یہ ہی فیصلہ ہوا تھا

Page 1

‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا‬ ‫نظمیں‬ ‫ممصود حسنی‬

‫ابوزر برلی کتب خانہ‬ ‫مئی ‪2016‬‬


‫فہرست‬ ‫ولت کیسا انمالب الیا ہے‬ ‫حیرت تو یہ ہے‬ ‫کس منہ سے‬ ‫شبنم نبضوں میں‬ ‫جب تک‬ ‫صبح ہی سے‬ ‫نوحہ‬ ‫ایندھن‬ ‫عاری‬


‫دروازہ کھولو‬ ‫سننے میں آیا ہے‬ ‫چل' دمحم کے در پر چل‬ ‫میں نے دیکھا‬ ‫ہر گھر سے‬ ‫حیات کے برزخ میں‬ ‫بد لسمتی‬ ‫مت پوچھو‬ ‫میں مٹھی کیوں کھولوں‬ ‫سچ کے آنگن میں‬ ‫پانچ ہائیکو‬ ‫بد لسمتی‬ ‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا‬



‫ولت کیسا انمالب الیا ہے‬


‫ولت کیسا عذاب الیا ہے‬ ‫تم کب الئك محبت ہو‬ ‫آئینے میں اپنی شکل تو دیکھو‬ ‫لاصد یہی جواب الیا ہے‬ ‫گویا خط میں عتاب الیا ہے‬ ‫جو سر کے بل چلے تھے‬ ‫ناکام ٹھہرے‬ ‫پت جھڑ گالب الیا ہے‬ ‫ذلیخا کا عشك سچا سہی‬ ‫وہ برہنہ پا کب چلی تھی‬ ‫پہیہ عمودی چال چال ہے‬ ‫زندہ لبر میں اتر گیا ہے‬ ‫آنکھ دیکھتی نہیں‬ ‫کان سنتے نہیں‬ ‫ولت کیسا انمالب الیا ہے‬


‫بارش لرض دار بادلوں کی‬ ‫بادل بینائی کو ترسیں‬ ‫زخمی زخمی‬ ‫ہر سہاگن کی کالئی‬ ‫بیوہ سولہ سنگار سے ہے‬ ‫ولت کیسا انمالب الیا ہے‬ ‫ولت کیسا عذاب الیا ہے‬ ‫ممصود حسنی‬ ‫جناب ممصود حسنی صاحب سالم مسنون‬ ‫واہ واہ بہت خوب چبھتی ہوئی نظم ہے۔ اؐپ نے چہرہ کو‬ ‫گرد سے صاف کرنے کو کہا ہے مگر حمیمت یہ ہے کہ‬ ‫ہمارا چہرہ اتنا مسخ ہو چکا ہے کہ اس کو صاف کرنے‬ ‫کی نہیں بلکہ ایک بڑے اپریشن کی ضرورت ہے کہ جس‬ ‫سے وہ چہرہ نکھرے جو کہ ہمارا اصلی اور بے مثالی‬ ‫چہرہ سامنے اؐئے۔‬


‫ایک دفع پھر داد۔‬ ‫طالب دعا‬ ‫کفیل احمد‬

‫حیرت تو یہ ہے‬ ‫موسم گل ابھی محو کالم تھا کہ‬ ‫مہتاب بادلوں میں جا چھپا‬ ‫اندھیرا چھا گیا‬ ‫پریت پرندہ‬ ‫ہوس کے جنگلوں میں کھو گیا‬ ‫اس کی بینائی کا دیا بجھ گیا‬ ‫کوئی ذات سے‘ کوئی حاالت سے الجھ گیا‬


‫کیا اپنا ہے‘ کیا بیگانہ‘ یاد میں نہ رہا‬ ‫بادل چھٹنے کو تھے کہ‬ ‫افك لہو اگلنے لگا‬ ‫دو بم ادھر دو ادھر گرے‬ ‫پھر تو‬ ‫ہر سو دھواں ہی دھواں تھا‬ ‫چہرے جب دھول میں اٹے تو‬ ‫ظلم کا اندھیر مچ گیا‬ ‫پھر اک درویش مینار آگہی پر چڑھا‬ ‫کہنے لگا سنو سنو‬ ‫دامن سب سمو لیتا ہے‬ ‫اپنے دامن سے چہرے صاف کرو‬ ‫شاید کہ تم میں سے کوئی‬ ‫ابھی یتیم نہ ہوا ہو‬ ‫یتیمی کا ذوق لٹیا ڈبو دیتا ہے‬


‫من کے موسم دبوچ لیتا ہے‬ ‫کون سنتا پھٹی پرانی آواز کو‬ ‫حیرت تو یہ ہے‬ ‫موسم گل کا سب کو انتظار ہے‬ ‫گرد سے اپنا دامن بھی بچاتا ہے‬ ‫اوروں سے کہے جاتا ہے‬ ‫چہرہ اپنا صاف کرو‘ چہرہ اپنا صاف کرو‬ ‫جناب ممصود حسنی صاحب سالم مسنون‬ ‫واہ واہ بہت خوب چبھتی ہوئی نظم ہے۔ اؐپ نے چہرہ کو‬ ‫گرد سے صاف کرنے کو کہا ہے مگر حمیمت یہ ہے کہ‬ ‫ہمارا چہرہ اتنا مسخ ہو چکا ہے کہ اس کو صاف کرنے‬ ‫کی نہیں بلکہ ایک بڑے اپریشن کی ضرورت ہے کہ جس‬ ‫سے وہ چہرہ نکھرے جو کہ ہمارا اصلی اور بے مثالی‬ ‫چہرہ سامنے اؐئے۔‬ ‫ایک دفع پھر داد۔‬


‫طالب دعا‬ ‫کفیل احمد‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9121.0‬‬

‫کس منہ سے‬ ‫چلم بھرتے ہات‘ اٹھ نہیں سکتے‬ ‫ہونٹوں پر فمیہ عصر نے‬ ‫چپ رکھ دی ہے‬ ‫کتنا عظیم تھا وہ شخص‬ ‫گلیوں میں‬ ‫رسولوں کے لفظ بانٹتا رہا‬ ‫ان بولتے لفظوں کو‘ ہم سن نہ سکے‬ ‫آنکھوں سے‘ چن نہ سکے‬


