کی اسی تیسری ٰ المصطفے نے اس لمحہ آیت کا یہی دوسرا لفظ رق ہے۔ یہی رق دیکھنا مراقبہ ہے اور محمد اسی رق کو دیکھا ۔ لفظ طور بھی اصل میں تجلی اور چمک ہی کا استعارہ ہے اور اسی کا وضاحتی اشارہ ہے۔ موسٰ ی نے کوہ طور پہ اپنی رق دیھی ،اپنی کتاب پڑھی ،مراقبہ کیا اور مثل موسٰ ی نے جبل نور میں اپنی رق دیکھی ،لوح محفوظ پڑھی ،مراقبہ کیا۔ برزخ ،قرب ،قلب، صلّٰی ،مشہد ،حال ،درمیان ،مرکز ،محور ،مقام اعتدال ،نقطہ تبدل یہ سب اسی رق کے مسجدُ ،م َ مخلتف اظہاریہ نام ہیں۔ اسی رق کا عام فہم ،سادہ اور مختصر ترین نام قلب ہے اور اسی لیے کتاب اسی قلب میں ہوتی ہے ،اسی قلب سے پھوٹتی ہے ،اسی قلب میں ظاہر ہوتی ہے اور اسی ظاہر یونے اور پھوٹنے کو نازل ہو نا کہا جاتا ہے اور یہی سینہ کھلنا بھی کہالتا ہے۔ اسی قلب کو ظہور ہوتے دیکھنا مراقبہ ہے۔ اسی رق کو منشور ہوتے دیکھنا مراقبہ ہے۔ اسی کتاب کو مسطور ہوتے دیکھنا مراقبہ ہے۔ رق کے ہر اظہار کا ظہور دیکھنا مراقبہ ہے اور محمد ٰ المصطفے نے اس کتاب کی ہر سطر کو مسطور ہوتے دیکھا ،اس رق کے ہر اظہار کو منشور ٰ المصطفے نے مراقبہ میں یہی لوح محفوظ دیکھی ،ام الکتاب ،اپنی کتاب ہوتے دیکھا۔ محمد دیکھی اور اپنی فائل کھولی۔ قدرتی فائل کھولنا ،انسٹال یا ڈاؤن لوڈ کرنا مراقبہ ہے۔ ڈاؤن لوڈ میں بھی چیزں اندر سے ہی باہر آتی ہیں ،باطن سے ظاہر ہوتی ہیں۔ اس انسٹالیشن یا ڈاؤنلوڈنگ ٰ المصطفے کو عربی میں نزول کہا جاتا ہے۔ باطن سے ظاہر ہونا نازل ہونا ہے۔ یہ کتاب محمد کے قلب میں تھی ،جو قلب میں تھی ،باطن میں تھی وہ کتاب تھی ،ساری کی ساری کتاب تھی، ام الکتاب تھی اور جو لب پہ آئی ،محمد المصط ٰفے نے ظاہر کی وہ قرآن ہے۔ قلب افشائی میں کتاب ہے ،لب کشائی پہ قرآن ہے۔ یہی بات بتانا ،سمجھانا ،پہنچانا ،پڑھانا یعنی یہی لب کشائی اقراء ہے۔ یہی بتانا ،سمجھانا پہنچانا ،پڑھانا اصل میں پھلنا پھولنا ،خود کے درخت سے ٹہنیاں نکالنا ،خود کے بیچ سے خودی کا پھول کھلنا ،دی گر قلوب میں بیج بونا اور دوسروں کی زمین
18
میں پودا لگانا ہے۔ یہی پھلنا پھولنا ،کھلنا اور بیج کا پھول بننا یعنی یہی قلب افشائی نبی ہونا ہے اور اسی باطنی حقیقت کا اظہار کرنا اور دوسروں کو خبردار کرنا نبوت کا اعالن کرنا ہے۔ اقراء اسی قلب کشائی کی لب افشائی ہے ،اسی قلب کا لب پہ آجانا ،اسی قلب کا لب پہ آجانا، اسی قلب کا لب بن جانا اقراء ہے۔ اپنی کتاب کھلتے دیکھنا مراقبہ ہے ،بیج کو پھول میں کھلتے دیکھنا مراقبہ ہے۔
عام آدمی اور نبی میں فرق عام آدمی اور نبی میں صرف یہی ایک فرق ہے۔ عام آدمی بند کتاب ہے ،ملفوف بیج ہے جبکہ نبی کھلی کتاب اور ِکھال پھول ہے۔ جس طرح ہر بیج میں پتے ،پودے ٹہنی ،درخت ،تنے ،پھول اور پھل بننے کا پوٹیشنل ہوتا ہے ،یہ ساری حالتیں مخفی حالت میں اس میں موجود ہوتی ہیں۔ بیج کے باطن میں یہ سب کچھ ظاہر کرنے کی صالحیت ہوتی ہے۔ چھوٹے سے بیج کے باطن میں تنآ ور درخت چھپا ہوتا ہے۔ ایک بیج پورے کرہ ارض کو سرسبز و شاداب کرنے کی اہلیت رکھتا ہے بالک ل اسی طرح ہر انسان خدائی پوٹیشنل کا حامل ہے ،پوری کائنات روشن کرنے کی صالحیت رکھتا ہے۔ بیج کا پھول بننا اس کے پوٹیشنل کا ایچوئل ہونا ہے۔ بیج پوٹینشل ہے اور پھول ایکچوئل۔ عام آدمی بیج ہے اور نبی پھول ،عام آدمی خدائی کا پوٹیشنل ہے اور نبی خدائی کا ایکچوئل۔ عام آدمی ساری عمر پوٹیشنل رہتا ہے اور نبی ایک لمحہ میں ایکچوئل ہو جاتا ہے۔ اس کائنات کی ہر چیز ہر لمحہ پوٹینشل سے ایکچوئل ہو رہی ہے ،اسی کا نام ارتقاء ہے۔ کائنات اسی ارتق ائی عمل میں محو سفر ہے۔ حیوان اس ارتقائی سفر کی مادی انتہاء ہے۔ کائنات کی ہر چیز پوٹینشل حالت میں معرض وجود میں آئی اور پھر یہیں سے ترقی کر کے ایکچوئل ہوئی، یہ سلسلہ ارتقاء حیوان پر منتج ہوا۔ حیوان اسی سلسلہ ارتقاء کا ٰ اعلی ترین مقام ہے ،اسی پوٹینشلٹی کی ا یکچوئلیٹی ہے۔ اسی لیے کائنات کی دیگر مخلوقات کے برعکس حیوان پوٹینشل کی بجائے ایکچوئل پیدا ہوتا ہے۔ ہر حیوان ایکچوئل ہے ،وہ جیسا ہے بس ویسا ہی ہے۔ جیسا پیدا ہوتا ہے ویسے ہی مر جاتا ہے۔ حیوان کا مزید ارتقاء ممکن نہیں کیونکہ وہ پہلے ہی ارتقاء کے پہلے مرحلہ کے ٰ اعلی ترین مقام تک پہنچا ہوا ہے۔ انسان بھی فزیالوجیکلی ،بیالوجیکلی ح ٰتی کہ سائیکا لوجیکلی بھی حیوان ہی ہے۔ حیوا ن اور انسان میں صرف ایک فرق ہے ،حیوان ایکچوئلٹی جبکہ انسان پوٹینشلٹی میں پیدا ہوتا ہے۔ حیوان ایکچوئل ہے اور انسان پوٹینشل۔ حیوان میں کوئی پوٹینش ل نہیں ،وہ ایکچوئل ہی ایکچوئل ہے اور انسان میں کچھ ایکچوئل نہیں، وہ پوٹینشل ہی پوٹینشل ہے۔
جدید دور کا روبوٹک مشینی آدمی انسان کا جسم اس کی پرواز کی کے لیے محض رن وے اور اس کی اٹھان کے لیے الچنگ پیڈ
19
ہے ،زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انسان کا جسم اسکے لیے ایک راکٹ ہے جو اسے اوپر اٹھانے کے لیے بھر پور اڑان فراہم کر سکتا ہے۔ اپنے پوٹینشل کو ایکچوئل کرنا ہر انسان کا اولین فریضہ ہے۔ قدرت کی طرف سے انسان پر اگر کوئی فرض یا قرض ہے تو وہ صرف یہی ہے۔ پوٹینشل کو ایکچوئل کرنا ہی ارتقاء ہے اور یہی انسانی ارتقاء ہے۔ ہر انسان کو یہ ارتقاء کا یہ مرحلہ طے کرنا پوتا ہے۔ اس اٹھان یا عرفان کے لیے کسی انسان کو جس وسائل کی ضرورت ہو سکتی ہے ،قدرت نے اسے وہ سب ودیت کر دیئے ہیں۔ قدرت نے انسان کو بہترین الچنگ پیڈٰ ، اعلی ترین راکٹ اور عمدہ ترین ایندھن فراہم کر دیا ہے۔ اپنا ارتقاء ہر انسان کی اپنی زمہ داری ہے ،اس سفر میں وہ بالکل اکیال اور تن تنہاں ہے۔ اٹھان کے سفر میں کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا ،کوئی اس کی کچھ مدد نہیں کرسکتا ،اس نے اپنا ارتقاء خود ہی کرنا ہے۔ انسانوں کی غالب اکثریت اپنے ہی بوجھ کے خوف کی غلط فہمی کا شکار ہے ،انہوں نے اپنے پوٹینشل کو ایکچوئل کرنے کے بجائے اپنی پوٹینشل کو ہی ایکچوئل سمجھ لیا ہے، اسی لیے انسان خسارے میں ہے اور اس کا ارتقاء رک گیا ہے۔ پوٹینشل سطح پہ زندگی گزرانا حیوانی سطح پہ زندگی گزارنا ہے۔ پوٹینشل کو ایکچوئل سمجھ لینا حیوانی مقام سے بھی نیچے گر جانا ہے اور پوٹینشل کو ایکچوئل کر دینا وحدانی مقام سے بھی اوپر اٹھ جانا ہے۔ ہر پوٹینشل آدمی حیوان ہے اور ہر ایکچوئل انسان مومن یا بھگوان ہے۔ جدید دور کا روبوٹک مشینی آدمی حیوانوں سے بھی گزرا ہے ،آج کے دور میں آدمی کا حیوان رہ جانا بھی نعمت ہے ،کسی شخص ک ا حیوان بن جانا بھی غنیمت ہے کیونکہ اگر ترقی نہیں کی جاسکتی تو کم از کم مزید تنزلی سے تو بچا جاسکتا ہے۔ تاریخ میں محض چند انسان ہی اپنا ارتقاء کر پائے اور ٰ مصطفے ،مسیحا ،بدھا ،کرشنا ،بھگوان ،مومن کہالئے۔ یہی پوٹینشل وہی نبی ،ولی ،صوفی، باطن اور غائب بھی کہ التا ہے اور اسی ایکچوئل کو ظاہر اور حاضر بھی کہا جاتا ہے۔
