بارہ اسلامی مقالے

Page 1

‫ب رہ اسالمی مق لے‬ ‫مقصود حسنی‬ ‫فری ابوزر برقی کت خ نہ‬ ‫جون‬


‫فہرست‬ ‫نم ز ک سو سے زی دہ س ل ک پران اردو ترجمہ‬ ‫حضور کری ص ی هللا ع یہ وس اور تخ ی ک ئن ت‬ ‫قصہءآد ‘ اردو کے داست نی اد میں ایک اہ اض فہ‬ ‫ترجمہ سورتہ ف تحہ‬ ‫شجرہ ق دریہ ۔۔۔۔۔ ایک ج ئزہ‬ ‫ایک چرچ مین کی ی وہ گوئی اور میری م روض ت‬ ‫طال‬ ‫کھ ی تنبیہ‬ ‫میں ن ہیں سبھ توں۔۔۔۔۔۔۔چند م روض ت‬ ‫ارشد حکی ک ایک ش ر‬ ‫ہ اسال کے م ننے والے ہیں' پیروک ر نہیں‬ ‫عربی کے اردو پر لس نی تی اثرات ایک ج ئزہ‬


‫نم ز ک سو سے زی دہ س ل ک پران اردو ترجمہ‬ ‫مخدومی و مرشدی حضرت سید غال حضور ش ہ الم روف بہ ب ب جی‬ ‫شکرهللا کے ذخیرہءکت سے' ایک کت ‪.......‬نم ز مترج منظو ۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫بزب ن پنج بی' دستی ہوئی ہے۔ اس کے مولف مولوی محمد فیروز‬ ‫الدین ڈسکوی' منشی ف ضل' مدرس ای بی ہ ئی سکول' سی لکوٹ ہیں۔‬ ‫انہیں اس کت کی ت لیف ک اعزاز' رائے ص ح منشی گال سنگھ اینڈ‬ ‫سنز' ت جران کت ' الہور نے دی ۔ اس کت ک سن اش عت ‪ 1907‬ہے‬ ‫اور یہ ہی س ل' مخدومی و مرشدی حضرت ب ب جی شکرهللا ک سن‬ ‫پیدائش ہے۔ یہ کت بالشبہ' حضرت سید ع ی احمد ش ہ کے کت خ نے‬ ‫کی' ب قی ت میں سے ہے۔ اس ک واضح ثبوت یہ ہے کہ کت کے ص حہ‬ ‫نمبر ‪ 17‬پر' ان کے ہ تھ ک لکھ ہوا ایک ش ر موجود ہے۔‬ ‫ہ زی دہ تر ش عری ی پھر مخصوص اصن ف نثر کو' اد ک ن دیتے‬ ‫ہیں اور انہیں ہی' زب ن کی ترقی ک ذری ہ خی ل کرتے ہیں۔ اس قس کی‬ ‫ہر سوچ' حقیقت سے کوئی عالقہ نہیں۔ ہر اظہ ر' اس ک ت کسی بھی‬ ‫ش بہ سے مت ہو' زب ن کی نشوونم اور اس کی ابالغی قوتوں کو'‬ ‫ترقی دینے ک ذری ہ اور سب بنت ہے۔ مروجہ ادبی اصن ف ش ر ونثر‬ ‫کو اٹھ کر دیکھ لیجیے' ش ید ہی' زندگی ک کوئی ش بہ نظرانداز ہوا ہو‬ ‫گ ۔ یہ ں تک کہ س ئنس اور حکمت کے امور بھی' نظر آئیں گے۔‬ ‫ری ضی اور شم ی ت جیسے ش بے' اس کی دسترس سے ب ہر نہیں‬ ‫رہے۔ ج ایسی صورت ہے' تو زب ن کی ابالغی اور لس نی ترقی کے‬ ‫حوالہ سے' دیگر ع و و فنون کی ک وش ہ کو' کیوں صرف نظر کی‬


‫ج ئے۔‬ ‫ع و اسالمی سے مت ' اردو میں بہت کچھ لکھ گی ہے۔ دیگر زب نوں‬ ‫سے بھی' اسالمی ع و کی کت کے تراج ہوئے ہیں۔ اس حوالہ سے'‬ ‫اردو میں بہت سی مخت ف ش بوں سے مت ' اصطالح ت داخل ہو کر‬ ‫رواج ع بنی ہیں۔ ان گنت ت میح ت' اردو ش رواد ک گہن بنی ہیں۔ ب ت‬ ‫یہ ں تک ہی محدود نہیں رہی' بہت سے عربی ال ظ' اردو کے‬ ‫ذخیرہءال ظ میں داخل ہو کر' اردو کی ابالغی ثروت ک ذری ہ بنے ہیں۔‬ ‫بچوں کے لیے' الت داد اسالمی لڑیچر ک شت ہوا ہے۔ غیر مس بھی'‬ ‫اس ذیل میں نظرانداز نہیں کیے ج سکتے۔ ان ک مذہبی اث ثہ بھی' اس‬ ‫زب ن ک زیور بن ہے۔ گوی ان مس عی کو' لس نی حوالہ سے نظرانداز‬ ‫نہیں کی ج ن چ ہیے۔ م ہرین لس نی ت کو' صرف اور صرف اردو اصن ف‬ ‫ش رونثر کو ہی' لس نی تی مط ل ہ میں نہیں رکھن چ ہیے۔ س ش بوں‬ ‫سے مت کت ک ' اس ذیل میں' پیش نظر رہن از بس ضروری ہے۔‬ ‫زیر تجزیہ کت میں نم ز کے عالوہ' منظو پنج بی میں' مخت ف مس ئل‬ ‫بھی بی ن کیے گیے ہیں۔ نم ز سے م ق ت' پہ ے عربی میں' ب د ازاں‬ ‫اردو میں ترجمہ کی گی ہے' اس کے ب د پنج بی میں منظو ترجمہ کی‬ ‫گی ہے۔ اس وقت میرے پیش نظر' کئی تراج ہیں' خدا لگتی ب ت تو یہ‬ ‫ہی ہے' س دہ اور ع فہ ہونے کے س تھ س تھ' ترچمہ اور مح ورہ‬ ‫کے اعتب ر سے' یہ ترجمہ اپنی ہی نوعیت ک ہے۔ بریکٹوں میں کچھ‬ ‫نہیں لکھ گی ۔ اس لح ظ سے بھی' یہ ترجمہ خو تر ہے۔ لس نی اعتب ر‬ ‫سے' اس کی فص حت اور بالغت ک اقرار نہ کرن ' سراسر زی دتی کے‬ ‫مترادف ہو گ ۔ میں اس ذیل میں مزید کچھ عرض کرنے کی بج ئے'‬ ‫ترجمہ پیش کرنے کی س دت ح صل کرت ہوں۔‬


‫هللا بہت بڑا ہے‬ ‫اے هللا تیری ذات پ ک ہے خوبیوں والی اور تیرا ن مب رک ہے‬ ‫اور تیری ش ن اونچی ہے اور تیرے سوا کوئی م بود نہیں‬ ‫میں مردود شیط ن سے خدا کی پن ہ لیت ہوں‬ ‫خدائے رحمن و رحی کے ن سےشروع‬ ‫س خوبی ں هللا کو جو س رے جہ ن ک ر ہے‬ ‫بڑا مہرب ن نہ یت رح واال‬ ‫انص ف کے دن ک م لک‬ ‫ہ تیری عب دت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد م نگتے ہیں‬ ‫ہ کو سیدھی راہ دکھ‬ ‫ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے اپن فضل کی‬ ‫ان کی نہیں جن پر غض ہوا‬ ‫اور نہ گمراہوں کی‬ ‫ایس ہی ہو‬ ‫تو کہہ وہ هللا ایک ہے‬ ‫هللا بےنی ز ہے‬ ‫نہ کسی کو جن نہ کسی سے جن گی‬


‫اور نہ کوئی اس ک ہمسر ہے‬ ‫هللا س سے بڑا ہے‬ ‫میرا عظمت واال ر قدوس ہے‬ ‫ہے جو اس کی خوبی بی ن کرے‪......‬‬ ‫اے هللا تجھے ہی س خوبی ں ہیں‬ ‫میرا ع لی ش ن ر قدوس ہے‬ ‫س زب نی بدنی اور م لی عب دتیں هللا ہی کے لیے ہیں‬ ‫اے هللا کے نبی تجھپہ سال اور خدا کی رحمت اور اسکی برک ت ن زل‬ ‫ہوں‬ ‫ہ پراور خدا کے نیک بخت بندوں پر سال‬ ‫‪ .....‬میں اقرار کرت ہوں کہ هللا کے سوا‬ ‫اور میں اقرار کرت ہوں کہ محمد اسک بندہ اور رسول ہے‬ ‫اے هللا حضرت محمد اور حضرت محمد کی آل پر رحمت ن زل فرم‬


‫جیس کہ تو نے حضرت ابراہی اور ان کی آل پر رحمت ن زل کی‬ ‫یقین تو خوبیوں واال بزرگی واال ہے‬ ‫اے هللا مجھے نم زوں ک ق ئ کرنے واال بن دے‬ ‫اوالد کو بھی اور خدای میری دع منظور فرم ‪.....‬‬ ‫اے هللا اور میرے م ں ب پ اور س مومنوں کو بخشدے ج قی مت ق ئ‬ ‫ہو‬ ‫اے هللا ہم را دنی میں بھی بھال کر اورآخرت میں بھی بھال اور‬ ‫ہ کو عذا دوزخ سے نج ت دے‬ ‫ت پر سال اور هللا کی رحمت‬ ‫میں ب طور تبرک کت کے مت ص ح ت کی عکسی نقول بھی پیش کر‬ ‫رہ ہوں۔ دو جگہ نقطے لگ ئے گیے ہیں' وہ ں سے ص حہ پھٹ ہوا ہے۔‬ ‫میں نے اپنی طرف سے' ایک ل ظ ک ی زی دہ نہیں کی ۔ ٹ ئپ بھی اسی‬ ‫خط کے مط ب کی ہے۔‬ ‫محترمی حسنی ص ح ‪ :‬سال مسنون‬ ‫یہ ن ی‬

‫تبرک یہ ں عن یت کرنے ک تہ دل سے شکریہ قبول کیجئے۔ یہ‬


‫ہم ری قو کی بد قسمتی ہے کہ ایسے نوادرات ج د ہی ص حہ ہستی‬ ‫سے مٹ ج ئیں گے۔ ہ کو ایسی بیش بہ چیزیں کبھی مح وظ کرنے کی‬ ‫توفی نہ ہوئی۔ میں امریکہ میں دیکھت ہوں کہ یہ اپنے ت ریخی‬ ‫نوادرات کس قدر محنت اور توجہ سے بچ بچ کر رکھتے ہیں۔ کت‬ ‫خ نے بیش قیمت کت بوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ یہ ں ک ق نون ہے کہ‬ ‫چھپی ہوئی جو چیز بھی (خواہ وہ کسی زب ن میں ہو) اگر م ک میں‬ ‫آئے گی تو اس کی ایک ج د واشنگٹن کے قومی کت خ نے میں رکھی‬ ‫ج ئے گی۔ میں نے اپنی کت بیں بھی اس کت خ نہ کے عالوہ ہر ایسی‬ ‫یونی ورسٹی کے کت خ نے کو بھیج دی ہیں جہ ں اردو پڑھ ئی ج تی‬ ‫ہے (ایسی درجن بھر یونی ورسٹی ں ہیں)۔ لطف یہ ہے کہ کت م نے‬ ‫پر ہرکت خ نے سے شکریہ ک ب ق عدہ خط آت ہے۔ یہی کت بیں میں‬ ‫ہندوست ن اور پ کست ن کے اردو کت خ نوں کو بھیجت ہوں تو وہ ں‬ ‫سے کوئی رسید نہیں آتی۔ شکریہ کے خط ک تو ذکر ہی چھوڑ دیجئے۔‬ ‫اس سے زی دہ کہنے کی ش ید ضرورت نہیں ہے۔‬ ‫سرور ع ل راز‬ ‫‪www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9450.0‬‬

‫حضور کری ص ی هللا ع یہ وس اور تخ ی ک ئن ت‬

‫مرشدی قب ہ حضرت سید غال حضور الم روف ب ب جی شکرهللا ۔۔۔۔ پ‬


‫‪1988 1907‬۔۔۔۔۔ کے ذخیرہ کت سے' جہ ں مخت ف موضوع ت پر‬ ‫مجھ ن چیز کو کت میسر آسکی ہیں' وہ ں ان میں ق می نسخے بھی‬ ‫م ے ہیں‘ جو انہیں‘ ان کے والد گرامی‘ ی نی مجھ ف نی کے دادا ج ن‘‬ ‫حضرت سید ع ی احمد ۔۔۔۔۔۔ ‪1911‬۔۔۔۔۔۔۔ ولد سید عبدالرحمن اور‬ ‫ننھی ل' جو ان ک سسرا بھی تھ ' سے ورثہ میں م ے۔‬ ‫حضرت سید ع ی احمد نوشہرہ' امرت سر کے رہ ئشی تھے۔ وہ عربی‬ ‫اور ف رسی کے ع ل ف ضل تھے۔ ان کی دو بیویوں میں' چ ر بیٹے اور‬ ‫دو بیٹی ں تھیں‪ .‬سیدہ جنت بی بی سے' سید م ک' سید ف ک شیر اور‬ ‫سیدہ کرامت بی بی' ج کہ سیدہ گوہر بی بی سے سید غال غنی' سید‬ ‫غال حضوراور سیدہ زین بی بی تھیں۔ سید م ک' سید ف ک شیر اور‬ ‫سیدہ کرامت بی بی ک کچھ ح ل م و نہیں۔ مرشدی حضرت سید غال‬ ‫حضور ت د مرگ' ان کی تالش میں رہے۔ راق کو بھی' ان ک کچھ پت‬ ‫نہیں چل سک ۔ ان کی آل اوالد سے مالق ت کی خواہش' روز اول کی‬ ‫طرح' آج بھی اپنی پہ ی سی شدت رکھتی ہے۔‬ ‫حضرت سید ع ی احمد کی وف ت کے وقت' زین بی بی س ت برس' سید‬ ‫غال غنی چھے برس' ج کہ سید غال حضور چ ر برس کے تھے‪.‬‬ ‫زمین پہ نڈے والے تھے۔ محمد اکبر فقیر' جو حضرت سید ع ی احمد ک‬ ‫خدمت گ ر تھ ' نے دیکھ بھ ل کے بہ نے' م ئی گوہر بی بی ' زوجہ‬ ‫حضرت سید ع ی احمد ولد سید عبدالرحمن کو اعتم د میں لے لی ۔۔ محمد‬ ‫اکبر فقیر کی بیوی کھیواں' دہ یز کے اندر' ج کہ محمد اکبر فقیر گھر‬ ‫سے ب ہر کے امور انج دینے لگ ۔‬ ‫م ئی ص ح کے بچے چھوٹے تھے۔ انہوں نے محمد اکبر فقیر پر‬ ‫اعتم د کی ۔ محمد اکبر فقیر کی بیوی کھیواں سے' دو بیٹے' محمد امین‬ ‫اور ق ئ ع ی کو بھی' بیٹوں کی طرح سمجھ ۔ محمد اکبر فقیر کی موت‬


‫کے ب د' اس کے بڑے بیٹے محمد امین نے انتظ سمبھ ل لی ۔ ب د ازاں‬ ‫خود کو' حضرت سید ع ی احمد ولد سید عبدالرحمن ک وارث قرار دے‬ ‫کر' ہر چیز پر قبضہ جم لی ۔ خوش ح ل گھرانہ' دنوں میں م س ہو گی ۔‬ ‫یہ ہی نہیں' محمد امین اور ق ئ ع ی' بدس وکی سے ک لینے لگے۔ وہ‬ ‫ہی' جنہیں اوالد کی طرح سمجھ اور گھر داخل ہونے کی اج زت دی'‬ ‫ج ن کے دشمن بن گیے۔ م ئی ص ح کے منہ سے آہیں نکل نکل گئیں۔‬ ‫محمد امین کے ہ تھوں ایک قتل ہوا۔ جی وں میں سڑا اور پھر' دم غی‬ ‫توازن کھو بیٹھ ۔ سنگ وں سے ب ندھ گی اوراسی ح لت میں چل بس ۔‬ ‫محمد امین کے دونوں بیٹے والیوڑ نک ے' انہوں نے ب پ ک ہتھی ی '‬ ‫س اج ڑ دی ۔ محمد خ ل فقیر ہو گی ' ج کہ ووسرے نے' گ ؤں میں‬ ‫چھوٹی موٹی پرچون کی دوک ن ڈال لی۔‬ ‫ق ئ ع ی کی بیٹی ت ج' اپنی م ں رقی ں کے قدموں پر تھی۔ اس کی‬ ‫بدچ نی کے ہ تھوں مجبور ہو کر' اس نے چھت پر سے چھالنگ لگ‬ ‫کر' خودکشی کر لی۔ حرف بہ حرف اسی طرح ہوا' جس طرح سے م ئی‬ ‫گوہر بی بی نے د دیتے وقت کہ تھ ۔ زمین ک م ل زمین پر ہی رہ گی ۔‬ ‫محمد امین اور ق ئ ع ی دونوں' دنی سے خ لی ہ تھ چ ے گیے۔ رقی ں‬ ‫ک ع ش سردار کرت ر سنگھ' ‪ 1947‬کے ہنگ موں کی نذر ہو گی ۔ محمد‬ ‫امین کے ب پ ک ہڑپ ض ئع ہو گی ' کچھ ب قی نہ رہ ۔‬ ‫مرشدی حضرت سید غال حضور کی ش دی' م موں زاد سیدہ سردار‬ ‫بیگ بنت سید برکت ع ی سے ہوئی۔ اس لیے دوسروں کی نسبت' ان‬ ‫کی ننھی ل سے زی دہ قربت رہی۔ یہ گ ؤں نگ ی' امرت سر سے ت‬ ‫رکھتے تھے۔ سید گوہر ع ی اور سید برکت ع ی' دونوں بھ ئی ع‬ ‫دوست تھے۔ کھ تے پیٹے اور خوش ح ل لوگ تھے۔ دونوں بھ ئیوں‬ ‫کی' بتیس کھوہ زمین تھی۔ اوالد میں' دونوں کے پ س' صرف سیدہ‬


‫سردار بیگ تھی۔ الڈ پی ر سے پ ی بڑھی۔ یہ گھرانہ اہل تشیع تھ ۔ ان‬ ‫کے ہ ں' مج سیں ہوتی رہتی تھیں۔ کت بوں اور ق می نسخوں کے' انب ر‬ ‫لگے ہوئے تھے۔ مرشدی حضرت سید غال حضور ‪ 1929‬ی ‪1931‬‬ ‫میں' س کچھ چھوڑ چھ ڑ کر' قصور اٹھ آئے۔ محنت مزدوری پیشہ‬ ‫بن ی ' ب د ازاں سرک ری مالزمت اختی ر کر لی۔ لوگ دنی کی اشی س تھ‬ ‫رکھتے ہیں' انہوں نے کت بوں اور ک غذوں کو س م ن س ر و حی ت بن ی ۔‬ ‫سید غال غنی کو' کت بوں ک غذوں سے کوئی دل چسپی نہ تھی۔ مرشدی‬ ‫قب ہ حضرت سید غال حضور کت بوں کے ع ش تھے انہوں نے' ان‬ ‫بوسیدہ ک غذوں کو سینے سے لگ لی ۔ ‪ 1988‬میں' ان ک انتق ل ہوا' تو‬ ‫م ئی ص ح سردار بیگ نے' اپنے خ وند حضرت سید غال حضور ک '‬ ‫یہ اث ثہ سینے سے لگ لی ۔ ‪ 1996‬میں' وہ بھی چل بسیں۔ ان ک بڑا‬ ‫بیٹ ' سید منظور حسین' جو ہمیشہ سے' عورتوں ک شوقین رہ تھ ۔‬ ‫خ ن دان کی عورت کو طال دے کر' ایک نہیں' دو چ تی پھرتی‬ ‫عورتیں لے آی تھ ' مک ن اور س م ن پر ق بض ہو گی ۔ اس سے چھوٹ '‬ ‫سید محبو حسین اسی ک بگ ڑا ہوا تھ ' ردی سے دل چسپی نہ رکھت‬ ‫تھ مک ن اور س م ن کے لیے بھ گ دوڑا لیکن شیر کے منہ سے' ایک‬ ‫لقمہ بھی نہ نک ل سک ۔ پھر تھک ہ ر کر بیٹھ گی ۔ چوروں کو پڑے مور‬ ‫کے مصدا سید منظور حسین کے بڑے سے چھوٹے بیٹے' مط و‬ ‫حسین نے مک ن پر قبضہ کر لی ۔ ذاتی مک ن بھی زوج نی س زشوں کی‬ ‫بھینٹ چڑھ گی ۔ سید منظور حسین کو قض نے لے لی اور یہ ضر‬ ‫المثل' چوروں کو پڑے مور' موروں کو پڑیں قض ئیں' منزل مقصود کو‬ ‫پہنچ ۔ مک ن ا بھی مط و حسین کے قبضہ اور تصرف میں ہے۔‬ ‫حضرت سید غال حضور' اپنے س سے چھوٹے بیٹے مقصود ص در‬ ‫الم روف مقصود حسنی کو' کچھ چیزیں مرتے وقت دے گیے تھے۔‬


‫کچھ قبضے کے غدر کے دوران' دستی ہو گیئں' کچھ کوڑا سمجھ کر‬ ‫جال دی گیئں‪ .‬ص ف اور ج ندار کت بیں اور ک غذ ردی چڑھ گیئں۔ اس‬ ‫طرح' ب ب جی حضرت سید غال حضور ک کال اور ان کی آواز بھرے‬ ‫کیسٹ بھی ض ئع ہو گیے۔ حضرت سید غال حضور کی ش عری پر‬ ‫مشتمل رجسٹر وغیرہ ب طور نش نی' ان کی بڑی بیٹی فض ل بیگ لے‬ ‫گئی۔ یہ چیزیں ان کے بیٹے ش قث رسول نے' اپنی دک ن میں است م ل‬ ‫کر لیں۔ وقتی طور پر ان کے نصی میں مٹھ ئی ہوئی اور پھر' سڑکوں‬ ‫پر گر' کر ہمیشہ کے لیے ن بود ہو گئیں‬ ‫میرے پ س ان ک اپن کال رف بکھرے ک غذوں اور تین قصوں کی‬ ‫صورت میں موجود ہے۔ چوتھ قصہ دستی نہیں ہو رہ ۔ کوشش میں‬ ‫ہوں ضرور کہیں ن کہیں سے مل ج ئے گ ۔ قدی ک غذات ص ف ظ ہر ہے‬ ‫‪ 1911‬ی اس سے پہ ے کے ہیں۔ کچھ پر سن اور ت ریخ درج نہیں۔‬ ‫یہ ں تک کہ مصنف ک ن بھی درج نہیں۔ کچھ بہت پرانے ہیں اور‬ ‫بوسیدہ ہو چکے ہیں۔ یہ اردو پنج بی میں ہیں۔ ان میں سے ایک نہ‬ ‫اردو ہے اور نہ پنج بی ہے۔ اسے گالبی اردو ی گالبی پنج بی کہن زی دہ‬ ‫من س ہو گ ۔ ک غذ کی ح لت اچھی نہیں ت ہ نہیں بآس نی پڑھ ج سکت‬ ‫ہے۔ اس کی عمر سو س ل سے زی دہ ہے۔ مصنف ک کچھ پت نہیں۔ یہ‬ ‫حضرت سید ع ی احمد ک ہینڈ راٹنگ بھی نہیں ہے۔‬ ‫تحریر پر کوئی عنوان درج نہیں۔ مندرج ت کے حوالہ سے' اسے۔۔۔۔۔‬ ‫حضور کری ص ی هللا ع یہ وس اور تخ ی ک ئن ت۔۔۔۔۔ عنوان دی ج‬ ‫سکت ہے۔ اس مختصر سی تحریر کے لیے' مصنف نے گی رہ م روف'‬ ‫مستند اور مت ع یہ کت مشکوتہ' قسطالنی' احمد' بزار' طبرانی'‬ ‫ح ک ' بیہقی' ح فظ ابن حجر' ابن حب ن رحمہ الرحم ن' فتوح ت مکیہ'‬ ‫کت التشری ت کی ور گردانی کی ہے' اس سے مصنف کی ع می‬


‫اہ یت ک ' ب خوبی اندازہ لگ ی ج سکت ہے۔‬ ‫مصنف نے' چند پنج بی کے ل ظ تحریر میں داخل کرکے' پنج بی میں‬ ‫لکھنے ک غ لب تجربہ کی ہے اور یہ تجربہ' ک می تجربہ نہیں ہے۔‬ ‫دونوں زب نوں ک نحوی سیٹ اپ الگ تر ہے' لہجہ اور اس و مخت ف‬ ‫ہیں۔ مصنف بھ ے پنج بی رہ ہو گ ' لیکن لکھن اور بولن قط ی الگ ہنر‬ ‫ہیں۔ تحریر بت تی ہے' کہ اس ک لکھنے واال' بنی دی طور پر اردو میں‬ ‫لکھنے واال ہے۔‬ ‫درج ذیل امور' تحریر میں نم ی ں ہیں‬ ‫س ری تحریر ایک ہی پیرے میں ہے۔ نئے پیرے کے لیے ل ظ اور ‪1-‬‬ ‫است م ل میں الی گی ہے۔‬ ‫رموز ک است م ل نہیں کی گی ۔ نئے پوائنٹ کے لیے اور' ج کہ ‪2-‬‬ ‫ب قی کے لیے' محض سکتہ ک است م ل کی گی ہے۔‬ ‫ل ظ مال کر لکھے گیے ہیں۔ یہ ہی طور مست مل تھ ۔ ‪3-‬‬ ‫دو چشمی حے کے لیے' حے مقصورہ است م ل میں الئی گئی ہے۔ ‪4-‬‬ ‫جس ل ظ کے لیے' آج حے مقصورہ مست مل ہے' اس کے لیے' دو ‪5-‬‬ ‫چشمی حے است م ل کی گئی ہے۔‬ ‫نون غنہ کی جگہ' نون است م ل میں الئی گئی ہے۔ ‪6-‬‬ ‫تی ر کو طی ر لکھ ج ت تھ ' اس تحریر میں بھی طی ر ہی لکھ گی ‪7-‬‬ ‫ہے‬ ‫ے کی بج ئے ی است م ل کی گئی ہے۔ اس عہد میں یہ ہی عمومی ‪8-‬‬


