Hijaab ka hukam

Page 1

‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪1‬‬

‫ازواج‬ ‫صرف‬ ‫حکم‬ ‫کا‬ ‫حجاب‬ ‫ِ‬ ‫نبی کے لئے تھا؟ اسالمی‬ ‫نظریاتی کونسل کے چیئرمین‬ ‫کی خدمت میں!‬ ‫(‪)۲‬‬

‫الحمد ہلل وسالم علی عبادہ الذین اصطفی!‬

‫اسالمی نظریاتی کونسل کے چیئرمین جناب خالد مسعود صاحب حجاب اور پردے سے متعلق‬ ‫مزید‬ ‫ج‬

‫کہتے‬ ‫‪…:‬‬

‫”حجاب‬

‫صرف‬

‫نبی‬

‫ہیں‪:‬‬ ‫ازواج‬

‫کی‬

‫کے‬

‫لئے‬

‫تھا۔“‬

‫روزنامہ نوائے وقت کی خبر میں تو صرف اتنا ہی تھا‪ ،‬البتہ روزنامہ جنگ کراچی‪ ،‬سنڈے‬ ‫میگزین کے طویل انٹرویو میں موصوف نے اس کی کچھ مزید تفصیالت سے بھی آگاہ کیا ہے‪،‬‬ ‫مثالً‪:‬‬

‫وہ‬

‫ہیں‪:‬‬

‫کہتے‬

‫”پردے کا مطلب ہم جن معنوں میں لیتے ہیں‪ ،‬مثالً حجاب‪ ،‬قرآن مجید کے حکم کے نزدیک وہ‬ ‫صرف رسول ہللا کی بیویوں کے لئے تھا‪ ،‬قرآن مجید میں پوری وضاحت آئی ہے کہ رسول ہللا‬ ‫کی ایک بیوی کی شادی کے موقع پر رواج کے مطابق لوگ پوری رات وہاں بیٹھے رہے‪ ،‬اور‬ ‫پوری تفسیر احادیث میں آئی ہے‪ ،‬اس کے بعد حضرت عمر‬

‫نے فرمایا کہ کچھ تو پرائیویسی‬

‫ہونی چاہئے‪ ،‬تو جو پردہ ہے‪ ،‬وہ پرائیویسی کے معنی میں آتا ہے‪ ،‬یہ رسول ہللا کی ازواج کے‬ ‫بارے‬

‫میں‬

‫تھا…۔“‬

‫(سنڈے‬

‫میگزین‬

‫روزنامہ‬

‫جنگ‬

‫‪/۲۲‬اکتوبر‬

‫‪۲۲۲۰‬ء)‬

‫قطع نظر اس کے کہ موصوف کے بیان میں کیا صحیح اور کیا غلط ہے؟ … کیونکہ ان کا یہ‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 2‬کہنا کہ‪” :‬رسول ہللا کی ایک بیوی کی شادی کے موقع پر رواج کے مطابق لوگ پوری رات‬ ‫وہاں بیٹھے رہے“ سراسر جھوٹ اور غلط ہے‪ ،‬کیونکہ کسی آیت‪ ،‬حدیث‪ ،‬تفسیر اور تاریخ میں‬ ‫اس کا کہیں کوئ ی ذکر نہیں ہے‪ ،‬ہاں البتہ رات دیر تک بیٹھنے کا ذکر صحیح بخاری میں ہے‪،‬‬ ‫اسی طرح حضرت عمر‬

‫کی طرف‪” :‬کچھ تو پرائیویسی ہونی چاہئے۔“ کی نسبت بھی غلط‬

‫ہے‪ ،‬اس کا بھی کہیں کوئی تذکرہ نہیں ملتا… تاہم ان کے ہر دو بیانات سے اتنی بات واضح‬ ‫طور پر سامنے آجاتی ہے کہ موصوف پردہ کو صرف ازواج مطہرات کے ساتھ خاص مانتے‬ ‫ہیں اور پردہ کی غرض و غایت یا حکمت و مصلحت بھی صرف اور صرف پرائیویسی یعنی‬ ‫تخلیہ کو قرار دیتے ہیں۔ گویا ازواج مطہرات کے بعد اب کوئی مسلمان خاتون پردہ کی مکلف‬ ‫نہیں ہے‪ ،‬نیز پردہ چونکہ ان کے ہاں محض پرائیویسی کے لئے تھا‪ ،‬اس لئے اگر کسی کی‬ ‫پرائیویسی متاثر نہ ہوتی ہو تو اس کو پردہ کی چنداں حاجت نہیں… اس عقل و دانش اور علم و‬ ‫حکمت‬ ‫”بریں‬

‫پر‬ ‫عقل‬

‫یہی‬ ‫و‬

‫کہا‬ ‫دانش‬

‫جاسکتا‬ ‫بباید‬

‫گریست‬

‫ہے‪:‬‬ ‫“‬

‫سوال یہ ہے کہ ازواج مطہرات کے عالوہ دوسری مسلمان خواتین پردہ کی مکلف کیوں نہیں؟ یا‬ ‫یہ حکم ازواج مطہرات کے ساتھ کیوں خاص ہے؟ اگر دوسری مسلمان خواتین اس حکم سے‬ ‫ٰ‬ ‫ٰ‬ ‫مستثنی قرار دیا گیا؟ کیا ہم‬ ‫مستثنی ہیں تو کیوں؟ ان کو کب؟ اور کس آیت یا حدیث کی رو سے‬ ‫نظریاتی کونسل کے چیئرمین سے یہ پوچھنے کی جسارت کرسکتے ہیں کہ وہ ایسی کسی‬ ‫قرآنی آیت‪ ،‬حدیث‪ ،‬فقہی جزئیہ‪ ،‬ائمہ اربعہ میں سے کس امام کی تصریح‪ ،‬مسلمہ ائمہ تفسیر‪،‬‬ ‫اہل تحقیق میں سے ایسے کسی کے قول‪ ،‬فعل یاعمل کی نشاندہی فرماسکتے ہیں‪،‬‬ ‫حدیث‪ ،‬اور ِ‬ ‫جس سے ثابت ہوتا ہوکہ حجاب اور پردہ کا حکم صرف ازواج مطہرات کے ساتھ خاص تھا؟‬ ‫کیا حضرات صحابہ کرام‬

