1
جیون سپن مقصود حسنی
ابوزر برقی کت خ نہ جوالئی ٧
2
3
4
فہرست چل' محمد کے در پر چل سننے میں آی ہے دروازہ کھولو حیرت تو یہ ہے میں نے دیکھ ہر گھر سے پ کوں پر شبن حی ت کے برزخ میں سچ کے آنگن میں سوچ کے گھروندوں میں ٹیکس لی کے شیشہ میں آزاد کر دو وہ ل ظ کہ ں ہے‘ کدھر ہے میں مٹھی کیوں کھولوں مت پوچھو
5
شبن نبضوں میں ج تک صبح ہی سے نوحہ ایندھن ع ری حرص کی ر ج بے انت سمندر پہی ی را بھ ی کرے گ س حل ک پتھر مرے آگے ب رود کے موس یہ ہی فیص ہ ہوا تھ ۔ ممت چودہ اگست
6
آس ست رے اپیل اس روز بھی گنگ الٹ بہنے لگی ہے لہو ک تقدس بھوال نہیں میں شہد سمندر رات ذرا ڈھل ج نے دو پ کوں پر ش آج بھی کس منہ سے وقت کیس انقال الی ہے سورج ڈو رہ ہے بن مانگے سسے غیر م تبر
7
یقینی سی ب ت ہے فقیروں کی بستی میں آؤ کوئی رشتہ استوار کریں پ گل پن دل کی بستی بے چہرا جیون سرا ک جنگل بن سوچے سمجھے س رے گن تقدیر ہستی آج یہ کھال اب یس ک ہمس یہ ثمر کھیل برس ہوئے ک رفص حت
8
سی ست ک نچ دریچوں میں قرآن راج پہال حوالہ کال زیر عت
ہے
غربی ہبل واپسی مجھے اک خوا لکھن ہے بردان چ ہت کے کنول در وا کر دو بت ج بھی آج یہ کھال س ج نتے ہیں سج سنور کر
9
بھر بھس ہوئے رہنے دو آج کو عظی کر دو نظر خدا پر ایم ن
شرینی س گر پی کر بھی اس سے پہ ے س ید پرندہ یہ کس کی س زش ہے ابھی ب قی ہے چ ند ا دری میں نہیں اترے گ ذات کے قیدی ج ت مجھ کو سوچو گے س سے کہہ دو ب لوں میں بکھری چ ندی
10
ش ہ کی الٹھی برسر عدالت م ں‘ م ں ہوتی ہے ان دیکھے کھیل کس حوالہ سے لہو ک تقدس ک نچ دریچوں میں پہرے بنی د پرست صدی ں بیت گئ ہیں ک جل ابھی پھیال نہیں پ کوں پر ش اک پل جیون سپن جینے کو تو س جیتے ہیں اس سے کہہ دو
11
چل' محمد کے در پر چل اک پل آک ش اور دھرتی کو اک دھ گے میں بن کر رنگ دھنک اچھ لے دوج پل جو بھیک تھ پہ ے کل کی ک سے سے اترا م تھے کی ریکھ ٹھہرا کرپ اور دان ک پل پھن چکر م را گرت ہے منہ کے بل س وٹ سے پ ک سہی پھر بھی حنطل سے کڑوا
12
اترن ک پھل ال ت میں کچھ دے کر پ نے کی اچھ ح ت سے ہے چھل غیرت سے ع ری ح
میں ٹپک
وہ قطرہ سقراط ک زہر نہ گنگ جل مہر محبت سے بھرپور نی ک پ نی نہ کڑا نہ کھ را وہ تو ہے آ ز ز اس میں را ک بل ہر فرزانہ
13
عہد سے مکتی چ ہے ہر دیوانہ عہد ک بندی مر مٹنے کی ب تیں ٹ لتے رہن کل ت کل ج بھی پل کی بگڑی کل در ن نک کے بیٹھ بےکل وید حکی مالں پنڈٹ پیر فقیر ج تھک ہ ریں جس ہ تھ میں وقت کی نبضیں چل محمد کے در پر چل
14
سننے میں آی ہے سننے میں آی ہے ہ آگے بڑھ گئے ہیں ترقی کر گئے ہیں سرج ا شر سے اٹھت ہے واشنگٹن کے مندر ک بت کس محمود نے توڑا ہے سکندر کے گھوڑوں ک منہ کس بی س نے موڑا ہے اس کی گردن ک سری کس ٹیپو نے توڑا ہے سو ک بی نس ا سو ہی چڑھت ہے پونڈ سٹرلنگ اور ڈالر روپیے کے دو م تے ہیں
15
سننے میں آی ہے ہ آگے بڑھ گئے ہیں ترقی کر گئے ہیں 'بیوہ کو ٹک م ت ہے وہ پیٹ بھر کھ تی ہے گری کی بیٹی بن دہیج ?ا ڈولی چڑھتی ہے جو جیون دان کرے دارو کی وہ شیشی ?ا م ت میں م تی ہے سننے میں آی ہے ہ آگے بڑھ گئے ہیں ترقی کر گئے ہیں موسی اور عیسی گرجے اور ہیکل سے
16
?مکت ہوے ہیں بدھ را بہ کہ ن نک کے پیرو ہوں ی پھر چیراٹ شریف کے ب سی ?اپن جیون جیتے ہیں سننے میں آی ہے ہ آگے بڑھ گئے ہیں ترقی کر گئے ہیں گوئٹے اور ب لی ٹیگور تے ج می سیوفنگ اور شی ی ?س کے ٹھہرے ہیں مالں پنڈت اور گرجے ک وارث انس نوں کو انس نوں کے ?ک آنے کی کہت ہے
17
سننے میں آی ہے ہ آگے بڑھ گئے ہیں ترقی کر گئے ہیں شیر اور بکری 'اک گھ ٹ پر پ نی پیتے ہیں ?اک کچھ میں رہتے ہیں سیٹھوں کی بستی میں مل ب نٹ کر ?کھ نے کی چرچ ہے رشوت ک کھیل ?ن ک ہوا ہے منصف ?ایم ن قرآن کی کہتت ہے سننے میں آی ہے ہ آگے بڑھ گئے ہیں ترقی کر گئے ہیں
18
من تن ک وارث تن من ک بھیدی ج بھی ٹھہرے گ جیون ک ہر سکھ قدموں کی ٹھوکر امبر کے اس پ ر انس ن ک گھر ہو گ 'پرتھوی کی هللا کی ہر تخ ی ک م م نہیں موچی درزی ن ئی بھی وارث ہوگ 'شخص شخص ک بھ ئی ہوگ
19
دروازہ کھولو وڈی ئی ک سرط ن بھیجے کے ریشوں میں ج بھی گردش کرت ہے بھوک ک چ را میتھی میں کرونڈ س لگت ہے موڈ کی تکڑی کے پ ڑے خ لی رہتے ہیں حرکت کرتے ہونٹ دنبی سٹی اور امریکن سنڈی سے بدتر لگتے ہیں قتل پہ روتی آنکھیں ق تل کو گ لی بکتی آنکھیں ن رت برس تی آنکھیں
20
بدلے کی بھ ون رکھتی آنکھیں مسور میں کوڑکو لگتی ہیں ح سچ کے ق تل بولوں پر جئے جئے ک ر سے ع ری جیب ت لی سے خ لی ہ تھ بیک ر نکمے روڑی ک کچرا لگتے ہیں انگ ی کے اش رے پر لرزیں نہ ک نپیں ڈھیٹوں کی بھ تی دھرتی نہ چھوڑیں ایسے پ ؤں کنبھ کرن کے وارث لگتے ہیں دھونس ڈپٹ کے ک لے ک مے سننے سے ع ری سم عی آلے
21
راون غ یل ک چدا لگتے ہیں پھولوں سے کومل کہتے سنتے ممت جذبے ڈوبتی کشتی ک ہچکوال لگتے ہیں یثر کی مٹی پہ مر مٹنے والو ک لے یرق ن ی پھر قطر بررید سے پہ ے کل ن س ک انجکشن ال الہ ک وٹمن حبل الوورید میں رکھ دو ک کیری ف ور کے قطرے لیزر ش عیں ان کے بھیجے کی پیپ آلودہ گ ٹی ک تری
نہیں ہیں
22
من مندر ک دروازہ کھولو آتے کل کی راہ مت دیکھو آت کل ک اک ل ک گھر ہے جن
محتر ڈاکٹر ممصود حسنی ص ح
آپ ک یہ کال پڑھن کے ن ل ہی دم کے بوہے پہ جینویں کسی نے آکر دستک دینڑ کے بج ئے کسھن م ری ،وج ج کے ٹھ کرکے بڑا ای سواد آی ،کی ای ب ت ہے ہم ری طرف سے ایس سوہنی تے من موہنی تحریر سے فیض ی فرم نڑ کے واسطے چوہ ی ں پرھ پرھ داد پیش ہےگی تواڈا چ ہنے واال اسم عیل اعج ز http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=7988.0
23
حیرت تو یہ ہے موس گل ابھی محو کال تھ کہ مہت
ب دلوں میں ج چھپ
اندھیرا چھ گی پریت پرندہ ہوس کے جنگ وں میں کھو گی اس کی بین ئی ک دی بجھ گی کوئی ذات سے‘ کوئی ح الت سے الجھ گی کی اپن ہے‘ کی بیگ نہ‘ ی د میں نہ رہ ب دل چھٹنے کو تھے کہ اف لہو اگ نے لگ دو ب ادھر دو ادھر گرے پھر تو ہر سو دھواں ہی دھواں تھ چہرے ج دھول میں اٹے تو
24
ظ ک اندھیر مچ گی پھر اک درویش مین ر آگہی پر چڑھ کہنے لگ سنو سنو دامن س سمو لیت ہے اپنے دامن سے چہرے ص ف کرو ش ید کہ ت میں سے کوئی ابھی یتی نہ ہوا ہو یتیمی ک ذو لٹی ڈبو دیت ہے من کے موس دبوچ لیت ہے کون سنت پھٹی پرانی آواز کو حیرت تو یہ ہے موس گل ک س کو انتظ ر ہے گرد سے اپن دامن بھی بچ ت ہے اوروں سے کہے ج ت ہے چہرہ اپن ص ف کرو‘ چہرہ اپن ص ف کرو
25
جن
مقصود حسنی ص ح سال مسنون
واہ واہ بہت خو چبھتی ہوئی نظ ہے۔ اپ نے چہرہ کو گرد سے ص ف کرنے کو کہ ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم را چہرہ اتن مسخ ہو چک ہے کہ اس کو ص ف کرنے کی نہیں ب کہ ایک بڑے اپریشن کی ضرورت ہے کہ جس سے وہ چہرہ نکھرے جو کہ ہم را اص ی اور بے مث لی چہرہ س منے ائے۔ ایک دف ہ پھر داد۔ ط ل دع ک یل احمد http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9121.0
26
میں نے دیکھ پ نیوں پر میں اشک لکھنے چال تھ دیدہءخوں دیکھ کر ہر بوند ہوا کے س ر بر نکل گئی منصف کے پ س گی ش ہ کی مجبوریوں میں وہ جکڑا ہوا تھ سوچ پ نیوں کی بےمروتی ک فتوی ہی لے لیت ہوں مالں ش ہ کے دستر خوان پر مدہوش پڑا ہوا تھ دیکھ ‘ شیخ ک در کھال ہوا ہے
27
سوچ ش ید یہ ں داد رسی ک کوئی س م ن ہو ج ئے گ وہ بچ رہ تو پریوں کے غول میں گھرا ہوا تھ کی کرت کدھر کو ج ت دل دروازہ کھال خدا جو میرے قری تھ بوال کتنے عجی ہو ت بھی کی میں ک فی نہیں جو ہوس کے اسیروں کے پ س ج تے ہو میرے پ س آؤ ادھر ادھر نہ ج ؤ میری آغوش میں تمہ رے اشکوں کو پن ہ م ے گی
28
ہر بوند رشک ل ل فردوس بریں ہو گی اک قظرہ مری آنکھ سے ٹپک میں نے دیکھ ش ہ اور ش ہ والوں کی گردن میں بے نصیبی کی زنجیر پڑی ہوئی تھی
29
مکر بندہ جن
حسنی ص ح :سال مسنون
آزاد ش عری ع طور پر میرے سر پر سے گزر ج تی ہے۔ ج تک میں اس کے ت نے ب نے س جھ ت ہوں پچھ ے پڑھے ہوئے مصرعے ذہن کی تہوں میں کہیں گ ہو ج تے ہیں اور میں پھر نظ پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش میں گرفت ر ہو ج ت ہوں۔ آپ کی اس نظ کے مط ل ہ میں ایس صرف ایک ب ر ہوا اور میں ج د ہی منزل مقصود تک پہنچ گی ۔ یہ ش ید اس لئے ہوا کہ آپ کی نظ پر دلسوزی اور خ وص دل کی مہر لگی ہوئی ہے جیسے آپ اپنی آپ بیتی بی ن کر رہے ہوں۔ نظ پڑھ کر مت ثر ہوا۔ نظ ک پیغ ع سہی لیکن اہ ضرور ہے۔ ہ اہل دنی بے تح شہ اہل اقتدار کی ج ن بھ گتے ہیں اور اس تگ و دو میں بھول ج تے ہیں کہ دینے واال تو کوئی اور ہی ہے۔ هللا رح کرے۔ ایسے ہی لکھتے رہئے۔ هللا آپ کو ہمت اور ط قت عط فرم ئے۔ صالحیت اور توفی سے تو اپ بھر پور ہیں ہی۔ ب قی راوی س چین بولت ہے۔ سرور ع ل راز http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9132.0
30
ہر گھر سے دن کے اج لوں میں خداہ ئے ک ر س ز و ک ر نواز پیتے ہیں سچ ک لہو کہ وہ اج لوں کی بستی میں زندہ رہیں شر سے ا تمہیں کوئی ش بیدار کرن ہو گی کہ سچ اسے دکھنے ہی نہ پ ئے تمہیں بھی تو اس کی کوئی خ ص ضرورت نہیں ی پھر آتی نس وں کے لیے ہی سہی دن کے اج لوں میں روح حیدر رکھن ہوگی
31
سسی فس ک جیون جیون نہیں سقراط کی مرتیو مرتیو نہیں جین ہے تو حسین ک جیون جیو کہ ج ارتھی اٹھے خون کے آنسووں میں راکھ اڑے خون کے آنسووں میں ش عر ک ق روشنی بکھیرے گ زندگی‘ آک ش کی محت ج نہ رہے گی ہر گھر سے چ ند ہر گھر سے سورج ط وع ہو گ غرو کی ہر پگ پر
32
کہیں سقراط کہیں منصور تو کہیں سرمد کھڑا ہو گ پ کوں پر شبن کسی کی آنکھ میں سم ئی ظ مت ش کسی کی آنکھ میں تسکین ک ج دو گ یوں کے ہونٹوں پر سجی عید مب رک ........... ش ہجر ہ س ر ہوئے تری آنکھوں کے مست پی لے پی س میں ڈوبے ب دلوں کے ........... بھوک ج بھی ست تی ہے دریچے اخالص کے س بہرے ہو ج تے ہیں ............
