فہرست
دو لومی نظریہ اور اسالمی ونڈو اپنے لدموں پر کھڑا ہونا پڑے گا ہنر اور تجربے سے استفادہ ترلی کا وسیلہ ثابت ہو سکتا ہے یہ ظم کس کی گردن پر رکھا جائے گا؟ کیسی آزادی کہاں ہے آزادی؟ انسان کیڑے مکوڑے نہیں زندگی میں میں کے سوا کچھ نہیں من کا چوہا اور کل کلیان
دو لومی نظریہ اور اسالمی ونڈو کمپیوٹر سے وابستہ لوگ اس امر سے خوب آگاہ ہوں گے کہ جب سسٹم میں وائرس داخل ہو جاتا ہے تو وہ کمپیوٹر کی مت مار دیتا ہے۔اچھا خاصا چلتا چلتا کمپیوٹر آسیب زدہ
ہو کر رہ جاتا ہے۔ بعض وائرس کمپیوٹر کی ؼیر طبعی موت کا سبب بن جاتے ہیں۔ کچھ اسے موت کے گھاٹ نہیں اتارتے لیکن دائمی فالج کا موجب بن جاتے ہیں۔ اچھا خاصا مواد کھا پی جاتے ہیں۔ مواد کو دسویں جماعت کا ریاضی بنا دیتے ہیں۔ دسویں جماعت کے ریاضی میں الجبرا بھی شامل ہے اور یہ الجبرا جبر کے تمام رویوں اور رجحانات پر استوار ہوتا ہے۔ ہنستا مسکراتا کھیلتا کودتا کمپیوٹر نامراد وائرس کے باعت سکتے میں آ جاتاہے۔ گویا وائرس کی بن باالئی مہمانی کچھ بھی گل کھال سکتی ہے۔ یا یوں کہہ وہ کچھ ہو سکتا ہے جس کا خواب بھی نہیں دیکھا گیا ہوتا۔ وائرس مرتا نہیں مارتا ہےاور ہر حالت میں اپنی اصولی عمر دبدبے اور پورے بھار سے پوری کرتا ہے۔ کوئی دوا دارو ٹیکہ اس کا بال بیکا نہیں کر پاتا ہاں متاثرہ کی لوت مدافعت میں اضافہ کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔ کچھ لوگ اس امر سے آگاہ نہیں ہیں کہ انٹی وائرس‘ وائرس کو مارنےکے لیے فیڈ نہیں کیے جاتے۔ یہ وائرس سے پاک سسٹم میں اس لیے فیڈ کیے جاتے ہیں کہ سسٹم میں
وائرس داخل نہ ہونے پائے۔ گویا انٹی وائرس کا اول تا آخر ممصد یہ ہوتا ہے کہ وائرس کو سسٹم سے دور رکھا جائے۔ دوسرا یہ سسٹم کی لوت مدافعت کی حفاظت کرتا ہے۔ اس کی مثل ویکسین کی سی ہوتی ہے۔ عمومی زبان میں اسے حفاظتی ٹیکے کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ انٹی وائرس یا ویکسین‘ وائرس کے دخول سے پہلے کی چیزیں ہیں۔ مختصر مختصر یوں کہہ لیں انٹی واءرس یا ویکسین دراصل سسٹم کی حفاظت سے متعلك چیزیں ہیں۔ انھیں خطرے سے بچاؤ کا عمل کہا جا سکتا ہے۔ جیسے مچھر سے بچنے کے لیے مچھر دانی کا استعمال کیا جائے۔ ڈینگی سے بچنے کے لیے حفاظتی تدابیر اختیار کی جائیں۔ ڈینگی حملے کی صورت میں فوری موت والع نہیں ہوتی تو مدافعتی نظام کی طرؾ توجہ دی جائے۔ کسی دوائی وؼیرہ سے وائرس نہیں مرے گا۔ متاثرہ کو پانی کی بھرتی رکھیں۔ سیب کا خود جوس نکال کر پالئیں۔شہتوت کے پتوں کو پانی میں ابال کر ٹھنڈا کرکے پالئیں۔ برصؽیر عرصہ دراز سے خارجی وائرس کی زد میں ہے۔
سکندر سے پہلے یہ یہاں سے بچے پکڑ کر لے جاتے اور ان کی لربانی دیوتاؤں کے حضور نذ کر دیتے تھے۔ اس سے پہلے یا بعد کے وائرس بڑے خطرناک تھے۔ کیا کچھ کرتے تھے زیادہ معلومات موجود نہیں ہیں۔ بہرطور یہ تو طے ہے کہ وائرس سسٹم کی تباہی کا سبب بنتا ہے۔ حفاظتی عمل اور مدافعتی لوت کے کامل صحت مند ہوتے ہوئے جسم یعنی سسٹم کے اندر سے کوئی میر جعفر پیدا ہو جاتا ہے جو داخلے کا رستہ بتا کر ہنستے بستے کھیلتے کودتے نظام کو مٹی میں مال دیتا ہے۔ اس کی مت ماری جاتی ہے اور وہ یہ نہیں سمجھ پاتا کہ وہ اسی سسٹم کا حصہ ہے۔ ہوتا تو وہ بھی وائرس ہے اس کے کام بھی وائرسوں والے ہوتے ہیں لیکن ممامی سسٹم اسے اس کے کاموں سمیت لبول چکا ہوتا ہے۔ گویا سسٹم اس وائرس کی منفی فطرت کے باوجود اس سسٹم کا حصہ نہ ہوتے ہوئے بھی سسٹم اسے اپنا حصہ سمجھتا ہے۔ اس کے باعث سسٹم میں سو طرح کی خرابیاں آتی رہتی ہیں لیکن سسٹم کا مدافعتی نظام چلتا رہتا ہے۔ حاالنکہ اس کا سسٹم میں رہنا کسی بھی حوالہ سے ٹھیک نہیں ہوتا۔
کیا کیا جائے وائرس داخلی ہو یا خارجی‘ اس کا اس کی طبعی عمر سے پہلے کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ سسٹم کو اس کی طبعی عمر تک برداشت سے کام لینا پڑتا ہے۔ بس کرنے کا کام یہ ہے کہ سسٹم کے مدافعتی نظام کو ڈولنے نہ دیا جائے۔ چٹی چمڑی واال وائرس تو کل پرسوں سے تعلك رکھتا ہے اور ہم اس کی تباہ کاری کے باعث بیمار جیون جی رہے ہیں۔ اس وائرس نے کمال ہوشیاری سے تمسیم کے بہت سارے دروازے کھول دئیے۔ کبھی زبان کو تمسیم کرکے باہمی نفرتوں کو سسٹم کا حصہ بنایا۔ ١٩٠٥میں دو لومی نظریے کوداخلی وائرس کے ذریعے عام کیا اور پھر اس تماشے سے خوب البھ اٹھایا۔ یہ کون سا ایسا نیا نظریہ تھا۔ یہ نظریہ ہزاروں سال پر محیط ہے۔ لوگوں نے اصل مطب نہ سمجھا۔ لوگ یہ سمجھتے رہے کہ الگ مملکت میں اپنے نظریاتی نظام کے تحت اصولی لانونی اورآئینی زندگی بسر کریں گے۔ داخلی وائرس نے اس ذیل میں مٹھی بند رکھی تاہم اس ذیل میں کوئی لرارداد بھی منظور نہ کی
اور ناہی کوئی لرارداد پیش ہوئی۔ اس سسٹم کو کبھی بھی اسالمی ونڈو نہیں دی گئی۔ جمہوریت کے حوالہ سے اسالمی ونڈو کرنے کی ضرورت تھی۔ داخلی وائرس جو سسٹم پر ڈومینٹ رہا ہے اسے اسالمی ونڈو کس طرح خوش آسکتی تھی یا خوش آسکتی ہے۔ وائرس سسٹم کے لیے بہتری سوچے یہ کیسے اور کیونکر ممکن ہے۔ ایک صاحب مرؼے کے ساتھ روٹی کھا رہے تھےیعنی ایک لممہ خود لیتے دوسرا لممہ اپنے مرؼے کو پھینک رہے تھے گو کہ وہ سائز اور حجم میں چھوٹا ہوتا تھا۔ کسی نے پوچھا میاں یہ کیا ر رہے ہو بولے ہم خاندانی لوگ ہیں ہمیشہ مرؼے کے ساتھ روٹی کھاتے ہیں۔ چٹی چمڑی واال وائرس بڑا خاندانی ہے مرؼے کے ساتھ روٹی کھاتا ہے۔ جو لوگ مرغ باز ہیں وہ اپنے مرؼے کی صحت توانائی اور جوانی کا خیال رکھتے ہیں۔