‫ہمارے کانوں میں‘ جبر کی پوریں رہیں‬ ‫آنکھوں میں خوف نے پتھر رکھ دیے‬ ‫ہم جانتے ہیں‘ وہ سچا تھا‬ ‫لول کا پکا تھا‬ ‫مرنا تو ہے‘ ہمیں یاد نہ رہا‬ ‫ہم جانتے ہیں اس نے جو کیا‬ ‫ہمارے لیے کیا‬ ‫جیا تو ہمارے لیے جیا‬ ‫کتنا عجیب تھا‬ ‫زندہ الشوں کا دم بھرتا رہا‬ ‫مصلوب ہوا ہم دیکھتے رہے‬ ‫نیزے چڑھا ہم دیکھتے رہے‬ ‫مرا جال راکھ اڑی ہم دیکھتے رہے‬ ‫اس کے کہے پر دو گام تو چال ہوتا‬ ‫کس منہ سے اب‬


‫اس کی راہ دیکھتے ہیں‬ ‫ہم خاموش تماشائی‬ ‫مظلومیت کا فمط ڈھونگ رچاتے ہیں‬ ‫بے جان جیون کے دامن میں‬ ‫غیرت کہاں جو رن میں اترے‬ ‫یا پھر‬ ‫پس لب اس کی مدح ہی کر سکے‬ ‫چلو دنیا چاری ہی سہی‬ ‫آؤ‬ ‫اندرون لب دعا کریں‬ ‫ان مول سی مدح کہیں‬ ‫پیغام میں ترمیم کیجیے‬

‫شبنم نبضوں میں‬


‫عشك پلکوں پر‬ ‫پروانے اترے‬ ‫دیوانے تھے جو پر جالنے اترے‬ ‫لمس کی حدت نے‬ ‫خوشبو کی شدت نے‬ ‫آءین کے سینے پر پتھر رکھا‬ ‫گالب آنکھیں پتھر‬ ‫ہر رہگزر خوف کا گھر‬ ‫سوچ دریچے برف ہوءے‬ ‫بہری دیواروں پر‬ ‫گونگے خواب اگے‬ ‫اندھے چراغ جلے‬ ‫شبنم نبضونمیں‬


‫موت کا شعلہ تھا‬ ‫شہر میں کہرام مچا‬ ‫پروانے تو دیوانے تھے‬ ‫پر جالنے اترے‬

‫جب تک‬ ‫وہ لتل ہو گیا‬ ‫پھر لتل ہوا‬ ‫ایک بار پھر لتل ہوا‬ ‫اس کے بعد بھی لتل ہوا‬ ‫وہ مسلسل لتل ہوتا رہا‬ ‫جب تک سیٹھوں کی بھوک‘ نہیں مٹ جاتی‬ ‫جب تک خواہشوں کا‘ جنازہ نہیں اٹھ جا‬


‫وہ لتل ہوتا رہے گا‬ ‫وہ لتل ہوتا رہے گا‬ ‫محترمی ڈاکٹر حسنی صاحب‪:‬آداب عرض‬ ‫آپ کی نثری نظم پڑھی اور مستفید ہوا۔ نثری نظم کی‬ ‫ضرورت میری سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ نثری نظم دراصل‬ ‫اچھی نثر کو چھوٹے بڑے ٹکڑوں میں تمسیم کرنے کا‬ ‫دوسرا نام ہے۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہے۔ مجھ کو آپ کی‬ ‫یہ نثری نظم اس لئے اچھی لگی کہ اس کا موضوع ولت‬ ‫کی پکار ہے۔ جس طرح ساری دنیا میں اور خاص طور‬ ‫سے دنیائے اسالم میں ‪:‬سیٹھوں‪ ،‬وڈیروں‪ :‬کے ہاتھوں‬ ‫عوام کا استحصال ہو رہا ہے وہ بہت عبرتناک ہے۔ افسوس‬ ‫کہ اس کا عالج سمجھ میں نہیں آتا۔ ایک سوال دل میں‬ ‫اٹھتا ہے کہ اس لدر ظلم ہو رہا ہے تو وہ ہستی جس کو ہم‬ ‫‪:‬ہللا‪ ،‬خدا‪ ،‬بھگوان‪ ،‬گاڈ‪ :‬کہتے ہیں کیوں خاموش ہے؟ اگر‬ ‫سب کچھ اس کے ہاتھ میں ہے تو پھر وہ کچھ کرتی کیوں‬ ‫نہیں؟ آپ نے بھی اس پر سوچا ہوگا۔ مناسب جانیں تو اس‬


‫پر لکھیں۔ شکریہ۔‬ ‫خادم‬ ‫مشیر شمسی‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8503.0‬‬

‫صبح ہی سے‬

‫وہ آگ‬ ‫عزازئیل کی جو سرشت میں تھی‬ ‫اس آگ کو نمرود نے ہوا دی‬ ‫اس آگ کا ایندھن‬ ‫لارون نے پھر خرید کیا‬ ‫اس آگ کو فرعون پی گیا‬


‫اس آگ کو حر نے اگل دیا‬ ‫یزید مگر نگل گیا‬ ‫اس آگ کو‬ ‫میر جعفر نے سجدہ کیا‬ ‫میر لاسم نے مشعل ہوس روشن کی‬ ‫اس آگ کے شعلے‬ ‫پھر بلند ہیں‬ ‫مخلوق ارضی‬ ‫ڈر سے سہم گئ ہے‬ ‫ابر باراں کی راہ دیکھ رہی ہے‬ ‫کوئ بادل کا ٹکڑا نہیں‬ ‫صبح ہی سے تو‬ ‫آسمان نکھر گیا ہے‬ ‫‪1980‬‬