33
ش کے ہ تھوں میں پتھر صبح کی آنکھ میں خنجر بچہ مرا پوچھے ہے آج ک موس ............... مچھرے کی پ کوں پر شبن تڑپ بےآ م ہی کی ی یہ ج تی آنکھوں ک دھواں .......... 1995
34
حی ت کے برزخ میں تالش م نویت کے س لمحے صدی ں ڈک ر گئیں چیتھڑوں میں م بوس م نویت ک س ر اس کن رے کو چھو نہ سک ت سف کے دو آنسو ک سہءمحرومی ک مقدر نہ بن سکے کی ہو پ ت کہ ش کشف دو رانوں کی مشقت میں کٹ گئی صبح دھی ن ن ن ن رس کی نذر ہوئی ش عر ک کہ بےحواسی ک ہ نوا ہوا دفتر رفتہ ش ہ کے گیت گ ت رہ وسیبی حک ئتیں بےوق ر ہوئیں
35
قرط س فکر پہ نہ چڑھ سکیں گوی روایت ک جن زہ اٹھ گی ضمیر بھی چ ندی میں تل گی مجذو کے خوا میں گرہ پڑی مکیش کے نغموں سے طب ہ پھسل گی درویش کے حواس بیدار نقطے ترقی ک ڈر نگل گی نہ مشر رہ نہ مغر اپن بن آخر ک تک یتی جیون حی ت کے برزخ میں شن خت کے لیے بھٹکت رہے
36
سچ کے آنگن میں ج بھوک ک استر حرص کی بستی میں ج بست ہے اوپر کی نیچے‘ نیچے کی اوپر آ ج تی ہے چھ ج کی تو ب ت بڑی چھ نی پنچ بن ج تی ہے بکری ہنس چ ل چ نے لگتی ہے کوے کے سر پر سر گرو کی پگڑی سج ج تی ہے دہق ن بو کر گند فصل جو کی ک ٹتے ہیں صبح ک اترن لے کر ک لی راتیں سچ کے آنگن میں ج بستی ہیں م رچ ٩٧ ‘ ٩
37
مکر بندہ حسنی ص ح :سال ع یک ایک مدت کے ب د آپ کی خدمت میں ح ضر ہورہ ہوں۔ بہ نہ کوئی نہیں ہے۔ بس زندگی ج جس ک کی مہ ت دے دے وہی غنیمت ہے۔ انجمن آت رہ ہوں ،ادھر لکھن پڑھن پھر شروع کردی ہے۔ آپ ح ل میں انجمن میں نظر نہیں آئے۔ یقین ہے کہ اپنے ارادت مندوں سے خ نہیں ہوئے ہوں گے۔ آپ کی انجمن کو اور اردو کوبہت ضرورت ہے۔ نثرنگ ری ک فن ا بہت مضمحل ہو گی ہے۔ آپ جیس لکھتے ہیں ویس لکھنے والے ا خ ل خ ل رہ گئے ہیں۔ سو اگر کوئی گست خی ہو گئی ہو تو ازراہ بندہ نوازی درگذرکیجئے اور یہ ں آن ج ن برابر ق ئ رکھئے۔ جزاک هللا خیرا۔ آج آپ کی تالش میں اس طرف نکل آی تو یہ آزاد نظ نظر آئی۔ یقین ج نئے کہ کئی مرتبہ اسے پڑھ اور بہت غور سے پڑھ ۔ کچھ هللا ک "ان " ایس مجھ پر ہے کہ آزاد ش عری بڑی مشکل سے ذہن میں اتر پ تی ہے۔ ش ید یہ اس تربیت ک اثر ہے جو بچپن سے مجھ کو م تی رہی ہے۔ بہر کیف میں کوشش تو بہت کرت ہوں لیکن ہ تھ بہت ک آت ہے اور مشکل سے آت ہے۔ آپ کی نظ مختصر ہے لیکن میرے لئے جوئے شیر بن کر رہ گئی
38
ہے۔ جس طرح نظ شروع ہوئی ہے اور جس طرح اختت کو پہنچی ہے وہ ایک الجھن میں ڈال گی ہے۔ اگر آپ نظ کو نثر میں چند جم وں کے ذری ہ واضح کر دیں تو مجھ پر عن یت ہوگی۔ یہ کوئی مذا ی طنز نہیں ہے ب کہ اظہ ر حقیقت ہے۔ کھ واڑ نہیں ہے ب کہ نظ کی گہرائی تک پہنچنے کی کوشش ہے۔ امید ہے کہ آپ توجہ فرم ئیں گے۔ شکریہ سرور ع ل راز استر gadhy ya goray ka bacha nahain hota balkah khachar male aur khachar female ke milap se paida hota hai. bala ka taqatwaar hota hai bara khata hai nichla nahain baithta. tikta nahain aur nahi tiknay daita. hirs issi se mamasal hai. maqsood hasni http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9301.0
39
سوچ کے گھروندوں میں ع و فن کے ک لے سویروں سے مجھے ڈر لگت ہے ان کے بطن سے ہوس کے ن گ جن لیتے ہیں سچ کی آواز کو جو ڈس لیتے ہیں سہ گنوں کی پی سی آتم سے ہوس کی آگ بجھ تے ہیں صالحیتوں کے چراغوں کی روشنی کو دھندال دیتے ہیں بجھ دیتے ہیں ح کے ایوانوں میں اندھیر مچ دیتے ہیں
40
حقیقتوں ک ہ زاد اداس ل ظوں کے جنگ وں ک آس سے ٹھک نہ پوچھت ہے ان اور آس کو ج یہ ڈستے ہیں آدمیت کی آرتھی اٹھتی ہے ک کوسی' بےہمتی بےاعتن ئی کے شراپ کے س ئے اب یس کے قد لیتے ہیں شخص کبھی جیت کبھی مرت ہے کھ نے کو عذا ٹکڑے پینے کو تیزا بوندیں م تی ہیں خود کشی حرا سہی مگر جین بھی تو جر ٹھہرا ہے ست روں سے لبریز چھت ک دور تک ات پت نہیں
41
ہوا ادھر سے گزرتے ڈرتی ہے بدلتے موسموں ک تصور شیخ چ ی ک خوا ٹھہرا ہے یہ ں اگر کچھ ہے تو'........... منہ میں زہر بجھی ت واریں ہیں پیٹ سوچ ک گھر ہ ت بھیک ک کٹورا ہوئے ہیں بچوں کے ک نچ بدن بھوک سے کبھی نی ے کبھی پی ے پڑتے ہیں اے صبح بصیرت! تو ہی لوٹ آ کہ ن گوں کے پہرے کر زخموں سے رست برف لہو
42
تو نہ دیکھ سکوں گ سچ کے اج لوں کی حسین تمن مجھے مرنے نہ دے گی اور میں اس بےوضو تمن کے سہ رے کچھ تو سوچ سکوں گ سوچ کے گھروندوں میں زیست کے س رے موس بستے ہیں ق ضی جرار حسنی 1974
43
ٹیکس لی کے شیشہ میں م صو گڑی سی زیست کے نشی و فراز سے بے خبر کہکش نی رستوں کی تالش میں مشک و عنبر کی جہ ں ب س ہو ہوا جس کی مگر اسے راس ہو پریوں کے شہزادے ک میسر س تھ ہو گھر سے بھ گ نک ی آنکھوں میں اس کے روشی تھی سراپے ک ت ج محل ک یوں سے ت میر ہوا تھ ہر دل سے درد اٹھ مونس و غ گس ر بن گی وہ کی ج نے اس نگر میں بھنورے بھی رہتے ہیں
44
بھیڑیے ت ک میں ہیں اک روز پھر اخب ر میں خبر چھپی مط ع ہوں اک لڑکی کے اعض ء بکھر گیے تھے گندے گٹر میں پڑے تھے ہر ٹکڑا زخموں سے چور تھ اور خون بھی بہہ رہ تھ گندے پ نی کی ٹھوکریں سہہ رہ تھ کہہ رہ تھ ش ید میرا کوئی بچ رہ ہو یہ بکھرے اعض ء بڑی ح ظت سے کڑی ری ضت سے جوڑ کر‘ سی کر داراالن بھیج دیے ہیں داراالم ن سے رابطہ کریں خوبی قسمت دیکھیے
45
ٹیکس لی کے ب سی قدر شن س نک ے آج بھی وہ اعض ء ٹیکس لی کے شیشہ میں سجے ہیں کہ ان ک کوئی مستقبل نہیں م ضی کہیں کھو گی ہے ح ل مت ین نہیں ہوا کہ ا ان پر س ک ح ہے
46
آزاد کر غر سے امن س یقہ اترا مرے آنگن کی روشنی بےوق ر ھوئی گردا میں کھڑا است رہ بول رہ تھ پتھر کو رقص دو س موس دبوچ لو ج خوش بو کی ردا اوڑھ کر زیست ک صحی ہ اترا اک ک ن بردار بڑا ہی پر وق ر ت وار کی دھ ر پر کہے ج رہ تھ آنکھ کے س رے جگنو
47
آزاد کر دو آزاد کر دو م ہ ن مہ نوائے ہٹھ ن‘ الہور ستمبر
48
وہ ل ظ کہ ں ہے‘ کدھر ہے سرخ ہو کہ سپید سی ہ ہو کہ ک سنی جدید ہو کہ قدی دوست ہو کہ دشمن کیس بھی رہ ہو مجھے اس سے کوئی غرض نہیں ہ ں مگر سخت ہو مونگے کی طرح نر ہو ریش کی طرح ب ند ہو ہم لہ ایس روشن ہو آفت
ایس
حسین ہو مہت
ایس
ع ش ہو بالل ایس عمی ہو بحر الک ہل ایس
49
پرواز میں جبرئیل ایس سم عت میں صور اسرافیل ایس بےکراں‘ چرخ نیل ف ایس ذات ک کھوجی لہر ایس گوہر شن س ہو ہنس ایس بےقرار‘ سیم
ایس
شج ع‘ حیدر کرار ایس یہ ہی نہیں اپنی ذات میں‘ ب کم ل ہو الزوال ہو وہ ل ظ کہ ں ہے‘ کدھر ہے صدیوں سے میں اس کی تالش میں ہوں کہ نوع بشر کو اس کی عظمتوں ک راز کہہ دوں عظمت آد ک آج پھر چرچ ہو مخ و ف کی پھر سے
50
تجدید عظمت آد کرے خدا ل یزل کہہ دے کہت نہ تھ جو ج نت ہوں میں ک ج نتے ہو ت کوئی تو کھوجے‘ کوئی تو تالشے کہ وہ ل ظ کہ ں ہے‘ کدھر ہے ........... ق ضی جرار حسنی فروری ٩٧٧
51
میں مٹھی کیوں کھولوں میں مٹھی کیوں کھولوں بند مٹھی میں کی ہے کوئی کی ج نے مٹھی کھولوں تو ت مرے ک رہ پ ؤ گے ہر سیٹھ کی سیٹھی اس کی گھت ی کے د سے ہے میں مٹھی کیوں کھولوں تری ی د کی خوشبو مری ہے مری ہے اس ی د کے ب طن میں ترے ہونٹوں پر کھ تی ک ی ں تری آنکھوں کی مسک نیں بھیگی س نسوں کی مہکیں
52
جھوٹے بہالوے کچھ بے موس وعدے س تھ نبھ نے کی قسمیں دکھ کے نوحے شرا سپنوں کی قوس و قزاح مری ہے مری ہے میں مٹھی کیوں کھولوں
53
