Articles

Page 1

‫فہرست‬


‫دو لومی نظریہ اور اسالمی ونڈو‬ ‫اپنے لدموں پر کھڑا ہونا پڑے گا‬ ‫ہنر اور تجربے سے استفادہ ترلی کا وسیلہ ثابت ہو سکتا‬ ‫ہے‬ ‫یہ ظم کس کی گردن پر رکھا جائے گا؟‬ ‫کیسی آزادی کہاں ہے آزادی؟‬ ‫انسان کیڑے مکوڑے نہیں‬ ‫زندگی میں میں کے سوا کچھ نہیں‬ ‫من کا چوہا اور کل کلیان‬

‫دو لومی نظریہ اور اسالمی ونڈو‬ ‫کمپیوٹر سے وابستہ لوگ اس امر سے خوب آگاہ ہوں گے‬ ‫کہ جب سسٹم میں وائرس داخل ہو جاتا ہے تو وہ کمپیوٹر‬ ‫کی مت مار دیتا ہے۔اچھا خاصا چلتا چلتا کمپیوٹر آسیب زدہ‬


‫ہو کر رہ جاتا ہے۔ بعض وائرس کمپیوٹر کی ؼیر طبعی‬ ‫موت کا سبب بن جاتے ہیں۔ کچھ اسے موت کے گھاٹ نہیں‬ ‫اتارتے لیکن دائمی فالج کا موجب بن جاتے ہیں۔ اچھا خاصا‬ ‫مواد کھا پی جاتے ہیں۔ مواد کو دسویں جماعت کا ریاضی‬ ‫بنا دیتے ہیں۔ دسویں جماعت کے ریاضی میں الجبرا بھی‬ ‫شامل ہے اور یہ الجبرا جبر کے تمام رویوں اور رجحانات‬ ‫پر استوار ہوتا ہے۔ ہنستا مسکراتا کھیلتا کودتا کمپیوٹر‬ ‫نامراد وائرس کے باعت سکتے میں آ جاتاہے۔ گویا وائرس‬ ‫کی بن باالئی مہمانی کچھ بھی گل کھال سکتی ہے۔ یا یوں‬ ‫کہہ وہ کچھ ہو سکتا ہے جس کا خواب بھی نہیں دیکھا گیا‬ ‫ہوتا۔‬ ‫وائرس مرتا نہیں مارتا ہےاور ہر حالت میں اپنی اصولی‬ ‫عمر دبدبے اور پورے بھار سے پوری کرتا ہے۔ کوئی دوا‬ ‫دارو ٹیکہ اس کا بال بیکا نہیں کر پاتا ہاں متاثرہ کی لوت‬ ‫مدافعت میں اضافہ کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔ کچھ لوگ‬ ‫اس امر سے آگاہ نہیں ہیں کہ انٹی وائرس‘ وائرس کو‬ ‫مارنےکے لیے فیڈ نہیں کیے جاتے۔ یہ وائرس سے پاک‬ ‫سسٹم میں اس لیے فیڈ کیے جاتے ہیں کہ سسٹم میں‬


‫وائرس داخل نہ ہونے پائے۔ گویا انٹی وائرس کا اول تا آخر‬ ‫ممصد یہ ہوتا ہے کہ وائرس کو سسٹم سے دور رکھا‬ ‫جائے۔ دوسرا یہ سسٹم کی لوت مدافعت کی حفاظت کرتا‬ ‫ہے۔ اس کی مثل ویکسین کی سی ہوتی ہے۔ عمومی زبان‬ ‫میں اسے حفاظتی ٹیکے کا نام بھی دیا جاتا ہے۔‬ ‫انٹی وائرس یا ویکسین‘ وائرس کے دخول سے پہلے کی‬ ‫چیزیں ہیں۔ مختصر مختصر یوں کہہ لیں انٹی واءرس یا‬ ‫ویکسین دراصل سسٹم کی حفاظت سے متعلك چیزیں ہیں۔‬ ‫انھیں خطرے سے بچاؤ کا عمل کہا جا سکتا ہے۔ جیسے‬ ‫مچھر سے بچنے کے لیے مچھر دانی کا استعمال کیا‬ ‫جائے۔ ڈینگی سے بچنے کے لیے حفاظتی تدابیر اختیار کی‬ ‫جائیں۔ ڈینگی حملے کی صورت میں فوری موت والع نہیں‬ ‫ہوتی تو مدافعتی نظام کی طرؾ توجہ دی جائے۔ کسی‬ ‫دوائی وؼیرہ سے وائرس نہیں مرے گا۔ متاثرہ کو پانی کی‬ ‫بھرتی رکھیں۔ سیب کا خود جوس نکال کر پالئیں۔شہتوت‬ ‫کے پتوں کو پانی میں ابال کر ٹھنڈا کرکے پالئیں۔‬ ‫برصؽیر عرصہ دراز سے خارجی وائرس کی زد میں ہے۔‬


‫سکندر سے پہلے یہ یہاں سے بچے پکڑ کر لے جاتے اور‬ ‫ان کی لربانی دیوتاؤں کے حضور نذ کر دیتے تھے۔ اس‬ ‫سے پہلے یا بعد کے وائرس بڑے خطرناک تھے۔ کیا کچھ‬ ‫کرتے تھے زیادہ معلومات موجود نہیں ہیں۔ بہرطور یہ تو‬ ‫طے ہے کہ وائرس سسٹم کی تباہی کا سبب بنتا ہے۔‬ ‫حفاظتی عمل اور مدافعتی لوت کے کامل صحت مند ہوتے‬ ‫ہوئے جسم یعنی سسٹم کے اندر سے کوئی میر جعفر پیدا‬ ‫ہو جاتا ہے جو داخلے کا رستہ بتا کر ہنستے بستے‬ ‫کھیلتے کودتے نظام کو مٹی میں مال دیتا ہے۔ اس کی مت‬ ‫ماری جاتی ہے اور وہ یہ نہیں سمجھ پاتا کہ وہ اسی سسٹم‬ ‫کا حصہ ہے۔ ہوتا تو وہ بھی وائرس ہے اس کے کام بھی‬ ‫وائرسوں والے ہوتے ہیں لیکن ممامی سسٹم اسے اس کے‬ ‫کاموں سمیت لبول چکا ہوتا ہے۔ گویا سسٹم اس وائرس کی‬ ‫منفی فطرت کے باوجود اس سسٹم کا حصہ نہ ہوتے ہوئے‬ ‫بھی سسٹم اسے اپنا حصہ سمجھتا ہے۔ اس کے باعث‬ ‫سسٹم میں سو طرح کی خرابیاں آتی رہتی ہیں لیکن سسٹم‬ ‫کا مدافعتی نظام چلتا رہتا ہے۔ حاالنکہ اس کا سسٹم میں‬ ‫رہنا کسی بھی حوالہ سے ٹھیک نہیں ہوتا۔‬


‫کیا کیا جائے وائرس داخلی ہو یا خارجی‘ اس کا اس کی‬ ‫طبعی عمر سے پہلے کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ سسٹم کو اس‬ ‫کی طبعی عمر تک برداشت سے کام لینا پڑتا ہے۔ بس‬ ‫کرنے کا کام یہ ہے کہ سسٹم کے مدافعتی نظام کو ڈولنے‬ ‫نہ دیا جائے۔‬ ‫چٹی چمڑی واال وائرس تو کل پرسوں سے تعلك رکھتا ہے‬ ‫اور ہم اس کی تباہ کاری کے باعث بیمار جیون جی رہے‬ ‫ہیں۔ اس وائرس نے کمال ہوشیاری سے تمسیم کے بہت‬ ‫سارے دروازے کھول دئیے۔ کبھی زبان کو تمسیم کرکے‬ ‫باہمی نفرتوں کو سسٹم کا حصہ بنایا۔ ‪ ١٩٠٥‬میں دو لومی‬ ‫نظریے کوداخلی وائرس کے ذریعے عام کیا اور پھر اس‬ ‫تماشے سے خوب البھ اٹھایا۔ یہ کون سا ایسا نیا نظریہ‬ ‫تھا۔ یہ نظریہ ہزاروں سال پر محیط ہے۔ لوگوں نے اصل‬ ‫مطب نہ سمجھا۔ لوگ یہ سمجھتے رہے کہ الگ مملکت‬ ‫میں اپنے نظریاتی نظام کے تحت اصولی لانونی اورآئینی‬ ‫زندگی بسر کریں گے۔ داخلی وائرس نے اس ذیل میں مٹھی‬ ‫بند رکھی تاہم اس ذیل میں کوئی لرارداد بھی منظور نہ کی‬


‫اور ناہی کوئی لرارداد پیش ہوئی۔‬ ‫اس سسٹم کو کبھی بھی اسالمی ونڈو نہیں دی گئی۔‬ ‫جمہوریت کے حوالہ سے اسالمی ونڈو کرنے کی ضرورت‬ ‫تھی۔ داخلی وائرس جو سسٹم پر ڈومینٹ رہا ہے اسے‬ ‫اسالمی ونڈو کس طرح خوش آسکتی تھی یا خوش آسکتی‬ ‫ہے۔ وائرس سسٹم کے لیے بہتری سوچے یہ کیسے اور‬ ‫کیونکر ممکن ہے۔‬ ‫ایک صاحب مرؼے کے ساتھ روٹی کھا رہے تھےیعنی‬ ‫ایک لممہ خود لیتے دوسرا لممہ اپنے مرؼے کو پھینک‬ ‫رہے تھے گو کہ وہ سائز اور حجم میں چھوٹا ہوتا تھا۔‬ ‫کسی نے پوچھا میاں یہ کیا ر رہے ہو بولے ہم خاندانی‬ ‫لوگ ہیں ہمیشہ مرؼے کے ساتھ روٹی کھاتے ہیں۔ چٹی‬ ‫چمڑی واال وائرس بڑا خاندانی ہے مرؼے کے ساتھ روٹی‬ ‫کھاتا ہے۔ جو لوگ مرغ باز ہیں وہ اپنے مرؼے کی صحت‬ ‫توانائی اور جوانی کا خیال رکھتے ہیں۔‬