‫چ ن تھ ۔‬ ‫ترمیمی متن‬ ‫اول م خ‬

‫هللا نوری۔‬

‫مشکوتہ' قسطالنی‪ '.‬احمد' بزار' طبرانی' ح ک ' بیہقی' ح فظ ابن حجر'‬ ‫ابن حب ن رحمہ الرحم ن‬ ‫‪:‬ق ل رسول هللا ص ی هللا ع یہ وس‬ ‫انی عندهللا مکتو خ ت النبیین وان آد لمنجدل فی طینتہ و س خبرک‬ ‫ب ول امری دعوتہ ابراھی وبش رتہ عیسی ورؤی امی التی راءات حین‬ ‫وض تنی وقدخرخرج لہ نوراف ء لہ منہ قصور الش‬ ‫اور حضرت موالن وسیددن محی الدین بن عربی اپنی کت فتوح ت مکیہ‬ ‫‪:‬کے ‪ 6‬ب کے خ قت کی پیدائش کے بی ن میں لکھتے ہیں‬ ‫ہین ف ک ن مبتدال ل ب ئزہ و اول ظ ھر فی وجود‬ ‫ی نی حضرت ص ی هللا ع یہ وس تم جہ ن ک شروع اور وجود اغی‬ ‫پیدایش میں ظ ہر اول ہیں۔‬ ‫کت التشری ت میں حضرت ابوھریرہ رضی هللا ت لی عنہ سے مروی‬ ‫ہے' جو سرور ک ئن ت ص ےهللا ع یہ وس نے حضرت جبرائیل سے‬ ‫پوچھ ' عمر آپ کی کتنے برسوں کی ہے‬ ‫حضرت جبرائیل ع یہ السال نے عرض کی ‪ :‬ی حبی هللا ص ی هللا ع یہ‬


‫وس مجھے برسوں ک ح ل کچھ م و نہیں اتن ح ل م و ہے‪ .‬جو‬ ‫چوتھی حج میں ایک ست رہ ستر ہزار برس سے ظ ہر ہوت ہے اور‬ ‫میں نے وہ ست رہ بہتر ہزار مرتبہ دیکھ ہے۔‬ ‫فق ل ص ی هللا ع یہ وس ی جبرائیل وعزت ربی ان ذلک النج ۔‬ ‫اور آں حضرت ص ی هللا ع یہ وس کی اولیت ی نی س پیدایش سے‬ ‫افضل ہوون اور اصل اصول س مخ وق ت ک قرار پ ون اور اولویت‬ ‫اعنی س سے بہتر ہون اور افضل ہون بہت اح دیث مب رکہ و آث ر‬ ‫شری ہ سے ث بت ہے اور ح صل ان س ک یہ ہی ہے جو هللا تب رک و‬ ‫ت لی نے آسم ن ن۔ زمین ن اور عرش۔ کرسی۔ لوح۔ ق ۔ بہشت۔ دوزخ۔‬ ‫فرشتے۔ جن اور بشر ب کہ تم مخ وق ت کی پیدایش سے پہ ے کئی‬ ‫ہزار برس نور مظہر سرور آں حضرت ص ی هللا ع یہ وس ک پیدا‬ ‫فرم ی اور جہ ن کے میدان میں هللا جل ش نہ اس نور مب رک کی تربیت‬ ‫فرم دی۔‬ ‫کبھی اس کو سجود خشوع آمود سے م مور فرم تے اور کبھی تسبیح و‬ ‫تقدیس میں مشغول رکھتے۔ اور اس پ ک نور کی رہ یش کے واسطے‬ ‫بہت پردے بن ئے۔ ہر پردے میں بہت مدت تک خ ص تسبیح کے س تھ‬ ‫مشغول فرم ی ۔‬ ‫تم پردوں والی ج مدت گزر گئی ت اس نور مب رک نے ب ہر رون‬ ‫افزا ہو کے س نس لین شروع فرم ی ۔ ان متبرک س نسوں سے فرشتے'‬ ‫ارواح انبی واولی وصدیقین وس ئرمؤمنین کو پیدا فرم ی ۔ اور اس جوہر‬ ‫نور سے عرش' کرسی' لوح' ق ' بہشت' دوژخ اور اصول م دی آسم ن‬ ‫و زمین اور سورج' چند ست رے' دری ' پہ ڑ وغیرہ پیدا فرم ئے‪ .‬پھر‬ ‫زمین اور آسم ن کو پھیال کے س ت س ت طبقے بن ئے اور ہر ایک طبقہ‬


‫میں اک اک پیدایش ک مق مقرر فرم ی ۔‬ ‫اور دوسری روایت میں اس طرح آی ہے' کہ ج اس نور مب رک‬ ‫الظہور نے س نس لین شروع کی ۔ ان س نسوں سے' پیغبران ع یہ‬ ‫الصحورت واال س مہ من خ ل البریہ اور اولی ' شہیدان' ع رف ن' ع لم ن'‬ ‫ع بدان' زاھدان۔ اور ع مومن ن کی ارواح پیدا ہوئے۔‬ ‫پھر اس نور ط ہر و طہور کو دس حصوں پر تقسی فرم ی ۔ اور دسویں‬ ‫حصہ سے' خدائے تب رک و ت لی نےاک جوہر بن ی ' طول اور عرض‬ ‫جس ک اعنی لمب ئی چوڑان' چ ر چ ر ہزار برس ک رستہ تھ ‪ .‬اس جوہر‬ ‫اع ے گوہر میں' رحمت کی اک نظر فرم ئی۔ بسب حی ' وہ جوہر مب رک‬ ‫ک نپ اور ادھ پ نی بن گی اور ادھ اگ ہو گی ۔ اس پ نی سے' دری پیدا‬ ‫ہوئے اور ان دری وں کی ٹھ ٹھیں شروع ہو گئیں اور ان کی حرکت اور‬ ‫ھ نے کے سب سے' ہوایں چ ن شروع ہو گئیں اور ان ہواو ں خ و‬ ‫اغی جگہیں مقرر ہوئیں اور زمین سے آسم ن کی طرف' ب رہ کوہ ن‬ ‫تک' ہوا ک مق ہے اور اس اوپر زمہریر' دری وغیرھم اور قری‬ ‫آسم ن کے' اگ ک کرہ موجود ہے اور پھر اگ کو پ نی پر' غ ل فرم ی‬ ‫اور پ نی نے اگ کی گرمی کے سب ' ج جوش کھ ی ' تو اسی ( سے(‬ ‫جھ گ پیدا ہو گئی اور اس جھ گ سے زمین بن ئی گئی' پھر اس جھ گ‬ ‫سے جو بخ رات پیدا ہوئے' ان سے اصل م دہ آسم ن ک بن اور موجوں‬ ‫کے سمٹ ج نے کے سب 'پہ ڑ پیدا ہوئے۔ زمین از ت لرزہ آمدہ۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫فرو کوفت بردانش میخ کوہ۔۔۔۔۔۔‬ ‫زمین پر پ نی کھڑا ہونے کے سب ' ہر وقت ہ تی تھی ‪ .‬هللا تب رک‬ ‫وت لی نے اس کی بےقراری دور کرنے کے واسطے' ان ٹھ ٹھوں اور‬ ‫سمٹ و سے' پہ ڑ پیدا فرم کے زمین پر ق ئ فرم ئے‬


‫اور اک بج ی پہ ڑوں میں پہنچی' اسے م دن ی نی کھ ن پیدا ہوا اور‬ ‫ج لوہ پتھر سے ٹکرای ' اس سے چنگ ڑی پیدا ہو کے' اگ ابل اٹھی‬ ‫اور اس اگ سے' دوزخ ک م دہ طی رہوا۔‬ ‫ب د ازاں' زمین کو پھیالی ۔ واالرض ب د ذلک دجہہ ت کہ حیوان ت'‬ ‫وحشی ج نور اور درندے اور چوپ ئے' اس میں مق کریں۔ پھر زمین‬ ‫کے س ت طبقے بن ئے اور ہر طبقے میں' الگ الگ مخ وق ت کے مق‬ ‫ٹھرائے اور اگ کے ش وں سے' جنوں کو بن ی اور زمین پر ان کو‬ ‫مس ط فرم ی ۔‬ ‫بہشت کو' ست ویں آسم ن پر ب ندی بخشی اور دوزخ ست ویں زمین کے‬ ‫ت ے' ق ئ فرم ئی اور جن کی روشنی کے واسطے سورج' چ ند اور‬ ‫ست رے چمک ئے۔ فوائد نجو ۔ نور اور ظ مت کے م دوں سے' دن اور‬ ‫رات' پھر تم پیدایش اور مخ وق ت کو اپنے حبی قری پر قرب ن‬ ‫فرم ی ۔‬ ‫وافدیت لکی ع یک ی محمد ص ے هللا ع یہ وس‬ ‫ترمیمی ال ظ اور حروف‬ ‫س نس' ک نپ ' س تھ‬ ‫ج ' ت ' کبھی‬ ‫میں' پر' اور‬ ‫ان' جس' وہ‬ ‫ک ' کے' کی' کو‬


‫تھ ' گئیں‬ ‫تے' تی‬ ‫ئیں' وں' ی ' یں‬ ‫ا' تھ' ں' و' ہ' ے‬ ‫تحریر ک اصل متن‬ ‫اول م خ هللا نوری۔ مشکوتہ‪ .‬قسطالنی‪ .‬احمد‪ .‬بزار۔ طبرانی۔ ح ک ۔‬ ‫بیہقی۔ ح فظ ابن حجر۔ ابن حب ن رحمہ الرحم ن ق ل رسول هللا ص ی هللا‬ ‫ع یہ وس انی عندهللا مکتو خ ت النبیین وان آد لمنجدل فی طینتہ و‬ ‫س خبرک ب ول امری دعوتہ ابراھی وبش رتہ عیسی ورؤی امی التی‬ ‫راءات حین وض تنی وقدخرخرج لہ نوراف ء لہ منہ قصور الش اور‬ ‫حضرت موالن وسیددن محی الدین بن عربی اپنی کت فتوح ت مکیہ دی‬ ‫‪ 6‬ب وچ خ قت دی پیدائش دی بی ن وچ لکہدے ہین ف ک ن مبتدال ل‬ ‫ب ئزہ و اول ظ ھر فی وجود ی نی حضرت ص ی هللا ع یہ وس تم جہ ن‬ ‫دا شروع اور وجود اغی پیدایش وچ ظ ہر اول ہیں۔ کت التشری ت وچ‬ ‫حضرت ابوھریرہ رضی هللا ت لی عنہ سے مروی ہے جو سرور ک ئن ت‬ ‫ص ےهللا ع یہ وس نے حضرت جبرائیل سے پوچھی عمر تہ ڈی کتنے‬ ‫برس ن دی ہے حضرت جبرائیل ع یہ السال نے عرض کیت ی حبی هللا‬ ‫ص ی هللا ع یہ وس مینوں برس ندا ح ل کچھ م و نہیں اتن ح ل م و‬ ‫ہے جو چوتہی حج وچ ایک ست رہ ستر ہزار برس توں پچھے ظ ہر‬ ‫ہوندا ہے اور مینی اوہ ست رہ بہتر ہزار مرتبہ دیکہی ہے۔ فق ل ص ی هللا‬ ‫ع یہ وس ی جبرائیل وعزت ربی ان ذلک النج ۔۔۔۔۔۔۔۔اور آن حضرت‬


‫ص ی هللا ع یہ وس دی اولیت ی نی س پیدایش سے افضل ہوون اور‬ ‫اصل اصول س مخ وق ت دا قرار پ ون اتے اولویت اعنی س سے بہتر‬ ‫ہون اور افضل ہون بہت اح دیث مب رکہ و آث ر شری ہ سے ث بت ہےاور‬ ‫ح صل انہ ں سبن ندا ایہو ہے جو هللا تب رک و ت لی نے آسم ن ن۔ زمین ن‬ ‫اور عرش۔ کرسی۔ لوح۔ ق ۔ بہشت۔ دوزخ۔ فرشتے۔ جن اور بشر ب کہ‬ ‫تم مخ وق ت دی پیدایش سے پہ ے کئی ہزار برس نور مظہر سرور آن‬ ‫حضرت ص ی هللا ع یہ وس دا پیدا فرم ی اور جہ ن دے میدان وچ هللا‬ ‫جل ش نہ اس نور مب رک دی تربیت فرم ندی۔ کدے اس نو سجود خشوع‬ ‫آمود سے م مور فرم ندی اور کدے تسبیح و تقدیس وچ مشغول رکھدی۔‬ ‫اور اس پ ک نور دی رہ یش دے واسطے بہت پردے بن ئے۔ ہر پردے‬ ‫وچ بہت مدت تک خ ص تسبیح دے ن ل مشغول فرم ی ۔۔۔تم پردی ن والی‬ ‫جد مدت گزر گئی تد اس نور مب رک نے ب ہر رون افزا ہو کے س نہہ‬ ‫لین شروع فرم ی ۔ انہ ں متبرک س نہ ن وچوں فرشتے۔ ارواح انبی‬ ‫واولی ۔ وصدیقین وس ئرمؤمنین نو پیدا فرم ی ۔ اور اس جوہر نور سے‬ ‫عرش۔ کرسی۔ لوح۔ ق ۔ بہشت۔ دوژخ اور اصول م دی آسم ن وزمین‬ ‫اور سورج۔ چند ست رے۔ دری ۔ پہ ڑ وغیرہ پیدا فرم ئے پھر زمین اور‬ ‫آسم ن نو پھیال کے ست ست طبقے بن ئے اور ہر ایک طبقہ وچ اک اک‬ ‫پیدایش دا مق مقرر فرم ی ۔۔۔۔ اور دوسری روایت وچ اس طرح آی ہے‬ ‫کہ جد اس نور مب رک الظہور نے س نس لین شروع لین شروع کیت ۔‬ ‫انہ ن س نہ ن وچوں پیغبران ع یہ الصحورت واال س مہ من خ ل البریہ‬ ‫اور اولی ۔ شہیدان ع رف ن۔ ع لم ن۔ ع بدان۔ زاھدان۔ اور ع مومن ن دی‬ ‫ارواح پیدا ہوئے۔ پھر اس نور ط ہر و طہور نو دس حصی ں پر تقسی‬ ‫فرم ی ۔ اور دسوین حصہ سے خدائے تب رک و ت لی نےاک جوہر بن‬ ‫طول اور عرض جسدا اعنی لمب ئی چوڑان چ ر چ ر ہزار برس دا رستہ‬ ‫سی اس جوھر اع ے گوھر وچ رحمت دی اک نظر فرم ئی۔ بسب حی اہ‬


‫جوھر مب رک کمبی اور ادھ پ نی بن گی اور ادھ اگ ہو گی ۔ اس پ نی‬ ‫سے دری پیدا ہوئے اور انہ ن دری وان دی ن ٹھ ٹھ ن شروع ہوی ں اور‬ ‫انہ ں دی حرکت اور ھ نے دے سب سے ہواوان چ نی شروع ہوی ن اور‬ ‫انہ ں ہواون خ و اغی جگہ ن مقرر ہوی ں اور زمین سے آسم ن دی‬ ‫طرف ب ران کوہ ن تک ہوا دا مق ہے اور اس اوپر زمہریر۔ دری‬ ‫وغیرھم اور قری آسم ن دے اگ دا کرہ موجود ہے اورپھر اگ نو‬ ‫پ نی پر غ ل فرم ی اور پ نی نے اگ دی گرمی دے سب جد جوش‬ ‫کھ دا تو اسی ( سے( جھگ پیدا ہو گئی اور اس جھگ سے زمین بن ئی‬ ‫گئی پھر اس جھگ سے جو بخ رات پیدا ہوئے انہ ن سے اصل م دہ‬ ‫آسم ن دا بنی اور موج ن دے سمٹ ج ندے سببوں پہ ڑ پیدا ہوئے۔ زمین‬ ‫از ت لرزہ آمدہ۔۔۔۔۔۔۔۔ فرو کوفت بردانش میخ کوہ۔۔۔۔۔۔ زمین پرپ نی کھڑا‬ ‫ہوندے سب ہر وقت ھ دی سی هللا تب رک وت لی نے اسدی بےقراری‬ ‫دور کرن واسطے انہ ن ٹھ ٹھ ندی اور سمٹ و سے پہ ڑ پیدافرم کے‬ ‫زمین پر ق ئ فرم ئے اور اک بج ی پہ ڑان وچ پہنچی اسے م دن ی نی‬ ‫کھ ن پیدا ہوی ن اور جد لوہ پتھر سے ٹکرای اس سے چنگ ڑی پیدا ہو‬ ‫کے اگ ابل اٹھی اور اس اگ سے دوزخ ک م دہ طی رہوا۔ ب د ازاں زمین‬ ‫نو پھیالی ۔ واالرض ب د ذلک دجہہ ت کہ حیوان ت۔ وحشی ج نور اور‬ ‫درندے اتے چوپ ئے اس وچ مق کرن۔ پھر زمین دے ست طبقے‬ ‫بن ئےاتے ہرطبقے وچ الگ الگ مخ وق ت مق ٹھرائےاور اگ دے‬ ‫ش ی ن سے جن ن نو بن ی اور زمین پر اہن ن نو مس ط فرم ی ۔ بہشت‬ ‫ستوین آسم ن تے ب ندی بخشی اور دوزخ ستوین زمین دے ت ے ق ئ‬ ‫فرم ئی اور جہ ن دی روشنی دے واسطے سورج۔ چند اور ست رے‬ ‫چمک ئے۔ فوائد نجو ۔ نور اور ظ مت دے م دی ں سے دن اور رات پھر‬ ‫تم پیدایش اتے مخ وق ت نو اپنے حبی قری پر قرب ن فرم ی ۔ وافدیت‬ ‫لکی ع یک ی محمد ص ے هللا ع یہ وس‬


‫آخری ب ت‬ ‫اگر هللا نے توفی عط فرم ئی' تو دیگر قدی و ن ی‬ ‫کروں گ ۔ یہ تحریریں بالشبہ اردو ک سرم یہ ہیں۔‬

‫تحریریں بھی پیش‬

‫قصہءآد ‘ اردو کے داست نی اد میں ایک اہ اض فہ‬ ‫میرے والد محتر قب ہ سید غال حضور الم روف ب ب شکرهللا‘ کت‬ ‫دوستی میں اپنی مث ل آپ تھے۔ ان کے ذخیرہء کت میں‘ جہ ں مطبوعہ‬ ‫کت تھیں‘ وہ ں ان کے بڑوں کے ہ تھ سے لکھے‘ ق می نسخے بھی‬ ‫تھے۔ وہ یہ س ‘ ج ن سے زی دہ عزیز رکھتے تھے۔ ان کے انتق ل‬ ‫پرمالل کے ب د‘ یہ س ح الت زم نہ ک شک ر ہو گی ۔ میرے ہ تھ بس‬ ‫دوایک ڈبے لگے۔ ا عمر کے آخری ای میں‘ مجھے اس سرم ئے کو‬ ‫مح وظ کرنے ک خی ل آی ۔ کیوں آی ‘ یہ الگ سے کہ نی ہے۔ اگر زندگی‬ ‫نے مہ ت دی‘ تو یہ س انٹرنیٹ پر رکھنے کی س ی کروں گ ورنہ‬ ‫ردی چڑھ ج ئے گ ی ڈاکٹر مس ک ل جیسے شخص کے ہ تھ لگ ج ئے‬ ‫گ ‘ جو میرے ہی گھر والوں سے‘ رق بٹور‘ کر اپنے ن سے چھ پ‬ ‫لے گ ۔ اردو‘ پنج بی ق می نسخےاور میرا لکھ اس کے تصرف میں آ‬ ‫سکے گ ‘ لیکن سیکزوں س ل پرانے پرانے ف رسی نسخوں ک کی بنے‬ ‫گ ۔ خیر جو ہو گ ‘ بہتر ہی ہو گ ۔ زندہ رہ تو ضرور کچھ نہ کچھ کرنے‬ ‫کی کوشش کروں گ ۔ مجھے میری جہ لت نے ہیشہ خوار کی ہے۔ اہل‬


‫ق کو‘ جہ لت کے سب ‘ میری بےپسی سے سب لین چ ہیے۔ انہیں‬ ‫ح ل میں موجود کو‘ اسی طرح کسی من ی ی ذات سے جڑی غرض کو‬ ‫ب الئے ط رکھ کر‘ مستقبل کو منتقل کر دین چ ہیے۔ دیر ب د سہی میں‬ ‫نے آغ ز کر تو دی ہے۔‬ ‫اردو کے داست نی اد میں‘ فورٹ ولی ک لج کی داست نیں‘ زی دہ تر‬ ‫ریک رڈ میں آئی ہیں۔ بیرون میں رج ع ی بیگ سرور کی داست ن کو‬ ‫شم ر میں رکھ گی ہے۔ ب ب ئے اردو نے مال وجہی کی نثری داست ن‘‬ ‫س رس کو داست نی اد ک حصہ بن ی ہے۔ یہ اردو میں ہے ی نہیں‘‬ ‫قط ی الگ سے بحث ہے۔ سرک ری ک رخ نوں سے ہٹ کر بھی ک ہوت‬ ‫رہ ہے۔ محق حضرات کی نظر‘ اس ج ن بہت ہی ک گئی ہے۔ عالمہ‬ ‫اقب ل کو ب طور ش عر س ج نتے ہیں‘ لیکن عالمہ مشرقی بھی ش عر‬ ‫تھے‘ کوئی نہیں ج نت ۔ یہ ہی صورت ف رسی کے فردوسی کی ہے۔ غیر‬ ‫سرک ری شخص‘ خواہ اس کی ع می وادبی حیثیت کچھ بھی رہی ہو‘‬ ‫ریک رڈ میں نہیں آ سک ۔‬ ‫ک غذ پر لکھ م مولی پرزہ بھی‘ اپنی حیثیت میں بےک ر محض نہیں‬ ‫ہوت ۔ زب ن کی ورائٹی فراہ کرنے کے س تھ س تھ اپنے بدن پر م وم ت‬ ‫سج ئے اور بچھ ئے ہوت ہے۔ اب حضور کے کت بی ورثے سے‘ ایک‬ ‫اٹھ ئیس ص ح ت ک رس لہ دستی ہوا ہے۔ اس کے پہ ے دس ص حے‬ ‫پھٹے ہوئے ہیں۔ ص حہ گی رہ سے‘ تخ ی آد ک قصہ شروع ہوت ہے‬ ‫اور یہ ص حہ ست ئیس پر خت ہوت ہے۔ ص حہ پر کت بوں کی فہرست‬ ‫اور آخر میں ن شر ک ات پت درج ہے۔ اسی لیے میں اسے‘ قصہ آد ک‬ ‫ن دینے کی جس رت کر رہ ہوں۔ یہ دراصل ف رسی سے اردو ترجمہ کی‬ ‫ہوا ہے۔ اس کی اصل خوبی یہ ہے کہ یہ دو ک لمی ہے۔ پہ ے ک ل میں‘‬ ‫اصل متن درج ہے‘ ج کہ دوسرے ک ل میں اردو ترجمہ پیش کی گی‬


‫ہے۔ ص حہ ست ئیس پر جہ ں قصہ تم ہوت ہے‘ وہ ں ن شر نے اپنی‬ ‫طرف سے فقط چ ر سطور میں کچھ لکھ ہے اور اس کے ب د اپن‬ ‫پنج بی میں‘ آٹھ اش ر پر مشتمل حمدیہ کال درج کی ہے۔‬ ‫ن شر کی چ ر سطور مالحظہ فرم ئیں‪:‬‬ ‫حمد وشکر کے ب د واضح ہو کہ یہ کت ب د الجہ ن پورانی ق می‬ ‫کوشش ہےاسکو تالش کی۔ اور اسک ترجمہ کرا کے۔ آدھے ک ل میں‬ ‫ف رسی اور آدھے ک ل میں اردو بڑی کوشش کے س تھ چھپ ئی۔ هللا‬ ‫ص ح اس ع جز کی کوشش کو قبول فرم ئے۔ اسک کوشش کرنیواال‬ ‫فقیر فضل ح ابن ح جی محمد عالؤالدین‬ ‫سے م و ہوت ہے یہ ت جرکت ہیں اور ان ک کت خ نہ پتو‬ ‫ص حہ‬ ‫منڈی نوآب د ض ع الہور تحصیل چونی ں میں تھ ۔ گوی‬ ‫اس کت‬

‫ک ن ب د الجہ ن تھ ۔‬

‫ق می نسخہ تھ جو پران تھ ۔‬ ‫دستی‬

‫نہ تھ ۔‬

‫فقیر فضل ح کے ع میں یہ کت تھی اور وہ اس سے دل چسپی‬ ‫رکھتے تھے اسی لیے اس ک کھوج لگ ی اور ش ئع کی۔‬ ‫کے مط ب یہ بہت‬ ‫اس جگہ ک موجودہ ن پتوکی ہے۔ گزٹ‬ ‫بڑی ک ٹن کی منڈی تھی اور م روف تھی‘ نوآب د نہ تھی۔ گوی کت کی‬ ‫سے پہ ے کی ٹھہرتی ہے۔ اس‬ ‫طب عت نوآب د کے حوالہ سے‘‬ ‫حس سے‘ اصل ف رسی تخ ی سو پچ س س ل اس سے پیچھے ج تی‬


‫ہے۔ ف رسی اس و تک حیرت انگیز طور پر س دہ اور ع فہ ہے۔‬ ‫‪:‬مثال یہ جم ے ب طور نمونہ مالظہ ہوں‬ ‫م ر سی ہ دہن کش دہ اب یس جست زدہ در دہن او ج کرد۔ بمجرد رفتن‬ ‫در دہن اب یس کرد۔ کہ ازاں زہر پیدا شد چوں ط ؤس گ ت خو‬ ‫ل‬ ‫کردی۔ ازیں سخن پ ئے او سی ہ شدند۔‬ ‫مترج کے مت‬

‫آخر میں م وم ت موجود ہیں‪:‬‬

‫محمد حسن۔‬ ‫س کن نشی لبیہ۔ ض ع مظ ر گڑہ۔‬ ‫ح ل مدرس‬ ‫مترج نے‘ ک ی طور پر ل ظی اور ب مح ورہ ترجمہ نہیں کی ہے‘ ت ہ‬ ‫ترجمہ بے لذت اور بے ذائقہ بھی نہیں ہے۔ مترج نے‘ اردو ف رسی‬ ‫اش ر‘ حک ی ت اور موقع کے مط ب احک م ت ک اض فہ کی ہے۔‬ ‫ترجمے میں ایک دو جگہ پر‘ عج ت ک گم ن گزرت ہے۔ وق ے کے‬ ‫عالوہ‘ کسی عالمت ک است م ل نہیں ہوا ہے۔ عالمتیں ان کے ہ ں‬ ‫مستمل نہیں ہوں گی ی اصل کی ییروی میں‘ صرف سکتے سے ک لی‬ ‫گی ہے۔‬ ‫اس قصے کے ب ض مندرج ت سے کوئی مت ہو ی ن ہو‘ اس میں‬ ‫داست نی لوازم ت بہرطور موجود ہیں۔ تم کردار‘ اپنے ہونے اور اپنے‬ ‫کیے ک احس س دالتے ہیں۔ کہ نی میں دل چسپی ک عنصر موجود ہے۔‬ ‫رائٹر موقع م تے ہی‘ موقع کے مط ب اخالقی پیغ بھی چھوڑت ہے۔‬ ‫س سے بڑی ب ت یہ ہے کہ یہ ب ق عدہ ایک پالٹ پر استوار ہےاور‬


