یہ ہی فیصلہ ہوا تھا نظمیں ممصود حسنی
ابوزر برلی کتب خانہ مئی 2016
فہرست ولت کیسا انمالب الیا ہے حیرت تو یہ ہے کس منہ سے شبنم نبضوں میں جب تک صبح ہی سے نوحہ ایندھن عاری
دروازہ کھولو سننے میں آیا ہے چل' دمحم کے در پر چل میں نے دیکھا ہر گھر سے حیات کے برزخ میں بد لسمتی مت پوچھو میں مٹھی کیوں کھولوں سچ کے آنگن میں پانچ ہائیکو بد لسمتی یہ ہی فیصلہ ہوا تھا
ولت کیسا انمالب الیا ہے
ولت کیسا عذاب الیا ہے تم کب الئك محبت ہو آئینے میں اپنی شکل تو دیکھو لاصد یہی جواب الیا ہے گویا خط میں عتاب الیا ہے جو سر کے بل چلے تھے ناکام ٹھہرے پت جھڑ گالب الیا ہے ذلیخا کا عشك سچا سہی وہ برہنہ پا کب چلی تھی پہیہ عمودی چال چال ہے زندہ لبر میں اتر گیا ہے آنکھ دیکھتی نہیں کان سنتے نہیں ولت کیسا انمالب الیا ہے
بارش لرض دار بادلوں کی بادل بینائی کو ترسیں زخمی زخمی ہر سہاگن کی کالئی بیوہ سولہ سنگار سے ہے ولت کیسا انمالب الیا ہے ولت کیسا عذاب الیا ہے ممصود حسنی جناب ممصود حسنی صاحب سالم مسنون واہ واہ بہت خوب چبھتی ہوئی نظم ہے۔ اؐپ نے چہرہ کو گرد سے صاف کرنے کو کہا ہے مگر حمیمت یہ ہے کہ ہمارا چہرہ اتنا مسخ ہو چکا ہے کہ اس کو صاف کرنے کی نہیں بلکہ ایک بڑے اپریشن کی ضرورت ہے کہ جس سے وہ چہرہ نکھرے جو کہ ہمارا اصلی اور بے مثالی چہرہ سامنے اؐئے۔
ایک دفع پھر داد۔ طالب دعا کفیل احمد
حیرت تو یہ ہے موسم گل ابھی محو کالم تھا کہ مہتاب بادلوں میں جا چھپا اندھیرا چھا گیا پریت پرندہ ہوس کے جنگلوں میں کھو گیا اس کی بینائی کا دیا بجھ گیا کوئی ذات سے‘ کوئی حاالت سے الجھ گیا
کیا اپنا ہے‘ کیا بیگانہ‘ یاد میں نہ رہا بادل چھٹنے کو تھے کہ افك لہو اگلنے لگا دو بم ادھر دو ادھر گرے پھر تو ہر سو دھواں ہی دھواں تھا چہرے جب دھول میں اٹے تو ظلم کا اندھیر مچ گیا پھر اک درویش مینار آگہی پر چڑھا کہنے لگا سنو سنو دامن سب سمو لیتا ہے اپنے دامن سے چہرے صاف کرو شاید کہ تم میں سے کوئی ابھی یتیم نہ ہوا ہو یتیمی کا ذوق لٹیا ڈبو دیتا ہے
من کے موسم دبوچ لیتا ہے کون سنتا پھٹی پرانی آواز کو حیرت تو یہ ہے موسم گل کا سب کو انتظار ہے گرد سے اپنا دامن بھی بچاتا ہے اوروں سے کہے جاتا ہے چہرہ اپنا صاف کرو‘ چہرہ اپنا صاف کرو جناب ممصود حسنی صاحب سالم مسنون واہ واہ بہت خوب چبھتی ہوئی نظم ہے۔ اؐپ نے چہرہ کو گرد سے صاف کرنے کو کہا ہے مگر حمیمت یہ ہے کہ ہمارا چہرہ اتنا مسخ ہو چکا ہے کہ اس کو صاف کرنے کی نہیں بلکہ ایک بڑے اپریشن کی ضرورت ہے کہ جس سے وہ چہرہ نکھرے جو کہ ہمارا اصلی اور بے مثالی چہرہ سامنے اؐئے۔ ایک دفع پھر داد۔
طالب دعا کفیل احمد http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9121.0
کس منہ سے چلم بھرتے ہات‘ اٹھ نہیں سکتے ہونٹوں پر فمیہ عصر نے چپ رکھ دی ہے کتنا عظیم تھا وہ شخص گلیوں میں رسولوں کے لفظ بانٹتا رہا ان بولتے لفظوں کو‘ ہم سن نہ سکے آنکھوں سے‘ چن نہ سکے
