Paraya Dhan

Page 1


‫وہ اندھی تھی‬ ‫کچھ بعید نہیں‬ ‫ڈی سی سر مائیکل جان‬ ‫پرایا دھن‬ ‫یہ ہی ٹھیک رہے گا‬

‫وہ اندھی تھی‬ ‫وہ لنکویل لبیلے کا سانپ کم' چھالوہ زیادہ تھا۔ دوسرا‬ ‫حجم اور لمبائی چوڑائی میں بھی' جہنمی بال لگتا تھا۔ کسی‬ ‫ایک جگہ ٹھکانہ رکھتا تو گرفت کا کوئی ناکوئی رستہ‬ ‫ضرور نکل آتا' مصیبت تو یہ تھی کہ اس کا کوئی مستمل‬ ‫ٹھکانہ نہ تھا۔ لوگ سوچ میں تھے' آخر کہیں ناکہیں آرام‬


‫تو کرتا ہو گا۔ یہ بال' پتا نہیں اچانک کیوں نازل ہو گئی‬ ‫تھی۔ عاللے کے سربراہ مہاراج چرچی ناتھ کی آمد اچانک‬ ‫نہ تھی' اس کے پیچھے ایک عوامی خون خوار تاریخی‬ ‫پس منظر تھا۔ اس سپرپاور' جس کے سامنے عاللے کے‬ ‫پھنے خاں بھی' لطعی مجبور وبےبس تھے۔ گھروں میں‬ ‫بیٹھے' ان پر ہراس کے موسم کی کپکپی طاری تھی۔‬ ‫وہ گھریلو مویشیوں کے لیے بھی' عذاب بن گیا تھا۔ نر‬ ‫مویشی جان سے جاتے' جب کہ مادہ مویشیوں کا دودھ‬ ‫نچوڑ لیتا۔ جسے ڈستا پاؤں پر ٹکی ہو جاتا۔ جگہ جگہ‬ ‫الشیں بکھری پڑی تھیں۔ بو اور تعفن سے' سانس لینا‬ ‫محال ہو گیا تھا۔ عاللے کے ہر چھوٹے بڑے کو' بےچارگی‬ ‫اور بےبسی کا یہ عالم' مایوسی کے دروازے تک لے آیا‬ ‫تھا۔‬ ‫ذاتی اور اجتماعی طور پر' غوروفکر کیا جا رہا تھا لیکن‬ ‫کوئی حتمی حل ہاتھ نہیں لگ رہا تھا۔ زبانی جمع خرچ بہت‬ ‫ہوا' مگرمیدان میں کوئی اترنے کے لیے تیار نہ ہو رہا تھا۔‬ ‫کون اترتا' جان ہر کسی کو پیاری تھی۔ ایک دوسرے سے‬


‫تولع' وابستہ کی جا سکتی تھی یا پھر کسی غیبی مدد کا‬ ‫انتظار کیا جا سکتا تھا۔‬ ‫کئی دن گزر گئے' کچھ نہ ہو سکا۔ بھوک پیاس اور تعفنی‬ ‫گھٹن سے' موتیں ہو رہی تھیں۔ انسانوں اور مویشیوں کی‬ ‫الشیں ٹھکانے نہیں لگ رہی تھیں جس کے باعث' باہر کی‬ ‫بدبو تو تھی ہی' گھروں میں بھی بدبو پھیل گئی تھی۔ ہر‬ ‫کسی کا منہ لٹکا ہوا تھا۔ کمزوری کے سبب جیتے جاگتے‬ ‫انسان' چلتی پھرتی الشیں لگ رہے تھے۔‬ ‫ایک دن دوسری والیت سے آنے واال گامو سوچیار'‬ ‫چونکا دینے والی خوش خبری الیا۔ اس نے بتایا ادھر‬ ‫شہاب دین کے کھیت میں' ایک لنکویل لبیلے کا اژدھا' ایک‬ ‫مریل اور کرم خوردہ کتے کے منہ میں' بےبسی کے عالم‬ ‫میں' پیچ و تاب کھا رہا ہے۔ یہ سننا تھا کہ لوگ' گامو‬ ‫سوچیار سے لپٹ گئے۔ پھر لوگ' شہاب دین کے کھیت کی‬ ‫جانب دوڑ پڑے۔ یہ دینو نائی کا بیمار کتا تھا۔ سانپ کے‬ ‫درمیان' اس کے دانت گڑے ہوئے تھے۔ سانپ آدھا ادھر‬ ‫آدھا ادھر بےبسی کے عالم میں' چھٹکارے کی کوشش میں‬


