مقصود حسنی اور انگریزی زبان و ادب

Page 1

‫مقصود حسنی اور انگریزی زبان و ادب‬ ‫پیش کار‬ ‫پروفیسر نیامت علی مرتضائی‬ ‫ابوزر برقی کتب خانہ‬ ‫ستمبر ‪٦١٠٢‬‬


‫فہرست‬ ‫اردو کی آوازوں کا نظام اور الرڑ بائرن کی شعری زبانٹی‬ ‫اردو اور جان کیٹس کی شعری زبان‬ ‫ایس ایلیٹ اور روایت کی اہمیت‬ ‫انگریزی کے ہندوی پرلسانیاتی اثرات‬ ‫شاعری اور مغرب کے چند ناقدین‬ ‫انگریزی آج اور آتا کل‬ ‫قومی ترقی اپنی زبان میں ہی ممکن ہے‬ ‫انگریزی کے ہندوی پرلسانی اثرات‬ ‫ڈاکٹر اقبال اور مغربی مفکرین‬ ‫انگریزی دنیا کی بہترین زبان نہیں ہے‬ ‫میجک ان ریسرچ اور میری تفہیمی معروضات‬ ‫ہندوی کے انگریزی پر لسانیاتی اثرات‬ ‫‪The Idiomatic Association Of Urdu And English‬‬


‫اردو کی آوازوں کا نظام اور الرڑ بائرن کی شعری زبانٹی‬

‫ہندوی‘ المعروف اردو ہندی استعمال‬ ‫۔۔۔۔ بولی سمجھی لکھی پڑھی ۔۔۔۔‬ ‫میں آنے والی‘ دنیا کی دوسری بڑی اور پرانی زبان ہے‘‬ ‫جب کہ اپنے لسانیاتی نظام کے حوالہ سے‘ دنیا کی سب‬ ‫سے بڑی زبان ہے۔ لچک پذیری اور الفاظ گھڑنے میں اپنا‬ ‫جواب نہیں رکھتی۔ انگریز عہد کے سوا‘ اس کی کبھی‬ ‫سرپرستی نہیں ہوئی۔ انگریز نے بھی‘ فارسی کا پتا کاٹنے‬ ‫کے لیے‘ اس کی سرپرستی کی۔ اس اکیلی ہی کی نہیں‘‬ ‫دیگر مقامی زبانوں کی بھی حوصلہ افزائی کی۔ وقت‬ ‫گزرنے کے بعد‘ کیلے کے چھلکے کی طرح پرے دے‬ ‫مارا۔ اس زبان کی یہ بھی خاصیت ہے‘ کہ پورے برصغیر‬ ‫میں استعمال ہوتی ہے۔‬


‫یہ برصغیر کے سماج سے پھوٹی اور سماج ہی میں پلی‬ ‫بڑھی۔ یہ حد درجہ کی ملن سار ہے۔ پنجابی کے عالوہ‘ تین‬ ‫رسم الخط کی حامل زبان ہے۔ ماسی مصیبتے‘ اس وقت‬ ‫دنیا کی چودھرین بنی ہوئی ہے کہ اسے سیکھے اور‬ ‫جانے بغیر‘ ترقی کرنا ممکن ہی نہیں۔ اکثر سوچتا ہوں کہ‬ ‫بالجبر ہونے والے کام‘ کب منزل کو پہنچے ہیں۔ ہمارا بچہ‬ ‫انگریز پڑھتا ہوا‘ کر کرا کر بی اے پاس کر لیتا ہے۔ بڑی‬ ‫ہی چھالنگ لگائے گا‘ تو کسی منشی گاہ میں کلرک بادشاہ‬ ‫بن جائے گا۔‬

‫میں نے آج تک یہاں کے کسی انگریزی پڑھے کو‘ اباما‬ ‫کی سیٹ پر براجمان نہیں دیکھا‘ ہاں البتہ اباما کے کسی‬ ‫گماشتے کا چمچہ بن گیا ہو‘ تو یہ الگ بات ہے۔‬

‫ماسی مصیبتے سے گہرا رشتہ استوار کیے بغیر‘ ترقی‬ ‫ممکن نہیں۔‬ ‫بےشک اس سے بڑھ کر‘ کوئی احمقانہ اور گمراہ کن‬ ‫بات ہو ہی نہیں سکتی۔ میں نے اپنے اس لسانی مطالعہ‬


‫کے لیے زبان وفکر کے مستند شاعر الرڈ بائرن کو لیا‬ ‫ہے۔ مثالیں اسی کے کالم سے پیش کی گئی ہیں۔ اس‬ ‫مطالعہ کے دوران‘ کسی نوعیت کی لسانی عصیبت میرے‬ ‫پیش نظر نہیں۔ وہ ہی لکھا ہے‘ جو میری سمجھ میں آیا‬ ‫ہے۔ باور رہے‘ اردو میری زبان یا بولی نہیں رہی۔ میں اول‬ ‫تا آخر پنجابی ہوں‘ اس لیے کسی لسانی عصبیت کا سوال‬ ‫ہی نہیں اٹھتا۔‬

‫اردو زبان کے استعمال کا نظام پانچ قسم کی آوازوں پر‬ ‫‪:‬استوار ہے‬ ‫الپ پران ہلکی آوازیں‬ ‫اس میں الف سے ے تک آوازیں شامل ہیں۔‬ ‫انگریزی میں کچھ آوازیں شامل نہیں ہیں۔ ان کے لیے‬ ‫مرکب آوازیں استعمال میں الئی جاتی ہیں۔ یہ مرکب آوازیں‬ ‫پچیدگی کا سبب بنتی ہیں۔ جیسے شین کے لیے دس یا اس‬ ‫سے زائد مرکب آوازیں استعمال میں آتی ہیں۔‬


‫بعض آوازیں ایک سے زائد آوازیں پیدا کرتی ہیں۔ مثال سی‬ ‫کاف کی آواز بھی دیتی ہے۔ ایس سے زیڈ یعنی ز ذ ض ظ‬ ‫کی آواز بھی حاصل کی جاتی ہے۔‬

‫دوہری آواز‬ ‫‪Morn came and went--and came, and brought no day‬‬ ‫‪came‬‬ ‫کم میں‘ سی کاف کی آواز دے رہا ہے‬ ‫‪Nor age can chill, nor rival steal,‬‬ ‫‪can‬‬ ‫کین میں‘ سی کاف کی آواز دے رہا ہے‬ ‫‪As once I wept, if I could weep,‬‬ ‫‪once‬‬


‫وانس میں‘ سی سین کی آواز دے رہا ہے‬ ‫‪could‬‬ ‫کڈ میں‘ سی کاف کی آواز دے رہا ہے‬ ‫‪The palaces of crowned kings--the huts,‬‬ ‫‪palaces‬‬ ‫پلیسز میں‘ سین کی آواز دے رہا ہے۔‬ ‫‪crowned‬‬ ‫کراؤڈ میں‘ کاف کی آواز دے رہا ہے۔‬ ‫‪...............‬‬ ‫ایس سے سین کی آواز حاصل کی جاتی ہے۔ مثال‬ ‫‪Forests were set on fire--but hour by hour‬‬ ‫‪ set‬اور ‪Forests‬‬ ‫میں ایس سین کی آواز دے رہا ہے۔‬


Wore an unearthly aspect, as by fits aspect ‫میں ایس سین کی آواز دے رہا ہے۔‬ The habitations of all things which dwell, habitations things ‫میں ایس ذ ز ض ظ کی آواز دے رہا ہے‬ Happy were those who dwelt within the eye those ‫میں ایس ذ ز ض ظ کی آواز دے رہا ہے‬ To chase the glowing hours with flying feet. chase


‫میں ایس ذ ز ض ظ کی آواز دے رہا ہے‬ ‫‪They fell and faded--and the crackling trunks‬‬ ‫‪crackling trunks‬‬ ‫میں کے ک کی آواز کے لیے استعمال ہوا ہے‬ ‫‪And a quick desolate cry, licking the hand‬‬ ‫‪licking‬‬ ‫میں کے ک کی آواز کے لیے استعمال ہوا ہے‬ ‫‪..............‬‬ ‫بعض آوازوں کے لیے ایک مفرد آواز سے کام چالیا جاتا‬ ‫ہے۔ مثال ذ ز ض ظ کے لیے زیڈ کی آواز استعمال کی جاتی‬ ‫ہے جو غیر اردو دان کے لیے پچیدگی کا موجب بنتی ہے۔‬ ‫مثال‬ ‫‪zulm‬‬ ‫کو‬


‫ذلم‘ زلم‘ ضلم‬ ‫‪zaef‬‬ ‫کو‬ ‫ذعیف زعیف ظعیف‬ ‫‪zillat‬‬ ‫کو‬ ‫ضلت ظلت زلت‬ ‫‪rozeel‬‬ ‫کو‬ ‫روذیل روضیل روظیل‬ ‫بھی لکھا جا سکتا ہے تاہم سمجھنے تک معاملہ‬ ‫صاف رہتا ہے۔ ہاں لکھتے وقت‘ پچیدگی کا رستہ کھلتا‬ ‫ہے۔‬


‫اس مسلے کا تعلق آوازوں کے تبادلی نظام سے نہیں۔ یہ‬ ‫ایک کمی اور کم زوری کی طرف اشارہ ہے۔ رومن میں‬ ‫لکھتے وقت‘ اردو پشتو پنجابی عربی فارسی وغیرہ والے‘‬ ‫زیڈ سے کام چال لیں گے‘ لیکن لکھتے وقت پچیدگی تو‬ ‫پیدا ہو گی۔‬ ‫‪..............‬‬ ‫چ بڑی اہم آواز ہے‘ یہ آواز انگریزی کے حروف ابجد میں‬ ‫نہیں ہے‘ تاہم اس کے لیے انگریزی میں مرکب سی ایچ‬ ‫استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال‬ ‫‪ch‬‬ ‫‪And form so soft, and charms so rare,‬‬ ‫‪And they did live by watchfires--and the thrones,‬‬ ‫‪To watch it withering, leaf by leaf,‬‬ ‫شروع درمیان یا آخر میں‘ آواز چ دیتا ہے۔‬ ‫میونخ میں یہ مرکب خ کی آواز دیتا ہے۔‬


‫‪..............‬‬ ‫انگریزی میں آواز د موجود نہیں اس کے لیے مرکب ٹی‬ ‫ایچ استعمال میں آتا ہے۔ مثال‬ ‫‪There is an eye which could not brook‬‬ ‫‪The night that follow'd such a morn‬‬ ‫;‪Than see it pluck'd to-day‬‬ ‫‪And men forgot their passions in the dread‬‬ ‫‪The flashes fell upon them; some lay down‬‬ ‫اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انگریزی والے د کی آواز‬ ‫نکال سکتے ہیں تاہم د کے لیے یہ مرکب مستقل اور‬ ‫مستعمل نہیں۔ مخصوص لفظوں تک محدود ہے۔‬ ‫‪..............‬‬


‫انگریزی میں آواز شین موجود نہیں۔ اس کے لیے مرکب‬ ‫ایس ایچ استعمال میں آتا ہے۔ مثال‬ The flashes fell upon them; some lay down The feeble ashes, and their feeble breath Ships sailorless lay rotting on the sea, Blushed at the praise of their own loveliness. IS time the heart should be unmoved, .............. ‫اس کے عالوہ کئی مرکب‘ شین کی آواز کے لیے مستعمل‬ ‫ہیں‘ جو انگریزوں کے عالوہ انگریزی سے جبری متعلق‬ ‫لوگوں کے لیے‘ پچیدگی کے دروازے کھولتے ہیں۔ مثال‬ And men forgot their passions in the dread Of this their desolation; and all hearts


‫یہ معاملہ شین ش تک ہی محدود نہیں‘ سین کے ساتھ‬ ‫بھی‘ یہ ہی صورت حال درپیش ہے۔ مثال‬ ‫‪Immediate and inglorious; and the pang‬‬ ‫‪But with a piteous and perpetual moan,‬‬ ‫‪..............‬‬ ‫مرکب آواز جی ایچ اردو والے رومن میں غین کی آواز کے‬ ‫لیے استعمال کرتے ہیں۔ ئی اور ف کی آواز سے اس کا‬ ‫کوئی تعلق واسطہ نہیں۔ یہ مرکب آواز انگریزی میں‬ ‫مستعمل ہے۔ مفرد آواز ف کے لئے اس مرکب کا استعمال‬ ‫مالحظہ ہو۔‬ ‫‪It is enough for me to prove‬‬ ‫کئی الفظ میں‘ اس کی آواز دب بھی جاتی ہے۔ مثال‬ ‫‪HERE be none of Beauty's daughters‬‬ ‫‪..............‬‬


‫انگریزی میں ف کے لیے آواز ایف حروف ابجد میں‬ ‫موجود ہے۔ اردو میں کسی مفرد آواز کے لیے مرکب آواز‬ ‫کا استعمال رواج نہیں رکھتا۔ اس ذیل میں اس کا نظام الگ‬ ‫سے ہے۔ انگریزی میں اس کے لیے جی ایچ مرکب‬ ‫استعمال میں آتا ہے۔ اوپر اس کا مع مثال ذکر موجود ہے۔‬ ‫‪..............‬‬ ‫‪:‬دوہری آواز‬ ‫آ درحیقیقت‘ اردو کی مفرد اور ہلکی آوازوں میں شامل‬ ‫نہیں۔ انگریزی میں اکثر سنگل اے سے کام چالیا جاتا ہے۔‬ ‫اہل زبان کے لیے دشواری نہیں بنتی‘ ہاں البتہ غیر‬ ‫انگریزی طبقے کے لیے تلفظ میں مشکل پیدا ہوتی ہے۔‬ ‫مثال‬ ‫‪Wore an unearthly aspect, as by fits‬‬ ‫‪..............‬‬ ‫عالمتی آوازیں‬ ‫ان میں زیر زبر شد جزم‘ پیش وغیرہ شامل ہیں۔ اہل زبان‬


‫کے لیے اس کی مکتوبی صورت الزم نہیں۔ انگریزی میں‬ ‫واول وغیرہ جب کہ شد کے لیے ڈبل ساؤنڈ یعنی ایک ہی‬ ‫حرف لکھا جاتا ہے۔‬

‫شد اہم اور نمایاں ترین عالمتی آواز ہے۔ اس میں ایک لفظ‬ ‫ایک بار لکھ کر دو بار پڑھنے میں آتا ہے اور اپنی‬ ‫شناخت برقرار رکھتا ہے۔ اہل زبان بالعالمت اسے اس کے‬ ‫تلفظ کے مطابق پڑھ لیتے ہیں۔ مثال‬ ‫ذرہ‘ جنت‘ قوت‘ مجسم‘ اول‘ تصوف‬ ‫انگریزی میں‘ عالمتی آوازیں موجود نہیں ہیں اس لیے‘‬ ‫حرف کو دو مرتبہ رقم کر دیا جاتا ہے۔ دونوں آوازیں‘ اپنا‬ ‫وجود برقرار رکھتی ہیں۔ مثال‬ ‫;‪Like common earth can rot‬‬ ‫‪com mon‬‬ ‫‪The sun that cheers, the storm that lowers,‬‬


che ers Uphold thy drooping head; dro oping Hissing, but stingless--they were slain for food. His sing Immediate and inglorious; and the pang Im mediate And evil dread so ill dissembled, dis sembled, ..............


‫غنا کے لیے‘ ایک ہی آواز‘ دو مرتبہ باسلیقہ استعمال‬ ‫کرنے کا رجحان ملتا ہے۔ مثال‬ ‫تسلسل‘ مسلسل‘ تذبذب‬ Than thus remember thee! remember A moment on that grave to look. moment Swung blind and blackening in the moonless air; blackening The habitations of all things which dwell, habitations The brows of men by the despairing light


‫‪despairing‬‬ ‫‪..............‬‬ ‫اردو میں ایک ہی لفظ میں؛ ایک ہی آواز‘ تین مرتبہ‬ ‫استعمال کرنے کا چلن موجود ہے۔ دو بار مسلسل اور ایک‘‬ ‫عالمتی آواز شد کی مدد سے حاصل کی جاتی ہے۔ مثال‬ ‫مکرر‘ مقرر‘ مخفف‘ تشدد‬ ‫انگریزی میں یہ طور نہیں ملتا۔ ہاں البتہ‘ ایک لفظ میں‬ ‫ایک آواز کا تین بار استعمال نظر آتا ہے۔ مثال‬ ‫‪And the eyes of the sleepers waxed deadly and chill,‬‬ ‫اصل لفظ‬ ‫‪sle‬‬ ‫ہے‬ ‫مستعمل‬ ‫‪sleep‬‬


‫ہے‬ ‫‪er‬‬ ‫کی بڑھوتی‬ ‫حالت کی وضاحت کے لیے ہوئی ہے۔‬ ‫‪And when they smiled because he deemed it near,‬‬ ‫‪..............‬میں زمانے کی وضاحت کے لیے استعمال ہوا ہے۔‬ ‫انگریزی میں ایک آواز کو؛ ایک ہی لفظ میں‘ ایک جا‘‬ ‫استعمال کا چلن موجود ہے‘ لیکن ان کی الگ سے‬ ‫شناخت‘ موجود نہیں‘ ہاں البتہ آواز میں زور‘ آہنگ اور‬ ‫غنا میں ہر چند اضافہ ضرور ہو جاتا ہے۔ مثال‬ ‫‪The flower in ripen'd bloom unmatch'd‬‬ ‫‪As stars that shoot along the sky‬‬ ‫‪And men forgot their passions in the dread‬‬ ‫‪The feeble ashes, and their feeble breath‬‬


‫‪..............‬‬ ‫بھاری آوازیں یعنی مہاپران‬ ‫یہ خاص برصغیر کی آوازیں ہیں۔ سنسکریت سے حاصل‬ ‫کی گئی ہیں۔ یہ تعداد میں بہت زیادہ ہیں‘ لیکن اردو میں‬ ‫چند ایک مستعمل ہیں۔ یہ آوازیں انگریزی میں نہیں ہیں۔‬ ‫جہاں کہیں ان کا استعمال ہوا ہے‘ مرکب آواز کی صورت‬ ‫میں ہوا ہے۔ اس کی جڑ ھ ہے۔ ابتدا میں باقاعدہ آواز کی‬ ‫جڑت ہو جاتی ہے۔‬ ‫اردو کی بھاری آواز ت ھ تھ انگریزی میں عام استعمال‬ ‫کی ہے اور غالبا ادھر ہی سے گئی ہے۔ نمونہ کے چند‬ ‫الفاظ مالحظہ ہوں‬ ‫‪,Though Earth receiv'd them in her bed‬‬ ‫‪The loveliest things that still remain,‬‬ ‫‪Through dark and dread Eternity‬‬ ‫‪Rayless, and pathless, and the icy earth‬‬


‫‪All earth was but one thought--and that was death‬‬ ‫‪bh jh dh rh gh kh ph‬‬ ‫مرکبات رومن اردو لکھنے والوں کی ضرورت ہیں۔‬ ‫‪..............‬‬ ‫غیر مشمولہ آواز‬ ‫ں‬ ‫حروف ابجد میں شامل نہیں‘ لیکن اس کا جمع بنانے کے‬ ‫عالوہ بھی‘ بڑی کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ انگریزی‬ ‫میں یہ آواز موجود نہیں ہے۔ انگریزی میں‘ ڈبل او این کا‬ ‫استعمال ملتا ہے لیکن آواز کو گوالئی اور دائرہ نہیں میسر‬ ‫آتا۔ دوسرا این کی آواز ڈبل او میں مدغم نہیں ہوتی۔‬ ‫‪..............‬‬ ‫مرکب آوازیں‬

‫اردو میں بہت سی مرکب آوازیں مستعمل ہیں۔ انگریزی کا‬


‫دامن مرکب آوازوں سے تہی نہیں لیکن اردو اس معاملہ‬ ‫میں بہت فراخ ہے۔ مرکب آوازوں میں‘ سابقے الحقے‬ ‫وغیرہ شامل ہیں‘ جو حالت اور صیغے کی تبدیلی کے لیے‬ ‫لفظ کا حصہ بنا دیے جاتے ہیں۔ اس ذیل میں چند ایک‬ ‫مثالیں مالحظہ ہوں۔‬ ‫کر‬ ‫پیکر‘ دنکر‘ منافکر‘ ہیکر‬ ‫‪The worm, the canker, and the grief‬‬ ‫گر‬ ‫جادوگر‘ کاریگر‬ ‫‪Till hunger clung them, or the dropping dead‬‬ ‫ار‬ ‫ارضی‘ ارکان‘ ارشی‬ ‫عرشی‬ ‫‪With silence and tears.‬‬


Like the swell of Summer's ocean. ‫کن‬ ‫کارکن‘ کان کن‬ Were burnt for beacons; cities were consum'd, ‫ری‬ ‫کراری‘ گراری‘ ہتھاری‬ Of cloudless climes and starry skies; Where glory decks the hero's bier, Than thus remember thee! Returns again to me, ‫ٹی‬ ‫پھینٹی‘ بالٹی‘ کانٹی‬ ‫ہٹی‘ ٹٹی‬


‫بتی‘ پتی‬ ‫درانتی‬ ‫‪Through dark and dread Eternity‬‬ ‫ور‬ ‫زیور‬ ‫طاقت ور‬ ‫وردان‬ ‫‪There flowers or weeds at will may grow,‬‬ ‫بی‬ ‫باادب‘ باوقار‘ باجماعت‬ ‫بیمار‬ ‫بےکار‘ بےزار‘ بےوقوف‬ ‫یائے مصدری اضافے سے‬ ‫خراب ی خرابی‘ شراب ی شرابی‘ کباب ی کبابی‬


So I behold them not: ‫ان‬ ‫ان تھک‘ ان گنت‘ انجان‬ ‫عنقریب‬ Wore an unearthly aspect, as by fits IS time the heart should be unmoved, Though by no hand untimely snatch'd, ‫گھٹن‬ ‫باطن‬ ‫سوتن‬ And shivering scrap'd with their cold skeleton hands ‫ئی‬ ‫سالئی کڑھائی‬


‫‪Shine brightest as they fall from high.‬‬ ‫‪My tears might well be shed,‬‬ ‫ایسی؛ بہت سی مرکب آوازیں موجود ہیں‘ یہاں باطور نمونہ‬ ‫چند آوازیں درج کی گئی ہیں‘ تا کہ دونوں زبانوں کی لسانی‬ ‫قربت اور اردو کے آوازوں کے نظام کا‘ محدود سہی‘ کسی‬ ‫حد تک تھوڑا بہت اندازہ ہو سکے۔‬

‫اردو اور جان کیٹس کی شعری زبان‬

‫‪Born: October 31, 1795,‬‬ ‫‪Moorgate, City of London,‬‬ ‫‪United Kingdom‬‬


‫‪Died: February 23, 1821,‬‬ ‫‪Rome, Italy‬‬

‫انسان ایک دوسرے کے قریب آئے یا نہ آئے یا مفاد‬ ‫پرست عناصر‘ ان میں دوریاں پیدا کیے رکھیں‘ اس کے‬ ‫باوجود اس کی نفسیات‘ سماجیات اور معاشیات میں قربت‬ ‫رہتی ہے۔ نظریاتی اور امرجاتی حوالہ سے‘ کوسوں دور‬ ‫رہ کر بھی‘ ان تینوں کے زیر اثر‘ ایک دوسرے کے قریب‬ ‫رہتا ہے۔ مزدور سیٹھ کی مجبوری ہے اور سیٹھ مزدور کی‬ ‫کم زوری ہے۔ دوکان دار گاہک کے ساتھ اور گاہک دوکان‬ ‫دار کے ساتھ منسلک ہیں۔ دکھ سکھ میں‘ تنہائی کاٹنے کو‬ ‫دوڑتی ہے۔ اس‬ ‫وقت دشمن کی سانجھ بھی‘ مداوے کا کام کرتی ہے۔‬

‫جب انسان ایک دوسرے سے نفسیات‘ سماجیات اور‬ ‫معاشیات کے حوالہ سے‘ قربت رکھتے ہیں‘ تو زبانیں کس‬


‫طرح ایک دوسرے سے دور رہ سکتی ہیں۔ کسی نہ کسی‬ ‫سطع پر‘ ان میں لسانیاتی قربت موجود ہوتی ہے۔ اس‬ ‫ناچیز تحریر میں‘ انگریزی کے رومانوی شاعرجان کیٹس‬ ‫کی زبان کا‘ اردو کے تناظر میں‘ لسانیاتی مطالعہ کرنے‬ ‫کی کوشش کی گئی ہے۔ هللا کرے‘ میری یہ حقیر کوشش‬ ‫احباب کے کام کی نکلے۔‬

‫مرکب آواز ری‘ اردو میں مستعمل ہے۔ آخر میں رے آنے‬ ‫والی آواز کے بعد‘ یائے مصدری بڑھا کر‘ لفظ کی مختلف‬ ‫صورتیں اور حالتیں بنا لی جاتی ہیں۔ مثال‬

‫صفتی‪ :‬بھاری‘ ساری‘ کاری‘ عاری‬ ‫فعلی‪ :‬جاری‘ اتاری‘ ماری‬ ‫اسمی‪ :‬آری‘ ہاری‘ کیاری‘ الری‬

‫باور رہنا چاہیے اردو میں اس کا باطور مرکب آواز‬


‫استعمال نہیں ہوا۔‬ ‫باطور سابقہ استعمال ملتا ہے۔ مثال‬ ‫ریحان‬ ‫‪:‬اس کی دو صورتیں ہیں‬

‫ری حان‘ ریح ان‬ ‫ریح ان‪ :‬انس ان‘ شیط ان‬ ‫ری حان میں باطور صفتی سابقہ ہے۔‬

‫انگریزی میں بھی باطور صفتی سابقہ استعمال میں آتا ہے۔‬ ‫‪:‬جان کیٹس کے ہاں اس کا استعمال مالحظہ ہو‬ ‫‪Never have relish in the faery power‬‬ ‫تر‪ :‬اردو میں صفت کی دوسری حالت بیان کرنے کے لیے‬ ‫باطور الحقہ استعمال میں آتا ہے۔ مثال‬


‫تر‪ :‬خوب تر‘ قریب تر‘ عظیم تر‬ ‫بدتر‬ ‫انگریزی میں‘ ت کی آواز موجود نہیں اس کی متبادل آواز‬ ‫ٹ ہے‘ اس لیے تر کی بجائے ٹر استعمال میں آتا ہے۔ ٹر‬ ‫اردو ہی کی طرح‘ اسی طور سے‘ صفت کی دوسری حالت‬ ‫واضح کرنے کے لیے‘ باطور الحقہ استعمال میں آتا ہے۔‬ ‫‪:‬جان کیٹس کے ہاں اس کا استعمال مالحظہ ہو‬ ‫;‪Are sweeter; therefore, ye soft pipes, play on‬‬ ‫ان نہی کا سابقہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سنسکرت سے آیا‬ ‫ہے۔ جو بھی سہی‘ اردو میں عام استعمال ہوتا ہے۔ جیسے‬

‫ان‪ :‬ان پڑھ‘ ان تھک‘ ان جان‘ ان حد‘ ان گنت وغیرہ‬ ‫انگریزی میں بھی یہ سابقہ نہی کی تفہیم کے لیے عام‬ ‫استعمال میں آتا ہے۔ جان کیٹس کے ہاں اس سابقے کا‬ ‫استعمال مالحظہ ہو۔‬ ‫‪ -un‬ان‬