سٹم کے ہر پرزے پر یہ واضع کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ وائرس دسترخوان اور شہوت کے حوالہ سے کبھی کسی نظریے کا لائل نہیں رہا۔ مرؼا زمین پر رہتے ہوئے خارجی وائرس کے لیے محترم اور معتبر رہتا ہے۔ وہ اس کا جٹھکا اس ولت کرتا ہے جب مرؼا میدان کا نہیں رہتا۔ میدان کا مرؼا خاندانی لوگوں کے ساتھ ہی ناشتہ پانی کرتا آیا ہے۔ رونا سکول کے گرنے کا نہیں اصل رونا تو ماسٹر کے بچ جانے کا ہے۔ ماسٹر مائنڈ وائرس سے پہلے داخلی وائرس کو نکال باہر کرنے کے لیے بڑا ہی موثر سافٹ وائر دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔ آتی نسلوں کو اس سے بچانے کے لیے سماجیات کے ڈاکٹر لدیر سر جوڑ کر سوچیں اور اس نوع کے سوفٹ وئر دریافت کرنے کی کوشش کریں۔ ہاں اس کی کسی کو ہوا تک لگنے نہ دیں سسٹم جب داخلی وائرس سے اور اچانک دھماکہ کردیں۔ آزاد ہو گیا تو خارجی وائرس سے بچنے کے لیے‘ ایک کیا‘ ایک سو ایک انٹی وائرس دریافت ہو جائیں گے۔
اکتوبر ٢٠١٢کی بہترین ماہانہ تحریر کا بیج حاصل کرنے والی تحریر http://www.friendskorner.com/forum/showt hread.php/295225-%D8%AF%D9%88-%D9%82 %D9%88%D9%85%DB%8C-%D9%86%D8%B8% D8%B1%DB%8C%DB%81-%D8%A7%D9%88%D 8%B1-%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9 %85%DB%8C-%D9%88%D9%86%DA%88%D9% 88
اپنے لدموں پر کھڑا ہونا پڑے گا کمزور طبمے ہمیشہ سے ورکنگ بیز سے بھی کمتر حیثیت کے حامل رہے ہیں۔ شہد وہ مہیا کرتے ہیں لیکن لیڈر پھنڈر بیز اور کوئین پھنڈر بی کا موجو لگا رہتا ہے۔ مصلحین اور انبیاء کرام توازن پیدا کرنے کے لیے سرتوڑ کوششیں کرتے رہے ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ کرکے دیکھ لیں
زیادہ تر کمزور طبمے ہی ان کے حامی ہوئے جبکہ لیڈر پھنڈر بیز اور کوئین پھنڈر بی نے ان کی مخالفت کی۔ ان کی جانیں تک لے لیں۔ مصلیحین اور انبیاء کرام کے پاس کوئی فوج نہیں تھی اور ناہی انھوں نے حملہ میں کبھی پہل کی۔ سمراط کوئی کون سا فوجیں ساتھ لیے پھرتا تھا۔ گلیوں میں ننگے پاؤں چلتا پھرتا راستی کی باتیں کرتا تھا۔ لیڈر پھنڈر بیز اور کوئین پھنڈر بی کا مسلہ یہ تھا کہ شہد دے کر جوتے صاؾ کرنے والے ہاتھ سے نکلتے تھے۔ انہیں اپنا ٹہر ٹپا ختم ہوتا نظر آتا تھا۔ راستی کیا ہے یا اس کی افادیت سے نیل کنٹھ کو کوئی ؼرض نہیں ہوتی۔ وہ خوب خوب جانتے تھے کہ وہ پھنڈر ہیں اور ان کا ٹہکا مصلیحین اور انبیاء کرام کھوہ کھاتے ڈال رہے ہیں گویا وہ آسمان سے زمین پر آ جائیں گے۔ ان کی اصلیت کا بالی ماندہ کو بھی علم ہو جائے گا۔ اس ذیل میں وہ آخری حد تک گیے ہیں۔ بےشمار بےگناہوں کے سر تن سے جدا ہوتے رہے ہو رہے ہیں اور خدا معلوم یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔
یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ رستہ موت کی طرؾ جاتا ہے۔ مخلصین مصلحین اور انبیاء اس راہ پر چلتے آئے ہیں زہر ہو کہ صلیب یا پھر آگ اپنی معنویت میں صفر سے زیادہ اہمیت کی حامل نہیں رہی۔ ہاں البتہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں جس دن یہ برابر ہو گئیں اس روز لیامت برپا ہو جائے گی۔ لیڈر بیز میں کچھ شہد اگلتی ہیں۔ وہ بہکاوے میں نہیں آتیں اور ناہی خط پھاڑنے کا جرم کرتی ہیں۔ هللا انہیں عزت اور شان سے نوازتا ہے۔ لیڈر پھنڈر بیز کے گن گانے واال مورکھ بھی انہیں نظر انداز نہیں کر پاتا۔ هللا اس نوع کی لیڈر بیز کو امرتا سے سرفراز فرماتا ہے۔ گویا دنیا اور آخرت کی سرفرازی ان کے حصہ میں آتی ہے۔ ہمارے ہاں بہت سووں میں سے یہ سرفرازی ؼالم بلور کے ممدر کا حصہ بنی۔ اب سردار سلیم حیدر وزیر مملکت کے نصیب میں یہ ٹرافی آئی ہے۔ انہوں نے کوئین پھنڈر بی کا پتال جالنے اور نعرہ بازی کے جرم کی پاداش میں پارٹی کی طرؾ سے تادیبی کاروائی کی خبر سنائی گئی ہے۔ سردار سلیم حیدر نے بھی موت سے نظریں مالتے ہوئے اپنے مولؾ اور کئے کو درست لرار دیا ہے۔ موت
آلا کریم (آپ کی خدمت میں ان حد درود و سالم) کی حرمت کے سامنے کیا معنویت رکھتی ہے۔ان کی محبت میں ایسی الکھوں زندگیاں لربان کرنا بےبدل اعزاز سے کسی طرح کم نہیں۔ بےشک هللا کے پاس راستی کا رستہ اختیار کرنے والوں کے لیے بڑا ہی اجر ہے۔ انٹرنیٹ پر نام نہاد فورم لیڈر پھنڈر بیز کے گماشتے موجود ہیں جو دکھالوا تو کرتے ہیں لیکن کوئین پھنڈر بی کی شان میں ایک کلمہ برداشت نہیں کرتے۔ ہاں البتہ منہ زبانی جان لربان کرنے کی بڑکیں مارتے ہیں۔ ایک شخص اپنا نام صادق مسیح بتاتا ہے لیکن کام حضرت عیسی مسیح کی محترم تعلیمات کے برعکس کرتا ہے اور عیسائی ہونے کا دعوی بندھتا ہے۔ اسے عیسائی مان لیں مگر کیوں اور کس بنیاد پر۔ ایک شخص اپنا نام نور دمحم بتاتا ہے لیکن کھڑا دمحم (آپ کی خدمت میں ان حد درود و سالم) دشمنوں کی صؾ میں ہوتا ہے اس کو کیوں اور کس بنیاد پر مسلمان تسلیم کر لیا جائے۔ ایمان کے لیے تین شرائط ہیں زبان سے الرار کرنا دل سے تسلیم کرنا اور اس کےمطابك عمل کرنا۔ آلا کریم کا پیرو کار هللا کے سوا کسی
