1
گورنمنٹ اسالمیہ ک لج‘ قصور کی ادبی خدم ت
مقصود حسنی فری ابوزر برقی کت خ نہ اگست 1
2
فہرست گورنمنٹ اسالمیہ ک لج‘ قصور‘ پ کست ن کی الئبریری گورنمنٹ اسالمہ ک لج‘ قصور کے است د اور ذو ش ر و سخن گورنمنٹ اسالمیہ ک لج قصور اور اردو ڈرامہ گورنمنٹ اسالمیہ ک لج قصور اور ف رسی زب ن و اد االد آور اقب ل فہمی گورنمنٹ اسالمیہ ک لج قصور کی ع می و ادبی بس ط فرو و ترویج اردو کے س س ہ میں اسالمیہ ک لج قصور ک کردار االد اور اردو کے مش ہیر
2
3
گورنمنٹ اسالمیہ ک لج‘ قصور‘ پ کست ن کی الئبریری کت ‘ زندگی ک اہ ترین الزمہ اور لوازمہ ہے۔ یہ جہ ں انس ن کی زندگی کے تجرب ت ک تحریری ریک رڈ ہے‘ وہ ں اس کے مخت ف ش بہ ہ میں رویوں اور اختی ری حکمت عم ی کو‘ بھی واضح کرتی ہے۔ اس کی ک می بیوں اور ن ک میوں کی وجوہ کی بھی‘ نش ن دہی کرتی ہے۔ جو قومیں کت دوست ہوتی ہیں‘ ان کی فکر میں فراخی آتی چ ی ج تی ہے۔ فراخ فکر کی ح مل قومیں‘ زندگی کو بہت کچھ مہی کرتی ہیں۔ ان کی ترقی ک دائرہء اثر‘ پیٹ تک محدود نہیں ہوت ۔ وہ قومیں‘ آتی نس وں کو بہت کچھ دے ج تی ہیں۔ آتی نس یں‘ ان کی ت ین کی ہوئی راہوں سے مست ید ہوتی ہیں اور اپنے س ر ک آغ ز‘ جہ ں چھوڑا گی ہوت ہے‘ وہ ں سے کرتی ہیں۔ پیٹ سے سوچنے والی قوموں کے س ر ک آغ ز ہی نہیں ہوا ہوت ‘ اس لیے ان کے د توڑنے میں‘ زی دہ دیر نہیں لگتی۔ یہ ہی نہیں‘ ان کی زیست کے آخری لمحے‘ بڑے تک یف دہ اور عبرت ن ک ہوتے ہیں۔ ان کے برعکس‘ اول 3
4
الذکر قومیں‘ زندگی کے ہر موڑ پر‘ موت کو‘ موت کے گھ ٹ پر ات رتی ہیں۔ ک می قوموں کے ل ظ ک غذ پر ثبت ہو کر‘ آتے وقتوں میں بھی‘ اپنے ہونے کی گواہی دیتے رہتے ہیں۔ وہ ن صرف اپنے خطہ کے م مالت کی نش ن دہی کرتے رہتے ہیں‘ ب کہ ان میں ع لمگیر سم ج کی‘ کسی ن کسی صورت میں کہ نی موجود ہوتی ہے۔ اس سے بڑھ کر‘ پیٹ نواز قوموں کی بدقسمتی اور کی ہو سکتی ہے‘ کہ ان کے ہونے ک سرا ‘ غیروں کے ہ ں سے دستی ہوت ہو اور ان ک لکھ سند ک درجہ رکھت ہو۔ اس قو کی اس سے بڑھ کر بدقسمتی اور کی ہو گی‘ کہ اس کے ہیروز اور دشمن غیر طے کریں اور یہ طے کی ‘ قبولیت کی سند ح صل کر لے۔ ایک ہزار س ل کی چوپڑی‘ ت ج محل سی رہ ئش گ ہیں اور دیدہ لب س‘ ل ظ سے بڑھ کر‘ قیمتی نہیں ہو سکتے۔ یہ س ‘ ان کی قومی شن خت ک ذری ہ نہیں بنتے۔ ان کی شن خت ل ظ بنتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ زندہ قومیں‘ ان کی ح ظت کرتی ہیں۔ وہ بھوک برداشت کر لیتی ہیں‘ لیکن ل ظ کو مرنے نہیں دیتیں۔ انہیں م و ہوت ہے‘ کہ ل ظ کی موت‘ان کی اپنی موت ہے۔ 4
5
ل ظ آگہی سے جڑا ہوا ہوت ہے۔ آگہی ہی تو‘ س ر کی سمت اور منزل ک ت ین کرتی ہے۔ ل ظ سے پورے وجود کی دی نت داری سے انسالک اور اس ذیل میں عصبت کی سطع پر آ ج ن ‘ خود کو پ لینے کے مترادف ہے۔ یہ عنصر‘ آتی نس وں کی خودی کو بھی‘ ترقی کی راہ پر گ مزن رکھت ہے۔ خودی‘ در حقیقیت ذات کی پہچ ن ہے اور ذات میں پوشیدہ خوبیوں اور کم الت کو دری فت کرن ہے۔ پیٹ کی آگ‘ ذات میں موجود کم الت تک رس ئی ح صل نہیں کرنے دیتی اور شخص کو‘ بندءم دات بن کر رکھ دیتی ہے۔ اس ک س ر ذات سے ذات تک محدود رہت ہے۔ ل ظ ک س ر‘ ذات کو دری فت کرکے‘ ک ئن ت کی طرف مراج ت کرت ہے۔ یہ ں تک کہ‘ ک ئن ت اس کی ذات میں مدغ ہو کر‘ اپنی شن خت کھو دیتی۔ ک ئن ت کی شن خت‘ شخص کی شن خت سے‘ مشروط ہو ج تی ہے۔ ل ظ سے رشتہ خت ہون ‘ گوی اپنی شن خت سے محرو ہون ہے۔ ج شن خت ہی ب قی نہ رہے‘ تو اسے کس بنی د پر قو ک ن دی ج سکت ہے۔ ل ظ سے محرومی ی اس کی حرمت کی پ م لی‘ زوال کی طرف پھرن ہے۔ ل ظ کی‘ اس کے مخصوص مروجہ ک چر‘ اس کی ت ریخی اور ادبی حیثیت کی ح ظت‘ جہ ں شخص ان رادی 5
6
سطع پر کرت آی ہے‘ وہ ں اداروں ک کردار بھی‘ بڑی اہ حیثیت ک ح مل رہ ہے۔ اس ذیل میں اداروں پ نچ امور انج دئیے ہیں۔ اشخ ص کی کت کو اپنے ذخیرہ میں رکھ ہے۔ - اشخ ص کی غیر مطبوعہ تحریروں کو‘ تالش کرکے ان - کو کت بی شکل دی ہے۔ تحریروں پر‘ تحقی اور تنقید ک ک کروای ہے۔ - تحقی کرنے والوں کو‘ کت فراہ کرکے‘ ان کے - تخقیقی ک کو‘ ممکنہ اور آس ن بن نے میں‘ اپن کردار ادا کی ہے۔ نئی اور عصری سوچ سے مت ‘ تحریروں کو ش ئع - کرکے‘ ل ظ کو عصری م ہی کے س تھ مح وظ کرکے‘ ل ظ کو اس کے عہد میں مخ وظ کی ہے۔ برصغیر میں‘ ل ظ کی ح ظت میں‘ ادارے اپن کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ لٹ پٹ کے‘ آیے دن کے عمل کے ب وجود‘ برصغیر کبھی تہی دست نہیں رہ ۔ آج بھی‘ سیکڑوں ادارے‘ ل ظ کی ح ظت میں اپن کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان اداروں 6
7
کی‘ اس ک رگزاری ک اگر ج ئزہ کی ج ئے‘ تو م یوسی نہیں ہو گی۔ اس ذیل میں صرف ایک ادارے کی ک رگزاری بطور نمونہ درج کر رہ ہوں۔ گورنمنٹ اسالمیہ ک لج‘ قصور بہت پران نہیں۔ یہ میں قی میں آی ۔ اس کے پہ ے سربراہ پروفیسر غال رب نی عزیز تھے۔ وہ یقین اد اور کت دوست تھے۔ ان کے عہد میں ہی‘ کت جمع کرنے ک آغ ز ہو گی تھ ۔ اکبر راہی‘ ک لج الئبریری کے پہ ے انچ رج تھے۔ ان کے دور کی کت دستی ہیں۔ کت ک اندراج‘ کت بر نمبر شم ر اور مت قہ م وم ت ک اندراج‘ اس عہد کے س یقے کے مط ب موجود ہے۔ پ ک بھ رت جنگوں میں‘ نقص ن ہوا‘ ت ہ نئی عم رت میں ک لج کی ش ٹنگ سے‘ الئبریری مت ثر ہوئی۔ ابتدا میں ک لج کی عم رت مختصر تھی۔ اس لیے الئبریری کے لیے بھی‘ جگہ حصہ کی آئی۔ یہ پہ ے سٹ ف رو سے گھومتی پھرتی‘ موجودہ عم رت میں چ ی آئی۔ اکبر راہی کے ب د‘ محمد بالل اور ان کے ب د محمد آف بطورالئبریری انچ رج فرائض انج دیتے رہے۔ موجودہ الئبریرین‘ محمد یونس انص ری ک لج ہی کے گولڈ 7
8
میڈل لسٹ ط ل ع ہیں اور اکتوبر کے امور انج دے رہے ہیں۔
سے‘ الئبریری
پروفیسر راؤ اختر ع ی نے‘ جہ ں ک لج کے دیگر امور سے دل چسپی لی ہے‘ وہ ں الئبریری کو بھی اپنی خصوصی توجہ میں رکھ ہے۔ اس کی بہتری اور تزئین و آرائش کو بھی نظر انداز نہیں کی ۔ وہ ب ق ئدگی سے الئبریری کے امور کو نپٹ تے رہتے ہیں۔ اس کی ص ئی ستھرائی کے س تھ س تھ‘ ٹ ئ نگ ک ک بھی کی گی ہے۔ ٹ ئ نگ پر پ نچ میں پ نچ الکھ سےالکھ سے زائد خرچ کی گی ۔ زائد ک فرنیچر خریدا گی ۔ پنکھے اور من س روشنی کے انتظ پر الگ سے خرچ کی گی ۔ دو ہ ل کو ن دیے گیے۔ ایک ح ل کو عالمہ س ید ہ ل‘ ج کہ دوسرے کو مقصود حسنی ہ ل ن دی گی ۔ ہ تے کو اوپن ش ف ڈے قرار دی گی ۔ یہ امور یقین پروفیسر اختر ع ی کی ع دوستی اور ع پروری پر داللت کرتے ہیں۔ جن محمد یونس انص ری بھی محنت اور کوشش کے حوالہ سے تحسین کے مستح ہیں۔ موجودہ الئبریری میں لوہے اور لکڑی کی الم ری ں ہیں۔ 8
