SYED ABDUSSALAM UMRI
PRESENT BY
رزقق حل ل عین عبادت ہے ت نما نرنزعقننادكعم نوا ع نیا أنيینھا اليقذینن آنمدنوا دكدلوا قمعن نطيینبا ق ل إقعن دكعندتعم إقيیاہد نتععدبددونن ﴿﴾١٧٢ شدكدروا ق ي ق اے ایمان والو! ان پاک چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں دی ہیں اور اﷲ کا شکر’’ ادا کرتے رہو ،اگر تم خاص اس کی عبادت کرتے ہو‘‘۔)سورۃ البقرہ (172 : اور کھاؤ جو کچھ اﷲ تعالیی نے تمہیں روزی عطا کی حل ل و پاکیزہ!) ،اے ایمان والو(’’ اور ڈرتے رہو اﷲ سے ،جس پر تمہیں ایمان ہے‘‘․․․․)سورۃ المائدہ :آیت (88 حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’روزی کا حل ل ذریعہ تل ش کرنا ایک فرض کے بعد دوسرا فرض ہے‘‘۔)مشکیوۃ شریف ،شعب الیمان(
چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲعنہ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : بے شک اﷲ تعال یی نے ایمان والوں کو اسی بات کا حکم فرمایا ہے جس کا اس نے اپنے رسولوں کو حکم دیاتھا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا :اے رسولو! پاک چیزوں میں سے کھاؤ اور نیک عم ل کرتے رہو۔ )سورۃالمؤمنون(۵١ : پھر مومنین کو مخا طب کرکے فرمایا’’ :اے ایمان والو! پاک چیزوں میں سے کھا ؤ جو ہم نے تمہیں دی ہیں۔ )البقرہ(١٧٢ : پھر آپ ع ﷺ نے ایک ایسے شخص کا ذکر فرمایا جو ایک طوی ل سفر طے کرکے آتا ہے اور با ل بکھرے ہوئے اورغبار آلود ہیں وہ اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھا کر پکارتا ہے :اے رب ! اے رب!)یعنی دعائیں کرتا ہے(حالنکہ اس کا کھانا حرام ہے ،اس کا پینا حرام ہے ،اس کا لباس حرام ہے اور اسے حرام غذا کھلئی گئی ہے تو بھل ایسے شخص کی دعاء کیسے قبو ل ہو سکتی ہے؟ )صحیح مسلم ،جامع ترمذی ،مشکوۃ شریف( تم میں سے ایک شخص اپنی رسی پکڑے اور اپنی پیٹھ پر لد کر لکڑیوں کا گٹھا لئے ،پھر اسے بیچ کر پیٹ پالے اور اپنے چہرے کو لوگوں سے سوا ل )کی ذلت( کرنے سے بچائے )یہی بہتر ہے کیونکہ لوگوں کا کیا ہے( اسے کچھ دیں یا نہ دیں۔ صحیح بخاري ،كتاب الزكاۃ ،باب :الستعفاف عن المسالة ،حدیث 1494 :
٭انبیاء کا کسب حل ل: ت انبیاء کرام ہے ۔ حضرات انبیاء کرام علیھم رزق حل ل کے لئے کسب کرنا سن ت السلم نے حل ل روزی کمانے کیلئے کوئی نہ کوئی کسب ضرور اختیار فرمایا ہے – مث ل ل حضرت آدم علیہ السلم کھیتی باری کرتے تھے…… حضرت نوح علیہ السلم نجار یعنی بڑھئی کا کام کرتے تھے…… حضرت صالح علیہ السلم اور حضرت ہود علیہ السلم تجارت کرتے تھے…… حضرت ادریس علیہ السلم کپڑے سی کر گزارا کرتے تھے…… حضرت ابراہیم علیہ السلم کھیتی باڑی کرتے تھے…… حضرت شعیب علیہ السلم جانوروں صوف اور ریشم وغیرہ سے اپنی روزی حاص ل کرتے تھے…… حضرت موسیی علیہ السلم بکریاں چراتے تھے…… حضرت داؤد علیہ السلم زرہیں وغیرہ بناکر گزر اوقات کرتے تھے…… حضرت سلیمان علیہ السلم )جو تمام روئے زمین کہ بادشاہ تھے ،وہ بھی( درختوں کے پتوں کی چھا ل سے دستی پنکھے ،بوریاں اور زنبیلیں وغیرہ تیار کرکے روزی حاص ل کرتے تھے…… اور ہمارے آقا و مول سید النبیاء حضرت محمد مصطفیﷺ نے بھی تجارت کا پیشہ اختیار فرمایا ہے۔
فرما قن رسو لﷺ ہے کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا ،جبکہ آدمی یہ پروا نہیں کرے گا کہ وہ جو کچھ حاص ل کررہاہے آیا کہ وہ حل ل ہے یا حرام ہے‘‘․․․․․)صحیح بخاری ،سنن نسائی(
