مقصود حسنی کے افسانے
اور اہل اردو انجمن کی خیال آرائی پیش کار شہال کنور عباس حسنی ابوزر برقی کتب خانہ مئی 6102 چوالیس افسانے جن پر اظہار خیال ہوا :لمحوں کا خواب' استحقاقی کٹوتی' الٹری' کردہ ناکردہ' سوچ کے دائرے' دوسری بار' ان پڑھ' پاخانہ خور مخلوق' هللا جانے' دائیں ہاتھ کا کھیل' پنگا' وہ کون تھے' دروازے سے دروازے تک' یہ کوئی نئی بات نہ تھی' اسے پیاسا ہی رہنا ہے' پہال قدم' موازنہ'سرگوشی' ادریس شرلی' عاللتی استعارے' اسالم اگلی نشت پر' دو دھاری تلوار' کمال کہیں کا' کامنا' ابا جی کا ہم زاد' تنازعہ کے دروازے پر' انگریزی فیل' چوتھی مرغی' انا کی تسکین' گناہ گار' ماسٹر جی' الروا اور انڈے بچے' سچائی کی زمین' ابھی وہ زندہ تھا' کریمو دو نمبری' معالجہ' میں ابھی اسلم ہی تھا' پٹھی بابا' بڑے
ابا' بازگشت' فقیر بابا' بڑا آدمی' حاللہ' شیدا حرام دا ..................................................................
لمحوں کا خواب
مکرمی ڈاکٹر حسنی صاحب :سالم مسنون آپ کا انشائیہ بہت شوق اور غور سے پڑھا۔ یہ زندگی کی جس اٹوٹ حقیقت پر مبنی ہے اس سے کون انکار کر سکتا ہے؟ لیکن انسان کی فطرت کی ستم ظریفی ہے کہ وہ اس سے انکار کرتا ہے اور خوب کرتا ہے ،یہاں تک کہ وہ وقت آن پہنچتا ہے جس سے کسی کو مفر نہیں ہے اور جو زندگی کے تمام بھید کھول کر سامنے رکھ دیتا ہے۔ سیکھنے کو اس انشائیہ میں بہت کچھ ہے لیکن کیا کوئی اس سے سیکھے گا؟ یہ نہیں معلوم۔ ہم صرف دعا ہی کر سکتے ہیں۔ ایک نہایت اچھی اور سبق آموز تحریر پر داد و تحسین قبول فرمائیے۔ جزاک هللا خیرا۔ سرور عالم راز
مکرمی و معظمی جناب ڈاکٹر حسنی صاحب: سالم علیکم شعروادب کے حق میں آپ کی بیش بہا خدمات الئق صد داد و تحسین ہیں۔ اس دور میں جب کہ لوگ نثر نگاری سے یکسر غافل ہو چکے ہیں اور غزل کو ہی ادب کی ابتدا اورانتہا جانتے ہیں آپ کا اتنی یکسوئی سے نثر کی جانب توجہ کرنا اور مختلف موضوعات پر لکھتے رہنا ہمارے لئے ایک دلیل راہ کے مترادف ہے۔ دعا ہے کہ هللا تعالی آپ کو صحت مند اور توانا رکھے تاکہ ہم آپ کی نگارشات سے استفادہ کرتے رہیں۔ لمحوں کا خواب" نہ صرف ایک انشائیہ ہی ہے بلکہ ایک " نصیحت آموزحقیقت کا اظہاریہ بھی ہے۔ بات معمولی سی ہے لیکن لوگ اگر اس سے چشم پوشی کر جائیں کہ انشائیہ اپنے جلو میں کیا پیغام لے کر آیا ہے تو انتہائی افسوس کا مقام ہوگا۔ آپ نے انسانی فطرت کی بہت اچھی عکاسی کی ہے۔ انسان کبھی نہیں بدال تو اب بدلنے کی کیا امید ہو سکتی ہے۔ سیکھنے والے تو ذرا سی بات سے سبق سیکھ لیتے ہیں اور نہ سیکھنے والے بڑی سے بڑی بات پر بھی دھیان نہیں دیتے۔ ہم سب اپ کے ممنون ہیں اور آپ کے لئے دعائے خیر کرتے ہیں۔ مہر افروز
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9911. 0
استحقاقی کٹوتی
محترم جناب ڈاکٹر صاحب عمدہ اسلوب بیان ،بہت خوب ،داد قبول کیجئے خاکسار اظہر http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9387.0
الٹری
محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم
شرمدہ ہیں کہ حاضری میں دیر ہوئی۔ ایک بہانہ تو اپ جانتے ہی ہیں کہ دُنیا داری وقت نہیں دیتی۔ لیکن ایک وجہ اور بھی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ہم کُچھ موڈی قسم کے شخص واقع ہوئے ہیں۔ کبھی کبھی ،اکتائے سے پھرتے ہیں اور کُچھ دن ایسے ہی الغر گزر جاتے ہیں۔ اپ کی تحریریں تو فوری پڑھتے ہیں ،لیکن کُچھ لکھنے پر ذہن مائل نہیں ہوتا۔ فطری سی بات ہے سو جو حال سو حاضر کر دیا ہے۔ ہمیں تحریر کا یہ انداز بُہت پسند ہے۔ واقعات کو ایک خاص انداز میں پرو کر پیش کر دینا۔ ظاہر ہے کہ لکھنے والے کے الفاظ ، واقعات میں پوشیدہ احساسات کو عیاں ضرور کر دیتے ہیں لیکن تحریر کو کسی خاص عنوان کی طرف مکمل طور پر نہیں ج ُھکایا جاتا۔ الفاظ کا جادو چل ُچکا ہوتا ہے اور قاری کی سوچ انہیں احساسات کے بیچ ہی رہتی ہے۔ اس کے باوجود قاری کے پاس سوچ کے گھوڑے دوڑانے کے لیئے بُہت ک ُھال میدان ہوتا ہے۔ انسان کو کُچھ سمجھا دینا یا بتا دینا اسان ہے ،لیکن قاری کو اس پر مجبور کرنا کہ وہ خود یہ سب سوچنے کے قابل ہو جائے اور نتائج کو خود ہی ڈھونڈ نکالے ،یہ اپ جیسے قلم کار ہی کے بس کی بات ہے۔
ہماری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ دُعا گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9288.0
کردہ ناکردہ محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم بُہت خوب جناب۔ اس بار بھی اپ نے ایک نازک سا نقطہ چنا ہے اور باریک بینی کے ساتھ تجزیہ فرمایا ہے۔ ہمیں مکمل اتفاق ہے کہ شیطان پر الزام دھر کر گویا ہم خود جرم و گناہ سے بری ہو جاتے ہیں۔ لیکن ہمارا مشاہدہ کہتا ہے کہ صرف شیطان کو ہی اس پر شکوہ نہیں ہونا چاہیئے۔ انسان کی خصلت ہے کہ وہ غلطی کوتاہی،
اپنے زمے نہیں لگاتا۔ اس کی کئی مثالیں ہمارے مشاہدے میں ہیں۔ مثالً دروازے میں سر مارا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ :دروازہ سر میں لگ گیا :۔۔۔ چلتے پھرتے ،پتھر میں پاؤں مار کر زخمی کر دیا جاتا ہے اور کہا جاتا کہ :پاؤں میں پتھر لگ گیا ، :کوئی پوچھے صاحب ،پتھر ،جس کا نام ہی جمود ہے، کاہے پاؤں سے ا ٹکرایا ہوگا۔ بات مزحقہ خیز ہوتی چلی جاتی ہے ،یہاں تک کہ ایک محترمہ یہ فرماتی ہوئی پائی گئیں کہ :میں سڑک پر کار لئیے جا رہی تھی ،کہ اچانک سامنے درخت ا گیا :۔۔۔ حد ہو گئی۔ انسان کی کوشش ہوتی ہے کہ اسے یہ نہ کہنا پڑے کہ اس نے خود کُچھ کیا ہے۔ کسی کا قتل بھی کر ڈالے تو کہتا ہے کہ :قتل ہو گیا :۔۔ چ ُھری سے ہاتھ زخمی کر لے تو کہتا ہے کہ :چ ُھری ہاتھ میں لگ گئی :۔۔۔ واہ رے انسان ت انسان چھوٹی موٹی غلطی گستاخی ہی اپنے تو جناب یہ حضر ِ سر نہیں لیتا تو اتنے بڑے ُگناہ بھال کیوں اپنے سر لے گا۔ اپکی یہ تحریر بھی بُہت اعلی ہے۔ موضوع کوئی ڈھکا چ ُھپا نہیں ہے ،لیکن اپ کے بیان نے اسے بالکل سادہ اور صاف الفاظ میں سمجھایا ہے۔ اس لیئے امید ہے کہ کئی پڑھنے والے اس سے اثر بھی لیں گے۔ دُعا گو
وی بی جی
سوچ کے دائرے
جناب محترم ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب سالم عرض ہے ب عالی بہت دلگداز جنا ِ توجہ طلب تحریر ہے معاشرے کی ستم ظریفیوں اپنی غیر ذمہ داریوں غفلتوں اور شکایتوں سے مزین تحریر نظر نواز ہوئی َ انداز بیان کے ساتھ کہیں کہیں ماحول سے متاثر لب و بہت عمدہ لہجہ بھی اس تحریر میں دیکھنے کو مال مناظر اپنے متحرک عکس کو لئے دل و دماغ میں اترتے چلے گئے ۔ دیہاتی مناظراور اور دکھی انسانیت کی عکاسی کو لئے زبان و بیان اور اس میں پنجابی زبان اور رنگ کا آہنگ ,پڑھ کر لطف آیا ،درج ذیل سطر پر پہنچ کر خود پر قابو نہ رہا کوشش کے باوجود ہونٹوں پر مسکان کے بجائے ٹوتھ پیسٹ کا اشتہار بننا پڑا ،آپ نے فرمایا کہ :D
ہاجراں نے محتاج ہونے کی بجائے‘ خود سے کچھ کرنے "" ""کے لیے‘ لنگوٹ کس لیا۔ ت شریفانہ میں اصل میں لنگوٹ کسا وہ بھی ہاجراں نے طبیع ِ ہلچل شوخیانہ نے ظرافے کی طرح لمبی گردن نکال کر اپنے ساتھ ہونے والی چھیڑخانی کا پتہ دیا بڑی مشکل سے خود کو سمجھا کر تسلی دی کہ بھئی ڈاکٹر صاحب کے کہنے کا مقصد ہے کہ ہاجراں نے حاالت سے نمبردآزما ہونے کو کمر کس لی ): ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں پہنچ کر اپنا معاشرے کا موجودہ چہرہ نظرآیا جس میں خود کو پہچاننے کی کوشش کی اور اپنی اس غیر اخالقی حالت پر افسوس ہوا اچھا گوشت محفوظ کر لیا گیا۔ تھوڑا کم اچھا‘ عزیزوں اور "" رشتہ داروں میں تقسیم ہو گیا۔ تیسرے درجے کا گوشت‘ آنڈ گوانڈ میں چال گیا۔ الوارث سال بعد بھی‘ گوشت کا منہ نہ دیکھ "" سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاجراں کو بھی‘ نیند نہ آ رہی تھی۔ سوچوں کے گرداب میں "" گرفتار‘ بےبسی اور مجبوری کیا کر سکتی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی‘ یہ کیسی قربانی دی گئی۔ کیا اس سے‘ ان کا هللا راضی ہو جائے گا۔ سراج مناسب دوا دارو نہ ملنے کی وجہ سے مر گیا‘ وہ اور بچے بھوکوں سوتے رہے‘ کسی کو ایک پاؤ آٹا‘ یا نقد ایک اکنی دینے کی توفیق نہ ہوئی۔ اس کے جیٹھ نے بکرا قربان کیا‘ گھر جوان بیٹی بیٹھی ہے‘ اس کے لیے جہیز نہیں۔ نسرین نے‘ مقروص ہوتے ہوئے بھی‘ محض ناک کے رہ جانے کے لیے‘ قربانی کی ہے۔ اس نے سوچا‘ ہم کیسے لوگ ہیں‘ بیماروں‘ بیواؤں‘ بن جہیز بیٹھی جوان بچیوں کو‘ دو روپے تک دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ بکرے چھترے قربان کرکے‘ هللا کو خوش کرنے کی‘ "" کوشش کرتے ہیں۔ یہاں پہنچ کر بہت دیر تک آپ کے دکھ درد کو الفاظ کے جسموں
میں مقید ماتم کناں دیکھا ۔ واقعی ہم کہاں پہنچ چکے ہیں ،ہم وقتی طور پر ایسے مناظر دیکھ کر ان سے اثر لے بھی لیں تو کچھ عرصے میں بھول جاتے ہیں اور اپنی دنیا میں مگن ہو جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مولوی بھی‘ کتنا سنگ دل اور کٹھور ہے‘ جو چند سو روپے "" کی کھال کے لیے‘ اس قربانی کو اہمیت دیتا ہے۔ بیماروں کے عالج کی ترغیب نہیں دیتا۔ جوان بچیوں کو‘ بوہے سے اٹھانے کے مسلے کی اہمیت کو اجاگر نہیں کرتا۔ یہ غالم اور مقروض قوم پتا نہیں کب جاگے گی۔ غالم‘ مقروض‘ بیمار اور معاشی مسائل کی شکار یہ قوم‘ آخر صدیوں سے‘ سماجی حقوق سے‘ منہ موڑ کر‘ مالں کے کہے پر‘ آنکھیں بند کیے چل رہی ہے۔ ""آخر اسے‘ خود سوچنے کی کب عادت پڑے گی۔ یہاں آکر ذرا تردد ہوا ،ذرا زیادتی محسوس ہوئی قربانی کو مولوی اہمیت دیتا ہے اور باقی تعلیمات کی جانب توجہ نہیں دالتا خوب کہا آپ نے صاحب ،اور بالفرض مان بھی لیں بلکہ اگر ایسا ہو بھی جائے تو کون سا ہم مان جائیں گے ،آپ اپنی ایمانداری سے بتائیے کیا مولوی کے پاس الہ دین کا چراغ ہے جس کے رگڑنے سے جن برآمد ہوگا اور نکلتے ہی حکم
بجآوری کے لئے سراپاء غالم ہوگا اور کہے گا کیا حکم ہے میرے آقا اور مولوی صاحب کہیں گے ساری انسانیت کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی پر مامور کر دو اور پلک کے جھپکنے میں سارا معاشرہ امن و امان انسانیت کی اعلی معراج کا منہ بولتا ثبوت نظر آئے گا ،امیر غریب کی ضرورتیں پوری کئے بغیر چین نہ پائے گا اور غریب غربت کی دلدل سے نکل ب ثروت کہالئے گا ب عزت صاح ِ کر صاح ِ کیا آپ کو یقین ہے کہ مولویوں کی بات مان لی جائے گی جس میں امن و امان حقوق کی ادائیگی انسانیت سے مزین زندگی رواں دواں ہو گی اور پھر تہذیب و تمدن معاشرت سے جڑ کر مزاج میں شامل ہوکرعملی نمونہ پیش کرے گی؟ کہاں صاحب ہوگا ،جب تک کہ ایک نسل نہ تیار کر لی جائے جو عملی زندگی کو معاشرے کے ہر شعبے میں پیش کرے ایسے میں بے چارے مولوی سے خفگی کا اظہار کرنا زیادتی ہوگی بہر حال آپ کی تحریریں یقینا ً توجہ طلب ہوتی ہیں قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں
هللا آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ،یہ کہنا سننا بھی آج کے اس پُرفتن دور میں کسی نعمت سے کم نہیں هللا پاک آپ کو دونوں جہانوں کی عزتیں مرحمت فرمائے آپ کی دعاؤں کا طلبگار اسماعیل اعجاز
السالم علیکم و رحمت هللا محترمی عید مبارک ہاجرہ بیچاری کو تعلیم کی ضرورت ہے کہ مولویوں نے قربانی فرض نہیں کی بلکہ هللا اور اس کے رسول نے فرض فرمائی ہے' ہر صاحب نصاب پہ -آپ نے معاشرے کی عکاسی درست فرمائی -آج کل بہت سے ڈیڑھ ہوشیار جنت سے بھی آگے نکلنا چاہتے ہیں اور قربانی سے بچنے کے لئے ایدھی بن جاتے ہیں -ان کی افکار کا پرچار میڈیا کرتا ہے اور نتیجتا ً ہاجرہ جیایسا
مفلوک الحال طبقہ اس سوچ سے متا ثر ہو جاتا ہےایسے لوگوں کی سوچ یہ ہے کہ معصوم جانوروں کا خون بہانے سے بہتر ہے کہ قربانی کے پیسوں سے غریبوں کی مدد کی جاۓ -اسی قبیل کا ایک نظریہ قادیانی بدبخت نے پیش کیا تھا کہ انسان (کافر )کا خون نہ بہایا جاۓ بلکہ یہ دور قلم کا ہے اور قتال کا فریضہ اب منسوخ ہو گیا ہے -اس بدبخت کے خالف ڈاکٹر اقبال نے اپنی مشہور زمانہ نظم'جہاد' لکھی تھی :جس میں ایک شعر یوں تھا کافر کی موت سے بھی لرزتا ہو جس کا دل کہتا ہے کون اسے کہ مسلماں کی موت مر جو لوگ قربانی کے فریضے کو آج منسوخ قرار دینا چاہتے :ہیں میں نے ان کے لئے یہ شعر کچھ یوں بدال ہے بکرے کی موت سے بھی لرزتا ہو جس کا دل کہتا ہے کون اس کو کہ انساں کی موت مر
آپ نے معاشرے کی ٹھیک تصویر کشی کی ہے -میں نے جب سے اس انجمن میں پھرسے آنا جانا شروع کیا ہے آپ کی تقریبا ً ہر تحریر شوق سے پڑھی ہے -وہ درزی واال افسانہ بھی خوب تھا جس میں جہاں مولوی کی صورت میں ایک عالم سؤ کو پیش کیا ہے وہیں شیخ کی صورت ایک هللا والے کو بھی پیش کیا ہے-ہرچند کہ میری خواہش یہ ہے کہ اس "مولوی"لفظ کوکوئی خراب نہ کرے نہ حضور کی صورت اپنانے واال 'نہ کئی سال کی صعوبتیں جھیل کر تحصیل علم کرنے واال اور نہ ہی ان شخصیات میں عیب ڈھونڈنے واالیاسر شاہ =http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic 9247.0
دوسری بار
برادر مکرم حسنی صاحب :سالم مسنون
ایک مدت سے آپ سے نیاز حاصل نہیں کر سکا ہوں اور بہت شرمندہ ہوں۔ بہانے بنانا میرا شیوہ نہیں ہے اور حقیقت ظاہر کرنا بیسود۔ سو خاموشی سے معذرت خواہی کو ہی کافی جانیں۔ شکریہ۔ آج کل زندگی سکون سے نا آشنا ہے اور اضطراب مسلسل سے مستقل کام ہے۔ کوشش کروں گا کہ مستقبل میں اتنی تاخیر نہ ہو۔ آپ کی تحریر ہمیشہ کی طرح دلچسپ ہے۔ آپ کے پیر صاحب نے لوگوں کا جو تجزیہ کیا ہے وہ تو بالکل صحیح ہے لیکن اس صورت حال کا عالج کیا ہے یہ نہ معلوم ہو سکا۔ ایک بات اور عرض کروں کہ پڑھنے کے بعد احساس تشنگی رہ گیا۔ ایک تو آپ کبھی کبھی پنجابی کے کچھ مخصوص الفاظ اور محاورے لکھ جاتے ہیں جن سے ہر شخص واقف نہیں ہے گو سیاق وسباق سے اکثر معنی اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ دوسرے اس انشائیہ کا اختتام کسی نتیجہ پر قاری کو نہیں پہنچا سکا۔ یہ ممکن ہے کہ میرا تاثر بالکل ہی غلط ہو۔ اس صورت میں آپ سے معذرت کا طالب ہوں۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔ سرور عالم راز محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم
جناب کیسے ممکن ہے کہ یہ افسانہ پسند نہ ایا ہو۔ ماشا هللا نئے موضوع پر ہے اور ہمارے اپنے خیاالت کی تائید کرتا ہے سو پسند نہ انا تو ممکن نہ تھا۔ البتہ کُچھ لکھتے ہوئے ذرا سا ہچکچائے تھے کہ محترم سرور عالم راز سرور صاحب نے ایک ادھ ایسی بات کی جس سے ہمیں مکمل اتفاق نہیں۔ سوچا کُچھ لکھیں گے تو یہ اختالف سامنے ا جائے گا اور ہم اپنی کم عقلی اور کم علمی کے باعث کہیں انہیں خفا نہ کر دیں۔ اب چونکہ کُچھ کہنا الزم ہو گیا ہے تو عرض کئیے دیتے ہیں۔ ہمارے ناقص علم اور کم تجربہ کاری کی روشنی میں افسانہ ہوتا ہی ایسا ہے کہ تشنگی چھوڑ جاتا ہے۔ افسانے کے مقاصد اور انداز ،مضمون سے قطعی مختلف ہوتے ہیں۔ اس کا مقصد کسی کہانی کو مکمل کرنا بھی نہیں ہوتا۔ مضمون کا کام تو شاید یہی ہوتا ہے کہ وہ پہلے کسی مسئلہ کی طرف توجہ دالئے ،پھر اس کی اصلیت کو پرکھے ،فوائد نقصانات ،اثرات ،اور پھر اخر میں کہیں جا کر ان کے حل کو واضح کرے۔ لیکن افسانہ اپنا کام اس چھوٹی سی تقریبا ً نامکمل کہانی میں کر گیا ہے۔ معاشرے کی کسی ایک تصور سے روشناس کروا گیا ہے۔ وہ تصور مثبت بھی ہو سکتا ہے اور منفی بھی۔
