ب رہ اسالمی مق لے مقصود حسنی فری ابوزر برقی کت خ نہ جون
فہرست نم ز ک سو سے زی دہ س ل ک پران اردو ترجمہ حضور کری ص ی هللا ع یہ وس اور تخ ی ک ئن ت قصہءآد ‘ اردو کے داست نی اد میں ایک اہ اض فہ ترجمہ سورتہ ف تحہ شجرہ ق دریہ ۔۔۔۔۔ ایک ج ئزہ ایک چرچ مین کی ی وہ گوئی اور میری م روض ت طال کھ ی تنبیہ میں ن ہیں سبھ توں۔۔۔۔۔۔۔چند م روض ت ارشد حکی ک ایک ش ر ہ اسال کے م ننے والے ہیں' پیروک ر نہیں عربی کے اردو پر لس نی تی اثرات ایک ج ئزہ
نم ز ک سو سے زی دہ س ل ک پران اردو ترجمہ مخدومی و مرشدی حضرت سید غال حضور ش ہ الم روف بہ ب ب جی شکرهللا کے ذخیرہءکت سے' ایک کت .......نم ز مترج منظو ۔۔۔۔۔۔۔۔ بزب ن پنج بی' دستی ہوئی ہے۔ اس کے مولف مولوی محمد فیروز الدین ڈسکوی' منشی ف ضل' مدرس ای بی ہ ئی سکول' سی لکوٹ ہیں۔ انہیں اس کت کی ت لیف ک اعزاز' رائے ص ح منشی گال سنگھ اینڈ سنز' ت جران کت ' الہور نے دی ۔ اس کت ک سن اش عت 1907ہے اور یہ ہی س ل' مخدومی و مرشدی حضرت ب ب جی شکرهللا ک سن پیدائش ہے۔ یہ کت بالشبہ' حضرت سید ع ی احمد ش ہ کے کت خ نے کی' ب قی ت میں سے ہے۔ اس ک واضح ثبوت یہ ہے کہ کت کے ص حہ نمبر 17پر' ان کے ہ تھ ک لکھ ہوا ایک ش ر موجود ہے۔ ہ زی دہ تر ش عری ی پھر مخصوص اصن ف نثر کو' اد ک ن دیتے ہیں اور انہیں ہی' زب ن کی ترقی ک ذری ہ خی ل کرتے ہیں۔ اس قس کی ہر سوچ' حقیقت سے کوئی عالقہ نہیں۔ ہر اظہ ر' اس ک ت کسی بھی ش بہ سے مت ہو' زب ن کی نشوونم اور اس کی ابالغی قوتوں کو' ترقی دینے ک ذری ہ اور سب بنت ہے۔ مروجہ ادبی اصن ف ش ر ونثر کو اٹھ کر دیکھ لیجیے' ش ید ہی' زندگی ک کوئی ش بہ نظرانداز ہوا ہو گ ۔ یہ ں تک کہ س ئنس اور حکمت کے امور بھی' نظر آئیں گے۔ ری ضی اور شم ی ت جیسے ش بے' اس کی دسترس سے ب ہر نہیں رہے۔ ج ایسی صورت ہے' تو زب ن کی ابالغی اور لس نی ترقی کے حوالہ سے' دیگر ع و و فنون کی ک وش ہ کو' کیوں صرف نظر کی
ج ئے۔ ع و اسالمی سے مت ' اردو میں بہت کچھ لکھ گی ہے۔ دیگر زب نوں سے بھی' اسالمی ع و کی کت کے تراج ہوئے ہیں۔ اس حوالہ سے' اردو میں بہت سی مخت ف ش بوں سے مت ' اصطالح ت داخل ہو کر رواج ع بنی ہیں۔ ان گنت ت میح ت' اردو ش رواد ک گہن بنی ہیں۔ ب ت یہ ں تک ہی محدود نہیں رہی' بہت سے عربی ال ظ' اردو کے ذخیرہءال ظ میں داخل ہو کر' اردو کی ابالغی ثروت ک ذری ہ بنے ہیں۔ بچوں کے لیے' الت داد اسالمی لڑیچر ک شت ہوا ہے۔ غیر مس بھی' اس ذیل میں نظرانداز نہیں کیے ج سکتے۔ ان ک مذہبی اث ثہ بھی' اس زب ن ک زیور بن ہے۔ گوی ان مس عی کو' لس نی حوالہ سے نظرانداز نہیں کی ج ن چ ہیے۔ م ہرین لس نی ت کو' صرف اور صرف اردو اصن ف ش رونثر کو ہی' لس نی تی مط ل ہ میں نہیں رکھن چ ہیے۔ س ش بوں سے مت کت ک ' اس ذیل میں' پیش نظر رہن از بس ضروری ہے۔ زیر تجزیہ کت میں نم ز کے عالوہ' منظو پنج بی میں' مخت ف مس ئل بھی بی ن کیے گیے ہیں۔ نم ز سے م ق ت' پہ ے عربی میں' ب د ازاں اردو میں ترجمہ کی گی ہے' اس کے ب د پنج بی میں منظو ترجمہ کی گی ہے۔ اس وقت میرے پیش نظر' کئی تراج ہیں' خدا لگتی ب ت تو یہ ہی ہے' س دہ اور ع فہ ہونے کے س تھ س تھ' ترچمہ اور مح ورہ کے اعتب ر سے' یہ ترجمہ اپنی ہی نوعیت ک ہے۔ بریکٹوں میں کچھ نہیں لکھ گی ۔ اس لح ظ سے بھی' یہ ترجمہ خو تر ہے۔ لس نی اعتب ر سے' اس کی فص حت اور بالغت ک اقرار نہ کرن ' سراسر زی دتی کے مترادف ہو گ ۔ میں اس ذیل میں مزید کچھ عرض کرنے کی بج ئے' ترجمہ پیش کرنے کی س دت ح صل کرت ہوں۔
هللا بہت بڑا ہے اے هللا تیری ذات پ ک ہے خوبیوں والی اور تیرا ن مب رک ہے اور تیری ش ن اونچی ہے اور تیرے سوا کوئی م بود نہیں میں مردود شیط ن سے خدا کی پن ہ لیت ہوں خدائے رحمن و رحی کے ن سےشروع س خوبی ں هللا کو جو س رے جہ ن ک ر ہے بڑا مہرب ن نہ یت رح واال انص ف کے دن ک م لک ہ تیری عب دت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد م نگتے ہیں ہ کو سیدھی راہ دکھ ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے اپن فضل کی ان کی نہیں جن پر غض ہوا اور نہ گمراہوں کی ایس ہی ہو تو کہہ وہ هللا ایک ہے هللا بےنی ز ہے نہ کسی کو جن نہ کسی سے جن گی
اور نہ کوئی اس ک ہمسر ہے هللا س سے بڑا ہے میرا عظمت واال ر قدوس ہے ہے جو اس کی خوبی بی ن کرے...... اے هللا تجھے ہی س خوبی ں ہیں میرا ع لی ش ن ر قدوس ہے س زب نی بدنی اور م لی عب دتیں هللا ہی کے لیے ہیں اے هللا کے نبی تجھپہ سال اور خدا کی رحمت اور اسکی برک ت ن زل ہوں ہ پراور خدا کے نیک بخت بندوں پر سال .....میں اقرار کرت ہوں کہ هللا کے سوا اور میں اقرار کرت ہوں کہ محمد اسک بندہ اور رسول ہے اے هللا حضرت محمد اور حضرت محمد کی آل پر رحمت ن زل فرم
جیس کہ تو نے حضرت ابراہی اور ان کی آل پر رحمت ن زل کی یقین تو خوبیوں واال بزرگی واال ہے اے هللا مجھے نم زوں ک ق ئ کرنے واال بن دے اوالد کو بھی اور خدای میری دع منظور فرم ..... اے هللا اور میرے م ں ب پ اور س مومنوں کو بخشدے ج قی مت ق ئ ہو اے هللا ہم را دنی میں بھی بھال کر اورآخرت میں بھی بھال اور ہ کو عذا دوزخ سے نج ت دے ت پر سال اور هللا کی رحمت میں ب طور تبرک کت کے مت ص ح ت کی عکسی نقول بھی پیش کر رہ ہوں۔ دو جگہ نقطے لگ ئے گیے ہیں' وہ ں سے ص حہ پھٹ ہوا ہے۔ میں نے اپنی طرف سے' ایک ل ظ ک ی زی دہ نہیں کی ۔ ٹ ئپ بھی اسی خط کے مط ب کی ہے۔ محترمی حسنی ص ح :سال مسنون یہ ن ی
تبرک یہ ں عن یت کرنے ک تہ دل سے شکریہ قبول کیجئے۔ یہ
ہم ری قو کی بد قسمتی ہے کہ ایسے نوادرات ج د ہی ص حہ ہستی سے مٹ ج ئیں گے۔ ہ کو ایسی بیش بہ چیزیں کبھی مح وظ کرنے کی توفی نہ ہوئی۔ میں امریکہ میں دیکھت ہوں کہ یہ اپنے ت ریخی نوادرات کس قدر محنت اور توجہ سے بچ بچ کر رکھتے ہیں۔ کت خ نے بیش قیمت کت بوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ یہ ں ک ق نون ہے کہ چھپی ہوئی جو چیز بھی (خواہ وہ کسی زب ن میں ہو) اگر م ک میں آئے گی تو اس کی ایک ج د واشنگٹن کے قومی کت خ نے میں رکھی ج ئے گی۔ میں نے اپنی کت بیں بھی اس کت خ نہ کے عالوہ ہر ایسی یونی ورسٹی کے کت خ نے کو بھیج دی ہیں جہ ں اردو پڑھ ئی ج تی ہے (ایسی درجن بھر یونی ورسٹی ں ہیں)۔ لطف یہ ہے کہ کت م نے پر ہرکت خ نے سے شکریہ ک ب ق عدہ خط آت ہے۔ یہی کت بیں میں ہندوست ن اور پ کست ن کے اردو کت خ نوں کو بھیجت ہوں تو وہ ں سے کوئی رسید نہیں آتی۔ شکریہ کے خط ک تو ذکر ہی چھوڑ دیجئے۔ اس سے زی دہ کہنے کی ش ید ضرورت نہیں ہے۔ سرور ع ل راز www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9450.0
حضور کری ص ی هللا ع یہ وس اور تخ ی ک ئن ت
مرشدی قب ہ حضرت سید غال حضور الم روف ب ب جی شکرهللا ۔۔۔۔ پ
1988 1907۔۔۔۔۔ کے ذخیرہ کت سے' جہ ں مخت ف موضوع ت پر مجھ ن چیز کو کت میسر آسکی ہیں' وہ ں ان میں ق می نسخے بھی م ے ہیں‘ جو انہیں‘ ان کے والد گرامی‘ ی نی مجھ ف نی کے دادا ج ن‘ حضرت سید ع ی احمد ۔۔۔۔۔۔ 1911۔۔۔۔۔۔۔ ولد سید عبدالرحمن اور ننھی ل' جو ان ک سسرا بھی تھ ' سے ورثہ میں م ے۔ حضرت سید ع ی احمد نوشہرہ' امرت سر کے رہ ئشی تھے۔ وہ عربی اور ف رسی کے ع ل ف ضل تھے۔ ان کی دو بیویوں میں' چ ر بیٹے اور دو بیٹی ں تھیں .سیدہ جنت بی بی سے' سید م ک' سید ف ک شیر اور سیدہ کرامت بی بی' ج کہ سیدہ گوہر بی بی سے سید غال غنی' سید غال حضوراور سیدہ زین بی بی تھیں۔ سید م ک' سید ف ک شیر اور سیدہ کرامت بی بی ک کچھ ح ل م و نہیں۔ مرشدی حضرت سید غال حضور ت د مرگ' ان کی تالش میں رہے۔ راق کو بھی' ان ک کچھ پت نہیں چل سک ۔ ان کی آل اوالد سے مالق ت کی خواہش' روز اول کی طرح' آج بھی اپنی پہ ی سی شدت رکھتی ہے۔ حضرت سید ع ی احمد کی وف ت کے وقت' زین بی بی س ت برس' سید غال غنی چھے برس' ج کہ سید غال حضور چ ر برس کے تھے. زمین پہ نڈے والے تھے۔ محمد اکبر فقیر' جو حضرت سید ع ی احمد ک خدمت گ ر تھ ' نے دیکھ بھ ل کے بہ نے' م ئی گوہر بی بی ' زوجہ حضرت سید ع ی احمد ولد سید عبدالرحمن کو اعتم د میں لے لی ۔۔ محمد اکبر فقیر کی بیوی کھیواں' دہ یز کے اندر' ج کہ محمد اکبر فقیر گھر سے ب ہر کے امور انج دینے لگ ۔ م ئی ص ح کے بچے چھوٹے تھے۔ انہوں نے محمد اکبر فقیر پر اعتم د کی ۔ محمد اکبر فقیر کی بیوی کھیواں سے' دو بیٹے' محمد امین اور ق ئ ع ی کو بھی' بیٹوں کی طرح سمجھ ۔ محمد اکبر فقیر کی موت
کے ب د' اس کے بڑے بیٹے محمد امین نے انتظ سمبھ ل لی ۔ ب د ازاں خود کو' حضرت سید ع ی احمد ولد سید عبدالرحمن ک وارث قرار دے کر' ہر چیز پر قبضہ جم لی ۔ خوش ح ل گھرانہ' دنوں میں م س ہو گی ۔ یہ ہی نہیں' محمد امین اور ق ئ ع ی' بدس وکی سے ک لینے لگے۔ وہ ہی' جنہیں اوالد کی طرح سمجھ اور گھر داخل ہونے کی اج زت دی' ج ن کے دشمن بن گیے۔ م ئی ص ح کے منہ سے آہیں نکل نکل گئیں۔ محمد امین کے ہ تھوں ایک قتل ہوا۔ جی وں میں سڑا اور پھر' دم غی توازن کھو بیٹھ ۔ سنگ وں سے ب ندھ گی اوراسی ح لت میں چل بس ۔ محمد امین کے دونوں بیٹے والیوڑ نک ے' انہوں نے ب پ ک ہتھی ی ' س اج ڑ دی ۔ محمد خ ل فقیر ہو گی ' ج کہ ووسرے نے' گ ؤں میں چھوٹی موٹی پرچون کی دوک ن ڈال لی۔ ق ئ ع ی کی بیٹی ت ج' اپنی م ں رقی ں کے قدموں پر تھی۔ اس کی بدچ نی کے ہ تھوں مجبور ہو کر' اس نے چھت پر سے چھالنگ لگ کر' خودکشی کر لی۔ حرف بہ حرف اسی طرح ہوا' جس طرح سے م ئی گوہر بی بی نے د دیتے وقت کہ تھ ۔ زمین ک م ل زمین پر ہی رہ گی ۔ محمد امین اور ق ئ ع ی دونوں' دنی سے خ لی ہ تھ چ ے گیے۔ رقی ں ک ع ش سردار کرت ر سنگھ' 1947کے ہنگ موں کی نذر ہو گی ۔ محمد امین کے ب پ ک ہڑپ ض ئع ہو گی ' کچھ ب قی نہ رہ ۔ مرشدی حضرت سید غال حضور کی ش دی' م موں زاد سیدہ سردار بیگ بنت سید برکت ع ی سے ہوئی۔ اس لیے دوسروں کی نسبت' ان کی ننھی ل سے زی دہ قربت رہی۔ یہ گ ؤں نگ ی' امرت سر سے ت رکھتے تھے۔ سید گوہر ع ی اور سید برکت ع ی' دونوں بھ ئی ع دوست تھے۔ کھ تے پیٹے اور خوش ح ل لوگ تھے۔ دونوں بھ ئیوں کی' بتیس کھوہ زمین تھی۔ اوالد میں' دونوں کے پ س' صرف سیدہ
سردار بیگ تھی۔ الڈ پی ر سے پ ی بڑھی۔ یہ گھرانہ اہل تشیع تھ ۔ ان کے ہ ں' مج سیں ہوتی رہتی تھیں۔ کت بوں اور ق می نسخوں کے' انب ر لگے ہوئے تھے۔ مرشدی حضرت سید غال حضور 1929ی 1931 میں' س کچھ چھوڑ چھ ڑ کر' قصور اٹھ آئے۔ محنت مزدوری پیشہ بن ی ' ب د ازاں سرک ری مالزمت اختی ر کر لی۔ لوگ دنی کی اشی س تھ رکھتے ہیں' انہوں نے کت بوں اور ک غذوں کو س م ن س ر و حی ت بن ی ۔ سید غال غنی کو' کت بوں ک غذوں سے کوئی دل چسپی نہ تھی۔ مرشدی قب ہ حضرت سید غال حضور کت بوں کے ع ش تھے انہوں نے' ان بوسیدہ ک غذوں کو سینے سے لگ لی ۔ 1988میں' ان ک انتق ل ہوا' تو م ئی ص ح سردار بیگ نے' اپنے خ وند حضرت سید غال حضور ک ' یہ اث ثہ سینے سے لگ لی ۔ 1996میں' وہ بھی چل بسیں۔ ان ک بڑا بیٹ ' سید منظور حسین' جو ہمیشہ سے' عورتوں ک شوقین رہ تھ ۔ خ ن دان کی عورت کو طال دے کر' ایک نہیں' دو چ تی پھرتی عورتیں لے آی تھ ' مک ن اور س م ن پر ق بض ہو گی ۔ اس سے چھوٹ ' سید محبو حسین اسی ک بگ ڑا ہوا تھ ' ردی سے دل چسپی نہ رکھت تھ مک ن اور س م ن کے لیے بھ گ دوڑا لیکن شیر کے منہ سے' ایک لقمہ بھی نہ نک ل سک ۔ پھر تھک ہ ر کر بیٹھ گی ۔ چوروں کو پڑے مور کے مصدا سید منظور حسین کے بڑے سے چھوٹے بیٹے' مط و حسین نے مک ن پر قبضہ کر لی ۔ ذاتی مک ن بھی زوج نی س زشوں کی بھینٹ چڑھ گی ۔ سید منظور حسین کو قض نے لے لی اور یہ ضر المثل' چوروں کو پڑے مور' موروں کو پڑیں قض ئیں' منزل مقصود کو پہنچ ۔ مک ن ا بھی مط و حسین کے قبضہ اور تصرف میں ہے۔ حضرت سید غال حضور' اپنے س سے چھوٹے بیٹے مقصود ص در الم روف مقصود حسنی کو' کچھ چیزیں مرتے وقت دے گیے تھے۔
کچھ قبضے کے غدر کے دوران' دستی ہو گیئں' کچھ کوڑا سمجھ کر جال دی گیئں .ص ف اور ج ندار کت بیں اور ک غذ ردی چڑھ گیئں۔ اس طرح' ب ب جی حضرت سید غال حضور ک کال اور ان کی آواز بھرے کیسٹ بھی ض ئع ہو گیے۔ حضرت سید غال حضور کی ش عری پر مشتمل رجسٹر وغیرہ ب طور نش نی' ان کی بڑی بیٹی فض ل بیگ لے گئی۔ یہ چیزیں ان کے بیٹے ش قث رسول نے' اپنی دک ن میں است م ل کر لیں۔ وقتی طور پر ان کے نصی میں مٹھ ئی ہوئی اور پھر' سڑکوں پر گر' کر ہمیشہ کے لیے ن بود ہو گئیں میرے پ س ان ک اپن کال رف بکھرے ک غذوں اور تین قصوں کی صورت میں موجود ہے۔ چوتھ قصہ دستی نہیں ہو رہ ۔ کوشش میں ہوں ضرور کہیں ن کہیں سے مل ج ئے گ ۔ قدی ک غذات ص ف ظ ہر ہے 1911ی اس سے پہ ے کے ہیں۔ کچھ پر سن اور ت ریخ درج نہیں۔ یہ ں تک کہ مصنف ک ن بھی درج نہیں۔ کچھ بہت پرانے ہیں اور بوسیدہ ہو چکے ہیں۔ یہ اردو پنج بی میں ہیں۔ ان میں سے ایک نہ اردو ہے اور نہ پنج بی ہے۔ اسے گالبی اردو ی گالبی پنج بی کہن زی دہ من س ہو گ ۔ ک غذ کی ح لت اچھی نہیں ت ہ نہیں بآس نی پڑھ ج سکت ہے۔ اس کی عمر سو س ل سے زی دہ ہے۔ مصنف ک کچھ پت نہیں۔ یہ حضرت سید ع ی احمد ک ہینڈ راٹنگ بھی نہیں ہے۔ تحریر پر کوئی عنوان درج نہیں۔ مندرج ت کے حوالہ سے' اسے۔۔۔۔۔ حضور کری ص ی هللا ع یہ وس اور تخ ی ک ئن ت۔۔۔۔۔ عنوان دی ج سکت ہے۔ اس مختصر سی تحریر کے لیے' مصنف نے گی رہ م روف' مستند اور مت ع یہ کت مشکوتہ' قسطالنی' احمد' بزار' طبرانی' ح ک ' بیہقی' ح فظ ابن حجر' ابن حب ن رحمہ الرحم ن' فتوح ت مکیہ' کت التشری ت کی ور گردانی کی ہے' اس سے مصنف کی ع می
اہ یت ک ' ب خوبی اندازہ لگ ی ج سکت ہے۔ مصنف نے' چند پنج بی کے ل ظ تحریر میں داخل کرکے' پنج بی میں لکھنے ک غ لب تجربہ کی ہے اور یہ تجربہ' ک می تجربہ نہیں ہے۔ دونوں زب نوں ک نحوی سیٹ اپ الگ تر ہے' لہجہ اور اس و مخت ف ہیں۔ مصنف بھ ے پنج بی رہ ہو گ ' لیکن لکھن اور بولن قط ی الگ ہنر ہیں۔ تحریر بت تی ہے' کہ اس ک لکھنے واال' بنی دی طور پر اردو میں لکھنے واال ہے۔ درج ذیل امور' تحریر میں نم ی ں ہیں س ری تحریر ایک ہی پیرے میں ہے۔ نئے پیرے کے لیے ل ظ اور 1- است م ل میں الی گی ہے۔ رموز ک است م ل نہیں کی گی ۔ نئے پوائنٹ کے لیے اور' ج کہ 2- ب قی کے لیے' محض سکتہ ک است م ل کی گی ہے۔ ل ظ مال کر لکھے گیے ہیں۔ یہ ہی طور مست مل تھ ۔ 3- دو چشمی حے کے لیے' حے مقصورہ است م ل میں الئی گئی ہے۔ 4- جس ل ظ کے لیے' آج حے مقصورہ مست مل ہے' اس کے لیے' دو 5- چشمی حے است م ل کی گئی ہے۔ نون غنہ کی جگہ' نون است م ل میں الئی گئی ہے۔ 6- تی ر کو طی ر لکھ ج ت تھ ' اس تحریر میں بھی طی ر ہی لکھ گی 7- ہے ے کی بج ئے ی است م ل کی گئی ہے۔ اس عہد میں یہ ہی عمومی 8-