‫نوحہ‬ ‫وہ لیدی نہ تھا‬ ‫خیر وشر سے بے خبر‬ ‫معصوم‬ ‫فرشتوں کی طرح‬ ‫جھوٹے برتنوں کے گرد‬ ‫انگلیاں محو رلص تھیں اس کی‬ ‫ہر برتن کی زبان پہ‬ ‫اس کی مرحوم ماں کا نوحہ‬ ‫باپ کی بےحسی اور‬ ‫جنسی تسکین کا بین تھا‬ ‫آنکھوں کی زبان پہ‬ ‫اک سوال تھا‬


‫‘اس کو زندگی کہتے ہیں‬ ‫یہی زندگی ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟‬

‫محترمی جناب حسنی صاحب ‪:‬آداب عرض‬ ‫میں شاعر نہیں ہوں بس ادب کا شوق ضرور ہے مجھ کو۔‬ ‫اس لئے اگر کوئی غلط بات کہہ جائوں تو معاف کر دیجئے‬ ‫گا۔ آپ کی نظم "نوحہ" میری سمجھ میں نہیں آئی۔ ایسا‬ ‫محسوس ہوا جیسے اپ کا مطلب الفاظ کے پیچ و خم میں‬ ‫کہیں گم ہو گیا۔ کئی مرتبہ نظم پڑھی اور غور کیا لیکن بات‬ ‫پوری طرح واضح نہیں ہوئی۔۔ یہ ضرور میری کوتاہی ہے۔‬ ‫بڑی عنایت ہوگی اگر آپ اپنے خیال اور طرز بیان پر کچھ‬ ‫روشنی ڈآلیں۔ میرا خیال ہے کہ اس سے کچھ اور دوستوں‬ ‫کابھی فائدہ ہو گا۔ شکریہ پیشگی لبول کیجئے۔ آپ کی‬ ‫وضاحت کا انتظار رہے گا۔‬ ‫خادم ‪ :‬مشیر شمسی‬


‫محترم سید صاحب‬ ‫آپ نے توجہ فرمائ‘ دل و جان سے احسان مند ہوں۔‬ ‫ہللا آپ کو خوش رکھے۔‬ ‫آپ کی تحریر بتاتی ہے‘ آپ ہللا کے فضل سے آسوددہ حال‬ ‫ہیں۔ آپ کو تیسرے اور چوتھے درجے کے کسی ہوٹل میں‬ ‫بیٹھ کر‘ چائے سے شغل فرمانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ آپ نے‬ ‫کسی بڑے گھر میں‘ کسی معصوم بچے کو برتن صاف‬ ‫کرتے نہیں دیکھا۔ اگر یہ آپ نے مالحظہ فرمایا ہوتا‘ تو‬ ‫سب سمجھ میں آ جاتا۔‬ ‫لبلہ میں نے دیکھا ہے اور دیکھتا رہتا ہوں۔ میں گلی میں‬ ‫دس بارہ برس کے بچوں کی‘ رات گیے‘ گرم انڈے کی‬ ‫آوازیں سنتا ہوں۔‬ ‫اگر جناب پر مطلب واضع نہ ہوا ہو‘ تو چشم تصور میں‘‬ ‫میری بھیگی پلکوں کو دیکھ لیں‘ ممکن ہے‘ مطلب واضع‬ ‫ہو جائے۔‬ ‫واہ‪ ...‬ڈاکٹر صاحب ! آپ نے ہمارے معاشرے کے اس‬


‫نوحے‬ ‫کو بہت عمدگی سے بیان کیا ہے‬‫باپ کی بے حسی اور‬ ‫جنسی تسکین کا بین‬ ‫بہت کم الفاظ میں آپ نے اشارہ دیا ہے کہ لصور صرف‬ ‫معاشرے یا‬ ‫ب اختیار کا نہیں ہے بلکہ اس جرم میں وہ لوگ بھی‬ ‫اربا ِ‬ ‫برابر کے شریک ہیں جو اپنے وسائل کو دیکھے بنأ ہی‬ ‫اپنی نفسانی خواہشات کا‬ ‫گھوڑا سرپٹ سرپٹ دوڑائے چلے جاتے ہیں اور ساتھ میں‬ ‫اپنی (مذہبی) جاہلیت کی وجہ سے بچوں کی ایک لطار‬ ‫کھڑی‬ ‫کر دیتے ہیں‬ ‫فیصل فارانی‬


‫ایندھن‬

‫دیکھتا اندھا سنتا بہرا‬ ‫سکنے کی منزل سے دور کھڑا‬ ‫ظلم دیکھتا ہے‬ ‫آہیں سنتا ہے‬ ‫بولتا نہیں کہتا نہیں‬ ‫جہنم ضرور جائے گا‬

‫عاری‬


‫جبرائیل ادراک‬ ‫شاہین پرواز لے گیا‬ ‫سیماب بےلراری‬ ‫گالب خوشبو لے گیا‬ ‫مہتاب چاندنی‬ ‫خورشید حدت لے گیا‬ ‫جو جس کو پسند آیا‬ ‫لے گیا‬ ‫تیرے پاس کیا رہا‬ ‫دو ہات‘ خالی‬ ‫دو آنکھیں‘ بے نور‬ ‫راتوں کے خواب‬ ‫بے رونك‘ بےزار‬ ‫دن کے اجالے‬ ‫خاموش‘ اداس‬


‫ہمالہ‘ مٹی کا ڈھیر‬ ‫حرکت سے عاری‬ ‫تو‘ مٹی کا ڈھیر‬ ‫حرکت سے عاری‬ ‫ُمحترم جناب ڈاکٹر ممصود حسنی صاحب! اسالم علیکم‬ ‫آپ کی نظموں پر آج پہلی بار نظر پڑی۔ ہم نے اِنھیں بُہت‬ ‫ہی فِکر انگیز اور ولولہ انگیز پایا۔ یہ نظم ہمیں بُہت پسند‬ ‫آئی ہے۔ اگرچہ ہم آپ کے ِعلم کے ُممابلے میں شائید اِسے‬ ‫اُن معنوں تک سمجھ نہ پائے ہوں۔ جہاں تک ہم سمجھے‬ ‫خاطب ہیں اور کہہ رہے ہیں‬ ‫ہیں آپ اِس میں اِنسان سے ُم ِ‬ ‫کہ اِنسان صرف لُدرت کی عطا کی ہوئی چیزوں سے کُچھ‬ ‫حاصل کرتا ہے۔ اگر اِس سے سب کُچھ چھین لیا جائے تو‬ ‫اِنسان کے اپنے پاس کُچھ بھی نہیں‪ ،‬فمط مٹی کا ڈھیر ہے۔‬ ‫اِنسان کو لُدرت کی تراشی چیزیں بُہت کُچھ دیتی ہیں‪ ،‬لیکن‬ ‫اِنسان اِن مخلولات کو کُچھ نہیں دے سکتا۔ البتہ جبرائیل‬ ‫والی بات ہم سمجھ نہیں سکے ہیں اور اپنی کم ِعلمی پر‬