ہمارے کانوں میں‘ جبر کی پوریں رہیں آنکھوں میں خوف نے پتھر رکھ دیے ہم جانتے ہیں‘ وہ سچا تھا لول کا پکا تھا مرنا تو ہے‘ ہمیں یاد نہ رہا ہم جانتے ہیں اس نے جو کیا ہمارے لیے کیا جیا تو ہمارے لیے جیا کتنا عجیب تھا زندہ الشوں کا دم بھرتا رہا مصلوب ہوا ہم دیکھتے رہے نیزے چڑھا ہم دیکھتے رہے مرا جال راکھ اڑی ہم دیکھتے رہے اس کے کہے پر دو گام تو چال ہوتا کس منہ سے اب
اس کی راہ دیکھتے ہیں ہم خاموش تماشائی مظلومیت کا فمط ڈھونگ رچاتے ہیں بے جان جیون کے دامن میں غیرت کہاں جو رن میں اترے یا پھر پس لب اس کی مدح ہی کر سکے چلو دنیا چاری ہی سہی آؤ اندرون لب دعا کریں ان مول سی مدح کہیں پیغام میں ترمیم کیجیے
شبنم نبضوں میں
عشك پلکوں پر پروانے اترے دیوانے تھے جو پر جالنے اترے لمس کی حدت نے خوشبو کی شدت نے آءین کے سینے پر پتھر رکھا گالب آنکھیں پتھر ہر رہگزر خوف کا گھر سوچ دریچے برف ہوءے بہری دیواروں پر گونگے خواب اگے اندھے چراغ جلے شبنم نبضونمیں
موت کا شعلہ تھا شہر میں کہرام مچا پروانے تو دیوانے تھے پر جالنے اترے
جب تک وہ لتل ہو گیا پھر لتل ہوا ایک بار پھر لتل ہوا اس کے بعد بھی لتل ہوا وہ مسلسل لتل ہوتا رہا جب تک سیٹھوں کی بھوک‘ نہیں مٹ جاتی جب تک خواہشوں کا‘ جنازہ نہیں اٹھ جا
وہ لتل ہوتا رہے گا وہ لتل ہوتا رہے گا محترمی ڈاکٹر حسنی صاحب:آداب عرض آپ کی نثری نظم پڑھی اور مستفید ہوا۔ نثری نظم کی ضرورت میری سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ نثری نظم دراصل اچھی نثر کو چھوٹے بڑے ٹکڑوں میں تمسیم کرنے کا دوسرا نام ہے۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہے۔ مجھ کو آپ کی یہ نثری نظم اس لئے اچھی لگی کہ اس کا موضوع ولت کی پکار ہے۔ جس طرح ساری دنیا میں اور خاص طور سے دنیائے اسالم میں :سیٹھوں ،وڈیروں :کے ہاتھوں عوام کا استحصال ہو رہا ہے وہ بہت عبرتناک ہے۔ افسوس کہ اس کا عالج سمجھ میں نہیں آتا۔ ایک سوال دل میں اٹھتا ہے کہ اس لدر ظلم ہو رہا ہے تو وہ ہستی جس کو ہم :ہللا ،خدا ،بھگوان ،گاڈ :کہتے ہیں کیوں خاموش ہے؟ اگر سب کچھ اس کے ہاتھ میں ہے تو پھر وہ کچھ کرتی کیوں نہیں؟ آپ نے بھی اس پر سوچا ہوگا۔ مناسب جانیں تو اس
پر لکھیں۔ شکریہ۔ خادم مشیر شمسی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8503.0
صبح ہی سے
وہ آگ عزازئیل کی جو سرشت میں تھی اس آگ کو نمرود نے ہوا دی اس آگ کا ایندھن لارون نے پھر خرید کیا اس آگ کو فرعون پی گیا
اس آگ کو حر نے اگل دیا یزید مگر نگل گیا اس آگ کو میر جعفر نے سجدہ کیا میر لاسم نے مشعل ہوس روشن کی اس آگ کے شعلے پھر بلند ہیں مخلوق ارضی ڈر سے سہم گئ ہے ابر باراں کی راہ دیکھ رہی ہے کوئ بادل کا ٹکڑا نہیں صبح ہی سے تو آسمان نکھر گیا ہے 1980
نوحہ وہ لیدی نہ تھا خیر وشر سے بے خبر معصوم فرشتوں کی طرح جھوٹے برتنوں کے گرد انگلیاں محو رلص تھیں اس کی ہر برتن کی زبان پہ اس کی مرحوم ماں کا نوحہ باپ کی بےحسی اور جنسی تسکین کا بین تھا آنکھوں کی زبان پہ اک سوال تھا
‘اس کو زندگی کہتے ہیں یہی زندگی ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟
محترمی جناب حسنی صاحب :آداب عرض میں شاعر نہیں ہوں بس ادب کا شوق ضرور ہے مجھ کو۔ اس لئے اگر کوئی غلط بات کہہ جائوں تو معاف کر دیجئے گا۔ آپ کی نظم "نوحہ" میری سمجھ میں نہیں آئی۔ ایسا محسوس ہوا جیسے اپ کا مطلب الفاظ کے پیچ و خم میں کہیں گم ہو گیا۔ کئی مرتبہ نظم پڑھی اور غور کیا لیکن بات پوری طرح واضح نہیں ہوئی۔۔ یہ ضرور میری کوتاہی ہے۔ بڑی عنایت ہوگی اگر آپ اپنے خیال اور طرز بیان پر کچھ روشنی ڈآلیں۔ میرا خیال ہے کہ اس سے کچھ اور دوستوں کابھی فائدہ ہو گا۔ شکریہ پیشگی لبول کیجئے۔ آپ کی وضاحت کا انتظار رہے گا۔ خادم :مشیر شمسی
محترم سید صاحب آپ نے توجہ فرمائ‘ دل و جان سے احسان مند ہوں۔ ہللا آپ کو خوش رکھے۔ آپ کی تحریر بتاتی ہے‘ آپ ہللا کے فضل سے آسوددہ حال ہیں۔ آپ کو تیسرے اور چوتھے درجے کے کسی ہوٹل میں بیٹھ کر‘ چائے سے شغل فرمانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ آپ نے کسی بڑے گھر میں‘ کسی معصوم بچے کو برتن صاف کرتے نہیں دیکھا۔ اگر یہ آپ نے مالحظہ فرمایا ہوتا‘ تو سب سمجھ میں آ جاتا۔ لبلہ میں نے دیکھا ہے اور دیکھتا رہتا ہوں۔ میں گلی میں دس بارہ برس کے بچوں کی‘ رات گیے‘ گرم انڈے کی آوازیں سنتا ہوں۔ اگر جناب پر مطلب واضع نہ ہوا ہو‘ تو چشم تصور میں‘ میری بھیگی پلکوں کو دیکھ لیں‘ ممکن ہے‘ مطلب واضع ہو جائے۔ واہ ...ڈاکٹر صاحب ! آپ نے ہمارے معاشرے کے اس
نوحے کو بہت عمدگی سے بیان کیا ہےباپ کی بے حسی اور جنسی تسکین کا بین بہت کم الفاظ میں آپ نے اشارہ دیا ہے کہ لصور صرف معاشرے یا ب اختیار کا نہیں ہے بلکہ اس جرم میں وہ لوگ بھی اربا ِ برابر کے شریک ہیں جو اپنے وسائل کو دیکھے بنأ ہی اپنی نفسانی خواہشات کا گھوڑا سرپٹ سرپٹ دوڑائے چلے جاتے ہیں اور ساتھ میں اپنی (مذہبی) جاہلیت کی وجہ سے بچوں کی ایک لطار کھڑی کر دیتے ہیں فیصل فارانی
ایندھن
دیکھتا اندھا سنتا بہرا سکنے کی منزل سے دور کھڑا ظلم دیکھتا ہے آہیں سنتا ہے بولتا نہیں کہتا نہیں جہنم ضرور جائے گا
عاری
جبرائیل ادراک شاہین پرواز لے گیا سیماب بےلراری گالب خوشبو لے گیا مہتاب چاندنی خورشید حدت لے گیا جو جس کو پسند آیا لے گیا تیرے پاس کیا رہا دو ہات‘ خالی دو آنکھیں‘ بے نور راتوں کے خواب بے رونك‘ بےزار دن کے اجالے خاموش‘ اداس
ہمالہ‘ مٹی کا ڈھیر حرکت سے عاری تو‘ مٹی کا ڈھیر حرکت سے عاری ُمحترم جناب ڈاکٹر ممصود حسنی صاحب! اسالم علیکم آپ کی نظموں پر آج پہلی بار نظر پڑی۔ ہم نے اِنھیں بُہت ہی فِکر انگیز اور ولولہ انگیز پایا۔ یہ نظم ہمیں بُہت پسند آئی ہے۔ اگرچہ ہم آپ کے ِعلم کے ُممابلے میں شائید اِسے اُن معنوں تک سمجھ نہ پائے ہوں۔ جہاں تک ہم سمجھے خاطب ہیں اور کہہ رہے ہیں ہیں آپ اِس میں اِنسان سے ُم ِ کہ اِنسان صرف لُدرت کی عطا کی ہوئی چیزوں سے کُچھ حاصل کرتا ہے۔ اگر اِس سے سب کُچھ چھین لیا جائے تو اِنسان کے اپنے پاس کُچھ بھی نہیں ،فمط مٹی کا ڈھیر ہے۔ اِنسان کو لُدرت کی تراشی چیزیں بُہت کُچھ دیتی ہیں ،لیکن اِنسان اِن مخلولات کو کُچھ نہیں دے سکتا۔ البتہ جبرائیل والی بات ہم سمجھ نہیں سکے ہیں اور اپنی کم ِعلمی پر