اپنا ارتقاء دیکھنا مراقبہ ہے۔ مراقبہ کو جنم دینے واال ایک لفظ مراق ہے کہ جس کا مطلب ہی بطن ہے اور ہللا کا ایک نام باطن بھی بتایا جاتا ہے۔ اسی باطن کو ظاہر ،غائب کو حاضر اور پوٹینشل کو ایکچوئیل ہوتے دیکھنا مراقبہ ہے۔ حیوان کو انسان بنتے دیکھنا مراقبہ ہے ،انسان کو بھگوان ہوتے دیکھنا مراقبہ ہے۔ اپنا ارتقاء دیکھنا مراقبہ ہے۔ پوٹینشل کا ایکچوئیل ہونا دوبارہ جنم لینا ہے۔ بھگوان اسی نئے انسان کا نیا عنوان ہے۔ انسانی ارتقاء ہی کا دوسرا نام جنم ہے۔ مراقبہ کسی کو بھگوان بنا سکتا ہے ،دوسرا جنم دال سکتا ہے ،ارتقاء کراسکتا ہے تو پھر محمد المصط ٰفے نے باطن کو ٰ المصطفے نے اپنا ظاہر ،غائب کو حاضر اور اپنے ہوٹینشل کو ایکچوئیل ہوتے دیکھا۔ محمد ارتقاء دیکھا۔ ارتقاء کا مطلب ہی '' ترقی کرنا ،بلند ،عروج پانا ،خالص ہونا ،چن لیا جانا'' ہے۔ ٰ مصطفے کہالتا ہے۔ جو ارتقاء کسی بھی انسان کو بھگوان بنا ارتقاء کا یہی مطلب عربی میں ٰ المصطفے بنا دیا۔ ارتقاء کا یہی مرحلہ طے کرنا دیتا ہے ،اسی ارتقاء نے محمد عربی کو محمد
20
عروج پانا ہے ،معراج ہی جانا ہے۔ معراج اسی انسانی ارتقاء کا وضاحتی اصطالحی نام ہے۔ پہلی وحی اور معراج دو الگ الگ واقعات نہیں بلکہ اس ایک ہی لمحہ مراقبہ کے انکشافات ٰ المصطفے کا احمد بننا اور احد کا بھی احمد ہوجانا اسی ایک لمحہ کی کرامات ہیں۔ ہیں۔ محمد احد اور محمد کا احمد میں ایک ہوجانا مراقبہ ہے۔ دو کو ایک ہوتے دیکھنا مراقبہ ہے۔ احد اور وحد کا مطلب ہی ''ایک کر دینا'' ہے۔ محمد کا احمد بننا اصل میں ان کے پوٹیشل کا ایکچوئیل ہونا ہے۔ ہندوؤں میں خدا کے لیے ایشور کا لفظ استعمال ہوتا ہے کہ جس کا مطلب ہی پوٹینشل کا ایکچوئل ہو جانا ہے یعنی جس کی پوٹینشلٹی اور ایکچوئیلٹی میں کوئی فرق نہ ہو ،خود ہی خدا ہو ،جو کہے وہ ہو جائے جسے عربی میں ُکن فَیَ ُکون کہتے ہیں۔ کرشنا کہتے تھے کہ جو کچھ میرے اندر (باطن) میں چھپا ہے ،وہ سب کھلنے ،افشا ہونے پر میں ایشور بن سکتا ہوں۔ اسی بات کو قرآن میں محمد المصط ٰفے کے حوالے سے الم نشرح لک صدرک (سورۃ الشرح )01 کیا ہم نے تمھارا سینہ کھول نہیں دیا'' سے واضح کیا گیا۔ بس اپنے اسی پوٹینشل کو یونہی ایکچوئیل ہوتے دیکھنا مراقبہ ہے۔
اب اور یہاں مراقبہ انسان کو اس کے قلب ،مرکز ،درمیان ،حال میں پہنچاتا ہے۔ خواب و خیال ماضی و مستقبل سے آزاد ہو کر اپنے حال میں رہنا مراقبہ ہے ،اب اور یہاں کا دوسرا نام مراقبہ ہے. انسان کے سوا اس کائنات کی ہر چیز ہر لمحہ مراقبے میں ہے ،اسی لیے دین کی ہر تشریح میں مظاہر قدرت پر غور کی دعوت دی گئی۔ اس طرح کے غور کا مقصد کسی بھی چیز میں کھو جانا ہے اور کسی بھی چیز میں کھونے سے وہ چیز ہی کھو جاتی ہے کیونکہ ہم اس میں کھو کر اسکے ساتھ ایک ہو جاتے ہیں۔ اس غور و حوض کرنے کو عربی میں تفقہو کہا جاتا ہے کہ جسکا ماخذ فِقہ،فَقہ ہے اور اس فَقہ و فِقہ کا مطلب ''جاننا'' ہے۔ فقاء کا مطلب ''پھوٹنا، پھوڑنا ،شگاف کرنا'' ہے۔ اس باریک جھلی کو فَ اق کہتے ہیں جو ماں کے پیٹ میں بچے کے گرد لپٹی ہوتی ہے اور پیدائش کے وقت پھٹ جاتی ہے ،شفق کا لفظ بھی یہیں سے بنا ہے۔ علم کو بھی فقہ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ یہ اندر سے پھوٹتا ہے۔ ایمان کا مطلب بھی جاننا ہے اور ہر جاننا اصل میں اندر سے پھوٹنا اور دیکھنا ہے۔ ایمان کا ہی دوسرا نام مراقبہ ہے ،فِقہ ہے۔ چغہ پوشوں نے ایمان کو ''جاننا'' کی بجائے جب ماننا کے معنی پہنائے تو فقہ کا مطلب بھی جاننے کے بجائے ماننا ہو گیا ،اسی لیے سارے نام نہاد فقہاء دیکھ کر کچھ جاننے کی بجائے ڈنڈا لے کر ماننے منوانے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ ان فقہاء نے اس لفظ فقہ کے غلط معنی اور ناجائز استعمال سے اپنے ساتھ ساتھ اس لفظ کی بھی اتنی مٹی پلید کر دی کہ اب اس کے استعمال میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ ایمان ،فقہ ،مراقبہ ،جاننا ،دیکھنا کا اصل
21
مقصد ایک ہونا ہے ،ڈوئلٹی کا خاتمہ کرنا ہے ،ڈوئلس کا انضمام و ادغام کرنا ہے۔ کسی بھی چیز کے ساتھ ایک ہو جانا ہی اسے جاننے کا واحد طریقہ ہے۔ مظاہر قدرت میں گم ہوجانا ،ضم ہو جانا ،کھو جانا ،اصل میں خود کو پانے کا محرک بن جاتا ہے۔ بیرونی ڈوئلٹی کا خاتمہ اندرونی ڈوئلٹی کے خاتمے کو تحریک دیتا ہے ،خارجی وحدت داخلی وحدت کا سبب بن جاتی ہے۔ اس کھو جانے میں انسان کا مائنڈ کھو جاتا ہے اور اسی لیے وہ ایک ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں کوئی سوچ نہیں ہوتی کوئی خواب و خیال نہیں ہوتا ،کوئی ماضی و مستقبل نہیں رہتا اور انسان حال میں پہنچ جاتا ہے ،اپنے مرکز پہ آجاتا ہے ،اپنے قلب میں پہنچ جاتا ہے۔
مراقبہ مائنڈ کو آف کرنے واال سوئچ ہے۔ مائنڈ کا ایک ہونا اس کا آف ہونا ہے۔ مائنڈ کسی پرزم کی طرح کام کرتا ہے ،اس میں سے گزرنے والی ہر چیز تقسیم ہو جاتی ہے ،ہر چیز تقسیم کرتے کرتے یہ خود بھی منقسم ہو جاتا ہے۔ اس طرح کا تقسیم کار مائنڈ انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے ،شیطان ایسے ہی مائنڈ کا استعارہ ہے۔ ایسا مائنڈ مسلسل مصروف عمل رہتا ہے۔ تقسیم کاری کے اس کام کی زیادتی اسے بھی پریشان ،بے سکون اور نڈھال کر دیتی ہے ،تھکا دیتی ہے اور ہمارے ساتھ اس کی دشمنی کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ دماغ کا فضول کام کرنا انسانی انرجی کا ضیاع ہے۔ مراقبہ مائنڈ کو آف کر دیتا ہے ،دماغ اس دوران آرام کرتا ہے ،سکون پاتا ہے ،تروتازہ ہو جاتا ہے اور انسانی انرجی بھی اس دوران ضائع ہونے سے محفوظ رہتی ہے۔ ایسا دماغ انسان کا سب سے بہترین دوست ہے۔ یہی دماغ جو منقسم ہونے پر شیطان تھا ،مستقیم ہونے پر رحمان بن جاتا ہے۔ منقسم حالت میں یہ مائنڈ کہالتا ہے لیکن واحد ہونے پر یہ دل بن جاتا ہے۔ مراقبہ دماغ کے پرزم کو الٹا کر کے دل بنا دیتا ہے ،پہلے اس میں سے گرزنے پر ہر ایک دو ہو جاتا تھا ،اب ہر دو ایک ہو جاتے ہیں۔ پرزم کی شکل کے ساتھ ساتھ اس کا عمل بھی بدل گیا۔ مراقبے می ں دماغ بھی دل کی طرح صاف شفاف ،خالص اور ایک ہو جاتا ہے۔ دماغ کو دل کرنے کا نام مراقبہ ہے۔ دماغ کو دل بنانے واال عرف عام میں صوفی کہالتا ہے۔ اگلے مرحلے میں یہ دل و دماغ بھی الگ الگ نہیں رہتے ،ان کا بھی ادغام ہو جاتا ہے۔ جس نقطے پہ دل و دماغ ایک ہو جاتیں ہیں ،وہ نقطہ قلب کہالتا ہے۔ اس مقام پہ کھڑا ہوا کوئی بھی انسان کچھ سوچتا نہیں ،کسی سے مانگتا نہیں ،بس جو کہتا ہے وہ ہو جاتا ہے۔ یہ کن فیکون کا مقام ہے اور اس مقام پہ کھڑا کوئی بھی انسان بھگوان ہے ،اسی بھگوان کو عربی مین نبی ،فارسی میں خداوند اور انگریزی مین ال رڈ اور ماسٹر کہتے ہیں۔ اس مقام سے کیا گیا ہر کالم کالم ہللا ہے۔ مائنڈ کو آف ہوتے دیکھنا مراقبہ ہے ،دماغ کو دل بنتے دیکھنا مراقبہ ہے ،دل و دماغ کو قلب
22
ہوتے دیکھنا مراقبہ ہے۔
