مراقبہ کا مقبرہ

Page 1

1


‫‪2‬‬

‫مراقبہ کا مقبرہ‬ ‫پیشکار ‪ :‬عدم وجود‬ ‫ای میل‪Mazbukhari@hotmail.com :‬‬ ‫الئک پیج ‪www.facebook.com/Addam.wajood :‬‬

‫صلوۃ ہی کا سادہ ترین مطلب مراقبہ ہے؟ مگر کیسے؟‬ ‫ٰ‬ ‫اس کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں؟ اور پھر‬ ‫صلوۃ سے مالتے ہیں۔‬ ‫اس کے ڈانڈے قرآنی ٰ‬


‫‪3‬‬

‫فہرست‬ ‫‪-1‬‬ ‫‪-2‬‬ ‫‪-3‬‬ ‫‪-4‬‬ ‫‪-5‬‬ ‫‪-6‬‬ ‫‪-7‬‬ ‫‪-8‬‬ ‫‪-9‬‬ ‫‪-10‬‬ ‫‪-11‬‬ ‫‪-12‬‬ ‫‪-13‬‬ ‫‪-14‬‬ ‫‪-15‬‬ ‫‪-16‬‬ ‫‪-17‬‬ ‫‪-18‬‬ ‫‪-19‬‬ ‫‪-20‬‬ ‫‪-21‬‬ ‫‪-22‬‬ ‫‪-23‬‬ ‫‪-24‬‬ ‫‪-25‬‬ ‫‪-26‬‬ ‫‪-27‬‬ ‫‪-28‬‬ ‫‪-29‬‬ ‫‪-30‬‬

‫مراقبہ کا اصل مقصد ''مائنڈ کو آف کرنا ہے۔‬ ‫مراقبہ کیا ہے؟‬ ‫مراقبہ ہی عبادت ہے۔‬ ‫ال الہ کو اال ہللا بنتے دیکھنا مراقبہ ہے۔‬ ‫غار حراء کی تنہائی میں‬ ‫پہلی موت اور دوسرا جنم‬ ‫قرب سے ہی قیام ہے۔‬ ‫ٰ‬ ‫المصطفے کا غار حراء میں مراقبہ کرنا۔‬ ‫محمد‬ ‫امرت روایات مین کھ گئی)‬ ‫دوروایات (یہ ٓ‬ ‫نبی اور فرشتوں کی مروجہ تعریف‬ ‫واقعہ معراج کے وقوع پر راویوں کا شدید اخالف‬ ‫پہلی وحی اور واقعہ معراج‬ ‫والطور‪ ،‬وکتاب مسطور فی رق منشور‬ ‫عام آدمی اور نبی میں فرق‬ ‫جدید دور کا روبوٹک مشینی آدمی‬ ‫اپنا ارتقاء دیکھنا مراقبہ ہے۔‬ ‫اب اور یہاں‬ ‫مراقبہ مائنڈ کو آف کرنے واال سوئچ ہے۔‬ ‫انسان کا قلب تاریک ہے یا روشن‬ ‫روشنی اور نور میں فرق‬ ‫روشنی اور نور کا منبع‬ ‫زمانہ قدیم کے آرٹسٹ‬ ‫قوت باصرہ کا اولین ادراک‬ ‫نور اور نروان‬ ‫صلوۃ نور تک پہنچانے کا راستہ ہے۔‬ ‫ٰ‬ ‫مراقبہ شعور کا جنم ہے۔‬ ‫خودی کا عرفان‬ ‫کچھوے اور مچھلی کی دلچسپ کہانی‬ ‫عشق اور مراقبہ‬ ‫صلوۃ کی نماز‬ ‫ٰ‬


‫‪4‬‬

‫مراقبہ کا اصل مقصد ''مائنڈ کو آف کرنا ہے''۔‬ ‫مراقبہ کا مطلب میڈیٹیشن کہالتا ہے۔ میڈیٹیشن بالکل میڈیکیشن کی طرح ہے‪ ،‬ایک جسمانی ہے‬ ‫تو دوسرا روحانی۔ ان الفاظ کا ظاہری مطلب مختلف ہونے کے باوجود باطنی مقصد ایک ہی ہے‬ ‫ح ٰتی کہ ان دونوں الفاظ کا ماخذ تک ایک ہے۔ میڈیکیشن کی ضروت صرف بیمار کو پڑھتی‬ ‫ہے‪ ،‬صحت مند کو نہیں ہوتی۔ بیمار کون ہوتا ہے؟ مروجہ روایتی معنوں میں جو صحت مند‬ ‫نہیں‪ ،‬وہ بیمار ہے۔ کوئی بھی دوا کسی بیمار کو صحت نہیں دیتی‪ ،‬دے بھی نہیں سکتی کیونکہ‬ ‫صحت تو کہیں آتی جاتی ہی نہیں‪ ،‬وہیں ہوتی ہے۔ وہیں رہتی ہے۔ صحت اگر ایک دریا ہے تو‬ ‫بیماری اس کے راستہ کا پتھر‪ ،‬جو اس کے بہ اؤ میں ٹہراؤ التا ہے‪ ،‬روانی میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔‬ ‫صحت ایک شفاف آئینہ کی طرح ہے اور بیماری اس پر پڑی گرد۔ کوئی دوا کسی دریا کی‬ ‫روانی یا آئینہ کو چمک نہیں دیتی‪ ،‬صرف یہ رکاوٹ ہٹانے اور گرد جھاڑنے میں مدد فراہم‬ ‫کرتی ہے‪ ،‬اور بس‪ ،‬باقی سب پہلے سے موجود ہوتا ہے‪ ،‬زیادہ سے زیادہ اسے صحت کی‬ ‫بحالی کہا جاسکتا ہے۔‬ ‫صحت فطری کیفیت‪ ،‬مستقل خاصیت اور اندرونی حالت ہے جبکہ بیماری غیر فطری‪ ،‬عارضی‬ ‫اور بیرونی مداخلت ہے۔ صحت مند انسان قدرت سے ہم آہنگ ہوتا ہے اور یہی ہم آہنگی اسے‬ ‫فطری بنا دیتی ہے جبکہ بیمار آدمی قدرت سے برسر پیکار ہوتا ہے اور یہی تضاد اسے غیر‬ ‫فطری بنا دیتا ہے۔ بیمار آدمی صحت اور بیماری میں تقسیم ہو جاتا ہے‪ ،‬یہی تقسیم اسے بیمار‬ ‫اور یہی بیماری اسے تقسیم کرتی ہے۔ ہر بیمارتقسیم ہے‪ ،‬ہر بیمار منقسم ہے۔ بیمار آدمی کو ہی‬ ‫بیماری اور صح ت کے فرق کا اندازہ ہوتا ہے جبکہ کسی نارمل انسان کو بیماری ہی نہیں‬ ‫صحت کا پتہ بھی نہیں چلتا۔ ہمیں اپنے سر کی موجودگی کا احساس بھی صرف درد کی‬ ‫صورت م یں ہوتا ہے۔ نارمل انسان قدرتی و فطری ہوتا ہے‪ ،‬بیمار نہ غیر بیمار‪ ،‬وہ نارمل ہوتا‬ ‫ہے‪ ،‬نیوٹرل ہوتا ہے‪ ،‬بس ہوتا ہے۔ نارمل انسان بیماری اور صحت میں منقسم نہیں ہوتا‪ ،‬ان میں‬ ‫کوئی فرق نہیں کرتا‪ ،‬اسی لیے بیمار نہیں کہالتا۔ بیمار آدمی انہیں تقسیم کرتا ہے‪ ،‬الگ شمار‬ ‫ک رتا ہے‪ ،‬اسی لیے بیمار پڑھتا ہے۔ دوا کا اصل کام آدمی کو قدرتی اور نارمل بنانا ہے‪ ،‬صحت‬ ‫کی تقسیم سازی کی اس بیماری سے نجات دالنا ہے۔ تقسیم ہوتے ہی صحت اور بیماری ایک‬ ‫دوسرے کے ڈوئل بن جاتے ہیں۔‬ ‫اس جسمانی ڈوئلٹی کے خاتمے کا نام میڈیکیشن ہے جبکہ روحانی ڈوئلٹی کا خاتمہ میڈٹیشن‬ ‫کہالتا ہے۔ ایک جسمانی ہے بیماریوں سے نجات دالتی ہے دوسری روحانی کثافتوں سے آزاد‬ ‫کراتی ہے۔ دونوں کا مقصد طریقہ کار تک ایک ہے۔ ایک جسم کو خالص بناتی ہے دوسری‬ ‫روح کو پاک کرتی ہے‪ ،‬دونوں کا مقصد اور طریقہ کار تک ایک ہے۔ ایک جسم کو خالص‬ ‫بناتی ہے‪ ،‬دوسری روح کو پاک کرتی ہے‪ ،‬ایکی جسم کو ایک کرتی ہے دوسری روح کو نیک‬


‫‪5‬‬

‫کرتی ہے۔ دونوں کا مقصد انسان کو قدرتی‪ ،‬فطری اور نارمل بنانا ہے۔ ایک کا شعبہ مادی ہے‬ ‫اور دوسرے کا روحانی۔ تاہم میڈیکیشن میں جعلسازی کی طرح میڈیٹیشن میں بھی رنگ بازی‬ ‫نے اپنا اثر دکھایا اور اب میڈیٹیشن کا مطلب سوچ و بچار کیا جاتا ہے۔ میڈیٹیشن کا اصل مطلب‬ ‫و مقصد کچھ سوچنا نہیں بالکل کچھ بھی نہ سوچنا ہے۔ سوچنے کا تعلق مائنڈ سے ہے‪ ،‬جب ہم‬ ‫کچھ بھی نہیں سوچتے تو مائنڈ آرام کرتا ہے یا دوسرے لفظوں میں جب مائنڈ آرام کرتا ہے‬ ‫صرف اس وقت ہم کچھ نہیں سوچتے۔ جب مائنڈ آرام کرتا ہے تو پھر کوئی سوچ پیدا نہیں ہوتی‬ ‫اور جب کوئی سوچ پیدا نہیں ہوتی تو کوئی خواہش بھی جنم نہیں لیتی کیونکہ ہر خواہش کسی‬ ‫نہ کسی سوچ ہی کا دوسرا نام ہے۔ مراقبہ مائنڈ کو آف کرنا ہے اور مائنڈ آف ہوتے ہی ہر سوچ‬ ‫صاف ہو جاتی ہے۔ مراقبہ کا مقصد مائنڈ کو شامل کرنا نہیں بلکہ مسترد کرنا ہے۔‬

‫مراقبہ کیا ہے؟‬ ‫مراقبہ کے معنوی ماخذ تک پہنچ کر ہی اس کا حقیقی مطلب اخذ کیا جا سکتا ہے۔ جسے آج ہم‬ ‫میڈیٹیشن کہتے ہیں‪ ،‬اسے سنسکرت میں ہزاروں سال سے دھیانا کہا جاتا ہے‪ ،‬بدھا کی پالی‬ ‫زبان میں اسے جھانا کہا گیا۔ بدھ مت چین پہنچا تو یہی جھانا وہاں چانا کہالیا۔ جاپان پہنچتے‬ ‫پہنچتے یہ زن بن گیا‪ ،‬کوریا میں اس زن کو سیون کہا گیا۔ بدھ مت کے ساتھ ویت نام پہنچنے پر‬ ‫اس نے تھئین کا نام اختیار کر لیا۔ پورے جنوب مشرقی ایشیاء میں گھومنے پھرنے اور نام‬ ‫بدلنے کے باوجود اس کا مطلب تبدیل نہ ہوا۔ دھیانا‪ ،‬جھانا‪ ،‬چانا‪ ،‬زن‪ ،‬سیون‪ ،‬تھئین کا مطلب‬ ‫''درشن‪ ،‬دیار‪ ،‬دیکھنا'' ہے۔ انگریزی میں اس کا ترجمہ لُ ِکنگ نہیں بلکہ واچنگ بنتا ہے۔ اردو‬ ‫لفظ دھیان کا ماخذ یہی سنسکرت لفظ دھیانا ہے اسی دھیان یا دھیانا سے گیان جنم لیتا ہے کہ جو‬ ‫انگریزی میں واچنگ کہالتا ہ ے۔ اسی دھیانا‪ ،‬جھانا‪ ،‬چانا وغیرہ کا عربی متبادل مراقبہ ہے اور‬ ‫اسی مراقبہ کو فقہ بھی کہتے ہیں۔ ہر گیان دھیان سے ہے‪ ،‬ہر علم مراقبہ میں ہے‪ ،‬مراقبہ پھول‬ ‫ہے اور علم اس کی خوشبو۔ بد قسمتی سے میڈیٹیشن کی طرح مراقبہ کا ترجمہ بھی سوچ و‬ ‫بچار ہی کیا جاتا ہے جو کہ انت ہائی غلط اور حقیقی روح سے بالکل الٹ ہے۔ اسی حوالے سے‬ ‫فقہ کا مطلب بھی جاننے کے بجائے ماننا ہو گیا۔ مراقبہ کا سادہ ترین مطلب بھی بغور دیکھنا ہی‬ ‫بنتا ہے لیکن دھیانا کے دیکھنے اور مراقبہ کے دیکھنے میں تھوڑا فرق ہے۔ دھیانا‪ ،‬جھانا‪ ،‬چانا‬ ‫وغیرہ کے الفاظ بہت خوبصور ت ہیں اور ان کا مطلب بھی اتنا ہی حسین و دلکش ہے لیکن یہ‬ ‫الفاظ و مطالب مزید وضاحت کے محتاج ہیں۔ ِکسے دیکھنا؟ کیسے دیکھنا؟ کہاں سے دیکھنا؟‬ ‫کیوں دیکھنا؟ دلکش الفاظ اور دل نشین مطلب کے باوجود یہ سوال جواب طلب رہ جاتے ہیں۔‬ ‫لفظ مراقبہ کو اس قسم کی کوئی وضاحتی مح تاجی درپیش نہیں اور اس کا دیکھنا اس طرح کا‬ ‫کوئی سوال دست بستہ بھی نہیں دکھاتا۔ دھیانا کے دیکھنے اور مراقبہ کے دیکھنے میں فرق‬ ‫دیکھنے کے لیے لفظ مراقبہ کو بغور دیکھنا پڑیگا یعنی مراقبہ پر دھیانا کی ضرورت ہے۔ اس‬


‫‪6‬‬

‫ایک لفظ کو سمجھنا ہر طرح کی عبادت سمجھنا ہے‪ ،‬یہ لفظ عبادت سمجھ کر ہی سمجھا جا‬ ‫سکتا ہے۔‬

‫مراقبہ ہی عبادت ہے۔‬ ‫مراقبہ کا ایک ماخز لفظ رق ہے کہ جسکا مطلب عبد یا غالم بننا ہے۔ اسی رق سے مراقبہ بنا‪،‬‬ ‫اسی عبد سے عبادت بنی۔ مراقبہ ہی عبادت ہے۔ اور عبادت ہی مراقبہ ہے۔ یہ دونوں ایک ہی‬ ‫حالت کے دو نام ہیں۔ الراق کا مطلب '' عبدیت‪ ،‬غالمی‪ ،‬بہت پتلی کھال جس پر لکھا جائے‪ ،‬سفید‬ ‫کاغز کا تختہ'' ہے۔ لفظ ورق یہیں سے اخز کیا گیا ہے۔ بہت پتلی‪ ،‬باریک اور لطیف چیز کو‬ ‫رقیق کہتے ہیں یعنی اتنی پتلی‪ ،‬باریک اور لطیف ''جھلی'' جو کسی چیز کے درمیان آکر اسے‬ ‫یوں ظا ہر کرے کہ اس کا اپنا وجود باطن ہو جائے۔ الرق اصل میں برزخ ہی کی نشاندہی کرتے‬ ‫ہیں‪ ،‬برزخ کا لغوی مطلب ''دو چیزوں کے درمیان کی روک‪ ،‬ابتداء اور آخر کے درمیان کی‬ ‫حالت'' ہے۔ مراق کا مطلب ''بطن‪ ،‬پیٹ کا نرم و پتال حصہ'' ہے۔ اور بطن کا مطلب ''ہر چیز کا‬ ‫اندرونی حصہ‪ ،‬پوشیدہ'' ۔ ہے۔ ہللا کا ایک نام باطن بھی بتایا جاتا ہے۔ رقا کا مطلب منقطع ہونا‪،‬‬ ‫صلح کرنا‪ ،‬خشک کرنا ہے‪ ،‬صلح کرانے والے کو الرقو کہتے ہیں۔ المرقاۃ المرقاۃ کا مطلب‬ ‫''سیڑھی‪ ،‬زینہ'' ہے۔ نگہبانی کرنے کو رقبہ‪ ،‬راقبہ کہتے ہیں اور زندگی بھر‪ ،‬ہمیشہ کے لیے‬ ‫دے دینے کو ارقبہ کہتے ہیں۔ تراقباء کا مطلب ''ایک دوسرے کی نگہبانی‪ ،‬محافظ ہے۔ رقیب کا‬ ‫عمومی مطلب تو مخالف‪ ،‬دشمن یا مقابل لیا جاتا ہے لیکن اس کا لغوی مطلب محافظ‪ ،‬نگہبان‬ ‫ہے۔ عمومی و لغوی دونوں معنی اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔ نگرانی کرنے کی اونچی جگہ‬ ‫مرقب کہالتی ہے۔ اور دوربین کو کہتے ہی مرقب ہیں۔ اتنے الفاظ چھاننے کے بعد اب ہم لفظ‬ ‫مراقبہ کا حقیقی ترجمہ کرنے اور صحیح مطلب جاننے کے قابل ہو سکے ہیں۔ بہت دور کی‬ ‫چیز کو بہت قریب سے دیکھنا مراقبہ ہے۔ دور بین کا خوردبین بن جانا مراقبہ ہے۔ خود ہی‬ ‫دوربین اور خ ود ہی خوردبین بن جانا مراقبہ ہے۔ اونچی جگہ سے نگرانی کرنا مراقبہ ہے۔‬ ‫اونچی جگہ سے نیچے دیکھا جاتا ہے۔ نیچے دیکھنا مراقبہ ہے۔ نگرانی کا یہ مقام بھی بڑا‬ ‫عجیب ہے‪ ،‬ا نسان دیکھتا نیچے ہے لیکن اسے نظر اوپر آتا ہے۔ یہاں نیچے اوپر ہے اور اوپر‬ ‫نیچے کیونکہ یہاں سے نیچے دیکھنا اصل میں اندر دیکھنا ہے اور اندر ہی حقیقت میں اوپر‬ ‫ہے۔ نگرانی کے اس اونچے مقام سے نیچے دیکھنا اندر دیکھنا ہے اور اندر دیکھنا اوپر دیکھنا‬ ‫ہے۔ یہی باہر سے اندر دیکھنا مراقبہ ہے۔ ایک ہی لمحہ میں اونچ نیچ کا یہ معجزہ دیکھنا مراقبہ‬ ‫ہے۔ اندر ہہی اوپر ہے‪ ،‬اوپر اندر ہے‪ ،‬لفظ مراقبہ نے آسمان کی حقیقت بھی واضح کر دی۔ اس‬ ‫ایک لفظ نے آسمان کے تمام تصورات زمین پر پٹخ دیئے۔ ان آسمانوں کی یہی زمین بوسی‬ ‫دیکھنا مراقبہ ہے۔‬