مت پوچھو بن ترے کیسے جیت ہوں مت پوچھو اڈیکوں کے ظ ل موس میں س نسوں ک آن ج ن کیسے ہوت ہے مت پوچھو س ون رت میں آنکھوں کی برکھ کیسے ہوتی ہے مت پوچھو خود غرضی ک لیبل ج بھی لگت ہے راتوں کی نیندیں ڈر ج تی ہیں آشکوں کے ت رے س رے کے س رے گنتی میں ک پڑ ج تے ہیں آس کی کومل کرنیں
54
ی س کی اگنی میں ج ج تی ہیں ت روح کی ارتھی اٹھتی ہے ی دوں کی ن آنکھوں کی بیپت مت پوچھو چھوڑ کر ج نے کے موس پر بچھڑے موس ک اک پل بھ ری ہوت ہے پھر کہت ہوں ک لے موس ت کو کھ ج ئیں گے تری ہستی کی کوئی کرچی میں کیسے دیکھ سکوں گ چہرے گھ ئل مرے دل کے کتنے ٹکڑے کرتے ہیں مت پوچھو
55
شبن نبضوں میں عش پ کوں پر پروانے اترے دیوانے تھے جو پر جالنے اترے لمس کی حدت نے خوشبو کی شدت نے آئین کے سینے پر پتھر رکھ گال آنکھیں پتھر ہر رہگزر خوف ک گھر سوچ دریچے برف ہوئے بہری دیواروں پر گونگے خوا اگے اندھے چرا ج ے شبن نبضوں میں موت ک ش ہ تھ
56
شہر میں کہرا مچ پروانے تو دیوانے تھے پر جالنے اترے
57
ج تک وہ قتل ہو گی پھر قتل ہوا ایک ب ر پھر قتل ہوا اس کے ب د بھی قتل ہوا وہ مس سل قتل ہوت رہ ج تک سیٹھوں کی بھوک‘ نہیں مٹ ج تی ج تک خواہشوں ک ‘ جن زہ نہیں اٹھ ج وہ قتل ہوت رہے گ وہ قتل ہوت رہے گ
58
محترمی ڈاکٹر حسنی ص ح :آدا عرض آپ کی نثری نظ پڑھی اور مست ید ہوا۔ نثری نظ کی ضرورت میری سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ نثری نظ دراصل اچھی نثر کو چھوٹے بڑے ٹکڑوں میں تقسی کرنے ک دوسرا ن ہے۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہے۔ مجھ کو آپ کی یہ نثری نظ اس لئے اچھی لگی کہ اس ک موضوع وقت کی پک ر ہے۔ جس طرح س ری دنی میں اور خ ص طور سے دنی ئے اسال میں :سیٹھوں ،وڈیروں: کے ہ تھوں عوا ک استحص ل ہو رہ ہے وہ بہت عبرتن ک ہے۔ افسوس کہ اس ک عالج سمجھ میں نہیں آت ۔ ایک سوال دل میں اٹھت ہے کہ اس قدر ظ ہو رہ ہے تو وہ ہستی جس کو ہ :هللا، خدا ،بھگوان ،گ ڈ :کہتے ہیں کیوں خ موش ہے؟ اگر س کچھ اس کے ہ تھ میں ہے تو پھر وہ کچھ کرتی کیوں نہیں؟ آپ نے بھی اس پر سوچ ہوگ ۔ من س ج نیں تو اس پر لکھیں۔ شکریہ۔ خد مشیر شمسی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8503.0
59
صبح ہی سے وہ آگ عزازئیل کی جو سرشت میں تھی اس آگ کو نمرود نے ہوا دی اس آگ ک ایندھن ق رون نے پھر خرید کی اس آگ کو فرعون پی گی اس آگ کو حر نے اگل دی یزید مگر نگل گی اس آگ کو میر ج ر نے سجدہ کی میر ق س نے مش ل ہوس روشن کی اس آگ کے ش ے پھر ب ند ہیں مخ و ارضی
60
ڈر سے سہ گئی ہے ابر ب راں کی راہ دیکھ رہی ہے کوئی ب دل ک ٹکڑا نہیں صبح ہی سے تو آسم ن نکھر گی ہے 1980
61
نوحہ وہ قیدی نہ تھ خیر وشر سے بے خبر م صو فرشتوں کی طرح جھوٹے برتنوں کے گرد انگ ی ں محو رقص تھیں اس کی ہر برتن کی زب ن پہ اس کی مرحو م ں ک نوحہ ب پ کی بےحسی اور جنسی تسکین ک بین تھ آنکھوں کی زب ن پہ اک سوال تھ ‘اس کو زندگی کہتے ہیں یہی زندگی ہے؟؟؟؟
62
ایندھن دیکھت اندھ سنت بہرا سکنے کی منزل سے دور کھڑا ظ دیکھت ہے آہیں سنت ہے بولت نہیں کہت نہیں جہن ضرور ج ئے گ
63
ع ری جبراائیل ادراک ش ہین پرواز لے گی سیم
بےقراری
گال خوشبو لے گی مہت
چ ندنی
خورشید حدت لے گی جو جس کو پسند آی لے گی تیرے پ س کی رہ دو ہ ت‘ خ لی دو آنکھیں‘ بے نور راتوں کے خوا بے رون ‘ بےزار دن کے اج لے
64
خ موش‘ اداس ہم لہ‘ مٹی ک ڈھیر حرکت سے ع ری تو‘ مٹی ک ڈھیر حرکت سے ع ری ع ری جبرائیل ادراک ش ہین پرواز لے گی سیم
بےقراری
گال خوشبو لے گی مہت
چ ندنی
خورشید حدت لے گی جو جس کو پسند آی لے گی تیرے پ س کی رہ دو ہ ت‘ خ لی
65
دو آنکھیں‘ بے نور راتوں کے خوا بے رون ‘ بےزار دن کے اج لے خ موش‘ اداس ہم لہ‘ مٹی ک ڈھیر حرکت سے ع ری تو‘ مٹی ک ڈھیر حرکت سے ع ری
66
محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! اسال ع یک
اپ کی نظموں پر اج پہ ی ب ر نظر پڑی۔ ہ نے انھیں بہت ہی فکر انگیز اور ولولہ انگیز پ ی ۔ یہ نظ ہمیں بہت پسند ائی ہے۔ اگرچہ ہ اپ کے ع کے مق ب ے میں ش ئید اسے ان م نوں تک سمجھ نہ پ ئے ہوں۔ جہ ں تک ہ سمجھے ہیں اپ اس میں انس ن سے مخ ط ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ انس ن صرف قدرت کی عط کی ہوئی چیزوں سے کچھ ح صل کرت ہے۔ اگر اس سے س کچھ چھین لی ج ئے تو انس ن کے اپنے پ س کچھ بھی نہیں ،فقط مٹی ک ڈھیر ہے۔ انس ن کو قدرت کی تراشی چیزیں بہت کچھ دیتی ہیں ،لیکن انس ن ان مخ وق ت کو کچھ نہیں دے سکت ۔ البتہ جبرائیل والی ب ت ہ سمجھ نہیں سکے ہیں اور اپنی ک ع می پر ن د ہیں۔ اگر ہ سمجھنے میں ک ی ی جزوی طور پر غ ط ہوں تو مہرب نی فرم کر اس ن چیز کی ب ت پر خ نہ ہوئیے گ ۔ ہم را ع و ادراک فقط اتن ہی ہے ،جس پر ہ مجبور ہیں اور شرمس ر بھی۔ ط ل دع وی بی جی
67
tovajo ke liay ehsan'mand hoon. Allah aap ko khush rahe jald hi tafsilun arz karne ki koshesh karoon ga lane lay janay ka kaam jabreel hi karta hai. aql-e-kul bhi maroof hai adami bila aql kaam chala rara hai natijatun jo ho raha hai samnay hai maqsood hasni
68
محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال مسنون
شکر گزار تو ہ ہیں کہ اپ نے ہم ری الجھن دور کی اور ہمیں اس نظ ک صحیح م نوں میں مزا لینے اور سمجھنے میں مدد دی۔ اپ کی اس ب ت aql-e-kul bhi maroof hai نے ب ت واضح کر دی ہے اور ہم رے ع میں اض فے ک ب عث بھی کی ۔ شکریہ اور دع ؤں کے س تھ خ کس ر وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8506.0
69
حرص کی ر ج حرص کی ر ج میں مالں پنڈت گرجے ک ف در گر ک امین لمبڑ کے ڈیرے پر بیٹھے آنکھوں میں پتھر رکھ کر پکون کے گیت گ ئیں لوکن کے گھر بھوک ک بھنگڑا گ یوں میں موت ک خنجر کھیتوں میں خوف کی ک شت جیون تذبذ کی ص ی پر لٹک تخ ی کی ابجد
70
تقدیر کی ریکھ کیسے ٹھہرے گ ؟
71
بے انت سمندر آنکھ میں پ نی آ کوثر شبن گل کے م تھے ک جھومر جل ‘جل کر دھرتی کو جیون بخشے گنگ جل ہو کہ ز ز کے مست پی لے دھو ڈالیں ک لک کے دھبے جل اک قطرہ ہے جیون بے انت سمندر ف لتو ک غذات کی چھ نٹی کر رہ تھ ' تو اس پرزے پر نظر پڑی۔ یہ نوٹ بک ک ایک ص حہ ہے اور اوپر ص 100:درج ہے۔ اس ک غذ کی قسمت اچھی تھی' جو روڑی پر نہیں گی اور ریک رڈ
72
میں آ گی ۔ پڑھیے اور لطف لیجیے' میں آپ سے پہ ے لطف لے چک ہوں۔ اس قس کے ج نے کتنے' پرزے ردی چڑھ ئے ج :چکے ہیں اور مجھے' ی د تک نہیں ہیں۔ خیر پڑھیے پہی ی تن ک اجال من ک ک ال بھولے اس کو دیکھن واال لمبی چونچ دو ٹ نگیں اک کھ ی اک بند آنکھوں میں ڈورا سرخ نہ ک ال بوجھو تو ج نیں جوا نیچے بش لکھ ہوا ہے' گوی یہ پہی ی' بش عہد میں لکھی گئی ہے۔ را بھ ی کرے گ
73
ہ تھ کے بدلے ہ تھ سر کے بدلے سر تھپڑ کے بدلے تھپڑ پتھر کے بدلے پتھر میر ج ر نے مگر لوٹ لی ہے کس سے فری د کریں جس ہ تھ میں گال وسنبل اس کی بغل میں خنجر کمزور کی جیون ریکھ ک منشی ٹھہرا ہے ق تل چور اچک ق نون بن ت ہے لوبھی ق نون ک رکھواال بےبس زخمی زخمی
74
منصف ہوا ہے اور یہ مقولہ ب قی ہے چڑھ ج بیٹ سولی را بھ ی کرے گ
75
س حل ک پتھر س حل کے پتھر سے موجیں ج ٹکراتی ہیں کرچی کرچی ہو ج تی ہیں کوئی کہہ دے پروانے سے کی ہو گ مر ج نے سے ج بھی آنکھ کے س حل پر ابھریں موت کے منظر کہہ دین اشکوں سے بالوے کے س بول منڈیر پر رکھ دیں چی یں کوے اپن حصہ پ لیں گے دیواریں بھی کھ لیں گے ت الو بولے گ
76