9
آر جبکہ
سٹوڈنٹ چیرز ہیں۔
بڑے چھوٹے میز ہیں۔ ری رنس اور سرکولیشن ڈیسک ہیں۔ کمپیوٹر ہمہ وقت مصروف ک ر رہتے ہیں۔ فی میل اور میل ط ب کے لیے‘ الگ الگ ریڈنگ رو ہیں۔ محمد آصف خ ں‘ ط بہ وط لب ت کی خدمت کے لیے موجود رہتے ہیں۔ اس ذیل میں کسی قس کی کوت ہی نظر انداز نہیں کی ج تی۔ ریسرچ اسک لرز کے لیے الگ سے کمرہ مخصوص ہے۔ کمپیوٹر شیکشن میں‘ ع ی رض ک کرتے ہیں۔ وہ اس میں ممکنہ مہ رت کے ح مل ہیں۔ کت دینے ک ک محمد اکر کرتے ہیں۔ م راج دین عم ے کی خدمت‘ ص ئ ستھرائی کے عالوہ‘ کت کے ب رے اچھی خ صی م وم ت رکھتے ہیں۔ انہیں ایک ایک کت کے ب رے میں م و ہوت ہے‘ کہ وہ کہ ں پڑی ہے۔ ا تک ی نی پچھ ے دو س لوں میں کت کمپیوٹررایزڈ ہو چکی ہیں۔ الئبریری میں تین ہزار سے زائد ری رنس بکس ہیں۔ان میں 9
10
انسک وپیڈیز اور لغت م نی سے مت
کت ہیں۔
اسالمی اد میں‘ دنی کی تم م روف ت سیر اور سیرت سے مت کت موجود ہیں۔ اردو‘ انگریزی‘ ری ضی اور اکن مکس سے مت کت ک اچھ خ ص ذخیرہ موجود ہے۔ ان میں‘ جدید ترین کت ش مل ہیں۔ الئبریری میں عطیہ میں
کت خرید کی گئیں۔ کت موصول ہوئیں۔
عالمہ محمد س ید ع بد گیے تھے۔
کت الئبریری کو ڈونیٹ کر
ہ نچ ہزار سے زائد‘ ریسرچ اسک لرز‘ اس الئبریری سے کت ک روزانہ لین دین است دہ کر چکے ہیں‘ ج کہ ہوت رہت ہے۔ ان دنوں‘ ک لج کے ہر ش بے سے مت ‘ مت دد اس تذہ‘ ای فل اور پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ ان س ک ‘ ک لج الئبریری سے روزانہ واسطہ رہت ہے۔ اتنی کثیر آمد ورفت کے ب وجود‘ فرش ص ف اور چمکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ج ال اور گرد و غب ر ڈھونڈھے سے نہیں م ت ہے۔ دیکھنے واال اسے‘ کوئی فوجی الئبریری سمجھت ہے۔ محمد یونس انص ری
10
11
بت رہے تھے‘ کہ پنج یونیورسٹی والوں نے‘ اسے پنج کی ص ف ستھری الئبریری قرار دی ۔ وثو سے کہ ج سکت ہے‘ کہ اگر اہل اقتدار کت گ ہوں پر توجہ دیں‘ تو آتی نس وں کو‘ ن صرف تریبیت ی فتہ بن ی ج سکے گ ‘ ب کہ کت بی صورت میں اچھ خ ص موجودہ عہد کے م مالت ک ‘ ذخیرہ میسر کی ج سکے گ
11
12
گورنمنٹ اسالمہ ک لج‘ قصور کے است د اور ذو ش ر و سخن ش عری کے ح اور ش عری کے خالف‘ بہت کچھ کہ اور لکھ ج ت رہ ہے۔ مذہبی طبقوں کے ہ ں بھی اسی دوہری صورت سے دوچ ر رہی ہے۔ غن ئیت کی بن پر اس کی مخ ل ت ہوتی رہی ہے' ج کہ فکری حوالہ سے نظر انداز بھی نہیں کی گی ۔ خطب ت میں ش ری قرآت میں آتے رہے ہیں۔ اس کی مخ ل ت کی' غ لب ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ش عری اپنے عہد کے سی سی ح الت کی بھی امین ہوتی ہے۔ قصیدے کے عالوہ' ت خ حق ئ کو بھی اپنے دامن میں سموئے چ ی ج تی ہے۔ ش عر عالمتوں' است روں اور اش روں کن ئیوں میں' وہ کچھ کہت چال ج ت ہے' جو اس عہد کے ش ہ کے ن زک دم پر گراں گزرت ہے۔ ش عر ش ہ کے گم شتوں کو بھی' ل ظ کی گرفت میں لے لیت ہے .بطور نمونہ فقط دو ش ر مالحظہ ہوں۔ یہ ں کوئی مجنوں ک کی ح ل پوچھے کہ ہر گھر میں صحرا ک نقشہ بن ہے 12
13
خی ل :رحمن ب ب ب ر ہ دیکھی ہیں ان کی رنجشیں پر کچھ ا کے سرگرانی اور ہے غل چش ق تل تھی میری دشمن ہمیشہ لیکن جیسی ا ہو گئی ق تل کبھی ایسی تو نہ تھی ظر اوہن ں دا موڈ خرا ہوندا کئی واری ویکھی اے پر ایتکیں ت ں دوہ ئی ہوئی پئی اے مقصود حسنی سچ گوئی کی پ داش میں ش عر زندگی سے بھی گیے ہیں۔ ج ر زٹ ی کو ج ن سے ہ تھ دھون پڑے۔ فیض‘ حبی ج ل 13
14
وغیرہ ک جیون پرعت
رہ ۔
یہ س اپنی جگہ‘ ش عر اپنے عہد کی زب ن اور اس کے چ ن ک بھی امین رہ ہے۔ اس کے س تھ س تھ زب ن کو نئے مح ورے‘ نئے مرکب ت‘ نئی ترکیب ت‘ نئی عالمتیں‘ است رے تشببہ ت وغیرہ بھی فراہ کرت چال آ رہ ہے۔ وہ ل ظ کو نئے م نی اور ل ظ کے نئے است م الت بھی دری فت کرت چال آ رہ ہے۔ لس نی سند کےلیے‘ ہمشہ ش ر ہی کو حوالہ بن ی گی ہے۔ ش عر م مالت کو‘ ن صرف الگ سے دیکھت ہے‘ ب کہ اس ک مش ہدہ بھی‘ عمو سے قط ی ہٹ کر ہوت ہے۔ اس کی آنکھ‘ وہ کچھ بھی دیکھ لیتی ہے‘ جو ع نہیں دیکھ پ تی۔ یہ کہن کسی طرح درست نہیں کہ ش عری الی نی چیز ہے اور غ ط سمت فراہ کرتی ہے۔ زلف و رخس ر‘ زندگی سے الگ چیز نہیں ہیں‘ اس لیے ان کے حوالہ سے کہ گی بھی غ ط نہیں۔ دوسرا ش عر موجود رجح ن کی تصویر کشی کر رہ ہوت ہے۔ لکھنوی ش عری فح شی اور الی نیت ک شک ر نظر آتی ہے۔ لکھنوی م شرت اور عمومی رجح ن ت بھی تو یہی تھے۔ اگر تالش کرنے والی آنکھ سے دیکھ ج ئے‘ تو کڑی تنقید بھی نظر آتی 14
15
ہے۔ موازن تی صورتیں بھی دیکھ ئی دیتی ہیں۔ ش عر کی موازن تی آنکھ‘ اوروں سے کہیں بڑھ کر ب لغ ہوتی ہے۔ وہ ان سے ٹن ٹ ئ ایڈوانس ہوتی ہے۔ برصغیر روز اول سے‘ مخت ف نوعیت کے ح الت ک شک ر رہ ہے۔ چوں کہ اسے سونے کی چڑی کی حیثیت ح صل رہی ہے‘ یہی وجہ ہے بیرونی دنی کی توجہ اس پر مرکوز رہی ہے۔ بہت س رے عالقوں کے لوگ‘ محت ف حوالوں سے‘ اس والیت ک رخ احتی ر کرتے رہے ہیں۔ یہ صورت آج بھی موجود ہے۔ دیسی و بدیسی رویتوں‘ مزاجوں اور رویوں کی آمیزش‘ یہ ں بہ خوبی تالشی ج سکتی ہے۔ ہندوست نی ی نی اردو +ہندی +رومن یہ ں کی مجموعی زب ن رہی ہے اور پورے ہند میں‘ است م ل ہوتی رہی ہے اور آج دنی دوسری بڑی زب ن ہے۔ اس زب ن میں ش عری ک ذخیرہ اپنی مثل آپ ہے۔ ش را نے اپنے اپنے عہد کی بھرپور انداز میں عک سی کی ہے۔ اس زب ن کی ترقی میں شخصی اور مخت ف اداروں ک عمل دخل رہ ہے۔ ہند کے بے شم ر اداروں میں‘ گورنمنٹ اسالمیہ ک لج‘ قصور بھی‘ اس ذیل میں اپنے حصہ ک کرداار ادا کرت چال آ 15
16
رہ ہے۔ اس کے سربراہ ن میں پروفیسر غال رب نی عزیز ایسے ع ل ف ضل رہے ہیں۔ پروفیسر امجد ع ی ش کر ع دوست ہونے کے س تھ س تھ ش عر بھی تھے۔ پروفیسر راؤ اختر ع ی ش عر تو نہیں ہیں‘ لیکن ش عر دوست ضرور ہیں۔ م رننگ اسمب ی میں ط ب کو اچھے اچھے ش ر زب نی ی د کرنے کی ت قین کرتے رہتے ہیں۔ اپنے خط میں اچھے اچھے ش روں ک تڑک لگ ن نہیں بھولتے۔ ک لج انتظ میہ مش عروں ک بھی اہتم کرتی رہی ہے۔ مش عروں میں‘ م روف ش را کو بھی مدعو کی ج ت رہ ہے۔ گوی ش روسخن کی حوص ہ افزائی‘ اس ک لج کی قدیمی روایت ہے۔ ک لج سے اچھے اچھے ش عر ط ل ع ت ی کے زیور سے آراستہ ہو کر‘ زندگی کے مخت ف ش بوں میں خدم ت انج دیتے آ رہے ہیں۔ اسی طرح اس تذہ اور سٹ ف کے لوگ بھی‘ ش ر وسخن کے ذو سے مت رہے ہیں۔ یہ ں دستی ت صیل درج کر رہ ہوں۔ پروفیسر احس ن الہی ن وک‘ ش بہ انگریزی سے مت تھے۔ پنج بی اور اردو کے ش عر تھے۔ نثر میں شو رکھتے تھے۔ ترجمہ شدہ چیزیں بھی پڑھنے کو م تی ہیں۔ 16
