SYED ABDUSSALAM UMRI
PRESENT BY
رزق حالل عٌن عبادت ہے ِ ّلِل ِإ ْن ُك ْنت ُ ْم ِإٌَّاہُ تَ ْعبُد َ ٌَا أٌَُّ َھا الَّذ َ ت َما َر َز ْلنَا ُك ْم َوا ْ ُون ﴿﴾١٧٢ ٌِن آ َمنُوا ُكلُوا ِم ْن َط ٌِّبَا ِ شك ُُروا ِ َّ ِ
’’اے اٌمان والو! ان پاک چٌزوں مٌں سے کھاإ جو ہم نے تمہٌں دی ہٌں اور اﷲ کا شکر ادا کرتے رہو ،اگر تم خاص اس کی عبادت کرتے ہو‘‘۔(سورۃ البمرہ )172 : تعالی نے تمہٌں روزی عطا کی حالل و پاکٌزہ، ’’(اے اٌمان والو!) اور کھاإ جو کچھ اﷲ ٰ اور ڈرتے رہو اﷲ سے ،جس پر تمہٌں اٌمان ہے‘‘․․․․(سورۃ المائدہ :آٌت )88 حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی ﷲ عنہ بٌان کرتے ہٌں کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرماٌا کہ ’’روزی کا حالل ذرٌعہ تالش کرنا اٌک فرض کے بعد دوسرا ٰ مشکوۃ شرٌف ،شعب االٌمان) فرض ہے‘‘۔(
چنانچہ حضرت ابوہرٌرہ رضی اﷲعنہ بٌان کرتے ہٌں کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرماٌا کہ : تعالی نے اٌمان والوں کو اسی بات کا حکم فرماٌا ہے جس کا اس نے اپنے رسولوں بے شک اﷲ ٰ کو حکم دٌاتھا۔ چنانچہ ارشاد فرماٌا :اے رسولو! پاک چٌزوں مٌں سے کھاإ اور نٌک عمل کرتے رہو۔ (سورۃالمإمنون)۵١ : پھر مومنٌن کو مخا طب کرکے فرماٌا’’ :اے اٌمان والو! پاک چٌزوں مٌں سے کھا إ جو ہم نے تمہٌں دی ہٌں۔ (البمرہ)١٧٢ : پھر آپ ْ ﷺنے اٌک اٌسے شخص کا ذکر فرماٌا جو اٌک طوٌل سفر طے کرکے آتا ہے اور بال بکھرے ہوئے اورغبار آلود ہٌں وہ اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھا کر پکارتا ہے :اے رب ! اے رب!(ٌعنی دعائٌں کرتا ہے)حاالنکہ اس کا کھانا حرام ہے ،اس کا پٌنا حرام ہے ،اس کا لباس حرام ہے اور اسے حرام غذا کھالئی گئی ہے تو بھال اٌسے شخص کی دعاء کٌسے لبول ہو سکتی ہے؟ (صحٌح مسلم ،جامع ترمذی ،مشکوۃ شرٌف) تم مٌں سے اٌک شخص اپنی رسی پکڑے اور اپنی پٌٹھ پر الد کر لکڑٌوں کا گٹھا الئے ،پھر اسے بٌچ کر پٌٹ پالے اور اپنے چہرے کو لوگوں سے سوال (کی ذلت) کرنے سے بچائے (ٌہی بہتر ہے کٌونکہ لوگوں کا کٌا ہے) اسے کچھ دٌں ٌا نہ دٌں۔ صحٌح بخاري ،كتاب الزكاۃ ،باب :االستعفاف عن المسالة ،حدٌث 1494 :
٭انبٌاء کا کسب حالل: ت انبیاء کرام ہے ۔ حضرات انبیاء کرام علیھم رزق حالل کے لئے کسب کرنا سن ِ السالم نے حالل روزی کمانے کیلئے کوئی نہ کوئی کسب ضرور اختیار فرمایا ہے – مثالً حضرت آدم علیہ السالم کھیتی باری کرتے تھے…… حضرت نوح علیہ السالم نجار یعنی بڑھئی کا کام کرتے تھے…… حضرت صالح علیہ السالم اور حضرت ہود علیہ السالم تجارت کرتے تھے…… حضرت ادریس علیہ السالم کپڑے سی کر گزارا کرتے تھے…… حضرت ابراہیم علیہ السالم کھیتی باڑی کرتے تھے…… حضرت شعیب علیہ السالم جانوروں صوف اور ریشم وغیرہ سے اپنی روزی حاصل کرتے تھے…… موسی علیہ السالم بکریاں چراتے تھے…… حضرت ٰ حضرت داؤد علیہ السالم زرہیں وغیرہ بناکر گزر اوقات کرتے تھے…… حضرت سلیمان علیہ السالم (جو تمام روئے زمین کہ بادشاہ تھے ،وہ بھی) درختوں کے پتوں کی چھال سے دستی پنکھے ،بوریاں اور زنبیلیں وغیرہ تیار کرکے روزی حاصل کرتے تھے…… اور ہمارے آقا و موال سید االنبیاء حضرت دمحم مصطفیﷺ نے بھی تجارت کا پیشہ اختیار فرمایا ہے۔
فرمان رسولﷺ ہے کہ لوگوں پر اٌک اٌسا زمانہ بھی آئے گا ،جبکہ آدمی ٌہ ِ پروا نہٌں کرے گا کہ وہ جو کچھ حاصل کررہاہے آٌا کہ وہ حالل ہے ٌا حرام ہے‘‘․․․․․(صحٌح بخاری ،سنن نسائی)