کو هللا نہیں مان سکتا۔ یہی اس کے دمحمن ھونے کی نشانی ہوتی ہے۔ مسلمان ہونے کے لیے یہ پہلی اورآخری شرط ہے۔ لیڈر پھنڈر بیز اور معاون لیڈر پھنڈر بیز زبان سے دعوے باندھتے ہیں لیکن ان کا عمل اس کے برعکس ہوتا ہے۔ وہ جو کچھ کرتے ہیں کوئین پھنڈر بی کے لیے کرتے ہیں ان کا ہر کرنا کوئین پھنڈر بی کی شرع کے عین مطابك ہوتا ہے۔ جو عمل‘ کہے کے مطابك کرتے ہیں ان کے لیے تادیبی کاروائی کا دفتر کھل جاتا ہے۔ کوئین پھنڈر بی کی گماشتہ اور معاون گماشتہ لوتوں کے سامنے سینہ تان کر ؼالم بلور اور سردار سلیم حیدر کھڑے ہو گئے ہیں۔ وہ ناصرؾ اپنے کیے کا اعتراؾ کرتے ہیں بلکہ لائم اور اس کہے اور کیے کے لیے ہر لربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ ان کے اس پختہ ایمانی کردار کی تحسین کرنا اور ان کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہونا حك پرست طبموں کا فرض عین ٹھہرتا ہے۔ اگر اس مولع پر صاحب ایمان مگر کمزور طبموں نے پیٹھ دکھائی تو یاد
رکھیں اب آسمان سے موسی کلیم هللا اترنے کے نہیں۔ آج لوگوں کو اپنے لدموں پربہر صورت کھڑا ہونا پڑے گا۔ اس معرکہ حك و باطل میں کوئین پھنڈر بی سے نجات صاصل کرنے کا مولع ہے۔ بصورت دیگر کوئین پھنڈر بی اور اس کی معاون پھنڈر بیز ان کا گوشت کیا ہڈیاں بھی چبا جائیں گی جبکہ آتی نسل کا حشر آج سے بدتر ہو گا۔
ہنر اور تجربے سے استفادہ ترلی کا وسیلہ ثابت ہو سکتا ہے کسی بھی شعبے کی مارکیٹ میں جا کر دیکھیں بہت سے ایسے لوگ ملیں گے جو کم پڑھے یا سرے سے کبھی اسکول ہی نہیں گئے ہوتے‘ لکھنے پڑھنے کے ہنر سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ بات چیت کرنے میں بھی کچھ کم نہیں ہوتے لیکن انھیں ان پڑھ ہی سمجھا جاتا ہے کیونکہ ان کے پاس کسی یونیورسٹی کا جاری کردہ گیڈر پروانہ نہیں ہوتا۔ بات یہاں تک ہی محدود نہیں اس گیڈر پروانے پر اس
امر کی تصدیك الزم ہوتی ہے کہ وہ انگریزی میں پاس ہے۔ بہت سے ایسے ان پڑھ بھی دیکھنے کو ملیں گے جو میٹرک کے تمام مضامین میں کامیاب ہوں گے لیکن ماسی مصیبتے کو سر کرنے میں ناکام ہو گئے ہوں گے۔ ان رجسٹرڈ ان پڑھ حضرات کے پاس کوئی ناکوئی اور کسی ناکسی فیلڈ میں کمال کا ہنر ہوتا ہے اور یہ کوئی زبانی کالمی کی بات نہیں میں نے پوری دیانت داری سے اس کا سروے کیا ہے۔ وہ اپنی فیلڈ سے متعلك وہ وہ باریکیاں جانتے ہیں کہ عمل دھنگ رہ جاتی ہے۔ ان کی بد لسمتی یہ ہوتی ہے کہ وہ بالسند اور ماسی مصیبتے کے اشیرباد سے محروم ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو کیوں اور کس بنیاد پر ؼیر فائدہ مند لرار دیا جائے یا ڈگری ہولڈرز سے کم تر سمجھا جائے یا انہیں ان کے ہنر اور تجربے کی بنیاد پرتنخواہ نہ دی جائے۔ اس لسم کا سوتیال رویہ ناصرؾ ان کے ہنر اور تجربے سے انحراؾ کے مترادؾ ہے بل کہ ان کے ہنر اور تجربے سے پورا پورا فائدہ نہ اٹھانے والی بات ہے۔
ہمارے ہاں تجربے کے تسلیم کرنے کو محدود کر دیا گیا ہے اور یہ رویہ کسی طرح درست اور مناسب نہیں۔ تاہم یہ طے ہو جاتا ہے کہ تجربہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ تجربے کے تسلیم کی یہ صورت لطعی نامناسب اور ادھوری ہے اور یہ ترلی کی راہ میں بہت بڑی چٹان ہے۔ تجربے کو تسلیم کرنے کی چند صورتیں درج کر رہا ہوں: ١۔ سرکاری مالزمین کو ساالنہ انکریمنٹ لگتی ہے کیوں‘ یہ ایک سال کے تجربے کو تسلیم کرنا ہے۔ ٢۔ ایک اسکیل سے اگلے اسکیل میں ترلی مالزم کے تجربے کو لبول کرنا ہے۔ ٣۔ کسی بڑی پوسٹ پر سلیکشن کے لیے تعلیم کے ساتھ تجربہ پہلی شرط ہوتی ہے۔ ٤۔ شعبہ تعلیم میں چناؤ کے لیے تعلیمی سند تجربہ اور پبلیکیشنز کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ پبلیکیشنز کیا ہے اس شخص کا تجربہ اور کھوج ہی تو ہے۔ ٥۔ بڑا عام سا ممولہ ہے “نواں نو دن پرانا سو دن“ کیا
اس ممولے کا یہ مطلب نہیں بنتا کہ پرانا تجربہ کار اور ولت کے بہت سے موسموں سے گزر چکا ہوتا ہے۔ ٧۔ دنیا کے بہت سے منظور شدہ تعلیمی ادارے الئؾ ورک ریسرچ وؼیرہ سے متعلك تجربے کے کریڈیسز دیتے ہیں۔ ٧۔ ہمارے ہا کسی تعلیمی ادارے میں داخلے کے لیے حفظ‘ این سی سی‘ ٹیچر سنز‘ پسر سابمہ یا موجودہ فوجی‘ سکاؤٹ وؼیرہ کا داخلے میں فائدہ دیا جاتا ہے۔ ٨۔ کسی مالزمت کے حصول کے لیے ملٹری مین ہونے کا فائدہ دیا جاتا ہے۔ درج باال چند ایک معروضات کے حوالہ سے میں نے تجربے کی اہمیت کو واضع کرنے کی کوشش کی ہے۔ نان ڈگری ہولڈر کے تجربے اور ہنر سے معمول ترین فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس طرح لومی ترلی کا ایک اور ذریعہ تالشا جا سکتا ہے۔ یہ اصول کسی طرح درست اور فائدہ مند نہیں کہ انگریزی میں فیل تو ان پڑھ پاس ہو گیا تو تعلیم یافتہ۔ ہر کوئی باہر
سفیر بن کر نہیں جاتا اس نے یہاں ہی زندگی کے دن پورے کرنا ہوتے ہیں۔ اس کا واسطہ ممامی لوگوں ہی سے رہتا ہے۔ معاملے کو تین طرح سے لینا پڑے گا ١۔ انگریزی میں ناکام مگر دوسرے مضامین میں پاس ہونے والے کو بھی پاس سمجھائے۔ ٢۔ بہت پہلے انگریزی میں ناکام ہو گئے تھے اور اب کسی ناکسی میدان میں مہارت رکھتے ہیں۔ ان کی مہارت اور تجربے کی جانچ کے بعد بورڈ یونیورسٹی کی اسناد جاری کر دی جائیں۔ یہ گیڈر پروانہ انہیں محض چند سال فائدہ دے گا لیکن ا۔ ان کا ہنر بہتر طور پر استعمال میں آ سکے گا جو بہت سے آتے سالوں تک اپنے جوہر دیکھتا رہے گا۔ ب۔ ان کے ہنر سے متعلك تحریر صدیوں تک کام آتی رہے گی۔ ج۔ ہاں البتہ ان اسناد کے اجرا کا ایک معیار بنایا جا سکتا ہے۔ مثال