اسی خوبصورت افسانہ کے حوالے سے ،اپ نے پڑھنے والوں کے ذہنوں کو ان کرداروں کو پہچاننا سکھایا ہے جو مذہبی فرقہ واریت میں مبتال ہوتے ہیں۔ دوسروں کے ذہنوں میں نفرت بھرتے ہیں۔ لوگ اگر اس نفرت سے اتفاق نہ بھی کریں تو کھل کر اظہار سے ہچکچاتے ہیں کہ کہیں ان کو بھی مذہبی طور پر لوگ دھتکار نہ دیں۔ الفاظ کا چناؤ اور کہانی کا بیان یہ ایسے عناصر سے پڑھنے والے کے دل میں نفرت پیدا کر رہا ہے اور درزی کا کردار ان تکالیف کا شکار ہونے والوں کے لیئے دل میں احترام پیدا کر رہا ہے۔ افسانہ اپنا کام کر ُچکا ہے اور اس کا حل کوئی واضح کُلیہ نہیں ہو سکتا۔ بلکہ یہی اس کا حل ہے کہ ایسے مولوی سے نفرت کی جائے اور اسے دھتکار دیا جائے اور ایسے درزی کا خیال رکھا جائے جو اس طرح کے مسئلہ کا شکار ہو۔ اس خوبصورت اختتام پر بھی ہم اپ کو داد پیش کریں گے۔ ہلکی سی تشنگی کا احساس جو قاری کو اس پر مجبور کرتا رہے گا کہ افسانہ کُچھ عرصہ یا وقت تک ذہن میں گردش کرتا رہے۔ اور پھر اس کا پیغام اہستہ اہستہ خود ہی ال شعور کا حصہ بن جائے گا اور وقت پر شعور میں ا کر معاشرے کو فائدہ دے گا۔ افسانہ کو اس سے غرض نہیں کہ کہانی کے ہیرو نے اسے چیرا یا نہیں۔ لیکن ہمیں یقین کے کہ ایسے کرداروں کو قاری کا ذہن
خود بخود چیر کر رکھ دے گا۔ ہماری طرف سے داد قبول کیجے۔ اور محترم سرور عالم راز سرے سرور صاحب سے بھی معذرت چاہیں گے اگر ہم کُچھ بے ُ ہو گئے ہوں۔ جو حال سو حاضر دُعا گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9162.0
ان پڑھ محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم ہمارے منہ کی بات چھین لی اپ نے۔ بُہت ہی اچھی تحریر ہے۔ بالکل دُرست ہے کہ جو اچھی صفت یا ضمیر رکھتا ہے ،وہ اس سے انحراف کر ہی نہیں سکتا۔ اور ہمارا خیال ہے کہ یہ بچپن
میں والدین یا ماحول سے انسان سیکھتا ہے۔ اگر اُس کی تعلیم اُس کے دل میں بُرائی کی نفرت ڈال دے تو زندگی بھر اُس سے بُرا کام سرزد نہیں ہوتا۔ ہمارے نذدیک اس میں اُن چھوٹی چھوٹی کہانیوں یا حکایات کی بھی بُہت اہمیت ہے ،جو دادیاں سناتی ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ ہماری دادی ہمیں ایسی کئی بچوں کو ُ سناتی تھیں ،اور کئی اس قدر جذباتی ہوتی تھیں کہ رونا حکایات ُ ا جاتا تھا۔ اُن کہانیوں میں بُرا کبھی ہیرو نہیں ہو سکتا تھا۔ ہمیشہ اچھائی کی جیت ہوتی تھی۔ عالوہ ازیں ،ایسے حساس اور سوچنے پر مجبور کر دینے والے موضوعات ہوتے تھے کہ ننھی سی عمر میں ہی سوچنے اور باتوں کو سمجھنے کی طرف رجحان رہا۔ جذباتی ہونے کے نقصانات سے اگہی ہوئی ،اور ہر معاملے کو انصاف کے ترازو میں تولنا ا گیا۔ سچ پوچھیں تو ہم نے کُچھ بار بھرپور کوشش کی کہ رشوت لے لیں ،لیکن اُس ذات پاک کی قسم ،ہم :اسامی :سے انکھ نہ مال سکے۔ اپنے اپ سے ایسی گھن اتی تھی ،کہ ایک لفظ بھی نہ کہہ سکے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمیں یہ احساس نہ تھا کہ هللا ناراض ہو گا ،ہمیں مسئلہ یہ پیش تھا کہ غیرت اور انا اجازت نہ دیتی تھی۔ ہم اپنی کہانی لے کر بیٹھ گئے۔ کہنا یہی چاہتے تھے ،کہ تبھی ہماری خواہش رہی ہے کہ ایسی چیزوں کو تعلیم کا حصہ ہونا چاہیئے جو کردار سازی کریں۔
ہمارے بچوں کو رٹے لگانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تمام علوم اس کے محتاج ہیں۔ جس میں کردار نہیں اُس کی کوئی سائنسدانی کسی کام کی نہیں۔ اور بقول اپ کی اس تحریر کے ہی ،حکومتیں کُچھ نہیں کر سکتیں ،سب کُچھ کرنے والی عوام ہی ہے۔ حکومت کو کوسنے واال سبزی فروش خود نگاہ بچا کر گندے ٹماٹر بیچتا ہے۔ لوگ گندم نہیں اُگائیں گے ،تو اٹا مہنگا ہوگا ،حکومت روٹی پکا کہ نہ کبھی کسی کو دے سکی ہے ،نہ کبھی دے سکے گی۔ اس تحریر پر ایک بار پھر بھرپور داد قبول کیجے۔۔۔ ہمیں بُہت پسند ائی ہے اپ کی تحریر۔ دُعا گو وی بی جی =http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic 8934.0
پاخانہ خور مخلوق
محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم مسنون بُہت اعلی تحریر ہے جناب ،کیا ہی بات ہے۔ نازک مسئلے کو حق رائے دہی ازاد جان کر اور اپ کی چھیڑ دیا اپ نے۔ البتہ اپنا ِ پُرخلوص طبعیت کو دیکھتے ہوئے درخواست کریں گے کہ اس کا عنوان کُچھ تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہمیں۔ ہمارا خیال ہے کہ عنوان ایسا ہونا چاہیئے کہ پڑھنے والے کی طبعیت کو مائل کرے۔ دوسری طرف ،اس تحریر کے الجواب ہونے میں کوئی کالم نہیں۔ عوام کو ایسے مضامین پڑھنے کی اشد ضرورت ہے، شائید کسی کا ضمیر جاگے۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی صاحب ایک جگہ فرماتے ہیں کہ اے ُخدا ،تُو نے میرے ہاتھ باندھ کر ُمجھے دریا میں پھینک دیا ہے اور ُحکم دیا ہے کہ کپڑے گیلے نہ ہوں۔ تو جناب حمام ہے یہ تو۔
ہمیں یاد پڑتا ہے ،کہ بچپن میں ہم :زمانہ قبل از اسالم میں کفار کی جہالت :پر نوٹ لکھا کرتے تھے ،اور جناب کیا کیا بُرائی نہ اُن کے سر لگاتے تھے ،اور خوب نمبر سمیٹا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ یہ بھی لکھ دیتے تھے کہ :قبل از اسالم ،کُفار کا یہ عالم تھا کہ ناک میں اُنگلی تک ڈالتے تھے :۔ لیکن صاحب! اب سوچتے ہیں ،کہ اسالم سے کیا سیکھا ہے مسلمانوں نے تو حیرت ہوتی ہے۔ ابھی تک دو ایسی چیزیں دریافت ہو پائی ہیں جو اسالم سے سیکھی ہیں ہم نے اور سب اس پر ُمتفق بھی ہیں۔ ایک تو یہ کہ کسی بت کی پوجا نہیں کرتے ،اور دوسری یہ کہ خنزیر نہیں کھاتے۔ اخر الزکر اگرچہ مشکوک ہے کہ یہاں تو محاورتا ً نہیں بلکہ حقیقتا ً انسان انسان کو کھا جاتا ہے۔ کیا اسالم نے اتنا ہی سکھایا ہمیں؟ ہم نے غور کیا تو معلوم ہؤا کہ انسان کو امن میں رہنے کے طریقے سمجھانے والے مذاہب کی وجہ سے دُنیا میں سب سے زیادہ قتل و غارت ہوئی ہے۔ مذہب کی بُنیاد پر جتنا نقصان انسان نے کیا ہے ،کسی اور چیز کی وجہ سے نہیں کیا۔ توبہ ہے صاحب۔ خیر یہ تو تھے ہمارے کچھ بکھرے ہوئے خیاالت۔ اپ کی تحریر ہماری نظر میں بُہت اعلی اور عمدہ ہے۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔
دُعا گو وی بی جی
قبلہ حسنی صاحب :سالم مسنون بھائی یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ کو بھول جائوں۔ آج کل اہلیہ علیل ہیں۔ ان کی تیمارداری میں دن نکل جاتا ہے۔ گاہے گاہے آکر کچھ لکھ جاتا ہوں۔ آپ سے معذرت خواہ ہوں کہ اپ کے مضامین پر نہ لکھ سکا۔ زیر نظر مضمون پر وی بی جی کے خیاالت سے میں کلی طور پر متفق ہوں۔ عنوان کو بدلنے کی سخت ضرورت ہے۔ قاری عنوان دیکھ کر اگر ٹھٹکے تو اچھا نہیں ہے۔ مضمون ہمارے معاشرے کی تصویر کی عکاسی کرتا ہے۔ آپ یقین کیجئے کہ اپنے آس پاس مسلمانوں کا حال دیکھ کر طبیعت پر مستقل انقباض رہتا ہے۔ بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ اب ا س قوم کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ یہ دنیا میں خوار ہے اور خوار ہی رہے گی کیونکہ یہ اپنی اساس سے دور ہو چکی ہے۔ دنیا میں ڈیڑھ سو "اسالمی" ممالک ہیں۔ افسوس کہ ان میں ایک بھی
ایسا نہیں ہے جہاں ہم اور آپ اپنی اوالد کو پڑھنے لکھنے یا رہنے کے لئے بھیج سکیں۔ انا ہلل و ان الیہ راجعون۔ میں امریکہ میں رہتا ہوں اور اس کا قائل ہوں کہ ہمارے مقابلہ میں دوسرے مذاہب کے لوگوں کا اخالق اور کردار بدرجہا بہتر اور "اسالمی" ہے۔ اور اس صورت حال کا عالج بھی کوئی نظر نہیں آتا۔ لکھتے رہئے۔ میں کوشش کروں گا کہ یہاں آمدورفت بڑھا دوں۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔ سرور عالم راز =http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic 8944.0
هللا جانے محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم
جناب کیا ہی بات ہے۔ بُہت عمدہ تحریر ہے۔ داد داد داد ۔۔ اپ کی تحریروں کا خاصہ ہے کہ بات کو ایسے زاویوں سے گ ُھما کر التے ہیں کہ وہم و گمان میں نہیں ہوتا کہ یہ تان کہاں جا کر ختم ہو گی۔ اور اختتام بھی شاندار ہوتا ہے۔ یہاں بھی اپ نے جس طرح زرینہ کو تشبیہہ دی ہے ،بُہت ہی خوب ہے۔ عوام کی سمجھ بھی کُچھ بڑھانے کی ضرورت ہے ،تاکہ وہ ایسی تحریروں کا دُرست ُرخ سمجھ سکیں اور نتائج اخذ کر سکیں۔ دراصل ایسی کمائی جس میں مزدوری سے زیادہ مل جائے یا بغیر مزدوری کے مل جائے ہمارے اپنے خیال کے مطابق سود ہے۔ انسان کی ارام پسندی یہی چاہتی ہے کہ کم سے کم محنت سے زیادہ سے زیادہ کمائی ہو اور کامیابی کی صورت میں انسان مذید ارام پسند ہوتا چال جاتا ہے۔ یہی حال اس قرض پر پلے والی عوام کا ہو گیا ہے۔ قرض حکومتی خزانے میں جاتا ہے ،اور حکومتی خزانے کا کوئی مالک نہیں ہوتا جس کی وجہ سے اس کی حفاظت کی کوشش بھی نہیں کی جا سکتی وگرنہ سننا پڑتا ہے کہ :تمہارے باپ کا ہے کیا :۔۔ یہ کسی کے باپ یہی ُ کا نہیں ہوتا اور ویسا ہی اس کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے۔ اللچ ایسی ہی چیز ہے کہ اگر پیٹ بھرا بھی ہو تو بقول غالب گو ہاتھ کو جنبش نہیں ،انکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے اگے سو مذید سے مذید کی اللچ کبھی جان نہیں چھوڑتی۔ اپ کی تحریریں ،اُمید کی کرن ہیں۔ جتنے لوگ پڑھیں گے اپنے کردار میں ضرور جھانک کر دیکھیں گے۔ انہیں کردار کی خرابیوں کو عوام تک پُہنچانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔ ہماری طرف سے ایک بار پھر بھرپور داد جناب ۔ دُعا گو وی بی جی =http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic 8976.0
دائیں ہاتھ کا کھیل
محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم مسنون
تحریر ہم کئی بار پڑھ ُچکے ہیں ،لیکن یکسوئی نصیب نہ ہو سکی۔ ہر بار دھیان ادھر ادھر کرنا پڑا اور ہم کُچھ کہنے کے الئق نہ ہو سکے۔ بُہت خوب تحریر ہے جناب۔ کیا ہی بات ہے۔ بھر پور داد قبول کیجے۔ دین ایسی چیز ہے کہ اس کو حوالہ بنا کر جو چاہے کیا جا سکتا ہے۔ اس سے اشتعال پھیالنا بھی بُہت اسان سا کام ہو گیا ہے۔ چند لوگ اشتعال سچ ُمچ میں محسوس کرتے ہیں ،باقی کی کثیر تعداد صرف مشتعل نظر ا کر ثواب حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ایسے ہی جس پہلو کی طرف اپ نے اشارہ فرمایا ہے ،وہاں بھی زوجہ کے صرف حقوق ہوتے ہیں اور خاوند کے صرف فرائض۔ ہمیں تو یہ بھی سمجھ نہیں اتی کہ صرف ماں کو اس قدر درجہ دے دیا جاتا ہے کہ جیسے باپ کی کوئی حیثیت ہی نہ ہو۔ حاالنکہ عموما ً باپ ،صرف اور صرف اپنے بچوں کے لیئے، اپنی بیوی کی کئی غلط باتیں بھی برداشت کرتا رہتا ہے۔ اور عموما ً کوئی اور چیز طالق سے مانع نہیں ہوتی۔ لیکن بچے چونکہ اپنی ماں کے پاس زیادہ وقت ُگزارتے ہیں ،تو ظاہر ہے ہمیشہ چندا ماموں ہی ہوتے ہیں ،کبھی چندا چاچو نہیں ہوتے۔
اپ نے لکھا ہے حقوق کا معاملہ ذات سے‘ هللا کی طرف پھرتا ہے۔ یہ بات سمجھنا ،بُہت مشکل کام ہے۔ اور شائید اس کے لیئے کئی تحریریں لکھنی پڑیں۔ لوگوں کی سمجھ کو اس مقام تک النا ،اہ ِل قلم کی ذمہ دارہ ہے اور ہمیں خوشی ہے کہ اپ کوشاں ہیں۔ اگر ایسی تربیتی تحریریں لوگوں کو پڑھنے کو ملیں یا ٹی وی ڈرامہ وغیرہ میں ملتی رہیں ،تو لوگوں کی سمجھ بڑھ سکتی ہے۔ ہمیں تو محترم اشفاق احمد کے بعد کوئی ایسا ڈرامہ نگار نہیں نظر ایا ،جو ان باتوں کو اس گہرائی میں نہ صرف محسوس کرے ،بلکہ لوگوں کو بھی سمجھائے۔ اج کل کے دور کی فضول اور کردار کُشی سے بھرپور کہانیوں کے ساتھ ٹکرانے کی اشد ضرورت ہے اور اپ یہ کام کر رہے ہیں۔ ہزار دُعائیں جناب اپ کے لیئے۔ تحریر پر بُہت بُہت داد جناب۔ ہزار داد دُعا گو
وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8952. 0
پنگا
محترم جناب ْمقصود صاحب آداب و تسلیمات کے بعد بہت دلکش پیرائے میں لکھی ہوئی تحریر ہے ،داد آپ کا حق ہے وصول پائیے خاکسار اظہر م مکرم بندہ حسنی صاحب :سالم مسنون آپ کو علم ہی ہے کہ میں آپ کے مضامین کا پرانا مداح ہوں۔ روز اول سے ہی میں اس خیال کا ہوں کہ آپ کو اپنے مضامین کتابی صورت میں شائع کوادینا چاہئیں۔ خدا خدا کرکے آپ باآلخر
اس پر راضی ہو گئے ہیں سو بصد عجز و محبت عرض ہے کہ نصف "رائلٹی" کا میں مستحق ہوں! یہاں لکھے دے رہا ہوں تاکہ "سند رہےاور بوقت ضرورت کام آوے"۔ آپ کا انشائیہ "پنگا" آپ کے مخصوص انداز فکر و بیان کی عکاسی کرتا ہے۔ اس میں حسب معمول زندگی اور دنیا کے چہرے سے نقاب اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہر چند کہ بہت سی باتیں ظاہر سی ہیں لیکن "گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را" والی بات بھی تو اہم ہے۔ بہت خوب لکھا ہے آپ نے۔ هللا آپ کو سالمت رکھے۔ لکھتے رہئے اور یہ بتائیں کہ کتاب کب تک آ رہی ہے۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔ سرور عالم راز محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم بُہت خوب تحریر ہے۔ ہمیشہ کی طرح داد حاضر۔ معذرت بھی چاہتے ہیں کہ فوری حاضری نہیں دے پاتے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ اپ کی تحریر کو لفظ لفظ پڑھنا ہوتا ہے ،اور اسے انہماک سے پڑھتے وقت یکسوئی ضروری ہوتی ہے۔ جبکہ
روبار زندگی اس کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ جیسے ہی فرصت کا ِ پاتے ہیں تو حاضر ہو جاتے ہیں۔ جان کر بُہت خوشی ہوئی کہ طباعت کا کام جاری ہے ،اور جلد اپ کی کتابیں شائع ہونے والی ہیں۔ اپ کی تحریر بُہت جاندار ہے ،البتہ جناب پنگے کے بغیر تو دُنیا میں کوئی تبدیلی نہیں ا سکی۔ چاہے تبدیلی اچھی ہو یا بُری ،اس کے بغیر ممکن نظر نہیں اتی۔ اگرچہ ہمارا یہ بیان بھی پنگا لینے کے مترادف ہے ،لیکن چونکہ ہم پنگا لینے کے خوب حق میں ہیں ،سو یہ اعالمیہ جاری کرنا جائز سمجھتے ہیں۔ تقدیر کسی کے پنگا لینے یا نہ لینے کو دیکھتی ہی نہیں۔ ٹائگر کی ہی مثال لیجے ،تحریر کہیں نہیں کہتی کہ اس کو خارش لگنے کا سبب بھی کوئی پنگا ہی تھا جو ٹائگر سے سرزد ہؤا۔ وہ بغیر پنگا لیئے ہی خارش کی نظر ہو گیا۔ دوسری طرف پنگا لینے واال ناگ خود تو اپنے پنگے کی سزا ب ُھگت گیا ،لیکن ساتھ میں ٹائگر کو بھی لے گیا۔ ہٹلر نے جو پنگا لیا سو لیا ،لیکن اُن الکھوں لوگوں نے کیا پنگا لیا تھا کہ بیچارے ،ایٹم بم کی نذر ہو گئے۔ ایسے ہی سکندر کو تو جہلم کے مچھروں نے سزا دی،
لیکن اس ہاتھی بیچارے کا کیا قصور تھا جس کی سونڈ کاٹ گیا۔ نہ ہی راجہ پورس کی فوجوں نے کوئی پنگا لیا تھا کہ لتاڑی گئیں۔ سو صاحب جس نے پنگا لیا ،اُس نے دوسروں کو بھی بڑا نقصان پہنچایا۔ دوسری طرف خود پنگا نہ لو تو کسی دوسرے کے پنگے کا شکار ہو جانا پڑتا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی صاحب اپنی ایک کتاب میں لکھتے ہیں کہ ایک بار اُنہیں کُچھ دوستوں کے ساتھ خچروں پر دشوار گزار پہاڑی راستوں پر سفر کرنا پڑا۔ ایک صاحب تھے ،کہ جب بھی خچر کسی دشوار اور خطرناک جگہ سے پہار پر چڑھتا تو وہ صاحب ،خچر سے نیچے اُتر جاتے اور خود چڑھتے۔ کسی نے کہا کہ صاحب ،یہ خچر ماہر ہیں یہاں پہاڑوں پر چڑھنے کے۔ اپ کا پاؤں پھسال تو اپ بے موت گہری کھائی میں مارے جائیں گے۔ اُن صاحب نے جواب دیا کہ حضرت جانتا ہوں ،لیکن میں اپنی غلطی کی موت مرنا چاہتا ہوں ،نہ کہ اس خچر کی غلطی کی سزا میں مروں۔ تو صاحب اس سے پہلے کہ کوئی اور پنگا لے کر ہماری زندگی میں خلل ڈالے ،ہم خود پنگا لے لینا مناست سمجھتے ہیں۔
