مقصود حسنی کی نو ریشمی تحریریں مرت : پروفیسر نی مت ع ی مرتض ئی ابوزر برقی کت خ نہ جون
فہرست پہ ے روز کی طرح ٹھرکی ب ب کرنسی ثبوت ٹیڑھی دیوار ش ہی ہ تھی چوتھی شدہ خ تون ک جن زہ ا صرف بڑوں ک ظرف بڑا لط ئف
پہ ے روز کی طرح
موت ایک اٹل ٹھوس اور ن ق بل فرار حقیقت ہے۔ بڑے بڑے پھنے خ ن لد گئے۔ وہ سمجھتے تھے‘ زندگی کی گ ڑی ان ہی کے د سے چل رہی ہے۔ وہ نہ رہے تو زندگی ک س را کھیل ٹھپ ہو کر رہ ج ئے گ ۔ بہت کچھ پ س ہوتے‘ مزید کی ہوس ت مرگ ان کے س تھ س تھ رہی۔ مزید کی حصولی کے لیے‘ انس نی اور اخالقی اقدار کو پ ؤں ت ے روندتے رہے۔ وہ یہ بھول گئے کہ ج تے ہوئے س تھ کچھ بھی نہ لے ج سکیں گے۔ یہ ہی نہیں‘ قبر تک اپنے قدموں پر نہ ج سکیں گے۔ گھر والے‘ پی ر و محبت کے دعوےدار اور جی حضوریے‘ یوں آنکھیں پھیر لیں گے‘ جیسے ان ک اس سے کوئی ت واسطہ ہی نہ رہ ہو۔ ہر کوئی ج دیوں میں ہو گ ۔ منہ میں ۔۔۔ بڑا افسوس ہوا ۔۔۔ ج کہ من میں اس کے لیے رائی بھر دل چسپی‘ پی ر محبت‘ ہ دردی‘ دکھ‘ صدمہ ی پھر کسی بھی سطع ک افسوس نہ ہوگ ۔ جن زے کے س تھ آئے کچھ سوچ رہے ہوں گے‘ ک بخت نے آج ہی مرن تھ ‘ اس کی وجہ سے فالں ک نہ ہو سکے ی التوا میں پڑ ج ئے گ ۔ انہیں ی د تک نہ ہو گ ‘ ایک روز وہ بھی اسی طرف چ رپ ئی پر ڈال کر قبر کی طرف الی ج ئے گ ۔ اپنے پرائے اسے بےی ر و مددگ ر چھوڑ کر‘ اس کے افسوس میں پک ئے گئے مص لحے دار پکوان کی طرف لوٹ ج ئیں گے۔ بوٹیوں پر یوں ٹوٹ پڑیں گے‘ جیسے صدیوں کی بھوک م دہ میں رکھتے ہؤں۔ لیگ پیس نہ م نے پر‘ روسے بھی ہو
گے۔ ان میں وہ نہیں ہے‘ ان میں سے کسی کو ی د نہ رہے گ ۔ کھ پی کر‘ گھر والوں کو بڑا ہی افسوس ہوا کہہ کر اپنی اپنی دنی میں کھو ج ئیں گے۔ وہ محض گزرا کل ہو کر رہ ج ئے گ ۔ وہ سننے میں آی ہے‘ کی بسی ک ب سی ہو ج ئے اور پھر سننے میں آی ہے بھی‘ فن کی بستی میں ہمیشہ کے لیے گ ہو ج ئے گ ۔ ج تک س نس لیتی رہی‘ گڈو ک بھی یہ ہی طور رہ ۔ وہ سمجھتی تھی کہ کھیسہ پر ہو تو عی ی خرابی کی طرف کوئی نہیں ج ت ۔ ہر کوئی ہونے کو سال بالت ہے۔ یہ ہی نہیں‘ اس کے ہنر اور خوبی ں گنوات ہے۔ ہر ص ح کھیسہ کے لیے اس کے گھر اور من ک دروازہ ت وقت ق ئمی کھیسہ کھال رہت ہے۔ شروع شروع میں اردگرد کے لوگوں نے ب تیں بھی بن ئیں لیکن گڈو کی دوگز زب ن اور ب حیثیت حضرات سے ہی و ہ ئے ہونے کے سب ‘ کوئی کسکت تک نہ تھ ۔ یہ ں تک کہ اس ک ذاتی خ وند جیال بٹیر بھی زب ن نہ کھولت تھ ۔ وہ ج نت تھ کہ اس کے س تھ گ ی کے کتے سے بھی بڑھ کر بری ہو گی۔ گڈو نے ان گنت جیبیں ویران کیں۔ کٹی نے کوٹھی ک روپ دھ ر لی ۔ کچن دیکھنے الئ کر دی ۔ لب س اور سواری کی اپنی ہی ش ن ہو گئی۔ کسی کو ی د تک نہ رہ کہ گڈو کی کرتی رہی ہے۔ ص ح ثروت اور بڑے ن موں والے بالتک ف اور اپن ٹھک نہ سمجھ کر آتے تھے۔ ا وہ بکری نہیں‘ بکریوں کی میٹ تھی۔ جیال بٹیر اس کی زندگی میں چودھری ص ح تھ ۔ لوگ اس کو سال بالنے میں پہل کرتے تھے۔ وہ جوا میں سر کو محض ہ کی سی جنبش دیت تھ ۔ گڈو کی اٹھی‘ اس کی گھر میں تو پہ ے بھی عزت نہ تھی ہ ں ب ہر بڑا وجکرا اور ٹہک تھ ۔ لوگ اسے نہیں اس کے لب س اور سواری کو سال بالتے تھے۔ ا سواری تھی نہ لب س‘ فقیروں
سے بدتر زندگی کر رہ تھ ۔ ص ح اوالد تھ ۔ سوائے چھوٹے لڑکے کے ہر کوئی اسے جوتے کی نوک پر رکھت تھ ۔ وہ گھر میں مالزموں کی سی زندگی بسر کر رہ تھ ۔ چھوٹ لڑک جو ابھی کنوارہ تھ ‘ چوری چھپے اس کی ہ کی پھ کی خدمت کرت تھ ۔ ورنہ دوسرے تو اسے سودا س ف النے اور بچوں کو سکول سے النے لے ج نے والی مشین سمجھتے تھے۔ شروع شروع میں لوگ اسے جیال کنجر کہتے تھے ا اس کی ح لت زار دیکھ کر ترس س کھ نے لگے تھے۔ پھر کبھی کھ نے کی کوئی چیز ی ایک آدھ سگریٹ بھی دینے لگے۔ اگرچہ یہ کرنی ک بھگت ن تھ لیکن ترس کھ ن بھی ص ح دل کی فطرت میں داخل ہے۔ میں بھی اکثر سوچت کہ یہ برائی سے کن رہ کش ہو ج ت تو آج اس کڑی سزا سے بچ ج ت ۔ الگ ہو ج ن اس کے بس میں تھ ۔ اس نے کیوں برائی ک س تھ دی ۔ برائی ک انج برا ہی ٹھہرا ہے۔ گڈو کے آخری دن بھی سسکیوں میں گزرے تھے۔ اس کو کی بیم ری الح تھی مرتے د تک تشخیص میں نہ آ سکی تھی۔ بکریوں ک آج بھی وہ ں آن ج ن لگ رہت ہے۔ ا یہ ک مرحومہ کی بڑی بیٹی بڑی خوبی سے انج دے رہی ہے۔ مجھے بھی جی ے کی اس ح لت زار پر ترس آت ۔ مجھے م و ہوا کہ اس ک چھوٹ لڑک ب پ سے ہ دردی ک جذبہ رکھت ہے۔ ایک دن وہ مجھے اکی ے مل گی ۔ میں نے اسے بال لی اور ب پ ک خی ل رکھنے کو کہ ۔ اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ مجھے یقین ہو گی کہ یہ ب پ سے ہ دردی ہی نہیں‘ محبت بھی رکھت ہے۔ میں نے سوچ کیوں نہ اسے ان کے م حول کے مط ب ب ت سمجھ نے ک چ رہ کروں۔ میں نے کہ :تمہ را ب پ اکی ے زندگی کر رہ ہے اس کے لیے کچھ