میٹرک کے لیے متعلمہ ہنر کا دو سالہ تجربہ +دو ہزار الفاظ کی ان کی اپنی زبان میں تحریر انٹرمیڈیٹ کے لیے میٹرک‘ متعلمہ ہنر کا چار سالہ تجربہ + پانچ ہزار الفاظ پر مبنی ان کی اپنی زبان میں تحریر بی اے کے لیے میٹرک +انٹرمیڈیٹ متعلمہ ہنر کا چھے سالہ تجربہ +سات ہزار الفاظ پر مبنی ان کی اپنی زبان میں تحریر ماسٹرز کے لیے میٹرک +انٹرمیڈیٹ +بی اے متعلمہ ہنر کا آٹھ سالہ تجربہ +دس ہزار الفاظ پر مبنی ان کی اپنی زبان میں تحریر ایم فل کے لیے میٹرک +انٹرمیڈیٹ +بی اے +ماسٹرز متعلمہ ہنر کا دس سالہ تجرہ +پندرہ ہزار الفاظ پر مبنی ان کی اپنی زبان میں تحریر اور تین پبلیکیشز ڈاکٹریٹ کے لیے میٹرک +انٹرمیڈیٹ +بی اے +ماسٹرز+ ایم فل متعلمہ ہنر کا بارہ سالہ تجربہ +بیس ہزار الفاظ پر مبنی ان کی اپنی زبان میں تحریر اور پانچ پبلیکیشز پوسٹ ڈاکٹریٹ کے لیے میٹرک +انٹرمیڈیٹ +بی اے+
ماسٹرز +ایم فل +ڈاکٹریٹ متعلمہ ہنر کا پندرہ سالہ تجربہ +تیس ہزار الفاظ پر مبنی ان کی اپنی زبان میں تحریر اور سات پبلیکیشز انگریز کی روحانی اوالد لکیر کے فمیروں اور ہنر دشمن لوگوں کو یہ تحریر خوش نہیں آئے گی لیکن اہل دانش ان معروضات کی افادیت کو ضرور تسلیم کریں گے اور ملک میں بےولار پڑی ہنر مندی اور تجربے سے استفادے کا اہل التدار کو مشورہ دیں گے۔ اس طرح ملکی ہنر اور تجربہ کاؼذ پر آ سکے گا اور یہ تردد آتی نسلوں کے کام آسکے گا۔
یہ ظم کس کی گردن پر رکھا جائے گا؟ کل بیؽم گھر پر نہیں تھیں‘ اس لیے حجامت کے لیے حجام کے پاس جانا پڑا۔ پھٹھ‘ تنور‘ حجامت گاہ‘ ہوٹل وؼیرہ ایسی جگہ ہیں‘ جہاں سیاسی سماجی معاشی ثمافتی ؼرض ہر موضوع سے متعلك باتیں اور خبریں سننے کو ملتی
ہیں۔ جگت بازی بھی اپنے کمال کو چھوتی نظر آتی ہے۔ حکیموں کے نسخے اور ان کے اثرات کے متعلك آگہی کے بند در کھلتے چلے جاتے ہیں۔ بجلی نہ ہونے اور لیامت کی گرمی کے باوجود حجامت گاہ میں چھے سات لوگ موجود تھے۔ میرے سوا کوئی حجامت بنوانے واال نہ تھا۔ پان سات منٹ بعد ان میں سے کوئی ایک یاد دال دیتا کہ گرمی بہت ہے۔ ان میں سے ایک نے خبر سنائی کہ بجلی کے دفتر میں ایک بڑے افسر نے حکم دے رکھا ہے کہ سحری افطاری اور ہر نماز کے ولت بجی بند کرنی ہے۔ ورکروں نے احتجاج کیا تو اس نے جوابا کہا جو یہ نہیں کر سکتا وہ نوکری چھوڑے اور گھر کی راہ لے۔ عزت بچانے کے لیے انھیں افسر کے انتہائی ہتک آمیز کلمات ہضم کرنا پڑے۔ مجھے یہ خبر ہر حوالہ سے افواہ لگی۔ عملی صورتحال پر ؼور کیا تو اس خبر میں کوئی کھوٹ نظر نہ آئی۔ اگر تاریخی حوالہ سے دیکھا جائے تو بھی اس میں جھوٹ کی آمیزش نظر نہیں آتی۔ انگریز اپنے ساتھ ؼدار لے کر نہیں
آیا تھا۔ جعفر اور صادق یہاں ہی سے تعاق رکھتے ہیں۔ دیس بھگت‘ بھگت سنگھ آزاد (بھگوان اس کی آتما کو شناتی اور سورگ میں جگہ دے) کے ڈیتھ ورنٹ پر یہاں ہی کے ابن ابئی نے دستخط ثبت کیے تھے۔ ان راکششوں کا کوئی دین مذہب نہیں ہوتا۔ یہ جاہ ومال کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ اگر مال کی جھلک دکھا کر کوئی ان سے ان کی ماں بھی مانگ لے تو دے دیں گے۔ ساری عمر ابا اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا مانگنے واال انسان سا ہی ہے‘ کیا بگاڑ لے گا۔ ابے کا کیا ہے چند ٹکے خرچ کرکے اے ون عورت ال دیں گے۔ ابا خوش محلہ خوش اور والفیت میں بھی ہر چند اضافہ ہی گا۔ میری سوچ کے دائرے پھیلتے گیے اور یہ خبر جو پہلے افواہ لگی تھی بعد میں اس میں کسی ناکسی سطع پر سچائی محسوس ہونے لگی۔ سحری اور افطاری اورہر نماز کے مولع پر بڑی بالاعدگی سے بجلی جاتی ہے۔
رہ گیا یہ اعالن کہا کہ ان مولعوں پر بجلی نہیں جائے گی کے کیا مفاہیم تھے۔ اردو سے متعلك لوگ اردو مصادر کے استعماالت سے آگاہ نہیں ہیں۔ اس اعالن یا دعوی میں مصدر جانا کا استعمال ہوا ہے۔ یہاں صرؾ تین استعمال پیش کر رہا ہوں وہ کام سے گیا۔ وہ جان سے گیا۔ کہنے کے باوجود حامد اسکول نہیں گیا۔ اعالن کے مطابك مصدر جانا آنا کے لیے استعمال ہوا ہے۔ یعنی ان مولعوں پر بجلی آئے گی۔ یہاں مراد یہ ہے کہ بجلی گھروں میں نہیں جائے گی۔ اس حوالہ سے کون کہتا ہے وعدہ خالفی ہوئی ہے۔ وہاں موجود لوگوں میں ایک نے کہا خلیفہ یار (ہمارے ہاں نائی کے لیے لفظ خلیفہ مستعمل ہے) میرا دل ڈوبتا ہے۔ خلیفے نے کہا یہ فیض تم نے کہاں سے پایا ہے؟ اس نے
جوابا کہا میں پہلے دو صبح دو دوپہر اور دو روٹیاں شام کو کھا تا تھا اور اب آدھی روٹی صبح اور آدھی روٹی شام کو کھاتا ہوں۔ بچوں کا ماموں انھیں لے گیا تھا چار پانچ دن بعد ہی چھوڑ گیا۔کوئی بھال کب تک کسی کو کھالتا ہے۔ زلؾ کدے کے بالکل سامنے حاجی آٹے والے کی دوکان ہے۔ اس نے بتایا بڑا مندا ٹھنڈا ہے۔ سارا دن آدھ سے دو کلو سے زیادہ کے گاہک ایک آدھ ہی آتا ہے۔ جب دو کی بجائے آدھی روٹی کونڈی میں رگڑی سبز مرچوں کے ساتھ میسر آئے گی تو دل ڈوبنے کے فیض پر حیرانی ہونا بذات خود حیرانی کی بات ہے۔ سوچتا ہوں یہ بھوک پیاس روزہ داروں اور نمازیوں پر پسینے کی برسات کا ظلم اور جبر کس کی گردن پر رکھا جائے گا؟
کیسی آزادی کہاں ہے آزادی؟ اس امر کا متعدد باراظہار کر چکا ہوں کہ برصؽیر دنیا کا بہترین خطہء ارض ہے۔ یہاں کے وسنیک بڑے ہی محنتی
