مسٹر اردو کی نثر اور ش عری تنقیدی ج ئزہ تحریر پروفیسر محمد رض مدنی پرنسپل‘ گورنمنٹ ک لج‘ منچن آب د پ کست ن فری ابوزر برقی کت خ نہ مئی
مسٹر اردو کی نثر اور ش عری :تنقیدی ج ئزہ مسٹر اردو کی تحریریں س دہ آس ن اور ع فہ ہوتی ہیں جسے سمجھنے کے لیے کسی ف س نہ ی ع لم نہ لی قت کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس ذیل میں مث لیں بھی س دہ ،ع فہ اور روز مرہ کی زندگی سے دیتے ہیں .ت ریخ سے بھی اپنے نظریے کی سچ ئی ث بت کرتے ہیں مثال رومن رس الخط ک ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں؛ فوج مں رومن رس الخط رائج تھ ۔ انگریز ،اردو اوردیونگری رس الخط نہیں ج نت تھ ۔ محکم نہ ترقی کے لئے رومن اردو اور میپ رڈنگ کے امتح ن پ س کرن ضروری تھے۔ یہ س س ہ پ کست ن بننےکے ب د ٤ء تک ج ری رہ اس کے ب د ک مجھے ع نہیں۔ اسی طرح جو ای فل اور پی ایچ ڈی کے داخ ہ کے لئے ٹیسٹ پ س کرن ضروری قرار دی گی ہے جس کو جنرل ٹیسٹ ک ن دی گی ہے۔ اس سے مت تحریر ک عنوان....آگہی کی راہ میں پتھر ....رکھ کر بہت سی ب تیں کہھ دی ہیں انہوں نے اسے کم ئی ٹیسٹ ک ن دی ہے۔ اپنی ایک تحریر میں لوگوں کے ہنر او تجربے سے است دہ' کو م کی ترقی ک وسی ہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے خی ل میں انگریزی کی الزمی ت ی کے ذری ے لوگوں کو ن خواندگی کی دلدل میں دھکیال ج رہ ہے۔ اس ظ پر انص ف پر مبنی بحث کی ہے۔ بل
کہ اس ک من س اور ق بل عمل حل بھی پیش کی ہے۔ ع طور پر لوگ مرض تو بت تے ہیں مگر اس ک عالج نہیں بت تے' مسٹر اردو نے اس ک حل بھی تجویز کی ہے۔ لکھتے ہیں۔ ہ ں البتہ اسن د کے اجراء ک ایک م ی ر بن ی ج سکت ہے .مثال میٹرک کے لئے مت قہ ہنر ک دو س لہ تجربہ +دو ہزار ال ظ کی ان کی اپنی زب ن میں تحریر' اٹنرمیڈیٹ کے لئے' میٹرک +مت قہ ہنر ک چ ر س لہ تجربہ +پ نچ ہزار ال ظ پر مبنی ان کی اپنی زب ن تحریر ہے۔ انگری زب ن کے حوالہ سے بحث کرتے ہوئے لکھ ہے کہ انگریزی دنی کی بہترین زب ن نہیں ہے کہ اس کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ مسٹر اردو اس نظریے کو ب لکل تس ی نہیں کرتے اور اس س س ے میں لکھتے ہیں کہ برصغیر میں مخت ف قس کے لوگ آئے اور ان کی زب ن کے مت بھی اس قس کی ب تیں کی گئی تھیں۔ جوسچ ث بت نہیں ہوتی ہیں۔ لوگوں کے س تھ س تھ ان کی زب نیں بھی خت ہو گئی ہیں پھر انگریزی زب ن کی خ میوں ک ذکر کرتے ہوئے مسٹر اردو لکھتے ہیں کہ نہ یت اہ آوازیں چ اور ش اس میں نہیں ہیں۔ اگرچہ کچھ انگریزی مرکب ت ضرور موجود ہیں جو یہ آوازیں پیدا کرتے ہیں مگر ان مرکب ت سے کئی دوسری پیدا ہونے والی آوازوں کی صحت خود انگریزی میں پچیدہ اور مشکوک ہے۔ اس کی نسبت برصغیر کی زب ن
(ہندی+اردو) کہیں زی دہ آس ن اور کرہ ارض کی زب ن بننے کی صالحیت رکھتی ہے۔ اس وقت اس کے تین رس الخط مست مل ہیں: اردو' دیو ن گری اور رومن مسٹر اردو کی یہ ب ت تو س کے مش ہدے میں ہے ک سے ک ت ی ی فتہ لوگ بھی موب ئل فون کے ذری ے اردو رومن رس الخط میں بڑی روانی سے اپن م ضی الضمیر دوسروں تک پہنچ رہے ہیں۔ زب نوں میں تبدی یوں کو مسٹر اردو وٹ منز ک درجہ دیتے ہیں ان ک یہ موقف بھی درست ہے کہ اس سے نئے مح ورے اور نئی نئی اصطالح ت جن لیتی ہیں۔ خود مسٹر اردو نے نئے مح ورے است م ل کیے ہیں جو ع فہ ہیں۔ تبدی ی زب ن کی مث ل دیتے ہوئے مسٹر اردو نے لکھ ہے کہ ق ی سرے سے کوئی ل ظ ہی نہیں لیکن ا ق ی کوئی ل ظ نہیں رہ آج اگر کوئی ق ی کو ق ی کہے گ تو اسے غ ط سمجھ ج ئے گ اسی طرح وضو سج ن کو وضو کرن لی ج ت ہے ۔ اپنی لس نی مب حث ک ل لب مسٹر اردو نے آخری دو تحریرں میں دی ہے جن کےعنوان ہیں: ترقی اپنی زب ن میں ہی ممکن ہے خدا کے لیے