‫‪Thou still unravish'd bride of quietness,‬‬ ‫‪Heard melodies are sweet, but those unheard‬‬ ‫‪And, happy melodist, unwearied,‬‬ ‫‪That I might drink, and leave the world unseen,‬‬ ‫‪Of unreflecting love;--then on the shore‬‬ ‫‪Heard melodies are sweet, but those unheard‬‬

‫انگریزی لفظ ہائی ہا کے ساتھ ئی الحقے کی بڑھوتی سے‬ ‫ترکیب پایا۔ مرکب آواز جی ایچ سے ای کی آواز پیدا کی‬ ‫گئی ہے۔ یہ انگریزی کا اپنا اسلوب تکلم نہیں۔ بہرطور ہا‬ ‫کے لیے باال مترادف ہے جب کہ ئی کا الحقہ اردو میں بھی‬ ‫موجود ہے۔ مثال‬ ‫ہائی ‪ :‬باالئی‬ ‫مزید کھائی الئی پائی گائی سالئی‬


‫جان کیٹس کے ہاں ہائی کا استعمال مالحظہ ہو‬ ‫‪That leaves a heart high-sorrowful and cloy'd,‬‬

‫الحقہ کر فاعل کی ترکیب کے لیے استمال آتا ہے۔ مثال‬ ‫کر‪ :‬دنکر‘ پربھاکر‘ بھیانکر‘ عطاکر‘ جادوکر‘ محاکاتکر‬ ‫یہ الحقہ اسی مقصد کے لیے انگریزی میں بھی مستعمل‬ ‫ہے۔ جان کیٹس کے ہاں اس الحقے کا استعمال مالحظہ ہو۔‬

‫‪Bold Lover, never, never canst thou kiss,‬‬ ‫‪And sometimes like a gleaner thou dost keep‬‬

‫اس الحقے کی ترکیب و استعمال کا چلن اردو سے قطعی‬ ‫مختلف نہیں۔‬


‫انسانی موڈ و مزاج سے میل کھاتے طور‘ انداز اور رویے‬ ‫کے اظہار کے لیے‘ سے کی بڑھوتی کرتے ہیں۔ جیسے‬ ‫الفت سے شفقت سے‘ غضب سے‘ قہر سے‘ محبت سے‬ ‫اس کے لیے الحقہ یہ بھی بڑھاتے ہیں۔ مثال‬ ‫شوقیہ‘ مذاقیہ‘ ذوقیہ‬ ‫اس کے لیے‘ سابقہ بہ بھی استعمال میں آتا ہے۔ جیسے بہ‬ ‫مشکل بہ قدر بہ حیثیت‬ ‫انگریزی میں لی الحقہ پیوست کرتے ہیں۔ اردو لفظ گھڑنے‬ ‫میں اپنا جواب نہیں رکھتی۔ جیسے لفظ ٹربالت سننے میں‬ ‫آیا ہے۔ لی الحقہ بڑھانے سے یہ لفظ کچھ یوں ترکیب پائیں‬ ‫گے۔‬ ‫الفتلی ‘ شفقتلی ‘ غضبلی ‘ قہرلی ‘ محبتلی‬ ‫اردو سابقہ لی سے تہی نہیں۔‬ ‫جھولی‘ کھولی‘ سولی‘ شرلی‬ ‫بریلی‘ حویلی‬


‫معروف نحو‪ :‬اکیلی‬ ‫اصل نحو‪ :‬ایکلی‬ ‫‪:‬جان کیٹس کے ہاں الحقہ لی کا استعمال مالحظہ ہو‬ ‫‪A flowery tale more sweetly than our rhyme:‬‬

‫اردو میں ور عام استعمال کا الحقہ ہے۔ مثال طاقت ور‘ دیدہ‬ ‫ور‪ -‬باور‬ ‫انگریزی میں بھی یہ الحقہ مستعمل ہے ۔ مثال میں جان‬ ‫کیٹس کی یہ الئین مالحظہ ہو۔‬

‫‪Never have relish in the faery power‬‬

‫لفظ کے ساتھ سابقہ اور الحقہ ایک ساتھ استعمال کا اردو‬ ‫میں چلن موجود ہے۔ مثال‬


‫ہمنوائی‪ :‬ہم نوا ئی‬ ‫بےوفائی‪ :‬بے وفا ئی‬ ‫روسیاہی‪ :‬رو سیاہ ی‘ رو سیا ہی‬ ‫المتناہی‪ :‬ال متناہ ی‘ ال متنا ہی‬

‫یہ طور انگریزی میں موجود ہے۔ جان کیٹس کے ہاں یہ‬ ‫‪:‬چلن مالحظہ فرمائیں‬ ‫‪No -yet still steadfast, still unchangeable,‬‬ ‫‪un change able,‬‬

‫اردو میں تشبیہ‘ حسن شعر میں نمایاں حیثیت کی حامل‬ ‫ہے۔ کسی شے‘ جگہ‘ شخص اور معاملے کو اجاگر اور‬ ‫نمایاں کرنے میں‘ بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے۔ انگریزی‬ ‫شاعری میں اس کا اسی غرض اور طور سے استعمال ملتا‬


‫‪ like‬ہے۔ حرف تشبیہ میں کا سا‘ جیسا‘ کی طرح کے لیے‬ ‫استعمال میں آتا ہے۔ جان کیٹس نے بھی اس حسن شعر‬ ‫سے‘ باکثرت کام لیا ہے۔ اس ذیل میں چند مثالیں مالحظہ‬ ‫فرمائیں۔‬

‫‪Forlorn! the very word is like a bell‬‬ ‫‪Like Nature's patient sleepless Eremite,‬‬ ‫;‪Hold like rich garners the full ripen'd grain‬‬

‫مرکبات کی تشکیل زبان کی بہت بڑی خدمت ہے۔ اردو شعرا‬ ‫کے ہاں کئی طرح کے مرکبات ترکیب پائے ہیں۔ انگریزی‬ ‫شاعری میں یہ چلن عام ملتا ہے۔ جان کیٹس کی شاعری‬ ‫سے چند مثالیں مالحظہ ہوں۔‬


Not to the sensual ear, but, more endear'd, Fair youth, beneath the trees, thou canst not leave To what green altar, O mysterious priest, Or mountain-built with peaceful citadel, Is emptied of this folk, this pious morn? O Attic shape! Fair attitude! with brede Of marble men and maidens overwrought, With forest branches and the trodden weed; Thou, silent form, dost tease us out of thought And haply the Queen-Moon is on her throne, Where beauty cannot keep her lustrous eyes


‫‪A flowery tale more sweetly than our rhyme‬‬ ‫‪And when I feel, fair creature of an hour,‬‬

‫دو ہم مرتبہ لفظوں کو مال کر لفظ بنانے کا اردو میں عام‬ ‫رجحان ملتا ہے۔ مثال‬ ‫بزدل‘ عینک‬

‫انگریزی اس رجحان سے الگ تر نہیں۔ اس میں یہ رجحان‬ ‫عمومی سطع پر ملتا ہے۔ جان کیٹس کے ہاں اس کی‬ ‫مثالیں مالحظہ ہوں۔‬

‫‪And, little town, thy streets for evermore‬‬ ‫‪When I behold, upon the night's starr'd face,‬‬ ‫پہلے ہی‬


‫‪Already with thee! tender is the night,‬‬ ‫;‪And leaden-eyed despairs‬‬ ‫;‪The grass, the thicket, and the fruit-tree wild‬‬

‫اہل زبان کا کوئی ناکوئی تکیہءکالم ہوتا ہے جو مہارت میں‬ ‫آ کر روزمرہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اردو میں بھی یہ‬ ‫صورت حال موجود ہے۔ شخصی اور اجتماعی تکیہءکالم‬ ‫کی صورتیں موجود ہیں۔ مثال‬

‫گھنٹے سے کہہ رہی ہوں‘ دو منٹ ٹھہر جاؤ۔‬ ‫یار دو منٹ رکو۔‬ ‫منٹ مار بجلی جانے کو ہے۔‬ ‫یہاں ہی تھا دو منٹ پہلے اٹھ کر گیا ہے‬


‫آہا مزا آ گیا۔‬ ‫انگریزی میں یہ دونوں موجود ہیں۔ اس ذیل میں جان‬ ‫کیٹس کی یہ الئنیں مالحظہ ہوں۔‬

‫‪One minute past, and Lethe-wards had sunk:‬‬ ‫‪Ah, happy, happy boughs! that cannot shed‬‬

‫صنعت لف و نشر اور متعلق الفاظ کا استعمال‘ اردو شاعری‬ ‫میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے جہاں صوتی حسن‬ ‫میں اضافہ ہوتا ہے‘ وہاں فکر کو بھی جال ملتی ہے۔ یہ‬ ‫صنعت انگریزی شاعری میں بھی پڑھنے کو ملتی ہے۔ جان‬ ‫کیٹس کی یہ الئنیں مالحظہ فرمائیں۔‬


In ancient days by emperor and clown What little town by river or sea shore,

‘‫تکرار لفظی‘ جہاں آہنگ اور موسیقیت کا سبب بنتی ہے‬ ‫وہاں فکری بالیدگی کا بھی موجب بنتی ہے۔ اردو میں‘ اس‬ ‫صنعت کا عام استعمال ملتا ہے۔ انگریزی میں بھی یہ‬ ‫صنعت نظر انداز نہیں ہوئی۔ جان کیٹس کی یہ سطور‬ ‫مالحظہ ہوں۔‬

Still, still to hear her tender-taken breath, "Beauty is truth, truth beauty,--that is all For ever piping songs for ever new; Of deities or mortals, or of both,


‫‪Away! away! for I will fly to thee,‬‬

‫اردو میں صنعت تضاد حسن شعر کا درجہ رکھتی ہے۔‬ ‫تقابلی صورت واضح کرنے کے ساتھ ساتھ‘ ان کی معنویت‬ ‫بھی نمایاں کرتی ہے۔ انگریزی میں بھی اس صنعت کا‬ ‫استعمال ملتا ہے۔ جان کیٹس کے ہاں‘ اس کا استعمال بڑا‬ ‫ہی بےتکلفانہ ہے۔ یہ الئنیں پڑھیے اور لطف لیجیے۔‬

‫?‪What men or gods are these? What maidens loth‬‬ ‫‪A flowery tale more sweetly than our rhyme:‬‬

‫ہم صوت لفظوں کا اردو شاعری میں استعمال کمال فن‬ ‫سمجھا جاتا ہے۔ یہ چلن انگریزی میں بھی موجود ہے۔‬ ‫جان کیٹس کی یہ الئنیں مالحظہ ہوں۔‬


‫‪Bold Lover, never, never canst thou kiss,‬‬ ‫‪A burning forehead, and a parching tongue.‬‬

‫بعض انگریزی اصطالحیں‘ اردو میں اردو کے مزاج کے‬ ‫مطابق مستعمل ہیں۔ مثال سلکی‬ ‫اب یہ ہی جان کیٹس کے ہاں مالحظہ فرمائیں‬ ‫?‪And all her silken flanks with garlands drest‬‬ ‫سلکی کوئی نیا طور نہیں ایسے کئی لفظ اردو میں رائج‬ ‫ہیں۔ مثال نلکی‘ ہلکی پھلکی‬

‫اردو شعرا اپنے اشعار میں‘ قریب قریب معنوں کے الفاظ‬ ‫استعمال کرکے‘ کالم میں فصاحت و بالغت پیدا کرتے ہیں۔‬ ‫انگریزی شاعری کے دامن میں‘ اردو کا یہ طور موجود‬


‫ہے۔ اس ذیل میں جان کیٹس کی یہ الئین مالحظہ ہو۔‬

‫‪Through the sad heart of Ruth, when, sick for home,‬‬

‫دونوں زبانوں میں جمع بنانے کے لیے قریب قریب کے‬ ‫الحقے موجود ہیں۔ مثال‬ ‫یں‪ :‬حوریں‘ کاریں‬ ‫ین‪ :‬مورخین‘ مفکرین‘ قارین‬ ‫جان کیٹس کے ہاں اس طور کی جمع مالحظہ ہو‬

‫‪Sylvan historian, who canst thus express‬‬

‫بےشمار انگریزی الفاظ اردو میں مستعمل ہو گیے ہیں۔ مثال‬


‫‪slow, time, god, pipe, ditties, song, Lover, kiss, happy, love,‬‬ ‫‪green, age, pains,need, high‬‬ ‫‪pen, hand, chance, high‬‬

‫حسنی صاحب یہ تو اپ نے بڑی محنت کا کام کیا ہے۔ ایسی‬ ‫مماثلت ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالی ہے کہ سوچنے پر مجبور کر‬ ‫دیا ہے کہ کیا یہ محض اتفاقات ہی ہو سکتے ہیں۔ شاید‬ ‫مزید تحقیق لسانیات کے کچھ نئے انکشافات کا باعث ہو‬ ‫سو اسے جاری رکھنے میں اور دوستوں سے شئیر کرنے‬ ‫میں کوئی حرج نہیں ۔ ہاں ایسا تجویز کرتا ہوں کہ ہر‬ ‫مماثلت کی مثالیں اگر زیادہ شامل کر دی جائیں اور ساتھ‬ ‫ہی وضاحت بھی کر دی جائے تو اچھا ہو گا کیونکہ کچھ‬ ‫مقامات پر بات سمجھنے میں دقت ہوئی‬


‫والسالم‬

‫ڈاکٹر سہیل ملک‬

‫ایس ایلیٹ اور روایت کی اہمیت‬

‫ٹی ایس ایلیٹ کے نزدیک‘ روایت اپنی اصل میں‘ اظہار کا‬ ‫تسلسل ہے‘ جو ادوار کے انقالبات سے‘ متاثر ہوتی ہے‘‬ ‫لیکن دم نہیں توڑتی‘ بلکہ اپنی اوریجن سے پیوستہ رہتی‬ ‫ہے۔ وہ محض ماضی کے تجربات کو‘ روایت کا نام نہیں‬ ‫دیتا‘ اور اسے درست بھی خیال نہیں کرتا۔ گویا ماضی‘ حال‬ ‫اور مستقبل روایت ادبی کے مفہوم میں شامل ہیں۔ روایات‬ ‫ہر قوم اور ہر ملک کی زندگی کے‘ ہر شعبے میں وقت کے‬


‫ساتھ ساتھ جلوہ گر ہوتی رہتی ہیں۔ تہذیب اور کلچر‘ ان ہی‬ ‫کے مجموعے کا نام ہے۔ یہ سب کسی قوم کے جغرافیائی‬ ‫حاالت‘ افتاد طبح‘ فکری رجحانات اور اس پر پڑے ہوئے‘‬ ‫مختلف قسم کے‘ ذہنی و وجدانی اثرات کے نتیجہ میں‬ ‫تشکیل پاتی ہیں۔‬

‫وراثت کی زمین میں‘ ان کے پودے جڑ پکڑتے ہیں‘ اور‬ ‫ماحول ان کی آبیاری کرتا رہتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ‘ یہ‬ ‫ہی پودے تناور درختوں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔‬ ‫حقیقت یہ ہے‘ کہ ہر قوم کی بڑائی اور برتری‘ روایات پر‬ ‫انحصار کرتی ہے۔ اس کی ذہنی‘ فکری اور تہذیبی سربلندی‬ ‫کو‘ اسی پیمانے سے ناپا جا سکتا ہے۔ وہ تہذیب اور کلچر‬ ‫کا نچوڑ ہوتے ہیں۔ ادب‘ انسانی زندگی کا اہم ترین شعبہ‬ ‫ہے‘ اور وہ کسی قوم کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ زمانے کے‬ ‫ساتھ ساتھ اس کا خمیر اٹھتا رہتا ہے۔‬

‫ایلیٹ کے نزدیک‘ ہر ملک اور قوم کا‘ ادب ایک خاص قسم‬ ‫کی‘ آب وہوا اور مخصوص طرح کے ماحول میں‘ آنکھ‬


‫کھولتا اور پرورش پاتا ہے۔ اس لیے جو روایات‘ ادب میں‬ ‫تشکیل پاتی ہیں‘ ان سب کا ان روایات سے‘ ہم آہنگ ہونا‬ ‫فطری سی بات ہے۔ کوئی ادب‘ زندہ روایات کے بغیر‘ زندہ‬ ‫نہیں رہ سکتا۔ بڑے سے بڑا ترقی پسند‘ اس بات کا معترف‬ ‫ہے کہ ہر زمانے کی تہذیب کو‘ گزشتہ دور کا سہارا لینا‬ ‫پڑتا ہے۔ ماضی کا رنگ‘ چاہے کتنا ہلکا ہو‘ حال اور‬ ‫مستقبل میں ضرور ملے گا۔ سماجی زندگی اور تہذیب و‬ ‫تمدن‘ ماضی سے استفادہ کرنے پر مجبور ہیں‘ لیکن اس‬ ‫کا مطلب یہ نہیں‘ کہ ماضی کو اپنا آئیڈیل سمجھ لیا جائے۔‬ ‫اگر سمجھ لیا جائے گا‘ تو یہ روایت پسندی نہیں روایت‬ ‫پرستی ہو گی۔‬

‫ایلیٹ کا موقف ہے‘ کہ جدت‘ تکرار سے بہتر ہے۔ یہ‬ ‫ورثہ میں نہیں ملتی‘ بلکہ تسلسل میں چلی آتی ہے۔ روایت‬ ‫کی ذیل میں‘ اس نے چند خطرات سے‘ آگاہ کیا ہے۔ بعض‬ ‫اوقات ہم زندگی بخش اور غیرصحت مند روایات میں‘ تمیز‬ ‫نہ کرتے ہوئے‘ کسی غیر صحت مند روایت سے چپکے‬ ‫رہتے ہیں۔ اس سے غلط اور صحیح گڈمڈ ہو جاتے ہیں۔‬ ‫اس کے نزدیک‘ روایت پرستی‘ سطحی تقلید اور اندھی‬


‫نقالی‘ مضر اور خطرناک ہیں۔ تجربہ بھی‘ روایت کے بطن‬ ‫سے جنم لیتا ہے۔ نئے پن میں‘ پرانا پن یا نئے پن کے‬ ‫ساتھ پرانا پن بھی ضروری ہے۔‬

‫روایت‘ ادب کی نشوونما اور ترقی میں‘ اپنا کردار ادا کرتی‬ ‫ہے۔ ادب بدلتے حاالت کی رفتار کے ساتھ‘ ارتقا اور ترقی‬ ‫کے راستے پر گامزن رہتا ہے۔ روایات اسے رستہ دکھاتی‬ ‫ہیں۔ ادب کو تجربات کی نئی دنیا سے روشناس کرانا بھی‘‬ ‫روایات کے پیش نظر ہوتا ہے۔ وہ اس کے لیے‘ زمین تیار‬ ‫کرتی رہتی ہیں‘ اور جانچنے کا معیار بھی دریافت کرتی‬ ‫ہیں۔ روایت کے بغیر تنقیدی معیارات‘ تشکیل نہیں پاتے۔‬

‫ایلیٹ کے نزدیک‘ روایات‘ ادب اور عوام کے درمیان‘‬ ‫رابطے کا ذریعہ بھی ہیں۔ ان ہی کے سبب‘ عوام ادب کو‬ ‫اپنا قومی سرمایہ سمجھتے ہیں۔ بعض لوگ‘ روایت کے‬ ‫مفہوم کو محدود کر لیتے ہیں۔ وہ غلط تحریکوں کے‬ ‫محرک ہوتے ہیں‘ اور خود کو‘ جدت پسند قرار دیتے ہیں۔‬ ‫وہ سارے ادب سے‘ ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ لیکن اس کے‬


‫معنی یہ نہیں‘ کہ تجربات نہ کیے جائیں۔ تجربہ‘ ادب کی‬ ‫جان اور تاریخ ہوتا ہے۔‬

‫روایات اور تجربات‘ ایک دوسرے کے متضاد نہیں ہیں۔‬ ‫تجربات کے لیے‘ کسی زمین کا ہونا ضروری ہے۔ یہ زمین‬ ‫روایت فراہم کرتی ہے۔ ادب اور فن میں‘ جہاں دوسری‬ ‫روایت کی طرح پڑتی ہے‘ وہاں تجربے کا بھی پتا چلتا ہے۔‬ ‫ایک بڑا شاعر‘ روایت پرست بھی ہوتا ہے‘ اور تجرباتی‬ ‫بھی۔ اس کے بزرگوں نے‘ جو دریافتیں کی ہوتی ہیں‘ وہ‬ ‫انہیں نظرانداز نہیں کر سکتا‘ بصورت دیگر‘ اس کی آواز‘‬ ‫محض صدائے بازگشت ہو کر رہ جائے گی‘ اور وہ اپنے‬ ‫بزرگوں کے پائے تک‘ نہیں پہنچ پائے گا۔‬

‫تاریخی روایات کے حصول کے لیے‘ ایلیٹ نے‘ شاعر کے‬ ‫تاریخی شعور کو‘ اہم قرار دیا ہے۔ جو پچیس سال کی عمر‬ ‫کے بعد بھی‘ شاعر رہنا چاہتا ہے‘ اس کے لیے تاریخی‬ ‫شعور ناگزیر ہے۔ یہ تاریخی شعور‘ ادب کی الزمانی کا‬ ‫شعور بھی ہے‘ اور اس کے زمانی ہونے کا ثبوت بھی۔‬


‫زمانی اور الزمانی ہونے کا شعور‘ شاعر کو روایت کا‬ ‫شاعر بناتا ہے‘ اور اسی سے‘ اس کے زمانی مقام کا‘‬ ‫تعین ہوتا ہے۔ ایلیٹ کے نزدیک‘ الفانیت کو سمجھنے کے‬ ‫لیے‘ روایت کا شعور‘ شرط الزم ہے۔ تاہم وہ روایت کے‬ ‫شعرا کے کالم کو‘ نقالی نہیں سمجھتا۔ یہ شعور شعرا کو‘‬ ‫مجبور کرتا ہے‘ کہ وہ لکھتے وقت اپنے عہد ہی کو‘ پیش‬ ‫نظر نہ رکھیں‘ بلکہ گزشتہ سے آج تک کے ادب کو‘ اور‬ ‫اپنے ملک کے سارے ادب کو‘ اپنا ہم عصر تصور کریں۔‬

‫ایلیٹ ادب اور زندگی‘ دونوں میں معیارات کے نفوذ اور‬ ‫غیر شخصی و غیرذاتی‘ میالنات و رجحانات کا قائل ہے۔‬ ‫اسی لیے وہ‘ احساس رفتہ اور احساس روایت کو ضروری‬ ‫سمجھتا ہے۔اس کی نظر میں‘ تمام ادبی فن پارے ایک‬ ‫سلسلہ میں‘ تنظیم و ترتیب پاتے ہیں۔ اس کے خیال میں‘‬ ‫روایت کے یہ معنی نہیں ہیں‘ کہ ادب کو محض چند‬ ‫تعصبات سے پاک رکھا جائے۔ تعصبات روایت کے تشکیلی‬ ‫عمل کے دوران‘ وجود پکڑتے ہیں۔‬


‫ایلیٹ کے روایت سے متعلق خیاالت کا‘ لب لباب کچھ یوں‬ ‫‪:‬ٹھہرے گا‬ ‫روایت لکیر کےفقیر ہونے کا نام نہیں۔ ‪٠-‬‬ ‫روایت کے حصول کے لیے‘ محنت و کاوش سے‘ کام ‪٦-‬‬ ‫لینا پڑتا ہے۔‬ ‫تاریخی شعور کا مطلب یہ ہے‘ کہ شاعر کو احساس ‪٣-‬‬ ‫ہو‘ کہ ماضی صرف ماضی ہی نہیں‘ بلکہ اس کے اعلی‬ ‫اور آفاقی عناصر‘ ایک زندہ شے کی طرح‘ نشوونما پاتے‬ ‫ہوئے‘ حال میں پہنچ گیے ہوتے ہیں۔‬ ‫شاعری کی ادبی حیثیت کا اندازہ‘ کسی شاعر کی‘ دیگر ‪٤-‬‬ ‫شعرا کے کالم ہی سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس کی مجرد‬ ‫طور پر‘ قدروقیمت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا‘ کیوں کہ‬ ‫وہ پورے ادبی نظام کا‘ حصہ ہوتا ہے۔‬ ‫ہر نیا فن پارہ‘ اپنے نئے پن سے تمام فن پاروں کی ‪٥-‬‬


‫قدروقیمت کو متاثر کرتا ہے۔ اس کی روشنی میں گزشتہ‬ ‫کے فن پاروں کا‘ پھر سے جائزہ لینا پڑتا ہے۔‬ ‫ایمان دارانہ تنقید‘ شاعر پر نہیں‘ شاعری پر ہونی ‪٢-‬‬ ‫چاہیے۔ یہ اس لیے ضروری ہے‘ کہ کسی ایک نظم کا‬ ‫تعلق‘ دوسری نظموں سے ہوتا ہے۔‬ ‫نظم صرف ایک مفہوم ہی نہیں‘ اپنا زندہ وجود رکھتی ‪٧-‬‬ ‫ہے۔ اس کے مختلف حصوں سے‘ جو ترکیب بنتی ہے‘ وہ‬ ‫واضح حاالت کی فہرست سے مختلف ہوتی ہے۔ وہ احساس‬ ‫یا جذبہ یا عرفان جو نظم سے حاصل ہوتا ہے‘ وہ شاعر‬ ‫کے ذہن میں ہوتا ہے۔‬

‫اس مضمون کی تیاری میں خصوصا درج ذیل کتب شکریے‬ ‫‪:‬کے ساتھ پیش نظر رہیں‬ ‫مغرب کے تنقیدی اصول پروفیسر سجاد باقر رضوی‬ ‫مطبع عالیہ ‪٠٦٢٢‬‬ ‫ارسطو سے ایلیٹ تک ڈاکٹر جمیل جالبی‬

‫نیشنل‬


‫فاؤنڈیشن ‪٠٦٧٥‬‬

‫انگریزی کے ہندوی پرلسانی اثرات‬

‫مختلف عالقوں کے لوگوں کی زبان' میں حیرت انگیز‬ ‫لسانیاتی مماثلتوں کا پایا جانا' اتفاقیہ نہیں ہو سکتا۔ اس‬ ‫کے پس منظر میں' کسی سطع پر کوئی ناکوئی واقعہ'‬ ‫معاملہ' حادثہ' بات یا کچھ ناکچھ ضرور وقوع میں آیا ہوتا‬ ‫ہے' چاہے اس کی حیثیت معمولی ہی کیوں نہ رہی ہو' اس‬ ‫کا اثر ضرور مرتب ہوا ہوتا ہے۔‬

‫ایک دیسی یا بدیسی شخص' بازار میں کچھ خریدنے' کسی‬ ‫سے ملنے یا کسی اور کام سے آتا ہے۔ وہ اپنے اس‬


‫ٹھہراؤ کے مختصر دورانیے میں' کوئی اصطالح' کوئی‬ ‫ضرب المثل' کوئی محاورہ یا کوئی لفظ چھوڑ جاتا ہے۔ اس‬ ‫کا بوال' ایک شخص استعمال میں التا ہے' پھر دوسرا' ان‬ ‫کی دیکھا دیکھی میں وہ مہارت میں آ جاتا ہے۔ اب یہ الزم‬ ‫نہیں کہ وہ اصل تلفظ' اصل معنوں یا پھر اصل استعمال کے‬ ‫مطابق' استعمال میں آ جائے۔ وہ اپنی اصل سے کہیں دور'‬ ‫بل کہ بہت دور جا سکتا ہے۔ معنوی اعتبار سے اصل سے‬ ‫برعکس استعمال میں آ سکتا ہے۔ کئی معنی اور استعمال‬ ‫سامنے آ سکتے ہیں اور پھر اس کے غیر ہونے کا گمان‬ ‫تک نہیں گزرتا۔‬

