خوشبو کا قیدی

Page 1


‫‪...................‬‬ ‫خوشبو کا قیدی‬ ‫افسانے‬

‫مقصود حسنی‬ ‫ابور برقی کتب خانہ‬


‫مئی ‪6102‬‬

‫‪...................‬‬ ‫انتساب‬ ‫میں یہ ناچیز کوشش‬ ‫اس دعا کے ساتھ‬ ‫کہ‬ ‫هللا اسے ہمیشہ اپنا محتاج رکھے‬ ‫اپنی گڑیا رانی مہر افروز شاہ کے نام کرتا ہوں۔‬ ‫فانی مقصود حسنی‬

‫‪...................‬‬


‫فہرست‬ ‫آنچل جلتا رہے گا ‪1-‬‬ ‫بیوہ طوائف ‪2-‬‬ ‫من کا بوجھ ‪3-‬‬ ‫بڑا آدمی ‪4-‬‬ ‫حاللہ ‪5-‬‬ ‫آوارہ الفاظ ‪6-‬‬ ‫مائی جنتے زندہ باد ‪7-‬‬ ‫ممتا عشق کی صلیب پر ‪8-‬‬ ‫زینہ ‪9-‬‬ ‫شیدا حرام دا ‪10-‬‬ ‫جنگ ‪11-‬‬ ‫دو لقمے ‪12-‬‬ ‫فقیر بابا ‪13-‬‬ ‫کمال کہیں کا ‪14-‬‬ ‫ابا جی کا ہم زاد ‪15-‬‬ ‫کامنا ‪16-‬‬


‫تنازعہ کے دروازے پر ‪17-‬‬ ‫انگریزی فیل ‪18-‬‬ ‫چوتھی مرغی ‪19-‬‬ ‫انا کی تسکین ‪20-‬‬ ‫گناہ گار ‪21-‬‬ ‫بڑے ابا ‪22-‬‬ ‫دو دھاری تلوار ‪23-‬‬ ‫ماسٹر جی ‪24-‬‬ ‫جواب کا سکتہ ‪25-‬‬ ‫پٹھی بابا ‪26-‬‬ ‫میں ابھی اسلم ہی تھا ‪27-‬‬ ‫معالجہ ‪28-‬‬ ‫کریمو دو نمبری ‪29-‬‬ ‫ابھی وہ زندہ تھا ‪30-‬‬ ‫سچائی کی زمین ‪31-‬‬ ‫استحقاقی کٹوتی ‪32-‬‬ ‫بابا جی شکرهللا ‪33-‬‬ ‫الٹری ‪34-‬‬ ‫آگ کی بھٹی ‪35-‬‬ ‫کردہ ناکردہ ‪36-‬‬ ‫سوچ کے دائرے ‪37-‬‬ ‫دوسری بار ‪38-‬‬ ‫اسالم اگلی نشت پر ‪39-‬‬ ‫عاللتی استعارے ‪40-‬‬ ‫ادریس شرلی ‪41-‬‬


‫سرگوشی ‪42-‬‬ ‫موازنہ ‪43-‬‬ ‫پہال قدم ‪44-‬‬ ‫اسے پیاسا ہی رہنا ہے ‪45-‬‬ ‫یہ کوئی نئی بات نہ تھی ‪46-‬‬ ‫دروازے سے دروازے تک ‪47-‬‬ ‫وہ کون تھے ‪48-‬‬ ‫پنگا ‪49-‬‬ ‫دائیں ہاتھ کا کھیل ‪50-‬‬ ‫هللا جانے ‪51-‬‬ ‫پاخانہ خور مخلوق ‪52-‬‬ ‫ان پڑھ ‪53-‬‬ ‫تاریخ کے سینے پر ‪54-‬‬ ‫لمحوں کا خواب ‪55-‬‬ ‫ببلو ماں ‪56-‬‬ ‫حفاظتی تدبیر ‪57-‬‬ ‫حضرت بیوہ شریف ‪58-‬‬ ‫اور تو اور ‪59-‬‬ ‫شکوک کی گرفت ‪60-‬‬ ‫صبح کا بھوال ‪61-‬‬ ‫حوصلہ ‪62-‬‬ ‫چوگے کی چنتا ‪63-‬‬ ‫دو منافق ‪64-‬‬ ‫بازگشت ‪65-‬‬ ‫الٹھی والے کی بھینس ‪66-‬‬


‫آخری کوشش ‪67-‬‬ ‫میری ناچیز بدعا ‪68-‬‬ ‫آخری خبریں آنے تک ‪69-‬‬ ‫کیچڑ کا کنول ‪70-‬‬ ‫براہ راست ‪71-‬‬ ‫جو بھی سہی ‪72-‬‬ ‫چار چہرے ‪73-‬‬ ‫بکھری یادیں ‪74-‬‬ ‫توبہ کا لہو ‪75-‬‬ ‫مفلس کہیں کا ‪76-‬‬ ‫خوشبو کا قیدی ‪77-‬‬ ‫ذات کا استحصال ‪78-‬‬

‫‪...................‬‬ ‫آنچل جلتا رہے گا‬

‫شہوت کا منفی چلن‘ کوئی انوکھا اور نیا نہیں۔ اس کے منفی‬


‫طور کی تبدیلی کے لیے سیکڑوں نہیں‘ ہزاروں لوگ میدان عمل‬ ‫میں اترے ۔ انھوں نے اپنی سی کوشش کی۔ الریب فیہ‘ ان کی‬ ‫کوششوں میں خلوص اور دیانت داری‘ اپنے پورے وجود کے‬ ‫ساتھ موجود تھی اور اسی عمل کے دورانیے میں زندگی کی‬ ‫اسٹیج سے غائب ہو گیے۔ کچھ کو مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔‬ ‫کچھ منفی چلن کی صلیب پر مصلوب ہو گیے۔ مانا‘ جان کی‬ ‫قربانی کوئی معمولی بات نہیں‘ بدالؤ آنا چاہیے تھا‘ لیکن منفی‬ ‫چلن کی ڈگر نہ بدلی۔ ہاں اتنا ضرور ہوا‘ کہ لمحہ دو لمحہ کے‬ ‫لیے ہی سہی‘ اس کھڑے پانی میں‘ ارتعاش تو پیدا ہوا۔ میدان‬ ‫عمل میں اترنے والوں نے قرطاس حیات پر اپنے ہونے کا ثبوت‬ ‫چھوڑا۔ وقت کے سینے پر اپنی گواہی کے نقوش ثبت کر دیے۔‬ ‫یہ کوئی ایسی معمولی بات تو نہیں۔‬ ‫شہوت کا منہ زور طوفان امڈ آیا تھا۔ کاشف سے مالپ کے لیے‘‬ ‫بامشکل اور بصد کوشش‘ چند‘ ہاں گنتی کے چند لمحے‘ دستیاب‬ ‫ہوئے تھے۔ راحیل کے گھر لوٹنے میں‘ کوئی زیادہ وقت باقی نہ‬ ‫تھا۔ اگر یہ موقع ہاتھ سے نکل جاتا تو‘ جانے ان چند لمحوں‬ ‫کے لیے‘ اسے کتنے لمحے انتظار کی بٹھی میں جلنا پڑتا۔ وہ‬ ‫ان لمحوں کی آسودگی کو غارت نہیں کرنا چاہتی تھی۔ کاشف اس‬ ‫کے سپنوں کا شہزادہ تھا۔ اس سے ملن کی تپسیا بڑی کڑی تھی۔‬ ‫کام دیوا‘ لمحوں کو‘ ملن کا بردان کٹری تپسیا کے بعد ہی دیتا‬ ‫ہے۔‬


‫جانے آج کام دیوا کس طرح مہربان ہو گیا تھا۔ عوفی اپنی ماں‬ ‫کے برسوں کے انتظار بھرے جیون سے آگاہ نہ تھا۔ پہلے تو‬ ‫کبھی ایسا نہ ہوا تھا۔ تھوڑی سی کوشش‘ اسے نیند کی وادی‬ ‫میں لے جاتی تھی۔ پھر وہ پرسکون ہو کر‘ گھر کے کام کاج کر‬ ‫لیتی تھی۔ آج تو حد ہو چلی تھی۔ یوں لگتا تھا‘ جیسے عوفی نے‬ ‫آج نہ سونے کی قسم کھا لی تھی۔ وہ اتنا بڑا نہیں تھا‘ لیکن اتنا‬ ‫چھوٹا بھی نہ تھا‘ کہ وہ اس کے سامنے ہی‘ اپنا یہ معاملہ طے‬ ‫کر لیتی۔ شاید کسی ان جانی قوت نے‘ اسے ماں کے ارادے سے‬ ‫آگاہ کر دیا تھا۔ یہ بھی بعید از قیاس نہیں‘ کہ نیکی کے دیوتا‬ ‫نے اس سے نیند چھین لی تھی۔ کام دیوا اپنی جگہ پر سرخرو‬ ‫ہو چکا تھا۔ تپسیا کا بردآن نہ دینے پر‘ اس کے کارے پر حرف‬ ‫آتا تھا۔ اب خیر کا دیوا آڑے آ گیا تھا‘ اس میں اس کا کوئی‬ ‫قصور نہ تھا۔‬ ‫خیر کی جانے لذت کے لمحوں سے کیوں نہیں بنتی۔ نہ خود‬ ‫آسودہ رہتی ہے اور ناہی دوسروں کی آسودگی برداشت کرتی‬ ‫ہے۔ کسی سڑیل سوت کی طرح‘ بےلحاظ اور بے مروت ہو کر‘‬ ‫میدان میں اتر آتی ہے۔ کسی ڈھیٹ مٹی سے اٹھی ہے۔ بار بار‬ ‫قتل ہونا‘ جانے‘ اسے کیوں خوش آتا ہے۔ موت تو‘ بڑے بڑوں‬ ‫کا پتہ پانی کر دیتی ہے لیکن مر مر کر بھی‘ اسے عقل نہیں‬ ‫آئی۔ اپنی پرانی اور دقیانوسی ڈگر پر مسلسل گامزن ہے۔‬ ‫خیر اور شر کی جنگ بڑی شدت سے جاری تھی۔ کب تک‘ آخر‬


‫کسی کو تو ہارنا تھا۔ پنکی کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔ شر نے‬ ‫خیر کو پچھاڑ ہی دیا۔ افسوس عوفی کو جان سے جانا پڑا۔ یہ‬ ‫کوئی نیا معاملہ نہ تھا۔ خیر کی رکھشا کے لیے ان گنت عوفی‬ ‫جان ہار چکے تھے۔ شر کے بطن سے ایک نئی جان نے اپنا‬ ‫وجود حاصل کر لیا تھا۔‬ ‫شہوت کی آگ جب سرد پڑ گئی تو نیکی کا دامن اشکوں سے تر‬ ‫ہو چکا تھا۔ ممتا کو کھو دینے کا روگ‘ لگ چکا تھا۔ آنے واال‘‬ ‫عوفی کے قتل اور کردہ جرم کی یاد دالنے کے لیے‘ زندگی کے‬ ‫ہر گرم سرد موسم میں‘ ممتا کے چلن پر قہقہے لگاتا رہے گا‬ ‫اور کبھی چبھتی اور تلخ نگاہوں سے گھورتا رہے گا۔ زندگی کا‬ ‫ہر لمحہ سزا بن جائے گا۔‬ ‫پنکی کو پھر سے نو ماہ زچگی کے عالم میں گزارنا ہوں گے۔‬ ‫عوفی تک آتے آتے‘ چار سال اور نو ماہ لگ جائیں گے۔ وہ ہر‬ ‫لمحہ‘ اس سوچ میں ڈوبی رہے گی‘ کہ اگر عوفی زندہ ہوتا تو‬ ‫اتنے سال اور اتنے ماہ کا ہو جاتا۔ پیدا ہونے واال‘ عوفی کے‬ ‫بلی دان کی‘ زندگی کی آخری سانسوں تک‘ شر اور خیر کی‬ ‫گواہی دیتا رہے گا۔ آنے واال کتنا بھی دھل کر سامنے آئے گا‘‬ ‫شہوات کے طوفان میں غرق عوفی کا تبادل نہ بن سکے گا۔‬ ‫عوفی‘ عوفی تھا۔ وہ تو خیر کا بردانی تھا۔ محبت کا بردان کام‬ ‫دیوا سے مال تو‘ شنی نے مہر ثبت کر دی تھی‘ ورنہ شر سر‬ ‫چڑھ کر نہ بولتی۔‬


‫عوفی نے کب نبی ہونے کا دعوی کیا تھا۔ ہاں اس کا فعل اور‬ ‫قربانی‘ کسی نبی کے سچے اور کھرے پیرو کی سی تھی۔ وہ‬ ‫خیر کی عالمت تھا۔‬ ‫جنگ کی حکمت عملی‘ ہر جرنل کی ایک سی نہیں ہوتی۔ کامیاب‬ ‫اسی جرنل کو کہا جا سکتا ہے‘ جو موقع کی مناسبت سے‬ ‫حکمت عملی طے کرے۔ ٹیپو فرار یا سرنڈر کا رستہ اختیار کر‬ ‫سکتا تھا۔ اور کتنا جی لیتا؟!اور جینا‘ بےتوقیر جینا ہوتا۔ اس کی‬ ‫زندگی موت سے بدتر ہوتی۔‬ ‫عوفی نے موت کا رستہ چن کر‘ ٹیپو کی حکمت عملی پر‘‬ ‫درستی کی مہر ثبت کر دی تھی۔ یہ کوئ ایسی معمولی بات نہ‬ ‫تھی۔ عوفی فاتح جرنیل ناسہی‘ لیکن کوئی تجزیہ نگار اسے‬ ‫ناکام جرنیل بھی نہیں قرار دے گا۔ کاشف اور پنکی جیت کر بھی‬ ‫ہار چکے تھے۔ عوفی نے انھیں عبرت ناک شکست دی تھی۔‬ ‫یہی حقیقت اور یہی وقت کا انصاف ہوگا۔ ہر کیے کا‘ کوئی‬ ‫ناکوئی‘ پرینام تو ہوتا ہی ہے۔ کاشف‘ باپ ہو کر‘ ماموں کا رشتہ‬ ‫استوار کرنے پر مجبور ہو گا اور پنکی کا آنچل پچھتاوے کی آگ‬ ‫میں جلتا رہے گا۔۔۔۔۔۔۔ ہاں جلتا رہے گا۔‬ ‫‪2-9-1973‬‬


‫بیوہ طوائف‬ ‫میں نہیں کہتا کہ میں کوئ پریم دیوتا ہوں۔ بالکل عام سا‘ گوشت‬ ‫پوست کا‘ حاجات میں گھرا انسان ہوں۔ تمام تعریف کے کلمے‘‬ ‫خداوند عالم کی طرف پھرتے ہیں۔ جملہ تخلیق و تجدید کا وہی‬ ‫سرچشمہ ہے۔ اس کے لطف و کرم کا زندہ ثبوت یہی ہے‘ کہ‬ ‫میں زندہ ہوں اور آپ کے روبرو ہوں‘ ورنہ مجھے تو تخلیق‬ ‫کے پہلے روز ہی‘ نفرت کی کند چھری سے‘ زبح کرنے کی‬ ‫سازش کی گئی۔ خود غرض اور ذات پرست آج بھی ختم نہیں‬ ‫ہوءے۔ ان کی تعداد میں ہر چند اضافہ ہی ہوا ہے۔ شر اور خیر‬ ‫کو متوازی چلتے رہنا ہے۔ دونوں کے رستے الگ سہی‘ لیکن‬ ‫انھیں ایک ساتھ‘ ہر ذی نفس کے ساتھ منسلک رہنا ہے۔ فرق‬ ‫صرف اتنا ہے‘ کہ خیر زندگی کے ہر موسم میں‘ انسان کی خیر‬ ‫خواہ رہتی ہے‘ جب کہ شر‘ خود غرضی کے خوب صورت لباس‬ ‫میں‘ جسم سے خیر کا آخری قطرہ نچوڑ کر‘ اپنی راہ لیتی ہے۔‬ ‫نورین! جب اعضا کم زور پڑ جاتے ہیں‘ تو کوئ ساتھ نہیں دیتا۔‬ ‫محبت الفت اور پیار کے رشتے معنویت کھو دیتے ہیں۔ دوسری‬ ‫طرف واپسی کے سب دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ دکھ کا یہ‬ ‫موسم‘ تنہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں تنہا گزارنا پڑتا ہے۔‬


‫لوگوں کا نئی منزلوں کی طرف سفر کرنا‘ بڑا پرانا وتیرہ ہے۔‬ ‫زندگی کے اس موڑ پر‘ رونا چیخنا چالنا یا مدد کے لیے‬ ‫پکارنا‘ الیعنیٹ کی کھائی میں جا گرتا ہے۔ وقت کا زہریال ناگ‘‬ ‫آدمی کو بےبس کر دیتا ہے۔ وہ چاہتے ہوءے بھی‘ کچھ نہیں کر‬ ‫پاتا۔ یہی اصول فطرت اور یہی اصول زمانہ ہے۔‬ ‫بےبسی اور بےکسی کے اس موڑ پر‘ فقط اہل اخالص کے‬ ‫دروازے کھلے رہتے ہیں۔ موسوں کی دھوپ‘ ان کے لیے ایک‬ ‫آزمائش سے زیادہ نہیں ہوتی۔ ہر آزمائش انھیں نئے عزم سے‬ ‫سرفراز کرتی ہے۔‬ ‫نورین! تم زندگی کی بازی ہار چکی ہو۔ یہ شکست تمہیں قبول‬ ‫کرنا پڑے گی۔ اس کے سوا‘ تمہارے پاس کوئ چارہءکار ہی‬ ‫نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر بیوہ طواءف کا‘ یہی حشر ہوا کرتا ہے۔ نخرے‬ ‫اٹھانے اور مال لوٹانے اب کوئی نہیں آئے گا۔ دولت یوں ہی نہیں‬ ‫چلی آتی‘ اس کے حصول کے لیے سو طرح کے پاپڑ بیلنا پڑتے‬ ‫ہیں۔ ماضی میں تم نے‘ محبت پر‘ جنسی لذت کو ترجیع دی۔ اب‬ ‫ذلت کو بھی‘ سر آنکھوں پر رکھو۔ زندگی کا یہ موسم کٹھور‬ ‫سہی‘ لیکن ہر کیے کا پرنام اسی موسم میں ہاتھ لگتا ہے۔ فطرت‬


‫کا یہی اصول اور وقت کا یہی فیصلہ ہے۔ ویدی کا یہی ویدن‬ ‫ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں یہی۔‬ ‫میں نے کہا تھا‘ شاید تمہیں یاد ہو گا۔ میرا نام محبت ہے۔ محبت‬ ‫کے دروازے بند نہیں ہوتے۔ محبت کے دروازے بند ہو جائیں‬ ‫تو‘ وہ محبت نہیں فراڈ ہوتی ہے۔ نفرت‘ محبت کا شیوہ نہیں۔ اگر‬ ‫یہ نفرت پر اتر آئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو‘ شبنمی ہوائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تیزاب‬ ‫برسانے لگیں گی۔ سمنرروں میں آگ لگ جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔ ادیب کا‬ ‫قلم‘ قلم ہو جائے گا۔ جانے کیا کچھ ہو‘ خامہ و قرطاس اس کے‬ ‫تصور سے بھی لرزہ بر اندام ہے۔‬ ‫جانے آج کیوں بہکنے لگا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوچ کی قندیل سے‬ ‫پھوٹنے والی کرنیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یادوں کے جھروکے میں جھاکنے لگی‬ ‫ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔عہد رفتہ کے نیل گگن پر۔۔۔۔۔۔۔ننھے ننھے۔۔۔۔۔۔۔ چھوٹے‬ ‫چھوٹے۔۔۔۔۔۔۔۔ ستارے‘ کہکشانی صورت میں جھلمالنے لگے‬ ‫ہیں۔ میں یادوں کے ہڑ میں بہتا بہتا دور۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت دور‘ نکل آیا‬ ‫ہوں۔‬ ‫شاید وہ اگست ‪ ٢٥٩١‬کی گرم‘ مگر بھیگی سی کوئ شام تھی۔‬ ‫رات کے اندھیارے‘ سورج کی حدت اور روشنی کو اپنے حلقے‬


‫میں لے چکے تھے۔ بجلی کے قمقمے اندھیروں کا سینہ چیرنے‬ ‫کی کوشش میں مشغول تھے۔ وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہو‬ ‫چکے تھے۔ چوک صرافاں میں خوب گہما گہمی تھی۔ کوئی آ رہا‬ ‫تھا‘ تو کوئی جا رہا تھا۔ مسجد سے نمازی نماز پڑھ کر‘ اپنے‬ ‫اپنے گھروں کی راہ لے رہے تھے۔ میں اپنی دوکان پر بیٹھا لون‬ ‫مرچ مصالحہ تولنے میں مصروف تھا۔ میرا ذہن تول اور پیسوں‬ ‫کے لین دین میں مصروف تھا۔ بالکل اچانک‘ ایک چھے سات سا‬ ‫کا لڑکا‘ میرے ہاتھ میں ایک رقعہ دے کر چلتا بنا۔ رقعے پر‬ ‫‪:‬صرف اتنا درج تھا‬ ‫ذرا گلی کے موڈ پر تشریف الئیں۔‬ ‫میں سوچ میں پڑ گیا کہ یہ کون صاحب ہو سکتے ہیں جو اکیلے‬ ‫میں مالقات کے خواہش مند ہیں۔ پہلے تو نظر انداز کرنا چاہا‘‬ ‫پھر چھوٹے بھائی کو دوکان پر بیٹھا کر‘ انھیں ملنے چل دیا۔‬ ‫وہاں صاحب تو نہیں‘ ایک نقاب پوش صاحبہ محو انتظار تھیں۔‬ ‫بشیر صاحب ذرا میرے ساتھ آئیے گا۔ اس کا لب و لہجہ بالکل‬ ‫سپارٹ تھا۔‬ ‫مگر کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کون ہیں؟! میں نے حیرت اور پریشانی کی‬


‫حالت میں پوچھا‬ ‫آ جائیے‘ فکر کی کوئ بات نہیں۔ یہاں گلی کے موڑ پر‘ کھڑے‬ ‫ہو کر‘ بات کرنا مناسب نہیں۔‬ ‫میں حیران و پشیمان اس کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ عجیب‬ ‫پراسرار خاتون ہے۔ کون ہو سکتی ہے۔ کہاں اور کیوں لے کر‬ ‫جا رہی ہے۔ میری سوچ کے حلقے‘ وسیع ہوتے چلے گیے۔‬ ‫مکان آ گیا۔ وہ اندر داخل ہو گئی۔ میں باہر کھڑا ہو گیا۔‬ ‫اندر آ جاییے۔۔۔۔۔۔ آ جاییے نا۔ اب کہ‘ اس کا لہجہ ریشم سے‬ ‫زیادہ مالیم ہو گیا تھا۔ میں نے حسب سابق اس کے حکم کی‬ ‫تعمیل کی۔ گھر میں کوئ نہ تھا۔‬ ‫بیٹھ جاییے۔ اس نے سامنے پڑی کرسی کی طرف اشارہ کرتے‬ ‫ہویے کہا۔‬ ‫یہ کہہ کر وہ اندر چلی گئی۔‬ ‫ڈر‘ خوف اور پریشانی کے سبب‘ میرا دل بند ہونے لگا۔ جانے‬ ‫کیا ہونے واال ہے۔ بے شمار خدشے سر اٹھانے لگے سنا تھا‘‬ ‫فراڈ ہو جاتے ہیں۔ میں نے بھاگ جانا چاہا ۔۔۔۔۔۔۔۔ جانے کیوں‬ ‫بھاگ نہ سکا۔ کاش! اس روز میں بھاگ گیا ہوتا۔ کاش! کسی‬ ‫چیز نے‘ میرے پاؤں جکڑ لیے تھے۔‬


‫اتنی دیر میں‘ وہ برقعہ اتار کر آ گئی۔ میں نے اس کی طرف‬ ‫دیکھا‘ اور پھر‘ دیکھتا ہی رہ گیا۔ میرے سامنے‘ گالبی رنگ‬ ‫میں ملبوس‘ قیامت کھڑی تھی۔ سیاہ دراز پلکوں کی اوٹ‬ ‫سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دو قمقمے‘ نور بکھیر رہے تھے۔ چوک صرافاں‬ ‫میں جلتے قمقموں میں اتنی تاب کہاں تھی۔ شانوں پر بکھری‬ ‫زلفیں‘ مجھے ڈس سی گئیں۔ مگر چند ہی لمحموں کے بعد میں‬ ‫اپنے آپے میں لوٹ آیا۔‬ ‫گھر والے کام سے گیے ہیں‘ سوچا‘ آج اپنے دیوتا سے‘ دو‬ ‫باتیں ہی ہو جائیں۔‬ ‫شہد میں ملفوف‘ یہ لفظ‘ بالشبہ حواس شکن تھے۔‬ ‫میں۔۔۔۔۔۔۔۔ میں‘ آپ کا دیوتا ؟! یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟ میں تو آپ‬ ‫کو جانتا تک نہیں۔‬ ‫اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ میں تو آپ کو جانتی ہوں۔‬ ‫یہ کہہ کر‘ اس نے اپنے بازو میرے گلے میں حائل کر دیے۔‬ ‫پھر کیا تھا‘ میں ریت کے تودے کی طرح‘ اس کی پلکوں کی‬ ‫آغوش میں‘ ریزہ ریزہ ہو گیا۔ اچانک شعور کے کسی گوشے‬ ‫سے‘ کسی نے کروٹ لی اور میں پل بھر کو سمبھال۔ میں اس‬


‫شیطانی کھیل کے لیے‘ ذہنی طور پر تیار ہی نہ تھا۔‬ ‫محترمہ کوئی اور گھر ڈھونڈیں۔ میں اس گاڑی کا بیل نہیں۔‬ ‫آجی۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا نام محترمہ نہیں میرا نورین ہے۔ گھر والے پیار‬ ‫سے‘ باؤ کہہ کر پکارتے ہیں۔ آپ بھی باؤ کہہ کر پکارا کریں۔‬ ‫بات کے دوران اس کی گرفت مضبوط ہو گئی۔ حوازادی مجھے‬ ‫نئی اور عجیب راہ پر ڈال رہی تھی اور پھر میرے حواس جواب‬ ‫دے گئے۔ میں نے خود کو شر کے حوالے کر ہی دیا۔‬ ‫آگ کا ذاتی رنگ سیاہ ہوتا ہے۔ دیکھنے میں وہ سرخ اور‬ ‫سنہری ہوتی ہے۔ میں نے خود کو‘ سیاہی جو ظلمت کی عالمت‬ ‫ہے‘ کے حوالے کر ہی دیا۔ آج سوج سوچتا ہوں میری عقل کو‬ ‫کیا ہو گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاید میں پاگل ہو گیا تھا۔‬ ‫میں انوکھی اور خطرناک راہ پر۔۔۔۔۔۔۔۔ انجام سے بےخبر۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫گامزن ہو چکا تھا۔ مجھے کچھ معلوم نہ تھا‘ کہ اس آنکھ‬ ‫مچولی کا نتیجہ کیا برآمد ہوگا۔ کون تباہ ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔ کون خوش‬ ‫حال ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کس کی آشا کے پھول۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیچڑ میں بکھر‬


‫جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔کون جیت کر ہارے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کون احساس کی آگ‬ ‫میں جلے گا۔۔۔۔۔۔۔ کسے پیار کی صلیب پر مصلوب کیا جائے‬ ‫گا۔۔۔۔۔کون درد کے سمندر میں ڈوب جائے گا۔۔۔۔۔۔ کاش میں ہوش‬ ‫کے ناخن لیتا۔۔۔۔۔۔۔کاش۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا کروں‘ وقت بیت چکا ہے اور‬ ‫میں گزرے لمحوں کی راکھ میں‘ معنویت تالش رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنا‬ ‫نادان ہوں میں بھی۔‬ ‫محبت کا یہ کھیل‘ دیر تک جاری رہا۔ چھیڑ چھاڑ۔۔۔۔۔۔۔عہدوپیمان۔‬ ‫میں نے گھڑی دیکھی‘ رات کے پون بارہ بج چکے تھے۔‬ ‫اچھا تو باؤ اب میں چلتا ہوں۔ ماں انتظار کر رہی ہو گی۔‬ ‫اف تنہائی۔۔۔۔۔۔۔ کیا کروں گی۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر کے لیے اور رک‬ ‫جاؤ۔ پھر وہ کسی کٹی ہوئی شاخ کی طرح میری باہوں میں‬ ‫جھول گئی۔‬ ‫کاش وقت یہیں ٹھہر جائے۔ میں نے سوچا۔ وقت کب کسی کا‬ ‫پابند رہا ہے۔ اسے تو ہر حال میں گزرنا ہی ہے‘ سو گزر گیا۔‬ ‫اس نے قدرت سے یہی سیکھا ہے۔‬ ‫پھر کب مالقات ہو گی۔‬ ‫جب یاد کرو گی۔ میرا کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ میں گزرا وقت تو نہیں‘ جو‬ ‫لوٹ کر نہ آسکوں گا۔‬


‫کل ہی۔‬ ‫کہاں‬ ‫گھر آ جاءیے گا۔‬ ‫میری ہڈی پسلی ایک کرانے کا ارادہ ہے کیا۔‬ ‫کیسی باتیں کرتے ہو‘ میں تمہاری ہو چکی ہوں۔ تمہیں مجھ پر‬ ‫اعتماد ہونا چاہیے۔ کہو تو تمہارے گھر چلی آؤں۔‬ ‫خیر چھوڑو۔۔۔۔۔۔۔ کل اسٹیش پر دس بجے ملتے ہیں۔ چلی آنا۔ یہ‬ ‫کہہ کر میں وہاں سے چال آیا۔‬ ‫گھر پہنچا تو سوائے ماں کے‘ سب سو چکے تھے۔ وہ میرا‬ ‫انتظار کر رہی تھی۔ جانے غریب کیا سوچ رہی ہو گی۔ ماں کا‬ ‫رشتہ بھی کتنا عجیب ہوتا ہے۔ اتنی برداشت‘ اتنا درگزر۔‬ ‫کہاں گئے تھے؟ ماں نے مصنوعی غصے سے پوچھا‬ ‫بےبے ایک دوست کے ہاں رک گیا تھا۔ میں نے جھوٹ کا سہارا‬ ‫لیا۔‬ ‫نہ پتر‘ اتنی رات گئے باہر نہ رہا کرو۔ زمانہ ٹھیک نہیں۔ ماں‬ ‫نے سمجھانے کے انداز میں کہا‬


‫اچھا بےبے۔ اب تم سو جاؤ۔ یہ کہہ کر‘ میں اپنے بستر پر جا‬ ‫لیٹا۔ جوں ہی بستر پر لیٹا‘ گزرا ہر لمحہ آنکھوں کے سامنے‬ ‫گھوم گھوم گیا۔ پھر سوچوں کا سیالب امڈ آیا اور میں دیر تک‬ ‫سو نہ سکا۔ اسٹیشن پر تو وہ آ جائے گی‘ کہاں لے کر جاؤں گا۔‬ ‫کافی سوچ بچار کے بعد‘ میری نظر مجید کے کوارٹر پر پڑی۔‬ ‫مجید میرا قریبی دوست تھا۔ میں نے ہر آڑے وقت میں‘ اس کی‬ ‫مدد کی تھی۔ مجھے یقین تھا کہ وہ انکار نہیں کرے گا۔‬ ‫حسب توقع وہ مجھے صبح صبح ہی مل گیا۔ میں نے سارا‬ ‫معاملہ ملفوف الفاظ میں کہہ دیا۔ اس نے حامی بھر لی اور میں‬ ‫دوکان پر آ بیٹھا اور اپنے کاروبار میں مشغول ہو گیا۔‬ ‫میں وقت سے دس منٹ پہلے ہی‘ ریلوے اسٹیشن کے بینچ پر آ‬ ‫بیٹھا۔ تھوڑی ہی دیر میں‘ وہ بھی آ گئی۔ وہ پسینے میں شرابور‬ ‫تھی۔ گرمی سے اس کا برا حال ہو رہا تھا۔ میں سامنے دوکان‬ ‫سے‘ شربت بنوا کر‘ لے آیا۔ جب وہ دو گالس پی چکی‘ تو اسے‬ ‫کچھ ہوش آیا۔‬ ‫شکریہ۔ میرا تو گرمی سے گال خشک ہو گیا تھا۔ اب کیا پروگرام‬ ‫ہے۔ اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔‬


‫میں نے اسے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔ جب ہم مجید کے گھر‬ ‫پہنچے تو‘ وہ سو رہا تھا اور اس کی بیوی گھر کے کاموں میں‬ ‫مصروف تھی۔ اس نے ناک منہ چڑاتے ہوئے‘ بیٹھک کا دروازہ‬ ‫کھول دیا اور خود اندر چلی گئی۔ مجید کے ہاتھ‘ میری زندگی کا‬ ‫نازک ترین لمحہ تھا۔ وہ اس سے ہر قسم کا فائدہ اٹھا سکتا تھا۔‬ ‫باؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم بھی‘ ایک چھوٹا سا گھر بنائیں گے جہاں ہمارے‬ ‫بچے ہوں گے۔ میں نے اس کی جانب پیار بھری نظروں سے‬ ‫دیکھتے ہوئے کہا‬ ‫وہ شرما گئی اور اپنا منہ میرے سینے کی وسعتوں میں چھپا‬ ‫لیا۔ میں اس کے ریشمی بانوں میں اپنی انگلیوں سے کنگھی‬ ‫کرنے لگا۔ وہ بہکنے لگی۔ یوں لگتا تھا جیسے اس نے بڑی‬ ‫مقدار میں پی رکھی ہو۔‬ ‫مالقاتوں کے سلسلے دراز ہوتے چلے گئے۔ کیف و لذت کے‬ ‫ساغر چھلکتے رہے۔ مجید اپنی کرم فرمائیوں کا معاوضہ وصوں‬ ‫کرتا رہا۔ اب اس کی بیوی نائلہ بھی بڑے تپاک سے ملتی تھی۔‬ ‫ایک دو بار اس نے بھی‘ کسی خواہش کا اظہار کیا۔ میں اتنا بھی‬ ‫گیا گزرا نہیں تھا‘ جو تھالی میں چھید کرتا۔‬


‫دوکان بند رہنے لگی۔ اور پھر یہ نوبت آ گئی کہ مسلسل ناغے‬ ‫ہونے لگے۔ ایسی بات کب چھتی ہے۔ میں یار دوستوں اور گھر‬ ‫والوں کی زبان پر آگیا۔ ہر کوئی مجھے معنی خیز نظروں سے‬ ‫دیکھنے لگا۔‬ ‫مظفر شاہ صاحب جو ہمارے محلہ کے بڑے معزز شخص‬ ‫سمجھے جاتے تھے‘ نے لمبا چوڑا لیکچر پالیا۔ میرے کان پر‬ ‫جوں تک نہ رینگی۔ سمجھانے والے یقینا میرے خیر خواہ‬ ‫تھے لیکن ان سب کو اپنے پیار کا دشمن سمجھتا رہا۔ ابلیس‬ ‫میرے گرد لذت کے خوش رنگ پھول بکھیر چکا تھا۔‬ ‫اس روز میں دوکان پر بیٹھا تھا کیونکہ مجید کی ایک بہت‬ ‫ضروری ڈیمانڈ پوری کرنا تھی۔ اچانک شاہ صاحب آ گئے اور‬ ‫بولے‪ :‬عقل کے اندھے اٹھو‘ میں تمیں کچھ دکھاتا ہوں۔‬ ‫ان کا رخ مجید کے کوارٹر کی جانب تھا۔ بیٹھک کے دروازے پر‬ ‫آ کر رک گئے۔ بڑی ہی دھیمی آواز میں کہا‪ :‬ذرا کان لگا کر سنو‬ ‫اندر سے مجید‘ سعید‘ نائلہ اور باؤ کی آوازیں آ رہی تھیں۔ وہ‬ ‫کسی سودے میں مشغول تھے۔ میں ان کی غلیظ باتیں سن کر‬ ‫پسینے میں نہا گیا۔ شاہ صاحب مجھے سہارا دے کر دوکان میں‬ ‫لے آئے۔‬


‫اس حادثے نے میرے دل و دماغ پر بڑے گہرے اثرات مرتب‬ ‫کئے۔ میں ذہنی اعتبار سے مفلوج سا ہو گیا۔‬ ‫پھر میں دوسری غلط راہ پر چل نکال۔ شراب دکھ کا روگ سہی‬ ‫لیکن یہ بذات خود بڑا خطرناک روگ ہے۔ یہ جونک کی مانند‬ ‫جسم کا سارا خون نچوڑ لیتی ہے۔‬ ‫اس روز میں چارپائی پر لیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شکست خوردہ کرواٹیں لے‬ ‫رہا تھا۔ غم و غصہ کا ایک طوفان سا امڈا چال آتا تھا۔ میں‬ ‫انجانی آگ میں جل رہا تھا۔ جب حواس گرفت میں نہ رہے تو‘‬ ‫میں بازار کیف کی جانب بڑھ گیا۔ میں عورت سے انتقام کی‬ ‫بھول میں‘ خود کو سزا دے رہا تھا۔ وہاں تو‘ دنیا ہی نئی تھی۔‬ ‫اس دنیا میں چپے چپے پر پیار کے سمندر رواں دواں تھے‬ ‫مگر پیار کا حصول دام و درم سے مشروط تھا۔ حیران تھا خدا‬ ‫کی زمین پر نابکنے والی چیزوں کے بھی دام لگتے ہیں۔ ادیب‬ ‫کے قلم کا خون۔۔۔۔۔۔۔۔ زاہد کا تقوی۔۔۔۔۔۔۔ مسیحا کی مسیحائی۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫سپاہی کا لہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باپ کی غیرت۔۔۔۔۔۔۔ ماں کی ممتا۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں ماں‬ ‫کی ممتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔عزت‘ غیرت‘ شرم‘ حیا‘ خونی رشتے‘ غرض کہ‬ ‫یہاں سب بکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گرہ میں مال ہونا چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کڑکتے‬ ‫کڑکتے نوٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی نہیں پوچھے گا۔ چمکتے اور‬ ‫کھنکھناتے سکے‘ پوچھنے والوں کی نفسیاتی کمزوری ہوتے‬


‫ہیں۔ اہل زر کو کون پوچھ سکتا ہے۔ قانون بےدرمے پر ہاتھ‬ ‫ڈالتا ہے۔ آج کیا‘ شروع سے‘ سکوں کو یہ شرف حاصل رہا ہے۔‬ ‫میں عرصہ تک‘ کبھی اس کوٹھے پر‘ تو کبھی اس کوٹھے پر‘‬ ‫بھٹکتا رہا۔ جب جاتا‘ ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا۔ ہر طوائف صدقے‬ ‫واری جاتی۔ چائے‘ پان‘ شراب‘ لذت غرض سب کچھ وہا دستیاب‬ ‫تھا۔ اگر کچھ نہیں تھا‘ تو وہ سکون تھا۔‬ ‫میں وہاں اکیال کب تھا۔‬ ‫ایک دن میں اس جانب رواں دواں تھا۔ اچانک ایک خیال کوندا‬ ‫اور میری راہ بدل گئی۔ باؤ بھی تو ایک شریف طوائف تھی۔‬ ‫میرے خون پسینے کی کمائی پر پہال اس کا حق تھا۔ اسی نے‬ ‫مجھے اس راہ پر ڈاال تھا۔ باؤ نے مجھے کچھ بھی نہ کہا۔ اس‬ ‫نے میری ضرورت پوری کر دی۔ چلتے ہوئے میں نے اس کی‬ ‫جھولی میں اس کا محنتانہ رکھ دیا۔ اس نے میری طرف دیکھا‘‬ ‫لیکن میں دروازے سے باہر قدم رکھ چکا تھا۔ سب بال مکالمہ‬ ‫طے پا گیا تھا۔ اس پیشے کا یہی اصول اور ضابطہ شروع چال‬ ‫آتا ہے۔ کچھ دو اور کچھ لو۔ سودا نقد و نقد۔ ناادھار‘ ناکل کا‬ ‫وعدہ۔ آج ہی‘ اس پیشہ میں معنویت سے زندہ ہے۔‬ ‫گرہ میں رہ ہی کیا تھا۔ نوے ہزار کی راس میں سے چند دالیں‬


‫اور دو کلو نمک میری حماقت کا منہ چڑا رہے تھے۔ اب میں‬ ‫ادھر جانے کے قابل بھی نہ رہا تھا۔ پھر مسجد سے هللا اکبر کی‬ ‫صدا گونجی۔ میں کانپ کانپ گیا۔ اس سے پہلے بھی یہ آواز کئی‬ ‫بار سن چکا تھا لیکن اج تو اس آواز نے گھائل کر دیا۔ هللا‬ ‫مجھے واپس لوٹنے کے لئے کہہ رہا تھا۔ میں تیزی سے مسجد‬ ‫کی جانب بڑھ گیا۔ جانے کتنی دیر سجدہ میں رہا لیکن جب سر‬ ‫اٹھایا سارا غبار چھٹ چکا تھا۔‬ ‫اس رات میں نے ماں کی آغوش میں پناہ لی۔ دیر تک اشک‬ ‫سوئی کرتا رہا۔ ماں پیار سے میرے سر پر ہاتھ پھیرتی رہی۔‬ ‫پچھتاوے کا جب سیالب تھما تو بیوہ ماں نے میری ہتھیلی پر‬ ‫پانچ سو روپیے‘ جو آنے ٹکوں کے روپ میں تھے‘ رکھ‬ ‫دئیے اور صفر سے کام کرنے کی تلقین کی۔ سوچتا ہوں اس‬ ‫بےچاری نے یہ رقم کتنی دیر میں جمع کی ہو گی۔ اس کے‬ ‫چہرے پر مالل کا دور تک نام و نشان نہ تھا۔ ماں تھی نا۔ ماں‬ ‫اپنے بیٹے کو نہ جانے گی تو اور کون جانے گا۔‬ ‫باؤ! وہ ماں کی دی ہوئی رقم تھی۔ آج میں عالقے کا باعزت اور‬ ‫صاحب حیثیت شخص ہوں۔ کسی کو میرا ماضی یاد تک نہیں۔‬


‫لوگ اسٹیج پر موجود کردار پر نظریں مرکوز رکھتے ہیں۔ جو‬ ‫گیا‘ سو گیا۔ باؤ کے چاہنے والے کچھ کم نہ تھے۔ کسی نے‬ ‫اسے ہمیشہ کا ساتھی نہیں بنایا۔ وہ کسی ایک کا بننا بھی نہیں‬ ‫چاہتی تھی۔ آج وہ بےنور ہڈیوں کا ڈھانچہ ہے۔ اب اس پر جعلی‬ ‫ہی سہی‘ پیار کون نچھاور کرے۔ اس کی جیب کون اور کیوں‬ ‫بھرے۔ اب اسے بیوگی کے قفس میں زندگی بسر کرنا ہو گی۔‬ ‫مجید آج بھی مجھے ملنے آتا ہے۔ میں اس کی بےلوث چاہ پانی‬ ‫سے سیوا کرتا ہوں۔ میں بےمروت نہیں۔ اب وہ بوڑھا ہو چکا‬ ‫ہے۔ تھکے تھکے قدموں سے چلتا ہے۔ وہ سب تہی دست ہو‬ ‫چکے ہیں کیونکہ وقت بہت آگے نکل آیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت‬ ‫آگے۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت آگے۔‬ ‫باؤ! مجھے تم سے ہمدردی ہے۔ اک وقت وہ تھا جب تمہارا‬ ‫طوطی بولتا تھا۔ آج تم زندگی سے بہت دور جا چکی ہو۔ تمہارا‬ ‫کوئ اپنا نہیں رہا۔ لوگ تمہیں نفرت کی نگاہوں سے دیکھتے‬ ‫ہیں۔‬ ‫باؤ! میں نے تمہارے ساتھ وقت گزرا ہے۔ میں تو تم سے سچا‬ ‫پیار کرتا تھا اور تم نے لذت اور سکوں کو ہی‘ سب کچھ سمجھ‬


‫لیا تھا۔ میرے پاس تمہاری بیوگی کا کوئ حل نہیں۔ میں تمہیں‬ ‫اپنا نہیں سکتا‘ کیوں کہ تم ذہنی طور پر آج بھی وہیں کھڑی ہو‘‬ ‫جہاں سالوں پہلے تھیں۔ جو بھی سہی‘ میں پیار ہوں۔ میرا پیار‬ ‫هللا کی ساری مخلوق کے لیے ہے۔۔۔۔۔۔۔ تمہارے لئے بھی۔ چلی‬ ‫آیا کرو‘ پیٹ کا دوزخ بھرے بغیر کب سکون ملتا ہے۔‬ ‫مئی ‪1976 62‬‬

‫من کا بوجھ‬

‫اس کا اصل نام تو کسی کو معلوم نہ تھا‘ ہاں البتہ‘ اولڈ بوائے‬ ‫کے نام سے‘ پورے عالقہ میں شہرت رکھتا تھا۔ یہ بچوں کا دیا‬ ‫ہوا نام تھا۔ وہ بچوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارتا۔ کھیلتا‘ انھیں‬ ‫کہانیاں سناتا۔ کسی بچے کو حاجت ہوتی‘ تو اسے نالی پر‬ ‫بیٹھاتا۔ اس کی طہارت کرتا۔ اس کا لباس درست کرتا۔ اگر کوئی‬ ‫اسے کھانے کی چیز دیتا‘ تو وہ اس کا بڑا حصہ بچوں کے‬ ‫لیے‘ جیب میں سمبھال لیتا۔ بچے بھی اپنی چیزیں اس سے بانٹ‬


‫کرتے۔ وہ ان کا دل رکھنے کے لیے‘ برائے نام اس میں سے‬ ‫کچھ لیتا۔ وہ کھاتے پیتے اور اٹھکیلیاں بھرتے‘ بچوں کو دیکھ‬ ‫کر خوش ہوتا۔ بچے‘ اس کے بغیر اپنے ہر کھیل کو‘ ادھورا اور‬ ‫نامکمل سمجھتے تھے۔ ایک مرتبہ وہ بیمار پڑا‘ تو بچوں نے‬ ‫اپنے بوڑھے ساتھی کا ہر طرح سے خیال رکھا۔ اسے لمحہ بھر‬ ‫کے لیے تنہائی کا احساس نہ ہونے دیا۔ یہی نہیں کوئی اس کے‬ ‫پاؤں داب رہا ہے تو کوئی سر دبا رہا ہے‬ ‫وہ کون تھا اور کہاں سے آیا تھا‘ کوئی نہیں جانتا تھا۔ وہ اس‬ ‫محلہ میں پچھلے پچیس سال سے اقامت رکھتا تھا۔ وہ کسی کے‬ ‫لیے اجنبی نہ رہا تھا۔ محلے کے بچوں کے بچے‘ اب اس سے‬ ‫کھیل رہے تھے۔ عورتیں جب گھر کے کاموں میں مصروف‬ ‫ہوتیں‘ تو وہ بعض بلکہ اکثر اوقات‘ اپنے شیرخوار بچے اس‬ ‫کے حوالے کر دیتیں۔ کسی شیرخوار بچے کو لیتے وقت‘ اس‬ ‫کے چہرے پر خوشی کے بیسیوں گالب کھل اٹھتے۔ مجال ہے‘‬ ‫کوئی بچہ اس کے پاس آ کر روتا یا تنگ کرتا۔ ضدی سے ضدی‬ ‫بچے‘ اس کے پاس آ کر ضد چھوڑ دیتے اور اس کے ساتھ گھل‬ ‫مل جاتے۔ بچوں کے معاملہ میں‘ اسے مقناطیس کہا جائے‘ تو‬ ‫غلط نہ ہو گا۔‬ ‫عورتیں اسے دکان سے سودا النے بھیج دیتیں۔ اس کے منہ پر‬ ‫انکار نہ آتا‘ بلکہ گوناں فرحت اور آسودگی سی محسوس کرتا۔‬ ‫ناصرف سودا صاف ستھرا التا‘ بلکہ بقایا بڑے اہتمام سے واپس‬


‫کرتا۔ معلوم ہوا‘ وہ دکان دار سے بھاؤ بھی کرتا۔ یوں بحث کرتا‘‬ ‫جیسے اپنے گھر کے لیے سودا خرید کر رہا ہو۔ زیادتی کی‬ ‫صورت میں‘ اس کا لہجہ ہی بدل جاتا۔ یوں لگتا‘ جیسے کوئی‬ ‫نواب صاحب ہو‘ لیکن چند ہی ساعتوں میں نارمل ہو جاتا۔ اس کا‬ ‫یہ روپ بالکل الگ سا ہوتا۔‬ ‫میں خود اسے‘ اولڈ بوائے سے زیادہ‘ نہیں جانتا تھا‘ تاہم‬ ‫میرے ذہن میں اس کے متعلق کئی سوال اٹھتے رہتے تھے۔ میں‬ ‫نے کئی بار ان سوالوں کا جواب تالشنے کی کوشش کی۔ اس‬ ‫نے بھی ایک زہریلی اور زخمی مسکراہٹ کے سوا میرے پلے‬ ‫کبھی کچھ نہ ڈاال تھا۔ اس کی موجودہ شناخت‘ دوسرے درجے‬ ‫پر بھی نہیں آتی تھی۔ نسلی اور عالقائی شناخت کی‘ ہر‬ ‫سوسائٹی میں معنویت رہی ہے۔ اسے کسی سطح پر نظرانداز‬ ‫نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اچھا‘ ذمہ دار‘ ہمدرد‘ بےضرر‘ شریف‬ ‫اورپیار کرنے واال تھا۔ یہ سب اپنی جگہ‘ لیکن اس سے شخصی‬ ‫شناخت ترکیب نہیں پائی۔ یہ بات کسی سطح پر نظرانداز نہیں کی‬ ‫جا سکتی کہ اسے‘ اس کے موجودہ رہائشی عالقہ میں‘ کس‬ ‫حوالہ سے لیا جائے۔ وہاں کا ہر رہائشی‘ رشتہ میں اس کا کچھ‬ ‫بھی نہیں لگتا تھا۔ رشتہ میں‘ اس کے لیے سب غیر تھے۔‬ ‫عالقائی نسبت بھی موجود نہ تھی۔ وہ کسی گھر میں بطور‬ ‫باپ‘بیٹا‘ ماما‘ چاچا‘ بھائی‘ کزن وغیرہ‘ ٹانگیں پسار کر نہیں‬ ‫بیٹھ سکتا تھا۔ اس کا ہر رہائشی سے دروازے تک کا رشتہ تھا۔‬ ‫گھر کے اندر داخلہ غیرمرد ہونے کے حوالہ سے‘ قطعی ممنوع‬


‫تھا۔‬ ‫اس کے کفن دقن میں وہ اس کے اپنے نہیں ہوں گے۔ اس کو‬ ‫الوارث سمجھ کر لوگ کفن دیں گے۔اس کی الش پر رونے والوں‬ ‫میں اس کا کوئی اپنا نہ ہو گا۔ ایک بھی نہیں۔ نزدیک کا تو بڑی‬ ‫بات ہے‘ دور کا بھی کوئ نہیں ہو گا۔ اس کی میت بھی عالقہ کی‬ ‫کتنی بدنصیب ہو گی۔ اف میرے خدا‘ اس سوچ سے میرا پورا‬ ‫جسم لرز گیا۔ میں نے اس سوچ کو جھٹک دینے کی کوشش کی‘‬ ‫لیکن میں اس سوچ کو جھٹک نہ سکا۔ میں اس کی اس‬ ‫بےچارگی پر سسک پڑا۔‬ ‫میرا بچپن بھی اس کے ہاتھوں میں گزرا تھا۔ میرے لیے وہ اس‬ ‫لیے معتبر تھا‘ کہ وہ دوسرے بچوں سے الگ مجھ سے سلوک‬ ‫روا رکھتا تھا۔ دوسروں کے سامنے مجھے بھی برابر کا حصہ‬ ‫دیتا‘ لیکن دوسروں سے آنکھ بچا کر زائد دے دیتا ۔ کبھی کبھی‬ ‫مجھے پیار کرنے کے بہانے‘ دوسرے بچوں کو گلے لگاتا‘‬ ‫چومتا اور الڈ کرتا۔ مجھے یاد پڑتا مجھے گلے لگاتے ہوئے اس‬ ‫کی آنکھوں میں ایک خاص چمک پیدا ہو جاتی۔ غالبا اس کی‬ ‫وجہ یہ تھی‘ کہ میں گول مٹول اور دوسرے بچوں سے الگ سا‬ ‫تھا۔ یہ بھی کہ اس کے قریب رہ کر مجھے بہت اچھا لگتا۔ جب‬ ‫وہ بچوں کو گنتی یا الف بے سکھاتا‘ تو سب زیادہ با ر مجھ‬ ‫سے سنتا اور میں اسے فرفر سنا دیتا۔ میں چونکہ دوسروں‬ ‫سے قدرے زیادہ ذہین تھا اسی وجہ سے وہ میرا خاص خیال‬


‫کرتا تھا۔‬ ‫ابا پڑھے لکھے تھے۔ نواب تو نہیں‘ قدرے صاحب حیثیت‬ ‫ضرور تھے‘ اسی لیے مجھے شہر پڑھنے کے لیے بھیج دیا‬ ‫گیا۔ میں بی اے پاس کرکے واپس لوٹا۔ مجھے مل کر‘ اولڈ‬ ‫بوائے بہت خوش ہوا۔ جب اسے معلوم ہوا‘ کہ میرے چھوٹے‬ ‫بھائی رحمت اور نذیر بھی تعلیم حاصل کرنے‘ شہر چلے گیے‬ ‫ہیں تو‘ اس نے بڑی خوشی کا اظہار کیا۔ میں نے محسوس کیا‘‬ ‫جو چمک میرے لیے اس کی آنکھوں میں نمودار ہوئی تھی‘ وہ‬ ‫ان کے لیے نہیں تھی۔ اس بات سے‘ اندازہ لگایا جا سکتا ہے‬ ‫کہ اولڈ بوائے‘ مجھے میری ذہانت کے حوالہ سے کتنا چاہتا‬ ‫تھا۔ انسان کی خصوصی کوالٹی ہی‘ اسے کسی دوسرے کے‬ ‫قریب التی ہے اور اس وصف کے حوالہ سے‘ لوگ اسے معتبر‬ ‫رکھتے ہیں۔ اولڈ بوائے بھی مجھے اسی حوالہ سے عزیز رکھتا‬ ‫تھا۔‬ ‫زندگی عارضی چیز ہے‘ اسے ایک روز ختم ہونا ہی ہوتا ہے۔‬ ‫اولڈ بوائے اپنے ننھے منے ہنسے مسکراتے ساتھیوں کو‬ ‫چھوڑ کر ملک عدم کو روانہ ہو گیا۔ میرا اندازہ یکسر غلط نکال۔‬ ‫اس کی معیت پر میں ہی نہیں‘ محلہ کا ہر چھوٹا بڑا رو رہا تھا۔‬ ‫بچے بےچین و بےکل تھے۔ ان کے چہروں پر قیامت خیز کرب‬ ‫تھا۔ عورتیں اس کی شرافت اور دیانت کی قصیدہ خوان تھیں۔‬ ‫اولڈ بوائے کا جنازہ کرب کے طوفان میں اٹھا۔ محلہ میں اتنی‬


‫سوگواری کا منظر‘ پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ وہ کسی کا‘ کچھ‬ ‫بھی نہ ہو کر‘ بہت کچھ تھا۔‬ ‫جانے والوں کو جانا ہی ہوتا ہے۔ انھیں جانے سے کون روک‬ ‫سکتا ہے۔ ابا جب گیے‘ محلہ کے لوگ ہمارے ہاں افسوس کے‬ ‫لیے آتے رہے۔ اولڈ بوائے کی کہیں پھوڑی نہ بچھی‘ ہاں رستہ‬ ‫ملتے لوگ آپس میں ملتے‘ اولڈ بوائے کا افسوس کرتے۔ دیر‬ ‫تک اس کی یادوں کے دیپ جالتے۔ یہی حال گھروں کا تھا۔ ہر‬ ‫گھر میں اولڈ بوائے کا تذکرہ چلتا اور سوگواری کے مناظر‬ ‫چھوڑ جاتا۔ وہ کوی سیاسی لیڈر‘ مذہبی راہنما یا قومی ہیرو نہ‬ ‫تھا اس کے باوجود اس کا تذکرہ‘ ان سے کسی طرح کم نہ تھا۔‬ ‫ابا کی موت کے بعد‘ اماں کے آنسو کئی سال نہ تھمےتھے۔ اولڈ‬ ‫بوائے کی موت کے بعد‘ اس کے ہونٹوں پر چپ لگ گئی۔ شروع‬ ‫شروع میں‘ میں نے اسے معمول کا معاملہ سمجھا۔ بہن اور‬ ‫دونوں بھائیوں نے اسے بڑھاپے کا نتیجہ سمجھا۔ بڑھاپے اور‬ ‫موت کے قریب وقت میں‘ ایسی صورتیں سامنے آتی ہی رہتی‬ ‫ہیں۔ ان تینوں کے برعکس‘ وہ مجھے اولڈ بوائے کی کچھ‬ ‫لگنے لگی۔ میں نے کئی بار جاننے کی کوشش کی کہ آخر کون‬ ‫سا دکھ اسے اندر ہی اندر کھائے چال جا رہا ہے۔ کسی رشتہ کے‬ ‫بغیر‘ اولڈ بوائے کا دکھ اس کے دل پر لگنا‘ حیرت سے خالی نہ‬ ‫تھا۔ جب اس سے کچھ پوچھتا‘ خفا سی ہو جاتی لیکن اس کی‬ ‫خفگی‘ اداسی سے خالی نہ ہوتی تھی۔‬


‫اماں شدید بیمار پڑ گئی۔ میرے سوا‘ اس کے تینوں بچے‘ اسے‬ ‫تنہا چھوڑ گیے۔ میری بیوی‘ میری ماں سے قربت کو پسند نہ‬ ‫کرتی تھی۔ وہ جھگڑا بھی کرتی‘ لیکن میں اس کی بک بک کی‬ ‫پرواہ کیے بغیر ماں کی دل و جان سے خدمت کرتا۔ مرنے سے‬ ‫چند لمحے پہلے کی بات ہے۔ خود ہی بولی‘ بےچارہ خوشیا کتنا‬ ‫تنہا تھا اور اس کی آنگھوں میں ساون اتر آیا۔ خوشیا۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ‬ ‫کون تھا؟! وہی جسے تم لوگ اولڈ بوائے کہا کرتے تھے۔ پھر‬ ‫اسے احساس ہوا کہ وہ بہت کچھ غلط کہہ گئی ہے۔ تم اسے‬ ‫جانتی تھیں۔ چھوڑو۔۔۔۔۔۔چھوڑو کس کہانی کو لے بیٹھے ہو۔ اس‬ ‫نے ٹالنے کی بڑی کوشش کی‘ لیکن میں سر ہو گیا۔‬ ‫کیا سننا چاہتے ہو‘ سن سکو گے۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔۔ تم سن‬ ‫نہیں سکتے۔ سن لوں گا‘ سب کہہ دو۔ کہہ دینے سے تمہارا دکھ‬ ‫ہلکا ہو جائے گا اور تمہاری تکلیف میں کمی آئے گی۔ مگر‬ ‫تمہارا کیا بنے گا۔میرا؟! میرا‘ اس کہے سے کیا تعلق ہو سکتا‬ ‫ہے۔ پتا نہیں کون اور کس عالقے کا تھا۔‬ ‫جانتے ہو وہ کون تھا؟ مجھے کیا معلوم۔ وہ تمہارا ابا تھا اور‬ ‫جبل پور کے رئیس کنبے سے تعلق رکھتا تھا۔ جب میں رحمت‬ ‫کے ابا کے ساتھ بیاہ کر آئی‘ تم میرے پیٹ میں تھے۔ خوشیا‬ ‫اس خبر سے مسرور تھا لیکن میں اس کی نہ ہو سکی۔ صابر‬ ‫مجھے یہاں لے آیا۔ خوشیا بھی یہاں آ بسا۔ وہ فقط تمہارے لیے‬ ‫یہاں آیا اور تمہیں دیکھ دیکھ کر زندہ رہا۔‬


‫اماں اس سے آگے کچھ نہ کہہ سکی اور میں بھی اس سے‬ ‫آگے کچھ نہ سن سکتا تھا۔ پہلے اماں کو چپ لگی تھی‘ اس کے‬ ‫بعد مجھے چپ لگ گئی۔ زمین سے کیا‘ موجود ڈھیر سارے‬ ‫رشتوں سے میرا رشتہ ٹوٹ گیا تھا۔ میں آج اس سرزمین پر‬ ‫زندگی گزار رہا ہوں‘ جو سرے سے میری نہیں۔ میری ان‬ ‫رشتوں سے مالقات ہوتی ہے‘ جو میرے نہیں ہیں۔ کسی سے کیا‬ ‫کہوں‘ کیا بتاؤں۔ میں بھی اپنے حقیقی رشتے کے ساتھ بدقسمتی‬ ‫اور شناخت سے محروم لحد میں اتر گیا ہوں۔ خوشیے کا میں‬ ‫تھا‘ مگر میرا یہاں کون ہے؟ ماں منوں مٹی تلے‘ اپنے من کا‬ ‫بوجھ ہلکا کرکے جا سوئی ہے۔‬ ‫میں کس سے اپنی کہہ کر‘ من کا بوجھ ہلکا کروں؟ بیوی‬ ‫سے۔۔۔۔۔۔ اپنے بچوں سے؟! سابقوں کی بوچھاڑ‘ مجھ سے یہ‬ ‫مردہ اور بےنشان سانسیں بھی چھین لے گی۔ سوالوں کے بہت‬ ‫سے دائرے میرے گرد جگہ بنا لیں گے۔ میرے جعلی رشتے‘‬ ‫جھوٹ کا ساتھ بھی چھوڑ جاءیں گے۔ کچھ بھی سہی‘ میں اپنی‬ ‫نسلی نسبی اور عالقائی شناخت جان چکا ہوں۔ میں جبل پور کا‬ ‫رئیس زادہ ہوں۔ میرے باپ دادا نام و مقام والے تھے۔ بدقسمتی‬ ‫مجھے چوتھے درجے کے لوگوں میں لے آئی‘ ورنہ ایسے تو‬ ‫ہمارے کمی کمین ہوتے ہوں گے۔‬ ‫کاش‘ میں کسی سے یہ سب کہہ پاتا۔۔۔۔۔۔ کاش میری موت کے‬ ‫بعد‘ میری قبر کے لوح پر کندہ کر دیا جائے۔۔۔۔۔ نواب زادہ نوید‬


‫عمر ولد نواب خوشی دمحم جبل پوری‬ ‫‪11-7-1974‬‬

‫بڑا آدمی‬

‫چالیس سال پہلے‘ ہر زبان پر تھا‘ کہ کورا نکما اور کام چور‬ ‫ہے‘ وہ زندگی میں کچھ نہیں بن سکے گا۔ یہ کہنے سے پہلے‘‬ ‫کوئی نہیں سوچتا تھا‘ کہ آخر کس بوتے پر‘ بڑا آدمی بن سکوں‬ ‫گا۔ میرے پاس تعلیم تھی نہ پیسہ۔ مجھے تو لمبڑوں کا کتا تک‬ ‫نہ جانتا تھا۔ ابا بچارے‘ مزدور آدمی تھے۔ پتا نہیں کس طرح ہم‘‬ ‫چار بہنوں اور دو بھائیوں کے پیٹ کی آگ بجھاتے تھے۔ میں‬ ‫نے کبھی‘ ان کے بدن پر اچھا کپڑا نہیں دیکھا تھا۔ بےچاری‬ ‫اماں کا بھی یہی حال تھا۔ ان دونوں کے چہروں پر‘ بے کسی‬ ‫اور بےبسی ڈیرے جمائے رہتی تھی۔ اس کے باوجود‘ ان کے‬ ‫منہ سے‘ میں نے ناشکری کا کلمہ نہیں سنا تھا۔ میں نہیں کہتا‘‬ ‫وہ لڑتے یا بحث نہیں کرتے تھے۔ ہاں‘ ہم بہن بھائیوں کے‬ ‫سامنے‘ ہنستے مسکراتے یا سنجیدہ رہتے تھے۔ ان کی زندگی‬


‫میں‘ کسی نے ہم بہن بھائیوں کے متعلق‘ اپنے منہ سے کوئی‬ ‫برا کلمہ نہیں نکاال تھا۔ وہ رشتہ داروں کے دکھ سکھ میں شامل‬ ‫ہوتے۔ اس پر بھی خرچہ اٹھتا ہو گا۔ انھوں نے مرنے سے‬ ‫پہلے‘ اپنی تینوں بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کیے اور باعزت گھر‬ ‫سے رخصت کیا۔۔‬ ‫انھوں نے ہم دونوں بھائیوں پر‘ بہنوں کا رائی بھر بوجھ نہ‬ ‫رہنے دیا۔ ابا جب مرے‘ گیارہ روپے قرضہ میں نکلے۔ اماں نے‬ ‫ہم دونوں بھائیوں کو پاس بٹھایا اور بدلی صورت حال سے آگاہ‬ ‫کیا۔ یہ بھی کہا‘ کہ تمہارے ابا نے گربت میں بھی‘ شریکے میں‬ ‫عزت بنائے رکھی ہے۔ محنت مشقت کرو‘ تاکہ شریکوں کی‬ ‫بولیاں اور طعنے نہ سننے پڑیں۔ بھائی منڈی میں مزدوری کا‬ ‫کام کرتے۔ سچی بات ہے‘ انھوں نے‘ مجھے محرومی کا‬ ‫احساس تک نہ ہونے دیا‘ کہ میں یتیم ہو گیا ہوں۔ انھوں نے‬ ‫بچت کرکے قرضہ اتارا۔ اماں کو پوتے پوتیاں دیکھنے کی بڑی‬ ‫تمنا تھی۔ ان کی‘ سگی خالہ کی بیٹی سے‘ بڑی سادگی سے‘‬ ‫نکاح کر دیا گیا۔ پندرہ بیس دن خوشی خوشی گزر گیے۔ پھر‬ ‫بھابی‘ جو خالہ زاد بہن بھی تھی‘ پہلے ہلکے پھلکے اور بعد‬ ‫میں‘ بھاری لفظوں کے پھتر برسانے لگی۔ بےچاری اماں بھی‬ ‫رینج میں آ جاتیں۔‬


‫بہنیں کبھی کبھار آ جایا کرتی تھیں۔ اماں کی موت کے بعد‘‬ ‫بھابی کی چخ چخ سے تنگ آ کر‘ آنا ہی بند کر دیا۔ دل دکھتا۔‬ ‫میں کیا کر سکتا تھا۔ بھائی تو جیسے گونگے بہرے ہو گیے‬ ‫تھے۔ پاس بیٹھے‘ اپنی بیوی کے زہر بھرے تیر‘ اپنی بہنوں پر‬ ‫برستے دیکھتے رہتے۔ ان کے منہ پر چپ کا تالہ سا لگ گیا‬ ‫تھا۔ میں زیادہ ناسہی‘ کچھ تو کما کر التا ہی تھا۔ اس کے‬ ‫باوجود اس کی زبان پر میرے لیے‘ نکما نکھٹو اور حرام خور‬ ‫ایسے ثقیل لفظ رہتے۔ اسی پر اکتفا نہیں کرتیں‘ ہر آنے جانے‬ ‫والے کے سامنے میری بےکاری کا رونا روتی۔ شاید ہی‘ کوئی‬ ‫خرابیی رہ گئی ہو‘ جو میرے نام منسوب کی گئی ہو گی۔‬ ‫بعض اوقات‘ اس کی چھوٹی اور چچی آنکھوں میں‘ موٹے‬ ‫موٹے آنسو اتر آتے‘ جیسے اس کی کسی نے پھڑکا پھڑکا کر‬ ‫ہڈی پسلی ایک کر دی ہو۔ میں نے بھی چپ میں عافیت سمجھی‬ ‫تھی۔ میں جانتا تھا کہ اگر میرے منہ سے ایک لفظ بھی نکل گیا‘‬ ‫تو بھائی پر قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ بےچارہ سارا دن محنت کرتا‬ ‫ہے‘ شام کو آتے ہی‘ اس کی جان کھا لے گی۔ مزے کی بات یہ‬ ‫کہ‘ کھانا کھاتے یا کام پر جاتے وقت‘ اس کا منہ کھلتا۔ یوں‬ ‫برستی‘ جیسے رانی توپ گولے برسا رہی ہو۔ ایک آدھ بار بھائی‬ ‫نے چوں کرنے کی کوشش کی۔ چپ ہونے کی بجائے‘ وہ اور‬ ‫تیز ہو گئی۔ بعض اوقات تو یوں لگتا‘ جیسے اس نے مکتی‬


‫باہمی والوں سے باقاعدہ ٹرینگ حاصل کر رکھی ہو۔‬ ‫ماسی جنتے‘ جو میری اماں کی اکلوتی سہیلی تھی‘ اور پورے‬ ‫گاؤں میں پرانی عمر کی عورت تھی‘ ورنہ سب هللا کو پیاری ہو‬ ‫چکی تھیں‘ مجھے پیار کرتی اور تسلی دالسہ دیتی۔ اس نے‬ ‫مجھے الگ ہو جانے کا مشورہ دیا۔ گاؤں کی عورتیں مجھے‬ ‫یوں دیکھتیں‘ جیسے میں ان کے پلے سے کھاتا ہوں۔ میں نکما‬ ‫اور کام چور نہ تھا‘ بس محدود سی کمائ بھابی کی ہتھیلی پر‬ ‫دھرتا تھا ۔ وہ لمبے چوڑے بوبے کی خواہش کرتی تھی‘ مگر‬ ‫بوبا‘ آتا کہاں سے۔ بوبا تو‘ معاشی لٹیروں‘ اسمگلروں‘ دفتری‬ ‫بادشاہوں‘ چھلڑ حضرات یا پھر‘ حاکموں اور ان کے دم چھلوں‬ ‫کے کھیسے لگتا ہے۔‬ ‫جب دیکھو‘ اپنے میکے والوں کی شرافت اور محنت و مشقت‬ ‫کے قصے سناتی رہتی۔ ماسی تو ہماری تھی‘ کیا ہم انھیں جانتے‬ ‫نہیں تھے۔ بس چپ چاپ اس کی جھوٹی پھوٹیں سنتے رہتے۔‬ ‫اخالقی جرات کہاں سے آتی‘ ہم میں اخالق ہی کب تھا۔ اخالق‬ ‫گریب لوگوں کی چیز نہیں۔ یہ بنگلوں اور محلوں میں بستا ھے۔‬ ‫اسے وہاں ہی آسودگی محسوس ہوتی ہے۔‬ ‫اس رات‘ میں نے گھر سے چلے جانے کا فیصلہ کر لیا۔ سوال‬ ‫یہ تھا‘ جاؤں گا کہاں؟ میرے پاس پھوٹی کوڑی تک نہ تھی۔ میں‬ ‫نے یہ سوچ کر‘ خود کو سمبھاال دیا‘ کہ هللا اپنی جناب سے‬ ‫ضرور کوئی ناکوئی بندوبست کر دے گا۔ میں نے صبح کو‘‬


‫بھائی سے‘ بھابی کے سامنے‘ اپنا ارادہ ظاہر کیا۔ بھائی سکتے‬ ‫میں آ گیا‘ اور بجھ سا گیا‘ لیکن بھابی نے کہا‘ جانے دو‘ جب‬ ‫کما کر کھائے گا‘ تو سمجھ آ جائے گی۔ پتا نہیں اورکیا کچھ کہا۔‬ ‫میں نے بھیگی آنکھوں سے گھر کو خیر آباد کہا۔ بھابی ماں تو‬ ‫نہیں تھی‘ جو کٹ کٹ جاتی اور راہ کی دیوار بن جائے گی۔ وہ‬ ‫تو مجھے الیعنی بوجھ سمجھتی تھی۔ میرے چلے جانے سے‘‬ ‫اس کی مردود آتما کو‘ شانتی مل گئی ہو گی۔‬ ‫سارا دن پریشانی‘ بیتے لمحوں کی یاد اور اگلے وقت کی پالنگ‬ ‫کرنے میں گزرا۔ وہ رات‘ میں نے اپنے ایک دوست کے ہاں‬ ‫گزاری۔ صبح اٹھا‘ زندگی میں پہلی مرتبہ مسجد کا رخ کیا۔ وہاں‬ ‫میری مالقات‘ حاجی ولی دمحم صاحب سے ہوئی۔ مجھے نماز‬ ‫پڑھتا دیکھ کر‘ انھوں نے اندازہ لگا لیا‘ کہ پہلی بار نماز پڑھ‬ ‫رہا ہوں۔ انھوں نے مجھے اپنے پاس بالیا اور نماز کی فضیلت‬ ‫اور نماز پڑھنے کے طریقہ سے آگاہ کرنے لگے۔ میں سر جھکا‬ ‫کر‘ بڑھے احترام سے‘ ان کی باتیں سنتا رہا۔ جب انھوں نے‘‬ ‫بات ختم کی تو میری آنکھیں‘ بےاختیار چھلک پڑیں۔ انھوں نے‬ ‫مجھ سے رونے کی وجہ پوچھی۔ میں نے سارا ماجرا کہہ دیا۔‬ ‫بڑے پریشان ہوءے۔ پھر وہ مجھے اپنے ساتھ لے گیے۔‬ ‫ان کی مارکیٹ میں بہت بڑی کپڑے کی دکان تھی۔ دکان پر گاہکی‬ ‫بہت تھی۔ مجھے انھوں نے چائے وغیرہ النے کا کام سونپا۔‬


‫رات کو سو رہنے کے لیے‘ گودام کا ایک کمرہ عنایت کیا۔ میں‬ ‫نے دلی ایمان داری سے کام کیا۔ حاجی صاحب کی چھے بیٹیاں‬ ‫تھیں‘ بیٹا ایک بھی نہ تھا۔ انھوں نے مجھے سچے باپ کا پیار‬ ‫دیا۔ میں پکا نمازی ہو گیا۔ پھر میں گھر کا سودا سلف ال کر‬ ‫دینے لگا۔ میں ان کے گھر کا فرد سا ہو گیا۔ مائی صاحبہ‘‬ ‫مجھے بڑا پیار کرتی تھیں۔ حاجی صاحب کی بیٹیاں مجھے اپنا‬ ‫بھائی سمجھنے لگیں۔ جس دن حاجی صاحب بیمار ہوتے‘ یا‬ ‫کہیں جاتے‘ میں دکان سمبھلتا۔ پھر حاجی صاحب مسلسل بیمار‬ ‫رہنے لگے۔ میں دکان سمبھالنے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں کے‬ ‫پاس لیے پھرا۔ رات کو ان کے پاؤں دباتا۔ میں نے ان کی خدمت‬ ‫کرنے میں اپنی سی پوری کوشش کی۔ مجھے ان میں اپنا باپ‬ ‫نظر آتا تھا۔‬ ‫کب تک‘ موت نے‘ میرا یہ باپ بھی چھین لیا۔ ہاں‘ اس باپ نے‘‬ ‫مجھے لکھ پتی بنا دیا۔ اب میں عالقہ کا‘ معزز ترین شخص تھا۔‬ ‫میرے بھیا‘ بھابی کی تلوار زبان کے ہاتھوں‘ چھوٹے چھوٹے‬ ‫بچے چھوڑ کر زبح ہو گیے۔ اب میں کورا نہیں‘ حاجی‬ ‫عبدالشکور تھا۔ حاجی صاحب کی بیوہ یعنی ماں نے‘ مجھے‬ ‫بھاوج سے نکاح کر لینے کا مشورہ دیا۔ ان کا خیال تھا‘ بچے‬ ‫رل جائیں گے۔ میں ان کے اس مشورے پر حیران تھا لیکن ان‬ ‫کا کہا‘ کیسے ٹال سکتا تھا۔ اب وہ‘ کمو کی بیوی نہیں‘ حاجی‬ ‫عبدالشکور کی بیوی تھی۔ اسے کئی بار بولنے کا دورہ پڑا‘‬ ‫لیکن اپنے چھوٹے بھائی‘ ہداتے کے ہاتھوں پٹ جاتی۔ یہ وہی‬


‫بھائی تھا‘ جس کے گن گاتی نہ تھکتی تھی۔ ہدیتا ان دنوں میرا‬ ‫باڈی گارڈ تھا۔ میرے انگلی کے اشارے پر‘ وہ کچھ بھی کر‬ ‫سکتا تھا۔ یہ فریضہ‘ میرے کہے یا میرے کسی اشارے کے بغیر‬ ‫ہی انجام دیتا تھا۔‬ ‫میں نے پچھال الیکشن بھی جیتا۔ هللا نے بڑی عزت دی ہے۔‬ ‫کسی چیز کی کمی باقی نہیں رہی۔ حاجی صاحب قصہ پارینہ ہو‬ ‫گیےہیں۔ بہت کم لوگوں کو‘ وہ یاد رہے ہیں۔ آج میں‘ سب کو یا‬ ‫د ہوں۔ آتے کل کو‘ لوگ میرے بیٹے کو یاد رکھیں گے۔ دونوں‬ ‫طرف کی بہنیں آتی ہیں۔ میں ان کی عزت اور خدمت کرتا ہوں۔‬ ‫اپنی ضرورت سے زیادہ‘ کمائی میں سے نہیں رکھتا۔ یہ بہنیں‘‬ ‫مجھے سگی بہنوں سے زیادہ عزیز ہیں۔ سب کچھ‘ ان ہی کا تو‬ ‫ہے‘ میری اصل اوقات تو چائے النے والے کی ہے۔ مال و دولت‬ ‫اور عزت مجھے محنت کرکے دستیاب نہیں ہوئی۔ محنت کی‬ ‫کمائی سے تو‘ میں ایک بکری بھی نہیں خرید سکتا تھا۔ یہ اوپر‬ ‫والے کا خصوصی احسان تھا۔ وقت کی خوش گوار کروٹ تھی۔‬ ‫آج میں بڑا اور صاحب حثیت آدمی ہوں‘ مگر کب تک‘ بس‬ ‫سانسوں کے آنے جانے تک۔ اس کے بعد‘ کسی کے خواب‬ ‫وخیال میں بھی نہیں رہوں گا۔ مزے کی بات یہ کہ‘ لوگ میرے‬ ‫سامنے اور پشت پیچھے‘ مجھے بڑا آدمی کہتے ہیں اور‬ ‫سمجھتے بھی ہیں۔ سوچتا ہوں‘ یہ کیسا بڑاپن ہے‘ جو سانسوں‬ ‫سے مشروط ہے۔ بڑا تو سقراط تھا‘ جو مر کر بھی‘ مرا نہیں۔‬


‫وقت کا فیصلہ بھی کتنا عجیب ہے‘ کہ شاہ حسین سے بھوکے‬ ‫ننگے‘ آج بھی زندہ اورالکھوں دلوں میں‘ اپنی عزت اور محبت‬ ‫رکھتے ہیں۔ قارون کے سوا‘ مجھ سے الکھوں لکھ پتی‘ جو‬ ‫وقت کے بہت بڑے آدمی تھے‘ آج کسی کو یاد تک نہیں ہیں۔ یہ‬ ‫بڑاپن کیسا ہے‘ جو کیڑوں مکوڑوں سے مختلف نہیں۔‬ ‫‪9-2-1978‬‬

‫حاللہ‬

‫جوانی کا دورانیہ‘ اگرچہ کچھ زیادہ نہیں ہوتا‘ لیکن آدمی اس‬ ‫مختصر سی مدت میں‘ بہت کچھ کر گزرتا ہے یا کر سکتا ہے۔‬ ‫اس کے گزر جانے کے بعد‘ اعصاب اور دماغی صالحتیں‘‬ ‫ڈھلتے سائے کا اترن لے لیتی ہیں۔ آدمی بہت کچھ کر گزرنے کی‬ ‫خواہش رکھتے ہوئے بھی‘ کچھ نہیں کر پاتا۔ اس کی اپنی جمع‬ ‫پونجی‘ اس کی اپنی نہیں رہتی۔ تجربہ‘ کمزور حافظے کے منہ‬ ‫میں جا کر‘ خود کے نشان بھی نہیں تالش کر پاتا۔ جوانی تسلیم‬ ‫کی خو کو قبول نہیں کرتی اس کے برعکس‘ بڑھاپا ہاں اور ناں‬


‫کے تذبذب میں لمحے گزار کر‘ لحد میں اتر جاتا ہے۔ میں اپنی‬ ‫غلطی‘ اب بھی‘ تسلیم نہیں کرنا چاہتی۔ غلطی تسلیم کرتی ہوں‘‬ ‫تو بےوجود ہوتی ہوں۔ غلطی تسلیم نہیں کرتی‘ تو میرا ضمیر‬ ‫مجھے سکھ کا سانس نہیں لینے دیتا۔ ساری عمر‘ اس نے نیند‬ ‫کی گولیاں کھائے رکھی ہیں‘ آج جانے کیوں جاگ اٹھا ہے۔‬ ‫زندگی جب بھرپور ہوتی ہے‘ اس وقت تمیز و امتیاز کے‬ ‫دروازے بند رہتے ہیں۔ کوئی دستک کانوں تک نہیں آ پاتی۔‬ ‫آج‘ جب ہر لمحہ‘ موت کے قریب ہو رہا ہے‘ مجھے اپنے ماضی‬ ‫کی غلطیوں کا احساس ہو رہا ہے۔ اگر دیکھا جائے‘ تو اسے‬ ‫غلطی بھی نہیں کہا جا سکتا۔ میں دینو کے گھر میں‘ معاشی‬ ‫طور پر آسودہ نہ تھی۔ دو وقت کی روٹی بامشکل ملتی تھی۔‬ ‫روٹی ہے‘ تو سالن نہیں۔ کپڑے ہیں‘ تو جوتے نہیں۔ گھر میں‬ ‫کچھ بھی تو مکمل نہیں تھا جو تھا‘ ادھورا اور نامکمل تھا۔‬ ‫ہماری شخصیت بھی ادھوری اور بےسری تھی۔ بات بات پر‘ ہم‬ ‫دونوں بحث وتکرار پر اتر آتے تھے۔ دور کی مرگ پر جانے‬ ‫کے لیے‘ ہماری جیب میں کرایہ تک نہ ہوتا تھا۔ زندگی کے‬ ‫بیشتر لمحے‘ ادھار پر چلتے تھے۔ اس میں دینو کا بھی کوئی‬ ‫قصور نہ تھا۔ وہ صبح سویرے اٹھ کر مزدوری پر چال جاتا تھا۔‬ ‫دھاڑ میں سے بہت قلیل‘ اپنی ذات پر خرچ کرتا تھا۔ باقی سب‘‬ ‫میری ہتھیلی پر رکھ دیا کرتا تھا۔‬ ‫میں اسے‘ اپنے والدین کا بھی قصور نہیں سمجھتی۔ ان کا بیٹا‬


‫اپنی بیوی کو لے کر‘ الگ ہو گیا تھا۔ وہ بوڑھے تھے۔ میں دینو‬ ‫کی کمائی کا آدھا‘ یا کبھی اس سے زیادہ‘ ان پر خرچ کر دیتی‬ ‫تھی اور گھر میں زیادہ تر‘ ہے نا ڈالے رکھتی تھی۔ خدا لگتی‬ ‫یہی ہے‘ کہ دینو نے کبھی حساب تک نہیں مانگا تھا۔ انہوں نے‬ ‫واجبی شکل کے‘ مجھ سے عمر میں بڑے شخص کو‘ لڑکی‬ ‫اسی لیے دی تھی‘ کہ میں ان کا معاشی ساتھ دیتی رہوں۔‬ ‫اس روز‘ دینو کام سے لوٹا تو‘ وہ پسینے میں شرابور تھا۔ اس‬ ‫کے چہرے پر‘ پریشانی کی لکیریں بڑی گہری تھیں۔ منہ ہاتھ‬ ‫دھو کر‘ بیٹھا تو میں نے پریشانی کی وجہ دریافت کرنے کی‬ ‫بجائے‘ دو ریپے کم دینے پر بحث شروع کر دی۔ اس نے ابھی‬ ‫دو چار لقموں سے زیادہ نہیں لیے ہوں گے‘ کہ اس کا چہرا غم‬ ‫آلود غصے سے سرخ ہو گیا۔ اس نے آگے پڑا کھانا‘ زمین پر‬ ‫پٹک دیا۔ اس بات پر ہماری تو تکرار میں اضافہ ہو گیا۔‬ ‫اگر پورا نہیں کر سکتے تھے‘ تو شادی کیوں کرائی تھی؟ میں‬ ‫نے اس کے تیور دیکھتے ہوئے کہا‬ ‫گزارا کرنا ہو تو‘ روکھی سوکھی پر بھی ہو سکتا ہے۔ اس نے‬ ‫جوابا کہا‬ ‫گزارا ہی تو کر رہی ہوں۔۔۔۔ کون سے کوفتے اور ککڑ کھانے کو‬ ‫دیتے ہو۔‬ ‫شیداں گزارا کرو۔۔۔۔۔۔ گزارا۔۔۔۔۔۔۔۔ جو ملے اس پر هللا کا شکر ادا‬


‫کیا کرو۔‬ ‫جب سے تمہارے گھر آئی ہوں گزارا ہی تو کر رہی ہوں۔‬ ‫باپ کے گھر میں کوفتے کھاتی آئی ہو؟ میں انہیں بھی جانتا‬ ‫ہوں۔ اب کہ دینو کا لہجہ بڑا جارحانہ ہو گیا۔‬ ‫میرے باپ کو پن رہا تھا‘ اس پر میں آپے سے باہر ہو گئی۔ میں‬ ‫نے اس کے خاندان کے ہر فرد کی اوقات اس کے سامنے رکھ‬ ‫دی۔ اس پر وہ تلمال اٹھا اور گھر سے باہر جانے لگا۔ میں نے‬ ‫روک کر کہا‘ اگر گھر نہیں چال سکتے‘ تو مجھے طالق دے دو۔‬ ‫میرے منہ سے طالق کا لفظ سن کر‘ وہ سکتے میں آ گیا۔ اس‬ ‫نے میری طرف دیکھا اور طالق طالق طالق کہتا ہوا گھر سے‬ ‫باہر نکل گیا۔‬ ‫وہ طالق طالق طالق کہہ کر چال گیا لیکن مجھے حیرت اور‬ ‫پریشانی کے سمندر میں پھینک گیا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتی‬ ‫تھی‘ کہ دینو جیسا معذور شکل کا شخص‘ اس سطح پر بھی اتر‬ ‫آئے گا۔ میں اس سے بڑھ کر‘ بیسیوں بار بےعزتی کر چکی‬ ‫تھی‘ لیکن وہ اس سطح تک کبھی نہیں آیا تھا بلکہ معذرت‬ ‫خواہی پر اتر آتا تھا۔ یہ سب میری توقع کے برعکس ہو گیا تھا۔‬ ‫وہ رات دیر گیے واپس لوٹا۔ کچھ کہے سنے بغیر‘ اپنے بستر پر‬ ‫لیٹ گیا۔ دونوں جانب چپ کا روزہ تھا۔ آخر میں نے ہی پہل کی۔‬ ‫دینو بہت بڑی غلطی ہو گئی ہے۔ میرے منہ سے لفظ طالق نکل‬


‫گیا‘ تم ہی چپ رہتے۔ اب کیا کریں۔ مولوی صاحب سے پوچھو۔‬ ‫کوئی تو حل ہو گا۔‬ ‫پوچھا ہے‘ انہوں نے کہا ہے‘ حاللے کے سوا‘ اس کا کوئی‬ ‫دوسرا حل موجود نہیں۔‬ ‫حاللہ کے لیے کس سے کہیں؟! میں نے پریشانی کے عالم میں‬ ‫کہا‬ ‫مولوی صاحب یہ قربانی دینے کے لیے تیار ہو گیے ہیں۔‬ ‫حاللہ کے بعد‘ مولوی صاحب مجھے اپنے ہاں لے گیے۔ ان کے‬ ‫ہاں کھانے کا سامان وافر تھا۔ گھر بھی‘ ضرورت کی ہر شے‬ ‫سے بھرا ہوا تھا۔ گھر دیکھ کر‘ میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ‬ ‫گئیں۔ ایک دیندار انسان کے گھر‘ عیش وعشرت کا اتنا سامان۔۔۔۔‬ ‫میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ وہ رات بڑی آسودہ گزری۔‬ ‫کھانے پینے کو پیٹ بھر ہی نہیں‘ وافر دستیاب تھا۔‬ ‫اگلی صبح دینو آیا اور اس نے مولوی صاحب سے طالق کے‬ ‫لیے کہا۔ مولوی صاحب نے جوابا کہا‘ تم خود پوچھ لو‘ اگر‬ ‫طالق لینا چاہتی ہے تو‘ میں ابھی دے دیتا ہوں۔ اتنی جنسی اور‬ ‫پیٹ کی آسودگی کے بعد‘ مولوی صاحب کو طالق دینے کے لیے‬ ‫کہنا‘ کھلی حماقت تھی۔ دینو غیر تھا‘ اب میرے لیے‘ غیرمحرم‬ ‫کے سامنے آنا‘ غیر شرعی امر تھا۔ اب میں ایک باشرع شخص‬ ‫کی بیوی تھی۔‬


‫میں نے دینو کو جاتے ہوئے الپرواہ نظروں سے دیکھا۔ یوں‬ ‫سایہ سا‘ الش سے مماثل نظروں سے اوجھل ہو گیا۔‬ ‫میں اس حقیقت سے انکار نہیں کرتی‘ مولوی صاحب کے گھر‬ ‫میں مجھے اور میرے پچھلوں کو‘ پیٹ بھر مال ہے اور میرے‬ ‫ہوتے‘ مولوی صاحب کو دوسرے حاللے کی جرآت نہیں ہوئی۔‬ ‫چوری چھپے کوئی کر گزرے ہوں‘ تو یہ الگ بات ہے۔ ہمارے‬ ‫ہاں مانگے کا رزق آیا ہے۔ یہ مانگا رزق کوئی تھوڑا نہیں‘ بہت‬ ‫آیا ہے۔ مولوی صاحب مانگ لینے میں کوئی برائی نہیں‬ ‫سمجھتے۔ انہوں نے ایک درس بھی کھول رکھا ہے۔ چھوٹے‬ ‫چھوٹے بچے‘ درس کے لیے چندہ لینے کے لیے چڑھے رہتے‬ ‫ہیں۔ اچھا خاصا چندہ بٹور التے ہیں۔‬ ‫مولوی صاحب اس انتظار میں رہے ہیں‘ کہ کب طالق مانگتی‬ ‫ہوں۔ میں پاگل نہیں‘ کیوں کہ اب حاللے کی نوبت نہیں آئے گی۔‬ ‫مولوی صاحب کو مجھ سے‘ کہیں بہتر‘ حاللے میں مل جائے‬ ‫گی۔ اگر ایک فیصد حاللے کی نوبت آ بھی گئی تو‘ مولوی صاحب‬ ‫جیسی اسامی نہ مل سکے گی۔‬ ‫آج بڑھاپے نے شاید ہوش غارت کر دئے ہیں‘ تب ہی تو سوچتی‬ ‫ہوں‘ کہ دینو کی پسینہ آمیز کمائی میں‘ بےحد سواد تھا۔ اس‬ ‫وقت مجھے کوئی بیماری الحق نہ تھی۔ یہاں حاللے کے دو ماہ‬ ‫پعد ہی معدہ کی بیماری الحق ہوگئی۔ اس کے بعد شوگر نے آ‬ ‫گھیرا۔ کمردرد تو معمول کا معاملہ ہے۔ بی پی کی کسر رہ گئی‬


‫تھی‘ وہ بھی گلے کا ہار بن گئی ہے۔ مولوی صاحب کسی کی‬ ‫جیب تو نہیں کاٹتے‘ اس کے باوجود ان کا الیا ہوا رزق‘ ذائقہ‬ ‫میں‘ دینو کے الئے سا نہیں۔‬ ‫‪1-2-1976‬‬

‫آوارہ الفاظ‬ ‫وعدے۔۔۔۔۔۔ جھوٹ۔۔۔۔۔۔۔ سب جھوٹ‘ فریب مگر ہر کوئی‘ ان کی‬ ‫گرفت میں آ جاتا ہے۔ وعدوں کے دامن میں‘ امیدوں کے خوش‬ ‫رنگ اور خوش مہک پھول‘ مسکراہٹ بکھیر رہے ہوتے ہیں۔‬ ‫میں بھی‘ وعدوں کے گرداب میں پھنس گیا۔ کوئی مجھے کیوں‬ ‫سمجاھتا۔ میں سمجھنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ ہدایت اسی کے لیے‬ ‫ہوتی ہے‘ جو ہدایت کا طلب گار ہوتا ہے۔ اب مجھے کوئی کیوں‘‬ ‫تسلی دیتا پھرے۔ میں تو‘ جھوٹ کی ظلمتوں کا مسافر تھا۔ جب‬ ‫سچ کا سویرا ہوا‘ دامن دیکھا‘ تار تار تھا۔ دنوں ہاتھ خالی۔۔۔۔۔‬ ‫خال کی وسعتوں کی طرح۔۔۔۔۔۔۔ رونا چاہا رو نہ سکا۔ چیخنا چاہا‘‬ ‫چیخ نہ سکا۔ حلق میں بےکسی اور بےکسی کے کانٹے پیوست‬ ‫ہو گیے تھے۔‬


‫میرے رنج۔۔۔۔۔ کچھ موہوم اور نامعلوم سی یادیں۔۔۔۔۔۔ ویران‬ ‫وپشیمان آنکھیں۔۔۔۔۔۔ زخمی اور نیم مردہ دل۔۔۔۔۔ بس یہ ہی کچھ‬ ‫باقی رہ گیا تھا۔ زندہ لمحموں میں۔۔۔۔۔۔ ان کی کوئی اوقات نہیں‬ ‫ہوتی۔۔۔۔۔۔ کچھ کہتا ہوں‘ تو رسوائی کے۔۔۔۔۔۔ گہرے کھڈ میں گرتا‬ ‫ہوں۔ گرہ میں خلوص ومحبت کا مال ہوتے ہوئے۔۔۔۔۔ میں ناکام‬ ‫ٹھہرا ہوں۔۔۔۔۔۔ نہیں جانتا‘ کھرے سکے۔۔۔۔۔ عملی زنندگی میں‘‬ ‫!کھوٹے اور بےدام کیوں ٹھہرے ہیں۔۔۔۔۔ کیوں۔۔۔۔۔آخر کیوں؟‬ ‫صغراں! تم نے فریب کیا۔۔۔۔۔ مجھے اپنے مکروفریب کا نشانہ‬ ‫بنایا۔۔۔۔۔ تمہارے چہرے کی عیار مسکان میں‘ خودغرضی ملفوف‬ ‫تھی۔ بہ ظاہر اس میں‘ دور تک اللچ کا کہرا موجود نہ تھا۔ میں‬ ‫تمہیں پوترتا کی عالمت سمجھتا رہا۔ جانے مکروفریب اور‬ ‫چھل۔۔۔۔۔ زندگی کے کیوں ضابطے قرار پائے ہیں۔ سچ کا‬ ‫سورج۔۔۔۔۔۔ اپنی الچارگی پر۔۔۔۔۔ لہو روتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ وہ زندہ ہے‘‬ ‫لیکن مردوں کی سی زندگی کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ وہ تو فریاد کا بھی حق‬ ‫نہیں رکھتا۔ اتنا بےبس۔۔۔۔۔۔ بے کس۔۔۔۔۔ شاید ہی کوئی رہا ہو گا۔‬ ‫اس کے لیے تو۔۔۔۔۔۔۔ کسی نے۔۔۔۔۔۔۔ چلو بھر پانی بھی نہیں رہنے‬ ‫دیا۔‬ ‫نور! مجھے معاف کر دینا۔۔۔۔۔ میں نے تمہیں ذلیل کیا۔۔۔۔۔۔ مجھے‬ ‫صغراں کی عیار مسکرااہٹیں عزیز تھیں۔۔۔۔۔ تم۔۔۔۔۔۔ ہاں تم۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫میرے ہاتھوں بےوقار ہوتی رہیں۔ میری آنکھیں‘ اصلی اور نقلی‬ ‫کی پہچان سے‘ محروم ہو گئی تھیں۔ ان میں‘ الیعنیت کا موتیا‬


‫اتر آیا تھا۔ تم تھیں‘ کہ میرا ساتھ کبھی اور کسی موڑ پر نہ‬ ‫چھوڑا۔ تمہارا وجود ۔۔۔۔۔ برداشت کے رستوں کے لیے۔۔۔۔۔۔ سنگ‬ ‫میل کا درجہ رکھتا ہے۔ صبر اور برداشت ناقابل تسخیر ہیں۔ یہ‬ ‫ہمالہ کی سر بہ فلک چوٹیوں کو بغل میں لے کر چلتے ہیں۔ اگر‬ ‫یہ نہ ہوتے تو زندگی کب کی دم توڑ چکی ہوتی۔ زمین پر ویرانی‬ ‫کی حکم رانی ہوتی۔۔۔۔۔ ہانپتی کانپتی روحوں کو۔۔۔۔۔۔ ان سے‬ ‫حرات اور شکتی میسر آتی ہے۔ ساری تابانیاں ان ہی کے دم تو‬ ‫سے ہیں۔‬ ‫ساری روشنیاں ان ہی کے دم سے تو ہیں۔‬ ‫لوگو! جان لو‘ کسی بھول میں نہ رہنا۔۔۔۔۔۔ میں جھوٹ کا سوداگر‬ ‫ہوں۔۔۔۔۔ میں عیار مسکراہٹیں خرید کرتا ہو۔‬ ‫مجھ سے‘ ہر سودگر کی گرہ کے سکے۔۔۔۔۔۔ کھرے ہو کر بھی‘‬ ‫کھوٹے ہوتے ہیں۔ جھوٹ کے خریددار‘ سکوں کو کھرا کہنا‬ ‫کھلی بددیانتی ہے۔ جھوٹ معنویت سے تہی ہوتا ہے۔ اٹھو‘ خدا‬ ‫کے لیے اٹھو‘ جھوٹ کی تجوری کی‘ اینٹ سے اینٹ بجا دو۔‬ ‫اسی میں پوری انسانیت کی بھالئی پوشیدہ ہے۔ اٹھو‘ جلدی کرو‬ ‫کہیں دیر نہ ہو جائے۔ سچ کا سورج۔۔۔۔۔عیار مسکانوں کی صلیب‬ ‫پر‘ مصلوب ہو جائے گا۔ چار سو اندھیروں کے سوا کچھ نہیں‬ ‫ہو گا۔‬ ‫مجھے کند چھری سے ذبح کرو۔۔۔۔۔ میں نور کے صبر کا قاتل‬ ‫ہوں۔ جھوٹ کا ہر خریدار اسی سزا کا مستحق ہے۔۔۔۔۔۔ میں سراپا‬


‫جھوٹ ہوں۔۔۔۔۔۔ مجھے معاف کرو گے‘ تو۔۔۔۔۔۔ عیار مسکانوں کا‬ ‫کاروبار جاری رہے گا۔۔۔۔۔ نور سی صابر عورتیں‘ ناکردہ جرم کی‬ ‫سزا بھگتی رہیں گی۔۔۔۔۔ ان کا کوئی پرسان حال نہ ہو گا۔۔۔۔۔۔ حق‬ ‫دار کو‘ کبھی اس کا حق نہ مل سکے گا۔ جبر کی گرم بازاری‘‬ ‫ختم نہ ہو گی۔ مالوٹ شدہ پوترتا کے‘ مکروہ چہرے سے۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫گھونگھت کیسے اٹھے گا۔ لوگ‘ پیتل اور سونے میں‘ پہچان‬ ‫کیسے کریں گے۔ میری موت۔۔۔۔۔۔ اور زندگی کے چوراہے پر‬ ‫لٹکی الش۔۔۔۔۔۔ نور کے صبر کے لیے‘ پرسا ہو گی۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہی‬ ‫نہیں۔۔۔۔۔ مکار پوترتا ۔۔۔۔۔۔۔عیار مسککانوں کے‘ ہر سوداگر کو‘‬ ‫کان ہو جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔ ایک کی موت‘ بہتوں کو نفع دے گی۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫سچ تو یہ ہی ہے‘ کہ یہ صبر کی گرہ میں۔۔۔۔۔۔ اس کی کٹھور‬ ‫تپسیا کا انعام ہو گا۔۔۔۔۔۔ صلہ اور عوضانہ ہو گا۔ اسے عوضانہ‬ ‫ملنا چاہیے۔۔۔۔۔۔۔اس کے لیے ناسہی۔۔۔۔۔۔ میرے ساتھ‘ بہت بڑا پن‬ ‫ہوگا۔ مجھے پچھتاوے کی دہکتی آگ سے‘ مکتی مل جائے‬ ‫گی۔۔۔۔۔ اب یہ آگ‘ میں سہن نہیں کر پا رہا۔۔۔۔۔۔ میری برداشت کی‬ ‫کمر ٹوٹ چکی ہے۔ میں ہی نہیں‘ ہر کوئی مکتی کے لیے‬ ‫سرگرداں ہے۔‬ ‫مانتا ہوں‘ اس میں میرا اپنا سواد پنہاں ہے۔ یادوں کی اذیت‬ ‫ناکی‘ بڑی خوف ناک ہوتی ہے۔ زندگی سے موت تک کا‬ ‫سفر۔۔۔۔۔۔۔۔مشکل بنا دیتی ہیں۔۔۔۔۔جینے نہیں دیتیں۔۔۔۔۔۔مرنے نہیں‬ ‫دیتیں۔۔۔۔۔۔۔زندگی کے ہر موسم کی سانجھ چھین لیتی‬ ‫ہیں۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔۔‬


‫اوہ یار طارق۔۔۔۔۔۔۔اب چپ ہو جاؤ۔۔۔۔۔۔ خدا کے لیے چپ ہو جاؤ۔‬ ‫گھڑی دیکھو‘ رات کے دو بج چکے ہیں۔ صبح دفتر بھی جانا‬ ‫ہے۔ میں تمہاری یہ بکواس کب تک سنتا رہوں گا۔ گولی مارو‬ ‫صغراں اور اس کی یادوں کو۔۔۔۔۔ کیا رکھا ہے ان باتوں میں۔ اب‬ ‫تمہیں‘ نور پر ہونے والی زیادتیوں کے‘ مدوے کے لیے زندہ‬ ‫رہنا ہو گا۔ آوارہ لفظوں کے خول سے‘ نکل کر‘ حقیقت کی دنیا‬ ‫میں آؤ۔۔۔۔۔۔ جھوٹ دھوکہ اور فریب کی عمر لمبی نہیں ہوتی۔‬ ‫طارق نے اپنی کہہ دی تھی۔ اس کے من کا بوجھ‘ ہلکا ہو چکا‬ ‫تھا۔ میرے لفظ‘ زندگی سے معمور نہ تھے‘ پھر بھی‘ مرہم کا‬ ‫کام کر گیے۔ میں دیکھا‘ طارق گہری نیند سو چکا تھا‘ جیسے‬ ‫کچھ ہوا ہی نہ ہو۔‬ ‫یکم دسمبر ‪٢٥٩١‬‬ ‫بروز ہفتہ‬ ‫بوقت ‪١٢٠٢‬‬

‫مائی جنتے زندہ باد‬


‫جب دیکھو‘ بابا عمر اور مائی جنتے‘ کسی ناکسی بات پر‘ بحث‬ ‫کر رہے ہوتے۔ لوگ‘ ان کی تو تکرار سے بدمزا ہونے کی‬ ‫بجائے‘ لطف اندوز ہوتے اور رک کر‘ ان کے مکالمے سنتے۔‬ ‫وہ اسے پھپھے کٹن کہتا‘ مائی جنتے بابے عمر کو‘ چاتر کہتی۔‬ ‫جب بات بڑھتی‘ تو وہ طعنوں پر اتر آتے۔ بالکل بچوں کی طرح‬ ‫لڑتے۔ انہیں اس امر کی پرواہ تک نہ ہوتی‘ کہ انہیں کوئی دیکھ‬ ‫سن رہا ہے اور وہ‘ زمانے کا مذاق بن رہے ہیں۔‬ ‫میں جب منڈی سے لوٹا‘ تو تمہیں تازہ تازہ اور چنویں بیر دیئے‬ ‫تھے۔ تم تو ہو ہی ناشکری۔‬ ‫جانتی ہوں‘ تم کتنے کو سخی ہو۔ بیر ہی دییے‘ امرود تو نہیں‬ ‫دیے نا۔۔۔۔۔ مانگنے پر‘ بچکی میں چھپا لیے تھے۔ بھوکے کہیں‬ ‫کے۔‬ ‫جھوٹی کہیں کی۔ کب کی بات کرتی ہو۔ میں تو بانٹ کر کھاتا‬ ‫ہوں۔‬ ‫واہ! آگیے بانٹ کر کھانے والے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے‘‬ ‫تمہارے ہاتھ میں دیکھ لیے تھے۔‬ ‫تم تو ہو ہی بکھی ندیدی۔ تب ہی تو‘ میرے پیٹ میں درد اٹھنے‬ ‫لگا تھا۔‬ ‫یہ تو درد ہوا تھا‘ ابھی تمہارے پیٹ میں کیڑے پڑنے ہیں۔‬


‫واہ‘ تم تو کیتی کرائی پر پانی پھیر دیتی ہو۔‬ ‫کیا کیتی کرائی۔‬ ‫!جب بھی تم نے ادھار مانگا‘ میں نے دیا نہیں؟‬ ‫لو اب طعنوں پر اتر آئے ہو۔ لین دین تو دنیا میں چلتا رہتا ہے۔‬ ‫میں نے کبھی ادھار مارا بھی ہے؟‬ ‫وعدے پر تو کبھی نہیں دیا۔ تم تو احسان فرموش ہو۔ تمہارے‬ ‫ساتھ بات کرنا بھی‘ سو کا گہاٹا ہے۔‬ ‫بس کرو۔۔۔۔ بڑے آئے سیٹھ صاحب۔ مہاجے کا جب ابا زندہ تھا‘‬ ‫تب پوری گرمیاں‘ ہمارے گھر سے لسی لے جاتے رہے‘ میں‬ ‫نے کبھی جتایا تک نہیں۔ ایک دو بار‘ میں نے بن مانگے‘‬ ‫مکھن بھی دے دیا تھا۔ چائے کے لئے بھرا گالس دودھ لے جایا‬ ‫کرتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ سب بھول گیے ہو۔‬ ‫غرض اس نوعیت کی تکرار اور نوک جھونک‘ دوسرے‬ ‫تیسرے‘ سننے میں آتی رہتی تھی۔ ہم میں سے کسی نے غور‬ ‫ہی نہ کیا‘ کہ ان کی یہ بحث وتکرار کیوں ہوتی ہے۔ اس اٹ‬ ‫کتے کے بیر کی‘ کوئی تو وجہ ہو گی۔ عمومی طور پر‘ دونوں‬ ‫بڑے ملن سار اور ہم درد قسم کے انسان تھے۔ دونوں کا درد‬ ‫ایک تھا۔ بڑھاپے میں‘ ان کے ساتھی چھوڑ گیے تھے۔ شاید وہ‬ ‫چڑچڑے ہو گیے تھے۔ جو بھی سہی‘ دونوں دل کے برے نہیں‬


‫تھے۔ وقت اور حاالت نے‘ انہیں اکتایا اکتایا سا‘ بنا دیا تھا۔‬ ‫ساتھی مر جانے کے بعد‘ تنہائی نے‘ شاید انہیں اس طرح کا بنا‬ ‫دیا تھا۔ وہ ایک دوسرے سے بحث کرکے‘ من کا بوجھ ہلکا کر‬ ‫لیتے ہوں گے۔‬ ‫بچے اپنی اپنی دنیا میں چلے گیے تھے۔ وقت اور حاالت کے‬ ‫گرداب میں پھنسے‘ کسی دوسرے کی کیا خبر رکھ سکتے ہیں۔‬ ‫میں نے سوچا‘ اگر بچے وقت دیں‘ تو بڑھاپا احساس محرومی‬ ‫کا شکار نہیں ہوتا۔ تنہائی‘ اور اوپر سے عمر کا پچھال پہر۔۔۔۔۔اف‬ ‫هللا‘ ان کے لمحے کس قیامت سے دوچار ہوتے ہوں گے۔ وہ‬ ‫لڑتے نہیں‘ اپنے بد قسمت بڑھاپے اور اکالپے کا رونا روتے‬ ‫ہیں۔ اب تو یہ رونا ساری عمراں دا اے۔‬ ‫جانے والوں کو کون واپس ال سکتا ہے۔ اس بستی میں گیا‘ کب‬ ‫کوئی واپس آیا ہے۔ ایک بار نتھو نے کہا‘ ان دونوں کا نکاح کرا‬ ‫دینا چاہیے۔‬ ‫بھائی یہ تو شام تک ککڑوں کی طرح لڑتے رہیں گے۔‬ ‫رہنے دو‘ مائی نے جب دو تین بار مسکرا کر دیکھا تو‘ بابا عمر‬ ‫دم ہالنے لگے گا۔ فضلو نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا‬ ‫بابا بڑا قلغی واال ہے‘ پیندی سٹے مائی کو ڈھیر کر دے گا۔ گامو‬ ‫نے لقمہ دیا‬ ‫اوہ چھڈ‘ چال جاتا نہیں‘ در فٹے منہ گوڈیاں دا۔ ڈھیر کر دے گا‘‬


‫مائی بڑے شے آ‘ توں نئیں جاندا۔ شاکو نے کانوں کو ہاتھ‬ ‫لگاتے ہوئے کہا‬ ‫دیر تک بابا عمر اور مائی جنتے ہماری گفتگو کا موضوع بنے‬ ‫رہے۔ اتنی دیر میں ویرو آ گیا اور آتے ہی چھا گیا۔‬ ‫کچھ سنا‬ ‫نہیں تو‬ ‫اماں جنتے‘ بابے عمر کے ساتھ نکل گئی ہے۔‬ ‫!ہائیں‘ کیا بکتے ہو؟‬ ‫میں بکتا نہیں‘ پھرما رہا ہوں۔‬ ‫ہم سب دوستوں کی آنکھیں‘ کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ ان کا لڑنا‬ ‫محض ہمارے دکھاوے کے لیے تھا؟ یہ بوڑھے بھی بڑے‬ ‫کھالڑی ہوتے ہیں۔ اتنے سیدھے سادے نہیں ہوتے۔ یہ جلیبی‬ ‫کے موافق سیدھے ہوتے ہیں۔ بابے عمر کا پوتا‘ بڑے غصہ‬ ‫میں تھا۔ مائی جنتے کے پوتے کے منہ سے‘ بڑے تلخ کلمے‬ ‫نکل رہے تھے۔ وہ کہہ رہا تھا‘ مائی نے پوری برادری میں‬ ‫ہماری ناک کٹوا دی ہے۔ اگر ہاتھ لگ گیے‘ تو میں دونوں کے‬ ‫ڈکرے کر دوں گا۔ یہ پہال موقع تھا‘ جو دو بوڑھوں کے باعث ان‬ ‫کی اوالد کی ناک کٹی تھی‘ ورنہ آج تک‘ لڑکے لڑکیوں نے ہی‘‬ ‫اپنے بڑوں کی ناک کٹوائی تھی۔‬


‫جوانوں کی جنسی شدت‘ ان کی عقل پر پردے ڈال دیتی ہے۔ یہاں‬ ‫تو یہ معاملہ تھا ہی نہیں۔ جن جوان بچوں کے منہ سے‘ جھاگ‬ ‫نکل رہی تھی اور وہ اپنے بوڑھوں کے قتل کے درپے تھے‘‬ ‫انہوں نے کبھی بھی‘ اپنے ان بھاگ جانے والے بزرگوں کے‬ ‫پاس‘ دو لمحے ٹھہرنے کا کشٹ نہیں اٹھایا تھا۔ وہ کس حال‬ ‫میں ہیں‘ ان کی اوالد میں سے کسی کو معلوم کرنے کی توفیق‬ ‫نہیں ہوئی۔‬ ‫ہوں‘ آج ان کی غیرت جاگ گئی ہے۔ هللا کرئے‘ وہ بہت دور نکل‬ ‫گیے ہوں اور ان جھوٹے غیرت مندوں کے ہاتھ میں ہی نہ آئیں۔‬ ‫تجربہ کار لوگ ہیں‘ کچی گولیاں نہیں کھیلے ہوں گے۔‬ ‫هللا انہیں‘ ان مردودوں سے محفوظ رکھے۔ شہابو‘ جو ان‬ ‫بوڑھوں کا کچھ بھی نہیں تھا‘ برستی آنکھوں سے دعائیں‬ ‫مانگ رہا تھا۔‬ ‫وہ مائی جنتے کے برے حال سے آگاہ تھا۔ اسی طرح‘ اسے یہ‬ ‫بھی معلوم تھا کہ بابا عمر‘ مرے کتے سے بھی بدتر زندگی‬ ‫گزار رہا تھا۔‬ ‫بابا عمر‘ بنیادی طور پر بزدل اور رن مرید قسم کا انسان تھا۔ وہ‬ ‫اتنا بڑا قدم نہیں اٹھا سکتا تھا۔ مائی کی دلیری نے‘ اس کے‬ ‫ضعیف گھٹنوں میں بھاگ نکلنے کی شکتی‘ بھری ہوگی۔‬ ‫دتو کے وچار سن کر سب کہہ اٹھے‬


‫مائی جنتے زندہ باد‬ ‫‪12-10-1969‬‬

‫ممتا عشق کی صلیب پر‬ ‫جیراں اپنی بیٹی کے چلن سے بےخبر نہ تھی۔ وہ وقتا فوقتا‘‬ ‫اس کی سرزنش بھی کرتی رہتی تھی۔ وہ زیادہ سختی بھی نہیں‬ ‫کر سکتی تھی۔ اس کی دو وجوہ تھیں۔ جوان اوالد کو محبت اور‬ ‫اچھے طریقہ سے سمجھانا ہی بہتر ہوتا ہے ورنہ وہ بغاوت پر‬ ‫اتر آتی ہے۔ جوانی‘ اونچ نیچ اور برا بھال سوچنے کی قائل نہیں‬ ‫ہوتی۔ وہ کر گزرنے کی طرف مائل رہتی ہے۔ بعض اوقات‘ منفی‬ ‫بھگتان کے باوجود‘ واپسی کا سفر اختیار نہیں کرتی۔ ایسا بھی‬ ‫ہوتا ہے‘ کہ حاالت واپی کے دروازے بند کر دیتے ہیں۔ آدمی‬ ‫لوٹنا چاہتا ہے‘ لیکن وقت کی زنجیریں اسے پھرنے نہیں دیتیں۔‬ ‫ایک وجہ یہ بھی تھی‘ کہ شیداں ماں کی دو تین خوف ناک‬ ‫کمزوریوں سے آگاہ تھی۔ اگر وہ ایک راز بھی افشا کر دیتی‘ تو‬ ‫جیراں کی پوری عمر کی رکھی رکھائی کھوہ کھاتے پڑ جاتی۔‬ ‫انسان کے منفی عمل ناصرف اس کے لیے وبال بنے رہتے ہیں‘‬ ‫بلکہ بعض ذہنوں کے نہاں گوشوں میں پڑے‘ اپنے وجود کا‬


‫انتظار کرتے رہتے ہیں۔ شخص ہو‘ یا کوئی جذبہ‬ ‫احساس یا پھر خیال وجود پانے کے لیے بےکل رہتا ہے۔ ثقیل‬ ‫سے ثقیل غذا ہضم ہو جاتی ہے‘ لیکن یہ ہضم ہوتے ہی نہیں۔‬ ‫ایک دو بار‘ جب جیراں کا لہجہ تلخ ہوا‘ تو شیداں نے ماں کو‬ ‫گزرے کل کے فاش کرنے کا اشارہ دے دیا۔ جیراں جو خاوند کیا‘‬ ‫برادری میں بھی پھنے خاں تھی‘ موت کی جھاگ کی طرح‘‬ ‫لمحوں میں بے وجود ہو گئی۔ اس کا رعب و دبدبہ ریت کی‬ ‫دیوار سے زیادہ‘ پھوسڑ ثابت ہوا اور وہ آزادی کا جذبہ رکھتے‬ ‫ہوئے بھی‘ آزادی حاصل نہ کر سکی۔ اس کے ہاتھوں کا تراشا‬ ‫ہوا صنم‘ جبری ہی سہی‘ دل و جان کے صنم خانے میں خدا بنا‬ ‫بیٹھا تھا۔ وہ اس کی دہلیز پر عاجز و مسکین بنی کھڑی رہتی‬ ‫تھی۔‬ ‫ایک دو بار اس نے دعا بھی کی‘ کہ شیداں مر ہی جائے۔ اس‬ ‫ذیل میں‘ ممتا کبھی آڑے نہ آئی تھی۔ وہ اپنی موت کی خواہش‬ ‫کر سکتی تھی اسی طرح خودکشی کا دروازہ بھی کھال تھا۔ اس‬ ‫کی موت سے‘ راز کو تو موت نہ آتی۔ وہ شیداں کے سینے میں‘‬ ‫زندہ رہتا۔ یہ راز جب شیداں کے الشعور سے شعور میں وارد‬ ‫ہوتے‘ تو اپنی ہی ماں کو‘ اپنے باپ کا مجرم سمجھتی۔ اسے یہ‬ ‫ہمشیہ احساس رہتا‘ کہ اس کی ماں اس کے باپ کی دین دار‬ ‫تھی۔‬ ‫شیداں اپنے باپ کی الڈلی تھی۔ فتو اس پر اندھا اعتماد کرتا تھا۔‬


‫روپیہ پیسہ اس کے پاس رکھتا تھا۔ رات کو باپ بیٹی جانے کیا‬ ‫مشورے کرتے رہتے تھے۔ وہ تو صرف پکانے اور دھونے تک‬ ‫محدود تھی۔ فتو سے‘ ان دونوں امور کا گال بھی نہیں کر سکتی‬ ‫تھی۔ روپووں کے معاملہ میں‘ وہ صرف دو بار‘ بےاعتباری‬ ‫ہوئی تھی۔ اس نے جھگڑ اور پھر رو کر‘ سچا ہونے کی کوشش‬ ‫بھی کی تھی۔ فتو نے اس کی قسم پر بہ ظاہر اطمنان کا اظہار‬ ‫بھی کیا‘ لیکن اندر سے مطمن نہیں ہوا تھا۔ چور یا ٹھگ کی‬ ‫قسموں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ اگر ان کی قسموں کو اعتبار‬ ‫مل جائے‘ تو تھانے اور کچہری بند ہو جائیں۔‬ ‫فتو دراصل‘ جیراں کی الیعنی کل کل کی وجہ سے‘ ہار مان چکا‬ ‫تھا۔ گھر اور خاندان کے معامالت جیراں ہی انجام دیتی تھی۔‬ ‫جہاں اختالف ڈالتا‘ وہاں دھائی کی راند پڑ جاتی۔ جیراں نے‬ ‫سرنڈر ہونا سیکھا ہی نہ تھا۔ اب تو پچاس کے قریب پہنچ گئی‬ ‫تھی اور فتو ساٹھ کا ہندسہ تجاوز کر گیا تھا۔ جو بھی سہی‘‬ ‫جیراں آج بھی بنتی پھبتی تھی۔ جب دنداسا اور چوٹی پٹی کرکے‘‬ ‫فتو کے سامنے آتی‘ تو وہ مدہوش ہو کر‘ وش وش جاتا تھا۔‬ ‫شیداں جوان ہو گئی تھی۔ اس کے ہاتھ پیلے کرنے کا وقت آگیا‬ ‫تھا۔ فتو اچھے رشتے کی تالش میں تھا۔ وہ اپنی الڈلی کو‘‬ ‫آسودہ حال گھرانے میں بیانا چاہتا تھا۔ لے دے کر‘ اس کی نظر‬ ‫جیراں کے مسیر کے لڑکے پر‘ آ کر رک جاتی۔ جیراں یہ رشتہ‬ ‫نہ کرنا چاہتی تھی۔ وہ شیداں کے لچھن سے بےخبر نہ تھی۔‬


‫دوسرا کسی زمانے میں‘ جیراں کی فجے سے بڑی گہری خفیہ‬ ‫سالم دعا رہی تھی۔ وہ دوبارہ سے‘ پرانا رشتہ نیا نہیں کرنا‬ ‫چاہتی تھی۔ خدا معلوم‘ شیداں باپ کے فیصلے سے کس طرح‬ ‫متفق ہو گئی اور یہ رشتہ ہو ہی گیا۔‬ ‫هللا نے اسے تین بچوں سے نوازا۔ شیداں کے گول مٹول اور‬ ‫پیارے پیارے بچے‘ جیراں سے بڑے مانوس تھے۔ فجا اسے‬ ‫ماضی کی طرف لے جا کر‘ پرانی راہ پر النا چاہتا تھا۔ ایک لمحہ‬ ‫بھی مل جاتا‘ تو جیراں کے نازک اعضا کو چھونے میں دیر نہ‬ ‫کرتا۔ بیٹی کا گھر‘ ماضی کی بھول اور بیٹی کے بچوں کی محبت‬ ‫کے درمیان گھری جیراں‘ ہر لمحہ اپنے ہی ہاتھوں قتل ہوتی۔ وہ‬ ‫کسی سے اپنا دکھ بھی نہیں بانٹ سکتی تھی۔ اگر شیداں کو علم‬ ‫ہو جاتا‘ کہ اس کی ماں اس کے سسر کے ساتھ موجیں مارا‬ ‫کرتی تھی تو وہ اور تیز ہو جاتی۔ اس کی نفرت کے حلقے مزید‬ ‫وسیع ہو جاتے۔‬ ‫جیراں کو جہاں اپنی بدنامی کے خدشے‘ کا گھن اندر ہی اندر‬ ‫کھائے جا رہا تھا‘ وہاں یہ اطمنان ضرور تھا‘ شیداں اپھو کا‬ ‫کھیڑا چھوڑ چکی ہے۔ جب کبھی اتفاقا اس کی اپھو سے مالقات‬ ‫ہو گی‘ تو ہی وہ فجے کی سی حرکتیں کر سکے گا۔ بیٹی کے‬ ‫ہاں آنا تو اس کی سماجی مجبوری تھی۔ خدا لگتی تو یہی تھی‘‬ ‫کہ فجے کی حرکتیں اگرچہ کچھ نئی نہ تھیں‘ اس کے باوجود‘‬ ‫اس کے جسد کو‘ ان جانی سی‘ مسرت اور کیف ومستی دان‬


‫ضرور کرتی تھیں۔‬ ‫شیداں کچھ دن کے لیے آئی ہوئی تھی۔ اچانک جیراں کو معلوم‬ ‫ہوا‘ کہ شیداں کی گرفت میں ننھا آ گیا تھا۔ منہ متھے لگتا‬ ‫چھوہر تھا۔ اسے دیکھ کر بڑھاپا مچل مچل جاتا تھا یہاں تو‬ ‫جوانی کی لہریں ٹھاٹھیں مار رہی تھیں۔ جیراں کو اس کے گھر‬ ‫اجڑنے کا خدشہ الحق ہو گیا۔ وہ باتوں باتوں میں سمجھانے کی‬ ‫کوشش کرتی۔ جوابا شیداں کہتی میں اپنے گھر والی ہوں‘ میں‬ ‫اپنا اچھا برا تم سے بہتر جانتی ہو۔ جیراں کو شیداں کا زیادہ دیر‬ ‫میکے رکنا برا لگنے لگا۔ وہ جب بھی آتی‘ یہ اسے کسی ناکسی‬ ‫بہانے ایک دو دن بعد ہی‘ سسرال بھیج دیتی۔ جب کبھی اپنے‬ ‫سسر کے ساتھ آتی‘ چوڑی ہو جاتی۔ فجا کام کاج واال آدمی ہو‬ ‫کر بھی‘ ٹکی ہو جاتا۔ حاالں کہ سوائے چوری چھپے‘ چونڈی‬ ‫تپھے کے‘ اسے کچھ حاصل نہ ہو پاتا تھا۔ اس نے فتو سے‬ ‫گہرے اور دوستانہ تعلقات استوار کر لیے تھے۔‬ ‫پھر ایک دن وہی ہوا جس کا اسے ڈر تھا۔ ننھے کی محبت کی‬ ‫گرفت مضبوط ہو گئی۔ شیداں اپنے تینوں بچوں کو چھوڑ کر‬ ‫آگئی۔ جیراں یقینا اچھی عورت نہ تھی۔ اس نے اپنی کسی محبت‬ ‫کے لیے‘ بچوں کو نہ چھوڑا تھا۔ وہ اول تا آخر ان کی بنی رہی۔‬ ‫یہی اس کی سچی ممتا تھی۔ شیداں ننھے کی محبت میں اپنے‬ ‫بچوں کی نہ بنی تھی۔ سوچنے کی بات تو یہ تھی‘ کہ آتے‬