‫تھا۔ وہ بار بار اسے ڈس رہا تھا۔ ہر ڈنگ' ہیروشیما پر پر‬ ‫گرے بم سے' کسی طرح کم نہ تھا۔ الٹا سیدھا ہو کر ڈرون‬ ‫گرا رہا تھا۔ مگر کہاں' کچھ بھی نہیں ہو پا رہا تھا۔‬ ‫اصول یہ ہی رہا ہے' طالت سے ہر کوئی دور ہی رہا ہے‬ ‫اور اسی میں' عافیت خیال کرتا رہا ہے۔ اس رویے کے‬ ‫سبب' طالت کو شہ ملی ہے اور عاللے میں دندناتی پھرتی‬ ‫ہے۔ ہر سامنے آنے واال ' کم زور یا طالتور' جان سے جاتا‬ ‫ہے' تاہم ایک کی بلی اوروں کی نجات کا سبب بنتی ہے۔‬ ‫دینو کا کتا' ادھر سے گزرا ہو گا۔ اس گستاخی کی سزا‬ ‫میں' اس پر فرار کے چاروں رستے بند کر دیے گیے ہوں‬ ‫گے اور اس پر ترس کھانے کی بجائے' جھپٹ پڑا ہو گا۔‬ ‫موتی کا پہلے داؤ لگ گیا ہو گا۔ ڈنگ لگنے سے اس کی‬ ‫موت والع ہو گئی ہو گی اور اکڑاؤ آ گیا ہو گا۔ اب اس کی‬ ‫کون اور کیوں مدد کرتا۔ تکبر تماشا بن چکا تھا۔ طالت‬ ‫عبرت نہیں لیتی کیوں کہ وہ اندھی ہوتی ہے۔‬


‫کچھ بعید نہیں‬

‫میں ایک دفتر میں مالزم ہوں۔ سارا دن‘ بہت سے سائل یا‬ ‫ان کے سفید پوش اور چرب زبان دلے دالل‘ جنہیں‬ ‫شورےفا کی زبان میں ایجنٹ کہا جاتا ہے‘ مک مکا کرتے‘‬ ‫چائے پانی پالتے لگاتے اور دو طرفہ مسکراہٹ میں اپنی‬ ‫راہ لیتے۔ ہم لوگ‘ ایک دوسرے کی جان پہچان میں ہیں۔‬ ‫ناگہانی حاالت میں‘ آنکھوں کی زبان میں‘ کافی کچھ کہہ‬ ‫سن لیتے ہیں۔ ممامی افسر بھی‘ ان سے ناوالف نہیں ہیں۔‬ ‫آنکھوں کی زبان کا استعمال‘ کسی باال افسر کے آنے کی‬ ‫صورت میں ہوتا ہے۔ بس ایک جعلی سی پردہ داری ہے۔‬ ‫حاالں کہ آنے والے کے ہاں‘ یہاں سے کہیں بڑھ کر‘ انھی‬ ‫مچی ہوتی ہے۔ ماہنانہ لفافے کی ترسیل کی‘ ہم میں سے‬ ‫کوئی ڈیوٹی انجام دیتا ہے۔ بس ایک بھرم سا چال آتا ہے۔‬ ‫کہیں کھال اور کہیں فی صد بھی طے ہے۔ عموم میں‘ لفافہ‬ ‫ہی متحرک رہتا ہے۔ گویا ہم دفتر والے‘ گردوپیش‘ باال‬ ‫دفاتر اور دفاتر سے منسلک دلے داللوں کے مزاج‘ رویے‬ ‫اور اطوار سے خوب آگاہ ہیں۔‬


‫دفتر آتے جاتے‘ ایک چھوٹے لد کے شخص سے ماللات‬ ‫ہوتی رہتی تھی۔ وہ کسی دفتر کا مالزم نہیں تھا‘ کیوں کہ‬ ‫میں ممامی دفتر کے ہر مالزم سے والف ہوں۔ وہ یمینا‬ ‫کسی دفتر کا مستند دال تھا۔ جب ملتا‘ ہاتھ اٹھا کر‘ بڑے ادب‬ ‫سے سالم کرتا۔ میں بھی خوش خلمی سے سالم کا جواب‬ ‫دیتا۔ یہ دال حضرات بڑے عجیب والع ہوئے ہیں۔ چغلی اور‬ ‫مخبری میں بھی کمال کے ماہر ہوتے ہیں۔ بہت سے‘ میر‬ ‫جعفر کے بھی پیو ہیں۔ کھٹی بھی چغلی مخبری کی کھاتے‬ ‫ہیں۔‬ ‫یہ اس لماش کا دال نہ تھا۔ باادب سالم بھی حفظ ما تمدم‬ ‫کرتا تھا‘ کہ کبھی اور کسی ولت بھی‘ کوئی کام پڑ سکتا‬ ‫تھا۔ اس لسم کے باادب سالم‘ کام نکلوانے میں معاون ثابت‬ ‫ہوتے ہیں۔ وہ مجھے نہیں جانتا تھا۔ میں کام کی وصولی‬ ‫میں بڑا سخت اور کورا والع ہوا ہوں۔ میرے اس اصول‬ ‫سے‘ اپنے پرائے خوب خوب آگاہ ہیں۔ سالم دعا کے حوالہ‬ ‫سے‘ رو رعایت کو دو نمبری سمجھتا ہوں۔ اگر رو رعایت‬ ‫سے کام لیتا تو اتنی بڑی جائیداد کبھی بن نہ پاتی۔‬