مزاح برطرف۔ اس بات سے انکار نہیں کہ قدرت سے پنگا لینے والے کا انجام بُہت بُرا ہے۔ احتیاط الزم ہے۔ ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ ۔۔ دُعا گو وی بی جی جناب محترم مقصود حسنی صاحب هللا آپ کو سدا سالمت رکھے کیا ہی دلچسپ پنگا ہے کیا دلچسپ منظر عام پر آپ الئے انداز بیاں ہے آپ کا کیسے کیسے پنگے ِ ِ ایک منظر ابھی آنکھوں میں ہوتا ہے کہ دوسرا منظر آ جاتا ہے قائم ہو جاتا ہے اور سبھی میں دلچسپ پنگا بقول وی بی جی کہ ہر چیز میں پنگا الزم ہے پنگا نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے یہ مانا کہ پنگے سے جیون حسیں ہے مجھ سے آ پ کی تحریر پڑھ کر خاموش نہ رہا گیا پنگا لینے چال آیا صاحب آپ کے اس پنگے نے مجھے ایک ساتھی اسلم
پنگا یاد دال دیے اسلم پنگا ہمارے بہت اچھے ساتھی تھے ہم ان دنوں 90 , 0991میں کراچی ایئر پورٹ کی تعمیر میں مصروف تھے جہاں ہماری ایک بڑی ٹیم تین حصوں پر مشتمل تھی جن میں ایپرن ،بلڈنگ اور روڈ اینڈ انفرا اسٹیکچر ورکس وغیرہ شامل تھے ہمارے پاس ایپرن واال حصہ تھا جس میں اسلم پنگا ہمارے ساتھ ہوا کرتے تھے ہم لوگ ایک فرنچ تعمیراتی کمپنی ـ’’ سوجیا پاکستان ‘‘ میں کام کر رہے تھے اسلم پنگا آج آپ کے اس پنگا مضمون کو پڑھ کر یاد آئے ان کا کام ہر ایک سے پنگا لینا ہوتا تھا بغیر پنگے کے ان کی زندگی ادھوری تھی کھانا گھر سے الیا کرتے تھے ایک دن انہوں نے انڈے اور بینگن کو مال کر ایسا پنگا لیا کہ پہچاننا مشکل ہو گیا کہ اس خمیرہ گاؤزبان میں انڈہ کونسا ہے اور بینگن کونسا ہے هللا تعالی کی تخلیق کردہ دو الگ الگ ذائقوں میں الگ الگ مزاج کی حامل اجناس کو یکجا کر کے ایسا کشتہ تیار کیا تھا کہ جس کے کھانے کے کئی گھنٹے بعد تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ کیا کھایا بس یہ لگا کہ کسی حکیم صاحب نے اپنی زندگی کے آزمودہ معجون کہہ لیں کشتہ کہہ لیں تیار کیا نسخوں سے حاصل شدہ ِ ہے کہ جسے کھایا تو جاسکتا ہے مگر اس میں شامل اجزا کاتجزیہ نہیں کیا جاسکتا جس کے کھانے کے بعد بہت سے رکے ہوئے معامالت نہ صرف حل ہو جاتے ہیں بلکہ ان سے ہمیشہ کے لئے چھٹکارہ مل جاتا ہے تو صاحب کبھی یہ پنگا بھی لیجئے بینگن اور انڈے کچھ
اسطرح پکائیے کہ بینگن بینگن نہ رہے اور انڈہ انڈہ نہ رہے بینگنڈہ بن جائے ہلکی سی کالی مرچ اور نمک کے ساتھ تناول فرمائیے مزہ نہ آنے پر انڈہ الگ اور بینگن الگ پکائیے اور الگ الگ کھائیے اس دلکش تحریر سے مستفید فرمانے کے شکریہ قبول فرمائیےجناب ڈاکٹر صاحب اسماعیل اعجاز =http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic 8972.0
وہ کون تھے
سالم عاجزانہ جناب ڈاکٹر مقصود صاحب آپ کی تحریر پڑھی دل میں برسوں سوۓ ہوۓ جذبہ رحم دلی جگا گئ
ہماری طرف سے اتنی اچھی تحریر لکھنے پر بھرپور داد قبول کیجئے جناب ڈاکٹر صاحب ہمارا علم اتنا وسیع نہیں کہ ہم اس بات کی گہرائی تک پہنچ سکیں لفظ "حضرت"جس کے کافی لفظی معنی ہیں لیکن اکثر یہ لفظ تعظیما استعمال کیا جاتا ہے لیکن زیادہ تر یہ لفظ کسی پیغمبر یا هللا کے ولی کے نام کے ساتھ آیا ".......حضرت مہاتما بدھ کی تعلیمات" ہمیں مہاتما بدھ کے بارے میں زیادہ علم نہیں لیکن میں نے یہ لفظ ان کے نام کے ساتھ پہلے کبھی نہیں پڑھا ہم چونکہ مہاتما بدھ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ممکن ہے کہ پہلے بھی ان کے نام کے ساتھ یہ لفظ استعمال ہوا ہو لیکن پھر بھی آپ سے گزارش ہے کہ تسلی بخش جواب دیں جس سے ہمارے علم میں اضافہ ہو غلطی گستاخ معاف دعا ہے کہ هللا آپ کو اور زور قلم عطا کرے مجھے اپنی دعاؤں می یاد رکھیں
فی امان ساجد پرویز آنس
محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم مسنون تحریر ایسی ہے ،کہ پڑھنے کے فورا ً بعد دل چاہتا ہے کہ بس اس پر کُچھ لکھتے چلے جائیں۔ ہم نے پڑھ لی تھی ،اور پھر لکھنے چلے تو محترم ساجد پرویز انس صاحب نے کُچھ وضاحت کے لیئے درخواست کر دی۔ ہم ُرک گئے کہ اب اپ سے مذید کُچھ سیکھنے سمجھنے کو ملے گا۔ جناب بالکل بجا ہے ،بندوق کے زور پر فتح ،فتح نہیں ہوتی۔ بلکہ طاقت کا استعمال ہی ہمارے نذدیک بُزدلی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ تصویر بھی ہمیں دیکھنے کو مل جاتی۔ درست ہے کہ کسی مذہب نے ،چاہے ہم اسے کتنا ہی جھوٹا کیوں نہ ثابت کریں ،کبھی جبر کو پسند نہیں ،کیا۔ ہر مذہب نے نیکی اور بدی کے فرق کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ نیکی کرنے اور بدی سے پرہیز کا درس دیا ہے۔ سدھارتو کا اپ نے ذکر کیا۔ ایک بار فرما رہے تھے کہ دو طاقتیں وجود رکھتی ہیں۔ نیکی
کی اور بدی کی۔ نیکی پر چلو اور بدی سے ُرکو۔ تو کسی نے پوچھا کہ نیکی اور بدی کا کیسے پتہ چلے گا کہ کونسی نیکی ہے اور کونسی بدی۔ مسکرا کر فرمایا کہ اپنے اپ سے پوچھو۔ کیا تُمہیں نہیں معلوم کہ کیا نیکی ہے اور کیا بدی۔ پھر فرمایا کہ نیکی کی طاقت سے سب کچھ وجود میں ایا ہے۔ ہر مخلوق کی مٹی میں نیکی اور بدی کی تفریق کا علم موجود ہے۔ اُن کا مقام واقعی بہت اونچا تھا۔ اب اس طرح کی تعلیمات کوئی عام شخص نہیں دے سکتا۔ سب جانتے ہیں کہ اُنہوں نے تخت شاہی چھوڑ کر جنگل میں کتنے ہی دن چلہ کاٹا وہ بھی صرف اس لیئے کہ انسان کے دُکھوں کا حل جان سکیں۔ کوئی خدا کو اس طرح پُکارے اور اُسے جواب نہ ملے ایسا تو ہوتا نہیں۔ سقراط کا ذکر کیا۔ اُن کی تعلیمات کو ہمیں تفصیل سے اپ نے ُ پڑھنے کی ضرورت ہے۔ البتہ سری گرو گرنتھ صاحب کو تو ہم نے بھی پڑھا ہے۔ چونکہ بابا گرو نانک کی امد انبیا کے بعد ہوئی ہے ،سو ان کے بارے یقینا ً کہا جا سکتا ہے کہ وہ پیغمبر نہ تھے۔ لیکن اُن کی تعلیمات بھی ویسی ہی ہیں جو نیکی کی ترغیب دیتی ہیں۔ ہمارے خیال سے تو بابا گرو نانک صاحب راہ بھٹکے ہوئے سا ِلک تھے۔ ہمیں راسپوٹین کے مذہب کے بارے بھی پڑھنے کا اتفاق ہؤا۔ جناب وہاں بھی تشدد برطرف ہے اور وہ بھی بچوں پر۔ خدا کی پناہ۔
اپ کی یہ تحریر خصوصی طور پر اہم ہے۔ اس کی تعلیم وقت کی اشد ضرورت ہے۔ ہر کوئی صرف اپنی بیوی کے بچے کو اپنا بچہ سمجھتا ہے اور یہ عالم جانوروں پرندوں کا بھی ہے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ بچے سانجھے ہونے چاہیئں۔ پچھلے دونوں ایک صاحب نے فیس بُک پر کسی بھوکے ننگے بچے کی تصویر پر اپنے خیاالت کا اظہار ان الفاظ میں فرمایا کہ :یہ ُخدا صاحب کا بچہ ہے۔ اسے کہو سنبھالتا کیوں نہیں اپنا بچہ :۔۔۔ ہم نے جوابا ً عرض کی تھی کہ :صاحب! یہ خدا صاحب کا بچہ نہیں ہے۔ یہ میرا بچہ ہے۔ اج اپ اپنی بیوی کے بچوں کے منہ میں تو اس بچہ کے سامنے خود ائس کریم کے چمچے ڈالتے ہیں اور یہ نہیں کہتے کہ خدا ا کر ڈالے ،لیکن اسے خدا کا بچہ کہہ کر اس کے حوالے کرتے ہیں۔ میرا وعدہ ہے اپ سے کہ کل یہ بچہ اپ کے بچوں کو بموں کی بھینٹ چڑھائے گا :اور تب اپ کہیں گے کہ یہ ُخدا کا نہیں شیطان کا بچہ ہے کُچھ زیادہ ہی جذباتی کر دیا اپ کی تحریر نے۔ دعا ہے کہ اپ کی اس تحریر سے زیادہ سے زیادہ لوگ استفاضہ حاصل کر سکیں۔
دُعا گو وی بی جی =http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic 8981.0
دروازے سے دروازے تک
محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم بُہت ہی دلسوز تحریر ہے جناب۔ کیا خوب قلم چالئی۔ یقین جانیے تحریر پڑھ کر اپ کے قلم کی تعریف کرنے کی بجائے ،رونے کا دل چاہتا ہے۔ تحریر کا پہال حصہ جس موضوع پر قاری کا دل نرم کرتا ہے، اُس پر کُچھ کہتے بھی شرم محسوس ہوتی ہے لیکن اس دلسوز حقیقت کو جان لینے کے بعد تحریر کا دوسرا حصہ صحیح طور سے سمجھ بھی اتا ہے اور دل پر اثر کرتا ہے۔ مسلمان معاشرہ
اتنی بیماریوں کا شکار ہو ُچکا ہے کہ بندہ کیا کہے اور کیا نہ کہے۔ لوگ اس قدر بے حس ہو ُچکے ہیں کہ ہر معاملہ کو حکومت کی زمہ داری قرار دے کر ،پہلو تہی کر جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ کبھی کبھی ہمیں لگتا ہے کہ لوگ چاہتے ہیں وہ گھروں میں سکون سے بیٹھے رہا کریں اور حکومت سب کو گھر گھر ہر مہینے پیسوں کی بوری دے جایا کرے۔ انہیں سمجھ نہیں اتا کہ اناج نہیں اُگائیں گے تو نہیں کھائیں گے۔ ریڑھی پر لوگوں کو دھوکے سے گندے ٹماٹر بیچنے واال خود حکومت سے رنجیدہ ہے کہ وہ دھوکے باز ہے۔ لوگ نہیں سمجھتے کہ وہ ایجادات، تعلیم ،زراعت وغیرہ میں محنت کر کہ دنیا کو کُچھ دیں گے نہیں تو دنیا انہیں موبائل اور کمپوٹر مفت فراہم نہیں کرے گی۔ مذہبی ُمعامالت میں انتہا پسندی یہی ہے کہ ایک فرقہ قبر کو سجدے تک کرنے پر راضی ہے تو دوسرا قبروں کو التیں مارتا پھرتا ہے۔ برداشت ختم ہو چکی ہے۔ ایک انگریز بوڑھی سی خاتون ایک دن ٹی وی پر کسی پروگرام میں بہت پیار اور حیرت بھرے لہجے میں فرما رہی تھیں کہ اخر مسلمانوں کو کیوں کمیونٹی بن کر رہنا نہیں ا رہا ہے۔ وہ نہیں سیکھ رہے اور نقصان بھی وہ اپنا ہی کرتے جا رہے ہیں۔ اُس کے نذدیک یہ بُہت معمولی سی بات تھی کہ اتنی سی بات نہیں سمجھ ا رہی۔ خیر ہمیں تو اب اپنے اپ سے ڈر لگنے لگ گیا ہے کہ اگر ہم
اپنے قلم پر قابو نہ پا سکے تو ہمارا حال وہی ہو گا جو ساحر اور جالب کا ہؤا تھا۔ لیکن خیر ،ابھی ہمیں اپنے اندر موجود، اس بے حسی پر بھروسہ ہے ،جو اس معاشرہ نے ہمیں تحفہ میں دی ہے۔ تحریر پر ہم اپ کو ایک بار پھر بھرپور داد دیتے ہیں۔ دُعا گو وی بی جی =http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic 8987.0
یہ کوئی نئی بات نہ تھی
محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم
کیا ہی بات ہے جناب ۔ بُہت خوب۔ بُہت باریک معاملے پر قلم اٹھایا ہے اور کیا ہی خوب اٹھایا ہے۔ یہ انداز بھی بُہت پسند ایا جس طرح اپنے معاملے کو ایک مقالمہ کی شکل دی اور بات واضح سے واضح طور تر ہوتی چلی گئی۔ ہمیں سو فی صد اتفاق ہے اپ کی اس بات سے۔ معاملے کو تھوڑا وسیع کر کے دیکھیں تو بات وہیں جنون و خرد کی لڑائی پر اتی ہے۔ ہمارا ذاتی خیال ہے کہ جنوں اورد کی طرح ہے اور عموما ً کسی چیز کا حقیقی اور حتمی احساس ہوتا ہے۔ خرد کو دالئل چاہیئں۔ وہی فرق جو وکالت اور نفسیات کا اپ کی تحریر میں جھلکتا محسوس ہوتا ہے۔ نفسیات چونکہ اس چیز کا مطالعہ کرتی ہے :جو ہے ،:اس لیئے حقیقت کے قریب تر ہے۔ جبکہ وکالت کا زیادہ تر زور اس پر ہے کہ :کیا ہونا چاہیئے :حاالنکہ ہمارے نذدیک :کیا ہونا چاہیئے :کا اس وقت تک تعین ہی نہیں کیا جاسکتا جب تک یہ مکمل طور پر جان نہ لیا جائے :جو ہے :۔ اپ نے بجا فرمایا کہ ہمارا معاشرہ ،اکہرے نہیں بلکہ دوہرے معیار کا شکار ہے بلکہ ہم تو کہیں گے کہ کئی ہرے معیاروں کا
شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بقول شخصے :ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کی بیوی وہ کُچھ نہ کرے جو وہ چاہتا ہے کہ پڑوسی کی بیوی کرے ): :اس کی وجہ ہمیں جو محسوس ہوتی ہے وہ بھی اپ نے بیان فرما ہی دی ہے ،کہ ہم لوگوں نے اسالم کو اپنی ہندوستانی تہذیب کے ساتھ ہم اہنگ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسالم میں غیرت کا ایسا تصور ہمیں کہیں نہیں ملتا ،وہاں کافی باتیں کُچھ مختلف انداز میں ہیں۔ لیکن خیر یہ واقعی کوئی نئی بات نہیں ہے ،لیکن اپ نے اسے اپنے قلم کے زور سے نیا بنا دیا ہے۔ مقالمہ بُہت اچھا لکھا ہے اپ نے۔ ہمیں تو پڑھ کر بُہت مزا ایا جناب۔ ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ ۔۔۔ دُعا گو وی بی جی =http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic 9000.0
اسے پیاسا ہی رہنا ہے مکرم بندہ حسنی صاحب :سالم مسنون آپ سے شرمندہ ہوں کہ کئی ہفتوں سے حاضری نہ دے سکا۔آپ کی نثری نگارشات دیکھتا تھا لیکن زندگی کے دوسرے تقاضے اتنی مہلت نہ دیتے تھے کہ لکھوں۔ آپ حسب معمول نہایت ذمہ داری اور دلسوزی سے ہمارے معاشرہ کے حاالت پر لکھ رہے ہیں۔ حقیقت ہمیشہ تلخ ہوتی ہے لیکن اس سے مفر بھی نہیں ہے۔ میں بھی اسی معاشرہ کا فرد ہوں جس کا ماتم آپ کرتے رہتے ہیں۔ اب تو ایسا نظر آنے لگا ہے کہ ہمارا هللا بھی محافظ نہیں ہے کیونکہ ہم خود اپنی ذمہ داریوں سے ہاتھ کھینچ چکے ہیں۔ یہ کوا پیاسا تھا ،پیاسا ہے اور پیاسا ہی رہے گا۔ آپ کی تحریر میں بہت درد ہوتا ہے اور ہر بات آپ کے دل سے نکلی ہوئی لگتی ہے۔ نئی نسل ہماراہی عکس ہے۔ ہم نے ان کے لئے جو روایات چھوڑی ہیں وہ ان سے الگ کیونکر ہو سکتے ہیں۔ لوگوں سے جب ذکر ہوتا ہے تو ہمارے یہاں بندھا ٹکا جملہ ہوتا ہے کہ "دعا کیجئے" اور ظاہر ہے کہ صرف دعا سے کیا ہوتا ہے۔ اونٹ تو بھاگ چکا ہے۔ اب ہم الکھ دعا مانگیں وہ لوٹ نہیں آنے کا۔ هللا هللا خیر سال۔ کر ِ
سرور عالم راز محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم بُہت ہی شاندار تحریر ہے۔ ایک تو جس طرح یہ کہانی کوے کے پیاسے ہونے کی تشریح کرتی ہے بُہت ہی خوب ہے اور پھر اختتام تو سبھان هللا ۔۔ ہماری طرف سے بھرپور داد۔ محترم سرور عالم راز سرور صاحب کی باتوں سے بھی استفادہ کیا۔ اپ کی باتیں بجا ہیں۔ حاکم ہمیشہ محکوم کی کی وجہ سے حاکم رہا ہے اور رہے گا۔ ہمیں اس سے کیا کہ ہماری تاریخ میں کیا کُچھ بھرا پڑا ہے۔ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ہارون الرشید اور مامون الرشید کے دور میں فرقہ معتضلہ کی کیا خاندان برامکہ کے ساتھ کیا ہؤا۔ کیس کی الش بازار حیثیت تھی۔ ِ میں کتنے دن لٹکی رہی۔ اور حضرت امام احمد بن حنبل کے ساتھ کیا کیا گیا۔ ہمیں صرف ان کے دور حکومت کی تعریف کرنی ہے کیونکہ وہ مسلمان خلفا تھے۔ ہمیں مغلیہ دور کی بھی تعریف کرنی ہے ہم کیوں جانیں یا مانیں کہ نور جہاں شیر افغن
کی بیوی تھی یا نہیں۔ اسے کس نے کیوں قتل کروایا۔ ہمیں ان کی تعریف ہی کرنی ہے۔ اپ کئی بار کہہ ُچکے ہیں کہ مورخین نے بُہت ظلم کیا ہے۔ بالکل دُرست کہتے ہیں اپ۔ جناب کوا پیاسا رہے گا۔ دُرست۔ لیکن کوے کو پانی کی تالش جاری رکھنی چاہیئے اور ہم اس کے لیئے کوشاں رہیں گے۔ قدرت کا کھیل ہی ایسا ہے۔ کوے کو پیاس دی ہے اور امتحان یہی ہے کہ اسے پانی پال کر دکھاؤ تو تم کامیاب۔ یہی جہت ہے یہی جہاد۔ ہماری نظر میں یہ اپ کی زور دار تحریروں میں سے ایک ہے۔ شاندار ہے۔ ہماری طرف سے بھرپور داد کتاب کی اشاعت مبارک ہو۔ ہمارے خیال میں اپ قصور میں رہائش پذیر ہیں۔ ہمارا مسلئہ کُچھ ایسے ہے کہ ہمارا کوئی پتہ نہیں ہے۔ جلد دریافت کریں گے اور اپ کو ضرور مطلع فرمائیں گے۔ ہماری دلی خواہش ہے کہ ہم :خوشبو کے امین :پڑھ کر اپ جیسے قلم کار سے استفاضہ حاصل کر سکیں۔
ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ دُعا گو وی بی جی جناب محترم ڈاکٹر مقصودحسنی صاحب اس عمدہ پُر فکر تحریر سے ہمیں جھنجھوڑنے کا بے حد شکریہ مگر صاحب ہم سبھی اپنا اپنا کردار نبھاتے اپنی اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہیں ہم میں سے ہر شخص دوسرے کے ئے امتحان ہے اور اسی امتحان پر پورا اترنے کا نام ڈسپلن ہے اور یہ ڈسپلن حق ادا کرنے کا نام ہے حق مانگنے کا نہیں ، مگر آج الٹی گنگا بہ رہی ہے ہر شخص اپنا حق مانگ رہا ہے مگر دوسروں کا حق ادا نہیں کر رہا یہیتو ڈسپلن کی خالف ورزی ہے ایسی پُر فکر تحریروں کے آئینے میں ہمیں ہمارا چہرہ دکھانے کا شکریہ قبول فرمائیے کبھی نہ کبھی شرم ہمیں ضرور آئے گی والسالم
اسماعیل اعجاز
=http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic 9012.0
پہال قدم محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم بُہت عمدہ جناب۔ بُہت ہی اعلی تحریر ہے۔ بھرپور داد۔ اپ کو بات کہنے کا فن اتا ہے ،اور ظاہر ہے کہ یہی ایک قلم کار کے فن کا مظہر ہے۔ یہ تحریر جس راستے پر چلنے کا سبق دے رہی ہے جناب ،وہ بُہت ہی مشکل راستہ ہے۔ اس قدر مشکل کے تصور کرنا بھی محال۔ کاش کہ ہم لوگ اس مقام تک پہنچ سکیں۔
مشکالت صرف یہی نہیں جو تحریر سے عیاں ہیں ،بلکہ کُچھ برعکس بھی ہیں۔ اپ نے تاریخ میں سے کُچھ مثالیں قلمبند کی ہیں ،لیکن سچ پوچھیں تو ہم ایسی ہزاروں مثالیں پیش کر سکتے ہیں ،جہاں بُرا کرنے والے کو اس کے کیئے کے برابر سزا نہیں ملی۔ کئی ایسی مثالیں بھی ہیں جن میں سرے سے سزا ملی ہی نہیں ،بلکہ ظلم کرنے والے اخری سانس تک عیاشی اور ظلم کرتے رہے۔ کئی مثالیں تو ہمارے سامنے ہی موجود ہیں جہاں شرفا مہینوں چارپائی پر کھانس کھانس کر اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے ہیں ،جبکہ ظالم لوگوں کے لیئے قدرت نے قدرے اسان طریقہ موت بھی ایجاد کر رکھا ہے جیسے دل کا دورہ پڑنے سے اچانک دُنیا سے اُٹھ گیا۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر دُنیا میں انصاف ہو رہا ہوتا اور ہر ظالم کو حق کے مطابق سزا مل رہی ہوتی ،تو ،نہ تو یہاں ظلم عام ہوتا ،اور نہ ہی جنت اور دوزخ کے وجود کی کوئی ضرورت تھی۔ جب یہ سب انسان دیکھتا ہے ،کہ دنیا میں انصاف نہیں ہے۔ اچھا کرتا اور بُرا نتیجہ لیتا ہے تو ظاہر ہے کہ قدم ڈگمگا جاتے ہیں۔ هللا پر اعتماد بھی کہنے کو تو بُہت ہوتا ہے ،لیکن دل میں کمزور پڑ جاتا ہے۔ ایسی صورت میں اس راستہ پر چلنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
باقی جناب اپ کی تحریر اس قدر خوبصورتی سے کئی پہلو سمجھا رہی ہے کہ مذید کُچھ کہنے کو رہ ہی نہیں جاتا۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ امید ہے کہ پڑھنے والے جس قدر ہو سکا ،اثر لیتے ہوئے ،سچائی کے راستہ پر ڈٹے رہیں گے۔ ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ دُعا گو وی بی جی
محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم ہم معذرت خواہ ہیں کہ ہماری باتوں نے اپ کو کل سے عجیب سی کشمکش اور بے چینی میں مبتال کر رکھا ہے۔ ہم نے کوشش کی کہ جلد سے جلد حاضر ہو سکیں سو حاضر ہو گئے ہیں۔
پہلے تو ہم یہ بتاتے چلیں کہ جو اپ 01 - 01سال سے کر رہے ہیں وہ بُہت بڑا کام ہے۔ ہم نے بھی ایسی ہی تحریریں پڑھی ہیں اور ہمیں یاد تک نہیں کہ وہ کون لکھتے تھے۔ اور بھی کئی لوگ ہیں جو اس علمی خزانے سے استفاضہ حاصل کرتے ہیں۔ اپ کی تحریروں نے کئی لوگوں کو اگہی بخشی ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ اُنہیں اپ کا نام بھی یاد نہ رہے ،اور تحریروں کو سرسری پڑھ کر چلے جائیں۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ یہی وہ تحریریں ہیں جو اُن کے الشعور میں پیوست ہو جاتی ہیں۔ اور پھر اہستہ اہستہ شعور کا حصہ بنتی چلی جاتی ہیں۔ اپ جانتے ہی ہیں کہ ہم قلم کار نہیں ہیں سو کُچھ بھی لکھتے ہیں تو وہ بکھرا بکھرا اور کئی بار بے ربط سا ہو جاتا ہے۔ کُچھ ایسا ہی یہاں بھی ہؤا۔ اصل میں بات پیر صاحب کی تھی ،سو ہم اسے پیری میں ہی لے گئے۔ جو طرز عمل پیر صاحب کا اس تحریر میں تھا وہ ہمارے خیال سے صرف پیروں کے ہی بس کی سی بات ہے۔ سو ہم نے اس میں پیش انے والی مشکالت کو ذرا سا بیان کر دیا اپنی محدود عقل کے حساب سے۔ مشکالت تو اس بھی کہیں ذیادہ بڑھ کر ہیں۔ اس سے ایک درجہ اوپر کی مشکل بھی موجود ہے جسے الفاظ بھی دئیے جا سکتے ہیں ،لیکن اس کے بعد کی
مشکالت کو تو الفاظ بھی دینا ممکن نظر نہیں اتا ہمیں۔ ہم اس میں ذیادہ نہیں جاتے ،وگرنہ شاید ہم اپنی بے تُکی باتوں سے اپ کو مذید الجھا ہی نہ دیں۔ هللا پاک ہم سب کو طاقت دے کہ ہر مشکل برداشت کریں لیکن نیکی کے راستے سے قدم نہ بہکیں۔ دُعا گو وی بی جی
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9019.0
موازنہ
محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم
جناب عزت افزائی کا بُہت شُکریہ۔ ہمارے لیئے اعزاز کی بات ہے کہ اپ کے قلم نے ہمیں اس الئق سمجھا ہے۔ لیکن ایک گزارش کرنا چاہیں گے کہ صاحب! یہ تعریفیں ہم سے برداشت نہیں ہوتیں۔ سمجھ لیجے کہ تعریفیں وی بی جی کی موت ہیں۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اپ نے کس قدر خلوص اور محبت سے ہمارے بارے میں اپنے خیاالت کا اظہار فرمایا ہے۔ اور یقینا ً اپ نے حق گوئی کا مظاہرہ کیا ہو گا۔ جیسا محسوس ہؤا ویسا بیان کیا ہو گا۔ ہم شُکر گزار ہیں کہ اس الئق سمجھا اپ نے۔ اپ نے بُہت ہی خوبصورت انداز میں جواب عنایت فرمایا ہے۔ اپ قلم کار ہیں سو اپ بات کہنے کا فن جانتے ہیں۔ لیکن اس گہرائی سے مشاہدہ کرنا ظاہر ہے کہ گہری سوچ اور سلجھا ہؤا ذہن چاہتا ہے۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ جواب بھی ہمیں بہت پسند ایا ہے۔ دراصل کئی ایسے سوال ہوتے ہیں ،جن کے ذہن میں اتے ہی ،لوگ انہیں جھٹالنا شُروع کر دیتے ہیں کہ یہ تو سوچنا بھی گناہ ہے۔ اور اس طرح گویا یہ تسلیم کر لیتے ہیں کہ ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے جو انسان دے سکے۔ اور نتیجہ یہ کہ اپنے اپ کو دھوکہ دیتے رہتے ہیں اور ایمان کی کمزوری کا شکار رہتے ہیں۔ ہمارے خیال میں تمام سواالت
کے جواب موجود ہوتے ہیں۔ هللا پاک اور اس دنیا کا وجود ہمیں غیر منطقی نہیں نظر اتا۔ اگر ہم سوچنے پر ہی پابندی لگا دیں، تو جواب کہاں سے ائیں گے۔ ایمان پُختہ ہونا چاہیئے ،راز ک ُھلتے چلے جاتے ہیں۔ تحریر پر ایک بار پھر بھرپور داد۔۔۔ بُہت ہی عمدہ تحریر ہے۔ سلجھا ہؤا انداز ظاہر ہے کہ کئی سوالوں کے جواب دیتی ہے۔ ُ تحریر ہے۔ ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ ۔۔
دُعا گو وی بی جی
=http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic 9044.0
سرگوشی
مکریم بندہ جناب حسنی صاحب :سالم مسنون ایک بڑی مدت کے بعد حاضر خدمت ہو رہا ہوں۔ زندگی کے چکروں نے تھکا دیا اور کبھی وقت ملتا تو دو چار معمولی باتیں کر کے باال ہی باال گزر جاتا۔ نادم ہوں کہ آپ اور دوسرے احباب کس دریا دلی سے یہاں علم و دانش کے دریا بہا رہے ہیں اور میں اس سے فیضیاب نہیں ہو سکا ہوں۔ آپ کاانشائیہ "سرگوشی" آپ کے مخصوص طرز فکر وبیان کا اعلی نمونہ ہے۔ ایک ایک جملہ میں ایک داستان پوشیدہ ہے۔ بین السطور کیا کیا نہیں کہہ دیا گیا ہے۔ پنجابی سے میں نا واقف ہوں پھر بھی سیاق و سباق سے کچھ سمجھ ہی گیا۔ اگر آپ پنجابی اشعار ،کہاوتوں اور فقروں کا ترجمہ بھی لکھ دیا کریں تو ہماری مشکل آسان ہو جائے گی۔ اس سے قبل بھی آپ کے کئی انشائیے نظر آئے لیکن اپنی بد تقدیری کے ہاتھوں ان سے مستفید نہ ہو سکا۔ اب واپس جا کر ان کو پڑھنے کا ارادہ ہے۔ رمضان چل رہے ہیں۔ اس مبارک ماہ میں ایسے مضامین اور
بھی دل پذیر ہو جاتے ہیں۔ جزاک هللا خیرا۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔ سرور عالم راز =http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic 9069.0
ادریس شرلی
محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم مسنون بُہت عمدہ جناب۔ ایسی تحریروں کی معاشرے کو بہت شدت سے ضرورت ہے۔ لوگوں کو ہر پہلو سے ائنہ دکھاتے رہنا ہی اپ کی تحریروں کا مقصد ہے اور وہ اپ بہترین طریقے سے کر رہے ہیں۔
ادریس صاحب میں وہ وہ خصلتیں پائی جاتی ہیں جو اکثر عورتوں میں پائی جاتی ہیں ،لیکن کُچھ مردوں میں بھی یہ خصلتیں پائی جاتی ہی ہیں۔ ہمارا ذاتی خیال کُچھ اس بارے میں یہ ہے کہ ہمیں نیکی اور بدی کے فرق کو بہتر طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کئی ایسی نام نہاد نیکیاں معاشرے میں عام ہیں جس سے بُہت نقصان ہو رہا ہے۔ جس کی مثال ہم کُچھ یوں دیں گے کہ کئی غیر قانونی سرکاری مراعات یہ کہہ کہ جائز قرار دے دی جاتی ہیں :چھوڑیں جی ،یہ غریب ادمی ہے، اس کا بھال ہو جائے گا :۔۔۔ سرکاری مال ،ما ِل مفت اور دِل بے رحم۔ دوسری مثال ان عمر رسیدہ لوگوں کی بھی ہے جنہیں ہم اپنے بچوں سے چاچا اور انکل کہلواتے ہیں۔ بچوں کو یہ احساس ضرور ہونا چاہیئے کہ عمر کے ساتھ الزما ً زندگی کا وسیع تجربہ منسلک ہوتا ہے ،لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہر بات میں وہ درست ہوں۔ بقول ہمارے دیرینہ دوست شیخ سعدی مرحوم کے: ،بزرگی بہ عقل ہست ،نہ بہ سال:۔ اندھی تقلید چاہے مذہب کی ہی کیوں نہ ہو ،ہم ذاتی طور پر اس کے حق میں نہیں ہیں۔ سو ہمارے خیال میں کہانی کے مرکزی کردار جیسے لوگوں کو ان کے منہ پر اپنے دل کی بات مناسب
انداز میں بتا دینی چاہیئے اور ہر کسی کی عزت اتنی ہی کرنی چاہیئے جتنے اس کے اعمال کا حق ہو۔ ہمارے ہاں تو اپ جانتے ہی ہیں کہ کسی کی تعظیم اور اس کا مقام ،اج بھی لوگ، یا تو اس کی دولت کے حساب سے کرتے ہیں یا پھر عمر کے حساب سے۔ ہماری نظرمیں یہ پیمانہ درست نہیں۔ بڑی گاڑی سے اترے والے شخص کی خدمت بھاگ بھاگ کر کی جاتی ہے، چاہے وہ خود نہ بھی چاہے ،جبکہ اس ناچیز جیسا کوئی شخص سنیارے کی دکان میں جانا چاہے تو محافظ دروازے پر ہی روک کر پوچھ گچھ شُروع کر دیتا ہے۔ دوسری طرف اگر کوئی بزرگ، بقول اپ ہی کے ،اپنا لُچ بیچ میں تلنے کی کوشش کرے (ویسے یہ محاورہ بھی کیا ہی خوب کسی نے بنایا ہے ،ہمیں بُہت پسند ہے) تو اس پر خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔ سو ہمارے خیال میں جب تک تعظیم کا معیار درست نہیں ہوتا، معاشرتی نا انصافیاں بڑھتی ہی چلی جائیں گی۔ لوگوں کو ہر پہلو سے ائنہ اپ خوب دکھاتے رہتے ہیں تاکہ لوگ اپنے گریبان میں جھانک کر اپنے اندر موجود برائی کو جان پائیں۔ اور اگر وہ جان گئے تو اس میں سب کا بھال ہو گا۔ ایک بات ہم سے کہنا رہ گئی تھی۔ اپ کی تحریروں میں محاوراتی زبان کا عنصر نمایاں ہے۔ اسے پڑھ کر ہمارے علم
میں بہت اضافہ ہوتا ہے اور یقینا ً اس کے اثر سے ہم بھی اپنی بات کو بہتر ،پُر اثر اور با معنی بنا سکا کریں گے۔ جس پر شُکر گزار ہیں۔ ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ۔ دُعا گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?t opic=9023.0
عاللتی استعارے محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم مسنون کُچھ عرصہ غیر حاضر رہے۔ اپ جانتے ہی ہیں کہ رمضان میں
) :ہم ایسوں کو قید ہی کر لیا جاتا ہے جناب کیا ہی اچھا مضمون ہے۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ دُرست فرمایا اپ نے کہ اخالقی اور روحانی بیماریوں کی کسی کو فکر نہیں۔ ہم تو پہلے سے ہی قائل ہیں کہ اپ کی نظر بہت گہرائی میں معاشرتی روویوں پر ٹکی ہے۔ ماشا هللا بُہت وسعت دی ہے اپ کے خیال کو قدرت نے۔ ویسے زیادہ تر یہ خودساختہ بیماریاں خواتین کو الحق ہوتی ہیں ،لیکن کئی مرد حضرات بھی اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہر وقت یہی رونا روتے رہتے ہیں۔ ان سب بیماریوں کی اہم بات یہ ہوتی ہے کہ یہ کسی ڈاکٹر کو سمجھ نہیں اتیں اور ان میں افاقہ نہیں ہوتا۔ گھر میں اتنی اقسام کی دوائیاں ہوتی ہیں کہ توبہ اور ایک وقت میں کھانے کے بعد اتنی گولیاں کھائی جاتی ہیں کہ سالن کی بجائے ،چند نان فقط گولیوں کے ساتھ کھائے جا سکتے ہیں۔ اگر کوئی ان کو یہ کہے کہ خدا نہ خواستہ اب وہ ہشاش بشاش نظر ا رہے ہیں تو وہ اس شخص کے دشمن ہو جاتے ہیں۔ ایک جیسے چند لوگ مل کر بیٹھ جاتے ہیں تو مرغوں کی طرح بیماریوں کا مقابلہ کراتے ہیں۔ ہر کوئی دوسرے سے بڑھ کر اور حیران کن بیماری بتاتا ہے۔ ایک سنتے کم ہیں اور دوسرے کی بات کاٹ کر اپنی دوسرے کی بات ُ
بیماری بیان کرنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ انہیں دوسروں کی کُچھ بیماریاں سن کر افسوس بھی ہوتا دکھائی دیتا ہے کہ یہ بیماری انہیں کیوں نہ ہوئی۔ اخر میں بات اپ کے بیان پر ہی ختم ہوتی ہے کہ یہ خود ایک روحانی و اخالقی بیماری ہی ہے۔ تحریر پر ایک بار پھر بھرپور داد دُعا گو وی بی جی
=http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic 9097.0
اسالم اگلی نشت پر
محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم معذرت چاہتے ہیں کہ دیر سے حاضر ہوئے۔ اگر سمجھیں تو روال یہاں بھی روٹی کا ہی ہے۔ تحریر بُہت ہی اعلی ہے۔ ہمیں اپ کے باتوں سے حرف بہ حرف اتفاق ہے۔ اور یہ اپ کی ہی نظر ہے کہ جس سے یہ باتیں ڈھکی چ ُھپی نہیں رہ پاتیں۔ وگرنہ ہم جیسے انکھوں والے اندھے سب کُچھ دیکھتے بھی ہیں لیکن کُچھ نظر بھی نہیں اتا۔ کُچھ دن سے اپ نظر نہیں ا رہے ہیں۔ اُمید ہے کہ خیریت سے ہونگے۔ دُعا گو وی بی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=90جی 33.0
دو دھاری تلوار ُمحترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! اسالم علیکم انداز بیاں ،منظر کشی بُہت بُہت جاندار تحریر ہے اور پھر اپ کا ِ ہی جاندار اور خوبصورت ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسی تحریریں کردار سازی کے لیئے بہت ضروری ہیں۔ نہ صرف یہ کہ اچھے برے کی تمیز سکھاتی ہیں ،بلکہ اچھائی کو پسند کرنے اور بُرائی سے نفرت کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ اپ انداز بیاں مشکل پسندی سے دور ہے اس لیئے قاری کے کے ِ ذہن پر اثر چھوڑتا ہے۔ اپ نے ڈارون کی بات کی ،ہمارا تو خیال ہے کہ اُن کے نظریہ میں ایک معمولی سی تبدلی کر لی جائے تو بالکل دُرست ہے۔ اور وہ تبدیلی یہ ہے کہ نظریہ کی مشہور تصویر میں دکھائے گئے قطار میں موجود تمام کے تمام اراکین اپنا ُرخ موڑ کر پیچھے کی طرف کر لیں۔ انسان کی پریشان حال زندگی کو دیکھ
کر لگتا ہے کہ اصل میں انسان ترقی کرتے کرتے بندر بن گئے ہیں۔ مغربی ُممالک کے تیزی سے ترقی کرتے ہوئے لوگوں میں یہ ترقی صاف دکھائی بھی دیتی ہے۔ اُن کی بڑھتی ہوئی معصومیت دیکھ کر ہمیں وہ جانور ہی لگنے لگ گئے ہیں۔ اس وقت جو ڈارون کا نظریہ موجود ہے اس میں ایک سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اگر بندر ترقی کر کہ انسان بنا ہے تو پھر ابھی تک ہماری دُنیا میں اتنے بندر کیوں ہیں اور اُن کی ترقی میں کیا رکاوٹ ہے؟ ہمارا ذاتی خیال یہ ہے کہ جانوروں کے خاندان ہوتے ہیں جیسے ،گھوڑا ،گدھا ،خچر ،زیبرا وغیرہ۔ خرگوش ،چوہاُ ،گلہری ،نیوال وغیرہ۔ ایسے ہی انسان کا خاندان بندروں کا ہی ہے ،لیکن یہ علیحدہ نسل ہے۔ اور جس چیز نے انہیں اتنی ترقی دی ہے وہ صرف ُزبان ہے۔ جس نے انہیں ایک دوسرے کے تجربات سے بھی سیکھنے کی طاقت دی۔ خیر ،اپ کی تحریر کا صرف ایک حصہ ہے ڈارون کا نظریہ، اصل تو یہی ہے کہ انسان کو انسانوں اور جانوروں میں فرق رکھنا چاہیئے۔ اپ کی تحریر بُہت پسند ائی۔ بُہت شُکریہ کہ اپ یہاں رقم کر
