MERITEHREER786@GMAIL.COM 1
ازواج صرف حکم کا حجاب ِ نبی کے لئے تھا؟ اسالمی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کی خدمت میں! ()۲
الحمد ہلل وسالم علی عبادہ الذین اصطفی!
اسالمی نظریاتی کونسل کے چیئرمین جناب خالد مسعود صاحب حجاب اور پردے سے متعلق مزید ج
کہتے …:
”حجاب
صرف
نبی
ہیں: ازواج
کی
کے
لئے
تھا۔“
روزنامہ نوائے وقت کی خبر میں تو صرف اتنا ہی تھا ،البتہ روزنامہ جنگ کراچی ،سنڈے میگزین کے طویل انٹرویو میں موصوف نے اس کی کچھ مزید تفصیالت سے بھی آگاہ کیا ہے، مثالً:
وہ
ہیں:
کہتے
”پردے کا مطلب ہم جن معنوں میں لیتے ہیں ،مثالً حجاب ،قرآن مجید کے حکم کے نزدیک وہ صرف رسول ہللا کی بیویوں کے لئے تھا ،قرآن مجید میں پوری وضاحت آئی ہے کہ رسول ہللا کی ایک بیوی کی شادی کے موقع پر رواج کے مطابق لوگ پوری رات وہاں بیٹھے رہے ،اور پوری تفسیر احادیث میں آئی ہے ،اس کے بعد حضرت عمر
نے فرمایا کہ کچھ تو پرائیویسی
ہونی چاہئے ،تو جو پردہ ہے ،وہ پرائیویسی کے معنی میں آتا ہے ،یہ رسول ہللا کی ازواج کے بارے
میں
تھا…۔“
(سنڈے
میگزین
روزنامہ
جنگ
/۲۲اکتوبر
۲۲۲۰ء)
قطع نظر اس کے کہ موصوف کے بیان میں کیا صحیح اور کیا غلط ہے؟ … کیونکہ ان کا یہ
MERITEHREER786@GMAIL.COM 2کہنا کہ” :رسول ہللا کی ایک بیوی کی شادی کے موقع پر رواج کے مطابق لوگ پوری رات وہاں بیٹھے رہے“ سراسر جھوٹ اور غلط ہے ،کیونکہ کسی آیت ،حدیث ،تفسیر اور تاریخ میں اس کا کہیں کوئ ی ذکر نہیں ہے ،ہاں البتہ رات دیر تک بیٹھنے کا ذکر صحیح بخاری میں ہے، اسی طرح حضرت عمر
کی طرف” :کچھ تو پرائیویسی ہونی چاہئے۔“ کی نسبت بھی غلط
ہے ،اس کا بھی کہیں کوئی تذکرہ نہیں ملتا… تاہم ان کے ہر دو بیانات سے اتنی بات واضح طور پر سامنے آجاتی ہے کہ موصوف پردہ کو صرف ازواج مطہرات کے ساتھ خاص مانتے ہیں اور پردہ کی غرض و غایت یا حکمت و مصلحت بھی صرف اور صرف پرائیویسی یعنی تخلیہ کو قرار دیتے ہیں۔ گویا ازواج مطہرات کے بعد اب کوئی مسلمان خاتون پردہ کی مکلف نہیں ہے ،نیز پردہ چونکہ ان کے ہاں محض پرائیویسی کے لئے تھا ،اس لئے اگر کسی کی پرائیویسی متاثر نہ ہوتی ہو تو اس کو پردہ کی چنداں حاجت نہیں… اس عقل و دانش اور علم و حکمت ”بریں
پر عقل
یہی و
کہا دانش
جاسکتا بباید
گریست
ہے: “
سوال یہ ہے کہ ازواج مطہرات کے عالوہ دوسری مسلمان خواتین پردہ کی مکلف کیوں نہیں؟ یا یہ حکم ازواج مطہرات کے ساتھ کیوں خاص ہے؟ اگر دوسری مسلمان خواتین اس حکم سے ٰ ٰ مستثنی قرار دیا گیا؟ کیا ہم مستثنی ہیں تو کیوں؟ ان کو کب؟ اور کس آیت یا حدیث کی رو سے نظریاتی کونسل کے چیئرمین سے یہ پوچھنے کی جسارت کرسکتے ہیں کہ وہ ایسی کسی قرآنی آیت ،حدیث ،فقہی جزئیہ ،ائمہ اربعہ میں سے کس امام کی تصریح ،مسلمہ ائمہ تفسیر، اہل تحقیق میں سے ایسے کسی کے قول ،فعل یاعمل کی نشاندہی فرماسکتے ہیں، حدیث ،اور ِ جس سے ثابت ہوتا ہوکہ حجاب اور پردہ کا حکم صرف ازواج مطہرات کے ساتھ خاص تھا؟ کیا حضرات صحابہ کرام
نے بھی اس سے یہی سمجھا تھا؟ کیا حضرات صحابیات
بھی اس
ٰ مستثنی تھیں؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو کیا اس کی نشاندہی کی جاسکتی ہے کہ حکم سے کون کون سے صحابہ کرام