‫یونانیوں کا سیاسی' علمی' ادبی اور ثقافتی حوالہ سے' دنیا‬ ‫بھر میں ٹہکا تھا۔ آتے وقتوں کی عظیم سیاسی' عسکری‬ ‫اور مکار قوت' برطانیہ ان کی دسترس سے باہر نہ تھی۔‬ ‫اسی طرح برصغیر بھی یونانیوں کے زیر اثر رہا۔ یونان کا‬ ‫لٹیرا اعظم' برصغیر پر بھی حملہ ہوا۔ یہاں پٹ گیا۔ زخمی‬ ‫ہوا اور یہاں سے دم دبا کر بھاگ گیا۔ ایک یونانی قبیلہ‬ ‫یہاں رک گیا۔ کیالش میں ان کا پڑاؤ ٹھہرا۔ یہ یونانی کئی‬ ‫والئیتوں پر حکومت کرتے رہے۔ اس یونانی عسکری‬


‫قبیلے کی نسل' آج بھی' یہاں بہت ساری اپنی یونانی‬ ‫روایات کے ساتھ موجود ہے۔‬

‫رومن برٹن‪ :‬بریطانیہ' بریٹن' برطانیہ۔ آئی لینڈ کا عالقہ تھا'‬ ‫جو کہ رومن ایمپائر کی حکومت میں تھا۔ برصغیر رومن‬ ‫شہنشاہت سے باہر نہ تھا۔ برصغیر میں ان کے ہونے کے‬ ‫بہت سے اثار انٹرنیٹ پر تالشے جا سکتے ہیں۔ انگریزی‬ ‫کا رسم الخط آج بھی رومن ہے۔ اس رسم الخط میں لکھی‬ ‫اردو کو رومن اردو کا نام دیا جاتا ہے۔‬

‫برطانیہ والے ‪ 7581‬سے بہت پہلے' برصغیر میں وارد ہو‬ ‫گیے تھے' تاہم ‪ 7581‬سے ‪ 7491‬تک برصغیر ان کا رہا۔‬ ‫محسن آزادی ہٹلر کی عنایت اور مہربانی سے' برطانیہ کے‬ ‫ہاتھ' پاؤں اور کمر کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں اور سونے کی‬ ‫چڑیا' اس کی دسترس میں نہ رہی۔ اس کے بعد امریکہ کی‬ ‫گڈی چڑھی اور آج تک چڑھی ہوئی ہے۔ گویا دونوں‬ ‫یونیوں کے زیر تسلط تھے' اس کے بعد رومیوں کے رہے۔‬ ‫اس کے بعد برصغیر پر برطانیہ کا کھرا کھوٹا سکا چال اور‬


‫اب حضرت امریکہ بہادر کی خداوندی کا دور دورہ ہے۔‬

‫اسم کی ترکیب کے لیے' انگریزی یں الحقہ موجود نہیں۔‬ ‫یہ خالص برصغیر سے متعلق ہے۔ مثال دیوارکا' پریمیکا'‬ ‫انومیکا' کامولیکا وغیرہ گویا امریکا' برصغیر کا لفظ ہے۔‬ ‫مثال امبڑیکا‪ .‬اگر کسی شخص کا نام ہے' تو اس کا برصغیر‬ ‫سے کوئی ناکوئی رشتہ' ضرور رہا ہو گا۔ امریکہ میں بھی‬ ‫انگریزی زبان استعمال میں آتی ہے۔‬

‫صاف ظاہر ہے' ان عالقوں کے لوگ یہاں آئے۔ ان عالقوں‬ ‫سے' جس حوالہ سے بھی سہی' یہاں سے لوگ گیے۔‬ ‫مزے کی بات یہ کہ آج بھی الکھوں کی تعداد میں مغرب‬ ‫کے مختلف عالقوں میں برصغیر کے لوگ' عارضی اور‬ ‫مستقل اقامت رکھتے ہیں۔ یہ کہنا کہ برصغیر والے ہی‬ ‫متاثر ہوئے' سراسر زیادتی کے مترادف ہو گا۔ حاکم ہو کہ‬ ‫محکوم' ایک والیت میں اقامت رکھنے کے سبب' ایک‬ ‫دوسرے سے متاثر ہوتے ہیں۔ ہندوی' جوآل ہند کی زبان‬ ‫ہے' نے دنیا کی تمام زبانوں کو' لسانی' فکری اور اسلوبی‬


‫حوالہ سے متاثر کیا‪ .‬اسی طرح یہ بھی اپنی بےپناہ لچک‬ ‫پذیری کے باعث' ان سے متاثر ہوئی۔ مختلف زبانوں کے‬ ‫الفاظ' اس کے ذخیرہءاستعمال میں داخل ہیں۔‬

‫متاثر کرنے کی' کئی صورتیں اور سطحیں ہوسکتی ہیں۔‬ ‫‪1‬‬ ‫کلچر زیادہ تر خواتین کے زیر اثر رہا ہے۔‬ ‫زیورات' لباس' بناؤ سنگار کے اطوار' ناز و نخرہ وغیرہ‬ ‫کے چلن' ایک دوسرے کے اختیار کرتی ہیں۔‬ ‫نشت و برخواست کے اصول اختیار کرتی ہیں۔‬ ‫گفت گو میں' ایک دوسرے کی طرز اختیار کرتی ہیں۔‬ ‫گھر میں سامان کی درآمد اور اس کے رکھنے اور سجانے‬ ‫کے طور' اپناتی ہیں۔‬ ‫کچن اور اس سے متعلقہ امور میں' نقالی کرتی ہیں۔‬ ‫اشیائے اور اطوار پکوان اپناتی ہیں۔‬ ‫فقط یہ امور ہی انجام نہیں پاتے' بل کہ ان کے حوالہ سے‬


‫اسما' صفات' سابقے' الحقے' اسلوب بھی اس گھر میں‬ ‫منتقل ہوتے ہیں۔‬ ‫‪2‬‬ ‫کم زوروں کی ہنرمندی اور ہنرمندوں پر ڈاکے پڑتے ہیں‬ ‫ان کے وسائل قدرت پر قبضہ جمایا جاتا ہے‬ ‫ان کے علمی و ادبی ورثے کو غارت کرنے کے ساتھ اس‬ ‫کی بڑی بےدردی سے لوٹ مار کی جاتی ہے۔‬ ‫ان تینوں امور کے حوالہ سے ان کی زبان میں بہت کچھ‬ ‫بدیسی داخل ہو جاتا ہے۔‬ ‫‪3‬‬ ‫اس کے عالوہ معاشرتوں کے انسالک سے‬ ‫بہت سے معاشرتی اطوار‬ ‫انسانی رویے‬ ‫رسم و رواج‬ ‫مذہبی اور نظریاتی اصول‬


‫سیاسی' معاشی اور ارضیاتی طور طریقے اور خصوصی و‬ ‫عمومی چلن‬ ‫ایک دوسرے کے ہاں منتقل ہوتے ہیں اور صدیوں کا سفر‬ ‫کرتے ہیں۔ آتے وقتوں میں کچھ کے کچھ ہو جاتے ہیں'‬ ‫لیکن باقی رہتے ہیں۔ بعض کی' ہزاروں سال بعد بھی'‬ ‫بازگشت باقی رہتی ہے۔ یہ امور زبان سے باال باال نہیں‬ ‫ہوتے۔ ان سب کا زبان سے اٹوٹ رشتہ استوار ہوتا ہے۔‬

‫اشیائے خوردنی اور اشیائے استعمال مثال کپڑے' برتن‬ ‫وغیرہ‬ ‫اشیائے حرب اور حربی ضوابط‬ ‫طرز تعمیر وغیرہ‬ ‫قبریں بنانے کے انداز‬ ‫کا تبادلہ ہوتا ہے' ان کے حوالہ سے زبان کو بہت کچھ‬ ‫میسر آتا ہے۔ میں نے یہاں' محض گنتی کے دو چار‬ ‫اموردرج کیے ہیں' ورنہ ایسی بیسیوں چیزیں ہیں' جو‬ ‫وقوع میں آتی ہیں اور ان کا زبانوں پر اثر مرتب ہوتا ہے۔‬


‫اس ذیل میں' قرتہ العین حیدر کی تحریروں کا مطالعہ مفید‬ ‫رہے گا۔ انگریزی بھی' برصغیر کی زبان ہندوی سے' متاثر‬ ‫ہوتی آئی ہے جس کے لیے' ان کی شاعری کا مطالعہ کیا‬ ‫جا سکتا ہے۔‬

‫بعض اردو اور انگریزی کی ضمیروں میں' صوتی مماثلت‬ ‫موجود ہے۔ مثال‬ ‫‪Of fortune’s favoured sons, not me.‬‬ ‫‪: Wish‬نظم‬ ‫‪: Matthew Arnold‬شاعر‬ ‫‪To die: and the quick leaf tore me‬‬ ‫‪me‬‬ ‫کے لیے اردو میں مجھے مستعمل ہے۔ پوٹھوہار میں‬ ‫ضمیر می آج بھی بول چال میں ہے۔‬


........ My feeble faith still clings to Thee, ‫نظم‬: My God! O Let Me Call Thee Mine! ‫شاعر‬: Anne Bronte my ‫انگریزی میں عام استعمال کی ضمیر اردو میں اس ضمیر‬ ‫کے میرا مستعمل ہے۔‬ ........ you can keep your head

when all about you

‫نظم‬: If ‫شاعر‬: Rudyard Kipling ‫اردو میں تو عام بول چال میں موجود ہے۔‬


‫‪........‬‬ ‫بہت سے الفاظ آوازوں کے تبادل یا کسی اور صورت میں‬ ‫انگریزی میں مستعمل ہیں۔ مثال‬ ‫اردو میں دن انگریزی میں ڈان‬ ‫‪ more‬مور‬ ‫‪ m‬اور الف کی آواز میم یعنی‬ ‫‪ m‬میں بدلی ہے۔‬ ‫کو حشوی قرار دیا جا سکتا ہے۔‬

‫‪Once more before my dying eyes‬‬ ‫‪Wish: Matthew Arnold‬‬

‫ودوا اپنی اص میں ود اور وا کا مرکب ہے۔ بےوا مستعمل‬


‫صورت بیوہ۔‬ ‫بے نہی کا سابقہ ہے‬ ‫بہت سے لفظ اس طور سے لکھے جاتے ہیں۔ مثال‬ ‫بیچارہ بجائے بےچارہ‬ ‫بیدل بجائے بےدل‬ ‫بیہوش بجائے بےہوش‬ ‫بیکار بجائے بےکار‬ ‫بیوہ بےوا بمعنی جس کا ور نہ رہا ہو ر کی آواز گر گئی‬ ‫ہے‪ .‬ودوا بےوا کے لیے بوال جاتا ہے۔‬ ‫انگریزی میں وڈو۔ وڈ او‬ ‫‪widow‬‬ ‫وڈ آؤٹ اس کے' یعنی ور' او ۔ ور‬ ‫‪...............‬‬ ‫کئی ایک لفظ انگریزی کی صوتیات کے پیش نظر' معمولی‬ ‫سی تبدیلی کے ساتھ' انگریزی میں داخل ہو گئے ہیں۔‬


‫‪no‬‬ ‫انگریزی میں نفی کے لیے استعمال ہوتا ہے اردو میں نہ‬ ‫جب کہ انگریزی میں نو‬ ‫نو' باطور نہی کا سابقہ‬ ‫نوسر نوٹنکی‬ ‫نو‪ .‬سر‪ .‬باز‬ ‫باطور سابقہ نا ناکافی نازیبا ناچیز‬ ‫نہ باطور سابقہ نہ جاؤ' نہ چھیڑو' نہ کرو' نہ مارو‬

‫ان بولتے لفظوں کو‘ ہم سن نہ سکے‬ ‫آنکھوں سے‘ چن نہ سکے‬ ‫کس منہ سے‪ :‬مقصود حسنی‬

‫نہ کڑا نہ کھارا‬ ‫چل' دمحم کے در پر چل‪ :‬مقصود حسنی‬


I have no wit, no words, no tears; A Better Resurrection: Christina Rossetti No motion has she now, no force; A Slumber Did My Spirit Seal: William Wordsworth Thou hast no reason why ! Thou canst have none ; Human Life: Samuel Taylor Coleridge ............ ‫رشتوں کے حوالہ سے بھی انگریزی میں کچھ الفاظ داخل‬ ‫ہوئے ہیں۔ مثال‬ ‫پنجابی میں بھرا‬ ‫فارسی میں برادر‬ ‫اردو میں بھی برادر مستعمل ہے‬


‫انگریزی میں‬ ‫‪brother‬‬ ‫اصل لفظ برا۔ بھرا ہی ہے جب کہ در باطور الحقہ داخل ہوا‬ ‫ہے۔ ایک پہلے ہے تب ہی دوسرا برا یا بھرا ہے۔ دونوں کا‬ ‫برابر کا رشتہ ہے۔ انگریزی میں واؤ الف کا تبادل ہے۔ یہ‬ ‫رویہ طور میواتی اور راجھستانی میں موجود ہے۔ برا سے‬ ‫برو بامعنی بھائی۔‬ ‫در کا الحقہ‬ ‫‪father, mother‬‬ ‫میں بھی موجود ہے‬ ‫در' باطور سابقہ اور الحقہ اردو میں بھی رواج رکھتا ہے‪.‬‬ ‫مثال‬ ‫درگزر' درحقیقت' درکنار‬ ‫چادر چا در‬ ‫‪His brother doctor of the soul,‬‬


‫‪Wish: Matthew Arnold‬‬ ‫فارسی میں' ماں کے لیے مادر مستعمل ہے۔ اردو میں مادر‬ ‫پدر آزاد عام بول چال میں ہے۔ اصل لفظ ما ہی ہے۔ ں‬ ‫حشوی ہے‪ .‬یہ ہی صورت فارسی کے ساتھ ہے۔ انگریزی‬ ‫میں‬ ‫‪mother‬‬ ‫بولتے ہیں۔ اس میں اصل لفظ مو ہی ہے' فارسی کی طرح‬ ‫در الحاقی یعنی خارجی ہے۔‬

‫ہر برتن کی زبان پہ‬ ‫اس کی مرحوم ماں کا نوحہ‬ ‫باپ کی بےحسی اور‬ ‫جنسی تسکین کا بین تھا‬ ‫نوحہ‪ :‬مقصود حسنی‬ ‫‪............‬‬


‫مرکبات حسن شعر میں داخل ہیں۔ یہ شخصی اور مجموعی‬ ‫رویوں کے عکاس اور شاعر کی اختراعی فکر کےغماز‬ ‫ہوتے ہیں۔ یہ ہی نہیں' زبان کی وسعت بیانی کی بھی‬ ‫گواہی دیتے ہیں۔ اردو اس ذیل میں کمال کی شکتی رکھتی‬ ‫ہے۔ انگریزی میں بھی مرکبات ملتے ہیں۔ اس ذیل میں‬ ‫اردو کے پائے کے مرکبات کی حامل ناسہی' لیکن اس کا‬ ‫دامن اس کمال زبان سے تہی نہیں۔ اردو اور انگریزی سے‬ ‫چند مثالیں مالحظہ فرمائیں۔‬

‫موسم گل ابھی محو کالم تھا کہ‬ ‫‪..........‬‬ ‫پریت پرندہ‬ ‫‪..........‬‬ ‫اس کی بینائی کا دیا بجھ گیا‬ ‫‪.........‬‬ ‫پھر اک درویش مینار آگہی پر چڑھا‬


...... ‫یتیمی کا ذوق لٹیا ڈبو دیتا ہے‬ ‫من کے موسم دبوچ لیتا ہے‬

‫ مقصود حسنی‬:‫حیرت تو یہ ہے‬

greedy heirs, ceremonious air, hideous show, poor sinner, undiscovered mystery, death’s winnowing wings, dying eyes, dew of morn, generous sun, silent moves, ruddy eyes, tears of gold, clouds of gloom, golden wings, trembling soul, make dreams, worth of distance, Shadows of the world, golden Galaxy, happy hours, sun in flight,


Wish: Matthew Arnold From bands of greedy heirs be free; The ceremonious air of gloom – All which makes death a hideous show! ‫پوشیدہ نمائش‬ Of the poor sinner bound for death, ‫مفلس گناہ گار بےچارہ گناہ گار‬ That undiscovered mystery Which one who feels death’s winnowing wings Once more before my dying eyes ‫ڈوبتی آنکھیں‬ Bathed in the sacred dew of morn


‫تاسف کی بوندیں‬ But lit for all its generous sun, Where lambs have nibbled, silent moves They look in every thoughtless nest, ‫فکر سے عاری گھروندا‬ Seeking to drive their thirst away, ‫ہانکتی پیاس‬ And there the lion’s ruddy eyes ‫مغرور نگاہیں‬ Shall flow with tears of gold, Night: William Blake Sometimes there are clouds of gloom


Still buoyant are her Life: Charlotte Bronte My trembling soul would fain be Thine ‫لرزتی روح‬ My God! O Let Me Call Thee Mine! Anne Bronte If you can dream – and not make dreams your master; ‫خواب بننا‬ With sixty seconds’ worth of distance run If: Rudyard Kipling Shadows of the world appear. Hung in the golden Galaxy.


The Lady Of Shalott: Alfred Tennyson Now stand you on the top of happy hours, ‫مسرور لمحے‬ But wherefore do not you a mightier way Shakespeare And then, O what a glorious sight Address To A Haggis: Robert Burns Wild men who caught and sang the sun in flight,

‫مرکبات تحریر کے اختصاری معاملے میں' حد درجہ معاون‬ '‫ہوتے ہیں' بعینہ تشبیہات ناصرف اسم کو نمایاں کرتی ہیں‬ ‫بل کہ اسم کی کائنات میں مماثلتیں بھی تالشتی ہیں۔ یہ ہی‬ ‫نہیں' اختصاری عمل میں بھی' اپنے حصہ کا کردار ادا‬


‫کرتی ہیں۔ میر کا یہ معروف ترین شعر مالحظہ ہو۔‬

‫نازکی اس کے لب کی کیا کہیے‬ ‫پنکھڑی اک گالب سی ہے‬

‫اس سے ناصرف لبوں کی نازکی سامنے آئی ہے' بل کہ‬ ‫چند لفظوں میں کئی صفحات پر محیط کام سمیٹ دیا گیا‬ ‫ہے۔ تشبیہات کے معاملہ میں' انگریزی اردو کے قریب تر‬ ‫ہے۔ ماضی بعید اورانگریز کے برصغیری عہد میں' اس‬ ‫زبان نے انگریزی کو متاثر کیا ہو گا۔ اردو اور انگریزی‬ ‫سے چند مثالیں مالحظہ فرمائیں۔‬

‫سلوٹ سے پاک سہی‬ ‫پھر بھی‬ ‫حنطل سے کڑوا‬


‫اترن کا پھل‬ ‫ مقصود حسنی‬:‫چل' دمحم کے در پر چل‬

‫ساون رت میں‬ ‫آنکھوں کی برکھا کیسے ہوتی ہے‬ ‫ مقصود حسنی‬:‫مت پوچھو‬

My life is like a faded leaf My life is like a frozen thing, My life is like a broken bowl, Can make you live yourself in eyes of men. But wherefore do not you a mightier way Shakespeare


........ A Better Resurrection: Christina Rossetti Blind eyes could blaze like meteors and be gay, ........ Do Not Go Gentle Into That Good Night Dylan Thomas The moon like a flower Night: William Blake ........ And Joy shall overtake us as a flood, On Time: Milton


........ Blind eyes could blaze like meteors and be gay, Do Not Go Gentle Into That Good Night Dylan Thomas ........ Made snow of all the blossoms; at my feet Like silver moons the pale narcissi lay Holy Week At Genoa: Oscar Wilde ........ Shall shine like the gold Night: William Blake


‫‪........‬‬ ‫‪Hops like a frog before me.‬‬ ‫‪Brooding Grief: D.H.Lawrence‬‬

‫حسن واختصار' موازنہ' تاریخ اور علوم سے راوبط کی ذیل‬ ‫میں تلمیح کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اردو شاعری میں اس‬ ‫کا عام' برمحل اور بالتکلف استعمال ملتا ہے۔ مثال‬

‫سنا ہے‬ ‫یوسف کی قیمت‬ ‫سوت کی اک انٹی لگی تھی‬ ‫عصر حاضر کا مرد آزاد‬ ‫دھویں کے عوض‬ ‫ضمیر اپنا بیچ دیتا ہے‬


‫نظم‪ :‬سنا ہے' مقصود حسنی‬

‫وہ آگ‬ ‫عزازئیل کی جو سرشت میں تھی‬ ‫اس آگ کو نمرود نے ہوا دی‬ ‫اس آگ کا ایندھن‬ ‫قارون نے پھر خرید کیا‬ ‫اس آگ کو فرعون پی گیا‬ ‫اس آگ کو حر نے اگل دیا‬ ‫یزید مگر نگل گیا‬ ‫صبح ہی سے‪ :‬مقصود حسنی‬

‫انگریزی میں باکثرت ناسہی' اس سے کام ضرور لیا گیا‬ ‫ہے۔ مثال‬


To feel the universe my home; Wish: Matthew Arnold

In heaven’s high bower, The angels, most heedful, Night: William Blake

And flamed upon the brazen greaves Of bold Sir Lancelot.

The Lady Of Shalott: Alfred Tennyson


Shall I compare thee to a summer’s day? So are you to my thoughts That God Forbid That time of year Against My Love: Shakespeare

Cast in the fire the perish’d thing; Melt and remould it, till it be A royal cup for Him, my King: O Jesus, drink of me


A Better Resurrection: Christina Rossetti

‘Jesus the son of Mary has been slain, Holy Week At Genoa: Oscar Wilde

I long for scenes where man hath never trod A place where woman never smiled or wept there to abide with my creator God, ‫خالق‬ I am: John Clare


If even a soul like Milton’s can know death ; Human Life: Samuel Taylor Coleridge

Biting my truant pen, beating myself for spite: "Fool," said my Muse to me, "look in thy heart, and write." Loving in truth: Phlip Sidney

‫ضدین پر کائنات استوار ہے۔ یہ شناخت کا کلیدی وسیلہ‬ ‫ہیں۔ اردو شاعری میں' صنعت تضاد کا استعمال ملتا ہے۔‬ ‫خوبی کی بات یہ کہ ضدین ایک دوسرے سے متعلق ہوتی‬ ‫ہیں۔ مثال‬

‫وہ قیدی نہ تھا‬


‫خیر وشر سے بے خبر‬ ‫معصوم‬ ‫فرشتوں کی طرح‬ ‫نظم‪ :‬نوحہ' مقصود حسنی‬

‫ایندھن‬

‫دیکھتا اندھا سنتا بہرا‬ ‫سکنے کی منزل سے دور کھڑا‬ ‫ظلم دیکھتا ہے‬ ‫آہیں سنتا ہے‬ ‫بولتا نہیں کہتا نہیں‬ ‫جہنم ضرور جائے گا‬ ‫نظم‪ :‬نوحہ' مقصود حسنی‬


‫اس صنعت کا' انگریزی شاعری میں بھی ملتا ہے اور‬ ‫استعمال کا طریقہ اردو سے قطعی مختلف نہیں۔ چند مثالیں‬ ‫مالحظہ فرمائیں‬

And up and down the people go, The Lady Of Shalott: Alfred Tennyson

The friends who come, and gape, and go; Wish: Matthew Arnold

And by his health, sickness


‫‪Night: William Blake‬‬

‫‪A place where woman never smiled or wept‬‬ ‫‪I am: John Clare‬‬

‫ہم صوت الفظ کا استعمال' غنا اور آہنگ کی حصولی میں'‬ ‫بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اردو غزل میں شگفتگی'‬ ‫شائستگی اور وارفتگی اسی کی مرہون منت ہے۔ نظم کے‬ ‫شعرا نے بھی اس صنعت کو بال تکلف استعمال میں رکھا‬ ‫ہے۔ مثال‬

‫عہد شہاب میں بےحجاب بےکسی بھی عجب قیامت تھی۔‬ ‫صبح اٹھتے مشقت اٹھاتےعوضوانے کو ہاتھ بڑھاتے بے‬ ‫نقط سنتے۔ سانسیں اکھڑ جاتیں مہر بہ لب جیتے کہ‬ ‫سانسیں باقی تھیں۔ جینا تو تھا ہی لہو تو پینا تھا ہی۔‬


‫ مقصود حسنی‬:‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا‬

‫مضمون ایک طرف' یہ ہم صوت الفاظ ہی' اس پہرے کو نثر‬ ‫کا سرمایا رہنے نہیں دیتے۔ انگریزی شاعری میں بھی' یہ‬ ‫صنعت دیکھنے کو ملتی ہے۔ مثال‬

Must need read clearer, sure, than he! Bring none of these; but let me be, Nor bring, to see me cease to live, To work or wait elsewhere or here! Wish: Matthew Arnold

Still strong to bear us well.


‫‪Manfully, fearlessly,‬‬ ‫‪The day of trial bear,‬‬ ‫‪For gloriously, victoriously,‬‬ ‫!‪Can courage quell despair‬‬ ‫‪Life: Charlotte Bronte‬‬

‫صنعت تکرار لفظی' جہاں آہنگ کے لیے ناگزیر ہے' وہاں‬ ‫بات میں زور اور وضاحت کا سبب بنتی بھی ہے۔ اردو میں‬ ‫اس صنعت کا استعمال عام ملتا ہے۔ مثال‬

‫وہ قتل ہو گیا‬ ‫پھر قتل ہوا‬ ‫ایک بار پھر قتل ہوا‬


‫اس کے بعد بھی قتل ہوا‬ ‫وہ مسلسل قتل ہوتا رہا‬ ‫جب تک سیٹھوں کی بھوک‘ نہیں مٹ جاتی‬ ‫جب تک خواہشوں کا‘ جنازہ نہیں اٹھ جا‬ ‫وہ قتل ہوتا رہے گا‬ ‫وہ قتل ہوتا رہے گا‬ ‫جب تک‪ :‬مقصود حسنی‬

‫اب انگریزی شاعری سے چند مثالیں مالحظہ فرمائیں۔‬ ‫‪If you can wait and not be tired by waiting,‬‬ ‫‪Or, being lied about, don’t deal in lies,‬‬ ‫‪Or, being hated, don’t give way to hating,‬‬ ‫;‪And yet don’t look too good, nor talk too wise‬‬


.................. If you can dream – and not make dreams your master; If: Rudyard Kipling

If you can bear to hear the truth you’ve spoken Life: Charlotte Bronte

Four grey walls, and four grey towers, ......... The knights come riding two and two: ........


The helmet and the helmet-feather Burned like one burning flame together, The Lady Of Shalott: Alfred Tennyson

Then, horn for horn, they stretch an strive: Address To A Haggis: Robert Burns

A little while, a little while, The weary task is put away, And I can sing and I can smile, Alike, while I have holiday.