نادم ہیں۔ اگر ہم سمجھنے میں کُلی یا ُجزوی طور پر غلط ہوں تو مہربانی فرما کر اِس ناچیز کی بات پر خفا نہ ہوئیے گا۔ ہمارا ِعلم و ادراک فمط اِتنا ہی ہےِ ،جس پر ہم مجبور ہیں اور شرمسار بھی۔ ب دُعا طال ِ وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8506.0
دروازہ کھولو وڈیائی کا سرطان بھیجے کے ریشوں میں
جب بھی گردش کرتا ہے بھوک کا چارا میتھی میں کرونڈ سا لگتا ہے موڈ کی تکڑی کے پلڑے خالی رہتے ہیں حرکت کرتے ہونٹ دنبی سٹی اور امریکن سنڈی سے بدتر لگتے ہیں لتل پہ روتی آنکھیں لاتل کو گالی بکتی آنکھیں نفرت برساتی آنکھیں بدلے کی بھاونا رکھتی آنکھیں مسور میں کوڑکو لگتی ہیں حك سچ کے لاتل بولوں پر
جئے جئے کار سے عاری جھیبا تالی سے خالی ہاتھ بیکار نکمے روڑی کا کچرا لگتے ہیں انگلی کے اشارے پر لرزیں نہ کانپیں ڈھیٹوں کی بھاتی دھرتی نہ چھوڑیں ایسے پاؤں کنبھ کرن کے وارث لگتے ہیں دھونس ڈپٹ کے کالے کلمے سننے سے عاری سماعی آلے راون غلیل کا چدا لگتے ہیں پھولوں سے کومل
کہتے سنتے ممتا جذبے ڈوبتی کشتی کا ہچکوال لگتے ہیں یثرب کی مٹی پہ مر مٹنے والو کالے یرلان یا پھر لطر بررید سے پہلے کل نفس کا انجکشن ال الہ کا وٹمن حبل الوورید میں رکھ دو کلکیریا فلور کے لطرے لیزر شعاعیں ان کے بھیجے کی پیپ آلودہ گلٹی کا تریاق نہیں ہیں من مندر کا دروازہ کھولو
آتے کل کی راہ مت دیکھو آتا کل کب اکال کا گھر ہے جناب محترم ڈاکٹر ممصود حسنی صاحب آپ کا یہ کالم پڑھن کے نال ہی دماغ کے بوہے پہ جینویں کسی نے آکر دستک دینڑ کے بجائے کُسھن ماریا ،وجا جا کے ٹھا کرکے بڑا ای سواد آیا ،کیا ای بات ہے ہماری طرف سے ایس سوہنی تے من موہنی تحریر سے فیض یاب فرمانڑ کے واسطے چوہلیاں پرھ پرھ داد پیش ہےگی تواڈا چاہنے واال اسماعیل اعجاز http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=7988.0
سننے میں آیا ہے سننے میں آیا ہے
ہم آگے بڑھ گئے ہیں ترلی کر گئے ہیں سرج اب شرق سے اٹھتا ہے واشنگٹن کے مندر کا بت کس محمود نے توڑا ہے سکندر کے گھوڑوں کا منہ کس بیاس نے موڑا ہے اس کی گردن کا سریا کس ٹیپو نے توڑا ہے سو کا بیلنس اب سو ہی چڑھتا ہے پونڈ سٹرلنگ اور ڈالر روپیے کے دو ملتے ہیں سننے میں آیا ہے ہم آگے بڑھ گئے ہیں
ترلی کر گئے ہیں 'بیوہ کو ٹک ملتا ہے وہ پیٹ بھر کھاتی ہے گریب کی بیٹیا بن دہیج ?اب ڈولی چڑھتی ہے جو جیون دان کرے دارو کی وہ شیشی ?اب مفت میں ملتی ہے سننے میں آیا ہے ہم آگے بڑھ گئے ہیں ترلی کر گئے ہیں موسی اور عیسی گرجے اور ہیکل سے ?مکت ہوئے ہیں
بدھ رام بہا کہ نانک کے پیرو ہوں یا پھر چیراٹ شریف کے باسی ?اپنا جیون جیتے ہیں سننے میں آیا ہے ہم آگے بڑھ گئے ہیں ترلی کر گئے ہیں گوئٹے اور بالی ٹیگور تے جامی سیوفنگ اور شیلی ?سب کے ٹھہرے ہیں مالں پنڈت اور گرجے کا وارث انسانوں کو انسانوں کے ?کام آنے کی کہتا ہے
سننے میں آیا ہے ہم آگے بڑھ گئے ہیں ترلی کر گئے ہیں شیر اور بکری 'اک گھاٹ پر پانی پیتے ہیں ?اک کچھ میں رہتے ہیں سیٹھوں کی بستی میں مل بانٹ کر ?کھانے کی چرچا ہے رشوت کا کھیل ?ناکام ہوا ہے منصف ?ایمان لرآن کی کہتتا ہے سننے میں آیا ہے ہم آگے بڑھ گئے ہیں