چ ن تھ ۔ ترمیمی متن اول م خ
هللا نوری۔
مشکوتہ' قسطالنی '.احمد' بزار' طبرانی' ح ک ' بیہقی' ح فظ ابن حجر' ابن حب ن رحمہ الرحم ن :ق ل رسول هللا ص ی هللا ع یہ وس انی عندهللا مکتو خ ت النبیین وان آد لمنجدل فی طینتہ و س خبرک ب ول امری دعوتہ ابراھی وبش رتہ عیسی ورؤی امی التی راءات حین وض تنی وقدخرخرج لہ نوراف ء لہ منہ قصور الش اور حضرت موالن وسیددن محی الدین بن عربی اپنی کت فتوح ت مکیہ :کے 6ب کے خ قت کی پیدائش کے بی ن میں لکھتے ہیں ہین ف ک ن مبتدال ل ب ئزہ و اول ظ ھر فی وجود ی نی حضرت ص ی هللا ع یہ وس تم جہ ن ک شروع اور وجود اغی پیدایش میں ظ ہر اول ہیں۔ کت التشری ت میں حضرت ابوھریرہ رضی هللا ت لی عنہ سے مروی ہے' جو سرور ک ئن ت ص ےهللا ع یہ وس نے حضرت جبرائیل سے پوچھ ' عمر آپ کی کتنے برسوں کی ہے حضرت جبرائیل ع یہ السال نے عرض کی :ی حبی هللا ص ی هللا ع یہ
وس مجھے برسوں ک ح ل کچھ م و نہیں اتن ح ل م و ہے .جو چوتھی حج میں ایک ست رہ ستر ہزار برس سے ظ ہر ہوت ہے اور میں نے وہ ست رہ بہتر ہزار مرتبہ دیکھ ہے۔ فق ل ص ی هللا ع یہ وس ی جبرائیل وعزت ربی ان ذلک النج ۔ اور آں حضرت ص ی هللا ع یہ وس کی اولیت ی نی س پیدایش سے افضل ہوون اور اصل اصول س مخ وق ت ک قرار پ ون اور اولویت اعنی س سے بہتر ہون اور افضل ہون بہت اح دیث مب رکہ و آث ر شری ہ سے ث بت ہے اور ح صل ان س ک یہ ہی ہے جو هللا تب رک و ت لی نے آسم ن ن۔ زمین ن اور عرش۔ کرسی۔ لوح۔ ق ۔ بہشت۔ دوزخ۔ فرشتے۔ جن اور بشر ب کہ تم مخ وق ت کی پیدایش سے پہ ے کئی ہزار برس نور مظہر سرور آں حضرت ص ی هللا ع یہ وس ک پیدا فرم ی اور جہ ن کے میدان میں هللا جل ش نہ اس نور مب رک کی تربیت فرم دی۔ کبھی اس کو سجود خشوع آمود سے م مور فرم تے اور کبھی تسبیح و تقدیس میں مشغول رکھتے۔ اور اس پ ک نور کی رہ یش کے واسطے بہت پردے بن ئے۔ ہر پردے میں بہت مدت تک خ ص تسبیح کے س تھ مشغول فرم ی ۔ تم پردوں والی ج مدت گزر گئی ت اس نور مب رک نے ب ہر رون افزا ہو کے س نس لین شروع فرم ی ۔ ان متبرک س نسوں سے فرشتے' ارواح انبی واولی وصدیقین وس ئرمؤمنین کو پیدا فرم ی ۔ اور اس جوہر نور سے عرش' کرسی' لوح' ق ' بہشت' دوژخ اور اصول م دی آسم ن و زمین اور سورج' چند ست رے' دری ' پہ ڑ وغیرہ پیدا فرم ئے .پھر زمین اور آسم ن کو پھیال کے س ت س ت طبقے بن ئے اور ہر ایک طبقہ
میں اک اک پیدایش ک مق مقرر فرم ی ۔ اور دوسری روایت میں اس طرح آی ہے' کہ ج اس نور مب رک الظہور نے س نس لین شروع کی ۔ ان س نسوں سے' پیغبران ع یہ الصحورت واال س مہ من خ ل البریہ اور اولی ' شہیدان' ع رف ن' ع لم ن' ع بدان' زاھدان۔ اور ع مومن ن کی ارواح پیدا ہوئے۔ پھر اس نور ط ہر و طہور کو دس حصوں پر تقسی فرم ی ۔ اور دسویں حصہ سے' خدائے تب رک و ت لی نےاک جوہر بن ی ' طول اور عرض جس ک اعنی لمب ئی چوڑان' چ ر چ ر ہزار برس ک رستہ تھ .اس جوہر اع ے گوہر میں' رحمت کی اک نظر فرم ئی۔ بسب حی ' وہ جوہر مب رک ک نپ اور ادھ پ نی بن گی اور ادھ اگ ہو گی ۔ اس پ نی سے' دری پیدا ہوئے اور ان دری وں کی ٹھ ٹھیں شروع ہو گئیں اور ان کی حرکت اور ھ نے کے سب سے' ہوایں چ ن شروع ہو گئیں اور ان ہواو ں خ و اغی جگہیں مقرر ہوئیں اور زمین سے آسم ن کی طرف' ب رہ کوہ ن تک' ہوا ک مق ہے اور اس اوپر زمہریر' دری وغیرھم اور قری آسم ن کے' اگ ک کرہ موجود ہے اور پھر اگ کو پ نی پر' غ ل فرم ی اور پ نی نے اگ کی گرمی کے سب ' ج جوش کھ ی ' تو اسی ( سے( جھ گ پیدا ہو گئی اور اس جھ گ سے زمین بن ئی گئی' پھر اس جھ گ سے جو بخ رات پیدا ہوئے' ان سے اصل م دہ آسم ن ک بن اور موجوں کے سمٹ ج نے کے سب 'پہ ڑ پیدا ہوئے۔ زمین از ت لرزہ آمدہ۔۔۔۔۔۔۔۔ فرو کوفت بردانش میخ کوہ۔۔۔۔۔۔ زمین پر پ نی کھڑا ہونے کے سب ' ہر وقت ہ تی تھی .هللا تب رک وت لی نے اس کی بےقراری دور کرنے کے واسطے' ان ٹھ ٹھوں اور سمٹ و سے' پہ ڑ پیدا فرم کے زمین پر ق ئ فرم ئے
اور اک بج ی پہ ڑوں میں پہنچی' اسے م دن ی نی کھ ن پیدا ہوا اور ج لوہ پتھر سے ٹکرای ' اس سے چنگ ڑی پیدا ہو کے' اگ ابل اٹھی اور اس اگ سے' دوزخ ک م دہ طی رہوا۔ ب د ازاں' زمین کو پھیالی ۔ واالرض ب د ذلک دجہہ ت کہ حیوان ت' وحشی ج نور اور درندے اور چوپ ئے' اس میں مق کریں۔ پھر زمین کے س ت طبقے بن ئے اور ہر طبقے میں' الگ الگ مخ وق ت کے مق ٹھرائے اور اگ کے ش وں سے' جنوں کو بن ی اور زمین پر ان کو مس ط فرم ی ۔ بہشت کو' ست ویں آسم ن پر ب ندی بخشی اور دوزخ ست ویں زمین کے ت ے' ق ئ فرم ئی اور جن کی روشنی کے واسطے سورج' چ ند اور ست رے چمک ئے۔ فوائد نجو ۔ نور اور ظ مت کے م دوں سے' دن اور رات' پھر تم پیدایش اور مخ وق ت کو اپنے حبی قری پر قرب ن فرم ی ۔ وافدیت لکی ع یک ی محمد ص ے هللا ع یہ وس ترمیمی ال ظ اور حروف س نس' ک نپ ' س تھ ج ' ت ' کبھی میں' پر' اور ان' جس' وہ ک ' کے' کی' کو
تھ ' گئیں تے' تی ئیں' وں' ی ' یں ا' تھ' ں' و' ہ' ے تحریر ک اصل متن اول م خ هللا نوری۔ مشکوتہ .قسطالنی .احمد .بزار۔ طبرانی۔ ح ک ۔ بیہقی۔ ح فظ ابن حجر۔ ابن حب ن رحمہ الرحم ن ق ل رسول هللا ص ی هللا ع یہ وس انی عندهللا مکتو خ ت النبیین وان آد لمنجدل فی طینتہ و س خبرک ب ول امری دعوتہ ابراھی وبش رتہ عیسی ورؤی امی التی راءات حین وض تنی وقدخرخرج لہ نوراف ء لہ منہ قصور الش اور حضرت موالن وسیددن محی الدین بن عربی اپنی کت فتوح ت مکیہ دی 6ب وچ خ قت دی پیدائش دی بی ن وچ لکہدے ہین ف ک ن مبتدال ل ب ئزہ و اول ظ ھر فی وجود ی نی حضرت ص ی هللا ع یہ وس تم جہ ن دا شروع اور وجود اغی پیدایش وچ ظ ہر اول ہیں۔ کت التشری ت وچ حضرت ابوھریرہ رضی هللا ت لی عنہ سے مروی ہے جو سرور ک ئن ت ص ےهللا ع یہ وس نے حضرت جبرائیل سے پوچھی عمر تہ ڈی کتنے برس ن دی ہے حضرت جبرائیل ع یہ السال نے عرض کیت ی حبی هللا ص ی هللا ع یہ وس مینوں برس ندا ح ل کچھ م و نہیں اتن ح ل م و ہے جو چوتہی حج وچ ایک ست رہ ستر ہزار برس توں پچھے ظ ہر ہوندا ہے اور مینی اوہ ست رہ بہتر ہزار مرتبہ دیکہی ہے۔ فق ل ص ی هللا ع یہ وس ی جبرائیل وعزت ربی ان ذلک النج ۔۔۔۔۔۔۔۔اور آن حضرت
ص ی هللا ع یہ وس دی اولیت ی نی س پیدایش سے افضل ہوون اور اصل اصول س مخ وق ت دا قرار پ ون اتے اولویت اعنی س سے بہتر ہون اور افضل ہون بہت اح دیث مب رکہ و آث ر شری ہ سے ث بت ہےاور ح صل انہ ں سبن ندا ایہو ہے جو هللا تب رک و ت لی نے آسم ن ن۔ زمین ن اور عرش۔ کرسی۔ لوح۔ ق ۔ بہشت۔ دوزخ۔ فرشتے۔ جن اور بشر ب کہ تم مخ وق ت دی پیدایش سے پہ ے کئی ہزار برس نور مظہر سرور آن حضرت ص ی هللا ع یہ وس دا پیدا فرم ی اور جہ ن دے میدان وچ هللا جل ش نہ اس نور مب رک دی تربیت فرم ندی۔ کدے اس نو سجود خشوع آمود سے م مور فرم ندی اور کدے تسبیح و تقدیس وچ مشغول رکھدی۔ اور اس پ ک نور دی رہ یش دے واسطے بہت پردے بن ئے۔ ہر پردے وچ بہت مدت تک خ ص تسبیح دے ن ل مشغول فرم ی ۔۔۔تم پردی ن والی جد مدت گزر گئی تد اس نور مب رک نے ب ہر رون افزا ہو کے س نہہ لین شروع فرم ی ۔ انہ ں متبرک س نہ ن وچوں فرشتے۔ ارواح انبی واولی ۔ وصدیقین وس ئرمؤمنین نو پیدا فرم ی ۔ اور اس جوہر نور سے عرش۔ کرسی۔ لوح۔ ق ۔ بہشت۔ دوژخ اور اصول م دی آسم ن وزمین اور سورج۔ چند ست رے۔ دری ۔ پہ ڑ وغیرہ پیدا فرم ئے پھر زمین اور آسم ن نو پھیال کے ست ست طبقے بن ئے اور ہر ایک طبقہ وچ اک اک پیدایش دا مق مقرر فرم ی ۔۔۔۔ اور دوسری روایت وچ اس طرح آی ہے کہ جد اس نور مب رک الظہور نے س نس لین شروع لین شروع کیت ۔ انہ ن س نہ ن وچوں پیغبران ع یہ الصحورت واال س مہ من خ ل البریہ اور اولی ۔ شہیدان ع رف ن۔ ع لم ن۔ ع بدان۔ زاھدان۔ اور ع مومن ن دی ارواح پیدا ہوئے۔ پھر اس نور ط ہر و طہور نو دس حصی ں پر تقسی فرم ی ۔ اور دسوین حصہ سے خدائے تب رک و ت لی نےاک جوہر بن طول اور عرض جسدا اعنی لمب ئی چوڑان چ ر چ ر ہزار برس دا رستہ سی اس جوھر اع ے گوھر وچ رحمت دی اک نظر فرم ئی۔ بسب حی اہ
جوھر مب رک کمبی اور ادھ پ نی بن گی اور ادھ اگ ہو گی ۔ اس پ نی سے دری پیدا ہوئے اور انہ ن دری وان دی ن ٹھ ٹھ ن شروع ہوی ں اور انہ ں دی حرکت اور ھ نے دے سب سے ہواوان چ نی شروع ہوی ن اور انہ ں ہواون خ و اغی جگہ ن مقرر ہوی ں اور زمین سے آسم ن دی طرف ب ران کوہ ن تک ہوا دا مق ہے اور اس اوپر زمہریر۔ دری وغیرھم اور قری آسم ن دے اگ دا کرہ موجود ہے اورپھر اگ نو پ نی پر غ ل فرم ی اور پ نی نے اگ دی گرمی دے سب جد جوش کھ دا تو اسی ( سے( جھگ پیدا ہو گئی اور اس جھگ سے زمین بن ئی گئی پھر اس جھگ سے جو بخ رات پیدا ہوئے انہ ن سے اصل م دہ آسم ن دا بنی اور موج ن دے سمٹ ج ندے سببوں پہ ڑ پیدا ہوئے۔ زمین از ت لرزہ آمدہ۔۔۔۔۔۔۔۔ فرو کوفت بردانش میخ کوہ۔۔۔۔۔۔ زمین پرپ نی کھڑا ہوندے سب ہر وقت ھ دی سی هللا تب رک وت لی نے اسدی بےقراری دور کرن واسطے انہ ن ٹھ ٹھ ندی اور سمٹ و سے پہ ڑ پیدافرم کے زمین پر ق ئ فرم ئے اور اک بج ی پہ ڑان وچ پہنچی اسے م دن ی نی کھ ن پیدا ہوی ن اور جد لوہ پتھر سے ٹکرای اس سے چنگ ڑی پیدا ہو کے اگ ابل اٹھی اور اس اگ سے دوزخ ک م دہ طی رہوا۔ ب د ازاں زمین نو پھیالی ۔ واالرض ب د ذلک دجہہ ت کہ حیوان ت۔ وحشی ج نور اور درندے اتے چوپ ئے اس وچ مق کرن۔ پھر زمین دے ست طبقے بن ئےاتے ہرطبقے وچ الگ الگ مخ وق ت مق ٹھرائےاور اگ دے ش ی ن سے جن ن نو بن ی اور زمین پر اہن ن نو مس ط فرم ی ۔ بہشت ستوین آسم ن تے ب ندی بخشی اور دوزخ ستوین زمین دے ت ے ق ئ فرم ئی اور جہ ن دی روشنی دے واسطے سورج۔ چند اور ست رے چمک ئے۔ فوائد نجو ۔ نور اور ظ مت دے م دی ں سے دن اور رات پھر تم پیدایش اتے مخ وق ت نو اپنے حبی قری پر قرب ن فرم ی ۔ وافدیت لکی ع یک ی محمد ص ے هللا ع یہ وس
آخری ب ت اگر هللا نے توفی عط فرم ئی' تو دیگر قدی و ن ی کروں گ ۔ یہ تحریریں بالشبہ اردو ک سرم یہ ہیں۔
تحریریں بھی پیش
قصہءآد ‘ اردو کے داست نی اد میں ایک اہ اض فہ میرے والد محتر قب ہ سید غال حضور الم روف ب ب شکرهللا‘ کت دوستی میں اپنی مث ل آپ تھے۔ ان کے ذخیرہء کت میں‘ جہ ں مطبوعہ کت تھیں‘ وہ ں ان کے بڑوں کے ہ تھ سے لکھے‘ ق می نسخے بھی تھے۔ وہ یہ س ‘ ج ن سے زی دہ عزیز رکھتے تھے۔ ان کے انتق ل پرمالل کے ب د‘ یہ س ح الت زم نہ ک شک ر ہو گی ۔ میرے ہ تھ بس دوایک ڈبے لگے۔ ا عمر کے آخری ای میں‘ مجھے اس سرم ئے کو مح وظ کرنے ک خی ل آی ۔ کیوں آی ‘ یہ الگ سے کہ نی ہے۔ اگر زندگی نے مہ ت دی‘ تو یہ س انٹرنیٹ پر رکھنے کی س ی کروں گ ورنہ ردی چڑھ ج ئے گ ی ڈاکٹر مس ک ل جیسے شخص کے ہ تھ لگ ج ئے گ ‘ جو میرے ہی گھر والوں سے‘ رق بٹور‘ کر اپنے ن سے چھ پ لے گ ۔ اردو‘ پنج بی ق می نسخےاور میرا لکھ اس کے تصرف میں آ سکے گ ‘ لیکن سیکزوں س ل پرانے پرانے ف رسی نسخوں ک کی بنے گ ۔ خیر جو ہو گ ‘ بہتر ہی ہو گ ۔ زندہ رہ تو ضرور کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش کروں گ ۔ مجھے میری جہ لت نے ہیشہ خوار کی ہے۔ اہل
ق کو‘ جہ لت کے سب ‘ میری بےپسی سے سب لین چ ہیے۔ انہیں ح ل میں موجود کو‘ اسی طرح کسی من ی ی ذات سے جڑی غرض کو ب الئے ط رکھ کر‘ مستقبل کو منتقل کر دین چ ہیے۔ دیر ب د سہی میں نے آغ ز کر تو دی ہے۔ اردو کے داست نی اد میں‘ فورٹ ولی ک لج کی داست نیں‘ زی دہ تر ریک رڈ میں آئی ہیں۔ بیرون میں رج ع ی بیگ سرور کی داست ن کو شم ر میں رکھ گی ہے۔ ب ب ئے اردو نے مال وجہی کی نثری داست ن‘ س رس کو داست نی اد ک حصہ بن ی ہے۔ یہ اردو میں ہے ی نہیں‘ قط ی الگ سے بحث ہے۔ سرک ری ک رخ نوں سے ہٹ کر بھی ک ہوت رہ ہے۔ محق حضرات کی نظر‘ اس ج ن بہت ہی ک گئی ہے۔ عالمہ اقب ل کو ب طور ش عر س ج نتے ہیں‘ لیکن عالمہ مشرقی بھی ش عر تھے‘ کوئی نہیں ج نت ۔ یہ ہی صورت ف رسی کے فردوسی کی ہے۔ غیر سرک ری شخص‘ خواہ اس کی ع می وادبی حیثیت کچھ بھی رہی ہو‘ ریک رڈ میں نہیں آ سک ۔ ک غذ پر لکھ م مولی پرزہ بھی‘ اپنی حیثیت میں بےک ر محض نہیں ہوت ۔ زب ن کی ورائٹی فراہ کرنے کے س تھ س تھ اپنے بدن پر م وم ت سج ئے اور بچھ ئے ہوت ہے۔ اب حضور کے کت بی ورثے سے‘ ایک اٹھ ئیس ص ح ت ک رس لہ دستی ہوا ہے۔ اس کے پہ ے دس ص حے پھٹے ہوئے ہیں۔ ص حہ گی رہ سے‘ تخ ی آد ک قصہ شروع ہوت ہے اور یہ ص حہ ست ئیس پر خت ہوت ہے۔ ص حہ پر کت بوں کی فہرست اور آخر میں ن شر ک ات پت درج ہے۔ اسی لیے میں اسے‘ قصہ آد ک ن دینے کی جس رت کر رہ ہوں۔ یہ دراصل ف رسی سے اردو ترجمہ کی ہوا ہے۔ اس کی اصل خوبی یہ ہے کہ یہ دو ک لمی ہے۔ پہ ے ک ل میں‘ اصل متن درج ہے‘ ج کہ دوسرے ک ل میں اردو ترجمہ پیش کی گی
ہے۔ ص حہ ست ئیس پر جہ ں قصہ تم ہوت ہے‘ وہ ں ن شر نے اپنی طرف سے فقط چ ر سطور میں کچھ لکھ ہے اور اس کے ب د اپن پنج بی میں‘ آٹھ اش ر پر مشتمل حمدیہ کال درج کی ہے۔ ن شر کی چ ر سطور مالحظہ فرم ئیں: حمد وشکر کے ب د واضح ہو کہ یہ کت ب د الجہ ن پورانی ق می کوشش ہےاسکو تالش کی۔ اور اسک ترجمہ کرا کے۔ آدھے ک ل میں ف رسی اور آدھے ک ل میں اردو بڑی کوشش کے س تھ چھپ ئی۔ هللا ص ح اس ع جز کی کوشش کو قبول فرم ئے۔ اسک کوشش کرنیواال فقیر فضل ح ابن ح جی محمد عالؤالدین سے م و ہوت ہے یہ ت جرکت ہیں اور ان ک کت خ نہ پتو ص حہ منڈی نوآب د ض ع الہور تحصیل چونی ں میں تھ ۔ گوی اس کت
ک ن ب د الجہ ن تھ ۔
ق می نسخہ تھ جو پران تھ ۔ دستی
نہ تھ ۔
فقیر فضل ح کے ع میں یہ کت تھی اور وہ اس سے دل چسپی رکھتے تھے اسی لیے اس ک کھوج لگ ی اور ش ئع کی۔ کے مط ب یہ بہت اس جگہ ک موجودہ ن پتوکی ہے۔ گزٹ بڑی ک ٹن کی منڈی تھی اور م روف تھی‘ نوآب د نہ تھی۔ گوی کت کی سے پہ ے کی ٹھہرتی ہے۔ اس طب عت نوآب د کے حوالہ سے‘ حس سے‘ اصل ف رسی تخ ی سو پچ س س ل اس سے پیچھے ج تی