17
جدید اطوار رکھتے ہیں۔ یہ عنصر ان کے کال میں م ت ہے۔ ان کے کال ک نمونہ دیکھیے۔ قط ہ دکھ درد زندگی کے س مسکرا کے جھیل آہیں دب دے سینے میں اور آنسووں کو پی لیکن کسی بھی ح ل میں مت زندگی سے بھ گ میں تو یہی کہوں گ کہ ہر ح ل میں تو جی االد شم رہ
-
احمد ی ر خ ں مجبور‘‘ ابتدائی عہد سے ت رکھتے ہیں۔ وہ اردو پنج بی اور ف رسی کے ش عر تھے۔ انھوں نے خی کی رعی ی ت ک چھے مصرعی ترجمہ بھی کی ۔ نمونہءکال مالحظہ ہو دیکھن یہ ہے کی دکھ تی ہے ایک لغزش اگر بکھر ج ئے خیر تو خیر شر اگر نہ ہو ہمراہ 17
18
کی پتہ‘ آدمی کدھر ج ئے آرزوئیں ہی آرزوئیں ہیں دیکھ لیجئے‘ نظر جدھر ج ئے ‘ب ب مجبور۔ شخصیت‘فن اور ش عری‘ مق لہ ای فل مم وکہ عالمہ اقب ل اوپن یونیورسٹی‘ اسال ‘ص آب د‘ ڈاکٹر اختر شم ر ک ت بھی اس ادارے سے رہ ہے۔ ان دنوں چیئرمین‘ ش بہءاردو‘ ایف سی ک لج‘ الہور ہیں۔ عالمہ بیدل حیدری کے‘ ش عری میں سند ی فتہ ہیں۔ ک ل نگ ری میں بھی کم ل کی مہ رت رکھتے ہیں۔ ی ر ب ش آدمی ہیں۔ انھیں انقالبی فکر ک ش عر کہ ج ئے‘ تو غ ط نہ ہوگ ۔ میں انھیں ہمیشہ ترقی پسند سمجھت رہ ہوں اور وہ ہیں بھی‘ ب طنی سطع پر زبردست صوفی ہیں۔ ان ک تصوف میں م وف‘ یہ ش ر مالحظہ ہو آخری وقت میں یہ بھید کھال ہے ہ پر ہ کسی نقل مک نی کے لیے زندہ ہیں اس ط ہر ش بہءاردو سے مت
رہے ہیں۔ ب نسری بج نے 18
19
میں مہ رت رکھتے تھے۔ اردو اور پنج بی میں ش ر کہتے ہیں۔ ف رسی سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ ح ل ہی میں انھوں نے ای فل ک مق لہ ب نوان “مقصود حسنی -شخصیت اور ادبی خدم ت‘ بہ ؤالدین زکری ‘ یونیورسٹی‘ م ت ن کو جمع کروای ہے۔ بطور نمونہ دو ش ر دیکھیے وہ جوئے ع و عرف ں‘ ہ جس کے خوشہ چین ک فہ جس کے د سے ہو ج تے ہیں ذہین وہ روح رواں اردو ش بے کی جو ہیں ڈین وہ نر خو صورت م دا ڈاکٹر روبینہ ترین پروفیسر اظہر ع ی ک ظمی‘ خوش طب ی میں جوا نہیں رکھتے تھے۔ ان ک دستر خوان بڑا فراخ تھ ۔ مط ل ہ بڑا وسیع تھ ۔ بڑا عمدہ ش ری ذو رکھتے تھے۔ ان ک ایک ش ری مجموعہ بھی ش ئع ہوا تھ ۔ بطور ذائقہ دو ش ر مالحظہ ہوں ایک مشت پر بج ئے خود نش نی چھوڑ کر 19
20
ہو گی خ موش کوئی نغمہ خوانی چھوڑ کر پ گی وہ مقصد ایم ن وایق ں ک ظمی ل یت جس کو آئی بدگم نی چھوڑ کر االد
-
اکبر راہی الئبریری سے وابستہ تھے۔ کت بینی ک شو رکھتے تھے۔ اچھ ش ری ذو پ ی تھ ۔ پروفیسر اکرا ہوشی رپوری ش بہء اردو کے صدر اور االد کے مدیر اع ی تھے۔ سنجیدہ طبع تھے۔ خ موش مگر متحرک شخصیت کے م لک تھے پ کست نیت ان کی رگ رگ میں بسی ہوئی تھی۔ افس نہ ڈرامہ اور تنقید لکھتے تھے۔ اردو اور پنج بی میں ش عری کرتے تھے۔ یہ دو ش ر ان کی فکری پرواز کو واضح کرتے ہیں میں مال تھ ت م ے تھے‘ ذکر اس ک چھوڑیئے ا م یں ی نہ م یں‘ فکر اس کی چھوڑیئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تیرا م ن بھی عج تھ اور بچھڑن بھی غض 20
21
کچے دھ گے ٹٹ چکے ا کس سے رشتہ جوڑیئے االد شم رہ
-
امجد ع ی انج ک لج کے ش بہءاردو سے مت ذو پ ی ہے۔ بطوریہ ش ر مالحظہ ہو
ہیں۔ ش ری
ہیر رانجھ ‘ شیریں فرہ د کے قصے پرانے ہوئے انج ہر سو ا تیرا میرا پرچ ر ہے‘ م نو کہ نہ م نو پروفیسر امجد ع ی ش کر‘ ک لج کے پرنسپل تھے .ان ک پرنسپل شپ ک عرصہ‘ س سے زی دہ ہے۔ پیدل چ نے میں ان ک ڈھونڈھے سے‘ ث نی نہ مل سکے گ ۔ ش رونثر میں برابر کی مہ رت رکھتے ہیں۔ انھوں نے مقصود حسنی کے ش ری مجموعے۔۔۔۔۔اوٹ سے۔۔۔۔۔ کو پنج بی لب س دی ۔ ان دنوں ش ہدرہ ک لج میں بطور پرنسپل فرائض انج دے رہے ہیں۔ نمونہءکال مالحظہ ہو اک شہر ن پرس ں تھ ش ید جس ک اک بھوال بھٹک رستہ بھول کے آی 21
22
میں نے واں پر لوگوں کو اپن ج ن ۔۔۔۔۔۔۔۔ان سے پی ر کی میں نے شہر کی ک لی راتوں میں سچ کے دیپ جالئے چ ر طرف سے آندھی آئی ہر اک دیپ بجھ میں نے پھر یہ دیپ جالئے شہر ن پرس ں االد شم رہ
-
پروفیسر تنویر حسین ش بہءسی سی ت سے مت رہے ہیں۔ کال میں وج ہت اور عصری جبریت کے اش رے بڑے واضح نظر آتے ہیں۔ یہ دو ش ر ان سے ہیں حوادث روزوش ہر موڑ پر ہر آن ہوتے ہیں ہزاروں لوگ ہیں‘ جو بےسروس م ن ہوتے ہیں ................ 22
23
کسی م س ک ا تنویر تو دیواں نہیں چھپت کہ اہل زر یہ ں ا ص ح دیوان ہوتے ہیں پروفیسر ط ر ج وید‘ ش بہ ک مرس سے مت ہیں۔ نوجوان ہیں اور کچھ کر گزرنے کے جذبے سے سرش ر ہیں۔ نثر بڑی خو صورت لکھتے ہیں۔ ان کی تحریریں ش ئع ہوتی رہتی ہیں۔ ش ر ک بھی ذو پ ی ہے۔ ان کی ش عری عصری کر کو واضع کرتی نظر آتی ہے۔ نمونہءکال مالحظہ ہو رات کو جو سڑکوں پہ ن کے لگ تے ہیں یہ بڑی دولت وہ ں سے کم تے ہیں یہ پج رو اور مرسڈیز کو ج نے دیتے ہیں سکوٹر اور سوزوکی کو روک لیتے ہیں یہ نوکر تو سرک ری ہیں پر لگتے بھک ری ہیں نظ :پی بن سرک ر پروفیسر عب س ت بش ش بہءاردو سے مت
رہے ہیں۔ 23
24
ش ری ذو رکھتے تھے۔ پروفیسر عبدالغ ور ظ ر‘ ش بہءاسالمی ت سے مت تھے۔ کھرے سچے اور بےب ک انس ن تھے۔ سیم بی طب ت اور مزاج کے آدمی تھے۔ ش رونثر سے برابر ک ذو رکھتے تھے۔ ایک مح ل میں‘ ان کی بہ ریہ نظ سننے ک ات ہوا۔ کم ل کی روانی اور کم ل کی فص حت تھی۔ پروفیسر عبدالغنی‘ ش بہءانگریزی سے مت تھے۔ بڑی ج ندار اور ش ندار شخصیت کے م لک تھے۔ پنج بی اور اردو میں کہتے تھے۔ نمونہءکال مالحظہ ہو ہوش و خرد کی بستی ہے میرے جنون مجھ کو لے چل اک اک کرکے چور ہوئے ی ں خوابوں کے ت ج محل گھڑی گھڑی پربت پربت بوجھل بوجھل اک پل دیوانوں کی بستی میں 24
25
میرے جنون مجھ کو لے چل االد
-
پروفیسر عبدالرحمن ع بد‘ اس ک لج سے مت تھے۔ خو صورت ش ری ذو رکھتے تھے۔ خوش کال ش عر تھے۔ پروفیسر محمد س ید ع بد‘ ش بہءاسالمی ت سے مت تھے۔ بڑے ع ل ف ضل تھے۔ عالمہ اقب ل اور است د غ ل ‘ ان کے مط ل ہ میں رہتے تھے۔ خوش فکر ش عر تھے۔ یہ دو ش ر ان سے ہیں خوا ع و دین کی جو ت بیر چ ہیے پیش نگ ہ اسوءشبیر چ ہیے ع بد نہ ہو سکی کوئی تدبیر ک رگر ا تو بس اک ن رہءتکبیر چ ہیے مقصود حسنی‘ ش بہءاردو سے مت رہے ہیں۔ اردو‘ پنج بی اور انگریزی میں کہتے ہیں۔ بطور نمونہ یہ نظ مالحظہ ہو ج تک 25
26
وہ قتل ہو گی پھر قتل ہوا ایک ب ر پھر قتل ہوا اس کے ب د بھی قتل ہوا وہ مس سل قتل ہوت رہ ج تک سیٹھوں کی بھوک‘ نہیں مٹ ج تی ج تک خواہشوں ک ‘ جن زہ نہیں اٹھ ج ت وہ قتل ہوت رہے گ وہ قتل ہوت رہے گ ہیں۔