دیتے ہیں اور ہم فیضیاب ہو پاتے ہیں۔ دُعا گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8770. 0
کمال کہیں کا
مکرم بندہ جناب حسنی ساحب :سالم مسنون آپ کی تحریر کی انفرادیت سے کس کافر کو انکار ہے! اس مرتبہ بھی یہ انشائیہ دلچسپی سے پڑھا لیکن :کمال :نے پوری طرح لطف اندوز ہونے سے روک دیا۔ کیا یہ پنجابی زبان کا کوئی مخصوص لفظ ہے؟ اردو میں کم سے کم میں اس سے نا بلد ہوں۔ رہنمائی کی گزارش ہے۔
سرور عالم راز
=http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic 8780.0
کامنا
ُمحترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم مسنون واہ جناب واہ۔ اپ کی نظر کہاں کہاں تک ہے ،یہ تحریر پڑھ کر پتہ چال۔ پھر اپ کہتے ہیں کہ ریشماں جوان نہیں رہی۔ صاحب اس تحریر کے اخر میں اپ نے مرہٹوں کی سرکوبی کی تاریخ رقم نہیں کی سو ہمارا خیال ہے کہ تحریر نئی بھی ہے اور ریشماں کی جوانی کی سند بھی۔ اور صاحب ہمارے خیال سے ریشماں کبھی بوڑھی نہیں ہوتی ،اُس پر مرنے والی انکھیں
بوڑھی ہو جاتی ہیں۔ اس تحریر نے ہمیں جیت لیا ہے۔ ایک تو اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اپ کی نظر کہاں کہاں تک ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ موضوع کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ اور اس پر لکھنے کا خیال تک انا ،بُہت بڑی بات ہے۔ دوسرا اپ کے علم کا بھی پتہ چلتا ہے کہ کس گہرائی سے اپ نے مشاہدہ کیا ہے۔ اگر اس موضوع سے ُمتعلق باریک چیزوں کا علم نہ ہو تو ظاہر ہے کہ چند ٹوٹے پھوٹے فقروں کے سوا کوئی اس پر کُچھ نہیں لکھ سکتا۔ اور اپ نے تو کمال حکایت بیان کی۔ دل عش عش کر اُٹھتا ہے۔ اسے پہلے پڑھا تو کئی باتیں ذہن میں ائیں لیکن اسے دوبارہ پڑھا اور پھر ایسا محسوس ہؤا کہ کُچھ کہنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔ اپ نے کوئی کونہ خالی نہ چھوڑا ہے۔ ویدی کا ویدان ہمارے اپنے خیال سے ُمتعلق بھی یہی ہے۔ جب تک دُنیا قائم ہے کوئی نہ کوئی گیانی کہیں نہ کہیں ایک ٹانگ پر کھڑا ہوتا رہے ت باری تعالی بھی نہیں چاہتی کہ اذان کے ہوتے گا۔ اور شائید ذا ِ ہی سب َ :مسیت :میں جا پڑیں۔ کُچھ لوگ سیمنا گھروں میں بھی نظر اتے رہیں گے۔
ہماری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ بُہت ہی عمدہ تحریر صاحبان علم اس دُنیا کا سرمایا ہیں ،جسے بے ہے۔ اپ جیسے ِ قدرے لوگ صرف عیاشی پر خرچ کرنا چاہتے ہیں۔ هللا پاک اپ کے علم اور صحت میں برکت عطا فرمائیں۔ دُعا گو وی بی جی
=http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic 8794.0
ابا جی کا ہم زاد
ُمحترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم مسنون اپ کی یہ شاندار تحریر پڑھی۔ بُہت زوراور ہے اور اس میں اپ کا ایک نیا انداز نظر ایا۔ یا ُمنفرد انداز کہہ لیجے۔ یقین جانیئے کہ رشک ایا پڑھ کر اور دل سے داد نکلی۔ اپ نے ایک جگہ کہا کہ ہم کُچھ زیادہ تعریف کر جاتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ اس تحریر کو ہی دیکھیئے۔ جتنی تعیف کی جائے کم ہے۔ اس موضوع کو اس انداس سے سوچنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ ہم ایسے کئی لوگ جب کسی مسئلہ میں ہوتے ہیں تو ویسا ہی کرنے کی کوشش کرتے ہیں جیسا کہ اُن کے والد ایسے موقع پر کیا کرتے تھے ،اور اگر کُچھ لوگوں کو ایسا خیال نہیں ایا تو اُنہیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیئے۔ یہ ہمارا خیال ہے اور ایسا ہی ہم نے اس تحریر سے بھی اخذ کیا ہے۔ اپ کی تحریر اگرچہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے ،اور ہر شخص اپنی سوچ کے حساب سے نتیجہ یا نتائج اخذ کر سکتا ہے ،لیکن ہمیں ایسا ہی محسوس ہؤا۔ ہمارے گھر میں کئی قسموں کے کردار تھے اور ہم اُنہی کو
محسوس کرتے رہے۔ بابا ،ماں ،بہنیں ،بھائی وغیرہ ،لیکن دو ایسے کردار تھے جنہیں ہم نے کبھی محسوس نہیں کیا۔ اور وہ پس پردہ رہتے ہیں اور تھے ایک میاں اور ایک بیوی۔ یہ کردار ِ انسان کی شادی ہو جانے تک کبھی محسوس نہیں ہوتے۔ یا پھر ہمیں نہیں محسوس ہؤے۔ اپ نے کہاں سے بات شُروع کی اور کہاں ال چھوڑی ،قابل تحیسن ہے۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ اس بات کا شُکریہ بھی کہ ہمیں اپ کی تحریر کے توسط سے پتہ چال ہے کہ ہم بُہت سے کام کیوں کرتے ہیں۔ ایک چھوٹی سی عرض بھی کرنا چاہیں گے کہ یا تو اپ نے :مقالموں :کو زیادہ توجہ نہیں دی یا پھر ہمیں افسانے اور کہانیاں وغیرہ پڑھنے کی عادت نہیں رہی۔ ہمیں مقالموں کو پڑھنے اور سمجھنے میں کُچھ دقت ہوئی ہے۔ یہ بات بیان کرنا اس لیئے ضروری سمجھا تاکہ اپ کے علم میں ہو کہ کُچھ لوگ ایسے بھی ہو سکتے ہیں جنہیں اس قسم کی مشکالت بھی پیش ا سکتی ہیں۔ ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ ۔۔ دُعا گو وی بی جی
=http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic 8787.0
تنازعہ کے دروازے پر ُمحترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم مسنون واہ جناب یہ پہلو بھی اپ نہیں چھوڑا۔ بُہت اچھی تحریر ہے۔ داد حاضر ہے۔ اب بات یہ ہے کہ جو کہانی اپ نے لکھی ہے وہ تاریخ میں قدم قدم پر دُہرائی گئی ہے۔ سو سچ پوچھیں تو ہم ان کرداروں کی شناخت میں ناکام رہے ہیں۔ اس کی ہمارے خیال سے دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہم اپنی کمزور سیاسی بصیرت کی وجہ سے کئی تاریخی نُقاط سے ناواقف ہیں سو ایسا ہونا الزم ہے۔ دوسری بات یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اپ نے کئی کہانیوں کے کردار اپنی تحریر میں ایک واحد کردار میں سمو دیئے ہوں۔ جس کی وجہ سے اصل تک نہ پُہنچ پا رہے ہوں۔
ہم معذرت بھی چاہیں گے کہ اپنی کم علمی کی وجہ سے اپ کی تحریر کو وہ خراج نہیں پیش کر پائے جس کی یقینا ً یہ ُمستحق ہو گی۔ اپ کی تمام ُگزشتہ تحریروں کو نظر میں رکھتے ہوئے ہمیں یقین ہے کہ یہ ہماری نا سمجھی کی وجہ سے ہے۔ لیکن جس پہلو سے بھی ہم دیکھ سکے ہیں اور جہاں تک سمجھ سکے ہیں تحریر اچھی ہے اور داد اپ کا حق۔ بھرپور داد کے ساتھ دُعا گو وی بی جی =http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic 8798.0
انگریزی فیل
ُمحترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم مسنون معذرت خواہ ہیں کہ دیر سے حاضر ہوئے۔ یہ موضوع اگرچہ اس قدر انوکھا نہیں ہے ،لیکن اپ کے قلم نے اسے اپنی طرز سے بیان کیا ہے اور بُہت ہی خوب کیا ہے۔ ہکے پھلکے انداز میں اپ نے کہانی بیان کی ہے جو پڑھنے والے کو کسی ذہنی دباؤ میں نہیں ڈالتی۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ وہ قارئین جو گہرے فلسفوں سے کتراتے ہیں یا سمجھ نہیں پاتے وہ بھی اس سے محظوظ ہو پاتے ہیں اور کُچھ نہ کُچھ بات کا اثر ضرور لے کر جاتے ہیں۔ ہماری طرف سے بھپور داد قبول کیجے۔ ویسے ہمارا خیال اس سے ُمتعلق تو یہ ہے کہ ایک تو جو شاگرد رٹہ نہیں لگا سکتے اُن کو اساتذہ سے شاباش بھی شاز و نادر ہی ملتی ہے ،وگرنہ نہیں ملتی۔ ہمارا اپنا المیہ یہی رہا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس میں صرف انگریزی ہی کارفرما نہیں ہے ،بلکہ کئی ایسی چیزیں ہمارے نصاب کا حصہ ہیں جس کی کوئی تُک نہیں ملتی۔ یقین جانئیے اج تک ہمیں الجبرا ،جسے جبرا ً پڑھایا جاتا ہے ،کو استعمال کرنے کا کوئی موقع زندگی نے
نہیں دیا۔ ہم ایکسوں میں سے وائیاں تفریق کیئے بغیر زندگی ُگزار رہے ہیں۔ نہ مرہٹوں کی لڑائیوں کی تاریخوں کی کہیں ضرورت پڑی ہے۔ اور تو اور قائدِاعظم کے چودہ نُقاط جسے ہم چوتھی جماعت سے لے کر مسلسل چودھویں جماعت تک یاد کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں ،نہ تو اج تک کبھی یاد ہوئے ہیں اور نہ کبھی اس کی ضرورت پڑی ہے۔ یہاں کسی کام کو کرنے کے لیئے اُس کام لیئے موزوں ترین شخص بھی تالش کرنے کا کوئی اصول دُرست نہیں ہے۔ ہم جہاں کام کر رہے ہیں وہاں بھی صرف اس لیئے کہ ہمیں :ڈائریکٹ، سو: ،:دُعائے قنوت ،:اور اپنے وزی ِر ان ڈائریکٹ: ،:ایکٹو ،پی ِ اطالعات کا نام یاد تھا۔ ہم اس سے بھی اچھا عُہدہ پا سکتے تھے لیکن چونکہ ہمیں نہ صرف :امریکہ کے صدر کینَڈی :کے قاتل کا نام یاد نہیں تھا بلکہ یہ تک معلوم نہ تھا کہ :بُلبُل :کی اوسط عُمر ِکتنی ہوتی ہے ،اس لیئے ہم اُس عہدے کے الئق نہ تھے۔ اس لیئے ہم سمجھتے ہیں کہ نہ صرف یہ شعور دینا ضروری ہے کہ تعلیم کا مقصد کیا ہے اور اس میں کردار سازی کی کیا اہمیت ہے۔ بلکہ یہ بھی کہ کسی کام کو کرنے کے لیئے موزوں ترین شخص کا انتخاب کیسے کرنا چاہیئے۔ اگر ہمارے بس میں
ہو تو ،حافظ ،سعدی اور عُرفی جیسے لوگوں کا کالم ،بلکہ قصہ چہار درویش کو نصاب کا حصہ بنائیں اور بُہت سی خرافات کو اس میں سے نکال پھینکیں۔ ورنہ ہمارا تو یہی حال ہے بقول سعدی کہ اگر کوئی شخص علم حاصل کرے اور پھر اُسے استعمال نہ کرے تو ایسے ہی ہے جیسے کسی گدھے پر کتابوں کا بوجھ لدا ہو۔ تحریر پر ایک بار پھر داد کے ساتھ۔ دُعا گو وی بی جی =http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic 8808.0
چوتھی مرغی
ُمحترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم مسنون بُہت ہی خوبصورت تحریر ہے۔ اپ ماشاهللا بُہت ہی گہری نظر رکھتے ہیں۔ اور پھر اپ کے پاس نہ صرف خیاالت کو الفاظ دینے کا ہُنر ہے بلکہ وہ طاقت بھی ہے کہ اپ کی تحریر پڑھنے واال نہ صرف قائل ہو جاتا ہے بلکہ ہمیں یقین ہے کہ اثر بھی لیتا ہے۔ ایک ُمعاشرتی مسئلہ کہ اپ نے کہاں ُمرغی سے شُروع کیا ہے اور کیسے تمام کہانی کے بعد اسے وہیں سمیٹا ہے۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ اپ کہاں :اسیلُ :مرغی پھروا رہے تھے جناب یہ تو ُمرغے لڑانے والوں کی پر چ ُھری ِ نظر میں :کفر :سے کم نہیں۔ اپ کی تحریر پڑھ کر کُچھ باتیں ذہن میں ائی ہیں ایک تو یہ کہ عام خیال ہہی ہے کہ پڑھنے لکھنے کا مطلب ہے رزق میں اضافہ اور یقین دہانی۔ ایک فارموال کہہ لیجے کہ ِجتنا ذیادہ پڑھا لکھا ہو گا انسان ،اُتنا ہی ذیادہ اُس کا رزق ہونا چاہیئے۔ اور دوسری بات یہ کہ جنگل کا قانون بُرا ہوتا ہے ،انسانوں کے قوانین اچھے ہوتے ہیں اور اُنہیں ہی رائج ہونا چاہیئے۔ رزق کے بارے تو ہمارا خیال ہے کہ اس کا کوئی فارموال نہیں
ہے۔ ہم نے تو یہی دیکھا کہ اگر کوئی شخص ہماری طرح اپنی تعلیمی اخراجات کی رسیدیں جنہیں ڈگریاں بھی کہتے ہیں لیئے پھرے ،چاہے کوئی بڑا سائنس دان ہو ،چاہے عالم ہو شاطر ہو، ِ رزق کا حقدار اس ناطے سے نہیں ٹھہرتا۔ اس کو بانٹنے کا قدرت کا اگر کوئی فارموال ہے تو ہمیں ٹھیک سے سمجھ نہیں ایا اج تک۔ ایک طرف تو دین کہتا ہے کہ رزق صرف هللا کے ہاتھ میں ہے ،دوسری طرف ۰۱۱بچے بھوکے مر جاتے ہیں۔ الزام ِکسے دیں؟ لے دے کر اگر رزق کا کوئی فارموال ہمیں دین سے مال ہے تو یہی ہے کہ صدقہ خیرات دو کہ یہ دوگنا ہو کر واپس ملے گا۔ جس کے پاس کُچھ نہ ہو وہ کیا کرے یہ کہیں نہیں ِمال۔ دوسری طرف اگر رزق هللا کے ہاتھ نہ ہو تو پورے ملک کو وہ بیرونی کمپنیاں کھا جائیں ،جو ایک ہی وقت میں نہ صرف کئی قسم کے صابن بنا کر اشتہاروں میں اپس میں لڑ کر دکھاتی ہیں بلکہ انہیں صابنوں کے دو نمبر بھی خود ہی بناتی ہیں کہ کوئی دوسرا فریق کیوں بنا کر کمائے۔ جنگل کے قانون سے ُمتعلق ہمارا خیال ہے کہ یہ انسان کی تعصب سے بھری ہوئی سوچ ہے کہ خود کو جانوروں سے بہتر سمجھتا ہے۔ انسان اشرف المخلوقات ہے لیکن یہاں انسان کی جو :تعریف :ہے وہ کُچھ اور ہے۔ اپ خود ہی سوچئیے کونسی ایسی بُرائی ہے جو جانوروں نے کی ہوں اور انسانوں نے وہ
بُرائی نہ کی ہو۔ اچھائیاں بُرائیں دونوں سوچ لیجے۔ ایک بھی ایسی نہ ملے گی۔ انسان ،انسانوں تک کا گوشت محوارتا ً نہیں بلکہ حقیقتا ً کھا رہا ہے۔ ادھر انسانوں کی وہ بُرائیں دیکھ لیجے جو جانوروں نے کبھی نہ کی ہوں۔ اتنی لمبی فہرست نکلے گی کہ ُخدا کی پناہ۔ سو ہمارا خیال ہے کہ اگر تعصب کو تھوڑا سا ایک طرف رکھ کر سوچا جائے تو جانور بدرجحا بہتر نظر ائیں گے۔ وہ تو معصوم نظر اتے ہیں ہمیں۔ جنگل کے قوانین میں شکار تبھی ہوتا ہے جب بھوک لگے۔ یہاں اُلٹا ُمعاملہ ہے، بھوک لگنے سے پہلے انتظام کرنا ہوتا ہے۔ بھیڑیے کی خصلت تھی کہ وہ کمزور پڑ جانے والے بھیڑیئے کو مل کھا جاتے ہیں۔ لیکن یہاں مل بانٹ کر بھی نہیں کھاتے۔ واہ رے انسان۔۔ سو صاحب جب تک دُنیا میں کمزور اور طاقتور موجود ہیں، کمزور کی گردن طاقتور کی دو انگلیوں میں رہے گی۔ یہ اصول ہم نے صرف انسانوں کے گھٹیا ُمعاشرے اور قوانین سے ہی سلجھے ہوئے اور ُمہذب نہیں اخذ کیا بلکہ جانوروں کے ُ ُمعاشرے اور جنگل کے قوانین سے بھی ثابت ہے۔ اپ کی تحریر بُہت خوب ہے۔ اُمید ہے اگر نا انصافی کو دُنیا سے ہم مٹا نہیں سکتے تو کسی حد تک کم کرنے کی ُجستجو تو کر سکتے ہیں۔ اور یہی اپ کر رہے ہیں۔ اپ کی یہ تحریر بھی اسی
کاوش کا حصہ ہے اور ُمقام رکھتی ہے۔ ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ ۔ ۔ ۔ دُعا گو وی بی جی
=http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic 8841.0
انا کی تسکین
ُمحترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم بُہت اچھی تحریر ہے ،داد قبول کیجے۔ (ہم :تحریر :اس لیئے کہتے ہیں کہ کم علمی کے سبب ،ہم :انشائیہ: ،:افسانہ :وغیرہم )میں تفریق کرنے سے قاصر ہیں
اپ نے فرمایا تھا کہ ہم خصوصی برتاؤ رکھتے ہیں تو جناب ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہم تو جیسا پڑھتے ہیں ویسا بیان کرتے ہیں۔ یہ اپ کی تحریریں ہیں جو ہمیں یہاں التی ہیں۔ اگرچہ اپ جانتے ہی ہیں کہ مصروفیات اج کے دور میں بُہت زیادہ ہو ُچکی ہیں۔ ایک وقت تھا کہ ایک :ابا جی :کماتے تھے اور سارا :ٹَبر :کھاتا تھا ،اور ایک یہ وقت ہے کہ :سارا :ٹَبر :کماتا ہے اور ایک :ابا کھال سکتا۔ سو ہماری حاضری کم رہتی ہے ،وجہ جی :کو نہیں ِ یہ بھی ہے کہ اپ کی تحریر کو سرسری نظر سے دیکھنا ،ہم سے ُممکن نہیں۔ یہ خود ہی توجہ چھین لیتی ہے۔ اپ کے شُکر ُگزار ہیں ہم کہ احباب اگر کم توجہ بھی دیں تو اپ ان تحریروں کو یہاں پیش کرتے رہتے ہیں ،اور کم از کم ہم اس سے استفاضہ کرتے رہتے ہیں۔ یہ تحریر بُہت تلخ محسوس ہوئی ،اور ایسا ہی ہونا چاہیئے تھا۔ ب قلم کو خود اس قدر الفاظ میں نفرت بھری ہے کہ جیسے صاح ِ بھی چوٹ پڑی ہو۔ ایک ُجملہ ہے اپ کا ،اس پر داد بھی قبول کیجے۔ اقتباس
بڑی اور شہرت یافتہ دکان سے‘ کھالنے پالنے کی صورت میں‘ فائل کی بلند پروازی پر‘ شاہین بھی شرمندہ ہو جاتا ہے۔
ہم لوگوں نے :حرام :پر تحقیق کی اور اس کی بھی کئی اقسام ُمرتب کیں۔ اقسام بھی دو قسم کے نقطہ نظر سے کی گئی ہیں۔ پہال نُقطہ نظر۔ ایک تو :اپنے لیئے حرام ،دوسرے کے لیئے حالل :اور :دوسرا :اپنے لیئے حالل ،دوسرے کے لیئے حرام جیسا کہ اپ کی تحریر نے بھی وضاحت کی ہے۔ دوسرا نقطہ نظر اگرچہ یہ اقسام بُہت ہیں لیکن ہم چیدہ چیدہ کا ذکر کئیے دیتے ہیں۔