‫وقتوں میں وہ ننھے کی بن پائے گی۔ کیا وہ اسے بچوں سے‬ ‫بڑھ کر اسی طرح پیارا رہے گا؟ بچے تو رل خل کر پل ہی جائیں‬ ‫گے لیکن یہ محبت کا کون سا روپ ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔ کیا اسے محبت کا‬ ‫نام دیا جا سکے گا۔۔۔۔۔۔ ماں کی ممتا سے بڑھ کر کوئی اور چیز‬ ‫بھی ہوتی ہے‘ کیسے مان لیا جائے گا۔‬ ‫شیداں نے اپنے ابا کو یقین دال دیا تھا‘ کہ سسرال میں اس کے‬ ‫ساتھ بڑے ظلم ہوتے تھے۔ وہ گھر کی فرد سے بڑھ کر‘ کامی‬ ‫تھی۔ اس کا باپ کہتا‘ میری بیٹی بڑی معصوم تھی۔ ان لوگوں‬ ‫نے تو اس کی قدر ہی نہ پائی تھی۔ وہ تو تھے ہی ناشکرے۔‬ ‫جیراں بھی فتو کے سامنے‘ اسے بےچاری کرماں ماری اور‬ ‫معصوم ہی کہتی۔ جھوٹے سچے آنسو بھی بہاتی۔ وہ فتو کو کس‬ ‫طرح بتائے‘ کہ اس معصوم نے شادی سے پہلے تین عشق‬ ‫نبھائے۔ چوتھا عشق اوالد پر بھی بھاری ہو گیا تھا۔ عیاش تو وہ‬ ‫بھی تھی‘ لیکن ممتا نے اس کا دامن پکڑے رکھا۔ ممتا کے‬ ‫پردے میں اس کے سارے عشق چھپ گیے تھے۔‬ ‫وہ یہی سوچتی رہی‘ شیداں کا عشق کس پردہ کی اوٹ میں جا‬ ‫کر اپنی معصومیت کی گواہی دے سکے گا۔‬ ‫شیداں اپنے ابا کی نظر میں معصوم تھی۔ یہ معصومیت کیسی‬


‫تھی‘ جو ممتا کی الش پر تعمیر ہوئی تھی۔ ممتا کی آہیں کراہیں‘‬ ‫شیداں کی خود ساختہ معصومیت کی لحد میں‘ اتر گئی تھیں۔‬

‫‪3-1-1972‬‬

‫زینہ‬

‫مختلف نفسیات کی سامیوں سے‘ ہر روز واسطہ رہتا ہے۔ بعض‬ ‫تو‘ عجب لچڑ ہوتی ہیں۔ ان کی جیب سے کچھ نکلوانا بڑا ہی‬ ‫مشکل کام ہوتا ہے۔ جیب سے‘ نوٹ باہر التے‘ انہیں غشی سی‬ ‫پڑ جاتی۔ بعض سے‘ ان کے عالقے کی سوغات‘ منگوانے کے‬ ‫لیے منہ پھاڑنا پڑتا ہے۔ بہت کم سہی‘ کچھ بالطلب کیے‘ لے‬ ‫آتے ہیں۔ اس طرح‘ اس عالقے کی سوغات کے حوالہ سے‘‬ ‫عالقے کی پہچان بھی ہو جاتی ہے۔ ایسی سامیوں سے بھی‬ ‫واسطہ رہتا ہے‘ جو دوسرے عالقوں کی‘ وجہءپہچان بڑے‬ ‫اہتمام سے التے رہتے ہیں۔ اس طرح‘ ان کے عزیزوں سے‬ ‫بھی‘ غائبانہ تعارف ہوتا رہتا ہے۔‬


‫مجھے ایسی سامی سے‘ ہمیشہ چڑ رہی ہے جن کو ان کے‬ ‫عالقے کی سوغات کے متعلق یاد کرانا پڑتا ہے۔ ہم یہاں بیٹھے‘‬ ‫کوئی فقیر نہیں ہیں‘ جو لوگوں کے سامنے دست سوال دراز‬ ‫کرتے پھریں۔ ہمارے ہاں اصول رہا ہے‘ کہ آنے واال کبھی خالی‬ ‫ہاتھ نہیں آیا۔ تحفہ دینے سے‘ تعلقات میں مضبوطی پیدا ہوتی‬ ‫ہے۔‬ ‫بعض تو‘ بڑے فراخ دل و دماغ کے لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے‬ ‫ساتھ‘ خاتون بھی ہوتی ہے اور وہ‘ اسےاپنی بیوی ظاہر کرتے‬ ‫ہیں۔ ایسی عورتوں سے‘ ہم خوب خوب آگاہ ہوتے ہیں‘ لیکن‬ ‫ظاہر نہیں کرتے‘ کہ ہم محترمھ کو ناصرف جانتے ہیں‘ بلکہ‬ ‫تصرف میں بھی ال چکے ہیں۔ ہمیں اس سے‘ کوئی غرض نہیں‬ ‫ہوتی کہ وہ کون‘ اور کس کی کیا لگتی ہے۔ قسم لے لیں‘ کہ‬ ‫اوپر جو کبھی‘ سچل مال پنچایا ہو۔ پہال حق ہمارا ہوتا ہے۔ افسر‬ ‫دست خط کے سوا‘ کرتا ہی کیا ہے۔ فائل پر مغزماری تو ہم‬ ‫کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے‘ زبانی کالمی‘ سچل ہی کہتے ہیں۔‬ ‫ہماری ایمان داری پر شک کا رسک‘ افسر بھی نہیں لے سکتے۔‬ ‫انہیں تو کیتا کرایا ہی مل جاتا ہے۔ ایجنٹ اور نچال اہل کار‘ جو‬ ‫مال التا ہے‘ ہم اس میں نقص نہیں نکالتے۔ ویہار خراب ہو‬ ‫جائے یا ٹوکا ٹوکائی کا عمل‘ کاروبار حیات میں‘ نحوست کی‬ ‫عالمت ہے۔ اعتبار اور اعتماد پر ہی‘ زندگی چل رہی ہے۔‬


‫اس سی‘ سامی آج تک دیکھنے سننے میں نہ آئی ہو گی۔ وہ‬ ‫جب بھی آتا‘ کسی ناکسی عالقے کی‘ سوغات ضرور التا۔ جو‬ ‫طے ہوا‘ اس سے‘ کہیں بڑھ کر جھڑا۔ مزے کی بات یہ کہ‘ بن‬ ‫کہے کھانا کھالتا۔ سچی بات تو یہ ہے‘ خود لے کر جاتا۔ تھوڑی‬ ‫دیر بیٹھنے کے بعد کہتا‘ اوہ چھڈو جی چلو پیٹ پوجا کرتے ہیں۔‬ ‫جب وہ آتا‘ میں اس کا یہ ڈائیالگ‘ سننے کے لیے بے چین ہو‬ ‫جاتا۔ کچھ کہہ نہیں سکتا‘ وہ چہرا پڑھ لیتا تھا یا روٹین میں کہتا‬ ‫تھا۔ میرا ضمیر‘ اس کا کام کچھ دیر اور لمکانے پر مجبور کر‬ ‫رہا تھا‘ لیکن ساتھیوں کی ترچھیں نگاہوں میں‘ حسد اتر آیا تھا۔‬ ‫اس لیے‘ اس بار اس کا کام کر دینے پر‘ میرا ضمیر آمادہ ہو‬ ‫گ ی ا۔‬ ‫اس روز‘ وہ کسی ماہر جاسوس کی طرح‘ وارد ہوا۔ دو تین منٹ‬ ‫بیٹھنے کے بعد‘ اس نے مجھے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ دیا۔ وہ‬ ‫اٹھ کر چال گیا۔ تین چار منٹ بعد میں نے بھی سیٹ چھوڑ دی۔‬ ‫نکڑ پر‘ وہ کھڑا میرا انتظار کر رہا تھا۔ ہماری نظریں ملیں‘ وہ‬ ‫مسکرایا‘ اور آنے کا اشارہ دے کر چل پڑا۔ میں اس کے پیچھے‬ ‫پیچھے ہو لیا۔ وہ الل بازار کے‘ بیکا محل ہوٹل میں‘ داخل ہو‬ ‫گیا۔ ایسے مکامات پر‘ کھانے کا‘ کبھی اتفاق نہ ہوا تھا۔ وہاں‬ ‫اس نے‘ کمرہ بک کروا رکھا تھا۔ کمرے کے اندر‘ قیامت جلوہ‬ ‫فرما تھی۔ اسے دیکھ کر‘ مجھ پر سکتا سا طاری ہو گیا۔ میری‬


‫آنکھیں‘ بہت کچھ دیکھ چکی تھیں‘ لیکن اس سا‘ پٹوال کبھی‬ ‫دیکھنے میں نہ آیا تھا۔ کھانے کی ٹیبل بھر گئی۔ ایسی تواضح‬ ‫تو‘ اس نے کبھی نہ کی تھی۔‬ ‫مفت کا مال تھا‘ میں نے بےتحاشا کھایا۔ میں نے‘ اس پٹولے‬ ‫کو‘ پکا پکا اپنا بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ سچی بات تو یہ ہے‘ کہ‬ ‫آج تک کسی کھانے نے‘ ایسا لطف نہ دیا تھا۔ اس قیامت نے‬ ‫بھی‘ اداؤں کی وہ وہ بجلیاں گرائیں‘ کہ میں اپنے آپے میں نہ‬ ‫رہا۔ مجھے یوں لگا‘ جیسے ساری کی ساری‘ خوش نصیبی‬ ‫میری ہی گرہ کا‘ مقدر ٹھہر گئی ہو۔ میں نے ریحانہ سے‘ اپنے‬ ‫دل کی بات کہہ دی۔ تھوڑی سی‘ پس و پیش اور چند رسمی‬ ‫شرائط کے بعد‘ اس نے ہمیشہ کے لیے میرا ہو جانے کا ارادہ‬ ‫ظاہر کر ہی دیا۔‬ ‫اس روز مجھے یقین ہو گیا کہ میں دنیا کا واحد خوش نصیب‬ ‫آدمی ہوں۔ میں نے بالشبہ زندگی میں کوئی ایسا اچھا کام ضرور‬ ‫کیا تھا جس کا‘ دیوتا اس اپسرا کی صورت میں‘ صال عطا کر‬ ‫رہے تھے۔ جو بھی سہی‘ میں نے آج تک کسی کا کام نہ روکا‬ ‫تھا۔ رہ گئی لینے دینے کی بات‘ یہاں کون ہل پر نہایا ہوا ہے۔‬ ‫تنویر نے ہی‘ ایک مختصر‘ مگر پروقار تقریب کا انعقاد کیا۔‬ ‫ریحانہ ہمیشہ کے لیے‘ میری ہو گئی۔ ریحانہ بڑی وفادار بیوی‬ ‫ثابت ہوئی۔ رات کو سوتے وقت میرے پاؤں دباتی۔ ناشتہ وقت پر‬ ‫میسر کرتی۔ اس کی کو کنگ بڑے کمال کی تھی۔ ایک بار‘ میں‬


‫بیمار پڑا‘ ہسپتال لے جانے میں‘ اس نے بڑی پھرتی دکھائی۔‬ ‫میں ہسپتال میں دس دن رہا۔ دوست یار اور رشتہ دار ملنے‬ ‫آئے‘ ہر کسی سے‘ اس نے بڑے شان دار انداز میں ڈیلنگ کی۔‬ ‫اس کے حسن سلوک اور وضع داری کی ہر کسی نے تعریف کی۔‬ ‫جس پر‘ میں پھوال نہ سمایا۔ مجھے ریحانہ پر‘ ناز ہونے لگا۔‬ ‫مجھے کئی بار‘ کسی کاغذ پتر کے لیے گھر آنا پڑا‘ میں نے‬ ‫ریحانہ کو گھر پر پایا۔ میرا دل مطمن تھا‘ کہ ریحانہ طبعا‘ نیک‬ ‫اور صالح ہے۔ نیک اور صالع ساتھی کا مل جانا‘ ایسی معمولی‬ ‫بات نہ تھی۔ اس نے کبھی‘ کریدنے یا میرے بارے کچھ جاننے‬ ‫کی‘ کوشش نہ کی۔ میں نے بھی زندگی کی ہر خوشی اور ہر‬ ‫آسائش‘ اس کے سفید‘ شفاف اور بےداغ قدموں میں‘ رکھ دی‬ ‫تھی۔‬ ‫تنویر ایک بار بھی‘ ہمارے گھر نہ آیا‘ ہاں دفتر دوسرے‬ ‫تیسرے‘ کوئی کام لے کر چال آتا تھا۔ سالم دعا واال آدمی تھا۔‬ ‫دوست یار کام کے لیے کہہ دیتے‘ تو آ جاتا‘ تاہم آج تک‘ اس‬ ‫نے کوئی کام مفت نہ کروایا۔ چاء پانی سوغات‘ النا نہ بھولتا۔‬ ‫کھانا بھی کھالتا۔ اس نے کبھی ریحانہ کا ذکر بھی‘ نہ چھیڑا۔‬ ‫بالکل التعلق سا ہو گیا۔ ایسے لگتا‘ جیسے گزرا کل‘ اس کی یاد‬ ‫داشت سے‘ نکل گیا ہو یا گزرے کل کے بارے میں‘ کچھ جانتا‬ ‫ہی نہ ہو۔‬ ‫ایک روز‘ میں ہیڈ آفس کسی کام سے گیا۔ میں نے‘ تنویر کو‘‬


‫بڑے گیٹ سے نکلتے دیکھ لیا تھا‘ لیکن وہ مجھے نہ دیکھ‬ ‫سکا۔ وہ پیچھے مڑ مڑ کر دیکھ رہا تھا۔ مجھے رانا صاحب باہر‬ ‫آتے دیکھائی دیے۔ وہ‘ تنویر کے پیچھے جا رہے تھے۔ میں‬ ‫رانا صاحب کے‘ طلب کرنے پر ہی‘ حاضر ہوا تھا۔ میں نے‬ ‫سوچا‘ کیوں نہ‘ اس قیامت کا دیدار کر لیا جائے جو رانا‬ ‫صاحب کو نہال کرنے والی تھی۔‬ ‫میں عقبی گیٹ سے‘ اس بڑے ہوٹل میں داخل ہو گیا۔ تنویر نے‘‬ ‫ایک کمرے کی طرف اشارہ کیا۔ رانا صاحب کمرے میں داخل ہو‬ ‫گیے۔ تنویر‘ ہوٹل کے کونے میں پڑی میز پر‘ جا بیٹھا۔ میں‬ ‫بھی‘ چھپ کر کونے کی ایک میز پر جا بیٹھا۔ پون گھنٹے بعد‘‬ ‫رانا صاحب کمرے سے باہر نکلے اور انہوں نے تنویر کی طرف‬ ‫دیکھا۔ مسکراہٹ کا تبادلہ ہوا اور پھر وہ‘ ہوٹل سے باہر نکل‬ ‫گیے۔ یہ اس بات کی طرف‘ کھال اشارہ تھا‘ کہ رانا صاحب کی‬ ‫روح میں‘ اندر موجود قیامت نے‘ سکون کے ساغر انڈیل دیے‬ ‫ہیں اور رکا کام‘ آج ہی اپنی منزل پا لے گا۔‬ ‫مجھے مزید دس بارہ منٹ‘ انتظار کرنا پڑا۔ قیامت تنویر کے‬ ‫قریب آ کر رکی۔ دونوں نے کسی بات پر‘ قہقہ لگایا ۔ مجھے اپنی‬ ‫آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا‘ وہ میری نیک اور صالح بیوی‘‬ ‫ریحانہ۔۔۔۔۔ ہاں ریحانہ کوثر تھی۔ میں جلدی سے‘ پچھلے‬ ‫دروازے سے نکال۔ ٹیکسی سے گھر کا رخ کیا۔ میں‘ اس کی‬ ‫پرہیز گاری‘ اس کے منہ پر مارنا چاہتا تھا۔ گھر آیا‘ دروازے پر‬


‫تاال نہ تھا۔ میں جلدی سے‘ گھر میں داخل ہو گیا۔ وہ پلنگ پر‬ ‫لیٹی‘ بڑے سکون سے‘ جاسوسی ڈائجسٹ کا مطالعہ کر رہی‬ ‫تھی۔ مجھے پریشان اور بیمار سا دیکھ کر‘ اس نے رسالہ پرے‬ ‫پھینکا‘ اور گھبرائی گھبرائی‘ میری طرف بڑھی۔ سب ٹھیک تو‬ ‫ہے‘ آپ بیمار لگتے ہیں۔ میرے ماتھے پر‘ بڑے پیار سے ہاتھ‬ ‫رکھ کر؛ کہنے لگی۔ آپ کا ماتھا تو آگ کی طرح جل رہا ہے۔ پھر‬ ‫اس نے باہر جانے والی چادر اوڑھی اور کہنے لگی اٹھیں اٹھیں‬ ‫ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔‬ ‫میں نے کہا‪ :‬گھبراؤ نہیں‘ میں بالکل ٹھیک ہوں۔‬ ‫کیوں نہ گھبراؤں‘ تمہارے سوا‘ میرا دنیا میں کون ہے۔ تمہیں‬ ‫کچھ ہوگیا‘ تو میں مر جاؤں گی۔“ پھر وہ‘ زار و قطار رونے‬ ‫لگی۔‬ ‫مجھے اس کی ایکٹنگ میں‘ کمال کی اصلیت دکھائی دی۔‬ ‫ہمامالنی کو‘ اپنی اداکاری پر ناز ہوگا‘ لیکن ریحانہ ایکٹنگ میں‘‬ ‫اسے بہت پیچھے چھوڑ گئی تھی۔ میں خود اس شش وپنج میں‬ ‫پڑ گیا‘ کہ وہ ریحانہ تھی یا کوئی اور تھی۔ یوں لگ رہا تھا‘‬ ‫جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ ہاں‘ اگر وہ پکڑی جاتی‘ تو تنویر کے‘‬ ‫کھیسے جاتا مال‘ بند ہو جاتا۔ رانا صاحب بڑے بااختیار عہدے‬ ‫دار تھے۔ ناصرف مال‘ میری جیب کی زینت بنتا‘ بلکہ میری‬ ‫ترقی‘ جو دو سال سے رکی پڑی تھی‘ میری ذہنی الجھن کا سبب‬ ‫نہ بنی رہتی۔ مجھے یہ اطمنان تھا‘ کہ رانا صاحب سے‘ نکاح نہ‬


‫کر سکے گے‘ دوسرا‘ ایک نہ ایک روز‘ رنگے ہاتھوں پکڑی‬ ‫جائے گی اور پھر ہیڈ آفس میرا ہو گا۔ میں پہلے سے‘ کہیں‬ ‫بڑھ کر‘ آسودہ اور عیش کی زندگی بسر کر سکوں گا۔‬ ‫زندگی میں ترقی کے لیے‘ زینہ درکار ہوتا ہے۔ ریحانہ سی‘‬ ‫چنچل‘ حسین اور الجواب اداکار بیوی سے‘ بڑھ کر‘ زینہ‬ ‫ڈھونڈھے سے‘ نہ مل سکے گا۔ پردہ اٹھنے پر ہی‘ اس زینے‬ ‫کا‘ استعمال ممکن ہو سکے گا۔ ہاں شائد‘ اس کے لیے‘ تھوڑا‬ ‫اور انتظار کے جہنم میں‘ جلنا پڑے گا۔‬

‫شیدا حرام دا‬

‫اگرچہ‘ منہ پر اور منہ سے‘ کوئی کچھ نہیں کہتا‘ لیکن دیکھنی‘‬ ‫سب کچھ کہہ دیتی ہے۔ بہت سی باتیں‘ لفظوں کی محتاج نہیں‬ ‫ہوتیں‘ سمجھی سمجھائی ہوتیں ہیں یا پھر‘ دیکھنے کے طور‘‬ ‫ان کے مفاہیم کھول دیتے ہیں۔ لوگوں کے منفی رویے اور‬ ‫ترچھی نظریں‘ مجھے اپنی حیثیت اور حقیقی اوقات سے‘ آگاہ‬ ‫کر دیتی ہیں۔ اب میں باحیثیت اور شرفا کی بستی میں‘ اقامت‬


‫رکھتا ہوں۔ میں سیٹھ ناسہی‘ کنگال اور مفلوک الحال بھی نہیں۔‬ ‫زندگی کی ہر ضرورت‘ مجھے دستیاب ہے۔ سالم دعا میں‘ ہر‬ ‫طبقہ کے لوگ شامل ہیں۔ دو نمبری لوگ‘ کبھی بھی میرے‬ ‫دوست نہیں رہے۔ ناخوش گوار لوگ‘ شروع سے‘ مجھے پسند‬ ‫نہیں آتے۔ وہ بھی‘ مجھے پسند نہیں کرتے۔ ہر دو نمبری کو‘‬ ‫شریف طبع اچھے نہیں لگتے۔ یہ ایک طرح سے‘ ضدین کی‬ ‫حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک جگہ رہتے ہوئے بھی‘ معاشی اور‬ ‫فکری حوالہ سے‘ ایک دوسرے سے‘ کوسوں دور ہوتے ہیں۔‬ ‫میں نے پنج وقتوں کو‘ جھوٹ بولتے‘ رشوت لیتے‘ اور‬ ‫کمزوروں کا حق دباتے دیکھا ہے۔ وہ یہ سب دھڑلے سے کرتے‬ ‫ہیں۔ حج کے بعد تو‘ بہت سے‘ سمجھ لیتے ہیں‘ کہ پچھال کیا‘‬ ‫معاف ہو چکا ہے اور اس کے بعد‘ دو نمبری کے لیے‘ انہیں‬ ‫کھلی چھٹی مل گئی ہے۔ پوچھنے والوں کا‘ وہ گھی شکر سے‘‬ ‫منہ بند کر چکے ہوتے ہیں یا بہ وقت ضرورت‘ بھر دیتے ہیں۔‬ ‫عوام سے‘ ووٹ حاصل کرنے والے‘ خود کو‘ باالئی مخلوق‬ ‫خیال کرنے لگتے ہیں۔ وزارت امارت کی کرسی‘ انہیں ناکرنے‬ ‫والے کام‘ کرنے کی اجازت دے دیتی ہے۔ وہ کسی قانؤن‘‬ ‫ضابطے اور اصول کے پابند نہیں رہتے۔ عوام نمائندوں کو‘ اہل‬ ‫رائے سمجھ کر‘ ووٹ دیتے ہیں۔ وہ یہ سمجھ لیتے ہیں‘ کہ یہ‬ ‫جو کریں گے‘ اچھا ہی کریں گے۔ ان کا کیا‘ عوامی فالح و بہبود‬ ‫کے لیے ہی ہو گا۔ جب اخبار اور ریڈیو‘ ان کے کیے کی‘ خبر‬


‫پاتے ہیں تو ان پر دکھ کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ آخر‘ میڈیا‬ ‫والوں کو‘ خبر کیسے ہوئی اور انہیں‘ رپوٹنگ کی جرآت ہی‬ ‫کیوں ہوئی۔ وہ سمجھتے ہیں میڈیا صرف نغمے سنانے اور ان‬ ‫کی کارگزاری کی تشریح اور تعریف و توسیف کے لیے ہے۔‬ ‫اخبار اور ریڈیو‘ کوئی بہت بڑی ہی خبر سناتے ہیں۔ یہ بھی کہ‘‬ ‫اخبار اور ریڈیو‘ اصل حقیقت کو بھی پیش نہیں کرتے۔ حال ہی‬ ‫میں‘ پاک بھارت جنگ ختم ہوئی ہے۔ جنگ کے دوران‘ ریڈیو‬ ‫اور اخبار بڑی حوصلہ افزا خبریں سناتے تھے۔ جنگ کے‬ ‫خاتمے پر معلوم ہوا ہے‘ کہ آدھا ملک ہی‘ ہاتھ سے نکل گیا‬ ‫ہے۔ رگڑا کیا دینا تھا‘ رگڑا لگ گیا ہے۔‬ ‫روزہ‘ تزکیہءنفس کے لیے‘ اعلی ترین ذریعہ ہے۔ اس سے‘‬ ‫بھوک کی تلخی کا اندازہ ہوتا ہے۔ رک جانا ہی‘ روزے کا پہال‬ ‫اور آخری مقصد ہوتا ہے۔ رکنا کیا‘ یہاں تو خرابی میں اور تیزی‬ ‫آ جاتی ہے۔ روزے دار کہتا ہے‘ میرے منہ میں روزہ ہے‘‬ ‫جھوٹ کیوں بولوں گا۔ حاالں کہ وہ جھوٹ بول رہا ہوتا ہے۔‬ ‫پہلے کم تولتا تھا‘ روزہ رکھ کر‘ کم تولنے کے ساتھ ساتھ‘‬ ‫مالوٹ کو بھی شعار بناتا ہے۔‬ ‫ان پڑھ لوگوں کو تو چھوڑیے‘ جو لوگ‘ علم حاصل کرتے ہیں‘‬ ‫وہ تو‘ ان پڑھ لوگوں کو بھی‘ پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔ پڑھائی‘‬ ‫روشنی کا نام ہے۔ یہ کیسی روشنی ہے‘ جو تاریکیوں کی‬ ‫نمائندہ ہے۔ آج پڑھا لکھا‘ شاطر بن گیا ہے۔ دفتر میں ہے‘ تو‬


‫رشوت لیتا ہے۔ دفتر کے باہر ہے‘ تو تقسیم کے دروازے کھولتا‬ ‫ہے۔ کتابیں اور استاد‘ تو دو نمبری نہیں سکھاتے۔ علم‘ سچائی‬ ‫کی طرف لے جاتا ہے۔ آج کا سچ تو یہ ہے‘ کہ عدل و انصاف‬ ‫کو‘ رشوت کی نوک پر رکھو‘ اور خوب کما کر جیبیں بھاری‬ ‫کرو۔ درحقیقت‘ علم کرسی کے حصول کے لیے حاصل کیا جاتا‬ ‫ہے۔ کرسی کا ملنا‘ رزق میں فراخی کا سبب بنتا ہے۔‬ ‫جس پیٹ میں‘ رزق حرام چال گیا‘ وہ حالل دا کس طرح رہا۔‬ ‫حرام لقموں سے بننے واال خون‘ سر سے پاؤں تک‘ گردش کرتا‬ ‫ہے۔ جس جسم میں؛ حرام خون دوڑ رہا ہوتا ہے‘ اس پیٹ والے‬ ‫کے‘ جسم کے جملہ کل‘ کس طرح درست اور فطری‬ ‫اصولوں پر‘ استوار ہو سکتے ہیں۔ حرام کھانے والے‘ شرعی‬ ‫واجبات کے ذریعے‘ خود کو حالل دا ثابت کرنے کی‘ کوشش‬ ‫کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے‘ کہ وہ حالل دے ہو جاتے ہیں؟ اگر‬ ‫نہیں‘ تو انہیں اور ان کی اوالدوں کو‘ حرام دا کیوں نہیں کہا‬ ‫جاتا یا ترچھی اور معنی خیز‘ نظروں سے کیوں نہیں دیکھا جاتا۔‬ ‫میں‘ پانچ وقت‘ باجماعت نماز ادا کرنے کی دل و جان سے‘‬ ‫کوشش کرتا ہوں۔ ہر سال‘ باقاعدگی سے روزے رکھتا ہوں۔‬ ‫پچھلے سال‘ حج بھی کرکے آیا ہوں۔ هللا مجھے‘ میری ضرورت‬ ‫سے‘ کہیں بڑھ کر عطا کر دیتا ہے۔ اس لیے‘ میں رزق حرام پر‬ ‫لعنت بھیجتا ہوں۔ میں اپنی بیوی‘ جو اسی عالقے کی ہے‘ کے‬ ‫سوا‘ ہر عورت کو‘ اپنی ماں بہن سمجھتا ہوں۔‬


‫میں اپنا محلہ چھوڑ کر‘ دور دراز عالقے میں‘ آ بسا ہوں۔ یہاں‬ ‫مجھے کوئی نہیں جانتا تھا۔ ابتدا میں‘ صرف اطراف کے‘ ہم‬ ‫سائے ہی‘ میرے نام اور کام سے آگاہ تھے۔۔ اب تقریبا پورا‬ ‫محلہ مجھے جانتا ہے۔ ایک سال پہلے‘ مجھے اچانک‘ مسجد‬ ‫میں‘ اپنے عالقہ کے‘ ملک صاحب مل گیے۔ ان کے‘ یہاں دور‬ ‫کے رشتہ دار رہتے تھے۔ وہ انہیں‘ کسی کام کے سلسلے میں‬ ‫ملنے آئے تھے۔ میں بڑے تپاک سے‘ انہیں گلے ملنے کے‬ ‫لیے‘ آگے بڑھا۔ پہلے تو‘ انہوں نے مجھے بڑے غور سے‬ ‫دیکھا۔ گلے ملنے کی بجائے بولے اوے توں جیناں یابھ دا پتر‘‬ ‫شیدا حرام دا ایں۔ مسجد میں دو چار نمازی رہ گیے تھے۔ یہ‬ ‫جملہ کسی ایک کا سن لینا‘ عزت کو خاک کرنے کے لیے‘ کافی‬ ‫تھا۔ میں جواب دیے بغیر‘ مسجد سے نکل کر گھر آ گیا اور‬ ‫سوچنے لگا۔‬ ‫محلہ میں‘ ایک حاجی صاحب بھی رہتے ہیں۔ ضلعی دفتر میں‬ ‫مالزم ہیں۔ سب ان کی عزت کرتے ہیں۔ پنج وقتے نمازی ہیں۔‬ ‫پچھلے سال‘ حج کرکے آئے ہیں۔ یہ حج‘ انہوں نے رشوت کی‬ ‫کمائی سے کیا ۔ رشوت کی کمائی سے‘ انہوں نے ٹھیک ٹھاک‬ ‫جائداد بنا لی ہے۔ پچاس سے‘ تجاوز کر جانے کے باوجود‘‬ ‫عورتوں کے بڑے شوقین ہیں۔ ان کا بس چلے تو‘ روزن نشاط‬ ‫میں ہی‘ بسیرا کر لیں۔ انہیں کوئی حرام دا نہیں کہتا‘ حاالں کہ‬ ‫ان کا کوئی کام حاللی نہیں۔‬


‫میں حرام دا ہوں‘ یا زناکار حرام دے ہیں۔ میں خود تو‘ تخلیق‬ ‫نہیں پا گیا۔ طریقہء تخلیق تو مشترک ہے‘ لیکن اس میں مذہبی‬ ‫اور سماجی ضوابطہ سے انحراف موجود تھا۔ سماجی اور مذہبی‬ ‫انحراف‘ مجھ سے تو سرزد نہیں ہوا تھا۔ انحراف کرنے والے‘‬ ‫سماج میں بہ طور حالل دے دندناتے پھرتے ہیں اور انہیں کوئی‬ ‫حرام دا نہیں کہتا۔ جس کا انحراف سے‘ تعلق واسطہ ہی نہیں‘‬ ‫آج اٹھائیس برس بعد بھی‘ اپنی اور لوگوں کی نظر میں حرام دا‬ ‫ہے۔‬ ‫عجیب روایت ہے‘ رشوت خوروں کو کوئی حرام دا نہیں کہتا۔‬ ‫جھوٹی گواہی دینے والے‘ ہر قسم کی دو نمری کرنے والے‘‬ ‫حالل دے ہیں اور میں‘ حرام دا ہوں‘ جو دینی واجبات‘ خلوص‬ ‫نیتی سے ادا کرتا ہوں۔ دو نمبری سے‘ دور بھاگتا ہوں ان حقائق‬ ‫کے بعد‘ ایک عرصہ گزر جانے بعد بھی‘ میں حرام دا ہوں۔‬ ‫کوئی تو بتالئے‘ کہ حرام دا کون ہے‘ میں یا سماجی دو نمبر‬ ‫معززین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟‬ ‫‪7-4-1973‬‬


‫جنگ‬ ‫دور جدید کے مفکرین کا موقف ہے کہ جنگ امن کے لیے‬ ‫ناگزیر ہے۔ جنگ کی ہولناکی کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جو‬ ‫جنگ کےسرخ شعلوں میں رہ چکا ہو یا ان میں زندگی کر رہا‬ ‫ہو۔ تجربہ گاہ میں یا کسی بند کمرے میں بیٹھ کر بیان داغنا‬ ‫زیادہ مشکل نہیں ہوتا۔ اس کا تجربہ اور تجزیہ کہیں بھیانک اور‬ ‫دشوار گزار ہوتا ہے۔ میں ارباب فکرونظر کی اس سوچ پر‬ ‫انگشت بدنداں ہوں کہ آخر وہ تصویر کا شرم ناک رخ کیوں نہیں‬ ‫دیکھتے یا سسکیاں آہیں کراہیں انہیں سنائ نہیں دیتں۔ چشم‬ ‫زمانہ جنگ کی ہولناکیاں متعدد بار دیکھ چکی ہے۔ مورخ کے‬ ‫حرف ترانے سناتے ہیں۔ فاتح کے کارناموں کے گن گاتے ہیں۔‬ ‫سرخ لہو کی بےحرمتی بےمعنی‘ سنگدلی اور ہولناکی ثانوی‬ ‫سی چیز ہو کر رہ جاتی ہے۔ گویا وہ سب ایک الیعنی سا کھیل‬ ‫رہا ہو۔ سب کچھ دیکھ کر بھی امن کے لیے جنگ کو ناگزیر‬ ‫قرار دے دینا بذات خود ظلم اور زیادتی کے مترادف ہے۔‬ ‫ہیروشیما کے بےگناہ انسانوں کی سسکیای اور کراہیں آج بھی‬ ‫انسانیت کے منہ پر طماچے کا درجہ رکھتی ہیں۔ مخلوق فلکی‬ ‫کی آنکھیں آج بھی پرنم ہوں گی۔ اس کے برعکس امن کے‬ ‫حامی امن کے لیے جنگ کو ناگزیر قرار دیتے ہیں۔ یہ اندھیر‬


‫نہیں تو اور کیا ہے۔ جنگ میں فاتح ہو یا مفتوح‘ دونوں کی کمر‬ ‫ٹوٹ جاتی ہے۔ فتح کا نشہ وقتی ہوتا ہے۔ برطانیہ فاتح جنگ‬ ‫عظیم دوم کی علمداری کا دنیا میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔‬ ‫آج وہاں سورج بمشکل طلوع ہوتا ہے۔ جنگ میں زندگی کا ہر‬ ‫شعبہ متاثر ہوتا ہے۔ خصوصا معاشی ڈھانچہ تو مفلوج ہو کر رہ‬ ‫جاتا ہے۔بےگاری وبےروزگاری زندگی کی رگوں میں اتر جاتی‬ ‫ہے۔ خوش باشی اور خوش مزاجی نام کو بھی باقی نہیں رہتی۔‬ ‫ذہن جامد اور روح مردہ ہو جاتی ہے۔ جستجو اور کچھ کر لینے‬ ‫کی آرزو پستیوں میں دب کر رہ جاتی ہے۔‬ ‫آپ حیران ہوں گے کہ میں یہ سب کچھ کیسے جانتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ تو‬ ‫جناب میں جنگ کے سرخ شعلوں میں رہ چکا ہوں۔ مجھے اپنی‬ ‫روح کی آہیں اور سسکیاں سونے نہیں دیتیں۔ میرا چہرا اور‬ ‫رنگ و روپ ہمیشہ سے ایسا نہیں۔ کافی پرانی بات ہےاس وقت‬ ‫میری رگوں میں جوان اور گرم خون گردش کرتا تھا۔ زیست کی‬ ‫راہداری میں امنگوں کے خوش رنگ پھول مجھے خوش آمدید‬ ‫کہا کرتے تھے۔ شعور جوان تھا۔ دل کی دھڑکنیں پر شباب تھیں۔‬ ‫میرے گردوپیش امیدوں کا اک ہجوم تھا۔ تھکن اور بےزاری کا‬ ‫دور تک نام ونشان بھی نہ تھا۔میرے قلم میں طاقت تھی۔ دوسرا‬ ‫مجھے چھپنے چھپانے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ رساءل‬ ‫میں میرے افسانے اور مضامین بڑے اہتمام سے شاءع ہوا‬


‫کرتے تھے۔ قارءین میری بھرپور حوصلہ افزائ کیا کرتے تھے۔‬ ‫ڈاک میں سیکڑوں خطوط موصول ہوتے۔ میرے فن کی تعریف‬ ‫ہوتی۔ مجھے خودستائ مطوب نہیں۔ میں تعریف و تحسین کی‬ ‫ابجد سے خوب خوب آگاہ ہوں۔ تعریف سننے والے کان اور‬ ‫تحسین کے جملے پڑھنے والی آنکھیں خودفریبی کے زنداں میں‬ ‫مقید ہوتی ہیں۔ جب سراب کھلتا ہے سب کچھ راکھ ہوچکا ہوتا‬ ‫ہے۔‬ ‫اب کوئ تعریف یا تنقید میرے حواس پر اثر نہیں چھوڑتی۔‬ ‫بےحس سا ہو گیا ہوں۔ سب کچھ جنگ کے شعلوں کی نذر ہو‬ ‫چکا ہے۔ اب تو راکھ بھی باقی نہیں رہی۔ بادی النظر میں میں‬ ‫خوش مزاج ہوں لیکن یہ سب بناوٹ سے زیادہ نہیں۔ میرے پاس‬ ‫بےلطف اور پھیکی مسکرہٹ بھی باقی نہیں رہی۔ یہ مشینی دور‬ ‫ہے اور میں اس دور کا باسی بھی نہیں۔ میرا اس دور سے‬ ‫رشتہ ہی کیا ہے‬ ‫ہاں تو عرض کر رہا تھا میرے قلم کا سکہ جم چکا تھا۔ مجھ‬ ‫سے خطوط لکھواءے جاتے۔ تقریبوں کے لیے تقاریرکی‬ ‫فرماءش کی جاتی تھی۔ میں نے کبھی کسی کو نراش نہ کیا۔‬ ‫اس عہد میں اپنے اصلی نام سے لکھا کرتا تھا۔ اب سب کچھ‬ ‫نقلی ہو گیا ہے‘ اس لیے نقلی نام سے لکھتا ہوں۔ سب کچھ‬ ‫جنگ کے شعلوں کی نذر ہو چکا ہے۔ نام بدلنے سے درد میں‬


‫کمی واقع نہیں ہوئ۔ جلن بدستور باقی ہے۔۔۔۔۔ یادیں جب بھی سر‬ ‫اٹھاتی ہیں سسک بلک جاتا ہوں۔ دیر تک آنکھیں شبنمی رہتی‬ ‫ہیں۔۔۔۔۔۔ اس کے سوا کر بھی کیا سکتا ہوں۔ میرے پاس کرنے‬ ‫کو رہ ہی کیا گیا ہے‘ جو کروں۔ جانے کیوں اب بھی ماضی کی‬ ‫شکستہ سڑک پر برہنہ پا مسلسل اور متواتر دوڑے چال جا رہا‬ ‫ہوں۔‬ ‫آتش نمرود برسوں پہلے بھڑکی تھی مگر اس کے اثرات اب‬ ‫بھی باقی ہیں۔ لوگ مجھے پاگل سمجھتے ہیں۔ نشانہءتضحیک‬ ‫بناتے ہیں۔ هللا جانے کیا کچھ کہتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے یہ‬ ‫آنکھیں پتھر ہو چکی ہیں۔ میرے چہرے کی انقالبی جھریوں کی‬ ‫زبان وہ نہیں پڑھ سکتے۔ انھیں پڑھنے کے لیے درد کے تنور‬ ‫میں جلنا پڑتا ہے۔‬ ‫اس مشینی دور میں ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیشہ سے‘ سب کچھ غرض‬ ‫کے ساتھ وابستہ رہا ہے۔ جہاں کچھ نظر آتا ہے لوگ اسی سمت‬ ‫دوڑنے لگتے ہیں۔ لفظوں کو کسی نے کیا کرنا ہوتا ہے۔ لفظ پیٹ‬ ‫نہیں بھرتے‘ تن نہیں ڈھانپتے۔ میں مفلس تھا‘ مفلس ہوں۔ اب‬ ‫میرے پاس لفظ رہے ہیں اور ناہی احساسات۔۔۔۔۔۔ میں تو چلتی‬ ‫پھرتی جیتی جاگتی الش ہوں۔۔۔۔۔۔زندہ الش۔۔۔۔۔ الش سے کسی کو‬ ‫کیا البھ ہو سکتا ہے۔ اب کسی کو میرے پاس آنے کی کیا‬


‫ضرورت ہے۔ میں بھی کیسا سنار ہوں جس کے پاس کوئ نیارا‬ ‫آنے کی حماقت نہیں کرتا۔ میں ریگ دریا بھی نہیں جو طال‬ ‫دستیاب نہ ہو سکے گا۔‬ ‫شاید وہ ہفتہ کی شام تھی۔ میں ڈاک نکال رہا تھا۔ چوتھے خط پر‬ ‫میری نظر پڑی۔ نیلے رنگ کا لفافہ تھا۔‬ ‫پشت پر مرقوم تھا۔۔۔۔۔‬ ‫‪God is lov love is God‬‬ ‫میں نے اصول توڑتے ہوءے سب سے پہلے وہی خط پڑھنا‬ ‫شروع کر دیا۔ یہ خط پرانی انار کلی سے مس جیولی نے تحریر‬ ‫‪:‬کیا تھا۔ خط میں مرقوم تھا‬ ‫ڈیر! سوچ رہی ہوں کیا لکھوں اور کیا نالکھوں۔ خط کا آغاز کس‬ ‫طرح سے کروں۔ اتنا پیارا لکھنے والے کی انگلیوں کو چوم‬ ‫لینے کو دل مچل رہا ہے۔ محسوس نہ کرنا کہ پہلی ہی تحریر‬ ‫میں فرینک ہو گئ ہو۔ میں پیار اور خلوص کے معاملہ میں کسی‬ ‫لگی لیپٹی کی قاءل نہیں۔ اسے ہر طرح سے کھرا اور سچا ہونا‬ ‫چاہیے۔ یہ خلوص کی سچائ ہی مجھے لکھنے پر مجبور کر‬ ‫رہی ہے۔ جس چاہت سے لکھ رہی ہوں اسی خلوص سے جواب‬ ‫دینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط جیولی‬


‫جیولی کا خط چار صفحات پر مشتمل تھا۔ ہر لفظ سے خلوص‬ ‫ٹپک رہا تھا۔ میں نے اس خط کو تین سے زیادہ مرتبہ پڑھا۔ ہر‬ ‫بار نیا لطف میسر آیا۔ میں نے خط کا جواب اسی خلوص سے‬ ‫دیا۔‬ ‫یہ کسی پہلی خاتون کا خط نہ تھا لیکن یہ خط منفرد اور اپنی‬ ‫نوعیت کا ضرور تھا۔ پہل جیولی نے کی تھی لیکن گھاءل میں‬ ‫ہوا۔ سوچ کے بطن سے سنہرے سپنوں نے جنم لیا۔ سپنے‬ ‫خوابوں پر بھی اثر انداز ہوءے۔ مجھے تسلیم ہے کہ یہ سب‬ ‫غلط تھا لیکن یہ سب مجھ سے ہوا۔ میں دل کے ہاتوں ایک‬ ‫کھلونے سے زیادہ نہ رہا تھا۔ دل سمجھانے کے باوجود نہ‬ ‫سمجھا۔ جیولی میرے حواس پر گرفت کر گئ تھی۔ وہ کیسی تھی‬ ‫میں نہیں جانتا مگر جو تصور باندھا تھا اس میں وہ رادھا ہیرا‬ ‫اور قلوپطرہ سے کسی طرح کم نہ تھی۔ کئ بار ذہن میں سوال‬ ‫ابھرا کہ وہ بدصورت اور بدکردار بھی ہو سکتی ہے لیکن دل‬ ‫نے ہر خدشے۔۔۔۔۔ ہر خیال کی نفی کر دی اور میں تصور کے‬ ‫براق پر سوار عشق کے عرش کی جانب محو پرواز رہا۔ بغیر‬ ‫دیکھے سنے کسی کا ہو رہنا بالشبہ حماقت تھی۔۔۔۔۔۔حیران کن‬ ‫حقیقت یہ ہے کہ یہ سب ہوا۔‬ ‫دو برس خط وکتابت کا سلسلہ چلتا رہا۔ نہ اس نے مجھے بالیا‬


‫اور ناہی میں نے کبھی ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ پہلے‬ ‫ڈاکیہ ڈاک دے کر جاتا تھا اب میں خود ہی صبح سویرےڈاک‬ ‫لینے چال جاتا۔ جس دن ڈاک میں جیولی کا خط ہوتا میری روح‬ ‫خوشی کے نشے سے سرشار ہو جاتی۔ جیولی کی اسیری نے‬ ‫میرے قلم پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے۔ جب بھی کچھ‬ ‫لکھنے بیٹھتا یوں لگتا جیسے جیولی کو خط لکھ رہا ہوں۔‬ ‫افسانہ خؤبصورت لفظوں کے ساتھ نئ انوکھی کہانی کی بھی‬ ‫ڈیمانڈ کرتا ہے۔ مرے افسانوں میں یہ عنصر تقریبا مفقود ہو گیا‬ ‫تھا۔اس بدالؤ کو ہر کسی نے محسوس کیا۔ قارءین میں وہ پہلے‬ ‫سی گرم جوشی نہ رہی تھی۔ ایک پرچے کے ایڈٹر نے یہاں تک‬ ‫کہہ دیا کہ میرے نام سے کوئ اور لکھ رہا ہے۔ اب میں ایک‬ ‫ناکام لکھاری تھا۔ کئ بار میں نے انداز بدلنے اور پہلی ڈگر پر‬ ‫آنے کی کوشش کی مگر کہاں‘ اب لوٹنا امکان میں نہ رہا‬ ‫تھا۔۔۔۔۔۔۔ ایک رستے پر آدمی جب چل نکلتا ہے تو پیچھے مڑنا‬ ‫آسان نہیں رہتا۔ جیولی کو چھوڑ دینا میرے ممکن ہی نہ رہا تھا۔‬ ‫میں بہت آگے نکل آیا تھا۔‬ ‫!آہ‬ ‫دس اکتوبر کا وہ منحوس لمحہ تھا جب میں نے جیولی کا‬ ‫آخری خط پڑھا جسے پڑھ کر میرا سارا نشہ‬ ‫ھرن ہو گیا۔ ابتدا اس کی جانب سے ہوئ تھی انتہا بھی اس کی‬


‫جانب سے ہوئ۔ گھاءل میں ہوا۔ وہ چاندی دیس چلی گئ۔ میرے‬ ‫پاس کچھ بھی نہ رہا تھا۔ زخمی انگلیاں اور رفتہ سے جڑے‬ ‫کاغذ کے چند پرزے۔ اب میری کل یہی بساط تھی۔ میں نے کبھی‬ ‫دولت دیکھی نہیں‘ ہاں اس کا نام ضرور سنا سا ہے۔ یہ سب آخر‬ ‫کیا تھا‘ میں اب تک اس گتھی کو سلجھا نہیں پایا۔ ان دیکھا‬ ‫سہی‘ یہ کچہ تھا ضرور۔ میں نے ایک خواب کوسچ سمجھ کر‬ ‫وفا شعار نادرہ کو طالق دے دی۔ ننھی سی جان روبی کو‬ ‫مایوسیوں کے جنگل میں اکیال چھوڑ دیا۔ کون کہتا ہے فرعون‬ ‫مر گیا ہے۔ مجھ سے الکھوں فرعون خودغرضی کے اترن میں‬ ‫معاشرے کے ہر موڑ پر ملیں گے۔ ان میں سے ہر کوئ ظلم‬ ‫کرکے‘ مظلوم شکل بنا کر سامنے آءے گا۔ الیعنیت کا تعاقب‬ ‫کرنے والوں کا یہی حشر ہوا کرتا ہے۔ میں اپنے کیے پر پشمان‬ ‫ہوں مگر کیا فاءدہ‘ چڑیاں کھیت چگ کر جا چکی ہیں۔‬ ‫عشق کی جنگ ہو تو دل لہو لہو ہوتا ہے۔ دماغ کی جنگ تو‬ ‫اعصاب ٹوٹ جاتے ہیں۔ توپ ٹینک کی جنگ ہو تو انسانی زندگی‬ ‫لقمہ بنتی ہے۔ نظریاتی جنگ ہو تو بدامنی اور بے پھیلتی ہے۔‬ ‫مذہب کی جنگ تفسیم کے دروازے کھولتی ہے۔ بیگم سے جنگ‬ ‫ہو تو چولہا خود گرم کرنا پڑتا ہے۔ غرض جنگ کوئ بھی ہو وہ‬ ‫مثبت نتاءج کی حامل نہیں ہو سکتی۔ اس کا انجام ہولناک ہوتا‬ ‫ہے اور اس کے اثرات دیرپا ہوتے ہیں۔‬


‫مارچ ‪3 0721‬‬

‫دو لقمے‬ ‫تعفن میں اٹی‬ ‫‘اندھیاروں میں لیپٹی وہ بستی‬ ‫جہاں چھیتڑوں میں ملفوف زندہ الشوں کے دل کی دھڑکنیں‬ ‫دیوار پر آویزاں کالک کی ٹک ٹک کی آوازیں تھیں۔‬ ‫‘بھوک کی اہیں‬ ‫بےبسی کی سسکیوں میں مدغم ہو رہی تھیں۔‬ ‫آس کا سایہ آس پاس نہ تھا۔ تھا کچھ تو قاتل خاموشی تھی۔‬ ‫بھوک کا ناگ پھن پھیالءے بیٹھا تھا۔‬ ‫مایوسیوں کی اس بستی سے رحم کا دیوتا شاید خفا تھا یا پھر‬ ‫وہ بھی تہی دست تہی دامن ہو گیا تھا۔‬ ‫اک مسکراہٹ کے طلبگار یہ الشے بے حس نہیں‘ بے بس‬ ‫تھے۔‬


‫پھر اک الشہ بھوک ناگ جس کے قریب تر تھا۔۔۔۔۔۔ تڑپا اور‬ ‫رینگ کر روشنی کی شہراہ پر آ گیا۔ اس حرکت میں اس نے اپنی‬ ‫ساری توانائ صرف کر دی۔ ہر سو اجالے تھے لیکن وہ بھوک‬ ‫کے سیاہ کفن میں ملبوس تھا۔۔۔۔۔۔۔۔پھر بھی۔۔۔۔۔۔۔ ہاں پھر‘ بھی وہ‬ ‫زندہ تھا اور اجالوں کی شہراہ پر پڑا ہانپ رہا تھا۔ سانسیں‬ ‫بےترتیب تھیں۔ خوش پوش راہی شاید اسے دیکھ نہیں رہے‬ ‫تھے۔ جو دیکھ رہے تھے ناک پر رومال رکھ کر گزر رہے تھے۔‬ ‫وہ سب اس کے ہم جنس تھے۔ کتنی آس لے کر وہ یہاں تک آیا‬ ‫تھا۔ ان دیکھتے کرب لمحوں کو کون جان پاتا۔‬ ‫وہ اس بستی کا نہ تھا۔‬ ‫بھوک ناگ بوال‪ :‬کہاں تک بھاگو گے‘ تمہیں میرا لقمہ بننا ہی ہو‬ ‫گا کہ خود میں بھوکا ہوں۔‬ ‫پھر وہ تھوڑا آگے بڑھا۔‬ ‫الشہ چالیا‪ :‬نہیں۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔ رکو۔۔۔۔۔ٹھہرو۔۔۔۔۔۔ روٹی ضرور آءے‬ ‫گی۔‬ ‫سب بےکار۔۔۔۔۔روٹی کوئ نہیں دے گا۔۔۔۔۔۔ یہ پیٹ بھر کر بھی‬ ‫آنکھوں میں بھوک لیے پھرتے ہیں۔ ان میں سے کون دے گا‬ ‫روٹی۔ ان کے ہشاش بشاش چہروں پر نہ جاؤ۔ ان کے من کی‬ ‫بھوک کو دیکھو اور میرے صبر کا امتحان نہ لو۔‬ ‫‪:‬الشہ سٹپٹایا اور چالیا‬


‫!اجالوں کے باسیو‬ ‫!علم و فن کے دعوےدارو‬ ‫!سیاست میں شرافت کے مدعیو‬ ‫!جمہوریت کے علم بردارو‬ ‫!اسلحہ خرید کرنے والو‬ ‫!فالحی اداروں کے نمبردارو‬ ‫‘عالمی وڈیرو‬ ‫‘کہاں ہو تم سب‬ ‫تمہارے وعدے اور دعوے کیا ہوءے؟‬ ‫اپنی بھوک سے دو لقمے میرے لیے بچا لو۔ بھوک ناگ میرے‬ ‫قریب آ گیا ہے۔‬ ‫دیکھو غور کرو‘ میں تمہارا ہم جنس ہوں‬ ‫‘۔ دو لقمے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں فقط دو لقمے‬ ‫میری زندگی کے ضامن ہیں۔‬ ‫ایف سولہ ہاءیڈروجن بم مجھے نہیں چاہیے۔‬ ‫میری ضرورت روٹی کے دو لقمے ہیں۔‬ ‫اس دور کی یہ تمہاری بہت بڑی جیت ہو گی جو تاریخ میں‬


‫تمہیں امر کر دے گی۔‬

‫فقیر بابا‬

‫چوک میں بیٹھے فقیر بابا سے متعلق لوگوں کی مختلف آراء‬ ‫تھیں۔ کوئ اسے محض بھیکاری قرار دیتا تھا۔ کسی کا خیال تھا‬ ‫کہ اس کا ذہنی توازن درست نہیں۔ بیشتر کے خیال میں وہ پہنچا‬ ‫ہوا ولی هللا تھا۔ مزے کی بات یہ کہ وہ ہر راءے پر پورا اترتا‬ ‫تھا۔ اس لیے کوئ حتمی فیصلہ دیا جانا ممکن نہ تھا۔ اس نے آج‬ ‫تک اپنے متعلق کوئ کلمہ منہ سے نہ نکاال تھا۔ اس کے متعلق‬ ‫عالقہ میں عجیب پراسرایت پائ جاتی تھی۔ اگر کوئ اس سے‬ ‫کچھ پوچھتا تو یہ کہہ کر خاموش ہو‬ ‫“انسان تنہا ہو گیا ہے۔“‬ ‫معاشرے کی بھیڑ میں زندگی کرنے والوں کو تنہا کیسے اور‬ ‫کیونکر قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایسی بات کرنے والے کو دماغی‬ ‫مریض ہی کہا جا سکتا ہے۔ ایک اچھا خاصا طبقہ اسے پاگل‬


‫سمجھتا تھا۔ بدقسمتی کی بات یہ کہ کبھی کسی نے اس کی‬ ‫پلکوں کی اوٹ میں جھانک کر حقیقت جاننے کی کوشش ہی نہ‬ ‫کی تھی اور ناہی اس کے منہ سے نکلے لفظوں کی گہرائ‬ ‫ماپنے کی زحمت ااٹھائ تھی۔‬ ‫کل میں اور میرے کچھ دوست ایک پررونق ہوٹل میں بیٹھے‬ ‫چاءے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ہمارا موضوع کوئ خاص‬ ‫تو نہ تھا۔ وہی اہل زر اور اہل جاہ کی بےحسی اور کم ظرفی کے‬ ‫شکوے گلے کر رہے تھے۔ ہمارے قریب ہی کچھ اور لوگ‬ ‫چاءے سے لطف افروزی کے ساتھ ساتھ سیاست اور جمہوریت‬ ‫کے گیت االپ رہے تھے۔ لگتا تھا کہ کسی پرچی مانگت نے ان‬ ‫کے منہ میں زیرہ رکھ دیا تھا۔ اسی اثناء میں ایک نو دس سال‬ ‫کا بچہ چاءے لے کر آگیا۔ کپڑوں کی میل اور بوسیدگی کے عقب‬ ‫سے بھی ذہانت کی چمک جھانک رہی تھی۔ ہم اس ہوٹل سے کئ‬ ‫بار چاءے پی چکے تھے یہی بچہ چاءے سرو کرتا تھا۔ اس کی‬ ‫آنکھوں میں بےبسی ہر بار ہوتی تھی لیکن ہماری بیمار اور‬ ‫خودغرض آنکھوں نےکبھی اسے پڑھنے کی حماقت نہ کی تھی۔‬ ‫ہم میں سے ہر کوئ اپنے زخموں کا رونا روتا لیکن اس کی بے‬ ‫بسی کا رونا رونے واال کوئ نہ تھا۔‬ ‫اس روز چاءے کی پیالی میرے حلق سے بمشکل نیچے اتری۔‬


‫میرے ضمیر پر ہتھوڑے سے برسنے لگے۔میں نے سوچا‬ ‫الکھوں انسانوں کی قربانی دے کر یہ خطہ ارض حاصل کیا۔‬ ‫ہمارے پرکھوں نے اپنی نسل کے لیے کیا کیا خواب دیکھے ہوں‬ ‫گے۔ یہ کیسی آزادی ہے کہ ہر چھوٹا بڑے کی ہاں میں ہاں‬ ‫مالءے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ ہر بڑا کسی عالمی وڈیرے کا‬ ‫جی حضوریہ ہے۔ ہونٹوں کی جنبش اپنی ہوتی ہے لیکن ان‬ ‫ہونٹوں پر تھرکنے والے الفاظ اس کے اپنے نہیں ہوتے۔‬ ‫پھر میں نے سوچا میری بیوی میرے بچے کتنے اکیلے ہیں۔‬ ‫میں ان کا‘ صرف ان کا ہو کر بھی ان کا نہیں۔ میں صبح شام ان‬ ‫کے لیے مشقت کرتا ہوں اور لباس و خوراک ہی کو زندگی‬ ‫سمجھتا ہوں لیکن ترجیحات میری اپنی ہوتی ہیں۔ میرے بچے‬ ‫میری بیوی مجھ سےاپناہیت کا وقتا فوقتا اظہار کرتے رہتے ہیں‬ ‫لیکن پس پشت میرے وقار اور میری محنت کا منہ چڑاتے ہیں۔‬ ‫وہ اسی میں اپنی عافیت محسوس کرتے ہیں۔ میں ان میں زندگی‬ ‫کرتے ہوءے بھی تنہائ کا شکار ہوں۔‬ ‫پچھلے الیکشنوں میں میرا نماءندہ میرے گھر آیا۔ کہنے لگا میں‬ ‫آپ کا بھائ ہوں۔ ہر آڑے وقت کام آؤں گا۔ مجھے ووٹ دے کر‬ ‫کامیاب کراءیں۔ میرے دروازے آپ پر ہمیشہ کھلے رہیں گے۔‬ ‫میں نے ووٹ اسے دیا۔ وہ کامیاب بھی ہو گیا۔ میں اسے اس‬


‫کے گھر مبارک باد کہنے گیا۔ اس کےگھر کی دیواریں بلند ہو‬ ‫چکی تھیں۔ وہ میرے دیس کا باسی ہی نہ رہا تھا۔ اس کا مکان‬ ‫اسی بستی میں تھا وہ محلہ دار ہوتے ہوءے محلہ دار نہ تھا۔‬ ‫میرا بھائ یہ کہتے نہ تھکتا تھا کہ تم میرے جسم کا حصہ ہو۔‬ ‫میں تمہارے بغیر ادھورہ ہوں۔ اس کے لفظوں میں شہد سے‬ ‫بڑھ کر مٹھاس تھی لیکن باپ کی جاءداد سے حصہ دیتے وقت‬ ‫سب رشتے بھول گیا۔ وہ مجھے اب بھی ملتا ہے۔ اپنی محبت کا‬ ‫احساس دالتا ہے لیکن میری بھوک پیاس اور ضرورت سے اس‬ ‫کا کوئ لینا دینا نہیں۔‬ ‫ماں نے مرتے وقت شمو کا ہاتھ میرے ہاتھ دیا اور تاکید کی کہ‬ ‫اسے کسی محرومی کا احساس نہ ہونے دوں۔ میں نے پندرہ‬ ‫سال ماں کے لفظوں کا پورے خلوص اور دیانت داری سے بھرم‬ ‫رکھا۔ اس کی ہر ضرورت اور ہر خوشی پر اپنا لہو نچھاور کیا۔‬ ‫وہی شمو جو میری ماں جائ بھی تھی‘ سب کچھ بھول کر اپنے‬ ‫ایک کالس فیلو کے ساتھ مجھے چھوڑ کر چلی گئ۔‬ ‫لوگ اپنے بچوں پر اپنی جوانی نچھاور کر دیتے ہیں۔ ان کی‬ ‫خوشی کو اپنی خوشی سمجھتے ہیں۔ ان کے دکھ تکیف میں‬


‫کھانا پینا اور سونا بھول جاتے ہیں۔ شادی کے بعد وہی بچے‬ ‫انہیں الیعنی بوجھ خیال کرتے ہیں۔ سب کے ہوتے اور سب کچھ‬ ‫اپنا ہوتے ہوءے‘ ان کے دامن میں تنہائ کے سوا کچھ باقی‬ ‫نہیں رہتا۔‬ ‫فقیر بابا کو میں بھی پاگل سمجھتا تھا۔ میں نے اس کے کہے‬ ‫کے مفاہیم دریافت کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ ہوٹل‬ ‫پر کام کرتے بچے کو دیکھ کر احساس ہوا ہے کہ فقیر بابا غلط‬ ‫نہیں کہتا۔ وہ پاگل نہیں‘ اس نے تو دنیا کی گل پا لی ہے۔ اسی‬ ‫لیے ہر پوچھنے والے کو دنیا کا حقیقی چہرا دیکھاتا ہے کہ‬ ‫انسان تنہا ہو گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔تنہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں یکسر تنہا۔‬ ‫مئی ‪9 0726‬‬

‫کمال کہیں کا‬

‫نمرود کو‘ اپنی جاہ وحشمت پر ناز تھا۔ وہ سمجھتا تھا‘ کہ‬ ‫زندگی اسی کے دم قدم سے‘ رواں دواں ہے۔ اگر وہ نہ رہا‘ تو‬


‫چار سو بربادی پھیل جائے گی۔ اسے یہ بھی گمان تھا‘ کہ وہ ہر‬ ‫اونچ نیچ پر قادر ہے۔ وہ کچھ بھی‘ کر سکتا ہے۔ اس کے‬ ‫رستے میں آنے واال‘ ذلت ناکی سے دوچار ہو گا۔ وہ بالشبہ‘‬ ‫شیطان کی بدترین لعنت تھا۔ میری تخلیق‘ اس سے پہلے وقوع‬ ‫میں آچکی تھی‘ لیکن میرا ظہور‘ نمرود کی سرکشی کے موقع‬ ‫پر ہوا۔ بڑا بنتا پھرتا تھا پھنے خاں۔ جب مجھ سے پنجہ آزما‬ ‫ہوا‘ تو کئی سو سال‘ چھتر کھاتا رہا اور آخر‘ ملک جہنم کی راہ‬ ‫لی۔ اس کا مال و منال‘ اسے چھتروں سے نہ بچا سکا۔‬ ‫سکندر اعظم‘ دنیا فتح کرنے چال تھا۔ جب میری زد میں آیا‘ پانی‬ ‫مانگنا بھی نصیب میں نہ رہا۔ اس نے عالقے کے عالقے ملیا‬ ‫میٹ کر دیے‘ لیکن مجھے فتح نہ کر سکا۔ اب غیرجانب دار‬ ‫تجزیہ نگار مالحظہ کر لیں‘ حقیر میں ہوں یا مجھے کہنے یا‬ ‫سمجھنے والے‘ حقیر ہیں۔ زبانی کالمی اور عمل کی زندگی‬ ‫میں‘ زمین آسمان کا فرق ہے۔‬ ‫آج میرے خالف جلسے ہو رہے ہیں‘ جلوس نکالے جا رہے ہیں۔‬ ‫سرعام‘ مجھے برا بھال کہا جاتا ہے۔ عجب اندھیر ہے‘ مجھے‬ ‫برا کہا جا رہا۔‬ ‫۔۔۔۔۔ مجھے؟!۔۔۔۔۔۔۔۔ میں انسانیت کا محسن ہوں۔‬


‫انسان ناشکرا رہا ہے۔ جو احسان کرتا‘ اسی کا گال کاٹتا ہے۔ میں‬ ‫نے‘ انسان کو‘ ناصرف نمرود اور سکندر سے نجات دالئی‘ بلکہ‬ ‫خواتین کی بےلباسی کو‘ ختم کرنے کا فریضہ بھی انجام دیا ہے۔‬ ‫یہ تو هللا کا خصوصی انعام اور احسان ہے‘ جو میرے خالف‘‬ ‫سب کہنے سننے تک ہی محدود ہے۔ عملی صورت کی کوئی‬ ‫مثال دیکھائیے‘مان جاؤں گا۔ روال ڈالنے کی‘ اچھکل میں نے‬ ‫ہی دی ہے۔ میں نے‘ اس ذیل میں‘ کسی کو بھول میں نہیں رہنا‬ ‫چاہیے۔ اگر خود ساختہ یا درامدہ‘ سپرے چھٹرکا جاتا‘ تو بھی‘‬ ‫مجھے کچھ نہ ہوتا۔ اگرچہ میں حقیر کیڑا ہوں‘ لیکن اب میری‬ ‫تجسیم‘ حقیر کیڑے کی نہیں رہی۔‬

‫حضرت انسان کی‘ عادت رہی ہے‘ کہ کسی دوسرے نظریے یا‬ ‫مذہب والے کو قبول نہیں کرتا۔ آواگون کو‘ صرف ہندو میتھ‬ ‫سمجھا جاتا ہے‘ حاالں کہ یہ ان کے ہاں‘ میتھ نہیں‘ عقیدہ ہے۔‬ ‫آج میں نئے پران کے ساتھ‘ زندہ ہوں اور آتے وقتوں میں بھی‘‬ ‫اپنی نئی تجسیم کے ساتھ‘ زندہ رہوں گا۔۔ دنیا کا احتجاج‘ میرا‬ ‫کچھ بھی نہ بگاڑ سکے گا۔ وہ میرے نئے جنم کے‘ نئے رنگ‬ ‫روپ سے‘ آگاہ نہیں ہے۔ میں اپنے خالف‘ انسانی نفرت کا انتقام‬ ‫ہوں۔‬


‫آج‘ دنیا کا شاید ہی‘ کوئی ادارہ ہو گا‘ جہاں میرے‘ ہاں میرے‬ ‫ہونے کو‘ سوالیہ بنایا جا سکتا ہے۔ وائٹ گاہ ہو‘ یا ائی ایم ایف‬ ‫کدہ‘ میرے ہون سے محروم نہیں ہیں۔ یہ چھوٹے موٹے ادارے‘‬ ‫کس پانی میں ہیں‘ یہ تو میرے جی حضوریے ہیں۔ یہ سب میری‬ ‫ایک چھینک پر۔۔۔۔۔۔ واہ۔۔۔۔۔۔ واہ‘ سبحان هللا‘ کہتے ہیں۔ جس نے‬ ‫بھی سر کشی کی‘ جوتوں کی ایڑ میں آ گیا۔ آج انسان اپنا کیا‬ ‫بھگت رہا۔ احسان فروشی کی سزا‘ ملنا فطری ضابطہ ہے۔ انتقام‬ ‫لینا‘ میرا اصولی حق ہے۔‬ ‫آخر برداشت کی بھی‘ کوئی حد ہوتی ہے۔ انسان نے‘ چادر سے‬ ‫باہر پاؤں نکاال ہے‘ اپنے کیے کی بھگتے بھی۔۔۔۔۔ چادر سے‬ ‫نکلنے والے پاؤں‘ نمرود کے پاؤں پر ہوتے ہیں۔ ان سے‘ جو‬ ‫بھی ہوتا ہے‘ غلط ہی ہوتا ہے۔ میں ہر غلط ہونے پر‘ انگلی‬ ‫رکھتا آیا ہوں‘ رکھتا رہوں گا۔ ہاں البتہ‘ میں زیادہ تر‘ سانس کی‬ ‫نالی پر انگلی رکھتا ہوں۔ میں نے ساڑھے چار ہزار سال‘ انسان‬ ‫سے تعاون کیا ہے۔ انسان نے میری قدر نہیں پہچانی‘ اب ہر‬ ‫گیلے سوکھے کو‘ میرا انتقامیہ ادا کرنا ہی پڑے۔ مساوات کے‬ ‫اصول تحت‘ میں رو رعایت سے کام نہیں لے سکتا۔ کل کی‘‬ ‫میرے خالف واک میں‘ کم زور اور ہر ایرا غیرا شامل تھا۔ اب‬ ‫اگر کوئی خیر کی آشا رکھتا ہے‘ تو اس سے بڑھ کر‘ حماقت‬ ‫اور کیا ہو گی۔‬


‫مجھے پاکستان کے‘ شہر قصور میں بیٹھے بےبابائی‘ بیمار‘ کم‬ ‫زور اور ڈھیٹ بڈھے‘ مقصود حسنی پر بڑا تاؤ آتا ہے۔ میرے‬ ‫ساتھ‘ اڑی لگائے بیٹھا ہے۔ گرہ میں دام نہیں‘ کالے کیڈر واال‬ ‫تھا۔ اپنے ایم فل االؤنس کے لیے‘ برابر انیس سو ستانوے‬ ‫سے‘ درخواستیں گزار گزار کر‘ میرا دماغ خراب کر رہا ہے۔‬ ‫!پنجاب سرونٹس ہاؤسنگ فانڈیشن کیا میرا اٹوٹ انگ نہیں؟‬ ‫کیا میرا انتقامیہ دیے بغیر کچھ حاحل کر لے گا۔۔۔۔۔ نہیں کبھی‬ ‫نہیں۔‬ ‫کہتا ہے‘ گرہ میں دام نہیں۔ فوٹو کاپیوں اور رجسٹرڈ ڈاک کے‬ ‫لیے‘ کہاں سے پیسے آ جاتے ہیں۔ جتنا اس الیعنی کام پر خرچ‬ ‫کر چکا ہے‘ میرا انتقامیہ‘ اس سے کہیں کم بنتا تھا۔ احمق ہے‬ ‫سسرا۔۔۔۔احمق ۔‬ ‫کل میرے خالف‘ واک کے لیے‘ لوگوں کو اکسا رہا تھا۔ خیر یہ‬ ‫تو اتنا بڑا جرم نہیں۔ وہ بکواسی اور پرے درجے کا یاووہ گو‬ ‫ہے۔۔۔۔۔۔ پتا ہے کیا کہہ تھا۔۔۔۔۔ کہتا تھا‘ لوگو عملی اقدام کا مطالبہ‬ ‫کرو۔ شرم نہیں آتی اس بڈھے کو۔ پاؤں قبر میں لٹکائے بیٹھا‬ ‫ہے‘ لیکن شرارت اور سازش کو شعار رکھتا ہے۔‬


‫اس کے کہنے سے‘ کیا ہوتا ہے‘ لوگ تو زبردستی الئے گیے‬ ‫تھے۔ اگر بات مرضی پر رہتی‘ تو سڑک اور پنڈال‘ ویرانے کا‬ ‫نقشہ پیش کرتے۔ میں نہیں چاہتا‘ کہ اس چند روزہ مہمان کا‬ ‫خون‘ اپنے سر لوں۔ جو بھی سہی‘ انتقامیہ وصول کیے بغیر‘‬ ‫میں ایک کوڑی بھی نہیں دوں گا۔ کسی کو اگر اس پر ترس آتا‘‬ ‫اس کی جگہ۔۔۔۔۔۔۔۔اب تک میرا انتقامیہ‘ میری گرہ میں‘ چپ چاپ‬ ‫رکھ دیتا۔ بےبابائی ہو کر‘ حق طلب کرتا ہے کمال کہیں کا۔‬ ‫‪11-4-2014‬‬

‫ابا جی کا ہم زاد‬

‫هللا جانے‘ آج ریحانہ کو کیا ہو گیا تھا‘ بات بات پر اور بالوجہ‬ ‫الجھ رہی تھی۔ جب بات کا پتہ ہو‘ تو سلجھاؤ کی سو صورتیں‬ ‫نکل آتی ہیں۔ میرے بار بار پوچھنے پر بھی۔۔۔۔ کچھ نہیں۔۔۔۔۔ کے‬ ‫سوا‘ کچھ کہہ نہیں رہی تھی۔ چہرا‘ کدو کی طرح پھوال ہوا تھا۔‬ ‫میں اس کے‘ اس رویے کو‘ متواتر کئی گھنٹوں سے‘ برداشت‬ ‫کر رہا تھا۔ سارا دن‘ کولہو کے بیل کی طرح‘ کام کرو‘ گھرآتے‘‬


‫پانڈی کا فریضہ انجام دو۔ دن بھر کا‘ غلط سلط کیا‘ اپنی گردن پر‬ ‫لو‘ معذرت خواہانہ انداز اختیار کیے رکھو‘ یہ ہی نہیں‘ کھٹی‬ ‫کمائی تلی پر دھرنے کے باجود‘ بوتھا سیدھا نہ ہو‘ تو بڑی‬ ‫ذہنی اذیت ہوتی ہے۔‬ ‫میں کسی بحث کے موڈ میں نہیں تھا۔ یہ بھی کہ ایک کہہ کر‘‬ ‫سو سننے کی‘ اب مجھ میں تاب نہ رہی تھی۔ چخ چخ‘ ناصرف‬ ‫اعصابی تناؤ کا سبب بنتی ہے‘ بلکہ دو چار گھنٹے بھی چٹ کر‬ ‫جاتی ہے۔ اس کے بعد‘ موڈ سٹ ہونے میں بھی‘ وقت لگتا ہے۔‬ ‫میں نے‘ کان لپیٹ کر‘ اپنے کمرے میں جا کر‘ لیٹ جانے میں‬ ‫عافیت اور سالمتی جانی۔ میں لیٹ تو گیا‘ لیکن تذبذب میں لپٹی‬ ‫سوچوں نے‘ آ لیا۔ عجب اتفاق تھا‘ کٹھی مٹھی سننے کے‘ کان‬ ‫متحمل نہیں رہے تھے۔ روح‘ معاملہ جاننے کے لیے اتاولی ہو‬ ‫رہی تھی۔ میری حالت‘ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن‘ کی سی‬ ‫تھی۔‬ ‫کیا میں‘ بےعزتی کرانے کے موڈ میں تھا؟ یا ریحانہ کی الشعور‬ ‫میں چھپی محبت‘ مجھے بےچین و بے کل کر رہی تھی۔ میں تو‬ ‫یہ ہی سمجھ رہا تھا‘ کہ میاں بیوی کی محبت‘ دل اور دماغ سے‬ ‫نہیں‘ یہ منہ کی حدود و قیود میں‘ بسیرا رکھتی ہے۔ یہ بھی ہو‬ ‫سکتا ہے‘ کہ نکاح نے‘ انہیں ایک دوسرے کے لیے‘ الزم و‬


‫ملزوم کر دیا ہے۔ ایک دوسرے سے‘ خیانت کرتے ہوئے بھی‘‬ ‫باہمی تعلق میں‘ کسی ناکسی سطع پر‘ ایک دوسرے کی‬ ‫ضرورت موجود ہوتی ہے۔ اہل نکاح‘ بہرطور‘ ایک دوسرے کی‬ ‫کڑوی کسیلی سن کر بھی‘ ایک دوسرے سے‘ ذہنی سطح پر‘‬ ‫جدا نہیں ہوتے۔ لگاؤ ناسہی‘ ان کے درمیان‘ الگ کا رشتہ اول تا‬ ‫آخر موجود رہتا ہے۔‬ ‫اگر ہمارے درمیان‘ کوئی رشتہ موجود نہ ہوتا‘ تو میں سرہانے‬ ‫لگی چارپائی پر لیٹا‘ اس طرح بےچین و بےسکون نہ ہوتا۔ یہ‬ ‫معاملہ‘ صرف میری ذات تک محدود نہ تھا۔ ریحانہ بھی‘‬ ‫سوجھے منہ واال چہرا‘ ہر پان سات منٹ بعد‘ کرا رہی تھی۔‬ ‫کیسی بندہ ہے‘ منہ سے کچھ پھوٹتی نہیں‘ بس آنکھیں دیکھا‬ ‫کر‘ پاؤں پٹختی‘ واپس چلی جاتی ہے۔ یہ معاملہ‘ رو بہ رو‬ ‫رہنے سے‘ کہیں خوف ناک تھا۔ میں نے سوچا‘ فرار کے نتائج‘‬ ‫سامنا کرنے سے کہیں زیادہ‘ ہول ناک ہوں گے۔ مجھے معاملے‬ ‫کا‘ سامنا کرنا چاہیے۔ خود ہی‘ کٹی کٹا نکل جائے گا۔ نکرے‬ ‫لگنے سے‘ بات بننے کے بجائے‘ بگڑے گی۔‬ ‫میں چارپائی سے اٹھ کر‘‘ باہر آ گیا۔ ریحانہ کچن میں کام کر‬ ‫رہی تھی۔ آخر بات کا کس طرح آغاز کروں۔ اس کی ماں کی‬ ‫بیماری کا پوچھ لیتا ہوں‘ لیکن اس حوالہ سے‘ تو صبح ناشتے‬


‫کی میز پر‘ سیرحاصل گفتگو ہو چکی تھی۔ ثریا کی شادی کی‬ ‫تیاری کے متعلق بات کرتا ہوں۔ یہ موضوع صحت مند نہیں تھا۔‬ ‫ثریا‘ میری بہن تھی۔ ریحانہ تو پہلے ہی‘ کہتی آ رہی ہے کہ میں‬ ‫نے‘ ساری کمائی‘ اپنے بہن بھائیوں پر روہڑ دی ہے‘ اور‬ ‫ہمارے پلے ہی کیا رہا ہے۔ آخر بات کا آغاز تو کرنا ہی تھا۔‬ ‫میں نے کہا‪ :‬کیا کر رہی ہو؟‬ ‫دیکھ تو رہے ہو‘ تمہارا اور تمہارے بچوں کا‘ سیاپا پیٹ رہی‬ ‫ہوں۔‬ ‫ہاہیں‘ کیا بکواس کرتی ہو۔ آج یہ کام کوئی نیا کر رہی ہو‘ جو‬ ‫سیاپے کا نام دے رہی ہو۔‬ ‫پچھلے دس سال سے‘ آگ میں منہ ہے۔ میرے لیکھے میں‘‬ ‫شاباش ہی نہیں لکھی۔‬ ‫کمال ہے‘ کس بات کی شاباش چاہتی ہو۔ یہ کام تو‘ ساری‬ ‫عورتیں کرتی ہیں‘ تم کوئی الگ سے کر رہی ہو۔‬ ‫میں جانتی ہوں‘ تمہاری بہنیں کتنا کو کام کرتی ہیں۔ میرا منہ‬ ‫کھلواؤ۔‬ ‫یہ جلی کٹی‘ کیوں سنا رہی ہو‘ آخر مجھ سے‘ کیا غلطی ہو گئی‬


‫ہے‘ جو تم خواہ مخواہ ماحول خراب کر رہی ہو۔‬ ‫اچھا‘ تو میں ماحول خراب کرتی ہوں‘ ماحول خراب نہ کرنے‬ ‫والی لے آؤ۔ ساری کیتی کترائی کھوہ میں ڈال رہے ہو۔‬ ‫مجھے اس کی جلی کٹی پر غصہ نہیں آ رہا تھا۔ یہ تو‘ روز کا‬ ‫معمول تھا۔ مجھ پر حیرت کا طوفان ٹوٹ رہا تھا۔ ہوا کیا ہے‘ جو‬ ‫آپے سے باہر نکل رہی ہے۔ یہ تو یک طرفہ لڑائی تھی۔ تاہم‬ ‫آگہی سے محرومی‘ اس کے جلے کٹے لفظوں سے‘ کہیں بڑھ‬ ‫کر‘ پریشان کن تھی۔‬ ‫تمہیں فقط اپنی ذات سے‘ پیار ہے۔ کوئی دوسرا مرتا ہے‘ تو‬ ‫مرتا رہے۔‬ ‫بڑے ہی افسوس کی بات ہے‘ میں اپنے لیے‘ کیا خاص کرتا‬ ‫ہوں۔ باہر سے‘ کوفتے کھا کر آ جاتا ہوں اور تمہیں محروم‬ ‫رکھتا ہوں۔ اپنے لیے الگ سے کپڑے سلوا لیتا ہوں۔‬ ‫دن میں‘ بیس بار شیشہ دیکھتے ہو‘ اور اپنا چہرا دیکھ دیکھ‬ ‫کر‘ خوش ہوتے رہتے ہو۔‬ ‫تمہیں میرے آئینہ دیکھنے سے کیا ہوتا ہے۔‬ ‫کیوں نہیں ہوتا‘ تم نے آج تک‘ میری تعریف نہیں کی۔ خود سے‬ ‫فرصت ملے گی‘ تو ہی‘ کوئی دوسرا نظر آئے گا۔‬


‫معاملہ سمجھنے میں کئی گھنٹے لگ گیے۔ وہ جو سمجھ رہی‬ ‫تھی‘ وہ بات تو‘ سرے سے تھی ہی نہیں۔ ابا‘ صرف ابا ہی نہیں‬ ‫تھے‘ وہ میرے گہرے دوست بھی تھے۔ ہم اپنی ہر چھوٹی موٹی‬ ‫بات‘ ایک دوسرے سے شیئر کرتے تھے۔ ہمارا دکھ سکھ ایک‬ ‫تھا۔ ان کی موت کے بعد‘ سچی بات تو یہ ہے‘ کہ میں تنہا ہو گیا‬ ‫تھا۔ یوں لگتا تھا‘ جیسے دنیا میں‘ میرا کوئی بھی نہ ہو۔ دنیا‬ ‫میں میرا دکھ سکھ کا کوئی ساتھی ہی نہیں رہا۔‬ ‫اس دن‘ کام پر جاتے وقت‘ میں نے آئینے میں دیکھا۔ مجھے‬ ‫اپنے چہرے میں‘ ابا کا چہرا نظر آیا۔ وہ ہی آنکھیں‘ وہ ہی ناک‘‬ ‫وہی رخسار غرض سب کچھ‘ ابا کے چہرے سے مماثل تھا۔ یہ‬ ‫دیکھ کر‘ مجھے حیرت آمیز خوشی ہوئی۔ تب سے‘ جب اداس‬ ‫ہوتا‘ آئینے میں جھانک کر‘ ابا کے ہم زاد سے‘ مالقات کر لیتا۔‬ ‫جب بھی کوئی پریشانی آتی‘ یا مسلہ دریش ہوتا‘ آئینے میں‬ ‫جھانک لیتا۔ آئینے میں‘ موجود چہرے کے اتار چڑھا‘ سے‬ ‫معاملے یا مسلے کا حل دریافت کر لیتا۔‬ ‫آج بھی‘ کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ چھوٹی‘ سخت مالی بحران سے‬ ‫گزر رہی تھی۔ آج جب ملی‘ اس کی آنکھوں میں‘ بےبسی اور‬


‫بےکسی کے بادل‘ امڈے چلے آتے تھے‘ لیکن وہ زبان سے‬ ‫کچھ کہہ نہیں پا رہی تھی۔‬ ‫آج جب میں نے‘ آئینے میں دیکھا‘ کسی قسم کا ابہام نہ تھا۔‬ ‫چہرے کے اتار چڑھا کی زبان پر‘ یہ ہی تھا‘ تمہاری چھوٹی بہن‬ ‫ہے‘ اس کے لیے‘ کچھ کرو۔ ابا کی تو بیٹی تھی‘ اس لیے‘ ابہام‬ ‫کا نمودار ہونا‘ ممکن ہی نہ تھا۔ وہ انہیں بڑی عزیز تھی۔ میں‬ ‫بھی اسے عزیز رکھتا تھا۔ میں اس کی بہ قدر ضرورت مدد کر‬ ‫سکتا تھا‘ لیکن یہاں‘ ایک دوسرا ہی معامہ درپیش تھا۔ ریحانہ‬ ‫مجھے‘ اپنی ذات سے محبت کرنے کی اجازت نہیں دے رہی‬ ‫تھی‘ چھوٹی کی مالی مدد پر کس طرح تیار ہو سکتی تھی۔ اسے‬ ‫ثریا کی شادی پر کچھ دینا‘ کھٹک رہا تھا۔ فوزیہ کی مدد کا ذکر‘‬ ‫آ بیل مجھے مار‘ سے کم بات نہ تھی۔ کاش‘ میں الگ سے‘ پس‬ ‫انداز کر لیتا‘ تو آج فوزیہ کی بےچارگی کا مداوا‘ ہو سکتا تھا۔‬ ‫میں دیر تک ان ہی سوچوں میں ڈوبا رہا۔ کوئی حل نہیں نکال پا‬ ‫رہا تھا۔ پھر اچانک میرے قدم آئینے کی طرف بڑھ گیے۔‬ ‫‪9-2-79‬‬

‫کامنا‬


‫وہ جہاں گیا‘ بددیانتی‘ بدمعاشی‘ حرام کاری‘ ہیرا پھیری اور‬ ‫دغابازی کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔ کوئی بھوک سے‘ مرتا ہے‘‬ ‫تو مرے‘ کسی کو‘ بھوکے پیاسے کی ضرورت سے‘ کوئی دل‬ ‫چسپی نہ تھی۔ دام الئے‘ ضرورت خریدے اور چلتا بنے۔ اگر‬ ‫بےدام ہے‘ تو سماج کے بڑے بڑے دیالو اور کرپالو‘ منہ موڑ‬ ‫لیتے ہیں۔ سنتے ہوئے‘ انہیں سنائی نہیں دیتا۔ دیکھتے ہوئے‘‬ ‫انھیں دکھائی نہیں دیتا۔ سماج کی اس کٹھور رخی پر‘ کسی سر‬ ‫پھرے یا ضرورت کے مضروب کا‘ ننگی کرپان لے کر‘ نکل آنا‘‬ ‫کوئی غیر فطری بات نہ تھی۔ کچھ آستین میں خنجر چھپا کر نکل‬ ‫آئے تھے۔ اس نے بھی‘ تاج اور ظالمانہ سماجی اطوار کے‬ ‫خالف‘ بغاوت کرنے کا‘ تہیہ کیا۔ پھر اس نے سوچا بہت سووں‬ ‫نے یہ رستہ اختیار کیا۔ کیا ہوا‘ کچھ بھی تو نہیں۔ بغاوتیں کچل‬ ‫دی گئیں۔ اگر کامیاب ہوئیں‘ تو تخت پر قابض ہونے والے بھی‘‬ ‫پہلوؤں کے رستہ پر چل نکلے۔ وہی بےراہروی‘ زندگی کا حصہ‬ ‫و خاصہ رہی۔‬ ‫وہ دیر تک سوچتا رہا‘ کہ آخر کیا کرئے‘ جس سے بہتری کی‬ ‫کوئی صورت نکلے۔ دھیان کے بطن سے ہی گیان جنم لیتا ہے۔‬ ‫وہ ویدی کی تبدیلی پر قادر نہ تھا۔ وہ سوچ کے بےثمر ہونے‬ ‫پر‘ یقین نہیں رکھتا تھا۔ ہر کٹھنائی کو‘ پار کرنے کا رستہ‬


‫ضرور موجود رہتا ہے۔ وہ سوچ کے سمندر میں‘ کئی گھنٹے‬ ‫غرق رہا۔ جب واپس آیا‘ اس کے دامن میں گیان کے گالب مہک‬ ‫رہے تھے۔‬ ‫زیادہ دن نہ گزرے ہوں گے‘ کہ عالقے کے بچے بچے پر کھل‬ ‫گیا‘ کہ گرداس مل نے تیاگ اختیار کر لیا ہے۔ سو طرح کی باتیں‬ ‫ہوئیں۔‬ ‫کسی نے کہا‘ نکھٹو تھا‘ گھرداری سے فرار اختیار کر گیا ہے۔‬ ‫کسی کا کہنا تھا َ َ​َ َ​َ َ​َ‘ کہ وہ مزاجا دنیادار نہ تھا۔ دنیا میں رہتے‬ ‫ہوئے دنیا میں نہ تھا۔‬ ‫غرض‘ جتنے منہ‘ اتنی باتیں سننے کو مل رہی تھی‬ ‫اسے تپسوی ہوئے‘ دن‘ مہینے‘ پھر کئی سال گزر گیے۔ لوگوں‬ ‫کا یہ قیافہ‘ غلط ثابت ہوا‘ کہ چند دن کی بات ہے‘ بھوک‘ پیاس‬ ‫عزیزوں کی محبت‘ اسے اسی دنیا میں‘ واپسی پر مجبور کر دے‬ ‫گی۔ اسی دھیان نےاسے‘ دنیا کی ہر ضرورت سے‘ باال کر دیا‬ ‫تھا۔ بھوک پیاس محبت نے‘ اس کے دھیان میں خلل ڈاال‘ لیکن‬ ‫سب بےاثر رہا۔ وہ اٹل تھا‘ اور اٹل رہا۔ اب عالقے میں‘ اس کے‬ ‫متعلق‘ پہلے سی باتیں نہ ہوتی تھیں۔ اب کسی کو‘ اس کے پہنچا‬ ‫ہوا‘ قیاس کرنے میں‘ کوئئ شبہ نہ رہا تھا۔ لوگ اسے گیانی‬ ‫سمجھ کر‘ اس کے پاس حاضر ہوتے۔ ان میں ہر قوم اور مذہب‬ ‫کی عورتیں زیادہ تھیں۔ سالم و پرنام کے بعد‘ دو زانو ہو کر‘‬


‫بیٹھ جاتیں۔ انتظار کرتیں‘ کہ شاید آنکھیں کھول کر‘ خوشی کے‬ ‫پرشاد سے سرفراز کرے گا۔ جب خاموشی کے سوا کچھ نہ‬ ‫میسر آتا‘ تو سالم وپرنام کے بعد‘ الٹے قدموں واپس لوٹ‬ ‫جاتیں۔‬ ‫سو طرح کے چڑھاوے چڑھنے لگے۔ وہ سب‘ لوگوں کے‬ ‫استعمال میں آتا۔ کوئی یہ معلوم نہ کر پایا‘ کہ وہ کب اور کیا‬ ‫کھاتا پیتا ہے۔ سوتا کب ہے۔ حاجت کے لیے کب جاتا ہے۔ اسے‬ ‫جس نے بھی دیکھا‘ آنکھیں بند کیے ہوئے دیکھا۔ اب وہ‘ ایک‬ ‫پہیلی کی صورت اختیار کر گیا تھا۔ بہت سے لوگوں نے‘ غور‬ ‫کیا‘ لیکن کوئی اس کے دھیان کو جان نہ سکا۔ کچھ شریروں‬ ‫نے‘ اس کی تپسیا بھنگ کرنے کی بھی کوشش کی‘ لیکن اس‬ ‫کے دھیان میں‘ رائی بھر فرق نہ آیا۔‬ ‫اس کی تپسیا پر‘ دیو گڑھ میں بھی‘ ہلچل مچ گئی۔ کچھ نے‬ ‫سوچا‘ یہ منش‘ برہما سے سورگ پتی ہونے کا‘ بردان چاہتا‬ ‫ہے۔ اگر یہ ہی عالم رہا‘ تو برہما بردان دینے پر مجبور ہو جائے‬ ‫گا۔ شنی دیو کیا‘ اس کی تپسیا بھنگ کرنے کے لیے‘ پون دیو‘‬ ‫پھر اگنی دیو کو میدان میں اترنا پڑا۔ قیامت کی آگ کا گھیراؤ‘‬ ‫اس کی تپسیا میں آڑے نہ آ سکا۔ اسی طرح کی‘ بیسیوں‘ زمین‬ ‫اور سورگ لوک سے‘ آفتیس اور آزمائشیں اتریں‘ لیکن وہ ٹس‬ ‫سے مس نہ ہوا۔ برہما اول اول مسکراتا تھا‘ لیکن اب وہ بھی‬ ‫فکرمند ہوا۔ ایسا دھیانی ہی‘ بردان کا مستحق ٹھہرا کرتا ہے۔‬


‫وشنو اور شیو شنکر بھی‘ اس کے دھیان سے متاثر ہوئے۔ وہ‬ ‫برہما کے پاس حاضر ہوئے۔ انہوں نے بردان دینے کی سفارش‬ ‫کی‬ ‫برہما کو آخرکار‬ ‫اس دھیانی کے پاس آنا ہی پڑا۔ پوتر میں برہما ہوں‘ کہو کیا ‘‬ ‫بردان میں چاہتے ہو‘ بولو بے دھڑک کہو‬ ‫گرداس مل نے بڑے احترام سے‘ برہما دیو کو اپنا پرنام پیش‬ ‫کرکے‘اس کے قدم لیے۔ پھر بوال‘ پتا شری! آپ دیکھ رہے ہیں‘‬ ‫کہ انسان کس قدر وحشت پر اتر آیا ہے۔ شانتی نام کی چیز‘‬ ‫ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ آپ مجھے سورگ لوک کے مقدس‬ ‫درخت کا روپ دے دیں۔ مجھ پر پھل کی بجائے‘ انسان لگیں۔‬ ‫اس کی مانگ میں بالشبہ خلوص موجود تھا‘ لیکن اس مانگ‬ ‫کے کسی ناکسی گوشے میں‘ میں اوروں سے برتر ہوں‘ کا‬ ‫احساس موجود تھا۔ برہما بردان دے کر برہما لوک لوٹ گیے۔‬ ‫اس معاملے کو‘ صدیاں بیت گئیں۔ سورگ لوک کے شجر پتر اور‬ ‫دیوتا‘ خون ریزی میں مصروف تھے۔ وہاں کے انسانوں نے‘‬ ‫بڑی عالی شان عمارتیں تعمیر کر لی تھیں۔ سائنس کی ترقی‬ ‫عروج پر تھی۔ ہر شجر پتر احساس برتری کا داعی تھا۔ جنسی‬ ‫طوفان زروں پر تھا۔ سورگ لوک کو‘ رہائش کے لیے‘ ناکافی‬ ‫سمجھا جا رہا تھا۔ مزید کی ہوس نے‘ زمین پر قبضے جمانے‬ ‫کے‘ منصوبے تیار کرنا شروع کر دیے تھے۔ اس منصوبے پر‘‬


‫دن رات‘ بڑے زور و شور سے‘ سوچا جا رہا تھا۔ معلومات جمع‬ ‫کرنے کا عمل‘ عروج پر تھا۔ اس سوچ اور اس کی تیاری کے‬ ‫نتیجہ میں‘ سورگ لوک کا‘ امن اور سکون بھرشٹ ہو چال تھا۔‬ ‫ہر کوئی‘ زیادہ سے زیادہ کو‘ وراثت بنانے کا منصوبہ بنا رہا‬ ‫تھا۔‬ ‫ایک روز‘ لوگوں نے دیکھا‘ کہ ایک شجر پتر‘ مقدس شجر‘ جو‬ ‫اس نسل کا پتاما تھا‘ کے نیچے‘ ایک ٹانگ پر کھڑا‘ جاپ کر رہا‬ ‫تھا‬ ‫وہ باآواز بلند کہہ رہا ۔۔۔۔۔۔برہما دیو پرگٹ ہوں۔۔۔۔۔۔برہما دیو پرگٹ‬ ‫ہوں۔۔۔۔۔‬ ‫اس کے انداز سے لگتا تھا‘ کہ ٹلنے واال نہیں ہے۔ لوگ اس کے‬ ‫پاس آ رہے تھے۔ وہ اسے پوج رہے تھے۔ اپنی حاجت روی کے‬ ‫لیے کہہ رہے تھے‘ لیکن وہ اپنے کام میں مصروف تھا۔ سورگ‬ ‫کے دیو بھی ششدر تھے کہ یہ شجر پتر‘ برہما جی سے کیا‬ ‫مانگنے واال ہے۔‬ ‫کوئی کہہ رہا تھا‘ یہ زمین پر قبضے کے لیے‘ برہما کی‬ ‫حضوری کا آرزو مند ہے۔ یہ بھی کہ‘ ان کا پتاما زمین کا باسی‬ ‫تھا‘ اس لیے‘ زمین پر ان کے استحقاق کو‘ رد نہیں کیا جا‬ ‫سکتا۔‬ ‫کسی کا خیال تھا‘ کہ وہ دیوتاؤں کو‘ سورگ سے باہر کرنے‬


‫کے لیے‘ کشٹ اٹھا رہا ہے۔‬ ‫غرض سو طرح کی باتیں‘ سورگ کے باسیوں میں چل رہی‬ ‫تھیں۔‬ ‫ایک بوڑھا شجر پتر‘ مسکرا رہا تھا۔ اس نے شجر مقدس کی‬ ‫پوری کتھا پڑھ رکھی تھی۔ وہ جانتا تھا‘ شخص کسی بھی لوک‬ ‫کا ہو‘ سیمابی فطرت رکھتا ہے۔ بےچینی میں امن اور سکون کی‬ ‫کامنا کرتا ہے۔ وہ خرابی برداشت نہیں کرتا‘ لیکن خرابی کیے‬ ‫بغیر رہ بھی نہیں سکتا۔ اس بوڑھے کو‘ گیان ہو گیا تھا کہ یہ‬ ‫تپسوی‘ منش پتر بننے کے لیے‘ برہما دیو کو کشٹ دے رہا‬ ‫ہے۔ وہ یہ بھی جانتا تھا‘ کہ یہ تپسوی‘ برہما سے بردان حاصل‬ ‫کیے بغیر‘ یہاں سے نہیں ٹلے گا‘ کیوں کہ جو دھار کر آتے‬ ‫ہیں‘ کٹ جاتے ہیں‘ قدم پیچھے نہیں رکھتے۔ یہ اصول بھی ہے‘‬ ‫اور ویدی کا ویدان بھی‘ یہ ہی چال آتا ہے۔‬

‫تنازعہ کے دروازے پر‬

‫اس میں کوئی شک نہیں‘ کہ وہ ذہین شاطر اور بہادر تھا‘ لیکن‬


‫تسلط وتصرف کے لیے‘ وسائل کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔‬ ‫وسائل کی کمی‘ اس کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ تھی۔ جب‬ ‫جذبے اٹل اور کرنے کی خواہش میں جان ہو‘ تو کر گزرنا مشکل‬ ‫نہیں رہتا۔ کرنا ہدف سے جڑا رہتا ہے۔ اس کا ہدف معمولی اور‬ ‫عام نوعیت کا نہ تھا۔ محنت مزدوری سے‘ تو پیٹ کا جہنم بھی‬ ‫نہیں بھر پاتا۔ وہ اس کا قائل بھی نہ تھا اور ناہی‘ محدود دائرے‬ ‫کا قیدی ہونا‘ اسے کبھی خوش آیا تھا۔ دائروں کے قیدی‘ زندگی‬ ‫کے بڑے گراؤنڈ میں کھیل نہیں پاتے ہیں۔ چوری‘ محدود وسائل‬ ‫پیدا کرتی ہے جب کہ ڈاکہ‘ وسائل ہی زیادہ میسر نہیں کرتا‘ بلکہ‬ ‫اس میں جرآت بہادری اور سینہ زوری کے عناصر‘ بھی موجود‬ ‫ہوتے ہیں۔ گھنٹوں غور کرنے کے بعد‘ اس پر کھال‘ کہ اٹھتے‬ ‫ہی‘ ڈاکے کی راہ اختیار کرنا‘ ممکن نہیں۔ اسے آغاز چھوٹی‬ ‫موٹی چوری ہی سے کرنا پڑے گا۔‬ ‫شروع شروع میں‘ چھوٹا موٹا شور ہوا‘ لیکن جب چوریوں کی‬ ‫تعداد بڑھی‘ تو عالقے میں‘ بےچینی پھیل گئی۔ انتظامی ادارے‬ ‫بھی‘ تشویش کا شکار ہو گیے۔ ہم پیشہ و ہم مشرب تو میسر آ‬ ‫ہی گیے تھے‘ اب انتظامیہ کو‘ ہاتھ میں کرنا ضروری ہو گیا تھا۔‬ ‫اس کام میں بھی‘ اسے کچھ زیادہ تردد نہ کرنا پڑا۔ انتظامیہ‘‬ ‫خصوصا گرفت کرنے والے اداروں کو‘ اس سے‘ لوگوں کی‬ ‫تالش رہتی ہے۔ اس سے لوگوں کا کیا‘ چھوٹے مجرموں پر ڈال‬ ‫کر‘ معاشرے میں انصاف کا بول باال کیا جا سکتا ہے۔‬


‫اب وہ کافی مضبوط ہو گیا تھا۔ وہ دن دیہاڑے‘ جہاں اور جس‬ ‫کے ہاں بھی چاہتا‘ ڈاکہ ڈالتا۔ وہ عالقے میں‘ خوف کی عالمت‬ ‫کے درجے پر فائز ہو چکا تھا۔ چودھری کا دھندا‘ ماند پڑنے‬ ‫لگا۔ انتظامیہ نے بھی‘ اس کے کاموں پر‘ گرفت کا آغاز کر دیا‬ ‫تھا۔ چودھری حیران تھا‘ کہ اس کے آدمی موقع پر ہی‘ کیوں‬ ‫پکڑے جانے لگے ہیں۔ اس کے پاس‘ انتظامیہ کو ٹھپ کرنے کا‬ ‫کوئی رستہ ہی باقی نہ رہا تھا۔ بھتہ خور انتظامیہ نے‘ چودھری‬ ‫پر اتنا احسان ضرور کیا‘ کہ وہ لکھت پڑھت میں‘ چودھری کا‬ ‫ذکر تک نہ کرتے۔ کاموں کو بھی ‘جرات نہ ہوتی‘ کہ وہ‬ ‫چودھری کا نام تک‘ زبان پر الئیں۔ ہاں یہ ضرور ٹھان لیتے‘ کہ‬ ‫وہ جیل سے باہر آ کر‘ محودے زوراور کے گروپ میں‘ شامل‬ ‫ہو جائیں گے۔ یہ غداری نہ تھی‘ چودھری کے بااعتماد کامے‘‬ ‫اندر خانے‘ محودے زوراور کے گروپ میں شامل ہو چکے‬ ‫تھے۔ ہر چھوٹی بڑی خبر‘ ان ہی کے ذریعے‘ زوراور تک‬ ‫پہنچتی تھی۔ اسی بنا پر‘ انتظامیہ انہیں موقعہءواردات پر پکڑ‬ ‫لیتی تھی۔ پبلک میں آ جانے کے باعث‘ چودھری بےبس ہو جاتا‬ ‫اور اپنے بندوں کے لیے‘ کچھ نہ کر پاتا۔‬ ‫چودھری‘ عالقے میں اپنا نام و مقام کھو چکا تھا۔ بااعتماد‬ ‫کارکن‘ درپردہ اس کے نہ رہے تھے۔ دھندے کے لوگ‘ زوراور‬ ‫کے ساتھ مل چکے تھے۔ انتظامیہ میں وہ بہادر شاہ ظفر سے‬ ‫زیادہ نہ رہا تھا۔ لوگوں میں‘ بھی اس کی شہرت خراب ہو گئی‬ ‫تھی۔ اس نے زوراور کو مروانے کی کوشش بھی کی لیکن یہ‬


‫کوشش اسے بڑی مہنگی پڑی۔ دوسری طرف‘ زوراور نے بااثر‬ ‫لوگوں کو‘ اپنا کرنے کی مہم تیز کرنے کے ساتھ کم زور طبقوں‬ ‫کے لیے روٹی کے دروازے کھول دیے۔ اس نے سب سے بڑھ‬ ‫کر کام یہ کیا‘ کہ عالقے میں ڈاکوں کی تعداد کو‘ محدود کر دیا۔‬ ‫ڈاکہ صرف منحرف لوگوں کے ہاں ہی پڑتا۔ ہاں آس پاس کے‬ ‫تین عالقے جن پر وہ تصرف وتسلط کا ارادہ رکھتا تھا۔ پر‬ ‫چوری اور ڈاکے کا دروازہ کھول دیا۔ وہاں کی انتظامیہ اور‬ ‫چودھریوں کے خاص بندے‘ اس کے بندے تھے۔‬ ‫اس کے پاس‘ وسائل کی کمی نہ رہی تھی‘ دوسرا اب وہ عالقے‬ ‫کا معتبر اور معزز ترین شخص تھا۔ ایک کمزور‘ ناکام اور بدنام‬ ‫شخص کو‘ چودھراہٹ کا حق نہ رہا تھا۔ یہ بھی کہ چودھری کو‬ ‫مروا کر‘ اس کے وسائل پر قبضہ کرنا‘ مشکل نہ رہا تھا اور یہ‬ ‫وقت کی اہم ترین ضرورت تھی۔ اسے ابھی بہت کچھ کرنا تھا۔‬ ‫اس کے پاس‘ ضائع کرنے کے لیے وقت نہ تھا۔ اس نے ایک‬ ‫ہی جھٹکے میں‘ چودھری کو فارغ کرکے‘ ناصرف فارغ کیا‘‬ ‫بلکہ اس کے جملہ وسائل کو‘ اپنے قبضہ میں لے لیا۔ کام کے‬ ‫مردوں کو‘ چلم برداری سونپ دی۔ خوب صورت لڑکیاں‘ خواب‬ ‫گاہ میں پنچا دی گئیں۔ عورتوں پر ترس کھاتے ہوئے‘ اپنے‬ ‫کاموں کو‘ جنسی معامالت کے لیے‘ سونپ دیں۔ اب محدا‬ ‫زوراور‘ وہ نہ رہا تھا‘ لوگ اسے‘ ملک محمود زوراور کے نام‬ ‫سے پہچاننے لگے۔‬


‫پہچان کی تبدیلی نے‘ اس کے اعتماد کو جال بخشی۔ اب وہ کسی‬ ‫واردات میں‘ خود نہ شامل ہوتا بلکہ اس کے کامے یہ کام انجام‬ ‫دینے لگے۔ اب وہ ڈیرے میں بیٹھ کر‘ آئے گیے کے ساتھ‬ ‫معامالت کرتا۔ اقتدار کی حصولی کے بعد اس نے یہی سیکھا‘ کہ‬ ‫اعتماد اقتدار کا‘ سب سے بڑا دشمن ہے۔ جب کسی پر‘ معمولی‬ ‫سا بھی شبہ گزرتا‘ تو وہ وقت ضائع کیے بغیر‘ اس کا اور اپنا‬ ‫مخالف تالشتا۔ مناسب شخص میسر آنے پر‘ اسے غدار اور غیر‬ ‫کی مخبر زندگی سے‘ آزادی دال دیتا۔ دوسرے کو‘ انصاف کے‬ ‫نام پر سر عام لٹکا دیتا۔ مرتے شخص میں بھی‘ اتنی جرآت نہ‬ ‫ہوتی‘ کہ ملک صاحب کا نام زبان تک لے آئے۔‬ ‫اس نے عالقے میں‘ چوری چکاری کی ضرورت کو طالق دے‬ ‫دی۔ اس کی ضرورت ہی کیا تھی۔ زمین سامان کی حیثیت ہی کیا‘‬ ‫لوگ اس کے‘ ہتھ بدھے غالم تھے۔ وہ اس کے اشاروں پر‘‬ ‫ناچتے تھے۔ مذہبی حلقوں کا پیٹ اور منہ خالی رکھنا‘ جرم‬ ‫سمجھتا تھا۔ انہیں منہ مانگا‘ ان کی ضرورت سے کہیں بڑھ کر‬ ‫میسر آتا تھا۔ وہ بڑا ادب نواز تھا۔ قصیدہ خواں شعرا کو نوازتا‬ ‫رہتا تھا۔ وہ اس پر خوش تھے۔ اس نے ارد گرد کے عالقوں‬ ‫میں‘ اندھیر مچا دیا۔ لوٹ مار اور ڈاکہ زنی الگ‘ عالقوں کے‬ ‫چودھریوں کی عزت کو مٹی میں مالنے کے لیے‘ ہر حیلہ‬ ‫اورحربہ اختیار کر دیا۔‬ ‫قبیلہ سالح‘ خوش حالی اور امن پسندی کے لیے‘ معروف چال‬


‫آتا تھا۔ اس قبیلے کا چودھری‘ بڑی شے بنتا تھا۔ چھوٹے قبیلوں‬ ‫پر تسلط حاصل کرنا مشکل نہ تھا‘ لیکن قبیلہ سالح ذرا ٹیڑھی‬ ‫کھیر تھا۔ اس نے قبیلہ ثالیفہ‘ کو غیرت دالئی‘ کہ سالح والے‘‬ ‫ان کے عالقوں پر قابض چلے آتے ہیں اور وہ اپنے عالقے‬ ‫واپس نہیں لے رہے۔ قبیلہ اوخ اور قبیلہ تنوخ والوں کو بھی‘‬ ‫مختلف حربےاختیار کرکے‘ سردار سالح کے خالف کر دیا۔‬ ‫اول اول‘ ان چار قبیلہ کے سرداروں میں‘ سرد جنگ چلی اور یہ‬ ‫پورے دو سال چلی۔ ان چاروں کے مابین‘ تلخی اشتعال کے‬ ‫دروازے پر آ پہنچی۔ اب بس آگ دکھانے کی ضرورت تھی۔ ملک‬ ‫زوراور نے‘ موقع دیکھ کر ضرب لگا ہی دی۔ پھر کیا‘ چاروں‬ ‫قبیلے آپس میں بھڑ گیے۔ ملک زوراور نے‘ غیرجانب داری کا‬ ‫اعالن کر دیا۔ چاروں قبیلے‘ قیامت سے دوچار تھے۔ کئی دن‬ ‫قیامت خیزی رہی۔ بالشبہ تینوں قبیلے بڑی دلیری سے لڑے‘‬ ‫لیکن قبلہ سالح کو زیر کرنے میں ناکام رہے۔ ہاں البتہ قبلیہ‬ ‫سالح بھی‘ معاشی بیماریوں کا شکار ہو گیا۔ اس آویزش میں‘‬ ‫بہت سارے‘ بےگناہ موت کے گھاٹ اتر گیے۔ سرداروں کے‬ ‫مفادات میں‘ زیادہ تر لوگ ہی کام آتے ہیں۔ امن ہو‘ تو لوگ‬ ‫سردار کے لیے کماتےہیں۔ جنگ ہو‘ تو لوگ سردار کے مفاد کی‬ ‫لڑائی میں‘ زندگی سے ہاتھ دھوتے ہیں‬ ‫چاروں قبیلوں میں بدامنی پھیل گئی۔ جنگ ختم ہونے کے بعد‬ ‫بھی‘ موت زندگی کی دشمن بنی رہی۔ انسانی تقاضوں کے پیش‬


‫نظر‘ ملک زوراور نے‘ ایک ایک کرکے‘ چاروں قبیلوں پر تسلط‬ ‫حاصل کر لیا۔ امن قائم کرنے اور زندگی کی بحالی میں‘ کئی ماہ‬ ‫لگ گیے۔ وہ ان کے سرداروں کے‘ خون سے ہاتھ رنگ کر‘‬ ‫تاریخ میں اپنے کردار کو‘ بدنما نہیں کرنا چاہتا تھا۔ انہیں بہ‬ ‫طور جنگی مجرم‘ عدالت کے سپرد کر دیا۔ ہر عالقے سے‘ ایک‬ ‫ایک منصف لیا گیا۔ چند دنوں کی کاروائی کے بعد‘ ان چاروں کو‬ ‫موت کی سزا سنائی گئی۔‬ ‫تین چار سال بعد ہی‘ لوگ ماضی میں برپا ہونے والی قیامت کو‘‬ ‫بھول گیے۔ ملک زوراور نے امن کی بحالی کے لیے‘ ہر ناجائز‬ ‫قدم اٹھایا۔ پانچ عالقے ایک عالقہ ہو گیے۔ وہ بہت بڑی قوت‘‬ ‫قوت واحدہ بن گیے تھے۔ باغیوں اور سرکشوں کے سوا‘ کسی‬ ‫کے ہاں ڈاکہ نہ ڈلواتا تھا۔ ہاں‘ ان کے آس پاس کے سبھی‬ ‫قبیلے‘ ڈاکوں کی زد میں آگیے۔ کسی میں بولنے اور آواز‬ ‫اٹھانے کی ہمت نہ تھی۔‬ ‫ملک زوراور اٹھتا بیٹھتا‘ ان پر بھی قبضہ جمانے کی سوچتا‬ ‫رہتا۔ کسی کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہو پاتی‘ کہ کب کیا ہونے‬ ‫واال ہے۔ وہ قبیلوں کے سرداروں کو دعوتیں دیتا۔ ان سے بڑی‬ ‫محبت اور خلوص سے پیش آتا۔ انہیں عزت اور احترام سے‬ ‫نوازتا۔‬ ‫ویر جی‘ عالقے کے لوگوں کی بےحسی اور غالمی کو دیکھ‬ ‫کر‘ آزردہ ہوتے۔ وہ شخصی آزادی کو‘ ترقی کے لیے‘ الزمہ‬


‫سمجھتے تھے۔ انہوں نے‘ لوگوں کو‘ اپنے خیاالت کے حصار‬ ‫میں‘ لینا شروع کر دیا تھا۔ نئی سوچ‘ پروان چڑھنے لگی۔ لوگ‬ ‫ان کی بڑی عزت کرتے اور احترام دینے تھے۔ وہ اپنے لقمے‘‬ ‫بھوکوں کے سپرد کر دیتے۔ انہیں ہمیشہ‘ لوگوں کے دکھ درد‬ ‫کی چنتا رہتی۔ ان کا موقف تھا‘ انسان کو‘ دوسرے انسان کی‬ ‫خدمت کے لیے‘ پیدا کیا گیا ہے۔ اکثر کہتے‘ حرام لقموں کو‘ منہ‬ ‫میں رکھنے کی بجائے‘ بھوکے رہنا‘ ہزار درجہ بہتر ہے۔ وہ‬ ‫انسان کے خالق کی‘ ہر لمحہ تعریف کرتے۔ جب کسی دکھی کو‬ ‫دیکھتے‘ تو اسے حوصلہ دیتے۔ فرماتے‘ فکر نہ کرو‘ مالک‬ ‫تمہیں تم سے زیادہ جانتا ہے۔ وہ کوئی ناکوئی‘ سبب ضرور پیدا‬ ‫کر دے گا۔ انہیں مل کر‘ روح میں سکون اتر جاتا۔ آنکھیں‘‬ ‫ٹھندک سے بھر جاتیں۔‬ ‫ان کے پاس‘ لوگوں کا ہجوم بڑھنے لگا۔ اس ایریا کے سربراہ‬ ‫کو‘ ویر جی کی مقبولیت کھٹکنے لگی۔ اسے گمان گزرا‘ کہ ویر‬ ‫جی‘ یہ سب اقتدار پر قابض ہونے کے لیے‘ کر رہے ہیں۔ ویر‬ ‫جی‘ تو دلوں پر حکومت کرتے تھے۔ انہیں اس جھوٹے اقتدار‬ ‫سے‘ کیا غرض تھی۔ مال و دولت‘ ان کے کام کی چیزیں نہ‬ ‫تھیں۔ یہی عنصر‘ لوگوں کو ان کے قریب ال رہا تھا۔ اقتداری‬ ‫طبقے کو‘ ویر جی کانٹے کی طرح‘ چھبنے لگے۔ وہ ان پر‘ ہاتھ‬ ‫نہیں ڈال سکتے تھے۔ ہر روز‘ دو چار شکائتیں ملک زوراور‬ ‫کے پاس پہنچنے لگیں۔ ملک زوراور کے کان کھڑے ہوئے۔ اس‬ ‫کے ذاتی مخبر نے‘ بھی ویر جی کی عوام میں مقبولیت کو بیان‬


‫کیا۔ ایک بار وہ خود‘ بھیس بدل کر آیا۔ ویر جی کی عزت احترام‬ ‫اور عوام کی‘ ان سے محبت نے اسے بھی سوچنے پر مجبور‬ ‫کر دیا۔‬ ‫اس نے سوچا‘ ویر جی کی بڑھتی مقبولیت‘ اس کے اقتدار کے‬ ‫لیے‘ کسی وقت بھی خرابی کا سبب بن سکتی ہے۔ اس نے‘ ہر‬ ‫طبقہ کے مذہبی علما کا اجالس طلب کیا۔ ان کی دل کھول کر‬ ‫خدمت کی۔ ان کے منہ میں‘ ضرورت سے زیادہ رکھ دیا۔ ہر‬ ‫مذہبی لیڈر نے‘ ویر جی کی نقل وحرکات کو‘ مذہب دشمنی قرار‬ ‫دے دیا اور اس کی موت کو‘ وقت کی اہم ضرورت کا نام دے دیا۔‬ ‫آہ۔۔۔۔۔ کتنی بدنصیب تھی وہ صبح‘ ویر جی کو‘ موت کے حوالے‬ ‫کر دیا۔ وقت کا سرمد‘ چال تو گیا‘ لیکن محبتوں کی یادیں چھوڑ‬ ‫گیا۔ ملک زوراور کے کوئی نہ منہ آ سکا۔ ملک پھر سے‬ ‫دوسرے عالقوں کے وسائل پر تسلط وتصرف کی سوچ میں پڑ‬ ‫گیا۔ اسے یاد تک نہ رہا کہ اس نے کتنا بڑا ظلم ڈھا دیا ہے۔‬ ‫شاعر اور مورخ‘ اس کے کارناموں کو‘ درج کرنے میں‬ ‫مصروف ہو گیے۔ اگر کسی نے‘ اس کی سیاہ کاریوں کا تذکرہ‬ ‫کیا‘ تو عالمتوں‘ استعاروں اور اشاروں کنائیوں میں کیا۔ ہاں‬ ‫رحمان بابا سے بھی‘ موجود تھے۔ ملک زوراور نے اور عالقے‬ ‫بھی تسلط میں لے لیے۔ عیش کی گزار کر وقت کی دھول میں گم‬ ‫ہو گیا۔‬ ‫درسی کتب میں‘ ملک زوراور کے کارنامے داخل ہو گیے۔ ویر‬


‫جی کی شہادت‘ عالمتوں استعاروں اور رحمان بابا ایسے لوگوں‬ ‫کے باعث‘ صاحبان دل کی‘ آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا قرار‬ ‫ٹھہری۔ ملک زوراور کبھی بھی‘ تنازعہ کے دروازے سے باہر‬ ‫نہ نکل پایا۔ ملک زورا ور کی‘ فتوحات سے انکار ممکن نہیں‘‬ ‫لیکن یہ کیسی کامیابیاں ہیں‘ جو دیانت کے قتل‘ کے گواہ‬ ‫ویرجی‘ کے وجود کو‘ بےوجود نہیں کر سکیں۔ لوگ‘ آج بھی‘‬ ‫ویر جی کا نام سن کر‘ ادب سے سر جھکا لیتے ہیں۔‬ ‫ملک دروازے سے‘ باہر نکلنے کی‘ جب بھی کوشش کرتا ہے‘‬ ‫ویر جی‘ سامنے آ کھزے ہوتے ہیں‘ اور وہ‘ خوف کی چادر‬ ‫لپیٹ کر‘ واپس مڑ جاتا ہے۔‬

‫انگریزی فیل‬

‫میں اور اسلم‘ ایک ساتھ‘ ایک ہی سکول میں‘ پڑھتے تھے۔‬ ‫ہمارا بڑا یارانہ تھا۔ ہم ایک دوسرے کے ہاں‘ اکثر آتے جاتے‬ ‫رہتے تھے۔ اسلم بالشبہ‘ بڑا محنتی طالب علم تھا‘ لیکن غیر‬ ‫معمولی ذہین نہیں تھا۔ اس کے برعکس‘ مجھے ذہین طلبا میں‬


‫شمار کیا جاتا تھا۔ استاد کے منہ سے نکلی بات‘ میرے حافظے‬ ‫میں بیٹھ جاتی تھی۔ اس کا مطلب یہ نہیں‘ کہ میں گھر آ کر پڑھتا‬ ‫نہیں تھا۔ پڑھا ہوا سبق‘ گھر آ کر ضرور دھراتا‘ بلکہ اسے‬ ‫زبانی لکھتا بھی تھا۔ مجھے کئی بار‘ اساتذہ نے شاباش بھی دی‬ ‫تھی۔ اسلم کو شاید ہی‘ کبھی کسی استاد سے‘ شاباش ملی ہو‬ ‫گی۔ ہاں رٹابازی میں‘ میں بالکل نکما تھا۔ سچی بات تو یہ ہے‘‬ ‫کہ رٹا بازی سے‘ مجھے گھن سی آتی تھی۔ میرے برعکس‘‬ ‫اسلم رٹابازی میں اپنا جواب نہیں رکھتا تھا۔ انگریزی کے سوا‘‬ ‫میں دوسرے مضامین میں‘ اس سے زیادہ نمبر حاصل کرتا۔‬ ‫انگریزی سے‘ میری جان جاتی تھی۔ انگریزی ناپسندیدہ مضمون‬ ‫ہو کر بھی‘ میں اسے زیادہ وقت دیتا۔ کئی بار سوچتا‘ کہ ماسٹر‬ ‫انگریزی پڑھا کر‘ شاید مجھے صدر کنیڈی کی سیٹ پر بیٹھانا‬ ‫چاہتے ہیں۔‬ ‫اسلم رٹے کے بل بوتے پر‘ میٹرک میں سیکنڈ ڈویژن لے کر‘‬ ‫پاس ہو گیا۔ میں نے‘ انگریزی کے سوا‘ دوسرے مضامین میں‘‬ ‫اسلم سے کہیں بڑھ کر‘ نمبر حاصل کیے‘ لیکن انگریزی میں‘‬ ‫انیس نمبر سے زیادہ حاصل نہ کر سکا۔ بدقسمتی دیکھیے‘‬ ‫دوسرے مضامین میں‘ معقول نمبر حاصل کرنے کے باوجود‘‬ ‫فیل قرار دے دیا گیا۔ والد صاحب نے‘ ناصرف جھڑکیں دیں‘ بلکہ‬ ‫پہنٹی بھی لگائی۔ مجھے جھڑکوں اور پہنٹی کا سرے سے مالل‬ ‫نہیں۔ وہ سچے تھے‘ اگر میں میٹرک میں کامیاب ہو جاتا‘ تو‬ ‫میری زندگی بن جاتی۔ مجھے اصل مالل یہ رہا‘ کہ میں پڑھ لکھ‬


‫کر بھی‘ ان پڑھوں میں شمار ہوا۔‬ ‫والد صاحب نے‘ دوبارہ امتحان دینے پر‘ بڑا زور دیا‘ لیکن میرا‬ ‫اصرار تھا‘ جب تک انگریزی کورس میں شامل ہے‘ میں دوبارہ‬ ‫امتحان نہیں دوں گا۔ والد صاحب میرے اس موقف پر‘ تاؤ میں آ‬ ‫جاتے اور مارنے کے لیے آگے بڑھتے‘ تو والدہ آڑے آ جاتیں۔‬ ‫وہ گریب سر پکڑ کر بیٹھ جاتے‘ اس کے سوا اور کر بھی کیا‬ ‫سکتے تھے۔ میں کیا جانو‘ کہ انگریزی تو جنرل ایوب بھی‘ ختم‬ ‫نہیں کر سکتا تھا‘ وہ خود انگریزی بولتا تھا۔ اسے کیا پڑی‘ کہ‬ ‫میری خاطر‘ انگریزی مضمون سکولوں سے ختم کرا دے۔ اسلم‬ ‫میٹرک میں پاس ہو جانے کے بعد‘ کسی دفتر میں بابو بھرتی ہو‬ ‫گ ی ا۔‬ ‫والد صاحب مجھے ایک خرادیے کے پاس چھوڑ آئے۔ انہوں نے‬ ‫اسے کہا‘ ٹھوک کر کام لو۔ ان کا خیال تھا‘ کہ ملوکڑا سا ہوں‘‬ ‫محنت سے تنگ آ کر‘ دوبارہ امتحان دینے پر‘ تیار ہو جاؤں گا۔‬ ‫میں نے ٹھان لی‘ کہ محنت کر لوں گا‘ لیکن انگریزی کے‬ ‫خاتمے تک‘ دوبارہ امتحان نہیں دوں گا۔ بات تو بڑی شرم والی‬ ‫تھی‘ کہ اسلم جو میرا ہم جماعت تھا‘ اجال لباس پہن کر‘ دفتر‬ ‫جاتا اور میں‘ میال کچیال لباس اور قنچی چپل پہن کر مزدوری‬ ‫کے لیے جاتا۔‬ ‫شریف خرادیے نے‘ ایک وقت میں‘ کئی شوق پال رکھے تھے۔‬ ‫بال بچے دار ہو کر‘ اس کے‘ کئی عورتوں سے مراسم تھے۔‬