ترلی کر گئے ہیں من تن کا وارث تن من کا بھیدی جب بھی ٹھہرے گا جیون کا ہر سکھ لدموں کی ٹھوکر امبر کے اس پار انسان کا گھر ہو گا 'پرتھوی کیا ہللا کی ہر تخلیك کا ماما نہیں موچی درزی نائی بھی وارث ہوگا 'شخص شخص کا بھائی ہوگا
چل' دمحم کے در پر چل اک پل آکاش اور دھرتی کو اک دھاگے میں بن کر رنگ دھنک اچھالے دوجا پل جو بھیک تھا پہلے کل کی کاسے سے اترا ماتھے کی ریکھا ٹھہرا کرپا اور دان کا پل پھن چکر مارا گرتا ہے منہ کے بل
سلوٹ سے پاک سہی پھر بھی حنطل سے کڑوا اترن کا پھل الفت میں کچھ دے کر پانے کی اچھا حاتم سے ہے چھل غیرت سے عاری حلك میں ٹپکا وہ لطرہ سمراط کا زہر نہ گنگا جل مہر محبت سے بھرپور نیم کا پانی نہ کڑا نہ کھارا
وہ تو ہے آب زم زم اس میں رام کا بل ہر فرزانہ عہد سے مکتی چاہے ہر دیوانہ عہد کا بندی مر مٹنے کی باتیں ٹالتے رہنا کل تا کل جب بھی پل کی بگڑی کل در نانک کے بیٹھا بےکل وید حکیم مالں پنڈٹ
پیر فمیر جب تھک ہاریں جس ہتھ میں ولت کی نبضیں چل دمحم کے در پر چل
میں نے دیکھا
پانیوں پر میں اشک لکھنے چال تھا دیدہءخوں دیکھ کر ہر بوند ہوا کے سفر بر نکل گئی
منصف کے پاس گیا شاہ کی مجبوریوں میں وہ جکڑا ہوا تھا سوچا پانیوں کی بےمروتی کا فتوی ہی لے لیتا ہوں مالں شاہ کے دستر خوان پر مدہوش پڑا ہوا تھا دیکھا‘ شیخ کا در کھال ہوا ہے سوچا شاید یہاں داد رسی کا کوئی سامان ہو جائے گا وہ بچارہ تو پریوں کے غول میں گھرا ہوا تھا کیا کرتا کدھر کو جاتا
دل دروازہ کھال خدا جو میرے لریب تھا بوال کتنے عجیب ہو تم بھی کیا میں کافی نہیں جو ہوس کے اسیروں کے پاس جاتے ہو میرے پاس آؤ ادھر ادھر نہ جاؤ میری آغوش میں تمہارے اشکوں کو پناہ ملے گی ہر بوند رشک لعل فردوس بریں ہو گی اک لظرہ مری آنکھ سے ٹپکا میں نے دیکھا شاہ اور شاہ والوں کی گردن میں
بے نصیبی کی زنجیر پڑی ہوئی تھی
مکرم بندہ جناب حسنی صاحب :سالم مسنون آزاد شاعری عام طور پر میرے سر پر سے گزر جاتی ہے۔ جب تک میں اس کے تانے بانے سلجھاتا ہوں پچھلے پڑھے ہوئے مصرعے ذہن کی تہوں میں کہیں گم ہو جاتے ہیں اور میں پھر نظم پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش میں گرفتار ہو جاتا ہوں۔ آپ کی اس نظم کے مطالعہ میں ایسا صرف ایک بار ہوا اور میں جلد ہی منزل ممصود تک پہنچ گیا۔ یہ شاید اس لئے ہوا کہ آپ کی نظم پر دلسوزی اور خلوص دل کی مہر لگی ہوئی ہے جیسے آپ اپنی آپ بیتی بیان کر رہے ہوں۔ نظم پڑھ کر متاثر ہوا۔ نظم کا پیغام عام سہی لیکن اہم ضرور ہے۔ ہم اہل دنیا بے تحاشہ اہل التدار کی جانب بھاگتے ہیں اور اس تگ و دو میں بھول جاتے ہیں کہ دینے واال تو کوئی اور ہی ہے۔ ہللا رحم کرے۔ ایسے ہی لکھتے رہئے۔ ہللا آپ کو ہمت اور طالت عطا فرمائے۔ صالحیت اور توفیك سے تو اپ بھر پور ہیں ہی۔ بالی راوی سب چین بولتا ہے۔
"سرور عالم راز "سرور http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9132.0
ہر گھر سے