ان میں مسٹر اردو نے اپنی ایک تحریر پر کیے گئے اعتراض ت ک تس ی بخش جوا دی ہے۔ درست موقف کو تس ی کی ہے۔ اعتراض ت ک جوا دی ہے۔ مثال م ترض نے لکھ کہ زب ن دوسرے تک اپن موقف پہنچ نےک ذری ہ ہے۔ اس کو درست تس ی کرتے ہوئے لکھ ہے کہ یقین ایس ہی ہے مگر ج م ترض نے لکھ کہ کوئی زب ن کسی سے بہتر ی اچھی نہیں ہوتی تو اس ک مسٹر اردو نے جوا دی کہ اس سے مراد یہ ہےکہ جو زب ن کھردری نہ ہو اور پیچیدگی سے پ ک ہو مثال جو زب ن عوامی شکل اختی ر کر گئی ہو' بالشبہ بہتر زب ن ہے۔ مگر ذخیرہ ال ظ دوسری زب نوں سے ک ہو ی آوازوں ک نظ ن قص ہو لچک پذیری میں کمی ہو ی سوشل میڈی نہ ہو تو ہ ایسی زب ن کو کن وجوہ کی بن پر دوسری زب نوں سے بہتر قرار دے سکتے ہیں۔ البتہ بری کوئی زب ن نہیں ہوتی ہ ں اس میں کہی گئی ب ت' اچھی ی بری ہو سکتی ہے۔ م ترض نے ایک اعتراض یہ کی کہ انگریزی زب ن بین االقوامی زب ن کی شکل اختی ر کر رہی ہے تو مسٹر اردو نے اس ک جوا دالئل سے دیتے ہوئے کہ ہے کہ کسی م ک کی (فوجی) ط قت سے مرعو ہو کر تو یہ کی ج سکت ہے البتہ خود مغربی مم لک میں بھی ک روب ر ان کی اپنی زب ن میں ہوت ہے۔ مغربی مم لک میں بھی بہت سے لوگ ہندوی زب ن (اردو+ہندی) بولنے اور سمجھنے والے مل ج ئیں گے .دنی کے ہر خطے میں ہندوی بولی اور سمجھی ج تی ہے۔ مثال یو کے اور کینیڈا میں بہت سے
لوگ ہندوی زب ن سے واقف ہیں۔ ایک اعتراض یہ بھی کی گی کہ زی دہ ع اور کت بیں انگریزی میں دستی ہیں۔ جس ک مسٹر اردو نے جوا دیتے ہوئے کہ کہ یہ بت ی ج ئے کہ دنی کی کون سی بڑی کت ہے' جس ک ہندوی میں ترجمہ نہیں ہوا۔ ہر ش بہ سے مت مثال مذہبی لٹریچر' فنون'ش ری اد اور م شی ت سے مت کت بوں ک اس زب ن میں ترجمہ ہو چک ہے۔ آخر میں مسٹر اردو نے تم بحث کو سمیٹتے ہوئے( ارب اختی ر سے) اپیل کی ہے کہ اس قو کی انگریزی سے ج ن چھڑائیں۔ ادارے مخدو نہ بنیں قو کے خ د بنیں۔ ادھ ر کی دک ن داری بند کریں اور س تھ ہی یہ حقیقت بھی واضح کی ہے کہ تخت و ت ج اور وقت کسی کے سگے نہیں ہوتے۔ اپنے سے پہ ے لوگوں کے انج کو نظر میں رکھیں۔ مسٹراردو لس نی حیثیت سے اس زب ن کے روشن مستقبل اور اس کے دور رس اثرات ک فنک رانہ تجزیہ کرتے ہوئے بہت سے حق ئ س منے التے ہیں۔ وسیع مط ل ہ' وس ت نظری' فکری پختگی اور ل ظوں کے اندر چھپے امک ن ت کی دنی سے گہری واق یت' وہ بنی دی عن صر ہیں جو ان کی تحریروں میں نم ی ں ہیں۔ اپنی فنی بصیرت اوراپنے عہد کے بڑے نبض شن س ہونے کی حیثیت سے وہ قو کے حقیقی مرض سے بھی واقف ہیں اور عالج بھی ج نتے ہیں۔ بالشبہ ان کی تحریروں سے است دہ' خی ل کو نئی وس ت عط کرے گ ۔ ان کے نزدیک درست یہ ہے کہ اگر کوئی ح دثہ پیش آ ج ئے اور کسی کی ج ن بچ ن ضروری ٹھرے
تو پھر نم ز بھ ے قض ہو ج ئے ج ن ضرور بچ ئی ج ئے۔ .............. ڈاکٹر مقصود حسنی کی تحریروں پر مبنی کت نقطہءنظر کے ن سے جو راق الحروف نے مدون کی ہے ۔ اس میں مذاہ اور حقو ال ب د کی اہمیت کے عنوان کے تحت نہ یت ت صیل سے حق ئ پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ تم عب دات دراصل انس ن ک انس ن سے ت جوڑنے ک عم ی ذری ہ ہیں اور ان خرابیوں کی بھی نش ندہی کی گئی ہے جس ک آج کل ہر بےعمل شخص شک ر ہے مثال حج کر نے کے ب د بھی ک روب ر میں بدی نتی کرنے واال شخص اپنے آپ کو بے گن ہ سمجھت ہے اسی طرح ایک شخص نم ز ب جم عت ک پ بند ہے کہ خواہ کسی شخص کی ج ن چ ی ج ئے مگر اس کی جم عت قض نہ ہو۔ ڈاکٹر حسنی کے نزدیک یہ اعم ل کیسے درست ہو سکتے ہیں? ان کے نزدیک درست یہ ہے کہ اگر ایمرجنسی ہو ج ئے تواسے ہسپت ل پہنچ ن ضروری ٹھہرے تو اس ح لت میں نم ز قض ہو ج ئے تو بھ ے ہو ج ئے مگر کسی کی ج ن ضرور بچ ئی ج ئے ۔ ڈاکٹر حسنی لوگوں کے اخالقی وسم جی حقو کو بھی قرض قرار دیتے ہیں اور مذاہ کے پیروک روں کو اپنے مذہبی راہنم ؤں کے ح الت زندگی پڑھنے ک مشورہ دیتے ہیں۔ عوامی نم ئندے منتخ ہونے کے ب د عوا سے جو س وک کرتے ہیں ڈاکٹر حسنی اس سے بہت دکھی ہوتے ہیں لہذا وہ اس