‫ایک دن مال‘ بڑے رومنٹک اور مالپڑے سے موڈ میں تھا۔‬ ‫میرے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔‬ ‫میں نے ہنس کر کہا‘ بھئی خیر تو ہے‘ کوئی کام تو نہیں۔‬ ‫سالم دعا اپنی جگہ‘ لیکھے میں بااصول ہوں۔‬ ‫ہنس پڑا اور کہنے لگا‪ :‬سرکار میں جانتا ہوں۔‬ ‫تو کہو‘ کیا کام ہے۔‬ ‫سرکار بڑی نفیس اور شان دار بکری ہاتھ آئی ہے۔ طبیت‬ ‫راضی ہو جائے گی۔ صرف اور صرف ایک ہزار میں۔‬ ‫میں حیران ہو گیا۔ کیسا بندہ ہے۔ بکری میں نے کیا کرنی‬ ‫ہے۔ پھر خیال گزرا‘ ایک ہزار میں مل رہی ہے‘ لے لیتا‬ ‫ہوں۔ چار دن چھوٹا گوشت کھائیں گے۔ صاحب اور پھر‬ ‫مخصوص احباب کی دعوت بھی کر لوں گا۔‬ ‫میں نے ہنس کر پوچھا‪ :‬ایسی ویسی تو نہیں۔‬ ‫ایسی ویسی سے میری مراد چوری کی تھی۔ ہوتی بھی تو‬ ‫کیا فرق پڑتا‘ مجھے تو ایک ہزار میں مل رہی تھی۔‬ ‫‪:‬بےغیرت سی ہنسی میں کہنے لگا‬


‫نہیں سرکار‘ نمبر ون ہے۔‬ ‫پھر اس نے کئی نام گنوائے‘ جو پانچ ولتے اور مونچھ‬ ‫چٹ تھے۔‬ ‫اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ سرکار مزا نہ آئے تو‬ ‫پھر کہنا۔‬ ‫جب اس نے یہ بات کہی‘ تو بکری کا مفہوم سمجھ میں آیا۔‬ ‫مجھے افسوس ہوا‘ کہ میں داللوں کی ہر اصطالح سے آگاہ‬ ‫ہوں۔ یہ اصطالح‘ میرے لیے لطعی الگ سے تھی۔ دوسرا‬ ‫گشتوڑ اور بکری کی مماثلت میرے لیے لطعی نئی تھی۔‬ ‫میں مانتا ہوں‘ رشوت ٹھوک کر لیتا ہوں لیکن زانی نہیں‬ ‫ہوں‘ ورنہ رشوت خور زانی اور گھونٹ نہ لگاتا ہو‘ بھال‬ ‫کیسے ہو سکتا ہے۔‬ ‫مجھے اس پر بڑا تاؤ آیا۔ میں نے پوچھا‪ :‬تمہاری کوئی‬ ‫جوان بہن بھی ہے۔‬ ‫کہنے لگا‪ :‬جی ہاں‬ ‫تو اسے لے آؤ‘ میں اس کے ساتھ موج مستی کروں گا۔‬ ‫ہزار کا دو ہزار دوں گا۔ چلتی پھرتی ہو تو بھی لے آؤ‘‬ ‫چلے گا۔‬


‫اس نے بڑے لہر سے میری جانب دیکھا اور بڑبڑاتا ہوا‬ ‫دوسری جانب نکل گیا۔‬ ‫میں نے بیوی کا جان بوجھ کر نہیں کہا تھا‘ ایسے‬ ‫بےغیرتوں سے کچھ بعید نہیں‘ شاید لے ہی آتا۔‬

‫ڈی سی سر مائیکل جان‬

‫المبے لد کا مہنگا ماچھی‘ غربت کی آخری سطع پر تھا۔‬ ‫جوتے ہیں تو کپڑے نہیں‘ کپڑے ہیں تو جوتے نہیں۔ سارا‬ ‫دن جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر التا‘ رات کو آگ کے‬ ‫سامنے بیٹھتا۔ جب ہی‘ رنگ توے سے زیادہ سیاہ ہو گیا‬ ‫تھا۔ نہاتا بھی شاید ضرورت بری کے بعد تھا۔ اس سے‬ ‫گوڈے گوڈے بو آتی تھی۔ پتا نہیں‘ کیا درک لگی کہ یو کے‬ ‫جا پہہنچا۔ اس کی بیوی صوباں سگھڑ عورت تھی۔ اس نے‬ ‫مہنگے کی کمائی سے‘ جہاں میکے کی بھوک نکالی‘ وہاں‬