‫نادم ہیں۔‬ ‫اگر ہم سمجھنے میں کُلی یا ُجزوی طور پر غلط ہوں تو‬ ‫مہربانی فرما کر اِس ناچیز کی بات پر خفا نہ ہوئیے گا۔‬ ‫ہمارا ِعلم و ادراک فمط اِتنا ہی ہے‪ِ ،‬جس پر ہم مجبور ہیں‬ ‫اور شرمسار بھی۔‬ ‫ب دُعا‬ ‫طال ِ‬ ‫وی بی جی‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8506.0‬‬

‫دروازہ کھولو‬ ‫وڈیائی کا سرطان‬ ‫بھیجے کے ریشوں میں‬


‫جب بھی گردش کرتا ہے‬ ‫بھوک کا چارا‬ ‫میتھی میں‬ ‫کرونڈ سا لگتا ہے‬ ‫موڈ کی تکڑی کے پلڑے‬ ‫خالی رہتے ہیں‬ ‫حرکت کرتے ہونٹ‬ ‫دنبی سٹی اور امریکن سنڈی سے‬ ‫بدتر لگتے ہیں‬ ‫لتل پہ روتی آنکھیں‬ ‫لاتل کو گالی بکتی آنکھیں‬ ‫نفرت برساتی آنکھیں‬ ‫بدلے کی بھاونا رکھتی آنکھیں‬ ‫مسور میں کوڑکو لگتی ہیں‬ ‫حك سچ کے لاتل بولوں پر‬


‫جئے جئے کار سے عاری جھیبا‬ ‫تالی سے خالی ہاتھ‬ ‫بیکار نکمے‬ ‫روڑی کا کچرا لگتے ہیں‬ ‫انگلی کے اشارے پر‬ ‫لرزیں نہ کانپیں‬ ‫ڈھیٹوں کی بھاتی‬ ‫دھرتی نہ چھوڑیں‬ ‫ایسے پاؤں‬ ‫کنبھ کرن کے وارث لگتے ہیں‬ ‫دھونس ڈپٹ کے کالے کلمے‬ ‫سننے سے عاری‬ ‫سماعی آلے‬ ‫راون غلیل کا چدا لگتے ہیں‬ ‫پھولوں سے کومل‬


‫کہتے سنتے‬ ‫ممتا جذبے‬ ‫ڈوبتی کشتی کا ہچکوال لگتے ہیں‬ ‫یثرب کی مٹی پہ مر مٹنے والو‬ ‫کالے یرلان‬ ‫یا پھر‬ ‫لطر بررید سے پہلے‬ ‫کل نفس کا انجکشن‬ ‫ال الہ کا وٹمن‬ ‫حبل الوورید میں رکھ دو‬ ‫کلکیریا فلور کے لطرے‬ ‫لیزر شعاعیں‬ ‫ان کے بھیجے کی‬ ‫پیپ آلودہ گلٹی کا تریاق نہیں ہیں‬ ‫من مندر کا دروازہ کھولو‬


‫آتے کل کی راہ مت دیکھو‬ ‫آتا کل کب اکال کا گھر ہے‬ ‫جناب محترم ڈاکٹر ممصود حسنی صاحب‬ ‫آپ کا یہ کالم پڑھن کے نال ہی دماغ کے بوہے پہ جینویں‬ ‫کسی نے آکر دستک دینڑ کے بجائے کُسھن ماریا ‪،‬وجا جا‬ ‫کے ٹھا کرکے بڑا ای سواد آیا ‪ ،‬کیا ای بات ہے ہماری‬ ‫طرف سے ایس سوہنی تے من موہنی تحریر سے فیض‬ ‫یاب فرمانڑ کے واسطے چوہلیاں پرھ پرھ داد پیش ہےگی‬ ‫تواڈا چاہنے واال‬ ‫اسماعیل اعجاز‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=7988.0‬‬

‫سننے میں آیا ہے‬ ‫سننے میں آیا ہے‬


‫ہم آگے بڑھ گئے ہیں‬ ‫ترلی کر گئے ہیں‬ ‫سرج اب شرق سے اٹھتا ہے‬ ‫واشنگٹن کے مندر کا بت‬ ‫کس محمود نے توڑا ہے‬ ‫سکندر کے گھوڑوں کا منہ‬ ‫کس بیاس نے موڑا ہے‬ ‫اس کی گردن کا سریا‬ ‫کس ٹیپو نے توڑا ہے‬ ‫سو کا بیلنس‬ ‫اب سو ہی چڑھتا ہے‬ ‫پونڈ سٹرلنگ اور ڈالر‬ ‫روپیے کے دو ملتے ہیں‬ ‫سننے میں آیا ہے‬ ‫ہم آگے بڑھ گئے ہیں‬


‫ترلی کر گئے ہیں‬ ‫'بیوہ کو ٹک ملتا ہے‬ ‫وہ پیٹ بھر کھاتی ہے‬ ‫گریب کی بیٹیا‬ ‫بن دہیج‬ ‫?اب ڈولی چڑھتی ہے‬ ‫جو جیون دان کرے‬ ‫دارو کی وہ شیشی‬ ‫?اب مفت میں ملتی ہے‬ ‫سننے میں آیا ہے‬ ‫ہم آگے بڑھ گئے ہیں‬ ‫ترلی کر گئے ہیں‬ ‫موسی اور عیسی‬ ‫گرجے اور ہیکل سے‬ ‫?مکت ہوئے ہیں‬


