وہ اندھی تھی کچھ بعید نہیں ڈی سی سر مائیکل جان پرایا دھن یہ ہی ٹھیک رہے گا
وہ اندھی تھی وہ لنکویل لبیلے کا سانپ کم' چھالوہ زیادہ تھا۔ دوسرا حجم اور لمبائی چوڑائی میں بھی' جہنمی بال لگتا تھا۔ کسی ایک جگہ ٹھکانہ رکھتا تو گرفت کا کوئی ناکوئی رستہ ضرور نکل آتا' مصیبت تو یہ تھی کہ اس کا کوئی مستمل ٹھکانہ نہ تھا۔ لوگ سوچ میں تھے' آخر کہیں ناکہیں آرام
تو کرتا ہو گا۔ یہ بال' پتا نہیں اچانک کیوں نازل ہو گئی تھی۔ عاللے کے سربراہ مہاراج چرچی ناتھ کی آمد اچانک نہ تھی' اس کے پیچھے ایک عوامی خون خوار تاریخی پس منظر تھا۔ اس سپرپاور' جس کے سامنے عاللے کے پھنے خاں بھی' لطعی مجبور وبےبس تھے۔ گھروں میں بیٹھے' ان پر ہراس کے موسم کی کپکپی طاری تھی۔ وہ گھریلو مویشیوں کے لیے بھی' عذاب بن گیا تھا۔ نر مویشی جان سے جاتے' جب کہ مادہ مویشیوں کا دودھ نچوڑ لیتا۔ جسے ڈستا پاؤں پر ٹکی ہو جاتا۔ جگہ جگہ الشیں بکھری پڑی تھیں۔ بو اور تعفن سے' سانس لینا محال ہو گیا تھا۔ عاللے کے ہر چھوٹے بڑے کو' بےچارگی اور بےبسی کا یہ عالم' مایوسی کے دروازے تک لے آیا تھا۔ ذاتی اور اجتماعی طور پر' غوروفکر کیا جا رہا تھا لیکن کوئی حتمی حل ہاتھ نہیں لگ رہا تھا۔ زبانی جمع خرچ بہت ہوا' مگرمیدان میں کوئی اترنے کے لیے تیار نہ ہو رہا تھا۔ کون اترتا' جان ہر کسی کو پیاری تھی۔ ایک دوسرے سے
تولع' وابستہ کی جا سکتی تھی یا پھر کسی غیبی مدد کا انتظار کیا جا سکتا تھا۔ کئی دن گزر گئے' کچھ نہ ہو سکا۔ بھوک پیاس اور تعفنی گھٹن سے' موتیں ہو رہی تھیں۔ انسانوں اور مویشیوں کی الشیں ٹھکانے نہیں لگ رہی تھیں جس کے باعث' باہر کی بدبو تو تھی ہی' گھروں میں بھی بدبو پھیل گئی تھی۔ ہر کسی کا منہ لٹکا ہوا تھا۔ کمزوری کے سبب جیتے جاگتے انسان' چلتی پھرتی الشیں لگ رہے تھے۔ ایک دن دوسری والیت سے آنے واال گامو سوچیار' چونکا دینے والی خوش خبری الیا۔ اس نے بتایا ادھر شہاب دین کے کھیت میں' ایک لنکویل لبیلے کا اژدھا' ایک مریل اور کرم خوردہ کتے کے منہ میں' بےبسی کے عالم میں' پیچ و تاب کھا رہا ہے۔ یہ سننا تھا کہ لوگ' گامو سوچیار سے لپٹ گئے۔ پھر لوگ' شہاب دین کے کھیت کی جانب دوڑ پڑے۔ یہ دینو نائی کا بیمار کتا تھا۔ سانپ کے درمیان' اس کے دانت گڑے ہوئے تھے۔ سانپ آدھا ادھر آدھا ادھر بےبسی کے عالم میں' چھٹکارے کی کوشش میں