‫نے بھی اس سے یہی سمجھا تھا؟ کیا حضرات صحابیات‬

‫بھی اس‬

‫ٰ‬ ‫مستثنی تھیں؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو کیا اس کی نشاندہی کی جاسکتی ہے کہ‬ ‫حکم سے‬ ‫کون کون سے صحابہ کرام‬

‫اس کے قائل تھے؟ اور کن کن صحابیات‬

‫نے اس حکم ٰالہی‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 3‬سے …نعوذباہلل… بغاوت کی تھی؟ ُتف ہے اس عقل و دانش پر اور لعنت ہے اس جہالت و‬ ‫سفاہت پر کہ اپنی خواہش پرستی اور انکار دین کو قرآن و سنت اور دین و شریعت کے سرمنڈھ‬ ‫دیا جائے اور نہایت ڈھٹائی‪ ،‬بے حیائی‪ ،‬بے باکی اور بے شرمی سے اسے اچھا ال جائے۔‬ ‫افسوس !صد افسوس !کہ موصوف نے ایسی کسی آیت‪ ،‬حدیث‪ ،‬تفسیر‪ ،‬تحقیق‪ ،‬کسی صحابی ‪،‬‬ ‫تابعی‬

‫یا ائمہ اربعہ‬

‫میں سے کسی امام کی تصریح کی نشاندہی نہیں فرمائی‪ ،‬جس سے ہم‬

‫جیسے کوتاہ علموں کی راہ نمائی ہوتی‪ ،‬اگر وہ اس قسم کی کوئی نشاندہی فرمادیتے تو ہمیں ان‬ ‫کے دالئل و براہین پر غوروفکر میں سہولت ہوجاتی‪ ،‬نیز ہمیں اندازہ ہو جاتا کہ انہیں کہاں سے‬ ‫ٹھوکر لگی ہے؟ اور وہ کس بناء پر غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں؟ یا وہ کس وجہ سے سیدھے‬ ‫سادے مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں؟ تاہم ہمارا حساس و وجدان ہے کہ وہ کسی قسم کی‬ ‫غلط فہمی میں مبتال نہیں ہیں‪ ،‬بلکہ وہ دوسروں کو غلط فہمیوں میں مبتال کرنے پر مامور ہیں۔‬ ‫کیونکہ وہ جاہل و اَن پڑھ نہیں‪” ،‬لکھے پڑھے اسکالر “اور ڈاکٹر فضل الرحمن جیسے ملحد و‬ ‫مرتد کے شاگرد و خوشہ چیں‪ ،‬بلکہ ان کے جانشین اور ان کی فکر و فلسفہ کے داعی و مناد‬ ‫ہیں۔ نظر بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ آیت حجاب میں… جس کا انہوں نے اپنے انٹرویو‬ ‫میں حوالہ بھی دیا ہے… آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کے گھر والوں سے متعلق خطاب ہے‬ ‫اور صحابہ کرام‬

‫کو آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کی ایذا رسانی سے بچنے کی تلقین کی‬

‫گئی ہے‪ ،‬اس لئے غالبا ً موصوف نے اس سے یہی سمجھا کہ اس آیت میں مذکور احکام و آداب‬ ‫بھی حضرات ازواج مطہرات کے ساتھ خاص ہیں‪ ،‬لیجئے! آیت حجاب پڑھیئے اور موصوف‬ ‫ت حجاب‪:‬‬ ‫کی فکر رسا کی داد دیجئے! مالحظہ ہو آی ِ‬ ‫”یا یہا الذین آمنوا ال تدخلوا بیوت النبی اال ان یإذن لکم ٰالی طعام غیر ناظرین اناہ‪ ،‬ولکن اذا دعیتم فادخلوا‪،‬‬ ‫فاذا طعمتم فانتشروا والمستؤنسین لحدیث‪ ،‬ان ٰذلکم کان یإذی النبی فیستحی منکم ٰ ّ‬ ‫وہللا الیستحی من الحق واذا‬ ‫سؤلتموہن متاعا ً فسئلوہن من ورآء حجاب‪ٰ ،‬ذلکم اطہر لقلوبکم وقلوبہن‪ ،‬وما کان لکم ان تإذوا رسول ٰ ّ‬ ‫ہللا وال‬ ‫ّٰ‬ ‫عندہللا عظیما۔„ (احزاب‪)۳۳:‬‬ ‫ان تنکحوا ازواجہ من بعدہ ابداً‪ ،‬ان ٰذلکم کان‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 4‬ترجمہ‪ ” …:‬اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں مت جایا کرو‪ ،‬مگر جس وقت تم کو کھانے کے‬ ‫لئے اجازت دی جاوے‪ ،‬ایسے طور پر کہ اس کی تیاری کے منتظر نہ رہو‪ ،‬لیکن جب تم کو‬ ‫بالیا جاوے تب جایا کرو‪ ،‬پھر جب کھانا کھا چکو تو اٹھ کر چلے جایا کرو اور باتوں میں جی‬ ‫لگاکر مت بیٹھے رہا کرو ‪ ،‬اس بات سے نبی کو ناگواری ہوتی ہے‪ ،‬سو وہ تمہارا لحاظ کرتے‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی صاف بات کہنے سے لحاظ نہیں کرتا‪ ،‬اور جب تم ان سے کوئی چیز مانگو تو‬ ‫ہیں اور ہللا‬ ‫پردہ کے باہر سے مانگا کرو‪ ،‬یہ بات تمہارے دلوں اور ان کے دلوں کے پاک رہنے کا عمدہ‬ ‫ذریعہ ہے اور تم کو جائز نہیں کہ رسول ہللا کو کلفت پہنچاإ اور نہ یہ جائز ہے کہ تم آپ کے‬ ‫بعد آپ کی بیبیوں سے کبھی بھی نکاح کرو‪ ،‬یہ خدا کے نزدیک بڑی بھاری بات ہے۔“‬ ‫یہ طے شدہ امر ہے‪ ،‬بلکہ تمام مفسرین کا اس پر اجماع ہے کہ پردے کی فرضیت کا حکم سب‬ ‫سے پہلے سورئہ احزاب کی مندرجہ باال آیت میں نازل ہوا تھا‪ ،‬اسی لئے اس آیت کو آیت حجاب‬ ‫کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ تاہم اس آیت میں امت مسلمہ کو حجاب کے عالوہ چند دوسرے‬ ‫احکام و آداب کی بھی تلقین فرمائی گئی ہے مثالً‪ :‬دعوت طعام کے آداب‪ ،‬کسی کے گھر میں‬ ‫جانے کے آداب‪ ،‬عورتوں کے لئے پردہ کا حکم‪ ،‬ازواج مطہرات کے لئے آنحضرت صلی ہللا‬ ‫علیہ وسلم کے بعد کسی سے نکاح نہ کرنے کا حکم وغیرہ۔ یہ آیت اگرچہ ایک خاص واقعہ‬ ‫سے متعلق ہے‪ ،‬اور اس میں ازواج مطہرات کے پردے سے متعلق حکم بھی ہے‪ ،‬لیکن اس کا‬ ‫یہ معنی ہرگز نہیں کہ یہ حکم صرف ازواج مطہرات کے ساتھ خاص ہے‪ ،‬بلکہ یہ حکم عام ہے‬ ‫اور اس کے عموم پر تمام مفسرین کا اجماع ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح سورئہ احزاب کی‬ ‫ازواج‬ ‫مندرجہ ذیل آیات میں خطاب ازواج مطہرات کو ہے‪ ،‬مگر ہر ذی فہم جانتا ہے کہ یہ حکم‬ ‫ِ‬ ‫مطہرات کے ساتھ خاص نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کی خواتین کے لئے عام ہے‪ ،‬چنانچہ‬ ‫سورئہ احزاب کی وہ آیت مالحظہ ہو‪:‬‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪5‬‬