‫بدھ رام بہا‬ ‫کہ نانک کے پیرو ہوں‬ ‫یا پھر‬ ‫چیراٹ شریف کے باسی‬ ‫?اپنا جیون جیتے ہیں‬ ‫سننے میں آیا ہے‬ ‫ہم آگے بڑھ گئے ہیں‬ ‫ترلی کر گئے ہیں‬ ‫گوئٹے اور بالی‬ ‫ٹیگور تے جامی‬ ‫سیوفنگ اور شیلی‬ ‫?سب کے ٹھہرے ہیں‬ ‫مالں پنڈت اور گرجے کا وارث‬ ‫انسانوں کو انسانوں کے‬ ‫?کام آنے کی کہتا ہے‬


‫سننے میں آیا ہے‬ ‫ہم آگے بڑھ گئے ہیں‬ ‫ترلی کر گئے ہیں‬ ‫شیر اور بکری‬ ‫'اک گھاٹ پر پانی پیتے ہیں‬ ‫?اک کچھ میں رہتے ہیں‬ ‫سیٹھوں کی بستی میں‬ ‫مل بانٹ کر‬ ‫?کھانے کی چرچا ہے‬ ‫رشوت کا کھیل‬ ‫?ناکام ہوا ہے‬ ‫منصف‬ ‫?ایمان لرآن کی کہتتا ہے‬ ‫سننے میں آیا ہے‬ ‫ہم آگے بڑھ گئے ہیں‬


‫ترلی کر گئے ہیں‬ ‫من تن کا وارث‬ ‫تن من کا بھیدی‬ ‫جب بھی ٹھہرے گا‬ ‫جیون کا ہر سکھ‬ ‫لدموں کی ٹھوکر‬ ‫امبر کے اس پار‬ ‫انسان کا گھر ہو گا‬ ‫'پرتھوی کیا‬ ‫ہللا کی ہر تخلیك کا‬ ‫ماما نہیں‬ ‫موچی درزی نائی بھی‬ ‫وارث ہوگا‬ ‫'شخص‬ ‫شخص کا بھائی ہوگا‬


‫چل' دمحم کے در پر چل‬ ‫اک پل‬ ‫آکاش اور دھرتی کو‬ ‫اک دھاگے میں بن کر‬ ‫رنگ دھنک اچھالے‬ ‫دوجا پل‬ ‫جو بھیک تھا پہلے کل کی‬ ‫کاسے سے اترا‬ ‫ماتھے کی ریکھا ٹھہرا‬ ‫کرپا اور دان کا پل‬ ‫پھن چکر مارا‬ ‫گرتا ہے منہ کے بل‬


‫سلوٹ سے پاک سہی‬ ‫پھر بھی‬ ‫حنطل سے کڑوا‬ ‫اترن کا پھل‬ ‫الفت میں کچھ دے کر‬ ‫پانے کی اچھا‬ ‫حاتم سے ہے چھل‬ ‫غیرت سے عاری‬ ‫حلك میں ٹپکا‬ ‫وہ لطرہ‬ ‫سمراط کا زہر‬ ‫نہ گنگا جل‬ ‫مہر محبت سے بھرپور‬ ‫نیم کا پانی‬ ‫نہ کڑا نہ کھارا‬


‫وہ تو ہے‬ ‫آب زم زم‬ ‫اس میں رام کا بل‬ ‫ہر فرزانہ‬ ‫عہد سے مکتی چاہے‬ ‫ہر دیوانہ عہد کا بندی‬ ‫مر مٹنے کی باتیں‬ ‫ٹالتے رہنا‬ ‫کل تا کل‬ ‫جب بھی‬ ‫پل کی بگڑی کل‬ ‫در نانک کے‬ ‫بیٹھا بےکل‬ ‫وید حکیم‬ ‫مالں پنڈٹ‬


‫پیر فمیر‬ ‫جب تھک ہاریں‬ ‫جس ہتھ میں ولت کی نبضیں‬ ‫چل‬ ‫دمحم کے در پر چل‬

‫میں نے دیکھا‬

‫پانیوں پر‬ ‫میں اشک لکھنے چال تھا‬ ‫دیدہءخوں دیکھ کر‬ ‫ہر بوند‬ ‫ہوا کے سفر بر نکل گئی‬


‫منصف کے پاس گیا‬ ‫شاہ کی مجبوریوں میں‬ ‫وہ جکڑا ہوا تھا‬ ‫سوچا‬ ‫پانیوں کی بےمروتی کا‬ ‫فتوی ہی لے لیتا ہوں‬ ‫مالں شاہ کے دستر خوان پر‬ ‫مدہوش پڑا ہوا تھا‬ ‫دیکھا‘ شیخ کا در کھال ہوا ہے‬ ‫سوچا‬ ‫شاید یہاں داد رسی کا‬ ‫کوئی سامان ہو جائے گا‬ ‫وہ بچارہ تو‬ ‫پریوں کے غول میں گھرا ہوا تھا‬ ‫کیا کرتا کدھر کو جاتا‬


‫دل دروازہ کھال‬ ‫خدا جو میرے لریب تھا‬ ‫بوال‬ ‫کتنے عجیب ہو تم بھی‬ ‫کیا میں کافی نہیں‬ ‫جو ہوس کے اسیروں کے پاس جاتے ہو‬ ‫میرے پاس آؤ‬ ‫ادھر ادھر نہ جاؤ‬ ‫میری آغوش میں‬ ‫تمہارے اشکوں کو پناہ ملے گی‬ ‫ہر بوند‬ ‫رشک لعل فردوس بریں ہو گی‬ ‫اک لظرہ مری آنکھ سے ٹپکا‬ ‫میں نے دیکھا‬ ‫شاہ اور شاہ والوں کی گردن میں‬