پروفیسر ندی احس ن‘ راؤ‘ ۔ش بہءانگریزی سے مت بڑی پی ری شخصیت رکھتے ہیں۔ یہی عنصر ان کے کال میں پ ی ج ت ہے۔ ان ک کال مخت ف رس ئل میں چھپت رہت :ہے۔ یہ تین ش ر ان سے ہیں رمز ب طن نہ کھل سکی لیکن صورت حسن بے حج
ہوئی 26
27
................ تجھ کو مزدوری فرہ د ک احس س کہ ں اوج پر رہت ہے قسمت ک ست را تیرا ....................... جو توڑ دے فسون زر وہ مرد خود شن س ہے پروفیسر نی مت ع ی‘ ش بہءانگریزی سے مت ہیں۔ صوفی منش ہیں۔ بڑی ص ف ستھری شخصیت کے م لک ہیں۔ اردو انگریزی اور پنج بی میں کہتے ہیں۔ ان کی پنج بی ک فیوں میں ورفتگی پ ئی ج تی ہے۔ نثر بھی لکھتے ہیں۔ افس نہ نگ ر ہیں۔ نمونہءکال مالحظہ ہو۔ ہر مرض کی ج ش تو نے بن ئی ہر طرف پھی ے مرض الدوا ہیں ہو کبھی ب رش فضل کی اس چمن میں خوش نوا ب بل سراپ التج ہیں تجزیہء ش ر وسخن میں پروفیسر یونس حسن کم ل کی 27
28
مہ رت رکھتے ہیں۔ اس ذیل میں ان کے چ لیس سے زائد مق لہ ج ت مخت ف ادبی رس ئل وجراعد میں ش ئع ہو چکے ہیں۔ یہ ت صیل یقین ن مکمل ہے لیکن میں نے دستی مواد پیش کر دی ہے۔امید ہے اہل ذو احب اس میں اض فہ کرتے رہیں گے۔
28
29
گورنمنٹ اسالمیہ ک لج قصور اور اردو ڈرا هللا نے انس ن کو‘ بیک وقت‘ ان گنت صالحیتوں سے سرفراز فرم ی ہے لیکن انس ن ان میں سے‘ ایک دو صالحیتں است م ل کر پ ت ہے۔ جوایک سے زی دہ است م ل میں لے آت ہے‘ وہ اس پر اترات ہے‘ ح الں کہ اس میں اترانے والی کوئی ب ت ہی نہیں اور ن ہی حیرت والی ب ت ہوتی ہے۔ وہ دئیے میں سے است م ل کر رہ ہوت ہے۔ کسی خی ل کو دئیے وس ئل کے حوالہ سے تجسی فراہ کی ج تی ہے۔ غیر موجود کو تصرف میں الی ج ئے تو اترانے ک پہ و ضرور نک ت ہے۔ پروفیسر راؤ اختر ع ی چند ایسے لوگوں میں ہیں‘ جو ایک وقت میں کئی صالحیتوں کو است م ل میں ال رہے ہیں۔ وہ بہترین منتظ تو ہیں ہی‘ شجر ک ری میں بھی کم ل رکھتے ہیں۔ بنی دی طور پر انگریزی کے است د ہیں لیکن ع و اسالمیہ میں ق بل تحسین م وم ت رکھتے ہیں۔ جم ہ ی کسی دوسرے خط میں سننے الئ ہوتے ہیں۔ دفتری خط و کت بت میں مہ رت رکھتے ہیں۔ ان کے ڈاافٹس ادبی 29
30
نوعیت کے ہوتے ہیں۔ ت مرات‘ الئبریری امور ہوں ی پب ک ڈی نگ‘ مہ رت رکھتے ہیں۔ اصل کم ل یہ ہے کہ‘ تکبر سے دور بھ گتے ہیں۔ کوئی ان کے ک کی ت ریف کرئے‘ تو یہ کہہ کر ‘آپ کچھ زی دہ سے ک نہیں لے رہے‘ شرمندہ کر دیتے ہیں۔ یہ جم ہ اس انداذ سے کہتے ہیں کہ بن وٹ ک کوئی نہیں پہ و نک ت ۔ کچھ دن ہوئے‘ م و ہوا کہ‘ وہ اسٹیج ڈرامے سے بھی دل چسپی رکھتے ہیں۔ ڈینگی مہ کے حوالہ سے‘ انھوں نے ایک ڈرامہ ‘زندگی سے پی ر کرو‘ کروای ۔ یہ ڈرامہ پسند کی گی ۔ اس ڈرامے کے رائٹر پروفیسر جیک پ ل‘ ہدایت ک ر پروفیسر ط ر ج وید‘ م بوس ت ک اہتم پروفیسر ار شہزاد ج کہ پروفیسر محمد اشرف نے اسٹیج کی ڈرام ئی فض تشکیل دی۔ ڈرم ئی کرداروں میں عبدالرحمن‘ ع ی احمد‘ م ص عثم ن محمد ط یل‘ امجد ع ی اور ع ی حسن نم ی ں تھے۔ خدا لگتی یہی ہے‘ کہ ہر کسی نے اپنی اپنی سطع پر ق بل تحسین ک کی ۔ س کچھ زندگی کے قری قری تھ ۔ ڈینگی کو کنڈو چڑھ نے میں‘ کوئی کسر ب قی نہ رہی۔ 30
31
عم ی بھ گ دوڑ اور کوششوں کے سب ‘ ڈینگی کو سر کی ج چک ہے اور س اجتم عی اور ان رادی کوششوں ک ثمرہ ہے۔ اس سے یہ ب ت بھی ث بت ہوتی ہے کہ مخ ص کوششوں کے نتیجہ میں‘ ن ممکن‘ ن ممکن نہیں رہ پ ت ۔ وزیر اع ی پنج اسی مخ صی سے پنج سرونٹس ہ ؤسنگ ف ؤنڈیشن آفس سے ڈینگی عن صر ک خ تمہ کرن چ ہیں تو‘ یہ ن ممکن اور کٹھن گزار منزل بھی طے ہو سکتی ہے۔ اگر وہ سنجیدہ توجہ دیں گے تو وہ ں سے کینسر اور ایڈز کے وائرس ک بھی کھوج لگ سکیں گے۔ ک لج کے ابتدائی عہد میں‘ ڈرامہ اسٹیج کرنے کی روایت میں پروفیسرمبشر احمد کے نہیں م تی۔ اس ک آغ ز دور میں ہوا۔ ب ق عدہ ڈرامٹیک سوس ئٹی ک قی عمل میں الی گی ۔ ک لج انتظ میہ ک ت ون اس سوس ئٹی کو ح صل تھ ۔ پروفیسرمبشر احمد کے ب د پروفیسر اکرا ہوشی رپوری نے‘ اس سوس ئٹی کو مزید ف ل بن ی ۔ ان کے عہد میں ڈرامے اسٹیج بھی ہوئے اور ن ظرین میں‘ شہر کے م ززین کے عالوہ‘ الہور وغیرہ سے م ززین کو بھی مدعو کی گی ۔ ان کے س تھ ڈرامہ ک روں کے س تھ س تھ‘ اس تذہ کے بھی فوٹو لیے گئے۔ ان میں سے بہت سے 31
32
فوٹو گرافس پروفیسر اکرا ہوشی رپوری ب ق عدہ ریک رڈ میں رہے۔ ک لج میگزین االد میں ڈراموں کی رپورٹس اور فوٹوگرافس بھی ش ئع ہوئیں۔ ان ڈراموں میں ش مت اعم ل‘ احمد ش ہ ابدالی‘ ٹیپو س ط ن نے شہرت ح صل کی‘ ت ہ پروفیسر اکرا ہوشی ر ک ڈرامہ ‘دیکھی تیری دنی ‘ نے سوس ئٹی کی دھ ک بیٹھ دی۔ گردش زم نہ دیکھیے‘ انتظ میہ کی تبدی ی کے عالوہ بہت سے عن صر‘ شخصی و انتظ می ترج ح ت کے زیر اثر‘ س قصہءپ رئنہ ہو کر رہ گی ۔ ک لج میگزین میں بھی ڈرامے ش ئع ہوئے۔ ان میں پروفیسر اکرا ہوشی رپوری‘ منیر راج‘ شیث خ ں اور چوہدری ظہور احمد کے ڈرامےش مل ہیں۔
32
33
گورنمنٹ اسالمیہ ک لج قصور اور ف رسی زب ن و اد اہل ف رس ک ‘ برصغیر سے صدیوں ک نہیں‘ ہزاروں س ل ک ت ہے۔ سم جی م سی اور سی سی ت کے عالوہ‘ ان کی رشتہ داری ں بھی رہی ہیں۔ یہ ں تک کہ برصغیر کے یودھ ‘ ایرانی فوج میں ش مل رہے ہیں‘ جس سے ب ہمی اعتم د ک پہ و‘ واضح طور پر س منے آت ہے۔ ع می ادبی س نجھوں کو بھی کسی سطع پر نظر انداز نہیں کی ج سکت ۔ انگریزی ت ی سے پہ ے‘ درس گ ہوں میں ف رسی ک چرچ تھ ۔ پڑھ ئی ک آغ ز ہی س دی شیرازی کی‘ گ ست ن اور بوست ن سے ہوت تھ ۔ ن صرف ف ری کت ک مق می زب نوں میں ترجمہ ہوا‘ ب کہ یہ ں کے مق می اہل ع حضرات نے‘ ق بل قدر کت ف ری زب ن میں تصنیف کیں۔ ب ض کت کو بے حد پذیرائ ح صل ہوئ اور انھیں سند ک درجہ ح صل رہ ۔ ان کت کے مق می زب نوں میں تراج ہوئے۔ کچھ تراج ‘ آج بھی کئ دینی مدارس کے کورس میں داخل ہیں۔ اس حوالہ سے عم ی ت واسطے کی براہ راست صورت س منے آتی ہے۔ 33
34
یہ پہ و‘ ف رس سے ت ک واضح ثبوت ہے۔ ب ت یہ ں تک ہی محدود نہیں ف رسی کی آوازیں اور ال ظ‘ کسی ن کسی صورت میں‘ آج بھی مق می زب نوں میں داخل ہیں۔ اس امر ک قدرے ت صی ی ج ئزہ‘ میں اپنے مضمون ‘ف رسی کے پ کست نی زب نوں پر اثرات‘ میں پیش کر چک ہوں۔ گورنمنٹ اسالمیہ ک لج قصور‘ پ کست ن‘ ک بھی ف رسی سے گہرا رشتہ رہ ہے۔ یہ ں ف رسی ن صرف تدریسی مضمون رہ ہے ب کہ اس ک لج سے مت اہل ق نے بھی بس ط بھر اپن کردار ادا کی ہے۔ جس کی ت صیل درج کر رہ ہوں۔ ہو سکت ہے‘ کسی ن کسی سطع پر‘ اہل تحقی اور اہل ذو کے ک کی نک ے۔ میں یہ ں تالش کے ب د میسر آنے والی م وم ت درج کر رہ ہوں ہو سکت ہے‘ کوئی ک میری کوشش کے دائرہ میں نہ آ سک ہو۔ اسے میری کوشش کی ک کوسی نہ سمجھ ج ئے ب کہ وقت کی دھول نے بہت سے نقوش کو غ ئ کر دی ہے۔ کسی دوسرے محق کی سنجیدہ کوشش سے ممکن ہے‘ وہ ک بھی منظر ع پر آسکے گ پروفیسر غال رب نی عزیز ک لج کے پہ ے پرنسپل تھے۔ وہ 34