انسان کا قلب تاریک ہے یا روشن اپنے قلب میں اترنا مراقبہ ہے ،اپنے اندر آنا مراقبہ ہے ،سیڑھی کو مرقا کہتے ہیں۔ ہم اپنے قلب میں جانے سے گھبراتے ہیں ،اپنے اندر آنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ وہاں گھپ اندھیرا ہے، ویرانہ ہے جیسے کسی گھر کو مدتوں مقفل رکھا جائے۔ ہم نے اپنے اپنے ہاتھوں سے اپنے قلب پہ قفل ڈالے ہوئے ہیں ،اندر جانے کے سارے راستے خود ہی مسدود کئے ہوئے ہیں۔ جسے ہم گھٹا ٹوپ اندھیرا سمجھتے ہیں ،ویرانی قرار دیتے ہیں ،جس سے ہم ڈرتے ہیں ،وہاں جانے سے گھبراتے ہیں ،کیا واقعی وہ اندھیرا ہے؟ وہاں ویرانہ ہے؟ اس اندھیرے'' سے ڈرنے اور اس ویرانے سے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے؟ اس کائنات میں کوئی ایک بھی چیز ایسی نہیں کہ جس کا قلب تاریک ہو ،جس کا اندر اندھیرا ہو۔ اپنے نظام شمسی کو دیکھ لیجئے، سورج اس کا قلب ،اندر ،آسمان ،بھرپور روشن ہے۔ ہر ستارہ اپنے اپنے نظام کا جھلمالتا آسمان ہے ،ہماری گلیکسی کا مرکز ان ستاروں سے بھی زیادہ روشن ہے۔ بڑے بڑے ستاروں کی طرح چھوٹی چھوٹی چیزوں کا قلب بھی روشن اور درخشاں آسمان ہے۔ کسی زرے کو بھی مائکرو سکوپ میں دیکھا جائے تو وہ بھی کرسٹل دکھائی دیتا ہے ،تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان کا قلب تاریک ہو ،اس کے اندر اندھیرا ہو اور اس کا آسمان ویران ہو؟ انسان کے قلب میں اترنے اور آسمان پہ چڑھنے سے قبل روشنی اور نور کا فرق سمجھنا ضروی ہے۔
روشنی اور نور میں فرق اندھیرے کا باطن روشن ہے ،روشنی اندھیرے سے ہی جنم لیتی ہے۔ اندھیرے کے بغیر روشنی اور روشنی کے بغیر اندھیرے کی پہچان ممکن نہیں۔ روشنی خود نہیں دیکھتی بلکہ دکھاتی ہے۔ روشنی کسی چیز سے ٹکرا کر ہماری آنکھوں میں اس کا عکس بناتی ہے اور ہمیں وہ چیز دکھاتی ہے۔ ہم روشنی کی روشنی میں دیکھتے ہیں ،روشنی نہیں دیکھتے۔ اگر روشنی نہ ہو، عکس نہ بنائے تو سامنے بھی ہمیں دکھائی نہیں دے گی۔ اسی طرح اگر روشنی تو ہو لیکن ہمارے ارد گرد اسے منعکس کر ن یوانی کوئی چیز نہ ہو تو پھر بھی ہمیں کچھ دکھائی نہ دیگا اور کچھ دکھائی نہ دینا ہی اندھیرا کہالتا ہے ،اس صورت میں روشنی ہونے کے باوجود بھی اندھیرا ہوگا۔ صرف چیزوں کو ہی نظر آنے کے لیے روشنی کی ضروت نہیں بلکہ روشنی کو دکھانے کے لیے چیزوں کی ضروت ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے محتاج ہیں ،روشنی کے بغیر ہر چیز اندھی ہے اور کسی چیز کے بغیر روشنی اندھیرا ہے ،دونوں ایک دوسرے کے
23
بغیر اندھے ہیں ،اندھیرا ہیں۔ مثال ہم خالؤں میں اگر کسی ایسی جگہ پہنچ جائیں کہ جہاں ہمارے ارد گرد کچھ بھی نہ ہو ،کوئی بھی چیز نہ ہو تو وہاں مکمل اندھیرا ہوگا ،صرف اندھیرا ہوگا۔ اب اگر فرض کر لیں کہ ہمارے سامنے ایک بہت بڑا و بہت وسیع ستارہ ہے اور اس ستارے کے سوا وہاں کچھ بھی نہیں تو اس صورت میں بھی وہاں روشنی کے باوجود مکمل تاریکی ہوگی ح ٰت ی کہ ہمارے اور اس روشن ستارے کے درمیان بھی مکمل اندھیرا ہوگا ،ہم ستارے سے جتنا قریب ہوجائیں ،ہمارے درمیان کا اندھیرا ختم نہیں ہوگا۔ وہاں صرف دو چیزیں روشن ہونگی ،ایک ستارہ اور دوسرے ہم۔ اگر کسی طرح سے ہم وہاں کوئی بالئنڈسپاٹ ڈھونڈ سکیں کہ جہاں ستارے کی رو شنی ہم پر نہ پڑے لیکن ہم ستارے کے ارد گرد کا ماحول دیکھ سکیں تو ہمیں وہاں کچھ بھی دکھائی نہیں دیگا۔ وہاں مکمل اندھیرا ہوگا حاالنکہ ستارہ روشن ہے ،ہر طرف روشنی بھی ہے لیکن پھر بھی چہار سو اندھیرا ہے کیونکہ اس روشنی کو منعکس کر نیوالی کوئی چیز اوبجکٹ وہاں نہیں۔
روشنی کا منبع نور انسانی قلب میں اس کائنات کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ روشن ستارہ موجود ہے لیکن انسان کی سب سے بڑی بدنصیبی یہی ہے کہ وہ ایک ایسی بالئنڈ سپاٹ پہ کھڑا ہے کہ جہاں سے یہ ستارہ دکھائی نہیں دیتا ،انسان نے خود کو ایسی جگہ چھپا لیا ہے کہ جہاں سے یہ ستارہ بھی چھپ گیا گیا ہے۔ قلب میں اس ستارے اور اس کی روشنی کے سوا کچھ بھی نہیں ،کوئی نہیں۔ وہاں کچھ بھی نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں صرف گھپ انھیرا دکھائی دیتا ہے اوبجکٹ چیز اور ہم اسی اندھیرے سے گھبرا رہے ہیں اور کچھ بھی نہ ہونے کے خالی پن کو ویرانی قرار دے رہے ہیں۔ جسے ہم ان دھیرا سمجھ رہے ہیں وہ اندھیرا نہیں ،بلکہ روشنی ہے اور روشنی دکھتی نہیں بالکہ صرف دکھاتی ہے اور روشنی کی موجودگی دیکھنے کے لیے دکھائی جانے والی کسی چیز کی موجودگی ضروری ہے ل یکن وہاں کچھ بھی نہ ہونے کی وجہ سے بے پناہ روشنی بھی گھٹا ٹوپ اندھیرا لگتی ہے۔ کوئی خارجی عنصر کسی قلب میں نہیں جا سکتا، انسانی قلب میں صرف انسان خود اتر سکتا ہے۔ اس کائنات کی ہر چیز ہر لمحہ اپنے قلب میں ہے ،انسان بھی اپنے قلب میں ہے لیکن خود کو بالئنڈ سپاٹ میں ملفوف کر لینے کی وجہ سے قلب سے دوری کی غلط فہمی کا شکار ہے۔ انسان جونہی اس بالئنڈ سپاٹ سے باہر نکلتا ہے، ستارے کے سامنے ،روشنی کی زد میں آجاتا ہے ،روشن ہو جاتا ہے اور اسی روشن ہونے کو انالئیجمنٹ یا منور ہونا کہا جاتا ہے۔ ایسے روشن انسان کو صوفی کہا جاتا ہے۔ اس مقام اور اس حالت میں صرف دو ہی چیزیں روشن ہوتی ہیں ،ایک ستارہ اور دوسرا وہ خود۔ ان دو روشن نقاط کے درمیان روشنی ہونے کے باوجود بھی اندھیرا دکھائی دیتا ہے۔ اگلے مرحلہ میں دو نقاط بھی ایک ہو جاتے ہیں اور ستارہ اپنے ہی محور کا بھنور بن جاتا ہے اور روشنی کا منبع نور کی سینگولرٹی ہو جاتا ہے۔ اس مرحلہ کی تفصیل بلیک ہول کے عنوان سے پیش کی
24
جا چکی ہے۔ اس بلیک ہول سے جو نیا ستارہ جنم لیتا ہے وہ نبی کہالتا ہے ،اسی لیے انبیاء کو ستاروں سے تشبیہہ دی گئی۔ کسی نبی کی پیدائش پر ستاروں کا ظہور اسی وضاحت کا اظہار ہے ،ایسا ستارہ نبی کا استعارہ ہ ے۔ روشنی کا سورس کہیں اور ہوتا ہے جبکہ نور خود منبع ہوتا ہے۔ روشنی دیکھتی نہیں صرف دکھاتی ہے ،نور دیکھتا بھی ہے دکھاتا بھی ہے۔ روشنی اپنی موجودگی کے لیے کسی اوبجیکٹ کی محتاج ہے ،نور خود ہی آوبجیکٹ ہے اور خود ہی سبجیکٹ ہے ،وہ ثبوت پیش کرنے کا محتاج نہیں ،اس ے کسی اوبجیٹک کی احیتاج نہیں ،اسی لیے ارد گرد کوئی چیز نہ ہونے کے باوجود بھی ستارہ تو روشن ہی دکھائی دیتا ہے۔ صوفی روشن ہوتا ہے جبکہ نبی منور ،صوفی خ ود روشن ہوتا ہے جبکہ نبی دوسروں کو روشن کرتا ہے۔ روشنی کی انتہاء و ارتقاء نور ہے۔ روشنی کی ہر کرن نور سے ہی پھوٹتی ہے ،اسی لیے نور سب روشنی کا منبع ہے۔ سادہ الفاظ میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ جتنا نور ظاہر ہو جائے ،بس اتنی روشنی ہے۔ ظاہری نور روشنی ہے اور باطنی روشنی نور۔