‫سٹم کے ہر پرزے پر یہ واضع کرنے کی اشد ضرورت ہے‬ ‫کہ وائرس دسترخوان اور شہوت کے حوالہ سے کبھی‬ ‫کسی نظریے کا لائل نہیں رہا۔ مرؼا زمین پر رہتے ہوئے‬ ‫خارجی وائرس کے لیے محترم اور معتبر رہتا ہے۔ وہ اس‬ ‫کا جٹھکا اس ولت کرتا ہے جب مرؼا میدان کا نہیں رہتا۔‬ ‫میدان کا مرؼا خاندانی لوگوں کے ساتھ ہی ناشتہ پانی کرتا‬ ‫آیا ہے۔‬ ‫رونا سکول کے گرنے کا نہیں اصل رونا تو ماسٹر کے بچ‬ ‫جانے کا ہے۔ ماسٹر مائنڈ وائرس سے پہلے داخلی وائرس‬ ‫کو نکال باہر کرنے کے لیے بڑا ہی موثر سافٹ وائر‬ ‫دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔ آتی نسلوں کو اس سے‬ ‫بچانے کے لیے سماجیات کے ڈاکٹر لدیر سر جوڑ کر‬ ‫سوچیں اور اس نوع کے سوفٹ وئر دریافت کرنے کی‬ ‫کوشش کریں۔ ہاں اس کی کسی کو ہوا تک لگنے نہ دیں‬ ‫سسٹم جب داخلی وائرس سے اور اچانک دھماکہ کردیں۔‬ ‫آزاد ہو گیا تو خارجی وائرس سے بچنے کے لیے‘ ایک‬ ‫کیا‘ ایک سو ایک انٹی وائرس دریافت ہو جائیں گے۔‬


‫اکتوبر ‪ ٢٠١٢‬کی بہترین ماہانہ تحریر کا بیج حاصل کرنے‬ ‫والی تحریر‬ ‫‪http://www.friendskorner.com/forum/showt‬‬ ‫‪hread.php/295225-%D8%AF%D9%88-%D9%82‬‬ ‫‪%D9%88%D9%85%DB%8C-%D9%86%D8%B8%‬‬ ‫‪D8%B1%DB%8C%DB%81-%D8%A7%D9%88%D‬‬ ‫‪8%B1-%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9‬‬ ‫‪%85%DB%8C-%D9%88%D9%86%DA%88%D9%‬‬ ‫‪88‬‬

‫اپنے لدموں پر کھڑا ہونا پڑے گا‬ ‫کمزور طبمے ہمیشہ سے ورکنگ بیز سے بھی کمتر حیثیت‬ ‫کے حامل رہے ہیں۔ شہد وہ مہیا کرتے ہیں لیکن لیڈر‬ ‫پھنڈر بیز اور کوئین پھنڈر بی کا موجو لگا رہتا ہے۔‬ ‫مصلحین اور انبیاء کرام توازن پیدا کرنے کے لیے سرتوڑ‬ ‫کوششیں کرتے رہے ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ کرکے دیکھ لیں‬


‫زیادہ تر کمزور طبمے ہی ان کے حامی ہوئے جبکہ لیڈر‬ ‫پھنڈر بیز اور کوئین پھنڈر بی نے ان کی مخالفت کی۔ ان‬ ‫کی جانیں تک لے لیں۔ مصلیحین اور انبیاء کرام کے پاس‬ ‫کوئی فوج نہیں تھی اور ناہی انھوں نے حملہ میں کبھی‬ ‫پہل کی۔‬ ‫سمراط کوئی کون سا فوجیں ساتھ لیے پھرتا تھا۔ گلیوں‬ ‫میں ننگے پاؤں چلتا پھرتا راستی کی باتیں کرتا تھا۔ لیڈر‬ ‫پھنڈر بیز اور کوئین پھنڈر بی کا مسلہ یہ تھا کہ شہد دے‬ ‫کر جوتے صاؾ کرنے والے ہاتھ سے نکلتے تھے۔ انہیں‬ ‫اپنا ٹہر ٹپا ختم ہوتا نظر آتا تھا۔ راستی کیا ہے یا اس کی‬ ‫افادیت سے نیل کنٹھ کو کوئی ؼرض نہیں ہوتی۔ وہ خوب‬ ‫خوب جانتے تھے کہ وہ پھنڈر ہیں اور ان کا ٹہکا‬ ‫مصلیحین اور انبیاء کرام کھوہ کھاتے ڈال رہے ہیں گویا وہ‬ ‫آسمان سے زمین پر آ جائیں گے۔ ان کی اصلیت کا بالی‬ ‫ماندہ کو بھی علم ہو جائے گا۔ اس ذیل میں وہ آخری حد‬ ‫تک گیے ہیں۔ بےشمار بےگناہوں کے سر تن سے جدا‬ ‫ہوتے رہے ہو رہے ہیں اور خدا معلوم یہ سلسلہ کب تک‬ ‫جاری رہے گا۔‬


‫یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ رستہ موت کی طرؾ جاتا ہے۔‬ ‫مخلصین مصلحین اور انبیاء اس راہ پر چلتے آئے ہیں زہر‬ ‫ہو کہ صلیب یا پھر آگ اپنی معنویت میں صفر سے زیادہ‬ ‫اہمیت کی حامل نہیں رہی۔ ہاں البتہ پانچوں انگلیاں برابر‬ ‫نہیں ہوتیں جس دن یہ برابر ہو گئیں اس روز لیامت برپا‬ ‫ہو جائے گی۔ لیڈر بیز میں کچھ شہد اگلتی ہیں۔ وہ بہکاوے‬ ‫میں نہیں آتیں اور ناہی خط پھاڑنے کا جرم کرتی ہیں۔ هللا‬ ‫انہیں عزت اور شان سے نوازتا ہے۔ لیڈر پھنڈر بیز کے گن‬ ‫گانے واال مورکھ بھی انہیں نظر انداز نہیں کر پاتا۔ هللا اس‬ ‫نوع کی لیڈر بیز کو امرتا سے سرفراز فرماتا ہے۔ گویا دنیا‬ ‫اور آخرت کی سرفرازی ان کے حصہ میں آتی ہے۔‬ ‫ہمارے ہاں بہت سووں میں سے یہ سرفرازی ؼالم بلور‬ ‫کے ممدر کا حصہ بنی۔ اب سردار سلیم حیدر وزیر مملکت‬ ‫کے نصیب میں یہ ٹرافی آئی ہے۔ انہوں نے کوئین پھنڈر‬ ‫بی کا پتال جالنے اور نعرہ بازی کے جرم کی پاداش میں‬ ‫پارٹی کی طرؾ سے تادیبی کاروائی کی خبر سنائی گئی‬ ‫ہے۔ سردار سلیم حیدر نے بھی موت سے نظریں مالتے‬ ‫ہوئے اپنے مولؾ اور کئے کو درست لرار دیا ہے۔ موت‬


‫آلا کریم (آپ کی خدمت میں ان حد درود و سالم) کی حرمت‬ ‫کے سامنے کیا معنویت رکھتی ہے۔ان کی محبت میں ایسی‬ ‫الکھوں زندگیاں لربان کرنا بےبدل اعزاز سے کسی طرح‬ ‫کم نہیں۔ بےشک هللا کے پاس راستی کا رستہ اختیار کرنے‬ ‫والوں کے لیے بڑا ہی اجر ہے۔ انٹرنیٹ پر نام نہاد فورم‬ ‫لیڈر پھنڈر بیز کے گماشتے موجود ہیں جو دکھالوا تو‬ ‫کرتے ہیں لیکن کوئین پھنڈر بی کی شان میں ایک کلمہ‬ ‫برداشت نہیں کرتے۔ ہاں البتہ منہ زبانی جان لربان کرنے‬ ‫کی بڑکیں مارتے ہیں۔‬ ‫ایک شخص اپنا نام صادق مسیح بتاتا ہے لیکن کام حضرت‬ ‫عیسی مسیح کی محترم تعلیمات کے برعکس کرتا ہے اور‬ ‫عیسائی ہونے کا دعوی بندھتا ہے۔ اسے عیسائی مان لیں‬ ‫مگر کیوں اور کس بنیاد پر۔ ایک شخص اپنا نام نور دمحم‬ ‫بتاتا ہے لیکن کھڑا دمحم (آپ کی خدمت میں ان حد درود و‬ ‫سالم) دشمنوں کی صؾ میں ہوتا ہے اس کو کیوں اور کس‬ ‫بنیاد پر مسلمان تسلیم کر لیا جائے۔ ایمان کے لیے تین‬ ‫شرائط ہیں زبان سے الرار کرنا دل سے تسلیم کرنا اور اس‬ ‫کےمطابك عمل کرنا۔ آلا کریم کا پیرو کار هللا کے سوا کسی‬


