................... خوشبو کا قیدی افسانے
مقصود حسنی ابور برقی کتب خانہ
مئی 6102
................... انتساب میں یہ ناچیز کوشش اس دعا کے ساتھ کہ هللا اسے ہمیشہ اپنا محتاج رکھے اپنی گڑیا رانی مہر افروز شاہ کے نام کرتا ہوں۔ فانی مقصود حسنی
...................
فہرست آنچل جلتا رہے گا 1- بیوہ طوائف 2- من کا بوجھ 3- بڑا آدمی 4- حاللہ 5- آوارہ الفاظ 6- مائی جنتے زندہ باد 7- ممتا عشق کی صلیب پر 8- زینہ 9- شیدا حرام دا 10- جنگ 11- دو لقمے 12- فقیر بابا 13- کمال کہیں کا 14- ابا جی کا ہم زاد 15- کامنا 16-
تنازعہ کے دروازے پر 17- انگریزی فیل 18- چوتھی مرغی 19- انا کی تسکین 20- گناہ گار 21- بڑے ابا 22- دو دھاری تلوار 23- ماسٹر جی 24- جواب کا سکتہ 25- پٹھی بابا 26- میں ابھی اسلم ہی تھا 27- معالجہ 28- کریمو دو نمبری 29- ابھی وہ زندہ تھا 30- سچائی کی زمین 31- استحقاقی کٹوتی 32- بابا جی شکرهللا 33- الٹری 34- آگ کی بھٹی 35- کردہ ناکردہ 36- سوچ کے دائرے 37- دوسری بار 38- اسالم اگلی نشت پر 39- عاللتی استعارے 40- ادریس شرلی 41-
سرگوشی 42- موازنہ 43- پہال قدم 44- اسے پیاسا ہی رہنا ہے 45- یہ کوئی نئی بات نہ تھی 46- دروازے سے دروازے تک 47- وہ کون تھے 48- پنگا 49- دائیں ہاتھ کا کھیل 50- هللا جانے 51- پاخانہ خور مخلوق 52- ان پڑھ 53- تاریخ کے سینے پر 54- لمحوں کا خواب 55- ببلو ماں 56- حفاظتی تدبیر 57- حضرت بیوہ شریف 58- اور تو اور 59- شکوک کی گرفت 60- صبح کا بھوال 61- حوصلہ 62- چوگے کی چنتا 63- دو منافق 64- بازگشت 65- الٹھی والے کی بھینس 66-
آخری کوشش 67- میری ناچیز بدعا 68- آخری خبریں آنے تک 69- کیچڑ کا کنول 70- براہ راست 71- جو بھی سہی 72- چار چہرے 73- بکھری یادیں 74- توبہ کا لہو 75- مفلس کہیں کا 76- خوشبو کا قیدی 77- ذات کا استحصال 78-
................... آنچل جلتا رہے گا
شہوت کا منفی چلن‘ کوئی انوکھا اور نیا نہیں۔ اس کے منفی
طور کی تبدیلی کے لیے سیکڑوں نہیں‘ ہزاروں لوگ میدان عمل میں اترے ۔ انھوں نے اپنی سی کوشش کی۔ الریب فیہ‘ ان کی کوششوں میں خلوص اور دیانت داری‘ اپنے پورے وجود کے ساتھ موجود تھی اور اسی عمل کے دورانیے میں زندگی کی اسٹیج سے غائب ہو گیے۔ کچھ کو مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ منفی چلن کی صلیب پر مصلوب ہو گیے۔ مانا‘ جان کی قربانی کوئی معمولی بات نہیں‘ بدالؤ آنا چاہیے تھا‘ لیکن منفی چلن کی ڈگر نہ بدلی۔ ہاں اتنا ضرور ہوا‘ کہ لمحہ دو لمحہ کے لیے ہی سہی‘ اس کھڑے پانی میں‘ ارتعاش تو پیدا ہوا۔ میدان عمل میں اترنے والوں نے قرطاس حیات پر اپنے ہونے کا ثبوت چھوڑا۔ وقت کے سینے پر اپنی گواہی کے نقوش ثبت کر دیے۔ یہ کوئی ایسی معمولی بات تو نہیں۔ شہوت کا منہ زور طوفان امڈ آیا تھا۔ کاشف سے مالپ کے لیے‘ بامشکل اور بصد کوشش‘ چند‘ ہاں گنتی کے چند لمحے‘ دستیاب ہوئے تھے۔ راحیل کے گھر لوٹنے میں‘ کوئی زیادہ وقت باقی نہ تھا۔ اگر یہ موقع ہاتھ سے نکل جاتا تو‘ جانے ان چند لمحوں کے لیے‘ اسے کتنے لمحے انتظار کی بٹھی میں جلنا پڑتا۔ وہ ان لمحوں کی آسودگی کو غارت نہیں کرنا چاہتی تھی۔ کاشف اس کے سپنوں کا شہزادہ تھا۔ اس سے ملن کی تپسیا بڑی کڑی تھی۔ کام دیوا‘ لمحوں کو‘ ملن کا بردان کٹری تپسیا کے بعد ہی دیتا ہے۔
جانے آج کام دیوا کس طرح مہربان ہو گیا تھا۔ عوفی اپنی ماں کے برسوں کے انتظار بھرے جیون سے آگاہ نہ تھا۔ پہلے تو کبھی ایسا نہ ہوا تھا۔ تھوڑی سی کوشش‘ اسے نیند کی وادی میں لے جاتی تھی۔ پھر وہ پرسکون ہو کر‘ گھر کے کام کاج کر لیتی تھی۔ آج تو حد ہو چلی تھی۔ یوں لگتا تھا‘ جیسے عوفی نے آج نہ سونے کی قسم کھا لی تھی۔ وہ اتنا بڑا نہیں تھا‘ لیکن اتنا چھوٹا بھی نہ تھا‘ کہ وہ اس کے سامنے ہی‘ اپنا یہ معاملہ طے کر لیتی۔ شاید کسی ان جانی قوت نے‘ اسے ماں کے ارادے سے آگاہ کر دیا تھا۔ یہ بھی بعید از قیاس نہیں‘ کہ نیکی کے دیوتا نے اس سے نیند چھین لی تھی۔ کام دیوا اپنی جگہ پر سرخرو ہو چکا تھا۔ تپسیا کا بردآن نہ دینے پر‘ اس کے کارے پر حرف آتا تھا۔ اب خیر کا دیوا آڑے آ گیا تھا‘ اس میں اس کا کوئی قصور نہ تھا۔ خیر کی جانے لذت کے لمحوں سے کیوں نہیں بنتی۔ نہ خود آسودہ رہتی ہے اور ناہی دوسروں کی آسودگی برداشت کرتی ہے۔ کسی سڑیل سوت کی طرح‘ بےلحاظ اور بے مروت ہو کر‘ میدان میں اتر آتی ہے۔ کسی ڈھیٹ مٹی سے اٹھی ہے۔ بار بار قتل ہونا‘ جانے‘ اسے کیوں خوش آتا ہے۔ موت تو‘ بڑے بڑوں کا پتہ پانی کر دیتی ہے لیکن مر مر کر بھی‘ اسے عقل نہیں آئی۔ اپنی پرانی اور دقیانوسی ڈگر پر مسلسل گامزن ہے۔ خیر اور شر کی جنگ بڑی شدت سے جاری تھی۔ کب تک‘ آخر
کسی کو تو ہارنا تھا۔ پنکی کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔ شر نے خیر کو پچھاڑ ہی دیا۔ افسوس عوفی کو جان سے جانا پڑا۔ یہ کوئی نیا معاملہ نہ تھا۔ خیر کی رکھشا کے لیے ان گنت عوفی جان ہار چکے تھے۔ شر کے بطن سے ایک نئی جان نے اپنا وجود حاصل کر لیا تھا۔ شہوت کی آگ جب سرد پڑ گئی تو نیکی کا دامن اشکوں سے تر ہو چکا تھا۔ ممتا کو کھو دینے کا روگ‘ لگ چکا تھا۔ آنے واال‘ عوفی کے قتل اور کردہ جرم کی یاد دالنے کے لیے‘ زندگی کے ہر گرم سرد موسم میں‘ ممتا کے چلن پر قہقہے لگاتا رہے گا اور کبھی چبھتی اور تلخ نگاہوں سے گھورتا رہے گا۔ زندگی کا ہر لمحہ سزا بن جائے گا۔ پنکی کو پھر سے نو ماہ زچگی کے عالم میں گزارنا ہوں گے۔ عوفی تک آتے آتے‘ چار سال اور نو ماہ لگ جائیں گے۔ وہ ہر لمحہ‘ اس سوچ میں ڈوبی رہے گی‘ کہ اگر عوفی زندہ ہوتا تو اتنے سال اور اتنے ماہ کا ہو جاتا۔ پیدا ہونے واال‘ عوفی کے بلی دان کی‘ زندگی کی آخری سانسوں تک‘ شر اور خیر کی گواہی دیتا رہے گا۔ آنے واال کتنا بھی دھل کر سامنے آئے گا‘ شہوات کے طوفان میں غرق عوفی کا تبادل نہ بن سکے گا۔ عوفی‘ عوفی تھا۔ وہ تو خیر کا بردانی تھا۔ محبت کا بردان کام دیوا سے مال تو‘ شنی نے مہر ثبت کر دی تھی‘ ورنہ شر سر چڑھ کر نہ بولتی۔
عوفی نے کب نبی ہونے کا دعوی کیا تھا۔ ہاں اس کا فعل اور قربانی‘ کسی نبی کے سچے اور کھرے پیرو کی سی تھی۔ وہ خیر کی عالمت تھا۔ جنگ کی حکمت عملی‘ ہر جرنل کی ایک سی نہیں ہوتی۔ کامیاب اسی جرنل کو کہا جا سکتا ہے‘ جو موقع کی مناسبت سے حکمت عملی طے کرے۔ ٹیپو فرار یا سرنڈر کا رستہ اختیار کر سکتا تھا۔ اور کتنا جی لیتا؟!اور جینا‘ بےتوقیر جینا ہوتا۔ اس کی زندگی موت سے بدتر ہوتی۔ عوفی نے موت کا رستہ چن کر‘ ٹیپو کی حکمت عملی پر‘ درستی کی مہر ثبت کر دی تھی۔ یہ کوئ ایسی معمولی بات نہ تھی۔ عوفی فاتح جرنیل ناسہی‘ لیکن کوئی تجزیہ نگار اسے ناکام جرنیل بھی نہیں قرار دے گا۔ کاشف اور پنکی جیت کر بھی ہار چکے تھے۔ عوفی نے انھیں عبرت ناک شکست دی تھی۔ یہی حقیقت اور یہی وقت کا انصاف ہوگا۔ ہر کیے کا‘ کوئی ناکوئی‘ پرینام تو ہوتا ہی ہے۔ کاشف‘ باپ ہو کر‘ ماموں کا رشتہ استوار کرنے پر مجبور ہو گا اور پنکی کا آنچل پچھتاوے کی آگ میں جلتا رہے گا۔۔۔۔۔۔۔ ہاں جلتا رہے گا۔ 2-9-1973
بیوہ طوائف میں نہیں کہتا کہ میں کوئ پریم دیوتا ہوں۔ بالکل عام سا‘ گوشت پوست کا‘ حاجات میں گھرا انسان ہوں۔ تمام تعریف کے کلمے‘ خداوند عالم کی طرف پھرتے ہیں۔ جملہ تخلیق و تجدید کا وہی سرچشمہ ہے۔ اس کے لطف و کرم کا زندہ ثبوت یہی ہے‘ کہ میں زندہ ہوں اور آپ کے روبرو ہوں‘ ورنہ مجھے تو تخلیق کے پہلے روز ہی‘ نفرت کی کند چھری سے‘ زبح کرنے کی سازش کی گئی۔ خود غرض اور ذات پرست آج بھی ختم نہیں ہوءے۔ ان کی تعداد میں ہر چند اضافہ ہی ہوا ہے۔ شر اور خیر کو متوازی چلتے رہنا ہے۔ دونوں کے رستے الگ سہی‘ لیکن انھیں ایک ساتھ‘ ہر ذی نفس کے ساتھ منسلک رہنا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے‘ کہ خیر زندگی کے ہر موسم میں‘ انسان کی خیر خواہ رہتی ہے‘ جب کہ شر‘ خود غرضی کے خوب صورت لباس میں‘ جسم سے خیر کا آخری قطرہ نچوڑ کر‘ اپنی راہ لیتی ہے۔ نورین! جب اعضا کم زور پڑ جاتے ہیں‘ تو کوئ ساتھ نہیں دیتا۔ محبت الفت اور پیار کے رشتے معنویت کھو دیتے ہیں۔ دوسری طرف واپسی کے سب دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ دکھ کا یہ موسم‘ تنہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں تنہا گزارنا پڑتا ہے۔
لوگوں کا نئی منزلوں کی طرف سفر کرنا‘ بڑا پرانا وتیرہ ہے۔ زندگی کے اس موڑ پر‘ رونا چیخنا چالنا یا مدد کے لیے پکارنا‘ الیعنیٹ کی کھائی میں جا گرتا ہے۔ وقت کا زہریال ناگ‘ آدمی کو بےبس کر دیتا ہے۔ وہ چاہتے ہوءے بھی‘ کچھ نہیں کر پاتا۔ یہی اصول فطرت اور یہی اصول زمانہ ہے۔ بےبسی اور بےکسی کے اس موڑ پر‘ فقط اہل اخالص کے دروازے کھلے رہتے ہیں۔ موسوں کی دھوپ‘ ان کے لیے ایک آزمائش سے زیادہ نہیں ہوتی۔ ہر آزمائش انھیں نئے عزم سے سرفراز کرتی ہے۔ نورین! تم زندگی کی بازی ہار چکی ہو۔ یہ شکست تمہیں قبول کرنا پڑے گی۔ اس کے سوا‘ تمہارے پاس کوئ چارہءکار ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر بیوہ طواءف کا‘ یہی حشر ہوا کرتا ہے۔ نخرے اٹھانے اور مال لوٹانے اب کوئی نہیں آئے گا۔ دولت یوں ہی نہیں چلی آتی‘ اس کے حصول کے لیے سو طرح کے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ ماضی میں تم نے‘ محبت پر‘ جنسی لذت کو ترجیع دی۔ اب ذلت کو بھی‘ سر آنکھوں پر رکھو۔ زندگی کا یہ موسم کٹھور سہی‘ لیکن ہر کیے کا پرنام اسی موسم میں ہاتھ لگتا ہے۔ فطرت
کا یہی اصول اور وقت کا یہی فیصلہ ہے۔ ویدی کا یہی ویدن ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں یہی۔ میں نے کہا تھا‘ شاید تمہیں یاد ہو گا۔ میرا نام محبت ہے۔ محبت کے دروازے بند نہیں ہوتے۔ محبت کے دروازے بند ہو جائیں تو‘ وہ محبت نہیں فراڈ ہوتی ہے۔ نفرت‘ محبت کا شیوہ نہیں۔ اگر یہ نفرت پر اتر آئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو‘ شبنمی ہوائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تیزاب برسانے لگیں گی۔ سمنرروں میں آگ لگ جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔ ادیب کا قلم‘ قلم ہو جائے گا۔ جانے کیا کچھ ہو‘ خامہ و قرطاس اس کے تصور سے بھی لرزہ بر اندام ہے۔ جانے آج کیوں بہکنے لگا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوچ کی قندیل سے پھوٹنے والی کرنیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یادوں کے جھروکے میں جھاکنے لگی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔عہد رفتہ کے نیل گگن پر۔۔۔۔۔۔۔ننھے ننھے۔۔۔۔۔۔۔ چھوٹے چھوٹے۔۔۔۔۔۔۔۔ ستارے‘ کہکشانی صورت میں جھلمالنے لگے ہیں۔ میں یادوں کے ہڑ میں بہتا بہتا دور۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت دور‘ نکل آیا ہوں۔ شاید وہ اگست ٢٥٩١کی گرم‘ مگر بھیگی سی کوئ شام تھی۔ رات کے اندھیارے‘ سورج کی حدت اور روشنی کو اپنے حلقے
میں لے چکے تھے۔ بجلی کے قمقمے اندھیروں کا سینہ چیرنے کی کوشش میں مشغول تھے۔ وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہو چکے تھے۔ چوک صرافاں میں خوب گہما گہمی تھی۔ کوئی آ رہا تھا‘ تو کوئی جا رہا تھا۔ مسجد سے نمازی نماز پڑھ کر‘ اپنے اپنے گھروں کی راہ لے رہے تھے۔ میں اپنی دوکان پر بیٹھا لون مرچ مصالحہ تولنے میں مصروف تھا۔ میرا ذہن تول اور پیسوں کے لین دین میں مصروف تھا۔ بالکل اچانک‘ ایک چھے سات سا کا لڑکا‘ میرے ہاتھ میں ایک رقعہ دے کر چلتا بنا۔ رقعے پر :صرف اتنا درج تھا ذرا گلی کے موڈ پر تشریف الئیں۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ یہ کون صاحب ہو سکتے ہیں جو اکیلے میں مالقات کے خواہش مند ہیں۔ پہلے تو نظر انداز کرنا چاہا‘ پھر چھوٹے بھائی کو دوکان پر بیٹھا کر‘ انھیں ملنے چل دیا۔ وہاں صاحب تو نہیں‘ ایک نقاب پوش صاحبہ محو انتظار تھیں۔ بشیر صاحب ذرا میرے ساتھ آئیے گا۔ اس کا لب و لہجہ بالکل سپارٹ تھا۔ مگر کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کون ہیں؟! میں نے حیرت اور پریشانی کی
حالت میں پوچھا آ جائیے‘ فکر کی کوئ بات نہیں۔ یہاں گلی کے موڑ پر‘ کھڑے ہو کر‘ بات کرنا مناسب نہیں۔ میں حیران و پشیمان اس کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ عجیب پراسرار خاتون ہے۔ کون ہو سکتی ہے۔ کہاں اور کیوں لے کر جا رہی ہے۔ میری سوچ کے حلقے‘ وسیع ہوتے چلے گیے۔ مکان آ گیا۔ وہ اندر داخل ہو گئی۔ میں باہر کھڑا ہو گیا۔ اندر آ جاییے۔۔۔۔۔۔ آ جاییے نا۔ اب کہ‘ اس کا لہجہ ریشم سے زیادہ مالیم ہو گیا تھا۔ میں نے حسب سابق اس کے حکم کی تعمیل کی۔ گھر میں کوئ نہ تھا۔ بیٹھ جاییے۔ اس نے سامنے پڑی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہویے کہا۔ یہ کہہ کر وہ اندر چلی گئی۔ ڈر‘ خوف اور پریشانی کے سبب‘ میرا دل بند ہونے لگا۔ جانے کیا ہونے واال ہے۔ بے شمار خدشے سر اٹھانے لگے سنا تھا‘ فراڈ ہو جاتے ہیں۔ میں نے بھاگ جانا چاہا ۔۔۔۔۔۔۔۔ جانے کیوں بھاگ نہ سکا۔ کاش! اس روز میں بھاگ گیا ہوتا۔ کاش! کسی چیز نے‘ میرے پاؤں جکڑ لیے تھے۔
اتنی دیر میں‘ وہ برقعہ اتار کر آ گئی۔ میں نے اس کی طرف دیکھا‘ اور پھر‘ دیکھتا ہی رہ گیا۔ میرے سامنے‘ گالبی رنگ میں ملبوس‘ قیامت کھڑی تھی۔ سیاہ دراز پلکوں کی اوٹ سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دو قمقمے‘ نور بکھیر رہے تھے۔ چوک صرافاں میں جلتے قمقموں میں اتنی تاب کہاں تھی۔ شانوں پر بکھری زلفیں‘ مجھے ڈس سی گئیں۔ مگر چند ہی لمحموں کے بعد میں اپنے آپے میں لوٹ آیا۔ گھر والے کام سے گیے ہیں‘ سوچا‘ آج اپنے دیوتا سے‘ دو باتیں ہی ہو جائیں۔ شہد میں ملفوف‘ یہ لفظ‘ بالشبہ حواس شکن تھے۔ میں۔۔۔۔۔۔۔۔ میں‘ آپ کا دیوتا ؟! یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟ میں تو آپ کو جانتا تک نہیں۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ میں تو آپ کو جانتی ہوں۔ یہ کہہ کر‘ اس نے اپنے بازو میرے گلے میں حائل کر دیے۔ پھر کیا تھا‘ میں ریت کے تودے کی طرح‘ اس کی پلکوں کی آغوش میں‘ ریزہ ریزہ ہو گیا۔ اچانک شعور کے کسی گوشے سے‘ کسی نے کروٹ لی اور میں پل بھر کو سمبھال۔ میں اس
شیطانی کھیل کے لیے‘ ذہنی طور پر تیار ہی نہ تھا۔ محترمہ کوئی اور گھر ڈھونڈیں۔ میں اس گاڑی کا بیل نہیں۔ آجی۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا نام محترمہ نہیں میرا نورین ہے۔ گھر والے پیار سے‘ باؤ کہہ کر پکارتے ہیں۔ آپ بھی باؤ کہہ کر پکارا کریں۔ بات کے دوران اس کی گرفت مضبوط ہو گئی۔ حوازادی مجھے نئی اور عجیب راہ پر ڈال رہی تھی اور پھر میرے حواس جواب دے گئے۔ میں نے خود کو شر کے حوالے کر ہی دیا۔ آگ کا ذاتی رنگ سیاہ ہوتا ہے۔ دیکھنے میں وہ سرخ اور سنہری ہوتی ہے۔ میں نے خود کو‘ سیاہی جو ظلمت کی عالمت ہے‘ کے حوالے کر ہی دیا۔ آج سوج سوچتا ہوں میری عقل کو کیا ہو گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاید میں پاگل ہو گیا تھا۔ میں انوکھی اور خطرناک راہ پر۔۔۔۔۔۔۔۔ انجام سے بےخبر۔۔۔۔۔۔۔ گامزن ہو چکا تھا۔ مجھے کچھ معلوم نہ تھا‘ کہ اس آنکھ مچولی کا نتیجہ کیا برآمد ہوگا۔ کون تباہ ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔ کون خوش حال ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کس کی آشا کے پھول۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیچڑ میں بکھر
جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔کون جیت کر ہارے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کون احساس کی آگ میں جلے گا۔۔۔۔۔۔۔ کسے پیار کی صلیب پر مصلوب کیا جائے گا۔۔۔۔۔کون درد کے سمندر میں ڈوب جائے گا۔۔۔۔۔۔ کاش میں ہوش کے ناخن لیتا۔۔۔۔۔۔۔کاش۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا کروں‘ وقت بیت چکا ہے اور میں گزرے لمحوں کی راکھ میں‘ معنویت تالش رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنا نادان ہوں میں بھی۔ محبت کا یہ کھیل‘ دیر تک جاری رہا۔ چھیڑ چھاڑ۔۔۔۔۔۔۔عہدوپیمان۔ میں نے گھڑی دیکھی‘ رات کے پون بارہ بج چکے تھے۔ اچھا تو باؤ اب میں چلتا ہوں۔ ماں انتظار کر رہی ہو گی۔ اف تنہائی۔۔۔۔۔۔۔ کیا کروں گی۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر کے لیے اور رک جاؤ۔ پھر وہ کسی کٹی ہوئی شاخ کی طرح میری باہوں میں جھول گئی۔ کاش وقت یہیں ٹھہر جائے۔ میں نے سوچا۔ وقت کب کسی کا پابند رہا ہے۔ اسے تو ہر حال میں گزرنا ہی ہے‘ سو گزر گیا۔ اس نے قدرت سے یہی سیکھا ہے۔ پھر کب مالقات ہو گی۔ جب یاد کرو گی۔ میرا کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ میں گزرا وقت تو نہیں‘ جو لوٹ کر نہ آسکوں گا۔
کل ہی۔ کہاں گھر آ جاءیے گا۔ میری ہڈی پسلی ایک کرانے کا ارادہ ہے کیا۔ کیسی باتیں کرتے ہو‘ میں تمہاری ہو چکی ہوں۔ تمہیں مجھ پر اعتماد ہونا چاہیے۔ کہو تو تمہارے گھر چلی آؤں۔ خیر چھوڑو۔۔۔۔۔۔۔ کل اسٹیش پر دس بجے ملتے ہیں۔ چلی آنا۔ یہ کہہ کر میں وہاں سے چال آیا۔ گھر پہنچا تو سوائے ماں کے‘ سب سو چکے تھے۔ وہ میرا انتظار کر رہی تھی۔ جانے غریب کیا سوچ رہی ہو گی۔ ماں کا رشتہ بھی کتنا عجیب ہوتا ہے۔ اتنی برداشت‘ اتنا درگزر۔ کہاں گئے تھے؟ ماں نے مصنوعی غصے سے پوچھا بےبے ایک دوست کے ہاں رک گیا تھا۔ میں نے جھوٹ کا سہارا لیا۔ نہ پتر‘ اتنی رات گئے باہر نہ رہا کرو۔ زمانہ ٹھیک نہیں۔ ماں نے سمجھانے کے انداز میں کہا
اچھا بےبے۔ اب تم سو جاؤ۔ یہ کہہ کر‘ میں اپنے بستر پر جا لیٹا۔ جوں ہی بستر پر لیٹا‘ گزرا ہر لمحہ آنکھوں کے سامنے گھوم گھوم گیا۔ پھر سوچوں کا سیالب امڈ آیا اور میں دیر تک سو نہ سکا۔ اسٹیشن پر تو وہ آ جائے گی‘ کہاں لے کر جاؤں گا۔ کافی سوچ بچار کے بعد‘ میری نظر مجید کے کوارٹر پر پڑی۔ مجید میرا قریبی دوست تھا۔ میں نے ہر آڑے وقت میں‘ اس کی مدد کی تھی۔ مجھے یقین تھا کہ وہ انکار نہیں کرے گا۔ حسب توقع وہ مجھے صبح صبح ہی مل گیا۔ میں نے سارا معاملہ ملفوف الفاظ میں کہہ دیا۔ اس نے حامی بھر لی اور میں دوکان پر آ بیٹھا اور اپنے کاروبار میں مشغول ہو گیا۔ میں وقت سے دس منٹ پہلے ہی‘ ریلوے اسٹیشن کے بینچ پر آ بیٹھا۔ تھوڑی ہی دیر میں‘ وہ بھی آ گئی۔ وہ پسینے میں شرابور تھی۔ گرمی سے اس کا برا حال ہو رہا تھا۔ میں سامنے دوکان سے‘ شربت بنوا کر‘ لے آیا۔ جب وہ دو گالس پی چکی‘ تو اسے کچھ ہوش آیا۔ شکریہ۔ میرا تو گرمی سے گال خشک ہو گیا تھا۔ اب کیا پروگرام ہے۔ اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
میں نے اسے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔ جب ہم مجید کے گھر پہنچے تو‘ وہ سو رہا تھا اور اس کی بیوی گھر کے کاموں میں مصروف تھی۔ اس نے ناک منہ چڑاتے ہوئے‘ بیٹھک کا دروازہ کھول دیا اور خود اندر چلی گئی۔ مجید کے ہاتھ‘ میری زندگی کا نازک ترین لمحہ تھا۔ وہ اس سے ہر قسم کا فائدہ اٹھا سکتا تھا۔ باؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم بھی‘ ایک چھوٹا سا گھر بنائیں گے جہاں ہمارے بچے ہوں گے۔ میں نے اس کی جانب پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا وہ شرما گئی اور اپنا منہ میرے سینے کی وسعتوں میں چھپا لیا۔ میں اس کے ریشمی بانوں میں اپنی انگلیوں سے کنگھی کرنے لگا۔ وہ بہکنے لگی۔ یوں لگتا تھا جیسے اس نے بڑی مقدار میں پی رکھی ہو۔ مالقاتوں کے سلسلے دراز ہوتے چلے گئے۔ کیف و لذت کے ساغر چھلکتے رہے۔ مجید اپنی کرم فرمائیوں کا معاوضہ وصوں کرتا رہا۔ اب اس کی بیوی نائلہ بھی بڑے تپاک سے ملتی تھی۔ ایک دو بار اس نے بھی‘ کسی خواہش کا اظہار کیا۔ میں اتنا بھی گیا گزرا نہیں تھا‘ جو تھالی میں چھید کرتا۔
دوکان بند رہنے لگی۔ اور پھر یہ نوبت آ گئی کہ مسلسل ناغے ہونے لگے۔ ایسی بات کب چھتی ہے۔ میں یار دوستوں اور گھر والوں کی زبان پر آگیا۔ ہر کوئی مجھے معنی خیز نظروں سے دیکھنے لگا۔ مظفر شاہ صاحب جو ہمارے محلہ کے بڑے معزز شخص سمجھے جاتے تھے‘ نے لمبا چوڑا لیکچر پالیا۔ میرے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ سمجھانے والے یقینا میرے خیر خواہ تھے لیکن ان سب کو اپنے پیار کا دشمن سمجھتا رہا۔ ابلیس میرے گرد لذت کے خوش رنگ پھول بکھیر چکا تھا۔ اس روز میں دوکان پر بیٹھا تھا کیونکہ مجید کی ایک بہت ضروری ڈیمانڈ پوری کرنا تھی۔ اچانک شاہ صاحب آ گئے اور بولے :عقل کے اندھے اٹھو‘ میں تمیں کچھ دکھاتا ہوں۔ ان کا رخ مجید کے کوارٹر کی جانب تھا۔ بیٹھک کے دروازے پر آ کر رک گئے۔ بڑی ہی دھیمی آواز میں کہا :ذرا کان لگا کر سنو اندر سے مجید‘ سعید‘ نائلہ اور باؤ کی آوازیں آ رہی تھیں۔ وہ کسی سودے میں مشغول تھے۔ میں ان کی غلیظ باتیں سن کر پسینے میں نہا گیا۔ شاہ صاحب مجھے سہارا دے کر دوکان میں لے آئے۔
اس حادثے نے میرے دل و دماغ پر بڑے گہرے اثرات مرتب کئے۔ میں ذہنی اعتبار سے مفلوج سا ہو گیا۔ پھر میں دوسری غلط راہ پر چل نکال۔ شراب دکھ کا روگ سہی لیکن یہ بذات خود بڑا خطرناک روگ ہے۔ یہ جونک کی مانند جسم کا سارا خون نچوڑ لیتی ہے۔ اس روز میں چارپائی پر لیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شکست خوردہ کرواٹیں لے رہا تھا۔ غم و غصہ کا ایک طوفان سا امڈا چال آتا تھا۔ میں انجانی آگ میں جل رہا تھا۔ جب حواس گرفت میں نہ رہے تو‘ میں بازار کیف کی جانب بڑھ گیا۔ میں عورت سے انتقام کی بھول میں‘ خود کو سزا دے رہا تھا۔ وہاں تو‘ دنیا ہی نئی تھی۔ اس دنیا میں چپے چپے پر پیار کے سمندر رواں دواں تھے مگر پیار کا حصول دام و درم سے مشروط تھا۔ حیران تھا خدا کی زمین پر نابکنے والی چیزوں کے بھی دام لگتے ہیں۔ ادیب کے قلم کا خون۔۔۔۔۔۔۔۔ زاہد کا تقوی۔۔۔۔۔۔۔ مسیحا کی مسیحائی۔۔۔۔۔۔۔ سپاہی کا لہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باپ کی غیرت۔۔۔۔۔۔۔ ماں کی ممتا۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں ماں کی ممتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔عزت‘ غیرت‘ شرم‘ حیا‘ خونی رشتے‘ غرض کہ یہاں سب بکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گرہ میں مال ہونا چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کڑکتے کڑکتے نوٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی نہیں پوچھے گا۔ چمکتے اور کھنکھناتے سکے‘ پوچھنے والوں کی نفسیاتی کمزوری ہوتے
ہیں۔ اہل زر کو کون پوچھ سکتا ہے۔ قانون بےدرمے پر ہاتھ ڈالتا ہے۔ آج کیا‘ شروع سے‘ سکوں کو یہ شرف حاصل رہا ہے۔ میں عرصہ تک‘ کبھی اس کوٹھے پر‘ تو کبھی اس کوٹھے پر‘ بھٹکتا رہا۔ جب جاتا‘ ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا۔ ہر طوائف صدقے واری جاتی۔ چائے‘ پان‘ شراب‘ لذت غرض سب کچھ وہا دستیاب تھا۔ اگر کچھ نہیں تھا‘ تو وہ سکون تھا۔ میں وہاں اکیال کب تھا۔ ایک دن میں اس جانب رواں دواں تھا۔ اچانک ایک خیال کوندا اور میری راہ بدل گئی۔ باؤ بھی تو ایک شریف طوائف تھی۔ میرے خون پسینے کی کمائی پر پہال اس کا حق تھا۔ اسی نے مجھے اس راہ پر ڈاال تھا۔ باؤ نے مجھے کچھ بھی نہ کہا۔ اس نے میری ضرورت پوری کر دی۔ چلتے ہوئے میں نے اس کی جھولی میں اس کا محنتانہ رکھ دیا۔ اس نے میری طرف دیکھا‘ لیکن میں دروازے سے باہر قدم رکھ چکا تھا۔ سب بال مکالمہ طے پا گیا تھا۔ اس پیشے کا یہی اصول اور ضابطہ شروع چال آتا ہے۔ کچھ دو اور کچھ لو۔ سودا نقد و نقد۔ ناادھار‘ ناکل کا وعدہ۔ آج ہی‘ اس پیشہ میں معنویت سے زندہ ہے۔ گرہ میں رہ ہی کیا تھا۔ نوے ہزار کی راس میں سے چند دالیں
اور دو کلو نمک میری حماقت کا منہ چڑا رہے تھے۔ اب میں ادھر جانے کے قابل بھی نہ رہا تھا۔ پھر مسجد سے هللا اکبر کی صدا گونجی۔ میں کانپ کانپ گیا۔ اس سے پہلے بھی یہ آواز کئی بار سن چکا تھا لیکن اج تو اس آواز نے گھائل کر دیا۔ هللا مجھے واپس لوٹنے کے لئے کہہ رہا تھا۔ میں تیزی سے مسجد کی جانب بڑھ گیا۔ جانے کتنی دیر سجدہ میں رہا لیکن جب سر اٹھایا سارا غبار چھٹ چکا تھا۔ اس رات میں نے ماں کی آغوش میں پناہ لی۔ دیر تک اشک سوئی کرتا رہا۔ ماں پیار سے میرے سر پر ہاتھ پھیرتی رہی۔ پچھتاوے کا جب سیالب تھما تو بیوہ ماں نے میری ہتھیلی پر پانچ سو روپیے‘ جو آنے ٹکوں کے روپ میں تھے‘ رکھ دئیے اور صفر سے کام کرنے کی تلقین کی۔ سوچتا ہوں اس بےچاری نے یہ رقم کتنی دیر میں جمع کی ہو گی۔ اس کے چہرے پر مالل کا دور تک نام و نشان نہ تھا۔ ماں تھی نا۔ ماں اپنے بیٹے کو نہ جانے گی تو اور کون جانے گا۔ باؤ! وہ ماں کی دی ہوئی رقم تھی۔ آج میں عالقے کا باعزت اور صاحب حیثیت شخص ہوں۔ کسی کو میرا ماضی یاد تک نہیں۔
لوگ اسٹیج پر موجود کردار پر نظریں مرکوز رکھتے ہیں۔ جو گیا‘ سو گیا۔ باؤ کے چاہنے والے کچھ کم نہ تھے۔ کسی نے اسے ہمیشہ کا ساتھی نہیں بنایا۔ وہ کسی ایک کا بننا بھی نہیں چاہتی تھی۔ آج وہ بےنور ہڈیوں کا ڈھانچہ ہے۔ اب اس پر جعلی ہی سہی‘ پیار کون نچھاور کرے۔ اس کی جیب کون اور کیوں بھرے۔ اب اسے بیوگی کے قفس میں زندگی بسر کرنا ہو گی۔ مجید آج بھی مجھے ملنے آتا ہے۔ میں اس کی بےلوث چاہ پانی سے سیوا کرتا ہوں۔ میں بےمروت نہیں۔ اب وہ بوڑھا ہو چکا ہے۔ تھکے تھکے قدموں سے چلتا ہے۔ وہ سب تہی دست ہو چکے ہیں کیونکہ وقت بہت آگے نکل آیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت آگے۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت آگے۔ باؤ! مجھے تم سے ہمدردی ہے۔ اک وقت وہ تھا جب تمہارا طوطی بولتا تھا۔ آج تم زندگی سے بہت دور جا چکی ہو۔ تمہارا کوئ اپنا نہیں رہا۔ لوگ تمہیں نفرت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ باؤ! میں نے تمہارے ساتھ وقت گزرا ہے۔ میں تو تم سے سچا پیار کرتا تھا اور تم نے لذت اور سکوں کو ہی‘ سب کچھ سمجھ
لیا تھا۔ میرے پاس تمہاری بیوگی کا کوئ حل نہیں۔ میں تمہیں اپنا نہیں سکتا‘ کیوں کہ تم ذہنی طور پر آج بھی وہیں کھڑی ہو‘ جہاں سالوں پہلے تھیں۔ جو بھی سہی‘ میں پیار ہوں۔ میرا پیار هللا کی ساری مخلوق کے لیے ہے۔۔۔۔۔۔۔ تمہارے لئے بھی۔ چلی آیا کرو‘ پیٹ کا دوزخ بھرے بغیر کب سکون ملتا ہے۔ مئی 1976 62
من کا بوجھ
اس کا اصل نام تو کسی کو معلوم نہ تھا‘ ہاں البتہ‘ اولڈ بوائے کے نام سے‘ پورے عالقہ میں شہرت رکھتا تھا۔ یہ بچوں کا دیا ہوا نام تھا۔ وہ بچوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارتا۔ کھیلتا‘ انھیں کہانیاں سناتا۔ کسی بچے کو حاجت ہوتی‘ تو اسے نالی پر بیٹھاتا۔ اس کی طہارت کرتا۔ اس کا لباس درست کرتا۔ اگر کوئی اسے کھانے کی چیز دیتا‘ تو وہ اس کا بڑا حصہ بچوں کے لیے‘ جیب میں سمبھال لیتا۔ بچے بھی اپنی چیزیں اس سے بانٹ
کرتے۔ وہ ان کا دل رکھنے کے لیے‘ برائے نام اس میں سے کچھ لیتا۔ وہ کھاتے پیتے اور اٹھکیلیاں بھرتے‘ بچوں کو دیکھ کر خوش ہوتا۔ بچے‘ اس کے بغیر اپنے ہر کھیل کو‘ ادھورا اور نامکمل سمجھتے تھے۔ ایک مرتبہ وہ بیمار پڑا‘ تو بچوں نے اپنے بوڑھے ساتھی کا ہر طرح سے خیال رکھا۔ اسے لمحہ بھر کے لیے تنہائی کا احساس نہ ہونے دیا۔ یہی نہیں کوئی اس کے پاؤں داب رہا ہے تو کوئی سر دبا رہا ہے وہ کون تھا اور کہاں سے آیا تھا‘ کوئی نہیں جانتا تھا۔ وہ اس محلہ میں پچھلے پچیس سال سے اقامت رکھتا تھا۔ وہ کسی کے لیے اجنبی نہ رہا تھا۔ محلے کے بچوں کے بچے‘ اب اس سے کھیل رہے تھے۔ عورتیں جب گھر کے کاموں میں مصروف ہوتیں‘ تو وہ بعض بلکہ اکثر اوقات‘ اپنے شیرخوار بچے اس کے حوالے کر دیتیں۔ کسی شیرخوار بچے کو لیتے وقت‘ اس کے چہرے پر خوشی کے بیسیوں گالب کھل اٹھتے۔ مجال ہے‘ کوئی بچہ اس کے پاس آ کر روتا یا تنگ کرتا۔ ضدی سے ضدی بچے‘ اس کے پاس آ کر ضد چھوڑ دیتے اور اس کے ساتھ گھل مل جاتے۔ بچوں کے معاملہ میں‘ اسے مقناطیس کہا جائے‘ تو غلط نہ ہو گا۔ عورتیں اسے دکان سے سودا النے بھیج دیتیں۔ اس کے منہ پر انکار نہ آتا‘ بلکہ گوناں فرحت اور آسودگی سی محسوس کرتا۔ ناصرف سودا صاف ستھرا التا‘ بلکہ بقایا بڑے اہتمام سے واپس
کرتا۔ معلوم ہوا‘ وہ دکان دار سے بھاؤ بھی کرتا۔ یوں بحث کرتا‘ جیسے اپنے گھر کے لیے سودا خرید کر رہا ہو۔ زیادتی کی صورت میں‘ اس کا لہجہ ہی بدل جاتا۔ یوں لگتا‘ جیسے کوئی نواب صاحب ہو‘ لیکن چند ہی ساعتوں میں نارمل ہو جاتا۔ اس کا یہ روپ بالکل الگ سا ہوتا۔ میں خود اسے‘ اولڈ بوائے سے زیادہ‘ نہیں جانتا تھا‘ تاہم میرے ذہن میں اس کے متعلق کئی سوال اٹھتے رہتے تھے۔ میں نے کئی بار ان سوالوں کا جواب تالشنے کی کوشش کی۔ اس نے بھی ایک زہریلی اور زخمی مسکراہٹ کے سوا میرے پلے کبھی کچھ نہ ڈاال تھا۔ اس کی موجودہ شناخت‘ دوسرے درجے پر بھی نہیں آتی تھی۔ نسلی اور عالقائی شناخت کی‘ ہر سوسائٹی میں معنویت رہی ہے۔ اسے کسی سطح پر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اچھا‘ ذمہ دار‘ ہمدرد‘ بےضرر‘ شریف اورپیار کرنے واال تھا۔ یہ سب اپنی جگہ‘ لیکن اس سے شخصی شناخت ترکیب نہیں پائی۔ یہ بات کسی سطح پر نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ اسے‘ اس کے موجودہ رہائشی عالقہ میں‘ کس حوالہ سے لیا جائے۔ وہاں کا ہر رہائشی‘ رشتہ میں اس کا کچھ بھی نہیں لگتا تھا۔ رشتہ میں‘ اس کے لیے سب غیر تھے۔ عالقائی نسبت بھی موجود نہ تھی۔ وہ کسی گھر میں بطور باپ‘بیٹا‘ ماما‘ چاچا‘ بھائی‘ کزن وغیرہ‘ ٹانگیں پسار کر نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ اس کا ہر رہائشی سے دروازے تک کا رشتہ تھا۔ گھر کے اندر داخلہ غیرمرد ہونے کے حوالہ سے‘ قطعی ممنوع
تھا۔ اس کے کفن دقن میں وہ اس کے اپنے نہیں ہوں گے۔ اس کو الوارث سمجھ کر لوگ کفن دیں گے۔اس کی الش پر رونے والوں میں اس کا کوئی اپنا نہ ہو گا۔ ایک بھی نہیں۔ نزدیک کا تو بڑی بات ہے‘ دور کا بھی کوئ نہیں ہو گا۔ اس کی میت بھی عالقہ کی کتنی بدنصیب ہو گی۔ اف میرے خدا‘ اس سوچ سے میرا پورا جسم لرز گیا۔ میں نے اس سوچ کو جھٹک دینے کی کوشش کی‘ لیکن میں اس سوچ کو جھٹک نہ سکا۔ میں اس کی اس بےچارگی پر سسک پڑا۔ میرا بچپن بھی اس کے ہاتھوں میں گزرا تھا۔ میرے لیے وہ اس لیے معتبر تھا‘ کہ وہ دوسرے بچوں سے الگ مجھ سے سلوک روا رکھتا تھا۔ دوسروں کے سامنے مجھے بھی برابر کا حصہ دیتا‘ لیکن دوسروں سے آنکھ بچا کر زائد دے دیتا ۔ کبھی کبھی مجھے پیار کرنے کے بہانے‘ دوسرے بچوں کو گلے لگاتا‘ چومتا اور الڈ کرتا۔ مجھے یاد پڑتا مجھے گلے لگاتے ہوئے اس کی آنکھوں میں ایک خاص چمک پیدا ہو جاتی۔ غالبا اس کی وجہ یہ تھی‘ کہ میں گول مٹول اور دوسرے بچوں سے الگ سا تھا۔ یہ بھی کہ اس کے قریب رہ کر مجھے بہت اچھا لگتا۔ جب وہ بچوں کو گنتی یا الف بے سکھاتا‘ تو سب زیادہ با ر مجھ سے سنتا اور میں اسے فرفر سنا دیتا۔ میں چونکہ دوسروں سے قدرے زیادہ ذہین تھا اسی وجہ سے وہ میرا خاص خیال
کرتا تھا۔ ابا پڑھے لکھے تھے۔ نواب تو نہیں‘ قدرے صاحب حیثیت ضرور تھے‘ اسی لیے مجھے شہر پڑھنے کے لیے بھیج دیا گیا۔ میں بی اے پاس کرکے واپس لوٹا۔ مجھے مل کر‘ اولڈ بوائے بہت خوش ہوا۔ جب اسے معلوم ہوا‘ کہ میرے چھوٹے بھائی رحمت اور نذیر بھی تعلیم حاصل کرنے‘ شہر چلے گیے ہیں تو‘ اس نے بڑی خوشی کا اظہار کیا۔ میں نے محسوس کیا‘ جو چمک میرے لیے اس کی آنکھوں میں نمودار ہوئی تھی‘ وہ ان کے لیے نہیں تھی۔ اس بات سے‘ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اولڈ بوائے‘ مجھے میری ذہانت کے حوالہ سے کتنا چاہتا تھا۔ انسان کی خصوصی کوالٹی ہی‘ اسے کسی دوسرے کے قریب التی ہے اور اس وصف کے حوالہ سے‘ لوگ اسے معتبر رکھتے ہیں۔ اولڈ بوائے بھی مجھے اسی حوالہ سے عزیز رکھتا تھا۔ زندگی عارضی چیز ہے‘ اسے ایک روز ختم ہونا ہی ہوتا ہے۔ اولڈ بوائے اپنے ننھے منے ہنسے مسکراتے ساتھیوں کو چھوڑ کر ملک عدم کو روانہ ہو گیا۔ میرا اندازہ یکسر غلط نکال۔ اس کی معیت پر میں ہی نہیں‘ محلہ کا ہر چھوٹا بڑا رو رہا تھا۔ بچے بےچین و بےکل تھے۔ ان کے چہروں پر قیامت خیز کرب تھا۔ عورتیں اس کی شرافت اور دیانت کی قصیدہ خوان تھیں۔ اولڈ بوائے کا جنازہ کرب کے طوفان میں اٹھا۔ محلہ میں اتنی
سوگواری کا منظر‘ پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ وہ کسی کا‘ کچھ بھی نہ ہو کر‘ بہت کچھ تھا۔ جانے والوں کو جانا ہی ہوتا ہے۔ انھیں جانے سے کون روک سکتا ہے۔ ابا جب گیے‘ محلہ کے لوگ ہمارے ہاں افسوس کے لیے آتے رہے۔ اولڈ بوائے کی کہیں پھوڑی نہ بچھی‘ ہاں رستہ ملتے لوگ آپس میں ملتے‘ اولڈ بوائے کا افسوس کرتے۔ دیر تک اس کی یادوں کے دیپ جالتے۔ یہی حال گھروں کا تھا۔ ہر گھر میں اولڈ بوائے کا تذکرہ چلتا اور سوگواری کے مناظر چھوڑ جاتا۔ وہ کوی سیاسی لیڈر‘ مذہبی راہنما یا قومی ہیرو نہ تھا اس کے باوجود اس کا تذکرہ‘ ان سے کسی طرح کم نہ تھا۔ ابا کی موت کے بعد‘ اماں کے آنسو کئی سال نہ تھمےتھے۔ اولڈ بوائے کی موت کے بعد‘ اس کے ہونٹوں پر چپ لگ گئی۔ شروع شروع میں‘ میں نے اسے معمول کا معاملہ سمجھا۔ بہن اور دونوں بھائیوں نے اسے بڑھاپے کا نتیجہ سمجھا۔ بڑھاپے اور موت کے قریب وقت میں‘ ایسی صورتیں سامنے آتی ہی رہتی ہیں۔ ان تینوں کے برعکس‘ وہ مجھے اولڈ بوائے کی کچھ لگنے لگی۔ میں نے کئی بار جاننے کی کوشش کی کہ آخر کون سا دکھ اسے اندر ہی اندر کھائے چال جا رہا ہے۔ کسی رشتہ کے بغیر‘ اولڈ بوائے کا دکھ اس کے دل پر لگنا‘ حیرت سے خالی نہ تھا۔ جب اس سے کچھ پوچھتا‘ خفا سی ہو جاتی لیکن اس کی خفگی‘ اداسی سے خالی نہ ہوتی تھی۔
اماں شدید بیمار پڑ گئی۔ میرے سوا‘ اس کے تینوں بچے‘ اسے تنہا چھوڑ گیے۔ میری بیوی‘ میری ماں سے قربت کو پسند نہ کرتی تھی۔ وہ جھگڑا بھی کرتی‘ لیکن میں اس کی بک بک کی پرواہ کیے بغیر ماں کی دل و جان سے خدمت کرتا۔ مرنے سے چند لمحے پہلے کی بات ہے۔ خود ہی بولی‘ بےچارہ خوشیا کتنا تنہا تھا اور اس کی آنگھوں میں ساون اتر آیا۔ خوشیا۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کون تھا؟! وہی جسے تم لوگ اولڈ بوائے کہا کرتے تھے۔ پھر اسے احساس ہوا کہ وہ بہت کچھ غلط کہہ گئی ہے۔ تم اسے جانتی تھیں۔ چھوڑو۔۔۔۔۔۔چھوڑو کس کہانی کو لے بیٹھے ہو۔ اس نے ٹالنے کی بڑی کوشش کی‘ لیکن میں سر ہو گیا۔ کیا سننا چاہتے ہو‘ سن سکو گے۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔۔ تم سن نہیں سکتے۔ سن لوں گا‘ سب کہہ دو۔ کہہ دینے سے تمہارا دکھ ہلکا ہو جائے گا اور تمہاری تکلیف میں کمی آئے گی۔ مگر تمہارا کیا بنے گا۔میرا؟! میرا‘ اس کہے سے کیا تعلق ہو سکتا ہے۔ پتا نہیں کون اور کس عالقے کا تھا۔ جانتے ہو وہ کون تھا؟ مجھے کیا معلوم۔ وہ تمہارا ابا تھا اور جبل پور کے رئیس کنبے سے تعلق رکھتا تھا۔ جب میں رحمت کے ابا کے ساتھ بیاہ کر آئی‘ تم میرے پیٹ میں تھے۔ خوشیا اس خبر سے مسرور تھا لیکن میں اس کی نہ ہو سکی۔ صابر مجھے یہاں لے آیا۔ خوشیا بھی یہاں آ بسا۔ وہ فقط تمہارے لیے یہاں آیا اور تمہیں دیکھ دیکھ کر زندہ رہا۔
اماں اس سے آگے کچھ نہ کہہ سکی اور میں بھی اس سے آگے کچھ نہ سن سکتا تھا۔ پہلے اماں کو چپ لگی تھی‘ اس کے بعد مجھے چپ لگ گئی۔ زمین سے کیا‘ موجود ڈھیر سارے رشتوں سے میرا رشتہ ٹوٹ گیا تھا۔ میں آج اس سرزمین پر زندگی گزار رہا ہوں‘ جو سرے سے میری نہیں۔ میری ان رشتوں سے مالقات ہوتی ہے‘ جو میرے نہیں ہیں۔ کسی سے کیا کہوں‘ کیا بتاؤں۔ میں بھی اپنے حقیقی رشتے کے ساتھ بدقسمتی اور شناخت سے محروم لحد میں اتر گیا ہوں۔ خوشیے کا میں تھا‘ مگر میرا یہاں کون ہے؟ ماں منوں مٹی تلے‘ اپنے من کا بوجھ ہلکا کرکے جا سوئی ہے۔ میں کس سے اپنی کہہ کر‘ من کا بوجھ ہلکا کروں؟ بیوی سے۔۔۔۔۔۔ اپنے بچوں سے؟! سابقوں کی بوچھاڑ‘ مجھ سے یہ مردہ اور بےنشان سانسیں بھی چھین لے گی۔ سوالوں کے بہت سے دائرے میرے گرد جگہ بنا لیں گے۔ میرے جعلی رشتے‘ جھوٹ کا ساتھ بھی چھوڑ جاءیں گے۔ کچھ بھی سہی‘ میں اپنی نسلی نسبی اور عالقائی شناخت جان چکا ہوں۔ میں جبل پور کا رئیس زادہ ہوں۔ میرے باپ دادا نام و مقام والے تھے۔ بدقسمتی مجھے چوتھے درجے کے لوگوں میں لے آئی‘ ورنہ ایسے تو ہمارے کمی کمین ہوتے ہوں گے۔ کاش‘ میں کسی سے یہ سب کہہ پاتا۔۔۔۔۔۔ کاش میری موت کے بعد‘ میری قبر کے لوح پر کندہ کر دیا جائے۔۔۔۔۔ نواب زادہ نوید
عمر ولد نواب خوشی دمحم جبل پوری 11-7-1974
بڑا آدمی
چالیس سال پہلے‘ ہر زبان پر تھا‘ کہ کورا نکما اور کام چور ہے‘ وہ زندگی میں کچھ نہیں بن سکے گا۔ یہ کہنے سے پہلے‘ کوئی نہیں سوچتا تھا‘ کہ آخر کس بوتے پر‘ بڑا آدمی بن سکوں گا۔ میرے پاس تعلیم تھی نہ پیسہ۔ مجھے تو لمبڑوں کا کتا تک نہ جانتا تھا۔ ابا بچارے‘ مزدور آدمی تھے۔ پتا نہیں کس طرح ہم‘ چار بہنوں اور دو بھائیوں کے پیٹ کی آگ بجھاتے تھے۔ میں نے کبھی‘ ان کے بدن پر اچھا کپڑا نہیں دیکھا تھا۔ بےچاری اماں کا بھی یہی حال تھا۔ ان دونوں کے چہروں پر‘ بے کسی اور بےبسی ڈیرے جمائے رہتی تھی۔ اس کے باوجود‘ ان کے منہ سے‘ میں نے ناشکری کا کلمہ نہیں سنا تھا۔ میں نہیں کہتا‘ وہ لڑتے یا بحث نہیں کرتے تھے۔ ہاں‘ ہم بہن بھائیوں کے سامنے‘ ہنستے مسکراتے یا سنجیدہ رہتے تھے۔ ان کی زندگی
میں‘ کسی نے ہم بہن بھائیوں کے متعلق‘ اپنے منہ سے کوئی برا کلمہ نہیں نکاال تھا۔ وہ رشتہ داروں کے دکھ سکھ میں شامل ہوتے۔ اس پر بھی خرچہ اٹھتا ہو گا۔ انھوں نے مرنے سے پہلے‘ اپنی تینوں بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کیے اور باعزت گھر سے رخصت کیا۔۔ انھوں نے ہم دونوں بھائیوں پر‘ بہنوں کا رائی بھر بوجھ نہ رہنے دیا۔ ابا جب مرے‘ گیارہ روپے قرضہ میں نکلے۔ اماں نے ہم دونوں بھائیوں کو پاس بٹھایا اور بدلی صورت حال سے آگاہ کیا۔ یہ بھی کہا‘ کہ تمہارے ابا نے گربت میں بھی‘ شریکے میں عزت بنائے رکھی ہے۔ محنت مشقت کرو‘ تاکہ شریکوں کی بولیاں اور طعنے نہ سننے پڑیں۔ بھائی منڈی میں مزدوری کا کام کرتے۔ سچی بات ہے‘ انھوں نے‘ مجھے محرومی کا احساس تک نہ ہونے دیا‘ کہ میں یتیم ہو گیا ہوں۔ انھوں نے بچت کرکے قرضہ اتارا۔ اماں کو پوتے پوتیاں دیکھنے کی بڑی تمنا تھی۔ ان کی‘ سگی خالہ کی بیٹی سے‘ بڑی سادگی سے‘ نکاح کر دیا گیا۔ پندرہ بیس دن خوشی خوشی گزر گیے۔ پھر بھابی‘ جو خالہ زاد بہن بھی تھی‘ پہلے ہلکے پھلکے اور بعد میں‘ بھاری لفظوں کے پھتر برسانے لگی۔ بےچاری اماں بھی رینج میں آ جاتیں۔
بہنیں کبھی کبھار آ جایا کرتی تھیں۔ اماں کی موت کے بعد‘ بھابی کی چخ چخ سے تنگ آ کر‘ آنا ہی بند کر دیا۔ دل دکھتا۔ میں کیا کر سکتا تھا۔ بھائی تو جیسے گونگے بہرے ہو گیے تھے۔ پاس بیٹھے‘ اپنی بیوی کے زہر بھرے تیر‘ اپنی بہنوں پر برستے دیکھتے رہتے۔ ان کے منہ پر چپ کا تالہ سا لگ گیا تھا۔ میں زیادہ ناسہی‘ کچھ تو کما کر التا ہی تھا۔ اس کے باوجود اس کی زبان پر میرے لیے‘ نکما نکھٹو اور حرام خور ایسے ثقیل لفظ رہتے۔ اسی پر اکتفا نہیں کرتیں‘ ہر آنے جانے والے کے سامنے میری بےکاری کا رونا روتی۔ شاید ہی‘ کوئی خرابیی رہ گئی ہو‘ جو میرے نام منسوب کی گئی ہو گی۔ بعض اوقات‘ اس کی چھوٹی اور چچی آنکھوں میں‘ موٹے موٹے آنسو اتر آتے‘ جیسے اس کی کسی نے پھڑکا پھڑکا کر ہڈی پسلی ایک کر دی ہو۔ میں نے بھی چپ میں عافیت سمجھی تھی۔ میں جانتا تھا کہ اگر میرے منہ سے ایک لفظ بھی نکل گیا‘ تو بھائی پر قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ بےچارہ سارا دن محنت کرتا ہے‘ شام کو آتے ہی‘ اس کی جان کھا لے گی۔ مزے کی بات یہ کہ‘ کھانا کھاتے یا کام پر جاتے وقت‘ اس کا منہ کھلتا۔ یوں برستی‘ جیسے رانی توپ گولے برسا رہی ہو۔ ایک آدھ بار بھائی نے چوں کرنے کی کوشش کی۔ چپ ہونے کی بجائے‘ وہ اور تیز ہو گئی۔ بعض اوقات تو یوں لگتا‘ جیسے اس نے مکتی
باہمی والوں سے باقاعدہ ٹرینگ حاصل کر رکھی ہو۔ ماسی جنتے‘ جو میری اماں کی اکلوتی سہیلی تھی‘ اور پورے گاؤں میں پرانی عمر کی عورت تھی‘ ورنہ سب هللا کو پیاری ہو چکی تھیں‘ مجھے پیار کرتی اور تسلی دالسہ دیتی۔ اس نے مجھے الگ ہو جانے کا مشورہ دیا۔ گاؤں کی عورتیں مجھے یوں دیکھتیں‘ جیسے میں ان کے پلے سے کھاتا ہوں۔ میں نکما اور کام چور نہ تھا‘ بس محدود سی کمائ بھابی کی ہتھیلی پر دھرتا تھا ۔ وہ لمبے چوڑے بوبے کی خواہش کرتی تھی‘ مگر بوبا‘ آتا کہاں سے۔ بوبا تو‘ معاشی لٹیروں‘ اسمگلروں‘ دفتری بادشاہوں‘ چھلڑ حضرات یا پھر‘ حاکموں اور ان کے دم چھلوں کے کھیسے لگتا ہے۔ جب دیکھو‘ اپنے میکے والوں کی شرافت اور محنت و مشقت کے قصے سناتی رہتی۔ ماسی تو ہماری تھی‘ کیا ہم انھیں جانتے نہیں تھے۔ بس چپ چاپ اس کی جھوٹی پھوٹیں سنتے رہتے۔ اخالقی جرات کہاں سے آتی‘ ہم میں اخالق ہی کب تھا۔ اخالق گریب لوگوں کی چیز نہیں۔ یہ بنگلوں اور محلوں میں بستا ھے۔ اسے وہاں ہی آسودگی محسوس ہوتی ہے۔ اس رات‘ میں نے گھر سے چلے جانے کا فیصلہ کر لیا۔ سوال یہ تھا‘ جاؤں گا کہاں؟ میرے پاس پھوٹی کوڑی تک نہ تھی۔ میں نے یہ سوچ کر‘ خود کو سمبھاال دیا‘ کہ هللا اپنی جناب سے ضرور کوئی ناکوئی بندوبست کر دے گا۔ میں نے صبح کو‘
بھائی سے‘ بھابی کے سامنے‘ اپنا ارادہ ظاہر کیا۔ بھائی سکتے میں آ گیا‘ اور بجھ سا گیا‘ لیکن بھابی نے کہا‘ جانے دو‘ جب کما کر کھائے گا‘ تو سمجھ آ جائے گی۔ پتا نہیں اورکیا کچھ کہا۔ میں نے بھیگی آنکھوں سے گھر کو خیر آباد کہا۔ بھابی ماں تو نہیں تھی‘ جو کٹ کٹ جاتی اور راہ کی دیوار بن جائے گی۔ وہ تو مجھے الیعنی بوجھ سمجھتی تھی۔ میرے چلے جانے سے‘ اس کی مردود آتما کو‘ شانتی مل گئی ہو گی۔ سارا دن پریشانی‘ بیتے لمحوں کی یاد اور اگلے وقت کی پالنگ کرنے میں گزرا۔ وہ رات‘ میں نے اپنے ایک دوست کے ہاں گزاری۔ صبح اٹھا‘ زندگی میں پہلی مرتبہ مسجد کا رخ کیا۔ وہاں میری مالقات‘ حاجی ولی دمحم صاحب سے ہوئی۔ مجھے نماز پڑھتا دیکھ کر‘ انھوں نے اندازہ لگا لیا‘ کہ پہلی بار نماز پڑھ رہا ہوں۔ انھوں نے مجھے اپنے پاس بالیا اور نماز کی فضیلت اور نماز پڑھنے کے طریقہ سے آگاہ کرنے لگے۔ میں سر جھکا کر‘ بڑھے احترام سے‘ ان کی باتیں سنتا رہا۔ جب انھوں نے‘ بات ختم کی تو میری آنکھیں‘ بےاختیار چھلک پڑیں۔ انھوں نے مجھ سے رونے کی وجہ پوچھی۔ میں نے سارا ماجرا کہہ دیا۔ بڑے پریشان ہوءے۔ پھر وہ مجھے اپنے ساتھ لے گیے۔ ان کی مارکیٹ میں بہت بڑی کپڑے کی دکان تھی۔ دکان پر گاہکی بہت تھی۔ مجھے انھوں نے چائے وغیرہ النے کا کام سونپا۔
رات کو سو رہنے کے لیے‘ گودام کا ایک کمرہ عنایت کیا۔ میں نے دلی ایمان داری سے کام کیا۔ حاجی صاحب کی چھے بیٹیاں تھیں‘ بیٹا ایک بھی نہ تھا۔ انھوں نے مجھے سچے باپ کا پیار دیا۔ میں پکا نمازی ہو گیا۔ پھر میں گھر کا سودا سلف ال کر دینے لگا۔ میں ان کے گھر کا فرد سا ہو گیا۔ مائی صاحبہ‘ مجھے بڑا پیار کرتی تھیں۔ حاجی صاحب کی بیٹیاں مجھے اپنا بھائی سمجھنے لگیں۔ جس دن حاجی صاحب بیمار ہوتے‘ یا کہیں جاتے‘ میں دکان سمبھلتا۔ پھر حاجی صاحب مسلسل بیمار رہنے لگے۔ میں دکان سمبھالنے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں کے پاس لیے پھرا۔ رات کو ان کے پاؤں دباتا۔ میں نے ان کی خدمت کرنے میں اپنی سی پوری کوشش کی۔ مجھے ان میں اپنا باپ نظر آتا تھا۔ کب تک‘ موت نے‘ میرا یہ باپ بھی چھین لیا۔ ہاں‘ اس باپ نے‘ مجھے لکھ پتی بنا دیا۔ اب میں عالقہ کا‘ معزز ترین شخص تھا۔ میرے بھیا‘ بھابی کی تلوار زبان کے ہاتھوں‘ چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ کر زبح ہو گیے۔ اب میں کورا نہیں‘ حاجی عبدالشکور تھا۔ حاجی صاحب کی بیوہ یعنی ماں نے‘ مجھے بھاوج سے نکاح کر لینے کا مشورہ دیا۔ ان کا خیال تھا‘ بچے رل جائیں گے۔ میں ان کے اس مشورے پر حیران تھا لیکن ان کا کہا‘ کیسے ٹال سکتا تھا۔ اب وہ‘ کمو کی بیوی نہیں‘ حاجی عبدالشکور کی بیوی تھی۔ اسے کئی بار بولنے کا دورہ پڑا‘ لیکن اپنے چھوٹے بھائی‘ ہداتے کے ہاتھوں پٹ جاتی۔ یہ وہی
بھائی تھا‘ جس کے گن گاتی نہ تھکتی تھی۔ ہدیتا ان دنوں میرا باڈی گارڈ تھا۔ میرے انگلی کے اشارے پر‘ وہ کچھ بھی کر سکتا تھا۔ یہ فریضہ‘ میرے کہے یا میرے کسی اشارے کے بغیر ہی انجام دیتا تھا۔ میں نے پچھال الیکشن بھی جیتا۔ هللا نے بڑی عزت دی ہے۔ کسی چیز کی کمی باقی نہیں رہی۔ حاجی صاحب قصہ پارینہ ہو گیےہیں۔ بہت کم لوگوں کو‘ وہ یاد رہے ہیں۔ آج میں‘ سب کو یا د ہوں۔ آتے کل کو‘ لوگ میرے بیٹے کو یاد رکھیں گے۔ دونوں طرف کی بہنیں آتی ہیں۔ میں ان کی عزت اور خدمت کرتا ہوں۔ اپنی ضرورت سے زیادہ‘ کمائی میں سے نہیں رکھتا۔ یہ بہنیں‘ مجھے سگی بہنوں سے زیادہ عزیز ہیں۔ سب کچھ‘ ان ہی کا تو ہے‘ میری اصل اوقات تو چائے النے والے کی ہے۔ مال و دولت اور عزت مجھے محنت کرکے دستیاب نہیں ہوئی۔ محنت کی کمائی سے تو‘ میں ایک بکری بھی نہیں خرید سکتا تھا۔ یہ اوپر والے کا خصوصی احسان تھا۔ وقت کی خوش گوار کروٹ تھی۔ آج میں بڑا اور صاحب حثیت آدمی ہوں‘ مگر کب تک‘ بس سانسوں کے آنے جانے تک۔ اس کے بعد‘ کسی کے خواب وخیال میں بھی نہیں رہوں گا۔ مزے کی بات یہ کہ‘ لوگ میرے سامنے اور پشت پیچھے‘ مجھے بڑا آدمی کہتے ہیں اور سمجھتے بھی ہیں۔ سوچتا ہوں‘ یہ کیسا بڑاپن ہے‘ جو سانسوں سے مشروط ہے۔ بڑا تو سقراط تھا‘ جو مر کر بھی‘ مرا نہیں۔
وقت کا فیصلہ بھی کتنا عجیب ہے‘ کہ شاہ حسین سے بھوکے ننگے‘ آج بھی زندہ اورالکھوں دلوں میں‘ اپنی عزت اور محبت رکھتے ہیں۔ قارون کے سوا‘ مجھ سے الکھوں لکھ پتی‘ جو وقت کے بہت بڑے آدمی تھے‘ آج کسی کو یاد تک نہیں ہیں۔ یہ بڑاپن کیسا ہے‘ جو کیڑوں مکوڑوں سے مختلف نہیں۔ 9-2-1978
حاللہ
جوانی کا دورانیہ‘ اگرچہ کچھ زیادہ نہیں ہوتا‘ لیکن آدمی اس مختصر سی مدت میں‘ بہت کچھ کر گزرتا ہے یا کر سکتا ہے۔ اس کے گزر جانے کے بعد‘ اعصاب اور دماغی صالحتیں‘ ڈھلتے سائے کا اترن لے لیتی ہیں۔ آدمی بہت کچھ کر گزرنے کی خواہش رکھتے ہوئے بھی‘ کچھ نہیں کر پاتا۔ اس کی اپنی جمع پونجی‘ اس کی اپنی نہیں رہتی۔ تجربہ‘ کمزور حافظے کے منہ میں جا کر‘ خود کے نشان بھی نہیں تالش کر پاتا۔ جوانی تسلیم کی خو کو قبول نہیں کرتی اس کے برعکس‘ بڑھاپا ہاں اور ناں
کے تذبذب میں لمحے گزار کر‘ لحد میں اتر جاتا ہے۔ میں اپنی غلطی‘ اب بھی‘ تسلیم نہیں کرنا چاہتی۔ غلطی تسلیم کرتی ہوں‘ تو بےوجود ہوتی ہوں۔ غلطی تسلیم نہیں کرتی‘ تو میرا ضمیر مجھے سکھ کا سانس نہیں لینے دیتا۔ ساری عمر‘ اس نے نیند کی گولیاں کھائے رکھی ہیں‘ آج جانے کیوں جاگ اٹھا ہے۔ زندگی جب بھرپور ہوتی ہے‘ اس وقت تمیز و امتیاز کے دروازے بند رہتے ہیں۔ کوئی دستک کانوں تک نہیں آ پاتی۔ آج‘ جب ہر لمحہ‘ موت کے قریب ہو رہا ہے‘ مجھے اپنے ماضی کی غلطیوں کا احساس ہو رہا ہے۔ اگر دیکھا جائے‘ تو اسے غلطی بھی نہیں کہا جا سکتا۔ میں دینو کے گھر میں‘ معاشی طور پر آسودہ نہ تھی۔ دو وقت کی روٹی بامشکل ملتی تھی۔ روٹی ہے‘ تو سالن نہیں۔ کپڑے ہیں‘ تو جوتے نہیں۔ گھر میں کچھ بھی تو مکمل نہیں تھا جو تھا‘ ادھورا اور نامکمل تھا۔ ہماری شخصیت بھی ادھوری اور بےسری تھی۔ بات بات پر‘ ہم دونوں بحث وتکرار پر اتر آتے تھے۔ دور کی مرگ پر جانے کے لیے‘ ہماری جیب میں کرایہ تک نہ ہوتا تھا۔ زندگی کے بیشتر لمحے‘ ادھار پر چلتے تھے۔ اس میں دینو کا بھی کوئی قصور نہ تھا۔ وہ صبح سویرے اٹھ کر مزدوری پر چال جاتا تھا۔ دھاڑ میں سے بہت قلیل‘ اپنی ذات پر خرچ کرتا تھا۔ باقی سب‘ میری ہتھیلی پر رکھ دیا کرتا تھا۔ میں اسے‘ اپنے والدین کا بھی قصور نہیں سمجھتی۔ ان کا بیٹا
اپنی بیوی کو لے کر‘ الگ ہو گیا تھا۔ وہ بوڑھے تھے۔ میں دینو کی کمائی کا آدھا‘ یا کبھی اس سے زیادہ‘ ان پر خرچ کر دیتی تھی اور گھر میں زیادہ تر‘ ہے نا ڈالے رکھتی تھی۔ خدا لگتی یہی ہے‘ کہ دینو نے کبھی حساب تک نہیں مانگا تھا۔ انہوں نے واجبی شکل کے‘ مجھ سے عمر میں بڑے شخص کو‘ لڑکی اسی لیے دی تھی‘ کہ میں ان کا معاشی ساتھ دیتی رہوں۔ اس روز‘ دینو کام سے لوٹا تو‘ وہ پسینے میں شرابور تھا۔ اس کے چہرے پر‘ پریشانی کی لکیریں بڑی گہری تھیں۔ منہ ہاتھ دھو کر‘ بیٹھا تو میں نے پریشانی کی وجہ دریافت کرنے کی بجائے‘ دو ریپے کم دینے پر بحث شروع کر دی۔ اس نے ابھی دو چار لقموں سے زیادہ نہیں لیے ہوں گے‘ کہ اس کا چہرا غم آلود غصے سے سرخ ہو گیا۔ اس نے آگے پڑا کھانا‘ زمین پر پٹک دیا۔ اس بات پر ہماری تو تکرار میں اضافہ ہو گیا۔ اگر پورا نہیں کر سکتے تھے‘ تو شادی کیوں کرائی تھی؟ میں نے اس کے تیور دیکھتے ہوئے کہا گزارا کرنا ہو تو‘ روکھی سوکھی پر بھی ہو سکتا ہے۔ اس نے جوابا کہا گزارا ہی تو کر رہی ہوں۔۔۔۔ کون سے کوفتے اور ککڑ کھانے کو دیتے ہو۔ شیداں گزارا کرو۔۔۔۔۔۔ گزارا۔۔۔۔۔۔۔۔ جو ملے اس پر هللا کا شکر ادا
کیا کرو۔ جب سے تمہارے گھر آئی ہوں گزارا ہی تو کر رہی ہوں۔ باپ کے گھر میں کوفتے کھاتی آئی ہو؟ میں انہیں بھی جانتا ہوں۔ اب کہ دینو کا لہجہ بڑا جارحانہ ہو گیا۔ میرے باپ کو پن رہا تھا‘ اس پر میں آپے سے باہر ہو گئی۔ میں نے اس کے خاندان کے ہر فرد کی اوقات اس کے سامنے رکھ دی۔ اس پر وہ تلمال اٹھا اور گھر سے باہر جانے لگا۔ میں نے روک کر کہا‘ اگر گھر نہیں چال سکتے‘ تو مجھے طالق دے دو۔ میرے منہ سے طالق کا لفظ سن کر‘ وہ سکتے میں آ گیا۔ اس نے میری طرف دیکھا اور طالق طالق طالق کہتا ہوا گھر سے باہر نکل گیا۔ وہ طالق طالق طالق کہہ کر چال گیا لیکن مجھے حیرت اور پریشانی کے سمندر میں پھینک گیا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی‘ کہ دینو جیسا معذور شکل کا شخص‘ اس سطح پر بھی اتر آئے گا۔ میں اس سے بڑھ کر‘ بیسیوں بار بےعزتی کر چکی تھی‘ لیکن وہ اس سطح تک کبھی نہیں آیا تھا بلکہ معذرت خواہی پر اتر آتا تھا۔ یہ سب میری توقع کے برعکس ہو گیا تھا۔ وہ رات دیر گیے واپس لوٹا۔ کچھ کہے سنے بغیر‘ اپنے بستر پر لیٹ گیا۔ دونوں جانب چپ کا روزہ تھا۔ آخر میں نے ہی پہل کی۔ دینو بہت بڑی غلطی ہو گئی ہے۔ میرے منہ سے لفظ طالق نکل
گیا‘ تم ہی چپ رہتے۔ اب کیا کریں۔ مولوی صاحب سے پوچھو۔ کوئی تو حل ہو گا۔ پوچھا ہے‘ انہوں نے کہا ہے‘ حاللے کے سوا‘ اس کا کوئی دوسرا حل موجود نہیں۔ حاللہ کے لیے کس سے کہیں؟! میں نے پریشانی کے عالم میں کہا مولوی صاحب یہ قربانی دینے کے لیے تیار ہو گیے ہیں۔ حاللہ کے بعد‘ مولوی صاحب مجھے اپنے ہاں لے گیے۔ ان کے ہاں کھانے کا سامان وافر تھا۔ گھر بھی‘ ضرورت کی ہر شے سے بھرا ہوا تھا۔ گھر دیکھ کر‘ میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ ایک دیندار انسان کے گھر‘ عیش وعشرت کا اتنا سامان۔۔۔۔ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ وہ رات بڑی آسودہ گزری۔ کھانے پینے کو پیٹ بھر ہی نہیں‘ وافر دستیاب تھا۔ اگلی صبح دینو آیا اور اس نے مولوی صاحب سے طالق کے لیے کہا۔ مولوی صاحب نے جوابا کہا‘ تم خود پوچھ لو‘ اگر طالق لینا چاہتی ہے تو‘ میں ابھی دے دیتا ہوں۔ اتنی جنسی اور پیٹ کی آسودگی کے بعد‘ مولوی صاحب کو طالق دینے کے لیے کہنا‘ کھلی حماقت تھی۔ دینو غیر تھا‘ اب میرے لیے‘ غیرمحرم کے سامنے آنا‘ غیر شرعی امر تھا۔ اب میں ایک باشرع شخص کی بیوی تھی۔
میں نے دینو کو جاتے ہوئے الپرواہ نظروں سے دیکھا۔ یوں سایہ سا‘ الش سے مماثل نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ میں اس حقیقت سے انکار نہیں کرتی‘ مولوی صاحب کے گھر میں مجھے اور میرے پچھلوں کو‘ پیٹ بھر مال ہے اور میرے ہوتے‘ مولوی صاحب کو دوسرے حاللے کی جرآت نہیں ہوئی۔ چوری چھپے کوئی کر گزرے ہوں‘ تو یہ الگ بات ہے۔ ہمارے ہاں مانگے کا رزق آیا ہے۔ یہ مانگا رزق کوئی تھوڑا نہیں‘ بہت آیا ہے۔ مولوی صاحب مانگ لینے میں کوئی برائی نہیں سمجھتے۔ انہوں نے ایک درس بھی کھول رکھا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے‘ درس کے لیے چندہ لینے کے لیے چڑھے رہتے ہیں۔ اچھا خاصا چندہ بٹور التے ہیں۔ مولوی صاحب اس انتظار میں رہے ہیں‘ کہ کب طالق مانگتی ہوں۔ میں پاگل نہیں‘ کیوں کہ اب حاللے کی نوبت نہیں آئے گی۔ مولوی صاحب کو مجھ سے‘ کہیں بہتر‘ حاللے میں مل جائے گی۔ اگر ایک فیصد حاللے کی نوبت آ بھی گئی تو‘ مولوی صاحب جیسی اسامی نہ مل سکے گی۔ آج بڑھاپے نے شاید ہوش غارت کر دئے ہیں‘ تب ہی تو سوچتی ہوں‘ کہ دینو کی پسینہ آمیز کمائی میں‘ بےحد سواد تھا۔ اس وقت مجھے کوئی بیماری الحق نہ تھی۔ یہاں حاللے کے دو ماہ پعد ہی معدہ کی بیماری الحق ہوگئی۔ اس کے بعد شوگر نے آ گھیرا۔ کمردرد تو معمول کا معاملہ ہے۔ بی پی کی کسر رہ گئی
تھی‘ وہ بھی گلے کا ہار بن گئی ہے۔ مولوی صاحب کسی کی جیب تو نہیں کاٹتے‘ اس کے باوجود ان کا الیا ہوا رزق‘ ذائقہ میں‘ دینو کے الئے سا نہیں۔ 1-2-1976
آوارہ الفاظ وعدے۔۔۔۔۔۔ جھوٹ۔۔۔۔۔۔۔ سب جھوٹ‘ فریب مگر ہر کوئی‘ ان کی گرفت میں آ جاتا ہے۔ وعدوں کے دامن میں‘ امیدوں کے خوش رنگ اور خوش مہک پھول‘ مسکراہٹ بکھیر رہے ہوتے ہیں۔ میں بھی‘ وعدوں کے گرداب میں پھنس گیا۔ کوئی مجھے کیوں سمجاھتا۔ میں سمجھنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ ہدایت اسی کے لیے ہوتی ہے‘ جو ہدایت کا طلب گار ہوتا ہے۔ اب مجھے کوئی کیوں‘ تسلی دیتا پھرے۔ میں تو‘ جھوٹ کی ظلمتوں کا مسافر تھا۔ جب سچ کا سویرا ہوا‘ دامن دیکھا‘ تار تار تھا۔ دنوں ہاتھ خالی۔۔۔۔۔ خال کی وسعتوں کی طرح۔۔۔۔۔۔۔ رونا چاہا رو نہ سکا۔ چیخنا چاہا‘ چیخ نہ سکا۔ حلق میں بےکسی اور بےکسی کے کانٹے پیوست ہو گیے تھے۔
میرے رنج۔۔۔۔۔ کچھ موہوم اور نامعلوم سی یادیں۔۔۔۔۔۔ ویران وپشیمان آنکھیں۔۔۔۔۔۔ زخمی اور نیم مردہ دل۔۔۔۔۔ بس یہ ہی کچھ باقی رہ گیا تھا۔ زندہ لمحموں میں۔۔۔۔۔۔ ان کی کوئی اوقات نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔ کچھ کہتا ہوں‘ تو رسوائی کے۔۔۔۔۔۔ گہرے کھڈ میں گرتا ہوں۔ گرہ میں خلوص ومحبت کا مال ہوتے ہوئے۔۔۔۔۔ میں ناکام ٹھہرا ہوں۔۔۔۔۔۔ نہیں جانتا‘ کھرے سکے۔۔۔۔۔ عملی زنندگی میں‘ !کھوٹے اور بےدام کیوں ٹھہرے ہیں۔۔۔۔۔ کیوں۔۔۔۔۔آخر کیوں؟ صغراں! تم نے فریب کیا۔۔۔۔۔ مجھے اپنے مکروفریب کا نشانہ بنایا۔۔۔۔۔ تمہارے چہرے کی عیار مسکان میں‘ خودغرضی ملفوف تھی۔ بہ ظاہر اس میں‘ دور تک اللچ کا کہرا موجود نہ تھا۔ میں تمہیں پوترتا کی عالمت سمجھتا رہا۔ جانے مکروفریب اور چھل۔۔۔۔۔ زندگی کے کیوں ضابطے قرار پائے ہیں۔ سچ کا سورج۔۔۔۔۔۔ اپنی الچارگی پر۔۔۔۔۔ لہو روتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ وہ زندہ ہے‘ لیکن مردوں کی سی زندگی کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ وہ تو فریاد کا بھی حق نہیں رکھتا۔ اتنا بےبس۔۔۔۔۔۔ بے کس۔۔۔۔۔ شاید ہی کوئی رہا ہو گا۔ اس کے لیے تو۔۔۔۔۔۔۔ کسی نے۔۔۔۔۔۔۔ چلو بھر پانی بھی نہیں رہنے دیا۔ نور! مجھے معاف کر دینا۔۔۔۔۔ میں نے تمہیں ذلیل کیا۔۔۔۔۔۔ مجھے صغراں کی عیار مسکرااہٹیں عزیز تھیں۔۔۔۔۔ تم۔۔۔۔۔۔ ہاں تم۔۔۔۔۔۔۔ میرے ہاتھوں بےوقار ہوتی رہیں۔ میری آنکھیں‘ اصلی اور نقلی کی پہچان سے‘ محروم ہو گئی تھیں۔ ان میں‘ الیعنیت کا موتیا
اتر آیا تھا۔ تم تھیں‘ کہ میرا ساتھ کبھی اور کسی موڑ پر نہ چھوڑا۔ تمہارا وجود ۔۔۔۔۔ برداشت کے رستوں کے لیے۔۔۔۔۔۔ سنگ میل کا درجہ رکھتا ہے۔ صبر اور برداشت ناقابل تسخیر ہیں۔ یہ ہمالہ کی سر بہ فلک چوٹیوں کو بغل میں لے کر چلتے ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتے تو زندگی کب کی دم توڑ چکی ہوتی۔ زمین پر ویرانی کی حکم رانی ہوتی۔۔۔۔۔ ہانپتی کانپتی روحوں کو۔۔۔۔۔۔ ان سے حرات اور شکتی میسر آتی ہے۔ ساری تابانیاں ان ہی کے دم تو سے ہیں۔ ساری روشنیاں ان ہی کے دم سے تو ہیں۔ لوگو! جان لو‘ کسی بھول میں نہ رہنا۔۔۔۔۔۔ میں جھوٹ کا سوداگر ہوں۔۔۔۔۔ میں عیار مسکراہٹیں خرید کرتا ہو۔ مجھ سے‘ ہر سودگر کی گرہ کے سکے۔۔۔۔۔۔ کھرے ہو کر بھی‘ کھوٹے ہوتے ہیں۔ جھوٹ کے خریددار‘ سکوں کو کھرا کہنا کھلی بددیانتی ہے۔ جھوٹ معنویت سے تہی ہوتا ہے۔ اٹھو‘ خدا کے لیے اٹھو‘ جھوٹ کی تجوری کی‘ اینٹ سے اینٹ بجا دو۔ اسی میں پوری انسانیت کی بھالئی پوشیدہ ہے۔ اٹھو‘ جلدی کرو کہیں دیر نہ ہو جائے۔ سچ کا سورج۔۔۔۔۔عیار مسکانوں کی صلیب پر‘ مصلوب ہو جائے گا۔ چار سو اندھیروں کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔ مجھے کند چھری سے ذبح کرو۔۔۔۔۔ میں نور کے صبر کا قاتل ہوں۔ جھوٹ کا ہر خریدار اسی سزا کا مستحق ہے۔۔۔۔۔۔ میں سراپا
جھوٹ ہوں۔۔۔۔۔۔ مجھے معاف کرو گے‘ تو۔۔۔۔۔۔ عیار مسکانوں کا کاروبار جاری رہے گا۔۔۔۔۔ نور سی صابر عورتیں‘ ناکردہ جرم کی سزا بھگتی رہیں گی۔۔۔۔۔ ان کا کوئی پرسان حال نہ ہو گا۔۔۔۔۔۔ حق دار کو‘ کبھی اس کا حق نہ مل سکے گا۔ جبر کی گرم بازاری‘ ختم نہ ہو گی۔ مالوٹ شدہ پوترتا کے‘ مکروہ چہرے سے۔۔۔۔۔۔۔ گھونگھت کیسے اٹھے گا۔ لوگ‘ پیتل اور سونے میں‘ پہچان کیسے کریں گے۔ میری موت۔۔۔۔۔۔ اور زندگی کے چوراہے پر لٹکی الش۔۔۔۔۔۔ نور کے صبر کے لیے‘ پرسا ہو گی۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہی نہیں۔۔۔۔۔ مکار پوترتا ۔۔۔۔۔۔۔عیار مسککانوں کے‘ ہر سوداگر کو‘ کان ہو جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔ ایک کی موت‘ بہتوں کو نفع دے گی۔۔۔۔۔۔۔ سچ تو یہ ہی ہے‘ کہ یہ صبر کی گرہ میں۔۔۔۔۔۔ اس کی کٹھور تپسیا کا انعام ہو گا۔۔۔۔۔۔ صلہ اور عوضانہ ہو گا۔ اسے عوضانہ ملنا چاہیے۔۔۔۔۔۔۔اس کے لیے ناسہی۔۔۔۔۔۔ میرے ساتھ‘ بہت بڑا پن ہوگا۔ مجھے پچھتاوے کی دہکتی آگ سے‘ مکتی مل جائے گی۔۔۔۔۔ اب یہ آگ‘ میں سہن نہیں کر پا رہا۔۔۔۔۔۔ میری برداشت کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ میں ہی نہیں‘ ہر کوئی مکتی کے لیے سرگرداں ہے۔ مانتا ہوں‘ اس میں میرا اپنا سواد پنہاں ہے۔ یادوں کی اذیت ناکی‘ بڑی خوف ناک ہوتی ہے۔ زندگی سے موت تک کا سفر۔۔۔۔۔۔۔۔مشکل بنا دیتی ہیں۔۔۔۔۔جینے نہیں دیتیں۔۔۔۔۔۔مرنے نہیں دیتیں۔۔۔۔۔۔۔زندگی کے ہر موسم کی سانجھ چھین لیتی ہیں۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔۔
اوہ یار طارق۔۔۔۔۔۔۔اب چپ ہو جاؤ۔۔۔۔۔۔ خدا کے لیے چپ ہو جاؤ۔ گھڑی دیکھو‘ رات کے دو بج چکے ہیں۔ صبح دفتر بھی جانا ہے۔ میں تمہاری یہ بکواس کب تک سنتا رہوں گا۔ گولی مارو صغراں اور اس کی یادوں کو۔۔۔۔۔ کیا رکھا ہے ان باتوں میں۔ اب تمہیں‘ نور پر ہونے والی زیادتیوں کے‘ مدوے کے لیے زندہ رہنا ہو گا۔ آوارہ لفظوں کے خول سے‘ نکل کر‘ حقیقت کی دنیا میں آؤ۔۔۔۔۔۔ جھوٹ دھوکہ اور فریب کی عمر لمبی نہیں ہوتی۔ طارق نے اپنی کہہ دی تھی۔ اس کے من کا بوجھ‘ ہلکا ہو چکا تھا۔ میرے لفظ‘ زندگی سے معمور نہ تھے‘ پھر بھی‘ مرہم کا کام کر گیے۔ میں دیکھا‘ طارق گہری نیند سو چکا تھا‘ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ یکم دسمبر ٢٥٩١ بروز ہفتہ بوقت ١٢٠٢
مائی جنتے زندہ باد
جب دیکھو‘ بابا عمر اور مائی جنتے‘ کسی ناکسی بات پر‘ بحث کر رہے ہوتے۔ لوگ‘ ان کی تو تکرار سے بدمزا ہونے کی بجائے‘ لطف اندوز ہوتے اور رک کر‘ ان کے مکالمے سنتے۔ وہ اسے پھپھے کٹن کہتا‘ مائی جنتے بابے عمر کو‘ چاتر کہتی۔ جب بات بڑھتی‘ تو وہ طعنوں پر اتر آتے۔ بالکل بچوں کی طرح لڑتے۔ انہیں اس امر کی پرواہ تک نہ ہوتی‘ کہ انہیں کوئی دیکھ سن رہا ہے اور وہ‘ زمانے کا مذاق بن رہے ہیں۔ میں جب منڈی سے لوٹا‘ تو تمہیں تازہ تازہ اور چنویں بیر دیئے تھے۔ تم تو ہو ہی ناشکری۔ جانتی ہوں‘ تم کتنے کو سخی ہو۔ بیر ہی دییے‘ امرود تو نہیں دیے نا۔۔۔۔۔ مانگنے پر‘ بچکی میں چھپا لیے تھے۔ بھوکے کہیں کے۔ جھوٹی کہیں کی۔ کب کی بات کرتی ہو۔ میں تو بانٹ کر کھاتا ہوں۔ واہ! آگیے بانٹ کر کھانے والے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے‘ تمہارے ہاتھ میں دیکھ لیے تھے۔ تم تو ہو ہی بکھی ندیدی۔ تب ہی تو‘ میرے پیٹ میں درد اٹھنے لگا تھا۔ یہ تو درد ہوا تھا‘ ابھی تمہارے پیٹ میں کیڑے پڑنے ہیں۔
واہ‘ تم تو کیتی کرائی پر پانی پھیر دیتی ہو۔ کیا کیتی کرائی۔ !جب بھی تم نے ادھار مانگا‘ میں نے دیا نہیں؟ لو اب طعنوں پر اتر آئے ہو۔ لین دین تو دنیا میں چلتا رہتا ہے۔ میں نے کبھی ادھار مارا بھی ہے؟ وعدے پر تو کبھی نہیں دیا۔ تم تو احسان فرموش ہو۔ تمہارے ساتھ بات کرنا بھی‘ سو کا گہاٹا ہے۔ بس کرو۔۔۔۔ بڑے آئے سیٹھ صاحب۔ مہاجے کا جب ابا زندہ تھا‘ تب پوری گرمیاں‘ ہمارے گھر سے لسی لے جاتے رہے‘ میں نے کبھی جتایا تک نہیں۔ ایک دو بار‘ میں نے بن مانگے‘ مکھن بھی دے دیا تھا۔ چائے کے لئے بھرا گالس دودھ لے جایا کرتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ سب بھول گیے ہو۔ غرض اس نوعیت کی تکرار اور نوک جھونک‘ دوسرے تیسرے‘ سننے میں آتی رہتی تھی۔ ہم میں سے کسی نے غور ہی نہ کیا‘ کہ ان کی یہ بحث وتکرار کیوں ہوتی ہے۔ اس اٹ کتے کے بیر کی‘ کوئی تو وجہ ہو گی۔ عمومی طور پر‘ دونوں بڑے ملن سار اور ہم درد قسم کے انسان تھے۔ دونوں کا درد ایک تھا۔ بڑھاپے میں‘ ان کے ساتھی چھوڑ گیے تھے۔ شاید وہ چڑچڑے ہو گیے تھے۔ جو بھی سہی‘ دونوں دل کے برے نہیں
تھے۔ وقت اور حاالت نے‘ انہیں اکتایا اکتایا سا‘ بنا دیا تھا۔ ساتھی مر جانے کے بعد‘ تنہائی نے‘ شاید انہیں اس طرح کا بنا دیا تھا۔ وہ ایک دوسرے سے بحث کرکے‘ من کا بوجھ ہلکا کر لیتے ہوں گے۔ بچے اپنی اپنی دنیا میں چلے گیے تھے۔ وقت اور حاالت کے گرداب میں پھنسے‘ کسی دوسرے کی کیا خبر رکھ سکتے ہیں۔ میں نے سوچا‘ اگر بچے وقت دیں‘ تو بڑھاپا احساس محرومی کا شکار نہیں ہوتا۔ تنہائی‘ اور اوپر سے عمر کا پچھال پہر۔۔۔۔۔اف هللا‘ ان کے لمحے کس قیامت سے دوچار ہوتے ہوں گے۔ وہ لڑتے نہیں‘ اپنے بد قسمت بڑھاپے اور اکالپے کا رونا روتے ہیں۔ اب تو یہ رونا ساری عمراں دا اے۔ جانے والوں کو کون واپس ال سکتا ہے۔ اس بستی میں گیا‘ کب کوئی واپس آیا ہے۔ ایک بار نتھو نے کہا‘ ان دونوں کا نکاح کرا دینا چاہیے۔ بھائی یہ تو شام تک ککڑوں کی طرح لڑتے رہیں گے۔ رہنے دو‘ مائی نے جب دو تین بار مسکرا کر دیکھا تو‘ بابا عمر دم ہالنے لگے گا۔ فضلو نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا بابا بڑا قلغی واال ہے‘ پیندی سٹے مائی کو ڈھیر کر دے گا۔ گامو نے لقمہ دیا اوہ چھڈ‘ چال جاتا نہیں‘ در فٹے منہ گوڈیاں دا۔ ڈھیر کر دے گا‘
مائی بڑے شے آ‘ توں نئیں جاندا۔ شاکو نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا دیر تک بابا عمر اور مائی جنتے ہماری گفتگو کا موضوع بنے رہے۔ اتنی دیر میں ویرو آ گیا اور آتے ہی چھا گیا۔ کچھ سنا نہیں تو اماں جنتے‘ بابے عمر کے ساتھ نکل گئی ہے۔ !ہائیں‘ کیا بکتے ہو؟ میں بکتا نہیں‘ پھرما رہا ہوں۔ ہم سب دوستوں کی آنکھیں‘ کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ ان کا لڑنا محض ہمارے دکھاوے کے لیے تھا؟ یہ بوڑھے بھی بڑے کھالڑی ہوتے ہیں۔ اتنے سیدھے سادے نہیں ہوتے۔ یہ جلیبی کے موافق سیدھے ہوتے ہیں۔ بابے عمر کا پوتا‘ بڑے غصہ میں تھا۔ مائی جنتے کے پوتے کے منہ سے‘ بڑے تلخ کلمے نکل رہے تھے۔ وہ کہہ رہا تھا‘ مائی نے پوری برادری میں ہماری ناک کٹوا دی ہے۔ اگر ہاتھ لگ گیے‘ تو میں دونوں کے ڈکرے کر دوں گا۔ یہ پہال موقع تھا‘ جو دو بوڑھوں کے باعث ان کی اوالد کی ناک کٹی تھی‘ ورنہ آج تک‘ لڑکے لڑکیوں نے ہی‘ اپنے بڑوں کی ناک کٹوائی تھی۔
جوانوں کی جنسی شدت‘ ان کی عقل پر پردے ڈال دیتی ہے۔ یہاں تو یہ معاملہ تھا ہی نہیں۔ جن جوان بچوں کے منہ سے‘ جھاگ نکل رہی تھی اور وہ اپنے بوڑھوں کے قتل کے درپے تھے‘ انہوں نے کبھی بھی‘ اپنے ان بھاگ جانے والے بزرگوں کے پاس‘ دو لمحے ٹھہرنے کا کشٹ نہیں اٹھایا تھا۔ وہ کس حال میں ہیں‘ ان کی اوالد میں سے کسی کو معلوم کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ ہوں‘ آج ان کی غیرت جاگ گئی ہے۔ هللا کرئے‘ وہ بہت دور نکل گیے ہوں اور ان جھوٹے غیرت مندوں کے ہاتھ میں ہی نہ آئیں۔ تجربہ کار لوگ ہیں‘ کچی گولیاں نہیں کھیلے ہوں گے۔ هللا انہیں‘ ان مردودوں سے محفوظ رکھے۔ شہابو‘ جو ان بوڑھوں کا کچھ بھی نہیں تھا‘ برستی آنکھوں سے دعائیں مانگ رہا تھا۔ وہ مائی جنتے کے برے حال سے آگاہ تھا۔ اسی طرح‘ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ بابا عمر‘ مرے کتے سے بھی بدتر زندگی گزار رہا تھا۔ بابا عمر‘ بنیادی طور پر بزدل اور رن مرید قسم کا انسان تھا۔ وہ اتنا بڑا قدم نہیں اٹھا سکتا تھا۔ مائی کی دلیری نے‘ اس کے ضعیف گھٹنوں میں بھاگ نکلنے کی شکتی‘ بھری ہوگی۔ دتو کے وچار سن کر سب کہہ اٹھے
مائی جنتے زندہ باد 12-10-1969
ممتا عشق کی صلیب پر جیراں اپنی بیٹی کے چلن سے بےخبر نہ تھی۔ وہ وقتا فوقتا‘ اس کی سرزنش بھی کرتی رہتی تھی۔ وہ زیادہ سختی بھی نہیں کر سکتی تھی۔ اس کی دو وجوہ تھیں۔ جوان اوالد کو محبت اور اچھے طریقہ سے سمجھانا ہی بہتر ہوتا ہے ورنہ وہ بغاوت پر اتر آتی ہے۔ جوانی‘ اونچ نیچ اور برا بھال سوچنے کی قائل نہیں ہوتی۔ وہ کر گزرنے کی طرف مائل رہتی ہے۔ بعض اوقات‘ منفی بھگتان کے باوجود‘ واپسی کا سفر اختیار نہیں کرتی۔ ایسا بھی ہوتا ہے‘ کہ حاالت واپی کے دروازے بند کر دیتے ہیں۔ آدمی لوٹنا چاہتا ہے‘ لیکن وقت کی زنجیریں اسے پھرنے نہیں دیتیں۔ ایک وجہ یہ بھی تھی‘ کہ شیداں ماں کی دو تین خوف ناک کمزوریوں سے آگاہ تھی۔ اگر وہ ایک راز بھی افشا کر دیتی‘ تو جیراں کی پوری عمر کی رکھی رکھائی کھوہ کھاتے پڑ جاتی۔ انسان کے منفی عمل ناصرف اس کے لیے وبال بنے رہتے ہیں‘ بلکہ بعض ذہنوں کے نہاں گوشوں میں پڑے‘ اپنے وجود کا
انتظار کرتے رہتے ہیں۔ شخص ہو‘ یا کوئی جذبہ احساس یا پھر خیال وجود پانے کے لیے بےکل رہتا ہے۔ ثقیل سے ثقیل غذا ہضم ہو جاتی ہے‘ لیکن یہ ہضم ہوتے ہی نہیں۔ ایک دو بار‘ جب جیراں کا لہجہ تلخ ہوا‘ تو شیداں نے ماں کو گزرے کل کے فاش کرنے کا اشارہ دے دیا۔ جیراں جو خاوند کیا‘ برادری میں بھی پھنے خاں تھی‘ موت کی جھاگ کی طرح‘ لمحوں میں بے وجود ہو گئی۔ اس کا رعب و دبدبہ ریت کی دیوار سے زیادہ‘ پھوسڑ ثابت ہوا اور وہ آزادی کا جذبہ رکھتے ہوئے بھی‘ آزادی حاصل نہ کر سکی۔ اس کے ہاتھوں کا تراشا ہوا صنم‘ جبری ہی سہی‘ دل و جان کے صنم خانے میں خدا بنا بیٹھا تھا۔ وہ اس کی دہلیز پر عاجز و مسکین بنی کھڑی رہتی تھی۔ ایک دو بار اس نے دعا بھی کی‘ کہ شیداں مر ہی جائے۔ اس ذیل میں‘ ممتا کبھی آڑے نہ آئی تھی۔ وہ اپنی موت کی خواہش کر سکتی تھی اسی طرح خودکشی کا دروازہ بھی کھال تھا۔ اس کی موت سے‘ راز کو تو موت نہ آتی۔ وہ شیداں کے سینے میں‘ زندہ رہتا۔ یہ راز جب شیداں کے الشعور سے شعور میں وارد ہوتے‘ تو اپنی ہی ماں کو‘ اپنے باپ کا مجرم سمجھتی۔ اسے یہ ہمشیہ احساس رہتا‘ کہ اس کی ماں اس کے باپ کی دین دار تھی۔ شیداں اپنے باپ کی الڈلی تھی۔ فتو اس پر اندھا اعتماد کرتا تھا۔
روپیہ پیسہ اس کے پاس رکھتا تھا۔ رات کو باپ بیٹی جانے کیا مشورے کرتے رہتے تھے۔ وہ تو صرف پکانے اور دھونے تک محدود تھی۔ فتو سے‘ ان دونوں امور کا گال بھی نہیں کر سکتی تھی۔ روپووں کے معاملہ میں‘ وہ صرف دو بار‘ بےاعتباری ہوئی تھی۔ اس نے جھگڑ اور پھر رو کر‘ سچا ہونے کی کوشش بھی کی تھی۔ فتو نے اس کی قسم پر بہ ظاہر اطمنان کا اظہار بھی کیا‘ لیکن اندر سے مطمن نہیں ہوا تھا۔ چور یا ٹھگ کی قسموں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ اگر ان کی قسموں کو اعتبار مل جائے‘ تو تھانے اور کچہری بند ہو جائیں۔ فتو دراصل‘ جیراں کی الیعنی کل کل کی وجہ سے‘ ہار مان چکا تھا۔ گھر اور خاندان کے معامالت جیراں ہی انجام دیتی تھی۔ جہاں اختالف ڈالتا‘ وہاں دھائی کی راند پڑ جاتی۔ جیراں نے سرنڈر ہونا سیکھا ہی نہ تھا۔ اب تو پچاس کے قریب پہنچ گئی تھی اور فتو ساٹھ کا ہندسہ تجاوز کر گیا تھا۔ جو بھی سہی‘ جیراں آج بھی بنتی پھبتی تھی۔ جب دنداسا اور چوٹی پٹی کرکے‘ فتو کے سامنے آتی‘ تو وہ مدہوش ہو کر‘ وش وش جاتا تھا۔ شیداں جوان ہو گئی تھی۔ اس کے ہاتھ پیلے کرنے کا وقت آگیا تھا۔ فتو اچھے رشتے کی تالش میں تھا۔ وہ اپنی الڈلی کو‘ آسودہ حال گھرانے میں بیانا چاہتا تھا۔ لے دے کر‘ اس کی نظر جیراں کے مسیر کے لڑکے پر‘ آ کر رک جاتی۔ جیراں یہ رشتہ نہ کرنا چاہتی تھی۔ وہ شیداں کے لچھن سے بےخبر نہ تھی۔
دوسرا کسی زمانے میں‘ جیراں کی فجے سے بڑی گہری خفیہ سالم دعا رہی تھی۔ وہ دوبارہ سے‘ پرانا رشتہ نیا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ خدا معلوم‘ شیداں باپ کے فیصلے سے کس طرح متفق ہو گئی اور یہ رشتہ ہو ہی گیا۔ هللا نے اسے تین بچوں سے نوازا۔ شیداں کے گول مٹول اور پیارے پیارے بچے‘ جیراں سے بڑے مانوس تھے۔ فجا اسے ماضی کی طرف لے جا کر‘ پرانی راہ پر النا چاہتا تھا۔ ایک لمحہ بھی مل جاتا‘ تو جیراں کے نازک اعضا کو چھونے میں دیر نہ کرتا۔ بیٹی کا گھر‘ ماضی کی بھول اور بیٹی کے بچوں کی محبت کے درمیان گھری جیراں‘ ہر لمحہ اپنے ہی ہاتھوں قتل ہوتی۔ وہ کسی سے اپنا دکھ بھی نہیں بانٹ سکتی تھی۔ اگر شیداں کو علم ہو جاتا‘ کہ اس کی ماں اس کے سسر کے ساتھ موجیں مارا کرتی تھی تو وہ اور تیز ہو جاتی۔ اس کی نفرت کے حلقے مزید وسیع ہو جاتے۔ جیراں کو جہاں اپنی بدنامی کے خدشے‘ کا گھن اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا‘ وہاں یہ اطمنان ضرور تھا‘ شیداں اپھو کا کھیڑا چھوڑ چکی ہے۔ جب کبھی اتفاقا اس کی اپھو سے مالقات ہو گی‘ تو ہی وہ فجے کی سی حرکتیں کر سکے گا۔ بیٹی کے ہاں آنا تو اس کی سماجی مجبوری تھی۔ خدا لگتی تو یہی تھی‘ کہ فجے کی حرکتیں اگرچہ کچھ نئی نہ تھیں‘ اس کے باوجود‘ اس کے جسد کو‘ ان جانی سی‘ مسرت اور کیف ومستی دان