زمانہ قدیم کے آرٹسٹ رو شنی اور نور میں ایک اور فرق بھی غور طلب ہے۔ روشنی اندھیرے کے بغیر نہیں پہچانی جا سکتی اور اسی طرح اندھیرا بھی روشنی کے بغیر نہیں جانا جا سکتا۔ گوکہ اندھیرے کا اپنا کوئی وجود نہیں ،یہ صرف روشنی کی موجودگی اور غیر موجودگی کا فرق ہے ،روشنی کا عدم ہے اور یہی چیز روشنی اور اندھیرے کو ایک کا دوسرا کر دیتی ہے ،ڈوئلس بنا دیتی ہے۔ جہاں روشنی ہے وہاں اندھیرا نہیں اور جہاں اندھیرا ہے وہاں روشنی نہیں۔ یہی ڈوئلٹی روشنی کو اندھیرے کا محتاج بناتی اور پھر انہیں ایک دوسرے کا محتاج کرتی ہے۔ نور موجودگی اور غیر موجودگی کے فرق سے آزاد ہے ،نور کا عدم وجود ہے اور وجود کا عدم نور ،نور کا کوئی خ اص عدم نہیں ،کہیں مخصوص وجود نہیں۔ نور عدم اور وجود کی بندشوں تک سے مبراء ہے ،نور کا کوئی ڈوئل نہیں ،وہ ہر ڈوئلٹی سے پاک ہے۔ جس نقطہ پہ روشنی اندھیرے کی ڈوئلٹی ختم ہوتی ہے ،اسی نقطہ سے پھوٹنے والی یونٹی نور کہالتی ہے۔ ہر ڈوئلٹی بالکل اسی طرح تمام ڈوئلس کو اندھیرے اجالے کی صورت پیش کرتی ہے اور جس نقطہ پہ اس کی تمام ڈوئلٹیز ختم ہو جائیں ،قرآن نے ایسے نقطہ کو ہی ہللا کا نام دیا اور اسے آسمانوں و زمین کا نور قرار دیتے ہوئے اس کی خوبصورت تمثیلی وضاحت بھی کر دی۔ '' ہللا آسمانوں اور زمین کا نور ہے ،اس کے نور کی مثال اس طاق کی مانند ہے کہ جس پر چراغ ہو اور وہ چراغ شیشے کی قندیل میں ہو اور شیشہ چمکتے ہوئے روشن ستارے کی طرح ہو ،وہ چراغ ایک بابرکت درخت زیتون کے تیل سے جالیا جاتا ہو ،جو درخت نہ مشرقی ہے نہ مغربی ،خود وہ تیل قریب ہے کہ خود بخود ہی روشنی دینے لگے اگرچہ اسے آگ نہ بھی چھوئے ،نور پر نور ہے ،ہللا جسے چاہے اپنے نور کی طرف راہنمائی کرتا ہے''۔
25
( سورۃ نور)35: نور میں روشنی روشنی نہیں ،اندھیرا اندھیرا نہیں ،نور میں روشنی اور اندھیرے کا کوئی فرق نہیں۔ زمانہ قدیم کے آرٹسٹوں نے اسی لیے نور کو سیاہ و سفید کے امتزاجی یعنی دودھیاں، دھندلے یا گرے رنگ سے ظاہر کیا ،گرے اصل میں بے رنگی کی عالمت ہےـ
قوت باصرہ کا اولین ادراک نور کا عمومی مطلب روشنی لیا جاتا ہے جو کہ نامکمل ،تشنہ اور ادھورا ہے۔ اس لفظ کے بغور جائزے پر اس کا حقیقی مطلب و مقصد خود بخود ہی روشن ہو جاتا ہے۔ لغات میں نور کو روشنی کے عالوہ ایک خاص کیفیت بھی قرار دیا گیا ہے۔ نور اس کیفیت کا نام ہے جس کا قوت باصرہ اوالَ َِ ادراک کرتی ہے اور اسی کے واسطہ سے مبصرات کا ادراک کرتی ہے۔ قوت باصرہ کا مطلب بینائی ہے ،بصارت ہے یعنی دیکھنا ہے ،محض آنکھیں نہیں اور ادراک کا مطلب ''جاننا'' ہے ،صرف دیکھنا نہیں۔ گوکہ دیکھنا اور جاننا ہم معنی ہیں لیکن بعض اوقات مختلف الفاظ کی وضاحت کے لیے انہیں اکٹھا بھی لکھنا پڑھتا ہے ،اس صورت میں ان کی ترتیب اس لفظ کو بہتر طور پر سمجھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ دیکھنے کو عربی میں بصارت اور جاننے کو بصیرت کہتے ہیں۔ قوت باصرہ دیکھنے سے بھی پہلے جسے جانتی ہے ،بصارت سے بھی پہلے جس کا ادراک کرتی ہے ،اس کیفیت کا نام نور ہے۔ قوت باصرہ کے اسی اولین ادراک کو بصیرت کہتے ہیں ،بصارت کی حیثیت ثانوی ہے۔ دیگر مبصرات کا ادراک اسی بصیرت سے کیا جاتا ہے ،انبیاء کے حوالے سے جس عالم الغیب کا تذکرہ کیا جاتا ہے ،وہ اسی بصیرت سے مبصرات کے ادراک ہی کا دوسرا نام ہے۔ بصیرت میں جان کر دیکھنا ہے اور بصارت میں دیکھ کر جاننا ہے۔ بصارت کا تعلق فزیکل آنکھوں اور بصیرت کا قلب سے ہے ،درسرے الفاظ میں ان دو آنکھوں سے دیکھنا بصارت اور تیسری آنکھ سے دیکھنا بصیرت ہے۔ ایسے ہی قلب کے لیے دین کی ہندوستانی تشریحات میں تیسری آنکھ کی اصطالح اسی لیے استعمال کی گئی۔ بصیرت کی یہی کیفیت نور اور بصارت کی یہ حیثیت روشنی کہالتی ہے۔
نور اور نروان نور کا ایک اور لغوی مطلب ''وہ جو چیزوں کو ظاہر کر دے ،نباتات کی خوشنمائی اور لمبائی'' ہے۔ نبی کے معنوں کی تفصیل یہاں درج کرنے سے دونوں الفاظ اور ان کے باہمی تعلق کی بھرپور وضاحت ہو جاتی ہے۔ پھول کی کلی کو نَور اور نُ َّوار کہتے ہیں۔ ن َُوور ،ن ََوار ،نِوار کا مطلب
26
''ہر قسم کے شک و شبہ سے دوری'' ہے اور ان الفاظ کی جمع بھی نُور ہے۔ ہر قسم کا شک و شبہ اصل میں ہر قسم کی تقسیم و تفریق کا نتیجہ اور ڈوئلٹی کی عالمت ہے۔ نور ہر قسم کی ڈوئلٹی کے خاتمے کا خوبصورت ترین استعارہ ہے ،آٹسٹوں نے اسی لیے اسے بے رنگی سے ظاہر کیا۔ اسی کیفیت کو گوتم بدھا نے نروان کا نام دیا تھا۔ نور اور نروان ایک ہی کیفیت کے دو مختلف زبانوں میں دو مختلف نام ہیں ،دونوں کا مقصد ایک ہی ہے ،دونوں ایک ہی کیفیت کی ایک سی وضاحت کرتے ہیں۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ ان دونوں الفاظ کا ہمیشہ سرسری جائزہ ہی لیا جاتا ہے ،نور کا مطلب روشنی اور نروان کا مطلب نجات ،عام طور پر اس روشنی اور نجات کی مزید وضاحت کم ہی پیش کی جاتی ہے۔ تھوڑی سی توجہ پر نور کا جو دوسرا وضاحتی مطلب فوری طور پر جو ذہن میں آتا ہے وہ گھپ اندھیرا ہے ،نروان کا وضاحتی مطلب بھی گھٹا ٹوپ اندھیرا بنتا ہے۔ نروان کا اصل مطلب مکمل خاتمہ ہے کہ جسے ہم مکمل سرنڈر بھی کہہ سکتے ہیں ،اس کی وضاحت کے لیے نروان کا ایک اور مطلب ''آخری چراغ تک بجھا دینا'' بھی بتایا جاتا ہے۔ آخری چراغ بجھانے کا اطالق دو حالتوں یا صورتوں پہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کا ایک مطلب تو یہی نکاال جا سکتا ہے۔ کہ صبح
ہونیوالی ہے ،سورج نکلنے واال ہے ،دوسرا مطلب رات کی تاریکی کو مزید تاریک کرنا ہے، تاریکی کی انتہاء کرنا ہے ،اندھیرے کی اخیر دیکھنا ،گھپ اندھیرا کرنا۔ دونوں حالتیں مختلف نظر آنے کے باوجود ایک ہی کیفیت کی وضاحت و عکاسی کرتی ہیں۔ اصل مقصد دن رات، اندھیرا اجاال اور سیاہ و سفید کی ڈوئلٹی کا خاتمہ سمجھانا ہے۔ پہلی حالت کی صورت میں اعلی الصبح رات رات نہیں رہتی اور ابھی دن دن نہیں ہوتا آخری چراغ تک کا بجھا دینا ،دن رات کے دو سروں کے اسی مالپ کا اشارہ اور اسی نقطہ تبدل کا استعارہ ہے ،دوسری صورت میں بھی یہی بتانا مقصود ہے کہ اندھیرے کی انتہاء سے ہی اجاال پھوٹتا ہے ،تاریکی کے بطن سے ہی روشنی جنم لیتی ہے ،رات کے قلب سے ہی دن نکلتا ہے۔ اصل مقصد اس قلب کی وضاحت کرنا ہے۔ ہر چیز کے قلب میں سورج ہے ،ستارہ ہے ،چاہے وہ سیاہ رات ہی کیوں نہ ہو ،گھپ اندھیرے اور گھٹا ٹوپ تاریکی کے سینے میں بھی اجالے کا دل ہے۔ ویسے بھی سیاہ اور سفید کوئی رنگ نہیں بلکہ رنگوں کی موجودگی و عدم موجودگی کا نشان ہیں۔ ہر سیاہ کے سینے میں ،قلب ،اندر ،انتہاء اوپر ،آسمان پہ سفیدی ہے اور ہر سفیدی کے دامن میں سیاہی ہے۔ الؤتزو ماڈل اسی روشنی و نور کے باہمی تبادلے کی خوبصورت وضاحت ہے۔ نور اور نروان صرف ڈوئلٹی اور اس کے خاتمے کی ہی وضاحت نہیں بلکہ آسمانوں کے مروجہ تصور کو بھی زمین بوس کر دیتے ہیں۔ عیسٰ ی ابن مریم کی طرح گوتم بدھا کے اس دوسرے جنم کے موقع پر بھی ستارے کا حوالہ و تزکرہ ملتا ہے۔ نروان کی اس وضاحت کو قرآن نے ایک آیت میں یوں سمیٹ دیا واقیم الصلوۃ طرفی النہار و زلفامن الی۔ (سورۃ ھود :آیت )11 صلوۃ قائم کرو دن کے دونوں سروں پر اور رات کئی ساعتوں میں بھی۔ اور ٰ مفسرین نے زلف کا ترجمہ ساعتیں کر دیا حاالنکہ اس کا متعلقہ مطلب دن رات کے ملنے کے لمحہ یا ان کا نقطہ تبدل بنتا ہے اور لغات میں بھی اس کی یہی وضاحت موجود ہے۔ زلف کا
27