اور ذہین ہیں۔ میدان کار زار میں بھی نالابل یمین کارنامے انجام دیتے آئے ہیں۔ سکندر دنیا فتح کرنے چال تھا لیکن راجہ پورس سے پاال پڑا تو اسے نانی یاد آ گئی۔ ٹیپو کا نام لے کر انگریز مائیں اپنے بچوں کو ڈراتی تھیں۔ اہل للم بھی بال کے ذہین اور بے باک رہے ہیں۔ شاعر عالمتوں اشاروں میں تلخ حمیمتوں کو کاؼذ کے بدن پر اتراتے آئے ہیں۔ پیٹو مورخ نے اورنگ زیب جو برصؽیر کو جہنم میں دھکیلنے کا موڈھی ہے‘ نبی کے لریب پنچا دیا ہے۔ رحمان بابا صاحب نے واضع الفاظ میں اس کی کرتوتوں کی للعی کھول کر رکھ دی ہے۔ بہادر شاہ ظفر نےبڑے ہی رومانوی الفاظ میں اپنے عہد کے کرب کو بیان کر دیا ہے۔ ذرا یہ شعرمالحظہ فرمائیں کتنا کرب پوشیدہ ہے۔ چشم لاتل تھی میری دشمن ہمیشہ‘ لیکن جیسی اب ہو گئی لاتل کبھی ایسی تو نہ تھی ذہانت کی پذیرائی تو بڑی دور کی بات‘ ان کی ذہانت کو کبھی تسلیم تک نہیں کیا گیا بلکہ ذہانت کی تذلیل ہی کی
گئی ہے۔ ہنر مندوں کے ہاتھ کاٹے گئے ہیں۔ بعض تو جان سے بھی گئے ہیں۔ اس کے برعکس کرسی لریب گماشتوں اور کنمریب جھولی چکوں کو نوازا گیا ہے۔ یہی جھولی چک اپنی عیاری کے بل پر کرسی پر شب خون مارتے آئے ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ کر دیکھیں ؼداروں اور دھرتی کے نمک حراموں کے سبب بیرونی طالع آزماؤں کے سبب یہ دھرتی ؼیروں کی ؼالم رہی ہے۔ ؼیروں نے اس کےوسائل سےموجیں کی ہیں خوب پچرے اڑائے ہیں اوراڑا رہے ہیں۔ حاالت بتاتے ہیں کہ یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ یہ ؼدار اور دھرتی کے نمک حرام لوگوں کی ذہانت کا اسی طرح لیمہ کرتے رہیں گے۔ اس ذیل میں خدا کے خوؾ کی بات کرنا حمالت سے کم نہیں۔ خدا‘ خدا کا خوؾ کھائیں؟ بادشاہ لوگوں کا شروع سے یہی طور اور وتیرا رہا ہے۔ دور کیا جانا ہے آج کے خدا نما بادشاہوں کو ہی دیکھ لیں کیا کر رہے ہیں۔ شخص ان کے لیے کیڑے مکوڑے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ اس کی بھوک پیاس سے انہیں
کوئی ؼرض نہیں۔ انھیں تو باتوں اور جھوٹے دعوں کے عوض جنتی اور مفتی کھانا مل رہا ہے۔ ان کی دالل افسر شاہی تو گلچرے اڑا رہی ہے۔ لوگ اندھیروں میں ہیں تو وہ کیا کریں ان کے ہاں تو چانن ہے۔ چودہ اگست ہر سال آتا ہے۔ سرکاری اور نجی سطع پر جشن منائے جاتے ہیں۔ سرکاری چھٹی بھی ہوتی ہے۔ میں یہاں کے ذہین لوگوں کی بات کر رہا تھا اس دن کے حوالہ سے میں اس ذہین و فطین شخص کو سالم کرتا ہوں جس نے یہ نعرہ ایجاد کیا ----جشن آزادی مبارک ہو------جشن آزادی کی مبارک ہے آزادی کی نہیں۔ نعرہ نے کمال کا ہاتھ دکھا یا ہے۔ وہ جانتا تھا ہم آزاد نہیں‘ آزادی کا سہانا خواب دیکھ رہے ہیں۔ خواب دیکھنے اور خوش فہمی میں مبتال رہنے پر کوئی پابندی تو نہیں ورنہ لوم خادم اور حکومتی گماشتوں کی ؼالم ہے۔ یہ خادم اور حکومتی گماشتے امریکہ کے پیٹھوں کے ؼالم ہیں۔ کیسی آزادی کہاں ہے آزادی؟
جو لوگ منصؾ کے درپے ہو جاتے ہیں‘ اسے نیچا دکھانے اور اپنا دالل بنانے پر اتر آتے ہیں انھیں هللا ہی اپنی گرفت میں لے سکتا ہے۔ وہ صم بکم عم فاھم ال یرجعون کے درجے پر فائز ہو جاتے ہیں۔ لوم کے حصہ میں فمط جشن آیا ہے سو وہ دھوم سے منا رہی ہے۔ هللا ناکرے آتے سالوں میں بھی صرؾ جشن پر ہی اکتفا کرے۔ میں نے اپنے ایک کالم میں عرض کیا تھا کہ ملک کا آئین معطل یا چیلنج ہو چکا ہے۔ میری اس تحریر کو کسی ایک نے بھی چیلنج نہیں کیا۔ اس نام نہاد جشن آزادی کی کرتوت یہ ہے کہ ملک چیلنج یا معطل آئین کے حوالہ سے چل رہا ہے۔عوام آخر کس لانون اور آئین کے تحت جشن منا رہے ہیں۔ یہ جشن بھی ؼیر آئینی ہے۔ عوام کو تو جھوٹ موٹھ کی خوشی منانے کا بھی حك حاصل نہیں۔ سال رواں کے اس روائیتی جشن کے مولع پر مجھے دمحم نعیم صفدر انصاری ایم پی اے لصور کا ایک موبائل میسج مال
۔۔۔۔۔۔۔ زنجیریں ؼالمی کی‘ دن آتا ہے آزادی کا آزادی نہیں آتی ۔ چودہ اگست ہپی انڈیپنڈنس ڈے دمحم نعیم صفدر انصاری نوجوان سیاست دان ہے۔ اس کا موبائل میسج میرے مندرجہ باال مولؾ کا زندہ اور جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ ایک ایوان کے ممبر کے موبائل کے منہ سے نکلی یہ بات اس امر کا واضع ثبوت ہے کہ ملک اور لوم کا درد رکھنے والے نوجوان بھی اس ؼالم اور ؼبن اور کرپشن آلودہ فضا میں گھٹن محسوس کرتے ہیں۔ دمحم نعیم صفدر انصاری ایوان کلچر کا نمائندہ ہےگویا یہ ون مین گھٹن نہیں ہے پورے ایوان کی گھٹن ہے۔یہ تو مثل ایسی ہے کہ بہو کو کہا جائے بیٹا سب کچھ تمہارا ہے لیکن کسی چیز کو ہاتھ مت لگانا۔ یہ کیسی نمائندگی اور عاللائی سربراہی ہے کہ لیا سب کچھ جایے لیکن دیا اندھیرا جایے اور پھر بھی مورخ سے کہا جایے لکھو بادشاہ بڑا دیالو کرپالو اور دیس بھگت تھا۔ بہر طور مجھے خوشی ہوئی کہ ہمارے ایوانوں میں دمحم
نعیم صفدر انصاری جیسے نمائندے موجود ہیں جو اس امر کا شعور رکھتے ہیں کہ پاکستانی لوم کے ہاتھ صرؾ جشن آزادی لگا ہے‘ آزادی ابھی کوسوں دور ہے۔ پرانی نسل دیسی گھی کھاتی تھی اس کے جسم میں وافر خون تھا۔ دیسی گھی تو دور کی بات اس کے پاس تو سوکھی روٹی بھی نہیں۔ خون کہاں سے آئے گا۔ آزادی خون مانگتی ہے اس لیے پیٹ بھرنے تک جشن آزادی کی مبارک باد پر ہی گزارا کرنا کافی رہے گا۔
انسان کیڑے مکوڑے نہیں انسان کسی حادثے والعے معاملے فکری اور نظریاتی اختالؾ وؼیرہ کے حوالہ سے جذباتی ہو جاتا ہے اور یہ کوئی ؼیر فطری بات نہیں۔ ناگہانی صورت ہو تو ردعمل میں کچھ بھی کر گزرتا ہے۔ عمومی حاالت میں سوچ سمجھ سے کام لیتا ہے۔ جذباتی حالت میں بھی سوچتا ہےلیکن سوچ کی سطع عمومی حالت سے مختلؾ ہوتی