تھا۔ وہ بار بار اسے ڈس رہا تھا۔ ہر ڈنگ' ہیروشیما پر پر گرے بم سے' کسی طرح کم نہ تھا۔ الٹا سیدھا ہو کر ڈرون گرا رہا تھا۔ مگر کہاں' کچھ بھی نہیں ہو پا رہا تھا۔ اصول یہ ہی رہا ہے' طالت سے ہر کوئی دور ہی رہا ہے اور اسی میں' عافیت خیال کرتا رہا ہے۔ اس رویے کے سبب' طالت کو شہ ملی ہے اور عاللے میں دندناتی پھرتی ہے۔ ہر سامنے آنے واال ' کم زور یا طالتور' جان سے جاتا ہے' تاہم ایک کی بلی اوروں کی نجات کا سبب بنتی ہے۔ دینو کا کتا' ادھر سے گزرا ہو گا۔ اس گستاخی کی سزا میں' اس پر فرار کے چاروں رستے بند کر دیے گیے ہوں گے اور اس پر ترس کھانے کی بجائے' جھپٹ پڑا ہو گا۔ موتی کا پہلے داؤ لگ گیا ہو گا۔ ڈنگ لگنے سے اس کی موت والع ہو گئی ہو گی اور اکڑاؤ آ گیا ہو گا۔ اب اس کی کون اور کیوں مدد کرتا۔ تکبر تماشا بن چکا تھا۔ طالت عبرت نہیں لیتی کیوں کہ وہ اندھی ہوتی ہے۔
کچھ بعید نہیں
میں ایک دفتر میں مالزم ہوں۔ سارا دن‘ بہت سے سائل یا ان کے سفید پوش اور چرب زبان دلے دالل‘ جنہیں شورےفا کی زبان میں ایجنٹ کہا جاتا ہے‘ مک مکا کرتے‘ چائے پانی پالتے لگاتے اور دو طرفہ مسکراہٹ میں اپنی راہ لیتے۔ ہم لوگ‘ ایک دوسرے کی جان پہچان میں ہیں۔ ناگہانی حاالت میں‘ آنکھوں کی زبان میں‘ کافی کچھ کہہ سن لیتے ہیں۔ ممامی افسر بھی‘ ان سے ناوالف نہیں ہیں۔ آنکھوں کی زبان کا استعمال‘ کسی باال افسر کے آنے کی صورت میں ہوتا ہے۔ بس ایک جعلی سی پردہ داری ہے۔ حاالں کہ آنے والے کے ہاں‘ یہاں سے کہیں بڑھ کر‘ انھی مچی ہوتی ہے۔ ماہنانہ لفافے کی ترسیل کی‘ ہم میں سے کوئی ڈیوٹی انجام دیتا ہے۔ بس ایک بھرم سا چال آتا ہے۔ کہیں کھال اور کہیں فی صد بھی طے ہے۔ عموم میں‘ لفافہ ہی متحرک رہتا ہے۔ گویا ہم دفتر والے‘ گردوپیش‘ باال دفاتر اور دفاتر سے منسلک دلے داللوں کے مزاج‘ رویے اور اطوار سے خوب آگاہ ہیں۔
دفتر آتے جاتے‘ ایک چھوٹے لد کے شخص سے ماللات ہوتی رہتی تھی۔ وہ کسی دفتر کا مالزم نہیں تھا‘ کیوں کہ میں ممامی دفتر کے ہر مالزم سے والف ہوں۔ وہ یمینا کسی دفتر کا مستند دال تھا۔ جب ملتا‘ ہاتھ اٹھا کر‘ بڑے ادب سے سالم کرتا۔ میں بھی خوش خلمی سے سالم کا جواب دیتا۔ یہ دال حضرات بڑے عجیب والع ہوئے ہیں۔ چغلی اور مخبری میں بھی کمال کے ماہر ہوتے ہیں۔ بہت سے‘ میر جعفر کے بھی پیو ہیں۔ کھٹی بھی چغلی مخبری کی کھاتے ہیں۔ یہ اس لماش کا دال نہ تھا۔ باادب سالم بھی حفظ ما تمدم کرتا تھا‘ کہ کبھی اور کسی ولت بھی‘ کوئی کام پڑ سکتا تھا۔ اس لسم کے باادب سالم‘ کام نکلوانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ وہ مجھے نہیں جانتا تھا۔ میں کام کی وصولی میں بڑا سخت اور کورا والع ہوا ہوں۔ میرے اس اصول سے‘ اپنے پرائے خوب خوب آگاہ ہیں۔ سالم دعا کے حوالہ سے‘ رو رعایت کو دو نمبری سمجھتا ہوں۔ اگر رو رعایت سے کام لیتا تو اتنی بڑی جائیداد کبھی بن نہ پاتی۔