اس کے قائل تھے؟ اور کن کن صحابیات
نے اس حکم ٰالہی
MERITEHREER786@GMAIL.COM 3سے …نعوذباہلل… بغاوت کی تھی؟ ُتف ہے اس عقل و دانش پر اور لعنت ہے اس جہالت و سفاہت پر کہ اپنی خواہش پرستی اور انکار دین کو قرآن و سنت اور دین و شریعت کے سرمنڈھ دیا جائے اور نہایت ڈھٹائی ،بے حیائی ،بے باکی اور بے شرمی سے اسے اچھا ال جائے۔ افسوس !صد افسوس !کہ موصوف نے ایسی کسی آیت ،حدیث ،تفسیر ،تحقیق ،کسی صحابی ، تابعی
یا ائمہ اربعہ
میں سے کسی امام کی تصریح کی نشاندہی نہیں فرمائی ،جس سے ہم
جیسے کوتاہ علموں کی راہ نمائی ہوتی ،اگر وہ اس قسم کی کوئی نشاندہی فرمادیتے تو ہمیں ان کے دالئل و براہین پر غوروفکر میں سہولت ہوجاتی ،نیز ہمیں اندازہ ہو جاتا کہ انہیں کہاں سے ٹھوکر لگی ہے؟ اور وہ کس بناء پر غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں؟ یا وہ کس وجہ سے سیدھے سادے مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں؟ تاہم ہمارا حساس و وجدان ہے کہ وہ کسی قسم کی غلط فہمی میں مبتال نہیں ہیں ،بلکہ وہ دوسروں کو غلط فہمیوں میں مبتال کرنے پر مامور ہیں۔ کیونکہ وہ جاہل و اَن پڑھ نہیں” ،لکھے پڑھے اسکالر “اور ڈاکٹر فضل الرحمن جیسے ملحد و مرتد کے شاگرد و خوشہ چیں ،بلکہ ان کے جانشین اور ان کی فکر و فلسفہ کے داعی و مناد ہیں۔ نظر بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ آیت حجاب میں… جس کا انہوں نے اپنے انٹرویو میں حوالہ بھی دیا ہے… آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کے گھر والوں سے متعلق خطاب ہے اور صحابہ کرام
کو آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کی ایذا رسانی سے بچنے کی تلقین کی
گئی ہے ،اس لئے غالبا ً موصوف نے اس سے یہی سمجھا کہ اس آیت میں مذکور احکام و آداب بھی حضرات ازواج مطہرات کے ساتھ خاص ہیں ،لیجئے! آیت حجاب پڑھیئے اور موصوف ت حجاب: کی فکر رسا کی داد دیجئے! مالحظہ ہو آی ِ ”یا یہا الذین آمنوا ال تدخلوا بیوت النبی اال ان یإذن لکم ٰالی طعام غیر ناظرین اناہ ،ولکن اذا دعیتم فادخلوا، فاذا طعمتم فانتشروا والمستؤنسین لحدیث ،ان ٰذلکم کان یإذی النبی فیستحی منکم ٰ ّ وہللا الیستحی من الحق واذا سؤلتموہن متاعا ً فسئلوہن من ورآء حجابٰ ،ذلکم اطہر لقلوبکم وقلوبہن ،وما کان لکم ان تإذوا رسول ٰ ّ ہللا وال ّٰ عندہللا عظیما۔„ (احزاب)۳۳: ان تنکحوا ازواجہ من بعدہ ابداً ،ان ٰذلکم کان
MERITEHREER786@GMAIL.COM 4ترجمہ ” …:اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں مت جایا کرو ،مگر جس وقت تم کو کھانے کے لئے اجازت دی جاوے ،ایسے طور پر کہ اس کی تیاری کے منتظر نہ رہو ،لیکن جب تم کو بالیا جاوے تب جایا کرو ،پھر جب کھانا کھا چکو تو اٹھ کر چلے جایا کرو اور باتوں میں جی لگاکر مت بیٹھے رہا کرو ،اس بات سے نبی کو ناگواری ہوتی ہے ،سو وہ تمہارا لحاظ کرتے ٰ تعالی صاف بات کہنے سے لحاظ نہیں کرتا ،اور جب تم ان سے کوئی چیز مانگو تو ہیں اور ہللا پردہ کے باہر سے مانگا کرو ،یہ بات تمہارے دلوں اور ان کے دلوں کے پاک رہنے کا عمدہ ذریعہ ہے اور تم کو جائز نہیں کہ رسول ہللا کو کلفت پہنچاإ اور نہ یہ جائز ہے کہ تم آپ کے بعد آپ کی بیبیوں سے کبھی بھی نکاح کرو ،یہ خدا کے نزدیک بڑی بھاری بات ہے۔