ضرور کرتی تھیں۔ شیداں کچھ دن کے لیے آئی ہوئی تھی۔ اچانک جیراں کو معلوم ہوا‘ کہ شیداں کی گرفت میں ننھا آ گیا تھا۔ منہ متھے لگتا چھوہر تھا۔ اسے دیکھ کر بڑھاپا مچل مچل جاتا تھا یہاں تو جوانی کی لہریں ٹھاٹھیں مار رہی تھیں۔ جیراں کو اس کے گھر اجڑنے کا خدشہ الحق ہو گیا۔ وہ باتوں باتوں میں سمجھانے کی کوشش کرتی۔ جوابا شیداں کہتی میں اپنے گھر والی ہوں‘ میں اپنا اچھا برا تم سے بہتر جانتی ہو۔ جیراں کو شیداں کا زیادہ دیر میکے رکنا برا لگنے لگا۔ وہ جب بھی آتی‘ یہ اسے کسی ناکسی بہانے ایک دو دن بعد ہی‘ سسرال بھیج دیتی۔ جب کبھی اپنے سسر کے ساتھ آتی‘ چوڑی ہو جاتی۔ فجا کام کاج واال آدمی ہو کر بھی‘ ٹکی ہو جاتا۔ حاالں کہ سوائے چوری چھپے‘ چونڈی تپھے کے‘ اسے کچھ حاصل نہ ہو پاتا تھا۔ اس نے فتو سے گہرے اور دوستانہ تعلقات استوار کر لیے تھے۔ پھر ایک دن وہی ہوا جس کا اسے ڈر تھا۔ ننھے کی محبت کی گرفت مضبوط ہو گئی۔ شیداں اپنے تینوں بچوں کو چھوڑ کر آگئی۔ جیراں یقینا اچھی عورت نہ تھی۔ اس نے اپنی کسی محبت کے لیے‘ بچوں کو نہ چھوڑا تھا۔ وہ اول تا آخر ان کی بنی رہی۔ یہی اس کی سچی ممتا تھی۔ شیداں ننھے کی محبت میں اپنے بچوں کی نہ بنی تھی۔ سوچنے کی بات تو یہ تھی‘ کہ آتے
وقتوں میں وہ ننھے کی بن پائے گی۔ کیا وہ اسے بچوں سے بڑھ کر اسی طرح پیارا رہے گا؟ بچے تو رل خل کر پل ہی جائیں گے لیکن یہ محبت کا کون سا روپ ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔ کیا اسے محبت کا نام دیا جا سکے گا۔۔۔۔۔۔ ماں کی ممتا سے بڑھ کر کوئی اور چیز بھی ہوتی ہے‘ کیسے مان لیا جائے گا۔ شیداں نے اپنے ابا کو یقین دال دیا تھا‘ کہ سسرال میں اس کے ساتھ بڑے ظلم ہوتے تھے۔ وہ گھر کی فرد سے بڑھ کر‘ کامی تھی۔ اس کا باپ کہتا‘ میری بیٹی بڑی معصوم تھی۔ ان لوگوں نے تو اس کی قدر ہی نہ پائی تھی۔ وہ تو تھے ہی ناشکرے۔ جیراں بھی فتو کے سامنے‘ اسے بےچاری کرماں ماری اور معصوم ہی کہتی۔ جھوٹے سچے آنسو بھی بہاتی۔ وہ فتو کو کس طرح بتائے‘ کہ اس معصوم نے شادی سے پہلے تین عشق نبھائے۔ چوتھا عشق اوالد پر بھی بھاری ہو گیا تھا۔ عیاش تو وہ بھی تھی‘ لیکن ممتا نے اس کا دامن پکڑے رکھا۔ ممتا کے پردے میں اس کے سارے عشق چھپ گیے تھے۔ وہ یہی سوچتی رہی‘ شیداں کا عشق کس پردہ کی اوٹ میں جا کر اپنی معصومیت کی گواہی دے سکے گا۔ شیداں اپنے ابا کی نظر میں معصوم تھی۔ یہ معصومیت کیسی
تھی‘ جو ممتا کی الش پر تعمیر ہوئی تھی۔ ممتا کی آہیں کراہیں‘ شیداں کی خود ساختہ معصومیت کی لحد میں‘ اتر گئی تھیں۔
3-1-1972
زینہ
مختلف نفسیات کی سامیوں سے‘ ہر روز واسطہ رہتا ہے۔ بعض تو‘ عجب لچڑ ہوتی ہیں۔ ان کی جیب سے کچھ نکلوانا بڑا ہی مشکل کام ہوتا ہے۔ جیب سے‘ نوٹ باہر التے‘ انہیں غشی سی پڑ جاتی۔ بعض سے‘ ان کے عالقے کی سوغات‘ منگوانے کے لیے منہ پھاڑنا پڑتا ہے۔ بہت کم سہی‘ کچھ بالطلب کیے‘ لے آتے ہیں۔ اس طرح‘ اس عالقے کی سوغات کے حوالہ سے‘ عالقے کی پہچان بھی ہو جاتی ہے۔ ایسی سامیوں سے بھی واسطہ رہتا ہے‘ جو دوسرے عالقوں کی‘ وجہءپہچان بڑے اہتمام سے التے رہتے ہیں۔ اس طرح‘ ان کے عزیزوں سے بھی‘ غائبانہ تعارف ہوتا رہتا ہے۔
مجھے ایسی سامی سے‘ ہمیشہ چڑ رہی ہے جن کو ان کے عالقے کی سوغات کے متعلق یاد کرانا پڑتا ہے۔ ہم یہاں بیٹھے‘ کوئی فقیر نہیں ہیں‘ جو لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرتے پھریں۔ ہمارے ہاں اصول رہا ہے‘ کہ آنے واال کبھی خالی ہاتھ نہیں آیا۔ تحفہ دینے سے‘ تعلقات میں مضبوطی پیدا ہوتی ہے۔ بعض تو‘ بڑے فراخ دل و دماغ کے لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ‘ خاتون بھی ہوتی ہے اور وہ‘ اسےاپنی بیوی ظاہر کرتے ہیں۔ ایسی عورتوں سے‘ ہم خوب خوب آگاہ ہوتے ہیں‘ لیکن ظاہر نہیں کرتے‘ کہ ہم محترمھ کو ناصرف جانتے ہیں‘ بلکہ تصرف میں بھی ال چکے ہیں۔ ہمیں اس سے‘ کوئی غرض نہیں ہوتی کہ وہ کون‘ اور کس کی کیا لگتی ہے۔ قسم لے لیں‘ کہ اوپر جو کبھی‘ سچل مال پنچایا ہو۔ پہال حق ہمارا ہوتا ہے۔ افسر دست خط کے سوا‘ کرتا ہی کیا ہے۔ فائل پر مغزماری تو ہم کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے‘ زبانی کالمی‘ سچل ہی کہتے ہیں۔ ہماری ایمان داری پر شک کا رسک‘ افسر بھی نہیں لے سکتے۔ انہیں تو کیتا کرایا ہی مل جاتا ہے۔ ایجنٹ اور نچال اہل کار‘ جو مال التا ہے‘ ہم اس میں نقص نہیں نکالتے۔ ویہار خراب ہو جائے یا ٹوکا ٹوکائی کا عمل‘ کاروبار حیات میں‘ نحوست کی عالمت ہے۔ اعتبار اور اعتماد پر ہی‘ زندگی چل رہی ہے۔
اس سی‘ سامی آج تک دیکھنے سننے میں نہ آئی ہو گی۔ وہ جب بھی آتا‘ کسی ناکسی عالقے کی‘ سوغات ضرور التا۔ جو طے ہوا‘ اس سے‘ کہیں بڑھ کر جھڑا۔ مزے کی بات یہ کہ‘ بن کہے کھانا کھالتا۔ سچی بات تو یہ ہے‘ خود لے کر جاتا۔ تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد کہتا‘ اوہ چھڈو جی چلو پیٹ پوجا کرتے ہیں۔ جب وہ آتا‘ میں اس کا یہ ڈائیالگ‘ سننے کے لیے بے چین ہو جاتا۔ کچھ کہہ نہیں سکتا‘ وہ چہرا پڑھ لیتا تھا یا روٹین میں کہتا تھا۔ میرا ضمیر‘ اس کا کام کچھ دیر اور لمکانے پر مجبور کر رہا تھا‘ لیکن ساتھیوں کی ترچھیں نگاہوں میں‘ حسد اتر آیا تھا۔ اس لیے‘ اس بار اس کا کام کر دینے پر‘ میرا ضمیر آمادہ ہو گ ی ا۔ اس روز‘ وہ کسی ماہر جاسوس کی طرح‘ وارد ہوا۔ دو تین منٹ بیٹھنے کے بعد‘ اس نے مجھے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ دیا۔ وہ اٹھ کر چال گیا۔ تین چار منٹ بعد میں نے بھی سیٹ چھوڑ دی۔ نکڑ پر‘ وہ کھڑا میرا انتظار کر رہا تھا۔ ہماری نظریں ملیں‘ وہ مسکرایا‘ اور آنے کا اشارہ دے کر چل پڑا۔ میں اس کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔ وہ الل بازار کے‘ بیکا محل ہوٹل میں‘ داخل ہو گیا۔ ایسے مکامات پر‘ کھانے کا‘ کبھی اتفاق نہ ہوا تھا۔ وہاں اس نے‘ کمرہ بک کروا رکھا تھا۔ کمرے کے اندر‘ قیامت جلوہ فرما تھی۔ اسے دیکھ کر‘ مجھ پر سکتا سا طاری ہو گیا۔ میری
آنکھیں‘ بہت کچھ دیکھ چکی تھیں‘ لیکن اس سا‘ پٹوال کبھی دیکھنے میں نہ آیا تھا۔ کھانے کی ٹیبل بھر گئی۔ ایسی تواضح تو‘ اس نے کبھی نہ کی تھی۔ مفت کا مال تھا‘ میں نے بےتحاشا کھایا۔ میں نے‘ اس پٹولے کو‘ پکا پکا اپنا بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ سچی بات تو یہ ہے‘ کہ آج تک کسی کھانے نے‘ ایسا لطف نہ دیا تھا۔ اس قیامت نے بھی‘ اداؤں کی وہ وہ بجلیاں گرائیں‘ کہ میں اپنے آپے میں نہ رہا۔ مجھے یوں لگا‘ جیسے ساری کی ساری‘ خوش نصیبی میری ہی گرہ کا‘ مقدر ٹھہر گئی ہو۔ میں نے ریحانہ سے‘ اپنے دل کی بات کہہ دی۔ تھوڑی سی‘ پس و پیش اور چند رسمی شرائط کے بعد‘ اس نے ہمیشہ کے لیے میرا ہو جانے کا ارادہ ظاہر کر ہی دیا۔ اس روز مجھے یقین ہو گیا کہ میں دنیا کا واحد خوش نصیب آدمی ہوں۔ میں نے بالشبہ زندگی میں کوئی ایسا اچھا کام ضرور کیا تھا جس کا‘ دیوتا اس اپسرا کی صورت میں‘ صال عطا کر رہے تھے۔ جو بھی سہی‘ میں نے آج تک کسی کا کام نہ روکا تھا۔ رہ گئی لینے دینے کی بات‘ یہاں کون ہل پر نہایا ہوا ہے۔ تنویر نے ہی‘ ایک مختصر‘ مگر پروقار تقریب کا انعقاد کیا۔ ریحانہ ہمیشہ کے لیے‘ میری ہو گئی۔ ریحانہ بڑی وفادار بیوی ثابت ہوئی۔ رات کو سوتے وقت میرے پاؤں دباتی۔ ناشتہ وقت پر میسر کرتی۔ اس کی کو کنگ بڑے کمال کی تھی۔ ایک بار‘ میں
بیمار پڑا‘ ہسپتال لے جانے میں‘ اس نے بڑی پھرتی دکھائی۔ میں ہسپتال میں دس دن رہا۔ دوست یار اور رشتہ دار ملنے آئے‘ ہر کسی سے‘ اس نے بڑے شان دار انداز میں ڈیلنگ کی۔ اس کے حسن سلوک اور وضع داری کی ہر کسی نے تعریف کی۔ جس پر‘ میں پھوال نہ سمایا۔ مجھے ریحانہ پر‘ ناز ہونے لگا۔ مجھے کئی بار‘ کسی کاغذ پتر کے لیے گھر آنا پڑا‘ میں نے ریحانہ کو گھر پر پایا۔ میرا دل مطمن تھا‘ کہ ریحانہ طبعا‘ نیک اور صالح ہے۔ نیک اور صالع ساتھی کا مل جانا‘ ایسی معمولی بات نہ تھی۔ اس نے کبھی‘ کریدنے یا میرے بارے کچھ جاننے کی‘ کوشش نہ کی۔ میں نے بھی زندگی کی ہر خوشی اور ہر آسائش‘ اس کے سفید‘ شفاف اور بےداغ قدموں میں‘ رکھ دی تھی۔ تنویر ایک بار بھی‘ ہمارے گھر نہ آیا‘ ہاں دفتر دوسرے تیسرے‘ کوئی کام لے کر چال آتا تھا۔ سالم دعا واال آدمی تھا۔ دوست یار کام کے لیے کہہ دیتے‘ تو آ جاتا‘ تاہم آج تک‘ اس نے کوئی کام مفت نہ کروایا۔ چاء پانی سوغات‘ النا نہ بھولتا۔ کھانا بھی کھالتا۔ اس نے کبھی ریحانہ کا ذکر بھی‘ نہ چھیڑا۔ بالکل التعلق سا ہو گیا۔ ایسے لگتا‘ جیسے گزرا کل‘ اس کی یاد داشت سے‘ نکل گیا ہو یا گزرے کل کے بارے میں‘ کچھ جانتا ہی نہ ہو۔ ایک روز‘ میں ہیڈ آفس کسی کام سے گیا۔ میں نے‘ تنویر کو‘
بڑے گیٹ سے نکلتے دیکھ لیا تھا‘ لیکن وہ مجھے نہ دیکھ سکا۔ وہ پیچھے مڑ مڑ کر دیکھ رہا تھا۔ مجھے رانا صاحب باہر آتے دیکھائی دیے۔ وہ‘ تنویر کے پیچھے جا رہے تھے۔ میں رانا صاحب کے‘ طلب کرنے پر ہی‘ حاضر ہوا تھا۔ میں نے سوچا‘ کیوں نہ‘ اس قیامت کا دیدار کر لیا جائے جو رانا صاحب کو نہال کرنے والی تھی۔ میں عقبی گیٹ سے‘ اس بڑے ہوٹل میں داخل ہو گیا۔ تنویر نے‘ ایک کمرے کی طرف اشارہ کیا۔ رانا صاحب کمرے میں داخل ہو گیے۔ تنویر‘ ہوٹل کے کونے میں پڑی میز پر‘ جا بیٹھا۔ میں بھی‘ چھپ کر کونے کی ایک میز پر جا بیٹھا۔ پون گھنٹے بعد‘ رانا صاحب کمرے سے باہر نکلے اور انہوں نے تنویر کی طرف دیکھا۔ مسکراہٹ کا تبادلہ ہوا اور پھر وہ‘ ہوٹل سے باہر نکل گیے۔ یہ اس بات کی طرف‘ کھال اشارہ تھا‘ کہ رانا صاحب کی روح میں‘ اندر موجود قیامت نے‘ سکون کے ساغر انڈیل دیے ہیں اور رکا کام‘ آج ہی اپنی منزل پا لے گا۔ مجھے مزید دس بارہ منٹ‘ انتظار کرنا پڑا۔ قیامت تنویر کے قریب آ کر رکی۔ دونوں نے کسی بات پر‘ قہقہ لگایا ۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا‘ وہ میری نیک اور صالح بیوی‘ ریحانہ۔۔۔۔۔ ہاں ریحانہ کوثر تھی۔ میں جلدی سے‘ پچھلے دروازے سے نکال۔ ٹیکسی سے گھر کا رخ کیا۔ میں‘ اس کی پرہیز گاری‘ اس کے منہ پر مارنا چاہتا تھا۔ گھر آیا‘ دروازے پر
تاال نہ تھا۔ میں جلدی سے‘ گھر میں داخل ہو گیا۔ وہ پلنگ پر لیٹی‘ بڑے سکون سے‘ جاسوسی ڈائجسٹ کا مطالعہ کر رہی تھی۔ مجھے پریشان اور بیمار سا دیکھ کر‘ اس نے رسالہ پرے پھینکا‘ اور گھبرائی گھبرائی‘ میری طرف بڑھی۔ سب ٹھیک تو ہے‘ آپ بیمار لگتے ہیں۔ میرے ماتھے پر‘ بڑے پیار سے ہاتھ رکھ کر؛ کہنے لگی۔ آپ کا ماتھا تو آگ کی طرح جل رہا ہے۔ پھر اس نے باہر جانے والی چادر اوڑھی اور کہنے لگی اٹھیں اٹھیں ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔ میں نے کہا :گھبراؤ نہیں‘ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ کیوں نہ گھبراؤں‘ تمہارے سوا‘ میرا دنیا میں کون ہے۔ تمہیں کچھ ہوگیا‘ تو میں مر جاؤں گی۔“ پھر وہ‘ زار و قطار رونے لگی۔ مجھے اس کی ایکٹنگ میں‘ کمال کی اصلیت دکھائی دی۔ ہمامالنی کو‘ اپنی اداکاری پر ناز ہوگا‘ لیکن ریحانہ ایکٹنگ میں‘ اسے بہت پیچھے چھوڑ گئی تھی۔ میں خود اس شش وپنج میں پڑ گیا‘ کہ وہ ریحانہ تھی یا کوئی اور تھی۔ یوں لگ رہا تھا‘ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ ہاں‘ اگر وہ پکڑی جاتی‘ تو تنویر کے‘ کھیسے جاتا مال‘ بند ہو جاتا۔ رانا صاحب بڑے بااختیار عہدے دار تھے۔ ناصرف مال‘ میری جیب کی زینت بنتا‘ بلکہ میری ترقی‘ جو دو سال سے رکی پڑی تھی‘ میری ذہنی الجھن کا سبب نہ بنی رہتی۔ مجھے یہ اطمنان تھا‘ کہ رانا صاحب سے‘ نکاح نہ
کر سکے گے‘ دوسرا‘ ایک نہ ایک روز‘ رنگے ہاتھوں پکڑی جائے گی اور پھر ہیڈ آفس میرا ہو گا۔ میں پہلے سے‘ کہیں بڑھ کر‘ آسودہ اور عیش کی زندگی بسر کر سکوں گا۔ زندگی میں ترقی کے لیے‘ زینہ درکار ہوتا ہے۔ ریحانہ سی‘ چنچل‘ حسین اور الجواب اداکار بیوی سے‘ بڑھ کر‘ زینہ ڈھونڈھے سے‘ نہ مل سکے گا۔ پردہ اٹھنے پر ہی‘ اس زینے کا‘ استعمال ممکن ہو سکے گا۔ ہاں شائد‘ اس کے لیے‘ تھوڑا اور انتظار کے جہنم میں‘ جلنا پڑے گا۔
شیدا حرام دا
اگرچہ‘ منہ پر اور منہ سے‘ کوئی کچھ نہیں کہتا‘ لیکن دیکھنی‘ سب کچھ کہہ دیتی ہے۔ بہت سی باتیں‘ لفظوں کی محتاج نہیں ہوتیں‘ سمجھی سمجھائی ہوتیں ہیں یا پھر‘ دیکھنے کے طور‘ ان کے مفاہیم کھول دیتے ہیں۔ لوگوں کے منفی رویے اور ترچھی نظریں‘ مجھے اپنی حیثیت اور حقیقی اوقات سے‘ آگاہ کر دیتی ہیں۔ اب میں باحیثیت اور شرفا کی بستی میں‘ اقامت
رکھتا ہوں۔ میں سیٹھ ناسہی‘ کنگال اور مفلوک الحال بھی نہیں۔ زندگی کی ہر ضرورت‘ مجھے دستیاب ہے۔ سالم دعا میں‘ ہر طبقہ کے لوگ شامل ہیں۔ دو نمبری لوگ‘ کبھی بھی میرے دوست نہیں رہے۔ ناخوش گوار لوگ‘ شروع سے‘ مجھے پسند نہیں آتے۔ وہ بھی‘ مجھے پسند نہیں کرتے۔ ہر دو نمبری کو‘ شریف طبع اچھے نہیں لگتے۔ یہ ایک طرح سے‘ ضدین کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک جگہ رہتے ہوئے بھی‘ معاشی اور فکری حوالہ سے‘ ایک دوسرے سے‘ کوسوں دور ہوتے ہیں۔ میں نے پنج وقتوں کو‘ جھوٹ بولتے‘ رشوت لیتے‘ اور کمزوروں کا حق دباتے دیکھا ہے۔ وہ یہ سب دھڑلے سے کرتے ہیں۔ حج کے بعد تو‘ بہت سے‘ سمجھ لیتے ہیں‘ کہ پچھال کیا‘ معاف ہو چکا ہے اور اس کے بعد‘ دو نمبری کے لیے‘ انہیں کھلی چھٹی مل گئی ہے۔ پوچھنے والوں کا‘ وہ گھی شکر سے‘ منہ بند کر چکے ہوتے ہیں یا بہ وقت ضرورت‘ بھر دیتے ہیں۔ عوام سے‘ ووٹ حاصل کرنے والے‘ خود کو‘ باالئی مخلوق خیال کرنے لگتے ہیں۔ وزارت امارت کی کرسی‘ انہیں ناکرنے والے کام‘ کرنے کی اجازت دے دیتی ہے۔ وہ کسی قانؤن‘ ضابطے اور اصول کے پابند نہیں رہتے۔ عوام نمائندوں کو‘ اہل رائے سمجھ کر‘ ووٹ دیتے ہیں۔ وہ یہ سمجھ لیتے ہیں‘ کہ یہ جو کریں گے‘ اچھا ہی کریں گے۔ ان کا کیا‘ عوامی فالح و بہبود کے لیے ہی ہو گا۔ جب اخبار اور ریڈیو‘ ان کے کیے کی‘ خبر
پاتے ہیں تو ان پر دکھ کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ آخر‘ میڈیا والوں کو‘ خبر کیسے ہوئی اور انہیں‘ رپوٹنگ کی جرآت ہی کیوں ہوئی۔ وہ سمجھتے ہیں میڈیا صرف نغمے سنانے اور ان کی کارگزاری کی تشریح اور تعریف و توسیف کے لیے ہے۔ اخبار اور ریڈیو‘ کوئی بہت بڑی ہی خبر سناتے ہیں۔ یہ بھی کہ‘ اخبار اور ریڈیو‘ اصل حقیقت کو بھی پیش نہیں کرتے۔ حال ہی میں‘ پاک بھارت جنگ ختم ہوئی ہے۔ جنگ کے دوران‘ ریڈیو اور اخبار بڑی حوصلہ افزا خبریں سناتے تھے۔ جنگ کے خاتمے پر معلوم ہوا ہے‘ کہ آدھا ملک ہی‘ ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ رگڑا کیا دینا تھا‘ رگڑا لگ گیا ہے۔ روزہ‘ تزکیہءنفس کے لیے‘ اعلی ترین ذریعہ ہے۔ اس سے‘ بھوک کی تلخی کا اندازہ ہوتا ہے۔ رک جانا ہی‘ روزے کا پہال اور آخری مقصد ہوتا ہے۔ رکنا کیا‘ یہاں تو خرابی میں اور تیزی آ جاتی ہے۔ روزے دار کہتا ہے‘ میرے منہ میں روزہ ہے‘ جھوٹ کیوں بولوں گا۔ حاالں کہ وہ جھوٹ بول رہا ہوتا ہے۔ پہلے کم تولتا تھا‘ روزہ رکھ کر‘ کم تولنے کے ساتھ ساتھ‘ مالوٹ کو بھی شعار بناتا ہے۔ ان پڑھ لوگوں کو تو چھوڑیے‘ جو لوگ‘ علم حاصل کرتے ہیں‘ وہ تو‘ ان پڑھ لوگوں کو بھی‘ پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔ پڑھائی‘ روشنی کا نام ہے۔ یہ کیسی روشنی ہے‘ جو تاریکیوں کی نمائندہ ہے۔ آج پڑھا لکھا‘ شاطر بن گیا ہے۔ دفتر میں ہے‘ تو
رشوت لیتا ہے۔ دفتر کے باہر ہے‘ تو تقسیم کے دروازے کھولتا ہے۔ کتابیں اور استاد‘ تو دو نمبری نہیں سکھاتے۔ علم‘ سچائی کی طرف لے جاتا ہے۔ آج کا سچ تو یہ ہے‘ کہ عدل و انصاف کو‘ رشوت کی نوک پر رکھو‘ اور خوب کما کر جیبیں بھاری کرو۔ درحقیقت‘ علم کرسی کے حصول کے لیے حاصل کیا جاتا ہے۔ کرسی کا ملنا‘ رزق میں فراخی کا سبب بنتا ہے۔ جس پیٹ میں‘ رزق حرام چال گیا‘ وہ حالل دا کس طرح رہا۔ حرام لقموں سے بننے واال خون‘ سر سے پاؤں تک‘ گردش کرتا ہے۔ جس جسم میں؛ حرام خون دوڑ رہا ہوتا ہے‘ اس پیٹ والے کے‘ جسم کے جملہ کل‘ کس طرح درست اور فطری اصولوں پر‘ استوار ہو سکتے ہیں۔ حرام کھانے والے‘ شرعی واجبات کے ذریعے‘ خود کو حالل دا ثابت کرنے کی‘ کوشش کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے‘ کہ وہ حالل دے ہو جاتے ہیں؟ اگر نہیں‘ تو انہیں اور ان کی اوالدوں کو‘ حرام دا کیوں نہیں کہا جاتا یا ترچھی اور معنی خیز‘ نظروں سے کیوں نہیں دیکھا جاتا۔ میں‘ پانچ وقت‘ باجماعت نماز ادا کرنے کی دل و جان سے‘ کوشش کرتا ہوں۔ ہر سال‘ باقاعدگی سے روزے رکھتا ہوں۔ پچھلے سال‘ حج بھی کرکے آیا ہوں۔ هللا مجھے‘ میری ضرورت سے‘ کہیں بڑھ کر عطا کر دیتا ہے۔ اس لیے‘ میں رزق حرام پر لعنت بھیجتا ہوں۔ میں اپنی بیوی‘ جو اسی عالقے کی ہے‘ کے سوا‘ ہر عورت کو‘ اپنی ماں بہن سمجھتا ہوں۔
میں اپنا محلہ چھوڑ کر‘ دور دراز عالقے میں‘ آ بسا ہوں۔ یہاں مجھے کوئی نہیں جانتا تھا۔ ابتدا میں‘ صرف اطراف کے‘ ہم سائے ہی‘ میرے نام اور کام سے آگاہ تھے۔۔ اب تقریبا پورا محلہ مجھے جانتا ہے۔ ایک سال پہلے‘ مجھے اچانک‘ مسجد میں‘ اپنے عالقہ کے‘ ملک صاحب مل گیے۔ ان کے‘ یہاں دور کے رشتہ دار رہتے تھے۔ وہ انہیں‘ کسی کام کے سلسلے میں ملنے آئے تھے۔ میں بڑے تپاک سے‘ انہیں گلے ملنے کے لیے‘ آگے بڑھا۔ پہلے تو‘ انہوں نے مجھے بڑے غور سے دیکھا۔ گلے ملنے کی بجائے بولے اوے توں جیناں یابھ دا پتر‘ شیدا حرام دا ایں۔ مسجد میں دو چار نمازی رہ گیے تھے۔ یہ جملہ کسی ایک کا سن لینا‘ عزت کو خاک کرنے کے لیے‘ کافی تھا۔ میں جواب دیے بغیر‘ مسجد سے نکل کر گھر آ گیا اور سوچنے لگا۔ محلہ میں‘ ایک حاجی صاحب بھی رہتے ہیں۔ ضلعی دفتر میں مالزم ہیں۔ سب ان کی عزت کرتے ہیں۔ پنج وقتے نمازی ہیں۔ پچھلے سال‘ حج کرکے آئے ہیں۔ یہ حج‘ انہوں نے رشوت کی کمائی سے کیا ۔ رشوت کی کمائی سے‘ انہوں نے ٹھیک ٹھاک جائداد بنا لی ہے۔ پچاس سے‘ تجاوز کر جانے کے باوجود‘ عورتوں کے بڑے شوقین ہیں۔ ان کا بس چلے تو‘ روزن نشاط میں ہی‘ بسیرا کر لیں۔ انہیں کوئی حرام دا نہیں کہتا‘ حاالں کہ ان کا کوئی کام حاللی نہیں۔
میں حرام دا ہوں‘ یا زناکار حرام دے ہیں۔ میں خود تو‘ تخلیق نہیں پا گیا۔ طریقہء تخلیق تو مشترک ہے‘ لیکن اس میں مذہبی اور سماجی ضوابطہ سے انحراف موجود تھا۔ سماجی اور مذہبی انحراف‘ مجھ سے تو سرزد نہیں ہوا تھا۔ انحراف کرنے والے‘ سماج میں بہ طور حالل دے دندناتے پھرتے ہیں اور انہیں کوئی حرام دا نہیں کہتا۔ جس کا انحراف سے‘ تعلق واسطہ ہی نہیں‘ آج اٹھائیس برس بعد بھی‘ اپنی اور لوگوں کی نظر میں حرام دا ہے۔ عجیب روایت ہے‘ رشوت خوروں کو کوئی حرام دا نہیں کہتا۔ جھوٹی گواہی دینے والے‘ ہر قسم کی دو نمری کرنے والے‘ حالل دے ہیں اور میں‘ حرام دا ہوں‘ جو دینی واجبات‘ خلوص نیتی سے ادا کرتا ہوں۔ دو نمبری سے‘ دور بھاگتا ہوں ان حقائق کے بعد‘ ایک عرصہ گزر جانے بعد بھی‘ میں حرام دا ہوں۔ کوئی تو بتالئے‘ کہ حرام دا کون ہے‘ میں یا سماجی دو نمبر معززین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ 7-4-1973
جنگ دور جدید کے مفکرین کا موقف ہے کہ جنگ امن کے لیے ناگزیر ہے۔ جنگ کی ہولناکی کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جو جنگ کےسرخ شعلوں میں رہ چکا ہو یا ان میں زندگی کر رہا ہو۔ تجربہ گاہ میں یا کسی بند کمرے میں بیٹھ کر بیان داغنا زیادہ مشکل نہیں ہوتا۔ اس کا تجربہ اور تجزیہ کہیں بھیانک اور دشوار گزار ہوتا ہے۔ میں ارباب فکرونظر کی اس سوچ پر انگشت بدنداں ہوں کہ آخر وہ تصویر کا شرم ناک رخ کیوں نہیں دیکھتے یا سسکیاں آہیں کراہیں انہیں سنائ نہیں دیتں۔ چشم زمانہ جنگ کی ہولناکیاں متعدد بار دیکھ چکی ہے۔ مورخ کے حرف ترانے سناتے ہیں۔ فاتح کے کارناموں کے گن گاتے ہیں۔ سرخ لہو کی بےحرمتی بےمعنی‘ سنگدلی اور ہولناکی ثانوی سی چیز ہو کر رہ جاتی ہے۔ گویا وہ سب ایک الیعنی سا کھیل رہا ہو۔ سب کچھ دیکھ کر بھی امن کے لیے جنگ کو ناگزیر قرار دے دینا بذات خود ظلم اور زیادتی کے مترادف ہے۔ ہیروشیما کے بےگناہ انسانوں کی سسکیای اور کراہیں آج بھی انسانیت کے منہ پر طماچے کا درجہ رکھتی ہیں۔ مخلوق فلکی کی آنکھیں آج بھی پرنم ہوں گی۔ اس کے برعکس امن کے حامی امن کے لیے جنگ کو ناگزیر قرار دیتے ہیں۔ یہ اندھیر
نہیں تو اور کیا ہے۔ جنگ میں فاتح ہو یا مفتوح‘ دونوں کی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ فتح کا نشہ وقتی ہوتا ہے۔ برطانیہ فاتح جنگ عظیم دوم کی علمداری کا دنیا میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ آج وہاں سورج بمشکل طلوع ہوتا ہے۔ جنگ میں زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہوتا ہے۔ خصوصا معاشی ڈھانچہ تو مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے۔بےگاری وبےروزگاری زندگی کی رگوں میں اتر جاتی ہے۔ خوش باشی اور خوش مزاجی نام کو بھی باقی نہیں رہتی۔ ذہن جامد اور روح مردہ ہو جاتی ہے۔ جستجو اور کچھ کر لینے کی آرزو پستیوں میں دب کر رہ جاتی ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ میں یہ سب کچھ کیسے جانتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ تو جناب میں جنگ کے سرخ شعلوں میں رہ چکا ہوں۔ مجھے اپنی روح کی آہیں اور سسکیاں سونے نہیں دیتیں۔ میرا چہرا اور رنگ و روپ ہمیشہ سے ایسا نہیں۔ کافی پرانی بات ہےاس وقت میری رگوں میں جوان اور گرم خون گردش کرتا تھا۔ زیست کی راہداری میں امنگوں کے خوش رنگ پھول مجھے خوش آمدید کہا کرتے تھے۔ شعور جوان تھا۔ دل کی دھڑکنیں پر شباب تھیں۔ میرے گردوپیش امیدوں کا اک ہجوم تھا۔ تھکن اور بےزاری کا دور تک نام ونشان بھی نہ تھا۔میرے قلم میں طاقت تھی۔ دوسرا مجھے چھپنے چھپانے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ رساءل میں میرے افسانے اور مضامین بڑے اہتمام سے شاءع ہوا
کرتے تھے۔ قارءین میری بھرپور حوصلہ افزائ کیا کرتے تھے۔ ڈاک میں سیکڑوں خطوط موصول ہوتے۔ میرے فن کی تعریف ہوتی۔ مجھے خودستائ مطوب نہیں۔ میں تعریف و تحسین کی ابجد سے خوب خوب آگاہ ہوں۔ تعریف سننے والے کان اور تحسین کے جملے پڑھنے والی آنکھیں خودفریبی کے زنداں میں مقید ہوتی ہیں۔ جب سراب کھلتا ہے سب کچھ راکھ ہوچکا ہوتا ہے۔ اب کوئ تعریف یا تنقید میرے حواس پر اثر نہیں چھوڑتی۔ بےحس سا ہو گیا ہوں۔ سب کچھ جنگ کے شعلوں کی نذر ہو چکا ہے۔ اب تو راکھ بھی باقی نہیں رہی۔ بادی النظر میں میں خوش مزاج ہوں لیکن یہ سب بناوٹ سے زیادہ نہیں۔ میرے پاس بےلطف اور پھیکی مسکرہٹ بھی باقی نہیں رہی۔ یہ مشینی دور ہے اور میں اس دور کا باسی بھی نہیں۔ میرا اس دور سے رشتہ ہی کیا ہے ہاں تو عرض کر رہا تھا میرے قلم کا سکہ جم چکا تھا۔ مجھ سے خطوط لکھواءے جاتے۔ تقریبوں کے لیے تقاریرکی فرماءش کی جاتی تھی۔ میں نے کبھی کسی کو نراش نہ کیا۔ اس عہد میں اپنے اصلی نام سے لکھا کرتا تھا۔ اب سب کچھ نقلی ہو گیا ہے‘ اس لیے نقلی نام سے لکھتا ہوں۔ سب کچھ جنگ کے شعلوں کی نذر ہو چکا ہے۔ نام بدلنے سے درد میں
کمی واقع نہیں ہوئ۔ جلن بدستور باقی ہے۔۔۔۔۔ یادیں جب بھی سر اٹھاتی ہیں سسک بلک جاتا ہوں۔ دیر تک آنکھیں شبنمی رہتی ہیں۔۔۔۔۔۔ اس کے سوا کر بھی کیا سکتا ہوں۔ میرے پاس کرنے کو رہ ہی کیا گیا ہے‘ جو کروں۔ جانے کیوں اب بھی ماضی کی شکستہ سڑک پر برہنہ پا مسلسل اور متواتر دوڑے چال جا رہا ہوں۔ آتش نمرود برسوں پہلے بھڑکی تھی مگر اس کے اثرات اب بھی باقی ہیں۔ لوگ مجھے پاگل سمجھتے ہیں۔ نشانہءتضحیک بناتے ہیں۔ هللا جانے کیا کچھ کہتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے یہ آنکھیں پتھر ہو چکی ہیں۔ میرے چہرے کی انقالبی جھریوں کی زبان وہ نہیں پڑھ سکتے۔ انھیں پڑھنے کے لیے درد کے تنور میں جلنا پڑتا ہے۔ اس مشینی دور میں ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیشہ سے‘ سب کچھ غرض کے ساتھ وابستہ رہا ہے۔ جہاں کچھ نظر آتا ہے لوگ اسی سمت دوڑنے لگتے ہیں۔ لفظوں کو کسی نے کیا کرنا ہوتا ہے۔ لفظ پیٹ نہیں بھرتے‘ تن نہیں ڈھانپتے۔ میں مفلس تھا‘ مفلس ہوں۔ اب میرے پاس لفظ رہے ہیں اور ناہی احساسات۔۔۔۔۔۔ میں تو چلتی پھرتی جیتی جاگتی الش ہوں۔۔۔۔۔۔زندہ الش۔۔۔۔۔ الش سے کسی کو کیا البھ ہو سکتا ہے۔ اب کسی کو میرے پاس آنے کی کیا
ضرورت ہے۔ میں بھی کیسا سنار ہوں جس کے پاس کوئ نیارا آنے کی حماقت نہیں کرتا۔ میں ریگ دریا بھی نہیں جو طال دستیاب نہ ہو سکے گا۔ شاید وہ ہفتہ کی شام تھی۔ میں ڈاک نکال رہا تھا۔ چوتھے خط پر میری نظر پڑی۔ نیلے رنگ کا لفافہ تھا۔ پشت پر مرقوم تھا۔۔۔۔۔ God is lov love is God میں نے اصول توڑتے ہوءے سب سے پہلے وہی خط پڑھنا شروع کر دیا۔ یہ خط پرانی انار کلی سے مس جیولی نے تحریر :کیا تھا۔ خط میں مرقوم تھا ڈیر! سوچ رہی ہوں کیا لکھوں اور کیا نالکھوں۔ خط کا آغاز کس طرح سے کروں۔ اتنا پیارا لکھنے والے کی انگلیوں کو چوم لینے کو دل مچل رہا ہے۔ محسوس نہ کرنا کہ پہلی ہی تحریر میں فرینک ہو گئ ہو۔ میں پیار اور خلوص کے معاملہ میں کسی لگی لیپٹی کی قاءل نہیں۔ اسے ہر طرح سے کھرا اور سچا ہونا چاہیے۔ یہ خلوص کی سچائ ہی مجھے لکھنے پر مجبور کر رہی ہے۔ جس چاہت سے لکھ رہی ہوں اسی خلوص سے جواب دینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط جیولی
جیولی کا خط چار صفحات پر مشتمل تھا۔ ہر لفظ سے خلوص ٹپک رہا تھا۔ میں نے اس خط کو تین سے زیادہ مرتبہ پڑھا۔ ہر بار نیا لطف میسر آیا۔ میں نے خط کا جواب اسی خلوص سے دیا۔ یہ کسی پہلی خاتون کا خط نہ تھا لیکن یہ خط منفرد اور اپنی نوعیت کا ضرور تھا۔ پہل جیولی نے کی تھی لیکن گھاءل میں ہوا۔ سوچ کے بطن سے سنہرے سپنوں نے جنم لیا۔ سپنے خوابوں پر بھی اثر انداز ہوءے۔ مجھے تسلیم ہے کہ یہ سب غلط تھا لیکن یہ سب مجھ سے ہوا۔ میں دل کے ہاتوں ایک کھلونے سے زیادہ نہ رہا تھا۔ دل سمجھانے کے باوجود نہ سمجھا۔ جیولی میرے حواس پر گرفت کر گئ تھی۔ وہ کیسی تھی میں نہیں جانتا مگر جو تصور باندھا تھا اس میں وہ رادھا ہیرا اور قلوپطرہ سے کسی طرح کم نہ تھی۔ کئ بار ذہن میں سوال ابھرا کہ وہ بدصورت اور بدکردار بھی ہو سکتی ہے لیکن دل نے ہر خدشے۔۔۔۔۔ ہر خیال کی نفی کر دی اور میں تصور کے براق پر سوار عشق کے عرش کی جانب محو پرواز رہا۔ بغیر دیکھے سنے کسی کا ہو رہنا بالشبہ حماقت تھی۔۔۔۔۔۔حیران کن حقیقت یہ ہے کہ یہ سب ہوا۔ دو برس خط وکتابت کا سلسلہ چلتا رہا۔ نہ اس نے مجھے بالیا
اور ناہی میں نے کبھی ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ پہلے ڈاکیہ ڈاک دے کر جاتا تھا اب میں خود ہی صبح سویرےڈاک لینے چال جاتا۔ جس دن ڈاک میں جیولی کا خط ہوتا میری روح خوشی کے نشے سے سرشار ہو جاتی۔ جیولی کی اسیری نے میرے قلم پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے۔ جب بھی کچھ لکھنے بیٹھتا یوں لگتا جیسے جیولی کو خط لکھ رہا ہوں۔ افسانہ خؤبصورت لفظوں کے ساتھ نئ انوکھی کہانی کی بھی ڈیمانڈ کرتا ہے۔ مرے افسانوں میں یہ عنصر تقریبا مفقود ہو گیا تھا۔اس بدالؤ کو ہر کسی نے محسوس کیا۔ قارءین میں وہ پہلے سی گرم جوشی نہ رہی تھی۔ ایک پرچے کے ایڈٹر نے یہاں تک کہہ دیا کہ میرے نام سے کوئ اور لکھ رہا ہے۔ اب میں ایک ناکام لکھاری تھا۔ کئ بار میں نے انداز بدلنے اور پہلی ڈگر پر آنے کی کوشش کی مگر کہاں‘ اب لوٹنا امکان میں نہ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔ ایک رستے پر آدمی جب چل نکلتا ہے تو پیچھے مڑنا آسان نہیں رہتا۔ جیولی کو چھوڑ دینا میرے ممکن ہی نہ رہا تھا۔ میں بہت آگے نکل آیا تھا۔ !آہ دس اکتوبر کا وہ منحوس لمحہ تھا جب میں نے جیولی کا آخری خط پڑھا جسے پڑھ کر میرا سارا نشہ ھرن ہو گیا۔ ابتدا اس کی جانب سے ہوئ تھی انتہا بھی اس کی
جانب سے ہوئ۔ گھاءل میں ہوا۔ وہ چاندی دیس چلی گئ۔ میرے پاس کچھ بھی نہ رہا تھا۔ زخمی انگلیاں اور رفتہ سے جڑے کاغذ کے چند پرزے۔ اب میری کل یہی بساط تھی۔ میں نے کبھی دولت دیکھی نہیں‘ ہاں اس کا نام ضرور سنا سا ہے۔ یہ سب آخر کیا تھا‘ میں اب تک اس گتھی کو سلجھا نہیں پایا۔ ان دیکھا سہی‘ یہ کچہ تھا ضرور۔ میں نے ایک خواب کوسچ سمجھ کر وفا شعار نادرہ کو طالق دے دی۔ ننھی سی جان روبی کو مایوسیوں کے جنگل میں اکیال چھوڑ دیا۔ کون کہتا ہے فرعون مر گیا ہے۔ مجھ سے الکھوں فرعون خودغرضی کے اترن میں معاشرے کے ہر موڑ پر ملیں گے۔ ان میں سے ہر کوئ ظلم کرکے‘ مظلوم شکل بنا کر سامنے آءے گا۔ الیعنیت کا تعاقب کرنے والوں کا یہی حشر ہوا کرتا ہے۔ میں اپنے کیے پر پشمان ہوں مگر کیا فاءدہ‘ چڑیاں کھیت چگ کر جا چکی ہیں۔ عشق کی جنگ ہو تو دل لہو لہو ہوتا ہے۔ دماغ کی جنگ تو اعصاب ٹوٹ جاتے ہیں۔ توپ ٹینک کی جنگ ہو تو انسانی زندگی لقمہ بنتی ہے۔ نظریاتی جنگ ہو تو بدامنی اور بے پھیلتی ہے۔ مذہب کی جنگ تفسیم کے دروازے کھولتی ہے۔ بیگم سے جنگ ہو تو چولہا خود گرم کرنا پڑتا ہے۔ غرض جنگ کوئ بھی ہو وہ مثبت نتاءج کی حامل نہیں ہو سکتی۔ اس کا انجام ہولناک ہوتا ہے اور اس کے اثرات دیرپا ہوتے ہیں۔
مارچ 3 0721
دو لقمے تعفن میں اٹی ‘اندھیاروں میں لیپٹی وہ بستی جہاں چھیتڑوں میں ملفوف زندہ الشوں کے دل کی دھڑکنیں دیوار پر آویزاں کالک کی ٹک ٹک کی آوازیں تھیں۔ ‘بھوک کی اہیں بےبسی کی سسکیوں میں مدغم ہو رہی تھیں۔ آس کا سایہ آس پاس نہ تھا۔ تھا کچھ تو قاتل خاموشی تھی۔ بھوک کا ناگ پھن پھیالءے بیٹھا تھا۔ مایوسیوں کی اس بستی سے رحم کا دیوتا شاید خفا تھا یا پھر وہ بھی تہی دست تہی دامن ہو گیا تھا۔ اک مسکراہٹ کے طلبگار یہ الشے بے حس نہیں‘ بے بس تھے۔
پھر اک الشہ بھوک ناگ جس کے قریب تر تھا۔۔۔۔۔۔ تڑپا اور رینگ کر روشنی کی شہراہ پر آ گیا۔ اس حرکت میں اس نے اپنی ساری توانائ صرف کر دی۔ ہر سو اجالے تھے لیکن وہ بھوک کے سیاہ کفن میں ملبوس تھا۔۔۔۔۔۔۔۔پھر بھی۔۔۔۔۔۔۔ ہاں پھر‘ بھی وہ زندہ تھا اور اجالوں کی شہراہ پر پڑا ہانپ رہا تھا۔ سانسیں بےترتیب تھیں۔ خوش پوش راہی شاید اسے دیکھ نہیں رہے تھے۔ جو دیکھ رہے تھے ناک پر رومال رکھ کر گزر رہے تھے۔ وہ سب اس کے ہم جنس تھے۔ کتنی آس لے کر وہ یہاں تک آیا تھا۔ ان دیکھتے کرب لمحوں کو کون جان پاتا۔ وہ اس بستی کا نہ تھا۔ بھوک ناگ بوال :کہاں تک بھاگو گے‘ تمہیں میرا لقمہ بننا ہی ہو گا کہ خود میں بھوکا ہوں۔ پھر وہ تھوڑا آگے بڑھا۔ الشہ چالیا :نہیں۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔ رکو۔۔۔۔۔ٹھہرو۔۔۔۔۔۔ روٹی ضرور آءے گی۔ سب بےکار۔۔۔۔۔روٹی کوئ نہیں دے گا۔۔۔۔۔۔ یہ پیٹ بھر کر بھی آنکھوں میں بھوک لیے پھرتے ہیں۔ ان میں سے کون دے گا روٹی۔ ان کے ہشاش بشاش چہروں پر نہ جاؤ۔ ان کے من کی بھوک کو دیکھو اور میرے صبر کا امتحان نہ لو۔ :الشہ سٹپٹایا اور چالیا
!اجالوں کے باسیو !علم و فن کے دعوےدارو !سیاست میں شرافت کے مدعیو !جمہوریت کے علم بردارو !اسلحہ خرید کرنے والو !فالحی اداروں کے نمبردارو ‘عالمی وڈیرو ‘کہاں ہو تم سب تمہارے وعدے اور دعوے کیا ہوءے؟ اپنی بھوک سے دو لقمے میرے لیے بچا لو۔ بھوک ناگ میرے قریب آ گیا ہے۔ دیکھو غور کرو‘ میں تمہارا ہم جنس ہوں ‘۔ دو لقمے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں فقط دو لقمے میری زندگی کے ضامن ہیں۔ ایف سولہ ہاءیڈروجن بم مجھے نہیں چاہیے۔ میری ضرورت روٹی کے دو لقمے ہیں۔ اس دور کی یہ تمہاری بہت بڑی جیت ہو گی جو تاریخ میں
تمہیں امر کر دے گی۔
فقیر بابا
چوک میں بیٹھے فقیر بابا سے متعلق لوگوں کی مختلف آراء تھیں۔ کوئ اسے محض بھیکاری قرار دیتا تھا۔ کسی کا خیال تھا کہ اس کا ذہنی توازن درست نہیں۔ بیشتر کے خیال میں وہ پہنچا ہوا ولی هللا تھا۔ مزے کی بات یہ کہ وہ ہر راءے پر پورا اترتا تھا۔ اس لیے کوئ حتمی فیصلہ دیا جانا ممکن نہ تھا۔ اس نے آج تک اپنے متعلق کوئ کلمہ منہ سے نہ نکاال تھا۔ اس کے متعلق عالقہ میں عجیب پراسرایت پائ جاتی تھی۔ اگر کوئ اس سے کچھ پوچھتا تو یہ کہہ کر خاموش ہو “انسان تنہا ہو گیا ہے۔“ معاشرے کی بھیڑ میں زندگی کرنے والوں کو تنہا کیسے اور کیونکر قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایسی بات کرنے والے کو دماغی مریض ہی کہا جا سکتا ہے۔ ایک اچھا خاصا طبقہ اسے پاگل
سمجھتا تھا۔ بدقسمتی کی بات یہ کہ کبھی کسی نے اس کی پلکوں کی اوٹ میں جھانک کر حقیقت جاننے کی کوشش ہی نہ کی تھی اور ناہی اس کے منہ سے نکلے لفظوں کی گہرائ ماپنے کی زحمت ااٹھائ تھی۔ کل میں اور میرے کچھ دوست ایک پررونق ہوٹل میں بیٹھے چاءے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ہمارا موضوع کوئ خاص تو نہ تھا۔ وہی اہل زر اور اہل جاہ کی بےحسی اور کم ظرفی کے شکوے گلے کر رہے تھے۔ ہمارے قریب ہی کچھ اور لوگ چاءے سے لطف افروزی کے ساتھ ساتھ سیاست اور جمہوریت کے گیت االپ رہے تھے۔ لگتا تھا کہ کسی پرچی مانگت نے ان کے منہ میں زیرہ رکھ دیا تھا۔ اسی اثناء میں ایک نو دس سال کا بچہ چاءے لے کر آگیا۔ کپڑوں کی میل اور بوسیدگی کے عقب سے بھی ذہانت کی چمک جھانک رہی تھی۔ ہم اس ہوٹل سے کئ بار چاءے پی چکے تھے یہی بچہ چاءے سرو کرتا تھا۔ اس کی آنکھوں میں بےبسی ہر بار ہوتی تھی لیکن ہماری بیمار اور خودغرض آنکھوں نےکبھی اسے پڑھنے کی حماقت نہ کی تھی۔ ہم میں سے ہر کوئ اپنے زخموں کا رونا روتا لیکن اس کی بے بسی کا رونا رونے واال کوئ نہ تھا۔ اس روز چاءے کی پیالی میرے حلق سے بمشکل نیچے اتری۔
میرے ضمیر پر ہتھوڑے سے برسنے لگے۔میں نے سوچا الکھوں انسانوں کی قربانی دے کر یہ خطہ ارض حاصل کیا۔ ہمارے پرکھوں نے اپنی نسل کے لیے کیا کیا خواب دیکھے ہوں گے۔ یہ کیسی آزادی ہے کہ ہر چھوٹا بڑے کی ہاں میں ہاں مالءے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ ہر بڑا کسی عالمی وڈیرے کا جی حضوریہ ہے۔ ہونٹوں کی جنبش اپنی ہوتی ہے لیکن ان ہونٹوں پر تھرکنے والے الفاظ اس کے اپنے نہیں ہوتے۔ پھر میں نے سوچا میری بیوی میرے بچے کتنے اکیلے ہیں۔ میں ان کا‘ صرف ان کا ہو کر بھی ان کا نہیں۔ میں صبح شام ان کے لیے مشقت کرتا ہوں اور لباس و خوراک ہی کو زندگی سمجھتا ہوں لیکن ترجیحات میری اپنی ہوتی ہیں۔ میرے بچے میری بیوی مجھ سےاپناہیت کا وقتا فوقتا اظہار کرتے رہتے ہیں لیکن پس پشت میرے وقار اور میری محنت کا منہ چڑاتے ہیں۔ وہ اسی میں اپنی عافیت محسوس کرتے ہیں۔ میں ان میں زندگی کرتے ہوءے بھی تنہائ کا شکار ہوں۔ پچھلے الیکشنوں میں میرا نماءندہ میرے گھر آیا۔ کہنے لگا میں آپ کا بھائ ہوں۔ ہر آڑے وقت کام آؤں گا۔ مجھے ووٹ دے کر کامیاب کراءیں۔ میرے دروازے آپ پر ہمیشہ کھلے رہیں گے۔ میں نے ووٹ اسے دیا۔ وہ کامیاب بھی ہو گیا۔ میں اسے اس
کے گھر مبارک باد کہنے گیا۔ اس کےگھر کی دیواریں بلند ہو چکی تھیں۔ وہ میرے دیس کا باسی ہی نہ رہا تھا۔ اس کا مکان اسی بستی میں تھا وہ محلہ دار ہوتے ہوءے محلہ دار نہ تھا۔ میرا بھائ یہ کہتے نہ تھکتا تھا کہ تم میرے جسم کا حصہ ہو۔ میں تمہارے بغیر ادھورہ ہوں۔ اس کے لفظوں میں شہد سے بڑھ کر مٹھاس تھی لیکن باپ کی جاءداد سے حصہ دیتے وقت سب رشتے بھول گیا۔ وہ مجھے اب بھی ملتا ہے۔ اپنی محبت کا احساس دالتا ہے لیکن میری بھوک پیاس اور ضرورت سے اس کا کوئ لینا دینا نہیں۔ ماں نے مرتے وقت شمو کا ہاتھ میرے ہاتھ دیا اور تاکید کی کہ اسے کسی محرومی کا احساس نہ ہونے دوں۔ میں نے پندرہ سال ماں کے لفظوں کا پورے خلوص اور دیانت داری سے بھرم رکھا۔ اس کی ہر ضرورت اور ہر خوشی پر اپنا لہو نچھاور کیا۔ وہی شمو جو میری ماں جائ بھی تھی‘ سب کچھ بھول کر اپنے ایک کالس فیلو کے ساتھ مجھے چھوڑ کر چلی گئ۔ لوگ اپنے بچوں پر اپنی جوانی نچھاور کر دیتے ہیں۔ ان کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھتے ہیں۔ ان کے دکھ تکیف میں
کھانا پینا اور سونا بھول جاتے ہیں۔ شادی کے بعد وہی بچے انہیں الیعنی بوجھ خیال کرتے ہیں۔ سب کے ہوتے اور سب کچھ اپنا ہوتے ہوءے‘ ان کے دامن میں تنہائ کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا۔ فقیر بابا کو میں بھی پاگل سمجھتا تھا۔ میں نے اس کے کہے کے مفاہیم دریافت کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ ہوٹل پر کام کرتے بچے کو دیکھ کر احساس ہوا ہے کہ فقیر بابا غلط نہیں کہتا۔ وہ پاگل نہیں‘ اس نے تو دنیا کی گل پا لی ہے۔ اسی لیے ہر پوچھنے والے کو دنیا کا حقیقی چہرا دیکھاتا ہے کہ انسان تنہا ہو گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔تنہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں یکسر تنہا۔ مئی 9 0726
کمال کہیں کا
نمرود کو‘ اپنی جاہ وحشمت پر ناز تھا۔ وہ سمجھتا تھا‘ کہ زندگی اسی کے دم قدم سے‘ رواں دواں ہے۔ اگر وہ نہ رہا‘ تو
چار سو بربادی پھیل جائے گی۔ اسے یہ بھی گمان تھا‘ کہ وہ ہر اونچ نیچ پر قادر ہے۔ وہ کچھ بھی‘ کر سکتا ہے۔ اس کے رستے میں آنے واال‘ ذلت ناکی سے دوچار ہو گا۔ وہ بالشبہ‘ شیطان کی بدترین لعنت تھا۔ میری تخلیق‘ اس سے پہلے وقوع میں آچکی تھی‘ لیکن میرا ظہور‘ نمرود کی سرکشی کے موقع پر ہوا۔ بڑا بنتا پھرتا تھا پھنے خاں۔ جب مجھ سے پنجہ آزما ہوا‘ تو کئی سو سال‘ چھتر کھاتا رہا اور آخر‘ ملک جہنم کی راہ لی۔ اس کا مال و منال‘ اسے چھتروں سے نہ بچا سکا۔ سکندر اعظم‘ دنیا فتح کرنے چال تھا۔ جب میری زد میں آیا‘ پانی مانگنا بھی نصیب میں نہ رہا۔ اس نے عالقے کے عالقے ملیا میٹ کر دیے‘ لیکن مجھے فتح نہ کر سکا۔ اب غیرجانب دار تجزیہ نگار مالحظہ کر لیں‘ حقیر میں ہوں یا مجھے کہنے یا سمجھنے والے‘ حقیر ہیں۔ زبانی کالمی اور عمل کی زندگی میں‘ زمین آسمان کا فرق ہے۔ آج میرے خالف جلسے ہو رہے ہیں‘ جلوس نکالے جا رہے ہیں۔ سرعام‘ مجھے برا بھال کہا جاتا ہے۔ عجب اندھیر ہے‘ مجھے برا کہا جا رہا۔ ۔۔۔۔۔ مجھے؟!۔۔۔۔۔۔۔۔ میں انسانیت کا محسن ہوں۔
انسان ناشکرا رہا ہے۔ جو احسان کرتا‘ اسی کا گال کاٹتا ہے۔ میں نے‘ انسان کو‘ ناصرف نمرود اور سکندر سے نجات دالئی‘ بلکہ خواتین کی بےلباسی کو‘ ختم کرنے کا فریضہ بھی انجام دیا ہے۔ یہ تو هللا کا خصوصی انعام اور احسان ہے‘ جو میرے خالف‘ سب کہنے سننے تک ہی محدود ہے۔ عملی صورت کی کوئی مثال دیکھائیے‘مان جاؤں گا۔ روال ڈالنے کی‘ اچھکل میں نے ہی دی ہے۔ میں نے‘ اس ذیل میں‘ کسی کو بھول میں نہیں رہنا چاہیے۔ اگر خود ساختہ یا درامدہ‘ سپرے چھٹرکا جاتا‘ تو بھی‘ مجھے کچھ نہ ہوتا۔ اگرچہ میں حقیر کیڑا ہوں‘ لیکن اب میری تجسیم‘ حقیر کیڑے کی نہیں رہی۔
حضرت انسان کی‘ عادت رہی ہے‘ کہ کسی دوسرے نظریے یا مذہب والے کو قبول نہیں کرتا۔ آواگون کو‘ صرف ہندو میتھ سمجھا جاتا ہے‘ حاالں کہ یہ ان کے ہاں‘ میتھ نہیں‘ عقیدہ ہے۔ آج میں نئے پران کے ساتھ‘ زندہ ہوں اور آتے وقتوں میں بھی‘ اپنی نئی تجسیم کے ساتھ‘ زندہ رہوں گا۔۔ دنیا کا احتجاج‘ میرا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے گا۔ وہ میرے نئے جنم کے‘ نئے رنگ روپ سے‘ آگاہ نہیں ہے۔ میں اپنے خالف‘ انسانی نفرت کا انتقام ہوں۔
آج‘ دنیا کا شاید ہی‘ کوئی ادارہ ہو گا‘ جہاں میرے‘ ہاں میرے ہونے کو‘ سوالیہ بنایا جا سکتا ہے۔ وائٹ گاہ ہو‘ یا ائی ایم ایف کدہ‘ میرے ہون سے محروم نہیں ہیں۔ یہ چھوٹے موٹے ادارے‘ کس پانی میں ہیں‘ یہ تو میرے جی حضوریے ہیں۔ یہ سب میری ایک چھینک پر۔۔۔۔۔۔ واہ۔۔۔۔۔۔ واہ‘ سبحان هللا‘ کہتے ہیں۔ جس نے بھی سر کشی کی‘ جوتوں کی ایڑ میں آ گیا۔ آج انسان اپنا کیا بھگت رہا۔ احسان فروشی کی سزا‘ ملنا فطری ضابطہ ہے۔ انتقام لینا‘ میرا اصولی حق ہے۔ آخر برداشت کی بھی‘ کوئی حد ہوتی ہے۔ انسان نے‘ چادر سے باہر پاؤں نکاال ہے‘ اپنے کیے کی بھگتے بھی۔۔۔۔۔ چادر سے نکلنے والے پاؤں‘ نمرود کے پاؤں پر ہوتے ہیں۔ ان سے‘ جو بھی ہوتا ہے‘ غلط ہی ہوتا ہے۔ میں ہر غلط ہونے پر‘ انگلی رکھتا آیا ہوں‘ رکھتا رہوں گا۔ ہاں البتہ‘ میں زیادہ تر‘ سانس کی نالی پر انگلی رکھتا ہوں۔ میں نے ساڑھے چار ہزار سال‘ انسان سے تعاون کیا ہے۔ انسان نے میری قدر نہیں پہچانی‘ اب ہر گیلے سوکھے کو‘ میرا انتقامیہ ادا کرنا ہی پڑے۔ مساوات کے اصول تحت‘ میں رو رعایت سے کام نہیں لے سکتا۔ کل کی‘ میرے خالف واک میں‘ کم زور اور ہر ایرا غیرا شامل تھا۔ اب اگر کوئی خیر کی آشا رکھتا ہے‘ تو اس سے بڑھ کر‘ حماقت اور کیا ہو گی۔
مجھے پاکستان کے‘ شہر قصور میں بیٹھے بےبابائی‘ بیمار‘ کم زور اور ڈھیٹ بڈھے‘ مقصود حسنی پر بڑا تاؤ آتا ہے۔ میرے ساتھ‘ اڑی لگائے بیٹھا ہے۔ گرہ میں دام نہیں‘ کالے کیڈر واال تھا۔ اپنے ایم فل االؤنس کے لیے‘ برابر انیس سو ستانوے سے‘ درخواستیں گزار گزار کر‘ میرا دماغ خراب کر رہا ہے۔ !پنجاب سرونٹس ہاؤسنگ فانڈیشن کیا میرا اٹوٹ انگ نہیں؟ کیا میرا انتقامیہ دیے بغیر کچھ حاحل کر لے گا۔۔۔۔۔ نہیں کبھی نہیں۔ کہتا ہے‘ گرہ میں دام نہیں۔ فوٹو کاپیوں اور رجسٹرڈ ڈاک کے لیے‘ کہاں سے پیسے آ جاتے ہیں۔ جتنا اس الیعنی کام پر خرچ کر چکا ہے‘ میرا انتقامیہ‘ اس سے کہیں کم بنتا تھا۔ احمق ہے سسرا۔۔۔۔احمق ۔ کل میرے خالف‘ واک کے لیے‘ لوگوں کو اکسا رہا تھا۔ خیر یہ تو اتنا بڑا جرم نہیں۔ وہ بکواسی اور پرے درجے کا یاووہ گو ہے۔۔۔۔۔۔ پتا ہے کیا کہہ تھا۔۔۔۔۔ کہتا تھا‘ لوگو عملی اقدام کا مطالبہ کرو۔ شرم نہیں آتی اس بڈھے کو۔ پاؤں قبر میں لٹکائے بیٹھا ہے‘ لیکن شرارت اور سازش کو شعار رکھتا ہے۔
اس کے کہنے سے‘ کیا ہوتا ہے‘ لوگ تو زبردستی الئے گیے تھے۔ اگر بات مرضی پر رہتی‘ تو سڑک اور پنڈال‘ ویرانے کا نقشہ پیش کرتے۔ میں نہیں چاہتا‘ کہ اس چند روزہ مہمان کا خون‘ اپنے سر لوں۔ جو بھی سہی‘ انتقامیہ وصول کیے بغیر‘ میں ایک کوڑی بھی نہیں دوں گا۔ کسی کو اگر اس پر ترس آتا‘ اس کی جگہ۔۔۔۔۔۔۔۔اب تک میرا انتقامیہ‘ میری گرہ میں‘ چپ چاپ رکھ دیتا۔ بےبابائی ہو کر‘ حق طلب کرتا ہے کمال کہیں کا۔ 11-4-2014
ابا جی کا ہم زاد
هللا جانے‘ آج ریحانہ کو کیا ہو گیا تھا‘ بات بات پر اور بالوجہ الجھ رہی تھی۔ جب بات کا پتہ ہو‘ تو سلجھاؤ کی سو صورتیں نکل آتی ہیں۔ میرے بار بار پوچھنے پر بھی۔۔۔۔ کچھ نہیں۔۔۔۔۔ کے سوا‘ کچھ کہہ نہیں رہی تھی۔ چہرا‘ کدو کی طرح پھوال ہوا تھا۔ میں اس کے‘ اس رویے کو‘ متواتر کئی گھنٹوں سے‘ برداشت کر رہا تھا۔ سارا دن‘ کولہو کے بیل کی طرح‘ کام کرو‘ گھرآتے‘
پانڈی کا فریضہ انجام دو۔ دن بھر کا‘ غلط سلط کیا‘ اپنی گردن پر لو‘ معذرت خواہانہ انداز اختیار کیے رکھو‘ یہ ہی نہیں‘ کھٹی کمائی تلی پر دھرنے کے باجود‘ بوتھا سیدھا نہ ہو‘ تو بڑی ذہنی اذیت ہوتی ہے۔ میں کسی بحث کے موڈ میں نہیں تھا۔ یہ بھی کہ ایک کہہ کر‘ سو سننے کی‘ اب مجھ میں تاب نہ رہی تھی۔ چخ چخ‘ ناصرف اعصابی تناؤ کا سبب بنتی ہے‘ بلکہ دو چار گھنٹے بھی چٹ کر جاتی ہے۔ اس کے بعد‘ موڈ سٹ ہونے میں بھی‘ وقت لگتا ہے۔ میں نے‘ کان لپیٹ کر‘ اپنے کمرے میں جا کر‘ لیٹ جانے میں عافیت اور سالمتی جانی۔ میں لیٹ تو گیا‘ لیکن تذبذب میں لپٹی سوچوں نے‘ آ لیا۔ عجب اتفاق تھا‘ کٹھی مٹھی سننے کے‘ کان متحمل نہیں رہے تھے۔ روح‘ معاملہ جاننے کے لیے اتاولی ہو رہی تھی۔ میری حالت‘ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن‘ کی سی تھی۔ کیا میں‘ بےعزتی کرانے کے موڈ میں تھا؟ یا ریحانہ کی الشعور میں چھپی محبت‘ مجھے بےچین و بے کل کر رہی تھی۔ میں تو یہ ہی سمجھ رہا تھا‘ کہ میاں بیوی کی محبت‘ دل اور دماغ سے نہیں‘ یہ منہ کی حدود و قیود میں‘ بسیرا رکھتی ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے‘ کہ نکاح نے‘ انہیں ایک دوسرے کے لیے‘ الزم و
ملزوم کر دیا ہے۔ ایک دوسرے سے‘ خیانت کرتے ہوئے بھی‘ باہمی تعلق میں‘ کسی ناکسی سطع پر‘ ایک دوسرے کی ضرورت موجود ہوتی ہے۔ اہل نکاح‘ بہرطور‘ ایک دوسرے کی کڑوی کسیلی سن کر بھی‘ ایک دوسرے سے‘ ذہنی سطح پر‘ جدا نہیں ہوتے۔ لگاؤ ناسہی‘ ان کے درمیان‘ الگ کا رشتہ اول تا آخر موجود رہتا ہے۔ اگر ہمارے درمیان‘ کوئی رشتہ موجود نہ ہوتا‘ تو میں سرہانے لگی چارپائی پر لیٹا‘ اس طرح بےچین و بےسکون نہ ہوتا۔ یہ معاملہ‘ صرف میری ذات تک محدود نہ تھا۔ ریحانہ بھی‘ سوجھے منہ واال چہرا‘ ہر پان سات منٹ بعد‘ کرا رہی تھی۔ کیسی بندہ ہے‘ منہ سے کچھ پھوٹتی نہیں‘ بس آنکھیں دیکھا کر‘ پاؤں پٹختی‘ واپس چلی جاتی ہے۔ یہ معاملہ‘ رو بہ رو رہنے سے‘ کہیں خوف ناک تھا۔ میں نے سوچا‘ فرار کے نتائج‘ سامنا کرنے سے کہیں زیادہ‘ ہول ناک ہوں گے۔ مجھے معاملے کا‘ سامنا کرنا چاہیے۔ خود ہی‘ کٹی کٹا نکل جائے گا۔ نکرے لگنے سے‘ بات بننے کے بجائے‘ بگڑے گی۔ میں چارپائی سے اٹھ کر‘‘ باہر آ گیا۔ ریحانہ کچن میں کام کر رہی تھی۔ آخر بات کا کس طرح آغاز کروں۔ اس کی ماں کی بیماری کا پوچھ لیتا ہوں‘ لیکن اس حوالہ سے‘ تو صبح ناشتے
کی میز پر‘ سیرحاصل گفتگو ہو چکی تھی۔ ثریا کی شادی کی تیاری کے متعلق بات کرتا ہوں۔ یہ موضوع صحت مند نہیں تھا۔ ثریا‘ میری بہن تھی۔ ریحانہ تو پہلے ہی‘ کہتی آ رہی ہے کہ میں نے‘ ساری کمائی‘ اپنے بہن بھائیوں پر روہڑ دی ہے‘ اور ہمارے پلے ہی کیا رہا ہے۔ آخر بات کا آغاز تو کرنا ہی تھا۔ میں نے کہا :کیا کر رہی ہو؟ دیکھ تو رہے ہو‘ تمہارا اور تمہارے بچوں کا‘ سیاپا پیٹ رہی ہوں۔ ہاہیں‘ کیا بکواس کرتی ہو۔ آج یہ کام کوئی نیا کر رہی ہو‘ جو سیاپے کا نام دے رہی ہو۔ پچھلے دس سال سے‘ آگ میں منہ ہے۔ میرے لیکھے میں‘ شاباش ہی نہیں لکھی۔ کمال ہے‘ کس بات کی شاباش چاہتی ہو۔ یہ کام تو‘ ساری عورتیں کرتی ہیں‘ تم کوئی الگ سے کر رہی ہو۔ میں جانتی ہوں‘ تمہاری بہنیں کتنا کو کام کرتی ہیں۔ میرا منہ کھلواؤ۔ یہ جلی کٹی‘ کیوں سنا رہی ہو‘ آخر مجھ سے‘ کیا غلطی ہو گئی
ہے‘ جو تم خواہ مخواہ ماحول خراب کر رہی ہو۔ اچھا‘ تو میں ماحول خراب کرتی ہوں‘ ماحول خراب نہ کرنے والی لے آؤ۔ ساری کیتی کترائی کھوہ میں ڈال رہے ہو۔ مجھے اس کی جلی کٹی پر غصہ نہیں آ رہا تھا۔ یہ تو‘ روز کا معمول تھا۔ مجھ پر حیرت کا طوفان ٹوٹ رہا تھا۔ ہوا کیا ہے‘ جو آپے سے باہر نکل رہی ہے۔ یہ تو یک طرفہ لڑائی تھی۔ تاہم آگہی سے محرومی‘ اس کے جلے کٹے لفظوں سے‘ کہیں بڑھ کر‘ پریشان کن تھی۔ تمہیں فقط اپنی ذات سے‘ پیار ہے۔ کوئی دوسرا مرتا ہے‘ تو مرتا رہے۔ بڑے ہی افسوس کی بات ہے‘ میں اپنے لیے‘ کیا خاص کرتا ہوں۔ باہر سے‘ کوفتے کھا کر آ جاتا ہوں اور تمہیں محروم رکھتا ہوں۔ اپنے لیے الگ سے کپڑے سلوا لیتا ہوں۔ دن میں‘ بیس بار شیشہ دیکھتے ہو‘ اور اپنا چہرا دیکھ دیکھ کر‘ خوش ہوتے رہتے ہو۔ تمہیں میرے آئینہ دیکھنے سے کیا ہوتا ہے۔ کیوں نہیں ہوتا‘ تم نے آج تک‘ میری تعریف نہیں کی۔ خود سے فرصت ملے گی‘ تو ہی‘ کوئی دوسرا نظر آئے گا۔
معاملہ سمجھنے میں کئی گھنٹے لگ گیے۔ وہ جو سمجھ رہی تھی‘ وہ بات تو‘ سرے سے تھی ہی نہیں۔ ابا‘ صرف ابا ہی نہیں تھے‘ وہ میرے گہرے دوست بھی تھے۔ ہم اپنی ہر چھوٹی موٹی بات‘ ایک دوسرے سے شیئر کرتے تھے۔ ہمارا دکھ سکھ ایک تھا۔ ان کی موت کے بعد‘ سچی بات تو یہ ہے‘ کہ میں تنہا ہو گیا تھا۔ یوں لگتا تھا‘ جیسے دنیا میں‘ میرا کوئی بھی نہ ہو۔ دنیا میں میرا دکھ سکھ کا کوئی ساتھی ہی نہیں رہا۔ اس دن‘ کام پر جاتے وقت‘ میں نے آئینے میں دیکھا۔ مجھے اپنے چہرے میں‘ ابا کا چہرا نظر آیا۔ وہ ہی آنکھیں‘ وہ ہی ناک‘ وہی رخسار غرض سب کچھ‘ ابا کے چہرے سے مماثل تھا۔ یہ دیکھ کر‘ مجھے حیرت آمیز خوشی ہوئی۔ تب سے‘ جب اداس ہوتا‘ آئینے میں جھانک کر‘ ابا کے ہم زاد سے‘ مالقات کر لیتا۔ جب بھی کوئی پریشانی آتی‘ یا مسلہ دریش ہوتا‘ آئینے میں جھانک لیتا۔ آئینے میں‘ موجود چہرے کے اتار چڑھا‘ سے معاملے یا مسلے کا حل دریافت کر لیتا۔ آج بھی‘ کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ چھوٹی‘ سخت مالی بحران سے گزر رہی تھی۔ آج جب ملی‘ اس کی آنکھوں میں‘ بےبسی اور
بےکسی کے بادل‘ امڈے چلے آتے تھے‘ لیکن وہ زبان سے کچھ کہہ نہیں پا رہی تھی۔ آج جب میں نے‘ آئینے میں دیکھا‘ کسی قسم کا ابہام نہ تھا۔ چہرے کے اتار چڑھا کی زبان پر‘ یہ ہی تھا‘ تمہاری چھوٹی بہن ہے‘ اس کے لیے‘ کچھ کرو۔ ابا کی تو بیٹی تھی‘ اس لیے‘ ابہام کا نمودار ہونا‘ ممکن ہی نہ تھا۔ وہ انہیں بڑی عزیز تھی۔ میں بھی اسے عزیز رکھتا تھا۔ میں اس کی بہ قدر ضرورت مدد کر سکتا تھا‘ لیکن یہاں‘ ایک دوسرا ہی معامہ درپیش تھا۔ ریحانہ مجھے‘ اپنی ذات سے محبت کرنے کی اجازت نہیں دے رہی تھی‘ چھوٹی کی مالی مدد پر کس طرح تیار ہو سکتی تھی۔ اسے ثریا کی شادی پر کچھ دینا‘ کھٹک رہا تھا۔ فوزیہ کی مدد کا ذکر‘ آ بیل مجھے مار‘ سے کم بات نہ تھی۔ کاش‘ میں الگ سے‘ پس انداز کر لیتا‘ تو آج فوزیہ کی بےچارگی کا مداوا‘ ہو سکتا تھا۔ میں دیر تک ان ہی سوچوں میں ڈوبا رہا۔ کوئی حل نہیں نکال پا رہا تھا۔ پھر اچانک میرے قدم آئینے کی طرف بڑھ گیے۔ 9-2-79
کامنا
وہ جہاں گیا‘ بددیانتی‘ بدمعاشی‘ حرام کاری‘ ہیرا پھیری اور دغابازی کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔ کوئی بھوک سے‘ مرتا ہے‘ تو مرے‘ کسی کو‘ بھوکے پیاسے کی ضرورت سے‘ کوئی دل چسپی نہ تھی۔ دام الئے‘ ضرورت خریدے اور چلتا بنے۔ اگر بےدام ہے‘ تو سماج کے بڑے بڑے دیالو اور کرپالو‘ منہ موڑ لیتے ہیں۔ سنتے ہوئے‘ انہیں سنائی نہیں دیتا۔ دیکھتے ہوئے‘ انھیں دکھائی نہیں دیتا۔ سماج کی اس کٹھور رخی پر‘ کسی سر پھرے یا ضرورت کے مضروب کا‘ ننگی کرپان لے کر‘ نکل آنا‘ کوئی غیر فطری بات نہ تھی۔ کچھ آستین میں خنجر چھپا کر نکل آئے تھے۔ اس نے بھی‘ تاج اور ظالمانہ سماجی اطوار کے خالف‘ بغاوت کرنے کا‘ تہیہ کیا۔ پھر اس نے سوچا بہت سووں نے یہ رستہ اختیار کیا۔ کیا ہوا‘ کچھ بھی تو نہیں۔ بغاوتیں کچل دی گئیں۔ اگر کامیاب ہوئیں‘ تو تخت پر قابض ہونے والے بھی‘ پہلوؤں کے رستہ پر چل نکلے۔ وہی بےراہروی‘ زندگی کا حصہ و خاصہ رہی۔ وہ دیر تک سوچتا رہا‘ کہ آخر کیا کرئے‘ جس سے بہتری کی کوئی صورت نکلے۔ دھیان کے بطن سے ہی گیان جنم لیتا ہے۔ وہ ویدی کی تبدیلی پر قادر نہ تھا۔ وہ سوچ کے بےثمر ہونے پر‘ یقین نہیں رکھتا تھا۔ ہر کٹھنائی کو‘ پار کرنے کا رستہ
ضرور موجود رہتا ہے۔ وہ سوچ کے سمندر میں‘ کئی گھنٹے غرق رہا۔ جب واپس آیا‘ اس کے دامن میں گیان کے گالب مہک رہے تھے۔ زیادہ دن نہ گزرے ہوں گے‘ کہ عالقے کے بچے بچے پر کھل گیا‘ کہ گرداس مل نے تیاگ اختیار کر لیا ہے۔ سو طرح کی باتیں ہوئیں۔ کسی نے کہا‘ نکھٹو تھا‘ گھرداری سے فرار اختیار کر گیا ہے۔ کسی کا کہنا تھا َ ََ ََ ََ‘ کہ وہ مزاجا دنیادار نہ تھا۔ دنیا میں رہتے ہوئے دنیا میں نہ تھا۔ غرض‘ جتنے منہ‘ اتنی باتیں سننے کو مل رہی تھی اسے تپسوی ہوئے‘ دن‘ مہینے‘ پھر کئی سال گزر گیے۔ لوگوں کا یہ قیافہ‘ غلط ثابت ہوا‘ کہ چند دن کی بات ہے‘ بھوک‘ پیاس عزیزوں کی محبت‘ اسے اسی دنیا میں‘ واپسی پر مجبور کر دے گی۔ اسی دھیان نےاسے‘ دنیا کی ہر ضرورت سے‘ باال کر دیا تھا۔ بھوک پیاس محبت نے‘ اس کے دھیان میں خلل ڈاال‘ لیکن سب بےاثر رہا۔ وہ اٹل تھا‘ اور اٹل رہا۔ اب عالقے میں‘ اس کے متعلق‘ پہلے سی باتیں نہ ہوتی تھیں۔ اب کسی کو‘ اس کے پہنچا ہوا‘ قیاس کرنے میں‘ کوئئ شبہ نہ رہا تھا۔ لوگ اسے گیانی سمجھ کر‘ اس کے پاس حاضر ہوتے۔ ان میں ہر قوم اور مذہب کی عورتیں زیادہ تھیں۔ سالم و پرنام کے بعد‘ دو زانو ہو کر‘
بیٹھ جاتیں۔ انتظار کرتیں‘ کہ شاید آنکھیں کھول کر‘ خوشی کے پرشاد سے سرفراز کرے گا۔ جب خاموشی کے سوا کچھ نہ میسر آتا‘ تو سالم وپرنام کے بعد‘ الٹے قدموں واپس لوٹ جاتیں۔ سو طرح کے چڑھاوے چڑھنے لگے۔ وہ سب‘ لوگوں کے استعمال میں آتا۔ کوئی یہ معلوم نہ کر پایا‘ کہ وہ کب اور کیا کھاتا پیتا ہے۔ سوتا کب ہے۔ حاجت کے لیے کب جاتا ہے۔ اسے جس نے بھی دیکھا‘ آنکھیں بند کیے ہوئے دیکھا۔ اب وہ‘ ایک پہیلی کی صورت اختیار کر گیا تھا۔ بہت سے لوگوں نے‘ غور کیا‘ لیکن کوئی اس کے دھیان کو جان نہ سکا۔ کچھ شریروں نے‘ اس کی تپسیا بھنگ کرنے کی بھی کوشش کی‘ لیکن اس کے دھیان میں‘ رائی بھر فرق نہ آیا۔ اس کی تپسیا پر‘ دیو گڑھ میں بھی‘ ہلچل مچ گئی۔ کچھ نے سوچا‘ یہ منش‘ برہما سے سورگ پتی ہونے کا‘ بردان چاہتا ہے۔ اگر یہ ہی عالم رہا‘ تو برہما بردان دینے پر مجبور ہو جائے گا۔ شنی دیو کیا‘ اس کی تپسیا بھنگ کرنے کے لیے‘ پون دیو‘ پھر اگنی دیو کو میدان میں اترنا پڑا۔ قیامت کی آگ کا گھیراؤ‘ اس کی تپسیا میں آڑے نہ آ سکا۔ اسی طرح کی‘ بیسیوں‘ زمین اور سورگ لوک سے‘ آفتیس اور آزمائشیں اتریں‘ لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ برہما اول اول مسکراتا تھا‘ لیکن اب وہ بھی فکرمند ہوا۔ ایسا دھیانی ہی‘ بردان کا مستحق ٹھہرا کرتا ہے۔
وشنو اور شیو شنکر بھی‘ اس کے دھیان سے متاثر ہوئے۔ وہ برہما کے پاس حاضر ہوئے۔ انہوں نے بردان دینے کی سفارش کی برہما کو آخرکار اس دھیانی کے پاس آنا ہی پڑا۔ پوتر میں برہما ہوں‘ کہو کیا ‘ بردان میں چاہتے ہو‘ بولو بے دھڑک کہو گرداس مل نے بڑے احترام سے‘ برہما دیو کو اپنا پرنام پیش کرکے‘اس کے قدم لیے۔ پھر بوال‘ پتا شری! آپ دیکھ رہے ہیں‘ کہ انسان کس قدر وحشت پر اتر آیا ہے۔ شانتی نام کی چیز‘ ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ آپ مجھے سورگ لوک کے مقدس درخت کا روپ دے دیں۔ مجھ پر پھل کی بجائے‘ انسان لگیں۔ اس کی مانگ میں بالشبہ خلوص موجود تھا‘ لیکن اس مانگ کے کسی ناکسی گوشے میں‘ میں اوروں سے برتر ہوں‘ کا احساس موجود تھا۔ برہما بردان دے کر برہما لوک لوٹ گیے۔ اس معاملے کو‘ صدیاں بیت گئیں۔ سورگ لوک کے شجر پتر اور دیوتا‘ خون ریزی میں مصروف تھے۔ وہاں کے انسانوں نے‘ بڑی عالی شان عمارتیں تعمیر کر لی تھیں۔ سائنس کی ترقی عروج پر تھی۔ ہر شجر پتر احساس برتری کا داعی تھا۔ جنسی طوفان زروں پر تھا۔ سورگ لوک کو‘ رہائش کے لیے‘ ناکافی سمجھا جا رہا تھا۔ مزید کی ہوس نے‘ زمین پر قبضے جمانے کے‘ منصوبے تیار کرنا شروع کر دیے تھے۔ اس منصوبے پر‘
دن رات‘ بڑے زور و شور سے‘ سوچا جا رہا تھا۔ معلومات جمع کرنے کا عمل‘ عروج پر تھا۔ اس سوچ اور اس کی تیاری کے نتیجہ میں‘ سورگ لوک کا‘ امن اور سکون بھرشٹ ہو چال تھا۔ ہر کوئی‘ زیادہ سے زیادہ کو‘ وراثت بنانے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔ ایک روز‘ لوگوں نے دیکھا‘ کہ ایک شجر پتر‘ مقدس شجر‘ جو اس نسل کا پتاما تھا‘ کے نیچے‘ ایک ٹانگ پر کھڑا‘ جاپ کر رہا تھا وہ باآواز بلند کہہ رہا ۔۔۔۔۔۔برہما دیو پرگٹ ہوں۔۔۔۔۔۔برہما دیو پرگٹ ہوں۔۔۔۔۔ اس کے انداز سے لگتا تھا‘ کہ ٹلنے واال نہیں ہے۔ لوگ اس کے پاس آ رہے تھے۔ وہ اسے پوج رہے تھے۔ اپنی حاجت روی کے لیے کہہ رہے تھے‘ لیکن وہ اپنے کام میں مصروف تھا۔ سورگ کے دیو بھی ششدر تھے کہ یہ شجر پتر‘ برہما جی سے کیا مانگنے واال ہے۔ کوئی کہہ رہا تھا‘ یہ زمین پر قبضے کے لیے‘ برہما کی حضوری کا آرزو مند ہے۔ یہ بھی کہ‘ ان کا پتاما زمین کا باسی تھا‘ اس لیے‘ زمین پر ان کے استحقاق کو‘ رد نہیں کیا جا سکتا۔ کسی کا خیال تھا‘ کہ وہ دیوتاؤں کو‘ سورگ سے باہر کرنے
کے لیے‘ کشٹ اٹھا رہا ہے۔ غرض سو طرح کی باتیں‘ سورگ کے باسیوں میں چل رہی تھیں۔ ایک بوڑھا شجر پتر‘ مسکرا رہا تھا۔ اس نے شجر مقدس کی پوری کتھا پڑھ رکھی تھی۔ وہ جانتا تھا‘ شخص کسی بھی لوک کا ہو‘ سیمابی فطرت رکھتا ہے۔ بےچینی میں امن اور سکون کی کامنا کرتا ہے۔ وہ خرابی برداشت نہیں کرتا‘ لیکن خرابی کیے بغیر رہ بھی نہیں سکتا۔ اس بوڑھے کو‘ گیان ہو گیا تھا کہ یہ تپسوی‘ منش پتر بننے کے لیے‘ برہما دیو کو کشٹ دے رہا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا تھا‘ کہ یہ تپسوی‘ برہما سے بردان حاصل کیے بغیر‘ یہاں سے نہیں ٹلے گا‘ کیوں کہ جو دھار کر آتے ہیں‘ کٹ جاتے ہیں‘ قدم پیچھے نہیں رکھتے۔ یہ اصول بھی ہے‘ اور ویدی کا ویدان بھی‘ یہ ہی چال آتا ہے۔
تنازعہ کے دروازے پر
اس میں کوئی شک نہیں‘ کہ وہ ذہین شاطر اور بہادر تھا‘ لیکن
تسلط وتصرف کے لیے‘ وسائل کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ وسائل کی کمی‘ اس کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ تھی۔ جب جذبے اٹل اور کرنے کی خواہش میں جان ہو‘ تو کر گزرنا مشکل نہیں رہتا۔ کرنا ہدف سے جڑا رہتا ہے۔ اس کا ہدف معمولی اور عام نوعیت کا نہ تھا۔ محنت مزدوری سے‘ تو پیٹ کا جہنم بھی نہیں بھر پاتا۔ وہ اس کا قائل بھی نہ تھا اور ناہی‘ محدود دائرے کا قیدی ہونا‘ اسے کبھی خوش آیا تھا۔ دائروں کے قیدی‘ زندگی کے بڑے گراؤنڈ میں کھیل نہیں پاتے ہیں۔ چوری‘ محدود وسائل پیدا کرتی ہے جب کہ ڈاکہ‘ وسائل ہی زیادہ میسر نہیں کرتا‘ بلکہ اس میں جرآت بہادری اور سینہ زوری کے عناصر‘ بھی موجود ہوتے ہیں۔ گھنٹوں غور کرنے کے بعد‘ اس پر کھال‘ کہ اٹھتے ہی‘ ڈاکے کی راہ اختیار کرنا‘ ممکن نہیں۔ اسے آغاز چھوٹی موٹی چوری ہی سے کرنا پڑے گا۔ شروع شروع میں‘ چھوٹا موٹا شور ہوا‘ لیکن جب چوریوں کی تعداد بڑھی‘ تو عالقے میں‘ بےچینی پھیل گئی۔ انتظامی ادارے بھی‘ تشویش کا شکار ہو گیے۔ ہم پیشہ و ہم مشرب تو میسر آ ہی گیے تھے‘ اب انتظامیہ کو‘ ہاتھ میں کرنا ضروری ہو گیا تھا۔ اس کام میں بھی‘ اسے کچھ زیادہ تردد نہ کرنا پڑا۔ انتظامیہ‘ خصوصا گرفت کرنے والے اداروں کو‘ اس سے‘ لوگوں کی تالش رہتی ہے۔ اس سے لوگوں کا کیا‘ چھوٹے مجرموں پر ڈال کر‘ معاشرے میں انصاف کا بول باال کیا جا سکتا ہے۔
اب وہ کافی مضبوط ہو گیا تھا۔ وہ دن دیہاڑے‘ جہاں اور جس کے ہاں بھی چاہتا‘ ڈاکہ ڈالتا۔ وہ عالقے میں‘ خوف کی عالمت کے درجے پر فائز ہو چکا تھا۔ چودھری کا دھندا‘ ماند پڑنے لگا۔ انتظامیہ نے بھی‘ اس کے کاموں پر‘ گرفت کا آغاز کر دیا تھا۔ چودھری حیران تھا‘ کہ اس کے آدمی موقع پر ہی‘ کیوں پکڑے جانے لگے ہیں۔ اس کے پاس‘ انتظامیہ کو ٹھپ کرنے کا کوئی رستہ ہی باقی نہ رہا تھا۔ بھتہ خور انتظامیہ نے‘ چودھری پر اتنا احسان ضرور کیا‘ کہ وہ لکھت پڑھت میں‘ چودھری کا ذکر تک نہ کرتے۔ کاموں کو بھی ‘جرات نہ ہوتی‘ کہ وہ چودھری کا نام تک‘ زبان پر الئیں۔ ہاں یہ ضرور ٹھان لیتے‘ کہ وہ جیل سے باہر آ کر‘ محودے زوراور کے گروپ میں‘ شامل ہو جائیں گے۔ یہ غداری نہ تھی‘ چودھری کے بااعتماد کامے‘ اندر خانے‘ محودے زوراور کے گروپ میں شامل ہو چکے تھے۔ ہر چھوٹی بڑی خبر‘ ان ہی کے ذریعے‘ زوراور تک پہنچتی تھی۔ اسی بنا پر‘ انتظامیہ انہیں موقعہءواردات پر پکڑ لیتی تھی۔ پبلک میں آ جانے کے باعث‘ چودھری بےبس ہو جاتا اور اپنے بندوں کے لیے‘ کچھ نہ کر پاتا۔ چودھری‘ عالقے میں اپنا نام و مقام کھو چکا تھا۔ بااعتماد کارکن‘ درپردہ اس کے نہ رہے تھے۔ دھندے کے لوگ‘ زوراور کے ساتھ مل چکے تھے۔ انتظامیہ میں وہ بہادر شاہ ظفر سے زیادہ نہ رہا تھا۔ لوگوں میں‘ بھی اس کی شہرت خراب ہو گئی تھی۔ اس نے زوراور کو مروانے کی کوشش بھی کی لیکن یہ
کوشش اسے بڑی مہنگی پڑی۔ دوسری طرف‘ زوراور نے بااثر لوگوں کو‘ اپنا کرنے کی مہم تیز کرنے کے ساتھ کم زور طبقوں کے لیے روٹی کے دروازے کھول دیے۔ اس نے سب سے بڑھ کر کام یہ کیا‘ کہ عالقے میں ڈاکوں کی تعداد کو‘ محدود کر دیا۔ ڈاکہ صرف منحرف لوگوں کے ہاں ہی پڑتا۔ ہاں آس پاس کے تین عالقے جن پر وہ تصرف وتسلط کا ارادہ رکھتا تھا۔ پر چوری اور ڈاکے کا دروازہ کھول دیا۔ وہاں کی انتظامیہ اور چودھریوں کے خاص بندے‘ اس کے بندے تھے۔ اس کے پاس‘ وسائل کی کمی نہ رہی تھی‘ دوسرا اب وہ عالقے کا معتبر اور معزز ترین شخص تھا۔ ایک کمزور‘ ناکام اور بدنام شخص کو‘ چودھراہٹ کا حق نہ رہا تھا۔ یہ بھی کہ چودھری کو مروا کر‘ اس کے وسائل پر قبضہ کرنا‘ مشکل نہ رہا تھا اور یہ وقت کی اہم ترین ضرورت تھی۔ اسے ابھی بہت کچھ کرنا تھا۔ اس کے پاس‘ ضائع کرنے کے لیے وقت نہ تھا۔ اس نے ایک ہی جھٹکے میں‘ چودھری کو فارغ کرکے‘ ناصرف فارغ کیا‘ بلکہ اس کے جملہ وسائل کو‘ اپنے قبضہ میں لے لیا۔ کام کے مردوں کو‘ چلم برداری سونپ دی۔ خوب صورت لڑکیاں‘ خواب گاہ میں پنچا دی گئیں۔ عورتوں پر ترس کھاتے ہوئے‘ اپنے کاموں کو‘ جنسی معامالت کے لیے‘ سونپ دیں۔ اب محدا زوراور‘ وہ نہ رہا تھا‘ لوگ اسے‘ ملک محمود زوراور کے نام سے پہچاننے لگے۔
پہچان کی تبدیلی نے‘ اس کے اعتماد کو جال بخشی۔ اب وہ کسی واردات میں‘ خود نہ شامل ہوتا بلکہ اس کے کامے یہ کام انجام دینے لگے۔ اب وہ ڈیرے میں بیٹھ کر‘ آئے گیے کے ساتھ معامالت کرتا۔ اقتدار کی حصولی کے بعد اس نے یہی سیکھا‘ کہ اعتماد اقتدار کا‘ سب سے بڑا دشمن ہے۔ جب کسی پر‘ معمولی سا بھی شبہ گزرتا‘ تو وہ وقت ضائع کیے بغیر‘ اس کا اور اپنا مخالف تالشتا۔ مناسب شخص میسر آنے پر‘ اسے غدار اور غیر کی مخبر زندگی سے‘ آزادی دال دیتا۔ دوسرے کو‘ انصاف کے نام پر سر عام لٹکا دیتا۔ مرتے شخص میں بھی‘ اتنی جرآت نہ ہوتی‘ کہ ملک صاحب کا نام زبان تک لے آئے۔ اس نے عالقے میں‘ چوری چکاری کی ضرورت کو طالق دے دی۔ اس کی ضرورت ہی کیا تھی۔ زمین سامان کی حیثیت ہی کیا‘ لوگ اس کے‘ ہتھ بدھے غالم تھے۔ وہ اس کے اشاروں پر‘ ناچتے تھے۔ مذہبی حلقوں کا پیٹ اور منہ خالی رکھنا‘ جرم سمجھتا تھا۔ انہیں منہ مانگا‘ ان کی ضرورت سے کہیں بڑھ کر میسر آتا تھا۔ وہ بڑا ادب نواز تھا۔ قصیدہ خواں شعرا کو نوازتا رہتا تھا۔ وہ اس پر خوش تھے۔ اس نے ارد گرد کے عالقوں میں‘ اندھیر مچا دیا۔ لوٹ مار اور ڈاکہ زنی الگ‘ عالقوں کے چودھریوں کی عزت کو مٹی میں مالنے کے لیے‘ ہر حیلہ اورحربہ اختیار کر دیا۔ قبیلہ سالح‘ خوش حالی اور امن پسندی کے لیے‘ معروف چال
آتا تھا۔ اس قبیلے کا چودھری‘ بڑی شے بنتا تھا۔ چھوٹے قبیلوں پر تسلط حاصل کرنا مشکل نہ تھا‘ لیکن قبیلہ سالح ذرا ٹیڑھی کھیر تھا۔ اس نے قبیلہ ثالیفہ‘ کو غیرت دالئی‘ کہ سالح والے‘ ان کے عالقوں پر قابض چلے آتے ہیں اور وہ اپنے عالقے واپس نہیں لے رہے۔ قبیلہ اوخ اور قبیلہ تنوخ والوں کو بھی‘ مختلف حربےاختیار کرکے‘ سردار سالح کے خالف کر دیا۔ اول اول‘ ان چار قبیلہ کے سرداروں میں‘ سرد جنگ چلی اور یہ پورے دو سال چلی۔ ان چاروں کے مابین‘ تلخی اشتعال کے دروازے پر آ پہنچی۔ اب بس آگ دکھانے کی ضرورت تھی۔ ملک زوراور نے‘ موقع دیکھ کر ضرب لگا ہی دی۔ پھر کیا‘ چاروں قبیلے آپس میں بھڑ گیے۔ ملک زوراور نے‘ غیرجانب داری کا اعالن کر دیا۔ چاروں قبیلے‘ قیامت سے دوچار تھے۔ کئی دن قیامت خیزی رہی۔ بالشبہ تینوں قبیلے بڑی دلیری سے لڑے‘ لیکن قبلہ سالح کو زیر کرنے میں ناکام رہے۔ ہاں البتہ قبلیہ سالح بھی‘ معاشی بیماریوں کا شکار ہو گیا۔ اس آویزش میں‘ بہت سارے‘ بےگناہ موت کے گھاٹ اتر گیے۔ سرداروں کے مفادات میں‘ زیادہ تر لوگ ہی کام آتے ہیں۔ امن ہو‘ تو لوگ سردار کے لیے کماتےہیں۔ جنگ ہو‘ تو لوگ سردار کے مفاد کی لڑائی میں‘ زندگی سے ہاتھ دھوتے ہیں چاروں قبیلوں میں بدامنی پھیل گئی۔ جنگ ختم ہونے کے بعد بھی‘ موت زندگی کی دشمن بنی رہی۔ انسانی تقاضوں کے پیش
نظر‘ ملک زوراور نے‘ ایک ایک کرکے‘ چاروں قبیلوں پر تسلط حاصل کر لیا۔ امن قائم کرنے اور زندگی کی بحالی میں‘ کئی ماہ لگ گیے۔ وہ ان کے سرداروں کے‘ خون سے ہاتھ رنگ کر‘ تاریخ میں اپنے کردار کو‘ بدنما نہیں کرنا چاہتا تھا۔ انہیں بہ طور جنگی مجرم‘ عدالت کے سپرد کر دیا۔ ہر عالقے سے‘ ایک ایک منصف لیا گیا۔ چند دنوں کی کاروائی کے بعد‘ ان چاروں کو موت کی سزا سنائی گئی۔ تین چار سال بعد ہی‘ لوگ ماضی میں برپا ہونے والی قیامت کو‘ بھول گیے۔ ملک زوراور نے امن کی بحالی کے لیے‘ ہر ناجائز قدم اٹھایا۔ پانچ عالقے ایک عالقہ ہو گیے۔ وہ بہت بڑی قوت‘ قوت واحدہ بن گیے تھے۔ باغیوں اور سرکشوں کے سوا‘ کسی کے ہاں ڈاکہ نہ ڈلواتا تھا۔ ہاں‘ ان کے آس پاس کے سبھی قبیلے‘ ڈاکوں کی زد میں آگیے۔ کسی میں بولنے اور آواز اٹھانے کی ہمت نہ تھی۔ ملک زوراور اٹھتا بیٹھتا‘ ان پر بھی قبضہ جمانے کی سوچتا رہتا۔ کسی کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہو پاتی‘ کہ کب کیا ہونے واال ہے۔ وہ قبیلوں کے سرداروں کو دعوتیں دیتا۔ ان سے بڑی محبت اور خلوص سے پیش آتا۔ انہیں عزت اور احترام سے نوازتا۔ ویر جی‘ عالقے کے لوگوں کی بےحسی اور غالمی کو دیکھ کر‘ آزردہ ہوتے۔ وہ شخصی آزادی کو‘ ترقی کے لیے‘ الزمہ
سمجھتے تھے۔ انہوں نے‘ لوگوں کو‘ اپنے خیاالت کے حصار میں‘ لینا شروع کر دیا تھا۔ نئی سوچ‘ پروان چڑھنے لگی۔ لوگ ان کی بڑی عزت کرتے اور احترام دینے تھے۔ وہ اپنے لقمے‘ بھوکوں کے سپرد کر دیتے۔ انہیں ہمیشہ‘ لوگوں کے دکھ درد کی چنتا رہتی۔ ان کا موقف تھا‘ انسان کو‘ دوسرے انسان کی خدمت کے لیے‘ پیدا کیا گیا ہے۔ اکثر کہتے‘ حرام لقموں کو‘ منہ میں رکھنے کی بجائے‘ بھوکے رہنا‘ ہزار درجہ بہتر ہے۔ وہ انسان کے خالق کی‘ ہر لمحہ تعریف کرتے۔ جب کسی دکھی کو دیکھتے‘ تو اسے حوصلہ دیتے۔ فرماتے‘ فکر نہ کرو‘ مالک تمہیں تم سے زیادہ جانتا ہے۔ وہ کوئی ناکوئی‘ سبب ضرور پیدا کر دے گا۔ انہیں مل کر‘ روح میں سکون اتر جاتا۔ آنکھیں‘ ٹھندک سے بھر جاتیں۔ ان کے پاس‘ لوگوں کا ہجوم بڑھنے لگا۔ اس ایریا کے سربراہ کو‘ ویر جی کی مقبولیت کھٹکنے لگی۔ اسے گمان گزرا‘ کہ ویر جی‘ یہ سب اقتدار پر قابض ہونے کے لیے‘ کر رہے ہیں۔ ویر جی‘ تو دلوں پر حکومت کرتے تھے۔ انہیں اس جھوٹے اقتدار سے‘ کیا غرض تھی۔ مال و دولت‘ ان کے کام کی چیزیں نہ تھیں۔ یہی عنصر‘ لوگوں کو ان کے قریب ال رہا تھا۔ اقتداری طبقے کو‘ ویر جی کانٹے کی طرح‘ چھبنے لگے۔ وہ ان پر‘ ہاتھ نہیں ڈال سکتے تھے۔ ہر روز‘ دو چار شکائتیں ملک زوراور کے پاس پہنچنے لگیں۔ ملک زوراور کے کان کھڑے ہوئے۔ اس کے ذاتی مخبر نے‘ بھی ویر جی کی عوام میں مقبولیت کو بیان
کیا۔ ایک بار وہ خود‘ بھیس بدل کر آیا۔ ویر جی کی عزت احترام اور عوام کی‘ ان سے محبت نے اسے بھی سوچنے پر مجبور کر دیا۔ اس نے سوچا‘ ویر جی کی بڑھتی مقبولیت‘ اس کے اقتدار کے لیے‘ کسی وقت بھی خرابی کا سبب بن سکتی ہے۔ اس نے‘ ہر طبقہ کے مذہبی علما کا اجالس طلب کیا۔ ان کی دل کھول کر خدمت کی۔ ان کے منہ میں‘ ضرورت سے زیادہ رکھ دیا۔ ہر مذہبی لیڈر نے‘ ویر جی کی نقل وحرکات کو‘ مذہب دشمنی قرار دے دیا اور اس کی موت کو‘ وقت کی اہم ضرورت کا نام دے دیا۔ آہ۔۔۔۔۔ کتنی بدنصیب تھی وہ صبح‘ ویر جی کو‘ موت کے حوالے کر دیا۔ وقت کا سرمد‘ چال تو گیا‘ لیکن محبتوں کی یادیں چھوڑ گیا۔ ملک زوراور کے کوئی نہ منہ آ سکا۔ ملک پھر سے دوسرے عالقوں کے وسائل پر تسلط وتصرف کی سوچ میں پڑ گیا۔ اسے یاد تک نہ رہا کہ اس نے کتنا بڑا ظلم ڈھا دیا ہے۔ شاعر اور مورخ‘ اس کے کارناموں کو‘ درج کرنے میں مصروف ہو گیے۔ اگر کسی نے‘ اس کی سیاہ کاریوں کا تذکرہ کیا‘ تو عالمتوں‘ استعاروں اور اشاروں کنائیوں میں کیا۔ ہاں رحمان بابا سے بھی‘ موجود تھے۔ ملک زوراور نے اور عالقے بھی تسلط میں لے لیے۔ عیش کی گزار کر وقت کی دھول میں گم ہو گیا۔ درسی کتب میں‘ ملک زوراور کے کارنامے داخل ہو گیے۔ ویر
جی کی شہادت‘ عالمتوں استعاروں اور رحمان بابا ایسے لوگوں کے باعث‘ صاحبان دل کی‘ آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا قرار ٹھہری۔ ملک زوراور کبھی بھی‘ تنازعہ کے دروازے سے باہر نہ نکل پایا۔ ملک زورا ور کی‘ فتوحات سے انکار ممکن نہیں‘ لیکن یہ کیسی کامیابیاں ہیں‘ جو دیانت کے قتل‘ کے گواہ ویرجی‘ کے وجود کو‘ بےوجود نہیں کر سکیں۔ لوگ‘ آج بھی‘ ویر جی کا نام سن کر‘ ادب سے سر جھکا لیتے ہیں۔ ملک دروازے سے‘ باہر نکلنے کی‘ جب بھی کوشش کرتا ہے‘ ویر جی‘ سامنے آ کھزے ہوتے ہیں‘ اور وہ‘ خوف کی چادر لپیٹ کر‘ واپس مڑ جاتا ہے۔
انگریزی فیل
میں اور اسلم‘ ایک ساتھ‘ ایک ہی سکول میں‘ پڑھتے تھے۔ ہمارا بڑا یارانہ تھا۔ ہم ایک دوسرے کے ہاں‘ اکثر آتے جاتے رہتے تھے۔ اسلم بالشبہ‘ بڑا محنتی طالب علم تھا‘ لیکن غیر معمولی ذہین نہیں تھا۔ اس کے برعکس‘ مجھے ذہین طلبا میں
شمار کیا جاتا تھا۔ استاد کے منہ سے نکلی بات‘ میرے حافظے میں بیٹھ جاتی تھی۔ اس کا مطلب یہ نہیں‘ کہ میں گھر آ کر پڑھتا نہیں تھا۔ پڑھا ہوا سبق‘ گھر آ کر ضرور دھراتا‘ بلکہ اسے زبانی لکھتا بھی تھا۔ مجھے کئی بار‘ اساتذہ نے شاباش بھی دی تھی۔ اسلم کو شاید ہی‘ کبھی کسی استاد سے‘ شاباش ملی ہو گی۔ ہاں رٹابازی میں‘ میں بالکل نکما تھا۔ سچی بات تو یہ ہے‘ کہ رٹا بازی سے‘ مجھے گھن سی آتی تھی۔ میرے برعکس‘ اسلم رٹابازی میں اپنا جواب نہیں رکھتا تھا۔ انگریزی کے سوا‘ میں دوسرے مضامین میں‘ اس سے زیادہ نمبر حاصل کرتا۔ انگریزی سے‘ میری جان جاتی تھی۔ انگریزی ناپسندیدہ مضمون ہو کر بھی‘ میں اسے زیادہ وقت دیتا۔ کئی بار سوچتا‘ کہ ماسٹر انگریزی پڑھا کر‘ شاید مجھے صدر کنیڈی کی سیٹ پر بیٹھانا چاہتے ہیں۔ اسلم رٹے کے بل بوتے پر‘ میٹرک میں سیکنڈ ڈویژن لے کر‘ پاس ہو گیا۔ میں نے‘ انگریزی کے سوا‘ دوسرے مضامین میں‘ اسلم سے کہیں بڑھ کر‘ نمبر حاصل کیے‘ لیکن انگریزی میں‘ انیس نمبر سے زیادہ حاصل نہ کر سکا۔ بدقسمتی دیکھیے‘ دوسرے مضامین میں‘ معقول نمبر حاصل کرنے کے باوجود‘ فیل قرار دے دیا گیا۔ والد صاحب نے‘ ناصرف جھڑکیں دیں‘ بلکہ پہنٹی بھی لگائی۔ مجھے جھڑکوں اور پہنٹی کا سرے سے مالل نہیں۔ وہ سچے تھے‘ اگر میں میٹرک میں کامیاب ہو جاتا‘ تو میری زندگی بن جاتی۔ مجھے اصل مالل یہ رہا‘ کہ میں پڑھ لکھ