‫‪7‬‬

‫ال الہ کو اال ہللا بنتے دیکھنا مراقبہ ہے۔‬ ‫لفظ رقیب کے سارے مطالب اصل میں ڈوئل کے قالب ہیں۔ رقیب کا ہر معنی ڈوئل کی نشانی‬ ‫ہے۔ ''رقیب کا مطلب ڈوئل'' ۔ ڈوئلس ایک دوسرے کے دشمن‪ ،‬مخالف و مقابل ہی نہیں بلکہ ایک‬ ‫دوسرے کے نگران و محافظ بھی ہوتے ہیں کیونکہ دونوں کا وجود ایک دوسرے سے ہوتا ہے۔‬ ‫دونوں ایک کا دوسرا ہوتے ہیں۔ ایک ہی رسی کے مخلتف سرے ہوتے ہیں۔ رقیب کے دونوں‬ ‫قسم کے معنی ہر قسم کے ڈوئلس پر سو فیصد درست بیٹھتے ہیں۔ ڈوئلس حقیقی معنوں میں ایک‬ ‫دوسرے کے رقیب ہیں۔ ہر ڈوئل رقیب ہے‪ ،‬ہر رقیب ڈوئل ہے۔ ہللا کا ایک نام رقیب بھی بتایا‬ ‫جاتا ہے۔ نگران اور محافظ کے معنوں میں یہ بات تو ٹھیک ہے لیکن دشمن‪ ،‬مخالف اور مقابل‬ ‫کے معنوں میں اسی لفظ کا مطلب الہ ہو جاتا ہے۔ ہللا کسی کا دشمن‪ ،‬مخالف یا مقابل نہیں اور نہ‬ ‫ہی کوئی اس کا دشمن‪ ،‬مخالف‪ ،‬یا مقابل ہے۔ اسی لیے تو وہ ہللا ہے۔ اس کے بر عکس ہر الہ‬ ‫کسی نہ کسی کا دشمن‪ ،‬مخالف یا مقابل ہے اور کوئی نہ کوئی اس کا دشمن‪ ،‬مخالف یا مقابل‬ ‫بھی ہے ‪ ،‬اسی لیے تو یہ الہ ہے۔ الہ رقیب ہے اور رقیب ڈوئل‪ ،‬یوں انگریزی کا ڈوئل اصل میں‬ ‫عربی الہ ہے۔ ہر قسم کے ڈوئل اور ہر طرح کہ الہ کی تمام خصوصیات کی اس ایک لفظ رقیب‬ ‫سے بھرپور وضاحت ہو جاتی ہے۔ رقیب ان کا خصوصی نام ہے۔ رقابت جنکا عمومی کام ہے۔‬ ‫اس رقیب کو ڈوئل‪ ،‬تو اسی رقابت کو ڈوئلیٹی کہا گیا۔ ہر قسم کے ڈوئل کو محض ایک لفظ الہ‬ ‫کا نام دینے اور پھر اس ایک لفظ سے ڈوئلٹی جیسے گھمبیر اور پیچیدہ ترین مسئلہ کو اتنی‬ ‫آسانی سے سلجھانے کا سارا کریڈٹ محمد المصط ٰفے کو جاتا ہے۔ انسانی تاریخ کے تمام انبیاء‬ ‫و صوفیاء نے صرف اس ایک مسئلہ کی گھتیاں سلجھا کر سمجھانے میں اپنی عمریں لگا دیں‬ ‫ٰ‬ ‫المصطفے نے محض ایک لفظ سے قطرے میں سمندر اور زرے میں کائنات‬ ‫لیکن محمد‬ ‫سمودی۔ الہ ہر قسم کے ڈوئل کا نا م تو الالہ اس ڈوئلٹی کا اختتام ہے۔ الہ رقیب تو الالہ اس‬ ‫رقابت کا انجام ہے۔ ڈوئل اور ڈوئلیٹی کے موضوع ہر اب تک جو کچھ بھی لکھا گیا‪ ،‬یاد دہانی‬ ‫کے لیے اس سب کا یہاں حوالہ پیش کیا جا سکتا ہے۔ فیوژن‪ ،‬کولیژن‪ ،‬انرجی‪ ،‬نور‪ ،‬برزخ‪،‬‬ ‫بھنور‪ ،‬مرکز‪ ،‬بلیک ہول‪ ،‬سرنڈر‪ ،‬پہلی موت‪ ،‬دوسرا جنم وغیرہ جیسے عنوانات کی فائلیں ذہن‬ ‫میں کھولی جا سکتی ہیں۔ اب تک کی تمام گفتگو اس ایک مقام کا انتساب کہی جا سکتی ہے۔ ہر‬ ‫ڈوئل رقیب‪ ،‬ہر رقیب الہ۔ اور ہر ڈوئلیٹی رقابت ہے‪ ،‬تو ان سب کا مراقبہ سے کیا تعلق؟ صلح‬ ‫کرانے والے کو الرقو کہتے ہیں۔ ان ڈ وئلس میں صلح ہوتے دیکھنا مراقبہ ہے۔ ان رقیبوں کو‬ ‫قریب آتے دیکھنا مراقبہ ہے۔ یہ ڈوئلس رقیب قریب آتے ہی ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں‪،‬‬ ‫ایک د وسرے میں ضم اور مدغم ہو جاتے ہیں۔ ان ڈوئلس رقیبون کا ٹکراؤں‪ ،‬انضمام‪ ،‬ادغام‬ ‫دیکھنا مراقبہ ہے۔ نیوکلیئر فیژن یاقلبی مالپ دیکھن ا مراقبہ ہے۔ انرجی کا اخراج و اجزاب‬ ‫دیکھنا مراقبہ ہے۔ مادے کو انرجی اور انرجی کو نور بنتے دیکھنا مراقبہ ہے۔ ڈوئلٹی کا اختتام‬ ‫دیکھنا مراقبہ ہے۔ رقابت کا انجام دیکھنا مراقبہ ہے۔ ڈوئلس کو یونٹ بنتے دیکھنا مراقبہ ہے۔‬ ‫رقیب کو رفیق بنتے دیکھنا مراقبہ ہے۔ ڈوئلس ی ا رقیبوں کا سرنڈر دیکھنا مراقبہ ہے۔ ڈوئلٹی کو‬


‫‪8‬‬

‫یونٹی میں ڈھلتے دیکھنا مراقبہ ہے۔ رقابت کو قربت میں بدلتے دیکھنا مراقبہ ہے۔ یہ نقطہ تبدل‬ ‫دیکھنا مراقبہ ہے‪ ،‬ہر نقطہ تبدل دیکھنا مراقبہ ہے۔ اپنا مرکز‪ ،‬محور‪ ،‬درمیان‪ ،‬حال‪ ،‬برزخ‬ ‫دیکھنا مراقبہ ہے۔ اپنا بلیک ہول دیکھنا مراقبہ ہے۔ خود کو اس بلیک ہول میں گرتے دیکھنا‬ ‫مراقبہ ہے اور اس بلیک ہول سے ستارہ بن کر نمودار ہوتے دیکھنا مراقبہ ہے۔ اپنی پہلی موت‬ ‫دیکھنا مراقبہ ہے‪ ،‬اپنا دوسرا جنم دیکھنا مراقبہ ہے۔ مراقبہ محض دیکھنا نہیں بلکہ مشاہدہ کرنا‬ ‫ہے۔ صرف زبانی کالمی اشہد انا کہن ا نہیں بلکہ شاہد بننا اور اپنا مشہد دیکھنا مراقبہ ہے۔ شہید‬ ‫ہونا اور شہادت دیکھنا مراقبہ ہے۔ اسی ڈوئل اور رقیب کو الہ کہا گیا‪ ،‬اسی الہ کو ال ہوتے‬ ‫دیکھنا مراقبہ ہے۔ ال الہ دیکھنا مراقبہ ہے۔ ال الہ کو اال ہللا بنتے دیکھنا مراقبہ ہے۔ خود اور خدا‬ ‫کا ٹکراؤ‪ ،‬انضم ام‪ ،‬ادغام دیکھنا مراقبہ ہے۔ خود کو خدا میں پھیلتے دیکھنا مراقبہ ہے۔ خود کو‬ ‫خود میں سمٹتے دیکھنا مراقبہ ہے‪ ،‬خود کو خدا بنتے دیکھنا مراقبہ ہے۔‬ ‫مراقبہ کے ان معنوں تک پہنچانے واال ایک لفظ مرقاۃ ہے کہ جسکا مطلب ''سیڑھی یا زینہ ہے۔‬ ‫خود کو اپنے اندر‪ ،‬مرکز قلب میں اترتے اور فلک پہ چڑھتے دیکھنا مراقبہ ہے۔ انتہائی پتلی‪،‬‬ ‫نہایت بار یک جھلی دیکھنا مراقبہ ہے۔ برزخ دیکھنا مراقبہ ہے۔ ورق پڑھنا اور رق دیکھنا‬ ‫مراقبہ ہے۔ اپنی کتاب پڑھنا اور ام الکتاب دیکھنا مرقبہ ہے۔ لوح محفوظ دیکھنا مراقبہ ہے۔ بطن‬ ‫کو مراق کہتے ہیں‪ ،‬اپنے بطن ک ا ظہور دیکھنا مراقبہ ہے‪ ،‬اپنے باطن کو ظاہر ہوتے دیکھنا‬ ‫مراقبہ ہے۔ یاد ریے کہ ہللا کا ایک نام باطن بھی بتایا جاتا ہے۔ باطن کا ظاہر ہونا ہللا کا ظاہر‬ ‫ہونا ہے‪ ،‬باطن کو دیکھنا ہللا کو دیکھنا ہے۔ اپنا بطن دیکھنا مراقبہ ہے‪ ،‬باطن دیکھنا مراقبہ ہے‪،‬‬ ‫ہللا کو دیکھنا مراقبہ ہے۔‬

‫غار حراء کی تنہائی‬ ‫ٰ‬ ‫المصطفے نبوت سے قبل غار حراء میں عبادت کیا کرتے تھے‪ ،‬جب‬ ‫بتایا جاتا ہے کہ محمد‬ ‫پوچھا جائے کہ ابھی نبوت ملی نہیں‪ ،‬کوئی نماز وغیرہ ہے نہیں تو پھر وہ غار حراء میں کیا‬ ‫ٰ‬ ‫المصطفی غار‬ ‫عبادت کرتے تھے؟ اس پر انتہائی بے دلی سے جواب دیا جاتا ہے کہ محمد‬ ‫حراء کی تنہائی میں مراقبہ کیا کرتے تھے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جس عبادت میں محمد‬ ‫ٰ‬ ‫المصطفے کو نبوت ملی‪ ،‬اس عبادت کا اس مروجہ اسالم میں کوئی ذکر نہیں ملتا۔ جس مراقبہ‬ ‫ٰ‬ ‫المصطفے کو ہللا سے قریب کیا‪ ،‬محمد کو احد سے مال کر احمد بنا دیا‪ ،‬بڑے بڑے‬ ‫نے محمد‬ ‫نامور محدثین‪ ،‬مفسرین اور فقہاء نے وہ مراقبہ کرنے کی بجائے اس کا زکر تک نہ کیا اور‬ ‫اصل بات ہی گول کر گئے۔ روایتی تاریخ میں بتایا جاتا ہے کہ اسی مراقبہ کی حالت میں پہلی‬ ‫وحی اقراء باسم ربک الذی خلق‪ '' ،‬پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا''۔ (سورہ‬ ‫علق‪ )01:‬نازل ہوئی۔ اقراء کا ترجمہ ''پڑھ'' کیا جاتا ہے اور یہیں سے پڑھے لکھے محدث‪،‬‬ ‫ٰ‬ ‫المصطفے کو ان پڑھ ثابت کرنے پر‬ ‫راوی‪ ،‬مفسر اور فقہاء اپنی قیاس آرائیوں کے تحت محمد‬


‫‪9‬‬

‫تل جاتے ہیں۔ پہلی وحی کے سلسلے میں جو محیر العقول ''واقعہ'' پیش کیا جاتا ہے وہ تحسین‬ ‫نبوت نہیں بلکہ توہین رسالت کے زمرے میں آتا ہے۔ اقراء کا مطلب صرف پڑھ یا پڑھو نہیں‬ ‫بلکہ پڑھانا بھی ہے اور لغات میں یہی زیادہ مستعمل بھی ہے لیکن پڑھے لکھے مولویوں کو‬ ‫ٰ‬ ‫المصطفے کو ان پڑھ ثابت کرنے میں زیادہ سے ذیادہ مزہ آتا ہے‪ ،‬اسی لیے وہ مزے لے‬ ‫محمد‬ ‫لے کر اپنے مطلب کے لیے اقراء کا صرف ایک ہی مطلب بتاتے ہیں۔ اقراء کے دیگر مطالب‬ ‫'' پہنچانا‪ ،‬واپس ہونا‪ ،‬پھرنا‪ ،‬عبادت کرنا‪ ،‬بروقت ہونا'' بنتے ہیں۔ اقراء کا ایک اہم مطلب ''قریب''‬ ‫ہونا'' ہے‪ ،‬یاد رہے کہ یہ آیت‪ ،‬وحی مراقبہ کی حالت میں نازل ہوئی تھی۔ قراء کا ایک مطلب‬ ‫''پڑھنا‪ ،‬پہنچانا‪ ،‬جمع کرنا‪ ،‬اکھٹا کرنا‪ ،‬حاملہ ہونا‪ ،‬حاملہ کا جننا' ہے۔ تقراء کا مطلب ''عبادت‬ ‫کرنا‪ ،‬جاننا‪ ،‬عالم پونا'' ہے۔ عبادت گزار کو القراء اور المتقری کہتے ہیں۔ پہلی آیت کا آسان اور‬ ‫سیدھا سا ترجمہ پڑھانا بھی ہوسکتا تھا یا پھر پہنچاؤ‪ ،‬عبادت کرو‪ ،‬جانو‪ ،‬عالم بنو وغیرہ بھی‬ ‫ہوسکتا تھا لیکن نہیں ابو جہل کی پڑھی لکھی اوالد ہر صورت میں محمد المصط ٰفے کو ان پڑھ‬ ‫ثابت کرنا چاہتی ہے‪ ،‬اسی لیے یہ بصیرتی اندھے اپنے آباؤ اجداد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے‬ ‫بصاتری اندھے بھی بنے ہوئے ہیں اور اتنے مطالب کے باوجود صرف ایک مطلب پر گرے‬ ‫پڑے ہیں۔ عربی میں نزدیکی اور کوکھ کے لیے ایک ہی لفظ القرب استعمال ہوتا ہے۔ عربی‬ ‫میں قرب کا مطلب صرف نزدیک یا قریب نہیں بلکہ بہت قریب‪ ،‬بہت ہی زیادہ قریب ہے‪ ،‬اتنا‬ ‫قریب کہ جیسے بچہ ماں کی کوکھ یا بطن میں ہوتا ہے۔ تلوار کا میان میں ڈالنا قرب کہالتا ہے۔‬ ‫قرب کا مطلب دو کا ایک ہو جانا ہے۔ اسی لیے قربت اور کوکھ کے لیے ایک ہی لفظ استعمال‬ ‫ہوتا ہے۔ دنیا کی کسی اور زبان میں قربت کی اس سے بہتر اور خوبصورت وضاحت ممکن‬ ‫نہیں۔ قربانی کا لفظ اسی قرب سے بنا ہے کہ جسکا مطلب اتنا قریب ہوجانا کہ میں اور تو کا‬ ‫فرق خ تم ہو جائے۔ ہللا کا قرب حاصل کرنے کا مطلب یہی ہے کہ انسان ہللا کے ساتھ ایسے مل‬ ‫جائے‪ ،‬ایسے ایک ہو جائے کہ جیسے بچہ ماں کی کوکھ میں اس کے ساتھ ایک ہوتا ہے۔ محمد‬ ‫ٰ‬ ‫المصطفے نے ہللا کو رحمان اور رحیم اسی لیے کہا۔ ماں کی کوکھ یا بچہ دانی کو رحم کہتے‬ ‫ہیں اور رحمان اور رحیم کا اصل ماخز یہی رحم ہے۔ ہللا کو رب بھی اسی لیے کہا جاتا ہے کہ‬ ‫جس کا مطلب پرورش کرنے واال ہے۔ کوکھ یا بچہ دانی میں بچے کی پرورش کے قدرتی‬ ‫انتظام کو ربوبیت کہا جاتا ہے‪ ،‬یہیں سے لفظ رب بنا۔ رب کا ایک مطلب ''جمع کرنا'' بھی ہے‪،‬‬ ‫مختلف پھلوں کو شیرے میں جمع کرنا مربہ کہالتا ہے۔ یہودیوں اور عیسائیوں نے ہللا کو باپ کا‬ ‫درجہ دیدیا‪ ،‬خ ود مسلمانوں میں بھی اسی ڈگر پر چلتے ہوئے ہللا کے لیے مزکر کا جنسی صیغہ‬ ‫استعمال کیا جاتا ہے۔ اول تو ہللا کو مزکر یا مونث حوالوں سے پکارنا ہی غلط ہے اور اگر‬ ‫لسانی مجبوریوں کے تحت ایسا کرنا بھی پڑے تو پھر اسے مونث حوالہ زیادہ مناسب ہے کہ وہ‬ ‫باپ کی طرح نہیں بلکہ ماں کی طرح ہے۔‬


‫‪10‬‬

‫پہلی موت اور دوسرا جنم‬ ‫سورۃ علق کی دسویں آیت ''عبدا اذا صلّٰی'' میں صلّٰی کا زکر ہے۔ جب پوچھا جائے کہ چند ہی‬ ‫آیتوں بعد صلّٰی کا کیا مطلب ہوا؟ بھال چند آیتوں کے بعد کونسی نماز ہو سکتی ہے؟ کسی نماز‬ ‫ہو سکتی ہے؟ اس موقع پر بھی بنا بنایا گھڑا گھڑایا سا جواب دے دیا جاتا ہے کہ رکوع و‬ ‫سجود میں بس یہی چند آیات بار بار پڑھی جاتی تھیں۔ سورۃ علق کی آخری آیت کے آخری دو‬ ‫الفاظ نے صلّٰی کی بھرپور وضاحت کر کے ان محدثوں‪ ،‬مفسروں اور فقہاء کی سازشی ملی‬ ‫بھگت کا بھانڈا پھوڑ دیا۔‬ ‫عہ وسجد َوقت َِرب (سورۃ علق ‪ )19‬خبردار اس کا کہنا ہر گز نہ ماننا اور سجدہ کر‬ ‫ک اَالَ َال ت ُ ِط ِ​ِ ُ‬ ‫اور قریب ہوجا'' ۔ لفظ سجدہ کی بھر پور وضاحت پہلے ہوچکی ہے اور سرنڈر کے نام سے‬ ‫پورا ایک سلسلہ اس پر مخصوص کیا جاچکا ہے۔ البتہ آیت کا آخری لفظ سجدہ کی وضاحت‬ ‫طلب ہے۔ اقترب کا ترجمہ '''قریب ہوجا'' کیا جاتا ہے۔ جوکہ نامکمل ہے۔ اقترب کا مطلب صرف‬ ‫قریب ہو جانا نہیں بلکہ ایک دوسرے کے قریب ہوجانا ہے۔ اگر آیت کا مروجہ و مفسرہ ترجمہ‬ ‫ہی کر لیا جائے تو پھر بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس کے قریب ہوجا؟ کیسے قریب ہوجا؟ اس‬ ‫آیت کے ان آخری دو الفاظ میں پورا دین اور اس کی پر تشریح بالکل صاف شفاف بیاں و عیاں‬ ‫کر دی گئی ہے۔ عجیب بات ہے کہ نزول کے اعتبار سے پہلی ہی سورہ کا پہال لفظ اقراء ہے‬ ‫اور آخری لفظ اقترب اور اس سورۃ کے درمیان میں لفظ صلّٰی (نماز)۔ پہلے لفظ کا ایک مطلب‬ ‫بھی قرب ہے اور آخری لفظ کا ہر مطلب ہی قرب ہے۔ پہال لفظ بھی عبادت ہے اور آخری لفظ‬ ‫بھی عبادت ہے اور ان کے درمیان صلّٰی ہے کہ جو اسی عبادت کی وضاحت ہے۔ یہ قرب ہی‬ ‫عبادت ہے اور عبادت یہی قرب ہے۔ یہ قرب کیا ہے؟ لفظ سجدہ سے اس کی بھی وضاحت کر‬ ‫دی گئی اور یہ سجدہ کیسا ہے؟ لفظ اقترب سے اسے بھی واضح کر دیا گیا۔ سجد اور قرب ایک‬ ‫دوسرے کی لفظی وضاحت کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی معنوی صراحت بھی کرتے ہیں۔‬ ‫سجدہ کا مطلب ٹکریں مارنا نہیں بلکہ ٹکرانا‪ ،‬قریب النا ہے جسے فیوژن یا کولیژن بھی کہا‬ ‫جاتا ہے۔ سجدہ کا سادہ ترین مطلب قریب ہونا‪ ،‬قریب کرنا ہے اور اقترب کا مطلب بھی قریب‬ ‫ہونا قریب کرنا ہے۔ اس لحاظ سے ان دونوں کا مطلب قریب ہونا قریب کرنا ہے۔ قریب یا قرب‬ ‫کا مطلب ''اتنا قریب کہ ایک ہو جانا'' ہے۔ قرب کے معنوں میں کوکھ کا لفظ اس کا ثبوت ہے۔‬ ‫قربت کا م طلب ہی ایک ہوجا ہے۔ یوں سجدہ اور قرب کا مطلب ایک ہی ہے‪ ،‬دونوں کا مطلب‬ ‫ایک ہوجانا ہے۔ وسجد اقترب کا سادہ ترجمہ تو سجدہ کر‪ ،‬قریب ہوجا بنتا ہے۔ لیکن اس کا‬ ‫مطلب قریب کر‪ ،‬قریب ہوجا یا ایک کر‪ ،‬ایک ہوجا بھی ہوسکتا ہے۔ ایک اور بات جو غور طلب‬ ‫ہے‪ ،‬پہال حصہ کرنا ہے یعنی سجدہ کر‪ ،‬قریب کر‪ ،‬ایک کر‪ ،‬دوراحصہ ہونا ہے یعنی قریب ہو‪،‬‬ ‫ایک ہو۔ اب ان دو الفاظ سے پورے دین اور اس کی ہر تشریح کی بھرپور وضاحت کی جا‬ ‫سکتی ہے۔ یہ دو الفاظ سمجھ کر پورا دین سمجھا جا سکتا ہے۔ قرب اصل میں قربت یا قرابت‬


‫‪11‬‬

‫ہے اور اس کا متضاد رقابت ہے‪ ،‬قرابت کو یونٹی اور رقابت کو ڈوئلٹی کہتے ہیں۔‬ ‫رقیبوں‪ /‬ڈوئلس کا انضمام‪ ،‬ادغام‪ ،‬مالپ‪ ،‬مالقات‪ ،‬فیوژن‪ ،‬کولیژن‪ ،‬ٹکراؤ‪ ،‬درنڈر‪ ،‬سجدہ یا قرب‬ ‫ہی رقابت کا خاتمہ اور ڈوئلٹی کی موت ہے۔ رقابت کے اسی خاتمہ سے قرابت کا آغاز ہے‪،‬‬ ‫ڈوئلٹی کی اسی موت پر یونٹی کا جنم ہے۔ قرب پر ہی رقابت کی موت ہے‪ ،‬قرب سے ہی قرابت‬ ‫کا جنم ہے۔ قرب پر ہی موت ہے‪ ،‬قرب سے ہی جنم ہے۔ پہال حصہ بیرونی حالت ہے اور‬ ‫دوسرا حصہ اندرونی کیفیت کا نام ہے۔ پہال حصہ کام دوسرا حصہ انعام ہے۔ پہال حصہ پہلی‬ ‫موت اور دوسرا حصہ دوسرا جنم‪ ،‬اب پتہ چال کہ قرب کے معنوں میں کوکھ کیوں چھپی ہے؟‬ ‫قرب کا ایک مطلب نزدیکی اور دوسرا کوکھ ہے۔ پہلے حصہ پر پہلے مطلب کا اطالق ہوتا ہے‬ ‫اور دوسرے حصہ پر دوسرا مطلب منطبق ہوتا ہے۔ سجدہ پہلی موت ہے اور قرب دوسرا جنم۔‬