‫اس کے عالوہ بھی‘ تانک جھانک اور ٹھرک سے باز نہ آتا۔ ہر‬ ‫عورت سے‘ ایک ہی ڈائیالگ بولتا‪ :‬قسم لے لو‘ تمہارے سوا‘‬ ‫میری زندگی میں کوئی نہیں۔ تم میری پہلی اور آخری محبت ہو۔‬ ‫اس کی پہلی اور آخری محبت‘ کوئی بھی نہ تھی۔ وہ ابھی جوان‬ ‫اور صحت مند تھا‘ اس لیے‘ کسی کو‘ اس کی آخری محبت کہنا‘‬ ‫کھلی حماقت تھی۔‬ ‫اطوار یہ ہی بتاتے‘ کہ ابھی تو آغاز محبت ہے۔ وہ اس میدان‬ ‫میں قناعت کا قائل نہ تھا۔ مجھے ان کے پیام بر ہونے کا اعزاز‬ ‫حاصل رہا ہے۔ فرمائشی اشیا بھی‘ میں پنچا کر آتا تھا۔ انہوں‬ ‫نے تاکید کر رکھی تھی‘ کسی دوسری کا ذکر نہیں کرنا۔ ان کے‬ ‫گھر بھی سودا سلف پنچانا‘ میرے فرائض میں داخل تھا۔ بیگم‬ ‫صاحب نے کئی بار کریدا‘ میں نے کبھی‘ کسی معاملے کا اشارہ‬ ‫تک نہ دیا۔ اس کے صلہ میں‘ جسے میں اعزازیہ سمجھتا ہوں‘‬ ‫عطا فرماتے۔ دوسرے کام سیکھنے والوں میں سے‘ میں انہیں‬ ‫بہت عزیز تھا۔‬ ‫شریف صاحب کے دوستوں میں‘ دو تین پینے کا بھی شغل‬ ‫رکھتے تھے۔ سب شاگردوں کو چھٹی ہو جاتی‘ لیکن مجھے کام‬ ‫وغیرہ کے لیے‘ روک لیتے۔ کھانے کی چیزیں بچ رہتی تھیں‘‬ ‫ان سب پر میں ہاتھ صاف کرتا۔ شام کے بعد‘ وہ مل بیٹھتے‘ اور‬ ‫ایک دو پیک بھی لگاتے۔ ان میں ایک صاحب جلد بہک جاتے۔‬


‫خمار میں تو سب ہی ہوتے‘ لیکن وہ کچھ زیادہ ہی اوور ہو‬ ‫جاتے۔ ہر قسم کی باتیں کرتے۔ بہت سی باتیں خیالی ہوتیں۔‬ ‫ایک صاحب‘ سیاست سے دل چسپی رکھتے تھے۔ وہاں دری پر‬ ‫بیٹھے بیٹھے اکبراعظم بن جاتے۔ باقی سب انہیں جی حضور‘‬ ‫جی سرکار کہتے۔ تالی بجاتے‘ میں تالی کی آواز سن کر‘ حاضر‬ ‫ہو جاتا۔ مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرماتے‘ خادم خاص!‬ ‫انارکلی سے کہہ دو‘ ہم اس کا گانا سننے کے لیے بےتاب ہیں۔‬ ‫میں باہر آ کر فلم مغل اعظم کا یہ گانا۔۔۔۔۔۔۔ جب پیار کیا تو ڈرنا‬ ‫کیا۔۔۔۔۔۔۔ گراموں فون پر لگا دیتا۔ سب جھومنے لگتے۔ ان کی‬ ‫حالت‘ بڑی عجیب اور مضحکہ خیز ہو جاتی۔‬ ‫شریف صاحب‘ اپنے جدید و قدیم معاشقوں کی داستانیں‘ چسکے‬ ‫لے لے کر سناتے۔ ان داستانوں میں جنسی واہیاتیاں بھی شامل‬ ‫کرتے جاتے۔‬ ‫ایک صاحب‘ قماربازی کا شوق رکھتے تھے۔ ان کی ہر کہانی کا‬ ‫انجام یہ ہی ہوتا‘ کہ بازی سو فی صد میری تھی‘ لیکن فالں پتہ‬ ‫دغا دے گیا‘ ورنہ ہم سب نوٹوں میں کھیلتے۔ انہیں ہر بار یقین‬ ‫ہوتا‘ کہ اگلی بازی ان کی ہی رہے گی۔ پھر وہ نوٹوں میں زبانی‬


‫کھیلتے۔ بڑے بڑے منصوبے بناتے۔ بدقسمتی دیکھیے‘ ایک بار‬ ‫بھی‘ جیت ان کا مقدر نہ بنی۔ ہمت والے تھے‘ جیت کی امید‬ ‫میں‘ اگلی بار بھی میدان میں اترتے۔‬ ‫شریف صاحب کے ساتھ‘ میں پورے سات سال رہا۔ ایک دن‘ پتا‬ ‫چال کہ وہ دنیا سے کنارہ کر گیے ہیں۔ ان کی دکان اور سامان‬ ‫پر‘ ان کے سالوں نے قبضہ کر لیا۔ ہم سب شاگرد پیشہ لوگوں‬ ‫کو‘ چلتا کیا گیا۔ اس کے بعد میں نے‘ کئی اس ہنر سے متعلق‬ ‫لوگوں کے ساتھ‘ کام کیا۔ شریف صاحب کے ساتھ کام کا جو مزا‬ ‫مال تھا‘ کسی اور کے ہاں سے نہ مل سکا۔ سب سڑیل اور ٹوٹ‬ ‫ٹوٹ کر پڑنے والے تھے۔ اکنی اکنی کا حساب کرتے تھے۔ اپنا‬ ‫کھانا‘ لوازمات کے ساتھ منگواتے تھے لیکن ہمارے لیے‘ بس‬ ‫ٹوٹل پورا کرتے۔ کھاتے وقت ہم میں سے کوئی‘ ان کے قریب‬ ‫نہیں جا سکتا تھا۔ اجرت بھی رو رو کر ادا کرتے۔ کئی بار جی‬ ‫چاہا‘ کہ اس پیشے کو چھوڑ کر‘ کوئی اور پیشہ اختیار کر لوں‘‬ ‫یا اپنا کام شروع کر دوں۔ ہر نئے کام کے لیے‘ رقم درکار ہوتی‬ ‫ہے‘ لیکن میرے پاس تو کچھ بھی نہ تھا۔ اگر ابا زندہ ہوتے‘ وہ‬ ‫ضرور کچھ ناکچھ کرتے۔ اسلم بڑا بابو بن چکا تھا اور مجھے‬ ‫انگریزی لے ڈوبی تھی۔ پتا نہیں‘ اور کتنے لوگ ہوں گے‘‬ ‫جنہیں انگریزی نے‘ کسی کام کا نہیں چھوڑا ہو گا‘ وہ بھی‬ ‫میری طرح‘ دنیا کے دھکوں کی زد میں ہوں گے۔‬


‫یقین مانیے‘ میں نے آج تک کسی لڑکی سے جائز یا ناجائز‬ ‫تعلقات استوار نہیں کیے۔ کسی لڑکی نے‘ مجھے کبھی لفٹ نہیں‬ ‫کرائی۔ یہ بات بھی سچی ہے‘ کہ میں نے کسی لڑکی کو‘ اپنی‬ ‫ماں بہن نہیں سمجھا۔ اس کے باوجود‘ تانک جھانک اور ٹھرک‬ ‫میرا محبوب مشغلہ ہے۔‬ ‫تاش کے بارہ پتے‘ میرا پیچھا کرتے رہتے ہیں اور میں‘ شکیل‬ ‫کے ہاں‘ چال جاتا ہوں رات گیے تک‘ لطف اندوز ہوتا ہوں۔ فری‬ ‫میں کھیلی جانے والی‘ ایک دو بازیاں بھی لگا لیتا ہوں۔ میں‬ ‫اکیال ہی نہیں‘ دیکھنے والے اور لوگ بھی موجود ہوتے ہیں۔ ہم‬ ‫چھوٹی موٹی شرطیں لگا کر‘ اپنا رانجھا راضی کر لیتے ہیں۔‬ ‫شراب پینے سے‘ مجھے کوئی دل چسپی نہیں۔ ہاں شرابیوں کی‬ ‫لذیز باتیں‘ سننے کے لیے کمال صاحب کے ہاں چال جاتا ہوں۔‬ ‫ان سب کی خدمت کرتا ہوں۔ یہ ہی وجہ ہے‘ کہ وہ مجھے اپنا‬ ‫آدمی سمجھتے ہیں۔ کھانے پینے کا چھوڑا ہوا سامان‘ میرے‬ ‫حوالے کر دینے میں بخل نہیں کرتے اور نہ ہی برا محسوس‬ ‫کرتے ہیں۔‬


‫جب میں شراب نہیں پیتا‘ تو لوگ مجھے شرابی کیوں سمجھتے‬ ‫ہیں۔ جوا کھیلنے سے‘ میرا کوئی تعلق واسطہ ہی نہیں‘ اس کے‬ ‫باوجود مجھے جواری کیوں سمجھا جاتا ہے۔ کسی لڑکی نے‬ ‫مجھ سے تعلق استوار ہی نہیں کیا۔ میں بھی‘ گرہ کی کم زوری‬ ‫کے باعث‘ کسی حسینہ سے‘ معاشقہ نہیں کر سکا۔ معمولی‬ ‫تانک جھانک یا رسمی سا ٹھرک بھورنے کے سبب‘ عالقہ میں‬ ‫ذلیل و رسوا ہو گیا ہوں۔ کوئی مجھے شریف آدمی‘ سمجھنے‬ ‫کے لیے تیار ہی نہیں اور اپنی دختر نیک اختر کا رشتہ‘ دینے‬ ‫کے لیے تیار نہیں۔ کنواری تو دور کی بات‘ کوئی طالق یافتہ یا‬ ‫بیوہ بھی‘ میرے ساتھ نکاح کو‘ شجر ممنوعہ خیال کرتی ہے۔‬ ‫سوچتا ہوں‘ مجھے اس حال تک‘ کس نے پنچایا ہے؟ میں خود‬ ‫اس کا ذمہ دار ہوں‘ یا یہ سب‘ انگریزی کا کیا دھرا ہے؟‬ ‫انگریزی کو الزمی مضمون بنانے کی آخر کیا ضرورت ہے۔ کون‬ ‫سا‘ ہر کسی نے‘ غیر ممالک میں سفیر بن کر جانا ہوتا ہے۔‬ ‫بازار کا کام کب انگریزی کے ساتھ چلتا ہے۔ کورٹ کچیری اور‬ ‫دفاتر میں کام کب انگریزی میں چلتے ہیں۔ کچیری میں‘ مباحث‬ ‫مقامی زبان میں ہوتی ہے۔ بس لکھائی‘ انگریزی میں ہوتی ہے۔‬ ‫انگریزی میں لکھے جانے کے سبب‘ کئی کئی دن فصیلہ ملنے‬ ‫میں لگ جاتے ہیں۔ غیروں کی زبان ہونے کے باعث‘ کئی نکتے‬ ‫نکل آتے ہیں‘ اور اس طرح‘ کوئی بات اٹل قرار نہیں پاتی۔ اپیلو‬


‫اپیلی ہی کی گھمن گھیریوں میں‘ مسائل پھنسے رہتے ہیں۔ اسلم‬ ‫جو‘ رٹے باز تھا‘ بڑا بابو بنا بیٹھا ہے۔ رعب جمانے کے لیے‘‬ ‫گالبی ارو بولتا ہے۔ میں اس کی اصل حقیقت سے آگاہ ہوں۔ میں‬ ‫کچھ بھی کہتا رہوں‘ محض بکواس ہو گا۔ لوگ بات کو نہیں‘ بات‬ ‫کرنے والے‘ اور اس کی حیثیت کو دیکھتے ہیں۔‬ ‫سماج نے‘ شریف صاحب سے لوگوں کو‘ کیوں ڈھیل دے رکھی۔‬ ‫سماج میں‘ ہنر کے لیے‘ اس سے لوگ ہی تو استاد ہیں۔ میں‬ ‫اپنی صفائی میں‘ کچھ بھی کہتا رہوں‘ کوئی نہیں مانے گا۔ مجھ‬ ‫سے انگریزی کے مارے‘ سماج کے دو نمبری ہی رہیں گے۔‬ ‫انہیں کوئی اپنی بیٹی کا رشتہ نہیں دے گا۔ کرسی پر بیٹھے‬ ‫لوگوں کی دو نمبری‘ کسی کو نظر نہیں آتی۔ لوگ اس کی حیثیت‬ ‫کو دیکھیں گے۔ رشوت‘ بےایمانی‘ ہیرا پھیری اور حرام خوری‘‬ ‫ان کی کرسی یا کرسی والے سے انسالک‘ کے پیٹ میں چال‬ ‫جائے گا۔ کتنا بھی غلط ہوتا رہے‘ انگریزی کا دامن نہیں چھوڑا‬ ‫جائے گا۔ انگریزی ذہانیں نگلتی رہے گی‘ اور کوئی کچھ نہیں‬ ‫کر سکے گا۔ میں یا مجھ سے‘ انگریز فیل‘ کچھ بھی کر لیں‘‬ ‫بیوی‘ ان کے نصیب سے‘ باہر رہے گی۔‬


‫چوتھی مرغی‬

‫اس سے پہلے‘ اس نے تین مرغیاں ذبح کیں۔ ہر مرغی نے‘‬ ‫گردن پر چھری واال ہاتھ آنے سے پہلے‘ تھوڑا بہت شور مچایا۔‬ ‫جوں ہی گردن‘ قصاب کی دو انگلیوں میں آتی‘ وہ اس کے بعد‘‬ ‫شور بھی نہ مچا سکی۔ وہ کھلی آنکھوں سے‘ اپنی موت کا‬ ‫منظر دیکھتی۔ پھر وہ دیکھنے سے بھی‘ ہمیشہ کے لیے‬ ‫محروم ہو گئی۔ چوتھی مرغی کی گردن پر چھری آنے ہی کو‬ ‫تھی‘ کہ بڑی بڑی مونچھوں والے‘ رستم نما ایک صاحب آ گیے۔‬ ‫انہوں نے مرغی ذبح کرنے سے منع کر دیا۔ اس مرغی کا‬ ‫گوشت‘ مجھے ملنے واال تھا۔ مجھے بڑا تاؤ آیا‘ لیکن ان کا جثہ‬ ‫اور مونچھیں‘ حد درجہ خطرناک ہی نہیں‘ خوف ناک بھی تھی۔‬ ‫اس پر طرہ یہ کہ انہوں نے‘ سات آنے زیادہ دے کر‘ مرغی‬ ‫خرید لی۔ قصاب ملنے والوں میں سے تھا۔ اس نے ہیلو ہائے کو‬ ‫باالئے طاق رکھتے ہوئے‘ سات آنوں کو‘ اہمیت دی۔ خاموشی‬ ‫کے سوا کیا ہو سکتا تھا۔‬ ‫میں نے اس شخص سے دریافت کیا‘ کہ آخر اس مرغی میں کیا‬ ‫خاص بات ہے‘ جو وہ سات آنے زیادہ دے کر‘ اسے حاصل کر‬ ‫رہا ہے۔ میری بات کو سن کر‘ وہ ہنس دیا۔ بوال باؤ جی آپ نہیں‬ ‫جانتے‘ کہ یہ مرغی کیا چیز ہے۔ یہ مرغی‘ بڑی نسلی مرغی‬


‫ہے۔ اس نسل کا ایک مرغا‘ میرے پاس ہے۔ یہ میری قسمت بنا‬ ‫دے گی۔ میں اگلے چند سالوں میں‘ امیر ہوجاؤں گا۔ آپ دیکھتے‬ ‫رہنا۔۔۔۔۔۔ کتنا احمق تھا‘ جو یہ کہہ رہا تھا۔ میرے پاس اتنا وقت‬ ‫کہاں‘ جو میں مرغی کو دیکھتا پھروں۔ میں نے پھر پوچھا‘ کیا‬ ‫قصاب اس حقیقت سے آگاہ نہ تھا۔ وہ آگاہ تھا‘ لیکن اس نسل کا‬ ‫مرغا نہ ہونے کی وجہ سے‘ یہ مرغی اس کے لیے کوئی‬ ‫معنویت نہ رکھتی تھی۔‬ ‫میں نے یہ سوچ کر‘ خاموشی اختیار کی‘ کہ گوشت ہی کھانا‬ ‫ہے‘ اس مرغی کا ہو‘ یا اس مرغی کا‘ اس سے کیا فرق پڑتا‬ ‫ہے۔ مجھے لوگوں کی جہالت پر‘ افسوس ہوا۔ شیخ چلی کی سی‬ ‫سوچ رکھتے ہیں۔ مرغوں کے حوالہ سے‘ امارت آتی ہو‘ تو دنیا‬ ‫سارے کام کاج چھوڑ کر‘ اسی جانب لگ جائیں۔ میں دیر تک‘ ان‬ ‫سوچوں کے گرداب میں پھنسا رہا‘ کہ ہم بھی کیسی عجیب قوم‬ ‫ہیں‘ دنیا ترقی کرکے کہاں کی کہاں‘ پہنچ گئی۔ ہم ابھی تک‘ ان‬ ‫الیعنی اور بے معنی اشغال میں پڑے ہوئے ہیں۔ آخر ان اشغال‬ ‫کی‘ کیا معنویت ہے۔ غریب قوموں کو‘ اس قسم کے اشغال‘ وارہ‬ ‫نہیں کھاتے۔ ایک طرف بھوک نے نڈھال کر رکھا ہے‘ تو‬ ‫دوسری طرف انگریز کا سجن طبقہ‘ جس کے ہاتھ میں‘ وہ‬ ‫زندگی کی طنابیں دے گیا تھا‘ جونک کی طرح‘ اس عظیم خطہ‬ ‫کے لوگوں کا‘ خون چوس رہا ہے۔ لوگوں پر باور کر دیا گیا‬ ‫ہے‘ کہ یہ اس قوم کے ہیرو ہیں۔ قوم کے لیے‘ لڑنے مرنے اور‬ ‫جیلوں میں جانے والے‘ ڈاکو قرار دے دیے گیے ہیں۔ وہ جنہوں‬


‫نے‘ لمحہ بھر کی بھی صعوبت نہیں اٹھائی‘ عظمتوں کے معمار‬ ‫قرار پائے ہیں۔ آج تک‘ یہ کلی طور پر‘ طے نہیں پایا‘ کہ تقسیم‘‬ ‫خطہ کی ہوئی ہے‘ یا مسمان قوم کی ہوئی ہے۔ اوپر سے مذہبی‬ ‫طبقہ‘ انسانوں کو قریب نہیں آنے دیتا۔ دیر تک سوچنے کے بعد‘‬ ‫میں اس نتیجہ پر پہنچا‘ کہ منتشر اور حقائق سے دور قوموں‬ ‫کی زندگی‘ مرغوں اور بٹیروں کے گرد طواف کرتی رہتی ہے۔‬ ‫معاشی بھاگ دوڑ نے‘ مجھے اس قسم کی سوچوں سے‘‬ ‫کوسوں دور کر دیا۔ جب فرد‘ ذات کے خول میں گم ہو جاتا ہے‘‬ ‫تو اجتماع کے اچھے برے‘ کی سوچوں سے دور۔۔۔۔۔ بہت دور‬ ‫چال جاتا ہے۔ اسے صرف اور صرف‘ اپنی بھوک یاد رہتی ہے۔‬ ‫خونی رشتے بھی‘ اس بھاگ دوڑ میں‘ اپنی شناخت سے محروم‬ ‫ہو جاتے ہیں۔ ایسے عالم میں‘ چھینا جھپٹی اصول اور ضابطہ‬ ‫ٹھہرتی ہے۔ میں بھی‘ یہ سب بھول گیا۔ مجھے کیا پڑی‘ جو‬ ‫مرغوں اور بٹیروں کی سوچ میں‘ پڑ کر‘ جی ہلکان کرتا۔ کسی‬ ‫کو کہا بھی تو نہیں جا سکتا۔ سچ کہنے واال‘ سماج دشمن قرار‬ ‫پا کر‘ زہر کا مسحق سمجھا جاتا ہے۔ اب ہر کوئی‘ سقراط بننے‬ ‫سے رہا۔‬ ‫ایک دن‘ میں بازار سے گزر رہا تھا۔ شہر کے بڑے چوک کے‬ ‫بائیں‘ ایک اشتہار آویزاں تھا۔ یہ اشتہار‘ مرغوں کی لڑائی سے‬ ‫متعلق تھا۔ ایک عرصہ پہلے کی بات‘ ایک بار پھر میرے ذہن‬ ‫میں گھوم گئی۔ اشتہار پڑھ کر‘ میرا دماغ چکرا گیا۔ کیسی‬


‫بےحس اور الپرواہ قوم ہے۔ جنگ سے نکلے‘ ابھی چند ماہ ہی‬ ‫گزرے ہوں گے‘ اور یہ‘ مرغوں کی لڑائیاں کروا رہی ہے۔ جس‬ ‫جنگ سے‘ قوم گزری تھی‘ کیا وہ کافی نہ تھی۔ کیا اب بھی‬ ‫لڑائی دیکھنے کی‘ کوئی کسر باقی رہ گئی تھی۔ میں ان ہی‬ ‫سوچوں میں گرفتار‘ ضروری خریداری کے بعد‘ گھر واپس آگیا۔‬ ‫اچانک‘ میرے ذہن میں‘ چوتھی مرغی گردش کرنے لگی۔ ایک‬ ‫تجسس سا نمودار ہوا۔ پھر میں نے‘ مرغوں کی لڑائی دیکھنے‬ ‫کا‘ فیصلہ کر لیا۔‬ ‫میں وقت پر ہی‘ مرغوں کے پڑ میں پہنچ گیا۔ میں یہ دیکھ کر‘‬ ‫حیران رہ گیا‘ کہ پڑ میں‘ بہت سارے لوگ موجود تھے۔ میری‬ ‫آنکھیں‘ مونچھوں والی سرکار کو‘ تالش کر رہی تھیں۔ میں‬ ‫سوچ بھی نہیں سکتا تھا‘ کہ مونچھوں والی سرکار‘ سرپنچ ہو‬ ‫گی۔ میں اسے لوگوں میں تالشتا رہا۔ وہ عام لوگوں میں‘ موجود‬ ‫نہ تھا۔ میں زیرلب مسکرایا‘ شیخ چلی طبع کے لوگ‘ عملی‬ ‫زندگی میں‘ اپنا وجود باقی نہیں رکھتے۔ میں گھر واپس جانے‬ ‫کے لیے مڑا ہی تھا‘ کہ سامنے گاؤ تکیہ لگی چارچائی‬ ‫پر‘مونچھوں والی سرکار‘ اکیلے ہی تشریف فرما تھی۔ اس کے‬ ‫ارد گرد‘ اس کے چیلے کھڑے تھے۔ ایک چیلہ‘ اس کے کندھے‘‬ ‫جب کہ دوسرا پاؤں دبا رہا تھا۔ میں نے پاس کھڑے‘ ایک‬ ‫شخص سے‘ مونچھوں والی سرکار کا‘ تعارف جاننا چاہا۔ جواب‬ ‫دینے سے پہلے‘ اس شخص نے مجھے‘ سر سے پاؤں تک‬ ‫دیکھا‘ پھر بڑی حیرت سے پوچھا‘ کیا تم سیٹھ نادر کو نہیں‬


‫جانتے۔ دیکھنے مرغوں کی لڑائی آئے ہو‘ اور سیٹھ نادر کو‬ ‫نہیں جانتے‘ بڑے ہی افسوس کی بات ہے۔ میں نے مزید سوال‬ ‫جواب کی بجائے‘ سیٹھ نادر کے پاس جانا مناسب سمجھا۔‬ ‫میں سیٹھ نادر کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔ سیٹھ نادر نے‘‬ ‫مجھے پہچانا تک نہیں۔ میں نے خود ہی‘ اپنا تعارف کروایا‘ اور‬ ‫برسوں پہلے کا واقعہ یاد کرایا۔ سیٹھ نادر نے‘ بڑا دھواں دھار‬ ‫قہقہ داغا‘ اور کہا‘ هللا نے اس مرغی کے طفیل‘ بڑے پہاگ‬ ‫لگائے ہیں۔ آج میں الکھوں میں کھیلتا ہوں۔ لوگ بڑی عزت‬ ‫کرتے ہیں۔ وہ اس چوتھی مرغی کی وجہ سے‘ امیر کبیر ہوگیا‬ ‫تھا۔ جب کہ میں‘ ابھی تک‘ اس پرانےعہدے پر ہی فائز تھا۔‬ ‫ساالنہ ترقیوں کے عالوہ‘ مجھے کچھ نہ مال تھا۔ مجھ سے تو‘‬ ‫مرغی پالنے واال‘ ہزار گنا بہتر اور خوش حال زندگی‘ گزار رہا‬ ‫تھا۔ ایک ان پڑھ‘ کہیں کا کہیں جا پہنچا تھا۔ میں پڑھ لکھ کر‬ ‫بھی‘ کچھ نہ کر سکا تھا۔ جاہل معاشروں میں‘ ان پڑھ ہی ترقی‬ ‫کرتے ہیں۔ ایسے حاالت میں‘ پڑھنا کھلی حماقت ہوتی ہے۔‬ ‫جہاں میں‘ اس زندہ تضاد پر غم گین تھا‘ وہاں یہ بھی سوچ رہا‬ ‫تھا کہ ہر ماڑے کی گردن‘ تگڑے کی دو انگیوں کی گرفت میں‬ ‫رہتی ہے۔ احتجاج کے لیے کھال منہ‘ کھال ہی رہ جاتا ہے اور‬ ‫احتجاجی کلموں کو‘ منہ سے باہر آنے کا‘ موقع بھی نہیں مل‬ ‫پاتا۔ جنگل کا شروع سے‘ یہ ہی وتیرا رہا ہے۔ جہاں میں بسیرا‬ ‫رکھتا تھا‘ وہاں رہتے توانسان تھے‘ لیکن ان کے اطوار اور‬


‫قانون‘ جنگل کے قانون سے‘ کسی طرح کم نہ تھے۔ اس جبر‬ ‫کی فضا‘ اور ماحول میں‘ ایک بات ضرور موجود تھی‘ کہ‬ ‫بچانے واال‘ چوتھی مرغی کو‘ بچا ہی لیتا ہے۔ اس کی نسل‘‬ ‫آتے وقتوں میں‘ اس کے ہونے‘ اور بچانے والے مہاکاتکر‘ کی‬ ‫گواہی دیتی رہتی ہے۔‬

‫انا کی تسکین‬

‫وہ ہر اس بڑی دکان کا‘ اتا پتا جانتا تھا‘ جن کا صرف نام ہی‬ ‫تھا‘ لیکن وہاں سامان دو نمبر ملتا تھا۔ یہ ہی نہیں‘ وہ اان کی‬ ‫اصولی عادتوں سے بھی آگاہ تھا۔ رشوت‘ بابو کا اصولی حق‬ ‫ہے‘ اور اس کی ادائیگی کے بغیر‘ سائل کی مراد پوری نہیں ہو‬ ‫سکتی۔ یہاں قدرے جبری صورت ملتی ہے۔ بڑی دوکان بھی‘‬ ‫پہلے سوال کی طرح‘ الزمی کے درجے پر فائز ہے۔ بیگمی‬ ‫فرمان ہو‘ یا دفتری فرمائش‘ اس بڑی دکان کا رخ کرنا‘ مجبور‬ ‫شخص کی مجبوری ہو جاتی ہے۔ مانگ کے تحت‘ اس دکان کے‬ ‫مالک اور کارکنوں کا‘ مزاج بھی دفتری اور بیگمی ہو جاتا ہے۔‬ ‫مال دو نمبر‘ مزاج شاہانہ‘ یہ حیرت سے خالی نہیں‬


‫سوال یہ تھا‘ کہ دو نمبری‘ اے پلس کے درجے پر کیوں فائز ہو‬ ‫جاتا ہے۔ دوکان کی تزئین وآرائش میں‘ کوئی کسر باقی نہیں‬ ‫ہوتی۔ ہر چیر‘ شوکیسوں میں سجی سجائی نظر آتی ہے۔ مال کی‬ ‫غازہ کاری پر‘ پورا پورا زور دیا گیا ہوتا ہے۔ مال کو دیکھتے‬ ‫ہی‘ منہ سے پانی کی نہریں جاری ہو جاتی ہیں۔ ٹرن آوٹ ہی‘‬ ‫عزت اور منگ کا سبب بنتا ہے۔ شکم دوست‘ شکم نواز‘ اس‬ ‫حسن قاتل پر‘ مر مٹتے ہیں۔ ناچاہتے ہوئے‘ مہنگے داموں خرید‬ ‫لیتے ہیں۔ ان بڑی دوکانوں کی پیش کش‘ دہائی کی ہوتی ہے۔‬ ‫شاپر دیکھ کر‘ شاپربردار کا اسٹیٹس جان جاتے ہیں۔‬ ‫جہاں سامان جاتا ہے‘ وہ شاپر‘ اور شاپر میں موجود ڈبا‘ ان‬ ‫کے بلند مرتبے کی‘ نشان دہی کر دیتا ہے۔ بناؤ سنگار میں‘‬ ‫معمولی معمولی چیزوں کو بھی‘ نظر میں رکھا گیا ہوتا ہے۔ اسی‬ ‫طور سے‘ دو نمبری اے پلس میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اگر‬ ‫بناؤ سنگار کی کوئی معنویت نہ ہو‘ تو دلہن کو سجانے کے‬ ‫لیے‘ سو جتن کیوں کیے جائیں۔‬ ‫وہ جانتا تھا‘ اس نظریاتی شہر و معاشرہ میں‘ کوئی کام بال‬ ‫دیے‘ نہیں ہو سکتا۔ سفارش کی عزت اپنی جگہ‘ لیکن مطلوبہ‬ ‫میرٹ کے لیے‘ ادائیگی کی اپنی ہی بات ہے۔ ادائیگی کے ساتھ‘‬ ‫خود سے یا فرمائشی تحائف کی اپنی ہی حیثیت ہوتی ہے۔ پیٹ‘‬ ‫ان سب سے بازی لے جاتا ہے۔ بڑی اور شہرت یافتہ دکان سے‘‬ ‫کھالنے پالنے کی صورت میں‘ فائل کی بلند پروازی پر‘ شاہین‬


‫بھی شرمندہ ہو جاتا ہے۔‬ ‫وہ اعتباری شخص تھا۔ وہ برسوں سے‘ یہ ہی کام کرتا چال آ رہا‬ ‫تھا۔ سائل اور دفاتر کا عملہ‘ مطمن تھا۔ وہ اطراف میں معاملہ‬ ‫طے کر لیتا تھا۔ وہ کتنا رکھتا ہے‘ اور کتنا نہیں رکھتا‘ کسی کو‬ ‫اعتراض کرنے کی گنجائش نہیں رہتی تھی۔ وہ سوغات اور‬ ‫کھانے کے پیسے بھی‘ شمار کر لیتا تھا۔ اگر وہ ان سے کسی‬ ‫ایک کی ڈنڈی مار لیتا‘ تو یہ اس کی اپنی حکمت عملی تھی۔‬ ‫صاف ظاہر ہے‘ اس بچت کے لیے‘ سو طرح کے حربے‘‬ ‫استعمال کرتا ہو گا۔ بہت کم اتفاق ہوا ہو گا کہ وہ کھانا بچا پایا ہو‬ ‫گا۔‬ ‫پچھلے کچھ سالوں سے‘ اس نے کھانا خود ہی الزمی کر دیا‬ ‫تھا۔ جہاں کھانے کی بچت ممکن ہوتی‘ وہاں بھی‘ کھانا ضرور‬ ‫کھالتا۔ دوسری بڑی تبدیلی یہ آئی‘ پہلے وہ خود بھی ساتھ کھاتا‬ ‫تھا‘ لیکن اب وہ اپنے لیے‘ محض دال روٹی منگواتا۔ اس نے‬ ‫چھوٹے اور درمیانے ہوٹلوں کو طالق دے دی۔ جب بھی رخ‬ ‫کرتا‘ تو بڑے اور معروف ہوٹل کا رخ کرتا۔ اس بابو کی خودی‬ ‫کو تقویت میسر آتی۔ خودی بلند ہو جانے کے سبب‘ معاوضے‬ ‫میں کمی کر دیتا اورممکنہ جلدی میں کام کروا دیتا۔‬ ‫عصمت پکوان ہاؤس سے‘ کھانا‘ کھانا‘ ہر ایرے غیرے کے بس‬ ‫کا روگ نہ تھا۔ یہ ہوٹل‘ ایک سیاسی شخصیت کا تھا۔ کسی کو‬ ‫اس کی جانب میلی نظروں سے دیکھنے کی‘ جرآت نہ تھی۔‬


‫کھانے تو خوب صورت ہوتے ہی تھے‘ لیکن اس کے برتن اور‬ ‫سروس کا‘ کوئی جواب ہی نہ تھا۔ عالقے کے باالئی طبقے‘ پیٹ‬ ‫پوجا کے لیے‘ عصمت پکوان ہاؤس کا رخ کرتے۔ اس سے‬ ‫جہاں مصالحے اور چٹخارے دار پکوان میسر آتے‘ وہاں عموم‬ ‫اور خصوص میں موجود گیپ کی وضاحت بھی ہو جاتی۔ عموم‬ ‫جو سڑکی کھانا کھاتے تھے‘ انہیں اپنی اوقات میں رہنے کا‬ ‫سلیقہ آ جاتا۔‬ ‫کسی کو یہ معلوم ہی نہ تھا‘ یہاں مردہ بکروں‘ چھتروں اور‬ ‫گائے بھینسوں کے‘ انتہائی خفیہ انداز سے‘ پکوان چڑھتے‬ ‫تھے۔ مزے کی بات یہ کہ‘ ہوٹل کے منیجر سے چوکی دار تک‬ ‫کو‘ اس کی خبر نہ تھی‘ مگر شرافت‘ اس کی خبر رکھتا تھا۔‬ ‫اس کی زبان تک یہ بات نہ آتی تھی۔ ہاں‘ اس نے منیجر سے‬ ‫مک مکا کر رکھا تھا‘ جس کی وجہ سے‘ اسے اوروں سے‘ کم‬ ‫دام ادا کرنا پڑتے تھے۔‬ ‫بیگ پائے‘ تو دور دراز تک‘ اپنا شہرہ رکھتے تھے۔ وہاں سے‘‬ ‫جو ایک بار کھا لیتا‘ پھر بار بار کام چھوڑ کر وہاں آتا۔ لذت‬ ‫میں‘ وہ اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ اچھا خاصا بڑا ہوٹل ہونے‬ ‫کے باوجود‘ وہاں جگہ نہ ملتی۔ اس بھیڑ کے باوجود‘ لوگ باہر‬ ‫پڑے بنچوں پر‘ کھانے میں کوئی عار محسوس نہ کرتے۔ گاہگ‬ ‫تلخ کالمی کر سکتے تھے‘ لیکن مالزم سے مالک تک‘ برداشت‬ ‫اور تحمل سے کام لیتے تھے۔ بیگ صاحب بھلے اور شریف‬


‫آدمی تھے‘ لیکن ریٹ میں رو رعایت کو‘ گناہ کبیرہ جانتے‬ ‫تھے۔ سری پائے‘ عصمت پکوان ہاؤس میسر کرتا تھا۔ بیگ‬ ‫صاحب کے فرشتوں کو بھی‘ علم نہیں تھا کہ یہ چھوٹے بڑے‬ ‫پائے‘ مردہ جانوروں کے ہیں۔ شرافت یہاں ہی سے‘ بابو‬ ‫بادشاہوں کی صحت بناتا تھا۔ شرافت کیا‘ زمانہ جانتا تھا کہ‬ ‫سپالئی‘ عصمت پکوان ہاؤس سے آتی ہے۔‬ ‫الل ہوٹل‘ تیسرے نمبر پر تھا۔ شوشا تو بڑی تھی‘ لیکن دام‘‬ ‫عصمت پکوان ہاؤس سے کم تھے۔ جب بجٹ کی کمی آتی‘ تو‬ ‫شرافت بڑے طریقے سے‘ ان ماتحت افسروں کو یہاں لے آتا‬ ‫تھا۔ انصاف کی بات یہ ہے‘ کہ ان کے کھانوں کا ذائقہ بھی‘ اپنی‬ ‫نوعیت کا ہوتا تھا۔ شرافت کے‘ ہوٹل کے مالک سے بھی ہیلو‬ ‫ہائے تھی۔ وہ اس کے ساتھ مستقل گاہک ہونے کے باعث‬ ‫خصوصی رعایت برتتے تھے۔ شرافت جانتا تھا‘ کہ عصمت‬ ‫پکوان ہاؤس کے ڈرم میں پھینکے کھانے کو‘ خصوصی نکھار‬ ‫کے ساتھ یہاں سرو کیا جاتا ہے۔ براتوں میں لوگ‘ کھانا بڑی‬ ‫بدسلیقگی کے ساتھ کھاتے ہیں۔ کھانے کی توہین‘ تقریبوں میں‬ ‫ہی ہوتی ہے۔ الل ہوٹل کے مالک جاوید صاحب کے بڑے بیٹے‘‬ ‫شرف بدسلیقہ سے کھائی گئی بوٹیوں کو‘ بڑے طریقہ سے لے‬ ‫آتے تھے۔ وہی توہین کی زد میں آنے واال کھانا‘ احترام اور‬ ‫سلیقہ سے شرفا کی خدمت میں‘ بڑی عزت کے ساتھ پیش کر‬ ‫دیا جاتا۔ شرافت کے علم میں کھانے کی عزت افزائی سے متعلق‬ ‫معلومات موجود تھیں۔‬


‫سالے فرائض کی ادئیگی کے بھی‘ دام اٹھاتے ہیں۔ حرام کھاتے‬ ‫ہیں۔ ان کے جو ہتھے چڑھ جاتا ہے‘ اسے چھیل کر رکھ دیتے‬ ‫ہیں۔ گریب لوگوں پر بھی‘ ترس نہیں کھاتے۔ سائل النے والوں‬ ‫کی تو ان کی نظر میں رائی بھر عزت نہیں۔ دام لے کر بھی‘‬ ‫احسان جتاتے ہیں۔ احسان ہی کیا‘ دھتکارتے بھی ہیں۔ شرافت‬ ‫دیر تک سوچتا رہا۔ بابو صابر کا طرز عمل‘ اسے کچکوکے‬ ‫لگاتا رہا۔ وہ بے آب ماہی کی طرح‘ دیر تک چارپائی پر کروٹیں‬ ‫بدلتا رہا۔ پھر اس نے طے کیا‘ کہ وہ ہر معاملے کے بابو کو‬ ‫کھانا ضرور کھالئے۔ حرام تو پہلے کماتے ہیں۔ وہ حرا م کا‬ ‫کھانا کھال کر‘ انہیں ڈبل حرامی بنانے کا چارہ کرے گا۔ اس‬ ‫سوچ نے‘ شاید اس کی انا کو تسکین بخش دی تھی۔ یہ ہی وجہ‬ ‫تھی‘ کہ وہ تھوڑی ہی دیر بعد‘ گہری نیند میں چال گیا۔‬

‫گناہ گار‬

‫اس کا دادا جان فیسلے‘ مشرقی چرچ میں پاسٹر تھا۔ علم اور‬ ‫پرہیزگاری میں‘ شہرت رکھتا تھا۔ نرمی دلی اور محبت اس کی‬ ‫شخصیت کے نمایاں وصف تھے۔ عالقے میں دیگر مذاہب کے‬


‫آنے والے علما سے‘ اس کی مالقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔ ایک بار‘‬ ‫وہ تبلیغی مشن پر‘ دور دراز مشرقی عالقوں میں بھی گیا تھا۔‬ ‫اتھارٹیز‘ ناصرف اس کے علم وفضل کی معترف تھیں‘ بلکہ اس‬ ‫کے شخصی خصائل کو بھی‘ قدر کی نگاہ سے دیکھتی تھیں۔‬ ‫جان فیسلے‘ جب فوت ہوا‘ تو اس کی ذاتی الئبریری سے‘ بڑی‬ ‫شان دار اور نایاب کتب دستاب ہوئیں۔ یہ کتب‘ چرچ کے کتب‬ ‫خانہ میں‘ منتقل کر دی گئیں۔ چرچ کے کتب خانہ کو‘ کتب عطیہ‬ ‫کرنے کی ہدایت‘ جان فیسلے ہی کر گیے تھے۔ یقینا‘ انہوں نے‬ ‫بڑی عقل مندی سے کام لیا تھا‘ ورنہ یہ علمی سرمایہ ردی‬ ‫چڑھتا۔ ان کا لڑکا‘ پڑھا لکھا تو تھا‘ لیکن اسے تھیالوجی سے‘‬ ‫کوئی دل چسپی نہ تھی۔ اس کے لیے یہ کتب‘ کسی کام کی نہ‬ ‫تھیں‘ ہاں کتب نے‘ اچھی خاصی جگہ گھیر رکھی تھی۔ جان‬ ‫فیسلے ایک کتاب‘ اسے باطور خاص دے گیے تھے اور اسے‘‬ ‫حفاظت میں رکھنے کی ہدایت کر گیے تھے۔ انہوں نے یہ بھی‬ ‫تاکید کی‘ کہ جب سائینہ بڑی ہو گی‘ تو یہ کتاب‘ اسے اس ہدایت‬ ‫کے ساتھ دے دی جائے‘ کہ وہ اس کتاب کو اپنی نسل کو‬ ‫خصوصی ہدایت کے ساتھ منتقل کرتی رہے گی۔‬ ‫سلوچے نے‘ اس کتاب کو پڑھنے کی سرتوڑ کوشش کی‘ لیکن‬ ‫وہ اس کتاب کا ایک جملہ بھی‘ نہ پڑھ سکا۔ کتاب کا خط مقامی‬ ‫تھا۔ وہ اس خط میں کئی کتب پڑھ چکا تھا۔ وہ کیا‘ اس عالقے کا‬ ‫ہر فرد اس خط سے آگہی رکھتا تھا۔ سلوچے کتاب کو خط کے‬


‫حوالہ سے پڑھ سکتا تھا‘ لیکن اس میں لکھا کیا گیا تھا‘ اس‬ ‫کی سمجھ سے قطعی باالتر تھا۔ خط عالقے کا تھا‘ لیکن اس کی‬ ‫زبان عالقے کی زبان نہ تھی۔ اسے پڑھنے کی‘ بہت سے پڑھے‬ ‫لکھے لوگوں نے بھی کوشش کی۔ حرام ہے‘ جو کسی کے پلے‬ ‫کچھ پڑا ہو۔ پھر اس نے‘ دو ایک پروفیسر حضرات کو بھی‬ ‫زحمت دی۔ وہ بھی اس کتاب کو پڑھنے سے معذور رہے۔ تھک‬ ‫ہار کر‘ اس نے اسے مقدس امانت سمجھ کر‘ اپنے باکس میں‬ ‫محفوظ کر دیا۔‬ ‫اس نے سائینہ کو‘ عالقے کی اچھی درس گاہوں میں‘ تعلیم‬ ‫دلوائی۔ اسے دور مشرق کے‘ ایک کثیر اللسان عالقے میں‘‬ ‫پڑھنے کا موقع بھی میسر آ گیا۔ وہ بڑی خوش تھی‘ کہ اس کے‬ ‫دادا کو بھی‘ وہاں جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ ان کا وہاں قیام‘ اگرچہ‬ ‫چند ماہ کا تھا‘ لیکن وہ باتیں اس طرح کرتے تھے‘ جیسے وہ‬ ‫اس عالقہ کے رہے ہوں۔ وہ اس وقت بہت ہی چھوٹی تھی‘ لیکن‬ ‫بھولے ہوئے خواب کی طرح‘ اسے کچھ کچھ یاد تھا۔ جب ان کا‬ ‫انتقال ہوا‘ پچاسی سے تجاوز کر چکے تھے۔ وہ سائینہ سے‘‬ ‫بڑا پیار کرتے تھے‘ لیکن وہ اسے بڑا ہوتا نہ دیکھ سکے‬ ‫تھے۔ سائینہ کی بھی یہ بدقسمتی تھی‘ کہ وہ دیر تک ان کی‬ ‫محبت اور شفقت نہ دیکھ سکی تھی۔ موت کب رو رعایت سے‘‬ ‫کام لیتی ہے‘ چپکے سے‘ آتی ہے‘ اور جیتے جاگتے انسان کو‬ ‫جانے کہاں لے کر چلی جاتی ہے۔‬


‫اب وقت آ گیا تھا‘ کہ سلوچے‘ سائینہ کو‘ اس کے دادا کی امانت‬ ‫دے دے۔ سائینہ اس کی صحیح حق دار بھی تھی۔ وہ ناصرف بال‬ ‫کی ذہین تھی‘ بلکہ اپنے دادا کی طرح ہم درد‘ پیار کرنے والی‬ ‫اور تھیالوجی سے بھی‘ بڑی گہری دل چسپی رکھتی تھی۔ کتاب‬ ‫اس کے حوالے کرتے وقت سلوچے نے خوشی محسوس کی۔‬ ‫اسے یوں لگا‘ جیسے بہت بڑا بوجھ‘ اس کے سر سے سرک‬ ‫گیا ہو۔ اسے یہ بھی خوشی ہوئی‘ کہ اس کی بیٹی اپنے دادا کے‬ ‫قدموں پر تھی۔‬ ‫سائینہ‘ اپنے عظیم دادا کی کتاب پا کر بڑی خوش ہوئی۔ اس کے‬ ‫دادا نے‘ یقینا‘ اسے نایاب اور قیمتی تحفے سے نوزا تھا۔ دو دن‬ ‫گزر جانے کے باوجود‘ اس کی تھکن ابھی دور نہ ہوئی تھی۔‬ ‫لیکن وہ‘ اپنے دادا کی کتاب پا کر‘ سب کچھ بھول گئی۔ وہ اپنے‬ ‫کمرے میں آ کر‘ بڑے سکون سے‘ کتاب کو الٹ پلٹ کر‬ ‫دیکھنے لگی۔ اس کی حیرانی کی انتہا نہ رہی‘ کہ رسم الخط‬ ‫مقامی تھا‘ لیکن اس میں ہندوی زبان میں‘ مضمون پیش کیا گیا‬ ‫تھا۔ خوشی کی بات تو یہ تھی‘ کہ مقامی زبان کا رسم الخط‘‬ ‫استعمال میں آیا تھا۔ اگر ہندوی رسم الخط ‘ استعمال کیا ہوتا‘ تو‬ ‫شاید وہ ایک لفظ بھی نہ پڑھ پاتی۔ وہ ہندوی سمجھ سکتی تھی‘‬ ‫لکھنا‘ پڑھنا اور بولنا اس کے بس کا روگ نہ تھا۔ وہ پورے دو‬ ‫سال اس والیت میں رہ آئی تھی‘ لیکن وہ صرف سمجھنے کی‬ ‫حد تک رہ پائی تھی۔ وہ حیران رہ گئی‘ اس کے دادا صرف چند‬ ‫ماہ‘ اس والیت میں رہے تھے۔ انہوں نے سلوکین رسم الخط میں‬


‫بڑی روانی سے بہت کچھ لکھ دیا تھا۔‬ ‫دادا جی نے‘ دنیا کے معروف مذاہب کے‘ بہت سے‘ الہامی‬ ‫کلموں کو‘ کتاب کی زینت بنایا تھا۔ ایک ایک شبد‘ آب زر سے‬ ‫لکھے جانے کے قابل تھا۔ سائینہ بڑی روانی‘ دل چسپی اور‬ ‫گہری عقیدت کے ساتھ پڑھتی گئی۔ اسے لطف آ رہا تھا۔ لگتا‬ ‫تھا‘ کہ آج ہی‘ ایک نشت میں‘ ساری کتاب پڑھ جائے گی۔ اسے‬ ‫تھکن‘ اور نیند کا‘ رائی بھر‘ احساس نہ تھا۔ پھر۔۔۔۔۔ ہاں پھر۔۔۔۔۔۔‬ ‫ایک جگہ پر آ کر رک گئی۔ اس سے آگے‘ بڑھ نہ سکی۔‬ ‫عجب الہامی کلمات تھے۔ لکھا تھا‘ خدا تمام رازقوں سے‘ بڑھ‬ ‫کر‘ اور بہتر رزق عطا کرنے واال ہے۔ انہوں نے دالئل بھی دیے‬ ‫تھے۔ ان کا کہنا تھا‘ عالم ارواح میں‘ وہاں کے مطابق خداوند‬ ‫ہی رزق دیتا ہے۔ ماں کے پیٹ میں‘ اس ماحول کے مطابق‘‬ ‫رزق عطا کرتا ہے۔ پیدائش کے ساتھ ہی‘ رزق کا بندوبست کر‬ ‫دیتا ہے۔ دونوں پستانوں کا دودھ ‘ ذائقہ اور تاثیر میں‘ ایک سا‬ ‫نہیں ہوتا۔ یہ ہی نہیں‘ ضرورت کے مطابق‘ اس میں بھی‬ ‫تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ مرنے کے بعد بھی‘ اس ہئیت کے مطابق‘‬ ‫خداوند رزق فراہم کرتا ہے۔ بالشبہ‘ اس سے بڑھ کر‘ کوئی‬ ‫رازق نہیں۔‬ ‫انہوں نے‘ اس سے آگے فرمایا‘ کہ اگر انسان سے زمینی‬ ‫استحصال پسند قوتیں‘ رزق چھین لیں‘ تو وہ اس شخص کے‬ ‫اندر‘ رزق فراہم کرنے کی قدرت رکھتا ہے‘ اور کوئی نہیں‘ جو‬


‫مزاحم آ سکے۔ انہوں نے لکھا‘ تمہاری دادی کو‘ جب بھی کوئی‬ ‫مہمان آتا‘ رونا پڑ جاتا۔ اسے رزق میں کمی کا خدشہ‘ الحق ہو‬ ‫جاتا۔ میں نے کئی بار سمجھایا‘ لیکن یہ بات‘ اس کی سمجھ میں‬ ‫نہ آسکی۔ ہماری بحث بھی ہو جاتی۔ ایک بار‘ ایک بھوکا میرے‬ ‫پاس آ گیا۔ اس نے اپنی بھوک کا تذکرہ کیا۔ میں نے تمہاری‬ ‫دادی کو‘ اسے کچھ دینے کو کہا۔ وہ اس پر بیھر گئی۔ مجھے‬ ‫اس کی اس حرکت پر افسوس‘ نہیں صدمہ ہوا۔ میں نےاپنا کھانا‬ ‫اٹھا کر‘ اس بھوکے کو دے دیا۔ تمہاری دادی کی اس حرکت‬ ‫نے‘ مجھے اس سے‘ ذہنی طور پر بہت دور کر دیا۔‬ ‫مارکیکس‘ بہت اچھی عورت تھی۔ گریبوں اور ناداروں کی‘ بڑی‬ ‫ہم درد تھی۔ مجھے غیرعورتوں سے‘ کبھی دل چسپی نہیں رہی‘‬ ‫لکن اس کی دیالو اور کرپالو خصلت نے‘ دلی طور پر‘ اس کے‬ ‫قریب کردیا۔ وہ بھی میرے قریب ہوتی گئی اور پھر ہم ایک‬ ‫دوسرے کے‘ جسموں کے شناسا ہو گیے۔ اس کا خاوند مکمل‬ ‫مرد نہ تھا۔ اس کے ہاں ہونے والے بچے‘ میرے بچے ہیں۔ میں‬ ‫جانتا تھا؛ اور جانتا ہوں کہ یہ گناہ تھا۔ میں اعتراف کر رہا ہوں۔‬ ‫میں نے چرچ میں جا کر بھی‘ اعتراف کیا ہے۔ میرے اعتراف کا‬ ‫کوئی گواہ نہ تھا۔ اب تم میرے اعتراف کی گواہ ہو۔ میرے لیے‬ ‫خداوند سے دعا کرنا‘ کہ وہ مجھے معاف کر دے۔ مجوزہ کفارہ‘‬ ‫میں نے ادا کر دیا ہے‘ اس کی تم فکر نہ کرنا۔‬ ‫سائینہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی‘ کہ اس کا دادا گناہ گار ہے۔‬


‫وہ دیر تک‘ سوچتی رہی‘ کہ کاش اس کے دادا سے‘ یہ گناہ‬ ‫سرزد نہ ہوتا۔ اچانک خوشی کی ایک لہر؛ اس کی رگ وپے میں‬ ‫ابھری۔ پورے عالقے میں‘ ان کا دادا کی طرف سے‘ کوئی رشتہ‬ ‫دار نہ تھا۔‬ ‫وہ اس خوشی میں‘ سوچوں کے تانے بانے بننے لگی۔ اسے‬ ‫بہت سے کزن میسر آگیے تھے۔ وہ دیر تک ان سے ملنے کے‘‬ ‫منصوبے بنانے لگی۔ دکھ سکھ پائیدار نہیں ہوتا‘ وہ یہ سوچ‬ ‫کر‘ دکھی ہوگئی‘ کہ یہ سب عام کرنے کا نہیں ہے۔ خداوند پردہ‬ ‫پوشی کرتا ہے‘ وہ پردہ اٹھا کر‘ گناہ گار کیوں ہوتی۔ اس سے‬ ‫فائدہ کی بجائے‘ نقصان ہوتا۔ یہ دو مرحومین کو‘ ذلت کی کھائی‬ ‫میں اتارنے کے مترادف تھا۔ دوسری طرف‘ اسے اس بات نے‬ ‫بھی‘ پریشان کر دیا‘ کہ اس کے دادا نے‘ کتاب کی منتقلی کی‬ ‫ہدایت کرکے‘ خود کو کیوں ننگا کرنا چاہا ہے۔ کیا وہ یہ ثابت‬ ‫کرنا چاہتے ہیں‘ کہ آدمی جو دکھائی دیتا ہے‘ وہ نہیں ہوتا‘ اس‬ ‫کے باطن میں‘ گناہ گار کہیں ناکہیں ضرور چھپا ہوا ہوتا ہے‬

‫بڑے ابا‬


‫میں یہ تو نہیں کہتا‘ کہ میرے دادا بہت بڑے پیر فقیر یا درویش‬ ‫تھے‘ ہاں اتنا ضرور کہوں گا‘ کہ ان کے بہت اچھا انسان ہونے‬ ‫میں‘ شک نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ہم درد اور پیار کرنے والے‬ ‫انسان تھے۔ میں نے تو‘ انہیں بڑھاپے کے عالم میں دیکھا تھا۔‬ ‫ان کی جوانی کے‘ بہت سے ساتھی‘ چلے گیے تھے۔ اگر کوئی‬ ‫باقی رہ گیا تھا‘ تو گھر پر کم ہی آتا تھا۔ میرا‘ گھر کے دوسرے‬ ‫لوگوں سے زیادہ‘ دادا جی کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا تھا۔ یہ نہیں‘ کہ‬ ‫وہ کسی کو اپنے قریب آنے نہیں دیتے تھے‘ اصل واقعہ یہ تھا‘‬ ‫کہ میری ماں کسی کو‘ ان کے قریب نہ آنے دیتی تھی۔ ان کے‬ ‫خیال میں‘ دادا پرانی اور گھسی پٹی باتیں سنا کر‘ بچوں کی‬ ‫عادتیں خراب کرتے تھے۔ دوسرا وہ کھانستے رہتے تھے۔ ماں‬ ‫اس خدشے سے‘ کہ کہیں کسی بچے کو‘ کوئی بیماری الحق نہ‬ ‫ہو جائے‘ ہم بچوں کو‘ ان سے دور رکھتی تھیں۔ بس ایک میں‬ ‫تھا‘ جو کسی ناکسی طریقے اور بہانے سے‘ ان کے قریب رہتا۔‬ ‫دادا جی کو‘ ہم سب بڑے ابا‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ ہم میں سے‬ ‫کوئی‘ جب ان کے پاس جاتا‘ بڑے خوش ہوتے۔ تھوڑی دیر بھی‬ ‫نہ ہو پاتی‘ کہ امی بال لیتیں۔ بڑے ابا سے‘ میری قربت کی‘ کئی‬ ‫وجوہ تھیں‘ لیکن دو باطور خاص تھیں۔ ایک یہ کہ‘ میں حساب‬ ‫میں بالکل نکما تھا اور وہ میری‘ اس سلسلے میں‘ بھرپور مدد‬ ‫کرتے۔ انہیں حساب اچھا خاصا آتا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی‘ کہ‬ ‫جب بھی‘ مجھے اپنے پاس دیکھتے‘ بڑا خوش ہوتے۔ اپنے‬ ‫حصہ سے بچا کر‘ کھانے پینے کی چیزیں دے دیتے۔‬


‫ایک دن‘ امی‘ ابا کے سامنے ہی‘ ان کے منع کرنے کے‬ ‫باوجود‘ بڑے ابا کو کوسنے دے رہی تھیں۔ میں نے‘ امی کو ذرا‬ ‫سخت لہجے میں‘ منع کرنے کی کوشش کی۔ بڑے ابا نے‘ خوش‬ ‫ہونے کی بجائے‘ مجھے ڈانٹا‘ کہ بڑے کے سامنے نہیں بولنا‬ ‫چاہیے۔ یہ بات‘ امی پر بھی فٹ آتی تھی‘ لیکن انہوں نے امی کو‬ ‫کچھ نہ کہا۔ شاید‘ ان کے سمجھانے کا‘ یہ ایک انداز تھا۔ امی‘‬ ‫اس پر اور تیز ہو گئیں کہ وہ بچوں کو‘ ڈانتے رہتے ہیں۔ انہوں‬ ‫نے‘ یہاں تک کہہ دیا‘ کہ بڈھے نے تو بچوں کا سانس پی رکھا‬ ‫ہے۔‬ ‫حساب کی اصطالحات کے نام‘ بڑے عجیب اور احمقانہ سے‬ ‫ہوتے ہیں۔ عملی زندگی میں‘ ان کا نام سننے کو نہ ملتا تھا۔‬ ‫خصوصا یہ بٹے‘ میری سمجھ میں نہیں آسکے۔ دو بٹا چار‘‬ ‫چھے بٹا گیارہ۔ جب دو چار پر‘ اور چھے گیارہ پر تقسیم نہیں‬ ‫ہوتا‘ تو اس قسم کے سوال‘ کتاب میں ڈالنے کی ضرورت ہی کیا‬ ‫ہے۔ مجھے ریاضی بنانے والوں کی عقل پر افسوس ہوتا۔ وہ تو‬ ‫وہ‘ ماسٹر بھی‘ اس حماقت خیز عمل کا حصہ بن گیے تھے۔ایک‬ ‫دن‘ میں نے معاملہ‘ بڑے ابا کے سامنے رکھا‘ انہوں نے بڑے‬ ‫پیار اور مثالوں سے‘ معاملے کو واضح کرنے کی کوشش کی۔‬ ‫میری سمجھ میں سب کچھ آ گیا۔ ہاں البتہ‘ ایک مثال بڑی ہی‬ ‫ٹیڑی تھی۔ کہنے لگے‘ بٹا‘ بٹنا سے ہے۔ جب بھی کوئی شے‘‬ ‫بٹنے کے عمل میں داخل ہوتی ہے‘ اس کی ابتدائی قیمت اور قدر‬ ‫میں‘ کمی واقع ہوتی چلی جاتی۔ مثال آپ کے پاس سو رپے‬


‫تھے‘ آپ نے پچاس روپے‘ اپنے چھوٹے پھائی کو دے دیے‘‬ ‫آپ کے پاس پچاس بچ گیے۔ پچاس میں پچیس‘ آپ کی چھوٹی‬ ‫بہن نے لے لیے‘ اس طرح آپ کے پاس سو میں پچیس باقی‬ ‫رہے‘ اسی کو‘ بٹنا کہتے ہیں۔ بٹوارا بھی‘ بٹنا سے ہے۔ ایک بٹا‬ ‫دو کا معاملہ‘ میری سمجھ میں آ گیا تھا۔‬ ‫انہوں نے کہا‘ مادی سوچیں اور مادی زندگی‘ شے سے زیادہ‬ ‫حیثیت اور اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ شادی سے پہلے‘ میں ایک‬ ‫تھا‘ شادی کے بعد ایک نہ رہا‘ یا یوں سمجھ لو‘ کہ ایک کی قدر‬ ‫سو ہے۔ شادی کے بعد‘ بٹ کر پچاس رہ گیا۔ تمہاری دادی بھی‬ ‫بٹی۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے‘ کہ اس کے پچاس‘ میرے نہ‬ ‫ہوئے‘ میرے پچاس‘ اس کے نہ ہوئے۔ تمہارے ابا پیدا ہوئے‘‬ ‫بقیہ پچاس تقسیم ہو کر‘ پچیس رہ گیے۔ اس کے بعد‘ تمہاری‬ ‫بڑی پھوپھو پیدا ہوئیں‘ تو پچیس بٹ کر‘ ساڑھے بارہ رہ گیے۔‬ ‫پھر تمہارے چچا کی پیدائش پر‘ ساڑھے بارہ‘ چھے اشاریہ‬ ‫پچیس گیے۔ تمہاری چھوٹی پھوپھو کی پیدائش پر‘ چھے اشاریہ‬ ‫پچیس بٹ کر‘ تین اشارہ ساڑھے بارہ رہ گیے۔ اس کے بعد‬ ‫تمہارے سب سے چھوٹے چچا‘ پیدا ہوئے تو تین اشارہ ساڑھے‬ ‫بارہ بٹ کر‘ ڈیڑھ اشارہ سوا چھے باقی رہ گیے۔ اس کے بعد‬ ‫پوتے‘ پوتیاں‘ ہوئیاں‘ نواسے‘ نواسیاں پیدا ہوئیں‘ تو یہ ڈیڑھ‬ ‫اشارہ سوا چھے بھی تقسیم ہو گیے۔ اس طرح تمہارا بڑا ابا‘ سو‬ ‫سے صفر ہو گیا۔ صفر کو‘ کون اہمیت اور عزت دیتا ہے۔‬


‫تمہاری دادی اماں‘ صفر ہونے کا صدمہ‘ برداشت نہ کر سکی‬ ‫اور اس نے‘ دنیا کو خیرآباد کہہ دیا۔ اس پر یہ حقیقت واضح نہ‬ ‫تھی‘ کہ ہندسہ صفر کے بغیر‘ محدودیت سے باہر نہیں نکل پاتا۔‬ ‫ہندسہ جب صفر کو ساتھی بناتا ہے‘ تو اس کی قیمت‘ ہزاروں‘‬ ‫الکھوں‘ کروڑوں ہو جاتی ہے۔ صفر کچھ بھی نہ ہو کر‘ بہت‬ ‫کچھ کے درجے پر فائز ہو جاتی ہے۔ مجھے معلوم تھا‘ کہ میں‬ ‫جب ہندسے سے مل جاؤں گا‘ کچھ نہیں کا‘ حصار ٹوٹ جائے‬ ‫گا۔ آج تم نے‘ صفر سے الحاق کیا ہے‘ اس سے‘ جہاں تم دس‬ ‫ہوئے‘ وہاں میری قیمت نو ہو گئی ہے۔ یہ احساس‘ مجھے زندہ‬ ‫رکھے گا۔ پھر انہوں نے‘ مجھے اپنے سینے سے لگا لیا۔ ان‬ ‫کی آنکھوں میں‘ آنسو تھے۔ میں آنسووں کی زبان نہ سمجھ‬ ‫سکا۔ یہ آنسو‘ طفل تسلی کے تھے یا میری قربت نے‘ نفسیاتی‬ ‫سطع پر‘ انہیں توانائی عطا کی تھی۔ میں کچھ نہ سمجھ سکا‘‬ ‫ہاں‘ ان کے سینے کی گرمی نے‘ مجھے ایک سے‘ دس کر دیا۔‬

‫دو دھاری تلوار‬

‫بےشک‘ هللا نے انسان کو بہترین مخلوق تخلیق فرمایا ہے۔‬


‫اسے سوچ و بچار کے ساتھ‘ کھوج و تالش کی قوت بھی عطا‬ ‫کی ہے‘ اور یہ کوئی معمولی اعزاز نہیں۔ میں ڈارون کی تحقیق‬ ‫پر حیران تھا۔ ہر جانور ناصرف رہنے کے حوالہ سے‘ مختلف‬ ‫ہے‘ بلکہ کھانے کے اطوار بھی‘ الگ سے رکھتا ہے۔ انسان‬ ‫نے‘ جہاں عالی شان عمارتیں تخلیق کی ہیں‘ وہاں حیرت انگیز‘‬ ‫سائیسی ایجادات سے بھی‘ زندگی کے ہر گوشے کو ماال مال کر‬ ‫دیا ہے۔‬ ‫جانور بھی‘ زمین پر عرصہ دراز سے‘ اقامت گزین ہے‘ لیکن‬ ‫کوئی ایک چیز ایجاد نہیں کر سکا۔ عین ممکن ہے‘ اس نے بھی‬ ‫چیزیں ایجاد کی ہوں‘ لیکن وہ انسان کے تصرف میں نہیں ہیں۔‬ ‫اس کے برعکس‘ انسان نے‘ جانوروں کے لیے‘ بہت سی‬ ‫چیزیں بنائی ہیں۔ انہیں پکڑنے‘ رکھنے اور تصرف میں النے‬ ‫کی اشیا تک‘ غور کرتا ہوں‘ تو حیرانی کی انتہا نہیں رہتی۔‬ ‫میں دیر تک‘ ڈارون کی تھیوری پر غور کرتا رہا‘ مجھے اس‬ ‫میں سچائی کی کوئی جھلک دکھائی نہ دی۔ یہ مغرب والے عجب‬ ‫احمقانہ سوچیں سوچتے رہتے ہیں۔ ڈارون کی تھیوری ہی کو‬ ‫دیکھ لیں‘ ہے کوئی اس میں عقل مندی کی بات۔ بعد میں‘‬ ‫مجھے خیال آیا‘ کہ میں نے مردے کی بات پر غور کرکے‘ اچھا‬ ‫خاصا وقت برباد کر دیا ہے۔ ساتھ میں‘ چائے بھی برف کر دی‬


‫ہے۔ گرم چائے ہی‘ چائے پینے کا بنیادی اصول ہے۔ اسی میں‘‬ ‫چائے کا لطف پنہاں ہوتا ہے۔‬ ‫سامنے والی میز پر‘ چار لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ خوش لباس‬ ‫ہونے کے ساتھ ساتھ‘ خوش مزاج بھی تھے۔ ان میں سے ایک‬ ‫صاحب کی زبان منہ میں نہ پڑ رہی تھی‘ متواتر کائیں کائیں‬ ‫کرکے‘ دماغ کی چولیں ڈھیلی کر رہے تھے۔ دوسرے‘ زیادہ بول‬ ‫نہیں رہے تھے‘ لیکن متواتر قہقہے داغ رہے تھے۔ وہ اپنے‬ ‫حال میں مست تھے۔ انہیں کسی دوسرے سے تعلق واسطہ ہی نہ‬ ‫تھا۔‬ ‫بائیں جانب‘ تھوڑا ہٹ کر‘ ایک میز پر بڑے میاں اکیلے ہی‬ ‫بیٹھے تھے۔ چہرے پر جھریاں تو تھیں ہی‘ لیکن کسی باطنی‬ ‫کرب نے ان کے چہرے کو‘ ناصرف ویران کر دیا تھا‘ بلکہ‬ ‫بیمار سا بنا رکھا تھا۔ وہ ہر کسی کو‘ پھٹی پٹھی اور نظروں‬ ‫سے دیکھ رہے تھے۔ ان کے ہونٹوں کی نقل و حرکت سے‘ لگتا‬ ‫تھا‘ کہ منہ میں بڑبڑا رہے ہیں‘ لیکن کسی سے‘ کچھ کہہ نہیں‬ ‫پا رہے تھے۔ پھر ان کی نگاہیں‘ ایک بل باٹم میں ملبوس‘‬ ‫نوجوان پر جم کر رہ گئیں‘ جو عنایت حسین بھٹی کے گرامون‬ ‫فون پر لگے‘ گانے پر تھرک رہا تھا۔ منہ کے جو پوز بنا رہا‬ ‫تھا‘ اس سے اندازہ ہو رہا تھا‘ عنایت حسین بھٹی کے گانے کی‬


‫نقل اتار رہا تھا۔ اس نوجوان کے قدموں کی تھرکت کے ساتھ‬ ‫ساتھ‘ بزرگ وار کے چہرے کے رنگ بدل رہے تھے۔ ان‬ ‫رنگوں میں‘ بےبس غضب‘ سب سے واضح اور نمایاں تھا۔ وہ‬ ‫بٹر بٹر دیکھنے کے سوا‘ کچھ کرنے یا کہنے کی پوزیشن میں‬ ‫نہ تھے۔‬ ‫دائیں جانب‘ ایک گوشے میں‘ تین مرد اور ایک خاتون‘ بیٹھے‬ ‫ہوئے تھے۔ ان کا انداز‘ قطعی خفیہ سا تھا۔ ان تینوں میں‘ دو‬ ‫جوان اور ایک پچاس سے زائد عمر کا تھا‘ تاہم باحیثیت اور‬ ‫تازہ دم تھے۔ خاتون بھی‘ کم عمر کی نہ تھی‘ ہاں غازہ کاری‬ ‫نے‘ اسے قبول صورت بنا دیا تھا۔ کچھ دیر‘ وہ کھسر پھسر‬ ‫کرتے رہے‘ پھر خاتون باالئی منزل کی طرف چل دی۔ شاید‘‬ ‫کمرہ بک کروایا ہوا تھا۔ اس کے جانے کے‘ تھوڑی دیر بعد‘‬ ‫عمر میں سنئیر حضرت بھی‘ باالئی منزل کی طرف بڑھ گیے۔‬ ‫کافی دیر کے بعد‘ کپڑے وغیرہ درست کرتے ہوئے‘ نیچے‬ ‫اترے‘ اور ادھر ادھر دیکھے بغیر‘ باہر کا رستہ ناپا۔‬ ‫اس کے چلے جانے کے بعد‘ دونوں جوان‘ باالئی منزل کی طرف‬ ‫باری باری بڑھے۔ انہوں نے زیادہ وقت ضائع نہ کیا۔ یہ بھی‬ ‫ممکن ہے‘ ان کے پلے‘ دانے ہی اتنے ہوں۔ مل بانٹ کر‘‬ ‫استعمال کا اصول‘ ایک کراہت ناک جانور سے‘ منسوب چال آتا‬


‫ہے۔ ان دونوں میں سے ایک‘ پیچھے مڑ مڑ کر‘ دیکھ رہا تھا۔‬ ‫کام فصلیں اجاڑنے والے کا سا اور حرکتیں پیچھے مڑ مڑ کر‬ ‫دیکھنے والے کی سی‘ ہاں فصلیں اجاڑنے کی خصلت‘ دوئی کا‬ ‫دروازہ بند کر رہی تھی۔‬ ‫باسی یا جھوٹا‘ باہوش نہیں کھاتا۔ جو بھی سہی‘ جھوٹا کھانے‬ ‫والے‘ انسان سے‘ دیکھ کر‘ حیرت زدہ ہونا‘ فطری عمل تھا۔‬ ‫پچھلی نشتوں پر‘ تھوڑی دیر پہلے‘ بھنبھناہٹ سی‘ سنائی دے‬ ‫رہی تھی۔ وہاں کہرام سا مچ گیا۔ میں نے گبھرا کر‘ پیچھے مڑ‬ ‫کر دیکھا۔ دو میزوں پر‘ لوٹ مار کی کیفیت طاری تھی۔ پھر‘‬ ‫ایک میز پر‘ چھینا جھپٹی کے عالم میں‘ کھانا ایک صاحب کے‬ ‫کپڑوں پر گر گیا۔ وہ صاحب‘ سب کو ٹوٹ ٹوٹ پڑ رہے تھے۔‬ ‫الزام کی زد میں‘ کوئی نہیں آنا چاہتا تھا۔ گرما گرمی میں‘ بات‬ ‫بھونکنے سے آگے نکل گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے‘ سب دست و‬ ‫گریبان کی گرفت میں آ گیے۔ جن صاحب پر سالن گرا تھا‘ ان کے‬ ‫دونوں رخسار آلو سے مثل ہو گیے تھے۔ کچھ نہ پوچھیے‘‬ ‫ایسی مارا ماری ہوئی‘ کہ چھڑانے اور بچ بچاؤ کرنے کی‬ ‫بجائے‘ وہاں بیٹھے لوگوں نے‘ فرار میں عافیت جانی۔ اسی‬ ‫بھگ دوڑ کے دوران‘ پولیس آ گئی۔ سپاہی بڑی سرعت رفتاری‬ ‫سے جھپٹے‘ گرنیں دبوش کر اسی رفتار سے پلٹے۔ مثاثرہ‬


‫شخص سمیت‘ سب کو لے کر چلے گیے۔ مجھے یہ تو معلوم‬ ‫نہیں‘ کہ رستے میں ہی لین دین طے پا گیا‘ یا وہ منزل مقصود‬ ‫تک پنچا دیے گیے۔ جو بھی سہی‘ لہو گرم رکھنے کے اس انداز‬ ‫سے‘ لطف ضرور مال۔ درندہ فضا کا ہو‘ یا زمین پر دھاڑ رہا ہو‘‬ ‫چیرنے پھاڑنے کا انداز مختلف نہیں ہوتا۔‬ ‫میں نے غور کیا‘ کہ ڈارون نے انسانی ارتقا کا‘ پرندے سے‬ ‫رشتہ نہیں جوڑا‘ حاالں کہ انسان پرندوں کے خصائل سے‘ الگ‬ ‫تر نہیں ہے۔ سوچ میں ہوں‘ آخر کن بنیادوں پر‘ ڈارون کے‬ ‫نظریے کی نفی کروں۔ خصائل ہی کیا‘ ان کی بعض جبلتیں‘ ایک‬ ‫جیسی ہیں۔ گویا موجودہ صورت میں‘ انسان کسی ناکسی سطع‬ ‫پر‘ ڈارون کی تھیوری پر‘ اترتا نظر آتا ہے۔ اتنی ترقی کے‬ ‫باجود‘ ڈارون کے کہے پر‘ خط نہیں کھینچا جا سکا۔ اگر ماہرین‬ ‫سماجیات نے‘ اس حساس معاملے کو‘ سنجیدہ نہ لیا‘ تو انسان‬ ‫کا تشخص اور شناخت‘ اس دو دھاری تلوار کی گرفت سے‘ نہ‬ ‫نکل پائے گا۔‬

‫ماسٹر جی‬


‫ماسٹر جی‘ پچھلے تیس سال سے‘ گاؤں کے بچوں کو پڑھا‬ ‫رہے تھے۔ خدا لگتی تو یہ ہی ہے‘ کہ وہ بڑی ایمان داری سے‘‬ ‫اپنا یہ فریضہ انجام دے رہے تھے۔ جب کبھی بیمار پڑتے‘ تو‬ ‫بیماری کی حالت میں بھی‘ سکول چلے آتے۔ بچوں سے‘ اس‬ ‫طرح محبت کرتے‘ جیسے وہ ان کے اپنے بچے ہوں۔ اگر کوئی‬ ‫بچہ بیمار پڑتا‘ تو اس کا پوچھنے‘ اس کے گھر جاتے۔ بچے‬ ‫بھی ان سے بڑے مانوس تھے۔ یہ ہی نہیں‘ ہر کسی کی غمی‬ ‫خوشی میں‘ شریک ہوتے۔ وہ بچوں کو‘ ناصرف تعلیم کی دولت‬ ‫سے ماال مال کرتے‘ ان کی تربیت کو بھی‘ اپنا فرض سمجھتے‬ ‫تھے۔ اب تو‘ بچوں کے بچے بھی‘ سکول میں داخل ہوچکے‬ ‫تھے۔ بہت سے بچے‘ مڈل اور ہائی سکول دور ہونے کی وجہ‬ ‫سے‘ صرف پرائمری تک‘ تعلیم حاصل کر سکے تھے۔ بیسیوں‬ ‫بچوں نے‘ میٹرک تک تعلیم حاصل کر لی تھی۔‬ ‫ان سب باتوں کے باوجود‘ ان میں ایک دو عادتیں‘ ہمیشہ سے‘‬ ‫خراب چلی آ رہی تھیں۔ کئی ایک ناخوشگوار تجربوں کے‬ ‫باوجود‘ انہوں نے اپنی یہ عادت ترک نہ کی تھی۔ کوئی غلط کام‬ ‫کرتا‘ تو منہ پر‘ اور سب کے سامنے ہی‘ ٹوک دیتے۔ وہ اس‬ ‫حوالہ سے‘ بڑے بے لحاظ اور منہ پھٹ واقع ہوئے تھے۔ وہ‬ ‫اس ذیل میں‘ بندہ کوبندہ بھی نہیں دیکھتے تھے۔ وہ بالطلب‘‬ ‫مشورہ دینے کا‘ ضرورت سے زیادہ‘ شوق رکھتے تھے۔ لوگوں‬


‫کے معاملہ میں‘ یوں ہی ٹانگ اڑا لیتے تھے۔ یوں لگتا تھا‘ کہ‬ ‫جیسے اصالح کا انہوں نے ٹھیکہ لے رکھا تھا۔‬ ‫ایک مرتبہ‘ شہابا کمہار اور جیرا تیلی‘ کسی لین دین کے مسلے‬ ‫پر‘ الجھ پڑے۔ بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ ماسٹر جی‘ بن‬ ‫بالئے وہاں جا پہنچے۔ لوگ بچ بچاؤ کرا رہے تھے‘ یہ بھی‬ ‫میدان میں کود گیے‘ اور بچ بچاؤ کرانے کے ساتھ ساتھ اپنا‬ ‫لیکچر پالنے لگے۔ شہابا کمہار نے‘ مروت سے ہاتھ روک لیا۔‬ ‫اس کا بچہ‘ ماسٹر جی کے پاس پڑھتا تھا‘ لیکن جیرے تیلی نے‬ ‫انہیں زور دار دھکا دیا‘ اور وہ دور جا گرے۔ ان کے سر پر‬ ‫چوٹ آئی۔ شہابا کمہار یہ برداشت نہ کر سکا اس نے دوبارہ‬ ‫لڑائی جائین کر لی‘ اور بڑی بے جگری سے لڑا۔ دونوں کو‬ ‫ٹھیک ٹھاک ضربیں آئیں۔ کسی کے کام میں‘ مفت میں پنگا لینے‬ ‫کی کیا ضرورت تھی۔‬ ‫شامو گوجر‘ اور اس کی بیوی کا جھگڑا ہو گیا۔ بات‘ کورٹ‬ ‫کچری تک جا پہنچی۔ انہوں نے‘ معاملہ ادھر ادھر سے معلوم‬ ‫کرایا۔ انہیں بتایا گیا‘ کہ شامو گوجر جھوٹا ہے۔ ماسٹر جی‘‬ ‫شامو گوجر کے پاس جا پہنچے‘ اور اسے اس کی بات سنے‬ ‫بغیر ہی‘ جھوٹا کرنے بیٹھ گیے۔ اس پر‘ وہ تاؤ میں آ گیا۔ اس‬ ‫نے بال سوچے سمجھے‘ ماسٹر جی پر‘ اپنی بیوی کا الزام دھر‬ ‫دیا۔ ماسٹر جی‘ اس قسم کی امید نہ رکھتے تھے۔ وہاں دو چار‬ ‫اور لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ خبر‘ دیکھتے ہی دیکھتے‘‬


‫پورے گاؤں میں پھیل گئی۔ بہت طرح کی باتیں ہوئیں۔ کچھ نے‘‬ ‫بات کو سچ بھی مان لیا۔ حاالں کہ سرے سے‘ ایسی کوئی بات‬ ‫ہی نہ تھی۔‬ ‫راجو دودھی‘ ماسٹر جی کی بڑی عزت کرتا تھا۔ جب بھی‘‬ ‫رستے میں ماسٹر جی اسے ملتے‘ جھک کر سالم کرتا۔ دونوں‬ ‫ہاتھوں سے‘ مصافہ کرتا۔ خوش گوار موڈ میں ہوتا‘ تو ایک‬ ‫گالس دودھ انہیں بھجواتا۔ ماسٹر جی کے کان میں کسی نے ڈال‬ ‫دیا‘ کہ وہ دودھ میں پانی مالتا ہے۔ اس الزام کا‘ حقیقت سے‬ ‫دور کا بھی‘ واسطہ نہ تھا۔ وہ تو‘ پانی کو دودھ سے آلودہ کرتا‬ ‫تھا۔ ماسٹر جی باطور خاص‘ اس کے گھر گئے۔ اس حوالہ سے‘‬ ‫سمجھانے بیٹھ گیے۔ صاف ظاہر ہے‘ اسے غصہ آنا ہی تھا۔‬ ‫راجو دودھی نے‘ انہیں پانی تک کا نہ پوچھا‘ اور بڑی کرختگی‬ ‫سے‘ چلتا کیا۔ اس کا لڑکا‘ ماسٹر جی کے پاس پڑھتا تھا‘ اسے‬ ‫بھی اٹھا لیا۔ اس کا موقف تھا‘ ہم نے کون سا‘ پڑھا لکھا کر‘‬ ‫پٹواری بنانا ہے۔ بڑا ہو کر‘ کام تو یہ ہی کرنا ہے۔ پٹواری‘ دودھ‬ ‫میں پانی مالتا ہے‘ اسے کوئی پوچھتا نہیں۔ راجو تو‘ پانی میں‬ ‫دودھ مالتا تھا اور ماسٹر جی اسے پوچھنے بیٹھ گیے تھے۔‬ ‫ماسٹر جی کی ان اوٹ پٹنگ حرکتوں سے شرفا سخت پریشان‬ ‫تھے۔ وہ کئی بار چودھری سے ان کی ان خالف معاشرت نقل و‬ ‫حرکت کی شکایت کر چکے چکے تھے۔ چودھری دل گردے کا‬ ‫آدمی تھا متواتر برداشت سے کام لے رہا تھا۔ اس دن تو حد ہی‬


‫ہو گئی۔ ماسٹر جی گرفت میں چودھری کا بڑا بیٹا آ گیا۔ انہوں‬ ‫نے کڑیوں کے شوق کے خالف پورے دس منٹ لیکچر دیا۔ اتنی‬ ‫دیر جیرے نائی کی بیٹی سکی بچ کر نکل گئی۔ اگر حسن سے‬ ‫چودھری اور اس کے بیٹے لطف اندوز نہیں ہوں گے تو‬ ‫چودھری ہونے کا فائدہ ہی کیا ہے۔ گاؤں کی عزت رور مشقت‬ ‫کے تصرف کا پہال حق چودھری اور اس کی اوالد کا ہوتا ہے۔‬ ‫کمی کمین آخر ہوتے کس لیے ہیں۔‬ ‫چودھری کے بیٹے کو بڑا تاؤ آیا۔ ہاتھ آیا شکار‘ جھٹکے سے‬ ‫بچ گیا تھا۔ اس نے باپ سے‘ ماسٹر جی کی بداطواری اور‬ ‫چودھراہٹی امور میں‘ بےجا دخل اندازی کی شکایت کر دی۔‬ ‫بیٹے کے منہ نکلے الفاظ نے‘ چودھری کو چکرا کر رکھ دیا۔‬ ‫دو ٹکے کا منشی‘ اور چودھراہٹ میں مداخلت‘ بالشبہ‘ جرم‬ ‫عظیم تھا۔ طاقت کسی قسم کی روک ٹوک اور نکتہ چینی‘‬ ‫برداشت کرنے کی صالحیت نہیں رکھتی۔ سرمد کا یہ ہی قصور‬ ‫تھا نا‘ کہ عصری طاقت دشمن‘ دارا شکوہ سے سالم دعا رکھتا‬ ‫تھا۔ یہ ہی نہیں‘ تنقید بھی کرتا تھا۔ مذہب کا کوئی چکر ہی نہ‬ ‫تھا۔ ہاں علما نے‘ سرمد کے خالف فتوی دیا یا ان سے لیا گیا۔‬ ‫ہند‘ کوئی اسالمی ریاست نہ تھا‘ مسلمان تو‘ اقلیتی آبادی تھے۔‬ ‫غیرمسلم کلمہ‘ اس کے منہ سے نکلنا‘ جرم نہ تھا۔ باغی‘‬ ‫باغیوں کے دوست یا طاقت کے نقاد‘ طاقت کو خوش نہیں آ‬ ‫سکتے۔‬


‫ماسٹر جی کو‘ چودھری نے ڈیرے پر بال لیا۔ ماسٹر جی وہاں‬ ‫آئے۔ وہاں کچھ لوگوں کو‘ پتہ بازی کرتے دیکھ لیا۔ ان کا دماغ‬ ‫گھوم گیا۔ انہوں نے‘ ادب آداپ بجا النے کی بجائے‘ پتہ بازی‬ ‫اور اس کی پشت پناہی پر‘ چودھری ہی کو لیکچر پالنا شروع کر‬ ‫دیا۔ وہاں امام مسجد صاحب بھی تشریف رکھتے تھے۔ ماسٹر‬ ‫صاحب کی یہ حرکت‘ کھلی گستاخی تھی۔ چودھری صاحب کا‬ ‫کلیجہ دیکھیے‘ سب پی گیے۔ ماسٹر صاحب کی بڑی عزت کی‬ ‫گئی۔ ان کی چاٹی کی لسی سے‘ تواضح کرکے‘ رسمی سی دو‬ ‫چار باتیں کرکے‘ رخصت کر دیا گیا۔ ماسٹر جی‘ چودھری کے‬ ‫رزق پر‘ کلہاڑا چال گیے تھے۔‬ ‫اس بات کو‘ دو ماہ گزر گیے۔ پھر ایک دن‘ پتا‘ چال کہ ماسٹر‬ ‫جی مذہب کی توہین کے مرتکب ہوئے‘ اور ان کا یہ جرم‘ ناقابل‬ ‫معافی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے‘ ماسٹر جی جوتوں‘ تھپڑوں اور‬ ‫ٹھوکروں کی زد میں آگیے تھے۔ ان پر چھتروں کی بارش کرنے‬ ‫والے‘ ان کے بہت سے چہتے شاگرد بھی تھے۔ کہاں تک‬ ‫برداشت کرتے‘ آخر انسان تھے‘ چل بسے۔ ان کی الش‘ مسجد‬ ‫کی سڑھیوں پر‘ الوارث پڑی تھی۔ انسان سب کچھ برداشت کر‬ ‫سکتا ہے‘ مذہب کے خالف کچھ نہیں سن سکتا۔‬ ‫اس بات کو عرصہ گزر چکا ہے۔ چودھری کا بڑا بیٹا‘ چودھری‬ ‫ہے۔ قہقہوں اور ٹھٹھوں میں ملبوس‘ ماسٹر جی کا ذکر ہوتا رہتا‬ ‫ہے۔ مرحوم سراج‘ جو پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا‘ کے‬


‫حوالہ سے‘ یہ بھی سننے میں آتا ہے‘ کہ ماسٹر جی کی گستاخ‬ ‫آنکھوں نے‘ امام مسجد صاحب کو‘ حجرے میں‘ ایک لڑکے کے‬ ‫ساتھ‘ رویتی فعل میں مصروف‘ دیکھ لیا تھا۔ اصل حقیقت کیا‬ ‫ہے‘ آج بھی پردہ پڑا ہوا ہے۔ تاہم اس بات پر سب متففق ہیں‘‬ ‫کہ ماسڑ جی مذہب دشمن تھے۔ ان کے ساتھ جو ہوا‘ عین حق‘‬ ‫انصاف اور مذہب بچاؤ کے تحت ہوا۔ ہر مذہب دشمن کے ساتھ‬ ‫یہ ہی ہونا چاہیے۔‬

‫جواب کا سکتہ‬

‫اس دن‘ کوئی سامی نہ آئی۔ یہ میری نوکری کا‘ غالبا پہال اتفاق‬ ‫تھا‘ ورنہ دو سے زیادہ‘ سامیاں معمول میں شامل تھیں۔ بھوک‬ ‫تھی‘ کہ سر چڑھ کر بول رہی تھی۔ مجھے اپنی اس بےقابو‬ ‫بھوک‘ کا احساس تو تھا ہی‘ لیکن میرا دھیان رقیہ اور اپنے‬ ‫بچوں کی طرف‘ لگا ہوا تھا۔ ان کا کیا حال ہو رہا ہو گا۔ وہ بے‬ ‫چارے تو گھر کے کھانے کے عادی ہی نہ تھے۔ اس کا مطلب یہ‬ ‫نہیں‘ کہ رقیہ کھانا پکانا نہیں جانتی تھی۔ وہ سالئی کڑائی اور‬ ‫کوکنگ میں مہارت رکھتی تھی‘ لیکن وہ اس کام کو‘ غیر‬


‫شائشتہ اور غیر مہذب قسم کا کام‘ سمجھتی تھی۔ یہ ہنر رکھتے‬ ‫ہوئے بھی‘ اپنے ابا کے گھر میں‘ بہت کم‘ کچن میں داخل ہوتی‬ ‫تھی۔‬ ‫شادی کے پہلے دن ہی‘ اس نے اپنی اس کمزوری سے‘ آگاہ کر‬ ‫دیا تھا۔ میں نے چند لمحوں کے لیے‘ سنجیدگی اختیار کی اور‬ ‫پھر‘ بڑے افسردہ انداز میں کہا‪ :‬چلو ٹھیک ہے‘ کچھ کر لیں‬ ‫گے۔ اصل بات تو یہ تھی‘ کہ مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ میں نے‬ ‫آج تک‘ گھر سے کھایا ہی نہ تھا۔ مجھے گھر کا کھانا کبھی‬ ‫خوش نہیں آیا ۔ وہ دن اور آج کا دن‘ میں اپنی کھا لیتا اور رقیہ‬ ‫کی‘ نور دمحم کے ہاتھ‘ گھر بھیج دیتا۔ یہ ہی روٹین سالوں سے‬ ‫چال آتا تھا۔‬ ‫گھر پر نہ کھانے کے سبب‘ گھروں پر جھگڑے ہو جاتے ہیں۔‬ ‫کھانے کی صورت میں‘ لون مرچ کے کم یا زیادہ ہونے کی‬ ‫صورت میں‘ بھی جھگڑے کا رستہ کھل جاتا ہے۔ اب اس کی‬ ‫کمزوری میرے ہاتھ میں تھی۔ محتاجی بھی نہ رہی تھی۔ اب میرا‬ ‫پاؤں‘ اوپر تھا اور وہ میری محتاج تھی۔ گویا میں بیجھوں گا‘ تو‬ ‫ہی کھائے گی۔‬ ‫آج چوں کہ کوئی سامی ہاتھ نہ لگی تھی‘ اس لیے میں نے‘‬ ‫تیسرے درجے کے ہوٹل سے کھایا اور گھر بھی اسی ہوٹل سے‬ ‫بھجوایا۔ سچی بات تو یہی ہے‘ کہ لقمے حلق کے نیچے اترتے‬ ‫ہی نہیں تھے۔ خیر‘ کیا کرتا‘ پیٹ تو بھرنا ہی تھا۔ پیٹ بڑا‬


‫بےلحاظ ہوتا ہے۔ روکھا سوکھا ہی کیوں نہ ملے‘ اسے ملنا‬ ‫شرط ہے۔ ذائقے کی بات‘ بعد میں آتی ہے۔ آج کے حادثے نے‬ ‫ثابت کر دیا تھا‘ کہ بھوک کی صورت میں‘ گھٹیا سے بھی‘ کام‬ ‫چل سکتا ہے اور ذائقہ ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔‬ ‫میں کھانے سے فراغت کے بعد‘ سیٹ پر آبیٹھا۔ آج پلے سے‘‬ ‫اور بدمزہ کھانا کھانے کے باعث‘ میرا موڈ بڑا اپ سٹ تھا۔ اوپر‬ ‫سے یہ سوچ کر‘ گھبراہٹ سی ہونے لگی کہ گٹھیا کھانا ملنے‬ ‫کے باعث‘ رقیہ اور بچوں کا موڈ خراب ہو گیا ہو گا۔ اب میں کیا‬ ‫کرتا‘ کوئی سامی‘ ہتھے ہی نہیں چڑھی تھی۔ نور دمحم بھی اداس‬ ‫اداس سا تھا۔ اسے یہ تو معلوم تھا‘ کہ میں کھانا کھانے گیا‬ ‫ہوں۔ وہ یہ نہیں جانتا تھا‘ کہ میں نے پلے سے کھایا ہے۔ میں‬ ‫نے‘ کسی دوسرے ذریعے سے‘کھانا گھر بھجوایا تھا۔ اس کی‬ ‫دو وجوہ تھیں۔‬ ‫نور دمحم آگاہ ہو جائے گا‘ کہ میں نے گھٹیا کھانا گھر بھجوایا‬ ‫ہے۔‬ ‫وہ یہ بھی جان جائے گا‘ کہ رقیہ کی زبان‘ قنچی سے بڑھ کر‬ ‫کترنے میں تاک ہے۔‬ ‫کھانا کھائے‘ ابھی پانچ منٹ ہی ہوئے ہوں گے‘ کہ ایک سامی آ‬ ‫گئی۔ مجھے اس پر بڑا تاؤ آیا۔ کتنے فضول لوگ ہیں‘ وقت‬ ‫کووقت نہیں دیکھتے۔ جب دل چاہتا ‘منہ اٹھا کر چلے آتے ہیں۔‬ ‫پتہ نہیں‘ ان لوگوں کو کب عقل آئے گی۔ وقت کی قدر نہ کرنے‬


‫کی وجہ ہی سے‘ یہ خطہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہے۔‬ ‫غصے سے‘ میرا بی پی ہائی ہو گیا اور مجھے چکر سے آنے‬ ‫لگے۔ وہ میری حالت دیکھ کر گھبرا گیا۔ جانے لگا‘ پھر جانے‬ ‫کیا سوچ کر‘ پیچھے مڑا اور مجھے ہسپتال لے گیا۔ میری حالت‬ ‫کے پیش نظر‘ مجھے ایمرجنسی میں بھرتی کر لیا گیا۔‬ ‫سچی بات تویہ ہے‘ اس شخص نے‘ میری بڑی خدمت کی۔ پلے‬ ‫سے‘ دوائیں وغیرہ ال کر دیتا رہا۔ دیگر‘ اس کی بھاگ دوڑ کو‬ ‫بھی‘ شک کی نظر سے‘ نہیں دیکھا جا سکتا۔ میں ہسپتال میں‬ ‫تین دن رہا۔ تشخیص پر‘ معلوم ہوا‘ کہ خرابی ناقص غذا کے‬ ‫باعث ہوئی تھی۔ مجھے سامی پر غصہ آیا‘ کہ کم بخت تھوڑا‬ ‫پہلے چال آتا‘ تو مجھے ہسپتال کی راہ نہ دیکھنا پڑتی۔ یہ حقیقت‬ ‫بھی اپنی جگہ پر موجود تھی‘ کہ اس نے میری اپنوں سے بڑھ‬ ‫کر‘ خدمت کی تھی۔‬ ‫میں نے سیٹ پر آتے ہی‘ اس کی فائل مکمل کی۔ موصولہ‬ ‫میڈیکل بل‘ مروجہ ریٹ سے کم تھا۔ دوسرا تکلیف بھی‘ اس کی‬ ‫تساہل پسندی کی وجہ سے‘ ہوئی تھی‘ اس لیے میں نے‘ اس‬ ‫سے وصولی کو‘ غیر اصولی نہ سمجھا۔‬ ‫میرے لیے‘ ایک بات حیرت کا سبب بنی رہی‘ کہ آخر رقیہ اور‬ ‫بچوں پر‘ ناقص غذا کا اثر کیوں نہ ہوا۔ آخر ان کے معدوں نے‘‬ ‫اس گھٹیا خوراک کو‘ کیوں کر برداشت کر لیا۔ وہ تو مجھ سے‘‬ ‫کہیں بڑھ کر‘ نازک طبع کے مالک تھے۔ بات آئی گئی ہو گئی‬


‫اور معاملہ روٹین میں آ گیا۔‬ ‫ایک دن مجھ پر یہ راز کھال‘ کہ کھانا‘ اس کے ابا اماں کے‬ ‫گھر‘ جاتا تھا اور یہ نیک فریضہ‘ نور دمحم انجام دیتا تھا۔ رقیہ‬ ‫خود اور بچوں کو گھر کا کھانا کھالتی تھی۔ اس بات کو‘ دو سال‬ ‫ہو گیے ہیں اور میں اس گتھی کو‘ آج تک نہیں سلجھا سکا‘ کہ‬ ‫کسی بچے نے‘ بھول کر بھی‘ نہیں بتایا‘ کہ وہ کھانا اپنی ماں‬ ‫کے ہاتھ کا پکا ہوا‘ کھاتا ہے۔ سوچ میں ہوں‘ کہ رقیہ نے آخر‬ ‫کھانا نہ پکانے کا‘ پہلے ہی روز کیوں عذر کیا تھا۔ آخر مجھے‬ ‫ہی کیوں‘ وہ کھانا پکا کر نہ دینا چاہتی تھی۔‬ ‫میں خوب جانتا ہوں‘ کہ میری کمائی کا بڑا حصہ‘ اس کی اماں‬ ‫ابا کی‘ گرہ میں جاتا ہے۔ یقینا یہ بہت بڑا تیاگ تھا‘ کہ وہ‬ ‫بہترین کھانا‘ جو اس کے‘ اور اس کے بچوں کے منہ کا تھا‘‬ ‫اپنے ابا اماں کو بھیج دیتی تھی۔‬ ‫مجال ہے‘ جو نور دمحم نے‘ کبھی اس حقیقت کو کھوال ہو۔‬ ‫بالشبہ‘ وہ وفادار مالزم تھا۔ میرا ناسہی‘ فریق مخالف کا سہی۔‬ ‫شاہوں کے‘ گماشتے بھی‘ یہ ہی کرتے آئے ہیں۔ کھاتے شاہ کا‬ ‫ہیں‘ وفاداری شاہ کے دشمنوں سے نبھاتے ہیں۔ اس میں ایک‬ ‫حقیقت یہ بھی موجود تھی‘ کہ افسر کی بیگم سے بنا کر رکھو‘‬ ‫اس سے ناصرف افسر سیدھا رہتا ہے‘ بلکہ دوہرا حصہ ہاتھ‬ ‫لگتا ہے۔ بہت سے کام نکلواتا تھا۔ مخصوص سامیوں کے کام‘‬ ‫بیگم‘ نور دمحم کے ذریعے‘ نکلواتی تھی۔ اس میں سے بھی‘ نور‬


‫دمحم اپنا حصہ وصولتا تھا۔‬ ‫یہ باتیں تو ضمنا کہہ گیا ہوں‘ اصل سواالت کا جواب‘ میرے‬ ‫لیے چیلنج بنا ہوا ہے۔ میں کسی کے سامنے اپنا معاملہ نہیں‬ ‫رکھ سکتا۔ بیگمات لین دین میں‘ موثر کردار ادا کرتی آئی ہیں‘‬ ‫لیکن میرے سوال‘ یقینا اپنی نوعیت کے ہیں‘ اور دفتری تاریخ‬ ‫میں‘ اپنی مثال نہیں رکھتے۔‬ ‫خدا کے لیے‘ کوئی بتائے‘ یہ سب کیا تھا۔ آخر میں‘ کب تک‘‬ ‫سوال کے‘ جواب کے سکتے پر‘ حیرت زدہ کھڑا رہوں گا۔‬ ‫‪2-4-1972‬‬

‫پٹھی بابا‬

‫زرینہ‘ دو سال پہلے‘ میری زندگی میں بالکل اچانک‘ اور‬ ‫حادثاتی طور پر‘ داخل ہوئی۔ جوں جوں وقت آگے بڑھتا گیا‘ توں‬ ‫توں وہ‘ میری روح وجان میں اترتی گئی۔ یہ معاملہ یک طرفہ نہ‬ ‫رہا۔ میں بھی اہمیت اختیار کرتا گیا۔ وہ جب تک مجھے دیکھ نہ‬ ‫لیتی‘ سکھ اور سکون کے سانس سے محروم رہتی۔ اکثر کہتی‘‬


‫اگر تم مجھے نہ ملے‘ تو جان دے دوں گی۔ اب میں بھی‘ اس‬ ‫کے بغیر زندہ رہنے کا‘ تصور نہیں کر سکتا تھا۔‬ ‫اب غور کرتا ہوں‘ کہ وہ واقعہ ایسا غیرمعمولی نہ تھا‘ جس کے‬ ‫نتیجہ میں‘ دو انسان‘ اتنے قریب آ جاتے‘ کہ الگ ہونے کی‬ ‫سوچ‘ سوچی ہی نہ جا سکے۔ قربت نے‘ دو دلوں اور دو‬ ‫روحوں کو فرحت بخشی۔ ایک بار‘ اسے کچھ دنوں کے لیے‘‬ ‫ماموں کے ہاں‘ جانا پڑا۔ یہ کچھ دن‘ ہم دونوں کے لیے‘ صدیوں‬ ‫پر بھاری گزرے۔‬ ‫ہوا یہ‘ کہ میں منڈی سے گھر کا سودا ال رہا تھا۔ محلے کی‬ ‫چھوٹی گلی سے گزرتے ہوئے‘ وہ مجھ سے ٹکرا گئی۔ سامان‬ ‫کا توڑا‘ میرے سر سے گر گیا۔ وزن کی وجہ سے‘ میرا دماغ‬ ‫پہلے ہی‘ خراب ہو گیا تھا‘ اوپر سے وہ ٹکرا گئی‘ اور توڑا‬ ‫زمین پر آ رہا تھا۔ میرے منہ سے‘ بےساختہ نکل گیا۔‬ ‫اندھی ہو‘ دیکھ کر نہیں چال جاتا۔‬ ‫کہنے کو تو کہہ گیا‘ لیکن بعد میں‘ محسوس ہوا‘ کہ میرا یہ‬ ‫انداز و رویہ‘ قطعی غیر مہذیب اور غیرشریفانہ تھا۔ اس نے‘‬ ‫غصہ کرنے کی بجائے‘ مسکرا کر‘ میری طرف دیکھا‘ اور‬ ‫سوری کا اظہار کیا۔ اس کی سوری میں‘ مالوٹ نہ تھی‘ بالکل‬ ‫اصلی اور صاف شفاف۔‬ ‫اس واقعے نے‘ ہمیں قریب۔۔۔۔۔اور قریب کر دیا۔ ایک وقت ایسا‬


‫آیا‘ کہ ہم دونوں‘ چھپ چھپ کر ملنے سے‘ اکتا گیے تھے۔‬ ‫ہماری کیفیت‘ چوروں سے‘ کسی طرح مختلف نہ تھی۔ سچی‬ ‫محبت کرنے کے باوجود‘ ہم چور سے‘ ہو گیے تھے۔ پتہ کی‬ ‫آواز تک‘ ہمارا خون‘ خشک کر دیتی تھی۔ پکڑے جانے کے‘‬ ‫کئی موقعے آئے‘ لیکن ہر بار‘ هللا نے ہاتھ دے کر‘ بچا لیا۔ اکثر‬ ‫سوچتے‘ یہ سب‘ کب تک چل سکے گا۔ زرینہ کی شادی ہو گئی‘‬ ‫تو میں مارا جاؤں گا۔ وہ اپنی پہاڑ زندگی‘ کس طرح گزارے گی۔‬ ‫وہ تو میرے بغیر‘ مر جائے گی۔ وہ اپنے خاوند کو‘ خوش گوار‬ ‫زندگی‘ نہ دے سکے گی۔ گویا ہم دونوں کا‘ ہر لمحہ‘ ہوکوں اور‬ ‫سسکیوں میں گزرے گا۔ ہم کسی کام کے نہ رہیں گے۔ اب‘ جب‬ ‫کہ کوئی ایسی بات ہی نہیں‘ ہم بےزار زندگی گزار رہے ہیں‘ اس‬ ‫کی شادی کے بعد‘ قیامت ہی ٹوٹ پڑے گی۔ ہم دو الگ برادریوں‬ ‫کے لوگ تھے۔ ہم دونوں کے ہاں‘ غیر برادری میں‘ شادی کا‬ ‫تصور تک موجود نہ تھا۔‬ ‫کئی بار‘ فرار ہو جانے کی ٹھانی۔ ہم دونوں بنیادی طور پر‘ بزدل‬ ‫تھے۔ دوسرا‘ میرے پاس کوئی روزگار بھی نہ تھا۔ عملی زندگی‬ ‫میں‘ تہی دستی‘ شخص کو‘ اس کے ہونے سے‘ بہت دور‬ ‫رکھتی ہے۔ جو بھی سہی‘ میری پہلی اور آخری ترجیع‘ اس کا‬ ‫حصول تھا۔ کوئی کام کرنے کو‘ جی ہی نہیں چاہتا تھا۔ میں اس‬ ‫کے حصول کے لیے‘کئی بابوں کے پاس گیا۔ اماں ابا کی گرہ کا‬ ‫چرایا مال‘ انہیں دیتا رہا۔ ہم دونوں نے‘ اپنے ابنے والدین کو‘‬ ‫ان بابوں کے تعویز پالئے۔ ان کے سرہانوں اور چارپائی کے‬


‫پایوں کے نیچے‘ تعویز دبائے۔ خدا جانے‘ کیا کیا پاپڑ بیلے‘‬ ‫لیکن کسی پر رائی بھر‘ اثر نہ ہوا۔ حرام ہے‘ جو کسی نے‘ ہم‬ ‫سے پوچھا ہو‘ کہ کیا چاہتے ہو۔‬ ‫اب میرا‘ ان فراڈ بابوں سے‘ یقین اٹھ گیا تھا۔ جب شیخ ہی بگڑ‬ ‫گیا ہو‘ تو سوسائٹی میں خرابی آنا‘ الزم ٹھہر جاتا ہے۔ شیخ‬ ‫مایوس اور ناامید لوگوں کا‘ زمین پر آخری سہارا ہوتا ہے۔‬ ‫سیاست‘ لوٹ عام کرتی ہے‘ مولوی تقسیم کے دروازے کھولتا‬ ‫ہے۔ ایسی صورت حال میں‘ بندہ جائے‘ تو کدھر جائے۔ بس‘ اب‬ ‫بابا حق کے پاس جانا‘ باقی رہ گیا تھا۔ سابقہ تجربوں کے باعث‘‬ ‫میرا دل نہیں مانتا تھا‘ کہ میں ان کے پاس جاؤں۔ زرینہ‘ مجبور‬ ‫کر رہی تھی‘ اور کہہ رہی تھی‘ حوصلہ نہ ہارو‘ آزمانے میں کیا‬ ‫جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ ہو سکتا ہے‘ یہاں ہی سے‘ خیر پڑ جائے۔ میں نے‘‬ ‫دل میں سوچا‘ خیر خاک پڑنی ہے‘ بس امی کی گرہ کا چرایا‬ ‫مال‘ لوٹا کر آ جاؤں گا۔ اس کے اصرار پر‘ میں نے جانے کی‬ ‫حامی بھر لی۔‬ ‫مردہ دلی سے‘ میں بابے حق کے پاس پہنچ گیا۔ پہلی نظر میں‘‬ ‫بابا حق‘ مجھے دوسرے پیروں سے‘ بہت ہی مختلف لگا۔ اس‬ ‫کے چہرے پر‘ عیاری سے زیادہ‘ وقار اور وجاہت تھی۔ مجھے‬ ‫دیکھتے ہی‘ بابے حق کے لبوں پر‘ بڑی زہریلی مسراہٹ نمودار‬ ‫ہوئی۔ مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ میں ایک گوشے میں‘ دبک‬ ‫کر بیٹھ گیا۔ بابے حق نے‘ ایک بار پھر میری طرف دیکھا۔ اب‬


‫کی بار کی دیکھنی میں‘ کھوج کا عنصر موجود تھا‘ یا یہ بھی‬ ‫ہو سکتا ہے‘ کہ میرے ظرف کا اندازہ لگا رہے تھے۔ تھوڑی‬ ‫دیر کے لیے‘ محفل کو‘ کاٹ کھانے والی‘ چپ سی لگ گئی۔‬ ‫تھوڑی دیر کے بعد‘ بابا حق نے‘ حاضرین سے مخاطب ہو کر‬ ‫‪:‬کہا‬ ‫تم میں سے‘ کسی کی بہن یا بیٹی کو‘ کسی سے عشق ہو جائے‘‬ ‫تو تمہارا کیا ردعمل ہو گا۔‬ ‫ہر چہرے پر غیرت سے لبریز اشتعال پھیل گیا۔ ایک صاحب نے‬ ‫‪:‬کہا‬ ‫میں اس عاشق کو چیر کر رکھ دوں گا۔‬ ‫‪:‬بابے نے پھر پوچھا‬ ‫بہن یا بیٹی کا‘ کیا کرو گے۔‬ ‫اس نے بالتوقف کہا‪ :‬اس کے سینے میں‘ چھے کی چھے‬ ‫گولیاں اتار دوں گا۔‬ ‫‪:‬بابا پھر بوال‬ ‫اگر کوئی تمہاری ماں سے‘ عشق فرمانے لگے‘ اور تمہاری‬ ‫ماں بھی‘ اس عشق میں‘ برابر کی شریک ہو‘ تو کیا کرو گے۔‬ ‫‪:‬ایک اور صاحب بولے‬


‫میں ایسی ممتا کے منہ پر‘ توک کر‘ سو لعنتیں بھیجوں گا اور‬ ‫اسے ہمیشہ کے لیے‘ خیرآباد کہہ دوں گا۔ اس گفتگو کے باعث‘‬ ‫پوری محفل پر‘ سکتے کا عالم طاری ہو گیا۔‬ ‫یہ سکتائی حالت‘ سات منٹ طاری رہی۔ لگتا تھا‘ کہ بابے نے‘‬ ‫کوئی بڑی ہی‘ کڑوی بات کہہ دی تھی۔ یہ عشق بازی‘ ازلوں‬ ‫سے‘ معاشروں کا حصہ رہی ہے۔ عاشقوں کے نام آج بھی‘ زندہ‬ ‫ہیں۔ ان کے متعلق‘ شعرونثر میں‘ ان گنت قصے کہانیاں ملتی‬ ‫ہیں۔ دوسرا‘ یہ تو‘ انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ اسے کیسے برا‬ ‫کہا جا سکتا ہے۔ سچے عاشقوں کی لوگ عزت کرتے آئے ہیں۔‬ ‫خدا خدا کرکے‘ خاموشی کا بت ٹوٹا۔ بابا گویا ہوا‪ :‬میرے بچو! یہ‬ ‫عشق نہیں‘ جنسی ہوس ہے۔ جو چیز‘ تم اپنی ماں بہن اور بیٹی‬ ‫کے حوالہ سے‘ پسند نہیں کرتے‘ اوروں کی ماں بہن اور بیٹی‬ ‫کے لیے‘ کیوں روا رکھتے ہو۔ یہ دوہرا معیار ہے۔ مومن کی‬ ‫زندگی‘ دوہرے معیار کی حامل نہیں ہوتی۔ کوئی دیکھے‬ ‫نادیکھے‘ هللا تو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ مومن کے لیے‘ نکاح کا‬ ‫رستہ موجود ہے۔ اس غلط فہمی میں نہ رہنا‘ کہ کوئی نہیں‬ ‫دیکھ رہا۔ لوگوں کی دوربینیں‘ ان عاشقوں کو‘ فوکس میں‬ ‫رکھتی ہیں۔ کسی مومن کے پاس‘ اتنا وقت نہیں ہوتا‘ جو اس کام‬ ‫پر‘ اپنا وقت برباد کرے۔ مومن‘ کائنات کے‘ ہر ذرے پر‘ نظر‬ ‫رکھے ہوئے ہوتا ہے۔ جہاں کہیں‘ خرابی آتی ہے‘ فورا سے‬ ‫پہلے‘ درستی کی تدبیر کرتا۔ یہ سب‘ بیمار ذہنوں کا کام ہوتا ہے۔‬


‫یہ کس طرح درست ہو سکتا ہے‘ کہ مرد یا عورت پہٹھ‘ تنور‬ ‫اور حمام پر موضوع گفتگو بنیں۔۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔۔۔ بیٹا یہ‬ ‫درست نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ درست نہیں۔۔۔۔۔۔‬ ‫افسوس ہے‘ ان بہنوں‘ بیٹیوں اور ماؤں پر‘ جو محض‘ چند‬ ‫لمحوں کی لذت کے لیے‘ اپنوں کی عزت کو‘ بازار میں لے آتی‬ ‫ہیں۔ اس جنسی فراڈ کو‘ وہ عشق کا نام دیتی ہیں۔ ان کی کوئی‬ ‫عزت نہیں‘ اس کا مطلب یہ نہیں‘ کہ ان کے اپنوں کی بھی‘‬ ‫کوئی عزت نہیں۔ مانتا ہوں‘ هللا‘ ان کا کچھ نہیں لگتا‘ یہ تو ان‬ ‫کے اپنے ہیں۔‬ ‫‪:‬ایک صاحب نے سوال کیا‬ ‫بابا جی! ہیر اوررانجھا‘ سچے پریمی تھے۔ آپ کے؛ اس پیمانے‬ ‫کی رو سے‘ وہ بھی غلط ٹھہرتے ہیں۔‬ ‫میں نے کب کہا ہے‘ وہ درست تھے۔ رانجھا کام چور اور نکما‬ ‫شخص تھا۔ اسے یہ ہی کام‘ آسان لگا‘ لہذا اسی میں جٹ گیا۔‬ ‫دوسرا اس کا پیار‘ رد عملی تھا۔ جاؤ‘ جا کر‘ ہیر رانجھا مثنوی‬ ‫کا‘ مطالعہ کرکے‘ دیکھ لو۔ اس نے یہ کام کرکے‘ بنی نوع‬ ‫انسان کی‘ کیا خدمت انجام دی ہے۔ کام وہ ہی اچھا‘ جس سے‘‬ ‫بال کسی تفریق‘ انسان کی بھالئی نکلتی ہے۔ کیدو غیرت کی‬ ‫عالمت ہے‘ اسے سب برا کہتے ہیں۔ لفظ عشق‘ صرف هللا ہی‬ ‫کے لیے ہے۔ ماں سے‘ بڑھ کر کون ہو گا۔ اس کا‘ یا اس سے‘‬ ‫پیار‘ محبت‘ عزت‘ خلوص‘ شفقت‘ ہم دردی‘ رحم دلی وغیرہ ہو‬


‫سکتی ہے‘ عشق نہیں۔ هللا سے عشق‘ راستی پر رکھتا ہے۔‬ ‫جنسی حاجت‘ گم راہی کی طرف لے جاتی ہے۔‬ ‫انسان‘ الٹے قدموں چلنے لگا ہے۔ الٹے قدم‘ ڈائن چلتی ہے‘‬ ‫شخص ڈائن نہیں۔ میرے پچو! الٹے چلن کے باعث‘ انسان‘‬ ‫خسارہ میں چال آتا ہے۔ سب‘ سکندر کا نام جپتے ہیں۔ کوئی بتا‬ ‫سکتا ہے‘ اس کے پیش نظر‘ کون سا فالحی ہدف تھا۔ زمین اور‬ ‫وسائل پر‘ بازور شمشیر قبضہ جمانا‘ کون سی خدمت میں آتا‬ ‫ہے۔ ہر مزاحم‘ اور غیر کا سر‘ کاٹتے چلے جانا‘ کہاں کی دلیری‬ ‫ہے۔ دلیر تو وہ ہے‘ جو جانوں کی حفاظت کرے۔ وہ اچھا اس‬ ‫لیے ہے‘ کہ اس نے ہندو راجہ پورس کو شکست دی۔ درستی کا‬ ‫یہ معیار‘ قطعی غیر منطقی اور غیرانسانی ہے۔‬ ‫یہ ہی حال‘ محمود کا ہے‘ اسالم میں کہاں لکھا ہے‘ کہ غیر‬ ‫مسلموں کی عبادت گاہوں کو‘ ڈھاؤ یا نقصان پہنچاؤ۔ یقین تو‘‬ ‫من منے کا میلہ ہے۔ دیکھو‘ اوروں کو چھوڑو‘ تم جو موجود‬ ‫ہو‘ مجھ سے وعدہ کرو درست چال ہی کو‘ درست سمجھو گے۔‬ ‫انسان کے لیے‘ کچھ کرو۔ عشق‘ صرف هللا سے کرو۔ ہر ماں‘‬ ‫بہن اور بیٹی کو‘ عزت اور احترام کی نظروں سے‘ دیکھو۔ نسل‬ ‫جاری رکھنے‘ اور جنسی تسکین کے لیے‘ نکاح کا رستہ اختیار‬ ‫کرو۔ اگر انصاف کر سکتے ہو‘ ایک کیا‘ چار نکاح کرو۔ تمہیں‬ ‫دیکھ کر‘ لوگ‘ از خود‘ راستی کی راہ‘ پکڑ لیں گے۔ بابا خامش‬ ‫ہوا‘ تو چاروں طرف سے‘ حق حق حق کے آوازے بلند ہونے‬


‫لگے۔‬ ‫مجھے وہ بابا‘ بابا کم‘ کھپتی زیادہ لگا۔ ہر بات‘ پٹھی کر رہا تھا۔‬ ‫وہ بابا حق کم‘ بابا پٹھی زیادہ تھا۔ میں نے مدعا بیان کیے بغیر‘‬ ‫کھسک جانے کا ارادہ کیا۔ میں نعروں کے بیچ‘ نکل جانا چاہتا‬ ‫تھا۔ اچھا موقع تھا۔ کسی کی‘ میری جانب توجہ نہ تھی۔ میں نے‘‬ ‫جاتے ہوئے‘ چور نظروں سے دیکھا۔ اس کی نظریں‘ مجھ پر‬ ‫جمی ہوئی تھیں۔ اب کہ اس کے چہرے پر‘ سنجیدگی اور متانت‬ ‫تھی۔ مجھے یوں لگا‘ جیسے اس کا مخاطب‘ کوئی اور نہیں‘‬ ‫میں ہی تھا۔ اس نے‘ مجھے جاتے ہوئے‘ روکا نہیں۔ میں نے‘‬ ‫کمرے سے باہر آکر‘ گھڑے سے دو گالس پیے‘ تو جان میں‬ ‫جان آئی۔‬ ‫واپسی پر‘ میرے اندر جنگ چھڑ گئی۔ دل کہہ رہا تھا‘ بابے نے‬ ‫جو کہا‘ بکواس سے زیادہ‘ کچھ نہیں۔ دماغ مان رہا تھا‘ بابے‬ ‫کی باتوں میں دم تھا۔ اگر بابے کی باتیں‘ زرینہ سن لیتی‘ تو‬ ‫صدمے سے‘ وہیں فوت ہو جاتی۔ اب کوئی رستہ بھی تو باقی نہ‬ ‫رہا تھا۔ بابے کو نہ مانتے ہوئے بھی‘ شاید نے دم نہ توڑا تھا۔‬ ‫زرینہ انتظار میں تھی۔ وہ گھر کی چھت پر‘ دھلے کپڑے ڈالنے‬ ‫کے لیے‘ آ جا رہی تھی۔ اسے دیکھتے ہی‘ گزرے لمحموں کی‬ ‫بازگشت تک باقی نہ رہی۔ مجھے یاد تک نہ رہا‘ کہ میں بابا حق‬ ‫سے‘ مال بھی تھا۔ ہاں‘ جب رات کو‘ چارپائی پر لیٹا‘ تو حق حق‬


‫حق کے نعروں نے‘ مجھے دیر تک سونے نہ دیا۔ میں نے بڑی‬ ‫کوشش کی‘ کہ دھیان ادھر ادھر کرکے‘ ان نعروں سے‘ خالصی‬ ‫پا لوں‘ مگر کہاں جی۔ میری ایما کے برعکس‘ میرے منہ سے‬ ‫بھی‘ حق حق حق کے آوازے نکلنے کو ہی تھے‘ کہ میں نے‘‬ ‫سورت اخالص پڑھنا شروع کر دی‘ شاید خدا سے‘ عشق کا‘‬ ‫میرا یہ پہال قدم تھا۔ یہ پہال موقع تھا‘ جو اثرآفرینی کے لیے‘ دم‬ ‫والے پانی اور تعویزوں کا مرہون منت نہ ہوا۔ اس کے لیے‘‬ ‫مجھے ایک اکنی بھی نہ دینا پڑی۔‬

‫میں ابھی اسلم ہی تھا‬

‫ہم کچھ دوست‘ ایک دربار پر بٹھے ہوئے تھے۔ پہت سے لوگ‘‬ ‫آ اور جا رہے تھے۔۔ ان میں ہر کسی کی‘ منزل ایک نہ تھی۔ ہر‬ ‫کوئی‘ الگ سے اپنی حاجت اور آرزو رکھتا تھا۔ ایک جگہ جمع‬ ‫ہو کر بھی‘ وہ ایک دوسرے سے‘ فکری طور پر کوسوں دور‬ ‫تھے۔ یہ ہی نہیں‘ ایک ساتھ آنے والے‘ ایک ہی کنبہ کے لوگ‘‬ ‫الگ نوعیتوں کی خواہشات‘ دل میں چھپا کر آئے تھے۔ ایک‬ ‫جوڑا‘ اپنے نومولود بچے کو لے کر‘ حاضر ہوا تھا۔ دربار کی‬


‫سیڑھیوں کے قریب‘ آپس میں الجھا ہوا تھا۔ ایک ساتھ رہ کر‬ ‫اور ایک بچے کے مائی باپ ہو کر بھی‘ وہ ایک سی سوچیں؛‬ ‫ایک سے نظریے اور ایک حاجات نہ رکھتے تھے۔ ان‬ ‫کےباطن میں‘ پنپنے والی آرزویں‘ ایک دوسرے کے قریب تر نہ‬ ‫تھیں۔ ہر کوئی‘ ذات کے حصار میں مقید تھا۔ اگر اس جوڑے‬ ‫میں‘ کسی بھی سطح پر‘ فکری اشتراک ہوتا تو یوں آپس میں‬ ‫الجھ نہ رہے ہوتے۔‬ ‫جملہ آسمانی تعلیمات کے‘ دو ہی مقاصد رہے ہیں۔ انسان کا‬ ‫فکری اشتراک‘ دوسروں کی خدمت کرنا اور ان کی خیرخواہی‬ ‫چاہنا۔ اس صورت حال کے پیش نظر‘ انسان اپنی ذات سے‘ ادھر‬ ‫ادھر نہیں ہوتا۔ وہ تامرگ اپنے لیے جیتا ہے‘ اور اپنی آرزوں‬ ‫کی تکمیل کے لیے کوشاں رہتا ہے اور اسے ہی‘ مقصد حیات‬ ‫گردانتا ہے۔‬ ‫ہم چاروں دوست‘ اپنی اپی آرزوں کی پوٹلی اٹھا کر چلنے ہی‬ ‫کو تھے‘ کہ دربار سے باہر‘ پانوں سگرٹوں کی دکان پر‘ ریڈیو‬ ‫‪:‬پر اختر شیرانی کی یہ غزل چھڑ گئی‬ ‫میں آرزو جاں لکھوں یا جان آرزو‬ ‫تو ہی بتا دے ناز سے‘ ایمان آرزو‬ ‫یہ غزل مجھے بڑی پسند تھی۔ میں نے دوستوں سے کہا‪ :‬یار‬