تحریر ک عنوان اسی طرح لکھتے ہیں کہ بھگوان س ز کمی کمین کیوں ہو ج ت ہے یوں دری کو کوزے میں بند کر دی گی ہے۔ وہ پ کست ن بننے پر لوگوں کی قرب نیوں ک تذکرہ کرتے نیز پ کست ن کے حصول کے ب د اس کے مق صد کے حصول ک ذکر کرتے ہوئے عنوان ق ئ کرتے ہیں پ کست ن ک مط کی اس تحریر میں آپ نے انکش ف کی ہے کہ ق ئداعظ محمد ع ی جن ح نے فرم ی تھ کہ میں نے اور نہ ہی میری ورکنگ کمیٹی نے اور نہ آل مس لیگ کونسل نے ایس کوئی ریزولیشن پ س کی ہے کہ میں نے پ کست ن کے لوگوں سے پختہ عہد کی ہو۔ پ کست ن ک مط کی ....الالہ اال هللا آپ لوگوں (ی نی عوا الن س میں سے چند لوگ) نے یہ چند ووٹوں کے لیے یہ ن رہ ب ند کی ہے۔ یہ انکش ف ک نہیں ہے ت ہ پ کست نی قو کو یہ سوچن چ ہیے کہ اتنی بڑی قرب نی ں رائگ ں نہیں ج نی چ ہیں اور پ کست ن کی ہر ح ل میں ح ظت کرنی چ ہیے۔ ج پ نی ترقی کی مث ل ہوئے ڈاکٹر مقصود حسنی لکھتے ہیں۔ آؤ ج پ ن ج کر دیکھیں اس تحریر میں ایک بہت ہی اہ اور حیرت انگیز م وم ت سےق ری کو آگ ہ کرتے ہیں کہ سوئس بینک کے ڈائریکٹر سے پوچھ گی کہ پ کست ن ایک غری م ک ہے۔? اس نے جوا دی پ کست ن کے 98ار ڈالر کی رق سوئس بنک میں پڑی ہے جو کہ تیس س ل تک ٹیکس فری بجٹ کے لیے ک فی ہے۔
ج چیف جسٹس آف پ کست ن اور وزیر اعظ پ کست ن کے درمی ن یہ م م ہ پیش آی کہ حکومت سوئس بینک کو خط لکھے سپری کورٹ نے حک دی اور وزیراعظ پ کست ن نے کہ کہ یہ آئین کے خالف ہے کیونکہ صدر پ کست ن کو استثنی ح صل ہے۔ سپری کورٹ نے حک میں کہ کہ اس م م ے میں استثنی ح صل نہیں ہے تو ڈاکٹر مقصود حسنی نےایک نئے انداز سے اس کی توجیہ کی کہ دونوں ادارے آئین کی ب ت کرتے ہیں اور دونوں ادارے ک کر رہے ہیں۔ عدالت بھی اور حکومت بھی' تو کی اس صورت میں آئین م طل ہو چک ہے۔ عوامی نم ئندے' مس ئل اور بیوروکریسی کے عنوان کے تحت پ کست ن کی ترقی کے اسب ک امریکہ سے موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وس ئل کی پ کست ن میں بھی کمی نہیں ہے۔ پھر کی وجہ ہے کہ ہ پس م ندہ ہیں حکمرانوں کے عالوہ ہر کوئی امریکہ سے ن رت کرت ہے مگر ہر کوئی امریکہ ج نے کے لیے بے چین ہے۔ اس ک سب یہ ہے کہ وہ ں عوا کو سہولتیں میسر اور عوا کی م لی اور م شرتی ح لت بہت اچھی ہے۔ عدلیہ کے وق ر کی بح لی پہ ی اور آخری ضرورت کے تحت ڈاکٹرحسنی سقراط کی مث ل پیش کرتے ہیں کہ اس نے راہ فرار اختی ر کرنے کی بج ئے ری ستی آئین ک احترا کی اور زہر ک پی لہ ہونٹوں سے لگ لی اس طرح سقراط نے ری ستی آئین کے احترا کو موت پر ترجیح دی۔ اگرچہ اس س س ے میں مس م ن حکمرانوں کی مث لیں بھی کچھ ک نہیں۔
اپنی قو کی کمزوریوں ک تذکرہ بھی بہت دکھ سے کرتے ہیں اس تحریر ک عنوان ہے ہ زندہ قو ہیں جس میں ڈاکٹر حسنی ہم ری قو کی ن سی تی کی یت ک ذکر اس انداز میں کرتے ہیں کہ ہ دم سے سوچنے کی بج ئے پیٹ سے سوچنے کےع دی ہو گئے ہیں س پرانے ڈاکوؤں اور موجودہ دور کے سرک ری عہدیداروں ک موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سرک ری عہدیدار دراصل سرک ری ڈاکو کہالنے کے مستح ہیں۔ پرانے ڈاکو جنگ وں میں چھپتے پھرتے تھے یہ مح وں میں آب د ہیں۔ پ کست ن بن نے والے اص ی ہیروز کو لوگ ک ج نتے ہیں لیکن انگریز س ختہ ہیروز کو لوگ زی دہ ج نتے ہیں۔ ضرورت اس مر کی ہے کہ اصل ہیروز اور ان کی قر ب نیوں کو پہچ ن ج ئے اور ان کی قدر کی ج ئے۔ آخر میں ڈاکٹر مقصود حسنی تم بحث کو ان دو عنوانوں میں سمیٹتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ دن ک آئے گ ج اص ی مجر پکڑے ج ئیں گے۔ مثال ج ی ادوی ت ب زار میں بک رہی ہیں۔ ان مجرموں تک کوئی رس ئی نہیں ہو رہی جو یہ دھندا کر رہے ہیں۔ میڈیل سٹور سے لے کر اص ی سرغنہ تک کیوں نہیں پہنچ ج سکت اور ک ٹیکس کی آمدنی عوا کی بھالئی پر خرچ ہوگی۔ پھر جمہورت کے ب رے میں ڈاکٹر حسنی لکھتے ہیں کہ ج ووٹ ڈالے ج رہے ہوتے ہیں تو ان میں سے ب ض ایسے م و