‫قرب سے ہی قیام ہے۔‬ ‫دوسرے جنم کے لیے دین اسالم میں ''قیام''کی اصطالح استعمال ہوتی ہے کہ جس سے لفظ‬ ‫قیامت بھی بنا۔ مفسرین نے عیسائی اثرات کے تحت قیامت کا مطلب ڈے آف ججمنٹ سمجھ لیا‬ ‫اور اتنی خوبصو رت اسالمی اصطالح پر عیسائیت کی خرافات چسپاں کر کے اسے بھی دیگر‬ ‫اصطالحات کی طرح خوفناک بنا دیا۔ اب قیامت کا تصور لوگوں کو ڈرانے دھمکانے اور‬ ‫کنٹرول میں رکھ نے کے لیے تازیانے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ دوسرے جنم کی اصطالح‬ ‫کو سب مزاہب نے گال گھونٹ دیا۔ ھندوستانی پنڈتوں نے اسے خرافات کی بھینٹ چڑھا دیا‪،‬‬ ‫عیسائی پادریوں نے بپتسمی کے پانی میں غرق کر دیا جبکہ ایرانی مفسروں نے عربستان کے‬ ‫صحرا میں زندہ گور کر دیا۔ قرب پر ہی سجدہ ہے‪ ،‬قرب پر ہی قیام ہے۔ ڈوئلٹی کا سارا فلسفہ‬ ‫اور پہلی موت و دوسرا جنم کی ساری تفصیل ''وسجد اقترب'' میں سما دی گئی ہے۔ اب ان الفاظ‬ ‫کا کسی بھی حوالے سے ترجمہ کیا جائے‪ ،‬اس کا مطلب و مقصد ایک ہی بنتا ہے۔‬ ‫مفسرین نے ''اور سجدہ کر اور قریب ہوجا'' پر ہی اکتفا کیا ہے لیکن یہ وضاحت نہیں کی کہ‬ ‫''قریب ہونا'' سے کیا مراد ہے؟ کس کے قریب ہوجا؟ قربت کا تعلق سمجھنے اور پہلی موت و‬ ‫دوسرا جنم کی اصطالحات جاننے کے بعد ہی سجدہ کرنے اور قریب ہونے کو بہتر طور پر‬ ‫سمجھا جا سکتا ہے۔ اس سجدہ کر‪ ،‬قریب ہوجا۔ کو کئی حوالوں سے مزید واضح کیا جاسکتا‬ ‫ہے۔ ڈوئلس کا سجدہ کرانا ہی جنت کا قرب پانا ہے۔ رقابت مٹانا ہی قرابت پانا ہے۔ ڈوئلس کو‬ ‫ایک دوسرے کے قریب کر‪ ،‬خود ڈیوائین سے قریب ہوجا۔۔۔۔ الہ کو قریب کر ہللا سے قریب‬ ‫ہوجا۔ ڈوئلٹی مار کر یونٹی میں زندہ ہوجا۔ پہلی موت مرکر دوسرا جنم ہوجا۔ خود کو قریب کر‪،‬‬ ‫خدا سے قریب ہوجا۔ خود قرب خدا ہوجا۔ خود خدا ہوجا۔ یہی قرب نزدیکی ہے‪ ،‬یہی قرب کوکھ‬ ‫ہے۔ اسی قرب پہ سجدہ ہے‪ ،‬اسی قرب پہ قیام ہے‪ ،‬اسی قرب پہ پہلی موت ہے‪ ،‬اسی قرب سے‬ ‫دوسرا جنم ہے۔ ہللا کا ایک نام رقیب اسی قرب کے حوالے سے ہی بہتر طور پر سمجھا جا‬


‫‪12‬‬

‫سکتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خدا کو بنانے واال یہ قرب خود کہاں ہے؟ کہاں ہوتا ہے؟‬ ‫اس کے قرب و جوار کا کوئی اتہ پتہ؟ رقیب جہاں رفیق ہوتا ہے‪ ،‬ڈوئل جہاں یونٹ بنتا ہے‪،‬‬ ‫رقابت جہاں قرابت میں ڈھلتی ہے‪ ،‬ڈوئلٹی جہاں یونٹی میں بدلتی ہے‪ ،‬یہ مقام اعتدال اور نقطہ‬ ‫تبدل قرب کہالتا ہے۔ یہ قرب بالکل وہی ہے کہ جسے اب تک ہم نے درمیان‪ ،‬حال‪ ،‬مرکز‪،‬‬ ‫ٰ‬ ‫مصلی کا نام دیا۔ بلیک ہول برزخ اور‬ ‫محور‪ ،‬قلب‪ ،‬بھنور‪ ،‬بلیک ہول‪ ،‬برزخ‪ ،‬مشہد‪ ،‬مسجد اور‬ ‫دوسرا جنم جیسی اصطالحات سمجھنے میں کسی کو اگر کوئی مسئلہ درپیش بھی تھا تو قرب‬ ‫کے ایک معنی کوکھ نے وہ بھی حل کر دیا۔ جس نقطہ پہ سجدہ ہے‪ ،‬اسی نقطہ پہ صلّٰی نماز‬ ‫ٰ‬ ‫مصلی بھی ہے‪ ،‬یہی قرب سجدہ ہے‪ ،‬اسی پہ‬ ‫بھی ہے۔ اسی لیے تو یہ قرب مسجد بھی ہے اور‬ ‫مسجد ہے۔ یہی قرب صلّٰی ہے‪ ،‬اسی پہ مصلّٰی ہے۔ یہی قرب دوسروں کو بتانا‪ ،‬سمجھانا‪،‬‬ ‫پہنچانا‪ ،‬پڑھانا‪ ،‬ہی اقراء ہے اور یہی قرب دیکھنا مراقبہ ہے۔ مراقبہ کی طرح یہ لفظ قرب بھی‬ ‫بہت وسیع المعنی ہے۔ ڈوئلٹی کا سرا فلسفہ اس ایک لفظ میں سمایا ہوا ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں‬ ‫کہ قرب دیکھنا مراقبہ ہے تو اس کا مطلب یہ بھی بنتا ہے کہ نقطہ تبدل دیکھنا مراقبہ ہے‪ ،‬مقام‬ ‫اعتدال دیکھنا مراقبہ ہے۔ اپنا مرکز‪ ،‬محور‪ ،‬درمیان‪ ،‬بلیک ہول‪ ،‬برزخ‪ ،‬مشہد‪ ،‬مسجد‪ ،‬مصلّٰی‬ ‫دیکھنا مراقبہ ہے۔ ڈوئلٹی کا خاتمہ دیکھنا مراقبہ ہے‪ ،‬یونٹی کا آغاز دیکھنا مراقبہ ہے۔ اپنی پہلی‬ ‫موت دیکھنا مراقبہ ہے‪ ،‬اپنا دوسرا جنم دیکھنا مراقبہ ہے۔‬

‫ٰ‬ ‫المصطفے کا غار حراء میں مراقبہ کرنا۔‬ ‫محمد‬ ‫ٰ‬ ‫المصطفے نوجوانی سے ہی تجارت کے پیشے سے منسلک ہوگئے۔ ان کے اخالق‪ ،‬کردار‬ ‫محمد‬ ‫الکبر نے اپنا تمام‬ ‫ٰ‬ ‫اور پیشہ ورانہ مہارت کی شہرت پر مکہ کی ایک مالدار بیوہ خاتون خدیجہ‬ ‫ٰ‬ ‫المصطفے کے سپرد کردیا۔ تھوڑے ہی عرصہ میں‬ ‫مال اسباب تجارت کی غرض سے محمد‬ ‫ٰ‬ ‫المصطفے سے شادی کا پیغام بھیجوا دیا اور یوں ‪25‬‬ ‫الکبری اتنی متاثر ہوئیں کہ محمد‬ ‫ٰ‬ ‫خدیجہ‬ ‫ٰ‬ ‫الکبری کی شادی ہوگئی جو ہر لحاظ سے انتہائی‬ ‫المصطفے اور ‪ 45‬سالہ خدیجہ‬ ‫سالہ محمد‬ ‫ٰ‬ ‫کامیاب شادی قرار دی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد روایتی‪ ،‬غیر روایتی تاریخ خاموش ہو جاتی‬ ‫ٰ‬ ‫المصطفے کو مکہ کے قریب غار حراء‬ ‫ہے یا کر دی جاتی ہے۔ چند سال بعد یہی تاریخ محمد‬ ‫مین مراقبہ کرتے ہوئے بتاتی ہے اور اسی مراقبے کے دوران وحی کا نزول ہوتا ہے اور پھر‬ ‫ٰ‬ ‫المصطفے تاجر نہیں ہے‪،‬‬ ‫وہ نبوت کا اعالن کر دیتے ہیں۔ غار حراء میں مراقبہ کر نیواال محمد‬ ‫نبوت کا اعالن کرنے واال محمد المصط ٰفے بھی تاجر نہیں ہے‪ ،‬تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چند‬ ‫ٰ‬ ‫المصطفے کی تجارت کہاں گئی؟ شادی اور وحی‬ ‫الکبری کی دولت اور محمد‬ ‫ٰ‬ ‫سالوں میں خدیجۃ‬ ‫کے درمیانی عرصہ کے بارے یہ تاریخ بالکل خاموش ہے۔ اس سے المحالہ یہی نتیجہ اخذ کیا‬ ‫ٰ‬ ‫المصطفے بھی اپنی ساری دولت و تجارت ترک‬ ‫جاسکتا ہے کہ دیگر کئی انبیاء کی طرح محمد‬ ‫کر کے تالش حق کے لیے مراقبہ میں مصروف ہوگئے ہونگے‪ ،‬تاہم ان کے اس فیصلہ میں ان‬


‫‪13‬‬

‫کی عزیزہ بیوی کی مکمل و بھر پور حمایت شامل ہوگی۔ یہ نتیجہ اخذ کرنے کی سب سے بڑی‬ ‫وجہ یہی ہے کہ شادی کے بعد تاریخ محمد المصط ٰفے کو جس طرح پیش کرتی ہے وہ دولت‬ ‫مند تاجر دکھائی نہیں دیتے۔ پہلی وحی کے بعد کی تاریخ ہر قسم کی روایات سے بھری پڑی‬ ‫ہے‪ ،‬اس کے باوجود ہجرت کے موقع پر بھی وہ خالی ہاتھ ہی نظر آتے ہیں۔‬

‫دو روایات‬ ‫مزہب اسالم کی تاریخ میں دو روایات کو خصوصی بلکہ بنیادی مقام حاصل ہے‪ ،‬ایک روایت‬ ‫پہلی وحی کے نزول کے حوالے سے ہے اور دوسری ''واقعہ معراج'' سے متعلق ہے۔ اگر یہ‬ ‫کہا جائے کہ مروجہ مزہب اسالم کی ساری عمارت انہی دو روایات پر استوار ہے تو شاید غلط‬ ‫نہ ہوگا۔ ان دونوں روایات کا بغور جائزہ لینے سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ان کی تخلیق کسی‬ ‫یہودی مجوسی ذہن کی اختراع ہے۔ پہلی روایت کے ذریعے آسمان‪ ،‬خدا‪ ،‬فرشتے‪ ،‬نبوت‪ ،‬وحی‬ ‫اور نزول سے متعلق اسالمی نظریات کو یہودی مجوسی روایات سے تبدیل کر دیا گیا۔ صرف‬ ‫ایک جھوٹی‪ ،‬گھڑت‪ ،‬اختراعی روایت نے دین اسالم کی بنیادیں تک ہال کر رکھ دیں۔ دوسری‬ ‫روایت نے عبادت کا مفہوم تک بدل دیا۔ اقرا باسم ربک الذی خلق (سورۃ العلق‪ )01 :‬کو پہلی‬ ‫وحی اور آیت قرار دیا جاتا ہے‪ ،‬مفسرین کے مطابق ''یہ سب سے پہلی وحی ہے جو نبی پر اس‬ ‫وقت آئی جب آپ غار حراء میں مصروف عبادت تھے۔ فرشتے نے آکر کہا‪ ،‬پڑھ‪ ،‬آپ نے‬ ‫فرمایا‪ ،‬میں تو پڑھا ہو ہی نہیں ہوں‪ ،‬فرشتے نے آپ کو پکڑ کر زور سے بھینچا اور کہا‪ ،‬پڑھ‪،‬‬ ‫آپ نے پھر وہی جواب دیا۔ اس طرح تین مرتبہ اس نے آپ کو بھینچا''۔ حوالہ حسب توقع معمول‬ ‫صحیح بخاری‪ ،‬ایسی اختراعات کی سب سے بڑی فیکٹری صحیح بخاری ہی ہے۔ ابھی پہلی‬ ‫وحی نازل نہیں ہوئی‪ ،‬پہلی آیت نہیں اتری‪ ،‬ابھی نبوت ملی نہیں‪ ،‬تو پھر مصروفیت کیا ہے؟‬ ‫عبادت کیسی ہے؟ مراقبہ کا لفظ لکھتے وقت مفسرین کے ہاتھ کانپنے لگتے ہیں‪،‬اسی لیے یہ‬ ‫بیچارے عبادت یا مصروف عبادت کے الفاظ سے کام چالتے ہیں۔ اس عبادت کی نوعیت پر‬ ‫اصرار کیا جائے تو انہیں مجبورا مراقبہ کا نام لینا پڑھتا ہے‪ ،‬اس لفظ کی ادائیگی ان لوگوں کے‬ ‫لیے شروع سے ہی مسئلہ رہی ہے۔ ایسے موقعوں پر انکے بلند بانگ گلے پست تنگی کا‬ ‫مظاہرہ کرنے لگتے ہیں۔ ان راویوں‪ ،‬محدثوں‪ ،‬مفسروں اور فقہاء کو باال آخر یہ ماننا پڑتا ہے‬ ‫ٰ‬ ‫المصطفے مراقبہ میں مصروف تھے اور اس مراقبہ کو‬ ‫کہ پہلی وحی کے نزول کے وقت محمد‬ ‫عبادت ہی قرار دیا جاتا ہے۔‬


‫‪14‬‬

‫نبی اور فرشتوں کی مروجہ تعریف‬ ‫تمام مزاہب کے چوغا پوش ٹھیکیدار جس قسم کا آسمان ہمارے سروں پہ تانے ہیں‪ ،‬اس قسم کے‬ ‫کسی آسمان کے کسی آسمان کا کہیں کوئی وجود نہیں۔ مولویوں نے وحی اور اس کے نزول کا‬ ‫جو عجیب و غریب اصول تراشا ہ ے‪ ،‬وہ انتہائی بھونڈا اور فضول ہے‪ ،‬حقیقت سے اس کا کوئی‬ ‫تعلق نہیں۔ جب اس طرح کا کوئی آسماں ہی نہیں‪ ،‬وحی کے نزول کا یہ صحیح بیاں ہی نہیں‪ ،‬تو‬ ‫پھر روایتی قسم کا فرشتہ کہاں سے آگیا؟ اسالم میں اس طرح کے فرشتے کا کوئی تصور نہیں۔‬ ‫البتہ سورج و آتش پرستوں میں سخت گیر فرشتوں کا تصور عام تھا۔ وہیں فرشتے کا یہ‬ ‫مخصوص کردار‪ ،‬رومنوں اور یہودیوں پہ ''نازل'' ہوا‪ ،‬جہاں سے یہ پھر عیسائیت میں سرائیت‬ ‫کر گیا۔ یونانی عقائد کے مطابق انکے بارہ اہم خدا (دیوتا) کوہ لمپس پہ رہتے تھے اور ان کا‬ ‫بادشاہ زیوس جو آسمانوں اور طوفانوں کو بھی کن ٹرول کرتا تھا۔ روم میں ویسٹا نامی دیوی کی‬ ‫پوجا کی جاتی تھی۔ ہر گھر اور ہر شہر میں اس کی ایک یادگار بنائی جاتی‪ ،‬روم میں ویسٹا‬ ‫دیوی کی یادگار کے آتشدان میں آگ مسلسل روشن رکھی جاتی تھی اور اس خدمت پر مامور‬ ‫چھ کنواری لڑکیوں کو ویسٹا ویرگنس کہا جاتا۔ فارسی دیوتا متھرا اور مصری دیوی عیسس بھی‬ ‫رومنوں میں بہت مقبول تھے اور پورے رومن ایمپائر میں ان کی بھی پوجا کی جاتی تھی۔‬ ‫یونانی اور رومی سپر نیچرل قوتوں پر بڑا اعتماد رکھتے تھے۔ مستقبل کی پیشن گوئی اور‬ ‫دیوتاؤں کو مرضی جاننے کے لیے مخلتف ٹونے ٹوٹکے بھی کئے جاتے۔ یونان میں ایسے‬ ‫ماہرین نجوم کو دیوی دیوتاؤ کا نمائندہ سمجھتے ہوئے ان کی گفتگو کالم دیوتا قرار دیا جاتا تھا۔‬ ‫یونانیوں اور رومنوں کا عقیدہ تھا کہ دیوی‪ ،‬دیوتا انہی پیشن گوئی کرنے والوں کے ذریعے ہی‬ ‫لوگوں تک اپنا پیغام پہنچاتے ہیں۔ یہی تصور آگے چل کر نبی کی مروجہ تعریف بن گیا اور‬ ‫سپر نیچرل قوتوں کو فرشتے بنا دیا گیا‪ .‬کانسٹنٹائن نے ‪325‬ء میں اس دور کی تمام خرافات کو‬ ‫نیقیۃ عقیدہ میں مجتمع کر کے عیسائیت کا نام دے دیا اور اس پر ایک نئے سرکاری مزہب کا‬ ‫ٹھپہ بھی لگا دیا۔ یہ مافوق الفطرت خرافاتی تصورات عباسی دور میں اسالم پر بھی مسلط کر‬ ‫دیئے گئے۔ مزہب اسالم میں نبی اور فرشتے کا مروجہ تصور انہی عناصر کی دین ہے‪ ،‬اس کا‬ ‫دین اسالم سے کوئی تعلق نہیں۔ دین اسالم کو مزہب اسالم بنانے میں فرشتے اور نبی کے اس‬ ‫عجیب و غریب تصور نے کلیدی کردار ادا کیا۔‬

‫واقعہ معراج کے وقوع پر راویوں کا شدید اخالف‬ ‫پہلی وحی اور معراج کو الگ الگ روایات سے الگ الگ واقعات بتایا جاتا ہے۔ مولوی معراج‬ ‫کو جس طرح واقعہ بنا کر پیش کرتے ہیں‪ ،‬اگر معراج اسی طرح کا واقعی کوئی حقیقی واقعہ‬ ‫ٰ‬ ‫المصطفے کی زندگی اور اسالمی تاریخ کا اہم ترین واقعہ بنتا اور اس‬ ‫تھا تو پھر وہ یقینا محمد‬ ‫اہم ترین واقعہ کی واقعاتی شہادتوں کے سلسلہ میں کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہونا چاہیئے تھا‬


‫‪15‬‬

‫لیکن حیرت انگیز حقیقت تو یہ ہے کہ اس ا ہم ترین واقعہ کے وقوع کی تاریخ پر راویوں‪،‬‬ ‫محدثوں‪ ،‬مفسروں اور فقہاء میں شدید اختالف تو سالوں پر محیط ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ‬ ‫ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے اور بعض اسے بعد از ہجرت قرار دیتے تھے‪ ،‬تاہم بعد ازاں‬ ‫پریشانیوں سے بچنے کے لیے اس کے قبل از ہجرت پر اتفاق کر لیا گیا لیکن اس سلسلے میں‬ ‫بھی کوئی تاریخی شواہد پیش کرنے کی زحمت گوارا نہ کی گئی‪ ،‬بس مان لیا گیا‪ ،‬اتفاق کر لیا‬ ‫گیا لیکن اس نام نہاد اتفاق کے باوجود بھی اختالف بر قرار رہا۔ اب ایک نیا مسئلہ پیدا ہو گیا‪،‬‬ ‫بعض کہتے ہیں کہ معراج کا واقعہ ہجرت سے ایک سال قبل ہوا جبکہ بعض کا اصرار ہے کہ‬ ‫یہ ہجرت سے کئی سال پہلے پیش آیا۔ مہینے اور تاریخوں کا اختالف بھی الگ سے اپنی جگہ‬ ‫قائم و دائم ہے۔ محمد المصط ٰفے کی زندگی اور اسالمی تاریخ کے سب سے اہم ''واقعہ'' کی‬ ‫شہادت کا یہ حال ہے تو پھر دیگر روایات کی حقیقت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ روایتی‬ ‫و غیر روایتی گرد و غبار کے باوجود ایک بات صاف عیاں ہے کہ محمد المصطفیے پہلی وحی‬ ‫کے نزول کے وقت مراقبہ میں تھے۔ مراقبہ کا ایک زینہ مرقَ َِا ہے کہ جسکا مطلب ''سیڑھی‬ ‫یا زینہ'' ہے‪ ،‬معراج کا مطلب بھی سیڑھی ہے معراج سے متعلق محمد المصط ٰفے کی ایک‬ ‫ع ِر َج دیی اِلَی ال َس َمآء یعنی مجھے آسمان پر لیجایا یا چڑھایا گیا‪ ،‬کا بڑا حوالہ دیا جاتا ہے۔‬ ‫حدیث ُ‬ ‫اس حدیث میں لفظ السمآء یا آسمان کو صحیح معنوں میں سمجھ لیا جائے تو ساری حقیقت خود‬ ‫بخود واضح ہو جاتی ہے۔‬

‫پہلی وحی اور واقعہ معراج‬ ‫معراج کا لفظ عرج سے ماخوذ ہے اور اس کا مطلب اٹھانا‪ ،‬لے جانا یا چڑھانا ہے۔ عروج کا‬ ‫لفظ بھی اسی سے بنا ہے اور یہ عرج بھی بلندی و آسمان کے معنوں میں ہی استعمال ہوتا ہے۔‬ ‫آسمان کہیں باہر نہیں‪ ،‬یہیں اندر ہے۔ عروج اونچائی پہ بہت دور نہیں‪ ،‬گہرائی میں بہت قریب‬ ‫ہے۔ اوپر چڑھنا اصل میں گہرائی میں اترنا ہے۔ یہ اندر ہی مرکز و محور ہے‪ ،‬یہ اندر ہی قلب‬ ‫و قرب ہے۔ اس سیڑھی پہ چڑھ کر اپنے قلب و قرب میں اتر کر ہی آسمان پہ چڑھا جا سکتا‬ ‫ہے۔ اپنے اندر اترنا ہی آسمان پہ چڑھنا ہے۔ آسمان پہ چڑھنا اصل میں اپنے اندر اترنا ہے۔‬ ‫مرقَ َِا مراقبہ کی سیڑھی ہے اور معراج عرج کا زینہ۔ یہ سیڑھی بھی عجیب زینہ ہے۔ انسان‬ ‫اس پہ چڑھتا اوپر ہے لیکن اترتا نیچے ہے‪ ،‬جاتا باہر ہے مگر آتا اندر ہے۔ ہر اوپر اصل میں‬ ‫عرج مراقبہ ہے اور مراقبہ‬ ‫اندر ہے۔ ان معنوں میں مراقبہ اور عرج ہم معنی ہو جاتے ہیں۔ ُ‬ ‫عرج۔ معراج اسی سیڑھی پہ چڑھ کر اپنے قلب میں اترنا ہے اور یہی قلب میں اترنا آسمان پہ‬ ‫ُ‬ ‫چڑھنا ہے۔ وحی اسی قلب پہ نازل ہوتی ہے۔ نازل ہونے کا مطلب ہی پھوٹنا ہے‪ ،‬اوپر سے‬ ‫نیچے اترنا اصل میں اندر سے باہر آنا ہے‪ ،‬پہلی وحی اور معراج دو مختلف واقعات نہیں بلکہ‬ ‫ایک ہی حالت کی کیفیت ہے‪ ،‬ایک ہی حقیقت کی وضاحت ہے۔ جعلساز راویوں نے حقیقت کو‬