کرو۔ اس نے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہ :بت ئیے میں ان کے لیے کی کروں۔ بس میں ہوا تو ضرور کروں گ ۔ میں نے کہ :تمہ را ب پ بوڑھ ہو گی ہے ا وہ کسی ق بل نہیں رہ ۔ ا تمہیں کچھ کرن پڑے گ ۔ اس نے کہ :یہ ہی تو پوچھ رہ ہوں کی کروں‘ کرن کی ہے۔ کوئی شریف اور اچھی سی لڑکی پھنس ؤ اور ب پ کے س تھ سیٹ کرکے اس ک نک ح کروا دو۔ یہ سنتے ہی‘ اس ک چہرا الل پیال ہو گی ۔ اس نے آؤ دیکھ نہ ت ؤ‘ میرے منہ پر بڑا ہی کرارا تھپڑ جڑ دی اور چال گی ۔ ا ج بھی مجھے دیکھت ہے‘ گھور کر دیکھت ہے۔ میں تھپڑ تو تقریب بھول گی ہوں‘ ہ ں یہ سوچ مجھے گھیراؤ کیے رکھتی ہے کہ اگر یہ اس قم ش ک نہیں تو ان س سے الگ کیوں نہیں ہو ج ت ۔ ممکن ہے اپنی محبوبہ دینے ک مشورہ اسے زہر لگ ہو۔ ایس بھی ممکن ہے‘ وہ ں رکنے میں اس کی کوئی مجبوری ہو اور یہ ہی صورت ح ل اس کے ب پ کے س تھ بھی رہی ہو۔ اس ب ت کو کئی م ہ ہو چ ے ہیں‘ لیکن میں آج تک پہ ے روز کی طرح ص ر پر کھڑا ہوں۔
ٹھرکی ب ب
منس نہ
بوڑھے ہو گئے ہیں۔ کوئی ک دھندہ کرتے نہیں‘ ہوت بھی نہیں ۔ سچی یہ بھی ہے کہ ا کرنے کی طرف طب یت ج تی بھی نہیں۔ چ رپ ئی پر لیٹ ج ؤ اور وق ے وق ے سے‘ اص ی نق ی ہ ئے ہ ئے کے ن رے لگ ؤ تو ج ن آس نی سے نک نے کی دع ئیں شروع ہو ج تی ہیں۔ ہ ئے ہ ئے میں پھرتی آنے کی صورت میں سورتہ یسین کی تالوت شروع کر دیتے ہیں کہ جیسے ابھی پھر ہوا۔ اگر بال ہ ئے ہ ئے گھر دن گزارو تو م ضی کے نکمےپن کے گ ے شکوے شروع ہو ج تے ہیں۔ کہ ج نے لگت ہے ہٹ کٹ ہے‘ اسے ہڈحرامی ک مرض الح ہو گی ہے۔ اس صورت ح ل سے نج ت کے لیے ہ عمر سنگی گ ؤں کے ب ہر پیپل کے پیڑ کے نیچے چ رپ ئی ں بچھ لیے ہیں۔ سردیوں میں دھوپ میں بیٹھ کر م ضی کے قصے دہراتے ہیں۔ مرچ مص لحہ تو خیر لگ ن ہی پڑت ہے ورنہ ب ت توجہ نہیں پکڑتی۔ ہ ں رائی ک پہ ڑ نہیں بن تے۔ کبھی سی ست موضوع بن ج تی ہے۔ مہنگ ئی بھی زیر گ تگو آتی رہتی ہے۔ کبھی لطی ےب زی ک دور شروع ہو ج ت ہے۔ اس طرح دن اچھ ‘ پرلطف اور مصروف گزر ج ت ہے۔ اس روز لطی وں ک دور چل رہ تھ ۔ س را دن ہنسی خوشی اور چھڑا چھ ڑی میں گزرا۔ دن بھر ہنستے مسکراتے اور قہقہے لگ تے رہے۔ مسک نوں کے پھول جھولی میں ڈالے‘ لبوں پر دبی ہنسی اور آنکھوں میں روم نی کی یت اور جوانی کی سی چمک دمک لیے‘ میں اپنی زوجہ م جدہ کے گھر کی طرف بڑھ رہ تھ ۔ رستے میں نیک ں جو ادھ کھڑ‘ واجبی س بوتھ اور کپ جس رکھتی تھی۔ اسے اچھی بری نظر دیکھنے کی میں سوچ بھی نہیں سکت تھ ‘ مل گئی۔ میں نے لطی وں کی شرارت کی آغوش میں رہتے ہوئے‘ اس کی طرف دیکھ ۔ وہ یوں پھٹ
پڑی‘ جیسے میں نے اسے گولی م ر دی ہو۔ اس سے پہ ے ہزار ب ر مل چکی تھی لیکن خ موشی سی گزر ج تی تھی۔ عورتیں جمع ہو گئیں اور مجھے طنزیہ اور حیرتیہ نظروں سے دیکھنے لگیں۔ لوگوں نے عمر ک لح ظ کی ورنہ چھتر تو پڑھ گئے تھے۔ ب ب ٹھرکی کے خط سے بھی سرفراز کی ۔ گھر پہنچنے سے پہ ے میری روم ن پروری کے قصے مع لگی لیپٹی گھر کی دہ یز پ ر کر گئے۔ بڑے اونچے درجے ک خیرمقد ہوا۔ اس سے تو اچھ تھ کہ چھتر ہی پڑ ج تے۔ اس واق ے سے ایک اچھ ضرور ہوا‘ ج بھی گ ی سے گزرت ‘ چنچل شوخ اور مٹک مٹک کر چ تی بیبی ں‘ مجھے دیکھ کر‘ کبھی دبے اور کبھی کھل کھال کر‘ ہنس پڑتیں۔ ا کی تھ ‘ گھر دوزخ میں ج ت ‘ ب ہر حوروں پریوں کی مسکراہٹوں کے غول میں‘ زندگی کے کرخت مجبور اور بیم ر لمحے گزارنے لگ ۔ کبھی کسی کی آنکھوں کی شوخی شک میں ڈال دیتی لیکن میں اپنے آپے میں رہت ۔ میں تو اپنے والی کے ق بل نہ رہ تھ ‘ کسی بی بی کی لذاتی حس کو کی تسکین دے پ ت ۔ سوچت ک ش یہ س جوانی میں ہو ج ت ۔ ن تو خیر بڑھ پے میں بھی پیدا کر لی تھ ۔ ہر چھوٹ بڑا‘ منہ پر مجھے ب ب ٹھرکی کہت اور س تھ میں ب آواز ب ند قہقہے بھی داغت ۔ دوستوں میں ن پیدا ہو گی ۔ مجھے دیکھتے تو کہتے‘ اوہ الڑا آ گی جے۔ ہ ں ان کے چہرے کی بےبس الچ ر اور خوف ن ک جھری ں‘ ان کے بڑھ پے کی بےچ رگی اور اوالد کی الپرواہی کی چغ ی ضرور کھ رہی ہوتیں۔
کرنسی ثبوت
افس نہ