کر بھی‘ ان پڑھوں میں شمار ہوا۔ والد صاحب نے‘ دوبارہ امتحان دینے پر‘ بڑا زور دیا‘ لیکن میرا اصرار تھا‘ جب تک انگریزی کورس میں شامل ہے‘ میں دوبارہ امتحان نہیں دوں گا۔ والد صاحب میرے اس موقف پر‘ تاؤ میں آ جاتے اور مارنے کے لیے آگے بڑھتے‘ تو والدہ آڑے آ جاتیں۔ وہ گریب سر پکڑ کر بیٹھ جاتے‘ اس کے سوا اور کر بھی کیا سکتے تھے۔ میں کیا جانو‘ کہ انگریزی تو جنرل ایوب بھی‘ ختم نہیں کر سکتا تھا‘ وہ خود انگریزی بولتا تھا۔ اسے کیا پڑی‘ کہ میری خاطر‘ انگریزی مضمون سکولوں سے ختم کرا دے۔ اسلم میٹرک میں پاس ہو جانے کے بعد‘ کسی دفتر میں بابو بھرتی ہو گ ی ا۔ والد صاحب مجھے ایک خرادیے کے پاس چھوڑ آئے۔ انہوں نے اسے کہا‘ ٹھوک کر کام لو۔ ان کا خیال تھا‘ کہ ملوکڑا سا ہوں‘ محنت سے تنگ آ کر‘ دوبارہ امتحان دینے پر‘ تیار ہو جاؤں گا۔ میں نے ٹھان لی‘ کہ محنت کر لوں گا‘ لیکن انگریزی کے خاتمے تک‘ دوبارہ امتحان نہیں دوں گا۔ بات تو بڑی شرم والی تھی‘ کہ اسلم جو میرا ہم جماعت تھا‘ اجال لباس پہن کر‘ دفتر جاتا اور میں‘ میال کچیال لباس اور قنچی چپل پہن کر مزدوری کے لیے جاتا۔ شریف خرادیے نے‘ ایک وقت میں‘ کئی شوق پال رکھے تھے۔ بال بچے دار ہو کر‘ اس کے‘ کئی عورتوں سے مراسم تھے۔
اس کے عالوہ بھی‘ تانک جھانک اور ٹھرک سے باز نہ آتا۔ ہر عورت سے‘ ایک ہی ڈائیالگ بولتا :قسم لے لو‘ تمہارے سوا‘ میری زندگی میں کوئی نہیں۔ تم میری پہلی اور آخری محبت ہو۔ اس کی پہلی اور آخری محبت‘ کوئی بھی نہ تھی۔ وہ ابھی جوان اور صحت مند تھا‘ اس لیے‘ کسی کو‘ اس کی آخری محبت کہنا‘ کھلی حماقت تھی۔ اطوار یہ ہی بتاتے‘ کہ ابھی تو آغاز محبت ہے۔ وہ اس میدان میں قناعت کا قائل نہ تھا۔ مجھے ان کے پیام بر ہونے کا اعزاز حاصل رہا ہے۔ فرمائشی اشیا بھی‘ میں پنچا کر آتا تھا۔ انہوں نے تاکید کر رکھی تھی‘ کسی دوسری کا ذکر نہیں کرنا۔ ان کے گھر بھی سودا سلف پنچانا‘ میرے فرائض میں داخل تھا۔ بیگم صاحب نے کئی بار کریدا‘ میں نے کبھی‘ کسی معاملے کا اشارہ تک نہ دیا۔ اس کے صلہ میں‘ جسے میں اعزازیہ سمجھتا ہوں‘ عطا فرماتے۔ دوسرے کام سیکھنے والوں میں سے‘ میں انہیں بہت عزیز تھا۔ شریف صاحب کے دوستوں میں‘ دو تین پینے کا بھی شغل رکھتے تھے۔ سب شاگردوں کو چھٹی ہو جاتی‘ لیکن مجھے کام وغیرہ کے لیے‘ روک لیتے۔ کھانے کی چیزیں بچ رہتی تھیں‘ ان سب پر میں ہاتھ صاف کرتا۔ شام کے بعد‘ وہ مل بیٹھتے‘ اور ایک دو پیک بھی لگاتے۔ ان میں ایک صاحب جلد بہک جاتے۔
خمار میں تو سب ہی ہوتے‘ لیکن وہ کچھ زیادہ ہی اوور ہو جاتے۔ ہر قسم کی باتیں کرتے۔ بہت سی باتیں خیالی ہوتیں۔ ایک صاحب‘ سیاست سے دل چسپی رکھتے تھے۔ وہاں دری پر بیٹھے بیٹھے اکبراعظم بن جاتے۔ باقی سب انہیں جی حضور‘ جی سرکار کہتے۔ تالی بجاتے‘ میں تالی کی آواز سن کر‘ حاضر ہو جاتا۔ مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرماتے‘ خادم خاص! انارکلی سے کہہ دو‘ ہم اس کا گانا سننے کے لیے بےتاب ہیں۔ میں باہر آ کر فلم مغل اعظم کا یہ گانا۔۔۔۔۔۔۔ جب پیار کیا تو ڈرنا کیا۔۔۔۔۔۔۔ گراموں فون پر لگا دیتا۔ سب جھومنے لگتے۔ ان کی حالت‘ بڑی عجیب اور مضحکہ خیز ہو جاتی۔ شریف صاحب‘ اپنے جدید و قدیم معاشقوں کی داستانیں‘ چسکے لے لے کر سناتے۔ ان داستانوں میں جنسی واہیاتیاں بھی شامل کرتے جاتے۔ ایک صاحب‘ قماربازی کا شوق رکھتے تھے۔ ان کی ہر کہانی کا انجام یہ ہی ہوتا‘ کہ بازی سو فی صد میری تھی‘ لیکن فالں پتہ دغا دے گیا‘ ورنہ ہم سب نوٹوں میں کھیلتے۔ انہیں ہر بار یقین ہوتا‘ کہ اگلی بازی ان کی ہی رہے گی۔ پھر وہ نوٹوں میں زبانی
کھیلتے۔ بڑے بڑے منصوبے بناتے۔ بدقسمتی دیکھیے‘ ایک بار بھی‘ جیت ان کا مقدر نہ بنی۔ ہمت والے تھے‘ جیت کی امید میں‘ اگلی بار بھی میدان میں اترتے۔ شریف صاحب کے ساتھ‘ میں پورے سات سال رہا۔ ایک دن‘ پتا چال کہ وہ دنیا سے کنارہ کر گیے ہیں۔ ان کی دکان اور سامان پر‘ ان کے سالوں نے قبضہ کر لیا۔ ہم سب شاگرد پیشہ لوگوں کو‘ چلتا کیا گیا۔ اس کے بعد میں نے‘ کئی اس ہنر سے متعلق لوگوں کے ساتھ‘ کام کیا۔ شریف صاحب کے ساتھ کام کا جو مزا مال تھا‘ کسی اور کے ہاں سے نہ مل سکا۔ سب سڑیل اور ٹوٹ ٹوٹ کر پڑنے والے تھے۔ اکنی اکنی کا حساب کرتے تھے۔ اپنا کھانا‘ لوازمات کے ساتھ منگواتے تھے لیکن ہمارے لیے‘ بس ٹوٹل پورا کرتے۔ کھاتے وقت ہم میں سے کوئی‘ ان کے قریب نہیں جا سکتا تھا۔ اجرت بھی رو رو کر ادا کرتے۔ کئی بار جی چاہا‘ کہ اس پیشے کو چھوڑ کر‘ کوئی اور پیشہ اختیار کر لوں‘ یا اپنا کام شروع کر دوں۔ ہر نئے کام کے لیے‘ رقم درکار ہوتی ہے‘ لیکن میرے پاس تو کچھ بھی نہ تھا۔ اگر ابا زندہ ہوتے‘ وہ ضرور کچھ ناکچھ کرتے۔ اسلم بڑا بابو بن چکا تھا اور مجھے انگریزی لے ڈوبی تھی۔ پتا نہیں‘ اور کتنے لوگ ہوں گے‘ جنہیں انگریزی نے‘ کسی کام کا نہیں چھوڑا ہو گا‘ وہ بھی میری طرح‘ دنیا کے دھکوں کی زد میں ہوں گے۔
یقین مانیے‘ میں نے آج تک کسی لڑکی سے جائز یا ناجائز تعلقات استوار نہیں کیے۔ کسی لڑکی نے‘ مجھے کبھی لفٹ نہیں کرائی۔ یہ بات بھی سچی ہے‘ کہ میں نے کسی لڑکی کو‘ اپنی ماں بہن نہیں سمجھا۔ اس کے باوجود‘ تانک جھانک اور ٹھرک میرا محبوب مشغلہ ہے۔ تاش کے بارہ پتے‘ میرا پیچھا کرتے رہتے ہیں اور میں‘ شکیل کے ہاں‘ چال جاتا ہوں رات گیے تک‘ لطف اندوز ہوتا ہوں۔ فری میں کھیلی جانے والی‘ ایک دو بازیاں بھی لگا لیتا ہوں۔ میں اکیال ہی نہیں‘ دیکھنے والے اور لوگ بھی موجود ہوتے ہیں۔ ہم چھوٹی موٹی شرطیں لگا کر‘ اپنا رانجھا راضی کر لیتے ہیں۔ شراب پینے سے‘ مجھے کوئی دل چسپی نہیں۔ ہاں شرابیوں کی لذیز باتیں‘ سننے کے لیے کمال صاحب کے ہاں چال جاتا ہوں۔ ان سب کی خدمت کرتا ہوں۔ یہ ہی وجہ ہے‘ کہ وہ مجھے اپنا آدمی سمجھتے ہیں۔ کھانے پینے کا چھوڑا ہوا سامان‘ میرے حوالے کر دینے میں بخل نہیں کرتے اور نہ ہی برا محسوس کرتے ہیں۔
جب میں شراب نہیں پیتا‘ تو لوگ مجھے شرابی کیوں سمجھتے ہیں۔ جوا کھیلنے سے‘ میرا کوئی تعلق واسطہ ہی نہیں‘ اس کے باوجود مجھے جواری کیوں سمجھا جاتا ہے۔ کسی لڑکی نے مجھ سے تعلق استوار ہی نہیں کیا۔ میں بھی‘ گرہ کی کم زوری کے باعث‘ کسی حسینہ سے‘ معاشقہ نہیں کر سکا۔ معمولی تانک جھانک یا رسمی سا ٹھرک بھورنے کے سبب‘ عالقہ میں ذلیل و رسوا ہو گیا ہوں۔ کوئی مجھے شریف آدمی‘ سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں اور اپنی دختر نیک اختر کا رشتہ‘ دینے کے لیے تیار نہیں۔ کنواری تو دور کی بات‘ کوئی طالق یافتہ یا بیوہ بھی‘ میرے ساتھ نکاح کو‘ شجر ممنوعہ خیال کرتی ہے۔ سوچتا ہوں‘ مجھے اس حال تک‘ کس نے پنچایا ہے؟ میں خود اس کا ذمہ دار ہوں‘ یا یہ سب‘ انگریزی کا کیا دھرا ہے؟ انگریزی کو الزمی مضمون بنانے کی آخر کیا ضرورت ہے۔ کون سا‘ ہر کسی نے‘ غیر ممالک میں سفیر بن کر جانا ہوتا ہے۔ بازار کا کام کب انگریزی کے ساتھ چلتا ہے۔ کورٹ کچیری اور دفاتر میں کام کب انگریزی میں چلتے ہیں۔ کچیری میں‘ مباحث مقامی زبان میں ہوتی ہے۔ بس لکھائی‘ انگریزی میں ہوتی ہے۔ انگریزی میں لکھے جانے کے سبب‘ کئی کئی دن فصیلہ ملنے میں لگ جاتے ہیں۔ غیروں کی زبان ہونے کے باعث‘ کئی نکتے نکل آتے ہیں‘ اور اس طرح‘ کوئی بات اٹل قرار نہیں پاتی۔ اپیلو
اپیلی ہی کی گھمن گھیریوں میں‘ مسائل پھنسے رہتے ہیں۔ اسلم جو‘ رٹے باز تھا‘ بڑا بابو بنا بیٹھا ہے۔ رعب جمانے کے لیے‘ گالبی ارو بولتا ہے۔ میں اس کی اصل حقیقت سے آگاہ ہوں۔ میں کچھ بھی کہتا رہوں‘ محض بکواس ہو گا۔ لوگ بات کو نہیں‘ بات کرنے والے‘ اور اس کی حیثیت کو دیکھتے ہیں۔ سماج نے‘ شریف صاحب سے لوگوں کو‘ کیوں ڈھیل دے رکھی۔ سماج میں‘ ہنر کے لیے‘ اس سے لوگ ہی تو استاد ہیں۔ میں اپنی صفائی میں‘ کچھ بھی کہتا رہوں‘ کوئی نہیں مانے گا۔ مجھ سے انگریزی کے مارے‘ سماج کے دو نمبری ہی رہیں گے۔ انہیں کوئی اپنی بیٹی کا رشتہ نہیں دے گا۔ کرسی پر بیٹھے لوگوں کی دو نمبری‘ کسی کو نظر نہیں آتی۔ لوگ اس کی حیثیت کو دیکھیں گے۔ رشوت‘ بےایمانی‘ ہیرا پھیری اور حرام خوری‘ ان کی کرسی یا کرسی والے سے انسالک‘ کے پیٹ میں چال جائے گا۔ کتنا بھی غلط ہوتا رہے‘ انگریزی کا دامن نہیں چھوڑا جائے گا۔ انگریزی ذہانیں نگلتی رہے گی‘ اور کوئی کچھ نہیں کر سکے گا۔ میں یا مجھ سے‘ انگریز فیل‘ کچھ بھی کر لیں‘ بیوی‘ ان کے نصیب سے‘ باہر رہے گی۔
چوتھی مرغی
اس سے پہلے‘ اس نے تین مرغیاں ذبح کیں۔ ہر مرغی نے‘ گردن پر چھری واال ہاتھ آنے سے پہلے‘ تھوڑا بہت شور مچایا۔ جوں ہی گردن‘ قصاب کی دو انگلیوں میں آتی‘ وہ اس کے بعد‘ شور بھی نہ مچا سکی۔ وہ کھلی آنکھوں سے‘ اپنی موت کا منظر دیکھتی۔ پھر وہ دیکھنے سے بھی‘ ہمیشہ کے لیے محروم ہو گئی۔ چوتھی مرغی کی گردن پر چھری آنے ہی کو تھی‘ کہ بڑی بڑی مونچھوں والے‘ رستم نما ایک صاحب آ گیے۔ انہوں نے مرغی ذبح کرنے سے منع کر دیا۔ اس مرغی کا گوشت‘ مجھے ملنے واال تھا۔ مجھے بڑا تاؤ آیا‘ لیکن ان کا جثہ اور مونچھیں‘ حد درجہ خطرناک ہی نہیں‘ خوف ناک بھی تھی۔ اس پر طرہ یہ کہ انہوں نے‘ سات آنے زیادہ دے کر‘ مرغی خرید لی۔ قصاب ملنے والوں میں سے تھا۔ اس نے ہیلو ہائے کو باالئے طاق رکھتے ہوئے‘ سات آنوں کو‘ اہمیت دی۔ خاموشی کے سوا کیا ہو سکتا تھا۔ میں نے اس شخص سے دریافت کیا‘ کہ آخر اس مرغی میں کیا خاص بات ہے‘ جو وہ سات آنے زیادہ دے کر‘ اسے حاصل کر رہا ہے۔ میری بات کو سن کر‘ وہ ہنس دیا۔ بوال باؤ جی آپ نہیں جانتے‘ کہ یہ مرغی کیا چیز ہے۔ یہ مرغی‘ بڑی نسلی مرغی
ہے۔ اس نسل کا ایک مرغا‘ میرے پاس ہے۔ یہ میری قسمت بنا دے گی۔ میں اگلے چند سالوں میں‘ امیر ہوجاؤں گا۔ آپ دیکھتے رہنا۔۔۔۔۔۔ کتنا احمق تھا‘ جو یہ کہہ رہا تھا۔ میرے پاس اتنا وقت کہاں‘ جو میں مرغی کو دیکھتا پھروں۔ میں نے پھر پوچھا‘ کیا قصاب اس حقیقت سے آگاہ نہ تھا۔ وہ آگاہ تھا‘ لیکن اس نسل کا مرغا نہ ہونے کی وجہ سے‘ یہ مرغی اس کے لیے کوئی معنویت نہ رکھتی تھی۔ میں نے یہ سوچ کر‘ خاموشی اختیار کی‘ کہ گوشت ہی کھانا ہے‘ اس مرغی کا ہو‘ یا اس مرغی کا‘ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ مجھے لوگوں کی جہالت پر‘ افسوس ہوا۔ شیخ چلی کی سی سوچ رکھتے ہیں۔ مرغوں کے حوالہ سے‘ امارت آتی ہو‘ تو دنیا سارے کام کاج چھوڑ کر‘ اسی جانب لگ جائیں۔ میں دیر تک‘ ان سوچوں کے گرداب میں پھنسا رہا‘ کہ ہم بھی کیسی عجیب قوم ہیں‘ دنیا ترقی کرکے کہاں کی کہاں‘ پہنچ گئی۔ ہم ابھی تک‘ ان الیعنی اور بے معنی اشغال میں پڑے ہوئے ہیں۔ آخر ان اشغال کی‘ کیا معنویت ہے۔ غریب قوموں کو‘ اس قسم کے اشغال‘ وارہ نہیں کھاتے۔ ایک طرف بھوک نے نڈھال کر رکھا ہے‘ تو دوسری طرف انگریز کا سجن طبقہ‘ جس کے ہاتھ میں‘ وہ زندگی کی طنابیں دے گیا تھا‘ جونک کی طرح‘ اس عظیم خطہ کے لوگوں کا‘ خون چوس رہا ہے۔ لوگوں پر باور کر دیا گیا ہے‘ کہ یہ اس قوم کے ہیرو ہیں۔ قوم کے لیے‘ لڑنے مرنے اور جیلوں میں جانے والے‘ ڈاکو قرار دے دیے گیے ہیں۔ وہ جنہوں
نے‘ لمحہ بھر کی بھی صعوبت نہیں اٹھائی‘ عظمتوں کے معمار قرار پائے ہیں۔ آج تک‘ یہ کلی طور پر‘ طے نہیں پایا‘ کہ تقسیم‘ خطہ کی ہوئی ہے‘ یا مسمان قوم کی ہوئی ہے۔ اوپر سے مذہبی طبقہ‘ انسانوں کو قریب نہیں آنے دیتا۔ دیر تک سوچنے کے بعد‘ میں اس نتیجہ پر پہنچا‘ کہ منتشر اور حقائق سے دور قوموں کی زندگی‘ مرغوں اور بٹیروں کے گرد طواف کرتی رہتی ہے۔ معاشی بھاگ دوڑ نے‘ مجھے اس قسم کی سوچوں سے‘ کوسوں دور کر دیا۔ جب فرد‘ ذات کے خول میں گم ہو جاتا ہے‘ تو اجتماع کے اچھے برے‘ کی سوچوں سے دور۔۔۔۔۔ بہت دور چال جاتا ہے۔ اسے صرف اور صرف‘ اپنی بھوک یاد رہتی ہے۔ خونی رشتے بھی‘ اس بھاگ دوڑ میں‘ اپنی شناخت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ایسے عالم میں‘ چھینا جھپٹی اصول اور ضابطہ ٹھہرتی ہے۔ میں بھی‘ یہ سب بھول گیا۔ مجھے کیا پڑی‘ جو مرغوں اور بٹیروں کی سوچ میں‘ پڑ کر‘ جی ہلکان کرتا۔ کسی کو کہا بھی تو نہیں جا سکتا۔ سچ کہنے واال‘ سماج دشمن قرار پا کر‘ زہر کا مسحق سمجھا جاتا ہے۔ اب ہر کوئی‘ سقراط بننے سے رہا۔ ایک دن‘ میں بازار سے گزر رہا تھا۔ شہر کے بڑے چوک کے بائیں‘ ایک اشتہار آویزاں تھا۔ یہ اشتہار‘ مرغوں کی لڑائی سے متعلق تھا۔ ایک عرصہ پہلے کی بات‘ ایک بار پھر میرے ذہن میں گھوم گئی۔ اشتہار پڑھ کر‘ میرا دماغ چکرا گیا۔ کیسی
بےحس اور الپرواہ قوم ہے۔ جنگ سے نکلے‘ ابھی چند ماہ ہی گزرے ہوں گے‘ اور یہ‘ مرغوں کی لڑائیاں کروا رہی ہے۔ جس جنگ سے‘ قوم گزری تھی‘ کیا وہ کافی نہ تھی۔ کیا اب بھی لڑائی دیکھنے کی‘ کوئی کسر باقی رہ گئی تھی۔ میں ان ہی سوچوں میں گرفتار‘ ضروری خریداری کے بعد‘ گھر واپس آگیا۔ اچانک‘ میرے ذہن میں‘ چوتھی مرغی گردش کرنے لگی۔ ایک تجسس سا نمودار ہوا۔ پھر میں نے‘ مرغوں کی لڑائی دیکھنے کا‘ فیصلہ کر لیا۔ میں وقت پر ہی‘ مرغوں کے پڑ میں پہنچ گیا۔ میں یہ دیکھ کر‘ حیران رہ گیا‘ کہ پڑ میں‘ بہت سارے لوگ موجود تھے۔ میری آنکھیں‘ مونچھوں والی سرکار کو‘ تالش کر رہی تھیں۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا‘ کہ مونچھوں والی سرکار‘ سرپنچ ہو گی۔ میں اسے لوگوں میں تالشتا رہا۔ وہ عام لوگوں میں‘ موجود نہ تھا۔ میں زیرلب مسکرایا‘ شیخ چلی طبع کے لوگ‘ عملی زندگی میں‘ اپنا وجود باقی نہیں رکھتے۔ میں گھر واپس جانے کے لیے مڑا ہی تھا‘ کہ سامنے گاؤ تکیہ لگی چارچائی پر‘مونچھوں والی سرکار‘ اکیلے ہی تشریف فرما تھی۔ اس کے ارد گرد‘ اس کے چیلے کھڑے تھے۔ ایک چیلہ‘ اس کے کندھے‘ جب کہ دوسرا پاؤں دبا رہا تھا۔ میں نے پاس کھڑے‘ ایک شخص سے‘ مونچھوں والی سرکار کا‘ تعارف جاننا چاہا۔ جواب دینے سے پہلے‘ اس شخص نے مجھے‘ سر سے پاؤں تک دیکھا‘ پھر بڑی حیرت سے پوچھا‘ کیا تم سیٹھ نادر کو نہیں
جانتے۔ دیکھنے مرغوں کی لڑائی آئے ہو‘ اور سیٹھ نادر کو نہیں جانتے‘ بڑے ہی افسوس کی بات ہے۔ میں نے مزید سوال جواب کی بجائے‘ سیٹھ نادر کے پاس جانا مناسب سمجھا۔ میں سیٹھ نادر کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔ سیٹھ نادر نے‘ مجھے پہچانا تک نہیں۔ میں نے خود ہی‘ اپنا تعارف کروایا‘ اور برسوں پہلے کا واقعہ یاد کرایا۔ سیٹھ نادر نے‘ بڑا دھواں دھار قہقہ داغا‘ اور کہا‘ هللا نے اس مرغی کے طفیل‘ بڑے پہاگ لگائے ہیں۔ آج میں الکھوں میں کھیلتا ہوں۔ لوگ بڑی عزت کرتے ہیں۔ وہ اس چوتھی مرغی کی وجہ سے‘ امیر کبیر ہوگیا تھا۔ جب کہ میں‘ ابھی تک‘ اس پرانےعہدے پر ہی فائز تھا۔ ساالنہ ترقیوں کے عالوہ‘ مجھے کچھ نہ مال تھا۔ مجھ سے تو‘ مرغی پالنے واال‘ ہزار گنا بہتر اور خوش حال زندگی‘ گزار رہا تھا۔ ایک ان پڑھ‘ کہیں کا کہیں جا پہنچا تھا۔ میں پڑھ لکھ کر بھی‘ کچھ نہ کر سکا تھا۔ جاہل معاشروں میں‘ ان پڑھ ہی ترقی کرتے ہیں۔ ایسے حاالت میں‘ پڑھنا کھلی حماقت ہوتی ہے۔ جہاں میں‘ اس زندہ تضاد پر غم گین تھا‘ وہاں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ ہر ماڑے کی گردن‘ تگڑے کی دو انگیوں کی گرفت میں رہتی ہے۔ احتجاج کے لیے کھال منہ‘ کھال ہی رہ جاتا ہے اور احتجاجی کلموں کو‘ منہ سے باہر آنے کا‘ موقع بھی نہیں مل پاتا۔ جنگل کا شروع سے‘ یہ ہی وتیرا رہا ہے۔ جہاں میں بسیرا رکھتا تھا‘ وہاں رہتے توانسان تھے‘ لیکن ان کے اطوار اور
قانون‘ جنگل کے قانون سے‘ کسی طرح کم نہ تھے۔ اس جبر کی فضا‘ اور ماحول میں‘ ایک بات ضرور موجود تھی‘ کہ بچانے واال‘ چوتھی مرغی کو‘ بچا ہی لیتا ہے۔ اس کی نسل‘ آتے وقتوں میں‘ اس کے ہونے‘ اور بچانے والے مہاکاتکر‘ کی گواہی دیتی رہتی ہے۔
انا کی تسکین
وہ ہر اس بڑی دکان کا‘ اتا پتا جانتا تھا‘ جن کا صرف نام ہی تھا‘ لیکن وہاں سامان دو نمبر ملتا تھا۔ یہ ہی نہیں‘ وہ اان کی اصولی عادتوں سے بھی آگاہ تھا۔ رشوت‘ بابو کا اصولی حق ہے‘ اور اس کی ادائیگی کے بغیر‘ سائل کی مراد پوری نہیں ہو سکتی۔ یہاں قدرے جبری صورت ملتی ہے۔ بڑی دوکان بھی‘ پہلے سوال کی طرح‘ الزمی کے درجے پر فائز ہے۔ بیگمی فرمان ہو‘ یا دفتری فرمائش‘ اس بڑی دکان کا رخ کرنا‘ مجبور شخص کی مجبوری ہو جاتی ہے۔ مانگ کے تحت‘ اس دکان کے مالک اور کارکنوں کا‘ مزاج بھی دفتری اور بیگمی ہو جاتا ہے۔ مال دو نمبر‘ مزاج شاہانہ‘ یہ حیرت سے خالی نہیں
سوال یہ تھا‘ کہ دو نمبری‘ اے پلس کے درجے پر کیوں فائز ہو جاتا ہے۔ دوکان کی تزئین وآرائش میں‘ کوئی کسر باقی نہیں ہوتی۔ ہر چیر‘ شوکیسوں میں سجی سجائی نظر آتی ہے۔ مال کی غازہ کاری پر‘ پورا پورا زور دیا گیا ہوتا ہے۔ مال کو دیکھتے ہی‘ منہ سے پانی کی نہریں جاری ہو جاتی ہیں۔ ٹرن آوٹ ہی‘ عزت اور منگ کا سبب بنتا ہے۔ شکم دوست‘ شکم نواز‘ اس حسن قاتل پر‘ مر مٹتے ہیں۔ ناچاہتے ہوئے‘ مہنگے داموں خرید لیتے ہیں۔ ان بڑی دوکانوں کی پیش کش‘ دہائی کی ہوتی ہے۔ شاپر دیکھ کر‘ شاپربردار کا اسٹیٹس جان جاتے ہیں۔ جہاں سامان جاتا ہے‘ وہ شاپر‘ اور شاپر میں موجود ڈبا‘ ان کے بلند مرتبے کی‘ نشان دہی کر دیتا ہے۔ بناؤ سنگار میں‘ معمولی معمولی چیزوں کو بھی‘ نظر میں رکھا گیا ہوتا ہے۔ اسی طور سے‘ دو نمبری اے پلس میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اگر بناؤ سنگار کی کوئی معنویت نہ ہو‘ تو دلہن کو سجانے کے لیے‘ سو جتن کیوں کیے جائیں۔ وہ جانتا تھا‘ اس نظریاتی شہر و معاشرہ میں‘ کوئی کام بال دیے‘ نہیں ہو سکتا۔ سفارش کی عزت اپنی جگہ‘ لیکن مطلوبہ میرٹ کے لیے‘ ادائیگی کی اپنی ہی بات ہے۔ ادائیگی کے ساتھ‘ خود سے یا فرمائشی تحائف کی اپنی ہی حیثیت ہوتی ہے۔ پیٹ‘ ان سب سے بازی لے جاتا ہے۔ بڑی اور شہرت یافتہ دکان سے‘ کھالنے پالنے کی صورت میں‘ فائل کی بلند پروازی پر‘ شاہین
بھی شرمندہ ہو جاتا ہے۔ وہ اعتباری شخص تھا۔ وہ برسوں سے‘ یہ ہی کام کرتا چال آ رہا تھا۔ سائل اور دفاتر کا عملہ‘ مطمن تھا۔ وہ اطراف میں معاملہ طے کر لیتا تھا۔ وہ کتنا رکھتا ہے‘ اور کتنا نہیں رکھتا‘ کسی کو اعتراض کرنے کی گنجائش نہیں رہتی تھی۔ وہ سوغات اور کھانے کے پیسے بھی‘ شمار کر لیتا تھا۔ اگر وہ ان سے کسی ایک کی ڈنڈی مار لیتا‘ تو یہ اس کی اپنی حکمت عملی تھی۔ صاف ظاہر ہے‘ اس بچت کے لیے‘ سو طرح کے حربے‘ استعمال کرتا ہو گا۔ بہت کم اتفاق ہوا ہو گا کہ وہ کھانا بچا پایا ہو گا۔ پچھلے کچھ سالوں سے‘ اس نے کھانا خود ہی الزمی کر دیا تھا۔ جہاں کھانے کی بچت ممکن ہوتی‘ وہاں بھی‘ کھانا ضرور کھالتا۔ دوسری بڑی تبدیلی یہ آئی‘ پہلے وہ خود بھی ساتھ کھاتا تھا‘ لیکن اب وہ اپنے لیے‘ محض دال روٹی منگواتا۔ اس نے چھوٹے اور درمیانے ہوٹلوں کو طالق دے دی۔ جب بھی رخ کرتا‘ تو بڑے اور معروف ہوٹل کا رخ کرتا۔ اس بابو کی خودی کو تقویت میسر آتی۔ خودی بلند ہو جانے کے سبب‘ معاوضے میں کمی کر دیتا اورممکنہ جلدی میں کام کروا دیتا۔ عصمت پکوان ہاؤس سے‘ کھانا‘ کھانا‘ ہر ایرے غیرے کے بس کا روگ نہ تھا۔ یہ ہوٹل‘ ایک سیاسی شخصیت کا تھا۔ کسی کو اس کی جانب میلی نظروں سے دیکھنے کی‘ جرآت نہ تھی۔
کھانے تو خوب صورت ہوتے ہی تھے‘ لیکن اس کے برتن اور سروس کا‘ کوئی جواب ہی نہ تھا۔ عالقے کے باالئی طبقے‘ پیٹ پوجا کے لیے‘ عصمت پکوان ہاؤس کا رخ کرتے۔ اس سے جہاں مصالحے اور چٹخارے دار پکوان میسر آتے‘ وہاں عموم اور خصوص میں موجود گیپ کی وضاحت بھی ہو جاتی۔ عموم جو سڑکی کھانا کھاتے تھے‘ انہیں اپنی اوقات میں رہنے کا سلیقہ آ جاتا۔ کسی کو یہ معلوم ہی نہ تھا‘ یہاں مردہ بکروں‘ چھتروں اور گائے بھینسوں کے‘ انتہائی خفیہ انداز سے‘ پکوان چڑھتے تھے۔ مزے کی بات یہ کہ‘ ہوٹل کے منیجر سے چوکی دار تک کو‘ اس کی خبر نہ تھی‘ مگر شرافت‘ اس کی خبر رکھتا تھا۔ اس کی زبان تک یہ بات نہ آتی تھی۔ ہاں‘ اس نے منیجر سے مک مکا کر رکھا تھا‘ جس کی وجہ سے‘ اسے اوروں سے‘ کم دام ادا کرنا پڑتے تھے۔ بیگ پائے‘ تو دور دراز تک‘ اپنا شہرہ رکھتے تھے۔ وہاں سے‘ جو ایک بار کھا لیتا‘ پھر بار بار کام چھوڑ کر وہاں آتا۔ لذت میں‘ وہ اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ اچھا خاصا بڑا ہوٹل ہونے کے باوجود‘ وہاں جگہ نہ ملتی۔ اس بھیڑ کے باوجود‘ لوگ باہر پڑے بنچوں پر‘ کھانے میں کوئی عار محسوس نہ کرتے۔ گاہگ تلخ کالمی کر سکتے تھے‘ لیکن مالزم سے مالک تک‘ برداشت اور تحمل سے کام لیتے تھے۔ بیگ صاحب بھلے اور شریف
آدمی تھے‘ لیکن ریٹ میں رو رعایت کو‘ گناہ کبیرہ جانتے تھے۔ سری پائے‘ عصمت پکوان ہاؤس میسر کرتا تھا۔ بیگ صاحب کے فرشتوں کو بھی‘ علم نہیں تھا کہ یہ چھوٹے بڑے پائے‘ مردہ جانوروں کے ہیں۔ شرافت یہاں ہی سے‘ بابو بادشاہوں کی صحت بناتا تھا۔ شرافت کیا‘ زمانہ جانتا تھا کہ سپالئی‘ عصمت پکوان ہاؤس سے آتی ہے۔ الل ہوٹل‘ تیسرے نمبر پر تھا۔ شوشا تو بڑی تھی‘ لیکن دام‘ عصمت پکوان ہاؤس سے کم تھے۔ جب بجٹ کی کمی آتی‘ تو شرافت بڑے طریقے سے‘ ان ماتحت افسروں کو یہاں لے آتا تھا۔ انصاف کی بات یہ ہے‘ کہ ان کے کھانوں کا ذائقہ بھی‘ اپنی نوعیت کا ہوتا تھا۔ شرافت کے‘ ہوٹل کے مالک سے بھی ہیلو ہائے تھی۔ وہ اس کے ساتھ مستقل گاہک ہونے کے باعث خصوصی رعایت برتتے تھے۔ شرافت جانتا تھا‘ کہ عصمت پکوان ہاؤس کے ڈرم میں پھینکے کھانے کو‘ خصوصی نکھار کے ساتھ یہاں سرو کیا جاتا ہے۔ براتوں میں لوگ‘ کھانا بڑی بدسلیقگی کے ساتھ کھاتے ہیں۔ کھانے کی توہین‘ تقریبوں میں ہی ہوتی ہے۔ الل ہوٹل کے مالک جاوید صاحب کے بڑے بیٹے‘ شرف بدسلیقہ سے کھائی گئی بوٹیوں کو‘ بڑے طریقہ سے لے آتے تھے۔ وہی توہین کی زد میں آنے واال کھانا‘ احترام اور سلیقہ سے شرفا کی خدمت میں‘ بڑی عزت کے ساتھ پیش کر دیا جاتا۔ شرافت کے علم میں کھانے کی عزت افزائی سے متعلق معلومات موجود تھیں۔
سالے فرائض کی ادئیگی کے بھی‘ دام اٹھاتے ہیں۔ حرام کھاتے ہیں۔ ان کے جو ہتھے چڑھ جاتا ہے‘ اسے چھیل کر رکھ دیتے ہیں۔ گریب لوگوں پر بھی‘ ترس نہیں کھاتے۔ سائل النے والوں کی تو ان کی نظر میں رائی بھر عزت نہیں۔ دام لے کر بھی‘ احسان جتاتے ہیں۔ احسان ہی کیا‘ دھتکارتے بھی ہیں۔ شرافت دیر تک سوچتا رہا۔ بابو صابر کا طرز عمل‘ اسے کچکوکے لگاتا رہا۔ وہ بے آب ماہی کی طرح‘ دیر تک چارپائی پر کروٹیں بدلتا رہا۔ پھر اس نے طے کیا‘ کہ وہ ہر معاملے کے بابو کو کھانا ضرور کھالئے۔ حرام تو پہلے کماتے ہیں۔ وہ حرا م کا کھانا کھال کر‘ انہیں ڈبل حرامی بنانے کا چارہ کرے گا۔ اس سوچ نے‘ شاید اس کی انا کو تسکین بخش دی تھی۔ یہ ہی وجہ تھی‘ کہ وہ تھوڑی ہی دیر بعد‘ گہری نیند میں چال گیا۔
گناہ گار
اس کا دادا جان فیسلے‘ مشرقی چرچ میں پاسٹر تھا۔ علم اور پرہیزگاری میں‘ شہرت رکھتا تھا۔ نرمی دلی اور محبت اس کی شخصیت کے نمایاں وصف تھے۔ عالقے میں دیگر مذاہب کے
آنے والے علما سے‘ اس کی مالقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔ ایک بار‘ وہ تبلیغی مشن پر‘ دور دراز مشرقی عالقوں میں بھی گیا تھا۔ اتھارٹیز‘ ناصرف اس کے علم وفضل کی معترف تھیں‘ بلکہ اس کے شخصی خصائل کو بھی‘ قدر کی نگاہ سے دیکھتی تھیں۔ جان فیسلے‘ جب فوت ہوا‘ تو اس کی ذاتی الئبریری سے‘ بڑی شان دار اور نایاب کتب دستاب ہوئیں۔ یہ کتب‘ چرچ کے کتب خانہ میں‘ منتقل کر دی گئیں۔ چرچ کے کتب خانہ کو‘ کتب عطیہ کرنے کی ہدایت‘ جان فیسلے ہی کر گیے تھے۔ یقینا‘ انہوں نے بڑی عقل مندی سے کام لیا تھا‘ ورنہ یہ علمی سرمایہ ردی چڑھتا۔ ان کا لڑکا‘ پڑھا لکھا تو تھا‘ لیکن اسے تھیالوجی سے‘ کوئی دل چسپی نہ تھی۔ اس کے لیے یہ کتب‘ کسی کام کی نہ تھیں‘ ہاں کتب نے‘ اچھی خاصی جگہ گھیر رکھی تھی۔ جان فیسلے ایک کتاب‘ اسے باطور خاص دے گیے تھے اور اسے‘ حفاظت میں رکھنے کی ہدایت کر گیے تھے۔ انہوں نے یہ بھی تاکید کی‘ کہ جب سائینہ بڑی ہو گی‘ تو یہ کتاب‘ اسے اس ہدایت کے ساتھ دے دی جائے‘ کہ وہ اس کتاب کو اپنی نسل کو خصوصی ہدایت کے ساتھ منتقل کرتی رہے گی۔ سلوچے نے‘ اس کتاب کو پڑھنے کی سرتوڑ کوشش کی‘ لیکن وہ اس کتاب کا ایک جملہ بھی‘ نہ پڑھ سکا۔ کتاب کا خط مقامی تھا۔ وہ اس خط میں کئی کتب پڑھ چکا تھا۔ وہ کیا‘ اس عالقے کا ہر فرد اس خط سے آگہی رکھتا تھا۔ سلوچے کتاب کو خط کے
حوالہ سے پڑھ سکتا تھا‘ لیکن اس میں لکھا کیا گیا تھا‘ اس کی سمجھ سے قطعی باالتر تھا۔ خط عالقے کا تھا‘ لیکن اس کی زبان عالقے کی زبان نہ تھی۔ اسے پڑھنے کی‘ بہت سے پڑھے لکھے لوگوں نے بھی کوشش کی۔ حرام ہے‘ جو کسی کے پلے کچھ پڑا ہو۔ پھر اس نے‘ دو ایک پروفیسر حضرات کو بھی زحمت دی۔ وہ بھی اس کتاب کو پڑھنے سے معذور رہے۔ تھک ہار کر‘ اس نے اسے مقدس امانت سمجھ کر‘ اپنے باکس میں محفوظ کر دیا۔ اس نے سائینہ کو‘ عالقے کی اچھی درس گاہوں میں‘ تعلیم دلوائی۔ اسے دور مشرق کے‘ ایک کثیر اللسان عالقے میں‘ پڑھنے کا موقع بھی میسر آ گیا۔ وہ بڑی خوش تھی‘ کہ اس کے دادا کو بھی‘ وہاں جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ ان کا وہاں قیام‘ اگرچہ چند ماہ کا تھا‘ لیکن وہ باتیں اس طرح کرتے تھے‘ جیسے وہ اس عالقہ کے رہے ہوں۔ وہ اس وقت بہت ہی چھوٹی تھی‘ لیکن بھولے ہوئے خواب کی طرح‘ اسے کچھ کچھ یاد تھا۔ جب ان کا انتقال ہوا‘ پچاسی سے تجاوز کر چکے تھے۔ وہ سائینہ سے‘ بڑا پیار کرتے تھے‘ لیکن وہ اسے بڑا ہوتا نہ دیکھ سکے تھے۔ سائینہ کی بھی یہ بدقسمتی تھی‘ کہ وہ دیر تک ان کی محبت اور شفقت نہ دیکھ سکی تھی۔ موت کب رو رعایت سے‘ کام لیتی ہے‘ چپکے سے‘ آتی ہے‘ اور جیتے جاگتے انسان کو جانے کہاں لے کر چلی جاتی ہے۔
اب وقت آ گیا تھا‘ کہ سلوچے‘ سائینہ کو‘ اس کے دادا کی امانت دے دے۔ سائینہ اس کی صحیح حق دار بھی تھی۔ وہ ناصرف بال کی ذہین تھی‘ بلکہ اپنے دادا کی طرح ہم درد‘ پیار کرنے والی اور تھیالوجی سے بھی‘ بڑی گہری دل چسپی رکھتی تھی۔ کتاب اس کے حوالے کرتے وقت سلوچے نے خوشی محسوس کی۔ اسے یوں لگا‘ جیسے بہت بڑا بوجھ‘ اس کے سر سے سرک گیا ہو۔ اسے یہ بھی خوشی ہوئی‘ کہ اس کی بیٹی اپنے دادا کے قدموں پر تھی۔ سائینہ‘ اپنے عظیم دادا کی کتاب پا کر بڑی خوش ہوئی۔ اس کے دادا نے‘ یقینا‘ اسے نایاب اور قیمتی تحفے سے نوزا تھا۔ دو دن گزر جانے کے باوجود‘ اس کی تھکن ابھی دور نہ ہوئی تھی۔ لیکن وہ‘ اپنے دادا کی کتاب پا کر‘ سب کچھ بھول گئی۔ وہ اپنے کمرے میں آ کر‘ بڑے سکون سے‘ کتاب کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی۔ اس کی حیرانی کی انتہا نہ رہی‘ کہ رسم الخط مقامی تھا‘ لیکن اس میں ہندوی زبان میں‘ مضمون پیش کیا گیا تھا۔ خوشی کی بات تو یہ تھی‘ کہ مقامی زبان کا رسم الخط‘ استعمال میں آیا تھا۔ اگر ہندوی رسم الخط ‘ استعمال کیا ہوتا‘ تو شاید وہ ایک لفظ بھی نہ پڑھ پاتی۔ وہ ہندوی سمجھ سکتی تھی‘ لکھنا‘ پڑھنا اور بولنا اس کے بس کا روگ نہ تھا۔ وہ پورے دو سال اس والیت میں رہ آئی تھی‘ لیکن وہ صرف سمجھنے کی حد تک رہ پائی تھی۔ وہ حیران رہ گئی‘ اس کے دادا صرف چند ماہ‘ اس والیت میں رہے تھے۔ انہوں نے سلوکین رسم الخط میں
بڑی روانی سے بہت کچھ لکھ دیا تھا۔ دادا جی نے‘ دنیا کے معروف مذاہب کے‘ بہت سے‘ الہامی کلموں کو‘ کتاب کی زینت بنایا تھا۔ ایک ایک شبد‘ آب زر سے لکھے جانے کے قابل تھا۔ سائینہ بڑی روانی‘ دل چسپی اور گہری عقیدت کے ساتھ پڑھتی گئی۔ اسے لطف آ رہا تھا۔ لگتا تھا‘ کہ آج ہی‘ ایک نشت میں‘ ساری کتاب پڑھ جائے گی۔ اسے تھکن‘ اور نیند کا‘ رائی بھر‘ احساس نہ تھا۔ پھر۔۔۔۔۔ ہاں پھر۔۔۔۔۔۔ ایک جگہ پر آ کر رک گئی۔ اس سے آگے‘ بڑھ نہ سکی۔ عجب الہامی کلمات تھے۔ لکھا تھا‘ خدا تمام رازقوں سے‘ بڑھ کر‘ اور بہتر رزق عطا کرنے واال ہے۔ انہوں نے دالئل بھی دیے تھے۔ ان کا کہنا تھا‘ عالم ارواح میں‘ وہاں کے مطابق خداوند ہی رزق دیتا ہے۔ ماں کے پیٹ میں‘ اس ماحول کے مطابق‘ رزق عطا کرتا ہے۔ پیدائش کے ساتھ ہی‘ رزق کا بندوبست کر دیتا ہے۔ دونوں پستانوں کا دودھ ‘ ذائقہ اور تاثیر میں‘ ایک سا نہیں ہوتا۔ یہ ہی نہیں‘ ضرورت کے مطابق‘ اس میں بھی تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ مرنے کے بعد بھی‘ اس ہئیت کے مطابق‘ خداوند رزق فراہم کرتا ہے۔ بالشبہ‘ اس سے بڑھ کر‘ کوئی رازق نہیں۔ انہوں نے‘ اس سے آگے فرمایا‘ کہ اگر انسان سے زمینی استحصال پسند قوتیں‘ رزق چھین لیں‘ تو وہ اس شخص کے اندر‘ رزق فراہم کرنے کی قدرت رکھتا ہے‘ اور کوئی نہیں‘ جو
مزاحم آ سکے۔ انہوں نے لکھا‘ تمہاری دادی کو‘ جب بھی کوئی مہمان آتا‘ رونا پڑ جاتا۔ اسے رزق میں کمی کا خدشہ‘ الحق ہو جاتا۔ میں نے کئی بار سمجھایا‘ لیکن یہ بات‘ اس کی سمجھ میں نہ آسکی۔ ہماری بحث بھی ہو جاتی۔ ایک بار‘ ایک بھوکا میرے پاس آ گیا۔ اس نے اپنی بھوک کا تذکرہ کیا۔ میں نے تمہاری دادی کو‘ اسے کچھ دینے کو کہا۔ وہ اس پر بیھر گئی۔ مجھے اس کی اس حرکت پر افسوس‘ نہیں صدمہ ہوا۔ میں نےاپنا کھانا اٹھا کر‘ اس بھوکے کو دے دیا۔ تمہاری دادی کی اس حرکت نے‘ مجھے اس سے‘ ذہنی طور پر بہت دور کر دیا۔ مارکیکس‘ بہت اچھی عورت تھی۔ گریبوں اور ناداروں کی‘ بڑی ہم درد تھی۔ مجھے غیرعورتوں سے‘ کبھی دل چسپی نہیں رہی‘ لکن اس کی دیالو اور کرپالو خصلت نے‘ دلی طور پر‘ اس کے قریب کردیا۔ وہ بھی میرے قریب ہوتی گئی اور پھر ہم ایک دوسرے کے‘ جسموں کے شناسا ہو گیے۔ اس کا خاوند مکمل مرد نہ تھا۔ اس کے ہاں ہونے والے بچے‘ میرے بچے ہیں۔ میں جانتا تھا؛ اور جانتا ہوں کہ یہ گناہ تھا۔ میں اعتراف کر رہا ہوں۔ میں نے چرچ میں جا کر بھی‘ اعتراف کیا ہے۔ میرے اعتراف کا کوئی گواہ نہ تھا۔ اب تم میرے اعتراف کی گواہ ہو۔ میرے لیے خداوند سے دعا کرنا‘ کہ وہ مجھے معاف کر دے۔ مجوزہ کفارہ‘ میں نے ادا کر دیا ہے‘ اس کی تم فکر نہ کرنا۔ سائینہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی‘ کہ اس کا دادا گناہ گار ہے۔
وہ دیر تک‘ سوچتی رہی‘ کہ کاش اس کے دادا سے‘ یہ گناہ سرزد نہ ہوتا۔ اچانک خوشی کی ایک لہر؛ اس کی رگ وپے میں ابھری۔ پورے عالقے میں‘ ان کا دادا کی طرف سے‘ کوئی رشتہ دار نہ تھا۔ وہ اس خوشی میں‘ سوچوں کے تانے بانے بننے لگی۔ اسے بہت سے کزن میسر آگیے تھے۔ وہ دیر تک ان سے ملنے کے‘ منصوبے بنانے لگی۔ دکھ سکھ پائیدار نہیں ہوتا‘ وہ یہ سوچ کر‘ دکھی ہوگئی‘ کہ یہ سب عام کرنے کا نہیں ہے۔ خداوند پردہ پوشی کرتا ہے‘ وہ پردہ اٹھا کر‘ گناہ گار کیوں ہوتی۔ اس سے فائدہ کی بجائے‘ نقصان ہوتا۔ یہ دو مرحومین کو‘ ذلت کی کھائی میں اتارنے کے مترادف تھا۔ دوسری طرف‘ اسے اس بات نے بھی‘ پریشان کر دیا‘ کہ اس کے دادا نے‘ کتاب کی منتقلی کی ہدایت کرکے‘ خود کو کیوں ننگا کرنا چاہا ہے۔ کیا وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں‘ کہ آدمی جو دکھائی دیتا ہے‘ وہ نہیں ہوتا‘ اس کے باطن میں‘ گناہ گار کہیں ناکہیں ضرور چھپا ہوا ہوتا ہے
بڑے ابا
میں یہ تو نہیں کہتا‘ کہ میرے دادا بہت بڑے پیر فقیر یا درویش تھے‘ ہاں اتنا ضرور کہوں گا‘ کہ ان کے بہت اچھا انسان ہونے میں‘ شک نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ہم درد اور پیار کرنے والے انسان تھے۔ میں نے تو‘ انہیں بڑھاپے کے عالم میں دیکھا تھا۔ ان کی جوانی کے‘ بہت سے ساتھی‘ چلے گیے تھے۔ اگر کوئی باقی رہ گیا تھا‘ تو گھر پر کم ہی آتا تھا۔ میرا‘ گھر کے دوسرے لوگوں سے زیادہ‘ دادا جی کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا تھا۔ یہ نہیں‘ کہ وہ کسی کو اپنے قریب آنے نہیں دیتے تھے‘ اصل واقعہ یہ تھا‘ کہ میری ماں کسی کو‘ ان کے قریب نہ آنے دیتی تھی۔ ان کے خیال میں‘ دادا پرانی اور گھسی پٹی باتیں سنا کر‘ بچوں کی عادتیں خراب کرتے تھے۔ دوسرا وہ کھانستے رہتے تھے۔ ماں اس خدشے سے‘ کہ کہیں کسی بچے کو‘ کوئی بیماری الحق نہ ہو جائے‘ ہم بچوں کو‘ ان سے دور رکھتی تھیں۔ بس ایک میں تھا‘ جو کسی ناکسی طریقے اور بہانے سے‘ ان کے قریب رہتا۔ دادا جی کو‘ ہم سب بڑے ابا‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ ہم میں سے کوئی‘ جب ان کے پاس جاتا‘ بڑے خوش ہوتے۔ تھوڑی دیر بھی نہ ہو پاتی‘ کہ امی بال لیتیں۔ بڑے ابا سے‘ میری قربت کی‘ کئی وجوہ تھیں‘ لیکن دو باطور خاص تھیں۔ ایک یہ کہ‘ میں حساب میں بالکل نکما تھا اور وہ میری‘ اس سلسلے میں‘ بھرپور مدد کرتے۔ انہیں حساب اچھا خاصا آتا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی‘ کہ جب بھی‘ مجھے اپنے پاس دیکھتے‘ بڑا خوش ہوتے۔ اپنے حصہ سے بچا کر‘ کھانے پینے کی چیزیں دے دیتے۔
ایک دن‘ امی‘ ابا کے سامنے ہی‘ ان کے منع کرنے کے باوجود‘ بڑے ابا کو کوسنے دے رہی تھیں۔ میں نے‘ امی کو ذرا سخت لہجے میں‘ منع کرنے کی کوشش کی۔ بڑے ابا نے‘ خوش ہونے کی بجائے‘ مجھے ڈانٹا‘ کہ بڑے کے سامنے نہیں بولنا چاہیے۔ یہ بات‘ امی پر بھی فٹ آتی تھی‘ لیکن انہوں نے امی کو کچھ نہ کہا۔ شاید‘ ان کے سمجھانے کا‘ یہ ایک انداز تھا۔ امی‘ اس پر اور تیز ہو گئیں کہ وہ بچوں کو‘ ڈانتے رہتے ہیں۔ انہوں نے‘ یہاں تک کہہ دیا‘ کہ بڈھے نے تو بچوں کا سانس پی رکھا ہے۔ حساب کی اصطالحات کے نام‘ بڑے عجیب اور احمقانہ سے ہوتے ہیں۔ عملی زندگی میں‘ ان کا نام سننے کو نہ ملتا تھا۔ خصوصا یہ بٹے‘ میری سمجھ میں نہیں آسکے۔ دو بٹا چار‘ چھے بٹا گیارہ۔ جب دو چار پر‘ اور چھے گیارہ پر تقسیم نہیں ہوتا‘ تو اس قسم کے سوال‘ کتاب میں ڈالنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ مجھے ریاضی بنانے والوں کی عقل پر افسوس ہوتا۔ وہ تو وہ‘ ماسٹر بھی‘ اس حماقت خیز عمل کا حصہ بن گیے تھے۔ایک دن‘ میں نے معاملہ‘ بڑے ابا کے سامنے رکھا‘ انہوں نے بڑے پیار اور مثالوں سے‘ معاملے کو واضح کرنے کی کوشش کی۔ میری سمجھ میں سب کچھ آ گیا۔ ہاں البتہ‘ ایک مثال بڑی ہی ٹیڑی تھی۔ کہنے لگے‘ بٹا‘ بٹنا سے ہے۔ جب بھی کوئی شے‘ بٹنے کے عمل میں داخل ہوتی ہے‘ اس کی ابتدائی قیمت اور قدر میں‘ کمی واقع ہوتی چلی جاتی۔ مثال آپ کے پاس سو رپے
تھے‘ آپ نے پچاس روپے‘ اپنے چھوٹے پھائی کو دے دیے‘ آپ کے پاس پچاس بچ گیے۔ پچاس میں پچیس‘ آپ کی چھوٹی بہن نے لے لیے‘ اس طرح آپ کے پاس سو میں پچیس باقی رہے‘ اسی کو‘ بٹنا کہتے ہیں۔ بٹوارا بھی‘ بٹنا سے ہے۔ ایک بٹا دو کا معاملہ‘ میری سمجھ میں آ گیا تھا۔ انہوں نے کہا‘ مادی سوچیں اور مادی زندگی‘ شے سے زیادہ حیثیت اور اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ شادی سے پہلے‘ میں ایک تھا‘ شادی کے بعد ایک نہ رہا‘ یا یوں سمجھ لو‘ کہ ایک کی قدر سو ہے۔ شادی کے بعد‘ بٹ کر پچاس رہ گیا۔ تمہاری دادی بھی بٹی۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے‘ کہ اس کے پچاس‘ میرے نہ ہوئے‘ میرے پچاس‘ اس کے نہ ہوئے۔ تمہارے ابا پیدا ہوئے‘ بقیہ پچاس تقسیم ہو کر‘ پچیس رہ گیے۔ اس کے بعد‘ تمہاری بڑی پھوپھو پیدا ہوئیں‘ تو پچیس بٹ کر‘ ساڑھے بارہ رہ گیے۔ پھر تمہارے چچا کی پیدائش پر‘ ساڑھے بارہ‘ چھے اشاریہ پچیس گیے۔ تمہاری چھوٹی پھوپھو کی پیدائش پر‘ چھے اشاریہ پچیس بٹ کر‘ تین اشارہ ساڑھے بارہ رہ گیے۔ اس کے بعد تمہارے سب سے چھوٹے چچا‘ پیدا ہوئے تو تین اشارہ ساڑھے بارہ بٹ کر‘ ڈیڑھ اشارہ سوا چھے باقی رہ گیے۔ اس کے بعد پوتے‘ پوتیاں‘ ہوئیاں‘ نواسے‘ نواسیاں پیدا ہوئیں‘ تو یہ ڈیڑھ اشارہ سوا چھے بھی تقسیم ہو گیے۔ اس طرح تمہارا بڑا ابا‘ سو سے صفر ہو گیا۔ صفر کو‘ کون اہمیت اور عزت دیتا ہے۔
تمہاری دادی اماں‘ صفر ہونے کا صدمہ‘ برداشت نہ کر سکی اور اس نے‘ دنیا کو خیرآباد کہہ دیا۔ اس پر یہ حقیقت واضح نہ تھی‘ کہ ہندسہ صفر کے بغیر‘ محدودیت سے باہر نہیں نکل پاتا۔ ہندسہ جب صفر کو ساتھی بناتا ہے‘ تو اس کی قیمت‘ ہزاروں‘ الکھوں‘ کروڑوں ہو جاتی ہے۔ صفر کچھ بھی نہ ہو کر‘ بہت کچھ کے درجے پر فائز ہو جاتی ہے۔ مجھے معلوم تھا‘ کہ میں جب ہندسے سے مل جاؤں گا‘ کچھ نہیں کا‘ حصار ٹوٹ جائے گا۔ آج تم نے‘ صفر سے الحاق کیا ہے‘ اس سے‘ جہاں تم دس ہوئے‘ وہاں میری قیمت نو ہو گئی ہے۔ یہ احساس‘ مجھے زندہ رکھے گا۔ پھر انہوں نے‘ مجھے اپنے سینے سے لگا لیا۔ ان کی آنکھوں میں‘ آنسو تھے۔ میں آنسووں کی زبان نہ سمجھ سکا۔ یہ آنسو‘ طفل تسلی کے تھے یا میری قربت نے‘ نفسیاتی سطع پر‘ انہیں توانائی عطا کی تھی۔ میں کچھ نہ سمجھ سکا‘ ہاں‘ ان کے سینے کی گرمی نے‘ مجھے ایک سے‘ دس کر دیا۔
دو دھاری تلوار
بےشک‘ هللا نے انسان کو بہترین مخلوق تخلیق فرمایا ہے۔
اسے سوچ و بچار کے ساتھ‘ کھوج و تالش کی قوت بھی عطا کی ہے‘ اور یہ کوئی معمولی اعزاز نہیں۔ میں ڈارون کی تحقیق پر حیران تھا۔ ہر جانور ناصرف رہنے کے حوالہ سے‘ مختلف ہے‘ بلکہ کھانے کے اطوار بھی‘ الگ سے رکھتا ہے۔ انسان نے‘ جہاں عالی شان عمارتیں تخلیق کی ہیں‘ وہاں حیرت انگیز‘ سائیسی ایجادات سے بھی‘ زندگی کے ہر گوشے کو ماال مال کر دیا ہے۔ جانور بھی‘ زمین پر عرصہ دراز سے‘ اقامت گزین ہے‘ لیکن کوئی ایک چیز ایجاد نہیں کر سکا۔ عین ممکن ہے‘ اس نے بھی چیزیں ایجاد کی ہوں‘ لیکن وہ انسان کے تصرف میں نہیں ہیں۔ اس کے برعکس‘ انسان نے‘ جانوروں کے لیے‘ بہت سی چیزیں بنائی ہیں۔ انہیں پکڑنے‘ رکھنے اور تصرف میں النے کی اشیا تک‘ غور کرتا ہوں‘ تو حیرانی کی انتہا نہیں رہتی۔ میں دیر تک‘ ڈارون کی تھیوری پر غور کرتا رہا‘ مجھے اس میں سچائی کی کوئی جھلک دکھائی نہ دی۔ یہ مغرب والے عجب احمقانہ سوچیں سوچتے رہتے ہیں۔ ڈارون کی تھیوری ہی کو دیکھ لیں‘ ہے کوئی اس میں عقل مندی کی بات۔ بعد میں‘ مجھے خیال آیا‘ کہ میں نے مردے کی بات پر غور کرکے‘ اچھا خاصا وقت برباد کر دیا ہے۔ ساتھ میں‘ چائے بھی برف کر دی
ہے۔ گرم چائے ہی‘ چائے پینے کا بنیادی اصول ہے۔ اسی میں‘ چائے کا لطف پنہاں ہوتا ہے۔ سامنے والی میز پر‘ چار لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ خوش لباس ہونے کے ساتھ ساتھ‘ خوش مزاج بھی تھے۔ ان میں سے ایک صاحب کی زبان منہ میں نہ پڑ رہی تھی‘ متواتر کائیں کائیں کرکے‘ دماغ کی چولیں ڈھیلی کر رہے تھے۔ دوسرے‘ زیادہ بول نہیں رہے تھے‘ لیکن متواتر قہقہے داغ رہے تھے۔ وہ اپنے حال میں مست تھے۔ انہیں کسی دوسرے سے تعلق واسطہ ہی نہ تھا۔ بائیں جانب‘ تھوڑا ہٹ کر‘ ایک میز پر بڑے میاں اکیلے ہی بیٹھے تھے۔ چہرے پر جھریاں تو تھیں ہی‘ لیکن کسی باطنی کرب نے ان کے چہرے کو‘ ناصرف ویران کر دیا تھا‘ بلکہ بیمار سا بنا رکھا تھا۔ وہ ہر کسی کو‘ پھٹی پٹھی اور نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ ان کے ہونٹوں کی نقل و حرکت سے‘ لگتا تھا‘ کہ منہ میں بڑبڑا رہے ہیں‘ لیکن کسی سے‘ کچھ کہہ نہیں پا رہے تھے۔ پھر ان کی نگاہیں‘ ایک بل باٹم میں ملبوس‘ نوجوان پر جم کر رہ گئیں‘ جو عنایت حسین بھٹی کے گرامون فون پر لگے‘ گانے پر تھرک رہا تھا۔ منہ کے جو پوز بنا رہا تھا‘ اس سے اندازہ ہو رہا تھا‘ عنایت حسین بھٹی کے گانے کی
نقل اتار رہا تھا۔ اس نوجوان کے قدموں کی تھرکت کے ساتھ ساتھ‘ بزرگ وار کے چہرے کے رنگ بدل رہے تھے۔ ان رنگوں میں‘ بےبس غضب‘ سب سے واضح اور نمایاں تھا۔ وہ بٹر بٹر دیکھنے کے سوا‘ کچھ کرنے یا کہنے کی پوزیشن میں نہ تھے۔ دائیں جانب‘ ایک گوشے میں‘ تین مرد اور ایک خاتون‘ بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کا انداز‘ قطعی خفیہ سا تھا۔ ان تینوں میں‘ دو جوان اور ایک پچاس سے زائد عمر کا تھا‘ تاہم باحیثیت اور تازہ دم تھے۔ خاتون بھی‘ کم عمر کی نہ تھی‘ ہاں غازہ کاری نے‘ اسے قبول صورت بنا دیا تھا۔ کچھ دیر‘ وہ کھسر پھسر کرتے رہے‘ پھر خاتون باالئی منزل کی طرف چل دی۔ شاید‘ کمرہ بک کروایا ہوا تھا۔ اس کے جانے کے‘ تھوڑی دیر بعد‘ عمر میں سنئیر حضرت بھی‘ باالئی منزل کی طرف بڑھ گیے۔ کافی دیر کے بعد‘ کپڑے وغیرہ درست کرتے ہوئے‘ نیچے اترے‘ اور ادھر ادھر دیکھے بغیر‘ باہر کا رستہ ناپا۔ اس کے چلے جانے کے بعد‘ دونوں جوان‘ باالئی منزل کی طرف باری باری بڑھے۔ انہوں نے زیادہ وقت ضائع نہ کیا۔ یہ بھی ممکن ہے‘ ان کے پلے‘ دانے ہی اتنے ہوں۔ مل بانٹ کر‘ استعمال کا اصول‘ ایک کراہت ناک جانور سے‘ منسوب چال آتا
ہے۔ ان دونوں میں سے ایک‘ پیچھے مڑ مڑ کر‘ دیکھ رہا تھا۔ کام فصلیں اجاڑنے والے کا سا اور حرکتیں پیچھے مڑ مڑ کر دیکھنے والے کی سی‘ ہاں فصلیں اجاڑنے کی خصلت‘ دوئی کا دروازہ بند کر رہی تھی۔ باسی یا جھوٹا‘ باہوش نہیں کھاتا۔ جو بھی سہی‘ جھوٹا کھانے والے‘ انسان سے‘ دیکھ کر‘ حیرت زدہ ہونا‘ فطری عمل تھا۔ پچھلی نشتوں پر‘ تھوڑی دیر پہلے‘ بھنبھناہٹ سی‘ سنائی دے رہی تھی۔ وہاں کہرام سا مچ گیا۔ میں نے گبھرا کر‘ پیچھے مڑ کر دیکھا۔ دو میزوں پر‘ لوٹ مار کی کیفیت طاری تھی۔ پھر‘ ایک میز پر‘ چھینا جھپٹی کے عالم میں‘ کھانا ایک صاحب کے کپڑوں پر گر گیا۔ وہ صاحب‘ سب کو ٹوٹ ٹوٹ پڑ رہے تھے۔ الزام کی زد میں‘ کوئی نہیں آنا چاہتا تھا۔ گرما گرمی میں‘ بات بھونکنے سے آگے نکل گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے‘ سب دست و گریبان کی گرفت میں آ گیے۔ جن صاحب پر سالن گرا تھا‘ ان کے دونوں رخسار آلو سے مثل ہو گیے تھے۔ کچھ نہ پوچھیے‘ ایسی مارا ماری ہوئی‘ کہ چھڑانے اور بچ بچاؤ کرنے کی بجائے‘ وہاں بیٹھے لوگوں نے‘ فرار میں عافیت جانی۔ اسی بھگ دوڑ کے دوران‘ پولیس آ گئی۔ سپاہی بڑی سرعت رفتاری سے جھپٹے‘ گرنیں دبوش کر اسی رفتار سے پلٹے۔ مثاثرہ
شخص سمیت‘ سب کو لے کر چلے گیے۔ مجھے یہ تو معلوم نہیں‘ کہ رستے میں ہی لین دین طے پا گیا‘ یا وہ منزل مقصود تک پنچا دیے گیے۔ جو بھی سہی‘ لہو گرم رکھنے کے اس انداز سے‘ لطف ضرور مال۔ درندہ فضا کا ہو‘ یا زمین پر دھاڑ رہا ہو‘ چیرنے پھاڑنے کا انداز مختلف نہیں ہوتا۔ میں نے غور کیا‘ کہ ڈارون نے انسانی ارتقا کا‘ پرندے سے رشتہ نہیں جوڑا‘ حاالں کہ انسان پرندوں کے خصائل سے‘ الگ تر نہیں ہے۔ سوچ میں ہوں‘ آخر کن بنیادوں پر‘ ڈارون کے نظریے کی نفی کروں۔ خصائل ہی کیا‘ ان کی بعض جبلتیں‘ ایک جیسی ہیں۔ گویا موجودہ صورت میں‘ انسان کسی ناکسی سطع پر‘ ڈارون کی تھیوری پر‘ اترتا نظر آتا ہے۔ اتنی ترقی کے باجود‘ ڈارون کے کہے پر‘ خط نہیں کھینچا جا سکا۔ اگر ماہرین سماجیات نے‘ اس حساس معاملے کو‘ سنجیدہ نہ لیا‘ تو انسان کا تشخص اور شناخت‘ اس دو دھاری تلوار کی گرفت سے‘ نہ نکل پائے گا۔
ماسٹر جی
ماسٹر جی‘ پچھلے تیس سال سے‘ گاؤں کے بچوں کو پڑھا رہے تھے۔ خدا لگتی تو یہ ہی ہے‘ کہ وہ بڑی ایمان داری سے‘ اپنا یہ فریضہ انجام دے رہے تھے۔ جب کبھی بیمار پڑتے‘ تو بیماری کی حالت میں بھی‘ سکول چلے آتے۔ بچوں سے‘ اس طرح محبت کرتے‘ جیسے وہ ان کے اپنے بچے ہوں۔ اگر کوئی بچہ بیمار پڑتا‘ تو اس کا پوچھنے‘ اس کے گھر جاتے۔ بچے بھی ان سے بڑے مانوس تھے۔ یہ ہی نہیں‘ ہر کسی کی غمی خوشی میں‘ شریک ہوتے۔ وہ بچوں کو‘ ناصرف تعلیم کی دولت سے ماال مال کرتے‘ ان کی تربیت کو بھی‘ اپنا فرض سمجھتے تھے۔ اب تو‘ بچوں کے بچے بھی‘ سکول میں داخل ہوچکے تھے۔ بہت سے بچے‘ مڈل اور ہائی سکول دور ہونے کی وجہ سے‘ صرف پرائمری تک‘ تعلیم حاصل کر سکے تھے۔ بیسیوں بچوں نے‘ میٹرک تک تعلیم حاصل کر لی تھی۔ ان سب باتوں کے باوجود‘ ان میں ایک دو عادتیں‘ ہمیشہ سے‘ خراب چلی آ رہی تھیں۔ کئی ایک ناخوشگوار تجربوں کے باوجود‘ انہوں نے اپنی یہ عادت ترک نہ کی تھی۔ کوئی غلط کام کرتا‘ تو منہ پر‘ اور سب کے سامنے ہی‘ ٹوک دیتے۔ وہ اس حوالہ سے‘ بڑے بے لحاظ اور منہ پھٹ واقع ہوئے تھے۔ وہ اس ذیل میں‘ بندہ کوبندہ بھی نہیں دیکھتے تھے۔ وہ بالطلب‘ مشورہ دینے کا‘ ضرورت سے زیادہ‘ شوق رکھتے تھے۔ لوگوں
کے معاملہ میں‘ یوں ہی ٹانگ اڑا لیتے تھے۔ یوں لگتا تھا‘ کہ جیسے اصالح کا انہوں نے ٹھیکہ لے رکھا تھا۔ ایک مرتبہ‘ شہابا کمہار اور جیرا تیلی‘ کسی لین دین کے مسلے پر‘ الجھ پڑے۔ بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ ماسٹر جی‘ بن بالئے وہاں جا پہنچے۔ لوگ بچ بچاؤ کرا رہے تھے‘ یہ بھی میدان میں کود گیے‘ اور بچ بچاؤ کرانے کے ساتھ ساتھ اپنا لیکچر پالنے لگے۔ شہابا کمہار نے‘ مروت سے ہاتھ روک لیا۔ اس کا بچہ‘ ماسٹر جی کے پاس پڑھتا تھا‘ لیکن جیرے تیلی نے انہیں زور دار دھکا دیا‘ اور وہ دور جا گرے۔ ان کے سر پر چوٹ آئی۔ شہابا کمہار یہ برداشت نہ کر سکا اس نے دوبارہ لڑائی جائین کر لی‘ اور بڑی بے جگری سے لڑا۔ دونوں کو ٹھیک ٹھاک ضربیں آئیں۔ کسی کے کام میں‘ مفت میں پنگا لینے کی کیا ضرورت تھی۔ شامو گوجر‘ اور اس کی بیوی کا جھگڑا ہو گیا۔ بات‘ کورٹ کچری تک جا پہنچی۔ انہوں نے‘ معاملہ ادھر ادھر سے معلوم کرایا۔ انہیں بتایا گیا‘ کہ شامو گوجر جھوٹا ہے۔ ماسٹر جی‘ شامو گوجر کے پاس جا پہنچے‘ اور اسے اس کی بات سنے بغیر ہی‘ جھوٹا کرنے بیٹھ گیے۔ اس پر‘ وہ تاؤ میں آ گیا۔ اس نے بال سوچے سمجھے‘ ماسٹر جی پر‘ اپنی بیوی کا الزام دھر دیا۔ ماسٹر جی‘ اس قسم کی امید نہ رکھتے تھے۔ وہاں دو چار اور لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ خبر‘ دیکھتے ہی دیکھتے‘
پورے گاؤں میں پھیل گئی۔ بہت طرح کی باتیں ہوئیں۔ کچھ نے‘ بات کو سچ بھی مان لیا۔ حاالں کہ سرے سے‘ ایسی کوئی بات ہی نہ تھی۔ راجو دودھی‘ ماسٹر جی کی بڑی عزت کرتا تھا۔ جب بھی‘ رستے میں ماسٹر جی اسے ملتے‘ جھک کر سالم کرتا۔ دونوں ہاتھوں سے‘ مصافہ کرتا۔ خوش گوار موڈ میں ہوتا‘ تو ایک گالس دودھ انہیں بھجواتا۔ ماسٹر جی کے کان میں کسی نے ڈال دیا‘ کہ وہ دودھ میں پانی مالتا ہے۔ اس الزام کا‘ حقیقت سے دور کا بھی‘ واسطہ نہ تھا۔ وہ تو‘ پانی کو دودھ سے آلودہ کرتا تھا۔ ماسٹر جی باطور خاص‘ اس کے گھر گئے۔ اس حوالہ سے‘ سمجھانے بیٹھ گیے۔ صاف ظاہر ہے‘ اسے غصہ آنا ہی تھا۔ راجو دودھی نے‘ انہیں پانی تک کا نہ پوچھا‘ اور بڑی کرختگی سے‘ چلتا کیا۔ اس کا لڑکا‘ ماسٹر جی کے پاس پڑھتا تھا‘ اسے بھی اٹھا لیا۔ اس کا موقف تھا‘ ہم نے کون سا‘ پڑھا لکھا کر‘ پٹواری بنانا ہے۔ بڑا ہو کر‘ کام تو یہ ہی کرنا ہے۔ پٹواری‘ دودھ میں پانی مالتا ہے‘ اسے کوئی پوچھتا نہیں۔ راجو تو‘ پانی میں دودھ مالتا تھا اور ماسٹر جی اسے پوچھنے بیٹھ گیے تھے۔ ماسٹر جی کی ان اوٹ پٹنگ حرکتوں سے شرفا سخت پریشان تھے۔ وہ کئی بار چودھری سے ان کی ان خالف معاشرت نقل و حرکت کی شکایت کر چکے چکے تھے۔ چودھری دل گردے کا آدمی تھا متواتر برداشت سے کام لے رہا تھا۔ اس دن تو حد ہی
ہو گئی۔ ماسٹر جی گرفت میں چودھری کا بڑا بیٹا آ گیا۔ انہوں نے کڑیوں کے شوق کے خالف پورے دس منٹ لیکچر دیا۔ اتنی دیر جیرے نائی کی بیٹی سکی بچ کر نکل گئی۔ اگر حسن سے چودھری اور اس کے بیٹے لطف اندوز نہیں ہوں گے تو چودھری ہونے کا فائدہ ہی کیا ہے۔ گاؤں کی عزت رور مشقت کے تصرف کا پہال حق چودھری اور اس کی اوالد کا ہوتا ہے۔ کمی کمین آخر ہوتے کس لیے ہیں۔ چودھری کے بیٹے کو بڑا تاؤ آیا۔ ہاتھ آیا شکار‘ جھٹکے سے بچ گیا تھا۔ اس نے باپ سے‘ ماسٹر جی کی بداطواری اور چودھراہٹی امور میں‘ بےجا دخل اندازی کی شکایت کر دی۔ بیٹے کے منہ نکلے الفاظ نے‘ چودھری کو چکرا کر رکھ دیا۔ دو ٹکے کا منشی‘ اور چودھراہٹ میں مداخلت‘ بالشبہ‘ جرم عظیم تھا۔ طاقت کسی قسم کی روک ٹوک اور نکتہ چینی‘ برداشت کرنے کی صالحیت نہیں رکھتی۔ سرمد کا یہ ہی قصور تھا نا‘ کہ عصری طاقت دشمن‘ دارا شکوہ سے سالم دعا رکھتا تھا۔ یہ ہی نہیں‘ تنقید بھی کرتا تھا۔ مذہب کا کوئی چکر ہی نہ تھا۔ ہاں علما نے‘ سرمد کے خالف فتوی دیا یا ان سے لیا گیا۔ ہند‘ کوئی اسالمی ریاست نہ تھا‘ مسلمان تو‘ اقلیتی آبادی تھے۔ غیرمسلم کلمہ‘ اس کے منہ سے نکلنا‘ جرم نہ تھا۔ باغی‘ باغیوں کے دوست یا طاقت کے نقاد‘ طاقت کو خوش نہیں آ سکتے۔
ماسٹر جی کو‘ چودھری نے ڈیرے پر بال لیا۔ ماسٹر جی وہاں آئے۔ وہاں کچھ لوگوں کو‘ پتہ بازی کرتے دیکھ لیا۔ ان کا دماغ گھوم گیا۔ انہوں نے‘ ادب آداپ بجا النے کی بجائے‘ پتہ بازی اور اس کی پشت پناہی پر‘ چودھری ہی کو لیکچر پالنا شروع کر دیا۔ وہاں امام مسجد صاحب بھی تشریف رکھتے تھے۔ ماسٹر صاحب کی یہ حرکت‘ کھلی گستاخی تھی۔ چودھری صاحب کا کلیجہ دیکھیے‘ سب پی گیے۔ ماسٹر صاحب کی بڑی عزت کی گئی۔ ان کی چاٹی کی لسی سے‘ تواضح کرکے‘ رسمی سی دو چار باتیں کرکے‘ رخصت کر دیا گیا۔ ماسٹر جی‘ چودھری کے رزق پر‘ کلہاڑا چال گیے تھے۔ اس بات کو‘ دو ماہ گزر گیے۔ پھر ایک دن‘ پتا‘ چال کہ ماسٹر جی مذہب کی توہین کے مرتکب ہوئے‘ اور ان کا یہ جرم‘ ناقابل معافی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے‘ ماسٹر جی جوتوں‘ تھپڑوں اور ٹھوکروں کی زد میں آگیے تھے۔ ان پر چھتروں کی بارش کرنے والے‘ ان کے بہت سے چہتے شاگرد بھی تھے۔ کہاں تک برداشت کرتے‘ آخر انسان تھے‘ چل بسے۔ ان کی الش‘ مسجد کی سڑھیوں پر‘ الوارث پڑی تھی۔ انسان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے‘ مذہب کے خالف کچھ نہیں سن سکتا۔ اس بات کو عرصہ گزر چکا ہے۔ چودھری کا بڑا بیٹا‘ چودھری ہے۔ قہقہوں اور ٹھٹھوں میں ملبوس‘ ماسٹر جی کا ذکر ہوتا رہتا ہے۔ مرحوم سراج‘ جو پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا‘ کے
حوالہ سے‘ یہ بھی سننے میں آتا ہے‘ کہ ماسٹر جی کی گستاخ آنکھوں نے‘ امام مسجد صاحب کو‘ حجرے میں‘ ایک لڑکے کے ساتھ‘ رویتی فعل میں مصروف‘ دیکھ لیا تھا۔ اصل حقیقت کیا ہے‘ آج بھی پردہ پڑا ہوا ہے۔ تاہم اس بات پر سب متففق ہیں‘ کہ ماسڑ جی مذہب دشمن تھے۔ ان کے ساتھ جو ہوا‘ عین حق‘ انصاف اور مذہب بچاؤ کے تحت ہوا۔ ہر مذہب دشمن کے ساتھ یہ ہی ہونا چاہیے۔
جواب کا سکتہ
اس دن‘ کوئی سامی نہ آئی۔ یہ میری نوکری کا‘ غالبا پہال اتفاق تھا‘ ورنہ دو سے زیادہ‘ سامیاں معمول میں شامل تھیں۔ بھوک تھی‘ کہ سر چڑھ کر بول رہی تھی۔ مجھے اپنی اس بےقابو بھوک‘ کا احساس تو تھا ہی‘ لیکن میرا دھیان رقیہ اور اپنے بچوں کی طرف‘ لگا ہوا تھا۔ ان کا کیا حال ہو رہا ہو گا۔ وہ بے چارے تو گھر کے کھانے کے عادی ہی نہ تھے۔ اس کا مطلب یہ نہیں‘ کہ رقیہ کھانا پکانا نہیں جانتی تھی۔ وہ سالئی کڑائی اور کوکنگ میں مہارت رکھتی تھی‘ لیکن وہ اس کام کو‘ غیر
شائشتہ اور غیر مہذب قسم کا کام‘ سمجھتی تھی۔ یہ ہنر رکھتے ہوئے بھی‘ اپنے ابا کے گھر میں‘ بہت کم‘ کچن میں داخل ہوتی تھی۔ شادی کے پہلے دن ہی‘ اس نے اپنی اس کمزوری سے‘ آگاہ کر دیا تھا۔ میں نے چند لمحوں کے لیے‘ سنجیدگی اختیار کی اور پھر‘ بڑے افسردہ انداز میں کہا :چلو ٹھیک ہے‘ کچھ کر لیں گے۔ اصل بات تو یہ تھی‘ کہ مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ میں نے آج تک‘ گھر سے کھایا ہی نہ تھا۔ مجھے گھر کا کھانا کبھی خوش نہیں آیا ۔ وہ دن اور آج کا دن‘ میں اپنی کھا لیتا اور رقیہ کی‘ نور دمحم کے ہاتھ‘ گھر بھیج دیتا۔ یہ ہی روٹین سالوں سے چال آتا تھا۔ گھر پر نہ کھانے کے سبب‘ گھروں پر جھگڑے ہو جاتے ہیں۔ کھانے کی صورت میں‘ لون مرچ کے کم یا زیادہ ہونے کی صورت میں‘ بھی جھگڑے کا رستہ کھل جاتا ہے۔ اب اس کی کمزوری میرے ہاتھ میں تھی۔ محتاجی بھی نہ رہی تھی۔ اب میرا پاؤں‘ اوپر تھا اور وہ میری محتاج تھی۔ گویا میں بیجھوں گا‘ تو ہی کھائے گی۔ آج چوں کہ کوئی سامی ہاتھ نہ لگی تھی‘ اس لیے میں نے‘ تیسرے درجے کے ہوٹل سے کھایا اور گھر بھی اسی ہوٹل سے بھجوایا۔ سچی بات تو یہی ہے‘ کہ لقمے حلق کے نیچے اترتے ہی نہیں تھے۔ خیر‘ کیا کرتا‘ پیٹ تو بھرنا ہی تھا۔ پیٹ بڑا
بےلحاظ ہوتا ہے۔ روکھا سوکھا ہی کیوں نہ ملے‘ اسے ملنا شرط ہے۔ ذائقے کی بات‘ بعد میں آتی ہے۔ آج کے حادثے نے ثابت کر دیا تھا‘ کہ بھوک کی صورت میں‘ گھٹیا سے بھی‘ کام چل سکتا ہے اور ذائقہ ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ میں کھانے سے فراغت کے بعد‘ سیٹ پر آبیٹھا۔ آج پلے سے‘ اور بدمزہ کھانا کھانے کے باعث‘ میرا موڈ بڑا اپ سٹ تھا۔ اوپر سے یہ سوچ کر‘ گھبراہٹ سی ہونے لگی کہ گٹھیا کھانا ملنے کے باعث‘ رقیہ اور بچوں کا موڈ خراب ہو گیا ہو گا۔ اب میں کیا کرتا‘ کوئی سامی‘ ہتھے ہی نہیں چڑھی تھی۔ نور دمحم بھی اداس اداس سا تھا۔ اسے یہ تو معلوم تھا‘ کہ میں کھانا کھانے گیا ہوں۔ وہ یہ نہیں جانتا تھا‘ کہ میں نے پلے سے کھایا ہے۔ میں نے‘ کسی دوسرے ذریعے سے‘کھانا گھر بھجوایا تھا۔ اس کی دو وجوہ تھیں۔ نور دمحم آگاہ ہو جائے گا‘ کہ میں نے گھٹیا کھانا گھر بھجوایا ہے۔ وہ یہ بھی جان جائے گا‘ کہ رقیہ کی زبان‘ قنچی سے بڑھ کر کترنے میں تاک ہے۔ کھانا کھائے‘ ابھی پانچ منٹ ہی ہوئے ہوں گے‘ کہ ایک سامی آ گئی۔ مجھے اس پر بڑا تاؤ آیا۔ کتنے فضول لوگ ہیں‘ وقت کووقت نہیں دیکھتے۔ جب دل چاہتا ‘منہ اٹھا کر چلے آتے ہیں۔ پتہ نہیں‘ ان لوگوں کو کب عقل آئے گی۔ وقت کی قدر نہ کرنے
کی وجہ ہی سے‘ یہ خطہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہے۔ غصے سے‘ میرا بی پی ہائی ہو گیا اور مجھے چکر سے آنے لگے۔ وہ میری حالت دیکھ کر گھبرا گیا۔ جانے لگا‘ پھر جانے کیا سوچ کر‘ پیچھے مڑا اور مجھے ہسپتال لے گیا۔ میری حالت کے پیش نظر‘ مجھے ایمرجنسی میں بھرتی کر لیا گیا۔ سچی بات تویہ ہے‘ اس شخص نے‘ میری بڑی خدمت کی۔ پلے سے‘ دوائیں وغیرہ ال کر دیتا رہا۔ دیگر‘ اس کی بھاگ دوڑ کو بھی‘ شک کی نظر سے‘ نہیں دیکھا جا سکتا۔ میں ہسپتال میں تین دن رہا۔ تشخیص پر‘ معلوم ہوا‘ کہ خرابی ناقص غذا کے باعث ہوئی تھی۔ مجھے سامی پر غصہ آیا‘ کہ کم بخت تھوڑا پہلے چال آتا‘ تو مجھے ہسپتال کی راہ نہ دیکھنا پڑتی۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ پر موجود تھی‘ کہ اس نے میری اپنوں سے بڑھ کر‘ خدمت کی تھی۔ میں نے سیٹ پر آتے ہی‘ اس کی فائل مکمل کی۔ موصولہ میڈیکل بل‘ مروجہ ریٹ سے کم تھا۔ دوسرا تکلیف بھی‘ اس کی تساہل پسندی کی وجہ سے‘ ہوئی تھی‘ اس لیے میں نے‘ اس سے وصولی کو‘ غیر اصولی نہ سمجھا۔ میرے لیے‘ ایک بات حیرت کا سبب بنی رہی‘ کہ آخر رقیہ اور بچوں پر‘ ناقص غذا کا اثر کیوں نہ ہوا۔ آخر ان کے معدوں نے‘ اس گھٹیا خوراک کو‘ کیوں کر برداشت کر لیا۔ وہ تو مجھ سے‘ کہیں بڑھ کر‘ نازک طبع کے مالک تھے۔ بات آئی گئی ہو گئی
اور معاملہ روٹین میں آ گیا۔ ایک دن مجھ پر یہ راز کھال‘ کہ کھانا‘ اس کے ابا اماں کے گھر‘ جاتا تھا اور یہ نیک فریضہ‘ نور دمحم انجام دیتا تھا۔ رقیہ خود اور بچوں کو گھر کا کھانا کھالتی تھی۔ اس بات کو‘ دو سال ہو گیے ہیں اور میں اس گتھی کو‘ آج تک نہیں سلجھا سکا‘ کہ کسی بچے نے‘ بھول کر بھی‘ نہیں بتایا‘ کہ وہ کھانا اپنی ماں کے ہاتھ کا پکا ہوا‘ کھاتا ہے۔ سوچ میں ہوں‘ کہ رقیہ نے آخر کھانا نہ پکانے کا‘ پہلے ہی روز کیوں عذر کیا تھا۔ آخر مجھے ہی کیوں‘ وہ کھانا پکا کر نہ دینا چاہتی تھی۔ میں خوب جانتا ہوں‘ کہ میری کمائی کا بڑا حصہ‘ اس کی اماں ابا کی‘ گرہ میں جاتا ہے۔ یقینا یہ بہت بڑا تیاگ تھا‘ کہ وہ بہترین کھانا‘ جو اس کے‘ اور اس کے بچوں کے منہ کا تھا‘ اپنے ابا اماں کو بھیج دیتی تھی۔ مجال ہے‘ جو نور دمحم نے‘ کبھی اس حقیقت کو کھوال ہو۔ بالشبہ‘ وہ وفادار مالزم تھا۔ میرا ناسہی‘ فریق مخالف کا سہی۔ شاہوں کے‘ گماشتے بھی‘ یہ ہی کرتے آئے ہیں۔ کھاتے شاہ کا ہیں‘ وفاداری شاہ کے دشمنوں سے نبھاتے ہیں۔ اس میں ایک حقیقت یہ بھی موجود تھی‘ کہ افسر کی بیگم سے بنا کر رکھو‘ اس سے ناصرف افسر سیدھا رہتا ہے‘ بلکہ دوہرا حصہ ہاتھ لگتا ہے۔ بہت سے کام نکلواتا تھا۔ مخصوص سامیوں کے کام‘ بیگم‘ نور دمحم کے ذریعے‘ نکلواتی تھی۔ اس میں سے بھی‘ نور
دمحم اپنا حصہ وصولتا تھا۔ یہ باتیں تو ضمنا کہہ گیا ہوں‘ اصل سواالت کا جواب‘ میرے لیے چیلنج بنا ہوا ہے۔ میں کسی کے سامنے اپنا معاملہ نہیں رکھ سکتا۔ بیگمات لین دین میں‘ موثر کردار ادا کرتی آئی ہیں‘ لیکن میرے سوال‘ یقینا اپنی نوعیت کے ہیں‘ اور دفتری تاریخ میں‘ اپنی مثال نہیں رکھتے۔ خدا کے لیے‘ کوئی بتائے‘ یہ سب کیا تھا۔ آخر میں‘ کب تک‘ سوال کے‘ جواب کے سکتے پر‘ حیرت زدہ کھڑا رہوں گا۔ 2-4-1972
پٹھی بابا
زرینہ‘ دو سال پہلے‘ میری زندگی میں بالکل اچانک‘ اور حادثاتی طور پر‘ داخل ہوئی۔ جوں جوں وقت آگے بڑھتا گیا‘ توں توں وہ‘ میری روح وجان میں اترتی گئی۔ یہ معاملہ یک طرفہ نہ رہا۔ میں بھی اہمیت اختیار کرتا گیا۔ وہ جب تک مجھے دیکھ نہ لیتی‘ سکھ اور سکون کے سانس سے محروم رہتی۔ اکثر کہتی‘
اگر تم مجھے نہ ملے‘ تو جان دے دوں گی۔ اب میں بھی‘ اس کے بغیر زندہ رہنے کا‘ تصور نہیں کر سکتا تھا۔ اب غور کرتا ہوں‘ کہ وہ واقعہ ایسا غیرمعمولی نہ تھا‘ جس کے نتیجہ میں‘ دو انسان‘ اتنے قریب آ جاتے‘ کہ الگ ہونے کی سوچ‘ سوچی ہی نہ جا سکے۔ قربت نے‘ دو دلوں اور دو روحوں کو فرحت بخشی۔ ایک بار‘ اسے کچھ دنوں کے لیے‘ ماموں کے ہاں‘ جانا پڑا۔ یہ کچھ دن‘ ہم دونوں کے لیے‘ صدیوں پر بھاری گزرے۔ ہوا یہ‘ کہ میں منڈی سے گھر کا سودا ال رہا تھا۔ محلے کی چھوٹی گلی سے گزرتے ہوئے‘ وہ مجھ سے ٹکرا گئی۔ سامان کا توڑا‘ میرے سر سے گر گیا۔ وزن کی وجہ سے‘ میرا دماغ پہلے ہی‘ خراب ہو گیا تھا‘ اوپر سے وہ ٹکرا گئی‘ اور توڑا زمین پر آ رہا تھا۔ میرے منہ سے‘ بےساختہ نکل گیا۔ اندھی ہو‘ دیکھ کر نہیں چال جاتا۔ کہنے کو تو کہہ گیا‘ لیکن بعد میں‘ محسوس ہوا‘ کہ میرا یہ انداز و رویہ‘ قطعی غیر مہذیب اور غیرشریفانہ تھا۔ اس نے‘ غصہ کرنے کی بجائے‘ مسکرا کر‘ میری طرف دیکھا‘ اور سوری کا اظہار کیا۔ اس کی سوری میں‘ مالوٹ نہ تھی‘ بالکل اصلی اور صاف شفاف۔ اس واقعے نے‘ ہمیں قریب۔۔۔۔۔اور قریب کر دیا۔ ایک وقت ایسا
آیا‘ کہ ہم دونوں‘ چھپ چھپ کر ملنے سے‘ اکتا گیے تھے۔ ہماری کیفیت‘ چوروں سے‘ کسی طرح مختلف نہ تھی۔ سچی محبت کرنے کے باوجود‘ ہم چور سے‘ ہو گیے تھے۔ پتہ کی آواز تک‘ ہمارا خون‘ خشک کر دیتی تھی۔ پکڑے جانے کے‘ کئی موقعے آئے‘ لیکن ہر بار‘ هللا نے ہاتھ دے کر‘ بچا لیا۔ اکثر سوچتے‘ یہ سب‘ کب تک چل سکے گا۔ زرینہ کی شادی ہو گئی‘ تو میں مارا جاؤں گا۔ وہ اپنی پہاڑ زندگی‘ کس طرح گزارے گی۔ وہ تو میرے بغیر‘ مر جائے گی۔ وہ اپنے خاوند کو‘ خوش گوار زندگی‘ نہ دے سکے گی۔ گویا ہم دونوں کا‘ ہر لمحہ‘ ہوکوں اور سسکیوں میں گزرے گا۔ ہم کسی کام کے نہ رہیں گے۔ اب‘ جب کہ کوئی ایسی بات ہی نہیں‘ ہم بےزار زندگی گزار رہے ہیں‘ اس کی شادی کے بعد‘ قیامت ہی ٹوٹ پڑے گی۔ ہم دو الگ برادریوں کے لوگ تھے۔ ہم دونوں کے ہاں‘ غیر برادری میں‘ شادی کا تصور تک موجود نہ تھا۔ کئی بار‘ فرار ہو جانے کی ٹھانی۔ ہم دونوں بنیادی طور پر‘ بزدل تھے۔ دوسرا‘ میرے پاس کوئی روزگار بھی نہ تھا۔ عملی زندگی میں‘ تہی دستی‘ شخص کو‘ اس کے ہونے سے‘ بہت دور رکھتی ہے۔ جو بھی سہی‘ میری پہلی اور آخری ترجیع‘ اس کا حصول تھا۔ کوئی کام کرنے کو‘ جی ہی نہیں چاہتا تھا۔ میں اس کے حصول کے لیے‘کئی بابوں کے پاس گیا۔ اماں ابا کی گرہ کا چرایا مال‘ انہیں دیتا رہا۔ ہم دونوں نے‘ اپنے ابنے والدین کو‘ ان بابوں کے تعویز پالئے۔ ان کے سرہانوں اور چارپائی کے
پایوں کے نیچے‘ تعویز دبائے۔ خدا جانے‘ کیا کیا پاپڑ بیلے‘ لیکن کسی پر رائی بھر‘ اثر نہ ہوا۔ حرام ہے‘ جو کسی نے‘ ہم سے پوچھا ہو‘ کہ کیا چاہتے ہو۔ اب میرا‘ ان فراڈ بابوں سے‘ یقین اٹھ گیا تھا۔ جب شیخ ہی بگڑ گیا ہو‘ تو سوسائٹی میں خرابی آنا‘ الزم ٹھہر جاتا ہے۔ شیخ مایوس اور ناامید لوگوں کا‘ زمین پر آخری سہارا ہوتا ہے۔ سیاست‘ لوٹ عام کرتی ہے‘ مولوی تقسیم کے دروازے کھولتا ہے۔ ایسی صورت حال میں‘ بندہ جائے‘ تو کدھر جائے۔ بس‘ اب بابا حق کے پاس جانا‘ باقی رہ گیا تھا۔ سابقہ تجربوں کے باعث‘ میرا دل نہیں مانتا تھا‘ کہ میں ان کے پاس جاؤں۔ زرینہ‘ مجبور کر رہی تھی‘ اور کہہ رہی تھی‘ حوصلہ نہ ہارو‘ آزمانے میں کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ ہو سکتا ہے‘ یہاں ہی سے‘ خیر پڑ جائے۔ میں نے‘ دل میں سوچا‘ خیر خاک پڑنی ہے‘ بس امی کی گرہ کا چرایا مال‘ لوٹا کر آ جاؤں گا۔ اس کے اصرار پر‘ میں نے جانے کی حامی بھر لی۔ مردہ دلی سے‘ میں بابے حق کے پاس پہنچ گیا۔ پہلی نظر میں‘ بابا حق‘ مجھے دوسرے پیروں سے‘ بہت ہی مختلف لگا۔ اس کے چہرے پر‘ عیاری سے زیادہ‘ وقار اور وجاہت تھی۔ مجھے دیکھتے ہی‘ بابے حق کے لبوں پر‘ بڑی زہریلی مسراہٹ نمودار ہوئی۔ مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ میں ایک گوشے میں‘ دبک کر بیٹھ گیا۔ بابے حق نے‘ ایک بار پھر میری طرف دیکھا۔ اب
کی بار کی دیکھنی میں‘ کھوج کا عنصر موجود تھا‘ یا یہ بھی ہو سکتا ہے‘ کہ میرے ظرف کا اندازہ لگا رہے تھے۔ تھوڑی دیر کے لیے‘ محفل کو‘ کاٹ کھانے والی‘ چپ سی لگ گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد‘ بابا حق نے‘ حاضرین سے مخاطب ہو کر :کہا تم میں سے‘ کسی کی بہن یا بیٹی کو‘ کسی سے عشق ہو جائے‘ تو تمہارا کیا ردعمل ہو گا۔ ہر چہرے پر غیرت سے لبریز اشتعال پھیل گیا۔ ایک صاحب نے :کہا میں اس عاشق کو چیر کر رکھ دوں گا۔ :بابے نے پھر پوچھا بہن یا بیٹی کا‘ کیا کرو گے۔ اس نے بالتوقف کہا :اس کے سینے میں‘ چھے کی چھے گولیاں اتار دوں گا۔ :بابا پھر بوال اگر کوئی تمہاری ماں سے‘ عشق فرمانے لگے‘ اور تمہاری ماں بھی‘ اس عشق میں‘ برابر کی شریک ہو‘ تو کیا کرو گے۔ :ایک اور صاحب بولے
میں ایسی ممتا کے منہ پر‘ توک کر‘ سو لعنتیں بھیجوں گا اور اسے ہمیشہ کے لیے‘ خیرآباد کہہ دوں گا۔ اس گفتگو کے باعث‘ پوری محفل پر‘ سکتے کا عالم طاری ہو گیا۔ یہ سکتائی حالت‘ سات منٹ طاری رہی۔ لگتا تھا‘ کہ بابے نے‘ کوئی بڑی ہی‘ کڑوی بات کہہ دی تھی۔ یہ عشق بازی‘ ازلوں سے‘ معاشروں کا حصہ رہی ہے۔ عاشقوں کے نام آج بھی‘ زندہ ہیں۔ ان کے متعلق‘ شعرونثر میں‘ ان گنت قصے کہانیاں ملتی ہیں۔ دوسرا‘ یہ تو‘ انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ اسے کیسے برا کہا جا سکتا ہے۔ سچے عاشقوں کی لوگ عزت کرتے آئے ہیں۔ خدا خدا کرکے‘ خاموشی کا بت ٹوٹا۔ بابا گویا ہوا :میرے بچو! یہ عشق نہیں‘ جنسی ہوس ہے۔ جو چیز‘ تم اپنی ماں بہن اور بیٹی کے حوالہ سے‘ پسند نہیں کرتے‘ اوروں کی ماں بہن اور بیٹی کے لیے‘ کیوں روا رکھتے ہو۔ یہ دوہرا معیار ہے۔ مومن کی زندگی‘ دوہرے معیار کی حامل نہیں ہوتی۔ کوئی دیکھے نادیکھے‘ هللا تو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ مومن کے لیے‘ نکاح کا رستہ موجود ہے۔ اس غلط فہمی میں نہ رہنا‘ کہ کوئی نہیں دیکھ رہا۔ لوگوں کی دوربینیں‘ ان عاشقوں کو‘ فوکس میں رکھتی ہیں۔ کسی مومن کے پاس‘ اتنا وقت نہیں ہوتا‘ جو اس کام پر‘ اپنا وقت برباد کرے۔ مومن‘ کائنات کے‘ ہر ذرے پر‘ نظر رکھے ہوئے ہوتا ہے۔ جہاں کہیں‘ خرابی آتی ہے‘ فورا سے پہلے‘ درستی کی تدبیر کرتا۔ یہ سب‘ بیمار ذہنوں کا کام ہوتا ہے۔
یہ کس طرح درست ہو سکتا ہے‘ کہ مرد یا عورت پہٹھ‘ تنور اور حمام پر موضوع گفتگو بنیں۔۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔۔۔ بیٹا یہ درست نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ درست نہیں۔۔۔۔۔۔ افسوس ہے‘ ان بہنوں‘ بیٹیوں اور ماؤں پر‘ جو محض‘ چند لمحوں کی لذت کے لیے‘ اپنوں کی عزت کو‘ بازار میں لے آتی ہیں۔ اس جنسی فراڈ کو‘ وہ عشق کا نام دیتی ہیں۔ ان کی کوئی عزت نہیں‘ اس کا مطلب یہ نہیں‘ کہ ان کے اپنوں کی بھی‘ کوئی عزت نہیں۔ مانتا ہوں‘ هللا‘ ان کا کچھ نہیں لگتا‘ یہ تو ان کے اپنے ہیں۔ :ایک صاحب نے سوال کیا بابا جی! ہیر اوررانجھا‘ سچے پریمی تھے۔ آپ کے؛ اس پیمانے کی رو سے‘ وہ بھی غلط ٹھہرتے ہیں۔ میں نے کب کہا ہے‘ وہ درست تھے۔ رانجھا کام چور اور نکما شخص تھا۔ اسے یہ ہی کام‘ آسان لگا‘ لہذا اسی میں جٹ گیا۔ دوسرا اس کا پیار‘ رد عملی تھا۔ جاؤ‘ جا کر‘ ہیر رانجھا مثنوی کا‘ مطالعہ کرکے‘ دیکھ لو۔ اس نے یہ کام کرکے‘ بنی نوع انسان کی‘ کیا خدمت انجام دی ہے۔ کام وہ ہی اچھا‘ جس سے‘ بال کسی تفریق‘ انسان کی بھالئی نکلتی ہے۔ کیدو غیرت کی عالمت ہے‘ اسے سب برا کہتے ہیں۔ لفظ عشق‘ صرف هللا ہی کے لیے ہے۔ ماں سے‘ بڑھ کر کون ہو گا۔ اس کا‘ یا اس سے‘ پیار‘ محبت‘ عزت‘ خلوص‘ شفقت‘ ہم دردی‘ رحم دلی وغیرہ ہو
سکتی ہے‘ عشق نہیں۔ هللا سے عشق‘ راستی پر رکھتا ہے۔ جنسی حاجت‘ گم راہی کی طرف لے جاتی ہے۔ انسان‘ الٹے قدموں چلنے لگا ہے۔ الٹے قدم‘ ڈائن چلتی ہے‘ شخص ڈائن نہیں۔ میرے پچو! الٹے چلن کے باعث‘ انسان‘ خسارہ میں چال آتا ہے۔ سب‘ سکندر کا نام جپتے ہیں۔ کوئی بتا سکتا ہے‘ اس کے پیش نظر‘ کون سا فالحی ہدف تھا۔ زمین اور وسائل پر‘ بازور شمشیر قبضہ جمانا‘ کون سی خدمت میں آتا ہے۔ ہر مزاحم‘ اور غیر کا سر‘ کاٹتے چلے جانا‘ کہاں کی دلیری ہے۔ دلیر تو وہ ہے‘ جو جانوں کی حفاظت کرے۔ وہ اچھا اس لیے ہے‘ کہ اس نے ہندو راجہ پورس کو شکست دی۔ درستی کا یہ معیار‘ قطعی غیر منطقی اور غیرانسانی ہے۔ یہ ہی حال‘ محمود کا ہے‘ اسالم میں کہاں لکھا ہے‘ کہ غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو‘ ڈھاؤ یا نقصان پہنچاؤ۔ یقین تو‘ من منے کا میلہ ہے۔ دیکھو‘ اوروں کو چھوڑو‘ تم جو موجود ہو‘ مجھ سے وعدہ کرو درست چال ہی کو‘ درست سمجھو گے۔ انسان کے لیے‘ کچھ کرو۔ عشق‘ صرف هللا سے کرو۔ ہر ماں‘ بہن اور بیٹی کو‘ عزت اور احترام کی نظروں سے‘ دیکھو۔ نسل جاری رکھنے‘ اور جنسی تسکین کے لیے‘ نکاح کا رستہ اختیار کرو۔ اگر انصاف کر سکتے ہو‘ ایک کیا‘ چار نکاح کرو۔ تمہیں دیکھ کر‘ لوگ‘ از خود‘ راستی کی راہ‘ پکڑ لیں گے۔ بابا خامش ہوا‘ تو چاروں طرف سے‘ حق حق حق کے آوازے بلند ہونے
لگے۔ مجھے وہ بابا‘ بابا کم‘ کھپتی زیادہ لگا۔ ہر بات‘ پٹھی کر رہا تھا۔ وہ بابا حق کم‘ بابا پٹھی زیادہ تھا۔ میں نے مدعا بیان کیے بغیر‘ کھسک جانے کا ارادہ کیا۔ میں نعروں کے بیچ‘ نکل جانا چاہتا تھا۔ اچھا موقع تھا۔ کسی کی‘ میری جانب توجہ نہ تھی۔ میں نے‘ جاتے ہوئے‘ چور نظروں سے دیکھا۔ اس کی نظریں‘ مجھ پر جمی ہوئی تھیں۔ اب کہ اس کے چہرے پر‘ سنجیدگی اور متانت تھی۔ مجھے یوں لگا‘ جیسے اس کا مخاطب‘ کوئی اور نہیں‘ میں ہی تھا۔ اس نے‘ مجھے جاتے ہوئے‘ روکا نہیں۔ میں نے‘ کمرے سے باہر آکر‘ گھڑے سے دو گالس پیے‘ تو جان میں جان آئی۔ واپسی پر‘ میرے اندر جنگ چھڑ گئی۔ دل کہہ رہا تھا‘ بابے نے جو کہا‘ بکواس سے زیادہ‘ کچھ نہیں۔ دماغ مان رہا تھا‘ بابے کی باتوں میں دم تھا۔ اگر بابے کی باتیں‘ زرینہ سن لیتی‘ تو صدمے سے‘ وہیں فوت ہو جاتی۔ اب کوئی رستہ بھی تو باقی نہ رہا تھا۔ بابے کو نہ مانتے ہوئے بھی‘ شاید نے دم نہ توڑا تھا۔ زرینہ انتظار میں تھی۔ وہ گھر کی چھت پر‘ دھلے کپڑے ڈالنے کے لیے‘ آ جا رہی تھی۔ اسے دیکھتے ہی‘ گزرے لمحموں کی بازگشت تک باقی نہ رہی۔ مجھے یاد تک نہ رہا‘ کہ میں بابا حق سے‘ مال بھی تھا۔ ہاں‘ جب رات کو‘ چارپائی پر لیٹا‘ تو حق حق
حق کے نعروں نے‘ مجھے دیر تک سونے نہ دیا۔ میں نے بڑی کوشش کی‘ کہ دھیان ادھر ادھر کرکے‘ ان نعروں سے‘ خالصی پا لوں‘ مگر کہاں جی۔ میری ایما کے برعکس‘ میرے منہ سے بھی‘ حق حق حق کے آوازے نکلنے کو ہی تھے‘ کہ میں نے‘ سورت اخالص پڑھنا شروع کر دی‘ شاید خدا سے‘ عشق کا‘ میرا یہ پہال قدم تھا۔ یہ پہال موقع تھا‘ جو اثرآفرینی کے لیے‘ دم والے پانی اور تعویزوں کا مرہون منت نہ ہوا۔ اس کے لیے‘ مجھے ایک اکنی بھی نہ دینا پڑی۔
میں ابھی اسلم ہی تھا
ہم کچھ دوست‘ ایک دربار پر بٹھے ہوئے تھے۔ پہت سے لوگ‘ آ اور جا رہے تھے۔۔ ان میں ہر کسی کی‘ منزل ایک نہ تھی۔ ہر کوئی‘ الگ سے اپنی حاجت اور آرزو رکھتا تھا۔ ایک جگہ جمع ہو کر بھی‘ وہ ایک دوسرے سے‘ فکری طور پر کوسوں دور تھے۔ یہ ہی نہیں‘ ایک ساتھ آنے والے‘ ایک ہی کنبہ کے لوگ‘ الگ نوعیتوں کی خواہشات‘ دل میں چھپا کر آئے تھے۔ ایک جوڑا‘ اپنے نومولود بچے کو لے کر‘ حاضر ہوا تھا۔ دربار کی
سیڑھیوں کے قریب‘ آپس میں الجھا ہوا تھا۔ ایک ساتھ رہ کر اور ایک بچے کے مائی باپ ہو کر بھی‘ وہ ایک سی سوچیں؛ ایک سے نظریے اور ایک حاجات نہ رکھتے تھے۔ ان کےباطن میں‘ پنپنے والی آرزویں‘ ایک دوسرے کے قریب تر نہ تھیں۔ ہر کوئی‘ ذات کے حصار میں مقید تھا۔ اگر اس جوڑے میں‘ کسی بھی سطح پر‘ فکری اشتراک ہوتا تو یوں آپس میں الجھ نہ رہے ہوتے۔ جملہ آسمانی تعلیمات کے‘ دو ہی مقاصد رہے ہیں۔ انسان کا فکری اشتراک‘ دوسروں کی خدمت کرنا اور ان کی خیرخواہی چاہنا۔ اس صورت حال کے پیش نظر‘ انسان اپنی ذات سے‘ ادھر ادھر نہیں ہوتا۔ وہ تامرگ اپنے لیے جیتا ہے‘ اور اپنی آرزوں کی تکمیل کے لیے کوشاں رہتا ہے اور اسے ہی‘ مقصد حیات گردانتا ہے۔ ہم چاروں دوست‘ اپنی اپی آرزوں کی پوٹلی اٹھا کر چلنے ہی کو تھے‘ کہ دربار سے باہر‘ پانوں سگرٹوں کی دکان پر‘ ریڈیو :پر اختر شیرانی کی یہ غزل چھڑ گئی میں آرزو جاں لکھوں یا جان آرزو تو ہی بتا دے ناز سے‘ ایمان آرزو یہ غزل مجھے بڑی پسند تھی۔ میں نے دوستوں سے کہا :یار