ہوتے ہیں کہ جیسے زندہ الشیں ہوں۔ کبھی چودھری کے بندے زبردستی ووٹ ڈلواتے ہیں کبھی ووٹ خریدے ج تے ہیں ۔ ج کوئی امیدوار ک می قرار پ ت ہے تو وہ اکثریت میں ووٹ ح صل کرت ہے? مثال پ نچ امیدواروں میں جیتنے واال اپنے کل ووٹوں ک ایک تہ ئی ی اس سے بھی ک ووٹ حصل کر پ ت ہے ۔ اس طرح وہ اکثریت ک نہیں ب کہ اق یت ک نم ئندہ ہوت ہے۔ آخر میں اس تم بحث ک خالصہ ڈاکٹر حسنی یہ پیش کرتے ہیں کہ بہتری اور خوشح لی کی توقع ایم ندار اور ص ح تقوی لوگوں سے کی ج سکتی ہے دوسرا زندگی کے تم ش بوں سے مت لوگوں کواقتدار میں الی ج ئے۔ مثال صحت کی وزارت ڈاکٹر ہی بہتر چال سکت ہے۔ ت ی کی وزارت ت ی سے مت لوگوں کے سپرد کی ج ئے۔ ڈاکٹر حسنی ایک حقیقی اور سچ مس م ن ہونے کے س تھ س تھ ایک مخ ص پ کست نی ہیں اور اخالص و ہمدردی پر مبنی اپن ایک واضح نقطہ نظر رکھتے ہیں جو انس نی خدمت انس نی بھالئی اور حقیقی نیکی پر مبنی اور اسالمی ت یم ت کی اصل روح کے مط ب ہے۔ ڈاکٹر حسنی تقریب تم مذاہ ع ل سے مت م وم ت رکھتے ہیں تبھی وہ تم ادی ن کے لوگوں کو اپنے اپنے مذاہ کے ب نیوں کے ح الت زندگی کے مط ل ے ک مشورہ دیتے ہیں اور تم مذاہ کے ب نیوں کو اع ی اقتدار ک گردانے ہیں۔
.............. مسٹر اردو کی طنزومزاح پر مبنی کچھ تحریروں کو راق الحروف نے مدون کی ہے اس میں مسٹر اردو کی تخ یقی صالحیتوں کو دیکھتے ہی بنتی ہے اور طنزومزاح کی خوبی ں بھی میرے نزدیک کئی ایک ق بل ذکر ہیں۔ مسٹر اردو لس نی مب حث تک ہی اپنے آپ کو محدود نہیں رکھتے۔ ب کہ کئی اہ موضوع ت کے ب رے میں اپن خ ص نقطہ نظر بھی رکھتے ہیں۔ وہ نہ صرف سنجیدہ تحریریں رق کرتے ہیں ب کہ طنزومزاح کے ذری ے بھی بہت سے اہ موضوع ت پر اظہ ر قدرت رکھتے ہیں۔ یہ کہن بھی زی دہ موزوں ہو گ کہ وہ ب ض اوقت ایسی ب تیں طنزو مزاح کے پیرایے میں کہہ ج تے ہیں جو ش ید سنجیدگی سے کہن اگر ن ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ ایک تحریر کے عنوان ....ب ی کے گ ے میں گھنٹی کون ب ندھے گ ....رکھ کر اس میں سرم ئے اور اختی رات کے ن ج ئز است م ل ک ذکر بہت اچھے پیرائے میں کرتے ہوئے آخر ک راس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ کون اس کو روکنے کی جس رت کرے گ جیسے چوہوں کے لیے ب ی کے گ ے میں گھنٹی ب ندھن مشکل ہے۔ اسی طرح ان ط قتور لوگوں ی نی واپڈا مالزمین اور ب اثر افراد سے بج ی کے ن ج ئز است م ل ک تدراک مشکل ہے۔ امریکہ دہری پ لیسی ی دہرا م ی ر کہ وہ جتنے چ ہے م صو
لوگ م رے اسے کوئی پوچھ نہیں سکت وہ جس ب ت کو بنی دی ح قرار دے وہی بنی د انس نی ح ہے ۔ جس ب ت کو وہ دہشت گردی قرار دے وہی دہشت گردی ہے۔ اس تحریر ک عنوان ہی بت ت ہے کہ اس تحریر میں کی لکھ گی ہے۔ ہم رے لودھی ص ح اور امریکہ کی دو سیری ں مسٹر اردو ق ری کی م وم ت میں بہت زی دہ اض فہ بھی کرتے ہیں۔ دوسیریوں واال م م ہ اکثر لوگ ج نتے ہیں کہ کچھ لوگ جو تج رت میں' لین دین اور ن پ تول میں بدی نتی کرتے ہیں۔ ان کے چیز لینے کے اوزان اور ہوتے ہیں اور چیز دینے کے اوزان اور۔ ت ہ یہ کوڈ ورڈ ہمیں ان کی تحریر سے پتہ چ ے ہیں کہ ج ح جی ص ح کو چیز لینے والی دوسیری چ ہیے ہوتی تو اپنی بیٹی کو الحمدهللا کہتے ۔ اور ج کوئی چیز دینے والی دوسیری چ ہیے ہوتی تو ح جی ص ح اپنی بیٹی کو سبح ن هللا کہہ کر آگ ہ فرم تے۔ مسٹر اردو ال ظ ک ایس انتخ کرتے ہیں کہ ش ید اس سے بہتر انتخ ممکن نہ ہو۔ ان کے مض مین کے عنوان بھی بڑے اچھوتے ہوتے ہیں۔ مثال لوڈ شیڈنگ کی برک ت۔۔۔۔۔ اس عنوان کے تحت لوڈ شیڈنگ سے پیدا ہونے والی خرابیوں ک ذکر کی گی ہے۔ اس موضوع کے لیے اور بھی عنوان ہو سکتے تھے لیکن جو طنز اس عنوان میں پوشیدہ ہے وہ ش ید کسی اور عنوان میں نہیں ہو سکت تھ ۔