ش ہ‘ اس کے چی ے چمٹے گم شتے اور دفتری اہل ک ر زب نی کالمی قسموں یہ ں تک کہ لکھتوں پڑتوں پر یقین نہیں رکھتے۔ ان کے نزدیک ج ل س زی ک عمل شروع سے چال آت ہے۔ اللچ لوبھ میں آ کر انس ن ایم ن تک بیچت آی ہے۔ دوسرا چور ی ر ٹھگ کی قسموں پر یقین کر لین کھ ی حم قت کے مترادف ہے۔ زب نی ک کون یقین کرے‘ رائی سے پہ ڑ بنت چال آی ہے۔ وہ پریکٹیکل پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک‘ کرنسی ثبوت ہی ح سچ ک ع بردار ہوت ہے۔ س تھ میں‘ ن یس خوش بو اور پرذائقہ پکوان ح سچ کو جال بخشت ہے۔ پیٹ میں کچھ ہو گ تو ہی ح سچ کی کہی ج سکتی ہے۔ خ لی پیٹ جو بھی فیص ہ ہو گ غ ط ہو گ ۔ غ ط فیص ے سوس ئٹی میں انتش ر اور فس د ک دروازہ کھولتے ہیں۔ اگرچہ اس سے ان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑت کیوں کہ وہ ہر نئے آنے والے کے بھی اس کی آمد کے ب د وف دار بن ج تے ہیں۔ جی حضور جی سرک ر جی جن ک انہوں نے پوری توجہ سے وظی ہ کی ہوت ہے۔ گیے کی کمی ں‘ کمزوری ں‘ کوت ہی ں اور خ می ں دل کے دفتر پر رق کی ہوتی ہیں۔ اس کے ب وجود موجود کے م قول ہونے کی صورت میں‘ نئے کی کچھ زی دہ خوہش نہیں کرتے۔ خدا ج نے نی کیس ہو اور س تھ آئے چمچے کڑچھے‘ انہیں اس کے نزدیک ج نے دیں ی نہ ج نے دیں۔ گوی نئے کے س تھ ایڈجسٹ ہونے میں‘ کچھ تو وقت لگے گ ہی۔ نی آنے کی بج ئے‘ محدود وقت تک سہی‘ موجود پران گرہ سے ج ئے گ ۔ گرہ ک احس س کہتری انہیں کسی بھی ح لت میں گوارہ نہیں ہوت ۔ رہ گئی عزت ی وق ر کی ب ت‘ اس ک کی ک ی زی دہ ہوتی رہتی ہے۔ ہ ں
کھیسہ جتن فربہ ہو گ ‘ عزت میں اسی تن س سے اض فہ ہو گ ۔ الڈو ک اصل ن تو منزہ خ ن تھ لیکن اس کے م ئی ب پ اک وتی ہونے کے سب ‘ اسے پی ر سے الڈو کہ کرتے تھے۔ پھر یہ ہی ن عرف میں آ گی ۔ سسرال میں آ کر بھی‘ یہ ہی ن رواج پ گی ۔ یہ ں تک کہ اس ک بندہ جیج بھی اسی ن سے پک رنے لگ ۔ الڈلی ہونے کے ب عث اس کی ع دتیں ہی نہ بگڑی تھیں‘ مزاج بھی بگڑ گی تھ ۔ سوہنی سونکھی اور اچھ لب س زی تن کرنے سے اور بھی نکھر نکھر ج تی تھی۔ مح ے کے گھبرو مر مر ج تے لیکن وہ کسی کو گھ س نہ ڈالتی۔ ج تک م ئی ب پ کے گھر رہی‘ اس ک کردار یہ س ہونے کے ب وجود ص ف ستھرا رہ ۔ کوئی اس کے کردار پر انگ ی نہ اٹھ سکت تھ ۔ ہر کوئی اس کے ب کردار ہونے کی گواہی دیت تھ ۔ سسرال میں میں آ کر کچھ عرصہ سگنوں ک گزار کر اسے اپنے گھر کی ذمہ داری سمبھ لن ہی تھی۔ کوئی ہنر اور کس اس کے ہ تھ میں نہ تھ ‘ پکی پک ئی کھ تی تھی۔ ا اسے پک کر کھ ن اور خ وند کو کھالن تھ ۔ جیج س را دن ک میں ج ن کھپ ت تھ ‘ رات کو گھر کی پکی کھ ن اس ک ح تھ ۔ لیکن سوائے الڈ نخرے کچھ ہ تھ نہ لگت ۔ بےچ رہ صبر شکر کے گھونٹ پی کر رہ ج ت ۔ آتی ب ر ب زار سے کچھ لے آت ۔ مزے کی ب ت یہ کہ وہ بھی بھوکی رہتی اور اس کے آنے ک انتظ ر کرتی کہ آتے ہوئے ب زار سے کھ نے کے لیے کچھ لیت آئے گ ۔ یہ س س ہ ک تک چل سکت تھ ۔ ب زار ک کھ ن وارہ بھی نہیں کھ ت ۔ ابتدا میں ک سے لیٹ ہو ج ت تو رٹ ڈال کر بیٹھ ج تی کہ اتنی دیر کیوں ہو گئی۔ کہ ں اور کس کے پ س ج تے ہو۔ ضرور ت نے ب ہر کوئی رکھی ہوئی ہے۔ الکھ قسمیں کھ ت لیکن کہ ں‘ وہ کسی قیمت پر یقین کرنے پر تی ر نہ ہوتی۔ اس ک اسے ایک حل مل گی آتے ہوئے کوئی
ن کوئی تح ہ س تھ لے آت ۔ کبھی نقدی دے دیت تو اس کی زب ن کو ت لہ لگ ج ت ۔ اگر کبھی کوت ہی ی ک زور گرہ آڑے آ ج تی تو وہی کل ک ی ن شروع ہو ج تی۔ شک کی زد میں آ کر سکون غ رت کر لیت ۔ ا اس کی سمجھ میں آ گی کہ یہ ش ہ اور ش ہ والوں کے قدموں پر ہے۔ قسموں وغیرہ کی یہ ں کوئی قدر قیمت نہیں‘ یہ ں تو کرنسی ثبوت ہی ک آ سکتے ہیں۔ محنت اور حالل کی کم ئی میں‘ اوپر ت ے کرنسی ثبوت فراہ کرن ممکن ہی نہیں۔ ہ ں ایک ب ت اس کے کریڈٹ میں ج تی تھی کہ الڈو م مولی سے کرنسی ثبوت پر بھی راضی ہو ج تی بل کہ بھرپور خوشی ک اظہ ر کرتی۔ ب زار سے کھ ن الن اور ہر روز ب زاری کھ ن کھ ن ‘ بال شبہ بڑا کھٹن گزار ک تھ ۔آخر اس نے اس سے چٹھک رے ک بھی طریقہ سوچ ہی لی ۔ ک سے آ کر تح ہ ی نقدی الڈو کی ت ی پر دھرت پھر تھوڑا ریسٹ کرنے کے ب د کچن میں گھس ج ت ۔ الڈو کو آواز دیت ۔ کچن ک ک ج نت تھ ۔ الڈو کو بھی بڑے پی ر سے س تھ میں مصروف کر لیت ۔ ابتدا میں اس سے چھوٹے موٹے ک لیت رہ ۔ آہستہ آہستہ لوڈ بڑھ ت گی ۔ ایک وقت ایس آی کہ الڈو کچن کے امور سے واقف ہو گئی۔ ب د ازاں تقریب اس نے کچن کے ک سے ہ تھ کھینچ لی ۔ وہ ہی ک کرنے لگ جو ابتدا میں الڈو کی کرتی تھی۔ الڈو کو یہ محسوس تک نہ ہوا کہ جیج کچن کے اص ی ک سے دور ہٹ گی ہے۔ ایک دن وہ دونوں کچن میں مصروف تھے کہ جیجے ک پ ؤں ہللا ج نے قدرتی ی ج ن بوجھ کر پھسال اور وہ بالتک ف کچن کے فرش پر آ رہ ۔ ہ ئے ہ ئے کی آوازیں نک لنے لگ ۔ الڈو اسے سمبھ ال دے کر چ رپ ئی تک لے آئی۔ اس کی کمر اور ٹ نگیں دب نے لگی۔ پریش نی اس کے چہرے پر ص ف دکھ ئی دینے لگی۔ اس ک مط یہ تھ کہ وہ اس سے