35
عربی‘ ف رسی‘ اردو اور انگریزی زب نوں پر دسترس رکھتے تھے۔ انھوں نے دیوان غنیمت کنج ہی‘ مثنوی غنیمت کنج ہی‘ دیوان واقف بٹ لوی‘ دیوان دلش د پسروری‘ ک ی ت آفرین ج د اول اور قص ئد آفرین کی تصیح وترتی ک ک انج دی ۔ آخری کت کے عالوہ تم کت ش ئع ہوئیں۔ مزید براں انھوں نے‘ غنیمت کنج ہی سے مت ‘ ک غنیمت کی ش عری - غنیمت کی ش عری ک ایک پہ و - غنیمت شک یت روزگ ر -
-
-
احمد ی ر خ ں مجبور اردو پنج بی اور ف رسی کے ش عر تھے۔ انھوں نے عمر خی کی رب عی ت ک چھے مصرعی‘ پنج بی ترجمہ بھی کی ۔ تین رب عی ت ک اردو میں ترجمہ کی جو ای فل کے مق لہ ‘ب ب مجبور شخصیت فن اور ش عری‘ مم وکہ عالمہ اقب ل اوپن یونیورسٹی‘ اسال آب د میں موجود ہے۔ مقصود حسنی ک لج ہذا میں اردو کے است د رہے ہیں۔ میں ان کی ‘کت ش ری ت خی ‘ ش ئع ہوئی۔ اس کت میں 35
36
عمر خی ۔۔۔۔۔ سوانح و شخصیت اور اس ک عہد رب عی ت خی ک تنقیدی و تشریحی مط ل ہ رب عی ت خی کے ش ری مح سن عمر خی کے نظری ت و اعتق دات عمر خی ک ف س ہ وجود عمر خی سے مت مواد کے عالوہ چوراسی رب عی ت خی ک سہ مصرعی ترجمہ بھی پیش کی گی ۔ کت میں ڈاکٹر عبدالقوی ضی ‘ ڈاکٹر آغ سہیل‘ ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی‘ ڈاکٹر حسرت ک سگنجوی‘ ڈاکٹر اس ث ق ‘ ڈاکٹر اختر ع ی‘ ڈاکٹر وف راشدی‘ ڈاکٹر ص بر آف قی‘ ڈاکٹر منیرالدین احمد‘ پروفیسر ک ی ضی ‘ پروفیسر ر نواز م ءل‘ پرفیسر اکرا ہوشی رپوری‘ پروفیسر امجد ع ی ش کر‘ پروفیسر حسین سحر‘ بروفیسر عط الرحمن‘ ڈاکٹر رشید امجد‘ ڈاکٹر محمد امیں‘ ع ی دیپک قزلب ش‘ سید نذیر حسین ف ضل شرقی ت کی آرا ش مل ہیں۔ مقصود حسنی نے قرتہ ال ین ط ہرہ کی ف رسی غزلوں ک اردو اور پنج بی میں ترجمہ کی ۔ مزید براں می ں محمد 36
37
بخش کی پنج بی مثنوی ‘قصہ س ر ال ش ‘ کے ف رسی حواشی کو جمع کی ۔ ک لج میگزین االد میں پروفیسر منش س یمی کے دو مضمون ب نوان امیر خسرو کی غزل گوئ - ب دہءح فظ - ش ئع ہوئے۔ دو مضمون پروفیسر اکرا ہوشی ری کے‘ درج ذیل عنوان ت کے تحت ش ئع ہوئے۔ شیخ سدی شرازی -
-
شیخ سدی شرازی -
-
ان مض مین کے عالوہ س ت مخت ف موضوع ت پر االد میں مض مین اش عت پذیر ہوئے پ کست ن و ف رسی زب ن فی ض احمد -
-
امیر خسرو کی تص نیف کی ت ریخی حیثیت قمرالح - - 37
38
پروین اعتص می پروفیسر وحیدہ شیخ - ح فظ شیرازی ارشد شیخ -
-
-
موالن رو اور ان کی ت ی ت شمشیر خ ں -
-
-
ف رسی میں مرزا غ ل ک مق محمد عب س انج ن - - پنج میں ح فظ شیرازی ک مق د! قصوری ڈاکٹر ع رف - نوش ہی - ڈاکٹر ع رف نوش ہی اسالمیہ ک لج قصور کے سٹ ف میں سے نہیں تھے۔ االد کو یہ اعزاز ح صل رہ ہے‘ کہ اس کے میگزین االد میں‘ مخت ف موضوع ت پر‘ مش ہیر کی تحریریں ش ئع ہوتی رہی ہیں۔ فقط ایک ادارے میں ف رسی زب ن اد پر م قول ک وش ہ فکر اش عت پذیر ہوئیں۔ برصغیر میں صد ہ ادارے ہیں‘ وہ ں ف رسی کے حوالہ سے مواد ش ئع ہوا ہو گ ۔ اس ک ‘ اس ادارے کی مث ل سے ب خوبی اندازہ لگ ی ج سکت ہے۔ ت ہ ب ور رہن چ ہیے‘ کہ یہ مض ف تی ت یمی ادارے‘ مراکز کے اداروں سے‘ کسی طرح پیچھے نہیں رہے۔ 38
39
االد آور اقب ل فہمی ایک شخص کی بہتر ک رگزاری‘ ایک کنبہ ی قبی ہ کی ‘ پورے عالقہ کی شہرت ک سب بنتی ہے۔ مت قہ عہد تک موقوف نہیں‘ آتی نس یں بھی اس پر فخر محسوس کرتی ہیں۔ لوگ کسی ن کسی حوالہ سے‘ اس سے اپنے ت ک جواز تالشتے ہیں۔ ت نہ نک نے کی صورت میں؛ ہ عالقہ‘ ہ زب ن ی ہ وطن ہونے ک س بقہ کسی سطع پر نظر انداز نہیں کرتے۔ اس میں سرفرازی ہی نہیں‘ شن خت بھی میسر آتی ہے اور یہ کوئ ایسی م مولی ب ت بھی نہیں۔ اقب ل شر و غر میں ب ند اور جدا فکری حوالہ سے شہرا رکھت ہے۔ اس کی فکر و زب ں پر ہزاروں ص ح ت تحریر ہو چکے ہیں۔ ج م ت میں اقب لی ت سے مت ش بہ ج ت ق ء ہو چکے ہیں۔ محقیقن اقب ل پر تحقیقی ک کرکے ڈگری ں ح صل کر رہے ہیں۔ انجمن اسالمیہ قصور کے ایک اجالس میں اقب ل تشریف ال چکے ہیں اور یہ انجمن کے لیے بڑے اعزاز کی ب ت تھی۔ اسالمیہ ک لج قصور اور اسالمیہ ہ ئ اسکول قصور‘ انجمن 39
40
سے مت رہے ہیں‘ المح لہ یہ ب ت‘ ہر دو اداروں کےلیے بھی‘ اعزاز کی ب ت ہے۔ اسالمیہ ک لج قصور کو یہ بھی فخر ح صل ہے‘ کہ اس نے اپنے پرچے االد کے ذری ے‘ اقب ل سےمت مض مین ش ءع کیے ہیں۔ یہ اطراف میں بڑے اعزاز اور فخر کی ب ت ہے۔ ک لج کے موجودہ سربراہ پروفیسر راؤ اختر ع ی‘ اقب الت میں خصوصی توجہ رکھتے ہیں۔ وہ اس ذیل میں مخت ف نوعیت کےکے پروگرا کراتے رہتے ہیں۔ شم رہ لیے‘ ان کی ہدایت پر‘ راق نے ایک تحریر پیش کی ہے۔ االد میں اقب ل پر مواد تو چھپ ہی ہے‘ ڈاکٹر سید محمد عبدهللا‘ ڈآکٹر نصیر احمد ن صر‘ ڈاکتر عبدالسال خورشید‘ ڈاکٹر تبس ک شمیری‘ داکٹر غال شبیر ران ‘ ارش د احمد حق نی‘ عشرت رحم نی‘ شریف کنج ہی ایسے ل ظ شن س لوگوں کی اقب ل کے حوالہ سے ک وش ہ ‘ کی اش عت ک بھی االد کو اعزاز ح صل ہے۔ ان کے انمول ل ظ‘ یقین حوالہ ک درجہ رکھتے ہیں۔ اگ ے ص ح ت میں‘ االد میں اقب ل پر ش ءع ہونے والی تحریروں کی ت صیل پیش کی گئ ہے۔ 40
41
عالمہ سر محمد اقب ل -فی ض احمد - اقب ل ک ف س ہء خودی -شوکت ع ی - ست روں سے آگے -م راج الدین احمد - اقب ل ک مرد ک مل -ای مبشر احمد - اقب ل اور فطرت -محبت ع ی - فکر اقب ل اور عورت -ش کر انج -
-
اقب ل اور مس ہءخودی -شیخ محمود احمد - عالمہ اقب ل کے حضور ح ضری کے چند مواقع -ڈاکٹر سید عبدهللا - اقب ل ک ف س ہ عقل و عش -خورشید خواجہ - اقب ل اور مس ہءجبروقدر -سمیہ اشرف گورا - اقب ل ک ف سفءخودی -ح مد نواز - اقب ل اور م شی ت -محمد ش یع - اقب ل ک تصور ش ہین -رضیہ ران -
41
42
اقب ل اور نظریہء م وکیت و اشتراکیت -محمد ح مد نواز - اقب ل اور فنون لطی ہ -محمد اکرا ہوشی رپوری - اقب ل دور ح ضر ک عظی م کر -رض هللا ط ل
-
اقب ل کے صوفی نہ تصورات -محمد اکرا ہوشی رپوری - عالمہ اقب ل اور محمد ع ی جوہر -ڈاکٹر سید محمد عبدهللا - فرد اور م ت اقب ل کی نظر میں -ڈاکٹر نصیر احمد ن صر - زم نہ ب تو نہ س ز و تو بہ زم نہ ستیز -ش ی الرحمن ہ شمی - مس قومیت اور نظریہءپ کست ن -ڈااکٹر عبدالسال خورشید - اقب ل اور قومی ثق فت -ڈاکٹر تبس ک شمیری -
42
43
اقب ل اور قومی تہذی ک تح ظ -ارش د احمد حق نی - -
اقب ل اور تصور آزادی -عشرت رحم نی - اقب ل ک ف س ہءت ی -عبدالغ ر نظمی - اقب ل اور پنج