ایک دن مال‘ بڑے رومنٹک اور مالپڑے سے موڈ میں تھا۔ میرے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ میں نے ہنس کر کہا‘ بھئی خیر تو ہے‘ کوئی کام تو نہیں۔ سالم دعا اپنی جگہ‘ لیکھے میں بااصول ہوں۔ ہنس پڑا اور کہنے لگا :سرکار میں جانتا ہوں۔ تو کہو‘ کیا کام ہے۔ سرکار بڑی نفیس اور شان دار بکری ہاتھ آئی ہے۔ طبیت راضی ہو جائے گی۔ صرف اور صرف ایک ہزار میں۔ میں حیران ہو گیا۔ کیسا بندہ ہے۔ بکری میں نے کیا کرنی ہے۔ پھر خیال گزرا‘ ایک ہزار میں مل رہی ہے‘ لے لیتا ہوں۔ چار دن چھوٹا گوشت کھائیں گے۔ صاحب اور پھر مخصوص احباب کی دعوت بھی کر لوں گا۔ میں نے ہنس کر پوچھا :ایسی ویسی تو نہیں۔ ایسی ویسی سے میری مراد چوری کی تھی۔ ہوتی بھی تو کیا فرق پڑتا‘ مجھے تو ایک ہزار میں مل رہی تھی۔ :بےغیرت سی ہنسی میں کہنے لگا
نہیں سرکار‘ نمبر ون ہے۔ پھر اس نے کئی نام گنوائے‘ جو پانچ ولتے اور مونچھ چٹ تھے۔ اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ سرکار مزا نہ آئے تو پھر کہنا۔ جب اس نے یہ بات کہی‘ تو بکری کا مفہوم سمجھ میں آیا۔ مجھے افسوس ہوا‘ کہ میں داللوں کی ہر اصطالح سے آگاہ ہوں۔ یہ اصطالح‘ میرے لیے لطعی الگ سے تھی۔ دوسرا گشتوڑ اور بکری کی مماثلت میرے لیے لطعی نئی تھی۔ میں مانتا ہوں‘ رشوت ٹھوک کر لیتا ہوں لیکن زانی نہیں ہوں‘ ورنہ رشوت خور زانی اور گھونٹ نہ لگاتا ہو‘ بھال کیسے ہو سکتا ہے۔ مجھے اس پر بڑا تاؤ آیا۔ میں نے پوچھا :تمہاری کوئی جوان بہن بھی ہے۔ کہنے لگا :جی ہاں تو اسے لے آؤ‘ میں اس کے ساتھ موج مستی کروں گا۔ ہزار کا دو ہزار دوں گا۔ چلتی پھرتی ہو تو بھی لے آؤ‘ چلے گا۔
اس نے بڑے لہر سے میری جانب دیکھا اور بڑبڑاتا ہوا دوسری جانب نکل گیا۔ میں نے بیوی کا جان بوجھ کر نہیں کہا تھا‘ ایسے بےغیرتوں سے کچھ بعید نہیں‘ شاید لے ہی آتا۔
ڈی سی سر مائیکل جان
المبے لد کا مہنگا ماچھی‘ غربت کی آخری سطع پر تھا۔ جوتے ہیں تو کپڑے نہیں‘ کپڑے ہیں تو جوتے نہیں۔ سارا دن جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر التا‘ رات کو آگ کے سامنے بیٹھتا۔ جب ہی‘ رنگ توے سے زیادہ سیاہ ہو گیا تھا۔ نہاتا بھی شاید ضرورت بری کے بعد تھا۔ اس سے گوڈے گوڈے بو آتی تھی۔ پتا نہیں‘ کیا درک لگی کہ یو کے جا پہہنچا۔ اس کی بیوی صوباں سگھڑ عورت تھی۔ اس نے مہنگے کی کمائی سے‘ جہاں میکے کی بھوک نکالی‘ وہاں