‫‪A Little While: Emily Bronte‬‬ ‫نوٹ‬ ‫انگریزی میں غزل نہیں اسی لیے مثالیں نظم سے لی گئی‬ ‫ہیں۔‬

‫شاعری اور مغرب کے چند ناقدین‬

‫افالطون کے تنقد شعر کے متعلق نظریات کو‘ بڑی اہمیت‬ ‫حاصل رہی ہے۔ وہ ناصرف حظ کی اہمیت سے آگاہ تھا‘‬ ‫بلکہ خود بھی تخلیقی صالحتیں رکھتا تھا۔ وہ شعر کی اثر‬ ‫آفرینی سے‘ آگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ‘ خود بھی شاعر‬ ‫تھا۔ اس نے اپنے استاد کے زیر اثر‘ اپنا کالم تلف کر دیا‘‬ ‫اور شاعری کی مخالفت کا علم اٹھایا۔ اس کے نزدیک‬ ‫شاعر پست اور منفی جذبات ابھارتے ہیں۔ شاعری‬ ‫القانونیت کو جنم دیتی ہے۔ وہ شاعری کو‘ الشعوری عمل‬


‫کا نام دیتا تھا۔ شاعر وہ ہی کچھ قلم بند کرتا ہے‘ جو‬ ‫شاعری کی دیوی اسے سجھاتی ہے۔ گویا شاعری کی بنیاد‬ ‫عقل پر نہیں اٹھتی۔‬

‫اس کے نزدیک ۔۔۔۔۔ مثالی ریاست۔۔۔۔ کے حاکموں کے لیے‘‬ ‫شاعری کی تعلیم مضر اثرات کی حامل ہے۔ اس کے خیال‬ ‫میں‘ شاعر اچھا اور بااخالق شہری بننے کی راہ میں‘‬ ‫روکاوٹ بنتے ہیں۔ اس کا یہ بھی خیال تھا‘ کہ شاعر خود‬ ‫اپنے کالم کی وضاحت سے معذور ہوتے ہیں جب کہ نقاد‬ ‫اور شارح‘ مختلف معنی اخذ کرتے ہیں‘ جن کی صحت پر‬ ‫یقین نہیں کیا جا سکتا۔ افالطون شاعری کی تمثیلی اور‬ ‫عالمتی حیثیتوں کو‘ یکسر رد کرتا ہے۔ وہ کہتا تھا‘ کہ‬ ‫شاعری کا زمانہ لد گیا ہے‘ اب فلسفے کا عہد ہے‘ اور‬ ‫فلسفہ ہی صداقتوں اور علوم سے آگاہ کر سکتا ہے۔‬

‫افالطون کا دوسرا نقطہ یہ تھا‘ کہ شاعری اخالقیات مضر‬ ‫اثر ڈالتی ہے۔ صحیح اخالقیات کے لیے‘ الوہی قوتوں کا‬ ‫درست تصور پیش کیا جائے۔ اس کا خیال تھا‘ کہ دیوتا جو‬


‫تمام تر خوبیوں کا مظہر ہوتے ہیں‘ انہیں لڑتے جھگڑتے‘‬ ‫اور انسانوں پر ظلم ڈھاتے‘ دیکھانا درست نہیں۔ افالطون؛‬ ‫شاعری کو تین اصناف میں تقسیم کرتا ہے‪ :‬بیانیہ‘ رزمیہ‬ ‫اور ڈرامائی شاعری۔ اسے رزمیہ اور ڈرامائی شاعری‬ ‫میں‘ نقل کا عنصر نظر آتا تھا۔ اس کا خیال تھا‘ کہ ان‬ ‫اصناف میں‘ شاعر خود کو مختلف کرداروں کی شکل میں‘‬ ‫پیش کرتا ہے۔ وہ ناظرین اور سامعین کو‘ موقع دیتا ہے‘‬ ‫کہ وہ خود کو اس میں ضم کر دیں۔ اس کے نزدیک نقالی‬ ‫اور تقلید‘ فرد کے لیے غیر صحت مند چیزیں ہیں۔ خاص‬ ‫طور پر‘ بزدل‘ بدمعاش‘ مجرم اور پاگل اشخاص کی نقالی‘‬ ‫اور اس میں ضم ہونا‘ یا اثرات لینا‘ نقصان دہ ہے۔ یہ نقالی‬ ‫ایک سطح پر جا کر فطرت ثانیہ بن جاتی ہے۔‬

‫اس کا ایک اعتراض یہ بھی تھا‘ کہ شاعری انسان کے‘‬ ‫جذباتی پہلوؤں کے لیے نقصان دہ ہے۔ شاعر احساسات کو‬ ‫توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے۔ وہ زندگی کا خود فریب تصور‬ ‫دیتا ہے‘ جس سے ہجانی صورت پیدا ہوتی ہے‘ جو انسان‬ ‫کی صالحیتوں کے لیے‘ نقصان دہ ہوتی ہے‘ اور نظم و‬ ‫ضبط میں خرابی کا موجب بنتی ہے۔ جذبات عقل پر حاوی‬


‫ہو جاتے ہیں۔‬

‫ٹامس لو پیکوک‘ شاعری کے ضمن میں کہتا ہے‘ کہ‬ ‫شاعر مہذب قوم میں وحشی ہے۔ وہ خیالوں میں زندگی‬ ‫بسر کرتا ہے۔ شاعری کو ترقی دینا‘ مفید مطالعے کی طرف‬ ‫سے‘ توجہ کم کرنا ہے‘ اور بےمقصد کام پر وقت برباد‬ ‫کرنا ہے۔‬

‫ہیگل رومانوی تحریک سے سخت متنفر تھا۔ اس کے‬ ‫نزدیک‘ شاعری قنوطیت پھیالنے کا سبب بنتی ہے‘ اور‬ ‫انسانی جدو وجہد میں‘ رکاوٹ کا سبب بنتی ہے۔ انسان‬ ‫خیالی دنیا میں کھو کر‘ عملی زندگی سے ہاتھ کھینچ لیتا‬ ‫ہے۔ وہ اپنے ہی‘ حقوق کی حصولی میں بھی‘ تساہل‬ ‫پسندی سے کام لیتا ہے۔ ہیگل کے نزدیک‘ فرد میں‘‬ ‫معاشرت سازی کے جذبات ہونا چاہیں۔ فرد اپنی جبلتوں کو‬ ‫الگ رکھ کر‘ بہتر طور پر‘ فرائض انجام نہیں دے سکتا۔‬ ‫فرد کو ہر حال میں‘ معاشرے کی خدمت کرتی چاہیے‘ اور‬ ‫اسے ہر حال میں معاشرے کا زیردست ہونا چاہیے۔ ہیگل‬


‫کے خیال میں‘ شاعر اپنے قلم کو‘ معاشرے کا پابند نہیں‬ ‫بناتا اور معاشرے کی عصری ضرورتوں کو‘ شاعری کی‬ ‫اساس نہیں بناتا۔ گویا شاعری میں‘ اس کی انفرادیت باقی‬ ‫رہتی ہے۔‬

‫ویکو نے کہا‘ کہ پورے ترقی یافتہ ذہن میں‘ شاعری کے‬ ‫لیے کنئی جگہ نہیں۔ شاعری حقائق پر مبنی نہیں ہوتی۔‬ ‫اس میں‘ شاعر فرضی تصورات سے‘ کام لیتا ہے۔ وہ‬ ‫زندگی کی حقیقتوں کی‘ ترجمانی نہیں کرتا‘ بلکہ مبالغہ‬ ‫آرائی سے کام لیتا ہے۔ وہ حقائق کو‘ پس پشت ڈال دیتا‬ ‫ہے۔ ترقی یافتی ذہن‘ حقائق قبول کرتے ہیں۔ حقائق‘‬ ‫سائنس اور معاشرتی علوم ہی دستیاب کر سکتے ہیں۔ وہ‬ ‫مزید کہتا ہے‘ کہ شاعری تہذیبی روایات کو آگے بڑھانے‘‬ ‫اور ترقی دینے میں مدد نہیں کرتی۔ اس کے مطابق‘ شاعر‬ ‫کا علم مستند نہیں ہوتا۔ اس کی شاعری کی بنیاد‘ غیر‬ ‫حقیقی تصورات پر استوار ہوتی ہے۔ ویکو کے مطابق‘‬ ‫معاشرے کو ترقی دینے‘ معاشی اور معاشرتی زندگی میں‬ ‫تبدیلیاں النے‘ اور اسے بہتر بنانے کے لیے‘ ان علوم کو‬ ‫عام کیا جائے‘ جو زندگی کے حقائق کو پیش کرتے ہیں۔‬


‫گوسن نے‘ شاعری کے غیراخالقی اور مضررساں پہلو‬ ‫کے خالف‘ احتجاجی رسالہ لکھا۔ اس رسالے میں‘ اس نے‬ ‫شاعری پر اعتراض کیا‘ کہ شاعری جھوٹ کی ماں ہے‘‬ ‫اور ہر قسم کے دروغ کا ماخذ ہے۔ یہ انسانی کردار کو‬ ‫بیمار خواہشات کے ذریعے‘ کم زور بناتی ہے‘ اور‬ ‫نوجوانوں کے پختہ ذہنوں کو‘ واہموں سے بھر دیتی ہے۔‬ ‫شاعری عقل کو کم زور کرتی ہے۔ گناہوں کی طرف لے‬ ‫جاتی ہے‘ اور سفلی جذبات کو بےدار کرتی ہے۔ گوسن کے‬ ‫خیال کے مطابق‘ گویا شاعری وقت ضائع کرنے کا نام ہے۔‬

‫الئجانس‘ افالطون کا مداح تھا‘ اور اس کی فکر سے متاثر‬ ‫بھی تھا‘ تاہم وہ اس لخاظ سے‘ اس سے مختلف بھی تھا‘‬ ‫کہ وہ شاعروں کو ریاست بدر کرنے کی بات نہیں کرتا۔ وہ‬ ‫سبق آموز شاعری میں‘ کیفیت آفرینی پر زور دیتا ہے۔ وہ‬ ‫اعلی ادب سے‘ اس امر کا تقاضا کرتا ہے‘ کہ وہ قاری پر‬ ‫سحر کی سی کیفیت طاری کر دے۔ وہ الفاظ کے جادو کا‬ ‫قائل ہے۔ اس لیے شاعر سے تقاضا کرتا ہے‘ کہ شاعر‬


‫اپنی شاعری میں‘ ایسا جوش پیدا کرے‘ جو پڑھنے والے‬ ‫پر‘ دیوانگی طاری کر دے۔ گویا شاعری اخالقیات کی‬ ‫ترسیل کا اہم ترین ذریعہ بن جائے۔‬

‫میتھیو آرنلذ کے خیال میں‘ ہر انسان خیاالت اور اقدار ہی‬ ‫سے‘ اپنی قابلیت حاصل کرتا ہے۔ وہ کالسیکل روایت کا‬ ‫حمائیتی تھا۔ اس کے خیال میں‘ رومانوی شعرا کے ہاں‘‬ ‫توازن اور اعتدال کی کیفیت موجود نہیں۔ عدم اعتدال کی‬ ‫بنیاد پر‘ وہ شاعری پر کڑی تنقید کرتا ہے۔ اس لیے‬ ‫رومانوی تحریک سے وابستہ‘ بیشتر شعرا کا کالم دیرپا‬ ‫نہیں ہے۔ آرنلڈ کا دور‘ اقدار کی ٹوٹ پھوٹ اور نودولتی‬ ‫اقدار کا ترجمان تھا۔ آرنلڈ نے ان امور کے خالف بغاوت‬ ‫کرتے ہوئے لکھا‘ کہ ایسے دور میں‘ نہ تو ادب کی درست‬ ‫انداز سے‘ تخلیق پروری کی جا سکتی ہے اور ناہی خوش‬ ‫ذوق قاری پیدا کے جا سکتے ہیں۔ وہ زندگی کی اعلی اقدار‬ ‫کو رائج کرنے پر زور دیتا ہے۔‬

‫مختلف ادوار میں‘ شاعری کی مختلف حوالوں سے‘‬


‫مخالفت کی گئی۔ شاعری کو‘ مخصوص حوالوں کا پابند‬ ‫کرنے کی بھی سعی کی گئی۔ شاعری کے خالف‘ بعض‬ ‫لوگوں نے‘ علم بغاوت بھی بلند کیا۔ ان تمام کوششوں اور‬ ‫دالئل کے باوجود‘ شاعری کی راہ میں‘ دیوار نہ کھڑی کی‬ ‫جا سکی۔ شاعری کا دھارا‘ اپنی مخصوص رفتار سے بہتا‬ ‫رہا۔ شاعر اور شاعری کے شائقین‘ موجود رہے۔ یہ چوں‬ ‫کہ غیرفطری نظریات تھے‘ اسی لیے‘ انہیں کبھی پذیرائی‬ ‫حاصل نہ ہو سکی۔‬ ‫اس مضمون کی تیاری کے لیے‘ ان کتب سے‘ شکریے‬ ‫کے ساتھ‘ استفادہ کیا گیا۔‬

‫مغرب کے تنقیدی اصول پروفیسر سجاد باقر رضوی‬ ‫مطبع عالیہ‘ الہور ‪٠٦٢٢‬‬ ‫ارسطو سے ایلیٹ تک ڈاکٹر جمیل جالبی‬ ‫نیشنل فاؤنڈیشن ‪٠٦٧٥‬‬ ‫دمحم ہادی حسین‬ ‫مغربی شعریات‬ ‫مجلس ترقی ادب‘ الہور س ن‬


‫انگریزی آج اور آتا کل‬

‫اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریزی اس وقت دنیا کی‬ ‫حاکم زبان ہے اور یہ فخر وافتخار انگریزی تک ہی محدود‬ ‫نہیں دنیا کی ہر حاکم زبان اس مرتبے پر فائز رہی ہے۔‬ ‫چونکہ حاکم زبان کا بول چال کا حلقہ پہلے سے وسیع ہو‬ ‫گیا ہوتا ہے اس لیے اس کا دامن پہلے کی نسبت دراز ہو‬ ‫جاتا ہے۔ اسے ایسے مخصوص لوگ‘ جن کی کہ وہ زبان‬ ‫نہیں ہوتی اپنی حاکم سے وفاداری ظاہر کرنے کے لیے‬ ‫حاکم زبان کی خوبیوں کےبلندوباال محل اسار دیتے ہیں اور‬ ‫اس کے صلے میں حاکم کی خالص دیسی گھی سے بنی‬ ‫جوٹھی چوری میسر آ جاتی ہے۔ جب حاکم زبان رابطے کی‬ ‫زبان ٹھہر جاتی ہے تو اسے جہاں فخر دستیاب ہوتا ہے تو‬ ‫وہاں محکوم کی ضرورت حاالت آالت نطق اور معاون آالت‬ ‫نطق کے مطابق ڈھلنا بھی پڑتا ہے بصورت دیگر رابطے‬ ‫بحال نہیں ہو پاتے۔ یہ حاکم زبان کی مجبوری اور محکوم‬ ‫کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اپنا مزاج تلفظ استعمال اور‬


‫معنوں میں تبدیلی اور ردوبدل کا شکار ہو۔ ان امور کے‬ ‫حوالہ سے کچھ باتیں بطور خاص وقوع میں آتی ہیں۔‬ ‫‪٠‬۔حاکم زبان بھی متاثر ہوتی ہے۔‬ ‫‪٦‬۔ لسانی اور اظہاری سلیقے صیغے اور طورواطوار میں‬ ‫تبدیلی آتی ہے۔‬ ‫‪٣‬۔ مقامی اسلوب اور لب ولہجہ اختیار کرنے پر مجبور ہو‬ ‫جاتی ہے۔‬ ‫‪٤‬۔ نحوی سیٹ اپ میں تبدیلی آتی ہے۔‬ ‫الفاظ کے مفاہیم بدل جاتے ہیں۔‬ ‫‪٥‬۔ نے مرکبات تشکیل پاتے ہیں۔‬ ‫۔ زبان کی نفسیات اور کلچر جو اس کے الفاظ سے‬ ‫مخصوص ہوتا ہے یکسر بدل جاتا ہے‬ ‫اس کے برعکس اگر وہ محکوم کی نہیں بنتی تواپنا سکہ‬ ‫جما نہیں پاتی۔ جس کے نتیجہ میں خون ریزی ختم نہیں ہو‬ ‫پاتی۔ غلط فہمی کی دیواریں بلند سے بلند ہوتی چلی جاتی‬ ‫ہیں۔ آج دنیا میں قتل وغارت کا بازار گرم ہے۔ اس کی کئ‬ ‫وجوہات میں ایک وجہ انگریزی بھی ہے۔ ایک عرصہ گزر‬ ‫جانے کے باوجود انگریزی لوگوں کے دلوں میں مقام نہیں‬


‫بنا سکی۔ لوگ آج بھی اسےاجنبی سمجھتے ہیں اور اس‬ ‫جبری تعلیم کو ریاستی جبر تصور کرتے ہیں۔ اس زبان کے‬ ‫لوگوں سے نفرت کرتے ہیں۔ عربی اور فارسی کا ایک‬ ‫عرصہ تک طوطی نہیں طوطا بولتا رہا۔ اسے کبھی ریاستی‬ ‫جبر نہیں سمجھا گیا حاالنکہ وہ بھی ریاستی جبر ہی تھا۔‬ ‫ہر آنے والے کو جانا ہی ہوتا ہے۔ کوئی قائم بالذات نہیں۔‬ ‫یہ شرف صرف اور صرف هللا کی ذات گرامی کو حاصل‬ ‫ہے۔ اس حوالہ سے ہر آنے والے کا سکہ اور زبان چلتی‬ ‫ہے۔‬ ‫کوئی بھی سر پھرا اچانک تاریخ کا دھارا بدل سکتا ہے۔‬ ‫حاکم قوت کسی بھی وقت ملکی حاالت کے حوالہ سے زوال‬ ‫کا شکار ہو سکتی ہے۔‬ ‫قدرتی آفت یا آفات اسے گرفت میں لے سکتی ہے۔ جو لوگ‬ ‫یہ سمجھتے ہیں کہ آج کیا‘ آتے وقتوں میں انگریزی کرہ‬ ‫ارض کی زبان ہو گی سخت فہمی میں مبتال ہیں۔انگریزی‬ ‫کے خالف دلوں میں نفرتیں بڑھ رہی ہیں اور ایک روز‬ ‫انگریزی کیا امریکہ بھی ان نفرتوں کے سیالب میں بہہ‬ ‫جائے گا۔ ۔یہاں یہ سوچنا یا کہنا کہ عوام تو محض کیڑے‬ ‫مکوڑے ہیں‘ کیا کر لیں گے۔ بھولنا نہیں چاہیے ایک‬


‫چونٹی ہاتھی کی موت کا سبب بن سکتی ہے۔‬ ‫انگریزی کا لسانی نظام اتہائی کمزور ہے۔ خیال کے اظہار‬ ‫کے حوالہ سے ناقص ہےاور آج کی انسانی پستی میں‬ ‫انگریزی کے کردار کو نظر انداز کرنا بہت بڑی غلطی ہو‬ ‫گی۔‬ ‫انگریزی کا کھردرا اور اکھرا لہجہ اور اڑیل مزاج و رجحان‬ ‫انسانی ترقی کی راہ میں دیوار چین سے کم نہیں۔ آج انسان‬ ‫ترقی نہیں کر رہا مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔ انگریزی‬ ‫دوسروں کے آالت نطق اور معاون آالت نطق کا ساتھ دینے‬ ‫سے قاصر و عاجز ہے۔ یہ غیر انگریزوں کے حاالت‬ ‫ماحول موسوں شخصی رجحانات معاشی اور معاشرتی‬ ‫‪.‬ضرورتوں وغیرہ کا ساتھ نہیں دے سکتی۔‬ ‫انگریزی لوگوں کی ترقی کی راہ میں کوہ ہمالیہ سے سے‬ ‫بڑھ کر روکاوٹ ثابت ہو رہی ہے۔ لوگوں کی ساری توانائی‬ ‫اسے سیکھنے میں صرف ہو رہی ہے اس طرح وہ مزید‬ ‫کچھ نہیں کر پا رہے۔ عوامی تاثر یہی ہے کہ یہ مفاد پرست‬ ‫عناصر کی گورا نوازی اور چمچہ گیری کے نتیجہ میں‬ ‫لوگوں کے لیے گل گالواں بنی ہوئ ہے۔‬


‫ہندوی(ہندی‪+‬اردو) اس وقت دنیا کی واحد زبان ہے جو کرہ‬ ‫ارض کی زبان بننے کے جوہر رکھتی ہے۔ یہ کوئی نئی‬ ‫زبان نہیں ہے۔ یہ ہزاروں سال کاسفر طے کر چکی ہے۔‬ ‫اس وقت اس کے تین رسم الخط ہیں۔‬ ‫اردو‬ ‫دیو ناگری‬ ‫رومن‬ ‫پنجابی کے سوا دنیا کی کوئی زبان نہیں جس کے اس وقت‬ ‫تین رسم الخط مستعمل ہوں اور ان میں باقائدہ لڑیچر‬ ‫موجود ہو۔‬ ‫یہ تینوں اس کے اپنے نہیں ہیں۔ اس کے ذاتی رسم الخط‬ ‫کو تالشنے کی ضرورت ہے۔ اس کڑوی حقیقت کے باوجود‬ ‫یہ تینوں اجنبی نیہں ہیں اور اس زبان کے ہی سمجھے‬ ‫جاتے ہیں۔ انگریزی سرکاری سرپرستی حاصل ہونے کے‬ ‫باوجود اپناپن حاصل نہیں کر سکی۔ میں بڑے وثوق سے‬ ‫کہتا ہوں کہ انگریزی ‪ ٦‬فیصد سے زیادہ آگے نہیں بڑھ‬ ‫پائی۔ اس کے برعکس ہندوی دنیا کی دوسری بڑی بولی‬ ‫اور سمجھی جانے والی زبان ہے جبکہ لسانی حوالہ سے‬


‫‪.‬دنیا کی سب سے بڑی اور مظبوط زبان ہے۔‬ ‫جب انگریزی دنیا کی حاکم زبان نہیں تھی انگریزی‬ ‫اصطالحات رائج تھیں یا سائنس اور ٹیکنالوجی کے متعلق‬ ‫!اصطالحات موجود ہی نہیں تھیں؟‬ ‫کیا انگریزی اصطالحات اس کی ذاتی ہیں یا مانگے تانگے‬ ‫کی ہیں؟‬ ‫کیا وہ اپنے اصل تلفظ کے ساتھ مستعمل ہیں؟‬ ‫اس زبان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس میں تمام علوم‬ ‫سے متعلق کتابیں موجود ہیں۔ اس سے زیادہ کوئی بودہ‬ ‫دلیل ہو ہی نہیں سکتی۔ چینی جاپانی فرانسیسی جرمن یا‬ ‫پھر ہندوی کے پاس کچھ نہیں۔ ہندسنتان میں اشیاء کی‬ ‫مرمت کا کام انگریزی کتابیں پڑھ کر کیا جاتا ہے؟ یا پھر‬ ‫گوروں کو بالیا جاتا ہے؟‬ ‫کرہ ارض کی زبان بننے کی صالحیت صرف اور صرف‬ ‫ہندوی میں موجود ہے۔ اس میں لفظ گھڑنے نئے دینے‬ ‫اشکالی تبدیلی نئے استعماالت تالشنے کی صالحیت‬ ‫دوسری زبانوں سے کہیں زیادہ موجود ہے۔‬


‫جس زبان کو وسائل اور توجہ دو گے ترقی کرے گی۔‬ ‫ہندوی کبھی بھی توجہ کا مرکز نہیں بنی۔ اسے اس کے‬ ‫چاہنے والوں نےاپنا خون جگر پالیا ہے۔ ان کے خلوص‬ ‫اور محبت کے سبب یہ ناصرف زندہ ہے بلکہ ترقی کی راہ‬ ‫پر گامزن ہے۔‬ ‫انگریزی کے حوالہ سے ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ‬ ‫انگریزی کے باعث تجارت کو وسعت ملی ہے۔ کیا احمقانہ‬ ‫دلیل ہے۔ انگریزی سے پہلے تجارت کا کام نہیں ہوتا تھا؟‬ ‫تجارت کا تعلق ضرورت سے ہے اورضرورت کو رستہ‬ ‫تالشنا خوب خوب آتا ہے۔‬ ‫ہندوی سے متعلق لوگوں کی تعداد دنیا کی دوسری بڑی‬ ‫آبادی ہے اس لیے ان سے رابطہ پوری دنیا کی مجبوری‬ ‫ہے۔ رابطہ نہیں کریں گے تو بھوکے مر جائیں۔ موجودہ‬ ‫مختصر لباس بھی خواب ہو جائے گا۔ پھل صرف پڑھنے‬ ‫سننے کی چیز ہو جائیں گے۔ کم مزدوری میں زیادہ کام‬ ‫کرنے واال مزدور کہاں سے الئیں گے۔ یونیورسٹیوں میں‬ ‫دماغ نچوڑ کر محض ایک گیڈر پروانے پر خوش ہو جانے‬ ‫والے کدھر سے آئیں گے؟‬ ‫کہا جاتا ہے کہ ہم اپنا اصل انگریزی میں ہی تالش سکتے‬


‫ہیں۔ دنیا کی ہر زبان کا اپنا لسانی نظام ہے۔ زبانیں اپنے‬ ‫لوگوں کے حوالہ سے آگے بڑھتی ہیں۔ اگر اثر قبول کرتی‬ ‫ہیں تو اثرانداز بھی ہوتی ہیں۔ ہندوی کی اپنی تاریخ ہے۔ ہر‬ ‫ہندسنتانی اپنا اصل اسی میں تالش سکتا ہے۔ بڑے وثوق‬ ‫سے کہا جا سکتا ہے انگریزی کسی زبان کا ماخذ نہیں۔‬ ‫انگریزی دوسری زبانوں کی طرح محض اظہار کا ایک‬ ‫ذریعہ ہے۔ اس میں بھی دوسری زبانوں کے سیکڑوں الفاظ‬ ‫موجود ہیں۔‬ ‫بہت سارے سابقے الحقے درامدہ ہیں۔ اگر یہ نکال لیے‬ ‫جائیں تو اس کے ذخیرہ الفاظ میں آٹھ دس فیصد سے‬ ‫زیادہ کچھ نہ رہے۔‬ ‫کہا جا رہا ہے کہ ہندوی میں ادب کے سوا ہے کیا۔ زبانیں‬ ‫ادب کے سہارے زندہ ہیں۔ زبانوں سے ادب نکال دیں تو‬ ‫وہ کھوکھلی ہو جائیں گی۔ ادب‬ ‫الفا ظ میسر کرتا ہے۔‬ ‫زندگی کے تجربے ریکارڑ میں التا ہے۔‬ ‫قوموں کی حقیقی تاریخ مہیا کرتا ہے۔‬ ‫سماجی رویوں کی نشاندہی اور ان کی ترکیب و تشکیل کا‬


‫فریضہ سر انجام دیتا ہے۔‬ ‫اس کے بغیر انسانی زندگی کی حیثیت مشین سے زیادہ‬ ‫نہیں رہ پاتی۔‬ ‫اظہار کو سلیقہ عطا کرتا ہے۔‬ ‫اظہار میں وسعت التا ہے۔‬ ‫قوموں کا تشخص اسی کے حوالہ سے واضع ہوتا ہے۔‬ ‫سماج کی بقا میں ادب کلیدی حثیت کا حامل ہے۔‬ ‫کہا جاتا ہے کہ اردو جو اپنی اصل میں ہندوی کا ایک خط‬ ‫ہے کے اشاعتے ادارے تحریروں کی حوصلہ افزائ نہیں‬ ‫کرتے۔ اشاعتی ادارے خدمت سے زیادہ مال پانی پر یقین‬ ‫رکھتے ہیں۔ آج انٹرنیٹ کا دور ہے ان اداروں کی حیثیت‬ ‫بارہ فیصد سے زیادہ نہیں رہی۔ انٹرنیٹ پر ہندوی کے‬ ‫تینوں خطوں میں بہت سارا مواد ہے۔ آتے دنوں میں‬ ‫اشاعتی ادارے پی ٹی سی ایل کا سا درجہ حاصل کر لیں‬ ‫کے۔‬ ‫مزے کی بات یہ کہ انگریزی کی حمایت کرنے والے رومن‬ ‫ہندوی یا اردو رسم الخط کا سہارا لیتے ہیں۔‬ ‫انگریزی کے متعلق جو دالئل دیے جاتے ہیں ان سے قطعا‬