-شریف کنج ہی -
-
اقب ل کی فکری تشکیل اور موالن رو -اختر ع ی میرٹھی -
اقب ل ک نظرءسی ست -محمد جہ نگیر - اقب ل ک تصور اقتص دی ت -حنیف اس -
-
اقب ل اور عقل وعش ع الدین غ زی -
-
عالمہ اقب ل ایک اسالمی ش عر -محمد یسین -
-
اقب ل ت میر نو ک ع مبردار -صغری انص ری -
-
اقب ل کے م شی و ق نونی تصورات -اسم ء جبین - اقب ل ایک نظر میں -ط ہرہ اکرا -
43
44
-
اقب ل اور نظریہء خودی -ن ی محمود - -
حکی االمت ک مشن -محمود احمد -
اقب ل م صرین کی نظر میں -اکرا ہوشی رپوری - عالمہ اقب ل اور کردار س زی -عبدالزا انص ری - -
اقب ل اور ف ہءخودی -شوکت ع ی -
فکر اقب ل میں یقین کی اہمیت -ڈاکٹر غال شبر ران - -
اقب ل اور االد -ڈاکٹر عط لرحمن میو - اقب ل اور آج ک نوجوان -راشد مقصود اقب ل قومی ش عر -جنیدالرحمن -
-
44
45
گورنمنٹ اسالمیہ ک لج قصور کی ع می و ادبی بس ط شخص ابتدا سے م تبر اور محتر رہ ہے۔ اس کے حوالہ سے امرجہ اور امرجہ سے مت ق ت کی پہچ ن بنتی ہے۔ گوی اشی ء کی آن ب ن اور ش ن ی بدن می شخص کے حوالہ سے س منے آتی ہے۔ ج شخص کو ث نوی درجہ دے دی ج ت ہے تو س کچھ غ رت ہو کر رہ ج ت ہے۔ جہ ں شخص کو زندگی کی پہ ی سیڑھی سمجھ ج ت ہے وہ ں حرکت کسی لمحے خت نہیں ہوتی۔ حرکت زندگی کو کم الت سے سرفراز کرتی ہے۔ آتی نس وں کے لیے مزید کی رہیں کھولتی اور چھوڑتی چ ی ج تی ہے۔ پ کست ن میں بہت سے اع ی ت یمی ادارے موجود ہیں اور ان ک پ کست ن کی ‘ دنی میں ن اور پہچ ن بے۔ وہ ں سے ت ی مکمل کرنے والے بڑے فخر سے ابنے ت ی اداروں ک ذکر کرتے ہیں۔ اپنے ن ک حصہ بن لیتے ہیں۔ یہ س چونے گ رے سے بنی عم رت ک کرشمہ نہیں ب کہ ان میں موجود ص حب ن ع ودانش ک نتیجہ ہے۔ جی سی یو ن کے ادارے کئ ایک ہیں لیکن الہور ہی کو خصوص ک 45
46
درجہ کیوں ح صل ہے۔ وہ اس لیے کہ وہ ں بڑے نہیں‘ بہت بڑے دم غوں نے خدم ت انج دیں۔ انہیں کس سطع کے م لی فوائد م ے ی ن م ے‘ اس م م ے کو ایک طرف رکھیے ہ ں ان کے سب اس ادارے کو ن مق عزت اور شہرت دستی ہوئی۔ نس یں ی د رکھیں گی کہ یہ ں موجودہ عہد کے حوالہ سے اس ادارے کو ڈاکٹر تبس ک شمیری اور ڈاکڑ س دت س ید جیسے لوگوں کی خدم ت دستی رہیں اور یہ کوئی م مولی ب ت نہیں کہ یہ صوفی تبس ‘ قیو نظر‘ پطرس بخ ری‘ ڈاکٹر اقب ل‘ ڈاکٹر سید م ین الرحمن‘ سہیل احمد خ ں وغیرہ جیسے لوگوں ک ادارہ رہ ہے۔ ایف سی ک لج ڈاکٹر آغ سہیل‘ عقیل روبی‘ جیالنی ک مران‘ اختر شم ر وغیرہ جیسے لوگوں کو کیونکر فراموش کر سکے گ ۔ اورنٹیل ک لج ڈاکٹر مولوی محمد ش یح ڈاکٹر سید محمد عبدهللا ح فظ شیرانی جیسے لوگوں کے حوالہ سے شہرہ رکھت ہے۔ عرض کرنے ک مط یہ ہے کہ اشخ ص ادارے بن تے اور انہیں ب ندیوں سے سرفراز کرتے ہیں۔ اسی طرح ادارےاشخ ص کے جوہر دری فت کرتے ہیں‘ انھیں نکھ رتے ہیں اور پھر یہی اشخ ص اپنے م شرے اور بنی 46
47
نوع انس ن کے لیے م ید ترین خدم ت انج دیتے ہیں۔ یہ اشخ ص اپنے ادارے اور عالقے کی وجہء شہرت بنتے ہیں۔ ان کے حوالہ سے ادارے اور عالقے کی نیک ن می میں ہرچند اض فہ ہوت ہے۔ دور دراز اور کونے کھدرے کے اداروں میں بھی بہت کچھ ہوت آی ہے لیکن مرکز سے دوری کے سب منہ پر نہیں چڑھتے ح النکہ ان اداروں نے مرکز سے کہیں بڑھ کر ی ان کے قری قری ک کی ہوت ہے۔ مرکز کے اداروں میں ان کے ن کی وجہ سے‘ س ری کری منتقل ہو ج تی ہے جبکہ مق می اداروں میں واجبی نمبر ح صل کرنے والے ط ب ء داخ ہ لیتے ہیں۔ اس ست ظری ی جسے المیہ بھی کہ ج سکت ہے‘ کے ب وجود یہ ادارے بڑے اداروں سے کسی طرح پیچھے نہیں ہوتے۔ سردست میرا یہ موضوع نہیں لہذا اسے التوا میں رکھت ہوں۔ میں یہ ں کورنمنٹ اسالمیہ ک لج قصور کے حوالہ سے چند م وم ت شیءر کرنے کی جس رت کر رہ ہوں۔ اس ادارے کی اکیس ب ر قی دت بدلی جس کی ت صیل کچھ :یوں ہے پروفیسر غال رب نی عزیز اکتوبر
ت
اگست47
48
پروفیسر وق ر احمد خ ں اگست
-اگست
پروفیسر ارش د احمد حق نی
ت
-اگست
ت
پروفیسر خواجہ نذیر احمد ۔ -اپریل پروفیسر ارش د احمد حق نی اکتوبرپروفیسر نذیر احمد ح مد
ت
-فروری
پروفیسر الہ ی ر خ ں
ت ت
جون
۔ مئ
پروفیسر حسین حیدر
مئ
ت
۔ مئ
پروفیسر الہ ی ر خ ں
۔ مئ
ت
۔ اپریل
ڈاکٹر ص د ندی
۔ اپریل
پروفیسر الہ ی ر خ ں
۔ نومبر
ت
فروری ت
اکتوبر۔ جون
-اپریل
۔ نومبر ت
۔ مئ 48
49
۔ مئ
ت
ڈاکٹر آصف اقب ل خ ں
پروفیسر الہ ی ر خ ں ۔ نومبر
ت
پروفیسر چوہدری محمد اس جوالئ ڈاکٹر اختر ع ی ڈاکٹر محمد رفی
۔ نومبر ۔ دسمبر
۔جنوری ت
جوالئ ۔ اگست
پروفیسر چوہدری محمد اس پروفیسر فضل عظی ش کر ڈاکٹر محمد ذوال ق ر ع ی ران
ت اگست
ت
م رچ
اپریل
ت
۔ جون
۔ جون
ت
۔ نومبر
۔ نومبر
پروفیسر امجد ع ی ش کر
۔ مئی
پروفیسر راؤ اختر ع ی
۔ جوالئی
ت ت
۔ مئ
۔ جوالئی ت حل 49
50
انجمن اسالمیہ قصور کےعہد میں عالمہ اقب ل اور فیض احمدفیض جیسے لوگ انجمن کی رون بڑھ تے رہے۔ قی ک لج کے ب د بھی ن موراہل ق و دانش تشریف التے رہے۔ مٹال عالمہ عالؤ الدین صدیقی‘ صوفی تبس ‘ ڈاکٹر سید محمد عبدهللا‘ پروفیسر سید ع بد ع ی ع بد‘ اش احمد‘ ب نو قدسیہ‘ ڈاکٹر عب دت بری وی‘ پیر فضل ش ہ گجراتی‘ خ یل آتش‘ ڈاکٹر سید شبیہ الحسن‘ ڈاکٹر گوہر نوش ہی‘ ڈاکٹر وحید قریشی‘ میرزا ادی پروفیسر حمید عسکری‘ ڈاکٹر غال حسین ذوال ق ر‘ پرفیسر سید وق ر عظی ‘ خ لد بزمی‘ مس ود م تی‘ محمد ع ی ظہوری‘ احمد خ ن ب نی تحریک ن ذ اردو پ کست ن‘ رضی ع بدی‘ احمد ندی ق سمی‘ ح یظ ج لندھری‘ موالن اظہر شحبہء ف رسی گورنمنٹ ک لج الہور‘ احس ن دانش‘ ڈاکٹر ظہور احمد اظہر‘ ڈاکٹر آفت نقوی‘ عبدالجب ر ش کر‘ عبدالحمید اظہر‘ ڈاکٹر راشد لطیف ست رہء امتی ز‘ ڈاکٹر ران ادریس‘ ڈاکٹر ان الرحمن‘ ڈاکٹر ارشد ج وید‘ ڈاکٹر ن صر ران ‘ ڈاکٹر عبدهللا جی سی یو الہور‘ ڈاکٹر محمد رشید چوہدری‘ پوفیسر مست نیر ع وی وغیرہ 50
51
گورنمنٹ اسالمیہ ک لج قصور میں بہت سے اہل ق کو ک کرنے ک موقع میسر آی ۔ مثال احس ن الہی ن وک اردو پنج بی میں ش عری کرتے تھے۔ نثر نگ ری بھی کرتے تھے۔ احمد ی ر خ ن مجبور ف رسی اردو اور پنج بی کے ش عر تھے۔ ان پر ای فل سطع ک مق لہ ہو جک ہے۔ ڈاکٹر اختر شم ر ک ل نگ ر صح فی ش عر‘ وہ ڈاکٹر عالمہ بیدل حیدری کے سند ی فتہ ش گرد ہیں۔ ان کے ش ری مجموعے روشنی کے پھول‘ کسی کی آنکھ ہوہے ہ ‘ جیون تیرے ن نے بڑا ن کم ی ۔ ہ ئیکو نگ ری میں م تبر ن کے ح مل ہیں۔ ان دنوں ایف سی ک لج الہور کے ش بہ اردو کے چیرمین ہیں۔ ارش د احمد حق نی م روف ک ل نگ ر اور وزیر مم کت تھے۔ ڈاکٹر ارشد ش ہد ش بہءپنج بی سے مت ہیں۔ ان ک ای فل ک مق لہ مقصود حسنی کی پنج بی ش عری ک تحقیقی وتنقیدی مط ل ہ تھ جبکہ پی ایچ ڈی ک مق لہ وارث ش ہ کے مح ورات سے مت ہے۔ پرمغز اور پڑھنے الئ مق لہ 51