“ یہ طے شدہ امر ہے ،بلکہ تمام مفسرین کا اس پر اجماع ہے کہ پردے کی فرضیت کا حکم سب سے پہلے سورئہ احزاب کی مندرجہ باال آیت میں نازل ہوا تھا ،اسی لئے اس آیت کو آیت حجاب کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ تاہم اس آیت میں امت مسلمہ کو حجاب کے عالوہ چند دوسرے احکام و آداب کی بھی تلقین فرمائی گئی ہے مثالً :دعوت طعام کے آداب ،کسی کے گھر میں جانے کے آداب ،عورتوں کے لئے پردہ کا حکم ،ازواج مطہرات کے لئے آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کے بعد کسی سے نکاح نہ کرنے کا حکم وغیرہ۔ یہ آیت اگرچہ ایک خاص واقعہ سے متعلق ہے ،اور اس میں ازواج مطہرات کے پردے سے متعلق حکم بھی ہے ،لیکن اس کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ یہ حکم صرف ازواج مطہرات کے ساتھ خاص ہے ،بلکہ یہ حکم عام ہے اور اس کے عموم پر تمام مفسرین کا اجماع ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح سورئہ احزاب کی ازواج مندرجہ ذیل آیات میں خطاب ازواج مطہرات کو ہے ،مگر ہر ذی فہم جانتا ہے کہ یہ حکم ِ مطہرات کے ساتھ خاص نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کی خواتین کے لئے عام ہے ،چنانچہ سورئہ احزاب کی وہ آیت مالحظہ ہو:
MERITEHREER786@GMAIL.COM 5
”یانسآء النبی لستن کاحد من النساء ان اتقیتن فال تخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبہ مرض وقلن قوالً معروفا۔ ٰ الصلوة وآتین الزکوة واطعن ٰ ّ ہللا ورسولہ ،انما یرید وقرن فی بیوتکن وال تبرّجن تبرّ ج الجاہلیة االولی واقمن ّٰ ہللا لیذہب عنکم الرجس اہل البیت ویطہرکم تطہیرا۔“ (احزاب)۳۳/۳۲:
ٰ تقوی اختیار کرو تو ترجمہ”…:اے نبی کی بیبیو!تم معمولی عورتوں کی طرح نہیں ہو ،اگر تم تم بولنے میں نزاکت مت کرو کہ ایسے شخص کو خیال ہونے لگتا ہے جس کے قلب میں خرابی ہے اور قاعدہ کے موافق بات کہو اور تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم زمانہ جاہلیت کے دستور کے موافق مت پھرو اور تم نمازوں کی پابندی رکھو اور ٰ زکوة دیا کرو اور ہللا کا ٰ تعالی کو یہ منظور ہے کہ اے گھر والو! تم سے آلودگی اور اس کے رسول کا کہنا مانو اور ہللا کو
دور
رکھے
اور
تم
دیکھئے! یہاں بھی خطاب اگرچہ ازواج مطہرات
کو
پاک
صاف
رکھے۔“
کو ہے مگر اس کا حکم عام ہے ،اگر
بالفرض اس آیت کو ازواج مطہرات کے ساتھ خاص کردیا جائے ،تو کیا کہا جائے کہ ازواج مطہرات
کے عالوہ دوسری مسلمان خواتین آج بھی زمانہ جاہلیت کی طرح ننگ دھڑنگ
پھرسکتی ہیں؟ کیا جناب خالد مسعود صاحب اس کے قائل ہیں کہ اس آیت میں نماز قائم کرنے، ٰ زکوة دینے ،ہللا اور اس کے رسول صلی ہللا علیہ وسلم کی اطاعت کرنے کا حکم بھی صرف ازواج مطہرات
کے ساتھ خاص ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہے ،تو کیا امت مسلمہ کی دوسری
ٰ خواتین نمازٰ ، مستثنی ہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟ زکوة کی ادائیگی اور ہللا ،رسول کی اطاعت سے اگر جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہے ،تو بتالیا جائے کہ ایک آیت میں ہی ایک حکم عام تو دوسرا خاص کیوں؟ ہاتوا برہانکم ان کنتم صادقین!