‫”یانسآء النبی لستن کاحد من النساء ان اتقیتن فال تخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبہ مرض وقلن قوالً معروفا۔‬ ‫ٰ‬ ‫الصلوة وآتین الزکوة واطعن ٰ ّ‬ ‫ہللا ورسولہ‪ ،‬انما یرید‬ ‫وقرن فی بیوتکن وال تبرّجن تبرّ ج الجاہلیة االولی واقمن‬ ‫ّٰ‬ ‫ہللا لیذہب عنکم الرجس اہل البیت ویطہرکم تطہیرا۔“ (احزاب‪)۳۳/۳۲:‬‬

‫ٰ‬ ‫تقوی اختیار کرو تو‬ ‫ترجمہ‪”…:‬اے نبی کی بیبیو!تم معمولی عورتوں کی طرح نہیں ہو‪ ،‬اگر تم‬ ‫تم بولنے میں نزاکت مت کرو کہ ایسے شخص کو خیال ہونے لگتا ہے جس کے قلب میں خرابی‬ ‫ہے اور قاعدہ کے موافق بات کہو اور تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم زمانہ جاہلیت‬ ‫کے دستور کے موافق مت پھرو اور تم نمازوں کی پابندی رکھو اور ٰ‬ ‫زکوة دیا کرو اور ہللا کا‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی کو یہ منظور ہے کہ اے گھر والو! تم سے آلودگی‬ ‫اور اس کے رسول کا کہنا مانو اور ہللا‬ ‫کو‬

‫دور‬

‫رکھے‬

‫اور‬

‫تم‬

‫دیکھئے! یہاں بھی خطاب اگرچہ ازواج مطہرات‬

‫کو‬

‫پاک‬

‫صاف‬

‫رکھے۔“‬

‫کو ہے مگر اس کا حکم عام ہے ‪ ،‬اگر‬

‫بالفرض اس آیت کو ازواج مطہرات کے ساتھ خاص کردیا جائے‪ ،‬تو کیا کہا جائے کہ ازواج‬ ‫مطہرات‬

‫کے عالوہ دوسری مسلمان خواتین آج بھی زمانہ جاہلیت کی طرح ننگ دھڑنگ‬

‫پھرسکتی ہیں؟ کیا جناب خالد مسعود صاحب اس کے قائل ہیں کہ اس آیت میں نماز قائم کرنے‪،‬‬ ‫ٰ‬ ‫زکوة دینے‪ ،‬ہللا اور اس کے رسول صلی ہللا علیہ وسلم کی اطاعت کرنے کا حکم بھی صرف‬ ‫ازواج مطہرات‬

‫کے ساتھ خاص ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہے‪ ،‬تو کیا امت مسلمہ کی دوسری‬

‫ٰ‬ ‫خواتین نماز‪ٰ ،‬‬ ‫مستثنی ہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟‬ ‫زکوة کی ادائیگی اور ہللا‪ ،‬رسول کی اطاعت سے‬ ‫اگر جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہے‪ ،‬تو بتالیا جائے کہ ایک آیت میں ہی ایک حکم عام‬ ‫تو دوسرا خاص کیوں؟‬ ‫ہاتوا برہانکم ان کنتم صادقین!‬

‫صرف یہی نہیں‪ ،‬بلکہ اس کی بیسیوں مثالیں موجود ہیں کہ خطاب خاص ہوتا ہے لیکن اس کا‬ ‫حکم عام ہوتا ہے‪ ،‬جیسا کہ قرآن مجید میں ہے‪:‬‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪6‬‬