لغوی مطلب ''نزدیکی ،درجہ ،مرتبہ ،رات کا ایک حصہ ،بڑا پیالہ ،رات دن ملنے کے اوقات'' ہے۔ اس آیت کے پہلے اور دوسرے حصے میں ایک ہی بات کہی گئی ہے ،پہلے حصے کی مزید وضاحت کے لیے ہی دوسرے حصہ میں زلف کالفظ استعمال ہوا تو پھر اس کا ترجمہ بھی پہلے حصہ کے حوالے سے ہی کیا جانا چاہیئے تھا۔ جب پہلے حصے میں دن کے دونوں سروں کے ملنے کی بات ہو رہی ہے تو پھر دوسرے حصے میں زلف کا مطلب صرف اور صرف دن رات ملنے کے اوقات ہی بنتا ہے لیکن مولویوں نے اپنی روایتی بدیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی بجائے رات کا ایک حصہ یا کئی ساعتیں کردیا۔ اس موضوع پر تفصیلی صلوۃ یا نماز'' میں پیش کی جائیگی۔ بحث اگلے سلسلہ '' ٰ
صلوۃ نُور تک پہنچنے کا راستہ ہے۔ ٰ صلوۃ نور تک جس طرح دھیانا یا جھانا نراوان تک پہنچنے کا طریقہ ہیں بالکل اسی طرح ٰ صلوۃ بھی ایک پہنچنے کا راستہ ہے۔ نور اور نروان کی ایک جیسی منزل کی طرح دھیان اور ٰ جیسے راستے ہیں۔ اسی دھیانا یا جھانا کو ہی عربی میں مراقبہ اور فقہ کہا گیا ،اسی مراقبہ و صلوۃ کے ترجمہ و تفسیر میں تبدیلی نے دین فقہ کا اسالمی نام صلوۃ ہے۔ صرف اس ایک لفظ ٰ ٰ اسالم کو مزہب اسالم بنانے میں سب سے اہم کردار ادا کیا۔ دین کی ہر تشریح میں مراقبہ کو بنیادی و اصولی عبادت کا درجہ حاصل رہا۔ ذرے سے لیکر ستارے تک پر مراقبہ کے لفظ کا اطالق ہو سکتا ہے ،اس کی تفصیل جتنی طویل ہے ،وضاحت بھی اتنی ہی عریض ہے۔ اسی لیے مختلف زمانوں میں مختلف انبیاء نے لوگوں کی ضرورت و استطاعت کے مطابق مراقبے کے مختلف طریقہ کار وضع کئے جن کا اصل مقصد لوگوں کو اس کے قلب تک پہنچنے اور نیا انسان بننے میں مدد فراہم کرنا تھا۔ سقراط نے کہا تھا کہ ماسٹر (نبی ،بھگوان) ایک مڈوائف کی طرح ہوتا ہے۔ ہر انسان کا پہال فزیکل جنم ماں کے بطن سے ہوتا ہے تو دوسرا جنم اس کے اپنے باطن سے ہوتا ہے ،اس کیس میں زچہ بھی وہ خود ہوتا ہے اور بچہ بھی وہ وہی ہوتا ہے اور اپنی پیدائش کی دردزہ بھی اسے کود ہی برداشت کرنا پڑھتی ہے۔ ہر انسان کے لیے یہ پہلی موت اور دوسرا جنم ضروری ہے۔ انسان کا پہال فزیکل جنم حیوانی ہوتا ہے ،پہلی موت اسی حیوان کی موت ہے ،دوسرا جنم انسان کا جنم ہے۔ حیوانی سطح کے اس شخص کو ہی نفس کہا جاتا ہے اور انسان بننے کے لیے ہر ایسے نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا پڑھتا ہے۔ اس نفسانفسی کے حیوان کی موت سے ہی مطمئن انسان پیدا ہوتا ہے۔ اور پھر یہی نفس نفس مطمئنہ کہالتا ہے۔ نبی یا ماسٹر چونکہ ان راستوں سے گزر چکے ہوتے ہیں لہذا وہ صرف نشاندھی کرتے ہیں ،اس راستے پر چلنا ہر انسان کو خود ہی پڑھتا ہے ،یہ ذائقہ چکھنا ہر انسان کو خود پڑھتا ہے۔ مراقبہ کے مختلف طریقے اصل میں ان راستوں پہ چلنے اور یہ ذائقہ چکھنے کے تربیتی
28
پروگرام تھے اور اس مقصد کے لیے ماحول ،معاشرے اور لوگوں کی ضروریات کے مطابق سچویشن پیدا کی جاتی تھی ،مثالَ َِ ہندوستان میں مردوں کو جالنے کے رواج کے پیش نظر ماسٹر یا گرو یا بھگوان حضرات نے جو طریقہ وضع کیا اس کے مطابق نئے سنیاسنوں کو بھی مردوں کی طرح نہالیا جاتا ،ان کے سر مونڈھ دیئے جاتے اور انہیں ارتھی پہ لٹا کر نیچے سے لکڑیوں کو آگ لگا دی جاتی ،جونہی آگ بھرکنے لگتی ،شعلے بلند ہونے لگتے انہیں نیچے اتار لیا جاتا اور انہیں بتایا جاتا کہ ان کا ماضی اور پرانا آدمی ان شعلوں میں جل کر راکھ ہو گیا ہے ،مر گیا ہے ،آج ان کا یوم پیدائش ہے ،نیا جنم ہے۔ اس موقع پر اس عالمتی نئے انسان کو نئی پہچان کے لیے نام بھی نیا دیا جاتا۔ یہ طریقہ کار محض عالمتی تھا اصل مقصد لوگوں کو ڈوئلٹی کی پریکٹیکل حقیقت بتانا اور نقطہ تبدل سمجھانا تھا تاکہ یہ خارجی تجربہ ان کے داخلی مشاہدہ کا محرک بن جائے۔ ہر طریقہ کار کی طرح یہ ٹکنیک بھی بعد ازاں محض ایک رسم بن کر رہ گئی۔ مشرقی ممالک میں شادی بیاہ کی رسومات میں بھی اس رسم کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔ شادی کو لڑکی کی دوسری زندگی کا آغاز کہا جاتا ہے ،اس موقع پر لڑکی کو دلہن بنانے کی تیاری مردہ دفنانے کی تیاری کے مترادف ہے ،ایک سے دوسرے گھر کا سفر آخرت سے مشابہہ ہے اور خاص طور پہ چند دہائیاں قبل تک اس بیچاری کو جس طرح ڈولی میں چار کندھوں پہ سوار لے جایا جاتا تھا ،وہ ڈولی نہیں جنازہ معلوم ہوتی ہے۔ اس موقع پر دلہن کے قریب عزیز و اقارب کا رونا دھونا بھی اسے شادی کم اور مگر زیادہ ثابت کرتا ہے۔ اس نئی زندگی کی ساتھ ہی اس کا خاندانی نام بھی تبدیل ہو جاتا ہے اور عالمت کے طور پر اسے اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام بھی نتھی کرنا پڑھتا ہے اور صرف ایک سال میں اس بیچاری کی گزشتہ زندگی کا ہر نام ونشان مٹ جاتا ہے اور وہ صرف مناے کی اماں بن کر رہ جاتی ہے ،نام کی بجائے نیا نمبر الٹ کیا جاتا ہے ،یہ عہدے اور رینک اسی نمبر کے سر نام ہیں ،سرنامے ہیں۔ ملٹری ٹریننگ کا واحد مقصد انسان کی موت اور مشین کا جنم ہے۔ مشین سوچتی نہیں، سوال نہیں کرتی ،صرف بٹن دبانے پہ ہر مطلوبہ کام کرتی ہے۔ نیا نمبر ،نیاحلیہ ،نئی یونیفارم ایک نئی شخصیت بنا دیتے ہیں۔ ہر فوجی محض ایک نمبر رہ جاتا ہے۔ مشین بن جاتا ہے۔ فائر۔۔۔۔۔ یس سر۔۔۔۔ ٹھاہ ٹھاہ ٹھاہ ٹھاہ۔
مراقبہ شعور کا جنم ہے
۔
مراقبہ نائیولوجیکل مشین و حیوان کو انسان بناتا ہے اور انسان کو بھگوان ,ماسٹر ،خداوند ،الرڈ بناتا ہے۔ مراقبہ حال ،درمیان ،محور ،قلب میں پہنچنے کا طریقہ ہے ،راستہ ہے اور ہر فالح، نجات ،جنت ،نروان ،موکشا ،آسمان کی بادشاہی اسی قلب میں ہے۔ مراقبہ اپنے قلب میں اتر کر آسمانوں پہ چڑھنے کی سیڑھی ہے۔ مراقبہ زمان ومکان کی قید سے آزاد کر کے اب اور یہاں کے المکانی مقام اور الزمانی لمحہ میں پہنچاتا ہے۔ مراقبہ معاشرے کی پڑھی ہوئی ہر پٹی
29
بھالنے اور آنکھوں پہ بندھی پر پٹی اتارنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ مراقبہ انسان کی ڈی پروگرامنگ کرتا ہے ،اسے خالی کرتا ہے ،ا امی بناتا ہے ،صفر کرتا ہے ،خالص بناتا ہے، انسان کو آزادی دیتا ہے۔ پیروکارانہ خصلت کے پیش نظر کوئی مزہبی آدمی مراقبہ نہیں کر سکتا لیکن ہر آدمی مراقبہ کر کے دینی ضرور بن سکتا ہے۔ مراقبہ مائنڈ کی موت ہے ،شعور کا جنم ہے۔ مظاہر قدرت میں کھونا اصل مین اسی مائنڈ کو مارنے اور شعور کو پانے کا ایک طریقہ ہے اور اسی طریقے کا ایک نام مراقبہ ہے۔ مراقبہ کر نیواال کبھی جنت میں نہیں جاتا بلکل جنت ہمیشہ اس میں آتی ہے ،وہ جنت کے قریب نہیں جاتا بلکہ جنت اس کے قریب کر دی جاتی ہے ،وہ جنت میں نہیں رہتا بلکہ جنت اس میں بستی ہے۔ اسی جنت کو عیسٰ ی ابن مریم نے آسمان کی بادشاہی کہا ،اسی جنت کو سنسکرت میں سمادھی، چینی میں تاؤ اور جاپانی میں ستوری کہا گیا۔ مراقبہ پہلی موت مرنے کا فن ہے ،دوسرا جنم لینے کا ہنر ہے ،تیسری آنکھ کھولنے کا آرٹ ہے۔ اپنے وجود کا عدم اور عدم کا وجود ڈھونڈنا مراقبہ ہے۔ مراقبہ خود سے آگاہ کراتا ہے اور جو خود کو جانتا ہے صرف وہی خدا کو پہچانتا ہے ،جو خود کا سامنا کر سکتا ہے ،صرف وہی خدا سے مالقات کر سکتا ہے ،مراقبہ وہ آئینہ ہے جو خون اور خدا کا آمنا سامنا کراتا ہے۔