گھر کی حالت بھی سنوار دی۔ تین سال میں‘ جھونپڑی نما مکان نے‘ عالی شان کوٹھی کی شکل اختیار کر لی۔ خود اور بچے‘ شان دار کپڑے پہننے لگے۔ شرفا کی خواتین سے علیک سلیک ہو گئی۔ صوباں‘ صوباں کم‘ میم زیادہ لگتی تھی۔ چوتھے سال دروازے پر تختی آویزاں ہوگئی۔ ڈی سی سر مائیکل جان یو کے گلی نمبر چار‘ کوٹ امر ناتھ رام پور خاص چاروں اور باتیں ہونے لگیں۔ یار مہنگا تو سکا ان پڑھ‘ بل کہ ان پاڑ ‘ یو کے میں ڈی سی کیسے ہو گیا۔ آخر اس نے ایسا کون سا کارنامہ انجام دیا ہو گا‘ جس کی پاداش میں اتنا بڑا عہدہ ہاتھ لگ گیا۔ صوباں کی کوئی ایرا غیرا سہیلی نہ رہی تھی‘ جو کچھ دریافت کرتی۔ ان کے ہاں فمط بیگمات کا آنا جانا تھا۔ ہمارے ہاں کسی کی خوش حالی اور ترلی دیکھ کر‘ گھروں اور گلیوں میں‘ بےچینی سی ضرور سر اٹھاتی ہے۔ کسی کی خوش حالی اور ترلی دیکھ کر‘ خوش ہونا‘ ہماری عادت اور فطرت کا خاصہ نہیں۔ کیا ہو سکتا
ہے‘ جسے هللا دے‘ اسے زمین پر کون ال سکتا ہے۔ حمی سچی بات یہ بھی ہے کہ اپنی ذات کے گریبوں کی‘ تھوڑی بہت مدد بھی کرتی تھی۔ چار سال بعد‘ مہنگا دو ماہ کے لیے واپس رام پور آیا۔ مہنگا‘ مہنگا کم ڈی سی سر مائیکل جان زیادہ لگتا تھا۔ اس کا رنگ ڈھنگ‘ لباس‘ اٹھنا بیٹھنا‘ ملنا جلنا‘ کھانا پینا‘ غرض سب کچھ بدل گیا تھا۔ انگریزی فرفر بولتا تھا۔ پھنے خاں میڑک پاس بھی‘ اس کے سامنے بھیگی چوہی بن جاتے۔ سب حیران تھے‘ آخر اس کے ہاتھ ایسی کون سی گیدڑ سنگی لگی ہے‘ جو فمط چار سالوں میں‘ مالی‘ شخصی اور اطواری تبدیلیوں کا سبب بنی۔ کچھ تو اس کے پیچھے رہا ہو گا۔ مخبر اپنے کام میں بڑی جان فشانی سے مصروف تھے۔ کب تک معاملہ مخمصے میں رہتا‘ خیر کی خبر آ ہی گئی۔ وہ وہاں دریا پر‘ میموں کے کتے نہالتا تھا۔ ڈی سی سے مراد ڈوگ کلینر تھا۔ کھودا پہاڑ نکال چوہا‘ وہ بھی مرا ہوا۔ سب کھل جانے کے بعد بھی‘ انڈر پریشر اور احساس
کہتری کے مارے لوگ‘ اسے سالم کرتے تھے۔ اسے کیا‘ یہ دھن کو سالم تھا۔ مغرب میں ڈوگ صاحب بہادر وفاداری کے حوالہ سے معتبر اور باعزت نہیں‘ بل کہ کئی ایک ذاتی اور خفیہ خدمات کے تحت‘ نام و ممام رکھتے ہیں۔ یہ تو اچھا ہے‘ مطلب بری کے بعد کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔ گوریاں ڈوگ صاحب بہادر کی بڑی ہی عزت کرتی ہیں۔ اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتی ہیں۔ اسے نہالنے دھالنے والے کو‘ معمول عوضانہ پپش کرتی ہیں۔ دریا کنارے‘ سن باتھ کرنے آئی گوریاں‘ ڈی سی کے حوالے اپنے ڈوگی کر دیتی ہیں۔ ڈی سی تہرا البھ اٹھاتا ہے۔ مختصر چڈی اور بریزئر میں ملبوس پتلی‘ موٹی اور پیپا گوریاں مالحظہ کرتا ہے۔ الکھ حاجی شریف سہی‘ آنکھیں تو بند نہیں کر سکتا۔ بھیگی‘ سیکسی اور رومان پرور مسکراہٹیں وصولتا ہے۔ پاؤنڈ گرہ لگتے ہیں۔