‫گھر کی حالت بھی سنوار دی۔ تین سال میں‘ جھونپڑی نما‬ ‫مکان نے‘ عالی شان کوٹھی کی شکل اختیار کر لی۔ خود‬ ‫اور بچے‘ شان دار کپڑے پہننے لگے۔ شرفا کی خواتین‬ ‫سے علیک سلیک ہو گئی۔ صوباں‘ صوباں کم‘ میم زیادہ‬ ‫لگتی تھی۔ چوتھے سال دروازے پر تختی آویزاں ہوگئی۔‬ ‫ڈی سی سر مائیکل جان یو کے‬ ‫گلی نمبر چار‘ کوٹ امر ناتھ‬ ‫رام پور خاص‬ ‫چاروں اور باتیں ہونے لگیں۔ یار مہنگا تو سکا ان پڑھ‘ بل‬ ‫کہ ان پاڑ ‘ یو کے میں ڈی سی کیسے ہو گیا۔ آخر اس نے‬ ‫ایسا کون سا کارنامہ انجام دیا ہو گا‘ جس کی پاداش میں‬ ‫اتنا بڑا عہدہ ہاتھ لگ گیا۔ صوباں کی کوئی ایرا غیرا سہیلی‬ ‫نہ رہی تھی‘ جو کچھ دریافت کرتی۔ ان کے ہاں فمط بیگمات‬ ‫کا آنا جانا تھا۔ ہمارے ہاں کسی کی خوش حالی اور ترلی‬ ‫دیکھ کر‘ گھروں اور گلیوں میں‘ بےچینی سی ضرور سر‬ ‫اٹھاتی ہے۔ کسی کی خوش حالی اور ترلی دیکھ کر‘ خوش‬ ‫ہونا‘ ہماری عادت اور فطرت کا خاصہ نہیں۔ کیا ہو سکتا‬


‫ہے‘ جسے هللا دے‘ اسے زمین پر کون ال سکتا ہے۔ حمی‬ ‫سچی بات یہ بھی ہے کہ اپنی ذات کے گریبوں کی‘ تھوڑی‬ ‫بہت مدد بھی کرتی تھی۔‬ ‫چار سال بعد‘ مہنگا دو ماہ کے لیے واپس رام پور آیا۔‬ ‫مہنگا‘ مہنگا کم ڈی سی سر مائیکل جان زیادہ لگتا تھا۔ اس‬ ‫کا رنگ ڈھنگ‘ لباس‘ اٹھنا بیٹھنا‘ ملنا جلنا‘ کھانا پینا‘‬ ‫غرض سب کچھ بدل گیا تھا۔ انگریزی فرفر بولتا تھا۔ پھنے‬ ‫خاں میڑک پاس بھی‘ اس کے سامنے بھیگی چوہی بن‬ ‫جاتے۔ سب حیران تھے‘ آخر اس کے ہاتھ ایسی کون سی‬ ‫گیدڑ سنگی لگی ہے‘ جو فمط چار سالوں میں‘ مالی‘‬ ‫شخصی اور اطواری تبدیلیوں کا سبب بنی۔ کچھ تو اس کے‬ ‫پیچھے رہا ہو گا۔‬ ‫مخبر اپنے کام میں بڑی جان فشانی سے مصروف تھے۔‬ ‫کب تک معاملہ مخمصے میں رہتا‘ خیر کی خبر آ ہی گئی۔‬ ‫وہ وہاں دریا پر‘ میموں کے کتے نہالتا تھا۔ ڈی سی سے‬ ‫مراد ڈوگ کلینر تھا۔ کھودا پہاڑ نکال چوہا‘ وہ بھی مرا ہوا۔‬ ‫سب کھل جانے کے بعد بھی‘ انڈر پریشر اور احساس‬


‫کہتری کے مارے لوگ‘ اسے سالم کرتے تھے۔ اسے کیا‘‬ ‫یہ دھن کو سالم تھا۔‬ ‫مغرب میں ڈوگ صاحب بہادر وفاداری کے حوالہ سے‬ ‫معتبر اور باعزت نہیں‘ بل کہ کئی ایک ذاتی اور خفیہ‬ ‫خدمات کے تحت‘ نام و ممام رکھتے ہیں۔ یہ تو اچھا ہے‘‬ ‫مطلب بری کے بعد کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔ گوریاں‬ ‫ڈوگ صاحب بہادر کی بڑی ہی عزت کرتی ہیں۔ اس کی ہر‬ ‫ضرورت کا خیال رکھتی ہیں۔ اسے نہالنے دھالنے والے‬ ‫کو‘ معمول عوضانہ پپش کرتی ہیں۔ دریا کنارے‘ سن باتھ‬ ‫کرنے آئی گوریاں‘ ڈی سی کے حوالے اپنے ڈوگی کر دیتی‬ ‫ہیں۔ ڈی سی تہرا البھ اٹھاتا ہے۔‬ ‫مختصر چڈی اور بریزئر میں ملبوس پتلی‘ موٹی اور پیپا‬ ‫گوریاں مالحظہ کرتا ہے۔ الکھ حاجی شریف سہی‘ آنکھیں‬ ‫تو بند نہیں کر سکتا۔‬ ‫بھیگی‘ سیکسی اور رومان پرور مسکراہٹیں وصولتا ہے۔‬ ‫پاؤنڈ گرہ لگتے ہیں۔‬