52
ہے۔ اشتی احمد کئ کت کے مولف ہیں۔ مثال عالمت کے مب حث‘ ک چر۔ منتخ تنقیدی مض من‘ جدیدیت ک تنقیدی تن ظر‘ محمد حسن عسکری عہد آفرین نق د وغیرہ پرفیسر اکرا ہوشی ر پوری اردو پنج بی کے ش عر‘ افس نہ نگ ر‘ ڈرامہ نگ ر اور نثر نگ ر تھے۔ ان کے ک پر بی اے آنرز سطع ک تحقیقی مق لہ ہو چک ہے۔ ق ضی اکرا بشیراخب رات سے بطور ک ل نگ ر منس ک رہے ہیں۔ ان کے ک ل آج بھی چھپتے ہیں۔ پروفیسر سید اظہر ک ظمی خوش سخن ش عر تھے۔ ان کے کال ک ایک مجموعہ بھی ش ئع ہوا۔ امجد ع ی ش کر بہت اچھے نثر نگ ر اور مترج ہیں۔ انہوں نے ا ردو مجموعہء کال اوٹ سے ک پنج بی ترجمہ کی ۔ ک ل بھی لکھتے ہیں۔ ک لج کے پرنسپل رہے ہیں۔ ان کی پرنسپل شپ ک پریڈ ریک رڈ ک درجہ رکھت ہے۔ پروفیسر جیک پ ل‘ عالمہ پ ل کے ص حبزادے ہیں۔عالمہ 52
53
مرحو نے ب ئبل مقدس ک اردو میں ترجمہ کی تھ اور کئی زب نوں پر عبور رکھتے تھے۔ پروفیسر جیک پ ل ری ستی ایواڑ ی فتہ ہیں۔ ان کی ع می اور ادبی خدم ت ک دائرہ بڑا وسیع ہے۔ ان کی تحریریں م روف جراءد میں ش ئع ہو چکی ہیں۔ پرفیسر خواجہ ندی اس اچھے لکھنے والوں میں ہیں۔ ابتدائی دور کے ہ ئیکو نگ ر ہیں۔ ان ک ہ ئیکو پر مشتمل مجموعہ ش ئع ہوا تھ ۔ پروفیسر راشد اقب ل جوان ہیں۔ ش بہءاردو سے وابستہ ہیں۔ بال ک تنقیدی ذو پ ی ہے۔ ان کئ تحریریں مخت ف رس ئل میں ش ءع ہو چکی ہیں۔ ان کے ای اے اور ای فل کے تحقیقی مق لے س دت حسن منٹو پر تھے۔ مطبوعہ مض مین کچھ یہ ہیں غال عب س متوسط طبقے ک افس نہ نگ ر کت بی س سہ قندیل اپریل جون منٹو بحیثیت سی سی افس نہ نگ ر مج ہ سخن ش بہءاردو اورینٹل ک لج جم ہ پنج الہور 53
54
نی ق نون کے انگریزی تراج مج ہ سخن ش بہءاردو اورینٹل ک لج جم ہ پنج الہور منٹو کے افس نے مترج ح مد جالل مج ہ شر اورینٹل ک لج جم ہ پنج الہور پری چند کی راجپوتیت مج ہ سخن ش بہءاردو اورینٹل ک لج جم ہ پنج الہور بجوک کی موت افس نہ مج ہ سخن ش بہءاردو اورینٹل ک لج جم ہ پنج الہور ان کے کئی ایک مض مین غیر مطبوعہ ہیں۔ پروفیسر راؤ اختر ع ی ک لج ہذا کے سربراہ ہیں۔ بنی دی طور پر انگریزی کے است د ہیں۔ زبردست منتظ ہیں۔ مذہبی ع سے خو خو آگ ہ ہیں۔ ط ب ء میں تقریری فن پیدا کرنے کے لیے ہمہ وقت کوش ں رہتے ہیں۔ م رننگ اسمب ی ان ک ایس اقدا ہے جو ت دیر ی د رکھ ج ئے گ ۔ ان کے ع واد سے مت انٹرویوز ان کی اد دوستی اور اد پروری ک منہ بولت ثبوت ہیں۔ پروفیسر راؤ ندی احس ن بنی دی طور پر انگریزی کے 54
55
است د ہیں لیکن اردو سے محبت رکھتے ہیں۔ خوش فکر ش عر ہیں۔ ان کی غزلیں مخت ف رس ئل میں ش ئع ہوتی رہتی ہیں۔ پروفیسر زاہد حسین اس وقت سینئراس تذہ میں ہیں۔ لکھنے پڑھنے ک شروع سے ذو پ ی ہے۔ ان کی کت میں کے عمرانی افک ر‘ ع لمی واق یت اسال ع مہ اسالمی دنی کے اہ شہر ‘ New world order خصوصیت ک درجہ رکھتی ہیں۔ پروفیسر سرفراز احمد م ین ک لج ہذا کے ح ضر وائس پرنسپل ہیں۔ بنی دی طور پر عربی کے است د ہیں ت ہ اخب رات سے منس ک ہونے کے سب مخت ف موضوع ت پر خ مہ فرس ئ کرتے رہے ہیں۔ پروفیسر عالمہ س ید ع بد مدینہ یونیورسٹی سے ف ضل تھے۔ اقب ل اور غ ل ان کے مط ل ہ میں رہتے تھے۔ 55
56
خطوط نویسی میں انھیں کم ل ح صل تھے۔ یہ خطوط مجھ ن چیز کو بڑے اہتم سے پڑھ کر سن تے اور پڑھنے کو بھی عط کرتے۔ ڈاکٹر شبیہ الحسن ہ شمی ک ن کسی ت رف ک محت ج نہیں۔ ان ک بطور سٹ ف ک لج سے گہرا ت رہ ہے۔ ڈاکٹر ص د جنجوعہ بنی دی طور پر پنج بی کے است د تھے لیکن اردو سے بھی گہرا ت رکھتے تھے۔ ان کی کت مقصود حسنی کی ش عری ک تنقیدی مط ل ہ حوالے ک درجہ اختی کر چکی ہے۔ پروفیسر ط ر ج وید شحبہءک مرس سے ت رکھتے ہیں۔ جوان ہیں‘ کچھ کرنے کے جذبے سے سرش ر ہیں۔ اردو سے محبت رکھتے ہیں۔ اخب ر و رس ئل میں لکھتے رہتے ہیں۔ افس نہ اور آزاد نظ خصوصی میدان ہے۔ ڈاکٹر ظہور احمد چوہدری اد ‘ موسیقی اور عصری م مالت میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ موسیقی کے آالت ک ش ندار ذخیرہ سمبھ لے ہوئے ہیں۔ کئ کت کے مصنف ہیں ت ہ جہ ن فن اپن جوا نہیں رکھتی۔ روزن مہ مس وات اور روزن مہ پ کست ن میں ان کے فکر انگیز ک ل ش ءع 56
57
ہوتے رہے ہیں۔ خ قت سے بھی وابستگی رہی ہے۔ پروفیسر عب س ت بش بھی عالمہ بیدل حیدری کے ش گردوں میں ہیں۔ ان کے دو ش ری مجموعے تمہید اور عش ت ب ں ان کی پرواز کو واضح کر چکے ہیں۔ پروفیسر عبدالغنی مرحو ‘ پروفیسر منور غنی کےوالد گرامی تھے۔ بڑے خوش فکر پنج بی ش عر تھے۔ انگریزی کے است د تھے۔ چینی زب ن سے بھی گہری واق یت اور لگ ؤ رکھتے تھے۔ پروفیسر عبدالغ ور ظ ر مرحو اسال کے شیدائ تھے۔ انھوں نے انجمن فدی ن اسال ق ئ کی تھی۔ خبر نویسی میں اپن جوا نہیں رکھتے تھے۔ ان کے ق سے سیکڑوں نہیں‘ ہزاروں خبریں نکل کر م ک کے قومی اخب رات کی زینت بنیں۔ ڈاکٹر عط ء الرحمن میو قصور کی انجمنوں کے حوالہ سے اتھ رٹی خی ل کیے ج تے ہیں۔ ان کے ای فل اور پی ایچ ڈی کے مق لہ ج ت بھی قصور کی انجمنوں کے مت ہیں۔ ص ح ع اور ب ریک بین ہیں۔ ان کی ک وش ہ مخت ف جرائد میں ش ئع ہوتی رہی ہیں۔ 57
58
پروفیسر ع ی حسن چوہ ن اس وقت ش بہءاردو کے صدر ہیں۔ لکھنے ک ذو بڑا قدیمی ہے۔ ان کی کت میں سے انمول ت میح ت‘ کہ وت اور کہ نی‘ فن اد وعروض‘ حرف ہی حرف‘ چوہ ن اردو امال‘ اردو قواعد وانش ء‘ مض مین اردو ق بل ذکر ہیں۔ آئینہء اردو لغت کے مرتبین میں سے بھی ہیں۔ ان ک ای فل ک مق لہ خواجہ درد کی ت میح ت پر تھ ۔ سرمد اور منصور پر ق بل تحسین ک پڑھنے کو دی ہے۔ پروفیسر غال رب نی عزیز ک لج کے پہ ے پرنسپل اورعربی ف رسی کے زبردست ع ل ف ضل تھے۔ ان کی زندگی ع و اد کی خدمت میں گزری۔ انت لیس کت کے مصنف تھے۔ عالوہ ازیں نو کت کی ترتی وتصحیح کی۔ ایک کت ان کے مض مین کے مجموعے پر مشتمل ہے۔ ایک کت عربی سے اردو اور ایک انگریزی سے اردو ترجمے پر مشتمل ہے۔ پندرہ نص بی مواد سے مت ہیں۔ غیر مطبوعہ کت میں چ ر کت عربی‘ دو ف رسی اور دو انگریزی ترجمہ سے مت ہیں۔ تین دیگر کت ہیں جبکہ چ ر کت نص بی مواد کے مت ہیں۔ 58
59