‫بے نصیبی کی زنجیر پڑی ہوئی تھی‬

‫مکرم بندہ جناب حسنی صاحب‪ :‬سالم مسنون‬ ‫آزاد شاعری عام طور پر میرے سر پر سے گزر جاتی ہے۔‬ ‫جب تک میں اس کے تانے بانے سلجھاتا ہوں پچھلے‬ ‫پڑھے ہوئے مصرعے ذہن کی تہوں میں کہیں گم ہو جاتے‬ ‫ہیں اور میں پھر نظم پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش میں‬ ‫گرفتار ہو جاتا ہوں۔ آپ کی اس نظم کے مطالعہ میں ایسا‬ ‫صرف ایک بار ہوا اور میں جلد ہی منزل ممصود تک پہنچ‬ ‫گیا۔ یہ شاید اس لئے ہوا کہ آپ کی نظم پر دلسوزی اور‬ ‫خلوص دل کی مہر لگی ہوئی ہے جیسے آپ اپنی آپ بیتی‬ ‫بیان کر رہے ہوں۔ نظم پڑھ کر متاثر ہوا۔ نظم کا پیغام عام‬ ‫سہی لیکن اہم ضرور ہے۔ ہم اہل دنیا بے تحاشہ اہل التدار‬ ‫کی جانب بھاگتے ہیں اور اس تگ و دو میں بھول جاتے‬ ‫ہیں کہ دینے واال تو کوئی اور ہی ہے۔ ہللا رحم کرے۔ ایسے‬ ‫ہی لکھتے رہئے۔ ہللا آپ کو ہمت اور طالت عطا فرمائے۔‬ ‫صالحیت اور توفیك سے تو اپ بھر پور ہیں ہی۔ بالی راوی‬ ‫سب چین بولتا ہے۔‬


‫"سرور عالم راز "سرور‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9132.0‬‬

‫ہر گھر سے‬

‫دن کے اجالوں میں‬ ‫خداہائے کفر ساز و کفر نواز‬ ‫پیتے ہیں سچ کا لہو‬ ‫کہ وہ اجالوں کی بستی میں‬ ‫زندہ رہیں‬ ‫شرق سے اب تمہیں‬ ‫کوئی شب بیدار کرنا ہو گی‬ ‫کہ سچ اسے دکھنے ہی نہ پائے‬ ‫تمہیں بھی تو‬ ‫اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں‬


‫یا پھر‬ ‫آتی نسلوں کے لیے ہی سہی‬ ‫دن کے اجالوں میں‬ ‫روح حیدر رکھنا ہوگی‬ ‫سسی فس کا جیون‬ ‫جیون نہیں‬ ‫سمراط کی مرتیو‬ ‫مرتیو نہیں‬ ‫جینا ہے تو‬ ‫حسین کا جیون جیو‬ ‫کہ جب ارتھی اٹھے‬ ‫خون کے آنسووں میں‬ ‫راکھ اڑے‬ ‫خون کے آنسووں میں‬ ‫شاعر کا للم‬


‫روشنی بکھیرے گا‬ ‫زندگی‘ آکاش کی محتاج نہ رہے گی‬ ‫ہر گھر سے چاند ہر گھر سے سورج‬ ‫طلوع ہو گا‬ ‫غروب کی ہر پگ پر‬ ‫کہیں سمراط کہیں منصور‬ ‫تو کہیں سرمد کھڑا ہو گا‬

‫حیات کے برزخ میں‬ ‫تالش معنویت کے سب لمحے‬ ‫صدیاں ڈکار گئیں‬ ‫چیتھڑوں میں ملبوس معنویت کا سفر‬ ‫اس کنارے کو چھو نہ سکا‬


‫تاسف کے دو آنسو‬ ‫کاسہءمحرومی کا ممدر نہ بن سکے‬ ‫کیا ہو پاتا کہ شب کشف‬ ‫دو رانوں کی مشمت میں کٹ گئی‬ ‫صبح دھیان‬ ‫نان نارسا کی نذر ہوئی‬ ‫شاعر کا کہا‬ ‫بےحواسی کا ہم نوا ہوا‬ ‫دفتر رفتہ شاہ کے گیت گاتا رہا‬ ‫وسیبی حکائتیں بےولار ہوئیں‬ ‫لرطاس فکر پہ نہ چڑھ سکیں‬ ‫گویا روایت کا جنازہ اٹھ گیا‬ ‫ضمیر بھی چاندی میں تل گیا‬ ‫مجذوب کے خواب میں گرہ پڑی‬ ‫مکیش کے نغموں سے طبلہ پھسل گیا‬


‫درویش کے حواس بیدار نمطے‬ ‫ترلی کا ڈرم نگل گیا‬ ‫نہ مشرق رہا نہ مغرب اپنا بنا‬ ‫آخر کب تک یتیم جیون‬ ‫حیات کے برزخ میں‬ ‫شناخت کے لیے بھٹکتا رہے‬

‫مت پوچھو‬ ‫بن ترے کیسے جیتا ہوں‬ ‫مت پوچھو‬ ‫اڈیکوں کے ظالم موسم میں‬ ‫سانسوں کا آنا جانا کیسے ہوتا ہے‬ ‫مت پوچھو‬


‫ساون رت میں‬ ‫آنکھوں کی برکھا کیسے ہوتی ہے‬ ‫مت پوچھو‬ ‫خود غرضی کا لیبل جب بھی لگتا ہے‬ ‫راتوں کی نیندیں ڈر جاتی ہیں‬ ‫آشکوں کے تارے‬ ‫سارے کے سارے‬ ‫گنتی میں کم پڑ جاتے ہیں‬ ‫آس کی کومل کرنیں‬ ‫یاس کی اگنی میں‬ ‫جب جلتی ہیں‬ ‫تب روح کی ارتھی اٹھتی ہے‬ ‫یادوں کی نم آنکھوں کی بیپتا‬ ‫مت پوچھو‬ ‫چھوڑ کر جانے کے موسم پر‬


‫بچھڑے موسم کا اک پل بھاری ہوتا ہے‬ ‫پھر کہتا ہوں‬ ‫کالے موسم تم کو کھا جائیں گے‬ ‫تری ہستی کی کوئی کرچی‬ ‫میں کیسے دیکھ سکوں گا‬ ‫چہرے گھاءل‬ ‫مرے دل کے کتنے ٹکڑے کرتے ہیں‬ ‫مت پوچھو‬

