Haram kamayee aur ibdata shared by meritehreer786@gmail com

Page 1

‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪1‬‬

‫حرام کمائی کی وجہ سے عبادات چھوڑنا! کیا‬ ‫فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان کرام اس مسئلہ‬ ‫کے بارے میں کہ‪:‬‬ ‫میں ایک سرکاری محکمے میں کام کرتا ہوں جہاں تقریبا ً نوے فیصد لوگ رشوت لیتے ہیں‘ یہ‬ ‫معاملہ پولیس کی طرح جبراً نہیں ہوتا‘ بلکہ خوشی اور افہام وتفہیم سے ہوتا ہے‘ کاروباری‬ ‫لوگ اپنا ٹیکس کم کرانے کے لئے متعلقہ سرکاری افسر کو رشوت کی آفر کرتا ہے‘ متعلقہ‬ ‫افسر رشوت قبول کرکے اس کا ٹیکس کم کرتا ہے اور حکومت کا نقصان کرتا ہے۔ ہر سرکاری‬ ‫شخص جو اس کام میں ملوث ہے‘ جانتا ہے کہ یہ کام دینی ودنیاوی دونوں طرح غلط ہے‘‬ ‫لیکن ساتھ ساتھ مجبوریاں بیان کرتا ہے‘ مثالً‪ :‬تنخواہ کم ہے‘ خرچے زیادہ ہیں‘ ماحول سارا‬ ‫خراب ہے وغیرہ وغیرہ۔ اسی ماحول میں دیکھتا ہوں کہ بعض سرکاری لوگ جو رشوت لینے‬ ‫میں پوری طرح ملوث ہوتے ہیں‘ لیکن ساتھ ساتھ پورے خشوع وخضوع سے نماز بھی‬ ‫پڑھتے ہیں‘ روزہ بھی رکھتے ہیں‘ انہیں پیسوں سے ٰ‬ ‫زکوة دیتے اورخیرات بھی کرتے ہیں ‘‬ ‫حج بھی کرتے ہیں ۔ میرا سوال یہ ہے کہ ایک شخص جانتے بوجھتے حرام کی کمائی میں‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی کی نظر میں قابل قبول‬ ‫ملوث ہے اور ساتھ فرائض بھی ادا کرتا ہے تو کیا یہ عبادات ہللا‬ ‫ہیں ؟ کیا یہ منافقت کے زمرے میں نہیں آتا کہ ایک شخص سارا دن حرام کی کمائی میں ملوث‬ ‫ہو اور ساتھ ساتھ نمازیں بھی پڑھتا ہو اور میں بھی اسی محکمے میں کام کرتا ہوں اور ان‬ ‫لوگوں میں شامل ہوں جو رشوت لیتے ہیں‘ میرا تعلق مذہبی گھرانے سے ہے لیکن میں نماز‘‬ ‫روزہ‘ ٰ‬ ‫زکوة جیسے فرائض ادا نہیں کرتا‘ کیونکہ مجھے یقین نہیں آتا کہ ایسی صورت حال‬ ‫میں یہ عبادات قبول ہوں گی‘ جبکہ ہمارے پیٹ میں حرام کا پیسہ ہو؟ براہ کرم قرآن وحدیث‬ ‫کی روشنی میں جواب دے کر میری اس الجھن کو دور فرمائیں۔‬ ‫المستفتی‘ محمد عبد ہللا‬ ‫الجواب باسمہ تعالی‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 2‬واضح رہے کہ شرعی احکام بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہیں‪ ․․․:۱ :‬اوامر‪:‬جن کی‬ ‫بجا آوری کا حکم ہے۔‪ -:۲‬نواہی ‪:‬جن سے بچنے اور اجتناب کرنے کا حکم ہے۔ شرعا ً دونوں‬ ‫قسم کے احکام ماننا الزم ہے„ کوئی بھی مکلف مسلمان اس وقت تک کا مل مسلمان نہیں‬ ‫ہوسکتا‪ ،‬جب تک وہ اوامر بجانہ الئے اور نواہی سے اجتناب نہ کرے۔ اگر کوئی مسلمان صرف‬ ‫اوامر بجا توالتا ہے‪،‬لیکن نواہی سے پرہیز نہیں کرتا تو ایسا شخص ہللا تعالی کا نافرمان„ باغی„‬ ‫احکام‬ ‫مجرم اور دنیا وآخرت میں شدید مواخذہ کا حقدار ہے۔ قابل مواخذہ جرائم کے ارتکاب اور‬ ‫ِ‬ ‫الہی پر ادھورا عمل کرنے سے یہ قطعا ً الزم نہیں آتا کہ ایسے مجرم وگناہ گار مسلمان کے‬ ‫دوسرے ادا شدہ اعمال بھی کالعدم ہوجائیں„ یا یہ کہ دوسرے اعمال بجاالنا سرے سے بے فائدہ‬ ‫ہوجائیں‪ ،‬ایسا ہرگز نہیں۔ اگر کوئی مسلمان اس قسم کی غلط فہمی میں مبتال ہے تو اسے معلوم‬ ‫ہونا چاہئے کہ نواہی کو ترک کرتے ہوئے اوامر کو بجاالنے واال چھوٹا مجرم ہے اور اوامر‬ ‫ونواہی دونوں کی پرواہ نہ کرنے واال بڑا مجرم ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ بعض نافرمانیوں‬ ‫اور بدعملیوں کا منفی اثر نیک اعمال اور عبادات پر پڑتا ہے„ لیکن یہ اثر عبادات کی ظاہری‬ ‫صورت پر نہیں پڑتا۔مطلب یہ کہ اگر ایک مسلمان نماز„ روزہ اور حج جیسی عبادات بجاالتاہے‬ ‫تواس پر جواز کے ظاہری احکام الگو ہوں گے‪ ،‬ایسا شخص شریعت اور معاشرہ کی نظر میں‬ ‫ان فرائض کا بجا النے واال شمار ہوگا‪،‬کیونکہ فقہاء امت کے بقول اس کے ذمہ سے فرض‬ ‫ساقط ہوچکا ہے ۔ حرام کاموں سے بچتے ہوئے عبادات کرنے والے کو جو روحانیت „ خیر‬ ‫وبرکت اور اجر وثواب ملتا ہے „ حرام مال کھانے واال اس سے محروم رہے گا۔جیسا کہ ر د‬ ‫المحتار علی الدر المختارمیں ہے‪:‬‬ ‫”ولذا قال فی البحر‪ :‬ویجتہد فی تحصیل نفقة حالل„ فانہ الیقبل بالنفقة الحرام„ کما ورد فی الحدیث مع انہ یسقط‬ ‫الفرض عنہ معہا„ والتنافی بین سقوط وعدم قبولہ„ فالیثاب لعدم القبول„ والیعاقب عقاب تارک الحج„ الخ„ ای‬ ‫ألن عدم الترک یبتنی علی الصحة‪ :‬وہی االتیان بالشرائط و االرکان„ والقبول المترتب علیہ الثواب یبتنی علی‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪3‬‬