‫ذرا ٹھہر جاؤ۔ یہ غزل سن کر چلتے ہیں۔ ان کی مہربانی‘ کہ‬ ‫انہوں نے میری بات مان لی اور غزل ختم ہونے تک‘ رک‬ ‫گیے‘ ورنہ سارے رستے بوریت اور افسردگی‘ طاری رہتی۔ جب‬ ‫غزل کا یہ شعر‬ ‫ایمان جان نثار تری اک نگاہ پر‬ ‫تو جان آرزو ہے تو ہی ایمان آرزو‬ ‫آیا تو‘ ایک ملنگ بابا‘ جو کافی عمر رسیدہ تھا‘ وجد میں آ گیا‘‬ ‫اور پھر اٹھ کر ناچنے لگا۔ ہم سب کی سوچیں‘ وہیں منجمد ہو‬ ‫گئیں۔ آخر شعر میں‘ وجد میں آنے‘ اور پھر ناچنے والی کون‬ ‫سی بات ہے۔ سچی بات تو یہ ہی ہے‘ کہ ہم غزل سننے سے‬ ‫زیادہ‘ اس ملنگ بابا کو دیکھ رہے تھے۔ یوں لگتا تھا‘ جیسے‬ ‫اس کے اندر‘ کوئی بےچین روح‘ مچل گئی تھی۔ یہ فعل‘ اس کا‬ ‫اختیاری نہ تھا۔ کسی جذبے نے‘ اسے تھرکنے پر مجبور کر‬ ‫دیا تھا۔‬ ‫غزل ختم ہوئی‘ تو ملنگ بابا‘ نڈھال ہو کر‘ گر پڑا۔ لگتا تھا‘‬ ‫جیسے صدیوں کا سفر طے کرکے‘ اس مقام پر پہنچا ہو۔‬ ‫نوید ہم میں سے‘ خوش طبع واقع ہوا ہے۔ بابے کی عمر دیکھو‘‬ ‫اور کام دیکھو۔ رہتا کہاں ہے‘ اور سوچیں کسی حسینہ کی‬ ‫زلفوں میں‘ اٹکی ہیں۔ یقینا ناکام محبت‘ اسے اس مقام تک لے‬


‫آئی ہے۔‬ ‫شاہد بوال‪ :‬چھوڑو یار‘ ان باتوں کو۔۔۔۔۔۔غزل کی زبان تو دیکھو‘‬ ‫کیا شگفتگی‘ شائستگی اور ہم صوت آوازوں کا اسستعمال ہوا‬ ‫ہے۔ مضمون بھی تو‘ اپنی نوعیت کا ہے۔ نغمیت تو دیکھو۔‬ ‫زبیدہ خانم نے بھی تو‘ گائیکی میں حد کر دی ہے۔۔ واہ۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫واہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یار‘ کیا بات ہے۔‬ ‫ساجد نے شاہد کو مزید بات نہ کرنے دی۔ بوال‪ :‬اوئے چپ کر‬ ‫کیہ بھور رہا ایں۔ بات ملنگ کی ہو رہی ہے‘ تم غزل کی زبان‬ ‫اور گائیکی کو لے بیٹھے ہو۔‬ ‫پھر تم ہی اپنی چھوڑو۔ شاہد نے بےزاری سے کہا۔‬ ‫ملنگ جذب کی آخری حالت میں تھا۔ اسے سمجھنے کے لیے‘‬ ‫اس کی حالت اور کیفیت میں جانا پڑے گا‘ ورنہ ملنگ سمجھ‬ ‫میں نہ آ سکے گا۔‬ ‫اچھا تو تمہارا کہنا یہ ہے کہ ہم سب اٹھ کر ناچنا شروع کردیں۔‬ ‫بھائی میرے‘ ناچنے سے کچھ سمجھ میں نہیں آئے گا۔ اس‬ ‫سے کیا ہوتا ہے‘ عشق نچاتا ہے‘ اور ہوش چھین لیتا ہہے۔‬ ‫میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا‘ ملنگ کو اس کے ماضی سے‬


‫جڑی حسینہ کی یاد نے اسے نچایا تھا۔‬ ‫پگلے‘ میں اس عشق کی بات نہیں کر رہا۔ میں تو ذات واحد‬ ‫سے‘ عشق کی بات کر رہا ہوں۔ ملنگ ناچتے وقت‘ ملنگ نہ‬ ‫تھا۔ بس وہ ملنگ دکھائی دیتا تھا۔ اگر وہ اپنی موجودہ حالت میں‬ ‫ہوتا‘ تو کبھی نہ ناچتا۔ وہ تو ٹھیک سے چلنے کی پوزیشن میں‬ ‫نہ تھا۔ یہ رقص‘ جو تم د یکھ رہے تھے‘ وہ تو بڑی دور کی‬ ‫بات ہے۔‬ ‫تمہارا مطلب یہ ہے‘ کہ ملنگ کوئی پہنچی ہوئی شے ہے۔‬ ‫میں نے یہ کب کہا ہے‘ کہ وہ کوئی پہنچی ہوئی شے ہے۔‬ ‫یہ معاملہ‘ بس چند لمحموں سے‘ تعلق رکھتا ہے۔ اس کیفیت پر‬ ‫اختیار نہیں۔ اس میں شخص اپنی نفی کے عمل میں داخل ہو‬ ‫چکا ہوتا ہے۔۔ اثبات میں آنے کے بعد‘ اسے کچھ یاد نہیں ہوتا‘‬ ‫کہ کیا اور کیوں ہوا۔ دوسرا شخص‘ اگر ان لمحوں کو جان لے‘‬ ‫‪:‬تو پھٹ جائے۔ غالب نے خوب کہا ہے‬ ‫دیتے ہیں بادہ‘ ظرف قدح خوار دیکھ کر‬ ‫‪:‬یا ر ذرا اس شعر کو دیکھو‘ کہاں لے جا رہا ہے‬ ‫ایمان جان نثار کروں تری اک نگاہ پر‬


‫تو جان آرزو ہے تو ہی ایماان آرزو‬ ‫یہ شعر سن کر عشق مجازی واال ہو‘ یا عشق حقیقی واال‘ اپنے‬ ‫آپے میں رہ نہیں سکتا۔‬ ‫یہ شعر سن کر‘ عشق مجازی ہو یا عشق حقیقی‘ مبتال اپنے‬ ‫آپے میں رہ نہیں سکتا۔ اگر آپے میں رہتا ہے‘ تو وہ عشق‬ ‫نہیں‘ سوداگری ہے یا پھر‘ ابھی راہ میں ہے۔‬ ‫۔نوید بوال‪ :‬یہ تم‘ اس میں تصوف کہاں سے لے آئے ہو۔ اس‬ ‫غزل کا‘ تصوف سے‘ دور کا بھی واسطہ نہیں۔‬ ‫یہ تم اپنے حوالہ سے بات کر رہے ہو۔ میں ملنگ کی‘ بےخودی‬ ‫کے ییش نظر بات کر رہا ہوں۔ جس مقام پر‘ وہ ان لمحوں میں‬ ‫تھا تم کیا‘ کوئی بھی نہیں جانتا۔‬ ‫ابوعمر حمادی صرف عالم فاضل ہی نہیں تھا‘ سرکاری قاضی‬ ‫بھی تھا۔ اس ٹھوس حقیقت کے باوجود‘ وہ منصور کی وجہ‬ ‫سے وجود پاتا ہے۔اس کے قتل کی بنیادی وجہ‘ تو منصور کی‬ ‫تحریریں تھیں۔ اس کے قلم کی زد میں‘ مذہبی اور اقتداری‬ ‫طبقے تھے۔ اگر فرد ان کو نہ چھیڑے‘ تو کچھ نہیں ہوتا۔ ان کو‬ ‫چھیڑنے کی صورت میں ہی‘ جان سے جاتا ۔ہے۔ شاہد نے بات‬ ‫کاٹتے ہوئے کہا۔‬ ‫حمادی اسی لیے زندہ ہے‘ کہ اس نے‘ منصور کے قتل کا فتوی‬ ‫دیا تھا‘ ورنہ سیکڑوں مولوی‘ مفتی اور قاضی ہو گزرے ہیں‘‬


‫انہیں کون جانتا ہے۔ وہ دکھنے والے منصور کو پہچانتا تھا‘ اگر‬ ‫وہ اناالحق کا نعرہ لگانے والے‘ قیدی منصور کو جانتا ہوتا‘ تو‬ ‫اس کے قتل کا کبھی فتوی نہ دیتا۔ وہ مدعی کا‘ اس کے دعوے‬ ‫کی سطح کا‘ امتحان کرتا‘ تو ہی دودھ کا دودھ‘ پانی کا پانی ہو‬ ‫یاتا۔‬ ‫اس حوالہ سے‘ تو بات ہی نہیں ہو رہی اور ناہی ہماری گفتگو‬ ‫کا‘ یہ موضوع ہے۔ میں تو ملنگ کے بےخود ہو کر‘ ناچنے‬ ‫کے حوالہ سے بات کر رہا ہوں۔ جب آدمی آپے میں نہیں ہوتا‘‬ ‫تو عموم اور معمول سے باہر نکل جاتا ہے۔‬ ‫وہ دونوں اس موضوع پر بحث کرنے لگے۔ شاہد کا موقف تھا‘‬ ‫کہ اناالحق کا نعرہ‘ اس کے قتل کی وجہ نہ تھا۔ وہ مذہبی اور‬ ‫مقتدر حلقوں پر‘ تنقید کرتا تھا۔ ابوعمر حمادی‘ اس کے علم‬ ‫وفضل سے آگاہ تھا۔۔ اس کے ہوتے‘ حمادی کے سکے کھوٹے‬ ‫رہتے۔ وہ دین کی‘ سرکاری تشریح کرتا تھا‘ جب کہ منصور اس‬ ‫کی حقیقی شرح کرتا تھا‘ تب ہی تو دس سال قید رہا۔ لوگ اس‬ ‫کے گرویدہ تھے۔ سرکار اس کی مقبولیت کو کیوں کر برداشت‬ ‫کر سکتی تھی۔ اسے بھیڑیے کا بہانہ اختیار کرنا پڑا۔‬

‫یار وہ دینی علم کے حوالے سے ہی نہیں‘ روحانی علم کے‬


‫حوالے سے بھی بہت آگے تھا۔ حمادی سے لوگ‘ صدیوں میں‬ ‫بھی وہاں نہیں پہنچ پاتے۔ اگر تم ملنگ بابے کی باڈی لنگوئج کا‬ ‫مطالعہ کرتے‘ تو شاید زیادہ سمجھ پاتے۔ وہ اوپر دیکھ رہا تھا۔‬ ‫اس کی انگلی بھی اوپر کو اٹھی ہوئی تھی۔ وہ دنیا سے متعلق‬ ‫ہی نہ رہا تھا۔‬ ‫وہ اپنی گفتگو میں مصروف تھے‘ جب کہ میں سوچ رہا تھا‘ کہ‬ ‫ریحانہ میری زندگی میں‘ کیسے آ سکتی ہے۔ ریحانہ میری خالہ‬ ‫زاد تھی۔ ہمارا بچپن ایک ساتھ گزرا تھا۔ اگر میری ماں اللچی‬ ‫تھی‘ تو خالہ بھی‘ اس سے کسی طرح کم نہ تھی۔ خالہ چاہتی‬ ‫تھی‘ کہ اس کی بیٹی کوٹھی کاروں والے گھر جائے‘ جب کہ‬ ‫میری ماں کا خیال تھا‘ کہ اس کی بہو‘ کوٹھی کار جہییز میں‬ ‫الئے۔ آخر وہ‘ بیٹے کی ماں تھی۔ ہمارے ہاں کی ہر ماں‘ اسی‬ ‫طرح کے ہی خواب دیکھتی چلی آ رہی ہے۔ انہیں ہماری‬ ‫خوشیوں سے‘ کوئی تعلق واسطہ نہ تھا۔‬ ‫یہاں ہمارے‘ اپنے بھی‘ ابنے نہیں‘ اور فکری مطابقت کی‘ کوئی‬ ‫صورت ہی نہیں۔ میں ریحانہ کو‘ دل و جان سے چاہتا تھا۔ میرا‬ ‫خیال تھا‘ کہ میں اس کے بغیر‘ زندہ نہیں رہوں گا۔ اسی کے‬ ‫حصول کی دعا لے کر‘ میں دربار پر حاضر ہوا تھا۔ باقی میرے‬ ‫تینوں دوست‘ دل میں کیا رکھتے تھے‘ میں نہیں جانتا۔ زندگی‬


‫آرزوں کی گرفت میں ہے‘ تب ہی تو غیر آسودہ ہے۔ ملنگ بابا‬ ‫بھی‘ آرزو سے باال نہ تھا۔ تکمیل کے فقط چند لمحے‘ دستیاب‬ ‫ہوئے تھے‘ لیکن غزل ختم ہو گئی‘ اور وہ زمین پر آ رہا تھا۔‬ ‫اس شعر پر‬ ‫ایمان جان نثار کروں تری اک نگاہ پر‬ ‫تو جان آرزو ہے تو ہی ایمان آرزو‬ ‫میرے اندر بھی‘ ارتعاش پیدا ہوا تھا‘ لیکن میں رقص نہ کر‬ ‫سکا‘ میں اپنے آپے میں تھا۔ میں ابھی اسلم ہی تھا‘ ریحانہ‬ ‫نہیں ہوا تھا ۔اگر ریحانہ ہو گیا ہوتا‘ تو دنیا کی پرواہ کیے بغیر‘‬ ‫ملنگ بابے کے ساتھ رقص کر رہا ہوتا۔‬

‫معالجہ‬

‫ہماری ماں کی‘ تائی اماں سے کبھی بھی‘ نہیں بنی تھی۔ انہیں‘‬


‫تائی اماں کے ہر اچھے میں بھی‘ برائی نظر آتی تھی۔ وہ ان کی‬ ‫بھالئی کو بھی‘ اپنے ساتھ سازش کا نام دیتی تھیں اور پھر وہ‬ ‫روال ڈالتیں‘ کہ خدا کی پناہ۔ ایک بار‘ بھائی نوید تائی اماں کے‬ ‫پاس کھڑے تھے‘ ہماری ماں نے‘ بڑا زبردست ہنگامہ کھڑا کیا۔‬ ‫ان کا موقف تھا‘ کہ تائی حاجرہ اسے الٹی سیدھی پٹی پڑھا رہی‬ ‫ہے۔ ابا نے بھی‘ اس معاملے کو سیریس لیا۔ بھائی صاحب کی‬ ‫خوب پٹائی ہوئی۔ تایا بھی غصہ میں آگیے‘ دونوں بھائیوں کی‬ ‫خوب تو تکرار ہوئی۔‬ ‫اس آئے دن کے‘ بات بات پر‘ جھگڑے اور تو تو میں میں سے‬ ‫تنگ آ کر‘ ابا نے رہائش ہی بدلنے کی ٹھان لی۔ ہم دادا ابو کا‬ ‫مکان چھوڑ کر‘ کرائے کے مکان میں اٹھ آئے۔ ماں نے‘ سوئی‬ ‫سوئی کنج لی اور خالی کمرے پر تاال چڑھا دیا۔‬ ‫مالک مکان باالئی منزل پر رہتے تھے اور ہمیں زیرین منزل‬ ‫ملی تھی۔ دو کمرے اور ان کے سامنے برآمدہ تھا۔ باروچی‬ ‫خانہ‘ صاف ستھرا تو نہ تھا‘ ہاں اس کے ہونے سے انکار نہیں‬ ‫کیا جا سکتا تھا۔ کچھ یہ ہی حال‘ غسل خانے کا تھا۔ ہاں البتہ‬ ‫بیٹھک کی حالت بہتر تھی۔ دادا ابو کے گھر میں‘ ہمیں صرف‬ ‫ایک کمرہ مال تھا۔ وہ ایک کمرہ‘ یادوں اور محبتوں کی خوش‬ ‫بو سے لبریز تھا۔ اس کا ماحول‘ دادا ابو کی باتوں اور‬ ‫مسکراہٹوں میں رچا بسا تھا۔ وہ کبھی خالی ہاتھ‘ گھر نہ آئے‬ ‫تھے۔ جب بھی باہر سے آتے‘ ہم بچوں کے لیے‘ کچھ ناکچھ‬


‫ضرور لے کر آتے۔ خود بانٹ کرتے تھے۔ سب بچوں میں برابر‬ ‫تقسیم کرتے۔ گھر میں کوئی چیز‘ جب دادو انہیں دیتیں‘ تو اس‬ ‫میں سے بھی‘ ہم بچوں کو دے دیتے۔ دادو کہتیں‘ آپ کھائیں‘‬ ‫میں ان کو مزید دے دوں گی۔ وہ ان کی بات‘ سنی ان سنی کر‬ ‫دیتے۔‬ ‫هللا انہیں کروٹ کروٹ جنت دے‘ ہم سب کو وہ بڑا عزیز رکھتے‬ ‫تھے۔ میری امی ان سے بھی الجھ الجھ پڑتیں۔ وہ کسی بحث کی‬ ‫بجائے‘ مسکرا دیتے۔ ابا نے کئی بار کہا‘ میرے ابا امی سے نہ‬ ‫الجھا کرو۔ وہ ابا کی کب سنتی تھیں۔ امی‘ دادا ابو کی سگی‬ ‫بھتیجی تھیں۔ ان کا خیال تھا‘ کہ اپنی النے سے‘ گھر میں پیار‬ ‫اور سکون ہو گا۔ ان کی خدمت کریں گی‘ مگر کہاں؟ یہ سب‬ ‫خیالی سا ہو کر رہ گیا تھا۔ ان تمام باتوں کے باوجود‘ دادا ابو‬ ‫نے گھر بکھرنے نہ دیا تھا‬ ‫یہاں کرایہ کے مکان میں‘ دادا ابو اور دادو کی مسکانیں نہ‬ ‫تھیں۔ کسی گوشے میں بھی‘ ان کی یادوں کی مہک موجود نہ‬ ‫تھی۔ ہاں‘ چالیس روپے کرائے کا ابا پر بوجھ آ پڑا تھا۔ ہم سے‬ ‫کوئی کھیل کے دوران شور کرتا‘ تو مالک مکان اوپر سے ڈانٹ‬ ‫پالتا۔ دن بھر مالک مکان کی بیوی بڑ بڑ کرتی رہتی۔ بعض اوقات‬ ‫واضح الفاظ میں‘ امی کی سرزنش کرتی۔ امی تھی کہ چوں تک‬ ‫نہ کرتی۔ ہاں بڑی باریک آواز میں‘ کھری کھری سناتی۔ ایک‬ ‫دن‘ ذرا اونچی آواز میں‘ کچھ کہہ گئیں۔ شام کو‘ مالک مکان‬


‫نے‘ ابو سے کچھ پوچھے بغیر‘ مکان سے جواب دیا۔ اس کی‬ ‫زوجہ کہہ رہی تھی‘ لہذا غلط تو نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ ہمیں‬ ‫شریف لوگ سمجھ رہے تھے‘ لیکن اب مکان سے جواب ہونے‬ ‫پر‘ ہماری شرافت کا گراف‘ زیرو سے بھی‘ نیچے چال گیا۔‬ ‫ابا مکان سے جواب مل جانے پر پریشان تھے‘ لیکن ہماری امی‬ ‫کی سنائی ہوئی کہانی کے باعث‘ غصہ میں بھی تھے۔ وہ کہہ‬ ‫رہے تھے‘ کہ مالک مکان نے ہمیں کمی کمین سمجھ رکھا ہے۔‬ ‫ہم باعزت لوگ ہیں۔ مفت تھوڑا رہ رہے ہیں‘ کرایہ دیتے ہیں۔‬ ‫انہوں نے ہمیں سمجھ کیا رکھا ہے۔ امی نے جتنا بھرا‘ اس سے‬ ‫لگ رہا تھا‘ کہ ابا مالک مکان کو قتل ہی کر دیں گے۔ ابا نے‬ ‫کہا‘ واپس اپنے مکان میں چلتے ہیں۔ امی نے صاف جواب دے‬ ‫دیا۔ انہوں نے کہا‘ مر جاؤں واپس نہیں جاؤں گی۔‬ ‫ہمیں یکے بعد دیگرے‘ تین مکان بدلنے پڑے۔ ہر بار‘ کوئی‬ ‫ناکوئی مسلہ کھڑا ہو جاتا۔ پھر طے یہ ہوا‘ دادا کی جائیداد سے‬ ‫حصہ لے کر‘ کوئی ذاتی مکان ہی خرید لیا جائے۔ دادا کی‬ ‫جائےداد میں سے‘ سترہ سو ملے اور ہم دین پور اٹھ آئے۔‬ ‫مکان کی تعمیر وغیرہ میں‘ ابا چھے سو بائیس روپے کے‬ ‫نیچے آ گیے۔ قرض کے سبب‘ ہمارا ہاتھ تنگ پڑ گیا۔ گھر میں‬ ‫بےسکونی سی پڑ گئی۔ ابا اور امی کی‘ ہر وقت کڑکڑ رہنے‬ ‫لگی۔ تنگ دستی کے سبب‘ ہم بہن بھائی بھی متاثر ہوئے۔‬ ‫بدقسمتی کی بات یہ تھی‘ کہ لڑائی اس وقت شروع ہوتی‘ جب ہم‬


‫کھانا کھانے لگتے۔ کھانا‘ کھانا حرام ہو جاتا۔ ابا جب کام پر‬ ‫جانے لگتے یا کام سے واپس آتے‘ کوئی ناکوئی‘ ایسی بات‬ ‫ضرور ہو جاتی‘ جس کے باعث‘ گھر کا ماحول تلخ ہو جاتا۔‬ ‫ابا اپنے بھائی کی‘ ہمیشہ کمی محسوس کرتے‘ لیکن منہ سے‘‬ ‫حرف بھی نکال نہیں سکتے تھے۔ ان کے چہرے پر بکھری‬ ‫بےبسی‘ دیکھی نہیں جاتی تھی۔ خدا معلوم‘ اپنے آنسو کس‬ ‫طرح ضبط کرتے ہوں گے۔ ایک دن ہمارے گھر میں عجب ان‬ ‫ہونی ہوئی۔ ابا گرج رہے‘ اور امی کی آواز‘ ان کی آواز کے‬ ‫نیچے‘ دب رہی تھی۔ وہ تایا کی بیٹی‘ میرے بڑے بھائی مدثر‬ ‫کے لیے‘ النا چاہتے تھے۔ جنگ تھی‘ کہ تھمنے کا نام ہی نہ‬ ‫لے رہی تھی۔ ابا نے‘ تاؤ میں فائرنگ شروع کر دی۔ دو چار‬ ‫چپت رسید تو کر بیٹھے‘ پھر هللا دے اور بندہ سہے۔ پورے دس‬ ‫دن‘ گھر میں ناگواری رہی۔ ہمیں ڈسٹرب دیکھ کر‘ ابا کو ہھتیار‬ ‫ڈالنا پڑے۔ عقیلہ‘ بھائی کی پسند تھی۔ انہیں بھی‘ دل پر پتھر‬ ‫رکھنا پڑا۔ اس جنگ میں‘ خالہ عنایت‘ کنبہ کی ہیرو ٹھہریں جب‬ ‫کہ تایا ابو دشمن قرار پائے۔ ان کا جب کبھی ذکر چھڑتا‘ امی ان‬ ‫کے ظلم وستم کے قصے چھڑ دیتیں۔‬ ‫یہ کوئی ایسی نئی بات نہ تھی۔ دوست اور دشمن کا فیصلہ طاقت‬ ‫ہی کرتی آئی ہے۔ ہٹلر بالشبہ ظالم تھا۔ اس کے برعکس‘ برٹش‬ ‫کون سے ہل پر نہائے ہوئے تھے۔ وہ ہمارے ہیرو اور محسن‬ ‫ہیں۔ چرچل کا نام روشن ہے‘ حاالں کہ یہ دونوں کردار ایک ہی‬


‫سکہ کے‘ دو رخ تھے۔ اگر گریبان میں منہ ڈال کر دیکھا جائے‘‬ ‫تو حقیقت یہ ہی نظر آئے گی‘ کہ ظالم ہم تھے۔ برصغیر کی فوج‬ ‫وہاں جا کر لڑی۔ دشمن اس لیے نہیں کہہ سکتے‘‘ کہ برصغیر‬ ‫کی فوج‘ درحقیقت برٹش گورنمنٹ کی فوج تھی اور بہت سوؤں‬ ‫کو زبردستی بھرتی کیا گیا تھا۔ بابر چوں کہ فاتح تھا‘ تاریخ میں‬ ‫بہ طور مسلم ہیرو‘ زندہ ہے۔ کوئی نہیں جانتا‘ وہ بہ طور‬ ‫شخص کیسا تھا‘ کس سے اور کیوں لڑا‘ کسی کو جاننے کی‬ ‫ضرورت ہی نہیں۔ ہر اچھائی اس کی طرف پھیر دی جائے گی۔‬ ‫جو بھی سہی‘ دوست کون ہے اور دشمن کون ہے‘ کا فیصلہ‬ ‫طاقت کرتی ہے۔‬ ‫آج ایک عرصہ گزر چکا ہے‘ ہم ایک دادا کی اوالد ہو کر‘ ایک‬ ‫دوسرے کو‘ پہچان نہیں سکتے۔ گلی بازار گزرتے ہوئے‘ ہم‬ ‫اپنے ہی بچوں کو پہچان نہیں سکتے۔ مجھے اس حقیقت سے‬ ‫انکاری نہیں‘ کہ میرے ہی گھر میں‘ اپنے پرائے اور دوست‬ ‫دشمن کا فیصلہ‘ ساجدہ‘ یعنی میری بیوی ہی کرتی ہے۔ ہمارے‬ ‫اپنے‘ پرائے کیا‘ نامعلوم اجنبی ہو گیے ہیں۔‬ ‫آخر ہم‘ کب حقائق کے پیش نظر‘ خود دوست اور دشمن کا‬ ‫فیصلہ کریں گے۔ ہو سکتا ہے‘ ابا مرحوم نے دیوار گرانے کا‘‬ ‫آخری فیصلہ کیا ہو‘ لیکن انھیں‘ طاقت کے قدموں میں ہتھیار‬ ‫رکھنا ہی پڑے۔ فیصلہ تو میں نے بھی کیا ہے‘ کہ اپنی بہن‬ ‫کلثوم کی بیٹی شازیہ‘ اپنے بیٹے‘ شکیل کے لیے الؤں گا۔‬


‫دیکھیں‘ کیا ہوتا ہے۔ میں صدیوں سے چلے آتے‘ اصول کو‘‬ ‫شکست دینے کے لیے‘ آخری حد جاؤں گا۔ میں ہر صورت میں‬ ‫یہ جنگ جیتنے‘ کی کوشش کروں گا۔ میری بہن غریب ہے‘ تو‬ ‫کیا ہوا۔ میں پلے سے‘ ساجدہ کا منہ مانگا‘ جہیز خرید کر دوں‬ ‫اور یہ خبر‘ اس کے فرشتوں کو بھی نہ ہو سکے گی‘ کہ اس‬ ‫کی بہو کا جہیز‘ میں نے خود اپنے پلے سے بنایا۔ یہ روپے‬ ‫پیسے‘ بچوں کے لیے ہی تو ہوتے ہیں۔ بلواسطہ سہی‘ سب کچھ‬ ‫جائے گا تو میرے بیٹے ہی کے گھر۔‬ ‫سقراط اور حسین نے‘ اس مروجہ طور کو‘ جان دے کر‘ غلط‬ ‫قرار دیا۔ ہم سقراط اور حسین کے راستے کو‘ درست مانتے ہیں‬ ‫اوراس رستے کا‘ زبانی کالمی احترام بھی کرتے ہیں۔ عملی طور‬ ‫پر‘ ہمارا پرنالہ وہیں پر ہے۔ جب یہ طور درست ہے‘ تو فتح کے‬ ‫لیے‘ میں کیوں‘ اس سے پہلو تہی کروں۔ سب کہتے ہیں‘ کہ‬ ‫جنگ‘ سیاست اور پیار کے لیے‘ منفی بھی‘ منفی نہیں‘ تو میں‬ ‫اس رستے کو اختیار کرکے‘ فتح کا منہ ضرور دیکھوں گا۔‬ ‫ہاں مجھے یہ تاسف ضرور رہے گا‘ کہ میں نے صدیوں سے‬ ‫چلے آتے‘ اصول پر خط کھیچنے کے لیے‘ منفی طریقہ استعمال‬ ‫کیا ہے‘ لیکن کیا کروں‘ میرے پاس کوئی دوسرا رستہ موجود‬ ‫نہیں۔ میں بڑھاپے میں‘ اپنے باپ دادا کی طرح ذلت آمیز شکست‬ ‫قبول کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ ذلیل ہو کر پیچھے ہٹنا‘‬ ‫کوئی صحت مند عمل نہیں۔‬


‫بایو کیمک اصول کے مطابق‘ منفی کی درستی کے لیے‘ منفی‬ ‫رستہ ہی اختیار کرنا پڑے گا۔ منفی کا‘ اس کے سوا‘ کوئی اور‬ ‫معالجہ میری سمجھ میں نہیں آ رہا۔‬ ‫‪2-11-1974‬‬

‫کریمو دو نمبری‬ ‫عجب وقت آ گیا ہے‘ جس کے ساتھ بھالئی کرو‘ وہ ہی پچھال‬ ‫سارا کیا کرایا بھول کر‘ سر کو آتا ہے۔ آنکھ لحاظ اور مروت‘‬ ‫بےمعنی اور الیعنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اسی طرح‘ لوکائی اور‬ ‫انصاف کرنے والوں کا بھی‘ کوئی حال نہیں۔ حق سچ کو‘ باالئے‬ ‫طاق رکھ کر‘ تگڑے کی‘ ناصرف ہاں میں ہاں مالتے ہیں‘ بلکہ‬ ‫دھڑا بھی‘ اسی کا کوٹتے ہیں۔ یہ اندھیر نہیں‘ تو اور کیا ہے۔‬ ‫اصوال‘ ہر کسی کم زور کا ساتھ دینا چاہیے۔ ایک پرابلم یہ بھی‬ ‫ہے‘ کہ تگڑا تو اس کی خبر لے گا ہی‘ ماڑے بھی‘ اس کی جان‬ ‫کھا جائیں گے۔ اس طرح‘ اطراف میں‘ اس کا جینا حرام ہو‬ ‫جائے گا۔ اس عمل میں‘ اس کی جان بھی جا سکتی ہے۔ چپ‬ ‫رہتا ہے‘ تو ضمیر جینے نہیں دیتا۔ یہ کیا‘ تگڑا بھی اسے مخبر‬ ‫سمجھ سکتا ہے۔ گویا تینوں رستے‘ بند ہو جاتے ہیں۔ چوتھا‬


‫رستہ‘ خود کشی یا فرار کا رہ جاتا ہے۔ ہر دو صورتوں میں‘‬ ‫اس کے پچھلے‘ عذاب میں مبتال ہو جاتے ہیں۔ کس کس کو‘‬ ‫جواب دیں اور کیا دیں۔‬ ‫صابو ماچھی‘ نیل پور میں‘ بےچارگی کی زندگی گزار رہا تھا۔‬ ‫اس کی بیوی گاماں‘ دکھ سہتی سہتی‘ تین بچوں کو‘ بےچارگی‬ ‫کی بند گلی میں‘ چھوڑ کر‘ هللا کو پیاری ہو گئی۔ برے وقت میں‘‬ ‫اپنے بھی‘ ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔۔ اصول یہ ہی رہا ہے‘ کہ‬ ‫اندھیری آئے‘ تو بیٹھ جانا چاہیے۔ یہ گریب لوگ‘ بچوں کا بہانہ‬ ‫لے کر‘ عیاشی کا رستہ نکال لیتے ہیں۔ صابو ماچھی نے بھی‘‬ ‫یہ رستہ نکال لیا۔ اس گریب اور تین بچوں کے اڈھیر عمر کے‬ ‫شص کو‘ رشتہ کون دے۔ اس کی عیاش ذہنیت نے‘ رشتہ ڈھونڈ‬ ‫ہی لیا۔ جوان اور منہ متھے لگتی نوراں‘ اس کے گھر کی رونق‬ ‫بن ہی گئی۔‬ ‫نوراں اچھی اور ملن سار لڑکی تھی۔ اس نے آتے ہی‘ چولہا‬ ‫چونکا سمبھال لیا۔ بچوں کی دیکھ بھال بھی کرنے لگی۔ حسن‘‬ ‫چیتھڑوں میں بھی‘ حسن ہی ہوتا ہے۔ گوہر شناس نظریں‘ پتھر‬ ‫اور لعل میں‘ فرق سے‘ خوب خوب آگاہ ہوتی ہیں۔ ایک دن‘ شاہ‬ ‫کوٹ کے سردار کریم بخش کا‘ اس گاؤں سے گزر ہوا۔ اس نے‘‬ ‫میلے اور بوسیدہ لباس میں ملبوس‘ نوراں کو دیکھ لیا۔ نوراں‬ ‫نے بھی‘ سردار صاحب کی جانب گریب اور الچار نظروں سے‬ ‫دیکھا۔ گھوڑی پر سوار‘ سردار کریم بخش کوہ کاف کا‘ شہزادہ‬


‫لگ رہا تھا۔ درد کے خون میں ڈوبی‘ ایک آہ اس کے منہ سے‬ ‫نکلی۔ اپنے اپنے مقدر کی بات ہے۔ محلوں کے الئق حسن‘‬ ‫روڑی پر پڑا‘ ناقدری ٹھوکروں کی زد میں تھا۔ کیا ہو سکتا تھا۔‬ ‫جب اس نے‘ دوسری بار‘ سردار کریم بخش کی طرف دیکھا‘ تو‬ ‫اس کے چہرے پر‘ بڑی ہی زہریلی‘ مسکراہٹ تھی۔ وہ نہیں‬ ‫جانتی تھی‘ کہ اس کی اس زہریلی مسکراہٹ نے‘ کیا قیامت توڑ‬ ‫دی ہے۔‬ ‫وہ مایوس اور اداس اداس گھر لوٹی۔ وہ نہیں جانتی تھی‘ کہ‬ ‫ساعت‘ زحل سے نکل کر‘ مشتری میں قدم رکھ چکی تھی۔‬ ‫سردار پائے کا حسن نواز واقع ہوا تھا۔ اس نے‘ حسن تو حسن‘‬ ‫اس سے واابستہ لوگوں کو بھی‘ رنگ دیا تھا۔ اس نے‘ صابو‬ ‫کو‘ اس کے گھر والوں سمیت‘ شاہ کوٹ بال لیا اور اپنی حویلی‬ ‫کے پڑوس میں‘ اچھا کھال اور صاف ستھرا‘ رہنے کے لیے‬ ‫مکان دے دیا۔ یہ ہی نہیں‘ ضرورت کی ہر شے‘ اس میں رکھوا‬ ‫دی۔ سب کو‘ دو دو جوڑے‘ کپڑوں کے سلوا دیے۔ نوراں کے‬ ‫حسن کی مناسبت سے‘ وافر کپڑے اور جوتے خرید دیے۔ صابو‬ ‫کو ڈیرے پر رکھ لیا۔ اسے زیادہ مشقت نہ کرنا پڑتی تھی۔ اس‬ ‫کا صرف اتنا کام تھا‘ کہ آئے گیے کا خیال رکھے اور چلم‬ ‫ٹھنڈی نہ ہونے دے۔ سردار صاحب کی عدم موجودگی میں‘‬ ‫ڈیرے کے امور وہ ہی انجام دیتا۔ سردار صاحب بڑے دل والے‬ ‫تھے۔ دوپہر کو صابو کے گھر جاتے۔ زیادہ تر دوپہر کو وہیں‬ ‫آرام کرتے۔ وہ بےفکر تھے‘ صابو ان کی عدم موجودگی میں‘‬


‫ڈیرے کےامورانجام دینے میں‘ کسی قسم کی کوتاہی سے‘ کام‬ ‫نہیں لے گا۔‬ ‫بچے‘ بہت بڑی رکاوٹ تھے۔ سردار صاحب کے آنے کے قریب‘‬ ‫نوراں کو‘ ہر روز‘ انہیں ادھر کرنے کے لیے‘ سو طرح کے‬ ‫بہانے بنانا پڑتے۔ ماں‘ ماں ہوتی ہے‘ سوتیلی کا محض لوگوں‬ ‫نے سابقہ جڑ دیا ہے۔ نوراں نے‘ بڑے کو‘ پڑھنے کے لیے‘‬ ‫شہر بجھوا دیا۔ دوسرے دونوں کو‘ ساتھ والے گاؤں میں سکول‬ ‫تھا‘ وہاں پڑھائی کے لیے بھیج دیا۔ ان کی اپنی ماں‘ جو معمولی‬ ‫چہرے مہرے کی عورت تھی‘ اتنا بڑا کارنامہ انجام نہ دے پاتی۔‬ ‫وقت گزرتا گیا۔ صابو کو‘ کسی معاملے کی خبر تک نہ ہوئی۔‬ ‫گاؤں کے‘ کسی شخص کے منہ سے‘ بھول کر بھی‘ کچھ نہ‬ ‫نکال۔ گاؤں کی عزت‘ سردار کی اپنی ہوتی ہے۔ لہذا یہ بات کرنے‬ ‫والی بھی نہ تھی۔ ایسا تو‘ صدیوں سے ہوتا آ رہا ہے۔ دوسرا‬ ‫اس بات میں‘ کوئی ان ہونی موجود نہ تھی۔ س لیے‘ اس بات‬ ‫کا‘ کسی زبان پر آنا ضروری نہ تھا۔ هللا نے نوراں کو ہرا کیا‘‬ ‫اسے ایک بیٹا اور دو چاند سی بیٹیاں عطا کیں۔ وہ خوش تھی‘‬ ‫کہ دنیا کے ساتھ‘ اس کی بھی سانجھ پڑ گئی تھی۔ سردار ان‬ ‫تینوں بچوں کا‘ پہلوں سے بھی بڑھ کر‘ خیال رکھتا تھا۔ زمانہ‬ ‫اس کی دریا دلی اور بڑے ظرف کا‘ معترف تھا۔ چلو کسی بھی‬ ‫حوالہ سے سہی‘ کسی ایک غریب کا تو‘ خیال رکھتا تھا نا اور‬ ‫یہ بہت بڑی بات تھی۔‬


‫ایک روز‘ صابو کو‘ کسی کام سے‘ گھر آنا پڑا۔ اس وقت سردار‬ ‫صاحب‘ ضروری حاجت سے فراغت کے بعد‘ اس کے گھر سے‘‬ ‫باہر نکل رہے تھے۔ اس کا سر گھوم گیا۔ اس کے جی میں آیا‘‬ ‫کہ ابھی نوراں کا گال دبا دے۔ گھر اگرچہ‘ بیس تیس قدموں کے‬ ‫فاصلے پر تھا‘ لیکن یہ فاصلہ اسے میلوں پر بھاری لگا۔ گھر‬ ‫تک آتے آتے‘ اس نے یہ ہی سوچا‘ کہ ابھی نوراں پر کچھ نہیں‬ ‫ظاہر کرے گا۔ اسے رنگے ہاتھوں پکڑ کر‘ سزا دے گا۔ اب وہ‘‬ ‫کس بنیاد پر‘ کوئی ایکشن لے سکتا تھا۔ پھر وہ جلدی جلدی‘‬ ‫گھر میں داخل ہوا‘ کچھ ظاہر کیے بغیر‘ جو لینا تھا‘ لے کر‘‬ ‫گھر سے باہر نکل گیا۔ اس کا دماغ‘ غم اور غصے کی آگ میں‬ ‫ابل رہا تھا۔ نوراں نڈھال سی‘ چارپائی پر پڑی تھی۔ یوں لگتا‬ ‫تھا‘ کسی مشقت نے‘ اسے نڈھال کر دیا تھا۔ مرغ اور دال سبزی‬ ‫کی مشقت میں‘ فرق تو ہوتا ہی ہے۔‬ ‫ہر عروج کے ساتھ‘ زوال وابستہ ہے۔ وہ سردار کے‘ سرداری‬ ‫حقوق سے آگاہ نہ تھا۔ تب ہی تو‘ کوراہ ہو گیا تھا۔ کام باحسن و‬ ‫خوبی چل رہا تھا۔ سردار کے خصوصی اور قریبی مالزم ہونے‬ ‫کے ناتے‘ سب ہی اس کی عزت کرتے تھے۔ وہ صابو سے‘‬ ‫ملک صابر کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ لوگ اس کے توسط‬ ‫سے‘ اپنے کام نکلوانے لگے تھے۔ عورتیں‘ ملکانی نور بی بی‬ ‫کے وسیلے سے‘ اپنے کام نکلوانے لگی تھیں۔ وہ جانتی تھیں‘‬ ‫کہ بچے بہت بڑی مجبوری ہوتی ہے۔ سردار صاحب‘ ملکانی نور‬ ‫بی بی سے اپنا رشتہ ختم نہیں کریں گے۔ نچلے طبقے کے‬


‫لوگ‘ بھوک سے چھٹکارے اور عزت حاصل کرنے لیے‘ کچھ‬ ‫بھی کر لیں‘ کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہ ہی ایک رستہ باقی رہ جاتا‬ ‫ہے‘ جسے پانے کے لیے کچھ ناکچھ تو دینا ہی پڑتا ہے۔‬ ‫اس کی‘ نام نہاد غیرت جاگ گئی تھی اور وہ‘ رنگے ہاتھوں‬ ‫پکڑنے کی‘ تاڑ میں رہنے لگا۔ اسے مہاجرت کرتے وقت‘‬ ‫سوچنا چاہیے تھا‘ کہ وہ کوئی ہنر اور کسب نہیں رکھتا‘ بلکہ‬ ‫گاؤں کی گری پڑی شے سے‘ زیادہ نہیں۔ سردار آخر کیوں اور‬ ‫کس وجہ سے‘ اس کے ساتھ مہربان ہوا ہے۔ دوسرا جوں مار‬ ‫کر‘ نہ دینے والے نے‘ اس پر بےدریغ دولت لوٹانے کی ‘حد کر‬ ‫دی تھی۔ یہ سب دیکھ کر‘ سوچنا تو بنتا تھا۔ اگر اتنی عقل‬ ‫ہوتی‘ تو آج زندگی کے‘ اس دو راہے پر کیوں کھڑا ہوتا۔‬ ‫آنکھیں بند کر لینے کی صورت میں‘ زندگی کی آسودگی برقرار‬ ‫رہ سکتی تھی۔ اسے صرف اتنا فرض کرنا تھا‘ کہ اس نے‬ ‫کچھ نہیں دیکھا۔ دیکھ لینے کا واہمہ‘ اسے زندگی سے محروم‬ ‫کر سکتتا تھا۔ دوسرا یہ واہمہ‘ سردار صاحب کی عطاؤں‬ ‫سے‘ کھال انکار تھا۔ وہ وقتا فوقتا‘ اپنی مہربانیوں کا تذکرہ‬ ‫بھی کرتے رہتے تھے۔ آئندہ کے لیے بھی‘ وعدے کرتے رہتے‬ ‫تھے۔ وہ خود ہی‘ تھالی میں سوراخ کرنے پر اتر آیا تھا۔‬ ‫ملک صابر‘ اوقتا صابو ماچھی‘ باظاہر بالکل نارمل تھا‘ لیکن‬ ‫اس کی نقل وحرکت‘ پولیس والوں کے کتے سے‘ کسی طرح‘‬ ‫مختلف نہ تھی۔ اس کی آنکھوں میں چھپا‘ کھوج کیمرہ‘ ملکانی‬


‫نور بی بی نے دیکھ لیا تھا۔ اگر وہ سردار کریم بخش کا پڑھا‬ ‫ہوا تھا‘ تو یہ بھی سردار کریم بخش کی چنڈی ہوئی تھی۔ وقت‬ ‫نے بھی‘ اسے بہت کچھ پڑھا دیا تھا۔ سرداروں کے خصوصی‬ ‫بندے‘ اگر اس طرح گرفت میں آ جائیں‘ تو سردروں نے کر لی‬ ‫سرداری۔‬ ‫ملکانی نے‘ سردار صاحب کو‘ صورت حال سے آگاہ کر دیا تھا۔‬ ‫سردار صاحب کو بڑا تاؤ آیا‘ ہماری ہی بلی‘ ہمیں ہی میاؤں۔ یہ‬ ‫کمی کمین‘ ہوتے ہی‘ احسان فراموش اور طوطا چشم۔ اگر ان‬ ‫کو‘ ان کی اواقات میں‘ رکھا جائے‘ تو ہی ٹھیک رہتے ہیں۔‬ ‫عزت انہیں راس نہیں آتی۔ جس تھالی میں کھاتے ہیں‘ اسی میں‬ ‫چھید کرتے ہیں۔ اب چوں کہ وہ منہ کو آنے واال ہی تھا‘ اس‬ ‫لیے‘ اسے اس کی اوقات میں النا‘ ضروری ہو گیا تھا۔‬ ‫ڈیرے میں‘ مہمانوں کے ٹھہرانے کے لیے‘ جگہ کم پڑ گئی‬ ‫تھی۔ نور بی بی کو‘ حویلی میں مع ساز و سامان منتقل کر دیا‬ ‫اور صابو کمی کو‘ ڈیرے پر ٹھہرنے کا‘ حکم جاری کر دیا گیا۔‬ ‫یہ اس کی خوش قسمتی تھی‘ کہ اتنی بڑی گستاخی اور جرآت پر‬ ‫بھی‘ ابھی سانس لے رہا‘ ورنہ اس سے گستاخ‘ لوگوں کو‘‬ ‫زندہ رہنے کا کوئی نہیں ہوتا۔ سردار صاحب‘ شروع سے‘ بڑے‬ ‫دیالو اور درگزر کرنے والے‘ واقع ہوئے تھے۔ صابو کمی نے‘‬ ‫اس پر احتجاج کیا‘ مگر کسی نے اس کی بات تک نہ سنی۔‬ ‫ایک دن‘ صابو کمی کی بدکاری کا‘ ہر زبان پر چرچا تھا۔ پتا چال‘‬


‫جیناں‘ جو ایک دن پہلے فنائی گئی تھی‘ کی الش کو نکال کر‘‬ ‫صابو کمی نے‘ بے حرمت کیا تھا۔ جیناں کی عریاں الش پر‘‬ ‫توبہ توبہ کرتے‘ گاؤں کے امام مسجد نے‘ ڈھانپا تھا۔ دور‬ ‫نزدیک کےعالقوں میں‘ غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی تھی۔ صابو‬ ‫کمی کی بد کاریوں کے‘ پٹارے کھل گئے تھے۔ لوگوں کو اب‬ ‫معلوم ہوا تھا ‘ کہ صابو کمی انسان نہیں‘ انسانی روپ میں‘‬ ‫بھیڑیا تھا۔ متفقہ طور پر‘ طے پایا کہ اس کا‘ توے کی سیاہی‬ ‫سے‘ منہ کاال کرکے‘ گدھے پر بیٹھا کر‘ پورے گاؤں کا پھیرا‬ ‫لگایا جائے اور ہر دیکھنے واال‘ اسے پتھر مارے۔ عزت گریب‬ ‫کی ہو‘ یا امیر کی‘ برابر ہوتی ہے۔ سردار نے‘ یہ بھی کہا‘‬ ‫میرے جیتے جی‘ گاؤں میں‘ بےغیرتی کی دکان نہیں چلے گی۔‬ ‫سردار نے یہ بھی کہا‪ :‬ہمیں انسان اور اس کی عزت و آبرو کا‬ ‫احترام کرنا چاہیے۔ سامنے پڑی‘ بےحرماں جیناں کی الش پر‘‬ ‫ہر آنکھ بھیگ گئی تھی۔ سردار کی آنکھوں میں‘ فرات سی‬ ‫طغیانی تھی۔ اس کی برستی آنکھوں نے‘ سب کے دل جیت لیے‬ ‫تھے۔‬ ‫سال گزرتے‘ پتا بھی نہیں چلتا۔ صابو کا بڑا بیٹا‘ جو سردار کریم‬ ‫بخش کے ٹکڑوں پر‘ پال‘ بڑا ہوا‘ اور اس نے اعلی تعلیم حاصل‬ ‫کی۔ مقابلے کے امتحان میں‘ تیسرے نمبر پر آیا۔ اس کی‬ ‫تعیناتی‘ حساس پوسٹ ہوئی۔ اب وہ افسر تھا۔ سیٹھ نثار نے‘‬ ‫اپنی اکلوتی اوالد‘ اس کے عقد میں دے دی۔ وہ اب‘ اور اس‬ ‫سے پہلے بھی‘ سردار کریم بخش کی بڑی عزت کرتا تھا۔‬


‫ایک بار‘ صرف ایک دن کے لیے‘ اسے گاؤں آنے کا اتفاق ہوا۔‬ ‫اسے پتا چال‘ بابا فتو‘ کئی دنوں سے بیمار ہے۔ جب وہ چھوٹا‬ ‫تھا‘ بابا فتو‘ اس سے بڑا پیار کرتا تھا‘ اور اکثر اوقات‘ ایک دو‬ ‫پوندے گنے بھی دے دیا کرتا تھا۔ بابے فتو کی بماری کا سن‬ ‫کر‘ اس سے رہا نہ گیا‘ اور وہ اسے ملنے کے لیے چال گیا۔‬ ‫انسان تھا‘ اسی لیے‘ اسے اپنے موجودہ اسٹیٹس کا‘ خیال تک‬ ‫نہ رہا اور وہ اسے ملنے اور تیمارداری کرنے چال گیا۔‬ ‫بابا فتو‘ کسی وقت‘ بڑا سجیال جوان ہوا کرتا تھا۔ وقت نے‘ اس‬ ‫سے‘ سب کچھ چھین لیا تھا۔ اب تو‘ وہ محض ہڈیوں کا ڈھیر‬ ‫تھا۔ بابا فتو‘ صابو کی نشانی کو دیکھ کر‘ بڑا خوش ہوا۔‬ ‫کہنے لگا‪ :‬تمہارا باپ صابو۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫رہنے دو بابا‘ اس شخص کا میرے سامنے نام لو۔‬ ‫نہیں بیٹا‘ تمہیں سننا ہی ہو گا۔ میں بڑی دیر سے‘ تمہارا انتظار‬ ‫کر رہا تھا۔ میں جانے واال ہوں‘ جو کہنا چاہتا ہوں کہہ لینے دو۔‬ ‫یہ بات تمیں کوئی نہیں بتائے گا۔ جو میں بتانا چاہتا ہوں‘ دل‬ ‫گردے سے سننا اور فورا غصے میں نہ آ جانا۔ جو کرنا‘ بڑے‬ ‫ہوش حواس سے کرنا۔‬ ‫ٹھیک ہے بابا‘ جو کہنا چاہتے ہو‘ کہہ دو۔‬ ‫تمہارے باپ پر‘ جو الزام لگایا گیا‘ درست نہیں تھا‘ گھڑا ہوا‬ ‫تھا۔ اس میں رتی بھر‘ سچائی نہ تھی۔ اسی طرح‘ تمہارے‬


‫دونوں بھائی‘ قدرتی موت نہیں مرے‘ ان کے پر نکل آئے تھے‘‬ ‫اسی‬ ‫لیے‘ سردار نے‘ انہیں بھی فارغ کر دیا۔ اس حقیت سے‘ سب‬ ‫آگاہ ہیں‘ لیکن کوئی زبان تک نہیں التا۔ جو بولے گا‘ زندگی‬ ‫سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ یہ سب کہہ کر بابا فتو پر چپ لگ گئی۔‬ ‫وہ رات‘ اشرف پر بڑی بھاری گزری۔ اسے خود پر جبر کرکے‘‬ ‫ہنسنا بھی پڑا۔ اس نے پوری کوشش کی‘ کہ اس کا باطن کسی‬ ‫پر نہ کھلے‘ ورنہ کبھی واپس نہ جا پائے گا۔ رات خیر سے گزر‬ ‫گئی۔ اگلی صبح وہ خوشی خوشی ہنستا مسکراتا رخصت ہوا۔‬ ‫کوئی بھی نہ جان پایا‘ کہ اس کے باطن میں‘ قیامت سے پہلے‬ ‫ہی‘ قیامت برپا ہو چکی ہے۔‬ ‫دو ہفتے بڑے کرب ناک گزرے۔ پھر وہ ایک نتیجے پر پنہچ گیا۔‬ ‫سیٹھ نثار‘ اس اندھا اعتماد کرتا تھا۔ وہ تھا بھی اعتماد کے‬ ‫قابل۔ اس نے اپنی اداکاری کے سارے جوہر دیکھائے۔ گاؤں میں‬ ‫سیٹھ نثار کا پروجیکٹ‘ پوری تیز رفتاری کے ساتھ‘ تکمیل کی‬ ‫طرف بڑھ رہا تھا۔ حویلی کی جگہ‘ دو منزلہ دفتر اور سرونٹس‬ ‫کوارٹر تعمیر ہو چکا تھا۔ عالی شان کوٹھی‘ تعمیر ہو چکی تھی۔‬ ‫سردار صاحب‘ جہاں بڑی شان سے‘ اقامت پذیر تھے۔ تمام کام‬ ‫کا‘ سردار صاحب کے ہاتھ نظم و ضبط تھا۔ ان کی ٹھاٹ باٹھ‘‬ ‫پہلے سے کئی گنا‘ بڑھ چکی تھی۔ نوٹوں کی گتھیاں ان کے‬ ‫پاس ہوتیں۔ پان سات خوش آمدی‘ رات سونے تک‘ ان کے آگے‬


‫پیچھے رہتے۔ انہیں کوئی پوچھنے واال نہ تھا۔ وہ کسی کو‬ ‫جواب دہ نہ تھے۔‬ ‫دن عیش و ٹھاٹ کے گزرے۔ اشرف روٹین میں آتا‘ تھوڑا ان‬ ‫کے ساتھ ہنس کھیل کر وقت گزراتا‘ اور چال جاتا۔ سب باحسن‬ ‫وخوبی انجام پا گیا تھا۔ اب کی بار اس کے تیور بدلے ہوئے‬ ‫تھے۔ اس نے آتے ہی‘ سردار صاحب کو‘ حساب کتاب دینے کو‬ ‫کہا۔ وہ حیران رہ گیے اور بولے یہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ ان کی‬ ‫آواز میں‘ سرداری تمکنت اور جالل موجود تھا۔ اشرف کا لہجہ‬ ‫بھی بدل گیا۔ یہ فضول کی بکواس چھوڑو اور حساب دو۔ اس‬ ‫کے اپنے بچے‘ جن کا ماضی صابو کے نام پر بولتا تھا‘ کہہ‬ ‫رہے تھے‘ انکل‘ اشرف بھائی ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ آپ نے‬ ‫کون سی ہیھرا پھیری کی ہے‘ حساب دے دیں۔ دفتر میں موجود‬ ‫ہر شخص‘ کے منہ میں تھا‘ حساب دو‘ حساب دو۔اب یہ سب‬ ‫کچھ‘ اس کا نہیں‘ سیٹھ نثار کا تھا اور اشرف‘ سیٹھ نثار کی‬ ‫اکلوتی بیٹی کا خاوند تھا۔‬ ‫اب سردار کریم بخش‘ کریمو دو نمبری کے نام سے‘ مشہور‬ ‫تھا۔ وہ چوتھے درجے کے سرونٹ کوارٹر میں رہ رہا گیا تھا۔‬ ‫بڑھاپے میں‘ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے‘ سپروائزر کے ٹومی‬ ‫کی خدمت پر مامور تھا۔ نوراں آیا کا فریضہ انجام دیتی تھی۔ اب‬ ‫ہر کسی کو‘ کریمو دو نمبری کا بڑی تیزی سے‘ ماضی یاد آ رہا‬ ‫تھا۔ لوگ انتظار میں تھے کہ کب ان پر ٹومی چھوڑا جاتا ہے۔‬


‫ابھی وہ زندہ تھا‬ ‫ویسے ہم‘ بڑے سوشل اور ہم درد سے‘ واقع ہوئے ہیں۔ کسی‬ ‫کے ہاں سوگ ہو‘ وہاں جانا‘ نظرانداز نہیں کرتے۔ هللا کا حکم‬ ‫کہہ کر‘ دعا کے لیے کہتے ہیں۔ اس کے بعد‘ سارا ماجرا دریافت‬ ‫کرتے ہیں۔ ساری رام کہانی سن کر‘ گہرے افسوس اور دکھ کا‬ ‫اظہار کرتے ہیں۔ ہم اس وقت‘ دمحم علی‘ طالش اور عالؤالدین کی‬ ‫ادا کاری کو‘ بہت پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔ مرنے یا حادثے کا‬ ‫شکار ہونے والے‘ سے اپنے گہرے تعلقات کا اظہار کرتے ہیں۔‬ ‫پھر اس کی‘ وہ وہ خوبیاں بیان کرتے ہیں‘ کہ ان کا‘ اس‬ ‫شخصیت سے‘ دور کا تعلق واسطہ ہی نہیں ہوتا۔ اس پر سارے‬ ‫سر ہالتے ہیں۔ یہ ہی نہیں‘ اس میں اضافے کی‘ اپنی سی‬ ‫کوشش بھی کرتے ہیں۔ اس گھر کی دہلیز میں داخل ہونے سے‬ ‫پہلے‘ اس شخص سے‘ ہماری کوئی ہم دردی نہیں ہوتی۔ اسی‬ ‫طرح‘ دکھ کا دور تک نام ونشان تک نہیں ہوتا۔ افسوس کے بعد‘‬ ‫جب ہم‘ اس گھر کی دہلیز پار کرتے ہیں‘ تو ہمیں سب کہا سنا‘‬ ‫بھول جاتا ہے۔‬ ‫پھانسی لگنے اور پوسٹ مارٹم کے بعد‘ جب بھوسہ بھری میری‬


‫الش‘ میرے گھر آئے گی۔ یہ افسوس کے بہانے‘ میرے گھر‬ ‫والوں کے پاس آئیں گے۔ سب کچھ جانتے ہوئے‘ میرے گھر‬ ‫والوں سے معاملہ دریافت کریں گے۔ وہ بےوقوف‘ انہیں الف‬ ‫سے یے تک‘ کہانی سنائیں گے۔ یہاں تک بتائیں گے‘ کہ میری‬ ‫بھوسہ بھری الش حاصل کرنے میں‘ انہیں کس قدر مشکل کا‬ ‫سامنا کرنا پڑا۔‬ ‫لوگ کیا‘ میرے اپنے بھی‘ کتنی منافقت رکھتے ہیں۔ بس‘ میرا‬ ‫باپ ہی‘ خجل خوار ہو رہا ہے۔ وہ بچارہ گھر میں‘ اپنے بچوں‬ ‫کے ہاتھوں ذلیل ہوتا ہے‘ ادھر آ کر کچہری والوں سے‘ مٹی‬ ‫پلید کراتا ہے۔ پھر بھی‘ آنے سے باز نہیں آتا۔ ماں بےجاری‬ ‫وقت پر ہی چل بسی تھی‘ ورنہ وہ بھی‘ آج ذلیل ہو رہی ہوتی۔‬ ‫میں تین سال سے‘ ہتھ کڑیوں سے آراستہ‘ عدالت میں الیا جا‬ ‫رہا ہوں۔ معاملہ جہاں تھا‘ ابھی تک‘ وہیں ہے‘ رائی بھر‘ پیش‬ ‫رفت نہیں ہوئی۔ میں بھی چاہتا ہوں‘ کہ معاملہ آگے نہ بڑھے۔‬ ‫اگر معاملہ آگے بڑھا‘ تو میری زندگی کے آخری لمحوں کی گنتی‬ ‫کا‘ شمار شروع ہو جائے گا۔ میں موقع پر پکڑا گیا ہوں۔ گواہ‘‬ ‫جن کا کاغذات میں اندراج ہوا ہے‘ میرے مخالفین کے ہاتھ کے‬ ‫ہیں۔ کوئی مالقات تک کے لیے نہیں آیا‘ اگرچہ انہیں میرے اپنے‬ ‫ہونے کا دعوی رہا ہے۔‬


‫منافقت نے‘ ہمارے قول و فعل میں‘ بعد پیدا کر دیا ہے۔ ہمارا‬ ‫کردار‘ ہر لمحہ‘ ناصرف تضاد کا شکار رہتا ہے‘ بلکہ شکوک‬ ‫میں بھی مبتال رہتا ہے۔ کسی پر کیا یقین کیا جائے‘ یقین‘ نقصان‬ ‫سے دوچار کرتا ہے۔ یقین نہیں کرتے‘ تو تکمیل کے دروازے‬ ‫پر‘ قفل لگ جاتا ہے۔ درحقیقت یہ سب‘ ہمیں ورثہ میں مال ہے۔‬ ‫ہماری دھرتی‘ ہمیشہ سے‘ بیرونی عناصر کی تلوار پر رہی ہے۔‬ ‫انہوں نے یہاں‘ الشیں بچھائی ہیں۔ کھوپڑیوں کے‘ مینار بنائے‬ ‫رہے ہیں۔ ان کے مقاصد میں‘ وسائل اور اس دھرتی پر قبضہ‬ ‫کرنا رہا ہے۔ ایسے میں‘ لوگوں نے ڈر اور خوف سے‘ مذہب‬ ‫تبدیل کیا ہے۔ جان بچانے کے لیے ان کے قصیدے پڑھے ہیں۔‬ ‫گویا باہر سے مسلمان‘ اندر سے سابقہ مذہب پر ہی‘ استقامت‬ ‫رہی ہے۔ اگلی نسلیں داخلی منافقت سے آگاہ نہ ہو سکیں‘ لیکن‬ ‫داخلی منافقت‘ جینز میں شامل ہو گئی۔ اگر تبلیغ کا کام‘ صحابہ‬ ‫کرام‘ تابعین‘ تبع تابعین اور مہاجر صالحین تک رہتا‘ یہاں‬ ‫ناصرف دو تہائی مسلمان ہوتے‘ بلکہ ان میں کھرا پن بھی ہوتا۔‬ ‫اور کسی کو چھوڑیں‘ کل پرسوں کے‘ ٹوپی سالر کا عدالتی‬ ‫نظام بھی تھا‘ لیکن ذاتی عناد کی بنا پر‘ لوگوں کے سر‘ تن‬ ‫سے خود جدا کرتا تھا۔ ہم کتنے چڈھو ہیں‘ جو اسے اپنا ہیرو‬ ‫سمجھتے ہیں۔‬ ‫جو ہمیں الٹا لٹکاتا ہے‘ ہمارا ہیرو‘ وہ ہی ہوتا ہے۔ حمیدا سڑک‬ ‫پر تڑپ رہا تھا۔ سب چھپ چھپ کر‘ اس کے تڑپنے کا نظارہ کر‬ ‫رہے تھے۔ لوگوں کے سامنے‘ جیرے نے اسے چھرا گھونپا‬


‫تھا۔ کسی نے‘ جیرے کو نہیں پکڑا‘ حاالں کہ اس کے ہاتھ میں‬ ‫چھرا نہ تھا۔ چھرا تو ابھی تک‘ حمیدے کے پیٹ میں تھا۔ میں‬ ‫اس کے پیچھے بھاگا‘ لیکن وہ نکل گیا۔ پھر میں نے‘ جلدی‬ ‫سے‘ چھرا حمیدے کے پیٹ سے نکاال۔ میں اسے فورا ہسپتال‬ ‫لے جانا چاہتا تھا۔ پولیس کے آنے تک‘ اور موقع دیکھنے تک‘‬ ‫وہ مر جاتا۔ سڑک پر سے‘ تانگے ریڑھے ہی آنا بند ہو گیے‬ ‫تھے۔ ویرانی سی پھیل گئی تھی۔ میری مدد کے لیے‘ کوئی نہیں‬ ‫آ رہا تھا‘ حاالں کہ لوگ گھروں پر موجود تھے۔ میں بےبسی‬ ‫کے عالم میں‘ کبھی ادھر جاتا تھا‘ کبھی ادھر۔ کوئی مدد کو تو‬ ‫نہ آیا‘ ہاں البتہ‘ پولیس ضرور آ گئی۔ مجھے پکڑ کر لے گئی‘‬ ‫کیوں کہ موقع پر میں ہی موجود تھا۔ آلہءضرب پر میری‬ ‫انگلیوں کے نشان تھے۔‬ ‫میں نے جیرے کے پیچھے بھاگنے کی‘ بہت بڑی غلطی کی۔ اس‬ ‫سے کاقی وقت ضائع ہو گیا۔ جیرے قاتل کے ڈر سے‘ کوئی‬ ‫گواہی دینے کے لیے تیار نہیں۔ وہ عالقے کا ہیرو ہے۔ کسی کی‬ ‫عزت اور مال و جان‘ اس سے محفوظ نہیں‘ پھر بھی وہ سب کا‬ ‫ہیرو ہے۔ سب کچھ‘ اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے‘ میرے‬ ‫خالف گواہی دینے کے لیے‘ تیار کھڑے ہیں۔ ان میں سے‘ کسی‬ ‫سے میری دشمنی نہیں‘ بلکہ راہ چلتے کی‘ سالم دعا رہی ہے۔‬ ‫جیرے سے بھی‘ میرا کوئی ذاتی عناد نہیں۔ میں اس کی حرکتوں‬ ‫کو‘ پسند نہیں کرتا تھا۔ پسند تو خیر‘ لوگ بھی نہیں کرتے‬ ‫تھے‘ فرق صرف اتنا تھا‘ کہ میں منہ پر کہہ دیتا تھا‘ جب کہ‬


‫لوگ خاموشی میں‘ عافیت سمجھتے تھے۔‬ ‫مجھے اپنی موت کا رائی بھر دکھ نہیں۔ ایک دن‘ مرنا تو ہے‬ ‫ہی‘ دو دن آگے کیا‘ دو دن پیچھے کیا۔ مجھے تین باتوں کا رنج‬ ‫ہے‘ کہ میں حمیدے کو بچا نہ سکا۔ وہ ابھی زندہ تھا اور آخری‬ ‫سانسوں پر نہ تھا۔ افسوس‘ وہ قانونی تقاضوں کی بھینٹ چڑھ‬ ‫گیا۔ قانون اس کا قاتل نہیں‘ قانونی تقاضوں کے علم بردار‘ اس‬ ‫کے قاتل ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے واال نہیں۔ دوسرا جیرے کا‬ ‫جھاکا کھلنے پر‘ تاسف ہے‘ اب تو وہ اور انھی مچائے گا۔ اس‬ ‫ذیل میں تیسریی بات یہ ہے‘ کہ پتا نہیں‘ منافقت کا دیو‘ کب‬ ‫بوتل میں بند ہو کر‘ دریا برد ہو گا۔‬

‫سچائی کی زمین‬ ‫حکیم الہ دین کے مرنے کے بعد‘ ان کی رہائش گاہ ویران پڑ‬ ‫گئی۔ ان کے دونوں بیٹے‘ الہور‘ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ‘‬ ‫سٹ ہو گیے تھے۔ بیٹی منٹگمری بیاہی گئی تھی۔ پہلے تو‘ ماں‬ ‫اور باپ کی وجہ سے‘ دوسرے تیسرے مہنے‘ دو چار دن کے‬ ‫لیے‘ چلی آتی تھی۔ اب اس کا یہاں کون تھا‘ جسے ملنے آتی۔‬ ‫حکیم صاحب‘ بنیادی طور پر‘ الئل پور کے رہنے والے تھے۔‬


‫یہاں ان کا کام سٹ ہو گیا تھا‘ اسی لیے‘ یہاں ہی کے‘ ہو کر رہ‬ ‫گیے تھے۔ ان کی بیوی‘ چنیوٹ کی تھی۔ بیوی کے مرنے کے‬ ‫بعد بھی‘ حکیم صاحب نے یہاں سے جانا پسند نہ کیا۔ حاالں کہ‬ ‫ان کے بیٹے‘ انہیں ساتھ لے جانے کے لیے‘ اصرار کرتے‬ ‫رہتےتھے ۔ ان کے اصرار کے باوجود‘ انہیں یہاں رہنا ہی اچھا‬ ‫لگتا تھا۔‬ ‫انہیں تنہائی کا‘ اس لیے بھی احساس نہ ہوا‘ کہ شاعر طبع‬ ‫شخص تھے‘ رات دیر گیے تک‘ جوان بوڑھے شاعر‘ ان کے‬ ‫پاس بیٹھے رہتے تھے۔ حکیم صاحب بڑے خوش خلق اور‬ ‫خوش طبع‘ واقع ہوئے تھے۔ بال کا حافظہ رکھتے تھے۔ جوانوں‬ ‫میں جوان ہو جاتے۔ جب بوڑھوں سے مکالمہ چلتا‘ تو یوں‬ ‫لگتا‘ جیسے سن صفر سے متعلق ہوں۔ یہ ہی وجہ ہے‘ کہ ان‬ ‫کو مرے‘ آج دس سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے۔ بہت سے‘‬ ‫ان کے ساتھی‘ هللا کو پیارے ہو گیے ہیں۔ جوان‘ آج جوان نہیں‬ ‫رہے۔ وہ آج بھی‘ انہیں بڑی محبت سے‘ یاد کرتے ہیں۔ اے ڈی‬ ‫قمر صاحب تو ان کے گرویدہ ہیں۔ ان کی باتیں کرتے ہوئے‘ ان‬ ‫کی آنکھں بھر اتیں ہیں۔‬ ‫ایک دن میں نے سوچا‘ کیوں نہ‘ ان کا مکان خرید لوں۔ ایک بار‬ ‫پھر‘ اسی رونق کو بحال کر دوں۔ ملبہ بوسیدہ ہو چکا تھا۔ جگہ‬ ‫کا ہی ریٹ چکانا تھا۔ مستعمل ریٹ‘ نوے روپے چل رہا تھا۔ کل‬ ‫ساڑھے چار مرلے جگہ تھی۔ ٹوٹل چار سو پنتالیس روپے بنتے‬


‫تھے۔ زیادہ سے زیادہ ساڑھے سو روپے لے لیں گے۔ میں نے‬ ‫ان کے بیٹوں سے‘ رابطہ کیا۔ بھلے لوگ تھے۔ انہیں مکان سے‬ ‫کوئی دل چسپی نہ تھی۔ اسی لیے مکان دینے پر جلد آمادہ ہو‬ ‫گ ی ے۔‬ ‫‘مکان کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫اندر سے مکان‘ اب بھوت گاہ سے‘ کسی طرح کم نہ تھا۔ چھتیر‬ ‫اور بالوں کو گھن نے‘ کھا لیا تھا۔ اس کے باوجود‘ خدا جانے‘‬ ‫دونوں کمروں کی چھت‘ کیسے کھڑی تھی۔ میری آنکھیں‘ حکیم‬ ‫صاحب کے شعر وسخن سے متعلق‘ کاغذ بتر تالش رہی تھیں۔‬ ‫دونوں کمرے خالی تھے۔ بڑی مایوسی ہوئی۔ میں حکیم صاحب‬ ‫کا کالم‘ شائع کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ ان کے بیٹوں نے‘ کوڑ‬ ‫کباڑ‘ کباڑیے کے ہاتھ بیچ دیا تھا۔ کتابیں اور کاغذ‘ ردی میں‬ ‫بک گیے تھے۔ اچانک میری نظر‘ ایک کونے میں پڑے‘ ایک‬ ‫توڑے پر پڑی۔ میں اس کی جانب‘ جلدی سے بڑھا۔ اس توڑے‬ ‫میں‘ بوسیدہ اور کرم خوردہ چرمر کرکے‘ کاغذ ٹھونسے ہوئے‬ ‫تھے۔ یہ حکیم صاحب‘ کا علمی و ادبی سرمایہ تھا۔‬ ‫میں اس اجڑے دیار سے‘ ماضی کا یہ ان مول سرمایہ‘ گھر‬ ‫لے آیا اور پھر‘ ہر کاغذ کو بڑی احتیاط اور پیار سے‘ سیدھا‬ ‫پدرا کیا۔ جانے اے ڈی قمر صاحب کو کیسے خبر ہو گئی۔ وہ یہ‬ ‫سب‘ لینے چلے آئے۔ میں نے‘ دینے سے صاف انکار کر دیا۔‬ ‫انہوں نے کہا‘ جانے کب‘ تمہارے پاس پیسے آئیں گے‘ اور پھر‬


‫تم اسے شائع کرواؤ گے۔ میں اسے پہلی فرصت میں‘ اشاعت‬ ‫سے گزاروں گا۔ میں نے پھر بھی انکار کیا۔ بات یہاں تک‬ ‫پہنچی‘ کہ وہ مجھے پانچ سو روپے‘ دینے کے لیے تیار ہو‬ ‫گیے۔ آخر کب تک‘ انکار کرتا۔ میں نے پانچ سو روپے لے کر‬ ‫مسودہ انہیں دے ہی دیا۔ جہاں کالم چھپوانے کا مجھے جنون‬ ‫تھا‘ وہاں مکان کی تعمیر کے لیے بھی‘ رقم درکار تھی۔ هللا نے‬ ‫خود ہی‘ اس کا بندوبست فرما دیا۔‬ ‫میں نے اوپر کھڑے ہو کر‘ تعمیر کا کام کروایا۔ پہلے ملبے‬ ‫سے‘ بھرتی کا کام لیا۔ اس سے‘ ایک فٹ کے قریب‘ مکان اونچا‬ ‫ہو گیا۔ میں نے بڑے اہتمام سے‘ بیٹھک بنوائی‘ تا کہ عالقے‬ ‫کے‘ شاعر حضرات بیٹھ کر‘ پرانی یادوں کو‘ ایک بار پھر تازہ‬ ‫کر دیں۔ میری خواہش‘ ریزہ ریزہ ہو گئی‘ جب میری بیوی شازیہ‬ ‫نے‘ بیٹھک اپنے بھائی کو اڈا لگانے کے لیے دے دی۔ اس کا‬ ‫کہنا تھا‘ کہ وہ در در رل رہا ہے‘ اور تم اسے بےکار کام لیے‘‬ ‫مخصوص کر رہے ہو۔ جھگڑا مول نہیں لے سکتا تھا‘ خون‬ ‫کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔ صبر کے سوا‘ میرے پاس کوئی رستہ‬ ‫باقی نہ رہا تھا۔ آدمی جو سوچے‘ اور سوچ کے لیے‘ کوشش‬ ‫بھی کرے‘ وہ پوری ہو‘ یا سوچ کے عین مطابق پوری ہو‘‬ ‫ضروری نہیں۔ میری خواہش‘ دل میں ہی رہی‘ اور میں کچھ بھی‬ ‫نہ کر سکا۔‬ ‫مکان کو تعمیر ہوئے‘ ابھی تین چار ماہ ہی ہوئے ہوں گے۔ پکی‬


‫انٹوں کا فرش تھا‘ اور ٹیپ بھی‘ اچھی طرح کی گئی تھی‘ کچن‬ ‫کی پچھلی جانب‘ ایک ننھے مننے سے پودے نے‘ دو اینٹوں‬ ‫کے ملنے والی جگہ سے‘ سر اٹھانا شروع کیا۔ میں حیران تھا‘‬ ‫کہ کوئی بیج ڈاال نہیں گیا۔ نچلی سطح پر‘ ایک فٹ بھرتی ڈالی‬ ‫گئی تھی۔ جو خود رو بوٹے اگ آئے تھے‘ انہیں جڑ سے اکھاڑ‬ ‫پھینکا گیا تھا‘ تو پھر یہ پودا‘ کہاں سے نمودار ہو گیا ہے۔‬ ‫سوچا کسی سبزی وغیرہ کا بیج گر گیا ہو گا۔غور کرنے پر‘‬ ‫معلوم ہوا‘ وہ کسی سبزی کا پودا نہ تھا۔ میں نے چپ سادھ لی‘‬ ‫مبادا کسی کو پتا چل گیا‘ تو اکھاڑ پھینکا جائے گا۔‬ ‫میں اسے ہر روز‘ چھپ کر‘ دو تین بار ضرور دیکھتا۔ پندرہ‬ ‫دنوں میں‘ اس کے وجود کو استحقام میسر آ گیا۔ سچی بات ہے‘‬ ‫وہ مجھے بڑا اچھا لگتا۔ اس کے بڑھنے پھولنے پر‘ مجھے‬ ‫بڑی خوشی ہوتی۔ میں اس کے بہت قریب ہو گیا تھا۔ یوں لگتا‬ ‫تھا‘ جیسے میری اور اس کی آشنائی‘ صدیوں پر محیط ہو۔ جب‬ ‫بھی اسے دیکھتا‘ وہ اپنے پورے وجود کی مسکراہٹوں کے‬ ‫ساتھ ملتا۔ اس کا تنا ایک ہی تھا‘ لیکن تنے سےاوپر‘ کئی‬ ‫شاخیں نمودار ہو گئی تھیں۔ بات یہاں تک ہی محدود نہ تھی‘ ہر‬ ‫شاخ کئی شاخوں میں‘ بٹ گئی تھی۔ ہر نئی شاخ پر‘ ابتدا میں‬ ‫نکلنے والے پتے‘ دوسرے پتوں سے‘ قطعی مختلف تھے۔ وہ‬ ‫سبز نہیں‘ براؤن سے ہوتے۔ نرم نازک ہونا‘ تو الگ سے بات‬ ‫ہے‘ ان کا حسن بڑا متاثر کن تھا۔ یہ حسن اس شاخ کی ذاتی‬ ‫پہچان تھا۔‬


‫میں نے سوچا‘ اس پودے کا تنا ایک ہے‘ شاخیں اسی سے‬ ‫وابستہ ہیں۔ ایک شاخ کی کئی شاخیں ہیں۔ پتوں کے سائز الگ‬ ‫الگ ہیں۔ رنگ میں بھی‘ ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ سب کو‬ ‫زمین سے‘ تنے کے ذریعے خوراک میسر آ رہی ہے۔ انسان‬ ‫ایک آدم کی اوالد ہے۔ پودے کو‘ زمین سے خوراک میسر آتی‬ ‫ہے۔ انسان کو بھی‘ زمین خوراک میسر کر رہی ہے۔ پورا‬ ‫درخت‘ مختلف شاخوں میں بٹ کر بھی‘ ایک ہے۔ ہر شاخ‘‬ ‫دوسری شاخ سے‘ پیوست ہو کر‘ درخت کو شکل دے رہی ہیں۔‬ ‫یہ جانتے ہوئے بھی‘ کہ هللا قادر ہے‘ انسان کیوں ایک درخت‬ ‫کی شکل میں نہیں۔ اگر یہ ایک شکل میں ہوتا‘ تو مخلوق خدا‬ ‫کو‘ پھل اور سایہ مہیا کرتا۔‬ ‫میری سوچوں کا حلقہ‘ وسیح تر ہوتا گیا۔ پھر پتا نہیں‘ کب نیند‬ ‫نے آ لیا۔ صبح‘ حاجات اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد‘ پودا‬ ‫دیکھنے گیا‘ پودا اکھاڑ پھینکا گیا تھا۔ میں نے شازیہ سے‘‬ ‫پودے کے متعلق پوچھا‘ تو اس نے کہا‘ ہاں‘ پودا میں نے‬ ‫اکھاڑا ہے۔ یہ گھر ہے‘ کوئی جنگل نہیں۔ فرش کا ستیاناس ہو‬ ‫گیا تھا۔ خدا معلوم‘ کیا پکواس کرتی رہی۔ میرے دماغ کی پھرکی‬ ‫الٹی پھرنے لگی۔ میں نے سوچا‘ بات بڑھ جائے گی‘ اس لیے‬ ‫گھر سے باہر نکل گیا۔ میں جانتا تھا‘ پانچوں بچوں کے منہ‬ ‫میں‘ شازیہ کی زبان ہے‘ اس لیے‘ میری دال گلنے کا‘ ایک‬ ‫فیصد بھی امکان نہ تھا۔ وہ اسے الیعنی بحث سمجھتے‘ اور یہ‬ ‫باظاہر تھی بھی بےکار کی بحث۔‬


‫اس پودے نے‘ یوں ہی جنم نہیں لیا ہو گا۔ یہاں خود رو پودوں‬ ‫کی بہتات تھی۔ ہم نے انہیں اکھاڑا‘ بھرتی بھی ڈالی اور اوپر‬ ‫چونے سے‘ فرشی اینٹیں چن دیں۔ درختوں کی جڑیں دور دور‬ ‫گئی ہوتی ہیں۔ ان ساری جڑوں کو تو ختم نہیں کیا جا سکتا۔‬ ‫درختوں کی ان جڑوں کو‘ زمین سے‘ خوراک ملتی رہتی ہے‘‬ ‫اس لیے ان کی موت واقع نہیں ہوتی۔ جب بھی‘ اور جہاں کہیں‘‬ ‫موقع ملتا ہے‘ وہ درخت کی صورت میں نمودار ہو‬ ‫جاتی ہیں۔‬ ‫حضرت ابراہیم خلیل هللا ایسا برگد تھے‘ جس کی جڑیں‘ دور تک‬ ‫نکل گئی تھیں۔ شر کی انتہائی صورت کے باوجود‘ اس برگد کی‬ ‫صحت پر‘ رائی بھر‘ اثر نہ ہوا۔ دنیا کا کوئی خطہ‘ ایسا نہیں ہو‬ ‫گا‘ جہاں اس برگد کی جڑ سے‘ پودا نمودار نہ ہوا ہو۔ الریب فی‘‬ ‫ہر پودے کا حسن اپنی جگہ باکمال رہا ہے۔ سچائی کا حسن‘ بار‬ ‫بار نمودار ہونے کے لیے‘ ہوتا ہے۔ اسے نمودار ہونے سے‬ ‫کوئی نہیں روک سکتا۔ ہاں اس کی جڑوں کا پھیلنا اور مضبوط‬ ‫ہونا ضروری ہوتا ہے۔ یہ سب هللا کے اختیار میں ہے۔ زمین کے‬ ‫اندر‘ ہم دخل اندازی نہیں کر سکتے۔ سچائی کی زمین‘ حد درجہ‬ ‫ذرخیز ہوتی ہے۔ اس کی ازل سے موجود جڑیں‘ کسی ناکسی‬ ‫پودے کو سطح زمین پر التی رہیں گی۔‬ ‫حکیم صاحب کے بوسیدہ کاغذوں میں جان تھی‘ تب ہی تو‘ اے‬ ‫ڈی قمر نے‘ پانچ سو روپے دینے میں‘ دیر نہ کی‘ ورنہ اتنی‬


‫بڑی رقم کیوں دیتے۔ پودے کی جڑوں میں دم تھا‘ اسی لیے‬ ‫ایک فٹ بھرتی کا سینہ چیرا‘ اور اپنے ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔‬ ‫حر کب مرا ہے‘ اس کی جٹریں پوری دنیا میں پھیل گئی ہیں۔‬ ‫حریت‘ اپنا وجود منواتی رہے گی۔ شازیہ نے پودے کو اکھاڑ‬ ‫پھینکا‘ اور سمجھ بیٹھی ہے‘ اب پودا نمودار نہیں ہو گا۔ میں‬ ‫کہتا ہوں‘ یہ پودا یہاں سے ناسہی‘ اسی گھر کے پکے فرش‬ ‫اورایک فٹ بھرتی کا‘ سینہ چیرتا ہوا‘ کسی دوسری جگہ سے‘‬ ‫ضرور ۔۔۔۔۔۔ ہاں ضرور نمودار ہو گا۔ یہ ہی اصول فطرت ہے‘ کہ‬ ‫حسن جگہ بدل بدل کر‘ نئے رنگ اور نئے روپ کے ساتھ‘ جلوہ‬ ‫گر ہوتا رہے۔‬

‫استحقاقی کٹوتی‬ ‫صالحہ بالشبہ‘ زمین پر چاند کا اوتار تھی۔ جو بھی اسے دیکھتا‘‬ ‫دل تھام کر رہ جاتا۔ کوئی چیز‘ خواہ کتنی قیمتی اور حسن و‬ ‫جمال میں الجواب ہو‘ جس کی ہے‘ اسی کی ہی ہے۔ اسے‘‬ ‫دوسری بار دیکھنے سے‘ پاپ لگتا ہے۔ صالحہ ایک شاہ قریب‬ ‫بندے کی بیوی تھی‘ اسی وجہ سے‘ وہ مغرور اور خودپسند‬ ‫بھی تھی۔ خوب صورت نہ بھی ہوتی‘ تو بھی خاوند کے اعلی‬


‫منصب کے باعث‘ متکبر اور خودپسند ہوتی۔ اس کی طرف‘ اس‬ ‫کے خاوند سے کم تر منصب کے شخص کا دیکھنا‘ گچی لمی‬ ‫کرانے کے مترادف تھا۔‬ ‫ایک روز‘ کسی تقریب میں‘ شاہ بھی موجود تھا۔ کرسی قریبوں‬ ‫کی بیگمات‘ رنگ برنگ لباسوں اور بناؤ سنگار کے پورے پہار‬ ‫کے ساتھ‘ تشریف الئی تھیں۔ بعض تو کارٹون لگ رہی تھیں۔‬ ‫ان میں سے ایک‘ میکی ماؤس کی خالہ زاد لگ رہی تھی۔ نقل‬ ‫وحرکت بھی‘ میکی ماؤس سے مماثل تھی۔ ناز و‬ ‫نخرہ‘ممتازمحل سے کہیں زیادہ‘ دکھا رہی تھی۔ یہ‘ طرلے خاں‬ ‫کی حضرت زوجہ ماجدہ تھیں۔ شوقین حضرات‘ محض تفریخ اور‬ ‫موڈ میں شوخی کے لیے‘ اس کی زیارت سے مستفیذ ہو رہے‬ ‫تھے۔ بعض چمچے‘ اس کے منہ پر اس کے ٹرن آؤٹ‘‬ ‫شائستگی اور سلیفہ شعاری کی تعریف کر رہے تھے۔ کچھ اس‬ ‫ذیل میں‘ حد میں اور کچھ حد سے باہر‘ نکل رہے تھے۔‬ ‫عطیہ خانم‘ اپنے ناک نقشہ کے حوالہ سے‘ کچھ کم نہ تھی۔‬ ‫زبان کی مٹھاس‘ شہد کی مٹھاس کو بھی‘ پیچھے چھوڑ رہی‬ ‫تھی۔ ہر لفظ‘ گالبوں کی خوش بو سے لبریز تھا۔ ہولے ہولے‘‬


‫دھیمی آواز میں‘ باتیں کرتی تھی۔ پر کیا کیا جائے‘ فربہ جسمی‘‬ ‫اس کے شکلی اور لسانی حسن کو‘ غارت کر رہی تھی۔‬ ‫بیگم عائشہ خاں‘ کسی سے بھی‘ کم نہ تھی لیکن اس کی کرل‬ ‫کرل‘ سر میں سوراخ کیے دے رہی تھی۔ سب بےزار سے ہو‬ ‫رہے تھے۔ پتا نہیں اس کا خاوند‘ اس کی کرل کرل کو‘ کس طرح‬ ‫ہضم کرتا ہو گا۔‬ ‫عارفہ جان اوور ایکٹنگ اور آنکھیں مٹکا مٹکا کر باتیں کرکے‘‬ ‫اپنے حسن کی حقیقی جازبیت کا ستیاناس مار رہی تھی۔‬ ‫صالحہ کا حسن‘ سنجیدگی کے لباس میں ملبوس تھا۔ کسی بات‬ ‫کے جواب میں‘ محض ایک قیامت خیز مسکراہٹ سے کام لیتی۔‬ ‫چال میں دیوتاؤں کا سا وقار تھا۔ آنکھوں میں فطری خمار اور‬ ‫اللہ رنگی اپنے عروج پر تھی۔‬ ‫جوبھی سہی‘ مونچھیں ہوں تو نتھو الل جیسی ہوں‘ ورنہ نہ‬ ‫ہوں‘ کے مصداق حسن اور نازونخرہ ہو تو میڈم صالحہ جیسا‬ ‫ہو‘ ورنہ نہ ہو۔ شاہ شروع سے‘ دین دار طبع کا مالک تھا۔ اس‬


‫نے ہر سجی اور بنی سنوری گڑیا کو‘ فقط ایک کھوجی اور‬ ‫گوہر شناس نظر سے دیکھا۔ صالحہ کو بھی ایک‘ مگر دیرپا اور‬ ‫فیصلہ کن نظر سے دیکھا۔ نظرشناس‘ شاہ کی اس نظر التفات‬ ‫کو پہچان گیے۔ ان کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ چلو‘‬ ‫تقریب کو سفلتا میسر آ گئی۔ یہ دن‘ بالشبہ نوازشوں اور عطاؤں‬ ‫کا دن تھا۔ شاید ہی کوئی نوازشوں کی گنگا کے اشنان سے‬ ‫محروم رہا ہو گا۔‬ ‫صالحہ کے خاوند کو‘ زبانی حکم موصول ہو گیا‘ کہ وہ صالحہ‬ ‫کو فورا سے پہلے‘ طالق دے دے۔ شاہ کا فرمان خصوصی تھا‘‬ ‫فورا سے پہلے تعمیل کیوں نہ ہوتی۔ چوں کہ یہ من منے کا میلہ‬ ‫تھا‘ لہذا عدت کے‘ ختم ہونے کے انتظار کی ضرورت ہی نہ‬ ‫تھی۔ نکاح کے بعد‘ ملکہ صالحہ صاحب کو‘ بڑی عزت‬ ‫اوراحترام کےساتھ‘ عجلہء عروسی میں پہنچا دیا گیا۔ یہ کوئی‬ ‫اچیرج بات نہ تھی۔ یہ توروٹین ورک تھا۔ مقدر اور نصیبے کی‬ ‫بات تھی۔ سج سجا کر آئی گماشتہ زوجگان‘ کی قسمت میں شاہی‬ ‫عجلہء عروسی نہ تھا۔ صالحہ کو بھی رائی بھر قلق نہ تھا۔ اب‬ ‫وہ گماشتے کی نہیں‘ گماشتہ طراز‘ شاہ کی زوجہ تھی۔ دوسرا‬ ‫یہ غیر شرعی‘ غیراصولی اور غیر فطری‘ کام نہ ہوا تھا۔‬ ‫باقائدہ اور باضابطہ طور پر‘ طالق کے بعد نکاح ہوا تھا۔ سلیم‬ ‫نے تو شیرافگن کو مروا‘ کر اس کی بیگم پر تصرف حاصل کیا‬


‫تھا۔‬ ‫چند ماہ تصرف میں رکھنے کے بعد‘ حسب معمول‘ صالحہ کو‬ ‫طالق دے دی گئی۔ بڑی مہربانی فرما تے ہوئے‘ اس کے سابقہ‬ ‫خاوند کو‘ نکاح کر لینے کے زبانی احکامات جاری کر دیے‬ ‫گیے۔ ملکہ معزمہ کا‘ کسی شاہی گماشتے کے تصرف میں آنا‘‬ ‫کوئی معمولی اعزاز نہ تھا۔ یہ بھی کہ شیر کا اپنا شکار‘ کسی‬ ‫گیڈر لومٹر کو دے دینا‘ ان ہونی کا ہو جانا تھا۔ دوسرا ملکہ‬ ‫سے گہری مخلصی اور یک جہتی کا اظہار بھی تھا‘ تا کہ بوقت‬ ‫ضرورت راضی بر رضا کام آتی رہے۔ دوسری طرف گماشتے‬ ‫کو‘ اس کی امانت واپس کر دی گئی تھی۔‬ ‫ہر کمائی سے‘ بہبودی ٹیکس کے نام پر‘ شاہ کا غالب حصہ‘‬ ‫جبری سہی‘ وصوال جاتا رہا ہے۔ کرسی قریب تو‘ اس کےاپنے‬ ‫ہوتے ہیں۔ ہر دیا‘ شاہ ہی کی‘ خصوصی عنایت کا نتیجہ ہوتا‬ ‫ہے۔ لین دین تو زندگی کا حصہ ہوتے ہیں۔ اس نوع کی کٹوتی‘‬ ‫بہبودی نہیں‘ استحقاقی ہوتی ہے۔ یہ بھی بالشبہ‘ خصوصی نظر‬ ‫التفات تھی‘ ورنہ اتنا بڑا اعزاز‘ کسی اور کو بھی حاصل ہو‬ ‫سکتا تھا۔ ہر شاہ کا‘ شروع ہی سے‘ یہ ہی طور اور وتیرا رہا‬ ‫ہے‘ کہ وہ اپنے چہولی چکوں پر‘ کرپا اور دیا کے دروازے بند‬ ‫نہیں کرتا۔‬


‫بابا جی شکرهللا‬ ‫سچی کہانی‬ ‫پیر فقیر درویش صوفی لوگ بھی‘ بڑے ہی عجیب اور پراسرار‬ ‫قسم کے ہوتے ہیں۔ انہیں سمجھنا آسان کام نہیں ہوتا۔ ان کا ہر‬ ‫کام‘ عموم اور مروجہ سماجی رویات سے‘ ہٹ کر یا قطعی‬ ‫برعکس ہوتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے‘ کہ یہ لوگ معاشی‬ ‫غیرآسودگی کو ایک طرف رکھیے‘ یہ کوئی بڑی بات نہیں‘ یہ تو‬ ‫کم زور طبقوں کا مقدر رہی ہے‘ یہ لوگ تو اپنی برعکس کرنی‬ ‫کے سبب‘ کانٹوں پر زندگی کرتے آئے ہیں۔ یہ زندگی سماجی‬ ‫وسیاسی جبر کا نتیجہ نہیں ہوتی ہے‘ بلکہ ان کی خود سے‘‬ ‫اختیار کی ہوئی ہوتی ہے۔ گویا یہ ان کی اپنی ذات کے جبر کا‘‬ ‫ثمرہ ہوتی ہے۔‬ ‫اب دیکھیے‘ جو بھی اہل ثروت اور اہل جاہ کی بدمعاشیوں اور‬ ‫بدکاریوں کو‘ طاقت کا استحاق سمجھتے ہوئے‘ تحسین کرتے‬ ‫ہوئے ان کے قدم لیتے رہے ہیں‘ ناصرف تمغوں‘ ایواڑوں اور‬


‫خطابات سے نوازے جاتے رہے ہیں بلکہ ان کی گھتلی‘ منہ تک‬ ‫لبریز رہی ہے۔ سرکار انہیں‘ جائیدیں اور مراعات سے نوازتی‬ ‫رہی ہے۔ معیار زندگی کی سربلندی کے ساتھ ساتھ‘ عوامی‬ ‫سطح پر‘ انہیں عزت و توقیر ملی ہے۔ بےشمار جی حضرریے‬ ‫میسر آئے ہیں۔ سالموں اور پرناموں کی کوئی تھوڑ نہیں رہی‘‬ ‫حاالں کہ ان جی حضرریوں کو محض ہڈی پر ٹرخایا جاتا رہا‬ ‫ہے۔ بعض اوقات‘ یہ ہڈی بھی انہیں ترسا ترسا کر دی جاتی رہی‬ ‫ہے۔ اپنی زبان کے لہو کو ہی‘ انہوں نے سووگی طعام شرین‬ ‫سمجھا ہے۔‬ ‫اس کے برعکس‘ ان درویشوں کو دیکھیے‘ وہ اہل ثروت کے‬ ‫ہر الٹے چالے پر‘ انگلی رکھتےآئے ہیں۔ پہلوں کے انجام سے‘‬ ‫انہوں نے کبھی بھی عبرت نہیں پکڑی۔ حاالت کی ناگواری اور‬ ‫طاقت کے بگڑے تیور‘ ان کی راہیں بدل نہیں سکے ہیں۔ وہ‘ وہ‬ ‫ہی کرتے رہے ہیں‘ جو ان سے پہلوں نے کیا۔ ہر درویش کو‬ ‫طاقت وارننگ دیتی رہی ہے۔ حرام ہے‘ جو انہوں نے کبھی کسی‬ ‫واننگ کو کوئی حیثیت دی ہو۔ طاقت کی اپنی مجبوری ہوتی ہے‘‬ ‫آخر وہ کہاں اور کس حد تک‘ برداشت سے کام لے۔ برداشت اور‬ ‫درگزر یا لحاظ اور مروت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ ایکشن‬ ‫میں نہ آنے کی صورت میں‘ بغاوت رہ پکڑ سکتی ہے۔ لوگ‬ ‫درویشوں کے کہے میں آ کر‘ طاقت کا جینا حرام کرسکتے ہیں۔‬


‫ریاستی امن وسکون تباہ ہو سکتا ہے۔‬ ‫سید غالم حضورالمعروف بابا شکر هللا بھی‘ عجیب عادت اور‬ ‫مزاج کے مالک تھے۔ لوگ کسی کو حضرت کا سالم کہہ کر یا‬ ‫سالم کا جواب دے کر‘ اپنی جانب سے‘ عظیم کرم فرمائی‬ ‫سمجھتے ہیں۔ چھوٹی بڑی رقم‘ کوئی استعمال یا خوردنی چیز‬ ‫عنایت کر دینا‘ تو بڑی دور اور مشکل کی بات ہے۔ یہ حاتم کی‬ ‫قبر پر الت مرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ وصول کنندہ‘ گویا ان کا‬ ‫کانا ہو جاتا ہے۔ سالم کہتے رہنا‘ ان کی کوئی ناکوی مشقت‬ ‫اٹھانا‘ گاہے لوگوں میں‘ ان کی دریا دلی کے چرچا کرنا اور وقتا‬ ‫فوقتا احسان مندی کا اظہار کرنا‘ ان کے فرض منصبی میں داخل‬ ‫ہو جاتا ہے۔ بابا شکر هللا بڑے عجیب تھے۔ ان کا موقف تھا‘‬ ‫کسی کو کچھ دے کر‘ یاد رکھنا بھی درست نہیں‘ بلکہ هللا اور‬ ‫لینے والے کا‘ شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ هللا کا شکر اس لیے کہ‬ ‫اس نے‘ تمہیں حاجت مند کی حاجب پوری کرنے کی توفیق عطا‬ ‫فرمائی اور سائل کو تمہاری طرف پھیرا۔ حاجت مند کا اس لیے‬ ‫کہ اس نے‘ تمہیں حاجت پوری کرنے کےاہل سمھجا۔‬ ‫اوالد تو اوالد‘ سائل بھی‘ بابا جی کی ہتھیلی پر سےاٹھاتے اور‬ ‫اسے‘ هللا کا شکر ادا کرنے کی تاکید کرتے۔ بابا جی امیر آدمی‬ ‫نہ تھے تاہم سائل کی حاجت پوری کرنے میں‘ کسی عذر بہانے‬ ‫‪:‬سے کام نہ لیتے تھے۔ ایک بار کسی نے کہا‬ ‫بابا جی! دینے والے کا تو ہاتھ اوپر ہوتا ہے‘ اس لیے آپ سائل‬


‫کی ہتھیلی پر کیوں نہیں رکھتے‘ بلکہ لینے واال‘ آپ کی ہتھیلی‬ ‫پر سے اٹھاتا ہے۔ آپ کے ہاں یہ معاملہ الٹ کیوں ہے۔‬ ‫بھائی‘ میں دینے واال کون ہوتا ہوں‘ میرا تو ابنی سانسوں پر‬ ‫اختیار نہیں۔ مالک کے دیے میں سے دیتا ہوں‘ کون سا احسان‬ ‫کرتا ہوں۔ سائل کو مالک نے بھیجا ہوتا ہے‘ بھیجنے واال مالک‬ ‫ہے‘ اس لیے سائل کا ہاتھ کیوں نیچے ہو۔ مالک بھیجتا ہے‘ کیا‬ ‫‘مالک کے بھیجے کا ہاتھ نیچے ہونا چاہیے‬ ‫ایک بار ایک صاحب تشریف الئے‘ کچھ کہنا چاہتے تھے‘ لیکن‬ ‫کہہ نہیں پا رہے تھے۔ بابا شکرهللا نے‘ انہیں کہا آپ بیٹھیں‘‬ ‫میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔ بابا جی اندر چلے گیے۔ کچھ دیر‬ ‫بعد واپس آ گیے اور انہیں بیٹھک سے باہر آنے کا اشارہ کیا۔‬ ‫انہیں باہر ہی سے فارغ کر دیا اور پھر‘ ہمارے پاس آ کر بیٹھ‬ ‫گیے۔ ذکر تک نہ کیا‘ کہ آنے واال حاجت مند تھا اور انہوں نے‬ ‫اس کی کس طرح مدد کی۔ اس انداز سے‘ جیسے کچھ ہوا ہی نہ‬ ‫ہو‘ بات وہیں سے شروع کر دی‘ جہاں سے چھوڑی تھی۔‬ ‫ایک مرتبہ ان کے ایک ملنے والےآئے‘ بال سالم دعا برس ہی‬ ‫پڑے۔ وہ صاحب بولتے رہے‘ ان کے گرجنے برسنے کے‬ ‫دوران‘ بابا جی شرمندہ سی مسکراہٹ کی خوش بو پھیالتے‬ ‫‪:‬رہے۔ جب وہ بول چکے‘ تو بابا جی نے فرمایا‬ ‫بھائی میں نبی نہیں جو مجھ پر وحی آ جاتی کہ آپ کسی مسلے‬ ‫سے دوچار ہیں۔‬


‫اس شخص نے کہا‘ آپ سید پاک ہیں آپ کو لوگوں کے دکھ‬ ‫سکھ سے آگاہی رکھنی چاہیے۔‬ ‫فرمانے لگے‘ ہاں یہ درست ہے۔ پھر ان کی آنکھوں سے‬ ‫اشکوں کا راوی ہہنے لگا۔ فرمانے لگے بھائی‘ بھائی ان کا‬ ‫تکیہءکالم تھا‘ میں تو سنا سنایا سید ہوں۔ سید تو حسین ابن‬ ‫علی تھے‘ جنہوں نے نانا کی امت کے لیے‘ اپنا سب کچھ قربان‬ ‫کر دیا۔‬ ‫ایک مرتبہ ایک سائل آیا۔ بابا جی نے اس کی طرف دیکھا اور‬ ‫پھر‘ ایک بچے کے ہاتھ ایک سکہ بھجوا دیا۔ کسی نے پوچھا‪:‬‬ ‫بابا جی یہ کیا۔‬ ‫انہوں نے فرمایا‪ :‬یہ مالک کا بھیجا ہوا نہیں تھا۔ یہ مالک کا‬ ‫ناشکرا تھا۔ سب کچھ پلے ہوتے ہوئے بھی‘ ہر کسی کے‬ ‫سامنے‘ دست سوال کرکے اپنے ضمیر کا قتل کرتا پھر رہا تھا۔‬ ‫کسی نے سوال کیا‪ :‬حضور پھر آپ نے بچے کے ہاتھ سکہ‬ ‫کیوں بجھوایا۔‬ ‫کہنے لگے‪ :‬وہ میرے دروازے پر چل کر آیا تھا‘ میں اسے‬ ‫خالی کیسے بھیج سکتا تھا۔ اس کا عمل اس کے ساتھ ہے اور‬ ‫میرا میرے ساتھ ہے۔‬ ‫ایک بار ایک بڑے معزز سے شخص آئے اور دعا فرمانے کے‬ ‫لیے کہہ دیا۔ بابا جی نے اچھا خاصا لیکچر پال دیا۔ بابا جی‬


‫ماسٹر کریم الدین ہی لگ رہے تھے۔ان کے لیکچر میں بال کی‬ ‫روانی گرمی اور جوش و خروش تھی۔ رومی‘ سعدی‘ حافظ‘‬ ‫بلھے شاہ‘ شاہ حسین الہوری وغیرہ ایک ہی نشت میں بیٹھا‬ ‫دیے۔ اس نے بابا جی کے پلے سے کچھ نہ مانگا تھا‘ محض‬ ‫دعا کے لیے ہی تو کہا تھا۔ ضرورت‘ ضروری ہو یا اختیاری ہو‘‬ ‫ضرورت ہوتی ہے۔ بابا جی کی باتوں سے ایک بات ضرور‬ ‫واضح تھی کہ جس چیز کے بغیر کام چل سکتا ہو یا وہ اضافی‬ ‫نوعیت کی ہو‘ اس کے لیے بےچین ہونا یا دو نمبری رستہ‬ ‫اختیار کرنا‘ درست نہیں۔‬ ‫ہم سائے میں‘ کوئی نئے ماڈل کی چیز آ گئی ہےاورآپ کے ہاں‬ ‫پرانے ماڈل کی ہے‘ اس سے کیا فرق پڑتا ہے‘ کام تو چل رہا‬ ‫ہے۔ کسی عزیز نے گاڑی لے لی ہے تو یہ خوشی کی بات ہے‘‬ ‫آپ خواہ مخواہ پریشان ہوتے ہیں۔ ناک کے لیے گاڑی کے‬ ‫حصول کے لیے بھاگ دوڑ کرنا‘ کہاں کی دانش مندی ہے۔ اگر‬ ‫کام چل رہا ہے اور کوئی دقت محسوس نہیں ہو رہی‘ تو بس‬ ‫ٹھیک ہے۔ مہندی گانے پر پہنے گیے ملبوسات‘ شادی اور‬ ‫ولیمے میں‘ پہن لینے میں کون سی قباحت ہے۔ مرگ پر آدمی‬ ‫پرسا دینے جاتا‘ وہاں کے لیے بن ٹھن کی‘ آخر کیا ضرورت‬ ‫ہے۔‬ ‫بابا جی کی تمام باتیں سولہ آنے ٹھیک تھیں مگر کیا جائے‘‬ ‫زندگی کا چلن یی ایسا ہو گیا ہے‘ کیا کریں۔ زندگی کی موجودہ‬


‫روش کے مطابق‘ چلنا پڑتا ہے۔ بابا جی درویش تھے‘ ان کا تو‬ ‫گزارہ ہو سکتا تھا‘ ساری دنیا درویش نہیں۔‬

‫الٹری‬

‫کریماں کے جوان کنوارے بیٹے کے‘ وعدے پورے ہو گیے۔ ماں‬ ‫کا‘ چیخیں مار مار کر رونا‘ فطری سی بات تھی۔ هللا کسی دشمن‬ ‫کی ماں کو بھی‘ اس صدمے سے دوچار نہ کرئے۔ اوالد کو کچھ‬ ‫ہو جائے تو ماؤں کو سچ میں‘ اس سے پہلے ہی دوگنا کچھ ہو‬ ‫جاتا ہے۔ یہ رشتہ ہی کچھ ایسا ہوتا ہے۔ تب ہی تو اس رشتے‬ ‫کو ان مول اور مترادف سے معذور رشتھ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ اس‬ ‫رشتے کی اہمیت کا انداز اس قول سے لگائیں‘ کہ ماں کے‬ ‫پیروں میں جوتا ہو نہ ہو‘ اوالد کی جنت ضرور ہوتی ہے۔‬ ‫ماں کی محبت کی کچھ مثالیں میری آنکھوں دیکھی ہیں۔ مائی‬ ‫رمضانہ کا منجھال کوئی کام کاج تو کرتا نہیں تھا ہاں البتہ نشے‬ ‫پانی کا عادی تھا۔ پیسوں کے لیے ہر وقت لڑتے رہنا اس کا‬


‫مرغوب مشغلہ تھا۔ لڑائی میں‘ بدتمیزی کی حدیں کراس کر جاتا‬ ‫تھا۔ الڈوں پال تھا۔ مرحومہ کسی کے منہ سے اپنے بیٹے کے‬ ‫خالف ایک جملہ تک نہ سن سکتی تھی۔ وہ اپنے عالقےکا مانا‬ ‫ہوا نشئی تھا لیکن مائی رمضانہ کسی کے منہ سے بھی نہیں‬ ‫سن سکتی تھی کہ اس کا ییٹا نشئی ہے۔‬ ‫گاماں کو هللا نے چار بیٹیاں عطا کیں۔ بیٹے کی خواہش نے‘‬ ‫اسے بڑا بےصبرا بنا دیا تھا۔ دوا دارو کے ساتھ ساتھ‘ پیروں‬ ‫فقیروں کے پاس بھی گئی۔ ہر کام اپنے وقت پر ہوتا ہے۔ هللا نے‬ ‫سات سال بعد‘ اسے چاند سا بیٹا عطا فرمایا۔ تمام الڈ لڈائے‬ ‫گیے۔ بڑا ہوا‘ تو اسے کسی مغربی ملک میں بھیج دیا گیا۔ پھر‬ ‫وہ وہاں کا ہی ہو کر گیا۔ شروع شروع میں‘ خط وغیرہ لکھ دیا‬ ‫کرتا تھا‘ پھر اس تکلف سے بھی گیا۔ گاماں‘ بیٹے کی جدائی کا‬ ‫صدمہ‘ برداشت نہ کر سکی۔ دماغی توازن کھو بیٹھی اور گلیوں‬ ‫کا روڑا ہوکر رہ گئی۔ جو کوئی دیکھتا افسوس کرتا۔‬ ‫ننھا الکھوں میں ایک تھا۔ گاؤں کی لڑکیاں‘ اس پر مرتی تھیں۔‬ ‫کوئی ایک ہوتی تو وہ عشق جیسی بیماری میں مبتال ہوتا۔ بس‬ ‫معمولی نوعیت کی‘ بھونڈی تک محدود تھا۔ آخر کب تک‘ شازیہ‬ ‫نے‘ اسے اپنی گرفت میں لے ہی لیا۔ بات کب تک پردہ میں رہتی‬ ‫ہے‘ لوگوں کی زبان پر آ گئی ۔ اس معاملے پر گھر پانی پت کا‬ ‫میدان بن گیا۔ سب لوگ‘ ننھے کے پیچھے ہی پڑ گیے۔ ننھے کی‬


‫ماں رانی‘ ہر وقت پتر کے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے میں رہتی۔‬ ‫اس کا موقف یہ ہی رہتا‘ لوگ یوں ہی بکواس کرتے ہیں‘ میرا‬ ‫بیٹا شریف ہے‘ وہ ایسی حرکت کر ہی نہیں سکتا۔ شازیہ شوہر‬ ‫اور تین بچوں کو چھوڑ کر‘ میکےآ گئی۔ یہ سوال غلط نہ تھا‘‬ ‫کہ عشق ممتا کی الش سے بھی گزر جاتا ہے۔ ایسی مٹالیں‬ ‫ہزاروں میں‘ دو چار ہی ہوں گی۔‬ ‫میں اپنی ماں سے‘ بےتحاشا محبت کرتا تھا۔ اس کی آغوش‘‬ ‫میرے لیے بڑی معنویت رکھتی تھی۔ آج جب‘ بوڑھا ہو گیا ہوں‘‬ ‫بیمار پڑتا ہوں‘ تو نادانستہ طور پر‘ منہ سے ہائےامی ہی نکلتا‬ ‫ہے۔ خدمت کرنے والے کا چڑنا‘ الیعنی قرار نہیں دیا جا سکتا‘‬ ‫کہ بھئی خدمت میں کر رہا ہوں‘ پکارے اپنی امی کو جا رہا ہے‘‬ ‫جو برسوں پہلے انتقال کر گئی ہے۔ یہ عمل‘ کوئی غیرفطری‬ ‫نہیں‘ عین فطری ہے۔‬ ‫کریماں کو ڈھارس بندھانے والے‘ کئی لوگ تھے۔ اسے قرار آ‬ ‫ہی نہیں رہا تھا۔ آتا بھی کیسے اور کس بوتے پر‘ جوان بیٹے‬ ‫کی الش سامنے پڑی تھی۔ کبھی منہ کو ہاتھ لگاتی‘ کبھی سر‬ ‫پر ہاتھ پھرتی۔ کبھی چارپائی کے بازو پر سر مارتی اور کر بھی‬ ‫کیا سکتی تھی۔ آہ و بکا اور اس کے بین سنے نہیں جا رہے‬ ‫تھے۔ اس دوران اس کے منہ سے نکال ‪ :‬میرے بیٹے نے دنیا‬ ‫میں دیکھا ہی کیا تھا‘ کچھ دیکھے بغیر چل بسا۔ فیجاں تیلن جو‬ ‫اس کے قریب بیٹھی تھی‘ نے اس کےکان میں کہا‪ :‬اس کی تم‬


‫فکر نہ کرو‘ میں نے سب کچھ دکھا دیا تھا‘ گلو اسی کا تو ہے۔‬ ‫کریماں پر‘ حیرت آلود سکتہ طاری ہو گیا‘ پھر تھوڑا سمبھلی۔‬ ‫اس نے ڈیڑھ سالہ گلو کو ایک نظر دیکھا۔ اسے گلو میں‘ اپنے‬ ‫بیٹے صادق کے بچپن کی پرچھائیں نظر آئی۔ اس نے بےاختیار‬ ‫ہو کر‘ گلو کو سینے سے لگا لیا۔ یہ ایک ایسی پہیلی تھی‘ جو‬ ‫کسی کی سمجھ میں نہ آ سکتی تھی۔ ہاں فیجاں تیلن کی الٹری‬ ‫لگ چکی تھی۔ یہ کیسا رشتہ تھا‘ جو گلو کو بھی تامرگ معلوم‬ ‫نہ ہو پانا تھا۔ سب کچھ ہوتے‘ دنیا کے حساب سے‘ وہ اس کی‬ ‫کچھ بھی نہ تھی۔ کریماں اسے اپنے بیٹے صادق کی نشانی‬ ‫سمجھتے ہوئے‘ اس پر محبتیں اور جیب قربان کرتی رہے گی‘‬ ‫لیکن اپنا رشتہ کسی پر کھول نہ سکے گی۔ باطور دادی‘ منہ‬ ‫سے کچھ کہہ کر‘ وہ گلو پر ناجائز اوالد ہونے کا لیبل کس طرح‬ ‫چسپاں کر سکتی تھی۔ اس کےلیے بس اتنا ہی کافی تھا کہ وہ‬ ‫صادق کی نشانی تھا۔‬

‫آگ کی بھٹی‬


‫جنگ لمحوں کی ہو یا دنوں کی‘ جہاں توڑ پھوڑ کا سبب بنتی‬ ‫ہے‘ وہاں ذات کا سکون بھی غارت کر دیتی ہے۔ سوچیں ہر‬ ‫لمحہ تذبذب کی صلیب پر چڑھتی ہیں۔ کچھ کر گزرنے کی‬ ‫استعداد بھی متاثر ہوتی ہے۔ سماجی اطوار سے میل کھاتی‬ ‫سوچیں‘ کھیسےمیں کچھ ناکچھ ضرور ڈالتی ہیں۔ سماجی اطوار‬ ‫سے متصادم سوچیں‘ ذات کا استحصال تو کرتی ہی ہیں‘ سماج‬ ‫تو سماج‘ یہاں تک کہ خانگی لعن طعن بھی‘ مقدر ٹھہرتی ہے۔‬ ‫ستم یہ‘ جن کی بھالئی کے لیے سوچا گیا ہوتا ہے‘ وہ ہی دشمن‬ ‫بن جاتے ہیں۔‬ ‫علما کی زبانی‘ نار جہنم کی ہولناکی کا سنتے آ رہے ہیں۔ یہ بات‬ ‫اکثر سوچ میں آتی ہے‘ کہ اس کی قہرمانی‘ کیا سوچوں سے‬ ‫بھی بڑھ کر ہو گی! مجھے لوہے کی بٹھی میں لوہے کو ۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫ہاں لوہے کو‘ جو سخت ترین دھات ہے‘ کو پانی ہوتے دیکھنے‬ ‫کا اتفاق ہوا۔ بال کی آگ تھی۔ اس کی دور کی تپش سے‘ جسم‬ ‫پسینے میں نہا گیا۔‬ ‫میں پچھلے پچپن سال سے‘ سوچ کی بھٹی میں پگھل رہا ہوں۔‬ ‫سب سے بڑا دکھ تو یہ ہے‘ کہ میری سوچوں کو‘ الیعنی اور‬ ‫سماج دشمن سوچیں کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ جن کے لیے‬ ‫سوچتا ہوں‘ وہ ہی مجھے اپنے رزق کا دشمن سمجھتے ہیں۔‬


‫رشوت لینے والوں سے کہتا ہوں‘ تم جہنم کی آگ جمع کر رہے‬ ‫ہو‘ تو وہ میرے کہے کو بکواس اور دفترشاہی کے خالف‬ ‫سازش سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں‘ صدیوں سے جاری یہ‬ ‫عمل‘ کس طرح غلط ہوسکتا ہے۔ اگر یہ غلط ہوتا‘ تو یہ اختیار‬ ‫کیوں کیا جاتا۔ کسی روایت یا روٹین میٹر کو‘ کس طرح غلط‬ ‫قرار دیا جا سکتا ہے۔ رشوت دینے والے کو کہتے ہیں‘ تو وہ‬ ‫اسے درست قرار دینے کے لیے تیار نہیں۔ رشوت ہی‘ ڈی میرٹ‬ ‫کو میرٹ میں تبدیل کر سکتی ہے۔ اس حوالہ سے‘ رشوت دینا‬ ‫الیعنی نہیں ٹھہرتا۔ کسی کی حق تلفی کیسی۔ لگانے والے ہی‬ ‫کے کھیسہ میں پھل گرتا ہے۔‬ ‫مالوٹ کرنے والے سے بات کرو‘ تو وہ دشمن بن جاتا ہے۔ اس‬ ‫کا کہنا ہوتا ہے‘ جب خریدنے والے کو اعتراض نہیں‘ تو‬ ‫تمہارے پیٹ میں کیوں مروڑ اثھتا ہے۔ میں اس کا خیرخواہ‬ ‫ہوں‘ چاہتا ہوں‘ وہ جہنم کی آگ کا لقمہ نہ بنے۔ میں سوچتا‬ ‫ہوں‘ پاؤ کا خریدار ہو یا کلو کا‘ دین دار تو وہ دونوں کا ہے۔‬ ‫انسان جو هللا کی بہترین مخلوق ہے‘ کی قیمت محض چند ٹکے‬ ‫ہیں۔‬ ‫چوری کوئی آسان کام نہیں۔ انسان اگر اتنی محنت کرئے‘ تو‬ ‫بھوک مٹانے اور تن ڈھانپنے کے لیے‘ رزق دستیاب ہو ہی جاتا‬


‫ہے۔ غداری کرنے والے کیوں بھول جاتے ہیں‘ محض چوپڑی‬ ‫کے لیے لوگوں کا خون اپنے سر پر کیوں لیتے ہیں۔ کم تولنے‬ ‫اور بڑی ہنرمندی سے‘ ناقص مال فروخت کرنے والوں کو‬ ‫ضمیر کیوں نہیں ستاتا۔ کیا ان کا ضمیر نہیں ہوتا۔ کیا وہ‬ ‫بالضمیر زندگی گزار کر دنیا سے‘ رخصت ہو جاتے ہیں۔ ان کے‬ ‫چھوڑے بےضمیر لقمے‘ اگلی نسلوں کو منتقل ہو جاتے ہیں۔‬ ‫ہزار سال تو بہت زیادہ ہوتے ہیں‘ کوئی یہ نہیں بتا سکتا‘ کہ‬ ‫کسی کی‘ موجودہ رہائش گاہ دو سو سال پہلے کیسی اور کس‬ ‫کی تھی۔ آتے سالوں میں‘ یہ کیسی اور کس کی ہو گی۔ میری‬ ‫میری کا نغمہ بڑا پرانا ہے‘ لیکن اس کا ہر گائیک‘ تہ خاک چال‬ ‫گیا۔ ایسا گیا‘ کہ اسے دوبارہ آنا نصیب نہ ہوا۔‬ ‫میں اپنی ذات سے‘ اس معاملے پر بھی الجھتا ہوں‘ کہ ہر دو‬ ‫نمبری الئق عزت کیوں سمجھا جاتا ہے۔ ایک صاحب نے‘ سات‬ ‫الکھ کی ہیرا پھیری کی۔ اس رقم سے وہ اور اس کے گھر والے‘‬ ‫حج کرکے آئے۔ سب ان کے ہاتھ چومتے ہیں۔ اس میں وہ بھی‬ ‫شامل ہیں‘ جو اصل حقیقت سے آگاہ ہیں۔ شرافت کا معیار‬ ‫پرتعیش زندگی قرار پایا ہے۔‬


‫مجھے اس بات پر قلق ہوتا‘ کہ ہم منافق کیوں ہیں۔ غلط کو‬ ‫غلط‘ منہ پر کیوں نہیں کہتے ۔ ایک طرف حضرت ابراہیم‘‬ ‫حضرت سقراط‘ حضرت حسین‘ حضرت منصور کا احترام کرتے‬ ‫ہیں۔ حضرت مہاآتما بدھ جی کے فعل پرحیرت زدہ ہوتے ہیں۔‬ ‫دوسری طرف‘ ان اصحاب باصفا کے ساتھ‘ پیش آنے والے‬ ‫معامالت سے‘ عبرت لیتے ہوئے‘ غلط کو غلط نہیں کہتے۔ ان‬ ‫کی پشت پیچھے پلوتے بولتے ہیں۔ ان کے منہ پر‘ ٹی سی میں‬ ‫کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتے۔ ٹی سی خور‘ خوش ہو کر چوری‬ ‫سے نوازتے ہیں۔ جانتے ہوئے بھی‘ وہ خود کو نبی قریب‬ ‫سمجھتے ہیں یا اپنے کیے کو‘ برحق سمجھتے ہیں۔ گویا‬ ‫دونمبری‘ ان کا مرتبی استحقاق ہے۔‬ ‫آگ کی بھٹی کو دیکھے ہوئے‘ ایک عرصہ گزر گیا ہے۔ اس آگ‬ ‫کا سیکا‘ آج بھی محسوس کرتا ہوں۔ یہ آگ اتنی زبردست تھی۔‬ ‫جہنم کی کس بال کی ہو گی۔ میں سوچتا ہوں‘ اتنے سوہنے‬ ‫سوہنے چہرے‘ جو دیکھنے میں نیک پرہیزگار لگتے ہیں‘ جہنم‬ ‫کی آگ میں ڈالے جائیں گے! ان کے دو نمبری حج اور دکھاوے‬ ‫کی نمازیں‘ کام آ سکیں گی۔ کیا چوری خور مورکھ کا لکھا هللا‬ ‫درست مان لے گا۔‬ ‫اس قسم کی سوچیں‘ مجھے بڑی ازیت دیتی ہیں۔ کاش میں‬


‫انہیں‘ جہنم کی آگ سے بچا سکتا۔۔۔۔۔ کاش۔۔۔۔۔ یہ مجھے حاسد‬ ‫سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال ہے‘ سوکھی اور قلیل نے‘ مجھے‬ ‫یاوہ گو بنا دیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں‘ ان کی آسودگی‘ خوش‬ ‫حالی‘ کوٹھی‘ کاروں کی موجودگی نے پاگل کر دیا ہے اور میں‬ ‫اس پر جلتا ہوں۔ کتنی عجیب بات ہے‘ میں ان کے انجام سے‬ ‫لرزاں ہوں۔ میں اس امر پر بھی لرزاں ہوں‘ کہ میں نے انہیں‬ ‫بتایا کیوں نہیں۔ انہوں نے آگ کی بھٹی میں‘ لوہے کو پگھل کر‬ ‫پانی ہوتے نہیں دیکھا۔ هللا پوچھ سکتا ہے‘ تم نے تو دیکھا تھا‬ ‫نا‘ پھر کیوں نہیں بتایا۔ دیکھ کر‘ منافقت کے خول میں کیوں‬ ‫مقید رہا۔‬ ‫میں اپنی حیثیت‘ حقیقت اور اوقات سے‘ خوب خوب ہوں۔ میں‬ ‫ان کا مجرم ہوں‘ آنکھوں دیکھی چیز کا‘ لفظوں میں نقشہ نہیں‬ ‫کھنچ سکتا۔ یہ تو کوئی مصور ہی کر سکتا ہے‘ یا کوئی باہدایت‬ ‫صاحب اختیار کر سکتا ہے۔ ہر عالقے کے حاکم پر لگائے‘ کہ‬ ‫وہ بدعنوان لوگوں کو ساتھ لے کر‘ دہکتی آگ کی بٹھی کی‬ ‫زیارت کرے اور کرائے۔ اینٹوں کے پھٹے کی آگ بھی‘ اپنی‬ ‫کارگزری میں کچھ کم نہیں۔ بٹھی کی آگ ہو یا اینٹوں والے‬ ‫“پٹھے کی آگ‘ جہنم کی آگ کے مقابلہ میں کچھ نہیں۔‬ ‫شاہ بابا بولتا رہا‘ ہم سب پتھر کا بت بنے‘ سنتے رہے۔ پھر شاہ‬