رشوت زندگی ک اہ ترین موضوع ہے۔ یہ ایک ایک ایس ن سور ہے جو م شرے میں اس طرح سرایت کر گی ہے کہ ا کوئی کہے کہ یہ خت ہو سکت ہے تو ش ید یقین ہی نہ آئے۔ مسٹر اردو اس ک ایک حل تجویز کرتے ہیں کہ اس کو طال ہو سکتی ہے۔ ب الئی ک ریٹ طے کر دی ج ئے گوی اسے ب ق عدہ عم ی صورت دے دی ج ئے۔ اس مضمون ک عنوان ۔۔۔۔۔ رشوت کو طال ہو سکتی ہے ۔۔۔۔۔ رکھ گی ہے۔ اس طرح مسٹر اردو نے اپنی ایک تحریر ک عنوان۔۔۔۔۔ جر کو ق نونی حیثیت دین ن انص فی نہیں۔۔۔۔۔ درج کی ہے۔ یہ گوی ن انص فی کی طنزیہ ت ئید ہے۔ وہ سچ کے ب رے میں پش ور ہ ئی کورٹ ک حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔ اگر ہ سچ بولنے لگیں تو ہم رے اسی فی صد مس ئل حل ہو ج ئیں گے۔ پھر مسڑ اردو جھوٹ کی طنزیہ ت ئید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چور کو ح ح صل ہے کہ وہ اپن وکیل کرے۔ اسی طرح وکیل ک فرض ہے کہ وہ پورا زور لگ کر اسے بےگن ہ اور م صو ث بت کرے۔ یہ ہی اس کے پیشہ کی ام نت اور دی نت داری ہے۔ وکیل ایسے ایسے دالئل دے کہ چور کو بھی اپنے بےگن ہ ہونے ک یقین آ ج ئے۔ وکیل مقدمہ ہ ر ج ئے تو اس سے اس کی ہی نہیں اس کے پیشے کی بھی بدن می ہوتی ہے۔ اس طرح ہر آدمی اپنے جھوٹ کے لیے جواز پیدا کر لیت ہے۔ اس حوالہ جر کو ق نونی حیثیت سے محرو رکھن ن انص فی کے زمرے میں آت ہے۔ اسے ق نونی حیثیت م نے سے جر ہمیشہ کے لیے خت ہو ج ئے گ ۔
رمض ن کے مہینے میں رحمتوں پر نظر ہونی چ ہیے۔ رمض ن کے مہینے میں ہر قس کی چیزوں ک نرخ بڑھ ج ت ہے۔ عالج م لجے اور م لج کے نرخ بھی بڑھ ج تے ہیں۔ مسٹر اردو اس ک عالج یہ بت تے ہیں کہ نمک سے روزہ کھول لی ج ئے۔ گھروں میں ن کے لگوا لیے ج ئیں ت کہ بج ی کے آنے ج نے شک یت ہی نہ رہے۔ ردی اور خرا کھجوریں جو ک قیمت میں م تی ہیں سے روزہ افط ر کر لی ج ئے۔ یہ رحمتوں اور برکتوں ک مہینہ ہے۔ ایک پروفیسر کی ص ت بہت اچھے انداز سے کرتے ہیں۔ وہ م وم ت فراہ کرت ہے۔ 1 وہ سوچت اوراس ک اظہ ر بھی کرت ہے۔ 2 وہ غ ط صحیح بت ت اور اس کی تمیز سکھ ت ہے۔ 3 اس تحریر کو پڑھ کر جہ ں ایک پروفیسر کی م شرے کو فراہ کی گئی ع می م وم ت اور اہمیت ک پتہ چ ت ہے وہ ں اس امر ک بھی ادراک ہوت ہے کہ است د کے فرائض کی ہیں۔ مسٹر اردو نے گڑ کی پیسی سے ایک نی خی ل پیش کی ہے۔ پہ ے ہ یہ سنتے آئے ہیں کہ جہ ں بندروں کی ت داد زی دہ ہوتی ہے اور لوگ ان کی شرارتوں سے تنگ آ ج تے ہیں۔ ہندو مذہ میں ان کے احترا کے ب عث انہیں م ر پیٹ بھی نہیں سکتے تھے تو وہ ں لوگ گڑ کی بڑی پیسی بن تے پھر اسے خشک
کرتے اور اس کو جنگل میں رکھ دیتے اور اس کے س تھ ہی دو ی ڈھ ئی فٹ کے دس ب رہ ڈنڈے رکھ دیتے۔ بندروں کی ٹولی آتی اور وہ گڑ کی پیسی کے اردگرد ح قہ بن کر بیٹھ ج تے۔ بس اسے دیکھتے رہتے اور کوئی بندر اسے کھ نے ی اٹھ نے کی جرآت نہ کرت ۔ اگر کوئی ج نے کی کوشش کرت تو دوسرے بندر پ س پڑے ڈنڈوں سے اس کی خو مرمت کرتے۔ بندر اس ک میں مصروف ہو ج تے تو لوگ ان بندروں کے اس کھیل سے لطف اندوز ہوتے۔ مسٹر اردو نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کی ہے کہ ط قتور لوگ م کی وس ئل کو گڑ کی پیسی سمجھ کر چوس رہے ہیں۔ نتیجہ کے طور ان کے دانت خرا ہو ج ئیں گے۔ انہیں نتیجے کی فکر تک نہیں ہے۔ بہرح ل م م ے کو پیش کرنے ک یہ انداز ب لکل نی ہے۔ مسٹر اردو ہم رے سی سی لیڈروں کی چھوٹی اور ذاتی ف ئدے پر مبنی سوچ پر چوٹ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بغداد میں حالل ی حرا پر بحثیں چل رہی تھیں ادھر ہالکو خ ں نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بج دی۔ اسی طرح ہم رے لیڈر اگ ے الیکشن میں جیت ج نے کے لیے عوا کی بھوک میں اض فہ کرنے کی فکر میں ہیں ادھر امریکہ ہم ری خود داری کی اینٹ سے اینٹ بج نے کی فکر میں ہے۔ ایک شخص کی بروقت طبی سہولت نہ میسر آنے کی صورت میں موت واقع ہو گئی جس کے سب ایک ش دی واال گھر م ت کدہ بن گی ۔ مسٹر اردو کے نزدیک یہ بھی دہشت گردی ہے کہ
ڈاکٹر اپنی صحیح ڈیوٹی انج نہ دیں۔ ادوی ت ج ی ہوں۔ فص وں کے سپرے ج ی ہوں تو مسٹر اردو مہ منشی ۔۔۔۔ چیف سیکرٹری۔۔۔۔'جیون دان منشی ۔۔۔۔ سیکرٹری صحت۔۔۔۔ اع ی شکش منشی۔۔۔۔سیکرٹری ہ ئرایجوکیشن' منشی ب دی ت ۔۔۔۔۔ سیکرٹری ب دی ت ۔۔۔۔ کو بھی اس ک ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور یہ حقیقت بھی ہے کہ تم محکمے ذمہ دار ہیں۔ ان کے صوب ئی سربراہ بھی ذمہ دار ہیں۔ لوگوں کے قول و ف ل میں تض د اور خودنم ئی ک تذکرہ بھی ایک مث ل دے کر مسٹر اردو کرتے ہیں کہ ایک مسجد کی ت میر کے لیے چندہ جمع کی ج نے لگ ۔ ایک ص ح نے پچ س ہزار ک اعالن کر دی ۔ ج دوسرے دن اس سے ط کیے گیے تو اس نے کہ کہ چندہ دین بھی تھ ۔ میں نے سمجھ بس لکھوان ہی تھ ۔ یہ ب ت ع مش ہدے میں ہے کہ چندہ لکھوانے کے ب د اتنے چکر لگوائے ج تے ہیں کہ چندہ م نگنے والے تنگ آ کر چندہ م نگن ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ بہت سے سم جی موضوع ت پر مسٹر اردو نے اچھی اور موزوں ب ت کی ہے اور بڑے فن ک رانہ انداز میں طنز کی ہے .اکثر اوق ت بین السطور طنز کی ہے کہ طنز ک گم ن تک نہیں گزرت بل کہ ق ری اسے حقیقت سمجھنے لگت ہے۔ عوامی نم ئندوں ک اپن ووٹ ذاتی م د کی خ طر اپنی پ رٹی کے خالف دینے کی بڑے ہی اچھوتے انداز میں لوٹے کی سم جی حیثیت کے عنوان سے تحریر کی ہے۔ ان کی طنزیہ تحریروں میں ظرافت اور سنجیدگی ک خو صورت امتزاج ہے۔ وہ بڑے
من رد اور اچھوتے انداز میں انس نی ن ہمواریوں ک خ کہ اڑاتے ہیں۔ زندگی اور سم ج کی کمزوریوں' مریض نہ کی یتوں کو بےنق کرتے ہوئے ہدف طنز بن تے ہیں۔ زب ن میں لط فت اور فکر میں مش ہدے کی گہرائی ان کے موضوع ت میں دوا پیدا کرتی ہے۔ ان طنزیہ تحریروں میں ت خی اس وقت پیدا ہوتی ہے ج وہ من فقت دہرے م ی رات پر انس نوں کے پ ریکھ بن کر س منے آتے ہیں لیکن کم ل یہ کہ تحریر ک حسن اور مزاح ک حسن برقرار رہت ہے۔ ان کے طنز و مزاح ک رخ ع ل گیر ن ہمواریوں پر ک اور ہنگ می ح الت پر زی دہ ہوت ہے۔ ایسے ح الت جو خ ص طور پر اثرانداز ہو رہے ہوتے ہیں۔ وہ ں وہ اس م شرے کی سچ ئیوں کو اس س یقے سے بی ن کرتے ہیں کہ جنھیں دیکھ کر بے اختی ر ہنسی آج تی ہے ی پھر جیسے تنہ ئی میں آئینہ دیکھ لی ہو۔ مسٹر اردو کی ایک تحریر کے اقتب س سے خت کرت ہوں۔ جگہ' ق نون' لوگ اور حکومتیں کسی بھی ری ستی وجود کے لیے ضروری ہیں۔ ان کے بغیر ری ست وجود میں نہیں آ سکتی۔ ان میں سے ایک عنصربھی ک ہو تو ری ست وجود میں نہیں آ سکتی۔ ۔۔۔۔۔ اسی طرح ۔۔۔۔۔ حکومتی ایوانوں میں اگر لوٹے نہ ہوں تو م زز ممبران سوس ئٹی میں پھریں گے۔ اس سے ن صرف حسن کو گرہن لگے گ بل کہ بدبو بھی پھی ے گی۔ لبڑی پینٹوں ش واروں والے ممبران کی کون عزت کرے گ ۔
الغرض مسٹر اردو اہ اور سنجیدہ موضوع ت پر طنز و مزاح پر مبنی تحریر لکھنے پر قدرت رکھتے ہیں اور اگر یہ کہ ج ئے وہ صرف لس نی ت کے ہی طنزیہ اس و تک کے بھی شہ سوار ہیں' تو مب لغہ نہ ہو گ ۔ ............ مسٹر اردو کی مختصر نظمیں بھی کم ل ہیں۔ ج ق ری انہیں پڑھت ہے تو اسے گم ن گزرت ہے کہ وہ اس قس کی نظمیں لکھ سکے گ ۔ لیکن عم ی صورت میں اسے ن ک می ک س من کرن پڑے گ ۔ گوی یہ نظمیں سہل ممتنع ک نمونہ ہیں۔ ان میں م شرے میں پ ئے والے تض دات اور اخالقی قدروں کی پ م لی ک بہترین انداز میں ذکر کی گی ہے۔ مثال ان کی یہ نظ مالحظہ ہو۔ سن ہے یوسف کی قیمت سوت کی انٹی لگی تھی عصر ح ضر ک مرد آزاد دھویں کے عوض ضمیر اپن بیچ دیت ہے