‫اس میں ایک ب ربط کہ نی موجود ہے۔ اسے اردو کے داست نی اد میں‘‬ ‫ایک اہ اض فہ قرار دین غ ط نہ ہو گ ۔‬ ‫اس قصے کے مط ل ہ سے‘ ق بل غور اور الگ سے م وم ت بھی‬ ‫میسرآتی ہیں۔ م روف یہ ہی چال آت ہے‘ کہ دانہءگند پہ ے حضرت آد‬ ‫ع یہ السال نے کھ ی ‘ ج کہ اس قصہ سے م و ہوت ہے‘ کہ‬ ‫دانہءگند پہ ے ام ں حوا نے کھ ی ۔ اسی طرح یہ بھی پت چ ت ہے‘ کہ‬ ‫حضرت آد ع یہ السال کی پ نچ سو ج ت ی نی ہزار اوالدیں تھیں۔ یہ‬ ‫بھی م و ہوت ہے‘ کہ بت پرستی ک آغ ز ق بیل سے ہوا۔ مزید چند ایک‬ ‫مث لیں مالحظہ ہوں۔‬ ‫ج فرشتوں نے سر اٹھ ی ۔ تو شیط ن کے گ ے میں ستر‬ ‫ک طو پڑ گی ۔‬

‫من ل نت‬

‫جہٹ فرشتوں نے دوسرا سجدہ کی ۔‬ ‫پہال ک مہ هللا واحد الشریک ہے آد ص ی هللا ک ہے۔ دوسرا ک مہ هللا‬ ‫ت لے واحد اسک کوئی شریک نہیں محمد بندہ هللا ک ہے پیغمبر ہے جن‬ ‫ک۔‬ ‫آد اور حوا کو آسم ن پر ب‬

‫عدن بہشت میں الؤ۔‬

‫اسوقت بہشت سے ب ہر ج ن بغیر گند کہ نے کے مح ل تھ ۔ حوا نے کہ‬ ‫لی ۔ مگر ادھ دانہ نہ کہ ی تھ ۔‬ ‫آد نے بھی دانہ ب قیم ندہ نصف کہ لی بوجہ۔۔۔۔ تو اسکو پ خ نہ کی‬ ‫ح جت پڑ گئی۔‬ ‫آخر ب د ستر برس کے حوا اور آد کی مالق ت ہوئی۔‬


‫ک بیل کو چونکہ محبت تہی الش کو پھینکن ن گوار سمجہکر اپنی پشت‬ ‫پر اٹھ لی ۔ چن نچہ چھ م ہ ک عرصہ گذر گی ۔‬ ‫جبرائل بحک ر ج یل انکو بہشت میں لیگی ۔ تین ہزار برس عدن میں‬ ‫آد ع یہ السال رہے‬ ‫کہتے ہیں کہ حضرت آد فرزند پ نچسو ج ت تھے۔‬ ‫عورتیں دین اورعقل میں دسترس نہیں کر سکتیں۔‬ ‫اور کہ کہ ہر صبح نہ کر ط‬

‫کھ ن اور اس بت کو سجدہ کرتے رہن ۔‬

‫ل ظوں کی امال مخت ف تھی۔ مثال‬ ‫خود میں ان ک سر طی ر کروں گ ۔‬ ‫نوں غنہ ک حشوی است م ل موجود نہ تھ ۔ مثال‬ ‫دونو کوے ق بیل کے روبرو لڑتے ہوئے‬ ‫م ب پ بیٹ ایکدوسرے کو دور کر دے گ ۔‬ ‫نون غنہ کی جگہ‘ لون ک است م ل بھی کی ج ت تھ ۔ مثال‬ ‫میں اس زم نہ عیش و عشرت کر لون۔‬ ‫ل ظوں کو مال کر است م ل کرن عمومی اور مست مل رویہ تھ ۔ مثال‬


‫نیچے سے تمکو دکھ ئی دیگ‬ ‫سوچکر کہنے لگ ۔‬ ‫اس گھر رحمت نہیں اتریگی۔‬ ‫گند کہ نیکی وجہ سے‬ ‫اپن ہی ہر ایک بوجھ اوٹھ ئیگ ۔‬ ‫ایکدف ہ بہشت میں ج نے دو‬ ‫ق بیل نے دیکہکر ویس کی ۔‬ ‫ب ض ل ظوں ک است م ل اور ت ہی ‘ آج سے الگ تر ہے۔ مٹال‬ ‫آد ک برح ل رہ ۔‬ ‫قبر کے کھودنے کی تجویز ک بیل کو م و نہ تہی۔‬ ‫شیط ن پروردگ ر جل عزاسمد کے مخ لف اصالح کرنے لگ ۔‬ ‫فرشتوں نے خدائے عزوجل کے حک سے آد کے قد کو بن ی‬ ‫زمین پر ڈالدے ت کہ میرے قد ک م ئنہ کریں۔‬ ‫انہوں نے مٹی بودار د کی‬ ‫تجہے موت کیچ شنی دونگ ۔‬ ‫اسواسطے کہ میں نہ ئت رض مند ہوں آد سے۔‬ ‫دونوں ک مہ ک ح ظ کی کرو‬


‫میوہ وغیرہ ک ن شتہ کرو‬ ‫شیط ن نےس نپ کے ہ ں کہ تھ‬ ‫بہشت کے ب ہر آد کی جستجو کریں۔‬ ‫دین اورعقل میں دسترس نہیں کر سکتیں‬ ‫قدی اور جدید اردو میں‘ مونث اور مذکر ک است م ل مخت ف ہے‘ یہ‬ ‫است م ل اپنی اصل میں درست ہے‘ لیکن آج رائج نہیں۔ مثال‬ ‫تجہکو خوف نہیں آئی تو م ون ہوا ہے۔‬ ‫بہشت کے درب ن کے پ س ام نت ج رکھ ۔‬ ‫ج حوروں نے آواز سن‬ ‫مح وروں ک است م ل اور م نوی ب د بھی موجود ہے۔‬ ‫س کو ہ تھ افسوس م ن پڑے گ ۔‬ ‫اسنے کوے کو وہیں گ ڈ دی ۔‬ ‫ایک سنگ راست کرکے انکو دیدی‬ ‫حیض کی بیم ری ع رض ہو گئی۔‬ ‫ہر صبح نہ کر ط‬

‫کھ ن‬

‫آد کو بہی جستجو کی تو نہ پ ی ۔‬


‫اپنی جگہ کرتے ہی س نپ کے منہ میں ل‬

‫ڈالدی۔‬

‫ت زمین پر ج ٹھہرن‬ ‫یہ عمل درآمد کرکے آسم ن ج ن کی ۔‬ ‫بولن بھی ص ی کو پہونچ ت ہے‬ ‫گردن موڑن موج غض ہے۔‬ ‫خوا نہیں کرت تھ‬ ‫پ خ نہ کی ح جت پڑ گئی۔‬ ‫تسبیحیں کہتے تھے۔‬ ‫حور سے پرہیز کر گی ہے‬ ‫پرہیز کر گی کو ت‬

‫کی استواری کے لیے لی گی ۔‬

‫س بقوں اور الحقوں ک است م ل آج سے قط ی مخت ف ہے۔ مثال‬ ‫جبرائیل نے غصہ ن ک ہو کر‬ ‫بی رم نی کے بہشت سے بہت اہ نت کے س تھ نک لنے والے ہیں۔‬ ‫ک بیل۔ تو بی رم ن ہو گی ہے‬ ‫ضم ئر میں واؤ کی بڑھوتی کر دی ج تی تھی۔ مثال‬ ‫متکبر اونکو پست سمجھے۔‬


‫اونہوں نے کہ‬ ‫اوس نے کہ مجہکو اتنی ط قت ہے۔‬ ‫اون کی ن ف پر اپنے منہ سے ل‬

‫نک لکر لگ لی‬

‫مص در میں بھی‘ واؤ کی بڑھوتی موجود تھی اور یہ عمومی اور‬ ‫مست مل چ ن تھ ۔ مثال‬ ‫جسوقت نیند میں ہووے‬ ‫خط پ وے جو وہ ن ری ہے‬ ‫آد بہشت میں ج ویگ ۔‬ ‫پرانی اردو میں‘ بھ ری آوازوں سے زی دہ‘ ہ کی آوازوں ک است م ل کی‬ ‫‪:‬ج ت تھ ۔ اس کت سے‘ اس ذیل میں‘ چند ایک مث لیں مالحظہ ہوں‬ ‫ت مس م ن کبہی نہیں ہو گے بھ‬ ‫تہوڑے دنوں کے ب د تھ‬ ‫ایک روز حوا رضی هللا عنہ بیٹہے تھے ٹھ‬ ‫مجہے اس بت سے بدبو آتی ہے۔ جھ‬ ‫جہٹ فرشتوں نے دوسرا سجدہ کی ۔ جھ‬ ‫اونہوں نے پوچہ تمہ را کی ن ہے۔ چھ‬ ‫ورنہ پچہت ن پڑیگ ۔ چھ‬


‫یہ نہ ئت اندہیر کوٹھ ہے۔ دھ‬ ‫ال حول پڑہت رہے ڑھ‬ ‫پھر بہشت کو دیکہوں گ ۔ کھ‬ ‫ج اندر گہس گی گھ‬ ‫بھ ری آوازیں بھی است م ل میں تھیں۔ مثال‬ ‫افسوس میں کوے سے بھی کمتر ہوں۔ بھ‬ ‫پھر ج ن ک کو روح پہونچی پھ‬ ‫پہ ے ن ر ہی سے تھ تھ‬ ‫فرشتوں نے سر اٹھ ی ٹھ‬ ‫اونکو پست سمجھے۔ جھ‬ ‫پوچھنے لگے وہ کہ ں ہے۔ چھ‬ ‫مثال ہ تھ دھون ۔ منہ دھون ۔ دھ‬ ‫درب ن کے پ س ام نت ج رکھ ۔ کھ‬ ‫سو جس گھر کت ہو گ گھ‬ ‫فصل در بی ن مہتر آد ع یہ السال اور ہ بیل اور ک بیل کے بی نمیں‬


‫فرم ت ہے پروردگ ر۔ اے آد خبر دی اونکو شیط ن کے ن سے ج‬ ‫آد نے ن بتالئے تو حک سجدہ ک ہوا۔ ج چوتھی قرن کی آمد ہوئی‬ ‫تو خداوند ت لی نے حک دی جبرائیل میک ئیل اسرافیل عزرائیل عزازیل‬ ‫کو کہ ت زمین پر ج ٹھہرن ۔ فرشتوں نے حس فرم ں ر الج یل زمین‬ ‫پر آتے ہی حک سن ایک مرد دری کے نیچے سے تمکو دکھ ئی دیگ‬ ‫وہ نورمحمد ع یہ السال ہو گ ۔ اور گل آد ہو گی اوسکو لیکر آد ک‬ ‫اعص راست کرن ۔ اگر تمکو کچھ راست کرنیکی تجویرید ہو۔ تو ست رہ‬ ‫جو آد کے قد مواف ہیں انکے برابر بن ن ۔ اور خود میں ان ک سر طی ر‬ ‫کروں گ ۔ فرشتوں نےیہ عمل درآمد کرکے آسم ن ج ن کی ۔ ب د اسکے‬ ‫عزازیل کے دلمیں آی ۔ کہ کل کو یہ گل آد بہشت میں ج ویگ ۔ ہ کی‬ ‫کرینگے۔ اس ح لت اسکے غ پیدا ہوا۔ چ ہ کہ کسی اٹکل سے اسکو‬ ‫الئ بہشت کے نہونے دیں۔ سوچنے کی ب ت ہے۔ تکبر یہ ہے کہ جسک‬ ‫مرتبہ خدا عزجل نے ع و کو پہونچ ی ہو۔ متکبر اونکو پست سمجھے۔‬ ‫فی الحقیقت وہ ح کے مخ لف کرنیکی وجہ سے متکبر خدایت لی ک‬ ‫مق بل بن گی ہے۔ ۔۔۔۔چ ہیے کہ حک خدا کے سرکشی سے ب ز رہیں۔‬ ‫ورنہ تکبر یہی ہے ب ینہ اس غدر سے خط پ وے جو وہ ن ری ہے ۔۔۔۔۔‬ ‫وہ طو عزازیل اسکے گ ے ہو۔ خبیث اور م ون کہینگے۔ ص‪-‬‬ ‫یہی سوچ کر کہ بہشت کے الئ نہو۔ گھوڑوں کی طرف گی ۔ انکے ہ ں‬ ‫کہنے لگ کہ ت خوشی کر رہے ہو۔ اور تمہ رے واسطےآد پیدا ہو چک‬ ‫ہے۔ کل تمہ ری پیٹھ پر سواری کریگ ۔ تمکو تکیف پہونچ دے گ ۔‬ ‫اونہوں نے جوا دی کہ ہم رے م لک کی خوشنودی اسی میں ہے تو‬ ‫ہ نہ یت رض مندی سے انک محکو ہون پسند کرینگے۔ شیط ن نے‬ ‫سوچ میرا داؤ یہ تو نہ لگ ۔ کوئی اور تجویز کرنی چ ہیے۔ سوچکر‬


‫کہنے لگ ۔ عج ہے کہ ت اورآد ایک خ ل کی پیدائش ہیں۔ وہ آد ت‬ ‫پر سواری کر۔ الی قل گھوڑوں نے داؤ کھ لی ۔ پوچھنے لگے وہ کہ ں‬ ‫ہے۔ اب یس م ون نے کہ کہ جو ن ف زمین ک ہے وہ ں ہے۔ جھٹ دوڑ‬ ‫کر پ ش پ ش کر دی ۔ پھر ب رہ س ل کے عرصےکے ب د س فرشتوں کو‬ ‫حک ہوا۔ کہ دوسری دف ہ آد ک بت بن ؤ۔ شیط ن پروردگ ر جل عز اسمد‬ ‫کے مخ لف اصالح کرنے لگ ۔ اور کہ اے میرے ر اگر حک ہو تو‬ ‫نور ی ن ر ی ہوا ی پ نی سےآد ک بت بن ئیں۔ اسواسطے کہ زمین مین‬ ‫بےزب ن ج نور ہیں۔ انکو توڑ ڈالتے ہیں۔ خط عزوجل ہوا۔ اال یہ میں‬ ‫خو ج نت ہوں تمکو خبر بہی نہیں۔ آد ک قد پہ ی طرح بن ؤ۔ دیکہو یہ‬ ‫اصالح مخ لف ر ت لے اب یس کر رہ ہے۔ یہی مرحب ہو ہے۔ ص۔‬ ‫مخ لف حک ر الج یل اپنی رائے اور اصالح کو دخل دین موج ہالکت‬ ‫ہے۔ اس سے پرہیز کرن ۔ شیخ س دی ع یہ الرحمتہ فرم تے ہیں۔ بیت‬ ‫اگر ش ہ روز را گوند ش است ایں ۔۔۔۔۔۔۔۔ بب ئید گ ت اینک مہ پرویں‬ ‫مخ لف صالح کو کہ ں۔ بولن بھی ص ی کو پہونچ ت ہے۔ فرشتوں نے‬ ‫خدائے عزوجل کے حک سے آد کے قد کو بن ی ۔ لکن بن کر واپس‬ ‫آسم ن پر اپنے اپنے مک ن پر چ ے گئے۔ اب یس اکیال آد کے پ س رہ ۔‬ ‫نک لکر لگ لی‬ ‫ج آد اکیال ہوا تو اون کی ن ف پر اپنے منہ سے ل‬ ‫پھر آسم ن پر چال گی ۔ پھر دس برس کے ب د هللا ت لی ک حک ہواکہ‬ ‫اے جبرائیل میک ئیل س ج کر ع یتیں جو مق چوتھے آسم ن پر ہے‬ ‫وہ ں سے روح آد ع یہ السال ک لیکر انکے بدن میں ڈالو۔‬ ‫ج فرشتے پروردگ ر کے حک سے روح پ ک کو پردہ میں لیکر بت‬ ‫کے قری الئے۔ تو روح القدس کو جسوقت ڈالنے لگے اس نے کہ کہ‬


‫مجہے اس بت سے بدبو آتی ہے۔ خدا کی جن میں آد نے عرض کی‬ ‫اے ب ر خدای مجہے بدبو آتی ہے۔ اس سے مجہے پن ہ میں رکھ۔ خدا‬ ‫مہرب ن نے حک دی کہ اے جبرائیل جو جگہ بدبودر ہے اونکو دور کر‬ ‫شیط ن سے کت‬ ‫دے۔ ج انہوں نے مٹی بودار د کی تو اس مٹی ل‬ ‫پیدا ہوا۔ وہ کت آواز کرت بت کے قری بیٹھ گی ۔ وہ فرشتے روح مقدس‬ ‫کو س تھ لیکر آسم ن پر چ ے گئے۔ حتے کہ ستر برس کے عرصہ تک‬ ‫قد آد بم ہ سگ وہ ں رہ ۔ ی نی فرشتوں کو آنے نہیں دیت تھ ۔ ص‪-‬‬ ‫اور وہ کت کسی فرشتہ اور حیوان کو س تھ گزرنے نہ دیت تھ ۔ خوا‬ ‫سے دارمٹی سے‬ ‫نہیں کرت تھ ۔ یہی وجہ ہے کہ کت اب یس کی ل‬ ‫ہے۔ شیط ن مردودورحمت سے محرو ہے ب کہ جس جگہ شیط ن ہو‬ ‫رحمت نہیں ہو گی۔ سو جس گھر کت ہو گ بغیر ضرورت ح ظت ی‬ ‫شک ر خواص کے اس گھر رحمت نہیں اتریگی۔ ات ق اراوت ازلی اسکو‬ ‫نیند آ گئی۔ فرشتوں کو حک ہوا شت بی روح قدس آد کے بدن میں ڈالو۔‬ ‫ج جرائیل حس فرم ن ر ت لے بم ہ مقرب ن پردہ سے روح مقدس‬ ‫کو لیکر آئے تو روح مقدس نزدیک بت کے پہونچکر کہ کہ یہ نہ ئت‬ ‫اندہیر کوٹھ ہے۔ ی ر ت لے مجہےاپنے فضل سے ایکدف ہ اسی جگہ‬ ‫سے مجہے نک لن ۔ ت کہ میں اس زم نہ عیش و عشرت کر لون۔ هللا‬ ‫ت لے نے حک دی کہ تجہے ضرور ایکدف ہ اس بدن سے نک لوں گ ۔‬ ‫اور وہ نک لن تمہ ری موت ہو گ ۔ پروردگ ر فرم ت ہے س چیز کو مرن‬ ‫ہے مگر هللا کو نہیں ہے۔ تجہے موت کیچ شنی دونگ ۔ اورآد ک سر‬ ‫خدایت لے نے سنگ مرمر سے راست کی تھ ۔ اسی وجہ سے آدمی ک‬ ‫سر سخت ہوت ہے۔ اورج روح مقدس میں ڈالی گئی۔ تو سر کے راستہ‬ ‫ڈالی گئی۔ ص۔‬


‫اور ارش د فرم ت ہے هللا ت لے میں نے روح مقدس کو ڈالکر بدن میں‬ ‫آد کے کہ اسکوسجدہ کرو۔ ج آد نے آنکھ کہولی تو روح نے آنکھ‬ ‫کے ذری ہ سے جہ ن کو دیکھ کر خوشی ح صل کی۔ پھر ج ن ک کو‬ ‫روح پہونچی تو آد ع یہ السال کو چھینک آئی۔ تو کہ س ت ریف هللا‬ ‫ت لے کی ذات کو ہے جو ر ال مین ہے ج روح منہ میں آئی تو ہر‬ ‫قس کی چ شنی گیر ہوئی۔ آد ع یہ السال نے ویسی ہی خدائے خ ل‬ ‫کی حمد کہی۔ پھر خداے یت لے نے فرشتوں کو حک دی کہ آد ع یہ‬ ‫السال کو سجدہ کرو۔ اسواسطے کہ میں نہ ئت رض مند ہوں آد سے۔‬ ‫بمجرد حک ح ک ت لے کےس فرشتوں نے سجدہ کی مگر اب یس‬ ‫مردود نے کہ ۔ کل میں نے اپنے ہ تھ سے بن ی ہےیہ مجہے درجہ میں‬ ‫بھی ہے۔ اسی وجہ حقیر ج ن ۔ اور احک الح کمین کے حک سے عدول‬ ‫کی ۔ م مون مقہور ہوا۔ ح ک حقیقی کے حک سے گردن موڑن موج‬ ‫غض ہے۔ ج غال حبشی درجہ میں بڑھ ج ئے تو اسک حک عین‬ ‫پروردگ ر ک ہوت ہے۔‬ ‫اس سے سرکش نہون ورنہ پچہت ن پڑیگ ۔ کسی نے سچ کہ ہے۔ بیت‬ ‫حکمران ہو کوئی بچ پن ہو ی بیگ نہ ہو‬ ‫دی خدا نے جسے عزت اسکی عزت چ ہئے‬ ‫ص‪-‬‬ ‫عزتدار کی ذلت کرن اپنی ذلت ک موج ہے۔ ج فرشتوں نے سر‬ ‫اٹھ ی ۔ تو شیط ن کے گ ے میں ستر من ل نت ک طو پڑ گی ۔ م و‬ ‫ہوا کہ هللا ت لے کے حک سے سرکش ہوا ہے۔ جہٹ فرشتوں نے‬


‫دوسرا سجدہ کی ۔ اب یس نے عرض کی آپ ک حک ایک سجدہ ک تھ ۔ یہ‬ ‫دوسرا سجدہ کیوں کر رہے ہیں۔ حک ہوا میرے خوف سے سجدہ میں‬ ‫پڑے ہیں۔ تجہکو خوف نہیں آئی تو م ون ہوا ہے۔ میرے حک کو پس‬ ‫پشت کر دی ہے۔ میں نے تجہے مردود کی ہے۔ تیری عب دت دنی میں‬ ‫تجہے دوں گ اور آخرت میں تو عذا الی ک مستح ہو گ ۔ پھر‬ ‫عزازئیل کہ ن انک پہ ے ن ر ہی سے تھ ۔ آد ع یہ السال سے بھ گ‬ ‫گی ۔ تہوڑے دنوں کے ب د جبرائیل نے آد ع یہ السال کو یہ ک مے‬ ‫سکھ ئے وہ یہ ہیں۔ پہال ک مہ هللا واحد الشریک ہے آد ص ی هللا ک‬ ‫ہے۔ دوسرا ک مہ هللا ت لے واحد اسک کوئی شریک نہیں محمد بندہ هللا‬ ‫ک ہے پیغمبر ہے جن ک ۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫اور سمجہ ی کہ ان دونوں ک مہ ک ح ظ کی کرو ج آد ع یہ السال‬ ‫زمین پر سو گئے تو انکے ب ئیں کروٹ سے حوا رضی هللا عنہ پیدا‬ ‫ہوئی۔ پھر ج دی خدا ک حک ہوا کہ اے جبرائیل آد اور حوا کو آسم ن‬ ‫پر ب عدن بہشت میں الؤ۔ جبرائل بحک ر ج یل انکو بہشت میں‬ ‫لیگی ۔ تین ہزار برس عدن میں آد ع یہ السال رہے جبکہ ر ت لے‬ ‫ارش د فرم ت ہے ی د کرو اے محمد کی ہمنے اے آد بمہ اپنی جورو‬ ‫بہشت میں رہ ص‬ ‫میوہ وغیرہ ک ن شتہ کرو اور اس درخت کے قری ہرگز نہ ج ن ۔ نہیں‬ ‫تو ظ ل ہو ج ؤ گے۔ ج گذرنے کو مدت پہونچی تو ایکدن عزازئیل‬ ‫ایک گوس ند لیکر بہشت کے درب ن کے پ س ام نت ج رکھ ۔ اور کہ‬ ‫حس ضرورت تمسے لے لوں گ ۔ درب ن نے کہ بہت اچھ ۔ لکھتے ہیں۔‬ ‫کہ آد اور حوا نے درب ن سے پوچھ یہ دنبہ کہ ں سے آی ہے۔ انہوں‬ ‫نے کہ عزازئیل کی ام نت ہے۔ آد ع یہ السال نے جھٹ ذبح کرکے کھ‬


‫لی ۔ اب یس چند ای کے ب د آی ۔ اب یس نے فرشتوں سے ام نت ط‬ ‫کی۔انہوں نے کہ ۔ کہ آد ع یہ السال نے نوشج ں فرم ی ہے۔ اب یس‬ ‫خوش ہو کر آواز کرنے لگ ۔ اے بیٹے واسوس کہ ں گیے ہو۔ جوا دی‬ ‫کہ میں آد اور حوا کے سینے میں گھر بن ئے بیٹھ ہوں۔ شیط ن نے‬ ‫کہ رحمت ہو تمکو۔ کہ پہال ن س آد ک تو بن ہے۔ جیس کہ ر ت لے‬ ‫ارش د فرم ت ہے ی نے وہ انس ن کے سینے میں وسوسہ ڈالنے واال‬ ‫آدمی اور جن سے ہے۔ ج تین ہزار برس تم ہوئے۔ تو شیط ن بہشت‬ ‫کے دروازے پر ایکدن پہونچ ۔‬ ‫ص۔‬ ‫اسوقت ک ال س نپ اور ایک مور درب نی کر رہے تہے۔ انکے ہ ں ج کر‬ ‫کہنے لگ مجہے ایکدف ہ بہشت میں ج نے دو میں تجہکو تین ہزار‬ ‫فری ان کروں گ ۔ اونہوں نے پوچہ تمہ را کی ن ہے۔ جوا دی ۔ کہ‬ ‫میرا ن عزازیل ہے۔ اونہوں نے کہ کہ تجہکو اندر ج نے ک حک نہیں۔‬ ‫اسواسطے کہ تو م ون ہوا ہے۔ الئ بہشت تو نہیں ہے۔ اوس نے کہ‬ ‫مجہکو اتنی ط قت ہے۔ اگر ت مجہکو اپنی آنکھ جگہ دیویں تو غ ئ ہو‬ ‫ج ؤں گ پھر بہشت کو دیکہوں گ ۔ اسوقت م ر و کوا درب ن تھے۔ اور‬ ‫مور اندر تھ ۔ س نپ نے کہ اگر ت ج دی ب ہر آؤ گے۔ تو تمکو لے ج ت‬ ‫ہوں۔ س نپ نے وعدہ کی ج دی ب ہر آؤنگ ۔ س نپ نے منہ کھوال۔ جھٹ‬ ‫شیط ن اسکے منہ میں گھس گی ۔ اپنی جگہ کرتے ہی س نپ کے منہ‬ ‫ڈالدی۔ کہ اس سے یہی زہر پیدا ہوا ہے۔ اوسوقت مور نے‬ ‫میں ل‬ ‫کہ ۔ تمنے بہت اچہ کی ۔ اس ب ت کے کہنے سے اس کے پ ؤں سی ہ ہو‬ ‫گئے۔ لیکن شیط ن نےس نپ کے ہ ں کہ تھ کہ اندر میں جو کچہ میں‬ ‫کروں ت چپ چ پ رہن چن نچہ س نپ نے ایس ہی کی ۔ ج اندر گہس گی‬ ‫تو شیط ن رونے پیٹنے لگ ۔ ص۔‬