س حل کے پتھر سے موجیں ج ٹکراتی ہیں کرچی کرچی ہو ج تی ہیں س حل ک پتھر پھر بھی پتھر
77
مرے آگے ب زییچہءاسہ ل ہے دنی مرے آگے بہت ہے ش و روز دری مرے آگے گو س س کو جنبش نہیں س لوں میں تو د ہے رہنے دو ابھی مرچوں ک کونڈا مرے آگے شوہر ہوں س م ن اٹھ ئی ہے مرا ک گدھے کو برا کہتی ہے زوجہ مرے آگے پھر دیکھیے طور چھترافش نی اغی ر رکھ دے کوئی مجنوں ک چہرہ مرے آگے ہے موج میں وہ زن ک ش یہی ہوت رہے ہو دری اس کے پیچھے موقع مرے آگے )غ ل کی روح سے م ذرت کے س تھ( اک میں ہی موٹی نہیں دنی میں موٹی ں اور بھی ہیں کھ ؤ کھ ؤ‘ دیگ میں پڑی ابھی بوٹی ں اور بھی ہیں
78
ب رود کے موس کرائے کے ق تل کی بھکش دیں گے؟ کرن ہم ری کھ ج ہے ہ موسی کے ک پیرو ہیں جو آسم ن سے من و س وی اترے گ اپنی دونی ک گیندا ہیرے کی جڑت کے گہنوں سے گربت کی چٹی پر سوا سج دھج رکھت ہے میری ک ط ن م ن
79
اکھین کے س رے رنگوں پر کہرا بن کے چھ ج ت ہے کوڑ کی برکی ک وش دیسی نغموں میں ڈر ک بے ہنگ غوغ طب ے کی ہر تھ پ کھ پی ج ت ہے کرائے کے ق تل کی بھکش دیں گے؟ ان کی آنکھوں میں تو ب رود کے موس پ تے ہیں http://www.urdutehzeb.com/showthread.php/3429-%D8%A8%D8%A 7%D8%B1%D9%88%D8%AF-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D8 %B3%D9%85
80
یہ ہی فیص ہ ہوا تھ عہد شہ میں بےحج بےکسی بھی عج قی مت تھی۔ صبح اٹھتے مشقت اٹھ تےعوضوانے کو ہ تھ بڑھ تے بے نقط سنتے۔ س نسیں اکھڑ ج تیں مہر بہ ل جیتے کہ س نسیں ب قی تھیں۔ جین تو تھ ہی لہو تو پین تھ ہی۔ ادھر ایونوں میں آزادی کی صدائیں گونج رہی تھیں ادھر گ یوں میں خوف ک پہرا تھ کہ ش ہ بہرا تھ ۔ ش ہ والے گ یوں میں بےچنت کرپ نیں لیے پھرتے تھے۔ نق ہت ہ تھ ب ندھے شک میں بھوک آنکھوں میں پی س لیے کھڑی تھی ہ ں مگر ش ہ کی دی ک بول ب ال تھ ۔ پنڈت کے ہونٹوں پر ش نتی بغل میں درانتی مالں بھی من میں ت ری ک ب رود بھرے امن امن امن کیے ج رہ تھ ۔ ا ج کہ پیری پہ شنی ک پہرا ہے بھوک ک گھ ؤ گہرا ہے۔ جی میں دمڑی نہیں امبڑی نہیں کہ وید حکیموں کے دا چک ئے بڑے ش خ نے کے در پر الئے م یوسی کی ک لک مٹ ئے آہیں سنے تش ی کی لوری سن ئے۔ ہونٹوں پہ گال سج ئے دل میں کر اٹھ ئے ا کون ہے جو مرے مرنے سے مر ج ئے۔
81
بیٹے کو اپنی پتنی سے فرصت نہیں بیٹی کی س س کپتی ہے بھ ئی کے گھر تیل نہ بتی ہے مری بہن کی کون سنت ہے سیٹھ کے برتن دھو سیٹھنی کے کوسنے سن کر پیٹ بھرتی ہے۔ بیگ روتی ہے نہ ہنستی ہے سوچتی ہے ک ن دفن کے لیے پیسے کہ ں سے آئیں گے کہیں اس کے بھ ئیوں کی چمڑے نہ ادھڑ ج ئے وہ تو بہنوئی کی کھ تے تھے ج بھی آتے تھے کچھ ن کچھ لے ج تے تھے۔ جیت ہوں تو مصیبت مرت ہوں تو مصیبت۔ میں وہ ہی ہوں جواندھیروں میں رہ کر ایونوں کے دیپ جالت رہ دوا دور رہی مری گرہ میں تو اس اجڑے گ ست ن ک کرایہ نہیں۔ گھر میں روشنی نہیں ن سہی ش ید کوئی فرشتہ مری لحد میں بوند بھر روشنی لے کر آ ج ئے عمر بھر خود کو نہ دیکھ سک سوچ سک واں سکوں ہو گ خود کو دیکھ سکوں گ سوچ سکوں گ خود کو دیکھنے سوچنے کی حسرت بر آئے گی۔ خود کو دیکھ کر سوچ کر ارضی خدائی سے مکتی ق بی خدا کی بےکراں عظمتوں ک اسرار کھل ج ئے گ وہ میرا تھ میرا ہے مجھے مل ج ئے گ ۔ سردست ک ن و دفن کے س م ن کی فکر ہے۔ ک ن م ے ن م ے اس سے کی فر پڑت ہے۔ عمر بھر اس نے مری پردہ پوشی کی ہے ا بھی کرئے گ ۔
82
ایونوں میں بستے س یدی میں لپٹے شیط نوں ک نگر مرا نہیں مرا نہیں گورنگر مرا ہو گ مرا خدا کچھ لیت نہیں دیت ہے۔ لین مری ع دت دین اس کی فطرت روٹی کی فکر کیسی کرائے کی چنت میں کیوں کروں مری ج ن میں آ رہ ہوں تو مختصر سہی مرے لیے مری حسرتوں کے لیے س ت زمینوں سے بڑھ کر وس ت رکھتی ہے میں بھول میں رہ کہ یہ ں کچھ بھی مرا نہ تھ زیست کے کچھ لمحوں کی دیری تھی تو ہی تو مری تھی یہ ہی فیص ہ ہوا تھ یہ ہی فیص ہ ہوا تھ یہ ہی فیص ہ ہوا تھ ۔
83
84
چودہ اگست ................. چودہ اگست اک دن ہے جو شر اج لت ہے اف میں لہو اچھ لت ہے اس دن خوش بو اگتی ہے نکہت نکھرتی ہے بگڑی سنورتی ہے جذبے لہو گ تے ہیں ان حد صدمے سن تے ہیں خوا غ ت چراتے ہیں م یوسی کے دھبے مٹ تے ہیں فردوس کی ہوا التے ہیں چودہ اگست اک دن ہے
85
کر گزرنے کی ی د دالت ہے برف لہو گرم ت ہے شہیدوں ک یہ سندیسہ الت ہے اٹھو ج گو صبح ہوئی ہے صدی ں نہ جو کر سکیں ہم را لہو وہ کر گی اس زمین کی ت م نگ سنورو خون پسینے سے اس کو نکھ رو آتی نس وں تک یہ زندہ رہے ان کے مقدر میں ت بندہ رہے
86
اردو کی پہ ی سنکوئین آس ست رے من کی چھپ کر من میں دھڑکت پھڑکت پر خوف کے پہرے آس ست رے س رے کے س رے ی س اف میں شن نت ہوئے
87
اپیل ن رت کی توپوں کے دہ نوں پر دودھ پیتے بچوں کو نہ رکھو ان کی آنکھوں کی م صومیت م صومیت کی آغوش میں پ تے خوا خوا صبح کی ت بیر ہوت ہے خوا مر گیے تو آت کل مر ج ئے گ اور یہ بھی کہ ممت قتل ہو ج ئے گی 'خو ج ن لو ن رت کے تو پہ ڑ بھی متحمل نہیں ہوتے کل کیوں کر ہو گ میں ت سے پھر کہت ہوں
88
ن رت کی توپوں کے دہ نوں پر دودھ پیتے بچوں کو نہ رکھو م ہ ن مہ سوشل ورکر الہور' جنوری-فروری 1992
89
اس روز بھی
اس روز بھی اک قتل ہوا اف میں لہو اتر گی ہ ت میں خنجر لے کر وہ شہر بھر پھرت رہ ہر دیکھت اسے دیکھت رہ سسکی ں گواہ کیوں بنیں لہو بھی تو بول رہ تھ
90
گنگ الٹ بہنے لگی ہے من کی دیواروں پر یہ خون کے چھینٹے کیسے ہیں مردہ جسموں کی بو س نسوں میں کس نے بھر دی ہے برف سے جذبوں پر ہ تھ کی پوروں کے نقش کہ ں سے اترے ہیں روح کی زل یں کیوں بکھری بکھری ہیں تمہ رے ج نے کے ب د حی ت کے س منظر کیوں ٹھہر گیے ہیں ت س نہ آنے کے خدشے
91
بل کھ تے س نپوں کے مسکن بن ج تے ہیں فرزانہ ہوں کہ دیوانہ میں ک ج نت ہوں ہں تمہ رے ج نے سے پہ ے یہ س کچھ نہ تھ تمہ رے ج نے کے ب د گنگ الٹ بہنے لگی ہے
92
لہو ک تقدس ک ی ں اور گال و کنول بھی پیر مغر کی ٹھوکر میں ہیں میرے دور ک ٹیپو غیرت کے لہو ک تقدس بھوک کے آئنہ میں دیکھت ہے
93
بھوال نہیں میں لوگ ت وذ کہتے ہیں اسے دیکھ کر سکے چ تے نہیں بخل کے حسن کے ب زار میں ............. ترک ال ت میں بھی اک س یقہ تھ دوڑے آئے غیر بھی ان کی ہر صدا پر ............. نظر م نے کے لمحے چھپ رکھے ہیں احس س کی بوتل میں سزا کے لیے تو گواہی چ یے ............ احس س حسن ہوت گال کو یوں وہ بےحرمت نہ ہوت
94
امیر شہر کےقدموں میں .............. صدائیں ا کون سنے گ ترے حسن کے خمیر کی ری نے ڈس لی ہے اہل وف کو ............ دل کے پ ر دیوار سی بنی ہے یہ پتھر تو وہی ہیں آئے تھے جو محبت کے جوا میں ........... قیس ک دعوی عش اہل نظر کیوں م ن لیں عش میں اس کے ک اعتدال تھ ......... ذرا وحشت دل تو دیکھو ج جس نے بہالی
95
س تھ ہو لی ............ کھو کر جوانی کے خدوخ ل میں بھوال نہیں میں ب پ کی آنکھ میں لکھے خط کو .......... ت تو مجر وف ہو سمندر کی تہوں میں بھی کھوج لیں گے ت کو کھوجنے والے 27-9-1995
96
شہد سمندر ترے شبدوں میں شہد سمندر ترے ہونٹوں میں تخ ی کی ابجد تری آنکھوں میں کئی عرش سجے ترے پیروں میں جیون ریکھ تری س نسوں میں آج اور کل تری کھوج ک پل صدیوں پر بھ ری ترے م ن کے عشرے ج پیں پل دو پل
97
ترے سوچ کے آنگن میں کن کے بھید چھپے تو چھو لے تو مٹی سون اگ ے پتھر پ رس ٹھہرے تری ایڑ کے اندر احس س کے س ت سمندر ترا دامن فرشتوں ک مسکن تو وہ برگد چرا کر س یہ جس ک آک ش اترائے میں اپنے بخت پر ن زاں ہوں تو مری م ں کہالئے ترے سینے میں مری پی س کےدیپ ج یں