صرف یہی نہیں ،بلکہ اس کی بیسیوں مثالیں موجود ہیں کہ خطاب خاص ہوتا ہے لیکن اس کا حکم عام ہوتا ہے ،جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
MERITEHREER786@GMAIL.COM 6
”یایہا النبی اذا طلقتم النساء فطلقوہن لعدتہن واحصوا العدة ،واتقوا ٰ ّ ہللا ربکم ،التخرجوہن من بیوتہن وال ہللا فقد ظلم نفسہ ،ال تدری لعل ٰ ّ ہللا ،ومن یتعد حدود ٰ ّ یخرجن اال ان یؤتین بفاحشة مبینة ،وتلک حدود ٰ ّ ہللا یحدث بعد ذلک امراً۔“ (الطالق)۱ :
ترجمہ” …:اے پیغمبر جب تم …اپنی… عورتوں کو طالق دینے لگو تو ان کو …زمانہ… عدت …یعنی… حیض سے پہلے …یعنی طہر میں… طالق دو اور تم عدت کو یاد رکھو اور ہللا سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے ،ان عورتوں کو ان کے …رہنے کے… گھروں سے مت نکالو… کیونکہ ٰ سکنی مطلقہ کا مثل منکوحہ کے واجب ہے… اور نہ وہ عورتیں خود نکلیں مگر ہاں کوئی کھلی بے حیائی کریں تو اور بات ہے اور یہ سب خدا کے مقرر کئے ہوئے احکام ہیں اور جو شخص احکام خداوندی سے تجاوز کرے گا … مثالً اس عورت کو گھر سے ٰ تعالی بعد اس …طالق نکال دیا… اس نے اپنے اوپر ظلم کیا تجھ کو خبر نہیں شاید ہللا دینے…کے
کوئی
نئی
بات
…تیرے
دل
میں…
پیدا
کردے۔“
کیا خیال ہے خالد مسعود صاحب یا ان کے ہمنوا یہاں حیض کے بجائے طہر میں طالق دینے، اور عدت کی مدت میں گھر سے نہ نکالنے یا عدت کے حساب رکھنے کو بھی ازواج مطہرات کے ساتھ خاص مانتے ہیں؟ کیا وہ نعوذباہلل ازواج مطہرات
کے عالوہ دوسری مسلمان
خواتین کی عدت اور عدت میں ٰ سکنی کے قائل نہیں ہیں؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو کس بنیاد پر؟ سوال یہ ہے کہ جس طرح اس آیت کے مخاطب اگرچہ آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم اور ازواج مطہرات
ہیں مگر اس کا حکم عام ہے ،ٹھیک اسی طرح آیت حجاب میں بھی خطاب
اگرچہ ازواج مطہرات
کو ہے مگر اس کا حکم عام ہے اور تمام مسلمان خواتین اس کی
مکلف ہیں۔ اس کے عالوہ اگر بالفرض قرآن کریم کے احکام صرف اس کے مخاطبین اولین تک محدود ہوتے ،تو نعوذباہلل! آج امت مسلمہ قرآن اور قرآنی تعلیمات کے نور ،روشنی اور برکات سے محروم نہ ہوچکی ہوتی؟ کیونکہ قرآن کریم کے مخاطب اول تو حضرات صحابہ کرام تھے ،جب وہ نہیں رہے تو ان کی طرف متوجہ ہونے واال خطاب کیونکر باقی ہوتا؟ چلئے اس
MERITEHREER786@GMAIL.COM 7کو بھی چھوڑیئے ہم اسالمی نظریاتی کونسل کے چیئرمین سے عرض کرنا چاہیں گے کہ وہ اس آیت اور اس کے حکم کا کیا محمل ارشاد فرمائیں گے؟ جس میں ازواج مطہرات کے ساتھ ساتھ مومن خواتین کو بھی مخاطب کرتے ہوئے گھر سے باہر جاتے وقت پردہ کا حکم دیا گیا ہے ،مالحظہ ہو: ”یایھا النبی قل ال زواجک ٰ وبنتک ونساء المإمنین یدینن علیہن من جالبیبہن ،ذالک ٰ ادنی ان یعرفن فالیإذین وکان ٰ ّ ہللا غفوراً رحیما۔“(احزاب)۳۵ :
ترجمہ ” …:اے پیغمبر اپنی بیبیوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور دوسرے مسلمانوں کی بیبیوں سے بھی کہہ دیجئے کہ نیچی کرلیا کریں اپنے اوپر تھوڑی سی اپنی چادریں ،اس سے ٰ تعالی بخشنے واال مہربان جلدی پہچان ہوجایا کرے گی تو آزار نہ دی جایا کریں گی اور ہللا ہے۔“ تفسیر ”ابن کثیر“ میں اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