‫ج حوروں نے آواز سن تو حیران ہو کر خ زن بہشت کو کہنے لگیں‬ ‫کہ تمکو کی ہوا کہ اب یس کو ت نے اندر آنے دی ۔ اور تمہ رے منہ سے‬ ‫آواز کر رہ ہے۔ کہ اے حوا سنو آد اور حوا گند سے محرو ہیں۔ اوہ‬ ‫اچھ ط ہے۔ اور دوسرا یہ کہ آد ایک حور پر ع ش ہو گی ہے۔ اور‬ ‫حور سے پرہیز کر گی ہے۔ وہ اس حور کے س تھ مزے اڑا رہ ہے۔‬ ‫ج حوا نے یہ ب ت سنی تو بہت پریش ن ہوئی۔ آد کو بہی جستجو کی‬ ‫تو نہ پ ی ۔ اسوقت حوا کو اس ل ین کے مکروفری ک خی ل بھول گی‬ ‫تھ ۔ جھٹ حوا کو خی ل آی کہ بہشت کے ب ہر آد کی جستجو کریں۔‬ ‫اسوقت بہشت سے ب ہر ج ن بغیر گند کہ نے کے مح ل تھ ۔ حوا نے کہ‬ ‫لی ۔ مگر ادھ دانہ نہ کہ ی تھ ۔ اس حیض کی بیم ری ع رض ہو گئی۔‬ ‫کہتے ہیں عورتیں دین اورعقل میں دسترس نہیں کر سکتیں۔ اسوقت‬ ‫سے حی اور شر شروع ہو گی ہے۔ ب د اسکے جبرائیل امین کو حک‬ ‫سرک ر اعظ سے ہوا کہ حوا کو بم ہ س نپ اور کبودک اور مور ب ہر‬ ‫نک لیں اور زمین پر ڈالدے ت کہ میرے قد ک م ئنہ کریں۔ جبرئیل ع یہ‬ ‫السال حس الحک ک روائی شروع کرکے نک لدی ۔ ج آد کو خبر گذری‬ ‫کہ حوا کو گند کہ نیکی وجہ سے هللا ت لے نے بہشت سے نک لکر‬ ‫زمین پر ڈالدی ۔ جھٹ آد نے بھی دانہ ب قیم ندہ نصف کہ لی بوجہ۔۔۔۔ تو‬ ‫اسکو پ خ نہ کی ح جت پڑ گئی۔ اسوقت حک ہوا کہ اے جبرائیل ج کر‬ ‫بہشت سے آد کو برہنہ کرکے نک لدے۔ بوجہ اسکے کہ میرا ن فرم ن‬ ‫ہوا ہے اور یہ ں ن پ کی کرت ہے اور بہشت پ ک جگہ ہے۔ ص۔‬ ‫ج جبرائیل هللا کے حک سے بہشت میں گئے تو کی دیکھتے ہیں کہ‬ ‫آد ع یہ السال گند سے اپن پیٹ بھرے کھڑا ہے۔ جبرائیل نے غصہ‬ ‫ن ک ہو کر تم کپڑے مثال ج مہ دست ر ٹوپی وغیرہ چھین لئے۔ ج سر‬ ‫سے کالہ ات ری تو آد ع یہ السال نے اپنے ہ تھوں کو سر پر کر لی ۔‬


‫اس وجہ سے سر ک مسح فرض ہے ی نے چہ رفرض اسوقت کے بہی‬ ‫ہیں۔ مثال ہ تھ دھون ۔ منہ دھون ۔ سر ک مسح کرن ۔ پ ؤں ک دھون ۔ پھر‬ ‫کپڑے اوت ر کر آد جو ہم رے ب پ ہیں پیغبر خدا۔ مقبول خدا کہ بوجہ‬ ‫مذکور کے پکڑ زمین پر ڈالدی ۔ کل شی مرجع اے اص ہ خ کی آد خ ک‬ ‫کیطرف گی ہے۔ وہ کوہ ق ف میں رہے۔ ستر برس تک حوا ع یہ السال‬ ‫سے جدا رہے۔ آد کے رونے سے ف ل بیدا ہوئی۔ اور حوا کے رونے‬ ‫سے مروارید بنگئے۔ وہ جبرائیل جو پہ ے ت ظی و تکری کرنے واال‬ ‫تھ ۔ وہی بوجہ ایک بی رم نی کے بہشت سے بہت اہ نت کے س تھ‬ ‫نک لنے والے ہیں۔ مولوی رو ص ح فرم تے ہیں۔‬ ‫یک گن ہ چوں کرد گ تندش تم‬ ‫مذہنی مذہنی بیروں خرا‬ ‫تو طمع میداری چندیں گن ہ‬ ‫داخل جنت شوی اے روسی ہ‬ ‫ص۔‬ ‫آخر ب د ستر برس کے حوا اور آد کی مالق ت ہوئی۔ کسی نے کہ ہے۔‬ ‫بیت‬ ‫ہر د دع ہ میکن بر خ ک مے ع ل جبیں‬ ‫جمع کن ب د و ست ی ج مع المت رقیں‬ ‫پھر حک جبرائیل کو ہوا کہ ایک جوڑا اور کچہ گند بہشت سے لیکر‬ ‫آد کو دیدے۔ جبرائیل نے آد کو جوڑا اور کچہ گند حوا کو دیدی اور‬ ‫کچہ آد کو دی۔ خدا کے حک سے ہل جوت کر بیج ڈاال۔ آد کے بیج‬


‫سے گند اور حوا کے بیج سے جو پیدا ہوئے۔ حک یت‬ ‫ایک روز حوا رضی هللا عنہ بیٹہے تھے مت کر ہو کر۔ بہشت کی‬ ‫ن متیں ی د کر رہے تھے۔ تسبیحیں کہتے تھے۔ کہ ر ج یل رحمن۔‬ ‫غ ورالرحی من ن تیرا ہر وقت احس ن بہشت میں عجی ن متیں تو دیت‬ ‫تہ ۔ شربت پالت تھ ۔ شیر شہد سے عجی تھے۔ ا آپنے کبھی نہیں‬ ‫عن یت فرم ئی میرا بخت سی ہ ہے تیری ن فرم نی سے ن گ ہ خند میں‬ ‫گر گئی ہوں۔ کوئی پوچھت نہیں۔ بیت‬ ‫ی د میں ن مت کے رہے ہر د‬ ‫کھ تے تھے بہشت ذو سے پیہ‬ ‫ح شیہ‪ :‬ہندوانہ اور خربوزہ وہ ں کے ہیں‬ ‫ص۔‬ ‫فری د سن کر هللا ت لے فرم ی ۔ کہ اے جبریل دو خربوزہ لیکر ایک حوا‬ ‫کو دوسرا کو دیدے جبریل ویس ہی کی ۔ حوا ح م ہ تھیں۔ اسوجہ سے‬ ‫حوا ک خربوزہ ہندوانہ بن گی ۔ اور آد ک برح ل رہ ۔ ایکدن جبریل کو‬ ‫حک ہوا کہ حوا کے ہ ں دو بچے صبح اور دو بچے ش ہونگے اور‬ ‫دو بچے پہ ے پیدا ہوں انکو شت بی جدا کرن اور انک ن ہ بیل اور ک بیل‬ ‫رکہن ۔ اور جو لڑکی ں ش کو پیدا ہوں پہ ی ہ بیل کو اور دوسری ک بیل‬ ‫کو بی ہ دین ۔ ات ق دوسری لڑکی ایک آنیکھ سے دیکھ نہ سکتی تہی۔‬ ‫ک بیل نے منظور نہ کی ۔ اور ہ بیل کی عورت کو لی ۔ ج آد ع یہ السال‬ ‫تہوڑی دیر کے ب د آئے تو کہ ۔ اے ک بیل۔ تو بی رم ن ہو گی ہے اور‬ ‫غضبن ک ہو کر ک بیل کو کہ ۔ تو نے برا کی ۔ اور تو ک فر بن گی ہے۔‬ ‫مجھ سے ت دونو دور ہو ج ؤ۔ اور کہیں اور زراعتک ری کرو اور اپن‬


‫بسیرا کرو۔‬ ‫ندا آید درانگہ دور شو دور‬ ‫قی مت کے روز جسطرح حضرت آد ع یہ السال اپنے مقر بیٹے کو‬ ‫ن فرم نی کی وجہ سے دور کر رہ ہے۔ اسی طرح م ب پ بیٹ‬ ‫ایکدوسرے کو دور کر دے گ ۔ اور اپن ہی ہر ایک بوجھ اوٹھ ئیگ ۔ ص۔‬ ‫االئیہ۔ بغیر عمل توحید کے رسول بھی ش عت نہ کرینگے۔ س کو ہ تھ‬ ‫افسوس م ن پڑے گ ۔ شیخ عط ر فرم تے ہیں۔ بیت۔‬ ‫ہست س ط نی مس مرا درا نیست کس را زہر چوں وچرا‬ ‫عذر م ذرت کچہ ک نہ آئیگی۔ چن نچہ آد و حوا بغیر پرسش نک لے‬ ‫گئے۔ بی رم ن ک بغیر پرسش دوزخ ج ن پڑیگ ۔ اع ن هللا وابوان و‬ ‫است ذن و س ئرالمس مین امیں۔ شیخ س دی فرم تے ہیں۔ ست بر ض ی ن‬ ‫مسکین مکن۔۔۔۔۔کہ ظ ل دوزخ رود بےسخن۔ اور کسی نے کہ ہے۔ وہ‬ ‫سنت نبی جسکو پی ری نہیں۔۔نبی بھی اس سے بیزار ہو ج ت ہے۔ ج‬ ‫آد ع یہ السال سے ک بیل کسی اور جگہ رہنے لگے تو ایکدن عزازیل‬ ‫نے آ کر کہ کہ تو اپنے بھ ئی ہ بیل کو م ر ڈال کیونکہ یہ تجھ سے بڑا‬ ‫ہے۔ پھر تو تم زمین کی ب دش ہی کریگ ۔ ک بیل نے کہ مجہے قتل کرن‬ ‫م و نہیں ہے۔ عزازیل نے کہ جسوقت نیند میں ہووے ت ایک بٹہ‬ ‫لیکر اسکے سر خو لگ ۔ اس نے حس کہنے عزازیل کے ک کی ۔ اور‬ ‫ہ بیل مر گی ان هلل و ان الیہ راج ون۔ ک بیل کو چونکہ محبت تہی الش‬ ‫کو پھینکن ن گوار سمجہکر اپنی پشت پر اٹھ لی ۔ چن نچہ چھ م ہ ک‬ ‫عرصہ گذر گی ۔ قبر کے کھودنے کی تجویز ک بیل کو م و نہ تہی۔‬ ‫ایکدن دو فرشتے کوے کی صورت پر گھڑا کھودا اور اسنے کوے کو‬


‫وہیں گ ڈ دی ۔ پھر ک بیل نے بھی ان کو دیکہکر اپنے بھ ئی کو دب ی ۔‬ ‫جیس کہ هللا ت لے اپنی کال پ ک میں فرم ت ہے۔ بھیج هللا نے کوے کو‬ ‫زمین کھود کر اپنے بھ ئی کوے کی الش کو دفن کرت تھ دیکہکر ک بیل‬ ‫نے کہ افسوس میں کوے سے بھی کمتر ہوں۔ اگر کوے جیس ہوت تو‬ ‫اپنے بھ ئی کی الش کو دفن کرت ۔ یہ کہہکر شرمس ر ہوا۔ دونو کوے‬ ‫ایک کوے نے دوسرے کوے کو‬ ‫ق بیل کےروبرو لڑتے ہوئے ص۔‬ ‫م ر ڈاال پھر اپنے چونچ اور پنجوں سے گڑہ کھود کر کوے ک دب ۔‬ ‫ق بیل نے دکھکر غ کھ ی ۔ اور کہ کہ میں کوے جیس ہوت تو اپنے ہ تھ‬ ‫گڑہ کھودت ۔ اوراپنے بھ ئی کو دب ت ۔ پھر ق بیل نے دیکہکر ویس کی ۔ یہ‬ ‫طریقہ گور۔۔۔ قبر بن نے ک ۔۔۔ یہ ں سے شروع ہوا ہے۔ اور ہ یل کی س‬ ‫قو مس م ن ہیں۔ ایک دن آد نےق بیل سے پوچھ ہ بیل کہ ں ہے کہ‬ ‫مجہے م و نہیں۔ بہت دن سے مجہسے رخصت ہو گی ہے۔ آد ع یہ‬ ‫السال حیران ہوا۔ خد ا کی جن سے ندا آئی کہ تیرے بیٹے ق بیل نے‬ ‫قتل کر ڈاال ہے۔ ت کہ تجہے م و ہو۔ کہ میرے ایسے بیٹے ہیں۔ تو‬ ‫نہینج نت شیط ن انس ن ک دشمن ہے۔ ج آد نے جوا سن تو ق بیل پر‬ ‫غصہ ہوا۔ اور کہ کہ تو نہ یت پرلے درجہ ک ک فر ہے۔ ت مس م ن کبہی‬ ‫نہیں ہو گے۔ جیس کہ ق بیل حران ہوا۔ اسوقت سے شیط ن انس ن ک‬ ‫دشمن چال آت ہے اور مرتے وقت انس ن کےس تھ بیج حرکتیں کرت رہت‬ ‫ہے۔ مومن کو چ ہئے کہ اس کے فری سے بچے ال حول پڑہت رہے۔‬ ‫ص۔‬ ‫تھوڑے دنوں کے ب د اب یس نے ق بیل کے پ س آ کر کہ کہ میں جبرائیل‬ ‫ہوں خدا یت لے نے تمہ ری طرف بھیج ہے۔ اور کہ ہے کہ اور طریقہ‬ ‫آد ک ب قی ہے۔ وہ ا تجہکو سیکہ ت ہوں۔ ق بیل نے خوش ہو کر کہ ۔‬ ‫بہت اچھ ۔ تو عزازیل نے خوش ہو کر تس ی اپنی کر لی کہ ابھی اسکو‬


‫ک فر کر لوں گ پھر عزازیل نے کہ تجھکو خدا کے ن سکھ ت ہوں۔‬ ‫انکو ہر وقت ضبط رکھن پھر شیط ن نے مذکورہ ن مردوں اور‬ ‫عورتوں کے بتالئے اور کہ کہ ایک اور بھی ام نت ہے۔ وہ یہ ہے ایک‬ ‫سنگ راست کرکے انکو دیدی ۔ اور کہ کہ ہر صبح نہ کر ط کھ ن اور‬ ‫اس بت کو سجدہ کرتے رہن ۔ اوراپن منھ مشر کو کرن ۔ اور تمہ رے‬ ‫م ں ب پ آد حوا نہیں۔ ب کہ پ ربتی اورمہ دیو ہیں۔ اوراسی راہ پر چ ن ۔‬ ‫اورتمکو جالئینگے۔ یہ قو ک فروں کی اسی جگہ سے شروع ہوئی ہے۔‬ ‫یہ نہیں ج نتے کہ شیط ن نے اپنے پھندے میں اسکو ڈالدی ہے اور‬ ‫دوزخ ک س کن بن دی ہے۔ خدا نے فرم ی ہے س چیزوں کو اپنی‬ ‫عب دت کے واسطے پیدا کی ۔ اسکے خالف چل رہے۔ کہتے ہیں کہ‬ ‫حضرت آد فرزند پ نچسو ج ت تھے۔ ص۔‬ ‫نقل ۔۔۔۔ ایک روز حضرت آد کے فرزند جمع ہو کر آپس میں صالح‬ ‫کرنے لگے کہ ب پ کو م ر ڈالئے اور ب دش ہ اور پیغمبر ہم رے واسطے‬ ‫ن زل ہو ج ئیگ ۔ اسی مشورہ میں تھے کہ هللا ت لے آد کو خبر دی کہ‬ ‫تمہیں فرزند م رن چ ہتے ہیں۔ اگر ت چ ہو۔ تو اونکو م ر ڈالو اورپھر‬ ‫انک ر آپک کبھی نہو۔ آد نے کہ ی خدای کوئی اور تدبر کرو۔ تو هللا‬ ‫ت لے نے جبریل کو حک کی کہ بہشت میں ب نگ دو۔ جبریل حس‬ ‫الحک ر الج یل ب نگ دیدی تو اونکو آواز سنتے ہی انکی زب نیں بدل‬ ‫گئیں۔ جیس کہ عربی ف رسی وغیرہ جو آپسمیں مشہور ہیں۔‬ ‫ایکدوسریک سخن نہیں سمجہتے تہے۔ اس وجہ سےمشورہ ب طل ہو‬ ‫گی ۔ یہ زب نیں اس زم نہ سے شروع ہیں۔ اوسوقت سے زب نیں مخت ف‬ ‫پھر م رنے کی مشورہ بدل گئی۔ وازیں وجہ مس م ن اور ہندو ہون ہو‬ ‫گی ۔ ج آدمی ب دش ہی کرنے لگے تو انہوں نے شہر ک ن م ت ں رکھ ۔‬ ‫آد ع یہ السال کیوقت سے اسک ن م ت ن شہر ہے۔ اوراسوقت سے یہ‬


‫شہرآب د ہے۔ اس شہر میں بڑے بڑے بزرگوں کی خ نق ہیں ایک‬ ‫بہ ؤلح ص ح ایک شمس تبریز ص ح کی ایک موسے پ ک شہید کی‬ ‫عالوہ اور بہت ہیں۔ ص۔ اور یہ ک فر کی اوالد ہیں۔ اور مس م ن بم ہ‬ ‫جمیع پیغبران شیث سے محمد ع یہ السال تک ہ بیل کی اوالد ہیں۔‬ ‫ص۔‬

‫ترجمہ سورتہ ف تحہ‬ ‫مترج‬ ‫ش ہ فضل الرحمن گنج مرادآب دی‬ ‫ترجمہ‬

‫ھ‬

‫ہندی اردو سے کوئی الگ سے زب ن نہیں۔ زب نوں ک دیگر سم جی‬ ‫حوالوں کے س تھ س تھ‘ مذہبی ک چر بھی ہوت ۔ مذہبی ک چر سے مت‬ ‫ال ظ‘ روزمرہ زندگی ک حصہ بن ج تے ہیں۔ مثال‬ ‫اس ک میں کوئی بچت ب م نی ن ع بھی ہوا‬ ‫جی ہ ں هللا کے فضل سے دس ہزار بچت نک ی ہے۔‬ ‫رستے میں س ٹھیک رہ‬


‫جی هللا ک شکر ہے خیریت سے لوٹ آی ہوں۔‬ ‫ح دثے میں کوئی زی دہ نقص ن تو نہیں ہوا‬ ‫هللا کی مہرب نی ہوئی ورنہ ج ن ج سکتی تھی۔‬ ‫ولیمے میں کھ ن ک تو نہیں پڑا‬ ‫م لک ک احس ن تھ کہ س کچھ وافر رہ ۔‬ ‫آؤ کھ ن کھ لو۔‬ ‫بس هللا کریں میں کھ کر آی ہوں۔‬ ‫قرآن ایم ن کی کہن کہ کون سچ اور کون جھوٹ ہے۔‬ ‫هللا نے چ ہ تو کل س ری رق ادا کر دوں گ ۔‬ ‫هللا ح فظ ا کل مالق ت ہو گی۔‬ ‫م ش ءهللا آج تو حوروں کو بھی م ت دے رہی ہو۔‬ ‫قس لے لو جو میں نے کسی چیز کو ہ تھ بھی لگ ی ہو‬ ‫آج کل ک ن دفن ک خرچہ بھی کوئی ک نہیں رہ ۔‬ ‫یہ س بھگوان کی کرپ ہے ورنہ میں اس ق بل ک ہوں۔‬


‫یہ س ایشور کی کرپ تھی جو نپٹ آی ہوں۔‬ ‫پرمیشور بڑا دی لو ہے جو آج الکھوں میں کھیل رہ ہوں۔‬ ‫ایسے سیکڑوں مذہبی ل ظ ی مرکب ت روزمرہ کی عمومی و خصوصی‘‬ ‫شخصی و اجتم عی‘ رسمی و غیر رسمی‘ ذاتی ی پوشیدہ زندگی کی‬ ‫گ ت گو ک حصہ بن گیے ہوتے ہیں۔ کوشش سے بھی‘ انہیں اس سم ج‬ ‫کی بول چ ل سے‘ الگ نہیں کی ج سکت ۔ ہندو مذہ سے مت ال ظ‬ ‫زب ن میں داخل ہو ج تے ہیں‘ تو اس میں ایسی کوئی حیرت والی ب ت‬ ‫نہیں۔ ان ال ظ کے داخل ہونے سے‘ یہ کوئی نئی زب ن نہیں ہو گئی۔‬ ‫عیس ئی مذہ کے ال ظ داخل ہو ج نے سے‘ زب ن عیس ئی نہیں ہو‬ ‫ج تی۔ زب ن وہ ہی رہتی ہے‘ ہ ں وہ اس ک چر کے مذہ کی‘ نم ئندگی‬ ‫کر رہی ہوتی ہے۔‬ ‫گ ف سے ش ئع ہونے والے‘ رس لہ م ہ ن مہ واسطہ ک ص حہ نمبر‬ ‫انٹر نیٹ سے میسر آی ہے۔ اس ص حے پر‘ ش ہ فضل الرحمن گنج‬ ‫ھ‬ ‫مرادآب دی ک سورتہ ف تحہ ک ترجمہ ش ئع ہوا ہے۔ یہ ترجمہ‬ ‫سے ت رکھت ہے۔ سورتہ ف تحہ کے ب د سورتہ بقر کی کچھ آی ت ک‬ ‫ترجمہ‘ اسی اس و و طور کے س تھ کی گی ہے اور اس ذیل میں کوئی‬ ‫نوٹ نہیں دی گی ۔ اسے بھی سورتہ ف تحہ کے ترجمے کے س تھ مال دی‬ ‫گی ہے۔ عین ممکن ہے‘ پورے کال ک ترجمہ اس طور سے کی گی ہو۔‬ ‫دیگر ترج سے یہ قط ی الگ تر اور ہٹ کر ہے۔ ایس ترجمہ‘ اس سے‬ ‫پہ ے دیکھنے اور پڑھنے سننے میں نہیں آی ۔ ش ہ فضل الرحمن گنج‬ ‫مرادآب دی کی اس ک وش کی داد نہ دین ‘ بدی نتی ہو گی۔ زب ن وطور کی‬


‫م نوسیت بڑی م نویت کی ح مل ہوتی۔ ہندو دھر سے مت لوگ‘ اس‬ ‫کو پڑھتے ہوئے‘ غیریت محسوس نہیں کرتے۔ اس سے رغبت ک‬ ‫دروازہ کھ ت ہے اور اجنبت کی دیوار گرتی ہے۔‬ ‫ش ہ فضل الرحمن گنج مرادآب دی کے مزید ترجمے کی تالش میں؛‬ ‫چینی‘ ج پ نی اور انگریزی انداز عربی کی وگرافی دیکھنے کی س دت‬ ‫ح صل ہو گئی۔ یہ طور‘ غیرمس لوگوں کی توجہ ح صل کرنے ک ‘‬ ‫انتہ ئی ک می ذری ہ ہے۔ اچھ ئی پھیالنے کے لیے‘ عر مس م نوں‬ ‫نے مق میوں ک لب س‘ انداز‘ زب ن وغیرہ اختی ر کی اور ب ت ریک رڈ میں‬ ‫موجود ہے۔ ش ہ فضل الرحمن گنج مرادآب دی نے‘ ہندو ک چر سے‬ ‫مت ‘ ترجمے کی زب ن اختی ر کی‘ یہ امر الئ تحسین ہے۔ بےشک هللا‬ ‫بہتر اجر سے نوازنے واال ہے۔‬ ‫ش ہ فضل الرحمن گنج مرادآب دی کے اس ترجمے کو اس کے طور و‬ ‫اس و اور زب ن کے حوالہ سے‘ اولیت تو ح صل ہے ہی‘ لیکن انہوں‬ ‫نے م روف سے ہٹ کر‘ ل ظوں کو م نویت عط کی ہے۔‬ ‫هللا‪ :‬اس ذات ہے۔ اس کے مترداف کوئی ل ظ ہے ہی نہیں۔ مرحو نے‘‬ ‫اس ک ترجمہ من موہن کی ہے۔ یہ ترجمہ محسوس سے ت رکھت‬ ‫ہے۔ یہ ل ظ صوری لح ظ سے بالشبہ دل کو موہ لیت ہے۔‬ ‫حمد‪ :‬حمد کے م نی ت ریف اور ثن لیے ج تے ہیں‘ لیکن حضرت ش ہ‬


‫ص ح نے‘ اس ل ظ کو ال کے لیے‘ س ج کہ حمد بم نی راحت‘‬ ‫ی نی خوشی کے م نے دیے ہیں۔ گوی وہ سراپ خوشی ہے۔ اس ک ن‬ ‫لینے سے‘ رگ وپے میں خوشی کی لہر دوڑ ج تی ہے کیوں کہ وہ اول‬ ‫و آخر راحت ہے۔ ی یہ کہ خوشی جو اچھ ئی سے وابستہ ہوتی ہے ی‬ ‫یہ کہ اچھ ئی خوشی میسر کرتی ہے۔ دوسرے ل ظوں میں یوں کہہ لیں‬ ‫اچھ ئی خوشی ہے ی نی اچھ ئی ب طنی راحت فراہ کرتی ہے۔ اس حوالہ‬ ‫سے‘ س راحت ی نی راحتیں اسی کی ذات کے لیے ہیں۔ عالمتی حوالہ‬ ‫سے م ہی اچھ ئی بہتری وغیرہ کی طرف پھرتے ہیں۔‬ ‫ر ‪ :‬پ لن ہ ر‬ ‫ال‪ :‬بڑی‬ ‫ع مین‪ :‬سنس ر‬ ‫اردو میں پ لن ‘ ج کہ پنج بی میں پ لن مصدر ہے۔ پ لنے واال کے‘‬ ‫مترداف پ لن ہ ر غیرم نوس نہیں۔ حضرت ش ہ ص ح نے‘ ر کے‬ ‫م نی پ لن ہ ر لیے ہیں۔ ع مین بذات خود جمع ہے۔ ال سے یہ ب ت‬ ‫واضح ہوتی ہے کہ وہ ع ل جو س منے اورع میں وہ ہی نہیں وہ بھی‬ ‫جو س منے اورع میں نہیں۔ ج ہی س رے سنس ر م نی دیے ہیں۔‬ ‫گوی س رے سنس ر ک پ لن ہ ر ی نی ع لموں ک بال کسی تخصیص پ لنے‬ ‫واال۔ صوری اور م نوی اعتب ر سے‘ خو صورت ترجمہ ہے۔ ہندو‬ ‫ک چر کے لیے بھی م نوس ترین ہے۔‬ ‫الرحمن‪ :‬نی ہ موہ‬