98
م ں کے دل کی دھک دھک خ د کے گیت سن ئے
99
رات ذرا ڈھل ج نے دو رات ذرا ڈھل ج نے دو ج دو پ ٹ ندی کے مل ج ئیں گے در وصل کے کھل ج ئیں گے نیند کے جھونکے آغوش میں اپنی بستی کو لے لیں گے آک ش سے دھند اترے گی ظ مت اپنی زل وں میں ج گتے رہن کے آوازوں کو کس لے گی ت ہوس سکوں کی گھر سے ب ہر نک ے گی رات ذرا ڈھل ج نے دو
100
ت حصہ اپن بٹوا لین راتوں کے م لک لوگ بھروسہ کے ہیں دن کو تو اج ے چہرے دھندال ج تے ہیں رات ذرا ڈھل ج نے دو
101
پ کوں پر ش پ کوں پر گزری ش ی د ک نشتر ہر صبح راہ ک پتھر سورج بین ئی ک منبع آنکھیں کھو بیٹھ ہر آش زخمی زخمی ہر نغمہ عزائی ی اسرافی ی خون میں بھیگ آنچل گنگ ک ہر رستہ چپ ک قیدی دری کن رے منہ دیکھے ہیں بے آ ندی میں گال کی ک شیں
102
پ نی پ نی ہونٹ س نپوں کے گھر پ کوں کی ش ہر ش پر بھ ری ہے ڈرت ہے اس سے حشر ک منظر
103
آج بھی بہت سے گ ہوئے بہت سے مر گیے کچھ پس ست کیے کچھ عد م نویت کی ص ی چڑھے ہ ں‘ ش ہ نواز ت ریخ کی لوح پر زندہ رہے وہ ہی وقتوں کے ہیرو ٹھہرے جن پر مالں کی مہر ثبت ہوئی انہیں کون جھٹالئے سچ ک آئینہ دکھ ئے ‘جھوٹ م نویت کے س تھ زندہ رہ سکھ ک س نس لیت رہ احس س بن
104
عزت کی دلیل ہوا م بدءتوقیر میں پڑا یہ صدیوں ک ورثہ ط
میں رکھ کر
‘کوئی کیوں اس ل ظ کو تالشے جو م شی روایت نہیں سم جی حک یت نہیں بےسر وادی م ش ہو کہ ش ہ کے صن کدے شہوت کی عشرت گ ہوں گنج ن آب د صحراؤں میں اس ک کی ک سچ کے شبدوں کی خ طر ف قہ کی کربال سے گزر کر ح کے ہم لہ کی چوٹی
105
کوئی کیوں منزل بن ئے سپیدی لہو ‘ک کبھی کسی سرمد کی ہ س ر رہی ہے حم دی کے فتوے نے راکھ گنگ کے حوالے نہ کی ش ہ نواز حرف اور نقطے مظ وموں کی شری ت ہے ‘آج بھی لوح فہ و احس س کے ایوان پر ان کی سچ ئی ک ع لہرات ہے 11-7-1978
106
کس منہ سے چ بھرتے ہ ت‘ اٹھ نہیں سکتے ہونٹوں پر فقیہ عصر نے چپ رکھ دی ہے کتن عظی تھ وہ شخص گ یوں میں رسولوں کے ل ظ ب نٹت رہ ان بولتے ل ظوں کو‘ ہ سن نہ سکے آنکھوں سے‘ چن نہ سکے ہم رے ک نوں میں‘ جبر کی پوریں رہیں آنکھوں میں خوف نے پتھر رکھ دیے ہ ج نتے ہیں‘ وہ سچ تھ قول ک پک تھ مرن تو ہے‘ ہمیں ی د نہ رہ ہ ج نتے ہیں اس نے جو کی
107
ہم رے لیے کی جی تو ہم رے لیے جی کتن عجی تھ زندہ الشوں ک د بھرت رہ سوئے صلیب چال نیزے چڑھ ہ دیکھتے رہے مرا جال راکھ اڑی ہ دیکھتے رہے اس کے کہے پر دو گ تو چال ہوت کس منہ سے ا اس کی راہ دیکھتے ہیں ہ خ موش تم ش ئی مظ ومیت ک فقط ڈھونگ رچ تے ہیں بے ج ن جیون کے دامن میں غیرت کہ ں جو رن میں اترے ی پھر پس ل اس کی مدح ہی کر سکے
108
چ و دنی چ ری ہی سہی آؤ اندرون ل دع کریں ان مول سی مدح کہیں
109
وقت کیس انقال الی ہے وقت کیس عذا الی ہے ت ک الئ محبت ہو آئینے میں اپنی شکل تو دیکھو ق صد یہی جوا الی ہے گوی خط میں عت
الی ہے
جو سر کے بل چ ے تھے ن ک ٹھہرے پت جھڑ گال الی ہے ذلیخ ک عش سچ سہی وہ برہنہ پ ک چ ی تھی پہیہ عمودی چ ل چال ہے زندہ قبر میں اتر گی ہے آنکھ دیکھتی نہیں ک ن سنتے نہیں
110
وقت کیس انقال الی ہے ب رش قرض دار ب دلوں کی ب دل بین ئی کو ترسیں زخمی زخمی ہر سہ گن کی کالئی بیوہ سولہ سنگ ر سے ہے وقت کیس انقال الی ہے وقت کیس عذا الی ہے
111
سورج ڈو رہ ہے میں جو بھی ہوں چ ند اور سورج کی کرنوں پر میرا بھی تو ح ہے دھرتی ک ہر موس خدا ک ہر گھر میرا بھی تو ہے قرآن ہو کہ گیت رام ئن ک ہر قص گرنتھ ک ہر نقط میرا بھی تو ہے تقسی ک در ج بھی کھ ت ہے الٹ کے دفتر ک منشی ب رود ک م لک
112
پرچی ک م نگت عط کے بوہے بند کر دیت ہے را اور عیسی کے بول ن چوں کی پھرتی بے لب سی میں رل کر بے گھر بےدر ہوءے ہیں دفتری مالں کےمنہ میں کھیر ک چمچہ ہے پنڈت اور ف در ہ ں ن ں کے پل پر بیٹٹھے توتے کو ف ختتہ کہتے ہیں دادگر کے در پر س ءل پ نی ب وت ہے مدرسے ک م شٹر کمتر سے بھی کمتر
113
ک لج ک منشی جیون دان ہوا کو ترسے ق ک دھنی غالموں کے س پیتے برچھوں کی زد میں ہے س اچھ ک ت ک سر م تھے پر رکھنے والے گورا ہ ؤس کے چمچے کڑچھے ط قت کی بی ی میں کربل کربل کرتے یہ کیڑے ہ نیمن اور اجمل ک منہ چڑاتے ہیں مس ئل کی روڑی پر بیٹھ میں گونگ بہرا بے بس زخمی ن نک سے بدھ لچھمن سے ویر تالشوں مدنی کری کی راہ دیکھوں
114
ع ی ع ی پک روں کہ سورج ڈو رہ ہے
115
بن م نگے نیچے ہ تھ کی جنت دل والوں کو ک خوش آتی ہے ت نے کیوں سوچ لی میں کوت ہ کوس سہی وہ تو تو کی بستی بست ہے چترک ر کوئی غیر نہیں کوئی دور نہیں وہ ج نت ہے کہ کی ان ک ہے بن م نگے ان کو مل ج ئے گ
116
سسے کوہ نور ک ہیرا لے گیے تھے وہ ک بہ بھی لے ج ئیں کے ا رک نہ ج ئیں کہیں شرا وشب
کے
خوشگوار س س ے غیر م تبر عرش پر فرشتے آد کے حضور سجدہ ریز رہے زمین پر آد غیر م تبر ٹھہرا
117
یقینی سی ب ت ہے یقینی سی ب ت ہے تمہیں کیوں یقین نہیں آت کربال کی ب زگشت پہ ڑوں میں کھو گئی ہے سہ گنوں نے سی ہ لب س پہن لی ہے ان کے مردوں کے لہو میں یزید کی عط ؤں ک قرض اتر چک ہے ہ ں مگر ج پہ ڑوں کو زب ن مل ج ئے گی یقینی سی ب ت ہے ب زگشت کے ہ زب ن مجبور زندگی کو
118
آزادی کو ل سڑک دیکھ سکیں گے م ہ ن مہ سوشل ورکر الہور' م رح۔اپریل 1992
119
فقیروں کی بستی میں فقیروں کی بستی میں کچھ ووٹ کے شخص ہیں کچھ نوٹ کے شخص ہیں کچھ ربوٹ سے شخص ہیں اندر لوک سے پروانہ جس کےن آت ہے وہی ک سہءسوال پرموٹ ہوت ہے فقیروں کی بستی میں اسال کی بوت یں اندر لوک کی ہوتی ہیں شرا ی لوک سےآتی ہے لیبل گورا ہ ؤس میں لگت ہے اسمب ی کے اکھ ڑے میں رقص ابیس ہوت ہے
120
گری گ یوں میں مقدر سوت ہے بھوک ج گتی ہے لوگ پی س پیتے ہیں فقیروں کی بستی میں کون جیت ہے کون مرت ہے ک ت ریخ ک ور بنت ہے سچ کےجو سپنےبنت ہے نیزےپرتم ہوت ہے فقیروں کی بستی میں جسموں کےچیتھڑے اڑتےہیں انس ن نیال ہوت ہے یہ س برسرع ہوت ہے لوگ پی س پیتے ہیں فقیروں کی بستی میں مقدر سوت ہے
121
بھوک ج گتی ہے لوگ پی س پیتے ہیں فقیروں کی بستی میں
122
آؤ کوئی رشتہ استوار کریں میں تری آنکھوں میں رہت ہوں ت مری دھڑکنوں میں بستے ہو مرے سپنوں میں ترا بسیرا ہے تری سوچوں میں مرا ڈیرا ہے بچھڑیں تو م نے ک بہ نہ تالشیں لمس سے کوسوں دور رہے اک دوجے کی س نسوں میں رچ بس سے گئے ہیں ج دو ٹونے کو میں نے ک کبھی م ن ہے ترے ج دو گر ہونے پر مجھ کو یقین ہونے لگ ہے تری آنکھوں میں آش ؤں کی کہکش ئیں ہیں
123
ترے ہونٹوں سے افسرائیں گیت چرائیں مری نظمیں ترے قہقہوں سے شکتی م نگیں مرے تری ذات سے ترے مری ذات سے الکھوں ان ج نے بےن رشتوں ک رشتہ ہے ہ اپنے سہی مگر ہ اک دوجے کے کی ہیں؟ آؤ کوئی رشتہ استوارر کریں کہ تکمیل ذات‘ تکمیل ہستی ہے
124
پ گل پن آنچ دریچوں میں دیکھوں تو خواہش کے س موس ج تے ہیں ن دیکھوں تو احس س سے ع ری اوراب یس ک پیرو ٹھہروں ج نے کے موس میں آنے کی سوچیں تو گنگ الٹی بہتی ہے دن کو چ ند اور ت روں ک سپن پ گل پن ہی تو ہے من کے پ گل پن کو وید حکی کی ج نیں
125
جو ج نے عش کی دنی ک ک ب سی ہے
126
دل کی بستی کچھ کہنے کی اچھ ہو تو اپنے نیتر کے در بند کر دو بص رت کے کت
دریچوں میں
کہرا بن دو کہن سنن ت پر رکھ ک یوں سےکومل جذبوں پر کی گزرے گی پگ ے دل کی بستی تذبذ کے تند بھوک سے کیونکر اور کیسے بچ پ ئے گی
127