‫واضع نہیں ہوتا کہ انگریزی آتے کل کی زبان ہو گی۔ ہاں‬ ‫شدید دباؤ اور کچھاؤ کی حالت میں ہندوی کا دامن وسیع تر‬ ‫ہوتا جائے گا۔‬

‫قومی ترقی اپنی زبان میں ہی ممکن ہے‬

"In my opinion language is for communication. no language is better or worse than other. English is considered to be necessary for progress simply because now it’s become kind of international language. Most of the books and knowledge available in it." (P gal: www.forumpakistan.com)


‫‪1- Language is for communication‬‬ ‫یہ بات سو فیصد سچائی اور حقائق پر مبنی ہے کہ زبان‬ ‫رابطے کا ذریعہ ہے۔ زبان اسی کی ہے جو اسے استعمال‬ ‫میں التا ہے۔ اس کے استعمال کی چار صورتیں ہیں‪ :‬بولنا‘‬ ‫لکھنا‘ پڑھنا اورسمجھنا۔ ان میں سے کسی ایک کا استعمال‬ ‫خواندگی کے زمرے میں داخل کر دیتا ہے۔‬ ‫اس حوالہ سے موجودہ خواندگی کے تعدادی ریکارڑ کو‬ ‫کسی بھی زبان کے لیے درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس‬ ‫معاملے میں دوبارہ سے سروے کرنے کی ضرورت ہے۔‬ ‫زبان شخص کے جذبات احساسات اور خیاالت کا اظہار‬ ‫کرتی ہے لہذا‬ ‫‪٠‬۔ زبان کا کوئی مذہب نہیں۔‬ ‫‪٦‬۔ زبان ہر قسم کی عالقائی تقسیم وتخصیص سے باال تر‬ ‫ہے۔‬ ‫‪٣‬۔ زبان شخص سے جڑی ہوئی ہے اور شخص کے مزاج‬ ‫و رجحان کی تابع فرمان ہے۔‬ ‫گویا وہ وہی کچھ بیان کرے گی جو شخص کی مرضی اور‬ ‫منشا ہو گی اسی طرح لہجے اور میں بھی شخص کے آالت‬


‫نطق اور معاون آالت نطق کے ماتحت رہے گی۔ زبان‬ ‫انشراع کے حوالہ سے بال تفریق و امتیاز شخص کو‬ ‫شخص کے قریب التی ہے تاہم ہم خیالی نہ ہونے کی‬ ‫صورت میں زبان ہی کے حوالہ شخص‘ شخص سے دور‬ ‫ہو جاتا ہے۔ زبان ہی کے زیر اثر اشاراتی زبان وجود‬ ‫پکڑتی ہے۔ اس میں زبان کا کوئی قصور نہیں ہوتا‘ قصور‬ ‫الفاظ کے اندر موجود مفاہیم کا ہوتا ہے اوراس معاملے کا‬ ‫تعلق انداز تکلم اور لب و لہجہ سے بھی ہوتا ہے۔‬

‫‪2- No language is better or worse than other‬‬ ‫یہ نقطہ دو حصوں پر مشتمل ہے‬ ‫اول۔ بیٹر‬ ‫بیٹر ‘‪Better‬‬ ‫‪Better‬‬ ‫زبان وہی کہال سکتی ہے جو اظہار‬ ‫اور انشراع کے معاملے میں بہتر ہو اور اس حوالہ سے‬


‫کسی قسم کی رکاوٹ اور پچیدگی نہ پیدا ہو۔ رکاوٹ اور‬ ‫پچیدگی کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں‬ ‫‪٠‬۔ ذخیرہ الفاظ محدود ہو سکتا ہے۔‬ ‫‪٦‬۔ آوازوں کا نظام ناقص ہو سکتا ہے۔‬ ‫‪٣‬۔ لچک پذیری میں نقص ممکن ہے۔‬ ‫‪٤‬۔ سوشل نہ ہو۔‬ ‫‪٥‬۔ مختلف لہجوں کا ساتھ نہ دیتی ہو۔‬ ‫‪٢‬۔ آالت نطق یا معاون آالت نطق اس کے ساؤنڈ سسٹم کا‬ ‫ساتھ نہ دیتے ہوں۔‬ ‫‪٧‬۔ تبادل آوازوں کا نظام بہتر نہ ہو۔‬ ‫‪٨‬۔ مفرد آواز کے لیے مرکب آواز کا سہارا لینا پڑتا ہو۔ یہ‬ ‫مرکب آوازیں ایک سے زیادہ آوازیں دیتی ہوں۔ یا پھر تلفظ‬ ‫میں پچیدگی پیدا ہوتی ہو۔‬ ‫‪٦‬۔ لکھنے پڑھنے کے حوالہ خرابی کی صورتیں نکلتی‬ ‫ہوں۔‬ ‫۔‪٠‬سیکھنے میں آسان نہ ہو۔‬ ‫‪٠٠‬۔ سیکھنے والے کی دلچسپی باقی نہ رہتی ہو۔‬


‫‪٠٦‬۔ متبادالت کی تعداد زیادہ نہ ہو۔‬ ‫‪٠٣‬۔ ایک لفظ کے بہت سے معنی ہوتے ہیں۔ جملے میں‬ ‫مطلوبہ معنی واضع نہ ہوتے ہوں۔‬ ‫‪٠٤‬۔ عمومی بول چال میں لفظوں کی فطری ادائیگی‬ ‫سماعت پر گراں گزرتی ہو۔‬ ‫۔۔‪٠٥‬اصطالحات کا ذخیرہ وافر نہ ہو یا پھر گھڑنے پر‬ ‫فطری اصولوں کے مطابق نہ رہتی ہو‬ ‫‪٠٢‬۔ ایک ہی بات کہنے کے لیے مختلف ڈھنگ اور طور‬ ‫اپنانے سے قاصر ہو۔‬ ‫‪٠٧‬۔ رشتے ناتے واضع کرنے کی اہلیت نہ رکھتی ہو۔ واحد‬ ‫جمع اور مونث مذکر بنانے کے لیے فطری اصول نہ رکھتی‬ ‫ہو۔‬ ‫غرض ایسی بہت ساری باتیں ہیں جو‬ ‫‪ na’better‬اور ‪better‬‬ ‫سے عالقہ رکھتی ہیں۔‬ ‫‪ Worse‬دوم۔ ورس‬


‫نہیں ہوتی ہاں اس میں کہی گئ ‪ Worse‬کوئی بھی زبان‬ ‫بات‘ اچھی یا بری ہو سکتی ہے۔‬ ‫‪English is considered to be necessary for progress‬‬

‫ایسی بات کو احمقانہ اور غیردانش مندانہ کہنے میں کوئ‬ ‫برائ یا خرابی محسوس نہیں ہوتی۔ ماہرین لسانیات اور‬ ‫دوسری زبانیں استعمال کرنے والوں کے لیے یہ بات ان‬ ‫کے ہاضمے کی دسترس سے قطعی باہر ہے۔ یہی سنہری‬ ‫کلمات یونانی عربی فارسی ترکی وغیرہ کے لیے کہے‬ ‫جاتے رہے ہیں۔ کہاں گیا وہ رعب و دابدبہ؟! سب مٹی ہو‬ ‫گیا۔ بالکل اسی طرح کل کو یہ بھی مٹ جاءے۔ انگریزی کا‬ ‫لسانی مطالعہ کر دیکھیں اس کی باالدستی اور رعب‬ ‫ودبدبے کا چانن ہو جاءے گا۔‬

‫‪Now it (English) become kind of international language‬‬ ‫یہ بات امریکہ بہادر کی عسکری قوت سے مرعوب ہو کر‬


‫تو کہی جا سکتی ہے ورنہ خود مغرب میں انگریزی بولنے‬ ‫والوں کی تعداد اتتہائی غیر معقول ہے۔ بہت سے مغربی‬ ‫ممالک کا کاروبار ان کی اپنی زبان میں چل رہا ہے۔ ماضی‬ ‫بعید کی ان گنت چیزیں آج حیرت کا سبب ہیں۔ کیا وہ‬ ‫انگریزی کا کارنامہ قرار دیا جائے۔ چمچے اہرام مصر کو‬ ‫انگریزی کی دین قرار دیں گے۔ ان کی چھوڑیے‘ سچائی‬ ‫کیا ہے‘ اس کا کھوج کرنا ضروری ہے۔ بہت ساری‬ ‫استعمال کی اشیاء کے نام جاپانی اور چینی ہیں‘ بازار میں‬ ‫مستعمل بھی ہیں۔ ان اشیاء کی تخلیق کی پگڑی انگریزی‬ ‫کے سر پر رکھی جائے؟!‬ ‫ان حقائق کی روشنی میں ماسی انگریزی کو بین االقوامی‬ ‫زبان کہنا کیونکر مناسب ہو گا۔ اگر اسے امریکہ بہادر سے‬ ‫رابطے کی زبان کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا۔‬ ‫ہماری اور دیگر ممالک کی بہت ساری بیبیاں ہندوی‬ ‫(اردو‪+‬ہندی) کی فلمیں دیکھتی ہیں اور اپنی زبان میں‬ ‫بخوبی مفاہیم سمجھ رہی ہوتی ہیں۔ حاالنکہ وہ ہندوی‬ ‫لکھنے پڑھنے اور بولنے سے قاصر ہوتی ہیں۔ ہندوی ان‬ ‫کی کبھی بھی زبان نہیں رہی ہوتی۔ ان کے گھر یا ان کے‬ ‫قرب و جوار میں ہندوی کا نشان تک نہیں ملتا۔‬


‫ہندوی اس وقت دنیا دوسری بڑی زبان ہے لیکن اپنے‬ ‫لسانی نظام اور ساؤنڈ سسٹم کے حوالہ سے پہلی بڑی‬ ‫زبان ہے۔‬ ‫یوکے اور کنیڈا میں وہاں کی دوسری بڑی استعمال کی‬ ‫زبان ہے۔‬ ‫دنیا کے کسی خطے میں چلے جاءیں ہندوی سے متعلق‬ ‫اچھے خاصے لوگ مل جائیں گےاس لیے انگریزی کو‬ ‫دھونس سے بین اال قومی زبان کا درجہ دینے کی کوشش‬ ‫کی جاتی ہے۔‬ ‫ہندوی سے متعلق لوگ دنا کے سب سے بڑے خریددار‬ ‫ہیں۔ خام مال برامد کرنے کے حوالہ سے بھی کسی سے کم‬ ‫نہیں ہیں۔ پھل اناج سبزیاں پوری دنیا میں برصغیر سے‬ ‫جاتی ہیں۔ ذاتی مفادات کے تحت اس سے متعلق وڈیرے‬ ‫بےحسی کا شکار ہیں۔ وہ نہیں جانتے یا جاننا نہیں چاہتے‬ ‫کہ دنیا کی اقتصادیات میں ان کی کیا اہمیت ہے۔‬

‫‪5- Most of the books and knowledge available in (english) it.‬‬


‫یہ نقطہ ہر حوالہ سے ضعف باہ کا مریض نظر آتا ہے۔ دنیا‬ ‫کی کون سی بڑی کتاب ہے جس کا ہندوی میں ترجمہ نہیں‬ ‫ہوا۔‬ ‫اس وقت ہندوی میں‬ ‫ا۔ مذہبی لڑیچر کی کتابیں دنیا کی تمام زبانوں سے زیادہ‬ ‫ترجمہ ہوئی ہیں۔‬ ‫ب۔فنون وغیرہ کی ہر بڑی کتاب ترجمہ ہو کر اس میں داخل‬ ‫ہو چکی ہے۔‬ ‫شعری اصناف سخن میں انگریزی اس کے قریب سے بھی‬ ‫گزرنے کی تاب نہیں رکھتی۔ کوئی انگریزی میں استاد‬ ‫غالب کا سا نکال کر ہی دکھا دے۔‬ ‫ج۔ اقتصادیات سے متعلق ترجمہ ہو چکی ہیں۔ بے شمار‬ ‫کتابیں۔‬ ‫آخری بات اس ذیل میں یہ ہے کہ یہ کہنا سو فیصد غلط ہے‬ ‫کہ کوئی قوم مانگے یا ریاستی جبر کے تحت پڑھائی جانے‬ ‫والی زبان میں ترقی کر سکتی۔ ترقی کا خواب قوموں کی‬ ‫اپنی زبان میں ہی شرمندء تعبیر ہو سکتا ۔ہے۔‬


‫انگریزی کے ہندوی پرلسانیاتی اثرات‬

‫عموما سمجھا سوچا اور کہا جاتا ہے کہ حاکم زبان لسانی‬ ‫حوالہ سے محکوم زبانوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ یہ نظریہ‬ ‫ایک حد تک درست ہو سکتا ہے لیکن اس کی صحت کا‬ ‫مکمل طور اقرار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ معاملہ حاکم اور اس‬ ‫کی حاکمیت سے تعلق نہیں رکھتا۔ ہاں جبر اور مجبوری کی‬ ‫ایک صورت ہمزاد بن کر ساتھ چلتی رہتی ہے۔ انگریزی آج‬ ‫جبر اور مجبوری بنی ہوئ ہے۔ زبانی کی بات چوڑیے‬ ‫عملی تجزیہ کر دیکھیں پانچ سے سات فیصد لوگ‬ ‫انگریزی جانتے ہیں ورنہ لوگ ڈگری یا سند حاصل کرنے‬ ‫کے رٹاالئزیشن کو شعار بناتے ہیں۔ زبانیں انسانوں سے‬ ‫وابستہ ہیں انسان جب بھی کسی بھی حوالہ سے ایک‬ ‫دوسرے کے قریب آتے ہیں اپنی زبان کا لسانی اثر ضرور‬ ‫چھوڑتے ہیں۔ کم یا زیادہ کے ضمن میں چند امور از خود‬


‫پیش پیش رہتے ہیں۔ مثال‬ ‫‪٠‬۔ آوازوں کی گنتی اور ان کا لسانی نظام‬ ‫‪٦‬۔ زبانوں کی لچک پذیری کا تناسب‬ ‫‪٣‬۔ مترادف اور متبادل آوازوں کی فراہمی اور موجودگی‬ ‫‪٤‬۔ بولنے والوں کا مزاج رجحانات اور موجودہ رویے‬ ‫‪٥‬۔ بولنے والوں کی میل مالقات کی صورتیں‬ ‫‪٢‬۔ شخصی اور مجموعی انداز و اطوار‬ ‫‪٧‬۔ حاالت ماحول اور معاشرت‬ ‫‪٨‬۔ ضرورتیں اور ان ضرورتوں کی اہمیت اور نوعیت‬ ‫‪٦‬۔ زبانوں کی انا‘ جو ان سے مخصوص ہوتی ہے‬ ‫‪٠١‬۔ آالت نطق اور معاون آالت نطق‬ ‫مرکب آوازیں‪٠٠‬۔‬ ‫‪٠٦‬۔ شخصی اور قومی ترجیحات‬ ‫مجبوری سے جڑے افعال استحکام سے دور رہتے ہیں یا‬ ‫ان کا سلیقہ درست نہیں رہتا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے‬ ‫انداز و اطوار نادرست رہے ہوں اور فٹیک کا عنصر غالب‬


‫رہا ہو۔ بہرطور کہیں ناکہیں خرابی کجی گڑبڑ یا ادھورے‬ ‫پن کی کوئی ناکوئی صورت ضرور باقی رہتی ہے جس کے‬ ‫سبب آتے وقتوں میں ان افعال کی موت واقع ہو جاتی ہے‬ ‫اور وہ قصہ پارینہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔‬ ‫مختلف عالقوں اور قومیتوں کے لوگ مختلف حوالوں سے‬ ‫برصغیر میں آتے جاتے رہے ہیں۔ برصغیر کی زبانوں نے‬ ‫بدیسی زبانوں کے اثرات قبول کیے ہیں۔ ہندوی نے بھی‬ ‫بدیسی زبانوں کے اثرات قبول کیے ہیں۔ ہندوی دنیا کی تمام‬ ‫زبانوں سے زیادہ سوشل ملنسار اور اؤل درجے کی لچک‬ ‫پذیری کی حامل ہے۔ اسی وجہ سے یہ دنیا کی استعمال‬ ‫ہونے والی دوسری بڑی زبان ہے اوراس کا اور زبانوں کی‬ ‫طرح دائرہء اظہار محدود نہیں۔ جب یہ محض بولی رہی ہو‬ ‫گی اس کا قد کاٹھ اس عہد کے حوالہ سے محدود نہیں رہا‬ ‫ہو گا۔ اس کا خصوصی وصف یہ ہے کہ جب جس سے ملی‬ ‫اس کو اپنا کر لیا۔‬ ‫بدیسی لفظوں کو اپناتے اپنا چلن نہیں بدال بلکہ بدیسی کو‬ ‫اپنے رستوں پر چالیا۔‬ ‫احوال حور اوقات دیکھنے عربی ہیں لیکن عربی نہیں‬ ‫رہے۔ کوئی عربی انہیں واحد تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہو‬


‫گا۔ مجلس اور جلوس اپنے عربی معنوں سے دور ہو ئے‬ ‫ہیں۔‬ ‫ٹوچن ٹچ میچا نیچا لیڈیاں سیٹیاں وٹران سپوٹران مسیں‬ ‫وغیرہ کو کوئی انگریز انگریزی زبان کے الفاظ تسلیم نہیں‬ ‫کرے گا۔ ہندوی میں ان کی اپنی حثیت ضرورت استعماالت‬ ‫اور نحوی صورتیں ہیں۔ اس طرح کے ان گنت مختلف‬ ‫زبانوں کے الفاظ ہیں جن کا جغرافیہ ہی تبدیل ہو چکا ہے‬ ‫اور وہ ہندوی کے اپنے ذاتی الفاظ بن چکے ہیں۔ وہ‬ ‫مستعمل اور مانوس ہو گیے ہیں۔ یہی نہیں ان کا استعمال‬ ‫ہندوی کے اپنے لسانی سٹ اپ اور شخصی ضرورت اورتر‬ ‫جیح کے تابع ہو گیا ہے۔‬

‫انگریزی بہادر شاہ اؤل کے عہد سے تقریبا مجبوری کا‬ ‫درجہ اختیار کر گئی لیکن جب اردو کے جثے کو مالحظہ‬ ‫کرتے ہیں تو بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اسے مجبوری کا‬ ‫نام نہیں دیا جا سکتا۔ انگریزی کو قبولتے وقت کہیں اور‬ ‫کسی موڑ پر اس کی لسانی انا مجروع نہیں ہوئی بلکہ‬ ‫ہندوی میں ان کا حلیہ ہی بگڑ گیا ہے۔ بدیسی یا مہاجر کو‬ ‫اس کا لباس زیب تن کرنا پڑا ہے۔ ذرا غور کریں یہاں کا‬


‫باشندہ جب پتلون شرٹ پہنتا ہے انگریز نہیں ہو جاتا۔ پتلون‬ ‫شرٹ کو دیسی ہونا پڑتا ہے۔ کہیں ناکہیں کوئی ناکوئی‬ ‫تبدیلی ضرور محسوس کی جا سکتی ہے۔ ہندوی نے‬ ‫انگریزی الفاظ کو شلوار قمیض پہنا کر قبوال ہے۔ ہر بدیسی‬ ‫لفظ کو ہندوی کی ذاتی شناخت میسر آئی ہے۔ اگلی سطور‬ ‫میں چند ایک مثالیں درج کر رہا تاکہ سند رہے اور بوقت‬ ‫ضرورت کام آ سکیں۔ قبلہ اکبر الہ آبادی کے کالم سے لی‬ ‫گئ ہیں۔ گویا آج ہی نہیں بہت پہلے بھی یہی رویہ موجود‬ ‫تھا۔کچھ مثالیں دانستہ‬ ‫انگریزی ہندوی مرکبات‬ ‫الٹ صاحب‘ جھوٹے بسکٹ‘ نیچرل چیز‘ نیچرل بات‘ نیچرل‬ ‫ہے پیپر دھندلی‘ شوخ مس‘ اگال کورس‘ لندن تک‘ آنریری‬ ‫عندلیب‘ غربی مشینوں پیش کمشن‘ مغربی اپریشن‘ شعیہ‬ ‫کالج‘ سیاسی کمیٹی‘ مخفی پالیسی‘ انگریزی سوسائٹی‘‬ ‫ٹکٹ گھر‘ ڈاک ٹرین‘ مال مجسٹریٹ‘ صوفی پروفیسر‘‬ ‫پولیٹیکل ضرورت‘ تھرڈ والے‘ پولیٹیکل حاالت‘ پولیٹیکل‬ ‫آب و ہوا‘ ایک انچ‘ کالج سے‘ کالج کے‘ بار میں‘ ہوٹل‬ ‫میں‬ ‫ملت انگریز‘ ترقی پنشن‘ ‘ چشم مس‘ شاہ ‘مس فرنگ‬


‫انگلینڈ‘ مشن انقالب‘ تقلید انگلش‘ ساز پیانو‘ دین نیچری‘‬ ‫شاہد ہوٹل‘ سرجن رقیب‘ فکر سلوشن‘ عہد انگلش‘ پابندی‬ ‫پتلون ' پردہ سکرین‬ ‫پتلون و کوٹ‘ بنگلہ و بسکٹ‘ کالج و ٹیچر‘ شیخی و‬ ‫کلرکی‘ نغمہء اسپنسر ومل‘ کرنل و کمشنر ‘نوکری و‬ ‫ممبری‬ ‫نغمہ ء یورپ‘ غمزہ ء انگریزی‘ مئے لندن‘ سایہ ء ہوٹل‬ ‫مئے نیچر 'سوئے لندن‬ ‫کرسمس کا پچھال‘ کلکٹر کا ڈے اسپیچ کا ہنر‘ اسپیچ کا‬ ‫سر‘ انگلش کا بوجھ‘ یورپ کا قافیہ‘ کونسل کا ووٹ‘ مسجد‬ ‫کا نوٹس‘ شاہی کا چارج‘ کلکٹر کا دیدار‘ یونیورسٹی کا‬ ‫مسلہ‘ بسکٹ کا چور‘ لیکچر کا سبق‘ انگلش کا دور دورہ‘‬ ‫بیف کا چسکا‘ پتلون کا پیچ‬ ‫عزت کی ہسٹری‘ یورپ کی طرف‘ بوٹ کی چر چر‘ وحدت‬ ‫کی مسٹری‘ ہسٹری کی بستی‘ اسپتال کی دوا‘ کالج کی‬ ‫بکواس‘ لیگ کی گورنمنٹ‘ یورپ کی داستان‘ریل کی پٹڑی‘‬ ‫نیٹو کی گھس گھس‘ نیٹو کی تنخواہ‘ اسکول کی گرائمر‬ ‫پریڈ پر قواعد‘ چہرے پر گلٹ‘موٹر پر سوار‘ اسٹیج پر دنیا‬


‫کمیٹی اور ریزولوشن‘ تجارت اور پولیٹکس‬ ‫دسمبر ہو یا اگست‬ ‫گورنمنٹ ہی رسپنونسیبل‬ ‫منشی کہ کلکرک‬ ‫کلیسا میں انگریزی‬ ‫سابقوں الحقوں کا بھی بخوبی استعمال ہوتا رہتا ہے۔ مثال‬ ‫بے ٹکٹ‘ خوش ڈنر‘ دلکشا سائنس‘ بے حارم‘ بال گلٹ‘ بال‬ ‫کلر‘بال آپریشن‘مس ناشناس‘ پنشن یافتہ‘ سائنسدان‘ کلرک‬ ‫بادشاہ‘ مکنلٹی وغیرہ‬ ‫انگریزی الفاظ کی اردو جمعیں‬ ‫ٹربالت‘ کاروں‘ بنگلوں‘ کولیگوں‘ لیڈیوں‘ مسوں‘‬ ‫ممبروں‘ ووٹوں‘ بلوں‘ بنکوں‘ یونیورسٹیوں‘ سکولوں‘‬ ‫کالجوں‘ موٹروں‘ سپوٹروں‘ ٹیچروں‘ ڈاکٹروں‘‬ ‫پروفیسروں‘ ججوں‘ پروفیسر حضرات‬ ‫مسیں‘ بسیں‘ کاریں‘ کالیں‬ ‫کمیٹیاں‘ سوسائٹیاں‘ ورائیٹیاں‬ ‫بعض جمعیں اردو میں واحد مستعمل ہیں۔ مثال میڈیا‘‬


‫بکٹیریا وغیرہ‬ ‫ی بڑھانے کا رجحان‬ ‫کلرکی‘ منسٹری‘ رجسٹری‘ ڈاکٹری‘ ماسٹری‘ منیٹری‘‬ ‫بیرسٹری‘ لیڈری‬ ‫مونث بنانے کے لیے دیسی طور اپنایا جاتا ہے مثال‬ ‫ڈاکٹرنی‘ ماسٹرنی‘ مبرنی‘ لیڈرنی‘ افسرنی‬ ‫بہت ساری اشیاء کے نام عمومی بول چال کا حصہ بن‬ ‫گءے ہینتاہم ان کا استعمال انگریزی نہیں رہا۔ مثال‬

‫بہت سارے نجی اداروں کے نام انگریزی یا انگریزی نما ہو‬ ‫گئے ہیں۔ مثال‬ ‫سٹی ویو ہائی سکول‘ پاکستان ماڈل ہائی سکول‘ گرین‬ ‫کالج‘ الخیر یویورسٹی‘ ارحا پوسٹ گریجویٹ کالج‘ الہور‬ ‫کالج آف سائنس‘ سعیدہ ڈیلوری ہاؤس‘ نوشابہ بیوٹی‬ ‫سنٹر‘ جدید بک ہاؤس‘ سجاد النڈری‘ شیزان بیکری‘ ذکی‬ ‫ٹرانسپورٹ‘ چناب ٹرانپورٹ سروسز وغیرہ‬ ‫بہت سے پرزوں کے نام ہندوی میں مستعمل ہو گیے ہیں۔‬


‫مثال‬ ‫رنگ پسٹن لیور بریک اکسل بل رینچ سکریو ہنڈل سٹیرنگ‬ ‫مڈگارڈ ٹائر ٹیوب چین کریئر پلگ وغیرہ‬ ‫ان دونوں زبانوں کا مشترک سابقہ ہے۔ غالبا ہندوی میں‬ ‫پہلے سے مستعمل ہے۔ مثال‬ ‫ان پڑھ‘ ان گنت‘ انجان‘ ان دیکھا‘ ان مٹ‘ ان داتا‘ ان حد‬ ‫ان ڈیو‘ ان نون‘ ان جسٹ‘ ان ایبل‘ان الئک‬ ‫بہت سے الفاظ تبدیلی مفہوم کے سا ہندوی کا حصہ بنے‬ ‫ہیں۔ مثال‬ ‫‪Blade, break, discharge, taxi, copy, glass, circle, school, tube,‬‬ ‫‪lead, plate jug‬‬