خودی کا عرفان مراقبہ انسان کی تصنع و بناوٹ ختم کر کے اسے قدرتی و فطری بناتا ہے ،قدرت سے ہم آہنگ ہونا ،قانون قدرت یا قانون جبر کے تحت آنا مراقبہ ہے۔ قدرتی و فطرتی انسان ایک بنسری کی طرح ہو جاتا ہے ،اندر سے بالکل خالی ،صاف ،شفاف ،خالص ،صفر۔ ایسا انسان خود کو قدرت کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیتا ہے ،فطرت کے ہاتھوں میں آجاتا ہے ،پھر قدرت جو سر نکالنا چاہے ،فطرت جو گیت سنانا چاہے ،انسان وہی سر سنگیت پیش کرتا ہے۔ اصل مقصد خدا کو پہچاننا نہیں بلکہ خود کو جاننا ہے ،خدا کو پانا نہیں بلکہ خود کو کھونا ہے۔ خود کو جاننے واال خود بخود ہی خدا کو پہچان لیتا ہے ،خود کو کھونے واال خود بخود ہی خدا کو پا لیتا ہے۔ خود کو خالی کر نیواال خود بخود خدا سے بھر جاتا ہے ،خود کو خالی کرنا خود کو خدا سے بھرنا ہے۔ اسیے بیت المعمور اور قلب المخمور انسان کی پھر اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی ،وہ اپنی مرضی سے کچھ نہیں دیکھتا ،کچھ نہیں کہتا۔ ایسے انسان کا کچھ بھی دیکھنا عین ہللا ہو جاتا ہے ،کچھ بھی کرنا ید ہللا کہالتا ہے اور کچھ بھی بولنا کالم ہللا بن جاتا ہے۔ ایسا انسان نبی، رسول ،پیغمبر ،خداوند ،الرڈ ،بھگوان کہالتا ہے۔ مراقبہ انسان کو مکمل کرتا ہے ،انسانیت کے ساتھ اس کی تکمیل کرتا ہے ،ہر قسم کی ڈوئلٹی خاک کرتا ہے ،یونٹی کا ادراک کرتا ہے۔ خدا کا ادراک آخود کو پاک کر کے ہی کیا جا سکتا ہے اور یہ کیفیت صرف جنت ،سمادھی ،تاؤ اور ستوری کی حالت میں ہی محسوس کی
30
جاسکتی ہے۔ مراقبہ ہر دو کو ایک کرتے کرتے باآلخر انسان کو بھی ایک کر دیتا ہے ،پاک، صاف ،خالص ،نیک کر دیتا ہے۔ مراقبہ انسان کو اصلی کرتا ہے ،حقیقی بناتا ہے۔ انسان جونہی حقیقی بنتا ہے ،اس کے ارد گرد کی مادی دنیا نقلی ،جعلی ،مصنوعی ،خواب و خیال ،سراب یا مایا بن جاتی ہے۔ یہ دنیا صرف ایسے حقیقی لوگوں کے لیے مایا ہے ،مصنوعی لوگوں کے لیے حقیقی ہے با الفاظ دیگر یہ دنیا افراد کے لیے مایا ہے جبکہ اشخاص کے لیے مشخص ہے۔ اس دنیا کو مایا ،سراب ،نقلی ،مصنوعی کہنے کا حق صرف اسے حاصل ہے جو اصلی و حقیقی ہو۔ ہمارے تشخص نے ہی ہمیں مشخص کیا ہوا ہے ،شخص بنایا ہوا ہے ،ہماری حدود متعین کی ہوئی ہیں ،ہمیں محدود کیا ہوا ہے۔ یہی تشخص اور حد بندی انسان کا واحد جرم یا گناہ ہے۔ مراقبہ اسی جرم کا اعتراف کراتا ہے ،یہی گناہ معاف کراتا ہے۔ تشخص کے یہی پردے پھاڑنا مراقبہ ہے ،حدود کی یہی دیواریں گرانا مراقبہ ہے۔ اتنی لمبی چوڑی تفصیل پلک جھپکنے میں جاننا مراقبہ ہے ،ایک لمحہ میں دیکھنا مراقبہ ہے۔
کچھوے اور مچھلی کی دلچسپ کہانی آئینہ سے بہت قربت پر اپنے عکس کا پتہ نہیں چلتا ،جیسے اسی قربت کی وجہ سے صحت مند انسان کو اپنے اعضاء کی فکر نہیں ہوتی ،مچھلی کو پانی کی خبر نہیں ہوتی۔ اپنا عکس دیکھنے کے لیے آئینے سے تھوڑا دور ہونا پڑھتا ہے ،کسی عضو کا پتہ صرف تکلیف کی صورت میں چلتا ہے ،مچھلی کو پانی کا اندازہ باہر نکلنے پر ہی ہوتا ہے۔ ایک مچھلی کی کچھوے سے دوستی ہوگئی۔ کافی دن غیر حاضری کی شکایت پر کچھوی نے مچھلی کو بتایا کہ وہ زمین پر گیا ہوا تھا۔ مچھلی بولی ''سیدھی طرح کیوں نہیں کہتے کہ تم پاتال میں گئے ہوئے تھے۔ کچھوے نے کہا نہیں میں پاتال میں نہیں بلکہ زمین پہ گیا تھا۔ خشکی پہ گیا تھا جہاں مٹی ہے ،ریت ہے ،درخت ہیں ،پہاڑ ہیں۔ اب مچھلی کو غصہ آگیا اور وہ کچھوے کو دھکیلتے ہوئے پاتال میں لے گئی اور بھناتے ہوئے بولی یہ پاتال ہی تو ہے، دیکھو یہاں مٹی ہے ،ریت ہے ،پودے ہیں ،بس تم انہی پودوں کو درخت کہہ رہے ہو اور یہ خشکی کیا بال ہے؟ یہ لفظ تم نے کہاں سے سنا؟ ذرا مجھے بھی تو بتاؤ۔ کچھوا بوال تم ٹھیک کہتی ہو ،یہ پاتال بھی زمین ہی ہے لیکن جس زمین پہ میں گیا ،جس خشکی کی میں بات کر رہا ہوں ،وہ یہ نہیں ہے ،وہ یہاں نہیں ہے بلکہ اس سمندر سے باہر ہے ،پانی سے اوپر ہے۔ مچھلی بھڑکی یہ سمندر کہاں ہے؟ اور یہ پانی کیا ہے کہ جس کے اوپر بھی کوئی زمین ہے؟ کچھوے نے بتایا کہ جہاں تم رہ رہی ہو ،یہ سمندر ہے اور جس میں تم تیر رہی ہو ،یہ پانی ہے ،اس سے باہر بھی ایک دنیا ہے ،جہاں نیلگوں آسمان ہے ،جس میں بادل تیرتے ہیں ،بارش برساتے ہیں ،جہاں دن ہوتا ہے ،رات ہوتی ہے ،دن میں سورج چمکتا ہے ،رات کو ستارے جھلمالتے ہیں ،زمین پہ ہوائیں چلتی ہیں ،پرندے اڑتے ہیں ،انواع و اقسام کے جانور بستے ہیں ،ان میں
31
سے ایک کا نام آدمی ہے۔ اب مچھلی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تم پاگل ہو ،دیوانے ہو، مجنون ہو ،سٹھیا گئے ہو ،میرے آباؤ اجداد یہیں پیدا ہوئے ،یہیں مرگئے ،انہوں نے اس پوری دنیا کی سیر کی ،تو پھر انہوں نے کبھی تمھاری مزکورہ زمین اور خشکی کیوں نہ دیکھی؟ انہوں نے کبھی سمندر اور پانی کا ذکر تک نہ کیا۔ بس یہی ہماری دنیا ہے ،یہی پوری کائنات ہے ،اس سے باہر کچھ بھی نہیں ،اس کے اوپر کچھ نہیں۔ کوئی سمندر نہیں ،کہیں پانی نہیں۔ تم کسی اور کو بے وقوف بنانا ،اپنی افالطونی کسی اور پہ جھاڑنا۔ کچھوا اپنی رفتار کی طرح گفتار میں بھی تحمل مزاج تھا ،بوال میں تم سے سچ کہتا ہوں ،اس پانی سے باہر ایک اور دنیا ہے ،میرا دل چاہتا ہے کہ تمھیں اپنی پیٹھ پہ بٹھا کر وہاں لے جاؤں تاکہ تم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکو ،لیکن۔۔۔۔ لیکن بدقسمتی سے تم وہاں نہیں جا سکتی ،پانی سے باہر تم مرجاؤ گی ،اس دنیا میں ایک پل بھی نہیں گزار پاؤگی۔ مچھلی نے قہقہہ لگایا بس ثابت ہو گیا کہ تم جھوٹے ہو، اسی لیے مجھے وہاں لیجانے سے ڈرا رہے ہو اور یہ انوکھی منطق بنا رہے ہو ،بھال یہ کیسے ممکن ہے کہ تم جہاں کئی دن گزار آئے ہو ،میں وہاں ایک پل نہیں گزار سکتی ،تم اتنے دنوں میں اگر نہیں مرے تو میں ایک پل میں کیسے مرجاؤگی۔ کچھوا بوال میرا یقین کرو ،میں غلط نہیں کہہ رہا ،تم وہاں زندہ نہیں رہ سکتیں۔ مچھلی اسے اپنی توہین سمجھی اور بولی مجھے تمھاری کسی بات کا یقین نہیں ،اگر تم سچے ہو تو مجھے وہاں لے چلو ،اگر ایسی بات ہے تو میں وہاں ضرور جاؤنگی۔ کچھوا بوال اس تجسس میں تمھاری جان بھی جاسکتی ہے ،کیا تم پھر بھی جاننا چاہوگی؟ پرواہ نہیں۔ مچھلی تیار ہوگئی اور کچھوے پر سوار ہوگئی۔ کچھوا جونہی سطح سمندر کے قریب آیا ،پانی سے سر باہر نکالتے ہی مچھلی کی آنکھیں ہی نہیں منہ بھی کھلے کا کھال رہ گیا ،تڑپ کر بولی تم ٹھیک کہتے تھے ،میں نے دیکھ لیا ،جان لیا ،پہچان لیا، میری جان نکل رہی ہے ،سانسیں اکھڑ رہی ہیں ،مجھے واپس سمندر میں لے چلو ،پانی میں لے چلو۔ کچھوے کو مستی سوجھی کوئی سمندر نہیں ،کہیں پانی نہیں ،تو پھر میں تمہیں کہاں لے جاؤں کیسے لے جاؤں؟ اور اپنا رخ نیچے کی طرف کر لیا۔ پانی میں اوسان بحال ہوتے ہی َ مچھلی نے اٹھکھیلیاں شروع کر دیں ،ساری مچھلیاں اکھٹی ہو گئیں اور اس کی اس بے وجہ خوشی کی وجہ پوچھنے پر وہ بولی ہم سمندر میں رہتے ہیں ،پانی میں تیرتے ہیں ،یہ پانی ہماری زندگی ہے ،ہمیں شکر کرنا چاہیئے ،ہر لمحہ جشن منانا چاہیئے۔ ساری مچھلیاں اسے دیوانی پگلی قرار دیتے ہوئے دائیں بائیں ہوگئیں۔ :مورل جس طرح مچھلی سمندر میں رہتے ہوئے پانی سے بے خبر ہے بالکل اسی طرح آدمی بھی ربوبیت میں رہتے ہوئے رب سے بے خبر ہے ،کیونکہ کبھی اس سے الگ ہی نہیں ہوا۔ ربوبیت و رحمانیت قرب کی طرح ہے ،یہ انسان سمیت کائنات کی ہر چیز کی کوکھ ہے ،ہللا اسی لیے رب ہے ،رحمان ہے اور اسی حوالے سے رقیب ہے۔ جس طرح زندگی کو جاننے کے لیے زندگی سے دور ہونا یعنی موت کا ذائقہ چکھنا ضروری ہے بالکل اسی طرح خود کو جاننے