‫‪16‬‬

‫خرافات میں بدلنے کے لیے قلبی کیفیات کو گھڑت واقعات میں بدل دیا۔ اسی لیے تو اسالمی‬ ‫تاریخ کے اہم ترین ''واقعہ'' کی تاریخ کا تعین آج تک درد سر بنا ہو ہے۔ صرف آسمان سے‬ ‫متعلق مروجہ تصور اگر ٹھیک کر لیا جائے تو ساری الجھنیں خود بخود درست ہوجاتی ہیں‬ ‫لیکن ایسا نہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ سارے مزہب کی تمام رونقیں اسی آسمان‬ ‫سے لگی ہیں‪ ،‬جنت‪ ،‬دوزخ اسی آسمان پہ سجی ہیں۔ آسمان کا تصور دھڑام ہوتے ہی سارے‬ ‫مزہاب زمین بوس ہوجائں گے۔ اسی آسمان کو دیکھنا مراقبہ ہے۔ عرج دیکھنا مراقبہ ہے‪ ،‬عروج‬ ‫دیکھنا مراقبہ ہے‪ ،‬معراج دیکھنا مراقبہ ہے۔‬

‫والطور‪ ،‬وکتاب مسطور فی رق منشور‬ ‫ٰ‬ ‫المصطفے مراقبہ میں تھے اور مراقبہ کا سادہ ترین مطلب دیکھنا‬ ‫پہلی وحی کے موقع پر محمد‬ ‫ہے۔ مراقبہ پہلے ہے اور اقراء بعد میں‪ ،‬اس لیے دیکھنا دکھانا پہلے دیکھا جانا چاہیئے اور‬ ‫ٰ‬ ‫المصطفے مراقبہ میں‬ ‫پڑھنا پڑھانا بعد میں پڑھانا چاہیئے۔ اقراء کے نزول کے وقت محمد‬ ‫ٰ‬ ‫المصطفے کیا دیکھ‬ ‫تھے‪ ،‬محمد المصط ٰفے دیکھ رہے تھے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محمد‬ ‫رہ ے تھے؟ انہوں نے ایسا کیا دیکھا کہ جسے پڑھنے پڑھانے‪ ،‬بتانے‪ ،‬سمجھانے‪ ،‬پہنچانے کے‬ ‫لیے اقراء کی پہلی آیت نازل ہوئی‪ ،‬پہلی وحی پھوٹی۔ اس کا جواب بھی قرآن نے ہی دے دیا‬ ‫ہے۔ والطور‪ ،‬وکتاب مسطور فی رق منشور (سورۃ الطور‪)03،01 :‬۔ قسم ہے طور کی‪ ،‬اور‬ ‫لکھی ہوئی کتاب کی‪ ،‬جو رق میں منشور ہے۔ ان آیات کا پہلے بھی حوالہ دیا جاچکا ہے اور‬ ‫لفظ رق منشور کے ترجمہ و تفسیر میں مولوی کے جمناسٹک کے مظاہرے بھی دیکھے‬ ‫جاچکے ہیں۔ رق کا مطلب ''پتلی جھلی'' اور منشور کا ''کھال ہوا شاہی فرمان'' کر دیا جاتا ہے۔‬ ‫اب یہ دو مطالب ساتھ لگا کر ہم ساری عمر لگے رہیں‪ ،‬چھوٹی سی آیت کا ترجمہ نہیں ہو پائے‬ ‫گا۔ نَشَر‪ ،‬نشر‪ ،‬انشر کا مطلب '' افشاں کرنا‪ ،‬ظاہر کرنا‪ ،‬پھیلنا‪ ،‬پھیالنا‪ ،‬پتے نکالنا‪ ،‬مردہ کرنا''‬ ‫ہے۔ نباء کا مطلب بھی یہی ہے یعنی ظاہر ہونا‪ ،‬پھلنا پھولنا۔ اسی لیے زمین سے اگنے والے ہر‬ ‫قسم کے سبزے کو نبات کہتے ہیں اور یہیں سے لفظ نباتات ہے اور نبوت کا ایک ماخذ بھی یہی‬ ‫لفظ نبات ہے۔ نبوت کا لغوی مطلب ہی ''درخت کی ٹہنی نکلنا'' ہے‪ ،‬پودے کو تنبیت اور اگنے‬ ‫کی جگہ کو منبت کہتے ہیں۔ بادل اٹھانے والی ہوائیں نشور کہالتی ہیں‪ ،‬ایسی ہوائیں جو پانی‬ ‫سے بوجھل ہوں‪ ،‬برسنے ہی والی ہوں‪ ،‬خالی ہونے کے قریب ہوں۔ اس حوالے سے منشور کا‬ ‫مطلب '' جو برس چکا ہو‪ ،‬خالی ہو چکا ہو‪ ،‬صفر ہو چکا ہو‪ ،‬زندہ ہو چکا ہو‪ ،‬پتے نکال چکا ہو‪،‬‬ ‫پھل پھول چکا ہو‪ِ ،‬کھل ُکھل چکا ہو‪ ،‬ظاہر ہو چکا ہو‪ ،‬بنتا ہے۔ شاہی فرمان کے ساتھ ساتھ کھال‬ ‫ہوا اسی مناسبت سے لگایا جاتا ہے۔ منشور کو سادہ ترین سطح پر مسطور کے معنوں میں بھی‬ ‫لیا جاتا ہے‪ ،‬لیا جاسکتا ہے کہ جس کا مطلب ''لکھ دیا گیا ہوا'' ہے‪ ،‬اسے مکتوب اور کتاب بھی‬ ‫کہتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اور سماجی تنظیمیں بھی لفظ نشور کا بے دریغ استعمال کرتی ہیں۔‬


‫‪17‬‬

‫اس حوالے سے منشور سے مراد ضا بطہ‪ ،‬الئحہ عمل یا ہدایت نامہ ہے۔ مفسرین ''کتاب‬ ‫مسطور'' کا ترجمہ لوح محفوظ بھی کرتے ہیں۔ لفظ منشور کی اس وضاحت کے بعد اب ہم اس‬ ‫آیت فی رق منشور کا مناسب ترجمہ کر سکتے ہیں یعنی جو رق میں نشر‪ ،‬ظاہر‪ ،‬افشاں کر دی‬ ‫گئی ہے‪ ،‬جو رق میں پھیال دی گئی ہے پھیلی ہوئی ہے‪ ،‬جو رق میں کھول دی گئی ہے‪ ،‬کھلی‬ ‫ہوئی ہے‪ ،‬جو رق سے پھوٹ رہی ہے نازل ہو رہی ہے اندر سے باہر آرہی ہے‪ ،‬جو رق میں‬ ‫زندہ کر دی گئی ہے‪ ،‬جو رق میں برسادی گئی ہے خالی کر دی گئی ہے‪ ،‬صفر کر دی گئی ہے‬ ‫یعنی جو رق پہ ساری کی ساری لکھ دی گئی ہے‪ ،‬الئحہ عمل بنادی گئی ہے‪ ،‬ہدایت نامہ بنا دی‬ ‫گئی ہے‪ ،‬منشور بنادی گئی ہے۔ یہ سب اسی کتاب مسطور ہی کا زکر ہے کہ جسے لوح‬ ‫محفوظ‪ ،‬ام الکتاب یا صرف کتاب بھی کہا جاتا ہے۔ سورۃ الطور کی پہلی تین آیتوں کا سادہ سا‬ ‫ترجمہ یوں ہو سکتا ہے ''قسم ہے طور کی اور اس کتاب مسطور لوح محفوظ‪ ،‬ام الکتاب کی کہ‬ ‫جو ساری کی ساری رق میں لکھ دی گئی ہے‪ ،‬ظاہر یا افشا کر دی گئی ہے‪ ،‬جو رق سے پھوٹ‬ ‫رہی ہے‪ ،‬جو رق سے نازل ہو رہی ہے'' ۔ مراقبہ کا اہم ترین ماخذ سورۃ طور کی اسی تیسری‬ ‫ٰ‬ ‫المصطفے نے اس لمحہ‬ ‫آیت کا یہی دوسرا لفظ رق ہے۔ یہی رق دیکھنا مراقبہ ہے اور محمد‬ ‫اسی رق کو دیکھا ۔ لفظ طور بھی اصل میں تجلی اور چمک ہی کا استعارہ ہے اور اسی کا‬ ‫وضاحتی اشارہ ہے۔ موسٰ ی نے کوہ طور پہ اپنی رق دیھی‪ ،‬اپنی کتاب پڑھی‪ ،‬مراقبہ کیا اور مثل‬ ‫موسٰ ی نے جبل نور میں اپنی رق دیکھی‪ ،‬لوح محفوظ پڑھی‪ ،‬مراقبہ کیا۔ برزخ‪ ،‬قرب‪ ،‬قلب‪،‬‬ ‫صلّٰی‪ ،‬مشہد‪ ،‬حال‪ ،‬درمیان‪ ،‬مرکز‪ ،‬محور‪ ،‬مقام اعتدال‪ ،‬نقطہ تبدل یہ سب اسی رق کے‬ ‫مسجد‪ُ ،‬م َ‬ ‫مخلتف اظہاریہ نام ہیں۔ اسی رق کا عام فہم‪ ،‬سادہ اور مختصر ترین نام قلب ہے اور اسی لیے‬ ‫کتاب اسی قلب میں ہوتی ہے‪ ،‬اسی قلب سے پھوٹتی ہے‪ ،‬اسی قلب میں ظاہر ہوتی ہے اور اسی‬ ‫ظاہر یونے اور پھوٹنے کو نازل ہو نا کہا جاتا ہے اور یہی سینہ کھلنا بھی کہالتا ہے۔ اسی قلب‬ ‫کو ظہور ہوتے دیکھنا مراقبہ ہے۔ اسی رق کو منشور ہوتے دیکھنا مراقبہ ہے۔ اسی کتاب کو‬ ‫مسطور ہوتے دیکھنا مراقبہ ہے۔ رق کے ہر اظہار کا ظہور دیکھنا مراقبہ ہے اور محمد‬ ‫ٰ‬ ‫المصطفے نے اس کتاب کی ہر سطر کو مسطور ہوتے دیکھا‪ ،‬اس رق کے ہر اظہار کو منشور‬ ‫ٰ‬ ‫المصطفے نے مراقبہ میں یہی لوح محفوظ دیکھی‪ ،‬ام الکتاب‪ ،‬اپنی کتاب‬ ‫ہوتے دیکھا۔ محمد‬ ‫دیکھی اور اپنی فائل کھولی۔ قدرتی فائل کھولنا‪ ،‬انسٹال یا ڈاؤن لوڈ کرنا مراقبہ ہے۔ ڈاؤن لوڈ‬ ‫میں بھی چیزں اندر سے ہی باہر آتی ہیں‪ ،‬باطن سے ظاہر ہوتی ہیں۔ اس انسٹالیشن یا ڈاؤنلوڈنگ‬ ‫ٰ‬ ‫المصطفے‬ ‫کو عربی میں نزول کہا جاتا ہے۔ باطن سے ظاہر ہونا نازل ہونا ہے۔ یہ کتاب محمد‬ ‫کے قلب میں تھی‪ ،‬جو قلب میں تھی‪ ،‬باطن میں تھی وہ کتاب تھی‪ ،‬ساری کی ساری کتاب تھی‪،‬‬ ‫ام الکتاب تھی اور جو لب پہ آئی‪ ،‬محمد المصط ٰفے نے ظاہر کی وہ قرآن ہے۔ قلب افشائی میں‬ ‫کتاب ہے‪ ،‬لب کشائی پہ قرآن ہے۔ یہی بات بتانا‪ ،‬سمجھانا‪ ،‬پہنچانا‪ ،‬پڑھانا یعنی یہی لب کشائی‬ ‫اقراء ہے۔ یہی بتانا‪ ،‬سمجھانا پہنچانا‪ ،‬پڑھانا اصل میں پھلنا پھولنا‪ ،‬خود کے درخت سے ٹہنیاں‬ ‫نکالنا‪ ،‬خود کے بیچ سے خودی کا پھول کھلنا‪ ،‬دی گر قلوب میں بیج بونا اور دوسروں کی زمین‬


‫‪18‬‬

‫میں پودا لگانا ہے۔ یہی پھلنا پھولنا‪ ،‬کھلنا اور بیج کا پھول بننا یعنی یہی قلب افشائی نبی ہونا ہے‬ ‫اور اسی باطنی حقیقت کا اظہار کرنا اور دوسروں کو خبردار کرنا نبوت کا اعالن کرنا ہے۔‬ ‫اقراء اسی قلب کشائی کی لب افشائی ہے‪ ،‬اسی قلب کا لب پہ آجانا‪ ،‬اسی قلب کا لب پہ آجانا‪،‬‬ ‫اسی قلب کا لب بن جانا اقراء ہے۔ اپنی کتاب کھلتے دیکھنا مراقبہ ہے‪ ،‬بیج کو پھول میں کھلتے‬ ‫دیکھنا مراقبہ ہے۔‬

‫عام آدمی اور نبی میں فرق‬ ‫عام آدمی اور نبی میں صرف یہی ایک فرق ہے۔ عام آدمی بند کتاب ہے‪ ،‬ملفوف بیج ہے جبکہ‬ ‫نبی کھلی کتاب اور ِکھال پھول ہے۔ جس طرح ہر بیج میں پتے‪ ،‬پودے ٹہنی‪ ،‬درخت‪ ،‬تنے‪ ،‬پھول‬ ‫اور پھل بننے کا پوٹیشنل ہوتا ہے‪ ،‬یہ ساری حالتیں مخفی حالت میں اس میں موجود ہوتی ہیں۔‬ ‫بیج کے باطن میں یہ سب کچھ ظاہر کرنے کی صالحیت ہوتی ہے۔ چھوٹے سے بیج کے باطن‬ ‫میں تنآ ور درخت چھپا ہوتا ہے۔ ایک بیج پورے کرہ ارض کو سرسبز و شاداب کرنے کی اہلیت‬ ‫رکھتا ہے بالک ل اسی طرح ہر انسان خدائی پوٹیشنل کا حامل ہے‪ ،‬پوری کائنات روشن کرنے کی‬ ‫صالحیت رکھتا ہے۔ بیج کا پھول بننا اس کے پوٹیشنل کا ایچوئل ہونا ہے۔ بیج پوٹینشل ہے اور‬ ‫پھول ایکچوئل۔ عام آدمی بیج ہے اور نبی پھول‪ ،‬عام آدمی خدائی کا پوٹیشنل ہے اور نبی خدائی‬ ‫کا ایکچوئل۔ عام آدمی ساری عمر پوٹیشنل رہتا ہے اور نبی ایک لمحہ میں ایکچوئل ہو جاتا ہے۔‬ ‫اس کائنات کی ہر چیز ہر لمحہ پوٹینشل سے ایکچوئل ہو رہی ہے‪ ،‬اسی کا نام ارتقاء ہے۔ کائنات‬ ‫اسی ارتق ائی عمل میں محو سفر ہے۔ حیوان اس ارتقائی سفر کی مادی انتہاء ہے۔ کائنات کی ہر‬ ‫چیز پوٹینشل حالت میں معرض وجود میں آئی اور پھر یہیں سے ترقی کر کے ایکچوئل ہوئی‪،‬‬ ‫یہ سلسلہ ارتقاء حیوان پر منتج ہوا۔ حیوان اسی سلسلہ ارتقاء کا ٰ‬ ‫اعلی ترین مقام ہے‪ ،‬اسی‬ ‫پوٹینشلٹی کی ا یکچوئلیٹی ہے۔ اسی لیے کائنات کی دیگر مخلوقات کے برعکس حیوان پوٹینشل‬ ‫کی بجائے ایکچوئل پیدا ہوتا ہے۔ ہر حیوان ایکچوئل ہے‪ ،‬وہ جیسا ہے بس ویسا ہی ہے۔ جیسا‬ ‫پیدا ہوتا ہے ویسے ہی مر جاتا ہے۔ حیوان کا مزید ارتقاء ممکن نہیں کیونکہ وہ پہلے ہی ارتقاء‬ ‫کے پہلے مرحلہ کے ٰ‬ ‫اعلی ترین مقام تک پہنچا ہوا ہے۔ انسان بھی فزیالوجیکلی‪ ،‬بیالوجیکلی‬ ‫ح ٰتی کہ سائیکا لوجیکلی بھی حیوان ہی ہے۔ حیوا ن اور انسان میں صرف ایک فرق ہے‪ ،‬حیوان‬ ‫ایکچوئلٹی جبکہ انسان پوٹینشلٹی میں پیدا ہوتا ہے۔ حیوان ایکچوئل ہے اور انسان پوٹینشل۔‬ ‫حیوان میں کوئی پوٹینش ل نہیں‪ ،‬وہ ایکچوئل ہی ایکچوئل ہے اور انسان میں کچھ ایکچوئل نہیں‪،‬‬ ‫وہ پوٹینشل ہی پوٹینشل ہے۔‬

‫جدید دور کا روبوٹک مشینی آدمی‬ ‫انسان کا جسم اس کی پرواز کی کے لیے محض رن وے اور اس کی اٹھان کے لیے الچنگ پیڈ‬


‫‪19‬‬

‫ہے‪ ،‬زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انسان کا جسم اسکے لیے ایک راکٹ ہے جو اسے‬ ‫اوپر اٹھانے کے لیے بھر پور اڑان فراہم کر سکتا ہے۔ اپنے پوٹینشل کو ایکچوئل کرنا ہر انسان‬ ‫کا اولین فریضہ ہے۔ قدرت کی طرف سے انسان پر اگر کوئی فرض یا قرض ہے تو وہ صرف‬ ‫یہی ہے۔ پوٹینشل کو ایکچوئل کرنا ہی ارتقاء ہے اور یہی انسانی ارتقاء ہے۔ ہر انسان کو یہ‬ ‫ارتقاء کا یہ مرحلہ طے کرنا پوتا ہے۔ اس اٹھان یا عرفان کے لیے کسی انسان کو جس وسائل‬ ‫کی ضرورت ہو سکتی ہے‪ ،‬قدرت نے اسے وہ سب ودیت کر دیئے ہیں۔ قدرت نے انسان کو‬ ‫بہترین الچنگ پیڈ‪ٰ ،‬‬ ‫اعلی ترین راکٹ اور عمدہ ترین ایندھن فراہم کر دیا ہے۔ اپنا ارتقاء ہر انسان‬ ‫کی اپنی زمہ داری ہے‪ ،‬اس سفر میں وہ بالکل اکیال اور تن تنہاں ہے۔ اٹھان کے سفر میں کوئی‬ ‫کسی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا‪ ،‬کوئی اس کی کچھ مدد نہیں کرسکتا‪ ،‬اس نے اپنا ارتقاء خود ہی‬ ‫کرنا ہے۔ انسانوں کی غالب اکثریت اپنے ہی بوجھ کے خوف کی غلط فہمی کا شکار ہے‪ ،‬انہوں‬ ‫نے اپنے پوٹینشل کو ایکچوئل کرنے کے بجائے اپنی پوٹینشل کو ہی ایکچوئل سمجھ لیا ہے‪،‬‬ ‫اسی لیے انسان خسارے میں ہے اور اس کا ارتقاء رک گیا ہے۔ پوٹینشل سطح پہ زندگی گزرانا‬ ‫حیوانی سطح پہ زندگی گزارنا ہے۔ پوٹینشل کو ایکچوئل سمجھ لینا حیوانی مقام سے بھی نیچے‬ ‫گر جانا ہے اور پوٹینشل کو ایکچوئل کر دینا وحدانی مقام سے بھی اوپر اٹھ جانا ہے۔ ہر‬ ‫پوٹینشل آدمی حیوان ہے اور ہر ایکچوئل انسان مومن یا بھگوان ہے۔ جدید دور کا روبوٹک‬ ‫مشینی آدمی حیوانوں سے بھی گزرا ہے‪ ،‬آج کے دور میں آدمی کا حیوان رہ جانا بھی نعمت‬ ‫ہے‪ ،‬کسی شخص ک ا حیوان بن جانا بھی غنیمت ہے کیونکہ اگر ترقی نہیں کی جاسکتی تو کم از‬ ‫کم مزید تنزلی سے تو بچا جاسکتا ہے۔ تاریخ میں محض چند انسان ہی اپنا ارتقاء کر پائے اور‬ ‫ٰ‬ ‫مصطفے‪ ،‬مسیحا‪ ،‬بدھا‪ ،‬کرشنا‪ ،‬بھگوان‪ ،‬مومن کہالئے۔ یہی پوٹینشل‬ ‫وہی نبی‪ ،‬ولی‪ ،‬صوفی‪،‬‬ ‫باطن اور غائب بھی کہ التا ہے اور اسی ایکچوئل کو ظاہر اور حاضر بھی کہا جاتا ہے۔‬