‫متبادل آوازوں کے ساتھ بہت سے الفاظ پڑھنے سننے کو‬ ‫ملتے ہیں۔ مثال‬ ‫سی ڈی سے سی ٹی‘ پیڈ سے پریٹ‘ رپورٹ سے رپٹ‬ ‫وغیرہ‬


‫انگریزی الفاظ کے ساتھ ہندوی مصادر کی بڑھوتی عام سی‬ ‫بات ہے۔ مثال‬ ‫اپریشن کرنا‘ ہونا‘ ہو چکنا۔ ایڈٹ کرنا‘ ہونا۔ ایڈوانس دینا‘‬ ‫ہونا‘ لینا۔ ریجکٹ کرنا‘ ہونا۔ ٹکٹ دینا‘ لینا‘ ملنا۔ لیکچر‬ ‫دینا‘ ہونا۔ ایڈوائس دینا‘ کرنا‘ ملنا‘ ہونا۔ ہسٹری پڑھنا‘‬ ‫پڑھانا‘ لکھنا‘ بننا۔ رپوارٹ کرنا‘ ملنا‘ ہونا‘ لکھنا۔‬ ‫بعض بڑے عجیب و غریب آمیزے سننے کو ملتے ہیں۔‬ ‫مثال چیبڑ (چپ بورڑ)‘ منٹ مار‘ ممکنلٹی‘ ٹربالت وغیرہ‬ ‫‪ch‬‬ ‫سی ایچ چ کے لیے چرچ‘ چٹ‘ چارج‘ چیپ وغیرہ‬ ‫‪sh‬‬ ‫ایس ایچ ش کے لیے جیسے شرٹ‘ شپ‘ شیپ‘ فش وغیرہ‬ ‫انگریزی میں مرکب جبکہ ہندوی میں ان کے لیے مفرد‬ ‫آوازیں موجود ہیں۔‬ ‫بہت سی چیزوں کے نام اردو میں داخل ہو گیے ہیں۔ اکثر‬


‫چیزیں بیرونی ممالک کی ایجاد ہیں۔‬ ‫کولر‘ فریج‘ ڈش؛ گالس‘ پلیٹ‘ بیف‘ مٹن‘ کک‘ کلرک‘‬ ‫کالک‘ فین‘ واشنگ مشین‘ ٹیلی فون‘ موبائل‘ واش روم‘‬ ‫کچن‘ ٹیلی ویژن‘ بیسن‘ اوون‘ بیڈ‘ شمپو‘ چیئر‘ ٹیبل‘‬ ‫کوٹ‘ کورٹ‘ شرٹ‘ کوکر‘ شمیز‘ کپ‘ سوپ‘ بک‘ کاپی‘‬ ‫پنسل‘ پن‘ ماڈل‘ پیپر‘ بلیڈ وغیرہ‬ ‫دفاتر کے نام داخل ہو گئے ہیں۔ مثال‬ ‫پریذنٹ ہاؤس‘ پی ایم ہاؤس‘ سی ایم ‘بیورو‘ سیکٹریریٹ‬ ‫ہاؤس‘ اسمبلی چیمبرز‘ اسمبلی ہال‘ گورنر ہاؤس‘ ڈی سی‬ ‫آفس‘ ڈی ای او آفس‘ انسپکٹریٹ‘ ڈاکٹریٹ‘ اے جی آفس‘‬ ‫پولیس اسٹیشن‘ ریلوے اسٹیشن‘ بکنگ آفس وغیرہ‬ ‫بہت ساری ادویات کے نام ہندوی کے ذخیرہء الفاظ میں‬ ‫داخل ہو گئے ہیں اور ان کا استعمال ہندوی اور اس سے‬ ‫متعلق لوگوں کے مزاج اور ضرورت کے مطاق ہوتا ہے۔‬ ‫مثال‬ ‫بیروفین‘ سپٹران‘ پیراسیٹامول‘ ڈسپرین‘کال پول‬ ‫میڈیکل سے متعلق لوگوں کے عہدوں کے نام بھی مانوس‬ ‫ہو گئے ہیں۔ مثال‬


‫نرس‘ وارڑ بوائے‘ ڈسپنسر‘ ڈاکٹر‘ سرجن ایم ایس‬ ‫اور بہت سے الفاظ غیرمانوس نہیں رہے۔ مثال‬ ‫میڈیکل سٹور‘ بلڈ گروپ‘ ایمرجنسی‘ ڈیلوری‘ سزرین‘‬ ‫وارڑ‬ ‫فوجی عہدوں اور فوج سے بہت سے متعلقات کے نام اس‬ ‫زبان میں داخل ہو گئے ہیں۔ مثال‬ ‫لنگر کمانڈرصوبیدار میجر‘ کیپٹن‘ میجر‘ کرنل‘ برگیڈیر‘‬ ‫جرنل‘ چیف آف آرمی سٹاف‘ کمانڈنٹ‘ کور کمانڈر‘ ونگ‬ ‫کمانڈر‘ گن‘ سٹین گن‘ برین گن‘ ٹینک‘ پریڈ‘ پریڈ گراؤنڈ‬ ‫وغیرہ‬ ‫ان گنت سول عہدوں کے نام پڑھنے سننے کو ملتے ہیں۔‬ ‫مثال‬ ‫میٹر ریڈر‘ ڈرائیور‘ پوسٹ مین‘ پوسٹ ماسٹر‘ اسٹیشن‬ ‫ماسٹر‘ الئین مین‘ یس ڈی او‘ اکاؤنٹنٹ‘کنٹرولر‘ پرنسپل‘‬ ‫سول جج‘ سیشن جج‘ جسٹس‘ چیف جسٹس‘ بریسٹر‘‬ ‫کونسلر‘ ڈی جی‘ اکانومسٹ‘ ڈین‘ چانسلر‘ منیجر‘ کیشئر‘‬ ‫گیٹ کیپر‘ ریکارڈ کیپر‘ ڈائریکٹر‬ ‫ایسی ان گنت صورتیں زبان کے سنجیدہ مطالعہ سے‬


‫سامنے الئی جا سکتی ہیں۔ اس ذیل میں نے ایک ارتعاش‬ ‫پیدا کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ اہل فکر اس موضوع پر‬ ‫سنجیدہ توجہ دے سکیں۔ کچھ لوگ الفاظ کے دخول سے‬ ‫چڑتے ہیں حاالنکہ اس میں چڑنے والی کوئی بات نہیں۔ یہ‬ ‫کوئی ایسی نئی بات‬ ‫اس سے اس زبان کی لچک پذیری اور اس کے ساؤنڈ‬ ‫سسٹم کی وسعت و فراخی کاایسا تو ہمیشہ سے ہوتا آیا‬ ‫ہے۔نہیں‬ ‫ہر زاویہ نظر سے دیکھ لیں ہندوی کی ٹانگ باہر نظر نہیں‬ ‫آرے۔ اس سے اظہاری عمل میں فراخی کے رستے دراز‬ ‫ہوتے ہیں‬

‫ڈاکٹر اقبال اور مغربی مفکرین‬

‫اقبال نے اسکاچ مشن اسکول‘ سیال کوٹ سے‘ مشرقی و‬ ‫مغربی طرز پر ایف اے کیا۔ مزید تعلیم کے لیے الہور آئے۔‬


‫یہاں بیک وقت تین تعلیمی و فکری دھارے بہتے تھے۔‬ ‫ا سر سید کے حوالہ سے‘ مغربی اطوار و نظریات ‪٠-‬‬ ‫معتارف کرانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔‬ ‫ب گورنمنٹ کالج‘ الہور میں‘ پروفیسر آرنلڈ کے حوالہ‬ ‫سے‘ طلبا مغرب سے بالواسطہ معتارف ہو رہے تھے۔‬ ‫علوم شرقیہ سے متعلق مختلف اسکول مشرقی فکر ‪٦-‬‬ ‫عام کرنے میں مصروف تھے۔‬ ‫ایک طبقہ مخلوط نظریات پھیال رہا تھا۔ ‪٣-‬‬ ‫اقبال کے پروفیسر آرنلڈ سے‘ خصوصی تعلق خاطر کا‬ ‫اندازہ‘ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب وہ ‪٠٦١٤‬‬ ‫میں‘ انگلستان واپس گیے‘ تو اقبال نے ان کے رخصت‬ ‫ہونے پر نظم۔۔۔۔نالہءفراق۔۔۔۔۔ قلم بند کی۔ اس نظم کے‬ ‫مندرجات سے‘ اقبال کی آرنلڈ سے قلبی وابستگی کا اندازہ‬ ‫لگایا جا سکتا ہے۔ اقبال نے اس نظم میں موصوف کو کلیم‘‬ ‫خورشید آشنا‘ ابر رحمت‘ موج نفس باد نشاط وغیرہ ایسے‬ ‫القابات سے ملقوب کیا۔‬ ‫ان دنوں گورنمنٹ کالج‘ الہور بانجھ نہ تھا اور ناہی کبھی‬


‫رہا ہے۔ اسے ہر دور میں‘ سعادت سعید اور تبسم کاشمیری‬ ‫سے بےبدل عالم فاضل‘ میسر رہے ہیں۔ آرنلڈ ہی سے‬ ‫کیوں یہ رشتہءالفت استوار ہوا۔ اس سوالیے کا جواب نظم‬ ‫کے اندر موجود ہے۔‬ ‫کھول دے گا دشت وحشت عقدہء تقدیر کو‬ ‫توڑ کر پہنچوں گا میں پنجاب کی زنجیر کو‬ ‫اقبال زبردست نباض تھے۔ مغرب کو بھی نمائندوں کی‬ ‫ضرورت تھی۔ اپنی دھرتی زنجیر نہیں ہوتی۔ اپنی دھرتی کو‬ ‫زنجیر کہنے واال اپنی دھرتی سے کتنا مخلص ہو سکتا ہے‬ ‫اس کا اندازہ لگانا کوئی پچیدہ عمل نہیں۔‬ ‫اقبال نے گورنمنٹ کالج‘ الہور میں تدریسی فرائض بھی‬ ‫انجام دئیے۔ جس سے‘ ناصرف سوچ کو فراخی میسر آئی‘‬ ‫بلکہ نظریات کو بھی ایک سمت‘ دستیاب ہوئی۔ الہور میں‬ ‫رہتے ہوئے‘ انھوں نے مختلف مشاعروں میں شرکت کی۔‬ ‫مختلف نظریات کے شعرا سے مل بیٹھنے کا موقع بھی‬ ‫ہاتھ لگا۔ اس سے ان کا شعری شعور پختہ ہوا۔ ‪ ٠٦١٥‬تک‬ ‫انھوں نے مشرق کی اقدار سے وقفیت حاصل کی۔‬ ‫ستمبر ‪ ٠٦١٥‬کو‘ ‪٧‬‬


‫عازم انگلستان ہوئے۔ ابتدا ہی میں‘ ان کی مالقات میگ‬ ‫ٹیگارٹ سے ہوئی جو ہیگل کا پیرو تھا۔ اس کے عالوہ‬ ‫آکسفررڈ یونیورسٹی میں پروفیسر براؤن اور پروفیسر وارڈ‬ ‫سارلے سے خصوصی طور پر علمی و فکری استفادے کا‬ ‫موقع مال۔ پروفیسر سارلے کے حوالہ سے لفظ کی حقیقی‬ ‫قدر اور حرمت سے آگاہی حاصل کی۔‬ ‫انگلستان میں رہتے ہوئے‘ ڈاکٹر نکلسن کی ایما پر فارسی‬ ‫ادبیات کا مطالعہ کیا۔ حافظ شیرازی کے نظریہءوحدت‬ ‫الوجود کے تناظر یا کانٹ کے۔۔۔۔وجود کی تالش۔۔۔۔ اور‬ ‫فشٹے کے نظریہ انا یعنی ایگو کے تناظر میں حافظ‬ ‫شیرازی کا مطالعہ کیا۔ پھر وہ فلسفہءخودی کے موجد قرار‬ ‫پائے۔‬ ‫کلیسا اخالقی اقدار کا سرچشمہ رہا ہے۔ اپنی اہمیت کھو‬ ‫بیٹھا تھا۔ سیاست اور مذہب‘ دو الگ الگ شعبے قرار پا‬ ‫گیے تھے۔ مذہب‘ کلیسا کی چار دیواری کے اندر‘ محض‬ ‫دعاؤں کا مجموعہ ہو کر رہ گیا تھا۔ سیاست کے‬ ‫علمبرداروں نے‘ اپنے الگ سے سیاسی اصول وضع کر‬ ‫لیے تھے۔ اس طرح انھیں‘ سماجی اور معاشرتی رویوں پر‬ ‫گرفت حاصل ہو گئی تھی۔‬


‫کارل مارکس نے‘ سسکتی حیات‘ معاشرتی جبر‘ سیاسی‬ ‫حیلہ سازیوں اور معاشی قتل عام کے ردعمل میں‘ اپنا‬ ‫نظریہء معیشت پیش کیا۔ انقالب فرانس اور امریکہ کی‬ ‫جنگ آزادی بھی‘ اسی عدم مساوات اور معاشی ناہمواریوں‬ ‫کا نتیجہ تھی۔ فرد کی حیثیت‘ مشین کے کسی کل پرزے‬ ‫سے زیادہ نہ رہی تھی۔ نطشے نے‘ انسان کے وجود کو‘‬ ‫استحقام دینے کے لیے‘ فوق البشر یعنی سپرمین کا نظریہ‬ ‫دیا۔ کارل مارکس اور لینن نے مذہب کو افیون قرار دیا۔‬ ‫نطشے‘ جمہوریت اور اشتراکیت کو بھی‘ عوام اور اقوام‬ ‫کو غالم بنانے کی سازش قرار دیتا ہے۔ وہ خدا کے وجود‬ ‫کا منکر ہے۔ وہ مغربی استعمار اور مسیحی فلسفہءاخالق‬ ‫پر چوٹ کرتا ہے۔ اس لیے‘ کسی غیر مسیحی کو‘ اس کا‬ ‫خوش آنا فطری سی بات ہے۔ سپرمین کے حوالہ سے‘ جو‬ ‫باتیں سامنے آتی ہیں‘ ان میں سے اکثر اقبال کے۔۔۔۔۔ مرد‬ ‫کامل۔۔۔۔۔ میں بھی ملتی ہیں‘ تاہم اسے اس کا بےلگام ہونا‬ ‫کھٹکتا ہے۔‬ ‫اقبال نے جس مرد کامل کا نظریہ دیا‘ جہاں وہ ذات پرست‘‬ ‫ذات پسند اور دوسروں کے لیے کچھ نہیں‘ وہاں اس کا‬ ‫خصوصی وصف یہ بھی ہے‘ کہ وہ کائناتی ہے۔‬


‫کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے‬ ‫مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق‬ ‫اقبال کا مرد کامل بہت سے حوالوں سے نطشے کے‬ ‫سپرمین سے الگ ہے۔‬ ‫ہو حلقہءیاراں تو ہے ابریشم کی طرح نرم‬ ‫رزم حق و باطل ہو تو فوالد ہے مومن‬ ‫اقبال نے مرد کامل میں چار صفات کی نشان دہی کی ہے۔‬ ‫قہاری و جباری و قددسی و جبروت‬ ‫یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان‬ ‫یہاں مرد کامل کے لیے مسلمان ہونے کی شرط عائد کر دی‬ ‫ہے۔ اقبال کے محقیقن نے‘ مرد کامل کے لیے اس شعر کو‬ ‫بھی حوالہ بنایا ہے۔ گویا سلمان ہونے کی صورت میں ہی‘‬ ‫مرد کامل کے اعزاز سے سرفراز ہو سکتا ہے۔‬ ‫اس شعر کے حوالہ سے اس کا مخاطب انسان نہیں بلکہ‬ ‫اسالمی برادری سے متعلق شخص ہی کامل ہو سکتا ہے۔‬ ‫دوسری طرف ان عناص سے محروم مسلمان ہی نہیں۔‬ ‫اقبال اس پیمانے ہر مسلمان فاتح بیٹھے گا۔ مسلمان دل‬


‫تسخیر کرتا ہے۔ پتھر اینٹ برسانے والوں کے لیے دعا‬ ‫کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہے۔ دشمن کی بھی مدد کرتا ہے۔ بانٹ‬ ‫میں کسی قسم کی تخصیص روا نہیں رکھتا۔‬ ‫مہربان اور سراپا عطا واال ہوتا ہے۔ قہار اور جبار کو‬ ‫دیسی معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ نطشے کے متعلق‬ ‫اقبال کا کہنا ہے۔‬ ‫تیرے سینے میں نہیں شمع یقین‬ ‫اس لیے تاریک یہ کاشانہ ہے‬ ‫کس طرح پائے سراغ آشنا‬ ‫تو کہ اپنے آپ سے بیگانہ ہے‬ ‫جو بھی سہی‘ اقبال کے فلسفہءخودی میں نطشے کے‬ ‫کہے کی بازگشت موجود ہے۔ مرد کامل میں سپرمین کی‬ ‫پرچھائیں موجود ہے۔‬

‫کارل مارکس‘ درحقیقت مغرب کے مظوم‘ مفلس اور پس‬ ‫ماندہ لوگوں کا نمائندہ ہے۔ اس نے مادہ پرستی کے ماحول‬ ‫و حاالت میں رہ کر‘ اپنا نظرہءمعیشت پیش کیا ہے۔ اس‬


‫کے نظریے کے پس منظر میں‘ کلیسا کا استحصالی رویہ‘‬ ‫جمہوریت کے خوش نما لباس میں جمہوریت کا منفی‬ ‫طرزعمل‘ مساوات کے پردے میں توہین آدمیت جیسے قبیع‬ ‫فعل تھے۔ ملوکیت اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کے خالف‬ ‫اس نے نعرہ بلند کیا۔ اقبال کو اس کا درس مساوات اور‬ ‫اس کا محنت کشوں سے ہمدردی کا رویہ‘ پسند آیا۔ اقبال‬ ‫نے اس کے اس رویے کو پسند کیا ہے لیکن اسے اس کی‬ ‫مادہ پرستی اور مادہ پسندی خوش نہیں آتی۔ جو بھی سہی‘‬ ‫مارکس کی مغربی تہذیب پر ضرب‘ اقبال کو اچھی لگی۔‬

‫اقبال نے مسیولینی سے بھی مالقات کی۔ وہ اس کی‬ ‫شخصیت سے متاثر ہوئے۔ اس کی شخصیت میں تاثیر تھی۔‬ ‫اس عہد کے مشاہیر عالم اس کی دل آویز شخصیت کے‬ ‫مداح تھے۔ اقبال کو اس کا نظم و ضبط پسند آیا۔ اس ذیل‬ ‫میں اقبال کا یہ شعر مالحظہ ہو۔‬ ‫فیض یہ کس کی نظر کا ہے‘ کرامت کس کی ہے‬ ‫وہ کہ ہے جس کی نگہ مثل شعاع آفتاب‬


‫جرمن شاعر گوئٹے کے فکری رویے سے بھی اقبال نے‬ ‫اثرات قبول کیے۔ اس کے دیوان کے جواب میں‬ ‫۔۔۔۔ پیام مشرق۔۔۔۔۔ وجود میں آئی۔‬

‫ڈاکٹر اقبال‘ ہیگل کے نظریات کو روح سے خالی قرار دیتا‬ ‫ہے۔ اقبال کے خیال میں اگر ہیگل کے نظریات میں اسالمی‬ ‫روح کارفرما ہوتی تو وہ بالشبہ انسانی سرفرازی کے لیے‬ ‫مثال ہوتے۔‬

‫اقبال برگساں کے نظریہء زمان سے بھی اثر لیتے ہیں۔‬ ‫برگساں کے نزدیک‘ زندگی تغیر اور تخلیق ہے۔ زندگی کے‬ ‫جن پہلوؤں میں تقلید اور ثبات نظر آتا ہے وہاں زندگی‬ ‫موج بےتاب نہیں۔ اقبال کے نزیک بھی زندگی متحرک اور‬ ‫تغیر پذیر ہے۔ اور ہر لمحہ تخلیقی مراحل سے گزرتی ہے۔‬ ‫ان کے نزدیک چلتے رہنا زندگی‘ جب کہ ٹھہرنا موت ہے۔‬ ‫برگساں نے زمان و مکآن میں وجود کی حیثیت محض‬ ‫جبلی قرار دی ہے۔ اقبال کے خیال میں‘ زمان عمل تخیلق‬


‫سے پیدا ہوتا ہے‘ ایک غیر متواتر حرکت‘ تغیر پر مبنی‬ ‫ہے۔‬ ‫سلسلہءروز وشب نقش گر حادثات‬ ‫سلسلہءروز وشب اصل حیات و ممات‬ ‫ایک دوسری جگہ کہتے ہیں‬ ‫فریب نظر ہے سکون و ثبات‬ ‫تڑپتا ہے ہر زرہء کائنات‬ ‫ٹھہرتا نہیں کاروان وجود‬ ‫کہ ہر لحظہ ہے تازہ شان وجود‬

‫اقبال کسی ایک منزل پر ٹھہر جانے کے قائل نہیں ہیں۔ وہ‬ ‫متحرک زندگی کو زندگی مانتے ہیں۔ جوں جوں خودی ارتقا‬ ‫کی منازل طے کرے گی زمانہ تخلیق ہوتا چال جائے گا۔‬ ‫کہتے ہیں۔‬ ‫ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‬ ‫ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں‬


‫اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا‬ ‫کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں‬ ‫قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر‬ ‫چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں‬

‫اقبال شعرائے مغرب کی شعریت سے بھی متاثر تھے۔‬ ‫ورڈزورتھ کی فطرت نگاری‘ انھیں پسند تھی۔ اقبال نے اس‬ ‫کا رنگ اپنی نظموں میں اختیار کیا۔ نظم۔۔۔۔ ایک شام۔۔۔۔۔‬ ‫سے بطور نمونہ دو شعر مالحظہ ہوں۔‬ ‫خاموش ہے چاندنی قمر کی‬ ‫شاخیں ہیں خموش ہر شجر کی‬ ‫وادی کے نوا فروش خاموش‬ ‫کہسار کے سبزپوش خاموش‬

‫شیلے اور کیٹس کی رنگین مزاجی اور ٹی ایس کولرج کا‬ ‫زندگی سے گلہ شکوہ بھی‘ اسے اچھا لگتا ہے۔ اقبال کے‬


‫ہاں حسن‘ عشق اور محبت جہاں نئے نئے رنگ لیے‬ ‫ہوئے ہیں‘ تو وہاں روایت کا دامن بھی نہیں چھوڑتے۔‬ ‫شیلے اجزائے عالم کی باہمی وابستگی کو محبت سے‬ ‫تعبیر کرتا ہے اور محبت کے بغیر کائنات کا وجود ناممکن‬ ‫خیال کرتا ہے۔‬ ‫شیشہء دہر میں ماند ہے ناب ہے عشق‬ ‫روح خورشید ہے خون رگ مہتاب ہے عشق‬ ‫اقبال کی حسن سے لطف اندوزی کا ذوق مالحظہ ہو۔‬ ‫ہوئی ہے رنگ تغیر سے جب سے نمود اس کی‬ ‫وہی حسین ہے حقیقت زوال ہے جس کی‬

‫اقبال شیکسپیئر کے لب و لہجہ سے بھی متاثر ہے اور‬ ‫اسے ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔‬ ‫تجھ کو جب دیدہءدیدار طلب نے ڈھونڈا‬ ‫تاب خورشید میں خورشید کو پنہاں دیکھا‬ ‫چشم عالم سے تو ہستی رہی مستور تری‬


‫اور عالم کو تری آنکھ نے عریاں دیکھا‬ ‫حفظ اسرار کافطرت کو ہے سودا ایسا‬ ‫رازداں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا‬

‫اقبال نے برصغیر میں رہتے ہوئے‘ مغرب کو سنی سنائی‬ ‫کے حوالہ سے‘ جانا پہچانا۔ ستمبر ‪ ٠٦١٥‬سے جوالئی‬ ‫‪ ٠٦١٨‬تک‘ وہ مغرب میں قیام پذیر رہے۔ اس عرصہ میں‘‬ ‫انھوں نے مختلف مفکرین سے مالقات کی‘ انھیں پڑھا۔‬ ‫مغرب کے سماجی حلقوں اور اداروں سے تعلق رکھا۔‬ ‫لوگوں کو اور ان کے رہن سہن کو‘ اپنی آنکھوں سے‬ ‫دیکھا۔ مغرب کے معاشی نظام کا مشاہدہ کیا۔ مغرب کی‬ ‫سیاست کا تنقیدی زاویوں سے مطالعہ کیا۔ مغرب کے‬ ‫تعلیمی نظام کا مشاہدہ کیا۔ گویا سب اپنی آنکھوں سے‬ ‫دیکھا۔ ان تمام امور سے‘ جو منفی یا مثبت اثرات لیے‘ ان‬ ‫کے اثرات ان کی شاعری میں نظر آتے ہیں۔‬

‫اس مضمون کی تیاری میں درج ذیل کتب سے معاونت‬


‫حاصل کی گئی۔‬ ‫نیرنگ خیال‘ الہور‘ اقبال نمبر‘ شمارہ ستمبر‘ اکتوبر‘ ‪٠-‬‬ ‫‪٠٦٣٦‬‬ ‫مقام اقبال‘ اشفاق حسین‘ ادارہ اشاعت اردو‘ حیدرآباد ‪٦-‬‬ ‫دکن ‪٠٦٤٥‬‬ ‫مقاالت اقبال‘ مرتبہ انٹر کالجیٹ مسلم برادرزہڈ‘ قومی ‪٣-‬‬ ‫کتب خانہ‘ الہور‘ ‪٠٦٤٨‬‬ ‫اقبال کامل‘ عبداالم ندوی‘ مطبع معارف‘ اعظم گڑھ‘ ‪٤-‬‬ ‫‪٠٦٤٨‬‬ ‫اقبالیات کا تنقیدی جائزہ‘ احمد میاں قاضی جونا گڑھی‘ ‪٥-‬‬ ‫اقبال اکادمی‘ الہور‘ ‪٠٦٢٥‬‬ ‫اقبال کا تنقیدی مطالعہ‘ اے جی نیازی‘ عشرت پبلشنگ ‪٢-‬‬ ‫ہاؤس‘ الہور‘ ‪٠٦٢٥‬‬ ‫تصورات اقبال ج‪ ‘٠-‬مولوی صالح الدین احمد‘ مقبول ‪٧-‬‬


‫پبلی کیشنز‘ الہور‘ ‪٠٦٢٦‬‬ ‫مطالعہءاقبال کے چند نئے رخ‘ ڈاکٹر سید دمحم عبدهللا‘ ‪٨-‬‬ ‫بزم اقبال‘ الہور‘ ‪٠٦٨٤‬‬ ‫اقبال اور ثقافت‘ ڈاکٹر مظفر حسن‘ اقبال اکادمی‘ الہور‘ ‪٦-‬‬ ‫‪٠٦٨٢‬‬ ‫ڈاکٹر دمحم اقبال‘ کلیات اقبال‪ -‬اردو‘ المسلم پبلیشرز‘ ‪٠١-‬‬ ‫کراچی ‘ ‪٠٦٦٤‬‬

‫انگریزی دنیا کی بہترین زبان نہیں ہے‬

‫ہم جس عہد سےگزر رہےہیں وہ انگریز اور اس کی زبان‬ ‫انگریزی کا ہے۔ انگریز کے چیلوں چمٹوں اور گماشتوں‬