پی ر بھی کرتی تھی۔ ٹ نگیں دب تے پورا زور لگ رہی تھی۔ جیجے کو بڑا ای سواد آی ۔ یہ مزا ہی الگ سے تھ ۔ پھر وہ گھبرا کر مح ہ کے ڈاکٹر کے پ س ج نے لگی۔ اس نے کہ :رہنے دو‘ میرے پ س اتنے ف لتو پیسے نہیں جو ڈاکٹر کی دواؤں پر خرچ کرت پھروں۔ یہ ں سے ف ر ہو کر ریت گر کرکے ٹکور کر دین ۔ ان پیسوں سے تمہ را گوٹے کن ری واال دوپٹہ الن ہے۔ کتنی اچھی اور پی ری لگو گی۔ جیجے کی ب ت سن کر الڈو ک چہرا خوشی سے سرخ ہو گی ۔ اس نے دل میں سوچ جیج مجھ سے کتن پی ر کرت ہے۔ الڈو نے جواب کہ :ہ ئے میں مر ج ں ت سے پیسے اچھے ہیں۔ بہرطور اس نے نہ ج نے دی کیوں کہ وہ اس مزے سے ہ تھ دھون نہیں چ ہت تھ جیج ش تک ن ز نخرے دکھ ت رہ لیکن اس نے کرنسی ثبوت الڈو کی ہتھی ی پر نہ رکھ کہ کہیں پیسوں کے نشہ میں‘ اپن ج ری کرتوے ہی نہ فراموش کر دے۔ اس نے نے اگال دن بھی گھر پر گزارا اور الڈو سے ن زبرداری ں کروات رہ ۔ ہ ں البتہ اگ ے دن چ رپ ئی سے اٹھ گی اور الڈو ک کندھ پکڑ کر غسل خ نے وغیرہ ج ت رہ ۔ اس دورانیہ میں الڈو نے کچن سمبھ لے رکھ ۔ ا وہ ٹھیک سے کوکنگ کرنے لگی تھی۔ تھوڑی بہت کمی رہ ہی ج تی ہے‘ جو آہستہ آہستہ دور ہو ج تی ہے۔ اگ ے دن ک پر ج نے لگ تو الڈو نے کہ رہنے دو ک تو ہوتے رہتے ہیں۔ اپنی ج ن ک خی ل کرو۔ وہ مسکرا کر کہنے لگ بھ ی لوکے ک نہیں کریں گے تو کھ ئیں گے کہ ں سے۔ ہ ں وہ گوٹے کن ری واال دوپٹہ بھی تو الن ہے۔ پھر وہ الٹھی کے سہ رے چ ت ہوا دروازے سے ب ہر نکل گی ۔
وہ ج نت تھ ‘ آج الڈو خالف م مول دروازے پر کھڑی بڑے پی ر سے‘ اسے ج ت ہوا دیکھ رہی ہے۔ وہ جوں کی چ ل چل رہ تھ اور پیچھے مڑ مڑ کر دیکھ رہ تھ ۔ الڈو واق ی کھڑی تھی۔ کبھی وہ کسی گھر کی دیوار کی ٹیک لے کر کھڑا ہو ج ت اور پی ر سے ہ تھ ہالت ۔ ا وہ نظر نہیں آ رہ ۔ اس امر کی بہرطور اس نے تس ی کر لی۔ پھر اس نے الٹھی بگو ن ئی کے حم میں رکھی اور تیز قدموں اپنے دھندے کی ج ن بڑھ گی ۔ ش کو اس نے ب زار سے گوٹے کن ری واال دوپٹہ خریدا۔ واپسی پر بگو ن ئی کے حم سے الٹھی لی اور گھر میں داخل ہوتے ہی صبح والی ایکٹنگ دوہرائی۔ الڈو نے دوڑ کر اسے پکڑا اور آرا سے چ رپ ئی پر بٹھ دی ایسے جیسے ابھی ابھی چوٹ لگی ہو۔ گوٹے کن ری واال دوپٹہ لے کر وہ اور بھی خوشی سے پ گل ہو گئی۔ اس نے ج دی ج دی اس کے ہ تھ دھالئے اور کھ ن جو آج اس نے خود ہی بن ی تھ ‘ جیجے کے س منے پروس دی ۔ یہ عمل کئی دن چال۔ آخر ک تک‘ اسے پتہ چل گی کہ جیج یہ س را ڈرامہ رچ ت رہ ہے۔ پھر کی تھ ‘ جوں ہی وہ اداک ری کرت ہوا گھر میں داخل ہوا‘ الڈو نے اس کے ہ تھ سے الٹھی پکڑ کر زمین پر پٹخ دی۔ قسمت اچھی تھی‘ ورنہ غصہ میں دو چ ر اس کی ٹ نگوں پر بھی جڑ سکتی تھی۔ اسے م و ہو گی کہ ڈھول ک پول کھل گی ہے۔ وہ مردہ قدموں چل کر چ رپ ئی پر آ بیٹھ ۔ پھر کی تھ ‘ رانی توپ ک دھ نہ اپنے شب میں آ گی ۔ جھوٹ تھ ‘ چپ رہنے کے سوا اور کر بھی کی سکت تھ ۔ اسے اپنی غ طی ک احس س ہو گی کہ وہ الٹھی حم میں رکھت رہ ہے۔ حم میں ب ت ک ج ن ‘ پورے عالقہ کی پورے م ک میں آ ج نے کے مترادف ہے۔ الڈو نے گرج دار آواز میں کہ :ب ہر ٹھیک ہوتے ہو گھر میں داخل
ہوتے ہی تمہیں بیم ری پڑ ج تی ہے‘ تمہ ری ٹ نگیں دب دب کر میرے ہ تھ رہ گئے ہیں۔ اس کے پ س اس ک کوئی جوا نہ تھ ‘ پھر بھی اس نے کہ :گرا گھر میں تھ ی ب ہر۔ ب ہر گرت تو بیم ری ب ہر پڑتی۔ مزید گرجنے کی بج ئے اس ک جوا سن کر الڈو ک ہ س نکل گی ۔ جوں ہی الڈو کے منہ سے یہ پھول پھوارہ پھوٹ اس نے ج دی سے الڈو کو گ ے سے لگ لی اور اس کے گ ے میں بڑا ہی خو صورت ارٹی یشل ہ ر ڈال دی ۔ الڈو ک بوالرا خوشی میں بدل گی ۔ جو بھی سہی‘ اس کے اس ڈرامے کے نتیجہ میں‘ الڈو کھ ن پک نے کے س تھ س تھ گھر کے دوسرے ک بھی انج دینے لگی۔ یہ س ری کرامت اس کرنسی ثبوت کی تھی‘ جو الڈو کے گ ے میں پڑا اپنی حیثیت اور اہمیت بڑے دھڑلے سے جت اور منوا رہ تھ ۔
ٹیڑھی دیوار
منس نہ
زمین کے س سے بڑے لمبڑ ک اق متی ایوان بالشبہ زمین پر اپن ث نی نہ رکھت تھ ۔ جو کوئی بھی وہ ں قد رکھت ‘ سہم سہم تو پہ ے ہی ہوت لیکن ایوان کی ش ن و شوکت اور اس کی دیواروں سے ٹپکت ج ہ و جالل اسے اور بھی سہہ م دیت ۔ ایک طرح سے اس پر لرزہ س ط ری ہو ج ت ۔ وہ وہ ں کے بڑے گولے تو ایک طرف‘ ج رو کشوں سے