پہلی قسم :اسے کبھی ُمسلمان اپنے لیئے حالل نہیں سمجھتے۔ : جیسے سور اور کُتے کا گوشت۔ ب طبیعیت استعمال کیا جا سکتا ہے۔ : دوسری قسم :اسے حس ِ جیسے شراب ،جؤا۔ تیسری قسم :ایسی چیزیں جنہیں کہنا تو حرام ہوتا ہے لیکن ان : کے استعمال پر کوئی پابندی نہیں ،بلکہ ترغیب دی جاتی ہے۔ سود ،کسی دوسرے ُمسلمان بھائی کا مال و زن۔ کُچھ جیسے ُ ُمفتی حضرات کے بھی ہم احسانمند ہیں کہ اُنہوں نے اس کو کئی اور نام دے کر نہ صرف عوام کو سہولت مہیا کی بلکہ خود بھی الکھوں روپے ماہانہ لے کر دین کی خدمت کر رہے ہیں۔ (ویسے ہم خود بھی ایسے ہی کسی ضمیر فروش ُمفتی کی تالش میں ہیں جو ہمیں روزہ میں سگریٹ پینے کی اجازت کا فتوی دے دے)۔ اپ کی تحریریں ایسی ہوتی ہیں کہ ہم اپنا رونے بیٹھ جاتے ہیں۔ اس پر معذرت بھی چاہتے ہیں۔ یہ تحریر پڑھ کر ہمارا نہیں خیال کہ کوئی پڑھے گا اور اثر نہ لے گا۔ ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ۔
دُعا گو وی بی جی
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8809. 0
گناہ گار
ُمحترم جناب مقصود حسنی صاحب! سالم مسنون ماشاهللا جناب یہ تحریر بھی بُہت خوب ہے۔ کمال یہ ہے کہ اپ اس قدر وسعت رکھتے ہیں کہ اپ کا لکھا جب پڑھا بالکل ُمختلف سا ہی ہوتا ہے اور یہ انفرادیت اپ کے قلم کی پہچان ہے۔ ہر بار ایک نئی اور علیحدہ دُنیا کی ہی سیر کرواتے ہیں۔ اس کے لیئے شُکر گزار بھی ہیں ہم اور اپنے ساتھ بھرپور داد بھی الئے ہیں
جو پی ِش خدمت ہے۔ رزق سے ُمتعلق چونکہ بات ہو رہی تھی سو ہم نے بُہت غور سے پڑھا اپ کے خیاالت کو۔ لیکن ایک فقرہ ہے جس کی تشریح ہم ٹھیک سے نہیں کر پا رہے ہیں۔ وجہ شائید اس فقرے میں موجود یہ الفاظ ہیں :تو وہ اس شخص کے اندر رزق فراہم درج ذیل ہے۔ کرنے کی قدرت رکھتا ہے :۔ فقرہ ِ انہوں نے‘ اس سے آگے فرمایا‘ کہ اگر انسان سے زمینی : استحصال پسند قوتیں‘ رزق چھین لیں‘ تو وہ اس شخص کے اندر‘ رزق فراہم کرنے کی قدرت رکھتا ہے‘ اور کوئی نہیں‘ جو :مزاحم آ سکے ُممکن ہے کتابت کی چھوٹی سی کوئی غلطی ہو لیکن چونکہ ہم خود کم فہم قسم کے شخص ہیں تو ذیادہ تر امکان اسی بات کا ہے کہ ہم اپ کے مفہوم تک نہ پُہنچ پا رہے ہیں۔ موالنا ازاد صاحب بُہت مثبت سوچ رکھنے والے شخص تھے، سنتے ہیں کہ ایک بار کسی نے اُن سے کہا کہ فِالں بادشاہ کے ُ
دور میں عورتیں کپڑے نہیں پہنتی تھیں بلکہ اپنے جسم پر کپڑوں کی سی تصویر (پینٹنگ) بنوا لیا کرتی تھیں۔ موالنا صاحب کا مثبت جواب دیکھیئے کہ فرمایا کہ اس بات سے اُس زمانے کے مصوروں کی فنی صالحیتوں کا پتہ چلتا ہے کہ کس قدر مہارت رکھتے تھے۔ تو صاحب رزق اور ُخدا سے مطعلق بھی ہمارا ایسا ہی مثبت اور سادہ وطیرہ ہے۔ اگر رزق مل جائے تو هللا نے دیا ،نہ مال تو حکومت یا ُمسلمانوں کی دین سے دوری ذمہ دار۔ اگر انعامی بانڈ نکل ایا تو هللا کا شُکر ،نہ ِمال تو اسی میں بھالئی تھی ،اپ ہی کی مثال سے دونوں پستانوں کا دودھ ‘ ذائقہ اور تاثیر میں‘ ایک سا نہیں ہوتا تو واہ کیا ہی خوب قُدرت کا کمال ہے اگر ایک سا ہے تو بھی واہ کیا ہی خوب قُدرت کا کمال ہے کہ دو الگ الگ پستانوں سے ایک سا دودھ ۔ دُنیا کو دیکھ کر اندازہ لگاتے رہتے ہیں کہ فالں کام اچھا ہؤا یا بُرا۔ اگر اچھا ہؤا ہے تو واہ هللا تیرا کمال ،اگر بُرا ہؤا تو شیطان مردود۔ هللا کا خوف ہے کہ کہیں کُچھ غلط منہ سے نکال تو نُقصان نہ اُٹھانا پڑے اس لیئے ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے ،کہ سوچتے پھریں کہ دُنیا میں جو ِجتنا کاال ہے اُتنا بدحال اور جو ِجتنا گورا ہے اُتنا خوشحال کیوں ہے۔ یا یہ کہ اُن کے حاالت کا ذمہ دار اُن کا رنگ ہے یا اُن کی رنگت اُن کی خوشحالی کی نسبت ٹھہری ہے۔
اپ کے خیاالت اس ُمعاملے میں بُہت اچھے ہیں اور مثبت ہیں، یہ اچھی بات ہے۔ افسانہ بھی بُہت خوبصورت ہے۔ هللا پاک اپ کے قلم کو مذید وسعت دے۔ ایک چھوٹی سی شکایت بھی ہے کہ اپ داد وصول کرنے کی بجائے داد دینے لگ گئے ہیں ):۔۔۔ ہمیں احتیاط کرنی پڑے گی۔ دُعا گو وی بی جی
جواب :گناہ گار جناب توجہ کے لیے بڑی بڑی مہربانی رزق اندر فراہم ہونے کے حوالہ سے صرف تین مثالیں عرض کرتا ہوں
حضرت عزیر علیہ السالم سو سال سوتے رہے۔ حضرت یونس علیہ السالم مچھلی کے پیٹ میں رہے۔ اصحاب کہف کئی سال غار میں سوئے رہے۔ هللا کریم کی ذات گرامی نے ان کے اندر رزق فراہم فرمایا۔ مقصود حسنی
ماشاهللا جناب۔ بُہت ہی خوب۔ ایک تو ہمارے علم میں اضافہ ہؤا کہ :رزق اندر :کے کیا معنی ہیں دوسرا اپ کے اس فقرے کے معنی جان کر بُہت اچھا لگا۔ واقعی وہ رزق دیتا ہے تو کہاں نہیں دیتا۔ توجہ اور رہنمائی کا شکریہ۔۔ دُعا گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8840. 0
ماسٹر جی
محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم مسنون بُہت اچھی تحریر جناب۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ اپ بات کرنے کا فن جانتے ہیں۔ خوبی یہ ہے کہ ُمعاشرے کے ایک تلخ رویئے کو اپ نے ایک چھوٹی سی کہانی میں سمو دیا ہے۔ اور پھر پُر اثر بھی ہے۔ پڑھ کر ہمیں کُچھ کُچھ محسوس ہؤا کہ ماسٹر جی شکل ہم سے کچھ ملتی ُجلتی سی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کو تلقین کرنا ماسٹر جی کا اصلی روپ ،یا اصلی چہرہ تھا۔ اور اُس پر کتنے ہی نقاب ڈال لیئے جائیں وہ اس سے بچ نہیں سکتے تھے۔ مذہب واال نقطہ بھی ۰۱۱فی صد دُرست ہے ،کہ اس میں ویسے ہی عقل کو ایک طرف رکھ دیا جانا ہوتا ہے سو ان معاملوں میں سمجھ کی ضرورت تو ہوتی نہیں۔ مولوی صاحب کے ساتھ بھی یہی ہؤا کہ ایک دن اصلی چہرہ سامنے ا ہی گیا۔ ہماری طرف سے بھروپر داد قبول کیجے۔
دُعا گو وی بی جی
shukarriya janab sachi baat to yah hai kah aap ke lafz mujhy bara hosla daite hain aur mein type karne baith jata hoon warna mare baad yah sab khuch raddi bikta. ab chalo kisi haad tak mehfooz to ho gya hai. mein ne socha hai afsanoon ka majmoa kayoon na lay a'oon yah chota ho ga pehla 1991 main, dosra 1992 jab'kah tisra 1993 main shya howa tha. on main 1969 se 1978 tak ke afsane shamil thay. pehloon ke naam zard khjil woh akaili thi jis hath main lathi khuch ka angraizi tarjama najam ne kya tha. ab prof arshad nadeem sahib tarjama ke
kaam main masroof hain. khair mein kya bai'fazool batain lay kar baith gya hoon dr maqsood hasni محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم اپ کی مہربانی جو یہاں پر اپنی تخلیقات پیش کرتے رہتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو ہم شُروع میں یہاں ائے تھے تو اپ کے لکھے کی طرف انا دُشوار سا لگتا تھا کہ لمبی تحریروں کو کون پڑھے اور وہ بھی توجہ مانگتی ہیں۔ پھر ایک ادھ بار پڑھا تو دل کو بُہت بھایا۔ پھر ان پر لکھنے کی ہمت نہ پڑتی تھی کہ صاحب ہماری داد کس الئق ہے اس قدر تفکر امیز تحریروں کے سامنے ،لیکن پھر ہم سے رہا نہیں گیا۔ اپ نے 0991کے بعد کوئی کتاب شائع نہیں کروائی ،وجوہات بھی ہونگی۔ لیکن ہماری درخواست یہی رہے گی کہ جہاں تک ہو سکے ،ہمیں ان سے مستفیض ہونے کا شرف دیتے رہیئے گا۔ داد و تحسین ،اپ جانتے ہی ہیں ،کہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ :ہم تو پکھی واس ہوویں :سو جانے یہاں کب تک ہیں ،لیکن یہ سلسلہ جاری رہے تو اچھا ہے۔ کوئی نہ کوئی ان سے استفاضہ حاصل کرتا رہے
گا۔ اپ جانتے ہی ہیں کہ انٹرنیٹ پر اگر کوئی چیز ۰۱۱لوگ پڑھتے ہیں تو ۰۱۱لوگ پسند بھی کرتے ہیں ،لیکن اپنی پسند کا اظہار فقط کوئی ایک ادھ شخص ہی کرتا ہے۔ بہار اتی ہے سنے۔ ایسے ہی اپ کے یہ سنے نہ ُ کویل کوکتی ہے ،کوئی ُ خوبصورت احساسات ہیں ،جو پڑھنے والوں کے زہنوں کو پختگی دیتے ہیں۔ مردہ ضمیر کو زندہ کرتے ہیں۔ اپ کو قدرت نے یہ صالحیت دی ہے کہ اپ کی تحریر صرف ایک قول کی طرح اچھا یا بُرا بتا نہیں دیتی ،بلکہ ضمیر کو جگاتی ہے۔ صرف اچھائی کی تغیب اور بُرائی چھوڑنے کی تلقین نہیں کرتی ،بلکہ اچھائی کرواتی ہے اور بُرائی کی طرف بڑھتا ہاتھ روکتی ہے۔ بقول ہمارے ہی کھولے نہ کھولے در کوئی ،ہے ُمجھ کو اس سے کیا میں چیختا رہوں گا تیرے در کے سامنے هللا پاک کا ہمیشہ کرم رہے اپ پر۔ دُعا گو وی بی جی
خدا جانے‘ یہ سب کس عالم میں لکھ گیا ہوں‘ لیکن وہ ہی لکھتا ہوں‘ جو میرا ضمیر کہتا ہے۔ اگر میرا لکھا‘ اچھائی کی ترغیب دیتا ہے‘ تو یہ هللا کریم کا‘ مجھ ناچیز پر‘ احسان اور کرم ہے۔ ہر کہا لکھا‘ زندگی کا تجربہ ہوتا ہے۔ اس سے استفادہ‘ انسان کو‘ کوئی ناکوئی‘ نئی راہ ضرور دکھاتا ہے۔ باقی منزل کا تعین‘ شخص کے اندر کا معاملہ ہے۔ ہاں کہا‘ سنا اور پڑھا جھنجھوڑتا ضرور ہے۔ میں خدا لگتی کہتا ہوں‘ آپ کے اندر‘ ایک صاف ستھرا اور نکھرا نکھرا نقاد‘ دیکھ رہا ہوں۔ اسے مرنے نہ دیں ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔بڑا غضب ہو گا۔ آپ اہل قلم کے ساتھ‘ زیادتی کریں گے۔ ہاں یاد آیا‘ یہاں ہی‘ کچھ اور افسانے ہیں‘ جو آپ کے مطالعہ میں نہیں آسکے۔ مثال جواب کا سکتہ آوارہ الفاظ زینہ ممتا عشق کی صلیب پر مائی جنتے زندہ باد هللا آپ کو آسانیوں میں رکھے۔ وی بی جی
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8855. 0
الروا اور انڈے بچے محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم ُمعافی چاہتے ہیں کہ بروقت حاضری نہیں دے سکے ،اور کُچھ تاخیر ہوئی۔ پڑھ تو ہم فورا ً ہی لیتے ہیں ،لیکن سمجھنے اور پھر کُچھ کہنے کے الئق ہونے میں وقت لگ جاتا ہے۔ اور سچ پوچھیے تو اس تحریر کے آخر میں جس طرح اس کا اختتام ہوتا ہے ،کافی سوچ بچار کرنی پڑتی ہے ،کہ الروے اور انڈے بچے سے ُمراد کیا ہے۔ بُرائی کے خالف تو کہانی کا ہیرہ نکال ہی تھا، اور انہیں الرووں کا خاتمہ چاہتا تھا ،پھر آخر یہ کیا کہانی ہوئی۔ کہانی لکھنے میں تو ویسے آپ کا جواب نہیں۔ اس میں تو پیچیدہ صورتیں بھی نظر آئیں ،جہاں لکھنے واال راستہ بھٹک کر کسی اور سمت نکل سکتا تھا ،لیکن بُہت خوبصورتی سے آپ
نے اسے اپنے مقصد کے محور میں رکھا ہے۔ ہم جہاں تک سمجھ سکے ہیں وہ یہی ہے کہ بُرائی انسان خود ہی ہے ،اور اسی کا خاتمہ بُرائی کو ختم کر سکتا ہے۔ شیطان کی غیر موجودگی کی مثال بھی خوب دی آپ نے کہ اس کی غیر موجودگی میں کس حد تک بُرائی بڑھ جاتی ہے۔ ایسی تحریروں کی جگہ ہم تو سمجھتے ہیں ،کہ نصابی کتابوں میں ہونی چاہیئے ،جہاں کردار سازی کی بہت ضرورت ہے۔ اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگ جتنا نُقصان پہنچا رہے ہیں ،ہم نہیں سمجھتے کہ ان پڑھ اتنا نُقصان پُہنچا بھی سکتے ہیں۔ پڑھ لکھ کر صرف تعلیمی اسناد حاصل ہوتی ہیں ،اور اس کے بعد بھی ایسی حرکتیں کرتے ہیں ،کہ شرم نام کی چیز پاس نہیں پھٹکتی۔ ہماری دُعا ہے کہ آپ کی کوششیں رنگ الئیں۔ ہماری طرف سے ایک بار پھر بھرپور داد قبول کیجے۔ دُعا گو وی بی جی
=http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic 8916.0
سچائی کی زمین
محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم جنب بہت عمدہ تحریر ہے۔ اپ نے کہانی کو نیا ُرخ دیا ہے اور کیا ہی خوب دیا ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ قُدرت کا نظام اپنے اپ کو خود ہی برقرار رکھتا ہے ،لیکن یہ بات بھی بجا ہے کہ انسان اس میں بُہت بگاڑ پیدا کرنے کے درپے ہے۔ اگرچہ اس بات کا یہاں تذکرہ کُچھ ضرری نہیں لیکن ہمارا طریقہ کُچھ ایسے ہے کہ قُدرتی نظام میں کم سے کم دخل اندازی کرتے ہیں۔ لوگ بھاگ کر بلی کے منہ سے چڑیا کا بچہ چھین لیتے ہیں ،جبکہ ہم صرف خاموشی اور خالی الذہن ہو کر دیکھتے رہتے ہیں۔ اگرچہ اس سے ہمارے اندر بُہت حد تک سفاکی پیدا کر دی ہے ،لیکن ہم نے قدرتی نظام کو اس قدر سفاک پایا ہے ،کہ بیان سے باہر ہے۔ جس نظام میں ایک کی موت دوسرے کی زندگی ہو ،اُس کا
عالج ہمارے پاس تو ہو نہیں سکتا۔ کئی بار خود کو سمجھاتے ہیں ،لیکن اکثر اپنی باتوں میں اتے نہیں ہیں ہم۔ دخل اندازی صرف اُس وقت روا جانتے ہیں ،جب کسی کی موت کسی کی زندگی نہ ہو۔ تحریر جان دار ہے ،سچائی اور اچھائی کا ساتھ دینے کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ ہماری طرف سے ایک بار پھر داد قبول کیجے۔ دُعا گو وی بی جی =http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic 8904.0
ابھی وہ زندہ تھا
محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم واہ واہ واہ جناب ،کیا ہی بات ہے۔ ہمیں تو ایسا لگا کہ ہمارے منہ کی بات ہی چھین لی ہو اپ نے۔ بے شک اپ کو بات بیان کرنے کا فن اتا ہے۔ جن الفاظ میں اپ نے ان تلخ حقیقتوں کو الئق صد تحسین ہیں۔ ہماری طرف سے بھرپور بیان کیا ہے وہ ِ داد قبول کیجے۔ یہ وہ حقیقتیں ہیں جو تمام لوگ جانتے اور سمجھتے ہیں ،لیکن انہیں زبان پر التے ہوئے شرماتے ہیں۔ حاالنکہ وہ حمام والی ضربالمثل خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ اپ نے کسی ٹوپی سالر کا ذکر بھی کیا ہے ،اور خوب کیا ہے۔ اب اپ کا کس طرف اشارہ ہے یہ کوئی سمجھے نہ سمجھے لیکن حقیقت اپنی جگہ ٹھوس حقیقت ہی ہوتی ہے۔ تحریر زبردست ہے اور طنز جس انداز میں کیا گیا ہے ،ہمیں یقین ہے کہ کئی لوگوں کا ضمیر جگا سکتی ہے۔ اس تحریر پر ہم ذیادہ اس لیئے بھی نہیں لکھ سکتے کہ اپ نے اس میں ہمارے کہنے والی ہر بات ہم سے کہیں بہتر انداز میں کہہ دی ہے۔
ہماری طرف سے بھرپور داد ۔۔۔ جناب۔۔۔ دُعا گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8895. 0
کریمو دو نمبری
محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم مسنون معذرت چاہتے ہیں کہ دیر سے حاضری ہوئی۔ بُہت خوبصورت تحریر ہے ،اور اپ کی اُن بہترین تحریروں میں
سے ایک ہے جن میں اپ کی اس صالحیت کا بھی پتہ چلتا ہے کہ اپ ڈرامہ بھی بُہت خوب لکھ سکتے ہیں۔ کہانی لکھنا جتنا اسان دکھائی دیتا ہے اُتنا اسان ہوتا نہیں۔ اپ کی خصوصیات ہیں کہ اپ کا قلم کسی دائرے میں مقید نہیں ہے۔ یہ صدیوں سے روایت چلی اتی ہے کہ بُرا کا انجام بُرا ہوتا ہے، کئی تحریرں لکھی گئی ہیں ،جن سے یہ تعلیم دی جاتی ہے۔ لیکن ذاتی طور پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا ہوتا نہیں ہے۔ ہم اوائل میں بچوں کو یہ سبق سکھانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن بڑے ہوتے ہی وہ تجربات سے سیکھ ہی جاتے ہیں کہ نیکی کا انجام اچھا تو ہوتا ہے لیکن صرف اُس کے حق میں جس کے ساتھ نیکی کی جاتی ہے۔ ہم مثالیں ڈھونڈتے ہیں ایسے لوگوں کی جن کا انجام بُرا ہؤا ہو ،اور اُن لوگوں کو بھول جاتے ہیں ،جو نیکی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ،یا وہ جو بُرائی کر کہ تا حیات کامیاب ہی رہتے ہیں۔ ہم خود بھی یہی کرتے ہیں ،کسی بات کو قُدرت کی طرف سے ازمائیش کے زمرے میں ڈال دیتے ہیں ،کسی نیک کے ساتھ بُرا ہو تو اُسے اُس کی کسی نامعلوم بُرائی کا نتیجہ قرار دے لیتے ہیں ،اگر کوئی بُرا دُنیا میں کامیاب رہے تو اس کی سزا اخرت پر موقوف کر دیتے ہیں۔ کیا کیجے، هللا کے ُمعاملے میں بھی جھوٹ کے بغیر چارہ نہیں۔