’’ لسم ہے اس ذات کی جس کے لبضۂ لدرت مٌں دمحما کی جان ہے !جو انسا ن اپنے پٌٹ مٌں لممۂ حرام ڈالتا ہے تو اس کی وجہ سے اس کی چالٌس دن کی عبادت لبول نہٌں ہوتی ،جو گوشت پوست حرام سے پال ہو توآگ ہی اس کی زٌادہ حك دار ہے‘‘ ۔ (الترغٌب و الترہٌب ،طبرانی) حضرت انس بن مالک ص فرماتے ہٌں کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرما ٌاکہ :جو شخص اپنے بوڑھے والدٌن کے لئے حالل روزی کماتا ہے اور دوڑ دھوپ مٌں رہتا ہے وہ اﷲ کے راستہ مٌں ہے۔ اور جو آدمی اپنے چھوٹے بچوں کی پرورش کے لئے محنت و مشمت کرتا ہے وہ بھی اﷲ کے راستے مٌں ہے اور جو آدمی اپنی ذات کے لئے محنت کرتا ہے تا کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ تعالی کے راستے مٌں ہے‘‘۔ نہ پھٌالنا پڑے اور لوگوں سے بے پرواہ ہو جائے تو وہ بھی اﷲ ٰ (احٌاء العلوم جلد 2صفحہ )87 اسی طرح ما ِل حرام سے بچنا بھی نہاٌت ضروری ہے۔ چنانچہ اٌمان والوں کے لئے لرآن مجٌد تعالی ہے ’’:اے اٌمان والو! آپس مٌں اٌک دوسرے کا مال ناحك طرٌمے سے نہ مٌں ارشا ِد باری ٰ کھاإ‘‘․․․․․ (سورۃالنساء :آٌت)29 ٌعنی کسی کا مال خٌانت کے ذرٌعے ،چوری و ڈکٌتی ٌا سود ٌا رشوت کے ذرٌعے سے نہ کھاإ ،چنانچہ حضرت عبداﷲ بن عمر ث فرماتے ہٌں کہ رسول اکرم ﷺ نے رشوت لٌنے والے اور ٰ مشکوۃ شرٌف) رشوت دٌنے والے دونوں پر لعنت فر مائی ہے․․․․ (سنن ابو داإد،
اسی طرح حضرت ابو سعٌد خدری رضی اﷲ عنہ سے رواٌت ہے کہ حضور نبی کرٌم ﷺ روز لٌامت انبٌاء ،شہداء اور صدٌمٌن کے نے فرما ٌا کہ ’’ :راست گو اور امانت دار تاجرِ ، ساتھ ہوگا‘‘․․․․․(جامع ترمذی ،سنن ابن ماجہ ،سنن دارمی)
حضرت جابر بن عبدہللا سے رواٌت ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب کوئی شخص تعالی کا ذکر کرتا ہے تو شٌطان اپنے ساتھٌوں سے اپنے گھر مٌں داخل ہوتے ولت اور کھانے کے ولت ہللا ٰ کہتا ہے کہ ٌہاں تمہارے لئے رات گزارنے کے لئے جگہ ہے نہ شام کا کھانا ۔اورجب کسی شخص نے داخل ہوتے ولت ہللا کا ذکر نہ کٌا تو شٌطان کہتا ہے تم نے رات گزارنے کے لئے جگہ حاصل کرلی اور جب اس شخص نے اپنے کھانے کے ولت ہللا کا ذکر نہ کٌا تو وہ شٌطان اپنے ساتھٌوں سے کہتا ہے تم نے رات داود ،جلد سوئم ،کتاب االطعمۃ)3765 گزارنے کے لٌے جگہ اور شام کا کھانا پالٌا۔ (حاصل کرلٌا) (سنن ابی ُ
حضرت جابر رضی ہللا عنہ سے رواٌت ہے رسول کرٌم ﷺ نے فرماٌا (رات کے ولت) اپنے برتنوں کو ڈھانکو اور مشکوں کا منہ باندھ دو کٌونکہ سال مٌں اٌک رات اٌسی آتی ہے جس مٌں وبا نازل ہوتی ہے اور وہ اس برتن اور مشک مٌں سراٌت کرجاتی ہے جو ڈھکا ہوا نہ ہو ٌا جس کا منہ کھال ہوا (مسلم ،کتاب االشربۃ) ہو۔ جب انسان کھانے پر کسی کی طرف سے مدعو ہو ،اور کھانے کے بارے مٌں نہ جانتاہوتو مٌزبان سے کھانے کی نوعٌت کے بارے مٌں پوچھ سکتا ہے ،خاص طور پر جب اسے پٌش کئے جانے والے کھانے کے بارے مٌں دلی اطمٌنان نہ ہو ،چنانچہ رسول ہللا ملسو ہیلع ہللا یلص بھی اس ولت تک کھانا تناول نہٌں فرماتے تھے جب تک آپکو کھانے کا نام نہ بتالدٌا جاتا ،اس بارے مٌں صحٌح بخاری مٌں ہے کہ خالد بن ولٌد رضی ہللا عنہ رسول ہللا ملسو ہیلع ہللا یلص کے ہمراہ مٌمونہ رضی ہللا عنہا کے پاس گئے -آپ رضی ہللا عنہا ان کی اور ابن عباس رضی ہللا عنہما کی خالہ لگتی ہٌں -ان کے پاس بھنا ہوا سانڈا دٌکھا ،جو اِن کی بہن حفٌدہ بنت حارث نجد سے لے کر آئی تھٌں ،مٌمونہ رضی ہللا عنہا نے آپ ملسو ہیلع ہللا یلص کے سامنے سانڈا پٌش کٌا اور بہت کم اٌسا ہوتا تھا کہ آپ اپنا ہاتھ کسی کھانے کی طرف بڑھاتے ٌہاں تک کہ آپکو کھانے کے بارے مٌں بتال دٌا جاتاکہ ٌہ کٌا ہے ،چنانچہ آپ ملسو ہیلع ہللا یلص نے اپنا ہاتھ سانڈے کی طرف بڑھاٌا ،تو جو خواتٌن آپ کے پاس موجود تھٌں ،ان مٌں سے اٌک نے آپ کو بتاٌا کہ جو آپ کی بٌوٌوں نے پٌش کٌا ہے ٌہ تو سانڈا ہے،آپ ملسو ہیلع ہللا یلص نے اپنا ہاتھ سانڈے سے کھٌنچ لٌا ،تو خالد بن ولٌد نے عرض کٌاٌ :ا رسول ہللا! کٌا سانڈا حرام ہے؟ آپ ملسو ہیلع ہللا یلص نے فرماٌا( :نہٌں) لٌکن مٌری لوم کے عاللے مٌں ٌہ نہٌں پاٌا جاتا اور مٌری طبٌعت اسکو ناپسند کرتی ہے ،خالد بن ولٌد رضی ہللا عنہ کہتے ہٌں :مٌں نے اس کو اپنی طرف کھٌنچ لٌا اور اس کو کھاٌا ،اور رسول ہللا ملسو ہیلع ہللا یلص مٌری طر ف دٌکھ رہے تھے۔ بخاری ( ) 5391اورمسلم ( ) 1946