بھی بڑے اد اور تمیز سے ب ت کرت مب دہ کسی ل ظی گست خی کی شک یت کے بھگت ن میں اپنے م ک کی برب دی ک سب بن ج ئے ی پھر اپنے م ک کی سی ہی س یدی کی م کیت سے محر ہو کر جہن رسید نہ ہو ج ئے۔ وہ انہیں بھی کورنش بج الت محت ط قدموں سے آگے بڑھت ۔ یہ ج نتے ہوئے کہ اس کی ت میر میں اس کے اپنے م ک کے مزدور کی مشقت کی کم ئی بھی ش مل ہے۔ بڑے لمبڑ کے حضور پیش کر دیے ج نے کے ب د پورے جثے پر اد و احترا ط ری کرتے ہوئے نگ ہ روبرو رکھت ۔ بہت کچھ کہنے کی آرزوئیں من میں سمیٹ کر الت لیکن کہہ نہ پ ت ی کہنے ک موقع ہی نہ دی ج ت ۔ ہ ں احک م ت کی بوری اس کے سر پر رکھ دی ج تی اور دفع دف ن ہونے ک امر ص در کر دی ج ت ۔ یہ وزن جو اس کی بس ت سے ب ہر ہوت لیکن اس کے لبوں پر رح کی التج کے برعکس بڑے لمبڑ کی دری دلی اور انص ف پروری ک ترانہ رقص ں ہوت جو اپنے م ک کے کسی گم شتہ ل ظ تراش سے لکھوا کر لے گی ہوت ۔ ایک روز بڑا لمبڑ اپنے درب ر سے اق متی ایوان میں داخل ہوا تو اسے ایوان کی دیواروں میں جاللتی کمی سی محسوس ہوئی۔ وہ سوچنے لگ آج ک یہ م مولی س نقص آتے کل کو اس کی ارضی خدائی کے زوال کی وجہ بن سکت ہے۔ اس نے پیچھے پیچھے آتے ایک جی حضوریے سے کہ کہ ہم رے ایوان کی دیواروں میں ہم رے ش ی ن ش ن رع و دبدبہ موجود نہیں۔ جی حضوری جو کسی غال م ک ک ب شندہ تھ ہ ں میں ہ ں نہ مال کر اپنی بےدوسی ج ن سے کیوں ج ت ۔ اس نے ایک لمحہ بھی ض ئع کیے بغیر کہ کہ جی حضور آپ سولہ آنے درست فرم رہے ہیں۔ بڑے لمبڑ نے احک م ت نوٹ ک ر سے مخ ط ہو کر بڑی تمکنت سے ارش د فرم ی کہ محکمہ ت میرات کے
وزیر کو حک ج ری کی ج ئے کہ اس ب نقص عم رت کو مسم ر کرکے فورا سے پہ ے ہم ری ش ن و شوکت سے میل کھ ت محل ت میر کرنے ک اہتم کی ج ئے۔ پھر کی تھ ‘ بڑے لمبڑی اداروں کو حک ج ری ہوا کہ نئی ت میر کے لیے روپے پیسے فراہ کرنے ک انتظ کریں۔ کوت ہی کی صورت میں مت قہ ادارہ انچ رج اپنی نوکری سے ج ئے گ ۔ چھین جھپٹی کے ب عث دنی جہ ن میں افرات ری کی صورت پیدا ہو گئی۔ وہ اپنے عالقہ کی خوش ح لی ک خواہ ں تھ دوسرا وہ وہ ں کی کسی قس کی گڑبڑ کے تحت پیدا ہونے والی سردردی مول نہ لین چ ہت تھ ۔ وہ ں کے م مالت حی ت م مول کے مط ب رہے اور ان کی آگہی محض خبروں تک محدود رہی۔ وہ ں یہ ب ت مشہور کی گئی کہ وہ ں کی حکومیتں عوا کے س تھ ظ توڑ رہی ہیں۔ گوی ان کے دلوں میں ن رت ہی پیدا کی گئی۔ انس ن دوستی اور مظ وموں کی مدد کے ن پر بڑے لمبڑ کی فوجیں اور ہتھی ر ک میں الئے گئے۔ عظی لمبڑداری محل کی ت میر میں کئی س ل لگ گئے۔ جہ ں محل کی ت میر کے لیے خزانے جمع کیے گیے وہ ں اداروں کے وڈیروں کی تجوریوں کو بھی کم ل کی خوش ح لی دستی ہوئی۔ پوری دنی بدح ل اور خون میں نہ گئی اسے اس سے کی غرض تھی۔ ایک فرد بھی ب قی نہ رہت ‘ اس کی بال سے۔ اس ک بےمثل اور بےمث ل ت میر ہون پہال اور آخری ک ز تھ ۔ ج محل ت میر ہوگی تو جیبی و اعض ئی م ذور دنی کے لوگوں کے امیروں وزیروں کو اپنی وج ہتی دھ ک بٹھ نے کے لیے بالی گی ۔ انہیں مزید گرہ میں کرنے کے لیے تح ئف النے کی خریداری کے لیے دل کھول کر قرضے دیے گیے۔ یہ بھی حک دی گی کہ تح ئف کی خریدداری اس کے ہ ں کی م رکیٹ سے کی ج ئے۔ اس حک کے نتیجہ میں وہ ں کے تج رتی عمل کو استحق میسر آی ۔ گوی تج ر حضرات کے
لیے بھی خوش ح لی ک دروازہ کھول کر بہت بڑا پن گرہ میں کی ۔ یہ ہی نہیں ان کی فیور بھی ح صل کر لی۔ محل کے ہ ل میں یہ لوگ جمع ہوئے۔ محل کے ب کم ل اور الجوا ہونے میں کوئی شک ہی نہ تھ ۔ س عش عش کر اٹھے۔ پھر انہیں محسوس ہوا کہ محل لرز رہ ہے۔ اطراف سے انہوں نے ارواح کی خوف ن ک چیخ و پک ر سنی۔ وہ ڈر اور خوف سے محل کے ہ ل سے دوڑ دوڑ کر ب ہر آنے لگے۔ بڑے لمبڑ کی فکر‘ سم عت اور بص رت پر شیط نی ق ل پڑا ہوا تھ اس لیے وہ کچھ دیکھ اور محسوس نہ کر پ رہ تھ ۔ وہ یہ ہی سمجھ رہ تھ کہ اس ک ج ہ و جالل اور ش ہی دبدبہ یہ کمی کمین دنی کے برداشت نہیں کر پ رہے۔ اس کے اور اس کے جھولی چکوں کے قہقہے ہ ل میں گونج رہے تھے۔ بڑے کو یہ امر ی د تک نہ رہ کہ نمرود شداد اور فرعون بھی اسی طور کے قہقہے لگ ی کرتے تھے۔ ایک روز وہ س ان قہقہوں کی زد میں آ کر ہالک ہو گئے اور قی مت تک کے لیے عبرتی آث ر و نش ن ت چھوڑ گئے۔
ش ہی ہ تھی
لوک نہ
اوئی اوئی لینڈ ک ش ہی ہ تھی جنگل میں گ ہو گی ۔ م کی تالش ک ر اور ت تیش ک ر ادارے تالشتے تالشتے تھک ہ ر گئے لیکن ہ تھی نہ ڈھونڈا ج سک ۔ ن چ ر فرانس سے اس ذیل میں مدد لی گئی۔ وہ ں کے اس