بے چہرا جیون ش آنکھوں میں ت روں ک جنگل پی س کن رے ہراس میں ڈوبے کنگ کے دامن میں ضد ک ک جل سورج کے ن فہ میں شک ک دھواں ش دا اج لے تدبر کے ق تل گھر کے م لک چ ندی لوگ غربت رشتے آگ کی پ ئل تت ی رنگوں میں
128
بے چہرا جیون گھ ئل گھ ئل عش آنکھوں کے پتھر خوابوں میں آس کے گونگے بہرے بدل خون چراغوں میں حسنی نے آئنہ رکھ صبح ہوئی ش کی س ئل جون1978
129
سرا ک جنگل ترے کوچے کی بہ روں کے موس آس ک مسکن مضطر روحوں ک گ شن ٹھرے سوچت ہوں مری وف کے مروارید ترے دامن سے کیوں بچھڑے کیوں راکھ ہوئے کیوں خ ک ہوئے ترے وعدوں کے سیپ دکھ کی کتھ کیوں کہتے ہیں پھر کوئی جیون بستی سے کہت ہے ایس تو ہوت ہے ایس تو ہون ہے یہ دنی سرا ک جنگل
130
جو کل تھ آج کہ ں کل بےکل تھ بےکل رہے گ جیون بستی کی یہی روایت رہی ہے یہی دستور رہے گ
131
بن سوچے سمجھے بن سوچے سمجھے کہرے کی بھ ش مکڑی کے مدھر گییتوں پر مر مٹن سچل دل والوں کے من کی ریت رہی ہے
132
س رے گن اندھے کو بین ئی مل بھی ج ئے تو کی ح صل من کی ریکھ ؤں کو وہ پڑھ نہ پ ئے گ تخ ی کے س رے گن ہر آنکھ میں ہوں ضروری تو نہیں
133
تقدیر ہستی تیرے دیکھے سے میری روح میں مس م نی اتری تری یکت ئی خدا کی یکت ئی پر حجت ٹھہری تیری آنکھوں میں خ د و سورگ کے نظ رے س رے تقدیر ہستی تیرے قدموں کی خ ک میں خ ک ہوتی ہے
134
آج یہ کھال جیون کی رگوں سے س ری شبن نچوڑ کر کل تک اترات رہ آج مگر یہ کھال وہ س ترے عر جبین کے اک قطرے کے پ سنک نہ تھ
135
اب یس ک ہمس یہ ترے در پر مرنے ک مزا چھوڑ کر خ د کی تمن جس روسی ہ کوہو گی اب یس ک ہمس یہ رہ ہو گ
136
ثمر سورگ کے دیو عرش کے فرشتے س رے مسجد ومحرا ک یس ء و مندر س رے دیر وحر اہل صوف کے میکدے س رے کہکش ؤں کے س س ے زیست کے واسطے س رے نمو کی شبن طرازی ں بہ روں کی زمزمہ پردازی ں حضور کے عش کی مسک نوں ک ثمر ہیں
137
کھیل میر وغ ل پر سخن کے جو صحی ے اترے تیری اداؤں میں دفتر رز بن کر آنکھ مچولی ک کھیل کھی ے ہیں
138
برس ہوئے جس مٹی سےاٹھ اس مٹی ک رشتہ برس ہوئے اپنے ہونٹوں پر چپ کی مہر ثبت کیے بوذر کی شکتی ڈھونڈ رہ تھ
139
ک رفص حت
ہ ت میں ش خ گل منہ میں ق ش مصری کی کھیسے میں ت ری ک ب امیر شہر مصروف ہے ک رفص حت میں
140
سی ست ح الت ک رون وہ روت رہ غزل میں لکھت رہ کرسی وہ چڑھ بیٹھ سوچ کی سولی میں لثک
141
ک نچ دریچوں میں جیون کے ک نچ دریچوں میں دیکھوں تو ارم نوں کے موس جھ سیں ن دیکھوں تو ک ال پتھر ٹھہروں
142
قرآن راج چپ ہو کہ مجھ میں ت بولتے ہو ہے دل کے بربط پرانگ ی تیری چپ ہو کہ میرا دل تیرا مسکن ہے گھر کے ب سی اپنی مرضی کے م لک ہوتے ہیں چپ ہو کہ میرے ش ور کی ہر کھڑکی میں تیرا چہرا ہے کھڑکی بند کرتے ہیں تو د گھٹت ہے کھڑکی کھولے رکھن اندر کی ب توں کو ب ہر الن ہے ب ہر کے س رے موس راون بستی کے منظر ہیں چپ ہو کہ س رے موس تیرے ہیں آنکھ دروازہ کھولو کہ
143
تیرے ہونٹوں کی مستی اپنی روح کے کورے پنوں پر آنکھوں سے چن کر رکھ دوں چپ ہو کہ چپ میں سکھ ہے چپ کے دامن میں ہ ں اور ن ں کی الکھوں گ نٹھیں ہیں چپ ہو کہ ہر گ نٹھ برہم کے بردان پر کھ تی ہے بردان تو قسمت کے کھیسے ک بندی ہے قسمت اچھی ہوتی تو راکھشش جیون پر اس قرآن راج نہ ہوت ؟
144
پہال حوالہ ٹپ ٹپ ٹپ یہ بے ہنگ شور نہیں آواز م نویت میں زندہ رہتی ہے م نویت کت
حی ت ک پہال حوالہ ہے
ط خون کے ہر ذرے میں خوابوں کے بے نوا دریچوں میں س نس کی ہر آہٹ پر ہجرت پر م ءل رہتی ہے
145
کال زیر عت
ہے
مرے دور کے سچ نے طال م نگ لی ہے زب ن دراز ہے دو اور دو کو چھے نہیں کہت اخالص کی چڑی اپنے گھونس ے کے تنکے لے گئی ہے کہ کال زیر عت
ہے
146
غربی ہبل س گر پی کر بھی ہر قطرہ پی س سمنر پ کوں ک س ون ج نے ک برسے گ فرات ک دامن ش ے لے کر بھ گ ہے س حل کس سے شکتی م نگے مٹھی بند کر لو پ کوں کے اس کن رے پر راتوں کے سپنے سورج کی آنکھوں میں بھی بھیک کے ککرے ک لی زل وں کے مندر مسکن ہیں ک لی ج والوں کے
147
ج نے سے پہ ے آنکھوں میں دھواں بھر لو چ ند ک چہرا راون کی شکتی لے کر عیسی کے خون سے اوب م ہی ر لکھ رہ ہے
148
واپسی بش رت ک ج در وا ہوا میں نے سوچ پہ ے ابنی قسمت ک ح ل پڑھوں واں کچھ بھی نہ تھ جو مرا ہوت لہو پسینہ جو مرا تھ مرے رقیبوں ان کے بچوں ان کے کتوں اور سؤروں کودرندگی‘ درندوں کی فطرت حدت بخش رہ تھ میں نے پھر سوچ جنگ وں میں ج بسوں درندوں ک وتیرا اپن لوں انس ن تھ
149
جنگ وں میں کیسے ج بست محنت بنی آد ک شیوا دو فطراتیں جنگل ک سینہ سم پ ءے گ ؟ کچھ نہیں کو چو کر میں نے بش رت ک دروازہ بند کر دی
150
مجھے اک خوا لکھن ہے مجھے اک خوا لکھن ہے آنکھوں میں مہت
لکھن ہے
لکھ تو دوں آنکھیں ہی کی کندھوں سے جدا سر بل کے ہ ں گروی پڑا ہے مرے پرکھوں کی یہ کم ئی اس کے ہ تھ کیسے آئی مرے ہ تھوں ک تراش صن اپنی عی شیوں کے عوض کچھ ٹکوں میں کہیں اس کو نہ دے آی ہو پوچھن تو ہو گ
151
میرا سر بریدہ جس محتس کے پ س ج ءے کیسے فرض ک قرض نبھ ءے کیسے عہد آج ک دولت عزیز رکھت ہے اپنی آنکھوں کے عوض دے سکت ہوں میں خضر کی چ پ جو مری ضرورت نہیں مجھے اک خوا لکھن ہے آنکھوں میں مہت
لکھن ہے
152
بردان ت آرہے ہو اس خبر کے میں صدقے میں واری میرا دل تمہ را میری ج ن تمہ ری دل کی ک ی ں میرے شو کے کھ تے گال س رے روح کی قوس قزاح کے رنگ میری س نسوں کے رب
و چنگ
تیرے قدموں میں بکھرنے کو دہ یز پر بیٹھی بے قرار آنکھیں ترے قدموں پر اشکوں کے مروارید
153
نچھ ور کرنے کو ترے منہ کے الہ می شبدوں کے ج دو میری سم عتوں پر عش کے گرنتھ کی تکمیل میں تیرے آنے کے رستوں کو برہم کی کرپ ک بردان سمجھیں
154
چ ہت کے کنول میں نے ش ید پ پ کی اس کو اپنی سوچوں میں بس ی دل سنگھ سن پر بیٹھ ی اس کے ہونٹوں کی تھرکت کو محبت ک صحی ہ سمجھ آنکھ کے اک اش رے پر اپنی منش کے رنگین پنے کل کے حسین سپنے تی گ کے قدموں میں رکھے کہ اس کی ان کو تسکین پہنچے بشری چہرے پر گالبوں کی رنگت رقص ں رہے مسک نوں کی شرارت رہے آ حیواں ڈھونڈنے نکال
155
ہونٹوں کی جنبش کو کن ک راز سمجھ آک ش کے اس پ ر بیٹھ ا یہ سوچے ہوں سیڑھی کیچھنے ک اس نے کیوں پن کی گال جوڑے میں ہو ضروری تو نہیں قبریں بھی تو گالبوں کی راہ دیکھتی ہیں چ ندی ب لوں پر گیندا ک اٹھت ہے جھریوں کے خوا گھر کے نہ گھ ٹ کے رہتے ہیں آک ش کے اس پ ر بیٹھ ا یہ سوچے ہوں
156
چ ہت کے کنول جیون کی راہوں میں اعتب ر کیوں نہیں رکھتے
157
در وا کر دو در وا کر دو پنچھی ش کو لوٹ آتے ہیں ب غی جذبے س گر سے نہ ٹکرا ج ئیں ان پڑھ ہیں جگ کی ریت سے بے بہرہ ہیں در وا کر دو لوٹ آئیں گے اپن گھر اپن ہوت ہے ش کو ب ہر رہن ٹھیک نہیں ق نون کے رکھوالے چوراہے پر ٹکٹکی لے کر بیٹھے ہیں ص ی پر لٹک دو
158
م تی ک فتوی ہے اپنوں کے ہ تھوں میں ٹکوے ہیں برچھے ہیں در وا کر دو سورج ڈو رہ ہے لوٹ آئیں گے پنچھی ش کو لوٹ آتے ہیں
159
بت وقت وقت کی ب ت ہے سہ رے ڈھونڈتے تھے مجھ کو سہ را ڈھونڈ رہ ہوں میں
160
ج بھی آسم ن سے ج بھی من و س وی اترت ہے زمین زرد پڑ ج تی ہے کہ بےمحنت ک ثمرہ حرکت کے در بند کر دیت ہے سجدہ سے منحرف مخ و کے قہقے اس س کی دھڑکنیں چھین لیتے ہیں آسم ن سے ج بھی من و س وی اترت ہے
161
آج یہ کھال جیون کی رگوں سے س ری شبن نچوڑ کر کل تک اترات رہ آج مگر یہ کھال وہ س ترے عر جبین کے اک قطرے کے پ سنک نہ تھ
162