‫ہمارے ہاں کے لوگ بھی عجیب ہیں‘ گرمیوں میں مری‬ ‫جاتے ہیں۔ پگلے ساتھ گھر والی بھی لے جاتے ہیں۔ اچھا‬ ‫خاصا خرچہ کرتے ہیں۔ گرمیوں میں چار پیسے زیادہ خرچ‬ ‫کرکے‘ مغرب کے کسی دریا کا رخ کریں۔ پیسے کمائیں اور‬ ‫دوہری ٹھنڈک حاصل کریں۔‬ ‫ہمارے ہاں کتا گریب کا ہو یا امیر کا‘ وفاداری کے حوالہ‬ ‫سے بلند ممام و مرتبہ رکھتا ہے۔ اگرچہ یہ وفاداری محض‬ ‫ایک دل کو بہالنے کا ذریعہ ہے۔ میر جعفر نے ٹیپو کو اپنی‬ ‫وفاداری کا یمین دال رکھا تھا لیکن اندرخانے بک چکا تھا۔‬ ‫اپنی وفاداری کے انعام میں‘ ٹیپو سے بھی دو دن پہلے‬ ‫ٹھکانے لگ گیا۔‬ ‫سیانے چور‘ اپنے ساتھ ہڈی واال گوشت لے کر جاتے ہیں۔‬ ‫کتا گوشت پر‘ چور سامان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ کتا مالک کا‬ ‫نہیں ہڈی کا وفادار ہوتا ہے۔‬ ‫رشوت خور کو دیکھ لیں‘ جہاں سے ہڈی ملتی ہے‘ وہاں‬


‫میرٹ بنا دے گا۔ ایمان کوئی مادی شے نہیں‘ جو اس سے‬ ‫وفاداری نبھائے۔ نوٹ اور ڈبہ نظر آتے ہیں‘ ایمان نظر‬ ‫نہیں آتا۔ کتے کو گوشت نظر آتا ہے‘ مالک نہیں‘ مالک تو‬ ‫سویا ہوتا ہے۔ مالک رات کو پیٹ بھر کھالتا ہے‘ لیکن‬ ‫کتے کی آنکھ نہیں بھرتی‘ اسی لیے ہڈی اس کی ترجیح‬ ‫میں رہتی ہے۔‬ ‫میرے کرائےدار سرور کو‘ هللا نے تین پیارے پیارے بچوں‬ ‫سے نوازا۔ اس کی بیوی بیمار پڑ گئی۔ کئی ماہ بیماری‬ ‫سے لڑی‘ لیکن لڑائی ہار گئی۔ میں نے اسے سمجھایا کہ‬ ‫بچوں کا خیال رکھنا۔ اب تم ہی ان کی ماں اور تم ہی ان کے‬ ‫باپ ہو۔ اسے جلد ہی‘ ایک کنوری مل گئی۔ مال‘ پورے ادب‬ ‫و آداب کے ساتھ اس کا ذکر کرتا رہا۔ گن گنوانے میں زمین‬ ‫آسمان ایک کر دیا۔ بچے سکول سے اٹھا لیے گیے ہیں‬ ‫اور ان کے مندے حال ہیں۔ مرحومہ بیماری میں بھی بچوں‬ ‫کا خیال رکھتی تھی۔ کتا کتنا ہی نسلی اور اعلی پائے کا‬ ‫کیوں نہ ہو‘ اس کی وفاداری ہڈی سے مشروط رہتی ہے۔‬ ‫ڈی سی سر مائیکل جان نے‘ سترہ سال گوریوں کے ڈوگ‬


‫صاحب بہادران کی نہالئی دھالئی کی۔ اب وہ بوڑھا اور چڑ‬ ‫چڑا ہو گیا تھا۔ اسے ایک ایسے ڈوگ صاحب بہادر سے‘‬ ‫پاال پڑا جو نچال نہیں بیٹھتا تھا۔ اس نے تاؤ میں آ کر‘ اسے‬ ‫پان سات جڑ دیں۔ پھر کیا تھا‘ اچھی خاصی مرمت ہوئی‘‬ ‫جیل بھی گیا۔ جیل کی یاترا کے بعد‘ گھر کی راہ دکھائی‬ ‫گئی۔ اب وہ بےکار اور نکمی شے سے زیادہ نہ تھا۔ گھر‬ ‫میں صوباں تو ایک طرف‘ اس کے نازوں پلے بچے‘ اسے‬ ‫توئے کرتے رہتے۔‬ ‫غضب خدا کا گھر پر نکما نہیں‘ گھر کا نسلی کتا ٹومی‬ ‫بالناغہ دو ٹائم نہالتا ہے۔ اس کے باوجود‘ بےولار ہو چکا‬ ‫ہے۔ جس دن نہالنے میں تھوڑا دیر ہو جائے‘ ٹومی غراتا‬ ‫نہیں‘ بھونکتا ہے۔ خدمت یہ کرتا ہے‘ دم گھر والوں یا ان‬ ‫کے ملنے والوں کے سامنے ہالتا ہے۔ ٹومی خوب جانتا‬ ‫ہے‘ خدمت کرنے واال اس کا مالک نہیں‘ تھرڈ کالس نوکر‬ ‫ہے۔‬ ‫دروازے سے تختی اتر چکی ہے۔ اس کی انگریزی‬ ‫بےاولات ہو چکی ہے۔ باہر نکلتا ہے تو کل تک سالم‬


‫کرنے والے‘ مذاق اڑاتے ہیں۔ وہ اب مہنگا نہیں‘ مہنگو‬ ‫کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔‬

‫پرایا دھن‬

‫ہنسی مذاق میں‘ احممانہ گفت گو یا حرکت چل جاتی ہے‬ ‫لیکن سنجیدہ اور دکھ سکھ کے معامالت میں‘ احممانہ گفت‬ ‫گو یا حرکت کی‘ سرے سے گنجائش نہیں ہوتی۔ بخشو کے‬ ‫بیٹے کا‘ اس کی سگی سالی کی بیٹی سے نکاح ہونے جا‬ ‫رہا تھا۔ شوکے کی ماں اور بہنیں‘ مختلف نوعیت کے شگن‬ ‫کر رہی تھیں۔ وہ سب خوش تھیں۔ بذات خود شوکا بڑا ہی‬ ‫خوش تھا۔ بخشو بھی‘ خوشی خوشی جملہ معامالت انجام‬ ‫دے رہا تھا۔ جوں ہی شوکا سہرہ باندھے‘ گلے میں ماال‬ ‫ڈالے‘ سجی پھبی گھوڑی پر بیٹھنے لگا‘ بخشو نے نیا ہی‬ ‫تماشا کھڑا کر دیا۔ اس نے شوکے کو گلے لگا لیا اور‬ ‫زارولطار رونے لگا۔ یہ بالکل الگ سے بات تھی اور‬


‫سمجھ سے باالتر تھی۔ لوگ بیٹوں کی شادی پر خوشیاں‬ ‫مناتے‘ یہ احمك رو رہا تھا۔‬ ‫پہاگاں حسب سابك اور حسب عادت آپے سے باہر ہو گئی۔‬ ‫اس دن کچھ زیادہ ہی ہو گئی۔ اس نے بخشو کی بہہ جا بہہ‬ ‫جا کرا دی۔ بخشو کے لیے‘ یہ کوئی نئی اور الگ سے بات‬ ‫نہ تھی۔ برداشت کر گیا۔ برداشت کیوں نہ کرتا‘ جھوٹا تھا‘‬ ‫سب فٹکیں دے رہے تھے۔ خوشیاں غم و غصہ میں بدل‬ ‫گئیں۔ وہ تو خیر ہوئی‘ چاچا فضلو ساتھ تھا۔ اس نے بیچ‬ ‫میں پڑ کر‘ بچ بچاؤ کا رستہ نکال لیا‘ ورنہ جنگ عظیم‬ ‫چہارم کا آغاز تو ہو ہی گیا تھا۔‬ ‫تمام رسمیں ہوئیں۔ شوکے اور گھر والوں نے‘ جعلی ہنسی‬ ‫اور خوشی میں سب نبھایا۔ ہاں البتہ براتیوں کی ہنسی اور‬ ‫لہمہے لطعی جعلی نہ تھے۔ بخشو نے حرکت ہی ایسی کی‬ ‫تھی‘ آج تک دیکھنے سننے میں نہ آئی تھی۔ دوسری‬ ‫طرف لوگ یہ بھی سوچ رہے تھے کہ بخشو نے ایسا کیا‘‬ ‫تو کیوں کیا۔ بخشو پاگل نہیں‘ سیانا بیانا اور چار بندوں‬ ‫میں بیٹھنے واال تھا۔ معامالت میں لوگ اس سے مشاورت‬


‫کرتے تھے۔ اس دن پتا نہیں اسے کیا ہو گیا تھا۔‬ ‫سب خاموشی اور حیرت میں‘ تمام ہوا۔ دلہن گھر لے آئے۔‬ ‫شوکے کی ماں اور بہنوں نے نئے جی کے گھر آنے کی‬ ‫خوشیاں منائیں۔ رات دیر گیے تک‘ بخشو پال جھاڑتا رہا۔‬ ‫جیب ڈھیلی رکھنے کے باوجود‘ چھبتی اور زہرناک نگاہوں‬ ‫کا شکار رہا۔ روٹی پانی تو دور کی بات‘ کسی نے اس کی‬ ‫طرف دیکھنا تک گوارا نہ کیا۔ اس نے بھی خود کو‘ بری‬ ‫طرح نظرانداز کیا۔ سگریٹ پہ سگریٹ پیتا رہا اور دیر تک‬ ‫چارپائی پر کروٹیں لیتا رہا۔‬ ‫دھوم کا ولیمہ ہوا۔ اچھے خاصے لوگ بالئے گیے تھے۔‬ ‫خوب وصولیاں ہوئیں۔ کھتونی کے کئی کورے پنے کالے‬ ‫ہوئے۔ تمام خرچے بخشو کی گرہ سے ہوئے‘ لیکن ہر لسم‬ ‫کی وصولیاں‘ پہگاں کے پلے بندھیں۔ اس روز بھی اسے‬ ‫کسی نے پوچھا تک نہیں۔ اس کی حیثیت‘ گرہ دار موئے‬ ‫کتے سے زیادہ نہ رہی تھی۔‬