ش بہ سے مت ادارے بھی منہ لٹک کر رہ گئے۔ اس کے ب د جرمن‘ اٹ ی اور چین سے مدد ح صل کی گئی لیکن ان کے ہ تھ بھی م یوسی کے سوا کچھ نہ لگ ۔ بھ رت کے م روف تالش ک ر پریدی م ن اپنے س تھیوں سمیت بڑے اعتم د کے س تھ مصروف تالش رہ لیکن وہ اور اس س تھی بھی اپنی ن ک می پر سر پکڑ کر رہ گئے۔ دین کے چوھوری کے ب نٹک ادارے بڑے کروفر سے میدان میں اترے لیکن تالش کے حوالہ سے ان کے منہ پر بھی ب رہ بج گئے۔ ن امیدی کے ب دل گہرے ہوتے گئے۔ ان ن زک اور حس س لمحوں میں پ کست ن کے تالش ک ر اور ت تیش ک ر ادارے اس م یوس اور اداس اداس فض میں امید کی کرن بن کر حرکت میں آ گئے۔ س یہ ہی کہہ رہے تھے دنی کے ترقی ی فتہ ادارے کچھ نہیں کر پ ئے‘ بھال یہ کی کر پ ئیں گے۔ ایک گھنٹہ بھی نہ گزر پ ی ہو گ کہ مثبت رزلٹ س منے آ گی ۔ ش ہی درب ر میں جم ہ م کوں کے اع ی عہدےدار تشریف فرم تھے کہ ش ہی ہ تھی درب ر میں ح ضر کر دی گی ۔ س ہنس پڑے کہ وہ ہ تھی نہیں گدھ تھ ۔ ان کے ہنستے پر کون ج ت ‘ جسے وہ گدھ قرار دے :رہے تھے‘ وہ ب آواز ب ند اقرار کیے ج ت تھ میں ہی گ شدہ ش ہی ہ تھی ہوں۔۔۔۔۔میں ہی گ شدہ ش ہی ہ تھی ہوں۔ اس کی اقراری آواز اور پراعتم د بی ن و لہجے کو جھٹالنے ک کسی کے پ س جواز ہی ب قی نہ رہ تھ ۔ ک ن پھوسی ک دور شروع ہو گی ۔ ہر کسی نے کہن شروع کر دی کہ گدھ ہی ش ہی سواری ک ج نور‘ ش ہی ہ تھی قرار پ ی ہو گ ۔ یہ ک ن پھوسی ب ند آوازوں میں بدل گئی۔ ہر کوئی اسے گ شدہ ش ہی ہ تھی قرار دے رہ تھ ۔ اوئی اوئی لینڈ کے ش ہ نے ج یہ صورت ح ل دیکھی تو اس کے انک ر نے بھی ہ ں ک لب دہ اوڑھ لی ۔ ش ہی اعالن
ج ری ہوا کہ یہ ہی ش ہی ہ تھی تھ ۔ مب رک ب د کی صدائیں ب ند ہوئیں۔ بڑی ش ندار دعوت اڑائی گئی۔ ش ہی ہ تھی کو ہ تھی ب ن کے حوالے کر دی گی ۔ وہ بھی کہے ج رہ تھ ‘ یہ ہی ش ہی ہ تھی تھ اور میں اسی کی خدمت کی کرت تھ ۔ م کوں م کوں کے عہدےدار اپنے اپنے وطن ٹر گئے۔ پ کست نی تالش ک ر اور ت تیش ک روں کو ان و اکرا اور ش ہی میڈلوں سے نوازا گی ۔ بال شبہ انہوں نے بڑی محنت‘ لگن اور مشقت سے یہ فریضہ انج دی تھ ۔ ان و اکرا اور ش ہی میڈلوں کے وہ ج ئز ح دار تھے۔
چوتھی شدہ خ تون ک جن زہ
اس سے پہ ے رواں ہ تے میں وہ تین شدہ خواتین کے جن زے پڑھ چک تھ اور مت قین سے رسمی اور ج ی ہی سہی‘ اظہ ر افسوس بھی کر چک تھ ۔ گزرتے ہ تے میں ہی‘ ہ س ئے کی جوان اور منہ متھے لگتی شدہ خ تون ک جن زہ اٹھ تو بےاختی ر اس کے آنسو چھ ک پڑے۔ اس نے الکھ چھپ نے کی کوشش کی لیکن کھوجی آنکھوں سے‘ آنسوؤں کی لک چھپی چھپ نہ سکی۔ پھر کی تھ ‘ ک ن پھوسی ک عمل ج ری ہو گی ۔ ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے کے ک ن
میں‘ اس کے آنسوؤں کی کہ نی پہنچ گئی۔ ک ن دفن ک عمل خت ہوا تو‘ بیبیوں کی گرہ میں کرمے کے آنسو لگ گئے۔ ہر کسی نے اپنی کہ نی گھڑ لی۔ مرنے والی تو قبریں سم گئی‘ لیکن کرمے کے حوالہ سے وہ کچھ طے پ گی ‘ جو اس کے فرشتوں تک کو ع نہ تھ ۔ ادیبوں کے افس نے یوں ہی خ مہ و قرط س کی زینت نہیں بنے‘ ان میں زی دہ نہیں تو‘ ک از ک ف ٹی پرسنٹ خواتین ک حصہ بھی ہے لیکن تحقیقی و تنقیدی عمل میں‘ کبھی کسی نے ان ک ذکر خیروبد کرنے کی زحمت نہیں اٹھ ئی۔ بال شبہ یہ ک ران ن مت کے زمرے میں آت ہے۔ کہ گی کہ مرنے والی سے کرمے کے ن ج ئز ت ق ت تھے۔ دیکھنے میں کرم کتن شریف تھ لیکن اندر سے پورا نکال۔ مرنے والی کتن پردہ کرتی تھی۔ کسی غیرمرد سے نظریں تک نہ مالتی تھی لیکن من کی کتنی میسنی نک ی۔ کچھ نے بالج نے‘ اس کے میکے کے ای بھی آلودہ کر ڈالے۔ ب ت ک رکتی ہے۔ کرمے کی شدہ خ تون کے ک نوں میں بھی کرمے کی عش ب زی کے قصے پڑ گئے۔ اگر سچ میں کچھ تھ ‘ تو چپ ک روزہ الز تھ کہ مرنے والی ک پردہ رکھ ج ت اور اس ک ک ن میال نہ ہونے دی ج ت ۔ آخر س نے جہ ں چھوڑ ج ن ہے۔ کرمے کی بیوی بال ن غہ‘ کرمے کی بہہ ج بہہ ج پر اتر آئی۔ اس نے الکھ قسمیں اٹھ ئیں لیکن وہ اس مقولے کی ق ئل تھی‘ چور ی ر ٹھگ کی قس ک اعتب ر نہیں کی ج سکت ۔ وہ پہ ے ہی اس کے لیے جہن سے کچھ ک نہ تھی‘ ا تو اس کے لیے ح ویہ بن گئی۔ ب ہر آت تو محرومہ ک خ وند‘ کھ ج نے والی نظروں سے دیکھت ۔ ایک دو ب ر تو اس نے بالوجہ توتکرار سے ک لی ۔ وہ ہر ب ر برداشت سے