‫بابا کے منہ سے نکال‘ کلمہءشہادت۔ سب نے یک زبان ہو کر‬ ‫کلمہءشہادت پڑھا۔ اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔ سب نے‬ ‫سوچا‘ شاید شاہ بابا دم لینے کے لیے رکے ہیں‘ لیکن بابا تو‬ ‫اپنا فرض ادا کرکے جا چکا تھا‘ اسے چلے جانا ہی چاہیے تھا۔‬ ‫یہ دنیا‘ اس سے لوگوں کے رہنے کی جگہ نہیں ہے۔ میں نے‬ ‫کئی بار‘ بٹھی دیکھنے کا اردہ کیا ہے‘ شاید کچھ عبرت پکڑوں‬ ‫اور توبہ کے دروازے پر آ جاؤں‘ یقین مانیں‘ دنیا کی ہما ہمی‬ ‫نے‘ مجھے موقع ہی نہیں دیا۔ یا پھر شاید عبرت پکڑنے اور‬ ‫کوئی کارخیر کرنے کے لیے‘ ہمارے پاس وقت ہی نہیں رہا۔‬

‫کردہ ناکردہ‬

‫انسان کو‘ هللا نے احسن تخلیق کیا اور اس کی جگہ جگہ بڑائی‬ ‫بیان کی ہے۔ فرشتے کیا‘ مجھے بھی‘ جو ان کا سردار تھا‘ اس‬ ‫مٹی سے بنے انسان کو‘ سجدہ کرنے کو کہا گیا۔ کمال ہے‘ کل‬ ‫تک میں سرداری کر رہا تھا‘ آج داری کے لیے کہا جا رہا تھا۔‬ ‫اب بھال میں‘ زحل کی گھڑی میں تخلیق کی گئی مخلوق کو‘‬ ‫سجدہ کیوں کرتا۔ هللا اسے مشتری کی بہترین ساعت کی تخلیق‬


‫قرار دیتا ہے۔ اس کے کارنامے‘ مشتری کی بہترین ساعت والے‬ ‫نہیں ہیں۔ اپنا کیا‘ اپنے سر پر نہیں لیتا اوروں کے سر پر رکھ‬ ‫دیتا ہے‘ یا پھر میرے نام کر دیتا ہے حاالں کہ اس بات یا‬ ‫معاملے کا میری ذات سے‘ کوئی تعلق واسطہ ہی نہیں ہوتا۔‬ ‫مشتری کی بہترین ساعت کی تخلیق تو دیکھو‘ قتل کرتا ہے‘‬ ‫منصف کے سامنے اپنے کارنامے سے صاف انکار کر دیتا ہے۔‬ ‫وکیل یہ جانتے ہوئے‘ کہ اس کا موکل قاتل ہے‘ وکالت کر رہا‬ ‫ہوتا ہے‘ ٹھوس دالئل پیش کر رہا ہوتا ہے۔ قاتل کی طرف داری‬ ‫کرتے ہوئے‘ عجیب محسوس نہیں کرتا‘ ضمیر پر رائی بھر‬ ‫بوجھ نہیں لیتا۔ مقدمہ جیت جانے کی صورت میں‘ خوشیاں مناتا‬ ‫ہے۔ چند سکوں کے لیے‘ کسی کا قتل اپنے سر پر لینے میں‘‬ ‫عار نہیں سمجھتا۔ ایسے وکیل کو کامیاب وکیل قرار دیا جاتا ہے۔‬ ‫جرم پیشہ لوگ اپنی جگہ‘ سماج بھی اسے‘ عزت اور قدر کی‬ ‫نگاہ سے دیکھتا ہے۔‬ ‫رشوت‘ مالوٹ‘ ہیرا پھیری‘ ناپ تول میں کمی اور دو نمبری‬ ‫کمائی سے‘ کوٹھیاں کاریں بنا لینے والے‘ اسی کمائی سے حج‬ ‫پر جانے ہیں۔ وہاں جا کر مجھے کنکر مارنے والے باعزت اور‬ ‫معزز ہیں۔ آخر کس منہ سے وہ یہ کرتے ہیں۔ میں ملعون ہوں‘‬ ‫شاید اسی لیے وہ آلودہ ہاتھوں سے‘ مجھے کنکریاں مارتے‬ ‫ہیں۔ جتنی دیر اور جس حساب سے‘مجھے کنکریاں ماری جا‬ ‫رہی ہیں‘ میرا تو کچومر ہی نکل گیا ہوتا۔ حرام کی کمائی سے‬


‫آلودہ ہاتھوں کی کنکریاں‘ مجھے لطف سے ہم کنار کرتی ہیں۔‬ ‫ان کے سبب مجھے استحقام میسرآیا ہے‘ گویا یہ مجھے مزید‬ ‫شکتی دان کرتی آئی ہیں۔‬ ‫بالل‘ بورذر سلمان وغیرہ سے لوگوں کا وجود‘ مجھے ازیت‬ ‫دیتا تھا۔ اب ان سے لوگ نہیں رہے۔ یہ هللا کو یاد ہی نہیں کرتے‬ ‫اور ناہی اپنے هللا سے‘ آگہی رکھتے ہیں۔ چوری‘ ہیرا پھیری‬ ‫اور دونمبری پر جانے سے پہلے اپنے هللا کو یاد کرتے ہیں۔ هللا‬ ‫کو یاد کرنے کا بھی یہ خوب موقع ہوتا ہے‘ کہتے ہیں‘ یاهللا تیرا‬ ‫ہی آسرا اور سہارا ہے۔ کسی نیک کے ساتھ واسط ہڑے اور‬ ‫سالمتی سے‘ کھیسہ بھر کر واپس آئیں۔ وہ سالمتی سے کھیسہ‬ ‫بھر کر‘ واپس آتے بھی ہیں۔‬ ‫پکڑے جانے یا ناکامی کی صورت میں‘ مجھے کوستے ہیں۔ اس‬ ‫میں میرا کوئی قصور نہیں ہوتا۔ میں کب چاہوں گا‘ کہ دونمبری‬ ‫کرنے والے کو‘ ناکامی کا سامنا کرنا پڑے۔ اس کی کامیابی‘‬ ‫میری کامیابی ہے‘ اس کی ناکامی‘ میری ناکامی ہے۔ کتنی عجیب‬ ‫بات ہے‘ مجھے منفی کردار سمجھتے ہیں۔ منفی پر اکسانے واال‬ ‫بھی‘ مجھے قرار دیتے ہیں۔ منفی پر ناکامی پر بھی‘ مجھے‬ ‫کوسنے دیتے ہیں۔ میں فرعون کی‘ موسی سے ٹھنی پر خوش‬ ‫تھا۔ دریا میں اترنے کے لیے‘ میں نے اسے کب کہا تھا‘ وہ خود‬ ‫ہی‘ اپنی مرضی سے‘ دریا میں اترا تھا۔ اس کی موت‘ میرے‬ ‫وارے میں نہ تھی۔ اس کا یہ کیا بھی میرے کھاتے میں ڈال دیں‘‬


‫کیوں کہ ہر خرابی کا میں ہی ذمہ دار ہوں۔ یہ میرے کھاتے میں‬ ‫کیوں ڈاال نہیں جاتا۔‬ ‫کل ہی کی بات ہے‘ کہ ایک دکان دار دودھ ابال رہا تھا‘ ساتھ‬ ‫میں‘ دوسرے دکان دار سے‘ باتیں بھی کر رہا تھا۔ بےخیالی‬ ‫میں‘ کھرپا مارتے‘ دودھ کے کچھ چھیٹے‘ سامنے دیوار پر جا‬ ‫پڑے۔ مجھے دیوار پر انگلی سے دودھ لگانے کی ضرورت ہی‬ ‫نہ پڑی۔ ہم سائے کے دکان دار سے بھی‘ وہ اپنی مرضی سے‘‬ ‫اپنی مرضی کی باتیں کر رہا تھا۔ دیوار پر دودھ کے چھینٹے‘‬ ‫اس کی بےخیالی‘ بےتوجہگی اور غفلت کے باعث پڑے۔ دودھ‬ ‫پر مکھیاں آ ہی جاتی ہیں‘ یہ فطری سی بات ہے۔ مکھیاں جہاں‬ ‫ہوں گی‘ وہاں کرلیاں آئیں گی ہی۔ چھپکلی دیکھ کر‘ بال یا بلی‬ ‫کیسے چپکے رہیں گے۔‬ ‫ہوا کیا‘ دکان دار کا بال‘ چھپکلیوں پر پل پڑا۔ اتفاق دیکھیے‘‬ ‫عین اسی وقت‘ سیٹھ نثار اپنے ٹومی جی کے ساتھ‘ سٹرک پر‬ ‫مٹر گشت کرتے گزر رہے تھے۔ ٹومی جی نے‘ جوں ہی بلے کو‬ ‫دیکھا‘ وہ پوری رفتار سے‘ بلے پر جھپٹا۔ چھپکلی کے منہ میں‬ ‫مکھی اور بلے کے منہ میں چھپکلی تھی۔ تینوں ٹومی جی کی‬ ‫بروقت مثبت کاروائی پر‘ دودھ میں جا گرے۔ دکان دار نے‬ ‫غصے میں آ کر‘ کھرپا ٹومی جی کے سر پر جڑ دیا اور وہ‬ ‫موقع پر ہی‘ ٹکی ہو گیا۔۔ یہ کتیت کی ہی نہیں‘ سیٹھیت کی بھی‘‬ ‫کھلی اور برمال‘ توہین تھی۔ سیٹھ صاحب نے آؤ دیکھا نہ تاؤ‘‬


‫دکان دار کے سر کو گولی سے اڑا دیا۔ بالشبہ وہ اسی الئق تھا‘‬ ‫آدمی میں برداشت کا مادہ ہونا چاہیے۔ برداشت کی کمی کے‬ ‫سبب‘ وہ موت کے منہ میں گیا‘ اس میں میرا کوئی عمل دخل نہ‬ ‫تھا۔‬ ‫اس سارے معاملے میں‘ میرا کیا قصور تھا۔ دوکان دار‘ ہم سایہ‬ ‫دوکان دار‘ دودھ‘ مکھی‘ بال‘ ٹومی جی‘ سیٹھ صاحب سے میرا‬ ‫کیا لینا دینا۔ یہاں بھی‘ مجھے ہی دشنام کیا گیا۔ کہا گیا غصہ‬ ‫حرام ہوتا ہے‘ دوکان دار پر شیطان غالب آ گیا‘ تب ہی تو اس‬ ‫نے‘ ٹومی جی کے سر پر کھرپا دے مارا۔ ٹومی جی بےلگامے‬ ‫کیوں ہوئے‘ سیٹھ کو گرفت مضبوط رکھنی چاہیے تھی‘ یہ کوئی‬ ‫کہنے کوتی تیار نہیں۔ دکان دار کی غفلت کسی کو نظر ہی نہیں‬ ‫آتی۔ مچھر اور مکھیاں مارنےکی‘ ذمہ داری کس ہے۔ مکھیاں‬ ‫تھیں ہی کیوں۔ سب کو معلوم ہے‘ کسی کا نام لیا تو ناسیں‬ ‫سالمت نہیں رہیں گی۔ کردہ ناکردہ مجھ پر ڈالتے ہیں۔ یہ انصاف‬ ‫ہے اس اشرف مخلوق کا‘ اپنا کیا اپنے سر لے اور قبولنے میں‬ ‫عار محسوس نہ کرے‘ تب پتا چلے کہ یہ عظیم مخلوق ہے۔‬ ‫چوری خود کرے‘ ڈالے کسی اور پر‘ یہ کس قسم کی انسانیت‘‬ ‫دلیری اور جواں مردی ہے۔ میں کچھ کروں تب بھی مجرم‘‬ ‫ناکروں تب بھی مجرم۔ واہ کیا عجب رنگ ہیں‘ اس عظیم مخلوق‬ ‫کے۔ وہ کچھ کر گزرتی ہے‘ جو میرے بھی وہ گمان نہیں ہوتا۔‬ ‫میری ہدایت کے لیے‘ کوئی موسی کوئی عیسی نہیں آیا‘ ۔سب‬


‫اسی کی ہدایت کے لیے آتے رہے ہیں۔‬

‫سوچ کے دائرے‬

‫ہاجراں‘ مزاج کی مزاج کی تھوڑا کڑک تھی‘ لیکن سچی بات تو‬ ‫یہ ہی ہے‘ کہ وہ دل کی بری نہ تھی۔ ایسی ہم درد اور باکردار‬ ‫عورتیں‘ کم کم ہی دیکھنے میں آتی ہیں۔ سسرال کے دور دراز‬ ‫کے رشتہ داروں سے بھی ملتی۔ ان کے دکھ سکھ میں شریک‬ ‫ہوتی۔ ان سے بڑے پیار سے پیش آتی۔ خاوند کے بہن بھائیوں‬ ‫کے صدقے واری جاتی۔ ان کی ہر ناگزیر ضرورت پوری کرتی۔‬ ‫ساس اور سسر اس کے ہاں ٹھہرے۔ ان کی دوسری بہووں نے‘‬ ‫انہیں دھتکار دیا تھا۔ بہووں سے کیا گلہ‘ ان کے بیٹے ہی‘‬ ‫خودغرض اور مطلب پرست تھے۔ اس نے ساس اور سسر کو‘‬ ‫پھولوں کی سیج پر بیٹھائے رکھا۔ ساس تو چل بسی‘ ہاں سسر‬ ‫اب بھی زندہ تھا‘ اور اسی کے ساتھ رہ رہا تھا۔ بڑھاپے کا عالم‬ ‫تھا۔ ہاجراں‘ اس کی سگی بیٹیوں سے بڑھ کر‘ خدمت کر رہی‬ ‫تھی۔‬


‫اچانک ناجانے سراج کو کیا ہوا‘ چنگا بھال تھا‘ بستر لگ گیا۔‬ ‫عورت ہوتے‘ وہ سراج کو ہسپتالوں میں لیے پھری۔ بوڑھا‬ ‫سسر بھی‘ اس کے ساتھ ساتھ‘ بڑھاپے میں‘ ہسپتالوں کی خاک‬ ‫چھانتا پھرا۔ اس کی بیماری کے دورانیے میں‘ کسی نے‘ ان کی‬ ‫جھوٹ موٹھ کی بھی خبر نہ لی۔ وہ اپنوں کی یہ بےحسی دیکھ‬ ‫کر تنہائی میں سسک پڑتی۔ گھر کی محنت اور مشقت سے بنائی‘‬ ‫سوئی سالئی تک بک گئی‘ لیکن سراج بچ نہ سکا‘ اور موت‬ ‫کے بےرحم پننجوں نے اسے دبوچ لیا۔‬ ‫سراج کی الش صحن میں پڑی تھی۔ درانیاں جیٹھانیاں اور‬ ‫دونوں نندیں منہ جوڑ کر باتیں کر رہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ‬ ‫سراج کا ڈھنگ سے عالج نہیں کرایا گیا۔ بےچارہ بےعالجا مر‬ ‫گیا۔ چھوٹی نند نے کہہ بھی دیا۔ ہاجراں سسک کر رہ گئی۔ وہ‬ ‫سراج پہوڑی خراب نہیں کرنا چاہتی تھی ورنہ وہ بھی منہ میں‬ ‫زبان رکھتی تھی۔ بوڑھا سسر بڑی حسرت اور مایوسی سے‬ ‫کبھی بیٹے کی الش دیکھتا اور کبھی بہو کا منہ دیکھنے لگتا۔‬ ‫اس کے چہرے پر قیامت کی بےبسی اور بےچارگی تھی۔‬ ‫بے عالجا مرنے کی بات‘ غلط اور درست کے درمیان تھی۔ اس‬


‫کا خاوند‘ کون سا کوئی سیٹھ تھا۔ مزدور پیشہ تو تھا۔ وہ گھر کا‬ ‫سارا سامان‘ بیچ چکی تھی بس مکان بکنا باقی تھا‘ شاید وہ‬ ‫بھی بک جاتا‘ لیکن اس سے پہلے ہی‘ سراج چل بسا تھا۔ وہ‬ ‫لوگ باتیں بنا رہے تھے‘ مالی مدد تو دور کی بات‘ انہیں تو‬ ‫کبھی زبانی کالمی پوچھنے کی بھی توفیق نہ ہوئی تھی۔ ہاجراں‬ ‫نے‘ بوڑھے سسر کی ذہنی اور قلبی حالت کو بھانپ لیا تھا‘ وہ‬ ‫اس کے پاس بیٹھ گئی‘ اور گلے لگ کر‘ پہلے خوب روئی‘ جب‬ ‫من کا بوجھ تھوڑا ہلکا ہوا‘ تو اس نے اپنے سسر سے کہا‪ :‬ابا‬ ‫آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں‘ مرا تو میرا خاوند اور بچوں کا باپ‬ ‫مرا ہے‘ میں ابھی زندہ ہوں‘ میں آپ کا بیٹا ہوں‘ آپ کیوں‬ ‫پریشان ہوتے ہیں۔‬ ‫کوڑا وٹا‘ یعنی مرگ کی روٹی‘ ہاجراں کے بھائیوں نے دی۔ اس‬ ‫موقع پر بھی باتیں ہوئیں‘ ہلہ گلہ بھی ہوا۔ اس کی چھوٹی نند کا‬ ‫موقف یہ تھا‘ کہ صاف اور اچھی بوٹیاں‘ ہاجراں کے پچھلوں کو‬ ‫مہیا کی جا رہی ہیں‘ لمبا شوربہ اور کھمب کھلڑیاں‘ اس کے‬ ‫سسرال والوں کو دی جارہی ہیں‘ جب کہ سرے سے‘ ایسی کوئی‬ ‫بات ہی نہ تھی۔ اتنا ضرور ہے‘ دیگ پر ہاجراں کا بھائی بیٹھا‬ ‫تھا۔ پلیٹیں سپالئی کرنے والے‘ سراج کی سالم دعا والے تھے۔‬ ‫انہیں ناانصافی کرنے کی‘ بھال کیا ضرورت تھی۔ ہاجراں نے‘‬ ‫اس موقع پر بھی درگزر سے کام لیا۔‬


‫تعلیم اور لباس تو الگ رہے‘ یہاں تو روٹی کے اللے پڑ گیے‬ ‫تھے۔ کچھ دن‘ ہاجراں کا چھوٹا بھائی‘ خرچہ پانی دیتا رہا‘ لیکن‬ ‫مستقل طور پر‘ کون کسی کی پنڈ اٹھاتا ہے۔ یہاں تو ہر کسی کو‘‬ ‫اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے۔ حاالت دیکھ کر‘ ہاجراں نے محتاج‬ ‫ہونے کی بجائے‘ خود سے کچھ کرنے کے لیے‘ لنگوٹ کس لیا۔‬ ‫اس نے دو بڑے گھروں میں‘ کام کرنا شروع کر دیا۔ اس کے‬ ‫پاس‘ اس کے سوا کوئی چارہءکار باقی نہ رہا تھا۔ کیا کرتی‘‬ ‫کس کے پاس جاتی۔ وہ صبح سویرے‘ سسر کو بچوں کے پاس‬ ‫گھر چھوڑ کر‘ کام پر چلی جاتی۔ دو گھروں کا کام کرتے کرتے‘‬ ‫اچھا خاصا وقت لگ جاتا۔ اس کی کمر دہری ہو جاتی۔ وہ اکثر‬ ‫سوچتی‘ جب سراج زندہ تھا‘ اسے کسی قسم کا فکر الحق نہ‬ ‫تھا۔ بےچارہ کس مشقت سے رزق التا تھا۔ زیادہ مشقت نے ہی‘‬ ‫اس کی جان لی تھی۔ زندگی میں‘ اس نے قدر نہ کی تھی‘ اکثر‬ ‫لڑ پڑتی تھی۔ برتنوں پر پانی پھرتا رہتا‘ آنکھیں ساون کے بادل‬ ‫کی طرح‘ مسلسل برستی رہتیں۔ کوشش کے باوجود ضبط نہ کر‬ ‫پاتی۔‬ ‫مشقت کی صعوبت اپنی جگہ‘ اپنے ہی رشتہ داروں کی بھانت‬ ‫بھانت کی بولیاں‘ کچوکے لگاتی رہتیں۔ کوئی کہتا‘ کفن میال کر‬ ‫رہی ہے۔ کسی کے منہ میں تھا‘ اس عورت نے‘ سراج کی عزت‬


‫کا جنازہ نکال دیا ہے۔ چھوٹی نند نے تو اس کے چلن پر بھی‬ ‫انگلی رکھ دی۔ غربت بری بال ہے‘ محلہ کی عورتیں بھی‘ دیکھا‬ ‫دیکھی‘ باتیں کرنے لگیں۔ وہ اپنا دکھ کس سے کہتی‘ اور کیا‬ ‫کہتی۔ اگر اس کا چلن ٹھیک نہ ہوتا‘ تو دیکھتے ہی دیکھتے‬ ‫زندہ الش میں نہ بدل جاتی۔ لوگ اس کی بگڑتی صحت کی وجہ‘‬ ‫کچھ اور بتانے لگے تھے۔‬ ‫وقت گزرتا رہا‘ وہ باتوں کی پرواہ کیے بغیر‘ مشقت اٹھاتی رہی‘‬ ‫اور کر بھی کیا سکتی تھی۔ چھوٹی عید آئی‘ لوگ گھر پر موج‬ ‫مستی کرتے ہیں‘ اسے اس روز بھی‘ مشقت کے لیے جانا تھا۔‬ ‫مشقت ہی اب اس کی زندگی تھی۔ بابا عمر بھی‘ لوگوں کی باتیں‬ ‫سنتا اور کڑھتا۔ وہ اپنی بیٹی جیسی بہو‘ کی عادات و اطوار اور‬ ‫کردار سے خوب آگاہ تھا۔ وہ اس بڑھاپے میں‘ کس کس کے منہ‬ ‫لگتا۔ چپ اور صبر‘ اس کا مقدر ٹھہرا تھا۔ ہاں ہاجراں گھر آتی‘‬ ‫سو بسم هللا کرتا۔ جب گھر سے جاتی‘ تو ڈھیر ساری دعاؤں کے‬ ‫ساتھ رخصت کرتا۔ پھر سارا دن بچوں کے ساتھ گزراتا۔ یہ کیسی‬ ‫عید آئی تھی‘ کہ بچوں کو غیروں کا اترن میسر آیا۔ رات کو‬ ‫غیروں کا بچا کچا کھانا‘ کھانے کو مال۔ کچھ دینا تو بڑی دور کی‬ ‫بات‘ اپنوں کو تو حضرت کا سالم کہنے کی بھی‘ توفیق نہ ہوئی۔‬ ‫کہنے کو وہ اپنے تھے‘ لیکن طور بیگانوں جیسے بھی نہ‬ ‫تھے۔‬


‫وقت کو کون روک سکا ہے‘ اسے تو گزرنا ہوتا ہے‘ سو وہ‬ ‫گزر گیا۔ بڑی عید بھی آ گئی۔ بابے عمر اور بچوں نے پورا دن‘‬ ‫تنہا گزرا۔ بچے تھوڑی دیر کے لیے‘ باہر چلے جاتے اور پھر‬ ‫واپس لوٹ آتے۔ بابا عمر کس سے دکھ سکھ کرتا۔ اس کی سگی‬ ‫اوالد‘ اسے تنہا چھوڑ گئی تھی۔ ہاجراں کو‘ بڑی عید پر بھی‬ ‫مزدوری پر جانا پڑا۔ محلے کے کئی گھروں میں‘ قربانی کی‬ ‫گئی‘ لیکن ان کے گھر‘ کسی نے‘ ایک بوٹی تک نہ بجھوائی۔‬ ‫اچھا گوشت محفوظ کر لیا گیا۔ تھوڑا کم اچھا‘ عزیزوں اور رشتہ‬ ‫داروں میں تقسیم ہو گیا۔ تیسرے درجے کا گوشت‘ آنڈ گوانڈ میں‬ ‫چال گیا۔ الوارث سال بعد بھی‘ گوشت کا منہ نہ دیکھ سکے۔‬ ‫ہاجراں شام کو تھکی ہاری لوٹی۔ اس کا انگ انگ دکھ رہا تھا۔‬ ‫بابے عمر اور بچوں کی یتیم و مسکین صورتیں دیکھ کر‘ لرز‬ ‫لرز گئی۔ وہ اپنے دکھ درد کی پرواہ کیے بغیر‘ چولہے کی‬ ‫طرف بڑھ گئی۔ وہ دونوں گھروں سے‘ گوشت الئی تھی۔ سارے‬ ‫گوشت کو اباال‘ اور کچھ پکا کر‘ بابے اور بچوں کے آگے رکھ‬ ‫دیا۔ جب وہ کھا رہے تھے‘ اس کے دل و جان میں جنت کا‬ ‫سکون اتر رہا۔ بابا کھا تو رہا تھا‘ لیکن بےچینی‘ دل و جان میں‬ ‫مچل رہی تھی۔‬


‫اس رات‘ بابے عمر دین کو نیند نہیں آ رہی تھی۔ وہ سوچ رہا‬ ‫تھا‘ اپنوں کے ہوتے‘ وہ تنہا تھا۔ ہاجراں سے سراج کے حوالہ‬ ‫سے رشتہ تھا۔ سراج نہ رہا تھا‘ وہ گربت میں بھی رشتہ‬ ‫نبھائے جا رہی تھی۔ اگر خودغرض ہوتی‘ تو کہتی‘ سمبھالو‬ ‫اپنے بچے‘ میں جا رہی ہوں‘ تو پھر ان بچوں کا ذمہ کون لیتا۔‬ ‫یہ رشتوں کے ہوتے‘ گلیوں کا روڑا کوڑا ہو جاتے۔ سوچیں‬ ‫تھیں‘ کہ اس کا پیچھا نہ چھوڑ رہی تھیں۔‬ ‫ہاجراں کو بھی‘ نیند نہ آ رہی تھی۔ سوچوں کے گرداب میں‬ ‫گرفتار‘ بےبسی اور مجبوری کیا کر سکتی تھی۔ وہ سوچ رہی‬ ‫تھی‘ یہ کیسی قربانی دی گئی۔ کیا اس سے‘ ان کا هللا راضی ہو‬ ‫جائے گا۔ سراج مناسب دوا دارو نہ ملنے کی وجہ سے مر گیا‘‬ ‫وہ اور بچے بھوکوں سوتے رہے‘ کسی کو ایک پاؤ آٹا‘ یا نقد‬ ‫ایک اکنی دینے کی توفیق نہ ہوئی۔ اس کے جیٹھ نے بکرا قربان‬ ‫کیا‘ گھر جوان بیٹی بیٹھی ہے‘ اس کے لیے جہیز نہیں۔ نسرین‬ ‫نے‘ مقروص ہوتے ہوئے بھی‘ محض ناک کے رہ جانے کے‬ ‫لیے‘ قربانی کی ہے۔‬ ‫اس نے سوچا‘ ہم کیسے لوگ ہیں‘ بیماروں‘ بیواؤں‘ بن جہیز‬ ‫بیٹھی جوان بچیوں کو‘ دو روپے تک دینے کے لیے تیار نہیں‬ ‫ہیں۔ بکرے چھترے قربان کرکے‘ هللا کو خوش کرنے کی‘‬


‫کوشش کرتے ہیں۔‬ ‫مولوی بھی‘ کتنا سنگ دل اور کٹھور ہے‘ جو چند سو روپے کی‬ ‫کھال کے لیے‘ اس قربانی کو اہمیت دیتا ہے۔ بیماروں کے عالج‬ ‫کی ترغیب نہیں دیتا۔ جوان بچیوں کو‘ بوہے سے اٹھانے کے‬ ‫مسلے کی اہمیت کو اجاگر نہیں کرتا۔ یہ غالم اور مقروض قوم‬ ‫پتا نہیں کب جاگے گی۔ غالم‘ مقروض‘ بیمار اور معاشی مسائل‬ ‫کی شکار یہ قوم‘ آخر صدیوں سے‘ سماجی حقوق سے‘ منہ‬ ‫موڑ کر‘ مالں کے کہے پر‘ آنکھیں بند کیے چل رہی ہے۔ آخر‬ ‫اسے‘ خود سوچنے کی کب عادت پڑے گی۔‬ ‫سوچ کے دائرے‘ جب حد سے تجاوز کر گیے‘ وہ اٹھ کر بیٹھ‬ ‫گئی۔ اس نے‘ بابے عمر کو آواز دی‪ :‬ابا سو گیے ہو‘ یا جاگ‬ ‫رہے ہو۔‬ ‫بابے عمر کو نیند کب آ رہی تھی‘ اس نے جوابا کہا‪ :‬جاگ رہا‬ ‫ہوں بیٹا۔‬ ‫پھر سونا مت‘ چائے کا موڈ بن رہا ہے۔‬ ‫یہ کہہ کر وہ چولہے کی طرف بڑھ گئی۔‬


‫دوسری بار‬

‫حنیف ایسے سنجیدہ شخص سے‘ نامعقول قسم کی گفتگو کی‬ ‫توقع بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔ اسے ہمیشہ حفظ مراتب کا‬ ‫خیال رہتا۔ دوسرا وہ کہتا کم‘ سنتا زیادہ تھا۔ ایک مزدور پیشہ‬ ‫سے متعلق شخص کے بارے میں‘ اس کی لب کشائی کم از کم‬ ‫میرے لیے‘ حیرت سے خالی نہ تھی۔ علی رضا پچھلے پندرہ‬ ‫برس سے‘ اس محلہ میں رہ رہا تھا۔ درزی پیشہ سے تعلق‬ ‫رکھتا تھا۔ ہر قسم کے لوگ اس کے پاس آتے تھے۔ وہ ہر کسی‬ ‫سے‘ خوش اخالقی سے پیش آتا تھا۔ کسی کو اس سے شکایت‬ ‫نہ تھی۔ سارا دن ٹیپ ریکارڈر پر‘ حسینی مرثیے اور نوحے‘‬ ‫مناسب آواز میں‘ لگائے رکھتا۔‬ ‫اس کے گھر کے قریب ہی‘ مسجد تھی۔ جب آذان کی آواز سنتا‘‬ ‫فورا ٹیپ ریکارڈر بند کر دیتا۔ جمعہ کے روز‘ مولوی صاحب‬ ‫کے وعظ سے پہلے‘ دکان ہی بند کر دیتا۔ اگر کسی کو کوئی کام‬ ‫ہوتا‘ تو دروازہ کھٹکٹھا دیتا۔ مولوی صاحب نے بھی‘ اس کے‬ ‫اس شوق پر انگلی نہ رکھی تھی۔ چوہدری صاحب جو مسجد‬


‫کمیٹی کے صدر تھے‘ نے پہلے مولوی صاحب کو فارغ کر دیا‘‬ ‫اور اپنے ایک غیر شرعی سالے کی سفارش پر ایک دوسرے‬ ‫مولوی صاحب کو لے آئے۔‬ ‫مولوی صاحب کیا آئے‘ عالقہ میں قیامت آ گئی۔ اس قیامت کا‬ ‫پہال شکار علی رضا بنا۔ اسے کافر قرار دیا۔ اس سے‘ ہر کسی‬ ‫نے‘ سماجی بائیکاٹ کر دیا۔ اس کی دکان بند ہو گئی۔ گھر کے‬ ‫کواڑ بھی کھلے نہ رہتے۔ دروازے پر کوئی نہ آتا۔ ان کے گھر‬ ‫کے اندر کے احوال سے‘ کسی کو کوئی دل چسپی نہ تھی۔‬ ‫دوسرا لوگ مولوی صاحب کے فتوے سے ڈرتے‘ ان کے‬ ‫دروازے کے قریب سے بھی‘ نہ گزرتے تھے۔ ہر کوئی اس‬ ‫جلتی آگ سے اپنا دامن بچانا چاہتا تھا۔ ایسے ناگوار حاالت میں‘‬ ‫حنیف نے‘ دہی دودھ کی دکان پر کھڑے ہو کر‘ بڑی سنجیدگی‬ ‫سے کہا‪ :‬علی رضا کو قبض ہو گئی ہے اور پوٹیاں لگی ہوئی‬ ‫ہیں۔ اس وقت سب ہنس پڑے۔ شاید کوئی کچھ نہ سمجھ سکا تھا۔‬ ‫جب کوئی کچھ سمجھ نہ سکے‘ تو بھی ہنس پڑتا ہے۔ سچی بات‬ ‫تو یہ ہے‘ کہ میں بھی کچھ نہ سمجھ سکا تھا۔‬ ‫میں گھر آ کر غور کرتا رہا‘ کہ آخر حنیف کی بات کا کیا مفہوم‬ ‫ہے۔ قبض اور پوٹیوں کی‘ ایک ساتھ کیسے شکایت ہو سکتی‬ ‫ہے۔‬


‫لوگوں نے اس کی بات ہنسی میں ڈال دی تھی۔ میرے لیے حیرت‬ ‫کی بات تو یہ بھی تھی‘ کہ شروع میں یہ ہی مولوی صاحب‘‬ ‫علی رضا کی دکان پر آئے تھے۔ اس کی بیوی شبیراں نے‘‬ ‫مولوی کی تواضع بھی کی تھی۔ شاید تواضع میں کہیں کسر رہ‬ ‫گئی تھی۔ شبیراں ان پڑھ عورت ہوتے‘ منہ متھے لگتی‘ سلیقہ‬ ‫شعار اور باتمیز عورت تھی۔ مجھے جہاں حنیف کی زومعنی‬ ‫بات نے پریشان کیا‘ وہاں یہ بھی چنتا ہونے لگی‘ کہ علی رضا‬ ‫اور اس کے گھر والے‘ کھاتے کہاں سے ہوں گے۔ ان کا اندر‬ ‫کیا حال رہا ہو گا۔ میں نے ان کی مدد کرنے کی ٹھان لی۔ وہاں‬ ‫مختلف مسلک کے لوگ اقامت رکھتے تھے۔ اس طرح تو وہ‬ ‫بھی کافر قرار پاتے رہیں گے۔‬ ‫دن اندر باہر تھا‘ میں چپکے سے‘ گھر سے نکال اور بڑے‬ ‫محتاط انداز میں‘ علی رضا کے گھر کی طرف بڑھنے لگا۔ میرا‬ ‫خیال تھا اسے بطور امداد کچھ پیسے دے دوں گا۔ رستے ہی‬ ‫میں خیال آیا‘ پیسے اس نے سر میں مارنے ہیں‘ انہیں تو‬ ‫خوردنی سامان پہنچنا چاہیے۔ میں نے سوچا‘ پہلے پوچھ لیتا‬ ‫ہوں‘ پھر جو فوری ضرورت ہو گی‘ کسی ناکسی طرح پہنچنا‬ ‫دوں گا۔ ڈرتا ڈرتا اور بڑے محتاط انداز میں‘ ان کے گھر کی‬ ‫طرف بڑھ گیا۔ میری قسمت اچھی تھی دوسرا دن کا وقت ہی کچھ‬


‫ایسا تھا‘ کہ ان کی گلی ویران پڑی تھی۔ میں نے ادھر ادھر‬ ‫دیکھتے ہوئے‘ دروازے پر دستک دی۔ خود علی رضا دروازے‬ ‫پر آیا اور اس نے روزن در سے دیکھتے ہوئے‘ دروازے‬ ‫کھولے بغیر‘ مجھ سے آنے کا مطلب پوچھا۔ میں نے جوابا کہا‬ ‫میرے الئق کوئی خدمت ہو تو کہیں۔ اس نے جوابا شکریہ ادا‬ ‫کیا‘ موال آپ کو خوش رکھے‘ کہہ کر اندر چال گیا۔ میں نے بھی‬ ‫وہاں سے کھسکنے میں عافیت جانی۔‬ ‫بالشبہ ڈر‘ خوف اور رنج نے‘ اس کے اعصاب شل کر دیے‬ ‫تھے۔ اس کی آواز سہمی سہمی تھی۔ وہ اپنا درد کہنے سے بھی‬ ‫ڈرتا تھا۔ ان لمحوں میں ڈر اور خوف کا مجھ پر بھی غلبہ تھا۔‬ ‫اس کیفیت اور صورت حال سے گزرنے کے بعد‘ مجھے حنیف‬ ‫کے کہے کا مفہوم سمجھ میں آیا۔ ڈر اور خوف سے مجھے بھی‬ ‫عالمتی پوٹیاں لگی ہوئی تھیں۔ میں ٹھیک سے کچھ کہہ نہیں پا‬ ‫رہا تھا‘ تو اس حوالہ سے استعارتی قبض کی بھی شکایت تھی۔‬ ‫ایسے حاالت میں متضاد عوارض بایک وقت گھیر لیتے ہیں۔‬ ‫میرے لیے معاملہ لمحاتی تھا‘ تو یہ حالت تھی۔ علی رضا پر تو‬ ‫یہ عذاب کل وقتی تھا‘ اس کا کیا حال رہا ہو گا‘ اندازہ کرنا‬ ‫مشکل نہیں۔‬ ‫سچی بات ہے‘ مجھے ان لوگوں پر بڑا رحم آیا۔ میں نے سوچا‘‬


‫کل سویرے ہی‘ اپنے مرشد پاک سے‘ ماجرا کہہ کر‘ دعا کرنے‬ ‫کی استدعا کرتا ہوں۔‬ ‫جملہ حاالت سن کر‘ میرے مرشد پاک بڑے رنجیدہ ہوئے‘ بلکہ‬ ‫جذباتی سے ہو گیے۔ ان کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے‘ پھر‬ ‫فرمانے لگے‘ فکر نہ کرو بیٹا‘ هللا ان کے لیے آسانی کا دروازہ‬ ‫ضرور کھولے گا۔ ہاں پانچ لوگ جنت میں نہیں جا سکیں گے۔‬ ‫ان کی یہ بات سن کر میں بڑا حیران ہوا۔ میں نے پوچھا‘ حضور‬ ‫وہ کون سے پانچ لوگ ہوں گے۔‬ ‫‪:‬فرمانے لگے‬ ‫صاحب اقتدار‘ جو اپنی ذات کے خول سے باہر نہیں نکلتے۔ ان‬ ‫کے ہر کرنے میں‘ ان کی ذات کا مفاد موجود ہوتا ہے۔ ان کے‬ ‫ادارے‘ صرف ان ہی کے مفاد کے لیے کام کرتے ہیں۔ انہیں‬ ‫رعایا کے دکھ درد سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہوتا۔‬ ‫سید‘ اگرچہ شروع ہی سے چھری تلے ہیں‘ لیکن آج‘ وہ بھی‬ ‫دوسروں کے سے ہیں۔ حاالں کہ انہیں حضور کا پیغام حسینی‬ ‫رستے سے گزرتے ہوئے‘ ہر کسی کے پاس پہنچانا چاہیے۔ یا‬ ‫تو سید کہالنا چھوڑ دیں یا حضور کا کہا بار بار ہر کسی کے‬ ‫سامنے دہرائیں۔ خیر کریں اور لوگوں کو بھی خیر کرنے کی‬ ‫تلقین کریں۔‬


‫شیوخ نے‘ فقر کو پیشہ بنا لیا ہے۔ موج مستی کی زندگی بسر‬ ‫کر رہے ہیں۔ فقیر اور درویش کا موج مستی سے کیا تعلق‬ ‫واسطہ۔ انہیں اپنے لیے بھوک دوسروں کے لیے سیری بچانا‬ ‫چاہیے۔ یہ خود ہدایت سے کوسوں دور ہیں‘ لوگوں کو خاک‬ ‫ہدایت دیں گے۔‬ ‫مولوی تفریق کے دوازے کھولتا ہے۔ اس نے اسالم کو اپنی‬ ‫جاگیر سمجھ رکھا ہے۔ جو اس جاگیر کے دائرہ میں ہے‘ اور‬ ‫اس کے کہے پر چلتا ہے‘ بس وہ ہی مسلمان ہے۔ منصور‬ ‫حمادی کے کہے کی جاگیر سے باہر تھا‘ اسی لیے مارا گیا۔‬ ‫منصور حمادی سے کہیں بڑا عالم تھا۔‬ ‫بلھے شاہ خوش قسمت تھا‘ ورنہ وہ بھی مارا جاتا۔ اس نے بھی‬ ‫منصور واال دعوی کیا تھا‬ ‫بلھیا! اساں مرنا نئیں گور پیا کوئی ہور‬ ‫یہ کہا منصور واال ہی ہے۔‬ ‫امت میں تفرقہ‘ کسی بھی حوالہ سے ڈالنے واال هللا کے قہر‬ ‫وغضب سے نہ بچ پائے گا۔ تفرقہ ڈالنے والے کا ساتھ دینے‬ ‫واال بھی مجرم ٹھہرے گا۔‬ ‫حضرت پیر صاحب کی باتوں میں حقیقت رقصاں تھی۔ وہ‬


‫بےچارے دعا ہی کر سکتے تھے۔ وہ علی رضا کے لیے کیا کر‬ ‫سکتے تھے۔ ان کی باتیں‘ ان کے عالقہ کے چوہدری صاحب‬ ‫کو‘ گولی کی طرح لگتی تھیں۔ حاالں کہ وہ کسی کا نقصان نہیں‬ ‫کرتے تھے۔ وہ تو‘ اپنے منہ کا لقمہ‘ حاجت مندوں کو دے دیتے‬ ‫تھے۔ چوہدری کے ڈیرے پر لوگ گلپ کرتے تھے لیکن پیر‬ ‫صاحب کبھی کسی ذاتی حاجت کے لیے‘ اس کے پاس نہیں گیے‬ ‫تھے۔ ہاں لوگوں کی جائز حاجات کے لیے آخری حد تک جاتے‬ ‫تھے۔‬ ‫میں ساری رات‘ بستر پر پڑا کروٹیں لیتا رہا۔ علی رضا کا حقیقی‬ ‫قصور یہ تھا‘ کہ اس نے مولوی صاحب سے سالئی کی اجرت‬ ‫مانگ لی تھی۔ دوسرا اس کی بیوی نے خوب صورت ہونے کے‬ ‫ناتے مولوی صاحب کی‘ ان کے وسیبی استحقاق کو مدنظر‬ ‫رکھتے ہوئے‘ جنسی تواضع نہ کی تھی۔ یہ اس کی خوش‬ ‫نصیبی تھی‘ جو ابھی تک سانس لے رہا تھا۔‬ ‫حضرت پیر صاحب کی بھی جان خطرے کی گرفت میں تھی۔ اس‬ ‫سوچ کا آنا تھا‘ کہ میری روح تڑپ اٹھی۔ اچانک میرے منہ سے‬ ‫نکل گیا‬ ‫۔۔۔۔ میں چیر نہ دوں گا۔۔۔۔‬ ‫پہگاں اک دم چونک کر اٹھ بیٹھی‘ اور پوچھنے بیٹھ گئی‘ کس‬


‫کو چیر دو گے۔ بات سیاق و سباق سے عاری تھی‘ اس لیے اس‬ ‫نے‘ اسے اپنی ذات پر محمول کر لیا۔ حاالں کہ اس کا اس سے‬ ‫دور کا بھی تعلق واسطہ نہ تھا۔ کیا کہتا‘ بات پردے کی تھی‘ کہہ‬ ‫نہیں سکتا تھا۔ رات بھر تو بکواس سننے میں گزرے گی ہی‘‬ ‫صبح کو پورے عالقہ اور برادری میں گڈا باندھ دے گی۔ یہ‬ ‫دوسری بار تھی‘ کہ میں ایک ساتھ دو متضاد عوارض کی گرفت‬ ‫میں آ گیا تھا۔‬

‫اسالم اگلی نشت پر‬

‫پروفیسر چاولہ‘ تھے تو شیخ‘ لیکن بڑے فراخ دل واقع ہوئے‬ ‫تھے۔ کسی کے پلے سے‘ کھانے سے بےلطف ہوتے تھے‘‬ ‫ہاں‘ گرہ خود سے کھال کر‘ تازگی اور سکون محسوس کرتے‬ ‫تھے۔ دوستوں کو‘ مشکل میں چھوڑ جانا‘ انہیں کبھی خوش‬ ‫نہیں آیا تھا۔ مشکل میں‘ ناصرف زبانی کالمی ساتھ دیتے‘ شانا‬ ‫بہ شانا ساتھ کھڑے نظر آتے۔ ہر مثبت کام میں‘ اپنی سی‘ پوری‬ ‫دیانت داری سے‘ کوشش کرتے۔ بڑے سنجیدہ شخص تھے‘ اس‬ ‫کا مطلب یہ بھی نہیں‘ کہ خوش طبعی سے دور تھے۔ بڑی‬


‫شائستہ اور صاف ستھری‘ خوش طبعی کرتے۔ ان کے مزاج‬ ‫میں‘ فطری شائستگی پائی جاتی تھی۔ بڑے یار باش آدمی تھے۔‬ ‫ہر کوئی‘ یہ ہی سمجھتا‘ کہ وہ میرے گہرے دوست ہیں۔ پہلے‬ ‫پہلے‘ مجھے بھی یہ ہی محسوس ہوا۔ بعد میں معلوم ہوا‘ ان کا‬ ‫منافقت سے پاک‘ یہ رویہ سب ہی کے ساتھ تھا۔‬ ‫وہ معاشیات کے پرفیسر تھے۔ ایک شیخ‘ اوپر سے معاشیات‬ ‫کے پرفیسر‘ دستر خوان کی فراخی‘ بالشبہ متضاد عنصر ہیں۔‬ ‫ان کی شخصیت میں توازن تھا‘ تب ہی تو‘ یہ دونوں عنصر‘‬ ‫متوازن نبھ رہے تھے۔ انہیں اپنے مضمون پر قدرت حاصل تھی۔‬ ‫ان سے کبھی کبھار‘ ان کے مضمون سے ہٹ کر بھی‘ باتیں ہو‬ ‫جاتیں۔ رواں عہد کے اسالم پر‘ باتیں ہو رہی تھیں۔ مسلمان‬ ‫برادری کی شکستگی اور بدحالی کا رونا رویا جا رہا تھا۔‬ ‫عالمہ سعید عابد کے نزدیک‪ :‬اس کا باعث شرک ہے۔‬ ‫عالمہ عبدالغفور ظفر‘ اسے جہاد سے انحراف کا نتیجہ‘ قرار‬ ‫دے رہے تھے۔ ان کا خیال تھا‘ کہ غیرت مندی ختم ہونے کی‬ ‫وجہ سے‘ ہم ختم ہو گیے ہیں۔‬ ‫اکرام صاحب کے نزدیک‘ پاکستانیت سے دور ہونے نے‘ ہمیں‬ ‫رسوا کیا ہے۔‬ ‫چاولہ صاحب نے‘ بالکل ہی الگ سے‘ وجہ بیان کی۔ کہنے‬


‫لگے‘ ایک مولوی صاحب‘ حج سے واپس آ رہے تھے۔ روہڑی‬ ‫اسٹیشن پر‘ گاڑی رکی۔ مولوی صاحب نے‘ اپنے خادم اسالم کو‘‬ ‫ریلوے اسٹیشن کی ٹونٹی سے‘ پانی کا گھڑا‘ بھر کر النے کو‬ ‫کہا۔ اس گھڑے کے نیچے رینیاں تھیں۔ اسالم نے‘ بڑے تکلف‬ ‫سے‘ ٹونٹی کھولی‘ اتنی دیر میں گاڑی چل پڑی۔‬ ‫مولوی صاحب نے‘ کھڑکی سے سر باہر نکال کر کہا‪ :‬اوئے‬ ‫اسالم‬ ‫باہر کھڑے لوگوں نے جوابا کہا‪ :‬زندہ باد‬ ‫مولوی صاحب نے دوبارہ کہا‪ :‬اوئے اسالم‬ ‫لوگوں نے‘ دوبارہ پورے جوش خروش سے‘ جوابا کہا‪ :‬زندہ‬ ‫باد‬ ‫گاڑی نکل گئی‘ پانی بھرنے واال اور زندہ باد اسالم‘ روڑی ہی‬ ‫رہ گیے۔ بےچارے مولوی صاحب کے حصہ میں‘ ان دونوں میں‬ ‫سے‘ کوئی نہ آیا۔‬ ‫آج کا اسالم بس یہ ہی کچھ ہے۔‬ ‫چاولہ صاحب کے اس لطیفے پر‘ سب ہنس پڑے۔ غور کیا‬ ‫جائے‘ تو اس لطیفےمیں بڑا وزن ہے۔ اگر تقوی اور قناعت واال‬ ‫اسالم باقی ہوتا‘ تو آج ہم مسلمان‘ ذلت کی کھائی میں‘ نہ گرے‬ ‫پڑے ہوتے۔‬


‫ایک صاحب‘ نظام تعلیم کو الزام دے رہے تھے۔ یہ تفرقے کا‬ ‫دروازہ کھول رہا ہے۔ مختلف نوعیت کے کورسز‘ پڑھائے جا‬ ‫رہے ہیں۔‬ ‫کچھ دوست اس ذلت کی وجہ‘ بالوسطہ غالمی کو قرار دے رہے‬ ‫تھے۔‬ ‫انگریزی کے سر بھی یہ الزام رکھا گیا۔‬ ‫ماں جو پہلی درس گاہ ہے‘ کو بھی ذمہ دار قرار دیا گیا۔ اگر‬ ‫ماں‘ تربیت کے معاملے میں‘ اپنی ذمہ داری‘ ایمان داری سے‘‬ ‫نبھائے تو محمود غزنوی‘ آج بھی میدان میں اتر آئیں گے۔‬ ‫میں چپ نہ رہ سکا‘ یار مثال میں‘ نام تو کوئی اچھا سا لیں۔ آپ‬ ‫اس ذیل میں‘ عمر بن عبدالعزیز کا نام لے سکتے ہیں۔‬ ‫اس کو کیا ہوا ہے‬ ‫یہ بتائیں کیا نہیں ہوا۔ ہماری یہ ہی بدقسمتی ہے‘ کہ فاتح کو ہی‬ ‫درست مانتے ہیں۔‬ ‫میں نے کہا‪ :‬جناب سارا روال روٹی کا ہے۔‬ ‫بولے وہ کیسے‬ ‫معاویہ اور امام کی فوج میں‘ مسلمان تھے۔ جو معاویہ کی فوج‬ ‫میں تھے اور اس کے تنخواہ دار تھے‘ وہ معاویہ کو درست‬ ‫مانتے تھے‘ جو امام کے تنخواہ دار تھے‘ وہ امام کو‘ برحق‬


‫مانتے تھے۔‬ ‫راجہ داہر بدھمت کا تھا‘ اس سے معرکہ آرائی کہاں ہوئی۔‬ ‫منصورہ میں‘ فاطمی حکومت تھی۔ وہ اسے ختم کرنے آیا تھا۔‬ ‫اطراف میں مسلمان تھے۔ دونوں کی سپاہ‘ اپنے حاکموں کو‬ ‫درست قرار دے رہی تھی‘ کیوں کہ وہ ان کی تنخواہ دار تھی۔‬ ‫ابراہیم لودھی مسلمان تھا‘ سپاہ میں مسلمان بھی تھے۔ بابر کی‬ ‫سپاہ بھی مسلمانوں کی تھی۔ وہ اس لیے درست ٹھہرا‘ کہ فتح‬ ‫سے ہم کنار ہوا۔ اطراف کی سپاہ‘ تنخواہ دینے والوں کو سچا‬ ‫سمجھتی تھی۔‬ ‫ہم فاتح کو سچا سمجھتے ہیں اور اس کی ماال جپتے ہیں۔‬ ‫ٹیپو کے فوجی‘ مسلمان تھے اور برصغیر کی دھرتی سے متعلق‬ ‫تھے۔ انگریز فوج بھی‘ ان ہی پر مشتمل تھی۔ وہ انگریز کو‘ حق‬ ‫باجانب سمجھ کر لڑے۔ یہاں بھی‘ بنیادی مسلہ‘ تنخواہ داری کا‬ ‫تھا۔ جو تنخواہ دیتا تھا‘ یقینا‘ سچا وہ ہی تھا۔‬ ‫بکسر میں‘ انگزیز اور شجاع الدولہ کی فوجوں کی‘ صورت حال‬ ‫مختلف نہیں۔‬ ‫سر سید نے‘ انگریز کا ساتھ دیا‘ عہدے‘ رتبے اور مراعت سے‬ ‫نوازا گیا۔ فاتح کا ساتھی ہونے کے سبب‘ برصغیر کا محسن‬ ‫ٹھہرا۔ مخالفت کرنے والے‘ قتل ہوئے‘ یا کالے پانی بھیج دیے‬ ‫گ ی ے۔‬


‫سنجیدگی سے غور کر لیں‘ خیر و شر کا‘ کہیں مسلہ ہی نہیں‘‬ ‫مسلہ روٹی کا تھا۔ آج بھی‘ مسلمان مسلمان کو قتل کر رہے ہیں۔‬ ‫سپاہ‘ غلط صحیح کو نہیں جانتی‘ وہ جان فشانی سے‘ اس لیے‬ ‫برسر پیکار ہے‘ کہ یکم کو باالتاخیر تنخواہ ملتی رہے۔ کون‬ ‫غلط ہے‘ کون صحیح ہے‘ کون مر رہا ہے‘ اسے اس سے‘ نہ‬ ‫غرض تھی‘ اور نہ آج غرض ہے‘ بس تنخواہ ملتی رہنی چاہیے۔‬ ‫جب روٹی سے‘ اٹھ کر‘ سوچا جائے گا‘ تب ہی‘ مسلمان ذلت کی‬ ‫دلدل سے نکلیں گے۔ ورنہ حسب روایت‘ فاتح ہی سچا اور حق‬ ‫پر قرار پاتا رہے گا۔‬ ‫پروفیسروں میں‘ کوئی بات آ جائے‘ تو اس کے بےشمار‬ ‫گوشے‘ سامنے آ جاتے ہیں۔ غیرسنجیدہ بات‘ سنجیدہ ہو جاتی‬ ‫ہے اسی طرح سنجیدہ بات غیرسنجیدگی کی پٹری چڑھ جائے تو‬ ‫وہ کچھ کی کچھ ہو جاتی ہے۔ لفظوں کو رنگ اور نئے معنی‬ ‫دینا‘ کوئی ان سے سیکھے۔ گلی کی زبان بھی‘ ادبی ہو جاتی‬ ‫ہے۔‬ ‫میری باتوں میں‘ دم تھا یا وہ بےدم تھیں‘ میں نہیں جانتا‘ ہاں‬ ‫البتہ میری باتوں نے‘ ماحول کو‘ چپ اور تذبذب کی کیفیت میں‘‬ ‫ڈال دیا۔ روزے کی حالت میں‘ اس قسم کی باتیں‘ دل ودماغ پر‬ ‫زہریلے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ اتنی دیر میں‘ ڈاکٹر ظہور‬ ‫چوہدری آ گیے۔ آتے ہی جعلی غصے سے بولے‘ بابا جی آپ‬ ‫ادھر بیٹھے ہیں‘ وہ ادھر‘ گھنٹے سےانتظار کر رہا ہے۔‬


‫بابر صاحب‘ حیرت سے بولے‘ وہ کون۔‬ ‫آ کر بتاتے ہیں۔‬ ‫اٹھیں بابا جی‘ جلدی کریں‘ ورنہ وہ چال جائے گا۔ ہم انہیں کیا‬ ‫بتاتے‘ یہاں بھی روال روٹی کا تھا۔ تیسرا پریڈ شروع ہونے کو‬ ‫تھا۔ اگر یہ ؤقت‘ باتوں میں گزار دیا جاتا‘ تو چائے بسکٹ کا‬ ‫معاملہ‘ پانچویں پریڈ تک چال جاتا۔‬ ‫ہم دونوں نے‘ بابر صاحب کی طرف‘ مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا‘‬ ‫اور چائے بسکٹ کی جانب بڑی تیزی سے رواں ہو گیے۔‬ ‫اسالم کا معاملہ اگلی نششت پر جا پڑا۔‬

‫عاللتی استعارے‬

‫ناہید‘ کسی زمانے میں بڑی فیشن ایبل ہی نہیں‘ منہ متھے‬ ‫لگتی خاتون تھی۔ میڈیکل پیشہ سے تعلق رکھتی تھی۔ بہن‬ ‫بھائیوں کی خدمت گزار تھی۔ اسی وجہ سے‘ اس کی ضرورت‬ ‫سے زیادہ عمر تک‘ شادی نہ کی گئی۔ سب کو شک تھا‘ کہ وہ‬


‫شادی کے بعد ان کے لیے ناکارہ ہو جائے گی۔ اس شک کی‬ ‫اہمیت‘ شک سے زیادہ نہ تھی۔ شادی کے بعد‘ وہ پہلے سے‬ ‫کہیں بڑھ کر‘ان کے لیے مفید ثابت ہوئی۔ اس کی شادی‘ گویا‬ ‫الٹری لگنے سے‘ کسی طرح کم بات نہ تھی۔ سب کے بھنے اگ‬ ‫آئے۔ انہیں جلد شادی نہ کرنے کا پچھتاوا ہی رہا۔‬ ‫شادی کے بعد‘ ہوم اسٹیشن پر تبادلہ کروا لیا گیا۔ سارا دن‬ ‫مختلف نوعیت کے مریضوں سے واسطہ رہتا۔ گھر آتی‘ تو‬ ‫تھکن سے چور ہوتی۔ کچھ سال خاوند کے آنے تک‘ ماں کے‬ ‫گھر بسیرا رکھتی۔ اس کے آنے کے قریب‘ گھر چلی آتی۔ ازاں‬ ‫بعد‘ دوسرے چوتھے‘ جانے لگی‘ تاہم ان کی خدمت گزاری میں‘‬ ‫کمی نہ آنے دی۔ مریضوں کے ساتھ‘ وقت گزارنے کے سبب‘‬ ‫کئی ایک بیماریوں کا اسے شک گزرتا۔ اکثر اوقات‘ خود کو ان‬ ‫میں مبتال بھی سمجھتی۔ کھانا کھانے کے دوران‘ ان کا تذکرہ‬ ‫کرتی۔ جب خاوند تھکن یا اپنی عاللت کا تذکرہ کرتا‘ تو اپنی پان‬ ‫سات بیماریوں کا رونا لے بیٹھتی۔ اس طرح خدمت ایسی الیعنی‬ ‫اور بےثمر مشقت سے بچ جاتی۔‬ ‫وہ پنج وقتہ نمازی تھی۔ ہر گریب بہن اور بھائی کے لیے‘ نرم‬ ‫گوشہ رکھتی تھی۔ وہ انہیں‘ تنگ دست نہیں دیکھ سکتی تھی۔‬ ‫ریٹائرمنٹ کے بعد‘ نماز روزے کی‘ اور بھی پابند ہو گئی۔ پھر‬ ‫حج کیا۔ حج نے‘ اسے تسبع بردار بنا دیا۔ بیماریوں کا احساس‬ ‫شدت اختیار کر گیا۔ ملنساری میں ہرچند اضافہ ہی ہوا۔ ہاں ملنے‬


‫والیوں میں‘ بیمار خواتین کا تناسب‘ پہلے سے کہیں بڑھ گیا‬ ‫تھا۔ جب بیٹھتیں‘ جہاں اردگرد کے لوگوں کی‘ کم زوریوں کو‬ ‫زیر بحث التیں‘ وہاں خاوند اور سسرالی رشتہ داروں کی ہر‬ ‫پوشیدہ خامیوں کا‘ اس تاکید کے ساتھ‘ کہ کسی سے بات نہ‬ ‫کرنا‘ تذکرہ کرتیں۔ بعض اوقات‘ آنکھوں کو بھی زحمت دیتں۔‬ ‫سننے والیاں‘ ہاتھ مل مل کر‘ توبہ توبہ کر اٹھتیں۔ ناہید ابتدا‬ ‫میں‘ معدہ کی ناکارہ کارگزاری کا رونا روتی تھی۔ بعد میں‘‬ ‫شوگر اور بلڈ پریشر کی بھی‘ شکایت کرنے لگی۔ اس سے‘‬ ‫کارگزاری میں فرق تو آیا ہی‘ لیکن مزاج میں بھی بدالؤ آ گیا۔‬ ‫اپنے سگے بھائیوں کو‘ نبی قریب سمجھنے لگی‘ اور ہر بہن‬ ‫میں رابعہ بصری کی روح حلول کرتی نظر آئی۔ خاوند کی بیماری‬ ‫اور دکھ میں بہانے کی جھلک صاف دکھائی دینے لگی۔‬ ‫صابراں کے متعلق‘ کوئی زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں ہاں‬ ‫دوڑکی چال کی ہمشیہ سے قائل و مائل رہی تھی۔ زاہد‘ اس کا‬ ‫مجازی خدا‘ پہلے پہل بڑی اڑی کرتا تھا۔ آخر اس چال میں ہی‬ ‫اس کو‘ گھر کا قدرے سکون میسر آیا اور پھر‘ دوڑکی چال چلتا‬ ‫لحد میں اتر گیا۔ هللا اسے غریق رحمت کرئے‘ گمان رکھتا تھا‘‬ ‫صابراں اس کی مطیع اور فرماں بردار ہے۔ خوش فہمی‘ بالشبہ‘‬ ‫سکون کا سبب رہتی ہے۔ وچاری کے‘ پہلے دانت گیے‘ خوب‬ ‫کھا پی کر بھی‘ بھوک میں رہتی تھی۔ شوکر کا کچھ نہ پوچھیے‘‬ ‫سر درد اور فشار خون کا غلبہ رہتا۔ بھال ہو بیماریوں کا‘ جو‬ ‫ناہید سے گہری سانجھ کا سبب بنیں۔ یہ اسی کا فیض خصوصی‬


‫تھا‘ جو ناہید کا خاوند دوڑکی سیکھ رہا تھا۔ جلد سیکھ جائے‬ ‫گا۔ سیکھ گیا تو آسان موت مرے گا‘ ورنہ سسک سسک کر دم‬ ‫دے جائے گا۔‬ ‫سیما المعروف ہیمامالنی‘ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے زیادہ‘‬ ‫غیر رجسڑڈ اور چار رجسڑڈ ناہنجار مردوں کو طالق دے چکی‬ ‫تھی۔ ایل ایچ وی ہونے کے ناتے کسی بچے کو‘ دنیا میں آنے‬ ‫ہی نہ دیا۔ وہ دنیا کی تلخیوں سے‘ خوب خوب آگاہ تھی اسی‬ ‫لیے وہ یہ‘ بالمعاوضہ پن کما رہی تھی۔ اسے گنتی اور حصولی‬ ‫میں کمال کی مہارت حاصل تھی۔ اب تو وچاری‘ چلتی پھرتی‬ ‫صحت مند ہوتے‘ بیماریوں کی گرفت میں آگئی تھی۔ عاللت کی‬ ‫سانجھ نے‘ متضاد ذہنیت رکھتے ہوئے‘ اسے ناہید کے قریب کر‬ ‫رکھا تھا۔ یہ اسی کی کرامت ہے‘ کہ ناہید کے شوہر کی پوچھل‘‬ ‫ٹھہراؤ کی شکار نہ ہوئی تھی۔ وہ وہ کوڑیاں تالش التی‘ جن‬ ‫کے علم سے‘ عزازئیل بھی بہراور نہ رہا ہو گا۔ حج‘ نماز‘ روزہ‬ ‫وغیرہ کے قریب آ گئی تھی‘ لیکن بجلی کی چوری وغیرہ کو‬ ‫الگ معاملہ سمجھتی تھی۔ اس کے نزدیک‘ یہ فعل کارکشا بڑے‬ ‫بڑے قلغیوں والے کرتے ہیں۔ اس کی ایک چھلنی وزن اونٹ کا‬ ‫کیا بگاڑے گا۔‬ ‫کریما بھی‘ اس کی بیمار سنگی تھی۔ اپنی عیش کوشی پر‘ پردہ‘‬ ‫ناصرف اس کی زبان کی قنچی ڈال دیتی‘ بلکہ اس سے خاوند‬ ‫کی ٹنڈ بھی کرتی رہتی۔ بہن بھائیوں سے الٹی سیدھی باتیں‬


‫کرکے‘ لفظوں کا تیزاب برساتی رہتی۔ چھوٹے بچوں کو‘ اسے‬ ‫ہالنے پرآمادہ کرتی۔ جب وہ ہلتا‘ تو وہ کیا‘ سارے بڑے لطف‬ ‫اندوز ہوتے۔ چوری اور لگائی بجھائی میں‘ شاید ہی کوئی‘ اس‬ ‫کا ثانی رہا ہو گا۔ ہوتے ہوئے‘ مانگنے میں عار محسوس نہ‬ ‫کرتی تھی۔ ہے نا‘ اس کی زندگی کا پہال اور آخری اصول تھا۔‬ ‫دوسری تیسری بار نہ دینے والے کی‘ گردن کاٹنے کا موقع‬ ‫تالش کرتی رہتی ۔‬ ‫اس میں اس کا کوئی قصور نہ تھا۔ وہ وچاری فطرتا اور عادتا‬ ‫ہی ایسی تھی۔ اگر اس کی شادی‘ اس کے یار خاص‘ الیاس سے‬ ‫بھی ہو جاتی‘ تو بھی اس سے مختلف نہ کرتی۔ اس کے دونوں‬ ‫بچے‘ جوان ہو چکے تھے۔ اب غیروں سے‘ طفیل کی عزت‬ ‫افزائی کی حاجت نہ رہی تھی۔ اس کی بیٹی‘ عروسہ ہی باپ کی‬ ‫چھترول کے لیے‘ کافی تھی۔ باپ کی ہر دوسرے تیسرے بہہ جا‬ ‫بہہ جا کرا دیتی۔ وچاری کریما کو شروع سے‘ بہت ساری‬ ‫بیماری نے گھیر رکھا تھا۔ پیٹ جو پھوال نہیں تھا‘ ضرورت سے‬ ‫زیادہ پھول گیا تھا۔ ہر وقت منہ میں گینس گینس کا کلمہ رہتا۔‬ ‫شوکر کے ساتھ ساتھ سانس میں بھی‘ پرابلم محسوس ہونے لگا‬ ‫تھا۔ خود ساختہ اور خود معلوم بی پی نے‘ اس کے ناک میں دم‬ ‫کر رکھا تھا۔‬ ‫شاہدہ شروع سے‘ ماشاءهللا صبر کتی تھی۔ ناک کی نتھلی اسے‬ ‫خوب سجتی تھی۔ گھر میں سب سے چھوٹی ہونے کے ناتے‘‬


‫اوالد کی اوالد ہونے کے بعد بھی‘ اس کی بچوں کی سی عادتیں‬ ‫نہ گئی تھیں۔ ہر آنے والے سے جھڑنے کی توقع کرتی۔ سیر‬ ‫سپاٹے کی رسیا تھی۔ کہیں جانے کا بہانہ تالش ہی لیتی۔ جہاں‬ ‫جاتی‘ وہاں سے کچھ ناکچھ النا‘ اسے خوش آتا۔ زبان کی بڑی‬ ‫صاف ستھری تھی‘ یہ ہی وجہ تھی کہ ہر کوئی‘ اس سے بات‬ ‫کرتے ڈرتا تھا۔ عمر میں چھوٹی ہونے کا‘ خاوند سے البھ‬ ‫اٹھاتی رہتی۔ کوکب تگنی کا ناچ‘ ناچ رہا ہے۔ وقت گزرنے کے‬ ‫ساتھ ساتھ‘ وہ اس میں تاک ہو گیا تھا۔ مزے کی بات یہ کہ وہ‬ ‫اپنے اس ہنر سے آگاہ نہ تھا۔ شاہدہ گوڈوں گٹوں کے درد کا‬ ‫شکار ہو گئی تھی۔ پاؤں سوجھنے لگے تھے۔ بیماریوں کے‬ ‫اشتراک کے سبب اس کی ناہید سے خوب بنتی تھی۔‬ ‫جھوٹ والی بات ہے‘ کہ شبو معمول میں‘ چار لوگوں کا کھانا‬ ‫کھاتی تھی اور اسے ہیشہ کم خوری کی شکایت رہتی۔ تجاوزی‬ ‫خوراک لے کر بھی‘ سارا دن کچھ ناکچھ چرتی رہتی۔ دن میں دو‬ ‫تین گھنٹے‘ بآواز بلند خاوند کے ساتھ نعرے بازی کرتی۔ وہ اس‬ ‫پر جان چھڑکتا اور شبو نے‘ کبھی بھی اسے اپنا نہ سمجھا۔‬ ‫دونوں ہاتھ بھرے آتا‘ لیکن شبو کے منہ پر ہمیشہ ناشکری کے‬ ‫کلمے رہتے۔ ہاں البتہ‘ اس کی کوشش ہوتی‘ کہ اپنے احمق‬ ‫خاوند کو نچوڑ کر‘ باپ کا گھر بھر دے۔ اس کا باپ نام کو‬ ‫عباس‘ لیکن کام کو ‘ شیطانوں کا آئی جی تھا۔‬ ‫شبو کو پیٹ کے پتھر ہو جانے‘ بی پی ہائی ہونے اور سردرد کا‬


‫روز اول سے گلہ رہا۔ خاوند کبھی بیمار پڑتا‘ تو کہتی بیٹھک‬ ‫میں ٹھیک ٹھاک بیٹھے ہوئے تھے یہاں آتے ہی بیماری پڑ گئی‬ ‫ہے۔ میں نے تمہیں بیمار کیا ہے‘ کہنے میں عار نہ سمجھتی۔‬ ‫سوئے ہونے کا ناٹک بھی خوب جانتی تھی۔ ہاں اپنی بیماری کا‘‬ ‫ہر وقت رونا روتی رہتی۔ تندرست بہن بھائیوں اور مائی باپ کی‬ ‫بیماریوں اور بےچارگیوں کا اسے گلہ ہی رہتا۔ خاوند کے گھر‬ ‫آنے سے کچھ پہلے‘ سر پر پٹی باندھنا نہ بھولتی۔ شبو‘ ناہید کی‬ ‫حریف بیمار تھی۔ وہ اظہار بیماری میں ہر سطح پر سبقت لے‬ ‫جانا چاہتی تھی۔ جب ناہید اپنی بیماری کا مرتبہ بلند کرتی‘ تو‬ ‫اسے سخت غصہ آتا اور پھر زبان طرازی کے رن میں اتر آتی۔‬ ‫ناہید اگرچہ اس حوالہ سے کم زور نہ تھی‘ لیکن زنانہ و مردانہ‬ ‫اعضا کی گل کاریوں میں اس کے برابر نہ تھی۔‬ ‫نمونہ کی چند ایک بیمار خواتین کا ذکر کیا گیا ہے‘ ورنہ ناہید‬ ‫کے حلقہءادارت میں بیمار خواتین کی کمی نہ تھی۔ ایک‬ ‫سےایک بڑھ کر‘ بیمار خاتون موجود تھی۔ ہر ایک کو‘ اپنے‬ ‫جسم وجان سے متعلق بیماری کا خوب خوب علم حاصل تھا۔‬ ‫کچھ تو اس ذیل میں زیادہ ہی علم وفضل کی مالک تھیں۔‬ ‫بیماریوں کی ذیل میں ان کی تشبہات اور استعارے بڑے ہی‬ ‫فصیح وبلیغ ہوتے۔ کتنی عجیب بات ہے‘ ان میں سے کسی کو‬ ‫اپنی اخالقی و روحانی بیماریوں کا علم تک نہیں۔ نشان دہی‬ ‫کرنے کی صورت میں‘ نشان دہندہ کے کھاتے میں وہ وہ اخالقی‬ ‫و روحانی بیماریاں درج ہو جائیں گی‘ جن کا ان کی شخصیت‬


‫سے دور کا بھی تعلق واسطہ نہیں رہا ہو گا۔‬

‫ادریس شرلی‬

‫بعض لوگوں کو‘ معاملے کا کچھ پتا نہیں ہوتا‘ اور ان کا معاملے‬ ‫سے‘ دور کا بھی‘ تعلق واسطہ نہیں ہوتا‘ لیکن وہ اس میں‬ ‫ٹانگ اڑانا‘ اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔ لوہڑا یہ کہ وہ‬ ‫بالطلب‘ اپنا مشورہ دینا نہیں بھولتے۔ ان کی بالطلب مشاورت‘‬ ‫معاملے کو مزید الجھا دیتی ہے۔ سنورنے کی بجائے‘ معاملہ‬ ‫مزید بگڑ جاتا ہے۔ روکتے رہو‘ ٹوکتے رہو‘ لیکن وہ اپنا لچ تل‬ ‫کر ہی دم لیتے ہیں۔ اس کی زندہ مثال؛ ہمارے ادریس صاحب‬ ‫ہیں‘ جو بن بالئے چلے آتے ہیں۔ ان سے کچھ دریافت کرو‘ یا نہ‬ ‫کرو‘ لیکن وہ اپنے منحوس مشورے‘ دینے سے باز نہیں آتے۔‬ ‫کچھ ہی دنوں کی بات ہے‘ کہ رحمت نے اپنی بیوی کو‘ شک کی‬ ‫بنیاد پر‘ گھر سے نکال دیا۔ بات طالق تک‘ آ پہنچی۔ بدکرداری‬ ‫کے الزام میں‘ طالق ہو جانے سے‘ مائرہ کا مستقبل‘ تاریکیوں‬ ‫کی نذر ہو جانا تھا۔ اس کا باپ اور بھائی‘ سخت پریشان تھے۔‬


‫بات ہی کچھ ایسی تھی۔ دو تین بار پنچایت بھی ہوئی‘ لیکن‬ ‫رحمت کسی بات پر ہی نہ آتا تھا۔ آخر معاملہ حاجی معظم کے‬ ‫علم میں الیا گیا‘ اور باور کرا دیا گیا‘ یہ الزام قطعی بے بنیاد‬ ‫ہے۔ اس الزام کا‘ حقیحت سے‘ دور بھی کا واسطہ نہیں۔ حاجی‬ ‫صاحب‘ عالقے کے ممبر تھے۔ انہوں نے‘ تفصیہ کرا دینے کا‬ ‫وعدہ کیا۔ انہوں نے صلح صفائی کی کوشش کی۔ بات قسم پر آ‬ ‫گئی۔ رحمت نے‘ نبی بخش اور احمد دین‘ کو قسمیا متخب کیا۔‬ ‫جمعہ کا دن قسم کا ٹھہرا۔‬ ‫نبی بخش اور احمد دین نے‘ معاملے کی‘ ہر پہلو سے‘ جانچ‬ ‫پڑتال کی۔ پھر وہ‘ قسم دینے پر آمادہ ہو گیے۔ جمعہ کے روز‬ ‫رحمت‘ حاجی صاحب اور قسمیے بھی آ گیے۔ قسم ہونے کو‬ ‫تھی‘ کہ ادریس صاحب آ ٹپکے‘ اٹھتے ہی بولے‘ یار اس میں‬ ‫قسم لینے والی کون سی بات ہے‘ کوئی ناکوئی بات ہوتی ہی‬ ‫ہے‘ تب پبلک میں آتی ہے۔ دوسرا چور‘ یار اور ٹھگ کی قسم‬ ‫دینا‘ کھلی حماقت ہے۔ قسمیے تو اپنی بات پر کھڑے رہے‘ لیکن‬ ‫رحمت تھالی کے بیگن کی طرح‘ تلک گیا۔ اجڑتا گھر بستے‬ ‫بستے رہ گیا۔ سب نے‘ ادریس صاحب پر بڑی لعنتیں بھیجیں۔‬ ‫بزرگ ہو کر‘ فساد کا دروازہ کھولتے ہو‘ اس سے کیا ہوتا ہے‘‬ ‫جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا۔‬ ‫ان کی اس عادت سے‘ ان کے گھر والے بھی‘ ناالں رہتے ہیں۔‬ ‫غمی‘ خوشی کے موقع پر‘ وہ انہیں گھر پر چھوڑ جانے کی‘‬


‫کوشش کرتے ہیں‘ لیکن ادریس صاحب‘ سب سے پہلے تیار ہو‬ ‫کر‘ دروازے پر کھڑے ہوتے ہیں۔ ان کی سگی بہن کی بیٹی کی‬ ‫شادی تھی۔ یہ بھی مدعو تھے۔ انہیں بھانجی کو‘ کچھ ناکچھ تو‬ ‫دینا چاہیے تھا۔ سو روپے کے سکے‘ بھانجی کے ہاتھ پر رکھ‬ ‫دیے۔ وہ دلہن بنی ہوئی تھی‘ اس لیے چپ رہی۔ یہ بالکل بچوں‬ ‫کی سی حرکت تھی۔ ان کے گھر والے بڑے شرمندہ ہوئے۔‬ ‫کھانا ڈٹ کر کھایا‘ کھا پی کر شرلی یہ چھوڑی‘ کہ پکائی کچھ‬ ‫بہتر نہ تھی۔ چپ رہا جا سکتا تھا‘ انیس بیس تو ہو ہی جاتی‬ ‫ہے۔ چلتے چلتے‘ زوردار قہقہے میں‘ دلہا سے کہا‘ سواری کے‬ ‫لیے‘ تو ضرور کچھ مال ہو گا۔ بہن اور بہنوئی رونے والے ہو‬ ‫گیے۔ سیانے تھے‘ پی گیے اور اونچی آواز تک نہ نکالی۔‬ ‫سگے بیٹے کا سسر مر گیا‘ یہ بھی جنازہ میں شریک ہوئے۔‬ ‫بھورے پر بھی بیٹھے۔ انہوں نے بڑی عزت دی۔ ٹیک کے لیے‘‬ ‫تکیہ دیا۔ سامنے‘ ٹھنڈے پانی کا گالس بھی رکھا۔ انہوں نے‬ ‫بڑے بھرپور انداز اور جعلی دل سوزی سے‘ افسوس بھی کیا۔‬ ‫یوں لگتا تھا‘ جیسے ان کا سگا بھائی‘ چل بسا ہو۔ ایک دو‘‬ ‫مگرمچھ کے آنسو بھی گرائے۔ دو چار ان کی خوبیاں بھی بیان‬ ‫کیں‘ حاالں کہ مرنے والے کا‘ ان خوبیوں سے‘ سرے سے تعلق‬ ‫ہی نہ تھا۔ باتوں باتوں میں‘ یہ بھی کہہ دیا‘ کہ یار بڑھاپا عذاب‬ ‫ہوتا ہے۔ بڈھا بچوں کے لیے‘ عذاب بن جاتا ہے۔ اچھا ہوا‘‬ ‫بےچارا مر گیا‘ اسے کوئی پوچھنے واال نہ تھا۔ بس میرا بیٹا‘‬


‫ان کی خبرگیری کرتا تھا۔ ایسے فرمانبردار داماد‘ کہاں ملتے‬ ‫ہیں۔ آخری وقت میں وہ ہی ان کے پاس تھا۔ جھگڑا ہو جانا تھا‘‬ ‫کہ مرحوم کے بڑے لڑکے نے‘ آ کر کھانا کی خبر سنائی۔ سب‬ ‫صبح سے‘ بھوکے تھے‘ اس لیے افراتفری پڑ گئی۔‬ ‫ادریس صاحب‘ کھاتے پیتے اور خوش حال لوگوں میں سے‬ ‫تھے۔ ترکہ میں‘ اچھی خاصی جائیداد پائی تھی۔ لینا انہیں خوش‬ ‫آتا تھا‘ لیکن دینے کے معاملہ میں‘ قارونی شریعت کی پیروی‬ ‫کرتے تھے۔ لوگوں کو کچھ دینا‘ تو بڑی دور کی بات‘ انہیں اپنی‬ ‫ذات پر خرچ کرتے‘ حیا آتی تھی۔ ان کی اس کفایت شعاری سے‘‬ ‫ان کی بیگم اور بچے بھی‘ بڑے الرجک تھے۔ وہ اس حد تک‬ ‫کفایت شعار تھے‘ کہ کھانا بھی‘ کسی ختم وغیرہ میں جا کر‬ ‫تناول فرما لیتے‘ خود تو کھا ہی لیتے‘ گھر والوں کے لیے‘‬ ‫ساتھ میں لے آتے۔ اس ذیل میں‘ وہ ڈھیروں ثواب کمانے کے‘‬ ‫حق میں تھے۔‬ ‫ان کا موقف تھا‘ کہ جب هللا مال دے‘ تو هللا کی راہ میں‘ خرچ‬ ‫کرتے بخل سے‘ کام نہیں لینا چاہیے۔ هللا کی راہ میں خرچ کرنے‬ ‫سے‘ مال میں کمی نہیں آتی‘ بلکہ دس گنا فراخی آتی ہے۔ دینے‬ ‫واال‘ هللا کے ہاں معتبر رہتا ہے۔ جہاں کسی محفل میں‘ بیٹھے‬ ‫ہوتے‘ اس نوعیت کی‘ بڑے دھیمے دھیمے‘ لیکچر نما‘ گفتگو‬ ‫فرماتے۔ لوگ ٹوکنے یا ان کی ذات پر حملہ کرنے کی بجائے‘‬ ‫بڑی سنجیدگی سے‘ ان کے اس بھاشن سے‘ لطف اندوز ہوتے۔‬


‫بعض تو‘ بالمسکراہٹ سبحان هللا‘ سبحان هللا کہتے۔ یہ اس امر‬ ‫کی طرف اشارہ ہوتا‘ کہ وہ گفتگو جاری رکھیں۔ وہ یہ جان ہی‬ ‫نہ پاتے‘ کہ ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ ان کی‘ ان حرکتوں کی‬ ‫وجہ سے‘ چھوٹے بڑوں میں‘ وہ ادریس شرلی معروف ہوگیے‬ ‫تھے۔‬ ‫چار پانچ دن پہلے کی بات ہے‘ بابا سید غالم حضور کے ہاں‬ ‫بیٹھے تھے۔ اتفاق سے ادریس صاحب بھی تشریف فرما تھے۔‬ ‫بابا جی‘ کھاتے پیتے لوگوں میں نہیں ہیں۔ بس دال روٹی چل‬ ‫رہی ہے۔ گورنمنٹ کے پنشنر ہیں۔ مائی سردار بی بی‘ پچھلے‬ ‫چالیس پنتالیس سال سے‘ بچے بچیوں کو‘ دینی اور قرانی تعلیم‬ ‫دیتی آ رہی ہیں۔ قبلہ بابا جی‘ بیٹھک میں آ کر بیٹھ جاتے ہیں۔‬ ‫لوگ ان سے‘ دین اور تصوف کے مسائل‘ دریافت کرنے چلے‬ ‫آتے ہیں۔ بابا صاحب کے والد‘ سید علی احمد اپنے وقت کے‬ ‫عالم فاضل ہونے کے ساتھ ساتھ‘ صوفی مسلک سے تعلق‬ ‫رکھتے تھے۔ مائی صاحب اور بابا صاحب‘ گڑھ شنکر‘ امرتسر‬ ‫کی سرکار سے تربیت حاصل کرتے رہے ہیں۔ ان کا مزار‘ غالبا‘‬ ‫آج بھی‘ وہاں موجود ہے۔ گویا دونوں میاں بیوی‘ باشرح صوفی‬ ‫مسلک رکھتے ہیں۔‬ ‫سوال و جواب اور گفتگو کا سلسلہ‘ جاری تھا‘ کہ ادریس‬ ‫صاحب‘ اپنی بھورنے بیٹھ گیے۔ کہنے لگے‘ بابا جی‘ چوہدھری‬ ‫شمس کتنا عجیب اور بدنصیب شخص ہے۔ هللا نے‘ اسے‬


‫بےشمار دھن دے رکھا ہے۔ نماز روزہ کرتا ہے‘ توفیق کے‬ ‫باوجود‘ قربانی اور حج نہیں کرتا۔ میرے ہم سائے میں رہتا ہے‘‬ ‫لوگوں کے گھر سے‘ آئے گوشت سے کام چالتا ہے۔ اپنی عاقبت‬ ‫کے لیے بھی‘ کچھ کرنا چاہیے۔ عالقے میں‘ نام کمانے کے‬ ‫لیے‘ بیماروں کو پیسے دے دیتا ہے۔ گریبوں کے گھر‘ آٹا‬ ‫بھجواتا ہے۔ پچھلے دنوں‘ فجے کمہار کی بیٹی کو‘ جہیز بھی‬ ‫دیا اور روٹی بھی دی۔ اوپر سے لوگوں کو تاکید کرتا ہے‘ کہ‬ ‫اس مدد کا‘ کسی سے‘ ذکر تک نہ کرنا۔ جتنا روکے گا‘ لوگ اتنا‬ ‫ہی اچھالیں گے‘ یہ ہی اس کی منشا ہے۔ کل کو ممبر کھڑا ہوا‘‬ ‫تو لوگ ووٹ اسی کو دیں گے۔ اس سے عاقبت تو نہیں سنورتی۔‬ ‫عاقبت کے لیے‘ نماز روزے کے ساتھ ساتھ‘ قربانی کی بھی‬ ‫ضرورت ہوتی ہے۔ بےکار کے کاموں میں‘ دولت ضائع کرتا رہتا‬ ‫ہے۔آپ اسے کچھ سمجھائیں۔‬ ‫بابا جی کو ادریس صاحب کی بات‘ ناگوار گزری‘ فرمانے لگے‬ ‫‪:‬‬ ‫ادریس صاحب‘ آپ جانتے ہیں‘ کہ آپ چغلی کھا رہے ہیں۔ یہ‬ ‫بات آپ کو چوہدھری صاحب کے منہ پر کرنی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے کیا‬ ‫پتا تھا‘ کہ آپ‘ چوہدھری صاحب کے بندے ہیں۔ ادریس صاحب‬ ‫نے بابا جی کی بات کاٹتے ہوئے کہا‬ ‫بابا جی نے بڑے تحمل سے فرمایا‪ :‬ادریس صاحب‘ کسی کی بات‬ ‫کاٹنا‘ اخالقیات اور آداب کے منافی ہے۔ سچی بات‘ تو سچی ہی‬


‫ہوتی ہے۔ ذہن میں بٹھا لیں‘ میں کسی کا بندہ نہیں‘ میں صرف‬ ‫اور صرف هللا کا بندہ ہوں۔‬ ‫چھوڑیں شاہ صاحب‘ تگڑے کا ہر کوئی ہوتا ہے۔ یہاں ماڑے‬ ‫کی‘ کوئی نہیں سنتا اور ناہی‘ اس کا ساتھ دیتا ہے۔‬ ‫بابا جی‘ خفیف سے‘ جالل میں آ گیے۔ فرمانے لگے‬ ‫‪:‬‬ ‫میں سید زادہ ہوں‘ میرے نزدیک تگڑا ماڑا‘ سب برابر ہیں۔ بات‘‬ ‫تگڑی یا ماڑی ہوتی ہے۔‬ ‫کسی کی نیت میں کیا ہے‘ ہم نہیں جانتے۔ دلوں کا حال‘ هللا ہی‬ ‫جانتا ہے۔ چوہدری صاحب کس نیت سے‘ لوگوں کی مدد کرتے‬ ‫ہیں‘ ہمیں کیا معلوم‘ یہ تو هللا ہی جانتا ہے‘ یا انہیں معلوم ہوگا۔‬ ‫ہم کسی کی نیکی کو‘ منفی پیمانوں پر‘ رکھنے والے‘ کون‬ ‫ہوتے ہیں۔ وہ جانیں یا هللا جانے۔‬ ‫ادریس صاحب‘ قربانی سنت ابراہیمی ہے۔ حضور کریم نے بھی‘‬ ‫اسے جاری رکھا‘ ہمیں بھی جاری رکھنا چاہیے۔‬ ‫ہم وہ قوم ہیں‘ جو قربانی کی چھری تلے ہے۔ اس بےچاری نے‬ ‫کیا قربانی دینی ہے۔ قربانی تو‘ صاحب حیثیث قوموں کے لیے‬ ‫ہے۔ یہ تو فرائض پورے کرنے سے قاصر وعاجز ہے‘ سنتیں‬ ‫کیا پوری کرنی ہیں۔‬


‫لڑکی اپنی ہو‘ کسی عزیز کی ہو‘ یا ہم سائے کی‘ اس کی شادی‬ ‫کرنا فرض ہے۔‬ ‫بھوکا کوئی بھی ہو‘ اس کی بھوک مٹانا فرض ہے۔‬ ‫مقروض کا قرض اترنا‘ فرض ہے۔‬ ‫بیمار کو‘ مفلسی کے سبب‘ مرنے سے بچانا فرض ہے۔‬ ‫اس طرح کے‘ بیسیوں فرض ہیں۔ کیا ہم‘ ان سب کو پورا کر‬ ‫چکے ہیں۔ مفلسی‘ بیماری قرض‘ بھوک وغیرہ‘ ختم ہو چکے‬ ‫ہیں۔ اپنے حصہ سے‘ بچا کر‘ دوسرے کی حاجت پوری کرنا بھی‬ ‫قربانی ہے۔‬ ‫سب ٹھیک ہو گیا ہے‘ تو ایک نہیں چار بکروں کی قربانی کرو۔‬ ‫باجماعت نماز کی فضیلت کیوں ہے‘ تاکہ تم ایک دوسرے سے‬ ‫ملتے رہو‘ حال احوال دریافت کرتے رہو۔ عیدین اور حج کا بھی‘‬ ‫یہ ہی مقصد ہے‘ تا کہ تم ایک دوسرے سے آگاہ رہو‘ اور بھائی‬ ‫چارہ بڑھے‘ محبتیں پروان چڑھیں۔ هللا بے نیاز ہے‘ اسے سجدہ‬ ‫کرو گے‘ تو بھی‘ وہ اپنی حالت پر رہے گا۔ هللا انسان کی بہتری‬ ‫چاہتا ہے۔ حج فرض ہے‘ لیکن تب‘ جب تم استطاعت رکھو۔ جب‬ ‫ہر طرف‘ خوش حالی آسودگی ہو گی‘ کوئی بیٹی‘ بنا جہیز باپ‬ ‫کے گھر بیٹھی نہ ہو گی‘ قربانی کرنا‘ حچ کے لیے جانا‘ تا کہ‬ ‫دیگراسالمی بھائیوں سے مل کر‘ بین االسالمی بھائی چارے کو‘‬ ‫فروغ دے سکو۔‬


‫بابا جی کی باتوں کو‘ سب نے سنا اور پسند کیا۔ ادریس صاحب‬ ‫کی سوئی‘ قربانی کے گوشت پر‘ اٹکی ہوئی تھی۔ اتنی دیر میں‘‬ ‫پانچ لوگوں کا کھانا‘ اندر سے آ گیا۔ چار لوگوں کے لیے چٹنی‬ ‫ملی لسی‘ جب کہ ایک کے لیے‘ گوشت سے بھری پلیٹ آئی۔‬ ‫سب نے‘ باطور تبرک چٹنی ملی لسی سے روٹی‘ جو اماں جی‬ ‫کے ہاتھوں کی پکی ہوئی تھی‘ کھائی اور کھانے کو پرذائقہ‬ ‫قرار دیا۔ ادریس صاحب کا‘ موڈ اب بھی خراب تھا۔ انہیں پکائی‬ ‫کے‘ ناقص ہونے کا‘ گلہ تھا۔ وہ کیا جانیں‘ گھر میں تو گوشت‬ ‫پکا ہی نہ تھا۔ گوشت کی پلیٹ اور روٹیاں‘ چوہدھری صاحب‬ ‫نے‘ بجھوائی تھیں۔ وہ ہی سفید آٹے کی روٹیاں‘ ادریس صاحب‬ ‫کے پیٹ میں گئی تھیں۔‬

‫سرگوشی‬

‫واجد بنیادی طور پر‘ راج گیری کے پیشے سے وابستہ تھا‬ ‫میٹرک پاس کرنے کے باوجود‘ کوئی سرکاری مالزمت نہ مل‬ ‫سکی تھی‘ اسی لیے اس نے‘ اپنے باپ کے پیشے کو‘ اختیار‬ ‫کر لیا تھا۔ اس کا باپ‘ بڑے اعلی پائے کا‘ کاری گر تھا۔ اسی‬


‫نے واجد کو یہ ہنر سکھایا تھا۔ اس کا صوفی لوگوں کے پاس‘‬ ‫بڑا اٹھنا بیٹھنا تھا۔ اس کے ساتھی‘ کام سے فارغ ہونے کے‬ ‫بعد‘ ہوٹلوں میں بیٹھ کر‘ گپ بازی کرتے‘ لیکن اسے اس قسم‬ ‫کے اشغال سے‘ کوئی دل چسپی نہ تھی۔ وہ اسے وقت ضائع‬ ‫کرنے کے مترادف سمجھتا تھا۔ اس کا زیادہ تر‘ بیبیاں پاک‬ ‫دامناں اور حضرت شاہ حسین الہوری کے درباروں پر‘ آنا چانا‬ ‫تھا۔ وہ دیر تک‘ وہاں بیٹھا اکیال ہی‘ باتیں کرتا رہتا۔ اسے‬ ‫واپسی کوئی جواب ملتا یا نہ ملتا‘ کوئی نہیں جانتا۔ اگر کوئی‬ ‫پوچھتا‘ تو جواب میں ہنس دینا۔ اس کے اس ہنسنے میں‘ اثبات‬ ‫اور نہی کا‘ دور تک نام ونشان تک نہ ہوتا۔‬ ‫لوگوں کی حیرانی اپنی جگہ‘ لیکن ہر کسی کا‘ اپنا اپنا ذوق ہوتا‬ ‫ہے۔ اس کا یہ ذوق‘ اس کی شخصیت کا حصہ بن چکا تھا۔‬ ‫پہاگاں کو‘ اس کے اس ذوق سے‘ کوئی چڑ نہ تھی۔ اس کے‬ ‫سارے خرچے‘ بڑی حد تک‘ وہ پورے کر رہا تھا۔ ان کے ساتھ‘‬ ‫وہ ہنسی مذاق کرتا۔ اس کے صوفی ہونے کے‘ دور تک نام‬ ‫ونشان نہ تھے۔ باتوں میں‘ عام لوگوں کا انداز ملتا تھا۔ اس کے‬ ‫کام بھی‘ صوفیوں والے نہ تھے۔ ہاں البتہ‘ وہ بال کا صابر و‬ ‫شاکر تھا۔ کوئی زیادتی کر جاتا‘ تو برداشت کر لیتا۔ عجز اور‬ ‫مسکینی‘ اس کی فطرت ثانیہ تھی۔ ان باتوں کے باوجود‘ گھر‬ ‫اور باہر‘ عمومی انداز سے گپ شپ کرتا۔ لطیفے سنتا بھی‘ اور‬


‫سناتا بھی۔‬ ‫ایک دن‘ حضرت شاہ حسین الہوری کے دربار پر‘ ایک ملنگ یہ‬ ‫کافی گا رہا تھا۔ اس کی آواز‘ شرینی کے ساتھ ساتھ‘ خلوص اور‬ ‫محبت سے لبریز تھی۔‬ ‫نی تینوں رب ناں بھلے‬ ‫دعا فقیراں دی ایہا‬ ‫رب ناں بھلیں ہور سبھ کجھ بھلیں‬ ‫رب ناں بھلن جیہا‬ ‫وہ سوچنے لگا‘ حضرت شاہ حسین الہوری جیسا آدمی بھی‘‬ ‫روٹی کے چکروں میں تھا۔ آخر اس نے‘ اسم ذات‘ هللا کو کیوں‬ ‫استعمال نہیں کیا۔ اسے یہ بات‘ ہضم نہیں ہو رہی تھی۔ پھر وہ‬ ‫اٹھ کر‘ دربار کے اندرآ گیا‘ اور کافی دیر تک بیٹھا رہا۔ وہ اپنے‬ ‫آپ سے‘ باتیں کیے جا رہا تھا۔ اس سے پہلے‘ اس کی آواز‘‬ ‫محض بڑبڑاہت ہوا کرتی تھی۔ آج اس کا کہا واضح سنائی دے‬ ‫‪ :‬رہا تھا‬ ‫انسان‘ محض روٹی کی فکر اور تگ و دو کے لیے لیے پیدا ہوا‬ ‫ہے۔‬ ‫روٹی اکٹھی کرتے کرتے‘ دم توڑ دیتا ہے۔‬ ‫زندگی کا مقصد‘ صرف روٹی ہے۔ روٹی سے ہٹ کر‘ زندگی‘‬


‫زندگی نہیں۔‬ ‫شاہ حسین جیسا بڑا شخص‘ مشورہ دے رہا ہے‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔رب نہ بھلیں ہور سبھ کجھ بھلیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫باقی لوگوں کی حیثیت ہی کیا رہ جاتی ہے۔‬ ‫روٹی دینے والوں کو ہی‘ یاد رکھا جانا چاہیے‘ باقی کو‘ یاد‬ ‫رکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔‬ ‫انسان مرد اور عورت سے‘ وجود حاصل کرتا ہے۔‬ ‫مرد اس لیے معتبر ہے‘ کہ کما کر التا ہے۔‬ ‫عورت پکا کر دیتی ہے۔‬ ‫ان کی عزت روٹی کے لیے ہوئی ناں۔‬ ‫پیار محبت شفقت‘ گویا روٹی کے حوالوں سے وابستہ ہے ناں۔‬ ‫بےایمان معاشروں میں‘ انسان سے محبت کرنے والے‘ کیوں‬ ‫پیدا ہو جاتے ہیں۔‬ ‫تمہارا عہد بھی تو‘ پیٹ کے بندوں کا عہد تھا۔ تب ہی تو تم روٹی‬ ‫کی بات کر رہے ہو اور روٹی دینے والی صفت کو‘ پہلے نمبر پر‬ ‫رکھ رہے ہو۔‬ ‫روٹی آنی چاہیے‘ چاہے وہ رشوت‘ مالوٹ ہیرا پھیری سے ہی‬ ‫کیوں نہ آئے۔‬


‫نماز‘ روزے اورحج کا کیا فائدہ ہوا۔‬ ‫بچے کے بگڑنے میں ماں اور باپ کو کیوں الزام دیا جاتا ہے۔‬ ‫دونوں بےقصور ہوئے ناں۔‬ ‫بدقماش معاشروں کے بڑے لوگ‘ روٹی کے لیے‘ انسانی‬ ‫استحصال کرتے ہیں۔ بڑوں کے قدموں پر ہی تو چھوٹے لوگ‬ ‫قدم رکھتے ہیں۔ جب روٹی اور روٹی والے‘ معتبر ہیں‘ تو پھر‬ ‫روال کس بات کا ہے۔‬ ‫تم فقیر ہو کر بھی‘ یہ ہی بات کر رہے ہو۔‬ ‫تم میں اور ان میں‘ فرق ہی کیا رہ گیا ہے۔‬ ‫تم جواب نہیں دے رہے‘ میں بولے جا رہا ہوں۔‬ ‫تمہیں اپنے کہے کی‘ وضاحت کرنا ہی ہو گی‘ ورنہ میں فقیری‬ ‫اور درویشی کو پاکھنڈ سمجھوں گا۔‬ ‫پاکستان‘ اسالم کے نام پر حاصل کیا گیا۔ یہ کیسا اسالم ہے‘ کہ‬ ‫اس کا ماننے واال‘ چند ٹکوں کے لیے‘ قرآن پر ہاتھ رکھ کر‘‬ ‫قسم کھا لیتا ہے۔ عیسائی سچا ہو کر بھی؛ بائیبل پر ہاتھ رکھ کر‘‬ ‫قسم نہیں کھاتا۔‬ ‫وہ مسلسل بولے جا رہا تھا۔ اسے ارد گرد کے‘ لوگوں کے‘‬ ‫ہونے کا احساس تک نہ تھا۔ پھر وہ زاروقطار رونے لگا۔ اسے‬ ‫چپ کرانے کی‘ کسی میں ہمت تک نہ تھی۔ کوئی کچھ کہتا‘ تو‬


‫کیا کہتا۔ کسی کے پاس‘ اس کے سوال کا جواب ہی نہ تھا۔ ہر‬ ‫آنے واال‘ شاہ حسین سے ملنے نہ آیا تھا۔ ہر کوئی‘ حاجت لے‬ ‫کر آیا تھا۔ ہاں‘ وہ کوئی حاجت لے کر نہ آیا تھا۔ وہ تو‘ صرف‬ ‫اور صرف‘ شاہ حسین سے ملنے آیا تھا۔ کافی دیر بعد‘ بادل‬ ‫چھٹے‘ تو اب وہ بول نہیں رہا تھا۔ اس کے صرف ہونٹ ہلتے‬ ‫نظر آ رہے تھے۔ وہ اسی حال میں‘ پچھلے قدموں دربار سے‬ ‫باہر نکل آیا۔‬ ‫وہ سر جھکائے گھر کی طرف آ رہا تھا کہ الشعور میں ایک‬ ‫سرگوشی سی ہوئی۔‬ ‫بابا شکرهللا کے کہے کو بھول گیے ہو۔‬ ‫انہوں نے کہا نہیں تھا سانس کی ہر تار پر هللا کا شکر ادا کرو۔‬ ‫سانس آئے گا تو ہی هللا کا شکر ادا کر سکو گے۔‬ ‫کیا سانس رزق نہیں ہے۔‬ ‫انبیا صدیق شہید اور صالیحین مرتے نہیں هللا کے ہاں سے خیر‬ ‫کا رزق پاٹے ہیں۔‬ ‫یہ کون سا رزق ہے۔‬ ‫اس عالم کے مطابق ہونے کا رزق پاتے ہیں۔‬ ‫اسی لیے تو زندہ ہیں انہیں کون مار سکتا ہے۔‬


‫ہوں گے تو ہی هللا کی حمد وثنا کر سکیں گے۔‬ ‫اس عالم میں‘ سانس آنے کی صورت میں ہی‘ آتا جاتا سانس هللا‬ ‫ہو کا ورد کر سکے گا۔‬ ‫اب کہو‘ رب کو یاد رکھنے کی بات‘ شاہ حسین نے سچ کہی ہے‬ ‫یا غلط‬ ‫اچانک اسے یاد آیا‘ حیدر امام کی سال گرہ پر‘ بابا شکرهللا اور‬ ‫مائی صاحبہ‘ اپنے تمثالی وجود میں‘ تشریف الئے تھے۔‬ ‫انہیں مائی رضیہ صاحبہ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔‬ ‫اگر انہیں‘ رب یاد نہ ہوتا‘ تو رزق کہاں سے پاتے۔ رزق نہ مال‬ ‫ہوتا‘ تو وہ تمثالی وجود کیسے اور کیوں کر‘ حاصل کر پاتے۔‬ ‫هللا کا وعدہ کس طرح غلط ہو سکتا ہے۔‬ ‫بدیانت اور بدکردار معاشروں میں‘ اوالد کے بگڑنے کا الزام‘‬ ‫کسی پر نہیں رکھا جا سکتا‘ کیوں کہ وہ بھی تو‘ اسی معاشرے‬ ‫کا حصہ ہوتے ہیں۔ مائی باپ وہاں کیا کریں گے‘ جب سوسائٹی‬ ‫انہیں بدکرداری کی سجی سجائی دلدل میں کھنچ رہی ہو گی۔ اس‬ ‫نے سر کو جھٹکا دیا۔ اسے اپنی منفی سوچ پر‘ سخت ندامت‬ ‫ہوئی۔ پھر وہیں سے واپس مڑا‘ اور شاہ حسین کے دربار کی‬ ‫طرف‘ چل دیا۔ بالشبہ‘ شاہ حسین‘ صالحین میں سے تھے۔‬ ‫انہوں نے غلط نہیں کہا تھا۔‬


‫نی تینوں رب ناں بھلے‬ ‫دعا فقیراں دی ایہا‬ ‫رب ناں بھلیں ہور سبھ کجھ بھلیں‬ ‫رب ناں بھلن جیہا‬ ‫ہر سانس رب کا ہے‘ اور رب کے لیے ہی تو ہے۔ غافل سانس‬ ‫ہی‘ بدیانت اور بدکردار ہو سکتا ہے۔ اس سرگوشی نے‘ غفلت‬ ‫کی ساری میل‘ دھو ڈالی تھی۔ اب اس کے دل کا شیشہ‘‬ ‫گردوغبار سے آلودہ نہ تھا۔ اس کا چہرا‘ چاند کی کرنیں برسا‬ ‫رہا تھا۔‬

‫موازنہ‬

‫وی بی جی‘ صرف شعری ذوق ہی نہیں رکھتے‘ بڑے اچھے اور‬ ‫نکھرے نکھرے‘ تنقیدی شعور کے بھی مالک ہیں۔ وہ تاریخ اور‬ ‫سماجیات پر بھی‘ بڑی گہری نظر رکھتے ہیں۔ سب سے بڑی‬ ‫بات تو یہ ہے‘ کہ وہ انسان کا درد‘ اپنے سینے کی بے کراں‬ ‫وسعتوں میں‘ محسوس کرکے‘ اپنے انسان دوست ہونے کا‘‬ ‫ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ اگر وہ جوان ہیں‘ تو ان کی تحریریں‘ اس‬


‫امر کا ثبوت ہیں‘ کہ ہماری نسل فکری اعتبار سے‘ زندہ ہے۔‬ ‫اگر تھوڑا بڑی عمر کے ہیں‘ تو یہ بھی‘ خوش آئند بات ہے‘ کہ‬ ‫ہمارے بڑے‘ اپنی نسل کا‘ دکھ درد محسوس کرتے ہیں۔ ۔ ان کی‬ ‫تحریریں‘ انھیں جوانوں کی صف میں‘ کھڑا نہیں کرتیں بلکہ‬ ‫پختہ شعور کی حامل ہیں‬ ‫کل ہی کی بات ہے‘ کہ مجھے‘ ان کی چند الئنوں کو‘ پڑھنے کا‬ ‫اتفاق ہوا ہے۔ میں اپنے وجود کی دیانت داری سے عرض کرتا‬ ‫ہوں‘ کہ ان الئنوں نے‘ مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے‘ اور‬ ‫میں مسلسل سوچے چال جا رہا ہوں۔ ہر لفظ سچائی کا آئینہ ہے۔‬ ‫جو انہوں نے تحریر فرمایا ہے‘ اس میں‘ رائی بھر‘ مبالغہ‘‬ ‫ملمع یا جانب داری کا عنصر موجود نہیں ہے۔ آپ بھی‘ ان کا‬ ‫‪:‬کہا‘ مالحظہ فرما لیں‬ ‫ایسی ہزاروں مثالیں پیش کر سکتے ہیں‪ ،‬جہاں بُرا کرنے والے‬ ‫کو‘ اس کے کیے کے برابر سزا نہیں ملی۔ کئی ایسی مثالیں بھی‬ ‫ہیں‘ جن میں سرے سے‘ سزا ملی ہی نہیں‪ ،‬بلکہ ظلم کرنے‬ ‫والے‘ اخری سانس تک عیاشی اور ظلم کرتے رہے۔ کئی مثالیں‬ ‫تو ہمارے سامنے ہی موجود ہیں‘ جہاں شرفا مہینوں چارپائی پر‬ ‫کھانس کھانس کر‘ اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے ہیں‪ ،‬جب کہ‬ ‫ظالم لوگوں کے لیے‘ قدرت نے‘ قدرے اسان طریقہ موت بھی‬ ‫ایجاد کر رکھا ہے‘ جیسے دل کا دورہ پڑنے سے‘ اچانک دُنیا‬ ‫سے‘ اُٹھ گیا۔ ہمیں یقین ہے‘ کہ اگر دُنیا میں انصاف ہو رہا ہوتا‘‬


‫اور ہر ظالم کو‘ حق کے مطابق سزا مل رہی ہوتی‪ ،‬تو‪ ،‬نہ تو‬ ‫یہاں ظلم عام ہوتا‪ ،‬اور نہ ہی جنت اور دوزخ کے وجود کی کوئی‬ ‫ضرورت تھی۔‬ ‫یہ افسانہ ان کے خیاالت کے تناظر میں ہی‘ تحریر کیا گیا ہے۔‬ ‫مالحظہ فرمائیں‬ ‫‪...................‬‬ ‫موازنہ‬

‫راحت مرزا‘ عالقے کا‘ بڑا کھاتا پیتا اور نمبردار قسم کا شخص‬ ‫تھا۔ اس کو‘ اس کے اطوار کے حوالہ سے‘ کراہت مرزا کہنا‬ ‫غلط نہ ہو گا۔ مالوٹ‘ ہیرا پھیری‘ ظلم و زیاتی‘ جیسے اس کی‬ ‫سرشت میں شامل تھے۔ زناکاری میں‘ شاید ہی‘ اس کا ثانی رہا‬ ‫ہو گا۔ ہر دو نمبری عورت‘ اسے دل و دماغ پر بیٹھاتی تھی۔‬ ‫ایک عورت نے‘ راحت مرزا کے کہنے پر‘ طالق تک لے لی۔‬ ‫راحت مرزا نے‘ اسے چند ماہ‘ تصرف میں رکھا‘ بعد ازاں اس‬ ‫کے کھسم کو‘ دوبارہ سے‘ نکاح پر مجبور کر دیا۔ اتنا کچھ ہو‬ ‫جانے کے باوجود‘ شرمندگی اور تاسف کا‘ دور تک‘ نام و نشان‬


‫نہ تھا۔ وہ عورت‘ دھڑلے سے بسی۔ لوگ توئے توئے کرنے کی‬ ‫بجائے‘ راحت مرزا کے ذوق کو خراج تحسین پیش کر رہے‬ ‫تھے۔‬ ‫اس کا دو نمبری سامان‘ بال روک ٹوک‘ دھڑا دھڑ بک رہا تھا۔‬ ‫گرفت کرنے والے ادارے‘ ریاست کے مالزم ہو کر‘ اس کے‘ جی‬ ‫حضوریے تھے۔ حیرانی یہ تھی‘ کہ قدرت بھی‘ اس کی پوچھ‬ ‫گچھ نہیں کر رہی تھی۔ یوں لگتا تھا‘ جیسے قدرت نے‘ اسے‬ ‫کھلی چھٹی دے رکھی تھی؛ یا پھر وہ پیدا ہی ظلم و زیادتی کے‬ ‫لیے ہوا تھا۔ کبھی‘ چھوٹی موٹی بیماری آ جاتی‘ تو اس کے‬ ‫اردگرد‘ رقص کرتے گماشتوں سے خوف کھا کر‘ دم دبا کر‘‬ ‫بھاگ جاتی اور اس کے حصہ کی اذیت کے لیے‘ کسی کم زور‬ ‫اور گریب کا گریبان جا پکڑتی اور ساری کسریں نکال کر‘‬ ‫خالصی کرتی۔ بات یہاں تک ہی محدود نہ رہتی‘ بیماری‬ ‫سےاٹھنے کے بعد بھی‘ وہ گریب اور کم زور‘ کئی ہفتے سسک‬ ‫سسک کر‘ گزارتا۔ بیماری سےاٹھنے کے بعد‘ اسے دو چار روز‬ ‫کا آرام نصیب نہ ہوتا۔‬ ‫اس کی تینوں زوجاؤں کو بھی‘ اس کی عورت پسندی پر‘ کوئی‬ ‫اعتراض نہ تھا۔ وہ اپنے حال میں‘ مست تھیں۔ شاید ہی‘ دنیا کی‬ ‫کوئی چیز ہو گی‘ جو انہیں میسر نہ ہو گی۔ سوچتا ہوں‘ آخر وہ‬ ‫کس مٹی سے اٹھا تھا‘ کہ اس کی قوت باہ پر‘ فرق نہ آیا تھا۔‬ ‫شاید اکبر بادشاہ کے‘ طبیب خاص کی نسل کا‘ کوئی حکیم اسے‬


‫میسر آگیا تھا۔ ایک ہی کام کرتے کرتے‘ آدمی اکتا جاتا ہے‘‬ ‫لیکن اس کے ذوق و شوق میں ہر لمحہ اضافہ ہی ہوا۔ تازہ مال‬ ‫فراہم کرنے والے‘ اس کی آتش شوق کو‘ ہوا دیتے رہتے تھے۔‬ ‫وہ ان سے خوش تھا‘ وہ اس سے خوش تھے۔ مال بھی‘ اس‬ ‫کے پاس آنے میں‘ خوش بختی محسوس کرتا تھا۔‬ ‫یہ ستمبر کی‘ ایک بھیگی سی شام تھی۔ چاند اپنی بھیگی کرنیں‬ ‫برسا رہا تھا۔ اس روز‘ راحت مرزا کے گھر کے الن میں‘ بڑی‬ ‫چہل پہل تھی۔ شاید کوئی تقریب تھی۔ عالقے کے معروف شرفا‘‬ ‫جنہیں شورے کہنا زیادہ مناسب ہو گا‘ آئے ہوئے تھے۔ ان کی‬ ‫بہو بیٹیاں تقریبنی لباس میں موجود تھیں ۔ راحت مرزا‘ نیکر‬ ‫بنیان میں کبھی ادھر‘ اور کبھی ادھر‘ جا رہا تھے۔ چہار سو‘‬ ‫قہقہوں کے انار پھوٹ رہے تھے۔ تقریبا لباسی سینے‘ جب کسی‬ ‫قہقہے کی زد میں آتے‘ راحت مرزا کی آنکھوں میں‘ چمک پیدا‬ ‫ہو جاتی۔ وہ اس اپسرا کو دل کی ڈائری پر رقم کر لیتے‘ کیوں‬ ‫کہ اس کا تصرف‘ اس کے لیے ناممکن نہ تھآ‬ ‫اچانک شور اٹھا۔ سب‘ اس جانب‘ تیزی سے بڑھے۔ کسی‬ ‫حسینہ کے سینے کی‘ غیر معمولی اور ہوش شکن تھرتھراہٹ‬ ‫نے‘ راحت مرزا کے دل کی دھڑکنوں کو‘ غیر مسلسل کر دیا تھا۔‬ ‫یہ سب‘ دیکھتے ہی دیکھتے‘ لمحوں میں ہو گیا۔ شہر کے‬ ‫معروف‘ اور ماہر معالج طلب کر لیے گیے‘ مگر سب الحاصل‬ ‫رہا۔ ان کے آنے سے پہلے ہی‘ راحت مرزا چل بسے۔ یہ سارا‬


‫عمل‘ دو چار لمحوں میں‘ اپنی تکمیل کو پہنچ گیا۔ رونے‬ ‫دھونے سے زیادہ‘ تبصروں کا دور شروع ہو گیا۔ جملہ شرفا‘‬ ‫باتیں کرتے ہوتے‘ مین گیٹ کی طرف بڑھ گیے۔ منٹوں میں‘‬ ‫ویرانی کا دیو پھر گیا۔ راحت مرزا چل بسے تھے۔ ان کے سبب‘‬ ‫یہ ساری رونق تھی۔ وہ چل بسے تھے‘ اب وہاں کسی کا‘ کیا‬ ‫کام رہ گیا تھا۔ اسٹیشن پر‘ بال انجن کھٹری گاڑی پر‘ کون سوار‬ ‫ہوتا ہے۔ راحت مرزا کا جسد خاکی‘ غیر تو غیر‘ اپنوں کے لیے‬ ‫بھی‘ کوئی معنویت نہ رکھتا تھا۔ ہاں اس کے چھوڑے مال سے‘‬ ‫بیگمات تو اپنی جگہ‘ دور قریب کے رشتہ داروں میں بھی‘ بڑی‬ ‫گہری دل چسپی موجود تھی۔‬ ‫راحت مرزا کا جنازہ‘ بڑی پانچ صفوں پر مشتمل تھا۔ جائیداد کے‬ ‫حصہ داروں‘ اور حصہ کے خواہش مندوں کو تو آنا ہی تھا‘ کئی‬ ‫محلہ دار‘ تکلفا چلے آئے تھے۔ بخشو اور رحمو جیسے‘ ثواب‬ ‫کمانے کی غرض سے چلے آئے تھے۔ تکلفا چلے آئے والوں‬ ‫نے‘ جنازہ کے بعد‘ راحت مرزا کے سالوں وغیرہ کو‘ هللا کا‬ ‫حکم کہا‘ اور چلتے بنے۔ ثوابی حضرات بھی‘ چلتے بنے‘ ہاں‬ ‫البتہ بخشو اور رحمو‘ قبرستان تک چلے آئے۔ نہ بھی آتے‘ تو‬ ‫کچھ فرق نہیں پڑنا تھا۔‬ ‫میت دفنانے میں‘ ابھی کچھ وقت باقی تھا۔ وہ دونوں‘ ایک پکی‬ ‫قبر پر آ بیٹھے۔ ان دونوں نے‘ راحت مرزا کی زندگی پر خوب‬ ‫تبصرہ کیا۔ درمیان میں‘ ماسٹر منظور صاحب کا ذکر چھڑ گیا۔‬


‫ماسٹر منظور صاحب نے‘ صرف چار جماعت تک تعلیم حاصل‬ ‫کی تھی۔ مزدوری کرتے تھے۔ ‪ ٢٥٩٩‬میں فوج میں بھرتی ہو‬ ‫گیے۔ جنگ ‪ ٢٥٩٩‬کے بعد‘ ریزرو بھیج دیے گیے۔ پھر انہیں‘‬ ‫چناب رینجرز میں‘ بھرتی ہونے کا موقع مل گیا۔ بال کے ذہین‬ ‫اور محنت تھے۔ یہاں ان کی مالقات‘ ایک سیدزادے سے ہو‬ ‫گئی۔ وہ بھی چناب رینجرز میں‘ باطور نرسنگ حوال دار‘‬ ‫فرائض انجام دے رہے تھے۔ انہوں نے منظور صاحب کو تین‬ ‫ہدایات جاری کیں‬ ‫چلتے پھرتے‘ اٹھتے بیٹھتے اور سوتے جاگتے‘ درود پاک‬ ‫پڑھتے رہو‬ ‫مرتے دم تک رزق حالل کھاؤ‬ ‫تعلیم حاصل کرو۔ پھر انہوں نے میٹرک کی کتابیں خرید کر دیں۔‬ ‫منظور صاحب نے‘ ان تینوں باتوں پر‘ دل وجان سے عمل کیا۔‬ ‫جھوٹ والی بات ہے‘ منظور صاحب نے‘ ایم اسالمیات تک تعلیم‬ ‫حاصل کی۔ بعد ازاں ایم اے انگریزی کا امتحان بھی دیا۔‬ ‫منظور صاحب باطور نائیک وائرلس آپریڑ‘ ریٹائر ہو کر آگیے۔‬ ‫اس سید زادے کی ہدایت پر‘ اسکول کھول لیا۔ اس‬ ‫نے‘ اسکول میں اپنے بچوں سے‘ تدریس کے کام کا آغاز کیا۔‬ ‫ایمان داری اور محنت کے سبب‘ پیٹ بھر روٹی میسر آنے لگی۔‬ ‫پورا عالقہ‘ انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ گریبوں کو مفت‬


‫تعلیم دیتے تھے۔ گھر والوں کو‘ ہر سہولت مہیا کرتے تھے۔‬ ‫رشتہ داروں اور ڈھلے والی کے ہر شحص سے‘ ان کا حسن‬ ‫سلوک آج بھی معروف ہے۔‬ ‫زندگی میں‘ انہوں نے بڑی محنت کی‘ اپنوں پرائیوں سے‘‬ ‫محبت کی۔ ان کا خیال رکھا‘ ان کے دکھ سکھ میں شریک‬ ‫ہوئے۔ آڑے وقت میں‘ ان کی مدد کی۔ بیمار پڑ گیے۔ دو سال‬ ‫بیمار رہے۔ پہلے پہل تو بیماری کی جانب‘ کوئی خاص توجہ نہ‬ ‫دی۔ انسان تھے‘ کب تک برداشت کرتے۔ آخر بیماری نے‘ بستر‬ ‫پکڑنے پر مجبور کر دیا۔ تین ماہ بیماری نے خوب رگڑا دیا۔ اس‬ ‫کے باوجود‘ ایک آدھ بار‘ اسکول کا چکر ضرور لگاتے۔ آخری‬ ‫پندرہ دن تو قیامت کے تھے۔ انہیں لنگز کینسر تھا۔ حالل کی‬ ‫کھانے والے تھے۔ گالب دیوی ہسپتال سے‘ عالج کراتے رہے۔‬ ‫کیا ہونا تھا۔ وہ کوئی دھن وان نہیں تھے‘ جو بڑے ہسپتالوں‬ ‫سے‘ عالج کرواتے۔ آخر ایڑیاں رگڑتے رگڑتے‘ دنیا سے چلے‬ ‫گ ی ے۔‬ ‫یار‘ هللا کی بھی کیا حکمت ہے‘ جو اس کے ہر قانوں کی‘ بڑی‬ ‫سینہ زوری سے‘ خالف ورزی کرتا‘ زندگی بھر‘ موج اڑاتا ہے۔‬ ‫مرتے دم تک‘ اس پر کوئی مصیبت نازل نہیں ہوتی۔ موت بھی‬ ‫اس کا حیا کرتی ہے۔ اسے‘ لمحوں کی بھی‘ ازیت اٹھانا نہیں‬ ‫پڑتی۔ ماسٹر منظور جیسے‘ ایمان دار‘ ہم درد اور دوسروں کی‬ ‫مدد کرنے والے‘ پرازیت زندگی گزار کر‘ عبرت ناک موت مرتے‬


‫ہیں۔‬ ‫یار‘ قدرت کا یہ کیسا طور اور چلن ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا‘ کہ‬ ‫ایمان داری کی زندگی گزارنے والے‘ احمق ہیں۔ ہر کسی کو‘‬ ‫راحت مرزا کا چلن لینا چاہیے۔ اچھائی‘ ایمان داری‘ محنت‘ خدا‬ ‫خوفی‘ دوسروں کا درد وغیرہ‘ سب پاکھنڈ ہے۔ راحت مرزا کی‬ ‫زندگی‘ ہی اصل زندگی ہے۔ ہم نے تو‘ یوں ہی بے کار زندگی‬ ‫گزار دی ہے۔‬ ‫باتوں ہی باتوں میں‘ انہیں وقت گزرنے کا‘ احساس تک نہ ہوا۔‬ ‫راحت مرزا کی قبر پر‘ پھول چڑھ چکے تھے۔ مولوی صاحب‬ ‫دعا مانگ رہے تھے۔ ہر کسی نے‘ دعا کے لیے‘ ہاتھ اٹھا‬ ‫رکھے تھے۔ کسی کو مرنے والے کی بخشش وغیرہ سے‘ کوئی‬ ‫دل چسپی نہ تھی۔ رسمی سہی‘ دس پندرہ لوگوں کے‘ ہاتھ اٹھے‬ ‫ہوئے تھے۔ مولوی صاحب نے‘ بہرطور اپنا فریضہ نبھایا۔ وہ‬ ‫چلے‘ تو سب چل دیے۔ راحت مرزا کا رول ختم ہو چکا تھا۔‬ ‫اسٹیج پر‘ اس کے سالے‘ آ گیے تھے۔ اب انہیں‘ اپنی اداکاری‬ ‫کے جوہر دکھانا تھے۔‬ ‫رحمو ساری رات‘ سو نہ سکا۔ اسے یوں لگا‘ جیسے اس نے‘‬ ‫ساری زندگی‘ بےکار میں گزار دی ہو۔ زندگی انہیں معتبر رکھتی‬ ‫ہے‘ جوعیش کرتے ہیں۔ وہ جزا سزا کے فلسفے سے متعلق‬ ‫نہیں ہوتے۔ فرشتہءاجل بھی انہیں آسانیاں فراہم کرتا ہے۔ ماسٹر‬ ‫منظور صاحب سے لوگ‘ اچھائی کرکے‘ زندگی میں ہی‘ اچھائی‬