ہے۔ ف رسی اس و تک حیرت انگیز طور پر س دہ اور ع فہ ہے۔ :مثال یہ جم ے ب طور نمونہ مالظہ ہوں م ر سی ہ دہن کش دہ اب یس جست زدہ در دہن او ج کرد۔ بمجرد رفتن در دہن اب یس کرد۔ کہ ازاں زہر پیدا شد چوں ط ؤس گ ت خو ل کردی۔ ازیں سخن پ ئے او سی ہ شدند۔ مترج کے مت
آخر میں م وم ت موجود ہیں:
محمد حسن۔ س کن نشی لبیہ۔ ض ع مظ ر گڑہ۔ ح ل مدرس مترج نے‘ ک ی طور پر ل ظی اور ب مح ورہ ترجمہ نہیں کی ہے‘ ت ہ ترجمہ بے لذت اور بے ذائقہ بھی نہیں ہے۔ مترج نے‘ اردو ف رسی اش ر‘ حک ی ت اور موقع کے مط ب احک م ت ک اض فہ کی ہے۔ ترجمے میں ایک دو جگہ پر‘ عج ت ک گم ن گزرت ہے۔ وق ے کے عالوہ‘ کسی عالمت ک است م ل نہیں ہوا ہے۔ عالمتیں ان کے ہ ں مستمل نہیں ہوں گی ی اصل کی ییروی میں‘ صرف سکتے سے ک لی گی ہے۔ اس قصے کے ب ض مندرج ت سے کوئی مت ہو ی ن ہو‘ اس میں داست نی لوازم ت بہرطور موجود ہیں۔ تم کردار‘ اپنے ہونے اور اپنے کیے ک احس س دالتے ہیں۔ کہ نی میں دل چسپی ک عنصر موجود ہے۔ رائٹر موقع م تے ہی‘ موقع کے مط ب اخالقی پیغ بھی چھوڑت ہے۔ س سے بڑی ب ت یہ ہے کہ یہ ب ق عدہ ایک پالٹ پر استوار ہےاور
اس میں ایک ب ربط کہ نی موجود ہے۔ اسے اردو کے داست نی اد میں‘ ایک اہ اض فہ قرار دین غ ط نہ ہو گ ۔ اس قصے کے مط ل ہ سے‘ ق بل غور اور الگ سے م وم ت بھی میسرآتی ہیں۔ م روف یہ ہی چال آت ہے‘ کہ دانہءگند پہ ے حضرت آد ع یہ السال نے کھ ی ‘ ج کہ اس قصہ سے م و ہوت ہے‘ کہ دانہءگند پہ ے ام ں حوا نے کھ ی ۔ اسی طرح یہ بھی پت چ ت ہے‘ کہ حضرت آد ع یہ السال کی پ نچ سو ج ت ی نی ہزار اوالدیں تھیں۔ یہ بھی م و ہوت ہے‘ کہ بت پرستی ک آغ ز ق بیل سے ہوا۔ مزید چند ایک مث لیں مالحظہ ہوں۔ ج فرشتوں نے سر اٹھ ی ۔ تو شیط ن کے گ ے میں ستر ک طو پڑ گی ۔
من ل نت
جہٹ فرشتوں نے دوسرا سجدہ کی ۔ پہال ک مہ هللا واحد الشریک ہے آد ص ی هللا ک ہے۔ دوسرا ک مہ هللا ت لے واحد اسک کوئی شریک نہیں محمد بندہ هللا ک ہے پیغمبر ہے جن ک۔ آد اور حوا کو آسم ن پر ب
عدن بہشت میں الؤ۔
اسوقت بہشت سے ب ہر ج ن بغیر گند کہ نے کے مح ل تھ ۔ حوا نے کہ لی ۔ مگر ادھ دانہ نہ کہ ی تھ ۔ آد نے بھی دانہ ب قیم ندہ نصف کہ لی بوجہ۔۔۔۔ تو اسکو پ خ نہ کی ح جت پڑ گئی۔ آخر ب د ستر برس کے حوا اور آد کی مالق ت ہوئی۔
ک بیل کو چونکہ محبت تہی الش کو پھینکن ن گوار سمجہکر اپنی پشت پر اٹھ لی ۔ چن نچہ چھ م ہ ک عرصہ گذر گی ۔ جبرائل بحک ر ج یل انکو بہشت میں لیگی ۔ تین ہزار برس عدن میں آد ع یہ السال رہے کہتے ہیں کہ حضرت آد فرزند پ نچسو ج ت تھے۔ عورتیں دین اورعقل میں دسترس نہیں کر سکتیں۔ اور کہ کہ ہر صبح نہ کر ط
کھ ن اور اس بت کو سجدہ کرتے رہن ۔
ل ظوں کی امال مخت ف تھی۔ مثال خود میں ان ک سر طی ر کروں گ ۔ نوں غنہ ک حشوی است م ل موجود نہ تھ ۔ مثال دونو کوے ق بیل کے روبرو لڑتے ہوئے م ب پ بیٹ ایکدوسرے کو دور کر دے گ ۔ نون غنہ کی جگہ‘ لون ک است م ل بھی کی ج ت تھ ۔ مثال میں اس زم نہ عیش و عشرت کر لون۔ ل ظوں کو مال کر است م ل کرن عمومی اور مست مل رویہ تھ ۔ مثال
نیچے سے تمکو دکھ ئی دیگ سوچکر کہنے لگ ۔ اس گھر رحمت نہیں اتریگی۔ گند کہ نیکی وجہ سے اپن ہی ہر ایک بوجھ اوٹھ ئیگ ۔ ایکدف ہ بہشت میں ج نے دو ق بیل نے دیکہکر ویس کی ۔ ب ض ل ظوں ک است م ل اور ت ہی ‘ آج سے الگ تر ہے۔ مٹال آد ک برح ل رہ ۔ قبر کے کھودنے کی تجویز ک بیل کو م و نہ تہی۔ شیط ن پروردگ ر جل عزاسمد کے مخ لف اصالح کرنے لگ ۔ فرشتوں نے خدائے عزوجل کے حک سے آد کے قد کو بن ی زمین پر ڈالدے ت کہ میرے قد ک م ئنہ کریں۔ انہوں نے مٹی بودار د کی تجہے موت کیچ شنی دونگ ۔ اسواسطے کہ میں نہ ئت رض مند ہوں آد سے۔ دونوں ک مہ ک ح ظ کی کرو
میوہ وغیرہ ک ن شتہ کرو شیط ن نےس نپ کے ہ ں کہ تھ بہشت کے ب ہر آد کی جستجو کریں۔ دین اورعقل میں دسترس نہیں کر سکتیں قدی اور جدید اردو میں‘ مونث اور مذکر ک است م ل مخت ف ہے‘ یہ است م ل اپنی اصل میں درست ہے‘ لیکن آج رائج نہیں۔ مثال تجہکو خوف نہیں آئی تو م ون ہوا ہے۔ بہشت کے درب ن کے پ س ام نت ج رکھ ۔ ج حوروں نے آواز سن مح وروں ک است م ل اور م نوی ب د بھی موجود ہے۔ س کو ہ تھ افسوس م ن پڑے گ ۔ اسنے کوے کو وہیں گ ڈ دی ۔ ایک سنگ راست کرکے انکو دیدی حیض کی بیم ری ع رض ہو گئی۔ ہر صبح نہ کر ط
کھ ن
آد کو بہی جستجو کی تو نہ پ ی ۔
اپنی جگہ کرتے ہی س نپ کے منہ میں ل
ڈالدی۔
ت زمین پر ج ٹھہرن یہ عمل درآمد کرکے آسم ن ج ن کی ۔ بولن بھی ص ی کو پہونچ ت ہے گردن موڑن موج غض ہے۔ خوا نہیں کرت تھ پ خ نہ کی ح جت پڑ گئی۔ تسبیحیں کہتے تھے۔ حور سے پرہیز کر گی ہے پرہیز کر گی کو ت
کی استواری کے لیے لی گی ۔
س بقوں اور الحقوں ک است م ل آج سے قط ی مخت ف ہے۔ مثال جبرائیل نے غصہ ن ک ہو کر بی رم نی کے بہشت سے بہت اہ نت کے س تھ نک لنے والے ہیں۔ ک بیل۔ تو بی رم ن ہو گی ہے ضم ئر میں واؤ کی بڑھوتی کر دی ج تی تھی۔ مثال متکبر اونکو پست سمجھے۔
اونہوں نے کہ اوس نے کہ مجہکو اتنی ط قت ہے۔ اون کی ن ف پر اپنے منہ سے ل
نک لکر لگ لی
مص در میں بھی‘ واؤ کی بڑھوتی موجود تھی اور یہ عمومی اور مست مل چ ن تھ ۔ مثال جسوقت نیند میں ہووے خط پ وے جو وہ ن ری ہے آد بہشت میں ج ویگ ۔ پرانی اردو میں‘ بھ ری آوازوں سے زی دہ‘ ہ کی آوازوں ک است م ل کی :ج ت تھ ۔ اس کت سے‘ اس ذیل میں‘ چند ایک مث لیں مالحظہ ہوں ت مس م ن کبہی نہیں ہو گے بھ تہوڑے دنوں کے ب د تھ ایک روز حوا رضی هللا عنہ بیٹہے تھے ٹھ مجہے اس بت سے بدبو آتی ہے۔ جھ جہٹ فرشتوں نے دوسرا سجدہ کی ۔ جھ اونہوں نے پوچہ تمہ را کی ن ہے۔ چھ ورنہ پچہت ن پڑیگ ۔ چھ
یہ نہ ئت اندہیر کوٹھ ہے۔ دھ ال حول پڑہت رہے ڑھ پھر بہشت کو دیکہوں گ ۔ کھ ج اندر گہس گی گھ بھ ری آوازیں بھی است م ل میں تھیں۔ مثال افسوس میں کوے سے بھی کمتر ہوں۔ بھ پھر ج ن ک کو روح پہونچی پھ پہ ے ن ر ہی سے تھ تھ فرشتوں نے سر اٹھ ی ٹھ اونکو پست سمجھے۔ جھ پوچھنے لگے وہ کہ ں ہے۔ چھ مثال ہ تھ دھون ۔ منہ دھون ۔ دھ درب ن کے پ س ام نت ج رکھ ۔ کھ سو جس گھر کت ہو گ گھ فصل در بی ن مہتر آد ع یہ السال اور ہ بیل اور ک بیل کے بی نمیں
فرم ت ہے پروردگ ر۔ اے آد خبر دی اونکو شیط ن کے ن سے ج آد نے ن بتالئے تو حک سجدہ ک ہوا۔ ج چوتھی قرن کی آمد ہوئی تو خداوند ت لی نے حک دی جبرائیل میک ئیل اسرافیل عزرائیل عزازیل کو کہ ت زمین پر ج ٹھہرن ۔ فرشتوں نے حس فرم ں ر الج یل زمین پر آتے ہی حک سن ایک مرد دری کے نیچے سے تمکو دکھ ئی دیگ وہ نورمحمد ع یہ السال ہو گ ۔ اور گل آد ہو گی اوسکو لیکر آد ک اعص راست کرن ۔ اگر تمکو کچھ راست کرنیکی تجویرید ہو۔ تو ست رہ جو آد کے قد مواف ہیں انکے برابر بن ن ۔ اور خود میں ان ک سر طی ر کروں گ ۔ فرشتوں نےیہ عمل درآمد کرکے آسم ن ج ن کی ۔ ب د اسکے عزازیل کے دلمیں آی ۔ کہ کل کو یہ گل آد بہشت میں ج ویگ ۔ ہ کی کرینگے۔ اس ح لت اسکے غ پیدا ہوا۔ چ ہ کہ کسی اٹکل سے اسکو الئ بہشت کے نہونے دیں۔ سوچنے کی ب ت ہے۔ تکبر یہ ہے کہ جسک مرتبہ خدا عزجل نے ع و کو پہونچ ی ہو۔ متکبر اونکو پست سمجھے۔ فی الحقیقت وہ ح کے مخ لف کرنیکی وجہ سے متکبر خدایت لی ک مق بل بن گی ہے۔ ۔۔۔۔چ ہیے کہ حک خدا کے سرکشی سے ب ز رہیں۔ ورنہ تکبر یہی ہے ب ینہ اس غدر سے خط پ وے جو وہ ن ری ہے ۔۔۔۔۔ وہ طو عزازیل اسکے گ ے ہو۔ خبیث اور م ون کہینگے۔ ص- یہی سوچ کر کہ بہشت کے الئ نہو۔ گھوڑوں کی طرف گی ۔ انکے ہ ں کہنے لگ کہ ت خوشی کر رہے ہو۔ اور تمہ رے واسطےآد پیدا ہو چک ہے۔ کل تمہ ری پیٹھ پر سواری کریگ ۔ تمکو تکیف پہونچ دے گ ۔ اونہوں نے جوا دی کہ ہم رے م لک کی خوشنودی اسی میں ہے تو ہ نہ یت رض مندی سے انک محکو ہون پسند کرینگے۔ شیط ن نے سوچ میرا داؤ یہ تو نہ لگ ۔ کوئی اور تجویز کرنی چ ہیے۔ سوچکر
کہنے لگ ۔ عج ہے کہ ت اورآد ایک خ ل کی پیدائش ہیں۔ وہ آد ت پر سواری کر۔ الی قل گھوڑوں نے داؤ کھ لی ۔ پوچھنے لگے وہ کہ ں ہے۔ اب یس م ون نے کہ کہ جو ن ف زمین ک ہے وہ ں ہے۔ جھٹ دوڑ کر پ ش پ ش کر دی ۔ پھر ب رہ س ل کے عرصےکے ب د س فرشتوں کو حک ہوا۔ کہ دوسری دف ہ آد ک بت بن ؤ۔ شیط ن پروردگ ر جل عز اسمد کے مخ لف اصالح کرنے لگ ۔ اور کہ اے میرے ر اگر حک ہو تو نور ی ن ر ی ہوا ی پ نی سےآد ک بت بن ئیں۔ اسواسطے کہ زمین مین بےزب ن ج نور ہیں۔ انکو توڑ ڈالتے ہیں۔ خط عزوجل ہوا۔ اال یہ میں خو ج نت ہوں تمکو خبر بہی نہیں۔ آد ک قد پہ ی طرح بن ؤ۔ دیکہو یہ اصالح مخ لف ر ت لے اب یس کر رہ ہے۔ یہی مرحب ہو ہے۔ ص۔ مخ لف حک ر الج یل اپنی رائے اور اصالح کو دخل دین موج ہالکت ہے۔ اس سے پرہیز کرن ۔ شیخ س دی ع یہ الرحمتہ فرم تے ہیں۔ بیت اگر ش ہ روز را گوند ش است ایں ۔۔۔۔۔۔۔۔ بب ئید گ ت اینک مہ پرویں مخ لف صالح کو کہ ں۔ بولن بھی ص ی کو پہونچ ت ہے۔ فرشتوں نے خدائے عزوجل کے حک سے آد کے قد کو بن ی ۔ لکن بن کر واپس آسم ن پر اپنے اپنے مک ن پر چ ے گئے۔ اب یس اکیال آد کے پ س رہ ۔ نک لکر لگ لی ج آد اکیال ہوا تو اون کی ن ف پر اپنے منہ سے ل پھر آسم ن پر چال گی ۔ پھر دس برس کے ب د هللا ت لی ک حک ہواکہ اے جبرائیل میک ئیل س ج کر ع یتیں جو مق چوتھے آسم ن پر ہے وہ ں سے روح آد ع یہ السال ک لیکر انکے بدن میں ڈالو۔ ج فرشتے پروردگ ر کے حک سے روح پ ک کو پردہ میں لیکر بت کے قری الئے۔ تو روح القدس کو جسوقت ڈالنے لگے اس نے کہ کہ
مجہے اس بت سے بدبو آتی ہے۔ خدا کی جن میں آد نے عرض کی اے ب ر خدای مجہے بدبو آتی ہے۔ اس سے مجہے پن ہ میں رکھ۔ خدا مہرب ن نے حک دی کہ اے جبرائیل جو جگہ بدبودر ہے اونکو دور کر شیط ن سے کت دے۔ ج انہوں نے مٹی بودار د کی تو اس مٹی ل پیدا ہوا۔ وہ کت آواز کرت بت کے قری بیٹھ گی ۔ وہ فرشتے روح مقدس کو س تھ لیکر آسم ن پر چ ے گئے۔ حتے کہ ستر برس کے عرصہ تک قد آد بم ہ سگ وہ ں رہ ۔ ی نی فرشتوں کو آنے نہیں دیت تھ ۔ ص- اور وہ کت کسی فرشتہ اور حیوان کو س تھ گزرنے نہ دیت تھ ۔ خوا سے دارمٹی سے نہیں کرت تھ ۔ یہی وجہ ہے کہ کت اب یس کی ل ہے۔ شیط ن مردودورحمت سے محرو ہے ب کہ جس جگہ شیط ن ہو رحمت نہیں ہو گی۔ سو جس گھر کت ہو گ بغیر ضرورت ح ظت ی شک ر خواص کے اس گھر رحمت نہیں اتریگی۔ ات ق اراوت ازلی اسکو نیند آ گئی۔ فرشتوں کو حک ہوا شت بی روح قدس آد کے بدن میں ڈالو۔ ج جرائیل حس فرم ن ر ت لے بم ہ مقرب ن پردہ سے روح مقدس کو لیکر آئے تو روح مقدس نزدیک بت کے پہونچکر کہ کہ یہ نہ ئت اندہیر کوٹھ ہے۔ ی ر ت لے مجہےاپنے فضل سے ایکدف ہ اسی جگہ سے مجہے نک لن ۔ ت کہ میں اس زم نہ عیش و عشرت کر لون۔ هللا ت لے نے حک دی کہ تجہے ضرور ایکدف ہ اس بدن سے نک لوں گ ۔ اور وہ نک لن تمہ ری موت ہو گ ۔ پروردگ ر فرم ت ہے س چیز کو مرن ہے مگر هللا کو نہیں ہے۔ تجہے موت کیچ شنی دونگ ۔ اورآد ک سر خدایت لے نے سنگ مرمر سے راست کی تھ ۔ اسی وجہ سے آدمی ک سر سخت ہوت ہے۔ اورج روح مقدس میں ڈالی گئی۔ تو سر کے راستہ ڈالی گئی۔ ص۔
اور ارش د فرم ت ہے هللا ت لے میں نے روح مقدس کو ڈالکر بدن میں آد کے کہ اسکوسجدہ کرو۔ ج آد نے آنکھ کہولی تو روح نے آنکھ کے ذری ہ سے جہ ن کو دیکھ کر خوشی ح صل کی۔ پھر ج ن ک کو روح پہونچی تو آد ع یہ السال کو چھینک آئی۔ تو کہ س ت ریف هللا ت لے کی ذات کو ہے جو ر ال مین ہے ج روح منہ میں آئی تو ہر قس کی چ شنی گیر ہوئی۔ آد ع یہ السال نے ویسی ہی خدائے خ ل کی حمد کہی۔ پھر خداے یت لے نے فرشتوں کو حک دی کہ آد ع یہ السال کو سجدہ کرو۔ اسواسطے کہ میں نہ ئت رض مند ہوں آد سے۔ بمجرد حک ح ک ت لے کےس فرشتوں نے سجدہ کی مگر اب یس مردود نے کہ ۔ کل میں نے اپنے ہ تھ سے بن ی ہےیہ مجہے درجہ میں بھی ہے۔ اسی وجہ حقیر ج ن ۔ اور احک الح کمین کے حک سے عدول کی ۔ م مون مقہور ہوا۔ ح ک حقیقی کے حک سے گردن موڑن موج غض ہے۔ ج غال حبشی درجہ میں بڑھ ج ئے تو اسک حک عین پروردگ ر ک ہوت ہے۔ اس سے سرکش نہون ورنہ پچہت ن پڑیگ ۔ کسی نے سچ کہ ہے۔ بیت حکمران ہو کوئی بچ پن ہو ی بیگ نہ ہو دی خدا نے جسے عزت اسکی عزت چ ہئے ص- عزتدار کی ذلت کرن اپنی ذلت ک موج ہے۔ ج فرشتوں نے سر اٹھ ی ۔ تو شیط ن کے گ ے میں ستر من ل نت ک طو پڑ گی ۔ م و ہوا کہ هللا ت لے کے حک سے سرکش ہوا ہے۔ جہٹ فرشتوں نے
دوسرا سجدہ کی ۔ اب یس نے عرض کی آپ ک حک ایک سجدہ ک تھ ۔ یہ دوسرا سجدہ کیوں کر رہے ہیں۔ حک ہوا میرے خوف سے سجدہ میں پڑے ہیں۔ تجہکو خوف نہیں آئی تو م ون ہوا ہے۔ میرے حک کو پس پشت کر دی ہے۔ میں نے تجہے مردود کی ہے۔ تیری عب دت دنی میں تجہے دوں گ اور آخرت میں تو عذا الی ک مستح ہو گ ۔ پھر عزازئیل کہ ن انک پہ ے ن ر ہی سے تھ ۔ آد ع یہ السال سے بھ گ گی ۔ تہوڑے دنوں کے ب د جبرائیل نے آد ع یہ السال کو یہ ک مے سکھ ئے وہ یہ ہیں۔ پہال ک مہ هللا واحد الشریک ہے آد ص ی هللا ک ہے۔ دوسرا ک مہ هللا ت لے واحد اسک کوئی شریک نہیں محمد بندہ هللا ک ہے پیغمبر ہے جن ک ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سمجہ ی کہ ان دونوں ک مہ ک ح ظ کی کرو ج آد ع یہ السال زمین پر سو گئے تو انکے ب ئیں کروٹ سے حوا رضی هللا عنہ پیدا ہوئی۔ پھر ج دی خدا ک حک ہوا کہ اے جبرائیل آد اور حوا کو آسم ن پر ب عدن بہشت میں الؤ۔ جبرائل بحک ر ج یل انکو بہشت میں لیگی ۔ تین ہزار برس عدن میں آد ع یہ السال رہے جبکہ ر ت لے ارش د فرم ت ہے ی د کرو اے محمد کی ہمنے اے آد بمہ اپنی جورو بہشت میں رہ ص میوہ وغیرہ ک ن شتہ کرو اور اس درخت کے قری ہرگز نہ ج ن ۔ نہیں تو ظ ل ہو ج ؤ گے۔ ج گذرنے کو مدت پہونچی تو ایکدن عزازئیل ایک گوس ند لیکر بہشت کے درب ن کے پ س ام نت ج رکھ ۔ اور کہ حس ضرورت تمسے لے لوں گ ۔ درب ن نے کہ بہت اچھ ۔ لکھتے ہیں۔ کہ آد اور حوا نے درب ن سے پوچھ یہ دنبہ کہ ں سے آی ہے۔ انہوں نے کہ عزازئیل کی ام نت ہے۔ آد ع یہ السال نے جھٹ ذبح کرکے کھ