ک لیت اور نظریں بچ کر نکل ج ت ۔ اس روز تو اسے پھینٹی چڑھ گئی‘ بہ نہ یہ بن ی گی کہ اپنے گھر ک کوڑا کرکٹ‘ اس کے گھر کے دروازے کے قری پھینکت ہے۔ بھولی بسری ی دیں پھر سے ت زہ ہو گئیں اور کرمے کی اندر خ نے کی عش لڑائی‘ پھر سے گ ی ب زار میں آ گئی۔ ہر دیکھت اس پر ہنست ۔ عمر رسیدہ بیبی ں‘ اسے توے توے کرتیں۔ اس سے ایک مثبت ب ت یہ ہوئی کہ دو ایک چ لو خواتین نے اسے چ لو م ل سمجھ کر الئین م رنے کی کوشش کی۔ ایک سے اس کی ڈنگ ٹپ ئی آڑپھس بھی ہو گئی۔ اس زب نی کالمی ان دیکھے ان ج نے عش کے حوالہ سے‘ چھپ رست ایس ب ندپ یہ خط بھی اس ک مقدر ٹھہرا ورنہ عالقہ ک کوئی ایرہ غیرہ بھی اس پر نظر نہ رکھت تھ ۔ وہ اکثر سوچت ‘ یہ لوگ کتنے بےحس اور کہ نی ب ز ہیں۔ کسی نے ان آنسوؤں کی وجہ ج ننے کی زحمت ہی گوارہ نہ کی۔ یہ ب ت اپنی جگہ کہ کوئی پوچھت تو وہ اصل وجہ بت بھی نہیں سکت تھ ۔ اگر اگل دیت تو بھی پولے‘ روز ک مقدر ٹھہرتے اور اس سے بڑھ کر اس کی بری ہوتی اور ہر روز ہوتی۔ دوسرا مقدر ک اپن کھیل ہے۔ ہر خواہش پوری ہو ج ئے‘ ضروری تو نہیں۔ ہ س ئے کی بیوی ک جن زہ اٹھتے سمے‘ اس ک یہ سوچن کہ اوروں کی عورتیں ہر دوسرے‘ قبر کی راہ لیتی ہیں اور اس والی اس ذیل میں ٹس سے سے مس نہیں ہو رہی۔ ہللا ج نے وہ یہ خوشی ک دن ک دیکھے گ ۔ جو بھی سہی‘ یہ گھڑت بدن می رائیگ ں تو نہ گئی تھی۔ اپنی کے عالوہ نیک ں بالکوشش اس کی نرک حی ت میں خوشیوں ک گہن بن کر اتر آئی اور اس س بقہ رولے میں اس کی سچ مچ کی چھپی رستمی س منے نہ آئی تھی۔
ا صرف
ذاتی نہ
کی ب ت ہے۔ رات گی رہ بجے یوں محسوس ہوا جیسے یہ مئی میرا س نس بند ہو رہ ہو۔ میں ج دی سے اٹھ کر صحن میں آ گی لیکن بج ئے س نس ک س س ہ اپنے روٹین پر آت ‘ ح لت مزید بگڑتی گئی۔ مجھے یوں لگ جیسے میری ج ن نکل رہی ہو۔ رضیہ‘ ی نی میری بیوی جو چ نے پھرنے سے م ذور سی ہے۔ بڑی پریش نی میں آ گئی۔ وہ ب وجود اپنی سی کوشش کے مجھے سمبھ ل نہیں پ رہی تھی۔ ہ دونوں کے سوا تقریب گھر میں کوئی نہ تھ ۔ پھر پت نہیں اس میں اتنی شکتی کہ ں سے آ گئی۔ ہ س یہ کے گھر چ ی گئی۔ ہ س یہ میری سال دع میں تھ ۔ اس کے دونوں لڑکے آگئے اور مجھے ایک پرائیویٹ ہسپت ل لے گئے۔ وہ ج نتے تھے کہ سرک ری ہسپت ل میں لے ج ن کسی طرح خطرے سے خ لی نہیں۔ وہ ں ڈاکٹر اور عم ہ محض چ ت پھرت الشہ ہیں۔ رستہ میں میں بےسدھ ہو گی ۔ موٹر س ئیکل پر لے ج ن بالشبہ ن ممکن ت میں تھ لیکن وہ مجھے کسی ن کسی طرح لے ہی گئے۔ ایمرجنسی میں لے ج ی گی ۔ پوری توجہ دی گئی۔ مکمل چیک اپ کی گی ۔ انہوں نے مجھے مردہ قرار دے دی ۔ انتیس منٹ کے ب د ایک لمب س نس آی ۔ مجھے اسٹیچر پر لٹ کر برآمدے میں منتقل کر دی گی تھ ۔ ج انہیں بت ی گی کہ لمب س نس آی ہے تو دوب رہ سے وارڈ میں ال کر بیڈ پر لٹ دی گی اور ڈاکٹری عمل شروع کر دی گی ۔ س نس اور نبض کی بح لی ہوئی تو فورا سے پہ ے الہور لے ج نے کے لیے کہہ دی گی ۔ ہللا کے احس ن سے ٹھیک ہو گی ۔
اس عمل نے مجھے تین تجربوں سے گزرا: ج ن نک ن کتن مشکل ہے اور یہ عمل انس ن پر کتن دشوار گزار - ہوت ہے۔ مرنے کے ب د بھی ایک جہ ن ہے جو کہ نی نہیں حقیقت ہے۔ - موت سے پہ ے مجھے ڈاکٹر ص ح پروفیسر ص ح کہہ کر پک را - ج رہ تھ ۔ موت کے یقین پر کہ گی ڈیڈ ب ڈی لے ج ؤ‘ الش لے ج ؤ۔ اتنی بےمکھی و بےرخی۔ عزت زندگی تک تھی۔ کچھ تو موت کے ب د بھی پروٹوکول دی ہوت ۔ محترمہ دیڈب ڈی ی الش ص حبہ لے ج ؤ۔ کی یہ س س نسوں تک تھ ۔ مجھے اپنی حیثیت اور کرتوت ک اندازہ ہو گی ۔ س س نسوں تک ہے اس کے ب د کچھ نہیں۔ ان گنت آئے اور چ ے گئے‘ کوئی ان کے مت ج نت تک نہیں۔ لوگ تو منہ پھیریں گے ہی اپنے بھی ج دیوں میں ہوتے ہیں۔ کسی کے پ س اتن وقت کہ ں کہ نہیں اور م قود کے لیے اپن وقت برب د کرت پھرے۔ یہ دنی ہے یہ اپنے ہیں جو شخص سے زی دہ چھنیوں اور کولیوں کو محتر رکھتے ہیں۔ اسی روز میں نے چیزوں کو طال دے دی۔ میں نے جو تھوڑا بہت موجود ہے ان لوگوں کے ن کر دی ہے۔ یہ ج نیں اور چیزیں ج نیں۔ ا صرف اس امر کی فکر دامن گیر ہے کہ ہللا کے احس ن ت ک کن ال ظ اور کیسے شکریہ ادا کروں۔ دوسرا اپنے دانستہ اور ن داستہ گن ہوں کی م فی کس طرح م نگوں۔ ہللا مجھے ہر دو ک س یقہ سجھ دے۔ آپ س میرے لیے دع کریں۔
بڑوں ک ظرف بڑا
ذاتی نہ