‫اپنا ارتقاء دیکھنا مراقبہ ہے۔‬ ‫مراقبہ کو جنم دینے واال ایک لفظ مراق ہے کہ جس کا مطلب ہی بطن ہے اور ہللا کا ایک نام‬ ‫باطن بھی بتایا جاتا ہے۔ اسی باطن کو ظاہر‪ ،‬غائب کو حاضر اور پوٹینشل کو ایکچوئیل ہوتے‬ ‫دیکھنا مراقبہ ہے۔ حیوان کو انسان بنتے دیکھنا مراقبہ ہے‪ ،‬انسان کو بھگوان ہوتے دیکھنا‬ ‫مراقبہ ہے۔ اپنا ارتقاء دیکھنا مراقبہ ہے۔ پوٹینشل کا ایکچوئیل ہونا دوبارہ جنم لینا ہے۔ بھگوان‬ ‫اسی نئے انسان کا نیا عنوان ہے۔ انسانی ارتقاء ہی کا دوسرا نام جنم ہے۔ مراقبہ کسی کو بھگوان‬ ‫بنا سکتا ہے‪ ،‬دوسرا جنم دال سکتا ہے‪ ،‬ارتقاء کراسکتا ہے تو پھر محمد المصط ٰفے نے باطن کو‬ ‫ٰ‬ ‫المصطفے نے اپنا‬ ‫ظاہر‪ ،‬غائب کو حاضر اور اپنے ہوٹینشل کو ایکچوئیل ہوتے دیکھا۔ محمد‬ ‫ارتقاء دیکھا۔ ارتقاء کا مطلب ہی '' ترقی کرنا‪ ،‬بلند‪ ،‬عروج پانا‪ ،‬خالص ہونا‪ ،‬چن لیا جانا'' ہے۔‬ ‫ٰ‬ ‫مصطفے کہالتا ہے۔ جو ارتقاء کسی بھی انسان کو بھگوان بنا‬ ‫ارتقاء کا یہی مطلب عربی میں‬ ‫ٰ‬ ‫المصطفے بنا دیا۔ ارتقاء کا یہی مرحلہ طے کرنا‬ ‫دیتا ہے‪ ،‬اسی ارتقاء نے محمد عربی کو محمد‬


‫‪20‬‬

‫عروج پانا ہے‪ ،‬معراج ہی جانا ہے۔ معراج اسی انسانی ارتقاء کا وضاحتی اصطالحی نام ہے۔‬ ‫پہلی وحی اور معراج دو الگ الگ واقعات نہیں بلکہ اس ایک ہی لمحہ مراقبہ کے انکشافات‬ ‫ٰ‬ ‫المصطفے کا احمد بننا اور احد کا بھی احمد ہوجانا اسی ایک لمحہ کی کرامات ہیں۔‬ ‫ہیں۔ محمد‬ ‫احد اور محمد کا احمد میں ایک ہوجانا مراقبہ ہے۔ دو کو ایک ہوتے دیکھنا مراقبہ ہے۔ احد اور‬ ‫وحد کا مطلب ہی ''ایک کر دینا'' ہے۔ محمد کا احمد بننا اصل میں ان کے پوٹیشل کا ایکچوئیل‬ ‫ہونا ہے۔‬ ‫ہندوؤں میں خدا کے لیے ایشور کا لفظ استعمال ہوتا ہے کہ جس کا مطلب ہی پوٹینشل کا‬ ‫ایکچوئل ہو جانا ہے یعنی جس کی پوٹینشلٹی اور ایکچوئیلٹی میں کوئی فرق نہ ہو‪ ،‬خود ہی خدا‬ ‫ہو‪ ،‬جو کہے وہ ہو جائے جسے عربی میں ُکن فَیَ ُکون کہتے ہیں۔ کرشنا کہتے تھے کہ جو کچھ‬ ‫میرے اندر (باطن) میں چھپا ہے‪ ،‬وہ سب کھلنے‪ ،‬افشا ہونے پر میں ایشور بن سکتا ہوں۔ اسی‬ ‫بات کو قرآن میں محمد المصط ٰفے کے حوالے سے الم نشرح لک صدرک (سورۃ الشرح ‪)01‬‬ ‫کیا ہم نے تمھارا سینہ کھول نہیں دیا'' سے واضح کیا گیا۔ بس اپنے اسی پوٹینشل کو یونہی‬ ‫ایکچوئیل ہوتے دیکھنا مراقبہ ہے۔‬

‫اب اور یہاں‬ ‫مراقبہ انسان کو اس کے قلب‪ ،‬مرکز‪ ،‬درمیان‪ ،‬حال میں پہنچاتا ہے۔ خواب و خیال ماضی و‬ ‫مستقبل سے آزاد ہو کر اپنے حال میں رہنا مراقبہ ہے‪ ،‬اب اور یہاں کا دوسرا نام مراقبہ ہے‪.‬‬ ‫انسان کے سوا اس کائنات کی ہر چیز ہر لمحہ مراقبے میں ہے‪ ،‬اسی لیے دین کی ہر تشریح‬ ‫میں مظاہر قدرت پر غور کی دعوت دی گئی۔ اس طرح کے غور کا مقصد کسی بھی چیز میں‬ ‫کھو جانا ہے اور کسی بھی چیز میں کھونے سے وہ چیز ہی کھو جاتی ہے کیونکہ ہم اس میں‬ ‫کھو کر اسکے ساتھ ایک ہو جاتے ہیں۔ اس غور و حوض کرنے کو عربی میں تفقہو کہا جاتا‬ ‫ہے کہ جسکا ماخذ فِقہ‪،‬فَقہ ہے اور اس فَقہ و فِقہ کا مطلب ''جاننا'' ہے۔ فقاء کا مطلب ''پھوٹنا‪،‬‬ ‫پھوڑنا‪ ،‬شگاف کرنا'' ہے۔ اس باریک جھلی کو فَ اق کہتے ہیں جو ماں کے پیٹ میں بچے کے‬ ‫گرد لپٹی ہوتی ہے اور پیدائش کے وقت پھٹ جاتی ہے‪ ،‬شفق کا لفظ بھی یہیں سے بنا ہے۔ علم‬ ‫کو بھی فقہ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ یہ اندر سے پھوٹتا ہے۔ ایمان کا مطلب بھی جاننا ہے اور‬ ‫ہر جاننا اصل میں اندر سے پھوٹنا اور دیکھنا ہے۔ ایمان کا ہی دوسرا نام مراقبہ ہے‪ ،‬فِقہ ہے۔‬ ‫چغہ پوشوں نے ایمان کو ''جاننا'' کی بجائے جب ماننا کے معنی پہنائے تو فقہ کا مطلب بھی‬ ‫جاننے کے بجائے ماننا ہو گیا‪ ،‬اسی لیے سارے نام نہاد فقہاء دیکھ کر کچھ جاننے کی بجائے‬ ‫ڈنڈا لے کر ماننے منوانے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ ان فقہاء نے اس لفظ فقہ کے غلط‬ ‫معنی اور ناجائز استعمال سے اپنے ساتھ ساتھ اس لفظ کی بھی اتنی مٹی پلید کر دی کہ اب اس‬ ‫کے استعمال میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ ایمان‪ ،‬فقہ‪ ،‬مراقبہ‪ ،‬جاننا‪ ،‬دیکھنا کا اصل‬


‫‪21‬‬

‫مقصد ایک ہونا ہے‪ ،‬ڈوئلٹی کا خاتمہ کرنا ہے‪ ،‬ڈوئلس کا انضمام و ادغام کرنا ہے۔ کسی بھی‬ ‫چیز کے ساتھ ایک ہو جانا ہی اسے جاننے کا واحد طریقہ ہے۔ مظاہر قدرت میں گم ہوجانا‪ ،‬ضم‬ ‫ہو جانا‪ ،‬کھو جانا‪ ،‬اصل میں خود کو پانے کا محرک بن جاتا ہے۔ بیرونی ڈوئلٹی کا خاتمہ‬ ‫اندرونی ڈوئلٹی کے خاتمے کو تحریک دیتا ہے‪ ،‬خارجی وحدت داخلی وحدت کا سبب بن جاتی‬ ‫ہے۔ اس کھو جانے میں انسان کا مائنڈ کھو جاتا ہے اور اسی لیے وہ ایک ہو جاتا ہے۔ ایسی‬ ‫صورت میں کوئی سوچ نہیں ہوتی کوئی خواب و خیال نہیں ہوتا‪ ،‬کوئی ماضی و مستقبل نہیں‬ ‫رہتا اور انسان حال میں پہنچ جاتا ہے‪ ،‬اپنے مرکز پہ آجاتا ہے‪ ،‬اپنے قلب میں پہنچ جاتا ہے۔‬

‫مراقبہ مائنڈ کو آف کرنے واال سوئچ ہے۔‬ ‫مائنڈ کا ایک ہونا اس کا آف ہونا ہے۔ مائنڈ کسی پرزم کی طرح کام کرتا ہے‪ ،‬اس میں سے‬ ‫گزرنے والی ہر چیز تقسیم ہو جاتی ہے‪ ،‬ہر چیز تقسیم کرتے کرتے یہ خود بھی منقسم ہو جاتا‬ ‫ہے۔ اس طرح کا تقسیم کار مائنڈ انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے‪ ،‬شیطان ایسے ہی مائنڈ کا‬ ‫استعارہ ہے۔ ایسا مائنڈ مسلسل مصروف عمل رہتا ہے۔ تقسیم کاری کے اس کام کی زیادتی اسے‬ ‫بھی پریشان‪ ،‬بے سکون اور نڈھال کر دیتی ہے‪ ،‬تھکا دیتی ہے اور ہمارے ساتھ اس کی دشمنی‬ ‫کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ دماغ کا فضول کام کرنا انسانی انرجی کا ضیاع ہے۔ مراقبہ مائنڈ کو‬ ‫آف کر دیتا ہے‪ ،‬دماغ اس دوران آرام کرتا ہے‪ ،‬سکون پاتا ہے‪ ،‬تروتازہ ہو جاتا ہے اور انسانی‬ ‫انرجی بھی اس دوران ضائع ہونے سے محفوظ رہتی ہے۔ ایسا دماغ انسان کا سب سے بہترین‬ ‫دوست ہے۔ یہی دماغ جو منقسم ہونے پر شیطان تھا‪ ،‬مستقیم ہونے پر رحمان بن جاتا ہے۔ منقسم‬ ‫حالت میں یہ مائنڈ کہالتا ہے لیکن واحد ہونے پر یہ دل بن جاتا ہے۔‬ ‫مراقبہ دماغ کے پرزم کو الٹا کر کے دل بنا دیتا ہے‪ ،‬پہلے اس میں سے گرزنے پر ہر ایک دو‬ ‫ہو جاتا تھا‪ ،‬اب ہر دو ایک ہو جاتے ہیں۔ پرزم کی شکل کے ساتھ ساتھ اس کا عمل بھی بدل گیا۔‬ ‫مراقبے می ں دماغ بھی دل کی طرح صاف شفاف‪ ،‬خالص اور ایک ہو جاتا ہے۔ دماغ کو دل‬ ‫کرنے کا نام مراقبہ ہے۔ دماغ کو دل بنانے واال عرف عام میں صوفی کہالتا ہے۔ اگلے مرحلے‬ ‫میں یہ دل و دماغ بھی الگ الگ نہیں رہتے‪ ،‬ان کا بھی ادغام ہو جاتا ہے۔ جس نقطے پہ دل و‬ ‫دماغ ایک ہو جاتیں ہیں ‪ ،‬وہ نقطہ قلب کہالتا ہے۔ اس مقام پہ کھڑا ہوا کوئی بھی انسان کچھ‬ ‫سوچتا نہیں‪ ،‬کسی سے مانگتا نہیں‪ ،‬بس جو کہتا ہے وہ ہو جاتا ہے۔ یہ کن فیکون کا مقام ہے‬ ‫اور اس مقام پہ کھڑا کوئی بھی انسان بھگوان ہے‪ ،‬اسی بھگوان کو عربی مین نبی‪ ،‬فارسی میں‬ ‫خداوند اور انگریزی مین ال رڈ اور ماسٹر کہتے ہیں۔ اس مقام سے کیا گیا ہر کالم کالم ہللا ہے۔‬ ‫مائنڈ کو آف ہوتے دیکھنا مراقبہ ہے‪ ،‬دماغ کو دل بنتے دیکھنا مراقبہ ہے‪ ،‬دل و دماغ کو قلب‬


‫‪22‬‬

‫ہوتے دیکھنا مراقبہ ہے۔‬

‫انسان کا قلب تاریک ہے یا روشن‬ ‫اپنے قلب میں اترنا مراقبہ ہے‪ ،‬اپنے اندر آنا مراقبہ ہے‪ ،‬سیڑھی کو مرقا کہتے ہیں۔ ہم اپنے‬ ‫قلب میں جانے سے گھبراتے ہیں‪ ،‬اپنے اندر آنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ وہاں گھپ اندھیرا ہے‪،‬‬ ‫ویرانہ ہے جیسے کسی گھر کو مدتوں مقفل رکھا جائے۔ ہم نے اپنے اپنے ہاتھوں سے اپنے قلب‬ ‫پہ قفل ڈالے ہوئے ہیں‪ ،‬اندر جانے کے سارے راستے خود ہی مسدود کئے ہوئے ہیں۔ جسے ہم‬ ‫گھٹا ٹوپ اندھیرا سمجھتے ہیں‪ ،‬ویرانی قرار دیتے ہیں‪ ،‬جس سے ہم ڈرتے ہیں‪ ،‬وہاں جانے‬ ‫سے گھبراتے ہیں‪ ،‬کیا واقعی وہ اندھیرا ہے؟ وہاں ویرانہ ہے؟ اس اندھیرے'' سے ڈرنے اور‬ ‫اس ویرانے سے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے؟ اس کائنات میں کوئی ایک بھی چیز‬ ‫ایسی نہیں کہ جس کا قلب تاریک ہو‪ ،‬جس کا اندر اندھیرا ہو۔ اپنے نظام شمسی کو دیکھ لیجئے‪،‬‬ ‫سورج اس کا قلب‪ ،‬اندر‪ ،‬آسمان‪ ،‬بھرپور روشن ہے۔ ہر ستارہ اپنے اپنے نظام کا جھلمالتا آسمان‬ ‫ہے‪ ،‬ہماری گلیکسی کا مرکز ان ستاروں سے بھی زیادہ روشن ہے۔ بڑے بڑے ستاروں کی‬ ‫طرح چھوٹی چھوٹی چیزوں کا قلب بھی روشن اور درخشاں آسمان ہے۔ کسی زرے کو بھی‬ ‫مائکرو سکوپ میں دیکھا جائے تو وہ بھی کرسٹل دکھائی دیتا ہے‪ ،‬تو پھر یہ کیسے ممکن ہے‬ ‫کہ انسان کا قلب تاریک ہو‪ ،‬اس کے اندر اندھیرا ہو اور اس کا آسمان ویران ہو؟ انسان کے قلب‬ ‫میں اترنے اور آسمان پہ چڑھنے سے قبل روشنی اور نور کا فرق سمجھنا ضروی ہے۔‬

‫روشنی اور نور میں فرق‬ ‫اندھیرے کا باطن روشن ہے‪ ،‬روشنی اندھیرے سے ہی جنم لیتی ہے۔ اندھیرے کے بغیر روشنی‬ ‫اور روشنی کے بغیر اندھیرے کی پہچان ممکن نہیں۔ روشنی خود نہیں دیکھتی بلکہ دکھاتی ہے۔‬ ‫روشنی کسی چیز سے ٹکرا کر ہماری آنکھوں میں اس کا عکس بناتی ہے اور ہمیں وہ چیز‬ ‫دکھاتی ہے۔ ہم روشنی کی روشنی میں دیکھتے ہیں‪ ،‬روشنی نہیں دیکھتے۔ اگر روشنی نہ ہو‪،‬‬ ‫عکس نہ بنائے تو سامنے بھی ہمیں دکھائی نہیں دے گی۔ اسی طرح اگر روشنی تو ہو لیکن‬ ‫ہمارے ارد گرد اسے منعکس کر ن یوانی کوئی چیز نہ ہو تو پھر بھی ہمیں کچھ دکھائی نہ دیگا‬ ‫اور کچھ دکھائی نہ دینا ہی اندھیرا کہالتا ہے‪ ،‬اس صورت میں روشنی ہونے کے باوجود بھی‬ ‫اندھیرا ہوگا۔ صرف چیزوں کو ہی نظر آنے کے لیے روشنی کی ضروت نہیں بلکہ روشنی کو‬ ‫دکھانے کے لیے چیزوں کی ضروت ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے محتاج ہیں‪ ،‬روشنی کے‬ ‫بغیر ہر چیز اندھی ہے اور کسی چیز کے بغیر روشنی اندھیرا ہے‪ ،‬دونوں ایک دوسرے کے‬


‫‪23‬‬

‫بغیر اندھے ہیں‪ ،‬اندھیرا ہیں۔ مثال ہم خالؤں میں اگر کسی ایسی جگہ پہنچ جائیں کہ جہاں‬ ‫ہمارے ارد گرد کچھ بھی نہ ہو‪ ،‬کوئی بھی چیز نہ ہو تو وہاں مکمل اندھیرا ہوگا‪ ،‬صرف اندھیرا‬ ‫ہوگا۔ اب اگر فرض کر لیں کہ ہمارے سامنے ایک بہت بڑا و بہت وسیع ستارہ ہے اور اس‬ ‫ستارے کے سوا وہاں کچھ بھی نہیں تو اس صورت میں بھی وہاں روشنی کے باوجود مکمل‬ ‫تاریکی ہوگی ح ٰت ی کہ ہمارے اور اس روشن ستارے کے درمیان بھی مکمل اندھیرا ہوگا‪ ،‬ہم‬ ‫ستارے سے جتنا قریب ہوجائیں‪ ،‬ہمارے درمیان کا اندھیرا ختم نہیں ہوگا۔ وہاں صرف دو چیزیں‬ ‫روشن ہونگی‪ ،‬ایک ستارہ اور دوسرے ہم۔ اگر کسی طرح سے ہم وہاں کوئی بالئنڈسپاٹ ڈھونڈ‬ ‫سکیں کہ جہاں ستارے کی رو شنی ہم پر نہ پڑے لیکن ہم ستارے کے ارد گرد کا ماحول دیکھ‬ ‫سکیں تو ہمیں وہاں کچھ بھی دکھائی نہیں دیگا۔ وہاں مکمل اندھیرا ہوگا حاالنکہ ستارہ روشن‬ ‫ہے‪ ،‬ہر طرف روشنی بھی ہے لیکن پھر بھی چہار سو اندھیرا ہے کیونکہ اس روشنی کو‬ ‫منعکس کر نیوالی کوئی چیز اوبجکٹ وہاں نہیں۔‬

‫روشنی کا منبع نور‬ ‫انسانی قلب میں اس کائنات کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ روشن ستارہ موجود ہے لیکن‬ ‫انسان کی سب سے بڑی بدنصیبی یہی ہے کہ وہ ایک ایسی بالئنڈ سپاٹ پہ کھڑا ہے کہ جہاں‬ ‫سے یہ ستارہ دکھائی نہیں دیتا‪ ،‬انسان نے خود کو ایسی جگہ چھپا لیا ہے کہ جہاں سے یہ ستارہ‬ ‫بھی چھپ گیا گیا ہے۔ قلب میں اس ستارے اور اس کی روشنی کے سوا کچھ بھی نہیں‪ ،‬کوئی‬ ‫نہیں۔ وہاں کچھ بھی نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں صرف گھپ انھیرا دکھائی دیتا ہے اوبجکٹ چیز‬ ‫اور ہم اسی اندھیرے سے گھبرا رہے ہیں اور کچھ بھی نہ ہونے کے خالی پن کو ویرانی قرار‬ ‫دے رہے ہیں۔ جسے ہم ان دھیرا سمجھ رہے ہیں وہ اندھیرا نہیں‪ ،‬بلکہ روشنی ہے اور روشنی‬ ‫دکھتی نہیں بالکہ صرف دکھاتی ہے اور روشنی کی موجودگی دیکھنے کے لیے دکھائی جانے‬ ‫والی کسی چیز کی موجودگی ضروری ہے ل یکن وہاں کچھ بھی نہ ہونے کی وجہ سے بے پناہ‬ ‫روشنی بھی گھٹا ٹوپ اندھیرا لگتی ہے۔ کوئی خارجی عنصر کسی قلب میں نہیں جا سکتا‪،‬‬ ‫انسانی قلب میں صرف انسان خود اتر سکتا ہے۔ اس کائنات کی ہر چیز ہر لمحہ اپنے قلب میں‬ ‫ہے‪ ،‬انسان بھی اپنے قلب میں ہے لیکن خود کو بالئنڈ سپاٹ میں ملفوف کر لینے کی وجہ سے‬ ‫قلب سے دوری کی غلط فہمی کا شکار ہے۔ انسان جونہی اس بالئنڈ سپاٹ سے باہر نکلتا ہے‪،‬‬ ‫ستارے کے سامنے‪ ،‬روشنی کی زد میں آجاتا ہے‪ ،‬روشن ہو جاتا ہے اور اسی روشن ہونے کو‬ ‫انالئیجمنٹ یا منور ہونا کہا جاتا ہے۔ ایسے روشن انسان کو صوفی کہا جاتا ہے۔ اس مقام اور‬ ‫اس حالت میں صرف دو ہی چیزیں روشن ہوتی ہیں‪ ،‬ایک ستارہ اور دوسرا وہ خود۔ ان دو‬ ‫روشن نقاط کے درمیان روشنی ہونے کے باوجود بھی اندھیرا دکھائی دیتا ہے۔ اگلے مرحلہ میں‬ ‫دو نقاط بھی ایک ہو جاتے ہیں اور ستارہ اپنے ہی محور کا بھنور بن جاتا ہے اور روشنی کا‬ ‫منبع نور کی سینگولرٹی ہو جاتا ہے۔ اس مرحلہ کی تفصیل بلیک ہول کے عنوان سے پیش کی‬