‫اشیاء کحل المال واالخالص کما لو صلی مرائیا اوصام واغتاب فان الفعل صحیح لکنہ بالثواب“۔ (رد المحتار‬ ‫علی الدر المختار‪ ۶۵۴/۲ :‬ط‪:‬سعید)‬

‫بنابریں سائل کا یہ نظریہ کہ ”حرام کمائی والے کی عبادت قبول نہیں ہوتی‪ ،‬اس لئے فرائض کی‬ ‫مال‬ ‫ادائیگی کا کوئی فائدہ نہیں“ سراسر غلط اور شیطانی دھوکہ ہے۔ یہ نظریہ بھی درحقیقت ِ‬ ‫حرام کی نحوست کا اثر ہے۔ سائل پر الزم ہے کہ وہ اس باطل نظریہ سے تائب ہو ‪،‬اور حرام‬ ‫مال سے کلی طور پر اجتناب کرے۔ نیز آئندہ زندگی میں عبادات کا بھر پور اہتمام کرے„ شیطان‬ ‫کے دھوکے اور نفس کے بہکاوے میں نہ آئے‪ ،‬ورنہ ایسا شخص عند ہللا اور عند الناس ان‬ ‫لوگوں سے بڑا مجرم شمار ہوگا جو حرام مال استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ عبادات بھی ادا‬ ‫کرتے ہیں۔ تاہم یہ بات ذہن نشین رہے کہ جن لوگوں کے ذرائع آمدن مکمل طور پر ناجائز اور‬ ‫حرام ہوں ‪،‬اگر وہ اپنے حرام اموال سے زکوة بھی دیں تو ان کے زکوة دینے کا کوئی فائدہ نہیں‬ ‫ہے„ کیونکہ زکوة خالص مالی فرض ہے„ جس کی ادائیگی اور قبولیت کے لئے خالص اور‬ ‫مال حرام میں زکوة نہیں۔ بلکہ اس سارے مال کو بالنیت ثواب‬ ‫حالل مال ہونا ضروری ہے۔ ِ‬ ‫صدقہ کرنا ضروری ہے۔جیسا کہ حدیث میں ہے‪:‬‬ ‫قولہ ا‪ :‬ان ہللا طیب الیقبل اال طیبا۔ (مشکوة‪„۲۶۱/۱:‬ط‪:‬قدیمی کراچی)‬

‫ردالمختار علی الدرالمختارمیں ہے‪:‬‬ ‫قولہ‪ :‬کما لو کان الکل خبیثا ً„ فی القنیة„ لوکان الخبیث نصابا ً الیلزمہ الزکوة„ الن الکل واجب التصدق علیہ„‬ ‫فالیفید ایجاب التصدق ببعضہ۔ ومثلہ فی البزازیة۔ (رد المحتار علی الدر المختار‪„۲۹۱/۲ :‬ط‪:‬سعید کراچی)‬

‫پس سائل کے لئے شرعی حکم یہ ہے کہ وہ اپنی باطل سوچ اور گذشتہ گناہوں پر توبہ واستغفار‬ ‫کرے„ فوت کردہ نمازوں کی قضا کرے اور خوفِ خدا کو پیش نظر رکھے تو ہللا تعالی اس کی‬ ‫مشکالت کو آسانیوں میں تبدیل فرمادیں گے اور کفایت کی نعمت سے نوازدیں گے۔‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪4‬‬

‫‪:۱‬قولہ تعالی‪ :‬ومن یتق ہللا یجعل لہ مخرجا ً„ ویرزقہ من حیث الیحتسب„ ومن یتوکل علی ہللا فہو حسبہ‬ ‫․․اآلیة (الطالق‪)۳-۲:‬‬

‫الجواب صحیح الجواب صحیح کتبہ‬

‫محمد‬

‫عبد‬

‫المجید‬

‫دین‬

‫صالح‬ ‫محمد‬

‫پوری‬ ‫محمد‬

‫حذیفہ‬

‫دار االفتاء جامعہ علوم اسالمیہ عالمہ بنوری ٹاؤن‬ ‫اشاعت ‪ ۲۰۰۲‬ماہنامہ بینات ‪ ,‬ربیع االول ‪۱۶۲۹‬ھ اپریل ‪۲۰۰۲‬ء‪ ,‬جلد ‪ ,17‬شمارہ ‪3‬‬

‫رحمانی‬


Turn static files into dynamic content formats.

Create a flipbook
Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.