حکمرانوں کے جبر و استبداد کے ہ تھوں کے ج ق ک روں اورصح فیوں کے سچ لکھنے پر پہرے ہوں اور انہیں جھوٹ لکھنے پر مجبور کی ج رہ ہو تو اس کو بہت ہی من رد انداز میں انہوں نے اس نظ میں تحریر کی ہے۔ زہر کو تری
تمہیں کہن ہو گ
میر س ر نے بہبود کے ن پر زب ن تیری بربک کے ہ تھ گروی رکھ دی ہے ایک ف رسی مقولہ ہے: کند ہ جنس ب ہ جنس پرواز کبوتر ب کبوتر ب ز ب ب ز اس مقولے کے م ہو کو مسٹر اردو ایک اور انداز میں پیش کرتے ہیں کہ جن سینوں میں پتھر ہے وہ ل ل و گوہر سے محبت کرتے ہیں۔ ل ل و گوہر بھی پتھر ہیں لیکن گراں قیمت ہیں۔
گوی پتھر' پتھر کو ہی محبو بن ئے گ ۔ پتھر سینے میں ل ل و گوہر محبو پتھر ک پتھر زندگی کی مشکالت اور مرنے کے خوف کو مسٹر اردو ایک نئے انداز سے پیش کرتے ہیں۔ انس ن کی بےبسی ک منظر ایک مث ل کے ذری ے بی ن کرتے ہیں۔ ذرا یہ نظ مالحظہ ہو : جین مشکل مرن آس ن نہیں زندگی س نپ کے منہ میں چھپک ی ہو جیسے
سچ ئی کی عظمت اور سچ ئی کے ع برداروں ک ذکر کرتے ہوئے جھوٹ بولنے والوں سے پورے اعتم د سے مخ ط ہوتے ہیں اور انہیں تنبیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تمہ رے جھوٹے وعدوں سے سچ ئی ی سچ ئی کے ع برداروں کو کوئی فر نہیں پڑے گ کیوں کہ وہ سچ ئی ک سورج ہیں اور سورج کی گردش میں فر نہیں آت ۔ جھوٹے وعدے کرنے والو سن لو کربال کے مس فر ذات میں اپنی سچ ئی ک سورج ہیں اد اپنے عہد ک آئینہ دار ہوت ہےاور ہرادی پر یہ ذمہ داری ع ئد ہوتی ہے کہ وہ کھ ی آنکھوں اور ش وری توازن کے س تھ اپنے عہد کے س تھ اپنے عہد کے مس ئل کو بت ئے۔ ان ک عہد جس آگ میں س گ رہ ہے اس کی المیہ کہ نی بی ن کرے۔ مسٹر اردو نے یہ ح زندہ اور روشن احس س کے س تھ خو نبھ ی
ہے۔ سرم یہ داروں کے استحص لی رویے کو جس بےداری اور ش ن دار اس و میں پیش کی ہے وہ انہیں ایک ترقی پسند فن ک ر ک درجہ عط کرت ہے۔ مزدوروں کی مزدوری ک سرم یہ داروں نے استحص ل کی ہے اور اپنی اج رہ داری ق ئ کی ہے۔ کہتے ہیں قیدیوں کو اس وعدہ پر رہ کر دو فصل پر وہ زمین پر ہ م کیت ک دعوی نہیں کریں گے تصوف ک بی ن بھی مسٹر اردو اپنی نظموں میں نہ یت احسن طریقے سے کرتے ہیں۔ هللا جل جاللہ کی عظمت اور اپنی ک م ئیگی ک تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں تیری شن خت ہوں۔ جیس کہ حدیث قدسی میں ہے کہ هللا جل جاللہ فرم ت ہے کہ میں چھپ ہوا خزانہ تھ میں نے چ ہ کہ پہچ ن ج ؤں پھر میں نے محمد ص ی هللا ع یہ وس کو پیدا فرم ی ۔ اس ذیل میں ذرا یہ نظ مالحظہ ہو :
کیسے میں ت کو سوچ سکوں گ ت وہ ں جہ ں میں نہیں میں زمین تو آسم ن ہ ں یہ تش ی ہے میں تیری شن خت ہوں تو مرے ہونے ک ثبوت ا میں تجھے تیری اج زت سے سوچت ہوں الغرض مسٹر اردو نے اپنی نظموں میں زندگی کے ہر موضوع کو کچھ اس طرح سے اپنی گرفت میں لی ہے کہ ق ری کو اپنے دل کی آواز لگتی ہے۔ ........... مسٹر اردو نے اردو ہ ئیکو بھی تحریر کیے ہیں۔ ان میں بھی انس ن ک دکھ سکھ پہ ی ترجیع پر ہے۔ اپنے محبو کی بےنی زی اور اس کی محبت میں بےچینی اور بےبسی ک ذکر س دہ اور آس ن ل ظوں میں کرتے ہیں۔ یوں م و ہوت ہے کہ کوزے میں دری بند کر دی گی ہے۔
ی د میں ان کی ش بھر تڑپ محبت کو وہ دم
ک بخ ر کہتے ہیں