‫کو هللا نہیں مان سکتا۔ یہی اس کے دمحمن ھونے کی نشانی‬ ‫ہوتی ہے۔ مسلمان ہونے کے لیے یہ پہلی اورآخری شرط‬ ‫ہے۔‬ ‫لیڈر پھنڈر بیز اور معاون لیڈر پھنڈر بیز زبان سے دعوے‬ ‫باندھتے ہیں لیکن ان کا عمل اس کے برعکس ہوتا ہے۔ وہ‬ ‫جو کچھ کرتے ہیں کوئین پھنڈر بی کے لیے کرتے ہیں ان‬ ‫کا ہر کرنا کوئین پھنڈر بی کی شرع کے عین مطابك ہوتا‬ ‫ہے۔ جو عمل‘ کہے کے مطابك کرتے ہیں ان کے لیے‬ ‫تادیبی کاروائی کا دفتر کھل جاتا ہے۔‬ ‫کوئین پھنڈر بی کی گماشتہ اور معاون گماشتہ لوتوں کے‬ ‫سامنے سینہ تان کر ؼالم بلور اور سردار سلیم حیدر‬ ‫کھڑے ہو گئے ہیں۔ وہ ناصرؾ اپنے کیے کا اعتراؾ کرتے‬ ‫ہیں بلکہ لائم اور اس کہے اور کیے کے لیے ہر لربانی‬ ‫دینے کے لیے تیار ہیں۔ ان کے اس پختہ ایمانی کردار کی‬ ‫تحسین کرنا اور ان کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہونا حك‬ ‫پرست طبموں کا فرض عین ٹھہرتا ہے۔ اگر اس مولع پر‬ ‫صاحب ایمان مگر کمزور طبموں نے پیٹھ دکھائی تو یاد‬


‫رکھیں اب آسمان سے موسی کلیم هللا اترنے کے نہیں۔ آج‬ ‫لوگوں کو اپنے لدموں پربہر صورت کھڑا ہونا پڑے گا۔ اس‬ ‫معرکہ حك و باطل میں کوئین پھنڈر بی سے نجات صاصل‬ ‫کرنے کا مولع ہے۔ بصورت دیگر کوئین پھنڈر بی اور اس‬ ‫کی معاون پھنڈر بیز ان کا گوشت کیا ہڈیاں بھی چبا جائیں‬ ‫گی جبکہ آتی نسل کا حشر آج سے بدتر ہو گا۔‬

‫ہنر اور تجربے سے استفادہ ترلی کا وسیلہ ثابت ہو سکتا‬ ‫ہے‬ ‫کسی بھی شعبے کی مارکیٹ میں جا کر دیکھیں بہت سے‬ ‫ایسے لوگ ملیں گے جو کم پڑھے یا سرے سے کبھی‬ ‫اسکول ہی نہیں گئے ہوتے‘ لکھنے پڑھنے کے ہنر سے‬ ‫بہرہ ور ہوتے ہیں۔ بات چیت کرنے میں بھی کچھ کم نہیں‬ ‫ہوتے لیکن انھیں ان پڑھ ہی سمجھا جاتا ہے کیونکہ ان‬ ‫کے پاس کسی یونیورسٹی کا جاری کردہ گیڈر پروانہ نہیں‬ ‫ہوتا۔ بات یہاں تک ہی محدود نہیں اس گیڈر پروانے پر اس‬


‫امر کی تصدیك الزم ہوتی ہے کہ وہ انگریزی میں پاس ہے۔‬ ‫بہت سے ایسے ان پڑھ بھی دیکھنے کو ملیں گے جو‬ ‫میٹرک کے تمام مضامین میں کامیاب ہوں گے لیکن ماسی‬ ‫مصیبتے کو سر کرنے میں ناکام ہو گئے ہوں گے۔‬ ‫ان رجسٹرڈ ان پڑھ حضرات کے پاس کوئی ناکوئی اور‬ ‫کسی ناکسی فیلڈ میں کمال کا ہنر ہوتا ہے اور یہ کوئی‬ ‫زبانی کالمی کی بات نہیں میں نے پوری دیانت داری سے‬ ‫اس کا سروے کیا ہے۔ وہ اپنی فیلڈ سے متعلك وہ وہ‬ ‫باریکیاں جانتے ہیں کہ عمل دھنگ رہ جاتی ہے۔ ان کی بد‬ ‫لسمتی یہ ہوتی ہے کہ وہ بالسند اور ماسی مصیبتے کے‬ ‫اشیرباد سے محروم ہوتے ہیں۔‬ ‫ایسے لوگوں کو کیوں اور کس بنیاد پر ؼیر فائدہ مند لرار‬ ‫دیا جائے یا ڈگری ہولڈرز سے کم تر سمجھا جائے یا انہیں‬ ‫ان کے ہنر اور تجربے کی بنیاد پرتنخواہ نہ دی جائے۔ اس‬ ‫لسم کا سوتیال رویہ ناصرؾ ان کے ہنر اور تجربے سے‬ ‫انحراؾ کے مترادؾ ہے بل کہ ان کے ہنر اور تجربے سے‬ ‫پورا پورا فائدہ نہ اٹھانے والی بات ہے۔‬


‫ہمارے ہاں تجربے کے تسلیم کرنے کو محدود کر دیا گیا‬ ‫ہے اور یہ رویہ کسی طرح درست اور مناسب نہیں۔ تاہم یہ‬ ‫طے ہو جاتا ہے کہ تجربہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ تجربے کے‬ ‫تسلیم کی یہ صورت لطعی نامناسب اور ادھوری ہے اور یہ‬ ‫ترلی کی راہ میں بہت بڑی چٹان ہے۔ تجربے کو تسلیم‬ ‫کرنے کی چند صورتیں درج کر رہا ہوں‪:‬‬ ‫‪١‬۔ سرکاری مالزمین کو ساالنہ انکریمنٹ لگتی ہے کیوں‘‬ ‫یہ ایک سال کے تجربے کو تسلیم کرنا ہے۔‬ ‫‪٢‬۔ ایک اسکیل سے اگلے اسکیل میں ترلی مالزم کے‬ ‫تجربے کو لبول کرنا ہے۔‬ ‫‪٣‬۔ کسی بڑی پوسٹ پر سلیکشن کے لیے تعلیم کے ساتھ‬ ‫تجربہ پہلی شرط ہوتی ہے۔‬ ‫‪٤‬۔ شعبہ تعلیم میں چناؤ کے لیے تعلیمی سند تجربہ اور‬ ‫پبلیکیشنز کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ پبلیکیشنز کیا ہے اس‬ ‫شخص کا تجربہ اور کھوج ہی تو ہے۔‬ ‫‪٥‬۔ بڑا عام سا ممولہ ہے “نواں نو دن پرانا سو دن“ کیا‬


‫اس ممولے کا یہ مطلب نہیں بنتا کہ پرانا تجربہ کار اور‬ ‫ولت کے بہت سے موسموں سے گزر چکا ہوتا ہے۔‬ ‫‪٧‬۔ دنیا کے بہت سے منظور شدہ تعلیمی ادارے الئؾ ورک‬ ‫ریسرچ وؼیرہ سے متعلك تجربے کے کریڈیسز دیتے ہیں۔‬ ‫‪٧‬۔ ہمارے ہا کسی تعلیمی ادارے میں داخلے کے لیے حفظ‘‬ ‫این سی سی‘ ٹیچر سنز‘ پسر سابمہ یا موجودہ فوجی‘‬ ‫سکاؤٹ وؼیرہ کا داخلے میں فائدہ دیا جاتا ہے۔‬ ‫‪٨‬۔ کسی مالزمت کے حصول کے لیے ملٹری مین ہونے کا‬ ‫فائدہ دیا جاتا ہے۔‬ ‫درج باال چند ایک معروضات کے حوالہ سے میں نے‬ ‫تجربے کی اہمیت کو واضع کرنے کی کوشش کی ہے۔ نان‬ ‫ڈگری ہولڈر کے تجربے اور ہنر سے معمول ترین فائدہ‬ ‫اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس طرح لومی ترلی کا ایک اور ذریعہ‬ ‫تالشا جا سکتا ہے۔‬ ‫یہ اصول کسی طرح درست اور فائدہ مند نہیں کہ انگریزی‬ ‫میں فیل تو ان پڑھ پاس ہو گیا تو تعلیم یافتہ۔ ہر کوئی باہر‬


‫سفیر بن کر نہیں جاتا اس نے یہاں ہی زندگی کے دن‬ ‫پورے کرنا ہوتے ہیں۔ اس کا واسطہ ممامی لوگوں ہی سے‬ ‫رہتا ہے۔ معاملے کو تین طرح سے لینا پڑے گا‬ ‫‪١‬۔ انگریزی میں ناکام مگر دوسرے مضامین میں پاس‬ ‫ہونے والے کو بھی پاس سمجھائے۔‬ ‫‪٢‬۔ بہت پہلے انگریزی میں ناکام ہو گئے تھے اور اب کسی‬ ‫ناکسی میدان میں مہارت رکھتے ہیں۔ ان کی مہارت اور‬ ‫تجربے کی جانچ کے بعد بورڈ یونیورسٹی کی اسناد جاری‬ ‫کر دی جائیں۔ یہ گیڈر پروانہ انہیں محض چند سال فائدہ‬ ‫دے گا لیکن‬ ‫ا۔ ان کا ہنر بہتر طور پر استعمال میں آ سکے گا جو بہت‬ ‫سے آتے سالوں تک اپنے جوہر دیکھتا رہے گا۔‬ ‫ب۔ ان کے ہنر سے متعلك تحریر صدیوں تک کام آتی رہے‬ ‫گی۔‬ ‫ج۔ ہاں البتہ ان اسناد کے اجرا کا ایک معیار بنایا جا سکتا‬ ‫ہے۔ مثال‬