لی ۔ اب یس چند ای کے ب د آی ۔ اب یس نے فرشتوں سے ام نت ط کی۔انہوں نے کہ ۔ کہ آد ع یہ السال نے نوشج ں فرم ی ہے۔ اب یس خوش ہو کر آواز کرنے لگ ۔ اے بیٹے واسوس کہ ں گیے ہو۔ جوا دی کہ میں آد اور حوا کے سینے میں گھر بن ئے بیٹھ ہوں۔ شیط ن نے کہ رحمت ہو تمکو۔ کہ پہال ن س آد ک تو بن ہے۔ جیس کہ ر ت لے ارش د فرم ت ہے ی نے وہ انس ن کے سینے میں وسوسہ ڈالنے واال آدمی اور جن سے ہے۔ ج تین ہزار برس تم ہوئے۔ تو شیط ن بہشت کے دروازے پر ایکدن پہونچ ۔ ص۔ اسوقت ک ال س نپ اور ایک مور درب نی کر رہے تہے۔ انکے ہ ں ج کر کہنے لگ مجہے ایکدف ہ بہشت میں ج نے دو میں تجہکو تین ہزار فری ان کروں گ ۔ اونہوں نے پوچہ تمہ را کی ن ہے۔ جوا دی ۔ کہ میرا ن عزازیل ہے۔ اونہوں نے کہ کہ تجہکو اندر ج نے ک حک نہیں۔ اسواسطے کہ تو م ون ہوا ہے۔ الئ بہشت تو نہیں ہے۔ اوس نے کہ مجہکو اتنی ط قت ہے۔ اگر ت مجہکو اپنی آنکھ جگہ دیویں تو غ ئ ہو ج ؤں گ پھر بہشت کو دیکہوں گ ۔ اسوقت م ر و کوا درب ن تھے۔ اور مور اندر تھ ۔ س نپ نے کہ اگر ت ج دی ب ہر آؤ گے۔ تو تمکو لے ج ت ہوں۔ س نپ نے وعدہ کی ج دی ب ہر آؤنگ ۔ س نپ نے منہ کھوال۔ جھٹ شیط ن اسکے منہ میں گھس گی ۔ اپنی جگہ کرتے ہی س نپ کے منہ ڈالدی۔ کہ اس سے یہی زہر پیدا ہوا ہے۔ اوسوقت مور نے میں ل کہ ۔ تمنے بہت اچہ کی ۔ اس ب ت کے کہنے سے اس کے پ ؤں سی ہ ہو گئے۔ لیکن شیط ن نےس نپ کے ہ ں کہ تھ کہ اندر میں جو کچہ میں کروں ت چپ چ پ رہن چن نچہ س نپ نے ایس ہی کی ۔ ج اندر گہس گی تو شیط ن رونے پیٹنے لگ ۔ ص۔
ج حوروں نے آواز سن تو حیران ہو کر خ زن بہشت کو کہنے لگیں کہ تمکو کی ہوا کہ اب یس کو ت نے اندر آنے دی ۔ اور تمہ رے منہ سے آواز کر رہ ہے۔ کہ اے حوا سنو آد اور حوا گند سے محرو ہیں۔ اوہ اچھ ط ہے۔ اور دوسرا یہ کہ آد ایک حور پر ع ش ہو گی ہے۔ اور حور سے پرہیز کر گی ہے۔ وہ اس حور کے س تھ مزے اڑا رہ ہے۔ ج حوا نے یہ ب ت سنی تو بہت پریش ن ہوئی۔ آد کو بہی جستجو کی تو نہ پ ی ۔ اسوقت حوا کو اس ل ین کے مکروفری ک خی ل بھول گی تھ ۔ جھٹ حوا کو خی ل آی کہ بہشت کے ب ہر آد کی جستجو کریں۔ اسوقت بہشت سے ب ہر ج ن بغیر گند کہ نے کے مح ل تھ ۔ حوا نے کہ لی ۔ مگر ادھ دانہ نہ کہ ی تھ ۔ اس حیض کی بیم ری ع رض ہو گئی۔ کہتے ہیں عورتیں دین اورعقل میں دسترس نہیں کر سکتیں۔ اسوقت سے حی اور شر شروع ہو گی ہے۔ ب د اسکے جبرائیل امین کو حک سرک ر اعظ سے ہوا کہ حوا کو بم ہ س نپ اور کبودک اور مور ب ہر نک لیں اور زمین پر ڈالدے ت کہ میرے قد ک م ئنہ کریں۔ جبرئیل ع یہ السال حس الحک ک روائی شروع کرکے نک لدی ۔ ج آد کو خبر گذری کہ حوا کو گند کہ نیکی وجہ سے هللا ت لے نے بہشت سے نک لکر زمین پر ڈالدی ۔ جھٹ آد نے بھی دانہ ب قیم ندہ نصف کہ لی بوجہ۔۔۔۔ تو اسکو پ خ نہ کی ح جت پڑ گئی۔ اسوقت حک ہوا کہ اے جبرائیل ج کر بہشت سے آد کو برہنہ کرکے نک لدے۔ بوجہ اسکے کہ میرا ن فرم ن ہوا ہے اور یہ ں ن پ کی کرت ہے اور بہشت پ ک جگہ ہے۔ ص۔ ج جبرائیل هللا کے حک سے بہشت میں گئے تو کی دیکھتے ہیں کہ آد ع یہ السال گند سے اپن پیٹ بھرے کھڑا ہے۔ جبرائیل نے غصہ ن ک ہو کر تم کپڑے مثال ج مہ دست ر ٹوپی وغیرہ چھین لئے۔ ج سر سے کالہ ات ری تو آد ع یہ السال نے اپنے ہ تھوں کو سر پر کر لی ۔
اس وجہ سے سر ک مسح فرض ہے ی نے چہ رفرض اسوقت کے بہی ہیں۔ مثال ہ تھ دھون ۔ منہ دھون ۔ سر ک مسح کرن ۔ پ ؤں ک دھون ۔ پھر کپڑے اوت ر کر آد جو ہم رے ب پ ہیں پیغبر خدا۔ مقبول خدا کہ بوجہ مذکور کے پکڑ زمین پر ڈالدی ۔ کل شی مرجع اے اص ہ خ کی آد خ ک کیطرف گی ہے۔ وہ کوہ ق ف میں رہے۔ ستر برس تک حوا ع یہ السال سے جدا رہے۔ آد کے رونے سے ف ل بیدا ہوئی۔ اور حوا کے رونے سے مروارید بنگئے۔ وہ جبرائیل جو پہ ے ت ظی و تکری کرنے واال تھ ۔ وہی بوجہ ایک بی رم نی کے بہشت سے بہت اہ نت کے س تھ نک لنے والے ہیں۔ مولوی رو ص ح فرم تے ہیں۔ یک گن ہ چوں کرد گ تندش تم مذہنی مذہنی بیروں خرا تو طمع میداری چندیں گن ہ داخل جنت شوی اے روسی ہ ص۔ آخر ب د ستر برس کے حوا اور آد کی مالق ت ہوئی۔ کسی نے کہ ہے۔ بیت ہر د دع ہ میکن بر خ ک مے ع ل جبیں جمع کن ب د و ست ی ج مع المت رقیں پھر حک جبرائیل کو ہوا کہ ایک جوڑا اور کچہ گند بہشت سے لیکر آد کو دیدے۔ جبرائیل نے آد کو جوڑا اور کچہ گند حوا کو دیدی اور کچہ آد کو دی۔ خدا کے حک سے ہل جوت کر بیج ڈاال۔ آد کے بیج
سے گند اور حوا کے بیج سے جو پیدا ہوئے۔ حک یت ایک روز حوا رضی هللا عنہ بیٹہے تھے مت کر ہو کر۔ بہشت کی ن متیں ی د کر رہے تھے۔ تسبیحیں کہتے تھے۔ کہ ر ج یل رحمن۔ غ ورالرحی من ن تیرا ہر وقت احس ن بہشت میں عجی ن متیں تو دیت تہ ۔ شربت پالت تھ ۔ شیر شہد سے عجی تھے۔ ا آپنے کبھی نہیں عن یت فرم ئی میرا بخت سی ہ ہے تیری ن فرم نی سے ن گ ہ خند میں گر گئی ہوں۔ کوئی پوچھت نہیں۔ بیت ی د میں ن مت کے رہے ہر د کھ تے تھے بہشت ذو سے پیہ ح شیہ :ہندوانہ اور خربوزہ وہ ں کے ہیں ص۔ فری د سن کر هللا ت لے فرم ی ۔ کہ اے جبریل دو خربوزہ لیکر ایک حوا کو دوسرا کو دیدے جبریل ویس ہی کی ۔ حوا ح م ہ تھیں۔ اسوجہ سے حوا ک خربوزہ ہندوانہ بن گی ۔ اور آد ک برح ل رہ ۔ ایکدن جبریل کو حک ہوا کہ حوا کے ہ ں دو بچے صبح اور دو بچے ش ہونگے اور دو بچے پہ ے پیدا ہوں انکو شت بی جدا کرن اور انک ن ہ بیل اور ک بیل رکہن ۔ اور جو لڑکی ں ش کو پیدا ہوں پہ ی ہ بیل کو اور دوسری ک بیل کو بی ہ دین ۔ ات ق دوسری لڑکی ایک آنیکھ سے دیکھ نہ سکتی تہی۔ ک بیل نے منظور نہ کی ۔ اور ہ بیل کی عورت کو لی ۔ ج آد ع یہ السال تہوڑی دیر کے ب د آئے تو کہ ۔ اے ک بیل۔ تو بی رم ن ہو گی ہے اور غضبن ک ہو کر ک بیل کو کہ ۔ تو نے برا کی ۔ اور تو ک فر بن گی ہے۔ مجھ سے ت دونو دور ہو ج ؤ۔ اور کہیں اور زراعتک ری کرو اور اپن
بسیرا کرو۔ ندا آید درانگہ دور شو دور قی مت کے روز جسطرح حضرت آد ع یہ السال اپنے مقر بیٹے کو ن فرم نی کی وجہ سے دور کر رہ ہے۔ اسی طرح م ب پ بیٹ ایکدوسرے کو دور کر دے گ ۔ اور اپن ہی ہر ایک بوجھ اوٹھ ئیگ ۔ ص۔ االئیہ۔ بغیر عمل توحید کے رسول بھی ش عت نہ کرینگے۔ س کو ہ تھ افسوس م ن پڑے گ ۔ شیخ عط ر فرم تے ہیں۔ بیت۔ ہست س ط نی مس مرا درا نیست کس را زہر چوں وچرا عذر م ذرت کچہ ک نہ آئیگی۔ چن نچہ آد و حوا بغیر پرسش نک لے گئے۔ بی رم ن ک بغیر پرسش دوزخ ج ن پڑیگ ۔ اع ن هللا وابوان و است ذن و س ئرالمس مین امیں۔ شیخ س دی فرم تے ہیں۔ ست بر ض ی ن مسکین مکن۔۔۔۔۔کہ ظ ل دوزخ رود بےسخن۔ اور کسی نے کہ ہے۔ وہ سنت نبی جسکو پی ری نہیں۔۔نبی بھی اس سے بیزار ہو ج ت ہے۔ ج آد ع یہ السال سے ک بیل کسی اور جگہ رہنے لگے تو ایکدن عزازیل نے آ کر کہ کہ تو اپنے بھ ئی ہ بیل کو م ر ڈال کیونکہ یہ تجھ سے بڑا ہے۔ پھر تو تم زمین کی ب دش ہی کریگ ۔ ک بیل نے کہ مجہے قتل کرن م و نہیں ہے۔ عزازیل نے کہ جسوقت نیند میں ہووے ت ایک بٹہ لیکر اسکے سر خو لگ ۔ اس نے حس کہنے عزازیل کے ک کی ۔ اور ہ بیل مر گی ان هلل و ان الیہ راج ون۔ ک بیل کو چونکہ محبت تہی الش کو پھینکن ن گوار سمجہکر اپنی پشت پر اٹھ لی ۔ چن نچہ چھ م ہ ک عرصہ گذر گی ۔ قبر کے کھودنے کی تجویز ک بیل کو م و نہ تہی۔ ایکدن دو فرشتے کوے کی صورت پر گھڑا کھودا اور اسنے کوے کو
وہیں گ ڈ دی ۔ پھر ک بیل نے بھی ان کو دیکہکر اپنے بھ ئی کو دب ی ۔ جیس کہ هللا ت لے اپنی کال پ ک میں فرم ت ہے۔ بھیج هللا نے کوے کو زمین کھود کر اپنے بھ ئی کوے کی الش کو دفن کرت تھ دیکہکر ک بیل نے کہ افسوس میں کوے سے بھی کمتر ہوں۔ اگر کوے جیس ہوت تو اپنے بھ ئی کی الش کو دفن کرت ۔ یہ کہہکر شرمس ر ہوا۔ دونو کوے ایک کوے نے دوسرے کوے کو ق بیل کےروبرو لڑتے ہوئے ص۔ م ر ڈاال پھر اپنے چونچ اور پنجوں سے گڑہ کھود کر کوے ک دب ۔ ق بیل نے دکھکر غ کھ ی ۔ اور کہ کہ میں کوے جیس ہوت تو اپنے ہ تھ گڑہ کھودت ۔ اوراپنے بھ ئی کو دب ت ۔ پھر ق بیل نے دیکہکر ویس کی ۔ یہ طریقہ گور۔۔۔ قبر بن نے ک ۔۔۔ یہ ں سے شروع ہوا ہے۔ اور ہ یل کی س قو مس م ن ہیں۔ ایک دن آد نےق بیل سے پوچھ ہ بیل کہ ں ہے کہ مجہے م و نہیں۔ بہت دن سے مجہسے رخصت ہو گی ہے۔ آد ع یہ السال حیران ہوا۔ خد ا کی جن سے ندا آئی کہ تیرے بیٹے ق بیل نے قتل کر ڈاال ہے۔ ت کہ تجہے م و ہو۔ کہ میرے ایسے بیٹے ہیں۔ تو نہینج نت شیط ن انس ن ک دشمن ہے۔ ج آد نے جوا سن تو ق بیل پر غصہ ہوا۔ اور کہ کہ تو نہ یت پرلے درجہ ک ک فر ہے۔ ت مس م ن کبہی نہیں ہو گے۔ جیس کہ ق بیل حران ہوا۔ اسوقت سے شیط ن انس ن ک دشمن چال آت ہے اور مرتے وقت انس ن کےس تھ بیج حرکتیں کرت رہت ہے۔ مومن کو چ ہئے کہ اس کے فری سے بچے ال حول پڑہت رہے۔ ص۔ تھوڑے دنوں کے ب د اب یس نے ق بیل کے پ س آ کر کہ کہ میں جبرائیل ہوں خدا یت لے نے تمہ ری طرف بھیج ہے۔ اور کہ ہے کہ اور طریقہ آد ک ب قی ہے۔ وہ ا تجہکو سیکہ ت ہوں۔ ق بیل نے خوش ہو کر کہ ۔ بہت اچھ ۔ تو عزازیل نے خوش ہو کر تس ی اپنی کر لی کہ ابھی اسکو
ک فر کر لوں گ پھر عزازیل نے کہ تجھکو خدا کے ن سکھ ت ہوں۔ انکو ہر وقت ضبط رکھن پھر شیط ن نے مذکورہ ن مردوں اور عورتوں کے بتالئے اور کہ کہ ایک اور بھی ام نت ہے۔ وہ یہ ہے ایک سنگ راست کرکے انکو دیدی ۔ اور کہ کہ ہر صبح نہ کر ط کھ ن اور اس بت کو سجدہ کرتے رہن ۔ اوراپن منھ مشر کو کرن ۔ اور تمہ رے م ں ب پ آد حوا نہیں۔ ب کہ پ ربتی اورمہ دیو ہیں۔ اوراسی راہ پر چ ن ۔ اورتمکو جالئینگے۔ یہ قو ک فروں کی اسی جگہ سے شروع ہوئی ہے۔ یہ نہیں ج نتے کہ شیط ن نے اپنے پھندے میں اسکو ڈالدی ہے اور دوزخ ک س کن بن دی ہے۔ خدا نے فرم ی ہے س چیزوں کو اپنی عب دت کے واسطے پیدا کی ۔ اسکے خالف چل رہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت آد فرزند پ نچسو ج ت تھے۔ ص۔ نقل ۔۔۔۔ ایک روز حضرت آد کے فرزند جمع ہو کر آپس میں صالح کرنے لگے کہ ب پ کو م ر ڈالئے اور ب دش ہ اور پیغمبر ہم رے واسطے ن زل ہو ج ئیگ ۔ اسی مشورہ میں تھے کہ هللا ت لے آد کو خبر دی کہ تمہیں فرزند م رن چ ہتے ہیں۔ اگر ت چ ہو۔ تو اونکو م ر ڈالو اورپھر انک ر آپک کبھی نہو۔ آد نے کہ ی خدای کوئی اور تدبر کرو۔ تو هللا ت لے نے جبریل کو حک کی کہ بہشت میں ب نگ دو۔ جبریل حس الحک ر الج یل ب نگ دیدی تو اونکو آواز سنتے ہی انکی زب نیں بدل گئیں۔ جیس کہ عربی ف رسی وغیرہ جو آپسمیں مشہور ہیں۔ ایکدوسریک سخن نہیں سمجہتے تہے۔ اس وجہ سےمشورہ ب طل ہو گی ۔ یہ زب نیں اس زم نہ سے شروع ہیں۔ اوسوقت سے زب نیں مخت ف پھر م رنے کی مشورہ بدل گئی۔ وازیں وجہ مس م ن اور ہندو ہون ہو گی ۔ ج آدمی ب دش ہی کرنے لگے تو انہوں نے شہر ک ن م ت ں رکھ ۔ آد ع یہ السال کیوقت سے اسک ن م ت ن شہر ہے۔ اوراسوقت سے یہ
شہرآب د ہے۔ اس شہر میں بڑے بڑے بزرگوں کی خ نق ہیں ایک بہ ؤلح ص ح ایک شمس تبریز ص ح کی ایک موسے پ ک شہید کی عالوہ اور بہت ہیں۔ ص۔ اور یہ ک فر کی اوالد ہیں۔ اور مس م ن بم ہ جمیع پیغبران شیث سے محمد ع یہ السال تک ہ بیل کی اوالد ہیں۔ ص۔
ترجمہ سورتہ ف تحہ مترج ش ہ فضل الرحمن گنج مرادآب دی ترجمہ
ھ
ہندی اردو سے کوئی الگ سے زب ن نہیں۔ زب نوں ک دیگر سم جی حوالوں کے س تھ س تھ‘ مذہبی ک چر بھی ہوت ۔ مذہبی ک چر سے مت ال ظ‘ روزمرہ زندگی ک حصہ بن ج تے ہیں۔ مثال اس ک میں کوئی بچت ب م نی ن ع بھی ہوا جی ہ ں هللا کے فضل سے دس ہزار بچت نک ی ہے۔ رستے میں س ٹھیک رہ
جی هللا ک شکر ہے خیریت سے لوٹ آی ہوں۔ ح دثے میں کوئی زی دہ نقص ن تو نہیں ہوا هللا کی مہرب نی ہوئی ورنہ ج ن ج سکتی تھی۔ ولیمے میں کھ ن ک تو نہیں پڑا م لک ک احس ن تھ کہ س کچھ وافر رہ ۔ آؤ کھ ن کھ لو۔ بس هللا کریں میں کھ کر آی ہوں۔ قرآن ایم ن کی کہن کہ کون سچ اور کون جھوٹ ہے۔ هللا نے چ ہ تو کل س ری رق ادا کر دوں گ ۔ هللا ح فظ ا کل مالق ت ہو گی۔ م ش ءهللا آج تو حوروں کو بھی م ت دے رہی ہو۔ قس لے لو جو میں نے کسی چیز کو ہ تھ بھی لگ ی ہو آج کل ک ن دفن ک خرچہ بھی کوئی ک نہیں رہ ۔ یہ س بھگوان کی کرپ ہے ورنہ میں اس ق بل ک ہوں۔
یہ س ایشور کی کرپ تھی جو نپٹ آی ہوں۔ پرمیشور بڑا دی لو ہے جو آج الکھوں میں کھیل رہ ہوں۔ ایسے سیکڑوں مذہبی ل ظ ی مرکب ت روزمرہ کی عمومی و خصوصی‘ شخصی و اجتم عی‘ رسمی و غیر رسمی‘ ذاتی ی پوشیدہ زندگی کی گ ت گو ک حصہ بن گیے ہوتے ہیں۔ کوشش سے بھی‘ انہیں اس سم ج کی بول چ ل سے‘ الگ نہیں کی ج سکت ۔ ہندو مذہ سے مت ال ظ زب ن میں داخل ہو ج تے ہیں‘ تو اس میں ایسی کوئی حیرت والی ب ت نہیں۔ ان ال ظ کے داخل ہونے سے‘ یہ کوئی نئی زب ن نہیں ہو گئی۔ عیس ئی مذہ کے ال ظ داخل ہو ج نے سے‘ زب ن عیس ئی نہیں ہو ج تی۔ زب ن وہ ہی رہتی ہے‘ ہ ں وہ اس ک چر کے مذہ کی‘ نم ئندگی کر رہی ہوتی ہے۔ گ ف سے ش ئع ہونے والے‘ رس لہ م ہ ن مہ واسطہ ک ص حہ نمبر انٹر نیٹ سے میسر آی ہے۔ اس ص حے پر‘ ش ہ فضل الرحمن گنج ھ مرادآب دی ک سورتہ ف تحہ ک ترجمہ ش ئع ہوا ہے۔ یہ ترجمہ سے ت رکھت ہے۔ سورتہ ف تحہ کے ب د سورتہ بقر کی کچھ آی ت ک ترجمہ‘ اسی اس و و طور کے س تھ کی گی ہے اور اس ذیل میں کوئی نوٹ نہیں دی گی ۔ اسے بھی سورتہ ف تحہ کے ترجمے کے س تھ مال دی گی ہے۔ عین ممکن ہے‘ پورے کال ک ترجمہ اس طور سے کی گی ہو۔ دیگر ترج سے یہ قط ی الگ تر اور ہٹ کر ہے۔ ایس ترجمہ‘ اس سے پہ ے دیکھنے اور پڑھنے سننے میں نہیں آی ۔ ش ہ فضل الرحمن گنج مرادآب دی کی اس ک وش کی داد نہ دین ‘ بدی نتی ہو گی۔ زب ن وطور کی
م نوسیت بڑی م نویت کی ح مل ہوتی۔ ہندو دھر سے مت لوگ‘ اس کو پڑھتے ہوئے‘ غیریت محسوس نہیں کرتے۔ اس سے رغبت ک دروازہ کھ ت ہے اور اجنبت کی دیوار گرتی ہے۔ ش ہ فضل الرحمن گنج مرادآب دی کے مزید ترجمے کی تالش میں؛ چینی‘ ج پ نی اور انگریزی انداز عربی کی وگرافی دیکھنے کی س دت ح صل ہو گئی۔ یہ طور‘ غیرمس لوگوں کی توجہ ح صل کرنے ک ‘ انتہ ئی ک می ذری ہ ہے۔ اچھ ئی پھیالنے کے لیے‘ عر مس م نوں نے مق میوں ک لب س‘ انداز‘ زب ن وغیرہ اختی ر کی اور ب ت ریک رڈ میں موجود ہے۔ ش ہ فضل الرحمن گنج مرادآب دی نے‘ ہندو ک چر سے مت ‘ ترجمے کی زب ن اختی ر کی‘ یہ امر الئ تحسین ہے۔ بےشک هللا بہتر اجر سے نوازنے واال ہے۔ ش ہ فضل الرحمن گنج مرادآب دی کے اس ترجمے کو اس کے طور و اس و اور زب ن کے حوالہ سے‘ اولیت تو ح صل ہے ہی‘ لیکن انہوں نے م روف سے ہٹ کر‘ ل ظوں کو م نویت عط کی ہے۔ هللا :اس ذات ہے۔ اس کے مترداف کوئی ل ظ ہے ہی نہیں۔ مرحو نے‘ اس ک ترجمہ من موہن کی ہے۔ یہ ترجمہ محسوس سے ت رکھت ہے۔ یہ ل ظ صوری لح ظ سے بالشبہ دل کو موہ لیت ہے۔ حمد :حمد کے م نی ت ریف اور ثن لیے ج تے ہیں‘ لیکن حضرت ش ہ