‫میں مٹھی کیوں کھولوں‬ ‫میں مٹھی کیوں کھولوں‬ ‫بند مٹھی میں کیا ہے‬ ‫کوئ کیا جانے‬


‫مٹھی کھولوں تو‬ ‫تم مرے کب رہ پاؤ گے‬ ‫ہر سیٹھ کی سیٹھی‬ ‫اس کی گھتلی کے دم سے ہے‬ ‫میں مٹھی کیوں کھولوں‬ ‫تری یاد کی خوشبو‬ ‫مری ہے مری ہے‬ ‫اس یاد کے باطن میں‬ ‫ترے ہونٹوں پر کھلتی کلیاں‬ ‫تری آنکھوں کی مسکانیں‬ ‫بھیگی سانسوں کی مہکیں‬ ‫جھوٹے بہالوے‬ ‫کچھ بے موسم وعدے‬ ‫ساتھ نبھانے کی لسمیں‬ ‫دکھ کے نوحے‬


‫شراب سپنوں کی لوس و لزاح‬ ‫مری ہے مری ہے‬ ‫میں مٹھی کیوں کھولوں‬

‫سچ کے آنگن میں‬

‫جب بھوک کا استر‬ ‫حرص کی بستی میں جا بستا ہے‬ ‫اوپر کی نیچے‘ نیچے کی اوپر آ جاتی ہے‬ ‫چھاج کی تو بات بڑی‬ ‫چھلنی پنچ بن جاتی ہے‬ ‫بکری ہنس چال چلنے لگتی ہے‬ ‫کوے کے سر پر‬


‫سر گرو کی پگڑی سج جاتی ہے‬ ‫دہمان بو کر گندم‬ ‫فصل جو کی کاٹتے ہیں‬ ‫صبح کا اترن لے کر‬ ‫کالی راتیں‬ ‫سچ کے آنگن میں جا بستی ہیں‬ ‫مارچ ‪١٩٧٤ ‘١٩‬‬

‫پانچ ہائیکو‬ ‫کسی کی آنکھ میں سمائی ظلمت شب‬ ‫کسی کی آنکھ میں تسکین کا جادو‬ ‫گلیوں کے ہونٹوں پر سجی عید مبارک‬ ‫‪...........‬‬


‫شب ہجر ہم سفر ہوئے‬ ‫تری آنکھوں کے مست پیالے‬ ‫پیاس میں ڈوبے بادلوں کے‬ ‫‪...........‬‬ ‫بھوک جب بھی ستاتی ہے‬ ‫دریچے اخالص کے سب‬ ‫بہرے ہو جاتے ہیں‬ ‫‪............‬‬ ‫شام کے ہاتھوں میں پتھر‬ ‫صبح کی آنکھ میں خنجر‬ ‫بچہ مرا پوچھے ہے آج کا موسم‬ ‫‪...............‬‬ ‫مچھرے کی پلکوں پر شبنم‬ ‫تڑپ بےآب ماہی کی‬ ‫یا یہ جلتی آنکھوں کا دھواں‬


‫‪..........‬‬ ‫‪1995‬‬

‫سوچ کے گھروندوں میں‬ ‫علم و فن کے‬ ‫کالے سویروں سے‬ ‫مجھے ڈر لگتا ہے‬ ‫ان کے بطن سے‬ ‫ہوس کے ناگ جنم لیتے ہیں‬ ‫سچ کی آواز کو‬ ‫جو ڈس لیتے ہیں‬ ‫سہاگنوں کی پیاسی آتما سے‬ ‫ہوس کی آگ بجھاتے ہیں‬


‫صالحیتوں کے چراغوں کی روشنی کو‬ ‫دھندال دیتے ہیں‬ ‫بجھا دیتے ہیں‬ ‫حك کے ایوانوں میں‬ ‫اندھیر مچا دیتے ہیں‬ ‫حمیمتوں کا ہم زاد‬ ‫اداس لفظوں کے جنگلوں کا‬ ‫آس سے‬ ‫ٹھکانہ پوچھتا ہے‬ ‫انا اور آس کو‬ ‫جب یہ ڈستے ہیں‬ ‫آدمیت کی آرتھی اٹھتی ہے‬ ‫کم کوسی' بےہمتی بےاعتنائی کے شراپ کے سائے‬ ‫ابلیس کے لدم لیتے ہیں‬ ‫شخص کبھی جیتا کبھی مرتا ہے‬


‫کھانے کو عذاب ٹکڑے‬ ‫پینے کو تیزاب بوندیں ملتی ہیں‬ ‫خود کشی حرام سہی‬ ‫مگر جینا بھی تو جرم ٹھہرا ہے‬ ‫ستاروں سے لبریز چھت کا‬ ‫دور تک اتا پتا نہیں‬ ‫ہوا ادھر سے گزرتے ڈرتی ہے‬ ‫بدلتے موسموں کا تصور‬ ‫شیخ چلی کا خواب ٹھہرا ہے‬ ‫یہاں اگر کچھ ہے‬ ‫تو‪'...........‬‬ ‫منہ میں زہر بجھی تلواریں ہیں‬ ‫پیٹ سوچ کا گھر‬ ‫ہات بھیک کا کٹورا ہوئے ہیں‬ ‫بچوں کے کانچ بدن‬


‫بھوک سے‬ ‫کبھی نیلے کبھی پیلے پڑتے ہیں‬ ‫اے صبح بصیرت!‬ ‫تو ہی لوٹ آ‬ ‫کہ ناگوں کے پہرے‬ ‫کرب زخموں سے‬ ‫رستا برف لہو‬ ‫تو نہ دیکھ سکوں گا‬ ‫سچ کے اجالوں کی حسین تمنا‬ ‫مجھے مرنے نہ دے گی‬ ‫اور میں‬ ‫اس بےوضو تمنا کے سہارے‬ ‫کچھ تو سوچ سکوں گا‬ ‫سوچ کے گھروندوں میں‬ ‫زیست کے سارے موسم بستے ہیں‬