ذرا ٹھہر جاؤ۔ یہ غزل سن کر چلتے ہیں۔ ان کی مہربانی‘ کہ انہوں نے میری بات مان لی اور غزل ختم ہونے تک‘ رک گیے‘ ورنہ سارے رستے بوریت اور افسردگی‘ طاری رہتی۔ جب غزل کا یہ شعر ایمان جان نثار تری اک نگاہ پر تو جان آرزو ہے تو ہی ایمان آرزو آیا تو‘ ایک ملنگ بابا‘ جو کافی عمر رسیدہ تھا‘ وجد میں آ گیا‘ اور پھر اٹھ کر ناچنے لگا۔ ہم سب کی سوچیں‘ وہیں منجمد ہو گئیں۔ آخر شعر میں‘ وجد میں آنے‘ اور پھر ناچنے والی کون سی بات ہے۔ سچی بات تو یہ ہی ہے‘ کہ ہم غزل سننے سے زیادہ‘ اس ملنگ بابا کو دیکھ رہے تھے۔ یوں لگتا تھا‘ جیسے اس کے اندر‘ کوئی بےچین روح‘ مچل گئی تھی۔ یہ فعل‘ اس کا اختیاری نہ تھا۔ کسی جذبے نے‘ اسے تھرکنے پر مجبور کر دیا تھا۔ غزل ختم ہوئی‘ تو ملنگ بابا‘ نڈھال ہو کر‘ گر پڑا۔ لگتا تھا‘ جیسے صدیوں کا سفر طے کرکے‘ اس مقام پر پہنچا ہو۔ نوید ہم میں سے‘ خوش طبع واقع ہوا ہے۔ بابے کی عمر دیکھو‘ اور کام دیکھو۔ رہتا کہاں ہے‘ اور سوچیں کسی حسینہ کی زلفوں میں‘ اٹکی ہیں۔ یقینا ناکام محبت‘ اسے اس مقام تک لے
آئی ہے۔ شاہد بوال :چھوڑو یار‘ ان باتوں کو۔۔۔۔۔۔غزل کی زبان تو دیکھو‘ کیا شگفتگی‘ شائستگی اور ہم صوت آوازوں کا اسستعمال ہوا ہے۔ مضمون بھی تو‘ اپنی نوعیت کا ہے۔ نغمیت تو دیکھو۔ زبیدہ خانم نے بھی تو‘ گائیکی میں حد کر دی ہے۔۔ واہ۔۔۔۔۔۔۔۔ واہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یار‘ کیا بات ہے۔ ساجد نے شاہد کو مزید بات نہ کرنے دی۔ بوال :اوئے چپ کر کیہ بھور رہا ایں۔ بات ملنگ کی ہو رہی ہے‘ تم غزل کی زبان اور گائیکی کو لے بیٹھے ہو۔ پھر تم ہی اپنی چھوڑو۔ شاہد نے بےزاری سے کہا۔ ملنگ جذب کی آخری حالت میں تھا۔ اسے سمجھنے کے لیے‘ اس کی حالت اور کیفیت میں جانا پڑے گا‘ ورنہ ملنگ سمجھ میں نہ آ سکے گا۔ اچھا تو تمہارا کہنا یہ ہے کہ ہم سب اٹھ کر ناچنا شروع کردیں۔ بھائی میرے‘ ناچنے سے کچھ سمجھ میں نہیں آئے گا۔ اس سے کیا ہوتا ہے‘ عشق نچاتا ہے‘ اور ہوش چھین لیتا ہہے۔ میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا‘ ملنگ کو اس کے ماضی سے
جڑی حسینہ کی یاد نے اسے نچایا تھا۔ پگلے‘ میں اس عشق کی بات نہیں کر رہا۔ میں تو ذات واحد سے‘ عشق کی بات کر رہا ہوں۔ ملنگ ناچتے وقت‘ ملنگ نہ تھا۔ بس وہ ملنگ دکھائی دیتا تھا۔ اگر وہ اپنی موجودہ حالت میں ہوتا‘ تو کبھی نہ ناچتا۔ وہ تو ٹھیک سے چلنے کی پوزیشن میں نہ تھا۔ یہ رقص‘ جو تم د یکھ رہے تھے‘ وہ تو بڑی دور کی بات ہے۔ تمہارا مطلب یہ ہے‘ کہ ملنگ کوئی پہنچی ہوئی شے ہے۔ میں نے یہ کب کہا ہے‘ کہ وہ کوئی پہنچی ہوئی شے ہے۔ یہ معاملہ‘ بس چند لمحموں سے‘ تعلق رکھتا ہے۔ اس کیفیت پر اختیار نہیں۔ اس میں شخص اپنی نفی کے عمل میں داخل ہو چکا ہوتا ہے۔۔ اثبات میں آنے کے بعد‘ اسے کچھ یاد نہیں ہوتا‘ کہ کیا اور کیوں ہوا۔ دوسرا شخص‘ اگر ان لمحوں کو جان لے‘ :تو پھٹ جائے۔ غالب نے خوب کہا ہے دیتے ہیں بادہ‘ ظرف قدح خوار دیکھ کر :یا ر ذرا اس شعر کو دیکھو‘ کہاں لے جا رہا ہے ایمان جان نثار کروں تری اک نگاہ پر
تو جان آرزو ہے تو ہی ایماان آرزو یہ شعر سن کر عشق مجازی واال ہو‘ یا عشق حقیقی واال‘ اپنے آپے میں رہ نہیں سکتا۔ یہ شعر سن کر‘ عشق مجازی ہو یا عشق حقیقی‘ مبتال اپنے آپے میں رہ نہیں سکتا۔ اگر آپے میں رہتا ہے‘ تو وہ عشق نہیں‘ سوداگری ہے یا پھر‘ ابھی راہ میں ہے۔ ۔نوید بوال :یہ تم‘ اس میں تصوف کہاں سے لے آئے ہو۔ اس غزل کا‘ تصوف سے‘ دور کا بھی واسطہ نہیں۔ یہ تم اپنے حوالہ سے بات کر رہے ہو۔ میں ملنگ کی‘ بےخودی کے ییش نظر بات کر رہا ہوں۔ جس مقام پر‘ وہ ان لمحوں میں تھا تم کیا‘ کوئی بھی نہیں جانتا۔ ابوعمر حمادی صرف عالم فاضل ہی نہیں تھا‘ سرکاری قاضی بھی تھا۔ اس ٹھوس حقیقت کے باوجود‘ وہ منصور کی وجہ سے وجود پاتا ہے۔اس کے قتل کی بنیادی وجہ‘ تو منصور کی تحریریں تھیں۔ اس کے قلم کی زد میں‘ مذہبی اور اقتداری طبقے تھے۔ اگر فرد ان کو نہ چھیڑے‘ تو کچھ نہیں ہوتا۔ ان کو چھیڑنے کی صورت میں ہی‘ جان سے جاتا ۔ہے۔ شاہد نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔ حمادی اسی لیے زندہ ہے‘ کہ اس نے‘ منصور کے قتل کا فتوی دیا تھا‘ ورنہ سیکڑوں مولوی‘ مفتی اور قاضی ہو گزرے ہیں‘
انہیں کون جانتا ہے۔ وہ دکھنے والے منصور کو پہچانتا تھا‘ اگر وہ اناالحق کا نعرہ لگانے والے‘ قیدی منصور کو جانتا ہوتا‘ تو اس کے قتل کا کبھی فتوی نہ دیتا۔ وہ مدعی کا‘ اس کے دعوے کی سطح کا‘ امتحان کرتا‘ تو ہی دودھ کا دودھ‘ پانی کا پانی ہو یاتا۔ اس حوالہ سے‘ تو بات ہی نہیں ہو رہی اور ناہی ہماری گفتگو کا‘ یہ موضوع ہے۔ میں تو ملنگ کے بےخود ہو کر‘ ناچنے کے حوالہ سے بات کر رہا ہوں۔ جب آدمی آپے میں نہیں ہوتا‘ تو عموم اور معمول سے باہر نکل جاتا ہے۔ وہ دونوں اس موضوع پر بحث کرنے لگے۔ شاہد کا موقف تھا‘ کہ اناالحق کا نعرہ‘ اس کے قتل کی وجہ نہ تھا۔ وہ مذہبی اور مقتدر حلقوں پر‘ تنقید کرتا تھا۔ ابوعمر حمادی‘ اس کے علم وفضل سے آگاہ تھا۔۔ اس کے ہوتے‘ حمادی کے سکے کھوٹے رہتے۔ وہ دین کی‘ سرکاری تشریح کرتا تھا‘ جب کہ منصور اس کی حقیقی شرح کرتا تھا‘ تب ہی تو دس سال قید رہا۔ لوگ اس کے گرویدہ تھے۔ سرکار اس کی مقبولیت کو کیوں کر برداشت کر سکتی تھی۔ اسے بھیڑیے کا بہانہ اختیار کرنا پڑا۔
یار وہ دینی علم کے حوالے سے ہی نہیں‘ روحانی علم کے
حوالے سے بھی بہت آگے تھا۔ حمادی سے لوگ‘ صدیوں میں بھی وہاں نہیں پہنچ پاتے۔ اگر تم ملنگ بابے کی باڈی لنگوئج کا مطالعہ کرتے‘ تو شاید زیادہ سمجھ پاتے۔ وہ اوپر دیکھ رہا تھا۔ اس کی انگلی بھی اوپر کو اٹھی ہوئی تھی۔ وہ دنیا سے متعلق ہی نہ رہا تھا۔ وہ اپنی گفتگو میں مصروف تھے‘ جب کہ میں سوچ رہا تھا‘ کہ ریحانہ میری زندگی میں‘ کیسے آ سکتی ہے۔ ریحانہ میری خالہ زاد تھی۔ ہمارا بچپن ایک ساتھ گزرا تھا۔ اگر میری ماں اللچی تھی‘ تو خالہ بھی‘ اس سے کسی طرح کم نہ تھی۔ خالہ چاہتی تھی‘ کہ اس کی بیٹی کوٹھی کاروں والے گھر جائے‘ جب کہ میری ماں کا خیال تھا‘ کہ اس کی بہو‘ کوٹھی کار جہییز میں الئے۔ آخر وہ‘ بیٹے کی ماں تھی۔ ہمارے ہاں کی ہر ماں‘ اسی طرح کے ہی خواب دیکھتی چلی آ رہی ہے۔ انہیں ہماری خوشیوں سے‘ کوئی تعلق واسطہ نہ تھا۔ یہاں ہمارے‘ اپنے بھی‘ ابنے نہیں‘ اور فکری مطابقت کی‘ کوئی صورت ہی نہیں۔ میں ریحانہ کو‘ دل و جان سے چاہتا تھا۔ میرا خیال تھا‘ کہ میں اس کے بغیر‘ زندہ نہیں رہوں گا۔ اسی کے حصول کی دعا لے کر‘ میں دربار پر حاضر ہوا تھا۔ باقی میرے تینوں دوست‘ دل میں کیا رکھتے تھے‘ میں نہیں جانتا۔ زندگی
آرزوں کی گرفت میں ہے‘ تب ہی تو غیر آسودہ ہے۔ ملنگ بابا بھی‘ آرزو سے باال نہ تھا۔ تکمیل کے فقط چند لمحے‘ دستیاب ہوئے تھے‘ لیکن غزل ختم ہو گئی‘ اور وہ زمین پر آ رہا تھا۔ اس شعر پر ایمان جان نثار کروں تری اک نگاہ پر تو جان آرزو ہے تو ہی ایمان آرزو میرے اندر بھی‘ ارتعاش پیدا ہوا تھا‘ لیکن میں رقص نہ کر سکا‘ میں اپنے آپے میں تھا۔ میں ابھی اسلم ہی تھا‘ ریحانہ نہیں ہوا تھا ۔اگر ریحانہ ہو گیا ہوتا‘ تو دنیا کی پرواہ کیے بغیر‘ ملنگ بابے کے ساتھ رقص کر رہا ہوتا۔
معالجہ
ہماری ماں کی‘ تائی اماں سے کبھی بھی‘ نہیں بنی تھی۔ انہیں‘
تائی اماں کے ہر اچھے میں بھی‘ برائی نظر آتی تھی۔ وہ ان کی بھالئی کو بھی‘ اپنے ساتھ سازش کا نام دیتی تھیں اور پھر وہ روال ڈالتیں‘ کہ خدا کی پناہ۔ ایک بار‘ بھائی نوید تائی اماں کے پاس کھڑے تھے‘ ہماری ماں نے‘ بڑا زبردست ہنگامہ کھڑا کیا۔ ان کا موقف تھا‘ کہ تائی حاجرہ اسے الٹی سیدھی پٹی پڑھا رہی ہے۔ ابا نے بھی‘ اس معاملے کو سیریس لیا۔ بھائی صاحب کی خوب پٹائی ہوئی۔ تایا بھی غصہ میں آگیے‘ دونوں بھائیوں کی خوب تو تکرار ہوئی۔ اس آئے دن کے‘ بات بات پر‘ جھگڑے اور تو تو میں میں سے تنگ آ کر‘ ابا نے رہائش ہی بدلنے کی ٹھان لی۔ ہم دادا ابو کا مکان چھوڑ کر‘ کرائے کے مکان میں اٹھ آئے۔ ماں نے‘ سوئی سوئی کنج لی اور خالی کمرے پر تاال چڑھا دیا۔ مالک مکان باالئی منزل پر رہتے تھے اور ہمیں زیرین منزل ملی تھی۔ دو کمرے اور ان کے سامنے برآمدہ تھا۔ باروچی خانہ‘ صاف ستھرا تو نہ تھا‘ ہاں اس کے ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کچھ یہ ہی حال‘ غسل خانے کا تھا۔ ہاں البتہ بیٹھک کی حالت بہتر تھی۔ دادا ابو کے گھر میں‘ ہمیں صرف ایک کمرہ مال تھا۔ وہ ایک کمرہ‘ یادوں اور محبتوں کی خوش بو سے لبریز تھا۔ اس کا ماحول‘ دادا ابو کی باتوں اور مسکراہٹوں میں رچا بسا تھا۔ وہ کبھی خالی ہاتھ‘ گھر نہ آئے تھے۔ جب بھی باہر سے آتے‘ ہم بچوں کے لیے‘ کچھ ناکچھ
ضرور لے کر آتے۔ خود بانٹ کرتے تھے۔ سب بچوں میں برابر تقسیم کرتے۔ گھر میں کوئی چیز‘ جب دادو انہیں دیتیں‘ تو اس میں سے بھی‘ ہم بچوں کو دے دیتے۔ دادو کہتیں‘ آپ کھائیں‘ میں ان کو مزید دے دوں گی۔ وہ ان کی بات‘ سنی ان سنی کر دیتے۔ هللا انہیں کروٹ کروٹ جنت دے‘ ہم سب کو وہ بڑا عزیز رکھتے تھے۔ میری امی ان سے بھی الجھ الجھ پڑتیں۔ وہ کسی بحث کی بجائے‘ مسکرا دیتے۔ ابا نے کئی بار کہا‘ میرے ابا امی سے نہ الجھا کرو۔ وہ ابا کی کب سنتی تھیں۔ امی‘ دادا ابو کی سگی بھتیجی تھیں۔ ان کا خیال تھا‘ کہ اپنی النے سے‘ گھر میں پیار اور سکون ہو گا۔ ان کی خدمت کریں گی‘ مگر کہاں؟ یہ سب خیالی سا ہو کر رہ گیا تھا۔ ان تمام باتوں کے باوجود‘ دادا ابو نے گھر بکھرنے نہ دیا تھا یہاں کرایہ کے مکان میں‘ دادا ابو اور دادو کی مسکانیں نہ تھیں۔ کسی گوشے میں بھی‘ ان کی یادوں کی مہک موجود نہ تھی۔ ہاں‘ چالیس روپے کرائے کا ابا پر بوجھ آ پڑا تھا۔ ہم سے کوئی کھیل کے دوران شور کرتا‘ تو مالک مکان اوپر سے ڈانٹ پالتا۔ دن بھر مالک مکان کی بیوی بڑ بڑ کرتی رہتی۔ بعض اوقات واضح الفاظ میں‘ امی کی سرزنش کرتی۔ امی تھی کہ چوں تک نہ کرتی۔ ہاں بڑی باریک آواز میں‘ کھری کھری سناتی۔ ایک دن‘ ذرا اونچی آواز میں‘ کچھ کہہ گئیں۔ شام کو‘ مالک مکان
نے‘ ابو سے کچھ پوچھے بغیر‘ مکان سے جواب دیا۔ اس کی زوجہ کہہ رہی تھی‘ لہذا غلط تو نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ ہمیں شریف لوگ سمجھ رہے تھے‘ لیکن اب مکان سے جواب ہونے پر‘ ہماری شرافت کا گراف‘ زیرو سے بھی‘ نیچے چال گیا۔ ابا مکان سے جواب مل جانے پر پریشان تھے‘ لیکن ہماری امی کی سنائی ہوئی کہانی کے باعث‘ غصہ میں بھی تھے۔ وہ کہہ رہے تھے‘ کہ مالک مکان نے ہمیں کمی کمین سمجھ رکھا ہے۔ ہم باعزت لوگ ہیں۔ مفت تھوڑا رہ رہے ہیں‘ کرایہ دیتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں سمجھ کیا رکھا ہے۔ امی نے جتنا بھرا‘ اس سے لگ رہا تھا‘ کہ ابا مالک مکان کو قتل ہی کر دیں گے۔ ابا نے کہا‘ واپس اپنے مکان میں چلتے ہیں۔ امی نے صاف جواب دے دیا۔ انہوں نے کہا‘ مر جاؤں واپس نہیں جاؤں گی۔ ہمیں یکے بعد دیگرے‘ تین مکان بدلنے پڑے۔ ہر بار‘ کوئی ناکوئی مسلہ کھڑا ہو جاتا۔ پھر طے یہ ہوا‘ دادا کی جائیداد سے حصہ لے کر‘ کوئی ذاتی مکان ہی خرید لیا جائے۔ دادا کی جائےداد میں سے‘ سترہ سو ملے اور ہم دین پور اٹھ آئے۔ مکان کی تعمیر وغیرہ میں‘ ابا چھے سو بائیس روپے کے نیچے آ گیے۔ قرض کے سبب‘ ہمارا ہاتھ تنگ پڑ گیا۔ گھر میں بےسکونی سی پڑ گئی۔ ابا اور امی کی‘ ہر وقت کڑکڑ رہنے لگی۔ تنگ دستی کے سبب‘ ہم بہن بھائی بھی متاثر ہوئے۔ بدقسمتی کی بات یہ تھی‘ کہ لڑائی اس وقت شروع ہوتی‘ جب ہم
کھانا کھانے لگتے۔ کھانا‘ کھانا حرام ہو جاتا۔ ابا جب کام پر جانے لگتے یا کام سے واپس آتے‘ کوئی ناکوئی‘ ایسی بات ضرور ہو جاتی‘ جس کے باعث‘ گھر کا ماحول تلخ ہو جاتا۔ ابا اپنے بھائی کی‘ ہمیشہ کمی محسوس کرتے‘ لیکن منہ سے‘ حرف بھی نکال نہیں سکتے تھے۔ ان کے چہرے پر بکھری بےبسی‘ دیکھی نہیں جاتی تھی۔ خدا معلوم‘ اپنے آنسو کس طرح ضبط کرتے ہوں گے۔ ایک دن ہمارے گھر میں عجب ان ہونی ہوئی۔ ابا گرج رہے‘ اور امی کی آواز‘ ان کی آواز کے نیچے‘ دب رہی تھی۔ وہ تایا کی بیٹی‘ میرے بڑے بھائی مدثر کے لیے‘ النا چاہتے تھے۔ جنگ تھی‘ کہ تھمنے کا نام ہی نہ لے رہی تھی۔ ابا نے‘ تاؤ میں فائرنگ شروع کر دی۔ دو چار چپت رسید تو کر بیٹھے‘ پھر هللا دے اور بندہ سہے۔ پورے دس دن‘ گھر میں ناگواری رہی۔ ہمیں ڈسٹرب دیکھ کر‘ ابا کو ہھتیار ڈالنا پڑے۔ عقیلہ‘ بھائی کی پسند تھی۔ انہیں بھی‘ دل پر پتھر رکھنا پڑا۔ اس جنگ میں‘ خالہ عنایت‘ کنبہ کی ہیرو ٹھہریں جب کہ تایا ابو دشمن قرار پائے۔ ان کا جب کبھی ذکر چھڑتا‘ امی ان کے ظلم وستم کے قصے چھڑ دیتیں۔ یہ کوئی ایسی نئی بات نہ تھی۔ دوست اور دشمن کا فیصلہ طاقت ہی کرتی آئی ہے۔ ہٹلر بالشبہ ظالم تھا۔ اس کے برعکس‘ برٹش کون سے ہل پر نہائے ہوئے تھے۔ وہ ہمارے ہیرو اور محسن ہیں۔ چرچل کا نام روشن ہے‘ حاالں کہ یہ دونوں کردار ایک ہی
سکہ کے‘ دو رخ تھے۔ اگر گریبان میں منہ ڈال کر دیکھا جائے‘ تو حقیقت یہ ہی نظر آئے گی‘ کہ ظالم ہم تھے۔ برصغیر کی فوج وہاں جا کر لڑی۔ دشمن اس لیے نہیں کہہ سکتے‘‘ کہ برصغیر کی فوج‘ درحقیقت برٹش گورنمنٹ کی فوج تھی اور بہت سوؤں کو زبردستی بھرتی کیا گیا تھا۔ بابر چوں کہ فاتح تھا‘ تاریخ میں بہ طور مسلم ہیرو‘ زندہ ہے۔ کوئی نہیں جانتا‘ وہ بہ طور شخص کیسا تھا‘ کس سے اور کیوں لڑا‘ کسی کو جاننے کی ضرورت ہی نہیں۔ ہر اچھائی اس کی طرف پھیر دی جائے گی۔ جو بھی سہی‘ دوست کون ہے اور دشمن کون ہے‘ کا فیصلہ طاقت کرتی ہے۔ آج ایک عرصہ گزر چکا ہے‘ ہم ایک دادا کی اوالد ہو کر‘ ایک دوسرے کو‘ پہچان نہیں سکتے۔ گلی بازار گزرتے ہوئے‘ ہم اپنے ہی بچوں کو پہچان نہیں سکتے۔ مجھے اس حقیقت سے انکاری نہیں‘ کہ میرے ہی گھر میں‘ اپنے پرائے اور دوست دشمن کا فیصلہ‘ ساجدہ‘ یعنی میری بیوی ہی کرتی ہے۔ ہمارے اپنے‘ پرائے کیا‘ نامعلوم اجنبی ہو گیے ہیں۔ آخر ہم‘ کب حقائق کے پیش نظر‘ خود دوست اور دشمن کا فیصلہ کریں گے۔ ہو سکتا ہے‘ ابا مرحوم نے دیوار گرانے کا‘ آخری فیصلہ کیا ہو‘ لیکن انھیں‘ طاقت کے قدموں میں ہتھیار رکھنا ہی پڑے۔ فیصلہ تو میں نے بھی کیا ہے‘ کہ اپنی بہن کلثوم کی بیٹی شازیہ‘ اپنے بیٹے‘ شکیل کے لیے الؤں گا۔
دیکھیں‘ کیا ہوتا ہے۔ میں صدیوں سے چلے آتے‘ اصول کو‘ شکست دینے کے لیے‘ آخری حد جاؤں گا۔ میں ہر صورت میں یہ جنگ جیتنے‘ کی کوشش کروں گا۔ میری بہن غریب ہے‘ تو کیا ہوا۔ میں پلے سے‘ ساجدہ کا منہ مانگا‘ جہیز خرید کر دوں اور یہ خبر‘ اس کے فرشتوں کو بھی نہ ہو سکے گی‘ کہ اس کی بہو کا جہیز‘ میں نے خود اپنے پلے سے بنایا۔ یہ روپے پیسے‘ بچوں کے لیے ہی تو ہوتے ہیں۔ بلواسطہ سہی‘ سب کچھ جائے گا تو میرے بیٹے ہی کے گھر۔ سقراط اور حسین نے‘ اس مروجہ طور کو‘ جان دے کر‘ غلط قرار دیا۔ ہم سقراط اور حسین کے راستے کو‘ درست مانتے ہیں اوراس رستے کا‘ زبانی کالمی احترام بھی کرتے ہیں۔ عملی طور پر‘ ہمارا پرنالہ وہیں پر ہے۔ جب یہ طور درست ہے‘ تو فتح کے لیے‘ میں کیوں‘ اس سے پہلو تہی کروں۔ سب کہتے ہیں‘ کہ جنگ‘ سیاست اور پیار کے لیے‘ منفی بھی‘ منفی نہیں‘ تو میں اس رستے کو اختیار کرکے‘ فتح کا منہ ضرور دیکھوں گا۔ ہاں مجھے یہ تاسف ضرور رہے گا‘ کہ میں نے صدیوں سے چلے آتے‘ اصول پر خط کھیچنے کے لیے‘ منفی طریقہ استعمال کیا ہے‘ لیکن کیا کروں‘ میرے پاس کوئی دوسرا رستہ موجود نہیں۔ میں بڑھاپے میں‘ اپنے باپ دادا کی طرح ذلت آمیز شکست قبول کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ ذلیل ہو کر پیچھے ہٹنا‘ کوئی صحت مند عمل نہیں۔
بایو کیمک اصول کے مطابق‘ منفی کی درستی کے لیے‘ منفی رستہ ہی اختیار کرنا پڑے گا۔ منفی کا‘ اس کے سوا‘ کوئی اور معالجہ میری سمجھ میں نہیں آ رہا۔ 2-11-1974
کریمو دو نمبری عجب وقت آ گیا ہے‘ جس کے ساتھ بھالئی کرو‘ وہ ہی پچھال سارا کیا کرایا بھول کر‘ سر کو آتا ہے۔ آنکھ لحاظ اور مروت‘ بےمعنی اور الیعنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اسی طرح‘ لوکائی اور انصاف کرنے والوں کا بھی‘ کوئی حال نہیں۔ حق سچ کو‘ باالئے طاق رکھ کر‘ تگڑے کی‘ ناصرف ہاں میں ہاں مالتے ہیں‘ بلکہ دھڑا بھی‘ اسی کا کوٹتے ہیں۔ یہ اندھیر نہیں‘ تو اور کیا ہے۔ اصوال‘ ہر کسی کم زور کا ساتھ دینا چاہیے۔ ایک پرابلم یہ بھی ہے‘ کہ تگڑا تو اس کی خبر لے گا ہی‘ ماڑے بھی‘ اس کی جان کھا جائیں گے۔ اس طرح‘ اطراف میں‘ اس کا جینا حرام ہو جائے گا۔ اس عمل میں‘ اس کی جان بھی جا سکتی ہے۔ چپ رہتا ہے‘ تو ضمیر جینے نہیں دیتا۔ یہ کیا‘ تگڑا بھی اسے مخبر سمجھ سکتا ہے۔ گویا تینوں رستے‘ بند ہو جاتے ہیں۔ چوتھا
رستہ‘ خود کشی یا فرار کا رہ جاتا ہے۔ ہر دو صورتوں میں‘ اس کے پچھلے‘ عذاب میں مبتال ہو جاتے ہیں۔ کس کس کو‘ جواب دیں اور کیا دیں۔ صابو ماچھی‘ نیل پور میں‘ بےچارگی کی زندگی گزار رہا تھا۔ اس کی بیوی گاماں‘ دکھ سہتی سہتی‘ تین بچوں کو‘ بےچارگی کی بند گلی میں‘ چھوڑ کر‘ هللا کو پیاری ہو گئی۔ برے وقت میں‘ اپنے بھی‘ ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔۔ اصول یہ ہی رہا ہے‘ کہ اندھیری آئے‘ تو بیٹھ جانا چاہیے۔ یہ گریب لوگ‘ بچوں کا بہانہ لے کر‘ عیاشی کا رستہ نکال لیتے ہیں۔ صابو ماچھی نے بھی‘ یہ رستہ نکال لیا۔ اس گریب اور تین بچوں کے اڈھیر عمر کے شص کو‘ رشتہ کون دے۔ اس کی عیاش ذہنیت نے‘ رشتہ ڈھونڈ ہی لیا۔ جوان اور منہ متھے لگتی نوراں‘ اس کے گھر کی رونق بن ہی گئی۔ نوراں اچھی اور ملن سار لڑکی تھی۔ اس نے آتے ہی‘ چولہا چونکا سمبھال لیا۔ بچوں کی دیکھ بھال بھی کرنے لگی۔ حسن‘ چیتھڑوں میں بھی‘ حسن ہی ہوتا ہے۔ گوہر شناس نظریں‘ پتھر اور لعل میں‘ فرق سے‘ خوب خوب آگاہ ہوتی ہیں۔ ایک دن‘ شاہ کوٹ کے سردار کریم بخش کا‘ اس گاؤں سے گزر ہوا۔ اس نے‘ میلے اور بوسیدہ لباس میں ملبوس‘ نوراں کو دیکھ لیا۔ نوراں نے بھی‘ سردار صاحب کی جانب گریب اور الچار نظروں سے دیکھا۔ گھوڑی پر سوار‘ سردار کریم بخش کوہ کاف کا‘ شہزادہ
لگ رہا تھا۔ درد کے خون میں ڈوبی‘ ایک آہ اس کے منہ سے نکلی۔ اپنے اپنے مقدر کی بات ہے۔ محلوں کے الئق حسن‘ روڑی پر پڑا‘ ناقدری ٹھوکروں کی زد میں تھا۔ کیا ہو سکتا تھا۔ جب اس نے‘ دوسری بار‘ سردار کریم بخش کی طرف دیکھا‘ تو اس کے چہرے پر‘ بڑی ہی زہریلی‘ مسکراہٹ تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی‘ کہ اس کی اس زہریلی مسکراہٹ نے‘ کیا قیامت توڑ دی ہے۔ وہ مایوس اور اداس اداس گھر لوٹی۔ وہ نہیں جانتی تھی‘ کہ ساعت‘ زحل سے نکل کر‘ مشتری میں قدم رکھ چکی تھی۔ سردار پائے کا حسن نواز واقع ہوا تھا۔ اس نے‘ حسن تو حسن‘ اس سے واابستہ لوگوں کو بھی‘ رنگ دیا تھا۔ اس نے‘ صابو کو‘ اس کے گھر والوں سمیت‘ شاہ کوٹ بال لیا اور اپنی حویلی کے پڑوس میں‘ اچھا کھال اور صاف ستھرا‘ رہنے کے لیے مکان دے دیا۔ یہ ہی نہیں‘ ضرورت کی ہر شے‘ اس میں رکھوا دی۔ سب کو‘ دو دو جوڑے‘ کپڑوں کے سلوا دیے۔ نوراں کے حسن کی مناسبت سے‘ وافر کپڑے اور جوتے خرید دیے۔ صابو کو ڈیرے پر رکھ لیا۔ اسے زیادہ مشقت نہ کرنا پڑتی تھی۔ اس کا صرف اتنا کام تھا‘ کہ آئے گیے کا خیال رکھے اور چلم ٹھنڈی نہ ہونے دے۔ سردار صاحب کی عدم موجودگی میں‘ ڈیرے کے امور وہ ہی انجام دیتا۔ سردار صاحب بڑے دل والے تھے۔ دوپہر کو صابو کے گھر جاتے۔ زیادہ تر دوپہر کو وہیں آرام کرتے۔ وہ بےفکر تھے‘ صابو ان کی عدم موجودگی میں‘
ڈیرے کےامورانجام دینے میں‘ کسی قسم کی کوتاہی سے‘ کام نہیں لے گا۔ بچے‘ بہت بڑی رکاوٹ تھے۔ سردار صاحب کے آنے کے قریب‘ نوراں کو‘ ہر روز‘ انہیں ادھر کرنے کے لیے‘ سو طرح کے بہانے بنانا پڑتے۔ ماں‘ ماں ہوتی ہے‘ سوتیلی کا محض لوگوں نے سابقہ جڑ دیا ہے۔ نوراں نے‘ بڑے کو‘ پڑھنے کے لیے‘ شہر بجھوا دیا۔ دوسرے دونوں کو‘ ساتھ والے گاؤں میں سکول تھا‘ وہاں پڑھائی کے لیے بھیج دیا۔ ان کی اپنی ماں‘ جو معمولی چہرے مہرے کی عورت تھی‘ اتنا بڑا کارنامہ انجام نہ دے پاتی۔ وقت گزرتا گیا۔ صابو کو‘ کسی معاملے کی خبر تک نہ ہوئی۔ گاؤں کے‘ کسی شخص کے منہ سے‘ بھول کر بھی‘ کچھ نہ نکال۔ گاؤں کی عزت‘ سردار کی اپنی ہوتی ہے۔ لہذا یہ بات کرنے والی بھی نہ تھی۔ ایسا تو‘ صدیوں سے ہوتا آ رہا ہے۔ دوسرا اس بات میں‘ کوئی ان ہونی موجود نہ تھی۔ س لیے‘ اس بات کا‘ کسی زبان پر آنا ضروری نہ تھا۔ هللا نے نوراں کو ہرا کیا‘ اسے ایک بیٹا اور دو چاند سی بیٹیاں عطا کیں۔ وہ خوش تھی‘ کہ دنیا کے ساتھ‘ اس کی بھی سانجھ پڑ گئی تھی۔ سردار ان تینوں بچوں کا‘ پہلوں سے بھی بڑھ کر‘ خیال رکھتا تھا۔ زمانہ اس کی دریا دلی اور بڑے ظرف کا‘ معترف تھا۔ چلو کسی بھی حوالہ سے سہی‘ کسی ایک غریب کا تو‘ خیال رکھتا تھا نا اور یہ بہت بڑی بات تھی۔
ایک روز‘ صابو کو‘ کسی کام سے‘ گھر آنا پڑا۔ اس وقت سردار صاحب‘ ضروری حاجت سے فراغت کے بعد‘ اس کے گھر سے‘ باہر نکل رہے تھے۔ اس کا سر گھوم گیا۔ اس کے جی میں آیا‘ کہ ابھی نوراں کا گال دبا دے۔ گھر اگرچہ‘ بیس تیس قدموں کے فاصلے پر تھا‘ لیکن یہ فاصلہ اسے میلوں پر بھاری لگا۔ گھر تک آتے آتے‘ اس نے یہ ہی سوچا‘ کہ ابھی نوراں پر کچھ نہیں ظاہر کرے گا۔ اسے رنگے ہاتھوں پکڑ کر‘ سزا دے گا۔ اب وہ‘ کس بنیاد پر‘ کوئی ایکشن لے سکتا تھا۔ پھر وہ جلدی جلدی‘ گھر میں داخل ہوا‘ کچھ ظاہر کیے بغیر‘ جو لینا تھا‘ لے کر‘ گھر سے باہر نکل گیا۔ اس کا دماغ‘ غم اور غصے کی آگ میں ابل رہا تھا۔ نوراں نڈھال سی‘ چارپائی پر پڑی تھی۔ یوں لگتا تھا‘ کسی مشقت نے‘ اسے نڈھال کر دیا تھا۔ مرغ اور دال سبزی کی مشقت میں‘ فرق تو ہوتا ہی ہے۔ ہر عروج کے ساتھ‘ زوال وابستہ ہے۔ وہ سردار کے‘ سرداری حقوق سے آگاہ نہ تھا۔ تب ہی تو‘ کوراہ ہو گیا تھا۔ کام باحسن و خوبی چل رہا تھا۔ سردار کے خصوصی اور قریبی مالزم ہونے کے ناتے‘ سب ہی اس کی عزت کرتے تھے۔ وہ صابو سے‘ ملک صابر کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ لوگ اس کے توسط سے‘ اپنے کام نکلوانے لگے تھے۔ عورتیں‘ ملکانی نور بی بی کے وسیلے سے‘ اپنے کام نکلوانے لگی تھیں۔ وہ جانتی تھیں‘ کہ بچے بہت بڑی مجبوری ہوتی ہے۔ سردار صاحب‘ ملکانی نور بی بی سے اپنا رشتہ ختم نہیں کریں گے۔ نچلے طبقے کے
لوگ‘ بھوک سے چھٹکارے اور عزت حاصل کرنے لیے‘ کچھ بھی کر لیں‘ کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہ ہی ایک رستہ باقی رہ جاتا ہے‘ جسے پانے کے لیے کچھ ناکچھ تو دینا ہی پڑتا ہے۔ اس کی‘ نام نہاد غیرت جاگ گئی تھی اور وہ‘ رنگے ہاتھوں پکڑنے کی‘ تاڑ میں رہنے لگا۔ اسے مہاجرت کرتے وقت‘ سوچنا چاہیے تھا‘ کہ وہ کوئی ہنر اور کسب نہیں رکھتا‘ بلکہ گاؤں کی گری پڑی شے سے‘ زیادہ نہیں۔ سردار آخر کیوں اور کس وجہ سے‘ اس کے ساتھ مہربان ہوا ہے۔ دوسرا جوں مار کر‘ نہ دینے والے نے‘ اس پر بےدریغ دولت لوٹانے کی ‘حد کر دی تھی۔ یہ سب دیکھ کر‘ سوچنا تو بنتا تھا۔ اگر اتنی عقل ہوتی‘ تو آج زندگی کے‘ اس دو راہے پر کیوں کھڑا ہوتا۔ آنکھیں بند کر لینے کی صورت میں‘ زندگی کی آسودگی برقرار رہ سکتی تھی۔ اسے صرف اتنا فرض کرنا تھا‘ کہ اس نے کچھ نہیں دیکھا۔ دیکھ لینے کا واہمہ‘ اسے زندگی سے محروم کر سکتتا تھا۔ دوسرا یہ واہمہ‘ سردار صاحب کی عطاؤں سے‘ کھال انکار تھا۔ وہ وقتا فوقتا‘ اپنی مہربانیوں کا تذکرہ بھی کرتے رہتے تھے۔ آئندہ کے لیے بھی‘ وعدے کرتے رہتے تھے۔ وہ خود ہی‘ تھالی میں سوراخ کرنے پر اتر آیا تھا۔ ملک صابر‘ اوقتا صابو ماچھی‘ باظاہر بالکل نارمل تھا‘ لیکن اس کی نقل وحرکت‘ پولیس والوں کے کتے سے‘ کسی طرح‘ مختلف نہ تھی۔ اس کی آنکھوں میں چھپا‘ کھوج کیمرہ‘ ملکانی
نور بی بی نے دیکھ لیا تھا۔ اگر وہ سردار کریم بخش کا پڑھا ہوا تھا‘ تو یہ بھی سردار کریم بخش کی چنڈی ہوئی تھی۔ وقت نے بھی‘ اسے بہت کچھ پڑھا دیا تھا۔ سرداروں کے خصوصی بندے‘ اگر اس طرح گرفت میں آ جائیں‘ تو سردروں نے کر لی سرداری۔ ملکانی نے‘ سردار صاحب کو‘ صورت حال سے آگاہ کر دیا تھا۔ سردار صاحب کو بڑا تاؤ آیا‘ ہماری ہی بلی‘ ہمیں ہی میاؤں۔ یہ کمی کمین‘ ہوتے ہی‘ احسان فراموش اور طوطا چشم۔ اگر ان کو‘ ان کی اواقات میں‘ رکھا جائے‘ تو ہی ٹھیک رہتے ہیں۔ عزت انہیں راس نہیں آتی۔ جس تھالی میں کھاتے ہیں‘ اسی میں چھید کرتے ہیں۔ اب چوں کہ وہ منہ کو آنے واال ہی تھا‘ اس لیے‘ اسے اس کی اوقات میں النا‘ ضروری ہو گیا تھا۔ ڈیرے میں‘ مہمانوں کے ٹھہرانے کے لیے‘ جگہ کم پڑ گئی تھی۔ نور بی بی کو‘ حویلی میں مع ساز و سامان منتقل کر دیا اور صابو کمی کو‘ ڈیرے پر ٹھہرنے کا‘ حکم جاری کر دیا گیا۔ یہ اس کی خوش قسمتی تھی‘ کہ اتنی بڑی گستاخی اور جرآت پر بھی‘ ابھی سانس لے رہا‘ ورنہ اس سے گستاخ‘ لوگوں کو‘ زندہ رہنے کا کوئی نہیں ہوتا۔ سردار صاحب‘ شروع سے‘ بڑے دیالو اور درگزر کرنے والے‘ واقع ہوئے تھے۔ صابو کمی نے‘ اس پر احتجاج کیا‘ مگر کسی نے اس کی بات تک نہ سنی۔ ایک دن‘ صابو کمی کی بدکاری کا‘ ہر زبان پر چرچا تھا۔ پتا چال‘
جیناں‘ جو ایک دن پہلے فنائی گئی تھی‘ کی الش کو نکال کر‘ صابو کمی نے‘ بے حرمت کیا تھا۔ جیناں کی عریاں الش پر‘ توبہ توبہ کرتے‘ گاؤں کے امام مسجد نے‘ ڈھانپا تھا۔ دور نزدیک کےعالقوں میں‘ غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی تھی۔ صابو کمی کی بد کاریوں کے‘ پٹارے کھل گئے تھے۔ لوگوں کو اب معلوم ہوا تھا ‘ کہ صابو کمی انسان نہیں‘ انسانی روپ میں‘ بھیڑیا تھا۔ متفقہ طور پر‘ طے پایا کہ اس کا‘ توے کی سیاہی سے‘ منہ کاال کرکے‘ گدھے پر بیٹھا کر‘ پورے گاؤں کا پھیرا لگایا جائے اور ہر دیکھنے واال‘ اسے پتھر مارے۔ عزت گریب کی ہو‘ یا امیر کی‘ برابر ہوتی ہے۔ سردار نے‘ یہ بھی کہا‘ میرے جیتے جی‘ گاؤں میں‘ بےغیرتی کی دکان نہیں چلے گی۔ سردار نے یہ بھی کہا :ہمیں انسان اور اس کی عزت و آبرو کا احترام کرنا چاہیے۔ سامنے پڑی‘ بےحرماں جیناں کی الش پر‘ ہر آنکھ بھیگ گئی تھی۔ سردار کی آنکھوں میں‘ فرات سی طغیانی تھی۔ اس کی برستی آنکھوں نے‘ سب کے دل جیت لیے تھے۔ سال گزرتے‘ پتا بھی نہیں چلتا۔ صابو کا بڑا بیٹا‘ جو سردار کریم بخش کے ٹکڑوں پر‘ پال‘ بڑا ہوا‘ اور اس نے اعلی تعلیم حاصل کی۔ مقابلے کے امتحان میں‘ تیسرے نمبر پر آیا۔ اس کی تعیناتی‘ حساس پوسٹ ہوئی۔ اب وہ افسر تھا۔ سیٹھ نثار نے‘ اپنی اکلوتی اوالد‘ اس کے عقد میں دے دی۔ وہ اب‘ اور اس سے پہلے بھی‘ سردار کریم بخش کی بڑی عزت کرتا تھا۔
ایک بار‘ صرف ایک دن کے لیے‘ اسے گاؤں آنے کا اتفاق ہوا۔ اسے پتا چال‘ بابا فتو‘ کئی دنوں سے بیمار ہے۔ جب وہ چھوٹا تھا‘ بابا فتو‘ اس سے بڑا پیار کرتا تھا‘ اور اکثر اوقات‘ ایک دو پوندے گنے بھی دے دیا کرتا تھا۔ بابے فتو کی بماری کا سن کر‘ اس سے رہا نہ گیا‘ اور وہ اسے ملنے کے لیے چال گیا۔ انسان تھا‘ اسی لیے‘ اسے اپنے موجودہ اسٹیٹس کا‘ خیال تک نہ رہا اور وہ اسے ملنے اور تیمارداری کرنے چال گیا۔ بابا فتو‘ کسی وقت‘ بڑا سجیال جوان ہوا کرتا تھا۔ وقت نے‘ اس سے‘ سب کچھ چھین لیا تھا۔ اب تو‘ وہ محض ہڈیوں کا ڈھیر تھا۔ بابا فتو‘ صابو کی نشانی کو دیکھ کر‘ بڑا خوش ہوا۔ کہنے لگا :تمہارا باپ صابو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہنے دو بابا‘ اس شخص کا میرے سامنے نام لو۔ نہیں بیٹا‘ تمہیں سننا ہی ہو گا۔ میں بڑی دیر سے‘ تمہارا انتظار کر رہا تھا۔ میں جانے واال ہوں‘ جو کہنا چاہتا ہوں کہہ لینے دو۔ یہ بات تمیں کوئی نہیں بتائے گا۔ جو میں بتانا چاہتا ہوں‘ دل گردے سے سننا اور فورا غصے میں نہ آ جانا۔ جو کرنا‘ بڑے ہوش حواس سے کرنا۔ ٹھیک ہے بابا‘ جو کہنا چاہتے ہو‘ کہہ دو۔ تمہارے باپ پر‘ جو الزام لگایا گیا‘ درست نہیں تھا‘ گھڑا ہوا تھا۔ اس میں رتی بھر‘ سچائی نہ تھی۔ اسی طرح‘ تمہارے
دونوں بھائی‘ قدرتی موت نہیں مرے‘ ان کے پر نکل آئے تھے‘ اسی لیے‘ سردار نے‘ انہیں بھی فارغ کر دیا۔ اس حقیت سے‘ سب آگاہ ہیں‘ لیکن کوئی زبان تک نہیں التا۔ جو بولے گا‘ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ یہ سب کہہ کر بابا فتو پر چپ لگ گئی۔ وہ رات‘ اشرف پر بڑی بھاری گزری۔ اسے خود پر جبر کرکے‘ ہنسنا بھی پڑا۔ اس نے پوری کوشش کی‘ کہ اس کا باطن کسی پر نہ کھلے‘ ورنہ کبھی واپس نہ جا پائے گا۔ رات خیر سے گزر گئی۔ اگلی صبح وہ خوشی خوشی ہنستا مسکراتا رخصت ہوا۔ کوئی بھی نہ جان پایا‘ کہ اس کے باطن میں‘ قیامت سے پہلے ہی‘ قیامت برپا ہو چکی ہے۔ دو ہفتے بڑے کرب ناک گزرے۔ پھر وہ ایک نتیجے پر پنہچ گیا۔ سیٹھ نثار‘ اس اندھا اعتماد کرتا تھا۔ وہ تھا بھی اعتماد کے قابل۔ اس نے اپنی اداکاری کے سارے جوہر دیکھائے۔ گاؤں میں سیٹھ نثار کا پروجیکٹ‘ پوری تیز رفتاری کے ساتھ‘ تکمیل کی طرف بڑھ رہا تھا۔ حویلی کی جگہ‘ دو منزلہ دفتر اور سرونٹس کوارٹر تعمیر ہو چکا تھا۔ عالی شان کوٹھی‘ تعمیر ہو چکی تھی۔ سردار صاحب‘ جہاں بڑی شان سے‘ اقامت پذیر تھے۔ تمام کام کا‘ سردار صاحب کے ہاتھ نظم و ضبط تھا۔ ان کی ٹھاٹ باٹھ‘ پہلے سے کئی گنا‘ بڑھ چکی تھی۔ نوٹوں کی گتھیاں ان کے پاس ہوتیں۔ پان سات خوش آمدی‘ رات سونے تک‘ ان کے آگے
پیچھے رہتے۔ انہیں کوئی پوچھنے واال نہ تھا۔ وہ کسی کو جواب دہ نہ تھے۔ دن عیش و ٹھاٹ کے گزرے۔ اشرف روٹین میں آتا‘ تھوڑا ان کے ساتھ ہنس کھیل کر وقت گزراتا‘ اور چال جاتا۔ سب باحسن وخوبی انجام پا گیا تھا۔ اب کی بار اس کے تیور بدلے ہوئے تھے۔ اس نے آتے ہی‘ سردار صاحب کو‘ حساب کتاب دینے کو کہا۔ وہ حیران رہ گیے اور بولے یہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ ان کی آواز میں‘ سرداری تمکنت اور جالل موجود تھا۔ اشرف کا لہجہ بھی بدل گیا۔ یہ فضول کی بکواس چھوڑو اور حساب دو۔ اس کے اپنے بچے‘ جن کا ماضی صابو کے نام پر بولتا تھا‘ کہہ رہے تھے‘ انکل‘ اشرف بھائی ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ آپ نے کون سی ہیھرا پھیری کی ہے‘ حساب دے دیں۔ دفتر میں موجود ہر شخص‘ کے منہ میں تھا‘ حساب دو‘ حساب دو۔اب یہ سب کچھ‘ اس کا نہیں‘ سیٹھ نثار کا تھا اور اشرف‘ سیٹھ نثار کی اکلوتی بیٹی کا خاوند تھا۔ اب سردار کریم بخش‘ کریمو دو نمبری کے نام سے‘ مشہور تھا۔ وہ چوتھے درجے کے سرونٹ کوارٹر میں رہ رہا گیا تھا۔ بڑھاپے میں‘ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے‘ سپروائزر کے ٹومی کی خدمت پر مامور تھا۔ نوراں آیا کا فریضہ انجام دیتی تھی۔ اب ہر کسی کو‘ کریمو دو نمبری کا بڑی تیزی سے‘ ماضی یاد آ رہا تھا۔ لوگ انتظار میں تھے کہ کب ان پر ٹومی چھوڑا جاتا ہے۔
ابھی وہ زندہ تھا ویسے ہم‘ بڑے سوشل اور ہم درد سے‘ واقع ہوئے ہیں۔ کسی کے ہاں سوگ ہو‘ وہاں جانا‘ نظرانداز نہیں کرتے۔ هللا کا حکم کہہ کر‘ دعا کے لیے کہتے ہیں۔ اس کے بعد‘ سارا ماجرا دریافت کرتے ہیں۔ ساری رام کہانی سن کر‘ گہرے افسوس اور دکھ کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم اس وقت‘ دمحم علی‘ طالش اور عالؤالدین کی ادا کاری کو‘ بہت پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔ مرنے یا حادثے کا شکار ہونے والے‘ سے اپنے گہرے تعلقات کا اظہار کرتے ہیں۔ پھر اس کی‘ وہ وہ خوبیاں بیان کرتے ہیں‘ کہ ان کا‘ اس شخصیت سے‘ دور کا تعلق واسطہ ہی نہیں ہوتا۔ اس پر سارے سر ہالتے ہیں۔ یہ ہی نہیں‘ اس میں اضافے کی‘ اپنی سی کوشش بھی کرتے ہیں۔ اس گھر کی دہلیز میں داخل ہونے سے پہلے‘ اس شخص سے‘ ہماری کوئی ہم دردی نہیں ہوتی۔ اسی طرح‘ دکھ کا دور تک نام ونشان تک نہیں ہوتا۔ افسوس کے بعد‘ جب ہم‘ اس گھر کی دہلیز پار کرتے ہیں‘ تو ہمیں سب کہا سنا‘ بھول جاتا ہے۔ پھانسی لگنے اور پوسٹ مارٹم کے بعد‘ جب بھوسہ بھری میری
الش‘ میرے گھر آئے گی۔ یہ افسوس کے بہانے‘ میرے گھر والوں کے پاس آئیں گے۔ سب کچھ جانتے ہوئے‘ میرے گھر والوں سے معاملہ دریافت کریں گے۔ وہ بےوقوف‘ انہیں الف سے یے تک‘ کہانی سنائیں گے۔ یہاں تک بتائیں گے‘ کہ میری بھوسہ بھری الش حاصل کرنے میں‘ انہیں کس قدر مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ لوگ کیا‘ میرے اپنے بھی‘ کتنی منافقت رکھتے ہیں۔ بس‘ میرا باپ ہی‘ خجل خوار ہو رہا ہے۔ وہ بچارہ گھر میں‘ اپنے بچوں کے ہاتھوں ذلیل ہوتا ہے‘ ادھر آ کر کچہری والوں سے‘ مٹی پلید کراتا ہے۔ پھر بھی‘ آنے سے باز نہیں آتا۔ ماں بےجاری وقت پر ہی چل بسی تھی‘ ورنہ وہ بھی‘ آج ذلیل ہو رہی ہوتی۔ میں تین سال سے‘ ہتھ کڑیوں سے آراستہ‘ عدالت میں الیا جا رہا ہوں۔ معاملہ جہاں تھا‘ ابھی تک‘ وہیں ہے‘ رائی بھر‘ پیش رفت نہیں ہوئی۔ میں بھی چاہتا ہوں‘ کہ معاملہ آگے نہ بڑھے۔ اگر معاملہ آگے بڑھا‘ تو میری زندگی کے آخری لمحوں کی گنتی کا‘ شمار شروع ہو جائے گا۔ میں موقع پر پکڑا گیا ہوں۔ گواہ‘ جن کا کاغذات میں اندراج ہوا ہے‘ میرے مخالفین کے ہاتھ کے ہیں۔ کوئی مالقات تک کے لیے نہیں آیا‘ اگرچہ انہیں میرے اپنے ہونے کا دعوی رہا ہے۔
منافقت نے‘ ہمارے قول و فعل میں‘ بعد پیدا کر دیا ہے۔ ہمارا کردار‘ ہر لمحہ‘ ناصرف تضاد کا شکار رہتا ہے‘ بلکہ شکوک میں بھی مبتال رہتا ہے۔ کسی پر کیا یقین کیا جائے‘ یقین‘ نقصان سے دوچار کرتا ہے۔ یقین نہیں کرتے‘ تو تکمیل کے دروازے پر‘ قفل لگ جاتا ہے۔ درحقیقت یہ سب‘ ہمیں ورثہ میں مال ہے۔ ہماری دھرتی‘ ہمیشہ سے‘ بیرونی عناصر کی تلوار پر رہی ہے۔ انہوں نے یہاں‘ الشیں بچھائی ہیں۔ کھوپڑیوں کے‘ مینار بنائے رہے ہیں۔ ان کے مقاصد میں‘ وسائل اور اس دھرتی پر قبضہ کرنا رہا ہے۔ ایسے میں‘ لوگوں نے ڈر اور خوف سے‘ مذہب تبدیل کیا ہے۔ جان بچانے کے لیے ان کے قصیدے پڑھے ہیں۔ گویا باہر سے مسلمان‘ اندر سے سابقہ مذہب پر ہی‘ استقامت رہی ہے۔ اگلی نسلیں داخلی منافقت سے آگاہ نہ ہو سکیں‘ لیکن داخلی منافقت‘ جینز میں شامل ہو گئی۔ اگر تبلیغ کا کام‘ صحابہ کرام‘ تابعین‘ تبع تابعین اور مہاجر صالحین تک رہتا‘ یہاں ناصرف دو تہائی مسلمان ہوتے‘ بلکہ ان میں کھرا پن بھی ہوتا۔ اور کسی کو چھوڑیں‘ کل پرسوں کے‘ ٹوپی سالر کا عدالتی نظام بھی تھا‘ لیکن ذاتی عناد کی بنا پر‘ لوگوں کے سر‘ تن سے خود جدا کرتا تھا۔ ہم کتنے چڈھو ہیں‘ جو اسے اپنا ہیرو سمجھتے ہیں۔ جو ہمیں الٹا لٹکاتا ہے‘ ہمارا ہیرو‘ وہ ہی ہوتا ہے۔ حمیدا سڑک پر تڑپ رہا تھا۔ سب چھپ چھپ کر‘ اس کے تڑپنے کا نظارہ کر رہے تھے۔ لوگوں کے سامنے‘ جیرے نے اسے چھرا گھونپا
تھا۔ کسی نے‘ جیرے کو نہیں پکڑا‘ حاالں کہ اس کے ہاتھ میں چھرا نہ تھا۔ چھرا تو ابھی تک‘ حمیدے کے پیٹ میں تھا۔ میں اس کے پیچھے بھاگا‘ لیکن وہ نکل گیا۔ پھر میں نے‘ جلدی سے‘ چھرا حمیدے کے پیٹ سے نکاال۔ میں اسے فورا ہسپتال لے جانا چاہتا تھا۔ پولیس کے آنے تک‘ اور موقع دیکھنے تک‘ وہ مر جاتا۔ سڑک پر سے‘ تانگے ریڑھے ہی آنا بند ہو گیے تھے۔ ویرانی سی پھیل گئی تھی۔ میری مدد کے لیے‘ کوئی نہیں آ رہا تھا‘ حاالں کہ لوگ گھروں پر موجود تھے۔ میں بےبسی کے عالم میں‘ کبھی ادھر جاتا تھا‘ کبھی ادھر۔ کوئی مدد کو تو نہ آیا‘ ہاں البتہ‘ پولیس ضرور آ گئی۔ مجھے پکڑ کر لے گئی‘ کیوں کہ موقع پر میں ہی موجود تھا۔ آلہءضرب پر میری انگلیوں کے نشان تھے۔ میں نے جیرے کے پیچھے بھاگنے کی‘ بہت بڑی غلطی کی۔ اس سے کاقی وقت ضائع ہو گیا۔ جیرے قاتل کے ڈر سے‘ کوئی گواہی دینے کے لیے تیار نہیں۔ وہ عالقے کا ہیرو ہے۔ کسی کی عزت اور مال و جان‘ اس سے محفوظ نہیں‘ پھر بھی وہ سب کا ہیرو ہے۔ سب کچھ‘ اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے‘ میرے خالف گواہی دینے کے لیے‘ تیار کھڑے ہیں۔ ان میں سے‘ کسی سے میری دشمنی نہیں‘ بلکہ راہ چلتے کی‘ سالم دعا رہی ہے۔ جیرے سے بھی‘ میرا کوئی ذاتی عناد نہیں۔ میں اس کی حرکتوں کو‘ پسند نہیں کرتا تھا۔ پسند تو خیر‘ لوگ بھی نہیں کرتے تھے‘ فرق صرف اتنا تھا‘ کہ میں منہ پر کہہ دیتا تھا‘ جب کہ
لوگ خاموشی میں‘ عافیت سمجھتے تھے۔ مجھے اپنی موت کا رائی بھر دکھ نہیں۔ ایک دن‘ مرنا تو ہے ہی‘ دو دن آگے کیا‘ دو دن پیچھے کیا۔ مجھے تین باتوں کا رنج ہے‘ کہ میں حمیدے کو بچا نہ سکا۔ وہ ابھی زندہ تھا اور آخری سانسوں پر نہ تھا۔ افسوس‘ وہ قانونی تقاضوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ قانون اس کا قاتل نہیں‘ قانونی تقاضوں کے علم بردار‘ اس کے قاتل ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے واال نہیں۔ دوسرا جیرے کا جھاکا کھلنے پر‘ تاسف ہے‘ اب تو وہ اور انھی مچائے گا۔ اس ذیل میں تیسریی بات یہ ہے‘ کہ پتا نہیں‘ منافقت کا دیو‘ کب بوتل میں بند ہو کر‘ دریا برد ہو گا۔
سچائی کی زمین حکیم الہ دین کے مرنے کے بعد‘ ان کی رہائش گاہ ویران پڑ گئی۔ ان کے دونوں بیٹے‘ الہور‘ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ‘ سٹ ہو گیے تھے۔ بیٹی منٹگمری بیاہی گئی تھی۔ پہلے تو‘ ماں اور باپ کی وجہ سے‘ دوسرے تیسرے مہنے‘ دو چار دن کے لیے‘ چلی آتی تھی۔ اب اس کا یہاں کون تھا‘ جسے ملنے آتی۔ حکیم صاحب‘ بنیادی طور پر‘ الئل پور کے رہنے والے تھے۔
یہاں ان کا کام سٹ ہو گیا تھا‘ اسی لیے‘ یہاں ہی کے‘ ہو کر رہ گیے تھے۔ ان کی بیوی‘ چنیوٹ کی تھی۔ بیوی کے مرنے کے بعد بھی‘ حکیم صاحب نے یہاں سے جانا پسند نہ کیا۔ حاالں کہ ان کے بیٹے‘ انہیں ساتھ لے جانے کے لیے‘ اصرار کرتے رہتےتھے ۔ ان کے اصرار کے باوجود‘ انہیں یہاں رہنا ہی اچھا لگتا تھا۔ انہیں تنہائی کا‘ اس لیے بھی احساس نہ ہوا‘ کہ شاعر طبع شخص تھے‘ رات دیر گیے تک‘ جوان بوڑھے شاعر‘ ان کے پاس بیٹھے رہتے تھے۔ حکیم صاحب بڑے خوش خلق اور خوش طبع‘ واقع ہوئے تھے۔ بال کا حافظہ رکھتے تھے۔ جوانوں میں جوان ہو جاتے۔ جب بوڑھوں سے مکالمہ چلتا‘ تو یوں لگتا‘ جیسے سن صفر سے متعلق ہوں۔ یہ ہی وجہ ہے‘ کہ ان کو مرے‘ آج دس سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے۔ بہت سے‘ ان کے ساتھی‘ هللا کو پیارے ہو گیے ہیں۔ جوان‘ آج جوان نہیں رہے۔ وہ آج بھی‘ انہیں بڑی محبت سے‘ یاد کرتے ہیں۔ اے ڈی قمر صاحب تو ان کے گرویدہ ہیں۔ ان کی باتیں کرتے ہوئے‘ ان کی آنکھں بھر اتیں ہیں۔ ایک دن میں نے سوچا‘ کیوں نہ‘ ان کا مکان خرید لوں۔ ایک بار پھر‘ اسی رونق کو بحال کر دوں۔ ملبہ بوسیدہ ہو چکا تھا۔ جگہ کا ہی ریٹ چکانا تھا۔ مستعمل ریٹ‘ نوے روپے چل رہا تھا۔ کل ساڑھے چار مرلے جگہ تھی۔ ٹوٹل چار سو پنتالیس روپے بنتے
تھے۔ زیادہ سے زیادہ ساڑھے سو روپے لے لیں گے۔ میں نے ان کے بیٹوں سے‘ رابطہ کیا۔ بھلے لوگ تھے۔ انہیں مکان سے کوئی دل چسپی نہ تھی۔ اسی لیے مکان دینے پر جلد آمادہ ہو گ ی ے۔ ‘مکان کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ اندر سے مکان‘ اب بھوت گاہ سے‘ کسی طرح کم نہ تھا۔ چھتیر اور بالوں کو گھن نے‘ کھا لیا تھا۔ اس کے باوجود‘ خدا جانے‘ دونوں کمروں کی چھت‘ کیسے کھڑی تھی۔ میری آنکھیں‘ حکیم صاحب کے شعر وسخن سے متعلق‘ کاغذ بتر تالش رہی تھیں۔ دونوں کمرے خالی تھے۔ بڑی مایوسی ہوئی۔ میں حکیم صاحب کا کالم‘ شائع کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ ان کے بیٹوں نے‘ کوڑ کباڑ‘ کباڑیے کے ہاتھ بیچ دیا تھا۔ کتابیں اور کاغذ‘ ردی میں بک گیے تھے۔ اچانک میری نظر‘ ایک کونے میں پڑے‘ ایک توڑے پر پڑی۔ میں اس کی جانب‘ جلدی سے بڑھا۔ اس توڑے میں‘ بوسیدہ اور کرم خوردہ چرمر کرکے‘ کاغذ ٹھونسے ہوئے تھے۔ یہ حکیم صاحب‘ کا علمی و ادبی سرمایہ تھا۔ میں اس اجڑے دیار سے‘ ماضی کا یہ ان مول سرمایہ‘ گھر لے آیا اور پھر‘ ہر کاغذ کو بڑی احتیاط اور پیار سے‘ سیدھا پدرا کیا۔ جانے اے ڈی قمر صاحب کو کیسے خبر ہو گئی۔ وہ یہ سب‘ لینے چلے آئے۔ میں نے‘ دینے سے صاف انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا‘ جانے کب‘ تمہارے پاس پیسے آئیں گے‘ اور پھر
تم اسے شائع کرواؤ گے۔ میں اسے پہلی فرصت میں‘ اشاعت سے گزاروں گا۔ میں نے پھر بھی انکار کیا۔ بات یہاں تک پہنچی‘ کہ وہ مجھے پانچ سو روپے‘ دینے کے لیے تیار ہو گیے۔ آخر کب تک‘ انکار کرتا۔ میں نے پانچ سو روپے لے کر مسودہ انہیں دے ہی دیا۔ جہاں کالم چھپوانے کا مجھے جنون تھا‘ وہاں مکان کی تعمیر کے لیے بھی‘ رقم درکار تھی۔ هللا نے خود ہی‘ اس کا بندوبست فرما دیا۔ میں نے اوپر کھڑے ہو کر‘ تعمیر کا کام کروایا۔ پہلے ملبے سے‘ بھرتی کا کام لیا۔ اس سے‘ ایک فٹ کے قریب‘ مکان اونچا ہو گیا۔ میں نے بڑے اہتمام سے‘ بیٹھک بنوائی‘ تا کہ عالقے کے‘ شاعر حضرات بیٹھ کر‘ پرانی یادوں کو‘ ایک بار پھر تازہ کر دیں۔ میری خواہش‘ ریزہ ریزہ ہو گئی‘ جب میری بیوی شازیہ نے‘ بیٹھک اپنے بھائی کو اڈا لگانے کے لیے دے دی۔ اس کا کہنا تھا‘ کہ وہ در در رل رہا ہے‘ اور تم اسے بےکار کام لیے‘ مخصوص کر رہے ہو۔ جھگڑا مول نہیں لے سکتا تھا‘ خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔ صبر کے سوا‘ میرے پاس کوئی رستہ باقی نہ رہا تھا۔ آدمی جو سوچے‘ اور سوچ کے لیے‘ کوشش بھی کرے‘ وہ پوری ہو‘ یا سوچ کے عین مطابق پوری ہو‘ ضروری نہیں۔ میری خواہش‘ دل میں ہی رہی‘ اور میں کچھ بھی نہ کر سکا۔ مکان کو تعمیر ہوئے‘ ابھی تین چار ماہ ہی ہوئے ہوں گے۔ پکی
انٹوں کا فرش تھا‘ اور ٹیپ بھی‘ اچھی طرح کی گئی تھی‘ کچن کی پچھلی جانب‘ ایک ننھے مننے سے پودے نے‘ دو اینٹوں کے ملنے والی جگہ سے‘ سر اٹھانا شروع کیا۔ میں حیران تھا‘ کہ کوئی بیج ڈاال نہیں گیا۔ نچلی سطح پر‘ ایک فٹ بھرتی ڈالی گئی تھی۔ جو خود رو بوٹے اگ آئے تھے‘ انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا تھا‘ تو پھر یہ پودا‘ کہاں سے نمودار ہو گیا ہے۔ سوچا کسی سبزی وغیرہ کا بیج گر گیا ہو گا۔غور کرنے پر‘ معلوم ہوا‘ وہ کسی سبزی کا پودا نہ تھا۔ میں نے چپ سادھ لی‘ مبادا کسی کو پتا چل گیا‘ تو اکھاڑ پھینکا جائے گا۔ میں اسے ہر روز‘ چھپ کر‘ دو تین بار ضرور دیکھتا۔ پندرہ دنوں میں‘ اس کے وجود کو استحقام میسر آ گیا۔ سچی بات ہے‘ وہ مجھے بڑا اچھا لگتا۔ اس کے بڑھنے پھولنے پر‘ مجھے بڑی خوشی ہوتی۔ میں اس کے بہت قریب ہو گیا تھا۔ یوں لگتا تھا‘ جیسے میری اور اس کی آشنائی‘ صدیوں پر محیط ہو۔ جب بھی اسے دیکھتا‘ وہ اپنے پورے وجود کی مسکراہٹوں کے ساتھ ملتا۔ اس کا تنا ایک ہی تھا‘ لیکن تنے سےاوپر‘ کئی شاخیں نمودار ہو گئی تھیں۔ بات یہاں تک ہی محدود نہ تھی‘ ہر شاخ کئی شاخوں میں‘ بٹ گئی تھی۔ ہر نئی شاخ پر‘ ابتدا میں نکلنے والے پتے‘ دوسرے پتوں سے‘ قطعی مختلف تھے۔ وہ سبز نہیں‘ براؤن سے ہوتے۔ نرم نازک ہونا‘ تو الگ سے بات ہے‘ ان کا حسن بڑا متاثر کن تھا۔ یہ حسن اس شاخ کی ذاتی پہچان تھا۔
میں نے سوچا‘ اس پودے کا تنا ایک ہے‘ شاخیں اسی سے وابستہ ہیں۔ ایک شاخ کی کئی شاخیں ہیں۔ پتوں کے سائز الگ الگ ہیں۔ رنگ میں بھی‘ ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ سب کو زمین سے‘ تنے کے ذریعے خوراک میسر آ رہی ہے۔ انسان ایک آدم کی اوالد ہے۔ پودے کو‘ زمین سے خوراک میسر آتی ہے۔ انسان کو بھی‘ زمین خوراک میسر کر رہی ہے۔ پورا درخت‘ مختلف شاخوں میں بٹ کر بھی‘ ایک ہے۔ ہر شاخ‘ دوسری شاخ سے‘ پیوست ہو کر‘ درخت کو شکل دے رہی ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی‘ کہ هللا قادر ہے‘ انسان کیوں ایک درخت کی شکل میں نہیں۔ اگر یہ ایک شکل میں ہوتا‘ تو مخلوق خدا کو‘ پھل اور سایہ مہیا کرتا۔ میری سوچوں کا حلقہ‘ وسیح تر ہوتا گیا۔ پھر پتا نہیں‘ کب نیند نے آ لیا۔ صبح‘ حاجات اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد‘ پودا دیکھنے گیا‘ پودا اکھاڑ پھینکا گیا تھا۔ میں نے شازیہ سے‘ پودے کے متعلق پوچھا‘ تو اس نے کہا‘ ہاں‘ پودا میں نے اکھاڑا ہے۔ یہ گھر ہے‘ کوئی جنگل نہیں۔ فرش کا ستیاناس ہو گیا تھا۔ خدا معلوم‘ کیا پکواس کرتی رہی۔ میرے دماغ کی پھرکی الٹی پھرنے لگی۔ میں نے سوچا‘ بات بڑھ جائے گی‘ اس لیے گھر سے باہر نکل گیا۔ میں جانتا تھا‘ پانچوں بچوں کے منہ میں‘ شازیہ کی زبان ہے‘ اس لیے‘ میری دال گلنے کا‘ ایک فیصد بھی امکان نہ تھا۔ وہ اسے الیعنی بحث سمجھتے‘ اور یہ باظاہر تھی بھی بےکار کی بحث۔
اس پودے نے‘ یوں ہی جنم نہیں لیا ہو گا۔ یہاں خود رو پودوں کی بہتات تھی۔ ہم نے انہیں اکھاڑا‘ بھرتی بھی ڈالی اور اوپر چونے سے‘ فرشی اینٹیں چن دیں۔ درختوں کی جڑیں دور دور گئی ہوتی ہیں۔ ان ساری جڑوں کو تو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ درختوں کی ان جڑوں کو‘ زمین سے‘ خوراک ملتی رہتی ہے‘ اس لیے ان کی موت واقع نہیں ہوتی۔ جب بھی‘ اور جہاں کہیں‘ موقع ملتا ہے‘ وہ درخت کی صورت میں نمودار ہو جاتی ہیں۔ حضرت ابراہیم خلیل هللا ایسا برگد تھے‘ جس کی جڑیں‘ دور تک نکل گئی تھیں۔ شر کی انتہائی صورت کے باوجود‘ اس برگد کی صحت پر‘ رائی بھر‘ اثر نہ ہوا۔ دنیا کا کوئی خطہ‘ ایسا نہیں ہو گا‘ جہاں اس برگد کی جڑ سے‘ پودا نمودار نہ ہوا ہو۔ الریب فی‘ ہر پودے کا حسن اپنی جگہ باکمال رہا ہے۔ سچائی کا حسن‘ بار بار نمودار ہونے کے لیے‘ ہوتا ہے۔ اسے نمودار ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ہاں اس کی جڑوں کا پھیلنا اور مضبوط ہونا ضروری ہوتا ہے۔ یہ سب هللا کے اختیار میں ہے۔ زمین کے اندر‘ ہم دخل اندازی نہیں کر سکتے۔ سچائی کی زمین‘ حد درجہ ذرخیز ہوتی ہے۔ اس کی ازل سے موجود جڑیں‘ کسی ناکسی پودے کو سطح زمین پر التی رہیں گی۔ حکیم صاحب کے بوسیدہ کاغذوں میں جان تھی‘ تب ہی تو‘ اے ڈی قمر نے‘ پانچ سو روپے دینے میں‘ دیر نہ کی‘ ورنہ اتنی
بڑی رقم کیوں دیتے۔ پودے کی جڑوں میں دم تھا‘ اسی لیے ایک فٹ بھرتی کا سینہ چیرا‘ اور اپنے ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔ حر کب مرا ہے‘ اس کی جٹریں پوری دنیا میں پھیل گئی ہیں۔ حریت‘ اپنا وجود منواتی رہے گی۔ شازیہ نے پودے کو اکھاڑ پھینکا‘ اور سمجھ بیٹھی ہے‘ اب پودا نمودار نہیں ہو گا۔ میں کہتا ہوں‘ یہ پودا یہاں سے ناسہی‘ اسی گھر کے پکے فرش اورایک فٹ بھرتی کا‘ سینہ چیرتا ہوا‘ کسی دوسری جگہ سے‘ ضرور ۔۔۔۔۔۔ ہاں ضرور نمودار ہو گا۔ یہ ہی اصول فطرت ہے‘ کہ حسن جگہ بدل بدل کر‘ نئے رنگ اور نئے روپ کے ساتھ‘ جلوہ گر ہوتا رہے۔
استحقاقی کٹوتی صالحہ بالشبہ‘ زمین پر چاند کا اوتار تھی۔ جو بھی اسے دیکھتا‘ دل تھام کر رہ جاتا۔ کوئی چیز‘ خواہ کتنی قیمتی اور حسن و جمال میں الجواب ہو‘ جس کی ہے‘ اسی کی ہی ہے۔ اسے‘ دوسری بار دیکھنے سے‘ پاپ لگتا ہے۔ صالحہ ایک شاہ قریب بندے کی بیوی تھی‘ اسی وجہ سے‘ وہ مغرور اور خودپسند بھی تھی۔ خوب صورت نہ بھی ہوتی‘ تو بھی خاوند کے اعلی
منصب کے باعث‘ متکبر اور خودپسند ہوتی۔ اس کی طرف‘ اس کے خاوند سے کم تر منصب کے شخص کا دیکھنا‘ گچی لمی کرانے کے مترادف تھا۔ ایک روز‘ کسی تقریب میں‘ شاہ بھی موجود تھا۔ کرسی قریبوں کی بیگمات‘ رنگ برنگ لباسوں اور بناؤ سنگار کے پورے پہار کے ساتھ‘ تشریف الئی تھیں۔ بعض تو کارٹون لگ رہی تھیں۔ ان میں سے ایک‘ میکی ماؤس کی خالہ زاد لگ رہی تھی۔ نقل وحرکت بھی‘ میکی ماؤس سے مماثل تھی۔ ناز و نخرہ‘ممتازمحل سے کہیں زیادہ‘ دکھا رہی تھی۔ یہ‘ طرلے خاں کی حضرت زوجہ ماجدہ تھیں۔ شوقین حضرات‘ محض تفریخ اور موڈ میں شوخی کے لیے‘ اس کی زیارت سے مستفیذ ہو رہے تھے۔ بعض چمچے‘ اس کے منہ پر اس کے ٹرن آؤٹ‘ شائستگی اور سلیفہ شعاری کی تعریف کر رہے تھے۔ کچھ اس ذیل میں‘ حد میں اور کچھ حد سے باہر‘ نکل رہے تھے۔ عطیہ خانم‘ اپنے ناک نقشہ کے حوالہ سے‘ کچھ کم نہ تھی۔ زبان کی مٹھاس‘ شہد کی مٹھاس کو بھی‘ پیچھے چھوڑ رہی تھی۔ ہر لفظ‘ گالبوں کی خوش بو سے لبریز تھا۔ ہولے ہولے‘
دھیمی آواز میں‘ باتیں کرتی تھی۔ پر کیا کیا جائے‘ فربہ جسمی‘ اس کے شکلی اور لسانی حسن کو‘ غارت کر رہی تھی۔ بیگم عائشہ خاں‘ کسی سے بھی‘ کم نہ تھی لیکن اس کی کرل کرل‘ سر میں سوراخ کیے دے رہی تھی۔ سب بےزار سے ہو رہے تھے۔ پتا نہیں اس کا خاوند‘ اس کی کرل کرل کو‘ کس طرح ہضم کرتا ہو گا۔ عارفہ جان اوور ایکٹنگ اور آنکھیں مٹکا مٹکا کر باتیں کرکے‘ اپنے حسن کی حقیقی جازبیت کا ستیاناس مار رہی تھی۔ صالحہ کا حسن‘ سنجیدگی کے لباس میں ملبوس تھا۔ کسی بات کے جواب میں‘ محض ایک قیامت خیز مسکراہٹ سے کام لیتی۔ چال میں دیوتاؤں کا سا وقار تھا۔ آنکھوں میں فطری خمار اور اللہ رنگی اپنے عروج پر تھی۔ جوبھی سہی‘ مونچھیں ہوں تو نتھو الل جیسی ہوں‘ ورنہ نہ ہوں‘ کے مصداق حسن اور نازونخرہ ہو تو میڈم صالحہ جیسا ہو‘ ورنہ نہ ہو۔ شاہ شروع سے‘ دین دار طبع کا مالک تھا۔ اس
نے ہر سجی اور بنی سنوری گڑیا کو‘ فقط ایک کھوجی اور گوہر شناس نظر سے دیکھا۔ صالحہ کو بھی ایک‘ مگر دیرپا اور فیصلہ کن نظر سے دیکھا۔ نظرشناس‘ شاہ کی اس نظر التفات کو پہچان گیے۔ ان کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ چلو‘ تقریب کو سفلتا میسر آ گئی۔ یہ دن‘ بالشبہ نوازشوں اور عطاؤں کا دن تھا۔ شاید ہی کوئی نوازشوں کی گنگا کے اشنان سے محروم رہا ہو گا۔ صالحہ کے خاوند کو‘ زبانی حکم موصول ہو گیا‘ کہ وہ صالحہ کو فورا سے پہلے‘ طالق دے دے۔ شاہ کا فرمان خصوصی تھا‘ فورا سے پہلے تعمیل کیوں نہ ہوتی۔ چوں کہ یہ من منے کا میلہ تھا‘ لہذا عدت کے‘ ختم ہونے کے انتظار کی ضرورت ہی نہ تھی۔ نکاح کے بعد‘ ملکہ صالحہ صاحب کو‘ بڑی عزت اوراحترام کےساتھ‘ عجلہء عروسی میں پہنچا دیا گیا۔ یہ کوئی اچیرج بات نہ تھی۔ یہ توروٹین ورک تھا۔ مقدر اور نصیبے کی بات تھی۔ سج سجا کر آئی گماشتہ زوجگان‘ کی قسمت میں شاہی عجلہء عروسی نہ تھا۔ صالحہ کو بھی رائی بھر قلق نہ تھا۔ اب وہ گماشتے کی نہیں‘ گماشتہ طراز‘ شاہ کی زوجہ تھی۔ دوسرا یہ غیر شرعی‘ غیراصولی اور غیر فطری‘ کام نہ ہوا تھا۔ باقائدہ اور باضابطہ طور پر‘ طالق کے بعد نکاح ہوا تھا۔ سلیم نے تو شیرافگن کو مروا‘ کر اس کی بیگم پر تصرف حاصل کیا
تھا۔ چند ماہ تصرف میں رکھنے کے بعد‘ حسب معمول‘ صالحہ کو طالق دے دی گئی۔ بڑی مہربانی فرما تے ہوئے‘ اس کے سابقہ خاوند کو‘ نکاح کر لینے کے زبانی احکامات جاری کر دیے گیے۔ ملکہ معزمہ کا‘ کسی شاہی گماشتے کے تصرف میں آنا‘ کوئی معمولی اعزاز نہ تھا۔ یہ بھی کہ شیر کا اپنا شکار‘ کسی گیڈر لومٹر کو دے دینا‘ ان ہونی کا ہو جانا تھا۔ دوسرا ملکہ سے گہری مخلصی اور یک جہتی کا اظہار بھی تھا‘ تا کہ بوقت ضرورت راضی بر رضا کام آتی رہے۔ دوسری طرف گماشتے کو‘ اس کی امانت واپس کر دی گئی تھی۔ ہر کمائی سے‘ بہبودی ٹیکس کے نام پر‘ شاہ کا غالب حصہ‘ جبری سہی‘ وصوال جاتا رہا ہے۔ کرسی قریب تو‘ اس کےاپنے ہوتے ہیں۔ ہر دیا‘ شاہ ہی کی‘ خصوصی عنایت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ لین دین تو زندگی کا حصہ ہوتے ہیں۔ اس نوع کی کٹوتی‘ بہبودی نہیں‘ استحقاقی ہوتی ہے۔ یہ بھی بالشبہ‘ خصوصی نظر التفات تھی‘ ورنہ اتنا بڑا اعزاز‘ کسی اور کو بھی حاصل ہو سکتا تھا۔ ہر شاہ کا‘ شروع ہی سے‘ یہ ہی طور اور وتیرا رہا ہے‘ کہ وہ اپنے چہولی چکوں پر‘ کرپا اور دیا کے دروازے بند نہیں کرتا۔
بابا جی شکرهللا سچی کہانی پیر فقیر درویش صوفی لوگ بھی‘ بڑے ہی عجیب اور پراسرار قسم کے ہوتے ہیں۔ انہیں سمجھنا آسان کام نہیں ہوتا۔ ان کا ہر کام‘ عموم اور مروجہ سماجی رویات سے‘ ہٹ کر یا قطعی برعکس ہوتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے‘ کہ یہ لوگ معاشی غیرآسودگی کو ایک طرف رکھیے‘ یہ کوئی بڑی بات نہیں‘ یہ تو کم زور طبقوں کا مقدر رہی ہے‘ یہ لوگ تو اپنی برعکس کرنی کے سبب‘ کانٹوں پر زندگی کرتے آئے ہیں۔ یہ زندگی سماجی وسیاسی جبر کا نتیجہ نہیں ہوتی ہے‘ بلکہ ان کی خود سے‘ اختیار کی ہوئی ہوتی ہے۔ گویا یہ ان کی اپنی ذات کے جبر کا‘ ثمرہ ہوتی ہے۔ اب دیکھیے‘ جو بھی اہل ثروت اور اہل جاہ کی بدمعاشیوں اور بدکاریوں کو‘ طاقت کا استحاق سمجھتے ہوئے‘ تحسین کرتے ہوئے ان کے قدم لیتے رہے ہیں‘ ناصرف تمغوں‘ ایواڑوں اور
خطابات سے نوازے جاتے رہے ہیں بلکہ ان کی گھتلی‘ منہ تک لبریز رہی ہے۔ سرکار انہیں‘ جائیدیں اور مراعات سے نوازتی رہی ہے۔ معیار زندگی کی سربلندی کے ساتھ ساتھ‘ عوامی سطح پر‘ انہیں عزت و توقیر ملی ہے۔ بےشمار جی حضرریے میسر آئے ہیں۔ سالموں اور پرناموں کی کوئی تھوڑ نہیں رہی‘ حاالں کہ ان جی حضرریوں کو محض ہڈی پر ٹرخایا جاتا رہا ہے۔ بعض اوقات‘ یہ ہڈی بھی انہیں ترسا ترسا کر دی جاتی رہی ہے۔ اپنی زبان کے لہو کو ہی‘ انہوں نے سووگی طعام شرین سمجھا ہے۔ اس کے برعکس‘ ان درویشوں کو دیکھیے‘ وہ اہل ثروت کے ہر الٹے چالے پر‘ انگلی رکھتےآئے ہیں۔ پہلوں کے انجام سے‘ انہوں نے کبھی بھی عبرت نہیں پکڑی۔ حاالت کی ناگواری اور طاقت کے بگڑے تیور‘ ان کی راہیں بدل نہیں سکے ہیں۔ وہ‘ وہ ہی کرتے رہے ہیں‘ جو ان سے پہلوں نے کیا۔ ہر درویش کو طاقت وارننگ دیتی رہی ہے۔ حرام ہے‘ جو انہوں نے کبھی کسی واننگ کو کوئی حیثیت دی ہو۔ طاقت کی اپنی مجبوری ہوتی ہے‘ آخر وہ کہاں اور کس حد تک‘ برداشت سے کام لے۔ برداشت اور درگزر یا لحاظ اور مروت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ ایکشن میں نہ آنے کی صورت میں‘ بغاوت رہ پکڑ سکتی ہے۔ لوگ درویشوں کے کہے میں آ کر‘ طاقت کا جینا حرام کرسکتے ہیں۔
ریاستی امن وسکون تباہ ہو سکتا ہے۔ سید غالم حضورالمعروف بابا شکر هللا بھی‘ عجیب عادت اور مزاج کے مالک تھے۔ لوگ کسی کو حضرت کا سالم کہہ کر یا سالم کا جواب دے کر‘ اپنی جانب سے‘ عظیم کرم فرمائی سمجھتے ہیں۔ چھوٹی بڑی رقم‘ کوئی استعمال یا خوردنی چیز عنایت کر دینا‘ تو بڑی دور اور مشکل کی بات ہے۔ یہ حاتم کی قبر پر الت مرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ وصول کنندہ‘ گویا ان کا کانا ہو جاتا ہے۔ سالم کہتے رہنا‘ ان کی کوئی ناکوی مشقت اٹھانا‘ گاہے لوگوں میں‘ ان کی دریا دلی کے چرچا کرنا اور وقتا فوقتا احسان مندی کا اظہار کرنا‘ ان کے فرض منصبی میں داخل ہو جاتا ہے۔ بابا شکر هللا بڑے عجیب تھے۔ ان کا موقف تھا‘ کسی کو کچھ دے کر‘ یاد رکھنا بھی درست نہیں‘ بلکہ هللا اور لینے والے کا‘ شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ هللا کا شکر اس لیے کہ اس نے‘ تمہیں حاجت مند کی حاجب پوری کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور سائل کو تمہاری طرف پھیرا۔ حاجت مند کا اس لیے کہ اس نے‘ تمہیں حاجت پوری کرنے کےاہل سمھجا۔ اوالد تو اوالد‘ سائل بھی‘ بابا جی کی ہتھیلی پر سےاٹھاتے اور اسے‘ هللا کا شکر ادا کرنے کی تاکید کرتے۔ بابا جی امیر آدمی نہ تھے تاہم سائل کی حاجت پوری کرنے میں‘ کسی عذر بہانے :سے کام نہ لیتے تھے۔ ایک بار کسی نے کہا بابا جی! دینے والے کا تو ہاتھ اوپر ہوتا ہے‘ اس لیے آپ سائل
کی ہتھیلی پر کیوں نہیں رکھتے‘ بلکہ لینے واال‘ آپ کی ہتھیلی پر سے اٹھاتا ہے۔ آپ کے ہاں یہ معاملہ الٹ کیوں ہے۔ بھائی‘ میں دینے واال کون ہوتا ہوں‘ میرا تو ابنی سانسوں پر اختیار نہیں۔ مالک کے دیے میں سے دیتا ہوں‘ کون سا احسان کرتا ہوں۔ سائل کو مالک نے بھیجا ہوتا ہے‘ بھیجنے واال مالک ہے‘ اس لیے سائل کا ہاتھ کیوں نیچے ہو۔ مالک بھیجتا ہے‘ کیا ‘مالک کے بھیجے کا ہاتھ نیچے ہونا چاہیے ایک بار ایک صاحب تشریف الئے‘ کچھ کہنا چاہتے تھے‘ لیکن کہہ نہیں پا رہے تھے۔ بابا شکرهللا نے‘ انہیں کہا آپ بیٹھیں‘ میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔ بابا جی اندر چلے گیے۔ کچھ دیر بعد واپس آ گیے اور انہیں بیٹھک سے باہر آنے کا اشارہ کیا۔ انہیں باہر ہی سے فارغ کر دیا اور پھر‘ ہمارے پاس آ کر بیٹھ گیے۔ ذکر تک نہ کیا‘ کہ آنے واال حاجت مند تھا اور انہوں نے اس کی کس طرح مدد کی۔ اس انداز سے‘ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو‘ بات وہیں سے شروع کر دی‘ جہاں سے چھوڑی تھی۔ ایک مرتبہ ان کے ایک ملنے والےآئے‘ بال سالم دعا برس ہی پڑے۔ وہ صاحب بولتے رہے‘ ان کے گرجنے برسنے کے دوران‘ بابا جی شرمندہ سی مسکراہٹ کی خوش بو پھیالتے :رہے۔ جب وہ بول چکے‘ تو بابا جی نے فرمایا بھائی میں نبی نہیں جو مجھ پر وحی آ جاتی کہ آپ کسی مسلے سے دوچار ہیں۔
اس شخص نے کہا‘ آپ سید پاک ہیں آپ کو لوگوں کے دکھ سکھ سے آگاہی رکھنی چاہیے۔ فرمانے لگے‘ ہاں یہ درست ہے۔ پھر ان کی آنکھوں سے اشکوں کا راوی ہہنے لگا۔ فرمانے لگے بھائی‘ بھائی ان کا تکیہءکالم تھا‘ میں تو سنا سنایا سید ہوں۔ سید تو حسین ابن علی تھے‘ جنہوں نے نانا کی امت کے لیے‘ اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ ایک مرتبہ ایک سائل آیا۔ بابا جی نے اس کی طرف دیکھا اور پھر‘ ایک بچے کے ہاتھ ایک سکہ بھجوا دیا۔ کسی نے پوچھا: بابا جی یہ کیا۔ انہوں نے فرمایا :یہ مالک کا بھیجا ہوا نہیں تھا۔ یہ مالک کا ناشکرا تھا۔ سب کچھ پلے ہوتے ہوئے بھی‘ ہر کسی کے سامنے‘ دست سوال کرکے اپنے ضمیر کا قتل کرتا پھر رہا تھا۔ کسی نے سوال کیا :حضور پھر آپ نے بچے کے ہاتھ سکہ کیوں بجھوایا۔ کہنے لگے :وہ میرے دروازے پر چل کر آیا تھا‘ میں اسے خالی کیسے بھیج سکتا تھا۔ اس کا عمل اس کے ساتھ ہے اور میرا میرے ساتھ ہے۔ ایک بار ایک بڑے معزز سے شخص آئے اور دعا فرمانے کے لیے کہہ دیا۔ بابا جی نے اچھا خاصا لیکچر پال دیا۔ بابا جی
ماسٹر کریم الدین ہی لگ رہے تھے۔ان کے لیکچر میں بال کی روانی گرمی اور جوش و خروش تھی۔ رومی‘ سعدی‘ حافظ‘ بلھے شاہ‘ شاہ حسین الہوری وغیرہ ایک ہی نشت میں بیٹھا دیے۔ اس نے بابا جی کے پلے سے کچھ نہ مانگا تھا‘ محض دعا کے لیے ہی تو کہا تھا۔ ضرورت‘ ضروری ہو یا اختیاری ہو‘ ضرورت ہوتی ہے۔ بابا جی کی باتوں سے ایک بات ضرور واضح تھی کہ جس چیز کے بغیر کام چل سکتا ہو یا وہ اضافی نوعیت کی ہو‘ اس کے لیے بےچین ہونا یا دو نمبری رستہ اختیار کرنا‘ درست نہیں۔ ہم سائے میں‘ کوئی نئے ماڈل کی چیز آ گئی ہےاورآپ کے ہاں پرانے ماڈل کی ہے‘ اس سے کیا فرق پڑتا ہے‘ کام تو چل رہا ہے۔ کسی عزیز نے گاڑی لے لی ہے تو یہ خوشی کی بات ہے‘ آپ خواہ مخواہ پریشان ہوتے ہیں۔ ناک کے لیے گاڑی کے حصول کے لیے بھاگ دوڑ کرنا‘ کہاں کی دانش مندی ہے۔ اگر کام چل رہا ہے اور کوئی دقت محسوس نہیں ہو رہی‘ تو بس ٹھیک ہے۔ مہندی گانے پر پہنے گیے ملبوسات‘ شادی اور ولیمے میں‘ پہن لینے میں کون سی قباحت ہے۔ مرگ پر آدمی پرسا دینے جاتا‘ وہاں کے لیے بن ٹھن کی‘ آخر کیا ضرورت ہے۔ بابا جی کی تمام باتیں سولہ آنے ٹھیک تھیں مگر کیا جائے‘ زندگی کا چلن یی ایسا ہو گیا ہے‘ کیا کریں۔ زندگی کی موجودہ
روش کے مطابق‘ چلنا پڑتا ہے۔ بابا جی درویش تھے‘ ان کا تو گزارہ ہو سکتا تھا‘ ساری دنیا درویش نہیں۔
الٹری
کریماں کے جوان کنوارے بیٹے کے‘ وعدے پورے ہو گیے۔ ماں کا‘ چیخیں مار مار کر رونا‘ فطری سی بات تھی۔ هللا کسی دشمن کی ماں کو بھی‘ اس صدمے سے دوچار نہ کرئے۔ اوالد کو کچھ ہو جائے تو ماؤں کو سچ میں‘ اس سے پہلے ہی دوگنا کچھ ہو جاتا ہے۔ یہ رشتہ ہی کچھ ایسا ہوتا ہے۔ تب ہی تو اس رشتے کو ان مول اور مترادف سے معذور رشتھ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ اس رشتے کی اہمیت کا انداز اس قول سے لگائیں‘ کہ ماں کے پیروں میں جوتا ہو نہ ہو‘ اوالد کی جنت ضرور ہوتی ہے۔ ماں کی محبت کی کچھ مثالیں میری آنکھوں دیکھی ہیں۔ مائی رمضانہ کا منجھال کوئی کام کاج تو کرتا نہیں تھا ہاں البتہ نشے پانی کا عادی تھا۔ پیسوں کے لیے ہر وقت لڑتے رہنا اس کا
مرغوب مشغلہ تھا۔ لڑائی میں‘ بدتمیزی کی حدیں کراس کر جاتا تھا۔ الڈوں پال تھا۔ مرحومہ کسی کے منہ سے اپنے بیٹے کے خالف ایک جملہ تک نہ سن سکتی تھی۔ وہ اپنے عالقےکا مانا ہوا نشئی تھا لیکن مائی رمضانہ کسی کے منہ سے بھی نہیں سن سکتی تھی کہ اس کا ییٹا نشئی ہے۔ گاماں کو هللا نے چار بیٹیاں عطا کیں۔ بیٹے کی خواہش نے‘ اسے بڑا بےصبرا بنا دیا تھا۔ دوا دارو کے ساتھ ساتھ‘ پیروں فقیروں کے پاس بھی گئی۔ ہر کام اپنے وقت پر ہوتا ہے۔ هللا نے سات سال بعد‘ اسے چاند سا بیٹا عطا فرمایا۔ تمام الڈ لڈائے گیے۔ بڑا ہوا‘ تو اسے کسی مغربی ملک میں بھیج دیا گیا۔ پھر وہ وہاں کا ہی ہو کر گیا۔ شروع شروع میں‘ خط وغیرہ لکھ دیا کرتا تھا‘ پھر اس تکلف سے بھی گیا۔ گاماں‘ بیٹے کی جدائی کا صدمہ‘ برداشت نہ کر سکی۔ دماغی توازن کھو بیٹھی اور گلیوں کا روڑا ہوکر رہ گئی۔ جو کوئی دیکھتا افسوس کرتا۔ ننھا الکھوں میں ایک تھا۔ گاؤں کی لڑکیاں‘ اس پر مرتی تھیں۔ کوئی ایک ہوتی تو وہ عشق جیسی بیماری میں مبتال ہوتا۔ بس معمولی نوعیت کی‘ بھونڈی تک محدود تھا۔ آخر کب تک‘ شازیہ نے‘ اسے اپنی گرفت میں لے ہی لیا۔ بات کب تک پردہ میں رہتی ہے‘ لوگوں کی زبان پر آ گئی ۔ اس معاملے پر گھر پانی پت کا میدان بن گیا۔ سب لوگ‘ ننھے کے پیچھے ہی پڑ گیے۔ ننھے کی
ماں رانی‘ ہر وقت پتر کے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے میں رہتی۔ اس کا موقف یہ ہی رہتا‘ لوگ یوں ہی بکواس کرتے ہیں‘ میرا بیٹا شریف ہے‘ وہ ایسی حرکت کر ہی نہیں سکتا۔ شازیہ شوہر اور تین بچوں کو چھوڑ کر‘ میکےآ گئی۔ یہ سوال غلط نہ تھا‘ کہ عشق ممتا کی الش سے بھی گزر جاتا ہے۔ ایسی مٹالیں ہزاروں میں‘ دو چار ہی ہوں گی۔ میں اپنی ماں سے‘ بےتحاشا محبت کرتا تھا۔ اس کی آغوش‘ میرے لیے بڑی معنویت رکھتی تھی۔ آج جب‘ بوڑھا ہو گیا ہوں‘ بیمار پڑتا ہوں‘ تو نادانستہ طور پر‘ منہ سے ہائےامی ہی نکلتا ہے۔ خدمت کرنے والے کا چڑنا‘ الیعنی قرار نہیں دیا جا سکتا‘ کہ بھئی خدمت میں کر رہا ہوں‘ پکارے اپنی امی کو جا رہا ہے‘ جو برسوں پہلے انتقال کر گئی ہے۔ یہ عمل‘ کوئی غیرفطری نہیں‘ عین فطری ہے۔ کریماں کو ڈھارس بندھانے والے‘ کئی لوگ تھے۔ اسے قرار آ ہی نہیں رہا تھا۔ آتا بھی کیسے اور کس بوتے پر‘ جوان بیٹے کی الش سامنے پڑی تھی۔ کبھی منہ کو ہاتھ لگاتی‘ کبھی سر پر ہاتھ پھرتی۔ کبھی چارپائی کے بازو پر سر مارتی اور کر بھی کیا سکتی تھی۔ آہ و بکا اور اس کے بین سنے نہیں جا رہے تھے۔ اس دوران اس کے منہ سے نکال :میرے بیٹے نے دنیا میں دیکھا ہی کیا تھا‘ کچھ دیکھے بغیر چل بسا۔ فیجاں تیلن جو اس کے قریب بیٹھی تھی‘ نے اس کےکان میں کہا :اس کی تم
فکر نہ کرو‘ میں نے سب کچھ دکھا دیا تھا‘ گلو اسی کا تو ہے۔ کریماں پر‘ حیرت آلود سکتہ طاری ہو گیا‘ پھر تھوڑا سمبھلی۔ اس نے ڈیڑھ سالہ گلو کو ایک نظر دیکھا۔ اسے گلو میں‘ اپنے بیٹے صادق کے بچپن کی پرچھائیں نظر آئی۔ اس نے بےاختیار ہو کر‘ گلو کو سینے سے لگا لیا۔ یہ ایک ایسی پہیلی تھی‘ جو کسی کی سمجھ میں نہ آ سکتی تھی۔ ہاں فیجاں تیلن کی الٹری لگ چکی تھی۔ یہ کیسا رشتہ تھا‘ جو گلو کو بھی تامرگ معلوم نہ ہو پانا تھا۔ سب کچھ ہوتے‘ دنیا کے حساب سے‘ وہ اس کی کچھ بھی نہ تھی۔ کریماں اسے اپنے بیٹے صادق کی نشانی سمجھتے ہوئے‘ اس پر محبتیں اور جیب قربان کرتی رہے گی‘ لیکن اپنا رشتہ کسی پر کھول نہ سکے گی۔ باطور دادی‘ منہ سے کچھ کہہ کر‘ وہ گلو پر ناجائز اوالد ہونے کا لیبل کس طرح چسپاں کر سکتی تھی۔ اس کےلیے بس اتنا ہی کافی تھا کہ وہ صادق کی نشانی تھا۔
آگ کی بھٹی
جنگ لمحوں کی ہو یا دنوں کی‘ جہاں توڑ پھوڑ کا سبب بنتی ہے‘ وہاں ذات کا سکون بھی غارت کر دیتی ہے۔ سوچیں ہر لمحہ تذبذب کی صلیب پر چڑھتی ہیں۔ کچھ کر گزرنے کی استعداد بھی متاثر ہوتی ہے۔ سماجی اطوار سے میل کھاتی سوچیں‘ کھیسےمیں کچھ ناکچھ ضرور ڈالتی ہیں۔ سماجی اطوار سے متصادم سوچیں‘ ذات کا استحصال تو کرتی ہی ہیں‘ سماج تو سماج‘ یہاں تک کہ خانگی لعن طعن بھی‘ مقدر ٹھہرتی ہے۔ ستم یہ‘ جن کی بھالئی کے لیے سوچا گیا ہوتا ہے‘ وہ ہی دشمن بن جاتے ہیں۔ علما کی زبانی‘ نار جہنم کی ہولناکی کا سنتے آ رہے ہیں۔ یہ بات اکثر سوچ میں آتی ہے‘ کہ اس کی قہرمانی‘ کیا سوچوں سے بھی بڑھ کر ہو گی! مجھے لوہے کی بٹھی میں لوہے کو ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں لوہے کو‘ جو سخت ترین دھات ہے‘ کو پانی ہوتے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ بال کی آگ تھی۔ اس کی دور کی تپش سے‘ جسم پسینے میں نہا گیا۔ میں پچھلے پچپن سال سے‘ سوچ کی بھٹی میں پگھل رہا ہوں۔ سب سے بڑا دکھ تو یہ ہے‘ کہ میری سوچوں کو‘ الیعنی اور سماج دشمن سوچیں کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ جن کے لیے سوچتا ہوں‘ وہ ہی مجھے اپنے رزق کا دشمن سمجھتے ہیں۔
رشوت لینے والوں سے کہتا ہوں‘ تم جہنم کی آگ جمع کر رہے ہو‘ تو وہ میرے کہے کو بکواس اور دفترشاہی کے خالف سازش سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں‘ صدیوں سے جاری یہ عمل‘ کس طرح غلط ہوسکتا ہے۔ اگر یہ غلط ہوتا‘ تو یہ اختیار کیوں کیا جاتا۔ کسی روایت یا روٹین میٹر کو‘ کس طرح غلط قرار دیا جا سکتا ہے۔ رشوت دینے والے کو کہتے ہیں‘ تو وہ اسے درست قرار دینے کے لیے تیار نہیں۔ رشوت ہی‘ ڈی میرٹ کو میرٹ میں تبدیل کر سکتی ہے۔ اس حوالہ سے‘ رشوت دینا الیعنی نہیں ٹھہرتا۔ کسی کی حق تلفی کیسی۔ لگانے والے ہی کے کھیسہ میں پھل گرتا ہے۔ مالوٹ کرنے والے سے بات کرو‘ تو وہ دشمن بن جاتا ہے۔ اس کا کہنا ہوتا ہے‘ جب خریدنے والے کو اعتراض نہیں‘ تو تمہارے پیٹ میں کیوں مروڑ اثھتا ہے۔ میں اس کا خیرخواہ ہوں‘ چاہتا ہوں‘ وہ جہنم کی آگ کا لقمہ نہ بنے۔ میں سوچتا ہوں‘ پاؤ کا خریدار ہو یا کلو کا‘ دین دار تو وہ دونوں کا ہے۔ انسان جو هللا کی بہترین مخلوق ہے‘ کی قیمت محض چند ٹکے ہیں۔ چوری کوئی آسان کام نہیں۔ انسان اگر اتنی محنت کرئے‘ تو بھوک مٹانے اور تن ڈھانپنے کے لیے‘ رزق دستیاب ہو ہی جاتا
ہے۔ غداری کرنے والے کیوں بھول جاتے ہیں‘ محض چوپڑی کے لیے لوگوں کا خون اپنے سر پر کیوں لیتے ہیں۔ کم تولنے اور بڑی ہنرمندی سے‘ ناقص مال فروخت کرنے والوں کو ضمیر کیوں نہیں ستاتا۔ کیا ان کا ضمیر نہیں ہوتا۔ کیا وہ بالضمیر زندگی گزار کر دنیا سے‘ رخصت ہو جاتے ہیں۔ ان کے چھوڑے بےضمیر لقمے‘ اگلی نسلوں کو منتقل ہو جاتے ہیں۔ ہزار سال تو بہت زیادہ ہوتے ہیں‘ کوئی یہ نہیں بتا سکتا‘ کہ کسی کی‘ موجودہ رہائش گاہ دو سو سال پہلے کیسی اور کس کی تھی۔ آتے سالوں میں‘ یہ کیسی اور کس کی ہو گی۔ میری میری کا نغمہ بڑا پرانا ہے‘ لیکن اس کا ہر گائیک‘ تہ خاک چال گیا۔ ایسا گیا‘ کہ اسے دوبارہ آنا نصیب نہ ہوا۔ میں اپنی ذات سے‘ اس معاملے پر بھی الجھتا ہوں‘ کہ ہر دو نمبری الئق عزت کیوں سمجھا جاتا ہے۔ ایک صاحب نے‘ سات الکھ کی ہیرا پھیری کی۔ اس رقم سے وہ اور اس کے گھر والے‘ حج کرکے آئے۔ سب ان کے ہاتھ چومتے ہیں۔ اس میں وہ بھی شامل ہیں‘ جو اصل حقیقت سے آگاہ ہیں۔ شرافت کا معیار پرتعیش زندگی قرار پایا ہے۔
مجھے اس بات پر قلق ہوتا‘ کہ ہم منافق کیوں ہیں۔ غلط کو غلط‘ منہ پر کیوں نہیں کہتے ۔ ایک طرف حضرت ابراہیم‘ حضرت سقراط‘ حضرت حسین‘ حضرت منصور کا احترام کرتے ہیں۔ حضرت مہاآتما بدھ جی کے فعل پرحیرت زدہ ہوتے ہیں۔ دوسری طرف‘ ان اصحاب باصفا کے ساتھ‘ پیش آنے والے معامالت سے‘ عبرت لیتے ہوئے‘ غلط کو غلط نہیں کہتے۔ ان کی پشت پیچھے پلوتے بولتے ہیں۔ ان کے منہ پر‘ ٹی سی میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتے۔ ٹی سی خور‘ خوش ہو کر چوری سے نوازتے ہیں۔ جانتے ہوئے بھی‘ وہ خود کو نبی قریب سمجھتے ہیں یا اپنے کیے کو‘ برحق سمجھتے ہیں۔ گویا دونمبری‘ ان کا مرتبی استحقاق ہے۔ آگ کی بھٹی کو دیکھے ہوئے‘ ایک عرصہ گزر گیا ہے۔ اس آگ کا سیکا‘ آج بھی محسوس کرتا ہوں۔ یہ آگ اتنی زبردست تھی۔ جہنم کی کس بال کی ہو گی۔ میں سوچتا ہوں‘ اتنے سوہنے سوہنے چہرے‘ جو دیکھنے میں نیک پرہیزگار لگتے ہیں‘ جہنم کی آگ میں ڈالے جائیں گے! ان کے دو نمبری حج اور دکھاوے کی نمازیں‘ کام آ سکیں گی۔ کیا چوری خور مورکھ کا لکھا هللا درست مان لے گا۔ اس قسم کی سوچیں‘ مجھے بڑی ازیت دیتی ہیں۔ کاش میں
انہیں‘ جہنم کی آگ سے بچا سکتا۔۔۔۔۔ کاش۔۔۔۔۔ یہ مجھے حاسد سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال ہے‘ سوکھی اور قلیل نے‘ مجھے یاوہ گو بنا دیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں‘ ان کی آسودگی‘ خوش حالی‘ کوٹھی‘ کاروں کی موجودگی نے پاگل کر دیا ہے اور میں اس پر جلتا ہوں۔ کتنی عجیب بات ہے‘ میں ان کے انجام سے لرزاں ہوں۔ میں اس امر پر بھی لرزاں ہوں‘ کہ میں نے انہیں بتایا کیوں نہیں۔ انہوں نے آگ کی بھٹی میں‘ لوہے کو پگھل کر پانی ہوتے نہیں دیکھا۔ هللا پوچھ سکتا ہے‘ تم نے تو دیکھا تھا نا‘ پھر کیوں نہیں بتایا۔ دیکھ کر‘ منافقت کے خول میں کیوں مقید رہا۔ میں اپنی حیثیت‘ حقیقت اور اوقات سے‘ خوب خوب ہوں۔ میں ان کا مجرم ہوں‘ آنکھوں دیکھی چیز کا‘ لفظوں میں نقشہ نہیں کھنچ سکتا۔ یہ تو کوئی مصور ہی کر سکتا ہے‘ یا کوئی باہدایت صاحب اختیار کر سکتا ہے۔ ہر عالقے کے حاکم پر لگائے‘ کہ وہ بدعنوان لوگوں کو ساتھ لے کر‘ دہکتی آگ کی بٹھی کی زیارت کرے اور کرائے۔ اینٹوں کے پھٹے کی آگ بھی‘ اپنی کارگزری میں کچھ کم نہیں۔ بٹھی کی آگ ہو یا اینٹوں والے “پٹھے کی آگ‘ جہنم کی آگ کے مقابلہ میں کچھ نہیں۔ شاہ بابا بولتا رہا‘ ہم سب پتھر کا بت بنے‘ سنتے رہے۔ پھر شاہ