‫میٹرک کے لیے متعلمہ ہنر کا دو سالہ تجربہ ‪ +‬دو ہزار‬ ‫الفاظ کی ان کی اپنی زبان میں تحریر‬ ‫انٹرمیڈیٹ کے لیے میٹرک‘ متعلمہ ہنر کا چار سالہ تجربہ ‪+‬‬ ‫پانچ ہزار الفاظ پر مبنی ان کی اپنی زبان میں تحریر‬ ‫بی اے کے لیے میٹرک‪ +‬انٹرمیڈیٹ متعلمہ ہنر کا چھے‬ ‫سالہ تجربہ ‪ +‬سات ہزار الفاظ پر مبنی ان کی اپنی زبان‬ ‫میں تحریر‬ ‫ماسٹرز کے لیے میٹرک‪ +‬انٹرمیڈیٹ‪ +‬بی اے متعلمہ ہنر کا‬ ‫آٹھ سالہ تجربہ ‪ +‬دس ہزار الفاظ پر مبنی ان کی اپنی زبان‬ ‫میں تحریر‬ ‫ایم فل کے لیے میٹرک‪ +‬انٹرمیڈیٹ‪ +‬بی اے‪ +‬ماسٹرز‬ ‫متعلمہ ہنر کا دس سالہ تجرہ ‪ +‬پندرہ ہزار الفاظ پر مبنی ان‬ ‫کی اپنی زبان میں تحریر اور تین پبلیکیشز‬ ‫ڈاکٹریٹ کے لیے میٹرک‪ +‬انٹرمیڈیٹ‪ +‬بی اے‪ +‬ماسٹرز‪+‬‬ ‫ایم فل متعلمہ ہنر کا بارہ سالہ تجربہ ‪ +‬بیس ہزار الفاظ پر‬ ‫مبنی ان کی اپنی زبان میں تحریر اور پانچ پبلیکیشز‬ ‫پوسٹ ڈاکٹریٹ کے لیے میٹرک‪ +‬انٹرمیڈیٹ‪ +‬بی اے‪+‬‬


‫ماسٹرز‪ +‬ایم فل ‪ +‬ڈاکٹریٹ متعلمہ ہنر کا پندرہ سالہ تجربہ‬ ‫‪ +‬تیس ہزار الفاظ پر مبنی ان کی اپنی زبان میں تحریر اور‬ ‫سات پبلیکیشز‬ ‫انگریز کی روحانی اوالد لکیر کے فمیروں اور ہنر دشمن‬ ‫لوگوں کو یہ تحریر خوش نہیں آئے گی لیکن اہل دانش ان‬ ‫معروضات کی افادیت کو ضرور تسلیم کریں گے اور ملک‬ ‫میں بےولار پڑی ہنر مندی اور تجربے سے استفادے کا‬ ‫اہل التدار کو مشورہ دیں گے۔ اس طرح ملکی ہنر اور‬ ‫تجربہ کاؼذ پر آ سکے گا اور یہ تردد آتی نسلوں کے کام‬ ‫آسکے گا۔‬

‫یہ ظم کس کی گردن پر رکھا جائے گا؟‬ ‫کل بیؽم گھر پر نہیں تھیں‘ اس لیے حجامت کے لیے حجام‬ ‫کے پاس جانا پڑا۔ پھٹھ‘ تنور‘ حجامت گاہ‘ ہوٹل وؼیرہ‬ ‫ایسی جگہ ہیں‘ جہاں سیاسی سماجی معاشی ثمافتی ؼرض‬ ‫ہر موضوع سے متعلك باتیں اور خبریں سننے کو ملتی‬


‫ہیں۔ جگت بازی بھی اپنے کمال کو چھوتی نظر آتی ہے۔‬ ‫حکیموں کے نسخے اور ان کے اثرات کے متعلك آگہی کے‬ ‫بند در کھلتے چلے جاتے ہیں۔‬ ‫بجلی نہ ہونے اور لیامت کی گرمی کے باوجود حجامت گاہ‬ ‫میں چھے سات لوگ موجود تھے۔ میرے سوا کوئی‬ ‫حجامت بنوانے واال نہ تھا۔ پان سات منٹ بعد ان میں سے‬ ‫کوئی ایک یاد دال دیتا کہ گرمی بہت ہے۔ ان میں سے ایک‬ ‫نے خبر سنائی کہ بجلی کے دفتر میں ایک بڑے افسر نے‬ ‫حکم دے رکھا ہے کہ سحری افطاری اور ہر نماز کے ولت‬ ‫بجی بند کرنی ہے۔ ورکروں نے احتجاج کیا تو اس نے‬ ‫جوابا کہا جو یہ نہیں کر سکتا وہ نوکری چھوڑے اور گھر‬ ‫کی راہ لے۔ عزت بچانے کے لیے انھیں افسر کے انتہائی‬ ‫ہتک آمیز کلمات ہضم کرنا پڑے۔‬ ‫مجھے یہ خبر ہر حوالہ سے افواہ لگی۔ عملی صورتحال پر‬ ‫ؼور کیا تو اس خبر میں کوئی کھوٹ نظر نہ آئی۔ اگر‬ ‫تاریخی حوالہ سے دیکھا جائے تو بھی اس میں جھوٹ کی‬ ‫آمیزش نظر نہیں آتی۔ انگریز اپنے ساتھ ؼدار لے کر نہیں‬


‫آیا تھا۔ جعفر اور صادق یہاں ہی سے تعاق رکھتے ہیں۔‬ ‫دیس بھگت‘ بھگت سنگھ آزاد (بھگوان اس کی آتما کو‬ ‫شناتی اور سورگ میں جگہ دے) کے ڈیتھ ورنٹ پر یہاں‬ ‫ہی کے ابن ابئی نے دستخط ثبت کیے تھے۔‬ ‫ان راکششوں کا کوئی دین مذہب نہیں ہوتا۔ یہ جاہ ومال کے‬ ‫لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ اگر مال کی جھلک دکھا کر‬ ‫کوئی ان سے ان کی ماں بھی مانگ لے تو دے دیں گے۔‬ ‫ساری عمر ابا اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا مانگنے واال‬ ‫انسان سا ہی ہے‘ کیا بگاڑ لے گا۔ ابے کا کیا ہے چند ٹکے‬ ‫خرچ کرکے اے ون عورت ال دیں گے۔ ابا خوش محلہ‬ ‫خوش اور والفیت میں بھی ہر چند اضافہ ہی گا۔‬ ‫میری سوچ کے دائرے پھیلتے گیے اور یہ خبر جو پہلے‬ ‫افواہ لگی تھی بعد میں اس میں کسی ناکسی سطع پر‬ ‫سچائی محسوس ہونے لگی۔ سحری اور افطاری اورہر نماز‬ ‫کے مولع پر بڑی بالاعدگی سے بجلی جاتی ہے۔‬


‫رہ گیا یہ اعالن کہا کہ ان مولعوں پر بجلی نہیں جائے گی‬ ‫کے کیا مفاہیم تھے۔ اردو سے متعلك لوگ اردو مصادر کے‬ ‫استعماالت سے آگاہ نہیں ہیں۔ اس اعالن یا دعوی میں‬ ‫مصدر جانا کا استعمال ہوا ہے۔ یہاں صرؾ تین استعمال‬ ‫پیش کر رہا ہوں‬ ‫وہ کام سے گیا۔‬ ‫وہ جان سے گیا۔‬ ‫کہنے کے باوجود حامد اسکول نہیں گیا۔‬ ‫اعالن کے مطابك مصدر جانا آنا کے لیے استعمال ہوا ہے۔‬ ‫یعنی ان مولعوں پر بجلی آئے گی۔ یہاں مراد یہ ہے کہ‬ ‫بجلی گھروں میں نہیں جائے گی۔ اس حوالہ سے کون کہتا‬ ‫ہے وعدہ خالفی ہوئی ہے۔‬ ‫وہاں موجود لوگوں میں ایک نے کہا خلیفہ یار (ہمارے ہاں‬ ‫نائی کے لیے لفظ خلیفہ مستعمل ہے) میرا دل ڈوبتا ہے۔‬ ‫خلیفے نے کہا یہ فیض تم نے کہاں سے پایا ہے؟ اس نے‬


‫جوابا کہا میں پہلے دو صبح دو دوپہر اور دو روٹیاں شام‬ ‫کو کھا تا تھا اور اب آدھی روٹی صبح اور آدھی روٹی شام‬ ‫کو کھاتا ہوں۔ بچوں کا ماموں انھیں لے گیا تھا چار پانچ‬ ‫دن بعد ہی چھوڑ گیا۔کوئی بھال کب تک کسی کو کھالتا ہے۔‬ ‫زلؾ کدے کے بالکل سامنے حاجی آٹے والے کی دوکان‬ ‫ہے۔ اس نے بتایا بڑا مندا ٹھنڈا ہے۔ سارا دن آدھ سے دو‬ ‫کلو سے زیادہ کے گاہک ایک آدھ ہی آتا ہے۔ جب دو کی‬ ‫بجائے آدھی روٹی کونڈی میں رگڑی سبز مرچوں کے‬ ‫ساتھ میسر آئے گی تو دل ڈوبنے کے فیض پر حیرانی ہونا‬ ‫بذات خود حیرانی کی بات ہے۔ سوچتا ہوں یہ بھوک پیاس‬ ‫روزہ داروں اور نمازیوں پر پسینے کی برسات کا ظلم اور‬ ‫جبر کس کی گردن پر رکھا جائے گا؟‬

‫کیسی آزادی کہاں ہے آزادی؟‬ ‫اس امر کا متعدد باراظہار کر چکا ہوں کہ برصؽیر دنیا کا‬ ‫بہترین خطہء ارض ہے۔ یہاں کے وسنیک بڑے ہی محنتی‬