اگر ہماری کسی بات سے دل ازاری ہوئی ہو تو معذرت چاہتے ہیں۔ لیکن جو حال سو حاضر ہے۔ تحریر پر ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ دُعا گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8880. 0
معالجہ
محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم مسنون ہمیشہ کی طرح بُہت خوبصورت تحریر ہے۔ ایک عام سی کہانی سے اپ نے فکر امیز نتائج اخذ کیئے ہیں ،بلکہ سوچ کو اس ڈگر تک پُہنچا دیا ہے کہ انسان خود سوچ سکے ان باتوں پر۔
ہماری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ جیسے کہ ریت ٹھہری ہے کہ ہم اپنی سی رائے دیتے رہتے ہیں۔ خیاالت ہمارے بیکار سہی لیکن اپ کو اندازہ ہو جاتا ہو گا کہ کُچھ لوگ ایسا بھی سوچتے ہیں۔ تو اسی حوالے سے ہم اس تحریر کے اخری پیرائے کی طرف اتے ہیں۔ اقتباس بایو کیمک اصول کے مطابق‘ منفی کی درستی کے لیے‘ منفی رستہ ہی اختیار کرنا پڑے گا۔ منفی کا‘ اس کے سوا‘ کوئی اور معالجہ میری سمجھ میں نہیں آ رہا۔
ہمارا تجزیہ اس بارے یہ کہتا ہے کہ منفی کا عالج منفی سے ممکن ضرور ہے لیکن بُہت ہی کٹھن ہے۔ منفی اور منفی اپس میں مل کر بھی مثبت نہیں بن سکتے ،اور جیسا کہ ریاضی کا اصول ہے انہیں اپس میں :ضربیں :کھانی پڑتی ہیں اور نتیجہ تب ہی مثبت نکلتا ہے۔ منفی کو شکست صرف مثبت ہی سے
شرط اول مثبت کا مکمل مثبت ہونا ہے۔ ہوتی ہے ،لیکن اس کی ِ وگرنہ شکست الزم ہے۔ ہمیں یاد نہیں پڑتا کہ یہ کونسے مرزا صاحب تھے ،لیکن اُن سے کسی نے کہا تھا کہ صاحب! اپ کے بارے میں فالں صاحب نے بُہت سخت باتیں لکھی ہیں اپ کیوں خاموش ہیں ،اپ بھی لکھیئے کُچھ ،تو اُنہوں نے فرمایا تھا کہ :بھائی! اگر گدھا تُمہیں :الت مارے تو تم کیا کرو گے ہم نے اس پر کافی غور کیا۔ الت کا جواب الت سے دینا دُرست نہیں ہو گا کیونکہ الت مارنا گدھے کی خصلت ہے ،انسان التوں کے ُمقابلہ میں اُس سے جیت نہیں سکتا۔ ایسے ہی منفی کا مقابلہ کرنے کے لیئے منفی ہو جانا بُہت مشکل ہے۔ ہٹلر کی اپ نے مثال دی ہے۔ اگر اُس کو الکھوں لوگوں کے مرنے پر رحم نہ ا جاتا تو دُنیا کا نقشہ کُچھ اور ہوتا۔ اخر اُس کے اندر کی اچھائی کہیں سے اُبھر ہی ائی ،اور شکست کھانا پڑی۔ ایک مثبت کا منفی کے ُمقبالے میں ُمکمل منفی ہو جانا بُہت مشکل ہے۔ اس کی ایک اور مثال ہمارے دیرینہ دوست مرحوم شیخ سعدی کی ایک حکایت ہے کہ ایک بار ایک شخص کو پاؤں میں کُتے نے کاٹ لیا۔ بیچارہ رات
بھر تکلیف میں چیختا رہا۔ اُس کی معصوم اور ننھی سی بیٹی نے اُس سے کہا کہ بابا اگر کُتے نے اپ کو کاٹا تھا تو اپ بھی اُسے کاٹ لیتے۔ وہ اس تکلیف میں بھی ہنس پڑا اور کہا کہ بیٹی۔ میں یہ تو برداشت کر لوں گا کہ میرے سر میں تلوار گھس جائے لیکن یہ ُمجھ سے نہ ہوتا کہ کُتے کے غلیظ پاؤں میں میرے دانت گھستے۔ سو صاحب مثبت کے لیئے یہ بُہت ُمشکل یا تقریبا ً ناممکن ہوتا ہے کہ وہ منفی کا مقابلہ منفی ہو کر کر سکے۔ ہاں ،اسے شکل بدلنی پڑتی ہے اور اُس بدلی شکل کو منفی نہیں کہا جاتا ،بلکہ مثبت کہا جاتا ہے۔ اگر شکل نہ بدلے تو منفی اور منفی ایک صورت ہو جاتے ہیں۔ قسمت بڑی مزاحیہ ہوتی ہے صاحب! کہانی کے ہیرو کے دادا نے بھی اپنی سی کوشش کی تھی۔ کیا جانئیے ،کہ اس کی کوشش کامیاب ہو کر بھی ناکام ہو جائے اور حال ویسا ہی ہو جیسا کہ اس کے دادا جان کا ہؤا۔ پھر بھی ہم ان کو یہی مشورہ دیں گے کہ چاہے منفی ہی کیوں نہ ہونا پڑے ،انہیں اپنی بات منوانی چاہیئے۔ کل کو اس کی سزا ب ُھگتتے ہوئے یہ احساس تو
نہ ہوگا کہ کسی اور کے کیے کی سزا ب ُھگتنی پڑی۔ ایک اور مشورہ بھی ہے کہ ایک بار منفی ہونے کے بعد کامیابی اسی میں ہے کہ ہمیشہ منفی رہا جائے کیونکہ قدرت ،مثبت کی طرف لوٹنے والے کو کبھی معاف نہیں کرتی۔ ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ۔ دُعا گو vb jee http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8885.0
میں ابھی اسلم ہی تھا
ُمحترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم
واہ واہ واہ واہ ۔۔ جناب کیا ہی بات ہے۔ واہ کہاں کہاں نظر ہے جناب اپ کی ،یہ حالج اور حمادی کے فتوے کو کہاں لے ائے اپ۔ اپ بات کہاں سے شُروع کرتے ہیں اور کیسے اپنا مقصد بیان کر جاتے ہیں اس کے تو ہم قائل ہیں ہی۔ لیکن یہ جو لکھا ہے نا اپ نے کہ:۔ میرے اندر بھی‘ ارتعاش پیدا ہوا تھا‘ لیکن میں رقص نہ کر : سکا‘ میں اپنے آپے میں تھا۔ میں ابھی اسلم ہی تھا‘ ریحانہ نہیں ہوا تھا ۔اگر ریحانہ ہو گیا ہوتا‘ تو دنیا کی پرواہ کیے بغیر‘ :ملنگ بابے کے ساتھ رقص کر رہا ہوتا۔ کمال ہے جناب۔ ڈھیروں داد قبول کیجے۔ سچ ہے ،اگر منصور بھی ریحانہ نہ ہو گیا ہوتا تو حمادی کا بھی کہیں نام و نشان نہ ہوتا۔ یہ بھی دُرست ہے کہ منصور بھی اسی ملنگ بابے کی طرح اپے میں نہ رہا۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ
اسلم ہی: منصور کو اخری وقت پر پتہ چل گیا تھا کہ وہ بھی اور یہ خود کو: ریحانہ نہیں ہؤا تھا اور نہ ہو سکتا تھا،تھا ریحانہ سمجھنے سے اوپر کا درجہ تھا۔۔ ہماری طرف سے اس خوبصورت تحریر پر ایک بار پھر بھرپور داد جناب۔ دُعا گو وی بی جی
shukarriya janab Hussain al'maroof mansoor ne to dawa kya hi na tha aur yah baat rikard main mojood hai. aata aur hanif os ke pas qaid'khane gay aur kaha ya sheikh mazrat kar lo mansoor ne kaha jis ne kaha mazrat woh kare mein kayoon karoon
agar mansoor yah dawa karta to woh yaqinun faraoon hota. yah kaifiat dowani nahain hoti dawam to siraf aur siraf Allah ki zaat-e-garami ko hasil hai. insan ka her sanas pehle se mukhtalif hota hai. os ke jism main her lamha tabdili aati hai. issi tara soch aur jazbe bhi pehli halat par nahain rehte. os ki zoban main tabdili aati hai. phir yah kaise kaha ja sakta hai kah mansoor sa alim fazal shakhas is tara ka dawa kar sakta tha aur yah bhi kah woh hamaisha ossi kaifiat main raha. ilm main abu umr jaise log to os ki khak tak nahain ponchte. woh bala ka moqarrar nasar ustad aur shaer tha.
dr maqsood hasni محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم مسنون
پس منظر اپ کا علمی مراسلہ پڑھا اور خوشی ہوئی کُچھ تاریخی ِ جان کر اس کے لیئے شُکریہ قبول کیجے۔ اپ جس قدر علم رکھتے ہیں اور اپ کا جس قدر مطالعہ ہے اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے۔ ہم اس بارے میں جو خیال رکھتے ہیں وہ تھوڑا سا بیان کر دیتے ہیں ،کہ اپ کا وقت بھی نہ ذائع ہو اور خیال بھی اپ تک پہنچ جائے۔ اس پر غور کریں تو ُمعاملہ :وحدت الوجود :اور :وحدت الشہود: کے نظریات کی طرف چال جاتا ہے۔ ہمیں وحدت الوجود کے قائل صوفیا کرام کی اس قدر بڑی تعداد ملتی ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ اپ جانتے ہی ہونگے لیکن بات کے تواتر کے لیئے تھوڑا سا بیان کر دیتے ہیں کہ :وحدت الوجود :کا نظریہ یعنی "ایک ہو جانا" یعنی هللا تعالی کی ہستی میں گم ہو جانا۔ ۔اور :وحدت الشہود :سے مراد :ایک دیکھنا ہے :یعنی چاروں طرف :تو ہی تو :ہے واال معاملہ ہو جاتا ہے ۔ سالک ہر چیز میں جلوہ باری تعالی دیکھتا ہے۔ حضرت امام غزالی اور اُس کے بعد کے کئی صوفیا نے جو سالک کے لیئے منازل بیان کی ہیں یا :طریقت :بیان کی ہے اُس
میں انسان خود کو ہر نفسانی خواہش سے پاک کر کہ جب اس راہ چلتا ہے تو وہ ذکر کے دوران ایک بُہت بڑا منبع نور دیکھتا ہے ،اور خود کو اہستہ اہستہ اس میں جذب ہوتا محسوس کرتا ہے۔ اخر کار وہ خود کو ُمکمل طور پر اس کا حصہ محسوس ت کرتا ہے۔ تمام صوفیا اس پر متفق ہیں کہ انسان خود کو ذا ِ باری تعالی میں ضم ہوتا محسوس کرتا ہے اور خود کو خدا محسوس کرتا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی سے پہلے تک یہی نظریہ :وحدت الوجود :تھا اور اس مقام کو اخری اور سب سے اونچا ُمقام سمجھا جاتا تھا۔ اس نظریئے نے کئی مسلے پیدا کیئے کہ کئی لوگ راہ بھٹکے اور خود کو خدا سمجھنے لگ گئے۔ پھر مجدد الف ثانی نے :نظریہ وحدت الشہود :پیش کیا کہ صاحب اس سے اونچا ُمقام بھی موجود ہے۔ اس میں انسان خود ت باری تعالی سے الگ ہوتا محسوس کرتا ہے اور اخر کو ذا ِ اسے ہر طرف خدا نظر اتا ہے ،اور وہ خود کو خدا محسوس نہیں کرتا۔ حضرت مجدد الف ثانی فرماتے ہیں کہ کئی صوفیا اس درجے پر نہیں گئے اور انہیں تامرگ معلوم تک نہ ہؤا کہ وہ غلطی کر رہے ہیں۔ صرف منصور کے بارے وہ لکھتے ہیں کہ اخری ایام میں اسے علم ہو گیا تھا۔
ان باتوں کو م ِد نظر رکھتے ہوئے ہم نے جو اخذ کر رکھا ہے وہ یہ ہے کہ منصور چونکہ :وحدت الوجود :کا معتقد تھا اور :وحدت الشہود :کا نظریہ بُہت بعد میں ایا ،سو اس کا خود کو خدا سمجھنا یا کہہ دینا عین ممکن نظر اتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ عالم وجد میں کہی گئی بات سے اُس کا کیا ُمراد تھا ،وہ سب کو سمجھا پاتا یا نہیں۔ اُس کا علم الہامی تھا اور اس کے لیئے دالئل نہیں ہؤا کرتے۔ یہ ہمارا خیال ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے اتفاق ضروری نہیں۔ اُمید ہے اسی طرح اپ ہمیں بھی تاریخ کی کُچھ نہ کُچھ تعلیم دیتے رہیں گے۔ دُعا گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8872. 0
پٹھی بابا
ُمحترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم مسنون بُہت عمدہ جناب۔ اچھی تحریر ہے۔ ہمارے خیال کے ُمطابق ،یہ تو ایک عام سا ُمعاشرتی رویہ ہے کہ ہر :عاشق پُتر :کو ماں، بہن یاد کروائی جاتی ہے ،لیکن اپ نے اسی بات کو قدرے ُمختلف رنگ دیا ہے۔ جہاں :بابا حق ، :نا صرف دالئل کے ساتھ، دھیدو ،سکندر اور محمود کی بات کرتا ہے ،بلکہ کُچھ غلط العام پیمانوں کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے جن کے ذریعے دُنیا اچھا بُرا پہچانتی ہے۔ اپ کی بیش تر باتوں سے ہمیں اتفاق ہے۔ رانجھے کا قصہ (ہر وارث شاہ) پڑھیں تو حضرت رانجھا صاحب کا ،باغ میں ہیر اور اُس کی سہیلیوں کے ساتھ سلوک کا ،جو سکندر اعظم کے ذکر ملتا ہے ،وہ اپ کی بات کی تصدیق ہے۔ ِ بارے بھی ہمیں اپ سے اتفاق ہے ،اور یہ بات دُرست ہے کہ راجہ پورس کی اپنے ہی ہاتھیوں کے باعث شکست صرف اس لیئے صراحی جاتی ہے کہ ،ایک ہندو راجہ تھا ،یہ کوئی نہیں کہتا کہ اُس کی فوج نے اُس کے بعد مذید اگے جانے سے انکار کیوں کیا۔ محمود کے بارے ہم ذیادہ نہیں جانتے اس لیئے کُچھ کہہ نہیں سکتے ،لیکن جب اتنا کُچھ اپ نے دُرست کہا ہے تو یقینا ً اس کی تاریخ پر بھی اپ کی نظر ہو گی۔
دُنیاوی عشق کے بارے ہمارا خیال ہے کہ ،بقول بابائے نفسیات، فرائڈ کے ہر انسانی خواہش ،جنسی ہوس اور بھوک وغیرہ سب ایک ہی اشتہا کا نام ہے۔ جب تک دُنیا میں بھوک ہے ،اور جب تک شیر ،ہرن کو کھاتا رہے گا ،اس کو ختم نہیں کر سکتے۔ جب تک خواہشیں ہیں ،تکمیل کی کوشش انسان کرتا رہے گا اور یہی ترقی کا دوسرا نام بھی ہے۔ اب رہ یہی جاتا ہے ،کہ خواہشیں اگرچہ تمام ہی بُری ہیں ،لیکن ان کو اچھی اور بری اقسام میں تقسیم کیا جائے۔ بُری خواہشوں کو کم سے کم کیا جائے ،یا کم از کم ان کی تکمیل کرنے کی کاوش سے انسان کو روکا جائے۔ یہی اپ نے کیا ہے ،اور خوب کیا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ دُنیاوی ُمحبت ،عشق وغیرہ اپ کے کہنے کے ُمطابق ہی اصل میں جنسی ہوس ہی ہے ،یہی فرائڈ بھی کہتا ہے ،لیکن ہمارا خیال ہے کہ انسان نے یہ دیکھتے ہوئے کہ ،اس گھوڑے کو روکا نہیں جا سکتا ،اسے ُمحبت اور عشق جیسے پاکیزہ نام دے کر ،اس کی باگ موڑنے کی کوشش کی ہے۔ اور بُہت حد تک کامیاب بھی ہؤا ہے۔ یہ وہ طریقہ ہے جو مرد کو عورت اور عورت کو مرد پسند کرنے کی اجازت بھی دیتا ہے ،اور غالظت سے دور بھی رکھتا ہے۔ ہمارے نذدیک وہ تمام کہانیاں جو عشق و ُمحبت کی پاکیزگی بیان کرتی ہیں اور انسان کو اس بات پر امادہ کر دیتی ہیں کہ وہ انہیں خوبصورت جذبے کا نام دے کر ،برائی سے دور رہے ،وہ اس قدر غلط نہیں ہیں۔ سوائے اس ایک بات کے ،کہ وہ عشق اور محبت کی ناکامی کی صورت
میں ،انسان کو الغر اور بےکار بن جانے کی ترغیب دیتی ہیں۔ اس کو روکنا بُہت ضروری ہے۔ اب اس پر باقی کُچھ ہم کہہ نہیں سکتے ،کیونکہ ہم خود اُن لوگوں میں سے ہیں جو بقول شخصے یہ چاہتے ہیں کہ ہماری بیوی وہ کُچھ نہ کرے جو وہ چاہتے ہیں کہ پڑوسی کی بیوی ) :کرے۔ تحریر پر ایک بار پھر بھرپور داد۔ رواں رکھیں۔ انہیں پڑھ کر ہمیں بُہت فائدہ ہوتا ہے۔ کُچھ دیر سوچنے کا موقع ملتا ہے اور اپنے اپ کو پرکھنے کا بھی۔ دُعا گو وی بی جی =http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic 8863.0
بڑے ابا
ُمحترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم بُہت ہی خوبصورت تحریر ہے۔ جہاں اپ نے انسان کے بٹتے چلے جانے کی بات کی ہے وہاں یہ تحریر ایک دوسرے کے ساتھ ُمحبتوں کے ساتھ جینے کا بھی سبق دیتی ہے۔ تحریر میں موجود کرب کا احساس اسے اور زیادہ جاندار کر رہا ہے۔ واقعی صفر کا ہندسہ بُہت طاقت رکھتا ہے ،اور اپ نے اسے اپنے انداز میں بُہت خوبصورتی سے ُمعاملے کے ساتھ جوڑا ہے۔ صفر کے ساتھ صرف ایک کا اضافہ اسے بُہت طاقتور کر دیتا ہے اور خود بھی بُہت طاقتور ہو جاتا ہے بشرطیکہ کہ :صحیح سمت :میں اضافہ ہو۔ غلط سمت میں اگر ایک کا اضافہ ہو تو ایک ،ایک ہی رہتا ہے لیکن صفر اپنا وجود بھی کھو دیتا ہے۔ ایک کو چاہیئے کہ کوشش کرے کہ کئی صفروں کے ساتھ لگ جائے اور اسی طرح اپنی اور دوسروں کی قیمت میں اضافہ کرے۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ بُہت ہی عمدہ تحریر ہے۔
ہم نے انسان کے بٹنے کے عمل کو ایک اور نقطہ نظر سے بھی دیکھا ہے۔ شیکسپئر کے ُمطابق :ال دا ورلڈ از سٹیج :۔ اُنہوں نے انسان کی زندگی کے ادوار کو کردار دیئے ہیں ،جبکہ ہمارا خیال ہے کہ انسان ایک ہی وقت میں کئی کردار بھی نبھاتا ہے۔ باپ بھی ہے بیٹا بھی۔ دفتر میں ایک چہرہ تو رشتہ داروں کے سامنے کوئی اور چہرہ۔ کہیں اداب بھری محفل میں ایک مؤدب شخص تو دوستوں کے سامنے ایک گالم گلوچ والے انسان کا چہرہ۔ کہیں چاالک اور مکار تو مولوی صاحب کے سامنے عجز و انکسار۔ کہیں خوشی نہ ہوتے بھی ہنسنا پڑتا ہے تو کہیں کسی کو موت پر زبردستی رونے کی کوشش کرتا ہے۔ کردار نبھاتا ہے۔ اور انہیں کرداروں میں بٹتا بٹتا ،اپنا اصلی چہرہ بھول جاتا ہے۔ ایسا ہی ایک کردار یہ :وی بی :ہے جس میں ہمیں اپنا چہرہ نظر اتا ہے اور ہم اس کے ساتھ وقت ُگزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم نے اپ کی تحریر پڑھ کر زیادہ وقت نہیں لیا ،سو جذباتی سی چند باتیں جو ذہن میں اُبھریں بیان کر گئے ہیں ،جس پر معذرت بھی چاہتے ہیں۔ ائندہ کوشش کریں گے کہ اپ کی تحریر کے ساتھ زیادہ وقت ُگزاریں تاکہ جذبات کُچھ ٹھنڈے ہو جائیں اور ہم کُچھ عقل کو لگتی کہہ سکیں۔ اپ کی یہ تحریر بھی بُہت خوب ہے ،اور ہمیں یقین ہے کہ