محبت کے اظہ ر ک انداز بھی نرالہ ہے۔ بین السطور بہت سے درد اور راز لکھ ج تے ہیں۔ محبت کو ظ ہر بھی ہونے نہیں دیتے۔ نیند روٹھ گئی ہے آنکھوں میں ش ید بس گی ہے کوئی قرآن مجید کے مط ب رج ء وہ ہے کہ آدمی درست سمت میں درست کوشش کرے پھر اس کی ک می بی کی هللا ت لی جل جاللہ سے امید کرے۔ آرزو وہ ہے کہ ج بندہ غ ط سمت میں غ ط کوشش کرے اور پھر بھالئی کی امید رکھے۔ غ ط آرزو کرن منع ہے۔ یہ بھی خ آرزو ہے کہ بندہ سرے سے کوشش ہی نہ کرے اور ک می بی کی امید ب ندھے۔ اس م م ے کو مسٹر اردو نے
نہ یت اچھوتے انداز میں بی ن کی ہے۔ بھیک کے ٹکڑے پیٹ میں ات ر کر میرا ب پ غیرت ایم نی تالش رہ تھ مجھ میں ج محبت چھپ ئے نہ چھپے اور محبو کی جگ ہنس ئی ہو۔ اس پر بہت ہی فن ک رانہ انداز میں م ذرت کرتے ہیں۔ میں نے رسوا کی ہے ت کو میں تو چپ کے حص ر میں تھ یہ شرارت تو آنکھوں کی ہے آدمی سے غیرت اور حمیت کس طرح رخصت ہو ج تی ہے۔ ج وہ ضرورت مند بن کر کسی کے آگے ہ تھ پھیالت ہے پھر اسے اندازہ ہی نہیں ہوت کہ ج وہ پہ ے کی زندگی گزار رہ تھ تو کیس انس ن تھ اور ا کس طرح ک آدمی ہے۔ اس کو ایک ش عر ہی بہتر طریقے سے محسوس کر سکت ہے۔
کشکول گدائی تھ منے سے پہ ے وہ زندگی کی ب ہوں میں تھ ا چ ت پھرت ویرانہ ہے ج کوئی محبو کی اداؤں ک شک ر ہو ج ت ہے اور اس ک محبو اس سے اس ک دل چرا کر لے ج ت ہے اور وہ کچھ بھی نہیں کر پ ت ۔ اس وقت کے ت ج اور حیرت کے منظر کو مسٹر اردو یوں ق بند کرتے ہیں۔ عج چور تھ وہ بھی ج گتے میں لے گی چرا کر لے دل میرا ج آدمی بھوک سے دوچ ر ہو اور ایک ایک لقمے کو ترسے تو وہ پیٹ بھرنے کے لیے کچھ بھی کر سکت ہے۔ ذلت کی کسی سطع تک بھی ج سکت ہے۔ ب غیرت مر ج تے ہیں دست سوال دراز نہی کرتے اور ن ہی من ی رستہ اختی ر کرتے ہیں۔ پہ ی قس کے لوگوں سے کسی قس کی امید نہیں کی ج سکتی۔ اسی تن ظر
میں مسٹر :اردو نے کہ ہے اک لقمہ ہو جس کی قیمت ت ہی کہو وہ سست انس ن سوچوں پر جھنڈے گ کی مس م نوں کی عظمت رفتہ ک ذکر بھی اپنے انداز میں کرتے ہیں۔ حیضرت عمر نے جو خط دری ئے نیل کو لکھ تھ اس کے حوالہ عصری جبر کے تدارک کو موضوع گ ت گو بن تے ہیں۔ کہتے ہ یں فرات جبر جوش میں ہے آؤ عمر ک خط تالش کریں خودی بیچنے والوں کی ج دنی میں قدر کی ج رہی ہو اور خودی کے پ سب نوں کے س تھ دنی بےرخی اور بے اعتن ئی برت رہی ہو' تو دنی وی ج ہ و جالل کے دلدادہ خودی کی کی قدر کریں
گے۔ ایسے لوگ خودی کے دا وصول کرتے رہتے ہیں۔ اس م م ے کو مسٹر اردو نے یوں بی ن کی ہے۔ میرے شہر ک دستورہے خودی بیچنے والے بڑا ن پ تے ہیں مسٹر اردو نئی نسل سے بڑے پرامید ہیں اور توقع رکھتے ہیں آتی نسل جبر و استبداد ک خ تمہ کر دے گی۔ کہتے ہیں ہ ن ک رہے ہیں لیکن ہم ری نسل ارضی خداؤں کی قبریں کھودے گی زم نے کے چ ن کے مط ب جو بےوف ئی رواج پ گئی ہے اور لوگ جس طرح احس ن فراموش ہو گیے ہیں۔ اپنے محسن ک شکریہ ادا کرنے کی بج ئے اس ک ہی گال ک ٹنے ک جتن کرتے ہیں۔ اس م م ے کو مسٹر اردو نے کچھ یوں بی ن کی ہے۔
میں نے جس شخص کی خ طر دشت تنہ ئی میں عمر گزار دی وہ مرا ہی سر ک ٹنے کی فکر میں تھ اس خی ل کو کسی اور ش عر نے اس طرح بی ن کی ہے : جس دی خ طر کن پڑوائے اپنے ح ل وگ ڑے نے اوہنے س نوں پ گل کہہ کے پہالں روڑے م رے نے مسٹر اردو محبو کی بےوف ئی ک گ ہ نہیں کرتے بل کہ اس کی بےوف ئی ک سب اپنی ہی درم ندی کو قرار دیتے ہیں اور اس کی بےوف ئی کو بھولنے اور اس کو م ف کرنے ک حوص ہ رکھتے ہ ی ں۔ کہتے ہیں ج ؤ تمہیں بھی م ف کی درم ندہ لوگوں سے کون نبھ کرت ہے ..........
مسٹر اردو کی نظ ہو کہ نثر' اس میں عصری جبریت کو واضح اور کھ ے ال ظ میں بی ن کی گی ہے۔ ایک ہی لہجہ ایک طور دونوں میں م ت ہے۔ ان کی نظ اور نثر ع فہ ' واضح' س دہ اور متنوع موضوع ت پر محیط ہے۔ ق ری کسی سطع پر بوریت ک شک ر نہیں ہوت بل کہ بال تک ن اول ت آخر پڑھ ج ت ہے۔ ان کی تحریروں میں وحدت ث ثر بنی دی اور اہ ترین عنصر ہے۔