‫نے یہ تاثر عام کر رکھا ہے کہ انگریزی زبان کے بغیر تر‬ ‫قی کا دروازہ کھل ہی نہیں سکتا۔‬ ‫نتیجہ کار بچے کی دنیا میں آنے کی غلطی کے ساتھ ہی‬ ‫انگریزی کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس طرح‬ ‫وہ انگریزی کی تعلیم حاصل کرنے میں زندگی گزار دیتا ہے‬ ‫لیکن دیگر مضامین میں واجبی سا بھی نہیں رہ پاتا۔ تقریبا‬ ‫‪ ٠٧٥٤‬سے برصغیر انگریزی گذیدہ ہے اور یہاں کے‬ ‫باسی جو بڑے زبردست یودھا جفاکش محنتی اور ہنرمند‬ ‫ہیں اپنوں کے بناءے گءے اس قلعلے کو سر نہیں کر‬ ‫سکے۔‬ ‫اب ایک ہی صورت نظر آتی ہے کہ جوں ہی بچہ پیدا ہو‬ ‫اسے امریکہ کے کسی نرسری ہاؤس میں بجھوا دیا جائے‬ ‫تا کہ وہ وہاں ناصرف انگریزی سیکھ سکے بلکہ اس‬ ‫کلچر سے بھی آگہی حاصل کر سکے۔ موجودہ صورت حال‬ ‫کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے آتے برسوں میں‬ ‫‪٠‬۔ بھوک کے سبب بچوں کو پیدا ہوتے ہی مار دیا جائے‬ ‫گا۔‬ ‫‪٦‬۔ لوگ بھوک پیاس اندھیرے ریاستی جبر وغیرہ سے‬ ‫تنگ آ کر خودکشی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔‬


‫‪٣‬۔ گریب اور کمزور کے بچے تعلیم حاصل کرنے کا خواب‬ ‫دیکھنا بند کر دیں گے۔‬ ‫‪٤‬۔ چوری ڈاکے مار دھاڑ اور ہیرا پھیری سے وابستہ لوگ‬ ‫دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر سکیں گے۔‬ ‫عملی سطع پر دیکھ لیں دس سال پڑھنے اور سارے‬ ‫مضامین میں کامیابی حاصل کرنے کے باوجود انگریزی‬ ‫میں فیل ہو جانے کے سبب طالب علم صفر پر آ جاتا ہے۔‬ ‫نقل پر گرفت کی صورت میں بچہ ان پڑھ رہ جاتا ہے۔‬ ‫انگریزی کے پرچے کے دن نقل خوب ہوتی ہے آگے‬ ‫پیچھے یہ تناسب دس فیصد سے زیادہ نہیں رہ پاتا۔ پانی‬ ‫کے ہزار بوکے نکال لینے سے پانی پاک نہیں ہو جاتا جب‬ ‫تک کھوہ سے کتا نکال باہر نہیں کیا جا تا۔ سوچنے کی‬ ‫بات یہ ہے کہ جو انگریزی پڑھنے میں عمر کا اچھا خاصا‬ ‫وقت برباد کر دیتے ہیں انھیں انگریزی آ جاتی ہے؟!‬ ‫سارا کام تو گائیڈوں کے سہارے چل رہا ہے۔ ایسے میں‬ ‫انگریزی کیسے آئے گی۔‬

‫سدا بادشاہی هللا کی ‘ برصغر میں بھانت بھانت کے لوگ‬


‫آئے۔ ان کی زبان کے متعلق بھی اسی قسم کی باتیں کی‬ ‫جاتی تھیں ترقی تو نہیں ہوئی ۔ یہاں کا شخص جہاں تھا‬ ‫وہیں کھڑا ہے۔ گولے اور گماشتے عین سے عیش کر‬ ‫رہے ہیں۔ ان کے کردار پر اگلی رکھنے والے پولے کھاتے‬ ‫ہیں۔ پھر بھی اپنی زبان کو لگام نہیں دیتے تو جان سے‬ ‫جاتے ہیں۔‬ ‫زبان کا انسانی ترقی سے کوئی تعلق واسطہ نہیں۔ ترقی‬ ‫انسانی ذہانت پر انحصار کرتی ہے۔ ذہانت زبان کو ترقی‬ ‫سے ہمکنار کرتی ہے۔ بیجھے میں کچھ ہو گا تو ہی بوال یا‬ ‫لکھا جائے گا۔‬ ‫انگریزی جسے یہاں کی ماسی بنا رکھا ہے اس کی دو ایک‬ ‫بنیادی خامیوں کا تذکرہ کرتا ہوں‬ ‫‪٠‬۔ ابتدائ آوازیں اظہار کے حوالہ سے ناکافی ہیں۔‬ ‫‪٦‬۔ نہایت اہم آوازیں چ اور ش اس میں موجود نہیں ہیں۔‬ ‫‪٣‬۔ مرکب آوازوں کا نظام کمزور دہرا ناقصں اور پچیدہ ہے۔‬ ‫اب ضمن نمبر‪ ٣‬کے حوالہ سے چند مثالیں مالحظہ‬ ‫فرماءیں‬ ‫ش کے لیے دس یا دس سے زیادہ مرکب استعمال ہوتے‬


‫ہیں جبکہ دوسری جگہ ان کی آواز کچھ اور ہوتی ہے۔‬ ‫جیسے‬ ‫ٹی آئی‬ ‫ایکشن‬ ‫‪action‬‬ ‫‪ mention‬منشن‬ ‫‪ essential‬اسنشیل‬ ‫‪ admition‬اڈمیشن‬ ‫وغیرہ‬ ‫‪ si‬ایس آئی‬ ‫‪ asia‬ایشیا‬ ‫‪ malaysia‬ملیشیا‬ ‫‪ tesion‬ٹنشن‬


‫‪ pension‬پنشن‬ ‫وغیرہ‬ ‫شپ ‪ shirt‬شرٹ ‪ sheet‬شیٹ ‪ shift‬شفٹ ‪ sh‬ایس ایچ‬ ‫وغیرہ‪ship‬‬ ‫‪ ci‬سی آئی‬ ‫‪ social‬سوشل‬ ‫‪ special‬اسپیشل‬ ‫‪ chicago‬شکاگو‬ ‫‪ ce‬س ای‬ ‫‪ croce‬کروشے‬ ‫‪ ch‬سی ایچ‬ ‫یہ جرمن لفظ ہیں لیکن انگریزی میں ‪ Fitche‬نٹشے فٹشے‬


‫مستعمل ہیں‬ ‫‪ ssi‬ڈبل ایس آئی‬ ‫‪ mission‬مشن‬ ‫‪ permission‬پرمشن‬ ‫‪ admission‬اڈمشن‬ ‫‪ ssu‬ڈبل ایس یو‬ ‫‪ issue‬ایشو‬ ‫‪ assure‬اشور‬ ‫‪ pressure‬پریشر‬ ‫‪ su‬اسی یو‬ ‫‪ suger‬شوگر‬


‫ شؤر‬sure ‫ انشورنس‬insurance ‫ ایس سی ایچ‬sch ‫شیڈول‬ schizophrenia ‫شیزفرنا‬ tu ‫ چ‬chay/chu) picture (pikchar) ‫ پیکچر‬, nature (naichar) ‫نیچر‬, mixture (mixchar) ‫مکسچر‬, actual (akchal) ‫ایکچل‬, punctual (punkchual) ‫پنکچل‬,


‫‪,‬ہبچل )‪habitual (habichual‬‬ ‫‪,‬ٹورچر )‪torture (torcher‬‬ ‫‪,‬ایٹیچود )‪attitude (attichud‬‬ ‫‪,‬کلچر )‪culture (kachar‬‬ ‫ورچول )‪vertual (virchual‬‬ ‫‪,‬فورچونیٹ )‪fortunate (forchunate‬‬ ‫فیوچرہر )‪future (fuchar‬‬ ‫ہر جگہ اس مرکب آواز کی یہ صورت برقرار نہیں رہتی۔‬ ‫‪ ch‬کو چ کے لیے استعمال میں التے ہیں۔ مثال‬ ‫چٹ ‪ chit‬چیٹ ‪ cheat‬چسٹ ‪chest‬‬ ‫کو خ کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔‬ ‫‪ ch‬سی ایچ‬


‫یہ جرمن لفظ ہے لیکن انگریزی میں مستعمل ہے۔ 'میونخ‬ ‫مثال ‪munich‬‬ ‫اس مرکب سے ش کی آواز کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ مثال‬ ‫‪cliche nietzoche, Fitche, charade‬‬ ‫‪ ch‬کو ک کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ جیسے‬ ‫کیمسٹ ‪chemist‬سکول‪ school‬کیمیکل ‪chemical,‬‬ ‫باور رہنا چاہیے کہ اسی طرح مفرد آوزوں کے لیے مرکب‬ ‫لیٹرز سے کام چالیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہ یہ مرکبات کسی‬ ‫ایک آواز کے لیے مخصوص نہیں ہیں۔ مختلف جگہوں‬ ‫پرمختلف آوازیں دیتے ہیں۔ اس سے پچیدگیاں پیدا ہو جاتی‬ ‫ہیں۔ یہی نہیں اظہاری عمل میں روکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔‬ ‫مفاہیم اور تلفظ میں ابہام کی صورتیں بڑھتی ہیں۔ غرض کہ‬ ‫انگریزی کا ساؤنڈ سسٹم بنیادی طور پر انتہائی ناقص ہے۔‬ ‫ایسی زبان جس کا ساؤنڈ سسٹم ناکارہ یا خرابیوں کا شکار‬ ‫ہو اسے ترقی کا ذریعہ قرار دینا دماغی خلل اور حد سے‬ ‫بڑی ٹی سی کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔‬


‫میجک ان ریسرچ اور میری تفہیمی معروضات‬

‫ہمارے ہاں معمولی سی بات کو بھی‘ بڑھا چڑھا کر‘ غیر‬ ‫معمولی اور پچیدہ بنا دینے کا عام رواج ہے۔ شاید اسی‬ ‫حوالہ سے‘ محاورہ بات کا بتنگڑ بنانا‘ تشکیل پایا ہے۔‬ ‫دفاتر میں کلرک بادشاہ‘ معاملے کو گھمبیر مسلہ بنا کر‘‬ ‫پیش کرتے ہیں‘ جییسے ابھی ابھی قیامت ٹوٹنے والی ہے‬ ‫اور قانون ان پر ستویں آسمان سے اترا ہے۔ یہ کھیل سائل‬ ‫سے ہی نہیں‘ اپنے افسر سے بھی کھیلتے ہیں۔ افسر‬ ‫کلرک کی نہیں مانیں گے‘ تو ناصرف کام رک جائے گا‘‬ ‫لفافے سے بھی مرحوم ہو جائیں گے۔ محرومی اور‬ ‫مرحومی سے هللا ویری دشمن کو بھی محفوظ رکھے۔‬ ‫محرومی پشیمانی کے ساتھ ساتھ‘ احساس کہتری کا بھی‬ ‫سبب بنتی ہے۔ اس میں عذاب کی سی صورت پیدا ہو جاتی‬ ‫ہے۔ مرحومی میں نام ونشان مٹ جاتا ہے۔ اس کے کیے‬


‫کو‘ کوئی اپنی مرضی کی وضع قطع دے سکتا ہے۔ یہاں‘‬ ‫کرپٹ سیاسی‘ معاشی اور دفتری فرشتوں کے ہاتھوں‘ ہر‬ ‫لمحے قتل ہونا پڑتا ہے۔ وہاں قبری فرشتے قابو کر لیتے‬ ‫ہیں۔ سوال و جواب کا مرحلہ بڑا دشوارگزار ہوتا ہے۔ اگر‬ ‫یہ سوال جواب کا معاملہ آسان ہوتا تو‘ ہر کوئی اپنی‬ ‫مرضی کی افسری یا کلرکی کے تخت پر‘ خود اختیاری‬ ‫اختیارات کا تاج پہن کر بیٹھ جاتا۔‬

‫معامالت کی تفیہم سادہ اور عام فہم ہوتی‘ تو مسائل جنم نہ‬ ‫لیتے۔ قدم قدم پر رپھڑوں اور لفڑوں سے پاال نہ پڑتا۔‬ ‫دوسری طرف یہ بھی پرابلم ہے‘ کہ سادگی رہتی اور‬ ‫پچیدگی پیدا نہ کی جاتی‘ تو معامالت کی اوقات باقی نہ‬ ‫رہتی۔ یہ پچیدگی اور گھمن گھیریاں ہی‘ معمولی کو‘ غیر‬ ‫معمولی بنا کر‘ باالئی کا ذریعہ بنتی ہیں۔‬

‫مجھے زندگی سے متعلق اور دفتر شاہی سے ڈنگ رسیدہ‬ ‫ہو کر بھی‘ گلہ یا شکوہ نہیں‘ کیوں کہ یہ نہ کبھی شفاف‬ ‫تھے اور ناہی بادشاہ لوگ اس کی شفافی کے طلب گار‬


‫رہے ہیں۔ جنتا الجھاؤ پچیدگی اور ٹنشن کا شکار رہے‘ تو‬ ‫ہی کاروبار شکم‘ تروتازہ اور صحت مند رہ سکتا ہے۔‬ ‫مجھے دانش گاہوں سے متعلق لوگوں پر افسوس ہوتا ہے‘‬ ‫کہ وہ آگہی سے متعلق معامالت کو‘ الجھاؤ اور پچیدگی‬ ‫کے گٹر میں کیوں گھسیڑتے ہیں۔ کسی پر اپنی اہلیت اور‬ ‫قابلیت کا سکہ جمانے کی‘ ایسی کیا ضرورت ہوتی ہے۔ کیا‬ ‫یہ شرف کافی نہیں‘ کہ اس سے پوچھا جا رہا ہوتا ہے۔ وہ‬ ‫سامنے والی کرسی پر تشریف رکھتا ہے‘ جبکہ سامنے‬ ‫والی کرسیوں سو پچاس لوگ بیٹھے ہوتے ہیں اور اسے‘‬ ‫خود سے متعلقہ سبجیکٹ میں‘ بہتر سمجھ رہے ہوتے‬ ‫ہیں۔ آگہی کو سادہ اور اس کی ترسیل بھی سادگی سے‬ ‫نتھی رہنی چاہیے۔ لوگ معاملے یا مسلے سے متعلق جان‬ ‫کر‘ اسے عملی زندگی پر الگو کریں گے۔ معاملہ جلد‬ ‫تجربے کے میدان میں آ کر‘ زندگی کو کچھ نیا دے سکتا‬ ‫ہے۔‬

‫آج کل میجک ان ریسرچ کو سر پر چڑھایا جا رہا ہے۔ بات‬ ‫کو معاشی مسلہ یا پھر سیاسی گتھی بنا دیا گیا ہے۔ سیدھی‬ ‫اور سادہ سی بات ہے کہ یہ انگریزی اصطالح نہیں۔ اس کا‬


‫اسلوب دیسی ہے۔ اس لیے اسے‘ کسی رواں فقرے سے‬ ‫نکال کر‘ ہوا سا بنا دیا گیا ہے۔‬ ‫کچھ لوگ جان کیٹس کے مرکب‬ ‫‪a fine excess‬‬ ‫کو اصطالح کا نام دیتے ہیں۔ میجک ان ریسرچ کی طرح‬ ‫اسے فقرے سے الگ کیا گیا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ‬ ‫انگریز کا اسلوب تکلم ہے اور باقاعدہ انگریزی مرکب ہے۔‬ ‫تفہیمی اعتبار سے‘ اصطالح سمجھا جا سکتاہے‘ لیکن‬ ‫اپنی اصل میں اصطالح نہیں ہے جبکہ میجک ان ریسرچ‬ ‫کسی غیر انگریز کا اسلوب ہے اور اسے جملے سے نکاال‬ ‫گیا ہے۔ اس کے دائرہ میں کئی باتیں آ جاتی ہیں۔ مثال‬

‫‪٠‬۔ مستعمل کی صحت مشکوک قرار دے دی جائے۔‬ ‫‪٦‬۔ مستعمل کو یکسر مسترد کر دیا جائے۔‬ ‫‪٣‬۔ اس کی ہئیت وہی رہے‘ لیکن استعمال بدل دیا جائے یا‬ ‫برعکس راءج کر دیا جائے اور کسی قسم کی خرابی راہ نہ‬ ‫پکڑے۔‬


‫اس طرح کی یا اس سے ملتی جلتی چیزیں مراد لی جا‬ ‫سکتی ہیں۔‬

‫زندگی اور اس سے متعلق معامالت محدود نہیں ہیں۔ محدود‬ ‫کینوس پر رکھ کر‘ حاصل کی گئ تفہیم‘ مستعمل ہو گئ‬ ‫ہواور اس کے برعکس یا اس سے آگے کی سوچنا‘ لکیر‬ ‫کے فقرا کے لیے‘ سراسر بدعت ہوتی ہے حاالنکہ امکانات‬ ‫کو کبھی اور کسی سطع پر‘ رد کرنا درست نہیں۔ جب‬ ‫مستعمل سے الگ دریافت ہو‘ وہی میجک ان ریسرچ ہے۔‬ ‫کچھ نیا‘ پہلے سے بڑھ کر دریافت ہی تو‘ میجک ان ریسچ‬ ‫ہے۔‬

‫اب میں اسے مثالوں سے واضح کرنے کی سعی کرتا ہوں۔‬ ‫مارکونی کی دریافت کے نتیجہ میں‘ ٹی وی‘ ریڈار‘‬ ‫انٹرنیٹ‘ موبائل فون وغیرہ آج ہمارے استعمال میں ہیں۔ یہ‬ ‫نئ نئ اور حیرت میں ڈال دینے والی اشیا‘ میجک ان‬ ‫ریسرچ ہی تو ہیں۔‬


‫سکندر کو فاتح قرار دیا جاتا ہے۔ میں اسے مفتوح اور‬ ‫جنگی بھگوڑا ثابت کرتا ہوں‘ یہ کیا ہے‘ میجک ان ریسرچ‬ ‫ہی تو ہے۔‬

‫پورس ہندو تھا۔ بغض معاویہ کے تحت‘ سکندر کو فاتح‬ ‫قرار دیا جاتا ہے۔ ارسطو جو اس کا استاد تھا‘ بذات خود‬ ‫بھگوڑا تھا۔ اگر جان باز ہوتا‘ میدان جنگ میں جان دیتا۔‬ ‫حسین نے میدان میں جان دی۔ ٹیپو میدان سے بھاگا نہیں۔‬

‫سکندر کے حامی بتائیں‘ کہ آخر وہ کون سی انسانی خدمت‬ ‫کی غرض سے برصغیر میں آیا۔‬ ‫بستیاں تباہ برباد نہ ہوئیں؟‬ ‫بچے بوڑھے اور عورتیں ہالک نہ ہوءیں؟‬ ‫ان کا کیا جرم تھا؟‬ ‫اس نے برصغیر میں کون سی اصالحات کیں؟‬


‫سچائ اور درستی کا معیار‘ طاقت ور ہونا‘ کون سے‬ ‫مذہب‘ اصول اور ضابطے کی لغت میں درج ہے؟‬ ‫اگر وہ زخمی ہو کر پلٹا‘ تو وہ کون لوگ تھے‘ جو گھاؤ کا‬ ‫سبب بنے۔‬

‫برصغیر والے تھے‘ تو بھی بھگوڑا ہوا۔ اس کے کسی‬ ‫اپنے نے زخمی کیا تو بھی فاتح قرار نہیں دیا جا سکتا۔‬

‫اگر مچھر کے کاٹنے کے سبب‘ بیمار ہو کر بھاگا‘ تو بھی‬ ‫مفتوح اور بھگوڑا‘ کیوں کہ مچھر برصغیر کا تھا۔‬

‫کہتے ہیں اس کی فوج نے مزید لڑنے سے انکار کر دیا‘‬ ‫تو بھی اسے کامیاب جرنل‘ منتظم اور حاکم قرار نہیں دیا‬ ‫جا سکتا۔‬


‫اگر میں ان حقائق کے تناظر میں کہتا ہوں سکندر ناکام‘‬ ‫مفتوح اور ناکارہ جرنیل تھا‘ تو یہ میجک ان ریسرچ ہے۔‬

‫طارق ابن زیاد نے کشتیاں جالئیں‘ فوج منہ کو نہ آئ‘ اس‬ ‫لیے وہ کامیاب جرنیل تھا۔ ہٹلر ناکام ہو گیا‘ لیکن اس نے‬ ‫برطانیہ کا چراغ بجھا دیا۔ مار کر مرا‘ اس لیے اسےناکام‬ ‫جرنیل اور حاکم نہیں کہا جا سکتا۔ اس کے برعکس‘ چرچل‬ ‫نے پچھلی تمکنت کا ستیاس مار کر رکھ دیا دوسرا وہ‬ ‫امریکہ کے سہارے‘ جیت حاصل کرکے‘ المحدود سے‬ ‫محدود ترین ہو گیا۔‬

‫میں جو عرض کر رہا ہوں مستعمل سے ہٹ کر ہے اور‬ ‫الگ تر ہے۔ یہی تو میجک ان ریسرچ ہے۔‬

‫ہندوی کے انگریزی پر لسانیاتی اثرات‬


‫مختلف عالقوں کے لوگوں کی زبان' میں حیرت انگیز‬ ‫لسانیاتی مماثلتوں کا پایا جانا' اتفاقیہ نہیں ہو سکتا۔ اس‬ ‫کے پس منظر میں' کسی سطع پر کوئی ناکوئی واقعہ'‬ ‫معاملہ' حادثہ' بات یا کچھ ناکچھ ضرور وقوع میں آیا ہوتا‬ ‫ہے' چاہے اس کی حیثیت معمولی ہی کیوں نہ رہی ہو' اس‬ ‫کا اثر ضرور مرتب ہوا ہوتا ہے۔‬

‫ایک دیسی یا بدیسی شخص' بازار میں کچھ خریدنے' کسی‬ ‫سے ملنے یا کسی اور کام سے آتا ہے۔ وہ اپنے اس‬ ‫ٹھہراؤ کے مختصر دورانیے میں' کوئی اصطالح' کوئی‬ ‫ضرب المثل' کوئی محاورہ یا کوئی لفظ چھوڑ جاتا ہے۔ اس‬ ‫کا بوال' ایک شخص استعمال میں التا ہے' پھر دوسرا' ان‬ ‫کی دیکھا دیکھی میں وہ مہارت میں آ جاتا ہے۔ اب یہ الزم‬ ‫نہیں کہ وہ اصل تلفظ' اصل معنوں یا پھر اصل استعمال کے‬ ‫مطابق' استعمال میں آ جائے۔ وہ اپنی اصل سے کہیں دور'‬ ‫بل کہ بہت دور جا سکتا ہے۔ معنوی اعتبار سے اصل سے‬ ‫برعکس استعمال میں آ سکتا ہے۔ کئی معنی اور استعمال‬


‫سامنے آ سکتے ہیں اور پھر اس کے غیر ہونے کا گمان‬ ‫تک نہیں گزرتا۔‬

‫یونانیوں کا سیاسی' علمی' ادبی اور ثقافتی حوالہ سے' دنیا‬ ‫بھر میں ٹہکا تھا۔ آتے وقتوں کی عظیم سیاسی' عسکری‬ ‫اور مکار قوت' برطانیہ ان کی دسترس سے باہر نہ تھی۔‬ ‫اسی طرح برصغیر بھی یونانیوں کے زیر اثر رہا۔ یونان کا‬ ‫لٹیرا اعظم' برصغیر پر بھی حملہ ہوا۔ یہاں پٹ گیا۔ زخمی‬ ‫ہوا اور یہاں سے دم دبا کر بھاگ گیا۔ ایک یونانی قبیلہ‬ ‫یہاں رک گیا۔ کیالش میں ان کا پڑاؤ ٹھہرا۔ یہ یونانی کئی‬ ‫والئیتوں پر حکومت کرتے رہے۔ اس یونانی عسکری‬ ‫قبیلے کی نسل' آج بھی' یہاں بہت ساری اپنی یونانی‬ ‫روایات کے ساتھ موجود ہے۔‬

‫رومن برٹن‪ :‬بریطانیہ' بریٹن' برطانیہ۔ آئی لینڈ کا عالقہ تھا'‬ ‫جو کہ رومن ایمپائر کی حکومت میں تھا۔ برصغیر رومن‬ ‫شہنشاہت سے باہر نہ تھا۔ برصغیر میں ان کے ہونے کے‬ ‫بہت سے اثار انٹرنیٹ پر تالشے جا سکتے ہیں۔ انگریزی‬


‫کا رسم الخط آج بھی رومن ہے۔ اس رسم الخط میں لکھی‬ ‫اردو کو رومن اردو کا نام دیا جاتا ہے۔‬

‫برطانیہ والے ‪ 7581‬سے بہت پہلے' برصغیر میں وارد ہو‬ ‫گیے تھے' تاہم ‪ 7581‬سے ‪ 7491‬تک برصغیر ان کا رہا۔‬ ‫محسن آزادی ہٹلر کی عنایت اور مہربانی سے' برطانیہ کے‬ ‫ہاتھ' پاؤں اور کمر کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں اور سونے کی‬ ‫چڑیا' اس کی دسترس میں نہ رہی۔ اس کے بعد امریکہ کی‬ ‫گڈی چڑھی اور آج تک چڑھی ہوئی ہے۔ گویا دونوں‬ ‫یونیوں کے زیر تسلط تھے' اس کے بعد رومیوں کے رہے۔‬ ‫اس کے بعد برصغیر پر برطانیہ کا کھرا کھوٹا سکا چال اور‬ ‫اب حضرت امریکہ بہادر کی خداوندی کا دور دورہ ہے۔‬

‫اسم کی ترکیب کے لیے' انگریزی یں الحقہ موجود نہیں۔ یہ‬ ‫خالص برصغیر سے متعلق ہے۔ مثال دیوارکا' پریمیکا'‬ ‫انومیکا' کامولیکا وغیرہ گویا امریکا' برصغیر کا لفظ ہے۔‬ ‫مثال امبڑیکا‪ .‬اگر کسی شخص کا نام ہے' تو اس کا برصغیر‬ ‫سے کوئی ناکوئی رشتہ' ضرور رہا ہو گا۔ امریکہ میں بھی‬


‫انگریزی زبان استعمال میں آتی ہے۔‬

‫صاف ظاہر ہے' ان عالقوں کے لوگ یہاں آئے۔ ان عالقوں‬ ‫سے' جس حوالہ سے بھی سہی' یہاں سے لوگ گیے۔‬ ‫مزے کی بات یہ کہ آج بھی الکھوں کی تعداد میں مغرب‬ ‫کے مختلف عالقوں میں برصغیر کے لوگ' عارضی اور‬ ‫مستقل اقامت رکھتے ہیں۔ یہ کہنا کہ برصغیر والے ہی‬ ‫متاثر ہوئے' سراسر زیادتی کے مترادف ہو گا۔ حاکم ہو کہ‬ ‫محکوم' ایک والیت میں اقامت رکھنے کے سبب' ایک‬ ‫دوسرے سے متاثر ہوتے ہیں۔ ہندوی' جوآل ہند کی زبان‬ ‫ہے' نے دنیا کی تمام زبانوں کو' لسانی' فکری اور اسلوبی‬ ‫حوالہ سے متاثر کیا‪ .‬اسی طرح یہ بھی اپنی بےپناہ لچک‬ ‫پذیری کے باعث' ان سے متاثر ہوئی۔ مختلف زبانوں کے‬ ‫الفاظ' اس کے ذخیرہءاستعمال میں داخل ہیں۔‬