ص ح نے‘ اس ل ظ کو ال کے لیے‘ س ج کہ حمد بم نی راحت‘ ی نی خوشی کے م نے دیے ہیں۔ گوی وہ سراپ خوشی ہے۔ اس ک ن لینے سے‘ رگ وپے میں خوشی کی لہر دوڑ ج تی ہے کیوں کہ وہ اول و آخر راحت ہے۔ ی یہ کہ خوشی جو اچھ ئی سے وابستہ ہوتی ہے ی یہ کہ اچھ ئی خوشی میسر کرتی ہے۔ دوسرے ل ظوں میں یوں کہہ لیں اچھ ئی خوشی ہے ی نی اچھ ئی ب طنی راحت فراہ کرتی ہے۔ اس حوالہ سے‘ س راحت ی نی راحتیں اسی کی ذات کے لیے ہیں۔ عالمتی حوالہ سے م ہی اچھ ئی بہتری وغیرہ کی طرف پھرتے ہیں۔ ر :پ لن ہ ر ال :بڑی ع مین :سنس ر اردو میں پ لن ‘ ج کہ پنج بی میں پ لن مصدر ہے۔ پ لنے واال کے‘ مترداف پ لن ہ ر غیرم نوس نہیں۔ حضرت ش ہ ص ح نے‘ ر کے م نی پ لن ہ ر لیے ہیں۔ ع مین بذات خود جمع ہے۔ ال سے یہ ب ت واضح ہوتی ہے کہ وہ ع ل جو س منے اورع میں وہ ہی نہیں وہ بھی جو س منے اورع میں نہیں۔ ج ہی س رے سنس ر م نی دیے ہیں۔ گوی س رے سنس ر ک پ لن ہ ر ی نی ع لموں ک بال کسی تخصیص پ لنے واال۔ صوری اور م نوی اعتب ر سے‘ خو صورت ترجمہ ہے۔ ہندو ک چر کے لیے بھی م نوس ترین ہے۔ الرحمن :نی ہ موہ
الرحمن :نی ہ موہ ترجمے میں‘ جہ ں مالئمیت اور ریشمیت سی محسوس ہوتی ہے‘ وہ ں صوتی حوالہ سے‘ ک نوں میں رس گھولت محسوس ہوت ہے۔ اس میں پی ر محبت اور ش قت و عط ک عنصر غ بہ رکھت ہے۔ اسے اس کے مت قہ متن میں‘ مالحظہ فرم ئیں‘ میرے کہے کی سچ ئی واضح ہو ج ئے گی۔ تک یف دہ ح لت میں تش ی‘ بالشبہ م مالت حی ت میں‘ بڑی م نویت کی ح مل ہوتی ہے۔ نی ہ موہ کی اصل ت ی یہ ہی ٹھہرتی ہے۔ اس ک احس ن اور فضل بھی‘ نی ہ ب انص ف اور حس ح جت ہوت ہے۔ الرحی :مہر واال الرحی :مہر واال ی نی وہ جو کسی کی تکی ف نہ دیکھ سکت ہو۔ کسی کو دکھ تک یف میں دیکھ کر‘ محبت‘ احس ن اور رح میں آ ج ئے اور اس کے مداوے ک ان ہی لمحوں میں چ رہ کرئے۔ من موہن‘ کسی کو تکیف میں مبتال نہیں کرت ۔ ت ریخ اٹھ کر دیکھ لیں‘ نمرود‘ فرعون یزید وغیرہ‘ اپنی ہی کرنی کی پکڑ میں آئے ہیں۔ یہ ں ہو کہ روز آخرت‘ ہر کوئی اپنے کیے کی گرفت میں آئے گ ۔ م لک :بس میں م لک کو بس میں ی نی اختی ر میں‘ کے م نوں میں لی گی ہے۔ وہ جس
کے اختی ر میں ہو اور کسی اور کے اختی ر میں نہ ہو‘ م کیت کے زمرے میں آت ہے۔ اس میں کسی اور ک بس نہ چ ت ہو ی یوں کہہ لیں کہ اس کے سوا‘ وہ ں ہر کوئی مجبور و بےبس ہو۔ ہر کرن اسی کی مرضی پر مبنی ہو۔ وہ جیسے چ ہے اور جس طرح چ ہے کرئے ی کرنے پر ق در ہو۔ یہ الگ ب ت ہے‘ کہ وہ ح اور ح کے سوا نہیں کرت ۔ اس ک ہر کی ‘ عدل و انص ف پر استوار ہوت ہے۔ یو :دن یو :دن‘ دن اردو میں ع است م ل ک ل ظ ہے۔ الدین :چکوتی چک وتی یہ انص ف اور فیصے ک دن ہو گ ۔ زندگی کے دنوں میں‘ دنی کے ب دش ہ فیص ے کرتے آئے ہیں لیکن اس دن‘ وہ بےبس ہوں گے۔ انہیں خود اس عمل سے گزرن ہو گ ۔ گوی یہ دن ب دش ہوں کے ب دش ہ ک ہو گ ۔ اس دن سوائے اس ب دش ہ کے کوئی ب دش ہ نہیں ہو گ ۔ صرف اور صرف اسی ک حک چ ے گ ۔ م ہو یہ ہی ٹھہرے گ ۔ یو الدین :ب دش ہوں کے ب دش ہ ک دن ن بد :پوجتے‘ عب دت کے لیے ہندو ل ظ پوج است م ل کرتے ہیں۔ جس کی پوج کی ج ئے اسے پوجیور کہ ج ت ہے۔
و :اور و :اور‘ اردو میں واؤ اور کے لیے است م ل ہوت ہے۔ اردو میں واؤ مرکب ت میں اور کے م نوں میں مست مل ہے۔ مثال ش وروز‘ ش دی و غ ‘ سی ہ و س ید وغیرہ۔ نست ین :آسرا ل ظ نست ین اردو میں مست مل نہیں۔ آسرا سہ را‘ گرتے کو تھ من ‘ گرے کو اٹھ ن ۔ چھت میسر آن ۔ م ش کی صورت‘ کسی کے حوالہ سے پیدا ہون ۔ یہ ل ظ‘ صوری و م نوی اعتب ر سے‘ فصیح و ب یغ ہے۔ اسی طرح انس نی زندگی کے‘ ہر گوشے سے‘ کسی ن کسی حوالہ سے‘ منس ک ہے۔ اردو والوں کے لیے‘ یہ ل ظ قط ی غیرم نوس نہیں۔ صراط :راہ ل ظ صراط اردو میں مست مل نہیں۔ اہل زب ن نے‘ اس ک ترجمہ راہ‘ رستہ کی ہے۔ حضرت ش ہ ص ح نے بھی یہ ہی ترجمہ کی ہے‘ جو غیرم نوس نہیں۔ مستقی :سیدھی ل ظ مستقی اردو والوں کے لیے اجنبی نہیں اور یہ ت ہیمی اعتب ر سے سیدھ ی سیدھی رواج رکھت ہے۔ جیسے
خط مستقی ان مت :دی ان مت :دی ‘ ن مت اردو میں مست مل ہے۔ دی کے لغوی م نی محبت‘ عن یت‘ ش قت‘ رح ‘ مہرب نی‘ ترس‘ بخشش وغیرہ ہیں۔ متن کے لح ظ سے م ہو بخشش کے قری تر ہیں اس لیے دان دینے واال۔ ت ہ دان کی نوعیت دیگر دی لو حضرات سے الگ تر ہے۔ وہ ایس دان دینے واال ہے‘ کہ اس س دان دینے واال کوئی نہیں۔ ن ہی اوروں کے پ س اس س دان ہے۔ اس دان میں‘ اس کی محبت‘ عن یت‘ ش قت‘ رح ‘ مہرب نی‘ ترس ش مل ہوتے ہیں۔ گوی اس کی دی اوروں سے الگ ترین ہے۔ المغضو :جھنجالہٹ جھنجالہٹ‘ غصہ اور خ گی کے لیے مست مل ہے۔ جھنجل سخت آندھی کے لیے ہے۔ ہٹ ک الحقہ ق ئ ہونے کے لیے ہے‘ ی نی سخت آندھی ک آن ۔ دری ک حد سے بڑے مدوجر۔ یہ اپنی حقیقت میں غض ہی کی صورت ہے۔ یہ ں غصہ اور خ گی کی گرفت میں آئے مراد ہے۔ خ گی خ سے اور خ غصہ اور ن راضگی ہی تو ہے۔ الضآلین :کوراہوں کی الضآلین :کوراہوں کی‘ ی نی جو اصل راہ سے ہٹ گی ہو۔ کوراہ غیر م نوس نہیں۔ کو‘ من ی م ہو ک ح مل ہے۔ مثال کو -ت ہ‘ کو -ت ہی‘ کو۔
ہڈ‘ کو۔ سنگ‘ کو۔ ریت وغیرہ۔ یہ س بقہ اپنی اصل میں‘ مکمل ی جزوی غ طی‘ خرابی‘ کجی‘ کمی‘ خ می‘ بدنم ئی‘ بدن می‘ بدک ری وغیرہ کے لیے مخصوص ہے۔ یہ ں بھی ان ہی م نوں میں است م ل ہوا ہے۔ کو۔ راہ ی نی راہ سے ہٹ ہوا۔ ................................. ترجمہ سورتہ پہ ے ہی پہل ن لیت ہوں من موہن ک جوہ بڑی نی ہ موہ واال ہے س راحت من موہن کو ہے جو س رے سنس ر ک پ لن ہ ر بڑی نی ہ موہ ک مہر واال ہے جس کے بس میں چکوتی ک دن ہے۔ ہ تیرا ہی آسرا چ ہتے ہیں اور تجہی کو پوجتے ہیں چال ہ کو سیدھی راہ ڈگ مگ نہیں۔ ان لوگوں کی جن پر تیری دی ہوگی۔ نہ ان کی جن پر تیری جھنجالہٹ ہوئی نہ راہ کوراہوں کی۔ اور نہ راہ کھوئے ہووں کی۔ اور راہ بھٹکے ہووں کی۔ اس مہ بید کے پرمیشور ہونے میں کوئی وگدھ نہیں۔ وہ بھگتوں کو بھ ی راہ پر الت ہے۔ جو اندیکھے دھر التے ہیں اور پوج کو سنوارتے ہیں اور ہم رے دیئے ک دان بھی کرتے ہیں۔ اور جو جو تیرے بل اترا اس کو اور جو تجھ سے پہ ے ات را گی اس کو جی سے م نتے ہیں اورپچھ ے جگ کو بھی جی میں ٹھیک ج نتے ہیں۔ یہی لوگ اپنے پ لن ہ ر کی راہ پر ہیں۔ اور یہی اپنی امنگ پ ون ہ ر ہیں۔ اس میں کوئی وگدھ نہیں کہ م یچھوں کو تو کیس ہی ڈراوے ی نہ ڈراوے وہ دھر نہیں الویں گے۔ من موہن نے ان کے جی اور ک نوں پر ٹھپ لگ دی ہے اور ان کے نینوں میں موتی پھرا ہوا ہے اور کے لیے بھ ری م ر ہے۔ ش ہ فضل الرحمن گنج مرادآب ی
فرہنگ سورتہ ف تحہ ال س حمد راحت هللا من موہن ر پ لن ہ ر ال س رے ع مین سنس ر ال بڑی رحمن
نی ہ موہ الرحی مہر واال م لک بس میں یو دن الدین چکوتی ای ک تجہی کو ن بد پوجتے و اور ای ک تیرا نست ین
آسرا اھدن ہ کو الصراط راہ المستقی سیدھی ان مت دی ع یھ جن پر غیر جن پر المغضو جھنجالہٹ ع یھ ان کی و
اور الضآلین کوراہوں کی ................................. پہ ے ہی پہل ن لیت ہوں من موہن ک جوہ بڑی نی ہ موہ واال ہے الحمد هلل س راحت من موہن کو ہے ر ال مین جو س رے سنس ر ک پ لن ہ ر الرحمن الرحی بڑی نی ہ موہ ک مہر واال ہے م ک یو الدین جس کے بس میں چکوتی ک دن ہے۔ ای ک ن بد و ای ک نست ین ہ تیرا ہی آسرا چ ہتے ہیں اور تجہی کو پوجتے ہیں ل ظی و ترتیبی تجہی کو پوجتے ہیں اور ہ تیرا ہی آسرا چ ہتے ہیں
اھدن الصراط المستقی ان مت ع یھ چال ہ کو سیدھی راہ ڈگ مگ نہیں۔ ان لوگوں کی جن پر تیری دی ہوگی۔ چال ہ کو سیدھی راہ ڈگ مگ نہیں ان لوگوں کی جن پر تیری دی ہوگی۔ چال ہ کو سیدھی راہ‘ ڈگ مگ نہیں ان لوگوں کی جن پر تیری دی ہوگی۔ وض حتی ڈگ مگ نہیں غیرالمغضو ع یھ والضآلین نہ ان کی جن پر تیری جھنجالہٹ ہوئی نہ راہ کوراہوں کی۔ آمین ................ یہ سورتہ ف تحہ ک ترجمہ نہیں‘ سورتہ البقر کی کچھ آی ت ک ترجمہ ہے۔ اس مہ بید کے پرمیشور ہونے میں کوئی وگدھ نہیں۔ وہ بھگتوں کو بھ ی راہ پر الت ہے۔ جو اندیکھے دھر التے ہیں اور پوج کو سنوارتے ہیں اور ہم رے دیئے ک دان بھی کرتے ہیں۔ اور جو جو تیرے بل اترا اس کو اور جو تجھ سے پہ ے ات را گی اس کو جی سے م نتے ہیں اورپچھ ے جگ کو بھی جی میں ٹھیک ج نتے ہیں۔ یہی لوگ اپنے پ لن ہ ر کی راہ پر ہیں۔ اور یہی اپنی امنگ پ ون ہ ر ہیں۔ اس میں کوئی وگدھ نہیں کہ م یچھوں کو تو کیس ہی ڈراوے ی نہ ڈراوے وہ
دھر نہیں الویں گے۔ من موہن نے ان کے جی اور ک نوں پر ٹھپ لگ دی ہے اور ان کے نینوں میں موتی پھرا ہوا ہے اور کے لیے بھ ری م ر ہے۔ ...........
شجرہ ق دریہ ۔۔۔۔۔ ایک ج ئزہ جنت مک نی حضرت سیدہ سردار بی بی' دختر حضرت سید برکت ع ی زوج مخدومی ومرشدی حضرت سید غال حضور'س ب اق متی ننگ ی' امرت سر' بھ رت' متوفی 1996کی پ کٹ ڈائری ک ' کس حد تک' اپنے کسی مضون میں ذکر کر چک ہوں۔ اس ڈائری میں شجرہ ق دریہ بھی درج ہے۔ اس کی بڑی خوبی یہ ہے کہ ش عر ک ن اور ق دریہ خ ندان سے ت بھی' داخ ی شہ دت کے طور مل ج ت ہے۔ یہ پیر سید غال جیالنی کے مرید تھے جو گڑھ شنکر پنج بھ رت میں' رہ ئش پذیر تھے۔ اس ذیل میں شجرے ک یہ بند مالحظہ ہو۔ حضرت پیر غال جیالنی مہر ع ی دے رہبر ج نی ہر د وسن وچ دھی ن ی ر مشکل کریں آس ن
یہ شجرہ کل ست ئس بندوں پر مشتمل ہے۔ شجرے کے پہ ے نو بند کم ل کی روانی رکھتے ہیں۔ اس میں شخصی ت رف کے لئے ص تی ک م ت سے ک لی گی ہے۔ مثال ع ی ولی ہیں زوج بتول ش ہ مرداں ہیں شیر خدا بی بی زہرہ بنت رسول حسن عسکری نورالنور عبدال زیز ہیں یمنی ہ دی عبدالوہ
فضل الہی
حضرت یحیی رہبر ک مل ت ج الدین نے زہد کم ی
حضرت پیر غال جیالنی گڑھ شنکر وچ تخت مک ن عموم پڑھنے اور سننے میں بھی آی ہے کہ اردو پر پنج بی اثرات پ ئے ج تے ہیں۔ پنج بی بھی اردو کے اثرات سے مح وظ نہیں۔ اس شجرہ کے حوالہ سے اردو کے اثرات مالحظہ فرم ئیں۔ نحوی اس پر میرا تکیہ م ن مہدی زم ن ک ج ن ظہور کچھ مصرعے لس نی اعتب ر سے اردو اور پنج بی کے نہیں ہیں۔ اس وبی اعتب ر سے اردو کے ضرور ہیں مست مل اور ق بل فہ بھی ہیں۔ ب قر وج ر و موسی ک ظ حسن عسکری نورالنور خواجہ کرخی در بی ن ابوال ب س احمد دل ش داں
حضرت یحیی رہبر ک مل ش ہ جنید پیر بغدادی ہم رے ہم رے ہ ں بیوی کے لئے ل ظ زوجہ است م ل کی ج ت ہے۔ خ وند کے لئے یہ ی اس کی کوئی شکل مست مل نہیں ہے۔ ش عر نے خ وند کے لئے ل ظ زوج است م ل کی ہے۔ یہ است م ل کے حوالہ سے غیرم نوس ہے ح الں کہ درست اور فصیح ہے۔ ع ی ولی ہیں زوج بتول مہر ع ی نے ان ست ئیں بندوں میں خو صورت مرکب ت بھی دئیے ہیں۔ مثال سید ط لح اہل حضور ہر د تیرا شکر احس ن مہر ع ی ہے ع جز خ کی راہ خدا ہیں ج ن فدا حضرت یحیی رہبر ک مل اس پر میرا تکیہ م ن
ایک مرک تو لس نی صوتی اور م نوی اعتب ر سے بڑے کم ل ک ہے۔ نظر و نظری کرن نہ ل دو نئے مہ ورے بھی دیے ہیں۔ دو مصرعے خ لص پنج بی کے نہیں ہیں۔
زہد کم ی ت ج الدین نے زہد کم ی 'رہبر پ ی لہجے کے اعتب ر سے اردو ک نہیں ہے۔ ورنہ اس مصرعے کے اردو ہونے میں کوئی شک نہیں۔ شرف الدین نے رہبر پ ی
اردو :شرف الدین کو رہبرمال پنج بی :شرف الدین نوں رہبر م ی شرف الدین نے رہبر پ ی .....غیر فصیح نہیں ہے۔ صوتی حوالہ سے بھی' ہر زب ن بولنے والوں کے لئے' سم عتی گرانی ک سب نہیں بنت ۔ پورے شجرے میں' مصرعوں میں ایک آدھ ل ظ کی تبدی ی سے' اردو وجود ح صل کر لیتی ہے۔ اگر اسے اردو پر پنج بی کے اثرات ک ن دی ج ئے' تو بھی ب ت یکسر غ ط م و نہیں ہوتی۔ شجرہ مالحظہ ہو شجرہ ق دریہ هللا هللا ہر د آکھ تن من اپن کرکے پ ک نبی محمد دے قرب ن
ی ر مشکل کریں آس ن هللا هللا ہر د آکھ آکھ ک است م ل ق فیہ کی مجبوری ہے۔ نبی محمد دے قرب ن دے کی بج ئے کے نبی محمد کے قرب ن ی ر مشکل کریں آس ن کریں کی بج ئے کرن ی ر مشکل کرن آس ن ......... خ ص خدا دا نبی پی را امت نوں بخش ون ہ را اس پر میرا تکیہ م ن ی ر مشکل کریں آس ن
خ ص خدا دا نبی پی را دا کی جگہ ک خ ص خدا ک نبی پی را امت نوں بخش ون ہ را نوں کی جگہ پرانی اردو کے مط ب کوں امت کوں بخش ون ہ را .......... بی بی زہرہ بنت رسول ع ی ولی ہیں زوج بتول میں ع جز دا سر قرب ن ی ر مشکل کریں آس ن میں ع جز دا سر قرب ن دا کی جگہ ک میں ع جز ک سر قرب ن ..........
ص حبزادے نور ال ین ی نی حضرت حسن حسین صدقے حضرت ع بد ج ن ی ر مشکل کریں آس ن ب قروج روموسی ک ظ موسی رض دی ال ت الز تقی نقی دے میں قرب ن ی ر مشکل کریں آس ن موسی رض دی ال ت الز دی کی جگہ کی موسی رض کی ال ت الز تقی نقی دے میں قرب ن دے کی جگہ کے تقی نقی کے میں قرب ن .........
حسن عسکری نورالنور مہدی زم ن ک ج ن ظہور ہر د میرا ایہو دھی ن ی ر مشکل کریں آس ن ہر د میرا ایہو دھی ن ایہو کی جگہ یہ ہی ہر د میرا یہ ہی دھی ن ......... پنج ب رہ ہور چودہ ج ن اہل بیت دے ح ایم ن ص ت نہ کیتی ج بی ن ی ر مشکل کریں آس ن پنج ب رہ ہور چودہ ج ن ہور کی جگہ اور۔ گوی صرف آواز ہ کو ا میں بدلن ہے۔
پنج ب رہ اور چودہ ج ن .......... ش ہ مرداں ہیں شیر خدا راہ خدا ہیں ج ن فدا خواجہ حسن بصری دل ج ن ی ر مشکل کریں آس ن حبی عجمی دے گھول گھم واں داؤد ط ئی دے صدقے ج واں خواجہ کرخی در بی ن ی ر مشکل کریں آس ن حبی عجمی دے گھول گھم واں داؤد ط ئی دے صدقے ج واں دے کی جگہ کے حبی عجمی کے گھول گھم واں داؤد ط ئی کے صدقے ج واں ........
خواجہ سری سقطی ہ دی ش ہ جنید پیر بغدادی ابوبکر شب ی دا م ن ی ر مشکل کریں آس ن ابوبکر شب ی دا م ن دا کی جگہ ک ابوبکر شب ی ک م ن ........ ابوال ب س احمد دل ش داں عبدال زیز ہیں یمنی ہ دی شیخ یوسف دے میں قرب ن ی ر مشکل کریں آس ن شیخ یوسف دے میں قرب ن دے کی جگہ کے
شیخ یوسف کے میں قرب ن ....... ابوال رح طرطوسی ق ری ابوالحسن ع ی ہنک ری ابوس ید مخدومی ج ن ی ر مشکل کریں آس ن ابومحمد عبدالق در غوث قط س در پر ح ضر ط ل جسدا کل جہ ن ی ر مشکل کریں آس ن ط ل جسدا کل جہ ن دا کی جگہ ک ط ل جسک کل جہ ن .........