‫‪24‬‬

‫جا چکی ہے۔ اس بلیک ہول سے جو نیا ستارہ جنم لیتا ہے وہ نبی کہالتا ہے‪ ،‬اسی لیے انبیاء کو‬ ‫ستاروں سے تشبیہہ دی گئی۔ کسی نبی کی پیدائش پر ستاروں کا ظہور اسی وضاحت کا اظہار‬ ‫ہے‪ ،‬ایسا ستارہ نبی کا استعارہ ہ ے۔ روشنی کا سورس کہیں اور ہوتا ہے جبکہ نور خود منبع‬ ‫ہوتا ہے۔ روشنی دیکھتی نہیں صرف دکھاتی ہے‪ ،‬نور دیکھتا بھی ہے دکھاتا بھی ہے۔ روشنی‬ ‫اپنی موجودگی کے لیے کسی اوبجیکٹ کی محتاج ہے‪ ،‬نور خود ہی آوبجیکٹ ہے اور خود ہی‬ ‫سبجیکٹ ہے‪ ،‬وہ ثبوت پیش کرنے کا محتاج نہیں‪ ،‬اس ے کسی اوبجیٹک کی احیتاج نہیں‪ ،‬اسی‬ ‫لیے ارد گرد کوئی چیز نہ ہونے کے باوجود بھی ستارہ تو روشن ہی دکھائی دیتا ہے۔ صوفی‬ ‫روشن ہوتا ہے جبکہ نبی منور‪ ،‬صوفی خ ود روشن ہوتا ہے جبکہ نبی دوسروں کو روشن کرتا‬ ‫ہے۔ روشنی کی انتہاء و ارتقاء نور ہے۔ روشنی کی ہر کرن نور سے ہی پھوٹتی ہے‪ ،‬اسی لیے‬ ‫نور سب روشنی کا منبع ہے۔ سادہ الفاظ میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ جتنا نور ظاہر ہو‬ ‫جائے‪ ،‬بس اتنی روشنی ہے۔ ظاہری نور روشنی ہے اور باطنی روشنی نور۔‬

‫زمانہ قدیم کے آرٹسٹ‬ ‫رو شنی اور نور میں ایک اور فرق بھی غور طلب ہے۔ روشنی اندھیرے کے بغیر نہیں پہچانی‬ ‫جا سکتی اور اسی طرح اندھیرا بھی روشنی کے بغیر نہیں جانا جا سکتا۔ گوکہ اندھیرے کا اپنا‬ ‫کوئی وجود نہیں‪ ،‬یہ صرف روشنی کی موجودگی اور غیر موجودگی کا فرق ہے‪ ،‬روشنی کا‬ ‫عدم ہے اور یہی چیز روشنی اور اندھیرے کو ایک کا دوسرا کر دیتی ہے‪ ،‬ڈوئلس بنا دیتی ہے۔‬ ‫جہاں روشنی ہے وہاں اندھیرا نہیں اور جہاں اندھیرا ہے وہاں روشنی نہیں۔ یہی ڈوئلٹی روشنی‬ ‫کو اندھیرے کا محتاج بناتی اور پھر انہیں ایک دوسرے کا محتاج کرتی ہے۔ نور موجودگی اور‬ ‫غیر موجودگی کے فرق سے آزاد ہے‪ ،‬نور کا عدم وجود ہے اور وجود کا عدم نور‪ ،‬نور کا‬ ‫کوئی خ اص عدم نہیں‪ ،‬کہیں مخصوص وجود نہیں۔ نور عدم اور وجود کی بندشوں تک سے‬ ‫مبراء ہے‪ ،‬نور کا کوئی ڈوئل نہیں‪ ،‬وہ ہر ڈوئلٹی سے پاک ہے۔ جس نقطہ پہ روشنی اندھیرے‬ ‫کی ڈوئلٹی ختم ہوتی ہے‪ ،‬اسی نقطہ سے پھوٹنے والی یونٹی نور کہالتی ہے۔ ہر ڈوئلٹی بالکل‬ ‫اسی طرح تمام ڈوئلس کو اندھیرے اجالے کی صورت پیش کرتی ہے اور جس نقطہ پہ اس کی‬ ‫تمام ڈوئلٹیز ختم ہو جائیں‪ ،‬قرآن نے ایسے نقطہ کو ہی ہللا کا نام دیا اور اسے آسمانوں و زمین‬ ‫کا نور قرار دیتے ہوئے اس کی خوبصورت تمثیلی وضاحت بھی کر دی۔‬ ‫'' ہللا آسمانوں اور زمین کا نور ہے‪ ،‬اس کے نور کی مثال اس طاق کی مانند ہے کہ جس پر‬ ‫چراغ ہو اور وہ چراغ شیشے کی قندیل میں ہو اور شیشہ چمکتے ہوئے روشن ستارے کی‬ ‫طرح ہو‪ ،‬وہ چراغ ایک بابرکت درخت زیتون کے تیل سے جالیا جاتا ہو‪ ،‬جو درخت نہ مشرقی‬ ‫ہے نہ مغربی‪ ،‬خود وہ تیل قریب ہے کہ خود بخود ہی روشنی دینے لگے اگرچہ اسے آگ نہ‬ ‫بھی چھوئے‪ ،‬نور پر نور ہے‪ ،‬ہللا جسے چاہے اپنے نور کی طرف راہنمائی کرتا ہے''۔‬


‫‪25‬‬

‫( سورۃ نور‪)35:‬‬ ‫نور میں روشنی روشنی نہیں‪ ،‬اندھیرا اندھیرا نہیں‪ ،‬نور میں روشنی اور اندھیرے کا کوئی فرق‬ ‫نہیں۔ زمانہ قدیم کے آرٹسٹوں نے اسی لیے نور کو سیاہ و سفید کے امتزاجی یعنی دودھیاں‪،‬‬ ‫دھندلے یا گرے رنگ سے ظاہر کیا‪ ،‬گرے اصل میں بے رنگی کی عالمت ہےـ‬

‫قوت باصرہ کا اولین ادراک‬ ‫نور کا عمومی مطلب روشنی لیا جاتا ہے جو کہ نامکمل‪ ،‬تشنہ اور ادھورا ہے۔ اس لفظ کے‬ ‫بغور جائزے پر اس کا حقیقی مطلب و مقصد خود بخود ہی روشن ہو جاتا ہے۔ لغات میں نور کو‬ ‫روشنی کے عالوہ ایک خاص کیفیت بھی قرار دیا گیا ہے۔ نور اس کیفیت کا نام ہے جس کا‬ ‫قوت باصرہ اوالَ َِ ادراک کرتی ہے اور اسی کے واسطہ سے مبصرات کا ادراک کرتی ہے۔‬ ‫قوت باصرہ کا مطلب بینائی ہے‪ ،‬بصارت ہے یعنی دیکھنا ہے‪ ،‬محض آنکھیں نہیں اور ادراک‬ ‫کا مطلب ''جاننا'' ہے‪ ،‬صرف دیکھنا نہیں۔ گوکہ دیکھنا اور جاننا ہم معنی ہیں لیکن بعض اوقات‬ ‫مختلف الفاظ کی وضاحت کے لیے انہیں اکٹھا بھی لکھنا پڑھتا ہے‪ ،‬اس صورت میں ان کی‬ ‫ترتیب اس لفظ کو بہتر طور پر سمجھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔‬ ‫دیکھنے کو عربی میں بصارت اور جاننے کو بصیرت کہتے ہیں۔ قوت باصرہ دیکھنے سے‬ ‫بھی پہلے جسے جانتی ہے‪ ،‬بصارت سے بھی پہلے جس کا ادراک کرتی ہے‪ ،‬اس کیفیت کا نام‬ ‫نور ہے۔ قوت باصرہ کے اسی اولین ادراک کو بصیرت کہتے ہیں‪ ،‬بصارت کی حیثیت ثانوی‬ ‫ہے۔ دیگر مبصرات کا ادراک اسی بصیرت سے کیا جاتا ہے‪ ،‬انبیاء کے حوالے سے جس عالم‬ ‫الغیب کا تذکرہ کیا جاتا ہے‪ ،‬وہ اسی بصیرت سے مبصرات کے ادراک ہی کا دوسرا نام ہے۔‬ ‫بصیرت میں جان کر دیکھنا ہے اور بصارت میں دیکھ کر جاننا ہے۔ بصارت کا تعلق فزیکل‬ ‫آنکھوں اور بصیرت کا قلب سے ہے‪ ،‬درسرے الفاظ میں ان دو آنکھوں سے دیکھنا بصارت اور‬ ‫تیسری آنکھ سے دیکھنا بصیرت ہے۔ ایسے ہی قلب کے لیے دین کی ہندوستانی تشریحات میں‬ ‫تیسری آنکھ کی اصطالح اسی لیے استعمال کی گئی۔ بصیرت کی یہی کیفیت نور اور بصارت‬ ‫کی یہ حیثیت روشنی کہالتی ہے۔‬

‫نور اور نروان‬ ‫نور کا ایک اور لغوی مطلب ''وہ جو چیزوں کو ظاہر کر دے‪ ،‬نباتات کی خوشنمائی اور لمبائی''‬ ‫ہے۔ نبی کے معنوں کی تفصیل یہاں درج کرنے سے دونوں الفاظ اور ان کے باہمی تعلق کی‬ ‫بھرپور وضاحت ہو جاتی ہے۔ پھول کی کلی کو نَور اور نُ َّوار کہتے ہیں۔ ن َُوور‪ ،‬ن َ​َوار‪ ،‬نِوار کا مطلب‬


‫‪26‬‬

‫''ہر قسم کے شک و شبہ سے دوری'' ہے اور ان الفاظ کی جمع بھی نُور ہے۔ ہر قسم کا شک و شبہ‬ ‫اصل میں ہر قسم کی تقسیم و تفریق کا نتیجہ اور ڈوئلٹی کی عالمت ہے۔ نور ہر قسم کی ڈوئلٹی کے‬ ‫خاتمے کا خوبصورت ترین استعارہ ہے‪ ،‬آٹسٹوں نے اسی لیے اسے بے رنگی سے ظاہر کیا۔ اسی‬ ‫کیفیت کو گوتم بدھا نے نروان کا نام دیا تھا۔ نور اور نروان ایک ہی کیفیت کے دو مختلف زبانوں میں‬ ‫دو مختلف نام ہیں‪ ،‬دونوں کا مقصد ایک ہی ہے‪ ،‬دونوں ایک ہی کیفیت کی ایک سی وضاحت کرتے‬ ‫ہیں۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ ان دونوں الفاظ کا ہمیشہ سرسری جائزہ ہی لیا جاتا ہے‪ ،‬نور کا مطلب‬ ‫روشنی اور نروان کا مطلب نجات‪ ،‬عام طور پر اس روشنی اور نجات کی مزید وضاحت کم ہی پیش‬ ‫کی جاتی ہے۔ تھوڑی سی توجہ پر نور کا جو دوسرا وضاحتی مطلب فوری طور پر جو ذہن میں آتا‬ ‫ہے وہ گھپ اندھیرا ہے‪ ،‬نروان کا وضاحتی مطلب بھی گھٹا ٹوپ اندھیرا بنتا ہے۔ نروان کا اصل مطلب‬ ‫مکمل خاتمہ ہے کہ جسے ہم مکمل سرنڈر بھی کہہ سکتے ہیں‪ ،‬اس کی وضاحت کے لیے نروان کا‬ ‫ایک اور مطلب ''آخری چراغ تک بجھا دینا'' بھی بتایا جاتا ہے۔ آخری چراغ بجھانے کا اطالق دو‬ ‫حالتوں یا صورتوں پہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کا ایک مطلب تو یہی نکاال جا سکتا ہے۔ کہ صبح‬

‫ہونیوالی ہے‪ ،‬سورج نکلنے واال ہے‪ ،‬دوسرا مطلب رات کی تاریکی کو مزید تاریک کرنا ہے‪،‬‬ ‫تاریکی کی انتہاء کرنا ہے‪ ،‬اندھیرے کی اخیر دیکھنا‪ ،‬گھپ اندھیرا کرنا۔ دونوں حالتیں مختلف‬ ‫نظر آنے کے باوجود ایک ہی کیفیت کی وضاحت و عکاسی کرتی ہیں۔ اصل مقصد دن رات‪،‬‬ ‫اندھیرا اجاال اور سیاہ و سفید کی ڈوئلٹی کا خاتمہ سمجھانا ہے۔ پہلی حالت کی صورت میں اعلی‬ ‫الصبح رات رات نہیں رہتی اور ابھی دن دن نہیں ہوتا آخری چراغ تک کا بجھا دینا‪ ،‬دن رات‬ ‫کے دو سروں کے اسی مالپ کا اشارہ اور اسی نقطہ تبدل کا استعارہ ہے‪ ،‬دوسری صورت میں‬ ‫بھی یہی بتانا مقصود ہے کہ اندھیرے کی انتہاء سے ہی اجاال پھوٹتا ہے‪ ،‬تاریکی کے بطن سے‬ ‫ہی روشنی جنم لیتی ہے‪ ،‬رات کے قلب سے ہی دن نکلتا ہے۔‬ ‫اصل مقصد اس قلب کی وضاحت کرنا ہے۔ ہر چیز کے قلب میں سورج ہے‪ ،‬ستارہ ہے‪ ،‬چاہے‬ ‫وہ سیاہ رات ہی کیوں نہ ہو‪ ،‬گھپ اندھیرے اور گھٹا ٹوپ تاریکی کے سینے میں بھی اجالے کا‬ ‫دل ہے۔ ویسے بھی سیاہ اور سفید کوئی رنگ نہیں بلکہ رنگوں کی موجودگی و عدم موجودگی‬ ‫کا نشان ہیں۔ ہر سیاہ کے سینے میں‪ ،‬قلب‪ ،‬اندر‪ ،‬انتہاء اوپر‪ ،‬آسمان پہ سفیدی ہے اور ہر سفیدی‬ ‫کے دامن میں سیاہی ہے۔ الؤتزو ماڈل اسی روشنی و نور کے باہمی تبادلے کی خوبصورت‬ ‫وضاحت ہے۔ نور اور نروان صرف ڈوئلٹی اور اس کے خاتمے کی ہی وضاحت نہیں بلکہ‬ ‫آسمانوں کے مروجہ تصور کو بھی زمین بوس کر دیتے ہیں۔ عیسٰ ی ابن مریم کی طرح گوتم‬ ‫بدھا کے اس دوسرے جنم کے موقع پر بھی ستارے کا حوالہ و تزکرہ ملتا ہے۔‬ ‫نروان کی اس وضاحت کو قرآن نے ایک آیت میں یوں سمیٹ دیا‬ ‫واقیم الصلوۃ طرفی النہار و زلفامن الی۔ (سورۃ ھود‪ :‬آیت ‪)11‬‬ ‫صلوۃ قائم کرو دن کے دونوں سروں پر اور رات کئی ساعتوں میں بھی۔‬ ‫اور‬ ‫ٰ‬ ‫مفسرین نے زلف کا ترجمہ ساعتیں کر دیا حاالنکہ اس کا متعلقہ مطلب دن رات کے ملنے کے‬ ‫لمحہ یا ان کا نقطہ تبدل بنتا ہے اور لغات میں بھی اس کی یہی وضاحت موجود ہے۔ زلف کا‬


‫‪27‬‬

‫لغوی مطلب ''نزدیکی‪ ،‬درجہ‪ ،‬مرتبہ‪ ،‬رات کا ایک حصہ‪ ،‬بڑا پیالہ‪ ،‬رات دن ملنے کے اوقات''‬ ‫ہے۔ اس آیت کے پہلے اور دوسرے حصے میں ایک ہی بات کہی گئی ہے‪ ،‬پہلے حصے کی‬ ‫مزید وضاحت کے لیے ہی دوسرے حصہ میں زلف کالفظ استعمال ہوا تو پھر اس کا ترجمہ بھی‬ ‫پہلے حصہ کے حوالے سے ہی کیا جانا چاہیئے تھا۔ جب پہلے حصے میں دن کے دونوں‬ ‫سروں کے ملنے کی بات ہو رہی ہے تو پھر دوسرے حصے میں زلف کا مطلب صرف اور‬ ‫صرف دن رات ملنے کے اوقات ہی بنتا ہے لیکن مولویوں نے اپنی روایتی بدیانتی کا مظاہرہ‬ ‫کرتے ہوئے اس کی بجائے رات کا ایک حصہ یا کئی ساعتیں کردیا۔ اس موضوع پر تفصیلی‬ ‫صلوۃ یا نماز'' میں پیش کی جائیگی۔‬ ‫بحث اگلے سلسلہ '' ٰ‬

‫صلوۃ نُور تک پہنچنے کا راستہ ہے۔‬ ‫ٰ‬ ‫صلوۃ نور تک‬ ‫جس طرح دھیانا یا جھانا نراوان تک پہنچنے کا طریقہ ہیں بالکل اسی طرح‬ ‫ٰ‬ ‫صلوۃ بھی ایک‬ ‫پہنچنے کا راستہ ہے۔ نور اور نروان کی ایک جیسی منزل کی طرح دھیان اور‬ ‫ٰ‬ ‫جیسے راستے ہیں۔ اسی دھیانا یا جھانا کو ہی عربی میں مراقبہ اور فقہ کہا گیا‪ ،‬اسی مراقبہ و‬ ‫صلوۃ کے ترجمہ و تفسیر میں تبدیلی نے دین‬ ‫فقہ کا اسالمی نام‬ ‫صلوۃ ہے۔ صرف اس ایک لفظ ٰ‬ ‫ٰ‬ ‫اسالم کو مزہب اسالم بنانے میں سب سے اہم کردار ادا کیا۔ دین کی ہر تشریح میں مراقبہ کو‬ ‫بنیادی و اصولی عبادت کا درجہ حاصل رہا۔ ذرے سے لیکر ستارے تک پر مراقبہ کے لفظ کا‬ ‫اطالق ہو سکتا ہے‪ ،‬اس کی تفصیل جتنی طویل ہے‪ ،‬وضاحت بھی اتنی ہی عریض ہے۔ اسی‬ ‫لیے مختلف زمانوں میں مختلف انبیاء نے لوگوں کی ضرورت و استطاعت کے مطابق مراقبے‬ ‫کے مختلف طریقہ کار وضع کئے جن کا اصل مقصد لوگوں کو اس کے قلب تک پہنچنے اور‬ ‫نیا انسان بننے میں مدد فراہم کرنا تھا۔ سقراط نے کہا تھا کہ ماسٹر (نبی‪ ،‬بھگوان) ایک مڈوائف‬ ‫کی طرح ہوتا ہے۔ ہر انسان کا پہال فزیکل جنم ماں کے بطن سے ہوتا ہے تو دوسرا جنم اس‬ ‫کے اپنے باطن سے ہوتا ہے‪ ،‬اس کیس میں زچہ بھی وہ خود ہوتا ہے اور بچہ بھی وہ وہی ہوتا‬ ‫ہے اور اپنی پیدائش کی دردزہ بھی اسے کود ہی برداشت کرنا پڑھتی ہے۔ ہر انسان کے لیے یہ‬ ‫پہلی موت اور دوسرا جنم ضروری ہے۔ انسان کا پہال فزیکل جنم حیوانی ہوتا ہے‪ ،‬پہلی موت‬ ‫اسی حیوان کی موت ہے‪ ،‬دوسرا جنم انسان کا جنم ہے۔ حیوانی سطح کے اس شخص کو ہی‬ ‫نفس کہا جاتا ہے اور انسان بننے کے لیے ہر ایسے نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا پڑھتا ہے۔ اس‬ ‫نفسانفسی کے حیوان کی موت سے ہی مطمئن انسان پیدا ہوتا ہے۔ اور پھر یہی نفس نفس مطمئنہ‬ ‫کہالتا ہے۔ نبی یا ماسٹر چونکہ ان راستوں سے گزر چکے ہوتے ہیں لہذا وہ صرف نشاندھی‬ ‫کرتے ہیں‪ ،‬اس راستے پر چلنا ہر انسان کو خود ہی پڑھتا ہے‪ ،‬یہ ذائقہ چکھنا ہر انسان کو خود‬ ‫پڑھتا ہے۔‬ ‫مراقبہ کے مختلف طریقے اصل میں ان راستوں پہ چلنے اور یہ ذائقہ چکھنے کے تربیتی‬


‫‪28‬‬

‫پروگرام تھے اور اس مقصد کے لیے ماحول‪ ،‬معاشرے اور لوگوں کی ضروریات کے مطابق‬ ‫سچویشن پیدا کی جاتی تھی‪ ،‬مثالَ َِ ہندوستان میں مردوں کو جالنے کے رواج کے پیش نظر‬ ‫ماسٹر یا گرو یا بھگوان حضرات نے جو طریقہ وضع کیا اس کے مطابق نئے سنیاسنوں کو بھی‬ ‫مردوں کی طرح نہالیا جاتا‪ ،‬ان کے سر مونڈھ دیئے جاتے اور انہیں ارتھی پہ لٹا کر نیچے‬ ‫سے لکڑیوں کو آگ لگا دی جاتی‪ ،‬جونہی آگ بھرکنے لگتی‪ ،‬شعلے بلند ہونے لگتے انہیں‬ ‫نیچے اتار لیا جاتا اور انہیں بتایا جاتا کہ ان کا ماضی اور پرانا آدمی ان شعلوں میں جل کر‬ ‫راکھ ہو گیا ہے‪ ،‬مر گیا ہے‪ ،‬آج ان کا یوم پیدائش ہے‪ ،‬نیا جنم ہے۔ اس موقع پر اس عالمتی نئے‬ ‫انسان کو نئی پہچان کے لیے نام بھی نیا دیا جاتا۔ یہ طریقہ کار محض عالمتی تھا اصل مقصد‬ ‫لوگوں کو ڈوئلٹی کی پریکٹیکل حقیقت بتانا اور نقطہ تبدل سمجھانا تھا تاکہ یہ خارجی تجربہ ان‬ ‫کے داخلی مشاہدہ کا محرک بن جائے۔ ہر طریقہ کار کی طرح یہ ٹکنیک بھی بعد ازاں محض‬ ‫ایک رسم بن کر رہ گئی۔‬ ‫مشرقی ممالک میں شادی بیاہ کی رسومات میں بھی اس رسم کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔‬ ‫شادی کو لڑکی کی دوسری زندگی کا آغاز کہا جاتا ہے‪ ،‬اس موقع پر لڑکی کو دلہن بنانے کی‬ ‫تیاری مردہ دفنانے کی تیاری کے مترادف ہے‪ ،‬ایک سے دوسرے گھر کا سفر آخرت سے‬ ‫مشابہہ ہے اور خاص طور پہ چند دہائیاں قبل تک اس بیچاری کو جس طرح ڈولی میں چار‬ ‫کندھوں پہ سوار لے جایا جاتا تھا‪ ،‬وہ ڈولی نہیں جنازہ معلوم ہوتی ہے۔ اس موقع پر دلہن کے‬ ‫قریب عزیز و اقارب کا رونا دھونا بھی اسے شادی کم اور مگر زیادہ ثابت کرتا ہے۔ اس نئی‬ ‫زندگی کی ساتھ ہی اس کا خاندانی نام بھی تبدیل ہو جاتا ہے اور عالمت کے طور پر اسے اپنے‬ ‫نام کے ساتھ شوہر کا نام بھی نتھی کرنا پڑھتا ہے اور صرف ایک سال میں اس بیچاری کی‬ ‫گزشتہ زندگی کا ہر نام ونشان مٹ جاتا ہے اور وہ صرف مناے کی اماں بن کر رہ جاتی ہے‪ ،‬نام‬ ‫کی بجائے نیا نمبر الٹ کیا جاتا ہے‪ ،‬یہ عہدے اور رینک اسی نمبر کے سر نام ہیں‪ ،‬سرنامے‬ ‫ہیں۔ ملٹری ٹریننگ کا واحد مقصد انسان کی موت اور مشین کا جنم ہے۔ مشین سوچتی نہیں‪،‬‬ ‫سوال نہیں کرتی‪ ،‬صرف بٹن دبانے پہ ہر مطلوبہ کام کرتی ہے۔ نیا نمبر‪ ،‬نیاحلیہ‪ ،‬نئی یونیفارم‬ ‫ایک نئی شخصیت بنا دیتے ہیں۔ ہر فوجی محض ایک نمبر رہ جاتا ہے۔ مشین بن جاتا ہے۔‬ ‫فائر۔۔۔۔۔ یس سر۔۔۔۔ ٹھاہ ٹھاہ ٹھاہ ٹھاہ۔‬