س ج نتے ہیں کچھ کہنے کی اچھ ہو تو اپنے نیتر کے در بند کر دو بص رت کے کت
دریچوں میں
کہرا بن دو کہن سنن ت پر رکھ ک یوں سےکومل جذبوں پر کی گزرے گی پگ ے دل کی بستی تذبذ کے تند بھوک سے کیونکر اور کیسے بچ پ ئے گی
163
سج سنور کر تمہ رے آنے کی آش دن بھر مجھ کو زندہ رکھتی ہے سرج کے س تھ میں بھی مر ج ت ہوں غر لہو اگ ت ہے ط وع کے س تھ ی س کی لحد سے آس مجھے اٹھ التی ہے میری آنکھیں میری پ کیں جیون راہوں میں سج سنور کر بیٹھ ج تی ہیں
164
سورج کرنوں سے شبن کھیچنے چال تھ کہ اس کی حدت نے زیست کے ہونٹوں پہ پی س رکھ دی جیون ک ن خون جکر پی کر ہستی کی ن تم آرزوں پر مسکرای آد سٹپٹ ی حی ت ک س ر موت کی دہ یز ت ک لے آی سوچ ک اک دیپ جال زیست مرتیو کے در کی درب ن کیوں بنی ہے گ جر سی ک تب دل سہی
165
سی تو نہیں ہے پیٹ سول کے سب عن صر اس کے پوست کی روح میں ہیں جن سے مرتی ت ک برس ت کے موس کی آنکھ مچولی کے ان دیکھے کھیل ہ کیوں کھ تے ہیں؟
166
بھر بھس ہوئے ب رش کے ہر موس میں زیست ہری لی کی دع م نگے پی س کے دامن میں پن ہ کی آہیں جبر کی بج یوں کے ڈر سے بے بس بےکس جیون کے آنچل میں سہمی سہمی آنکھوں کے بھر بھس ہوئے
167
رہنے دو قبر ک در وا ہوا بوال قی مت ہو گئی ہے؟ ب ہر کرخت اندھیرے تھے اج لوں میں سرخی ڈو گئی تھی نہیں مجھے یہیں رہنے دو
168
آج کو عظی کر دو کل ارضی خداؤں ک منکر خوف ب ری سے لبریز پی نبی ک نقی تھ آج کو عظی کر دو کہ آج‘ کل سے ک نہیں
169
نظر جمشید خبر کے لیے پی لے میں دیکھت تھ ٹوٹ ج ت تو وہ بےبصر ہوت ح جت نے ڈبو دی اس کو ورنہ خبر تو مرد ح کی نظر میں ہوتی ہے
170
خدا پر ایم ن خدا پر ایم ن نہ رہے تو بچ نے نہیں آتے آسم ن سے اب بیل
171
صبح ہی سے وہ آگ عزازئیل کی جو سرشت میں تھی اس آگ کو نمرود نے ہوا دی اس آگ ک ایندھن ق رون نے پھر خرید کی اس آگ کو فرعون پی گی اس آگ کو حر نے اگل دی یزید مگر نگل گی اس آگ کو میر ج ر نے سجدہ کی میر ق س نے مش ل ہوس روشن کی اس آگ کے ش ے پھر ب ند ہیں مخ و ارضی
172
ڈر سے سہ گئ ہے ابر ب راں کی راہ دیکھ رہی ہے کوئی ب دل ک ٹکڑا نہیں صبح ہی سے تو آسم ن نکھر گی ہے
173
شرینی شہد کی مکھی سے پوچھ ک یوں ک رس ت چوستی ہو کیوں بولی تیرے طرز تک کی شرینی کے لیے Life Poetries
174
فرات ک دامن س گر پی کر بھی ہر قطرہ پی س سمنر پ کوں ک س ون ج نے ک برسے گ فرات ک دامن ش ے لے کر بھ گ ہے س حل کس سے شکتی م نگے مٹھی بند کر لو پ کوں کے اس کن رے پر راتوں کے سپنے سورج کی آنکھوں میں بھی بھیک کے ککرے ک لی زل وں کے مندر
175
مسکن ہیں ک لی ج والوں کے ج نے سے پہ ے آنکھوں میں دھواں بھر لو چ ند ک چہرا راون کی شکتی لے کر عیسی کے خون سے اوب م ہی ر لکھ رہ ہے
176
اس سے پہ ے اس سے پہ ے کہ عمر ک ت را ٹوٹے مرے جیون ک ہر ج ت بجھت پل مجھ کو واپس کر دو جو دن خوشییوں میں گزرا تقدیر نہیں مرے عش کی تپسی ک اترن تھ مرے بولوں کی تڑپت مرے گیتوں کی پیڑا مرزے کی کوئی ہیک نہیں مرے اشکوں ک شرینتر تھ کے ط نے مینے اپنوں
177
سن سن کر غیروں کے بھی ک ن پکے میں اس کو لوکن کی کیوں ک لی ریت سمجھوں یہ تو سچ ک پریوجن تھ اس سے پہ ے کہ عمر ک ت را ٹوٹے مرے جیون ک ہر ج ت بجھت پل مجھ کو واپس کر دو ہر ان ہونی ک پرورتن کھولو اس سے پہ ے کہ عمر ک ت را ٹوٹے مرے جیون ک ہر ج ت بجھت پل
178
مجھ کو واپس کر دو
س ید پرندہ ممت ج سے صحرا میں کھوئی ہے کشکول میں بوئی ہے خون میں سوئی ہے س ید پرندہ خون میں ڈوب خنجر دیوارں پر چ ند کی شیشہ کرنوں سے شبن قطرے پی کر سورج جسموں کی شہال آنکھوں میں اس س کے موس سی کر ہونٹوں کے کھنڈر پر
179
سچ کی موت ک قصہ حسین کے جیون کی گیت وف اشکوں سے لکھ کر برس ہوئے مکت ہوا
180
یہ کس کی س زش ہے ج گو ک ک لہو‘ لہو ہوا ہے ج نو دانستہ ہوا ہے کہ سہو ہوا ہے کس کی یہ س زش ہے ب بل کے روبرو قتل رنگ و بو ہوا ہے ق تل کی آستین دیکھ لو ہواوں سے گواہی لے لو یہ ں ہی جھگڑا من و تو ہوا ہے وہ جین کی جین ہے جو جین ڈر کر جین ہے مے گرتی ہے کہ
181
ت ر سبو ہوا ہے ج گو ک ک لہو‘ لہو ہوا ہے
182
ابھی ب قی ہے محبت کی ہے؟ دم
ک بخ ر؟
کوئی میٹھ جذبہ ق بی رشتہ کسی کے اپن ہونے ک احس س شہوت ک بڑھت ہوا سیال زندگی ک بدلت رویہ ی انداز بےشم ر سوال جن ک جوا ابھی تک ب قی ہے
183
چ ند ا دری میں نہیں اترے گ جذبے لہو جیتے ہیں م ش کے زنداں میں مچھروں کی بہت ت ہے سہ گنوں کے کنگن بک گئے ہیں پرندوں نے اڑن چھوڑ دی کہ فض میں ت بک ری ہے پج ری سی ست کے قیدی ہیں ت واریں زہر بجھی ہیں مح فظ سونے کی میخیں گنت ہے چھوٹی مچھ ی ں ف قہ سے ہیں کہ بڑی مچھ یوں کی دمیں بھی شک ری آنکھ رکھتی ہیں دری کی س نسیں اکھڑ گئی ہیں
184
صبح ہو کہ ش جنگی بیڑے گشت کرتے ہیں چ ند دھویں کی آغوش میں ہے ا وہ دری میں نہیں اترے گ تنہ ئی بنی آد کی ہمرک کہ اس ک ہمزاد بھی تپتی دھوپ میں ک ک کھو گی ہے
ہے
185
ذات کے قیدی قصور تو خیر دونوں ک تھ اس نے گ لی ں بکیں اس نے خنجر چالی سزا دونوں کو م ی وہ ج ن سے گی یہ جہ ن سے گی اس کے بچے یتی ہوئے اس کے بچے گ ی ں رولے اس کی م ں بین ئی سے گئی اس کی م ں کے آنسو تھمتے نہیں اس ک ب پ کچری چڑھ اس ک ب پ بستر لگ دونوں کنبے ک سہء گدائی لیے گھر گھر کی دہ یز چڑھے
186
بے کسی کی تصویر بنے بے توقیر ہوئے ضبط ک فقدان برب دی کی انتہ بن سم ج کے سکون پر پتھر لگ قصور تو خیر دونوں ک تھ جیو اور جینے دو کے اصول پر جی سکتے تھے اپنے لیے جین کی جین دھرتی ک ہر ذرہ تزین کی آش ر کھت ہے ذات کے قیدی مردوں سے بدتر سسی فس ک جین جیتے ہیں
187
ج ت مجھ کو سوچو گے تری زل وں کی ش صبح بہ روں کے پر ک ٹے تری آنکھوں کے مست پی لوں ک اک قطرہ آس کی مرتیو ک سر ک ٹے ج نے ان ج نے کی اک انگڑائی ن رت کے ایوانوں میں ان کے ن ہونے ترے ہونے ک قرط س ال ت پر امروں پر اپنی امرت لکھ دے ا ج سے میں تجھ کو سوچے ہوں مری بص رت کے در وا ہوئے ہیں اپنی سوچ ک اک ذرہ
188
گر کوہ پر رکھ دوں دیوانہ ہو مجنوں کی راہ پکڑے مری سوچ کی حدت سے صحراؤں ک صحرا اپنی پگ بدلے تری مسک نوں کی ب رش شور زمینوں کو برہم کے بردان سے بڑھ کر میں تجھ کو سوچے ہوں کہ سوچن جیون ہے کھوجن جیون ہے ج ت مجھ کو سوچو گے ت پر کن ک راز وا ہو گ وہ ہی ہر ج ہو گ ت کہتے پھرو گے One into many
189
But many are not one Nothing more but one When we divide one Face unjust and hardship I and you are not two but one One is fact Fact is one
190
س سے کہہ دو گذشتہ کے گال و کنول م تول ایم ن کی الش پر سج کر لبوں پرزیست ک نوحہ پریت ک گریہ بس کر وعدہ کی ش اپنی عظمت میں فرشتوں کے س سجدے آج ہی مص و کر دو س سے کہہ دو ہ کونگے ہیں بہرے ہیں ک کوسی ک مرض ط ری ہے اگ وں ک کی اپنے ن لھواتے ہیں
191
مورخ ہتھ بدھ خ د ہے کل ہ پر ن ز کرے گ کہ ہ رفتہ پر ن زاں ہیں
192
ب لوں میں بکھری چ ندی ب لوں میں بکھری چ ندی روح کی ک ق تل ہے مرتی ہو کہ جیون آس ہو کہ ی س اک کوکھ کی سنت نیں ہیں اک محور کے قیدی ب لوں میں بکھری چ ندی روح کی ک ق تل ہے ج دل دری میں ڈول عش ک ڈالو گے ارت ش تو ہو گ من مندر ک ہر جذبہ ہیر ک داس تو ہو گ ب لوں میں بکھری چ ندی
193
روح کی ک ق تل ہے ہر رت کے پھل پھول نی رے چ ندنی راتوں میں دور امرجہ کے کھ ی نوں میں سیرابی دیتے ہیں ل گنگ کے پی س بھج تے ہیں ب لوں میں بکھری چ ندی روح کی ک ق تل ہے من مستی آنکھوں ک ک جل دھڑکن دل کی زل وں کی ظ مت ک قیدی ہیں ب لوں میں بکھری چ ندی روح کی ک ق تل ہے آتش گ ہیں برکھ رتوں میں