ہے۔ دوسری صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ شخص کا معاملے سے تعلك اور واسطہ کس سطع کا ہے۔ جذبات کو انسان سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر انسان جذبات سے عاری ہو گیا تو اس میں اور مشین میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا۔ تاہم مکمل طور پر جذبات کی انگلی پکڑنا درست نہیں۔ آج اخبار میں اوباما اور ہلیری کے بیان کی سہ سرخی پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ دونوں کے بیانات ایک دوسرے سے اٹوٹ رشتہ رکھتے ہیں۔ اوباما کا کہنا ہے امریکی شہریوں کو نمصان پہنچانے والوں کا پیچھا کریں گے جبکہ ہلیری کا کہنا ہے کہ پرتشدد مظاہروں کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ اصل ضرورت یہ تھی کہ کہا جاتا اسالمی دنیا تحمل اور برداشت سے کام لے ہم اس والعے کا سختی سے نوٹس لیں گے۔ چاہے یہ محض بیان ہوتا۔ لوگ سمجھتے کہ امریکی لیادت انسان دوست اور جمہوریت پسند ہے۔ اس کے معنی یہ بنتے ہیں کہ ہم جو بھی چاہیں کریں یا کہیں اس کے ردعمل میں کسی کو کچھ کرنے یا کہنے کا حك
حاصل نہیں۔ ہلیری کے مطابك یہ کوئی بات ہی نہیں جو مرضی کہا یا کیا جائے۔ دونوں کے بیانوں میں کرختگی اوروں کے دکھ سکھ نظریات سے کوئی تعلك نہیں۔ ان بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اپنے معامالت میں کس لدر جذباتی ہیں۔ اس کے برعکس دوسروں کے جذبات کا ان دل میں رائی بھر احساس اور احترام نہیں۔ وہ ان کے ہاتھ اور زبان سے مریں یا جیئیں یہ ان کی سردردی نہیں۔ گویا یہ سارے کیڑے مکوڑے ہیں اور ان کے نزدیک کوئی حیثیث نہیں رکھتے۔ اوباما یا ہلیری کی بڑی دور کی بات ہے اسالمی دنیا پر چھوڑے گیےخنزیر پر اسالمی دنیا گرفت کرنے کا حك نہیں رکھتی۔ اس خنزیر پر جو گرفت کرنے کی کوشش کرئے گا اس کا پیچھا کیا جائے گا۔ انسان دوست امریکہ اپنوں کے لیے کتنا جذباتی ہے اوباما کے بیان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ کھال جذباتی بیان ہے لیکن چمچے اس کی سو طرح سے تشریح و تفہیم کریں گے حاالنکہ ان دونوں کے بیانات میں رائی بھر ابہام نہیں۔
میری تحریر “فیصلے کا ولت آ گیا ہے“ کو جذباتی تحریر کا نام دیا گیا ہے۔ میں نے اس تحریر کو پورے ہوش و حواس سے للم بند کیا ہے۔ میں عمر کے جس حصہ میں ہوں وہاں ہوش مندی کو زیادہ دخل ہوتا ہے تاہم ؼلطی کے امکان کو رد نہیں کر سکتا۔ میں نے معاملے کا تجزیہ دالئل سے کیا ہے۔ کیا یہ سچی باتیں نہیں ہیں۔ احتجاج حك تھا کیا گیا ۔ اس کا کیا اثر ہوا اوباما اور ہلیری کے بیانات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے گویا یہ احتجاج ان کے لیے معنویت سے تہی ہے۔ اوباما کے بیان سے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ اسالمی برادری کے مجرم کو نمصان دینےوالے پر بھی گرفت ہو گی۔ یعنی اس کیا ؼلط نہیں۔ میں جانتا تھا کہ اس لسم کی باتیں معنویت نہیں رکھتیں۔ میں نے اسی تناظر میں تجاویز پیش کی تھیں۔ ولت حاالت معامالت نے واضح کر دیا ہے کہ یہ باتوں سے سمجھنے والی جنسں کب ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتایے ان سے لین دین رکھنا انتہائی خسارے کا سودا نہیں ۔ جرم کرنے واال جرم کرانے واال جرم کی صالح دینے واال مجرم کی مدد کرنے واال مجرم کی ہاں میں ہاں مالنے والے بذات خود
مجرم نہیں ہیں۔ اوباما اور ہلیری بذت خود مجرم ہیں ان پر بھی‘ وہی تعزیر بنتی ہے جو فلم بنانے‘کردار ادا کرنےاور فلم کا مواد تخلیك کرنے والے پر بنتی ہے۔ نفرت کو جبر سے ایک حد تک دبایا جا سکتا ہے جب معاملہ حد تجاوز کر جاتا ہے تو سونامی بن جاتا ہے۔ سونامی کی راہ میں دیوار رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ امریکہ آج طالت کے نشہ میں سرشار ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ یہ چونٹیاں اور کیڑے مکوڑے ہمارا کیا بگاڑ لیں گے۔ آمر آج سے پہلے بھی یہی سوچتے آئے ہیں ان کی اس سوچ نے ان کا نام و نشان تک مٹا دیا۔ طالت لگام میں رہے تو ہی کامیاب رہتی ہے۔ مست ہاتھی مول میں کتنے کا کیوں نہ رہا ہو موت کا لممہ بنتا ہے۔ امریکی دانشور اہل سیاست اور بااثر طبمے اس مدے پر سنجیدگی سے ؼور کریں اور گورا ہاؤس مکینوں کو مشورہ دیں کہ وہ حد تجاوز نہ کریں۔ انسانوں کو کیڑا مکوڑا سمجھنے کی بجائے انسان سمجھیں اس میں ان کی اور دوسروں بھالئی ہے۔
زندگی میں میں کے سوا کچھ نہیں وزیر برلیات کے اعالن کے باوجود مختلؾ شہروں میں لوڈ شیڈنگ یہ خبر میری اس تحریر کے بعد شائع ہوئی جس میں‘ میں نے کہا تھا کہ کہنا اور کرنا دو الگ چیزیں ہیں۔ اس تحریر کے باوجود اس خبر کا شائع ہونا اس امر کی طرؾ اشارہ ہے کہ خبر نویس اس حمیمت سے بےخبر ہے یا پھر وہ پرتھوی پر بسیرا نہیں رکھتا اور سہانے خوابوں کے دیس کا الامتی ہے۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ اس تک میری ناچیز تحریر رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہی ہو۔ یا پھر میں اپنا مافی الضمیر بیان کرنے میں ناکام رہا ہوں۔ جو بھی ہے صحیح نہیں ہے۔ دوبارہ سے کوشش کرتا ہوں شائد اب کہ سمجھانے میں کامیاب ہو جاؤں۔ کہنا اور کرنا اپنی حیثیت میں دو الگ چیزیں ہیں۔ ان کے مابین المحدود فاصلے ہیں۔ بذات خود بجلی دیکھنے میں ایک ہو کر بھی ایک نہیں۔ متعلمہ پوائنٹ تک پہنچنے کے