’’ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں محمدا کی جان ہے !جو انسا ن اپنے پیٹ میں لقمۂ حرام ڈالتا ہے تو اس کی وجہ سے اس کی چالیس دن کی عبادت قبو ل نہیں ہوتی ،جو گوشت پوست حرام سے پل ہو توآگ ہی اس کی زیادہ حق دار ہے‘‘ ۔ )الترغیب و الترہیب ،طبرانی( حضرت انس بن مالک ص فرماتے ہیں کہ رسو ل اکرم ﷺ نے ارشاد فرما یاکہ :جو شخص اپنے بوڑھے والدین کے لئے حل ل روزی کماتا ہے اور دوڑ دھوپ میں رہتا ہے وہ اﷲ کے راستہ میں ہے۔ اور جو آدمی اپنے چھوٹے بچوں کی پرور ش کے لئے محنت و مشقت کرتا ہے وہ بھی اﷲ کے راستے میں ہے اور جو آدمی اپنی ذات کے لئے محنت کرتا ہے تا کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلنا پڑے اور لوگوں سے بے پرواہ ہو جائے تو وہ بھی اﷲ تعالیی کے راستے میں ہے‘‘۔ )احیاء العلوم جلد 2صفحہ (87 اسی طرح ما ق ل حرام سے بچنا بھی نہایت ضروری ہے۔ چنانچہ ایمان والوں کے لئے قرآن مجید میں ارشاقد باری تعال یی ہے ’’:اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا ما ل ناحق طریقے سے نہ کھاؤ‘‘․․․․․ )سورۃالنساء :آیت(29 یعنی کسی کا ما ل خیانت کے ذریعے ،چوری و ڈکیتی یا سود یا رشوت کے ذریعے سے نہ کھاؤ ،چنانچہ حضرت عبداﷲ بن عمر ث فرماتے ہیں کہ رسو ل اکرم ﷺ نے رشوت لینے والے کوۃ شریف( اور رشوت دینے والے دونوں پر لعنت فر مائی ہے․․․․ )سنن ابو داؤد ،مش ی اسی طرح حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرما یا کہ ’’ :راست گو اور امانت دار تاجر ،روقز قیامت انبیاء ،شہداء اور صدیقین کے ساتھ ہوگا‘‘․․․․․)جامع ترمذی ،سنن ابن ماجہ ،سنن دارمی(
حضرت جابر بن عبدﷲ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب کوئی شخص اپنے گھر میں داخ ل ہوتے وقت اور کھانے کے وقت ﷲ تعالیی کا ذکر کرتا ہے تو شیطان اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے کہ یہاں تمہارے لئے رات گزارنے کے لئے جگہ ہے نہ شام کا کھانا ۔اورجب کسی شخص نے داخ ل ہوتے وقت ﷲ کا ذکر نہ کیا تو شیطان کہتا ہے تم نے رات گزارنے کے لئے جگہ حاص ل کرلی اور جب اس شخص نے اپنے کھانے کے وقت ﷲ کا ذکر نہ کیا تو وہ شیطان اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے تم نے رات گزارنے کے لیے جگہ اور شام کا کھانا پالیا۔ )حاص ل کرلیا( )سنن ابی دادود ،جلد سوئم ،کتاب الطعمۃ(3765
حضرت جابر رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے رسو ل کریم ﷺ نے فرمایا )رات کے وقت( اپنے برتنوں کو ڈھانکو اور مشکوں کا منہ باندھ دو کیونکہ سا ل میں ایک رات ایسی آتی ہے جس میں وبا ناز ل ہوتی ہے اور وہ اس برتن اور مشک میں سرایت کرجاتی ہے جو ڈھکا ہوا نہ ہو یا جس کا منہ )مسلم ،کتاب کھل ہوا ہو۔ الشربۃ( جب انسان کھانے پر کسی کی طرف سے مدعو ہو ،اور کھانے کے بارے میں نہ جانتاہوتو میزبان سے کھانے کی نوعیت کے بارے میں پوچھ سکتا ہے ،خاص طور پر جب اسے پی ش کئے جانے والے کھانے کے بارے میں دلی اطمینان نہ ہو ،چنانچہ رسو ل ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم بھی اس وقت تک کھانا تناو ل نہیں فرماتے تھے جب تک آپکو کھانے کا نام نہ بتلدیا جاتا ،اس بارے میں صحیح بخاری میں ہے کہ خالد بن ولید رضی ﷲ عنہ رسو ل ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کے ہمراہ میمونہ رضی ﷲ عنہا کے پاس گئے -آپ رضی ﷲ عنہا ان کی اور ابن عباس رضی ﷲ عنہما کی خالہ لگتی ہیں -ان کے پاس بھنا ہوا سانڈا دیکھا ،جو قان کی بہن حفیدہ بنت حارث نجد سے لے کر آئی تھیں ،میمونہ رضی ﷲ عنہا نے آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کے سامنے سانڈا پی ش کیا اور بہت کم ایسا ہوتا تھا کہ آپ اپنا ہاتھ کسی کھانے کی طرف بڑھاتے یہاں تک کہ آپکو کھانے کے بارے میں بتل دیا جاتاکہ یہ کیا ہے ،چنانچہ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ سانڈے کی طرف بڑھایا ،تو جو خواتین آپ کے پاس موجود تھیں ،ان میں سے ایک نے آپ کو بتایا کہ جو آپ کی بیویوں نے پی ش کیا ہے یہ تو سانڈا ہے،آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ سانڈے سے کھینچ لیا ،تو خالد بن ولید نے عرض کیا :یا رسو ل ﷲ! کیا سانڈا حرام ہے؟ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا) :نہیں( لیکن میری قوم کے علقے میں یہ نہیں پایا جاتا اور میری طبیعت اسکو ناپسند کرتی ہے ،خالد بن ولید رضی ﷲ عنہ کہتے ہیں :میں نے اس کو اپنی طرف کھینچ