‫مراقبہ شعور کا جنم ہے‬

‫۔‬

‫مراقبہ نائیولوجیکل مشین و حیوان کو انسان بناتا ہے اور انسان کو بھگوان‪ ,‬ماسٹر‪ ،‬خداوند‪ ،‬الرڈ‬ ‫بناتا ہے۔ مراقبہ حال‪ ،‬درمیان‪ ،‬محور‪ ،‬قلب میں پہنچنے کا طریقہ ہے‪ ،‬راستہ ہے اور ہر فالح‪،‬‬ ‫نجات‪ ،‬جنت‪ ،‬نروان‪ ،‬موکشا‪ ،‬آسمان کی بادشاہی اسی قلب میں ہے۔ مراقبہ اپنے قلب میں اتر کر‬ ‫آسمانوں پہ چڑھنے کی سیڑھی ہے۔ مراقبہ زمان ومکان کی قید سے آزاد کر کے اب اور یہاں‬ ‫کے المکانی مقام اور الزمانی لمحہ میں پہنچاتا ہے۔ مراقبہ معاشرے کی پڑھی ہوئی ہر پٹی‬


‫‪29‬‬

‫بھالنے اور آنکھوں پہ بندھی پر پٹی اتارنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ مراقبہ انسان کی ڈی‬ ‫پروگرامنگ کرتا ہے‪ ،‬اسے خالی کرتا ہے‪ ،‬ا امی بناتا ہے‪ ،‬صفر کرتا ہے‪ ،‬خالص بناتا ہے‪،‬‬ ‫انسان کو آزادی دیتا ہے۔ پیروکارانہ خصلت کے پیش نظر کوئی مزہبی آدمی مراقبہ نہیں کر‬ ‫سکتا لیکن ہر آدمی مراقبہ کر کے دینی ضرور بن سکتا ہے۔ مراقبہ مائنڈ کی موت ہے‪ ،‬شعور‬ ‫کا جنم ہے۔ مظاہر قدرت میں کھونا اصل مین اسی مائنڈ کو مارنے اور شعور کو پانے کا ایک‬ ‫طریقہ ہے اور اسی طریقے کا ایک نام مراقبہ ہے۔ مراقبہ کر نیواال کبھی جنت میں نہیں جاتا‬ ‫بلکل جنت ہمیشہ اس میں آتی ہے‪ ،‬وہ جنت کے قریب نہیں جاتا بلکہ جنت اس کے قریب کر دی‬ ‫جاتی ہے‪ ،‬وہ جنت میں نہیں رہتا بلکہ جنت اس میں بستی ہے۔‬ ‫اسی جنت کو عیسٰ ی ابن مریم نے آسمان کی بادشاہی کہا‪ ،‬اسی جنت کو سنسکرت میں سمادھی‪،‬‬ ‫چینی میں تاؤ اور جاپانی میں ستوری کہا گیا۔ مراقبہ پہلی موت مرنے کا فن ہے‪ ،‬دوسرا جنم‬ ‫لینے کا ہنر ہے‪ ،‬تیسری آنکھ کھولنے کا آرٹ ہے۔ اپنے وجود کا عدم اور عدم کا وجود ڈھونڈنا‬ ‫مراقبہ ہے۔ مراقبہ خود سے آگاہ کراتا ہے اور جو خود کو جانتا ہے صرف وہی خدا کو پہچانتا‬ ‫ہے‪ ،‬جو خود کا سامنا کر سکتا ہے‪ ،‬صرف وہی خدا سے مالقات کر سکتا ہے‪ ،‬مراقبہ وہ آئینہ‬ ‫ہے جو خون اور خدا کا آمنا سامنا کراتا ہے۔‬

‫خودی کا عرفان‬ ‫مراقبہ انسان کی تصنع و بناوٹ ختم کر کے اسے قدرتی و فطری بناتا ہے‪ ،‬قدرت سے ہم آہنگ‬ ‫ہونا‪ ،‬قانون قدرت یا قانون جبر کے تحت آنا مراقبہ ہے۔ قدرتی و فطرتی انسان ایک بنسری کی‬ ‫طرح ہو جاتا ہے‪ ،‬اندر سے بالکل خالی‪ ،‬صاف‪ ،‬شفاف‪ ،‬خالص‪ ،‬صفر۔ ایسا انسان خود کو قدرت‬ ‫کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیتا ہے‪ ،‬فطرت کے ہاتھوں میں آجاتا ہے‪ ،‬پھر قدرت جو سر نکالنا‬ ‫چاہے‪ ،‬فطرت جو گیت سنانا چاہے‪ ،‬انسان وہی سر سنگیت پیش کرتا ہے۔ اصل مقصد خدا کو‬ ‫پہچاننا نہیں بلکہ خود کو جاننا ہے‪ ،‬خدا کو پانا نہیں بلکہ خود کو کھونا ہے۔ خود کو جاننے واال‬ ‫خود بخود ہی خدا کو پہچان لیتا ہے‪ ،‬خود کو کھونے واال خود بخود ہی خدا کو پا لیتا ہے۔ خود‬ ‫کو خالی کر نیواال خود بخود خدا سے بھر جاتا ہے‪ ،‬خود کو خالی کرنا خود کو خدا سے بھرنا‬ ‫ہے۔ اسیے بیت المعمور اور قلب المخمور انسان کی پھر اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی‪ ،‬وہ اپنی‬ ‫مرضی سے کچھ نہیں دیکھتا‪ ،‬کچھ نہیں کہتا۔ ایسے انسان کا کچھ بھی دیکھنا عین ہللا ہو جاتا‬ ‫ہے‪ ،‬کچھ بھی کرنا ید ہللا کہالتا ہے اور کچھ بھی بولنا کالم ہللا بن جاتا ہے۔ ایسا انسان نبی‪،‬‬ ‫رسول‪ ،‬پیغمبر‪ ،‬خداوند‪ ،‬الرڈ‪ ،‬بھگوان کہالتا ہے۔‬ ‫مراقبہ انسان کو مکمل کرتا ہے‪ ،‬انسانیت کے ساتھ اس کی تکمیل کرتا ہے‪ ،‬ہر قسم کی ڈوئلٹی‬ ‫خاک کرتا ہے‪ ،‬یونٹی کا ادراک کرتا ہے۔ خدا کا ادراک آخود کو پاک کر کے ہی کیا جا سکتا‬ ‫ہے اور یہ کیفیت صرف جنت‪ ،‬سمادھی‪ ،‬تاؤ اور ستوری کی حالت میں ہی محسوس کی‬


‫‪30‬‬

‫جاسکتی ہے۔ مراقبہ ہر دو کو ایک کرتے کرتے باآلخر انسان کو بھی ایک کر دیتا ہے‪ ،‬پاک‪،‬‬ ‫صاف‪ ،‬خالص‪ ،‬نیک کر دیتا ہے۔ مراقبہ انسان کو اصلی کرتا ہے‪ ،‬حقیقی بناتا ہے۔ انسان جونہی‬ ‫حقیقی بنتا ہے‪ ،‬اس کے ارد گرد کی مادی دنیا نقلی‪ ،‬جعلی‪ ،‬مصنوعی‪ ،‬خواب و خیال‪ ،‬سراب یا‬ ‫مایا بن جاتی ہے۔ یہ دنیا صرف ایسے حقیقی لوگوں کے لیے مایا ہے‪ ،‬مصنوعی لوگوں کے‬ ‫لیے حقیقی ہے با الفاظ دیگر یہ دنیا افراد کے لیے مایا ہے جبکہ اشخاص کے لیے مشخص ہے۔‬ ‫اس دنیا کو مایا‪ ،‬سراب‪ ،‬نقلی‪ ،‬مصنوعی کہنے کا حق صرف اسے حاصل ہے جو اصلی و‬ ‫حقیقی ہو۔ ہمارے تشخص نے ہی ہمیں مشخص کیا ہوا ہے‪ ،‬شخص بنایا ہوا ہے‪ ،‬ہماری حدود‬ ‫متعین کی ہوئی ہیں‪ ،‬ہمیں محدود کیا ہوا ہے۔ یہی تشخص اور حد بندی انسان کا واحد جرم یا‬ ‫گناہ ہے۔ مراقبہ اسی جرم کا اعتراف کراتا ہے‪ ،‬یہی گناہ معاف کراتا ہے۔ تشخص کے یہی‬ ‫پردے پھاڑنا مراقبہ ہے‪ ،‬حدود کی یہی دیواریں گرانا مراقبہ ہے۔ اتنی لمبی چوڑی تفصیل پلک‬ ‫جھپکنے میں جاننا مراقبہ ہے‪ ،‬ایک لمحہ میں دیکھنا مراقبہ ہے۔‬

‫کچھوے اور مچھلی کی دلچسپ کہانی‬ ‫آئینہ سے بہت قربت پر اپنے عکس کا پتہ نہیں چلتا‪ ،‬جیسے اسی قربت کی وجہ سے صحت مند‬ ‫انسان کو اپنے اعضاء کی فکر نہیں ہوتی‪ ،‬مچھلی کو پانی کی خبر نہیں ہوتی۔ اپنا عکس‬ ‫دیکھنے کے لیے آئینے سے تھوڑا دور ہونا پڑھتا ہے‪ ،‬کسی عضو کا پتہ صرف تکلیف کی‬ ‫صورت میں چلتا ہے‪ ،‬مچھلی کو پانی کا اندازہ باہر نکلنے پر ہی ہوتا ہے۔‬ ‫ایک مچھلی کی کچھوے سے دوستی ہوگئی۔ کافی دن غیر حاضری کی شکایت پر کچھوی نے‬ ‫مچھلی کو بتایا کہ وہ زمین پر گیا ہوا تھا۔ مچھلی بولی ''سیدھی طرح کیوں نہیں کہتے کہ تم‬ ‫پاتال میں گئے ہوئے تھے۔ کچھوے نے کہا نہیں میں پاتال میں نہیں بلکہ زمین پہ گیا تھا۔‬ ‫خشکی پہ گیا تھا جہاں مٹی ہے‪ ،‬ریت ہے‪ ،‬درخت ہیں‪ ،‬پہاڑ ہیں۔ اب مچھلی کو غصہ آگیا اور‬ ‫وہ کچھوے کو دھکیلتے ہوئے پاتال میں لے گئی اور بھناتے ہوئے بولی یہ پاتال ہی تو ہے‪،‬‬ ‫دیکھو یہاں مٹی ہے‪ ،‬ریت ہے‪ ،‬پودے ہیں‪ ،‬بس تم انہی پودوں کو درخت کہہ رہے ہو اور یہ‬ ‫خشکی کیا بال ہے؟ یہ لفظ تم نے کہاں سے سنا؟ ذرا مجھے بھی تو بتاؤ۔ کچھوا بوال تم ٹھیک‬ ‫کہتی ہو‪ ،‬یہ پاتال بھی زمین ہی ہے لیکن جس زمین پہ میں گیا‪ ،‬جس خشکی کی میں بات کر رہا‬ ‫ہوں‪ ،‬وہ یہ نہیں ہے‪ ،‬وہ یہاں نہیں ہے بلکہ اس سمندر سے باہر ہے‪ ،‬پانی سے اوپر ہے۔ مچھلی‬ ‫بھڑکی یہ سمندر کہاں ہے؟ اور یہ پانی کیا ہے کہ جس کے اوپر بھی کوئی زمین ہے؟ کچھوے‬ ‫نے بتایا کہ جہاں تم رہ رہی ہو‪ ،‬یہ سمندر ہے اور جس میں تم تیر رہی ہو ‪ ،‬یہ پانی ہے‪ ،‬اس‬ ‫سے باہر بھی ایک دنیا ہے‪ ،‬جہاں نیلگوں آسمان ہے‪ ،‬جس میں بادل تیرتے ہیں‪ ،‬بارش برساتے‬ ‫ہیں‪ ،‬جہاں دن ہوتا ہے‪ ،‬رات ہوتی ہے‪ ،‬دن میں سورج چمکتا ہے‪ ،‬رات کو ستارے جھلمالتے‬ ‫ہیں‪ ،‬زمین پہ ہوائیں چلتی ہیں‪ ،‬پرندے اڑتے ہیں‪ ،‬انواع و اقسام کے جانور بستے ہیں‪ ،‬ان میں‬


‫‪31‬‬

‫سے ایک کا نام آدمی ہے۔ اب مچھلی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تم پاگل ہو‪ ،‬دیوانے ہو‪،‬‬ ‫مجنون ہو‪ ،‬سٹھیا گئے ہو‪ ،‬میرے آباؤ اجداد یہیں پیدا ہوئے‪ ،‬یہیں مرگئے‪ ،‬انہوں نے اس پوری‬ ‫دنیا کی سیر کی‪ ،‬تو پھر انہوں نے کبھی تمھاری مزکورہ زمین اور خشکی کیوں نہ دیکھی؟‬ ‫انہوں نے کبھی سمندر اور پانی کا ذکر تک نہ کیا۔ بس یہی ہماری دنیا ہے‪ ،‬یہی پوری کائنات‬ ‫ہے‪ ،‬اس سے باہر کچھ بھی نہیں‪ ،‬اس کے اوپر کچھ نہیں۔ کوئی سمندر نہیں‪ ،‬کہیں پانی نہیں۔ تم‬ ‫کسی اور کو بے وقوف بنانا‪ ،‬اپنی افالطونی کسی اور پہ جھاڑنا۔ کچھوا اپنی رفتار کی طرح‬ ‫گفتار میں بھی تحمل مزاج تھا‪ ،‬بوال میں تم سے سچ کہتا ہوں‪ ،‬اس پانی سے باہر ایک اور دنیا‬ ‫ہے‪ ،‬میرا دل چاہتا ہے کہ تمھیں اپنی پیٹھ پہ بٹھا کر وہاں لے جاؤں تاکہ تم اپنی آنکھوں سے‬ ‫دیکھ سکو‪ ،‬لیکن۔۔۔۔ لیکن بدقسمتی سے تم وہاں نہیں جا سکتی‪ ،‬پانی سے باہر تم مرجاؤ گی‪ ،‬اس‬ ‫دنیا میں ایک پل بھی نہیں گزار پاؤگی۔ مچھلی نے قہقہہ لگایا بس ثابت ہو گیا کہ تم جھوٹے ہو‪،‬‬ ‫اسی لیے مجھے وہاں لیجانے سے ڈرا رہے ہو اور یہ انوکھی منطق بنا رہے ہو‪ ،‬بھال یہ کیسے‬ ‫ممکن ہے کہ تم جہاں کئی دن گزار آئے ہو‪ ،‬میں وہاں ایک پل نہیں گزار سکتی‪ ،‬تم اتنے دنوں‬ ‫میں اگر نہیں مرے تو میں ایک پل میں کیسے مرجاؤگی۔ کچھوا بوال میرا یقین کرو‪ ،‬میں غلط‬ ‫نہیں کہہ رہا‪ ،‬تم وہاں زندہ نہیں رہ سکتیں۔ مچھلی اسے اپنی توہین سمجھی اور بولی مجھے‬ ‫تمھاری کسی بات کا یقین نہیں‪ ،‬اگر تم سچے ہو تو مجھے وہاں لے چلو‪ ،‬اگر ایسی بات ہے تو‬ ‫میں وہاں ضرور جاؤنگی۔ کچھوا بوال اس تجسس میں تمھاری جان بھی جاسکتی ہے‪ ،‬کیا تم پھر‬ ‫بھی جاننا چاہوگی؟ پرواہ نہیں۔ مچھلی تیار ہوگئی اور کچھوے پر سوار ہوگئی۔ کچھوا جونہی‬ ‫سطح سمندر کے قریب آیا‪ ،‬پانی سے سر باہر نکالتے ہی مچھلی کی آنکھیں ہی نہیں منہ بھی‬ ‫کھلے کا کھال رہ گیا‪ ،‬تڑپ کر بولی تم ٹھیک کہتے تھے‪ ،‬میں نے دیکھ لیا‪ ،‬جان لیا‪ ،‬پہچان لیا‪،‬‬ ‫میری جان نکل رہی ہے‪ ،‬سانسیں اکھڑ رہی ہیں‪ ،‬مجھے واپس سمندر میں لے چلو‪ ،‬پانی میں لے‬ ‫چلو۔ کچھوے کو مستی سوجھی کوئی سمندر نہیں‪ ،‬کہیں پانی نہیں‪ ،‬تو پھر میں تمہیں کہاں لے‬ ‫جاؤں کیسے لے جاؤں؟ اور اپنا رخ نیچے کی طرف کر لیا۔ پانی میں اوسان بحال ہوتے ہی‬ ‫َ‬ ‫مچھلی نے اٹھکھیلیاں شروع کر دیں‪ ،‬ساری مچھلیاں اکھٹی ہو گئیں اور اس کی اس بے وجہ‬ ‫خوشی کی وجہ پوچھنے پر وہ بولی ہم سمندر میں رہتے ہیں‪ ،‬پانی میں تیرتے ہیں‪ ،‬یہ پانی‬ ‫ہماری زندگی ہے‪ ،‬ہمیں شکر کرنا چاہیئے‪ ،‬ہر لمحہ جشن منانا چاہیئے۔ ساری مچھلیاں اسے‬ ‫دیوانی پگلی قرار دیتے ہوئے دائیں بائیں ہوگئیں۔‬ ‫‪:‬مورل‬ ‫جس طرح مچھلی سمندر میں رہتے ہوئے پانی سے بے خبر ہے بالکل اسی طرح آدمی بھی‬ ‫ربوبیت میں رہتے ہوئے رب سے بے خبر ہے‪ ،‬کیونکہ کبھی اس سے الگ ہی نہیں ہوا۔ ربوبیت‬ ‫و رحمانیت قرب کی طرح ہے‪ ،‬یہ انسان سمیت کائنات کی ہر چیز کی کوکھ ہے‪ ،‬ہللا اسی لیے‬ ‫رب ہے‪ ،‬رحمان ہے اور اسی حوالے سے رقیب ہے۔ جس طرح زندگی کو جاننے کے لیے‬ ‫زندگی سے دور ہونا یعنی موت کا ذائقہ چکھنا ضروری ہے بالکل اسی طرح خود کو جاننے‬


‫‪32‬‬

‫کے لیے ایک دفعہ خود سے دور جانا ضروری ہے‪ ،‬رب کو پہچاننے کے لیے ایک دفعہ‬ ‫ربوبیت سے نکلنے کی ضرورت ہے۔ اسی قرب یا کوکھ سے نکلنا‪ ،‬رقیب کو پہچاننا مراقبہ‬ ‫ہے‪ ،‬مراقبہ انسان کو ایک لمحہ خود سے دور کر دیتا ہے‪ ،‬ربوبیت سے الگ کر دیتا ہے اور‬ ‫ٹھیک اسی لمحہ وہ سب جان لیتا ہے‪ ،‬رب پہچان لیتا ہے۔ کسی نفس کو موت کا ذائقہ چکھانا‬ ‫بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے کسی مچھلی کو لمحہ بھر کے لیے پانی سے باہر نکالنا۔ انبیاء و‬ ‫صوفیاء نے طالبان حق کی مدد کے لیے اس سلسلے میں مختلف طریقہ کار اختیار کئے‪ ،‬مثال‬ ‫ٰ‬ ‫یحیی نَبِی لوگوں کو موت کا ذائقہ چکھانے اور اس حالت میں النے کے لیے پانی میں ڈبکی‬ ‫دیتے تھے‪ ،‬جسے بپتسمہ کہا جاتا ہے۔ مراقبے کو اسی لیے موت بھی کہا جاتا ہے‪ ،‬اسی‬ ‫ٰ‬ ‫المصطفی‬ ‫مراقبے میں پہلی موت ہے‪ ،‬اسی مراقبے سے دوسرا جنم ہے۔ اسی تفصیل کو محمد‬ ‫نے محض چار الفاظ ال الہ اال ہللا میں سمیٹ دیا۔ ال الہ موت کا ذائقہ ہے‪ ،‬اال ہللا زندگی کا مزہ‬ ‫ہے۔ ال الہ پہلی موت ہے‪ ،‬اال ہللا دوسرا جنم ہے۔ مراقبہ انسان کو موت کا ذائقہ چکھاتا ہے‪،‬‬ ‫زندگی کا مزہ بتاتا ہے۔ موت کا ذائقہ چکھنے کی اسی گھڑی میں زندگی کا مزہ جاننے کا لمحہ‬ ‫ہے۔ اسی گھڑی میں لمحہ ہے‪ ،‬اسی گھڑی میں مزہ ہے اور یہی مرنا حقیقی جینا ہے۔ اس موت‬ ‫کا ذائقہ چکھنے واال ہی زندگی کا مزہ جانتا ہے‪ ،‬اسی لیے ہر گھڑی شاد مان ہوتا ہے‪ ،‬ہر لمحہ‬ ‫جا وداں ہوتا ہے۔‬

