1
2
3
پاس انفاس )(be aware of breath واحد راستہ جو آپ کو خود شناسی کی طرف لے کر جاتا ہے۔ انبیاء و صوفیاء نے نجات کے حصول کے لیے ایک ٹیکنیک متعارف کرائی جسے پاس انفاس کہتے ہیں ،ہندوستان سمیت مشرقی ایشیاء میں انبیاء و صوفیاء نے جتنے بھی ٹیکنیک متعارف کروائے ہیں ان میں قدر مشترک اور ترجیحی بنیادوں پر پاس انفاس کو اہمیت دی جاتی ہے۔ < پاس انفاس میں ''آنکھیں بند کر کے اپنی قدرتی سانسوں کی آمد و رفت کا بغور مشاہدہ کیا جاتا ہے''۔
اہم خصوصیات: < دھیان میں سانس لینے سے ذہن آہستہ آہستہ پرسکون ہو جاتا ہے۔ < پاس انفاس نہایت سادہ اور بہت پر اثر سائنٹفک ٹیکنیک ہے۔ < پاس انفاس اخالقیات کی بنیاد پر مبنی ہے لیکن غیر مزہبی۔ < یہ واحد ٹیکنیک ہے جو ''خود شناسی'' کی معراج تک لے جاتا ہے۔ < پاس انفاس میں دھیان قدرتی سانسوں پر مرکوز رہتا ہے۔ < یہ واحد ٹیکنیک ہے جو بلکل غیر تجارتی(non- )commercialہے۔
نفس :
سانس ،دم ،تنفس۔ ناک سے ہوا کے اندر اور باہر ہونے
کو تنفس کہتے ہیں ،اور سانسوں کی آمد و رفت کے عمل کو
4
عمل تنفس کہتے ہیں۔ اس کی جمع انفاس (سانسیں) ہوتی ہے۔
پاس انفاس : < سانسوں کے پاس رہنا ،سانسوں کے ساتھ رہنا، < سانسوں کے قریب رہنا ،سانسوں سے آگاہ رہنا، < سانسوں کو دیکھنا ،سانسوں کو جاننا ،سانسوں کا مشاہدہ کرنا۔
پاس انفاس کا طریقہ: < مکمل دھیان سانس پر مرکوز کر کے اپنی آتی اور جاتی سانس سے آگاہ رہیں ،سانس اندر آرہا ہے تو اندر آرہا ہے سانس باہر جا رہا ہے تو باہر جا رہا ہے۔ مکمل آگہی کے ساتھ اور بہت دھیان سے مسلسل بس یہی جاننا ہے۔ سانس دائیں نتھنے سے گزر رہا ہے یا بائیں سے یا پھر دونوں سے اسے بڑے دھیان سے جانیں۔ جیسا ہے اسے ویسا ہی رہنے دیں ،اسے بدلنے کی کوشش نا کریں صرف آگاہ رہیں۔ سانس لمبا ہے تو لمبا ہے ،چھوٹا ہے تو چھوٹا ہے اسے بھی بدلنے کی کوشش نہ کریں صرف جاننا ہے ،مشاہدہ کرنا ہے۔ سانس آیا اور سانس گیا
5
صرف سانس پر ہی دھیان لگا رہے۔ اگر دھیان بھٹک جائے تو پھر دھیان سانس پر واپس لے آئیں ،دھیان کو بھٹکنے ہی نہ دیں اور اگر بھٹکے تو پھر سانس پر لے آئیں۔ ذہن کو سانس کی آمد و رفت پر لگائیں رکھیں بلکل بے باکی سے ایک چوکیدار کی طرح خوب چوکس ،مکمل آگاہ ،ایک بھی سانس بنا آگہی کے اندر جانے نہ پائے۔ ایک ایک سانس پر پہرہ لگا رہے۔ ایک ایک سانس کی پہرہ داری ہوتی رہے۔ خوب دھیان سے خوب بیداری سے ،خوب آگہی سے ،اپنی ہی سانسوں سے آگاہ، سانسوں کی آمد و رفت سے آگاہ ۔ < دین کی عربستانی تشریح میں جسے صوفیاء پاس انفاس کہتے ہیں اسے دین کی بودھی تشریح میں ویپسنا کہتے ہیں۔ ویپسنا کا مطلب ہے ٹھیک طریقے سے دیکھنا ،موجودہ پل کی حقیقت کو من و عن جیسے ہے اسے ویسے ہی دیکھنا۔ ویپسنا کا مطلب ہے پر سکون بیٹھ کر سانس کو بنا بدلے ،خیال رکھنا پرانا یام اور ویپسنا میں یہی فرق ہے پرانا یام میں سانس کو بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ویپسنا میں سانس جیسی ہے اسے ویسا ہی دیکھا جاتا ہے۔ سانس جیسی ہے ،اوبڑ ہے ،کابڑ ہے ،اچھی ہے ،بری ہے ،تیز ہے ،پرسکون ہے ،دوڑتی ہے، بھاگتی ہے ،ٹہرتی ہے ،جیسی ہے من و عن اس سے ویسے ہی آگاہ رہنا ہے۔ یاد رہے سانس کو ارادی طور سے بدلنے کی کوشش میں مت لگ جانا کیونکہ پاس انفاس سانس کی مشق نہیں اور نہ ہی اس کا کسی سانسوں کی مشقوں سے دور تک کچھ تعلق ہے۔ قدرتی اور پیور سانس سے آگاہ رہنا ہے ہی حصول مقصد ہے۔
6