دن کے اجالوں میں خداہائے کفر ساز و کفر نواز پیتے ہیں سچ کا لہو کہ وہ اجالوں کی بستی میں زندہ رہیں شرق سے اب تمہیں کوئی شب بیدار کرنا ہو گی کہ سچ اسے دکھنے ہی نہ پائے تمہیں بھی تو اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں
یا پھر آتی نسلوں کے لیے ہی سہی دن کے اجالوں میں روح حیدر رکھنا ہوگی سسی فس کا جیون جیون نہیں سمراط کی مرتیو مرتیو نہیں جینا ہے تو حسین کا جیون جیو کہ جب ارتھی اٹھے خون کے آنسووں میں راکھ اڑے خون کے آنسووں میں شاعر کا للم
روشنی بکھیرے گا زندگی‘ آکاش کی محتاج نہ رہے گی ہر گھر سے چاند ہر گھر سے سورج طلوع ہو گا غروب کی ہر پگ پر کہیں سمراط کہیں منصور تو کہیں سرمد کھڑا ہو گا
حیات کے برزخ میں تالش معنویت کے سب لمحے صدیاں ڈکار گئیں چیتھڑوں میں ملبوس معنویت کا سفر اس کنارے کو چھو نہ سکا
تاسف کے دو آنسو کاسہءمحرومی کا ممدر نہ بن سکے کیا ہو پاتا کہ شب کشف دو رانوں کی مشمت میں کٹ گئی صبح دھیان نان نارسا کی نذر ہوئی شاعر کا کہا بےحواسی کا ہم نوا ہوا دفتر رفتہ شاہ کے گیت گاتا رہا وسیبی حکائتیں بےولار ہوئیں لرطاس فکر پہ نہ چڑھ سکیں گویا روایت کا جنازہ اٹھ گیا ضمیر بھی چاندی میں تل گیا مجذوب کے خواب میں گرہ پڑی مکیش کے نغموں سے طبلہ پھسل گیا
درویش کے حواس بیدار نمطے ترلی کا ڈرم نگل گیا نہ مشرق رہا نہ مغرب اپنا بنا آخر کب تک یتیم جیون حیات کے برزخ میں شناخت کے لیے بھٹکتا رہے
مت پوچھو بن ترے کیسے جیتا ہوں مت پوچھو اڈیکوں کے ظالم موسم میں سانسوں کا آنا جانا کیسے ہوتا ہے مت پوچھو
ساون رت میں آنکھوں کی برکھا کیسے ہوتی ہے مت پوچھو خود غرضی کا لیبل جب بھی لگتا ہے راتوں کی نیندیں ڈر جاتی ہیں آشکوں کے تارے سارے کے سارے گنتی میں کم پڑ جاتے ہیں آس کی کومل کرنیں یاس کی اگنی میں جب جلتی ہیں تب روح کی ارتھی اٹھتی ہے یادوں کی نم آنکھوں کی بیپتا مت پوچھو چھوڑ کر جانے کے موسم پر
بچھڑے موسم کا اک پل بھاری ہوتا ہے پھر کہتا ہوں کالے موسم تم کو کھا جائیں گے تری ہستی کی کوئی کرچی میں کیسے دیکھ سکوں گا چہرے گھاءل مرے دل کے کتنے ٹکڑے کرتے ہیں مت پوچھو
میں مٹھی کیوں کھولوں میں مٹھی کیوں کھولوں بند مٹھی میں کیا ہے کوئ کیا جانے
مٹھی کھولوں تو تم مرے کب رہ پاؤ گے ہر سیٹھ کی سیٹھی اس کی گھتلی کے دم سے ہے میں مٹھی کیوں کھولوں تری یاد کی خوشبو مری ہے مری ہے اس یاد کے باطن میں ترے ہونٹوں پر کھلتی کلیاں تری آنکھوں کی مسکانیں بھیگی سانسوں کی مہکیں جھوٹے بہالوے کچھ بے موسم وعدے ساتھ نبھانے کی لسمیں دکھ کے نوحے
شراب سپنوں کی لوس و لزاح مری ہے مری ہے میں مٹھی کیوں کھولوں
سچ کے آنگن میں
جب بھوک کا استر حرص کی بستی میں جا بستا ہے اوپر کی نیچے‘ نیچے کی اوپر آ جاتی ہے چھاج کی تو بات بڑی چھلنی پنچ بن جاتی ہے بکری ہنس چال چلنے لگتی ہے کوے کے سر پر
سر گرو کی پگڑی سج جاتی ہے دہمان بو کر گندم فصل جو کی کاٹتے ہیں صبح کا اترن لے کر کالی راتیں سچ کے آنگن میں جا بستی ہیں مارچ ١٩٧٤ ‘١٩
پانچ ہائیکو کسی کی آنکھ میں سمائی ظلمت شب کسی کی آنکھ میں تسکین کا جادو گلیوں کے ہونٹوں پر سجی عید مبارک ...........