حافظ ابن کثیر
”قال علی بن ابی طلحہ عن ابن عباس وجوہہن
من
فوق
امر ٰ ّ ہللا نساء المإمنین اذا خرجن من بیوتہن فی حاجة ان یغطین رإسہن
ویبدین
بالجالبیب
عینا ً
واحدة۔“
”وقال محمد بن سیرین سؤلت عبیدة السلمانی عن قول ٰ ّ ٰ تعالی یدنین علیہن من جالبیبہن ،فغطی وجہہ ورأسہ ہللا ٰ لیسری“ (ابن کثیر ص ،۲۳۱:ج ،۳:مکتبہ رشیدہ کوئٹہ) وابرزعینہ ا
ترجمہ …:علی بن ابی طلحہ حضرت عبدہللا بن عباس
ٰ تعالی نے سے نقل فرماتے ہیں کہ ہللا
مومن عورتوں کو حکم دیا کہ جب وہ کسی ضرورت کے لئے اپنے گھروں سے نکلیں تو اپنے چہروں کو سروں کی جانب سے پردہ سے ڈھانپ لیا کریں اور… راستہ دیکھنے کے لئے … صرف ایک آنکھ کھلی رکھا کریں۔ حضرت محمد بن سیرین
فرماتے ہیں کہ میں نے عبیدہ
سلمانی سے ہللا کے ارشاد”:یدنین علیہن من جالبیبہن“ کے معنی و مفہوم کے بارہ میں پوچھا تو انہوں نے اپنا چہرہ اور سرچھپا کر ،صرف بائیں آنکھ ظاہر کرکے… اس کی عملی وضاحت
MERITEHREER786@GMAIL.COM 8فرمائی۔“ صرف حافظ ابن کثیر
ہی نہیں ،بلکہ تمام مفسرین
میں اس کی تفسیر کی ہے۔ مالحظہ ہو :عالمہ آلوسی فتح القدیر ،جصاص عالمہ قرطبی
نے اس مقام پر اس سے ملتے جلتے الفاظ کی روح المعانی ،قاضی شوکانی
کی احکام القرآن ،عالمہ قرطبی
کی
کی تفسیر الجامع االحکام القرآن،
ہی کی احکام القرآن ،تفسیر ابن جریر ،تفسیر بحر محیط ،تفسیر ابوالسعود،
تفسیر زاد المیسر،تفسیر در منثور ،تفسیر روح البیان ،تفسیر مظہری ،تفسیر معالم التنزیل ،تفسیر جمل اور تفسیر بیضاوی وغیرہ۔ اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ مغربی اساتذہ سے پڑھتے ہیں ،یا ان کا مغرب میں برین واش کیا جاتا ہے ،وہ اسی زاویہ نگاہ سے اسالم ،قرآن اور اسالمی احکام کو دیکھتے،پڑھتے اور سمجھتے ہیں ،چونکہ ان کی فکر ،سوچ ،دل ،دماغ ،کان اور آنکھ میں بدگمانی اور تشکیک کا میل کچیل بھردیا جاتا ہے ،اس لئے ان کو قرآن ،سنت ،اجماع امت، صحابہ کرام ،تابعین ،امت مسلمہ کی تحقیقات و تعامل اور مسلمات دینیہ میں اسی شک و شبہ کا میل کچیل نظر آتا ہے ،اس لئے وہ اپنی فکر ،سوچ ،دل ،دماغ ،زبان ،ہاتھ ،کان اور آنکھ سے ہر وہ بات سوچتے ،بولتے ،لکھتے اور دیکھتے ہیں جو ان کے مستشرق اساتذہ اور ملحد مربی بولتے اور لکھتے ہیں ،ورنہ ہر مسلمان جانتا ہے کہ قرآنی احکام ،اوامر و نواہی میں اگرچہ خطاب مردوں کو ہوتا ہے مگر خواتین بھی اس میں شامل ہوتی ہیں ،اور جہاں ازواج مطہرات
کو مخاطب کیا گیا ہے وہاں عام مسلمان خواتین بھی اس کی مخاطب ہوتی ہیں۔ مثالً
پورے قرآن میں خواتین کے حج کرنے سے متعلق کہیں کوئی حکم نہیں ہے ،کیا کہا جائے کہ خواتین پر حج فرض نہیں ہے؟اسی طرح تیمم کا حکم دیتے ہوئے عورتوں کے بجائے صرف مردوں کو مخاطب کیا گیا ہے ،تو کیا خواتین اس سے فائدہ نہیں اٹھاسکتیں؟ اسی طرح بے ٰ مستثنی ہوں گی؟ شمار احکام میں مردوں کو مخاطب کیا گیا ہے ،تو کیا خواتین ان احکام سے نہیں ،ہرگز نہیں۔ ناس ہو منکرین حدیث کاکہ انہوں نے ہمیشہ قرآن کریم کو ،حدیث و سنت اور فقہائے امت کی تحقیقات کے تناظر میں سمجھنے کی بجائے اپنی کوتاہ عقل و فہم سے