‫”یایہا النبی اذا طلقتم النساء فطلقوہن لعدتہن واحصوا العدة‪ ،‬واتقوا ٰ ّ‬ ‫ہللا ربکم‪ ،‬التخرجوہن من بیوتہن وال‬ ‫ہللا فقد ظلم نفسہ‪ ،‬ال تدری لعل ٰ ّ‬ ‫ہللا‪ ،‬ومن یتعد حدود ٰ ّ‬ ‫یخرجن اال ان یؤتین بفاحشة مبینة‪ ،‬وتلک حدود ٰ ّ‬ ‫ہللا یحدث‬ ‫بعد ذلک امراً۔“ (الطالق‪)۱ :‬‬

‫ترجمہ‪” …:‬اے پیغمبر جب تم …اپنی… عورتوں کو طالق دینے لگو تو ان کو …زمانہ…‬ ‫عدت …یعنی… حیض سے پہلے …یعنی طہر میں… طالق دو اور تم عدت کو یاد رکھو اور‬ ‫ہللا سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے‪ ،‬ان عورتوں کو ان کے …رہنے کے… گھروں سے مت‬ ‫نکالو… کیونکہ ٰ‬ ‫سکنی مطلقہ کا مثل منکوحہ کے واجب ہے… اور نہ وہ عورتیں خود نکلیں‬ ‫مگر ہاں کوئی کھلی بے حیائی کریں تو اور بات ہے اور یہ سب خدا کے مقرر کئے ہوئے‬ ‫احکام ہیں اور جو شخص احکام خداوندی سے تجاوز کرے گا … مثالً اس عورت کو گھر سے‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی بعد اس …طالق‬ ‫نکال دیا… اس نے اپنے اوپر ظلم کیا تجھ کو خبر نہیں شاید ہللا‬ ‫دینے…کے‬

‫کوئی‬

‫نئی‬

‫بات‬

‫…تیرے‬

‫دل‬

‫میں…‬

‫پیدا‬

‫کردے۔“‬

‫کیا خیال ہے خالد مسعود صاحب یا ان کے ہمنوا یہاں حیض کے بجائے طہر میں طالق دینے‪،‬‬ ‫اور عدت کی مدت میں گھر سے نہ نکالنے یا عدت کے حساب رکھنے کو بھی ازواج مطہرات‬ ‫کے ساتھ خاص مانتے ہیں؟ کیا وہ نعوذباہلل ازواج مطہرات‬

‫کے عالوہ دوسری مسلمان‬

‫خواتین کی عدت اور عدت میں ٰ‬ ‫سکنی کے قائل نہیں ہیں؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو کس بنیاد‬ ‫پر؟ سوال یہ ہے کہ جس طرح اس آیت کے مخاطب اگرچہ آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم اور‬ ‫ازواج مطہرات‬

‫ہیں مگر اس کا حکم عام ہے‪ ،‬ٹھیک اسی طرح آیت حجاب میں بھی خطاب‬

‫اگرچہ ازواج مطہرات‬

‫کو ہے مگر اس کا حکم عام ہے اور تمام مسلمان خواتین اس کی‬

‫مکلف ہیں۔ اس کے عالوہ اگر بالفرض قرآن کریم کے احکام صرف اس کے مخاطبین اولین تک‬ ‫محدود ہوتے‪ ،‬تو نعوذباہلل! آج امت مسلمہ قرآن اور قرآنی تعلیمات کے نور ‪،‬روشنی اور برکات‬ ‫سے محروم نہ ہوچکی ہوتی؟ کیونکہ قرآن کریم کے مخاطب اول تو حضرات صحابہ کرام‬ ‫تھے‪ ،‬جب وہ نہیں رہے تو ان کی طرف متوجہ ہونے واال خطاب کیونکر باقی ہوتا؟ چلئے اس‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 7‬کو بھی چھوڑیئے ہم اسالمی نظریاتی کونسل کے چیئرمین سے عرض کرنا چاہیں گے کہ وہ‬ ‫اس آیت اور اس کے حکم کا کیا محمل ارشاد فرمائیں گے؟ جس میں ازواج مطہرات کے ساتھ‬ ‫ساتھ مومن خواتین کو بھی مخاطب کرتے ہوئے گھر سے باہر جاتے وقت پردہ کا حکم دیا گیا‬ ‫ہے‪ ،‬مالحظہ ہو‪:‬‬ ‫”یایھا النبی قل ال زواجک ٰ‬ ‫وبنتک ونساء المإمنین یدینن علیہن من جالبیبہن‪ ،‬ذالک ٰ‬ ‫ادنی ان یعرفن فالیإذین‬ ‫وکان ٰ ّ‬ ‫ہللا غفوراً رحیما۔“(احزاب‪)۳۵ :‬‬

‫ترجمہ‪ ” …:‬اے پیغمبر اپنی بیبیوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور دوسرے مسلمانوں کی‬ ‫بیبیوں سے بھی کہہ دیجئے کہ نیچی کرلیا کریں اپنے اوپر تھوڑی سی اپنی چادریں‪ ،‬اس سے‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی بخشنے واال مہربان‬ ‫جلدی پہچان ہوجایا کرے گی تو آزار نہ دی جایا کریں گی اور ہللا‬ ‫ہے۔“‬ ‫تفسیر ”ابن کثیر“ میں اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں‪:‬‬