شب ہجر ہم سفر ہوئے تری آنکھوں کے مست پیالے پیاس میں ڈوبے بادلوں کے ........... بھوک جب بھی ستاتی ہے دریچے اخالص کے سب بہرے ہو جاتے ہیں ............ شام کے ہاتھوں میں پتھر صبح کی آنکھ میں خنجر بچہ مرا پوچھے ہے آج کا موسم ............... مچھرے کی پلکوں پر شبنم تڑپ بےآب ماہی کی یا یہ جلتی آنکھوں کا دھواں
.......... 1995
سوچ کے گھروندوں میں علم و فن کے کالے سویروں سے مجھے ڈر لگتا ہے ان کے بطن سے ہوس کے ناگ جنم لیتے ہیں سچ کی آواز کو جو ڈس لیتے ہیں سہاگنوں کی پیاسی آتما سے ہوس کی آگ بجھاتے ہیں
صالحیتوں کے چراغوں کی روشنی کو دھندال دیتے ہیں بجھا دیتے ہیں حك کے ایوانوں میں اندھیر مچا دیتے ہیں حمیمتوں کا ہم زاد اداس لفظوں کے جنگلوں کا آس سے ٹھکانہ پوچھتا ہے انا اور آس کو جب یہ ڈستے ہیں آدمیت کی آرتھی اٹھتی ہے کم کوسی' بےہمتی بےاعتنائی کے شراپ کے سائے ابلیس کے لدم لیتے ہیں شخص کبھی جیتا کبھی مرتا ہے
کھانے کو عذاب ٹکڑے پینے کو تیزاب بوندیں ملتی ہیں خود کشی حرام سہی مگر جینا بھی تو جرم ٹھہرا ہے ستاروں سے لبریز چھت کا دور تک اتا پتا نہیں ہوا ادھر سے گزرتے ڈرتی ہے بدلتے موسموں کا تصور شیخ چلی کا خواب ٹھہرا ہے یہاں اگر کچھ ہے تو'........... منہ میں زہر بجھی تلواریں ہیں پیٹ سوچ کا گھر ہات بھیک کا کٹورا ہوئے ہیں بچوں کے کانچ بدن
بھوک سے کبھی نیلے کبھی پیلے پڑتے ہیں اے صبح بصیرت! تو ہی لوٹ آ کہ ناگوں کے پہرے کرب زخموں سے رستا برف لہو تو نہ دیکھ سکوں گا سچ کے اجالوں کی حسین تمنا مجھے مرنے نہ دے گی اور میں اس بےوضو تمنا کے سہارے کچھ تو سوچ سکوں گا سوچ کے گھروندوں میں زیست کے سارے موسم بستے ہیں
لاضی جرار حسنی
1974
بد لسمتی شاعر :فینگ سیو فینگ مترجم :ممصود حسنی میں بد لسمتی پہ اک نظم لکھنے کو تھا مری آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے کاغذ بھر گیا اور میں نے للم نیچے رکھ دیا کیا اشکوں سے تر کاغذ
لوگوں کو دکھا سکتا تھا؟ وہ سمجھ پاتے یہی تو بد لسمتی ہے ڈاکٹر ممصود حسنی صاحب السالم علیکم بہترین نظم کا بہترین ترجمہ۔۔۔۔۔ یہی تو بدلسمتی ہے۔ کیا کہنے۔ آپ کی تمام تحریریں جنھیں میں نے پڑھا کمال کی ہیں صاحب۔ معلوماتی ،تاریخی شاہکار ،بہت خوب۔ ہللا آپ مزید توفیك دے۔ ب دعا طال ِ کفیل احمد http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10128.0
یہ ہی فیصلہ ہوا تھا