كان رسول ہللا ملسو ہیلع ہللا یلص إذا أراد أن ٌنام وھو جنب توضؤ ،وإذا أراد أن ٌؤكل غسل ٌدٌه .أخرجه النسائً ،وصححه األلبانً،
کھانے سے قبل دونوں ہاتھوں کو دھونا :کھانے سے پہلےدونوں ہاتھوں کودھونا چاہئے ،تا کہ دونوں ہاتھ کھانے کے دوران صاف ستھرے ہوں ،کہیں پہلے سے موجود ہاتھوں پر میل کچیل کی وجہ سے نقصان نہ ہو۔ کھانے سے قبل بسم ہللا پڑھنا :کھانے سے پہلے بسم ہللا پڑھنا واجب ہے ،اور بسم ہللا سے مراد کھانے کی ابتدا میں صرف "بسم ہللا" ہی ہے ،چنانچہ ام کلثوم عائشہ رضی ہللا عنہا سے بیان کرتی ہیں کہ رسول ہللا ملسو ہیلع ہللا یلص نے فرمایا( :جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو ہللا کا نام لے، اور اگر ہللا تعالی کا نام لینا ابتدا میں بھول جائے تو کہےِ " :ب ْس ِم ه ِ آخ َرہُ"اول َّللا أ َ هولَهُ َو ِ و آخر ہللا کے نام سے ) ترمذی ( ) 1858ابو داود ( ) 3767وابن ماجه ( 3264 ) ،البانی رحمہ ہللا نے اسے " صحیح سنن ابو داود " ( ) 3202میں صحیح کہا ہے۔ حضرت امٌۃ بن مخشی رضی ہللا عنہ جو رسول ہللا ﷺ کے اصحاب مٌں سے تھے بٌان کرتے ہٌں کہ رسول ہللا ﷺ تشرٌف فرما تھے اٌک شخص کھارہا تھا اس نے بسم ہللا نہٌں پڑھی تھی اس کے کھانے مٌں صرف اٌک لممہ بالی رہ گٌا تھا۔ پس جب اس نے اسے اپنے منہ کی طرف اٹھاٌا تو کہا» بسم ہللا اولہ و آخرہ»۔ پس ٌہ کرٌم مسکرائے پھر فرماٌا۔ شٌطان اس کے ساتھ کھاتا رہا پس منظر دٌکھ کر نبی ؐ جب اس نے بسم ہللا پڑھی تو اس نے اپنے پٌٹ مٌں موجود ہر چٌز لے کردی۔ داود ،جلد سوئم ،کتاب االطعمۃ)3768 (سنن ابی ُ
- 1عمر بن ابو سلمہ سے رواٌت ہے کہ مٌں جب چھوٹا تھا رسول ہللا ملسو ہیلع ہللا یلص کی گود مٌں بٌٹھا تھااور مٌرا ہاتھ پوری تھالی مٌں گھوم رہا تھا ،تو مجھے رسول ہللا ملسو ہیلع ہللا یلص نے فرماٌا( :لڑکے! ہللا کا نام لو ،اپنے دائٌں ہاتھ سے کھاإ ،اور جو تمہارے سامنے ہے اس مٌں سے کھاإ) بخاری ( 3576ومسلم ( ) 2022 -2وٌسے بھی کھانے کے دوران اپنے ساتھ بٌٹھے ہوئے افراد کے سامنے سے کھانا کھانا بری عادت ہے، روت کے خالف ہے ،اور اگر سالن وغٌرہ ہوتو ساتھ بٌٹھنے واال زٌادہ کوفت محسوس کرٌگا ،اسکی اور ُم َّ دلٌل ابن عباس رضی ہللا عنہما سے مروی ہے کہ رسول ہللا ملسو ہیلع ہللا یلص نے فرماٌا" :برکت کھانے کے درمٌان مٌں نازل ہوتی ہے ،اس لئے کھانے کے کنارے سے کھاإ درمٌان سے مت کھاإ" ترمذی ( ) 1805اور ابن ماجہ ( ) 3277نے اسے رواٌت کٌا ہے اور البانی رحمہ ہللا نے اسے " صحٌح الجامع " ( ) 829مٌں صحٌح لرار دٌا ہے۔ لٌکن اگر کھانے کی اشٌاء کھجورٌں اور دٌگر اسی لسم کی دوسری اشٌاء ہوں تو علماء کے نزدٌک تھالی وغٌرہ سے ہاتھ کے ذرٌعے مختلف کھانے کی اشٌاء لی جاسکتی ہٌں۔
-3کھانے کے بعد ہاتھ دھونا :کھانے کے بعد صرف پانی سے ہاتھ دھونے پر سنت ادا ہو جائے گی ، چنانچہ ابن رسالن کہتے ہٌں :اشنان-اٌک جڑی بوٹیٌ -ا صابن سے وغٌرہ سے دھونا بہتر ہے۔ دٌکھٌں" : تحفة األحوذی " ( ) 485 / 5 کھانے سے پہلے اور بعد مٌں ہاتھ دھونا مستحب ہے چاہے انسان باوضو ہی کٌوں نہ ہو۔ -4کھانے کے بعد کلی کرنا :کھانے سے فراغت کے بعد کلی کرنا مستحب ہے ،جٌسے کہ بشٌر بن ٌسار سوٌد بن نعمان سے بٌان کرتے ہٌں کہ وہ صہباء نامی جگہ پر نبی ملسو ہیلع ہللا یلص کے ساتھ تھے -جو خٌبر سے کچھ فاصلے پر ہے -تو نماز کا ولت ہوگٌا ،آپ ملسو ہیلع ہللا یلص نے کھانے کٌلئے کچھ طلب کٌا ،لٌکن سوائے ستو کے کچھ نہ مال ،تو آپ ملسو ہیلع ہللا یلص نے وہی کھا لٌا ،ہم نے بھی ستو کھاٌا ،پھر آپ نے پانی منگواٌا اور کلی کی ،اور پھر دوبارہ وضو کئے بغٌر نماز پڑھی اور ہم نے بھی نماز ادا کی ۔ بخاری ()5390 -5مٌزبان کٌلئے دعا :اس کے بارے مٌں انس رضی ہللا عنہ بٌان کرتے ہٌں کہ رسول ہللا ملسو ہیلع ہللا یلص سعد بن عبادہ کی طرف آئے تو انہوں نے آپ کٌلئے روٹی اور زٌتون کا تٌل پٌش کٌا ،آپ نے وہ تناول فرماٌا اور صائِ ُم َ علَ ٌْ ُك ْم ا ْل َمالئِكَةُ " تمہارے پاس روزہ صلَّتْ َ ار َ ،و َ پھر دعا دی " :أ َ ْف َط َر ِع ْن َد ُك ْم ال َّ ون َ ،وأ َ َك َل َطعَا َم ُك ْم ْاألَب َْر ُ دار افطاری کرتے رہٌں ،اور تمہارا کھانا نٌک لوگ کھائٌں ،اور فرشتے تمہارئے لئے رحمت کی دعائٌں کرٌں۔ ابو داود ( )3854نے اسے رواٌت کٌا ہے اور البانی نے " صحٌح سنن ابو داود " ( ) 3263مٌں اسے صحٌح لرار دٌا ہے۔
-6تٌن انگلٌوں سے کھانا کھانا :سنت ٌہ ہے کہ تٌن انگلٌوں سے کھانا کھاٌا جائے ،لاضی عٌاض کہتےہٌں :تٌن سے زٌادہ انگلٌاں کھانے کٌلئے استعمال کرنا بری عادت ہے ،اور وٌسے بھی لممہ پکڑنے کٌلئے تٌن اطراف سے پکڑنا کافی ہے ،اور اگر کھانے کی نوعٌت اٌسی ہو کہ تٌن سے زٌادہ انگلٌاں استعمال کرنی پڑٌں تو چوتھی اور پانچوٌں انگلی بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔ دٌکھٌں " :فتح الباری " ( ) 578 / 9 انگلیوں کا استعمال تو اسی وقت ہوگا جب ہاتھ سے کھائے ،اور اگر چمچ کا استعمال کرے تو کوئی حرج نہیں ہے ،جیسے کہ اسکی تفصیل آگے آئے گی۔ -7گرے ہوئے لممے کو کھانا :اگر کھانا کھاتے ہوئے لممہ گر جائے تو لممہ اٹھا کر اس پر لگی ہوئی مٹی وغٌرہ صاف کرکے اسے کھا لے اور شٌطان کٌلئے مت چھوڑے ،کٌونکہ ٌہ کسی کو نہٌں پتہ کہ برکت کھانے کے کس حصے مٌں ہے ،اس لئے ٌہ ممکن ہے کہ اسی لممے مٌں برکت ہو جو گر گٌا تھا ،چنانچہ اگر لممے کو چھوڑ دٌا تو ہوسکتا ہے کہ اس سے کھانے کی برکت چلی جائے ،اسکی دلٌل انس بن مالک رضی ہللا عنہ سے مروی ہے کہ رسول ہللا ملسو ہیلع ہللا یلص جب بھی کھانا کھاتے تو اپنی تینوں انگلیوں کو چاٹتے ،اور آپ نے ایک بار فرمایا( :اگر تم میں سے کسی کا لقمہ گر جائے تو اس سے صاف کرکے کھا لے ،شیطان کیلئے اسے مت چھوڑے) اور آپ ملسو ہیلع ہللا یلص نے ہمیں حکم دیا کہ پلیٹ کو انگلی سے چاٹ لیں ،اور فرمایا( :تمہیں نہیں معلوم کہ کھانے کے کس حصے میں برکت ہے) مسلم ()2034 حضرت انس رضی ہللا عنہ سے رواٌت ہے نبی کرٌم ﷺپانی ٌا دٌگر مشروبات پٌتے ولت 3مرتبہ سانس لٌتے تھے اور فرماتے تھے اس سے خوب سٌری ہوتی ہے پٌاس بجھتی ہے اور کھانا ہضم ہوتا ہے۔ مٌں بھی (اس پر عمل کرتے ہوئے) پٌتے ولت تٌن سانس لٌتا ہوں۔ (مسلم ،کتاب االشربۃ)
حضرت عبدہللا بن عمر رضی ہللا عنہ سے رواٌت ہے کہ آنحضر ت ﷺ نے دو دو کھجورٌں اٌک بار اٹھا کر کھانے سے منع فرماٌا البتہ اگر اس کا بھائی (جو اس کے ساتھ کھارہا ہو) اجازت دے تو اٌسا کرسکتا ہے۔ (بخاری ،جلد اول کتاب المظالم ،حدٌث نمبر ) 2292 حضرت انس رضی ہللا عنہ سے رواٌت ہے نبی کرٌم ﷺ نے کھڑے ہوکر پانی پٌنے سے منع فرماٌا ہے۔ (مسلم ،کتاب االشربۃ)
کھانا کھاتے ہوئے ٹٌک مت لگائے: اسکی وجہ ٌہ ہے کہ رسول ہللا ملسو ہیلع ہللا یلص نے فرماٌا( :مٌں ٹٌک لگا کر نہٌں کھاتا) بخاری (،)5399 ٹٌک لگانے کی کٌفٌت مٌں اختالف ہے ۔چنانچہ ابن حجر کہتےہٌں" :ٹٌک لگانے کی کٌفٌت مٌں اختالف کٌا گٌا ہے ،کچھ کہتے ہٌں :کھانے کٌلئے کسی بھی طرح سے زمٌن پر پسر جانا اس مٌں شامل ہے ،اور کچھ کہتے ہٌں کہ :کسی اٌک طرف ٹٌک لگاکر بٌٹھنا ،اور ٌہ بھی کہا گٌا ہےکہ :بائٌں ہاتھ کو زمٌن پر رکھ کر اس پر ٹٌک لگا کر بٌٹھنا۔۔۔، ابن عدی نے ضعٌف سند کے ساتھ نمل کٌا ہے کہ نبی ملسو ہیلع ہللا یلص نے کھانے کے دوران بائٌں ہاتھ پر ٹٌک لگا کر بٌٹھنے سے ڈانٹ پالئی ہے۔ امام مالک کہتے ہٌں کہ ٌہ ٹٌک لگانے کی اٌک شکل ہے، مٌں –ابن حجر-کہتا ہوں کہ :امام مالک کی اس بات مٌں اشارہ موجود ہے کہ جو بھی شکل ٹٌک لگانے مٌں شامل ہوگی وہ مکروہ ہے ،چنانچہ اسکے لئے کوئی خاص کٌفٌت نہٌں ہے " انتہی از "فتح الباری" ( ) 541 / 9