‫حافظ ابن کثیر‬

‫”قال علی بن ابی طلحہ عن ابن عباس‬ ‫وجوہہن‬

‫من‬

‫فوق‬

‫امر ٰ ّ‬ ‫ہللا نساء المإمنین اذا خرجن من بیوتہن فی حاجة ان یغطین‬ ‫رإسہن‬

‫ویبدین‬

‫بالجالبیب‬

‫عینا ً‬

‫واحدة۔“‬

‫”وقال محمد بن سیرین سؤلت عبیدة السلمانی عن قول ٰ ّ‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی یدنین علیہن من جالبیبہن‪ ،‬فغطی وجہہ ورأسہ‬ ‫ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫لیسری“ (ابن کثیر ص‪ ،۲۳۱:‬ج‪ ،۳:‬مکتبہ رشیدہ کوئٹہ)‬ ‫وابرزعینہ ا‬

‫ترجمہ‪ …:‬علی بن ابی طلحہ حضرت عبدہللا بن عباس‬

‫ٰ‬ ‫تعالی نے‬ ‫سے نقل فرماتے ہیں کہ ہللا‬

‫مومن عورتوں کو حکم دیا کہ جب وہ کسی ضرورت کے لئے اپنے گھروں سے نکلیں تو اپنے‬ ‫چہروں کو سروں کی جانب سے پردہ سے ڈھانپ لیا کریں اور… راستہ دیکھنے کے لئے …‬ ‫صرف ایک آنکھ کھلی رکھا کریں۔ حضرت محمد بن سیرین‬

‫فرماتے ہیں کہ میں نے عبیدہ‬

‫سلمانی سے ہللا کے ارشاد‪”:‬یدنین علیہن من جالبیبہن“ کے معنی و مفہوم کے بارہ میں پوچھا تو‬ ‫انہوں نے اپنا چہرہ اور سرچھپا کر‪ ،‬صرف بائیں آنکھ ظاہر کرکے… اس کی عملی وضاحت‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 8‬فرمائی۔“‬ ‫صرف حافظ ابن کثیر‬

‫ہی نہیں‪ ،‬بلکہ تمام مفسرین‬

‫میں اس کی تفسیر کی ہے۔ مالحظہ ہو‪ :‬عالمہ آلوسی‬ ‫فتح القدیر‪ ،‬جصاص‬ ‫عالمہ قرطبی‬

‫نے اس مقام پر اس سے ملتے جلتے الفاظ‬ ‫کی روح المعانی‪ ،‬قاضی شوکانی‬

‫کی احکام القرآن‪ ،‬عالمہ قرطبی‬

‫کی‬

‫کی تفسیر الجامع االحکام القرآن‪،‬‬

‫ہی کی احکام القرآن‪ ،‬تفسیر ابن جریر‪ ،‬تفسیر بحر محیط‪ ،‬تفسیر ابوالسعود‪،‬‬

‫تفسیر زاد المیسر‪،‬تفسیر در منثور‪ ،‬تفسیر روح البیان‪ ،‬تفسیر مظہری‪ ،‬تفسیر معالم التنزیل ‪،‬تفسیر‬ ‫جمل اور تفسیر بیضاوی وغیرہ۔ اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ مغربی اساتذہ سے پڑھتے ہیں‪ ،‬یا‬ ‫ان کا مغرب میں برین واش کیا جاتا ہے‪ ،‬وہ اسی زاویہ نگاہ سے اسالم‪ ،‬قرآن اور اسالمی احکام‬ ‫کو دیکھتے‪،‬پڑھتے اور سمجھتے ہیں‪ ،‬چونکہ ان کی فکر‪ ،‬سوچ‪ ،‬دل‪ ،‬دماغ‪ ،‬کان اور آنکھ میں‬ ‫بدگمانی اور تشکیک کا میل کچیل بھردیا جاتا ہے‪ ،‬اس لئے ان کو قرآن‪ ،‬سنت‪ ،‬اجماع امت‪،‬‬ ‫صحابہ کرام ‪ ،‬تابعین ‪ ،‬امت مسلمہ کی تحقیقات و تعامل اور مسلمات دینیہ میں اسی شک و‬ ‫شبہ کا میل کچیل نظر آتا ہے‪ ،‬اس لئے وہ اپنی فکر‪ ،‬سوچ‪ ،‬دل‪ ،‬دماغ‪ ،‬زبان‪ ،‬ہاتھ‪ ،‬کان اور آنکھ‬ ‫سے ہر وہ بات سوچتے‪ ،‬بولتے‪ ،‬لکھتے اور دیکھتے ہیں جو ان کے مستشرق اساتذہ اور ملحد‬ ‫مربی بولتے اور لکھتے ہیں‪ ،‬ورنہ ہر مسلمان جانتا ہے کہ قرآنی احکام ‪ ،‬اوامر و نواہی میں‬ ‫اگرچہ خطاب مردوں کو ہوتا ہے مگر خواتین بھی اس میں شامل ہوتی ہیں‪ ،‬اور جہاں ازواج‬ ‫مطہرات‬

‫کو مخاطب کیا گیا ہے وہاں عام مسلمان خواتین بھی اس کی مخاطب ہوتی ہیں۔ مثالً‬

‫پورے قرآن میں خواتین کے حج کرنے سے متعلق کہیں کوئی حکم نہیں ہے‪ ،‬کیا کہا جائے کہ‬ ‫خواتین پر حج فرض نہیں ہے؟اسی طرح تیمم کا حکم دیتے ہوئے عورتوں کے بجائے صرف‬ ‫مردوں کو مخاطب کیا گیا ہے‪ ،‬تو کیا خواتین اس سے فائدہ نہیں اٹھاسکتیں؟ اسی طرح بے‬ ‫ٰ‬ ‫مستثنی ہوں گی؟‬ ‫شمار احکام میں مردوں کو مخاطب کیا گیا ہے‪ ،‬تو کیا خواتین ان احکام سے‬ ‫نہیں‪ ،‬ہرگز نہیں۔ ناس ہو منکرین حدیث کاکہ انہوں نے ہمیشہ قرآن کریم کو‪ ،‬حدیث و سنت اور‬ ‫فقہائے امت کی تحقیقات کے تناظر میں سمجھنے کی بجائے اپنی کوتاہ عقل و فہم سے‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 9‬سمجھنے کی کوشش کی ہے‪ ،‬چونکہ انہوں نے اپنی عقل نارسا اور فہم ناقص کو حدیث و سنت‬ ‫اور ائمہ ٰ‬ ‫ہدی کی فہم و فراست پر ترجیح دی ہے‪ ،‬اس لئے وہ اغوائے شیطانی کا شکار ہوگئے‪،‬‬ ‫اور یہ حقیقت ہے کہ جن لوگوں نے اسالف کی تحقیقات کو چھوڑ کر اپنی کور فہمی پر اعتماد‬ ‫کیا‪ ،‬انہوں نے ہمیشہ ٹھوکریں کھائی ہیں۔ اگرچہ خالد مسعود جیسے حضرات کو اس کا کوئی‬ ‫فائدہ نہ ہوتا‪ ،‬لیکن ضروری تھا کہ سیدھے سادے مسلمانوں کی راہ نمائی کے لئے آنحضرت‬ ‫صلی ہللا علیہ وسلم‪ ،‬حضرات صحابہ کرام‬