لیے دو تاروں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک ٹھنڈی تار دوسری گرم تار۔ دونوں تاروں کےالگ الگ رہنے میں ہی عافیت اور سالمتی ہوتی ہے۔ ہر سوئچ میں ان دونوں کے لیے الگ الگ پوائنٹ ہوتے ہیں۔ اگر یہ دونوں تاریں باہمی اختالط کر لیں تو بہت بڑا کھڑاک ہو سکتا ہے۔ اس ٹھاہ کے نتیجہ میں جان بلکہ جانیں جا سکتی ہیں۔ بالکل اسی طرح کہنا اور کرنا گلے مل جائیں تو مالی نمصان وٹ پر ہوتا ہے۔ نمصان جانی ہو یا مالی‘ نمصان ہی ہوتا ہے اور نمصان کی کسی بھی سطع پر حمایت نہیں کی جا سکتی۔ سکول کالج یہاں تک کہ یونیورسٹی میں کتابی تعلیم دی جاتی ہے۔ کامیاب طالب علم کو متعلمہ علم کی سند یا ڈگری دی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ڈگری ہولڈر اس علم کی کامل جانکاری حاصل کر چکا ہے۔ اس سند یا ڈگری کے باوجود ڈگری یافتہ عملی طور پر صفر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس عملی تجربہ رکھنے واال ڈگری یافتہ سے کرنے میں کمال کے درجے پر فائز ہوتا ہے حاالنکہ ڈگری یافتہ کرنے سے متعلك باتیں بار بار پڑھ بلکہ توتے سے بڑھ کر رٹ چکا ہوتا ہے۔ دونوں کے نام الگ سے ہوتے
ہیں۔ کہنے کو تھیوری جب کہ کرنے کو پریکٹیکل کا نام دیا جاتا ہے اور یہ ایک دوسرے سے لطعی طور الگ ہیں۔ یہ درست سہی پڑھے کو عملی آزمایا جاتا ہے۔ گویا پڑھنا پہلے اور آزمانا بعد میں ہے۔ میں کہتا ہوں کرنا پہلے ہے اور کہنا یا آزمانا بعد میں ہے۔ ہمارے ہاں ایک ان پڑھ آدمی بڑے کمال کے کام انجام دے رہا ہے۔ نہیں یمین آتا تو بالل گنج میں جا کر دیکھ لیں۔ شکاگو یونیورسٹی کا ایک سائنس کا پروفیسر وہ کام نہیں کر سکتا جو کام بالل گنج کا ان پڑھ خرادیا دے انجام سکتا ہے۔ اسے کہیں یہ ہے ایؾ سولہ ذرا اس سے بہتر بنا دو‘ بنا دے گا۔ ڈالرز میں ملنے والے سوفٹ ویئر یہاں بازار سے ان کی سی ڈی بیس رویے میں مل جاتی ہے۔ ہے نا کرنا اور کہنا ایک دوسرے سے الگ تر؟ جو کرتے ہیں وہ بولتے نہیں۔ جو بولتے ہیں وہ کرتے نہیں۔ اس طرح دوہرا یعنی کرنا اور کہنا بوجھ بن کر سر پر آ جاتا ہے۔ کوئی بھی دوہرا بوجھ اٹھا نہیں سکتا۔ کیا‘ بملم
خود بولتا ہے کہ میں ہوں کیا ہوا۔ ؼالبا یہ شعر بھیکا کا :ہے بھیکا بات ہے کہن کی کہن سنن میں ناں جو جانے سو کہے نہ کہے سو جانے ناں کہہ کر کیا تو کیا کیا۔ کیا وہی اچھا ہے جو کہا نہ جائے۔ کرکے کہنا تو احسان جتانے والی بات ہے۔ احسان جتانا سے بڑھ کر توہین آمیز بات ہی نہیں۔ ہمارے لیڈر اتنے بھی گئے گزرے نہیں ہیں جو احسان جتائیں۔ اسی بنیاد پر ہی وہ صرؾ کہتے ہیں‘ کرتے نہیں۔ وہ خوب خوب جانتے ہیں کہ کرنے کے لیے کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ ان کے نزدیک کیے کی خبر دوسرے ہاتھ تک کو نہیں ہونی چاہیے۔ جو وہ کرتے ہیں لوگوں کو خبر تک نہیں ہو پاتی۔ جب لوگوں کو خبر ہوتی ہے ولت بہت آگے نکل گیا ہوتا ہے۔ کوئی بےبابائی کام کسی بڑی سفارش کے ساتھ جہاں کہیں نازل ہوتا ہے اس کی زبانی کالمی سہی‘ پذیرائی تو ہوتی ہے۔ اس کے ہونے کی یمین دہانی بھی کرائی جاتی ہے۔
امید بلکہ یمین کے چراغ بھی جالئے جاتے ہیں۔ بعض اولات لڈو بھی بانٹے جاتے ہیں۔ بےبابائی ہونے کی پاداش میں وہ کام نہیں ہو پاتا۔ اس ممام پر ناراض ہونا یا مایوس ہونا نہیں بنتا کیونکہ کرنا اور کہنا دو الگ باتیں ہیں۔ ایم این ایز یا ایم پی ایز یا منسٹرز لوگوں کی درخواستوں پر سفارشی کلمات لکھتے ہیں۔ یہاں وہ دونوں فریموں کی درخواستوں پر سفارشی کلمات ایک ہی طرح سے ثبت کرتے ہیں۔ وہ تو دیالو اور کرپالو مخلوق ہوتے ہیں۔ وہ کسی کو کیسے مایوس کر سکتے ہیں۔ اس حوالہ سے کسی کا کام ہو یا نہ ہو اس سے انھیں کوئی مطلب نہیں ہوتا کیونکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ سفارش اور کام کا انجام پانا دو الگ سے باتیں ہیں۔ سفارش اور کام کا ہونا اختالط پذیر نہیں ہونے والے ۔ ان کی الگ الگ اہمیت حیثیت اور ضرورت ہے۔ ایک ماں اور ایک باپ کی اوالد اپنی اپنی روٹی پکاتے ہیں۔ وہ سگے بھائی ہوتے ہیں۔ روٹی سالن ایک رنگ روپ رکھتا ہے۔ ساتھ نبھانے کا وعدہ بھی کیا گیا ہوتا ہے۔ سگا
ہونا یا وعدے میں بندھے ہونا یا روٹی کا رنگ روپ ایک ہونا اپنی جگہ لیکن نبھانا دو الگ باتیں ہیں۔ انھیں ایک دوسرے سے نتھی نہیں کیا جا سکتا اور ناہی کیا جانا حمیمت سے تعلك رکھتا ہے۔ پنجاب جو سب سے بڑا صوبہ ہے کی منشی شاہی سب سے زیادہ شریؾ‘ تحمل مزاج‘ بردبار اور زیرو رفتار ہے نہ یہ کچھ کہتی نہ کرتی ہے۔ یہ ہونے کے ہر کام کی راہ میں دیوار بن جاتی ہے۔ چونکہ للم ،اٹکل اور داؤ و پیچ اس کی زنبیل میں پناہ گزیں ہوتے ہیں اس لیے ہوتے بھی نہیں ہوتے۔ اس کی تحمل مزاجی اور زیرو رفتاری ہی وہ بڑا کارنامہ ہے کہ ہم روزاول سے بھی بہت لدم پیچھے کھڑے بھوک پیاس اور موت کی ہولی بڑی بےبسی اور بےکسی سے دیکھ رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے دیکھنا ہمارا ممصد حیات ہے۔ وزیر عوامی لوگ ہوتے ہیں اس لیے عوام کی بہبود ان کے پیش نظر رہتی ہے۔ وہ نہیں چاہتے لوڈ شیڈنگ ختم کرکے بجلی کے بل لوگوں کی جیب سے تجاوز کر جائیں
اور پھرلوگ لوڈ شیڈنگ کرنے کے لیے سڑکوں پر آ کر ذلت و خواری کا منہ دیکھیں۔ وہ بجلی کے بل اور لوڈشیڈنگ کی جدائی کو عوامی بہبود کے برعکس سمجھتے ہیں۔ مفروضوں میں زندگی کرنے کا عہد ہے۔ عین ممکن ہے یہ اخباری خبر ہاوسز سے متعلك ہو جہاں اتفالا کسی فنی خرابی کے سبب بجلی دو چار لمحوں کے لیے کبھی کبھار چلی جاتی ہے۔ بڑے لوگوں کے بڑے کام۔ وہ مخاطب چھوٹے لوگوں سے ہوتے ہیں لیکن وعدے بڑے لوگوں کے ساتھ کر رہے ہوتے ہیں۔ بلند سطع پر کیفیت مختلؾ ہوتی ہے۔ اس لیے وہاں ٹھنڈی اور تتی تاروں کا روال بالی نہیں رہتا۔ وہاں کرنا اور ہونا دو نہیں رہتے۔ سچی درویشی یہی ہے کہ میں تو میں مدؼم ہو کر میں بن جاتی ہے اورپھر زندگی میں میں کے سوا کچھ نہیں رہتی۔