‫الرحمن‪ :‬نی ہ موہ ترجمے میں‘ جہ ں مالئمیت اور ریشمیت سی‬ ‫محسوس ہوتی ہے‘ وہ ں صوتی حوالہ سے‘ ک نوں میں رس گھولت‬ ‫محسوس ہوت ہے۔ اس میں پی ر محبت اور ش قت و عط ک عنصر غ بہ‬ ‫رکھت ہے۔ اسے اس کے مت قہ متن میں‘ مالحظہ فرم ئیں‘ میرے کہے‬ ‫کی سچ ئی واضح ہو ج ئے گی۔ تک یف دہ ح لت میں تش ی‘ بالشبہ‬ ‫م مالت حی ت میں‘ بڑی م نویت کی ح مل ہوتی ہے۔ نی ہ موہ کی اصل‬ ‫ت ی یہ ہی ٹھہرتی ہے۔ اس ک احس ن اور فضل بھی‘ نی ہ ب انص ف اور‬ ‫حس ح جت ہوت ہے۔‬ ‫الرحی ‪ :‬مہر واال‬ ‫الرحی ‪ :‬مہر واال ی نی وہ جو کسی کی تکی ف نہ دیکھ سکت ہو۔ کسی کو‬ ‫دکھ تک یف میں دیکھ کر‘ محبت‘ احس ن اور رح میں آ ج ئے اور اس‬ ‫کے مداوے ک ان ہی لمحوں میں چ رہ کرئے۔‬ ‫من موہن‘ کسی کو تکیف میں مبتال نہیں کرت ۔ ت ریخ اٹھ کر دیکھ لیں‘‬ ‫نمرود‘ فرعون یزید وغیرہ‘ اپنی ہی کرنی کی پکڑ میں آئے ہیں۔ یہ ں‬ ‫ہو کہ روز آخرت‘ ہر کوئی اپنے کیے کی گرفت میں آئے گ ۔‬ ‫م لک‪ :‬بس میں‬ ‫م لک کو بس میں ی نی اختی ر میں‘ کے م نوں میں لی گی ہے۔ وہ جس‬


‫کے اختی ر میں ہو اور کسی اور کے اختی ر میں نہ ہو‘ م کیت کے‬ ‫زمرے میں آت ہے۔ اس میں کسی اور ک بس نہ چ ت ہو ی یوں کہہ لیں‬ ‫کہ اس کے سوا‘ وہ ں ہر کوئی مجبور و بےبس ہو۔ ہر کرن اسی کی‬ ‫مرضی پر مبنی ہو۔ وہ جیسے چ ہے اور جس طرح چ ہے کرئے ی‬ ‫کرنے پر ق در ہو۔ یہ الگ ب ت ہے‘ کہ وہ ح اور ح کے سوا نہیں‬ ‫کرت ۔ اس ک ہر کی ‘ عدل و انص ف پر استوار ہوت ہے۔‬ ‫یو ‪ :‬دن‬ ‫یو ‪ :‬دن‘ دن اردو میں ع است م ل ک ل ظ ہے۔‬ ‫الدین‪ :‬چکوتی‬ ‫چک وتی‬ ‫یہ انص ف اور فیصے ک دن ہو گ ۔ زندگی کے دنوں میں‘ دنی کے‬ ‫ب دش ہ فیص ے کرتے آئے ہیں لیکن اس دن‘ وہ بےبس ہوں گے۔ انہیں‬ ‫خود اس عمل سے گزرن ہو گ ۔ گوی یہ دن ب دش ہوں کے ب دش ہ ک ہو‬ ‫گ ۔ اس دن سوائے اس ب دش ہ کے کوئی ب دش ہ نہیں ہو گ ۔ صرف اور‬ ‫صرف اسی ک حک چ ے گ ۔ م ہو یہ ہی ٹھہرے گ ۔‬ ‫یو الدین‪ :‬ب دش ہوں کے ب دش ہ ک دن‬ ‫ن بد‪ :‬پوجتے‘ عب دت کے لیے ہندو ل ظ پوج است م ل کرتے ہیں۔ جس‬ ‫کی پوج کی ج ئے اسے پوجیور کہ ج ت ہے۔‬


‫و‪ :‬اور‬ ‫و‪ :‬اور‘ اردو میں واؤ اور کے لیے است م ل ہوت ہے۔ اردو میں واؤ‬ ‫مرکب ت میں اور کے م نوں میں مست مل ہے۔ مثال ش وروز‘ ش دی و‬ ‫غ ‘ سی ہ و س ید وغیرہ۔‬ ‫نست ین‪ :‬آسرا‬ ‫ل ظ نست ین اردو میں مست مل نہیں۔‬ ‫آسرا سہ را‘ گرتے کو تھ من ‘ گرے کو اٹھ ن ۔ چھت میسر آن ۔ م ش کی‬ ‫صورت‘ کسی کے حوالہ سے پیدا ہون ۔ یہ ل ظ‘ صوری و م نوی اعتب ر‬ ‫سے‘ فصیح و ب یغ ہے۔ اسی طرح انس نی زندگی کے‘ ہر گوشے سے‘‬ ‫کسی ن کسی حوالہ سے‘ منس ک ہے۔ اردو والوں کے لیے‘ یہ ل ظ‬ ‫قط ی غیرم نوس نہیں۔‬ ‫صراط ‪ :‬راہ‬ ‫ل ظ صراط اردو میں مست مل نہیں۔‬ ‫اہل زب ن نے‘ اس ک ترجمہ راہ‘ رستہ کی ہے۔ حضرت ش ہ ص ح نے‬ ‫بھی یہ ہی ترجمہ کی ہے‘ جو غیرم نوس نہیں۔‬ ‫مستقی ‪ :‬سیدھی‬ ‫ل ظ مستقی اردو والوں کے لیے اجنبی نہیں اور یہ ت ہیمی اعتب ر سے‬ ‫سیدھ ی سیدھی رواج رکھت ہے۔ جیسے‬


‫خط مستقی‬ ‫ان مت‪ :‬دی‬ ‫ان مت‪ :‬دی ‘ ن مت اردو میں مست مل ہے۔ دی کے لغوی م نی محبت‘‬ ‫عن یت‘ ش قت‘ رح ‘ مہرب نی‘ ترس‘ بخشش وغیرہ ہیں۔ متن کے لح ظ‬ ‫سے م ہو بخشش کے قری تر ہیں اس لیے دان دینے واال۔ ت ہ دان‬ ‫کی نوعیت دیگر دی لو حضرات سے الگ تر ہے۔ وہ ایس دان دینے واال‬ ‫ہے‘ کہ اس س دان دینے واال کوئی نہیں۔ ن ہی اوروں کے پ س اس س‬ ‫دان ہے۔ اس دان میں‘ اس کی محبت‘ عن یت‘ ش قت‘ رح ‘ مہرب نی‘‬ ‫ترس ش مل ہوتے ہیں۔ گوی اس کی دی اوروں سے الگ ترین ہے۔‬ ‫المغضو ‪ :‬جھنجالہٹ‬ ‫جھنجالہٹ‘ غصہ اور خ گی کے لیے مست مل ہے۔ جھنجل سخت آندھی‬ ‫کے لیے ہے۔ ہٹ ک الحقہ ق ئ ہونے کے لیے ہے‘ ی نی سخت آندھی ک‬ ‫آن ۔ دری ک حد سے بڑے مدوجر۔ یہ اپنی حقیقت میں غض ہی کی‬ ‫صورت ہے۔ یہ ں غصہ اور خ گی کی گرفت میں آئے مراد ہے۔ خ گی‬ ‫خ سے اور خ غصہ اور ن راضگی ہی تو ہے۔‬ ‫الضآلین‪ :‬کوراہوں کی‬ ‫الضآلین‪ :‬کوراہوں کی‘ ی نی جو اصل راہ سے ہٹ گی ہو۔ کوراہ غیر‬ ‫م نوس نہیں۔ کو‘ من ی م ہو ک ح مل ہے۔ مثال کو‪ -‬ت ہ‘ کو‪ -‬ت ہی‘ کو۔‬


‫ہڈ‘ کو۔ سنگ‘ کو۔ ریت وغیرہ۔ یہ س بقہ اپنی اصل میں‘ مکمل ی جزوی‬ ‫غ طی‘ خرابی‘ کجی‘ کمی‘ خ می‘ بدنم ئی‘ بدن می‘ بدک ری وغیرہ کے‬ ‫لیے مخصوص ہے۔ یہ ں بھی ان ہی م نوں میں است م ل ہوا ہے۔ کو۔‬ ‫راہ ی نی راہ سے ہٹ ہوا۔‬ ‫‪.................................‬‬ ‫ترجمہ سورتہ‬ ‫پہ ے ہی پہل ن لیت ہوں من موہن ک جوہ بڑی نی ہ موہ واال ہے س‬ ‫راحت من موہن کو ہے جو س رے سنس ر ک پ لن ہ ر بڑی نی ہ موہ ک‬ ‫مہر واال ہے جس کے بس میں چکوتی ک دن ہے۔ ہ تیرا ہی آسرا‬ ‫چ ہتے ہیں اور تجہی کو پوجتے ہیں چال ہ کو سیدھی راہ ڈگ مگ‬ ‫نہیں۔ ان لوگوں کی جن پر تیری دی ہوگی۔ نہ ان کی جن پر تیری‬ ‫جھنجالہٹ ہوئی نہ راہ کوراہوں کی۔ اور نہ راہ کھوئے ہووں کی۔ اور‬ ‫راہ بھٹکے ہووں کی۔ اس مہ بید کے پرمیشور ہونے میں کوئی وگدھ‬ ‫نہیں۔ وہ بھگتوں کو بھ ی راہ پر الت ہے۔ جو اندیکھے دھر التے ہیں‬ ‫اور پوج کو سنوارتے ہیں اور ہم رے دیئے ک دان بھی کرتے ہیں۔ اور‬ ‫جو جو تیرے بل اترا اس کو اور جو تجھ سے پہ ے ات را گی اس کو‬ ‫جی سے م نتے ہیں اورپچھ ے جگ کو بھی جی میں ٹھیک ج نتے ہیں۔‬ ‫یہی لوگ اپنے پ لن ہ ر کی راہ پر ہیں۔ اور یہی اپنی امنگ پ ون ہ ر ہیں۔‬ ‫اس میں کوئی وگدھ نہیں کہ م یچھوں کو تو کیس ہی ڈراوے ی نہ‬ ‫ڈراوے وہ دھر نہیں الویں گے۔ من موہن نے ان کے جی اور ک نوں پر‬ ‫ٹھپ لگ دی ہے اور ان کے نینوں میں موتی پھرا ہوا ہے اور کے لیے‬ ‫بھ ری م ر ہے۔‬ ‫ش ہ فضل الرحمن گنج مرادآب ی‬


‫فرہنگ سورتہ ف تحہ‬ ‫ال‬ ‫س‬ ‫حمد‬ ‫راحت‬ ‫هللا‬ ‫من موہن‬ ‫ر‬ ‫پ لن ہ ر‬ ‫ال‬ ‫س رے‬ ‫ع مین‬ ‫سنس ر‬ ‫ال‬ ‫بڑی‬ ‫رحمن‬


‫نی ہ موہ‬ ‫الرحی‬ ‫مہر واال‬ ‫م لک‬ ‫بس میں‬ ‫یو‬ ‫دن‬ ‫الدین‬ ‫چکوتی‬ ‫ای ک‬ ‫تجہی کو‬ ‫ن بد‬ ‫پوجتے‬ ‫و‬ ‫اور‬ ‫ای ک‬ ‫تیرا‬ ‫نست ین‬


‫آسرا‬ ‫اھدن‬ ‫ہ کو‬ ‫الصراط‬ ‫راہ‬ ‫المستقی‬ ‫سیدھی‬ ‫ان مت‬ ‫دی‬ ‫ع یھ‬ ‫جن پر‬ ‫غیر‬ ‫جن پر‬ ‫المغضو‬ ‫جھنجالہٹ‬ ‫ع یھ‬ ‫ان کی‬ ‫و‬


‫اور‬ ‫الضآلین‬ ‫کوراہوں کی‬ ‫‪.................................‬‬ ‫پہ ے ہی پہل ن لیت ہوں من موہن ک جوہ بڑی نی ہ موہ واال ہے‬ ‫الحمد هلل‬ ‫س راحت من موہن کو ہے‬ ‫ر ال مین‬ ‫جو س رے سنس ر ک پ لن ہ ر‬ ‫الرحمن الرحی‬ ‫بڑی نی ہ موہ ک مہر واال ہے‬ ‫م ک یو الدین‬ ‫جس کے بس میں چکوتی ک دن ہے۔‬ ‫ای ک ن بد و ای ک نست ین‬ ‫ہ تیرا ہی آسرا چ ہتے ہیں اور تجہی کو پوجتے ہیں‬ ‫ل ظی و ترتیبی‬ ‫تجہی کو پوجتے ہیں اور ہ تیرا ہی آسرا چ ہتے ہیں‬


‫اھدن الصراط المستقی ان مت ع یھ‬ ‫چال ہ کو سیدھی راہ ڈگ مگ نہیں۔ ان لوگوں کی جن پر تیری دی‬ ‫ہوگی۔‬ ‫چال ہ کو سیدھی راہ ڈگ مگ نہیں ان لوگوں کی جن پر تیری دی ہوگی۔‬ ‫چال ہ کو سیدھی راہ‘ ڈگ مگ نہیں ان لوگوں کی جن پر تیری دی‬ ‫ہوگی۔‬ ‫وض حتی‬ ‫ڈگ مگ نہیں‬ ‫غیرالمغضو ع یھ والضآلین‬ ‫نہ ان کی جن پر تیری جھنجالہٹ ہوئی نہ راہ کوراہوں کی۔‬ ‫آمین‬ ‫‪................‬‬ ‫یہ سورتہ ف تحہ ک ترجمہ نہیں‘ سورتہ البقر کی کچھ آی ت ک ترجمہ‬ ‫ہے۔‬ ‫اس مہ بید کے پرمیشور ہونے میں کوئی وگدھ نہیں۔ وہ بھگتوں کو‬ ‫بھ ی راہ پر الت ہے۔ جو اندیکھے دھر التے ہیں اور پوج کو‬ ‫سنوارتے ہیں اور ہم رے دیئے ک دان بھی کرتے ہیں۔ اور جو جو‬ ‫تیرے بل اترا اس کو اور جو تجھ سے پہ ے ات را گی اس کو جی سے‬ ‫م نتے ہیں اورپچھ ے جگ کو بھی جی میں ٹھیک ج نتے ہیں۔ یہی لوگ‬ ‫اپنے پ لن ہ ر کی راہ پر ہیں۔ اور یہی اپنی امنگ پ ون ہ ر ہیں۔ اس میں‬ ‫کوئی وگدھ نہیں کہ م یچھوں کو تو کیس ہی ڈراوے ی نہ ڈراوے وہ‬


‫دھر نہیں الویں گے۔ من موہن نے ان کے جی اور ک نوں پر ٹھپ لگ‬ ‫دی ہے اور ان کے نینوں میں موتی پھرا ہوا ہے اور کے لیے بھ ری‬ ‫م ر ہے۔‬ ‫‪...........‬‬

‫شجرہ ق دریہ ۔۔۔۔۔ ایک ج ئزہ‬ ‫جنت مک نی حضرت سیدہ سردار بی بی' دختر حضرت سید برکت ع ی‬ ‫زوج مخدومی ومرشدی حضرت سید غال حضور'س ب اق متی ننگ ی'‬ ‫امرت سر' بھ رت' متوفی ‪ 1996‬کی پ کٹ ڈائری ک ' کس حد تک' اپنے‬ ‫کسی مضون میں ذکر کر چک ہوں۔ اس ڈائری میں شجرہ ق دریہ بھی‬ ‫درج ہے۔ اس کی بڑی خوبی یہ ہے کہ ش عر ک ن اور ق دریہ خ ندان‬ ‫سے ت بھی' داخ ی شہ دت کے طور مل ج ت ہے۔ یہ پیر سید غال‬ ‫جیالنی کے مرید تھے جو گڑھ شنکر پنج بھ رت میں' رہ ئش پذیر‬ ‫تھے۔ اس ذیل میں شجرے ک یہ بند مالحظہ ہو۔‬ ‫حضرت پیر غال جیالنی‬ ‫مہر ع ی دے رہبر ج نی‬ ‫ہر د وسن وچ دھی ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬


‫یہ شجرہ کل ست ئس بندوں پر مشتمل ہے۔ شجرے کے پہ ے نو بند‬ ‫کم ل کی روانی رکھتے ہیں۔ اس میں شخصی ت رف کے لئے ص تی‬ ‫ک م ت سے ک لی گی ہے۔ مثال‬ ‫ع ی ولی ہیں زوج بتول‬ ‫ش ہ مرداں ہیں شیر خدا‬ ‫بی بی زہرہ بنت رسول‬ ‫حسن عسکری نورالنور‬ ‫عبدال زیز ہیں یمنی ہ دی‬ ‫عبدالوہ‬

‫فضل الہی‬

‫حضرت یحیی رہبر ک مل‬ ‫ت ج الدین نے زہد کم ی‬


‫حضرت پیر غال جیالنی‬ ‫گڑھ شنکر وچ تخت مک ن‬ ‫عموم پڑھنے اور سننے میں بھی آی ہے کہ اردو پر پنج بی اثرات‬ ‫پ ئے ج تے ہیں۔ پنج بی بھی اردو کے اثرات سے مح وظ نہیں۔ اس‬ ‫شجرہ کے حوالہ سے اردو کے اثرات مالحظہ فرم ئیں۔‬ ‫نحوی‬ ‫اس پر میرا تکیہ م ن‬ ‫مہدی زم ن ک ج ن ظہور‬ ‫کچھ مصرعے لس نی اعتب ر سے اردو اور پنج بی کے نہیں ہیں۔‬ ‫اس وبی اعتب ر سے اردو کے ضرور ہیں مست مل اور ق بل فہ بھی ہیں۔‬ ‫ب قر وج ر و موسی ک ظ‬ ‫حسن عسکری نورالنور‬ ‫خواجہ کرخی در بی ن‬ ‫ابوال ب س احمد دل ش داں‬


‫حضرت یحیی رہبر ک مل‬ ‫ش ہ جنید پیر بغدادی‬ ‫ہم رے ہم رے ہ ں بیوی کے لئے ل ظ زوجہ است م ل کی ج ت ہے۔ خ وند‬ ‫کے لئے یہ ی اس کی کوئی شکل مست مل نہیں ہے۔ ش عر نے خ وند‬ ‫کے لئے ل ظ زوج است م ل کی ہے۔ یہ است م ل کے حوالہ سے‬ ‫غیرم نوس ہے ح الں کہ درست اور فصیح ہے۔‬ ‫ع ی ولی ہیں زوج بتول‬ ‫مہر ع ی نے ان ست ئیں بندوں میں خو صورت مرکب ت بھی دئیے‬ ‫ہیں۔ مثال‬ ‫سید ط لح اہل حضور‬ ‫ہر د تیرا شکر احس ن‬ ‫مہر ع ی ہے ع جز خ کی‬ ‫راہ خدا ہیں ج ن فدا‬ ‫حضرت یحیی رہبر ک مل‬ ‫اس پر میرا تکیہ م ن‬


‫ایک مرک تو لس نی صوتی اور م نوی اعتب ر سے بڑے کم ل ک ہے۔‬ ‫نظر و نظری کرن نہ ل‬ ‫دو نئے مہ ورے بھی دیے ہیں۔ دو مصرعے خ لص پنج بی کے نہیں‬ ‫ہیں۔‬

‫زہد کم ی‬ ‫ت ج الدین نے زہد کم ی‬ ‫'رہبر پ ی‬ ‫لہجے کے اعتب ر سے اردو ک نہیں ہے۔ ورنہ اس مصرعے کے اردو‬ ‫ہونے میں کوئی شک نہیں۔‬ ‫شرف الدین نے رہبر پ ی‬


‫اردو ‪ :‬شرف الدین کو رہبرمال‬ ‫پنج بی‪ :‬شرف الدین نوں رہبر م ی‬ ‫شرف الدین نے رہبر پ ی ‪.....‬غیر فصیح نہیں ہے۔ صوتی حوالہ سے‬ ‫بھی' ہر زب ن بولنے والوں کے لئے' سم عتی گرانی ک سب نہیں بنت ۔‬ ‫پورے شجرے میں' مصرعوں میں ایک آدھ ل ظ کی تبدی ی سے' اردو‬ ‫وجود ح صل کر لیتی ہے۔‬ ‫اگر اسے اردو پر پنج بی کے اثرات ک ن دی ج ئے' تو بھی ب ت یکسر‬ ‫غ ط م و نہیں ہوتی۔‬ ‫شجرہ مالحظہ ہو‬ ‫شجرہ ق دریہ‬ ‫هللا هللا ہر د آکھ‬ ‫تن من اپن کرکے پ ک‬ ‫نبی محمد دے قرب ن‬


‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫هللا هللا ہر د آکھ‬ ‫آکھ ک است م ل ق فیہ کی مجبوری ہے۔‬ ‫نبی محمد دے قرب ن‬ ‫دے کی بج ئے کے‬ ‫نبی محمد کے قرب ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫کریں کی بج ئے کرن‬ ‫ی ر مشکل کرن آس ن‬ ‫‪.........‬‬ ‫خ ص خدا دا نبی پی را‬ ‫امت نوں بخش ون ہ را‬ ‫اس پر میرا تکیہ م ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬


‫خ ص خدا دا نبی پی را‬ ‫دا کی جگہ ک‬ ‫خ ص خدا ک نبی پی را‬ ‫امت نوں بخش ون ہ را‬ ‫نوں کی جگہ پرانی اردو کے مط ب کوں‬ ‫امت کوں بخش ون ہ را‬ ‫‪..........‬‬ ‫بی بی زہرہ بنت رسول‬ ‫ع ی ولی ہیں زوج بتول‬ ‫میں ع جز دا سر قرب ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫میں ع جز دا سر قرب ن‬ ‫دا کی جگہ ک‬ ‫میں ع جز ک سر قرب ن‬ ‫‪..........‬‬


‫ص حبزادے نور ال ین‬ ‫ی نی حضرت حسن حسین‬ ‫صدقے حضرت ع بد ج ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫ب قروج روموسی ک ظ‬ ‫موسی رض دی ال ت الز‬ ‫تقی نقی دے میں قرب ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫موسی رض دی ال ت الز‬ ‫دی کی جگہ کی‬ ‫موسی رض کی ال ت الز‬ ‫تقی نقی دے میں قرب ن‬ ‫دے کی جگہ کے‬ ‫تقی نقی کے میں قرب ن‬ ‫‪.........‬‬


‫حسن عسکری نورالنور‬ ‫مہدی زم ن ک ج ن ظہور‬ ‫ہر د میرا ایہو دھی ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫ہر د میرا ایہو دھی ن‬ ‫ایہو کی جگہ یہ ہی‬ ‫ہر د میرا یہ ہی دھی ن‬ ‫‪.........‬‬ ‫پنج ب رہ ہور چودہ ج ن‬ ‫اہل بیت دے ح ایم ن‬ ‫ص ت نہ کیتی ج بی ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫پنج ب رہ ہور چودہ ج ن‬ ‫ہور کی جگہ اور۔ گوی صرف آواز ہ کو ا میں بدلن ہے۔‬


‫پنج ب رہ اور چودہ ج ن‬ ‫‪..........‬‬ ‫ش ہ مرداں ہیں شیر خدا‬ ‫راہ خدا ہیں ج ن فدا‬ ‫خواجہ حسن بصری دل ج ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫حبی عجمی دے گھول گھم واں‬ ‫داؤد ط ئی دے صدقے ج واں‬ ‫خواجہ کرخی در بی ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫حبی عجمی دے گھول گھم واں‬ ‫داؤد ط ئی دے صدقے ج واں‬ ‫دے کی جگہ کے‬ ‫حبی عجمی کے گھول گھم واں‬ ‫داؤد ط ئی کے صدقے ج واں‬ ‫‪........‬‬


‫خواجہ سری سقطی ہ دی‬ ‫ش ہ جنید پیر بغدادی‬ ‫ابوبکر شب ی دا م ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫ابوبکر شب ی دا م ن‬ ‫دا کی جگہ ک‬ ‫ابوبکر شب ی ک م ن‬ ‫‪........‬‬ ‫ابوال ب س احمد دل ش داں‬ ‫عبدال زیز ہیں یمنی ہ دی‬ ‫شیخ یوسف دے میں قرب ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫شیخ یوسف دے میں قرب ن‬ ‫دے کی جگہ کے‬


‫شیخ یوسف کے میں قرب ن‬ ‫‪.......‬‬ ‫ابوال رح طرطوسی ق ری‬ ‫ابوالحسن ع ی ہنک ری‬ ‫ابوس ید مخدومی ج ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫ابومحمد عبدالق در‬ ‫غوث قط س در پر ح ضر‬ ‫ط ل جسدا کل جہ ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫ط ل جسدا کل جہ ن‬ ‫دا کی جگہ ک‬ ‫ط ل جسک کل جہ ن‬ ‫‪.........‬‬


‫عبدالوہ‬

‫فضل الہی‬

‫عبدالرحی دی پشت پن ہی‬ ‫سید وہ‬

‫رکھ ح ظ ام ن‬

‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫عبدالرحی دی پشت پن ہی‬ ‫دی کی گہ کی‬ ‫عبدالرحی کی پشت پن ہی‬ ‫‪.........‬‬ ‫حضرت یحیی رہبر ک مل‬ ‫جم ل الدین ہیں ہر د ش مل‬ ‫نور الدین دے پیر۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫نور الدین دے پیر۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫دے کی جگہ کے‬ ‫نور الدین کے پیر۔۔۔۔۔۔۔‬


‫‪.......‬‬ ‫ت ج الدین نے زہد کم ی‬ ‫شرف الدین نے رہبر پ ی‬ ‫محمد ی سین ہیں فیض رس ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫سید ط لح اہل حضور‬ ‫سید ص لح نور النور‬ ‫ہر د میرا ورد زب ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫سید یحیی الح ج آئے‬ ‫سید عثم ن رہبر پ ئے‬ ‫سید عبدهللا دے پیر نوں ج وے‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫سید عبدهللا دے پیر نوں ج وے‬