عبدالوہ
فضل الہی
عبدالرحی دی پشت پن ہی سید وہ
رکھ ح ظ ام ن
ی ر مشکل کریں آس ن عبدالرحی دی پشت پن ہی دی کی گہ کی عبدالرحی کی پشت پن ہی ......... حضرت یحیی رہبر ک مل جم ل الدین ہیں ہر د ش مل نور الدین دے پیر۔۔۔۔۔۔۔ ی ر مشکل کریں آس ن نور الدین دے پیر۔۔۔۔۔۔۔ دے کی جگہ کے نور الدین کے پیر۔۔۔۔۔۔۔
....... ت ج الدین نے زہد کم ی شرف الدین نے رہبر پ ی محمد ی سین ہیں فیض رس ن ی ر مشکل کریں آس ن سید ط لح اہل حضور سید ص لح نور النور ہر د میرا ورد زب ن ی ر مشکل کریں آس ن سید یحیی الح ج آئے سید عثم ن رہبر پ ئے سید عبدهللا دے پیر نوں ج وے ی ر مشکل کریں آس ن سید عبدهللا دے پیر نوں ج وے
دے کی جگہ کے اور نوں کی جگہ کوں رکھ دیں سید عبدهللا کے پیر کوں ج وے ......... سید غال مصط ے ج نو ہ دی ن لی ں دل ہووے ش دی سید احمد ہیں اہل ۔۔۔۔۔۔ ی ر مشکل کریں آس ن سید غال مصط ے ج نو ہ دی ج نو' ج نن کے لئے ہے ت ہ سمجھو رکھ دیں۔ سید غال مصط ےسمجھو ہ دی ........ سید ع ی م ظ ق در وچ حضوری ہر د ح ضر ع رف ف ضل ک مل ج ن ی ر مشکل کریں آس ن
وچ حضوری ہر د ح ضر وچ کو میں بدل دیں حضوری میں ہر د ح ضر ......... حضرت ق در بخش کم ل نظر و نظری کرن نہ ل دوئیں تھ ئیں روشن ج ن ی ر مشکل کریں آس ن نظر و نظری کرن نہ ل کرن کو کریں کر دیں نظر و نظری کریں نہ ل ........ حضرت پیر غال جیالنی ق در بخش نے ہوئے نورانی
گڑھ شنکر وچ تخت مک ن ی ر مشکل کریں آس ن گڑھ شنکر وچ تخت مک ن وچ کو میں بدل دیں گڑھ شنکر میں تخت مک ن ....... حضرت دے دو بھ ئی پی رے ق در بخش دے ہی دالرے عط محمد ہیں درب ن ی ر مشکل کریں آس ن حضرت دے دو بھ ئی پی رے ق در بخش دے ہی دالرے دے کی جگہ کے حضرت کے دو بھ ئی پی رے ق در بخش کے ہی دالرے
......... غال غوث دے قرب ن بیٹے جس دے ست عی ن هللا دتے ہو رحم ن ی ر مشکل کریں آس ن غال غوث دے قرب ن بیٹے جس دے ست عی ن دے کی جگہ کے غال غوث کے قرب ن بیٹے جس کے ست عی ن ........ لنگر رکھ دے ہر د ج ری وچ درب ر رہے گ زاری آئے سوالی خ لی نہ ج ن ی ر مشکل کریں آس ن
لنگر رکھ دے ہر د ج ری وچ درب ر رہے گ زاری .رکھ دے کی جگہ رکھتے اور وچ کی جگہ میں رکھ دیں لنگر رکھتے ہر د ج ری درب ر میں رہے گ زاری ........ شجرہ شریف میں کہی س را مینوں بخشیں پروردگ را ہر د تیرا شکر احس ن ی ر مشکل کریں آس ن مینوں بخشیں پروردگ را مینوں کو مجھے کر دیں مجھے بخشیں پروردگ را ........
حضرت پیر غال جیالنی مہر ع ی دے رہبر ج نی ہر د وسن وچ دھی ن ی ر مشکل کریں آس ن مہر ع ی دے رہبر ج نی دے کی جگہ کے رکھ دیں مہر ع ی کے رہبر ج نی ........ مہر ع ی ہے ع جز خ کی توں س قی ں دا ہیں س قی ش ہ جیالنی دے ایم ن ی ر مشکل کریں آس ن توں س قی ں دا ہیں س قی ش ہ جیالنی دے ایم ن تبدی ی
تو ہے س قیوں ک س قی ش ہ جیالنی کے ایم ن ....... شجرہ شریف پڑھیں بھ ئی ق
تہ ڈے دی ہو گی ص ئی
جو ہیں ق دری خ ندان ی ر مشکل کریں آس ن ق
تہ ڈے دی ہو گی ص ئی
تہ ڈے کو تہ رے دی کی جگہ کی ق
تہ رے کی ہو گی ص ئی
.......... پڑھنے دا وقت صبح و ش پڑھ لی جس پیت ج پیر سوہنے دا ہے قرب ن ی ر مشکل کریں آس ن
پڑھنے دا وقت صبح و ش دا کی جگہ ک پڑھنے ک وقت صبح و ش پیر سوہنے دا ہے قرب ن دا کی جگہ ک پیر سوہنے ک ہے قرب ن ....... ایک چرچ مین کی ی وہ گوئی اور میری م روض ت ایک دو روز پہ ے فیس بک پر‘ مجھے ایک چرچ مین کی گ ت گو‘ سننے ک ات ہوا۔ اس کی گ ت گو نے‘ مجھے بڑا ہی ڈسٹر کی ۔ لگت تھ ‘ کہ ابھی مرت ہوں۔ یہ مذہبی ٹھیکےدار‘ قص بی اور خود غرض فطرت کے ح مل ہوتے ہیں۔ انہیں اس امر سے دل چسپی ی ت واسطہ نہیں ہوت ‘ کہ ان کے ل ظ‘ کسی پر کی قی مت توڑیں گے۔ اس چرچ مین کی زب ن نہ یت گھٹی تھی۔ لگت تھ ‘ کہ میرا دم پھٹ ج ئے گ اور دل کی حرکت ابھی بند ہو ج ئے گی۔ اس کی ویڈیو کے حوالہ سے‘ میں نے یہ چند جم ے بولے ہیں۔ اس کی ویڈیو ک لنک بھی ب طور حوالہ ضرورپیش کرت ‘ لیکن میری ہمت نہیں پڑی‘ کہ ایسی گھٹی چیز کو پیش کروں۔ اس کو سن کر‘ کسی کو کوئی ذہنی ی ق بی
ع رضہ الح ہو سکت ہے۔ اس ک لہجہ‘ زب ن‘ موضوع اور گ ت گو ک مواد‘ یکسر غیر متوازن اور ب زاری نوعیت ہے۔ یقین ہو ج ت ہے کہ اس سے مذہبی مین‘ ع کے قری سے بھی نہیں گزرے ہوتے۔ پڑھ لکھ اور ص ح ع ‘ موڈ کی کسی سطع پر بھی‘ ش ئستگی ک دامن نہیں چھوڑت ۔ عجی ہے‘ اسال حضرت عیسی ع یہ السال اور اور ان کی کت انجیل کو‘عزت دیت ہے تو آخر ان فس دیوں کو ایسی ب تیں کیوں سوجھتی ہیں‘ جن سے فس د ک دروازہ کھ ت ہو۔ https://www.facebook.com/100008707759393/videos/1555521681414742/Uzp fSTEwMDAwODcwNzc1OTM5MzoxNTU1NTIyMTExNDE0Njk5/?id=10000870775 9393
طال ش دی آج اور کل کی خو صورتی اور رواں حی ت ک پہال زینہ ہے لہذا یہ ہر حوالہ سے م تبر اور امور حی ت میں پہ ے نمبر پر آت ہے۔ بال زندگی پھل پھول حسین وادی ں بدلتے موسموں کے رنگ کس ک کے۔ گوی اس کی اس حیثیت کے تن ظر میں بالتک ف کہ ج سکت ہے‘ یہ لذت ک ذری ہ نہیں اپنی ذات میں تقدس مآ بھی ہے۔ ش دی کے م نی خوشی کے ہیں۔ ش دی کے ب د زندگی کے آخری لمحوں تک دکھ سکھ کے ہر موس میں خوش رہنے کی س ی ہوتی رہنی چ ہیے۔ درگزر برداشت ایک دوسرے کے لیے تی گ ش ر رہن چ ہیے۔ ایک چھت ت ے دو جنسیں س نس لے رہی ہوتی ہیں اور اگ ی
نسل ک ذری ہ بن رہی ہوتی ہیں۔ ہر نئے آنے والے کی ہر ضرورت کو ہر م م ے پر ترجیع دیتی ہیں۔ مثال م ں گہری نیند میں ہے۔ بچے کو بھوک لگ گئی ہے۔ وہ یہ کہہ کر رونے دو‘ صبح کو اٹھ کر تس ی سے دودھ پالؤں گی سو ج تی ہے۔ نہیں ب لکل نہیں‘ سو نہیں ج تی۔ وہ فورا سے پہ ے اٹھ ج ئے گی۔ فیڈ کرانے کے ب د ہی سوئے گی۔ بچے کو کوئی تک یف ہے۔ دونوں‘ اس بچے کے م ں اور ب پ اٹھ کر اسے کمرے میں ی صحن میں لے کر پھریں گے۔ زی دہ تک یف کی صورت میں‘ رات ک کوئی بھی سم ں رہ ہو۔ گھر میں کوئی نہ ہو چور ڈاکو پڑنے ک احتم ل ہو‘ لیکن یہ دونوں جو اس بچے ک سب بنے ڈاکٹر وید حکیموں کے گھر کے دروازوں پر دستک دیتے پھریں گے۔ ح الں کہ وہ بچہ هللا کی مخ و اور اس کی م کیت ہے۔ هللا نے ان کےسینوں میں محبت ک سمندر بہ دی ہوت ہے اس لیے ان کی بےچینی اور بےقراری برداشت سے ب ہر نکل ج تی ہے۔ اس خو صورت خوشوں بھرے اور تقدس مآ رشتے کے خت ہونے کی راہیں نکل آتی ہیں۔ مثال غصہ دونوں کی ی کسی ایک کی کوئی اور اپنی کوئی پسند رہی ہو پہ ے دن ہی دل کو نہ بھ ن ۔ زبردستی کی ش دی ایک فری کی حد سے بڑھی بدکالمی عورت کسی ذاتی ترجیع کی بن پر طال ط کر سکتی ہے۔ جیسے ہزار روپیے کی مالزمت ک جھ نسہ مال اس یہ ں ایک عورت کو
نے خ وند کو طال دینے پر مجبور کر دی ۔ غ ط فہمی کسی تیسرے کی س زش ت کہ یہ رشتہ خت ہو ج ئے ی ان کے ہ ں کل ک ی ں س س ہ ج ری رہے آدمی کے پ س م ل ی عہدہ ہونے کی صورت میں اپنی بیٹی دینے کی خواہش‘ ک ن بھریے متحرک ہو ج تے ہیں۔ ایسی بیسیوں وجوہ ہو سکتی ہیں جو می ں بیوی کے رشتے کو خت کر سکتی ہیں۔ طال برا نہیں‘ انتہ ئی برا ف ل ہے۔ آخری حد تک برداشت اور درگزر سے فری ک لیں اور نب ہ کی صورت نک لیں۔ ج درستی ک رستہ نہ نک ے اور فس د ک دروازہ کھ نے ک احتم ل ہو تو طال بہت بڑی ن مت ہے کیوں کہ یہ دوشخصوں کو ہی نہیں‘ دو کنبوں اور سوس ئٹی کو بھی فس د کی آگ سے بچ لیتی ہے ت ہ تین ب ر تین وقتوں میں انتہ ئی سنجیدگی اور مخ صی سے غور کر لین چ ہیے کہ غ طی تو نہیں ہونے ج رہی۔ اس ک مستحسن طریقہ یہ ہی ہے کہ فریقین آمنے س منے بیٹھ ج ئیں۔ عورت نے طال م نگی ہو ی مرد طال دین چ ہت ہو‘ مرد تین ب ر ل ظ طال ٹھہر ٹھہر اور رک رک کر بولے۔ اس کے ب د دونوں فری ایک دوسرے سے دوری اختی ر کر لیں۔ ن رت کے سب دل میں طال دینے سے طال نہیں ہوتی۔ دل میں دی گئی طال کے حوالہ سے گھری و اور جنسی ت خت کرن حرا ہے۔ س منے ہیٹھ کر طال کے شبد بولن طال دینے کے لیے ضروری ہے۔ ورنہ طال واقع نہیں ہوتی۔
نوٹ: ح م ہ ہونے ی حیض میں ہونے کی صورت میں ایس نہیں کی ج سکت ۔ حیض کے خت اور بچے کی پیدائش تک انتظ ر کریں۔ طال دینے ی لینے ک ارادہ اس کے ب د بدل ج ت ہے تو یہ اچھ خوشگوار عمل ہو گ۔ تین حیض ی نی تین م ہ وہ اسی گھر میں اق مت کرے۔ تین م ہ ب د ان دونوں ک کوئی رشتہ نہ ہو گ ۔ وہ ایک دوسرے کے لیے اجنبی اور غیر محر ہوں گے۔ وہ ہر طرح سے آزاد ہوں گے اور اپنے ہر قس کے اچھے برے کے ذمہ دار ہوں گے۔ نوٹ: ان تین م ہ ی نی نوے دن میں وہ ص ح کر سکتے ہیں۔ یہ ں تک مدت کے آخری لمحے تک وہ ص ح کر سکتے ہیں۔ عورت اس دورانیے میں گھر سے ب ہر قد نہیں رکھے گی اور ن ہی گھر ی گھر سے ب ہر کسی شخص سے ت ق ت بن ئے گی۔ مرد ان تین م ہ میں اس عورت کو ضروری ت حی ت کسی دوسرے کے ہ تھ سے مہی کرت رہے گ ۔ طال ک سرک ری طریقہ ہر لح ظ سے ق بل مذمت ہے کہ عورت کو طال کے سرک ری طریقہ سے تین م ہ طال کے نوٹس بھیجے گ ۔ یہ اپنی اصل میں سرک ری اہل ک روں کو م ل پ نی مہی کرنے ک رستہ نک ال گی ہے۔ عورت اور مرد کے ایک چھت سے نکل ج نے سے ص ح ص ئی ک رستہ بند ہو ج ت ہے۔ دونوں کے اپنے قری النے کی کوشش نہیں کریں گے بل کہ ان کے دلوں کو پتھر بن ئیں گے۔ وہ وہ غ طی ں
اور خ می ں گوش گزار کریں گے جن ک ان کے فرشتوں کو بھی ع نہ ہو گ ۔ م ضی کی کوت ہیوں کے قصے انہیں ی د دالئیں گے۔ دو ہزار س ل پہ ے اس بےلح ظ اور منہ پھٹ عورت نے تمہ رے ن ن کی ش ن اقدس میں گست خی کی تھی۔ بےتکی ں چھوڑ کر ن رتوں ک آسم ن سے ب تیں کرت بھ نبڑ مچ دیں۔ ج ل س زی ک زم نہ ہے فس د ک ر یہ ک انج دے سکت ہے۔ اپنے م د ذاتی ی خ ندانی ضد کی بن پر زبردستی اور ب لجبر طال ک نوٹس بھجوای ج سکت ہے۔ ایسی بہت س ری وجوہ ہیں جن کی بن پر اس سرک ری طریقہ کو اختی ر کرن کسی طرح درست نہیں۔
کھ ی تنبیہ بیٹی مہر افروز ک خوا اہل دنی کے لیے ایک کھ ی تنبیہ کچھ دن ہوئے مجھے ایک خوا آی اور میں نے کوئی غور نہ کی کہ میں کون س کوئی درویش ی صوفی ہوں۔ ایک ع س آدمی ہوں۔ ہ ں درویشوں صوفیوں اور اہل فقر کے لیے دل میں عزت احترا اور محبت ضرور رکھت ہوں۔ یہ خوا سحری قری ک تھ ۔ میں نے خوا میں دیکھ کہ ان ہی بوسیدہ اور تقریب پھٹے پرانے
سے کپڑوں میں م بوس ہوں اور ایک ت حد نظر میدان میں اکیال کھڑا :ہوں۔ میں نے ب ند آواز میں کہ لوگو! سنو سنو کچھ لوگ جمع ہو گئے۔ میں نے کہ :دیکھو اپنے هللا کی طرف پھر ج ؤ اسی میں تمہ ری بھالئی ہے۔ میری آواز ازخود ب ند ہو گئی اور چ روں طرف گونجنے لگی۔ پہ ے چند پھر اس کے ب د ت حد نظر لوگ جمع ہو گیے۔ میں میدان میں ہی کھڑا ہوں اور میری آواز س تک پہنچ رہی ہے۔ آواز اتنی ب ند اور گرج دار کیسے ہو گئی۔ حیرت کی ب ت تھی۔ میں نے لوگوں کو خبردار کی کہ برا وقت آنے کو ہے۔ اس سے پہ ے کہ برا وقت آئے ج د اور کسی توقف اور تس ہل کے بغیر توبہ کرکے اپنے هللا کی طرف پھر ج ؤ ورنہ اچھ نہیں ہو گ ۔ میں نے خوا کو نظرانداز کر دی کہ بس یہ میرا ایک محض واہمہ تھ ۔ سمجھ ن ی کسی قس کی تنبیہ کرن تو بڑے لوگوں ک ک ہے ج کہ میں سرے سے کچھ بھی نہیں ہوں ۔۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔ مجھے تو خود ہدایت اور راستی پر چ نے کی ضرورت ہے۔ میں کون ہوت ہوں کسی کو تنبیہ کرنے واال۔ میری اوق ت اور بس ت ہی کی ہے اور یہ بھی کہ میں بھال کسی کو کی ہدایت اور وارننگ دے سکت ہوں۔ دو روز ہوئے میری پی ری بیٹی مہر افروز نے اپن خوا سن ی جس کی کڑی ں میرے خوا سے م تی ہیں۔ بیٹی مہر افروز حضرت ب ب جی قب ہ سید م ین الدین چشتی رح کے گھرانے سے روح نی انسالک رکھتی
ہے۔ وہ ہے بھی درویش اور فقیر طبع۔ اس نے خوا میں دیکھ وہ پہ ڑ ی چٹ ن کی چوٹی پر اکی ی کھڑی ہے نیچے ایک دنی آب د ہے۔ آسم ن پر سی ہ ب دل امڈے چ ے آتے ہیں۔ نیچے چ تے پھرتے لوگ خرابی ک شک ر ہیں۔ وہ چیخ چیخ کر لوگوں کو خرابی سے ب ز آ ج نے کو کہہ رہی ہے۔ لوگ اسکی آواز پر ک ن دھرنے کی بج ئے اس ک مذا اڑا رہے ہیں۔ وہ مذا برداشت کرکے لوگوں کو راستی کی طرف پ ٹنے کو کہے ج رہی ہے لیکن لوگ خرابی سے رک نہیں رہے۔ پھر آن واحد میں ب رش کی بج ئے آسم ن سے برف کی س یں گرن شروع ہو ج تی ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے نیچے سوائے ویرانے کے کچھ ب قی نہیں بچت اور آسم ن پھر سے ص ف اور ش ف ہو ج ت ہے۔ میں بیٹی مہر افروز کے خوا کو الی نی اور بےم نی نہیں سمجھت اور اس کے اس خوا کو دنی کے س منے النے کی جس رت کر رہ ہوں۔ مجھ سے جتن ج دی ہو سک اس ک خوا لوگوں کے س منے پیش کر دی ہے کہ کہیں میری کوت ہی اور تس ہل کے سب دیر نہ ہو ج ئے۔ لوگو! ج ن رکھو موت برح ہے ہر کسی کو حقیقی م لک کے پ س ج ن ہے یہ ں ک یہ ں ہی رہ ج ئے گ ۔ یہ ں ک کچھ س تھ نہ ج سکے گ ۔ جتن ج د ہو سکے توبہ کی ج ن پھرو۔ هللا سے زی دہ کوئی اور مہرب ن نہیں۔ وہ سچی توبہ ضرور قبول فرم ئے گ ۔ اچھ ئی اور نیکی ک رستہ اختی ر کرو۔ انس ن ک ئت ت کے لیے ہے۔ اسے خالفت ارضی م ی ہے۔ اپنی اخری ط قت تک ک ئن ت کی جم ہ مخ و ک
بالت ری وامتی ز بھال کرو۔ س ک خی ل رکھو ج ن رکھو تمہ را خی ل رکھنے کے لیے هللا ہی ک فی ہے۔ خدا کے لیے اپنے هللا کی طرف پھرو ورنہ ج ن رکھو آخر کو خس رہ اور پچھت وا ہی ہ تھ لگے گ ۔ اگر وقت گزر گی تو واپسی نہ ہو سکے گی۔ اے هللا! گواہ رہن کہ میں نے لوگوں تک مہر بیٹی ک خوا پہنچ دی ہے۔ توبہ کی استدع کر دی ہے۔ بدی سے ب ز آنے کو کہہ دی ہے۔ بھال کرنے اور راستی ک رستہ اپن نے کے لیے بھی گزارش کر دی ہے۔ اے هللا! اپنے اس حقیر اور ن چیز بندے کی توبہ قبول فرم بھال کرنے اور راہ راست پر چ نے کی توفی عط فرم ۔ اے هللا! میری بیٹی مہر افروز کے دانستہ اور ن دانستہ گن ہوں اور ہر قس کی کمی کوت ہی کو م ف فرم دے۔ اس کے اچھ کرنے کی شکتی میں اض فہ فرم ۔ بےشک تجھ سے زی دہ قری کوئی نہیں اور تجھ سے بڑھ کر مدد کرنے اور توفی عط کرنے واال کوئی نہیں۔
میں ن ہیں سبھ توں۔۔۔۔۔۔۔چند م روض ت
‘میں ن ہیں سبھ توں فقرا کی زندگی ک پہال اور آخری اصول ہوت ہے۔ جو فقیر اس نظریے پر‘ فکری‘ ق بی اور عم ی سطح پر ق ئ رہت ہے‘ وہ ہی ص لحین کی صف میں کھڑا ہوت ہے۔ عموم ب کہ اکثر‘ اختالف اس کی ت بیر و تشریح پر ہوت ہے۔ کچھ ک کہن ہے‘کہ یہ نظریہ‘ ترک دنی کی طرف لے ج ت ہے۔ ترک دنی کے رویے کو‘ کسی طرح مستحسن قرار نہیں دی ج سکت ۔ دوسرے ل ظوں میں‘ یہ ذمہ داریوں سے فرار کے مترادف ہے۔ ایک طبقہ اسے الح د کی طرف بڑھنے ک رستہ سمجھت ہے۔ کچھ کہتے ہیں‘ اس کے نتیجہ میں‘ ایک سطح پر ج کر‘ خدائی ک دعوی س منے آت ہے۔ اس کے عالوہ بھی‘ اس نظریے کی تشریح ت کی ج تی ہیں۔ جو اس ذیل میں تشریح ت س منے آتی ہیں‘ ان ک حقیقت سے‘ دور ک بھی ت واسطہ نہیں۔ عجز اور انکس ری شخص کو بے وجود نہیں کرتی۔ اگر وہ بےوجود ہوت ہے‘ تو دنی ‘ زندگی اور زندگی کے مت ق ت سے‘ رشتہ ہی خت ہو ج ت ہے۔ دوسری طرف شخصی ح ج ت‘ اپنی جگہ پراستحق رکھتی ہیں۔ پ خ نہ اور پیش کی ح جت پر‘ کیسے ق بو پ ی ج سکت ہے۔ س نس آئے گ ‘ تو ہی زندگی کی س نسیں برقرار رہ پ ئیں گی۔ لہذا ذات ک تی گ‘ ممکن ہی نہیں‘ ب کہ یہ فطری امر ہے۔ فطری امر سے انک ر‘ سورج کو مغر سے‘ ط وع کرنے کے مترادف ہے۔