پڑھنے والے اس سے ضرور اثر لیں گے۔ کیونکہ یہ جذبات اور احساسات سے لبریز ہے۔ ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ۔۔ دُعا گو وی بی جی =http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic 8844.0
بازگشت محترمی ڈاکٹر صاحب۔ آداب بہت عمدہ ۔ بہت لطف آیا ،سالمت رہیں آپ شکریہ
ضیا بلوچ http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8431. 0
فقیر بابا
مکرم بندہ حسنی صاحب :سالم مسنون آپ کا انشائیہ بہت دلچسپ ہے۔ آپ نے جس تنہائی کی کیفیت کا ذکر کیا ہے اس سے آج ساری دنیا آشنا ہے۔ انسان اب انسان کونہیں پہچانتا ہےجب تک کہ اس کی کوئی غرض کسی اور سے نہ اٹکی ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پچھلے زمانے میں سب لوگ بے غرض ہوا کرتے تھے اور اپنی طبیعت سے سب فرشتہ تھے۔ ایسا تو کبھی ہوا ہی نہیں ہے۔ اورنہ کبھی ہو گا۔ ہاں یہ ایک حقیقت ہے کہ اب خلوص ،انسانیت اور بھائی
چارہ پہلے سے کم ہو گیا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہ ہیں جن سے کم وبیش ہم سب واقف ہیں سو تفصیل ضروری نہیں ہے۔ یادش بخیر میرے بچپن میں آس پاس کے گھروں میں ،عزیزوں دوستوں میں ،گھر کی مائوں ،بہوئوں اور بڑی بوڑھیوں میں ملنا جلنا ،آنا جانا ،بے مقصد آ کر بیٹھ جانا اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونا اتنا عام تھا کہ آج کی تنہائی کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے۔ یہ عالم تھا کہ محلہ کا ہر بزرگ (اور غیر بزرگ!) اپنے آپ کو دوسروں کی اوالد کا ولی اور :ٹھیکہ دار: سمجھتا تھا۔ ایک واقعہ سناتا ہوں جو اس کیفہت کو خوب بیان کرتا ہے۔ ایک دن سڑک پر سگریٹ کا ادھا سلگتا ہوا دکھائی دیا۔ بچہ تو تھا ہی ،سوچاکہ اس میں کیا مزا ہوتا ہے جو لوگ منھ سے لگائے پھرتے ہیں۔ چنانچہ اٹھا کر ڈرتے ڈرتے ایک کش لیا اور کھانسی کے دھسکے سے کھوں کھوں کرتا ہوا اسے پھینک دیا۔ لیکن محلہ کے ایک بزرگ نے دیکھ لیا تھا۔ انہوں نے پاس آکر ایک ڈانٹ پالئی اور ایک ہلکا سا ہاتھ بھی رسید کیا اور پھر ہاتھ پکڑ کر ابا جان کی خدمت میں لے گئے کہ آپ کا بچہ سڑک پر سگرٹ پی رہا تھا۔ ابا جان مارتے نہیں تھے لیکن صاحب! ان کی چشم نمائی مار سے زیادہ تھی۔ انھوں نے الگ ڈانٹ نما آنکھ دکھائی اور بزرگ کا شکریہ ادا کیا۔ سچ مانئے کہ وہ دن اور آج کا دن میں نے پھر سگرٹ چکھی ہی نہیں۔ یہ وہ سماجی ماحول تھا جو بچوں کو بہت سی اچھی باتیں سکھا دیا کرتا تھا۔
اب موجود نہیں ہے اور ہماری تنہائی میں اضافہ کا باعث ہے۔ دوسری طرح کی تنہائی وہ ہے جس کا آج کل میں شکارہوں۔ امریکہ میں رہتا ہوں جہاں دوستوں کا کال ہے۔ سنا ہے کہ وطن عزیز میں بھی اب یہی معمول ہے۔ پھر طرفہ تماشہ یہ کہ ایسے چھوٹے قصبے میں رہتا ہوں جہاں بال مبالغہ ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے جس سے میں بات کر سکوں ،یعنی اپنے ذوق کی بات۔ بیکار باتیں کرنے کو یا سیاست اور مذہبی گفتگو کے لئے تو شاید کوئی مل جائے لیکن یہ میرا مسلک نہیں سو تن تنہا دن گزارتا ہوں۔ گویا زندگی قید تنہائی ہو کر رہ گئی ہے۔ آپ کی تحریر سے مستفید ہوا۔ هللا آپ کو خوش رکھے۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔ سرور عالم راز
mukarramee Hasnee saaheb:aadaab arz hai
aap kaa mazmoon :Faqeer Baba: paRh kar bohat khushee huwee. aap ke mazaameen maiN shauq se paRhtaa hooN kyoN keh in meN aap kee zindagee ke tajribaat hote haiN aur in se bohat kuchh seekhaa jaa saktaa hai. Faqeer Baba bhee aisee hee daastaan hai. aap kaa qalam bohat shiguftah hai aur aaj kal aisee tehreer kam dekhne meN aatee hai. aap se darKhwaast hai keh isee tarah ham logoN ko nawaazte rahiYe. shukriyah
khaadim
Mushir Shamsi ب عالی آپ کا یہ پُر مغز انشائیہ نظر نواز ہوا استفادہ کرتے ِ جنا ہوئے کچھ ذہن میں آیا سوچا پاگل کو مزید چھیڑا جائے میرا مطلب سمجھا جائے پا گل کے ایک معانی ہوتے ہیں جسے آپ نے فرمایا گل پانا یعنی بات کو سمجھ جانا بالکل اسی طرح چوں کہ گل پنجابی کا لفظ ہے اسے اسی معانی میں لیتے ہوئے گل
پائیے کہ گل پانا گلے میں ڈالنے کی اصطالح میں بھی لیا جاسکتا ہے اوراگر اردو کو شاعرانہ انداز میں الیا جائے تو گل پا گئے یعنی پاؤں گل گئے ان پاؤں گل گئے کو مزید بہتر بنانے کے لئے اسے اسطرح لیجئے کہ پائے گل گئے مگر پائے بھی دو طرح کے ہوتے ہیں بھینس کے بکری کے گائے کے بھیڑ کے ہمارے ہاں الہور میں پھجے کے مگر ساتھ سری بھی لگائیے پھجے کے سری پائے اور دوسری قسم کرسی کے میز کے چار پائی کے بھی ہوتے ہیں یہ دونوں اپنی اپنی شکل میں گل جاتے ہیں پہلی قسم کے پائے گل جانے سے کرسی پر جم کر بیٹھ کر کھائے جاتے ہیں مگر دوسری صورت میں کرسی دھڑام سے گر جاتی ہے کرسی کے پائے گل جانے کی وجہ سے اب اس گل پانے میں مزہ بھی ہے اور تکلیف بھی ہے یہ تو دراومدار کیفیت اور حاالت کا ہے کہ آپ کن حاالت اور کس کیفیت سے گزر رہے ہیں یہی سوچ کر میں چال آیا کہ پاگل کو پاگل کر دوں اسماعیل اعجاز
tovajo ke liay shukarriya janab aap jab bhi koee baat karte hai maza daiti
hai. gal pare to hi harkat wajood pakarti hai. harkat zindgi hai Allah aap ko khush rakhe maqsood hasni
جناب عالی محبت ہے آپ کے کہ مجھ پاگل کی گل آپ پا گئے اسی گل کو مزید پاگل کرنے کے لئے سوچا ہندی میں کچھ دان کردوں مگر اس بات کا ضرور دھیان رکھوں کے پاگل سے گل زبر کے ساتھ نکال کر گل پر پیش لگا کر گلدان کر دوں تو پھر پا کو کہاں لے جاؤں اس کے لئے دان سے کچھ دان لے کر پا سے پائے اور پائے میں دان مال کر پائیدان کردوں ،مگر پاگل کو میں اس بات کا پائے بند کردوں کہ پاگل پاگل ہوتا ہے اسی لئے پا کے لئے پاجامہ بنایا گیا مگر ہمارے شاعر بھائی کچھ اور ہی سوچتے ہیں بقول ان کے سنا ہے کہ انکی کمر ہی نہیں ہے نجانے پجمیا کہاں باندھتے ہیں اسماعیل اعجاز
shukarriya janab haqiqtan aap sachay sochay aur pakky fun'kar hain lafzoon ka istamaal khoob jantay hain. bohat khoob Allah mazeed jala ata farma'ay. lagta hai is baar aap lafz fun'kar se baat ka aghaz farmaein ge. aap ki khoub'surat farmanioon ka intazar hai. maqsood hasni
جناب محترم ڈاکٹر مسعود حسنی صاحب آداب و تسلیمات آپ کی کرم نوازی ہے سرکار کہ آپ نے مجھے فنکار کہا حاالں کہ میں ایک گمنام ویسے ہمارے ہاں فنکار بھی دو طرح کے ہوتے، قلمکار ہوں ہیں ایک فن کار اور دوسرے فن کار آپ سوچ رہے ہوں گے کہ
یہ دونوں تو ایک ہی ہیں یہی تو مسئلہ ہے کہ فن کار اور فن کار دونوں الگ الگ ہیں ایک فن کار ہوتے ہیں اور دوسرے فن کار ہوتے اس بات کا اندازہ خوب لگایا جا سکتا ہے جو ان کی ماہر فن کو کالہ سے جڑا ہوتا ہے فرق سمجھنے کا ہے کسی ِ آپ فن کار کہہ سکتے ہیں جس کا کام بولتا ہے جس کا ہنر بولتا ہے مگر ایسے بھی لوگ مجھ جیسے ہیں جو کچھ نہیں جانتے مگر باتیں خوب بناتے ہیں انہیں بھی فن کار کہا جاتا ہے کبھی کبھی لہجہ وہی رہتا ہے مگر معانی بدل جاتے ہیں جیسے کہ ایک صاحب فرمانے لگے ماں کسم ایسا ب َھینکر اجگر دیکھا ایسی بری طرح فن کار ِریا تھا کی میرے تو دماگ کے طوطے اڑ گئے ،آج کل طوطے پکڑ ِریا اسماعیل اعجاز http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8432. 0
بڑا آدمی
ُمحترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم مسنون یہ تحریر واقعی میں بُہت کرب رکھتی ہے۔ اور پھر اپ کے لکھنے کے انداز نے اسے بیش قیمت بنا دیا ہے۔ قاری کو ایسے جہان کی سیر کروا کر نتیجہ کی طرف التی ہے اثر روح تک اُتر جاتا ہے۔ پھر جس قدر اپ نے حاالت و واقعات لکھے ہیں اپ کے تجزیئے کی طاقت اور احساس کی وسعت اس سے ظاہر ہے کہ جیسے معلوم نہیں کتنا ہی قریب سے اپ نے یہ سب دیکھا ہے۔ ہمیں وقت کی کمی رہتی ہے ،لیکن اپ کے مضامین اور افسانے پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور بُہت پسند اتا ہے ہمیں اپ کا لکھا۔ دُعا گو وی بی جی
=http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic 8673.0
حاللہ جناب محترم ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب سالم مسنون پی ِش خدمت ہے بفس نفیس بولتی ہیں اپنے پاس ڈاکٹر صاحب آپ کی تحریریں ِ سے گزرنے والوں کو مخاطب کر کے کہتی ہیں کہ آؤ ہمیں پڑھو ہم سے کچھ سیکھو کچھ اخذ کرو ،یہ دل کو چھو لینے والی تحریر جو حقیقت سے قریب ترین معاشرے سے جڑے کرداروں کو بے نقاب کرتی ہوئی بہت سے سوال بہت سے باتیں ذہن میں پیدا کرتی ہوئی اپنے پڑھنے والے کو مجبور کر رہی ہے ۔ اظہار خیال ضروری میرے ذہن میں بھی کچھ باتیں آئیں جنکا ِ سمجھتا ہوں حالل و حرام کی پابندی و شرائط کب کہاں اور کس لئے کی بنیاد خالق کائینات کا مرتب کردہ ہے پر ان کا نفاذ حکمیہ طور پر ِ نکاح فرض ہے ،نکاح واجب ہے ،نکاح سنت ہے ،نکاح
مستحب ہے یہ وہ شکلیں ہیں جنہیں ہم جانتے ہیں مگر نکاح حرام ہے جی نکاح حرام ہے محرم کے ساتھ مگر نکاح نامحرم کہ جس سے نکاح حالل ہے حرام بھی ہے وہ اس صورت میں وق ذوجیت کہ جب کوئی ایسا شخص جو نکاح تو کرلے مگر حق ِ ادا کرنے کی صالحیت سے محروم ہو نامرد ہو تو ایسے شخص کا نکاح کہ جس کی منکوحہ اپنی جنسی ضرورت اور خواہش کو کسی اور ذرائع سے پورا کرے وہ بھی حرام ہے طالق دینا حالل ہے مرد کے لئے مگر تمام حالل کاموں میں یہ وہ حالل کام ہے جسے هللا باری تعالی نے ناپسند فرمایا ہے ، عورت کو طالق دینے کا حق حاصل نہیں ہے ہاں خلع لے سکتی ہے ،اگر عورت کو طالق کا اختیار دے دیا جاتا تو دن بھر میں بیسیوں بار طالق دے دیتی اپنے مرد کو ،مگر مرد اس معاملے میں صابر ہے اور بہت ہمت و برداشت واال ہوتا ہے شرعی طریقہ یہ ھے کہ عورت تین طالقوں کے بعد اگر دوبارہ پہلے شوھر سے نکاح کرنا چاھتی ھے تو وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے بغیر اس نیت کے کہ وہ پہلے کے لیے حالل ھونا چاھتی ھے ،پھر وہ شوھر اسے اپنی مرضی سے طالق دے،مگر اس نیت سے نہیں کہ وہ پہلے کے لیے حالل ھو جائے ،یا پھر وہ مرجائے،اس طرح عورت پہلے شوھر سے !!!نکاح کرسکتی ھے
لیکن جو حاللہ کا طریقہ ھمارے معاشرےمیں رائج ھو چکاھے،جوکسی بھی صاحب علم سے مخفی نہیں ھے{اس قسم کے لوگوں پر نبی لملسو ہلص نے لعنت کی ھے،یعنی حاللہ کرنے واال اور جس کےلیے کیاجائے ،آپ نےاسے کرائے کا سانڈ قرار دیا ھے}یہ ھےاندھی تقلید جس میں یہود ونصاری مبتالء تھےیعنی بغیر شرعی دلیل کےآنکھیں بند کرکےکسی چیز پر عمل کرنا۔ سنن ابوداود كتاب النكاح نکاح کے احکام و مسائل باب في التحلیل باب :نکاح حاللہ کا بیان۔ حدیث نمبر 6102 :
حدثنا أحمد بن یونس ،حدثنا زھیر ،حدثني إسماعیل ،عن عامر ،عن الحارث ،عن علي ،رضى هللا عنه -قال إسماعیل وأراہ قد رفعه إلى النبي لملسو ہلص -أن النبي لملسو ہلص قال "لعن هللا المحلل والمحلل له ". سیدنا علی رضی هللا عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم لملسو ہلص نے فرمایا ”حاللہ کرنے واال اور جس کے لیے کیا گیا ہے (دونوں) “ملعون ہیں۔ قال الشیخ األلباني :صحیح اسماعیل اعجاز
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8684.0
شیدا حرام دا
مکرم بندہ حسنی صاحب :سالم علیکم آپ کا انشائیہ پڑھا اور کچھ سوچ کر بیٹھ گیا۔ یہ مسئلہ کوئی آج کا تو نہیں ہے۔ یہ ہمارے معاشرہ کا ازلی المیہ ہے۔ ہم نماز، روزے ،حج کو اسالم کی ابتدا اور انتہا جانتے ہیں اور اس پیمانہ پر ہر ایک کو پرکھتے ہیں۔ سو تو ٹھیک ہے لیکن جب ایمانداری ،رشوت ،بد عنوانی ،حرام خوری کا مرحلہ آتا ہے تو سوائے "میرے" ہر شخص مجرم ہوتا ہے اور گردن زدنی۔ اپنے گریبان میں کوئی جھانک کر نہیں دیکھتا۔ پچھلے دنوں ہندوستان گیا تو ایک بزرگ (جو کہ عمر بھر کچہری میں صدر قانونگو رہے ہیں اور رشوت پر گزارہ ہی نہیں کیا بلکہ مکان دوکان بنوائے ہوئے ہیں) سے میں ملنے گیا۔ وہ اپنے صاحبزادے کو سمجھا رہے تھے کہ دفتر نہ جایاکرو۔ جب دوسرے نہیں آتے تو تم کیوں جاتے ہو۔ بس پہلی تاریخ کو جا کر تنخواہ لے آیا کرو۔ موصوف کے ہاتھ بھر سفید داڑھی ہے اور پنج وقتہ نماز پر سختی سے عامل ہیں ۔ میں نے جب ادب سے عرض کی کہ آپ اپنی اوالد کو حرام کام کے لئے تاکید کر رہے ہیں تو الٹے مجھ پر بگڑ پڑے کہ دنیا کرتی ہے تو ہم کیوں نہ کریں۔ عرض کیا کہ دنیا زنا کرے گی تو آپ بھی کریں گے اور ۔۔۔۔۔ کھائے گی تو وہ آپ بھی کھائیں گے؟ صاحب وہ ایسے بکھرے کہ هللا دے اور
بندہ لے۔ میں نے اپنی عافیت اسی میں جانی کہ اٹھ کر چال جائوں۔ اب امریکہ کی سنئے۔ میں یہاں تقریبا پچاس سال سے مقیم ہوں۔ هللا کو حاضر و ناظر جان کر کہتا ہوں کہ اس عرصہ میں نہ تو میں نے کسی کو ایک پیسہ رشوت دی اور نہ ایک پیسہ رشوت لی اور هللا کے فضل سے سرکاری اور غیر سرکاری سارے کام ہوتے چلے گئے اور آج بھی ہورہے ہیں۔ یہ ایک "کافر ملک" کا حال ہے اور وہ ایک "مسلم" مملکت کی کیفیت ہے۔ ببیں تفاوت رہ از کجاست تا بکجا۔ اورکیا عرض کروں۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔ سرور عالم راز
محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم مسنون اپ کی یہ تحریر کافی دن پہلے پڑھ لی تھی ،لیکن اپ کی تحریرں کُچھ ایسی ہوتی ہیں کہ اِن کا جھٹ سے جواب دینا نا انصافی معلوم ہوتا ہے۔ اسے تحمل سے پڑھنا ،اس پر سوچتے
رہنا اور پھر کہیں جا کر کُچھ کہا جا سکتا ہے۔ ہم تو پڑھ کر ایسے جذباتی ہوئے تھے کہ اگر اُسی وقت لکھنے بیٹھ جاتے تو جانے اس ُمعاشرے پر کیا کیا ِلکھ جاتے۔ بُہت جاندار تحریر ہے اور اتنے بڑے معاشرتی مسائل کو اپ کا اس چھوٹی سی تحریر الئق صد تحسین ہے۔ ہماری نا چیز داد قبول میں بیان کر دینا ِ کیجے۔ اس تحیر سے ُمتعلق لکھنا تو بُہت کُچھ تھا کہ :ہزار نُکتہ باریک تر زمو ایں جا ہست :لیکن اب قلم کو سنبھال لیا ہے ہم نے۔ اتنا کہنا چاہیں گے کہ ہمارے ہاں یہ تصور کر لیا گیا ہے کہ تعلیم سے تہذیب اور کردار سازی ہوتی ہے۔ حاالنکہ ہمارا خیال ہے کہ اب ایسا نہیں رہا۔ ہزاروں سال پہلے سے لے کر شائید تھوڑا عرصہ پہلے یعنی شیخ سعدی مرحوم کے زمانے تک شائید، کردار سازی تعلیم کی اولین ترجیح ہوتی تھی۔ اب صرف رٹہ رہ گیا ہے۔ اتنی فضولیات تعلیم کا حصہ بن گئی ہے۔ کردار سازی گھسی ِپٹی حکایات پڑھا دی جاتی ہیں جن میں کے لیئے چند ِ :پیاسا کوا :جب کنکریاں ڈالتا ہے تو ہمارا پہلی جماعت کا 2 سالہ بچہ بھی ہنستا ہے کہ کوا ایسا نہیں کر سکتا۔ پڑھ ِلکھ لینے سے کچھ نہیں ہوتا ،اہم یہ ہے کہ کیا پڑھا ہے۔ ہمارا تو خیال ہے کہ ُمسلمان سؤر بھی صرف اس لیئے نہیں کھاتا کہ کئی صدیوں سے نہیں کھایا اور اب کھا کر متلی ہو گی وگرنہ تو
شراب و سود بھی حرام ہیں۔ اور ہمارا یہ خیال بھی ہے کہ اب صرف ادیب ہی یہ کوششیں کر رہے ہیں ،اور انہیں بھی بُہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے اپ کا بُہت وقت لے لیا۔ جس پر معذرت چاہیں گے۔ تحریر پر ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ۔۔۔ دُعا گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8719.0