بابا کے منہ سے نکال‘ کلمہءشہادت۔ سب نے یک زبان ہو کر کلمہءشہادت پڑھا۔ اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔ سب نے سوچا‘ شاید شاہ بابا دم لینے کے لیے رکے ہیں‘ لیکن بابا تو اپنا فرض ادا کرکے جا چکا تھا‘ اسے چلے جانا ہی چاہیے تھا۔ یہ دنیا‘ اس سے لوگوں کے رہنے کی جگہ نہیں ہے۔ میں نے کئی بار‘ بٹھی دیکھنے کا اردہ کیا ہے‘ شاید کچھ عبرت پکڑوں اور توبہ کے دروازے پر آ جاؤں‘ یقین مانیں‘ دنیا کی ہما ہمی نے‘ مجھے موقع ہی نہیں دیا۔ یا پھر شاید عبرت پکڑنے اور کوئی کارخیر کرنے کے لیے‘ ہمارے پاس وقت ہی نہیں رہا۔
کردہ ناکردہ
انسان کو‘ هللا نے احسن تخلیق کیا اور اس کی جگہ جگہ بڑائی بیان کی ہے۔ فرشتے کیا‘ مجھے بھی‘ جو ان کا سردار تھا‘ اس مٹی سے بنے انسان کو‘ سجدہ کرنے کو کہا گیا۔ کمال ہے‘ کل تک میں سرداری کر رہا تھا‘ آج داری کے لیے کہا جا رہا تھا۔ اب بھال میں‘ زحل کی گھڑی میں تخلیق کی گئی مخلوق کو‘ سجدہ کیوں کرتا۔ هللا اسے مشتری کی بہترین ساعت کی تخلیق
قرار دیتا ہے۔ اس کے کارنامے‘ مشتری کی بہترین ساعت والے نہیں ہیں۔ اپنا کیا‘ اپنے سر پر نہیں لیتا اوروں کے سر پر رکھ دیتا ہے‘ یا پھر میرے نام کر دیتا ہے حاالں کہ اس بات یا معاملے کا میری ذات سے‘ کوئی تعلق واسطہ ہی نہیں ہوتا۔ مشتری کی بہترین ساعت کی تخلیق تو دیکھو‘ قتل کرتا ہے‘ منصف کے سامنے اپنے کارنامے سے صاف انکار کر دیتا ہے۔ وکیل یہ جانتے ہوئے‘ کہ اس کا موکل قاتل ہے‘ وکالت کر رہا ہوتا ہے‘ ٹھوس دالئل پیش کر رہا ہوتا ہے۔ قاتل کی طرف داری کرتے ہوئے‘ عجیب محسوس نہیں کرتا‘ ضمیر پر رائی بھر بوجھ نہیں لیتا۔ مقدمہ جیت جانے کی صورت میں‘ خوشیاں مناتا ہے۔ چند سکوں کے لیے‘ کسی کا قتل اپنے سر پر لینے میں‘ عار نہیں سمجھتا۔ ایسے وکیل کو کامیاب وکیل قرار دیا جاتا ہے۔ جرم پیشہ لوگ اپنی جگہ‘ سماج بھی اسے‘ عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ رشوت‘ مالوٹ‘ ہیرا پھیری‘ ناپ تول میں کمی اور دو نمبری کمائی سے‘ کوٹھیاں کاریں بنا لینے والے‘ اسی کمائی سے حج پر جانے ہیں۔ وہاں جا کر مجھے کنکر مارنے والے باعزت اور معزز ہیں۔ آخر کس منہ سے وہ یہ کرتے ہیں۔ میں ملعون ہوں‘ شاید اسی لیے وہ آلودہ ہاتھوں سے‘ مجھے کنکریاں مارتے ہیں۔ جتنی دیر اور جس حساب سے‘مجھے کنکریاں ماری جا رہی ہیں‘ میرا تو کچومر ہی نکل گیا ہوتا۔ حرام کی کمائی سے
آلودہ ہاتھوں کی کنکریاں‘ مجھے لطف سے ہم کنار کرتی ہیں۔ ان کے سبب مجھے استحقام میسرآیا ہے‘ گویا یہ مجھے مزید شکتی دان کرتی آئی ہیں۔ بالل‘ بورذر سلمان وغیرہ سے لوگوں کا وجود‘ مجھے ازیت دیتا تھا۔ اب ان سے لوگ نہیں رہے۔ یہ هللا کو یاد ہی نہیں کرتے اور ناہی اپنے هللا سے‘ آگہی رکھتے ہیں۔ چوری‘ ہیرا پھیری اور دونمبری پر جانے سے پہلے اپنے هللا کو یاد کرتے ہیں۔ هللا کو یاد کرنے کا بھی یہ خوب موقع ہوتا ہے‘ کہتے ہیں‘ یاهللا تیرا ہی آسرا اور سہارا ہے۔ کسی نیک کے ساتھ واسط ہڑے اور سالمتی سے‘ کھیسہ بھر کر واپس آئیں۔ وہ سالمتی سے کھیسہ بھر کر‘ واپس آتے بھی ہیں۔ پکڑے جانے یا ناکامی کی صورت میں‘ مجھے کوستے ہیں۔ اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہوتا۔ میں کب چاہوں گا‘ کہ دونمبری کرنے والے کو‘ ناکامی کا سامنا کرنا پڑے۔ اس کی کامیابی‘ میری کامیابی ہے‘ اس کی ناکامی‘ میری ناکامی ہے۔ کتنی عجیب بات ہے‘ مجھے منفی کردار سمجھتے ہیں۔ منفی پر اکسانے واال بھی‘ مجھے قرار دیتے ہیں۔ منفی پر ناکامی پر بھی‘ مجھے کوسنے دیتے ہیں۔ میں فرعون کی‘ موسی سے ٹھنی پر خوش تھا۔ دریا میں اترنے کے لیے‘ میں نے اسے کب کہا تھا‘ وہ خود ہی‘ اپنی مرضی سے‘ دریا میں اترا تھا۔ اس کی موت‘ میرے وارے میں نہ تھی۔ اس کا یہ کیا بھی میرے کھاتے میں ڈال دیں‘
کیوں کہ ہر خرابی کا میں ہی ذمہ دار ہوں۔ یہ میرے کھاتے میں کیوں ڈاال نہیں جاتا۔ کل ہی کی بات ہے‘ کہ ایک دکان دار دودھ ابال رہا تھا‘ ساتھ میں‘ دوسرے دکان دار سے‘ باتیں بھی کر رہا تھا۔ بےخیالی میں‘ کھرپا مارتے‘ دودھ کے کچھ چھیٹے‘ سامنے دیوار پر جا پڑے۔ مجھے دیوار پر انگلی سے دودھ لگانے کی ضرورت ہی نہ پڑی۔ ہم سائے کے دکان دار سے بھی‘ وہ اپنی مرضی سے‘ اپنی مرضی کی باتیں کر رہا تھا۔ دیوار پر دودھ کے چھینٹے‘ اس کی بےخیالی‘ بےتوجہگی اور غفلت کے باعث پڑے۔ دودھ پر مکھیاں آ ہی جاتی ہیں‘ یہ فطری سی بات ہے۔ مکھیاں جہاں ہوں گی‘ وہاں کرلیاں آئیں گی ہی۔ چھپکلی دیکھ کر‘ بال یا بلی کیسے چپکے رہیں گے۔ ہوا کیا‘ دکان دار کا بال‘ چھپکلیوں پر پل پڑا۔ اتفاق دیکھیے‘ عین اسی وقت‘ سیٹھ نثار اپنے ٹومی جی کے ساتھ‘ سٹرک پر مٹر گشت کرتے گزر رہے تھے۔ ٹومی جی نے‘ جوں ہی بلے کو دیکھا‘ وہ پوری رفتار سے‘ بلے پر جھپٹا۔ چھپکلی کے منہ میں مکھی اور بلے کے منہ میں چھپکلی تھی۔ تینوں ٹومی جی کی بروقت مثبت کاروائی پر‘ دودھ میں جا گرے۔ دکان دار نے غصے میں آ کر‘ کھرپا ٹومی جی کے سر پر جڑ دیا اور وہ موقع پر ہی‘ ٹکی ہو گیا۔۔ یہ کتیت کی ہی نہیں‘ سیٹھیت کی بھی‘ کھلی اور برمال‘ توہین تھی۔ سیٹھ صاحب نے آؤ دیکھا نہ تاؤ‘
دکان دار کے سر کو گولی سے اڑا دیا۔ بالشبہ وہ اسی الئق تھا‘ آدمی میں برداشت کا مادہ ہونا چاہیے۔ برداشت کی کمی کے سبب‘ وہ موت کے منہ میں گیا‘ اس میں میرا کوئی عمل دخل نہ تھا۔ اس سارے معاملے میں‘ میرا کیا قصور تھا۔ دوکان دار‘ ہم سایہ دوکان دار‘ دودھ‘ مکھی‘ بال‘ ٹومی جی‘ سیٹھ صاحب سے میرا کیا لینا دینا۔ یہاں بھی‘ مجھے ہی دشنام کیا گیا۔ کہا گیا غصہ حرام ہوتا ہے‘ دوکان دار پر شیطان غالب آ گیا‘ تب ہی تو اس نے‘ ٹومی جی کے سر پر کھرپا دے مارا۔ ٹومی جی بےلگامے کیوں ہوئے‘ سیٹھ کو گرفت مضبوط رکھنی چاہیے تھی‘ یہ کوئی کہنے کوتی تیار نہیں۔ دکان دار کی غفلت کسی کو نظر ہی نہیں آتی۔ مچھر اور مکھیاں مارنےکی‘ ذمہ داری کس ہے۔ مکھیاں تھیں ہی کیوں۔ سب کو معلوم ہے‘ کسی کا نام لیا تو ناسیں سالمت نہیں رہیں گی۔ کردہ ناکردہ مجھ پر ڈالتے ہیں۔ یہ انصاف ہے اس اشرف مخلوق کا‘ اپنا کیا اپنے سر لے اور قبولنے میں عار محسوس نہ کرے‘ تب پتا چلے کہ یہ عظیم مخلوق ہے۔ چوری خود کرے‘ ڈالے کسی اور پر‘ یہ کس قسم کی انسانیت‘ دلیری اور جواں مردی ہے۔ میں کچھ کروں تب بھی مجرم‘ ناکروں تب بھی مجرم۔ واہ کیا عجب رنگ ہیں‘ اس عظیم مخلوق کے۔ وہ کچھ کر گزرتی ہے‘ جو میرے بھی وہ گمان نہیں ہوتا۔ میری ہدایت کے لیے‘ کوئی موسی کوئی عیسی نہیں آیا‘ ۔سب
اسی کی ہدایت کے لیے آتے رہے ہیں۔
سوچ کے دائرے
ہاجراں‘ مزاج کی مزاج کی تھوڑا کڑک تھی‘ لیکن سچی بات تو یہ ہی ہے‘ کہ وہ دل کی بری نہ تھی۔ ایسی ہم درد اور باکردار عورتیں‘ کم کم ہی دیکھنے میں آتی ہیں۔ سسرال کے دور دراز کے رشتہ داروں سے بھی ملتی۔ ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوتی۔ ان سے بڑے پیار سے پیش آتی۔ خاوند کے بہن بھائیوں کے صدقے واری جاتی۔ ان کی ہر ناگزیر ضرورت پوری کرتی۔ ساس اور سسر اس کے ہاں ٹھہرے۔ ان کی دوسری بہووں نے‘ انہیں دھتکار دیا تھا۔ بہووں سے کیا گلہ‘ ان کے بیٹے ہی‘ خودغرض اور مطلب پرست تھے۔ اس نے ساس اور سسر کو‘ پھولوں کی سیج پر بیٹھائے رکھا۔ ساس تو چل بسی‘ ہاں سسر اب بھی زندہ تھا‘ اور اسی کے ساتھ رہ رہا تھا۔ بڑھاپے کا عالم تھا۔ ہاجراں‘ اس کی سگی بیٹیوں سے بڑھ کر‘ خدمت کر رہی تھی۔
اچانک ناجانے سراج کو کیا ہوا‘ چنگا بھال تھا‘ بستر لگ گیا۔ عورت ہوتے‘ وہ سراج کو ہسپتالوں میں لیے پھری۔ بوڑھا سسر بھی‘ اس کے ساتھ ساتھ‘ بڑھاپے میں‘ ہسپتالوں کی خاک چھانتا پھرا۔ اس کی بیماری کے دورانیے میں‘ کسی نے‘ ان کی جھوٹ موٹھ کی بھی خبر نہ لی۔ وہ اپنوں کی یہ بےحسی دیکھ کر تنہائی میں سسک پڑتی۔ گھر کی محنت اور مشقت سے بنائی‘ سوئی سالئی تک بک گئی‘ لیکن سراج بچ نہ سکا‘ اور موت کے بےرحم پننجوں نے اسے دبوچ لیا۔ سراج کی الش صحن میں پڑی تھی۔ درانیاں جیٹھانیاں اور دونوں نندیں منہ جوڑ کر باتیں کر رہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سراج کا ڈھنگ سے عالج نہیں کرایا گیا۔ بےچارہ بےعالجا مر گیا۔ چھوٹی نند نے کہہ بھی دیا۔ ہاجراں سسک کر رہ گئی۔ وہ سراج پہوڑی خراب نہیں کرنا چاہتی تھی ورنہ وہ بھی منہ میں زبان رکھتی تھی۔ بوڑھا سسر بڑی حسرت اور مایوسی سے کبھی بیٹے کی الش دیکھتا اور کبھی بہو کا منہ دیکھنے لگتا۔ اس کے چہرے پر قیامت کی بےبسی اور بےچارگی تھی۔ بے عالجا مرنے کی بات‘ غلط اور درست کے درمیان تھی۔ اس
کا خاوند‘ کون سا کوئی سیٹھ تھا۔ مزدور پیشہ تو تھا۔ وہ گھر کا سارا سامان‘ بیچ چکی تھی بس مکان بکنا باقی تھا‘ شاید وہ بھی بک جاتا‘ لیکن اس سے پہلے ہی‘ سراج چل بسا تھا۔ وہ لوگ باتیں بنا رہے تھے‘ مالی مدد تو دور کی بات‘ انہیں تو کبھی زبانی کالمی پوچھنے کی بھی توفیق نہ ہوئی تھی۔ ہاجراں نے‘ بوڑھے سسر کی ذہنی اور قلبی حالت کو بھانپ لیا تھا‘ وہ اس کے پاس بیٹھ گئی‘ اور گلے لگ کر‘ پہلے خوب روئی‘ جب من کا بوجھ تھوڑا ہلکا ہوا‘ تو اس نے اپنے سسر سے کہا :ابا آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں‘ مرا تو میرا خاوند اور بچوں کا باپ مرا ہے‘ میں ابھی زندہ ہوں‘ میں آپ کا بیٹا ہوں‘ آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں۔ کوڑا وٹا‘ یعنی مرگ کی روٹی‘ ہاجراں کے بھائیوں نے دی۔ اس موقع پر بھی باتیں ہوئیں‘ ہلہ گلہ بھی ہوا۔ اس کی چھوٹی نند کا موقف یہ تھا‘ کہ صاف اور اچھی بوٹیاں‘ ہاجراں کے پچھلوں کو مہیا کی جا رہی ہیں‘ لمبا شوربہ اور کھمب کھلڑیاں‘ اس کے سسرال والوں کو دی جارہی ہیں‘ جب کہ سرے سے‘ ایسی کوئی بات ہی نہ تھی۔ اتنا ضرور ہے‘ دیگ پر ہاجراں کا بھائی بیٹھا تھا۔ پلیٹیں سپالئی کرنے والے‘ سراج کی سالم دعا والے تھے۔ انہیں ناانصافی کرنے کی‘ بھال کیا ضرورت تھی۔ ہاجراں نے‘ اس موقع پر بھی درگزر سے کام لیا۔
تعلیم اور لباس تو الگ رہے‘ یہاں تو روٹی کے اللے پڑ گیے تھے۔ کچھ دن‘ ہاجراں کا چھوٹا بھائی‘ خرچہ پانی دیتا رہا‘ لیکن مستقل طور پر‘ کون کسی کی پنڈ اٹھاتا ہے۔ یہاں تو ہر کسی کو‘ اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے۔ حاالت دیکھ کر‘ ہاجراں نے محتاج ہونے کی بجائے‘ خود سے کچھ کرنے کے لیے‘ لنگوٹ کس لیا۔ اس نے دو بڑے گھروں میں‘ کام کرنا شروع کر دیا۔ اس کے پاس‘ اس کے سوا کوئی چارہءکار باقی نہ رہا تھا۔ کیا کرتی‘ کس کے پاس جاتی۔ وہ صبح سویرے‘ سسر کو بچوں کے پاس گھر چھوڑ کر‘ کام پر چلی جاتی۔ دو گھروں کا کام کرتے کرتے‘ اچھا خاصا وقت لگ جاتا۔ اس کی کمر دہری ہو جاتی۔ وہ اکثر سوچتی‘ جب سراج زندہ تھا‘ اسے کسی قسم کا فکر الحق نہ تھا۔ بےچارہ کس مشقت سے رزق التا تھا۔ زیادہ مشقت نے ہی‘ اس کی جان لی تھی۔ زندگی میں‘ اس نے قدر نہ کی تھی‘ اکثر لڑ پڑتی تھی۔ برتنوں پر پانی پھرتا رہتا‘ آنکھیں ساون کے بادل کی طرح‘ مسلسل برستی رہتیں۔ کوشش کے باوجود ضبط نہ کر پاتی۔ مشقت کی صعوبت اپنی جگہ‘ اپنے ہی رشتہ داروں کی بھانت بھانت کی بولیاں‘ کچوکے لگاتی رہتیں۔ کوئی کہتا‘ کفن میال کر رہی ہے۔ کسی کے منہ میں تھا‘ اس عورت نے‘ سراج کی عزت
کا جنازہ نکال دیا ہے۔ چھوٹی نند نے تو اس کے چلن پر بھی انگلی رکھ دی۔ غربت بری بال ہے‘ محلہ کی عورتیں بھی‘ دیکھا دیکھی‘ باتیں کرنے لگیں۔ وہ اپنا دکھ کس سے کہتی‘ اور کیا کہتی۔ اگر اس کا چلن ٹھیک نہ ہوتا‘ تو دیکھتے ہی دیکھتے زندہ الش میں نہ بدل جاتی۔ لوگ اس کی بگڑتی صحت کی وجہ‘ کچھ اور بتانے لگے تھے۔ وقت گزرتا رہا‘ وہ باتوں کی پرواہ کیے بغیر‘ مشقت اٹھاتی رہی‘ اور کر بھی کیا سکتی تھی۔ چھوٹی عید آئی‘ لوگ گھر پر موج مستی کرتے ہیں‘ اسے اس روز بھی‘ مشقت کے لیے جانا تھا۔ مشقت ہی اب اس کی زندگی تھی۔ بابا عمر بھی‘ لوگوں کی باتیں سنتا اور کڑھتا۔ وہ اپنی بیٹی جیسی بہو‘ کی عادات و اطوار اور کردار سے خوب آگاہ تھا۔ وہ اس بڑھاپے میں‘ کس کس کے منہ لگتا۔ چپ اور صبر‘ اس کا مقدر ٹھہرا تھا۔ ہاں ہاجراں گھر آتی‘ سو بسم هللا کرتا۔ جب گھر سے جاتی‘ تو ڈھیر ساری دعاؤں کے ساتھ رخصت کرتا۔ پھر سارا دن بچوں کے ساتھ گزراتا۔ یہ کیسی عید آئی تھی‘ کہ بچوں کو غیروں کا اترن میسر آیا۔ رات کو غیروں کا بچا کچا کھانا‘ کھانے کو مال۔ کچھ دینا تو بڑی دور کی بات‘ اپنوں کو تو حضرت کا سالم کہنے کی بھی‘ توفیق نہ ہوئی۔ کہنے کو وہ اپنے تھے‘ لیکن طور بیگانوں جیسے بھی نہ تھے۔
وقت کو کون روک سکا ہے‘ اسے تو گزرنا ہوتا ہے‘ سو وہ گزر گیا۔ بڑی عید بھی آ گئی۔ بابے عمر اور بچوں نے پورا دن‘ تنہا گزرا۔ بچے تھوڑی دیر کے لیے‘ باہر چلے جاتے اور پھر واپس لوٹ آتے۔ بابا عمر کس سے دکھ سکھ کرتا۔ اس کی سگی اوالد‘ اسے تنہا چھوڑ گئی تھی۔ ہاجراں کو‘ بڑی عید پر بھی مزدوری پر جانا پڑا۔ محلے کے کئی گھروں میں‘ قربانی کی گئی‘ لیکن ان کے گھر‘ کسی نے‘ ایک بوٹی تک نہ بجھوائی۔ اچھا گوشت محفوظ کر لیا گیا۔ تھوڑا کم اچھا‘ عزیزوں اور رشتہ داروں میں تقسیم ہو گیا۔ تیسرے درجے کا گوشت‘ آنڈ گوانڈ میں چال گیا۔ الوارث سال بعد بھی‘ گوشت کا منہ نہ دیکھ سکے۔ ہاجراں شام کو تھکی ہاری لوٹی۔ اس کا انگ انگ دکھ رہا تھا۔ بابے عمر اور بچوں کی یتیم و مسکین صورتیں دیکھ کر‘ لرز لرز گئی۔ وہ اپنے دکھ درد کی پرواہ کیے بغیر‘ چولہے کی طرف بڑھ گئی۔ وہ دونوں گھروں سے‘ گوشت الئی تھی۔ سارے گوشت کو اباال‘ اور کچھ پکا کر‘ بابے اور بچوں کے آگے رکھ دیا۔ جب وہ کھا رہے تھے‘ اس کے دل و جان میں جنت کا سکون اتر رہا۔ بابا کھا تو رہا تھا‘ لیکن بےچینی‘ دل و جان میں مچل رہی تھی۔
اس رات‘ بابے عمر دین کو نیند نہیں آ رہی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا‘ اپنوں کے ہوتے‘ وہ تنہا تھا۔ ہاجراں سے سراج کے حوالہ سے رشتہ تھا۔ سراج نہ رہا تھا‘ وہ گربت میں بھی رشتہ نبھائے جا رہی تھی۔ اگر خودغرض ہوتی‘ تو کہتی‘ سمبھالو اپنے بچے‘ میں جا رہی ہوں‘ تو پھر ان بچوں کا ذمہ کون لیتا۔ یہ رشتوں کے ہوتے‘ گلیوں کا روڑا کوڑا ہو جاتے۔ سوچیں تھیں‘ کہ اس کا پیچھا نہ چھوڑ رہی تھیں۔ ہاجراں کو بھی‘ نیند نہ آ رہی تھی۔ سوچوں کے گرداب میں گرفتار‘ بےبسی اور مجبوری کیا کر سکتی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی‘ یہ کیسی قربانی دی گئی۔ کیا اس سے‘ ان کا هللا راضی ہو جائے گا۔ سراج مناسب دوا دارو نہ ملنے کی وجہ سے مر گیا‘ وہ اور بچے بھوکوں سوتے رہے‘ کسی کو ایک پاؤ آٹا‘ یا نقد ایک اکنی دینے کی توفیق نہ ہوئی۔ اس کے جیٹھ نے بکرا قربان کیا‘ گھر جوان بیٹی بیٹھی ہے‘ اس کے لیے جہیز نہیں۔ نسرین نے‘ مقروص ہوتے ہوئے بھی‘ محض ناک کے رہ جانے کے لیے‘ قربانی کی ہے۔ اس نے سوچا‘ ہم کیسے لوگ ہیں‘ بیماروں‘ بیواؤں‘ بن جہیز بیٹھی جوان بچیوں کو‘ دو روپے تک دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ بکرے چھترے قربان کرکے‘ هللا کو خوش کرنے کی‘
کوشش کرتے ہیں۔ مولوی بھی‘ کتنا سنگ دل اور کٹھور ہے‘ جو چند سو روپے کی کھال کے لیے‘ اس قربانی کو اہمیت دیتا ہے۔ بیماروں کے عالج کی ترغیب نہیں دیتا۔ جوان بچیوں کو‘ بوہے سے اٹھانے کے مسلے کی اہمیت کو اجاگر نہیں کرتا۔ یہ غالم اور مقروض قوم پتا نہیں کب جاگے گی۔ غالم‘ مقروض‘ بیمار اور معاشی مسائل کی شکار یہ قوم‘ آخر صدیوں سے‘ سماجی حقوق سے‘ منہ موڑ کر‘ مالں کے کہے پر‘ آنکھیں بند کیے چل رہی ہے۔ آخر اسے‘ خود سوچنے کی کب عادت پڑے گی۔ سوچ کے دائرے‘ جب حد سے تجاوز کر گیے‘ وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اس نے‘ بابے عمر کو آواز دی :ابا سو گیے ہو‘ یا جاگ رہے ہو۔ بابے عمر کو نیند کب آ رہی تھی‘ اس نے جوابا کہا :جاگ رہا ہوں بیٹا۔ پھر سونا مت‘ چائے کا موڈ بن رہا ہے۔ یہ کہہ کر وہ چولہے کی طرف بڑھ گئی۔
دوسری بار
حنیف ایسے سنجیدہ شخص سے‘ نامعقول قسم کی گفتگو کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔ اسے ہمیشہ حفظ مراتب کا خیال رہتا۔ دوسرا وہ کہتا کم‘ سنتا زیادہ تھا۔ ایک مزدور پیشہ سے متعلق شخص کے بارے میں‘ اس کی لب کشائی کم از کم میرے لیے‘ حیرت سے خالی نہ تھی۔ علی رضا پچھلے پندرہ برس سے‘ اس محلہ میں رہ رہا تھا۔ درزی پیشہ سے تعلق رکھتا تھا۔ ہر قسم کے لوگ اس کے پاس آتے تھے۔ وہ ہر کسی سے‘ خوش اخالقی سے پیش آتا تھا۔ کسی کو اس سے شکایت نہ تھی۔ سارا دن ٹیپ ریکارڈر پر‘ حسینی مرثیے اور نوحے‘ مناسب آواز میں‘ لگائے رکھتا۔ اس کے گھر کے قریب ہی‘ مسجد تھی۔ جب آذان کی آواز سنتا‘ فورا ٹیپ ریکارڈر بند کر دیتا۔ جمعہ کے روز‘ مولوی صاحب کے وعظ سے پہلے‘ دکان ہی بند کر دیتا۔ اگر کسی کو کوئی کام ہوتا‘ تو دروازہ کھٹکٹھا دیتا۔ مولوی صاحب نے بھی‘ اس کے اس شوق پر انگلی نہ رکھی تھی۔ چوہدری صاحب جو مسجد
کمیٹی کے صدر تھے‘ نے پہلے مولوی صاحب کو فارغ کر دیا‘ اور اپنے ایک غیر شرعی سالے کی سفارش پر ایک دوسرے مولوی صاحب کو لے آئے۔ مولوی صاحب کیا آئے‘ عالقہ میں قیامت آ گئی۔ اس قیامت کا پہال شکار علی رضا بنا۔ اسے کافر قرار دیا۔ اس سے‘ ہر کسی نے‘ سماجی بائیکاٹ کر دیا۔ اس کی دکان بند ہو گئی۔ گھر کے کواڑ بھی کھلے نہ رہتے۔ دروازے پر کوئی نہ آتا۔ ان کے گھر کے اندر کے احوال سے‘ کسی کو کوئی دل چسپی نہ تھی۔ دوسرا لوگ مولوی صاحب کے فتوے سے ڈرتے‘ ان کے دروازے کے قریب سے بھی‘ نہ گزرتے تھے۔ ہر کوئی اس جلتی آگ سے اپنا دامن بچانا چاہتا تھا۔ ایسے ناگوار حاالت میں‘ حنیف نے‘ دہی دودھ کی دکان پر کھڑے ہو کر‘ بڑی سنجیدگی سے کہا :علی رضا کو قبض ہو گئی ہے اور پوٹیاں لگی ہوئی ہیں۔ اس وقت سب ہنس پڑے۔ شاید کوئی کچھ نہ سمجھ سکا تھا۔ جب کوئی کچھ سمجھ نہ سکے‘ تو بھی ہنس پڑتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے‘ کہ میں بھی کچھ نہ سمجھ سکا تھا۔ میں گھر آ کر غور کرتا رہا‘ کہ آخر حنیف کی بات کا کیا مفہوم ہے۔ قبض اور پوٹیوں کی‘ ایک ساتھ کیسے شکایت ہو سکتی ہے۔
لوگوں نے اس کی بات ہنسی میں ڈال دی تھی۔ میرے لیے حیرت کی بات تو یہ بھی تھی‘ کہ شروع میں یہ ہی مولوی صاحب‘ علی رضا کی دکان پر آئے تھے۔ اس کی بیوی شبیراں نے‘ مولوی کی تواضع بھی کی تھی۔ شاید تواضع میں کہیں کسر رہ گئی تھی۔ شبیراں ان پڑھ عورت ہوتے‘ منہ متھے لگتی‘ سلیقہ شعار اور باتمیز عورت تھی۔ مجھے جہاں حنیف کی زومعنی بات نے پریشان کیا‘ وہاں یہ بھی چنتا ہونے لگی‘ کہ علی رضا اور اس کے گھر والے‘ کھاتے کہاں سے ہوں گے۔ ان کا اندر کیا حال رہا ہو گا۔ میں نے ان کی مدد کرنے کی ٹھان لی۔ وہاں مختلف مسلک کے لوگ اقامت رکھتے تھے۔ اس طرح تو وہ بھی کافر قرار پاتے رہیں گے۔ دن اندر باہر تھا‘ میں چپکے سے‘ گھر سے نکال اور بڑے محتاط انداز میں‘ علی رضا کے گھر کی طرف بڑھنے لگا۔ میرا خیال تھا اسے بطور امداد کچھ پیسے دے دوں گا۔ رستے ہی میں خیال آیا‘ پیسے اس نے سر میں مارنے ہیں‘ انہیں تو خوردنی سامان پہنچنا چاہیے۔ میں نے سوچا‘ پہلے پوچھ لیتا ہوں‘ پھر جو فوری ضرورت ہو گی‘ کسی ناکسی طرح پہنچنا دوں گا۔ ڈرتا ڈرتا اور بڑے محتاط انداز میں‘ ان کے گھر کی طرف بڑھ گیا۔ میری قسمت اچھی تھی دوسرا دن کا وقت ہی کچھ
ایسا تھا‘ کہ ان کی گلی ویران پڑی تھی۔ میں نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے‘ دروازے پر دستک دی۔ خود علی رضا دروازے پر آیا اور اس نے روزن در سے دیکھتے ہوئے‘ دروازے کھولے بغیر‘ مجھ سے آنے کا مطلب پوچھا۔ میں نے جوابا کہا میرے الئق کوئی خدمت ہو تو کہیں۔ اس نے جوابا شکریہ ادا کیا‘ موال آپ کو خوش رکھے‘ کہہ کر اندر چال گیا۔ میں نے بھی وہاں سے کھسکنے میں عافیت جانی۔ بالشبہ ڈر‘ خوف اور رنج نے‘ اس کے اعصاب شل کر دیے تھے۔ اس کی آواز سہمی سہمی تھی۔ وہ اپنا درد کہنے سے بھی ڈرتا تھا۔ ان لمحوں میں ڈر اور خوف کا مجھ پر بھی غلبہ تھا۔ اس کیفیت اور صورت حال سے گزرنے کے بعد‘ مجھے حنیف کے کہے کا مفہوم سمجھ میں آیا۔ ڈر اور خوف سے مجھے بھی عالمتی پوٹیاں لگی ہوئی تھیں۔ میں ٹھیک سے کچھ کہہ نہیں پا رہا تھا‘ تو اس حوالہ سے استعارتی قبض کی بھی شکایت تھی۔ ایسے حاالت میں متضاد عوارض بایک وقت گھیر لیتے ہیں۔ میرے لیے معاملہ لمحاتی تھا‘ تو یہ حالت تھی۔ علی رضا پر تو یہ عذاب کل وقتی تھا‘ اس کا کیا حال رہا ہو گا‘ اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ سچی بات ہے‘ مجھے ان لوگوں پر بڑا رحم آیا۔ میں نے سوچا‘
کل سویرے ہی‘ اپنے مرشد پاک سے‘ ماجرا کہہ کر‘ دعا کرنے کی استدعا کرتا ہوں۔ جملہ حاالت سن کر‘ میرے مرشد پاک بڑے رنجیدہ ہوئے‘ بلکہ جذباتی سے ہو گیے۔ ان کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے‘ پھر فرمانے لگے‘ فکر نہ کرو بیٹا‘ هللا ان کے لیے آسانی کا دروازہ ضرور کھولے گا۔ ہاں پانچ لوگ جنت میں نہیں جا سکیں گے۔ ان کی یہ بات سن کر میں بڑا حیران ہوا۔ میں نے پوچھا‘ حضور وہ کون سے پانچ لوگ ہوں گے۔ :فرمانے لگے صاحب اقتدار‘ جو اپنی ذات کے خول سے باہر نہیں نکلتے۔ ان کے ہر کرنے میں‘ ان کی ذات کا مفاد موجود ہوتا ہے۔ ان کے ادارے‘ صرف ان ہی کے مفاد کے لیے کام کرتے ہیں۔ انہیں رعایا کے دکھ درد سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہوتا۔ سید‘ اگرچہ شروع ہی سے چھری تلے ہیں‘ لیکن آج‘ وہ بھی دوسروں کے سے ہیں۔ حاالں کہ انہیں حضور کا پیغام حسینی رستے سے گزرتے ہوئے‘ ہر کسی کے پاس پہنچانا چاہیے۔ یا تو سید کہالنا چھوڑ دیں یا حضور کا کہا بار بار ہر کسی کے سامنے دہرائیں۔ خیر کریں اور لوگوں کو بھی خیر کرنے کی تلقین کریں۔
شیوخ نے‘ فقر کو پیشہ بنا لیا ہے۔ موج مستی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ فقیر اور درویش کا موج مستی سے کیا تعلق واسطہ۔ انہیں اپنے لیے بھوک دوسروں کے لیے سیری بچانا چاہیے۔ یہ خود ہدایت سے کوسوں دور ہیں‘ لوگوں کو خاک ہدایت دیں گے۔ مولوی تفریق کے دوازے کھولتا ہے۔ اس نے اسالم کو اپنی جاگیر سمجھ رکھا ہے۔ جو اس جاگیر کے دائرہ میں ہے‘ اور اس کے کہے پر چلتا ہے‘ بس وہ ہی مسلمان ہے۔ منصور حمادی کے کہے کی جاگیر سے باہر تھا‘ اسی لیے مارا گیا۔ منصور حمادی سے کہیں بڑا عالم تھا۔ بلھے شاہ خوش قسمت تھا‘ ورنہ وہ بھی مارا جاتا۔ اس نے بھی منصور واال دعوی کیا تھا بلھیا! اساں مرنا نئیں گور پیا کوئی ہور یہ کہا منصور واال ہی ہے۔ امت میں تفرقہ‘ کسی بھی حوالہ سے ڈالنے واال هللا کے قہر وغضب سے نہ بچ پائے گا۔ تفرقہ ڈالنے والے کا ساتھ دینے واال بھی مجرم ٹھہرے گا۔ حضرت پیر صاحب کی باتوں میں حقیقت رقصاں تھی۔ وہ
بےچارے دعا ہی کر سکتے تھے۔ وہ علی رضا کے لیے کیا کر سکتے تھے۔ ان کی باتیں‘ ان کے عالقہ کے چوہدری صاحب کو‘ گولی کی طرح لگتی تھیں۔ حاالں کہ وہ کسی کا نقصان نہیں کرتے تھے۔ وہ تو‘ اپنے منہ کا لقمہ‘ حاجت مندوں کو دے دیتے تھے۔ چوہدری کے ڈیرے پر لوگ گلپ کرتے تھے لیکن پیر صاحب کبھی کسی ذاتی حاجت کے لیے‘ اس کے پاس نہیں گیے تھے۔ ہاں لوگوں کی جائز حاجات کے لیے آخری حد تک جاتے تھے۔ میں ساری رات‘ بستر پر پڑا کروٹیں لیتا رہا۔ علی رضا کا حقیقی قصور یہ تھا‘ کہ اس نے مولوی صاحب سے سالئی کی اجرت مانگ لی تھی۔ دوسرا اس کی بیوی نے خوب صورت ہونے کے ناتے مولوی صاحب کی‘ ان کے وسیبی استحقاق کو مدنظر رکھتے ہوئے‘ جنسی تواضع نہ کی تھی۔ یہ اس کی خوش نصیبی تھی‘ جو ابھی تک سانس لے رہا تھا۔ حضرت پیر صاحب کی بھی جان خطرے کی گرفت میں تھی۔ اس سوچ کا آنا تھا‘ کہ میری روح تڑپ اٹھی۔ اچانک میرے منہ سے نکل گیا ۔۔۔۔ میں چیر نہ دوں گا۔۔۔۔ پہگاں اک دم چونک کر اٹھ بیٹھی‘ اور پوچھنے بیٹھ گئی‘ کس
کو چیر دو گے۔ بات سیاق و سباق سے عاری تھی‘ اس لیے اس نے‘ اسے اپنی ذات پر محمول کر لیا۔ حاالں کہ اس کا اس سے دور کا بھی تعلق واسطہ نہ تھا۔ کیا کہتا‘ بات پردے کی تھی‘ کہہ نہیں سکتا تھا۔ رات بھر تو بکواس سننے میں گزرے گی ہی‘ صبح کو پورے عالقہ اور برادری میں گڈا باندھ دے گی۔ یہ دوسری بار تھی‘ کہ میں ایک ساتھ دو متضاد عوارض کی گرفت میں آ گیا تھا۔
اسالم اگلی نشت پر
پروفیسر چاولہ‘ تھے تو شیخ‘ لیکن بڑے فراخ دل واقع ہوئے تھے۔ کسی کے پلے سے‘ کھانے سے بےلطف ہوتے تھے‘ ہاں‘ گرہ خود سے کھال کر‘ تازگی اور سکون محسوس کرتے تھے۔ دوستوں کو‘ مشکل میں چھوڑ جانا‘ انہیں کبھی خوش نہیں آیا تھا۔ مشکل میں‘ ناصرف زبانی کالمی ساتھ دیتے‘ شانا بہ شانا ساتھ کھڑے نظر آتے۔ ہر مثبت کام میں‘ اپنی سی‘ پوری دیانت داری سے‘ کوشش کرتے۔ بڑے سنجیدہ شخص تھے‘ اس کا مطلب یہ بھی نہیں‘ کہ خوش طبعی سے دور تھے۔ بڑی
شائستہ اور صاف ستھری‘ خوش طبعی کرتے۔ ان کے مزاج میں‘ فطری شائستگی پائی جاتی تھی۔ بڑے یار باش آدمی تھے۔ ہر کوئی‘ یہ ہی سمجھتا‘ کہ وہ میرے گہرے دوست ہیں۔ پہلے پہلے‘ مجھے بھی یہ ہی محسوس ہوا۔ بعد میں معلوم ہوا‘ ان کا منافقت سے پاک‘ یہ رویہ سب ہی کے ساتھ تھا۔ وہ معاشیات کے پرفیسر تھے۔ ایک شیخ‘ اوپر سے معاشیات کے پرفیسر‘ دستر خوان کی فراخی‘ بالشبہ متضاد عنصر ہیں۔ ان کی شخصیت میں توازن تھا‘ تب ہی تو‘ یہ دونوں عنصر‘ متوازن نبھ رہے تھے۔ انہیں اپنے مضمون پر قدرت حاصل تھی۔ ان سے کبھی کبھار‘ ان کے مضمون سے ہٹ کر بھی‘ باتیں ہو جاتیں۔ رواں عہد کے اسالم پر‘ باتیں ہو رہی تھیں۔ مسلمان برادری کی شکستگی اور بدحالی کا رونا رویا جا رہا تھا۔ عالمہ سعید عابد کے نزدیک :اس کا باعث شرک ہے۔ عالمہ عبدالغفور ظفر‘ اسے جہاد سے انحراف کا نتیجہ‘ قرار دے رہے تھے۔ ان کا خیال تھا‘ کہ غیرت مندی ختم ہونے کی وجہ سے‘ ہم ختم ہو گیے ہیں۔ اکرام صاحب کے نزدیک‘ پاکستانیت سے دور ہونے نے‘ ہمیں رسوا کیا ہے۔ چاولہ صاحب نے‘ بالکل ہی الگ سے‘ وجہ بیان کی۔ کہنے
لگے‘ ایک مولوی صاحب‘ حج سے واپس آ رہے تھے۔ روہڑی اسٹیشن پر‘ گاڑی رکی۔ مولوی صاحب نے‘ اپنے خادم اسالم کو‘ ریلوے اسٹیشن کی ٹونٹی سے‘ پانی کا گھڑا‘ بھر کر النے کو کہا۔ اس گھڑے کے نیچے رینیاں تھیں۔ اسالم نے‘ بڑے تکلف سے‘ ٹونٹی کھولی‘ اتنی دیر میں گاڑی چل پڑی۔ مولوی صاحب نے‘ کھڑکی سے سر باہر نکال کر کہا :اوئے اسالم باہر کھڑے لوگوں نے جوابا کہا :زندہ باد مولوی صاحب نے دوبارہ کہا :اوئے اسالم لوگوں نے‘ دوبارہ پورے جوش خروش سے‘ جوابا کہا :زندہ باد گاڑی نکل گئی‘ پانی بھرنے واال اور زندہ باد اسالم‘ روڑی ہی رہ گیے۔ بےچارے مولوی صاحب کے حصہ میں‘ ان دونوں میں سے‘ کوئی نہ آیا۔ آج کا اسالم بس یہ ہی کچھ ہے۔ چاولہ صاحب کے اس لطیفے پر‘ سب ہنس پڑے۔ غور کیا جائے‘ تو اس لطیفےمیں بڑا وزن ہے۔ اگر تقوی اور قناعت واال اسالم باقی ہوتا‘ تو آج ہم مسلمان‘ ذلت کی کھائی میں‘ نہ گرے پڑے ہوتے۔
ایک صاحب‘ نظام تعلیم کو الزام دے رہے تھے۔ یہ تفرقے کا دروازہ کھول رہا ہے۔ مختلف نوعیت کے کورسز‘ پڑھائے جا رہے ہیں۔ کچھ دوست اس ذلت کی وجہ‘ بالوسطہ غالمی کو قرار دے رہے تھے۔ انگریزی کے سر بھی یہ الزام رکھا گیا۔ ماں جو پہلی درس گاہ ہے‘ کو بھی ذمہ دار قرار دیا گیا۔ اگر ماں‘ تربیت کے معاملے میں‘ اپنی ذمہ داری‘ ایمان داری سے‘ نبھائے تو محمود غزنوی‘ آج بھی میدان میں اتر آئیں گے۔ میں چپ نہ رہ سکا‘ یار مثال میں‘ نام تو کوئی اچھا سا لیں۔ آپ اس ذیل میں‘ عمر بن عبدالعزیز کا نام لے سکتے ہیں۔ اس کو کیا ہوا ہے یہ بتائیں کیا نہیں ہوا۔ ہماری یہ ہی بدقسمتی ہے‘ کہ فاتح کو ہی درست مانتے ہیں۔ میں نے کہا :جناب سارا روال روٹی کا ہے۔ بولے وہ کیسے معاویہ اور امام کی فوج میں‘ مسلمان تھے۔ جو معاویہ کی فوج میں تھے اور اس کے تنخواہ دار تھے‘ وہ معاویہ کو درست مانتے تھے‘ جو امام کے تنخواہ دار تھے‘ وہ امام کو‘ برحق
مانتے تھے۔ راجہ داہر بدھمت کا تھا‘ اس سے معرکہ آرائی کہاں ہوئی۔ منصورہ میں‘ فاطمی حکومت تھی۔ وہ اسے ختم کرنے آیا تھا۔ اطراف میں مسلمان تھے۔ دونوں کی سپاہ‘ اپنے حاکموں کو درست قرار دے رہی تھی‘ کیوں کہ وہ ان کی تنخواہ دار تھی۔ ابراہیم لودھی مسلمان تھا‘ سپاہ میں مسلمان بھی تھے۔ بابر کی سپاہ بھی مسلمانوں کی تھی۔ وہ اس لیے درست ٹھہرا‘ کہ فتح سے ہم کنار ہوا۔ اطراف کی سپاہ‘ تنخواہ دینے والوں کو سچا سمجھتی تھی۔ ہم فاتح کو سچا سمجھتے ہیں اور اس کی ماال جپتے ہیں۔ ٹیپو کے فوجی‘ مسلمان تھے اور برصغیر کی دھرتی سے متعلق تھے۔ انگریز فوج بھی‘ ان ہی پر مشتمل تھی۔ وہ انگریز کو‘ حق باجانب سمجھ کر لڑے۔ یہاں بھی‘ بنیادی مسلہ‘ تنخواہ داری کا تھا۔ جو تنخواہ دیتا تھا‘ یقینا‘ سچا وہ ہی تھا۔ بکسر میں‘ انگزیز اور شجاع الدولہ کی فوجوں کی‘ صورت حال مختلف نہیں۔ سر سید نے‘ انگریز کا ساتھ دیا‘ عہدے‘ رتبے اور مراعت سے نوازا گیا۔ فاتح کا ساتھی ہونے کے سبب‘ برصغیر کا محسن ٹھہرا۔ مخالفت کرنے والے‘ قتل ہوئے‘ یا کالے پانی بھیج دیے گ ی ے۔
سنجیدگی سے غور کر لیں‘ خیر و شر کا‘ کہیں مسلہ ہی نہیں‘ مسلہ روٹی کا تھا۔ آج بھی‘ مسلمان مسلمان کو قتل کر رہے ہیں۔ سپاہ‘ غلط صحیح کو نہیں جانتی‘ وہ جان فشانی سے‘ اس لیے برسر پیکار ہے‘ کہ یکم کو باالتاخیر تنخواہ ملتی رہے۔ کون غلط ہے‘ کون صحیح ہے‘ کون مر رہا ہے‘ اسے اس سے‘ نہ غرض تھی‘ اور نہ آج غرض ہے‘ بس تنخواہ ملتی رہنی چاہیے۔ جب روٹی سے‘ اٹھ کر‘ سوچا جائے گا‘ تب ہی‘ مسلمان ذلت کی دلدل سے نکلیں گے۔ ورنہ حسب روایت‘ فاتح ہی سچا اور حق پر قرار پاتا رہے گا۔ پروفیسروں میں‘ کوئی بات آ جائے‘ تو اس کے بےشمار گوشے‘ سامنے آ جاتے ہیں۔ غیرسنجیدہ بات‘ سنجیدہ ہو جاتی ہے اسی طرح سنجیدہ بات غیرسنجیدگی کی پٹری چڑھ جائے تو وہ کچھ کی کچھ ہو جاتی ہے۔ لفظوں کو رنگ اور نئے معنی دینا‘ کوئی ان سے سیکھے۔ گلی کی زبان بھی‘ ادبی ہو جاتی ہے۔ میری باتوں میں‘ دم تھا یا وہ بےدم تھیں‘ میں نہیں جانتا‘ ہاں البتہ میری باتوں نے‘ ماحول کو‘ چپ اور تذبذب کی کیفیت میں‘ ڈال دیا۔ روزے کی حالت میں‘ اس قسم کی باتیں‘ دل ودماغ پر زہریلے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ اتنی دیر میں‘ ڈاکٹر ظہور چوہدری آ گیے۔ آتے ہی جعلی غصے سے بولے‘ بابا جی آپ ادھر بیٹھے ہیں‘ وہ ادھر‘ گھنٹے سےانتظار کر رہا ہے۔
بابر صاحب‘ حیرت سے بولے‘ وہ کون۔ آ کر بتاتے ہیں۔ اٹھیں بابا جی‘ جلدی کریں‘ ورنہ وہ چال جائے گا۔ ہم انہیں کیا بتاتے‘ یہاں بھی روال روٹی کا تھا۔ تیسرا پریڈ شروع ہونے کو تھا۔ اگر یہ ؤقت‘ باتوں میں گزار دیا جاتا‘ تو چائے بسکٹ کا معاملہ‘ پانچویں پریڈ تک چال جاتا۔ ہم دونوں نے‘ بابر صاحب کی طرف‘ مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا‘ اور چائے بسکٹ کی جانب بڑی تیزی سے رواں ہو گیے۔ اسالم کا معاملہ اگلی نششت پر جا پڑا۔
عاللتی استعارے
ناہید‘ کسی زمانے میں بڑی فیشن ایبل ہی نہیں‘ منہ متھے لگتی خاتون تھی۔ میڈیکل پیشہ سے تعلق رکھتی تھی۔ بہن بھائیوں کی خدمت گزار تھی۔ اسی وجہ سے‘ اس کی ضرورت سے زیادہ عمر تک‘ شادی نہ کی گئی۔ سب کو شک تھا‘ کہ وہ
شادی کے بعد ان کے لیے ناکارہ ہو جائے گی۔ اس شک کی اہمیت‘ شک سے زیادہ نہ تھی۔ شادی کے بعد‘ وہ پہلے سے کہیں بڑھ کر‘ان کے لیے مفید ثابت ہوئی۔ اس کی شادی‘ گویا الٹری لگنے سے‘ کسی طرح کم بات نہ تھی۔ سب کے بھنے اگ آئے۔ انہیں جلد شادی نہ کرنے کا پچھتاوا ہی رہا۔ شادی کے بعد‘ ہوم اسٹیشن پر تبادلہ کروا لیا گیا۔ سارا دن مختلف نوعیت کے مریضوں سے واسطہ رہتا۔ گھر آتی‘ تو تھکن سے چور ہوتی۔ کچھ سال خاوند کے آنے تک‘ ماں کے گھر بسیرا رکھتی۔ اس کے آنے کے قریب‘ گھر چلی آتی۔ ازاں بعد‘ دوسرے چوتھے‘ جانے لگی‘ تاہم ان کی خدمت گزاری میں‘ کمی نہ آنے دی۔ مریضوں کے ساتھ‘ وقت گزارنے کے سبب‘ کئی ایک بیماریوں کا اسے شک گزرتا۔ اکثر اوقات‘ خود کو ان میں مبتال بھی سمجھتی۔ کھانا کھانے کے دوران‘ ان کا تذکرہ کرتی۔ جب خاوند تھکن یا اپنی عاللت کا تذکرہ کرتا‘ تو اپنی پان سات بیماریوں کا رونا لے بیٹھتی۔ اس طرح خدمت ایسی الیعنی اور بےثمر مشقت سے بچ جاتی۔ وہ پنج وقتہ نمازی تھی۔ ہر گریب بہن اور بھائی کے لیے‘ نرم گوشہ رکھتی تھی۔ وہ انہیں‘ تنگ دست نہیں دیکھ سکتی تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد‘ نماز روزے کی‘ اور بھی پابند ہو گئی۔ پھر حج کیا۔ حج نے‘ اسے تسبع بردار بنا دیا۔ بیماریوں کا احساس شدت اختیار کر گیا۔ ملنساری میں ہرچند اضافہ ہی ہوا۔ ہاں ملنے
والیوں میں‘ بیمار خواتین کا تناسب‘ پہلے سے کہیں بڑھ گیا تھا۔ جب بیٹھتیں‘ جہاں اردگرد کے لوگوں کی‘ کم زوریوں کو زیر بحث التیں‘ وہاں خاوند اور سسرالی رشتہ داروں کی ہر پوشیدہ خامیوں کا‘ اس تاکید کے ساتھ‘ کہ کسی سے بات نہ کرنا‘ تذکرہ کرتیں۔ بعض اوقات‘ آنکھوں کو بھی زحمت دیتں۔ سننے والیاں‘ ہاتھ مل مل کر‘ توبہ توبہ کر اٹھتیں۔ ناہید ابتدا میں‘ معدہ کی ناکارہ کارگزاری کا رونا روتی تھی۔ بعد میں‘ شوگر اور بلڈ پریشر کی بھی‘ شکایت کرنے لگی۔ اس سے‘ کارگزاری میں فرق تو آیا ہی‘ لیکن مزاج میں بھی بدالؤ آ گیا۔ اپنے سگے بھائیوں کو‘ نبی قریب سمجھنے لگی‘ اور ہر بہن میں رابعہ بصری کی روح حلول کرتی نظر آئی۔ خاوند کی بیماری اور دکھ میں بہانے کی جھلک صاف دکھائی دینے لگی۔ صابراں کے متعلق‘ کوئی زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں ہاں دوڑکی چال کی ہمشیہ سے قائل و مائل رہی تھی۔ زاہد‘ اس کا مجازی خدا‘ پہلے پہل بڑی اڑی کرتا تھا۔ آخر اس چال میں ہی اس کو‘ گھر کا قدرے سکون میسر آیا اور پھر‘ دوڑکی چال چلتا لحد میں اتر گیا۔ هللا اسے غریق رحمت کرئے‘ گمان رکھتا تھا‘ صابراں اس کی مطیع اور فرماں بردار ہے۔ خوش فہمی‘ بالشبہ‘ سکون کا سبب رہتی ہے۔ وچاری کے‘ پہلے دانت گیے‘ خوب کھا پی کر بھی‘ بھوک میں رہتی تھی۔ شوکر کا کچھ نہ پوچھیے‘ سر درد اور فشار خون کا غلبہ رہتا۔ بھال ہو بیماریوں کا‘ جو ناہید سے گہری سانجھ کا سبب بنیں۔ یہ اسی کا فیض خصوصی
تھا‘ جو ناہید کا خاوند دوڑکی سیکھ رہا تھا۔ جلد سیکھ جائے گا۔ سیکھ گیا تو آسان موت مرے گا‘ ورنہ سسک سسک کر دم دے جائے گا۔ سیما المعروف ہیمامالنی‘ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے زیادہ‘ غیر رجسڑڈ اور چار رجسڑڈ ناہنجار مردوں کو طالق دے چکی تھی۔ ایل ایچ وی ہونے کے ناتے کسی بچے کو‘ دنیا میں آنے ہی نہ دیا۔ وہ دنیا کی تلخیوں سے‘ خوب خوب آگاہ تھی اسی لیے وہ یہ‘ بالمعاوضہ پن کما رہی تھی۔ اسے گنتی اور حصولی میں کمال کی مہارت حاصل تھی۔ اب تو وچاری‘ چلتی پھرتی صحت مند ہوتے‘ بیماریوں کی گرفت میں آگئی تھی۔ عاللت کی سانجھ نے‘ متضاد ذہنیت رکھتے ہوئے‘ اسے ناہید کے قریب کر رکھا تھا۔ یہ اسی کی کرامت ہے‘ کہ ناہید کے شوہر کی پوچھل‘ ٹھہراؤ کی شکار نہ ہوئی تھی۔ وہ وہ کوڑیاں تالش التی‘ جن کے علم سے‘ عزازئیل بھی بہراور نہ رہا ہو گا۔ حج‘ نماز‘ روزہ وغیرہ کے قریب آ گئی تھی‘ لیکن بجلی کی چوری وغیرہ کو الگ معاملہ سمجھتی تھی۔ اس کے نزدیک‘ یہ فعل کارکشا بڑے بڑے قلغیوں والے کرتے ہیں۔ اس کی ایک چھلنی وزن اونٹ کا کیا بگاڑے گا۔ کریما بھی‘ اس کی بیمار سنگی تھی۔ اپنی عیش کوشی پر‘ پردہ‘ ناصرف اس کی زبان کی قنچی ڈال دیتی‘ بلکہ اس سے خاوند کی ٹنڈ بھی کرتی رہتی۔ بہن بھائیوں سے الٹی سیدھی باتیں
کرکے‘ لفظوں کا تیزاب برساتی رہتی۔ چھوٹے بچوں کو‘ اسے ہالنے پرآمادہ کرتی۔ جب وہ ہلتا‘ تو وہ کیا‘ سارے بڑے لطف اندوز ہوتے۔ چوری اور لگائی بجھائی میں‘ شاید ہی کوئی‘ اس کا ثانی رہا ہو گا۔ ہوتے ہوئے‘ مانگنے میں عار محسوس نہ کرتی تھی۔ ہے نا‘ اس کی زندگی کا پہال اور آخری اصول تھا۔ دوسری تیسری بار نہ دینے والے کی‘ گردن کاٹنے کا موقع تالش کرتی رہتی ۔ اس میں اس کا کوئی قصور نہ تھا۔ وہ وچاری فطرتا اور عادتا ہی ایسی تھی۔ اگر اس کی شادی‘ اس کے یار خاص‘ الیاس سے بھی ہو جاتی‘ تو بھی اس سے مختلف نہ کرتی۔ اس کے دونوں بچے‘ جوان ہو چکے تھے۔ اب غیروں سے‘ طفیل کی عزت افزائی کی حاجت نہ رہی تھی۔ اس کی بیٹی‘ عروسہ ہی باپ کی چھترول کے لیے‘ کافی تھی۔ باپ کی ہر دوسرے تیسرے بہہ جا بہہ جا کرا دیتی۔ وچاری کریما کو شروع سے‘ بہت ساری بیماری نے گھیر رکھا تھا۔ پیٹ جو پھوال نہیں تھا‘ ضرورت سے زیادہ پھول گیا تھا۔ ہر وقت منہ میں گینس گینس کا کلمہ رہتا۔ شوکر کے ساتھ ساتھ سانس میں بھی‘ پرابلم محسوس ہونے لگا تھا۔ خود ساختہ اور خود معلوم بی پی نے‘ اس کے ناک میں دم کر رکھا تھا۔ شاہدہ شروع سے‘ ماشاءهللا صبر کتی تھی۔ ناک کی نتھلی اسے خوب سجتی تھی۔ گھر میں سب سے چھوٹی ہونے کے ناتے‘
اوالد کی اوالد ہونے کے بعد بھی‘ اس کی بچوں کی سی عادتیں نہ گئی تھیں۔ ہر آنے والے سے جھڑنے کی توقع کرتی۔ سیر سپاٹے کی رسیا تھی۔ کہیں جانے کا بہانہ تالش ہی لیتی۔ جہاں جاتی‘ وہاں سے کچھ ناکچھ النا‘ اسے خوش آتا۔ زبان کی بڑی صاف ستھری تھی‘ یہ ہی وجہ تھی کہ ہر کوئی‘ اس سے بات کرتے ڈرتا تھا۔ عمر میں چھوٹی ہونے کا‘ خاوند سے البھ اٹھاتی رہتی۔ کوکب تگنی کا ناچ‘ ناچ رہا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ‘ وہ اس میں تاک ہو گیا تھا۔ مزے کی بات یہ کہ وہ اپنے اس ہنر سے آگاہ نہ تھا۔ شاہدہ گوڈوں گٹوں کے درد کا شکار ہو گئی تھی۔ پاؤں سوجھنے لگے تھے۔ بیماریوں کے اشتراک کے سبب اس کی ناہید سے خوب بنتی تھی۔ جھوٹ والی بات ہے‘ کہ شبو معمول میں‘ چار لوگوں کا کھانا کھاتی تھی اور اسے ہیشہ کم خوری کی شکایت رہتی۔ تجاوزی خوراک لے کر بھی‘ سارا دن کچھ ناکچھ چرتی رہتی۔ دن میں دو تین گھنٹے‘ بآواز بلند خاوند کے ساتھ نعرے بازی کرتی۔ وہ اس پر جان چھڑکتا اور شبو نے‘ کبھی بھی اسے اپنا نہ سمجھا۔ دونوں ہاتھ بھرے آتا‘ لیکن شبو کے منہ پر ہمیشہ ناشکری کے کلمے رہتے۔ ہاں البتہ‘ اس کی کوشش ہوتی‘ کہ اپنے احمق خاوند کو نچوڑ کر‘ باپ کا گھر بھر دے۔ اس کا باپ نام کو عباس‘ لیکن کام کو ‘ شیطانوں کا آئی جی تھا۔ شبو کو پیٹ کے پتھر ہو جانے‘ بی پی ہائی ہونے اور سردرد کا
روز اول سے گلہ رہا۔ خاوند کبھی بیمار پڑتا‘ تو کہتی بیٹھک میں ٹھیک ٹھاک بیٹھے ہوئے تھے یہاں آتے ہی بیماری پڑ گئی ہے۔ میں نے تمہیں بیمار کیا ہے‘ کہنے میں عار نہ سمجھتی۔ سوئے ہونے کا ناٹک بھی خوب جانتی تھی۔ ہاں اپنی بیماری کا‘ ہر وقت رونا روتی رہتی۔ تندرست بہن بھائیوں اور مائی باپ کی بیماریوں اور بےچارگیوں کا اسے گلہ ہی رہتا۔ خاوند کے گھر آنے سے کچھ پہلے‘ سر پر پٹی باندھنا نہ بھولتی۔ شبو‘ ناہید کی حریف بیمار تھی۔ وہ اظہار بیماری میں ہر سطح پر سبقت لے جانا چاہتی تھی۔ جب ناہید اپنی بیماری کا مرتبہ بلند کرتی‘ تو اسے سخت غصہ آتا اور پھر زبان طرازی کے رن میں اتر آتی۔ ناہید اگرچہ اس حوالہ سے کم زور نہ تھی‘ لیکن زنانہ و مردانہ اعضا کی گل کاریوں میں اس کے برابر نہ تھی۔ نمونہ کی چند ایک بیمار خواتین کا ذکر کیا گیا ہے‘ ورنہ ناہید کے حلقہءادارت میں بیمار خواتین کی کمی نہ تھی۔ ایک سےایک بڑھ کر‘ بیمار خاتون موجود تھی۔ ہر ایک کو‘ اپنے جسم وجان سے متعلق بیماری کا خوب خوب علم حاصل تھا۔ کچھ تو اس ذیل میں زیادہ ہی علم وفضل کی مالک تھیں۔ بیماریوں کی ذیل میں ان کی تشبہات اور استعارے بڑے ہی فصیح وبلیغ ہوتے۔ کتنی عجیب بات ہے‘ ان میں سے کسی کو اپنی اخالقی و روحانی بیماریوں کا علم تک نہیں۔ نشان دہی کرنے کی صورت میں‘ نشان دہندہ کے کھاتے میں وہ وہ اخالقی و روحانی بیماریاں درج ہو جائیں گی‘ جن کا ان کی شخصیت
سے دور کا بھی تعلق واسطہ نہیں رہا ہو گا۔
ادریس شرلی
بعض لوگوں کو‘ معاملے کا کچھ پتا نہیں ہوتا‘ اور ان کا معاملے سے‘ دور کا بھی‘ تعلق واسطہ نہیں ہوتا‘ لیکن وہ اس میں ٹانگ اڑانا‘ اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔ لوہڑا یہ کہ وہ بالطلب‘ اپنا مشورہ دینا نہیں بھولتے۔ ان کی بالطلب مشاورت‘ معاملے کو مزید الجھا دیتی ہے۔ سنورنے کی بجائے‘ معاملہ مزید بگڑ جاتا ہے۔ روکتے رہو‘ ٹوکتے رہو‘ لیکن وہ اپنا لچ تل کر ہی دم لیتے ہیں۔ اس کی زندہ مثال؛ ہمارے ادریس صاحب ہیں‘ جو بن بالئے چلے آتے ہیں۔ ان سے کچھ دریافت کرو‘ یا نہ کرو‘ لیکن وہ اپنے منحوس مشورے‘ دینے سے باز نہیں آتے۔ کچھ ہی دنوں کی بات ہے‘ کہ رحمت نے اپنی بیوی کو‘ شک کی بنیاد پر‘ گھر سے نکال دیا۔ بات طالق تک‘ آ پہنچی۔ بدکرداری کے الزام میں‘ طالق ہو جانے سے‘ مائرہ کا مستقبل‘ تاریکیوں کی نذر ہو جانا تھا۔ اس کا باپ اور بھائی‘ سخت پریشان تھے۔
بات ہی کچھ ایسی تھی۔ دو تین بار پنچایت بھی ہوئی‘ لیکن رحمت کسی بات پر ہی نہ آتا تھا۔ آخر معاملہ حاجی معظم کے علم میں الیا گیا‘ اور باور کرا دیا گیا‘ یہ الزام قطعی بے بنیاد ہے۔ اس الزام کا‘ حقیحت سے‘ دور بھی کا واسطہ نہیں۔ حاجی صاحب‘ عالقے کے ممبر تھے۔ انہوں نے‘ تفصیہ کرا دینے کا وعدہ کیا۔ انہوں نے صلح صفائی کی کوشش کی۔ بات قسم پر آ گئی۔ رحمت نے‘ نبی بخش اور احمد دین‘ کو قسمیا متخب کیا۔ جمعہ کا دن قسم کا ٹھہرا۔ نبی بخش اور احمد دین نے‘ معاملے کی‘ ہر پہلو سے‘ جانچ پڑتال کی۔ پھر وہ‘ قسم دینے پر آمادہ ہو گیے۔ جمعہ کے روز رحمت‘ حاجی صاحب اور قسمیے بھی آ گیے۔ قسم ہونے کو تھی‘ کہ ادریس صاحب آ ٹپکے‘ اٹھتے ہی بولے‘ یار اس میں قسم لینے والی کون سی بات ہے‘ کوئی ناکوئی بات ہوتی ہی ہے‘ تب پبلک میں آتی ہے۔ دوسرا چور‘ یار اور ٹھگ کی قسم دینا‘ کھلی حماقت ہے۔ قسمیے تو اپنی بات پر کھڑے رہے‘ لیکن رحمت تھالی کے بیگن کی طرح‘ تلک گیا۔ اجڑتا گھر بستے بستے رہ گیا۔ سب نے‘ ادریس صاحب پر بڑی لعنتیں بھیجیں۔ بزرگ ہو کر‘ فساد کا دروازہ کھولتے ہو‘ اس سے کیا ہوتا ہے‘ جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا۔ ان کی اس عادت سے‘ ان کے گھر والے بھی‘ ناالں رہتے ہیں۔ غمی‘ خوشی کے موقع پر‘ وہ انہیں گھر پر چھوڑ جانے کی‘
کوشش کرتے ہیں‘ لیکن ادریس صاحب‘ سب سے پہلے تیار ہو کر‘ دروازے پر کھڑے ہوتے ہیں۔ ان کی سگی بہن کی بیٹی کی شادی تھی۔ یہ بھی مدعو تھے۔ انہیں بھانجی کو‘ کچھ ناکچھ تو دینا چاہیے تھا۔ سو روپے کے سکے‘ بھانجی کے ہاتھ پر رکھ دیے۔ وہ دلہن بنی ہوئی تھی‘ اس لیے چپ رہی۔ یہ بالکل بچوں کی سی حرکت تھی۔ ان کے گھر والے بڑے شرمندہ ہوئے۔ کھانا ڈٹ کر کھایا‘ کھا پی کر شرلی یہ چھوڑی‘ کہ پکائی کچھ بہتر نہ تھی۔ چپ رہا جا سکتا تھا‘ انیس بیس تو ہو ہی جاتی ہے۔ چلتے چلتے‘ زوردار قہقہے میں‘ دلہا سے کہا‘ سواری کے لیے‘ تو ضرور کچھ مال ہو گا۔ بہن اور بہنوئی رونے والے ہو گیے۔ سیانے تھے‘ پی گیے اور اونچی آواز تک نہ نکالی۔ سگے بیٹے کا سسر مر گیا‘ یہ بھی جنازہ میں شریک ہوئے۔ بھورے پر بھی بیٹھے۔ انہوں نے بڑی عزت دی۔ ٹیک کے لیے‘ تکیہ دیا۔ سامنے‘ ٹھنڈے پانی کا گالس بھی رکھا۔ انہوں نے بڑے بھرپور انداز اور جعلی دل سوزی سے‘ افسوس بھی کیا۔ یوں لگتا تھا‘ جیسے ان کا سگا بھائی‘ چل بسا ہو۔ ایک دو‘ مگرمچھ کے آنسو بھی گرائے۔ دو چار ان کی خوبیاں بھی بیان کیں‘ حاالں کہ مرنے والے کا‘ ان خوبیوں سے‘ سرے سے تعلق ہی نہ تھا۔ باتوں باتوں میں‘ یہ بھی کہہ دیا‘ کہ یار بڑھاپا عذاب ہوتا ہے۔ بڈھا بچوں کے لیے‘ عذاب بن جاتا ہے۔ اچھا ہوا‘ بےچارا مر گیا‘ اسے کوئی پوچھنے واال نہ تھا۔ بس میرا بیٹا‘
ان کی خبرگیری کرتا تھا۔ ایسے فرمانبردار داماد‘ کہاں ملتے ہیں۔ آخری وقت میں وہ ہی ان کے پاس تھا۔ جھگڑا ہو جانا تھا‘ کہ مرحوم کے بڑے لڑکے نے‘ آ کر کھانا کی خبر سنائی۔ سب صبح سے‘ بھوکے تھے‘ اس لیے افراتفری پڑ گئی۔ ادریس صاحب‘ کھاتے پیتے اور خوش حال لوگوں میں سے تھے۔ ترکہ میں‘ اچھی خاصی جائیداد پائی تھی۔ لینا انہیں خوش آتا تھا‘ لیکن دینے کے معاملہ میں‘ قارونی شریعت کی پیروی کرتے تھے۔ لوگوں کو کچھ دینا‘ تو بڑی دور کی بات‘ انہیں اپنی ذات پر خرچ کرتے‘ حیا آتی تھی۔ ان کی اس کفایت شعاری سے‘ ان کی بیگم اور بچے بھی‘ بڑے الرجک تھے۔ وہ اس حد تک کفایت شعار تھے‘ کہ کھانا بھی‘ کسی ختم وغیرہ میں جا کر تناول فرما لیتے‘ خود تو کھا ہی لیتے‘ گھر والوں کے لیے‘ ساتھ میں لے آتے۔ اس ذیل میں‘ وہ ڈھیروں ثواب کمانے کے‘ حق میں تھے۔ ان کا موقف تھا‘ کہ جب هللا مال دے‘ تو هللا کی راہ میں‘ خرچ کرتے بخل سے‘ کام نہیں لینا چاہیے۔ هللا کی راہ میں خرچ کرنے سے‘ مال میں کمی نہیں آتی‘ بلکہ دس گنا فراخی آتی ہے۔ دینے واال‘ هللا کے ہاں معتبر رہتا ہے۔ جہاں کسی محفل میں‘ بیٹھے ہوتے‘ اس نوعیت کی‘ بڑے دھیمے دھیمے‘ لیکچر نما‘ گفتگو فرماتے۔ لوگ ٹوکنے یا ان کی ذات پر حملہ کرنے کی بجائے‘ بڑی سنجیدگی سے‘ ان کے اس بھاشن سے‘ لطف اندوز ہوتے۔
بعض تو‘ بالمسکراہٹ سبحان هللا‘ سبحان هللا کہتے۔ یہ اس امر کی طرف اشارہ ہوتا‘ کہ وہ گفتگو جاری رکھیں۔ وہ یہ جان ہی نہ پاتے‘ کہ ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ ان کی‘ ان حرکتوں کی وجہ سے‘ چھوٹے بڑوں میں‘ وہ ادریس شرلی معروف ہوگیے تھے۔ چار پانچ دن پہلے کی بات ہے‘ بابا سید غالم حضور کے ہاں بیٹھے تھے۔ اتفاق سے ادریس صاحب بھی تشریف فرما تھے۔ بابا جی‘ کھاتے پیتے لوگوں میں نہیں ہیں۔ بس دال روٹی چل رہی ہے۔ گورنمنٹ کے پنشنر ہیں۔ مائی سردار بی بی‘ پچھلے چالیس پنتالیس سال سے‘ بچے بچیوں کو‘ دینی اور قرانی تعلیم دیتی آ رہی ہیں۔ قبلہ بابا جی‘ بیٹھک میں آ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ لوگ ان سے‘ دین اور تصوف کے مسائل‘ دریافت کرنے چلے آتے ہیں۔ بابا صاحب کے والد‘ سید علی احمد اپنے وقت کے عالم فاضل ہونے کے ساتھ ساتھ‘ صوفی مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ مائی صاحب اور بابا صاحب‘ گڑھ شنکر‘ امرتسر کی سرکار سے تربیت حاصل کرتے رہے ہیں۔ ان کا مزار‘ غالبا‘ آج بھی‘ وہاں موجود ہے۔ گویا دونوں میاں بیوی‘ باشرح صوفی مسلک رکھتے ہیں۔ سوال و جواب اور گفتگو کا سلسلہ‘ جاری تھا‘ کہ ادریس صاحب‘ اپنی بھورنے بیٹھ گیے۔ کہنے لگے‘ بابا جی‘ چوہدھری شمس کتنا عجیب اور بدنصیب شخص ہے۔ هللا نے‘ اسے
بےشمار دھن دے رکھا ہے۔ نماز روزہ کرتا ہے‘ توفیق کے باوجود‘ قربانی اور حج نہیں کرتا۔ میرے ہم سائے میں رہتا ہے‘ لوگوں کے گھر سے‘ آئے گوشت سے کام چالتا ہے۔ اپنی عاقبت کے لیے بھی‘ کچھ کرنا چاہیے۔ عالقے میں‘ نام کمانے کے لیے‘ بیماروں کو پیسے دے دیتا ہے۔ گریبوں کے گھر‘ آٹا بھجواتا ہے۔ پچھلے دنوں‘ فجے کمہار کی بیٹی کو‘ جہیز بھی دیا اور روٹی بھی دی۔ اوپر سے لوگوں کو تاکید کرتا ہے‘ کہ اس مدد کا‘ کسی سے‘ ذکر تک نہ کرنا۔ جتنا روکے گا‘ لوگ اتنا ہی اچھالیں گے‘ یہ ہی اس کی منشا ہے۔ کل کو ممبر کھڑا ہوا‘ تو لوگ ووٹ اسی کو دیں گے۔ اس سے عاقبت تو نہیں سنورتی۔ عاقبت کے لیے‘ نماز روزے کے ساتھ ساتھ‘ قربانی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ بےکار کے کاموں میں‘ دولت ضائع کرتا رہتا ہے۔آپ اسے کچھ سمجھائیں۔ بابا جی کو ادریس صاحب کی بات‘ ناگوار گزری‘ فرمانے لگے : ادریس صاحب‘ آپ جانتے ہیں‘ کہ آپ چغلی کھا رہے ہیں۔ یہ بات آپ کو چوہدھری صاحب کے منہ پر کرنی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے کیا پتا تھا‘ کہ آپ‘ چوہدھری صاحب کے بندے ہیں۔ ادریس صاحب نے بابا جی کی بات کاٹتے ہوئے کہا بابا جی نے بڑے تحمل سے فرمایا :ادریس صاحب‘ کسی کی بات کاٹنا‘ اخالقیات اور آداب کے منافی ہے۔ سچی بات‘ تو سچی ہی
ہوتی ہے۔ ذہن میں بٹھا لیں‘ میں کسی کا بندہ نہیں‘ میں صرف اور صرف هللا کا بندہ ہوں۔ چھوڑیں شاہ صاحب‘ تگڑے کا ہر کوئی ہوتا ہے۔ یہاں ماڑے کی‘ کوئی نہیں سنتا اور ناہی‘ اس کا ساتھ دیتا ہے۔ بابا جی‘ خفیف سے‘ جالل میں آ گیے۔ فرمانے لگے : میں سید زادہ ہوں‘ میرے نزدیک تگڑا ماڑا‘ سب برابر ہیں۔ بات‘ تگڑی یا ماڑی ہوتی ہے۔ کسی کی نیت میں کیا ہے‘ ہم نہیں جانتے۔ دلوں کا حال‘ هللا ہی جانتا ہے۔ چوہدری صاحب کس نیت سے‘ لوگوں کی مدد کرتے ہیں‘ ہمیں کیا معلوم‘ یہ تو هللا ہی جانتا ہے‘ یا انہیں معلوم ہوگا۔ ہم کسی کی نیکی کو‘ منفی پیمانوں پر‘ رکھنے والے‘ کون ہوتے ہیں۔ وہ جانیں یا هللا جانے۔ ادریس صاحب‘ قربانی سنت ابراہیمی ہے۔ حضور کریم نے بھی‘ اسے جاری رکھا‘ ہمیں بھی جاری رکھنا چاہیے۔ ہم وہ قوم ہیں‘ جو قربانی کی چھری تلے ہے۔ اس بےچاری نے کیا قربانی دینی ہے۔ قربانی تو‘ صاحب حیثیث قوموں کے لیے ہے۔ یہ تو فرائض پورے کرنے سے قاصر وعاجز ہے‘ سنتیں کیا پوری کرنی ہیں۔
لڑکی اپنی ہو‘ کسی عزیز کی ہو‘ یا ہم سائے کی‘ اس کی شادی کرنا فرض ہے۔ بھوکا کوئی بھی ہو‘ اس کی بھوک مٹانا فرض ہے۔ مقروض کا قرض اترنا‘ فرض ہے۔ بیمار کو‘ مفلسی کے سبب‘ مرنے سے بچانا فرض ہے۔ اس طرح کے‘ بیسیوں فرض ہیں۔ کیا ہم‘ ان سب کو پورا کر چکے ہیں۔ مفلسی‘ بیماری قرض‘ بھوک وغیرہ‘ ختم ہو چکے ہیں۔ اپنے حصہ سے‘ بچا کر‘ دوسرے کی حاجت پوری کرنا بھی قربانی ہے۔ سب ٹھیک ہو گیا ہے‘ تو ایک نہیں چار بکروں کی قربانی کرو۔ باجماعت نماز کی فضیلت کیوں ہے‘ تاکہ تم ایک دوسرے سے ملتے رہو‘ حال احوال دریافت کرتے رہو۔ عیدین اور حج کا بھی‘ یہ ہی مقصد ہے‘ تا کہ تم ایک دوسرے سے آگاہ رہو‘ اور بھائی چارہ بڑھے‘ محبتیں پروان چڑھیں۔ هللا بے نیاز ہے‘ اسے سجدہ کرو گے‘ تو بھی‘ وہ اپنی حالت پر رہے گا۔ هللا انسان کی بہتری چاہتا ہے۔ حج فرض ہے‘ لیکن تب‘ جب تم استطاعت رکھو۔ جب ہر طرف‘ خوش حالی آسودگی ہو گی‘ کوئی بیٹی‘ بنا جہیز باپ کے گھر بیٹھی نہ ہو گی‘ قربانی کرنا‘ حچ کے لیے جانا‘ تا کہ دیگراسالمی بھائیوں سے مل کر‘ بین االسالمی بھائی چارے کو‘ فروغ دے سکو۔
بابا جی کی باتوں کو‘ سب نے سنا اور پسند کیا۔ ادریس صاحب کی سوئی‘ قربانی کے گوشت پر‘ اٹکی ہوئی تھی۔ اتنی دیر میں‘ پانچ لوگوں کا کھانا‘ اندر سے آ گیا۔ چار لوگوں کے لیے چٹنی ملی لسی‘ جب کہ ایک کے لیے‘ گوشت سے بھری پلیٹ آئی۔ سب نے‘ باطور تبرک چٹنی ملی لسی سے روٹی‘ جو اماں جی کے ہاتھوں کی پکی ہوئی تھی‘ کھائی اور کھانے کو پرذائقہ قرار دیا۔ ادریس صاحب کا‘ موڈ اب بھی خراب تھا۔ انہیں پکائی کے‘ ناقص ہونے کا‘ گلہ تھا۔ وہ کیا جانیں‘ گھر میں تو گوشت پکا ہی نہ تھا۔ گوشت کی پلیٹ اور روٹیاں‘ چوہدھری صاحب نے‘ بجھوائی تھیں۔ وہ ہی سفید آٹے کی روٹیاں‘ ادریس صاحب کے پیٹ میں گئی تھیں۔
سرگوشی
واجد بنیادی طور پر‘ راج گیری کے پیشے سے وابستہ تھا میٹرک پاس کرنے کے باوجود‘ کوئی سرکاری مالزمت نہ مل سکی تھی‘ اسی لیے اس نے‘ اپنے باپ کے پیشے کو‘ اختیار کر لیا تھا۔ اس کا باپ‘ بڑے اعلی پائے کا‘ کاری گر تھا۔ اسی
نے واجد کو یہ ہنر سکھایا تھا۔ اس کا صوفی لوگوں کے پاس‘ بڑا اٹھنا بیٹھنا تھا۔ اس کے ساتھی‘ کام سے فارغ ہونے کے بعد‘ ہوٹلوں میں بیٹھ کر‘ گپ بازی کرتے‘ لیکن اسے اس قسم کے اشغال سے‘ کوئی دل چسپی نہ تھی۔ وہ اسے وقت ضائع کرنے کے مترادف سمجھتا تھا۔ اس کا زیادہ تر‘ بیبیاں پاک دامناں اور حضرت شاہ حسین الہوری کے درباروں پر‘ آنا چانا تھا۔ وہ دیر تک‘ وہاں بیٹھا اکیال ہی‘ باتیں کرتا رہتا۔ اسے واپسی کوئی جواب ملتا یا نہ ملتا‘ کوئی نہیں جانتا۔ اگر کوئی پوچھتا‘ تو جواب میں ہنس دینا۔ اس کے اس ہنسنے میں‘ اثبات اور نہی کا‘ دور تک نام ونشان تک نہ ہوتا۔ لوگوں کی حیرانی اپنی جگہ‘ لیکن ہر کسی کا‘ اپنا اپنا ذوق ہوتا ہے۔ اس کا یہ ذوق‘ اس کی شخصیت کا حصہ بن چکا تھا۔ پہاگاں کو‘ اس کے اس ذوق سے‘ کوئی چڑ نہ تھی۔ اس کے سارے خرچے‘ بڑی حد تک‘ وہ پورے کر رہا تھا۔ ان کے ساتھ‘ وہ ہنسی مذاق کرتا۔ اس کے صوفی ہونے کے‘ دور تک نام ونشان نہ تھے۔ باتوں میں‘ عام لوگوں کا انداز ملتا تھا۔ اس کے کام بھی‘ صوفیوں والے نہ تھے۔ ہاں البتہ‘ وہ بال کا صابر و شاکر تھا۔ کوئی زیادتی کر جاتا‘ تو برداشت کر لیتا۔ عجز اور مسکینی‘ اس کی فطرت ثانیہ تھی۔ ان باتوں کے باوجود‘ گھر اور باہر‘ عمومی انداز سے گپ شپ کرتا۔ لطیفے سنتا بھی‘ اور
سناتا بھی۔ ایک دن‘ حضرت شاہ حسین الہوری کے دربار پر‘ ایک ملنگ یہ کافی گا رہا تھا۔ اس کی آواز‘ شرینی کے ساتھ ساتھ‘ خلوص اور محبت سے لبریز تھی۔ نی تینوں رب ناں بھلے دعا فقیراں دی ایہا رب ناں بھلیں ہور سبھ کجھ بھلیں رب ناں بھلن جیہا وہ سوچنے لگا‘ حضرت شاہ حسین الہوری جیسا آدمی بھی‘ روٹی کے چکروں میں تھا۔ آخر اس نے‘ اسم ذات‘ هللا کو کیوں استعمال نہیں کیا۔ اسے یہ بات‘ ہضم نہیں ہو رہی تھی۔ پھر وہ اٹھ کر‘ دربار کے اندرآ گیا‘ اور کافی دیر تک بیٹھا رہا۔ وہ اپنے آپ سے‘ باتیں کیے جا رہا تھا۔ اس سے پہلے‘ اس کی آواز‘ محض بڑبڑاہت ہوا کرتی تھی۔ آج اس کا کہا واضح سنائی دے :رہا تھا انسان‘ محض روٹی کی فکر اور تگ و دو کے لیے لیے پیدا ہوا ہے۔ روٹی اکٹھی کرتے کرتے‘ دم توڑ دیتا ہے۔ زندگی کا مقصد‘ صرف روٹی ہے۔ روٹی سے ہٹ کر‘ زندگی‘
زندگی نہیں۔ شاہ حسین جیسا بڑا شخص‘ مشورہ دے رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔رب نہ بھلیں ہور سبھ کجھ بھلیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باقی لوگوں کی حیثیت ہی کیا رہ جاتی ہے۔ روٹی دینے والوں کو ہی‘ یاد رکھا جانا چاہیے‘ باقی کو‘ یاد رکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ انسان مرد اور عورت سے‘ وجود حاصل کرتا ہے۔ مرد اس لیے معتبر ہے‘ کہ کما کر التا ہے۔ عورت پکا کر دیتی ہے۔ ان کی عزت روٹی کے لیے ہوئی ناں۔ پیار محبت شفقت‘ گویا روٹی کے حوالوں سے وابستہ ہے ناں۔ بےایمان معاشروں میں‘ انسان سے محبت کرنے والے‘ کیوں پیدا ہو جاتے ہیں۔ تمہارا عہد بھی تو‘ پیٹ کے بندوں کا عہد تھا۔ تب ہی تو تم روٹی کی بات کر رہے ہو اور روٹی دینے والی صفت کو‘ پہلے نمبر پر رکھ رہے ہو۔ روٹی آنی چاہیے‘ چاہے وہ رشوت‘ مالوٹ ہیرا پھیری سے ہی کیوں نہ آئے۔
نماز‘ روزے اورحج کا کیا فائدہ ہوا۔ بچے کے بگڑنے میں ماں اور باپ کو کیوں الزام دیا جاتا ہے۔ دونوں بےقصور ہوئے ناں۔ بدقماش معاشروں کے بڑے لوگ‘ روٹی کے لیے‘ انسانی استحصال کرتے ہیں۔ بڑوں کے قدموں پر ہی تو چھوٹے لوگ قدم رکھتے ہیں۔ جب روٹی اور روٹی والے‘ معتبر ہیں‘ تو پھر روال کس بات کا ہے۔ تم فقیر ہو کر بھی‘ یہ ہی بات کر رہے ہو۔ تم میں اور ان میں‘ فرق ہی کیا رہ گیا ہے۔ تم جواب نہیں دے رہے‘ میں بولے جا رہا ہوں۔ تمہیں اپنے کہے کی‘ وضاحت کرنا ہی ہو گی‘ ورنہ میں فقیری اور درویشی کو پاکھنڈ سمجھوں گا۔ پاکستان‘ اسالم کے نام پر حاصل کیا گیا۔ یہ کیسا اسالم ہے‘ کہ اس کا ماننے واال‘ چند ٹکوں کے لیے‘ قرآن پر ہاتھ رکھ کر‘ قسم کھا لیتا ہے۔ عیسائی سچا ہو کر بھی؛ بائیبل پر ہاتھ رکھ کر‘ قسم نہیں کھاتا۔ وہ مسلسل بولے جا رہا تھا۔ اسے ارد گرد کے‘ لوگوں کے‘ ہونے کا احساس تک نہ تھا۔ پھر وہ زاروقطار رونے لگا۔ اسے چپ کرانے کی‘ کسی میں ہمت تک نہ تھی۔ کوئی کچھ کہتا‘ تو
کیا کہتا۔ کسی کے پاس‘ اس کے سوال کا جواب ہی نہ تھا۔ ہر آنے واال‘ شاہ حسین سے ملنے نہ آیا تھا۔ ہر کوئی‘ حاجت لے کر آیا تھا۔ ہاں‘ وہ کوئی حاجت لے کر نہ آیا تھا۔ وہ تو‘ صرف اور صرف‘ شاہ حسین سے ملنے آیا تھا۔ کافی دیر بعد‘ بادل چھٹے‘ تو اب وہ بول نہیں رہا تھا۔ اس کے صرف ہونٹ ہلتے نظر آ رہے تھے۔ وہ اسی حال میں‘ پچھلے قدموں دربار سے باہر نکل آیا۔ وہ سر جھکائے گھر کی طرف آ رہا تھا کہ الشعور میں ایک سرگوشی سی ہوئی۔ بابا شکرهللا کے کہے کو بھول گیے ہو۔ انہوں نے کہا نہیں تھا سانس کی ہر تار پر هللا کا شکر ادا کرو۔ سانس آئے گا تو ہی هللا کا شکر ادا کر سکو گے۔ کیا سانس رزق نہیں ہے۔ انبیا صدیق شہید اور صالیحین مرتے نہیں هللا کے ہاں سے خیر کا رزق پاٹے ہیں۔ یہ کون سا رزق ہے۔ اس عالم کے مطابق ہونے کا رزق پاتے ہیں۔ اسی لیے تو زندہ ہیں انہیں کون مار سکتا ہے۔
ہوں گے تو ہی هللا کی حمد وثنا کر سکیں گے۔ اس عالم میں‘ سانس آنے کی صورت میں ہی‘ آتا جاتا سانس هللا ہو کا ورد کر سکے گا۔ اب کہو‘ رب کو یاد رکھنے کی بات‘ شاہ حسین نے سچ کہی ہے یا غلط اچانک اسے یاد آیا‘ حیدر امام کی سال گرہ پر‘ بابا شکرهللا اور مائی صاحبہ‘ اپنے تمثالی وجود میں‘ تشریف الئے تھے۔ انہیں مائی رضیہ صاحبہ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اگر انہیں‘ رب یاد نہ ہوتا‘ تو رزق کہاں سے پاتے۔ رزق نہ مال ہوتا‘ تو وہ تمثالی وجود کیسے اور کیوں کر‘ حاصل کر پاتے۔ هللا کا وعدہ کس طرح غلط ہو سکتا ہے۔ بدیانت اور بدکردار معاشروں میں‘ اوالد کے بگڑنے کا الزام‘ کسی پر نہیں رکھا جا سکتا‘ کیوں کہ وہ بھی تو‘ اسی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں۔ مائی باپ وہاں کیا کریں گے‘ جب سوسائٹی انہیں بدکرداری کی سجی سجائی دلدل میں کھنچ رہی ہو گی۔ اس نے سر کو جھٹکا دیا۔ اسے اپنی منفی سوچ پر‘ سخت ندامت ہوئی۔ پھر وہیں سے واپس مڑا‘ اور شاہ حسین کے دربار کی طرف‘ چل دیا۔ بالشبہ‘ شاہ حسین‘ صالحین میں سے تھے۔ انہوں نے غلط نہیں کہا تھا۔
نی تینوں رب ناں بھلے دعا فقیراں دی ایہا رب ناں بھلیں ہور سبھ کجھ بھلیں رب ناں بھلن جیہا ہر سانس رب کا ہے‘ اور رب کے لیے ہی تو ہے۔ غافل سانس ہی‘ بدیانت اور بدکردار ہو سکتا ہے۔ اس سرگوشی نے‘ غفلت کی ساری میل‘ دھو ڈالی تھی۔ اب اس کے دل کا شیشہ‘ گردوغبار سے آلودہ نہ تھا۔ اس کا چہرا‘ چاند کی کرنیں برسا رہا تھا۔
موازنہ
وی بی جی‘ صرف شعری ذوق ہی نہیں رکھتے‘ بڑے اچھے اور نکھرے نکھرے‘ تنقیدی شعور کے بھی مالک ہیں۔ وہ تاریخ اور سماجیات پر بھی‘ بڑی گہری نظر رکھتے ہیں۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے‘ کہ وہ انسان کا درد‘ اپنے سینے کی بے کراں وسعتوں میں‘ محسوس کرکے‘ اپنے انسان دوست ہونے کا‘ ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ اگر وہ جوان ہیں‘ تو ان کی تحریریں‘ اس
امر کا ثبوت ہیں‘ کہ ہماری نسل فکری اعتبار سے‘ زندہ ہے۔ اگر تھوڑا بڑی عمر کے ہیں‘ تو یہ بھی‘ خوش آئند بات ہے‘ کہ ہمارے بڑے‘ اپنی نسل کا‘ دکھ درد محسوس کرتے ہیں۔ ۔ ان کی تحریریں‘ انھیں جوانوں کی صف میں‘ کھڑا نہیں کرتیں بلکہ پختہ شعور کی حامل ہیں کل ہی کی بات ہے‘ کہ مجھے‘ ان کی چند الئنوں کو‘ پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ میں اپنے وجود کی دیانت داری سے عرض کرتا ہوں‘ کہ ان الئنوں نے‘ مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے‘ اور میں مسلسل سوچے چال جا رہا ہوں۔ ہر لفظ سچائی کا آئینہ ہے۔ جو انہوں نے تحریر فرمایا ہے‘ اس میں‘ رائی بھر‘ مبالغہ‘ ملمع یا جانب داری کا عنصر موجود نہیں ہے۔ آپ بھی‘ ان کا :کہا‘ مالحظہ فرما لیں ایسی ہزاروں مثالیں پیش کر سکتے ہیں ،جہاں بُرا کرنے والے کو‘ اس کے کیے کے برابر سزا نہیں ملی۔ کئی ایسی مثالیں بھی ہیں‘ جن میں سرے سے‘ سزا ملی ہی نہیں ،بلکہ ظلم کرنے والے‘ اخری سانس تک عیاشی اور ظلم کرتے رہے۔ کئی مثالیں تو ہمارے سامنے ہی موجود ہیں‘ جہاں شرفا مہینوں چارپائی پر کھانس کھانس کر‘ اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے ہیں ،جب کہ ظالم لوگوں کے لیے‘ قدرت نے‘ قدرے اسان طریقہ موت بھی ایجاد کر رکھا ہے‘ جیسے دل کا دورہ پڑنے سے‘ اچانک دُنیا سے‘ اُٹھ گیا۔ ہمیں یقین ہے‘ کہ اگر دُنیا میں انصاف ہو رہا ہوتا‘
اور ہر ظالم کو‘ حق کے مطابق سزا مل رہی ہوتی ،تو ،نہ تو یہاں ظلم عام ہوتا ،اور نہ ہی جنت اور دوزخ کے وجود کی کوئی ضرورت تھی۔ یہ افسانہ ان کے خیاالت کے تناظر میں ہی‘ تحریر کیا گیا ہے۔ مالحظہ فرمائیں ................... موازنہ
راحت مرزا‘ عالقے کا‘ بڑا کھاتا پیتا اور نمبردار قسم کا شخص تھا۔ اس کو‘ اس کے اطوار کے حوالہ سے‘ کراہت مرزا کہنا غلط نہ ہو گا۔ مالوٹ‘ ہیرا پھیری‘ ظلم و زیاتی‘ جیسے اس کی سرشت میں شامل تھے۔ زناکاری میں‘ شاید ہی‘ اس کا ثانی رہا ہو گا۔ ہر دو نمبری عورت‘ اسے دل و دماغ پر بیٹھاتی تھی۔ ایک عورت نے‘ راحت مرزا کے کہنے پر‘ طالق تک لے لی۔ راحت مرزا نے‘ اسے چند ماہ‘ تصرف میں رکھا‘ بعد ازاں اس کے کھسم کو‘ دوبارہ سے‘ نکاح پر مجبور کر دیا۔ اتنا کچھ ہو جانے کے باوجود‘ شرمندگی اور تاسف کا‘ دور تک‘ نام و نشان
نہ تھا۔ وہ عورت‘ دھڑلے سے بسی۔ لوگ توئے توئے کرنے کی بجائے‘ راحت مرزا کے ذوق کو خراج تحسین پیش کر رہے تھے۔ اس کا دو نمبری سامان‘ بال روک ٹوک‘ دھڑا دھڑ بک رہا تھا۔ گرفت کرنے والے ادارے‘ ریاست کے مالزم ہو کر‘ اس کے‘ جی حضوریے تھے۔ حیرانی یہ تھی‘ کہ قدرت بھی‘ اس کی پوچھ گچھ نہیں کر رہی تھی۔ یوں لگتا تھا‘ جیسے قدرت نے‘ اسے کھلی چھٹی دے رکھی تھی؛ یا پھر وہ پیدا ہی ظلم و زیادتی کے لیے ہوا تھا۔ کبھی‘ چھوٹی موٹی بیماری آ جاتی‘ تو اس کے اردگرد‘ رقص کرتے گماشتوں سے خوف کھا کر‘ دم دبا کر‘ بھاگ جاتی اور اس کے حصہ کی اذیت کے لیے‘ کسی کم زور اور گریب کا گریبان جا پکڑتی اور ساری کسریں نکال کر‘ خالصی کرتی۔ بات یہاں تک ہی محدود نہ رہتی‘ بیماری سےاٹھنے کے بعد بھی‘ وہ گریب اور کم زور‘ کئی ہفتے سسک سسک کر‘ گزارتا۔ بیماری سےاٹھنے کے بعد‘ اسے دو چار روز کا آرام نصیب نہ ہوتا۔ اس کی تینوں زوجاؤں کو بھی‘ اس کی عورت پسندی پر‘ کوئی اعتراض نہ تھا۔ وہ اپنے حال میں‘ مست تھیں۔ شاید ہی‘ دنیا کی کوئی چیز ہو گی‘ جو انہیں میسر نہ ہو گی۔ سوچتا ہوں‘ آخر وہ کس مٹی سے اٹھا تھا‘ کہ اس کی قوت باہ پر‘ فرق نہ آیا تھا۔ شاید اکبر بادشاہ کے‘ طبیب خاص کی نسل کا‘ کوئی حکیم اسے
میسر آگیا تھا۔ ایک ہی کام کرتے کرتے‘ آدمی اکتا جاتا ہے‘ لیکن اس کے ذوق و شوق میں ہر لمحہ اضافہ ہی ہوا۔ تازہ مال فراہم کرنے والے‘ اس کی آتش شوق کو‘ ہوا دیتے رہتے تھے۔ وہ ان سے خوش تھا‘ وہ اس سے خوش تھے۔ مال بھی‘ اس کے پاس آنے میں‘ خوش بختی محسوس کرتا تھا۔ یہ ستمبر کی‘ ایک بھیگی سی شام تھی۔ چاند اپنی بھیگی کرنیں برسا رہا تھا۔ اس روز‘ راحت مرزا کے گھر کے الن میں‘ بڑی چہل پہل تھی۔ شاید کوئی تقریب تھی۔ عالقے کے معروف شرفا‘ جنہیں شورے کہنا زیادہ مناسب ہو گا‘ آئے ہوئے تھے۔ ان کی بہو بیٹیاں تقریبنی لباس میں موجود تھیں ۔ راحت مرزا‘ نیکر بنیان میں کبھی ادھر‘ اور کبھی ادھر‘ جا رہا تھے۔ چہار سو‘ قہقہوں کے انار پھوٹ رہے تھے۔ تقریبا لباسی سینے‘ جب کسی قہقہے کی زد میں آتے‘ راحت مرزا کی آنکھوں میں‘ چمک پیدا ہو جاتی۔ وہ اس اپسرا کو دل کی ڈائری پر رقم کر لیتے‘ کیوں کہ اس کا تصرف‘ اس کے لیے ناممکن نہ تھآ اچانک شور اٹھا۔ سب‘ اس جانب‘ تیزی سے بڑھے۔ کسی حسینہ کے سینے کی‘ غیر معمولی اور ہوش شکن تھرتھراہٹ نے‘ راحت مرزا کے دل کی دھڑکنوں کو‘ غیر مسلسل کر دیا تھا۔ یہ سب‘ دیکھتے ہی دیکھتے‘ لمحوں میں ہو گیا۔ شہر کے معروف‘ اور ماہر معالج طلب کر لیے گیے‘ مگر سب الحاصل رہا۔ ان کے آنے سے پہلے ہی‘ راحت مرزا چل بسے۔ یہ سارا
عمل‘ دو چار لمحوں میں‘ اپنی تکمیل کو پہنچ گیا۔ رونے دھونے سے زیادہ‘ تبصروں کا دور شروع ہو گیا۔ جملہ شرفا‘ باتیں کرتے ہوتے‘ مین گیٹ کی طرف بڑھ گیے۔ منٹوں میں‘ ویرانی کا دیو پھر گیا۔ راحت مرزا چل بسے تھے۔ ان کے سبب‘ یہ ساری رونق تھی۔ وہ چل بسے تھے‘ اب وہاں کسی کا‘ کیا کام رہ گیا تھا۔ اسٹیشن پر‘ بال انجن کھٹری گاڑی پر‘ کون سوار ہوتا ہے۔ راحت مرزا کا جسد خاکی‘ غیر تو غیر‘ اپنوں کے لیے بھی‘ کوئی معنویت نہ رکھتا تھا۔ ہاں اس کے چھوڑے مال سے‘ بیگمات تو اپنی جگہ‘ دور قریب کے رشتہ داروں میں بھی‘ بڑی گہری دل چسپی موجود تھی۔ راحت مرزا کا جنازہ‘ بڑی پانچ صفوں پر مشتمل تھا۔ جائیداد کے حصہ داروں‘ اور حصہ کے خواہش مندوں کو تو آنا ہی تھا‘ کئی محلہ دار‘ تکلفا چلے آئے تھے۔ بخشو اور رحمو جیسے‘ ثواب کمانے کی غرض سے چلے آئے تھے۔ تکلفا چلے آئے والوں نے‘ جنازہ کے بعد‘ راحت مرزا کے سالوں وغیرہ کو‘ هللا کا حکم کہا‘ اور چلتے بنے۔ ثوابی حضرات بھی‘ چلتے بنے‘ ہاں البتہ بخشو اور رحمو‘ قبرستان تک چلے آئے۔ نہ بھی آتے‘ تو کچھ فرق نہیں پڑنا تھا۔ میت دفنانے میں‘ ابھی کچھ وقت باقی تھا۔ وہ دونوں‘ ایک پکی قبر پر آ بیٹھے۔ ان دونوں نے‘ راحت مرزا کی زندگی پر خوب تبصرہ کیا۔ درمیان میں‘ ماسٹر منظور صاحب کا ذکر چھڑ گیا۔
ماسٹر منظور صاحب نے‘ صرف چار جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی۔ مزدوری کرتے تھے۔ ٢٥٩٩میں فوج میں بھرتی ہو گیے۔ جنگ ٢٥٩٩کے بعد‘ ریزرو بھیج دیے گیے۔ پھر انہیں‘ چناب رینجرز میں‘ بھرتی ہونے کا موقع مل گیا۔ بال کے ذہین اور محنت تھے۔ یہاں ان کی مالقات‘ ایک سیدزادے سے ہو گئی۔ وہ بھی چناب رینجرز میں‘ باطور نرسنگ حوال دار‘ فرائض انجام دے رہے تھے۔ انہوں نے منظور صاحب کو تین ہدایات جاری کیں چلتے پھرتے‘ اٹھتے بیٹھتے اور سوتے جاگتے‘ درود پاک پڑھتے رہو مرتے دم تک رزق حالل کھاؤ تعلیم حاصل کرو۔ پھر انہوں نے میٹرک کی کتابیں خرید کر دیں۔ منظور صاحب نے‘ ان تینوں باتوں پر‘ دل وجان سے عمل کیا۔ جھوٹ والی بات ہے‘ منظور صاحب نے‘ ایم اسالمیات تک تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں ایم اے انگریزی کا امتحان بھی دیا۔ منظور صاحب باطور نائیک وائرلس آپریڑ‘ ریٹائر ہو کر آگیے۔ اس سید زادے کی ہدایت پر‘ اسکول کھول لیا۔ اس نے‘ اسکول میں اپنے بچوں سے‘ تدریس کے کام کا آغاز کیا۔ ایمان داری اور محنت کے سبب‘ پیٹ بھر روٹی میسر آنے لگی۔ پورا عالقہ‘ انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ گریبوں کو مفت
تعلیم دیتے تھے۔ گھر والوں کو‘ ہر سہولت مہیا کرتے تھے۔ رشتہ داروں اور ڈھلے والی کے ہر شحص سے‘ ان کا حسن سلوک آج بھی معروف ہے۔ زندگی میں‘ انہوں نے بڑی محنت کی‘ اپنوں پرائیوں سے‘ محبت کی۔ ان کا خیال رکھا‘ ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوئے۔ آڑے وقت میں‘ ان کی مدد کی۔ بیمار پڑ گیے۔ دو سال بیمار رہے۔ پہلے پہل تو بیماری کی جانب‘ کوئی خاص توجہ نہ دی۔ انسان تھے‘ کب تک برداشت کرتے۔ آخر بیماری نے‘ بستر پکڑنے پر مجبور کر دیا۔ تین ماہ بیماری نے خوب رگڑا دیا۔ اس کے باوجود‘ ایک آدھ بار‘ اسکول کا چکر ضرور لگاتے۔ آخری پندرہ دن تو قیامت کے تھے۔ انہیں لنگز کینسر تھا۔ حالل کی کھانے والے تھے۔ گالب دیوی ہسپتال سے‘ عالج کراتے رہے۔ کیا ہونا تھا۔ وہ کوئی دھن وان نہیں تھے‘ جو بڑے ہسپتالوں سے‘ عالج کرواتے۔ آخر ایڑیاں رگڑتے رگڑتے‘ دنیا سے چلے گ ی ے۔ یار‘ هللا کی بھی کیا حکمت ہے‘ جو اس کے ہر قانوں کی‘ بڑی سینہ زوری سے‘ خالف ورزی کرتا‘ زندگی بھر‘ موج اڑاتا ہے۔ مرتے دم تک‘ اس پر کوئی مصیبت نازل نہیں ہوتی۔ موت بھی اس کا حیا کرتی ہے۔ اسے‘ لمحوں کی بھی‘ ازیت اٹھانا نہیں پڑتی۔ ماسٹر منظور جیسے‘ ایمان دار‘ ہم درد اور دوسروں کی مدد کرنے والے‘ پرازیت زندگی گزار کر‘ عبرت ناک موت مرتے
ہیں۔ یار‘ قدرت کا یہ کیسا طور اور چلن ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا‘ کہ ایمان داری کی زندگی گزارنے والے‘ احمق ہیں۔ ہر کسی کو‘ راحت مرزا کا چلن لینا چاہیے۔ اچھائی‘ ایمان داری‘ محنت‘ خدا خوفی‘ دوسروں کا درد وغیرہ‘ سب پاکھنڈ ہے۔ راحت مرزا کی زندگی‘ ہی اصل زندگی ہے۔ ہم نے تو‘ یوں ہی بے کار زندگی گزار دی ہے۔ باتوں ہی باتوں میں‘ انہیں وقت گزرنے کا‘ احساس تک نہ ہوا۔ راحت مرزا کی قبر پر‘ پھول چڑھ چکے تھے۔ مولوی صاحب دعا مانگ رہے تھے۔ ہر کسی نے‘ دعا کے لیے‘ ہاتھ اٹھا رکھے تھے۔ کسی کو مرنے والے کی بخشش وغیرہ سے‘ کوئی دل چسپی نہ تھی۔ رسمی سہی‘ دس پندرہ لوگوں کے‘ ہاتھ اٹھے ہوئے تھے۔ مولوی صاحب نے‘ بہرطور اپنا فریضہ نبھایا۔ وہ چلے‘ تو سب چل دیے۔ راحت مرزا کا رول ختم ہو چکا تھا۔ اسٹیج پر‘ اس کے سالے‘ آ گیے تھے۔ اب انہیں‘ اپنی اداکاری کے جوہر دکھانا تھے۔ رحمو ساری رات‘ سو نہ سکا۔ اسے یوں لگا‘ جیسے اس نے‘ ساری زندگی‘ بےکار میں گزار دی ہو۔ زندگی انہیں معتبر رکھتی ہے‘ جوعیش کرتے ہیں۔ وہ جزا سزا کے فلسفے سے متعلق نہیں ہوتے۔ فرشتہءاجل بھی انہیں آسانیاں فراہم کرتا ہے۔ ماسٹر منظور صاحب سے لوگ‘ اچھائی کرکے‘ زندگی میں ہی‘ اچھائی
کی سزا بھگتتے ہیں۔ اچھائی کا فائدہ ہی کیا‘ جو اس کی جزا ملنا نہیں‘ بلکہ سزا کے دوزخ سے ہی گزرنا ہے۔ اس نے فیصلہ کر لیا‘ کہ وہ اب‘ راحت مرزا سے بڑھ کر‘ انھی ڈال دے گا۔ هللا‘ انھی مچانے والوں کو ہی پسند کرتا ہے۔ ساری رات آنکھوں میں گزارنے کے باعث‘ اسے گہری نیند نے آ لیا۔ خواب میں‘ اسے ماسٹر منظور صاحب ملے۔ وہ بالکل صحت مند تھے اور سفید لباس میں‘ فرشتہ لگ رہے تھے۔ ان کے چہرے پر‘ مسکراہٹ تھی۔ بیمار اور تندرست منظور صاحب میں‘ زمین آسمان کا فرق تھا۔ فرمانے لگے رحمو‘ نیکی کے رستے سے‘ رائی بھر ادھر ادھر نہ ہونا۔ میں انسان تھا‘ نادانستہ سہی‘ مجھ سے غلطیاں تو ہوتی رہتی تھیں۔ هللا نے‘ دو سال مجھے معافی مانگنے کا‘ موقع دیا۔ آخری تین ماہ‘ لوگوں نے‘ میرے لیے دعائیں کیں۔ ان کی دعاؤں نے‘ مجھے هللا کی رحمت سے‘ مایوس ہونے سے بچایا۔ میں ہر لمحہ‘ هللا کی عطا و رحمت کا امید وار رہا۔ آخری پندرہ دن‘ یقینا بڑے درد ناک اور کرب ناک تھے۔ جانتے ہو‘ یہ ہی میری پوری زندگی کا حاصل تھے۔ میری حالت پر‘ لوگوں کو ترس آنے لگا۔ لوگوں نے‘ خلوص نیتی سے میرے گناہوں کی بخشش کے لیے‘ دعا کی۔ هللا انہیں اجر دے۔ میری موت اور راحت مرزا کی موت کا موازنہ کرو‘ لوگ تو لوگ‘ اسے خود‘ اپنے گناہوں کی توبہ کا موقع نہ مل سکا۔ دنیا میں‘ راحت مرزا سے زیادہ