‫اور صحابیات‬

‫کے ارشادات و معموالت میں‬

‫سے چند ایک یہاں نقل کردیئے جاتے تو یہ سمجھنا آسان ہوتا کہ پردہ اور حجاب صرف ازواج‬ ‫مطہرات‬

‫کے ساتھ خاص نہیں تھا‪ ،‬بلکہ یہ حکم تمام مسلمان خواتین کے لئے عام ہے اور اس‬

‫قرن اول سے لے کر آج تک پوری امت مسلمہ کا تعامل چال آرہا ہے۔ تاہم خوفِ طوالت سے‬ ‫پر ِ‬ ‫ان تمام نصوص کو چھوڑ کر ہم موصوف کے چوتھے ارشاد کا جائزہ لیتے ہیں۔‬ ‫………………………………‬ ‫د‪” …:‬اگرچہ داڑھی سنت ہے‪ ،‬تاہم حضور علیہ السالم کے دور میں مسلمان اور غیر مسلم‬ ‫دونوں‬

‫داڑھی‬

‫رکھتے‬

‫تھے۔“‬

‫گویا وہ فرمانا چاہتے ہیں کہ داڑھی مسلمانوں کا اختصاص نہیں‪ ،‬کیونکہ حضور صلی ہللا علیہ‬ ‫وسلم کے دور میں مسلمان و غیر مسلم دونوں داڑھی رکھا کرتے تھے‪ ،‬دوسرے الفاظ میں وہ‬ ‫داڑھی ایسے واجب کی تخفیف کرکے اس کو غیر اہم اور غیر ضروری باور کرانا چاہتے ہیں۔‬ ‫کیا ہم موصوف سے یہ پوچھ سکتے ہیں کہ ابتداء اسالم میں جو کام کافر و مسلم کیا کرتے‬ ‫تھے‪ ،‬وہ غیر اہم ہوتا ہے؟ یا وہ اسالم اور مسلمانوں کا اختصاص و شعار نہیں بن سکتا؟ اگر‬ ‫جواب اثبات میں ہے تو کیا کہا جائے کہ اسالم سے قبل مروجہ عبادات و اعمال مثالً‪ :‬حج‪،‬‬ ‫عمرہ‪ ،‬احرام‪ ،‬طواف‪ ،‬صفا مروہ کی سعی‪ ،‬بیت ہللا کی حرمت‪ ،‬حدود حرم اور اشہر حرم کی‬ ‫عزت و تکریم‪ ،‬مہمانوں کی خدمت‪ ،‬حجاج کو پانی پالنا وغیرہ ‪،‬یا اسی طرح صدقہ خیرات‪،‬‬ ‫خوش اخالقی‪ ،‬نکاح و طالق‪ ،‬جنگ و امن کے احکام‪ ،‬ثبوت ِ نسب‪ ،‬محرمات ابدیہ کا تصور‪،‬‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 10‬حالل و حرام کا احساس‪ ،‬چوری‪ ،‬ڈکیتی‪ ،‬قتل و قتال کی سزائیں اور دیت و قصاص وغیرہ کا‬ ‫نفاذ بھی غیر اہم ہیں؟ اور ان احکام و امور کی بجا آوری اور پاسداری بھی غیر اہم اور غیر‬ ‫ضروری قرار پائے گی؟ اگر نہیں ا ور یقینا نہیں تو داڑھی کو ہی کیوں نشانہ بنایا جاتا ہے؟ اور‬ ‫یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ چونکہ‪ ،‬حضور علیہ السالم کے دور میں مسلمان اور غیر مسلم دونوں‬ ‫داڑھی رکھتے تھے … اس لئے یہ غیر اہم اور غیر ضروری ہے۔ پھر موصوف نے اس ارشاد‬ ‫ٰالہی کی طرف کیوں توجہ نہ فرمائی‪ ،‬جس میں حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی سیرت و‬ ‫صورت کو اپنانے کی تلقین فرماتے ہوئے فرمایا گیا ہے‪:‬‬ ‫”لقد کان لکم فی رسول ٰ ّ‬ ‫ہللا اسوة حسنة۔“ (احزاب‪)۲۱:‬‬

‫ترجمہ‪ ” …:‬تمہارے لئے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی سیرت میں بہترین نمونہ ہے۔“‬ ‫کیا حضور صلی ہللا علیہ وسلم نے زندگی بھر داڑھی نہیں رکھی؟ کیا موصوف اس کا انکار‬ ‫فرماسکتے ہیں کہ حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی داڑھی تھی؟ اگر جواب نفی میں ہے او ریقینا‬ ‫نفی میں ہے تو کیا اس ارشاد ٰالہی میں حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی اتباع اور آپ صلی ہللا‬ ‫علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو اپنانے کی تلقین نہیں فرمائی گئی؟ اس کے عالوہ دوسری جگہ یہ‬ ‫ارشاد ٰالہی بھی تو ہے‪:‬‬ ‫ہللا فاتبعونی یحببکم ٰ ّ‬ ‫”قل ان کنتم تحبون ٰ ّ‬ ‫ہللا۔“ ( آل عمران‪) ۳۱:‬‬