ہمارے ہاں کے لوگ بھی عجیب ہیں‘ گرمیوں میں مری جاتے ہیں۔ پگلے ساتھ گھر والی بھی لے جاتے ہیں۔ اچھا خاصا خرچہ کرتے ہیں۔ گرمیوں میں چار پیسے زیادہ خرچ کرکے‘ مغرب کے کسی دریا کا رخ کریں۔ پیسے کمائیں اور دوہری ٹھنڈک حاصل کریں۔ ہمارے ہاں کتا گریب کا ہو یا امیر کا‘ وفاداری کے حوالہ سے بلند ممام و مرتبہ رکھتا ہے۔ اگرچہ یہ وفاداری محض ایک دل کو بہالنے کا ذریعہ ہے۔ میر جعفر نے ٹیپو کو اپنی وفاداری کا یمین دال رکھا تھا لیکن اندرخانے بک چکا تھا۔ اپنی وفاداری کے انعام میں‘ ٹیپو سے بھی دو دن پہلے ٹھکانے لگ گیا۔ سیانے چور‘ اپنے ساتھ ہڈی واال گوشت لے کر جاتے ہیں۔ کتا گوشت پر‘ چور سامان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ کتا مالک کا نہیں ہڈی کا وفادار ہوتا ہے۔ رشوت خور کو دیکھ لیں‘ جہاں سے ہڈی ملتی ہے‘ وہاں
میرٹ بنا دے گا۔ ایمان کوئی مادی شے نہیں‘ جو اس سے وفاداری نبھائے۔ نوٹ اور ڈبہ نظر آتے ہیں‘ ایمان نظر نہیں آتا۔ کتے کو گوشت نظر آتا ہے‘ مالک نہیں‘ مالک تو سویا ہوتا ہے۔ مالک رات کو پیٹ بھر کھالتا ہے‘ لیکن کتے کی آنکھ نہیں بھرتی‘ اسی لیے ہڈی اس کی ترجیح میں رہتی ہے۔ میرے کرائےدار سرور کو‘ هللا نے تین پیارے پیارے بچوں سے نوازا۔ اس کی بیوی بیمار پڑ گئی۔ کئی ماہ بیماری سے لڑی‘ لیکن لڑائی ہار گئی۔ میں نے اسے سمجھایا کہ بچوں کا خیال رکھنا۔ اب تم ہی ان کی ماں اور تم ہی ان کے باپ ہو۔ اسے جلد ہی‘ ایک کنوری مل گئی۔ مال‘ پورے ادب و آداب کے ساتھ اس کا ذکر کرتا رہا۔ گن گنوانے میں زمین آسمان ایک کر دیا۔ بچے سکول سے اٹھا لیے گیے ہیں اور ان کے مندے حال ہیں۔ مرحومہ بیماری میں بھی بچوں کا خیال رکھتی تھی۔ کتا کتنا ہی نسلی اور اعلی پائے کا کیوں نہ ہو‘ اس کی وفاداری ہڈی سے مشروط رہتی ہے۔ ڈی سی سر مائیکل جان نے‘ سترہ سال گوریوں کے ڈوگ
صاحب بہادران کی نہالئی دھالئی کی۔ اب وہ بوڑھا اور چڑ چڑا ہو گیا تھا۔ اسے ایک ایسے ڈوگ صاحب بہادر سے‘ پاال پڑا جو نچال نہیں بیٹھتا تھا۔ اس نے تاؤ میں آ کر‘ اسے پان سات جڑ دیں۔ پھر کیا تھا‘ اچھی خاصی مرمت ہوئی‘ جیل بھی گیا۔ جیل کی یاترا کے بعد‘ گھر کی راہ دکھائی گئی۔ اب وہ بےکار اور نکمی شے سے زیادہ نہ تھا۔ گھر میں صوباں تو ایک طرف‘ اس کے نازوں پلے بچے‘ اسے توئے کرتے رہتے۔ غضب خدا کا گھر پر نکما نہیں‘ گھر کا نسلی کتا ٹومی بالناغہ دو ٹائم نہالتا ہے۔ اس کے باوجود‘ بےولار ہو چکا ہے۔ جس دن نہالنے میں تھوڑا دیر ہو جائے‘ ٹومی غراتا نہیں‘ بھونکتا ہے۔ خدمت یہ کرتا ہے‘ دم گھر والوں یا ان کے ملنے والوں کے سامنے ہالتا ہے۔ ٹومی خوب جانتا ہے‘ خدمت کرنے واال اس کا مالک نہیں‘ تھرڈ کالس نوکر ہے۔ دروازے سے تختی اتر چکی ہے۔ اس کی انگریزی بےاولات ہو چکی ہے۔ باہر نکلتا ہے تو کل تک سالم