بدنصیب‘ اور کون ہو گا۔ ذرا غور تو کرو۔ ماسٹر منظور صاحب کی‘ شہد آمیز باتیں جاری تھیں‘ کہ باہر دروازے پر دستک ہوئی۔ وزیر بیگم نے‘ اسے جگا دیا۔ دروازے پر بخشو تھا‘ اور اس کے منہ میں‘ ایک تنخواہ بونس میں ملنے کی‘ خوش خبری تھی۔ اس نے سن رکھا تھا‘ کسی نیک کے متھے لگنے سے‘ بھاگ کھل جاتے ہیں۔ اس کا جیتا جاگتا ثبوت بخشو‘ اس کے رو بہ رو کھڑا تھا۔ اس نے سوچا‘ جب هللا‘ اپنی جناب سے عطا کر دیتا ہے‘ تو دو نمبری کمائی کی طرف‘ قدم بڑھانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اسے هللا نے‘ کل کی غلیظ سوچ پر‘ توبہ کا موقع فراہم فرما دیا تھا۔ هللا کے اس احسان پر‘ اس کا سر تشکر سے جھک گیا۔
پہال قدم
نواب غالم حسین مزاجا اور عادتا‘ دوسرے نوابوں سے‘ کسی طرح مختلف نہ تھا۔ پتہ نہیں‘ پیر خدا بخش‘ اس کے ساتھ کیسے چل رہے تھے۔ سچے اور غیرت مند لوگ‘ نواب غالم
حسین جیسوں سے‘ کنارہ کشی میں ہی‘ عافیت سمجھتے ہیں۔ آگ اور پانی ایک ساتھ چل رہے تھے۔ پیر خدا بخش کے‘ تقوی‘ پرہیزگاری‘ قناعت اور خدا ترسی سے انکار‘ سراسر بددیانتی کے مترادف ہے۔ انہیں کبھی‘ کسی کے سامنے‘ ہاتھ پھیالتے نہیں دیکھا گیا۔ کبھی کسی سے‘ مریدانہ وصولتے بھی‘ نہیں دیکھا گیا۔ ہاں بانٹتے‘ بیسیوں بار دیکھا گیا۔ ان کے باپ داد‘ا پیری مریدی کے پیشہ سے‘ وابستہ تھے۔ جو ملتا‘ ہضم کر جاتے تھے۔ فرمائش میں‘ عار محسوس نہ کرتے تھے۔ پیر خدا بخش‘ عجیب نیچر کے شخص تھے‘ ان کے بزرگ‘ ضرورت مندوں سے‘ وصول کر‘ ان کے لیے دعا کرتے تھے۔ یہ ضرورت مندوں کی‘ ناصرف ضرورت پوری کرتے‘ بلکہ ان کے لیے دعا بھی مانگتے۔ انہوں نے‘ بزرگوں کی جمع پونجی‘ اس طرح لٹا دی تھی۔ ذاتی خرچہ‘ ایک آڑھت پر منشی گیری‘ کرکے پورا کرتے۔ پیروں واال‘ ایک بھی چاال‘ ان میں موجود نہ تھا۔ اس حقیقت کے باوجود‘ لوگ ان کی بڑی عزت کرتے تھے۔ اس کی شاید وجہ یہ تھی‘ کہ وہ سراپا مہر و شفقت تھے۔ کسی کی پریشانی اور دکھ سن کر‘ بےچین وبےکل ہو جاتے۔ پیر صاحب کا یہ انداز‘ میرے لیے حیران کن تھا‘ کہ ایک طرف فقیرانہ زندگی‘ تو دوسری طرف نواب غالم حسین جیسے کرپٹ اور بدقماش شخص سے بھی‘ میل موالقات رکھتے ہیں۔ دوسرے تیسرے‘ اس کے ہاں چلے جاتے۔ اس سے‘ ان کا کوئی
کام بھی نہیں تھا‘ اور ناہی کسی قسم کی‘ مالی غرض وابستہ تھی۔ وہ تو‘ کسی کو‘ جوں مار کر نہیں دیتا تھا۔ ہاں البتہ‘ چھینا اوربٹورنا خوب خوب جانتا تھا۔ پیر صاحب کے ساتھ موڈ اچھا ہوتا‘ تو ہنس ہنس کر باتیں کرتا‘ ورنہ نظرانداز کرتا۔ پیر صاحب تھے‘ ہر دو صورتوں کو‘ برابر لے رہے تھے۔ کوئی ایک بار نظرانداز کرتا ہے‘ تو آدمی‘ دوسری بار‘ ادھر کا رخ بھی نہیں کرتا۔ هللا جانے‘ پیر صاحب کس مٹی سے اٹھے تھے‘ کہ اس پلید کا یہ انداز‘ برداشت کر جاتے۔ سامنے کھانے کی پڑی چیزوں کو‘ ہاتھ تک نہ لگاتے۔ ایک دن پتا چال‘ کہ پیر صاحب نے‘ گلے میں رسی ڈال کر‘ پہایا لے لیا ہے۔ بڑی حیرت کی بات تھی‘ کہ پیر صاحب سموتھ زندگی کر رہے تھے۔ پرہیزگار اور باشرع شخص تھے۔ آخر انہوں نے‘ حرام موت کو‘ اپنا مقدر کیوں ٹھہرایا۔ پورے ایریے میں‘ سوال بن کر ابھرے‘ ہر زبان پر‘ الگ سے داستان تھی‘ لیکن یہ داستانیں‘ محض قیافے سے‘ گھڑی ہوئی تھیں۔ ان پر یقین کرنا‘ زیادتی کے مترادف تھا۔ مائی صاحبہ‘ یعنی اپنی بیگم کے رویے سے‘ دل برداشتہ ہو کر‘ حرام موت کو گلے لگا لیا۔ اس کہانی میں‘ کوئی دم نہ تھا۔ پاس پاس پڑے دو برتن‘ ٹکرا ہی جاتے ہیں۔ ساری عمر‘ مائی صاحب کے ساتھ گزارنے کے پعد‘ اب بڑپے میں‘ گلے میں پہایا ڈال کر‘ خودکشی کرنا یاد آ گئی۔ کیسی احمقانہ کہانی‘ گھڑی گئی تھی۔ دوسری کہانیاں بھی‘ بے سروپا تھیں۔ یہ کہانی چوں کہ نواب ہاؤس سے نکلی تھی‘
اس لیے معتبر خیال کی جا رہی تھی۔ پیر صاحب کے کتب خانے میں‘ جہاں اور بہت سی‘ نایاب کتب موجود تھیں‘ وہاں قلمی نسخے بھی موجود تھے۔ پیر صاحب کی موت کے بعد‘ کسی فاتح کی سی پیروی میں‘ سب جال‘ یا ضائع کر دیا گیا۔ اتفاق دیکھیے‘ میں عالقے کی روڑی کے قریب سے‘ گزر رہا تھا۔ میں چند لمحوں کے لیے‘ وہاں رکا ۔ جلے کاغذ‘ ہوا میں تیر رہے تھے‘ راکھ اڑ رہی تھی۔ اس پرحسرت منظر نے‘ مجھے افسردہ کر دیا۔ زمانے کا یہ عجب دستور ہے‘ کہ جانے والے کی‘ پلی پلی جمع کی گئی‘ یادوں اور فکری سرمائے کو تباہ و برباد کر دیا جاتا ہے‘ تا کہ سچائی حقیقت اور ماضی کے ورثے کو‘ کفن تک میسر نہ کیا جائے‘ اور ماضی کو‘ اپنی مرضی اور منشا کے مطابق‘ استوار کرکے‘ مستقبل کو منتقل کر دیا جائے۔ میں ان ہی سوچوں میں غرق تھا‘ کہ میری نظر ایک نسواری رنک کے لفافے پر‘ پڑ گئی۔ میں جلدی سے‘ اس کی جانب بڑھا۔ لفافہ خدا معلوم‘ جلنے سے کیسے بچ گیا تھا۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا‘ وہاں کوئی نہ تھا۔ میں نے‘ وہ لفافہ جیب میں ڈال لیا۔ پھر میں دبارہ سے‘ اس سامان حسرت پر‘ ایک نظر ڈالی‘ اور وہاں سے چل دیا۔ گھر آ کر‘ چند لمحوں کے لیے‘ ہاجراں اور بچوں کے پاس بیٹھا‘ پھر میں‘ اپنے کمرے میں آ بیٹھا اور بڑی احتیاط سے‘ لفافہ کھوال۔ لفافے میں پیر صاحب کا خط تھا۔ مجھے خط پڑھنے
کی‘ ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ میں نے دل مضبوط کرکے‘ خط پڑھنا :شروع کر دیا میری اس تحریر کو پڑھنے والے‘ تو خوش نصیب بھی ہے‘ اور بدنصیب بھی۔ خوش نصیب اس لیے‘ کہ جو ذمہ داری تیرے سر پرآنے والی ہے‘ وہ هللا کے پیاروں کے حصہ میں آتی ہے۔ بدنصیب اس لیے‘ کہ یہ ذمہ داری اتنی آسان نہیں۔ اب تمیہں‘ جہاں دنیا کو نھبانا ہے‘ وہاں هللا کی خوشنودی کے لیے‘ یہ فریضہ بھی انجام دینا ہے۔ میں جاتے جاتے‘ اپنی ذمہ داری نبھا رہا ہوں اور مجھے یقین ہے‘ کہ تم بھی نبھاؤ گے۔ یہ خط تمہیں مال ہے‘ کسی اور کو بھی مل سکتا تھا‘ گویا هللا نے تمہیں چن لیا ہے۔ مجھے معلوم تھا‘ کہ جو کام میں کر رہا ہوں‘ اس کے نتیجے میں‘ سدھار آ گیا‘ تو عالقہ جنت نظیر ہو جائے گا‘ اگر نہ آیا‘ تو میری جان جا سکتی ہے۔ میں باوجود تذلیل‘ نواب غالم حسین کے پاس جاتا تھا۔ انسانی بہبود کا کام کرتے‘ عزت اور بےعزتی کوئی معنؤیت نہیں رکھتے۔ اگر عزت‘ جاہ‘ جنت اور مال و منال کے لیے‘ اچھائی کی‘ تو یہ ذاتی غرض کے لیے ہوئی نا۔ انسان‘ پیدا ہی اچھا کرنے کے لیے ہوا ہے۔ اس سے‘ اچھا ہی ہونا چاہیے۔ هللا انسان‘ اور اس کے ہر کیے کو‘ زیادہ جانتا ہے۔
نواب غالم حسین‘ زمین پر ایک لعنت ہے۔ وہ انسانی‘ عزت‘ وقار اور خوش حالی کا‘ کھال دشمن ہے۔ وہ بڑا عیار اور مکار ہے۔ میرے قتل کے سلسلے میں‘ آواز تک‘ منہ سے نہ نکالنا‘ ورنہ تم بھی مارے جاؤ گے۔ تمہیں‘ ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ خیر اور نیکی پھیالتے‘ مارے جاؤ گے‘ تو شہید ٹھہرو گے۔ مت بھولنا‘ شہید مرتے نہیں‘ وہ هللا کے ہاں سے‘ خیر کا رزق پاتے ہیں۔ بیٹا‘ تمہیں غیر محسوس انداز میں‘ نواب غالم حسین‘ اور اس کے قریبیوں کی‘ اصالح کرنا ہے۔ ہو سکتا ہے‘ تم کامیاب ٹھہرو۔ کامیابی نہ بھی ہوئی‘ اور تم مارے جاؤ‘ تو کوئی بات نہیں‘ تم مرو گے نہیں‘ زندہ رہو گے۔ هللا کوئی اور بندوبست فرما دے گا۔ سفر کو‘ بہرصورت جاری رہنا چاہیے۔ میرا مارا جانا‘ ایسی کوئی بڑی بات نہیں۔ پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں‘ ایسا ہوتا آیا ہے‘ ہوتا رہے گا۔ یہ معمول کا مسلہ ہے۔ محسن کشی‘ پہلے سے چلی آتی ہے۔ محسن کشوں سے‘ قدرت سب کچھ چھین لیتی ہے‘ اور زمین و آسمان پر‘ ذلت و رسوائی‘ ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ حضرت ابراہیم‘ نمرود کے خیر خواہ تھے‘ اس نے صلہ میں اذیت دی۔ حضرت موسی‘ فرعون کے ہم درد تھے‘ لیکن وہ محسن کش نکال۔ سقراط‘ خیر
کی چلتی پھرتی عالمت تھا‘ اسے زہر پالیا گیا۔ حضرت عیسی‘ کوئی معمولی شخص نہ تھے۔ وہ‘ جن کا وہ بھال کر رہے تھے‘ وہ ہی انہیں صلیب تک لے آیا۔ حضرت دمحم کو‘ اچھا کرنے کے جرم میں‘ پتھر مارے گیے۔ ہر طرح کی ازیت دی گئی۔ حضرت حسین‘ خیر کے رستے پر تھے‘ جن کی بھالئی کر رہے تھے‘ اور انہیں جہنم کی آگ سےبچانے کے لیے‘ کوشش کر رہے تھے وہ ہی پرلے درجے کے بدکردار نکلے۔ منصور خیر کا پرچارک تھا‘ کتنی اذیت ناکی سے‘ اسے قتل کیا گیا۔ سرمد میں‘ ہند سچائی کا سورچ تھا‘ اس کے ساتھ کیا گیا‘ ہند کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ شاید تم بھی مارے جاؤ۔ بیٹا‘ ایک دن مرنا تو ہے ہی‘ کیوں نہ‘ انسان کی موت مرا جائے۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں‘ محسن کش‘ ابتر مرتے ہیں۔ قدرت ان سے‘ سب کچھ چھین لیتی ہے۔ نمرود چار سو سال‘ ذلت اٹھاتا رہا اور پھر ذلت کی موت مرا۔ فرعون کو‘ لمحہ بھر کو‘ چین میسر نہ تھا‘ اور برے انجام کو پنچا۔ سقراط کی موت کے بعد‘ یونان کو‘ کوئی زوال سے نہ بچا سکا۔ عیسی کی‘ خیر خواہی کے قاتل‘ بےنام ونشان ہو گیے۔ دمحم کی‘ انسان دوستی کے دشمنوں کو‘ دمحم ہی کے قدموں میں‘ پناہ ملی۔ حسین کے قاتلوں کو‘ طبعی موت نصیب نہ ہوئی‘ اور پھر بنو امیہ کے اقتدار کو‘ اندر ہی اندر گھن کھانے لگا۔ منصور
کے بعد‘ لعنتی مقتدر‘ ارضی اور سماوی لعنتوں کا شکار ہو گیا۔ سرمد کا قاتل‘ سرمد کے قتل کے بعد‘ اڑتالس سال برسراقتدار رہا۔ ایک لمحہ کے سکون ترستا مرا‘ اور پھر‘ مغلیہ اقتدار پر ذلت و خواری مسلط ہو گئی۔ انسانیت کے محسنوں کے قاتلوں کا‘ یہ ہی انجام ہوا کرتا ہے۔
بیٹا‘ یہ سب کچھ اس لیے لکھ گیا ہوں‘ کہ سچائی‘ ہر حال میں سچائی ہے۔ سچے لوگ ہی‘ هللا کے ہاں‘ مععتبر ٹھہرتے ہیں۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ تمہیں زندگی کے ہر موسم میں‘ بڑے غیرمحسوس انداز میں‘ نواب غالم حسین کو‘ خیر کی طرف مائل و قائل کرتے رہنا ہے۔ کام شروع کرو گے‘ تو هللا کی طرف سے‘ برکت کا‘ نزول ہوتا رہے گا۔ فکر نہ کرو‘ تم یہ سب کر سکو گے۔ میں یقین کے ساتھ‘ کہہ سکتا ہوں کہ هللا نے‘ تمہیں چن لیا ہے۔ هللا تمہار ہر قدم پر‘ حامی و ناصر ہو۔ فقط خدا بخش
پیر صاحب‘ مجھے عجب ذمہ داری‘ سونپ رہے تھے۔ مجھے خود ہدایت کی ضرورت ہے‘ میں کسی کو‘ کیا ہدایت دے سکتا ہوں۔ میں پیر فقیر تھوڑا ہوں۔ میرے باپ دادا نے‘ یہ کام نہیں کیا‘ میں کیا کر سکوں گا۔ پھر میں نے سوچا‘ یہ نیکی کیا ہوتی ہے۔ میں دیرتک سوچتا رہا۔ آگہی کے دروازے کھلتے گیے۔ یہ کوئی ایسی پچیدہ بات نہیں‘ سیدھی سادھی بات ہے۔ زنا‘ چوری‘ ہیرا پھیری‘ دغا بازی‘ ظلم‘ زیادتی‘ حق تلفی وغیرہ نہ کرو لوگوں کو اس سے بچنے کی تلقین کرو۔ سچ بولو‘ سچ بولنے کی ہدایت کرو انصاف کرو‘ انصاف کرنے کے لیے لوگوں کو کہو۔ دکھ درد میں‘ لوگوں کے کام آؤ۔ کسی دوسرے کا‘ مال غصب نہ کرو۔ صبر کرو‘ برداشت سے کام لو‘ اورمعاف کر دو۔ وہ مانیں نامانیں‘ تم انہیں کہتے رہو۔ میں دیر تک سوچتا رہا‘ پھر میں نے‘ یہ داری اٹھانے کا‘ فیصلہ کر ہی لیا۔ میں نے پیر صاحب کے خط کو‘ چوما‘ سینے لگایا۔
سکون‘ اطمنان اور ایک ٹھنڈک سی قلب وجان میں اتر گئی۔ پھر ہاجراں‘ غصے سے بھری‘ کمرے میں داخل ہوئی‘ اور میری غیر ذمہ داریوں کا رونا‘ رونے بیٹھ گئی۔ سچی بات تو یہ ہی ہے‘ کہ وہ سچی تھی‘ اور مجھے میری کوتاہیوں کا‘ آئینہ دے رہی تھی۔ اس کے چیخنے اور چالنے پر‘ میرا غصہ بنتا ہی نہ تھا۔ وہ دیر تک‘ بولتی رہی‘ میں سر جھکا کر‘ اپنی کوتاہیوں پر‘ مر مر مٹی ہوتا رہا۔ اچھی اور سچی بات کرنے واال‘ شاباش کا مستحق ہوتا۔ جب وہ چپ ہوئی‘ تو میں نے‘ اس کی طرف‘ مسکرا کر دیکھا‘ اور سوری کی۔ وہ حیران تھی‘ کہ آج مجھے کیا ہو گیا ہے۔ تھوڑی دیر تک‘ منہ کھولے بیٹھی رہی اور پھر مسکراتی ہوئی ‘ اٹھ کر چلی گئی۔ یقین مانیے‘ اس وقت‘ اس کے چہرے پر‘ گالبوں کا حسن اتر آیا تھا۔ رات کا سماں ہوتا‘ تو چاند‘ اس کے چہرے کی روشنی دیکھ کر‘ شرمندگی کی کھائی میں جا گرتا۔ سچائی کی جیت کا‘ یہ پہال قدم تھا۔
اسے پیاسا ہی رہنا ہے کریم بخش صاحب‘ سابقہ فوجی تھے۔ بچوں کی شادی سے فارغ ہو چکے تھے۔ اب دونوں میاں بیوی‘ اپنے آبائی مکان میں‘ زندگی بسر کر رہے تھے۔ شدید بڑھاپے کے باوجود‘ بڑے الڑٹ اور رکھ رکھاؤ کی زندگی‘ بسر کر رہے تھے۔ جہاں کہیں‘ کوئی مسلہ اٹھتا‘ اس کے حل کے لیے‘ پیش پیش رہتے۔ ڈسپلن‘ ان کی رگ وپے میں رچ بس گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا‘ کہ ڈسپلن کے بغیر زندگی متوازن نہیں ہو سکتی۔ آج بےچینی‘ بےسکونی اور چھینا جھپٹی‘ ڈسپلن سے انحراف کے باعث ہے۔ وہ صرف کہتے ہی نہیں تھے‘ بلکہ ان کی اپنی زندگی بھی‘ اسی کے تحت گزری۔ سالم دعا والے تھے‘ کوئی کام بھی‘ پہلے کروا سکتے تھے۔ قطار میں کھڑے ہوتے‘ اور اپنی باری پر‘ کام کرواتے تھے۔ ٹائم کے بڑے پابند تھے۔ جہاں جانا ہوتا‘ مقررہ وقت پر جاتے۔ لوگ لیٹ جانے میں‘ فخر محسوس کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا‘ جو وقت کی قدر نہیں کرتا‘ کامیاب زندگی گزار ہی نہیں سکتا۔ غرض ڈسپلن اور ٹائم کے معاملہ میں‘ بڑے سخت واقع ہوئے تھے۔ وہ صرف کہنے کی حد تک نہ تھے۔ اور کوئی پرواہ کرے یا ناکرے‘ خود کوتاہی نہ کرتے تھے۔ صبح ٹھیک پانچ بجے آٹھ کر‘ جملہ حاجات سے فارغ ہو کر‘
بیٹھک کی صفائی کرتے۔ مجال ہے‘ گرد یا کوئی تنکا تک‘ کہیں نظر آ جاتا۔ پھر نہا دھو کر‘ دھلے اور استری شدہ کپڑے پہن کر‘ بیٹھک میں جا بیٹھتے۔ یوں جلدی جلدی تیاری کر رہے ہوتے‘ جیسے دفتر جانا ہو اور کہیں لیٹ نہ ہو جائیں۔ بیٹھک میں‘ میز کرسی لگی ہوتی‘ جس پر کتاب‘ قلم اور ایک ڈائری پڑی ہوتی۔ لوگوں کا‘ ان کے پاس آنا جانا رہتا تھا۔ کوئی‘ خط لکھوانے کے لیے آ رہا ہے‘ تو کوئی خط پڑھانے کے لیے۔ لوگ‘ اپنے کاموں کے سلسلے میں‘ درخواستیں لکھوانے کے لیے آنے۔ غور وفکر کے بعد‘ درخواستیں لکھتے۔ درخواست میں‘ کمال کے نقطے اٹھاتے۔ پڑھ کر‘ عقل دنگ رہ جاتی۔ وہ لوگوں کے یہ چھوٹے موٹے کام‘ مفت میں کرتے تھے۔ جب فارغ ہوتے‘ کتاب پڑھنے بیٹھ جاتے۔ ان کے پاس‘ کتابوں کا اچھا خاصا‘ ذخیرہ تھا۔ ان میں‘ شاعری‘ ناول اور تاریخ کی بھی کتابیں تھیں۔ اصولی باتوں پر سمجھوتا کرنا‘ انہوں نے سیکھا ہی نہ تھا۔ ایک بار‘ وہ اپنے بیٹے سے بھی خفا ہو گیے۔ ہوا یہ‘ کہ ان کا بڑا بیٹا‘ جو بڑا ماڈرن قسم کا تھا‘ هللا کا‘ اے چھوٹا ڈالتا تھا۔ انہوں نے اسے‘ کئی بار‘ هللا کا اے‘ بڑا ڈالنے کے لیے کہا۔ اس کے باوجود‘ وہ هللا کا اے چھوٹا ڈالتا رہا۔ انہوں نے اسے بڑے سخت انداز میں ڈانٹا۔ جوابا طاہر نے کہا :ابو بڑا ہو یا چھوٹا‘ اس سے کیا فرق پڑتا
ہے۔ کیا فرق پڑتا ہے‘ یہ تم کیا پکتے ہو۔ کیا هللا اسم خاص نہیں ہے! اگر ہے تو اصولی طور پر‘ اے بڑا ہی ڈالنا چاہیے۔ یہ اصول کی کھلی خالف ورزی ہے۔ دوسرا جو شخص‘ اپنے هللا کی‘ عزت نہیں کرتا‘ گویا وہ اپنی عزت نہیں کر رہا ہوتا۔ ایسا شخص‘ دوسروں کی خاک عزت کرے۔ زندگی کا ہر قرینہ‘ ادب سے وابستہ ہے۔ ۔۔۔۔۔۔باادب بامراد‘ بے ادب بے نصیب۔ اس سے‘ انہوں نے‘ بول چال ہی بند کر دی۔ طاہر نے‘ توبہ کی اور اس گستاخی کی‘ ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی۔ دیکھنے میں‘ یہ کوئی‘ ایسا بڑا معاملہ نہیں لگتا‘ لیکن اپنی اصل میں یہ معاملہ معمولی نہیں ہے۔ ایک دن میں اور فتح خاں‘ ان کی بیٹھک میں جا بیٹھے۔ وہ مطالعہ کر رہے تھے۔ سالم کا جواب دینے کے بعد‘ بیٹھ جانے کا اشارہ کیا۔ پیرہ ختم ہونے کے بعد‘ انہوں نے ہماری طرف بڑی شفقت اور پیار سے دیکھا۔ اس کے بعد‘ چائے پانی کا پوچھا۔ ہم نے کہا :نہیں جناب‘ اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ پھر مجھے مخاطب کرکے بولے :جی ماسٹر صاحب‘ آج آنے کی کیسے زحمت اٹھائی۔
سر ایک مسلے پر‘ آپ سے گفت گو کرنے کا‘ ارادہ لے کر حاضر ہوئے ہیں۔ تو پھر بالتکلف کہیے بچپن میں ایک کہانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پیاسا کوا۔۔۔۔۔۔۔۔ پڑھا کرتے تھے۔ آج بھی‘ وہ ہی کہانی‘ کورس میں شامل ہے۔ ماسٹر صاحب‘ یہ کہانی‘ ہمارے کورس میں بھی شامل تھی اور اس کہانی کو‘ کورس میں شامل رہنا ہے۔ کوئی عام آدمی ہوتا‘ تو ہمیں ڈانٹ پال کر کہتا‘ یہ بھی کوئی سوال ہے۔ ہوش کے ناخن لیں‘ اور کوئی ڈھب کا سوال کریں۔ انہوں نے تو دانش کے دریا بہا دیے۔ ان کی گفت گو میں‘ کمال کی روانی تھی۔ سچی بات ہے‘ میں عش عش کر اٹھا۔ مجھے اپنی کوڑ مغزی پر‘ دکھ ہوا۔ مجھے تو‘ ہفتے میں ایک دو بار‘ ان کے پاس بیٹھنا چاہیے تھا۔ کہنے لگے تمہیں یا مجھے‘ گنتی کے سالوں سے‘ کوا پیاسا نظر آ رہا ہے۔ کوا تو ہزاروں سال سے‘ پیاسا ہے اور اسے پیاسا ہی رہنا ہے۔ وہ اس مشقت میں پڑا آ رہا ہے۔ هللا تمیں‘ مزید سو سال زندگی دے۔ لکھ لو‘ سو سال بعد بھی‘ تم کوے کو‘ پیاسا ہی دیکھو گے۔ محنت کے بعد بھی‘ کنکریاں چوسنے کو ملتی ہیں۔ وہ بھی تو پیاسی ہوتی ہیں۔ پانی سے ماالقات کے بعد‘۔۔۔۔۔۔۔ اول خویش بعد درویش۔۔۔۔۔۔ کے مصداق‘ وہ اپنی پیاس بجھائیں گی۔ اہل ثروت‘ گھڑا خالی کرکے‘ گیے تھے۔ گھڑا انہوں
نے‘ خود سے نہیں بھرا تھا۔ گھڑا بھر کر النے واال‘ کوئی اور ہوتا ہے۔ بھرنے والے کو‘ اس میں سے‘ ایک گھونٹ نہیں ملتا۔ حاالں کہ پہال استحقاق‘ اسی کا ہوتا ہے۔ استحقاق کا تسلیم نہ ہونا‘ ہی تو معاشی ڈسپلن کو ڈسٹرب کرنے کے مترادف ہے۔ کیا شداد نے‘ اپنے خون پسینے کی کمائی سے‘ ارم تعمیر کیا تھا۔ نہیں‘ بالکل نہیں۔ کمائی تو لوگوں کی تھی۔ فرعون‘ جس ٹھاٹھ سے رہتے تھے‘ اس کا تصور بھی‘ آج کے حکم ران نہیں کر سکتے۔ مرتے تو‘ ناصرف عمارت تعمیر ہوتی ساز و سامان اور خدام بھی‘ ساتھ میں بند کر دیے جاتے۔ کیا یہ سب‘ ان کی کمائی سے کیا جاتا تھا۔ انہیں‘ کوے کی پیاس سے کوئی غرض نہ تھی۔ یونان کے برسر اقتدار طبقے کا‘ رہن سہن کھانا پینا اور شان و شوکت مثالی تھی۔ یہ سب‘ انہیں ذاتی مشقت کا صلہ مل رہا تھا۔ کوے کو‘ گھڑا تب بھی خالی ملتا تھا۔ یہ تو کافی پہلے کی باتیں ہیں‘ کیا شاہ جہاں نے‘ پلے داری کرکے‘ پیسے کمائے اور پھر اس سے‘ تاج محل تعمیر کیا۔ لوگوں کا مال تھا‘ اسی لیے مال مفت دل بےرحم کی سی بات تھی۔ ملکہ نور جہاں‘ جسے جہاں گیر نے‘ اس کے خاوند کو‘ جنگ میں مروا کر‘ حاصل کیا‘ اس کا مقبرہ اتنی لمبی چوڑی زمین پر
تعمیر کروایا‘ جو خرچہ اٹھا‘ کیا وہ اس کی محنت کی کمائی ‘سے اٹھا تھا۔ نورجہاں ہو‘ کہ ممتاز محل‘ نبی زادیاں تھیں‘ نبی زادی کی تو قبر بھی بلڈوز کر دی گئی۔ پانی بھرنے والوں کو‘ ایک گالس پانی نصیب نہ ہوا۔ کوے کو کس طرح میسر آ جاتا۔ گورا ہاؤس اور اس کے گماشتوں کے‘ ایوان جا کر دیکھو‘ پھر سوچنا‘ کوا آج بھی‘ ترقی یافتہ دور میں‘ کیوں پیاسا ہے۔ عام آدمی کے حصہ میں‘ جوٹھ میٹھ بھی‘ بڑے سرفہ کی آتی ہے۔ جوٹھ میٹھ پر‘ ایوانوں کے گماشتے ٹوٹ پڑتے ہیں۔ وہاں سے‘ جو بچتا ہے‘ وہ لوگوں کو میسر آتا ہے۔ ایسے حاالت میں‘ کوے کی پیاس‘ کس طرح بجھ سکتی ہے۔ یہ سب‘ معاشی ڈسپلن میں خرابی کے سبب ہوا‘ اور ہو رہا ہے۔ سر آپ جو فرما رہے درست فرما رہے ہیں۔ کیا یہ پیاس‘ آبادی بڑھ جانے کے سبب نہیں ہے۔ ناں ناں‘ ناں یہ سب بکواس‘ اور هللا کے رازق ہونے سے‘ انکار کے مترادف ہے۔ ہر پیدا ہونے واال‘ اپنا رزق لے کر پیدا ہوتا ہے۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا‘ کہ اس کا رزق‘ اس کے ساتھ نہ آئے۔ اس کا رزق ارم بنانے والوں‘ یا اس کا رزق کھا کر‘ مر جانے والوں کو‘ فراہم کیا جاتا ہے۔ ماسٹر صاحب‘ یہاں شخص ہزاروں سال سے‘ بھوکا پیاسا ہے۔ ایسے حاالت میں‘ کوے کی پیاس کون دیکھتا ہے۔ اسے پیاسا ہی رہنا ہے۔ هللا نے‘ اس کے
حصہ میں پیاس نہیں رکھی۔ معاشی ڈسپلن کو‘ تباہ کرنے کے باعث‘ کوے کی پیاس نہیں بجھ رہی۔ باتیں ہو رہی تھیں‘ کہ فجا آرائیں آ گیا۔ اس نے سالم بوالیا‘ اور راشن کارڈ کے مطابق‘ راشن نہ ملنے کے خالف درخواست لکھنے کی‘ گزارش کی۔ فوجی صاحب نے‘ بات وہیں ختم کر دی ۔ ہمیں مخاطب ہو کر کہا‘ سوری ماسٹر صاحب‘ معاشی ڈسپلن کی خرابی کا‘ کیس آ گیا ہے۔ پہلے اسے نپٹانے کی ضرورت ہے۔ پھر وہ‘ درخواست لکھنے میں مصروف ہو گیے۔ ہمیں یوں نظرانداز کر دیا‘ جیسے ہم وہاں موجود ہی نہ ہوں۔
یہ کوئی نئی بات نہ تھی
حامد صاحب اور شکیل صاحب‘ گہرے دوست ہی نہیں‘ کالس فیلو بھی تھے۔ دونوں نے پہلی جماعت سے بی اے تک‘ اکٹھی تعلیم حاصل کی۔ حامد صاحب نے‘ الء کالج میں داخلہ لے لیا‘ جب کہ شکیل صاحب ایم اے نفسیات کرنے کے لیے‘ الہور چلے گیے۔ حامد صاحب وکیل بن کر ضلع کچہری میں وکالت کا پھٹا
لگا کر بیٹھ گیے۔ شکیل صاحب نے بھی‘ ایم اے نففسیات کر لیا۔ پھر وہ لیکچرر منتخب ہو کر‘ کسی کالج میں خدمت انجام دینے لگے۔ جمعرات کو آتے‘ اور جمعہ کی چھٹی گزار کر‘ واپس چلے جاتے۔ درمیان میں کوئی اور چھٹی آ جاتی‘ تو بھی گھر آ جاتے۔ جب آتے‘ حامد صاحب سے ضرور مالقات کرتے۔ شاید ہی‘ کوئی چھٹی‘ مالقات کے بغیر‘ گزری ہو گی۔ وہ گھر میں بیٹھنے کی بجائے‘ راج ٹی ہاؤس میں‘ آ بیٹھتے۔ دو دو گھنٹے‘ وہاں بیٹھے رہتے۔اتنی دیر میں‘ تین چار کپ چائے‘ ڈکار جاتے۔ ان کی باتیں‘ عمومی دل چسپی سے‘ قطعی ہٹ کر ہوتیں۔۔ یہ ہی وجہ ہے‘ کہ بہت کم لوگ‘ ان کی ٹیبل پر آ کر بیٹھتے تھے۔ بس دور سے‘ سالم کرکے‘ کسی دوسری ٹیبل پر‘ بیٹھ جاتے۔ ان کی بحث میں‘ گرمی کی شدت بڑھ جاتی۔ بعض اوقات‘ یوں لگتا‘ جیسے لڑ رہے ہوں۔ غور کرنے پر‘ معلوم ہوتا‘ وہ لڑ نہیں رہے‘ ان کا انداز بس لڑنے کا سا ہے۔ حامد صاحب یوں بات کر رہے ہوتے‘ جیسے کورٹ میں کھڑے‘ اپنے کسی سائل کی بھرپور انداز میں‘ وکالت کر رہے ہوں۔ شکیل صاحب بھی کچھ کم نہ بولتے تھے۔ ان کی گففت گو پر‘ کالس میں دیے جانے والے لیکچر کا گمان گزرتا۔۔ ہر بات‘ حوالے کے ساتھ کرتے۔ باتیں‘ اگرچہ عصری و شخصی مسائل کے متعلق ہوتیں‘ لیکن ان کا انداز گفت گو‘ عوامی نہ ہوتا۔ کچر مچر مارتے رہتے۔ غیر
سنجیدہ باتوں کے لیے بھی‘ سنجیدہ طرز اظہار اختیار کرتے۔ دوران گفت گو‘ اگر کوئی لطیفہ بازی کرتے‘ تو وہ بھی جمہوریت کی طرح‘ ذو معنی اور طرح دار ہوتی۔ وہ خود ہنس پڑتے‘ لیکن وہاں بیٹھا کوئی شخص‘ رونی صورت بنانے کی زحمت تک نہ اٹھاتا۔ اس دن‘ اللے دالور کی بیٹی‘ جو اپنے آشنا کے ساتھ‘ رات گھر سے‘ زیور اور نقدی لے کر نکل گئی تھی‘ ان کی گفت گو کا موضوع تھی۔ پہلے مرکب ۔۔۔۔۔ نکل جانا ۔۔۔۔۔ زیر بحث رہا۔ پروفیسر صاحب کا موقف تھا‘ لفظ نکل جانا‘ باپ کی انا کو‘ مزید گرزند پنچانے کے مترادف ہے۔ اس سے‘ باپ کا مورال‘ مزید ڈاون ہو گا۔ وکیل صاحب کا موقف یہ تھا‘ کہ دغا دے گئی‘ فریب دے گئی‘ کہہ لو یا نکل گئی کہہ لو‘ بات ایک ہی ہے۔ بالکسی نتیجے‘ بات آگے بڑھی۔ وکیل صاحب کے نزدیک‘ ان کے گھر جا کر‘ افسوس کرنا چاہیے۔ قانونی امداد کی پیش کش کرنی چاہیے۔ پروفیسر صاحب کا کہنا تھا‘ سردست ان لوگوں کو‘ ان کے حال پر‘ چھوڑ دینا چاہیے۔ وہ شاک میں ہیں‘ اس موضوع پر بات کرنے سے‘ تضحیک کے ساتھ ساتھ‘ یہ امر ذہن کو مشتعل کرنے کے مترادف ہوگا۔ اس بحث کا بھی کوئی نتیجہ نہ نکال۔
حامد صاحب نے کہا‘ نکاح شخص کا‘ فطری اور شخصی حق ہے۔ گھر والوں نے‘ لڑکے کا انتخاب کر لیا یا شخص نے‘ خود اپنا جیون ساتھی چن لیا‘ بات ایک ہی ہے۔ اس میں انسرٹ والی‘ کیا بات ہے۔ اگر یہ غلط ہو‘ تو عدالت میں‘ روزانہ ہونے والے‘ سیکڑوں نکاح نہ ہوں۔ عدالت‘ انہیں اجازت نامہ جاری کرتی ہے۔ قانون اجازت دیتا ہے‘ تب ہی تو عدالت‘ اجازت نامہ جاری کرتی ہے۔ پروفیسر صاحب‘ عدالت کے جاری کردہ پروانوں کو‘ درست تسلیم کر رہے تھے۔ وہ یہ بھی مان رہے تھے‘ کہ عدالت ریاستی قانون کے تحت ہی‘ پروانے جاری کرتی ہے۔ انہیں‘ بچوں کے اس طریقہ کار سے اختالف تھا۔ بہت سے‘ ایسے واقعے ہوتے ہیں‘ جس میں والدین کو خبر تک نہیں ہوتی۔ بعض واقعات میں صرف والد بےخبر ہوتا ہے۔ وکیل صاحب کا موقف تھا‘ کہ بچے یہ قدم اس وقت ہی اٹھاتے ہیں‘ جب انہیں یقین ہوتا ہے‘ کہ والدین راضی نہیں ہوں گے۔ دوسری صورت میں‘ مائیں اور بچے‘ ابا حضور کی ہٹ دھرمی سے‘ آگاہ ہوتے ہیں۔ دنیا کہاں سے‘ کہاں تک پہچ گئی ہے‘ اور ہم ان الیعنی مسائل میں‘ الجھے ہوئے ہیں۔ پروفیسر صاحب‘ ان کے اس موقف سے‘ متفق نہ تھے۔ ان کا کہنا تھا‘ کہ اس ذیل میں‘ ہم دوہرے معیار کا شکار ہیں۔ ہم دوسروں کے لیے‘ اس پہلو سے سوچتے ہیں‘ لیکن اپنے لیے‘
سوچ کا یہ انداز نہیں رکھتے۔ پروفیسر صاحب نے کہا‘ اگر تمہاری بیٹی‘ اس قسم کی بےوفائی کرئے‘ یا تمہاری ماں کسی سے عشق پیچہ ڈال لے‘ اور پھر خلع کا مقدمہ دائر کر دے‘ تو تمہارا کیا ردعمل ہو گا۔ وکیل صاحب اچھل پڑے‘ اور کہنے لگے‘ یہ تم کیا بات کر رہے ہو۔ بات سوسائٹی کی ہو رہی ہے‘ اور تم پرسنل ہو گیے ہو۔ میری ماں بیٹی شریف ہیں‘ وہ اس قسم کی‘ کیوں حرکت کریں گی۔ پروفیسر صاحب نے‘ فلک بوس قہقہ داغا اور کہا سوچ کا دوہرا معیار‘ سامنےآ گیا نا۔ دوسرا تم خود ہی‘ اسے غیر شریفانہ حرکت‘ قرار دے رہے ہو۔ تمہاری بیٹی اور ماں کے لیے‘ یہ حرکت غیر شریفانہ ہے۔ سوسائٹی کی دوسری عورتوں کے لیے شریفانہ‘ اور ریاستی قانون کے دائرے میں آتا ہے۔ قہقہے کے ساتھ ہی‘ انہوں نے چائے کآ آرڈر جاری کر دیا۔ یہ ان کا‘ تیسرا کپ تھا۔ وکیل صاحب نے کیک النے کے لیے بھی کہہ دیا۔ وکیل صاحب‘ تھوڑے دھیمے پڑے‘ لیکن وہ اپنی بات پر‘ اڑے ہوئے تھے‘ وہ معاملے کو‘ ذاتیات سے باالتر ہو کر‘ اور سوسائٹی کے تناظر میں‘ دیکھنے پر زور دے رہے تھے۔ پروفیسر صاحب‘ فقط ایک قہقے کے بعد ہی‘ سنجیدہ ہو گیے۔
فرمانے لگے‘ یار ہم مشرقی لوگ ہیں‘ ہماری سوسائٹی پدری ہے۔ اسے مغربی سوسائٹی پر‘ محمول نہ کرو۔ شخص جہاں ریاستی قانون کا پابند ہے‘ وہاں سوسائٹی کےاصولوں کو بھی‘ کسی سطح پر نظرانداز نہیں کر سکتا۔ نظرانداز کرئے گا‘ تو سکھ چین سے‘ جی نہ سکے گا۔ ہماری سوسائٹی‘ ماں بہن اور بیٹی کی‘ اس نوعیت کی‘ بےوفائی کی اجازت نہیں دیتی۔ اس سوساٹی میں‘ باپ ہوتا ہے‘ اور وہ ہی امور انجام دیتا ہے۔ وہ اندر باہر کا‘ جواب دہ ہوتا ہے۔ اچھا برا‘ اسی کے سر پر آتا ہے۔ وہاں‘ باپ ثانوی درجہ بھی نہیں رکھتا۔ آج امریکا کا طوطی نہیں‘ بھونپو بولتا ہے۔ جاؤ‘ جا کر‘ تاریخ کا مطالعہ کرو‘ پھر تمہیں پتا چل جائے گا‘ کہ وہ برطانیہ سے فرار‘ لٹیروں کی نسل ہیں۔ وہ کیا سوسائٹی بنائیں گے‘ جن کی پیروی میں‘ تم یہ سب کہہ رہے ہو۔ اس بات پر‘ حامد صاحب چمکے‘ اور بولے‘ یار کیا بکواس کر رہے ہو‘ میں چھے سال‘ مغرب میں رہا ہوں۔ تمہاری بھابی بھی‘ ادھر سے کی ہے۔ دیکھو‘ وکیل ہو کر‘ پوائنٹ دے رہے ہو۔ کیا مطلب کیا تم اپنی بیوی‘ یعنی میری بھابی کو‘ اس کی معاشرت کے لباس میں‘ اس کی معاشرت کے مطابق‘ آزادی دے سکتے ہو۔
نہیں‘ بالکل نہیں۔ گویا موصوفہ کو‘ ہمارے معاشرتی لباس اور اصول اپنانا پڑے ہیں نا۔ یہ معاشرتی ضابطے ہیں‘ جو اپنانا پڑتے ہیں۔ ان کو اپنائے بغیر‘ گاڑی نہیں چل سکتی۔ یہ راونڈ‘ بالشبہ پروفیسر صاحب کے ہاتھ لگا تھا۔ نکاح کیا ہے دو فریقین کی مرضی دریافت کرنا۔ دو فریق‘ بھاگ کر‘ یا کورٹ میرج کر لیتے ہیں۔ کیا یہ فریقین کی مرضی کی صورت نہیں ہے۔ دکھاؤ‘ کہاں گئی تمہاری پروفیسری۔ اسالم جب نکاح کو‘ مرضی قرار دیتا ہے‘ تو ہم یا ہماری سوسائٹی‘ اس کی راہ میں کیسےآ سکتی ہے۔ اسالم نے بولتی بند کر دی ناں۔ حامد بھائی‘ اسالم ہر عہد کا مذہب ہے‘ اور یہ ہر عہد کے لیے‘ جدید ترین مذہب ہے۔ اسالم‘ شخص کو خرافات سے نجات دالتا ہے۔ یہ ہی نہیں‘ یہ انسانی فطرت کا ساتھ دیتا ہے۔ انسان کی خیر خواہی اور ظفر مندی کا خواہاں رہتا ہے۔ بالشبہ‘ نکاح‘ طرفین کی ایما دریافت کرنے کا نام ہے‘ اور اس ضمن میں‘ ہر قسم کے‘ جبر کی‘ اسالم مخالفت کرتا ہے۔ اسالم‘ حجاب اور محرم نامحرم کے بارے میں بھی‘ کچھ کہتا ہے۔ حجاب کی تاکید کیوں کرتا ہے‘ تاکہ بےحیائی کا رستہ نہ
کھل جائے۔ حجاب نہ ہونے کی صورت میں‘ مرد اور عورت مسکراہٹ سے‘ معاملے کا‘ آغاز کریں گے۔ پھر قریب قریب بیٹھیں گے۔ یہ بیٹھنا‘ عمومی چھونے کا سبب بنے گا۔ عموم خصوص کی طرف‘ مراجعت کرئے گا۔ نازک اعضا سے‘ مخصوص اعضا کو چھونے‘ اور تصرف میں النے کا کام شروع ہو جائے گا۔ موصوفہ کا پیٹ پھولے گا۔ نوبت ابارشن تک پہنچے گی۔ پیٹ نہ بھی پھولے‘ ویرج کا تو ضیاع ہو گا۔ انسانی ویرج‘ کس پائے کی چیز ہے‘ کسی سائنس دان سے‘ جا کر پوچھو۔ وکیل صاحب‘ نکاح سے پہلے‘ یہ سب‘ کیا اسالم درست اور جائز قرار دیتا ہے۔ اسالم نے‘ خرابی روکنے کے لیے ہی تو‘ حجاب کو‘ ازبس ضروری قرار دیا ہے۔ حامد صاحب نے‘ گھڑی پر ایک نظر ڈالی‘ اور پھر ایک دم بولے‘ او مائی گاڈ‘ چھوٹے کو‘ ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہے۔ پھر وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ اٹھتے ہوئے‘ پروفیسر صاحب بولے‘ اب سمجھ میں‘ یہ بات آ گئی ہو گی‘ کہ مادری اور پدری سوسائٹی میں‘ کیا فرق ہوتا ہے۔ باپ ایک ذمہ دار رشتہ ہے۔ دکھ سکھ‘ اچھا برا اس کے دامن میں جاتا ہے۔ بیٹی کے دغا دینے پر‘ اسے شاک تو ہو گا۔ وکیل صاحب نے‘ جواب میں‘ کیا کہا ہو گا‘ یہ تو معلوم نہ ہو سکا‘ کیوں کہ اس وقت تک‘ وہ ہوٹل سے‘ باہر نکل گیے تھے۔ ہاں اتنا ضرور ہے‘ کہ چار چاہیں ڈکارنے‘ اور ڈھائی گھنٹے
گفت کرنے کے باوجود‘ وہ کسی حتمی نتیجے کا منہ‘ نہ دیکھ سکے تھے۔ یہ کوئی نئی بات نہ تھی‘ ہر بار‘ یہ ہی کچھ ہوتا تھا۔
دروازے سے دروازے تک
تین چار سال کی بچی کے ساتھ‘ زیادتی کرنے واال‘ انسانی روپ میں درندہ‘ کئی روز‘ چلتے پھرتے سوتے جاگتے‘ اس کے دل و دماخ پر‘ دکھ اور درد کے ہتھوڑے‘ برساتا رہا۔ انسانی ماررکیٹ میں‘ شوقین ترین عورتوں کی موجودگی میں‘ اس نے چھوٹی سی‘ معصوم سی‘ تین چار سال کی بچی ہی کو‘ کیوں منتخب کیا۔ اتنی چھوٹی بچی کو‘ تو بڑوں کی محبت‘ شفقت‘ الڈ اور پیار میسر آنا چاہیے۔ چھوٹے چھوٹے‘ منہ سے توتلی زبان میں‘ نکلنے والے لفظ‘ تو روح و قلب میں‘ آسودگی اتارتے ہیں۔ انہیں اچھلتے کودتے‘ اور اٹھکلیاں بھرتے دیکھ کر‘ انسان بڑے سے بڑا دکھ‘ بھی بھول جاتا ہے۔ ان کی ادائیں اور ناز نخرے‘ دیکھ کر فرشتے کیا‘ ساری آسمانی مخلوق جھوم جھوم جاتی ہو گی۔ اسے بصد غور کرنے کے بعد بھی‘ معلوم نہ ہو
سکا‘ کہ اس انسان سے شخص کا‘ کیسی اور کہاں کی‘ مخلوق سے تعلق ہو گا‘ جو اس ناقابل یقین سطح پر‘ اتر آئی ہے۔ وہ گریب آدمی نہیں تھا کھاتے پیتے گھرانے کا تھا۔ مال کے حوالے سے‘ شوقین مال‘ مل جانا‘ ناممکنات میں نہ تھا۔ جب کام چالنا‘ اور گزرا کرنا ہو‘ تو روزن نشاط کے چھوٹا‘ بڑا یا بےکنار ہونے سے‘ کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ہر دو صورتوں میں‘ ٹائم پاس ہو جاتا ہے۔ قبروں پر پھول چڑھتے آئے ہیں‘ ان کھلے غنچے‘ توڑے نہیں جاتے‘ ان کے پھول بننے کا‘ انتظار کیا جاتا ہے۔ جب غنچے قبروں پر چڑھنے لگیں‘ سمجھو گلستان کی اب خیر نہیں۔ ایسے گلستان کے پودے‘ کسی وقت بھی‘ اس سے ڈنگر کا‘ پہوجن بن سکتے ہیں۔ ڈنگر کی آنکھ‘ حسن شناس نہیں ہوتی۔ وہ پیٹ ہی سے دیکھتا اور سوچتا ہے۔ کسی گھاس خور کا‘ چھوٹا سا بچہ اور اس کی اٹھکیلیاں‘ کسی درندے کے لیے‘ معنویت نہیں رکھتیں۔ اسے دیکھتے ہی‘ درندے کو بھوک محسوس ہونے لگتی ہے۔ درندے کی یہ فطرت ہے‘ اور اسی لیے اسے درندہ کہا جاتا ہے۔ کافی سوچنے‘ اور غور کرنے کے بعد‘ اسے معلوم ہوا‘ کہ وہ اسی بستی کا باسی تھا۔ اس سے طور اطوار کے‘ بہت سے‘ انسان سے‘ اس کے قرب وجوار میں‘ بستے تھے۔ انسانوں کی بستی میں‘ آخر ان کا کیا کام۔ یقینا یہ راکھشش لوک سے‘ یہاں انسانی بہروپ میں‘ وارد ہوئے تھے۔ انسانوں کے ساتھ مل کر‘
مذہبی امور بھی انجام دیتے تھے‘ بلکہ یہ اس ذیل میں‘ اوروں سے‘ کہیں بڑھ کر تھے۔ چرچ‘ مندر‘ گرو دوارے‘ مساجد وغیرہ میں‘ شریف صورت بنا کر‘ حاضر ہوتے تھے۔ کسی پہٹھے کام کا‘ ان کے متعلق سوچنا بھی‘ گناہ کبیرہ محسوس ہوتا ہے۔ اکبر صاحب‘ گریبوں اور بیواؤں کی مدد کرنے میں‘ بڑی شہرت رکھتے تھے۔ وہ ان کی بڑی عزت کرتا تھا۔ اسے ان کا لباس اور چہرہ‘ فرشتوں جیسا لگتا تھا۔ اس نے‘ ان کی آنکھوں کو‘ کبھی پڑھنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی تھی۔ مزدور کی مزدوری‘ رو دھو کر عطا کرتے تھے۔ یہ ہی نہیں‘ اس میں ڈنڈی مارنا‘ فرض عین سمجھتے تھے۔ سوہنی گریب خواتین کے لیے‘ بڑا ہی نرم گوشہ رکھتے تھے۔ بوڑھا ریٹائر ماسٹر عیسی‘ آج بھی اس کے لیے‘ بڑا محترم اور معزز تھا‘ لیکن وہ اس کے‘ کرتوت نہیں جانتا تھا۔ پنشن لینے‘ دور دراز کے گاؤں سے آتا تھا۔ پنشن کلرک حاجی صاحب کو‘ نقد نہ سہی‘ گاؤں کی کوئی سوغات‘ گنے وغیرہ‘ تو ال کر دے سکتا تھا۔ مگر کہاں اتنی توفیق۔ حاجی صاحب‘ اس کی پنشن بک‘ سب سے نیچے رکھ دیتے تھے۔ وہ دور کھڑا‘ بک بک کرتا رہتا تھا۔ اس کی بک بک سے‘ حاجی صاحب تنگ آ گیے تھے۔ ایک دن‘ جب آخر میں باری آئی‘ تو حاجی صاحب نے کہا‘ یہ لو پنشن بک‘ کل آنا‘ دفتر ٹائم ختم ہو گیا ہے‘ یہ کہہ کر‘ کھڑکی بند کر دی۔ ماسٹر نے‘ مندا بولنے کی حد ہی کر دی۔
اگلے دن بھی‘ حاجی صاحب نے اسے‘ سارا دن کھڑا کیے رکھا۔ دفتر ٹائم ختم ہونے کے وقت کہا‘ یہ لو پنشن بک‘ اور حیاتی پروانہ‘ کسی بڑے افسر سے‘ تصدیق کروا کر الؤ۔ ماسٹر پھر بولنے لگا۔ حاجی کا موقف درست تھا پنشن بک کی تصویر‘ ان کی موجودہ شکل سے‘ کسی طرح‘ میل نہ کھاتی تھی۔ اس راکھشش آلواد بستی میں‘ اس کے سوا‘ کوئی ماسٹر کو‘ درست قرار نہیں دے رہا تھا۔ سب حاجی صاحب کے موقف کو‘ درست قرار دے رہے تھے۔ وہ زندہ ہے‘ کا تصدق نامہ النا اشد ضروری تھا۔ سوچوں کے اس بےسرے طوفان نے‘ اس کے اعصاب کو‘ بری طرح متاثر کیا۔ ساری دنیا‘ دوسروں کے دکھ درد سے التعلق ہو کر‘ پیٹ پوجا کا سامان‘ اکٹھا کرنے میں مصروف تھی۔ وہ تھا‘ کہ اوروں کے لیے‘ سوچ سوچ کر‘ بالوجہ ہلکان ہو رہا تھا۔ ان کے لیے‘ جو اسے خبطی کہتے تھے۔ اور تو اور‘ اس کے گھر والے بھی‘ اسے کریک خیال کرتے تھے۔ وہ اکلوتا کمائی کا ذریعہ تھا‘ اسی لیے‘ اسے باامر مجبوری‘ برداشت کر رہے تھے‘ ورنہ کب کا‘ گھر سے نکال باہر کرتے۔ اب وہ نڈھال سا ہو گیا تھا۔ اس سے چلنا دشوار ہو گیا تھا۔ پھر وہ‘ ایک سڑکی ہوٹل میں‘ داخل ہو گیا۔ اس ہوٹل میں‘ تیسرے اور چوتھے درجہ سے متعلق لوگ‘ چائے وغیرہ پیتے تھے۔ ہوٹل میں بڑی گہما گہمی تھی۔ لوگ مختلف موضوعت پر گفت
گو کر رہے تھے۔ ان کی گفت گو کے حوالہ سے‘ سماجی‘ معاشرتی اور شخصی نفسیاتی معامالت کا‘ باخوبی اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔ اصل رونا‘ معاش کا رویا جا رہا تھا۔ یوں لگتا تھا‘ جیسے ہر کوئی‘ صدیوں کی بھوک‘ اٹھائے پھرتا ہے۔ وہ آسودگی کے لیے‘ یہاں آیا تھا‘ لیکن یہاں آ کر‘ مزید بور ہوا۔ ہاں البتہ‘ دو تین بنچوں پر ہونے والی گفت گو‘ باطور خاص‘ اس کی توجہ کا سبب بنی۔ ایک صاحب بتا رہے تھے‘ کہ فالں عالمہ صاحب‘ خطاب کے لیے بالئے گیے۔ ان سے خطاب وغیرہ سے تھوڑا پہلے‘ دریافت کیا گیا‘ کہ حضرت کھانے میں‘ کدو شریف پکا لیا جائے۔ انہوں نے جوابا فرمایا‘ گنارگار آدمی ہوں‘ میں کدو شریف کے کب الئق ہوں۔ بس‘ کوئی آوارہ سا‘ مرغا پکڑ لیں۔ خطاب کے بعد‘ بڑا مختصر کھایا۔ ہانڈی کی‘ بڑی عزت افزائی ہوئی۔ گھر والوں کو‘ خدشہ پیدا ہو گیا‘ کہ کہیں ہانڈی ہی نہ کھا جائیں۔ سحری پیٹ بھر کی۔ صبح اٹھ کر‘ ناشتہ پانی طلب کر لیا۔ میزبان نے‘ حیرانی سے پوچھا‘ حضرت آپ کا تو روزہ ہے۔ بولے بھائی میں سفر میں ہوں۔ کچھ لوگ کلرک شاہی کی داداگیری پر گفت گو کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک کہنے لگا طوائف اورکلرک میں کیا فرق ہے۔ دوسرا دونوں سجے سجائے ہوتے ہیں۔ ہاں طوائف سائل کی جیب ہلکی کرنے کے لیے اداؤں نخروں اور مسکراہٹوں سے
کام لیتی ہے۔ کلرک بادشاہ گھرکیوں کو استعمال میں التا ہے۔ سائل اس کے سامنے بھیگی بلی بنا رہتا ہے۔ پیسے دیتا ہے کھانا کھالتا ہے اس کے باوجود خجل خواری اس کا مقدر ٹھہرتی ہے۔ دفتر میں بیٹھنے تک کی زحمت نہیں دی جاتی۔ ایک پیر صاحب کی بھی بات ہو رہی تھی۔ ان کے ایک مرید‘ انہیں بڑا کرنی واال بتا رہے تھے۔ ان میں ایک صاحب وہابی سے تھے‘ وہ متواتر بحثے چلے جا رہے تھے۔ ایک مقروض کا‘ دعا کے لیے آنے کا قصہ چال۔ اس نے‘ پیر صاحب کی خدمت میں‘ نقدی نذر نیاز پیش کی‘ اور قرض اترنے کی دعا کے لیے‘ گزارش کی۔ پیر صاحب نے دعا فرمائی۔ اس وہابی کا نقطہءنظر یہ تھا‘ کہ یہ پیری مریدی سب فراڈ ہے۔ وہ کرنی والے تب تھے‘ اس مرید نے جو نذر نیاز پیش کی‘ پلے سے ناسہی‘ وہ ہی میدان میں رکھ دیتے‘ اور حاضرین کو‘ مدد کی ترغیب دیتے۔ قرض تو اسی وقت اتر سکتا تھا ہو سکتا ہے‘ کوئی ایک مرید ہی‘ اس مقروض کا قرض اتار دیتا۔ ان میں سے‘ کوئی بھی‘ اپنے موقف سے‘ دست بردار ہونے کا‘ نام ہی نہ لے رہا تھا۔ آخر‘ بات تپھڑوں اور گھونسوں تک پنچ گئی۔ کچھ لوگ‘ انہیں چھڑانے میں مصروف ہو گیے‘ کچھ نے‘ کھسکنے میں عافیت جانی۔ دو ایک‘ لڑائی کا اسکور جاننے کے لیے‘ رک گیے۔ اس نے سوچا‘ مارنے واال سمجھتا ہے‘ کہ وہ باال دست رہا‘ حاالں کہ یہ سوچ‘ خود فریبی اور خوش فہمی سے‘ زیادہ اہمیت
نہیں رکھی۔ اس الیعنی بحث اور لڑائی کے باعث‘ سکون کے سر پر‘ پتھر لگا۔ مارنے والے کی‘ توانائی زیادہ خرچ ہوئی۔ دونوں فریقوں کے مابین‘ دوامی رنجشن نے راہ پائی۔ دونوں فریق اعصابی تناؤ کا شکار ہوئے۔ جتنی بار مارا‘ اتنی بار چوٹ‘ مارنے والےکو بھی لگی۔ بات بھی کوئی ایسی بڑی نہ تھی۔ انہیں ایک دوسرے کو‘ دالئل سے‘ قائل کرنا چاہیے تھا۔ کیا سارا اسالم‘ اسی مسلے میں آ گھسا تھا۔ وہ آرام اور سکون کی غرض سے‘ ہوٹل میں جا بیٹھا تھا۔ وہاں ہونے والی باتوں اور لڑائی سے‘ مزید آوازار ہو گیا۔ وہ بوجھل قدموں سے‘ گھر کی طرف چل دیا۔ لڑائی دیکھ کر‘ اسے یقین ہو گیا‘ کہ انسانی بستی میں‘ انسانی روپ میں‘ راکھشش بھی آ بسے ہیں‘ یا یہ بستی‘ راکھششوں کے سایہ کی زد میں‘ ضرور آ گئی ہے۔ سوچوں کے گہرے سائے تلے‘ آہستہ آہستہ چلتا ہوا‘ اپنے گھر کے دروازے تک‘ پہنچ گیا۔ دروازے سے دروازے تک کا یہ سفر‘ اسے صدیاں کا سفر محسوس ہوا۔ قدسیہ کا گرجنا برسنا‘ یقینا غلط نہ ہو گا۔ اس نے سوچا‘ میں بھی کیسا شخص ہوں‘ صدیاں الیعنیت میں گزار کر‘ گھر خالی ہاتھ لوٹ آیا ہوں۔ مجھے غیر تو یاد رہے‘ یہ یاد نہ رہا‘ کہ بچوں کے لیے‘ چکی سے آٹا لینے نکال تھا۔ پھر وہ سر جھکائے‘ گھر میں داخل ہو گیا۔
وہ کون تھے
افضل چنگا بھال‘ ہٹا کٹا اور محنتی انسان تھا۔ پہلے گندم منڈی میں‘ پلے داری کرتا تھا‘ بعد میں‘ دستی ریڑی بنا لی۔ اس سے‘ جہاں مزدوری میں اضافہ ہوا‘ وہاں آسانی بھی ہو گئی۔ اس کی بیوی عنائتاں‘ ناصرف نیک اور شریف عورت تھی‘ بال کی جفاکش بھی تھی۔ بڑے سلیقے سے‘ گھر چال رہی تھی۔ اس کے منہ میں‘ ہر وقت شکر کا کلمہ رہتا۔ لباس نیا تو نہ ہوتا ‘ ہاں صاف ستھرا ضرور ہوتا تھا۔ اس جوڑی کو‘ توتے مینا کی جوڑی کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ ان کے گھر سے‘ کبھی کسی نے‘ اونچی آواز نہ سنی تھی‘ شائد وہ لڑتے ہی نہ تھے۔ اس جوزی کے باہمی تعلق کو‘ بالمبالغہ مثالی قرار دیا جا سکتا تھا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ وہ بائی نیچر‘ صلح جو اور ہم درد لوگ تھے۔ محلے کے دکھ سکھ میں‘ اپنوں کی طرح شریک ہوتے تھے۔ ان کی شرافت کے سبب‘ محلے کے چھوٹے بڑے‘ ان کی عزت کرتے تھے۔ ایک دن‘ افضل کام سے آیا‘ تو وہ کچھ ٹھیک نہ تھا۔ سینے میں‘ درد کی شکایت کر رہا تھا۔ عنائتاں نے کافی اوڑ پوڑ کیا۔
نیم گرم کڑوے تیل سے‘ مالش بھی کی۔ اس کی‘ اس پرخلوص خدمت سے‘ افضل کو کچھ سکون مال‘ اور پھر وہ‘ گہری نیند سو گیا۔ عنائتاں بھی‘ سارے دن کی محنت کی وجہ سے‘ تھکی ہوئی تھی‘ اوپر سے‘ افضل کی پریشانی آ گئی تھی۔ اسے بھی گہری نیند نے آ لیا۔ فجر کی نماز کے لیے‘ افضل کو‘ عنائتاں نے‘ اٹھانا چاہا‘ لیکن وہ نہ اٹھا۔ پھر اس نے‘ اسے زور سے ہالیا‘ اس کا جسم برف ہو چکا تھا۔ اس کے چہرے پر‘ کرب کا نام و نشان تک نہ تھا۔ بالکل نارمل اور ہشاش بشاش چہرا تھا۔ وہ تو ابدی نیند سؤ چکا تھا۔ عنائتاں لٹ گئی تھی۔ وہ جوانی میں بیوہ ہو گئی تھی۔ قدرت کے کاموں میں‘ کب کوئی دخل دے سکتا ہے۔ کچھ بھی کر لو ہونی ٹلتی نہیں۔ عنائتاں کے سر پر‘ ناصرف اپنا‘ تین بچوں کا بوجھ بھی‘ آ پڑا۔ وہ بالشبہ‘ بڑی صابر اور شاکر عورت تھی۔ اس نے‘ کبھی کسی کے سامنے‘ دست سوال دراز نہ کیا۔ وہ سمجھتی تھی‘ کہ اس سے‘ افضل کا کفن میال ہو گا۔ رات کو جرخا کاتتی‘ صبح کو دو تین گھروں میں‘ برتن کپڑے وغیرہ صاف کرتی۔ بڑی خوددار عورت تھی۔ اس کی ہمت اور حوصلے کی‘ داد نہ دینا‘ سراسر زیادتی کے مترادف ہو گا۔ چند سالوں میں‘ محض ہڈیوں کا‘ ڈھیر ہو کر رہ گئی۔ لیکن ایک بات ہے‘ اس نے بچوں کو‘ پھولوں کی طرح پاال۔ وقت کی گرمی سردی‘ اس نے اپنی جان پر برداشت
کی۔ بچوں کے سکول کا‘ لباس صاف ستھرا ہوتا۔ ان کے بستے‘ خود تیار کرتی۔ ہر بستے میں‘ کھانے کی کوئی ناکوئی چیز‘ ضرور رکھتی۔ جب وہ سکول جانے لگتے‘ انہیں گلے لگاتی‘ چومتی اور پیار کرتی‘ دروازے تک چھوڑنے جاتی‘ اس کا موقف تھا‘ کہ میری تو جیسے تیسے گزر گئی ہے‘ میرے بچے تو‘ آسودہ زندگی بسر کریں گے۔ جوان اور قبول صورت تھی‘ عقد ثانی‘ اس کا شرعی حق تھا۔ دو تین پیغام بھی آئے‘ لیکن اس نے صاف انکار کر دیا۔ بچوں کی خاطر‘ اس نے اپنی ذات کو‘ یکسر نظر انداز کر دیا تھا۔ اس دنیا میں‘ شخص اپنی ذات سے باہر‘ ایک قدم بھی ادھر ادھر نہیں ہوتا۔ شخص کو نقصان پچانے سے پہلے‘ نقصان پنچانے واال‘ یہ کیوں نہیں سوچتا‘ کہ اتنا بڑا کرنے میں‘ کسی ماں کو‘ کیا کچھ‘ کرنا پڑا ہو گا۔ کتنی مشقت اٹھانا پڑی ہوگی۔ اذیت دینے واال بھی‘ کسی ماں کا بیٹا ہوتا ہے‘ اگر وہ غور کرے‘ کہ اس کی ماں‘ اسے بڑا کرنے کے لیے‘ کن مراحل سے گزری ہو گی۔ ماں اس کی ہو‘ یا اس کی‘ عزت کی مستحق ہوتی ہے۔ ماں کا منہ دیکھتے ہوئے‘ اگر معافی کو شعار بنایا جائے‘ تو خرابی جنم ہی نہیں لے سکتی۔ مجھے اچھی طرح یاد پڑتا ہے‘ کہ میری اماں نے مرغی پال رکھی۔ وہ اکیس دن انڈوں پر بیٹھی۔ حاجت اور کچھ کھانے یینے کے لیے‘ چند لمحوں کے لیے نیچے اترتی۔۔ اکیس دن کے بعد‘
چھوٹے چھوٹے‘ ننھے ننھے بچے نکلے۔۔ ایک انڈا گندا نکال۔ وہ بار بار‘ اس کی طرف پھرتی تھی۔ پالتو بلی تو الگ‘ آوارہ بلی کا آنا‘ مرغی۔۔۔۔۔۔۔ ہاں مرغی نے‘ جو کم زور ترین جانور ہے‘ بند کر دیا۔ اڑا کر‘ اس کی آنکھوں کو نشانہ بناتی۔ حاالں کہ مرغی بلی کا شکار ہوتی ہے۔ مرغی کو ایک طرف رکھیے‘ گیڈر بزدل ترین‘ جانور شمار ہوتا ہے۔ میں چشم دید بات بتا رہا ہوں‘ ایک گیدڑی نے بچے دیے تھے۔ اس نے سانہہ کتوں کا‘ ادھر گزرنا بند کر دیا۔ آج سوچتا ہوں‘ تو یقین نہیں آتا۔ لیکن یہ سب ہوا‘ میں نے اپنی انکھوں سے دیکھا۔ میں ایک درخت کے نیچے‘ تھوڑی دیری سستانے کے لیے رکا۔ مادہ کوا نے بچے نکال رکھے تھے۔ چند ہی لمحے بعد‘ مادہ کوا نے‘ میرے ماتھے پر ایسا ٹہونگا مارا‘ کہ مجھے نانی یاد آ گئی۔ میں نےانہیں نقصان کیا پنچانا تھا مجھے تو ان کے ہونے کا علم تک نہ تھا۔ بچے جانور کے ہوں‘ یا انسان کے بڑے پیارے لگتے ہیں۔ ان کی اٹھکیلیاں دل کو موہ لیتی ہیں۔ انہیں مار دینا‘ پتھر دلی کی حد ہوتی ہے۔ پیدائش سے مکاشفہ تک‘ الف الم سے والناس تک‘ بھگوت گیتا اور رامائن میں سے‘ کوئی حوالہ نکال کر دکھا دیں‘ جس میں بچوں پر تشدد یا قتل کر دینے کا حکم موجود ہو۔ حضرت مہاآتما بدھ کی تعلیمات‘ ہتھیا کی اجازت نہیں دیتیں۔ گرو
گرنتھ صاحب کا‘ میں نے ایک ایک شبد‘ ٹٹوال ہے‘ کہیں بچوں کے قتل یا ان پر ظلم کا حکم موجود نہیں۔ میں نےانٹر نیٹ پر‘ جنگ عظیم دوم کے حوالہ سے‘ ایک تصویر دیکھی۔ چھوٹے چھوٹے‘ معصوم‘ پیارے پیارے بچوں کو‘ ننگے پاؤں سپاہیوں کی بندوق کی نوک پر‘ بھاگتے دیکھا۔ ایک چھوٹی سی بچی‘ بامشکل بھاگ رہی تھی۔ میری آنکھوں کے سامنے‘ عنائتاں گھوم گئی۔ ان کی ماں‘ کس طرح‘ صبح سویرے اٹھ کر‘ انہیں الڈ پیار سے‘ گلے لگا کر‘ سکول بھیجا کرتی ہو گی۔ اچھا ہوا‘ وہ مر گئیں۔ وہ یہ سب دیکھ نہ پاتیں۔ وہ ان سیاہیوں کے ڈکرے ڈکرے کرنے کی کوشش کرتیں۔ میرا اس دھرتی سے‘ کوئی رشتہ نہیں۔ وہ بچے‘ میرے حسب ونسب سے متعلق نہیں ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود‘ میں ساری رات‘ بےچینی اور پریشانی سے‘ بستر پر کروٹیں لیتا رہا۔ میں سوچتا رہا‘ آخر وہ کون تھے۔ انہیں انسان کہنا‘ انسانیت کی تذلیل و توہین ہے۔ وہ کسی انسانی ماں کی اوالد ہو ہی نہیں سکتے۔ انہیں انسانی ماں کی اوالد کہنا‘ کسی بھی سطح پر‘ درست قرار نہیں پا سکتا۔ کسی انسانی ماں کی اوالد‘ کسی دوسری ماں کی اوالد پر‘ ظلم کی اس حد تک جا ہی نہیں سکتی۔ بندوق کی نوک‘ سر جھکانے پر مجبور کر سکتی ہے‘ لیکن اس سے‘ دل فتح نہیں ہو سکتے۔ قبضہ و تصرف کی ہوس‘ تصادم کے دروازے کھولتی ہے۔ ماں
کی محنت‘ مشقت اور پیار سے‘ پروان چڑھنے والے بچوں کو لہو میں نہالتی ہے۔ تلوار کی فتح کو‘ فتح کا نام دینا‘ کھلی جہالت ہے۔ ہاں ماں کے سے‘ پیار سے‘ دل جیتو‘ تاکہ کمزور طبقے‘ سکھ کا سانس لے سکیں اور انسانیت‘ سسکنے بلکنے ‘سے
پنگا
آدمی کے‘ دنیا کی جملہ مخلوق سے برتر ہونے میں‘ کسی قسم کے شک و شبہ کی‘ گنجائش ہی نہیں‘ لیکن اس کا ذاتی گمان یا چمچوں کڑچھوں کی جھوٹی تعریف و تحسین‘ اسے وہ کچھ سمجھنے پر مجبور کر دیتی ہے‘ جو وہ اپنی ذات میں ہوتا نہیں۔۔ بال کا طاقت ور ہونے کے باوجود‘ المحدود نہیں۔ اگر وہ ان حدود میں رہتے ہوئے‘ زندگی کرئے گا‘ تو نقصان سے بچ جائے گا۔ مورخ کو‘ محمود کا سترواں حملہ یاد ہے‘ سوالں حملوں کے متعلق‘ ایک لفظ پڑھنے سننے کو نہیں ملتا۔ اس کا کتنا جانی نقصان ہوا یا اس نے کتنا جانی نقصان کیا‘ ریکارڈ میں موجود نہیں۔ باقی باتیں چھوڑیں‘ بچے کو جوان کرتے
کرتے‘ ماں کا کیا حال ہو جاتا ہے‘ کسی ماں سے پوچھا چاہیے۔ یہ بات ماں سے پوچھنے کی ہے۔ جب بھی شخص‘ اپنے متعلق غلط اندازہ لگاتا ہے‘ نقصان اٹھاتا ہے۔ وہ خود مرتا‘ یا اس کے اپنے مرتے‘ تو ہی اندازہ ہوتا۔ لوگ مرے تھے‘ اس لیے اسے درد کا‘ کیا اندازہ ہوتا۔ یہ غالبا چالیس سال سے پہلے کی بات ہے۔ میری چناب رینجرز کی کسی پوسٹ پر ڈیوٹی تھی۔ ٹائیگر بڑا زبردست کتا‘ بھی اس پوسٹ پر برسوں سے چال آتا تھا۔ اب وہ بوڑھا ہو گیا تھا‘ لیکن اس کی پھرتیاں دیکھنے الئق تھیں۔ اچانک کھرک کی زد میں آ گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے‘ اس کی بڑی بری حالت ہو گئی۔ چلتی کا نام گاڑی ہے‘ دھتکار دیا گیا۔ جو بھی اسے دیکھتا‘ ناصرف دھتکارتا‘ مارنے کے لیے بھی دوڑتا۔ قریب کے گاؤں میں‘ ایک کوبرا نکل آیا۔ سانپ کیا تھا‘ بہت بڑی بال تھا۔ اس نے رستہ ہی ڈک دیا۔ مال ڈنگر تو الگ‘ اس نے لوگوں کا رستہ بھی روک لیا۔ اسے گولی مارنے کا فیصلہ کیا گیا۔ دریں اثنا‘ کھرک خوردہ بوڑھے ٹائیگر کا بھی‘ ادھر جانا ہو گیا۔ رینجرز کا کتا تھا‘ کوبرا اسے دوسری طرف جانے نہیں دے رہا تھا۔ کیا ہوا کہ وہ بوڑھا اور کھرک خوردہ تھا۔ تھا تو رینجر کا ٹائیگر۔ ہار ماننا‘ تو اس کے کاغذوں میں ہی نہ تھا۔
اسی کشمکش میں‘ کئی منٹ گزر گیے۔آخر کوبرے کا داؤ چڑھ گیا‘ وہ ڈنگ مارنے میں‘ کامیاب ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی‘ ٹائیگر کے منہ میں‘ کوبرے کا درمیانہ حصہ آ گیا تھا۔ ٹائیگر ڈنگ لگتے ہی‘ جان بحق ہو گیا تھا‘ لیکن اس کے دانت بھینچے گیے۔ دانت کیا پڑے‘ جمور پڑ گیا۔ کوبرے کی بےچینی‘ بےبسی اور بےچارگی‘ ایک زمانہ دیکھ رہا تھا۔ ٹائیگر کے‘ ماضی و حال کے قصے‘ ہر زبان پر تھے۔ خون اور کھرک کی گند پر‘ چونٹیوں اور مکھیوں کا آنا ‘ فطری سی بات تھی۔ ٹائیگر جان دے کر‘ قابل قدر جیت سے‘ ہم کنار ہوا تھا۔ کوبرا تڑپ پھڑک رہا تھا۔ چونٹیوں اور مکھیوں کی آمد سے‘ لطف میں ہر چند اضافہ ہو رہا تھا۔ مرا تو کس کے ہاتھوں‘ بوڑھے اور کھرک زدہ کتے کے ہاتھوں۔ ٹائیگر امر ہو گیا تھا۔ اس نے اندھی اور بےلگام طاقت کو‘ جان دے کر‘ بےبسی بےچارگی اور عبرت ناک موت مرنے پر‘ مجبور کر دیا تھا۔ اگر کوبرا طاقت کے نشے میں‘ حدود تجاوز نہ کرتا‘ تو نشان عبرت نہ بنتا۔ اس نے خود ہی‘ پنگا لیا تھا۔ اس پنگے کا بھگتان‘ اسے بڑا مہنگا پڑا۔ کسی باددشاہ کے جی حضوریوں نے‘ تعریفیں کر کر کے‘ اسے طاقت کے آسمان پر بیٹھا دیا۔ ایک صاحب نے‘ تو یہاں تک کہہ دیا‘ کہ حضور کی تو‘ دریا کی لہروں پر بھی حکومت ہے۔ دنیا کی ہر شے‘ آپ کی تابع اور فرمابردار ہے۔ ایک روز‘ اس نے
دریا کنارے‘ تخت لگانے کا حکم دیا‘ تخت لگ گیا۔ جی حضوریوں کے ہجوم میں‘ جی حضور‘ جی سرکار کے‘ سریلے بول سنتا ہوا‘ بڑی شان اور بڑے جاہ وجالل کے ساتھ‘ تخت پر جلوہ افروز ہوا۔ پرلطف فضا و ماحول نے‘ نشے کو دو آتشہ کر دیا۔ پھر اچانک ۔۔۔۔۔ ہاں بالکل اچانک۔۔۔۔۔۔۔۔ایک لہر آٹھی‘ بہت سے جی حضوریوں کو‘ بہا کر لے گئی۔ بادشاہ کی ٹانگیں اوپر ہو گیں۔ اس کی حالت‘ پانی سے نکلے چوہے کی مانند ہو گئی۔ اس نے ایک بچ رہنے والے‘ دریائی گرفتہ سے‘ دریافت کیا کہ فالں تو کہتا تھا‘ آپ کی دریا کی لہروں پر بھی‘ حکومت ہے‘ تو پھر دریا کو‘ کس طرح اور کیوں جرآت ہوئی۔ اس چمچے نے‘ حقیقت کہنے کی بجائے‘ پڑوس کے‘ ایک حکم ران پر الزام رکھ دیا‘ کہ یہ اس کی سازش ہے۔ نمرود کی طرح اس کہوتے کو‘ عقل نہ آئی اور وہ الؤ لشکر سمیت‘ اس پر چڑھ دوڑا۔ جہاں المحدود اختیار کا‘ گمان لے ڈوبتا ہے‘ وہاں چمچے کڑچھے بھی‘ لٹیا ڈبو دیتے ہیں۔ موسی خود کو جانتے تھے۔ انہیں‘ اس امر سے خوب آگہی حاصل تھی‘ کہ انہیں هللا کی تائید حاصل ہے۔ اگر انہیں یہ اگہی حاصل نہ ہوتی‘ تو وہ دریا میں‘ اتنے لوگوں کو‘ ساتھ لے کر‘ سفر جاری نہ رکھتے۔ فرعون کو‘ اپنی خدائی کا پورا پورا یقین تھا‘ یا یقین دلوا دیا گیا تھا‘ تب ہی تو‘ اس نے دریا میں فوجیں
ڈال دیں۔ اس سے‘ وہ ناصرف فوج سے‘ ہاتھ دھو بیٹھا بلکہ عزت بھرم اور پہلے سی شان و شوکت سے بھی گیا۔ یہ عبرت‘ آتی نسلوں کے لیے‘ حجت بنی رہی۔ ذاتی گمان اور چیلوں چمٹوں کی الیعنی اور مطلبی جی حضوری‘ اندھی اور بے لگام طاقت نے‘ کچھ باقی نہ رہنے دیا۔ یونان کے‘ سکندر کے ساتھ بھی‘ یہ ہی کچھ ہوا‘ چال تھا دنیا فتح کرنے۔۔ وہ سمجھتا تھا‘ کہ میں ناقابل فتح ہوں۔ چوری خور مورکھوں نے‘ اسے سکندر اعظم کے القاب سے ملقوب کیا۔ حقیقت یہ ہے‘ کہ وہ تہری شکست سے‘ دو چار ہوا۔ اس کی اپنی فوج نے‘ مزید آگے بڑھنے سے انکار کیا۔ زخمی ہوا۔ ہدف کی حصولی کے بغیر ہی‘ واپسی کا ٹکٹ کٹوانا پڑا۔ اٹھتی طاقت‘ جرمن اور ہٹلر کے متعلق‘ چرچل نے غلط اندازہ لگایا۔ امریکہ درمیان میں نہ آتا‘ تو برطانیہ کے تو‘ ستو بک چکے تھے۔ کوبرے کی سی‘ موت مرتا۔ جرمن اور ہٹلر کا‘ پوری انسانی برادری پر احسان ہے‘ کہ اس نے کبھی نہ سیر ہونے والی‘ جونک سے نجات دالئی۔ اس نے معاش خور قوم کو‘ وہاں سے نکال باہر کیا۔ برطانیہ نے اسے آباد کیا۔ مصر سے فرار ہونے واال‘ یہ بارہواں قبیلہ‘ آج پوری دنیا کا بااختیار
اور معزز ترین‘ قبیلہ ہے۔ حق سچ تو یہ ہی ہے‘ کہ وہ گرم ہواؤں میں‘ چپکے ہو گیے اور تصادم سے دور رہے۔ صبر و برداشت سے‘ وقت گزارا۔ اندر خانے‘ وہ قوم محنت کرتی رہی‘ آج اسے‘ اس کا پھل مل رہا ہے۔ برطانیہ نے پنگا لیا‘ اور اس پنگے کے نتیجہ میں‘ ناہیں کے گھنگھٹ میں مکھڑا چھپاتے اس کی بنی۔ خاوند کو غرور تھا‘ کہ وہ کما کر التا ہے‘ اور اس کی بیوی کا ہاتھ‘ نیچے ہے۔ ایک جنگ میں‘ بیوی کو ماں بہن کہہ بیٹھا۔ مولوی نے‘ کفارے میں‘ مرغے کی دیگ ڈال دی۔ رات کو‘ چل قریب بیٹھے‘ آگ تاپ رہے تھے۔ بیوی نے بڑی ہم دردی سے کہا‘ کملیا ماں بہن نہ کہتے‘ تو سات سو روپے کی دیگ‘ تو نہ ٹہکتی۔ تفاخر ابھی تک‘ سر پر سوار تھا۔ اس نے جوابا کہا‘ توں پیو نوں نہ چھیڑ دی۔ میں نے‘ اس سے ملتی جلتی‘ بہت سی مثالیں‘ ثریا کے گوش گزار کیں‘ لیکن خود کفالتی کا بھوت‘ ابھی تک‘ اس کے سر پر سے‘ نہیں اترا تھا۔ اس کے خیال میں وہ کسی کی محتاج نہیں‘ اور خود سے‘ باآسانی زندگی کر سکتی ہے۔ دو روپے کی ماچس تک‘ پلے سے‘ نہیں منگواتی تھی۔ ماہانہ ملنے والی معقول پنشن سے‘ ایک اکنی صرف کرنا‘ جرم عظیم سمجھتی تھی۔ مجھ سے‘ روپے کے اٹھاراں آنے وصول کرکے بھی‘
اسے روپیہ تسلیم نہیں کرتی تھی۔ ایک بار‘ مجھے ضرورت پڑی‘ تو کہنے لگی‘ میرے پاس‘ بیس ہزار زکوات کے پڑے ہیں‘ جو میں نے‘ اپنی بہن بےبی کو‘ دینے ہیں۔ کئی دن خجل خوار کرنے کے بعد‘ دے تو دیے‘ لیکن ریڈیو پر اعالن کرنا‘ باقی رہ گیا‘ ورنہ شائد ہی‘ کوئی رہ گیا ہو گا‘ جسے بتایا نہ ہو گا۔ اسے زعم تھا‘ کہ وہ میرے بغیر‘ گزارہ کر سکے گی‘ بلکہ اس نے کہا‘ اس ظالم دنیا سے‘ مجھے فوری طور پر‘ چھٹکارا حاصل کر لینا چاہیے‘ تا کہ وہ آزاد زندگی بسر کر سکے۔ ایک نہ ایک دن‘ مرنا ہی ہے‘ اب ہی کیوں نہیں‘ مر جاتا۔ گویا آج کا کام‘ کل پر چھوڑنا‘ کسی طرح مناسب نہیں۔ میرے مرنے سے‘ وہ اور اس کا وچارا بھائی‘ اپنے بیٹے سے‘ میری بیٹی کی شادی کرکے‘ میری اور ثریا کی جمع پونجی سے‘ پچرے اڑا سکے گا۔ فریحہ‘ اس کی بیوی مر گئی تھی۔ اس کی پنشن سے‘ تو گھر نہیں چل سکتا تھا۔ محنت مزدوری سے‘ گھر چالیا‘ تو کیا چالیا۔ ثریا کو جو میں نے‘ سوا سولہ تولے زیوار اور پاؤ بھر چاندی کے زیوار بنا کر دیے تھے‘ وہ بھی وچارے بھائی زادے کے کام آ سکے گا۔
نمرودد ہو کہ فرعون‘ سکندر ہو کہ محمود‘ برطانیہ ہو کہ ثریا‘ بنیادی روال‘ تو سوا سولہ تولے سونے اور پاؤ بھر چاندی کا ہے‘ یا تین مکانوں کا ہے‘ جو میری ملکیت میں ہیں‘ اور پچاس الکھ سے زیادہ مارکیٹ رکھتے ہیں۔ ہوس‘ اللچ‘ زعم اور بےلگام طاقت‘ خود بھی ڈوبتی ہے‘ اوروں کو بھی لے ڈوبتی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے‘ کہ وہ میری بات سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ یہ تو‘ قدرت کے نظام سے‘ پنگا لینے والی بات ہے۔ قدرت کے نظام سے‘ پنگا لینے والوں کا‘ انجام بڑا ذلت ناک ہوتا رہا ہے۔
دائیں ہاتھ کا کھیل
سلیم صاحب کے سسر دمحم عمر نے‘ ابتدا میں سائیکل پر‘ پھیری کا کام شروع کیا۔ صبح سویرے نکل جاتا‘ شام کو‘ گھر لوٹ کر آتا۔ چھان ٹکروں کا بورا‘ ساتھ میں ہوتا۔ صبح سویرے‘ مال ڈنگر والے آتے‘ اور سارا کا سارا مال لے جاتے۔ بڑے محنتی‘
اور بھلے آدمی تھے۔ ادھار دینا‘ ان کے اصول میں نہ تھا۔ تول کے بڑے کھرے‘ اور ایک نمبری تھے۔ لینے کے بانٹ‘ ذرا بڑے تھے۔ ہاں دینے کے بانٹ‘ تھوڑا چھوٹے تھے۔ جوان آدمی تھے‘ وزن کے تھوڑا کم یا زیادہ ہونے سے‘ کیا فرق پڑتا ہے۔ زندگی‘ تگنی کا ناچ نچاتی ہے‘ ایسے میں‘ معمولی ریلف بھی‘ غنیمت ہوتا ہے۔ گھر کا خرچہ چالنا‘ آسان کام نہیں‘ اوپر سے‘ غمی خوشی میں‘ ضرور شرکت کرتے تھے۔ کرایہ خرچ کرکے جاتے تھے۔ یہ ہی وجہ ہے‘ کہ ہر دو صورتوں میں‘ ان کا پورا ٹبر‘ آدھی دیگ تو چٹ کر جاتا ہو گا۔ سادا مہمان نوازی‘ انہیں بڑا بور کرتی تھی۔ ہاں اپنے ہاں‘ دعوت شیراز کے قائل تھے۔ ان کے اس انداز کو‘ دوہرا معیار نہیں کہا جا سکتا۔ اسے رواں زندگی کا‘ اصولی طریقہ کہنا‘ زیادہ مناسب ہو گا۔ حیثیت سے بڑھ کر خرچہ‘ زندگی کو آسودگی سے دور کر دیتا ہے۔ ہر کسی سے کہتے‘ چادر کے مطابق پاؤں پھیالنے سے‘ خرابی جنم نہیں لیتی۔ جب کہیں سادہ سی تقریب ہوتی‘ تو فرماتے یار خوشی روز روز تو نہں آتی‘ اسے ڈھنگ سے اور جی کھول کر منانا چاہیے۔۔ انہیں محنت اور عصری مزاج سے‘ میل کھاتے رویے اور طور کے سبب‘ بڑی برکت نصیب ہوئی۔ یہ برکت‘ انہیں ان کی ترقی کرنے کی نیت‘ کی وجہ سے‘ میسر آئی۔ گلی گلی پھرنے سے‘ انہیں خالصی مل گئی۔ انہوں نے گاؤں ہی میں‘ پرچون کی دکان کر لی۔ گاؤں کے لوگوں کے پاس‘ پیسے کم ہی ہوتے ہیں۔ سودا
سلف خریدنے کے لیے‘ اجناس لے آتے‘ اس طرح لینے دینے کے بانٹ متحرک رہے۔ چھان بورے کے گاہک‘ بھی ہاتھ سے نہ جانے دیے۔ ان کی بیگم‘ جو کاروباری امور میں‘ ان کی بھی استاد تھی۔ منہ متھے لگتی تھی۔ یہ ہفتے میں ایک بار‘ اسے دکان پر بیٹھا کر پھیری پر نکل جاتے۔ ان کی بیگم‘ ان کی عدم موجودگی میں‘ دوہری کمائی کرتی۔ شام کو‘ جب دمحم عمر واپس تشریف التے‘ تو دوکان کی وٹک‘ ان کی ہتھیلی پر رکھ دیتی۔ اس کی ذاتی وٹک پر‘ دمحم عمر کا کوئی حق نہ تھا‘ اس لیے گرہ خود میں رکھتی۔ وقت پر لگا کر‘ اڑتا رہا‘ یہ ترقی کے زینے‘ طے کرتے گیے۔ گاؤں میں دو مسالک کی مساجد تھیں۔ ایک مسلک کے‘ مولوی صاحب کسی غلط کام میں‘ رنگے ہاتھوں پکڑے گیے۔ گاؤں میں داڑھی اور لوگوں نے بھی رکھی ہوئی تھی‘ لیکن دمحم عمر کی داڑھی‘ شرع کے مطابق تھی‘ دوسرا چودھری عثمان‘ ان کے استحقاق کا قائل تھا۔ دمحم عمر کی بیوی زرینہ نے‘ چودھری کو پوری طرح‘ گرفت میں کر رکھا تھا۔ آخر دمحم عمر کی تقرری‘ باطور امام مسجد ہو گئی۔ وہ سکے ان پڑھ تھے۔ زرینہ‘ قرآن مجید پڑھی ہوئی تھی۔ اس نے دو چار سورتیں‘ انہیں رٹا دیں۔ اسی طرح آذان اور اس کا پورا طریقہ‘ ان کے ہم زلف نے‘ سیکھا دیا۔ اب ان کے نام کے ساتھ‘ مولوی کا سابقہ بھی پیوست ہو گیا تھا۔
رفتہ میں پھیری کے دوران‘ مسلے مسائل سنتے رہتے تھے۔ انہیں بات کرنے‘ اور بات بنانے کا ڈھنگ بھی آتا تھا۔ زرینہ نے بھی‘ سنی سنائی کے حوالہ سے‘ بڑا تعاون کیا۔ نماز جمعہ اور جمعہ کا خطاب بھی فرمانے لگے۔ جمعہ کے خطبہ کے لیے‘ ان کے ہم زلف نے بڑا تعاون کیا۔ دو تین سال میں‘ لہراں بہراں ہو گئیں۔ مخلتف نوعیت کے کھانے‘ دانے اور چھوٹے سہی‘ نوٹ بھی آنے لگے۔ چودھری نے مسجد کے مولوی کے لیے‘ ایک کلہ زمین بھی مختص کر دی۔ اب وہ مولوی دمحم عمر سے‘ عالمہ دمحم عمر پکھوی ہو گیے تھے۔ وہ گاؤں میں‘ ایک مذہبی مسلک کے‘ لیڈر تھے۔ جمعہ اور عیدین کے موقع پر‘ پورے مذہبی گٹ اپ کے سآتھ‘ وارد ہوتے۔ ان کے خالف بات کرنے کی‘ کسی میں جرآت نہ تھی‘ گویا ان کے خالف کوئی بات منہ سے نکالنا‘ مذہب دشمنی کے مترادف تھا۔ ان کا بڑا لڑکا‘ دمحم صدیق میٹرک پاس کرکے‘ گاؤں واپس لوٹ آیا۔ عالمہ صاحب کی خواہش تھی‘ کہ دوسرے مسلک کی مسجد کی امامت‘ کسی ناکسی طرح‘ اسے مل جائے‘ لیکن یہ کام‘ اتنا آسان نہ تھا۔ اس مسجد کا مولوی‘ مضبوط پیروں واال تھا۔ اس کے خالف سازشوں کا آغاز کر دیا گیا۔ مختلف حوالوں سے‘ اس کی ہوا خراب کر دی گئی۔ آدمی کتنا ہی محتاط کیوں نہ ہو‘ اس سے غلطی ہو ہی جاتی ہے۔ گاؤں کے ایک ناپسندیدہ مسلک کی‘ کتاب کا حوالہ‘ اپنے خطاب میں کوڈ کر بیٹھے۔ انہوں نے یہ حوالہ‘ باطور ثبوت کوڈ کیا تھا۔ بس پھر کیا تھا‘ عالمہ صاحب
نے‘ قیامت کھڑی کر دی۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا‘ جن کانوں نے یہ حوالہ سنا ہے‘ توبہ کریں‘ ورنہ عذاب سے نہ بچ سکیں گے۔ اس مسلک سے متعلق لوگوں نے‘ اسے مذہبی گستاخی کے مترادف سمجھ لیا۔ مولوی صاحب کی‘ بھاگتے بنی۔ دو دن تو بال امام مسجد گزر گیے۔ ایک دن دمحم صدیق‘ جو سازش کے پہلے روز ہی سے‘ ان کی مسجد میں‘ ان کے طریقہ کے مطابق‘ نماز ادا کر رہا تھا‘ رانا جعفر کے اشارے پر‘ امامت کے مصلے پر‘ کھڑا ہو گیا کسی نے‘ چوں تک نہ کی۔ پھر یہ مصلہ دمحم صدیق کا ٹھہرا۔ دوہرے گپھے گھر آنے لگے۔ عالمہ صاحب نے‘ اپنی بڑی لڑکی کے‘ ہاتھ پیلے کرنے کا فیصلہ کیا۔ آخر مناسب رشتہ مل ہی گیا۔ غالم نبی کی اپنی دکان تھی۔ ٹھیک ٹھاک کھاتی پیتی آسامی تھا۔ اس کی پہلی بیوی فوت ہو گئی تھی۔ اس سے دو ننھے منے‘ پیارے پیارے بچے تھے۔ شادی پر گاؤں والوں نے‘ دل کھول کر‘ تعاون کیا۔ ان کے تعاون کا ہی یہ ثمرہ تھا‘ کہ عالمہ صاحب کو‘ صرف نکاح کرنے کی تکلیف اٹھانا پڑی۔ رخصتی کے وقت‘ انہوں نے دلہا میاں کو‘ جیون ساتھی کے خود ساختہ حقوق سے آگاہ کیا۔ دلہن یعنی اپنی بیٹی کو‘ ایک دن پہلے ہی‘ والدین کے حقوق سے‘ آگاہ کر دیا تھا۔ ساتھ میں‘ زندگی کے اس اصول سے بھی شناسا کر دیا‘ کہ لسا پڑنے والے سکھ کا سانس نہیں لے سکتے۔ کوئی ایک کرے تم سو کرو‘ کوئی ایک سنائے تم ایک سو ایک سناؤ۔ دوہاجو ہے‘ گھٹنوں تلے رکھو‘
ورنہ تمہارے ہمارے پلے کچھ نہیں پڑ سکے گا۔ شادی کے پہلے ہفتے‘ فریقین کے مابین‘ پیار اور باہمی تعاون کی‘ یقین دہانی ہوتی رہی۔ وہ ایک مثالی جوڑی دکھ رہے تھے۔ غالم نبی نے‘ اسے ایک وفا شعار بیوی سمجھتے ہوئے‘ گھر کی سوئی سالئی تک‘ اس کے سپرد کر دی۔ دن بھر کی ساری کمائی‘ اس کے حوالے کرنے لگا۔ دو تین ماہ بعد ہی‘ گھر میں ہےنا نے ڈیرے جما لیے۔ صالحہ نے والدین کے حقوق کو‘ بڑی دیانت داری اور جان فشانی سے‘ نبھانے کا آغاز کر دیا تھا۔ غالم نبی نے‘ سب جانتے ہوئے‘ برداشت سے کام لیا۔ پھر اس نے‘ محسوس کیا‘ کہ بچے‘ دن بہ دن‘ غیر آسودہ ہو رہے ہیں۔ ایک دن اس نے‘ دبے لفظوں میں‘ اس معاملے کا ذکر چھیڑا‘ بس پھر کیا تھا‘ صالحہ کی سریلی آواز‘ پورے عالقے نے سنی۔ غالم نبی کان لپیٹ کر‘ نکل گیا‘ اور کیا کرتا۔ اسے واپسی اس ردعمل کا‘ گمان تک نہ تھا۔ باہر وہ بڑا ڈسٹرب رہا۔ شام کو گھر لوٹا‘ تو صالحہ نے‘ معاملہ الف سے‘ شروع کر دیا۔ صالحہ کا یہ جارحانہ روپ دیکھ کر‘ غالم نبی حیران رہ گیا۔ سرد جنگ ایک دن بھی نہ چھڑی‘ آغاز ہی‘ گرم جنگ سے ہوا۔ ہر روز کبھی پانی پت اور کبھی بکسر کی لڑائی چلتی۔ ایک بار وہ بیمار پڑا‘ صالحہ نے‘ ذرا برابر پرواہ نہ کی۔ غالم نبی نے‘ اس کا یہ رویہ بھی برداشت کیا۔ لڑکا بیمار پڑا‘ صالحہ نے اس سے‘ رائی بھر تعاون نہ کیا۔ غیروں کی طرح‘ جھوٹ موٹھ کا
پوچھ ہی لیتی‘ مگر کہاں۔ غالم نبی بچے کو‘ اکیال ہی‘ ہسپتالوں میں لیا پھرا۔ آخر بچہ‘ هللا کو پیارا ہو گیا۔ خالی ہاتھ واپس آ گیا۔ بچی رل خل گئی تھی۔ صالحہ نے‘ تسلی تشفی دینے‘ اور ڈھارس بندھانے کی بجائے‘ اپنا ڈنگ تیز کر دیا۔ غالم نبی کی براشت جواب دے گئی۔ معاملہ عالمہ صاحب کے علم میں تھا۔ اصل روال یہ تھا‘ کہ بچی نانکوں کے پاس بھیج دی جائے۔ غالم نبی اس کے لیے تیار نہ تھا۔ بیٹے سے‘ پہلے ہی‘ وہ ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ عالمہ صاحب نے‘ بیٹی کو سمجھانے کی بجائے غالم نبی کی خوب لہ پہا کی۔ عالمہ صاحب کے ہاتھ میں‘ دوسری شادی کی خواہش مند‘ صاحب حیثیت اسامی موجود تھی۔ معاملہ الجھتا گیا‘ آخر طالق ہو گئی۔ عدت ختم ہونے کے‘ اگلے ہی دن‘ صالحہ کا نکاح‘ سلیم صاحب سے کر دیا گیا۔ سلیم صاحب‘ صاحب حیثیت اور باوقار شخصیت کے مالک تھے۔ پڑھے لکھے بھی تھے۔ عالمہ صاحب نے‘ انہیں بھی‘ نصیحتوں سے سرفراز فرمایا۔ عجیب بات تھی‘ حقوق العباد میں‘ انہیں زوجہ کے حقوق ہی‘ سر فہرست نظر ‘آتے تھے وہ بھی خود ساختہ۔ هللا جانے‘ شخص کے ذاتی حقوق کو‘ کیوں گول کر دیا جاتا ہے۔ ذاتی حقوق‘ پہلی ترجیع پر ہوتے ہیں۔ جو شخص‘ اپنے حقوق ادا کرے گا‘ وہی هللا اور اس کی پوری کائنات کی مخلوق کے‘
حقوق ادا کر سکے گا۔۔ جو شخص‘ اپنی ذات سے انصاف نہیں کرتا‘ اللچ اور خوف کے زیر اثر‘ ضمیر کی نہیں کہتا‘ یا کہہ سکتا‘ رزق حالل‘ اپنے وجود کو مہیا نہیں کرتا‘ دوسروں کو کیسے کر سکے گا۔ هللا کا بےنیاز اور ہر حاجت سے باال ہونا‘ مسلم ہے۔ اس کی خوشی‘ اسی میں ہے‘ کہ شخص‘ اس کی مخلوق کے حقوق پوری دیانت داری سے ادا کرے۔ حقوق کا معاملہ ذات سے‘ هللا کی طرف پھرتا ہے۔ سلیم صاحب نے‘ اوالد کے لیے‘ عقد ثانی کیا تھا هللا نے انہیں‘ چاند سا بیٹا عطا کیا۔ گویا جائیداد کا وارث پیدا ہو گیا تھا۔ صالحہ کا ڈنگ‘ پہلے سے زیادہ تیز ہو گیا۔ عالم صاحب‘ عمر رسیدہ سلیم کی‘ موت کی راہ دیکھنے لگے۔ دن رات یک طرفہ‘ بالوجہ‘ جنگ چلتی۔ شادی کے وقت بھی‘ سلیم صاحب کی عمر زیادہ تھی‘ لیکن صالحہ اور عالمہ صاحب کو‘ آج یہ کجی زیادہ ہی نظر آنے لگی تھی۔ سلیم صاحب بچے کے لیے‘ سب برداشت کر رہے تھے‘ اور کرتے بھی کیا‘ کوئی رستہ باقی نہ رہا تھا۔ عالمہ صاحب کے لیے سلیم صاحب کی موت‘ کوئی معنی نہ رکھتی تھی‘ کیوں کہ اسامی تالشنا‘ اور گھیرنا‘ ان کے دائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔
هللا جانے
ایک خاتون سے‘ راہ چلتے‘ ایک تھانےدار نے‘ جو گھوڑی پر سوار تھا‘ چودھری کے گھر کا رستہ دریاقت کیا۔ اس خاتون نے‘ تفصیل اور تسلی سے‘ رستہ بتایا۔ گھر آ کر‘ با رعب خاموشی اختیار کر لی۔ گھر کا کوئی بھی فرد بالتا‘ بارعب دیکھنی کے ساتھ‘ منہ دوسری طرف پھیر لیتی۔ شام کو خاوند آیا‘ اس نے بھی بالیا‘ تو اس بارعب اور معزز خاتون نے‘ وہ ہی انداز اختیار کیا۔ پھر اس نے‘ اپنے بچوں سے‘ معاملہ دریافت کیا۔ انہوں نے کہا‘ ہمیں وجہ کا تو علم نہیں‘ لیکن اماں صبح سے ہی‘ ہم سب سے‘ اسی طرح کا‘ برتاؤ کر رہی ہے۔ خاوند نے دو چار گالیاں کھڑکائیں‘ اور بوتھا پھیالنے اور سوجھانے کی وجہ دریافت کی۔ اس بی بی نے‘ بڑے فخر اور تمکنت سے فرمایا :میں نے اس منہ سے‘ تھانےدار سے بات کی ہے‘ اور اب اسی منہ سے‘ کتوں بلوں کے ساتھ بات کروں۔ ریاض کا کراچی میں‘ بڑا لمبا چوڑا کاروبار تھا۔ الکھوں میں کھیلتا تھا۔ کسی کام سے‘ اس کا منیجر کرم پور آیا۔ واپسی پر‘ ہمارے ہاں بھی رکا۔ اس نے ریاض کی جانب سے‘ ہم سب کا حال احوال دریافت کیا۔ چلتے وقت‘ ریاض کی جانب سے‘ مجھے پارکر کا پن‘ اور زرینہ کو‘ پانچ صد روپے دیے۔ منیجر چال گیا‘
تو ذرا دکھانا‘ کہہ کر پن مجھ سے لے لیا اور پھر مستقل قبضہ کر لیا۔ میں نے‘ اس پرمکر قبضے پر‘ صبر کا گھونٹ بھر لیا‘ اور کر بھی کیا سکتا تھا۔ اس کے بھائی نے یہ پن دیا تھا۔ مجھے دینے سے‘ میرا تو نہیں ہو گیا تھا۔ زرینہ پڑھی لکھی ہے‘ اس لیے‘ یہ ناجائز قبضہ‘ قابل مذمت نہیں۔ اصل معاملہ یہ ہوا‘ کہ اس کے مزاج میں‘ رعونت آ گئی۔ یہ تو منیجر آیا تھا‘ اگر ریاض خود آ جاتا‘ تو خدا معلوم‘ اس کے مزاج میں‘ کس نوعیت کی تبدیلی آ جاتی۔ مفتوح کو‘ فتح کرنے کے لیے‘ میدان میں اترنا‘ کسی طرح‘ بڑے کارنامے کے زمرے میں نہیں آتا۔ چھری کا خربوزے کو‘ ظالم کہنے والے کو‘ عقل مند نہیں کہا جا سکتا۔ مانتا ہوں‘ ریاض‘ زرینہ کا‘ چالیس سال سے بھائی ہے‘ لیکن پندرہ سال سے‘ میرا بھی تو‘ عزت مآب سالہ صاحب ہے۔ پندرہ برسوں کو‘ کسی کھاتے میں نہ رکھنا‘ سراسر زیادتی کے مترادف ہے۔ ہمارے حکم رانوں کی طرح‘ زرینہ بھی‘ مفتوح‘ یعنی مجھے‘ مزید فتح کرنے کے‘ چکر میں رہتی ہے۔ عجیب دھونس تو یہ ہے‘ لوگ‘ طاقت کی ہاں میں ہاں مالتے ہوئے‘ خربوزے کو‘ ظالم قرار دے دیتے ہیں۔ ظلم یہ کہ اس ذیل میں‘ ان کے پاس‘ ناقابل تردید دالئل بھی ہوتے ہیں۔ ان دالئل کا منکر‘ جان سے جائے ناجائے‘ جہان سے ضرور چال جاتا ہے۔ اسے ہر اگلے لمحے‘ چھبتی اور طنزیہ نظروں کا‘ سامنا کرنا
پڑتا ہے۔ صاحب حیثیت اور صاحب ثروت بھائی کی بہن ہونا‘ بالشبہ کوئی معمولی اعزاز نہیں‘ لیکن اس بوتے پر‘ اوروں کو معمولی اور حقیر سمجھنا‘ اور ان کو حقارت کی نظر سے دیکھنا‘ بھی تو کوئی اچھی بات نہیں۔ پورے کنبہ کی عورتیں‘ زرینہ کو سچا سمجھتی ہیں۔ کہتی ہیں‘ یہ ہی ہے‘ جو گزرا کر رہی ہے‘ کوئی اور ہوتی‘ تو کب کی‘ چھوڑ کر چلی جاتی۔ لڑنے اور بےعزتی کرنے کے لیے‘ بہانے تراشنا‘ کوئی اچھی عادت نہیں۔ کل ہی کی بات ہے‘ اس بات پر اچھا خاصا بولی‘ کہ انڈے چھوٹے الیا ہوں۔ اب ان سے کوئی پوچھے‘ انڈے میں دیتا ہوں! انڈے مرغی دیتی ہے‘ اور مرغی کسی کی ماتحت نہیں‘ یہ اس کی مرضی ہے‘ کہ انڈے چھوٹے دے یا بڑے دے۔ بات یہاں تک ہی محدود نہیں‘ جب سے‘ ریاض کا منیجر‘ پانچ سو روپے اور پاکر کا قلم‘ دے کر گیا ہے‘ زرینہ کا طور ہی بدل گیا ہے۔ ہر چیز میں‘ نقص نکالنا اور اسے گھٹیا ثابت کرنا‘ اس نے ابنا‘ فرض منصبی بنا لیا ہے۔ اب میں نے‘ بازار کی چیزیں‘ النا چھوڑ دی ہیں وہ خود ہی‘ التی ہے۔ بازار سے واپسی پر‘ پہلے بڑبڑاتی ہے‘ پھر مہنگائی کا روال ڈالتی ہے۔ اوہ خدا کی بندی‘ مہنگائی میں نے کی ہے۔ مہنگائی کی شکایت‘ صدر فیلڈ مارشل دمحم ایوب خاں سے بنتی ہے۔ ایک بار نے کہہ دیا‘ تم ریاض بھائی سے کیوں نہیں کہتیں‘ کہ وہ مہنگائی کے سلسلے میں‘ ایوب خاں سے بات کرے۔ میں نے غصے میں ہی کہا تھا۔
کہنا تو یہ چاہیے تھا‘ کہ جس کے بوتے پر اتراتی ہو‘ مہینے کا خرچہ بھی‘ بھیج دیا کرے‘ لیکن میں‘ پھر بھی‘ مروت میں رہا۔ میری کہے پر‘ بڑا چمکی‘ سارا دن بالوقفے برسی۔ خدا معلوم‘ ماں نے کیا کھا کر پیدا کیا تھا‘ تھکنے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔ لوہے کا سر رکھتی تھی۔ اتنی گرمی تو‘ لوہے کو بھی‘ پانی بنا دیتی ہے لیکن اس کے سر پر‘ تو رتی بھر اتر نہ پڑتا۔ ہاں البتہ‘ سر پر پٹی باندھ لیتی۔ پٹی تو معمول میں داخل تھی۔ خصوصا‘ جب کام سے آتا‘ تو وہ مجھے پٹی بردار ہی ملتی۔ تنخواہ میں‘ مجھے باسٹھ روپے ملتے تھے۔ یہ کوئی‘ معمولی رقم نہ تھی۔ عموم اتنی تنخواہ‘ خواب میں بھی نہ دیکھ سکتے تھے۔ میں جو التا‘ پائی پائی اس کے حوالے کر دیتا۔ اپنے خرچے کے لیے‘ ایک آڑھت پر دو گھنٹے کام کرتا۔ وہاں سے‘ جو پان سات روپے ملتے‘ اسی پر گزرا کرتا۔ بلکہ اس میں سے بھی‘ ایک آدھ روپیہ‘ گھر پر خرچ کر دیتا۔ اس کے خیال میں‘ میں جھوٹ بولتا ہوں‘ اوور ٹائم میں‘ پندرہ بیس روپے کما لیتا ہوں۔ یہ کام‘ اس کے ٹائم میں کرتا ہوں۔ کئی بار قسم بھی کھائی‘ لیکن اس نے‘ یقین نہ کرنے کی ٹھان رکھی تھی۔ پندرہ بیس رویے‘ اوور ٹائم میں کب ملتے ہیں۔ زرینہ کی‘ اوور ٹائم کی آمدن پر‘ بڑی گہری نظر تھی۔ مرد ہوں‘ باہر دوستوں میں رہتا ہوں‘ چھوٹی موٹی‘ سو ضرورتیں ہوتی ہیں۔ باہر خالی جیب رہنے سے‘ نہیں بنتی۔ اسے اس بات کا‘ احساس تک نہ تھا۔ کتنی بےحس تھی۔