‫متاثر کرنے کی' کئی صورتیں اور سطحیں ہوسکتی ہیں۔‬ ‫‪1‬‬


‫کلچر زیادہ تر خواتین کے زیر اثر رہا ہے۔‬ ‫زیورات' لباس' بناؤ سنگار کے اطوار' ناز و نخرہ وغیرہ‬ ‫کے چلن' ایک دوسرے کے اختیار کرتی ہیں۔‬ ‫نشت و برخواست کے اصول اختیار کرتی ہیں۔‬ ‫گفت گو میں' ایک دوسرے کی طرز اختیار کرتی ہیں۔‬ ‫گھر میں سامان کی درآمد اور اس کے رکھنے اور سجانے‬ ‫کے طور' اپناتی ہیں۔‬ ‫کچن اور اس سے متعلقہ امور میں' نقالی کرتی ہیں۔‬ ‫اشیائے اور اطوار پکوان اپناتی ہیں۔‬ ‫فقط یہ امور ہی انجام نہیں پاتے' بل کہ ان کے حوالہ سے‬ ‫اسما' صفات' سابقے' الحقے' اسلوب بھی اس گھر میں‬ ‫منتقل ہوتے ہیں۔‬ ‫‪2‬‬ ‫کم زوروں کی ہنرمندی اور ہنرمندوں پر ڈاکے پڑتے ہیں‬ ‫ان کے وسائل قدرت پر قبضہ جمایا جاتا ہے‬ ‫ان کے علمی و ادبی ورثے کو غارت کرنے کے ساتھ اس‬


‫کی بڑی بےدردی سے لوٹ مار کی جاتی ہے۔‬ ‫ان تینوں امور کے حوالہ سے ان کی زبان میں بہت کچھ‬ ‫بدیسی داخل ہو جاتا ہے۔‬ ‫‪3‬‬ ‫اس کے عالوہ معاشرتوں کے انسالک سے‬ ‫بہت سے معاشرتی اطوار‬ ‫انسانی رویے‬ ‫رسم و رواج‬ ‫مذہبی اور نظریاتی اصول‬ ‫سیاسی' معاشی اور ارضیاتی طور طریقے اور خصوصی و‬ ‫عمومی چلن‬ ‫ایک دوسرے کے ہاں منتقل ہوتے ہیں اور صدیوں کا سفر‬ ‫کرتے ہیں۔ آتے وقتوں میں کچھ کے کچھ ہو جاتے ہیں'‬ ‫لیکن باقی رہتے ہیں۔ بعض کی' ہزاروں سال بعد بھی'‬ ‫بازگشت باقی رہتی ہے۔ یہ امور زبان سے باال باال نہیں‬ ‫ہوتے۔ ان سب کا زبان سے اٹوٹ رشتہ استوار ہوتا ہے۔‬


‫اشیائے خوردنی اور اشیائے استعمال مثال کپڑے' برتن‬ ‫وغیرہ‬ ‫اشیائے حرب اور حربی ضوابط‬ ‫طرز تعمیر وغیرہ‬ ‫قبریں بنانے کے انداز‬ ‫کا تبادلہ ہوتا ہے' ان کے حوالہ سے زبان کو بہت کچھ‬ ‫میسر آتا ہے۔ میں نے یہاں' محض گنتی کے دو چار‬ ‫اموردرج کیے ہیں' ورنہ ایسی بیسیوں چیزیں ہیں' جو‬ ‫وقوع میں آتی ہیں اور ان کا زبانوں پر اثر مرتب ہوتا ہے۔‬ ‫اس ذیل میں' قرتہ العین حیدر کی تحریروں کا مطالعہ مفید‬ ‫رہے گا۔ انگریزی بھی' برصغیر کی زبان ہندوی سے' متاثر‬ ‫ہوتی آئی ہے جس کے لیے' ان کی شاعری کا مطالعہ کیا‬ ‫جا سکتا ہے۔‬

‫بعض اردو اور انگریزی کی ضمیروں میں' صوتی مماثلت‬ ‫موجود ہے۔ مثال‬


Of fortune’s favoured sons, not me. ‫نظم‬: Wish ‫شاعر‬: Matthew Arnold To die: and the quick leaf tore me me ‫کے لیے اردو میں مجھے مستعمل ہے۔ پوٹھوہار میں‬ ‫ضمیر می آج بھی بول چال میں ہے۔‬ ........ My feeble faith still clings to Thee, ‫نظم‬: My God! O Let Me Call Thee Mine! ‫شاعر‬: Anne Bronte my


‫انگریزی میں عام استعمال کی ضمیر اردو میں اس ضمیر‬ ‫کے میرا مستعمل ہے۔‬ ‫‪........‬‬ ‫‪you can keep your head when all about you‬‬ ‫‪: If‬نظم‬ ‫‪: Rudyard Kipling‬شاعر‬ ‫اردو میں تو عام بول چال میں موجود ہے۔‬ ‫‪........‬‬ ‫بہت سے الفاظ آوازوں کے تبادل یا کسی اور صورت میں‬ ‫انگریزی میں مستعمل ہیں۔ مثال‬ ‫اردو میں دن انگریزی میں ڈان‬ ‫‪ more‬مور‬ ‫‪ m‬اور الف کی آواز میم یعنی‬


‫‪ m‬میں بدلی ہے۔‬ ‫کو حشوی قرار دیا جا سکتا ہے۔‬

‫‪Once more before my dying eyes‬‬ ‫‪Wish: Matthew Arnold‬‬

‫ودوا اپنی اص میں ود اور وا کا مرکب ہے۔ بےوا مستعمل‬ ‫صورت بیوہ۔‬ ‫بے نہی کا سابقہ ہے‬ ‫بہت سے لفظ اس طور سے لکھے جاتے ہیں۔ مثال‬ ‫بیچارہ بجائے بےچارہ‬ ‫بیدل بجائے بےدل‬ ‫بیہوش بجائے بےہوش‬ ‫بیکار بجائے بےکار‬


‫بیوہ بےوا بمعنی جس کا ور نہ رہا ہو ر کی آواز گر گئی‬ ‫ہے‪ .‬ودوا بےوا کے لیے بوال جاتا ہے۔‬ ‫انگریزی میں وڈو۔ وڈ او‬ ‫‪widow‬‬ ‫وڈ آؤٹ اس کے' یعنی ور' او ۔ ور‬ ‫‪...............‬‬ ‫کئی ایک لفظ انگریزی کی صوتیات کے پیش نظر' معمولی‬ ‫سی تبدیلی کے ساتھ' انگریزی میں داخل ہو گئے ہیں۔‬ ‫‪no‬‬ ‫انگریزی میں نفی کے لیے استعمال ہوتا ہے اردو میں نہ‬ ‫جب کہ انگریزی میں نو‬ ‫نو' باطور نہی کا سابقہ‬ ‫نوسر نوٹنکی‬ ‫نو‪ .‬سر‪ .‬باز‬ ‫باطور سابقہ نا ناکافی نازیبا ناچیز‬


‫نہ باطور سابقہ نہ جاؤ' نہ چھیڑو' نہ کرو' نہ مارو‬

‫ان بولتے لفظوں کو‘ ہم سن نہ سکے‬ ‫آنکھوں سے‘ چن نہ سکے‬ ‫ مقصود حسنی‬:‫کس منہ سے‬

‫نہ کڑا نہ کھارا‬ ‫ مقصود حسنی‬:‫چل' دمحم کے در پر چل‬ I have no wit, no words, no tears; A Better Resurrection: Christina Rossetti No motion has she now, no force; A Slumber Did My Spirit Seal: William Wordsworth Thou hast no reason why ! Thou canst have none ;


‫‪Human Life: Samuel Taylor Coleridge‬‬ ‫‪............‬‬ ‫رشتوں کے حوالہ سے بھی انگریزی میں کچھ الفاظ داخل‬ ‫ہوئے ہیں۔ مثال‬ ‫پنجابی میں بھرا‬ ‫فارسی میں برادر‬ ‫اردو میں بھی برادر مستعمل ہے‬

‫انگریزی میں‬ ‫‪brother‬‬ ‫اصل لفظ برا۔ بھرا ہی ہے جب کہ در باطور الحقہ داخل ہوا‬ ‫ہے۔ ایک پہلے ہے تب ہی دوسرا برا یا بھرا ہے۔ دونوں کا‬ ‫برابر کا رشتہ ہے۔ انگریزی میں واؤ الف کا تبادل ہے۔ یہ‬ ‫رویہ طور میواتی اور راجھستانی میں موجود ہے۔ برا سے‬ ‫برو بامعنی بھائی۔‬


‫در کا الحقہ‬ ‫‪father, mother‬‬ ‫میں بھی موجود ہے‬ ‫در' باطور سابقہ اور الحقہ اردو میں بھی رواج رکھتا ہے‪.‬‬ ‫مثال‬ ‫درگزر' درحقیقت' درکنار‬ ‫چادر چا در‬ ‫‪His brother doctor of the soul,‬‬ ‫‪Wish: Matthew Arnold‬‬ ‫فارسی میں' ماں کے لیے مادر مستعمل ہے۔ اردو میں مادر‬ ‫پدر آزاد عام بول چال میں ہے۔ اصل لفظ ما ہی ہے۔ ں‬ ‫حشوی ہے‪ .‬یہ ہی صورت فارسی کے ساتھ ہے۔ انگریزی‬ ‫میں‬ ‫‪mother‬‬ ‫بولتے ہیں۔ اس میں اصل لفظ مو ہی ہے' فارسی کی طرح‬


‫در الحاقی یعنی خارجی ہے۔‬

‫ہر برتن کی زبان پہ‬ ‫اس کی مرحوم ماں کا نوحہ‬ ‫باپ کی بےحسی اور‬ ‫جنسی تسکین کا بین تھا‬ ‫نوحہ‪ :‬مقصود حسنی‬ ‫‪............‬‬ ‫مرکبات حسن شعر میں داخل ہیں۔ یہ شخصی اور مجموعی‬ ‫رویوں کے عکاس اور شاعر کی اختراعی فکر کےغماز‬ ‫ہوتے ہیں۔ یہ ہی نہیں' زبان کی وسعت بیانی کی بھی گواہی‬ ‫دیتے ہیں۔ اردو اس ذیل میں کمال کی شکتی رکھتی ہے۔‬ ‫انگریزی میں بھی مرکبات ملتے ہیں۔ اس ذیل میں اردو‬ ‫کے پائے کے مرکبات کی حامل ناسہی' لیکن اس کا دامن‬ ‫اس کمال زبان سے تہی نہیں۔ اردو اور انگریزی سے چند‬ ‫مثالیں مالحظہ فرمائیں۔‬


‫موسم گل ابھی محو کالم تھا کہ‬ ‫‪..........‬‬ ‫پریت پرندہ‬ ‫‪..........‬‬ ‫اس کی بینائی کا دیا بجھ گیا‬ ‫‪.........‬‬ ‫پھر اک درویش مینار آگہی پر چڑھا‬ ‫‪......‬‬ ‫یتیمی کا ذوق لٹیا ڈبو دیتا ہے‬ ‫من کے موسم دبوچ لیتا ہے‬

‫حیرت تو یہ ہے‪ :‬مقصود حسنی‬


greedy heirs, ceremonious air, hideous show, poor sinner, undiscovered mystery, death’s winnowing wings, dying eyes, dew of morn, generous sun, silent moves, ruddy eyes, tears of gold, clouds of gloom, golden wings, trembling soul, make dreams, worth of distance, Shadows of the world, golden Galaxy, happy hours, sun in flight,

Wish: Matthew Arnold From bands of greedy heirs be free; The ceremonious air of gloom – All which makes death a hideous show!


‫پوشیدہ نمائش‬ Of the poor sinner bound for death, ‫مفلس گناہ گار بےچارہ گناہ گار‬ That undiscovered mystery Which one who feels death’s winnowing wings Once more before my dying eyes ‫ڈوبتی آنکھیں‬ Bathed in the sacred dew of morn ‫تاسف کی بوندیں‬ But lit for all its generous sun, Where lambs have nibbled, silent moves They look in every thoughtless nest,


‫فکر سے عاری گھروندا‬ Seeking to drive their thirst away, ‫ہانکتی پیاس‬ And there the lion’s ruddy eyes ‫مغرور نگاہیں‬ Shall flow with tears of gold, Night: William Blake Sometimes there are clouds of gloom Still buoyant are her Life: Charlotte Bronte My trembling soul would fain be Thine ‫لرزتی روح‬


My God! O Let Me Call Thee Mine! Anne Bronte If you can dream – and not make dreams your master; ‫خواب بننا‬ With sixty seconds’ worth of distance run If: Rudyard Kipling Shadows of the world appear. Hung in the golden Galaxy. The Lady Of Shalott: Alfred Tennyson Now stand you on the top of happy hours, ‫مسرور لمحے‬ But wherefore do not you a mightier way


‫‪Shakespeare‬‬ ‫‪And then, O what a glorious sight‬‬ ‫‪Address To A Haggis: Robert Burns‬‬ ‫‪Wild men who caught and sang the sun in flight,‬‬

‫مرکبات تحریر کے اختصاری معاملے میں' حد درجہ معاون‬ ‫ہوتے ہیں' بعینہ تشبیہات ناصرف اسم کو نمایاں کرتی ہیں'‬ ‫بل کہ اسم کی کائنات میں مماثلتیں بھی تالشتی ہیں۔ یہ ہی‬ ‫نہیں' اختصاری عمل میں بھی' اپنے حصہ کا کردار ادا‬ ‫کرتی ہیں۔ میر کا یہ معروف ترین شعر مالحظہ ہو۔‬

‫نازکی اس کے لب کی کیا کہیے‬ ‫پنکھڑی اک گالب سی ہے‬


‫اس سے ناصرف لبوں کی نازکی سامنے آئی ہے' بل کہ‬ ‫چند لفظوں میں کئی صفحات پر محیط کام سمیٹ دیا گیا‬ ‫ہے۔ تشبیہات کے معاملہ میں' انگریزی اردو کے قریب تر‬ ‫ہے۔ ماضی بعید اورانگریز کے برصغیری عہد میں' اس‬ ‫زبان نے انگریزی کو متاثر کیا ہو گا۔ اردو اور انگریزی‬ ‫سے چند مثالیں مالحظہ فرمائیں۔‬

‫سلوٹ سے پاک سہی‬ ‫پھر بھی‬ ‫حنطل سے کڑوا‬ ‫اترن کا پھل‬ ‫چل' دمحم کے در پر چل‪ :‬مقصود حسنی‬

‫ساون رت میں‬ ‫آنکھوں کی برکھا کیسے ہوتی ہے‬ ‫مت پوچھو‪ :‬مقصود حسنی‬


My life is like a faded leaf My life is like a frozen thing, My life is like a broken bowl, Can make you live yourself in eyes of men. But wherefore do not you a mightier way Shakespeare ........ A Better Resurrection: Christina Rossetti Blind eyes could blaze like meteors and be gay, ........


Do Not Go Gentle Into That Good Night Dylan Thomas The moon like a flower Night: William Blake ........ And Joy shall overtake us as a flood, On Time: Milton ........ Blind eyes could blaze like meteors and be gay, Do Not Go Gentle Into That Good Night Dylan Thomas


........ Made snow of all the blossoms; at my feet Like silver moons the pale narcissi lay Holy Week At Genoa: Oscar Wilde ........ Shall shine like the gold Night: William Blake ........ Hops like a frog before me. Brooding Grief: D.H.Lawrence


‫حسن واختصار' موازنہ' تاریخ اور علوم سے راوبط کی ذیل‬ ‫میں تلمیح کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اردو شاعری میں اس‬ ‫کا عام' برمحل اور بالتکلف استعمال ملتا ہے۔ مثال‬

‫سنا ہے‬ ‫یوسف کی قیمت‬ ‫سوت کی اک انٹی لگی تھی‬ ‫عصر حاضر کا مرد آزاد‬ ‫دھویں کے عوض‬ ‫ضمیر اپنا بیچ دیتا ہے‬

‫نظم‪ :‬سنا ہے' مقصود حسنی‬

‫وہ آگ‬ ‫عزازئیل کی جو سرشت میں تھی‬


‫اس آگ کو نمرود نے ہوا دی‬ ‫اس آگ کا ایندھن‬ ‫قارون نے پھر خرید کیا‬ ‫اس آگ کو فرعون پی گیا‬ ‫اس آگ کو حر نے اگل دیا‬ ‫یزید مگر نگل گیا‬ ‫صبح ہی سے‪ :‬مقصود حسنی‬

‫انگریزی میں باکثرت ناسہی' اس سے کام ضرور لیا گیا‬ ‫ہے۔ مثال‬ ‫;‪To feel the universe my home‬‬ ‫‪Wish: Matthew Arnold‬‬

‫‪In heaven’s high bower,‬‬


The angels, most heedful, Night: William Blake

And flamed upon the brazen greaves Of bold Sir Lancelot.

The Lady Of Shalott: Alfred Tennyson

Shall I compare thee to a summer’s day? So are you to my thoughts


That God Forbid That time of year Against My Love: Shakespeare

Cast in the fire the perish’d thing; Melt and remould it, till it be A royal cup for Him, my King: O Jesus, drink of me A Better Resurrection: Christina Rossetti

‘Jesus the son of Mary has been slain,


Holy Week At Genoa: Oscar Wilde

I long for scenes where man hath never trod A place where woman never smiled or wept there to abide with my creator God, ‫خالق‬ I am: John Clare

If even a soul like Milton’s can know death ; Human Life: Samuel Taylor Coleridge


‫‪Biting my truant pen, beating myself for spite:‬‬ ‫"‪"Fool," said my Muse to me, "look in thy heart, and write.‬‬ ‫‪Loving in truth: Phlip Sidney‬‬

‫ضدین پر کائنات استوار ہے۔ یہ شناخت کا کلیدی وسیلہ‬ ‫ہیں۔ اردو شاعری میں' صنعت تضاد کا استعمال ملتا ہے۔‬ ‫خوبی کی بات یہ کہ ضدین ایک دوسرے سے متعلق ہوتی‬ ‫ہیں۔ مثال‬

‫وہ قیدی نہ تھا‬ ‫خیر وشر سے بے خبر‬ ‫معصوم‬ ‫فرشتوں کی طرح‬ ‫نظم‪ :‬نوحہ' مقصود حسنی‬


‫ایندھن‬

‫دیکھتا اندھا سنتا بہرا‬ ‫سکنے کی منزل سے دور کھڑا‬ ‫ظلم دیکھتا ہے‬ ‫آہیں سنتا ہے‬ ‫بولتا نہیں کہتا نہیں‬ ‫جہنم ضرور جائے گا‬ ‫نظم‪ :‬نوحہ' مقصود حسنی‬

‫اس صنعت کا' انگریزی شاعری میں بھی ملتا ہے اور‬ ‫استعمال کا طریقہ اردو سے قطعی مختلف نہیں۔ چند مثالیں‬ ‫مالحظہ فرمائیں‬


And up and down the people go, The Lady Of Shalott: Alfred Tennyson

The friends who come, and gape, and go; Wish: Matthew Arnold

And by his health, sickness Night: William Blake

A place where woman never smiled or wept


‫‪I am: John Clare‬‬

‫ہم صوت الفظ کا استعمال' غنا اور آہنگ کی حصولی میں'‬ ‫بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اردو غزل میں شگفتگی'‬ ‫شائستگی اور وارفتگی اسی کی مرہون منت ہے۔ نظم کے‬ ‫شعرا نے بھی اس صنعت کو بال تکلف استعمال میں رکھا‬ ‫ہے۔ مثال‬

‫عہد شہاب میں بےحجاب بےکسی بھی عجب قیامت تھی۔‬ ‫صبح اٹھتے مشقت اٹھاتےعوضوانے کو ہاتھ بڑھاتے بے‬ ‫نقط سنتے۔ سانسیں اکھڑ جاتیں مہر بہ لب جیتے کہ‬ ‫سانسیں باقی تھیں۔ جینا تو تھا ہی لہو تو پینا تھا ہی۔‬ ‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا‪ :‬مقصود حسنی‬

‫مضمون ایک طرف' یہ ہم صوت الفاظ ہی' اس پہرے کو نثر‬ ‫کا سرمایا رہنے نہیں دیتے۔ انگریزی شاعری میں بھی' یہ‬


‫صنعت دیکھنے کو ملتی ہے۔ مثال‬

Must need read clearer, sure, than he! Bring none of these; but let me be, Nor bring, to see me cease to live, To work or wait elsewhere or here! Wish: Matthew Arnold

Still strong to bear us well. Manfully, fearlessly, The day of trial bear,


‫‪For gloriously, victoriously,‬‬ ‫!‪Can courage quell despair‬‬ ‫‪Life: Charlotte Bronte‬‬

‫صنعت تکرار لفظی' جہاں آہنگ کے لیے ناگزیر ہے' وہاں‬ ‫بات میں زور اور وضاحت کا سبب بنتی بھی ہے۔ اردو میں‬ ‫اس صنعت کا استعمال عام ملتا ہے۔ مثال‬

‫وہ قتل ہو گیا‬ ‫پھر قتل ہوا‬ ‫ایک بار پھر قتل ہوا‬ ‫اس کے بعد بھی قتل ہوا‬ ‫وہ مسلسل قتل ہوتا رہا‬


‫جب تک سیٹھوں کی بھوک‘ نہیں مٹ جاتی‬ ‫جب تک خواہشوں کا‘ جنازہ نہیں اٹھ جا‬ ‫وہ قتل ہوتا رہے گا‬ ‫وہ قتل ہوتا رہے گا‬ ‫ مقصود حسنی‬:‫جب تک‬

‫اب انگریزی شاعری سے چند مثالیں مالحظہ فرمائیں۔‬ If you can wait and not be tired by waiting, Or, being lied about, don’t deal in lies, Or, being hated, don’t give way to hating, And yet don’t look too good, nor talk too wise; .................. If you can dream – and not make dreams your master;


If: Rudyard Kipling

If you can bear to hear the truth you’ve spoken Life: Charlotte Bronte

Four grey walls, and four grey towers, ......... The knights come riding two and two: ........ The helmet and the helmet-feather Burned like one burning flame together,


The Lady Of Shalott: Alfred Tennyson

Then, horn for horn, they stretch an strive: Address To A Haggis: Robert Burns

A little while, a little while, The weary task is put away, And I can sing and I can smile, Alike, while I have holiday. A Little While: Emily Bronte ‫نوٹ‬ ‫انگریزی میں غزل نہیں اسی لیے مثالیں نظم سے لی گئی‬


‫ہیں۔‬

The Idiomatic Association Of Urdu And English

The Natives Of A Languages Use Idioms In Their Speaking According To Their Literal And Stylish Needs. Or What They Write Or Speak Is Called Idiomatic. But Attention Is Not Paid In The Direction That Their Idiom Or Written Things Do Not Get Importance And Meaningfulness Without Public Acceptance. Not Only This, Even General Popularity Does Not Become The Lot Of Such Idioms Or Written Things. Such An Idioms Only The Beauty Of Books. In Fact, Idiom Provided By The Native


Scholars Of A Language Becomes Popular In Public As It Is Or Changed Form According To The Temperament, Likes And Dislike, Trends And Common Use Of The People.

It Is Happens Too That The Common Use/Daily Use Of The Natives Becomes An Idiom For The Public. It Also Happens That An Idiom Provided By The Public Flourishes Among The Natives With All Its Literal And Stylish Charms. And Then It Returns To The Public With New Manners Or The Literal Touch To Become A Need.

It Is Absolutely Incorrect That Something Stand By The Natives Is The Final Or Nothing Is Correct Besides Or Is Nothing In Itself.


The Ability And Literal Dimensions Of The Natives Have Their Own Importance. What They Say Has The Literal Authenticity. But All This Has Not Importance Unless Public Popularity Is Not Achieved. Their Idiom Does Not Get More Importance Than That Of Literal Embellishment. Though It Is Considered Related With Rhetoric By The Natives, Yet It Falls Into The Category Alienation. The Word Kulfi (Kufli) Though Is Incorrect, Yet It Has Its Identity In Masses With All Is References. The Word ‘Tabaydar’ Meaning ‘Tabay Farman’ Is Absolutely Opposite In Its Mean Zimada, Is Often Heard Zumaywa. This Matter Is Not Limited To The Languages And Dialects Of The Subcontinent. This Behavior Has Not Been Provided By The Language Scholars. However They Can Not Remain Isolated From It. Asami, Ahwal,


Aoquat, Hoor Etc., Are Used Singulars. Hooran, Kabran, Votran, Spotra,Etc Are Not Incorrect Among The Urdu Speakers. While It Is The Punjabi Way Of Speaking. The Interfusion Of Indigenous Sounds Into Foreign Or Migrated Words Or The Use Of Foreign Or Migrated Words According To Public Trends Is A Common Thing.

The Change Of Place, No Doubt, Affects Human Behavior, Temperament And Trend. In Spite Of This Fact, Man Has Been Very Close To Other Man With Respect To Temperament In Countless Matters. This Matter Can Be Judged Though The Link Present In Their Language. The Most Delicate Matter Is Related With Idioms. Though The Dissection Of The Culture Of Words,


The Association Of Temperament Of Human Beings Can Be Easily Searched.

Countless Idioms Have Been Used In Languages Without Any Change. The Similarity Of Idioms Shows That Mutuality Is Found In Man’s A Lot Of Affairs, Trends, Attitudes, Preferences And Need Of Various Kinds. It Is Incorrect To Relate The Matter Of Human Division To The Apparent Distance Of Languages.

Chinese Is The Most Spoken Language Of The World Of Today. Urdu Is The Second Great Language Of The World, But With Respect To Its Singular And Compound Sounds, Flexibility, It’s The Most Important And Subtle Language Of The World. On


The Contrary, English Cannot Be Neglected Because Of Its Present Reign. Nor Can We Breathe A Sigh Of Relief Without It. Some Intellectuals Think That Development Is Not Possible Without It. After All These Three Languages Are The Most Important Languages Of The World. I Am Describing Some Common Idioms Of Urdu And English So That The Matter May Become Clear That In Spite Of Distance, Man Is Very Close To Man:

Seyah-O-Sofaid Black And White Alif Say Yay Tak Alpha And Omega Staroon Ki Gurdish (Qismut Ka Mara) Sitar Crossed


Ankh Ka Tara Pupil Of One’s Eyes Roze Roshun Ki Tara Eyain As A Broad Day Light Jahinnum Main Gao Go To Hell Magarmuch Kay Ansoo Crocodile Teas Kali Beher Black Sheep Sofaid Hathi A White Elephant Gadaha Banana To Make Some One An Ass Unlian Jala Behthana To Burn One’s Finger Aahmokoon Ki Ganat A Fool’s Paradise Barbad Hona Go To Dog Wer Bhandayvich ( Bazari Mahavra) Go To The Pot


Ankh Oghal Pahar Oghel Out Of Sight Out Of Mind Jo Gurgtay Hain Wo Burstay Nahain Barking Dogs Seldom Bite Translated By: Prof Niamat Ali

‫مقصود حسنی اور انگریزی زبان و ادب‬ ‫پیش کار‬ ‫پروفیسر نیامت علی مرتضائی‬ ‫ابوزر برقی کتب خانہ‬ ٦١٠٢ ‫ستمبر‬



Turn static files into dynamic content formats.

Create a flipbook
Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.