‫اور ذہین ہیں۔ میدان کار زار میں بھی نالابل یمین کارنامے‬ ‫انجام دیتے آئے ہیں۔ سکندر دنیا فتح کرنے چال تھا لیکن‬ ‫راجہ پورس سے پاال پڑا تو اسے نانی یاد آ گئی۔ ٹیپو کا نام‬ ‫لے کر انگریز مائیں اپنے بچوں کو ڈراتی تھیں۔‬ ‫اہل للم بھی بال کے ذہین اور بے باک رہے ہیں۔ شاعر‬ ‫عالمتوں اشاروں میں تلخ حمیمتوں کو کاؼذ کے بدن پر‬ ‫اتراتے آئے ہیں۔ پیٹو مورخ نے اورنگ زیب جو برصؽیر‬ ‫کو جہنم میں دھکیلنے کا موڈھی ہے‘ نبی کے لریب پنچا‬ ‫دیا ہے۔ رحمان بابا صاحب نے واضع الفاظ میں اس کی‬ ‫کرتوتوں کی للعی کھول کر رکھ دی ہے۔ بہادر شاہ ظفر‬ ‫نےبڑے ہی رومانوی الفاظ میں اپنے عہد کے کرب کو بیان‬ ‫کر دیا ہے۔ ذرا یہ شعرمالحظہ فرمائیں کتنا کرب پوشیدہ‬ ‫ہے۔‬ ‫چشم لاتل تھی میری دشمن ہمیشہ‘ لیکن‬ ‫جیسی اب ہو گئی لاتل کبھی ایسی تو نہ تھی‬ ‫ذہانت کی پذیرائی تو بڑی دور کی بات‘ ان کی ذہانت کو‬ ‫کبھی تسلیم تک نہیں کیا گیا بلکہ ذہانت کی تذلیل ہی کی‬


‫گئی ہے۔ ہنر مندوں کے ہاتھ کاٹے گئے ہیں۔ بعض تو جان‬ ‫سے بھی گئے ہیں۔ اس کے برعکس کرسی لریب گماشتوں‬ ‫اور کنمریب جھولی چکوں کو نوازا گیا ہے۔ یہی جھولی‬ ‫چک اپنی عیاری کے بل پر کرسی پر شب خون مارتے آئے‬ ‫ہیں۔‬ ‫تاریخ کا مطالعہ کر دیکھیں ؼداروں اور دھرتی کے نمک‬ ‫حراموں کے سبب بیرونی طالع آزماؤں کے سبب یہ دھرتی‬ ‫ؼیروں کی ؼالم رہی ہے۔ ؼیروں نے اس کےوسائل‬ ‫سےموجیں کی ہیں خوب پچرے اڑائے ہیں اوراڑا رہے‬ ‫ہیں۔ حاالت بتاتے ہیں کہ یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ یہ ؼدار‬ ‫اور دھرتی کے نمک حرام لوگوں کی ذہانت کا اسی طرح‬ ‫لیمہ کرتے رہیں گے۔ اس ذیل میں خدا کے خوؾ کی بات‬ ‫کرنا حمالت سے کم نہیں۔‬ ‫خدا‘ خدا کا خوؾ کھائیں؟‬ ‫بادشاہ لوگوں کا شروع سے یہی طور اور وتیرا رہا ہے۔‬ ‫دور کیا جانا ہے آج کے خدا نما بادشاہوں کو ہی دیکھ لیں‬ ‫کیا کر رہے ہیں۔ شخص ان کے لیے کیڑے مکوڑے سے‬ ‫زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ اس کی بھوک پیاس سے انہیں‬


‫کوئی ؼرض نہیں۔ انھیں تو باتوں اور جھوٹے دعوں کے‬ ‫عوض جنتی اور مفتی کھانا مل رہا ہے۔ ان کی دالل افسر‬ ‫شاہی تو گلچرے اڑا رہی ہے۔ لوگ اندھیروں میں ہیں تو وہ‬ ‫کیا کریں ان کے ہاں تو چانن ہے۔‬ ‫چودہ اگست ہر سال آتا ہے۔ سرکاری اور نجی سطع پر‬ ‫جشن منائے جاتے ہیں۔ سرکاری چھٹی بھی ہوتی ہے۔ میں‬ ‫یہاں کے ذہین لوگوں کی بات کر رہا تھا اس دن کے حوالہ‬ ‫سے میں اس ذہین و فطین شخص کو سالم کرتا ہوں جس‬ ‫نے یہ نعرہ ایجاد کیا‬ ‫‪ ----‬جشن آزادی مبارک ہو‪------‬‬‫جشن آزادی کی مبارک ہے آزادی کی نہیں۔ نعرہ نے کمال‬ ‫کا ہاتھ دکھا یا ہے۔ وہ جانتا تھا ہم آزاد نہیں‘ آزادی کا‬ ‫سہانا خواب دیکھ رہے ہیں۔ خواب دیکھنے اور خوش‬ ‫فہمی میں مبتال رہنے پر کوئی پابندی تو نہیں ورنہ لوم‬ ‫خادم اور حکومتی گماشتوں کی ؼالم ہے۔ یہ خادم اور‬ ‫حکومتی گماشتے امریکہ کے پیٹھوں کے ؼالم ہیں۔‬ ‫کیسی آزادی کہاں ہے آزادی؟‬


‫جو لوگ منصؾ کے درپے ہو جاتے ہیں‘ اسے نیچا‬ ‫دکھانے اور اپنا دالل بنانے پر اتر آتے ہیں انھیں هللا ہی‬ ‫اپنی گرفت میں لے سکتا ہے۔ وہ صم بکم عم فاھم ال‬ ‫یرجعون کے درجے پر فائز ہو جاتے ہیں۔ لوم کے حصہ‬ ‫میں فمط جشن آیا ہے سو وہ دھوم سے منا رہی ہے۔ هللا‬ ‫ناکرے آتے سالوں میں بھی صرؾ جشن پر ہی اکتفا کرے۔‬ ‫میں نے اپنے ایک کالم میں عرض کیا تھا کہ ملک کا آئین‬ ‫معطل یا چیلنج ہو چکا ہے۔ میری اس تحریر کو کسی ایک‬ ‫نے بھی چیلنج نہیں کیا۔ اس نام نہاد جشن آزادی کی‬ ‫کرتوت یہ ہے کہ ملک چیلنج یا معطل آئین کے حوالہ سے‬ ‫چل رہا ہے۔عوام آخر کس لانون اور آئین کے تحت جشن‬ ‫منا رہے ہیں۔ یہ جشن بھی ؼیر آئینی ہے۔ عوام کو تو‬ ‫جھوٹ موٹھ کی خوشی منانے کا بھی حك حاصل نہیں۔‬ ‫سال رواں کے اس روائیتی جشن کے مولع پر مجھے دمحم‬ ‫نعیم صفدر انصاری ایم پی اے لصور کا ایک موبائل میسج‬ ‫مال‬


‫۔۔۔۔۔۔۔ زنجیریں ؼالمی کی‘ دن آتا ہے آزادی کا آزادی نہیں‬ ‫آتی ۔ چودہ اگست ہپی انڈیپنڈنس ڈے‬ ‫دمحم نعیم صفدر انصاری نوجوان سیاست دان ہے۔ اس کا‬ ‫موبائل میسج میرے مندرجہ باال مولؾ کا زندہ اور جیتا‬ ‫جاگتا ثبوت ہے۔ ایک ایوان کے ممبر کے موبائل کے منہ‬ ‫سے نکلی یہ بات اس امر کا واضع ثبوت ہے کہ ملک اور‬ ‫لوم کا درد رکھنے والے نوجوان بھی اس ؼالم اور ؼبن‬ ‫اور کرپشن آلودہ فضا میں گھٹن محسوس کرتے ہیں۔‬ ‫دمحم نعیم صفدر انصاری ایوان کلچر کا نمائندہ ہےگویا یہ ون‬ ‫مین گھٹن نہیں ہے پورے ایوان کی گھٹن ہے۔یہ تو مثل‬ ‫ایسی ہے کہ بہو کو کہا جائے بیٹا سب کچھ تمہارا ہے‬ ‫لیکن کسی چیز کو ہاتھ مت لگانا۔ یہ کیسی نمائندگی اور‬ ‫عاللائی سربراہی ہے کہ لیا سب کچھ جایے لیکن دیا‬ ‫اندھیرا جایے اور پھر بھی مورخ سے کہا جایے لکھو‬ ‫بادشاہ بڑا دیالو کرپالو اور دیس بھگت تھا۔‬ ‫بہر طور مجھے خوشی ہوئی کہ ہمارے ایوانوں میں دمحم‬


‫نعیم صفدر انصاری جیسے نمائندے موجود ہیں جو اس امر‬ ‫کا شعور رکھتے ہیں کہ پاکستانی لوم کے ہاتھ صرؾ جشن‬ ‫آزادی لگا ہے‘ آزادی ابھی کوسوں دور ہے۔ پرانی نسل‬ ‫دیسی گھی کھاتی تھی اس کے جسم میں وافر خون تھا۔‬ ‫دیسی گھی تو دور کی بات اس کے پاس تو سوکھی روٹی‬ ‫بھی نہیں۔ خون کہاں سے آئے گا۔ آزادی خون مانگتی ہے‬ ‫اس لیے پیٹ بھرنے تک جشن آزادی کی مبارک باد پر ہی‬ ‫گزارا کرنا کافی رہے گا۔‬