كان رسو ل ﷲ صلى ﷲ علیه وسلم إذا أراد أن ینام وھو جنب توضأ ،وإذا أراد أن یأك ل غس ل یدیه .أخرجه النسائي ،وصححه اللباني،
کھانے سے قب ل دونوں ہاتھوں کو دھونا :کھانے سے پہلےدونوں ہاتھوںکو دھونا چاہئے ،تا کہ دونوں ہاتھ کھانے کے دوران صاف ستھرے ہوں، کہیں پہلے سے موجود ہاتھوں پر می ل کچی ل کی وجہ سے نقصان نہ ہو۔ کھانے سے قب ل بسم ا پڑھنا :کھانے سے پہلے بسم ا پڑھنا واجب ہے ،اور بسم ا سے مراد کھانے کی ابتدا میں صرف یہ "بسم ایہ " ہی ہے ،چنانچہ ام کلثوم عائشہ رضی ا عنہا سے بیان کرتی ہیں کہ رسو ل ا صلی ا علیہ وسلم نے فرمایا) :جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو ا کا نام لے، خررہُهیہ "او ل ا أروورلُهه روآ ت اور اگر ا تعالی کا نام لینا ابتدا میں بھو ل جائے تو کہے :یہ "تبسستم و ت و آخر ا کے نام سے ( ترمذی ) ( 1858ابو داود ) ( 3767وابن ماجه ) ، ( 3264البانی رحمہ ا نے اسے یہ " صحیح سنن ابو داود یہ " ) ( 3202میں صحیح کہا ہے۔ حضرت امیۃ بن مخشی رضی ﷲ عنہ جو رسو ل ﷲ ﷺ کے اصحاب میں سے تھے بیان کرتے ہیں کہ رسو ل ﷲ ﷺ تشریف فرما تھے ایک شخص کھارہا تھا اس نے بسم ﷲ نہیں پڑھی تھی اس کے کھانے میں صرف ایک لقمہ باقی رہ گیا تھا۔ پس جب اس نے اسے اپنے منہ کی طرف اٹھایا تو کہا« بسم ﷲ اولہ و آخرہ«۔ پس یہ منظر دیکھ کر نبی کریمم مسکرائے پھر فرمایا۔ شیطان اس کے ساتھ کھاتا رہا پس جب اس نے بسم ﷲ پڑھی تو اس نے اپنے پیٹ میں موجود ہر چیز قے کردی۔ )سنن ابی دادود ،جلد سوئم ،کتاب الطعمۃ(3768
- 1عمر بن ابو سلمہ سے روایت ہے کہ میں جب چھوٹا تھا رسو ل ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کی گود میں بیٹھا تھااور میرا ہاتھ پوری تھالی میں گھوم رہا تھا ،تو مجھے رسو ل ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: )لڑکے! ﷲ کا نام لو ،اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ ،اور جو تمہارے سامنے ہے اس میں سے کھاؤ ( بخاری ) 3576ومسلم ) ( 2022 - 2ویسے بھی کھانے کے دوران اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے افراد کے سامنے سے کھانا کھانا بری عادت ہے، اور دمر يوت کے خلف ہے ،اور اگر سالن وغیرہ ہوتو ساتھ بیٹھنے وال زیادہ کوفت محسوس کریگا ،اسکی دلی ل ابن عباس رضی ﷲ عنہما سے مروی ہے کہ رسو ل ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا" :برکت کھانے کے درمیان میں ناز ل ہوتی ہے ،اس لئے کھانے کے کنارے سے کھاؤ درمیان سے مت کھاؤ" ترمذی ) ( 1805اور ابن ماجہ ) ( 3277نے اسے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ ﷲ نے اسے " صحیح الجامع " ) ( 829میں صحیح قرار دیا ہے۔ لیکن اگر کھانے کی اشیاء کھجوریں اور دیگر اسی قسم کی دوسری اشیاء ہوں تو علماء کے نزدیک تھالی وغیرہ سے ہاتھ کے ذریعے مختلف کھانے کی اشیاء لی جاسکتی ہیں۔
- 3کھانے کے بعد ہاتھ دھونا :کھانے کے بعد صرف پانی سے ہاتھ دھونے پر سنت ادا ہو جائے گی ، چنانچہ ابن رسلن کہتے ہیں :اشنان-ایک جڑی بوٹی -یا صابن سے وغیرہ سے دھونا بہتر ہے۔ دیکھیں: " تحفة الحوذی " ) ( 485 / 5 کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونا مستحب ہے چاہے انسان باوضو ہی کیوں نہ ہو۔ - 4کھانے کے بعد کلی کرنا :کھانے سے فراغت کے بعد کلی کرنا مستحب ہے ،جیسے کہ بشیر بن یسار سوید بن نعمان سے بیان کرتے ہیں کہ وہ صہباء نامی جگہ پر نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کے ساتھ تھے جو خیبر سے کچھ فاصلے پر ہے -تو نماز کا وقت ہوگیا ،آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے کھانے کیلئے کچھطلب کیا ،لیکن سوائے ستو کے کچھ نہ مل ،تو آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے وہی کھا لیا ،ہم نے بھی ستو کھایا ،پھر آپ نے پانی منگوایا اور کلی کی ،اور پھر دوبارہ وضو کئے بغیر نماز پڑھی اور ہم نے بھی نماز ادا کی ۔ بخاری )(5390 - 5میزبان کیلئے دعا :اس کے بارے میں انس رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم سعد بن عبادہ کی طرف آئے تو انہوں نے آپ کیلئے روٹی اور زیتون کا تی ل پی ش کیا ،آپ نے وہ صليعت نعلنعیدكعم اعلنملقئنكدة " صاقئدمونن ،نوأننك ل ن نطنعانمدكعم اعلنعبنرادر ،نو ن تناو ل فرمایا اور پھر دعا دی " :أنعفنطنر قععننددكعم ال ي تمہارے پاس روزہ دار افطاری کرتے رہیں ،اور تمہارا کھانا نیک لوگ کھائیں ،اور فرشتے تمہارئے لئے رحمت کی دعائیں کریں۔ ابو داود ) ( 3854نے اسے روایت کیا ہے اور البانی نے " صحیح سنن ابو داود " ) ( 3263میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
- 6تین انگلیوں سے کھانا کھانا :سنت یہ ہے کہ تین انگلیوں سے کھانا کھایا جائے ،قاضی عیاض کہتےہیں :تین سے زیادہ انگلیاں کھانے کیلئے استعما ل کرنا بری عادت ہے ،اور ویسے بھی لقمہ پکڑنے کیلئے تین اطراف سے پکڑنا کافی ہے ،اور اگر کھانے کی نوعیت ایسی ہو کہ تین سے زیادہ انگلیاں استعما ل کرنی پڑیں تو چوتھی اور پانچویں انگلی بھی استعما ل کی جاسکتی ہے۔ دیکھیں " :فتح الباری " ) ( 578 / 9 انگلیوں کا استعما ل تو اسی وقت ہوگا جب ہاتھ سے کھائے ،اور اگر چمچ کا استعما ل کرے تو کوئی حرج نہیں ہے ،جیسے کہ اسکی تفصی ل آگے آئے گی۔ - 7گرے ہوئے لقمے کو کھانا :اگر کھانا کھاتے ہوئے لقمہ گر جائے تو لقمہ اٹھا کر اس پر لگی ہوئی مٹی وغیرہ صاف کرکے اسے کھا لے اور شیطان کیلئے مت چھوڑے ،کیونکہ یہ کسی کو نہیں پتہ کہ برکت کھانے کے کس حصے میں ہے ،اس لئے یہ ممکن ہے کہ اسی لقمے میں برکت ہو جو گر گیا تھا، چنانچہ اگر لقمے کو چھوڑ دیا تو ہوسکتا ہے کہ اس سے کھانے کی برکت چلی جائے ،اسکی دلی ل انس بن مالک رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسو ل ا صلی ا علیہ وسلم جب بھی کھانا کھاتے تو اپنی تینوں انگلیوں کو چاٹتے ،اور آپ نے ایک بار فرمایا) :اگر تم میں سے کسی کا لقمہ گر جائے تو اس سے صاف کرکے کھا لے ،شیطان کیلئے اسے مت چھوڑے( اور آپ صلی ا علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ پلیٹ کو انگلی سے چاٹ لیں ،اور فرمایا) :تمہیں نہیں معلوم کہ کھانے کے کس حصے میں برکت ہے( مسلم )(2034 حضرت انس رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے نبی کریم ﷺپانی یا دیگر مشروبات پیتے وقت 3مرتبہ سانس لیتے تھے اور فرماتے تھے اس سے خوب سیری ہوتی ہے پیاس بجھتی ہے اور کھانا ہضم ہوتا ہے۔ میں بھی )اس پر عم ل کرتے ہوئے( پیتے وقت تین سانس لیتا ہوں۔ )مسلم ،کتاب الشربۃ(
حضرت عبدﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضر ت ﷺ نے دو دو کھجوریں ایک بار اٹھا کر کھانے سے منع فرمایا البتہ اگر اس کا بھائی )جو اس کے ساتھ کھارہا ہو( اجازت دے تو ایسا کرسکتا ہے۔ )بخاری ،جلد او ل کتاب المظالم ،حدیث نمبر ( 2292 حضرت انس رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے کھڑے ہوکر پانی پینے سے منع فرمایا ہے۔ )مسلم ،کتاب الشربۃ(
کھانا کھاتے ہوئے ٹیک مت لگائے: اسکی وجہ یہ ہے کہ رسو ل ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا) :میں ٹیک لگا کر نہیں کھاتا( بخاری)،(5399 ٹیک لگانے کی کیفیت میں اختلف ہے ۔چنانچہ ابن حجر کہتےہیں" :ٹیک لگانے کی کیفیت میں اختلف کیا گیا ہے ،کچھ کہتے ہیں :کھانے کیلئے کسی بھی طرح سے زمین پر پسر جانا اس میں شام ل ہے ،اور کچھ کہتے ہیں کہ :کسی ایک طرف ٹیک لگاکر بیٹھنا ،اور یہ بھی کہا گیا ہےکہ :بائیں ہاتھ کو زمین پر رکھ کر اس پر ٹیک لگا کر بیٹھنا۔۔۔، ابن عدی نے ضعیف سند کے ساتھ نق ل کیا ہے کہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے کھانے کے دوران بائیں ہاتھ پر ٹیک لگا کر بیٹھنے سے ڈانٹ پلئی ہے۔ امام مالک کہتے ہیں کہ یہ ٹیک لگانے کی ایک شک ل ہے، میں –ابن حجر-کہتا ہوں کہ :امام مالک کی اس بات میں اشارہ موجود ہے کہ جو بھی شک ل ٹیک لگانے میں شام ل ہوگی وہ مکروہ ہے ،چنانچہ اسکے لئے کوئی خاص کیفیت نہیں ہے " انتہی از "فتح الباری" ) ( 541 / 9