گھر میں‘ معقول رقم آنے کے باوجود‘ چار پانچ روپے ہر ماہ‘ قرض میں نکل ہی آتے۔ بڑا تاؤ آتا‘ لیکن چپ کے آنسو پی کر رہ جاتا۔ نیچے دیکھنا‘ تو اس نے سیکھا ہی نہ تھا۔ ہمارے اردگرد میں‘ مزدور لوگ اقامت رکھتے تھے۔ بےچارے پتا نہیں‘ کس طرح‘ گزر اوقات کرتے تھے۔ درمیانے طبقے کے لوگوں کو‘ اونچی اڑان وارہ نہیں کھائی۔ اونچی اوڑان کے لیے‘ پر بھی اونچی اوڑان کے درکار ہوتے ہیں۔ اب ہم‘ ریاض کی اڑان‘ تو نہیں بھر سکتے تھے۔ میں مالزم تھا‘ کاروباری آدمی نہ تھا۔ وہ تو شروع سے‘ پاکستانی مال پر‘ میڈ ان جاپان کا ٹھپا لگا کر‘ مال بیچ رہا تھا۔ میرے پاس‘ یہ آپشن تھا ہی نہیں۔ زرینہ‘ پاکستانی حکمرانوں کے قدموں پر تھی۔ پاکستانی عوام کا‘ خون پسینہ‘ ان کے کھیسے لگتا تھا۔ اس کے باوجود‘ ان کا پیٹ نہیں بھر رہا تھا۔ هللا جانے‘ پیٹ تھا یا کوئی اندھا کنواں۔ سب کچھ‘ ہڑپنے کے باجود‘ ملک الکھوں ڈالر کا مقروض ہو گیا تھا۔ یہ بوجھ بھی‘ تو عوام پر ہی تھا۔ عوام کی بہبود کے نام پر‘ لیے گیے قرضوں سے‘ موجیں اڑا رہے تھے۔ غریب عوام نے‘ ڈالر تو بڑی دور کی بات‘ ایک ہزار کا نوٹ‘ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ زرینہ کا چڑھایا قرضہ‘ مجھے ہی دینا تھا۔ اسے اس امر کی‘ قطعی پرواہ نہ تھی‘ کہ قرض اتارنے کے لیے‘ رقم کہاں سے آئے گی۔ بچت کے نام سے‘ وہ جیسے الرجک تھی۔ اس کا خیال
تھا‘ اوور ٹائم میں‘ کافی کچھ کما لیتا ہوں۔ دوسرا موج کرنا‘ اس کا حق ہے‘ قرض اتارنا‘ اس کی سر درد نہیں۔ اس ذیل میں‘ میں جانوں‘ یا میرا کام جانے۔ هللا ہی جانے‘ میری زرینہ سے‘ کب اور کس طرح‘ خالصی ہو گی۔ مجھے لگتا ہے‘ زرینہ اور زرینہ کے ہم خیال حکم رانوں سے‘ میری اور عوام کی‘ کبھی بھی‘ خالصی نہ ہو سکے گی اور ہم‘ اسی طرح‘ سسک سسک کر‘ قبروں کا رستہ ناپیں گے۔
پاخانہ خور مخلوق
میں نے‘ اپنے ہاں کے‘ مسلمان انسان کے‘ شخصی تجزیے کا‘ سروے کرنے کا‘ ارادہ کیا۔ اس کے لیے‘ کچھ سواالت‘ ترتیب دیے۔ میں چوں کہ خود بھی‘ دن میں ایک دو بار مسجد جاتا ہوں‘ اس لیے‘ مسجد میں آنے والے لوگوں کو ہی‘ پہلی ترجیع میں رکھا۔ دوسری کھیپ میں دیگر معززین کو رکھا۔ سوال کچھ :یہ تھے آپ پانچ وقت نماز ادا کرتے ہیں۔ ٢-
رمضان میں‘ باقاعدگی سے‘ روزے رکھتے ہیں۔١- زکوات کی ادائیگی میں‘ بخل سے کام تو نہیں لیتے ٠- حج کرنے کی سعادت میسر آئی ٩- مائی باپ کے ساتھ ہی‘ رہتے ہیں‘ یا الگ سے‘ رہائش ٩- رکھتے۔ مائی باپ سے‘ مالی تعاون کرتے ہیں۔ ٩- اگر ایک حیات ہے‘ تو وہ آپ کے ساتھ ہی رہتے ہیں ٨- تمام بہن بھائیوں سے‘ مالقات اور لین دین‘ چلتا رہتا ہے۔ ٥- ادھار لے کر‘ وقت پر‘ واپس کر دیتے ہیں‘ یا دیر سویر ہو ٢٢- جاتی ہے یا قرض دہندہ کی‘ فوری موت کے‘ خواں رہتے ہیں۔ بیماروں کی تیمارداری کرتے ہیں۔ ٢٢- ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں۔ اس سے آپ کو سکون ٢١- ملتا ہے۔ کی گئی مدد کا ذکر تو چلتا رہتا ہو گا۔ مطلب یہ کہ لوگوں ٢١- کو ترغیب کی غرض سے جھوٹ بولتے ہیں ٢٠- حرام کی کمائی‘ کھانے کا کبھی اتفاق ہوا۔ ٢٩-
آپ دونوں میاں بیوی‘ ایک دوسرے سے‘ مخلص ہیں اور ٢٩- آپسی اعتماد‘ موجود ہے یا بس گزرا چل رہا ہے۔ جواب بڑا حیران کن تھا۔ میرے سمیت‘ چار سو سے زائد لوگوں میں سے‘ ایک بھی‘ جواب دیانت دار کے دروازے سے‘ گزرتا ہوا نہ مال۔ کچھ لوگ‘ ایسے بھی تھے‘ جو دن میں‘ ایک آدھ بار سے زیادہ مسجد گیے ہوں گے۔ ایک صاصب‘ پیشاب کرنے کی غرض سے‘ مسجد تشریف لے جاتے تھے۔ دیکھنے واال‘ یہ ہی سمجھتا‘ مسجد سے نماز پڑھ کر‘ نکلے ہیں۔ یہ بھی‘ ان کی سماجی مجبوری تھی۔ ان کی دکان‘ مسجد کے سامنے تھی۔ ایک صاحب‘ صبح سویرے‘ غسل شب فرمانے کے لیے‘ تشریف لے جاتے تھے۔ سب‘ خود کو پانچ وقتا بتا رہے تھے۔ میاں طارق صاحب کو‘ میں ذاتی طور پر‘ جانتا تھا۔ زکوت دینا‘ تو بڑی دور کی بات‘ فقیر کو دو ٹیڈی پیسے دیتے‘ موت پڑتی تھی۔ میاں طارق صاحب بڑے مال دار تھے۔ ان کے والد‘ خیر خیریت سے گزر گیے‘ ہاں البتہ‘ ماں بیمار بڑی‘ تو خیراتی ہسپتال کے‘ برآمدے میں پانچ دن‘ سسکتی بلکتی رہی۔ اس کے نصیب میں‘ ان پر‘ دو دمڑی خرچ کرنا نصیب نہ ہوئی۔ ہم سائے تو دور کی بات‘ اپنے سگے بہن بھائیوں کے ساتھ‘ میٹھا بولنے پر ان کا خرچا اٹھتا تھا۔ رانا نصیر صاحب‘ رمضان کا بڑا احترام کرتے تھے۔ رمضان جب بھی‘ ان کے ہاں تشریف التا‘ ان کی بیوی صالحہ کی
مسکراہٹوں کا عوضانہ‘ ان کے بچوں کی تلی پر‘ بڑے کھلے دل سے‘ دھر کر جاتا۔ ویسے رانا صاحب بھی‘ باہر رمضان کی برکتوں اور رحمتوں کا‘ البھ اٹھاتے۔ سموسے بنا کر‘ پرچون فرشوں کو فراہم کرتے تھے۔ تکوں کی‘ ان کی ذاتی دکان تھی۔ سارے جہاں کا گند بال‘ مہنگے داموں‘ لوگوں کے پاپی پیٹ میں‘ بالتکلف چال جاتا تھا۔ گھر میں‘ سب کچھ ہوتے‘ وہ بھوکا رہنے کے‘ قائل نہیں تھے۔ محنت اور حالل کمائی کماؤ‘ ان کا مقولہ معروف تھا۔ حاجی سکندر صاحب‘ کسی مالیات کے دفتر میں‘ ہیڈ کلرک تھے۔ جسم وجان سے‘ تو بارعب نہ تھے‘ ہاں ان کا دفتری ٹہکا‘ صدر کنیڈی کو بھی‘ مات کرتا تھا۔ کسی کا مفت میں کام کرنا‘ ان کے اصول کے‘ زمرے میں نہیں آتا تھا۔ اسی وجہ سے‘ وہ بڑے اصول پرست‘ سمجھے جاتے تھے۔ ان کے ٹہکے کے زیر اثر‘ لوگ انہیں‘ حاجی صاحب کہتے تھے۔ وہ لکھتے بھی حاجی تھے۔ حاجی کہلوانا‘ انہیں خوش آتا تھا۔ حاالں کہ انہوں نے حج نہیں کیا ہوا تھا۔ جائز جائز باالئی لیتے تھے‘ کیوں کہ رزق حرام سے‘ انہیں سخت چڑ تھی۔ سردار جہاں گیر صاحب‘ ہمارے ہمسائے میں‘ رہ کر گیے تھے۔ بھلے آدمی تھے۔ بس تھوڑا بہت‘ تقریبا روزانہ ہی‘ ادھر ٹھرک بھور لیتے تھے۔ انہیں ناکام ٹھرکی کہنا‘ بڑی زیادتی اور ان کی شخصیت کے خالف‘ سازش ہو گی۔ ان کے کچھ تیر‘ نشانے پر
بھی بیٹھتے تھے۔ ان کی زوجہ ماجدہ بھی‘ بنتی پھبتی خاتون تھیں۔ جوان اور ضرورت مند‘ ان کی استفادہ‘ حاصل کرتے رہتے۔ نانہہ تو خیر‘ میرے لیے بھی‘ نہ تھی‘ لیکن میری مردانہ بزدلی نے‘ ہمیشہ مجھے‘ میری اوقات میں رکھا۔ ان کے گھر‘ تقریبا روزانہ ہی‘ چان ماری ہوتی رہتی تھی۔ سردار جہاں گیر صاحب نے‘ بڑے اعتماد سے‘ اپنے ازدواجی تعلق کو‘ اے ون قرار دیا تھا۔ محلے میں سب سے بلند عمارت‘ چودھری محمود صاحب کی ہے۔ پنج وقتے نمازی ہیں۔ دودھ کا کاروبار کرتے ہیں۔ گاڑی پر‘ گاؤں گاؤں سے‘ دودھ اکٹھا کرکے‘ سرف اور بال صفا پورڈر وغیرہ سے‘ خوب مدھانی پھیری جاتی ہے۔ اس کے بعد‘ دودھ کو اچھی طرح‘ پانی سے نہالیا دھالیا اور پاک صاف کیا جاتا۔ گویا لوگوں اور دکانوں پر‘ صاف ستھرا دودھ‘ سپالئی کرتے تھے۔ ٹھیکے دار بابر صاحب‘ پچھلے برس حج کرکے واپس آئے ہیں۔ دو نمبری سے تائب ہو گیے ہیں۔۔ اک گھٹ اک مٹھ داڑھی بھی‘ رکھ لی ہے۔ سر پر ٹوپی‘ اور ہاتھ میں‘ ایک سو ایک دانوں کی تسبیح رکھنا‘ نہیں بھولتا۔ عموم میں بیٹھ کر‘ فحش باتیں کرنا‘ یا سننا‘ پسند نہیں کرتا۔ پرانے معاشقوں سے‘ منہ پھیر گیا ہے۔ نیا کوئی معاشقہ‘ سننے میں نہیں آیا۔ اب‘ حاجت سے فراغت کے بعد‘ دام چکا کر‘ کیلے کے چھلکے کی طرح‘ وہ پھینکتا
ہے۔ شراب سے‘ منہ موڑ گیا ہے۔ اسے شیطان ٹوٹی کا نام دیتا ہے۔ اب پہلے کی طرح‘ پیٹو یھی نہیں رہا۔ معدے کے السر نے آ لیا ہے۔ اب دن میں صرف چار مرتبہ‘ کسی صاف ستھرے ہوٹل سے‘ پیٹ بھر کھاتا ہے۔ جہاں یہ اچھی تبدیلیاں آئی ہیں‘ وہاں دو تین پرانی عادتوں کو‘ تقویت ملی ہے۔ پہلے رو دھو کر سہی‘ معاوضہ ادا تو کر دیتا تھا‘ لیکن اب‘ معاوضہ اگلے کام پر اٹھا رکھتا ہے۔ مجال اے‘ جو مزدور اگلے کام پر آنے سے‘ چوں چرا کرے۔ ہاں زبان میں‘ سرزنش آمیز میٹھاس سی آ گئی ہے۔ کام ختم کرنے کے وقت‘ اسے کوئی ایمرجنسی یاد آ جاتی ہے۔ اس طرح‘ مزدور سے‘ ڈیڑھ دو گھنٹے‘ زیادہ کام لے لیتا ہے۔ مال دو نمبر سہی‘ استعمال پورا کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے‘ پتا نہیں کب جان نکل جائے‘ اس لیے حرام کمائی کو حرام ہی سمجھتا ہوں۔ الحاج صالح الدین‘ عالقے کا بڑا معزز اور معتبر شخص ہے۔ اسی لیے‘ بھاری اکثریت کے ساتھ‘ عالقے کا ممبر چنا گیا ۔ کبھی کسی کو‘ مایوس نہیں کرتا۔ جو بھی اس کے ڈیرے پر آتا ہے‘ آس امید کی پنڈ باندھ کر‘ لے جاتا ہے۔ یہ بات‘ بالکل الگ سے ہے‘ کہ کام صرف اپنوں کے کرواتا ہے۔ ان کو مایوس کیوں کرئے‘ وہ ہی تو‘ اس کا ڈیرہ‘ رواں دواں رکھے ہوئے ہیں۔ پہلے ڈھائی مرلہ کے خستہ حال مکان میں‘ اقامت رکھتے تھے‘ اب خیر سے‘ ڈیڑھ کنال کی کوٹھی میں‘ گزرا کرتے ہیں۔
آج کل‘ دالل کو دالل نہیں‘ ایجنٹ کہتے ہیں۔ ملک اورنگ زیب المعروف جانگو‘ آج کل‘ دالل نہیں‘ خود کو‘ پراپرٹی ایجنٹ کہتے ہیں۔ جھوٹ سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ ہر بات پر‘ بالکہے‘ قسم کھانا‘ نہیں بھولتے۔ عالقے کے کھاتے پیتے اور خوش حال لوگوں میں‘ شمار ہوتے ہیں۔ ان کے جھوٹ کو‘ جھوٹ کہا نہیں جا سکتا۔ یہ بات اپنی جگہ سچ ہے‘ سچ سے پرہیز میں رہتے ہیں۔ جو بھی سہی‘ پانچ وقت کے نمازی ہیں۔ مزے کی بات یہ‘ کہ ہر نماز باجماعت پڑھتے ہیں۔ ان کی اس خوبی کا‘ پورا عالقہ معترف ہے۔ خان قاسم خان‘ کچہری میں کام کرتے ہیں۔ عالقے کے لوگ‘ خصوصا جرائم پیشہ کے تو گرو ہیں۔ مجرم کو بھی‘ ان پوشیدہ امور کا‘ پتا نہیں ہوتا‘ جن کا وہ نالج رکھتے ہیں۔ گواہی‘ حلف اٹھا کر دیتے ہیں۔ وہ وہ بیان کرتے ہیں‘ کہ مخالف وکیل کی بھی‘ بس بس کرا دیتے ہیں۔ مجرم کو بھی‘ اپنی بےگناہی کا‘ یقین آ جاتا ہے۔ ان کے کسی کہے کو‘ جھٹالنے سے‘ سرکاری پاپ لگتا ہے۔ ایک بات ہے‘ کہ وہ ہیں پانچ وقتے نمازی‘ اور حق سچ کی تلقین کرنے‘ اور اچھا اور پکا مسلمان بننے کی ہدایت‘ کرتے رہتے ہیں۔ اس ذیل میں‘ تساہل اور کوتاہ کوسی‘ گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں۔ اگرچہ ان کی باتوں پر ‘عمل ایک آدھ بھی‘ نہیں کرتا۔ اس پر وہ مایوس نہیں ہوئے۔ ان کا
:قول ہے نماز میرا فرض گواہی میرا پیشہ۔ محترمہ ڈاکٹر نور جہاں صاحبہ‘ عالقہ کی‘ بےبدل سیانی ہیں۔ پچھلے سال‘ حج کرکے آئی ہیں۔ ساتھ میں‘ بوڑھی ماں کو بھی‘ حج کرا کر‘ ثواب دورین حاصل کر چکی ہیں۔ ان کی موت کے بعد‘ ان کی قبر کو‘ پکا ہی نہیں ‘ سنگ مرمر سے‘ آراستہ بھی کروایا ہے۔ تھوڑی دور‘ باپ کی قبر‘ اپنی الوارثی کا‘ شکوہ کرتی نظر آتی ہے۔ مادری سوسائٹی کی پیدائشی و رہائشی ہیں۔ پہلے ایل ایچ وی تھیں۔ ڈاکٹر کے سابقے کے لیے‘ ہومیو پیتھک کورس کیا۔ ویسے عالج‘ ایلوپیتھک طریقہ سے ہی‘ کرتی ہیں۔ ڈیلوری اور ابارشن کیسز میں ماہر ہیں۔ زیادہ تر‘ ثانی الذکر کیسز کرتی ہیں‘ تاہم منکوعہ ابارشن‘ مال معقول نہ ملنے کے سبب‘ انسانی قتل سمجھتی ہیں۔ اس طرح انہیں‘ کنبوں کی عزت کی محافظ‘ قرار دیا ج سکتا ہے۔ غیر منکوحہ ابارشن میں‘ منہ مانگی رقم مل جاتی ہے۔ نماز اور زکوت میں‘ کوتاہی نہیں کرتیں۔ زکوت کی رقم‘ غیریب بہنوں کو‘ ہم دری کیسز قرار دے کر‘ عطا کرتی ہیں۔
رزق حرام کو‘ میں نے ساری عمر‘ پاخانہ کھانے کے مترادف سمجھا‘ مانا اور کہا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے‘ کہ میں نے بھی‘ بارہا یہ پاخانہ کبھی کھایا‘ اور کبھی محض ٹیسٹ کیا ہے۔ اپنی جیب اور غیر کی جیب سے‘ کھانے میں‘ بڑا فرق ہے۔ اس عالقہ میں بسے‘ مجھے ایک عرصہ بیت گیا ہے۔ سب سے‘ میری اچھی سالم دعا ہے۔ ان معززین میں سے‘ کوئی میرے ہاں آ جاتا ہے‘ چائے پانی پالنا پڑتا ہے۔ ان لوگوں کی غمی خوشی میں‘ جانا اور کھانا پڑتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے‘ کہ وہ کس قسم کی کمائی سے بنا ہے‘ مروتا کھانا ہوں‘ اور پھر کیا کروں۔ یہ سماجی معذوری ہے‘ کیا کریں۔ سروے کے مطابق‘ یہاں کے شرفا بڑے نیک اور حاجی ثناءهللا ہیں لیکن عملی اعتبار سے‘ حرام خور ہیں۔ مانیں نہ مانیں‘ آپ کی مرضی۔ حقیقت یہ ہی ہے‘ کہ ہم کسی ناکسی سطح پر‘ حرام خور ہیں۔۔۔۔۔ حرام خور۔۔۔۔۔۔۔اسی وجہ سے ہم پوری دنیا میں ذلیل وخوار ہیں۔ سروے کے بعد‘ مجھے بڑا دکھ ہوا‘ کہ اس انسانوں کی اس بستی میں‘ مجھ سمیت‘ جھوٹے‘ انسان سے‘ پاخانہ خور مخلوق‘ بھی آباد ہے‘ جس کے سبب‘ خرابیوں نے‘ جنم لے کر‘ اس چاند سے خطہ کی‘ خوب صورتی کو‘ گہنا دیا ہے۔
ان پڑھ
‘کمال اے‘ اکرم کو میں نہیں جانتا ہم ایک ہی محلہ میں‘ رہتے ہیں۔ ہمارا بچپن‘ ایک ساتھ گزرا ہے۔ ہمارا شروع سے‘ دن میں‘ ایک دو بار‘ ٹاکرا ہوتا رہتا ہے۔ وہ دوسری جماعت سے‘ آگے نہ بڑھ سکا۔ کند ذہن کا مالک تھا۔ مسجد میں بھی‘ نہ چل سکا۔ وہ تو خیر‘ امام مسجد صاحب کی‘ روز اول کی‘ پھینٹی برداشت نہ کر سکا۔ امام مسجد صاحب نے‘ تین چار مرتبہ‘ سبق بتایا‘ لیکن وہ یاد نہ کر سکا۔ انہیں تاؤ آ گیا‘ کان پکڑا کر‘ ایسا وجایا‘ کہ آج بھی‘ یاد کرتا ہو گا۔ اس نے نان چنے کی ریڑھی لگا لی۔ میں نے تعلیم جاری رکھی۔ میں نے درجہ دوئم میں‘ بی اے پاس کیا اور اچھی پوسٹ پر تعینات ہو گیا۔ صرف دو سال ہوم اسٹیشن نہ مال۔ یہ ہی میرے اوراس کے‘ جدائی کے دن تھے۔ میں جب بھی چھٹی پر آتا‘ اسے ضرور ملتا۔ مجھے ہر بار‘ نیا اکرم ملتا۔ اب جب کہ میں
ہوم اسٹیشن پر ہوں‘ اس لیے میری اور اس کی‘ مالقات ہوتی رہتی ہے۔ سچی اور خدا لگتی بات تو یہ ہی ہے‘ کہ اکرم‘ وہ اکرم نہینتھا ۔ مزاج میں حد درجہ کی سنجیدگی اور متانت آگئی تھی۔۔ میں نے بات بات پر‘ اسے قہقہے لگاتے نہیں دیکھا۔ مسکراہٹ میں بھی‘ سنجیدگی کا عنصر نمایاں ہوتا۔ اس سے بڑھ کر‘ بات تو یہ تھی‘ کہ جب کوئی بات کرتا‘ تو یوں لگتا‘ جیسے آکسفورڈ یونی ورسٹی سے‘ پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر‘ واپس پلٹا ہو۔ اس کی ہر بات میں معقولیت‘ تجربہ اور دلیل ہوتی۔ میری بات کا‘ یہ مطلب نہ لیا جائے‘ کہ مجھے کوئی جالپا تھا۔ لوگ‘ اسے بڑی عزت دیتے اور اس کی قدر بھی کرتے تھے۔ اس کے برعکس‘ میں پڑھا لکھا اور معقول مالزمت رکھتے ہوئے بھی‘ لوگوں سے‘ اس سی عزت اور احترام حاصل نہ کر پایا تھا۔ اس کی بیوی‘ پورے محلے میں‘ شیداں کپتی کے نام سے‘ جانی جاتی تھی۔ وہ بولتے نہ تھکتی تھی۔ گھر میں؛ اس نے اکرم کا جینا حرام کر رکھا تھا۔ مجال ہے‘ اس نے کبھی اپنی بیوی کی‘ کسی سے شکایت کی ہو۔ ایک بار اس کے بھائی نے‘ اکرم کو شیداں کو طالق دے‘ کر کسی دوسری عورت سے‘ شادی کر لینے کا مشورہ دیا۔ اس کے بھائی کے ہاتھ میں‘ رشتہ بھی تھا۔ اکرم نے‘ مسکراتے ہوئے‘ فقط چندد جملوں میں بات ختم کر دی۔
اس کا کہنا تھا :آنے والی‘ نہ لڑے گی‘ فطرت کو کون بدل سکتا ہے۔ روز اول سے‘ سب اسی طرح چال آتا ہے۔ هللا نے‘ آدمی کو التعداد‘ صالحیتوں سے‘ نوازا ہے۔ توازن کے لیے‘ مرد کا عورت سے‘ مالپ رکھ دیا ہے۔ ورنہ یہ کائنات کے‘ پاؤں زمین پر نہ آنے دیتا۔ کمال صاحب‘ حج کرکے آئے۔ سب انہیں مبارک باد کہنے کے لیے‘ ان کے ہاں‘ حاضر ہوئے۔ اکرم بھی‘ انہیں مبارک باد کہنے کے لیے حاضر ہوا۔ باتوں ہی باتوں میں‘ عصری جبریت اور معاشی و معاشرتی گھٹن کا ذکر چل نکال۔ اس کو ختم کرنے کے لیے‘ ہر کوئی اپنی رائے رکھتا تھا۔ اکرم سب کی‘ خاموشی سے‘ باتیں سن رہا تھا۔ ایک صاحب کے خیال میں‘ حقیقی جمہوریت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ نصیر صاحب کا خیال تھا‘ کہ اسالمی جمہوریت سے ہی‘ ہر قسم کی خرابی دور ہو سکتی ہے۔ نبی بخش کا خیال تھا‘ کہ خالفت زندگی کو‘ آسودہ کر سکتی ہے۔ اکرم نے‘ ہر تین نظام پر بات کی‘ جس کا لب لباب یہ تھا کہ جمہوریت‘ قطعی غیر فطری نظام ہے۔ عوام کون ہوتے ہیں‘
حکومت کرنے والے۔ حکومت کا حق‘ صرف هللا ہی کو حاصل ہے۔ حکومت عوام کے ذریعے نہیں‘ قرآن و سنت کے ذریعے ہی‘ اصولی اور فطری بات ہے۔ اسالمی جمہوریت‘ تو ایسی ہی بات ہے اسالمی چوری‘ اسالمی قتل‘ اسالمی زنا وغیرہ کس خالفت کی بات کرتے ہو‘ جس نے منصور کو‘ شہید کیا۔ نام بدلنے سے‘ کیا ہوتا ہے‘ تھی تو بادشاہت‘ باپ کے بعد بیٹا۔ کام بھی ان کے باشاہوں والے تھے۔ شرف علی بوال :پھر تم بتاؤ‘ کیا ہونا چاہیے۔ بھائی! مسلہ اس وقت تک حل نہ ہو گا‘ جب تک‘ انسان کا اندر نہیں بدال جاتا۔ انبیا اور صالیحین‘ یہ ہی تو کرنے کی‘ کوشش کرتے آئے ہیں۔ ریاض بوال :یہ تو نہیں ہو سکتا۔ نامکنات میں ہے۔ اگر یہ نہیں ہو سکتا‘ تو کوئی بھی نظام‘ خرابی دور نہ کر سکے گا۔ لوگ تو‘ یہ ہی رہیں گے نا۔ استحصال کرنے والے‘ اپنی ڈگر پر رہیں گے۔ کم زور‘ کوہلو کا بیل بنا رہے گا۔ لکھ لو‘ کچھ نہیں ہو گا۔۔۔۔۔۔۔کچھ نہیں ہو گا۔۔۔۔۔۔ ۔ وہ یہ کہتا ہوا اٹھ کر چال گیا۔
اس قسم کی باتیں‘ ایک چٹا ان پڑھ‘ کس طرح کر سکتا ہے۔ ناممکن‘ قطعی ناممکن۔ میں گڑبڑا گیا۔ نان چنے بیچنے واال‘ اس قسم کی باتیں کر ہی نہیں سکتا۔ اسے خداداد صالحیت کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ میری نظر سے‘ سیکڑوں‘ ان پڑھ گزرے ہیں‘ ایسا ان پڑھ‘ میں نے نہیں دیکھا۔ اگر اس قسم کے ان پڑھ‘ پیدا ہو جائیں‘ تو اس قوم کی قسمت ہی نہ بدل جائے۔ وہ کھرا سودا بیچتا تھا‘ یہ ہی وجہ ہے‘ کہ اسے گاہکی بڑی پڑتی تھی۔ بےایمانی اور ہیرا پھیری یا غلط بیانی‘ تو اس کے کاغذوں میں ہی نہ لکھی تھی‘ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا‘ کہ وہ ان چیزوں سے‘ سخت نفرت کرتا تھا۔ کسی سے‘ ادھار نہیں کرتا تھا‘ ہاں ضرورت مند کا پیٹ بھر دیتا تھا۔ ادھار لیتا بھی نہ تھا۔ کہتا تھا‘ پتا نہیں‘ سانس کب ساتھ چھوڑ جائے‘ میرا ادھار‘ کوئی دوسرا کیوں چکائے۔ میں اس انوکھے ان پڑھ کی‘ ٹوہ میں لگ گیا۔ اس کے معموالت جان کر ہی‘ اصل حقیقت‘ تک‘ رسائی ممکن تھی۔ صبح سویرے‘ اٹھ جاتا۔ مسجد میں‘ ہر قماش کے لوگ ملتے ہیں۔ وہ وہاں سب سے‘ سالم دعا کرتا۔ ہاں ماسٹرالل دین صاحب سے‘ ناصرف بڑی گرم جوشی سے‘ ہاتھ مالتا‘ بلکہ بغل گیر بھی ہوتا۔ ان کے درمیان‘ بات کم ہی ہوتی‘ ہاں پرخلوص مسکراہٹ کا
تبادلہ‘ ضرور ہوتا۔ مسجد سے فراغت کے بعد ‘ حضرت سید حیدر امام صاحب کے ہاں‘ حاضر ہوتا۔ حضرت سید حیدر امام صاحب کے قدم لیتا۔ وہ اس سے‘ ہاتھ مالتے‘ گلے ملتے‘ بڑی محبت سے‘ اس کے سرپر ہاتھ پھیرتے۔ اسے مسکرا کر دیکھتے۔ شام کی نماز کے بعد بھی‘ اس کا یہ ہی معمول ہوتا۔ جب کبھی‘ کوئی پڑھا لکھا‘ محلہ میں‘ کسی کے ہاں‘ مہمان ہوتا‘ وہ اسے ملنے ضرور جاتا۔ اس سے‘ بڑی گرم جوشی سے‘ ہاتھ مالتا اور اسے گلے ضرور ملتا۔ تحفہ میں‘ دو نان اور کچھ چنے لے جانا نہ بھولتا۔ اکرم اچھا خاصا تھا۔ ستاون سال‘ عمر کم نہیں‘ تو اتنی زیادہ بھی نہیں۔ اچھا خاصا‘ چلتا پھرتا تھا۔ چہرے پر‘ بڑھاپے کا‘ دور تک‘ اتا پتا بھی نہ تھا۔ وہ بوڑھا بھی تو نہ تھا‘ اچانک چل بسا۔ وہ یہاں‘ مہمانوں کی طرح رہا۔ اکٹھا کر لینے کی ہوس‘ اس میں بالکل نہ تھی۔ جو‘ اور جتنا مال‘ اسی پر‘ گزارا کرتا رہا۔ یہ کیا ہوا‘ صبح کی جماعت میں شریک تھا‘ شام کو‘ لوگ‘ اس کے جنازہ میں‘ شامل تھے۔ ہر زبان پر‘ اکرم چل بسا‘ تھا۔ ہائیں‘ یہ کیسا جانا ہوا۔ جانے سے پہلے‘ جانے کے‘ اثار تک نہ تھے۔ ابھی زندہ تھا‘ ابھی فوت ہو گیا۔ یہ مرنا بھی‘ کیسا مرنا ہوا۔ آج اس کا ساتواں تھا۔ اس کے اپنوں میں‘ گنتی کے چند لوگ تھے۔ محلہ کا‘ شاید ہی کوئی شخص رہ گیا ہو گا۔
ہر زبان پر‘ اس کی اچھائی اور شریف النفسی کے‘ کلمے تھے۔ وہاں سے‘ معلوم ہوا‘ اس کی بیوہ‘ کسی وقت رشیدہ خانم تھی۔ حاالت اور وقت نے‘ اسے شیداں کپتی بنا دیا تھا اور رشتہ‘ حضرت سید حیدر امام صاحب نے کروایا تھا۔ سید صاحب بھی تشریف الئے تھے۔ وہ گوشہ نشین بزرگ تھے۔ پورا عالقہ‘ ان کی عزت کرتا تھا۔ وہ کچھ ہی دیر‘ وہاں رکے۔ چہرے پر جالل تھا‘ ہاں‘ ساتھ چھوٹ جانے پر‘ ان کی آنکھوں سے‘ خاموش آنسو رواں تھے اب میرے پاس‘ اس کی فراست اور متانت کے‘ دونوں سرے تھے۔ حضور کریم نے‘ ہاتھ مالنے اور ایک دوسرے سے گلے ملنے کی‘ کیوں تاکید کی تھی۔ ہاتھ مالنے سے‘ ناصرف ریکھاوں کا ملن ہوتا ہے‘ بلکہ نادانستہ طور پر‘ جذبات‘ اطوار اور دانش بھی منتقل ہوتی ہے۔ جب کوئی گناہ گار‘ کسی صالح سے‘ ہاتھ مالتا ہے تو مثبت عناصر منتقل ہو جاتے ہیں۔ دوسرے سرے پر یہ مقولہ موجود تھا :صحبت صالح‘ صالح کند صحبت طالع‘ طالع کند جس طرح‘ سگریٹ کی عادت چھوڑنے سے‘ نہیں چھٹتی‘ اسی طرح‘ اچھا کرنے کی عادت‘ جو انسان اپنی فطرت میں‘ لے کر
جنم لیتا ہے‘ دم نہیں توڑ سکتی۔ اگر یہ چھٹنے کی ہوتی‘ تو سقراط کبھی زہر نہ پیتا۔ حسین کیوں کربال تک آتے۔ منصور کو کیا پڑی تھی‘ کہ قتل ہوتا‘ پھر اگلے دن جالیا جاتا‘ اس سے اگلے دن‘ اس کی رکھ اڑائی جاتی۔ اکرم‘ باعمل ان پڑھ تھا۔ ہم‘ بےعمل پڑھے ہیں۔ اس کی ان پڑھی‘ ہم سے‘ بدرجہا بہتر تھی۔ ہم نے جو پڑھا‘ ہمیشہ اس کے برعکس عمل کیا۔ حقی سچی بات تو یہ ہی ہے‘ اکرم پڑھا ہوا‘ باحکمت شخص تھا۔ ہم‘ ان پڑھ اور حکمت و دانش سے محروم لوگ ہیں۔
تاریخ کے سینے پر
ملکہ ساحرہ جان شاہ کی ناگہانی موت نے‘ شاہی محل کے در و دیوار‘ ہال کر رکھ دیے۔ کہرام مچ گیا‘ دکھ کا بھونچال آ گیا۔ خود شاہ کی‘ دھاڑیں مار مار کر رونے سے‘ حالت غیر ہو گئی تھی۔ یہ اس کی اکلوتی ملکہ نہ تھی۔ اصل وجہ یہ تھی‘ کہ شاہ کی اس سے کچھ زیادہ ہی رغبت تھی۔ کوئی دوسری ملکہ‘ اگر
ملکہ ساحرہ جان شاہ کی بدمزاجی کی شکایت کرتی‘ تو وہ سنی ان سنی کر دیتا۔ بعض اوقات ڈانٹ تک پال دیتا۔ مرحومہ کے‘ ہر کہے کو آسمانی صحیفے کا سا درجہ حاصل تھا۔ نیچ ذات سے تھی‘ اسی وجہ سے‘ کامے اور کامیوں کی تقریبا ہر وقت‘ شامت آئی رہتی تھی۔ ان میں سے‘ کوئی چوں تک نہیں کر سکتا تھا۔ وہ یہ کہنے کی جرات نہیں رکھتے تھے‘ کہ کل تک تمہاری ماں‘ ہمارے ساتھ کام کیا کرتی تھی۔ یہ تو وقت وقت کی بات ہوتی ہے۔ وقت شاہوں کو فقیر اور فقیروں کو شاہی مسند پر بیٹھا دیتا ہے۔ وقت کسی کا غالم ہوتا اور ناہی کسی سے پوچھ کر گزرتا ہے۔ شاہ کے پرسےاور شاہی قربت کے لیے‘ ہر کسی کو اصلی اور حقیقی انداز میں‘ بےچینی وبے قراری کا ناٹک کرنا تھا۔ یہ ہی نہیں بین‘ نوحہ خوانی‘ اشک سوئی اور سینہ کوبی سے کام لینا تھا۔ وفاداری کے مظاہرے کے لیے‘ اس سے مواقع‘ کبھی کبھی ہاتھ لگتے ہیں۔ انہیں ضائع کرنا‘ اپنی قسمت کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ شدت غم میں بھی‘ شاہی لطف و عطا اپنے معمول کے مرتبے سے نہیں گرتے۔ کسی کنیز کی نوحہ کناں آواز یا انداز‘ شاہ کو بھا سکتا ہے۔ وہ ہی لمحہ‘ اسےعموم سے خصوص میں‘ داخل کر سکتا ہے۔ قسمت الٹری کی طرح ہوتی ہے۔ سب اپنی اپنی کالکاری میں مصروف تھے۔
شاہ کی دیگر بیگمات بھی‘ کسی سے پیچھے نہ رہنا چاہتی تھیں۔ باطنی سطع پر پھوٹنے والے لڈو‘ غم ناکی کے روپ میں ڈھل کر‘ چارسو زردی بکھیر رہے تھے۔ سارے مشیر‘ وزیراور انتظامی عملہ‘ بڑا مصروف اور انتہا درجہ کی پھرتیاں دکھا رہا تھا۔ یوں لگتا تھا‘ جیسے ان سے بڑھ کر‘ محنتی‘ کارگزار اور وفادار لوگ دنیا میں نہ ہوں گے۔ حاالں کہ ہر کوئی look busy but do nothing. کلیے پر‘ عمل درآمد کر رہا تھا۔ ان کی ان ہی چلنتریوں نے‘ انہیں اعلی مقام اور اعلی درجے عطا کیے تھے۔ کسی نے کیا ہی خوب کہا ہے اسپ تازی شدہ مجروع بر زیر پالن طوق زرین ہمہ در گردن خر میبینم خیر کام بھی تھے‘ جنازے کے لیے‘ دیگر والئیتوں سے آنے والوں کے لیے‘ بیٹھنے کا انتظام‘ کفن دفن کے خصوصی انتظامات‘ کھانے وغیرہ کا مناسب اور شاہی وقار کے شایان شان بندوبست‘ ایسے چھوٹے موٹے بہت سے امور تھے‘
جنہیں خوش اسلوبی سے نبھانا اور نپٹانا‘ کوئی معمولی بات نہ تھی۔ ملکہ ساحرہ جان شاہ نے‘ شاہ کو آخری لمحوں میں‘ باطور وصیت چار باتیں کہی تھیں اور ان پر صدق دل سے عمل درآمد کرنے کی تاکید بھی کی تھی۔ اول -شہر کے بارونق عالقہ میں‘ اس کا عالی شان مقبرہ تعمیر کیا جائےاور دو بیگھہ زمین میں باغ لگوایا جائے تا کہ ہر آنے جانے واال‘ اس کی‘ بادشاہ کی نظروں میں‘ قدر وقیمت اور عزت ومقام کا اندازہ کر سکے۔ دوم -اس سا‘ کسی کا عالی شان مقبرہ‘ تعمیر نہ ہونے دیا جائے۔ سوئم -دل میں اس کی یاد کے سوا‘ کسی اور کو نہ بسایا جائے۔ چہارم۔ اس کی جگہ‘ کسی اور کو نہ الیا جائے۔ اگر کوئی دوسری ملکہ حق ہوتی ہے‘ تو خالی جگہ پر کرنے میں‘ کسی قسم کے تساہل سے کام نہ لیا جائے۔ وزیر بندوبست کے لیے‘ کسی بھی بارونق اور گنجان آباد عالقہ
میں‘ دو کیا‘ دس بیگھہ زمین خالی کرا لینا‘ کوئی مشکل کام نہ تھا۔ سروے کے بعد‘ اس کار خیر کے لیے‘ شیر شاہ چوک سے زیادہ‘ کوئی عالقہ مناسب معلوم نہ ہوا۔ پھر دیکھتے یی دیکھتے‘ تین بیگھہ زمین کے رہائشوں سے‘ عالقہ خالی کرا کر‘ بلڈوز کر دیا گیا۔ وزیر بندوبست اپنی سیانف اور دانائی کی وجہ سے‘ شہرہ رکھتا تھا۔ دو ییگھہ مقبرہ اور باغ کے لیے‘ جب کہ ایک بیگھہ خدمت گاروں اور اس کی رہاہش کے لیے‘ مختص کر دیا گیا۔ نگرانی کا حساس اور اہم ترین کام‘ اس کے سوا‘ بھال اور کون انجام دے سکتا تھا۔ اس عظیم قومی مشن کے لیے‘ بےتحاشا مالی وسائل کی ضرورت تھی۔ شاہی خزانے سے‘ مالی وسائل استمال میں النا‘ نادانی کے متردف تھا اور شاہی خزانہ بھی‘ اس کا متحمل نہ تھا۔ وزیر مالیات نے کہا :جس طرح بادشاہ سب کا ہوتا ہے‘ اسی طرح ملکہ بھی سب کی ماں ہوتی ہے‘ اس لیے اس عظیم قومی مشن کے لیے‘ جملہ وسائل فراہم کرنا‘ عوام کا قومی فریضہ ہے۔ مالی تعاون بادشاہ سے اظہار وفاداری بھی تو ہے۔ وزیر مالیات کی تجویز پر‘ ہر درباری‘ عش عش کر اٹھا اور اس کی فراست کی تعریف کرنے لگا۔
مالی وسائل کی حصولی کے لیے‘ استعمال کی اور خوردنی اشیا پر‘ ملکہ ماں ٹیکس عائد کر دیا گیا۔ لوگ مری ملکہ ماں کو‘ برسرعام گالیاں دینے لگے۔ اس ٹیکس سے‘ پورا پڑنا مشکل تھا۔ مجبورا‘ ممتا کونسل تشکیل دینا پڑی‘ جو گھروں‘ دکانوں‘ مارکیٹوں‘ کاروباری جگہوں‘ راہ گیروں‘ مسافروں وغیرہ سے‘ مالی وسائل جمع کرنے لگی۔ اس سے بےچینی بڑھی‘ دنگا فساد بھی ہوا۔ اس میں کچھ زخمی ہوئے‘ چند سو جان سے بھی گیے۔ زمین حاصل کرتے وقت بھی‘ کچھ اسی قسم کی صورت حال پیش آئی تھی۔ انتظامیہ‘ ایسے شر پسند عناصر سے‘ نپٹنا خوب خوب جانتی ہے۔ اتنی بڑی مملکت میں‘ گنتی کے چند لوگوں کا مر جانا‘ اتنا بڑا ایشو نہیں ہوتا۔ دوسرا‘ ایسے عناصر کا مر جانا ہی‘ دوسروں کے لیے بہتر اور عبرت ہوتا ہے۔ اس طرح انہیں‘ کان ہو جاتے ہیں اور اس سے بغاوت کے جراثیم‘ اپنی موت آپ مر جاتے ہیں اور امن وامان بحال رہتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے‘ عالی شان مقبرہ تعمیر ہو گیا۔ اس کی تعمیر میں‘ کوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی تھی۔ اس کی تعمیر کے لیے‘ اعلی سطح کے کاری گروں کی خدمات‘ حاصل کی گئی تھیں۔ جو دیکھتا‘ عش عش کر اٹھتا۔ شاہ بھی‘ ہنرمندی پر کلمہء تحسین ادا کیے بغیر‘ رہ نہ سکا۔ اطراف میں‘ محافظ مالزمین اور وزیر بندوبست کی رہائش گاہ نے‘ بےرونقی کو ہی
ختم نہیں کیا تھا‘ بلکہ حسن کو دوباال کر دیا تھا۔ شاہ کی نشت گاہ‘ تو دیکھنے الئق تھی‘ لیکن اس کی زیارت‘ شاہ کی آمد پر ہی کی جا سکتی تھی۔ اس سارے عمل میں‘ جہاں مقبرہ وغیرہ تعمیر ہوا‘ وہاں بندوبستیوں کی بھی‘ چاندی ہوئی۔ انہوں نے لمبا چوڑا ہاتھ مارا تھا۔ وزیر مالیات اور وزیر بندوبست‘ پہلے ہی رج کھاتےاور چھنڈ پہتتے تھے‘ تاہم اس پروجیکٹ نے بھی‘ انہیں مایوس نہ کیا تھا۔ آنکھ کا نہ بھرنا‘ اس سے قطعی مختلف بات ہے۔ وقت‘ بڑی تیزی سے‘ مستقبل کی طرف بڑھتا رہا۔ لوگ ماضی کے دھرو‘ بھولتے گیے۔ شاہ کا زخم بھی‘ مندمل ہو گیا اور ہر کوئی‘ اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہو گیا۔ مقبرے کا باغ‘ حسیناؤں کی تفریح گاہ بن گیا۔ حسیناؤں کی آمد پر‘ کسی قسم کی روک نہ تھی‘ ہاں مرد حضرات کے لیے‘ یہ ایریا قطعی ممنوعہ تھا۔ اگر مرد حضرات کو بھی‘ یہاں آنے کی اجازت دے دی جاتی‘ تو یہ فحاشی کا اڈہ بن جاتا۔ شاہ ملکہ ساحرہ جان شاہ کو تقریبا بھول چکا تھا۔ ہاں البتہ‘ یہاں اپنی نشت پر‘ باقاعدگی سے جلوہ افروز ہونے لگا۔ جب وہ جلوہ افروز ہوتا‘ حسیناؤں کے غول کے غول‘ اٹھکیلیاں کرتے نظر آتے۔ آج اگر شداد زندہ ہوتا‘ تو حسد اور احساس کہتری سے‘ اس کا کلیجہ پھٹ پھٹ
جاتا۔ لوگ‘ آلہ ءنشاط پر دسترس اور اس سے لطف افروزی کے لیے‘ کمینگی کی‘ کسی بھی سطع پر‘ اتر آتے ہیں۔ شاہوں کے دبدبے اور وجاہت کے حضور‘ کنویں پیاسے کی سیرابی کے لیے‘ بےچین و بےقرار اور سبقت لے جانے کی فکر میں‘ ہلکان ہوتے ہیں اور یہ شرف‘ چڑھے مقدر والوں کو ہی‘ حاصل ہو پاتا ہے۔ پھر ایک روز‘ فرخ سیر کی محبوبہ‘ روپ کنور کی نسل کی‘ ایک شوخ و چنچل ڈومنی نے‘ شاہ کی صدیوں کی‘ پیاس کو بجھا کر‘ شاہی محل میں جگہ بنا ہی لی۔ ساری راجدھانی میں جشن منایا گیا۔ مبارک بادوں کے پیغام ملنے لگے۔ اب محل پر‘ ملکہ قرتہ الشاہ کا سکہ چلنے لگا۔ شاہ بھی‘ اس کی مٹھی میں بند ہو کر رہ گیا۔ جس طرح کہتی‘ شاہ اسی طرح کرتا‘ بلکہ اب شاہ کم‘ وہ زیادہ کہتی تھی۔ گویا ملک کا انتظام‘ اس کے ہاتھ میں آ گیا تھا۔ اس کے حضور کسی کو‘ چوں تک کرنے کی جرآت نہ تھی۔ اس کے خاندان کے بہت سے لوگ‘ اعلی عہدوں پر فائز ہو گیے۔ بہت سے پرانے نمک حرام‘ معزول کر دیے گیے۔
ملکہ قرتہ الشاہ‘ فضول کی قائل نہ تھی۔ ہر معمولی اور گری پڑی چیز بھی‘ تصرف میں آ گئی۔ کچرے سے بھی‘ تصرف کی اشیا ڈھونڈ نکالتی۔ کام چور اور نکموں کو بھی‘ کام کرنا پڑا۔ وہ اپنے خاندان کے لوگوں کے کہے کو‘ درست اور سچ مانتی۔ چاپلوسی کے لیے بھی‘ ان ہی میں سے منتخب کیے گیے۔ ہر غیر خاندان کے عہدےدار کے پیچھے‘ اپنے خاندان کا کوئی فرد چھوڑ دیتی۔ گربوتی ہونے کے باوجود‘ وہ اسی چابکدستی سے کام انجام دے رہی تھی۔ جب سے امید سے ہوئی‘ شاہ اس پر اور بھی مہربان ہو گیا تھا۔ کیوں نہ ہوتا‘ وہ سلطنت کے لیے‘ وارث کو جنم دینے والی تھی۔ مقبرے کے دو ایکڑ اور اس سے ملحقہ ایک ایکڑ زمین پر‘ عالی شان عمارتیں الیعنی تصرف میں تھیں۔ اس نے تمام عمارتیں‘ اپنے خاندان کے معزز لوگوں کو‘ االٹ کر دیں۔ باغ مینا بازار کے لیے مخصوص کر دیا۔ باغ میں داخلے کی انٹری فیس مقرر کر دی۔ یہ بازار‘ ہفتے میں صرف دو بار لگتا۔ خود شاہی نشت پر بیٹھ کر‘ اس کی نگرانی کرتی۔ ساتھ آئی کنیزوں کی اشیا وغیرہ کے رکھنے کے لیے‘ مقبرے کو باطور سٹور استعمال کیا جانے لگا۔ بعد ازاں‘ گھاس پر ننگے پاؤں چلنے والوں کے لیے‘ جوتا گاہ بنا دیا گیا۔
مواد دو نمبر استعمال کیا گیا تھا‘ اوپر سے کثرت استعمال نے‘ اسے ڈھارا بنا دیا۔ شاہ کی حیات میں ہی‘ مقبرہ زمین بوس ہو گیا۔ شاہ کو یاد تک نہ رہا‘ کہ اس ملبے تلے‘ اس کی سابقہ محبوب ملکہ ساحرہ جان شاہ‘ ابدی نیند سو رہی ہے۔ ملبہ صاف کرکے‘ آنے جانے والوں کی سہولت کے لیے‘ طہارت خانے تعمیر کرا دیے گیے۔ تاہم ملکہ ساحرہ جان کی قبر کو‘ نقصان نہ پنچایا گیا۔ ہاں تھوڑا مختصر کرکے‘ اس کو دوبارہ سے مرمت کروا دیا گیا اور یہ ثابت کر دیا کہ وہ فراخ دل ہی نہیں‘ اپنی مرحومہ سوت کے لیے بھی‘ دل میں عزت اور احترام کا جذبہ رکھتی ہے۔ اس کے اس جذبے کو‘ اطراف میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ اس کی یہ ہی فراخ دلی‘ تاریخ کے سینے پر‘ ہمیشہ کے لیے ثبت ہو گئی۔
لمحوں کا خواب
سفر آخرت اختیار کرنے میں' کچھ زیادہ وقت نہ رہ گیا تھا۔ نائیلہ' جو اس کی آخری اور ذاتی کوشش کا نتیجہ تھی'
محرومیوں میں بڑی ہوئی۔ باپ سے پاگل پن کی حد تک' محبت کرتی تھی۔ اس کی زندگی بچانے کے لیے وہ دل وجان سے بھاگ دوڑ کر رہی تھی۔ جو عیش میں پلے اور بڑے ہوئے' اس کی ان احمقانہ کوششوں پر پیچ وتاب کھا رہے تھے۔ ناہید جس کے' وہ عمر بھر غلط سلط مطالبے پورے کرتا رہا تھا' رائی بھر متفکر نہ تھی۔ وہ بڑھاپے میں بھی' جوان لڑکیوں کی طرح ناز نخرے دکھاتی تھی اور وہ اٹھاتا بھی رہا تھا۔ بڑا لڑکا پچاس سے تجاوز کرنے کو تھا' لیکن وہ ابھی پینتس سال کی نہیں ہوئی تھی' خیر اس معاملہ میں' اپنے بیٹے کی عمر کی' وہ ذمہ دار اور پابند نہ تھی۔ یہ اس کا ذاتی معاملہ تھا۔ اگر کوئی سو سال بعد بھی پوچھتا' تو وہ اپنی عمر پنتیس سال ہی بتاتی' گویا وہ اس ذیل میں زبان کی پکی تھی۔ وہ ہوش میں تھا اور ابھی تک' اس کے حواس معطل نہیں ہوئے تھے۔ وہ سوچ رہا تھا' کہ ان لوگوں کی خوشی کے لیے' کیا کچھ کرتا رہا۔ انہیں سہولتیں فراہم کرنے کے لیے' ہر طرح کی بددیانتی اور دو نمبری کرتا رہا۔ جسے کچھ میسر نہ آیا' جان ہلکان کر رہی تھی۔ عیش میں پلے' اس کے قریب آنے کا بھی تردد نہیں کر رہے تھے' مبادہ موت انہیں بھی اپنی گرفت میں لے گی۔ اب تو گھڑی پل کا معاملہ تھا'چند لمحوں کے لیے' اسے اپنا ظاہر کرنے سے' ان کا کیا جاتا تھا۔ انہوں نے تو' مروت'
لحاظ اور جعلی تکلف و تردد کا بھی ستیاناس مار کر رکھ دیا تھا۔ آنکھیں بند ہوتے ہی' دو چار مگرمچھ کے آنسو بہائیں گے' دنیا اسے ان کی محبت اور صدمے کا نام دے گی' حاالں کہ یہ ان کے سینے کے باسی ہی نہیں رہے تھے۔ اسے اپنی زندگی کے گزرے چوہتر سال' کل پرسوں کی بات لگی۔ اس نے سوچا یہ زندگی کچھ بھی نہ تھی' محض چند لمحوں کا خواب تھی۔ چوہتر سال کچھ کم نہیں ہوتے' لیکن دیکھتے دیکھتے ہاتھوں سے نکل گیے۔ اب وہ واپس مڑ نہیں سکتا تھا اور مستقبل کا دروازہ' کچھ ہی لمحوں کے بعد' کھلنے کو تھا۔ وہ ان کا یا وہ اس کے نہ رہیں گے۔ اس کی ہر چیز' ان کی ہو جائے گی۔ اس کی چیزوں کے بٹوارے پر وہ کتوں کی طرح لڑیں گے۔ اگرچہ ترکہ کچھ زیادہ نہ تھا۔ بہت کچھ بن سکتا تھا' لیکن پیٹ اور موج مستی کو پہلی اور آخری ترجیح دی گئی تھی۔ آج جن بیٹوں کے بوتے پر اترا رہی تھی' اس کی دو ہتھ زبان' اسے ان کے ہاں بےوقار کر دے گی۔ نائیلہ' جسے وہ احمق سمجھتی تھی' ممکن ہے' وہ ہی آخری لمحوں میں اس کے کام آئے۔ ڈاکٹر اپنی کوشش میں مصروف تھا۔ وہ اپنی ناہید کی نخرہ برداری کے لیے' مصروف عمل تھا۔ اسے مرنے والے کی
زندگی یا لحموں کی بہتری' چمکتے سکوں کے لیے عزیز تھی۔ سرکاری ہسپتال کے بستر پر پڑا مریض کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ بچ جائے مریض کی قسمت' مر جائے مریض کی قسمت۔ ہر دو صورتوں میں' تنخواہ پر رائی بھر فرق نہیں پڑتا۔ وہ تو جاری رہنے کے لیے ہوتی ہے۔ ہاں کسی مقترہ شخصیت کا معاملہ' اس سے برعکس ہوتا ہے۔ ماضی کا ہر لمحہ' کسی فلم کی طرح' اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گھوم گیا۔ اس کا باپ ولی دمحم' امرتسر کے ریلوے اسٹیشن پر قلی تھا۔ صبح سویرے گھر سے نکل جاتا۔ لوگوں کا سامان اٹھانے کے ساتھ ساتھ' بڑے اور دو چھوٹے بابو صاحبان کی خدمت انجام دیتا۔ ان کے لیے کھانا التا' جو کھانا بچ رہتا' اس سے بھوک مٹا لیتا۔ کبھی پیٹ بھر بچ رہتا اور کبھی دو ایک نوالے بھی میسر نہ آتے۔ فارغ وقت میں' ریلوے اسٹیشن کی کنٹین پر کام کرتا۔ آخری گاڑی نکل جانے کے بعد' گھر لوٹ کر آتا۔ ہاجراں اسی وقت گرم گرم کھانا پیش کرتی۔اسے کھانا تو خیر کہا نہیں جا سکتا' ہاں گزارا ٹکر کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ البتہ جوٹھا اور ان دھلے ہاتھوں کا بچا کچا نہ ہوتا تھا۔ اس میں ہاجراں کی محبت اور خلوص شامل ہوتا تھا۔ جب وہ کھانا کھا چکتا' تو گرم گرم تیز مٹھے کی بڑی پیالہ ال کر' کھڑکی کا زیریں حصہ' جو باطور میز استعمال ہوتا تھا' پر رکھ
دیتی اور خود پاس بیٹھ جاتی۔ وہ چائے پیتے ہوئے' سارے دن کی کارگزاری سناتا اور ہاجراں بڑے غور سے سنتی۔ کبھی دونوں ہنس پڑتے اور کبھی افسردہ ہو جاتے۔ اس کی کوشش تھی' کہ بڑا لڑکا پڑھ لکھ کر' کچھ بن جائے' پھر وہ چھوٹوں کو خود ہی سمبھال لے گا۔ اس کی محنت اور کوشش پر' کسی سطح پر' شک نہیں کیا جا سکتا۔ ہاجراں اس کے شانہ بہ شانہ چل رہی تھی۔ جس دن عبدالرحمن نے میٹرک کر لیا' ولی دمحم کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اسے یوں لگا' جیسے ساری دنیا کی خوشیوں نے' اس کے قدم آ لیے ہوں۔ عبدالرحمن نے کئی سرکاری مالزمتیں کیں لیکن اسے کوئی پسند نہ آئی۔ آخر محکمہ مالیات کی بابو شپ راس آ گئی۔ باالئی وافر میسر تھی۔ جیب میں دام ہوں تو شوقینی بغل گیر ہو ہی جاتی ہے۔ گھر کے کھانے بےلطف اور بےمزا ہو جاتے ہیں۔ شراب' کباب اور عورتیہ ذائقہ جب زندگی کا الزمہ اور لوازمہ بن جائیں' باپ کی محنت اور قربانی الیعنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ فقط ذات کی معنویت باقی رہ جاتی ہے۔ اس دورانیے میں' ناہید اس کی زندگی میں داخل ہوئی۔ شوقینی میں' وہ اس کی بھی استاد تھی۔ دونوں خارجی رنگینیوں کے شائق تھے۔ ناہید کے آنے سے خرچے آسمان سے باتیں کرنے لگے تھے۔ ناہید کے بطن
سے اپنے اور پرائے' گھر کا فرد بننے لگے تھے۔ عبدالرحمن نے بھی کئی ویران گودیں آباد کیں۔ ولی دمحم کے خواب' چکنا چور ہو گیے۔ ایک ہی شہر میں رہتے' وہ اس کی شکل دیکھنے کو ترس جاتا۔ ان کے درمیان اسٹیٹس گیپ آ گیا تھا۔ کہاں ایک قلی اور کہاں محکمہ مالیات کا ایک باعزت بابو۔ ایک مرتبہ' دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر' ولی دمحم اس کے دفتر چال گیا۔ وہ پوری زندگی کسی غیر کے ہاتھوں اتنا ذلیل نہ ہوا ہو گا' جتنا اس دن بیٹے کے ہاتھوں ذلیل ہوا۔ وہ سارا دن روتا رہا۔ آخر کسی کو کیا بتاتا۔ دونوں مجبوری کی زنجیر میں جکڑے ہوئے تھے۔ ولی دمحم دل کے ہاتھوں' جب کہ عبدالرحمن اسٹیٹس کے ہاتھوں مجبور تھا۔ وہ کسی کو کیا بتاتا کہ اس کا باپ ایک قلی ہے۔ وہ بھی تو قلی کے لباس میں منہ اٹھا کر چال آیا تھا۔ ولی دمحم نے اس واقعے کا ذکر اپنی بیوی سے بھی نہ کیا' وہ بچاری خواہ مخواہ دکھی ہو گی۔ ہاجراں نے ہر مشکل وقت میں اس کا ساتھ دیا تھا۔ موت اٹل حقیقت ہے۔ یہ ہر کسی کو' اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ ولی دمحم کے وعدے پورے ہو گیے اور وہ چل بسا۔ اس دن عبدالرحمن کے گھر دعوت تھی' جو ملتوی نہ کی جا سکتی تھی۔ ولی دمحم اگرچہ کئی ہفتوں سے بیمار چال آتا تھا۔ وہ گاہے بہ
گاہے اس کا پتا کرواتا رہتا تھا۔ موت کی خبر بالکل اچانک ملی تھی۔ سارا انتظام ہو چکا تھا' اس لیے وہ اس کی آخری رسومات میں شامل نہ ہو سکا۔ ماں جس دن مری' اس دن ان کے گھر ناہید کی سال گرہ منائی جا رہی تھی۔ مہمانوں سے گھر بھرا پڑا تھا۔ وہ مہمانوں کو' جو شہر کے معززین تھے' چھوڑ کر ماں کے جنازے میں کس طرح شامل ہو سکتا تھا۔ اس نے سوچا وہ کتنے خوش نصیب تھے' کہ اس خوش فہمی کے ساتھ مرے کہ اگر ان کا بڑا بیٹا پاس ہوتا' تو کتنا دکھی ہوتا۔ دھاڑیں مار مار کر روتا۔ اس کے بچے قریب ہوتے ہوئے' صدیوں کے فاصلے پر کھڑے' اس کی موت کے لمحوں میں گرفتار بےبسی کا تماشا کر رہے تھے۔ سب کچھ واضح اور دو ٹوک تھا' کسی قسم کی غلط فہمی یا خوش فہمی کا شائبہ تک نہ تھا۔ اس نے سوچا' زندگی جب دو لمحوں کی ہے' تو لذت کے لمحے کس شمار میں آتے ہیں۔ شراب کا نشہ ہو' کہ سیٹ کا' آخر اتر ہی جاتا ہے۔ ہوٹل میں بےگانی جیب سے کھانے کی لذت' کھاتے رہنے کے دورانیے تک محدود ہوتی ہے' اس کے بعد منہ میں محض تشنگی باقی رہتی ہے۔ عورتیہ ذائقہ' اپنے اسٹیمنے کے ساتھ جڑا ہوتا ہے اور اسٹیمنہ المحدود نہیں' محدود کےمبہم
لمحے کی گرفت میں ہوتا ہے۔ فراغت سے پہلے' وہ ایک دوسرے کے کوئی بھی نہیں ہوتے' فراغت کے بعد بھی' وہ ایک دوسرے کے کچھ نہیں ہوتے۔ کوئی دیکھے یا نادیکھے غلط تو ہوا ہوتا ہے۔ مبہم لمحوں کی لذت آدمی کو کتنا ذلیل کرتی ہے۔ اس کا سارا بوجھ آدمی کے اپنے کندھوں پر ہوتا ہے۔ چلتے سمے' اپنے بھی اپنے نہیں ہوتے۔ ان کے لیے کیے کا بوجھ بھی' جانے والے کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ بھولے سے بھی وہ' اس بوجھ کے ساجی نہیں بنتے۔ وہ کلین ہینڈ ہی رہتے ہیں۔ وہ فقط اپنے کیے کے' ذمہ دار ہوتے ہیں۔ سوچوں کا دائرہ پھیل ہی رہا تھا' کہ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا' پھر سانس رکتی محسوس ہوئی۔ سوچ کے لمحے بھی المحدود نہیں ہوتے۔ موت کے ایک ہی جھٹکے سے' سب کچھ بکھر جاتا ہے۔ کچھ باقی نہیں رہتا۔اب وہاں کچھ بھی نہیں تھا' بابو عبدالرحمن تو جا چکا تھا' ہاں چارپائی پر بےکار اور معنویت سے معذور مٹی کا ڈھیر پڑا تھا۔ الیعنیت کا سوگ' آخر کوئی کیوں مناتا۔
ببلو ماں
شاہوں کا کیا' زیادہ تر' عموم پر آشکار ہی نہیں ہو پاتا۔ کارے قضا‘ کوئی معاملہ‘ کسی کے سامنے آ جائے تو اس پر نکتہ چینی‘ کھلی حماقت کے مترادف ہوتا ہے۔ یا پھر کسی کم زور کے کندھوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ صاحب دانش مفادیوں کا یہی وتیرا رہا ہے۔ جان بچاؤ موج اڑاؤ' ان کا پہال اور آخری اصول ہوتا ہے۔ ڈھونڈورچی ادارے' شاہوں اور اہل زر کو' پہلے اور آخری نمبر پر رکھتے ہیں۔ کم زور اور بےزر مظلوم پہونکے' کسی نمبر پر نہیں اترتے۔ وہ اول تا آخر بےنمبر ہی رہتے ہیں۔ بےنمبری اور بےرنگی کی سر بھی' اول الذکر کے قریبیوں کے ہاتھ لگتی ہے۔ وہ ظالم اور استحصال پسندوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اصولی اور باشری راجدھانیوں میں‘ باال و زیریں طبقہ کے معزز اور معتبر شورےفا خواتین وحشرات‘ مستعمل شاہی اطوار کی
اصول پسندی کو‘ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ہاں‘ ہاتھ آئے مال کو‘ مستقل طور پر ڈکار جاتے ہیں۔ رشوت‘ بد دیانتی اور ہر دو نمبری کو‘ بےسرا اور بد وضع نہیں رہنے دیا جاتا۔ رہ گیے عموم‘ ان کا کیا ہے‘ وہ تو ہزاروں سال سے‘ بےبسی اور بےکسی کی ٹکٹکی پر گزر بسر کر رہے ہیں۔ گویا وہ الوارثی اور بےچارگی کے‘ کلی طور پرعادی ہو چکے ہوتے ہیں۔ اس لیے‘ ان کی چنتا اور کسی قسم کا تردد‘ کوئی معنویت نہیں رکھتا‘ کیوں کہ معمولی ارتعاش کے بعد‘ فقط چہرے بدلتے ہیں اور کاروان حیات سابق الیعنیت کی لنگز ٹی بی سے' اسی تابانی سے‘ نبردآزما ہو جاتا ہے۔ کیا ہوا‘ زبانی کالمی سے زیادہ‘ نہیں رہ پاتا‘ یہ ہی معتوب طبقے‘ شاہوں کے بانیہ بیلی بن جاتے ہیں۔ ان ہی میں سے‘ نئے کرسی قریب پیدا ہو جاتے ہیں۔ نواب صاحب‘ راجہ صاحب‘ خاں صاحب‘ چودھری صاحب‘ ملک صاحب وغیرہ کے لقب سے‘ ملقوب ہوتے ہیں۔ شاہی باغی کنبوں کے زخم بھی‘ ایک وقت کے بعد‘ مندمل ہو جاتے ہیں۔ آتے وقتوں میں‘ چند یادوں کے سوا‘ کچھ باقی نہیں رہتا۔ جب کسی بھی حوالہ سے‘ زندگی چل رہی ہے تو اس پر انگلی رکھنا‘ بدامنی کا رستہ ہی کھولنا نہیں‘ کھلی بغاوت بھی ہے۔ جس شخص کے‘ سوکھی پر گزر اوقات ہو رہے ہیں‘ تو اسے چوپڑی دینا‘ اس پر ظلم و زیادتی کرنا ہے۔ ایسے تو اس کی
عادتیں ہی بگڑیں گی۔ عیش و نشاط شاہوں اور شاہ والوں کے چونچلے ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کو آخر تسلیم کیوں نہیں کر لیا جاتا‘ کہ سوکھی خوروں کو‘ خوب محنت و مشقت کرنی چاہیے‘ تا کہ شاہ‘ اپنی محبوبوں کے لیے‘ تاج محل اور نور محل تعمیر کے لیے‘ بیسیوں کے قتل و غارت پر نہ اتر آئیں۔ زندگی صرف ایک بار ملتی ہے‘ جو مر گیا‘ سو مر گیا۔ کسی مرے کو‘ آج تک واپس آتے‘ کسی نے نہیں دیکھا۔ اس حوالہ سے‘ زندگی خدا کا انمول تحفہ ہے‘ اسے خواہ مخواہ میں ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ روٹی کے ٹکرے‘ زندگی کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ روٹی کے لیے فساد کھڑا کرنا‘ کہاں کی دانش مندی ہے۔ جان کی امان کے لیے‘ انہیں خود کو وفادار مشقتی بنائے رکھنا ہو گا۔ یہ ہی سچائی اور یہ ہی حقیقت ہے۔ گیڈروں نے فصلیں برباد کرکے رکھ دی تھیں۔ اکبرے کے دونوں شکاری کتے بھی‘ ان کے سامنے بھیڑ ہو کر رہ گیے تھے۔ گیڈروں کا غول آتا‘ ایسا چکما دیتا‘ کہ دونوں کتے‘ بےبس سے ہو کر رہ جاتے۔ اصل میں‘ ان میں سے ایک کتا‘ گیڈر کے بچے پر ٹوٹ پڑا تھا۔ مادہ گیڈر‘ جو پاس ہی تھی‘ نے اس گستاخ کتے کو شدید زخمی کر دیا اوراس کی بھاگتے بنی۔ یہ ہی اگر وہ مادہ گیڈر پر ٹوٹ پڑتا‘ تو یقینا اسے ڈھیر کر دیتا۔ اس دن سے‘ اس کا کھیت پر ہونا یا نہ ہونا‘ برابر ہو گیا تھا۔ گویا گنتی میں
دو کتے تھے‘ ورنہ حقیقت میں‘ ایک کتا ہی کام کر رہا تھا۔ ماں اپنے بچوں کے لیے' کسی بھی سطع تک جا سکتی۔ اسے ہر صورت اور ہر حالت میں' بچوں کی جان اور آزادی عزیز ہوتی ہے۔ وہ اپنے بچوں کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہے۔ اس ذیل میں وہ اپنی جان سے بھی گزر سکتی ہے۔ ہاں مبین اور ببلو جیسی مائیں بھی ہوتی ہیں' جو بچوں کو بےیار و مددگار چھوڑ کر' ننے چھوہارے کی خاطر' اپنی ممتا کے چہرے پر' بدقماشی کا طمانچہ مار کر' نئی دنیا آباد کر لیتی ہیں۔ چھوہارہ ہولڈر یہ نہیں سوچتا' جو اپنے ذاتی بچوں کی نہیں بنی' اس کی خاک بن پائے گی۔ لکیر کا زہریال نشہ' اس کی رگ و پے میں اتر کر' اس کے جملہ حواس معطل کر چکا ہوتا ہے۔ ہر روکنے ٹوکنے واال' انہیں میر جعفر کا پیٹی بھرا محسوس ہوتا ہے۔ اوالد پر' چھوہارے کو ترجیح میں رکھنے والی مائیں' بہت کم ہوتی ہیں' لیکن ہوتی ہیں۔ ماں کے قدموں میں جنت کی دعوےدار وہ بھی ہوتی ہیں' حاالں کہ ان کے کبھی قدم ہی نہیں رہے ہوتے۔ پھر جنت کہاں سے آ گئی۔ بابے شاہ نے ببلو کے سر پر' پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا' بیٹا جو تم کرنے جا رہی ہو' کسی طور پر درست نہیں۔ اسے شاہ بابے کی بات زہر لگی۔ اس نے اسے جعلی پیر کہا اور پھوں پھوں کرتی کمرے
سے باہر نکل گئی' حاالں بابے شاہ نے' اس سے ایک اکنی تک نہ لی تھی اور ناہی' وہ لیتا تھا۔ ببلو نے اسے جعلی پیر مشہور کر دیا' جس سے' بابے شاہ کی صحت پر رائی بھر اثر نہ پڑا. وہ کون سا پروفیشنل پیر تھا' جو رزق رک جانے کے خدشے سے پریشان ہوتا۔ بئےگر پیر دھورے شاہ نے' ببلو سے پیسے لیے' بڑے باذوق انداز میں' اس کی ہر دو اطراف سے پیٹھ سہالئی۔ تعویز' تسلی اور کام ہو جانے کی گرنٹی دی۔ دو تین مرتبہ جانے کے بعد' وہ اس کی دل و جان سے قائل ہو گئی۔ کام ہو جانے کے بعد بھی' وہ اس کے در دولت پر' دوسرے تیسرے حاضری دینے لگی۔ شہر بھر میں' اس کی کرامات کا ڈھنڈورا بھی پیٹا۔ بئےگر پیر دھورے شاہ کے ہاں' عشاق حضرات کی قطاریں لگ گئیں۔ حکومت بھی ماں کی طرح ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے' یہ شروع سے' گیڈر ماں بھی نہیں بن سکی۔ یہ ہمیشہ ببلو ماں ہی رہی ہے۔ اسے اپنی اوالد کبھی عزیز نہیں رہی۔ اوالد کی بھوک' پیاس' بےچارگی اور الوارثی' ان کا کلیجہ ٹھنڈا کرتی آئی ہے۔ ان کی آہیں اور سسکیاں' سامان لطف بنی ہیں۔ گستاخ بچوں کو' زہر پال کر نشان عبرت بنانا' ان کا کرتوے رہا ہے۔ پیشاب بند ہو جانے کی صورت میں' اہل دانش اور حکما کو جیل کا باسی بناتی
آئی ہے۔ گویا ناالئق اوالد کی ضرورت ہی کیا ہے۔ گستاخ' ناالئق اور نااہل اوالد سے صبر بھال کو' زندگی کا اصول بناتی ہے۔ جنتا اپنی اصل میں' رعایا رہی ہے۔ اسے اوالد ہونے کا اعزاز' کبھی حاصل نہیں ہوپایا۔ زبانی کالمی ہی سہی' حکومت کو ماں کہنا غلط نہیں رہا۔ جیسی بھی ہو' ماں خیر ماں ہوتی ہے' اس کا احترام الزم ہے۔ ببلو ماں کا احترام' فرمابرداری اور خذمت گزاری میں کمی کوتاہی' جان لے سکتی ہے۔ میرے سمیت' ہر کوئی' گھر گرہستن ماں کے گن گاتا ہے۔ گھر گرہستن ماں کے بچے' محنت کے بل بوتے پر' علمی ادبی یا اور حوالوں سے چیتھڑوں میں ملبوس' فاقہ گرہست' بڑے آدمی تو بن سکتے ہیں' خوش حال بہت یا بہت ہی بڑے آدمی' کبھی بن نہیں پاتے۔ یہ بڑے آدمی' معاشرے میں گڑبڑی کے سامان پیدا کرتے ہیں۔ حکومتی امور میں' تو کون میں خواہ مخواہ کے مصداق' چھتر کھاتے ہیں یا ان لوگوں کی خاطر' اپنے چھوٹے چھوٹے بچے ذبح کرواتے ہیں' جو ببلو ماں کی اوالدوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ببلو ماں کے بچے' کیا پلتے نہیں ہیں۔ شداد بھی تو پل ہی گیا تھا۔ ببلو ماں کے بچے' راج کرتے آئے ہیں .راج کرتے آئے ہیں' راج کرتے رہیں گے اور یہ کرامت بالشبہ بئےگر پیروں کی ہے۔ ببلو ماں کا استفادہ' ہمیشہ سے چار دیواری سے باہر کے لیے رہا ہے۔ اسے حاصل کرنے کے
لیے' کسی کو زیادہ تردد نہیں کرنا پڑتا۔
حفاظتی تدبیر
کنور زندگی میں پہلی مرتبہ' باپ کے ساتھ مسجد میں' عید نماز پڑھنے جا رہا تھا۔ وہ صبح سویرے ہی اٹھ کر' تیار ہو گیا تھا۔ بڑا ہو جانے کا احساس' اسے طمانیت بخش رہا تھا۔ وہ وقت وغیرہ کے فلسفے سے آگاہ نہ تھا۔ اسی لیے بضد تھا' کہ ابھی اور اسی وقت مسجد چلتے ہیں۔ صفدر بار بار سمجھا رہا تھا' کہ بیٹا ابھی وقت نہیں ہوا۔ جب وقت ہو گیا تو جائیں گے ......تمہیں ساتھ لے کر جاؤں گا ......چھوڑ کر نہیں جاتا' فکر نہ کرو۔ وہ جماعت کے وقت مسجد میں داخل ہوتا تھا۔ اس کا یہ عقیدہ راسخ ہو گیا تھا' کہ مولوی تفریق کے دروازے کھولتا ہے' اس لیے مولوی کی سننا ہی جرم ہے۔ اس مرتبہ' وہ کنور کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے' جماعت سے کافی پہلے' مسجد کی طرف بڑھ گیا۔ اس نے سوچا' شہر کے بڑے مولوی کے
پیچھے' نماز پڑھتا ہوں۔ وہاں کام کی باتیں ہوں گی اور انسانی تقسیم کی نفی کی جائے۔ چھوٹے میاں تو چھوٹے میاں' بڑے میاں سبحان هللا۔ اس نے مسجد کے دروازے کے اندر' ایک قدم رکھا ہی تھا کہ یہ کلمات کان میں پڑے۔ مسلمان مولوی سے چھری پھیرانا' کسی وہابی بولوی سے چھری نہ پھرانا۔ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کے مصداق' نہ آگے جا سکتا تھا' نہ پیچھے مڑ سکتا تھا۔ درایں اثنا' کنور نے اس کا ہاتھ کھینچا اور اسے مسجد میں داخل ہونا ہی پڑا۔ کنور نے ساتھ ہی سوال جڑ دیا :ابو یہ وہابی بولوی کیا ہوتا ہے۔ اس نے منہ پر انگلی رکھتے ہوئے کہا :چپ' مسجد میں نہیں بولتے۔ تو پھر یہ مولوی کیوں بول رہا ہے۔ یہاں صرف مولوی ہی بول سکتا ہے۔ ابو یہ نصاف تو نہ ہوا نا انصاف کے بچے' چپ ہو جاؤ۔ مسجد سے باہر جانے کے بعد' جو پوچھنا ہے پوچھ لینا۔
حضورکریم نے اعتدال کو اصول ٹھہرایا .سکون اور آرام سے گفتگو کرنے کو' مستحسن قرار دیا۔ بڑا مولوی چنگھاڑ رہا تھا۔ جوش پیدا کرنے کے لیے' نثر بھی گا رہا تھا۔ اسے مسجد میں ہر لمحہ' قیامت سے بڑھ کر' محسوس ہونے لگا۔ خدا کے گھر میں گھٹن' بےشک یہ بات' حیرت سے خالی نہ تھی۔ ادھر کنور بھی بےچینی کے عالم میں تھا۔ نہ بول سکتا تھا اور نہ کھیل سکتا تھا۔ جماعت کھڑی ہونے میں ابھی بائیس منٹ باقی تھے۔ کنور کو جتنی جلدی آنے میں تھی' اتنی ہی جانے میں لگ گئی۔ .آخر اس نے اپنے ابو کے کان میں کہا :ابو اب چلیں صفدر خود بےچین گھڑیاں گزار رہا تھا' اس نے کنور سے کہا' تم مسجد سے باہر نکلو' میں تمہارے پیچھے آتا ہوں۔ کنور جلدی سے' مسجد سے باہر نکل گیا۔ صفدر بھی دوڑ کر' اس کے پیچھے چال گیا۔ واپسی پر کنور نے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔ اس کا خیال تھا' کہ مسجد سے باہر نکلتے ہی'کنور سب کچھ بھول جائے گا' مگر کہاں۔ وہ وہابی بولوی کے معنی' ہر صورت میں جاننے کا خواہاں تھا۔ کنور کے کسی سوال کا' اس کے پاس جواب نہ تھا۔ جانے آج کل کے یہ بچے بھی کس طرح کے ہو گیے ہیں' اپنی عمر کے سوال ہی نہیں کرتے۔ اس نے سوچا' مولوی چھوٹا ہو یا بڑا' یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ ان کی ذہنیت میں رائی بھر فرق نہیں۔ لڑاؤ
اور پیٹ بھر کھاؤ' اگر یہ طور نہ بھی اختیار کیا جاتا' تو بھی وافر سے زیادہ انہیں میسر آ جاتا۔ ختم وغیرہ سے ہٹ کر' شادی مرگ پر نقدی کے عالوہ' کھانے پینے کو بہت کچھ میسر آتا رہتا ہے۔ ساتے چالیے اور قل اس سے قطعی ہٹ کر ہیں۔ عیدین پر گھر گھر جا کر' مولوی کا حصہ طلب کیا جاتا ہے۔کوئی جمعہ ایسا نہیں گزرتا' کہ مسجد میں چہولی نہ پھیری جاتی ہو۔ سالوں پہلے' اسے بیٹے کی ضد کے سامنے' ہتھیار ڈالنا پڑے تھے۔ اس روز بھی' اسے جگری دوست شریف کے ہاتھوں مجبور ہو کر' جمعہ کی جماعت سے پہلے' مسجد جانے کا کشٹ اٹھانا پڑا۔ جنت کا بیان چل رہا تھا۔ مولوی صاحب نے سو طرح کی نعمتوں کا ذکر کیا۔ حور کے حسن وجمال کا اس طرح سے بیان کیا' کہ ازلی ناکارہ بھی جان پکڑنے لگے۔ وہ سوچنے لگا' کہ سچے هللا کی عبادت' اس لیے کرنی ہے کہ عمدہ سامان خورد و نوش' سامان تعیش اور حوریں میسر آئیں گی۔ کیا اس لیے نہیں' کہ وہ هللا ہے اور اس کی عبادت کرنا ہی ہے۔ دوسرا کیا هللا' جو ایسا عطا کرنے واال ہے کہ اس سا کوئی عطا کرنے نہیں' سے حقیر اور معمولی چیزیں مانگی جائیں۔ کیوں نہ' هللا سے' هللا ہی طلب کیا جائے۔ اگر وہ نہ مال تو باقی چیزوں کو کیا کرنا ہے اور وہ کس کام کی ہیں۔
وہ سوچوں میں گم ہی تھا' کہ اس کے کانوں میں یہ بات بھی پڑی' یہاں کی زوجہ ان بہتر حوروں کی سردار ہو گی۔ یہ سنتے ہی' اس پر خوف سے لرزہ طاری ہو گیا۔ زکراں بالوجہ لڑائی میں انتالیس منٹ سے نیچے نہیں رہتی تھی' جواب دینے کی صورت میں' وہ مسلسل کئی گھنٹے بولنے کی شکتی رکھتی تھی۔ شروع شروع میں' ایک مرتبہ اس نے دو رکھ دیں۔ پھر کیا تھا' وہ کئی مہینے' بالناغہ اور بال فل سٹاپ گرجی برسی۔ رانی توپ' اس گرجنے برسنے کے سامنے کیا حیثیت رکھتی تھی۔ اس نے سوچا' گویا یہ ان کی سردار ہو گی۔ بےشک اس کے منہ پر کاشن یلغار رہے گا۔ اس نے سوچا' ایسی صورت میں وہ کیا کرے گا۔ فورا خیال آیا' وہ کجھور کے درخت پر چڑھ جائے گا۔ نماز کے ختم ہو جانے کے بعد' اس نے مولوی صاحب سے پوچھا :عالمہ صاحب! کیا جنت میں کجھور کا درخت بھی ہو گا۔ کیوں نہیں' آدمی جو مانگے گا میسر آئے گا۔ واپسی پر وہ سوچتا آیا' کہ وہ تو درخت پر چڑھنا ہی نہیں جانتا۔ اس نے حفظ ما تقدم' یہ ہنر سیکھنے کا ارادہ کر لیا۔ اگلے ہی روز سے' اس نے مشق شروع کردی۔ اصوال اسے استاد پکڑنا
چاہیے تھا' لیکن اس نے خود سے یہ کام شروع کر دیا۔ پہلے تین دن تو خیر خیریت سے گزر گیے' چوتھے دن تھوڑا اوپر چال گیا۔ توازن قائم نہ رہنے کے باعث' نیچے آ رہا۔ نیچے گرتے ہی' ٹانگ ٹوٹ گئی۔ ہسپال بھرتی کرا دیا گیا۔ سارا دن سردار حوروں سے مالقات رہتی' آرام بھی مال۔ کچھ چہرے اور کھل کر سامنے آ گیے۔ بہت کچھ غیرواضح' واضح ہو گیا' ہاں البتہ جیب کا دیوالیہ نکل گیا۔ زکراں ہم دردی کی بجائے' سارا دن کوسنے دیتی رہتی۔ اپنے نصیب سڑنے کا رونا روتی۔ یہ سب اپنی جگہ' ہر کوئی یہ ہی پوچھتا' آخر تم درخت پر کیوں چڑھے تھے۔ زکراں دن میں یہ سوال کئی مرتبہ پوچھتی' کیا جواب دیتا۔ اگر بتا دیتا تو ایسا یدھ پڑتا' کہ لوگ پانی پت کے رن کو بھول جاتے۔ حفاظتی تدبیر' اس کے گوڈوں گٹوں میں بیٹھ گئی تھی۔ اس نے سوچا' جو ہو گا' دیکھا جائے گا۔ یہاں ایک کھاتا ہے' وہاں تہتر کھائے گا۔ شاید وہاں تہتر کھانے کی شکتی بھی آ جائے گی۔ یہ بھی کہ اس نے ایسا کون سا کارنامہ انجام دیا ہے' جس کے صلہ میں' جنت اور جنت کی حوریں ملیں گی۔
حضرت بیوہ شریف وہ اس کی بہن کم' دوست زیادہ تھی۔ بچپن' پھر جوانی اور اب بڑھاپا' ایک دوسرے سے رابطے میں گزار رہے تھے۔ دکھ سکھ شیئر کرنے کے ساتھ ساتھ' باہمی خوش طبعی بھی چلتی۔ گویا رونے دھونے کے ساتھ ساتھ' قہقوں کا بھی تبادلہ ہوتا۔ پرانے قصے اور پرانی یادوں کو دہرا کر' من کا بوجھ ہلکا کر لیتے۔ اسے سعدیہ سے ایک گلے کے سوا' کوئی گلہ نہ تھا۔ قصور سعدیہ کا بھی نہ تھا' اسے بہن کی اندھی ہونی کا نام دینا' زیادہ مناسب لگتا ہے۔ وہ تو اپنے بھائی کو' دکھ دینے کے متعلق' سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ پورے کنبے کو نقصان پہچانے واال' آخری کردار' دنیا سے چال گیا' تو ان دونوں کی نشت ہوئی۔ سعدیہ نے بتایا' کہ بھابی کی موت کا افسوس کرنے والے' مسلسل اور متواتر آ رہے ہیں۔ اس نے کہا' لوگ بھی کیسے ہیں' افسوس انہیں کرنے آ رہے ہیں' جنھیں افسوس ہی نہیں ہوا۔ سعدیہ نے افسوسا سا منہ بنا کر کہا' کیوں افسوس نہیں ہوا۔ بےچاری نے عمر کے آخری ایام' چھڑی کے سہارے گزارے۔ کان بھی جواب دے گئے تھے' ہائے بچاری بھابی۔
اب سماعت کی رخصتی کا کیا فائدہ تھا' اللہ تو عرصہ پہلے قبرباسی ہوگیا تھا۔ بھائی! آپ یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ سعدیہ کا انداز گھبرایا اور پریشانی آمیز تھا' جیسے اس قسم کی بات گراں بار ہوئی ہو۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا' وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ پھر یہ سوچ کر مسکرا دیا' دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔ یہ ان کے بھائی کی' جان کھچ خاتون تھی اور بھلے وقتوں میں' ان کے بھائی شوکت نے اپنے جگری دوست علیے سے' بڑے ہی سستے داموں میں' خرید کی تھی۔ وہ اسے کب بیچنے واال تھا' اس کی بیوی' صبح شام جھگڑا کرتی تھی' حاالں کہ اس کے بابرکت قدموں کے طفیل' انھیں چوپڑی دستیاب ہو رہی تھی۔ اس نے اللے شوکت ہوراں کے گھر آتے ہی' ناصرف اللے ہوراں کے حواس پر قبضہ جمایا' بلکہ اس کے بہن بھائیوں کے خالف سرابی کماد بو کر' اس کی ساری کمائی کھیسے کرنا شروع کر دی تھی۔ اس کی سوت بھی' اسی طرح چلتی پھرتی' اللے ہوراں کے ہاتھ لگی تھی اور خاندان کی عورت کو' طالق کا زہر پال دیا گیا تھا۔ گویا وہ اپنی کرامتوں کے حوالہ سے کچھ کم نہ تھی۔ اس حقیقت کے باوجود' وہ اس خاتون کے پاسنگ نہ
تھی۔ اللے ہوریں ابتدا اکلوتے ہوتے کے سبب' الڈوں پلے تھے۔ ماں باپ نے اس پر ساری انرجی صرف کر دی تھی۔ شاید اسی کے سبب' وہ شروع ہی پڑھے لکھے چول تھے۔ ماں باپ نے' پڑھائی لکھائی کی غرض سے' اس کا چھوٹا بھائی اس کے پاس چھوڑا تھا۔ پڑھانے لکھانے کی بجائے' سبزی سباڑی النا اور نامہ بری کا فریضہ' اسے سونپ دیا گیا۔ جب ماں باپ کو خبر ہوئی' پانی سر سے گزر چکا تھا۔ انہوں نے سدھار کی پوری کوشش کی' لیکن اب کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ یہ ہی نہیں' چھوٹی بہن کے خاوند' جس کی عادتیں پہلے ہی بگڑی ہوئی تھیں' اپنا تھیال بردار بنا لیا۔ گھر سے' کام کے لیے نکلتا اور اللے ہوراں کے ہاں ڈیرے لگا لیتا۔ اللے ہوراں کے ہاں' ناصرف گھر کا سودا سلف التا' بلکہ طوائف کدے' جوگن بائی کا ڈانس بھی دیکھنے جاتا۔ فلمی ہیرونوں کی زیارت کے لیے' ساتھ ساتھ ہوتا۔ بعض رنگین موقعوں پر' چوکیداری کا فریضہ انجام دے کر' حق نمک ادا کرتا۔ جب گھر جاتا' تو اللے ہوریں' اس کی ہتھیلی پر سکے رکھ دیتے۔ آخر کب تک' معاملہ کھال تو مرض تیسری اسٹیج پر آ چکا تھا۔ وہ نااہل اور نکما ہو چکا تھا۔ آخری عمر تک را توتا بنا رہا۔ بیٹی کی خاطر ماں باپ اس کا بوجھ اٹھاتے رہے۔ بس اسی طرح
روتے دھوتے عمر گزار کر' ملک عدم کو سدھارا اور اپنے توتائی جراثیم' اوالد کو بھی دے گیا' جو نہ ملنے یا انکار کی صورت میں' مامے ماسیوں کو برا بھال کہنے میں' پوری انرجی صرف کر دیتے۔ سعدیہ اور شکیل کی خوش قسمتی تھی' کہ چھوٹے ہونے باعث' اللے ہوراں کی دست برد سے' باہر رہے' ورنہ ان کا حشر بھی' پہلوں سے مختلف نہ ہوتا۔ تاہم بالواسطہ سہی' ان دونوں کے گوڈوں گٹوں میں بیٹھا۔ ہاں ان کی شخصیت ماں باپ کے زیر اثر ترکیب پائی۔ شکیل' ہنسی خوشی زندگی گزار رہا تھا' کہ بچے کی پیدائش کے تیسرے دن' اس کی بیوی صفیہ قضائے الہی سے' انتقال کر گئی۔ اس کے سسر عالم نے' اپنی دوہتری سے' اس کا نکاح طے کر دیا۔ اللے ہوراں سے' شکیل کے تعلقات ہیلو ہائے سے زیادہ نہ تھے۔ اس خریدہ خاتون نے' اپنی سوتن کے بڑے بیٹے کی منگنی' مادری سوسائٹی کی ایک لڑکی سے' کر رکھی تھی اور وہ' سوسائٹی کے رواج کے مطابق' نکاح دینے میں' حیلے بہانے بنا رہے تھے۔ ان کی بڑی بیٹی' چھتیس سال کی ہو چلی تھی۔ اس کی حنطل سخنی کے سبب' کوئی رشتے کی ذیل میں' نزدیک سے گزرنے سے خوف کھاتا تھا۔ شکیل کی بیوی کی
موت کے بعد' اس خریدہ خاتون کے ہاتھ موقع لگ گیا۔ شکیل' ان سب کے اطوار اور طینت سے خوب خوب آگاہ تھا۔ دوسرا اس کا سسر جو بھال آدمی تھا' اس کے مستقبل کا فیصلہ کر چکا تھا۔ اللے ہوراں کی خریدہ اللی نے' شکیل کی' اس حنطل کالم خاتون سے منگنی کر دی اور منگنی کی انگوٹھی' شکلیل کے حوالے کر دی۔ شکیل نے' چالیس بار منگنی کی انگوٹھی واپس کی۔ اس کے بعد' قریبی رشتہ داروں کو بھیجنے کا عمل شروع کر دیا' ان آنے والوں میں سعدیہ بھی تھی۔ کب تک' آخر شکیل کو ہتھیار ڈالنا پڑے۔ نکاح کے روز' وہ پریشانی سے' ریلوے اسٹیشن کی کنٹین پر جا بیٹھا۔ آخر تالش لیا گیا اور پھر' اس کی خریدہ دیوتا کے چرنوں میں قربانی پیش کر دی گئی' جس سے' اس کی شکتی میں بےپناہ اضافہ ہوا۔ گل حنطل سے' اس کی چند روز سے زیادہ نبھ نہ سکی۔ شکیل کا ہر رشتہ دار' جو پہلے سکندر اعظم بنتا تھا' اس کے بعد سکندر اعظم کی طرح' دم دبا کر بھاگ گیا۔ شکیل کو بھی' ش شیر سے ب بکری بننا پڑا۔ کوئی قدم اٹھاتا تو بھتیجے کا بھی گھر اجڑتا۔ پہلی قسط میں سعدیہ سمیت' سارے رشتہ دار گیے اور پھر گھر کی سوئی سالئی' اس کے وچارے گریب بہن بھائیوں کے قدم لینے لگی۔
سعدیہ' اپنے بھائی کی حالت زار پر' دکھی ہوتی۔ اس نے بھائی کے لیے' دیکھنے میں' معصوم اور بھولی بھائی لڑکی تالش کی۔ شکیل عقد ثانی پر رضامند نہ ہوا اور بڑا سمجھایا۔ وہ بھائی کی جدائی اور محبت میں پاگل ہو گئی تھی۔ یہاں بھی' چوتیے شکیل کو ہی ہار ماننا پڑی۔ اس نے سوچا شاید بہتری کی کوئی صورت نکل آئے۔ سعدیہ کو یہ موٹی سی بات سمجھ میں نہ آ سکی' کہ اس معصوم اور بھولی بھائی کو زبان دانی اور میکہ پالنی کی وجہ سے' دو بار طالق ہو چکی تھی۔ سعدیہ نے قسم کھا کر بتایا' کہ وہ ان باتوں کی' خبر نہیں رکھتی تھی۔ شکیل چوتیا ب بکری سے بھ بھیڑ ہو چکا تھا۔ ہاں البتہ' گل حنطل نکرے لگ چکی تھی۔ سعدیہ سے خفیہ رابطہ بھی ختم ہو گ ی ا۔ بات کو' کئی سال گزر گیے۔ ایک دن' شکیل کو خفیہ پیغام مال کہ پارک میں کوئی' اسے بالتا ہے۔ اس نے بڑا غور کیا' کون ہو سکتا ہے۔ اس کے اندر سے آواز آئی' سعدیہ کے سوا اور بھال کون ہو سکتا ہے۔ پہلے تو اس نے سوچا' نہیں جاتا پھر اس کے نادانستہ طور' پارک کی جانب قدم اٹھ ہی گیے۔ وہ سعدیہ ہی تھی۔ وہ جعلی غصے سے پیچھے مڑنے لگا۔ سعدیہ نے جلدی سے' اسے پکڑ لیا۔ پھر دونوں بہن بھائی ایک دوسرے سے لپٹ کر خوب روئے۔ من کا غبار چھٹ جانے کے بعد' دوبار ایک
دوسرے سے پہلے کی طرح ہو گیے۔ سعدیہ نے' پچھال دھونا دھونے کا فیصلہ کیا۔ پہلے تو ان کی' ہنسی مذاق میں بات چلتی رہی' پھر ایک دن شکیل فرضی سنجیدہ بھی ہو گیا۔ اس نے سعدیہ سے کہا' آج تک میں نے' ایک تقریبا پڑھی لکھی جاہل سے اور دوسری مکمل جاہل طالقن کے ساتھ' زندگی گزاری ہے۔ اب میں صرف اور صرف' پڑھی لکھی بیوہ کے ساتھ' نکاح کرنا چاہوں گا۔ سعدیہ حیران تھی کہ اس کا بھائی' کس قسم کی شرط عائد کر رہا تھا۔ ان کی اس مدے پر' کئی دن بات چلی اور سعدیہ نے' عائدہ شرط کی عورت بھی تالش لی۔ وہ ٹیلی فون پر اس کا حال دریافت کرتے ہوئے پوچھتا' حضرت بیوہ شریف کیسی ہیں۔ وہ ہنس پڑتی' ساتھ میں آنے کے لیے بھی کہتی۔ معاملے کو سات ماہ گزر گیے۔ ایک دن سعدیہ نے' ایک ساتھ تین سوال جڑ دیے۔ نہ اس کے ساتھ بات کرتے ہو' نہ آتے ہو اور یہ بھی نہیں بتاتے' کہ یہ شرط کیوں عائد کی تھی۔ اس نے زوردار قہقہ لگایا' اور کہا' باتوں کا ڈسا ہوا ہوں' اب ہر عوت سے بات کرتے' مجھے کمبنی آتی ہے۔ شروع میں' شریں زبانی سے کام لے گی' نکاح کے چند روز بعد یا اگلے روز ہی'
وکھی پرنے بولے گی۔ دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ اب میں نہیں' تم آؤ گی۔۔۔۔۔ہاں تم۔۔۔۔۔۔ جس مقصد کے لیے' شرط عائد کی تھی' وہ یہاں ہی پوری ہونے والی ہے۔ کیا مطلب۔۔۔۔۔ شرط کا مفہوم تو کہیں نا۔ سعدیہ' میں خود کشی کو حرام سمجھتا ہوں۔ میرے لیے' مزید سانس لینا محال ہو گیا تھا۔ میرا خیال تھا' کہ بیوہ کے ہاتھوں نواں نکور پھڑک گیا' میں اس کے سامنے کیا چیز ہوں گا۔ حضرت بیوہ شریف میرے نکاح میں نہیں آئیں' منسوب تو ہوئی ہیں۔ یہ ان کی کرامت ہے' کہ میں اب جا رہا ہوں۔ اب مجھے نہیں' تمہیں آنا پڑے گا۔ سعدیہ کی سسکیاں نکل گئیں۔ وہ آف الئین ہو چکا تھا اب سعدیہ اور حضرت بیوہ شریف کو' اس کا آخری دیدار کرنے آنا پڑا۔ لوگ اسے' اس کا کچھ بھی نہیں سمجھ رہے تھے' حاالں کہ وہ کچھ نہیں کی' دیوار پھاند چکی تھی۔ وہ بےچاری ہنسی مذاق میں' ایک بار پھر بیوہ ہو چکی تھی۔ وہ کچھ ناکچھ ہو کر بھی' مرحوم کی پنشن میں سے' کچھ نہیں قرار پا کر' معمولی سے بھی محروم ہو گئی تھی۔
اور تو اور
ماسٹر خدا بخش' از خود رحمانی صاحب کے ہاں نہیں گیے تھے' بلکہ طلب کیے گیے تھے۔ سادہ اور غریب آدمی تھے۔ بڑے آدمیوں کے ہاں جانے کا شوق' شروع سے ہی نہیں پاال تھا۔ ٹاٹ سکول کے ماسٹر تھے' اس لیے ان کا غریب لوگوں سے ہی واسطہ تھا۔ وہ امیر لوگوں میں سے نہیں تھے' اس لیے' میسر خوش لباسی کے ساتھ گیے تھے۔ ان کی یہ خود فریب خوش لباسی' حقیقی معنویت سے محروم تھی۔ تاہم وہ اپنے طور پر' اس خوش فہمی میں مبتال تھے کہ معزز شخص دکھ رہے ہیں۔ وہ سالم رکشا لے کر گیے تھے۔ شہر کے چھوٹے بڑے' ان کی عزت کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ان کا نام سنتے ہی' چوکی دار احترام سے اٹھ کر کھڑا ہو جائے گا اور بھاگا بھاگا' رحمانی صاحب کو اطالح کرنے جائے گا۔ آدمی سوچتا کچھ ہے اور ہوتا کچھ ہے۔ گیٹ پر ایک نہیں تین' صحت مند پچر مونچھوں والے' جدید اسلحہ کے ساتھ تشریف فرما' خوش گپیوں میں مشغول تھے۔
ماسٹر صاحب سوچنے لگے' رحمانی صاحب اتنے ہی اہم ہیں' جو چار مرلے کے گیٹ پر اسلحہ بردار بیٹھا رکھے ہیں۔ یہ خلیفہ عمر بن عبدالعزیزسے بھی بڑھ کر ہیں۔ ان کے دروازے پر تو کوئی بھی نہیں ہوتا تھا۔ وہ حاکم تھے۔ کیا ان کی جان' ان کی جان سے زیادہ قیمتی ہے۔ رحمانی صاحب حاکم نہیں' حاکم کے ادنی کن قریب تھے۔ یہ تو ادنی کن قریب کے ٹھاٹھ ہیں' اعلی کن قریب اور حاکم کے کیا ہوں گے .یہ سوچتے ہوئے انہوں نے رکشا والے کو پیسے ادا کیے اور رحمانی صاحب کے' بنگلے کے گیٹ کی جانب بڑھ گیے۔ انہوں نے گیٹ برداروں سے اپنا تعارف کرایا۔ پہلے تو انہوں نے ماسٹر صاحب کو سر سے پاؤں تک' بڑے غور سے دیکھا۔ ماسٹر خدا بخش ....پھر زور دار قہقہ لگایا۔ تعارف تو یوں کروا رہے ہو جیسے کوئی مشیر وزیر ہو۔ ان کے قہقے اور انداز نے' انہیں احساس کہتری کی دلدل میں دھکیل دیا۔ انہوں نے سوچا' مادی دنیا میں' علم نہیں سے بھی' کمتر ہے۔ اس قہقہ باری کے دوران ہی' مسز رحمانی تقریبنی لباس میں' تشریف لے آئیں۔ وہ عورت کم' بھوسے کی بوری زیادہ لگ رہی تھیں۔ گریبانی لکیر' مرکزے کو چھوتی صاف نظر آ رہی تھی۔ اس کے باوجود' نظرباز کے ہردے یا کسی اور اعضا میں' ہلچل
پیدا نہیں ہوتی تھی۔ اسے دیکھتے ہی' تینوں اسلحہ بردار احترام میں کھڑے ہو گیے۔ اس نے پوچھا' سب ٹھیک جا رہا ہے۔ سب سے بڑی مونچھوں والے نے' فوجی انداز میں' پاؤں جوڑتے ہوئے کہا :یس میڈم یہ کون ہے اور یہاں کیا کر رہا ہے۔ میڈم یہ خود کو ماسٹر خدا بخش بتا رہا ہے۔ شکل اور حلیے سے تو بھیک منگا رہا ہے۔ میڈم نے ان کی بات کو نظرانداز کرتے ہوئے پوچھا :آپ ماسٹر خدا بخش ہیں۔ جی ہاں' میں ماسٹر خدا بخش ہوں۔ اچھا اچھا' ہم نے ہی آپ کو بالیا ہے۔ اندر آ جائیے۔ وہ انہیں لے کر' دروازے سے تھوڑا ہی دور کھڑی ہو گئی۔ بنگلہ کیا تھا' اندر ایک دنیا آباد تھی۔ باغیچے پر مالی اور اس کے معاون' مصروف کار تھے۔ میڈم کو دیکھتے ہی' ان کی پھرتیاں بڑھ گئیں۔ گیٹ کے دائیں' دو کمرے' دو والئتی کتوں کے تھے۔ ہر کتے کے لیے' دو دو الگ سے مالزم تھے۔ ہر کتے کا نام' تاریخی تھا۔ شاید اسی وجہ سے' عزت و احترام کے مسحق ٹھہرے تھے۔ چاروں مالزم جو بڑے باصحت تھے' ان
والئتی کتوں کی بڑی جان فشانی سے' خدمت کر رہے تھے۔ یہ شب باشی بھی' ان والئتی کتوں کے کمروں میں فرماتے تھے۔ گیٹ کے بائیں' دیگر خدمت گاروں کے کوارٹر تھے۔ یہ سب یہاں مع اہل و ایال اقامت رکھتے۔ رحمانی کنبہ کے دل و جان سے تابع فرمان' جب کہ اوروں کے دست ونظر سے تابع دار تھے۔ بہت سے ماسٹر' ہمارے بچوں کو پڑھانے کے خواہش مند ہیں۔ آپ کی اہلیت کا شہرہ سنا تو سوچا' کیوں نہ یہ خدمت آپ سے لی جائے۔ اور تو مفت یہ خدمت انجام دینے کو تیار ہیں' اگرچہ آج کل ہاتھ تنگ پھنگ جا رہا ہے' اس کے باوجود' آپ معاوضہ طلب کریں گے تو ضرور دیا جائے گا۔ فکر نہیں کرنا۔ ماسٹر خدا بخش' ترسیل علم میں' کبھی بخیل نہیں رہے تھے۔ علم کے شیدائیوں کے لیے دل و جان سے' حاضر رہے تھے۔ اس کے بیچنے کو' سماجی جرم سمجھتے تھے۔ کوئی راہ چلتے مل جاتا اور کچھ پوچھ لیتا' تو وہ وہاں ہی کسی تھڑے پر بیٹھ جاتے' پوچھنے والے کا اپنی حد تک اطمنان کرتے۔ اس ذیل میں' جان پہچان معنویت نہ رکھتی تھی۔ ترسیل علم کے سلسلہ میں' وہ کبھی چائے کی پیالی تک کے روادار نہ ہوئے تھے۔
انہیں رحمانی صاحب کے بچوں کو پڑھانے پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ انہیں یہ بھی گال نہیں تھا' کہ سلیقے سے بیٹھ کر بات نہیں کی گئی۔ پیٹو تو وہ شروع سے نہیں تھے۔ جو' جیسا' جتنا اور جب مل جاتا کھا کر' هللا کا الکھ الکھ شکر ادا کرتے۔ شاید یہ ہی وجہ تھی' کہ هللا نے انہیں علم کی بےپناہ دولت سے سرفراز کیا تھا۔ علم کی ہر بند مٹھی کے اندر کا بھید' ان کے ہاں آ کر کھل جاتا۔ انہیں اصل دکھ' مسز رحمانی کے طور تکلم کا ہوا۔ وہ یوں مخاطب تھی' جیسے اس کے سامنے کوئی دیسی کتا سرونٹ کھڑا ہو۔ دیکھیے مسز رحمانی' میں کسی کے گھر جا کر نہیں پڑھاتا' جسے پڑھنا ہوتا ہے' میرے پاس آتا ہے۔ سوری' میں یہاں آ کر یہ خدمت انجام نہ دے سکوں گا۔ رہ گئی ٹیویشن فیس' اس کی آپ فکر نہ کریں۔ بس آپ پڑھنے کے لیے بچے بھیج دیا کریں۔ مسز رحمانی کو' اس قسم کے جواب کی توقع نہ تھی۔ دوسرے اسے اعزاز سمجھتے تھے' جب کہ ماسٹر خدا بخش' اس اعزاز کو جوتے پر رکھ رہے تھے۔ وہ غصے سے نیلی پیلی ہو گئی۔ اس نے ایک زوردار تھپڑ ماسٹر صاحب کے منہ پر رکھا۔ وہ توازن برقرار نہ رکھ سکے اور زمین پر آ رہے۔ معاملے کے فورا بعد' سارے مالزم وہاں آ گئے۔ ان میں سے دو کے بچے'