من کا چوہا اور کل کلیان
اصولی سی اور صدیوں کے تجربے پر محیط بات ہے کہ ؼیرت لوموں کو تاج پہناتی ہے۔ بے ؼیرتی روڑا کوڑا بھی رہنے نہیں دیتی۔ روڑا کوڑا اس لیے معتبر ہے کہ تالش کرنے والوں کو اس میں بھی رزق مل جاتا ہے۔ جب بھی معامالت گھر کی دہلیز سے باہر لدم رکھتے ہیں تولیر کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ سارا کا سارا بھرم خاک میں مل کر خاک ہو جاتا ہے۔ جس کو کوئی حیثیت نہیں دی گئی ہوتی وہ بھی انگلی اٹھاتا ہے۔ نمبردار بن جاتا ہے۔ جس کے اپنے دامن میں سو چھید ہوتے ہیں اسے بھی باتیں بنانے کا ڈھنگ آ جاتا ہے۔ یہ لصور باتیں بنانے یا انگلی اٹھانے والوں کا نہیں ہوتا بلکہ مولع دینے والوں کا ہوتا ہے۔ یہ حمیمیت بھی روز روشن کی طرح واضح اور عیاں رہی ہے کہ طالت کے سامنے اونچے شملے والے سر بھی خم رہے ہیں۔ گویا طالت اور ؼیرت کا سنگم ہوتا ہے تو ہی بات بنتی ہے۔ کمزور صحیح بھی ؼلط ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس کی ہر صفائی اور اعلی پائے کی دلیل بھی اسے سچا لرار نہیں دیتی۔ بھیڑیے کا بہانہ اسے چیرنے پھاڑنے کے لیے
کافی ہوتا ہے۔ انسان چونکہ اشرؾ المخلولات ہے اس لیے اس کے بہانے اور دالئل بھی کمال کے ہوتے ہیں۔ انسان کی یہ بھی صفت ہے کہ وہ اپنی ؼلطی تسلیم نہیں کرتا بلکہ اپنی ؼلطی اوروں کے سر پر رکھ دیتا ہے۔ ایسی صفائی سے رکھتا ہے کہ پورا زمانہ اسے تسلیم کرنے میں دیر نہیں کرتا۔ امریکہ کی عمارت گری اس میں کوئی کھوٹ نہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ عمارت گرانے پورا افؽانستان امریکہ پر چڑھ دوڑا تھا۔ اس میں بچے بوڑھے عورتیں الؼر بیمار وؼیرہ‘ بھی شامل تھے؟ جواب یمینا نفی میں ہو گا۔ تو پھر ان سب کو بندوق نہیں توپ کے منہ پر کیوں رکھ دیا گیا؟ ان کا جرم تو بتایا جائے۔ لوگوں کو تو مذکرات اور سفارتی حوالہ سے مسائل کا حل
تالشنے کے مشورے اور خود گولے سے مسائل حل کرنے کوشش کو کیا نام دیا جائے۔ ایک پکی پیڈی بات ہے کہ چوہا بلی سے بلی کتے سے کتا بھڑیے سے بھیڑیا چیتے سے چیتا شیر سے شیر ہاتھی سے ہاتھی مرد سے مرد عورت سےاورعورت چوہے سے ڈرتی ہے۔ ڈر کی ابتدا اور انتہا چوہا ہی ہے۔ میرے پاس اپنے مولؾ کی دلیل میں میرا ذاتی تجربہ شامل ہے۔ میں چھت پر بیھٹا کوئی کام کر رہا تھا۔ نیچے پہلے دھواں دھار شور ہوا پھر مجھے پکارا گیا۔ میں پوری پھرتی سے نیچے بھاگ کر آیا۔ ماجرا پوچھا۔ بتایا گیا کہ صندوق میں چوہا گھس گیا ہے۔ بڑا تاؤ آیا لیکن کل کلیان سے ڈرتا‘ پی گیا۔ بس اتنا کہہ کر واپس چال گیا کہ تم نے مجھے بلی یا کڑکی سمجھ کر طلب کیا ہے۔ تاہم میں نے دانستہ چوہا صندوق کے اندر ہی رہنے دیا۔ چوہا کمزور ہے لیکن ڈر کی عالمت ہے۔ ڈر اپنی اصل میں انتہائی کمزور چیز ہے۔ کمزوری سے ڈرنا‘ زنانہ خصلت ہے۔ امریکہ اپنی اصل میں انتہائی کمزور ہے۔ کیا کمزوری
نہیں ہے کہ اس کی گرفت میں بچے بوڑھے عورتیں الؼر بیمار بھی آ گئے۔ گھروں کے گھر برباد کر دینے کے بعد بھی اس کا چوہا ابھی زندہ ہے۔ چوہا اس سے مرے گا بھی نہیں۔ بشمار اسرائیلی بچے مروا دینے کے بعد بھی فرعون کے من کا چوہا مرا نہیں حاالں کہ وہ انہیں بازو بنا سکتا تھا۔ ہم اپنے ساتھ نہیں ہیں کسی اور کا خاک ساتھ دیں گے۔ یہ بڑی بڑی باتیں کرنے والے ایک جونیئر کلرک کی مار نہیں ہیں منشی تو بہت بڑا افسر ہوتا ہے۔ہمارا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو چور کو کہتے ہیں سوئے ہوئے ہیں اور گھر والوں کو کہتے ہیں چور آ رہا ہے۔اس نام نہاد ترلی کے دور میں ہم سچ کہہ نہیں سکتے سچ سن نہیں سکتے۔ یہ ہماری سیاسی سماجی یا پھر التصادی مجبوری ہے۔ ہمیں اپنے معامالت پر ہی گرفت نہیں کسی دوسرے کی کیا مدد کریں۔ صاؾ کہہ نہیں سکتے بھائی ہم پر نہ رہنا‘ جب بھی مشکل ولت پڑا ہمیں دشمن کی صؾ میں سینہ تانے کھڑا پاؤ گے۔ ہم ابراہیم لنکن کی نبوت اور ڈالر کے حسن
پر یمین رکھنے والے لوگ ہیں۔ ہماری عمل اور ؼیرت پیٹ میں بسیرا رکھتی ہے۔ ہم ازلوں سے بھوک کا شکار ہیں۔ اصل مجنوں کوئی اور ہے ہم تو چوری کھانے والے مجنوں ہیں۔ ہم کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں۔ کہا گیا بجلی نہیں جائے گی جبکہ بجلی گئی ہوئی ہے۔ گیس کا بل سو ڈیڑھ سو آتا تھا اور گیس سارا دن رہتی تھی۔ آج گیس صرؾ دکھائی دیتی ہے اور بل پیو کا پیو آتا ہے۔ بجلی جانے سے پہلے کچھ لوگ بیٹھے ہویے تھے کہ فالں گھر کے گیس کا بل سات ہزار روپیے آیا ہے اور گھر کے کل افراد چند ایک ہیں۔ لگتا ہے کہ دوزخ کو اس گھر سے پائپ جاتا ہے۔ ہم وہ لوگ ہیں جو الیکشنوں کے موسم میں لنگر خانے کھول دیتے ہیں۔ کٹوں بکروں اور مرؼوں کی شامت آ جاتی ہے۔ لوگ دھر سمجھ کر بے دریػ کھاتے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں امیدوار پلے سے کھال رہا ہے اور اس کے بعد پیٹ بھر کر اگلے الیکشنوں میں ہی مل پائے گا۔ بات کا پہال حصہ درست نہیں۔ الیکشن وہی لڑتا ہے جس
کی ہک میں زور ہوتا ہے۔ جس کی ہک میں زور ہوتا ہے وہ پلے سے کیوں کھالنے لگا ۔ چوری کے ڈنگر ہی چھری تلے آتے ہیں۔ اتنا ضرور ہے کہ ان لنگر خانوں میں مردار گوشت دیگ نہیں چڑھتا۔