کرنے والے‘ مذاق اڑاتے ہیں۔ وہ اب مہنگا نہیں‘ مہنگو کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔
پرایا دھن
ہنسی مذاق میں‘ احممانہ گفت گو یا حرکت چل جاتی ہے لیکن سنجیدہ اور دکھ سکھ کے معامالت میں‘ احممانہ گفت گو یا حرکت کی‘ سرے سے گنجائش نہیں ہوتی۔ بخشو کے بیٹے کا‘ اس کی سگی سالی کی بیٹی سے نکاح ہونے جا رہا تھا۔ شوکے کی ماں اور بہنیں‘ مختلف نوعیت کے شگن کر رہی تھیں۔ وہ سب خوش تھیں۔ بذات خود شوکا بڑا ہی خوش تھا۔ بخشو بھی‘ خوشی خوشی جملہ معامالت انجام دے رہا تھا۔ جوں ہی شوکا سہرہ باندھے‘ گلے میں ماال ڈالے‘ سجی پھبی گھوڑی پر بیٹھنے لگا‘ بخشو نے نیا ہی تماشا کھڑا کر دیا۔ اس نے شوکے کو گلے لگا لیا اور زارولطار رونے لگا۔ یہ بالکل الگ سے بات تھی اور
سمجھ سے باالتر تھی۔ لوگ بیٹوں کی شادی پر خوشیاں مناتے‘ یہ احمك رو رہا تھا۔ پہاگاں حسب سابك اور حسب عادت آپے سے باہر ہو گئی۔ اس دن کچھ زیادہ ہی ہو گئی۔ اس نے بخشو کی بہہ جا بہہ جا کرا دی۔ بخشو کے لیے‘ یہ کوئی نئی اور الگ سے بات نہ تھی۔ برداشت کر گیا۔ برداشت کیوں نہ کرتا‘ جھوٹا تھا‘ سب فٹکیں دے رہے تھے۔ خوشیاں غم و غصہ میں بدل گئیں۔ وہ تو خیر ہوئی‘ چاچا فضلو ساتھ تھا۔ اس نے بیچ میں پڑ کر‘ بچ بچاؤ کا رستہ نکال لیا‘ ورنہ جنگ عظیم چہارم کا آغاز تو ہو ہی گیا تھا۔ تمام رسمیں ہوئیں۔ شوکے اور گھر والوں نے‘ جعلی ہنسی اور خوشی میں سب نبھایا۔ ہاں البتہ براتیوں کی ہنسی اور لہمہے لطعی جعلی نہ تھے۔ بخشو نے حرکت ہی ایسی کی تھی‘ آج تک دیکھنے سننے میں نہ آئی تھی۔ دوسری طرف لوگ یہ بھی سوچ رہے تھے کہ بخشو نے ایسا کیا‘ تو کیوں کیا۔ بخشو پاگل نہیں‘ سیانا بیانا اور چار بندوں میں بیٹھنے واال تھا۔ معامالت میں لوگ اس سے مشاورت
کرتے تھے۔ اس دن پتا نہیں اسے کیا ہو گیا تھا۔ سب خاموشی اور حیرت میں‘ تمام ہوا۔ دلہن گھر لے آئے۔ شوکے کی ماں اور بہنوں نے نئے جی کے گھر آنے کی خوشیاں منائیں۔ رات دیر گیے تک‘ بخشو پال جھاڑتا رہا۔ جیب ڈھیلی رکھنے کے باوجود‘ چھبتی اور زہرناک نگاہوں کا شکار رہا۔ روٹی پانی تو دور کی بات‘ کسی نے اس کی طرف دیکھنا تک گوارا نہ کیا۔ اس نے بھی خود کو‘ بری طرح نظرانداز کیا۔ سگریٹ پہ سگریٹ پیتا رہا اور دیر تک چارپائی پر کروٹیں لیتا رہا۔ دھوم کا ولیمہ ہوا۔ اچھے خاصے لوگ بالئے گیے تھے۔ خوب وصولیاں ہوئیں۔ کھتونی کے کئی کورے پنے کالے ہوئے۔ تمام خرچے بخشو کی گرہ سے ہوئے‘ لیکن ہر لسم کی وصولیاں‘ پہگاں کے پلے بندھیں۔ اس روز بھی اسے کسی نے پوچھا تک نہیں۔ اس کی حیثیت‘ گرہ دار موئے کتے سے زیادہ نہ رہی تھی۔