‫ٰ‬ ‫تعالی سے محبت رکھتے ہو تو تم لوگ میری اتباع‬ ‫ترجمہ‪” …:‬آپ فرمادیجئے کہ اگر تم خدا‬ ‫کرو‪،‬‬

‫خدا‬

‫ٰ‬ ‫تعالی‬

‫تم‬

‫سے‬

‫محبت‬

‫کرنے‬

‫لگیں‬

‫گے۔“‬

‫کیا موصوف اس سلسلہ میں قرآن و سنت کی کوئی ایسی نص پیش کرسکتے ہیں‪ ،‬جس میں کہا‬ ‫گیا ہو کہ فالں فالں معاملہ میں حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی اتباع کی جائے اور فالں فالں‬ ‫شعبہ میں ان کی اتباع اور اطاعت کی ضرورت نہیں؟ یا ان کی مخالفت کی جاسکتی ہے؟ اس‬ ‫سب سے ہٹ کر خود آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم نے اپنے ارشادات عالیہ میں داڑھی رکھنے‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 11‬کی شدید تاکید کرکے اس کی اہمیت و عظمت کو نہ صرف واضح کیا ہے‪ ،‬بلکہ اس کو‬ ‫مسلمانوں کا شعار باور کرایا ہے‪ ،‬چنانچہ مالحظہ ہو‪:‬‬ ‫ہللا صلی ٰ ّ‬ ‫ہللا عنہا قالت‪ :‬قال رسول ٰ ّ‬ ‫‪” …:۱‬عن عائشة رضی ٰ ّ‬ ‫ہللا علیہ وسلم عشر من الفطرة‪ :‬قص الشارب‬ ‫واعفاء اللحیة۔“ (صحیح مسلم‪ ،‬ج‪ ،۱:‬ص‪)۱۲۵:‬‬

‫ترجمہ‪” … :‬حضرت عائشہ رضی ہللا عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم نے‬ ‫ارشاد فرمایا کہ‪ :‬دس چیزیں فطرت میں داخل ہیں‪ ،‬مونچھوں کا کٹوانا اور داڑھی کا بڑھانا‬ ‫…الخ“‬ ‫ہللا عنہما عن النبی صلی ٰ ّ‬ ‫‪” …:۲‬عن ابن عمر رضی ٰ ّ‬ ‫ٰ‬ ‫اللحی۔ وفی‬ ‫ہللا علیہ وسلم قال احفوا الشوار ب واعفوا‬ ‫روایة انہ امر باحفاء الشوارب واعفاء اللحیة ۔“ (صحیح مسلم‪ ،‬ج‪ ،۱:‬ص‪)۱۲۵:‬‬

‫ترجمہ‪” …:‬حضرت ابن عمر رضی ہللا عنہما سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم‬ ‫نے فرمایا کہ ‪:‬مونچھوں کو کٹواإ اور داڑھی بڑھاإ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی ہللا‬ ‫علیہ وسلم نے مونچھوں کو کٹوانے اور داڑھی کو بڑھانے کا حکم فرمایا۔ “‬ ‫ہللا عنہما قال قال رسول ٰ ّ‬ ‫‪ ” …:۳‬عن ابن عمر رضی ٰ ّ‬ ‫ہللا صلی ہللا علیہ وسلم‪ :‬خالفوا المشرکین‪ ،‬او فروا‬ ‫ٰ‬ ‫ٰ‬ ‫مشکوة‪ ،‬ص‪)۳۲۲:‬‬ ‫اللحی واحفوا الشوارب“ (متفق علیہ‬

‫ترجمہ‪ ”…:‬حضرت ابن عمر رضی ہللا عنہما سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم‬ ‫نے فرمایا‪ :‬مشرکوں کی مخالفت کرو‪ ،‬داڑھیاں بڑھاإ اور مونچھیں کٹاإ۔“‬ ‫ہللا صلی ٰ ّ‬ ‫ہللا عنہ قال‪ :‬قال رسول ٰ ّ‬ ‫‪” …:۴‬عن ابی ہریرة رضی ٰ ّ‬ ‫ہللا علیہ وسلم جزو الشوارب وارخوا اللُّ ٰحی‪،‬‬ ‫خالفوا المجوس۔“ (صحیح مسلم‪ ،‬ج‪ ۱:‬ص‪)۱۲۵:‬‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 12‬ترجمہ‪ ” …:‬حضرت ابو ہریرہ رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم‬ ‫نے ارشاد فرمایا‪ :‬مونچھیں کٹواإ اور داڑھیاں بڑھاإ‪ ،‬مجوسیوں کی مخالفت کرو۔“‬ ‫ہللا صلی ٰ ّ‬ ‫ہللا عنہ ان رسول ٰ ّ‬ ‫‪”…:۳‬عن زید بن ارقم رضی ٰ ّ‬ ‫ہللا علیہ وسلم قال من لم یؤخذ من شاربہ‬

‫فلیس‬

‫ٰ‬ ‫مشکوة ص‪)۳۲۱:‬‬ ‫منا۔“ (رواہ احمد والترمذی والنسائی‪،‬‬

‫ترجمہ‪” …:‬حضرت زید بن ارقم رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ‬ ‫وسلم نے فرمایا‪ :‬جو مونچھیں نہ کٹوائے وہ ہم میں سے نہیں۔“‬ ‫ہللا علیہ وسلم‪ :‬لعن ٰ ّ‬ ‫ہللا عنہما قال‪ :‬قال النبی صلی ٰ ّ‬ ‫‪” …:۶‬عن ابن عباس رضی ٰ ّ‬ ‫ہللا المتشبہین من الرجال‬ ‫ٰ‬ ‫(مشکوة ‪،‬ص‪)۳۲۲:‬‬ ‫بالنساء والمتشبہات من النساء بالرجال‪ ،‬رواہ البخاری۔“‬