‘میں ن ہیں سبھ توں درحقیقت انبی ک طور ہے۔ نبی اپنی طرف سے‘ کچھ نہیں کرت اور ن ہی‘ اپنی مرضی ک ک مہ‘ منہ سے نک لت ہے‘ کیوں کہ اس ک کہ ‘ اور کی ‘ زندگی ک طور اور حوالہ ٹھہرت ہے۔ نبی ک رستہ موجود ہوت ہے‘ فقیر ہر ح لت میں‘ اس رستے پر چ ت ہے۔ اس رستے پر چ ن ‘ هللا کے حک کی اط عت کرن ہے۔ جہ ں اپن حک ن فذ کرنے خواہش ج گتی ہے‘ وہ ں شرک ک دروازہ کھل ج ت ہے۔ گوی هللا کے سوا‘ کسی اور ک بھی حک چ ت ہے۔ شخصی حک میں۔۔۔۔۔۔۔ توں نہیں سبھ میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واضح طور موجود ہوتی ہے‘ اور یہ ہی ن انص فی اور ظ ہے۔ آدمی کوئی بھی‘ اور کسی بھی سطح ک ہو‘ هللا کے ق نون سے ب ہر ج نے ک ‘ استحق نہیں رکھت ۔ ق نون کے م م ے میں استثن ئی صورت موجود ہی نہیں ہوتی۔ استثن ئی صورت نک لن ‘ شرک ہے۔ فقیر هللا کے ق نون کے م م ے میں‘ کیوں کیسے ی اس طور کی خراف ت کے ب رے میں‘ سوچن بھی‘ جر عظی ی دوسرے ل طوں میں‘ گن ہ کبیرہ سمجھت ہے۔ جو هللا نے کہہ دی ‘ وہی درست ہے‘ اس کے سوا‘ کچھ بھی درست نہیں۔ ہر تخ ی ک ر کو‘ اپنی تخ ی سے پی ر ہوت ہے۔ هللا بھی اپنی مخ و سے‘ بےگ نہ اور الت نہیں۔ جو بھی‘ اس کی مخ و سے پی ر کرت ہے‘ احس ن کرت ہے‘ اس کے لیے بہتری سوچت ہے‘ انص ف کرت ہے‘ گوی وہ هللا کی محبت ک د بھرت ہے۔ فقیر‘ هللا کی رض اور خوشنودی کے لیے‘ هللا کی مخ و پر احس ن کرت ہے۔ وہ اپنے منہ ک لقمہ‘ هللا کی مخ و کے‘ حوالے کرکے خوشی محسوس کرت ہے۔ هللا کی مخ و کی سیری‘ دراصل اس کی اپنی سیری ہوتی ہے۔ مخ و کی خیر اور
بھالئی‘ اس کی زندگی ک اصول اور مشن ہوت ہے۔ اپن خی ل رکھیے‘ کی ہوا‘ یہ تو کھ ی خودغرضی ہوئی۔ اس کے نزدیک س ک خی ل رکھو‘ یہ سنت هللا ہے‘ تمہ را خی ل رکھنے کے لیے‘ هللا ہی ک فی ہے۔ فقیر یہ ں بھی‘ میں ن ہیں سبھ توں کو‘ اپالئی کرت ہے۔ اسے کسی م دی شے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسے هللا کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ س ‘ اپنی ذات کی ن ی کے بغیر‘ ممکن نہیں۔ ج عقیدہ میں ن ہیں سبھ توں‘ سے دوری اختی ر کرے گ تو هللا پر ایم ن سے دور ہو ج ئے گ ۔ اپنی ذات کو مقد رکھے گ ۔ ب نٹ میں خی نت کرے گ ۔ وس ئل پر ق بض ہونے کو زندگی ک مقصد ٹھہرائے گ ۔ درج ب ال م روض ت کے حوالہ سے‘ ذات ک تی گ ممکن نہیں۔ یہ وتیرہ‘ اہل ج ہ اور اہل ثروت کو کس طرح خوش آ سکت ہے۔ ح اور انص ف کی ب تیں‘ اور هللا کے حک کے خالف انج پ نے والے امور پر تنقید اور برآت‘ کسی ب دش ہ ی اہل ثروت کو‘ کس طرح خوش آ سکتی ہے۔ ص ف ظ ہر ہے‘ ایسے لوگوں کو ظ ہر پالی ج ئے گ ۔ ب دش ہ ی اہل ثروت بھول ج تے ہیں‘ کہ میں ن ہیں س توں‘ کے ح مل مر نہیں سکتے۔ دوسرا وہ پہ ے ہی ک ہوتے ہیں۔ موت تو ہونے کو آتی ہے۔ میں کو موت آتی ہے‘ تو کے لیے موت نہیں۔ میں مخ و ہے‘ تو مخ و نہیں۔
ارشد حکی ک ایک ش ر ارشد حکی ک ت پنج پولیس سے ہے۔ دیکھنے میں مولوی س ہو کر بھی سیدھ س دہ شخص ہے۔ اس کی عمومی حضرات سے گ تگو بھی دنی داری سے مت ہوتی ہے۔ ہ ں البتہ ٹیڑھی اور شطرنجی نوعیت کی گ تگو اس کے ہ ں سننے کو نہیں م تی۔ سول لب س میں کوئی طرح داری نہیں م تی۔ ٹوہر ٹپ کہیں دور تک نظر نہیں آت ۔ دنی داری کے ک موں میں سولہ آنے گ اور مگن س نظر آت ہے۔ یہ س دیکھ کر کوئی سوچ بھی نہیں سکت کہ وہ اندر سے بحرالک ہل سے بھی گہرا اور پورا ک پورا ہے۔ پنج بی اور اردو میں ش عری کرت ہے۔ موقع م ے اور ڈیوٹی سے فرصت م نے پر ادبی تقریب ت میں ش مل ہوت ہے۔ اپنے حصہ کی داد بھی وصول کرت ہے۔ چوں کہ ہر کوئی نہیں ج نت کہ وہ پولیس مین ہے اس لیے داد اپنے کہے کے تن ظر میں ہی وصول کرت ہے۔ اس کی پوری ش عری پر لکھنے کی ب د میں کوشش کروں گ ۔ اس کے ب ض اش ر کی ت ہی ظ ہر سے کہیں ہٹ کر ہے۔ وہ ت ہی غور کرنے کے ب د دم کے م دہ میں اترتی ہے۔ یہ ہی صورت اس کے ہض کرنے کی ہے۔ جیسے ک نوں سے مکی کی روٹی کے س تھ س گ نوش ج ن کر لی ہو۔ پ ن س ت روز ہوئے میرے پ س بیٹھ ہوا تھ ۔ میں بیم ر تو کئی س ل سے ہوں لیکن اس روز بیم ری کچھ زی دہ ہی پڑی ہوئی تھی۔ یہ ں تک کہ حواس بھی بی م ری کی گرفت میں تھے۔ ش ر چوں کہ میری ک
زوری ہیں اس لیے بھول گی کہ میں بیم ر ہوں۔ اس نے ج یہ ش ر سن ی تو سوچ ک طوف ن کھڑا ہو گی اور مجھے ی د تک نہ رہ کہ بیم ر :ہوں فقر اظہ ر میں غن س ہے بےنی زی بھرا خدا س ہے ب نٹ دینے والے کو غنی کہ ج ت ہے اور یہ ص ت هللا ت لی ذات گرامی سے وابستہ ہے۔ هللا ت لی اس امر سے قط ی بے نی ز ہوت ہے کہ کمی ہو ج ئے گی۔ ب نٹ دینے والے کے نزدیک سے بھی اس قس کی سوچ گزر نہیں پ تی اگر وہ ایس سوچنے لگ تو ب نٹ ک عمل درست سمت پر نہ رہے گ ۔ یہ ب ت اپنی جگہ هللا اور دے دے گ ۔ ب نٹ دینے ک اپن ہی لطف اور مزا ہے۔ ح ت ایس سوچت تو ق رون بن ج ت ۔ ق رون کی دولت اسے لے ڈوبی لیکن ح ت کی سخ وت آج بھی دلوں میں نقش ہے اور یہ پڑھنے میں نہیں آی کہ وہ کنگ ل ہو گی تھ ۔ ب نٹ ک اپن ایک مزا ہوت ہے۔ غنی ب نٹ میں کوئی غرض نہیں رکھت ۔ یہ ب ت غنی کے قری سے بھی نہیں گزر پ تی کہ اسے دینے کے ص ہ میں سالمیں وصول ہوں گی۔ وہ ی د رکھ ج ئے گ ی دینے کے نتیجہ میں اسے واپسی دوگن ح صل ہو ج ئے گ ۔ اگر لینے والے سے کسی قس کی توقع ب ندھ کر دی ج ئے گ تو یہ خودغرضی کے زمرے میں داخل ہو گ ۔ اس طرح دینے والے کو غنی نہیں ت جر کہ ج ئے گ ۔ هللا چوں کہ غنی کی ص ت رکھت ہے۔ هللا کی عط ئیں ہر قس کی غرض سے ب التر ہیں۔ وہ بےنی ز ہے۔ اس ک بندہ ج ب طور خ ی ہ یہ ص ت فریضے کے طور پر اختی ر کرت ہے تو اس کی ب نٹ میں کسی قس کی غرض ی ری پوشیدہ نہیں ہوتی۔ اس کی ب نٹ کھری کھری اور نکھری
نکھری ہوتی ہے۔ ہر کھری اور نکھری نکھری ب نٹ بےغرضی اور بےنی زی ک عنصر رکھتی ہے۔ بےط بی‘ بےغرضی اور بےنی زی صرف اور صرف هللا کی ذات گرامی سے وابستہ ہے۔ وہ ہر قس کی ح جت سے ب ال ہے۔ بےشک غنی ک خ صہ یہ ہی ہے۔ غنی شخص‘ مخ و سے دینے کے س س ہ میں ب من فع واپسی ک سوچ بھی نہیں سکت ۔ اسی لیے یہ غن ‘ خدا س ہے۔ خدا اس لیے نہیں کہ وہ لطف و عط اور کر کے لیے خدا کے حضور دست بستہ کھڑا نظر آت ہے۔ گوی گرہ میں ہونے کے م م ہ ان حد نہیں ج کہ خدا ہونے اور میسر کے م م ہ میں ان حد ہے۔ ا ج دین غرض‘ من فع ی کسی بھی نوعیت کے من فع سے وابستہ ہو ج تی ہے تو وہ دین غن کے زمرے میں نہیں آتی۔ ج کسی بھی طور سے لین مطمع نظر ٹھہرے تو جمع انب ر جو حدوں میں ہوت ہے‘ تکبر کی بستی ک اق متی ہو کر خود کو خدا سمجھنے لگت ہے۔ اس ک یہ تکبر چھین جھپٹی فس و فجور ک ہی ب عث نہیں بنت بل کہ بل کہ مخ و کے لیے بہت بڑی آزم ئش بن ج ت ۔ لوگ ظ ‘ زی دتی اور جبر کی آگ میں ج تے ہیں۔ بستی ں لہو میں نہ تی ہیں۔ کبھی زہر پیت ہے تو کبھی نیزے چڑھت ہے۔ ت ریخ کے پ س مت ج ئیے‘ یہ متکبروں اور متکبروں کے جھولی چکوں ک قصیدہ ہے‘ ہ ں عہد عہد کے ارشد حکی کے کال کو پڑھیے۔ عالمتوں اور است روں میں لپٹی ان کی کرتوتوں کو دیکھ لیجیے۔ ان متکبروں ک اصل چہرا س منے آ ج ئے گ ۔ اگر غن کو تھرل کے م ہو دیئے ج ئیں تو غیرفریبی اور مصنوعی تھرل میں نم ی ں فر ہوت ہے۔ فریبی اور مصنوعی تھرل لین اور کسی ن کسی نوعیت کی غرض سے جڑی ہوتی ہے۔ اسے ک روب ری اور ت جری تھرل ک ن دی ج سکت ہے۔ چ لیس پیت لیس س ل پہ ے کی ب ت
ہے۔ میں بےغ ہجور کے کسی حک پر گھر سے ب ہر آی ۔ ایک دوک ن دار ک روب ری مصروفیت کے س تھ س تھ ریڈیو بھی سن رہ تھ ۔ ریڈیو :پر امیر خسرو ک یہ کال نشر ہو رہ تھ نمی دان چہ منزل بود ش ج ئے کہ من بود میرے قد وہیں رک گئے اور بےغ ہجور ک حک ایک د سے ص ر ہو گی ۔ اس کی م نویت اور فوری ضرورت فن کی وادی میں ج بسی۔ سڑک کن رے کڑی دھوپ ک احس س ہوئے بغیر کال سنت رہ ۔ ج کال خت ہوا تو مجھے گرمی ک شدت سے احس س ہوا ت ہ یہ بھول گی کہ گھر سے کس ک کے لیے آی ہوں۔ غن کی اس ح لت میں‘ میں ک احس س د توڑ گی تھ ۔ ان لمحوں میں تو کے سوا کچھ بھی نہ تھ ۔ غن کی اس صورت میں وجود کے س رے سل تھرل میں آ ج تے ہیں۔ تندرست سل اپنی جگہ ک زور‘ بیم ر‘ الغر‘ مدہوش یہ ں تک کہ مردہ سل بھی حرکت میں آ ج تے ہیں۔ حضرت داؤد ع یہ السال ج کال الہی پڑھتے تو پرندے تک مزید پرواز سے م ذور ہو ج تے۔ بالشبہ ان کی آواز میں ج دو رہ ہو گ لیکن اس آواز میں کہے گئے کو بہرصورت کریڈٹ ج ت ہے۔ ایسے ہی نہیں کہ ج ت کہ ل ظ اپنی م نویت کے حوالہ سے ہی زندہ رہت ہے۔ جوں ہی آلودہ ہوت ہے جبر زب ن کو تو اپن کر سکت ہے لیکن ہردے اس کی گرفت سے ہزاروں کوس دور رہت ہے۔ جبر کی گرفت جوں ہی ک زور پڑتی ہے آلودہ اپنی موت آپ مر ج ت ہے۔ غن ک یہ حوالہ بھی خدا س لگنے لگت ہے‘ ت ہی کے قری تر چال ج ت ہے۔۔ اس خدا س لگنے میں بھی یہ حقیقت پنہ ں ہے کہ شخص چوں کہ میں کی حودود میں نہیں ہوت اور یہ کی یت اختی ری نہیں فطری ہوتی
ہے اسی وجہ سے غن خدا س لگنے لگت ہے۔ ارشد حکی محکمہ پولیس میں سہی اور دیکھنے میں مولوی س نہیں‘ مولوی ہے۔ دونوں ادارے میں کی بستی کے ب سی تھے اور ب سی ہیں لیکن یہ ہ تھی کے دانت دیکھ نے کے اور کھ نے کے اور کے‘ کی عمومی ت ہی کے قط ی برعکس ہے۔ اس کے کردار و عمل میں تصوف ج وہ گر ہے۔ صوفی خود کو ظ ہر نہیں کرت اور ن ہی اپنے صوفی ہونے ک اقرار کرت ہے۔ عجز وانکس ر اس ک وتیرہ رہ ہے۔ دع ہے‘ هللا کری اس کے ع اور ق بی کی ی ت کو اپنی عط ؤں سے سرفراز رکھے۔ آمین
ہ اسال کے م ننے والے ہیں' پیروک ر نہیں میں عرصہ سے حیران تھ کہ مس م ن دنی کی ایک کثیر آب دی ہونے کے ب وجود ذلت وخواری زیردستی اور قرض کے چنگل میں کیوں گرفت ر ہیں۔ اگر کوئ سر اٹھ ت ہے تو اٹھنے واال سر ک سڑ سے ق کر دی ج ت ہے ی پھر پ بندی ں لگ دی ج تی ہیں۔ کوئ اس قہر و غص پر چوں بھی نہیں کر پ ت ۔ میرے ذہن میں یہ سوال بھی اٹھ کی اکثریت کی کوئ م نویت نہیں۔ اگر اکثریت م نویت سے تہی ہے تو پھر جمہوریت محض ایک پ کھنڈ ہے۔ اگر جمہوریت ایک ڈرامہ ہے تو ہ اس میں اپنی بق کیوں خی ل کرتے ہیں۔
ایک سوال نے پھر جن لی ‘ کی جمہوریت کوئ پروگرا بھی دیتی ہے۔ اس ک جوا یقین ن ی میں ہے۔ اگر جمہوریت کوئ پروگرا نہیں دیتی ی اس ک اپن ذاتی کوئ پروگرا نہیں ہے تو کی جمہوریت میں ترقی کی تالش کھ ی حم قت نہیں۔ غیر مس جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں تو یہ ان کے سم جی اور مذہبی سٹ اپ سے لگ رکھتی ہو گی وہ اسے شو سے گ ے ک ہ ر بن ءیں۔ کسی مس کو اس پر اعتراض کرنے ک بھال کی ح ہے۔ انھیں اپنی مرضی اور ضرورت کی زندگی گزارنے ک ح ہے۔ اسال میں تقوی پرہیزگ ری اور عمل ص لح کو اہمیت ح صل ہے۔ اگر کوئ مزدور ہے لیکن یہ تینوں امور رکھت ہے تو ری ستی ام رت ک اس شخص سے زی دہ کون مستح ہے۔ جو بے پن ہ دولت ط قت ی ڈرانے دھمک نے اور دب ؤ ڈالنے کی پوزیشن میں ہے لیکن قول و ف ل کے حوالہ سے ف س و ف جر ہے وہ یہ ح نہیں رکھت ۔ گوی اس کی دولت اور ط قت کوئ م نوت نہیں رکھتی۔ میں نے بڑا غور کی ہے اکثریت کی کوئ م نویت نہیں۔ انس نی ترقی اور بق کی ض من کوئ اور چیز ہے۔ اؤل اؤل مسم ن ت داد میں ن ہونے کے برابر تھے لیکن ک می بی سے ہ کن ر ہوتے تھے۔ نم ز روزہ حج زکوتہ وغیرہ واجب ت وہ بھی سر انج دیتے تھے ہ بھی ان واجب ت کی اداءگی سے سرخرو ہونے کی کوشش کرتے ہیں قری نی بھی بڑے جوش و جذبے سے دیتے ہیں تو پھر ن ک ون مراد کیوں ہیں؟ موجودہ صورت ح ل کے حوالہ سے سوال اٹھت ہے کی مس م ن ہونے کے م م ہ میں ان امور کی اداءگی ک فی نہیں؟! اگر مس م ن ہونے کے لیے یہ واجب ت ک فی ہوتے تو آج ہ دنی میں سرب ند ن سہی ب عزت ضرور ہوتے۔
اسال ک ت
عم ی زندگی سے ہے۔ اسال ک تق ض ہے کہ
تم مس م ن بال کسی تمیز وامتی ز آپس میں بھ ئ بھ ئ ہیں لیکن ہ میں بھ ئ چ رہ سرے سے موجود نہیں۔ رنگ نسل زمین زب ن اور عقیدہ کے حوالہ سے ایک دوسرے سے کوسوں دور ہیں۔ ہم رے م شی اور نظری تی م دات ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ کوئ ظ ل کسی مس م ن کو پھڑک ت ہے تو ہ س تھ دینے ی ک از ک بچ بچ ؤ کرانے کی بج ءے ظ ل کی طرف داری ہی نہیں مس م ن کو مزید ازیت دینے کے لیے ظ ل ک س تھ دیتے ہیں اور اس کے ف ل بد کو درست ث بت کرنے کے وہ وہ دالءل گھزتے ہیں جن ک خود ظ لمکو ع نہیں ہوت ۔ اسال میں کسی کو زب ن ی ہ تھ سے دکھ اور تک یف دینے کی اج زت نہیں لیکن ہمیں اوروں کو ان دونوں حوالوں سے دکھ اور تکیف دے کر خوشی ہی نہیں سرش ری ہوتی ہے۔ اسال میں بدال لینے کی مم ن ت نہیں اور ن ہی دوسرا گ ل پیش کر دینے ک حک دی گی ہے۔ بدال لینے ک پورا پورا ہر کسی کو ح ح صل ہے ہ ں م ف کر دینے میں بڑھ کر اجر رکھ دی گی ہے۔ ہم رے پ س م فی ن کی چیز ہی نہیں۔ ہ ن کردہ جر کی سزا دینے کے بھی ق ءل ہیں۔ ایک شخص جر نہیں کرت یہ اس ک قصور ہے اس میں اذیت پسند ک کی قصور ہے۔ چونکہ وہ کمزور ہے لہذا اسے بہرطور سزا اور ازیت سے ب التر نہیں رکھ ج سکت ۔ اسال میں رشتہ دار تو الگ دشمن اور غیر مس ہمس یہ بھی بھوک نہیں سو سکت اس کے ب رے میں ہ سے روز حشر سوال ہو گ ۔ ہ اپنے سوا کسی اور کو پیٹ بھر کھ ت دیکھ ہی نہیں سکتے۔ ہم ری کوشش ہوتی ہے کہ اس کے منہ ک لقمہ بھی چھین لیں۔ رہ گئ قی مت
کی ب ت وہ ہمیں ی د تک نہیں۔ ہ موجودہ حی ت ہی کو س کچھ سمجھ بیٹھے ہیں۔ اسال چوری کی اج زت نہیں دیت ۔ ہر بڑا آدمی ٹیکس کی چوری اپن بنی دی ح سمجھت ہے۔ یہ چیز گریبوں سے مت ہے۔ بڑے قرضوں کی م فی کو اپن ق نونی ح سمجہتے ہیں جبکہ گری کی سنگی پر انگوٹھ رکھ کر قرض وصول کر لی ج ت ہے۔ ط قتور بج ی کی چوری کو چوری نہیں سمجھت ۔ خود واپڈا والے اس ک ر خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ کی کریں اپنے پیٹ کے عالوہ ب ال افسروں کے پیٹ کی ذمہ داری بھی ان کے سر پر ہوتی ہے۔ اسال جھوٹ اور جھوٹے پر ل نت بھیجت ہے۔ ہ اور ہم ری جمہوریت سچ اور سچے کو مجر ٹھہراتی ہے۔ سچ بولن ی سچ کی حم یت کرن آج ک س سے بڑا جھوٹ ہے۔ اسال ح دار کو اس ک ح دینے کی ت کید کرت ہے۔ یہ ں ح دار کو ح دین ح نہیں رہ ۔ ح دار وہی ہوت ہے جو پال جھ ڑت ہے۔ ہسپت ل ہو ی کوئ بھی دفتر بال دے داال کے ح مل نہیں سکت ۔ ست یہ کہ دے داال ن ح کو ح کے درجے پر ف ءز کر دیت ہے۔ میں نے یہ ں محض چند ب توں ک ذکر کی ہے ورنہ اسال انس ن کی زندگی سے مت ہر م م ے میں اپن پروگرا دیت ہے۔ اس حوالہ سے دیکھ ج ءے تو یہ ب ت کھ تی ہے نم ز روزہ حج زکواتہ قرب نی وغیرہ کی اداءگی مس م ن ہونے کے لیے ک فی نہیں۔ مسم ن ہونے کے لیے اسال کے دیے پروگرا کو عم ی زندگی ک حصہ بن ن بھی ضروری ہے۔ ہ اسال اور اس کے مت ق ت کو م ننے والے ہیں۔ ب لکل اسی طرح جس طرح ہ قدی انبی ء اور تم الہ می کت کو م نتے ہیں۔ م نن