‫کی سزا بھگتتے ہیں۔ اچھائی کا فائدہ ہی کیا‘ جو اس کی جزا‬ ‫ملنا نہیں‘ بلکہ سزا کے دوزخ سے ہی گزرنا ہے۔ اس نے‬ ‫فیصلہ کر لیا‘ کہ وہ اب‘ راحت مرزا سے بڑھ کر‘ انھی ڈال دے‬ ‫گا۔ هللا‘ انھی مچانے والوں کو ہی پسند کرتا ہے۔‬ ‫ساری رات آنکھوں میں گزارنے کے باعث‘ اسے گہری نیند نے‬ ‫آ لیا۔ خواب میں‘ اسے ماسٹر منظور صاحب ملے۔ وہ بالکل‬ ‫صحت مند تھے اور سفید لباس میں‘ فرشتہ لگ رہے تھے۔ ان‬ ‫کے چہرے پر‘ مسکراہٹ تھی۔ بیمار اور تندرست منظور صاحب‬ ‫میں‘ زمین آسمان کا فرق تھا۔ فرمانے لگے‬ ‫رحمو‘ نیکی کے رستے سے‘ رائی بھر ادھر ادھر نہ ہونا۔ میں‬ ‫انسان تھا‘ نادانستہ سہی‘ مجھ سے غلطیاں تو ہوتی رہتی تھیں۔‬ ‫هللا نے‘ دو سال مجھے معافی مانگنے کا‘ موقع دیا۔ آخری تین‬ ‫ماہ‘ لوگوں نے‘ میرے لیے دعائیں کیں۔ ان کی دعاؤں نے‘‬ ‫مجھے هللا کی رحمت سے‘ مایوس ہونے سے بچایا۔ میں ہر‬ ‫لمحہ‘ هللا کی عطا و رحمت کا امید وار رہا۔ آخری پندرہ دن‘ یقینا‬ ‫بڑے درد ناک اور کرب ناک تھے۔ جانتے ہو‘ یہ ہی میری پوری‬ ‫زندگی کا حاصل تھے۔ میری حالت پر‘ لوگوں کو ترس آنے لگا۔‬ ‫لوگوں نے‘ خلوص نیتی سے میرے گناہوں کی بخشش کے‬ ‫لیے‘ دعا کی۔ هللا انہیں اجر دے۔ میری موت اور راحت مرزا کی‬ ‫موت کا موازنہ کرو‘ لوگ تو لوگ‘ اسے خود‘ اپنے گناہوں کی‬ ‫توبہ کا موقع نہ مل سکا۔ دنیا میں‘ راحت مرزا سے زیادہ‬


‫بدنصیب‘ اور کون ہو گا۔ ذرا غور تو کرو۔‬ ‫ماسٹر منظور صاحب کی‘ شہد آمیز باتیں جاری تھیں‘ کہ باہر‬ ‫دروازے پر دستک ہوئی۔ وزیر بیگم نے‘ اسے جگا دیا۔ دروازے‬ ‫پر بخشو تھا‘ اور اس کے منہ میں‘ ایک تنخواہ بونس میں‬ ‫ملنے کی‘ خوش خبری تھی۔ اس نے سن رکھا تھا‘ کسی نیک‬ ‫کے متھے لگنے سے‘ بھاگ کھل جاتے ہیں۔ اس کا جیتا جاگتا‬ ‫ثبوت بخشو‘ اس کے رو بہ رو کھڑا تھا۔ اس نے سوچا‘ جب‬ ‫هللا‘ اپنی جناب سے عطا کر دیتا ہے‘ تو دو نمبری کمائی کی‬ ‫طرف‘ قدم بڑھانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اسے هللا نے‘ کل کی‬ ‫غلیظ سوچ پر‘ توبہ کا موقع فراہم فرما دیا تھا۔ هللا کے اس‬ ‫احسان پر‘ اس کا سر تشکر سے جھک گیا۔‬

‫پہال قدم‬

‫نواب غالم حسین مزاجا اور عادتا‘ دوسرے نوابوں سے‘ کسی‬ ‫طرح مختلف نہ تھا۔ پتہ نہیں‘ پیر خدا بخش‘ اس کے ساتھ‬ ‫کیسے چل رہے تھے۔ سچے اور غیرت مند لوگ‘ نواب غالم‬


‫حسین جیسوں سے‘ کنارہ کشی میں ہی‘ عافیت سمجھتے ہیں۔‬ ‫آگ اور پانی ایک ساتھ چل رہے تھے۔ پیر خدا بخش کے‘ تقوی‘‬ ‫پرہیزگاری‘ قناعت اور خدا ترسی سے انکار‘ سراسر بددیانتی‬ ‫کے مترادف ہے۔ انہیں کبھی‘ کسی کے سامنے‘ ہاتھ پھیالتے‬ ‫نہیں دیکھا گیا۔ کبھی کسی سے‘ مریدانہ وصولتے بھی‘ نہیں‬ ‫دیکھا گیا۔ ہاں بانٹتے‘ بیسیوں بار دیکھا گیا۔ ان کے باپ داد‘ا‬ ‫پیری مریدی کے پیشہ سے‘ وابستہ تھے۔ جو ملتا‘ ہضم کر‬ ‫جاتے تھے۔ فرمائش میں‘ عار محسوس نہ کرتے تھے۔‬ ‫پیر خدا بخش‘ عجیب نیچر کے شخص تھے‘ ان کے بزرگ‘‬ ‫ضرورت مندوں سے‘ وصول کر‘ ان کے لیے دعا کرتے تھے۔‬ ‫یہ ضرورت مندوں کی‘ ناصرف ضرورت پوری کرتے‘ بلکہ ان‬ ‫کے لیے دعا بھی مانگتے۔ انہوں نے‘ بزرگوں کی جمع پونجی‘‬ ‫اس طرح لٹا دی تھی۔ ذاتی خرچہ‘ ایک آڑھت پر منشی گیری‘‬ ‫کرکے پورا کرتے۔ پیروں واال‘ ایک بھی چاال‘ ان میں موجود نہ‬ ‫تھا۔ اس حقیقت کے باوجود‘ لوگ ان کی بڑی عزت کرتے تھے۔‬ ‫اس کی شاید وجہ یہ تھی‘ کہ وہ سراپا مہر و شفقت تھے۔ کسی‬ ‫کی پریشانی اور دکھ سن کر‘ بےچین وبےکل ہو جاتے۔‬ ‫پیر صاحب کا یہ انداز‘ میرے لیے حیران کن تھا‘ کہ ایک طرف‬ ‫فقیرانہ زندگی‘ تو دوسری طرف نواب غالم حسین جیسے کرپٹ‬ ‫اور بدقماش شخص سے بھی‘ میل موالقات رکھتے ہیں۔‬ ‫دوسرے تیسرے‘ اس کے ہاں چلے جاتے۔ اس سے‘ ان کا کوئی‬


‫کام بھی نہیں تھا‘ اور ناہی کسی قسم کی‘ مالی غرض وابستہ‬ ‫تھی۔ وہ تو‘ کسی کو‘ جوں مار کر نہیں دیتا تھا۔ ہاں البتہ‘ چھینا‬ ‫اوربٹورنا خوب خوب جانتا تھا۔ پیر صاحب کے ساتھ موڈ اچھا‬ ‫ہوتا‘ تو ہنس ہنس کر باتیں کرتا‘ ورنہ نظرانداز کرتا۔ پیر صاحب‬ ‫تھے‘ ہر دو صورتوں کو‘ برابر لے رہے تھے۔ کوئی ایک بار‬ ‫نظرانداز کرتا ہے‘ تو آدمی‘ دوسری بار‘ ادھر کا رخ بھی نہیں‬ ‫کرتا۔ هللا جانے‘ پیر صاحب کس مٹی سے اٹھے تھے‘ کہ اس‬ ‫پلید کا یہ انداز‘ برداشت کر جاتے۔ سامنے کھانے کی پڑی‬ ‫چیزوں کو‘ ہاتھ تک نہ لگاتے۔‬ ‫ایک دن پتا چال‘ کہ پیر صاحب نے‘ گلے میں رسی ڈال کر‘ پہایا‬ ‫لے لیا ہے۔ بڑی حیرت کی بات تھی‘ کہ پیر صاحب سموتھ‬ ‫زندگی کر رہے تھے۔ پرہیزگار اور باشرع شخص تھے۔ آخر‬ ‫انہوں نے‘ حرام موت کو‘ اپنا مقدر کیوں ٹھہرایا۔ پورے ایریے‬ ‫میں‘ سوال بن کر ابھرے‘ ہر زبان پر‘ الگ سے داستان تھی‘‬ ‫لیکن یہ داستانیں‘ محض قیافے سے‘ گھڑی ہوئی تھیں۔ ان پر‬ ‫یقین کرنا‘ زیادتی کے مترادف تھا۔ مائی صاحبہ‘ یعنی اپنی بیگم‬ ‫کے رویے سے‘ دل برداشتہ ہو کر‘ حرام موت کو گلے لگا لیا۔‬ ‫اس کہانی میں‘ کوئی دم نہ تھا۔ پاس پاس پڑے دو برتن‘ ٹکرا‬ ‫ہی جاتے ہیں۔ ساری عمر‘ مائی صاحب کے ساتھ گزارنے کے‬ ‫پعد‘ اب بڑپے میں‘ گلے میں پہایا ڈال کر‘ خودکشی کرنا یاد آ‬ ‫گئی۔ کیسی احمقانہ کہانی‘ گھڑی گئی تھی۔ دوسری کہانیاں بھی‘‬ ‫بے سروپا تھیں۔ یہ کہانی چوں کہ نواب ہاؤس سے نکلی تھی‘‬


‫اس لیے معتبر خیال کی جا رہی تھی۔‬ ‫پیر صاحب کے کتب خانے میں‘ جہاں اور بہت سی‘ نایاب کتب‬ ‫موجود تھیں‘ وہاں قلمی نسخے بھی موجود تھے۔ پیر صاحب کی‬ ‫موت کے بعد‘ کسی فاتح کی سی پیروی میں‘ سب جال‘ یا ضائع‬ ‫کر دیا گیا۔ اتفاق دیکھیے‘ میں عالقے کی روڑی کے قریب سے‘‬ ‫گزر رہا تھا۔ میں چند لمحوں کے لیے‘ وہاں رکا ۔ جلے کاغذ‘‬ ‫ہوا میں تیر رہے تھے‘ راکھ اڑ رہی تھی۔ اس پرحسرت منظر‬ ‫نے‘ مجھے افسردہ کر دیا۔ زمانے کا یہ عجب دستور ہے‘ کہ‬ ‫جانے والے کی‘ پلی پلی جمع کی گئی‘ یادوں اور فکری‬ ‫سرمائے کو تباہ و برباد کر دیا جاتا ہے‘ تا کہ سچائی حقیقت اور‬ ‫ماضی کے ورثے کو‘ کفن تک میسر نہ کیا جائے‘ اور ماضی‬ ‫کو‘ اپنی مرضی اور منشا کے مطابق‘ استوار کرکے‘ مستقبل کو‬ ‫منتقل کر دیا جائے۔ میں ان ہی سوچوں میں غرق تھا‘ کہ میری‬ ‫نظر ایک نسواری رنک کے لفافے پر‘ پڑ گئی۔ میں جلدی سے‘‬ ‫اس کی جانب بڑھا۔ لفافہ خدا معلوم‘ جلنے سے کیسے بچ گیا‬ ‫تھا۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا‘ وہاں کوئی نہ تھا۔ میں نے‘ وہ‬ ‫لفافہ جیب میں ڈال لیا۔ پھر میں دبارہ سے‘ اس سامان حسرت‬ ‫پر‘ ایک نظر ڈالی‘ اور وہاں سے چل دیا۔‬ ‫گھر آ کر‘ چند لمحوں کے لیے‘ ہاجراں اور بچوں کے پاس‬ ‫بیٹھا‘ پھر میں‘ اپنے کمرے میں آ بیٹھا اور بڑی احتیاط سے‘‬ ‫لفافہ کھوال۔ لفافے میں پیر صاحب کا خط تھا۔ مجھے خط پڑھنے‬


‫کی‘ ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ میں نے دل مضبوط کرکے‘ خط پڑھنا‬ ‫‪:‬شروع کر دیا‬ ‫میری اس تحریر کو پڑھنے والے‘ تو خوش نصیب بھی ہے‘ اور‬ ‫بدنصیب بھی۔‬ ‫خوش نصیب اس لیے‘ کہ جو ذمہ داری تیرے سر پرآنے والی‬ ‫ہے‘ وہ هللا کے پیاروں کے حصہ میں آتی ہے۔‬ ‫بدنصیب اس لیے‘ کہ یہ ذمہ داری اتنی آسان نہیں۔‬ ‫اب تمیہں‘ جہاں دنیا کو نھبانا ہے‘ وہاں هللا کی خوشنودی کے‬ ‫لیے‘ یہ فریضہ بھی انجام دینا ہے۔ میں جاتے جاتے‘ اپنی ذمہ‬ ‫داری نبھا رہا ہوں اور مجھے یقین ہے‘ کہ تم بھی نبھاؤ گے۔ یہ‬ ‫خط تمہیں مال ہے‘ کسی اور کو بھی مل سکتا تھا‘ گویا هللا نے‬ ‫تمہیں چن لیا ہے۔‬ ‫مجھے معلوم تھا‘ کہ جو کام میں کر رہا ہوں‘ اس کے نتیجے‬ ‫میں‘ سدھار آ گیا‘ تو عالقہ جنت نظیر ہو جائے گا‘ اگر نہ آیا‘ تو‬ ‫میری جان جا سکتی ہے۔ میں باوجود تذلیل‘ نواب غالم حسین‬ ‫کے پاس جاتا تھا۔ انسانی بہبود کا کام کرتے‘ عزت اور بےعزتی‬ ‫کوئی معنؤیت نہیں رکھتے۔ اگر عزت‘ جاہ‘ جنت اور مال و منال‬ ‫کے لیے‘ اچھائی کی‘ تو یہ ذاتی غرض کے لیے ہوئی نا۔ انسان‘‬ ‫پیدا ہی اچھا کرنے کے لیے ہوا ہے۔ اس سے‘ اچھا ہی ہونا‬ ‫چاہیے۔ هللا انسان‘ اور اس کے ہر کیے کو‘ زیادہ جانتا ہے۔‬


‫نواب غالم حسین‘ زمین پر ایک لعنت ہے۔ وہ انسانی‘ عزت‘‬ ‫وقار اور خوش حالی کا‘ کھال دشمن ہے۔ وہ بڑا عیار اور مکار‬ ‫ہے۔ میرے قتل کے سلسلے میں‘ آواز تک‘ منہ سے نہ نکالنا‘‬ ‫ورنہ تم بھی مارے جاؤ گے۔ تمہیں‘ ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ خیر‬ ‫اور نیکی پھیالتے‘ مارے جاؤ گے‘ تو شہید ٹھہرو گے۔ مت‬ ‫بھولنا‘ شہید مرتے نہیں‘ وہ هللا کے ہاں سے‘ خیر کا رزق پاتے‬ ‫ہیں۔‬ ‫بیٹا‘ تمہیں غیر محسوس انداز میں‘ نواب غالم حسین‘ اور اس‬ ‫کے قریبیوں کی‘ اصالح کرنا ہے۔ ہو سکتا ہے‘ تم کامیاب‬ ‫ٹھہرو۔ کامیابی نہ بھی ہوئی‘ اور تم مارے جاؤ‘ تو کوئی بات‬ ‫نہیں‘ تم مرو گے نہیں‘ زندہ رہو گے۔ هللا کوئی اور بندوبست‬ ‫فرما دے گا۔ سفر کو‘ بہرصورت جاری رہنا چاہیے۔‬ ‫میرا مارا جانا‘ ایسی کوئی بڑی بات نہیں۔ پریشان ہونے کی‬ ‫کوئی ضرورت نہیں‘ ایسا ہوتا آیا ہے‘ ہوتا رہے گا۔ یہ معمول کا‬ ‫مسلہ ہے۔ محسن کشی‘ پہلے سے چلی آتی ہے۔ محسن کشوں‬ ‫سے‘ قدرت سب کچھ چھین لیتی ہے‘ اور زمین و آسمان پر‘‬ ‫ذلت و رسوائی‘ ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ حضرت ابراہیم‘ نمرود‬ ‫کے خیر خواہ تھے‘ اس نے صلہ میں اذیت دی۔ حضرت موسی‘‬ ‫فرعون کے ہم درد تھے‘ لیکن وہ محسن کش نکال۔ سقراط‘ خیر‬


‫کی چلتی پھرتی عالمت تھا‘ اسے زہر پالیا گیا۔ حضرت عیسی‘‬ ‫کوئی معمولی شخص نہ تھے۔ وہ‘ جن کا وہ بھال کر رہے تھے‘‬ ‫وہ ہی انہیں صلیب تک لے آیا۔ حضرت دمحم کو‘ اچھا کرنے کے‬ ‫جرم میں‘ پتھر مارے گیے۔ ہر طرح کی ازیت دی گئی۔ حضرت‬ ‫حسین‘ خیر کے رستے پر تھے‘ جن کی بھالئی کر رہے تھے‘‬ ‫اور انہیں جہنم کی آگ سےبچانے کے لیے‘ کوشش کر رہے‬ ‫تھے وہ ہی پرلے درجے کے بدکردار نکلے۔ منصور خیر کا‬ ‫پرچارک تھا‘ کتنی اذیت ناکی سے‘ اسے قتل کیا گیا۔ سرمد میں‘‬ ‫ہند سچائی کا سورچ تھا‘ اس کے ساتھ کیا گیا‘ ہند کا بچہ بچہ‬ ‫جانتا ہے۔‬ ‫شاید تم بھی مارے جاؤ۔ بیٹا‘ ایک دن مرنا تو ہے ہی‘ کیوں نہ‘‬ ‫انسان کی موت مرا جائے۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں‘‬ ‫محسن کش‘ ابتر مرتے ہیں۔ قدرت ان سے‘ سب کچھ چھین لیتی‬ ‫ہے۔ نمرود چار سو سال‘ ذلت اٹھاتا رہا اور پھر ذلت کی موت‬ ‫مرا۔ فرعون کو‘ لمحہ بھر کو‘ چین میسر نہ تھا‘ اور برے انجام‬ ‫کو پنچا۔ سقراط کی موت کے بعد‘ یونان کو‘ کوئی زوال سے نہ‬ ‫بچا سکا۔ عیسی کی‘ خیر خواہی کے قاتل‘ بےنام ونشان ہو گیے۔‬ ‫دمحم کی‘ انسان دوستی کے دشمنوں کو‘ دمحم ہی کے قدموں میں‘‬ ‫پناہ ملی۔ حسین کے قاتلوں کو‘ طبعی موت نصیب نہ ہوئی‘ اور‬ ‫پھر بنو امیہ کے اقتدار کو‘ اندر ہی اندر گھن کھانے لگا۔ منصور‬


‫کے بعد‘ لعنتی مقتدر‘ ارضی اور سماوی لعنتوں کا شکار ہو گیا۔‬ ‫سرمد کا قاتل‘ سرمد کے قتل کے بعد‘ اڑتالس سال برسراقتدار‬ ‫رہا۔ ایک لمحہ کے سکون ترستا مرا‘ اور پھر‘ مغلیہ اقتدار پر‬ ‫ذلت و خواری مسلط ہو گئی۔ انسانیت کے محسنوں کے قاتلوں‬ ‫کا‘ یہ ہی انجام ہوا کرتا ہے۔‬

‫بیٹا‘ یہ سب کچھ اس لیے لکھ گیا ہوں‘ کہ سچائی‘ ہر حال میں‬ ‫سچائی ہے۔ سچے لوگ ہی‘ هللا کے ہاں‘ مععتبر ٹھہرتے ہیں۔‬ ‫گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ تمہیں زندگی کے ہر موسم میں‘‬ ‫بڑے غیرمحسوس انداز میں‘ نواب غالم حسین کو‘ خیر کی‬ ‫طرف مائل و قائل کرتے رہنا ہے۔ کام شروع کرو گے‘ تو هللا کی‬ ‫طرف سے‘ برکت کا‘ نزول ہوتا رہے گا۔ فکر نہ کرو‘ تم یہ سب‬ ‫کر سکو گے۔ میں یقین کے ساتھ‘ کہہ سکتا ہوں کہ هللا نے‘‬ ‫تمہیں چن لیا ہے۔‬ ‫هللا تمہار ہر قدم پر‘ حامی و ناصر ہو۔‬ ‫فقط‬ ‫خدا بخش‬


‫پیر صاحب‘ مجھے عجب ذمہ داری‘ سونپ رہے تھے۔ مجھے‬ ‫خود ہدایت کی ضرورت ہے‘ میں کسی کو‘ کیا ہدایت دے سکتا‬ ‫ہوں۔ میں پیر فقیر تھوڑا ہوں۔ میرے باپ دادا نے‘ یہ کام نہیں‬ ‫کیا‘ میں کیا کر سکوں گا۔‬ ‫پھر میں نے سوچا‘ یہ نیکی کیا ہوتی ہے۔ میں دیرتک سوچتا‬ ‫رہا۔ آگہی کے دروازے کھلتے گیے۔ یہ کوئی ایسی پچیدہ بات‬ ‫نہیں‘ سیدھی سادھی بات ہے۔‬ ‫زنا‘ چوری‘ ہیرا پھیری‘ دغا بازی‘ ظلم‘ زیادتی‘ حق تلفی‬ ‫وغیرہ نہ کرو لوگوں کو اس سے بچنے کی تلقین کرو۔‬ ‫سچ بولو‘ سچ بولنے کی ہدایت کرو‬ ‫انصاف کرو‘ انصاف کرنے کے لیے لوگوں کو کہو۔‬ ‫دکھ درد میں‘ لوگوں کے کام آؤ۔‬ ‫کسی دوسرے کا‘ مال غصب نہ کرو۔‬ ‫صبر کرو‘ برداشت سے کام لو‘ اورمعاف کر دو۔‬ ‫وہ مانیں نامانیں‘ تم انہیں کہتے رہو۔‬ ‫میں دیر تک سوچتا رہا‘ پھر میں نے‘ یہ داری اٹھانے کا‘ فیصلہ‬ ‫کر ہی لیا۔ میں نے پیر صاحب کے خط کو‘ چوما‘ سینے لگایا۔‬


‫سکون‘ اطمنان اور ایک ٹھنڈک سی قلب وجان میں اتر گئی۔‬ ‫پھر ہاجراں‘ غصے سے بھری‘ کمرے میں داخل ہوئی‘ اور‬ ‫میری غیر ذمہ داریوں کا رونا‘ رونے بیٹھ گئی۔ سچی بات تو یہ‬ ‫ہی ہے‘ کہ وہ سچی تھی‘ اور مجھے میری کوتاہیوں کا‘ آئینہ‬ ‫دے رہی تھی۔ اس کے چیخنے اور چالنے پر‘ میرا غصہ بنتا ہی‬ ‫نہ تھا۔ وہ دیر تک‘ بولتی رہی‘ میں سر جھکا کر‘ اپنی کوتاہیوں‬ ‫پر‘ مر مر مٹی ہوتا رہا۔ اچھی اور سچی بات کرنے واال‘ شاباش‬ ‫کا مستحق ہوتا۔ جب وہ چپ ہوئی‘ تو میں نے‘ اس کی طرف‘‬ ‫مسکرا کر دیکھا‘ اور سوری کی۔ وہ حیران تھی‘ کہ آج مجھے‬ ‫کیا ہو گیا ہے۔ تھوڑی دیر تک‘ منہ کھولے بیٹھی رہی اور پھر‬ ‫مسکراتی ہوئی ‘ اٹھ کر چلی گئی۔‬ ‫یقین مانیے‘ اس وقت‘ اس کے چہرے پر‘ گالبوں کا حسن اتر‬ ‫آیا تھا۔ رات کا سماں ہوتا‘ تو چاند‘ اس کے چہرے کی روشنی‬ ‫دیکھ کر‘ شرمندگی کی کھائی میں جا گرتا۔ سچائی کی جیت کا‘‬ ‫یہ پہال قدم تھا۔‬


‫اسے پیاسا ہی رہنا ہے‬ ‫کریم بخش صاحب‘ سابقہ فوجی تھے۔ بچوں کی شادی سے فارغ‬ ‫ہو چکے تھے۔ اب دونوں میاں بیوی‘ اپنے آبائی مکان میں‘‬ ‫زندگی بسر کر رہے تھے۔ شدید بڑھاپے کے باوجود‘ بڑے الڑٹ‬ ‫اور رکھ رکھاؤ کی زندگی‘ بسر کر رہے تھے۔ جہاں کہیں‘ کوئی‬ ‫مسلہ اٹھتا‘ اس کے حل کے لیے‘ پیش پیش رہتے۔ ڈسپلن‘ ان‬ ‫کی رگ وپے میں رچ بس گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا‘ کہ ڈسپلن کے‬ ‫بغیر زندگی متوازن نہیں ہو سکتی۔ آج بےچینی‘ بےسکونی اور‬ ‫چھینا جھپٹی‘ ڈسپلن سے انحراف کے باعث ہے۔ وہ صرف‬ ‫کہتے ہی نہیں تھے‘ بلکہ ان کی اپنی زندگی بھی‘ اسی کے تحت‬ ‫گزری۔‬ ‫سالم دعا والے تھے‘ کوئی کام بھی‘ پہلے کروا سکتے تھے۔‬ ‫قطار میں کھڑے ہوتے‘ اور اپنی باری پر‘ کام کرواتے تھے۔‬ ‫ٹائم کے بڑے پابند تھے۔ جہاں جانا ہوتا‘ مقررہ وقت پر جاتے۔‬ ‫لوگ لیٹ جانے میں‘ فخر محسوس کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا‘‬ ‫جو وقت کی قدر نہیں کرتا‘ کامیاب زندگی گزار ہی نہیں سکتا۔‬ ‫غرض ڈسپلن اور ٹائم کے معاملہ میں‘ بڑے سخت واقع ہوئے‬ ‫تھے۔ وہ صرف کہنے کی حد تک نہ تھے۔ اور کوئی پرواہ کرے‬ ‫یا ناکرے‘ خود کوتاہی نہ کرتے تھے۔‬ ‫صبح ٹھیک پانچ بجے آٹھ کر‘ جملہ حاجات سے فارغ ہو کر‘‬


‫بیٹھک کی صفائی کرتے۔ مجال ہے‘ گرد یا کوئی تنکا تک‘ کہیں‬ ‫نظر آ جاتا۔ پھر نہا دھو کر‘ دھلے اور استری شدہ کپڑے پہن‬ ‫کر‘ بیٹھک میں جا بیٹھتے۔ یوں جلدی جلدی تیاری کر رہے‬ ‫ہوتے‘ جیسے دفتر جانا ہو اور کہیں لیٹ نہ ہو جائیں۔ بیٹھک‬ ‫میں‘ میز کرسی لگی ہوتی‘ جس پر کتاب‘ قلم اور ایک ڈائری‬ ‫پڑی ہوتی۔ لوگوں کا‘ ان کے پاس آنا جانا رہتا تھا۔ کوئی‘ خط‬ ‫لکھوانے کے لیے آ رہا ہے‘ تو کوئی خط پڑھانے کے لیے۔‬ ‫لوگ‘ اپنے کاموں کے سلسلے میں‘ درخواستیں لکھوانے کے‬ ‫لیے آنے۔ غور وفکر کے بعد‘ درخواستیں لکھتے۔ درخواست‬ ‫میں‘ کمال کے نقطے اٹھاتے۔ پڑھ کر‘ عقل دنگ رہ جاتی۔ وہ‬ ‫لوگوں کے یہ چھوٹے موٹے کام‘ مفت میں کرتے تھے۔ جب‬ ‫فارغ ہوتے‘ کتاب پڑھنے بیٹھ جاتے۔ ان کے پاس‘ کتابوں کا‬ ‫اچھا خاصا‘ ذخیرہ تھا۔ ان میں‘ شاعری‘ ناول اور تاریخ کی بھی‬ ‫کتابیں تھیں۔‬ ‫اصولی باتوں پر سمجھوتا کرنا‘ انہوں نے سیکھا ہی نہ تھا۔‬ ‫ایک بار‘ وہ اپنے بیٹے سے بھی خفا ہو گیے۔ ہوا یہ‘ کہ ان کا‬ ‫بڑا بیٹا‘ جو بڑا ماڈرن قسم کا تھا‘ هللا کا‘ اے چھوٹا ڈالتا تھا۔‬ ‫انہوں نے اسے‘ کئی بار‘ هللا کا اے‘ بڑا ڈالنے کے لیے کہا۔ اس‬ ‫کے باوجود‘ وہ هللا کا اے چھوٹا ڈالتا رہا۔ انہوں نے اسے بڑے‬ ‫سخت انداز میں ڈانٹا۔‬ ‫جوابا طاہر نے کہا‪ :‬ابو بڑا ہو یا چھوٹا‘ اس سے کیا فرق پڑتا‬


‫ہے۔‬ ‫کیا فرق پڑتا ہے‘ یہ تم کیا پکتے ہو۔ کیا هللا اسم خاص نہیں ہے!‬ ‫اگر ہے تو اصولی طور پر‘ اے بڑا ہی ڈالنا چاہیے۔ یہ اصول کی‬ ‫کھلی خالف ورزی ہے۔‬ ‫دوسرا جو شخص‘ اپنے هللا کی‘ عزت نہیں کرتا‘ گویا وہ اپنی‬ ‫عزت نہیں کر رہا ہوتا۔ ایسا شخص‘ دوسروں کی خاک عزت‬ ‫کرے۔ زندگی کا ہر قرینہ‘ ادب سے وابستہ ہے۔ ۔۔۔۔۔۔باادب بامراد‘‬ ‫بے ادب بے نصیب۔‬ ‫اس سے‘ انہوں نے‘ بول چال ہی بند کر دی۔ طاہر نے‘ توبہ کی‬ ‫اور اس گستاخی کی‘ ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی۔ دیکھنے میں‘‬ ‫یہ کوئی‘ ایسا بڑا معاملہ نہیں لگتا‘ لیکن اپنی اصل میں یہ‬ ‫معاملہ معمولی نہیں ہے۔‬ ‫ایک دن میں اور فتح خاں‘ ان کی بیٹھک میں جا بیٹھے۔ وہ‬ ‫مطالعہ کر رہے تھے۔ سالم کا جواب دینے کے بعد‘ بیٹھ جانے‬ ‫کا اشارہ کیا۔ پیرہ ختم ہونے کے بعد‘ انہوں نے ہماری طرف‬ ‫بڑی شفقت اور پیار سے دیکھا۔ اس کے بعد‘ چائے پانی کا‬ ‫پوچھا۔‬ ‫ہم نے کہا‪ :‬نہیں جناب‘ اس کی کوئی ضرورت نہیں۔‬ ‫پھر مجھے مخاطب کرکے بولے‪ :‬جی ماسٹر صاحب‘ آج آنے کی‬ ‫کیسے زحمت اٹھائی۔‬


‫سر ایک مسلے پر‘ آپ سے گفت گو کرنے کا‘ ارادہ لے کر‬ ‫حاضر ہوئے ہیں۔‬ ‫تو پھر بالتکلف کہیے‬ ‫بچپن میں ایک کہانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پیاسا کوا۔۔۔۔۔۔۔۔ پڑھا کرتے تھے۔ آج‬ ‫بھی‘ وہ ہی کہانی‘ کورس میں شامل ہے۔‬ ‫ماسٹر صاحب‘ یہ کہانی‘ ہمارے کورس میں بھی شامل تھی اور‬ ‫اس کہانی کو‘ کورس میں شامل رہنا ہے۔ کوئی عام آدمی ہوتا‘‬ ‫تو ہمیں ڈانٹ پال کر کہتا‘ یہ بھی کوئی سوال ہے۔ ہوش کے‬ ‫ناخن لیں‘ اور کوئی ڈھب کا سوال کریں۔ انہوں نے تو دانش کے‬ ‫دریا بہا دیے۔ ان کی گفت گو میں‘ کمال کی روانی تھی۔ سچی‬ ‫بات ہے‘ میں عش عش کر اٹھا۔ مجھے اپنی کوڑ مغزی پر‘ دکھ‬ ‫ہوا۔ مجھے تو‘ ہفتے میں ایک دو بار‘ ان کے پاس بیٹھنا چاہیے‬ ‫تھا۔‬ ‫کہنے لگے تمہیں یا مجھے‘ گنتی کے سالوں سے‘ کوا پیاسا‬ ‫نظر آ رہا ہے۔ کوا تو ہزاروں سال سے‘ پیاسا ہے اور اسے‬ ‫پیاسا ہی رہنا ہے۔ وہ اس مشقت میں پڑا آ رہا ہے۔ هللا تمیں‘‬ ‫مزید سو سال زندگی دے۔ لکھ لو‘ سو سال بعد بھی‘ تم کوے کو‘‬ ‫پیاسا ہی دیکھو گے۔ محنت کے بعد بھی‘ کنکریاں چوسنے کو‬ ‫ملتی ہیں۔ وہ بھی تو پیاسی ہوتی ہیں۔ پانی سے ماالقات کے‬ ‫بعد‘۔۔۔۔۔۔۔ اول خویش بعد درویش۔۔۔۔۔۔ کے مصداق‘ وہ اپنی پیاس‬ ‫بجھائیں گی۔ اہل ثروت‘ گھڑا خالی کرکے‘ گیے تھے۔ گھڑا انہوں‬


‫نے‘ خود سے نہیں بھرا تھا۔ گھڑا بھر کر النے واال‘ کوئی اور‬ ‫ہوتا ہے۔ بھرنے والے کو‘ اس میں سے‘ ایک گھونٹ نہیں ملتا۔‬ ‫حاالں کہ پہال استحقاق‘ اسی کا ہوتا ہے۔ استحقاق کا تسلیم نہ‬ ‫ہونا‘ ہی تو معاشی ڈسپلن کو ڈسٹرب کرنے کے مترادف ہے۔‬ ‫کیا شداد نے‘ اپنے خون پسینے کی کمائی سے‘ ارم تعمیر کیا‬ ‫تھا۔‬ ‫نہیں‘ بالکل نہیں۔ کمائی تو لوگوں کی تھی۔‬ ‫فرعون‘ جس ٹھاٹھ سے رہتے تھے‘ اس کا تصور بھی‘ آج کے‬ ‫حکم ران نہیں کر سکتے۔ مرتے تو‘ ناصرف عمارت تعمیر ہوتی‬ ‫ساز و سامان اور خدام بھی‘ ساتھ میں بند کر دیے جاتے۔ کیا یہ‬ ‫سب‘ ان کی کمائی سے کیا جاتا تھا۔ انہیں‘ کوے کی پیاس سے‬ ‫کوئی غرض نہ تھی۔‬ ‫یونان کے برسر اقتدار طبقے کا‘ رہن سہن کھانا پینا اور شان و‬ ‫شوکت مثالی تھی۔ یہ سب‘ انہیں ذاتی مشقت کا صلہ مل رہا تھا۔‬ ‫کوے کو‘ گھڑا تب بھی خالی ملتا تھا۔ یہ تو کافی پہلے کی باتیں‬ ‫ہیں‘ کیا شاہ جہاں نے‘ پلے داری کرکے‘ پیسے کمائے اور پھر‬ ‫اس سے‘ تاج محل تعمیر کیا۔ لوگوں کا مال تھا‘ اسی لیے مال‬ ‫مفت دل بےرحم کی سی بات تھی۔‬ ‫ملکہ نور جہاں‘ جسے جہاں گیر نے‘ اس کے خاوند کو‘ جنگ‬ ‫میں مروا کر‘ حاصل کیا‘ اس کا مقبرہ اتنی لمبی چوڑی زمین پر‬


‫تعمیر کروایا‘ جو خرچہ اٹھا‘ کیا وہ اس کی محنت کی کمائی‬ ‫‘سے‬ ‫اٹھا تھا۔ نورجہاں ہو‘ کہ ممتاز محل‘ نبی زادیاں تھیں‘ نبی زادی‬ ‫کی تو قبر بھی بلڈوز کر دی گئی۔ پانی بھرنے والوں کو‘ ایک‬ ‫گالس پانی نصیب نہ ہوا۔ کوے کو کس طرح میسر آ جاتا۔ گورا‬ ‫ہاؤس اور اس کے گماشتوں کے‘ ایوان جا کر دیکھو‘ پھر‬ ‫سوچنا‘ کوا آج بھی‘ ترقی یافتہ دور میں‘ کیوں پیاسا ہے۔‬ ‫عام آدمی کے حصہ میں‘ جوٹھ میٹھ بھی‘ بڑے سرفہ کی آتی‬ ‫ہے۔ جوٹھ میٹھ پر‘ ایوانوں کے گماشتے ٹوٹ پڑتے ہیں۔ وہاں‬ ‫سے‘ جو بچتا ہے‘ وہ لوگوں کو میسر آتا ہے۔ ایسے حاالت‬ ‫میں‘ کوے کی پیاس‘ کس طرح بجھ سکتی ہے۔ یہ سب‘ معاشی‬ ‫ڈسپلن میں خرابی کے سبب ہوا‘ اور ہو رہا ہے۔‬ ‫سر آپ جو فرما رہے درست فرما رہے ہیں۔ کیا یہ پیاس‘ آبادی‬ ‫بڑھ جانے کے سبب نہیں ہے۔‬ ‫ناں ناں‘ ناں یہ سب بکواس‘ اور هللا کے رازق ہونے سے‘‬ ‫انکار کے مترادف ہے۔ ہر پیدا ہونے واال‘ اپنا رزق لے کر پیدا‬ ‫ہوتا ہے۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا‘ کہ اس کا رزق‘ اس کے ساتھ‬ ‫نہ آئے۔ اس کا رزق ارم بنانے والوں‘ یا اس کا رزق کھا کر‘ مر‬ ‫جانے والوں کو‘ فراہم کیا جاتا ہے۔ ماسٹر صاحب‘ یہاں شخص‬ ‫ہزاروں سال سے‘ بھوکا پیاسا ہے۔ ایسے حاالت میں‘ کوے کی‬ ‫پیاس کون دیکھتا ہے۔ اسے پیاسا ہی رہنا ہے۔ هللا نے‘ اس کے‬


‫حصہ میں پیاس نہیں رکھی۔ معاشی ڈسپلن کو‘ تباہ کرنے کے‬ ‫باعث‘ کوے کی پیاس نہیں بجھ رہی۔‬ ‫باتیں ہو رہی تھیں‘ کہ فجا آرائیں آ گیا۔ اس نے سالم بوالیا‘ اور‬ ‫راشن کارڈ کے مطابق‘ راشن نہ ملنے کے خالف درخواست‬ ‫لکھنے کی‘ گزارش کی۔ فوجی صاحب نے‘ بات وہیں ختم کر دی‬ ‫۔ ہمیں مخاطب ہو کر کہا‘ سوری ماسٹر صاحب‘ معاشی ڈسپلن‬ ‫کی خرابی کا‘ کیس آ گیا ہے۔ پہلے اسے نپٹانے کی ضرورت‬ ‫ہے۔ پھر وہ‘ درخواست لکھنے میں مصروف ہو گیے۔ ہمیں یوں‬ ‫نظرانداز کر دیا‘ جیسے ہم وہاں موجود ہی نہ ہوں۔‬

‫یہ کوئی نئی بات نہ تھی‬

‫حامد صاحب اور شکیل صاحب‘ گہرے دوست ہی نہیں‘ کالس‬ ‫فیلو بھی تھے۔ دونوں نے پہلی جماعت سے بی اے تک‘ اکٹھی‬ ‫تعلیم حاصل کی۔ حامد صاحب نے‘ الء کالج میں داخلہ لے لیا‘‬ ‫جب کہ شکیل صاحب ایم اے نفسیات کرنے کے لیے‘ الہور چلے‬ ‫گیے۔ حامد صاحب وکیل بن کر ضلع کچہری میں وکالت کا پھٹا‬


‫لگا کر بیٹھ گیے۔ شکیل صاحب نے بھی‘ ایم اے نففسیات کر لیا۔‬ ‫پھر وہ لیکچرر منتخب ہو کر‘ کسی کالج میں خدمت انجام دینے‬ ‫لگے۔ جمعرات کو آتے‘ اور جمعہ کی چھٹی گزار کر‘ واپس‬ ‫چلے جاتے۔ درمیان میں کوئی اور چھٹی آ جاتی‘ تو بھی گھر آ‬ ‫جاتے۔‬ ‫جب آتے‘ حامد صاحب سے ضرور مالقات کرتے۔ شاید ہی‘ کوئی‬ ‫چھٹی‘ مالقات کے بغیر‘ گزری ہو گی۔ وہ گھر میں بیٹھنے کی‬ ‫بجائے‘ راج ٹی ہاؤس میں‘ آ بیٹھتے۔ دو دو گھنٹے‘ وہاں بیٹھے‬ ‫رہتے۔اتنی دیر میں‘ تین چار کپ چائے‘ ڈکار جاتے۔ ان کی باتیں‘‬ ‫عمومی دل چسپی سے‘ قطعی ہٹ کر ہوتیں۔۔ یہ ہی وجہ ہے‘ کہ‬ ‫بہت کم لوگ‘ ان کی ٹیبل پر آ کر بیٹھتے تھے۔ بس دور سے‘‬ ‫سالم کرکے‘ کسی دوسری ٹیبل پر‘ بیٹھ جاتے۔ ان کی بحث میں‘‬ ‫گرمی کی شدت بڑھ جاتی۔ بعض اوقات‘ یوں لگتا‘ جیسے لڑ‬ ‫رہے ہوں۔ غور کرنے پر‘ معلوم ہوتا‘ وہ لڑ نہیں رہے‘ ان کا‬ ‫انداز بس لڑنے کا سا ہے۔ حامد صاحب یوں بات کر رہے ہوتے‘‬ ‫جیسے کورٹ میں کھڑے‘ اپنے کسی سائل کی بھرپور انداز‬ ‫میں‘ وکالت کر رہے ہوں۔ شکیل صاحب بھی کچھ کم نہ بولتے‬ ‫تھے۔ ان کی گففت گو پر‘ کالس میں دیے جانے والے لیکچر کا‬ ‫گمان گزرتا۔۔ ہر بات‘ حوالے کے ساتھ کرتے۔‬ ‫باتیں‘ اگرچہ عصری و شخصی مسائل کے متعلق ہوتیں‘ لیکن‬ ‫ان کا انداز گفت گو‘ عوامی نہ ہوتا۔ کچر مچر مارتے رہتے۔ غیر‬


‫سنجیدہ باتوں کے لیے بھی‘ سنجیدہ طرز اظہار اختیار کرتے۔‬ ‫دوران گفت گو‘ اگر کوئی لطیفہ بازی کرتے‘ تو وہ بھی‬ ‫جمہوریت کی طرح‘ ذو معنی اور طرح دار ہوتی۔ وہ خود ہنس‬ ‫پڑتے‘ لیکن وہاں بیٹھا کوئی شخص‘ رونی صورت بنانے کی‬ ‫زحمت تک نہ اٹھاتا۔‬ ‫اس دن‘ اللے دالور کی بیٹی‘ جو اپنے آشنا کے ساتھ‘ رات‬ ‫گھر سے‘ زیور اور نقدی لے کر نکل گئی تھی‘ ان کی گفت گو‬ ‫کا موضوع تھی۔ پہلے مرکب ۔۔۔۔۔ نکل جانا ۔۔۔۔۔ زیر بحث رہا۔‬ ‫پروفیسر صاحب کا موقف تھا‘ لفظ نکل جانا‘ باپ کی انا کو‘ مزید‬ ‫گرزند پنچانے کے مترادف ہے۔ اس سے‘ باپ کا مورال‘ مزید‬ ‫ڈاون ہو گا۔ وکیل صاحب کا موقف یہ تھا‘ کہ دغا دے گئی‘ فریب‬ ‫دے گئی‘ کہہ لو یا نکل گئی کہہ لو‘ بات ایک ہی ہے۔‬ ‫بالکسی نتیجے‘ بات آگے بڑھی۔ وکیل صاحب کے نزدیک‘ ان‬ ‫کے گھر جا کر‘ افسوس کرنا چاہیے۔ قانونی امداد کی پیش کش‬ ‫کرنی چاہیے۔‬ ‫پروفیسر صاحب کا کہنا تھا‘ سردست ان لوگوں کو‘ ان کے حال‬ ‫پر‘ چھوڑ دینا چاہیے۔ وہ شاک میں ہیں‘ اس موضوع پر بات‬ ‫کرنے سے‘ تضحیک کے ساتھ ساتھ‘ یہ امر ذہن کو مشتعل‬ ‫کرنے کے مترادف ہوگا۔‬ ‫اس بحث کا بھی کوئی نتیجہ نہ نکال۔‬


‫حامد صاحب نے کہا‘ نکاح شخص کا‘ فطری اور شخصی حق‬ ‫ہے۔ گھر والوں نے‘ لڑکے کا انتخاب کر لیا یا شخص نے‘ خود‬ ‫اپنا جیون ساتھی چن لیا‘ بات ایک ہی ہے۔ اس میں انسرٹ والی‘‬ ‫کیا بات ہے۔ اگر یہ غلط ہو‘ تو عدالت میں‘ روزانہ ہونے والے‘‬ ‫سیکڑوں نکاح نہ ہوں۔ عدالت‘ انہیں اجازت نامہ جاری کرتی‬ ‫ہے۔ قانون اجازت دیتا ہے‘ تب ہی تو عدالت‘ اجازت نامہ جاری‬ ‫کرتی ہے۔‬ ‫پروفیسر صاحب‘ عدالت کے جاری کردہ پروانوں کو‘ درست‬ ‫تسلیم کر رہے تھے۔ وہ یہ بھی مان رہے تھے‘ کہ عدالت‬ ‫ریاستی قانون کے تحت ہی‘ پروانے جاری کرتی ہے۔ انہیں‘‬ ‫بچوں کے اس طریقہ کار سے اختالف تھا۔ بہت سے‘ ایسے‬ ‫واقعے ہوتے ہیں‘ جس میں والدین کو خبر تک نہیں ہوتی۔ بعض‬ ‫واقعات میں صرف والد بےخبر ہوتا ہے۔‬ ‫وکیل صاحب کا موقف تھا‘ کہ بچے یہ قدم اس وقت ہی اٹھاتے‬ ‫ہیں‘ جب انہیں یقین ہوتا ہے‘ کہ والدین راضی نہیں ہوں گے۔‬ ‫دوسری صورت میں‘ مائیں اور بچے‘ ابا حضور کی ہٹ دھرمی‬ ‫سے‘ آگاہ ہوتے ہیں۔ دنیا کہاں سے‘ کہاں تک پہچ گئی ہے‘ اور‬ ‫ہم ان الیعنی مسائل میں‘ الجھے ہوئے ہیں۔‬ ‫پروفیسر صاحب‘ ان کے اس موقف سے‘ متفق نہ تھے۔ ان کا‬ ‫کہنا تھا‘ کہ اس ذیل میں‘ ہم دوہرے معیار کا شکار ہیں۔ ہم‬ ‫دوسروں کے لیے‘ اس پہلو سے سوچتے ہیں‘ لیکن اپنے لیے‘‬


‫سوچ کا یہ انداز نہیں رکھتے۔ پروفیسر صاحب نے کہا‘ اگر‬ ‫تمہاری بیٹی‘ اس قسم کی بےوفائی کرئے‘ یا تمہاری ماں کسی‬ ‫سے عشق پیچہ ڈال لے‘ اور پھر خلع کا مقدمہ دائر کر دے‘ تو‬ ‫تمہارا کیا ردعمل ہو گا۔‬ ‫وکیل صاحب اچھل پڑے‘ اور کہنے لگے‘ یہ تم کیا بات کر رہے‬ ‫ہو۔ بات سوسائٹی کی ہو رہی‬ ‫ہے‘ اور تم پرسنل ہو گیے ہو۔ میری ماں بیٹی شریف ہیں‘ وہ‬ ‫اس قسم کی‘ کیوں حرکت کریں گی۔‬ ‫پروفیسر صاحب نے‘ فلک بوس قہقہ داغا اور کہا سوچ کا دوہرا‬ ‫معیار‘ سامنےآ گیا نا۔ دوسرا تم خود ہی‘ اسے غیر شریفانہ‬ ‫حرکت‘ قرار دے رہے ہو۔ تمہاری بیٹی اور ماں کے لیے‘ یہ‬ ‫حرکت غیر شریفانہ ہے۔ سوسائٹی کی دوسری عورتوں کے لیے‬ ‫شریفانہ‘ اور ریاستی قانون کے دائرے میں آتا ہے۔‬ ‫قہقہے کے ساتھ ہی‘ انہوں نے چائے کآ آرڈر جاری کر دیا۔ یہ‬ ‫ان کا‘ تیسرا کپ تھا۔ وکیل صاحب نے کیک النے کے لیے بھی‬ ‫کہہ دیا۔‬ ‫وکیل صاحب‘ تھوڑے دھیمے پڑے‘ لیکن وہ اپنی بات پر‘ اڑے‬ ‫ہوئے تھے‘ وہ معاملے کو‘ ذاتیات سے باالتر ہو کر‘ اور‬ ‫سوسائٹی کے تناظر میں‘ دیکھنے پر زور دے رہے تھے۔‬ ‫پروفیسر صاحب‘ فقط ایک قہقے کے بعد ہی‘ سنجیدہ ہو گیے۔‬


‫فرمانے لگے‘ یار ہم مشرقی لوگ ہیں‘ ہماری سوسائٹی پدری‬ ‫ہے۔ اسے مغربی سوسائٹی پر‘ محمول نہ کرو۔ شخص جہاں‬ ‫ریاستی قانون کا پابند ہے‘ وہاں سوسائٹی کےاصولوں کو بھی‘‬ ‫کسی سطح پر نظرانداز نہیں کر سکتا۔ نظرانداز کرئے گا‘ تو‬ ‫سکھ چین سے‘ جی نہ سکے گا۔ ہماری سوسائٹی‘ ماں بہن اور‬ ‫بیٹی کی‘ اس نوعیت کی‘ بےوفائی کی اجازت نہیں دیتی۔ اس‬ ‫سوساٹی میں‘ باپ ہوتا ہے‘ اور وہ ہی امور انجام دیتا ہے۔ وہ‬ ‫اندر باہر کا‘ جواب دہ ہوتا ہے۔ اچھا برا‘ اسی کے سر پر آتا ہے۔‬ ‫وہاں‘ باپ ثانوی درجہ بھی نہیں رکھتا۔ آج امریکا کا طوطی‬ ‫نہیں‘ بھونپو بولتا ہے۔ جاؤ‘ جا کر‘ تاریخ کا مطالعہ کرو‘ پھر‬ ‫تمہیں پتا چل جائے گا‘ کہ وہ برطانیہ سے فرار‘ لٹیروں کی نسل‬ ‫ہیں۔ وہ کیا سوسائٹی بنائیں گے‘ جن کی پیروی میں‘ تم یہ سب‬ ‫کہہ رہے ہو۔‬ ‫اس بات پر‘ حامد صاحب چمکے‘ اور بولے‘ یار کیا بکواس کر‬ ‫رہے ہو‘ میں چھے سال‘ مغرب میں رہا ہوں۔ تمہاری بھابی‬ ‫بھی‘ ادھر سے کی ہے۔‬ ‫دیکھو‘ وکیل ہو کر‘ پوائنٹ دے رہے ہو۔‬ ‫کیا مطلب‬ ‫کیا تم اپنی بیوی‘ یعنی میری بھابی کو‘ اس کی معاشرت کے‬ ‫لباس میں‘ اس کی معاشرت کے مطابق‘ آزادی دے سکتے ہو۔‬


‫نہیں‘ بالکل نہیں۔‬ ‫گویا موصوفہ کو‘ ہمارے معاشرتی لباس اور اصول اپنانا پڑے‬ ‫ہیں نا۔ یہ معاشرتی ضابطے ہیں‘ جو اپنانا پڑتے ہیں۔ ان کو‬ ‫اپنائے بغیر‘ گاڑی نہیں چل سکتی۔‬ ‫یہ راونڈ‘ بالشبہ پروفیسر صاحب کے ہاتھ لگا تھا۔‬ ‫نکاح کیا ہے‬ ‫دو فریقین کی مرضی دریافت کرنا۔ دو فریق‘ بھاگ کر‘ یا کورٹ‬ ‫میرج کر لیتے ہیں۔ کیا یہ فریقین کی مرضی کی صورت نہیں‬ ‫ہے۔ دکھاؤ‘ کہاں گئی تمہاری پروفیسری۔ اسالم جب نکاح کو‘‬ ‫مرضی قرار دیتا ہے‘ تو ہم یا ہماری سوسائٹی‘ اس کی راہ میں‬ ‫کیسےآ سکتی ہے۔ اسالم نے بولتی بند کر دی ناں۔‬ ‫حامد بھائی‘ اسالم ہر عہد کا مذہب ہے‘ اور یہ ہر عہد کے لیے‘‬ ‫جدید ترین مذہب ہے۔ اسالم‘ شخص کو خرافات سے نجات دالتا‬ ‫ہے۔ یہ ہی نہیں‘ یہ انسانی فطرت کا ساتھ دیتا ہے۔ انسان کی‬ ‫خیر خواہی اور ظفر مندی کا خواہاں رہتا ہے۔‬ ‫بالشبہ‘ نکاح‘ طرفین کی ایما دریافت کرنے کا نام ہے‘ اور اس‬ ‫ضمن میں‘ ہر قسم کے‘ جبر کی‘ اسالم مخالفت کرتا ہے۔‬ ‫اسالم‘ حجاب اور محرم نامحرم کے بارے میں بھی‘ کچھ کہتا‬ ‫ہے۔ حجاب کی تاکید کیوں کرتا ہے‘ تاکہ بےحیائی کا رستہ نہ‬


‫کھل جائے۔ حجاب نہ ہونے کی صورت میں‘ مرد اور عورت‬ ‫مسکراہٹ سے‘ معاملے کا‘ آغاز کریں گے۔ پھر قریب قریب‬ ‫بیٹھیں گے۔ یہ بیٹھنا‘ عمومی چھونے کا سبب بنے گا۔ عموم‬ ‫خصوص کی طرف‘ مراجعت کرئے گا۔ نازک اعضا سے‘‬ ‫مخصوص اعضا کو چھونے‘ اور تصرف میں النے کا کام‬ ‫شروع ہو جائے گا۔ موصوفہ کا پیٹ پھولے گا۔ نوبت ابارشن تک‬ ‫پہنچے گی۔ پیٹ نہ بھی پھولے‘ ویرج کا تو ضیاع ہو گا۔ انسانی‬ ‫ویرج‘ کس پائے کی چیز ہے‘ کسی سائنس دان سے‘ جا کر‬ ‫پوچھو۔ وکیل صاحب‘ نکاح سے پہلے‘ یہ سب‘ کیا اسالم درست‬ ‫اور جائز قرار دیتا ہے۔ اسالم نے‘ خرابی روکنے کے لیے ہی‬ ‫تو‘ حجاب کو‘ ازبس ضروری قرار دیا ہے۔‬ ‫حامد صاحب نے‘ گھڑی پر ایک نظر ڈالی‘ اور پھر ایک دم‬ ‫بولے‘ او مائی گاڈ‘ چھوٹے کو‘ ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہے۔‬ ‫پھر وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ اٹھتے ہوئے‘ پروفیسر صاحب بولے‘‬ ‫اب سمجھ میں‘ یہ بات آ گئی ہو گی‘ کہ مادری اور پدری‬ ‫سوسائٹی میں‘ کیا فرق ہوتا ہے۔ باپ ایک ذمہ دار رشتہ ہے۔‬ ‫دکھ سکھ‘ اچھا برا اس کے دامن میں جاتا ہے۔ بیٹی کے دغا‬ ‫دینے پر‘ اسے شاک تو ہو گا۔‬ ‫وکیل صاحب نے‘ جواب میں‘ کیا کہا ہو گا‘ یہ تو معلوم نہ ہو‬ ‫سکا‘ کیوں کہ اس وقت تک‘ وہ ہوٹل سے‘ باہر نکل گیے تھے۔‬ ‫ہاں اتنا ضرور ہے‘ کہ چار چاہیں ڈکارنے‘ اور ڈھائی گھنٹے‬


‫گفت کرنے کے باوجود‘ وہ کسی حتمی نتیجے کا منہ‘ نہ دیکھ‬ ‫سکے تھے۔ یہ کوئی نئی بات نہ تھی‘ ہر بار‘ یہ ہی کچھ ہوتا‬ ‫تھا۔‬

‫دروازے سے دروازے تک‬

‫تین چار سال کی بچی کے ساتھ‘ زیادتی کرنے واال‘ انسانی روپ‬ ‫میں درندہ‘ کئی روز‘ چلتے پھرتے سوتے جاگتے‘ اس کے دل‬ ‫و دماخ پر‘ دکھ اور درد کے ہتھوڑے‘ برساتا رہا۔ انسانی‬ ‫ماررکیٹ میں‘ شوقین ترین عورتوں کی موجودگی میں‘ اس نے‬ ‫چھوٹی سی‘ معصوم سی‘ تین چار سال کی بچی ہی کو‘ کیوں‬ ‫منتخب کیا۔ اتنی چھوٹی بچی کو‘ تو بڑوں کی محبت‘ شفقت‘ الڈ‬ ‫اور پیار میسر آنا چاہیے۔ چھوٹے چھوٹے‘ منہ سے توتلی زبان‬ ‫میں‘ نکلنے والے لفظ‘ تو روح و قلب میں‘ آسودگی اتارتے ہیں۔‬ ‫انہیں اچھلتے کودتے‘ اور اٹھکلیاں بھرتے دیکھ کر‘ انسان‬ ‫بڑے سے بڑا دکھ‘ بھی بھول جاتا ہے۔ ان کی ادائیں اور ناز‬ ‫نخرے‘ دیکھ کر فرشتے کیا‘ ساری آسمانی مخلوق جھوم جھوم‬ ‫جاتی ہو گی۔ اسے بصد غور کرنے کے بعد بھی‘ معلوم نہ ہو‬


‫سکا‘ کہ اس انسان سے شخص کا‘ کیسی اور کہاں کی‘ مخلوق‬ ‫سے تعلق ہو گا‘ جو اس ناقابل یقین سطح پر‘ اتر آئی ہے۔‬ ‫وہ گریب آدمی نہیں تھا کھاتے پیتے گھرانے کا تھا۔ مال کے‬ ‫حوالے سے‘ شوقین مال‘ مل جانا‘ ناممکنات میں نہ تھا۔ جب کام‬ ‫چالنا‘ اور گزرا کرنا ہو‘ تو روزن نشاط کے چھوٹا‘ بڑا یا‬ ‫بےکنار ہونے سے‘ کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ہر دو صورتوں میں‘‬ ‫ٹائم پاس ہو جاتا ہے۔ قبروں پر پھول چڑھتے آئے ہیں‘ ان‬ ‫کھلے غنچے‘ توڑے نہیں جاتے‘ ان کے پھول بننے کا‘ انتظار‬ ‫کیا جاتا ہے۔ جب غنچے قبروں پر چڑھنے لگیں‘ سمجھو‬ ‫گلستان کی اب خیر نہیں۔ ایسے گلستان کے پودے‘ کسی وقت‬ ‫بھی‘ اس سے ڈنگر کا‘ پہوجن بن سکتے ہیں۔ ڈنگر کی آنکھ‘‬ ‫حسن شناس نہیں ہوتی۔ وہ پیٹ ہی سے دیکھتا اور سوچتا ہے۔‬ ‫کسی گھاس خور کا‘ چھوٹا سا بچہ اور اس کی اٹھکیلیاں‘ کسی‬ ‫درندے کے لیے‘ معنویت نہیں رکھتیں۔ اسے دیکھتے ہی‘‬ ‫درندے کو بھوک محسوس ہونے لگتی ہے۔ درندے کی یہ فطرت‬ ‫ہے‘ اور اسی لیے اسے درندہ کہا جاتا ہے۔‬ ‫کافی سوچنے‘ اور غور کرنے کے بعد‘ اسے معلوم ہوا‘ کہ وہ‬ ‫اسی بستی کا باسی تھا۔ اس سے طور اطوار کے‘ بہت سے‘‬ ‫انسان سے‘ اس کے قرب وجوار میں‘ بستے تھے۔ انسانوں کی‬ ‫بستی میں‘ آخر ان کا کیا کام۔ یقینا یہ راکھشش لوک سے‘ یہاں‬ ‫انسانی بہروپ میں‘ وارد ہوئے تھے۔ انسانوں کے ساتھ مل کر‘‬


‫مذہبی امور بھی انجام دیتے تھے‘ بلکہ یہ اس ذیل میں‘ اوروں‬ ‫سے‘ کہیں بڑھ کر تھے۔ چرچ‘ مندر‘ گرو دوارے‘ مساجد وغیرہ‬ ‫میں‘ شریف صورت بنا کر‘ حاضر ہوتے تھے۔ کسی پہٹھے کام‬ ‫کا‘ ان کے متعلق سوچنا بھی‘ گناہ کبیرہ محسوس ہوتا ہے۔‬ ‫اکبر صاحب‘ گریبوں اور بیواؤں کی مدد کرنے میں‘ بڑی شہرت‬ ‫رکھتے تھے۔ وہ ان کی بڑی عزت کرتا تھا۔ اسے ان کا لباس‬ ‫اور چہرہ‘ فرشتوں جیسا لگتا تھا۔ اس نے‘ ان کی آنکھوں کو‘‬ ‫کبھی پڑھنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی تھی۔ مزدور کی‬ ‫مزدوری‘ رو دھو کر عطا کرتے تھے۔ یہ ہی نہیں‘ اس میں‬ ‫ڈنڈی مارنا‘ فرض عین سمجھتے تھے۔ سوہنی گریب خواتین کے‬ ‫لیے‘ بڑا ہی نرم گوشہ رکھتے تھے۔‬ ‫بوڑھا ریٹائر ماسٹر عیسی‘ آج بھی اس کے لیے‘ بڑا محترم اور‬ ‫معزز تھا‘ لیکن وہ اس کے‘ کرتوت نہیں جانتا تھا۔ پنشن لینے‘‬ ‫دور دراز کے گاؤں سے آتا تھا۔ پنشن کلرک حاجی صاحب کو‘‬ ‫نقد نہ سہی‘ گاؤں کی کوئی سوغات‘ گنے وغیرہ‘ تو ال کر دے‬ ‫سکتا تھا۔ مگر کہاں اتنی توفیق۔ حاجی صاحب‘ اس کی پنشن‬ ‫بک‘ سب سے نیچے رکھ دیتے تھے۔ وہ دور کھڑا‘ بک بک‬ ‫کرتا رہتا تھا۔ اس کی بک بک سے‘ حاجی صاحب تنگ آ گیے‬ ‫تھے۔ ایک دن‘ جب آخر میں باری آئی‘ تو حاجی صاحب نے کہا‘‬ ‫یہ لو پنشن بک‘ کل آنا‘ دفتر ٹائم ختم ہو گیا ہے‘ یہ کہہ کر‘‬ ‫کھڑکی بند کر دی۔ ماسٹر نے‘ مندا بولنے کی حد ہی کر دی۔‬


‫اگلے دن بھی‘ حاجی صاحب نے اسے‘ سارا دن کھڑا کیے رکھا۔‬ ‫دفتر ٹائم ختم ہونے کے وقت کہا‘ یہ لو پنشن بک‘ اور حیاتی‬ ‫پروانہ‘ کسی بڑے افسر سے‘ تصدیق کروا کر الؤ۔ ماسٹر پھر‬ ‫بولنے لگا۔ حاجی کا موقف درست تھا پنشن بک کی تصویر‘ ان‬ ‫کی موجودہ شکل سے‘ کسی طرح‘ میل نہ کھاتی تھی۔ اس‬ ‫راکھشش آلواد بستی میں‘ اس کے سوا‘ کوئی ماسٹر کو‘ درست‬ ‫قرار نہیں دے رہا تھا۔ سب حاجی صاحب کے موقف کو‘ درست‬ ‫قرار دے رہے تھے۔ وہ زندہ ہے‘ کا تصدق نامہ النا اشد‬ ‫ضروری تھا۔‬ ‫سوچوں کے اس بےسرے طوفان نے‘ اس کے اعصاب کو‘ بری‬ ‫طرح متاثر کیا۔ ساری دنیا‘ دوسروں کے دکھ درد سے التعلق ہو‬ ‫کر‘ پیٹ پوجا کا سامان‘ اکٹھا کرنے میں مصروف تھی۔ وہ تھا‘‬ ‫کہ اوروں کے لیے‘ سوچ سوچ کر‘ بالوجہ ہلکان ہو رہا تھا۔ ان‬ ‫کے لیے‘ جو اسے خبطی کہتے تھے۔ اور تو اور‘ اس کے گھر‬ ‫والے بھی‘ اسے کریک خیال کرتے تھے۔ وہ اکلوتا کمائی کا‬ ‫ذریعہ تھا‘ اسی لیے‘ اسے باامر مجبوری‘ برداشت کر رہے‬ ‫تھے‘ ورنہ کب کا‘ گھر سے نکال باہر کرتے۔ اب وہ نڈھال سا‬ ‫ہو گیا تھا۔ اس سے چلنا دشوار ہو گیا تھا۔ پھر وہ‘ ایک سڑکی‬ ‫ہوٹل میں‘ داخل ہو گیا۔ اس ہوٹل میں‘ تیسرے اور چوتھے درجہ‬ ‫سے متعلق لوگ‘ چائے وغیرہ پیتے تھے۔‬ ‫ہوٹل میں بڑی گہما گہمی تھی۔ لوگ مختلف موضوعت پر گفت‬


‫گو کر رہے تھے۔ ان کی گفت گو کے حوالہ سے‘ سماجی‘‬ ‫معاشرتی اور شخصی نفسیاتی معامالت کا‘ باخوبی اندازہ لگایا‬ ‫جا سکتا تھا۔ اصل رونا‘ معاش کا رویا جا رہا تھا۔ یوں لگتا تھا‘‬ ‫جیسے ہر کوئی‘ صدیوں کی بھوک‘ اٹھائے پھرتا ہے۔ وہ‬ ‫آسودگی کے لیے‘ یہاں آیا تھا‘ لیکن یہاں آ کر‘ مزید بور ہوا۔‬ ‫ہاں البتہ‘ دو تین بنچوں پر ہونے والی گفت گو‘ باطور خاص‘‬ ‫اس کی توجہ کا سبب بنی۔‬ ‫ایک صاحب بتا رہے تھے‘ کہ فالں عالمہ صاحب‘ خطاب کے‬ ‫لیے بالئے گیے۔ ان سے خطاب وغیرہ سے تھوڑا پہلے‘ دریافت‬ ‫کیا گیا‘ کہ حضرت کھانے میں‘ کدو شریف پکا لیا جائے۔ انہوں‬ ‫نے جوابا فرمایا‘ گنارگار آدمی ہوں‘ میں کدو شریف کے کب‬ ‫الئق ہوں۔ بس‘ کوئی آوارہ سا‘ مرغا پکڑ لیں۔ خطاب کے بعد‘‬ ‫بڑا مختصر کھایا۔ ہانڈی کی‘ بڑی عزت افزائی ہوئی۔ گھر والوں‬ ‫کو‘ خدشہ پیدا ہو گیا‘ کہ کہیں ہانڈی ہی نہ کھا جائیں۔ سحری‬ ‫پیٹ بھر کی۔ صبح اٹھ کر‘ ناشتہ پانی طلب کر لیا۔ میزبان نے‘‬ ‫حیرانی سے پوچھا‘ حضرت آپ کا تو روزہ ہے۔ بولے بھائی میں‬ ‫سفر میں ہوں۔‬ ‫کچھ لوگ کلرک شاہی کی داداگیری پر گفت گو کر رہے تھے۔ ان‬ ‫میں سے ایک کہنے لگا طوائف اورکلرک میں کیا فرق ہے۔‬ ‫دوسرا دونوں سجے سجائے ہوتے ہیں۔ ہاں طوائف سائل کی‬ ‫جیب ہلکی کرنے کے لیے اداؤں نخروں اور مسکراہٹوں سے‬


‫کام لیتی ہے۔ کلرک بادشاہ گھرکیوں کو استعمال میں التا ہے۔‬ ‫سائل اس کے سامنے بھیگی بلی بنا رہتا ہے۔ پیسے دیتا ہے‬ ‫کھانا کھالتا ہے اس کے باوجود خجل خواری اس کا مقدر‬ ‫ٹھہرتی ہے۔ دفتر میں بیٹھنے تک کی زحمت نہیں دی جاتی۔‬ ‫ایک پیر صاحب کی بھی بات ہو رہی تھی۔ ان کے ایک مرید‘‬ ‫انہیں بڑا کرنی واال بتا رہے تھے۔ ان میں ایک صاحب وہابی‬ ‫سے تھے‘ وہ متواتر بحثے چلے جا رہے تھے۔ ایک مقروض‬ ‫کا‘ دعا کے لیے آنے کا قصہ چال۔ اس نے‘ پیر صاحب کی خدمت‬ ‫میں‘ نقدی نذر نیاز پیش کی‘ اور قرض اترنے کی دعا کے لیے‘‬ ‫گزارش کی۔ پیر صاحب نے دعا فرمائی۔ اس وہابی کا نقطہءنظر‬ ‫یہ تھا‘ کہ یہ پیری مریدی سب فراڈ ہے۔ وہ کرنی والے تب‬ ‫تھے‘ اس مرید نے جو نذر نیاز پیش کی‘ پلے سے ناسہی‘ وہ‬ ‫ہی میدان میں رکھ دیتے‘ اور حاضرین کو‘ مدد کی ترغیب دیتے۔‬ ‫قرض تو اسی وقت اتر سکتا تھا ہو سکتا ہے‘ کوئی ایک مرید‬ ‫ہی‘ اس مقروض کا قرض اتار دیتا۔ ان میں سے‘ کوئی بھی‘‬ ‫اپنے موقف سے‘ دست بردار ہونے کا‘ نام ہی نہ لے رہا تھا۔‬ ‫آخر‘ بات تپھڑوں اور گھونسوں تک پنچ گئی۔ کچھ لوگ‘ انہیں‬ ‫چھڑانے میں مصروف ہو گیے‘ کچھ نے‘ کھسکنے میں عافیت‬ ‫جانی۔ دو ایک‘ لڑائی کا اسکور جاننے کے لیے‘ رک گیے۔‬ ‫اس نے سوچا‘ مارنے واال سمجھتا ہے‘ کہ وہ باال دست رہا‘‬ ‫حاالں کہ یہ سوچ‘ خود فریبی اور خوش فہمی سے‘ زیادہ اہمیت‬


‫نہیں رکھی۔ اس الیعنی بحث اور لڑائی کے باعث‘ سکون کے‬ ‫سر پر‘ پتھر لگا۔ مارنے والے کی‘ توانائی زیادہ خرچ ہوئی۔‬ ‫دونوں فریقوں کے مابین‘ دوامی رنجشن نے راہ پائی۔ دونوں‬ ‫فریق اعصابی تناؤ کا شکار ہوئے۔ جتنی بار مارا‘ اتنی بار چوٹ‘‬ ‫مارنے والےکو بھی لگی۔ بات بھی کوئی ایسی بڑی نہ تھی۔‬ ‫انہیں ایک دوسرے کو‘ دالئل سے‘ قائل کرنا چاہیے تھا۔ کیا سارا‬ ‫اسالم‘ اسی مسلے میں آ گھسا تھا۔‬ ‫وہ آرام اور سکون کی غرض سے‘ ہوٹل میں جا بیٹھا تھا۔ وہاں‬ ‫ہونے والی باتوں اور لڑائی سے‘ مزید آوازار ہو گیا۔ وہ بوجھل‬ ‫قدموں سے‘ گھر کی طرف چل دیا۔ لڑائی دیکھ کر‘ اسے یقین ہو‬ ‫گیا‘ کہ انسانی بستی میں‘ انسانی روپ میں‘ راکھشش بھی آ‬ ‫بسے ہیں‘ یا یہ بستی‘ راکھششوں کے سایہ کی زد میں‘ ضرور‬ ‫آ گئی ہے۔ سوچوں کے گہرے سائے تلے‘ آہستہ آہستہ چلتا ہوا‘‬ ‫اپنے گھر کے دروازے تک‘ پہنچ گیا۔ دروازے سے دروازے‬ ‫تک کا یہ سفر‘ اسے صدیاں کا سفر محسوس ہوا۔ قدسیہ کا‬ ‫گرجنا برسنا‘ یقینا غلط نہ ہو گا۔ اس نے سوچا‘ میں بھی کیسا‬ ‫شخص ہوں‘ صدیاں الیعنیت میں گزار کر‘ گھر خالی ہاتھ لوٹ آیا‬ ‫ہوں۔ مجھے غیر تو یاد رہے‘ یہ یاد نہ رہا‘ کہ بچوں کے لیے‘‬ ‫چکی سے آٹا لینے نکال تھا۔ پھر وہ سر جھکائے‘ گھر میں‬ ‫داخل ہو گیا۔‬


‫وہ کون تھے‬

‫افضل چنگا بھال‘ ہٹا کٹا اور محنتی انسان تھا۔ پہلے گندم منڈی‬ ‫میں‘ پلے داری کرتا تھا‘ بعد میں‘ دستی ریڑی بنا لی۔ اس سے‘‬ ‫جہاں مزدوری میں اضافہ ہوا‘ وہاں آسانی بھی ہو گئی۔ اس کی‬ ‫بیوی عنائتاں‘ ناصرف نیک اور شریف عورت تھی‘ بال کی‬ ‫جفاکش بھی تھی۔ بڑے سلیقے سے‘ گھر چال رہی تھی۔ اس کے‬ ‫منہ میں‘ ہر وقت شکر کا کلمہ رہتا۔ لباس نیا تو نہ ہوتا ‘ ہاں‬ ‫صاف ستھرا ضرور ہوتا تھا۔ اس جوڑی کو‘ توتے مینا کی‬ ‫جوڑی کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ ان کے گھر سے‘ کبھی کسی‬ ‫نے‘ اونچی آواز نہ سنی تھی‘ شائد وہ لڑتے ہی نہ تھے۔ اس‬ ‫جوزی کے باہمی تعلق کو‘ بالمبالغہ مثالی قرار دیا جا سکتا تھا۔‬ ‫سچی بات تو یہ ہے کہ وہ بائی نیچر‘ صلح جو اور ہم درد لوگ‬ ‫تھے۔ محلے کے دکھ سکھ میں‘ اپنوں کی طرح شریک ہوتے‬ ‫تھے۔ ان کی شرافت کے سبب‘ محلے کے چھوٹے بڑے‘ ان کی‬ ‫عزت کرتے تھے۔‬ ‫ایک دن‘ افضل کام سے آیا‘ تو وہ کچھ ٹھیک نہ تھا۔ سینے‬ ‫میں‘ درد کی شکایت کر رہا تھا۔ عنائتاں نے کافی اوڑ پوڑ کیا۔‬


‫نیم گرم کڑوے تیل سے‘ مالش بھی کی۔ اس کی‘ اس پرخلوص‬ ‫خدمت سے‘ افضل کو کچھ سکون مال‘ اور پھر وہ‘ گہری نیند‬ ‫سو گیا۔ عنائتاں بھی‘ سارے دن کی محنت کی وجہ سے‘ تھکی‬ ‫ہوئی تھی‘ اوپر سے‘ افضل کی پریشانی آ گئی تھی۔ اسے بھی‬ ‫گہری نیند نے آ لیا۔‬ ‫فجر کی نماز کے لیے‘ افضل کو‘ عنائتاں نے‘ اٹھانا چاہا‘ لیکن‬ ‫وہ نہ اٹھا۔ پھر اس نے‘ اسے زور سے ہالیا‘ اس کا جسم برف‬ ‫ہو چکا تھا۔ اس کے چہرے پر‘ کرب کا نام و نشان تک نہ تھا۔‬ ‫بالکل نارمل اور ہشاش بشاش چہرا تھا۔ وہ تو ابدی نیند سؤ چکا‬ ‫تھا۔ عنائتاں لٹ گئی تھی۔ وہ جوانی میں بیوہ ہو گئی تھی۔ قدرت‬ ‫کے کاموں میں‘ کب کوئی دخل دے سکتا ہے۔ کچھ بھی کر لو‬ ‫ہونی ٹلتی نہیں۔‬ ‫عنائتاں کے سر پر‘ ناصرف اپنا‘ تین بچوں کا بوجھ بھی‘ آ پڑا۔‬ ‫وہ بالشبہ‘ بڑی صابر اور شاکر عورت تھی۔ اس نے‘ کبھی کسی‬ ‫کے سامنے‘ دست سوال دراز نہ کیا۔ وہ سمجھتی تھی‘ کہ اس‬ ‫سے‘ افضل کا کفن میال ہو گا۔ رات کو جرخا کاتتی‘ صبح کو دو‬ ‫تین گھروں میں‘ برتن کپڑے وغیرہ صاف کرتی۔ بڑی خوددار‬ ‫عورت تھی۔ اس کی ہمت اور حوصلے کی‘ داد نہ دینا‘ سراسر‬ ‫زیادتی کے مترادف ہو گا۔ چند سالوں میں‘ محض ہڈیوں کا‘ ڈھیر‬ ‫ہو کر رہ گئی۔ لیکن ایک بات ہے‘ اس نے بچوں کو‘ پھولوں کی‬ ‫طرح پاال۔ وقت کی گرمی سردی‘ اس نے اپنی جان پر برداشت‬


‫کی۔ بچوں کے سکول کا‘ لباس صاف ستھرا ہوتا۔ ان کے بستے‘‬ ‫خود تیار کرتی۔ ہر بستے میں‘ کھانے کی کوئی ناکوئی چیز‘‬ ‫ضرور رکھتی۔ جب وہ سکول جانے لگتے‘ انہیں گلے لگاتی‘‬ ‫چومتی اور پیار کرتی‘ دروازے تک چھوڑنے جاتی‘ اس کا‬ ‫موقف تھا‘ کہ میری تو جیسے تیسے گزر گئی ہے‘ میرے بچے‬ ‫تو‘ آسودہ زندگی بسر کریں گے۔‬ ‫جوان اور قبول صورت تھی‘ عقد ثانی‘ اس کا شرعی حق تھا۔ دو‬ ‫تین پیغام بھی آئے‘ لیکن اس نے صاف انکار کر دیا۔ بچوں کی‬ ‫خاطر‘ اس نے اپنی ذات کو‘ یکسر نظر انداز کر دیا تھا۔ اس دنیا‬ ‫میں‘ شخص اپنی ذات سے باہر‘ ایک قدم بھی ادھر ادھر نہیں‬ ‫ہوتا۔ شخص کو نقصان پچانے سے پہلے‘ نقصان پنچانے واال‘‬ ‫یہ کیوں نہیں سوچتا‘ کہ اتنا بڑا کرنے میں‘ کسی ماں کو‘ کیا‬ ‫کچھ‘ کرنا پڑا ہو گا۔ کتنی مشقت اٹھانا پڑی ہوگی۔ اذیت دینے‬ ‫واال بھی‘ کسی ماں کا بیٹا ہوتا ہے‘ اگر وہ غور کرے‘ کہ اس‬ ‫کی ماں‘ اسے بڑا کرنے کے لیے‘ کن مراحل سے گزری ہو گی۔‬ ‫ماں اس کی ہو‘ یا اس کی‘ عزت کی مستحق ہوتی ہے۔ ماں کا‬ ‫منہ دیکھتے ہوئے‘ اگر معافی کو شعار بنایا جائے‘ تو خرابی‬ ‫جنم ہی نہیں لے سکتی۔‬ ‫مجھے اچھی طرح یاد پڑتا ہے‘ کہ میری اماں نے مرغی پال‬ ‫رکھی۔ وہ اکیس دن انڈوں پر بیٹھی۔ حاجت اور کچھ کھانے یینے‬ ‫کے لیے‘ چند لمحوں کے لیے نیچے اترتی۔۔ اکیس دن کے بعد‘‬


‫چھوٹے چھوٹے‘ ننھے ننھے بچے نکلے۔۔ ایک انڈا گندا نکال۔‬ ‫وہ بار بار‘ اس کی طرف پھرتی تھی۔ پالتو بلی تو الگ‘ آوارہ‬ ‫بلی کا آنا‘ مرغی۔۔۔۔۔۔۔ ہاں مرغی نے‘ جو کم زور ترین جانور‬ ‫ہے‘ بند کر دیا۔ اڑا کر‘ اس کی آنکھوں کو نشانہ بناتی۔ حاالں کہ‬ ‫مرغی بلی کا شکار ہوتی ہے۔‬ ‫مرغی کو ایک طرف رکھیے‘ گیڈر بزدل ترین‘ جانور شمار ہوتا‬ ‫ہے۔ میں چشم دید بات بتا رہا ہوں‘ ایک گیدڑی نے بچے دیے‬ ‫تھے۔ اس نے سانہہ کتوں کا‘ ادھر گزرنا بند کر دیا۔ آج سوچتا‬ ‫ہوں‘ تو یقین نہیں آتا۔ لیکن یہ سب ہوا‘ میں نے اپنی انکھوں‬ ‫سے دیکھا۔‬ ‫میں ایک درخت کے نیچے‘ تھوڑی دیری سستانے کے لیے رکا۔‬ ‫مادہ کوا نے بچے نکال رکھے تھے۔ چند ہی لمحے بعد‘ مادہ کوا‬ ‫نے‘ میرے ماتھے پر ایسا ٹہونگا مارا‘ کہ مجھے نانی یاد آ گئی۔‬ ‫میں نےانہیں نقصان کیا پنچانا تھا مجھے تو ان کے ہونے کا‬ ‫علم تک نہ تھا۔‬ ‫بچے جانور کے ہوں‘ یا انسان کے بڑے پیارے لگتے ہیں۔ ان‬ ‫کی اٹھکیلیاں دل کو موہ لیتی ہیں۔ انہیں مار دینا‘ پتھر دلی کی‬ ‫حد ہوتی ہے۔ پیدائش سے مکاشفہ تک‘ الف الم سے والناس‬ ‫تک‘ بھگوت گیتا اور رامائن میں سے‘ کوئی حوالہ نکال کر دکھا‬ ‫دیں‘ جس میں بچوں پر تشدد یا قتل کر دینے کا حکم موجود ہو۔‬ ‫حضرت مہاآتما بدھ کی تعلیمات‘ ہتھیا کی اجازت نہیں دیتیں۔ گرو‬


‫گرنتھ صاحب کا‘ میں نے ایک ایک شبد‘ ٹٹوال ہے‘ کہیں بچوں‬ ‫کے قتل یا ان پر ظلم کا حکم موجود نہیں۔‬ ‫میں نےانٹر نیٹ پر‘ جنگ عظیم دوم کے حوالہ سے‘ ایک‬ ‫تصویر دیکھی۔ چھوٹے چھوٹے‘ معصوم‘ پیارے پیارے بچوں‬ ‫کو‘ ننگے پاؤں سپاہیوں کی بندوق کی نوک پر‘ بھاگتے دیکھا۔‬ ‫ایک چھوٹی سی بچی‘ بامشکل بھاگ رہی تھی۔ میری آنکھوں‬ ‫کے سامنے‘ عنائتاں گھوم گئی۔ ان کی ماں‘ کس طرح‘ صبح‬ ‫سویرے اٹھ کر‘ انہیں الڈ پیار سے‘ گلے لگا کر‘ سکول بھیجا‬ ‫کرتی ہو گی۔ اچھا ہوا‘ وہ مر گئیں۔ وہ یہ سب دیکھ نہ پاتیں۔ وہ‬ ‫ان سیاہیوں کے ڈکرے ڈکرے کرنے کی کوشش کرتیں۔ میرا اس‬ ‫دھرتی سے‘ کوئی رشتہ نہیں۔ وہ بچے‘ میرے حسب ونسب‬ ‫سے متعلق نہیں ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود‘ میں ساری رات‘‬ ‫بےچینی اور پریشانی سے‘ بستر پر کروٹیں لیتا رہا۔ میں سوچتا‬ ‫رہا‘ آخر وہ کون تھے۔ انہیں انسان کہنا‘ انسانیت کی تذلیل و‬ ‫توہین ہے۔ وہ کسی انسانی ماں کی اوالد ہو ہی نہیں سکتے۔‬ ‫انہیں انسانی ماں کی اوالد کہنا‘ کسی بھی سطح پر‘ درست قرار‬ ‫نہیں پا سکتا۔‬ ‫کسی انسانی ماں کی اوالد‘ کسی دوسری ماں کی اوالد پر‘ ظلم‬ ‫کی اس حد تک جا ہی نہیں سکتی۔ بندوق کی نوک‘ سر جھکانے‬ ‫پر مجبور کر سکتی ہے‘ لیکن اس سے‘ دل فتح نہیں ہو سکتے۔‬ ‫قبضہ و تصرف کی ہوس‘ تصادم کے دروازے کھولتی ہے۔ ماں‬


‫کی محنت‘ مشقت اور پیار سے‘ پروان چڑھنے والے بچوں کو‬ ‫لہو میں نہالتی ہے۔ تلوار کی فتح کو‘ فتح کا نام دینا‘ کھلی‬ ‫جہالت ہے۔ ہاں ماں کے سے‘ پیار سے‘ دل جیتو‘ تاکہ کمزور‬ ‫طبقے‘ سکھ کا سانس لے سکیں اور انسانیت‘ سسکنے بلکنے‬ ‫‘سے‬

‫پنگا‬

‫آدمی کے‘ دنیا کی جملہ مخلوق سے برتر ہونے میں‘ کسی قسم‬ ‫کے شک و شبہ کی‘ گنجائش ہی نہیں‘ لیکن اس کا ذاتی گمان یا‬ ‫چمچوں کڑچھوں کی جھوٹی تعریف و تحسین‘ اسے وہ کچھ‬ ‫سمجھنے پر مجبور کر دیتی ہے‘ جو وہ اپنی ذات میں ہوتا‬ ‫نہیں۔۔ بال کا طاقت ور ہونے کے باوجود‘ المحدود نہیں۔ اگر وہ‬ ‫ان حدود میں رہتے ہوئے‘ زندگی کرئے گا‘ تو نقصان سے بچ‬ ‫جائے گا۔ مورخ کو‘ محمود کا سترواں حملہ یاد ہے‘ سوالں‬ ‫حملوں کے متعلق‘ ایک لفظ پڑھنے سننے کو نہیں ملتا۔ اس کا‬ ‫کتنا جانی نقصان ہوا یا اس نے کتنا جانی نقصان کیا‘ ریکارڈ‬ ‫میں موجود نہیں۔ باقی باتیں چھوڑیں‘ بچے کو جوان کرتے‬


‫کرتے‘ ماں کا کیا حال ہو جاتا ہے‘ کسی ماں سے پوچھا چاہیے۔‬ ‫یہ بات ماں سے پوچھنے کی ہے۔ جب بھی شخص‘ اپنے متعلق‬ ‫غلط اندازہ لگاتا ہے‘ نقصان اٹھاتا ہے۔ وہ خود مرتا‘ یا اس کے‬ ‫اپنے مرتے‘ تو ہی اندازہ ہوتا۔ لوگ مرے تھے‘ اس لیے اسے‬ ‫درد کا‘ کیا اندازہ ہوتا۔‬ ‫یہ غالبا چالیس سال سے پہلے کی بات ہے۔ میری چناب رینجرز‬ ‫کی کسی پوسٹ پر ڈیوٹی تھی۔ ٹائیگر بڑا زبردست کتا‘ بھی اس‬ ‫پوسٹ پر برسوں سے چال آتا تھا۔ اب وہ بوڑھا ہو گیا تھا‘ لیکن‬ ‫اس کی پھرتیاں دیکھنے الئق تھیں۔ اچانک کھرک کی زد میں آ‬ ‫گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے‘ اس کی بڑی بری حالت ہو گئی۔ چلتی‬ ‫کا نام گاڑی ہے‘ دھتکار دیا گیا۔ جو بھی اسے دیکھتا‘ ناصرف‬ ‫دھتکارتا‘ مارنے کے لیے بھی دوڑتا۔‬ ‫قریب کے گاؤں میں‘ ایک کوبرا نکل آیا۔ سانپ کیا تھا‘ بہت بڑی‬ ‫بال تھا۔ اس نے رستہ ہی ڈک دیا۔ مال ڈنگر تو الگ‘ اس نے‬ ‫لوگوں کا رستہ بھی روک لیا۔ اسے گولی مارنے کا فیصلہ کیا‬ ‫گیا۔ دریں اثنا‘ کھرک خوردہ بوڑھے ٹائیگر کا بھی‘ ادھر جانا ہو‬ ‫گیا۔ رینجرز کا کتا تھا‘ کوبرا اسے دوسری طرف جانے نہیں دے‬ ‫رہا تھا۔ کیا ہوا کہ وہ بوڑھا اور کھرک خوردہ تھا۔ تھا تو رینجر‬ ‫کا ٹائیگر۔ ہار ماننا‘ تو اس کے کاغذوں میں ہی نہ تھا۔‬


‫اسی کشمکش میں‘ کئی منٹ گزر گیے۔آخر کوبرے کا داؤ چڑھ‬ ‫گیا‘ وہ ڈنگ مارنے میں‘ کامیاب ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی‘‬ ‫ٹائیگر کے منہ میں‘ کوبرے کا درمیانہ حصہ آ گیا تھا۔ ٹائیگر‬ ‫ڈنگ لگتے ہی‘ جان بحق ہو گیا تھا‘ لیکن اس کے دانت بھینچے‬ ‫گیے۔ دانت کیا پڑے‘ جمور پڑ گیا۔ کوبرے کی بےچینی‘ بےبسی‬ ‫اور بےچارگی‘ ایک زمانہ دیکھ رہا تھا۔ ٹائیگر کے‘ ماضی و‬ ‫حال کے قصے‘ ہر زبان پر تھے۔ خون اور کھرک کی گند پر‘‬ ‫چونٹیوں اور مکھیوں کا آنا ‘ فطری سی بات تھی۔ ٹائیگر جان‬ ‫دے کر‘ قابل قدر جیت سے‘ ہم کنار ہوا تھا۔ کوبرا تڑپ پھڑک‬ ‫رہا تھا۔ چونٹیوں اور مکھیوں کی آمد سے‘ لطف میں ہر چند‬ ‫اضافہ ہو رہا تھا۔ مرا تو کس کے ہاتھوں‘ بوڑھے اور کھرک‬ ‫زدہ کتے کے ہاتھوں۔ ٹائیگر امر ہو گیا تھا۔ اس نے اندھی اور‬ ‫بےلگام طاقت کو‘ جان دے کر‘ بےبسی بےچارگی اور عبرت‬ ‫ناک موت مرنے پر‘ مجبور کر دیا تھا۔ اگر کوبرا طاقت کے نشے‬ ‫میں‘ حدود تجاوز نہ کرتا‘ تو نشان عبرت نہ بنتا۔ اس نے خود‬ ‫ہی‘ پنگا لیا تھا۔ اس پنگے کا بھگتان‘ اسے بڑا مہنگا پڑا۔‬ ‫کسی باددشاہ کے جی حضوریوں نے‘ تعریفیں کر کر کے‘ اسے‬ ‫طاقت کے آسمان پر بیٹھا دیا۔ ایک صاحب نے‘ تو یہاں تک کہہ‬ ‫دیا‘ کہ حضور کی تو‘ دریا کی لہروں پر بھی حکومت ہے۔ دنیا‬ ‫کی ہر شے‘ آپ کی تابع اور فرمابردار ہے۔ ایک روز‘ اس نے‬


‫دریا کنارے‘ تخت لگانے کا حکم دیا‘ تخت لگ گیا۔ جی‬ ‫حضوریوں کے ہجوم میں‘ جی حضور‘ جی سرکار کے‘ سریلے‬ ‫بول سنتا ہوا‘ بڑی شان اور بڑے جاہ وجالل کے ساتھ‘ تخت پر‬ ‫جلوہ افروز ہوا۔ پرلطف فضا و ماحول نے‘ نشے کو دو آتشہ کر‬ ‫دیا۔ پھر اچانک ۔۔۔۔۔ ہاں بالکل اچانک۔۔۔۔۔۔۔۔ایک لہر آٹھی‘ بہت‬ ‫سے جی حضوریوں کو‘ بہا کر لے گئی۔ بادشاہ کی ٹانگیں اوپر‬ ‫ہو گیں۔ اس کی حالت‘ پانی سے نکلے چوہے کی مانند ہو گئی۔‬ ‫اس نے ایک بچ رہنے والے‘ دریائی گرفتہ سے‘ دریافت کیا کہ‬ ‫فالں تو کہتا تھا‘ آپ کی دریا کی لہروں پر بھی‘ حکومت ہے‘ تو‬ ‫پھر دریا کو‘ کس طرح اور کیوں جرآت ہوئی۔ اس چمچے نے‘‬ ‫حقیقت کہنے کی بجائے‘ پڑوس کے‘ ایک حکم ران پر الزام رکھ‬ ‫دیا‘ کہ یہ اس کی سازش ہے۔ نمرود کی طرح اس کہوتے کو‘‬ ‫عقل نہ آئی اور وہ الؤ لشکر سمیت‘ اس پر چڑھ دوڑا۔ جہاں‬ ‫المحدود اختیار کا‘ گمان لے ڈوبتا ہے‘ وہاں چمچے کڑچھے‬ ‫بھی‘ لٹیا ڈبو دیتے ہیں۔‬ ‫موسی خود کو جانتے تھے۔ انہیں‘ اس امر سے خوب آگہی‬ ‫حاصل تھی‘ کہ انہیں هللا کی تائید حاصل ہے۔ اگر انہیں یہ اگہی‬ ‫حاصل نہ ہوتی‘ تو وہ دریا میں‘ اتنے لوگوں کو‘ ساتھ لے کر‘‬ ‫سفر جاری نہ رکھتے۔ فرعون کو‘ اپنی خدائی کا پورا پورا یقین‬ ‫تھا‘ یا یقین دلوا دیا گیا تھا‘ تب ہی تو‘ اس نے دریا میں فوجیں‬


‫ڈال دیں۔ اس سے‘ وہ ناصرف فوج سے‘ ہاتھ دھو بیٹھا بلکہ‬ ‫عزت بھرم اور پہلے سی شان و شوکت سے بھی گیا۔ یہ عبرت‘‬ ‫آتی نسلوں کے لیے‘ حجت بنی رہی۔ ذاتی گمان اور چیلوں‬ ‫چمٹوں کی الیعنی اور مطلبی جی حضوری‘ اندھی اور بے لگام‬ ‫طاقت نے‘ کچھ باقی نہ رہنے دیا۔‬ ‫یونان کے‘ سکندر کے ساتھ بھی‘ یہ ہی کچھ ہوا‘ چال تھا دنیا‬ ‫فتح کرنے۔۔ وہ سمجھتا تھا‘ کہ میں ناقابل فتح ہوں۔ چوری خور‬ ‫مورکھوں نے‘ اسے سکندر اعظم کے القاب سے ملقوب کیا۔‬ ‫حقیقت یہ ہے‘ کہ وہ تہری شکست سے‘ دو چار ہوا۔‬ ‫اس کی اپنی فوج نے‘ مزید آگے بڑھنے سے انکار کیا۔‬ ‫زخمی ہوا۔‬ ‫ہدف کی حصولی کے بغیر ہی‘ واپسی کا ٹکٹ کٹوانا پڑا۔‬ ‫اٹھتی طاقت‘ جرمن اور ہٹلر کے متعلق‘ چرچل نے غلط اندازہ‬ ‫لگایا۔ امریکہ درمیان میں نہ آتا‘ تو برطانیہ کے تو‘ ستو بک‬ ‫چکے تھے۔ کوبرے کی سی‘ موت مرتا۔ جرمن اور ہٹلر کا‘‬ ‫پوری انسانی برادری پر احسان ہے‘ کہ اس نے کبھی نہ سیر‬ ‫ہونے والی‘ جونک سے نجات دالئی۔ اس نے معاش خور قوم‬ ‫کو‘ وہاں سے نکال باہر کیا۔ برطانیہ نے اسے آباد کیا۔ مصر‬ ‫سے فرار ہونے واال‘ یہ بارہواں قبیلہ‘ آج پوری دنیا کا بااختیار‬


‫اور معزز ترین‘ قبیلہ ہے۔ حق سچ تو یہ ہی ہے‘ کہ وہ گرم‬ ‫ہواؤں میں‘ چپکے ہو گیے اور تصادم سے دور رہے۔ صبر و‬ ‫برداشت سے‘ وقت گزارا۔ اندر خانے‘ وہ قوم محنت کرتی رہی‘‬ ‫آج اسے‘ اس کا پھل مل رہا ہے۔ برطانیہ نے پنگا لیا‘ اور اس‬ ‫پنگے کے نتیجہ میں‘ ناہیں کے گھنگھٹ میں مکھڑا چھپاتے‬ ‫اس کی بنی۔‬ ‫خاوند کو غرور تھا‘ کہ وہ کما کر التا ہے‘ اور اس کی بیوی کا‬ ‫ہاتھ‘ نیچے ہے۔ ایک جنگ میں‘ بیوی کو ماں بہن کہہ بیٹھا۔‬ ‫مولوی نے‘ کفارے میں‘ مرغے کی دیگ ڈال دی۔ رات کو‘ چل‬ ‫قریب بیٹھے‘ آگ تاپ رہے تھے۔ بیوی نے بڑی ہم دردی سے‬ ‫کہا‘ کملیا ماں بہن نہ کہتے‘ تو سات سو روپے کی دیگ‘ تو نہ‬ ‫ٹہکتی۔ تفاخر ابھی تک‘ سر پر سوار تھا۔ اس نے جوابا کہا‘ توں‬ ‫پیو نوں نہ چھیڑ دی۔‬ ‫میں نے‘ اس سے ملتی جلتی‘ بہت سی مثالیں‘ ثریا کے گوش‬ ‫گزار کیں‘ لیکن خود کفالتی کا بھوت‘ ابھی تک‘ اس کے سر پر‬ ‫سے‘ نہیں اترا تھا۔ اس کے خیال میں وہ کسی کی محتاج نہیں‘‬ ‫اور خود سے‘ باآسانی زندگی کر سکتی ہے۔ دو روپے کی‬ ‫ماچس تک‘ پلے سے‘ نہیں منگواتی تھی۔ ماہانہ ملنے والی‬ ‫معقول پنشن سے‘ ایک اکنی صرف کرنا‘ جرم عظیم سمجھتی‬ ‫تھی۔ مجھ سے‘ روپے کے اٹھاراں آنے وصول کرکے بھی‘‬


‫اسے روپیہ تسلیم نہیں کرتی تھی۔‬ ‫ایک بار‘ مجھے ضرورت پڑی‘ تو کہنے لگی‘ میرے پاس‘ بیس‬ ‫ہزار زکوات کے پڑے ہیں‘ جو میں نے‘ اپنی بہن بےبی کو‘‬ ‫دینے ہیں۔ کئی دن خجل خوار کرنے کے بعد‘ دے تو دیے‘ لیکن‬ ‫ریڈیو پر اعالن کرنا‘ باقی رہ گیا‘ ورنہ شائد ہی‘ کوئی رہ گیا ہو‬ ‫گا‘ جسے بتایا نہ ہو گا۔ اسے زعم تھا‘ کہ وہ میرے بغیر‘ گزارہ‬ ‫کر سکے گی‘ بلکہ اس نے کہا‘ اس ظالم دنیا سے‘ مجھے‬ ‫فوری طور پر‘ چھٹکارا حاصل کر لینا چاہیے‘ تا کہ وہ آزاد‬ ‫زندگی بسر کر سکے۔ ایک نہ ایک دن‘ مرنا ہی ہے‘ اب ہی کیوں‬ ‫نہیں‘ مر جاتا۔ گویا آج کا کام‘ کل پر چھوڑنا‘ کسی طرح مناسب‬ ‫نہیں۔‬ ‫میرے مرنے سے‘ وہ اور اس کا وچارا بھائی‘ اپنے بیٹے سے‘‬ ‫میری بیٹی کی شادی کرکے‘ میری اور ثریا کی جمع پونجی‬ ‫سے‘ پچرے اڑا سکے گا۔ فریحہ‘ اس کی بیوی مر گئی تھی۔ اس‬ ‫کی پنشن سے‘ تو گھر نہیں چل سکتا تھا۔ محنت مزدوری سے‘‬ ‫گھر چالیا‘ تو کیا چالیا۔ ثریا کو جو میں نے‘ سوا سولہ تولے‬ ‫زیوار اور پاؤ بھر چاندی کے زیوار بنا کر دیے تھے‘ وہ بھی‬ ‫وچارے بھائی زادے کے کام آ سکے گا۔‬


‫نمرودد ہو کہ فرعون‘ سکندر ہو کہ محمود‘ برطانیہ ہو کہ ثریا‘‬ ‫بنیادی روال‘ تو سوا سولہ تولے سونے اور پاؤ بھر چاندی کا‬ ‫ہے‘ یا تین مکانوں کا ہے‘ جو میری ملکیت میں ہیں‘ اور پچاس‬ ‫الکھ سے زیادہ مارکیٹ رکھتے ہیں۔ ہوس‘ اللچ‘ زعم اور‬ ‫بےلگام طاقت‘ خود بھی ڈوبتی ہے‘ اوروں کو بھی لے ڈوبتی‬ ‫ہے۔ بدقسمتی یہ ہے‘ کہ وہ میری بات سمجھنے کے لیے تیار‬ ‫ہی نہیں۔ یہ تو‘ قدرت کے نظام سے‘ پنگا لینے والی بات ہے۔‬ ‫قدرت کے نظام سے‘ پنگا لینے والوں کا‘ انجام بڑا ذلت ناک ہوتا‬ ‫رہا ہے۔‬

‫دائیں ہاتھ کا کھیل‬

‫سلیم صاحب کے سسر دمحم عمر نے‘ ابتدا میں سائیکل پر‘ پھیری‬ ‫کا کام شروع کیا۔ صبح سویرے نکل جاتا‘ شام کو‘ گھر لوٹ کر‬ ‫آتا۔ چھان ٹکروں کا بورا‘ ساتھ میں ہوتا۔ صبح سویرے‘ مال‬ ‫ڈنگر والے آتے‘ اور سارا کا سارا مال لے جاتے۔ بڑے محنتی‘‬


‫اور بھلے آدمی تھے۔ ادھار دینا‘ ان کے اصول میں نہ تھا۔ تول‬ ‫کے بڑے کھرے‘ اور ایک نمبری تھے۔ لینے کے بانٹ‘ ذرا‬ ‫بڑے تھے۔ ہاں دینے کے بانٹ‘ تھوڑا چھوٹے تھے۔ جوان‬ ‫آدمی تھے‘ وزن کے تھوڑا کم یا زیادہ ہونے سے‘ کیا فرق پڑتا‬ ‫ہے۔ زندگی‘ تگنی کا ناچ نچاتی ہے‘ ایسے میں‘ معمولی ریلف‬ ‫بھی‘ غنیمت ہوتا ہے۔ گھر کا خرچہ چالنا‘ آسان کام نہیں‘ اوپر‬ ‫سے‘ غمی خوشی میں‘ ضرور شرکت کرتے تھے۔ کرایہ خرچ‬ ‫کرکے جاتے تھے۔ یہ ہی وجہ ہے‘ کہ ہر دو صورتوں میں‘ ان‬ ‫کا پورا ٹبر‘ آدھی دیگ تو چٹ کر جاتا ہو گا۔ سادا مہمان نوازی‘‬ ‫انہیں بڑا بور کرتی تھی۔ ہاں اپنے ہاں‘ دعوت شیراز کے قائل‬ ‫تھے۔ ان کے اس انداز کو‘ دوہرا معیار نہیں کہا جا سکتا۔ اسے‬ ‫رواں زندگی کا‘ اصولی طریقہ کہنا‘ زیادہ مناسب ہو گا۔ حیثیت‬ ‫سے بڑھ کر خرچہ‘ زندگی کو آسودگی سے دور کر دیتا ہے۔ ہر‬ ‫کسی سے کہتے‘ چادر کے مطابق پاؤں پھیالنے سے‘ خرابی‬ ‫جنم نہیں لیتی۔ جب کہیں سادہ سی تقریب ہوتی‘ تو فرماتے یار‬ ‫خوشی روز روز تو نہں آتی‘ اسے ڈھنگ سے اور جی کھول‬ ‫کر منانا چاہیے۔۔‬ ‫انہیں محنت اور عصری مزاج سے‘ میل کھاتے رویے اور طور‬ ‫کے سبب‘ بڑی برکت نصیب ہوئی۔ یہ برکت‘ انہیں ان کی ترقی‬ ‫کرنے کی نیت‘ کی وجہ سے‘ میسر آئی۔ گلی گلی پھرنے سے‘‬ ‫انہیں خالصی مل گئی۔ انہوں نے گاؤں ہی میں‘ پرچون کی دکان‬ ‫کر لی۔ گاؤں کے لوگوں کے پاس‘ پیسے کم ہی ہوتے ہیں۔ سودا‬


‫سلف خریدنے کے لیے‘ اجناس لے آتے‘ اس طرح لینے دینے‬ ‫کے بانٹ متحرک رہے۔ چھان بورے کے گاہک‘ بھی ہاتھ سے نہ‬ ‫جانے دیے۔ ان کی بیگم‘ جو کاروباری امور میں‘ ان کی بھی‬ ‫استاد تھی۔ منہ متھے لگتی تھی۔ یہ ہفتے میں ایک بار‘ اسے‬ ‫دکان پر بیٹھا کر پھیری پر نکل جاتے۔ ان کی بیگم‘ ان کی عدم‬ ‫موجودگی میں‘ دوہری کمائی کرتی۔ شام کو‘ جب دمحم عمر واپس‬ ‫تشریف التے‘ تو دوکان کی وٹک‘ ان کی ہتھیلی پر رکھ دیتی۔‬ ‫اس کی ذاتی وٹک پر‘ دمحم عمر کا کوئی حق نہ تھا‘ اس لیے گرہ‬ ‫خود میں رکھتی۔‬ ‫وقت پر لگا کر‘ اڑتا رہا‘ یہ ترقی کے زینے‘ طے کرتے گیے۔‬ ‫گاؤں میں دو مسالک کی مساجد تھیں۔ ایک مسلک کے‘ مولوی‬ ‫صاحب کسی غلط کام میں‘ رنگے ہاتھوں پکڑے گیے۔ گاؤں میں‬ ‫داڑھی اور لوگوں نے بھی رکھی ہوئی تھی‘ لیکن دمحم عمر کی‬ ‫داڑھی‘ شرع کے مطابق تھی‘ دوسرا چودھری عثمان‘ ان کے‬ ‫استحقاق کا قائل تھا۔ دمحم عمر کی بیوی زرینہ نے‘ چودھری کو‬ ‫پوری طرح‘ گرفت میں کر رکھا تھا۔ آخر دمحم عمر کی تقرری‘‬ ‫باطور امام مسجد ہو گئی۔ وہ سکے ان پڑھ تھے۔ زرینہ‘ قرآن‬ ‫مجید پڑھی ہوئی تھی۔ اس نے دو چار سورتیں‘ انہیں رٹا دیں۔‬ ‫اسی طرح آذان اور اس کا پورا طریقہ‘ ان کے ہم زلف نے‘‬ ‫سیکھا دیا۔ اب ان کے نام کے ساتھ‘ مولوی کا سابقہ بھی‬ ‫پیوست ہو گیا تھا۔‬


‫رفتہ میں پھیری کے دوران‘ مسلے مسائل سنتے رہتے تھے۔‬ ‫انہیں بات کرنے‘ اور بات بنانے کا ڈھنگ بھی آتا تھا۔ زرینہ نے‬ ‫بھی‘ سنی سنائی کے حوالہ سے‘ بڑا تعاون کیا۔ نماز جمعہ اور‬ ‫جمعہ کا خطاب بھی فرمانے لگے۔ جمعہ کے خطبہ کے لیے‘ ان‬ ‫کے ہم زلف نے بڑا تعاون کیا۔ دو تین سال میں‘ لہراں بہراں ہو‬ ‫گئیں۔ مخلتف نوعیت کے کھانے‘ دانے اور چھوٹے سہی‘ نوٹ‬ ‫بھی آنے لگے۔ چودھری نے مسجد کے مولوی کے لیے‘ ایک‬ ‫کلہ زمین بھی مختص کر دی۔ اب وہ مولوی دمحم عمر سے‘‬ ‫عالمہ دمحم عمر پکھوی ہو گیے تھے۔ وہ گاؤں میں‘ ایک مذہبی‬ ‫مسلک کے‘ لیڈر تھے۔ جمعہ اور عیدین کے موقع پر‘ پورے‬ ‫مذہبی گٹ اپ کے سآتھ‘ وارد ہوتے۔ ان کے خالف بات کرنے‬ ‫کی‘ کسی میں جرآت نہ تھی‘ گویا ان کے خالف کوئی بات منہ‬ ‫سے نکالنا‘ مذہب دشمنی کے مترادف تھا۔‬ ‫ان کا بڑا لڑکا‘ دمحم صدیق میٹرک پاس کرکے‘ گاؤں واپس لوٹ‬ ‫آیا۔ عالمہ صاحب کی خواہش تھی‘ کہ دوسرے مسلک کی مسجد‬ ‫کی امامت‘ کسی ناکسی طرح‘ اسے مل جائے‘ لیکن یہ کام‘ اتنا‬ ‫آسان نہ تھا۔ اس مسجد کا مولوی‘ مضبوط پیروں واال تھا۔ اس‬ ‫کے خالف سازشوں کا آغاز کر دیا گیا۔ مختلف حوالوں سے‘ اس‬ ‫کی ہوا خراب کر دی گئی۔ آدمی کتنا ہی محتاط کیوں نہ ہو‘ اس‬ ‫سے غلطی ہو ہی جاتی ہے۔ گاؤں کے ایک ناپسندیدہ مسلک‬ ‫کی‘ کتاب کا حوالہ‘ اپنے خطاب میں کوڈ کر بیٹھے۔ انہوں نے یہ‬ ‫حوالہ‘ باطور ثبوت کوڈ کیا تھا۔ بس پھر کیا تھا‘ عالمہ صاحب‬


‫نے‘ قیامت کھڑی کر دی۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا‘ جن کانوں‬ ‫نے یہ حوالہ سنا ہے‘ توبہ کریں‘ ورنہ عذاب سے نہ بچ‬ ‫سکیں گے۔ اس مسلک سے متعلق لوگوں نے‘ اسے مذہبی‬ ‫گستاخی کے مترادف سمجھ لیا۔ مولوی صاحب کی‘ بھاگتے بنی۔‬ ‫دو دن تو بال امام مسجد گزر گیے۔ ایک دن دمحم صدیق‘ جو‬ ‫سازش کے پہلے روز ہی سے‘ ان کی مسجد میں‘ ان کے طریقہ‬ ‫کے مطابق‘ نماز ادا کر رہا تھا‘ رانا جعفر کے اشارے پر‘‬ ‫امامت کے مصلے پر‘ کھڑا ہو گیا کسی نے‘ چوں تک نہ کی۔‬ ‫پھر یہ مصلہ دمحم صدیق کا ٹھہرا۔‬ ‫دوہرے گپھے گھر آنے لگے۔ عالمہ صاحب نے‘ اپنی بڑی لڑکی‬ ‫کے‘ ہاتھ پیلے کرنے کا فیصلہ کیا۔ آخر مناسب رشتہ مل ہی گیا۔‬ ‫غالم نبی کی اپنی دکان تھی۔ ٹھیک ٹھاک کھاتی پیتی آسامی تھا۔‬ ‫اس کی پہلی بیوی فوت ہو گئی تھی۔ اس سے دو ننھے منے‘‬ ‫پیارے پیارے بچے تھے۔ شادی پر گاؤں والوں نے‘ دل کھول‬ ‫کر‘ تعاون کیا۔ ان کے تعاون کا ہی یہ ثمرہ تھا‘ کہ عالمہ صاحب‬ ‫کو‘ صرف نکاح کرنے کی تکلیف اٹھانا پڑی۔ رخصتی کے وقت‘‬ ‫انہوں نے دلہا میاں کو‘ جیون ساتھی کے خود ساختہ حقوق‬ ‫سے آگاہ کیا۔ دلہن یعنی اپنی بیٹی کو‘ ایک دن پہلے ہی‘ والدین‬ ‫کے حقوق سے‘ آگاہ کر دیا تھا۔ ساتھ میں‘ زندگی کے اس‬ ‫اصول سے بھی شناسا کر دیا‘ کہ لسا پڑنے والے سکھ کا‬ ‫سانس نہیں لے سکتے۔ کوئی ایک کرے تم سو کرو‘ کوئی ایک‬ ‫سنائے تم ایک سو ایک سناؤ۔ دوہاجو ہے‘ گھٹنوں تلے رکھو‘‬


‫ورنہ تمہارے ہمارے پلے کچھ نہیں پڑ سکے گا۔‬ ‫شادی کے پہلے ہفتے‘ فریقین کے مابین‘ پیار اور باہمی تعاون‬ ‫کی‘ یقین دہانی ہوتی رہی۔ وہ ایک مثالی جوڑی دکھ رہے تھے۔‬ ‫غالم نبی نے‘ اسے ایک وفا شعار بیوی سمجھتے ہوئے‘ گھر‬ ‫کی سوئی سالئی تک‘ اس کے سپرد کر دی۔ دن بھر کی ساری‬ ‫کمائی‘ اس کے حوالے کرنے لگا۔ دو تین ماہ بعد ہی‘ گھر میں‬ ‫ہےنا نے ڈیرے جما لیے۔ صالحہ نے والدین کے حقوق کو‘ بڑی‬ ‫دیانت داری اور جان فشانی سے‘ نبھانے کا آغاز کر دیا تھا۔‬ ‫غالم نبی نے‘ سب جانتے ہوئے‘ برداشت سے کام لیا۔ پھر اس‬ ‫نے‘ محسوس کیا‘ کہ بچے‘ دن بہ دن‘ غیر آسودہ ہو رہے ہیں۔‬ ‫ایک دن اس نے‘ دبے لفظوں میں‘ اس معاملے کا ذکر چھیڑا‘‬ ‫بس پھر کیا تھا‘ صالحہ کی سریلی آواز‘ پورے عالقے نے سنی۔‬ ‫غالم نبی کان لپیٹ کر‘ نکل گیا‘ اور کیا کرتا۔ اسے واپسی اس‬ ‫ردعمل کا‘ گمان تک نہ تھا۔ باہر وہ بڑا ڈسٹرب رہا۔ شام کو گھر‬ ‫لوٹا‘ تو صالحہ نے‘ معاملہ الف سے‘ شروع کر دیا۔ صالحہ کا‬ ‫یہ جارحانہ روپ دیکھ کر‘ غالم نبی حیران رہ گیا۔‬ ‫سرد جنگ ایک دن بھی نہ چھڑی‘ آغاز ہی‘ گرم جنگ سے ہوا۔‬ ‫ہر روز کبھی پانی پت اور کبھی بکسر کی لڑائی چلتی۔ ایک بار‬ ‫وہ بیمار پڑا‘ صالحہ نے‘ ذرا برابر پرواہ نہ کی۔ غالم نبی نے‘‬ ‫اس کا یہ رویہ بھی برداشت کیا۔ لڑکا بیمار پڑا‘ صالحہ نے اس‬ ‫سے‘ رائی بھر تعاون نہ کیا۔ غیروں کی طرح‘ جھوٹ موٹھ کا‬


‫پوچھ ہی لیتی‘ مگر کہاں۔ غالم نبی بچے کو‘ اکیال ہی‘ ہسپتالوں‬ ‫میں لیا پھرا۔ آخر بچہ‘ هللا کو پیارا ہو گیا۔ خالی ہاتھ واپس آ گیا۔‬ ‫بچی رل خل گئی تھی۔ صالحہ نے‘ تسلی تشفی دینے‘ اور‬ ‫ڈھارس بندھانے کی بجائے‘ اپنا ڈنگ تیز کر دیا۔ غالم نبی کی‬ ‫براشت جواب دے گئی۔ معاملہ عالمہ صاحب کے علم میں تھا۔‬ ‫اصل روال یہ تھا‘ کہ بچی نانکوں کے پاس بھیج دی جائے۔‬ ‫غالم نبی اس کے لیے تیار نہ تھا۔ بیٹے سے‘ پہلے ہی‘ وہ ہاتھ‬ ‫دھو بیٹھا تھا۔ عالمہ صاحب نے‘ بیٹی کو سمجھانے کی بجائے‬ ‫غالم نبی کی خوب لہ پہا کی۔ عالمہ صاحب کے ہاتھ میں‘‬ ‫دوسری شادی کی خواہش مند‘ صاحب حیثیت اسامی موجود تھی۔‬ ‫معاملہ الجھتا گیا‘ آخر طالق ہو گئی۔‬ ‫عدت ختم ہونے کے‘ اگلے ہی دن‘ صالحہ کا نکاح‘ سلیم صاحب‬ ‫سے کر دیا گیا۔ سلیم صاحب‘ صاحب حیثیت اور باوقار شخصیت‬ ‫کے مالک تھے۔ پڑھے لکھے بھی تھے۔ عالمہ صاحب نے‘‬ ‫انہیں بھی‘ نصیحتوں سے سرفراز فرمایا۔ عجیب بات تھی‘‬ ‫حقوق العباد میں‘ انہیں زوجہ کے حقوق ہی‘ سر فہرست نظر‬ ‫‘آتے تھے‬ ‫وہ بھی خود ساختہ۔‬ ‫هللا جانے‘ شخص کے ذاتی حقوق کو‘ کیوں گول کر دیا جاتا ہے۔‬ ‫ذاتی حقوق‘ پہلی ترجیع پر ہوتے ہیں۔ جو شخص‘ اپنے حقوق‬ ‫ادا کرے گا‘ وہی هللا اور اس کی پوری کائنات کی مخلوق کے‘‬


‫حقوق ادا کر سکے گا۔۔ جو شخص‘ اپنی ذات سے انصاف نہیں‬ ‫کرتا‘ اللچ اور خوف کے زیر اثر‘ ضمیر کی نہیں کہتا‘ یا کہہ‬ ‫سکتا‘ رزق حالل‘ اپنے وجود کو مہیا نہیں کرتا‘ دوسروں کو‬ ‫کیسے کر سکے گا۔ هللا کا بےنیاز اور ہر حاجت سے باال ہونا‘‬ ‫مسلم ہے۔ اس کی خوشی‘ اسی میں ہے‘ کہ شخص‘ اس کی‬ ‫مخلوق کے حقوق پوری دیانت داری سے ادا کرے۔ حقوق کا‬ ‫معاملہ ذات سے‘ هللا کی طرف پھرتا ہے۔‬ ‫سلیم صاحب نے‘ اوالد کے لیے‘ عقد ثانی کیا تھا هللا نے انہیں‘‬ ‫چاند سا بیٹا عطا کیا۔ گویا جائیداد کا وارث پیدا ہو گیا تھا۔ صالحہ‬ ‫کا ڈنگ‘ پہلے سے زیادہ تیز ہو گیا۔ عالم صاحب‘ عمر رسیدہ‬ ‫سلیم کی‘ موت کی راہ دیکھنے لگے۔ دن رات یک طرفہ‘‬ ‫بالوجہ‘ جنگ چلتی۔ شادی کے وقت بھی‘ سلیم صاحب کی عمر‬ ‫زیادہ تھی‘ لیکن صالحہ اور عالمہ صاحب کو‘ آج یہ کجی زیادہ‬ ‫ہی نظر آنے لگی تھی۔ سلیم صاحب بچے کے لیے‘ سب برداشت‬ ‫کر رہے تھے‘ اور کرتے بھی کیا‘ کوئی رستہ باقی نہ رہا تھا۔‬ ‫عالمہ صاحب کے لیے سلیم صاحب کی موت‘ کوئی معنی نہ‬ ‫رکھتی تھی‘ کیوں کہ اسامی تالشنا‘ اور گھیرنا‘ ان کے دائیں‬ ‫ہاتھ کا کھیل تھا۔‬


‫هللا جانے‬

‫ایک خاتون سے‘ راہ چلتے‘ ایک تھانےدار نے‘ جو گھوڑی پر‬ ‫سوار تھا‘ چودھری کے گھر کا رستہ دریاقت کیا۔ اس خاتون‬ ‫نے‘ تفصیل اور تسلی سے‘ رستہ بتایا۔ گھر آ کر‘ با رعب‬ ‫خاموشی اختیار کر لی۔ گھر کا کوئی بھی فرد بالتا‘ بارعب‬ ‫دیکھنی کے ساتھ‘ منہ دوسری طرف پھیر لیتی۔ شام کو خاوند‬ ‫آیا‘ اس نے بھی بالیا‘ تو اس بارعب اور معزز خاتون نے‘ وہ‬ ‫ہی انداز اختیار کیا۔ پھر اس نے‘ اپنے بچوں سے‘ معاملہ‬ ‫دریافت کیا۔ انہوں نے کہا‘ ہمیں وجہ کا تو علم نہیں‘ لیکن اماں‬ ‫صبح سے ہی‘ ہم سب سے‘ اسی طرح کا‘ برتاؤ کر رہی ہے۔‬ ‫خاوند نے دو چار گالیاں کھڑکائیں‘ اور بوتھا پھیالنے اور‬ ‫سوجھانے کی وجہ دریافت کی۔ اس بی بی نے‘ بڑے فخر اور‬ ‫تمکنت سے فرمایا‪ :‬میں نے اس منہ سے‘ تھانےدار سے بات‬ ‫کی ہے‘ اور اب اسی منہ سے‘ کتوں بلوں کے ساتھ بات کروں۔‬ ‫ریاض کا کراچی میں‘ بڑا لمبا چوڑا کاروبار تھا۔ الکھوں میں‬ ‫کھیلتا تھا۔ کسی کام سے‘ اس کا منیجر کرم پور آیا۔ واپسی پر‘‬ ‫ہمارے ہاں بھی رکا۔ اس نے ریاض کی جانب سے‘ ہم سب کا‬ ‫حال احوال دریافت کیا۔ چلتے وقت‘ ریاض کی جانب سے‘ مجھے‬ ‫پارکر کا پن‘ اور زرینہ کو‘ پانچ صد روپے دیے۔ منیجر چال گیا‘‬


‫تو ذرا دکھانا‘ کہہ کر پن مجھ سے لے لیا اور پھر مستقل قبضہ‬ ‫کر لیا۔ میں نے‘ اس پرمکر قبضے پر‘ صبر کا گھونٹ بھر لیا‘‬ ‫اور کر بھی کیا سکتا تھا۔ اس کے بھائی نے یہ پن دیا تھا۔‬ ‫مجھے دینے سے‘ میرا تو نہیں ہو گیا تھا۔‬ ‫زرینہ پڑھی لکھی ہے‘ اس لیے‘ یہ ناجائز قبضہ‘ قابل مذمت‬ ‫نہیں۔ اصل معاملہ یہ ہوا‘ کہ اس کے مزاج میں‘ رعونت آ گئی۔‬ ‫یہ تو منیجر آیا تھا‘ اگر ریاض خود آ جاتا‘ تو خدا معلوم‘ اس‬ ‫کے مزاج میں‘ کس نوعیت کی تبدیلی آ جاتی۔ مفتوح کو‘ فتح‬ ‫کرنے کے لیے‘ میدان میں اترنا‘ کسی طرح‘ بڑے کارنامے کے‬ ‫زمرے میں نہیں آتا۔ چھری کا خربوزے کو‘ ظالم کہنے والے‬ ‫کو‘ عقل مند نہیں کہا جا سکتا۔ مانتا ہوں‘ ریاض‘ زرینہ کا‘‬ ‫چالیس سال سے بھائی ہے‘ لیکن پندرہ سال سے‘ میرا بھی تو‘‬ ‫عزت مآب سالہ صاحب ہے۔ پندرہ برسوں کو‘ کسی کھاتے میں‬ ‫نہ رکھنا‘ سراسر زیادتی کے مترادف ہے۔ ہمارے حکم رانوں کی‬ ‫طرح‘ زرینہ بھی‘ مفتوح‘ یعنی مجھے‘ مزید فتح کرنے کے‘‬ ‫چکر میں رہتی ہے۔‬ ‫عجیب دھونس تو یہ ہے‘ لوگ‘ طاقت کی ہاں میں ہاں مالتے‬ ‫ہوئے‘ خربوزے کو‘ ظالم قرار دے دیتے ہیں۔ ظلم یہ کہ اس ذیل‬ ‫میں‘ ان کے پاس‘ ناقابل تردید دالئل بھی ہوتے ہیں۔ ان دالئل کا‬ ‫منکر‘ جان سے جائے ناجائے‘ جہان سے ضرور چال جاتا ہے۔‬ ‫اسے ہر اگلے لمحے‘ چھبتی اور طنزیہ نظروں کا‘ سامنا کرنا‬