32
کے لیے ایک دفعہ خود سے دور جانا ضروری ہے ،رب کو پہچاننے کے لیے ایک دفعہ ربوبیت سے نکلنے کی ضرورت ہے۔ اسی قرب یا کوکھ سے نکلنا ،رقیب کو پہچاننا مراقبہ ہے ،مراقبہ انسان کو ایک لمحہ خود سے دور کر دیتا ہے ،ربوبیت سے الگ کر دیتا ہے اور ٹھیک اسی لمحہ وہ سب جان لیتا ہے ،رب پہچان لیتا ہے۔ کسی نفس کو موت کا ذائقہ چکھانا بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے کسی مچھلی کو لمحہ بھر کے لیے پانی سے باہر نکالنا۔ انبیاء و صوفیاء نے طالبان حق کی مدد کے لیے اس سلسلے میں مختلف طریقہ کار اختیار کئے ،مثال ٰ یحیی نَبِی لوگوں کو موت کا ذائقہ چکھانے اور اس حالت میں النے کے لیے پانی میں ڈبکی دیتے تھے ،جسے بپتسمہ کہا جاتا ہے۔ مراقبے کو اسی لیے موت بھی کہا جاتا ہے ،اسی ٰ المصطفی مراقبے میں پہلی موت ہے ،اسی مراقبے سے دوسرا جنم ہے۔ اسی تفصیل کو محمد نے محض چار الفاظ ال الہ اال ہللا میں سمیٹ دیا۔ ال الہ موت کا ذائقہ ہے ،اال ہللا زندگی کا مزہ ہے۔ ال الہ پہلی موت ہے ،اال ہللا دوسرا جنم ہے۔ مراقبہ انسان کو موت کا ذائقہ چکھاتا ہے، زندگی کا مزہ بتاتا ہے۔ موت کا ذائقہ چکھنے کی اسی گھڑی میں زندگی کا مزہ جاننے کا لمحہ ہے۔ اسی گھڑی میں لمحہ ہے ،اسی گھڑی میں مزہ ہے اور یہی مرنا حقیقی جینا ہے۔ اس موت کا ذائقہ چکھنے واال ہی زندگی کا مزہ جانتا ہے ،اسی لیے ہر گھڑی شاد مان ہوتا ہے ،ہر لمحہ جا وداں ہوتا ہے۔
عشق اور مراقبہ تمام انبیاء و صوفیاء نے ماحول ،معاشرے اور لوگوں ضرورت و استطاعت کے مطابق مراقبہ کی حالت میں پہنچانے کے لیے مختلف طریقہ کار متعارف کرائے۔ اس حالت میں انسان ایک لمحہ کے لیے ہر قسم کی ڈوئلٹی سے آزاد ہو جاتا ہے اور پہلی بار وہ اپنا سامنا کرتا ہے ،خود سے مالقات کرتا ہے۔ اس حالت ،لمحہ یا نقطہ تک پہنچنے کو ہی مراقبہ کہتے ہیں اور مراقبہ بس اتنا ہی کام کرتا ہے ،یہاں تک پہنچاتا ہے۔ کسی نبی کا اہم کام انسان کو صرف اس حالت، مقام ،لمحہ یا نقطہ تک پہنچنے میں مدد فراہم کرنا ہے ،باقی ساری منازل خود بخود طے ہوتی جاتی ہیں ،باقی سب وہ خود کر لیتا ہے۔ جس نبی نے بھی مراقبہ کی سچویشن پیدا کرنے کے لیے جو بھی ٹیکنیک وضع کی اسے اس ماحول اور معاشرے کے مطابق اسی زبان میں ایک مخصوص نام بھی دیا۔ گوتم بدھا نے نروان کے حصول کے لیے ایک اور ٹیکنیک وضع کی اسے اس ماحول اور معاشرے کے مطابق اسی زبان میں ایک مخصوص نام بھی دیا۔ گوتم بدھا نے نروان کے حصول کے لیے ایک اور ٹیکنیک بھی متعارف کرائی جسے ویپسنا کہتے ہیں، ویپسنا میں آنکھیں بند کر کے اپنی سانسوں کی آمد و رفت کا بغور جائزہ لیا جاتا ہے۔ ہندوستان سمیت مشرقی ایشیاء میں انبیاء و صوفیاء کے جتنے بھی مجسمے بنائے جاتے ہیں ان سب میں ایک بات مشترک نظر آتی ہے ،متعقلہ افراد کو اخثر بتیس سالہ کلین شیو نوجوان
33
دکھایا جاتا ہے مثالَ َِ دنیا میں سب سے زیادہ مجسمے گوتم بدھا کے ہیں اور گوتم بدھا نے 80 سال سے کچھ اوپر عمر پائی لیکن ہر مجسمہ میں گوتم بدھا کو نوجوان ہی بنایا جاتا ہے ،آج تک کسی مجسمہ میں بدھا کو 80سالہ بوڑھا نہیں دکھایا گیا۔ ہر مجسمہ کلین شیو بنانے کا مقصد ان انبیاء و صوفیاء کو عورت مرد کی ڈوئلٹی سے بھی آزاد دکھانا ہے۔ ان مجسموں کی ایک اور بات مشترکہ غور طلب بات یہ ہے کہ ان کی آنکھیں بھی آدھی کھلی اور آدھی بند عموم َِا نشیلی یا سر میلی آنکھیں کہا جاتا ہے۔ اس طرح کی دکھائی جاتی ہیں ،ایسی آنکھوں کو َ آنکھیں غ ِشی یا ٹرانس یا مراقبے کی حالت کی نشاندھی کرتی ہیں۔ اسالمی روایات میں اہل جنت کا نقشہ کچھ ایسا ہی کھینچا گیا ہے۔ اہل بہشت کی داڑھی مونچھیں نہ ہونگی ،ان کی آنکھیں سر میلی ہونگی اور وہ جنت میں تیس یا تینتیس سالہ نوجوان بن کر جائینگے۔ قدیم یونانی آرٹسٹ مراقبے کی اس ٹرانس حالت کو سفید آنکھوں سے ظاہر کرتے تھے ،اسی لیے یونانی مجسموں میں آنکھوں کا درمیانی سیاہ حصہ نہیں بنایا جاتا تھا۔ صوفیاء َغ ِشی ،ٹرانس یا مراقبہ کی یہی حالت سمجھنے کو عشق کا نام بھی دیا۔ عشق کا عمومی شقَہ سے لیا گیا ہے مطلب محبت کی زیادتی یا بے پناہ محبت ہے۔ عربی میں یہ لفظ َع ِشقَہ و َع َ کہ جسکا مطلب ''محبت میں حد سے بڑھ جانا ،چمٹنا'' ہے۔ محبت میں حد سے بڑھ جانے کی اصل وضاحت ایک ہوجانا ہے اور اسی لیے آکاس بیل کو عربی میں کہتے ہی عشقہ ہیں۔ آکاش بیل سے عشق کو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ اسی َغ ِشی یا ٹرانس ،مراقبہ کی حالت کی وضاحت کے لیے ہی صوفیاء نے پریمیوں کے قصے بیان کئے۔ دو پریمی وقت مالقات جب ایک ہوتے ہیں ،ٹھیک اس لمحہ اس پر َغ ِشی یا ٹرانس کی جو کیفیت طاری ہوتی ہے ،یہی کیفیت عشق ہے ،یہی حالت مراقبہ ہے۔ دوپریمی اس لمحہ میں سمٹتے ہی پوری کائنات میں پھیل جاتے ہیں ،پوری کائنات ان میں سمٹ جاتی ہے۔ اسی لمحہ میں انکی ڈوئلٹی کی موت ہے، اسی لمحہ ان کی یونٹی کا جنم ہے۔ دوپریمی ایک ہوتے ہی نیک ہو جاتے ہیں ،یہی ان کی تسبیح ہے ،یہی ان کی حمد ہے ،یہی انکا سجدہ ہے ،یہی انکا قیام ہے ،یہی انکی عبادت ہے ،یہی ان صلوۃ ہے ،یہی ان کی منزل ہے ،یہی ان کا راستہ ہے۔ یہی عشق ہے ،یہی مراقبہ ہے۔ عشق کی ٰ اور مراقبہ کی منزل بس یہی لمحہ ہے۔ انسان جونہی اپنا مائنڈ آف کرتا ہے ،دل و دماغ سے ہر قسم کا گرد و غبار صاف کرتا ہے۔ کوئی بھی سوچ نہ ہونے کی وجہ سے وہ ٹرانس کی حالت میں پہنچ جاتا ہے۔ کسی قسم کا مادی کثافتی گرد و غبار نہ ہونے کی وجہ سے اسے بالکل صاف دکھائی دینے لگتا ہے اور اس کے سارے منقطع روحانی رابطے بحال ہو جاتے ہیں اور دوبارہ رابطہ قائم ہو جاتا ہے ،قدرت سے براہ راست منسلک ہوجاتا ہے۔ اس پر حقیقت منکشف ہو جاتی ہے ،حقیقت منکشف ہونے کا مطلب یہی ہے کہ چیزیں جیسی ہیں ،کسی کمی بیشی کے بغیر ہمیں بالکل ویسی دکھائی دیتی ٰ المصطفے سے ایک دعا بھی منسوب ہے کہ یا ہللا ہمیں چیزوں کو ہیں۔ اس حوالے سے محمد ویسے ہی دکھا ،جیسی کہ وہ ہیں۔ مراقبہ یا ٹرانس کی اس حالت میں پہنچتے ہی ڈوئلٹی کی
34