اور عمل کرن دو الگ ب تیں ہیں۔ م ننے والے کو کوئ بھی ن دے دیں۔ ہ اسال اور اس کے مت ق ت کے پیروک ر نہیں ہیں۔ میں کوئ ع ل ف ضل شخص نہیں ہوں سیدھی س دی ک یے کی ب ت کر رہ ہوں۔ میرا اصرار ہے کہ ہ اسال کو م ننے والے لوگ ہیں اسال کی پیروی سے ہم را دور ک بھی رشتہ نہیں۔ ہم ری ک می اور ظ رمندی کی زندگی ک آغ ز اس وقت ہو گ ج ہ اسال کے پروگرا کو م ننے کے س تھ س تھ اس کی پوری دی نت داری سےپیروی کریں گے۔
عربی کے اردو پر لس نی تی اثرات ایک ج ئزہ ح ک زب نیں' محکو عالقوں کی زب نوں اور بولیوں پر' اثر انداز ہوتی ہیں۔ ہ ں البتہ' انہیں محکو زب نوں اور بولیوں کے نحوی سیٹ اپ کو' ابن ن پڑت ہے۔ ان کے بولنے والوں ک لہجہ' اندازتک ' اظہ ری اطوار اور کال کی نوعیت اور فطری ضرورتوں کو بھی' اختی ر کرن پڑٹ ہے۔ یہ ہی نہیں' م نویت کے پیم نے بھی بدلن پڑتے ہیں۔ اس کے سم جی' م شی اور سی سی ح الت کے زیر اثر ہون پڑت ہے۔ شخصی اور عالق ئی موسموں کے تحت' تشکیل پ ئے' آالت نط اور م ون آالت نط کو بہرصورت' مدنظر رکھن پڑت ہے۔ قدرتی ' شخصی ی خود سے' ترکی شدہ م حول کی حدود میں رہن پڑت ہے۔ نظری تی' فکری اور مذہبی ح الت و ضرورت کے زیراثر رہن پڑت ہے۔ اسی طرح' بدلتے ح الت' نظرانداز نہیں ہو پ تے۔ یہ ب ت پتھر پر لکیر سمجھی ج نی چ ہیے' کہ ل ظ چ ہے ح ک زب ن ہی ک کیوں نہ ہو' اسے است م ل کرنے
والے کی ہر سطع پر' انگ ی پکڑن پڑتی ہے' ب صورت دیگر' وہ ل ظ اپنی موت آپ مر ج ئے گ ۔ عربی بڑا ب د میں' برصغیر کی ح ک زب ن بنی۔ مسم نوں کی برصغیر میں آمد سے بہت پہ ے' برصغیر والوں کے' عربوں سے مخت ف نوعیت کے ت ق ت استوار تھے۔ یہ ت ق ت عوامی اور سرک ری سطح پر تھے۔ عربوں کو برصغیر میں' عزت اور قدر کی نگ ہ سے دیکھ ج ت تھ ۔ عربوں نے' یہ ں گھر بس ئے۔ ان کی اوالدیں ہوئیں۔ دور امیہ میں س دات اوران کے ح می یہ ں آ کر آب د ہوئے۔ 44ھ میں زبردست لشکرکشی ہوئی۔ ن ک می کے ب د' بچ رہنے والے بھی' یہ ں کے ہو کر رہ گیے۔ محمد بن ق س اوراس کے ب د' برصغیر عربوں ک ہو گی ۔ اس س رے عمل میں' جہ ں سم جی اطوار درآمد ہوئے' وہ ں عربی زب ن نے بھی' یہ ں کی زب نوں اور بولیوں پر' اپنے اثرات مرت کیے۔ یہ س ' الش وری سطح پر ہوا اور کہیں ش وری سطح پر بھی ہوا۔ دوسری سطح' لس نی عصبیت سے ت رکھتی ہے۔ مخدومی و مرشدی حضرت سید غال حضور الم روف ب ب جی شکرهللا کی ب قی ت میں سے' ت سیرالقران ب لقران کی تین ج دیں دستی ہوئیں۔ اس کے مولف ڈاکٹر عبدالحکی خ ں ای بی ہیں۔ اسے مطبح عزیزی مق تراوڑی ض ع کرن ل نے' ب اہتم فتح محمد خ ں منیجر 1901ء میں ش ئع کی ۔ اسے دیکھ کر' ازحد مسرت ہوئی۔ یک د خی ل کوندا' کیوں نہ اس کی زب ن کے' کسی حصہ کو' عصری زب ن کے حوالہ سے دیکھ ج ئے۔ اس کے لیے میں نے' سورت ف تحہ ک انتخ کی ۔ ت سیر
کی زب ن کے دیگر امور پر' ب د ازاں گ تگو کرنے کی جس رت کروں گ ' سردست عربی کے اردو پر لس ی تی اثرات ک ج ئزہ لین مقصود ہے۔ تسمیہ کے ال ظ میں سے' اس ' هللا' رحمن اور رحی رواج ع میں داخل ہیں اور ان ک ' ب کثرت است م ل ہوت رہت ہے۔ سورت ف تحہ میں :حمد' هلل' ر ' ع لمین' رحمن' رحی ' م ک' یو ' دین' عبد' صراط' مستقی ' ن مت' مغضو ' ' ض لین ....غیر' و' ال' ع یہ ایسے ال ظ ہیں' جو اردو والوں کے لیے غیر م نوس نہیں ہیں۔ ع م نے ان ک ترجمہ بھی کی ہے۔ ترجمہ کے ال ظ' اردو مترف ت کی حیثت رکھتے ہیں۔ اس ' کسی جگہ' چیز' شخص ی جنس کے ن کو کہ ج ت ہے۔ یہ ں بھی .ن کے لیے است م ل ہوا ہے۔ ی نی هللا کے ن سے تکیہءکال بھی ہے' کوئی گر ج ئے ی گرنے لگے' تو بےس ختہ منہ سے بس هللا نکل ج ت ہے۔ حمد' اردو میں ب ق عدہ ش ری صنف اد ہے اور هللا کی ذات گرامی کے لیے مخصوص ہے۔ ڈاکٹر عبدالحکی خ ن' مولوی بشیر احمد الہوری' مولوی فرم ن ع ی' مولوی محمد جون گڑھی' ش ہ عبدالق در محدث دہ وی' مولوی سید مودودی' مولوی اشرف ع ی تھ نوی اور س ودی ترجمہ ت ریف کی گی
ہے۔ definitionکے لیے بھی مخصوص ہے اور رواج ع میں ہے۔ ت ریف کہ ج ت ہے' درج ذیل اصن ف کی ت ریف کریں اور دو دو مث لیں بھی دیں۔ ش ہ ولی هللا دہ وی نے' اپنے ف رسی ترجمہ میں' حمد کے لیے' ل ظ ست ئش است م ل کی ہے۔ ل ظ ست ئش ردو میں مست مل ہے۔ مولوی فیروزالدین ڈسکوی نے' خوبی ں ترجمہ کی ہے۔ گوی حمد کو برصغیر میں ت ریف ست ئش اور خوبی ں کے م نوں میں لی گی ہے۔ س ودی عر کے ترجمے میں بھی حمد کے لیے ت ریف مترادف لی گی ہے۔ :قمر نقوی کے ہ ں اس کے است م ل کی صورت دیکھیں میں تیری حمد لکھن چ ہت ہوں جو ن مکن ہے کرن چ ہت ہوں تری توصیف۔۔۔۔اک گہرا سمندر سمنر میں اترن چ ہت ہوں قمر نقوی نے اس کے لیے مترادف ل ظ توصیف دی ہے۔
ڈاکٹر عبدالحکی خ ن نے ص 23پر' ایک ش ر میں ل ظ حمد ک :است م ل کچھ یوں کی ہے حمد الہی پر ہیں مبنی س ترقی ت روح اس سے ہی پیدا ہوتی ہیں س ری تج ی ت روح هلل کو' هللا کے لیے' کے م نوں میں س نے لی ہے۔ ف رسی میں ش ہ ولی هللا دہ وی نے برائے هللا' ترجمہ کی ۔ یہ بھی هللا کے لیے' کے مترادف ہے۔ هلل' ب طورتکیہءکال رائج ہے۔ هللا کے لیے' ب طورتکیہءکال بھی رواج میں ہے۔ خدا کے لیے' خ گی ی غصے کی ح لت میں اکثر بوال ج ت ہے۔ مثال خدا کے لیے چپ ہو ج ؤ۔ خدا کے لیے' استدع کے لیے بھی بوال ج ت ہے۔ مثال خدا کے لیے ا م ن بھی ج ؤ۔ :ر ڈاکٹرعبدالحکی خ ن نے ترجمہ ر ہی ترجمہ کی ہے۔ مولوی محمد فیروزالدین ڈسکوی نے بھی ر کے ترجمہ میں ر ہی
لکھ ہے۔ یہ ل ظ ع است م ل میں آت ۔ مثال وہ تو ر ہی بن بیٹھ ہے۔ بندہ کی دے گ ' ر سے م نگو توں ر ایں۔۔۔۔۔۔ ب طور سوالیہ ش ہ عبدالق در محدث دہ وی' مولوی محمد جون گڑھی' مولوی فرم ن ع ی نے پ لنے واال ترجمہ کی ہے س ودی ترجمہ بھی پ لنے واال ہے۔ مولوی اشرف ع ی تھ نوی نے مربی مترادف درج کی ہے۔ مربی پ لنے والے ہی کے لیے است م ل ہوت ہے۔ مہرب ن' خی ل رکھنے والے' توجہ دینے والے' کسی قریبی کے لیے بولنے اور لکھنے میں مربی آت ہے۔ ش ہ ولی هللا دہ وی اور مولوی بشیر احمد الہوری نے ر ک ترجمہ پروردگ ر کی ہے۔ پروردگ ر' ذرا ک ' لیکن بول چ ل میں ش مل ہے۔ گوی اردو میں یہ ل ظ غیر م نوس نہیں۔ ع مین' ع ل کی جمع ہے۔ ہر دو صورتیں' اردو میں مست مل ہیں۔ پنج کی سٹریٹ لنگوئج میں زبر کے س تھ بول کر' مولوی ص ح ی ع دین ج ننے واال مراد لی ج ت ہے۔ جہ ن بھی مراد لیتے ہیں۔
قرآن مجید کو دو جہ نوں ک ب دش ہ بوال ج ت ہے۔ ڈاکٹر عبدالحکی خ ں نے' ع مین ک جہ نوں ترجمہ کی ہے۔ مولوی محمد جون گڑھی کے ہ ں اور س ودی ترجمہ بھی جہ نوں ہوا ہے۔ ش ہ عبدالق در' مولوی محمد فیروزالدین اور مولوی فرم ن ع ی نےس رے جہ نوں ترجمہ کی ہے۔ مولوی اشرف ع ی تھ نوی نے ہر ع ل ترجمہ کی ہے۔ مولوی بشیر احمد الہوری نے کل دنی ' مولوی مودودی نے ک ئن ت' ج کہ ش ہ ولی هللا کے ہ ں ف رسی میں ع ل ہ ترجمہ ہوا ترجمے سے مت تم ال ظ' اردو میں مست ل ہیں۔ ہ رواج میں نہیں رہ ' ہ ں البتہ ہ ئے رواج میں ہے۔ جیسے انجمن ہ ئے امداد ب ہمی اردو بول چ ل میں ع لموں' ع لم ں بھی پڑھنے سننے میں آتے ہیں۔ ن بھی رکھے ج تے ہیں۔ جیسے ع ل ش ہ' نور ع ل ب طور ٹ ئیٹل بھی رواج میں ہے۔ جیسے فخر ع ل ' فخر دو ع ل ل ظ رحمن' عمومی است م ل میں ہے۔ ن بھی رکھے ج تے ہیں۔ مثال .عبد الرحمن' عتی الرحمن فیض الرحمن' فضل الرحمن وغیرہ ڈاکٹر عبدالحکی خ ں نے رحمن ک ترجمہ' ل ظ کے عمومی بول چ ل میں مست مل ہونے کے سب ' رحمن ہی کی ہے۔
مولوی سید مودودی نے بھی' رحمن ک ترجمہ رحم ن ہی کی ہے۔ مولوی محمد فیروزالدین نے' رحمن ک ترجمہ مہرب ن کی ہے۔ مولوی محمد جون گڑھی کے ہ ں' رحمن ک ترجمہ' بخشش کرنے واال ہوا ہے۔ ش ہ ولی هللا نے' ف رسی ترجمہ بخش یندہ کی ہے' جو بخشش کرنے واال ہی ک مترادف ہے۔ بخش یندہ اردو میں مست مل نہیں ت ہ بخشنے واال' بخش دینے واال' بخشش کرنے واال' بخشن ہ ر وغیرہ غیر م نوس نہیں ہیں۔ بخشیش خیرات کے لیے بھی' بوال ج ت ہے۔ ش ہ عبدالق در' مولوی اشرف ع ی تھ نوی' مولوی احمد رض خ ں بری وی' مولوی بشیر احمد الہوری' مولوی فرم ن ع ی نے رحمن ک ترجمہ مہرب ن کی ہے۔ س ودی ترجمہ بھی مہرب ن ہے۔ ل ظ رحی ' اردو میں غیر م نوس نہیں۔ اشخ ص کے ن بھی رکھے ج تے ہیں .جیسے عبدالرحی ۔ اسی تن ظر میں ڈاکٹر عبدالحکی خ ں نے رحی ک ترجمہ رحی ہی کی ہے۔ مولوی سید مودودی نے بھی' اس ک ترجمہ رحی ہی کی ہے۔ ش ہ عبدالق در' مولوی اشرف ع ی تھ نوی' مولوی احمد رض خ ں بری وی' مولوی بشیر احمد الہوری' مولوی فرم ن ع ی' مولوی محمد فیروزالدین نے رح واال ترجمہ کی ہے۔
ش ہ ولی هللا دہ وی اور مولوی محمد جون گڑھی نے رحی ک ترجمہ مہرب ن کی ہے۔ ل ظ م لک' م کیت والے کے لیے' ع بول چ ل میں ہے .جیسے م لک مک ن ی وہ پ نچ ایکڑ زمین ک م لک ہے۔ بیشتر ترجمہ کنندگ ن نے' اس ک ترجمہ م لک ہی کی ہے۔ ہ ں مولوی فرم ن ع ی نے اس ک ترجمہ ح ک کی ہے۔اشخ ص کے ن بھی' سننے کو م تے ہیں .مثال عبدالم لک' محمد م لک ڈاکٹر عبدالحکی خ ں' مولوی محمد جون گڑھی' مولوی فیروز الدین' مولوی اشرف ع ی تھ نوی' ش ہ عبدالق در' مولوی احمد رض خ ں بری وی' مولوی سید مودودی نے اس ک ترجمہ م لک ہی کی ہے۔ س ودی ترجمہ بھی م لک ہی ہے۔ اس سے ب خوبی اندازہ کی ج سکت ہے کہ ل ظ م لک کس قدر عرف ع میں ہے۔ ل ظ یو ' ع است م ل ک ہے۔ مرک است م ل بھی سننے کو م تے ہیں۔ مثال یو آزادی' یو شہدا' یو ع شورہ' یو حج وغیرہ ڈاکٹر عبدالحکی خ ں نے' یو ک ترجمہ یو ہی کی ہے۔ مولوی سید مودودی نے بھی یو ک ترجمہ یو ہی کی ہے۔ مولوی فیروز الدین' مولوی محمد جون گڑھی' مولوی بشیر احمد .الہوری نے اس ک ترجمہ دن کی ہے س ودی ترجمہ بھی دن ہی ہوا ہے۔
ش ہ ولی هللا' ش ہ عبدالق در' مولوی اشرف ع ی تھ نوی' مولوی احمد رض خ ں بری وی' مولوی فرم ن ع ی نے یو ک ترجمہ روز کی ہے۔ ل ظ دین' مذہ کے م نوں میں ع است م ل ک ہے۔ مرک بھی است م ل ہوت ہے۔ مثال دین محمدی' دین اسال ' دین دار' دین دنی وغیرہ ن موں میں بھی مست مل ہے۔ مثال احمد دین' دین محمد' چرا دین ام دین وغیرہ دین دار ایک ذات اور قو کے لیے بھی مخصوص ہے۔ دین کے م نی رستہ بھی لیے ج تے ہیں۔ ڈاکٹر عدالحکی خ ں نے' اس ل ظ کو' جزا کے م نوں میں لی ہے۔ ش ہ ولی هللا دہ وی' ش ہ عبدالق در' مولوی سید مودودی' مولوی اشرف ع ی تھ نوی' مولوی احمد رض خ ں بری وی' مولوی فرم ن ع ی نے ل ظ دین کو جزا کے م نوں میں لی ہے۔ مولوی محمد جون گڑھی نے' ل ظ دین ک ترجمہ قی مت کی ہے۔ مولوی محمد قیروز الدین اور مولوی بشیر احمد الہوری نے' ل ظ دین کو انص ف کے م نوں میں لی ہے۔ س ودی ترجمے میں' اس ک ترجمہ بدلے ک ' ج کہ قوسین میں قی مت درج ہے' م نی لیے گیے ہیں۔
ل ظ عبد' اردو میں عمومی است م ل ک نہیں' ت ہ اشخ ص کے ن موں میں ب کثرت است م ل ہوت ہے۔ مثال عبدهللا' عبدالق در' عبداعزیز' عبدالکری ' عبدالرحم ن' عبدالقوی وغیرہ ن بد ک ڈاکٹر عبدالحکی ' مولوی فیروز الدین' مولوی محمد جون گڑھی' مولوی سید مودودی' مولوی فرم ن ع ی' مولوی اشرف ع ی تھ نوی نے ترجمہ عب دت کی ہے۔ س ودی ترجمے میں بھی م نی عب دت لیے گیے ہیں۔ مولوی احمد رض خ ن نے پوجھیں ترجمہ کی ہے۔ ش ہ عبدالق در اور مولوی بشیر احمد الہوری نے بندگی م نی دیے ہیں۔ ش ہ ولی هللا دہ وی نے' اپنے ف رسی ترجمہ میں می پرستی م نی دیے ہیں۔ ل ظ پرست' پرستی' پرستش اردو والوں کے لیے اجنبی نہیں ہیں' ب کہ بول چ ل میں موجود ہیں۔ ل ظ صراط' اردو میں ع است م ل ک نہیں' لیکن غیر م نوس بھی نہیں۔ مرک پل صراط ع بولنےاور سننے میں آت ہے۔ لوگ اس امر سے آگ ہ نہیں' یہ دو الگ چیزیں ہیں۔ ڈاکٹر عبدالحکی خ ن' مولوی اشرف ع ی تھ نوی' مولوی احمد رض خ ں بری وی اور مولوی سید مودودی نے' اسے رستہ کےم نی دیے ہیں۔ ش ہ ولی هللا دہ وی' ش ہ عبدالق در' مولوی محمد فیروزالدین' مولوی محمد جون گڑھی' مولوی بشیر احمد الہوری اور مولوی فرم ن ع ی نے
صراط ک ترجمہ راہ کی ہے۔ س ودی ترجمہ بھی راہ ہی ہوا ہے۔ ل ظ مستقی ' عمومی است م ل میں نہیں۔ ن کے لیے است م ل ہوت آ رہ ہے۔ جیسے محمد مستقی اسی طرح' خط مستقی جیویٹری کی اصطالح سننے میں آتی ہے۔ ڈاکٹر عبدالحکی خ ن' مولوی اشرف ع ی تھ نوی' مولوی احمد رض خ ں بری وی' اور مولوی سید مودودی نے' سیدھ ترجمہ کی ہے۔ صراط مستقی بم نی سیدھ رستہ مولوی محمد جون گڑھی' مولوی بشیر احمد الہوری اور مولوی فرم ن ع ی نے سیدھی ترجمہ کی ہے۔ س ودی ترجمہ بھی سیدھی ہوا ہے لیکن قوسین میں سچی درج کی گی ہے۔ صراط مستقی ی نی سیدھی راہ ش ہ ولی هللا دہ وی نے' اس کے لیے ل ظ راست است م ل کی ہے۔ صراط مستقی ی نی راہ راست ان مت' ن مت سے ہے۔ ل ظ ن مت' بولنے اور لکھنے پڑھنے میں است م ل ہوت آ رہ ہے۔ پنج بی میں اسے نی مت روپ مل گی ہے۔ ن بھی رکھے ج تے ہیں جیسے ن مت ع ی' ن مت هللا
ڈاکٹر عبدالحکی خ ن' مولوی اشرف ع ی تھ نوی' مولوی محمد جون گڑھی اور مولوی سید مودودی نے' اس ک ان ترجمہ کی ہے۔ س ودی ترجمہ میں بھی ان
است م ل میں آی ہے۔
ش ہ عبدالق در' مولوی محمد فیروزالدین اور مولوی بشیر احمد الہوری نے اس ک ترجمہ فضل کی ہے۔ مولوی فرم ن ع ی نے ن مت' احمد رض خ ں بری وی نے احس ن' ج کہ ش ہ ولی هللا دہ وی نے اسے اکرا م نی دیے ہیں۔ ان
و اکرا عمومی است ل ک مرک ہے۔
مغضو ' اردو میں است م ل نہیں ہوت ' ت ہ اس ک روپ غض ' اردو میں ع است م ل ہوت ہے۔ مولوی محمد فیروزالدین' مولوی بشیر احمد الہوری' مولوی محمد جون گڑھی' مولوی احمد رض خ ں بری وی اور مولوی فرم ن ع ی نے غض کے م نی لیے ہیں۔ س ودی ترجمہ میں بھی غض مراد لی گی ہے۔ ش ہ عبدالق در نے غصہ' ج کہ مولوی سید مودودی نے عت لیے ہیں۔
م نی
ش ہ ولی هللا دہ وی نے' اپنے ف رسی ترجمہ میں خش م نی لیے ہیں۔ ض لین' ضاللت سے ہے۔ اردو میں یہ ل ظ' ع بول چ ل میں نہیں۔ ہ ں البتہ ذاللت عمومی است م ل میں ہے۔ ضاللت لکھنے میں آت رہ ہے۔
ش ہ عبدالق در اور ڈاکٹر عبدالحکی خ ن نے گمراہ' مولوی محمد جون گڑھی ' مولوی محمد فیروزالدین' مولوی بشیر احمد الہوری اور مولوی فرم ن ع ی نے گمراہوں ترجمہ کی ہے۔ مولوی احمد رض خ ں بری وی نے بہکن م نی مراد لیے ہیں۔ مولوی سید مودودی نے' بھٹکے ہوئے ترجمہ کی ہے۔ س ودی ترجمہ گمراہی ہوا ہے۔ ش ہ ولی هللا دہ وی نے گمراہ ن ترجمہ کی ہے۔ ان کے عالوہ' چ ر ل ظ اردو میں ب کثرت است م ل ہوتے ہیں ع یہ :ک مہء احترا کے دوران' جیسے حضرت داؤد ع یہ اسال ........مدع ع یہ' مکتو ع یہ وغیرہ غیر :نہی ک س بقہ ہے' جیسے غیر محر ' غیر ارادی' غیر ضروری' غیر منطقی وغیرہ ال :نہی ک س بقہ ہے' جیسے الح صل' الع ' ال ی نی' الت
وغیرہ
و :و اور کے م نی میں مست مل چال آت ہے۔ مثال ش و روز' رنگ ونمو' ش ر وسخن' ق
ونظر وغیرہ
کمشنر و سپرنٹنڈنٹ' منیجر و پرنٹر وغیرہ درج ب ال ن چیز سے ج ئزے کے ب د' یہ اندازہ کرن دشوار نہیں رہت ' کہ
عربی نے اردو پر کس قدر گہرے اثرات مر ت کیے ہیں۔ مس م نوں ک حج اور کئی دوسرے حوالوں سے' اہل عر سے واسظہ رہت ہے۔ اس لیے مخت ف نوعیت کی اصطالح ت ک ' اردو میں چ ے آن ' ہر گز حیرت کی ب ت نہیں۔ روزمرہ کی گ ت گو ک ' تجزیہ کر دیکھیں' کسی ن کسی شکل میں' کئی ایک لقظ ن دانسہ اور اظہ ری روانی کے تحت' بولے چ ے ج تے ہیں۔ مکتوبی صورتیں بھی' اس سے مخت ف نہیں ہیں۔