شادی گزر گئی‘ لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو گیے۔ صاف ظاہر ہے‘ بخشو کے ساتھ بری ہوئی ہو گی۔ یہ والعہ دوستوں یاروں میں کئی دن‘ باطور مذاق چلتا رہا اور پھر گزرے دنوں کی یاد سے زیادہ نہ رہا۔ ہر کوئی فکر معاش میں گرفتار ہے‘ کون معاملے کی کھوج میں پڑتا۔ ایک دن بخشو دوستوں میں بیٹھا ہوا تھا۔ اچھو نے شرارتا اور مذالا پوچھ ہی لیا۔ یار بخشو تمہیں کیا سوجھی کہ بیٹے کی شادی پر‘ خوش ہونے کی بجائے‘ اس گلے لگا کر باں باں کرنے لگے۔ کتنے احمك ہو تم بھی۔ بخشو جذباتی سا ہو گیا اور کہنے لگا :آج تک سنتے آئے ہیں‘ بیٹیاں پرایا دھن ہیں۔ میں کہتا ہوں یہ غلط ہے‘ بیٹیاں نہیں‘ بیٹے پرایا دھن ہیں۔ میری اماں نے‘ ابا کے ماں باپ بہن بھائی‘ سب چھڑا دیے۔ یہ ہی تائی اماں اور ممانی نے کیا۔ خیر ان کو چھوڑو‘ تم سب بھائی‘ الگ ہو گیے ہو۔ تمہارے بڈھا بڈھی بےچارگی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
کچھ دینا لینا تو دور کی بات‘ زبانی کالمی نہیں پوچھتے ہو۔ شوکا بھی دوسرے ہفتے ہی ہمیں چھوڑ گیا۔ کہاں گیا ماں کا پیار اور ماں کی ممتا۔ وہاں شوکے کی ساس کا آرڈر چلتا ہے۔ ہر جگہ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ میں بھی‘ چوری چھپے اماں ابا سے ملنے جاتا تھا۔ تم سب اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھو‘ کتنے کو اپنے مائی باپ کے فرماں بردار ہو۔ بہن بھائیوں سے‘ کتنی اور کس سطع کی لربت رکھتے ہو۔ میں کہتا ہوں‘ بیٹیاں نہیں‘ بیٹے پرایا دھن ہیں۔ میرا بیٹا دور ہو رہا تھا‘ کیوں نہ روتا۔ بخشو کی کھری کھری سن کر‘ سب کو چپ سی لگ گئی۔ ایک کرکے سب اٹھ گیے۔ بخشو اکیال ہی رہ گیا۔ یہ معلوم نہ ہو سکا‘ کہ سچ کی کڑواہٹ برداشت نہ کر سکے یا ندامت کا گھیراؤ کچھ زیادہ ہی گہرا ہو گیا تھا۔
یہ ہی ٹھیک رہے گا
اسے اپنے بےمثل اور یکتائے عالم ہونے کا شک گزرا۔ نر شیر ببر ہونے کے شک سے‘ اس کی رگ وپے سے تکبر کے آتش فشانی شعلے‘ بلند ہونے لگے۔ اس امر کے اعالن کے لیے‘ تکبر کی کامل شکتی کے ساتھ دھاڑا۔ اس منہ سے دھاڑ تو نہ سکا‘ ہاں البتہ اس کے منہ سے‘ صور اسرافیل سے مماثل غرغراہٹ ضرور نکل گئی کہ مخلوق ارضی ڈر اور خوف سے لرز لرز گئی۔ اس سے‘ اس کی انا کو تسکین ملی اور انا نے اس کی میں کو مزید شکتی دان کی۔ پھر کیا تھا‘ جسم و جان تکبر کی مستی کے کھڈ میں جا گرے۔ ہاں یہ ہوش رہا‘ کہ کہاں دولتی چالنا ہے۔ اس نے دور کے ایک عاللے میں پوری شان سے دولتی چالئی کہ وہ عاللہ مٹ گیا۔ چھوٹے بڑے کم زور اور طالت ور نر مادہ دم توڑ گیے۔ کچھار گھونسلے گھروندے زمین بوس ہو گیے۔ سرشاری میسر نہ آ سکی۔ سرشاری کے لیے دوبارہ سے‘ بال غرارئے‘ ایک اور دولتی جڑ دی۔ ایک اور عاللہ خاک و خون میں نہا گیا۔ بھوک اور سیری‘ حددوں کی چیزیں نہیں ہیں۔ توکل سیری