حالت غیر ہونے لگتی ہے اور ڈوئلس خود بخود ہی یونٹ بننے کا چین پراسس شروع کر دیتے ہیں۔ َغ ِشی یا ٹرانس کی اس حالت کا ہم روزانہ سونے سے تھوڑا پہلے اور اٹھنے کے فورا َ َِ بعد مشاہدہ کرتے ہیں کہ جب ہم نہ ہی مکمل نیند میں ہوتے ہیں اور نہ ہی پورے بیدار ہوتے ہیں۔ ان دونوں قدرتی حالتوں میں ہر انسان فطری معصوم ہوتا ہے ہے۔ مراقبہ کا مقصد اسی قدرتی حالت میں پہنچانا ہے ،فطری معصومیت خود بخود آجاتی ہے۔ مراقبے کی یہی حالت قائم کرنا صالۃ قائم کرنا کہالتا ہے اور مراقبے کی انہی حالتوں کو صبح شام کے عنوان سے بھی واضح کیا جاتا ہے۔ کسی نبی یا صوفی کی عدم موجودگی میں ہر انسان مراقبے کی اس حالت میں پہنچنے کے لیے اپنی ٹیکنیک خود بھی وضع کر سکتا ہے ،اصل مقصد اپنے مرکز تک پہنچنا پے۔ مثالَ َِ موالنا روم نے اپنے مرکز تک پہنچنے کے لیے گھومنے کا طریقہ دریافت کیا اور اپنے مراقبے کے لیے یہی استعمال کیا۔ اس طریقہ کار کی خوبی یہ بتائی گئی کہ اس دوران آدمی کا پورا جسم دماغ سمیت گھومتا ہے اور جو چیز نہیں گھومتی وہی اس کا مرکز ہے کیونکہ مرکز ہر حالت میں مرکوز رہتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ موالنا روم ایک دفعہ مسلسل 36گھنٹے گھومنے کے بعد گر پڑے اور اٹھتے ہی ہنسنے لگے ،پوچھنے پر بتایا کہ جس طرح تم لوگوں نے مجھے گرتے ہوئے دیکھا ہے ،میں نے بھی خود کو اسی طرح گرتے دیکھا ہے ،اب مجھے خدا کی تالش میں مکہ جانے کی ضرورت نہیں۔ صالۃ خود کو خالص کرنے ،کثافت کی ہر رکاوٹ دور کرنے ،قدرتی و فطری ہونے اور اپنے مرکز تک پہنچنے کا ایک طریقہ ہے ،عشق کا ایک قرینہ ہے ،مراقبے کا ایک انداز ہے جو ہر انسان کے لیے مختلف بھی ہو سکتا ہے ،جیسے اس کائنات کی ہر چیز ہر لمحہ مراقبے میں ہے ،ہر لمحہ اس لمحہ میں ہے ،اب اور یہاں ہے، کیفیت عشق میں ہے ،حالت صالۃ میں ہے ،اسی اب اور یہا ہونا مراقبہ میں ہونا ہے ،اور اسی ناؤ ہیئر کو اردو میں اب کہا جاتا ہے۔ رب اسی اب میں ہے ،یہ اب اسی رب میں ہے۔ سورج ،چاند ،ستارے ،پہاڑ ،درخت ،پرندے ،حمد ،ذکر ،تسبیح ،سجود میں ہیں ،اسی لیے معصوم کہالتے ہیں۔ دین کی ہر تشریح کو مزہب کا مزار بنانے والوں نے مراقبے کا مقبرہ بنا کر صالۃ کی بھی نماز پڑھادی۔
صلوۃ کی نماز ٰ ہندوستان کی طرح عربستان میں بھی جتنے نبی آئے ،انہوں نے بھی موحول ،معاشرے اور لوگوں کی ضروریات و استطاعت کے مطابق مراقبہ کی حالت میں پہنچانے کے لیے مختلف یحی طریقہ کار معتارف کرائے ،ان میں سب سے مشہور عیسٰ ی ابن مریم کے ہم عصر کزن ٰ یحی کے یحی سے قبل کے انبیاء کے طریقوں کی کوئی خاص تفصیل میسر نہیںٰ ، نبی ہیں۔ ٰ طریق کو بعد ازاں عیسائیت نے بھی رسم کی شکل میں اپنا کر جاری رکھا ،اسی لیے اس کی
35
یحی اپنے طریق کے حوالے کچھ تفصیل بھی دستیاب رہی۔ اس کی ایک اور وجہ بھی ہے کہ ٰ سے بپتسمہ واال کے نام سے مشہور ہوگئے اور اسی لیے ان کا طریقہ بھی ان کے نام کے ساتھ زندہ رہ گیا۔ یحی دین حق کے ہر نئے طالب علم کو پانی میں ڈبکی دیتے تھے ،اسی ڈبکی کو بپتسمہہ کہا ٰ یحی کا بپتسمہہ اس بپتسمہہ سے بہت مخلتف تھا جس کا موجودہ عیسائیت میں اتنا جاتا ہے تاہم ٰ یحی کی ڈبکی ڈوب کر یحی کا بپتسمہہ مرکر زندہ ہونے کا استعارہ تھاٰ ، ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ ٰ ابھرنا تھا ،ڈوب کر زندہ ہونا تھا جبکہ ان پادریوں کی دی ہوئی ڈبکی ڈوب مرنا ہے کیونکہ یہ یحی کے طریق کی بپتسمہہ نہیں بالکہ گو نگلوؤں سے مٹی جھاڑنا ہے ،یہ ڈبکی نہیں بلکہ ٰ سبکی ہے۔ یحٰ ی کا بپتسمہ محض رسم نہیں عمل تھا ،مراقبہ کی حالت میں النے کا بہترین ُ طریقہ تھا ،جبکہ آج کا بپتسمہ محض ایک رسم ہے ،محض جسموں کو گیال اور نیتوں کو گدال یحی نبی خود پانی میں کھڑے ہو جاتے اور جسے کرنا ہے ،یہ بپتسمہ گیالپن ہے ،گدالپن ہے۔ ٰ بپتسمہ دینا ہوتا اسے بھی اپنے سامنے کھڑا کر لیتے اور اپنا ایک ہاتھ اس کے ماتھے اور دوسرا اس کی گردن کے نیچے کندھوں کے درمیان رکھ کر اسے پیچھے کی طرف کمر کے بل پر پانی کے اندر لے جاتے کہ جیسے کسی کو لٹایا جاتا ہے۔ اس طرح سے پانی میں لیجانا کسی مردے کو لٹانے کے مترادف تھا۔ یحٰ ی نبی اس وقت تک اس کے سر پر ہاتھ سے دباؤ ڈالے رکھتے کہ جب تک اس کی سانسیں نہ اکھڑنے لگتیں اور وہ یحٰ ی کا ہاتھ اور اس کا دباؤ جھٹک کر ہڑ بڑا کر کھڑا نہ ہو جاتا۔ اصل مقصد اسے جھنجوڑنا تھا ،شاک کی حالت میں پہنچانا تھا ،موت کے روبرو کرنا تھا ،موت کا ذائقہ چکھانا تھا۔ اس حالت میں انسان ایک لمحہ کے لیے ہر قسم کی ڈوئلٹی سے آزاد ہو جاتا ہے اور پہلی بار وہ اپنا آمنا سامنا کرتا ہے ،یہاں تک پہنچاتا ہے۔ کسی نبی کا اہم ترین کام انسان کو صرف اس حالت ،مقام ،لمحہ یا نقطہ تک پہنچنے میں مدد فراہم کرنا ہے ،باقی ساری منازل خود بخود طے ہو جاتی ہیں ،باقی سب وہ خود کر لیتا ہے۔ جسم کی طرح ہمارے دماغ کی بھی اہم ترین خوراک آکسیجن ہے ،جونہی ہماری سانس رکنے لگتی ہیں تو دماغ کو آکسیجن کی فراہمی معطل ہونے لگتی ہیں اور اپنی خوراک نہ ملنے پر دماغ بند ہونے لگتا ہے ،مرنے لگتا ہے۔ دماغ کے مکمل طور پر بند یا مرنے میں کچھ وقت لگتا ہے لیکن اس سے قبل دماغ اپنی بقاء کے لیے مجتمع ہونے لگتا ہے ،مرنے لگتا ہے۔ دماغ کے مکمل طور پر بند ہونے یا مرنے میں کچھ وقت لگتا ہے لیکن اس سے قبل دماغ اپنی بقاء کے لیے مجتمع ہو جاتا ہے جبکہ ہر سوچ منتشر ہو جاتی ہے۔ منقسم سوچ ہی کا دوسرا نام مائنڈ ہے۔ دماغ مکمل بند ہونے سے قبل مائنڈ بالکل آف ہو جاتا ہے ،اسی مائنڈ نے انسان کو تقسیم کیا ہوتا ہے ،اس کے آف ہوتے ہی انسان بھی ہر قسم کی تقسیم سے باہر آجاتا ہے ،آزاد ہو جاتا ہے ،وہ بھی دماغ کی طرح مجتمع ہوکر واحد ہو جاتا ہے۔ مائنڈ کے آف ہوتے ہی قلب کا تاال کھلنے لگتا ہے۔ مائنڈ اور قلب ایک دوسرے کے متضاد ہیں ،جب مائنڈ آف ہو تو قلب آن ہونے
36
لگتا ہے اور جب مائنڈ آن ہو تو قلب آف ہو جاتا ہے ،قلب کے آف ہونے کو قلب پہ قفل لگنا کہتے ہیں۔ دماغ کے بند ہونے سے قبل مائنڈ کا آف ہونا انسان کی بیداری کا باعث بن جاتا ہے۔ مراقبہ کا مقصد اسی سچویشن میں النا ہے ،مائنڈ آف کرنا ہے۔ یحی نبی بپتسمہ کو اسی کام میں ال رہے تھے ،یہی مقصد پا رہے تھے۔ ابراہیم نبی کے حوالے سے اپنے بیٹے کو ذبح کر نیکا جو قصہ مشہور ہے اس کی توجیہہ یہی ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو ایک لمحہ کے لیے اس لمحہ میں پہنچانا چاہتے تھے ،ان کا مقصد و ارادہ اسماعیل یا اسحاق کو سچ مچ ذبح کرنا نہیں بلکہ اس ایک لمحہ کے لیے سچویشن یحی نبی کے بعد اس کے ہم عصر عیسٰ ی ابن مریم نے بپتسمہ کے ساتھ ساتھ اپنی پیدا کرنا تھا۔ ٰ طرف سے صلیب کی اصطالح متعارف کرائی اور مراقبہ کی اس حالت مین پہنچنے کو اپنی صلیب اپنے کندھوں پہ اٹھانے سے تشبیہہ دی۔ جس نبی نے بھی مراقبہ کی سچویشن پیدا کرنے کے لیے جو بھی ٹیکنیک وضع کی اسے اس ماحول اور معاشرے کے مطابق اسی زبان میں یحی کے بپتسمہ اور عیسٰ ی کے صلیب کی ایک مخصوص نام بھی دیا۔ گوتم بدھا کے ویپسناٰ ، صلوۃ ہے۔ طرح محمد المصط ٰفے نے مراقبہ کا جو طریقہ بتایا ،اس کا نام ٰ ـ )ختم شدہ(