-
ٌہ بھی کھانے کے آداب مٌں شامل ہے کہ :
• سب مل کر کھانا کھائیں • کھانے کے دوران اچھی گفتگو کریں • چھوٹے بچوں اور بیویوں کو اپنے ہاتھ سے کھالئیں • اپنے لئے کوئی کھانا خاص نہ کرے ،ہاں اگر کوئی عذر ہوتو کیا جا سکتا ہے ،جیسے کہ دوا کے طور پر ،بلکہ بوٹی ،نرم گرم روٹی وغیرہ دوسروں کو پیش کرکے اُنہیں اپنے آپ پر ترجیح دے • مہمان کھانے سے ہاتھ ہٹانے لگے تو میزبان کے کہنے پر دوبارہ کھانا شروع کردے یہاں تک کہ اچھی طرح سیر ہوجائے ،اور تین بار سے زیادہ ایسے نہ کرے • دانتوں میں جو کھانا پھنس جائے اسے تنکے وغیرہ سے نکال دے ،اور پھر اسے تھوک دے نِگلے مت۔ آپ حضرت سہیل بن سعد رضی ہللا عنہ سے روایت ہے رسول کریم ﷺ کے پاس پانی الیا گیا تو ؐ ۔آپ نے لڑکے سے کہا آپ کی دائیں طرف ایک لڑکا تھا اور بائیں جانب بڑے لوگ ؐ نے اس کو پیا۔ ؐ کیا تم مجھے اجازت دیتے ہوکہ میں ان بائیں طرف والے لوگو ں کو دے دوں۔ اس لڑکے نے کہا نہیں ہللا کی قسم آپ ﷺ کا تبرک جو مجھے ملے گا میں اس پر کسی کو ترجیح نہیں دوں گا۔ رسول کریم ﷺ نے اس کے ہاتھ پر پیالہ رکھ دیا۔ (مسلم ،کتا ب االشربۃ)
آداب برائے بعد از فراغت: کھانے سے فراغت کے بعد الحمد ہلل ،اور دعا پڑھنا مسنون ہے ،چنانچہ نبی ملسو ہیلع ہللا یلص جب کھانے سے فارغ ہوتے او دستر خوان اٹھا لٌا جاتا تو فرماتے: اركًا فٌِ ِه َ ع ْنهُ َربَّنَا) ست َ ْغنًى َ • (ا ْل َح ْم ُد ِ َّ ِ ً ٍّ َوال ُم َودَّعٍّ َوال ُم ْ ٌرا َط ٌِّبًا ُمبَ َ ّلِل َح ْمدًا َكثِ ً غٌ َْر َم ْك ِف ّ ترجمہ:بہت زٌادہ ،پاکٌزہ اور برکتوں والی تمام تعرٌفٌں ہللا کٌلئے ہٌں ،لٌکن ٌہ حمدوثناء ہللا کے لٌے کافی نہٌں ،نہ ہللا کو چھوڑا جاسکتا ہے اور نہ اس سے کوئی بے نٌاز ہوسکتا ہے۔ اے ہمارے رب بخاری ( ) 5458 • نبی ملسو ہیلع ہللا یلص جب دودھ کے عالوہ کچھ لٌتے تو فرماتے: " اللَّ ُھ َّم بَ ِار ْن لَنَا فٌِ ِه َ ،وأ َ ْط ِع ْمنَا َخٌ ًْرا ِم ْنهُ " ترجمہٌ" :ا ہللا !ہمارے لئے اس مٌں برکت ڈال دے ،اور ہمٌں اسے بھی بہتر کھانا کھال" • اور جب آپ دودھ نوش فرماتے تو کہتے: " اللَّ ُھ َّم بَ ِار ْن لَنَا فٌِ ِه َ ،و ِز ْدنَا ِم ْنهُ " ترجمہٌ" :ا ہللا! ہمارے لئے اس مٌں مزٌد برکت ڈال دے ،اور ہمٌں اس سے بھی زٌادہ عنائت فرما" ترمذی نے اسے رواٌت کٌا ہے( ) 3377اور البانی نے اسے" صحٌح الجامع " ( ) 381مٌں حسن لرار دٌا ہے۔ ابن عباس رضی ہللا عنہما سے مروی ہے کہ رسول ہللا ملسو ہیلع ہللا یلص نے فرماٌا( :جسے ہللا تعالی کھانا کھالئے تو کہے " :اللَّ ُھ َّم بَ ِار ْن لَنَا فٌِ ِه َ ،وأ َ ْط ِع ْمنَا َخٌ ًْرا ِم ْنهُ " ٌا ہللا !ہمارے لئے اس مٌں برکت ڈال دے ،اور ہمٌں اسے بھی بہتر کھانا کھال( ،اور جسے ہللا تعالی دودھ پالئے تو کہے " :اللَّ ُھ َّم بَ ِار ْن لَنَا فٌِ ِه َ ،و ِز ْدنَا ِم ْنهُ "ٌا ہللا! ہمارے لئے اس مٌں مزٌد برکت ڈال دے ،اور ہمٌں اس سے بھی زٌادہ عنائت فرما) ترمذی ( ) 3455نے اسے رواٌت کٌا ہے اور البانی نے صحٌح سنن ترمذی ( ) 2749مٌں اسے حسن لرار دٌا ہے۔
کھانے عمومی آداب: -1کھانے کے عٌب نہ نکالے جائٌں ،چنانچہ ابو ہرٌرہ رضی ہللا عنہ کہتے ہٌں کہ :نبی ملسو ہیلع ہللا یلص نے کبھی بھی کھانے کے عٌب نہٌں نکالے ،اگر اچھا لگا تو کھا لٌا ،اور پسند نہ آٌا تو آپ چھوڑ دٌتے تھے۔ بخاری ( ) 3370اورمسلم ( ) 2046 ٌہاں کھانے سے مراد اٌسا کھانا ہے جسکو کھانا جائز ہے ،جبکہ حرام کھانے کے بارے مٌں اسکی مذمت فرماتے ،اور اس سے روکتے بھی تھے۔ نووی کہتے ہٌں: "کھانے کے آداب مٌں سے ضروری ٌہ ہے کہ کھانے کے بارے مٌں ٌہ نہ کہاجائے" :نمک زٌادہ ہے"، "کھٹا ہے" " ،نمک کم ہے"" ،گھاڑا ہے"" ،پتال ہے"" ،کچا ہے" ،وغٌرہ وغٌرہ۔ ابن بطال کہتےہٌں: ٌہ بہت اچھے آداب مٌں سے ہے ،اس لئے کہ انسان کو کوئی چٌز اچھی نہٌں لگتی لٌکن دوسروں کو پسند ہوتی ہے ،جبکہ دونوں ہی شرٌعت مٌں جائز ہٌں ،کسی پر بھی شرٌعت کی طرف سے کوئی عٌب نہٌں ہے" " شرح مسلم " ( ) 26 / 14 -2مٌانہ روی سے کھانا کھانا اور مکمل طور پر پٌٹ نہ بھرنا بھی کھانے کے آداب مٌں شامل ہے ،اس کے لئے اٌک مسلمان کو اپنے پٌٹ کے تٌن حصے کرنے چاہئٌں ،اٌک تہائی کھانے کٌلئے ،اٌک تہائی پانی کٌلئے اور اٌک تہائی سانس لٌنے کٌلئے ،جٌسا کہ حدٌث مبارکہ مٌں ہے" :کسی انسان نے اپنے پٌٹ سے بُرا برتن کبھی نہٌں بھرا ابن آدم کے لٌے چند نوالے کافی ہٌں جو اس کی کمر سٌدھی رکھٌں اور اگر زٌادہ کھانا ضروری ہو تو تہائی پٌٹ کھانے کے لٌے ،تہائی پٌنے کے لٌے اور تہائی سانس کے لٌے مختص کر دے" ترمذی ( ) 2380ابن ماجہ ( ) 3349البانی نے اسے صحٌح ترمذی ( ) 1939مٌں اسے صحٌح لرار دٌا ہے۔
جسم کو ہلکا پھلکا اور معتدل رکھنے کٌلئے ٌہ ضروری ہے ،کٌونکہ زٌادہ کھانے سے بدن بھاری ہوجاتا ہے ،جس سے عبادت اور کام کرنے مٌں سستی آتی ہے ،اور "تہائی " سے کھانے کی وہ ممدار مراد ہے جس سے انسان مکمل پٌٹ بھر لے اسکا تٌسرا حصہ ۔ " الموسوعة الفمہٌہ الکوٌتٌہ" ( / 25 ) 332 -3کھانے پٌنے کٌلئے سونے اور چاندی کے برتن استعمال نہ کرے ،کٌونکہ ٌہ حرام ہے ،اسکی دلٌل رسول ہللا ملسو ہیلع ہللا یلص کا فرمان( :موٹی اور بارٌک رٌشم مت پہنو ،اور نہ ہی سونے چاندی کے برتنوں مٌں پئو، اور نہ ہی اسکی بنی ہوئی پلٌٹوں مٌں کھاإ ،اس لئے ٌہ کفار کٌلئے دنٌا مٌں ہٌں اور ہمارے لئے آخرت مٌں ہٌں) بخاری ( ) 5426ومسلم ( ) 2067و ہللا اعلم۔ -4کھانے سے فراغت کے بعد ہللا کی تعرٌف کرنا :اسکی بہت بڑی فضٌلت ہے ،چنانچہ انس بن مالک سے مروی ہے کہ رسول ہللا ملسو ہیلع ہللا یلص نے فرماٌا" :بے شک ہللا تعالی اپنے بندے سے راضی ہوتا ہے جب وہ اٌک لممہ کھائے تو ہللا کی تعرٌف کرےٌ ،ا پانی کا گھونٹ بھی پئے تو ہللا کی تعرٌف کرے" مسلم ()2734 عبد الرحمن بن جبٌر کہتے ہٌں کہ نبی ملسو ہیلع ہللا یلص کی آٹھ سال تک خدمت کرنے والے خادم نے بتالٌا کہ آپ صلی ہللا علٌہ وسلم کو جب کھانا پٌش کٌاجاتا تھا آپ کہتے تھے" :بسم ہللا" اور جب فارغ ہوتے تو کہتے" : علَى َما أ َ ْع َطٌْتَ " اللَّ ُھ َّم أ َ ْطعَ ْمتَ َوأَسمٌَْتَ َ ،و َھ َدٌْتَ َ ،وأَحْ ٌٌَْتَ ،فَلَنَ ا ْل َح ْم ُد َ ترجمہٌ :ا ہللا! توں نے ہی کھالٌا ،پالٌا ،ہداٌت دی ،اور زندہ رکھا ،چنانچہ تٌری ان عنائتوں پر تٌرے لئے ہی تعرٌفٌں ہٌں ۔ مسند احمد ( ) 16159اور البانی نے " السلسلة الصحٌحة " ( ) 111 / 1مٌں اسے صحٌح کہا ہے۔
اس کٌلئے متعدد الفاظ نبی ملسو ہیلع ہللا یلص سے ثابت ہٌں: ّلِل -1بخاری نے ابو امامہ سے رواٌت کٌا ہے کہ نبی ملسو ہیلع ہللا یلص کا دستر خوان اٹھاٌا جاتا تو فرماتے " :ا ْل َح ْم ُد ِ َّ ِ اركًا فٌِ ِه َ ع ْنهُ َربَّنَا " ست َ ْغنًى َ ً ٍّ َو َال ُم َودَّعٍّ َو َال ُم ْ ٌرا َط ٌِّبًا ُمبَ َ َح ْمدًا َكثِ ً غٌ َْر َم ْك ِف ّ اسے بخاری ( )5458نے رواٌت کٌا ہے۔ ابن حجر کہتے ہٌں " َ ً ٍّ" کے بارے مٌں کہا گٌا ہے کہ :وہ ذات اپنے بندوں مٌں سے کسی کی غٌ َْر َم ْك ِف ّ محتاج نہٌں ہے وہی اپنے بندوں کو کھالتا ہے ،اور اپنے بندوں کٌلئے کافی ہے ،اور " َو َال ُم َودَّعٍّ" کا مطلب ہے کہ اُسے چھوڑا نہٌں جاسکتا۔ -2معاذ بن انس اپنے والد سے بٌان کرتے ہٌں کہ آپ ملسو ہیلع ہللا یلص نے فرماٌا( :جو شخص کھانا کھائے اور پھر ّلِل الَّذِي أ َ ْط َع َم ِنً َھ َذا َو َر َزلَ ِنٌ ِه ِم ْن َ غٌ ِْر َح ْو ٍّل ِم ِنًّ َو َال لُ َّو ٍّۃ" کہے" :ا ْل َح ْم ُد ِ َّ ِ تمام تعرٌفٌں ہللا کٌلئے ہٌں جس نے مجھے ٌہ کھانا کھالٌا ،اور مجھے بغٌر کسی مشمت اور تکلٌف کے رزق سے نوازا۔اسکے سابمہ سارے گناہ معاف کردئے جاتے ہٌں۔ ترمذی ( ) 3458وابن ماجہ ( ، ) 3285البانی نے اسے " صحٌح ترمذی " ( ) 3348مٌں حسن لرار دٌا ہے۔ -3ابو اٌوب انصاری رضی ہللا عنہ کہتے ہٌں کہ :رسول ہللا ملسو ہیلع ہللا یلص جب کچھ کھاتے ٌا پٌتے تو فرماتے: س َّوغهُ و َجعَ َل له َم ْخ َر َجا ً) سمَى و َ (الحم ُد ہلل الذي أطعَ َم و َ تمام تعرٌفٌں ہللا کٌلئے ہٌں جس نے کھالٌا اور پالٌا اور اسے خوش ذائمہ بناٌا ،اور پھر اسکے لئے خارج ہونے کا راستہ بناٌا۔ ابو داود نے اسے رواٌت کٌا ہے( ) 3851اور اسے البانی نے صحٌح لرار دٌا ہے۔ فائدہ :مذکورہ باال حم ِد باری تعالی کے تمام الفاظ کو باری باری کہنا مستحب ہے ،اٌک بار اٌک انداز سے اور دوسری بار دوسرے الفاظ سے ہللا کی تعرٌف کی جائے ،اس سے اٌک تو تمام الفاظ ٌاد رہٌں گے ،اور سب الفاظ کی برکت حاصل کر پائٌں گے ،اور اسکے ساتھ ساتھ ان الفاظ مٌں موجود معنی بھی ذہن مٌں رہے گا ،کٌونکہ جب انسان اٌک ہی چٌز کو عادت بنا لے تو اسکے معانی زٌادہ تر ذہن مٌں نہٌں آتے۔
متفرلات
آپ نے فرماٌا جب تم مٌں سے کوئی شخص کھانا حضرت ابن عباس رضی ہللا عنہ سے رواٌت ہے کہ ؐ کھائے تو پلٌٹ کے اوپر والے حصے سے نہ کھائے بلکہ اس کے نٌچے ٌعنی سامنے والے حصے سے کھائے کٌونکہ اس کے اوپر والے حصے سے برکت نازل ہوتی ہے۔ داود ،جلد سوئم ،کتاب االطعمۃ)3772 (سنن ابی ُ حضرت ابوہرٌرہ رضی ہللا عنہ بٌان کرتے ہٌں کہ رسول کرٌم ﷺ نے فرماٌا جو شخص ہاتھ دھوئے بغٌر سوجائے اور ہاتھ پر چکنائی وغٌرہ ہو پس اسے کوئی تکلٌف پہنچ جائے تو پھر اپنے آپ کو مالمت کرے (ٌعنی اس کی غلطی ہے کہ اس نے ہاتھ نہٌں دھوئے اور اس سالن وغٌرہ کی چکنائی کی وجہ سے کسی زہرٌلی چٌز نے کاٹ لٌا تو پھر وہ اس کا الزام کسی اور پر نہ دے)۔ داود ،جلد سوئم ،کتاب االطعمۃ)3852 (جامع ترمذی ،جلد اول ،باب اطعمۃ ()1860سنن ابی ُ حضرت ابن عمر رضی ہللا عنہ سے رواٌت ہے کہ نبی کرٌم ﷺ نے فرماٌا کافر سات آنتوں مٌں کھاتاہے اور مومن اٌک آنت مٌں کھاتا ہے۔ (جامع ترمذی ،جلد اول ،باب اطعمۃ )1818 حضرت ابی لتادہ رضی ہللا عنہ سے رواٌت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرماٌا سالی لوم (لوم کو پانی پالنے واال) کو سب سے آخر مٌں پٌنا چاہئے۔ (جامع ترمذی ،جلد اول باب االشرابۃ)1894: حضرت مالک بن فضلہ رضی ہللا عنہ سے رواٌت ہے کہ مٌرے والد نے عرض کٌا :اے ہللا کے رسول ﷺ آپ ﷺ مجھے بتائٌں اگر مٌں کسی آدمی کے پاس سے گزروں اور وہ مٌری مہمان نوازی نہ کرے ،پھر اس کے بعد اس کا گزر مٌرے پاس سے ہوجائے تو کٌا مٌں اس کی مہمان نوازی کروں ٌا اسی جٌسا سلوک کروں؟ آپ ﷺ نے جواب دٌا تم اس کی مہمان نوازی کرو۔ (ترمذی )
حضرت اسماء بنت ٌزٌد رضی ہللا عنہا سے رواٌت ہے کہ رسول اکرم ﷺ کی خدمت مٌں کھانا پٌش کٌا گٌا۔ آپ ﷺ نے وہ کھانا ہمارے سامنے رکھ دٌا ہم نے عرض کٌا :ہمٌں بھوک نہٌں ہے۔ آپ ﷺ نے فرماٌا :جھوٹ اور بھوک کو جمع نہ کرو۔ (ابن ماجہ) حضرت انس رضی ہللا عنہ سے رواٌت ہے اٌک درزی نے رسول اکرم ﷺ کی دعوت کی اور کچھ کھانا تٌار کٌا۔ اکرم کے لئے جو کی روٹی اور شوربا پٌش کٌا جس مٌں مٌں بھی رسول اکرم ﷺ کے ساتھ گٌا۔ اس نے رسول ؐ آپ پٌالہ مٌں کدو تالش کررہے تھے مٌں اسی دن سے کدو سے محبت کدو اور گوشت تھا۔ مٌں نے دٌکھا ؐ رکھتا ہوں۔(جامع ترمذی ،جلد اول باب اطعمۃ ()1850مسلم ،کتاب االشربۃ) حضرت ابن عمر رضی ہللا عنہ سے رواٌت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرماٌا جب تم مٌں سے کوئی اپنے بھائی داود ،جلد سوئم کتاب االطعمۃ کو دعوت دے تو اسے لبول کرلے خوہ وہ دعوت ولٌمہ ہو ٌا کوئی اور۔ (سنن ابی ُ ،حدٌث نمبر)3738 حضرت عبدہللا بن عمر رضی ہللا عنہ بٌا ن کر تے ہٌں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرماٌا جسے دعوت دی جائے اور وہ لبول نہ کرے تو اس نے ہللا اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کی اور جو شخص بن بالئے (دعوت مٌں) شرٌک ہوجائے تو وہ چور کی طرح (چھپ کر) داخل ہوا اور ڈاکو کی طرح (بڑی دلٌری سے) باہر آٌا۔ داود ،جلد سوئم کتاب االطعمۃ ،حدٌث )3741 (سنن ابی ُ حضرت ابوہرٌرہ رضی ہللا عنہ سے رواٌت ہے کہ آپ ﷺ فرماٌا کرتے تھے کہ بدترٌن کھانا اس ولٌمہ کا کھانا ہے جس مٌں مالداروں کو بالٌا جاتا ہے اور مساکٌن کو نظر انداز کردٌا جاتا ہے اور جو شخص دعوت مٌں شرٌک نہ ہو تو اس نے ہللا اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کی۔ داود،جلد سوئم کتاب االطعمۃ ،حدٌث نمبر)3742 (سنن ابی ُ حضرت ابن عباس رضی ہللا عنہ سے رواٌت ہے نبی کرٌم ﷺ نے اٌک دوسرے پر برتری حاصل کرنے والوں داود ،جلد سوئم ،کتاب االطعمۃ )3754 کا کھانا کھانے سے منع فرماٌا ہے۔(سنن ابی ُ
ل ل ا م ف طي ي ي خ ن ك س ش ( ان ا ر ن ا وا ا وان ا ن ) ق ل ث لتس ل ن مئ ع الن ع ي ووه( م ا ن و ذ ن م )
صومالٌہ 60الکھ لوگ للت رزق کی وجہ سے بھوک مری کی چپٌٹ مٌں آئے ،شام مٌں بہت سے ممامات جہاں لوگوں کو روٹی مٌسر نہٌں آتی ،نان شبٌنہ تو دور کی بات ہے ،پٌٹ کی آگ بجھانے کے لئے روٹی کا نوالہ مٌسر نہٌں آٌا ،غذا کا اٌک ذرہ بھی ان کے حلك سے نٌچے نہٌں اترا،حاالنکہ بھوک کی شدت انسان کو چوری ڈاکہ زنی اور سماجی خرابٌوں مٌں ملوث کرتی ہے اور انسان بھوک مٹانے کے لئے ہر راہ سے گذرنے کے لئے تٌار رہتا ہے ،تارٌخ کے چہرے پر اٌسے والعات بھی درج ہٌں جہاں انسان نے بھوک مٹانے کے لئے انسان کو بھی نہٌں بخشا اور پٌٹ کی آگ مٌں جل کر اس شئے کو غذا بنانے پر مجبور ہوا جسے وہ محترم و معزز اور الئك اکرام سمجھتا ہے۔ چنانچہ 1972مٌں دھرتی اٌسے والعہ کی شاہد بنی جس کا تصور بھی ذہن و دماغ کے لئے المناک ہے۔مارٹن نامی پائٌلٹ نے کھانا مٌسر نہ آنے اور اپنے دو ساتھٌوں کے مرنے کے بعد زندگی کی رفتار مدھم ہوتی دٌکھ اپنے ساتھٌوں کے گوشت کو کھانا شروع کردٌا تھاحاالنکہ وہ بھی انسان تھا ،تعلٌم ٌافتہ تھا ،جذبات واحساسات ،دھڑکتا ہوا دل ،غور و فکر کرنے واال دماغ سب کچھ اس کے پاس تھا ،مگر بھوک کی شدت نے سارے احساسات کو مغلوب کردٌا ،جذبات کو برفٌال اور دل کو سل بنا دٌا ٌ،ہ للت رزق کی کار فرمائی ہے خدا کی سرزمٌن اپنے سٌنہ کو چٌر کر اتنا غلہ پٌدا کرتی ہے کہ 14چودہ بلٌن افراد اپنا پٌٹ بھر سکتے ہٌں ،مگر کائنات کے سٌنہ پر بسنے والے 7.3بلٌن افراد بھی اپنا پٌٹ نہٌں بھر پاتے
کاش ہم میں سے ہر شخص اس ضرورت کو سمجھ لے اور رزق کا محافظ بن جائے ، اگر ہر ہندوستانی اٌک اٌک لممے کا محافظ بن جائے ،کمر کس لے عملی طور پر دعوٌدار ہوجائے کہ مٌں روزانہ اٌک لممہ کی حفاظت کرونگا تو ہم ہندوستانی اٌک ولت مٌں اٌک ارب28کروڑ لممے بچائے جا سکتے ہٌں ،جس بہت سے مفلسوں کے پیٹ بھرے جا سکتے ہیں ،انہیں زندگی کا تحفہ دیا جاسکتا ہے ،ان کی آرزووں میں جان پیدا کی جاتی ہے ،ان کے خوف ڈوبتی سانسوں کو ابھارا جاسکتا ہے ،ان کی مرتی ٔ زدہ ذہنوں کو مامون کیا جا سکتا ہے ،انہیں زندگی جینے کی ہمت و حوصلہ عنایت کیا جا سکتا ہے ،ہم مٌں ہر اٌک کو کمربستہ ہوجانا چاہئے اور عہد کرلٌنا چاہے ،کہ اب بھوک کی وجہ سے کوئی تکلٌف نہٌں اٹھائے گا ،کوئی مردہ انسانوں کا گوشت کھانے پر مجبور نہٌں ہوگا ،کوئی راہزنی اور چوری کی جانب پٌٹ بھرنے کے لئے لدم نہٌں بڑھائے گا ،کوئی جرم انسانٌت کا شکار نہٌں ہوگا ٌ،مٌنا ہم مٌں سے ہر اٌک شخص شام و اٌران ،صومالٌہ ،روہنگنٌا کھانا پہنچانے کی استطاعت نہٌں رکھتا گاوں اپنا شہر ٌہ تو ہم سے دور نہٌں ہٌں ،ان تک تو ہماری ،مگر اپنا پڑوس ،اپنا لرب و جوار ،اپنا ٔ رسائی بآسانی ہو سکتی ہے ٌ،ہی ہماری منزل ہے ،ان تک پہنچئے ،کھانا پہنچائٌے ،بھوک کے خالف جنگ لڑئٌے ،کمر کس لٌجئے ،اگر آپ نے ٌہ عمل کرلٌا ،تو آپ انسانٌت کے لئے ٌمٌنا کار آمد ثابت ہونگے اور محافظ آدمٌت لرار پائٌں گے
جزامك هللا عىل حسن اس امتعمك