‫دے کی جگہ کے اور نوں کی جگہ کوں رکھ دیں‬ ‫سید عبدهللا کے پیر کوں ج وے‬ ‫‪.........‬‬ ‫سید غال مصط ے ج نو ہ دی‬ ‫ن لی ں دل ہووے ش دی‬ ‫سید احمد ہیں اہل ۔۔۔۔۔۔‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫سید غال مصط ے ج نو ہ دی‬ ‫ج نو' ج نن کے لئے ہے ت ہ سمجھو رکھ دیں۔‬ ‫سید غال مصط ےسمجھو ہ دی‬ ‫‪........‬‬ ‫سید ع ی م ظ ق در‬ ‫وچ حضوری ہر د ح ضر‬ ‫ع رف ف ضل ک مل ج ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬


‫وچ حضوری ہر د ح ضر‬ ‫وچ کو میں بدل دیں‬ ‫حضوری میں ہر د ح ضر‬ ‫‪.........‬‬ ‫حضرت ق در بخش کم ل‬ ‫نظر و نظری کرن نہ ل‬ ‫دوئیں تھ ئیں روشن ج ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫نظر و نظری کرن نہ ل‬ ‫کرن کو کریں کر دیں‬ ‫نظر و نظری کریں نہ ل‬ ‫‪........‬‬ ‫حضرت پیر غال جیالنی‬ ‫ق در بخش نے ہوئے نورانی‬


‫گڑھ شنکر وچ تخت مک ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫گڑھ شنکر وچ تخت مک ن‬ ‫وچ کو میں بدل دیں‬ ‫گڑھ شنکر میں تخت مک ن‬ ‫‪.......‬‬ ‫حضرت دے دو بھ ئی پی رے‬ ‫ق در بخش دے ہی دالرے‬ ‫عط محمد ہیں درب ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫حضرت دے دو بھ ئی پی رے‬ ‫ق در بخش دے ہی دالرے‬ ‫دے کی جگہ کے‬ ‫حضرت کے دو بھ ئی پی رے‬ ‫ق در بخش کے ہی دالرے‬


‫‪.........‬‬ ‫غال غوث دے قرب ن‬ ‫بیٹے جس دے ست عی ن‬ ‫هللا دتے ہو رحم ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫غال غوث دے قرب ن‬ ‫بیٹے جس دے ست عی ن‬ ‫دے کی جگہ کے‬ ‫غال غوث کے قرب ن‬ ‫بیٹے جس کے ست عی ن‬ ‫‪........‬‬ ‫لنگر رکھ دے ہر د ج ری‬ ‫وچ درب ر رہے گ زاری‬ ‫آئے سوالی خ لی نہ ج ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬


‫لنگر رکھ دے ہر د ج ری‬ ‫وچ درب ر رہے گ زاری‬ ‫‪.‬رکھ دے کی جگہ رکھتے اور وچ کی جگہ میں رکھ دیں‬ ‫لنگر رکھتے ہر د ج ری‬ ‫درب ر میں رہے گ زاری‬ ‫‪........‬‬ ‫شجرہ شریف میں کہی س را‬ ‫مینوں بخشیں پروردگ را‬ ‫ہر د تیرا شکر احس ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫مینوں بخشیں پروردگ را‬ ‫مینوں کو مجھے کر دیں‬ ‫مجھے بخشیں پروردگ را‬ ‫‪........‬‬


‫حضرت پیر غال جیالنی‬ ‫مہر ع ی دے رہبر ج نی‬ ‫ہر د وسن وچ دھی ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫مہر ع ی دے رہبر ج نی‬ ‫دے کی جگہ کے رکھ دیں‬ ‫مہر ع ی کے رہبر ج نی‬ ‫‪........‬‬ ‫مہر ع ی ہے ع جز خ کی‬ ‫توں س قی ں دا ہیں س قی‬ ‫ش ہ جیالنی دے ایم ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫توں س قی ں دا ہیں س قی‬ ‫ش ہ جیالنی دے ایم ن‬ ‫تبدی ی‬


‫تو ہے س قیوں ک س قی‬ ‫ش ہ جیالنی کے ایم ن‬ ‫‪.......‬‬ ‫شجرہ شریف پڑھیں بھ ئی‬ ‫ق‬

‫تہ ڈے دی ہو گی ص ئی‬

‫جو ہیں ق دری خ ندان‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫ق‬

‫تہ ڈے دی ہو گی ص ئی‬

‫تہ ڈے کو تہ رے دی کی جگہ کی‬ ‫ق‬

‫تہ رے کی ہو گی ص ئی‬

‫‪..........‬‬ ‫پڑھنے دا وقت صبح و ش‬ ‫پڑھ لی جس پیت ج‬ ‫پیر سوہنے دا ہے قرب ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬


‫پڑھنے دا وقت صبح و ش‬ ‫دا کی جگہ ک‬ ‫پڑھنے ک وقت صبح و ش‬ ‫پیر سوہنے دا ہے قرب ن‬ ‫دا کی جگہ ک‬ ‫پیر سوہنے ک ہے قرب ن‬ ‫‪.......‬‬ ‫ایک چرچ مین کی ی وہ گوئی اور میری م روض ت‬ ‫ایک دو روز پہ ے فیس بک پر‘ مجھے ایک چرچ مین کی گ ت گو‘‬ ‫سننے ک ات ہوا۔ اس کی گ ت گو نے‘ مجھے بڑا ہی ڈسٹر کی ۔ لگت‬ ‫تھ ‘ کہ ابھی مرت ہوں۔ یہ مذہبی ٹھیکےدار‘ قص بی اور خود غرض‬ ‫فطرت کے ح مل ہوتے ہیں۔ انہیں اس امر سے دل چسپی ی ت‬ ‫واسطہ نہیں ہوت ‘ کہ ان کے ل ظ‘ کسی پر کی قی مت توڑیں گے۔ اس‬ ‫چرچ مین کی زب ن نہ یت گھٹی تھی۔ لگت تھ ‘ کہ میرا دم پھٹ ج ئے‬ ‫گ اور دل کی حرکت ابھی بند ہو ج ئے گی۔ اس کی ویڈیو کے حوالہ‬ ‫سے‘ میں نے یہ چند جم ے بولے ہیں۔ اس کی ویڈیو ک لنک بھی‬ ‫ب طور حوالہ ضرورپیش کرت ‘ لیکن میری ہمت نہیں پڑی‘ کہ ایسی‬ ‫گھٹی چیز کو پیش کروں۔ اس کو سن کر‘ کسی کو کوئی ذہنی ی ق بی‬


‫ع رضہ الح ہو سکت ہے۔ اس ک لہجہ‘ زب ن‘ موضوع اور گ ت گو ک‬ ‫مواد‘ یکسر غیر متوازن اور ب زاری نوعیت ہے۔ یقین ہو ج ت ہے کہ‬ ‫اس سے مذہبی مین‘ ع کے قری سے بھی نہیں گزرے ہوتے۔ پڑھ‬ ‫لکھ اور ص ح ع ‘ موڈ کی کسی سطع پر بھی‘ ش ئستگی ک دامن‬ ‫نہیں چھوڑت ۔ عجی ہے‘ اسال حضرت عیسی ع یہ السال اور اور ان‬ ‫کی کت انجیل کو‘عزت دیت ہے تو آخر ان فس دیوں کو ایسی ب تیں‬ ‫کیوں سوجھتی ہیں‘ جن سے فس د ک دروازہ کھ ت ہو۔‬ ‫‪https://www.facebook.com/100008707759393/videos/1555521681414742/Uzp‬‬ ‫‪fSTEwMDAwODcwNzc1OTM5MzoxNTU1NTIyMTExNDE0Njk5/?id=10000870775‬‬ ‫‪9393‬‬

‫طال‬ ‫ش دی آج اور کل کی خو صورتی اور رواں حی ت ک پہال زینہ ہے لہذا‬ ‫یہ ہر حوالہ سے م تبر اور امور حی ت میں پہ ے نمبر پر آت ہے۔ بال‬ ‫زندگی پھل پھول حسین وادی ں بدلتے موسموں کے رنگ کس ک کے۔‬ ‫گوی اس کی اس حیثیت کے تن ظر میں بالتک ف کہ ج سکت ہے‘ یہ‬ ‫لذت ک ذری ہ نہیں اپنی ذات میں تقدس مآ بھی ہے۔‬ ‫ش دی کے م نی خوشی کے ہیں۔ ش دی کے ب د زندگی کے آخری‬ ‫لمحوں تک دکھ سکھ کے ہر موس میں خوش رہنے کی س ی ہوتی‬ ‫رہنی چ ہیے۔ درگزر برداشت ایک دوسرے کے لیے تی گ ش ر رہن‬ ‫چ ہیے۔ ایک چھت ت ے دو جنسیں س نس لے رہی ہوتی ہیں اور اگ ی‬


‫نسل ک ذری ہ بن رہی ہوتی ہیں۔ ہر نئے آنے والے کی ہر ضرورت کو‬ ‫ہر م م ے پر ترجیع دیتی ہیں۔ مثال م ں گہری نیند میں ہے۔ بچے کو‬ ‫بھوک لگ گئی ہے۔ وہ یہ کہہ کر رونے دو‘ صبح کو اٹھ کر تس ی سے‬ ‫دودھ پالؤں گی سو ج تی ہے۔ نہیں ب لکل نہیں‘ سو نہیں ج تی۔ وہ فورا‬ ‫سے پہ ے اٹھ ج ئے گی۔ فیڈ کرانے کے ب د ہی سوئے گی۔‬ ‫بچے کو کوئی تک یف ہے۔ دونوں‘ اس بچے کے م ں اور ب پ اٹھ کر‬ ‫اسے کمرے میں ی صحن میں لے کر پھریں گے۔ زی دہ تک یف کی‬ ‫صورت میں‘ رات ک کوئی بھی سم ں رہ ہو۔ گھر میں کوئی نہ ہو چور‬ ‫ڈاکو پڑنے ک احتم ل ہو‘ لیکن یہ دونوں جو اس بچے ک سب بنے‬ ‫ڈاکٹر وید حکیموں کے گھر کے دروازوں پر دستک دیتے پھریں گے۔‬ ‫ح الں کہ وہ بچہ هللا کی مخ و اور اس کی م کیت ہے۔ هللا نے ان‬ ‫کےسینوں میں محبت ک سمندر بہ دی ہوت ہے اس لیے ان کی بےچینی‬ ‫اور بےقراری برداشت سے ب ہر نکل ج تی ہے۔‬ ‫اس خو صورت خوشوں بھرے اور تقدس مآ رشتے کے خت ہونے‬ ‫کی راہیں نکل آتی ہیں۔ مثال‬ ‫غصہ‬ ‫دونوں کی ی کسی ایک کی کوئی اور اپنی کوئی پسند رہی ہو‬ ‫پہ ے دن ہی دل کو نہ بھ ن ۔‬ ‫زبردستی کی ش دی‬ ‫ایک فری کی حد سے بڑھی بدکالمی‬ ‫عورت کسی ذاتی ترجیع کی بن پر طال ط کر سکتی ہے۔ جیسے‬ ‫ہزار روپیے کی مالزمت ک جھ نسہ مال اس‬ ‫یہ ں ایک عورت کو‬


‫نے خ وند کو طال دینے پر مجبور کر دی ۔‬ ‫غ ط فہمی‬ ‫کسی تیسرے کی س زش ت کہ یہ رشتہ خت ہو ج ئے ی ان کے ہ ں کل‬ ‫ک ی ں س س ہ ج ری رہے‬ ‫آدمی کے پ س م ل ی عہدہ ہونے کی صورت میں اپنی بیٹی دینے کی‬ ‫خواہش‘ ک ن بھریے متحرک ہو ج تے ہیں۔‬ ‫ایسی بیسیوں وجوہ ہو سکتی ہیں جو می ں بیوی کے رشتے کو خت کر‬ ‫سکتی ہیں۔ طال برا نہیں‘ انتہ ئی برا ف ل ہے۔ آخری حد تک برداشت‬ ‫اور درگزر سے فری ک لیں اور نب ہ کی صورت نک لیں۔ ج درستی ک‬ ‫رستہ نہ نک ے اور فس د ک دروازہ کھ نے ک احتم ل ہو تو طال بہت‬ ‫بڑی ن مت ہے کیوں کہ یہ دوشخصوں کو ہی نہیں‘ دو کنبوں اور‬ ‫سوس ئٹی کو بھی فس د کی آگ سے بچ لیتی ہے ت ہ تین ب ر تین وقتوں‬ ‫میں انتہ ئی سنجیدگی اور مخ صی سے غور کر لین چ ہیے کہ غ طی تو‬ ‫نہیں ہونے ج رہی۔‬ ‫اس ک مستحسن طریقہ یہ ہی ہے کہ فریقین آمنے س منے بیٹھ ج ئیں۔‬ ‫عورت نے طال م نگی ہو ی مرد طال دین چ ہت ہو‘ مرد تین ب ر ل ظ‬ ‫طال ٹھہر ٹھہر اور رک رک کر بولے۔ اس کے ب د دونوں فری ایک‬ ‫دوسرے سے دوری اختی ر کر لیں۔‬ ‫ن رت کے سب دل میں طال دینے سے طال نہیں ہوتی۔ دل میں دی‬ ‫گئی طال کے حوالہ سے گھری و اور جنسی ت خت کرن حرا ہے۔‬ ‫س منے ہیٹھ کر طال کے شبد بولن طال دینے کے لیے ضروری ہے۔‬ ‫ورنہ طال واقع نہیں ہوتی۔‬


‫نوٹ‪:‬‬ ‫ح م ہ ہونے ی حیض میں ہونے کی صورت میں ایس نہیں کی ج سکت ۔‬ ‫حیض کے خت اور بچے کی پیدائش تک انتظ ر کریں۔ طال دینے ی‬ ‫لینے ک ارادہ اس کے ب د بدل ج ت ہے تو یہ اچھ خوشگوار عمل ہو‬ ‫گ۔‬ ‫تین حیض ی نی تین م ہ وہ اسی گھر میں اق مت کرے۔ تین م ہ ب د ان‬ ‫دونوں ک کوئی رشتہ نہ ہو گ ۔ وہ ایک دوسرے کے لیے اجنبی اور‬ ‫غیر محر ہوں گے۔ وہ ہر طرح سے آزاد ہوں گے اور اپنے ہر قس‬ ‫کے اچھے برے کے ذمہ دار ہوں گے۔‬ ‫نوٹ‪:‬‬ ‫ان تین م ہ ی نی نوے دن میں وہ ص ح کر سکتے ہیں۔ یہ ں تک مدت‬ ‫کے آخری لمحے تک وہ ص ح کر سکتے ہیں۔‬ ‫عورت اس دورانیے میں گھر سے ب ہر قد نہیں رکھے گی اور ن ہی‬ ‫گھر ی گھر سے ب ہر کسی شخص سے ت ق ت بن ئے گی۔‬ ‫مرد ان تین م ہ میں اس عورت کو ضروری ت حی ت کسی دوسرے کے‬ ‫ہ تھ سے مہی کرت رہے گ ۔‬ ‫طال ک سرک ری طریقہ ہر لح ظ سے ق بل مذمت ہے کہ عورت کو‬ ‫طال کے سرک ری طریقہ سے تین م ہ طال کے نوٹس بھیجے گ ۔ یہ‬ ‫اپنی اصل میں سرک ری اہل ک روں کو م ل پ نی مہی کرنے ک رستہ نک ال‬ ‫گی ہے۔ عورت اور مرد کے ایک چھت سے نکل ج نے سے ص ح‬ ‫ص ئی ک رستہ بند ہو ج ت ہے۔ دونوں کے اپنے قری النے کی کوشش‬ ‫نہیں کریں گے بل کہ ان کے دلوں کو پتھر بن ئیں گے۔ وہ وہ غ طی ں‬


‫اور خ می ں گوش گزار کریں گے جن ک ان کے فرشتوں کو بھی ع نہ‬ ‫ہو گ ۔ م ضی کی کوت ہیوں کے قصے انہیں ی د دالئیں گے۔ دو ہزار س ل‬ ‫پہ ے اس بےلح ظ اور منہ پھٹ عورت نے تمہ رے ن ن کی ش ن اقدس‬ ‫میں گست خی کی تھی۔ بےتکی ں چھوڑ کر ن رتوں ک آسم ن سے ب تیں‬ ‫کرت بھ نبڑ مچ دیں۔‬ ‫ج ل س زی ک زم نہ ہے فس د ک ر یہ ک انج دے سکت ہے۔‬ ‫اپنے م د ذاتی ی خ ندانی ضد کی بن پر زبردستی اور ب لجبر طال ک‬ ‫نوٹس بھجوای ج سکت ہے۔‬ ‫ایسی بہت س ری وجوہ ہیں جن کی بن پر اس سرک ری طریقہ کو اختی ر‬ ‫کرن کسی طرح درست نہیں۔‬

‫کھ ی تنبیہ‬ ‫بیٹی مہر افروز ک خوا اہل دنی کے لیے ایک کھ ی تنبیہ‬ ‫کچھ دن ہوئے مجھے ایک خوا آی اور میں نے کوئی غور نہ کی کہ‬ ‫میں کون س کوئی درویش ی صوفی ہوں۔ ایک ع س آدمی ہوں۔ ہ ں‬ ‫درویشوں صوفیوں اور اہل فقر کے لیے دل میں عزت احترا اور محبت‬ ‫ضرور رکھت ہوں۔ یہ خوا سحری قری ک تھ ۔‬ ‫میں نے خوا میں دیکھ کہ ان ہی بوسیدہ اور تقریب پھٹے پرانے‬


‫سے کپڑوں میں م بوس ہوں اور ایک ت حد نظر میدان میں اکیال کھڑا‬ ‫‪:‬ہوں۔ میں نے ب ند آواز میں کہ‬ ‫لوگو! سنو سنو‬ ‫کچھ لوگ جمع ہو گئے۔‬ ‫میں نے کہ ‪ :‬دیکھو اپنے هللا کی طرف پھر ج ؤ اسی میں تمہ ری‬ ‫بھالئی ہے۔‬ ‫میری آواز ازخود ب ند ہو گئی اور چ روں طرف گونجنے لگی۔ پہ ے چند‬ ‫پھر اس کے ب د ت حد نظر لوگ جمع ہو گیے۔‬ ‫میں میدان میں ہی کھڑا ہوں اور میری آواز س تک پہنچ رہی ہے۔‬ ‫آواز اتنی ب ند اور گرج دار کیسے ہو گئی۔ حیرت کی ب ت تھی۔ میں نے‬ ‫لوگوں کو خبردار کی کہ برا وقت آنے کو ہے۔ اس سے پہ ے کہ برا‬ ‫وقت آئے ج د اور کسی توقف اور تس ہل کے بغیر توبہ کرکے اپنے هللا‬ ‫کی طرف پھر ج ؤ ورنہ اچھ نہیں ہو گ ۔‬ ‫میں نے خوا کو نظرانداز کر دی کہ بس یہ میرا ایک محض واہمہ تھ ۔‬ ‫سمجھ ن ی کسی قس کی تنبیہ کرن تو بڑے لوگوں ک ک ہے ج کہ‬ ‫میں سرے سے کچھ بھی نہیں ہوں ۔۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔‬ ‫مجھے تو خود ہدایت اور راستی پر چ نے کی ضرورت ہے۔ میں کون‬ ‫ہوت ہوں کسی کو تنبیہ کرنے واال۔ میری اوق ت اور بس ت ہی کی ہے‬ ‫اور یہ بھی کہ میں بھال کسی کو کی ہدایت اور وارننگ دے سکت ہوں۔‬ ‫دو روز ہوئے میری پی ری بیٹی مہر افروز نے اپن خوا سن ی جس کی‬ ‫کڑی ں میرے خوا سے م تی ہیں۔ بیٹی مہر افروز حضرت ب ب جی قب ہ‬ ‫سید م ین الدین چشتی رح کے گھرانے سے روح نی انسالک رکھتی‬


‫ہے۔ وہ ہے بھی درویش اور فقیر طبع۔‬ ‫اس نے خوا میں دیکھ‬ ‫وہ پہ ڑ ی چٹ ن کی چوٹی پر اکی ی کھڑی ہے نیچے ایک دنی آب د ہے۔‬ ‫آسم ن پر سی ہ ب دل امڈے چ ے آتے ہیں۔ نیچے چ تے پھرتے لوگ‬ ‫خرابی ک شک ر ہیں۔ وہ چیخ چیخ کر لوگوں کو خرابی سے ب ز آ ج نے‬ ‫کو کہہ رہی ہے۔ لوگ اسکی آواز پر ک ن دھرنے کی بج ئے اس ک مذا‬ ‫اڑا رہے ہیں۔ وہ مذا برداشت کرکے لوگوں کو راستی کی طرف پ ٹنے‬ ‫کو کہے ج رہی ہے لیکن لوگ خرابی سے رک نہیں رہے۔ پھر آن‬ ‫واحد میں ب رش کی بج ئے آسم ن سے برف کی س یں گرن شروع ہو‬ ‫ج تی ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے نیچے سوائے ویرانے کے کچھ ب قی‬ ‫نہیں بچت اور آسم ن پھر سے ص ف اور ش ف ہو ج ت ہے۔‬ ‫میں بیٹی مہر افروز کے خوا کو الی نی اور بےم نی نہیں سمجھت اور‬ ‫اس کے اس خوا کو دنی کے س منے النے کی جس رت کر رہ ہوں۔‬ ‫مجھ سے جتن ج دی ہو سک اس ک خوا لوگوں کے س منے پیش کر‬ ‫دی ہے کہ کہیں میری کوت ہی اور تس ہل کے سب دیر نہ ہو ج ئے۔‬ ‫لوگو! ج ن رکھو موت برح ہے ہر کسی کو حقیقی م لک کے پ س ج ن‬ ‫ہے یہ ں ک یہ ں ہی رہ ج ئے گ ۔ یہ ں ک کچھ س تھ نہ ج سکے گ ۔ جتن‬ ‫ج د ہو سکے توبہ کی ج ن پھرو۔‬ ‫هللا سے زی دہ کوئی اور مہرب ن نہیں۔ وہ سچی توبہ ضرور قبول‬ ‫فرم ئے گ ۔‬ ‫اچھ ئی اور نیکی ک رستہ اختی ر کرو۔ انس ن ک ئت ت کے لیے ہے۔ اسے‬ ‫خالفت ارضی م ی ہے۔ اپنی اخری ط قت تک ک ئن ت کی جم ہ مخ و ک‬


‫بالت ری وامتی ز بھال کرو۔‬ ‫س ک خی ل رکھو‬ ‫ج ن رکھو تمہ را خی ل رکھنے کے لیے هللا ہی ک فی ہے۔‬ ‫خدا کے لیے اپنے هللا کی طرف پھرو ورنہ ج ن رکھو آخر کو خس رہ‬ ‫اور پچھت وا ہی ہ تھ لگے گ ۔ اگر وقت گزر گی تو واپسی نہ ہو سکے‬ ‫گی۔‬ ‫اے هللا! گواہ رہن کہ میں نے لوگوں تک مہر بیٹی ک خوا پہنچ دی‬ ‫ہے۔ توبہ کی استدع کر دی ہے۔ بدی سے ب ز آنے کو کہہ دی ہے۔ بھال‬ ‫کرنے اور راستی ک رستہ اپن نے کے لیے بھی گزارش کر دی ہے۔‬ ‫اے هللا! اپنے اس حقیر اور ن چیز بندے کی توبہ قبول فرم بھال کرنے‬ ‫اور راہ راست پر چ نے کی توفی عط فرم ۔‬ ‫اے هللا! میری بیٹی مہر افروز کے دانستہ اور ن دانستہ گن ہوں اور ہر‬ ‫قس کی کمی کوت ہی کو م ف فرم دے۔‬ ‫اس کے اچھ کرنے کی شکتی میں اض فہ فرم ۔ بےشک تجھ سے زی دہ‬ ‫قری کوئی نہیں اور تجھ سے بڑھ کر مدد کرنے اور توفی عط کرنے‬ ‫واال کوئی نہیں۔‬

‫میں ن ہیں سبھ توں۔۔۔۔۔۔۔چند م روض ت‬


‫‘میں ن ہیں سبھ توں‬ ‫فقرا کی زندگی ک پہال اور آخری اصول ہوت ہے۔ جو فقیر اس نظریے‬ ‫پر‘ فکری‘ ق بی اور عم ی سطح پر ق ئ رہت ہے‘ وہ ہی ص لحین کی‬ ‫صف میں کھڑا ہوت ہے۔ عموم ب کہ اکثر‘ اختالف اس کی ت بیر و‬ ‫تشریح پر ہوت ہے۔‬ ‫کچھ ک کہن ہے‘کہ یہ نظریہ‘ ترک دنی کی طرف لے ج ت ہے۔ ترک دنی‬ ‫کے رویے کو‘ کسی طرح مستحسن قرار نہیں دی ج سکت ۔ دوسرے‬ ‫ل ظوں میں‘ یہ ذمہ داریوں سے فرار کے مترادف ہے۔‬ ‫ایک طبقہ اسے الح د کی طرف بڑھنے ک رستہ سمجھت ہے۔‬ ‫کچھ کہتے ہیں‘ اس کے نتیجہ میں‘ ایک سطح پر ج کر‘ خدائی ک‬ ‫دعوی س منے آت ہے۔‬ ‫اس کے عالوہ بھی‘ اس نظریے کی تشریح ت کی ج تی ہیں۔ جو اس‬ ‫ذیل میں تشریح ت س منے آتی ہیں‘ ان ک حقیقت سے‘ دور ک بھی ت‬ ‫واسطہ نہیں۔‬ ‫عجز اور انکس ری شخص کو بے وجود نہیں کرتی۔ اگر وہ بےوجود‬ ‫ہوت ہے‘ تو دنی ‘ زندگی اور زندگی کے مت ق ت سے‘ رشتہ ہی خت ہو‬ ‫ج ت ہے۔ دوسری طرف شخصی ح ج ت‘ اپنی جگہ پراستحق رکھتی‬ ‫ہیں۔ پ خ نہ اور پیش کی ح جت پر‘ کیسے ق بو پ ی ج سکت ہے۔‬ ‫س نس آئے گ ‘ تو ہی زندگی کی س نسیں برقرار رہ پ ئیں گی۔ لہذا ذات‬ ‫ک تی گ‘ ممکن ہی نہیں‘ ب کہ یہ فطری امر ہے۔ فطری امر سے انک ر‘‬ ‫سورج کو مغر سے‘ ط وع کرنے کے مترادف ہے۔‬