-
یہ بھی کھانے کے آداب میں شام ل ہے کہ :
• سب م ل کر کھانا کھائیں • کھانے کے دوران اچھی گفتگو کریں • چھوٹے بچوں اور بیویوں کو اپنے ہاتھ سے کھلئیں • اپنے لئے کوئی کھانا خاص نہ کرے ،ہاں اگر کوئی عذر ہوتو کیا جا سکتا ہے ،جیسے کہ دوا کے طور پر ،بلکہ بوٹی ،نرم گرم روٹی وغیرہ دوسروں کو پیش کرکے ُهانہیں اپنے آپ پر ترجیح دے • مہمان کھانے سے ہاتھ ہٹانے لگے تو میزبان کے کہنے پر دوبارہ کھانا شروع کردے یہاں تک کہ اچھی طرح سیر ہوجائے ،اور تین بار سے زیادہ ایسے نہ کرے • دانتوں میں جو کھانا پھنس جائے اسے تنکے وغیرہ سے نکا ل دے ،اور پھر اسے تھوک دے تنگلے مت۔ حضرت سہی ل بن سعد رضی ا عنہ سے روایت ہے رسو ل کریم ﷺ کے پاس پانی لیا گیا تو آپپ نے اس کو پیا۔ آ پپ کی دائیں طرف ایک لڑکا تھا اور بائیں جانب بڑے لوگ ۔آپپ نے لڑکے سے کہا کیا تم مجھے اجازت دیتے ہوکہ میں ان بائیں طرف والے لوگو ں کو دے دوں۔ اس لڑکے نے کہا نہیں ا کی قسم آپ ﷺ کا تبرک جو مجھے ملے گا میں اس پر کسی کو ترجیح نہیں دوں گا۔ رسو ل کریم ﷺ نے اس کے ہاتھ پر پیالہ رکھ دیا۔ )مسلم ،کتا ب الشربۃ(
آداب برائے بعد از فراغت: کھانے سے فراغت کے بعد الحمد ل ،اور دعا پڑھنا مسنون ہے ،چنانچہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم جب کھانے سے فارغ ہوتے او دستر خوان اٹھا لیا جاتا تو فرماتے: ل نحعمندا نكقثینرا نطيینبا دمنبانرنكا قفیقه نغعینر نمعكفقيي نول دمنويدعع نول دمعسنتعغننى نععنده نريبننا( • )اعلنحعمدد ق ي ق ترجمہ:بہت زیادہ ،پاکیزہ اور برکتوں والی تمام تعریفیں ﷲ کیلئے ہیں ،لیکن یہ حمدوثناء ﷲ کے لیے کافی نہیں ،نہ ﷲ کو چھوڑا جاسکتا ہے اور نہ اس سے کوئی بے نیاز ہوسکتا ہے۔ اے ہمارے رب بخاری ) ( 5458 • نبی صلی ﷲ علیہ وسلم جب دودھ کے علوہ کچھ لیتے تو فرماتے: " الليدھيم نباقرعك لنننا قفیقه ،نوأنعطقععمننا نخعینرا قمعنده " ترجمہ" :یا ﷲ !ہمارے لئے اس میں برکت ڈا ل دے ،اور ہمیں اسے بھی بہتر کھانا کھل" • اور جب آپ دودھ نو ش فرماتے تو کہتے: " الليدھيم نباقرعك لنننا قفیقه ،نوقزعدننا قمعنده " ترجمہ" :یا ﷲ! ہمارے لئے اس میں مزید برکت ڈا ل دے ،اور ہمیں اس سے بھی زیادہ عنائت فرما" ترمذی نے اسے روایت کیا ہے) ( 3377اور البانی نے اسے" صحیح الجامع " ) ( 381میں حسن قرار دیا ہے۔ ابن عباس رضی ﷲ عنہما سے مروی ہے کہ رسو ل ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا) :جسے ﷲ تعالی کھانا کھلئے تو کہے " :الليدھيم نباقرعك لنننا قفیقه ،نوأنعطقععمننا نخعینرا قمعنده " یا ﷲ !ہمارے لئے اس میں برکت ڈا ل دے ،اور ہمیں اسے بھی بہتر کھانا کھل) ،اور جسے ﷲ تعالی دودھ پلئے تو کہے " :الليدھيم نباقرعك لنننا قفیقه ،نوقزعدننا قمعن ده "یا ﷲ! ہمارے لئے اس میں مزید برکت ڈا ل دے ،اور ہمیں اس سے بھی زیادہ عنائت فرما( ترمذی ) ( 3455نے اسے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح سنن ترمذی ) ( 2749میں اسے حسن قرار دیا ہے۔
کھانے عمومی آداب: - 1کھانے کے عیب نہ نکالے جائیں ،چنانچہ ابو ہریرہ رضی ﷲ عنہ کہتے ہیں کہ :نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے کبھی بھی کھانے کے عیب نہیں نکالے ،اگر اچھا لگا تو کھا لیا ،اور پسند نہ آیا تو آپ چھوڑ دیتے تھے۔ بخاری ) ( 3370اورمسلم ) ( 2046 یہاں کھانے سے مراد ایسا کھانا ہے جسکو کھانا جائز ہے ،جبکہ حرام کھانے کے بارے میں اسکی مذمت فرماتے ،اور اس سے روکتے بھی تھے۔ نووی کہتے ہیں: "کھانے کے آداب میں سے ضروری یہ ہے کہ کھانے کے بارے میں یہ نہ کہاجائے" :نمک زیادہ ہے"، "کھٹا ہے" " ،نمک کم ہے"" ،گھاڑا ہے"" ،پتل ہے"" ،کچا ہے" ،وغیرہ وغیرہ۔ ابن بطا ل کہتےہیں: یہ بہت اچھے آداب میں سے ہے ،اس لئے کہ انسان کو کوئی چیز اچھی نہیں لگتی لیکن دوسروں کو پسند ہوتی ہے ،جبکہ دونوں ہی شریعت میں جائز ہیں ،کسی پر بھی شریعت کی طرف سے کوئی عیب نہیں ہے" " شرح مسلم " ) ( 26 / 14 - 2میانہ روی سے کھانا کھانا اور مکم ل طور پر پیٹ نہ بھرنا بھی کھانے کے آداب میں شام ل ہے ،اس کے لئے ایک مسلمان کو اپنے پیٹ کے تین حصے کرنے چاہئیں ،ایک تہائی کھانے کیلئے ،ایک تہائی پانی کیلئے اور ایک تہائی سانس لینے کیلئے ،جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے" :کسی انسان نے اپنے پیٹ سے دبرا برتن کبھی نہیں بھرا ابن آدم کے لیے چند نوالے کافی ہیں جو اس کی کمر سیدھی رکھیں اور اگر زیادہ کھانا ضروری ہو تو تہائی پیٹ کھانے کے لیے ،تہائی پینے کے لیے اور تہائی سانس کے لیے مختص کر دے" ترمذی ) ( 2380ابن ماجہ ) ( 3349البانی نے اسے صحیح ترمذی ) ( 1939میں اسے صحیح
جسم کو ہلکا پھلکا اور معتد ل رکھنے کیلئے یہ ضروری ہے ،کیونکہ زیادہ کھانے سے بدن بھاری ہوجاتا ہے ،جس سے عبادت اور کام کرنے میں سستی آتی ہے ،اور "تہائی " سے کھانے کی وہ مقدار مراد ہے جس سے انسان مکم ل پیٹ بھر لے اسکا تیسرا حصہ ۔ " الموسوعة الفقہیہ الکویتیہ" ) / 25 ( 332 - 3کھانے پینے کیلئے سونے اور چاندی کے برتن استعما ل نہ کرے ،کیونکہ یہ حرام ہے ،اسکی دلی ل رسو ل ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کا فرمان) :موٹی اور باریک ریشم مت پہنو ،اور نہ ہی سونے چاندی کے برتنوں میں پئو ،اور نہ ہی اسکی بنی ہوئی پلیٹوں میں کھاؤ ،اس لئے یہ کفار کیلئے دنیا میں ہیں اور ہمارے لئے آخرت میں ہیں( بخاری ) ( 5426ومسلم ) ( 2067و ﷲ اعلم۔ - 4کھانے سے فراغت کے بعد ﷲ کی تعریف کرنا :اسکی بہت بڑی فضیلت ہے ،چنانچہ انس بن مالک سے مروی ہے کہ رسو ل ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا" :بے شک ﷲ تعالی اپنے بندے سے راضی ہوتا ہے جب وہ ایک لقمہ کھائے تو ﷲ کی تعریف کرے ،یا پانی کا گھونٹ بھی پئے تو ﷲ کی تعریف کرے" مسلم )(2734 عبد الرحمن بن جبیر کہتے ہیں کہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کی آٹھ سا ل تک خدمت کرنے والے خادم نے بتلیا کہ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کو جب کھانا پی ش کیاجاتا تھا آپ کہتے تھے" :بسم ﷲ" اور جب فارغ ت ،نفلننك اعلنحعمدد نعنلى نما أنععنطعی ن ت ،نوأنعحنیعی ن ت ،نونھندعی ن ت نونأسنقعی ن ہوتے تو کہتے " :الليدھيم أنعطنععم ن ت" ترجمہ :یا ﷲ! توں نے ہی کھلیا ،پلیا ،ہدایت دی ،اور زندہ رکھا ،چنانچہ تیری ان عنائتوں پر تیرے لئے ہی تعریفیں ہیں ۔ مسند احمد ) ( 16159اور البانی نے " السلسلة الصحیحة " ) ( 111 / 1میں اسے صحیح کہا ہے۔
اس کیلئے متعدد الفاظ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم سے ثابت ہیں: - 1بخاری نے ابو امامہ سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کا دستر خوان اٹھایا جاتا تو ل نحعمندا نكقثینرا نطيینبا دمنبانرنكا قفیقه نغعینر نمعكفقيي نونل دمنويدعع نونل دمعسنتعغننى نععنده نريبننا " فرماتے " :اعلنحعمدد ق ي ق اسے بخاری ) (5458نے روایت کیا ہے۔ ابن حجر کہتے ہیں " نغعینر نمعكفق يي" کے بارے میں کہا گیا ہے کہ :وہ ذات اپنے بندوں میں سے کسی کی محتاج نہیں ہے وہی اپنے بندوں کو کھلتا ہے ،اور اپنے بندوں کیلئے کافی ہے ،اور "نونل دمنويدعع" کا مطلب ہے کہ داسے چھوڑا نہیں جاسکتا۔ - 2معاذ بن انس اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا) :جو شخص کھانا ل اليقذي أنعطنعنمقني نھنذا نونرنزنققنیقه قمعن نغعیقر نحعوع ل قميني نونل قديوعۃ" کھائے اور پھر کہے" :اعلنحعمدد ق ي ق تمام تعریفیں ﷲ کیلئے ہیں جس نے مجھے یہ کھانا کھلیا ،اور مجھے بغیر کسی مشقت اور تکلیف کے رزق سے نوازا۔اسکے سابقہ سارے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔ ترمذی ) ( 3458وابن ماجہ ) ، ( 3285البانی نے اسے " صحیح ترمذی " ) ( 3348میں حسن قرار دیا ہے۔ - 3ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ کہتے ہیں کہ :رسو ل ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم جب کچھ کھاتے یا پیتے سيوغده ونجنع ل ن له نمعخنرنجنا( سنقى و ن تو فرماتے) :الحمدد ل الذي أطنعنم و ن تمام تعریفیں ﷲ کیلئے ہیں جس نے کھلیا اور پلیا اور اسے خو ش ذائقہ بنایا ،اور پھر اسکے لئے خارج ہونے کا راستہ بنایا۔ ابو داود نے اسے روایت کیا ہے) ( 3851اور اسے البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔ فائدہ :مذکورہ بال حم قد باری تعالی کے تمام الفاظ کو باری باری کہنا مستحب ہے ،ایک بار ایک انداز سے اور دوسری بار دوسرے الفاظ سے ﷲ کی تعریف کی جائے ،اس سے ایک تو تمام الفاظ یاد رہیں گے ،اور سب الفاظ کی برکت حاص ل کر پائیں گے ،اور اسکے ساتھ ساتھ ان الفاظ میں موجود معنی بھی ذہن میں رہے گا ،کیونکہ جب انسان ایک ہی چیز کو عادت بنا لے تو اسکے معانی زیادہ تر ذہن میں نہیں آتے۔
متفرقات
حضرت ابن عباس رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ آمپ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص کھانا کھائے تو پلیٹ کے اوپر والے حصے سے نہ کھائے بلکہ اس کے نیچے یعنی سامنے والے حصے سے کھائے کیونکہ اس کے اوپر والے حصے سے برکت ناز ل ہوتی ہے۔ )سنن ابی دادود ،جلد سوئم ،کتاب الطعمۃ(3772 حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص ہاتھ دھوئے بغیر سوجائے اور ہاتھ پر چکنائی وغیرہ ہو پس اسے کوئی تکلیف پہنچ جائے تو پھر اپنے آپ کو ملمت کرے )یعنی اس کی غلطی ہے کہ اس نے ہاتھ نہیں دھوئے اور اس سالن وغیرہ کی چکنائی کی وجہ سے کسی زہریلی چیز نے کاٹ لیا تو پھر وہ اس کا الزام کسی اور پر نہ دے(۔ )جامع ترمذی ،جلد او ل ،باب اطعمۃ )(1860سنن ابی دادود ،جلد سوئم ،کتاب الطعمۃ(3852 حضرت ابن عمر رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کافر سات آنتوں میں کھاتاہے اور مومن ایک آنت میں کھاتا ہے۔ )جامع ترمذی ،جلد او ل ،باب اطعمۃ (1818 حضرت ابی قتادہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ساقی قوم )قوم کو پانی پلنے وال( کو سب سے آخر میں پینا چاہئے۔ )جامع ترمذی ،جلد او ل باب الشرابۃ(1894: حضرت مالک بن فضلہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میرے والد نے عرض کیا :اے ﷲ کے رسو ل ﷺ آپ ﷺ مجھے بتائیں اگر میں کسی آدمی کے پاس سے گزروں اور وہ میری مہمان نوازی نہ کرے ،پھر اس کے بعد اس کا گزر میرے پاس سے ہوجائے تو کیا میں اس کی مہمان نوازی کروں یا اسی جیسا سلوک کروں؟ آپ ﷺ نے جواب دیا تم اس کی مہمان نوازی کرو۔ )ترمذی (
حضرت اسماء بنت یزید رضی ﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسو ل اکرم ﷺ کی خدمت میں کھانا پی ش کیا گیا۔ آپ ﷺ نے وہ کھانا ہمارے سامنے رکھ دیا ہم نے عرض کیا :ہمیں بھوک نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جھوٹ اور بھوک کو جمع نہ کرو۔ )ابن ماجہ( حضرت انس رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے ایک درزی نے رسو ل اکرم ﷺ کی دعوت کی اور کچھ کھانا تیار کیا۔ میں بھی رسو ل اکرم ﷺ کے ساتھ گیا۔ اس نے رسو ل اکرمم کے لئے جو کی روٹی اور شوربا پی ش کیا جس میں کدو اور گوشت تھا۔ میں نے دیکھا آ مپ پیالہ میں کدو تل ش کررہے تھے میں اسی دن سے کدو سے محبت رکھتا ہوں۔)جامع ترمذی ،جلد او ل باب اطعمۃ )(1850مسلم ،کتاب الشربۃ( حضرت ابن عمر رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اکرم ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو دعوت دے تو اسے قبو ل کرلے خوہ وہ دعوت ولیمہ ہو یا کوئی اور۔ )سنن ابی دادود ،جلد سوئم کتاب الطعمۃ ،حدیث نمبر(3738 حضرت عبدﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہ بیا ن کر تے ہیں کہ رسو ل اکرم ﷺ نے فرمایا جسے دعوت دی جائے اور وہ قبو ل نہ کرے تو اس نے ﷲ اور اس کے رسو ل ﷺ کی نافرمانی کی اور جو شخص بن بلئے )دعوت میں( شریک ہوجائے تو وہ چور کی طرح )چھپ کر( داخ ل ہوا اور ڈاکو کی طرح )بڑی دلیری سے( باہر آیا۔ )سنن ابی دادود ،جلد سوئم کتاب الطعمۃ ،حدیث (3741 حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ بدترین کھانا اس ولیمہ کا کھانا ہے جس میں مالداروں کو بلیا جاتا ہے اور مساکین کو نظر انداز کردیا جاتا ہے اور جو شخص دعوت میں شریک نہ ہو تو اس نے ﷲ اور اس کے رسو ل ﷺ کی نافرمانی کی۔ )سنن ابی دادود،جلد سوئم کتاب الطعمۃ ،حدیث نمبر(3742 حضرت ابن عباس رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے ایک دوسرے پر برتری حاص ل کرنے والوں کا کھانا کھانے سے منع فرمایا ہے۔)سنن ابی دادود ،جلد سوئم ،کتاب الطعمۃ (3754
) ان المسرفين كانوا اخوان الشياطين ( وقوله ) ثم لتسألن يومئذ عن النعيم (
صومالیہ 60لکھ لوگ قلت رزق کی وجہ سے بھوک مری کی چپیٹ میں آئے ،شام میں بہت سے مقامات جہاں لوگوں کو روٹی میسر نہیں آتی ،نان شبینہ تو دور کی بات ہے ،پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے روٹی کا نوالہ میسر نہیں آیا ،غذا کا ایک ذرہ بھی ان کے حلق سے نیچے نہیں اترا،حالنکہ بھوک کی شدت انسان کو چوری ڈاکہ زنی اور سماجی خرابیوں میں ملوث کرتی ہے اور انسان بھوک مٹانے کے لئے ہر راہ سے گذرنے کے لئے تیار رہتا ہے ،تاریخ کے چہرے پر ایسے واقعات بھی درج ہیں جہاں انسان نے بھوک مٹانے کے لئے انسان کو بھی نہیں بخشا اور پیٹ کی آگ میں ج ل کر اس شئے کو غذا بنانے پر مجبور ہوا جسے وہ محترم و معزز اور لئق اکرام سمجھتا ہے۔ چنانچہ 1972میں دھرتی ایسے واقعہ کی شاہد بنی جس کا تصور بھی ذہن و دماغ کے لئے المناک ہے۔مارٹن نامی پائیلٹ نے کھانا میسر نہ آنے اور اپنے دو ساتھیوں کے مرنے کے بعد زندگی کی رفتار مدھم ہوتی دیکھ اپنے ساتھیوں کے گوشت کو کھانا شروع کردیا تھاحالنکہ وہ بھی انسان تھا ،تعلیم یافتہ تھا ،جذبات واحساسات ،دھڑکتا ہوا د ل ،غور و فکر کرنے وال دماغ سب کچھ اس کے پاس تھا ،مگر بھوک کی شدت نے سارے احساسات کو مغلوب کردیا ،جذبات کو برفیل اور د ل کو س ل بنا دیا ،یہ قلت رزق کی کار فرمائی ہے خدا کی سرزمین اپنے سینہ کو چیر کر اتنا غلہ پیدا کرتی ہے کہ 14چودہ بلین افراد اپنا پیٹ بھر سکتے ہیں ،مگر کائنات کے سینہ پر بسنے والے 7.3بلین افراد بھی اپنا پیٹ نہیں بھر پاتے
کاش ہم میں سے ہر شخص اس ضرورت کو سمجھ لے اور رزق کا محافظ بن جائے ، اگر ہر ہندوستانی ایک ایک لقمے کا محافظ بن جائے ،کمر کس لے عملی طور پر دعویدار ہوجائے کہ میں روزانہ ایک لقمہ کی حفاظت کرونگا تو ہم ہندوستانی ایک وقت میں ایک ارب28کروڑ لقمے بچائے جا سکتے ہیں ،جس بہت سے مفلسوں کے پیٹ بھرے جا سکتے ہیں ،انہیں زندگی کا تحفہ دیا جاسکتا ہے ،ان کی ڈوبتی سانسوں کو ابھارا جاسکتا ہے ،ان کی مرتی آرزؤوں میں جان پیدا کی جاتی ہے ،ان کے خوف زدہ ذہنوں کو مامون کیا جا سکتا ہے ،انہیں زندگی جینے کی ہمت و حوصلہ عنایت کیا جا سکتا ہے ،ہم میں ہر ایک کو کمربستہ ہوجانا چاہئے اور عہد کرلینا چاہے ،کہ اب بھوک کی وجہ سے کوئی تکلیف نہیں اٹھائے گا ،کوئی مردہ انسانوں کا گوشت کھانے پر مجبور نہیں ہوگا ،کوئی راہزنی اور چوری کی جانب پیٹ بھرنے کے لئے قدم نہیں بڑھائے گا ،کوئی جرم انسانیت کا شکار نہیں ہوگا ،یقینا ہم میں سے ہر ایک شخص شام و ایران ،صومالیہ ،روہنگنیا کھانا پہنچانے کی استطاعت نہیں رکھتا ،مگر اپنا پڑوس ،اپنا قرب و جوار ،اپنا گاؤں اپنا شہر یہ تو ہم سے دور نہیں ہیں ،ان تک تو ہماری رسائی بآسانی ہو سکتی ہے ،یہی ہماری منز ل ہے ،ان تک پہنچئے ،کھانا پہنچائیے ،بھوک کے خلف جنگ لڑئیے ،کمر کس لیجئے ،اگر آپ نے یہ عم ل کرلیا ،تو آپ انسانیت کے لئے یقینا کار آمد ثابت ہونگے اور محافظ آدمیت قرار پائیں گے
ج زاك ا عل حسن ا سستمكعك