194
ج تی تھیں ج تی ہیں ج تی ہوں گی ب لوں میں بکھری چ ندی روح کی ک ق تل ہے
195
ش ہ کی الٹھی ان رک ی کے دیواروں میں چننے ک موس ج بھی آت ہے آس کے موس مر ج تے ہیں ہر ج تے ہیں چ ند سورج آک ش اور دھرتی زیست کے س رنگ پھیکے پڑ ج تے ہیں کل کی م نگ سج نے کو عش پھر بھی زندہ رہت ہے ہر دکھ سہت ہے یہ کھیل ش ہ‘ زادوں ک ہے ش ہ زاہزادے ک مرتے ہیں
196
ش ہ کی الٹھی ان ر ک ی کے سر پر منڈالتی رہتی ہے کمزور عضو کے سر پر س موس بھ ری رہتے ہیں
197
برسر عدالت شبن گھ س ک مکوڑا پں گی ب دل پرندوں نے پروں میں چھپ لیے آنسو مگر پ کوں پر تھے ہی ک امن اس روز شہر میں کرفیو تھ روشنی ب رود نگل گی امید دم
ک خ ل نہیں تو اور کی ہے
ق تل برسر عدالت انص ف ک ط ل تھ
198
کہ چڑیوں کی چونچیں مقتول ک پیٹ روٹی خور ہو گی تھ اسے گیس کی شک یت رہتی تھی ایسے میں قتل ن گزیر ہو گی تھ مقتول کی ش ہ خرچی ک عوض نہ بیوہ اور اس کے بچوں کی برسر ع نیالمی سے دلوای ج ئے کہ انص ف ک بول ب ال ہو
199
م ں‘ م ں ہوتی ہے م ں‘ م ں ہوتی ہے س بقے الحقے ترے مرے منہ ک چسک م ں ک کڑوا لہجہ خ د ک میوہ اس ک غصہ پری ک س گر اس کے چرنوں میں سورگ ک جھرن م ں‘ م ں ہوتی ہے اس کی آنکھوں میں دو ع ل کے سکھ اس ک س یہ بھگوان کی کرپ
200
رحم ن کی دی اس ک رشتہ مترادف سے ع جز م ں‘ م ں ہوتی ہے م ءیں کیوں مر ج تی ہیں من آنگن سون کر ج تی ہیں کہنے کو م ں وہ بھی ہے پی ر وہ بھی کرتی ہے غرض ک ہ تھ میرے ہ تھ دی اس کی محبت مشروط محبت غرض کی ب ندی ط
ک امرت
شرط کی ڈور کٹ ج نے پر
201
م ں کے چہرے پر س س ک چہرا لگ ج ت ہے
202
ان دیکھے کھیل سورج کرنوں سے شبن کھیچنے چال تھ کہ اس کی حدت نے زیست کے ہونٹوں پہ پی س رکھ دی جیون ک ن خون جکر پی کر ہستی کی ن تم آرزوں پر مسکرای آد سٹپٹ ی حی ت ک س ر موت کی دہ یز ت ک لے آی سوچ ک اک دیپ جال زیست مرتیو کے در کی
203
درب ن کیوں بنی ہے گ جر سی ک تب دل سہی سی تو نہیں ہے پیٹ سول کے سب عن صر اس کے پوست کی روح میں ہیں جن سے مرتی ت ک برس ت کے موس کی آنکھ مچولی کے ان دیکھے کھیل ہ کیوں کھ تے ہیں؟
204
کس حوالہ سے ظ جبر ست اکھ ڑ پچھ ڑ توڑ پھوڑ ق تل سے راہ و رس تخ ی و تزءین زندگی کس حوالہ سے تیری پہچ ن کروں؟
205
لہو ک تقدس ک ی ں اور گال و کنول بھی پیر مغر کی ٹھوکر میں ہیں میرے دور ک ٹیپو غیرت کے لہو ک تقدس بھوک کے آءینہ میں دیکھت ہے
206
ک نچ دریچوں میں جیون کے ک نچ دریچوں میں دیکھوں تو ارم نوں کے موس جھ سیں ن دیکھوں تو ک ال پتھر ٹھہروں
207
پہرے کوئی غال پیدا نہیں ہوت م ش ط قت توازن سم ج کی رت کے س تھ بدلتے ہیں بھوک بڑھتی ہے تو دودھ خشک ہو ج ت ہے خواہش احتج ج ضرورت زنجیر لیے کھڑے ہوتے ہیں بھوک کے ہوکے سوچ کے دائرے پھیل ج تے ہیں وس یل سکڑ ج تے ہیں بغ وت پر کھولے تو سوچ پر پہرے لگ ج تے ہیں کوئ غال پیدا نہیں ہوت
208
م ش ط قت توازن سم ج کی رت کے س تھ بدلتے ہیں
209
بنی د پرست چ ندنی سردی ک دیو کھ گی بےنور آنکھوں کے سپنے کون دیکھت ہے شو کیس ک حسن حن بندی کے ک الی ہوت ہے بیوہ سے کہہ دو چوڑی ں توڑ دے ہ کنوارپن کے گ ہک ہیں سچ ئی کی زب ن پر آگ رکھ دو بنی د پرست ہے گری کی لڑکی ڈولی چڑھے کیونکر
210
گربت کے کینسر میں مبتال ہے
صدی ں بیت گئی ہیں ج سے میں نے ت کو سوچ ہے میں میں‘ میں ک رہ ہے گنگ جل ک ہر قطرہ گیت کے بولوں گرنتھ کے شبدوں فرید کے ش وکوں پھول کے گ لوں کو چھوتی شبن س گر کے اندر سیپ کی بند مٹھی میں موتی رتجگوں کی سوچوں دع کو اٹھتے ہ تھوں
211
س ون رتوں کی ہڑ برس تی آنکھوں آگ میں ڈوبی س نسوں ک ح صل ت ہو رمز مجھ پر کھل گئ ہے میرے سوچ کی س ری شکتی ک د خ ت ہو ج سے میں نے ت کو سوچ ہے میں میں‘ میں ک ہے میں کو س ر کیے صدی ں بیت گئ ہیں
212
ک جل ابھی پھیال نہیں تیری آنکھ ک ک جل ابھی پھیال نہیں تیرے بولوں کی ک ی ں جوان ہیں طالئی چوڑے کی کھنک ک کل سے جدا ہے تیری دنی میں کوئی اور تھ میں کیسے م ن لوں تو وہی ہے جس نے میرے سوچ کے دروازے پر دستک دی تھی سوچن یہ ہے کس کردہ جر کی سزا سقراط ک زہر ہے میرے سوچ پر
213
خوف ک پہرا ہے روبرو راون ک چہرا ہے مجھ کو سوچنے کیوں نہیں دیتے ذات کے ذروں کو کھوجنے کیوں نہیں دیتے بند کواڑوں کے پیچھے سوچنے کی آرزو بیٹھی ہے جو جینے نہیں دیتی مرنے نہیں دیتی
214
پ کوں پر ش پ کوں پر گزری ش ی د ک نشتر ہر صبح راہ ک پتھر سورج بین ئ ک منبع آنکھیں کھو بیٹھ ہر آش زخمی زخمی ہر نغمہ عزائی ی اسرافی ی خون میں بھیگ آنچل گنگ ک ہر رستہ چپ ک قیدی دری کن رے منہ دیکھے ہیں بے آ ندی میں گال کی ک شیں
215
پ نی پ نی ہونٹ س نپوں کے گھر پ کوں کی ش ہر ش پر بھ ری ہے ڈرت ہے اس سے حشر ک منظر
216
اک پل اک پل آک ش اور دھرتی کو اک دوجے میں بن کر رنگ دھنک اچھ لے دوج پل جو بھیک تھ پہ ے کل کی ک سے سے اترا اترات اٹھالت م تھے کی ریکھ ٹھہرا کرپ اور دان ک پل پھن چکر م را س وٹ سے پ ک سہی پھر بھی حنطل سے کڑوا
217
اترن ک پل ال ت میں کچھ دے کر پ نے کی اچھ ح ت سے چھل ہر فرزانہ عہد سے مکتی چ ہے ہر دیوانہ عہد ک قیدی مر مٹنے کی ب تیں ٹ لتے رہن کل ت کل ج بھی پل کی بگڑی کل در ن نک کے بیٹھ بےکل
218
جیون سپن آنکھ سمندر میں تھ جیون سپن کہ کل تک تھ وہ اپن ج سے اس گھر میں چ ندی اتری ہے میرے من کی ہر رت پت جھڑ ٹھری ہے ب رش صحرا کو چھو لے تو وہ سون اگ ے مری آنکھ کے قطرے نے جنت خوابوں کو ی لوک میں بدال ہے کیسے چھو لوں تری مسک نوں میں طنز کی پیڑا
219
پیڑا تو سہہ لوں پیڑا میں ہو جو اپن پن آس دریچوں میں تری ن رت ک ب شک ن گ جو بیٹھ ہے ہونٹوں پر مہر صبر کی جیب پر حنطل بولوں کی سڑکن ی د کے موس میں خوشبو کی پری ں ی د کی ش موں ک ج بھنگڑا ڈالیں گی آنکھ ہر ج ئے گی آس مر ج ئے گی آنکھ سمندر میں تھ جیون سپن
220
جینے کو تو س جیتے ہیں جینے کو تو س جیتے ہیں ہر س یہ زخمی جنگل کے پنچھی چپ کے قیدی بربط کے نغمے ڈر کے ش ے پیتے ہیں کرنے کے جذبے روٹی کے بندی دری ک پ نی بھیگی ب ی حر بربک کے سنکھ میں رہتے ہیں جو خشکی کی کن من کو ب رش سمجھے منہ کھولے
221
س آبی بھ گے دوڑے کچھ کٹ مرے کچھ تھک گرے جو چ تے گئے خوابوں کی بستی بستے ہیں جینے کو تو س جیتے ہیں
222
اس سے کہہ دو اس سے کہہ دو دو چ ر ست اور ڈھ ئے یتیمی ک دکھ سہتے بچوں کے ن لے ٹوٹے گجروں کی گریہ زاری ج تے دوپٹوں کے آنسو عرش کے ابھی اس پر ہیں اس سے کہہ دو زنداں کی دیواروں ک مس لہ بدلے بےگنہی کی حرمت میں امیر شہر کی لکھتوں ک نوحہ کہتی ہیں اس سے کہہ دو
223
ان کی پ کوں کے قطرے صدیوں بے توقیر رہے پھر بھی ہونٹوں پر جبر کی بھ میں ج تے سہمے سہمے سے بول مسیح بن سکتے ہیں اس سے کہہ دو کڑا پہرا ا ہٹ دے زنجیریں کسی ط
میں رکھ دے
بھ گ نک نے کی سوچوں سے قیدی ڈرتے ہیں آزاد فض ؤں بےقید ہواؤں پر سم ج کی ریت رواجوں وڈیروں کے کرخت مزاجوں کے پہروں پرپہرے ہیں
224
آءین کے پنے تنکوں سے کمتر رعیت کے ح میں ک کچھ کہتے ہیں س دفتر ط قت کی خوشنودی میں آنکھوں پر پٹی ب ندھے ک نوں میں انگ ی ٹھونسے اپنی خیر من تے ہیں جورو کےموتر کی بو نے سکندر سے مردوں سے ظ کی پرج کے خوا چھین لیے ہیں دن کے مکھڑے پر راتوں کی ک لک لکھ دی ہے اس سے کہہ دو دو چ ر ست اور ڈھ ئے
225
ابوزر برقی کت خ نہ