ایک عرصہ اس راز کو میں نے سینے میں دفن رکھ کہ کہیں مجھ سے کچھ غ ط نہ ہو ج ئے۔ آج اچ نک ذہن میں یہ خی ل کودا کہ نہیں پگ ے اس ک سینے میں دفن رکھن درست نہیں بل کہ اس کے کہہ دینے سے میرے آق کری ص ی ہللا ع یہ وس کی حق نیت س منے آئے گی کہ وہ سچ ہی کہتے ہیں سچ کے سوا کچھ نہیں کہتے۔ جس ک میں موال اس ک ع ی موال۔ فتح خیبر کے موقع پر انہوں نے ام ع ی ع یہ السال کو بالی تھ اور وہ تشریف لے آئے۔ ہ ں حیرت اس ب ت پر ہے کہ وہ م مولی نہیں‘ م مولی ترین کے بالنے پر بھی تشریف لے آتے ہیں۔ بالشبہ بڑوں ک ظرف بھی بڑا ہوت ہے اور ان کی عط ئیں محدود نہیں ہیں۔ میں ج ہسپت ل سے واپس گھر الی گی تو اپنے حواس میں نہیں تھ ۔ مجھے چ رپ ئی پر لٹ دی گی ۔ میرے پ س رضیہ‘ میری بیوی اور میری بیٹی ارح پریش ن بیٹھے ہوئے تھیں۔ ہللا کے حضور میری صحت اور زندگی کے لیے دع ئیں م نگ رہی تھیں۔ انہوں نے بت ی کہ میں لیٹے لیٹے اٹھ کر چ رپ ئی سے نیچے پ ؤں لٹک کر بیٹھ گی ۔ میں نے انہیں مخ ط کرکے کہ ڈرن نہیں۔ پھر میں نے تین ب ر کہ :ی ع ی ادرقنی فی سبیل ہللا اور تیزی سے دروازے کی طرف بڑھ اور دروازے کے دونوں پٹ پوری طرح کھول دیئے۔ ان سے کہ آپ تشریف لے آئے ہیں۔ پھر دونوں م ں بیٹی نے دروازے سے آتی ہوئی مہک محسوس
کی۔ اس مہک نے پورے کمرے کو م طر کر دی ت ہ اس مہک نے ایک ہ لے کی صورت میں میرے گرد چکر لگ ی اور جس طرح سے کمرے میں داخل ہوئی تھی اسی طرح دروازے سے ب ہر نکل گئی۔ ان ک کہن ہے کہ میں آرا سے چ رپ ئی پر لیٹ گی ۔ گہری اور خراٹے بھری نیند اس طرح سے ط ری ہوئی کہ ہ ئے ہ ئے کی آوازیں یکسر بند ہو گئیں۔ وہ دیر گئے تک میرے پ س بیٹھی رہیں۔ یوں لگ رہ تھ کہ میں بیم ر نہیں ہوں۔ ان ک کہن ہے کہ وہ اس مہک کو ت دیر محسوس کرتی رہیں۔ ان کے نزدیک ایسی مہک انہوں نے زندگی بھر نہیں محسوس کی۔ لط ئف اس پرچ ت ے پریش ن نہ ہوں اگر آپ کی بیوی کہن نہیں م نتی تو پریش ن نہ ہوں یہ کوئی ایسی ب ت نہیں۔ آپ کو ی د رکھن ہو گ کہ کسی کی بھی نہیں م نتی۔ س رے شدہ اس پرچ ت ے ایک ہیں۔ مشورہ
ایک ب ب زندگی کی آخری س نسیں لے رہ تھ ۔ اس کے قریبی رشتہ دار وہ ں افسردہ اور سوگوار بیٹھے اس کے مرنے ک انتظ ر کر رہے تھے۔ خواتین رونے دھونے اور بین ب زی کے لیے بےچین و بےکل ہو رہی تھیں۔ ایک ص ص نے مشورہ دی ف ر بیٹھے ہیں ج تک ب ب مرت نہیں چ و اسے غسل ہی دے دیتے ہیں۔ خ وند بیم ر خ وند :مجھے ڈنگر ڈاکٹر کے پ س لے چ و۔ بیوی :وہ کیوں؟ بیم ر خ وند :روز صبح مرغے کی طرح اٹھ ج ت ہوں‘ پھر گھوڑے کی طرح بھ گ بھ گ کر دفتر ج ت ہوں ۔ وہ ں س را دن گدھے کی طرح ک کرت ہوں۔ گھر آ کر تمہ ری شک ئتیں سن کر بچوں پر کتے کی طرح بھونکت ہوں۔ بھیڑ کی طرح تمہ رے حضور میں میں کرت ہوں۔ ب ی کی طرح بچے سمبھ ت ہوں اور ت کھ ن پک تی ہو۔ بکری کی طرح کھ نے میں س گ پ ت کھ ت ہوں اور رات کو بھینس کے س تھ لیٹ ج ت ہوں۔
مت پڑھو توت دنی کی ہر زب ن بول سکت ہے۔ اونٹ بغیر کھ ئے پیے س ر کر سکت ہے۔ بندر بہت اچھ نق ل ہے۔
اور اس سے آگے مت پوچھو ۔ ۔ ۔ ۔ نہ پڑھو میں کہت ہوں نہ پڑھو گدھ جس ک سے منع کرو وہی کرت ہے۔
امی ک جوا میں پی کر نہیں بہکت اسے دیکھ کر بہک ج ت ہوں۔ اتن بت شرا حرا ہے ی وہ؟ امی ک جوا :شرا حرا ہے اور وہ حرامزادی
محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال
خو شگوفے ہیں جن ۔ ہ بھی اس ع (ال ) کے س ئے میں آپ کے س تھ کھڑے ہیں۔ نصیحت تو انہیں ح صل کرنی چ ہیئے جن کے جم ہ حقو ہنوز غیر مح وظ ہیں۔ اچھ لگ پڑھ کر۔ ۔۔۔۔ بل ذکر ہے کہ آپ نے طوطے کو ت سے لکھ کر اس کی ایک اور ب ت ق ِ چونچ کے نقوش مٹ دیئے ہیں اور اس ک ح یہ بدل س گی ہے۔ یقین ج نئیے ت سے لکھ ہؤا توت تو ہمیں ہرا بھی نہیں دکھ رہ ۔ وی بی جی مح مکر حسنی ص ح :سال مسنون ہم ری طرف ایک مح ورہ مست مل ہے "ہر فن موال"۔ ش ید آپ نے بھی سن ہوگ ۔ سو آپ بھی "ہر فن موال" ہیں۔ کی نظ ،کی غزل ،کی تحقیقی مضمون اور کی انش ئیہ اور ا کی ہی لطی ے۔ ہر میدان میں آپ پورے ہیں۔ سبح ن ہللا۔ دع ہے کہ آپ اور آپ ک ق دونوں اسی طرح چ تے رہیں اور ہ مست ید ہوتے رہیں۔ آپ کی یہ پھ جھڑی ں خو ہیں۔ "ڈانگر ڈاکٹر" والے لطی ے ک آخری جم ہ پڑھ کر میں بے اختی ر ہنس پڑا۔ یہ کہن ب لکل سچ ہے کہ انجمن کی رون آپ جیسے لوگوں سے ہی ق ئ ہے۔ ب قی راوی س چین بولت ہے۔ سرور ع ل راز http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9179.0
ات
سے
ایک لطی ہ
چ ر دوست ات سے مسجد میں نم ز پڑھنے آ گئے۔ ایک س تھ وضو کی اور پھر ایک س تھ نم ز پڑھن شروع کی۔ ان میں سے ایک دوست نم ز پڑھتے ادھر ادھر بھی دیکھے چال ج رہ تھ ۔ بالشبہ یہ طور غ ط تھ ۔ ان میں سے دوسرا بوال :نم ز میں ادھر ادھر نہیں دیکھتے اس سے نم ز فس ہو ج تی ہے۔ تیسرا بول اٹھ :وہ تو غ ط کر ہی رہ ہے‘ ت بھی غ ط کر رہے ہو۔ کی ج نتے نہیں ہو کہ نم ز میں نہیں بولتے۔ چوتھ ب ند آواز میں ہللا ک شکر ادا کرنے لگ کہ وہ نہیں بوال وگرنہ اس کی نم ز بھی فس ہو ج تی۔