MERITEHREER786@GMAIL.COM 9سمجھنے کی کوشش کی ہے ،چونکہ انہوں نے اپنی عقل نارسا اور فہم ناقص کو حدیث و سنت اور ائمہ ٰ ہدی کی فہم و فراست پر ترجیح دی ہے ،اس لئے وہ اغوائے شیطانی کا شکار ہوگئے، اور یہ حقیقت ہے کہ جن لوگوں نے اسالف کی تحقیقات کو چھوڑ کر اپنی کور فہمی پر اعتماد کیا ،انہوں نے ہمیشہ ٹھوکریں کھائی ہیں۔ اگرچہ خالد مسعود جیسے حضرات کو اس کا کوئی فائدہ نہ ہوتا ،لیکن ضروری تھا کہ سیدھے سادے مسلمانوں کی راہ نمائی کے لئے آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم ،حضرات صحابہ کرام
اور صحابیات
کے ارشادات و معموالت میں
سے چند ایک یہاں نقل کردیئے جاتے تو یہ سمجھنا آسان ہوتا کہ پردہ اور حجاب صرف ازواج مطہرات
کے ساتھ خاص نہیں تھا ،بلکہ یہ حکم تمام مسلمان خواتین کے لئے عام ہے اور اس
قرن اول سے لے کر آج تک پوری امت مسلمہ کا تعامل چال آرہا ہے۔ تاہم خوفِ طوالت سے پر ِ ان تمام نصوص کو چھوڑ کر ہم موصوف کے چوتھے ارشاد کا جائزہ لیتے ہیں۔ ……………………………… د” …:اگرچہ داڑھی سنت ہے ،تاہم حضور علیہ السالم کے دور میں مسلمان اور غیر مسلم دونوں
داڑھی
رکھتے
تھے۔“
گویا وہ فرمانا چاہتے ہیں کہ داڑھی مسلمانوں کا اختصاص نہیں ،کیونکہ حضور صلی ہللا علیہ وسلم کے دور میں مسلمان و غیر مسلم دونوں داڑھی رکھا کرتے تھے ،دوسرے الفاظ میں وہ داڑھی ایسے واجب کی تخفیف کرکے اس کو غیر اہم اور غیر ضروری باور کرانا چاہتے ہیں۔ کیا ہم موصوف سے یہ پوچھ سکتے ہیں کہ ابتداء اسالم میں جو کام کافر و مسلم کیا کرتے تھے ،وہ غیر اہم ہوتا ہے؟ یا وہ اسالم اور مسلمانوں کا اختصاص و شعار نہیں بن سکتا؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو کیا کہا جائے کہ اسالم سے قبل مروجہ عبادات و اعمال مثالً :حج، عمرہ ،احرام ،طواف ،صفا مروہ کی سعی ،بیت ہللا کی حرمت ،حدود حرم اور اشہر حرم کی عزت و تکریم ،مہمانوں کی خدمت ،حجاج کو پانی پالنا وغیرہ ،یا اسی طرح صدقہ خیرات، خوش اخالقی ،نکاح و طالق ،جنگ و امن کے احکام ،ثبوت ِ نسب ،محرمات ابدیہ کا تصور،
MERITEHREER786@GMAIL.COM 10حالل و حرام کا احساس ،چوری ،ڈکیتی ،قتل و قتال کی سزائیں اور دیت و قصاص وغیرہ کا نفاذ بھی غیر اہم ہیں؟ اور ان احکام و امور کی بجا آوری اور پاسداری بھی غیر اہم اور غیر ضروری قرار پائے گی؟ اگر نہیں ا ور یقینا نہیں تو داڑھی کو ہی کیوں نشانہ بنایا جاتا ہے؟ اور یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ چونکہ ،حضور علیہ السالم کے دور میں مسلمان اور غیر مسلم دونوں داڑھی رکھتے تھے … اس لئے یہ غیر اہم اور غیر ضروری ہے۔ پھر موصوف نے اس ارشاد ٰالہی کی طرف کیوں توجہ نہ فرمائی ،جس میں حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی سیرت و صورت کو اپنانے کی تلقین فرماتے ہوئے فرمایا گیا ہے: ”لقد کان لکم فی رسول ٰ ّ ہللا اسوة حسنة۔“ (احزاب)۲۱:
ترجمہ ” …:تمہارے لئے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی سیرت میں بہترین نمونہ ہے۔“ کیا حضور صلی ہللا علیہ وسلم نے زندگی بھر داڑھی نہیں رکھی؟ کیا موصوف اس کا انکار فرماسکتے ہیں کہ حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی داڑھی تھی؟ اگر جواب نفی میں ہے او ریقینا نفی میں ہے تو کیا اس ارشاد ٰالہی میں حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی اتباع اور آپ صلی ہللا علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو اپنانے کی تلقین نہیں فرمائی گئی؟ اس کے عالوہ دوسری جگہ یہ ارشاد ٰالہی بھی تو ہے: ہللا فاتبعونی یحببکم ٰ ّ ”قل ان کنتم تحبون ٰ ّ ہللا۔“ ( آل عمران) ۳۱:
ٰ تعالی سے محبت رکھتے ہو تو تم لوگ میری اتباع ترجمہ” …:آپ فرمادیجئے کہ اگر تم خدا کرو،
خدا
ٰ تعالی
تم
سے
محبت
کرنے
لگیں
گے۔“
کیا موصوف اس سلسلہ میں قرآن و سنت کی کوئی ایسی نص پیش کرسکتے ہیں ،جس میں کہا گیا ہو کہ فالں فالں معاملہ میں حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی اتباع کی جائے اور فالں فالں شعبہ میں ان کی اتباع اور اطاعت کی ضرورت نہیں؟ یا ان کی مخالفت کی جاسکتی ہے؟ اس سب سے ہٹ کر خود آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم نے اپنے ارشادات عالیہ میں داڑھی رکھنے
MERITEHREER786@GMAIL.COM 11کی شدید تاکید کرکے اس کی اہمیت و عظمت کو نہ صرف واضح کیا ہے ،بلکہ اس کو مسلمانوں کا شعار باور کرایا ہے ،چنانچہ مالحظہ ہو: ہللا صلی ٰ ّ ہللا عنہا قالت :قال رسول ٰ ّ ” …:۱عن عائشة رضی ٰ ّ ہللا علیہ وسلم عشر من الفطرة :قص الشارب واعفاء اللحیة۔“ (صحیح مسلم ،ج ،۱:ص)۱۲۵:
ترجمہ” … :حضرت عائشہ رضی ہللا عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :دس چیزیں فطرت میں داخل ہیں ،مونچھوں کا کٹوانا اور داڑھی کا بڑھانا …الخ“ ہللا عنہما عن النبی صلی ٰ ّ ” …:۲عن ابن عمر رضی ٰ ّ ٰ اللحی۔ وفی ہللا علیہ وسلم قال احفوا الشوار ب واعفوا روایة انہ امر باحفاء الشوارب واعفاء اللحیة ۔“ (صحیح مسلم ،ج ،۱:ص)۱۲۵:
ترجمہ” …:حضرت ابن عمر رضی ہللا عنہما سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا کہ :مونچھوں کو کٹواإ اور داڑھی بڑھاإ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے مونچھوں کو کٹوانے اور داڑھی کو بڑھانے کا حکم فرمایا۔ “ ہللا عنہما قال قال رسول ٰ ّ ” …:۳عن ابن عمر رضی ٰ ّ ہللا صلی ہللا علیہ وسلم :خالفوا المشرکین ،او فروا ٰ ٰ مشکوة ،ص)۳۲۲: اللحی واحفوا الشوارب“ (متفق علیہ
ترجمہ ”…:حضرت ابن عمر رضی ہللا عنہما سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا :مشرکوں کی مخالفت کرو ،داڑھیاں بڑھاإ اور مونچھیں کٹاإ۔“ ہللا صلی ٰ ّ ہللا عنہ قال :قال رسول ٰ ّ ” …:۴عن ابی ہریرة رضی ٰ ّ ہللا علیہ وسلم جزو الشوارب وارخوا اللُّ ٰحی، خالفوا المجوس۔“ (صحیح مسلم ،ج ۱:ص)۱۲۵:
MERITEHREER786@GMAIL.COM 12ترجمہ ” …:حضرت ابو ہریرہ رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :مونچھیں کٹواإ اور داڑھیاں بڑھاإ ،مجوسیوں کی مخالفت کرو۔“ ہللا صلی ٰ ّ ہللا عنہ ان رسول ٰ ّ ”…:۳عن زید بن ارقم رضی ٰ ّ ہللا علیہ وسلم قال من لم یؤخذ من شاربہ
فلیس
ٰ مشکوة ص)۳۲۱: منا۔“ (رواہ احمد والترمذی والنسائی،