کی من بھاتی کھا جا ہے‘ جب کہ بھوک‘ مزید کی گرفت میں رہتی ہے۔ اس نے لوٹ مار اور لتل وغارت کا بازار گرم کر دیا۔ اس نے ہر تکڑے کے‘ ناصرف ناخن کٹوا دیے بل کہ اپاہج کرکے‘ عزت وشرف سے سرفراز کیا۔ اس کا کھا کر‘ ہڈی اس کے سامنے پھینک دیتا تا کہ وہ مصروف رہے اور اس کی دیا کے‘ گن گاتا رہے۔ ہاں البتہ گاہے بگاہے بھونکتا‘ ٹونکتا اور غراتا رہتا تا کہ سرکشی جنم ہی نہ لے اور کسی کو‘ میں کا دورہ نہ پڑے۔ ہڈی اور حفظ ماتمدم کے لیے‘ عاللے کے سبھی لگڑبگڑ اس کے سآتھ ہو لیے تھے۔ انہیں پیٹ اور جی بھر ہڈیاں میسر آ رہی تھیں۔ کسی کی خوارک بند کر دیتا۔ کسی کی خوراک کی ترسیل کے رستے‘ بند کر دیتا۔ کسی پر جھپٹ پڑتا۔ خبرگیری کے توتے‘ اسے لمحہ لمحہ کی‘ اطراف کی خبریں پہنچاتے رہتے تھے۔ توتے کبھی کسی کے سگے نہیں رہے۔ وفاداری ان کی فطرت میں داخل نہیں۔ وفاداری ان کی فطرت میں ہوتی تو توتے کیوں کہالتے۔ توتے ہمہ ولت چوری کے متمنی رہتے ہیں۔ وفاداری‘ چوری آمد کے ساتھ
مشروط ہوتی ہے۔ آمد لوٹ مار سے وابستہ ہے۔ لتل و غارت سے گدھ بھی البھ اٹھاتے ہیں۔ جنگلی حیات میں‘ حك سچ کی کوئی معنویت نہیں ہوتی۔ گدھوں کی آواز‘ کوئل کی آواز سے بڑھ کر سریلی محسوس ہوتی ہے۔ آتا کل‘ گزرے کل کو‘ ان آوازوں کے حوالہ سے پہچانتا ہے۔ کوئل کی آواز‘ سات پردوں کے پیچھے جا چکی ہوتی ہے۔ ڈھول کے سامنے ہر ساز کی آواز‘ اپنے وجود سے عاری ہو جاتی ہے۔ چار پرانے بیٹھے ہوئے تھے۔ عصری حاالت و معامالت پر گفت گو کر رہے تھے۔ کم زوروں کی حالت زار کا رونا رو رہے تھے۔ سب مایوس اور بےبس ہو چکے تھے۔ ان میں سے ایک بوال :یار اپنے لیڈر سے کیا امید باندھیں‘ وہ تو اپاہج گیڈر ہے۔ شیر کا ٹائیٹل تو اعزازی ہے۔ بولیں گے تو جوتے کھائیں گے۔ دوسرا بوال :جو چل رہا ہے چلنے دیں‘ جنگل میں جنگل کا لانون چلتا ہے۔
تیسرا بوال :کچھ تبدلی آئے گی۔ چوتھے نے کہا :ہاں یار‘ کچھ تو تبدیلی آئے گی۔ پہال :سب ایک جگہ جمع ہو کر دعا تو کر سکتے ہیں۔ اگر اسی پتا چل گیا تو دولتی سے کیسے بچیں گے دوسرا ہاں یہ تو ہے پہال تو پھر کیا کریں۔ چوتھا :گھروں میں بیٹھ کر دعا کر سکتے ہیں۔ پہال :یہ ٹھیک رہے گا۔ تیسرا :مخبری ہو گئی تو پہال :ہاں بعید از لیاس نہیں دوسرا :کچھ تو کرنا پڑے گا۔ دوسرا :کرنا کیا ہے‘ جو چل رہا ہے‘ چلنے دیں۔ چوتھا :ہاں یہ ہی درست رہے گا۔ پھر سب یک زبان ہو کر بولے :ہاں ہاں یہ ہی ٹھیک رہے گا ،یہ ہی ٹھیک رہے گا اور وہ چاروں اپنے اپنے گھروں کو چل دیے۔