‫شادی گزر گئی‘ لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو‬ ‫گیے۔ صاف ظاہر ہے‘ بخشو کے ساتھ بری ہوئی ہو گی۔ یہ‬ ‫والعہ دوستوں یاروں میں کئی دن‘ باطور مذاق چلتا رہا اور‬ ‫پھر گزرے دنوں کی یاد سے زیادہ نہ رہا۔ ہر کوئی فکر‬ ‫معاش میں گرفتار ہے‘ کون معاملے کی کھوج میں پڑتا۔‬ ‫ایک دن بخشو دوستوں میں بیٹھا ہوا تھا۔ اچھو نے شرارتا‬ ‫اور مذالا پوچھ ہی لیا۔‬ ‫یار بخشو تمہیں کیا سوجھی کہ بیٹے کی شادی پر‘ خوش‬ ‫ہونے کی بجائے‘ اس گلے لگا کر باں باں کرنے لگے۔‬ ‫کتنے احمك ہو تم بھی۔‬ ‫بخشو جذباتی سا ہو گیا اور کہنے لگا‪ :‬آج تک سنتے آئے‬ ‫ہیں‘ بیٹیاں پرایا دھن ہیں۔ میں کہتا ہوں یہ غلط ہے‘ بیٹیاں‬ ‫نہیں‘ بیٹے پرایا دھن ہیں۔ میری اماں نے‘ ابا کے ماں باپ‬ ‫بہن بھائی‘ سب چھڑا دیے۔ یہ ہی تائی اماں اور ممانی نے‬ ‫کیا۔ خیر ان کو چھوڑو‘ تم سب بھائی‘ الگ ہو گیے ہو۔‬ ‫تمہارے بڈھا بڈھی بےچارگی کی زندگی گزار رہے ہیں۔‬


‫کچھ دینا لینا تو دور کی بات‘ زبانی کالمی نہیں پوچھتے‬ ‫ہو۔ شوکا بھی دوسرے ہفتے ہی ہمیں چھوڑ گیا۔ کہاں گیا‬ ‫ماں کا پیار اور ماں کی ممتا۔ وہاں شوکے کی ساس کا آرڈر‬ ‫چلتا ہے۔ ہر جگہ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ میں بھی‘ چوری‬ ‫چھپے اماں ابا سے ملنے جاتا تھا۔ تم سب اپنے گریبانوں‬ ‫میں جھانک کر دیکھو‘ کتنے کو اپنے مائی باپ کے فرماں‬ ‫بردار ہو۔ بہن بھائیوں سے‘ کتنی اور کس سطع کی لربت‬ ‫رکھتے ہو۔ میں کہتا ہوں‘ بیٹیاں نہیں‘ بیٹے پرایا دھن ہیں۔‬ ‫میرا بیٹا دور ہو رہا تھا‘ کیوں نہ روتا۔‬ ‫بخشو کی کھری کھری سن کر‘ سب کو چپ سی لگ گئی۔‬ ‫ایک کرکے سب اٹھ گیے۔ بخشو اکیال ہی رہ گیا۔ یہ معلوم‬ ‫نہ ہو سکا‘ کہ سچ کی کڑواہٹ برداشت نہ کر سکے یا‬ ‫ندامت کا گھیراؤ کچھ زیادہ ہی گہرا ہو گیا تھا۔‬

‫یہ ہی ٹھیک رہے گا‬


‫اسے اپنے بےمثل اور یکتائے عالم ہونے کا شک گزرا۔ نر‬ ‫شیر ببر ہونے کے شک سے‘ اس کی رگ وپے سے تکبر‬ ‫کے آتش فشانی شعلے‘ بلند ہونے لگے۔ اس امر کے اعالن‬ ‫کے لیے‘ تکبر کی کامل شکتی کے ساتھ دھاڑا۔ اس منہ‬ ‫سے دھاڑ تو نہ سکا‘ ہاں البتہ اس کے منہ سے‘ صور‬ ‫اسرافیل سے مماثل غرغراہٹ ضرور نکل گئی کہ مخلوق‬ ‫ارضی ڈر اور خوف سے لرز لرز گئی۔ اس سے‘ اس کی‬ ‫انا کو تسکین ملی اور انا نے اس کی میں کو مزید شکتی‬ ‫دان کی۔ پھر کیا تھا‘ جسم و جان تکبر کی مستی کے کھڈ‬ ‫میں جا گرے۔ ہاں یہ ہوش رہا‘ کہ کہاں دولتی چالنا ہے۔‬ ‫اس نے دور کے ایک عاللے میں پوری شان سے دولتی‬ ‫چالئی کہ وہ عاللہ مٹ گیا۔ چھوٹے بڑے کم زور اور طالت‬ ‫ور نر مادہ دم توڑ گیے۔ کچھار گھونسلے گھروندے زمین‬ ‫بوس ہو گیے۔ سرشاری میسر نہ آ سکی۔ سرشاری کے‬ ‫لیے دوبارہ سے‘ بال غرارئے‘ ایک اور دولتی جڑ دی۔‬ ‫ایک اور عاللہ خاک و خون میں نہا گیا۔‬ ‫بھوک اور سیری‘ حددوں کی چیزیں نہیں ہیں۔ توکل سیری‬