‫ترجمہ‪ ” …:‬حضرت ابن عباس رضی ہللا عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم‬ ‫نے ارشاد فرمایا ‪:‬ہللا کی لعنت ہو ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت کرتے ہیں اور ہللا کی‬ ‫لعنت‬

‫ہو‬

‫ان‬

‫عورتوں‬

‫پر‬

‫جو‬

‫مردوں‬

‫کی‬

‫مشابہت‬

‫کرتی‬

‫ہیں۔“‬

‫ان تمام احادیث میں ”داڑھی بڑھاإ“ اور ”مونچھیں کتراإ“ کو امر کے صیغہ سے تعبیر کیا گیا‬ ‫اہل علم پر مخفی نہیں کہ امر حقیقتا ً وجوب کے لئے ہوتا ہے‪ ،‬جس سے معلوم‬ ‫ہے‪ ،‬اور کسی ِ‬ ‫ہوا کہ داڑھی رکھنا اور مونچھیں کٹوانا واجب ہے اور واجب کا ترک حرام ہے‪ ،‬کیا اب بھی یہ‬ ‫کہا جائے گا کہ داڑھی رکھنا غیر ضروری یا اسالم کا شعار نہیں؟ کیا اب بھی کہا جاسکتا ہے‬ ‫کہ یہ غیر اہم ہے؟ بتالیا جائے کہ جو کام تمام انبیاء کرام علیہم السالم نے کیا اور بطور خاص‬ ‫نبی امی صلی ہللا علیہ وسلم نے اپنے ماننے والوں کو اس کی طرف متوجہ کیا‪ ،‬بلکہ اس کو‬ ‫مسلمانوں کے لئے الزم قرار دیا‪ ،‬وہ کیونکر اسالم کا شعار اور مسلمانوں کا اختصاص نہیں‬ ‫ہوگا؟ مزید براں داڑھی منڈانے اور کٹوانے پر آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم نے نہایت‬ ‫ناپسندیدگی کا اظہار فرماتے ہوئے شاہ ایران کے قاصدوں کی طرف دیکھنے اور ان سے بات‬


‫‪MERITEHREER786@GMAIL.COM‬‬ ‫‪ 13‬چیت کرنے کو نہ صرف ناپسند فرمایا‪ ،‬بلکہ ان کو بددعا دیتے ہوئے ان سے اعراض فرمایا‪،‬‬ ‫مالحظہ ہو‪:‬‬ ‫ہللا صلی ٰ ّ‬ ‫کسری‪ ،‬فقال رسول ٰ ّ‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا علیہ‬ ‫”فکرہ النظر الیہما‪ ،‬وقال‪ :‬ویلکما من امرکما بہذا؟ قال امرنا ربنا یعنیان‬ ‫وسلم‪ :‬ولکن ربی امرنی باعفاء لحیتی وقص شاربی۔“ (البدایة والنہایہ ج‪ ،۴:‬ص‪ ،۲۲۵:‬حیاة الصحابہ‪ ،‬ج‪،۱:‬‬ ‫ص‪)۱۱۳:‬‬

‫ترجمہ‪ ” … :‬پس آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم نے ان کی طرف نظر کرنا بھی پسند نہ کیا اور‬ ‫فرمایا‪ :‬تمہاری ہالکت ہو‪ ،‬تمہیں یہ شکل بگاڑنے کا کس نے حکم دیا ہے؟ وہ بولے کہ یہ‬ ‫ہمارے رب یعنی شا ِہ ایران کا حکم ہے‪ ،‬رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا‪ :‬لیکن میرے‬ ‫رب نے تو مجھے داڑھی بڑھانے اور مونچھیں کٹوانے کا حکم فرمایا ہے۔“‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی نے دیا‬ ‫حکم ٰالہی ہے اور جس کام کا حکم ہللا‬ ‫سوچنا چاہئے کہ داڑھی بڑھانے کا حکم‪،‬‬ ‫ِ‬ ‫ہو‪ ،‬وہ اہم ہوگا یا غیر اہم؟ اگر جواب اثبات میں ہے اور یقینا اثبات میں ہے‪ ،‬تو وہ کیونکر‬ ‫مسلمانوں کا اختصاص و شعار نہیں ہوگا؟ پھر یہ بات بھی قابل ِ غور ہے کہ داڑھی منڈانا یا‬ ‫کٹانا مسلمانوں کا نہیں مجوسیوں کا شعار ہے‪ ،‬بتالیا جائے کہ داڑھی کاٹنے والے یا مونڈنے‬ ‫والے کا وزن مسلمانوں کے پلڑے میں ہوگا یا مجوسیوں کے پلڑے میں؟ مگر اے کاش! کہ‬ ‫اسالمی نظریاتی کونسل کا چیئرمین اس کو غیر اہم قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ مسلمانوں کا‬ ‫شعار نہیں‪،‬‬ ‫فیالضیعة‬

‫العلم‬

‫والفہم!‬

‫فانا‬

‫ٰ ّہلل‬

‫وانا‬

‫الیہ‬

‫تعالی ٰ‬ ‫ٰ‬ ‫علی خیر خلقہ محمدوآلہ واصحابہ اجمعین‬ ‫صلی ہللا‬

‫(جاری ہے)‬ ‫اشاعت ‪ ۲۲۲۲‬ماہنامہ بینات ‪ ,‬محرم الحرام ‪۱۴۲۵‬ھ فروری‪۲۲۲۲‬ء‪ ,‬جلد ‪ ,07‬شمارہ ‪1‬‬

‫راجعون۔‬


Turn static files into dynamic content formats.

Create a flipbook
Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.