ترجمہ” …:حضرت زید بن ارقم رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا :جو مونچھیں نہ کٹوائے وہ ہم میں سے نہیں۔“ ہللا علیہ وسلم :لعن ٰ ّ ہللا عنہما قال :قال النبی صلی ٰ ّ ” …:۶عن ابن عباس رضی ٰ ّ ہللا المتشبہین من الرجال ٰ (مشکوة ،ص)۳۲۲: بالنساء والمتشبہات من النساء بالرجال ،رواہ البخاری۔“
ترجمہ ” …:حضرت ابن عباس رضی ہللا عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :ہللا کی لعنت ہو ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت کرتے ہیں اور ہللا کی لعنت
ہو
ان
عورتوں
پر
جو
مردوں
کی
مشابہت
کرتی
ہیں۔“
ان تمام احادیث میں ”داڑھی بڑھاإ“ اور ”مونچھیں کتراإ“ کو امر کے صیغہ سے تعبیر کیا گیا اہل علم پر مخفی نہیں کہ امر حقیقتا ً وجوب کے لئے ہوتا ہے ،جس سے معلوم ہے ،اور کسی ِ ہوا کہ داڑھی رکھنا اور مونچھیں کٹوانا واجب ہے اور واجب کا ترک حرام ہے ،کیا اب بھی یہ کہا جائے گا کہ داڑھی رکھنا غیر ضروری یا اسالم کا شعار نہیں؟ کیا اب بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ غیر اہم ہے؟ بتالیا جائے کہ جو کام تمام انبیاء کرام علیہم السالم نے کیا اور بطور خاص نبی امی صلی ہللا علیہ وسلم نے اپنے ماننے والوں کو اس کی طرف متوجہ کیا ،بلکہ اس کو مسلمانوں کے لئے الزم قرار دیا ،وہ کیونکر اسالم کا شعار اور مسلمانوں کا اختصاص نہیں ہوگا؟ مزید براں داڑھی منڈانے اور کٹوانے پر آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم نے نہایت ناپسندیدگی کا اظہار فرماتے ہوئے شاہ ایران کے قاصدوں کی طرف دیکھنے اور ان سے بات
MERITEHREER786@GMAIL.COM 13چیت کرنے کو نہ صرف ناپسند فرمایا ،بلکہ ان کو بددعا دیتے ہوئے ان سے اعراض فرمایا، مالحظہ ہو: ہللا صلی ٰ ّ کسری ،فقال رسول ٰ ّ ٰ ہللا علیہ ”فکرہ النظر الیہما ،وقال :ویلکما من امرکما بہذا؟ قال امرنا ربنا یعنیان وسلم :ولکن ربی امرنی باعفاء لحیتی وقص شاربی۔“ (البدایة والنہایہ ج ،۴:ص ،۲۲۵:حیاة الصحابہ ،ج،۱: ص)۱۱۳:
ترجمہ ” … :پس آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم نے ان کی طرف نظر کرنا بھی پسند نہ کیا اور فرمایا :تمہاری ہالکت ہو ،تمہیں یہ شکل بگاڑنے کا کس نے حکم دیا ہے؟ وہ بولے کہ یہ ہمارے رب یعنی شا ِہ ایران کا حکم ہے ،رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا :لیکن میرے رب نے تو مجھے داڑھی بڑھانے اور مونچھیں کٹوانے کا حکم فرمایا ہے۔“ ٰ تعالی نے دیا حکم ٰالہی ہے اور جس کام کا حکم ہللا سوچنا چاہئے کہ داڑھی بڑھانے کا حکم، ِ ہو ،وہ اہم ہوگا یا غیر اہم؟ اگر جواب اثبات میں ہے اور یقینا اثبات میں ہے ،تو وہ کیونکر مسلمانوں کا اختصاص و شعار نہیں ہوگا؟ پھر یہ بات بھی قابل ِ غور ہے کہ داڑھی منڈانا یا کٹانا مسلمانوں کا نہیں مجوسیوں کا شعار ہے ،بتالیا جائے کہ داڑھی کاٹنے والے یا مونڈنے والے کا وزن مسلمانوں کے پلڑے میں ہوگا یا مجوسیوں کے پلڑے میں؟ مگر اے کاش! کہ اسالمی نظریاتی کونسل کا چیئرمین اس کو غیر اہم قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ مسلمانوں کا شعار نہیں، فیالضیعة
العلم
والفہم!
فانا
ٰ ّہلل
وانا
الیہ
تعالی ٰ ٰ علی خیر خلقہ محمدوآلہ واصحابہ اجمعین صلی ہللا
(جاری ہے) اشاعت ۲۲۲۲ماہنامہ بینات ,محرم الحرام ۱۴۲۵ھ فروری۲۲۲۲ء ,جلد ,07شمارہ 1
راجعون۔