عہد شہاب میں بےحجاب بےکسی بھی عجب لیامت تھی۔ صبح اٹھتے مشمت اٹھاتےعوضوانے کو ہاتھ بڑھاتے بے نمط سنتے۔ سانسیں اکھڑ جاتیں مہر بہ لب جیتے کہ سانسیں بالی تھیں۔ جینا تو تھا ہی لہو تو پینا تھا ہی۔ ادھر ایونوں میں آزادی کی صدائیں گونج رہی تھیں ادھر گلیوں میں خوف کا پہرا تھا کہ شاہ بہرا تھا۔ شاہ والے گلیوں میں بےچنت کرپانیں لیے پھرتے تھے۔ نماہت ہاتھ باندھے شکم میں بھوک آنکھوں میں پیاس لیے کھڑی تھی ہاں مگر شاہ کی دیا کا بول باال تھا۔ پنڈت کے ہونٹوں پر شانتی بغل میں درانتی مالں بھی من میں تفریك کا بارود بھرے امن امن امن کیے جا رہا تھا۔ اب جب کہ پیری پہ شنی کا پہرا ہے بھوک کا گھاؤ گہرا ہے۔ جیب میں دمڑی نہیں امبڑی نہیں کہ وید حکیموں کے دام چکائے بڑے شفاخانے کے در پر الئے مایوسی کی کالک مٹائے آہیں سنے تشفی کی لوری سنائے۔ ہونٹوں پہ گالب سجائے دل
میں کرب اٹھائے اب کون ہے جو مرے مرنے سے مر جائے۔ بیٹے کو اپنی پتنی سے فرصت نہیں بیٹی کی ساس کپتی ہے بھائی کے گھر تیل نہ بتی ہے مری بہن کی کون سنتا ہے سیٹھ کے برتن دھو سیٹھنی کے کوسنے سن کر پیٹ بھرتی ہے۔ بیگم روتی ہے نہ ہنسی ہے سوچتی ہے کفن دفن کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے کہیں اس کے بھائیوں کی چمڑے نہ ادھڑ جائے وہ تو بہنوئی کی کھاتے تھے جب بھی آتے تھے کچھ ناکچھ لے جاتے تھے۔ جیتا ہوں تو مصیبت مرتا ہوں تو مصیبت۔ میں وہ ہی ہوں جواندھیروں میں رہ کر ایونوں کے دیپ جالتا رہا دوا دور رہی مری گرہ میں تو اس اجڑے گلستان کا کرایہ نہیں۔ گھر میں روشنی نہیں ناسہی شاید کوئی فرشتہ مری لحد میں بوند بھر روشنی لے کر آ جائے عمر بھر خود کو نہ دیکھ سکا سوچ سکا واں سکوں ہو گا خود کو دیکھ سکوں گا سوچ سکوں گا خود کو دیکھنے سوچنے کی حسرت بر آئے گی۔
خود کو دیکھ کر سوچ کر ارضی خدائی سے مکتی للبی خدا کی بےکراں عظمتوں کا اسرار کھل جائے گا وہ میرا تھا میرا ہے مجھے مل جائے گا۔ سردست کفن و دفن کے سامان کی فکر ہے۔ کفن ملے ناملے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ عمر بھر اس نے مری پردہ پوشی کی ہے اب بھی کرئے گا۔ ایونوں میں بستے سفیدی میں لپٹے شیطانوں کا نگر مرا نہیں مرا نہیں گورنگر مرا ہو گا مرا خدا کچھ لیتا نہیں دیتا ہے۔ لینا مری عادت دینا اس کی فطرت روٹی کی فکر کیسی کرائے کی چنتا میں کیوں کروں مری جان میں آ رہا ہوں تو مختصر سہی مرے لیے مری حسرتوں کے لیے سات زمینوں سے بڑھ کر وسعت رکھتی ہے میں بھول میں رہا کہ یہاں کچھ بھی مرا نہ تھا زیست کے کچھ لمحوں کی دیری تھی تو ہی تو مری تھی یہ ہی فیصلہ ہوا تھا یہ ہی فیصلہ ہوا تھا یہ ہی فیصلہ ہوا تھا۔
یہ ہی فیصلہ ہوا تھا نظمیں ممصود حسنی
ابوزر برلی کتب خانہ
مئی 2016