‫پڑتا ہے۔ صاحب حیثیت اور صاحب ثروت بھائی کی بہن ہونا‘‬ ‫بالشبہ کوئی معمولی اعزاز نہیں‘ لیکن اس بوتے پر‘ اوروں کو‬ ‫معمولی اور حقیر سمجھنا‘ اور ان کو حقارت کی نظر سے‬ ‫دیکھنا‘ بھی تو کوئی اچھی بات نہیں۔ پورے کنبہ کی عورتیں‘‬ ‫زرینہ کو سچا سمجھتی ہیں۔ کہتی ہیں‘ یہ ہی ہے‘ جو گزرا کر‬ ‫رہی ہے‘ کوئی اور ہوتی‘ تو کب کی‘ چھوڑ کر چلی جاتی۔‬ ‫لڑنے اور بےعزتی کرنے کے لیے‘ بہانے تراشنا‘ کوئی اچھی‬ ‫عادت نہیں۔ کل ہی کی بات ہے‘ اس بات پر اچھا خاصا بولی‘ کہ‬ ‫انڈے چھوٹے الیا ہوں۔ اب ان سے کوئی پوچھے‘ انڈے میں دیتا‬ ‫ہوں! انڈے مرغی دیتی ہے‘ اور مرغی کسی کی ماتحت نہیں‘ یہ‬ ‫اس کی مرضی ہے‘ کہ انڈے چھوٹے دے یا بڑے دے۔‬ ‫بات یہاں تک ہی محدود نہیں‘ جب سے‘ ریاض کا منیجر‘ پانچ‬ ‫سو روپے اور پاکر کا قلم‘ دے کر گیا ہے‘ زرینہ کا طور ہی بدل‬ ‫گیا ہے۔ ہر چیز میں‘ نقص نکالنا اور اسے گھٹیا ثابت کرنا‘ اس‬ ‫نے ابنا‘ فرض منصبی بنا لیا ہے۔ اب میں نے‘ بازار کی چیزیں‘‬ ‫النا چھوڑ دی ہیں وہ خود ہی‘ التی ہے۔ بازار سے واپسی پر‘‬ ‫پہلے بڑبڑاتی ہے‘ پھر مہنگائی کا روال ڈالتی ہے۔ اوہ خدا کی‬ ‫بندی‘ مہنگائی میں نے کی ہے۔ مہنگائی کی شکایت‘ صدر فیلڈ‬ ‫مارشل دمحم ایوب خاں سے بنتی ہے۔ ایک بار نے کہہ دیا‘ تم‬ ‫ریاض بھائی سے کیوں نہیں کہتیں‘ کہ وہ مہنگائی کے سلسلے‬ ‫میں‘ ایوب خاں سے بات کرے۔ میں نے غصے میں ہی کہا تھا۔‬


‫کہنا تو یہ چاہیے تھا‘ کہ جس کے بوتے پر اتراتی ہو‘ مہینے کا‬ ‫خرچہ بھی‘ بھیج دیا کرے‘ لیکن میں‘ پھر بھی‘ مروت میں رہا۔‬ ‫میری کہے پر‘ بڑا چمکی‘ سارا دن بالوقفے برسی۔ خدا معلوم‘‬ ‫ماں نے کیا کھا کر پیدا کیا تھا‘ تھکنے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔‬ ‫لوہے کا سر رکھتی تھی۔ اتنی گرمی تو‘ لوہے کو بھی‘ پانی بنا‬ ‫دیتی ہے لیکن اس کے سر پر‘ تو رتی بھر اتر نہ پڑتا۔ ہاں البتہ‘‬ ‫سر پر پٹی باندھ لیتی۔ پٹی تو معمول میں داخل تھی۔ خصوصا‘‬ ‫جب کام سے آتا‘ تو وہ مجھے پٹی بردار ہی ملتی۔‬ ‫تنخواہ میں‘ مجھے باسٹھ روپے ملتے تھے۔ یہ کوئی‘ معمولی‬ ‫رقم نہ تھی۔ عموم اتنی تنخواہ‘ خواب میں بھی نہ دیکھ سکتے‬ ‫تھے۔ میں جو التا‘ پائی پائی اس کے حوالے کر دیتا۔ اپنے‬ ‫خرچے کے لیے‘ ایک آڑھت پر دو گھنٹے کام کرتا۔ وہاں سے‘‬ ‫جو پان سات روپے ملتے‘ اسی پر گزرا کرتا۔ بلکہ اس میں سے‬ ‫بھی‘ ایک آدھ روپیہ‘ گھر پر خرچ کر دیتا۔ اس کے خیال میں‘‬ ‫میں جھوٹ بولتا ہوں‘ اوور ٹائم میں‘ پندرہ بیس روپے کما لیتا‬ ‫ہوں۔ یہ کام‘ اس کے ٹائم میں کرتا ہوں۔ کئی بار قسم بھی کھائی‘‬ ‫لیکن اس نے‘ یقین نہ کرنے کی ٹھان رکھی تھی۔ پندرہ بیس‬ ‫رویے‘ اوور ٹائم میں کب ملتے ہیں۔ زرینہ کی‘ اوور ٹائم کی‬ ‫آمدن پر‘ بڑی گہری نظر تھی۔ مرد ہوں‘ باہر دوستوں میں رہتا‬ ‫ہوں‘ چھوٹی موٹی‘ سو ضرورتیں ہوتی ہیں۔ باہر خالی جیب‬ ‫رہنے سے‘ نہیں بنتی۔ اسے اس بات کا‘ احساس تک نہ تھا۔‬ ‫کتنی بےحس تھی۔‬


‫گھر میں‘ معقول رقم آنے کے باوجود‘ چار پانچ روپے ہر ماہ‘‬ ‫قرض میں نکل ہی آتے۔ بڑا تاؤ آتا‘ لیکن چپ کے آنسو پی کر‬ ‫رہ جاتا۔ نیچے دیکھنا‘ تو اس نے سیکھا ہی نہ تھا۔ ہمارے‬ ‫اردگرد میں‘ مزدور لوگ اقامت رکھتے تھے۔ بےچارے پتا نہیں‘‬ ‫کس طرح‘ گزر اوقات کرتے تھے۔ درمیانے طبقے کے لوگوں‬ ‫کو‘ اونچی اڑان وارہ نہیں کھائی۔ اونچی اوڑان کے لیے‘ پر بھی‬ ‫اونچی اوڑان کے درکار ہوتے ہیں۔ اب ہم‘ ریاض کی اڑان‘ تو‬ ‫نہیں بھر سکتے تھے۔ میں مالزم تھا‘ کاروباری آدمی نہ تھا۔ وہ‬ ‫تو شروع سے‘ پاکستانی مال پر‘ میڈ ان جاپان کا ٹھپا لگا کر‘‬ ‫مال بیچ رہا تھا۔ میرے پاس‘ یہ آپشن تھا ہی نہیں۔‬ ‫زرینہ‘ پاکستانی حکمرانوں کے قدموں پر تھی۔ پاکستانی عوام‬ ‫کا‘ خون پسینہ‘ ان کے کھیسے لگتا تھا۔ اس کے باوجود‘ ان کا‬ ‫پیٹ نہیں بھر رہا تھا۔ هللا جانے‘ پیٹ تھا یا کوئی اندھا کنواں۔‬ ‫سب کچھ‘ ہڑپنے کے باجود‘ ملک الکھوں ڈالر کا مقروض ہو گیا‬ ‫تھا۔ یہ بوجھ بھی‘ تو عوام پر ہی تھا۔ عوام کی بہبود کے نام پر‘‬ ‫لیے گیے قرضوں سے‘ موجیں اڑا رہے تھے۔ غریب عوام نے‘‬ ‫ڈالر تو بڑی دور کی بات‘ ایک ہزار کا نوٹ‘ کبھی نہیں دیکھا‬ ‫تھا۔‬ ‫زرینہ کا چڑھایا قرضہ‘ مجھے ہی دینا تھا۔ اسے اس امر کی‘‬ ‫قطعی پرواہ نہ تھی‘ کہ قرض اتارنے کے لیے‘ رقم کہاں سے‬ ‫آئے گی۔ بچت کے نام سے‘ وہ جیسے الرجک تھی۔ اس کا خیال‬


‫تھا‘ اوور ٹائم میں‘ کافی کچھ کما لیتا ہوں۔ دوسرا موج کرنا‘ اس‬ ‫کا حق ہے‘ قرض اتارنا‘ اس کی سر درد نہیں۔ اس ذیل میں‘ میں‬ ‫جانوں‘ یا میرا کام جانے۔ هللا ہی جانے‘ میری زرینہ سے‘ کب‬ ‫اور کس طرح‘ خالصی ہو گی۔ مجھے لگتا ہے‘ زرینہ اور زرینہ‬ ‫کے ہم خیال حکم رانوں سے‘ میری اور عوام کی‘ کبھی بھی‘‬ ‫خالصی نہ ہو سکے گی اور ہم‘ اسی طرح‘ سسک سسک کر‘‬ ‫قبروں کا رستہ ناپیں گے۔‬

‫پاخانہ خور مخلوق‬

‫میں نے‘ اپنے ہاں کے‘ مسلمان انسان کے‘ شخصی تجزیے کا‘‬ ‫سروے کرنے کا‘ ارادہ کیا۔ اس کے لیے‘ کچھ سواالت‘ ترتیب‬ ‫دیے۔ میں چوں کہ خود بھی‘ دن میں ایک دو بار مسجد جاتا‬ ‫ہوں‘ اس لیے‘ مسجد میں آنے والے لوگوں کو ہی‘ پہلی ترجیع‬ ‫میں رکھا۔ دوسری کھیپ میں دیگر معززین کو رکھا۔ سوال کچھ‬ ‫‪:‬یہ تھے‬ ‫آپ پانچ وقت نماز ادا کرتے ہیں۔ ‪٢-‬‬


‫رمضان میں‘ باقاعدگی سے‘ روزے رکھتے ہیں۔‪١-‬‬ ‫زکوات کی ادائیگی میں‘ بخل سے کام تو نہیں لیتے ‪٠-‬‬ ‫حج کرنے کی سعادت میسر آئی ‪٩-‬‬ ‫مائی باپ کے ساتھ ہی‘ رہتے ہیں‘ یا الگ سے‘ رہائش ‪٩-‬‬ ‫رکھتے۔‬ ‫مائی باپ سے‘ مالی تعاون کرتے ہیں۔ ‪٩-‬‬ ‫اگر ایک حیات ہے‘ تو وہ آپ کے ساتھ ہی رہتے ہیں ‪٨-‬‬ ‫تمام بہن بھائیوں سے‘ مالقات اور لین دین‘ چلتا رہتا ہے۔ ‪٥-‬‬ ‫ادھار لے کر‘ وقت پر‘ واپس کر دیتے ہیں‘ یا دیر سویر ہو ‪٢٢-‬‬ ‫جاتی ہے یا قرض دہندہ کی‘ فوری موت کے‘ خواں رہتے ہیں۔‬ ‫بیماروں کی تیمارداری کرتے ہیں۔ ‪٢٢-‬‬ ‫ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں۔ اس سے آپ کو سکون ‪٢١-‬‬ ‫ملتا ہے۔‬ ‫کی گئی مدد کا ذکر تو چلتا رہتا ہو گا۔ مطلب یہ کہ لوگوں ‪٢١-‬‬ ‫کو ترغیب کی غرض سے‬ ‫جھوٹ بولتے ہیں ‪٢٠-‬‬ ‫حرام کی کمائی‘ کھانے کا کبھی اتفاق ہوا۔ ‪٢٩-‬‬


‫آپ دونوں میاں بیوی‘ ایک دوسرے سے‘ مخلص ہیں اور ‪٢٩-‬‬ ‫آپسی اعتماد‘ موجود ہے یا بس گزرا چل رہا ہے۔‬ ‫جواب بڑا حیران کن تھا۔ میرے سمیت‘ چار سو سے زائد لوگوں‬ ‫میں سے‘ ایک بھی‘ جواب دیانت دار کے دروازے سے‘ گزرتا‬ ‫ہوا نہ مال۔ کچھ لوگ‘ ایسے بھی تھے‘ جو دن میں‘ ایک آدھ بار‬ ‫سے زیادہ مسجد گیے ہوں گے۔ ایک صاصب‘ پیشاب کرنے کی‬ ‫غرض سے‘ مسجد تشریف لے جاتے تھے۔ دیکھنے واال‘ یہ ہی‬ ‫سمجھتا‘ مسجد سے نماز پڑھ کر‘ نکلے ہیں۔ یہ بھی‘ ان کی‬ ‫سماجی مجبوری تھی۔ ان کی دکان‘ مسجد کے سامنے تھی۔ ایک‬ ‫صاحب‘ صبح سویرے‘ غسل شب فرمانے کے لیے‘ تشریف لے‬ ‫جاتے تھے۔ سب‘ خود کو پانچ وقتا بتا رہے تھے۔‬ ‫میاں طارق صاحب کو‘ میں ذاتی طور پر‘ جانتا تھا۔ زکوت دینا‘‬ ‫تو بڑی دور کی بات‘ فقیر کو دو ٹیڈی پیسے دیتے‘ موت پڑتی‬ ‫تھی۔ میاں طارق صاحب بڑے مال دار تھے۔ ان کے والد‘ خیر‬ ‫خیریت سے گزر گیے‘ ہاں البتہ‘ ماں بیمار بڑی‘ تو خیراتی‬ ‫ہسپتال کے‘ برآمدے میں پانچ دن‘ سسکتی بلکتی رہی۔ اس کے‬ ‫نصیب میں‘ ان پر‘ دو دمڑی خرچ کرنا نصیب نہ ہوئی۔ ہم سائے‬ ‫تو دور کی بات‘ اپنے سگے بہن بھائیوں کے ساتھ‘ میٹھا بولنے‬ ‫پر ان کا خرچا اٹھتا تھا۔‬ ‫رانا نصیر صاحب‘ رمضان کا بڑا احترام کرتے تھے۔ رمضان جب‬ ‫بھی‘ ان کے ہاں تشریف التا‘ ان کی بیوی صالحہ کی‬


‫مسکراہٹوں کا عوضانہ‘ ان کے بچوں کی تلی پر‘ بڑے کھلے دل‬ ‫سے‘ دھر کر جاتا۔ ویسے رانا صاحب بھی‘ باہر رمضان کی‬ ‫برکتوں اور رحمتوں کا‘ البھ اٹھاتے۔ سموسے بنا کر‘ پرچون‬ ‫فرشوں کو فراہم کرتے تھے۔ تکوں کی‘ ان کی ذاتی دکان تھی۔‬ ‫سارے جہاں کا گند بال‘ مہنگے داموں‘ لوگوں کے پاپی پیٹ میں‘‬ ‫بالتکلف چال جاتا تھا۔ گھر میں‘ سب کچھ ہوتے‘ وہ بھوکا رہنے‬ ‫کے‘ قائل نہیں تھے۔ محنت اور حالل کمائی کماؤ‘ ان کا مقولہ‬ ‫معروف تھا۔‬ ‫حاجی سکندر صاحب‘ کسی مالیات کے دفتر میں‘ ہیڈ کلرک تھے۔‬ ‫جسم وجان سے‘ تو بارعب نہ تھے‘ ہاں ان کا دفتری ٹہکا‘ صدر‬ ‫کنیڈی کو بھی‘ مات کرتا تھا۔ کسی کا مفت میں کام کرنا‘ ان کے‬ ‫اصول کے‘ زمرے میں نہیں آتا تھا۔ اسی وجہ سے‘ وہ بڑے‬ ‫اصول پرست‘ سمجھے جاتے تھے۔ ان کے ٹہکے کے زیر اثر‘‬ ‫لوگ انہیں‘ حاجی صاحب کہتے تھے۔ وہ لکھتے بھی حاجی‬ ‫تھے۔ حاجی کہلوانا‘ انہیں خوش آتا تھا۔ حاالں کہ انہوں نے حج‬ ‫نہیں کیا ہوا تھا۔ جائز جائز باالئی لیتے تھے‘ کیوں کہ رزق حرام‬ ‫سے‘ انہیں سخت چڑ تھی۔‬ ‫سردار جہاں گیر صاحب‘ ہمارے ہمسائے میں‘ رہ کر گیے تھے۔‬ ‫بھلے آدمی تھے۔ بس تھوڑا بہت‘ تقریبا روزانہ ہی‘ ادھر ٹھرک‬ ‫بھور لیتے تھے۔ انہیں ناکام ٹھرکی کہنا‘ بڑی زیادتی اور ان کی‬ ‫شخصیت کے خالف‘ سازش ہو گی۔ ان کے کچھ تیر‘ نشانے پر‬


‫بھی بیٹھتے تھے۔ ان کی زوجہ ماجدہ بھی‘ بنتی پھبتی خاتون‬ ‫تھیں۔ جوان اور ضرورت مند‘ ان کی استفادہ‘ حاصل کرتے‬ ‫رہتے۔ نانہہ تو خیر‘ میرے لیے بھی‘ نہ تھی‘ لیکن میری مردانہ‬ ‫بزدلی نے‘ ہمیشہ مجھے‘ میری اوقات میں رکھا۔ ان کے گھر‘‬ ‫تقریبا روزانہ ہی‘ چان ماری ہوتی رہتی تھی۔ سردار جہاں گیر‬ ‫صاحب نے‘ بڑے اعتماد سے‘ اپنے ازدواجی تعلق کو‘ اے ون‬ ‫قرار دیا تھا۔‬ ‫محلے میں سب سے بلند عمارت‘ چودھری محمود صاحب کی‬ ‫ہے۔ پنج وقتے نمازی ہیں۔ دودھ کا کاروبار کرتے ہیں۔ گاڑی پر‘‬ ‫گاؤں گاؤں سے‘ دودھ اکٹھا کرکے‘ سرف اور بال صفا پورڈر‬ ‫وغیرہ سے‘ خوب مدھانی پھیری جاتی ہے۔ اس کے بعد‘ دودھ‬ ‫کو اچھی طرح‘ پانی سے نہالیا دھالیا اور پاک صاف کیا جاتا۔‬ ‫گویا لوگوں اور دکانوں پر‘ صاف ستھرا دودھ‘ سپالئی کرتے‬ ‫تھے۔‬ ‫ٹھیکے دار بابر صاحب‘ پچھلے برس حج کرکے واپس آئے ہیں۔‬ ‫دو نمبری سے تائب ہو گیے ہیں۔۔ اک گھٹ اک مٹھ داڑھی بھی‘‬ ‫رکھ لی ہے۔ سر پر ٹوپی‘ اور ہاتھ میں‘ ایک سو ایک دانوں کی‬ ‫تسبیح رکھنا‘ نہیں بھولتا۔ عموم میں بیٹھ کر‘ فحش باتیں کرنا‘‬ ‫یا سننا‘ پسند نہیں کرتا۔ پرانے معاشقوں سے‘ منہ پھیر گیا ہے۔‬ ‫نیا کوئی معاشقہ‘ سننے میں نہیں آیا۔ اب‘ حاجت سے فراغت‬ ‫کے بعد‘ دام چکا کر‘ کیلے کے چھلکے کی طرح‘ وہ پھینکتا‬


‫ہے۔ شراب سے‘ منہ موڑ گیا ہے۔ اسے شیطان ٹوٹی کا نام دیتا‬ ‫ہے۔ اب پہلے کی طرح‘ پیٹو یھی نہیں رہا۔ معدے کے السر نے آ‬ ‫لیا ہے۔ اب دن میں صرف چار مرتبہ‘ کسی صاف ستھرے ہوٹل‬ ‫سے‘ پیٹ بھر کھاتا ہے۔‬ ‫جہاں یہ اچھی تبدیلیاں آئی ہیں‘ وہاں دو تین پرانی عادتوں کو‘‬ ‫تقویت ملی ہے۔ پہلے رو دھو کر سہی‘ معاوضہ ادا تو کر دیتا‬ ‫تھا‘ لیکن اب‘ معاوضہ اگلے کام پر اٹھا رکھتا ہے۔ مجال اے‘‬ ‫جو مزدور اگلے کام پر آنے سے‘ چوں چرا کرے۔ ہاں زبان میں‘‬ ‫سرزنش آمیز میٹھاس سی آ گئی ہے۔ کام ختم کرنے کے وقت‘‬ ‫اسے کوئی ایمرجنسی یاد آ جاتی ہے۔ اس طرح‘ مزدور سے‘‬ ‫ڈیڑھ دو گھنٹے‘ زیادہ کام لے لیتا ہے۔ مال دو نمبر سہی‘‬ ‫استعمال پورا کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے‘ پتا نہیں کب جان نکل‬ ‫جائے‘ اس لیے حرام کمائی کو حرام ہی سمجھتا ہوں۔‬ ‫الحاج صالح الدین‘ عالقے کا بڑا معزز اور معتبر شخص ہے۔‬ ‫اسی لیے‘ بھاری اکثریت کے ساتھ‘ عالقے کا ممبر چنا گیا ۔‬ ‫کبھی کسی کو‘ مایوس نہیں کرتا۔ جو بھی اس کے ڈیرے پر آتا‬ ‫ہے‘ آس امید کی پنڈ باندھ کر‘ لے جاتا ہے۔ یہ بات‘ بالکل الگ‬ ‫سے ہے‘ کہ کام صرف اپنوں کے کرواتا ہے۔ ان کو مایوس‬ ‫کیوں کرئے‘ وہ ہی تو‘ اس کا ڈیرہ‘ رواں دواں رکھے ہوئے‬ ‫ہیں۔ پہلے ڈھائی مرلہ کے خستہ حال مکان میں‘ اقامت رکھتے‬ ‫تھے‘ اب خیر سے‘ ڈیڑھ کنال کی کوٹھی میں‘ گزرا کرتے ہیں۔‬


‫آج کل‘ دالل کو دالل نہیں‘ ایجنٹ کہتے ہیں۔ ملک اورنگ زیب‬ ‫المعروف جانگو‘ آج کل‘ دالل نہیں‘ خود کو‘ پراپرٹی ایجنٹ‬ ‫کہتے ہیں۔ جھوٹ سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ ہر بات پر‘‬ ‫بالکہے‘ قسم کھانا‘ نہیں بھولتے۔ عالقے کے کھاتے پیتے اور‬ ‫خوش حال لوگوں میں‘ شمار ہوتے ہیں۔ ان کے جھوٹ کو‘‬ ‫جھوٹ کہا نہیں جا سکتا۔ یہ بات اپنی جگہ سچ ہے‘ سچ سے‬ ‫پرہیز میں رہتے ہیں۔ جو بھی سہی‘ پانچ وقت کے نمازی ہیں۔‬ ‫مزے کی بات یہ‘ کہ ہر نماز باجماعت پڑھتے ہیں۔ ان کی اس‬ ‫خوبی کا‘ پورا عالقہ معترف ہے۔‬ ‫خان قاسم خان‘ کچہری میں کام کرتے ہیں۔ عالقے کے لوگ‘‬ ‫خصوصا جرائم پیشہ کے تو گرو ہیں۔ مجرم کو بھی‘ ان پوشیدہ‬ ‫امور کا‘ پتا نہیں ہوتا‘ جن کا وہ نالج رکھتے ہیں۔ گواہی‘ حلف‬ ‫اٹھا کر دیتے ہیں۔ وہ وہ بیان کرتے ہیں‘ کہ مخالف وکیل کی‬ ‫بھی‘ بس بس کرا دیتے ہیں۔ مجرم کو بھی‘ اپنی بےگناہی کا‘‬ ‫یقین آ جاتا ہے۔ ان کے کسی کہے کو‘ جھٹالنے سے‘ سرکاری‬ ‫پاپ لگتا ہے۔‬ ‫ایک بات ہے‘ کہ وہ ہیں پانچ وقتے نمازی‘ اور حق سچ کی‬ ‫تلقین کرنے‘ اور اچھا اور پکا مسلمان بننے‬ ‫کی ہدایت‘ کرتے رہتے ہیں۔ اس ذیل میں‘ تساہل اور کوتاہ‬ ‫کوسی‘ گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں۔ اگرچہ ان کی باتوں پر ‘عمل‬ ‫ایک آدھ بھی‘ نہیں کرتا۔ اس پر وہ مایوس نہیں ہوئے۔ ان کا‬


‫‪:‬قول ہے‬ ‫نماز میرا فرض گواہی میرا پیشہ۔‬ ‫محترمہ ڈاکٹر نور جہاں صاحبہ‘ عالقہ کی‘ بےبدل سیانی ہیں۔‬ ‫پچھلے سال‘ حج کرکے آئی ہیں۔ ساتھ میں‘ بوڑھی ماں کو‬ ‫بھی‘ حج کرا کر‘ ثواب دورین حاصل کر چکی ہیں۔ ان کی موت‬ ‫کے بعد‘ ان کی قبر کو‘ پکا ہی نہیں ‘ سنگ مرمر سے‘ آراستہ‬ ‫بھی کروایا ہے۔ تھوڑی دور‘ باپ کی قبر‘ اپنی الوارثی کا‘ شکوہ‬ ‫کرتی نظر آتی ہے۔ مادری سوسائٹی کی پیدائشی و رہائشی ہیں۔‬ ‫پہلے ایل ایچ وی تھیں۔ ڈاکٹر کے سابقے کے لیے‘ ہومیو‬ ‫پیتھک کورس کیا۔ ویسے عالج‘ ایلوپیتھک طریقہ سے ہی‘‬ ‫کرتی ہیں۔ ڈیلوری اور ابارشن کیسز میں ماہر ہیں۔ زیادہ تر‘ ثانی‬ ‫الذکر کیسز کرتی ہیں‘ تاہم منکوعہ ابارشن‘ مال معقول نہ ملنے‬ ‫کے سبب‘ انسانی قتل سمجھتی ہیں۔ اس طرح انہیں‘ کنبوں کی‬ ‫عزت کی محافظ‘ قرار دیا ج سکتا ہے۔ غیر منکوحہ ابارشن‬ ‫میں‘ منہ مانگی رقم مل جاتی ہے۔ نماز اور زکوت میں‘ کوتاہی‬ ‫نہیں کرتیں۔ زکوت کی رقم‘ غیریب بہنوں کو‘ ہم دری کیسز قرار‬ ‫دے کر‘ عطا کرتی ہیں۔‬


‫رزق حرام کو‘ میں نے ساری عمر‘ پاخانہ کھانے کے مترادف‬ ‫سمجھا‘ مانا اور کہا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے‘ کہ میں نے بھی‘‬ ‫بارہا یہ پاخانہ کبھی کھایا‘ اور کبھی محض ٹیسٹ کیا ہے۔ اپنی‬ ‫جیب اور غیر کی جیب سے‘ کھانے میں‘ بڑا فرق ہے۔ اس عالقہ‬ ‫میں بسے‘ مجھے ایک عرصہ بیت گیا ہے۔ سب سے‘ میری‬ ‫اچھی سالم دعا ہے۔ ان معززین میں سے‘ کوئی میرے ہاں آ جاتا‬ ‫ہے‘ چائے پانی پالنا پڑتا ہے۔ ان لوگوں کی غمی خوشی میں‘‬ ‫جانا اور کھانا پڑتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے‘ کہ وہ کس قسم کی‬ ‫کمائی سے بنا ہے‘ مروتا کھانا ہوں‘ اور پھر کیا کروں۔ یہ‬ ‫سماجی معذوری ہے‘ کیا کریں۔‬ ‫سروے کے مطابق‘ یہاں کے شرفا بڑے نیک اور حاجی ثناءهللا‬ ‫ہیں لیکن عملی اعتبار سے‘ حرام خور ہیں۔ مانیں نہ مانیں‘ آپ‬ ‫کی مرضی۔ حقیقت یہ ہی ہے‘ کہ ہم کسی ناکسی سطح پر‘ حرام‬ ‫خور ہیں۔۔۔۔۔ حرام خور۔۔۔۔۔۔۔اسی وجہ سے ہم پوری دنیا میں ذلیل‬ ‫وخوار ہیں۔‬ ‫سروے کے بعد‘ مجھے بڑا دکھ ہوا‘ کہ اس انسانوں کی اس‬ ‫بستی میں‘ مجھ سمیت‘ جھوٹے‘ انسان سے‘ پاخانہ خور‬ ‫مخلوق‘ بھی آباد ہے‘ جس کے سبب‘ خرابیوں نے‘ جنم لے کر‘‬ ‫اس چاند سے خطہ کی‘ خوب صورتی کو‘ گہنا دیا ہے۔‬


‫ان پڑھ‬

‫‘کمال اے‘ اکرم کو میں نہیں جانتا‬ ‫ہم ایک ہی محلہ میں‘ رہتے ہیں۔ ہمارا بچپن‘ ایک ساتھ گزرا‬ ‫ہے۔ ہمارا شروع سے‘ دن میں‘ ایک دو بار‘ ٹاکرا ہوتا رہتا ہے۔‬ ‫وہ دوسری جماعت سے‘ آگے نہ بڑھ سکا۔ کند ذہن کا مالک تھا۔‬ ‫مسجد میں بھی‘ نہ چل سکا۔ وہ تو خیر‘ امام مسجد صاحب کی‘‬ ‫روز اول کی‘ پھینٹی برداشت نہ کر سکا۔ امام مسجد صاحب نے‘‬ ‫تین چار مرتبہ‘ سبق بتایا‘ لیکن وہ یاد نہ کر سکا۔ انہیں تاؤ آ‬ ‫گیا‘ کان پکڑا کر‘ ایسا وجایا‘ کہ آج بھی‘ یاد کرتا ہو گا۔‬ ‫اس نے نان چنے کی ریڑھی لگا لی۔ میں نے تعلیم جاری رکھی۔‬ ‫میں نے درجہ دوئم میں‘ بی اے پاس کیا اور اچھی پوسٹ پر‬ ‫تعینات ہو گیا۔ صرف دو سال ہوم اسٹیشن نہ مال۔ یہ ہی میرے‬ ‫اوراس کے‘ جدائی کے دن تھے۔ میں جب بھی چھٹی پر آتا‘‬ ‫اسے ضرور ملتا۔ مجھے ہر بار‘ نیا اکرم ملتا۔ اب جب کہ میں‬


‫ہوم اسٹیشن پر ہوں‘ اس لیے میری اور اس کی‘ مالقات ہوتی‬ ‫رہتی ہے۔ سچی اور خدا لگتی بات تو یہ ہی ہے‘ کہ اکرم‘ وہ‬ ‫اکرم نہینتھا ۔ مزاج میں حد درجہ کی سنجیدگی اور متانت آگئی‬ ‫تھی۔۔ میں نے بات بات پر‘ اسے قہقہے لگاتے نہیں دیکھا۔‬ ‫مسکراہٹ میں بھی‘ سنجیدگی کا عنصر نمایاں ہوتا۔ اس سے‬ ‫بڑھ کر‘ بات تو یہ تھی‘ کہ جب کوئی بات کرتا‘ تو یوں لگتا‘‬ ‫جیسے آکسفورڈ یونی ورسٹی سے‘ پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر‘‬ ‫واپس پلٹا ہو۔ اس کی ہر بات میں معقولیت‘ تجربہ اور دلیل ہوتی۔‬ ‫میری بات کا‘ یہ مطلب نہ لیا جائے‘ کہ مجھے کوئی جالپا تھا۔‬ ‫لوگ‘ اسے بڑی عزت دیتے اور اس کی قدر بھی کرتے تھے۔‬ ‫اس کے برعکس‘ میں پڑھا لکھا اور معقول مالزمت رکھتے‬ ‫ہوئے بھی‘ لوگوں سے‘ اس سی عزت اور احترام حاصل نہ کر‬ ‫پایا تھا۔ اس کی بیوی‘ پورے محلے میں‘ شیداں کپتی کے نام‬ ‫سے‘ جانی جاتی تھی۔ وہ بولتے نہ تھکتی تھی۔ گھر میں؛ اس‬ ‫نے اکرم کا جینا حرام کر رکھا تھا۔ مجال ہے‘ اس نے کبھی اپنی‬ ‫بیوی کی‘ کسی سے شکایت کی ہو۔ ایک بار اس کے بھائی نے‘‬ ‫اکرم کو شیداں کو طالق دے‘ کر کسی دوسری عورت سے‘‬ ‫شادی کر لینے کا مشورہ دیا۔ اس کے بھائی کے ہاتھ میں‘ رشتہ‬ ‫بھی تھا۔ اکرم نے‘ مسکراتے ہوئے‘ فقط چندد جملوں میں بات‬ ‫ختم کر دی۔‬


‫اس کا کہنا تھا‪ :‬آنے والی‘ نہ لڑے گی‘ فطرت کو کون بدل سکتا‬ ‫ہے۔ روز اول سے‘ سب اسی طرح چال آتا ہے۔ هللا نے‘ آدمی کو‬ ‫التعداد‘ صالحیتوں سے‘ نوازا ہے۔ توازن کے لیے‘ مرد کا‬ ‫عورت سے‘ مالپ رکھ دیا ہے۔ ورنہ یہ کائنات کے‘ پاؤں زمین‬ ‫پر نہ آنے دیتا۔‬ ‫کمال صاحب‘ حج کرکے آئے۔ سب انہیں مبارک باد کہنے کے‬ ‫لیے‘ ان کے ہاں‘ حاضر ہوئے۔ اکرم بھی‘ انہیں مبارک باد کہنے‬ ‫کے لیے حاضر ہوا۔ باتوں ہی باتوں میں‘ عصری جبریت اور‬ ‫معاشی و معاشرتی گھٹن کا ذکر چل نکال۔ اس کو ختم کرنے کے‬ ‫لیے‘ ہر کوئی اپنی رائے رکھتا تھا۔ اکرم سب کی‘ خاموشی سے‘‬ ‫باتیں سن رہا تھا۔‬ ‫ایک صاحب کے خیال میں‘ حقیقی جمہوریت سے مسائل حل ہو‬ ‫سکتے ہیں۔ نصیر صاحب کا خیال تھا‘ کہ اسالمی جمہوریت سے‬ ‫ہی‘ ہر قسم کی خرابی دور ہو سکتی ہے۔ نبی بخش کا خیال تھا‘‬ ‫کہ خالفت زندگی کو‘ آسودہ کر سکتی ہے۔ اکرم نے‘ ہر تین نظام‬ ‫پر بات کی‘ جس کا لب لباب یہ تھا کہ‬ ‫جمہوریت‘ قطعی غیر فطری نظام ہے۔ عوام کون ہوتے ہیں‘‬


‫حکومت کرنے والے۔ حکومت کا حق‘ صرف هللا ہی کو حاصل‬ ‫ہے۔ حکومت عوام کے ذریعے نہیں‘ قرآن و سنت کے ذریعے‬ ‫ہی‘ اصولی اور فطری بات ہے۔‬ ‫اسالمی جمہوریت‘ تو ایسی ہی بات ہے اسالمی چوری‘ اسالمی‬ ‫قتل‘ اسالمی زنا وغیرہ‬ ‫کس خالفت کی بات کرتے ہو‘ جس نے منصور کو‘ شہید کیا۔ نام‬ ‫بدلنے سے‘ کیا ہوتا ہے‘ تھی تو بادشاہت‘ باپ کے بعد بیٹا۔ کام‬ ‫بھی ان کے باشاہوں والے تھے۔‬ ‫شرف علی بوال‪ :‬پھر تم بتاؤ‘ کیا ہونا چاہیے۔‬ ‫بھائی! مسلہ اس وقت تک حل نہ ہو گا‘ جب تک‘ انسان کا اندر‬ ‫نہیں بدال جاتا۔ انبیا اور صالیحین‘ یہ ہی تو کرنے کی‘ کوشش‬ ‫کرتے آئے ہیں۔‬ ‫ریاض بوال‪ :‬یہ تو نہیں ہو سکتا۔ نامکنات میں ہے۔‬ ‫اگر یہ نہیں ہو سکتا‘ تو کوئی بھی نظام‘ خرابی دور نہ کر‬ ‫سکے گا۔ لوگ تو‘ یہ ہی رہیں گے نا۔ استحصال کرنے والے‘‬ ‫اپنی ڈگر پر رہیں گے۔ کم زور‘ کوہلو کا بیل بنا رہے گا۔ لکھ لو‘‬ ‫کچھ نہیں ہو گا۔۔۔۔۔۔۔کچھ نہیں ہو گا۔۔۔۔۔۔ ۔‬ ‫وہ یہ کہتا ہوا اٹھ کر چال گیا۔‬


‫اس قسم کی باتیں‘ ایک چٹا ان پڑھ‘ کس طرح کر سکتا ہے۔‬ ‫ناممکن‘ قطعی ناممکن۔ میں گڑبڑا گیا۔ نان چنے بیچنے واال‘ اس‬ ‫قسم کی باتیں کر ہی نہیں سکتا۔ اسے خداداد صالحیت کا نام نہیں‬ ‫دیا جا سکتا۔ میری نظر سے‘ سیکڑوں‘ ان پڑھ گزرے ہیں‘ ایسا‬ ‫ان پڑھ‘ میں نے نہیں دیکھا۔ اگر اس قسم کے ان پڑھ‘ پیدا ہو‬ ‫جائیں‘ تو اس قوم کی قسمت ہی نہ بدل جائے۔‬ ‫وہ کھرا سودا بیچتا تھا‘ یہ ہی وجہ ہے‘ کہ اسے گاہکی بڑی‬ ‫پڑتی تھی۔ بےایمانی اور ہیرا پھیری یا غلط بیانی‘ تو اس کے‬ ‫کاغذوں میں ہی نہ لکھی تھی‘ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا‘‬ ‫کہ وہ ان چیزوں سے‘ سخت نفرت کرتا تھا۔ کسی سے‘ ادھار‬ ‫نہیں کرتا تھا‘ ہاں ضرورت مند کا پیٹ بھر دیتا تھا۔ ادھار لیتا‬ ‫بھی نہ تھا۔ کہتا تھا‘ پتا نہیں‘ سانس کب ساتھ چھوڑ جائے‘ میرا‬ ‫ادھار‘ کوئی دوسرا کیوں چکائے۔‬ ‫میں اس انوکھے ان پڑھ کی‘ ٹوہ میں لگ گیا۔ اس کے معموالت‬ ‫جان کر ہی‘ اصل حقیقت‘ تک‘ رسائی ممکن تھی۔ صبح‬ ‫سویرے‘ اٹھ جاتا۔ مسجد میں‘ ہر قماش کے لوگ ملتے ہیں۔ وہ‬ ‫وہاں سب سے‘ سالم دعا کرتا۔ ہاں ماسٹرالل دین صاحب سے‘‬ ‫ناصرف بڑی گرم جوشی سے‘ ہاتھ مالتا‘ بلکہ بغل گیر بھی ہوتا۔‬ ‫ان کے درمیان‘ بات کم ہی ہوتی‘ ہاں پرخلوص مسکراہٹ کا‬


‫تبادلہ‘ ضرور ہوتا۔ مسجد سے فراغت کے بعد ‘ حضرت سید‬ ‫حیدر امام صاحب کے ہاں‘ حاضر ہوتا۔ حضرت سید حیدر امام‬ ‫صاحب کے قدم لیتا۔ وہ اس سے‘ ہاتھ مالتے‘ گلے ملتے‘ بڑی‬ ‫محبت سے‘ اس کے سرپر ہاتھ پھیرتے۔ اسے مسکرا کر‬ ‫دیکھتے۔ شام کی نماز کے بعد بھی‘ اس کا یہ ہی معمول ہوتا۔‬ ‫جب کبھی‘ کوئی پڑھا لکھا‘ محلہ میں‘ کسی کے ہاں‘ مہمان‬ ‫ہوتا‘ وہ اسے ملنے ضرور جاتا۔ اس سے‘ بڑی گرم جوشی‬ ‫سے‘ ہاتھ مالتا اور اسے گلے ضرور ملتا۔ تحفہ میں‘ دو نان اور‬ ‫کچھ چنے لے جانا نہ بھولتا۔‬ ‫اکرم اچھا خاصا تھا۔ ستاون سال‘ عمر کم نہیں‘ تو اتنی زیادہ‬ ‫بھی نہیں۔ اچھا خاصا‘ چلتا پھرتا تھا۔ چہرے پر‘ بڑھاپے کا‘ دور‬ ‫تک‘ اتا پتا بھی نہ تھا۔ وہ بوڑھا بھی تو نہ تھا‘ اچانک چل بسا۔‬ ‫وہ یہاں‘ مہمانوں کی طرح رہا۔ اکٹھا کر لینے کی ہوس‘ اس میں‬ ‫بالکل نہ تھی۔ جو‘ اور جتنا مال‘ اسی پر‘ گزارا کرتا رہا۔ یہ کیا‬ ‫ہوا‘ صبح کی جماعت میں شریک تھا‘ شام کو‘ لوگ‘ اس کے‬ ‫جنازہ میں‘ شامل تھے۔ ہر زبان پر‘ اکرم چل بسا‘ تھا۔ ہائیں‘ یہ‬ ‫کیسا جانا ہوا۔ جانے سے پہلے‘ جانے کے‘ اثار تک نہ تھے۔‬ ‫ابھی زندہ تھا‘ ابھی فوت ہو گیا۔ یہ مرنا بھی‘ کیسا مرنا ہوا۔ آج‬ ‫اس کا ساتواں تھا۔ اس کے اپنوں میں‘ گنتی کے چند لوگ تھے۔‬ ‫محلہ کا‘ شاید ہی کوئی شخص رہ گیا ہو گا۔‬


‫ہر زبان پر‘ اس کی اچھائی اور شریف النفسی کے‘ کلمے تھے۔‬ ‫وہاں سے‘ معلوم ہوا‘ اس کی بیوہ‘ کسی وقت رشیدہ خانم تھی۔‬ ‫حاالت اور وقت نے‘ اسے شیداں کپتی بنا دیا تھا اور رشتہ‘‬ ‫حضرت سید حیدر امام صاحب نے کروایا تھا۔ سید صاحب بھی‬ ‫تشریف الئے تھے۔ وہ گوشہ نشین بزرگ تھے۔ پورا عالقہ‘ ان‬ ‫کی عزت کرتا تھا۔ وہ کچھ ہی دیر‘ وہاں رکے۔ چہرے پر جالل‬ ‫تھا‘ ہاں‘ ساتھ چھوٹ جانے پر‘ ان کی آنکھوں سے‘ خاموش‬ ‫آنسو رواں تھے‬ ‫اب میرے پاس‘ اس کی فراست اور متانت کے‘ دونوں سرے‬ ‫تھے۔ حضور کریم نے‘ ہاتھ مالنے اور ایک دوسرے سے گلے‬ ‫ملنے کی‘ کیوں تاکید کی تھی۔ ہاتھ مالنے سے‘ ناصرف‬ ‫ریکھاوں کا ملن ہوتا ہے‘ بلکہ نادانستہ طور پر‘ جذبات‘ اطوار‬ ‫اور دانش بھی منتقل ہوتی ہے۔ جب کوئی گناہ گار‘ کسی صالح‬ ‫سے‘ ہاتھ مالتا ہے تو مثبت عناصر منتقل ہو جاتے ہیں۔‬ ‫دوسرے سرے پر یہ مقولہ موجود تھا‪ :‬صحبت صالح‘ صالح کند‬ ‫صحبت طالع‘ طالع کند‬ ‫جس طرح‘ سگریٹ کی عادت چھوڑنے سے‘ نہیں چھٹتی‘ اسی‬ ‫طرح‘ اچھا کرنے کی عادت‘ جو انسان اپنی فطرت میں‘ لے کر‬


‫جنم لیتا ہے‘ دم نہیں توڑ سکتی۔ اگر یہ چھٹنے کی ہوتی‘ تو‬ ‫سقراط کبھی زہر نہ پیتا۔ حسین کیوں کربال تک آتے۔ منصور کو‬ ‫کیا پڑی تھی‘ کہ قتل ہوتا‘ پھر اگلے دن جالیا جاتا‘ اس سے‬ ‫اگلے دن‘ اس کی رکھ اڑائی جاتی۔‬ ‫اکرم‘ باعمل ان پڑھ تھا۔ ہم‘ بےعمل پڑھے ہیں۔ اس کی ان‬ ‫پڑھی‘ ہم سے‘ بدرجہا بہتر تھی۔ ہم نے جو پڑھا‘ ہمیشہ اس کے‬ ‫برعکس عمل کیا۔ حقی سچی بات تو یہ ہی ہے‘ اکرم پڑھا ہوا‘‬ ‫باحکمت شخص تھا۔ ہم‘ ان پڑھ اور حکمت و دانش سے محروم‬ ‫لوگ ہیں۔‬

‫تاریخ کے سینے پر‬

‫ملکہ ساحرہ جان شاہ کی ناگہانی موت نے‘ شاہی محل کے در و‬ ‫دیوار‘ ہال کر رکھ دیے۔ کہرام مچ گیا‘ دکھ کا بھونچال آ گیا۔ خود‬ ‫شاہ کی‘ دھاڑیں مار مار کر رونے سے‘ حالت غیر ہو گئی تھی۔‬ ‫یہ اس کی اکلوتی ملکہ نہ تھی۔ اصل وجہ یہ تھی‘ کہ شاہ کی‬ ‫اس سے کچھ زیادہ ہی رغبت تھی۔ کوئی دوسری ملکہ‘ اگر‬


‫ملکہ ساحرہ جان شاہ کی بدمزاجی کی شکایت کرتی‘ تو وہ سنی‬ ‫ان سنی کر دیتا۔ بعض اوقات ڈانٹ تک پال دیتا۔ مرحومہ کے‘ ہر‬ ‫کہے کو آسمانی صحیفے کا سا درجہ حاصل تھا۔ نیچ ذات سے‬ ‫تھی‘ اسی وجہ سے‘ کامے اور کامیوں کی تقریبا ہر وقت‘ شامت‬ ‫آئی رہتی تھی۔ ان میں سے‘ کوئی چوں تک نہیں کر سکتا تھا۔‬ ‫وہ یہ کہنے کی جرات نہیں رکھتے تھے‘ کہ کل تک تمہاری‬ ‫ماں‘ ہمارے ساتھ کام کیا کرتی تھی۔ یہ تو وقت وقت کی بات‬ ‫ہوتی ہے۔ وقت شاہوں کو فقیر اور فقیروں کو شاہی مسند پر‬ ‫بیٹھا دیتا ہے۔ وقت کسی کا غالم ہوتا اور ناہی کسی سے پوچھ‬ ‫کر گزرتا ہے۔‬ ‫شاہ کے پرسےاور شاہی قربت کے لیے‘ ہر کسی کو اصلی اور‬ ‫حقیقی انداز میں‘ بےچینی وبے قراری کا ناٹک کرنا تھا۔ یہ ہی‬ ‫نہیں بین‘ نوحہ خوانی‘ اشک سوئی اور سینہ کوبی سے کام‬ ‫لینا تھا۔ وفاداری کے مظاہرے کے لیے‘ اس سے مواقع‘ کبھی‬ ‫کبھی ہاتھ لگتے ہیں۔ انہیں ضائع کرنا‘ اپنی قسمت کے ساتھ‬ ‫کھلواڑ کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ شدت غم میں بھی‘ شاہی‬ ‫لطف و عطا اپنے معمول کے مرتبے سے نہیں گرتے۔ کسی کنیز‬ ‫کی نوحہ کناں آواز یا انداز‘ شاہ کو بھا سکتا ہے۔ وہ ہی لمحہ‘‬ ‫اسےعموم سے خصوص میں‘ داخل کر سکتا ہے۔ قسمت الٹری‬ ‫کی طرح ہوتی ہے۔ سب اپنی اپنی کالکاری میں مصروف تھے۔‬


‫شاہ کی دیگر بیگمات بھی‘ کسی سے پیچھے نہ رہنا چاہتی‬ ‫تھیں۔ باطنی سطع پر پھوٹنے والے لڈو‘ غم ناکی کے روپ میں‬ ‫ڈھل کر‘ چارسو زردی بکھیر رہے تھے۔‬ ‫سارے مشیر‘ وزیراور انتظامی عملہ‘ بڑا مصروف اور انتہا‬ ‫درجہ کی پھرتیاں دکھا رہا تھا۔ یوں لگتا تھا‘ جیسے ان سے بڑھ‬ ‫کر‘ محنتی‘ کارگزار اور وفادار لوگ دنیا میں نہ ہوں گے۔ حاالں‬ ‫کہ ہر کوئی‬ ‫‪look busy but do nothing.‬‬ ‫کلیے پر‘ عمل درآمد کر رہا تھا۔ ان کی ان ہی چلنتریوں نے‘‬ ‫انہیں اعلی مقام اور اعلی درجے عطا کیے تھے۔ کسی نے کیا‬ ‫ہی خوب کہا ہے‬ ‫اسپ تازی شدہ مجروع بر زیر پالن‬ ‫طوق زرین ہمہ در گردن خر میبینم‬ ‫خیر کام بھی تھے‘ جنازے کے لیے‘ دیگر والئیتوں سے آنے‬ ‫والوں کے لیے‘ بیٹھنے کا انتظام‘ کفن دفن کے خصوصی‬ ‫انتظامات‘ کھانے وغیرہ کا مناسب اور شاہی وقار کے شایان‬ ‫شان بندوبست‘ ایسے چھوٹے موٹے بہت سے امور تھے‘‬


‫جنہیں خوش اسلوبی سے نبھانا اور نپٹانا‘ کوئی معمولی بات نہ‬ ‫تھی۔‬ ‫ملکہ ساحرہ جان شاہ نے‘ شاہ کو آخری لمحوں میں‘ باطور‬ ‫وصیت چار باتیں کہی تھیں اور ان پر صدق دل سے عمل درآمد‬ ‫کرنے کی تاکید بھی کی تھی۔‬ ‫اول‪ -‬شہر کے بارونق عالقہ میں‘ اس کا عالی شان مقبرہ تعمیر‬ ‫کیا جائےاور دو بیگھہ زمین میں باغ لگوایا جائے تا کہ ہر آنے‬ ‫جانے واال‘ اس کی‘ بادشاہ کی نظروں میں‘ قدر وقیمت اور عزت‬ ‫ومقام کا اندازہ کر سکے۔‬ ‫دوم‪ -‬اس سا‘ کسی کا عالی شان مقبرہ‘ تعمیر نہ ہونے دیا‬ ‫جائے۔‬ ‫سوئم‪ -‬دل میں اس کی یاد کے سوا‘ کسی اور کو نہ بسایا‬ ‫جائے۔‬ ‫چہارم۔ اس کی جگہ‘ کسی اور کو نہ الیا جائے۔ اگر کوئی‬ ‫دوسری ملکہ حق ہوتی ہے‘ تو خالی جگہ پر کرنے میں‘ کسی‬ ‫قسم کے تساہل سے کام نہ لیا جائے۔‬ ‫وزیر بندوبست کے لیے‘ کسی بھی بارونق اور گنجان آباد عالقہ‬


‫میں‘ دو کیا‘ دس بیگھہ زمین خالی کرا لینا‘ کوئی مشکل کام نہ‬ ‫تھا۔ سروے کے بعد‘ اس کار خیر کے لیے‘ شیر شاہ چوک سے‬ ‫زیادہ‘ کوئی عالقہ مناسب معلوم نہ ہوا۔ پھر دیکھتے یی‬ ‫دیکھتے‘ تین بیگھہ زمین کے رہائشوں سے‘ عالقہ خالی کرا‬ ‫کر‘ بلڈوز کر دیا گیا۔ وزیر بندوبست اپنی سیانف اور دانائی کی‬ ‫وجہ سے‘ شہرہ رکھتا تھا۔ دو ییگھہ مقبرہ اور باغ کے لیے‘‬ ‫جب کہ ایک بیگھہ خدمت گاروں اور اس کی رہاہش کے لیے‘‬ ‫مختص کر دیا گیا۔ نگرانی کا حساس اور اہم ترین کام‘ اس کے‬ ‫سوا‘ بھال اور کون انجام دے سکتا تھا۔‬ ‫اس عظیم قومی مشن کے لیے‘ بےتحاشا مالی وسائل کی‬ ‫ضرورت تھی۔ شاہی خزانے سے‘ مالی وسائل استمال میں النا‘‬ ‫نادانی کے متردف تھا اور شاہی خزانہ بھی‘ اس کا متحمل نہ‬ ‫تھا۔ وزیر مالیات نے کہا‪ :‬جس طرح بادشاہ سب کا ہوتا ہے‘ اسی‬ ‫طرح ملکہ بھی سب کی ماں ہوتی ہے‘ اس لیے اس عظیم قومی‬ ‫مشن کے لیے‘ جملہ وسائل فراہم کرنا‘ عوام کا قومی فریضہ‬ ‫ہے۔ مالی تعاون بادشاہ سے اظہار وفاداری بھی تو ہے۔‬ ‫وزیر مالیات کی تجویز پر‘ ہر درباری‘ عش عش کر اٹھا اور اس‬ ‫کی فراست کی تعریف کرنے لگا۔‬


‫مالی وسائل کی حصولی کے لیے‘ استعمال کی اور خوردنی اشیا‬ ‫پر‘ ملکہ ماں ٹیکس عائد کر دیا گیا۔ لوگ مری ملکہ ماں کو‘‬ ‫برسرعام گالیاں دینے لگے۔ اس ٹیکس سے‘ پورا پڑنا مشکل‬ ‫تھا۔ مجبورا‘ ممتا کونسل تشکیل دینا پڑی‘ جو گھروں‘ دکانوں‘‬ ‫مارکیٹوں‘ کاروباری جگہوں‘ راہ گیروں‘ مسافروں وغیرہ سے‘‬ ‫مالی وسائل جمع کرنے لگی۔ اس سے بےچینی بڑھی‘ دنگا فساد‬ ‫بھی ہوا۔ اس میں کچھ زخمی ہوئے‘ چند سو جان سے بھی‬ ‫گیے۔ زمین حاصل کرتے وقت بھی‘ کچھ اسی قسم کی صورت‬ ‫حال پیش آئی تھی۔ انتظامیہ‘ ایسے شر پسند عناصر سے‘ نپٹنا‬ ‫خوب خوب جانتی ہے۔ اتنی بڑی مملکت میں‘ گنتی کے چند‬ ‫لوگوں کا مر جانا‘ اتنا بڑا ایشو نہیں ہوتا۔ دوسرا‘ ایسے عناصر‬ ‫کا مر جانا ہی‘ دوسروں کے لیے بہتر اور عبرت ہوتا ہے۔ اس‬ ‫طرح انہیں‘ کان ہو جاتے ہیں اور اس سے بغاوت کے جراثیم‘‬ ‫اپنی موت آپ مر جاتے ہیں اور امن وامان بحال رہتا ہے۔‬ ‫دیکھتے ہی دیکھتے‘ عالی شان مقبرہ تعمیر ہو گیا۔ اس کی‬ ‫تعمیر میں‘ کوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی تھی۔ اس کی تعمیر کے‬ ‫لیے‘ اعلی سطح کے کاری گروں کی خدمات‘ حاصل کی گئی‬ ‫تھیں۔ جو دیکھتا‘ عش عش کر اٹھتا۔ شاہ بھی‘ ہنرمندی پر‬ ‫کلمہء تحسین ادا کیے بغیر‘ رہ نہ سکا۔ اطراف میں‘ محافظ‬ ‫مالزمین اور وزیر بندوبست کی رہائش گاہ نے‘ بےرونقی کو ہی‬


‫ختم نہیں کیا تھا‘ بلکہ حسن کو دوباال کر دیا تھا۔ شاہ کی نشت‬ ‫گاہ‘ تو دیکھنے الئق تھی‘ لیکن اس کی زیارت‘ شاہ کی آمد پر‬ ‫ہی کی جا سکتی تھی۔‬ ‫اس سارے عمل میں‘ جہاں مقبرہ وغیرہ تعمیر ہوا‘ وہاں‬ ‫بندوبستیوں کی بھی‘ چاندی ہوئی۔ انہوں نے لمبا چوڑا ہاتھ مارا‬ ‫تھا۔ وزیر مالیات اور وزیر بندوبست‘ پہلے ہی رج کھاتےاور‬ ‫چھنڈ پہتتے تھے‘ تاہم اس پروجیکٹ نے بھی‘ انہیں مایوس نہ‬ ‫کیا تھا۔ آنکھ کا نہ بھرنا‘ اس سے قطعی مختلف بات ہے۔‬ ‫وقت‘ بڑی تیزی سے‘ مستقبل کی طرف بڑھتا رہا۔ لوگ ماضی‬ ‫کے دھرو‘ بھولتے گیے۔ شاہ کا زخم بھی‘ مندمل ہو گیا اور ہر‬ ‫کوئی‘ اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہو گیا۔ مقبرے کا باغ‘‬ ‫حسیناؤں کی تفریح گاہ بن گیا۔ حسیناؤں کی آمد پر‘ کسی قسم‬ ‫کی روک نہ تھی‘ ہاں مرد حضرات کے لیے‘ یہ ایریا قطعی‬ ‫ممنوعہ تھا۔ اگر مرد حضرات کو بھی‘ یہاں آنے کی اجازت دے‬ ‫دی جاتی‘ تو یہ فحاشی کا اڈہ بن جاتا۔ شاہ ملکہ ساحرہ جان شاہ‬ ‫کو تقریبا بھول چکا تھا۔ ہاں البتہ‘ یہاں اپنی نشت پر‘ باقاعدگی‬ ‫سے جلوہ افروز ہونے لگا۔ جب وہ جلوہ افروز ہوتا‘ حسیناؤں‬ ‫کے غول کے غول‘ اٹھکیلیاں کرتے نظر آتے۔ آج اگر شداد زندہ‬ ‫ہوتا‘ تو حسد اور احساس کہتری سے‘ اس کا کلیجہ پھٹ پھٹ‬


‫جاتا۔‬ ‫لوگ‘ آلہ ءنشاط پر دسترس اور اس سے لطف افروزی کے‬ ‫لیے‘ کمینگی کی‘ کسی بھی سطع پر‘ اتر آتے ہیں۔ شاہوں کے‬ ‫دبدبے اور وجاہت کے حضور‘ کنویں پیاسے کی سیرابی کے‬ ‫لیے‘ بےچین و بےقرار اور سبقت لے جانے کی فکر میں‘‬ ‫ہلکان ہوتے ہیں اور یہ شرف‘ چڑھے مقدر والوں کو ہی‘ حاصل‬ ‫ہو پاتا ہے۔ پھر ایک روز‘ فرخ سیر کی محبوبہ‘ روپ کنور کی‬ ‫نسل کی‘ ایک شوخ و چنچل ڈومنی نے‘ شاہ کی صدیوں کی‘‬ ‫پیاس کو بجھا کر‘ شاہی محل میں جگہ بنا ہی لی۔ ساری‬ ‫راجدھانی میں جشن منایا گیا۔ مبارک بادوں کے پیغام ملنے‬ ‫لگے۔‬ ‫اب محل پر‘ ملکہ قرتہ الشاہ کا سکہ چلنے لگا۔ شاہ بھی‘ اس‬ ‫کی مٹھی میں بند ہو کر رہ گیا۔ جس طرح کہتی‘ شاہ اسی طرح‬ ‫کرتا‘ بلکہ اب شاہ کم‘ وہ زیادہ کہتی تھی۔ گویا ملک کا انتظام‘‬ ‫اس کے ہاتھ میں آ گیا تھا۔ اس کے حضور کسی کو‘ چوں تک‬ ‫کرنے کی جرآت نہ تھی۔ اس کے خاندان کے بہت سے لوگ‘‬ ‫اعلی عہدوں پر فائز ہو گیے۔ بہت سے پرانے نمک حرام‘ معزول‬ ‫کر دیے گیے۔‬


‫ملکہ قرتہ الشاہ‘ فضول کی قائل نہ تھی۔ ہر معمولی اور گری‬ ‫پڑی چیز بھی‘ تصرف میں آ گئی۔ کچرے سے بھی‘ تصرف کی‬ ‫اشیا ڈھونڈ نکالتی۔ کام چور اور نکموں کو بھی‘ کام کرنا پڑا۔ وہ‬ ‫اپنے خاندان کے لوگوں کے کہے کو‘ درست اور سچ مانتی۔‬ ‫چاپلوسی کے لیے بھی‘ ان ہی میں سے منتخب کیے گیے۔ ہر‬ ‫غیر خاندان کے عہدےدار کے پیچھے‘ اپنے خاندان کا کوئی فرد‬ ‫چھوڑ دیتی۔ گربوتی ہونے کے باوجود‘ وہ اسی چابکدستی سے‬ ‫کام انجام دے رہی تھی۔ جب سے امید سے ہوئی‘ شاہ اس پر اور‬ ‫بھی مہربان ہو گیا تھا۔ کیوں نہ ہوتا‘ وہ سلطنت کے لیے‘ وارث‬ ‫کو جنم دینے والی تھی۔‬ ‫مقبرے کے دو ایکڑ اور اس سے ملحقہ ایک ایکڑ زمین پر‘‬ ‫عالی شان عمارتیں الیعنی تصرف میں تھیں۔ اس نے تمام‬ ‫عمارتیں‘ اپنے خاندان کے معزز لوگوں کو‘ االٹ کر دیں۔ باغ‬ ‫مینا بازار کے لیے مخصوص کر دیا۔ باغ میں داخلے کی انٹری‬ ‫فیس مقرر کر دی۔ یہ بازار‘ ہفتے میں صرف دو بار لگتا۔ خود‬ ‫شاہی نشت پر بیٹھ کر‘ اس کی نگرانی کرتی۔ ساتھ آئی کنیزوں‬ ‫کی اشیا وغیرہ کے رکھنے کے لیے‘ مقبرے کو باطور سٹور‬ ‫استعمال کیا جانے لگا۔ بعد ازاں‘ گھاس پر ننگے پاؤں چلنے‬ ‫والوں کے لیے‘ جوتا گاہ بنا دیا گیا۔‬


‫مواد دو نمبر استعمال کیا گیا تھا‘ اوپر سے کثرت استعمال نے‘‬ ‫اسے ڈھارا بنا دیا۔ شاہ کی حیات میں ہی‘ مقبرہ زمین بوس ہو‬ ‫گیا۔ شاہ کو یاد تک نہ رہا‘ کہ اس ملبے تلے‘ اس کی سابقہ‬ ‫محبوب ملکہ ساحرہ جان شاہ‘ ابدی نیند سو رہی ہے۔ ملبہ صاف‬ ‫کرکے‘ آنے جانے والوں کی سہولت کے لیے‘ طہارت خانے‬ ‫تعمیر کرا دیے گیے۔ تاہم ملکہ ساحرہ جان کی قبر کو‘ نقصان نہ‬ ‫پنچایا گیا۔ ہاں تھوڑا مختصر کرکے‘ اس کو دوبارہ سے مرمت‬ ‫کروا دیا گیا اور یہ ثابت کر دیا کہ وہ فراخ دل ہی نہیں‘ اپنی‬ ‫مرحومہ سوت کے لیے بھی‘ دل میں عزت اور احترام کا جذبہ‬ ‫رکھتی ہے۔ اس کے اس جذبے کو‘ اطراف میں قدر کی نگاہ‬ ‫سے دیکھا گیا۔ اس کی یہ ہی فراخ دلی‘ تاریخ کے سینے پر‘‬ ‫ہمیشہ کے لیے ثبت ہو گئی۔‬

‫لمحوں کا خواب‬

‫سفر آخرت اختیار کرنے میں' کچھ زیادہ وقت نہ رہ گیا تھا۔‬ ‫نائیلہ' جو اس کی آخری اور ذاتی کوشش کا نتیجہ تھی'‬


‫محرومیوں میں بڑی ہوئی۔ باپ سے پاگل پن کی حد تک' محبت‬ ‫کرتی تھی۔ اس کی زندگی بچانے کے لیے وہ دل وجان سے‬ ‫بھاگ دوڑ کر رہی تھی۔ جو عیش میں پلے اور بڑے ہوئے' اس‬ ‫کی ان احمقانہ کوششوں پر پیچ وتاب کھا رہے تھے۔ ناہید جس‬ ‫کے' وہ عمر بھر غلط سلط مطالبے پورے کرتا رہا تھا' رائی بھر‬ ‫متفکر نہ تھی۔ وہ بڑھاپے میں بھی' جوان لڑکیوں کی طرح ناز‬ ‫نخرے دکھاتی تھی اور وہ اٹھاتا بھی رہا تھا۔ بڑا لڑکا پچاس‬ ‫سے تجاوز کرنے کو تھا' لیکن وہ ابھی پینتس سال کی نہیں‬ ‫ہوئی تھی' خیر اس معاملہ میں' اپنے بیٹے کی عمر کی' وہ ذمہ‬ ‫دار اور پابند نہ تھی۔ یہ اس کا ذاتی معاملہ تھا۔ اگر کوئی سو‬ ‫سال بعد بھی پوچھتا' تو وہ اپنی عمر پنتیس سال ہی بتاتی' گویا‬ ‫وہ اس ذیل میں زبان کی پکی تھی۔‬ ‫وہ ہوش میں تھا اور ابھی تک' اس کے حواس معطل نہیں ہوئے‬ ‫تھے۔ وہ سوچ رہا تھا' کہ ان لوگوں کی خوشی کے لیے' کیا‬ ‫کچھ کرتا رہا۔ انہیں سہولتیں فراہم کرنے کے لیے' ہر طرح کی‬ ‫بددیانتی اور دو نمبری کرتا رہا۔ جسے کچھ میسر نہ آیا' جان‬ ‫ہلکان کر رہی تھی۔ عیش میں پلے' اس کے قریب آنے کا بھی‬ ‫تردد نہیں کر رہے تھے' مبادہ موت انہیں بھی اپنی گرفت میں‬ ‫لے گی۔ اب تو گھڑی پل کا معاملہ تھا'چند لمحوں کے لیے' اسے‬ ‫اپنا ظاہر کرنے سے' ان کا کیا جاتا تھا۔ انہوں نے تو' مروت'‬


‫لحاظ اور جعلی تکلف و تردد کا بھی ستیاناس مار کر رکھ دیا‬ ‫تھا۔ آنکھیں بند ہوتے ہی' دو چار مگرمچھ کے آنسو بہائیں گے'‬ ‫دنیا اسے ان کی محبت اور صدمے کا نام دے گی' حاالں کہ یہ‬ ‫ان کے سینے کے باسی ہی نہیں رہے تھے۔‬ ‫اسے اپنی زندگی کے گزرے چوہتر سال' کل پرسوں کی بات‬ ‫لگی۔ اس نے سوچا یہ زندگی کچھ بھی نہ تھی' محض چند‬ ‫لمحوں کا خواب تھی۔ چوہتر سال کچھ کم نہیں ہوتے' لیکن‬ ‫دیکھتے دیکھتے ہاتھوں سے نکل گیے۔ اب وہ واپس مڑ نہیں‬ ‫سکتا تھا اور مستقبل کا دروازہ' کچھ ہی لمحوں کے بعد' کھلنے‬ ‫کو تھا۔ وہ ان کا یا وہ اس کے نہ رہیں گے۔ اس کی ہر چیز' ان‬ ‫کی ہو جائے گی۔ اس کی چیزوں کے بٹوارے پر وہ کتوں کی‬ ‫طرح لڑیں گے۔ اگرچہ ترکہ کچھ زیادہ نہ تھا۔ بہت کچھ بن سکتا‬ ‫تھا' لیکن پیٹ اور موج مستی کو پہلی اور آخری ترجیح دی گئی‬ ‫تھی۔ آج جن بیٹوں کے بوتے پر اترا رہی تھی' اس کی دو ہتھ‬ ‫زبان' اسے ان کے ہاں بےوقار کر دے گی۔ نائیلہ' جسے وہ‬ ‫احمق سمجھتی تھی' ممکن ہے' وہ ہی آخری لمحوں میں اس‬ ‫کے کام آئے۔‬ ‫ڈاکٹر اپنی کوشش میں مصروف تھا۔ وہ اپنی ناہید کی نخرہ‬ ‫برداری کے لیے' مصروف عمل تھا۔ اسے مرنے والے کی‬


‫زندگی یا لحموں کی بہتری' چمکتے سکوں کے لیے عزیز تھی۔‬ ‫سرکاری ہسپتال کے بستر پر پڑا مریض کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔‬ ‫بچ جائے مریض کی قسمت' مر جائے مریض کی قسمت۔ ہر دو‬ ‫صورتوں میں' تنخواہ پر رائی بھر فرق نہیں پڑتا۔ وہ تو جاری‬ ‫رہنے کے لیے ہوتی ہے۔ ہاں کسی مقترہ شخصیت کا معاملہ'‬ ‫اس سے برعکس ہوتا ہے۔‬ ‫ماضی کا ہر لمحہ' کسی فلم کی طرح' اس کی آنکھوں کے‬ ‫سامنے گھوم گھوم گیا۔ اس کا باپ ولی دمحم' امرتسر کے ریلوے‬ ‫اسٹیشن پر قلی تھا۔ صبح سویرے گھر سے نکل جاتا۔ لوگوں کا‬ ‫سامان اٹھانے کے ساتھ ساتھ' بڑے اور دو چھوٹے بابو‬ ‫صاحبان کی خدمت انجام دیتا۔ ان کے لیے کھانا التا' جو کھانا‬ ‫بچ رہتا' اس سے بھوک مٹا لیتا۔ کبھی پیٹ بھر بچ رہتا اور کبھی‬ ‫دو ایک نوالے بھی میسر نہ آتے۔ فارغ وقت میں' ریلوے‬ ‫اسٹیشن کی کنٹین پر کام کرتا۔ آخری گاڑی نکل جانے کے بعد'‬ ‫گھر لوٹ کر آتا۔ ہاجراں اسی وقت گرم گرم کھانا پیش کرتی۔اسے‬ ‫کھانا تو خیر کہا نہیں جا سکتا' ہاں گزارا ٹکر کہنا زیادہ مناسب‬ ‫ہوگا۔ البتہ جوٹھا اور ان دھلے ہاتھوں کا بچا کچا نہ ہوتا تھا۔‬ ‫اس میں ہاجراں کی محبت اور خلوص شامل ہوتا تھا۔ جب وہ‬ ‫کھانا کھا چکتا' تو گرم گرم تیز مٹھے کی بڑی پیالہ ال کر'‬ ‫کھڑکی کا زیریں حصہ' جو باطور میز استعمال ہوتا تھا' پر رکھ‬


‫دیتی اور خود پاس بیٹھ جاتی۔ وہ چائے پیتے ہوئے' سارے دن‬ ‫کی کارگزاری سناتا اور ہاجراں بڑے غور سے سنتی۔ کبھی‬ ‫دونوں ہنس پڑتے اور کبھی افسردہ ہو جاتے۔‬ ‫اس کی کوشش تھی' کہ بڑا لڑکا پڑھ لکھ کر' کچھ بن جائے'‬ ‫پھر وہ چھوٹوں کو خود ہی سمبھال لے گا۔ اس کی محنت اور‬ ‫کوشش پر' کسی سطح پر' شک نہیں کیا جا سکتا۔ ہاجراں اس‬ ‫کے شانہ بہ شانہ چل رہی تھی۔ جس دن عبدالرحمن نے میٹرک‬ ‫کر لیا' ولی دمحم کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اسے یوں لگا'‬ ‫جیسے ساری دنیا کی خوشیوں نے' اس کے قدم آ لیے ہوں۔‬ ‫عبدالرحمن نے کئی سرکاری مالزمتیں کیں لیکن اسے کوئی‬ ‫پسند نہ آئی۔ آخر محکمہ مالیات کی بابو شپ راس آ گئی۔ باالئی‬ ‫وافر میسر تھی۔ جیب میں دام ہوں تو شوقینی بغل گیر ہو ہی‬ ‫جاتی ہے۔ گھر کے کھانے بےلطف اور بےمزا ہو جاتے ہیں۔‬ ‫شراب' کباب اور عورتیہ ذائقہ جب زندگی کا الزمہ اور لوازمہ بن‬ ‫جائیں' باپ کی محنت اور قربانی الیعنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ فقط‬ ‫ذات کی معنویت باقی رہ جاتی ہے۔ اس دورانیے میں' ناہید اس‬ ‫کی زندگی میں داخل ہوئی۔ شوقینی میں' وہ اس کی بھی استاد‬ ‫تھی۔ دونوں خارجی رنگینیوں کے شائق تھے۔ ناہید کے آنے‬ ‫سے خرچے آسمان سے باتیں کرنے لگے تھے۔ ناہید کے بطن‬


‫سے اپنے اور پرائے' گھر کا فرد بننے لگے تھے۔ عبدالرحمن‬ ‫نے بھی کئی ویران گودیں آباد کیں۔‬ ‫ولی دمحم کے خواب' چکنا چور ہو گیے۔ ایک ہی شہر میں رہتے'‬ ‫وہ اس کی شکل دیکھنے کو ترس جاتا۔ ان کے درمیان اسٹیٹس‬ ‫گیپ آ گیا تھا۔ کہاں ایک قلی اور کہاں محکمہ مالیات کا ایک‬ ‫باعزت بابو۔ ایک مرتبہ' دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر' ولی دمحم‬ ‫اس کے دفتر چال گیا۔ وہ پوری زندگی کسی غیر کے ہاتھوں اتنا‬ ‫ذلیل نہ ہوا ہو گا' جتنا اس دن بیٹے کے ہاتھوں ذلیل ہوا۔ وہ‬ ‫سارا دن روتا رہا۔ آخر کسی کو کیا بتاتا۔ دونوں مجبوری کی‬ ‫زنجیر میں جکڑے ہوئے تھے۔ ولی دمحم دل کے ہاتھوں' جب کہ‬ ‫عبدالرحمن اسٹیٹس کے ہاتھوں مجبور تھا۔ وہ کسی کو کیا بتاتا‬ ‫کہ اس کا باپ ایک قلی ہے۔ وہ بھی تو قلی کے لباس میں منہ‬ ‫اٹھا کر چال آیا تھا۔ ولی دمحم نے اس واقعے کا ذکر اپنی بیوی‬ ‫سے بھی نہ کیا' وہ بچاری خواہ مخواہ دکھی ہو گی۔ ہاجراں نے‬ ‫ہر مشکل وقت میں اس کا ساتھ دیا تھا۔‬ ‫موت اٹل حقیقت ہے۔ یہ ہر کسی کو' اپنی لپیٹ میں لے لیتی‬ ‫ہے۔ ولی دمحم کے وعدے پورے ہو گیے اور وہ چل بسا۔ اس دن‬ ‫عبدالرحمن کے گھر دعوت تھی' جو ملتوی نہ کی جا سکتی تھی۔‬ ‫ولی دمحم اگرچہ کئی ہفتوں سے بیمار چال آتا تھا۔ وہ گاہے بہ‬


‫گاہے اس کا پتا کرواتا رہتا تھا۔ موت کی خبر بالکل اچانک ملی‬ ‫تھی۔ سارا انتظام ہو چکا تھا' اس لیے وہ اس کی آخری‬ ‫رسومات میں شامل نہ ہو سکا۔ ماں جس دن مری' اس دن ان‬ ‫کے گھر ناہید کی سال گرہ منائی جا رہی تھی۔ مہمانوں سے گھر‬ ‫بھرا پڑا تھا۔ وہ مہمانوں کو' جو شہر کے معززین تھے' چھوڑ‬ ‫کر ماں کے جنازے میں کس طرح شامل ہو سکتا تھا۔‬ ‫اس نے سوچا وہ کتنے خوش نصیب تھے' کہ اس خوش فہمی‬ ‫کے ساتھ مرے کہ اگر ان کا بڑا بیٹا پاس ہوتا' تو کتنا دکھی ہوتا۔‬ ‫دھاڑیں مار مار کر روتا۔ اس کے بچے قریب ہوتے ہوئے'‬ ‫صدیوں کے فاصلے پر کھڑے' اس کی موت کے لمحوں میں‬ ‫گرفتار بےبسی کا تماشا کر رہے تھے۔ سب کچھ واضح اور دو‬ ‫ٹوک تھا' کسی قسم کی غلط فہمی یا خوش فہمی کا شائبہ تک نہ‬ ‫تھا۔‬ ‫اس نے سوچا' زندگی جب دو لمحوں کی ہے' تو لذت کے لمحے‬ ‫کس شمار میں آتے ہیں۔ شراب کا نشہ ہو' کہ سیٹ کا' آخر اتر‬ ‫ہی جاتا ہے۔ ہوٹل میں بےگانی جیب سے کھانے کی لذت' کھاتے‬ ‫رہنے کے دورانیے تک محدود ہوتی ہے' اس کے بعد منہ میں‬ ‫محض تشنگی باقی رہتی ہے۔ عورتیہ ذائقہ' اپنے اسٹیمنے کے‬ ‫ساتھ جڑا ہوتا ہے اور اسٹیمنہ المحدود نہیں' محدود کےمبہم‬


‫لمحے کی گرفت میں ہوتا ہے۔ فراغت سے پہلے' وہ ایک‬ ‫دوسرے کے کوئی بھی نہیں ہوتے' فراغت کے بعد بھی' وہ ایک‬ ‫دوسرے کے کچھ نہیں ہوتے۔ کوئی دیکھے یا نادیکھے غلط تو‬ ‫ہوا ہوتا ہے۔‬ ‫مبہم لمحوں کی لذت آدمی کو کتنا ذلیل کرتی ہے۔ اس کا سارا‬ ‫بوجھ آدمی کے اپنے کندھوں پر ہوتا ہے۔ چلتے سمے' اپنے‬ ‫بھی اپنے نہیں ہوتے۔ ان کے لیے کیے کا بوجھ بھی' جانے‬ ‫والے کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ بھولے سے بھی وہ' اس بوجھ کے‬ ‫ساجی نہیں بنتے۔ وہ کلین ہینڈ ہی رہتے ہیں۔ وہ فقط اپنے کیے‬ ‫کے' ذمہ دار ہوتے ہیں۔‬ ‫سوچوں کا دائرہ پھیل ہی رہا تھا' کہ اس کی آنکھوں کے‬ ‫سامنے اندھیرا چھانے لگا' پھر سانس رکتی محسوس ہوئی۔‬ ‫سوچ کے لمحے بھی المحدود نہیں ہوتے۔ موت کے ایک ہی‬ ‫جھٹکے سے' سب کچھ بکھر جاتا ہے۔ کچھ باقی نہیں رہتا۔اب‬ ‫وہاں کچھ بھی نہیں تھا' بابو عبدالرحمن تو جا چکا تھا' ہاں‬ ‫چارپائی پر بےکار اور معنویت سے معذور مٹی کا ڈھیر پڑا تھا۔‬ ‫الیعنیت کا سوگ' آخر کوئی کیوں مناتا۔‬


‫ببلو ماں‬

‫شاہوں کا کیا' زیادہ تر' عموم پر آشکار ہی نہیں ہو پاتا۔ کارے‬ ‫قضا‘ کوئی معاملہ‘ کسی کے سامنے آ جائے تو اس پر نکتہ‬ ‫چینی‘ کھلی حماقت کے مترادف ہوتا ہے۔ یا پھر کسی کم زور‬ ‫کے کندھوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ صاحب دانش مفادیوں کا یہی‬ ‫وتیرا رہا ہے۔ جان بچاؤ موج اڑاؤ' ان کا پہال اور آخری اصول‬ ‫ہوتا ہے۔ ڈھونڈورچی ادارے' شاہوں اور اہل زر کو' پہلے اور‬ ‫آخری نمبر پر رکھتے ہیں۔ کم زور اور بےزر مظلوم پہونکے'‬ ‫کسی نمبر پر نہیں اترتے۔ وہ اول تا آخر بےنمبر ہی رہتے ہیں۔‬ ‫بےنمبری اور بےرنگی کی سر بھی' اول الذکر کے قریبیوں کے‬ ‫ہاتھ لگتی ہے۔ وہ ظالم اور استحصال پسندوں میں شمار ہوتے‬ ‫ہیں۔‬ ‫اصولی اور باشری راجدھانیوں میں‘ باال و زیریں طبقہ کے معزز‬ ‫اور معتبر شورےفا خواتین وحشرات‘ مستعمل شاہی اطوار کی‬


‫اصول پسندی کو‘ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ہاں‘ ہاتھ آئے مال‬ ‫کو‘ مستقل طور پر ڈکار جاتے ہیں۔ رشوت‘ بد دیانتی اور ہر دو‬ ‫نمبری کو‘ بےسرا اور بد وضع نہیں رہنے دیا جاتا۔ رہ گیے‬ ‫عموم‘ ان کا کیا ہے‘ وہ تو ہزاروں سال سے‘ بےبسی اور‬ ‫بےکسی کی ٹکٹکی پر گزر بسر کر رہے ہیں۔ گویا وہ الوارثی‬ ‫اور بےچارگی کے‘ کلی طور پرعادی ہو چکے ہوتے ہیں۔ اس‬ ‫لیے‘ ان کی چنتا اور کسی قسم کا تردد‘ کوئی معنویت نہیں‬ ‫رکھتا‘ کیوں کہ معمولی ارتعاش کے بعد‘ فقط چہرے بدلتے ہیں‬ ‫اور کاروان حیات سابق الیعنیت کی لنگز ٹی بی سے' اسی تابانی‬ ‫سے‘ نبردآزما ہو جاتا ہے۔ کیا ہوا‘ زبانی کالمی سے زیادہ‘ نہیں‬ ‫رہ پاتا‘ یہ ہی معتوب طبقے‘ شاہوں کے بانیہ بیلی بن جاتے ہیں۔‬ ‫ان ہی میں سے‘ نئے کرسی قریب پیدا ہو جاتے ہیں۔ نواب‬ ‫صاحب‘ راجہ صاحب‘ خاں صاحب‘ چودھری صاحب‘ ملک‬ ‫صاحب وغیرہ کے لقب سے‘ ملقوب ہوتے ہیں۔ شاہی باغی‬ ‫کنبوں کے زخم بھی‘ ایک وقت کے بعد‘ مندمل ہو جاتے ہیں۔‬ ‫آتے وقتوں میں‘ چند یادوں کے سوا‘ کچھ باقی نہیں رہتا۔‬ ‫جب کسی بھی حوالہ سے‘ زندگی چل رہی ہے تو اس پر انگلی‬ ‫رکھنا‘ بدامنی کا رستہ ہی کھولنا نہیں‘ کھلی بغاوت بھی ہے۔‬ ‫جس شخص کے‘ سوکھی پر گزر اوقات ہو رہے ہیں‘ تو اسے‬ ‫چوپڑی دینا‘ اس پر ظلم و زیادتی کرنا ہے۔ ایسے تو اس کی‬


‫عادتیں ہی بگڑیں گی۔ عیش و نشاط شاہوں اور شاہ والوں کے‬ ‫چونچلے ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کو آخر تسلیم کیوں نہیں کر لیا‬ ‫جاتا‘ کہ سوکھی خوروں کو‘ خوب محنت و مشقت کرنی چاہیے‘‬ ‫تا کہ شاہ‘ اپنی محبوبوں کے لیے‘ تاج محل اور نور محل تعمیر‬ ‫کے لیے‘ بیسیوں کے قتل و غارت پر نہ اتر آئیں۔ زندگی صرف‬ ‫ایک بار ملتی ہے‘ جو مر گیا‘ سو مر گیا۔ کسی مرے کو‘ آج تک‬ ‫واپس آتے‘ کسی نے نہیں دیکھا۔ اس حوالہ سے‘ زندگی خدا کا‬ ‫انمول تحفہ ہے‘ اسے خواہ مخواہ میں ضائع نہیں ہونا چاہیے۔‬ ‫روٹی کے ٹکرے‘ زندگی کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ روٹی کے‬ ‫لیے فساد کھڑا کرنا‘ کہاں کی دانش مندی ہے۔ جان کی امان‬ ‫کے لیے‘ انہیں خود کو وفادار مشقتی بنائے رکھنا ہو گا۔ یہ ہی‬ ‫سچائی اور یہ ہی حقیقت ہے۔‬ ‫گیڈروں نے فصلیں برباد کرکے رکھ دی تھیں۔ اکبرے کے دونوں‬ ‫شکاری کتے بھی‘ ان کے سامنے بھیڑ ہو کر رہ گیے تھے۔‬ ‫گیڈروں کا غول آتا‘ ایسا چکما دیتا‘ کہ دونوں کتے‘ بےبس سے‬ ‫ہو کر رہ جاتے۔ اصل میں‘ ان میں سے ایک کتا‘ گیڈر کے بچے‬ ‫پر ٹوٹ پڑا تھا۔ مادہ گیڈر‘ جو پاس ہی تھی‘ نے اس گستاخ‬ ‫کتے کو شدید زخمی کر دیا اوراس کی بھاگتے بنی۔ یہ ہی اگر وہ‬ ‫مادہ گیڈر پر ٹوٹ پڑتا‘ تو یقینا اسے ڈھیر کر دیتا۔ اس دن سے‘‬ ‫اس کا کھیت پر ہونا یا نہ ہونا‘ برابر ہو گیا تھا۔ گویا گنتی میں‬


‫دو کتے تھے‘ ورنہ حقیقت میں‘ ایک کتا ہی کام کر رہا تھا۔‬ ‫ماں اپنے بچوں کے لیے' کسی بھی سطع تک جا سکتی۔ اسے‬ ‫ہر صورت اور ہر حالت میں' بچوں کی جان اور آزادی عزیز‬ ‫ہوتی ہے۔ وہ اپنے بچوں کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہے۔ اس‬ ‫ذیل میں وہ اپنی جان سے بھی گزر سکتی ہے۔ ہاں مبین اور‬ ‫ببلو جیسی مائیں بھی ہوتی ہیں' جو بچوں کو بےیار و مددگار‬ ‫چھوڑ کر' ننے چھوہارے کی خاطر' اپنی ممتا کے چہرے پر'‬ ‫بدقماشی کا طمانچہ مار کر' نئی دنیا آباد کر لیتی ہیں۔ چھوہارہ‬ ‫ہولڈر یہ نہیں سوچتا' جو اپنے ذاتی بچوں کی نہیں بنی' اس کی‬ ‫خاک بن پائے گی۔ لکیر کا زہریال نشہ' اس کی رگ و پے میں‬ ‫اتر کر' اس کے جملہ حواس معطل کر چکا ہوتا ہے۔ ہر روکنے‬ ‫ٹوکنے واال' انہیں میر جعفر کا پیٹی بھرا محسوس ہوتا ہے۔‬ ‫اوالد پر' چھوہارے کو ترجیح میں رکھنے والی مائیں' بہت کم‬ ‫ہوتی ہیں' لیکن ہوتی ہیں۔ ماں کے قدموں میں جنت کی‬ ‫دعوےدار وہ بھی ہوتی ہیں' حاالں کہ ان کے کبھی قدم ہی نہیں‬ ‫رہے ہوتے۔ پھر جنت کہاں سے آ گئی۔ بابے شاہ نے ببلو کے‬ ‫سر پر' پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا' بیٹا جو تم کرنے جا‬ ‫رہی ہو' کسی طور پر درست نہیں۔ اسے شاہ بابے کی بات زہر‬ ‫لگی۔ اس نے اسے جعلی پیر کہا اور پھوں پھوں کرتی کمرے‬


‫سے باہر نکل گئی' حاالں بابے شاہ نے' اس سے ایک اکنی تک‬ ‫نہ لی تھی اور ناہی' وہ لیتا تھا۔ ببلو نے اسے جعلی پیر مشہور‬ ‫کر دیا' جس سے' بابے شاہ کی صحت پر رائی بھر اثر نہ پڑا‪.‬‬ ‫وہ کون سا پروفیشنل پیر تھا' جو رزق رک جانے کے خدشے‬ ‫سے پریشان ہوتا۔‬ ‫بئےگر پیر دھورے شاہ نے' ببلو سے پیسے لیے' بڑے باذوق‬ ‫انداز میں' اس کی ہر دو اطراف سے پیٹھ سہالئی۔ تعویز' تسلی‬ ‫اور کام ہو جانے کی گرنٹی دی۔ دو تین مرتبہ جانے کے بعد' وہ‬ ‫اس کی دل و جان سے قائل ہو گئی۔ کام ہو جانے کے بعد بھی'‬ ‫وہ اس کے در دولت پر' دوسرے تیسرے حاضری دینے لگی۔‬ ‫شہر بھر میں' اس کی کرامات کا ڈھنڈورا بھی پیٹا۔ بئےگر پیر‬ ‫دھورے شاہ کے ہاں' عشاق حضرات کی قطاریں لگ گئیں۔‬ ‫حکومت بھی ماں کی طرح ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے' یہ شروع‬ ‫سے' گیڈر ماں بھی نہیں بن سکی۔ یہ ہمیشہ ببلو ماں ہی رہی‬ ‫ہے۔ اسے اپنی اوالد کبھی عزیز نہیں رہی۔ اوالد کی بھوک'‬ ‫پیاس' بےچارگی اور الوارثی' ان کا کلیجہ ٹھنڈا کرتی آئی ہے۔‬ ‫ان کی آہیں اور سسکیاں' سامان لطف بنی ہیں۔ گستاخ بچوں کو'‬ ‫زہر پال کر نشان عبرت بنانا' ان کا کرتوے رہا ہے۔ پیشاب بند ہو‬ ‫جانے کی صورت میں' اہل دانش اور حکما کو جیل کا باسی بناتی‬


‫آئی ہے۔ گویا ناالئق اوالد کی ضرورت ہی کیا ہے۔ گستاخ' ناالئق‬ ‫اور نااہل اوالد سے صبر بھال کو' زندگی کا اصول بناتی ہے۔ جنتا‬ ‫اپنی اصل میں' رعایا رہی ہے۔ اسے اوالد ہونے کا اعزاز' کبھی‬ ‫حاصل نہیں ہوپایا۔ زبانی کالمی ہی سہی' حکومت کو ماں کہنا‬ ‫غلط نہیں رہا۔ جیسی بھی ہو' ماں خیر ماں ہوتی ہے' اس کا‬ ‫احترام الزم ہے۔ ببلو ماں کا احترام' فرمابرداری اور خذمت‬ ‫گزاری میں کمی کوتاہی' جان لے سکتی ہے۔‬ ‫میرے سمیت' ہر کوئی' گھر گرہستن ماں کے گن گاتا ہے۔ گھر‬ ‫گرہستن ماں کے بچے' محنت کے بل بوتے پر' علمی ادبی یا‬ ‫اور حوالوں سے چیتھڑوں میں ملبوس' فاقہ گرہست' بڑے آدمی‬ ‫تو بن سکتے ہیں' خوش حال بہت یا بہت ہی بڑے آدمی' کبھی‬ ‫بن نہیں پاتے۔ یہ بڑے آدمی' معاشرے میں گڑبڑی کے سامان‬ ‫پیدا کرتے ہیں۔ حکومتی امور میں' تو کون میں خواہ مخواہ کے‬ ‫مصداق' چھتر کھاتے ہیں یا ان لوگوں کی خاطر' اپنے چھوٹے‬ ‫چھوٹے بچے ذبح کرواتے ہیں' جو ببلو ماں کی اوالدوں کے‬ ‫ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ببلو ماں کے بچے' کیا پلتے نہیں ہیں۔‬ ‫شداد بھی تو پل ہی گیا تھا۔ ببلو ماں کے بچے' راج کرتے آئے‬ ‫ہیں‪ .‬راج کرتے آئے ہیں' راج کرتے رہیں گے اور یہ کرامت‬ ‫بالشبہ بئےگر پیروں کی ہے۔ ببلو ماں کا استفادہ' ہمیشہ سے‬ ‫چار دیواری سے باہر کے لیے رہا ہے۔ اسے حاصل کرنے کے‬


‫لیے' کسی کو زیادہ تردد نہیں کرنا پڑتا۔‬

‫حفاظتی تدبیر‬

‫کنور زندگی میں پہلی مرتبہ' باپ کے ساتھ مسجد میں' عید نماز‬ ‫پڑھنے جا رہا تھا۔ وہ صبح سویرے ہی اٹھ کر' تیار ہو گیا تھا۔‬ ‫بڑا ہو جانے کا احساس' اسے طمانیت بخش رہا تھا۔ وہ وقت‬ ‫وغیرہ کے فلسفے سے آگاہ نہ تھا۔ اسی لیے بضد تھا' کہ ابھی‬ ‫اور اسی وقت مسجد چلتے ہیں۔ صفدر بار بار سمجھا رہا تھا' کہ‬ ‫بیٹا ابھی وقت نہیں ہوا۔ جب وقت ہو گیا تو جائیں گے‪ ......‬تمہیں‬ ‫ساتھ لے کر جاؤں گا‪ ......‬چھوڑ کر نہیں جاتا' فکر نہ کرو۔‬ ‫وہ جماعت کے وقت مسجد میں داخل ہوتا تھا۔ اس کا یہ عقیدہ‬ ‫راسخ ہو گیا تھا' کہ مولوی تفریق کے دروازے کھولتا ہے' اس‬ ‫لیے مولوی کی سننا ہی جرم ہے۔ اس مرتبہ' وہ کنور کی ضد‬ ‫کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے' جماعت سے کافی پہلے' مسجد‬ ‫کی طرف بڑھ گیا۔ اس نے سوچا' شہر کے بڑے مولوی کے‬


‫پیچھے' نماز پڑھتا ہوں۔ وہاں کام کی باتیں ہوں گی اور انسانی‬ ‫تقسیم کی نفی کی جائے۔ چھوٹے میاں تو چھوٹے میاں' بڑے‬ ‫میاں سبحان هللا۔ اس نے مسجد کے دروازے کے اندر' ایک قدم‬ ‫رکھا ہی تھا کہ یہ کلمات کان میں پڑے۔‬ ‫مسلمان مولوی سے چھری پھیرانا' کسی وہابی بولوی سے‬ ‫چھری نہ پھرانا۔‬ ‫نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کے مصداق' نہ آگے جا سکتا تھا'‬ ‫نہ پیچھے مڑ سکتا تھا۔ درایں اثنا' کنور نے اس کا ہاتھ کھینچا‬ ‫اور اسے مسجد میں داخل ہونا ہی پڑا۔‬ ‫کنور نے ساتھ ہی سوال جڑ دیا‪ :‬ابو یہ وہابی بولوی کیا ہوتا‬ ‫ہے۔‬ ‫اس نے منہ پر انگلی رکھتے ہوئے کہا‪ :‬چپ' مسجد میں نہیں‬ ‫بولتے۔‬ ‫تو پھر یہ مولوی کیوں بول رہا ہے۔‬ ‫یہاں صرف مولوی ہی بول سکتا ہے۔‬ ‫ابو یہ نصاف تو نہ ہوا نا‬ ‫انصاف کے بچے' چپ ہو جاؤ۔ مسجد سے باہر جانے کے بعد'‬ ‫جو پوچھنا ہے پوچھ لینا۔‬


‫حضورکریم نے اعتدال کو اصول ٹھہرایا‪ .‬سکون اور آرام سے‬ ‫گفتگو کرنے کو' مستحسن قرار دیا۔ بڑا مولوی چنگھاڑ رہا تھا۔‬ ‫جوش پیدا کرنے کے لیے' نثر بھی گا رہا تھا۔ اسے مسجد میں‬ ‫ہر لمحہ' قیامت سے بڑھ کر' محسوس ہونے لگا۔ خدا کے گھر‬ ‫میں گھٹن' بےشک یہ بات' حیرت سے خالی نہ تھی۔ ادھر کنور‬ ‫بھی بےچینی کے عالم میں تھا۔ نہ بول سکتا تھا اور نہ کھیل‬ ‫سکتا تھا۔ جماعت کھڑی ہونے میں ابھی بائیس منٹ باقی تھے۔‬ ‫کنور کو جتنی جلدی آنے میں تھی' اتنی ہی جانے میں لگ گئی۔‬ ‫‪.‬آخر اس نے اپنے ابو کے کان میں کہا ‪ :‬ابو اب چلیں‬ ‫صفدر خود بےچین گھڑیاں گزار رہا تھا' اس نے کنور سے کہا'‬ ‫تم مسجد سے باہر نکلو' میں تمہارے پیچھے آتا ہوں۔ کنور‬ ‫جلدی سے' مسجد سے باہر نکل گیا۔ صفدر بھی دوڑ کر' اس‬ ‫کے پیچھے چال گیا۔ واپسی پر کنور نے سوالوں کی بوچھاڑ کر‬ ‫دی۔ اس کا خیال تھا' کہ مسجد سے باہر نکلتے ہی'کنور سب‬ ‫کچھ بھول جائے گا' مگر کہاں۔ وہ وہابی بولوی کے معنی' ہر‬ ‫صورت میں جاننے کا خواہاں تھا۔ کنور کے کسی سوال کا' اس‬ ‫کے پاس جواب نہ تھا۔ جانے آج کل کے یہ بچے بھی کس طرح‬ ‫کے ہو گیے ہیں' اپنی عمر کے سوال ہی نہیں کرتے۔‬ ‫اس نے سوچا' مولوی چھوٹا ہو یا بڑا' یہ سب ایک ہی تھیلی‬ ‫کے چٹے بٹے ہیں۔ ان کی ذہنیت میں رائی بھر فرق نہیں۔ لڑاؤ‬


‫اور پیٹ بھر کھاؤ' اگر یہ طور نہ بھی اختیار کیا جاتا' تو بھی‬ ‫وافر سے زیادہ انہیں میسر آ جاتا۔ ختم وغیرہ سے ہٹ کر' شادی‬ ‫مرگ پر نقدی کے عالوہ' کھانے پینے کو بہت کچھ میسر آتا‬ ‫رہتا ہے۔ ساتے چالیے اور قل اس سے قطعی ہٹ کر ہیں۔ عیدین‬ ‫پر گھر گھر جا کر' مولوی کا حصہ طلب کیا جاتا ہے۔کوئی جمعہ‬ ‫ایسا نہیں گزرتا' کہ مسجد میں چہولی نہ پھیری جاتی ہو۔‬ ‫سالوں پہلے' اسے بیٹے کی ضد کے سامنے' ہتھیار ڈالنا پڑے‬ ‫تھے۔ اس روز بھی' اسے جگری دوست شریف کے ہاتھوں‬ ‫مجبور ہو کر' جمعہ کی جماعت سے پہلے' مسجد جانے کا کشٹ‬ ‫اٹھانا پڑا۔ جنت کا بیان چل رہا تھا۔ مولوی صاحب نے سو طرح‬ ‫کی نعمتوں کا ذکر کیا۔ حور کے حسن وجمال کا اس طرح سے‬ ‫بیان کیا' کہ ازلی ناکارہ بھی جان پکڑنے لگے۔‬ ‫وہ سوچنے لگا' کہ سچے هللا کی عبادت' اس لیے کرنی ہے کہ‬ ‫عمدہ سامان خورد و نوش' سامان تعیش اور حوریں میسر آئیں‬ ‫گی۔ کیا اس لیے نہیں' کہ وہ هللا ہے اور اس کی عبادت کرنا ہی‬ ‫ہے۔ دوسرا کیا هللا' جو ایسا عطا کرنے واال ہے کہ اس سا کوئی‬ ‫عطا کرنے نہیں' سے حقیر اور معمولی چیزیں مانگی جائیں۔‬ ‫کیوں نہ' هللا سے' هللا ہی طلب کیا جائے۔ اگر وہ نہ مال تو باقی‬ ‫چیزوں کو کیا کرنا ہے اور وہ کس کام کی ہیں۔‬


‫وہ سوچوں میں گم ہی تھا' کہ اس کے کانوں میں یہ بات بھی‬ ‫پڑی' یہاں کی زوجہ ان بہتر حوروں کی سردار ہو گی۔ یہ سنتے‬ ‫ہی' اس پر خوف سے لرزہ طاری ہو گیا۔ زکراں بالوجہ لڑائی‬ ‫میں انتالیس منٹ سے نیچے نہیں رہتی تھی' جواب دینے کی‬ ‫صورت میں' وہ مسلسل کئی گھنٹے بولنے کی شکتی رکھتی‬ ‫تھی۔ شروع شروع میں' ایک مرتبہ اس نے دو رکھ دیں۔ پھر کیا‬ ‫تھا' وہ کئی مہینے' بالناغہ اور بال فل سٹاپ گرجی برسی۔ رانی‬ ‫توپ' اس گرجنے برسنے کے سامنے کیا حیثیت رکھتی تھی۔‬ ‫اس نے سوچا' گویا یہ ان کی سردار ہو گی۔ بےشک اس کے‬ ‫منہ پر کاشن یلغار رہے گا۔ اس نے سوچا' ایسی صورت میں وہ‬ ‫کیا کرے گا۔ فورا خیال آیا' وہ کجھور کے درخت پر چڑھ جائے‬ ‫گا۔ نماز کے ختم ہو جانے کے بعد' اس نے مولوی صاحب سے‬ ‫پوچھا‪ :‬عالمہ صاحب! کیا جنت میں کجھور کا درخت بھی ہو گا۔‬ ‫کیوں نہیں' آدمی جو مانگے گا میسر آئے گا۔‬ ‫واپسی پر وہ سوچتا آیا' کہ وہ تو درخت پر چڑھنا ہی نہیں جانتا۔‬ ‫اس نے حفظ ما تقدم' یہ ہنر سیکھنے کا ارادہ کر لیا۔ اگلے ہی‬ ‫روز سے' اس نے مشق شروع کردی۔ اصوال اسے استاد پکڑنا‬


‫چاہیے تھا' لیکن اس نے خود سے یہ کام شروع کر دیا۔ پہلے‬ ‫تین دن تو خیر خیریت سے گزر گیے' چوتھے دن تھوڑا اوپر‬ ‫چال گیا۔ توازن قائم نہ رہنے کے باعث' نیچے آ رہا۔ نیچے گرتے‬ ‫ہی' ٹانگ ٹوٹ گئی۔ ہسپال بھرتی کرا دیا گیا۔ سارا دن سردار‬ ‫حوروں سے مالقات رہتی' آرام بھی مال۔ کچھ چہرے اور کھل کر‬ ‫سامنے آ گیے۔ بہت کچھ غیرواضح' واضح ہو گیا' ہاں البتہ جیب‬ ‫کا دیوالیہ نکل گیا۔‬ ‫زکراں ہم دردی کی بجائے' سارا دن کوسنے دیتی رہتی۔ اپنے‬ ‫نصیب سڑنے کا رونا روتی۔ یہ سب اپنی جگہ' ہر کوئی یہ ہی‬ ‫پوچھتا' آخر تم درخت پر کیوں چڑھے تھے۔ زکراں دن میں یہ‬ ‫سوال کئی مرتبہ پوچھتی' کیا جواب دیتا۔ اگر بتا دیتا تو ایسا یدھ‬ ‫پڑتا' کہ لوگ پانی پت کے رن کو بھول جاتے۔ حفاظتی تدبیر' اس‬ ‫کے گوڈوں گٹوں میں بیٹھ گئی تھی۔ اس نے سوچا' جو ہو گا'‬ ‫دیکھا جائے گا۔ یہاں ایک کھاتا ہے' وہاں تہتر کھائے گا۔ شاید‬ ‫وہاں تہتر کھانے کی شکتی بھی آ جائے گی۔ یہ بھی کہ اس نے‬ ‫ایسا کون سا کارنامہ انجام دیا ہے' جس کے صلہ میں' جنت اور‬ ‫جنت کی حوریں ملیں گی۔‬


‫حضرت بیوہ شریف‬ ‫وہ اس کی بہن کم' دوست زیادہ تھی۔ بچپن' پھر جوانی اور اب‬ ‫بڑھاپا' ایک دوسرے سے رابطے میں گزار رہے تھے۔ دکھ‬ ‫سکھ شیئر کرنے کے ساتھ ساتھ' باہمی خوش طبعی بھی‬ ‫چلتی۔ گویا رونے دھونے کے ساتھ ساتھ' قہقوں کا بھی تبادلہ‬ ‫ہوتا۔ پرانے قصے اور پرانی یادوں کو دہرا کر' من کا بوجھ ہلکا‬ ‫کر لیتے۔ اسے سعدیہ سے ایک گلے کے سوا' کوئی گلہ نہ تھا۔‬ ‫قصور سعدیہ کا بھی نہ تھا' اسے بہن کی اندھی ہونی کا نام‬ ‫دینا' زیادہ مناسب لگتا ہے۔ وہ تو اپنے بھائی کو' دکھ دینے کے‬ ‫متعلق' سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔‬ ‫پورے کنبے کو نقصان پہچانے واال' آخری کردار' دنیا سے چال‬ ‫گیا' تو ان دونوں کی نشت ہوئی۔ سعدیہ نے بتایا' کہ بھابی کی‬ ‫موت کا افسوس کرنے والے' مسلسل اور متواتر آ رہے ہیں۔ اس‬ ‫نے کہا' لوگ بھی کیسے ہیں' افسوس انہیں کرنے آ رہے ہیں'‬ ‫جنھیں افسوس ہی نہیں ہوا۔‬ ‫سعدیہ نے افسوسا سا منہ بنا کر کہا' کیوں افسوس نہیں ہوا۔‬ ‫بےچاری نے عمر کے آخری ایام' چھڑی کے سہارے گزارے۔‬ ‫کان بھی جواب دے گئے تھے' ہائے بچاری بھابی۔‬


‫اب سماعت کی رخصتی کا کیا فائدہ تھا' اللہ تو عرصہ پہلے‬ ‫قبرباسی ہوگیا تھا۔‬ ‫بھائی! آپ یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ سعدیہ کا انداز گھبرایا‬ ‫اور پریشانی آمیز تھا' جیسے اس قسم کی بات گراں بار ہوئی ہو۔‬ ‫اس نے ادھر ادھر دیکھا' وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ پھر یہ سوچ‬ ‫کر مسکرا دیا' دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔‬ ‫یہ ان کے بھائی کی' جان کھچ خاتون تھی اور بھلے وقتوں میں'‬ ‫ان کے بھائی شوکت نے اپنے جگری دوست علیے سے' بڑے‬ ‫ہی سستے داموں میں' خرید کی تھی۔ وہ اسے کب بیچنے واال‬ ‫تھا' اس کی بیوی' صبح شام جھگڑا کرتی تھی' حاالں کہ اس‬ ‫کے بابرکت قدموں کے طفیل' انھیں چوپڑی دستیاب ہو رہی تھی۔‬ ‫اس نے اللے شوکت ہوراں کے گھر آتے ہی' ناصرف اللے‬ ‫ہوراں کے حواس پر قبضہ جمایا' بلکہ اس کے بہن بھائیوں کے‬ ‫خالف سرابی کماد بو کر' اس کی ساری کمائی کھیسے کرنا‬ ‫شروع کر دی تھی۔ اس کی سوت بھی' اسی طرح چلتی پھرتی'‬ ‫اللے ہوراں کے ہاتھ لگی تھی اور خاندان کی عورت کو' طالق‬ ‫کا زہر پال دیا گیا تھا۔ گویا وہ اپنی کرامتوں کے حوالہ سے کچھ‬ ‫کم نہ تھی۔ اس حقیقت کے باوجود' وہ اس خاتون کے پاسنگ نہ‬


‫تھی۔ اللے ہوریں ابتدا اکلوتے ہوتے کے سبب' الڈوں پلے تھے۔‬ ‫ماں باپ نے اس پر ساری انرجی صرف کر دی تھی۔ شاید اسی‬ ‫کے سبب' وہ شروع ہی پڑھے لکھے چول تھے۔‬ ‫ماں باپ نے' پڑھائی لکھائی کی غرض سے' اس کا چھوٹا بھائی‬ ‫اس کے پاس چھوڑا تھا۔ پڑھانے لکھانے کی بجائے' سبزی‬ ‫سباڑی النا اور نامہ بری کا فریضہ' اسے سونپ دیا گیا۔ جب ماں‬ ‫باپ کو خبر ہوئی' پانی سر سے گزر چکا تھا۔ انہوں نے سدھار‬ ‫کی پوری کوشش کی' لیکن اب کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں‬ ‫کھیت۔ یہ ہی نہیں' چھوٹی بہن کے خاوند' جس کی عادتیں پہلے‬ ‫ہی بگڑی ہوئی تھیں' اپنا تھیال بردار بنا لیا۔ گھر سے' کام کے‬ ‫لیے نکلتا اور اللے ہوراں کے ہاں ڈیرے لگا لیتا۔ اللے ہوراں‬ ‫کے ہاں' ناصرف گھر کا سودا سلف التا' بلکہ طوائف کدے'‬ ‫جوگن بائی کا ڈانس بھی دیکھنے جاتا۔ فلمی ہیرونوں کی زیارت‬ ‫کے لیے' ساتھ ساتھ ہوتا۔ بعض رنگین موقعوں پر' چوکیداری کا‬ ‫فریضہ انجام دے کر' حق نمک ادا کرتا۔ جب گھر جاتا' تو اللے‬ ‫ہوریں' اس کی ہتھیلی پر سکے رکھ دیتے۔‬ ‫آخر کب تک' معاملہ کھال تو مرض تیسری اسٹیج پر آ چکا تھا۔‬ ‫وہ نااہل اور نکما ہو چکا تھا۔ آخری عمر تک را توتا بنا رہا۔‬ ‫بیٹی کی خاطر ماں باپ اس کا بوجھ اٹھاتے رہے۔ بس اسی طرح‬


‫روتے دھوتے عمر گزار کر' ملک عدم کو سدھارا اور اپنے‬ ‫توتائی جراثیم' اوالد کو بھی دے گیا' جو نہ ملنے یا انکار کی‬ ‫صورت میں' مامے ماسیوں کو برا بھال کہنے میں' پوری انرجی‬ ‫صرف کر دیتے۔‬ ‫سعدیہ اور شکیل کی خوش قسمتی تھی' کہ چھوٹے ہونے باعث'‬ ‫اللے ہوراں کی دست برد سے' باہر رہے' ورنہ ان کا حشر بھی'‬ ‫پہلوں سے مختلف نہ ہوتا۔ تاہم بالواسطہ سہی' ان دونوں کے‬ ‫گوڈوں گٹوں میں بیٹھا۔ ہاں ان کی شخصیت ماں باپ کے زیر اثر‬ ‫ترکیب پائی۔‬ ‫شکیل' ہنسی خوشی زندگی گزار رہا تھا' کہ بچے کی پیدائش کے‬ ‫تیسرے دن' اس کی بیوی صفیہ قضائے الہی سے' انتقال کر‬ ‫گئی۔ اس کے سسر عالم نے' اپنی دوہتری سے' اس کا نکاح‬ ‫طے کر دیا۔ اللے ہوراں سے' شکیل کے تعلقات ہیلو ہائے سے‬ ‫زیادہ نہ تھے۔ اس خریدہ خاتون نے' اپنی سوتن کے بڑے بیٹے‬ ‫کی منگنی' مادری سوسائٹی کی ایک لڑکی سے' کر رکھی تھی‬ ‫اور وہ' سوسائٹی کے رواج کے مطابق' نکاح دینے میں' حیلے‬ ‫بہانے بنا رہے تھے۔ ان کی بڑی بیٹی' چھتیس سال کی ہو چلی‬ ‫تھی۔ اس کی حنطل سخنی کے سبب' کوئی رشتے کی ذیل میں'‬ ‫نزدیک سے گزرنے سے خوف کھاتا تھا۔ شکیل کی بیوی کی‬


‫موت کے بعد' اس خریدہ خاتون کے ہاتھ موقع لگ گیا۔ شکیل'‬ ‫ان سب کے اطوار اور طینت سے خوب خوب آگاہ تھا۔ دوسرا‬ ‫اس کا سسر جو بھال آدمی تھا' اس کے مستقبل کا فیصلہ کر چکا‬ ‫تھا۔ اللے ہوراں کی خریدہ اللی نے' شکیل کی' اس حنطل کالم‬ ‫خاتون سے منگنی کر دی اور منگنی کی انگوٹھی' شکلیل کے‬ ‫حوالے کر دی۔ شکیل نے' چالیس بار منگنی کی انگوٹھی واپس‬ ‫کی۔ اس کے بعد' قریبی رشتہ داروں کو بھیجنے کا عمل شروع‬ ‫کر دیا' ان آنے والوں میں سعدیہ بھی تھی۔‬ ‫کب تک' آخر شکیل کو ہتھیار ڈالنا پڑے۔ نکاح کے روز' وہ‬ ‫پریشانی سے' ریلوے اسٹیشن کی کنٹین پر جا بیٹھا۔ آخر تالش‬ ‫لیا گیا اور پھر' اس کی خریدہ دیوتا کے چرنوں میں قربانی پیش‬ ‫کر دی گئی' جس سے' اس کی شکتی میں بےپناہ اضافہ ہوا۔ گل‬ ‫حنطل سے' اس کی چند روز سے زیادہ نبھ نہ سکی۔ شکیل کا‬ ‫ہر رشتہ دار' جو پہلے سکندر اعظم بنتا تھا' اس کے بعد‬ ‫سکندر اعظم کی طرح' دم دبا کر بھاگ گیا۔ شکیل کو بھی' ش‬ ‫شیر سے ب بکری بننا پڑا۔ کوئی قدم اٹھاتا تو بھتیجے کا بھی‬ ‫گھر اجڑتا۔ پہلی قسط میں سعدیہ سمیت' سارے رشتہ دار گیے‬ ‫اور پھر گھر کی سوئی سالئی' اس کے وچارے گریب بہن‬ ‫بھائیوں کے قدم لینے لگی۔‬


‫سعدیہ' اپنے بھائی کی حالت زار پر' دکھی ہوتی۔ اس نے بھائی‬ ‫کے لیے' دیکھنے میں' معصوم اور بھولی بھائی لڑکی تالش‬ ‫کی۔ شکیل عقد ثانی پر رضامند نہ ہوا اور بڑا سمجھایا۔ وہ‬ ‫بھائی کی جدائی اور محبت میں پاگل ہو گئی تھی۔ یہاں بھی'‬ ‫چوتیے شکیل کو ہی ہار ماننا پڑی۔ اس نے سوچا شاید بہتری‬ ‫کی کوئی صورت نکل آئے۔ سعدیہ کو یہ موٹی سی بات سمجھ‬ ‫میں نہ آ سکی' کہ اس معصوم اور بھولی بھائی کو زبان دانی‬ ‫اور میکہ پالنی کی وجہ سے' دو بار طالق ہو چکی تھی۔ سعدیہ‬ ‫نے قسم کھا کر بتایا' کہ وہ ان باتوں کی' خبر نہیں رکھتی تھی۔‬ ‫شکیل چوتیا ب بکری سے بھ بھیڑ ہو چکا تھا۔ ہاں البتہ' گل‬ ‫حنطل نکرے لگ چکی تھی۔ سعدیہ سے خفیہ رابطہ بھی ختم ہو‬ ‫گ ی ا۔‬ ‫بات کو' کئی سال گزر گیے۔ ایک دن' شکیل کو خفیہ پیغام مال کہ‬ ‫پارک میں کوئی' اسے بالتا ہے۔ اس نے بڑا غور کیا' کون ہو‬ ‫سکتا ہے۔ اس کے اندر سے آواز آئی' سعدیہ کے سوا اور بھال‬ ‫کون ہو سکتا ہے۔ پہلے تو اس نے سوچا' نہیں جاتا پھر اس‬ ‫کے نادانستہ طور' پارک کی جانب قدم اٹھ ہی گیے۔ وہ سعدیہ ہی‬ ‫تھی۔ وہ جعلی غصے سے پیچھے مڑنے لگا۔ سعدیہ نے جلدی‬ ‫سے' اسے پکڑ لیا۔ پھر دونوں بہن بھائی ایک دوسرے سے لپٹ‬ ‫کر خوب روئے۔ من کا غبار چھٹ جانے کے بعد' دوبار ایک‬


‫دوسرے سے پہلے کی طرح ہو گیے۔‬ ‫سعدیہ نے' پچھال دھونا دھونے کا فیصلہ کیا۔ پہلے تو ان کی'‬ ‫ہنسی مذاق میں بات چلتی رہی' پھر ایک دن شکیل فرضی‬ ‫سنجیدہ بھی ہو گیا۔ اس نے سعدیہ سے کہا' آج تک میں نے'‬ ‫ایک تقریبا پڑھی لکھی جاہل سے اور دوسری مکمل جاہل طالقن‬ ‫کے ساتھ' زندگی گزاری ہے۔ اب میں صرف اور صرف' پڑھی‬ ‫لکھی بیوہ کے ساتھ' نکاح کرنا چاہوں گا۔ سعدیہ حیران تھی کہ‬ ‫اس کا بھائی' کس قسم کی شرط عائد کر رہا تھا۔‬ ‫ان کی اس مدے پر' کئی دن بات چلی اور سعدیہ نے' عائدہ‬ ‫شرط کی عورت بھی تالش لی۔ وہ ٹیلی فون پر اس کا حال‬ ‫دریافت کرتے ہوئے پوچھتا' حضرت بیوہ شریف کیسی ہیں۔ وہ‬ ‫ہنس پڑتی' ساتھ میں آنے کے لیے بھی کہتی۔ معاملے کو سات‬ ‫ماہ گزر گیے۔ ایک دن سعدیہ نے' ایک ساتھ تین سوال جڑ دیے۔‬ ‫نہ اس کے ساتھ بات کرتے ہو' نہ آتے ہو اور یہ بھی نہیں‬ ‫بتاتے' کہ یہ شرط کیوں عائد کی تھی۔‬ ‫اس نے زوردار قہقہ لگایا' اور کہا' باتوں کا ڈسا ہوا ہوں' اب ہر‬ ‫عوت سے بات کرتے' مجھے کمبنی آتی ہے۔ شروع میں' شریں‬ ‫زبانی سے کام لے گی' نکاح کے چند روز بعد یا اگلے روز ہی'‬


‫وکھی پرنے بولے گی۔ دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ اب میں‬ ‫نہیں' تم آؤ گی۔۔۔۔۔ہاں تم۔۔۔۔۔۔ جس مقصد کے لیے' شرط عائد کی‬ ‫تھی' وہ یہاں ہی پوری ہونے والی ہے۔‬ ‫کیا مطلب۔۔۔۔۔ شرط کا مفہوم تو کہیں نا۔‬ ‫سعدیہ' میں خود کشی کو حرام سمجھتا ہوں۔ میرے لیے' مزید‬ ‫سانس لینا محال ہو گیا تھا۔ میرا خیال تھا' کہ بیوہ کے ہاتھوں‬ ‫نواں نکور پھڑک گیا' میں اس کے سامنے کیا چیز ہوں گا۔‬ ‫حضرت بیوہ شریف میرے نکاح میں نہیں آئیں' منسوب تو ہوئی‬ ‫ہیں۔ یہ ان کی کرامت ہے' کہ میں اب جا رہا ہوں۔ اب مجھے‬ ‫نہیں' تمہیں آنا پڑے گا۔ سعدیہ کی سسکیاں نکل گئیں۔ وہ آف‬ ‫الئین ہو چکا تھا اب سعدیہ اور حضرت بیوہ شریف کو' اس کا‬ ‫آخری دیدار کرنے آنا پڑا۔ لوگ اسے' اس کا کچھ بھی نہیں‬ ‫سمجھ رہے تھے' حاالں کہ وہ کچھ نہیں کی' دیوار پھاند چکی‬ ‫تھی۔ وہ بےچاری ہنسی مذاق میں' ایک بار پھر بیوہ ہو چکی‬ ‫تھی۔ وہ کچھ ناکچھ ہو کر بھی' مرحوم کی پنشن میں سے' کچھ‬ ‫نہیں قرار پا کر' معمولی سے بھی محروم ہو گئی تھی۔‬


‫اور تو اور‬

‫ماسٹر خدا بخش' از خود رحمانی صاحب کے ہاں نہیں گیے‬ ‫تھے' بلکہ طلب کیے گیے تھے۔ سادہ اور غریب آدمی تھے۔‬ ‫بڑے آدمیوں کے ہاں جانے کا شوق' شروع سے ہی نہیں پاال‬ ‫تھا۔ ٹاٹ سکول کے ماسٹر تھے' اس لیے ان کا غریب لوگوں‬ ‫سے ہی واسطہ تھا۔ وہ امیر لوگوں میں سے نہیں تھے' اس‬ ‫لیے' میسر خوش لباسی کے ساتھ گیے تھے۔ ان کی یہ خود‬ ‫فریب خوش لباسی' حقیقی معنویت سے محروم تھی۔ تاہم وہ‬ ‫اپنے طور پر' اس خوش فہمی میں مبتال تھے کہ معزز شخص‬ ‫دکھ رہے ہیں۔‬ ‫وہ سالم رکشا لے کر گیے تھے۔ شہر کے چھوٹے بڑے' ان کی‬ ‫عزت کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ان کا نام سنتے ہی' چوکی‬ ‫دار احترام سے اٹھ کر کھڑا ہو جائے گا اور بھاگا بھاگا' رحمانی‬ ‫صاحب کو اطالح کرنے جائے گا۔ آدمی سوچتا کچھ ہے اور ہوتا‬ ‫کچھ ہے۔ گیٹ پر ایک نہیں تین' صحت مند پچر مونچھوں والے'‬ ‫جدید اسلحہ کے ساتھ تشریف فرما' خوش گپیوں میں مشغول‬ ‫تھے۔‬


‫ماسٹر صاحب سوچنے لگے' رحمانی صاحب اتنے ہی اہم ہیں'‬ ‫جو چار مرلے کے گیٹ پر اسلحہ بردار بیٹھا رکھے ہیں۔ یہ‬ ‫خلیفہ عمر بن عبدالعزیزسے بھی بڑھ کر ہیں۔ ان کے دروازے‬ ‫پر تو کوئی بھی نہیں ہوتا تھا۔ وہ حاکم تھے۔ کیا ان کی جان' ان‬ ‫کی جان سے زیادہ قیمتی ہے۔ رحمانی صاحب حاکم نہیں' حاکم‬ ‫کے ادنی کن قریب تھے۔ یہ تو ادنی کن قریب کے ٹھاٹھ ہیں'‬ ‫اعلی کن قریب اور حاکم کے کیا ہوں گے‪ .‬یہ سوچتے ہوئے‬ ‫انہوں نے رکشا والے کو پیسے ادا کیے اور رحمانی صاحب‬ ‫کے' بنگلے کے گیٹ کی جانب بڑھ گیے۔ انہوں نے گیٹ‬ ‫برداروں سے اپنا تعارف کرایا۔ پہلے تو انہوں نے ماسٹر‬ ‫صاحب کو سر سے پاؤں تک' بڑے غور سے دیکھا۔ ماسٹر خدا‬ ‫بخش‪ ....‬پھر زور دار قہقہ لگایا۔ تعارف تو یوں کروا رہے ہو‬ ‫جیسے کوئی مشیر وزیر ہو۔ ان کے قہقے اور انداز نے' انہیں‬ ‫احساس کہتری کی دلدل میں دھکیل دیا۔ انہوں نے سوچا' مادی‬ ‫دنیا میں' علم نہیں سے بھی' کمتر ہے۔‬ ‫اس قہقہ باری کے دوران ہی' مسز رحمانی تقریبنی لباس میں'‬ ‫تشریف لے آئیں۔ وہ عورت کم' بھوسے کی بوری زیادہ لگ رہی‬ ‫تھیں۔ گریبانی لکیر' مرکزے کو چھوتی صاف نظر آ رہی تھی۔‬ ‫اس کے باوجود' نظرباز کے ہردے یا کسی اور اعضا میں' ہلچل‬


‫پیدا نہیں ہوتی تھی۔ اسے دیکھتے ہی' تینوں اسلحہ بردار احترام‬ ‫میں کھڑے ہو گیے۔‬ ‫اس نے پوچھا' سب ٹھیک جا رہا ہے۔ سب سے بڑی مونچھوں‬ ‫والے نے' فوجی انداز میں' پاؤں جوڑتے ہوئے کہا‪ :‬یس میڈم‬ ‫یہ کون ہے اور یہاں کیا کر رہا ہے۔‬ ‫میڈم یہ خود کو ماسٹر خدا بخش بتا رہا ہے۔ شکل اور حلیے‬ ‫سے تو بھیک منگا رہا ہے۔‬ ‫میڈم نے ان کی بات کو نظرانداز کرتے ہوئے پوچھا‪ :‬آپ ماسٹر‬ ‫خدا بخش ہیں۔‬ ‫جی ہاں' میں ماسٹر خدا بخش ہوں۔‬ ‫اچھا اچھا' ہم نے ہی آپ کو بالیا ہے۔ اندر آ جائیے۔‬ ‫وہ انہیں لے کر' دروازے سے تھوڑا ہی دور کھڑی ہو گئی۔‬ ‫بنگلہ کیا تھا' اندر ایک دنیا آباد تھی۔ باغیچے پر مالی اور اس‬ ‫کے معاون' مصروف کار تھے۔ میڈم کو دیکھتے ہی' ان کی‬ ‫پھرتیاں بڑھ گئیں۔ گیٹ کے دائیں' دو کمرے' دو والئتی کتوں‬ ‫کے تھے۔ ہر کتے کے لیے' دو دو الگ سے مالزم تھے۔ ہر‬ ‫کتے کا نام' تاریخی تھا۔ شاید اسی وجہ سے' عزت و احترام کے‬ ‫مسحق ٹھہرے تھے۔ چاروں مالزم جو بڑے باصحت تھے' ان‬