‫انسان کیڑے مکوڑے نہیں‬ ‫انسان کسی حادثے والعے معاملے فکری اور نظریاتی‬ ‫اختالؾ وؼیرہ کے حوالہ سے جذباتی ہو جاتا ہے اور یہ‬ ‫کوئی ؼیر فطری بات نہیں۔ ناگہانی صورت ہو تو ردعمل‬ ‫میں کچھ بھی کر گزرتا ہے۔ عمومی حاالت میں سوچ‬ ‫سمجھ سے کام لیتا ہے۔ جذباتی حالت میں بھی سوچتا‬ ‫ہےلیکن سوچ کی سطع عمومی حالت سے مختلؾ ہوتی‬


‫ہے۔ دوسری صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ شخص کا معاملے‬ ‫سے تعلك اور واسطہ کس سطع کا ہے۔‬ ‫جذبات کو انسان سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر انسان‬ ‫جذبات سے عاری ہو گیا تو اس میں اور مشین میں کوئی‬ ‫فرق نہیں رہ جائے گا۔ تاہم مکمل طور پر جذبات کی انگلی‬ ‫پکڑنا درست نہیں۔‬ ‫آج اخبار میں اوباما اور ہلیری کے بیان کی سہ سرخی‬ ‫پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ دونوں کے بیانات ایک دوسرے سے‬ ‫اٹوٹ رشتہ رکھتے ہیں۔ اوباما کا کہنا ہے امریکی شہریوں‬ ‫کو نمصان پہنچانے والوں کا پیچھا کریں گے جبکہ ہلیری‬ ‫کا کہنا ہے کہ پرتشدد مظاہروں کا کوئی جواز نہیں بنتا۔‬ ‫اصل ضرورت یہ تھی کہ کہا جاتا اسالمی دنیا تحمل اور‬ ‫برداشت سے کام لے ہم اس والعے کا سختی سے نوٹس‬ ‫لیں گے۔ چاہے یہ محض بیان ہوتا۔ لوگ سمجھتے کہ‬ ‫امریکی لیادت انسان دوست اور جمہوریت پسند ہے۔ اس‬ ‫کے معنی یہ بنتے ہیں کہ ہم جو بھی چاہیں کریں یا کہیں‬ ‫اس کے ردعمل میں کسی کو کچھ کرنے یا کہنے کا حك‬


‫حاصل نہیں۔ ہلیری کے مطابك یہ کوئی بات ہی نہیں جو‬ ‫مرضی کہا یا کیا جائے۔ دونوں کے بیانوں میں کرختگی‬ ‫اوروں کے دکھ سکھ نظریات سے کوئی تعلك نہیں۔‬ ‫ان بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اپنے معامالت میں‬ ‫کس لدر جذباتی ہیں۔ اس کے برعکس دوسروں کے جذبات‬ ‫کا ان دل میں رائی بھر احساس اور احترام نہیں۔ وہ ان کے‬ ‫ہاتھ اور زبان سے مریں یا جیئیں یہ ان کی سردردی نہیں۔‬ ‫گویا یہ سارے کیڑے مکوڑے ہیں اور ان کے نزدیک کوئی‬ ‫حیثیث نہیں رکھتے۔ اوباما یا ہلیری کی بڑی دور کی بات‬ ‫ہے اسالمی دنیا پر چھوڑے گیےخنزیر پر اسالمی دنیا‬ ‫گرفت کرنے کا حك نہیں رکھتی۔ اس خنزیر پر جو گرفت‬ ‫کرنے کی کوشش کرئے گا اس کا پیچھا کیا جائے گا۔ انسان‬ ‫دوست امریکہ اپنوں کے لیے کتنا جذباتی ہے اوباما کے‬ ‫بیان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ کھال جذباتی بیان ہے‬ ‫لیکن چمچے اس کی سو طرح سے تشریح و تفہیم کریں‬ ‫گے حاالنکہ ان دونوں کے بیانات میں رائی بھر ابہام نہیں۔‬


‫میری تحریر “فیصلے کا ولت آ گیا ہے“ کو جذباتی تحریر‬ ‫کا نام دیا گیا ہے۔ میں نے اس تحریر کو پورے ہوش و‬ ‫حواس سے للم بند کیا ہے۔ میں عمر کے جس حصہ میں‬ ‫ہوں وہاں ہوش مندی کو زیادہ دخل ہوتا ہے تاہم ؼلطی کے‬ ‫امکان کو رد نہیں کر سکتا۔ میں نے معاملے کا تجزیہ دالئل‬ ‫سے کیا ہے۔ کیا یہ سچی باتیں نہیں ہیں۔ احتجاج حك تھا‬ ‫کیا گیا ۔ اس کا کیا اثر ہوا اوباما اور ہلیری کے بیانات سے‬ ‫بخوبی لگایا جا سکتا ہے گویا یہ احتجاج ان کے لیے‬ ‫معنویت سے تہی ہے۔ اوباما کے بیان سے تو یہ واضح‬ ‫ہوتا ہے کہ اسالمی برادری کے مجرم کو نمصان‬ ‫دینےوالے پر بھی گرفت ہو گی۔ یعنی اس کیا ؼلط نہیں۔‬ ‫میں جانتا تھا کہ اس لسم کی باتیں معنویت نہیں رکھتیں۔‬ ‫میں نے اسی تناظر میں تجاویز پیش کی تھیں۔ ولت حاالت‬ ‫معامالت نے واضح کر دیا ہے کہ یہ باتوں سے سمجھنے‬ ‫والی جنسں کب ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتایے ان سے لین‬ ‫دین رکھنا انتہائی خسارے کا سودا نہیں ۔ جرم کرنے واال‬ ‫جرم کرانے واال جرم کی صالح دینے واال مجرم کی مدد‬ ‫کرنے واال مجرم کی ہاں میں ہاں مالنے والے بذات خود‬


‫مجرم نہیں ہیں۔ اوباما اور ہلیری بذت خود مجرم ہیں ان پر‬ ‫بھی‘ وہی تعزیر بنتی ہے جو فلم بنانے‘کردار ادا کرنےاور‬ ‫فلم کا مواد تخلیك کرنے والے پر بنتی ہے۔‬ ‫نفرت کو جبر سے ایک حد تک دبایا جا سکتا ہے جب‬ ‫معاملہ حد تجاوز کر جاتا ہے تو سونامی بن جاتا ہے۔‬ ‫سونامی کی راہ میں دیوار رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ امریکہ‬ ‫آج طالت کے نشہ میں سرشار ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ یہ‬ ‫چونٹیاں اور کیڑے مکوڑے ہمارا کیا بگاڑ لیں گے۔ آمر آج‬ ‫سے پہلے بھی یہی سوچتے آئے ہیں ان کی اس سوچ نے‬ ‫ان کا نام و نشان تک مٹا دیا۔ طالت لگام میں رہے تو ہی‬ ‫کامیاب رہتی ہے۔ مست ہاتھی مول میں کتنے کا کیوں نہ‬ ‫رہا ہو موت کا لممہ بنتا ہے۔ امریکی دانشور اہل سیاست‬ ‫اور بااثر طبمے اس مدے پر سنجیدگی سے ؼور کریں اور‬ ‫گورا ہاؤس مکینوں کو مشورہ دیں کہ وہ حد تجاوز نہ‬ ‫کریں۔ انسانوں کو کیڑا مکوڑا سمجھنے کی بجائے انسان‬ ‫سمجھیں اس میں ان کی اور دوسروں بھالئی ہے۔‬


‫زندگی میں میں کے سوا کچھ نہیں‬ ‫وزیر برلیات کے اعالن کے باوجود مختلؾ شہروں میں‬ ‫لوڈ شیڈنگ‬ ‫یہ خبر میری اس تحریر کے بعد شائع ہوئی جس میں‘ میں‬ ‫نے کہا تھا کہ کہنا اور کرنا دو الگ چیزیں ہیں۔ اس تحریر‬ ‫کے باوجود اس خبر کا شائع ہونا اس امر کی طرؾ اشارہ‬ ‫ہے کہ خبر نویس اس حمیمت سے بےخبر ہے یا پھر وہ‬ ‫پرتھوی پر بسیرا نہیں رکھتا اور سہانے خوابوں کے دیس‬ ‫کا الامتی ہے۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ اس تک میری ناچیز‬ ‫تحریر رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہی ہو۔ یا پھر میں‬ ‫اپنا مافی الضمیر بیان کرنے میں ناکام رہا ہوں۔ جو بھی‬ ‫ہے صحیح نہیں ہے۔ دوبارہ سے کوشش کرتا ہوں شائد اب‬ ‫کہ سمجھانے میں کامیاب ہو جاؤں۔‬ ‫کہنا اور کرنا اپنی حیثیت میں دو الگ چیزیں ہیں۔ ان کے‬ ‫مابین المحدود فاصلے ہیں۔ بذات خود بجلی دیکھنے میں‬ ‫ایک ہو کر بھی ایک نہیں۔ متعلمہ پوائنٹ تک پہنچنے کے‬