‫‘میں ن ہیں سبھ توں‬ ‫درحقیقت انبی ک طور ہے۔ نبی اپنی طرف سے‘ کچھ نہیں کرت اور‬ ‫ن ہی‘ اپنی مرضی ک ک مہ‘ منہ سے نک لت ہے‘ کیوں کہ اس ک کہ ‘ اور‬ ‫کی ‘ زندگی ک طور اور حوالہ ٹھہرت ہے۔ نبی ک رستہ موجود ہوت ہے‘‬ ‫فقیر ہر ح لت میں‘ اس رستے پر چ ت ہے۔ اس رستے پر چ ن ‘ هللا کے‬ ‫حک کی اط عت کرن ہے۔ جہ ں اپن حک ن فذ کرنے خواہش ج گتی ہے‘‬ ‫وہ ں شرک ک دروازہ کھل ج ت ہے۔ گوی هللا کے سوا‘ کسی اور ک بھی‬ ‫حک چ ت ہے۔ شخصی حک میں۔۔۔۔۔۔۔ توں نہیں سبھ میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واضح‬ ‫طور موجود ہوتی ہے‘ اور یہ ہی ن انص فی اور ظ ہے۔ آدمی کوئی‬ ‫بھی‘ اور کسی بھی سطح ک ہو‘ هللا کے ق نون سے ب ہر ج نے ک ‘‬ ‫استحق نہیں رکھت ۔ ق نون کے م م ے میں استثن ئی صورت موجود‬ ‫ہی نہیں ہوتی۔ استثن ئی صورت نک لن ‘ شرک ہے۔ فقیر هللا کے ق نون‬ ‫کے م م ے میں‘ کیوں کیسے ی اس طور کی خراف ت کے ب رے میں‘‬ ‫سوچن بھی‘ جر عظی ی دوسرے ل طوں میں‘ گن ہ کبیرہ سمجھت ہے۔‬ ‫جو هللا نے کہہ دی ‘ وہی درست ہے‘ اس کے سوا‘ کچھ بھی درست‬ ‫نہیں۔‬ ‫ہر تخ ی ک ر کو‘ اپنی تخ ی سے پی ر ہوت ہے۔ هللا بھی اپنی مخ و‬ ‫سے‘ بےگ نہ اور الت نہیں۔ جو بھی‘ اس کی مخ و سے پی ر کرت‬ ‫ہے‘ احس ن کرت ہے‘ اس کے لیے بہتری سوچت ہے‘ انص ف کرت ہے‘‬ ‫گوی وہ هللا کی محبت ک د بھرت ہے۔ فقیر‘ هللا کی رض اور خوشنودی‬ ‫کے لیے‘ هللا کی مخ و پر احس ن کرت ہے۔ وہ اپنے منہ ک لقمہ‘ هللا‬ ‫کی مخ و کے‘ حوالے کرکے خوشی محسوس کرت ہے۔ هللا کی مخ و‬ ‫کی سیری‘ دراصل اس کی اپنی سیری ہوتی ہے۔ مخ و کی خیر اور‬


‫بھالئی‘ اس کی زندگی ک اصول اور مشن ہوت ہے۔ اپن خی ل رکھیے‘‬ ‫کی ہوا‘ یہ تو کھ ی خودغرضی ہوئی۔ اس کے نزدیک س ک خی ل‬ ‫رکھو‘ یہ سنت هللا ہے‘ تمہ را خی ل رکھنے کے لیے‘ هللا ہی ک فی ہے۔‬ ‫فقیر یہ ں بھی‘ میں ن ہیں سبھ توں کو‘ اپالئی کرت ہے۔ اسے کسی‬ ‫م دی شے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسے هللا کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ‬ ‫س ‘ اپنی ذات کی ن ی کے بغیر‘ ممکن نہیں۔ ج عقیدہ میں ن ہیں سبھ‬ ‫توں‘ سے دوری اختی ر کرے گ تو‬ ‫هللا پر ایم ن سے دور ہو ج ئے گ ۔‬ ‫اپنی ذات کو مقد رکھے گ ۔‬ ‫ب نٹ میں خی نت کرے گ ۔‬ ‫وس ئل پر ق بض ہونے کو زندگی ک مقصد ٹھہرائے گ ۔‬ ‫درج ب ال م روض ت کے حوالہ سے‘ ذات ک تی گ ممکن نہیں۔ یہ وتیرہ‘‬ ‫اہل ج ہ اور اہل ثروت کو کس طرح خوش آ سکت ہے۔ ح اور انص ف‬ ‫کی ب تیں‘ اور هللا کے حک کے خالف انج پ نے والے امور پر تنقید‬ ‫اور برآت‘ کسی ب دش ہ ی اہل ثروت کو‘ کس طرح خوش آ سکتی ہے۔‬ ‫ص ف ظ ہر ہے‘ ایسے لوگوں کو ظ ہر پالی ج ئے گ ۔ ب دش ہ ی اہل‬ ‫ثروت بھول ج تے ہیں‘ کہ میں ن ہیں س توں‘ کے ح مل مر نہیں‬ ‫سکتے۔ دوسرا وہ پہ ے ہی ک ہوتے ہیں۔ موت تو ہونے کو آتی ہے۔‬ ‫میں کو موت آتی ہے‘ تو کے لیے موت نہیں۔ میں مخ و ہے‘ تو‬ ‫مخ و نہیں۔‬


‫ارشد حکی ک ایک ش ر‬ ‫ارشد حکی ک ت پنج پولیس سے ہے۔ دیکھنے میں مولوی س ہو‬ ‫کر بھی سیدھ س دہ شخص ہے۔ اس کی عمومی حضرات سے گ تگو‬ ‫بھی دنی داری سے مت ہوتی ہے۔ ہ ں البتہ ٹیڑھی اور شطرنجی‬ ‫نوعیت کی گ تگو اس کے ہ ں سننے کو نہیں م تی۔ سول لب س میں‬ ‫کوئی طرح داری نہیں م تی۔ ٹوہر ٹپ کہیں دور تک نظر نہیں آت ۔‬ ‫دنی داری کے ک موں میں سولہ آنے گ اور مگن س نظر آت ہے۔ یہ س‬ ‫دیکھ کر کوئی سوچ بھی نہیں سکت کہ وہ اندر سے بحرالک ہل سے‬ ‫بھی گہرا اور پورا ک پورا ہے۔ پنج بی اور اردو میں ش عری کرت ہے۔‬ ‫موقع م ے اور ڈیوٹی سے فرصت م نے پر ادبی تقریب ت میں ش مل ہوت‬ ‫ہے۔ اپنے حصہ کی داد بھی وصول کرت ہے۔ چوں کہ ہر کوئی نہیں‬ ‫ج نت کہ وہ پولیس مین ہے اس لیے داد اپنے کہے کے تن ظر میں ہی‬ ‫وصول کرت ہے۔‬ ‫اس کی پوری ش عری پر لکھنے کی ب د میں کوشش کروں گ ۔ اس کے‬ ‫ب ض اش ر کی ت ہی ظ ہر سے کہیں ہٹ کر ہے۔ وہ ت ہی غور کرنے‬ ‫کے ب د دم کے م دہ میں اترتی ہے۔ یہ ہی صورت اس کے ہض‬ ‫کرنے کی ہے۔ جیسے ک نوں سے مکی کی روٹی کے س تھ س گ نوش‬ ‫ج ن کر لی ہو۔‬ ‫پ ن س ت روز ہوئے میرے پ س بیٹھ ہوا تھ ۔ میں بیم ر تو کئی س ل‬ ‫سے ہوں لیکن اس روز بیم ری کچھ زی دہ ہی پڑی ہوئی تھی۔ یہ ں‬ ‫تک کہ حواس بھی بی م ری کی گرفت میں تھے۔ ش ر چوں کہ میری ک‬


‫زوری ہیں اس لیے بھول گی کہ میں بیم ر ہوں۔ اس نے ج یہ ش ر‬ ‫سن ی تو سوچ ک طوف ن کھڑا ہو گی اور مجھے ی د تک نہ رہ کہ بیم ر‬ ‫‪:‬ہوں‬ ‫فقر اظہ ر میں غن س ہے‬ ‫بےنی زی بھرا خدا س ہے‬ ‫ب نٹ دینے والے کو غنی کہ ج ت ہے اور یہ ص ت هللا ت لی ذات گرامی‬ ‫سے وابستہ ہے۔ هللا ت لی اس امر سے قط ی بے نی ز ہوت ہے کہ کمی‬ ‫ہو ج ئے گی۔ ب نٹ دینے والے کے نزدیک سے بھی اس قس کی سوچ‬ ‫گزر نہیں پ تی اگر وہ ایس سوچنے لگ تو ب نٹ ک عمل درست سمت پر‬ ‫نہ رہے گ ۔ یہ ب ت اپنی جگہ هللا اور دے دے گ ۔ ب نٹ دینے ک اپن ہی‬ ‫لطف اور مزا ہے۔ ح ت ایس سوچت تو ق رون بن ج ت ۔ ق رون کی دولت‬ ‫اسے لے ڈوبی لیکن ح ت کی سخ وت آج بھی دلوں میں نقش ہے اور‬ ‫یہ پڑھنے میں نہیں آی کہ وہ کنگ ل ہو گی تھ ۔‬ ‫ب نٹ ک اپن ایک مزا ہوت ہے۔ غنی ب نٹ میں کوئی غرض نہیں رکھت ۔‬ ‫یہ ب ت غنی کے قری سے بھی نہیں گزر پ تی کہ اسے دینے کے ص ہ‬ ‫میں سالمیں وصول ہوں گی۔ وہ ی د رکھ ج ئے گ ی دینے کے نتیجہ‬ ‫میں اسے واپسی دوگن ح صل ہو ج ئے گ ۔ اگر لینے والے سے کسی‬ ‫قس کی توقع ب ندھ کر دی ج ئے گ تو یہ خودغرضی کے زمرے میں‬ ‫داخل ہو گ ۔ اس طرح دینے والے کو غنی نہیں ت جر کہ ج ئے گ ۔ هللا‬ ‫چوں کہ غنی کی ص ت رکھت ہے۔ هللا کی عط ئیں ہر قس کی غرض‬ ‫سے ب التر ہیں۔ وہ بےنی ز ہے۔ اس ک بندہ ج ب طور خ ی ہ یہ ص ت‬ ‫فریضے کے طور پر اختی ر کرت ہے تو اس کی ب نٹ میں کسی قس کی‬ ‫غرض ی ری پوشیدہ نہیں ہوتی۔ اس کی ب نٹ کھری کھری اور نکھری‬


‫نکھری ہوتی ہے۔ ہر کھری اور نکھری نکھری ب نٹ بےغرضی اور‬ ‫بےنی زی ک عنصر رکھتی ہے۔‬ ‫بےط بی‘ بےغرضی اور بےنی زی صرف اور صرف هللا کی ذات گرامی‬ ‫سے وابستہ ہے۔ وہ ہر قس کی ح جت سے ب ال ہے۔ بےشک غنی ک‬ ‫خ صہ یہ ہی ہے۔ غنی شخص‘ مخ و سے دینے کے س س ہ میں‬ ‫ب من فع واپسی ک سوچ بھی نہیں سکت ۔ اسی لیے یہ غن ‘ خدا س ہے۔‬ ‫خدا اس لیے نہیں کہ وہ لطف و عط اور کر کے لیے خدا کے حضور‬ ‫دست بستہ کھڑا نظر آت ہے۔ گوی گرہ میں ہونے کے م م ہ ان حد نہیں‬ ‫ج کہ خدا ہونے اور میسر کے م م ہ میں ان حد ہے۔‬ ‫ا ج دین غرض‘ من فع ی کسی بھی نوعیت کے من فع سے وابستہ‬ ‫ہو ج تی ہے تو وہ دین غن کے زمرے میں نہیں آتی۔ ج کسی بھی‬ ‫طور سے لین مطمع نظر ٹھہرے تو جمع انب ر جو حدوں میں ہوت ہے‘‬ ‫تکبر کی بستی ک اق متی ہو کر خود کو خدا سمجھنے لگت ہے۔ اس ک‬ ‫یہ تکبر چھین جھپٹی فس و فجور ک ہی ب عث نہیں بنت بل کہ بل کہ‬ ‫مخ و کے لیے بہت بڑی آزم ئش بن ج ت ۔ لوگ ظ ‘ زی دتی اور جبر‬ ‫کی آگ میں ج تے ہیں۔ بستی ں لہو میں نہ تی ہیں۔ کبھی زہر پیت ہے تو‬ ‫کبھی نیزے چڑھت ہے۔ ت ریخ کے پ س مت ج ئیے‘ یہ متکبروں اور‬ ‫متکبروں کے جھولی چکوں ک قصیدہ ہے‘ ہ ں عہد عہد کے ارشد‬ ‫حکی کے کال کو پڑھیے۔ عالمتوں اور است روں میں لپٹی ان کی‬ ‫کرتوتوں کو دیکھ لیجیے۔ ان متکبروں ک اصل چہرا س منے آ ج ئے گ ۔‬ ‫اگر غن کو تھرل کے م ہو دیئے ج ئیں تو غیرفریبی اور مصنوعی‬ ‫تھرل میں نم ی ں فر ہوت ہے۔ فریبی اور مصنوعی تھرل لین اور کسی‬ ‫ن کسی نوعیت کی غرض سے جڑی ہوتی ہے۔ اسے ک روب ری اور‬ ‫ت جری تھرل ک ن دی ج سکت ہے۔ چ لیس پیت لیس س ل پہ ے کی ب ت‬


‫ہے۔ میں بےغ ہجور کے کسی حک پر گھر سے ب ہر آی ۔ ایک دوک ن‬ ‫دار ک روب ری مصروفیت کے س تھ س تھ ریڈیو بھی سن رہ تھ ۔ ریڈیو‬ ‫‪:‬پر امیر خسرو ک یہ کال نشر ہو رہ تھ‬ ‫نمی دان چہ منزل بود ش ج ئے کہ من بود‬ ‫میرے قد وہیں رک گئے اور بےغ ہجور ک حک ایک د سے ص ر‬ ‫ہو گی ۔ اس کی م نویت اور فوری ضرورت فن کی وادی میں ج بسی۔‬ ‫سڑک کن رے کڑی دھوپ ک احس س ہوئے بغیر کال سنت رہ ۔ ج کال‬ ‫خت ہوا تو مجھے گرمی ک شدت سے احس س ہوا ت ہ یہ بھول گی کہ‬ ‫گھر سے کس ک کے لیے آی ہوں۔ غن کی اس ح لت میں‘ میں ک‬ ‫احس س د توڑ گی تھ ۔ ان لمحوں میں تو کے سوا کچھ بھی نہ تھ ۔ غن‬ ‫کی اس صورت میں وجود کے س رے سل تھرل میں آ ج تے ہیں۔‬ ‫تندرست سل اپنی جگہ ک زور‘ بیم ر‘ الغر‘ مدہوش یہ ں تک کہ مردہ‬ ‫سل بھی حرکت میں آ ج تے ہیں۔‬ ‫حضرت داؤد ع یہ السال ج کال الہی پڑھتے تو پرندے تک مزید‬ ‫پرواز سے م ذور ہو ج تے۔ بالشبہ ان کی آواز میں ج دو رہ ہو گ‬ ‫لیکن اس آواز میں کہے گئے کو بہرصورت کریڈٹ ج ت ہے۔ ایسے ہی‬ ‫نہیں کہ ج ت کہ ل ظ اپنی م نویت کے حوالہ سے ہی زندہ رہت ہے۔‬ ‫جوں ہی آلودہ ہوت ہے جبر زب ن کو تو اپن کر سکت ہے لیکن ہردے‬ ‫اس کی گرفت سے ہزاروں کوس دور رہت ہے۔ جبر کی گرفت جوں ہی‬ ‫ک زور پڑتی ہے آلودہ اپنی موت آپ مر ج ت ہے۔‬ ‫غن ک یہ حوالہ بھی خدا س لگنے لگت ہے‘ ت ہی کے قری تر چال ج ت‬ ‫ہے۔۔ اس خدا س لگنے میں بھی یہ حقیقت پنہ ں ہے کہ شخص چوں کہ‬ ‫میں کی حودود میں نہیں ہوت اور یہ کی یت اختی ری نہیں فطری ہوتی‬


‫ہے اسی وجہ سے غن خدا س لگنے لگت ہے۔‬ ‫ارشد حکی محکمہ پولیس میں سہی اور دیکھنے میں مولوی س نہیں‘‬ ‫مولوی ہے۔ دونوں ادارے میں کی بستی کے ب سی تھے اور ب سی ہیں‬ ‫لیکن یہ ہ تھی کے دانت دیکھ نے کے اور کھ نے کے اور کے‘ کی‬ ‫عمومی ت ہی کے قط ی برعکس ہے۔ اس کے کردار و عمل میں‬ ‫تصوف ج وہ گر ہے۔ صوفی خود کو ظ ہر نہیں کرت اور ن ہی اپنے‬ ‫صوفی ہونے ک اقرار کرت ہے۔ عجز وانکس ر اس ک وتیرہ رہ ہے۔ دع‬ ‫ہے‘ هللا کری اس کے ع اور ق بی کی ی ت کو اپنی عط ؤں سے سرفراز‬ ‫رکھے۔ آمین‬

‫ہ اسال کے م ننے والے ہیں' پیروک ر نہیں‬ ‫میں عرصہ سے حیران تھ کہ مس م ن دنی کی ایک کثیر آب دی ہونے‬ ‫کے ب وجود ذلت وخواری زیردستی اور قرض کے چنگل میں کیوں‬ ‫گرفت ر ہیں۔ اگر کوئ سر اٹھ ت ہے تو اٹھنے واال سر ک سڑ سے ق کر‬ ‫دی ج ت ہے ی پھر پ بندی ں لگ دی ج تی ہیں۔ کوئ اس قہر و غص پر‬ ‫چوں بھی نہیں کر پ ت ۔‬ ‫میرے ذہن میں یہ سوال بھی اٹھ کی اکثریت کی کوئ م نویت نہیں۔ اگر‬ ‫اکثریت م نویت سے تہی ہے تو پھر جمہوریت محض ایک پ کھنڈ ہے۔‬ ‫اگر جمہوریت ایک ڈرامہ ہے تو ہ اس میں اپنی بق کیوں خی ل کرتے‬ ‫ہیں۔‬


‫ایک سوال نے پھر جن لی ‘ کی جمہوریت کوئ پروگرا بھی دیتی ہے۔‬ ‫اس ک جوا یقین ن ی میں ہے۔ اگر جمہوریت کوئ پروگرا نہیں دیتی‬ ‫ی اس ک اپن ذاتی کوئ پروگرا نہیں ہے تو کی جمہوریت میں ترقی کی‬ ‫تالش کھ ی حم قت نہیں۔ غیر مس جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں تو یہ‬ ‫ان کے سم جی اور مذہبی سٹ اپ سے لگ رکھتی ہو گی وہ اسے شو‬ ‫سے گ ے ک ہ ر بن ءیں۔ کسی مس کو اس پر اعتراض کرنے ک بھال‬ ‫کی ح ہے۔ انھیں اپنی مرضی اور ضرورت کی زندگی گزارنے ک ح‬ ‫ہے۔‬ ‫اسال میں تقوی پرہیزگ ری اور عمل ص لح کو اہمیت ح صل ہے۔ اگر‬ ‫کوئ مزدور ہے لیکن یہ تینوں امور رکھت ہے تو ری ستی ام رت ک اس‬ ‫شخص سے زی دہ کون مستح ہے۔ جو بے پن ہ دولت ط قت ی ڈرانے‬ ‫دھمک نے اور دب ؤ ڈالنے کی پوزیشن میں ہے لیکن قول و ف ل کے‬ ‫حوالہ سے ف س و ف جر ہے وہ یہ ح نہیں رکھت ۔ گوی اس کی دولت‬ ‫اور ط قت کوئ م نوت نہیں رکھتی۔‬ ‫میں نے بڑا غور کی ہے اکثریت کی کوئ م نویت نہیں۔ انس نی ترقی‬ ‫اور بق کی ض من کوئ اور چیز ہے۔ اؤل اؤل مسم ن ت داد میں ن ہونے‬ ‫کے برابر تھے لیکن ک می بی سے ہ کن ر ہوتے تھے۔ نم ز روزہ حج‬ ‫زکوتہ وغیرہ واجب ت وہ بھی سر انج دیتے تھے ہ بھی ان واجب ت‬ ‫کی اداءگی سے سرخرو ہونے کی کوشش کرتے ہیں قری نی بھی بڑے‬ ‫جوش و جذبے سے دیتے ہیں تو پھر ن ک ون مراد کیوں ہیں؟ موجودہ‬ ‫صورت ح ل کے حوالہ سے سوال اٹھت ہے کی مس م ن ہونے کے‬ ‫م م ہ میں ان امور کی اداءگی ک فی نہیں؟! اگر مس م ن ہونے کے لیے‬ ‫یہ واجب ت ک فی ہوتے تو آج ہ دنی میں سرب ند ن سہی ب عزت ضرور‬ ‫ہوتے۔‬


‫اسال ک ت‬

‫عم ی زندگی سے ہے۔ اسال ک تق ض ہے کہ‬

‫تم مس م ن بال کسی تمیز وامتی ز آپس میں بھ ئ بھ ئ ہیں لیکن ہ‬ ‫میں بھ ئ چ رہ سرے سے موجود نہیں۔ رنگ نسل زمین زب ن اور‬ ‫عقیدہ کے حوالہ سے ایک دوسرے سے کوسوں دور ہیں۔ ہم رے‬ ‫م شی اور نظری تی م دات ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ کوئ ظ ل کسی‬ ‫مس م ن کو پھڑک ت ہے تو ہ س تھ دینے ی ک از ک بچ بچ ؤ کرانے کی‬ ‫بج ءے ظ ل کی طرف داری ہی نہیں مس م ن کو مزید ازیت دینے کے‬ ‫لیے ظ ل ک س تھ دیتے ہیں اور اس کے ف ل بد کو درست ث بت کرنے‬ ‫کے وہ وہ دالءل گھزتے ہیں جن ک خود ظ لمکو ع نہیں ہوت ۔‬ ‫اسال میں کسی کو زب ن ی ہ تھ سے دکھ اور تک یف دینے کی اج زت‬ ‫نہیں لیکن ہمیں اوروں کو ان دونوں حوالوں سے دکھ اور تکیف دے‬ ‫کر خوشی ہی نہیں سرش ری ہوتی ہے۔‬ ‫اسال میں بدال لینے کی مم ن ت نہیں اور ن ہی دوسرا گ ل پیش کر دینے‬ ‫ک حک دی گی ہے۔ بدال لینے ک پورا پورا ہر کسی کو ح ح صل ہے‬ ‫ہ ں م ف کر دینے میں بڑھ کر اجر رکھ دی گی ہے۔ ہم رے پ س م فی‬ ‫ن کی چیز ہی نہیں۔ ہ ن کردہ جر کی سزا دینے کے بھی ق ءل ہیں۔‬ ‫ایک شخص جر نہیں کرت یہ اس ک قصور ہے اس میں اذیت پسند ک‬ ‫کی قصور ہے۔ چونکہ وہ کمزور ہے لہذا اسے بہرطور سزا اور ازیت‬ ‫سے ب التر نہیں رکھ ج سکت ۔‬ ‫اسال میں رشتہ دار تو الگ دشمن اور غیر مس ہمس یہ بھی بھوک‬ ‫نہیں سو سکت اس کے ب رے میں ہ سے روز حشر سوال ہو گ ۔ ہ‬ ‫اپنے سوا کسی اور کو پیٹ بھر کھ ت دیکھ ہی نہیں سکتے۔ ہم ری‬ ‫کوشش ہوتی ہے کہ اس کے منہ ک لقمہ بھی چھین لیں۔ رہ گئ قی مت‬


‫کی ب ت وہ ہمیں ی د تک نہیں۔ ہ موجودہ حی ت ہی کو س کچھ سمجھ‬ ‫بیٹھے ہیں۔‬ ‫اسال چوری کی اج زت نہیں دیت ۔ ہر بڑا آدمی ٹیکس کی چوری اپن‬ ‫بنی دی ح سمجھت ہے۔ یہ چیز گریبوں سے مت ہے۔ بڑے قرضوں‬ ‫کی م فی کو اپن ق نونی ح سمجہتے ہیں جبکہ گری کی سنگی پر‬ ‫انگوٹھ رکھ کر قرض وصول کر لی ج ت ہے۔ ط قتور بج ی کی چوری‬ ‫کو چوری نہیں سمجھت ۔ خود واپڈا والے اس ک ر خیر میں بڑھ چڑھ کر‬ ‫حصہ لیتے ہیں۔ کی کریں اپنے پیٹ کے عالوہ ب ال افسروں کے پیٹ کی‬ ‫ذمہ داری بھی ان کے سر پر ہوتی ہے۔‬ ‫اسال جھوٹ اور جھوٹے پر ل نت بھیجت ہے۔ ہ اور ہم ری جمہوریت‬ ‫سچ اور سچے کو مجر ٹھہراتی ہے۔ سچ بولن ی سچ کی حم یت کرن‬ ‫آج ک س سے بڑا جھوٹ ہے۔‬ ‫اسال ح دار کو اس ک ح دینے کی ت کید کرت ہے۔ یہ ں ح دار کو‬ ‫ح دین ح نہیں رہ ۔ ح دار وہی ہوت ہے جو پال جھ ڑت ہے۔ ہسپت ل‬ ‫ہو ی کوئ بھی دفتر بال دے داال کے ح مل نہیں سکت ۔ ست یہ کہ دے‬ ‫داال ن ح کو ح کے درجے پر ف ءز کر دیت ہے۔‬ ‫میں نے یہ ں محض چند ب توں ک ذکر کی ہے ورنہ اسال انس ن کی‬ ‫زندگی سے مت ہر م م ے میں اپن پروگرا دیت ہے۔ اس حوالہ سے‬ ‫دیکھ ج ءے تو یہ ب ت کھ تی ہے نم ز روزہ حج زکواتہ قرب نی وغیرہ‬ ‫کی اداءگی مس م ن ہونے کے لیے ک فی نہیں۔ مسم ن ہونے کے لیے‬ ‫اسال کے دیے پروگرا کو عم ی زندگی ک حصہ بن ن بھی ضروری‬ ‫ہے۔ ہ اسال اور اس کے مت ق ت کو م ننے والے ہیں۔ ب لکل اسی‬ ‫طرح جس طرح ہ قدی انبی ء اور تم الہ می کت کو م نتے ہیں۔ م نن‬


‫اور عمل کرن دو الگ ب تیں ہیں۔ م ننے والے کو کوئ بھی ن دے دیں۔‬ ‫ہ اسال اور اس کے مت ق ت کے پیروک ر نہیں ہیں۔ میں کوئ ع ل‬ ‫ف ضل شخص نہیں ہوں سیدھی س دی ک یے کی ب ت کر رہ ہوں۔ میرا‬ ‫اصرار ہے کہ ہ اسال کو م ننے والے لوگ ہیں اسال کی پیروی سے‬ ‫ہم را دور ک بھی رشتہ نہیں۔ ہم ری ک می اور ظ رمندی کی زندگی ک‬ ‫آغ ز اس وقت ہو گ ج ہ اسال کے پروگرا کو م ننے کے س تھ س تھ‬ ‫اس کی پوری دی نت داری سےپیروی کریں گے۔‬