ماسٹر صاحب سے پڑھتے تھے۔ ماسڑ صاحب کو پیٹا بھی گیا۔ ایک کتا مین نے دو جڑنے کے ساتھ یہ بھی کہا :دو ٹکے کا ماسٹر اور زبان اتنی لمبی۔ مار کٹائی کے بعد انہیں گیٹ کے باہر پھینک دیا گیا۔ حواس بحال ہونے کے بعد' وہ کمزور اور درد سے لبریز قدموں کے ساتھ' گھر کو چل دیے۔ ان کی آنکھوں کے سامنے' کم زور زندگی کے ان گنت واقعات' گھوم گیے۔ کم زور زندگی اپنی حیثیت میں' کن قریبیوں کے گماشتوں کے کتے' تو بہت دور کی بات' وہ تو ان کتوں کے گولوں کی سی' اہمیت نہیں رکھتے۔ یہ جینا تو کیڑوں مکوڑوں کا سا بھی جینا نہیں۔ یہ ریاستی جونکیں' کتنی بڑی اور عالی شان عمارتوں میں زندگی کرتی ہیں۔ کم زور جیون کے علم کدے' صفر کو بھی چھونے سے قاصر و عاجز رہے ہیں۔ وہاں کچھ کرتے یا دیتے' انہیں پیٹ سول ہو جاتا ہے۔ اور تو اور' رقیاں جس کے ساتھ' انہوں نے پچیس سال بسر کیے تھے' اس ترقی کے موقعے کو ضائع کرنے کو' حماقت کا نام دے گی اور پھر اسے' گزری زندگی کی' تمام پیڑیں یاد آ جائیں گی۔ اس خوف سے کہ رحمانی صاحب کے ہاں سے عملی ضربیں لگی تھیں وہ لفظی ضربیں لگائے گی' ہر قدم بہ مشکل
اٹھ رہا تھا۔ خیر کیا کرتے گھر تو جانا ہی تھا۔
شکوک کی گرفت
یہی کوئی' پچاس ساٹھ پہلے کی بات ہے۔ ہمارے قریب کے ایک گھر میں پیر صاحب آنے والے تھے۔ تیاری کے سلسلہ میں' پورے گھر کو وختا پڑا ہوا تھا۔ میں بھی مدعو تھا۔ پورے گھر کو جھنڈیوں سے سجایا گیا تھا۔ جہاں پیر صاحب نے بیٹھنا تھا' وہاں بڑا نفیس قسم کا قالین بچھا ہوا تھا۔ پیر صاحب کے لیے گاؤ تکیہ رکھا گیا تھا۔ ساتھ والے کمرے میں ان کے سونے کا انتظام کیا گیا تھا۔ نو بجے کے قریب' پیر صاحب کی آمد ہوئی۔ مریدوں کا ایک جھنڈ ان کے ساتھ تھا۔ جب انہوں نے کمرے میں قدم رکھا' سب مرید ان کے احترام میں کھڑے ہو گیے۔ بڑے جوش اور نعروں سے ان کا استقبال کیا گیا۔ پیر صاحب پورے جاہ و جالل سے اپنی نشت پر جا بیٹھے۔
سردیوں کے دن تھے۔ پیر صاحب کے لیے' ان لگ ریشمی لحاف الیا گیا' جو شاید ان ہی کے استعمال کے لیے بنوایا گیا تھا۔ دو آدمی ن کی ٹانگیں اور پاؤں دابنے لگے۔ اس کے بعد' پیر صاحب نے چند لمحوں کے لیے' فوق الفطرت قسم کی اتیں کیں۔ بالسمجھے ہر کسی نے پرجوش آواز میں سبحان هللا سبحان هللا کہا۔ پیر صاحب نے سر جھکا لیا اور یوں خاموش ہو گیے' جیسے مراقبے میں چلے گیے ہوں۔ پھر هللا اکبر هللا اکبر کہتے ہوئے سر اٹھایا اور آنکھیں کھول دیں۔ اس کے بعد' ایک ایک کرکے ان کے مرید' ان کے پاس جا کر سالم کے بعد' نقدی نذر نیاز پیش کرنے کے بعد' اپنے مسائل پیش کرنے لگے۔ وہ تھوڑی دور بیٹھے' اپنے تعویز لکھار کو' کوئی اشارہ دیتے اور سائل کو اس کے پاس بھیج دیتے۔ ہماری دوسری گلی کا رہائشی' احما پانڈی بھی پیر صاحب کے حضور حاضر ہوا' نذر نیاز پیش کرنے کے بعد' قرض سے مکتی کے لیے دعا کی گزارش کی۔ پیر صاحب نے' حسب روٹین اسے تعویز لکھار کے پاس بھیج دیا۔ میں نے سوچا' اگر پیر صاحب' احمے پانڈی کی دی ہوئی نذر نیاز' اپنی طرف سے میدان میں رکھ کر' بیٹھے لوگوں کو اس کی مدد کے لیے کہتے تو اس کا قرضہ اتر سکتا تھا۔ ممکن ہے' ایک آدمی ہی اسے
قرضے سے نجات دال دیتا۔ نذر نیاز اکٹھا کرنے اور تعویزکاری کا سلسلہ رات دیر گیے تک جاری رہا .اس کے بعد دعائے خیر کی گئی اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گیے۔
مالک خانہ کا منجھال بیٹا' میرا دوست تھا۔ رات کافی گزر گئی تھی۔ اس کے اصرار پر' میں ان کے ہاں ہی رک گیا۔ تھوڑی دیر بعد' پیر صاحب بھی اٹھے اور خواب گاہ میں تشریف لے گیے۔ میرا دوست مجھے پیر صاحب کی کرامات سنانے لگا۔ یہ واقعاتی اور داستانی پریڈ کوئی سوا دو بجے ختم ہوا۔ ندیم اٹھا اور ایک لحاف لے آیا۔ ہم اسی میں دبک کر سو رہے۔ میں صبح اٹھنے کا عادی ہوں۔ خیال تھا' آج جلد آنکھ کھل نہ پائے گی' لیکن میں اپنے روٹین کے مطابق' صبح سویرے ہی اٹھ گیا اور اپنے دوست کو بھی نماز کے لیے اٹھایا۔ ہم پیر صاحب کے کمرے کے سامنے سے گزرے' پیر صاحب باخراٹا استراحت فرما رہے تھے۔ مجھے حیرت ہوئی' پیر صاحب ہم سے پہلے سوئے تھے' لیکن ابھی تک جاگے نہیں تھے۔ شاید نقدی کا نشہ طاری تھا۔ میں نے' پیر صاحب کے کمرے کے دروازے پر' جو تقریبا نیم وا تھا' بااحسن دستک دی۔ وہ بڑبڑا
کر اٹھے اور مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔ پھر ایسے بیٹھ گیے' جیسے مراقبے میں چلے گیے ہوں۔ دو تین لمحوں کے بعد لحاف منہ سے ہٹایا اور سرد آہ بھرتے ہوئے فرمایا' میرا ایک مرید' جو سوات میں رہتا ہے' چٹان سے گر پڑا تھا اور مجھے پکار رہا تھا' میں اس کی مدد کے لیے وہاں جا پہنچا تھا۔ ان کی اس یاوہ گوئی سے' ان کی اخالقی سطح کا اندازہ ہؤ گیا اور میں مسجد کی جانب بڑھ گیا۔ پیر صاحب کے ناشتے کا انتظام میرے سپرد تھا۔ میں نے سوچا' کیوں نا حضرت صاحب کا امتحان ہی لے لیا جائے' چناچہ میں نے چاولوں سے بھری پلیٹ کی تہہ میں' مرغ کی دوٹانگیں رکھ دیں۔ دہی ملی چٹنی کی کٹوری ساتھ میں مرغے کا شوربہ اور سادہ دو کمزور سی بوٹیاں بھی ڈال دیں۔ پیر صاحب میری :دیکھنے لگے۔ پھر فرمایا بھئی یہ کیا۔ مجھے غصہ آمیز دکھ ہوا۔ حضرت سوات تک کی خبر رکھتے ہیں' لیکن اپنے سامنے پڑی پلیٹ کی تہہ کی خبر نہیں رکھتے۔ جی میں آیا' پیر صاحب کی خوب مرمت کروں' لیکن کچھ نہ کر سکا۔ اگر کچھ کرتا' تو میرا دوست اور اس کے گھر والے'
مجھے اٹھنے بیھٹنے کے قابل نہ رہنے دیتے۔ مجھے افسوس ہوا کہ ایسے ناہنجار لوگوں نے' حقیقی شیوخ کو بھی شکوک کی گرفت میں دے دیا ہے اور اس اعلی کردار شعبے کو کمائی کا ذریعہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ 1969
صبح کا بھوال
بابے شاہ جیسے لوگوں کی‘ ایک رگ ہی الگ سے ہوتی ہے۔ وہ ہر عصری طور اور روایت کی بااصولی کو بھی‘ منفی عینک لگا کر دیکھتے ہیں۔ ہر شاہی درستی میں بھی‘ کیڑے نکالنے بیٹھ جاتے ہیں۔ سقراط‘ حسین‘ منصور اور سرمد سے لوگ‘ مرنے سے بھی نہیں ڈرتے‘ جب کہ شاہ بابا سے لوگ‘ دعا مومن کا ہتھیار ہے‘ کے مصداق دعا ہی کو ذریعہءاصالح بنا لیتے ہیں۔
پرسوں میں‘ شاہ بابا کی زیارت کے لیے‘ ان کے ہاں گیا۔ بیٹھک میں‘ اکیلے ہی‘ تشریف فرما تھے۔ آنکھیں بند کیے‘ بڑی دل سوزی اور خلوص دل سے‘ دعا اور عجب طور کی خودکالمی فرما رہے تھے۔ بڑی عجیب اور معمول سے ہٹ کر‘ دعا اور :خودکالمی تھی اے هللا! تو خوب جانتا ہے‘ تیرا یہ عاجز اور حقیر بندہ‘ کم زور اور ناتواں ہے۔ ظالموں سے ٹکر لینے کی‘ طاقت نہیں رکھتا۔ زبانی کالمی کو‘ یہ بگڑے لوگ مانتے نہیں ہیں۔ کہتے ہیں :بابا پرانے زمانے کا بندہ ہے‘ اسے آج کے معامالت کا کیا پتا۔ یہ بابے تو محض خبطی ہوتے ہیں۔ بےشک‘ تو قادراور رحیم و کریم ہے۔ تدابیر کی‘ کب تیرے پاس کمی ہے۔ تیرے بندے‘ حد درجہ بےراہرو ہو گیے ہیں۔ یہ تیرے ماننے والے ہیں‘ لیکن تیرا خوف ان کے دل سے اٹھ گیا ہے۔ اے هللا! ظلم‘ زیادتی اورخرابی کا بازار گرم ہے۔ ایسی خرابی آئی
ہے‘ کہ اس نے اگلے پچھلے‘ سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ اے هللا! میں‘ یہ سب نہیں دیکھ سکتا۔ مجھ سے اب‘ مزید دیکھا نہیں جاتا۔ میری برداشت کی قوتیں جواب دے گئی ہیں۔ بال شبہ‘ شر شیطان کی طرف سے اٹھتی ہے۔ روز اول سے‘ وہ انسانوں کو اکساتا چال آرہا ہے۔ اب تواس کے‘ دانت اور ناخن کچھ زیادہ ہی تیز ہو گیے ہیں۔ میں اس کی موت نہیں مانگتا‘ کیوں کہ کسی ذی روح کی موت مانگنا‘ ققیر کے مسلک میں داخل نہیں۔ میرے مالک! آج کا انسان تو‘ اس کا ایک جھٹکا برداشت کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ وہ تو گرفت میں آنے کے لیے‘ پہلے ہی پر تول رہا ہوتا ہے۔ بہت ہو چکا‘ اب اس بے راہ روی کا دروازہ بند ہونا چاہیے۔ اگر بند نہ ہوا‘ تو آتی نسلوں کے طور‘ اس سے بھی بدتر ہوں گے۔ برائی کا کینسر تیسری اسٹیج پر نہیں آنا چاہیے۔ عزازئیل! انسان کے دل میں وسوسہ ڈال کر‘ تم اس کے نفس میں جگہ بنا لیتے ہو اور پھر‘ ہر موڑ پر اسے گم راہ کرتے ہو۔
تم سمجھتے ہو‘ میں بہت بڑا معرکہ سر کر رہا ہوں۔۔۔۔ بالکل نہیں۔۔۔۔۔ تم بہت بڑی بھول اور خسارہ میں ہو۔ ہر برا‘ تمہارے کھاتے میں پڑ رہا ہے۔ تم اتنے توانا نہیں ہو‘ جتنا خود کو سمجھ رہے ہو۔ جان رکھو! تم مخلوق ہو‘ خالق نہیں ہو۔ مخلوق‘ خالق کی دسترس سے‘ باہر نہیں جا سکتی۔ میں تمہیں هللا‘ وہ ہی هللا‘ جو سب کا خالق و مالک ہے‘ کے غضب سے ڈراتا ہوں۔ اب بھی وقت ہے‘ توبہ کی طرف لوٹ آؤ۔ قیامت کے روز‘ کیا منہ لے کر جاؤ گے۔ کتنے افسوس اور دکھ کی بات ہو گی‘ کہ تمہارے کھاتہ میں ایک بھی نیکی نہ ہو گی‘ جب کہ بدیوں کا شمار‘ حد سے باہر ہو گا۔ کیا تم‘ هللا کے قہر و غضب کا سامنا کرسکو گے۔ خود کو تولو‘ پھر دیکھو‘ کہ میں کہاں تک درست کہہ رہا ہوں۔ میں جانتا ہوں‘ تم میری باتوں پر‘ قہقہے لگا رہے ہو گے۔ ہاں‘ میں خود غرض ہوں۔ میں یہ سب‘ انسان کی بھالئی اور خیر خواہی میں کررہا ہوں۔ میری یہ خود غرضی‘ اس نیکی سے اچھی ہے‘ جو ذات تک محدود ہوتی ہے۔ میری اس خودغرضی کے نتیجہ میں‘ تمہارے کھاتے میں‘ مزید گناہ نہیں پڑیں گے۔ تمہارا کھاتہ کچھ تو ہلکا ہو گا۔ دوسری طرف‘ انسان بھالئی کی
طرف راغب ہو سکے گا اور امن کی فضا قائم ہو سکے گی۔ عزازئیل! توبہ کی طرف آؤ اور باقی زندگی‘ توبہ کے دروازے پر بتا دو۔ هللا سے زیادہ معاف کرنے واال‘ کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ عزازئیل! هللا کا کہا اور کیا‘ برحق اور پرعدل ہوتا ہے۔ هللا نہ غلط کہتا ہے اور نہہی ‘ غلط کرتا ہے۔ هللا نے غلط نہیں کہا تھا‘ کہ آدم تم سے برتر ہے۔ نمرود‘ شداد‘ فرعون‘ قارون‘ یزید‘ مقتدر‘ اورنگ زیب تم پر تھے‘ تب ہی تو کوراہ رہے۔ ابرہیم‘ موسی‘ حسین‘ منصور‘ سرمد‘ سقراط اور ان سے لوگوں پر‘ اپنے مکروفریب کا جادو چال کر دکھاتے‘ تو پتا چلتا‘ کہ تم کتنے پانی میں ہو۔ کیا وہاں تمہاری‘ بس بس نہیں ہو گئی تھی‘ ساری پھنے خانی نکل گئی تھی ناں۔ عزازئیل! ان گنت بار تم ہارے ہو‘ اور تمہاری باباں بولی ہے۔ تسلیم کرو‘ کہ تم هللا کے بندوں کو‘ مات نہیں دے سکتے۔ مان لوهللا کا کہا اور کیا‘ غلط ہو ہی نہیں سکتا۔
تمہارا بس‘ مجھ سے‘ کم زورایمان والوں پر چلتا ہے۔ ہر کوئی کم زور ہی کے سر پر چڑھتا ہے۔ وہ بھول جاتا ہے‘ کہ مخلوق کی شکتی‘ گنے چنے دنوں کی ہے۔ سکندر‘ محمود‘ چرچل وغیرہ خود کو بہت بڑا تیس مار خاں سمجھتے تھے‘ آج کہاں ہیں‘ سب مٹی میں مل گیا۔ آج کے بڑے بھی باقی نہیں رہیں گے۔ سب مٹی میں مل جائیں گے۔ اپنے ساتھ کچھ نہ لے جا سکیں گے۔ اچھے برے اعمال ہی ساتھ جائیں گے۔ عزازئیل! مت بھولو‘ موت کا ذائقہ تم بھی چکھو گے۔ تم اور تمہارے ساتھی‘ کیا ساتھ لے جاؤ گے‘ ذرا سوچو اور غور تو کرو‘ تہی دست اور تہی دامن ہی جاؤ گے۔ ہاں بداعمالی اور بدکرداری کا بدنما داغ‘ تمہاری پیشانی پر ہو گا اور تمہارے برا ہونے کی‘ گواہی دے رہا ہوگا۔ جب تک زندہ ہو‘ برے نام‘ تمہارے نام کے ساتھ‘ پیوست رہیں گے۔ تم اور تمہارے احباب پر‘ لعنتوں کی بوچھاڑ رہے گی۔ تمہارے ساتھی‘ بھول میں ہیں‘ ان کی تعریف صرف ان کے منہ پر ہوتی ہے۔ وہ اپنے چمچوں کی تعریف سن کر‘ خود کو صاف ستھرا سمجھتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے‘ کہ یہ ہی ان کے چمچے کڑچھے اور گماشتے‘ ان کی پیٹھ پیچھے غلیظ پالوتے بولتے ہیں۔ یہ ہی نہیں‘ ان کا ہر کیا‘ کسی ناکسی صورت میں‘ قرطاس
وقت پر رقم ہو رہا ہے۔ آتے وقتوں میں‘ ان کی کرتوتوں پر‘ کوئی پردہ ڈالنے واال نہ ہو گا۔ یہ ہی کم زور طبقہ کے لوگ‘ جنہیں وہ‘ کیڑے مکوڑے سجھتے رہے‘ ننگی گالیاں دیں گے۔ انہیں‘ تمہارے بھائی بندوں کی لسٹ میں رکھا جائے گا اور تم‘ بدی کے سردار اور موڈھی ٹھہرو گے۔ جان رکھو! یہ ہی حقیقت اور یہ ہی سچائی ہے۔ عزازئیل! میں تمہیں اور تمہارے پیروکاروں کو‘ هللا کے غضب‘ ابدی سچائی اور آتے وقتوں کی‘ ان گنت لعنتوں سے‘ آگاہ کر رہا ہوں۔ اس برے وقت سے ڈرو اور تائب ہو کر‘ توبہ کو شعار بناؤ۔ هللا کی رحمت سے بعید نہیں‘ کہ معاف کر دیے جاؤ۔ صبح کا بھوال‘ اگر شام کو واپس آ جائے‘ تو اسے بھوال نہیں کہتے۔ هللا سے زیادہ اور بڑھ کر درگزر کرنے واال بھال اور کون ہو سکتا ہے۔ چلے جانے والوں کو دیکھو‘ کتنے بدقسمت ہیں‘ کہ وہ توبہ سی انمول نعمت سے‘ یکسر محروم ہو چکے ہیں۔ میں جانتا ہوں‘ تم میرے نفس میں موجود ہو اور میرے ہر کہے کو‘ خوب خوب سن رہے ہو۔ تم یہ نہیں کہہ سکو گے‘ کہ مجھے صورت حال سے آگاہ نہیں کیا گیا اور هللا کے غضب
سے نہیں ڈرایا گیا یا پھر رستہ نہیں دکھایا گیا۔ تائب ہو کر‘ توبہ کے دروازے پر آ جانا ہی فالح کا رستہ ہے۔ اے قادر و قدیر! اس کی ہدایت و اصالح کے لیے‘ کسی کو اس پر‘ نازل فرما۔ اس کی اصالح ہو گئی‘ تو یہ بگڑا ہوا انسان‘ اپنی اصل فطرت پر آ جائے گا۔ شیطان کی اصالح ہونے کی صورت میں ہی‘ آج کے انسان کی درستی کا‘ دروازہ کھل سکتا ہے۔ یہ کسی مصلح کے بس کا روگ نہیں رہے۔ اچھے لوگوں کی جانیں جانا‘ اچھی اور صحت مند بات نہیں۔ موڑ موڑ پر کربال برپا ہونا‘ میرے مالک قیامت ہے‘ قیامت ہے۔ صالحین کی موت‘ اب دل گردہ برداشت کرنے کی تاب نہیں رکھتا۔ اچھے لوگ رہ ہی کتنے گیے ہیں۔ ان کا اٹھ جانا‘ درست نہیں ہو گا۔ شاہ بابا‘ اپنی ذات میں مگن‘ گردوپیش سے بےخبر اور بےنیاز‘ اپنے هللا سے مخاطب تھے۔ وہ شیطان سے بھی مخاطب ہوئے۔ میں دعا اور شیطان سے مخاطبے میں کسی قسم کا خلل نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔ لگتا تھا‘ یہ سلسلہ کبھی ختم نہ ہو گا۔ اسی لیے‘ تھوڑی دیر کے لیے‘ وہاں بیٹھا اور پھر‘ گھر واپس لوٹ آیا۔ گھر آ کر مجھے خیال آیا‘ کہ مجھے وہاں مزید بیٹھنا چاہیے تھا۔ میں اس معاملہ میں‘ نکما اور الیعنی سہی‘ پر ان کے ہر دعائیہ جملے پر‘ آمین تو کہہ ہی سکتا تھا۔ نیکی اور
نیک طلبی میں‘ کسی بھی نہج کی معاونت‘ بذات خود نیکی کے مترادف ہے۔ شاید میں بھی نیکی پسند نہ تھا‘ تب ہی تو اٹھ آیا تھا‘ ورنہ کچھ دیر وہاں اور رکنے سے‘ کیا ہو جاتا۔
حوصلہ کریم بخش نے چالیس برس محنت مزدوری کی۔ بیوی بچوں کا مخلص ساتھ نبھایا۔ کہیں سے شرینی بھنڈارا ملتا‘ تو وہ اسے بھی بڑی دیانت سے‘ گھر لے آتا۔ اس میں سے‘ رائی بھر اپنے منہ میں نہ ڈالتا۔ اس کی کوشش رہی کہ ہر ممکنہ خوشی‘ اپنے بیوی بچوں کو فراہم کرے۔ یہ اپنی جگہ پر حقیقت ہے‘ کہ کوشش کے باوجود انہیں آسودہ‘ خوش حال اور بڑے لوگوں کی سی‘ سہولیات میسر نہ کر سکا۔ سکا ان پڑھ تھا۔ بچپن میں ہی والدین چل بسے تھے۔ لوگوں کے دروازے پر رل خل کر بڑا ہوا۔ ماموں نے‘ محنتی اورمشقتی دیکھتے ہوئے‘ رشتہ دے دیا۔ یہ بھی بہت بڑی بات تھی‘ ورنہ ا س سے لوگوں کو کون پوچھتا ہے۔ هللا نے کرم فرمایا اور تین
بیٹوں اورایک چاند سی بیٹی سے نوازا۔ اس نے چاروں پر‘ برابر کی محبت اور مشقت نچھاور کی۔ بالشبہ یہ اس کا فرض اور بچوں کا حق تھا۔ اب وہ بوڑھا‘ کم زور اور بیمار ہو چکا تھا۔ بچے جوان ہو چکے تھے۔ اسے ان کی توجہ کی ضرورت تھی۔ اسے اس کے اپنے ہی گھر میں‘ اس کے ان اپنوں میں سے‘ کوئی پوچھنے واال نہ تھا۔ اس کی بیوی سعیدہ اسے سارا دن کوسنے دیتی رہتی تھی۔ شام کو تینوں بیٹے کوئی ناکوئی جلی کٹی سنا دیتے۔ ہاں مقبوالں‘ اس کی بیٹی‘ اس سے ہم دردی رکھتی تھی۔ اس جرم کی پاداش میں‘ اسے بھی رگڑا مل جاتا‘ حاالں کہ وہ سب کی خدت کرتی تھی۔ سگے بھائیوں کی کٹھور دلی پر‘ سسک پڑتی اور بھال کر بھی کیا سکتی تھی۔ دونوں باپ بیٹی‘ گلی کے کتے سے بدتر زندگی گزار رہے تھے۔ اس دن تو تینوں بیٹوں اور سعیدہ نے حد ہی کر دی۔ مقبوالں نے کہا‘ ابا تم کہیں منہ کر جاؤ‘ تمہارے لیے اس گھرمیں گنجائش نہیں رہی۔ کریم بخش کو بیٹی کی بےچینی اور پریشانی نے‘ ساری رات سونے نہ دیا۔ اس نے سوچا‘ کاش وہ مر ہی گیا ہوتا۔ اس نے کوچ کر جانے کا فیصلہ کر لیا۔ پھر سورج چڑھنے سے پہلے ہی گھر سے نکل گیا۔ اب اس کے حوصلے نے‘ یکسر جواب دے دیا تھا۔ اس سے
زیادہ‘ برداشت کرنے کی اس میں ہمت ہی نہ تھی۔ دکھ‘ افسوس اور پرشانی سے وہ نڈھال ہوگیا تھا۔ وہ ان کے لیے جیا تھا۔ اسے ہر لمحہ‘ ان کی بھوک پیاس کی فکر لگی رہتی تھی۔ آج جب وہ بوڑھا ہو گیا تھا‘ اس اکیلے کے‘ دو لقمے ان پر بھاری ہو گیے تھے۔ بیٹی بےچاری‘ اس کے لیے کیا کر سکتی تھی۔ وہ تو خود‘ زر خرید غالموں کی سی زندگی کر رہی تھی۔ کسی دربار پر‘ اسے اس سے کہیں بہتر‘ روٹی مل سکتی تھی۔ ایسے باوارث الوارثوں کے لیے‘ صوفیا کرام کے دربار‘ کہیں بہتر ٹھکانہ ثابت ہوتے ہیں۔ حاجی صاحب کے پاس‘ هللا کا دیا سب کچھ تھا۔ دوست عزیز اور رشتہ داروں کی بھی کمی نہ تھی۔ ہر کوئی ان کی عزت کرتا تھا۔ گھر میں ایک چھوڑ‘ دو بیویاں تھیں۔ نوکر چاکر‘ خدمت کے لیے موجود تھے۔ کامیاں اپنے فرائض انجام دے رہی تھیں۔ ان سب کے ہوتے‘ وہ زندگی کو ادھورا اور کھوکھال محسوس کرتے تھے۔ یہ سب کچھ‘ ان کے لیے بےمعنی اور الیعنی تھا۔ یہ اپنے ان کے لیے غیر تھے۔ اکثر کہتے آج آنکھ بند کرتا ہوں‘ تو یہ سب غیروں کا ہو گا۔ بےاوالد ہونے سے بڑھ کر‘ کوئی اور دکھ ہو ہی نہیں سکتا۔ کسی نے مشورہ دیا‘ حاجی صاحب کسی گریب سے‘ بیٹا یا بیٹی گود کیوں نہیں لے لیتے۔ مشورہ معقول تھا۔ انہوں نے بڑا غور کیا۔ پھر فیصلہ کر لیا کہ وہ کسی
بچے کو گود ہی لے لیتے ہیں۔ سجاد آج بہت غمگین سا تھا۔ خاور نے پوچھا‘ یار اتنے پریشان سے کیوں ہو۔ اس نے اداس لہجے میں کہا‘ یار پہلے ہی هللا نے تین بیٹیاں دے رکھی ہیں‘ آج رات کو چوتھی بھی ٹپک پڑی ہے۔ سوچا تھا‘ اس بار هللا بیٹا دے دے گا‘ مگر ہم گریبوں کی اتنی اچھی قسمت کہاں۔ سجاد نے سمجھایا کہ فکر نہ کرو‘ ہر کوئی اپنی قسمت ساتھ التا ہے۔ اس نے جوابا کہا‘ قسمت کیا ساتھ النی ہے‘ مزید بوجھ پڑنا تھا‘ وہ پڑ گیا ہے۔ کس بوتے پر دل کو تسلی دوں۔ خاور حاجی صاحب کے ہاں مالزم تھا۔ اس نے حاجی صاحب کو سجاد کی پریشانی کے متعلق بتایا۔ حاجی صاحب نے‘ سجاد کی نومولود بچی کو گؤد لینے کی ٹھان لی۔ پھر وہ خود‘ بڑی بیگم صاحب کو ساتھ لے کر سجاد کے گھر چلے آئے۔ خاور کو انہوں نے وہاں آ جانے کے لیے کہہ دیا تھا۔ سجاد کو حیرانی کے دورے پڑ رہے تھے۔ گویا چونٹی کے گھر‘ ازخود بن بالئے نرائن چلے آئے تھے۔ حاجی صاحب نے آج تک دیا ہی تھا‘ کبھی کسی سے کچھ مانگا نہیں تھا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہے تھے‘ کہ بات کس طرح سے کریں۔ خاور نے ان کی مشکل آسان کر دی۔ سجاد نے خوشی خوشی بچی حاجی صاحب کی گود میں
ڈال دی۔ ننھی سی جان کو گود میں دیکھ کر‘ حاجی صاحب مسرور ہو گیے اور هللا کا شکرادا کیا۔ حاجی صاحب نے سجاد کو رنگ دیا۔ سجاد کے لیے یہ بچی لکشمی دیوی ثابت ہوئی۔ انہوں نے کسی دور دراز عالقہ میں‘ اسےاس کے نام سے‘ مکان خرید دیا۔ ساتھ میں‘ اسے ایک کاروبار بھی شروع کرا دیا۔ سجاد دنوں میں‘ عالقہ کا معزز شہری بن گیا۔ پہلے وہ عالقہ کے معزز شہریوں کو سالم کہتا تھا‘ اب لوگ اسے سالم بوالتے تھے۔ وقت وقت کی بات ہوتی ہے۔ وقت کی کروٹ سے‘ کب کوئی آگاہ ہو سکا ہے۔ کب کیا ہو جائے‘ آج تک کسی پر نہیں کھل سکا۔ وقت پر لگا کر محو سفر رہا۔ بچی‘ جس کا نام راحیلہ رکھا گیا تھا‘ الڈ پیار اور ان گت آسائشوں میں بڑی ہوئی۔ اچھی درس گاہوں میں پڑھی۔ حاجی صاحب بوڑھے ہو گیے تھے۔ انہیں راحیلہ کے ہاتھ پیلے کرنے کی فکر الحق ہوئی۔ رشتے تو بہت آتے تھے‘ لیکن ان کی پسند کا معیار بالکل مختلف تھا۔ انہیں الڈوں پلی راحیلہ کے لیے‘ شاید کوئی فوق الفرت خوبیوں کا حامل لڑکا درکار تھا۔ پھر ایک دن‘ بلند حوصلہ کے مالک حاجی صاحب کے مرنے کی خبر سارے شہر میں پھیل گئی۔ ان کی موت‘ دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی تھی۔ ہوا یہ کہ راحیلہ بگو
حجام کے لڑکے‘ قادر کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔ حاجی صاحب یہ صدمہ برداشت نہ کر سکے۔ بڑی بیگم صاحب‘ اس صدمے سے ذہنی توازن کھو بیٹھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے‘ چند لمحوں میں‘ کچھ کا کچھ ہو گیا۔ جو ہوا‘ کسی کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا۔ اتنے بڑے جگرے کے مالک بےوجود ہو چکے تھے۔ وہ اپنی اصل میں‘ ان کی کچھ بھی نہ تھی۔ انہوں نے اسے محض پاال پوسا تھا۔ اس کے باوجود‘ وہ ان کا سب کچھ ہو گئی تھی۔ نذیراں ان پڑھ‘ بےسلیقہ اور کچن کے امور میں بالکل کوری اور پیدل تھی۔ خوب صورت ہونے کی غلط فہمی‘ ہمیشہ اس کے سر پر‘ سوار رہتی۔ خاوند کے رشتہ دار‘ اسے کبھی ایک آنکھ بھی نہ بھائے تھے۔ اس پہ طرہ یہ کہ زبان اور کردار بھی‘ صفائی ستھرائی سے باالتر تھے۔ ایک روایت کے مطابق ایک جگہ سے‘ دوسری روایت کے مطابق دو جگہوں سے‘ اسے ان چار خوبیوں کی بنا پر‘ طالق ہو چکی تھی۔ اس کی ان خوبیوں کے باعث‘ ہر کوئی رشتہ کے حوالہ سے‘ ان کے گھر کے قریب سے بھی گزرنے سے ڈرتا تھا۔ اس کا باپ امام مسجد تھا‘ اس ناتے اللچ‘ ہوس‘ آنکھ کی بھوک اور ناشکری گھٹی میں میسر آئی تھی۔ آوارہ فکری‘ ماں کی طرف سے دودھ میں ملی تھی۔ منظور صاحب کو اپنے چھوٹے بھائی کی یک پسری پر‘ ہر وقت
پریشانی رہتی۔ وہ چاہتے تھے‘ چلو زیادہ نہیں‘ جوڑی تو ہو جائے۔ رضی اوالد پیدا کرنے کے قابل نہ تھی۔ رشتے تو بہت تھے‘ لیکن صفدر عقد ثانی کے رپھڑ میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔ وہ موجود پر قانع تھا۔ آخر منظور صاحب نے‘ بھائی کو قائل کر ہی لیا۔ بہت سے رشتوں میں سے‘ کسی کے کہنے پر‘ نذیراں کو اس لیے پسند کر لیا گیا‘ کہ ٹھکرائی ہوئی ہے‘ غریب اور دیہاتی ہے‘ خدمت کرے گی‘ ساتھ میں هللا اوالد بھی عطا فرما دے گا۔ نذیراں کو کوئی زنانہ مرض الحق تھا‘ جس کا عالج کروایا گیا۔ هللا نے‘ منظور صاحب کو ایک بھتیجے سے نوازا۔ هللا کے اس احسان پر‘ سب خوش ہوئے۔ دوسری طرف یہ بھی کھلی حقیقت تھی‘ کہ پوتڑوں کے بگڑے کم ہی سنورتے ہیں۔ بیٹا پیدا ہو جانے کے باعث‘ نذیراں کا ڈنگ اور بھی تیز ہو گیا۔ صفدر نے دوسری سے تیسری بار پانی مانگ لیا‘ تو کہتی مجھ سے یہ سیاپا نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہہ دیتی :مرتا ہے نہ جان چھوڑتا ہے۔ جب بولتی‘ قیامت ہی توڑ دیتی۔ صفدر کا چہرا دیکھتے ہی‘ جانے اسے کیا ہو جاتا‘ بالوجہ اور بغیر کسی بات کے لڑنا شروع دیتی۔ حرامدہ‘ کنجر‘ سکھ‘ کافر‘ بےبنیادا وغیرہ ایسے کلمات‘ کہہ جاتی۔ صفدر ننھی سی جان کو دیکھ کر‘ برداشت کر جاتا۔
بھائی کے اس ناہنجار تحفے پر‘ سسک کر رہ جاتا۔ اس نے نذیراں کے سامنے ہاتھ جوڑے‘ پاؤں پڑا‘ اپنے سر پر جوتے مارے اور کہا‘ اگر میں برا ہوں تو تم ہی اچھی بن کر دکھا دو‘ مگر کہاں۔ صفدر کا اصل قصور‘ شریف اور پڑھا لکھا ہونا تھا۔ اگر کبھی بیمار پڑ جاتا‘ خدمت تو دور کی بات‘ کہتی‘ جاؤ یہاں سے میرے سر نہ چڑھنا۔ بے پوچھے‘ گھر سے چلے جانا اور دیرتک باہر رہنا‘ سب سے زیادہ تکلیف دہ حرکت تھی۔ گھر لوٹنے کے پعد‘ صفدر کے کچھ پوچھنے سے پہلے ہی‘ بکواس کرنا شروع کر دیتی۔ مت مار کر رکھ دیتی۔ ایک بار‘ صفدر نے اپنے سسر کو بالیا اور اس کے پاؤں کو ہاتھ لگا کر کہا‘ خدا کے لیے اس کو ساتھ لے جاؤ اور اس کو سمجھاؤ۔ تین چار دن بعد‘ ڈنگ مزید تیز کرکے واپس آ گئی۔ آخر وہ امام مسجد تھا‘ تفرقہ نہیں ڈالے گا‘ تو کھائے گا کہاں سے۔ صفدر ابھی تک پاگل نہیں ہوا تھا۔ مرا بھی نہ تھا۔ پہاڑ حوصلے کا مالک ہو کر بھی‘ عارضہءقلب کا شکار ہو گیا۔ عزازئیل اپنے سے برتر سے منحرف ہوا‘ کیوں کہ اس کے ظرف کی وسعت ہی اتنی تھی۔ معافی کی طرف نہ آیا‘ بلکہ منفی
رستوں پر چل پڑا۔ آدم کو برتر تسلیم کرنا‘ اس کے حوصلے سے باہر تھا۔ وہ هللا کے ظرف سے آگے کیسے نکل سکتا تھا۔ مخلوق اور خالق کے ظرف کا انتر‘ اس سے باخوبی ہو سکتا ہے۔ نمرود اپنے وجود سے باہر ہوا‘ خدا تو بہت آگے کا معاملہ ہے‘ وہ تو حضرت ابراہیم علیہ السالم کی برتری تسلیم کرنے کے لیے‘ تیار نہ تھا۔ کسی کو‘ خود سے برتر تسلیم کرنے کے لیے بھی‘ حوصلہ درکار ہوتا ہے‘ کہاں سے التا اور پھر اپنی ہی کرنی میں پکڑا گیا۔ چار سو سال‘ چھتر افشانی برداشت کرتا رہا۔ عبرت پکڑ کر‘ توبہ کے دروازے پر نہ آیا۔ یہ ہی معاملہ‘ فرعون کے ساتھ درپیش تھا۔ تھوڑ ظرفی‘ تکبر اور غصہ نے‘ اس کے حواس معطل کردیے تھے۔ تب ہی تو‘ دریا میں گھوڑے ڈال دیے۔ حواس باقی ہوتے‘ تو یہ غلطی نہ کرتا۔ قارون کے پاس وافر لقمے تھے۔ ان میں سے چند ایک لقمے دے دینے سے کچھ فرق نہیں پڑنا تھا۔ اتنا حوصلہ التا کہاں سے‘ تھا ہی نہیں۔ هللا تو ماننے اور نہ ماننے والوں کو بھی دیتا
ہے۔ مقررہ سے‘ ایک سانس بھی‘ منہا نہیں کرتا۔ کوئی کتنا بھی حوصلے واال کیوں نہ ہو‘ دکھ کے میدان میں‘ قدم چھوڑ دیتا ہے۔ مخلوق کا حوصلہ‘ بموجب ظرف حدود میں رہتا ہے۔ حوصلہ جب مجوزہ حدود سے باہر قدم رکھتا ہے‘ تو کٹا یا دیمک زدہ برگد بھی زمین بوس ہو جاتا ہے۔ انسان اور خدا میں‘ یہ ہی فرق ہے‘ کہ وہ ہر حالت اور ہر صورت میں‘ قائم بذات رہتا ہے۔ ساری مخلوق اس کی تخلیق ہے‘ اور ایسی ان حد مخلوقات بیک جنبش‘ تخلیق کرنے پر قادر ہے۔ ایسا ان حد مرتبہ کرئے‘ تو بھی کچھ اس کے ظرف سے باہر نہ ہو گا۔ مخلوق اور خدا کی ذات گرامی میں‘ یہ ہی بنیادی فرق ہے۔ کوئی کتنا بھی بڑا ہو جائے‘ ان حد حوصلے اور ظرف کا مالک نہیں ہو پاتا۔ منفی کے ردعمل میں‘ کچھ بھی ہو سکتا ہے‘ یا کر سکتا ہے۔ مجبوری اور بےسی کی حالت میں‘ اسی کی طرف پھرتا ہے۔ متکبر لوگوں کو‘ اپنی کھال میں رہنا چاہیے‘ ورنہ ان کی اپنی ہی بدحوسی کی الٹھی‘ انہیں برباد کرکے رکھ دیتی ہے۔ لوگ اسے قسمت کے کھیل کا نام دیتے ہیں‘ حاالں کہ یہ قسمت کا کھیل نہیں ہوتا‘ وہ تو اپنے کیے کا پھل‘ اپنے ہی ہاتھوں سے پا رہے ہوتے ہیں۔ یہ کہانی کار خدا بخش‘ جو کسی زمانے میں‘ ڈیرے کی جان ہوا
کرتا تھا‘ کی آخری کہانی تھی۔ اس کے بعد اسے‘ چودھری کے ڈیرے پر آنا نصیب نہ ہوا۔ صفدر کی کہانی تک‘ سب کچھ گوارہ تھا‘ اس کے بعد کی کتھا میں‘ اگرچہ چودھری صاحب کا ذکر تک نہ تھا‘ لیکن یہ سب کچھ اس نے‘ چودھری صاحب کی طرف منہ کرکے کہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے‘ نفرت اور بغاوت کی زہریلی شعاعیں نکل رہیں تھیں۔
چوگے کی چنتا
اس روز‘ مینا چپ ہی نہیں‘ اداس بھی تھی اور یہ‘ معمول سے باہر کی چیز تھی۔ میں نے دو تین بار‘ اسے متوجہ بھی کیا‘ لیکن وہ اپنی کیفیت سے‘ باہر نہ آئی۔ باغ میں‘ میرے ہم جنس‘ اٹھکیلیوں میں مشغول تھے۔ اس کے ساتھ‘ مجھے شروع سے‘ نادانستہ انسیت سی تھی۔ اس کا دکھ‘ مجھے اپنا دکھ محسوس ہوتا تھا۔ جب وہ دکھی ہوتی‘ میں بھی دکھی ہو جاتا۔ جب وہ خوش ہوتی‘ تو میرے بھی تن بدن میں‘ خوشیوں کے جل ترانگ بجنے لگتے۔ یہ کیسا رشتہ تھا‘ میں نہیں جانتا۔ اس کا سلوک بھی میرے ساتھ کچھ برا نہ تھا۔ خدا معلوم‘ آج وہ‘ اس طرح
کیوں پیش آ رہی تھی۔ ضرور کوئی بہت بڑی بات رہی ہو گی۔ میں اسے‘ دکھی دکھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ سمجھ میں نہیں پا رہا تھا‘ کہ کس طرح‘ اس کے دل کا حال معلوم کروں۔ اس سوچ نے‘ مجھے بےکل سا کر دیا۔ میں نے معاملہ جاننے کی ٹھان لی۔ چاہے وہ ناراض ہی کیوں نہ ہو جائے‘ میں سب کچھ جان کر ہی دم لوں گا۔ اس سے پہلے‘ کہ میں اصرار سے کام لیتا‘ وہ خود ہی بولی‘ اندر کا الوا‘ شاید وہ بھی ہضم نہ کر پا رہی تھی۔ انسان کے متعلق سنا ہے‘ کہ اس کی آنکھیں‘ سیر نہیں ہوتیں‘ کتنا ہی کیوں نہ مل جائے‘ وہ مزید کے لیے‘ الٹے سیدھے حربے اختیار کرتا ہے۔ ہم میں‘ یہ عادتیں کیوں آ گئی ہیں۔ جس باغ میں‘ ہمارے ڈیرے ہیں‘ کسی جنگل میں نہیں ہے‘ انسانی آبادی میں ہے۔ انسان یہاں آتا جاتا رہتا ہے۔ ہم بھی خوراک کی تالش میں‘ آبادی میں جاتے ہیں۔ قربت کے باعث‘ ہم نے کی اچھی بری عادتیں لی ہیں‘ مگر یہ سب‘ تم کیوں سوچ رہی ہو۔ کیا ہوا ہے‘ کچھ پتا بھی تو چلے۔
کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔کچھ نہیں‘ اگر کچھ بھی نہیں‘ تو تم چپ چپ اور دکھی سی کیوں ہو؟ باتیں بھی تو‘ معمول سے ہٹ کر رہی ہو۔ کوئی بات تو ضرور ہے۔ کہہ جو دیا‘ کہ کچھ نہیں‘ بس یوں ہی پوچھ رہی تھی۔ معمول کی زندگی میں‘ بیٹھا نہیں جاتا۔ دیکھو‘ سارے موج مستی کر رہے ہیں‘ اور تم اداس بیٹھی ہو اور انسانوں کے طرز پر‘ سوچے جا رہی ہو۔ تمہیں کیا ہے‘ تم بھی تو بیٹھے ہو‘ جاؤ‘ تم بھی موج مستی کرو‘ اور مجھے میری حالت پر چھوڑ دو۔ میں تمہیں اکیال چھوڑ کر‘ نہیں جا سکتا۔ میں تمہاری جنس کی نہیں ہوں‘ پھر بھی‘ میری اتنی کیوں پرواہ کر رہے ہو۔ مجھے تم اچھی لگتی ہو۔
مگر میں تمہیں کیوں اچھی لگتی ہوں۔ ہم نے کون سا ایک ساتھ چلنا ہے۔ جنس کے اعتبار سے‘ ہم ایک ساتھ چل بھی نہیں سکتے۔ تمہارا ویہار اور معمول کا چلن‘ سلجھا اور رکھ رکھاؤ کا سلیقہ رکھتا ہے‘ اسی لیے‘ مجھے اچھی لگتی ہو۔ کمال ہے‘ عمومی طور پر حسن‘ ضرورت اور مطلب کے تحت ہی‘ قربتیں جنم لیتی ہیں۔ یہاں تو‘ ایک چیز کی بھی سانجھ موجود نہیں۔ جن چیزوں کا‘ تم ذکر کر رہی ہو‘ وہ تو خود غرضی کی راہ پر ہوتی ہیں۔ انسان جانور پالتا ہے‘ ان پر خرچ بھی کرتا ہے‘ کیا وہ یہ سب‘ بےلوث کرتا ہے؟ نہیں۔۔۔۔۔
ہم جنس کی بات مختلف ہے‘ لیکن کسی غیر جنس سے تعلق‘ بالمطلب کیسے استوار ہو سکتے ہیں۔ ہم جنس مخلوق کی قربت اور سانجھ‘ مطلب کے بغیر بےمعنی سی ہے۔ مجھے تم سے‘ کوئی مطلب نہیں۔ تم مجھے ادھر ادھر کی باتیں کرکے الجھا رہی ہو۔ اصل مدے پر آؤ‘ تم دکھی اور اداس کیوں ہو؟ کوئی وجہ تو ہو گی۔ میرا ساتھی‘ کبھی ایک قسم کے چوگے پر‘ مطمن نہیں ہوا۔ وہ نئے ذائقے کے لیے‘ نئے قسم کے چوگے کے لیے‘ بھٹکتا رہتا تھا۔ کئی بار‘ وہ اپنے شوق اور نئے ذائقے کے جنون میں‘ خطروں میں گھرا لیکن قدرت اسے موقع دے رہی تھی۔ خطروں کے پیش نظر‘ اسے آگاہ ہو جانا چاہیے تھا۔ آخر اور کتنے موقع ملتے۔ کئی دن پہلے وہ گیا‘ میں نے سوچا‘ آ جائے گا‘ لیکن جب نہ آیا‘ تو مجھے تشویش ہوئی۔ میں اسے تالش کرنے نکلی۔ بہت
سی‘ جگہیں دیکھیں‘ لیکن وہ نظر نہ آیا۔ شام کو تھک ہار کر‘ واپس آ گئی۔ اگلی صبح‘ میں نے پھر سے‘ تالش شروع کر دی‘ لیکن وہ کہیں نہ مال۔ میری تالش کا عمل‘ کئی دن جاری رہا۔ میں ناکام رہی۔ مجھے دن آ گیے۔ مجبورا‘ مجھے کسی دوسرے سے‘ رابطہ کرنا پڑا۔ میں نے انڈے بھی دیے‘ بچے بھی نکلے۔ اگرچہ زندگی معمول پر آ گئی تھی‘ تاہم اس سوچ نے‘ کبھی پیچھا نہ چھوڑا‘ کہ آخر وہ گیا‘ تو کہاں گیا۔ مارا گیا‘ یا کسی انسان کے ہتھے چڑھ گیا۔ آج میں‘ بچوں کے لیے چوگا ال رہی تھی‘ کہ اچانک‘ میری نظر اس پر پڑی۔ میں رک گئی۔ وہ ایک مداری کے لیے‘ کام کر رہا تھا۔ مداری نے‘ اسے پنجرے سے باہر نکاال۔ میرا خیال تھا‘ کہ فورا سے پہلے‘ اڈاری مار کر‘ میرے پاس لوٹ آئے گا۔ اس نے میری طرف دیکھا بھی‘ لیکن وہ اس کے لیے‘ کام کرتا رہا۔ آزادی‘ اس سے چند قدم دور تھی۔ پھر بھی‘ وہ پنجرے کا باسی رہنا چاہتا تھا۔ کیا غالمی اسے راس آگئی تھی‘ یا مداری اسے نئے نئے ذائقے
فراہم کرکے‘ اس کی فطرت کو‘ تسکین دے رہا تھا۔ یہ بھی ممکن ہے‘ غالمی‘ سوچ کے دروازے بند کر دیتی ہے۔ اسے کسی ناکسی سطح پر‘ اطمنان ضرور میسر آ گیا ہے‘ ورنہ وہ کب‘ نچال بیٹھنے واال تھا۔ مینا بولتی رہی‘ اس کی آنکھوں میں‘ ساون کی گھٹائیں امڈتی چلی گئیں۔ وہ یہ نہ سمجھ سکا‘ کہ یہ پیار کا موسم تھا یا اس کے ساتھی کے بدلے رویے کے خالف‘ مجبور اور بےبس احتجاج تھا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے‘ وہ اپنی نسل کے فرد کی غالمی پر دکھی دکھی ہے۔ مینا چپ ہو گئی‘ لیکن توتا‘ سوچ سمندر میں بہتا چال گیا۔ مینا اپنے من کا بوجھ ہلکا کرکے‘ اپنے نئے ساتھی کے پاس‘ جا چکی تھی‘ لیکن توتا ابھی تک‘ اسی شاخ پر بیٹھا‘ سوچوں کے گرداب میں پھنسا‘ اپنی ذات سے‘ بہت دور چال گیا تھا۔ جانے کتنے‘ اس کی نسل کے‘ انسان کی غالمی میں‘ اپنا ماضی کھو چکے ہوں گے۔ وقت کی گردش میں‘ ماضی گم ہو جاتا ہے۔ بس سنی سنائی کہانیاں ہی‘ دل کو خوش رکھنے کے لیے‘ رہ جاتی ہیں۔ فردوسی نے کتنا اور کہاں تک‘ سچ کہا‘ کوئی کیوں
تالشے۔ بس اتنا کافی ہے‘ کیوں کہ ہر اگلے لمحے‘ پھر سے‘ اور پہلے سے الگ تر‘ چوگے کی چنتا‘ سچائی کھوجنے نہیں دیتی۔ موجود ہی کو‘ سچائی کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے۔ پنجرے کے سب توتے مینا‘ ماضی کے جھوٹے سچے قصے بھول جاتے ہیں۔ انہیں صرف اور صرف وہ ہی یاد رہتا ہے‘ جو مداری ان کے کان میں پھونک دیتا ہے۔
دو منافق ثریا کو میرا دل ایک عرصہ پہلے‘ طالق دے چکا ہے لیکن دنیا چاری کے طور پر‘ ہم ایک چھت کے نیچے رہتے ہیں۔ ہمارا کھانا پینا‘ اٹھنا بیٹھنا‘ سونا جاگنا‘ غرض بہت کچھ‘ مشترک ہے۔ میں جانتا ہوں‘ ثریا بھی میری کبھی نہیں رہی۔ اس کی ہر مسکراہٹ‘ جعلی ہوتی ہے۔ وہ مجھے زندگی بھر دھوکا دیتی آئی ہے۔ وہ سمجھتی ہے‘ کہ میں بےخبر ہوں۔ سچی بات یہی ہے‘ کہ ہم میں سے کوئی ایک دوسرے سے مخلص نہیں۔ اتنا قریب اور بہت ساری سانجھیں موجود ہونے کے باوجود‘ ہم دلی اور دماغی اعتبار سے‘ ایک دوسرے سے‘ کوسوں میل کے فاصلے پر ہیں۔ وہ ہی نہیں‘ میں بھی‘ اس رشتہ کے حوالہ‘ پرلے
درجے کا بےاعتبارا اور غیر متعلق ہوں۔ وہ میری بیوی اور میں اس کا خاوند ہوں۔ اس کا ثبوت گھر میں چلتے پھرتے بچے ہیں۔ میں جانتا ہوں‘ ان میں سے بڑی لٹرکی کلثوم کے سوا‘ میرا کوئی بچہ نہیں ہیں۔ باقی چاروں کی پہچان ہمارے دونوں کے حوالہ سے ہے۔ بچے بھی‘ اسے سچی اور پکی پہچان سمجھتے ہیں۔ وہ کہہ نہیں سکتی‘ کہ صفیہ اور اقصا کے بچے میرے بچے ہیں۔ ہم پرلے درجے کے جھوٹے عیار اور منافق ہیں۔ ایک دوسرے کو جانتے اور پہچانتے ہوئے بھی‘ اس امر کے دعوی دار ہیں‘ کہ ہم ایک دوسرے سے مخلص‘ ہمدرد اور وفادار ہیں۔ ہماری جوڑی‘ مثالی رہی ہے۔ اصل حقیقیت یہ ہے‘ کہ ایک ہی چھت کے نیچے‘ دو منافق‘ زندگی بسر کرتے آ رہے ہیں۔ اول اول میں ثریا ہی کو غلط‘ بےوفا اور دغا باز سمجھتا تھا۔ سچائی تو یہ ہے‘ کہ میں بھی ٹیڑھا رہا ہوں۔ میں نے بھی اسی کا چلن لیا ہے۔ کہیں ناکہیں‘ غلط میں بھی ہوں۔ آج ناسہی‘ اس زمانے میں‘ میٹرک بہت بڑی تعلیم تھی۔ دور دور تک میٹرک پاس نہیں ملتا تھا۔ آج ہر محلہ میں‘ آسانی سے‘ بی اے پاس مل جاتا ہے۔ اپنے بچے کو پڑھانا‘ ہر کسی کے بس کا روگ نہ تھا۔ لوگ زیادہ تر‘ اپنے بچوں کو ہنر سکھانے پر توجہ دیتے تھے۔ ان کا خیال تھا‘ کہ ہنر سیکھ کر‘ ان کا بچہ باعزت
روٹی کمانے کے قابل ہو جائے گا اور بھوکا نہیں مرے گا۔ ایسے وقت میں‘ میٹرک پاس کر لینا معمولی بات نہ تھی۔ میں بڑی آسانی سے‘ ضلع دار کا منشی منتخب ہو گیا۔ ابا خوش تھے‘ لیکن مطمن نہ تھے۔ وہ مجھے افسر دیکھنا چاہتے تھے۔ ادھر مالزم ہوا ادھر میرے لیے اچھی اور پڑھی لکھی بہو کی تالش شروع ہو گئی۔ اس دور میں‘ مرضی پوچھنے کا رواج نہ تھا۔ دوسرا میری بھی کوئی پسند نہ تھی۔ امی اپنی بہن کی بیٹی بیاہ کر النا چاہتی تھیں‘ لیکن اس پر ان پڑھ ہونے کا لیبل چسپاں تھا۔ کافی سوچ بچار اور پرکھ پڑچول کے بعد‘ شہاب صاحب کی بیٹی پسند کر لی گئی۔ وہ میٹرک جے وی تھی اور پاس کے گاؤں میں پڑھانے جایا کرتی تھی۔ سب سے بڑی بات یہ کہ‘ وہ نائب صاحب کی دختر نیک اختر تھی۔ میرے سامنے اس کی شرافت اور حسن کے شیش محل کھڑے کر دیے گیے۔ میرے اشتیاق میں‘ ہر لمحہ اضافہ ہوا۔ وہ واقعی‘ خوب صورت عورت تھی۔ ایک بات تو سچ ثابت ہو گئی۔ کہتے تھے‘ ثریا منہ میں زبان نہیں رکھتی۔ یہ بات بھی سچ نکلی۔ اس کی زبان ہمیشہ منہ سے باہر رہتی۔ بعض اوقات‘ محافل میں‘ اس کا منہ اور زبان‘ متوازی سفر کرنے لگتے۔ بہت کم‘ کسی کو کچھ کہنے کا موقع فراہم کرتی۔ رہ گئی شرافت
کی بات‘ وہ بھی ڈھکی چھپی نہ رہی۔ بڑے باپ کی بیٹی تھی‘ کسی کو‘ چوں تک کرنے کی جرات نہ ہوتی۔ میں اس کا میاں ہو کر بھی‘ اسے کچھ کہنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا۔ اس کا باپ افسر تو تھا ہی‘ اوپر سے بھولو پہلوان سے‘ کسی طرح کم نہ تھا۔ بےتحاشا کھاتا تھا۔ پلے سے‘ اسے کبھی کھاتا نہیں دیکھا گیا۔ زبان سے کم‘ ہاتھ سے زیادہ کام لیتا تھا۔ اس کا سارا زور موچھوں پر تھا۔ مونچھیں بڑی خوف ناک تھیں۔ تحقیق سے معلوم ہوا‘ ذات کے تیلی ہیں لیکن لوگ بڑے ملک صاحب کہہ کر پکارتے تھے۔ ان کی تعریف میں زمین آسمان کے قالبے مال دیتے۔ بعض ایسی خوبیاں بیان کرتے‘ جن کا خود ملک صاحب کے فرشتوں کو بھی علم نہ ہو گا۔ ایسے شخص کی بیٹی کی ہاں میں ہاں نہ مال کر‘ موت کو ماسی کہنے کے مترادف تھا۔ میں تنخواہ پر گزارا کرنے کا قائل تھا۔ تنخواہ میں ٹھاٹھ کی نہیں گزاری جا سکتی۔ یقینا یہ بہت بڑا جرم تھا۔ میرے ہم پلہ کیا‘ میرے جونیئر موجیں کر رہے تھے۔ کئی نے دیکھتے ہی دکھتے‘ عمارتیں کھڑی کر لی تھیں۔ کپڑے نوابوں کے سے‘ زیب تن کرتے۔ ان کے بچے انگریز اور بیگمات‘ پشتنی رائس زادیاں لگتی تھیں۔ ادھر ہمارے ہاں‘ ان کے مقابلہ میں‘ کمی کمینوں کا سا ماحول
تھا۔ ایک بار میرے کولیگ کے ہاں کوئی فنکشن تھا۔ ہمیں مدعو نہ کیا گیا۔ ان کی بیوی نے برسرعام کہہ دیا‘ کہ ہم شرفا میں سے ہیں‘ اس لیے ہم تھرڈ کالس لوگوں کو بال کر‘ فنکشن کا ستیاناس نہیں مارنا چاہتے۔ ثریا روٹھ کر‘ اپنے باپ کے گھر چلی گئی۔ ددسرے دن‘ ملک صاحب ہمارے ہاں آ دھمکے اور بہہ جا بہہ جا کرا دی۔ میں حیران تھا‘ آخر شرافت اور ایمانداری‘ اس اسٹیج پر‘ بےمعنی کیوں ہو جاتی ہے۔ اس عزت افزائی کے بعد‘ میں نے ایمان داری کو طاقچے میں رکھ دیا۔ لہریں بحریں ہو گئیں۔ ضلع دار صاحب بھی خوش تھے۔ ان کا حصہ پہلے نکالتا۔ ثریا کا برادری میں ٹہوہر ٹپا ہو گیا۔ اس کے ملنے والوں میں بھی اضافہ ہوا۔ بچے آزاد ماحول میں زندگی بسر کرنے لگے۔ میں باہر ہی سے کھانے لگا۔ کام نکلوانے کے لیے‘ مسکراہٹوں کا‘ سائل اہتمام کرنے لگے۔ بہتر کارگزاری کی بنا پر‘ آؤٹ آف ٹرن پروموشن بھی مل گیا۔ گھر کے معامالت میں‘ ہم ایک دوسرے کے لیے‘ اجنبی سے ہو گیے۔ ایک دوسرے کی حرکتوں کو جانتے ہوئے‘ اندھے‘ گونگے اور بہرے سے ہو گیے۔ کسی کو انگلی اٹھانے کی ہمت نہ ہوتی تھی۔ میرا تعلق مغل فیملی سے تعلق تھا‘ لیکن میں بھی
ملک صاحب ہو گیا۔ بڑے ملک صاحب کی موت بعد‘ یقینا میں بڑے ملک صاحب کے لقب سے ملقوب ہونے واال تھا۔ میں نے ان سے بڑھ کر شہرت کمائی تھی۔ وہ اب‘ صرف مونچھوں میں مجھ سے آگے تھے‘ ورنہ رزق اور شخصی آزادی‘ ہمارے ہاں کہیں‘ زیادہ تھی۔ والد صاحب پڑھے لکھے ہو کر بھی‘ پرانی وضع کے شخص تھے۔ انہوں نے ہمیں الگ کر دیا تھا۔ نہ بھی کرتے تو ہم خود علیدہ ہو جاتے۔ ان کا مکان‘ مکان کم‘ مرغیوں کا ڈربا زیادہ تھا۔ میں نے میٹرک پاس کیا تھا۔ اتنا پڑھنے اور خرچہ کرنے کے بعد بھی‘ رونا دھونا اور بامشکل گزارا ہو‘ تو پڑھنے لکھنے کا فائدہ ہی کیا۔ دوسرا میں اکیال تھوڑا‘ اس رستے کا راہی تھا۔ ہر دفتر کا‘ چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا اہل کار‘ اسی راہ کا راہی تھا۔ لحاظ‘ مروت اور رواداری‘ عزت‘ شہرت اور خوش حالی کے کھلے دشمن ہیں۔ مجھے ریٹائر ہوئے‘ آج سات سال ہو گیے ہیں۔ پنشن مل رہی ہے۔ باالئی کا ماہنانہ بنک دے رہا ہے۔ کچھ ضرورت مندوں کو بھی دے رکھا تھا‘ وہ طے شدہ‘ منافع وقت پر دے جاتے ہیں۔ بڑے ملک صاحب کی جائیداد سے‘ اچھا خاصا حصہ مال ہے۔ میں نے‘ بس کلثوم کی شادی‘ اپنی مرضی اور دھوم سے کی
ہے۔ دوسری دونوں نے لو میرج کر لی ہے۔ دقیانوسی کہتے ہیں‘ کہ وہ نکل کر گئی ہیں۔ مجھے کوئی دکھ نہیں‘ وہ میری تھیں ہی کب؟ لڑکے بھی‘ پسند کی شادیاں کر چکے ہیں۔ آج بھی میں ہمیشہ کی طرح آزاد ہوں۔ ثریا اپنی مرضی کی گزار رہی ہے۔ سب درست سہی‘ گامو سوچیار کا یہ کہنا‘ گلے میں پھانس بن کر اٹکا ہوا ہے کہ حرام نسبی ہی نہیں‘ کسبی بھی ہوتا ہے۔ حرام سے‘ بہرطور حرامدا ہے۔ میری ماں نیک اور پرانی وضع کی عورت تھی۔ مجھے سو فیصد یقین ہے‘ کہ میں حالدا ہوں۔ کلثوم میری بیٹی ہے۔ کیا حرام کھا کر‘ ہم حرامدے ہو گیے ہیں۔ گامو سوچیار کے ان لفظوں نے‘ میری اور سکون چھین لیا ہے۔ میں کئی بار‘ اپنے ضمیر کو مطمن کرنے کی کوشش کر چکا ہوں۔ کم بخت‘ مطمن ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ گامو سوچیار جیسے لوگوں کو‘ مصلوب کیا جاتا رہا ہے‘ اس کے باوجود‘ کوئی ناکوئی‘ ہر عہد میں‘ ان کی جگہ لے ہی لیتا ہے۔ گامو سوچیار کا کہا‘ درست ہے‘ یا نہیں‘ یہ بات غور طلب ہے‘ تاہم یہ طے ہے کہ اس گھر میں ہنستے مسکراتے دو منافق رہتے ہیں۔
21-2-1972
بازگشت
وہ ستمبر کی بھیگی سی شام تھی۔ رومان کی پریاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔چندا کی اجلی اجلی نکھری نکھری روشنی میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔آنکھ مچولی کھیل رہی تھیں۔ چندا ان کی روح شکن اٹھکیلیاں دیکھ کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مے نوشی پر اتر آیا تھا۔ مے کی ننھی منی بوندیں۔۔۔۔۔۔۔۔گالب کے پرشباب چہرے پر ٹپک رہی تھیں۔ یوں محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گالب مدہوش ہو کر اپنی ہستی کھو دے گا۔ گالب کی وہ آخری شب تھی۔ یہ دستور زمانہ رہا ہے کہ جب گالب شباب کی حدوں کو چھوتا ہے تو گلچیں آ ٹپکتا ہے۔ پھر وہی پھول زندگی کے مخلتف شعبوں میں غالمی کی سانسیں گزارتے ہیں۔ ان کی آہ و بکا سننے واال کوئ نہیں ہوتا۔ ٹہنی سے بچھڑے پھول کی اوقات ہی کیا ہوتی ہے۔ کچھ سہرے کی لڑیوں کا مقدر بنتے ہیں تو کچھ حسرتوں کے مزار پر۔۔۔۔۔۔۔۔اگست کی دھوپ میں۔۔۔۔۔۔۔۔نشان عبرت بنتے ہیں۔ وہ آہ بھی نہیں کر پاتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔کریں بھی کیسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔کون سنے
گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔شاخ سے بچھڑے پھول کے پاس یہ حق نہیں ہوتا۔ اگر وہ شاخ پر ہوتا تو اس کی کوئ حیثیت بھی ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئ مقام ہوتا۔ میں بھی شاخ سے جدا ایک بےباس پھول ہوں۔ قطعی مجبور بےبس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الچار۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپنے احوال کہنے کے مجھ سے حقوق چھین لیے گیے ہیں۔ میں منہ میں زبان رکھ کر بھی گونگا ہوں۔اگر آواز اٹھاؤں گا تو کون سنے گا۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں کسی کے پاس اتنا وقت کہاں جو وہ کسی شاخ بریدہ کو خاطر میں الئے۔ اس شام دن بھر کی فائل کاری نے ذہن پر ایک بوجھ سا ڈال رکھا تھا اور میں صوفے پر نیم درازز خود کو جھوٹی تسلیوں سے بہالنے کی ناکام سعی کر رہا تھا۔ چار سو پھیلی چندا کی رومان پرور کرنیں میرے دل ودماغ پر ہتھوڑے برسا رہی تھیں۔ میرے گرد تنہائ کی آگ پھیل رہی تھی۔ باغی دل و دماغ پر قابو پانا دشور ہو چال تھا۔ کئ بار سوچا الئٹ آن کرکے خود کو مصنوعی روشنی کے حلقوں میں گم کر دوں۔۔۔۔۔۔۔۔ آہ میں ایسا نہ کر سکا۔۔۔۔۔۔ایسا کرنا ممکن ہی نہ تھا۔ اگر ہر چیز انسان کے بس میں ہو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسالل کبھی جنم نہ لیں۔ مجبوری ہی درحقیقت مساءل کی جڑ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں مجبوری۔۔۔۔۔۔۔۔۔بےبسی کی دراز باہوں کے حصار
سے بچ نکلنا منی منے کا کوئ کھیل نہیں۔ پھر اچانک کسی نے میرے شعور دریچے پر دستک دی۔ کئ چہرے میری آنکھوں کے سامنے رقصں کرنے لگے۔ میں گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ کون ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ پھر کسی نے چپکے سے میرے کان میں سر گوشی کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یار اپنے عامر کی چاپ کو نہیں پہچانتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمہارا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں تمہارا اپنا عامر۔ وہ عامر ہی تھا۔ جو صدیوں سے زندگی کی برہنہ الش کو اپنے نحیف کندھوں پر اٹھاءے مسلسل اور متواتر دوڑے چال جا رہا تھا۔اب وہ کافی الغر ہو گیا تھا۔ چہرے کی سرخی ہلدی ہو گئ تھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اس کے جسم سے کسی نے پورا خون نچوڑ لیا ہو۔ اس کے قدموں میں لڑکھڑاہٹ تھی۔ اس کا وجود لرز رہا تھا۔ خود میرے اپنے اعضا بھی تو ڈھیلے پڑ گیے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔چند لمحے۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں چند لمحے خاموشی کی لحد میں اتر گیے۔ پھر اس نے خاموشی کا قفل توڑا۔ شاہد جاگ رہے ہو؟ مگر کیوں‘ سو جاؤ۔ کب تک یوں ہی گھلتے رہو گے۔ میں تمہارا اپنا ہوں مجھ سے بھی اپنا دکھ چھپاتے ہو۔ اس دکھ سے آزادی حاصل کرو ورنہ میری طرح تم بھی اپنے وجوو میں نہ رہو گے۔ تمثالی زندگی بڑی کٹھن ہوتی ہے۔ یہ سسکنے بھی نہیں دیتی۔
سو جاؤ دوست اب سو جاؤ یہ تم کیسی باتیں کر رہے ہو۔ کچھ کہو۔۔۔۔۔۔ کچھ تو کہو کب تک سنو گے۔ کیا کچھ سنو گے۔ فرزانہ نے خود کشی کر لی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔خودکشی۔۔۔۔۔۔۔ !یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ سچ کہہ رہا ہوں۔ اس کی آواز میں بیکراں کرب تھا۔ شاہد بھال کیا کر سکتا تھا۔ سسک کر رہ گیا۔ فرزانہ بڑے اعلی اخالق و ذوق کی مالک تھی۔ اس نے عامر کو تنہائ کے بحر عمیق سے نکال کر گالبوں کے دیس میں ال کھڑا کیا تھا۔ اس کا دامن مسکرہٹوں سے بھر دیا تھا۔ عامر نے بات جاری رکھی اور دل پر پتھر رکھتے ہوءے بتایا اس روز کافی گرمی تھی۔ فرزانہ اپنے ابو کا سر دبا رہی تھی۔ اس کے کانوں سے شمیم کی کرخت آواز ٹکرائ۔ فرزانہ اس کے تیور دیکھ کر لرز ہی تو گئ۔ فرزانہ مجھے تخلیہ میں تم سے کچھ کہنا ہے۔“ فرزانہ اسے “
اپنے کمرے میں لے آئ۔ چند لمحے خاموشی طاری رہی پھر اس کے زہر آلود الفاظ سے خاموشی کا بت ٹوٹا۔ سنو فرزانہ! آج میں تم سے آخری فیصلہ کرنے آئ ہوں۔ اگر “ تم نے میری باتوں پر عمل نہ کیا تو جانتی ہو کیا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔تم ذلت کے گہرے کھڈ میں جا گرو گی۔ تمہارے ساتھ وہ کچھ ہو گا جس کا تم تصور بھی نہیں کر سکتیں۔ جان رکھو بےکسی کا “عالم اتہائ عبرت ناک ہوتا ہے۔ پھر وہ ایک لمحے کے لیے خاموش ہوئ۔ کیسی ہم راز سہیلی تھی۔ کوئ لحاظ کوئ مروت۔۔۔۔۔۔یوں لگتا تھا جیسے اس سے یہ سب چھن گیا ہو۔ میں عامر اور تمہاری تحریریں شہر بھر میں بانٹ دوں گی۔ “ پھر رسوائ دیمک بن کر تمہیں اور تمہارے امی ابو کو چاٹ لے گی۔ ان لمحوں کو آواز دو گی لیکن یہ لمحے واپس نہیں آئیں گے۔ مجھے صرف اتنا کہنا ہے میرے رستے سے ہٹ جاؤ یہی تمہارے اور تمہارے خاندان کے لیے بہتر ہے۔ میں نہ کچھ سننا “اور ناہی مزید کچھ کہنا چاہتی ہوں۔
وہ یہ کہہ کر دوسرے کمرے میں چلی گئ۔ فرزانہ کا جسم ٹھنڈا پڑ گیا۔ اسے یوں لگا جیسے گھڑی پل کی مہمان ہو۔ الفاظ کے ہتھوڑے اس کے سرد اور بےجان سے جسم پر ضربیں لگاتے رہے۔ اس نے سوچا اپنی بات اپنی اس وقت تک رہتی ہے جب تک دوسرے کان تک نہیں پہنچتی۔ پھر اس نے اپنی اور اپنے والدین کی عزت بچانے کا فیصلہ کیا اور شمیم کو زخمی :مسکراہٹ کے ساتھ یہ تحریر لکھ کر دے دی !عامر صاحب آج کے بعد مجھ سے ملنے یا پیغام بھجوانے کی کوشش نہ کرنا۔ میرا آپ سے نہ کوئ تعلق تھا اور نہ کوئ تعلق ہے۔ میری اس تحریر کو غیر سنجیدہ نہ لینا۔ میری شادی کا فیصلہ میرے ابو کریں گے۔ انہیں تم قطعی ناپسند ہو۔ ہم ایک دوسرے کے نہ کچھ تھے اور نہ کچھ ہیں۔ فقط اپنے ابو کی فرزانہ شمیم جانے کو تو چلی گئ لیکن خیاالت کا منہ زور طوفان چھوڑ گئ۔ یہ سب اس نے دل پر پتھر رکھ کر لکھ کر دیا تھا۔ وہ سوچ
رہی تھی اب کیا کرے۔ کیا وہ عامر کے بغیر زندہ رہ سکے گی۔ وہ عامر کے بغیر زندہ رہنے کا تصور بھی نہ کر سکتی تھی۔ وہ سوچتی گئ جذبات سلگتے رہے۔ پھر اس نے آخری فیصلہ کیا اور الماری کی جانب بڑھ گئ جہاں خواب آوار گولیوں کی شیشی پڑی تھی۔ یہ گولیاں اس کے ابو استعمال کرتے تھے۔ اس نے سب گولیاں اپنے حلق میں انذیل لیں۔ یہ حقیقت ہے کہ درد کی دوا درد ہی ہو سکتی ہے۔ گولیوں نے اس کے پیاسے من کی پیاس بجھا دی۔فرزانہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں اپنے عامی کی فرزانہ ابدی نیند سو چکی تھی۔ یہ داستان زہر بجھے تیر سے کسی طرح کم نہ تھی۔ اس نے دیکھا‘ عامر کا دم گھٹنے لگا ہے اور پھر اس نے روح سے خالی زندگی سے خالصی حاصل کر لی۔ ہاں اس کے چہرے پر اب سکون نمایاں ہو گیا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے بت دو روحوں کا سنگم دیکھ رہا ہو اور زندگی کی کرب ناکی کے بھاری بوجھ نے اس کے بے حس و حرکت پڑے وجود کو سفلتا عطا کر دی ہو۔ ہو سکتا ہے یہ میری سوچ کا کاشانہ ہو لیکن یہ سب وہم وگمان بھی نہیں ہو سکتا۔ کچھ ضرور تھا۔ رخصت ہوتے‘ روح نے اپنی رخصتی کے آثار چھوڑ دیے تھے۔ سرگوشی کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ عامر فرزانہ کے دیس جا چکا تھا۔ ہاں اس کی سرگوشی کی خوشبو ابھی باقی تھی۔
یہ سب اس نے جاگتی آنکھوں سے دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیسے بھول پاتا۔ کربناک لحموں کی بازگشت تازیست یادوں کے نہاں گوشوں میں اپنا تمثالی وجود برقرار رکھتی ہے۔ یادوں کا تمثالی وجود نیند کے جھونکوں کا انتظار نہیں کرتا۔ موقعہ بہ موقعہ اپنے اٹوٹ وجود اور قلبی رشتے کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ اسے اس سے کوئ غرض نہیں ہوتی کہ کسی پر کیا گزرے گی۔ بازگشت کا رشتہ اگر مٹی ہو جائے تو گزرا کل اپنی معنویت کھو دے اور صیغہ تھا الیعنی ہو کر رہ جائے۔ یکم جوالئی 1970
الٹھی والے کی بھینس
الہور بورڈ نے میری پنشنری غربت سے متاثر اور عبرت پکڑتے ہوءے مجھے ہیڈ ایگزامینر مقرر کر دیا۔ میں کام کی غرض سے نکلنے لگا۔ دروازے سے ایک قدم باہر اور ایک قدم اندر تھا کہ زوجہ ماجدہ کی پیار بھری آواز واپسی بالوے کی
صورت میں میرے ناچیز اور پراز گناہ کانوں میں پڑی۔ بڑھاپے کے باوجود میں پوری پھرتی اور کسی نوبہاتا نوجوان کی طرح واپس پلٹا۔ زوجہ حضور کے ہاتھ میں منڈی کے سامان کی لسٹ تھی۔ سخت گھبرایا اور نزع کی حالت کے نیم مردہ شخص کی طرح منمنایا بلکہ گڑگڑایا :رمضان کی برکتوں کے سبب منڈی کی اشیاء دسترس سے باہر ہو گئ ہیں۔ بس دو چار روز صبر فرما لیں پھر سب کچھ آپ کے مقدس چرنوں میں ہو گا۔ بس پھر کیا تھا کام اسٹارٹ ہو گیا جیسے میں نے کوئ ماں بہن کی بےلباس گالی نکال دی ہو۔ یہ کوئ ایسی نئ بات نہیں تھی تحفظ عزت و مال کے لیے سارا دن بےعزتی کرانا میرے معمول کا حصہ ہے۔ میں نے بھی دل ہی دل میں جی بھر سنائیں۔ سالی یوں گرج برس رہی ہے جیسے روزہ میرے لیے رکھا ہو۔۔ باور رہے یہ بھی دل ہی دل میں کہا۔ اونچی آواز میں کچھ کہنا میرے کیا بڑے بڑوں کے ابے کے بس کا روگ نہیں رہا۔ بیگمی حوصلہ اور عزت افزائ کے باوجود میں خود کو معاشرے کا معزز شہری سمجھتا ہوں۔ لوگ تو خیر اس غلط فہمی میں مبتال ہیں ہی۔ وہ کیا جانیں روزوں میں منڈی چڑھنے کے ساتھ ہی میری عزت اور وقار بےعزتی کی سولی پر مصلوب ہو جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے اوروں کے ساتھ بھی کم وبیش یہی ہوتا ہو تاہم میرے ساتھ باالضرور ہوتا ہے اور شاید
یہی مقدر اور نصیبا رہا ہو۔ سنٹر میں ابھی میں نے تشریف نہیں رکھی تھی کہ ایک بی بی جو میری سب تھی اپنا کام لے کر آ گئ۔ سر میرا کیا قصور ہے جو کلرک کام میں دیری کرتا ہے بمعنی دوسروں کے پہلے کرتا ہے حاالنکہ اسے لیڈیز فسٹ کے اصول کی پابندی کرنی چاہیے گویا جس کا کام کر رہا ہوتا ہے اسے موخر کے کھاتے میں ڈال دے۔ اس کے سوال کا جواب دینے کی بجاءے منہ سے بےساختہ اور بےمحل نکل گیا‘ جانے کیا کر بیٹھا ہوں جو گھر میں بھی عورتیں دیکھنے کو ملتی ہیں باہر آؤ تو بھی عورتوں سے پاال پڑتا ہے۔ کہنے کو تو کہہ گیا لیکن مجھے احساس ہو گیا کہ کچھ زیادہ ہی غلط کہہ گیا ہوں۔ بعد میں نے لیپا پوچی کی بڑی کوشش کی لیکن اب کیا ہوت کمان سے نکال تیر نشانے پر بیٹھ کر اپنا اثر دکھا چکا تھا۔ بات آئی گئی ہو کر وقتی طور پر ٹل گئی۔ مارکنگ کا یہ آخری دن تھا ایک دوسری خاتون نے برسرعام پوچھا سر اگر آپ برا نہ منائیں تو ایک ذاتی سا سوال پوچھ سکتی ہوں۔ ذاتی پر زور تھا سا کا الحقہ اس نے تکلفا استعمال کیا۔ کیا کہہ سکتا تھا ذاتی سا سوال سرعام دریافت کر رہی تھی۔ احمق میں ہی تھا جو ماتحت لوگوں کے بیچ بیٹھ کر کام کر رہا تھا۔ یہ لوگ تقریبا ماتحت
تھے میں تو درجہ چہارم کے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر پلے سے سب کے لیے چاءے منگوا کر پی لیتا ہوں‘ گپ شپ کر لیتا ہوں۔ بالشبہ یہ اصول جاہی کے خالف ہے۔ بہر کیف میں نے بی بی کو پوچھ گچھ کی اجازت دے دی۔ ۔سر آپ کی تینوں بیگمات اسی شہر میں اقامت رکھتی ہی۔ تین کے ہندسے نے مجھے چکرا دیا۔ پھر میں نے سوچا مفت میں ٹہوہر بن رہا ہے اور اس حوالہ سے یہ جائے انکار کب ہے۔ نہیں وہ تو ایک ہی گھر میں رہتی ہیں۔ جس طرح مجھے تین کے ہندسے نے چکرا دیا تھا بالکل اسی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اس بی بی کو چکر آ گیا اور میں جوابی کاروائ کی اثر انگیزی پر مسرور تھا۔ کچھ ہی لمحوں کے بعد میری مسروری کو دیکھ کر اس نے دوسرا سوال داغ دیا۔ سر وہ آپس میں خوب لڑتی ہوں گی۔ میں یہ کہہ کر چلتا بنا :کیوں میں مر گیا ہوں۔ بعد میں کسی اور کی زبانی معلوم ہوا کہ انہوں نے کیوں میں مر گیا ہوں کی تفہیم بالکل الگ سے لی ہے۔ انہوں نے سمجھا کہ بابے نے تینوں کو نپ کر رکھا ہوا ہے۔ عورت اور وہ بھی سرکاری؛ دب کر رہے‘ کس کتاپ میں لکھا ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ آپس میں کیوں لڑیں گی لڑائ اورعزت افزائئ
کے لیے میں ابھی زندہ ہوں۔ یہ قصہ تو زیب داستان کے لیے عرض کر گیا ہوں اصل تحقیق کی ضرورت تین کا ہندسہ تھا۔ آخر یہ کہاں سے آ ٹپکا اور پورے مارکنگ سنٹر میں میری وجہ ء شہرت بن گیا۔ بڑا غور کیا‘ سوچا‘ سیاق و سباق میں گیا۔ کچھ بھی پلے نہ پڑا۔ آج کچھ ہی لمحے پہلے مجھے مشکوک نظروں سے دیکھا گیا تو میں نے سنجیدہ توجہ دی تو کھال میں نے ایک بی بی سے کہا تھا گھر میں عورتوں اور باہر بھی عورتوں سے پاال ہے۔ جمع کے صیغے نے کہانی کو جنم دیا تھا۔ خاتون کے حافظہ میں ایک جمع رہی دوسری کو اس نے واحد لیا۔ وہ عورت تھی مکالمہ اسی سے ہوا۔ غالبا اردو نحو کا اصول بھی یہی ہے کہ دوسری جمع واحد میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ سننے اور پڑھنے واال بولنے اور لکھنے والے کا پابند نہیں وہ مرضی کے مطابق مفاہیم اخذ کرتا ہے۔ میرے کہے میں ابہام موجود تھا۔ بال ابہام لفظوں اور جملوں کے بہت سے مفاہیم لیے جاتے ہیں یا پھر لیے جا سکتے ہیں۔ ساختیات بھی یہی کہتی ہے۔ اسے کہنا بھی چاہیے۔ ابہام اور لفظوں کی کثیر معنویت عدالتوں میں اپیل کے دروازے کھولتی ہے۔ لفظ اپنی حیثیت میں جامد اور اٹل نہیں۔ اسے استعمال میں النے والے کی انگلی
پکڑنا ہوتی ہے۔ ان کے جامد اور اٹل ہونے سے زبان کے اظہار کا دائرہ تنگ ہو جائے گا۔ نتیجہ کار زبان مر جائے گی یا محض بولی ہو کر رہ جائے گی۔ اس تھیوری کے تناظر میں مجھے کسی بھی خاتون کے کہے کو دل پر لگانا نہیں چاہیے۔ کچھ ہی پہلے اندر سے آواز سنائی دی حضرت بیغم صاحب حیدر امام سے کہہ رہی تھیں بیٹا اپنے ابو سے پیسے لے کر بابے فجے سے غلہ لے آؤ۔ عید قریب آ رہی ہے کچھ تو جمع ہوں گے عید پر کپڑے خرید الئیں گے۔ بڑا سادا اور عام فیہم جملہ ہے لیکن اس کے مفاہیم سے میں ہی آگاہ ہوں۔ یہ عید پر کپڑوں النے کے حوالہ سے بڑا بلیغ اور طرحدار طنز ہے۔ طنز اور مزاح میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ طنز لڑائی کے دروازے کھولتا ہے جبکہ مزاح کے بطن سے قہقہے جنم لیتے ہیں۔ جب دونوں کا آمیزہ پیش کیا جاءے تو زہریلی مسکراہٹ نمودار ہوتی ہے اور ایسی جعلی مسکراہٹ سے صبر بھال دوسرا بات گرہ میں بندھ جاتی ہے۔ میں نے کئ بار عرض کیا کہ طنز لبریز مذاق نہ کیا کرو۔ کہتی ہے اب اس گھر میں بات کرنے کی بھی اجازت نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حکم نامے طاقت جاری کرتی ہے۔ ماتحت کمزور مفلس اور کامے حقوق کی مانگ بھی گزاشی انداز میں کرتے ہیں۔
لمحہ بھر کی خوش فہمی بھی ہضم نہ ہو سکی کہ گھر والی کو بےفضول کہنے کی جرآت نہیں‘ میرے حصے کا بھی بقول سقراط گھر والی نے بول دیا۔ سردار دمحم حسین آج کی نشت میں کہہ رہے تھے کہ آخر آپ کی تان اعلی شکشا منشی پر ہی کیوں ٹوٹتی ہے۔ میں نے کہا سردار صاحب کل گاؤں سے ایک توڑا آلو لیتے آنا۔ آپ ہی فرماءیے اس میں زوردار ہنسنے والی کونسی بات ہے۔ میں نے اپنی بات دہرائ تو پھر ہنس دیے۔ نہ ہاں نہ ناں‘ یہ کیا ہوا۔ میں اپنی لکھتوں میں اپنا حق طلب کرتا ہوں کیونکہ آلو کے بغیر گزرا نہیں اور آلو مفت میں نہیں ملتے۔ اعلی شکشا منشی کے دفتر سے پیسے ملیں گے تو ہی آلو ال سکوں گا۔ میرے آلو النے کے لیے کہنے میں سادگی نہ تھی بالکل اسی طرح سردار صاحب کے دھماکہ دار قہقہوں میں بھی نزدیک کے معنی موجود نہ تھے۔ میں جانتا ہوں وہاں بھی آلو کا روال ہے۔ سکی تنخواہ میں آلو اور ٹوہر ایک ساتھ نہی چل سکتے اور ناہی کسی سطع پر ان کا کوئ کنبینیشن ترکیب پاتا ہے۔ انہیں ضدین کا درجہ حاصل ہے۔ سردار صاحب نےآلو النے کی بات کو گول کرکے میرے اندر ڈر اور خوف کی لہر دوڑا دی۔ میں یہ بھول ہی گیا کہ میں نے ان
سے کیا گزارش کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ میں جن کے متعلق لکھتا ہوں ان کے ہاتھ بڑے لمبے ہیں‘ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ سردار صاحب کا کہنا غلط نہ تھا۔ تاہم یہ بھی طے ہے لوگ جیل سے باہر جیل سی زندگی گزار رہے ہیں۔ سفید پوش کی اوقات آلو برابر نہیں رہی۔ کیا عجیب صورت حال درپیش ہے۔ چور کی نشندہی کرنے واال مجرم اور الئق تعزیر ٹھہرتا ہے۔ چور یقینا دودھ دیتی بھینس کی مثل ہوتا ہے۔ چور چور کی آوازیں نکالنے واال دودھ دیتی بھینس کو چھڑی مار رہا ہوتا ہے۔ نشاندہی کرنے واال ایک طرف چور کو‘ تو دوسری طرف چور سے مال انٹنے والے کے پیٹ پر الت رسید کر رہا ہوتا ہے۔ ویسے سچ اور حق کی آنکھ سے دیکھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ چور اس وقت تک چور ہوتا ہے جب تک دوسرے کا مال اس کی گرہ میں نہیں آ جاتا۔ مال چاہے شور مچانے والے کا ہی کیوں نہ ہو۔ چور کی گرہ میں آنے کے بعد مال چور کا ہوتا ہے۔ کسی صاحب مال کو چور کہنا سراسر زیادتی کے مترادف ہے۔ اگر شور مچانے واال بخوشی گرہ سے کچھ نہیں دے سکتا تو کسی کے مال پر دعوے کا بھی اسے حق نہیں۔ حق اور انصاف کا تقاضا یہی کہ جس کی الٹھی اس کی بھینس ہے۔
آخری کوشش
درندے کے قدموں کی آہٹ اور بھی قریب ہو گئ تھی۔ اس نے سوچا اگر اس کے دوڑنے کی رفتار یہی رہی تو جلد ہی درندے کے پنجوں میں ہو گا۔ اس نے دوڑنے کی رفتار اور تیز کر دی۔ پھر اس نے سوچا کیا وہ اور اس جیسے کمزور طاقتور کے آگے دوڑنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں؟ جب اور جہاں کمزور کی رفتار کم پڑ جاتی ہے طاقتور دبوچ لیتا ہے۔ اس کے بعد زندگی کا ہر لمحہ طاقتور کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ چند لمحوں کے ذہنی سکون کے بعد طاقتور چیر پھاڑ کر اپنی مرضی کے حصے کھا پی کر جان بناتا ہے۔ لمحہ بھر کے لیے بھی وہ یہ سوچنے کی ذحمت گوارا نہیں کرتا کہ کمزور کے دودھ پیتے بچوں کا کیا ہو گا۔ اس کے جانے کے بعد اس سے کم طاقتور بقیہ پر بڑی بے دردی سے ٹوٹ پڑتے ہیں اور وہ بوٹی بوٹی نوچ لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہڈیوں پر بھی رحم کھایا نہیں جاتا۔ کھایا بھی کیوں جائے ہڈیاں فاسفورس کی کانیں ہیں۔ بٹنوں کے لیے ان کی ضرورت رہتی ہے۔
اس کے بھاگنے کی رفتار میں مزید اضافہ ہو چکا تھا۔ سوچ خوف اور بچ نکلنے کی خواہش نے اس کے جسم میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کا احساس تک نہ ہونے دیا۔ وہ ہر حالت میں دشمن کی گرفت سے باہر نکل جانا چاہتا تھا لیکن دشمن بھی اسے بخش دینے کے موڈ میں نہ تھا کیونکہ اس کی رفتار میں بھی ہر اضافہ ہو گیا تھا۔ موت کا گھیرا تنگ ہو گیا تھا۔ اس کے سامنے کھال میدان دائیں دریا بائیں گہری کھائی اور پیچھے خونخوار درندہ تھا۔ رستے کے انتخاب کے حوالہ سے یہ بڑی سخت گھڑی تھی۔ پھر وہ بائیں مڑ گیا۔ اس نے جسم کی ساری طاقت جمع کرکے کھائی تک پہنچنے کی کوشش کی۔ درندہ فقط ایک قدم کے فاصلے پر رہ گیا تھا۔ اس سے پہلے درندے کا پنجہ اس کی گردن پر پڑتا اس نے کھائ میں چھالنگ لگا دی۔ درندے کے اپنے قدم اس کی گرفت میں نہ رہے۔ کوشش کے باوجود رک نہ سکا اور وہ بھی گہری کھائی کی نذر ہو گیا۔ کمزور کے جسم کی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں اور دم اکھڑ رہا تھا۔ اس نے سراٹھا کر دیکھا کچھ ہی دور درندہ پڑا کراہ رہا تھا۔ اس کی ٹانگیں ٹوٹ گئی تھیں۔ بھوک درد کے زنداں میں مقید ہو گئی تھی۔ کمزور کے چہرے پر آخری مسکراہٹ صبح کازب کے
ستارے کی طرح ابھری۔ اس کی آخری کوشش رنگ ال چکی تھی۔ اسے اپنی موت کا رائی بھر دکھ نہ تھا۔ اس نے خود یہ رستہ منتخب کیا تھا۔ اب یہ درندہ کبھی کسی کمزور کا وحشیانہ تعاقب نہ کر سکے گا اور اس کی ٹانگوں سے ہمیشہ اف اف اف کے بزدل نعرے بلند ہوتے رہیں گے۔
میری ناچیز بدعا کچھ ہی دن ہوئے‘ میری ادھ گھروالی ایم بی بی ایس یعنی میاں بیوی بچوں سمیت ہمارے ہاں پدھاریں۔ میں اپنی بیگم کی ٹی سی کرنے کے لیے بڑے ہی خوشگوار انداز میں اس کے کرسی قریب بڑے ہی فصیح و بلیغ طور سے‘ ٹی سی کر رہا تھا۔ بیگم صاحب نے تھوڑی دیر میری الیعنی بکواس برداشت کی۔ پھر کچن میں جا کر آواز دی۔ ڈاکٹر صاحب ذرا بات سننا۔ میں فورا سے پہلے حاضر ہو گیا۔ دو ہی باتیں ہو سکتی تھیں۔ شک نے لپیٹ لیا ہو۔ اس بڑھاپے میں کیسا شک۔ برتن دھونے کا حکم نہ صادر کر دے۔ پھر میں نے سوچا جو ہو گا دیکھا جائے گا‘ هللا مالک ہے۔
وہاں ان میں سے کوئ بات درست نہ نکلی۔ فرمانے لگیں کتنی بار کہہ چکی ہوں کہ جا کر دوا لے آؤ‘ پر تم نے کہنا نہ ماننے کی قسم کھا رکھی ہے۔ کہاں کہاں کھرک رہے تھے اس کی تمہیں ہوش ہی نہ تھی۔ اس کی بات میں خم سمیت دم تھا لیکن سوال یہ تھا کہ مہمانہ مرد کے کس کہاں سے واقف نہ تھی۔ خیر یہ غلطی نہیں کھلی گستاخی تھی۔ میں نے حسب معمول اور حسب روایت سوری کی اور دوا لینے کے لیے چل دیا۔ میں آج تک بیگمی حکم عدولی کا سزاوار نہیں ہوا۔ یہ واحد حکم تھا جسے آج تا کل ٹالتا آ رہا تھا۔ میں وچلی بات کسی سے شئیر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ آپ بر مجھے بھروسہ ہے کہ آپ میری بات ہر کان تک نہیں پہنچائیں گے۔ شدہ ہوں اور ہر شدہ‘ شدہ حضرات کی دہلیز کے اندر کی سے خوب آگاہ ہوتا ہے۔ میں بوڑھا ضرور ہوں‘ بدذوق نہیں۔ جو احباب کھرک کی لذت سے آگاہ ہیں وہ میری بات کی تاءد کریں۔ دنیا میں شاید ہی کوئ بیماری ہو گی جو اتنی لذت انگیز ہو گی۔ ذندگی بےلذت اور بے ذائقہ ہو گئ ہے۔ دکھ درد مصیبت جھڑکیاں وغیرہ اس کا نصیبہ ٹھہرا ہے۔ ایک یہ لذت کا ذریعہ تھی جو بیگم حضور کو گوارہ نہ ہوئ۔ مانتا ہوں ہر بار خارش کا انجام بڑا تلخ ہوتا ہے۔ زندگی میں پہلے ہی کیا تلخی کم ہے۔
تلخی کا آغاز اور انجام تلخی ہوتا ہے۔ تلخی کے آخر میں لذت مل جاءے تو آدمی بردشت بھی کر لے۔ خارش ہی وہ تلخی اور آزار ہے جو آغاز میں تادیر چسکا و سواد فراہم کرتی ہے۔ مجھ سے عارضی اور لمحاتی آسودگی چھینی جا رہی تھی۔ زمانے کا چلن ہے کہ وہ کسی کو لمحوں کے لیے سہی‘ آسودہ اور خوش نہیں یکھ سکتا۔ مجھے اصل افسوس یہ ہے کہ میری سرزنش کر ڈالی لیکن بہن کو بال کر کچھ نہیں کہا جو جوابا طرح طرح کی جگہوں پر مزے لے لے کر کھرک فرما رہی تھی۔ بہن تھی نا وہ اسے لذت سے مرحوم نہں کرنا چاہتی تھی۔ بہن تھی نا۔ اپنے اپنے ہوتے ہیں۔ میرا کیا ہے بیگانہ پتر ہوں میری خوشی اور لمحاتی آسودگی اسے کیونکر خوش آ سکتی تھی۔ پاکستان سو نہیں ہزاروں طرح کی قربانیاں دے کر حاصل کیا گیا۔ ابتدا سے لے آج تک کھرک زدہ دفتر شاہی سے گزارہ کر رہا ہے۔ واپڈا ہو کہ اکاؤنٹ آفس‘ ٹیلی فون والے ہوں کہ پوسٹ آفس والے‘ اعلی شکشا منشی کا دفتر ہو کہ پنجاب سرونٹس فاؤنڈیشن والے غرض کوئ بھی محکمہ لے لیں مسلسل اور متواتر طرح طرح کی جگہوں پر کھرکے جا رہے ہیں پوچھنے والے خود اس عظیم نعمت ارضی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ کچھ ہی ریٹائرمنٹ کے بعد رشوثی کھرک کی تلخی دیکھتے ہیں
ورنہ معاملہ اگلے جہاں تک التوا میں رہتا ہے۔ گھر میں فرد واحد کی کھرک اس سے برداشت نہ ہو سکی۔ میری بدعا ہے هللا اسے اس نعمت بےمول سے تامرگ محروم رکھے اور اس کے لیے ترستی قبریں سدھارے۔ وہ اس لذت کے لیے دعا بھی کرے تو دعا قبولیت کے قریب بھی نہ پھٹکے۔ سب کہو آمین
آخری خبریں آنے تک
کون انصاف تمہارا یہاں کیا کام جہاں میری ضرورت ہوتی ہے بن بالءے چال آتا ہوں بن بالءے کی اوقات سمجھتے ہو جی ہاں
اوقات عمل سے بنتی ہے۔ تماری ماننے والے بھوکے مرے بھوک نے انہیں ہمیشہ سرخرو کیا ہے لوگ ہمیں سالم کرتے ہیں تمہیں نہیں‘ تمہاری شر کو سالم کہتے ہیں تاریخ میں دھنوان امر رہا ہے تاریخ پیٹ کے بندوں کا روزنامچہ ہے پیٹ ہی تو سب کچھ ہے تب ہی تو باال سطع پر رہتے ہو۔ تہہ کے متعلق تم کیا جانو بڑے ڈھیٹ ہو بننا پڑتا ہے تمہیں تمہاری اوقات میں النا پڑے گا کیا کر لو گے؟؟؟ تماری ہڈی پسلی ایک کر دوں گا یہ سب تو پہلے بھی میرے ساتھ ہو چکا ہے۔ کوئ نئ ترکیب سوچو تمہیں جال کر راکھ کر دوں گا۔ عبرت کے لیے تماری راکھ
گلیوں میں بکھیر دوں گا یہ تو اور بھی اچھا ہو گا وہ کیسے؟ میری راکھ کا ہر ذرا انقالب بن ابھرے گا اہ مائ گاذ‘ تو پھر میں کیا کروں؟ مجھے اپنے سینے سے لگا لو یہ مجھ سے نہیں ہو گا تو طے یہ ہوا تمہاری اور میری جنگ کا کوئ انت نہیں دیکھتا ہوں کہاں تک اذیت برداشت کرتے ہو چلو میں بھی دیکھتا ہوں اذیت میں کس حد تک جاتے ہو اس کے بعد گھمسان کی جنگ چھڑ گئ اور آخری خبریں آنے تک جنگ جاری تھی۔
کیچڑ کا کنول
آلودہ‘ میال سا چیتھڑا شاید حاجت سے بچا ہوگا ‘آدم زادے کا پراہین !عییب نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔؟ گالب سے چہرے پر بلور ایسی‘ دیکھتی آنکھیں حیرت خوف غم غصہ اورافسوس جانے کیا کچھ تھا ان میں سماج کی بےحسی پہ ان ٹھہری مگر دیکھتی آنکھوں میں دو بوند‘ لہو سی صدیوں کے ظلم کی داستان لیے ہوءے تھیں اتنی حدت اتنی اتنی تپش کہ پتھر بھی پگھل کر پانی ہو
ترسی ترسی باہیں میرے بوبی کی باہیں ایسی ہی تھیں کہ جب وہ بچہ تھا تب محبتوں کا حصار تھا اور اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خفت ندامت کا حصار مرے گرد ہے لمحہ بہ لمحہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ داءرہ تنگ ہو رہا ہے مجھے فنکار سے نسبت ہے فنکار‘ سب کا درد سینے کی وسعتوں میں سمو لیتا ہے ‘اور میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ساکت وجامد مٹی کے بت کی طرح خاموش تماشائ تھا
اس نے پکارا آواز دی احتجاج بھی کیا کچھ نہ میں کر سکا ‘جیسے وہ آدم زادہ نہ ہو ہمالہ سے گرا کوئ پتھر ہو :اس نے کہا !فنکار۔۔۔۔۔۔۔“ مجھے اپنی باہوں میں سما لو "ازل سے پیاسا ہوں گھبرا کر تھوڑا سا )پستیوں کی جانب) پیچھے سرکا کوئ مصیبت کوئ وبال تہمت یا بدنامی سر نہ آءے چیخا “فنکار کا سینہ
!کب سے تنگ ہوا ہے؟ میری باہیں غیر جنس کی باہیں ہیں؟ ان کا تم پر کوئ حق نہیں؟؟؟ وہ کہتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں سنتا رہا کیا جواب تھا میرے پاس !کاش میرے شعور کی آنکھیں بند ہو جاتیں یوں جیسے ممتا کی سماج کی آنکھیں بند تھیں سوچتا ہوں‘ مجرم کون ہے ‘گناہ کس نے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ ماں یا سماج نے وہ تو اپنے گھروں میں آسودہ سانسوں کے ساتھ گرم کافی پی رہے ہوں گے یا میں نے جو
شب کی بھیانک تنہائ میں ندامت سے سگریٹ کے دھوءیں میں تحلیل ہو رہا ہوں گٹرکے قریب پڑا‘ وہ کنول مجھ سے میرے ضمیر سے انصاف طلب کر رہا ہے کہ تم‘ خداءے عزوجل کی تخلق کا یہ حشر کرتے ہو مجھے حرامی کہتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ بتاؤ‘ حامی کون ہے؟ ضمیر کس کا مردہ ہے؟ مجرم کون ہے؟ میں یا تم؟؟؟ !میری بستی کے باسیو کہ تمہیں عظیم مخلوق ہونے کا دعوی ہے
کیا جواب دوں اسے؟ اس کا ننھا سا معصوم چہرا احتجاج سے لبریزآنکھیں پنکھڑی سے ہونٹوں پر تھرکتی بےصدا سسکیاں مجھے پاگل کر دیں گی پاگل ہاں پاگل اوٹ سے‘ ٢٥٥١
براہ راست
http://urdunetjpn.com/ur/category/maqsood-has ni/page/17/
جو بھی سہی
http://urdunetjpn.com/ur/category/maqsood-has ni/page/18/
چار چہرے
http://urdunetjpn.com/ur/category/maqsood-has ni/page/20/
بکھری یادیں
http://urdunetjpn.com/ur/category/maqsood-has ni/page/21/
توبہ کا لہو
http://urdunetjpn.com/ur/category/maqsoodhasni/page/26/
مفلس کہیں کا
http://urdunetjpn.com/ur/category/maqsoodhasni/page/33/
خوشبو کا قیدی
http://urdunetjpn.com/ur/category/maqsood-
hasni/page/35/
ذات کا استحصال
http://urdunetjpn.com/ur/category/maqsood-has ni/page/36/