‫لیے دو تاروں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک ٹھنڈی تار‬ ‫دوسری گرم تار۔ دونوں تاروں کےالگ الگ رہنے میں ہی‬ ‫عافیت اور سالمتی ہوتی ہے۔ ہر سوئچ میں ان دونوں کے‬ ‫لیے الگ الگ پوائنٹ ہوتے ہیں۔ اگر یہ دونوں تاریں باہمی‬ ‫اختالط کر لیں تو بہت بڑا کھڑاک ہو سکتا ہے۔ اس ٹھاہ‬ ‫کے نتیجہ میں جان بلکہ جانیں جا سکتی ہیں۔ بالکل اسی‬ ‫طرح کہنا اور کرنا گلے مل جائیں تو مالی نمصان وٹ پر‬ ‫ہوتا ہے۔ نمصان جانی ہو یا مالی‘ نمصان ہی ہوتا ہے اور‬ ‫نمصان کی کسی بھی سطع پر حمایت نہیں کی جا سکتی۔‬ ‫سکول کالج یہاں تک کہ یونیورسٹی میں کتابی تعلیم دی‬ ‫جاتی ہے۔ کامیاب طالب علم کو متعلمہ علم کی سند یا ڈگری‬ ‫دی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ڈگری ہولڈر اس‬ ‫علم کی کامل جانکاری حاصل کر چکا ہے۔ اس سند یا ڈگری‬ ‫کے باوجود ڈگری یافتہ عملی طور پر صفر ہوتا ہے۔ اس‬ ‫کے برعکس عملی تجربہ رکھنے واال ڈگری یافتہ سے‬ ‫کرنے میں کمال کے درجے پر فائز ہوتا ہے حاالنکہ ڈگری‬ ‫یافتہ کرنے سے متعلك باتیں بار بار پڑھ بلکہ توتے سے‬ ‫بڑھ کر رٹ چکا ہوتا ہے۔ دونوں کے نام الگ سے ہوتے‬


‫ہیں۔‬ ‫کہنے کو تھیوری جب کہ کرنے کو پریکٹیکل کا نام دیا جاتا‬ ‫ہے اور یہ ایک دوسرے سے لطعی طور الگ ہیں۔ یہ‬ ‫درست سہی پڑھے کو عملی آزمایا جاتا ہے۔ گویا پڑھنا‬ ‫پہلے اور آزمانا بعد میں ہے۔ میں کہتا ہوں کرنا پہلے ہے‬ ‫اور کہنا یا آزمانا بعد میں ہے۔ ہمارے ہاں ایک ان پڑھ‬ ‫آدمی بڑے کمال کے کام انجام دے رہا ہے۔ نہیں یمین آتا‬ ‫تو بالل گنج میں جا کر دیکھ لیں۔ شکاگو یونیورسٹی کا‬ ‫ایک سائنس کا پروفیسر وہ کام نہیں کر سکتا جو کام بالل‬ ‫گنج کا ان پڑھ خرادیا دے انجام سکتا ہے۔ اسے کہیں یہ‬ ‫ہے ایؾ سولہ ذرا اس سے بہتر بنا دو‘ بنا دے گا۔ ڈالرز‬ ‫میں ملنے والے سوفٹ ویئر یہاں بازار سے ان کی سی ڈی‬ ‫بیس رویے میں مل جاتی ہے۔ ہے نا کرنا اور کہنا ایک‬ ‫دوسرے سے الگ تر؟‬ ‫جو کرتے ہیں وہ بولتے نہیں۔ جو بولتے ہیں وہ کرتے‬ ‫نہیں۔ اس طرح دوہرا یعنی کرنا اور کہنا بوجھ بن کر سر پر‬ ‫آ جاتا ہے۔ کوئی بھی دوہرا بوجھ اٹھا نہیں سکتا۔ کیا‘ بملم‬


‫خود بولتا ہے کہ میں ہوں کیا ہوا۔ ؼالبا یہ شعر بھیکا کا‬ ‫‪:‬ہے‬ ‫بھیکا بات ہے کہن کی کہن سنن میں ناں‬ ‫جو جانے سو کہے نہ کہے سو جانے ناں‬ ‫کہہ کر کیا تو کیا کیا۔ کیا وہی اچھا ہے جو کہا نہ جائے۔‬ ‫کرکے کہنا تو احسان جتانے والی بات ہے۔ احسان جتانا‬ ‫سے بڑھ کر توہین آمیز بات ہی نہیں۔ ہمارے لیڈر اتنے بھی‬ ‫گئے گزرے نہیں ہیں جو احسان جتائیں۔ اسی بنیاد پر ہی‬ ‫وہ صرؾ کہتے ہیں‘ کرتے نہیں۔ وہ خوب خوب جانتے ہیں‬ ‫کہ کرنے کے لیے کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ ان‬ ‫کے نزدیک کیے کی خبر دوسرے ہاتھ تک کو نہیں ہونی‬ ‫چاہیے۔ جو وہ کرتے ہیں لوگوں کو خبر تک نہیں ہو پاتی۔‬ ‫جب لوگوں کو خبر ہوتی ہے ولت بہت آگے نکل گیا ہوتا‬ ‫ہے۔‬ ‫کوئی بےبابائی کام کسی بڑی سفارش کے ساتھ جہاں کہیں‬ ‫نازل ہوتا ہے اس کی زبانی کالمی سہی‘ پذیرائی تو ہوتی‬ ‫ہے۔ اس کے ہونے کی یمین دہانی بھی کرائی جاتی ہے۔‬


‫امید بلکہ یمین کے چراغ بھی جالئے جاتے ہیں۔ بعض‬ ‫اولات لڈو بھی بانٹے جاتے ہیں۔ بےبابائی ہونے کی پاداش‬ ‫میں وہ کام نہیں ہو پاتا۔ اس ممام پر ناراض ہونا یا مایوس‬ ‫ہونا نہیں بنتا کیونکہ کرنا اور کہنا دو الگ باتیں ہیں۔‬ ‫ایم این ایز یا ایم پی ایز یا منسٹرز لوگوں کی درخواستوں‬ ‫پر سفارشی کلمات لکھتے ہیں۔ یہاں وہ دونوں فریموں کی‬ ‫درخواستوں پر سفارشی کلمات ایک ہی طرح سے ثبت‬ ‫کرتے ہیں۔ وہ تو دیالو اور کرپالو مخلوق ہوتے ہیں۔ وہ‬ ‫کسی کو کیسے مایوس کر سکتے ہیں۔ اس حوالہ سے‬ ‫کسی کا کام ہو یا نہ ہو اس سے انھیں کوئی مطلب نہیں‬ ‫ہوتا کیونکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ سفارش اور کام کا‬ ‫انجام پانا دو الگ سے باتیں ہیں۔ سفارش اور کام کا ہونا‬ ‫اختالط پذیر نہیں ہونے والے ۔ ان کی الگ الگ اہمیت‬ ‫حیثیت اور ضرورت ہے۔‬ ‫ایک ماں اور ایک باپ کی اوالد اپنی اپنی روٹی پکاتے ہیں۔‬ ‫وہ سگے بھائی ہوتے ہیں۔ روٹی سالن ایک رنگ روپ‬ ‫رکھتا ہے۔ ساتھ نبھانے کا وعدہ بھی کیا گیا ہوتا ہے۔ سگا‬


‫ہونا یا وعدے میں بندھے ہونا یا روٹی کا رنگ روپ ایک‬ ‫ہونا اپنی جگہ لیکن نبھانا دو الگ باتیں ہیں۔ انھیں ایک‬ ‫دوسرے سے نتھی نہیں کیا جا سکتا اور ناہی کیا جانا‬ ‫حمیمت سے تعلك رکھتا ہے۔‬ ‫پنجاب جو سب سے بڑا صوبہ ہے کی منشی شاہی سب‬ ‫سے زیادہ شریؾ‘ تحمل مزاج‘ بردبار اور زیرو رفتار ہے‬ ‫نہ یہ کچھ کہتی نہ کرتی ہے۔ یہ ہونے کے ہر کام کی راہ‬ ‫میں دیوار بن جاتی ہے۔ چونکہ للم‪ ،‬اٹکل اور داؤ و پیچ‬ ‫اس کی زنبیل میں پناہ گزیں ہوتے ہیں اس لیے ہوتے بھی‬ ‫نہیں ہوتے۔ اس کی تحمل مزاجی اور زیرو رفتاری ہی وہ‬ ‫بڑا کارنامہ ہے کہ ہم روزاول سے بھی بہت لدم پیچھے‬ ‫کھڑے بھوک پیاس اور موت کی ہولی بڑی بےبسی اور‬ ‫بےکسی سے دیکھ رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے دیکھنا ہمارا‬ ‫ممصد حیات ہے۔‬ ‫وزیر عوامی لوگ ہوتے ہیں اس لیے عوام کی بہبود ان‬ ‫کے پیش نظر رہتی ہے۔ وہ نہیں چاہتے لوڈ شیڈنگ ختم‬ ‫کرکے بجلی کے بل لوگوں کی جیب سے تجاوز کر جائیں‬


‫اور پھرلوگ لوڈ شیڈنگ کرنے کے لیے سڑکوں پر آ کر‬ ‫ذلت و خواری کا منہ دیکھیں۔ وہ بجلی کے بل اور‬ ‫لوڈشیڈنگ کی جدائی کو عوامی بہبود کے برعکس‬ ‫سمجھتے ہیں۔‬ ‫مفروضوں میں زندگی کرنے کا عہد ہے۔ عین ممکن ہے یہ‬ ‫اخباری خبر ہاوسز سے متعلك ہو جہاں اتفالا کسی فنی‬ ‫خرابی کے سبب بجلی دو چار لمحوں کے لیے کبھی کبھار‬ ‫چلی جاتی ہے۔ بڑے لوگوں کے بڑے کام۔ وہ مخاطب‬ ‫چھوٹے لوگوں سے ہوتے ہیں لیکن وعدے بڑے لوگوں‬ ‫کے ساتھ کر رہے ہوتے ہیں۔ بلند سطع پر کیفیت مختلؾ‬ ‫ہوتی ہے۔ اس لیے وہاں ٹھنڈی اور تتی تاروں کا روال بالی‬ ‫نہیں رہتا۔ وہاں کرنا اور ہونا دو نہیں رہتے۔ سچی درویشی‬ ‫یہی ہے کہ میں تو میں مدؼم ہو کر میں بن جاتی ہے‬ ‫اورپھر زندگی میں میں کے سوا کچھ نہیں رہتی۔‬