‫لاضی جرار حسنی‬

‫‪1974‬‬

‫بد لسمتی‬ ‫شاعر‪ :‬فینگ سیو فینگ مترجم‪ :‬ممصود حسنی‬ ‫میں بد لسمتی پہ اک نظم لکھنے کو تھا‬ ‫مری آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے‬ ‫کاغذ بھر گیا‬ ‫اور میں نے للم نیچے رکھ دیا‬ ‫کیا اشکوں سے تر کاغذ‬


‫لوگوں کو دکھا سکتا تھا؟‬ ‫وہ سمجھ پاتے‬ ‫یہی تو بد لسمتی ہے‬ ‫ڈاکٹر ممصود حسنی صاحب السالم علیکم‬ ‫بہترین نظم کا بہترین ترجمہ۔۔۔۔۔ یہی تو بدلسمتی ہے۔ کیا‬ ‫کہنے۔‬ ‫آپ کی تمام تحریریں جنھیں میں نے پڑھا کمال کی ہیں‬ ‫صاحب۔ معلوماتی‪ ،‬تاریخی شاہکار‪ ،‬بہت خوب۔‬ ‫ہللا آپ مزید توفیك دے۔‬ ‫ب دعا‬ ‫طال ِ‬ ‫کفیل احمد‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10128.0‬‬

‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا‬


‫عہد شہاب میں بےحجاب بےکسی بھی عجب لیامت تھی۔ صبح‬ ‫اٹھتے مشمت اٹھاتےعوضوانے کو ہاتھ بڑھاتے بے نمط سنتے۔‬ ‫سانسیں اکھڑ جاتیں مہر بہ لب جیتے کہ سانسیں بالی تھیں۔ جینا‬ ‫تو تھا ہی لہو تو پینا تھا ہی۔‬ ‫ادھر ایونوں میں آزادی کی صدائیں گونج رہی تھیں ادھر گلیوں‬ ‫میں خوف کا پہرا تھا کہ شاہ بہرا تھا۔ شاہ والے گلیوں میں‬ ‫بےچنت کرپانیں لیے پھرتے تھے۔ نماہت ہاتھ باندھے شکم میں‬ ‫بھوک آنکھوں میں پیاس لیے کھڑی تھی ہاں مگر شاہ کی دیا کا‬ ‫بول باال تھا۔‬ ‫پنڈت کے ہونٹوں پر شانتی بغل میں درانتی مالں بھی من میں‬ ‫تفریك کا بارود بھرے امن امن امن کیے جا رہا تھا۔‬ ‫اب جب کہ پیری پہ شنی کا پہرا ہے بھوک کا گھاؤ گہرا ہے۔‬ ‫جیب میں دمڑی نہیں امبڑی نہیں کہ وید حکیموں کے دام‬ ‫چکائے بڑے شفاخانے کے در پر الئے مایوسی کی کالک مٹائے‬ ‫آہیں سنے تشفی کی لوری سنائے۔ ہونٹوں پہ گالب سجائے دل‬


‫میں کرب اٹھائے اب کون ہے جو مرے مرنے سے مر جائے۔‬ ‫بیٹے کو اپنی پتنی سے فرصت نہیں بیٹی کی ساس کپتی ہے‬ ‫بھائی کے گھر تیل نہ بتی ہے مری بہن کی کون سنتا ہے سیٹھ‬ ‫کے برتن دھو سیٹھنی کے کوسنے سن کر پیٹ بھرتی ہے۔‬ ‫بیگم روتی ہے نہ ہنسی ہے سوچتی ہے کفن دفن کے لیے‬ ‫پیسے کہاں سے آئیں گے کہیں اس کے بھائیوں کی چمڑے نہ‬ ‫ادھڑ جائے وہ تو بہنوئی کی کھاتے تھے جب بھی آتے تھے‬ ‫کچھ ناکچھ لے جاتے تھے۔‬ ‫جیتا ہوں تو مصیبت مرتا ہوں تو مصیبت۔ میں وہ ہی ہوں‬ ‫جواندھیروں میں رہ کر ایونوں کے دیپ جالتا رہا دوا دور رہی‬ ‫مری گرہ میں تو اس اجڑے گلستان کا کرایہ نہیں۔‬ ‫گھر میں روشنی نہیں ناسہی شاید کوئی فرشتہ مری لحد میں‬ ‫بوند بھر روشنی لے کر آ جائے عمر بھر خود کو نہ دیکھ سکا‬ ‫سوچ سکا واں سکوں ہو گا خود کو دیکھ سکوں گا سوچ سکوں‬ ‫گا خود کو دیکھنے سوچنے کی حسرت بر آئے گی۔‬


‫خود کو دیکھ کر سوچ کر ارضی خدائی سے مکتی للبی خدا کی‬ ‫بےکراں عظمتوں کا اسرار کھل جائے گا وہ میرا تھا میرا ہے‬ ‫مجھے مل جائے گا۔ سردست کفن و دفن کے سامان کی فکر ہے۔‬ ‫کفن ملے ناملے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ عمر بھر اس نے‬ ‫مری پردہ پوشی کی ہے اب بھی کرئے گا۔‬ ‫ایونوں میں بستے سفیدی میں لپٹے شیطانوں کا نگر مرا نہیں‬ ‫مرا نہیں گورنگر مرا ہو گا مرا خدا کچھ لیتا نہیں دیتا ہے۔ لینا‬ ‫مری عادت دینا اس کی فطرت روٹی کی فکر کیسی کرائے کی‬ ‫چنتا میں کیوں کروں مری جان میں آ رہا ہوں تو مختصر سہی‬ ‫مرے لیے مری حسرتوں کے لیے سات زمینوں سے بڑھ کر‬ ‫وسعت رکھتی ہے میں بھول میں رہا کہ یہاں کچھ بھی مرا نہ تھا‬ ‫زیست کے کچھ لمحوں کی دیری تھی تو ہی تو مری تھی‬ ‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا‬ ‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا‬ ‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا۔‬


‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا‬ ‫نظمیں‬ ‫ممصود حسنی‬

‫ابوزر برلی کتب خانہ‬


‫مئی ‪2016‬‬


Turn static files into dynamic content formats.

Create a flipbook
Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.