‫کی من بھاتی کھا جا ہے‘ جب کہ بھوک‘ مزید کی گرفت‬ ‫میں رہتی ہے۔ اس نے لوٹ مار اور لتل وغارت کا بازار‬ ‫گرم کر دیا۔ اس نے ہر تکڑے کے‘ ناصرف ناخن کٹوا دیے‬ ‫بل کہ اپاہج کرکے‘ عزت وشرف سے سرفراز کیا۔ اس کا‬ ‫کھا کر‘ ہڈی اس کے سامنے پھینک دیتا تا کہ وہ مصروف‬ ‫رہے اور اس کی دیا کے‘ گن گاتا رہے۔ ہاں البتہ گاہے‬ ‫بگاہے بھونکتا‘ ٹونکتا اور غراتا رہتا تا کہ سرکشی جنم ہی‬ ‫نہ لے اور کسی کو‘ میں کا دورہ نہ پڑے۔ ہڈی اور حفظ‬ ‫ماتمدم کے لیے‘ عاللے کے سبھی لگڑبگڑ اس کے سآتھ‬ ‫ہو لیے تھے۔ انہیں پیٹ اور جی بھر ہڈیاں میسر آ رہی‬ ‫تھیں۔‬ ‫کسی کی خوارک بند کر دیتا۔ کسی کی خوراک کی ترسیل‬ ‫کے رستے‘ بند کر دیتا۔ کسی پر جھپٹ پڑتا۔ خبرگیری کے‬ ‫توتے‘ اسے لمحہ لمحہ کی‘ اطراف کی خبریں پہنچاتے‬ ‫رہتے تھے۔ توتے کبھی کسی کے سگے نہیں رہے۔‬ ‫وفاداری ان کی فطرت میں داخل نہیں۔ وفاداری ان کی‬ ‫فطرت میں ہوتی تو توتے کیوں کہالتے۔ توتے ہمہ ولت‬ ‫چوری کے متمنی رہتے ہیں۔ وفاداری‘ چوری آمد کے ساتھ‬


‫مشروط ہوتی ہے۔ آمد لوٹ مار سے وابستہ ہے۔‬ ‫لتل و غارت سے گدھ بھی البھ اٹھاتے ہیں۔ جنگلی حیات‬ ‫میں‘ حك سچ کی کوئی معنویت نہیں ہوتی۔ گدھوں کی آواز‘‬ ‫کوئل کی آواز سے بڑھ کر سریلی محسوس ہوتی ہے۔ آتا‬ ‫کل‘ گزرے کل کو‘ ان آوازوں کے حوالہ سے پہچانتا ہے۔‬ ‫کوئل کی آواز‘ سات پردوں کے پیچھے جا چکی ہوتی ہے۔‬ ‫ڈھول کے سامنے ہر ساز کی آواز‘ اپنے وجود سے عاری‬ ‫ہو جاتی ہے۔‬ ‫چار پرانے بیٹھے ہوئے تھے۔ عصری حاالت و معامالت پر‬ ‫گفت گو کر رہے تھے۔ کم زوروں کی حالت زار کا رونا رو‬ ‫رہے تھے۔ سب مایوس اور بےبس ہو چکے تھے۔‬ ‫ان میں سے ایک بوال‪ :‬یار اپنے لیڈر سے کیا امید باندھیں‘‬ ‫وہ تو اپاہج گیڈر ہے۔ شیر کا ٹائیٹل تو اعزازی ہے۔ بولیں‬ ‫گے تو جوتے کھائیں گے۔‬ ‫دوسرا بوال‪ :‬جو چل رہا ہے چلنے دیں‘ جنگل میں جنگل کا‬ ‫لانون چلتا ہے۔‬


‫تیسرا بوال‪ :‬کچھ تبدلی آئے گی۔‬ ‫چوتھے نے کہا‪ :‬ہاں یار‘ کچھ تو تبدیلی آئے گی۔‬ ‫پہال‪ :‬سب ایک جگہ جمع ہو کر دعا تو کر سکتے ہیں۔‬ ‫اگر اسی پتا چل گیا تو دولتی سے کیسے بچیں گے‬ ‫دوسرا ہاں یہ تو ہے‬ ‫پہال تو پھر کیا کریں۔‬ ‫چوتھا‪ :‬گھروں میں بیٹھ کر دعا کر سکتے ہیں۔‬ ‫پہال‪ :‬یہ ٹھیک رہے گا۔‬ ‫تیسرا‪ :‬مخبری ہو گئی تو‬ ‫پہال‪ :‬ہاں بعید از لیاس نہیں‬ ‫دوسرا‪ :‬کچھ تو کرنا پڑے گا۔‬ ‫دوسرا‪ :‬کرنا کیا ہے‘ جو چل رہا ہے‘ چلنے دیں۔‬ ‫چوتھا‪ :‬ہاں یہ ہی درست رہے گا۔‬ ‫پھر سب یک زبان ہو کر بولے‪ :‬ہاں ہاں یہ ہی ٹھیک رہے‬ ‫گا‪ ،‬یہ ہی ٹھیک رہے گا اور وہ چاروں اپنے اپنے گھروں‬ ‫کو چل دیے۔‬



Turn static files into dynamic content formats.

Create a flipbook
Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.