‫من کا چوہا اور کل کلیان‬


‫اصولی سی اور صدیوں کے تجربے پر محیط بات ہے کہ‬ ‫ؼیرت لوموں کو تاج پہناتی ہے۔ بے ؼیرتی روڑا کوڑا بھی‬ ‫رہنے نہیں دیتی۔ روڑا کوڑا اس لیے معتبر ہے کہ تالش‬ ‫کرنے والوں کو اس میں بھی رزق مل جاتا ہے۔ جب بھی‬ ‫معامالت گھر کی دہلیز سے باہر لدم رکھتے ہیں تولیر کا‬ ‫جنازہ نکل جاتا ہے۔ سارا کا سارا بھرم خاک میں مل کر‬ ‫خاک ہو جاتا ہے۔ جس کو کوئی حیثیت نہیں دی گئی ہوتی‬ ‫وہ بھی انگلی اٹھاتا ہے۔ نمبردار بن جاتا ہے۔ جس کے‬ ‫اپنے دامن میں سو چھید ہوتے ہیں اسے بھی باتیں بنانے‬ ‫کا ڈھنگ آ جاتا ہے۔ یہ لصور باتیں بنانے یا انگلی اٹھانے‬ ‫والوں کا نہیں ہوتا بلکہ مولع دینے والوں کا ہوتا ہے۔‬ ‫یہ حمیمیت بھی روز روشن کی طرح واضح اور عیاں رہی‬ ‫ہے کہ طالت کے سامنے اونچے شملے والے سر بھی خم‬ ‫رہے ہیں۔ گویا طالت اور ؼیرت کا سنگم ہوتا ہے تو ہی‬ ‫بات بنتی ہے۔ کمزور صحیح بھی ؼلط ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس‬ ‫کی ہر صفائی اور اعلی پائے کی دلیل بھی اسے سچا لرار‬ ‫نہیں دیتی۔ بھیڑیے کا بہانہ اسے چیرنے پھاڑنے کے لیے‬


‫کافی ہوتا ہے۔ انسان چونکہ اشرؾ المخلولات ہے اس لیے‬ ‫اس کے بہانے اور دالئل بھی کمال کے ہوتے ہیں۔ انسان‬ ‫کی یہ بھی صفت ہے کہ وہ اپنی ؼلطی تسلیم نہیں کرتا‬ ‫بلکہ اپنی ؼلطی اوروں کے سر پر رکھ دیتا ہے۔ ایسی‬ ‫صفائی سے رکھتا ہے کہ پورا زمانہ اسے تسلیم کرنے‬ ‫میں دیر نہیں کرتا۔‬ ‫امریکہ کی عمارت گری اس میں کوئی کھوٹ نہیں۔ سوال‬ ‫پیدا ہوتا ہے کہ یہ عمارت گرانے پورا افؽانستان امریکہ پر‬ ‫چڑھ دوڑا تھا۔ اس میں بچے بوڑھے عورتیں الؼر بیمار‬ ‫وؼیرہ‘ بھی شامل تھے؟‬ ‫جواب یمینا نفی میں ہو گا۔ تو پھر ان سب کو بندوق نہیں‬ ‫توپ کے منہ پر کیوں رکھ دیا گیا؟‬ ‫ان کا جرم تو بتایا جائے۔‬ ‫لوگوں کو تو مذکرات اور سفارتی حوالہ سے مسائل کا حل‬


‫تالشنے کے مشورے اور خود گولے سے مسائل حل کرنے‬ ‫کوشش کو کیا نام دیا جائے۔‬ ‫ایک پکی پیڈی بات ہے کہ چوہا بلی سے بلی کتے سے کتا‬ ‫بھڑیے سے بھیڑیا چیتے سے چیتا شیر سے شیر ہاتھی‬ ‫سے ہاتھی مرد سے مرد عورت سےاورعورت چوہے سے‬ ‫ڈرتی ہے۔ ڈر کی ابتدا اور انتہا چوہا ہی ہے۔ میرے پاس‬ ‫اپنے مولؾ کی دلیل میں میرا ذاتی تجربہ شامل ہے۔ میں‬ ‫چھت پر بیھٹا کوئی کام کر رہا تھا۔ نیچے پہلے دھواں دھار‬ ‫شور ہوا پھر مجھے پکارا گیا۔ میں پوری پھرتی سے‬ ‫نیچے بھاگ کر آیا۔ ماجرا پوچھا۔ بتایا گیا کہ صندوق میں‬ ‫چوہا گھس گیا ہے۔ بڑا تاؤ آیا لیکن کل کلیان سے ڈرتا‘ پی‬ ‫گیا۔ بس اتنا کہہ کر واپس چال گیا کہ تم نے مجھے بلی یا‬ ‫کڑکی سمجھ کر طلب کیا ہے۔ تاہم میں نے دانستہ چوہا‬ ‫صندوق کے اندر ہی رہنے دیا۔‬ ‫چوہا کمزور ہے لیکن ڈر کی عالمت ہے۔ ڈر اپنی اصل میں‬ ‫انتہائی کمزور چیز ہے۔ کمزوری سے ڈرنا‘ زنانہ خصلت‬ ‫ہے۔ امریکہ اپنی اصل میں انتہائی کمزور ہے۔ کیا کمزوری‬


‫نہیں ہے کہ اس کی گرفت میں بچے بوڑھے عورتیں الؼر‬ ‫بیمار بھی آ گئے۔ گھروں کے گھر برباد کر دینے کے بعد‬ ‫بھی اس کا چوہا ابھی زندہ ہے۔ چوہا اس سے مرے گا‬ ‫بھی نہیں۔ بشمار اسرائیلی بچے مروا دینے کے بعد بھی‬ ‫فرعون کے من کا چوہا مرا نہیں حاالں کہ وہ انہیں بازو بنا‬ ‫سکتا تھا۔‬ ‫ہم اپنے ساتھ نہیں ہیں کسی اور کا خاک ساتھ دیں گے۔ یہ‬ ‫بڑی بڑی باتیں کرنے والے ایک جونیئر کلرک کی مار نہیں‬ ‫ہیں منشی تو بہت بڑا افسر ہوتا ہے۔ہمارا شمار ان لوگوں‬ ‫میں ہوتا ہے جو چور کو کہتے ہیں سوئے ہوئے ہیں اور‬ ‫گھر والوں کو کہتے ہیں چور آ رہا ہے۔اس نام نہاد ترلی‬ ‫کے دور میں ہم سچ کہہ نہیں سکتے سچ سن نہیں سکتے۔‬ ‫یہ ہماری سیاسی سماجی یا پھر التصادی مجبوری ہے۔‬ ‫ہمیں اپنے معامالت پر ہی گرفت نہیں کسی دوسرے کی کیا‬ ‫مدد کریں۔ صاؾ کہہ نہیں سکتے بھائی ہم پر نہ رہنا‘ جب‬ ‫بھی مشکل ولت پڑا ہمیں دشمن کی صؾ میں سینہ تانے‬ ‫کھڑا پاؤ گے۔ ہم ابراہیم لنکن کی نبوت اور ڈالر کے حسن‬


‫پر یمین رکھنے والے لوگ ہیں۔ ہماری عمل اور ؼیرت پیٹ‬ ‫میں بسیرا رکھتی ہے۔ ہم ازلوں سے بھوک کا شکار ہیں۔‬ ‫اصل مجنوں کوئی اور ہے ہم تو چوری کھانے والے‬ ‫مجنوں ہیں۔ ہم کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں۔ کہا گیا بجلی‬ ‫نہیں جائے گی جبکہ بجلی گئی ہوئی ہے۔ گیس کا بل سو‬ ‫ڈیڑھ سو آتا تھا اور گیس سارا دن رہتی تھی۔ آج گیس‬ ‫صرؾ دکھائی دیتی ہے اور بل پیو کا پیو آتا ہے۔ بجلی‬ ‫جانے سے پہلے کچھ لوگ بیٹھے ہویے تھے کہ فالں گھر‬ ‫کے گیس کا بل سات ہزار روپیے آیا ہے اور گھر کے کل‬ ‫افراد چند ایک ہیں۔ لگتا ہے کہ دوزخ کو اس گھر سے‬ ‫پائپ جاتا ہے۔‬ ‫ہم وہ لوگ ہیں جو الیکشنوں کے موسم میں لنگر خانے‬ ‫کھول دیتے ہیں۔ کٹوں بکروں اور مرؼوں کی شامت آ جاتی‬ ‫ہے۔ لوگ دھر سمجھ کر بے دریػ کھاتے ہیں۔ لوگ‬ ‫سمجھتے ہیں امیدوار پلے سے کھال رہا ہے اور اس کے‬ ‫بعد پیٹ بھر کر اگلے الیکشنوں میں ہی مل پائے گا۔‬ ‫بات کا پہال حصہ درست نہیں۔ الیکشن وہی لڑتا ہے جس‬


‫کی ہک میں زور ہوتا ہے۔ جس کی ہک میں زور ہوتا ہے‬ ‫وہ پلے سے کیوں کھالنے لگا ۔ چوری کے ڈنگر ہی‬ ‫چھری تلے آتے ہیں۔ اتنا ضرور ہے کہ ان لنگر خانوں میں‬ ‫مردار گوشت دیگ نہیں چڑھتا۔‬




Turn static files into dynamic content formats.

Create a flipbook
Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.