‫عربی کے اردو پر لس نی تی اثرات ایک ج ئزہ‬ ‫ح ک زب نیں' محکو عالقوں کی زب نوں اور بولیوں پر' اثر انداز ہوتی‬ ‫ہیں۔ ہ ں البتہ' انہیں محکو زب نوں اور بولیوں کے نحوی سیٹ اپ کو'‬ ‫ابن ن پڑت ہے۔ ان کے بولنے والوں ک لہجہ' اندازتک ' اظہ ری اطوار‬ ‫اور کال کی نوعیت اور فطری ضرورتوں کو بھی' اختی ر کرن پڑٹ ہے۔‬ ‫یہ ہی نہیں' م نویت کے پیم نے بھی بدلن پڑتے ہیں۔ اس کے سم جی'‬ ‫م شی اور سی سی ح الت کے زیر اثر ہون پڑت ہے۔ شخصی اور‬ ‫عالق ئی موسموں کے تحت' تشکیل پ ئے' آالت نط اور م ون آالت‬ ‫نط کو بہرصورت' مدنظر رکھن پڑت ہے۔ قدرتی ' شخصی ی خود سے'‬ ‫ترکی شدہ م حول کی حدود میں رہن پڑت ہے۔ نظری تی' فکری اور‬ ‫مذہبی ح الت و ضرورت کے زیراثر رہن پڑت ہے۔ اسی طرح' بدلتے‬ ‫ح الت' نظرانداز نہیں ہو پ تے۔ یہ ب ت پتھر پر لکیر سمجھی ج نی‬ ‫چ ہیے' کہ ل ظ چ ہے ح ک زب ن ہی ک کیوں نہ ہو' اسے است م ل کرنے‬


‫والے کی ہر سطع پر' انگ ی پکڑن پڑتی ہے' ب صورت دیگر' وہ ل ظ‬ ‫اپنی موت آپ مر ج ئے گ ۔‬ ‫عربی بڑا ب د میں' برصغیر کی ح ک زب ن بنی۔ مسم نوں کی برصغیر‬ ‫میں آمد سے بہت پہ ے' برصغیر والوں کے' عربوں سے مخت ف‬ ‫نوعیت کے ت ق ت استوار تھے۔ یہ ت ق ت عوامی اور سرک ری سطح‬ ‫پر تھے۔ عربوں کو برصغیر میں' عزت اور قدر کی نگ ہ سے دیکھ‬ ‫ج ت تھ ۔ عربوں نے' یہ ں گھر بس ئے۔ ان کی اوالدیں ہوئیں۔ دور امیہ‬ ‫میں س دات اوران کے ح می یہ ں آ کر آب د ہوئے۔ ‪44‬ھ میں زبردست‬ ‫لشکرکشی ہوئی۔ ن ک می کے ب د' بچ رہنے والے بھی' یہ ں کے ہو کر‬ ‫رہ گیے۔ محمد بن ق س اوراس کے ب د' برصغیر عربوں ک ہو گی ۔ اس‬ ‫س رے عمل میں' جہ ں سم جی اطوار درآمد ہوئے' وہ ں عربی زب ن نے‬ ‫بھی' یہ ں کی زب نوں اور بولیوں پر' اپنے اثرات مرت کیے۔ یہ س '‬ ‫الش وری سطح پر ہوا اور کہیں ش وری سطح پر بھی ہوا۔ دوسری‬ ‫سطح' لس نی عصبیت سے ت رکھتی ہے۔‬ ‫مخدومی و مرشدی حضرت سید غال حضور الم روف ب ب جی شکرهللا‬ ‫کی ب قی ت میں سے' ت سیرالقران ب لقران کی تین ج دیں دستی ہوئیں۔‬ ‫اس کے مولف ڈاکٹر عبدالحکی خ ں ای بی ہیں۔ اسے مطبح عزیزی‬ ‫مق تراوڑی ض ع کرن ل نے' ب اہتم فتح محمد خ ں منیجر ‪1901‬ء‬ ‫میں ش ئع کی ۔ اسے دیکھ کر' ازحد مسرت ہوئی۔ یک د خی ل کوندا'‬ ‫کیوں نہ اس کی زب ن کے' کسی حصہ کو' عصری زب ن کے حوالہ سے‬ ‫دیکھ ج ئے۔ اس کے لیے میں نے' سورت ف تحہ ک انتخ کی ۔ ت سیر‬


‫کی زب ن کے دیگر امور پر' ب د ازاں گ تگو کرنے کی جس رت کروں گ '‬ ‫سردست عربی کے اردو پر لس ی تی اثرات ک ج ئزہ لین مقصود ہے۔‬ ‫تسمیہ کے ال ظ میں سے' اس ' هللا' رحمن اور رحی رواج ع میں‬ ‫داخل ہیں اور ان ک ' ب کثرت است م ل ہوت رہت ہے۔‬ ‫سورت ف تحہ میں‪ :‬حمد' هلل' ر ' ع لمین' رحمن' رحی ' م ک' یو ' دین'‬ ‫عبد' صراط' مستقی ' ن مت' مغضو ' ' ض لین‪ ....‬غیر' و' ال' ع یہ‬ ‫ایسے ال ظ ہیں' جو اردو والوں کے لیے غیر م نوس نہیں ہیں۔ ع م‬ ‫نے ان ک ترجمہ بھی کی ہے۔ ترجمہ کے ال ظ' اردو مترف ت کی حیثت‬ ‫رکھتے ہیں۔‬ ‫اس ' کسی جگہ' چیز' شخص ی جنس کے ن کو کہ ج ت ہے۔ یہ ں بھی‬ ‫‪.‬ن کے لیے است م ل ہوا ہے۔ ی نی هللا کے ن سے‬ ‫تکیہءکال بھی ہے' کوئی گر ج ئے ی گرنے لگے' تو بےس ختہ منہ‬ ‫سے بس هللا نکل ج ت ہے۔‬ ‫حمد' اردو میں ب ق عدہ ش ری صنف اد ہے اور هللا کی ذات گرامی کے‬ ‫لیے مخصوص ہے۔‬ ‫ڈاکٹر عبدالحکی خ ن' مولوی بشیر احمد الہوری' مولوی فرم ن ع ی'‬ ‫مولوی محمد جون گڑھی' ش ہ عبدالق در محدث دہ وی' مولوی سید‬ ‫مودودی' مولوی اشرف ع ی تھ نوی اور س ودی ترجمہ ت ریف کی گی‬


‫ہے۔‬ ‫‪ definition‬کے لیے بھی مخصوص ہے اور رواج ع میں ہے۔‬ ‫ت ریف‬ ‫کہ ج ت ہے' درج ذیل اصن ف کی ت ریف کریں اور دو دو مث لیں بھی‬ ‫دیں۔‬ ‫ش ہ ولی هللا دہ وی نے' اپنے ف رسی ترجمہ میں' حمد کے لیے' ل ظ‬ ‫ست ئش است م ل کی ہے۔ ل ظ ست ئش ردو میں مست مل ہے۔‬ ‫مولوی فیروزالدین ڈسکوی نے' خوبی ں ترجمہ کی ہے۔‬ ‫گوی حمد کو برصغیر میں ت ریف ست ئش اور خوبی ں کے م نوں میں لی‬ ‫گی ہے۔‬ ‫س ودی عر کے ترجمے میں بھی حمد کے لیے ت ریف مترادف لی گی‬ ‫ہے۔‬ ‫‪:‬قمر نقوی کے ہ ں اس کے است م ل کی صورت دیکھیں‬ ‫میں تیری حمد لکھن چ ہت ہوں‬ ‫جو ن مکن ہے کرن چ ہت ہوں‬ ‫تری توصیف۔۔۔۔اک گہرا سمندر‬ ‫سمنر میں اترن چ ہت ہوں‬ ‫قمر نقوی نے اس کے لیے مترادف ل ظ توصیف دی ہے۔‬


‫ڈاکٹر عبدالحکی خ ن نے ص ‪ 23‬پر' ایک ش ر میں ل ظ حمد ک‬ ‫‪:‬است م ل کچھ یوں کی ہے‬ ‫حمد الہی پر ہیں مبنی س ترقی ت روح‬ ‫اس سے ہی پیدا ہوتی ہیں س ری تج ی ت روح‬ ‫هلل کو' هللا کے لیے' کے م نوں میں س نے لی ہے۔ ف رسی میں ش ہ‬ ‫ولی هللا دہ وی نے برائے هللا' ترجمہ کی ۔ یہ بھی هللا کے لیے' کے‬ ‫مترادف ہے۔‬ ‫هلل' ب طورتکیہءکال رائج ہے۔‬ ‫هللا کے لیے' ب طورتکیہءکال بھی رواج میں ہے۔‬ ‫خدا کے لیے' خ گی ی غصے کی ح لت میں اکثر بوال ج ت ہے۔ مثال‬ ‫خدا کے لیے چپ ہو ج ؤ۔‬ ‫خدا کے لیے' استدع کے لیے بھی بوال ج ت ہے۔ مثال‬ ‫خدا کے لیے ا م ن بھی ج ؤ۔‬ ‫‪:‬ر‬ ‫ڈاکٹرعبدالحکی خ ن نے ترجمہ ر ہی ترجمہ کی ہے۔‬ ‫مولوی محمد فیروزالدین ڈسکوی نے بھی ر کے ترجمہ میں ر ہی‬


‫لکھ ہے۔‬ ‫یہ ل ظ ع است م ل میں آت ۔ مثال‬ ‫وہ تو ر ہی بن بیٹھ ہے۔‬ ‫بندہ کی دے گ ' ر سے م نگو‬ ‫توں ر ایں۔۔۔۔۔۔ ب طور سوالیہ‬ ‫ش ہ عبدالق در محدث دہ وی' مولوی محمد جون گڑھی' مولوی فرم ن‬ ‫ع ی نے پ لنے واال ترجمہ کی ہے‬ ‫س ودی ترجمہ بھی پ لنے واال ہے۔‬ ‫مولوی اشرف ع ی تھ نوی نے مربی مترادف درج کی ہے۔ مربی پ لنے‬ ‫والے ہی کے لیے است م ل ہوت ہے۔ مہرب ن' خی ل رکھنے والے' توجہ‬ ‫دینے والے' کسی قریبی کے لیے بولنے اور لکھنے میں مربی آت ہے۔‬ ‫ش ہ ولی هللا دہ وی اور مولوی بشیر احمد الہوری نے ر ک ترجمہ‬ ‫پروردگ ر کی ہے۔‬ ‫پروردگ ر' ذرا ک ' لیکن بول چ ل میں ش مل ہے۔‬ ‫گوی اردو میں یہ ل ظ غیر م نوس نہیں۔‬ ‫ع مین' ع ل کی جمع ہے۔ ہر دو صورتیں' اردو میں مست مل ہیں۔ پنج‬ ‫کی سٹریٹ لنگوئج میں زبر کے س تھ بول کر' مولوی ص ح ی ع‬ ‫دین ج ننے واال مراد لی ج ت ہے۔‬ ‫جہ ن بھی مراد لیتے ہیں۔‬


‫قرآن مجید کو دو جہ نوں ک ب دش ہ بوال ج ت ہے۔‬ ‫ڈاکٹر عبدالحکی خ ں نے' ع مین ک جہ نوں ترجمہ کی ہے۔‬ ‫مولوی محمد جون گڑھی کے ہ ں اور س ودی ترجمہ بھی جہ نوں ہوا‬ ‫ہے۔‬ ‫ش ہ عبدالق در' مولوی محمد فیروزالدین اور مولوی فرم ن ع ی‬ ‫نےس رے جہ نوں ترجمہ کی ہے۔‬ ‫مولوی اشرف ع ی تھ نوی نے ہر ع ل ترجمہ کی ہے۔‬ ‫مولوی بشیر احمد الہوری نے کل دنی ' مولوی مودودی نے ک ئن ت' ج‬ ‫کہ ش ہ ولی هللا کے ہ ں ف رسی میں ع ل ہ ترجمہ ہوا‬ ‫ترجمے سے مت تم ال ظ' اردو میں مست ل ہیں۔ ہ رواج میں نہیں‬ ‫رہ ' ہ ں البتہ ہ ئے رواج میں ہے۔ جیسے انجمن ہ ئے امداد ب ہمی‬ ‫اردو بول چ ل میں ع لموں' ع لم ں بھی پڑھنے سننے میں آتے ہیں۔‬ ‫ن بھی رکھے ج تے ہیں۔ جیسے ع ل ش ہ' نور ع ل‬ ‫ب طور ٹ ئیٹل بھی رواج میں ہے۔ جیسے فخر ع ل ' فخر دو ع ل‬ ‫ل ظ رحمن' عمومی است م ل میں ہے۔ ن بھی رکھے ج تے ہیں۔ مثال‬ ‫‪.‬عبد الرحمن' عتی الرحمن فیض الرحمن' فضل الرحمن وغیرہ‬ ‫ڈاکٹر عبدالحکی خ ں نے رحمن ک ترجمہ' ل ظ کے عمومی بول چ ل‬ ‫میں مست مل ہونے کے سب ' رحمن ہی کی ہے۔‬


‫مولوی سید مودودی نے بھی' رحمن ک ترجمہ رحم ن ہی کی ہے۔‬ ‫مولوی محمد فیروزالدین نے' رحمن ک ترجمہ مہرب ن کی ہے۔‬ ‫مولوی محمد جون گڑھی کے ہ ں' رحمن ک ترجمہ' بخشش کرنے واال‬ ‫ہوا ہے۔‬ ‫ش ہ ولی هللا نے' ف رسی ترجمہ بخش یندہ کی ہے' جو بخشش کرنے واال‬ ‫ہی ک مترادف ہے۔ بخش یندہ اردو میں مست مل نہیں ت ہ بخشنے واال'‬ ‫بخش دینے واال' بخشش کرنے واال' بخشن ہ ر وغیرہ غیر م نوس نہیں‬ ‫ہیں۔‬ ‫بخشیش خیرات کے لیے بھی' بوال ج ت ہے۔‬ ‫ش ہ عبدالق در' مولوی اشرف ع ی تھ نوی' مولوی احمد رض خ ں‬ ‫بری وی' مولوی بشیر احمد الہوری' مولوی فرم ن ع ی نے رحمن ک‬ ‫ترجمہ مہرب ن کی ہے۔‬ ‫س ودی ترجمہ بھی مہرب ن ہے۔‬ ‫ل ظ رحی ' اردو میں غیر م نوس نہیں۔ اشخ ص کے ن بھی رکھے‬ ‫ج تے ہیں‪ .‬جیسے عبدالرحی ۔‬ ‫اسی تن ظر میں ڈاکٹر عبدالحکی خ ں نے رحی ک ترجمہ رحی ہی کی‬ ‫ہے۔ مولوی سید مودودی نے بھی' اس ک ترجمہ رحی ہی کی ہے۔‬ ‫ش ہ عبدالق در' مولوی اشرف ع ی تھ نوی' مولوی احمد رض خ ں‬ ‫بری وی' مولوی بشیر احمد الہوری' مولوی فرم ن ع ی' مولوی محمد‬ ‫فیروزالدین نے رح واال ترجمہ کی ہے۔‬


‫ش ہ ولی هللا دہ وی اور مولوی محمد جون گڑھی نے رحی ک ترجمہ‬ ‫مہرب ن کی ہے۔‬ ‫ل ظ م لک' م کیت والے کے لیے' ع بول چ ل میں ہے‪ .‬جیسے م لک‬ ‫مک ن ی وہ پ نچ ایکڑ زمین ک م لک ہے۔ بیشتر ترجمہ کنندگ ن نے' اس‬ ‫ک ترجمہ م لک ہی کی ہے۔ ہ ں مولوی فرم ن ع ی نے اس ک ترجمہ‬ ‫ح ک کی ہے۔اشخ ص کے ن بھی' سننے کو م تے ہیں‪ .‬مثال‬ ‫عبدالم لک' محمد م لک‬ ‫ڈاکٹر عبدالحکی خ ں' مولوی محمد جون گڑھی' مولوی فیروز الدین'‬ ‫مولوی اشرف ع ی تھ نوی' ش ہ عبدالق در' مولوی احمد رض خ ں‬ ‫بری وی' مولوی سید مودودی نے اس ک ترجمہ م لک ہی کی ہے۔‬ ‫س ودی ترجمہ بھی م لک ہی ہے۔ اس سے ب خوبی اندازہ کی ج سکت‬ ‫ہے کہ ل ظ م لک کس قدر عرف ع میں ہے۔‬ ‫ل ظ یو ' ع است م ل ک ہے۔ مرک است م ل بھی سننے کو م تے ہیں۔‬ ‫مثال یو آزادی' یو شہدا' یو ع شورہ' یو حج وغیرہ‬ ‫ڈاکٹر عبدالحکی خ ں نے' یو ک ترجمہ یو ہی کی ہے۔ مولوی سید‬ ‫مودودی نے بھی یو ک ترجمہ یو ہی کی ہے۔‬ ‫مولوی فیروز الدین' مولوی محمد جون گڑھی' مولوی بشیر احمد‬ ‫‪.‬الہوری نے اس ک ترجمہ دن کی ہے‬ ‫س ودی ترجمہ بھی دن ہی ہوا ہے۔‬


‫ش ہ ولی هللا' ش ہ عبدالق در' مولوی اشرف ع ی تھ نوی' مولوی احمد‬ ‫رض خ ں بری وی' مولوی فرم ن ع ی نے یو ک ترجمہ روز کی ہے۔‬ ‫ل ظ دین' مذہ کے م نوں میں ع است م ل ک ہے۔‬ ‫مرک بھی است م ل ہوت ہے۔ مثال دین محمدی' دین اسال ' دین دار' دین‬ ‫دنی وغیرہ‬ ‫ن موں میں بھی مست مل ہے۔ مثال احمد دین' دین محمد' چرا دین ام‬ ‫دین وغیرہ‬ ‫دین دار ایک ذات اور قو کے لیے بھی مخصوص ہے۔‬ ‫دین کے م نی رستہ بھی لیے ج تے ہیں۔‬ ‫ڈاکٹر عدالحکی خ ں نے' اس ل ظ کو' جزا کے م نوں میں لی ہے۔‬ ‫ش ہ ولی هللا دہ وی' ش ہ عبدالق در' مولوی سید مودودی' مولوی اشرف‬ ‫ع ی تھ نوی' مولوی احمد رض خ ں بری وی' مولوی فرم ن ع ی نے‬ ‫ل ظ دین کو جزا کے م نوں میں لی ہے۔‬ ‫مولوی محمد جون گڑھی نے' ل ظ دین ک ترجمہ قی مت کی ہے۔‬ ‫مولوی محمد قیروز الدین اور مولوی بشیر احمد الہوری نے' ل ظ دین‬ ‫کو انص ف کے م نوں میں لی ہے۔‬ ‫س ودی ترجمے میں' اس ک ترجمہ بدلے ک ' ج کہ قوسین میں قی مت‬ ‫درج ہے' م نی لیے گیے ہیں۔‬


‫ل ظ عبد' اردو میں عمومی است م ل ک نہیں' ت ہ اشخ ص کے ن موں‬ ‫میں ب کثرت است م ل ہوت ہے۔ مثال عبدهللا' عبدالق در' عبداعزیز'‬ ‫عبدالکری ' عبدالرحم ن' عبدالقوی وغیرہ‬ ‫ن بد ک ڈاکٹر عبدالحکی ' مولوی فیروز الدین' مولوی محمد جون گڑھی'‬ ‫مولوی سید مودودی' مولوی فرم ن ع ی' مولوی اشرف ع ی تھ نوی‬ ‫نے ترجمہ عب دت کی ہے۔‬ ‫س ودی ترجمے میں بھی م نی عب دت لیے گیے ہیں۔‬ ‫مولوی احمد رض خ ن نے پوجھیں ترجمہ کی ہے۔‬ ‫ش ہ عبدالق در اور مولوی بشیر احمد الہوری نے بندگی م نی دیے ہیں۔‬ ‫ش ہ ولی هللا دہ وی نے' اپنے ف رسی ترجمہ میں می پرستی م نی دیے‬ ‫ہیں۔ ل ظ پرست' پرستی' پرستش اردو والوں کے لیے اجنبی نہیں ہیں'‬ ‫ب کہ بول چ ل میں موجود ہیں۔‬ ‫ل ظ صراط' اردو میں ع است م ل ک نہیں' لیکن غیر م نوس بھی نہیں۔‬ ‫مرک پل صراط ع بولنےاور سننے میں آت ہے۔ لوگ اس امر سے‬ ‫آگ ہ نہیں' یہ دو الگ چیزیں ہیں۔‬ ‫ڈاکٹر عبدالحکی خ ن' مولوی اشرف ع ی تھ نوی' مولوی احمد رض‬ ‫خ ں بری وی اور مولوی سید مودودی نے' اسے رستہ کےم نی دیے‬ ‫ہیں۔‬ ‫ش ہ ولی هللا دہ وی' ش ہ عبدالق در' مولوی محمد فیروزالدین' مولوی‬ ‫محمد جون گڑھی' مولوی بشیر احمد الہوری اور مولوی فرم ن ع ی نے‬


‫صراط ک ترجمہ راہ کی ہے۔‬ ‫س ودی ترجمہ بھی راہ ہی ہوا ہے۔‬ ‫ل ظ مستقی ' عمومی است م ل میں نہیں۔ ن کے لیے است م ل ہوت آ رہ‬ ‫ہے۔ جیسے محمد مستقی‬ ‫اسی طرح' خط مستقی جیویٹری کی اصطالح سننے میں آتی ہے۔‬ ‫ڈاکٹر عبدالحکی خ ن' مولوی اشرف ع ی تھ نوی' مولوی احمد رض‬ ‫خ ں بری وی' اور مولوی سید مودودی نے' سیدھ ترجمہ کی ہے۔‬ ‫صراط مستقی بم نی سیدھ رستہ‬ ‫مولوی محمد جون گڑھی' مولوی بشیر احمد الہوری اور مولوی فرم ن‬ ‫ع ی نے سیدھی ترجمہ کی ہے۔ س ودی ترجمہ بھی سیدھی ہوا ہے‬ ‫لیکن قوسین میں سچی درج کی گی ہے۔‬ ‫صراط مستقی ی نی سیدھی راہ‬ ‫ش ہ ولی هللا دہ وی نے' اس کے لیے ل ظ راست است م ل کی ہے۔‬ ‫صراط مستقی ی نی راہ راست‬ ‫ان مت' ن مت سے ہے۔ ل ظ ن مت' بولنے اور لکھنے پڑھنے میں‬ ‫است م ل ہوت آ رہ ہے۔ پنج بی میں اسے نی مت روپ مل گی ہے۔‬ ‫ن بھی رکھے ج تے ہیں جیسے ن مت ع ی' ن مت هللا‬


‫ڈاکٹر عبدالحکی خ ن' مولوی اشرف ع ی تھ نوی' مولوی محمد جون‬ ‫گڑھی اور مولوی سید مودودی نے' اس ک ان ترجمہ کی ہے۔‬ ‫س ودی ترجمہ میں بھی ان‬

‫است م ل میں آی ہے۔‬

‫ش ہ عبدالق در' مولوی محمد فیروزالدین اور مولوی بشیر احمد الہوری‬ ‫نے اس ک ترجمہ فضل کی ہے۔‬ ‫مولوی فرم ن ع ی نے ن مت' احمد رض خ ں بری وی نے احس ن' ج‬ ‫کہ ش ہ ولی هللا دہ وی نے اسے اکرا م نی دیے ہیں۔‬ ‫ان‬

‫و اکرا عمومی است ل ک مرک ہے۔‬

‫مغضو ' اردو میں است م ل نہیں ہوت ' ت ہ اس ک روپ غض ' اردو‬ ‫میں ع است م ل ہوت ہے۔ مولوی محمد فیروزالدین' مولوی بشیر احمد‬ ‫الہوری' مولوی محمد جون گڑھی' مولوی احمد رض خ ں بری وی اور‬ ‫مولوی فرم ن ع ی نے غض کے م نی لیے ہیں۔‬ ‫س ودی ترجمہ میں بھی غض مراد لی گی ہے۔‬ ‫ش ہ عبدالق در نے غصہ' ج کہ مولوی سید مودودی نے عت‬ ‫لیے ہیں۔‬

‫م نی‬

‫ش ہ ولی هللا دہ وی نے' اپنے ف رسی ترجمہ میں خش م نی لیے ہیں۔‬ ‫ض لین' ضاللت سے ہے۔ اردو میں یہ ل ظ' ع بول چ ل میں نہیں۔ ہ ں‬ ‫البتہ ذاللت عمومی است م ل میں ہے۔ ضاللت لکھنے میں آت رہ ہے۔‬


‫ش ہ عبدالق در اور ڈاکٹر عبدالحکی خ ن نے گمراہ' مولوی محمد جون‬ ‫گڑھی ' مولوی محمد فیروزالدین' مولوی بشیر احمد الہوری اور مولوی‬ ‫فرم ن ع ی نے گمراہوں ترجمہ کی ہے۔‬ ‫مولوی احمد رض خ ں بری وی نے بہکن م نی مراد لیے ہیں۔‬ ‫مولوی سید مودودی نے' بھٹکے ہوئے ترجمہ کی ہے۔‬ ‫س ودی ترجمہ گمراہی ہوا ہے۔‬ ‫ش ہ ولی هللا دہ وی نے گمراہ ن ترجمہ کی ہے۔‬ ‫ان کے عالوہ' چ ر ل ظ اردو میں ب کثرت است م ل ہوتے ہیں‬ ‫ع یہ‪ :‬ک مہء احترا کے دوران' جیسے حضرت داؤد ع یہ‬ ‫اسال ‪........‬مدع ع یہ' مکتو ع یہ وغیرہ‬ ‫غیر‪ :‬نہی ک س بقہ ہے' جیسے غیر محر ' غیر ارادی' غیر ضروری'‬ ‫غیر منطقی وغیرہ‬ ‫ال‪ :‬نہی ک س بقہ ہے' جیسے الح صل' الع ' ال ی نی' الت‬

‫وغیرہ‬

‫و‪ :‬و اور کے م نی میں مست مل چال آت ہے۔ مثال‬ ‫ش و روز' رنگ ونمو' ش ر وسخن' ق‬

‫ونظر وغیرہ‬

‫کمشنر و سپرنٹنڈنٹ' منیجر و پرنٹر وغیرہ‬ ‫درج ب ال ن چیز سے ج ئزے کے ب د' یہ اندازہ کرن دشوار نہیں رہت ' کہ‬


‫عربی نے اردو پر کس قدر گہرے اثرات مر ت کیے ہیں۔ مس م نوں ک‬ ‫حج اور کئی دوسرے حوالوں سے' اہل عر سے واسظہ رہت ہے۔ اس‬ ‫لیے مخت ف نوعیت کی اصطالح ت ک ' اردو میں چ ے آن ' ہر گز حیرت‬ ‫کی ب ت نہیں۔ روزمرہ کی گ ت گو ک ' تجزیہ کر دیکھیں' کسی ن کسی‬ ‫شکل میں' کئی ایک لقظ ن دانسہ اور اظہ ری روانی کے تحت' بولے‬ ‫چ ے ج تے ہیں۔ مکتوبی صورتیں بھی' اس سے مخت ف نہیں ہیں۔‬


Turn static files into dynamic content formats.

Create a flipbook
Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.