‫والئتی کتوں کی بڑی جان فشانی سے' خدمت کر رہے تھے۔ یہ‬ ‫شب باشی بھی' ان والئتی کتوں کے کمروں میں فرماتے تھے۔‬ ‫گیٹ کے بائیں' دیگر خدمت گاروں کے کوارٹر تھے۔ یہ سب یہاں‬ ‫مع اہل و ایال اقامت رکھتے۔ رحمانی کنبہ کے دل و جان سے‬ ‫تابع فرمان' جب کہ اوروں کے دست ونظر سے تابع دار تھے۔‬ ‫بہت سے ماسٹر' ہمارے بچوں کو پڑھانے کے خواہش مند ہیں۔‬ ‫آپ کی اہلیت کا شہرہ سنا تو سوچا' کیوں نہ یہ خدمت آپ سے‬ ‫لی جائے۔ اور تو مفت یہ خدمت انجام دینے کو تیار ہیں' اگرچہ‬ ‫آج کل ہاتھ تنگ پھنگ جا رہا ہے' اس کے باوجود' آپ معاوضہ‬ ‫طلب کریں گے تو ضرور دیا جائے گا۔ فکر نہیں کرنا۔‬ ‫ماسٹر خدا بخش' ترسیل علم میں' کبھی بخیل نہیں رہے تھے۔‬ ‫علم کے شیدائیوں کے لیے دل و جان سے' حاضر رہے تھے۔‬ ‫اس کے بیچنے کو' سماجی جرم سمجھتے تھے۔ کوئی راہ چلتے‬ ‫مل جاتا اور کچھ پوچھ لیتا' تو وہ وہاں ہی کسی تھڑے پر بیٹھ‬ ‫جاتے' پوچھنے والے کا اپنی حد تک اطمنان کرتے۔ اس ذیل‬ ‫میں' جان پہچان معنویت نہ رکھتی تھی۔ ترسیل علم کے سلسلہ‬ ‫میں' وہ کبھی چائے کی پیالی تک کے روادار نہ ہوئے تھے۔‬


‫انہیں رحمانی صاحب کے بچوں کو پڑھانے پر کوئی اعتراض‬ ‫نہ تھا۔ انہیں یہ بھی گال نہیں تھا' کہ سلیقے سے بیٹھ کر بات‬ ‫نہیں کی گئی۔ پیٹو تو وہ شروع سے نہیں تھے۔ جو' جیسا' جتنا‬ ‫اور جب مل جاتا کھا کر' هللا کا الکھ الکھ شکر ادا کرتے۔ شاید یہ‬ ‫ہی وجہ تھی' کہ هللا نے انہیں علم کی بےپناہ دولت سے سرفراز‬ ‫کیا تھا۔ علم کی ہر بند مٹھی کے اندر کا بھید' ان کے ہاں آ کر‬ ‫کھل جاتا۔ انہیں اصل دکھ' مسز رحمانی کے طور تکلم کا ہوا۔ وہ‬ ‫یوں مخاطب تھی' جیسے اس کے سامنے کوئی دیسی کتا‬ ‫سرونٹ کھڑا ہو۔‬ ‫دیکھیے مسز رحمانی' میں کسی کے گھر جا کر نہیں پڑھاتا'‬ ‫جسے پڑھنا ہوتا ہے' میرے پاس آتا ہے۔ سوری' میں یہاں آ کر‬ ‫یہ خدمت انجام نہ دے سکوں گا۔ رہ گئی ٹیویشن فیس' اس کی‬ ‫آپ فکر نہ کریں۔ بس آپ پڑھنے کے لیے بچے بھیج دیا کریں۔‬ ‫مسز رحمانی کو' اس قسم کے جواب کی توقع نہ تھی۔ دوسرے‬ ‫اسے اعزاز سمجھتے تھے' جب کہ ماسٹر خدا بخش' اس اعزاز‬ ‫کو جوتے پر رکھ رہے تھے۔ وہ غصے سے نیلی پیلی ہو گئی۔‬ ‫اس نے ایک زوردار تھپڑ ماسٹر صاحب کے منہ پر رکھا۔ وہ‬ ‫توازن برقرار نہ رکھ سکے اور زمین پر آ رہے۔ معاملے کے‬ ‫فورا بعد' سارے مالزم وہاں آ گئے۔ ان میں سے دو کے بچے'‬


‫ماسٹر صاحب سے پڑھتے تھے۔ ماسڑ صاحب کو پیٹا بھی گیا۔‬ ‫ایک کتا مین نے دو جڑنے کے ساتھ یہ بھی کہا‪ :‬دو ٹکے کا‬ ‫ماسٹر اور زبان اتنی لمبی۔‬ ‫مار کٹائی کے بعد انہیں گیٹ کے باہر پھینک دیا گیا۔‬ ‫حواس بحال ہونے کے بعد' وہ کمزور اور درد سے لبریز قدموں‬ ‫کے ساتھ' گھر کو چل دیے۔ ان کی آنکھوں کے سامنے' کم زور‬ ‫زندگی کے ان گنت واقعات' گھوم گیے۔ کم زور زندگی اپنی حیثیت‬ ‫میں' کن قریبیوں کے گماشتوں کے کتے' تو بہت دور کی بات'‬ ‫وہ تو ان کتوں کے گولوں کی سی' اہمیت نہیں رکھتے۔ یہ جینا‬ ‫تو کیڑوں مکوڑوں کا سا بھی جینا نہیں۔ یہ ریاستی جونکیں'‬ ‫کتنی بڑی اور عالی شان عمارتوں میں زندگی کرتی ہیں۔ کم زور‬ ‫جیون کے علم کدے' صفر کو بھی چھونے سے قاصر و عاجز‬ ‫رہے ہیں۔ وہاں کچھ کرتے یا دیتے' انہیں پیٹ سول ہو جاتا ہے۔‬ ‫اور تو اور' رقیاں جس کے ساتھ' انہوں نے پچیس سال بسر‬ ‫کیے تھے' اس ترقی کے موقعے کو ضائع کرنے کو' حماقت کا‬ ‫نام دے گی اور پھر اسے' گزری زندگی کی' تمام پیڑیں یاد آ‬ ‫جائیں گی۔ اس خوف سے کہ رحمانی صاحب کے ہاں سے عملی‬ ‫ضربیں لگی تھیں وہ لفظی ضربیں لگائے گی' ہر قدم بہ مشکل‬


‫اٹھ رہا تھا۔ خیر کیا کرتے گھر تو جانا ہی تھا۔‬

‫شکوک کی گرفت‬

‫یہی کوئی' پچاس ساٹھ پہلے کی بات ہے۔ ہمارے قریب کے ایک‬ ‫گھر میں پیر صاحب آنے والے تھے۔ تیاری کے سلسلہ میں'‬ ‫پورے گھر کو وختا پڑا ہوا تھا۔ میں بھی مدعو تھا۔ پورے گھر‬ ‫کو جھنڈیوں سے سجایا گیا تھا۔ جہاں پیر صاحب نے بیٹھنا تھا'‬ ‫وہاں بڑا نفیس قسم کا قالین بچھا ہوا تھا۔ پیر صاحب کے لیے‬ ‫گاؤ تکیہ رکھا گیا تھا۔ ساتھ والے کمرے میں ان کے سونے کا‬ ‫انتظام کیا گیا تھا۔‬ ‫نو بجے کے قریب' پیر صاحب کی آمد ہوئی۔ مریدوں کا ایک‬ ‫جھنڈ ان کے ساتھ تھا۔ جب انہوں نے کمرے میں قدم رکھا' سب‬ ‫مرید ان کے احترام میں کھڑے ہو گیے۔ بڑے جوش اور نعروں‬ ‫سے ان کا استقبال کیا گیا۔ پیر صاحب پورے جاہ و جالل سے‬ ‫اپنی نشت پر جا بیٹھے۔‬


‫سردیوں کے دن تھے۔ پیر صاحب کے لیے' ان لگ ریشمی‬ ‫لحاف الیا گیا' جو شاید ان ہی کے استعمال کے لیے بنوایا گیا‬ ‫تھا۔ دو آدمی ن کی ٹانگیں اور پاؤں دابنے لگے۔ اس کے بعد'‬ ‫پیر صاحب نے چند لمحوں کے لیے' فوق الفطرت قسم کی اتیں‬ ‫کیں۔ بالسمجھے ہر کسی نے پرجوش آواز میں سبحان هللا‬ ‫سبحان هللا کہا۔ پیر صاحب نے سر جھکا لیا اور یوں خاموش ہو‬ ‫گیے' جیسے مراقبے میں چلے گیے ہوں۔ پھر هللا اکبر هللا اکبر‬ ‫کہتے ہوئے سر اٹھایا اور آنکھیں کھول دیں۔ اس کے بعد' ایک‬ ‫ایک کرکے ان کے مرید' ان کے پاس جا کر سالم کے بعد' نقدی‬ ‫نذر نیاز پیش کرنے کے بعد' اپنے مسائل پیش کرنے لگے۔ وہ‬ ‫تھوڑی دور بیٹھے' اپنے تعویز لکھار کو' کوئی اشارہ دیتے اور‬ ‫سائل کو اس کے پاس بھیج دیتے۔‬ ‫ہماری دوسری گلی کا رہائشی' احما پانڈی بھی پیر صاحب کے‬ ‫حضور حاضر ہوا' نذر نیاز پیش کرنے کے بعد' قرض سے‬ ‫مکتی کے لیے دعا کی گزارش کی۔ پیر صاحب نے' حسب روٹین‬ ‫اسے تعویز لکھار کے پاس بھیج دیا۔ میں نے سوچا' اگر پیر‬ ‫صاحب' احمے پانڈی کی دی ہوئی نذر نیاز' اپنی طرف سے‬ ‫میدان میں رکھ کر' بیٹھے لوگوں کو اس کی مدد کے لیے کہتے‬ ‫تو اس کا قرضہ اتر سکتا تھا۔ ممکن ہے' ایک آدمی ہی اسے‬


‫قرضے سے نجات دال دیتا۔ نذر نیاز اکٹھا کرنے اور تعویزکاری‬ ‫کا سلسلہ رات دیر گیے تک جاری رہا‪ .‬اس کے بعد دعائے خیر‬ ‫کی گئی اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گیے۔‬

‫مالک خانہ کا منجھال بیٹا' میرا دوست تھا۔ رات کافی گزر گئی‬ ‫تھی۔ اس کے اصرار پر' میں ان کے ہاں ہی رک گیا۔ تھوڑی دیر‬ ‫بعد' پیر صاحب بھی اٹھے اور خواب گاہ میں تشریف لے گیے۔‬ ‫میرا دوست مجھے پیر صاحب کی کرامات سنانے لگا۔ یہ واقعاتی‬ ‫اور داستانی پریڈ کوئی سوا دو بجے ختم ہوا۔ ندیم اٹھا اور ایک‬ ‫لحاف لے آیا۔ ہم اسی میں دبک کر سو رہے۔‬ ‫میں صبح اٹھنے کا عادی ہوں۔ خیال تھا' آج جلد آنکھ کھل نہ‬ ‫پائے گی' لیکن میں اپنے روٹین کے مطابق' صبح سویرے ہی‬ ‫اٹھ گیا اور اپنے دوست کو بھی نماز کے لیے اٹھایا۔ ہم پیر‬ ‫صاحب کے کمرے کے سامنے سے گزرے' پیر صاحب باخراٹا‬ ‫استراحت فرما رہے تھے۔ مجھے حیرت ہوئی' پیر صاحب ہم‬ ‫سے پہلے سوئے تھے' لیکن ابھی تک جاگے نہیں تھے۔ شاید‬ ‫نقدی کا نشہ طاری تھا۔ میں نے' پیر صاحب کے کمرے کے‬ ‫دروازے پر' جو تقریبا نیم وا تھا' بااحسن دستک دی۔ وہ بڑبڑا‬


‫کر اٹھے اور مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔ پھر‬ ‫ایسے بیٹھ گیے' جیسے مراقبے میں چلے گیے ہوں۔ دو تین‬ ‫لمحوں کے بعد لحاف منہ سے ہٹایا اور سرد آہ بھرتے ہوئے‬ ‫فرمایا' میرا ایک مرید' جو سوات میں رہتا ہے' چٹان سے گر پڑا‬ ‫تھا اور مجھے پکار رہا تھا' میں اس کی مدد کے لیے وہاں جا‬ ‫پہنچا تھا۔ ان کی اس یاوہ گوئی سے' ان کی اخالقی سطح کا‬ ‫اندازہ ہؤ گیا اور میں مسجد کی جانب بڑھ گیا۔‬ ‫پیر صاحب کے ناشتے کا انتظام میرے سپرد تھا۔ میں نے سوچا'‬ ‫کیوں نا حضرت صاحب کا امتحان ہی لے لیا جائے' چناچہ میں‬ ‫نے چاولوں سے بھری پلیٹ کی تہہ میں' مرغ کی دوٹانگیں رکھ‬ ‫دیں۔ دہی ملی چٹنی کی کٹوری ساتھ میں مرغے کا شوربہ اور‬ ‫سادہ دو کمزور سی بوٹیاں بھی ڈال دیں۔ پیر صاحب میری‬ ‫‪:‬دیکھنے لگے۔ پھر فرمایا‬ ‫بھئی یہ کیا۔‬ ‫مجھے غصہ آمیز دکھ ہوا۔ حضرت سوات تک کی خبر رکھتے‬ ‫ہیں' لیکن اپنے سامنے پڑی پلیٹ کی تہہ کی خبر نہیں رکھتے۔‬ ‫جی میں آیا' پیر صاحب کی خوب مرمت کروں' لیکن کچھ نہ کر‬ ‫سکا۔ اگر کچھ کرتا' تو میرا دوست اور اس کے گھر والے'‬


‫مجھے اٹھنے بیھٹنے کے قابل نہ رہنے دیتے۔ مجھے افسوس‬ ‫ہوا کہ ایسے ناہنجار لوگوں نے' حقیقی شیوخ کو بھی شکوک‬ ‫کی گرفت میں دے دیا ہے اور اس اعلی کردار شعبے کو کمائی‬ ‫کا ذریعہ بنا کر رکھ دیا ہے۔‬ ‫‪1969‬‬

‫صبح کا بھوال‬

‫بابے شاہ جیسے لوگوں کی‘ ایک رگ ہی الگ سے ہوتی ہے۔‬ ‫وہ ہر عصری طور اور روایت کی بااصولی کو بھی‘ منفی عینک‬ ‫لگا کر دیکھتے ہیں۔ ہر شاہی درستی میں بھی‘ کیڑے نکالنے‬ ‫بیٹھ جاتے ہیں۔ سقراط‘ حسین‘ منصور اور سرمد سے لوگ‘‬ ‫مرنے سے بھی نہیں ڈرتے‘ جب کہ شاہ بابا سے لوگ‘ دعا‬ ‫مومن کا ہتھیار ہے‘ کے مصداق دعا ہی کو ذریعہءاصالح بنا‬ ‫لیتے ہیں۔‬


‫پرسوں میں‘ شاہ بابا کی زیارت کے لیے‘ ان کے ہاں گیا۔ بیٹھک‬ ‫میں‘ اکیلے ہی‘ تشریف فرما تھے۔ آنکھیں بند کیے‘ بڑی دل‬ ‫سوزی اور خلوص دل سے‘ دعا اور عجب طور کی خودکالمی‬ ‫فرما رہے تھے۔ بڑی عجیب اور معمول سے ہٹ کر‘ دعا اور‬ ‫‪:‬خودکالمی تھی‬ ‫اے هللا! تو خوب جانتا ہے‘ تیرا یہ عاجز اور حقیر بندہ‘ کم زور‬ ‫اور ناتواں ہے۔ ظالموں سے ٹکر لینے کی‘ طاقت نہیں رکھتا۔‬ ‫زبانی کالمی کو‘ یہ بگڑے لوگ مانتے نہیں ہیں۔‬ ‫کہتے ہیں‪ :‬بابا پرانے زمانے کا بندہ ہے‘ اسے آج کے معامالت‬ ‫کا کیا پتا۔ یہ بابے تو محض خبطی ہوتے ہیں۔‬ ‫بےشک‘ تو قادراور رحیم و کریم ہے۔ تدابیر کی‘ کب تیرے پاس‬ ‫کمی ہے۔‬ ‫تیرے بندے‘ حد درجہ بےراہرو ہو گیے ہیں۔ یہ تیرے ماننے‬ ‫والے ہیں‘ لیکن تیرا خوف ان کے دل سے اٹھ گیا ہے۔‬ ‫اے هللا! ظلم‘ زیادتی اورخرابی کا بازار گرم ہے۔ ایسی خرابی آئی‬


‫ہے‘ کہ اس نے اگلے پچھلے‘ سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔‬ ‫اے هللا! میں‘ یہ سب نہیں دیکھ سکتا۔ مجھ سے اب‘ مزید دیکھا‬ ‫نہیں جاتا۔ میری برداشت کی قوتیں جواب دے گئی ہیں۔‬ ‫بال شبہ‘ شر شیطان کی طرف سے اٹھتی ہے۔ روز اول سے‘ وہ‬ ‫انسانوں کو اکساتا چال آرہا ہے۔ اب تواس کے‘ دانت اور ناخن‬ ‫کچھ زیادہ ہی تیز ہو گیے ہیں۔ میں اس کی موت نہیں مانگتا‘‬ ‫کیوں کہ کسی ذی روح کی موت مانگنا‘ ققیر کے مسلک میں‬ ‫داخل نہیں۔‬ ‫میرے مالک! آج کا انسان تو‘ اس کا ایک جھٹکا برداشت کرنے‬ ‫کی استطاعت نہیں رکھتا۔ وہ تو گرفت میں آنے کے لیے‘ پہلے‬ ‫ہی پر تول رہا ہوتا ہے۔ بہت ہو چکا‘ اب اس بے راہ روی کا‬ ‫دروازہ بند ہونا چاہیے۔ اگر بند نہ ہوا‘ تو آتی نسلوں کے طور‘‬ ‫اس سے بھی بدتر ہوں گے۔ برائی کا کینسر تیسری اسٹیج پر‬ ‫نہیں آنا چاہیے۔‬ ‫عزازئیل! انسان کے دل میں وسوسہ ڈال کر‘ تم اس کے نفس‬ ‫میں جگہ بنا لیتے ہو اور پھر‘ ہر موڑ پر اسے گم راہ کرتے ہو۔‬


‫تم سمجھتے ہو‘ میں بہت بڑا معرکہ سر کر رہا ہوں۔۔۔۔ بالکل‬ ‫نہیں۔۔۔۔۔ تم بہت بڑی بھول اور خسارہ میں ہو۔ ہر برا‘ تمہارے‬ ‫کھاتے میں پڑ رہا ہے۔ تم اتنے توانا نہیں ہو‘ جتنا خود کو‬ ‫سمجھ رہے ہو۔‬ ‫جان رکھو! تم مخلوق ہو‘ خالق نہیں ہو۔ مخلوق‘ خالق کی‬ ‫دسترس سے‘ باہر نہیں جا سکتی۔ میں تمہیں هللا‘ وہ ہی هللا‘ جو‬ ‫سب کا خالق و مالک ہے‘ کے غضب سے ڈراتا ہوں۔ اب بھی‬ ‫وقت ہے‘ توبہ کی طرف لوٹ آؤ۔ قیامت کے روز‘ کیا منہ لے کر‬ ‫جاؤ گے۔ کتنے افسوس اور دکھ کی بات ہو گی‘ کہ تمہارے‬ ‫کھاتہ میں ایک بھی نیکی نہ ہو گی‘ جب کہ بدیوں کا شمار‘ حد‬ ‫سے باہر ہو گا۔ کیا تم‘ هللا کے قہر و غضب کا سامنا کرسکو‬ ‫گے۔ خود کو تولو‘ پھر دیکھو‘ کہ میں کہاں تک درست کہہ رہا‬ ‫ہوں۔‬ ‫میں جانتا ہوں‘ تم میری باتوں پر‘ قہقہے لگا رہے ہو گے۔ ہاں‘‬ ‫میں خود غرض ہوں۔ میں یہ سب‘ انسان کی بھالئی اور خیر‬ ‫خواہی میں کررہا ہوں۔ میری یہ خود غرضی‘ اس نیکی سے‬ ‫اچھی ہے‘ جو ذات تک محدود ہوتی ہے۔ میری اس خودغرضی‬ ‫کے نتیجہ میں‘ تمہارے کھاتے میں‘ مزید گناہ نہیں پڑیں گے۔‬ ‫تمہارا کھاتہ کچھ تو ہلکا ہو گا۔ دوسری طرف‘ انسان بھالئی کی‬


‫طرف راغب ہو سکے گا اور امن کی فضا قائم ہو سکے گی۔‬ ‫عزازئیل! توبہ کی طرف آؤ اور باقی زندگی‘ توبہ کے دروازے‬ ‫پر بتا دو۔ هللا سے زیادہ معاف کرنے واال‘ کوئی ہو ہی نہیں‬ ‫سکتا۔‬ ‫عزازئیل! هللا کا کہا اور کیا‘ برحق اور پرعدل ہوتا ہے۔ هللا نہ‬ ‫غلط کہتا ہے اور نہہی ‘ غلط کرتا ہے۔ هللا نے غلط نہیں کہا تھا‘‬ ‫کہ آدم تم سے برتر ہے۔ نمرود‘ شداد‘ فرعون‘ قارون‘ یزید‘‬ ‫مقتدر‘ اورنگ زیب تم پر تھے‘ تب ہی تو کوراہ رہے۔ ابرہیم‘‬ ‫موسی‘ حسین‘ منصور‘ سرمد‘ سقراط اور ان سے لوگوں پر‘‬ ‫اپنے مکروفریب کا جادو چال کر دکھاتے‘ تو پتا چلتا‘ کہ تم‬ ‫کتنے پانی میں ہو۔ کیا وہاں تمہاری‘ بس بس نہیں ہو گئی تھی‘‬ ‫ساری پھنے خانی نکل گئی تھی ناں۔‬ ‫عزازئیل! ان گنت بار تم ہارے ہو‘ اور تمہاری باباں بولی ہے۔‬ ‫تسلیم کرو‘ کہ تم هللا کے بندوں کو‘ مات نہیں دے سکتے۔ مان‬ ‫لوهللا کا کہا اور کیا‘ غلط ہو ہی نہیں سکتا۔‬


‫تمہارا بس‘ مجھ سے‘ کم زورایمان والوں پر چلتا ہے۔ ہر کوئی‬ ‫کم زور ہی کے سر پر چڑھتا ہے۔ وہ بھول جاتا ہے‘ کہ مخلوق‬ ‫کی شکتی‘ گنے چنے دنوں کی ہے۔ سکندر‘ محمود‘ چرچل‬ ‫وغیرہ خود کو بہت بڑا تیس مار خاں سمجھتے تھے‘ آج کہاں‬ ‫ہیں‘ سب مٹی میں مل گیا۔ آج کے بڑے بھی باقی نہیں رہیں گے۔‬ ‫سب مٹی میں مل جائیں گے۔ اپنے ساتھ کچھ نہ لے جا سکیں‬ ‫گے۔ اچھے برے اعمال ہی ساتھ جائیں گے۔‬ ‫عزازئیل! مت بھولو‘ موت کا ذائقہ تم بھی چکھو گے۔ تم اور‬ ‫تمہارے ساتھی‘ کیا ساتھ لے جاؤ گے‘ ذرا سوچو اور غور تو‬ ‫کرو‘ تہی دست اور تہی دامن ہی جاؤ گے۔ ہاں بداعمالی اور‬ ‫بدکرداری کا بدنما داغ‘ تمہاری پیشانی پر ہو گا اور تمہارے برا‬ ‫ہونے کی‘ گواہی دے رہا ہوگا۔‬ ‫جب تک زندہ ہو‘ برے نام‘ تمہارے نام کے ساتھ‘ پیوست رہیں‬ ‫گے۔ تم اور تمہارے احباب پر‘ لعنتوں کی بوچھاڑ رہے گی۔‬ ‫تمہارے ساتھی‘ بھول میں ہیں‘ ان کی تعریف صرف ان کے منہ‬ ‫پر ہوتی ہے۔ وہ اپنے چمچوں کی تعریف سن کر‘ خود کو صاف‬ ‫ستھرا سمجھتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے‘ کہ یہ ہی ان کے چمچے‬ ‫کڑچھے اور گماشتے‘ ان کی پیٹھ پیچھے غلیظ پالوتے بولتے‬ ‫ہیں۔ یہ ہی نہیں‘ ان کا ہر کیا‘ کسی ناکسی صورت میں‘ قرطاس‬


‫وقت پر رقم ہو رہا ہے۔ آتے وقتوں میں‘ ان کی کرتوتوں پر‘‬ ‫کوئی پردہ ڈالنے واال نہ ہو گا۔ یہ ہی کم زور طبقہ کے لوگ‘‬ ‫جنہیں وہ‘ کیڑے مکوڑے سجھتے رہے‘ ننگی گالیاں دیں گے۔‬ ‫انہیں‘ تمہارے بھائی بندوں کی لسٹ میں رکھا جائے گا اور تم‘‬ ‫بدی کے سردار اور موڈھی ٹھہرو گے۔‬ ‫جان رکھو! یہ ہی حقیقت اور یہ ہی سچائی ہے۔‬ ‫عزازئیل! میں تمہیں اور تمہارے پیروکاروں کو‘ هللا کے غضب‘‬ ‫ابدی سچائی اور آتے وقتوں کی‘ ان گنت لعنتوں سے‘ آگاہ کر‬ ‫رہا ہوں۔ اس برے وقت سے ڈرو اور تائب ہو کر‘ توبہ کو شعار‬ ‫بناؤ۔ هللا کی رحمت سے بعید نہیں‘ کہ معاف کر دیے جاؤ۔ صبح‬ ‫کا بھوال‘ اگر شام کو واپس آ جائے‘ تو اسے بھوال نہیں کہتے۔‬ ‫هللا سے زیادہ اور بڑھ کر درگزر کرنے واال بھال اور کون ہو‬ ‫سکتا ہے۔ چلے جانے والوں کو دیکھو‘ کتنے بدقسمت ہیں‘ کہ‬ ‫وہ توبہ سی انمول نعمت سے‘ یکسر محروم ہو چکے ہیں۔‬ ‫میں جانتا ہوں‘ تم میرے نفس میں موجود ہو اور میرے ہر کہے‬ ‫کو‘ خوب خوب سن رہے ہو۔ تم یہ نہیں کہہ سکو گے‘ کہ‬ ‫مجھے صورت حال سے آگاہ نہیں کیا گیا اور هللا کے غضب‬


‫سے نہیں ڈرایا گیا یا پھر رستہ نہیں دکھایا گیا۔ تائب ہو کر‘ توبہ‬ ‫کے دروازے پر آ جانا ہی فالح کا رستہ ہے۔‬ ‫اے قادر و قدیر! اس کی ہدایت و اصالح کے لیے‘ کسی کو اس‬ ‫پر‘ نازل فرما۔ اس کی اصالح ہو گئی‘ تو یہ بگڑا ہوا انسان‘ اپنی‬ ‫اصل فطرت پر آ جائے گا۔ شیطان کی اصالح ہونے کی صورت‬ ‫میں ہی‘ آج کے انسان کی درستی کا‘ دروازہ کھل سکتا ہے۔ یہ‬ ‫کسی مصلح کے بس کا روگ نہیں رہے۔ اچھے لوگوں کی جانیں‬ ‫جانا‘ اچھی اور صحت مند بات نہیں۔ موڑ موڑ پر کربال برپا‬ ‫ہونا‘ میرے مالک قیامت ہے‘ قیامت ہے۔ صالحین کی موت‘ اب‬ ‫دل گردہ برداشت کرنے کی تاب نہیں رکھتا۔ اچھے لوگ رہ ہی‬ ‫کتنے گیے ہیں۔ ان کا اٹھ جانا‘ درست نہیں ہو گا۔‬ ‫شاہ بابا‘ اپنی ذات میں مگن‘ گردوپیش سے بےخبر اور‬ ‫بےنیاز‘ اپنے هللا سے مخاطب تھے۔ وہ شیطان سے بھی‬ ‫مخاطب ہوئے۔ میں دعا اور شیطان سے مخاطبے میں کسی قسم‬ ‫کا خلل نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔ لگتا تھا‘ یہ سلسلہ کبھی ختم نہ ہو‬ ‫گا۔ اسی لیے‘ تھوڑی دیر کے لیے‘ وہاں بیٹھا اور پھر‘ گھر‬ ‫واپس لوٹ آیا۔ گھر آ کر مجھے خیال آیا‘ کہ مجھے وہاں مزید‬ ‫بیٹھنا چاہیے تھا۔ میں اس معاملہ میں‘ نکما اور الیعنی سہی‘ پر‬ ‫ان کے ہر دعائیہ جملے پر‘ آمین تو کہہ ہی سکتا تھا۔ نیکی اور‬


‫نیک طلبی میں‘ کسی بھی نہج کی معاونت‘ بذات خود نیکی کے‬ ‫مترادف ہے۔ شاید میں بھی نیکی پسند نہ تھا‘ تب ہی تو اٹھ آیا‬ ‫تھا‘ ورنہ کچھ دیر وہاں اور رکنے سے‘ کیا ہو جاتا۔‬

‫حوصلہ‬ ‫کریم بخش نے چالیس برس محنت مزدوری کی۔ بیوی بچوں کا‬ ‫مخلص ساتھ نبھایا۔ کہیں سے شرینی بھنڈارا ملتا‘ تو وہ اسے‬ ‫بھی بڑی دیانت سے‘ گھر لے آتا۔ اس میں سے‘ رائی بھر اپنے‬ ‫منہ میں نہ ڈالتا۔ اس کی کوشش رہی کہ ہر ممکنہ خوشی‘ اپنے‬ ‫بیوی بچوں کو فراہم کرے۔ یہ اپنی جگہ پر حقیقت ہے‘ کہ‬ ‫کوشش کے باوجود انہیں آسودہ‘ خوش حال اور بڑے لوگوں کی‬ ‫سی‘ سہولیات میسر نہ کر سکا۔‬ ‫سکا ان پڑھ تھا۔ بچپن میں ہی والدین چل بسے تھے۔ لوگوں کے‬ ‫دروازے پر رل خل کر بڑا ہوا۔ ماموں نے‘ محنتی اورمشقتی‬ ‫دیکھتے ہوئے‘ رشتہ دے دیا۔ یہ بھی بہت بڑی بات تھی‘ ورنہ ا‬ ‫س سے لوگوں کو کون پوچھتا ہے۔ هللا نے کرم فرمایا اور تین‬


‫بیٹوں اورایک چاند سی بیٹی سے نوازا۔ اس نے چاروں پر‘‬ ‫برابر کی محبت اور مشقت نچھاور کی۔ بالشبہ یہ اس کا فرض‬ ‫اور بچوں کا حق تھا۔ اب وہ بوڑھا‘ کم زور اور بیمار ہو چکا‬ ‫تھا۔ بچے جوان ہو چکے تھے۔ اسے ان کی توجہ کی ضرورت‬ ‫تھی۔ اسے اس کے اپنے ہی گھر میں‘ اس کے ان اپنوں میں‬ ‫سے‘ کوئی پوچھنے واال نہ تھا۔ اس کی بیوی سعیدہ اسے سارا‬ ‫دن کوسنے دیتی رہتی تھی۔ شام کو تینوں بیٹے کوئی ناکوئی‬ ‫جلی کٹی سنا دیتے۔ ہاں مقبوالں‘ اس کی بیٹی‘ اس سے ہم دردی‬ ‫رکھتی تھی۔ اس جرم کی پاداش میں‘ اسے بھی رگڑا مل جاتا‘‬ ‫حاالں کہ وہ سب کی خدت کرتی تھی۔ سگے بھائیوں کی کٹھور‬ ‫دلی پر‘ سسک پڑتی اور بھال کر بھی کیا سکتی تھی۔‬ ‫دونوں باپ بیٹی‘ گلی کے کتے سے بدتر زندگی گزار رہے تھے۔‬ ‫اس دن تو تینوں بیٹوں اور سعیدہ نے حد ہی کر دی۔ مقبوالں‬ ‫نے کہا‘ ابا تم کہیں منہ کر جاؤ‘ تمہارے لیے اس گھرمیں‬ ‫گنجائش نہیں رہی۔ کریم بخش کو بیٹی کی بےچینی اور پریشانی‬ ‫نے‘ ساری رات سونے نہ دیا۔ اس نے سوچا‘ کاش وہ مر ہی گیا‬ ‫ہوتا۔ اس نے کوچ کر جانے کا فیصلہ کر لیا۔ پھر سورج چڑھنے‬ ‫سے پہلے ہی گھر سے نکل گیا۔‬ ‫اب اس کے حوصلے نے‘ یکسر جواب دے دیا تھا۔ اس سے‬


‫زیادہ‘ برداشت کرنے کی اس میں ہمت ہی نہ تھی۔ دکھ‘ افسوس‬ ‫اور پرشانی سے وہ نڈھال ہوگیا تھا۔ وہ ان کے لیے جیا تھا۔‬ ‫اسے ہر لمحہ‘ ان کی بھوک پیاس کی فکر لگی رہتی تھی۔ آج‬ ‫جب وہ بوڑھا ہو گیا تھا‘ اس اکیلے کے‘ دو لقمے ان پر بھاری‬ ‫ہو گیے تھے۔ بیٹی بےچاری‘ اس کے لیے کیا کر سکتی تھی۔‬ ‫وہ تو خود‘ زر خرید غالموں کی سی زندگی کر رہی تھی۔ کسی‬ ‫دربار پر‘ اسے اس سے کہیں بہتر‘ روٹی مل سکتی تھی۔ ایسے‬ ‫باوارث الوارثوں کے لیے‘ صوفیا کرام کے دربار‘ کہیں بہتر‬ ‫ٹھکانہ ثابت ہوتے ہیں۔‬ ‫حاجی صاحب کے پاس‘ هللا کا دیا سب کچھ تھا۔ دوست عزیز اور‬ ‫رشتہ داروں کی بھی کمی نہ تھی۔ ہر کوئی ان کی عزت کرتا تھا۔‬ ‫گھر میں ایک چھوڑ‘ دو بیویاں تھیں۔ نوکر چاکر‘ خدمت کے‬ ‫لیے موجود تھے۔ کامیاں اپنے فرائض انجام دے رہی تھیں۔ ان‬ ‫سب کے ہوتے‘ وہ زندگی کو ادھورا اور کھوکھال محسوس‬ ‫کرتے تھے۔ یہ سب کچھ‘ ان کے لیے بےمعنی اور الیعنی تھا۔‬ ‫یہ اپنے ان کے لیے غیر تھے۔ اکثر کہتے آج آنکھ بند کرتا ہوں‘‬ ‫تو یہ سب غیروں کا ہو گا۔ بےاوالد ہونے سے بڑھ کر‘ کوئی‬ ‫اور دکھ ہو ہی نہیں سکتا۔ کسی نے مشورہ دیا‘ حاجی صاحب‬ ‫کسی گریب سے‘ بیٹا یا بیٹی گود کیوں نہیں لے لیتے۔ مشورہ‬ ‫معقول تھا۔ انہوں نے بڑا غور کیا۔ پھر فیصلہ کر لیا کہ وہ کسی‬


‫بچے کو گود ہی لے لیتے ہیں۔‬ ‫سجاد آج بہت غمگین سا تھا۔ خاور نے پوچھا‘ یار اتنے پریشان‬ ‫سے کیوں ہو۔ اس نے اداس لہجے میں کہا‘ یار پہلے ہی هللا نے‬ ‫تین بیٹیاں دے رکھی ہیں‘ آج رات کو چوتھی بھی ٹپک پڑی ہے۔‬ ‫سوچا تھا‘ اس بار هللا بیٹا دے دے گا‘ مگر ہم گریبوں کی اتنی‬ ‫اچھی قسمت کہاں۔ سجاد نے سمجھایا کہ فکر نہ کرو‘ ہر کوئی‬ ‫اپنی قسمت ساتھ التا ہے۔ اس نے جوابا کہا‘ قسمت کیا ساتھ‬ ‫النی ہے‘ مزید بوجھ پڑنا تھا‘ وہ پڑ گیا ہے۔ کس بوتے پر دل کو‬ ‫تسلی دوں۔‬ ‫خاور حاجی صاحب کے ہاں مالزم تھا۔ اس نے حاجی صاحب کو‬ ‫سجاد کی پریشانی کے متعلق بتایا۔ حاجی صاحب نے‘ سجاد کی‬ ‫نومولود بچی کو گؤد لینے کی ٹھان لی۔ پھر وہ خود‘ بڑی بیگم‬ ‫صاحب کو ساتھ لے کر سجاد کے گھر چلے آئے۔ خاور کو انہوں‬ ‫نے وہاں آ جانے کے لیے کہہ دیا تھا۔ سجاد کو حیرانی کے‬ ‫دورے پڑ رہے تھے۔ گویا چونٹی کے گھر‘ ازخود بن بالئے‬ ‫نرائن چلے آئے تھے۔ حاجی صاحب نے آج تک دیا ہی تھا‘‬ ‫کبھی کسی سے کچھ مانگا نہیں تھا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہے‬ ‫تھے‘ کہ بات کس طرح سے کریں۔ خاور نے ان کی مشکل آسان‬ ‫کر دی۔ سجاد نے خوشی خوشی بچی حاجی صاحب کی گود میں‬


‫ڈال دی۔ ننھی سی جان کو گود میں دیکھ کر‘ حاجی صاحب‬ ‫مسرور ہو گیے اور هللا کا شکرادا کیا۔‬ ‫حاجی صاحب نے سجاد کو رنگ دیا۔ سجاد کے لیے یہ بچی‬ ‫لکشمی دیوی ثابت ہوئی۔ انہوں نے کسی دور دراز عالقہ میں‘‬ ‫اسےاس کے نام سے‘ مکان خرید دیا۔ ساتھ میں‘ اسے ایک‬ ‫کاروبار بھی شروع کرا دیا۔ سجاد دنوں میں‘ عالقہ کا معزز‬ ‫شہری بن گیا۔ پہلے وہ عالقہ کے معزز شہریوں کو سالم کہتا‬ ‫تھا‘ اب لوگ اسے سالم بوالتے تھے۔ وقت وقت کی بات ہوتی‬ ‫ہے۔ وقت کی کروٹ سے‘ کب کوئی آگاہ ہو سکا ہے۔ کب کیا ہو‬ ‫جائے‘ آج تک کسی پر نہیں کھل سکا۔‬ ‫وقت پر لگا کر محو سفر رہا۔ بچی‘ جس کا نام راحیلہ رکھا گیا‬ ‫تھا‘ الڈ پیار اور ان گت آسائشوں میں بڑی ہوئی۔ اچھی درس‬ ‫گاہوں میں پڑھی۔ حاجی صاحب بوڑھے ہو گیے تھے۔ انہیں‬ ‫راحیلہ کے ہاتھ پیلے کرنے کی فکر الحق ہوئی۔ رشتے تو بہت‬ ‫آتے تھے‘ لیکن ان کی پسند کا معیار بالکل مختلف تھا۔ انہیں‬ ‫الڈوں پلی راحیلہ کے لیے‘ شاید کوئی فوق الفرت خوبیوں کا‬ ‫حامل لڑکا درکار تھا۔ پھر ایک دن‘ بلند حوصلہ کے مالک حاجی‬ ‫صاحب کے مرنے کی خبر سارے شہر میں پھیل گئی۔ ان کی‬ ‫موت‘ دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی تھی۔ ہوا یہ کہ راحیلہ بگو‬


‫حجام کے لڑکے‘ قادر کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔ حاجی صاحب یہ‬ ‫صدمہ برداشت نہ کر سکے۔ بڑی بیگم صاحب‘ اس صدمے سے‬ ‫ذہنی توازن کھو بیٹھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے‘ چند لمحوں میں‘‬ ‫کچھ کا کچھ ہو گیا۔ جو ہوا‘ کسی کے خواب و خیال میں بھی نہ‬ ‫تھا۔ اتنے بڑے جگرے کے مالک بےوجود ہو چکے تھے۔ وہ‬ ‫اپنی اصل میں‘ ان کی کچھ بھی نہ تھی۔ انہوں نے اسے محض‬ ‫پاال پوسا تھا۔ اس کے باوجود‘ وہ ان کا سب کچھ ہو گئی تھی۔‬ ‫نذیراں ان پڑھ‘ بےسلیقہ اور کچن کے امور میں بالکل کوری‬ ‫اور پیدل تھی۔ خوب صورت ہونے کی غلط فہمی‘ ہمیشہ اس کے‬ ‫سر پر‘ سوار رہتی۔ خاوند کے رشتہ دار‘ اسے کبھی ایک آنکھ‬ ‫بھی نہ بھائے تھے۔ اس پہ طرہ یہ کہ زبان اور کردار بھی‘‬ ‫صفائی ستھرائی سے باالتر تھے۔ ایک روایت کے مطابق ایک‬ ‫جگہ سے‘ دوسری روایت کے مطابق دو جگہوں سے‘ اسے ان‬ ‫چار خوبیوں کی بنا پر‘ طالق ہو چکی تھی۔ اس کی ان خوبیوں‬ ‫کے باعث‘ ہر کوئی رشتہ کے حوالہ سے‘ ان کے گھر کے قریب‬ ‫سے بھی گزرنے سے ڈرتا تھا۔ اس کا باپ امام مسجد تھا‘ اس‬ ‫ناتے اللچ‘ ہوس‘ آنکھ کی بھوک اور ناشکری گھٹی میں میسر‬ ‫آئی تھی۔ آوارہ فکری‘ ماں کی طرف سے دودھ میں ملی تھی۔‬ ‫منظور صاحب کو اپنے چھوٹے بھائی کی یک پسری پر‘ ہر وقت‬


‫پریشانی رہتی۔ وہ چاہتے تھے‘ چلو زیادہ نہیں‘ جوڑی تو ہو‬ ‫جائے۔ رضی اوالد پیدا کرنے کے قابل نہ تھی۔ رشتے تو بہت‬ ‫تھے‘ لیکن صفدر عقد ثانی کے رپھڑ میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔ وہ‬ ‫موجود پر قانع تھا۔ آخر منظور صاحب نے‘ بھائی کو قائل کر ہی‬ ‫لیا۔ بہت سے رشتوں میں سے‘ کسی کے کہنے پر‘ نذیراں کو‬ ‫اس لیے پسند کر لیا گیا‘ کہ ٹھکرائی ہوئی ہے‘ غریب اور‬ ‫دیہاتی ہے‘ خدمت کرے گی‘ ساتھ میں هللا اوالد بھی عطا فرما‬ ‫دے گا۔‬ ‫نذیراں کو کوئی زنانہ مرض الحق تھا‘ جس کا عالج کروایا گیا۔‬ ‫هللا نے‘ منظور صاحب کو ایک بھتیجے سے نوازا۔ هللا کے اس‬ ‫احسان پر‘ سب خوش ہوئے۔ دوسری طرف یہ بھی کھلی حقیقت‬ ‫تھی‘ کہ پوتڑوں کے بگڑے کم ہی سنورتے ہیں۔ بیٹا پیدا ہو‬ ‫جانے کے باعث‘ نذیراں کا ڈنگ اور بھی تیز ہو گیا۔ صفدر نے‬ ‫دوسری سے تیسری بار پانی مانگ لیا‘ تو کہتی مجھ سے یہ‬ ‫سیاپا نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہہ دیتی‪ :‬مرتا ہے نہ جان چھوڑتا ہے۔‬ ‫جب بولتی‘ قیامت ہی توڑ دیتی۔ صفدر کا چہرا دیکھتے ہی‘‬ ‫جانے اسے کیا ہو جاتا‘ بالوجہ اور بغیر کسی بات کے لڑنا‬ ‫شروع دیتی۔ حرامدہ‘ کنجر‘ سکھ‘ کافر‘ بےبنیادا وغیرہ ایسے‬ ‫کلمات‘ کہہ جاتی۔ صفدر ننھی سی جان کو دیکھ کر‘ برداشت کر‬ ‫جاتا۔‬


‫بھائی کے اس ناہنجار تحفے پر‘ سسک کر رہ جاتا۔ اس نے‬ ‫نذیراں کے سامنے ہاتھ جوڑے‘ پاؤں پڑا‘ اپنے سر پر جوتے‬ ‫مارے اور کہا‘ اگر میں برا ہوں تو تم ہی اچھی بن کر دکھا دو‘‬ ‫مگر کہاں۔ صفدر کا اصل قصور‘ شریف اور پڑھا لکھا ہونا تھا۔‬ ‫اگر کبھی بیمار پڑ جاتا‘ خدمت تو دور کی بات‘ کہتی‘ جاؤ یہاں‬ ‫سے میرے سر نہ چڑھنا۔‬ ‫بے پوچھے‘ گھر سے چلے جانا اور دیرتک باہر رہنا‘ سب سے‬ ‫زیادہ تکلیف دہ حرکت تھی۔ گھر لوٹنے کے پعد‘ صفدر کے کچھ‬ ‫پوچھنے سے پہلے ہی‘ بکواس کرنا شروع کر دیتی۔ مت مار کر‬ ‫رکھ دیتی۔ ایک بار‘ صفدر نے اپنے سسر کو بالیا اور اس کے‬ ‫پاؤں کو ہاتھ لگا کر کہا‘ خدا کے لیے اس کو ساتھ لے جاؤ اور‬ ‫اس کو سمجھاؤ۔ تین چار دن بعد‘ ڈنگ مزید تیز کرکے واپس آ‬ ‫گئی۔ آخر وہ امام مسجد تھا‘ تفرقہ نہیں ڈالے گا‘ تو کھائے گا‬ ‫کہاں سے۔ صفدر ابھی تک پاگل نہیں ہوا تھا۔ مرا بھی نہ تھا۔‬ ‫پہاڑ حوصلے کا مالک ہو کر بھی‘ عارضہءقلب کا شکار ہو گیا۔‬ ‫عزازئیل اپنے سے برتر سے منحرف ہوا‘ کیوں کہ اس کے‬ ‫ظرف کی وسعت ہی اتنی تھی۔ معافی کی طرف نہ آیا‘ بلکہ منفی‬


‫رستوں پر چل پڑا۔ آدم کو برتر تسلیم کرنا‘ اس کے حوصلے‬ ‫سے باہر تھا۔ وہ هللا کے ظرف سے آگے کیسے نکل سکتا تھا۔‬ ‫مخلوق اور خالق کے ظرف کا انتر‘ اس سے باخوبی ہو سکتا‬ ‫ہے۔‬ ‫نمرود اپنے وجود سے باہر ہوا‘ خدا تو بہت آگے کا معاملہ ہے‘‬ ‫وہ تو حضرت ابراہیم علیہ السالم کی برتری تسلیم کرنے کے‬ ‫لیے‘ تیار نہ تھا۔ کسی کو‘ خود سے برتر تسلیم کرنے کے لیے‬ ‫بھی‘ حوصلہ درکار ہوتا ہے‘ کہاں سے التا اور پھر اپنی ہی‬ ‫کرنی میں پکڑا گیا۔ چار سو سال‘ چھتر افشانی برداشت کرتا رہا۔‬ ‫عبرت پکڑ کر‘ توبہ کے دروازے پر نہ آیا۔‬ ‫یہ ہی معاملہ‘ فرعون کے ساتھ درپیش تھا۔ تھوڑ ظرفی‘ تکبر‬ ‫اور غصہ نے‘ اس کے حواس معطل کردیے تھے۔ تب ہی تو‘‬ ‫دریا میں گھوڑے ڈال دیے۔ حواس باقی ہوتے‘ تو یہ غلطی نہ‬ ‫کرتا۔‬ ‫قارون کے پاس وافر لقمے تھے۔ ان میں سے چند ایک لقمے‬ ‫دے دینے سے کچھ فرق نہیں پڑنا تھا۔ اتنا حوصلہ التا کہاں‬ ‫سے‘ تھا ہی نہیں۔ هللا تو ماننے اور نہ ماننے والوں کو بھی دیتا‬


‫ہے۔ مقررہ سے‘ ایک سانس بھی‘ منہا نہیں کرتا۔‬ ‫کوئی کتنا بھی حوصلے واال کیوں نہ ہو‘ دکھ کے میدان میں‘ قدم‬ ‫چھوڑ دیتا ہے۔ مخلوق کا حوصلہ‘ بموجب ظرف حدود میں رہتا‬ ‫ہے۔ حوصلہ جب مجوزہ حدود سے باہر قدم رکھتا ہے‘ تو کٹا یا‬ ‫دیمک زدہ برگد بھی زمین بوس ہو جاتا ہے۔ انسان اور خدا میں‘‬ ‫یہ ہی فرق ہے‘ کہ وہ ہر حالت اور ہر صورت میں‘ قائم بذات‬ ‫رہتا ہے۔ ساری مخلوق اس کی تخلیق ہے‘ اور ایسی ان حد‬ ‫مخلوقات بیک جنبش‘ تخلیق کرنے پر قادر ہے۔ ایسا ان حد‬ ‫مرتبہ کرئے‘ تو بھی کچھ اس کے ظرف سے باہر نہ ہو گا۔‬ ‫مخلوق اور خدا کی ذات گرامی میں‘ یہ ہی بنیادی فرق ہے۔ کوئی‬ ‫کتنا بھی بڑا ہو جائے‘ ان حد حوصلے اور ظرف کا مالک نہیں‬ ‫ہو پاتا۔ منفی کے ردعمل میں‘ کچھ بھی ہو سکتا ہے‘ یا کر‬ ‫سکتا ہے۔ مجبوری اور بےسی کی حالت میں‘ اسی کی طرف‬ ‫پھرتا ہے۔ متکبر لوگوں کو‘ اپنی کھال میں رہنا چاہیے‘ ورنہ ان‬ ‫کی اپنی ہی بدحوسی کی الٹھی‘ انہیں برباد کرکے رکھ دیتی ہے۔‬ ‫لوگ اسے قسمت کے کھیل کا نام دیتے ہیں‘ حاالں کہ یہ قسمت‬ ‫کا کھیل نہیں ہوتا‘ وہ تو اپنے کیے کا پھل‘ اپنے ہی ہاتھوں سے‬ ‫پا رہے ہوتے ہیں۔‬ ‫یہ کہانی کار خدا بخش‘ جو کسی زمانے میں‘ ڈیرے کی جان ہوا‬


‫کرتا تھا‘ کی آخری کہانی تھی۔ اس کے بعد اسے‘ چودھری کے‬ ‫ڈیرے پر آنا نصیب نہ ہوا۔ صفدر کی کہانی تک‘ سب کچھ گوارہ‬ ‫تھا‘ اس کے بعد کی کتھا میں‘ اگرچہ چودھری صاحب کا ذکر‬ ‫تک نہ تھا‘ لیکن یہ سب کچھ اس نے‘ چودھری صاحب کی‬ ‫طرف منہ کرکے کہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے‘ نفرت اور بغاوت‬ ‫کی زہریلی شعاعیں نکل رہیں تھیں۔‬

‫چوگے کی چنتا‬

‫اس روز‘ مینا چپ ہی نہیں‘ اداس بھی تھی اور یہ‘ معمول سے‬ ‫باہر کی چیز تھی۔ میں نے دو تین بار‘ اسے متوجہ بھی کیا‘‬ ‫لیکن وہ اپنی کیفیت سے‘ باہر نہ آئی۔ باغ میں‘ میرے ہم جنس‘‬ ‫اٹھکیلیوں میں مشغول تھے۔ اس کے ساتھ‘ مجھے شروع سے‘‬ ‫نادانستہ انسیت سی تھی۔ اس کا دکھ‘ مجھے اپنا دکھ محسوس‬ ‫ہوتا تھا۔ جب وہ دکھی ہوتی‘ میں بھی دکھی ہو جاتا۔ جب وہ‬ ‫خوش ہوتی‘ تو میرے بھی تن بدن میں‘ خوشیوں کے جل ترانگ‬ ‫بجنے لگتے۔ یہ کیسا رشتہ تھا‘ میں نہیں جانتا۔ اس کا سلوک‬ ‫بھی میرے ساتھ کچھ برا نہ تھا۔ خدا معلوم‘ آج وہ‘ اس طرح‬


‫کیوں پیش آ رہی تھی۔ ضرور کوئی بہت بڑی بات رہی ہو گی۔‬ ‫میں اسے‘ دکھی دکھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ سمجھ میں نہیں پا‬ ‫رہا تھا‘ کہ کس طرح‘ اس کے دل کا حال معلوم کروں۔ اس سوچ‬ ‫نے‘ مجھے بےکل سا کر دیا۔ میں نے معاملہ جاننے کی ٹھان‬ ‫لی۔ چاہے وہ ناراض ہی کیوں نہ ہو جائے‘ میں سب کچھ جان‬ ‫کر ہی دم لوں گا۔ اس سے پہلے‘ کہ میں اصرار سے کام لیتا‘ وہ‬ ‫خود ہی بولی‘ اندر کا الوا‘ شاید وہ بھی ہضم نہ کر پا رہی تھی۔‬ ‫انسان کے متعلق سنا ہے‘ کہ اس کی آنکھیں‘ سیر نہیں ہوتیں‘‬ ‫کتنا ہی کیوں نہ مل جائے‘ وہ مزید کے لیے‘ الٹے سیدھے‬ ‫حربے اختیار کرتا ہے۔ ہم میں‘ یہ عادتیں کیوں آ گئی ہیں۔‬ ‫جس باغ میں‘ ہمارے ڈیرے ہیں‘ کسی جنگل میں نہیں ہے‘‬ ‫انسانی آبادی میں ہے۔ انسان یہاں آتا جاتا رہتا ہے۔ ہم بھی‬ ‫خوراک کی تالش میں‘ آبادی میں جاتے ہیں۔ قربت کے باعث‘ ہم‬ ‫نے کی اچھی بری عادتیں لی ہیں‘ مگر یہ سب‘ تم کیوں سوچ‬ ‫رہی ہو۔ کیا ہوا ہے‘ کچھ پتا بھی تو چلے۔‬


‫کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔کچھ نہیں‘ اگر کچھ بھی نہیں‘ تو تم چپ چپ اور‬ ‫دکھی سی کیوں ہو؟ باتیں بھی تو‘ معمول سے ہٹ کر رہی ہو۔‬ ‫کوئی بات تو ضرور ہے۔‬ ‫کہہ جو دیا‘ کہ کچھ نہیں‘ بس یوں ہی پوچھ رہی تھی۔‬ ‫معمول کی زندگی میں‘ بیٹھا نہیں جاتا۔ دیکھو‘ سارے موج‬ ‫مستی کر رہے ہیں‘ اور تم اداس بیٹھی ہو اور انسانوں کے طرز‬ ‫پر‘ سوچے جا رہی ہو۔‬ ‫تمہیں کیا ہے‘ تم بھی تو بیٹھے ہو‘ جاؤ‘ تم بھی موج مستی‬ ‫کرو‘ اور مجھے میری حالت پر چھوڑ دو۔‬ ‫میں تمہیں اکیال چھوڑ کر‘ نہیں جا سکتا۔‬ ‫میں تمہاری جنس کی نہیں ہوں‘ پھر بھی‘ میری اتنی کیوں‬ ‫پرواہ کر رہے ہو۔‬ ‫مجھے تم اچھی لگتی ہو۔‬


‫مگر میں تمہیں کیوں اچھی لگتی ہوں۔ ہم نے کون سا ایک ساتھ‬ ‫چلنا ہے۔ جنس کے اعتبار سے‘ ہم ایک ساتھ چل بھی نہیں‬ ‫سکتے۔‬ ‫تمہارا ویہار اور معمول کا چلن‘ سلجھا اور رکھ رکھاؤ کا سلیقہ‬ ‫رکھتا ہے‘ اسی لیے‘ مجھے اچھی لگتی ہو۔‬ ‫کمال ہے‘ عمومی طور پر حسن‘ ضرورت اور مطلب کے تحت‬ ‫ہی‘ قربتیں جنم لیتی ہیں۔ یہاں تو‘ ایک چیز کی بھی سانجھ‬ ‫موجود نہیں۔‬ ‫جن چیزوں کا‘ تم ذکر کر رہی ہو‘ وہ تو خود غرضی کی راہ پر‬ ‫ہوتی ہیں۔‬ ‫انسان جانور پالتا ہے‘ ان پر خرچ بھی کرتا ہے‘ کیا وہ یہ سب‘‬ ‫بےلوث کرتا ہے؟‬ ‫نہیں۔۔۔۔۔‬


‫ہم جنس کی بات مختلف ہے‘ لیکن کسی غیر جنس سے تعلق‘‬ ‫بالمطلب کیسے استوار ہو سکتے ہیں۔‬ ‫ہم جنس مخلوق کی قربت اور سانجھ‘ مطلب کے بغیر بےمعنی‬ ‫سی ہے۔ مجھے تم سے‘ کوئی مطلب نہیں۔‬ ‫تم مجھے ادھر ادھر کی باتیں کرکے الجھا رہی ہو۔ اصل مدے پر‬ ‫آؤ‘ تم دکھی اور اداس کیوں ہو؟ کوئی وجہ تو ہو گی۔‬ ‫میرا ساتھی‘ کبھی ایک قسم کے چوگے پر‘ مطمن نہیں ہوا۔ وہ‬ ‫نئے ذائقے کے لیے‘ نئے قسم کے چوگے کے لیے‘ بھٹکتا رہتا‬ ‫تھا۔ کئی بار‘ وہ اپنے شوق اور نئے ذائقے کے جنون میں‘‬ ‫خطروں میں گھرا لیکن قدرت اسے موقع دے رہی تھی۔ خطروں‬ ‫کے پیش نظر‘ اسے آگاہ ہو جانا چاہیے تھا۔ آخر اور کتنے موقع‬ ‫ملتے۔‬ ‫کئی دن پہلے وہ گیا‘ میں نے سوچا‘ آ جائے گا‘ لیکن جب نہ‬ ‫آیا‘ تو مجھے تشویش ہوئی۔ میں اسے تالش کرنے نکلی۔ بہت‬


‫سی‘ جگہیں دیکھیں‘ لیکن وہ نظر نہ آیا۔ شام کو تھک ہار کر‘‬ ‫واپس آ گئی۔ اگلی صبح‘ میں نے پھر سے‘ تالش شروع کر دی‘‬ ‫لیکن وہ کہیں نہ مال۔ میری تالش کا عمل‘ کئی دن جاری رہا۔‬ ‫میں ناکام رہی۔‬ ‫مجھے دن آ گیے۔ مجبورا‘ مجھے کسی دوسرے سے‘ رابطہ‬ ‫کرنا پڑا۔ میں نے انڈے بھی دیے‘ بچے بھی نکلے۔ اگرچہ زندگی‬ ‫معمول پر آ گئی تھی‘ تاہم اس سوچ نے‘ کبھی پیچھا نہ چھوڑا‘‬ ‫کہ آخر وہ گیا‘ تو کہاں گیا۔ مارا گیا‘ یا کسی انسان کے ہتھے‬ ‫چڑھ گیا۔‬ ‫آج میں‘ بچوں کے لیے چوگا ال رہی تھی‘ کہ اچانک‘ میری نظر‬ ‫اس پر پڑی۔ میں رک گئی۔ وہ ایک مداری کے لیے‘ کام کر رہا‬ ‫تھا۔ مداری نے‘ اسے پنجرے سے باہر نکاال۔ میرا خیال تھا‘ کہ‬ ‫فورا سے پہلے‘ اڈاری مار کر‘ میرے پاس لوٹ آئے گا۔ اس نے‬ ‫میری طرف دیکھا بھی‘ لیکن وہ اس کے لیے‘ کام کرتا رہا۔‬ ‫آزادی‘ اس سے چند قدم دور تھی۔ پھر بھی‘ وہ پنجرے کا باسی‬ ‫رہنا چاہتا تھا۔‬ ‫کیا غالمی اسے راس آگئی تھی‘ یا مداری اسے نئے نئے ذائقے‬


‫فراہم کرکے‘ اس کی فطرت کو‘ تسکین دے رہا تھا۔ یہ بھی‬ ‫ممکن ہے‘ غالمی‘ سوچ کے دروازے بند کر دیتی ہے۔ اسے‬ ‫کسی ناکسی سطح پر‘ اطمنان ضرور میسر آ گیا ہے‘ ورنہ وہ‬ ‫کب‘ نچال بیٹھنے واال تھا۔‬ ‫مینا بولتی رہی‘ اس کی آنکھوں میں‘ ساون کی گھٹائیں امڈتی‬ ‫چلی گئیں۔ وہ یہ نہ سمجھ سکا‘ کہ یہ پیار کا موسم تھا یا اس‬ ‫کے ساتھی کے بدلے رویے کے خالف‘ مجبور اور بےبس‬ ‫احتجاج تھا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے‘ وہ اپنی نسل کے فرد کی‬ ‫غالمی پر دکھی دکھی ہے۔‬ ‫مینا چپ ہو گئی‘ لیکن توتا‘ سوچ سمندر میں بہتا چال گیا۔ مینا‬ ‫اپنے من کا بوجھ ہلکا کرکے‘ اپنے نئے ساتھی کے پاس‘ جا‬ ‫چکی تھی‘ لیکن توتا ابھی تک‘ اسی شاخ پر بیٹھا‘ سوچوں کے‬ ‫گرداب میں پھنسا‘ اپنی ذات سے‘ بہت دور چال گیا تھا۔‬ ‫جانے کتنے‘ اس کی نسل کے‘ انسان کی غالمی میں‘ اپنا ماضی‬ ‫کھو چکے ہوں گے۔ وقت کی گردش میں‘ ماضی گم ہو جاتا ہے۔‬ ‫بس سنی سنائی کہانیاں ہی‘ دل کو خوش رکھنے کے لیے‘ رہ‬ ‫جاتی ہیں۔ فردوسی نے کتنا اور کہاں تک‘ سچ کہا‘ کوئی کیوں‬


‫تالشے۔ بس اتنا کافی ہے‘ کیوں کہ ہر اگلے لمحے‘ پھر سے‘‬ ‫اور پہلے سے الگ تر‘ چوگے کی چنتا‘ سچائی کھوجنے نہیں‬ ‫دیتی۔ موجود ہی کو‘ سچائی کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے۔ پنجرے‬ ‫کے سب توتے مینا‘ ماضی کے جھوٹے سچے قصے بھول‬ ‫جاتے ہیں۔ انہیں صرف اور صرف وہ ہی یاد رہتا ہے‘ جو مداری‬ ‫ان کے کان میں پھونک دیتا ہے۔‬

‫دو منافق‬ ‫ثریا کو میرا دل ایک عرصہ پہلے‘ طالق دے چکا ہے لیکن دنیا‬ ‫چاری کے طور پر‘ ہم ایک چھت کے نیچے رہتے ہیں۔ ہمارا‬ ‫کھانا پینا‘ اٹھنا بیٹھنا‘ سونا جاگنا‘ غرض بہت کچھ‘ مشترک‬ ‫ہے۔ میں جانتا ہوں‘ ثریا بھی میری کبھی نہیں رہی۔ اس کی ہر‬ ‫مسکراہٹ‘ جعلی ہوتی ہے۔ وہ مجھے زندگی بھر دھوکا دیتی آئی‬ ‫ہے۔ وہ سمجھتی ہے‘ کہ میں بےخبر ہوں۔ سچی بات یہی ہے‘‬ ‫کہ ہم میں سے کوئی ایک دوسرے سے مخلص نہیں۔ اتنا قریب‬ ‫اور بہت ساری سانجھیں موجود ہونے کے باوجود‘ ہم دلی اور‬ ‫دماغی اعتبار سے‘ ایک دوسرے سے‘ کوسوں میل کے فاصلے‬ ‫پر ہیں۔ وہ ہی نہیں‘ میں بھی‘ اس رشتہ کے حوالہ‘ پرلے‬


‫درجے کا بےاعتبارا اور غیر متعلق ہوں۔ وہ میری بیوی اور میں‬ ‫اس کا خاوند ہوں۔ اس کا ثبوت گھر میں چلتے پھرتے بچے ہیں۔‬ ‫میں جانتا ہوں‘ ان میں سے بڑی لٹرکی کلثوم کے سوا‘ میرا‬ ‫کوئی بچہ نہیں ہیں۔ باقی چاروں کی پہچان ہمارے دونوں کے‬ ‫حوالہ سے ہے۔ بچے بھی‘ اسے سچی اور پکی پہچان سمجھتے‬ ‫ہیں۔ وہ کہہ نہیں سکتی‘ کہ صفیہ اور اقصا کے بچے میرے‬ ‫بچے ہیں۔ ہم پرلے درجے کے جھوٹے عیار اور منافق ہیں۔ ایک‬ ‫دوسرے کو جانتے اور پہچانتے ہوئے بھی‘ اس امر کے دعوی‬ ‫دار ہیں‘ کہ ہم ایک دوسرے سے مخلص‘ ہمدرد اور وفادار ہیں۔‬ ‫ہماری جوڑی‘ مثالی رہی ہے۔ اصل حقیقیت یہ ہے‘ کہ ایک ہی‬ ‫چھت کے نیچے‘ دو منافق‘ زندگی بسر کرتے آ رہے ہیں۔‬ ‫اول اول میں ثریا ہی کو غلط‘ بےوفا اور دغا باز سمجھتا تھا۔‬ ‫سچائی تو یہ ہے‘ کہ میں بھی ٹیڑھا رہا ہوں۔ میں نے بھی اسی‬ ‫کا چلن لیا ہے۔ کہیں ناکہیں‘ غلط میں بھی ہوں۔‬ ‫آج ناسہی‘ اس زمانے میں‘ میٹرک بہت بڑی تعلیم تھی۔ دور دور‬ ‫تک میٹرک پاس نہیں ملتا تھا۔ آج ہر محلہ میں‘ آسانی سے‘ بی‬ ‫اے پاس مل جاتا ہے۔ اپنے بچے کو پڑھانا‘ ہر کسی کے بس کا‬ ‫روگ نہ تھا۔ لوگ زیادہ تر‘ اپنے بچوں کو ہنر سکھانے پر توجہ‬ ‫دیتے تھے۔ ان کا خیال تھا‘ کہ ہنر سیکھ کر‘ ان کا بچہ باعزت‬


‫روٹی کمانے کے قابل ہو جائے گا اور بھوکا نہیں مرے گا۔‬ ‫ایسے وقت میں‘ میٹرک پاس کر لینا معمولی بات نہ تھی۔ میں‬ ‫بڑی آسانی سے‘ ضلع دار کا منشی منتخب ہو گیا۔ ابا خوش‬ ‫تھے‘ لیکن مطمن نہ تھے۔ وہ مجھے افسر دیکھنا چاہتے تھے۔‬ ‫ادھر مالزم ہوا ادھر میرے لیے اچھی اور پڑھی لکھی بہو کی‬ ‫تالش شروع ہو گئی۔ اس دور میں‘ مرضی پوچھنے کا رواج نہ‬ ‫تھا۔ دوسرا میری بھی کوئی پسند نہ تھی۔ امی اپنی بہن کی بیٹی‬ ‫بیاہ کر النا چاہتی تھیں‘ لیکن اس پر ان پڑھ ہونے کا لیبل‬ ‫چسپاں تھا۔ کافی سوچ بچار اور پرکھ پڑچول کے بعد‘ شہاب‬ ‫صاحب کی بیٹی پسند کر لی گئی۔ وہ میٹرک جے وی تھی اور‬ ‫پاس کے گاؤں میں پڑھانے جایا کرتی تھی۔ سب سے بڑی بات‬ ‫یہ کہ‘ وہ نائب صاحب کی دختر نیک اختر تھی۔ میرے سامنے‬ ‫اس کی شرافت اور حسن کے شیش محل کھڑے کر دیے گیے۔‬ ‫میرے اشتیاق میں‘ ہر لمحہ اضافہ ہوا۔ وہ واقعی‘ خوب صورت‬ ‫عورت تھی۔ ایک بات تو سچ ثابت ہو گئی۔ کہتے تھے‘ ثریا منہ‬ ‫میں زبان نہیں رکھتی۔ یہ بات بھی سچ نکلی۔ اس کی زبان ہمیشہ‬ ‫منہ سے باہر رہتی۔ بعض اوقات‘ محافل میں‘ اس کا منہ اور‬ ‫زبان‘ متوازی سفر کرنے لگتے۔‬ ‫بہت کم‘ کسی کو کچھ کہنے کا موقع فراہم کرتی۔ رہ گئی شرافت‬


‫کی بات‘ وہ بھی ڈھکی چھپی نہ رہی۔ بڑے باپ کی بیٹی تھی‘‬ ‫کسی کو‘ چوں تک کرنے کی جرات نہ ہوتی۔ میں اس کا میاں ہو‬ ‫کر بھی‘ اسے کچھ کہنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا۔ اس کا باپ‬ ‫افسر تو تھا ہی‘ اوپر سے بھولو پہلوان سے‘ کسی طرح کم نہ‬ ‫تھا۔ بےتحاشا کھاتا تھا۔ پلے سے‘ اسے کبھی کھاتا نہیں دیکھا‬ ‫گیا۔ زبان سے کم‘ ہاتھ سے زیادہ کام لیتا تھا۔ اس کا سارا زور‬ ‫موچھوں پر تھا۔ مونچھیں بڑی خوف ناک تھیں۔ تحقیق سے‬ ‫معلوم ہوا‘ ذات کے تیلی ہیں لیکن لوگ بڑے ملک صاحب کہہ‬ ‫کر پکارتے تھے۔ ان کی تعریف میں زمین آسمان کے قالبے مال‬ ‫دیتے۔ بعض ایسی خوبیاں بیان کرتے‘ جن کا خود ملک صاحب‬ ‫کے فرشتوں کو بھی علم نہ ہو گا۔ ایسے شخص کی بیٹی کی ہاں‬ ‫میں ہاں نہ مال کر‘ موت کو ماسی کہنے کے مترادف تھا۔‬ ‫میں تنخواہ پر گزارا کرنے کا قائل تھا۔ تنخواہ میں ٹھاٹھ کی نہیں‬ ‫گزاری جا سکتی۔ یقینا یہ بہت بڑا جرم تھا۔ میرے ہم پلہ کیا‘‬ ‫میرے جونیئر موجیں کر رہے تھے۔ کئی نے دیکھتے ہی‬ ‫دکھتے‘ عمارتیں کھڑی کر لی تھیں۔ کپڑے نوابوں کے سے‘‬ ‫زیب تن کرتے۔ ان کے بچے انگریز اور بیگمات‘ پشتنی رائس‬ ‫زادیاں لگتی تھیں۔‬ ‫ادھر ہمارے ہاں‘ ان کے مقابلہ میں‘ کمی کمینوں کا سا ماحول‬


‫تھا۔ ایک بار میرے کولیگ کے ہاں کوئی فنکشن تھا۔ ہمیں مدعو‬ ‫نہ کیا گیا۔ ان کی بیوی نے برسرعام کہہ دیا‘ کہ ہم شرفا میں‬ ‫سے ہیں‘ اس لیے ہم تھرڈ کالس لوگوں کو بال کر‘ فنکشن کا‬ ‫ستیاناس نہیں مارنا چاہتے۔‬ ‫ثریا روٹھ کر‘ اپنے باپ کے گھر چلی گئی۔ ددسرے دن‘ ملک‬ ‫صاحب ہمارے ہاں آ دھمکے اور بہہ جا بہہ جا کرا دی۔ میں‬ ‫حیران تھا‘ آخر شرافت اور ایمانداری‘ اس اسٹیج پر‘ بےمعنی‬ ‫کیوں ہو جاتی ہے۔ اس عزت افزائی کے بعد‘ میں نے ایمان‬ ‫داری کو طاقچے میں رکھ دیا۔ لہریں بحریں ہو گئیں۔ ضلع دار‬ ‫صاحب بھی خوش تھے۔ ان کا حصہ پہلے نکالتا۔ ثریا کا برادری‬ ‫میں ٹہوہر ٹپا ہو گیا۔ اس کے ملنے والوں میں بھی اضافہ ہوا۔‬ ‫بچے آزاد ماحول میں زندگی بسر کرنے لگے۔ میں باہر ہی سے‬ ‫کھانے لگا۔ کام نکلوانے کے لیے‘ مسکراہٹوں کا‘ سائل اہتمام‬ ‫کرنے لگے۔ بہتر کارگزاری کی بنا پر‘ آؤٹ آف ٹرن پروموشن‬ ‫بھی مل گیا۔‬ ‫گھر کے معامالت میں‘ ہم ایک دوسرے کے لیے‘ اجنبی سے ہو‬ ‫گیے۔ ایک دوسرے کی حرکتوں کو جانتے ہوئے‘ اندھے‘‬ ‫گونگے اور بہرے سے ہو گیے۔ کسی کو انگلی اٹھانے کی ہمت‬ ‫نہ ہوتی تھی۔ میرا تعلق مغل فیملی سے تعلق تھا‘ لیکن میں بھی‬


‫ملک صاحب ہو گیا۔ بڑے ملک صاحب کی موت بعد‘ یقینا میں‬ ‫بڑے ملک صاحب کے لقب سے ملقوب ہونے واال تھا۔ میں نے‬ ‫ان سے بڑھ کر شہرت کمائی تھی۔ وہ اب‘ صرف مونچھوں میں‬ ‫مجھ سے آگے تھے‘ ورنہ رزق اور شخصی آزادی‘ ہمارے ہاں‬ ‫کہیں‘ زیادہ تھی۔ والد صاحب پڑھے لکھے ہو کر بھی‘ پرانی‬ ‫وضع کے شخص تھے۔ انہوں نے ہمیں الگ کر دیا تھا۔ نہ بھی‬ ‫کرتے تو ہم خود علیدہ ہو جاتے۔ ان کا مکان‘ مکان کم‘ مرغیوں‬ ‫کا ڈربا زیادہ تھا۔‬ ‫میں نے میٹرک پاس کیا تھا۔ اتنا پڑھنے اور خرچہ کرنے کے‬ ‫بعد بھی‘ رونا دھونا اور بامشکل گزارا ہو‘ تو پڑھنے لکھنے کا‬ ‫فائدہ ہی کیا۔ دوسرا میں اکیال تھوڑا‘ اس رستے کا راہی تھا۔ ہر‬ ‫دفتر کا‘ چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا اہل کار‘ اسی راہ‬ ‫کا راہی تھا۔ لحاظ‘ مروت اور رواداری‘ عزت‘ شہرت اور خوش‬ ‫حالی کے کھلے دشمن ہیں۔‬ ‫مجھے ریٹائر ہوئے‘ آج سات سال ہو گیے ہیں۔ پنشن مل رہی‬ ‫ہے۔ باالئی کا ماہنانہ بنک دے رہا ہے۔ کچھ ضرورت مندوں کو‬ ‫بھی دے رکھا تھا‘ وہ طے شدہ‘ منافع وقت پر دے جاتے ہیں۔‬ ‫بڑے ملک صاحب کی جائیداد سے‘ اچھا خاصا حصہ مال ہے۔‬ ‫میں نے‘ بس کلثوم کی شادی‘ اپنی مرضی اور دھوم سے کی‬


‫ہے۔ دوسری دونوں نے لو میرج کر لی ہے۔ دقیانوسی کہتے‬ ‫ہیں‘ کہ وہ نکل کر گئی ہیں۔ مجھے کوئی دکھ نہیں‘ وہ میری‬ ‫تھیں ہی کب؟ لڑکے بھی‘ پسند کی شادیاں کر چکے ہیں۔ آج بھی‬ ‫میں ہمیشہ کی طرح آزاد ہوں۔ ثریا اپنی مرضی کی گزار رہی ہے۔‬ ‫سب درست سہی‘ گامو سوچیار کا یہ کہنا‘ گلے میں پھانس بن‬ ‫کر اٹکا ہوا ہے کہ حرام نسبی ہی نہیں‘ کسبی بھی ہوتا ہے۔‬ ‫حرام سے‘ بہرطور حرامدا ہے۔ میری ماں نیک اور پرانی وضع‬ ‫کی عورت تھی۔ مجھے سو فیصد یقین ہے‘ کہ میں حالدا ہوں۔‬ ‫کلثوم میری بیٹی ہے۔ کیا حرام کھا کر‘ ہم حرامدے ہو گیے ہیں۔‬ ‫گامو سوچیار کے ان لفظوں نے‘ میری اور سکون چھین لیا ہے۔‬ ‫میں کئی بار‘ اپنے ضمیر کو مطمن کرنے کی کوشش کر چکا‬ ‫ہوں۔ کم بخت‘ مطمن ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ گامو سوچیار‬ ‫جیسے لوگوں کو‘ مصلوب کیا جاتا رہا ہے‘ اس کے باوجود‘‬ ‫کوئی ناکوئی‘ ہر عہد میں‘ ان کی جگہ لے ہی لیتا ہے۔‬ ‫گامو سوچیار کا کہا‘ درست ہے‘ یا نہیں‘ یہ بات غور طلب ہے‘‬ ‫تاہم یہ طے ہے کہ اس گھر میں ہنستے مسکراتے دو منافق‬ ‫رہتے ہیں۔‬


‫‪21-2-1972‬‬

‫بازگشت‬

‫وہ ستمبر کی بھیگی سی شام تھی۔ رومان کی پریاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔چندا‬ ‫کی اجلی اجلی نکھری نکھری روشنی میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔آنکھ مچولی‬ ‫کھیل رہی تھیں۔ چندا ان کی روح شکن اٹھکیلیاں دیکھ‬ ‫کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مے نوشی پر اتر آیا تھا۔ مے کی ننھی منی‬ ‫بوندیں۔۔۔۔۔۔۔۔گالب کے پرشباب چہرے پر ٹپک رہی تھیں۔ یوں‬ ‫محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گالب مدہوش ہو کر اپنی ہستی کھو‬ ‫دے گا۔ گالب کی وہ آخری شب تھی۔ یہ دستور زمانہ رہا ہے کہ‬ ‫جب گالب شباب کی حدوں کو چھوتا ہے تو گلچیں آ ٹپکتا ہے۔‬ ‫پھر وہی پھول زندگی کے مخلتف شعبوں میں غالمی کی سانسیں‬ ‫گزارتے ہیں۔ ان کی آہ و بکا سننے واال کوئ نہیں ہوتا۔ ٹہنی‬ ‫سے بچھڑے پھول کی اوقات ہی کیا ہوتی ہے۔ کچھ سہرے کی‬ ‫لڑیوں کا مقدر بنتے ہیں تو کچھ حسرتوں کے مزار‬ ‫پر۔۔۔۔۔۔۔۔اگست کی دھوپ میں۔۔۔۔۔۔۔۔نشان عبرت بنتے ہیں۔ وہ آہ‬ ‫بھی نہیں کر پاتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔کریں بھی کیسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔کون سنے‬


‫گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔شاخ سے بچھڑے پھول کے پاس یہ حق نہیں ہوتا۔‬ ‫اگر وہ شاخ پر ہوتا تو اس کی کوئ حیثیت بھی ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئ‬ ‫مقام ہوتا۔ میں بھی شاخ سے جدا ایک بےباس پھول ہوں۔ قطعی‬ ‫مجبور بےبس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الچار۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپنے احوال کہنے کے مجھ سے‬ ‫حقوق چھین لیے گیے ہیں۔ میں منہ میں زبان رکھ کر بھی گونگا‬ ‫ہوں۔اگر آواز اٹھاؤں گا تو کون سنے گا۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں کسی کے پاس‬ ‫اتنا وقت کہاں جو وہ کسی شاخ بریدہ کو خاطر میں الئے۔‬ ‫اس شام دن بھر کی فائل کاری نے ذہن پر ایک بوجھ سا ڈال‬ ‫رکھا تھا اور میں صوفے پر نیم درازز خود کو جھوٹی تسلیوں‬ ‫سے بہالنے کی ناکام سعی کر رہا تھا۔ چار سو پھیلی چندا کی‬ ‫رومان پرور کرنیں‬ ‫میرے دل ودماغ پر ہتھوڑے برسا رہی تھیں۔ میرے گرد تنہائ‬ ‫کی آگ پھیل رہی تھی۔ باغی دل و دماغ پر قابو پانا دشور ہو چال‬ ‫تھا۔ کئ بار سوچا الئٹ آن کرکے خود کو مصنوعی روشنی کے‬ ‫حلقوں میں گم کر دوں۔۔۔۔۔۔۔۔ آہ میں ایسا نہ کر سکا۔۔۔۔۔۔ایسا کرنا‬ ‫ممکن ہی نہ تھا۔ اگر ہر چیز انسان کے بس میں ہو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫مسالل کبھی جنم نہ لیں۔ مجبوری ہی درحقیقت مساءل کی جڑ‬ ‫ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں مجبوری۔۔۔۔۔۔۔۔۔بےبسی کی دراز باہوں کے حصار‬


‫سے بچ نکلنا منی منے کا کوئ کھیل نہیں۔‬ ‫پھر اچانک کسی نے میرے شعور دریچے پر دستک دی۔ کئ‬ ‫چہرے میری آنکھوں کے سامنے رقصں کرنے لگے۔ میں گہری‬ ‫سوچ میں ڈوب گیا۔ کون ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ پھر کسی نے‬ ‫چپکے سے میرے کان میں سر گوشی کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یار اپنے عامر‬ ‫کی چاپ کو نہیں پہچانتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمہارا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں تمہارا اپنا عامر۔‬ ‫وہ عامر ہی تھا۔ جو صدیوں سے زندگی کی برہنہ الش کو اپنے‬ ‫نحیف کندھوں پر اٹھاءے مسلسل اور متواتر دوڑے چال جا رہا‬ ‫تھا۔اب وہ کافی الغر ہو گیا تھا۔ چہرے کی سرخی ہلدی ہو گئ‬ ‫تھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اس کے جسم سے کسی نے‬ ‫پورا خون نچوڑ لیا ہو۔ اس کے قدموں میں لڑکھڑاہٹ تھی۔ اس‬ ‫کا وجود لرز رہا تھا۔ خود میرے اپنے اعضا بھی تو ڈھیلے پڑ‬ ‫گیے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔چند لمحے۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں چند لمحے خاموشی کی لحد‬ ‫میں اتر گیے۔ پھر اس نے خاموشی کا قفل توڑا۔‬ ‫شاہد جاگ رہے ہو؟ مگر کیوں‘ سو جاؤ۔ کب تک یوں ہی گھلتے‬ ‫رہو گے۔ میں تمہارا اپنا ہوں مجھ سے بھی اپنا دکھ چھپاتے ہو۔‬ ‫اس دکھ سے آزادی حاصل کرو ورنہ میری طرح تم بھی اپنے‬ ‫وجوو میں نہ رہو گے۔ تمثالی زندگی بڑی کٹھن ہوتی ہے۔ یہ‬ ‫سسکنے بھی نہیں دیتی۔‬


‫سو جاؤ دوست اب سو جاؤ‬ ‫یہ تم کیسی باتیں کر رہے ہو۔ کچھ کہو۔۔۔۔۔۔ کچھ تو کہو‬ ‫کب تک سنو گے۔ کیا کچھ سنو گے۔ فرزانہ نے خود کشی کر لی‬ ‫ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔خودکشی۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫!یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟‬ ‫سچ کہہ رہا ہوں۔ اس کی آواز میں بیکراں کرب تھا۔‬ ‫شاہد بھال کیا کر سکتا تھا۔ سسک کر رہ گیا۔‬ ‫فرزانہ بڑے اعلی اخالق و ذوق کی مالک تھی۔ اس نے عامر کو‬ ‫تنہائ کے بحر عمیق سے نکال کر گالبوں کے دیس میں ال کھڑا‬ ‫کیا تھا۔ اس کا دامن مسکرہٹوں سے بھر دیا تھا۔‬ ‫عامر نے بات جاری رکھی اور دل پر پتھر رکھتے ہوءے بتایا‬ ‫اس روز کافی گرمی تھی۔ فرزانہ اپنے ابو کا سر دبا رہی تھی۔‬ ‫اس کے کانوں سے شمیم کی کرخت آواز ٹکرائ۔ فرزانہ اس کے‬ ‫تیور دیکھ کر لرز ہی تو گئ۔‬ ‫فرزانہ مجھے تخلیہ میں تم سے کچھ کہنا ہے۔“ فرزانہ اسے “‬


‫اپنے کمرے میں لے آئ۔ چند لمحے خاموشی طاری رہی پھر‬ ‫اس کے زہر آلود الفاظ سے خاموشی کا بت ٹوٹا۔‬ ‫سنو فرزانہ! آج میں تم سے آخری فیصلہ کرنے آئ ہوں۔ اگر “‬ ‫تم نے میری باتوں پر عمل نہ کیا تو جانتی ہو کیا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔تم‬ ‫ذلت کے گہرے کھڈ میں جا گرو گی۔ تمہارے ساتھ وہ کچھ ہو گا‬ ‫جس کا تم تصور بھی نہیں کر سکتیں۔ جان رکھو بےکسی کا‬ ‫“عالم اتہائ عبرت ناک ہوتا ہے۔‬ ‫پھر وہ ایک لمحے کے لیے خاموش ہوئ۔ کیسی ہم راز سہیلی‬ ‫تھی۔ کوئ لحاظ کوئ مروت۔۔۔۔۔۔یوں لگتا تھا جیسے اس سے یہ‬ ‫سب چھن گیا ہو۔‬ ‫میں عامر اور تمہاری تحریریں شہر بھر میں بانٹ دوں گی۔ “‬ ‫پھر رسوائ دیمک بن کر تمہیں اور تمہارے امی ابو کو چاٹ لے‬ ‫گی۔ ان لمحوں کو آواز دو گی لیکن یہ لمحے واپس نہیں آئیں‬ ‫گے۔ مجھے صرف اتنا کہنا ہے میرے رستے سے ہٹ جاؤ یہی‬ ‫تمہارے اور تمہارے خاندان کے لیے بہتر ہے۔ میں نہ کچھ سننا‬ ‫“اور ناہی مزید کچھ کہنا چاہتی ہوں۔‬


‫وہ یہ کہہ کر دوسرے کمرے میں چلی گئ۔ فرزانہ کا جسم ٹھنڈا‬ ‫پڑ گیا۔ اسے یوں لگا جیسے گھڑی پل کی مہمان ہو۔ الفاظ کے‬ ‫ہتھوڑے اس کے سرد اور بےجان سے جسم پر ضربیں لگاتے‬ ‫رہے۔ اس نے سوچا اپنی بات اپنی اس وقت تک رہتی ہے جب‬ ‫تک دوسرے کان تک نہیں پہنچتی۔ پھر اس نے اپنی اور اپنے‬ ‫والدین کی عزت بچانے کا فیصلہ کیا اور شمیم کو زخمی‬ ‫‪:‬مسکراہٹ کے ساتھ یہ تحریر لکھ کر دے دی‬ ‫!عامر صاحب‬ ‫آج کے بعد مجھ سے ملنے یا پیغام بھجوانے کی کوشش نہ کرنا۔‬ ‫میرا آپ سے نہ کوئ تعلق تھا اور نہ کوئ تعلق ہے۔ میری اس‬ ‫تحریر کو غیر سنجیدہ نہ لینا۔ میری شادی کا فیصلہ میرے ابو‬ ‫کریں گے۔ انہیں تم قطعی ناپسند ہو۔ ہم ایک دوسرے کے نہ کچھ‬ ‫تھے اور نہ کچھ ہیں۔‬ ‫فقط اپنے ابو کی فرزانہ‬ ‫شمیم جانے کو تو چلی گئ لیکن خیاالت کا منہ زور طوفان چھوڑ‬ ‫گئ۔ یہ سب اس نے دل پر پتھر رکھ کر لکھ کر دیا تھا۔ وہ سوچ‬


‫رہی تھی اب کیا کرے۔ کیا وہ عامر کے بغیر زندہ رہ سکے گی۔‬ ‫وہ عامر کے بغیر زندہ رہنے کا تصور بھی نہ کر سکتی تھی۔ وہ‬ ‫سوچتی گئ جذبات سلگتے رہے۔ پھر اس نے آخری فیصلہ کیا‬ ‫اور الماری کی جانب بڑھ گئ جہاں خواب آوار گولیوں کی شیشی‬ ‫پڑی تھی۔ یہ گولیاں اس کے ابو استعمال کرتے تھے۔ اس نے‬ ‫سب گولیاں اپنے حلق میں انذیل لیں۔ یہ حقیقت ہے کہ درد کی‬ ‫دوا درد ہی ہو سکتی ہے۔ گولیوں نے اس کے پیاسے من کی‬ ‫پیاس بجھا دی۔فرزانہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں اپنے عامی کی فرزانہ ابدی نیند‬ ‫سو چکی تھی۔‬ ‫یہ داستان زہر بجھے تیر سے کسی طرح کم نہ تھی۔ اس نے‬ ‫دیکھا‘ عامر کا دم گھٹنے لگا ہے اور پھر اس نے روح سے‬ ‫خالی زندگی سے خالصی حاصل کر لی۔ ہاں اس کے چہرے پر‬ ‫اب سکون نمایاں ہو گیا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے بت دو روحوں‬ ‫کا سنگم دیکھ رہا ہو اور زندگی کی کرب ناکی کے بھاری بوجھ‬ ‫نے اس کے بے حس و حرکت پڑے وجود کو سفلتا عطا کر دی‬ ‫ہو۔ ہو سکتا ہے یہ میری سوچ کا کاشانہ ہو لیکن یہ سب وہم‬ ‫وگمان بھی نہیں ہو سکتا۔ کچھ ضرور تھا۔ رخصت ہوتے‘ روح‬ ‫نے اپنی رخصتی کے آثار چھوڑ دیے تھے۔ سرگوشی کا سلسلہ‬ ‫منقطع ہو گیا۔ عامر فرزانہ کے دیس جا چکا تھا۔ ہاں اس کی‬ ‫سرگوشی کی خوشبو ابھی باقی تھی۔‬


‫یہ سب اس نے جاگتی آنکھوں سے دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیسے‬ ‫بھول پاتا۔ کربناک لحموں کی بازگشت تازیست یادوں کے نہاں‬ ‫گوشوں میں اپنا تمثالی وجود برقرار رکھتی ہے۔ یادوں کا تمثالی‬ ‫وجود نیند کے جھونکوں کا انتظار نہیں کرتا۔ موقعہ بہ موقعہ‬ ‫اپنے اٹوٹ وجود اور قلبی رشتے کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ اسے‬ ‫اس سے کوئ غرض نہیں ہوتی کہ کسی پر کیا گزرے گی۔‬ ‫بازگشت کا رشتہ اگر مٹی ہو جائے تو گزرا کل اپنی معنویت کھو‬ ‫دے اور صیغہ تھا الیعنی ہو کر رہ جائے۔‬ ‫یکم جوالئی ‪1970‬‬

‫الٹھی والے کی بھینس‬

‫الہور بورڈ نے میری پنشنری غربت سے متاثر اور عبرت‬ ‫پکڑتے ہوءے مجھے ہیڈ ایگزامینر مقرر کر دیا۔ میں کام کی‬ ‫غرض سے نکلنے لگا۔ دروازے سے ایک قدم باہر اور ایک قدم‬ ‫اندر تھا کہ زوجہ ماجدہ کی پیار بھری آواز واپسی بالوے کی‬


‫صورت میں میرے ناچیز اور پراز گناہ کانوں میں پڑی۔ بڑھاپے‬ ‫کے باوجود میں پوری پھرتی اور کسی نوبہاتا نوجوان کی طرح‬ ‫واپس پلٹا۔ زوجہ حضور کے ہاتھ میں منڈی کے سامان کی لسٹ‬ ‫تھی۔ سخت گھبرایا اور نزع کی حالت کے نیم مردہ شخص کی‬ ‫طرح منمنایا بلکہ گڑگڑایا‪ :‬رمضان کی برکتوں کے سبب منڈی‬ ‫کی اشیاء دسترس سے باہر ہو گئ ہیں۔ بس دو چار روز صبر‬ ‫فرما لیں پھر سب کچھ آپ کے مقدس چرنوں میں ہو گا۔ بس پھر‬ ‫کیا تھا کام اسٹارٹ ہو گیا جیسے میں نے کوئ ماں بہن کی‬ ‫بےلباس گالی نکال دی ہو۔ یہ کوئ ایسی نئ بات نہیں تھی تحفظ‬ ‫عزت و مال کے لیے سارا دن بےعزتی کرانا میرے معمول کا‬ ‫حصہ ہے۔ میں نے بھی دل ہی دل میں جی بھر سنائیں۔ سالی‬ ‫یوں گرج برس رہی ہے جیسے روزہ میرے لیے رکھا ہو۔۔ باور‬ ‫رہے یہ بھی دل ہی دل میں کہا۔ اونچی آواز میں کچھ کہنا میرے‬ ‫کیا بڑے بڑوں کے ابے کے بس کا روگ نہیں رہا۔‬ ‫بیگمی حوصلہ اور عزت افزائ کے باوجود میں خود کو‬ ‫معاشرے کا معزز شہری سمجھتا ہوں۔ لوگ تو خیر اس غلط‬ ‫فہمی میں مبتال ہیں ہی۔ وہ کیا جانیں روزوں میں منڈی چڑھنے‬ ‫کے ساتھ ہی میری عزت اور وقار بےعزتی کی سولی پر‬ ‫مصلوب ہو جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے اوروں کے ساتھ بھی کم‬ ‫وبیش یہی ہوتا ہو تاہم میرے ساتھ باالضرور ہوتا ہے اور شاید‬


‫یہی مقدر اور نصیبا رہا ہو۔‬ ‫سنٹر میں ابھی میں نے تشریف نہیں رکھی تھی کہ ایک بی بی‬ ‫جو میری سب تھی اپنا کام لے کر آ گئ۔ سر میرا کیا قصور ہے‬ ‫جو کلرک کام میں دیری کرتا ہے بمعنی دوسروں کے پہلے کرتا‬ ‫ہے حاالنکہ اسے لیڈیز فسٹ کے اصول کی پابندی کرنی چاہیے‬ ‫گویا جس کا کام کر رہا ہوتا ہے اسے موخر کے کھاتے میں ڈال‬ ‫دے۔ اس کے سوال کا جواب دینے کی بجاءے منہ سے‬ ‫بےساختہ اور بےمحل نکل گیا‘ جانے کیا کر بیٹھا ہوں جو گھر‬ ‫میں بھی عورتیں دیکھنے کو ملتی ہیں باہر آؤ تو بھی عورتوں‬ ‫سے پاال پڑتا ہے۔ کہنے کو تو کہہ گیا لیکن مجھے احساس ہو‬ ‫گیا کہ کچھ زیادہ ہی غلط کہہ گیا ہوں۔ بعد میں نے لیپا پوچی کی‬ ‫بڑی کوشش کی لیکن اب کیا ہوت کمان سے نکال تیر نشانے پر‬ ‫بیٹھ کر اپنا اثر دکھا چکا تھا۔‬ ‫بات آئی گئی ہو کر وقتی طور پر ٹل گئی۔ مارکنگ کا یہ آخری دن‬ ‫تھا ایک دوسری خاتون نے برسرعام پوچھا سر اگر آپ برا نہ‬ ‫منائیں تو ایک ذاتی سا سوال پوچھ سکتی ہوں۔ ذاتی پر زور تھا‬ ‫سا کا الحقہ اس نے تکلفا استعمال کیا۔ کیا کہہ سکتا تھا ذاتی سا‬ ‫سوال سرعام دریافت کر رہی تھی۔ احمق میں ہی تھا جو ماتحت‬ ‫لوگوں کے بیچ بیٹھ کر کام کر رہا تھا۔ یہ لوگ تقریبا ماتحت‬


‫تھے میں تو درجہ چہارم کے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر پلے سے‬ ‫سب کے لیے چاءے منگوا کر پی لیتا ہوں‘ گپ شپ کر لیتا ہوں۔‬ ‫بالشبہ یہ اصول جاہی کے خالف ہے۔ بہر کیف میں نے بی بی‬ ‫کو پوچھ گچھ کی اجازت دے دی۔‬ ‫۔سر آپ کی تینوں بیگمات اسی شہر میں اقامت رکھتی ہی۔ تین‬ ‫کے ہندسے نے مجھے چکرا دیا۔ پھر میں نے سوچا مفت میں‬ ‫ٹہوہر بن رہا ہے اور اس حوالہ سے یہ جائے انکار کب ہے۔‬ ‫نہیں وہ تو ایک ہی گھر میں رہتی ہیں۔ جس طرح مجھے تین‬ ‫کے ہندسے نے چکرا دیا تھا بالکل اسی طرح بلکہ اس سے‬ ‫بھی بڑھ کر اس بی بی کو چکر آ گیا اور میں جوابی کاروائ کی‬ ‫اثر انگیزی پر مسرور تھا۔ کچھ ہی لمحوں کے بعد میری‬ ‫مسروری کو دیکھ کر اس نے دوسرا سوال داغ دیا۔ سر وہ آپس‬ ‫میں خوب لڑتی ہوں گی۔ میں یہ کہہ کر چلتا بنا‪ :‬کیوں میں مر‬ ‫گیا ہوں۔‬ ‫بعد میں کسی اور کی زبانی معلوم ہوا کہ انہوں نے کیوں میں مر‬ ‫گیا ہوں کی تفہیم بالکل الگ سے لی ہے۔ انہوں نے سمجھا کہ‬ ‫بابے نے تینوں کو نپ کر رکھا ہوا ہے۔ عورت اور وہ بھی‬ ‫سرکاری؛ دب کر رہے‘ کس کتاپ میں لکھا ہے۔ میرے کہنے کا‬ ‫مطلب یہ تھا کہ آپس میں کیوں لڑیں گی لڑائ اورعزت افزائئ‬


‫کے لیے میں ابھی زندہ ہوں۔ یہ قصہ تو زیب داستان کے لیے‬ ‫عرض کر گیا ہوں اصل تحقیق کی ضرورت تین کا ہندسہ تھا۔‬ ‫آخر یہ کہاں سے آ ٹپکا اور پورے مارکنگ سنٹر میں میری وجہ‬ ‫ء شہرت بن گیا۔‬ ‫بڑا غور کیا‘ سوچا‘ سیاق و سباق میں گیا۔ کچھ بھی پلے نہ پڑا۔‬ ‫آج کچھ ہی لمحے پہلے مجھے مشکوک نظروں سے دیکھا گیا‬ ‫تو میں نے سنجیدہ توجہ دی تو کھال میں نے ایک بی بی سے‬ ‫کہا تھا گھر میں عورتوں اور باہر بھی عورتوں سے پاال ہے۔‬ ‫جمع کے صیغے نے کہانی کو جنم دیا تھا۔ خاتون کے حافظہ‬ ‫میں ایک جمع رہی دوسری کو اس نے واحد لیا۔ وہ عورت تھی‬ ‫مکالمہ اسی سے ہوا۔ غالبا اردو نحو کا اصول بھی یہی ہے کہ‬ ‫دوسری جمع واحد میں تبدیل ہو جاتی ہے۔‬ ‫سننے اور پڑھنے واال بولنے اور لکھنے والے کا پابند نہیں وہ‬ ‫مرضی کے مطابق مفاہیم اخذ کرتا ہے۔ میرے کہے میں ابہام‬ ‫موجود تھا۔ بال ابہام لفظوں اور جملوں کے بہت سے مفاہیم لیے‬ ‫جاتے ہیں یا پھر لیے جا سکتے ہیں۔ ساختیات بھی یہی کہتی‬ ‫ہے۔ اسے کہنا بھی چاہیے۔ ابہام اور لفظوں کی کثیر معنویت‬ ‫عدالتوں میں اپیل کے دروازے کھولتی ہے۔ لفظ اپنی حیثیت میں‬ ‫جامد اور اٹل نہیں۔ اسے استعمال میں النے والے کی انگلی‬


‫پکڑنا ہوتی ہے۔ ان کے جامد اور اٹل ہونے سے زبان کے اظہار‬ ‫کا دائرہ تنگ ہو جائے گا۔ نتیجہ کار زبان مر جائے گی یا محض‬ ‫بولی ہو کر رہ جائے گی۔ اس تھیوری کے تناظر میں مجھے‬ ‫کسی بھی خاتون کے کہے کو دل پر لگانا نہیں چاہیے۔‬ ‫کچھ ہی پہلے اندر سے آواز سنائی دی حضرت بیغم صاحب حیدر‬ ‫امام سے کہہ رہی تھیں بیٹا اپنے ابو سے پیسے لے کر بابے‬ ‫فجے سے غلہ لے آؤ۔ عید قریب آ رہی ہے کچھ تو جمع ہوں‬ ‫گے عید پر کپڑے خرید الئیں گے۔ بڑا سادا اور عام فیہم جملہ‬ ‫ہے لیکن اس کے مفاہیم سے میں ہی آگاہ ہوں۔ یہ عید پر کپڑوں‬ ‫النے کے حوالہ سے بڑا بلیغ اور طرحدار طنز ہے۔ طنز اور‬ ‫مزاح میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ طنز لڑائی کے دروازے‬ ‫کھولتا ہے جبکہ مزاح کے بطن سے قہقہے جنم لیتے ہیں۔ جب‬ ‫دونوں کا آمیزہ پیش کیا جاءے تو زہریلی مسکراہٹ نمودار ہوتی‬ ‫ہے اور ایسی جعلی مسکراہٹ سے صبر بھال دوسرا بات گرہ‬ ‫میں بندھ جاتی ہے۔‬ ‫میں نے کئ بار عرض کیا کہ طنز لبریز مذاق نہ کیا کرو۔ کہتی‬ ‫ہے اب اس گھر میں بات کرنے کی بھی اجازت نہیں۔ حقیقت یہ‬ ‫ہے کہ حکم نامے طاقت جاری کرتی ہے۔ ماتحت کمزور مفلس‬ ‫اور کامے حقوق کی مانگ بھی گزاشی انداز میں کرتے ہیں۔‬


‫لمحہ بھر کی خوش فہمی بھی ہضم نہ ہو سکی کہ گھر والی کو‬ ‫بےفضول کہنے کی جرآت نہیں‘ میرے حصے کا بھی بقول‬ ‫سقراط گھر والی نے بول دیا۔‬ ‫سردار دمحم حسین آج کی نشت میں کہہ رہے تھے کہ آخر آپ کی‬ ‫تان اعلی شکشا منشی پر ہی کیوں ٹوٹتی ہے۔ میں نے کہا‬ ‫سردار صاحب کل گاؤں سے ایک توڑا آلو لیتے آنا۔ آپ ہی‬ ‫فرماءیے اس میں زوردار ہنسنے والی کونسی بات ہے۔ میں نے‬ ‫اپنی بات دہرائ تو پھر ہنس دیے۔ نہ ہاں نہ ناں‘ یہ کیا ہوا۔ میں‬ ‫اپنی لکھتوں میں اپنا حق طلب کرتا ہوں کیونکہ آلو کے بغیر‬ ‫گزرا نہیں اور آلو مفت میں نہیں ملتے۔ اعلی شکشا منشی کے‬ ‫دفتر سے پیسے ملیں گے تو ہی آلو ال سکوں گا۔ میرے آلو‬ ‫النے کے لیے کہنے میں سادگی نہ تھی بالکل اسی طرح سردار‬ ‫صاحب کے دھماکہ دار قہقہوں میں بھی نزدیک کے معنی موجود‬ ‫نہ تھے۔‬ ‫میں جانتا ہوں وہاں بھی آلو کا روال ہے۔ سکی تنخواہ میں آلو‬ ‫اور ٹوہر ایک ساتھ نہی چل سکتے اور ناہی کسی سطع پر ان کا‬ ‫کوئ کنبینیشن ترکیب پاتا ہے۔ انہیں ضدین کا درجہ حاصل ہے۔‬ ‫سردار صاحب نےآلو النے کی بات کو گول کرکے میرے اندر ڈر‬ ‫اور خوف کی لہر دوڑا دی۔ میں یہ بھول ہی گیا کہ میں نے ان‬


‫سے کیا گزارش کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ میں جن کے متعلق‬ ‫لکھتا ہوں ان کے ہاتھ بڑے لمبے ہیں‘ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔‬ ‫سردار صاحب کا کہنا غلط نہ تھا۔ تاہم یہ بھی طے ہے لوگ جیل‬ ‫سے باہر جیل سی زندگی گزار رہے ہیں۔ سفید پوش کی اوقات‬ ‫آلو برابر نہیں رہی۔ کیا عجیب صورت حال درپیش ہے۔ چور کی‬ ‫نشندہی کرنے واال مجرم اور الئق تعزیر ٹھہرتا ہے۔ چور یقینا‬ ‫دودھ دیتی بھینس کی مثل ہوتا ہے۔ چور چور کی آوازیں نکالنے‬ ‫واال دودھ دیتی بھینس کو چھڑی مار رہا ہوتا ہے۔ نشاندہی کرنے‬ ‫واال ایک طرف چور کو‘ تو دوسری طرف چور سے مال انٹنے‬ ‫والے کے پیٹ پر الت رسید کر رہا ہوتا ہے۔‬ ‫ویسے سچ اور حق کی آنکھ سے دیکھا جائے تو حقیقت یہ ہے‬ ‫کہ چور اس وقت تک چور ہوتا ہے جب تک دوسرے کا مال اس‬ ‫کی گرہ میں نہیں آ جاتا۔ مال چاہے شور مچانے والے کا ہی‬ ‫کیوں نہ ہو۔ چور کی گرہ میں آنے کے بعد مال چور کا ہوتا ہے۔‬ ‫کسی صاحب مال کو چور کہنا سراسر زیادتی کے مترادف ہے۔‬ ‫اگر شور مچانے واال بخوشی گرہ سے کچھ نہیں دے سکتا تو‬ ‫کسی کے مال پر دعوے کا بھی اسے حق نہیں۔ حق اور انصاف‬ ‫کا تقاضا یہی کہ جس کی الٹھی اس کی بھینس ہے۔‬


‫آخری کوشش‬

‫درندے کے قدموں کی آہٹ اور بھی قریب ہو گئ تھی۔ اس نے‬ ‫سوچا اگر اس کے دوڑنے کی رفتار یہی رہی تو جلد ہی درندے‬ ‫کے پنجوں میں ہو گا۔ اس نے دوڑنے کی رفتار اور تیز کر دی۔‬ ‫پھر اس نے سوچا کیا وہ اور اس جیسے کمزور طاقتور کے‬ ‫آگے دوڑنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں؟ جب اور جہاں کمزور کی‬ ‫رفتار کم پڑ جاتی ہے طاقتور دبوچ لیتا ہے۔ اس کے بعد زندگی‬ ‫کا ہر لمحہ طاقتور کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ چند لمحوں کے‬ ‫ذہنی سکون کے بعد طاقتور چیر پھاڑ کر اپنی مرضی کے حصے‬ ‫کھا پی کر جان بناتا ہے۔ لمحہ بھر کے لیے بھی وہ یہ سوچنے‬ ‫کی ذحمت گوارا نہیں کرتا کہ کمزور کے دودھ پیتے بچوں کا کیا‬ ‫ہو گا۔ اس کے جانے کے بعد اس سے کم طاقتور بقیہ پر بڑی‬ ‫بے دردی سے ٹوٹ پڑتے ہیں اور وہ بوٹی بوٹی نوچ لیتے ہیں۔‬ ‫یہاں تک کہ ہڈیوں پر بھی رحم کھایا نہیں جاتا۔ کھایا بھی کیوں‬ ‫جائے ہڈیاں فاسفورس کی کانیں ہیں۔ بٹنوں کے لیے ان کی‬ ‫ضرورت رہتی ہے۔‬


‫اس کے بھاگنے کی رفتار میں مزید اضافہ ہو چکا تھا۔ سوچ‬ ‫خوف اور بچ نکلنے کی خواہش نے اس کے جسم میں ہونے‬ ‫والی ٹوٹ پھوٹ کا احساس تک نہ ہونے دیا۔ وہ ہر حالت میں‬ ‫دشمن کی گرفت سے باہر نکل جانا چاہتا تھا لیکن دشمن بھی‬ ‫اسے بخش دینے کے موڈ میں نہ تھا کیونکہ اس کی رفتار میں‬ ‫بھی ہر اضافہ ہو گیا تھا۔‬ ‫موت کا گھیرا تنگ ہو گیا تھا۔ اس کے سامنے کھال میدان دائیں‬ ‫دریا بائیں گہری کھائی اور پیچھے خونخوار درندہ تھا۔ رستے‬ ‫کے انتخاب کے حوالہ سے یہ بڑی سخت گھڑی تھی۔ پھر وہ‬ ‫بائیں مڑ گیا۔ اس نے جسم کی ساری طاقت جمع کرکے کھائی‬ ‫تک پہنچنے کی کوشش کی۔ درندہ فقط ایک قدم کے فاصلے پر‬ ‫رہ گیا تھا۔ اس سے پہلے درندے کا پنجہ اس کی گردن پر پڑتا‬ ‫اس نے کھائ میں چھالنگ لگا دی۔ درندے کے اپنے قدم اس‬ ‫کی گرفت میں نہ رہے۔ کوشش کے باوجود رک نہ سکا اور وہ‬ ‫بھی گہری کھائی کی نذر ہو گیا۔‬ ‫کمزور کے جسم کی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں اور دم اکھڑ رہا تھا۔‬ ‫اس نے سراٹھا کر دیکھا کچھ ہی دور درندہ پڑا کراہ رہا تھا۔ اس‬ ‫کی ٹانگیں ٹوٹ گئی تھیں۔ بھوک درد کے زنداں میں مقید ہو گئی‬ ‫تھی۔ کمزور کے چہرے پر آخری مسکراہٹ صبح کازب کے‬


‫ستارے کی طرح ابھری۔ اس کی آخری کوشش رنگ ال چکی‬ ‫تھی۔ اسے اپنی موت کا رائی بھر دکھ نہ تھا۔ اس نے خود یہ‬ ‫رستہ منتخب کیا تھا۔ اب یہ درندہ کبھی کسی کمزور کا وحشیانہ‬ ‫تعاقب نہ کر سکے گا اور اس کی ٹانگوں سے ہمیشہ اف اف اف‬ ‫کے بزدل نعرے بلند ہوتے رہیں گے۔‬

‫میری ناچیز بدعا‬ ‫کچھ ہی دن ہوئے‘ میری ادھ گھروالی ایم بی بی ایس یعنی میاں‬ ‫بیوی بچوں سمیت ہمارے ہاں پدھاریں۔ میں اپنی بیگم کی ٹی‬ ‫سی کرنے کے لیے بڑے ہی خوشگوار انداز میں اس کے کرسی‬ ‫قریب بڑے ہی فصیح و بلیغ طور سے‘ ٹی سی کر رہا تھا۔ بیگم‬ ‫صاحب نے تھوڑی دیر میری الیعنی بکواس برداشت کی۔ پھر‬ ‫کچن میں جا کر آواز دی۔ ڈاکٹر صاحب ذرا بات سننا۔ میں فورا‬ ‫سے پہلے حاضر ہو گیا۔ دو ہی باتیں ہو سکتی تھیں۔ شک نے‬ ‫لپیٹ لیا ہو۔ اس بڑھاپے میں کیسا شک۔ برتن دھونے کا حکم نہ‬ ‫صادر کر دے۔ پھر میں نے سوچا جو ہو گا دیکھا جائے گا‘ هللا‬ ‫مالک ہے۔‬


‫وہاں ان میں سے کوئ بات درست نہ نکلی۔ فرمانے لگیں کتنی‬ ‫بار کہہ چکی ہوں کہ جا کر دوا لے آؤ‘ پر تم نے کہنا نہ ماننے‬ ‫کی قسم کھا رکھی ہے۔ کہاں کہاں کھرک رہے تھے اس کی‬ ‫تمہیں ہوش ہی نہ تھی۔ اس کی بات میں خم سمیت دم تھا لیکن‬ ‫سوال یہ تھا کہ مہمانہ مرد کے کس کہاں سے واقف نہ تھی۔‬ ‫خیر یہ غلطی نہیں کھلی گستاخی تھی۔ میں نے حسب معمول اور‬ ‫حسب روایت سوری کی اور دوا لینے کے لیے چل دیا۔‬ ‫میں آج تک بیگمی حکم عدولی کا سزاوار نہیں ہوا۔ یہ واحد حکم‬ ‫تھا جسے آج تا کل ٹالتا آ رہا تھا۔ میں وچلی بات کسی سے شئیر‬ ‫نہیں کرنا چاہتا تھا۔ آپ بر مجھے بھروسہ ہے کہ آپ میری بات‬ ‫ہر کان تک نہیں پہنچائیں گے۔ شدہ ہوں اور ہر شدہ‘ شدہ‬ ‫حضرات کی دہلیز کے اندر کی سے خوب آگاہ ہوتا ہے۔ میں‬ ‫بوڑھا ضرور ہوں‘ بدذوق نہیں۔ جو احباب کھرک کی لذت سے‬ ‫آگاہ ہیں وہ میری بات کی تاءد کریں۔ دنیا میں شاید ہی کوئ‬ ‫بیماری ہو گی جو اتنی لذت انگیز ہو گی۔‬ ‫ذندگی بےلذت اور بے ذائقہ ہو گئ ہے۔ دکھ درد مصیبت‬ ‫جھڑکیاں وغیرہ اس کا نصیبہ ٹھہرا ہے۔ ایک یہ لذت کا ذریعہ‬ ‫تھی جو بیگم حضور کو گوارہ نہ ہوئ۔ مانتا ہوں ہر بار خارش‬ ‫کا انجام بڑا تلخ ہوتا ہے۔ زندگی میں پہلے ہی کیا تلخی کم ہے۔‬


‫تلخی کا آغاز اور انجام تلخی ہوتا ہے۔ تلخی کے آخر میں لذت‬ ‫مل جاءے تو آدمی بردشت بھی کر لے۔ خارش ہی وہ تلخی اور‬ ‫آزار ہے جو آغاز میں تادیر چسکا و سواد فراہم کرتی ہے۔ مجھ‬ ‫سے عارضی اور لمحاتی آسودگی چھینی جا رہی تھی۔‬ ‫زمانے کا چلن ہے کہ وہ کسی کو لمحوں کے لیے سہی‘ آسودہ‬ ‫اور خوش نہیں یکھ سکتا۔ مجھے اصل افسوس یہ ہے کہ میری‬ ‫سرزنش کر ڈالی لیکن بہن کو بال کر کچھ نہیں کہا جو جوابا‬ ‫طرح طرح کی جگہوں پر مزے لے لے کر کھرک فرما رہی تھی۔‬ ‫بہن تھی نا وہ اسے لذت سے مرحوم نہں کرنا چاہتی تھی۔ بہن‬ ‫تھی نا۔ اپنے اپنے ہوتے ہیں۔ میرا کیا ہے بیگانہ پتر ہوں میری‬ ‫خوشی اور لمحاتی آسودگی اسے کیونکر خوش آ سکتی تھی۔‬ ‫پاکستان سو نہیں ہزاروں طرح کی قربانیاں دے کر حاصل کیا گیا۔‬ ‫ابتدا سے لے آج تک کھرک زدہ دفتر شاہی سے گزارہ کر رہا‬ ‫ہے۔ واپڈا ہو کہ اکاؤنٹ آفس‘ ٹیلی فون والے ہوں کہ پوسٹ آفس‬ ‫والے‘ اعلی شکشا منشی کا دفتر ہو کہ پنجاب سرونٹس‬ ‫فاؤنڈیشن والے غرض کوئ بھی محکمہ لے لیں مسلسل اور‬ ‫متواتر طرح طرح کی جگہوں پر کھرکے جا رہے ہیں پوچھنے‬ ‫والے خود اس عظیم نعمت ارضی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔‬ ‫کچھ ہی ریٹائرمنٹ کے بعد رشوثی کھرک کی تلخی دیکھتے ہیں‬


‫ورنہ معاملہ اگلے جہاں تک التوا میں رہتا ہے۔ گھر میں فرد‬ ‫واحد کی کھرک اس سے برداشت نہ ہو سکی۔ میری بدعا ہے هللا‬ ‫اسے اس نعمت بےمول سے تامرگ محروم رکھے اور اس کے‬ ‫لیے ترستی قبریں سدھارے۔ وہ اس لذت کے لیے دعا بھی کرے‬ ‫تو دعا قبولیت کے قریب بھی نہ پھٹکے۔‬ ‫سب کہو آمین‬

‫آخری خبریں آنے تک‬

‫کون‬ ‫انصاف‬ ‫تمہارا یہاں کیا کام‬ ‫جہاں میری ضرورت ہوتی ہے بن بالءے چال آتا ہوں‬ ‫بن بالءے کی اوقات سمجھتے ہو‬ ‫جی ہاں‬


‫اوقات عمل سے بنتی ہے۔‬ ‫تماری ماننے والے بھوکے مرے‬ ‫بھوک نے انہیں ہمیشہ سرخرو کیا ہے‬ ‫لوگ ہمیں سالم کرتے ہیں‬ ‫تمہیں نہیں‘ تمہاری شر کو سالم کہتے ہیں‬ ‫تاریخ میں دھنوان امر رہا ہے‬ ‫تاریخ پیٹ کے بندوں کا روزنامچہ ہے‬ ‫پیٹ ہی تو سب کچھ ہے‬ ‫تب ہی تو باال سطع پر رہتے ہو۔ تہہ کے متعلق تم کیا جانو‬ ‫بڑے ڈھیٹ ہو‬ ‫بننا پڑتا ہے‬ ‫تمہیں تمہاری اوقات میں النا پڑے گا‬ ‫کیا کر لو گے؟؟؟‬ ‫تماری ہڈی پسلی ایک کر دوں گا‬ ‫یہ سب تو پہلے بھی میرے ساتھ ہو چکا ہے۔ کوئ نئ‬ ‫ترکیب سوچو‬ ‫تمہیں جال کر راکھ کر دوں گا۔ عبرت کے لیے تماری راکھ‬


‫گلیوں میں بکھیر دوں گا‬ ‫یہ تو اور بھی اچھا ہو گا‬ ‫وہ کیسے؟‬ ‫میری راکھ کا ہر ذرا انقالب بن ابھرے گا‬ ‫اہ مائ گاذ‘ تو پھر میں کیا کروں؟‬ ‫مجھے اپنے سینے سے لگا لو‬ ‫یہ مجھ سے نہیں ہو گا‬ ‫تو طے یہ ہوا تمہاری اور میری جنگ کا کوئ انت نہیں‬ ‫دیکھتا ہوں کہاں تک اذیت برداشت کرتے ہو‬ ‫چلو میں بھی دیکھتا ہوں اذیت میں کس حد تک جاتے ہو‬ ‫اس کے بعد گھمسان کی جنگ چھڑ گئ اور آخری خبریں‬ ‫آنے تک جنگ جاری تھی۔‬

‫کیچڑ کا کنول‬


‫آلودہ‘ میال سا چیتھڑا‬ ‫شاید حاجت سے بچا ہوگا‬ ‫‘آدم زادے کا پراہین‬ ‫!عییب نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔؟‬ ‫گالب سے چہرے پر‬ ‫بلور ایسی‘ دیکھتی آنکھیں‬ ‫حیرت خوف غم غصہ اورافسوس‬ ‫جانے کیا کچھ تھا ان میں‬ ‫سماج کی بےحسی پہ‬ ‫ان ٹھہری مگر دیکھتی آنکھوں میں‬ ‫دو بوند‘ لہو سی‬ ‫صدیوں کے ظلم کی داستان‬ ‫لیے ہوءے تھیں‬ ‫اتنی حدت اتنی اتنی تپش کہ‬ ‫پتھر بھی پگھل کر پانی ہو‬


‫ترسی ترسی باہیں‬ ‫میرے بوبی کی باہیں ایسی ہی تھیں کہ‬ ‫جب وہ بچہ تھا‬ ‫تب محبتوں کا حصار تھا‬ ‫اور اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫خفت ندامت کا حصار‬ ‫مرے گرد ہے‬ ‫لمحہ بہ لمحہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫داءرہ تنگ ہو رہا ہے‬ ‫مجھے فنکار سے نسبت ہے‬ ‫فنکار‘ سب کا درد‬ ‫سینے کی وسعتوں میں سمو لیتا ہے‬ ‫‘اور میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫ساکت وجامد‬ ‫مٹی کے بت کی طرح‬ ‫خاموش تماشائ تھا‬


‫اس نے پکارا آواز دی‬ ‫احتجاج بھی کیا‬ ‫کچھ نہ میں کر سکا‬ ‫‘جیسے وہ آدم زادہ نہ ہو‬ ‫ہمالہ سے گرا‬ ‫کوئ پتھر ہو‬ ‫‪:‬اس نے کہا‬ ‫!فنکار۔۔۔۔۔۔۔“‬ ‫مجھے اپنی باہوں میں سما لو‬ ‫"ازل سے پیاسا ہوں‬ ‫گھبرا کر تھوڑا سا‬ ‫)پستیوں کی جانب)‬ ‫پیچھے سرکا‬ ‫کوئ مصیبت کوئ وبال‬ ‫تہمت یا بدنامی سر نہ آءے‬ ‫چیخا “فنکار کا سینہ‬


‫!کب سے تنگ ہوا ہے؟‬ ‫میری باہیں غیر جنس کی باہیں ہیں؟‬ ‫ان کا تم پر کوئ حق نہیں؟؟؟‬ ‫وہ کہتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں سنتا رہا‬ ‫کیا جواب تھا میرے پاس‬ ‫!کاش‬ ‫میرے شعور کی آنکھیں بند ہو جاتیں‬ ‫یوں جیسے ممتا کی سماج کی‬ ‫آنکھیں بند تھیں‬ ‫سوچتا ہوں‘ مجرم کون ہے‬ ‫‘گناہ کس نے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫ماں یا سماج نے‬ ‫وہ تو اپنے گھروں میں‬ ‫آسودہ سانسوں کے ساتھ‬ ‫گرم کافی پی رہے ہوں گے‬ ‫یا میں نے جو‬


‫شب کی بھیانک تنہائ میں‬ ‫ندامت سے‬ ‫سگریٹ کے دھوءیں میں‬ ‫تحلیل ہو رہا ہوں‬ ‫گٹرکے قریب پڑا‘ وہ کنول‬ ‫مجھ سے میرے ضمیر سے‬ ‫انصاف طلب کر رہا ہے‬ ‫کہ تم‘ خداءے عزوجل کی تخلق کا‬ ‫یہ حشر کرتے ہو‬ ‫مجھے حرامی کہتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟‬ ‫بتاؤ‘ حامی کون ہے؟‬ ‫ضمیر کس کا مردہ ہے؟‬ ‫مجرم کون ہے؟‬ ‫میں یا تم؟؟؟‬ ‫!میری بستی کے باسیو‬ ‫کہ تمہیں عظیم مخلوق ہونے کا دعوی ہے‬


‫کیا جواب دوں اسے؟‬ ‫اس کا ننھا سا معصوم چہرا‬ ‫احتجاج سے لبریزآنکھیں‬ ‫پنکھڑی سے ہونٹوں پر‬ ‫تھرکتی بےصدا سسکیاں‬ ‫مجھے پاگل کر دیں گی‬ ‫پاگل‬ ‫ہاں پاگل‬ ‫اوٹ سے‘ ‪٢٥٥١‬‬

‫براہ راست‬

‫‪http://urdunetjpn.com/ur/category/maqsood-has‬‬ ‫‪ni/page/17/‬‬


‫جو بھی سہی‬

http://urdunetjpn.com/ur/category/maqsood-has ni/page/18/

‫چار چہرے‬

http://urdunetjpn.com/ur/category/maqsood-has ni/page/20/

‫بکھری یادیں‬

http://urdunetjpn.com/ur/category/maqsood-has ni/page/21/


‫توبہ کا لہو‬

http://urdunetjpn.com/ur/category/maqsoodhasni/page/26/

‫مفلس کہیں کا‬

http://urdunetjpn.com/ur/category/maqsoodhasni/page/33/

‫خوشبو کا قیدی‬

http://urdunetjpn.com/ur/category/maqsood-


hasni/page/35/

‫ذات کا استحصال‬

http://urdunetjpn.com/ur/category/maqsood-has ni/page/36/



Turn static files into dynamic content formats.

Create a flipbook
Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.