‫عشق اور مراقبہ‬ ‫تمام انبیاء و صوفیاء نے ماحول‪ ،‬معاشرے اور لوگوں ضرورت و استطاعت کے مطابق مراقبہ‬ ‫کی حالت میں پہنچانے کے لیے مختلف طریقہ کار متعارف کرائے۔ اس حالت میں انسان ایک‬ ‫لمحہ کے لیے ہر قسم کی ڈوئلٹی سے آزاد ہو جاتا ہے اور پہلی بار وہ اپنا سامنا کرتا ہے‪ ،‬خود‬ ‫سے مالقات کرتا ہے۔ اس حالت‪ ،‬لمحہ یا نقطہ تک پہنچنے کو ہی مراقبہ کہتے ہیں اور مراقبہ‬ ‫بس اتنا ہی کام کرتا ہے‪ ،‬یہاں تک پہنچاتا ہے۔ کسی نبی کا اہم کام انسان کو صرف اس حالت‪،‬‬ ‫مقام‪ ،‬لمحہ یا نقطہ تک پہنچنے میں مدد فراہم کرنا ہے‪ ،‬باقی ساری منازل خود بخود طے ہوتی‬ ‫جاتی ہیں‪ ،‬باقی سب وہ خود کر لیتا ہے۔ جس نبی نے بھی مراقبہ کی سچویشن پیدا کرنے کے‬ ‫لیے جو بھی ٹیکنیک وضع کی اسے اس ماحول اور معاشرے کے مطابق اسی زبان میں ایک‬ ‫مخصوص نام بھی دیا۔ گوتم بدھا نے نروان کے حصول کے لیے ایک اور ٹیکنیک وضع کی‬ ‫اسے اس ماحول اور معاشرے کے مطابق اسی زبان میں ایک مخصوص نام بھی دیا۔ گوتم بدھا‬ ‫نے نروان کے حصول کے لیے ایک اور ٹیکنیک بھی متعارف کرائی جسے ویپسنا کہتے ہیں‪،‬‬ ‫ویپسنا میں آنکھیں بند کر کے اپنی سانسوں کی آمد و رفت کا بغور جائزہ لیا جاتا ہے۔‬ ‫ہندوستان سمیت مشرقی ایشیاء میں انبیاء و صوفیاء کے جتنے بھی مجسمے بنائے جاتے ہیں ان‬ ‫سب میں ایک بات مشترک نظر آتی ہے‪ ،‬متعقلہ افراد کو اخثر بتیس سالہ کلین شیو نوجوان‬


‫‪33‬‬

‫دکھایا جاتا ہے مثالَ َِ دنیا میں سب سے زیادہ مجسمے گوتم بدھا کے ہیں اور گوتم بدھا نے ‪80‬‬ ‫سال سے کچھ اوپر عمر پائی لیکن ہر مجسمہ میں گوتم بدھا کو نوجوان ہی بنایا جاتا ہے‪ ،‬آج‬ ‫تک کسی مجسمہ میں بدھا کو ‪ 80‬سالہ بوڑھا نہیں دکھایا گیا۔ ہر مجسمہ کلین شیو بنانے کا‬ ‫مقصد ان انبیاء و صوفیاء کو عورت مرد کی ڈوئلٹی سے بھی آزاد دکھانا ہے۔ ان مجسموں کی‬ ‫ایک اور بات مشترکہ غور طلب بات یہ ہے کہ ان کی آنکھیں بھی آدھی کھلی اور آدھی بند‬ ‫عموم َِا نشیلی یا سر میلی آنکھیں کہا جاتا ہے۔ اس طرح کی‬ ‫دکھائی جاتی ہیں‪ ،‬ایسی آنکھوں کو‬ ‫َ‬ ‫آنکھیں غ ِشی یا ٹرانس یا مراقبے کی حالت کی نشاندھی کرتی ہیں۔ اسالمی روایات میں اہل جنت‬ ‫کا نقشہ کچھ ایسا ہی کھینچا گیا ہے۔ اہل بہشت کی داڑھی مونچھیں نہ ہونگی‪ ،‬ان کی آنکھیں سر‬ ‫میلی ہونگی اور وہ جنت میں تیس یا تینتیس سالہ نوجوان بن کر جائینگے۔ قدیم یونانی آرٹسٹ‬ ‫مراقبے کی اس ٹرانس حالت کو سفید آنکھوں سے ظاہر کرتے تھے‪ ،‬اسی لیے یونانی مجسموں‬ ‫میں آنکھوں کا درمیانی سیاہ حصہ نہیں بنایا جاتا تھا۔‬ ‫صوفیاء َغ ِشی‪ ،‬ٹرانس یا مراقبہ کی یہی حالت سمجھنے کو عشق کا نام بھی دیا۔ عشق کا عمومی‬ ‫شقَہ سے لیا گیا ہے‬ ‫مطلب محبت کی زیادتی یا بے پناہ محبت ہے۔ عربی میں یہ لفظ َع ِشقَہ و َع َ‬ ‫کہ جسکا مطلب ''محبت میں حد سے بڑھ جانا‪ ،‬چمٹنا'' ہے۔ محبت میں حد سے بڑھ جانے کی‬ ‫اصل وضاحت ایک ہوجانا ہے اور اسی لیے آکاس بیل کو عربی میں کہتے ہی عشقہ ہیں۔ آکاش‬ ‫بیل سے عشق کو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ اسی َغ ِشی یا ٹرانس‪ ،‬مراقبہ کی حالت کی‬ ‫وضاحت کے لیے ہی صوفیاء نے پریمیوں کے قصے بیان کئے۔ دو پریمی وقت مالقات جب‬ ‫ایک ہوتے ہیں‪ ،‬ٹھیک اس لمحہ اس پر َغ ِشی یا ٹرانس کی جو کیفیت طاری ہوتی ہے‪ ،‬یہی‬ ‫کیفیت عشق ہے‪ ،‬یہی حالت مراقبہ ہے۔ دوپریمی اس لمحہ میں سمٹتے ہی پوری کائنات میں‬ ‫پھیل جاتے ہیں‪ ،‬پوری کائنات ان میں سمٹ جاتی ہے۔ اسی لمحہ میں انکی ڈوئلٹی کی موت ہے‪،‬‬ ‫اسی لمحہ ان کی یونٹی کا جنم ہے۔ دوپریمی ایک ہوتے ہی نیک ہو جاتے ہیں‪ ،‬یہی ان کی تسبیح‬ ‫ہے‪ ،‬یہی ان کی حمد ہے‪ ،‬یہی انکا سجدہ ہے‪ ،‬یہی انکا قیام ہے‪ ،‬یہی انکی عبادت ہے‪ ،‬یہی ان‬ ‫صلوۃ ہے‪ ،‬یہی ان کی منزل ہے‪ ،‬یہی ان کا راستہ ہے۔ یہی عشق ہے‪ ،‬یہی مراقبہ ہے۔ عشق‬ ‫کی‬ ‫ٰ‬ ‫اور مراقبہ کی منزل بس یہی لمحہ ہے۔‬ ‫انسان جونہی اپنا مائنڈ آف کرتا ہے‪ ،‬دل و دماغ سے ہر قسم کا گرد و غبار صاف کرتا ہے۔‬ ‫کوئی بھی سوچ نہ ہونے کی وجہ سے وہ ٹرانس کی حالت میں پہنچ جاتا ہے۔ کسی قسم کا مادی‬ ‫کثافتی گرد و غبار نہ ہونے کی وجہ سے اسے بالکل صاف دکھائی دینے لگتا ہے اور اس کے‬ ‫سارے منقطع روحانی رابطے بحال ہو جاتے ہیں اور دوبارہ رابطہ قائم ہو جاتا ہے‪ ،‬قدرت سے‬ ‫براہ راست منسلک ہوجاتا ہے۔ اس پر حقیقت منکشف ہو جاتی ہے‪ ،‬حقیقت منکشف ہونے کا‬ ‫مطلب یہی ہے کہ چیزیں جیسی ہیں‪ ،‬کسی کمی بیشی کے بغیر ہمیں بالکل ویسی دکھائی دیتی‬ ‫ٰ‬ ‫المصطفے سے ایک دعا بھی منسوب ہے کہ یا ہللا ہمیں چیزوں کو‬ ‫ہیں۔ اس حوالے سے محمد‬ ‫ویسے ہی دکھا‪ ،‬جیسی کہ وہ ہیں۔ مراقبہ یا ٹرانس کی اس حالت میں پہنچتے ہی ڈوئلٹی کی‬


‫‪34‬‬

‫حالت غیر ہونے لگتی ہے اور ڈوئلس خود بخود ہی یونٹ بننے کا چین پراسس شروع کر دیتے‬ ‫ہیں۔ َغ ِشی یا ٹرانس کی اس حالت کا ہم روزانہ سونے سے تھوڑا پہلے اور اٹھنے کے فورا َ َِ‬ ‫بعد مشاہدہ کرتے ہیں کہ جب ہم نہ ہی مکمل نیند میں ہوتے ہیں اور نہ ہی پورے بیدار ہوتے‬ ‫ہیں۔ ان دونوں قدرتی حالتوں میں ہر انسان فطری معصوم ہوتا ہے ہے۔ مراقبہ کا مقصد اسی‬ ‫قدرتی حالت میں پہنچانا ہے‪ ،‬فطری معصومیت خود بخود آجاتی ہے۔ مراقبے کی یہی حالت قائم‬ ‫کرنا صالۃ قائم کرنا کہالتا ہے اور مراقبے کی انہی حالتوں کو صبح شام کے عنوان سے بھی‬ ‫واضح کیا جاتا ہے۔‬ ‫کسی نبی یا صوفی کی عدم موجودگی میں ہر انسان مراقبے کی اس حالت میں پہنچنے کے لیے‬ ‫اپنی ٹیکنیک خود بھی وضع کر سکتا ہے‪ ،‬اصل مقصد اپنے مرکز تک پہنچنا پے۔ مثالَ َِ موالنا‬ ‫روم نے اپنے مرکز تک پہنچنے کے لیے گھومنے کا طریقہ دریافت کیا اور اپنے مراقبے کے‬ ‫لیے یہی استعمال کیا۔ اس طریقہ کار کی خوبی یہ بتائی گئی کہ اس دوران آدمی کا پورا جسم‬ ‫دماغ سمیت گھومتا ہے اور جو چیز نہیں گھومتی وہی اس کا مرکز ہے کیونکہ مرکز ہر حالت‬ ‫میں مرکوز رہتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ موالنا روم ایک دفعہ مسلسل ‪ 36‬گھنٹے گھومنے کے بعد‬ ‫گر پڑے اور اٹھتے ہی ہنسنے لگے‪ ،‬پوچھنے پر بتایا کہ جس طرح تم لوگوں نے مجھے گرتے‬ ‫ہوئے دیکھا ہے‪ ،‬میں نے بھی خود کو اسی طرح گرتے دیکھا ہے‪ ،‬اب مجھے خدا کی تالش‬ ‫میں مکہ جانے کی ضرورت نہیں۔ صالۃ خود کو خالص کرنے‪ ،‬کثافت کی ہر رکاوٹ دور‬ ‫کرنے‪ ،‬قدرتی و فطری ہونے اور اپنے مرکز تک پہنچنے کا ایک طریقہ ہے‪ ،‬عشق کا ایک‬ ‫قرینہ ہے‪ ،‬مراقبے کا ایک انداز ہے جو ہر انسان کے لیے مختلف بھی ہو سکتا ہے‪ ،‬جیسے اس‬ ‫کائنات کی ہر چیز ہر لمحہ مراقبے میں ہے‪ ،‬ہر لمحہ اس لمحہ میں ہے‪ ،‬اب اور یہاں ہے‪،‬‬ ‫کیفیت عشق میں ہے‪ ،‬حالت صالۃ میں ہے‪ ،‬اسی اب اور یہا ہونا مراقبہ میں ہونا ہے‪ ،‬اور اسی‬ ‫ناؤ ہیئر کو اردو میں اب کہا جاتا ہے۔ رب اسی اب میں ہے‪ ،‬یہ اب اسی رب میں ہے۔ سورج‬ ‫‪،‬چاند‪ ،‬ستارے‪ ،‬پہاڑ‪ ،‬درخت‪ ،‬پرندے‪ ،‬حمد‪ ،‬ذکر‪ ،‬تسبیح‪ ،‬سجود میں ہیں‪ ،‬اسی لیے معصوم‬ ‫کہالتے ہیں۔ دین کی ہر تشریح کو مزہب کا مزار بنانے والوں نے مراقبے کا مقبرہ بنا کر صالۃ‬ ‫کی بھی نماز پڑھادی۔‬

‫صلوۃ کی نماز‬ ‫ٰ‬ ‫ہندوستان کی طرح عربستان میں بھی جتنے نبی آئے‪ ،‬انہوں نے بھی موحول‪ ،‬معاشرے اور‬ ‫لوگوں کی ضروریات و استطاعت کے مطابق مراقبہ کی حالت میں پہنچانے کے لیے مختلف‬ ‫یحی‬ ‫طریقہ کار معتارف کرائے‪ ،‬ان میں سب سے مشہور عیسٰ ی ابن مریم کے ہم عصر کزن ٰ‬ ‫یحی کے‬ ‫یحی سے قبل کے انبیاء کے طریقوں کی کوئی خاص تفصیل میسر نہیں‪ٰ ،‬‬ ‫نبی ہیں۔ ٰ‬ ‫طریق کو بعد ازاں عیسائیت نے بھی رسم کی شکل میں اپنا کر جاری رکھا‪ ،‬اسی لیے اس کی‬


‫‪35‬‬

‫یحی اپنے طریق کے حوالے‬ ‫کچھ تفصیل بھی دستیاب رہی۔ اس کی ایک اور وجہ بھی ہے کہ ٰ‬ ‫سے بپتسمہ واال کے نام سے مشہور ہوگئے اور اسی لیے ان کا طریقہ بھی ان کے نام کے ساتھ‬ ‫زندہ رہ گیا۔‬ ‫یحی دین حق کے ہر نئے طالب علم کو پانی میں ڈبکی دیتے تھے‪ ،‬اسی ڈبکی کو بپتسمہہ کہا‬ ‫ٰ‬ ‫یحی کا بپتسمہہ اس بپتسمہہ سے بہت مخلتف تھا جس کا موجودہ عیسائیت میں اتنا‬ ‫جاتا ہے تاہم ٰ‬ ‫یحی کی ڈبکی ڈوب کر‬ ‫یحی کا بپتسمہہ مرکر زندہ ہونے کا استعارہ تھا‪ٰ ،‬‬ ‫ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ ٰ‬ ‫ابھرنا تھا‪ ،‬ڈوب کر زندہ ہونا تھا جبکہ ان پادریوں کی دی ہوئی ڈبکی ڈوب مرنا ہے کیونکہ یہ‬ ‫یحی کے طریق کی‬ ‫بپتسمہہ نہیں بالکہ گو نگلوؤں سے مٹی جھاڑنا ہے‪ ،‬یہ ڈبکی نہیں بلکہ ٰ‬ ‫سبکی ہے۔ یحٰ ی کا بپتسمہ محض رسم نہیں عمل تھا‪ ،‬مراقبہ کی حالت میں النے کا بہترین‬ ‫ُ‬ ‫طریقہ تھا‪ ،‬جبکہ آج کا بپتسمہ محض ایک رسم ہے‪ ،‬محض جسموں کو گیال اور نیتوں کو گدال‬ ‫یحی نبی خود پانی میں کھڑے ہو جاتے اور جسے‬ ‫کرنا ہے‪ ،‬یہ بپتسمہ گیالپن ہے‪ ،‬گدالپن ہے۔ ٰ‬ ‫بپتسمہ دینا ہوتا اسے بھی اپنے سامنے کھڑا کر لیتے اور اپنا ایک ہاتھ اس کے ماتھے اور‬ ‫دوسرا اس کی گردن کے نیچے کندھوں کے درمیان رکھ کر اسے پیچھے کی طرف کمر کے‬ ‫بل پر پانی کے اندر لے جاتے کہ جیسے کسی کو لٹایا جاتا ہے۔ اس طرح سے پانی میں لیجانا‬ ‫کسی مردے کو لٹانے کے مترادف تھا۔ یحٰ ی نبی اس وقت تک اس کے سر پر ہاتھ سے دباؤ‬ ‫ڈالے رکھتے کہ جب تک اس کی سانسیں نہ اکھڑنے لگتیں اور وہ یحٰ ی کا ہاتھ اور اس کا دباؤ‬ ‫جھٹک کر ہڑ بڑا کر کھڑا نہ ہو جاتا۔ اصل مقصد اسے جھنجوڑنا تھا‪ ،‬شاک کی حالت میں‬ ‫پہنچانا تھا‪ ،‬موت کے روبرو کرنا تھا‪ ،‬موت کا ذائقہ چکھانا تھا۔ اس حالت میں انسان ایک لمحہ‬ ‫کے لیے ہر قسم کی ڈوئلٹی سے آزاد ہو جاتا ہے اور پہلی بار وہ اپنا آمنا سامنا کرتا ہے‪ ،‬یہاں‬ ‫تک پہنچاتا ہے۔‬ ‫کسی نبی کا اہم ترین کام انسان کو صرف اس حالت‪ ،‬مقام‪ ،‬لمحہ یا نقطہ تک پہنچنے میں مدد‬ ‫فراہم کرنا ہے‪ ،‬باقی ساری منازل خود بخود طے ہو جاتی ہیں‪ ،‬باقی سب وہ خود کر لیتا ہے۔‬ ‫جسم کی طرح ہمارے دماغ کی بھی اہم ترین خوراک آکسیجن ہے‪ ،‬جونہی ہماری سانس رکنے‬ ‫لگتی ہیں تو دماغ کو آکسیجن کی فراہمی معطل ہونے لگتی ہیں اور اپنی خوراک نہ ملنے پر‬ ‫دماغ بند ہونے لگتا ہے‪ ،‬مرنے لگتا ہے۔ دماغ کے مکمل طور پر بند یا مرنے میں کچھ وقت‬ ‫لگتا ہے لیکن اس سے قبل دماغ اپنی بقاء کے لیے مجتمع ہونے لگتا ہے‪ ،‬مرنے لگتا ہے۔ دماغ‬ ‫کے مکمل طور پر بند ہونے یا مرنے میں کچھ وقت لگتا ہے لیکن اس سے قبل دماغ اپنی بقاء‬ ‫کے لیے مجتمع ہو جاتا ہے جبکہ ہر سوچ منتشر ہو جاتی ہے۔ منقسم سوچ ہی کا دوسرا نام مائنڈ‬ ‫ہے۔ دماغ مکمل بند ہونے سے قبل مائنڈ بالکل آف ہو جاتا ہے‪ ،‬اسی مائنڈ نے انسان کو تقسیم کیا‬ ‫ہوتا ہے‪ ،‬اس کے آف ہوتے ہی انسان بھی ہر قسم کی تقسیم سے باہر آجاتا ہے‪ ،‬آزاد ہو جاتا‬ ‫ہے‪ ،‬وہ بھی دماغ کی طرح مجتمع ہوکر واحد ہو جاتا ہے۔ مائنڈ کے آف ہوتے ہی قلب کا تاال‬ ‫کھلنے لگتا ہے۔ مائنڈ اور قلب ایک دوسرے کے متضاد ہیں‪ ،‬جب مائنڈ آف ہو تو قلب آن ہونے‬


‫‪36‬‬

‫لگتا ہے اور جب مائنڈ آن ہو تو قلب آف ہو جاتا ہے‪ ،‬قلب کے آف ہونے کو قلب پہ قفل لگنا‬ ‫کہتے ہیں۔ دماغ کے بند ہونے سے قبل مائنڈ کا آف ہونا انسان کی بیداری کا باعث بن جاتا ہے۔‬ ‫مراقبہ کا مقصد اسی سچویشن میں النا ہے‪ ،‬مائنڈ آف کرنا ہے۔ یحی نبی بپتسمہ کو اسی کام میں‬ ‫ال رہے تھے‪ ،‬یہی مقصد پا رہے تھے۔‬ ‫ابراہیم نبی کے حوالے سے اپنے بیٹے کو ذبح کر نیکا جو قصہ مشہور ہے اس کی توجیہہ یہی‬ ‫ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو ایک لمحہ کے لیے اس لمحہ میں پہنچانا چاہتے تھے‪ ،‬ان کا‬ ‫مقصد و ارادہ اسماعیل یا اسحاق کو سچ مچ ذبح کرنا نہیں بلکہ اس ایک لمحہ کے لیے سچویشن‬ ‫یحی نبی کے بعد اس کے ہم عصر عیسٰ ی ابن مریم نے بپتسمہ کے ساتھ ساتھ اپنی‬ ‫پیدا کرنا تھا۔ ٰ‬ ‫طرف سے صلیب کی اصطالح متعارف کرائی اور مراقبہ کی اس حالت مین پہنچنے کو اپنی‬ ‫صلیب اپنے کندھوں پہ اٹھانے سے تشبیہہ دی۔ جس نبی نے بھی مراقبہ کی سچویشن پیدا کرنے‬ ‫کے لیے جو بھی ٹیکنیک وضع کی اسے اس ماحول اور معاشرے کے مطابق اسی زبان میں‬ ‫یحی کے بپتسمہ اور عیسٰ ی کے صلیب کی‬ ‫ایک مخصوص نام بھی دیا۔ گوتم بدھا کے ویپسنا‪ٰ ،‬‬ ‫صلوۃ ہے۔‬ ‫طرح محمد المصط ٰفے نے مراقبہ کا جو طریقہ بتایا‪ ،‬اس کا نام‬ ‫ٰ‬ ‫ـ‬ ‫)ختم شدہ(‬


Turn static files into dynamic content formats.

Create a flipbook
Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.