< تم صرف بیٹھ جاؤ سانس تو چل رہی ہے ،جیسی چل رہی ہے بس بیٹھ کر دیکھتے رہو ،جیسے کوئی راہ چلتے ہوئے راہیوں کو دیکھتا ہے۔ جو بھی ہے جیسا ہے اس کو ویسا ہی دیکھتے رہو ،زرا بھی سانس کو بدلنے کی کوشش مت کرنا، بس پرسکون بیٹھ کر سانس کو دیکھتے رہو تمھارے دیکھتے دیکھتے ہی سانس پر سکون ہو جاتی ہے ،کیونکہ دیکھنے میں ہی سکون ہے اور بنا چنے دیکھنے میں بہت ہی زیادہ اطمینان پوشیدہ ہے۔ < سانس کی قدرتی آمد و رفت کے اس سرکل کو چپ چاپ دیکھتے رہو ،کرنے کی کوئی بات نہیں۔ بس دیکھو یہی ویپسنا (پاس انفاس) ہے۔ کیا ہوگا اس دیکھنے میں ،اس دیکھنے میں انوکھا پن ہے اس کے دیکھتے ہی دیکھتے ذہن کے سارے روگ دور ہو جاتے ہیں۔ اس کے دیکھتے ہی دیکھتے ''میں جسم نہیں ہوں'' اس کی واضح جھلک مل جاتی ہے ،اس کے دیکھتے ہی دیکھتے ''میں مائنڈ نہیں ہوں '' اس کا تجربہ ہو جاتا ہے۔ اور آخری تجربہ یہ ہوتا ہے کہ ''میں سانس بھی نہیں ہوں''۔
7
پھر میں کون ہوں؟ اس کا کوئی جواب نہ دے پاؤگے۔ جان تو لو گے مگر گونگے کا گڑھ ہو جائے گا۔ یہی ہے زندگی کی اڑان، پہچان تو لوگے کہ میں کون ہوں مگر اب بول نہ پاؤگے اب بول، ابول ہو جائے گا۔ اب خاموش ہو جاؤگے۔ گنگناؤ گے اندر ہی اندر، میٹھا میٹھا ذائقہ لوگے اندر ہی اندر ،ناچوگے ،مست ہوگے ،دل کی بانسری گونجے گی پر اب اس بارے میں کچھ کہہ نہ پاؤ گے۔ < اس ٹیکنیک کی خوبی یہ ہے کہ اسے آپ کہیں بھی کر سکتے ہیں ،کسی کو کانو کان خبر بھی نہیں ہوتی ،بس میں بیٹھے ،ٹرین میں بیٹھے ،کار میں چلتے ،راہ پر چلتے ،دکان پر ،بازار میں ،گھر میں ،بستر پر لیٹے۔ اس کے لیے نہ تو کوئی مخصوص طریقہ سے بیٹھنا چنّا ہے ،یہ بہت ہی آسان سادہ اور فطری عمل ہے اسے آپ کبھی بھی کہیں بھی بہت ہی آسانی سے کر سکتے ہو۔ مجھ کو کہاں ڈھونڈھے ہو بندے میں تو تیرے پاس رے کہے کبیر سنو بھائی سادھو سب سانسوں کی سانس میں۔
8
(صوفی کبیر) جو دَم غافل سو دَم کافر، سانوں ُمرشد ایہہ پڑھایا ُھو۔ (سلطان باہو) ٭ کبیر کہتا ہے :او میرے دل کہیں اور مت جانا ،اپنے پاس ہی رہنا ۔ ہم میں سے لوگوں کی اکثریت خدا کو مندروں ،مسجدوں گرجا گروں میں تالش رہی ہے خدا کہیں باہر وجود نہیں رکھتا۔ یہ ہستی ہی ہے جو تم میں جھانک رہی ہے ،تم اسی تسلسل کی ایک کڑی ہو ،تمہیں اس کو پانا نہیں ہوتا ،اپنی ہستی میں جھانکنا ہوتا ہے تمھارا ہونا ہی اس کا معبد ہے۔ ٭ کہیں باہر جانے کی ضرورت نہیں بس اپنے قریب آنے کی ضرورت ہے ،اپنی سائیکو سمجھنے کی ضرورت ہے ،خودی کا گہرا ادراک تمہیں ہستی کی بصیرت بخشتا ہے ،خودی کا ادراک احدیت کی حدود میں قدم رکھنا ہے۔ تمھارے باہر کوئی خدا موجود نہیں ،ساری تالش داخلی ہے ،تمہیں کسی معبد کو تعمیر کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ تم پہلے سے ہی خود اپنے معبد میں ہو۔ رک جاؤ ،تالش بند کر دو ،اور سکون کی سانس لو ،پہلے پرسکون ہو جاؤ ،اپنے حواس کو بحال کرو نہ ہللا کہیں گم ہوا ہے اور نہ تم کہیں دور موجود ہو ۔ پریشان ذہن ہستی تک رسائی نہیں پاسکتا ،جب تم خوش ہوتے ہو تب تمہیں خدا یاد نہیں آتا کیونکہ تب تم ہستی کے بہت قریب ہوتے ہو۔ اور مصیبت کے ہر پل تمہیں خدا ہی یاد آتا ہے۔ ٭ میں تم سے کہتا ہوں کہ زندگی حیران کن حد تک اتنی خوبصورت ہے کہ اگر تم اسے دیکھ سکتے ہو تو تم کبھی ہنسنا بند نہیں کروگے ،تم کھلکھالتے چلے جاؤگے۔ کم از کم اندر ہی اندر۔ وہ لوگ جو خوش ہین اپنی جنت خود تخیلق کرتے ہیں ،اگر تم دکھ میں ہو تو وجہ صاف ظاہر ہے تم نے اپنے لیے جہنم تخیق کیا ہے۔ مزید رہنمائی کے لیے وزٹ کیجئے:
www.facebook.com/Analhaaaq www.facebook.com/Addam.wajood
9