ڈاکٹر محمد عبدهللا ق ضی ڈبل پی ایچ ڈی ہیں۔ ان ک تحقیقی ک مخت ف جہتوں پر مشتمل ہے۔ شرح بخ ری اور سیرت پر ان ک ک ان کی محنت اور خ وص ک منہ بولت ثبوت ہے۔ مقصود حسنی کی دو کت کے مرت ہیں اور یہ کت نیٹ پر دستی ہیں۔ مقصود حسنی ک بھی ک لج ہذا سے رشتہ رہ ہے۔ مقصود حسنی نے اپنی حد تک اردو سے وف داری ک رشتہ نبھ نے کی س ی کی ہے۔ ان کے ک پر دو ای فل کے مق لے ہو چکے ہیں‘ دو ہو رہے ہیں۔ ایک مق لہ ای اے سطع ک ہو رہ ہے۔ قصور کے حوالہ سے دو ای فل کے مق لوں میں شراکت دار ہیں۔ ڈاکٹر عالمہ بیدل حیدری پر ہونے والے مق لے میں بھی اپن حصہ رکھتے ہیں۔ پروفیسر نی مت ع ی ش بہءانگریزی سے مت ہیں۔ انگریزی اردو اور پنج بی کے خوش خی ل وب ند فکر ش عر ہیں۔ اردو میں افس نہ بھی لکھتے ہیں۔ بال کے ذہین فطین است د ہیں۔ پنج بی صنف ک فی میں ان رادیت کے م لک ہیں۔ ان کے ای فل کے تحقیقی مق لے ک عنوان 59
60
A critical study of maqsood hasni's english poetry تھ ۔ یقین سے کہ ج سکت ہے کہ آتے وقتوں میں ک فی ان کی وجہءپہچ ن ٹھہرے گی۔ پروفیسر یونس حسن ش بہء اردو سے مت ہیں۔ ان ک ای فل ک مق لہ قرتہ ال ین حیدر کے ن ول چ ندنی بیگ سے مت تھ ۔ ان کے ڈیڑھ سو سے زی دہ تحقیقی و تنقیدی مض مین اور مق لے م ک کے م روف رس ئل و جراءد میں ش ئع ہو چکے ہیں۔ اسالمیہ ک لج قصور کے اس تذہ حصول ع کے حوالہ سے دیگر ت یمی ادارے سے پیچھے نہیں ہیں۔ قدی میں ڈاکٹر ص د ندی اور ڈاکٹر آصف اقب ل نے خدم ت انج دیں۔ ڈاکٹر ص د جنجوعہ بھی ع می وادبی خدمت انج دیتے رہے۔ تینوں ص حب ن پی ایچ ڈی تھے۔ پروفیسر امجد ع ی ش کر پہ ے بیج کے ای فل تھے۔ وہ یہ ں بطور پرنسپل ک کرتے رہے۔ ای فل کے دوسرے بیج سے مقصود حسنی اور ڈاکٹر عط ءالرحمن ت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر عط ءالرحمن نے اسی ک لج میں رہتے ہوئے پی ایچ ڈی کی ڈگری ح صل کی۔ ڈاکٹر آف اسی ک لج سے چ ءنہ پی ایچ 60
61
ڈی کرنے گیے۔ ڈاکٹر عبدهللا ق ضی نے یہ ں رہتے ہوءے پی ایچ ڈی لس نی ت کی ڈگری ح صل کی۔ ڈاکٹر ارشد نے اسی ک لج میں رہتے ہوئے ای فل اور پی ایچ کی ڈگری ح صل کی۔ ڈاکٹر عمران خ لد اسی ک لج سے پی ایچ ڈی کرنے گیے۔ راشد اقب ل‘ شرافت ع ی‘ سرور گوہر‘ یونس حسن‘ محمد ریح ن حمید‘ ط ت رشید‘ وق ص حسن‘ ع ی حسن چوہ ن‘ غال سرور ق سمی‘ محمد س ی اختر‘منیر احمد‘ محمد رفی س گر‘ نی مت ع ی وغیرہ ای فل کی تحقیقی ڈگری ں ح صل کر چکے ہیں۔ اظہر ع ی اور ک شف جوی ع مر رشید اس ذیل میں مصروف ک ر ہیں۔ محمد ط ہر‘ محمد ج ر‘ط ہرالرحمن‘ غال مصط ے پی ایچ ڈی کر چکے ہیں۔ پی ایچ کے لیے درج ذیل اس تذہ ہمہ تن مصروف ہیں۔ خ یل احمد‘ عزیری ج وید‘ ع ی حسن چوہ ن‘ یونس حسن نی مت ع ی‘ غال سرور ق سمی‘ سرور گوہر‘ ری ض محبو ‘ بدر نواز‘ ن صر زم ن ذیش ن افض وغیرہ 61
62
میں نے یہ ت صیالت محض بطور نمونہ پیش کی ہیں جن میں اسی قدر ی اس سے زی دہ اض فے کی گنج ءش موجود ہے۔ ان ت صیالت سے بخوبی اندازہ لگ ی ج سکت ہے کہ گورنمنٹ اسالمیہ ک م ضی ہی نہیں‘ ح ل بھی درخشندہ و ت بندہ ہے اور اسے پنج کے بہترین ک لجز میں شم ر کرن مبنی برح و انص ف ہو گ ۔
62
63
فرو و ترویج اردو کے س س ہ میں اسالمیہ ک لج قصور ک کردار انجمن اسالمیہ ک لج قصور کے زیر اہتم و انتظ میں اسالمیہ ک لج قصور ک قی عمل میں آی ۔ پروفیسر غال رب نی عزیز ک لج کے پہ ے پرنسپل مقرر ہوئے۔ موصوف اردو انگریزی عربی اور ف رسی پر دسترس رکھتے تھے جبکہ ک لج میں م راج الدین اور احمد ی ر خ ں ایسی شخصی ت بھی خدمت انج دے رہی تھیں۔ ک لج میں ع و کے فرو کے لیے مخت ف انجمن ہ ق ئ کی گئیں۔ ان میں پرشین سوس ئٹی عزیز اور مجبور کے حوالہ سے ف ل تھی۔ ک لج میں اس حوالہ سے خوش کن م حول پروان چڑھ رہ تھ ۔ مخت ف تقریب ت ک ک لج اور نجی سطع پر اہتم ہوت رہت تھ لیکن ابھی تک کوئ اردو سوس ئٹی ق ئ نہ ہوئی تھی۔ پرفیسر مبشر احمد کی آمد کے ب د یہ کمی بھی پوری ہو گئی۔ ان کی تحریک پر انجمن اردو ک قی عمل میں آی ۔ 63
64
میں انجمن اردو کے انتخ ہوئے۔ نور اکتوبر محمد بسمل س ل اول صدر‘ خ لد اکبر س ل دو ن ئ صدر‘ محمد اس شیخ س ل اول م تمد عمومی‘ ج وید غ ور س ل اول ن ی م تمد اور عرف ن س ل اول م تمد م لی ت منتح ہوئے جبکہ مج س منتظمہ کے لیے مظ ر احمد س ل اول‘ سید احمد س ل دو ؛ محمد اس اصالحی س ل اول منتح ہوئے۔ ای ف رو اختر س ل اول‘ خ لد پرویز س ل اول ن ظ ج سہ مقرر ہوئے۔ انجمن ک افتت ح ڈاکٹر وحید قریشی نے کی ۔ انہوں نے انجمن کے افتت حی اجالس سے خط بھی فرم ی ۔ انجمن اردو کی نگرانی پروفیسر مبشر احمد اور سرپرستی کی ذمہ داری ک لج کے پرنسپل نے قبول کی۔ میں زیرصدارت انجمن کی دوسری تقری اپریل میرزا ادی ہوئ۔ مذاکرے ک موضوع ذری ہ ت ی اور اردو تھ ۔ مذاکرے میں محمد ی مین س ل اول‘ محمد اس اصالحی س ل اول‘ محمد ش کر س ل اول‘ ح مد نواز س ل اول‘ رحمت هللا خ ں سوری س ل اول‘ محمد ف رو اختر س ل اول‘ سج د احمد س ل اول‘ ج وید غ ور س ل اول‘ مشکور ع ی س ل 64
65
اول‘ نسی رض س ل اول نے حصہ لی ۔ منص ین کے فراءض ارش د احمد حق نی‘ مسز فرخ مس ود اور احمد ی ر خ ن مجبور نے انج دیے۔ مت قہ طور پر ح مد نواز اول‘ ج وید غ ور دو ‘ محمد ی مین سو جبکہ نسی رض چہ ر قرار میں انجمن کےپ ئے۔ االد کے شم رہ عہدےداران ک گروپ فوٹو لگ ی گی ۔ عموم اعتراض کی ج ت ہے کہ اردو زب ن س ئنسی ع و و میں م مالت کے اظہ ر سے ق صر ہے۔ اسی س ل انجمن اردو کی ایک تقری ک اہتم کی گی ۔ گورنمنٹ ک لج الہور کے پروفیسر حمید عسکری نے جوہری توان ئ کے موضوع پر ڈیرھ گھنٹہ لیکچر دے کر ث بت کر دی کہ اردو زب ن س ئنسی امور کے اظہ ر کے حوالہ سے م ذور نہیں۔ ہی میں انجمن اردو کے حوالہ سے ایک اور تقری ک انتظ کی گی ۔ اس تقری میں ڈاکٹر وحید قریشی‘ ڈاکٹر غال حسین ذوال ق ر‘ سید وق ر عظی اور ڈاکٹر سید محمد عبدهللا ایسی بڑی شخصی ت نے شرکت کی۔ اس کے 65
66
عالوہ الہور سے دس مہم ن تشریف الئے۔ سید وق ر عظی نے تقری سے خط کی جبکہ ڈاکٹر سید محمد عبدهللا نے بہترین مقررین میں ان م ت تقسی کیے۔ بہترین ک رگزاری دکھ نے والوں کو اسن د دی گئیں۔ اسی ش ڈاکٹر وحید قریشی ڈاکٹر غال حسین ذوال ق ر اور ڈاکٹر سید محمد عبدهللا نے شہر قصور کی انجمن ترویج اردو ک افتت ح کی ۔ اس تقری میں قصور کے ایس ڈی ای پرویز بٹ نے بھی شرکت کی اور ح ضرین سے خط کی ۔ نئے س ل کے لیے انتخ ب ت ہوئے۔ محمد ح یظ ع وی س ل دو صدر‘ محمد ی مین س یمی س ل دو سنیر ن ئ صدر‘ محمد بالل شیخ س ل دو ن ئ صدر‘ اسدهللا غ ل س ل دو م تمد عمومی‘ محمد اکبر س ل اول م تمد‘ محمد غوث س ل دو کو م تمد م لی ت منتخ کی گی ۔ االد کے شم رہ میں انجمن اردو کے عہدیداران ک گروپ فوٹولگ ی گی ۔ مج س ع م ہ کے لیے محمد حی ت‘ عط ءالرحمن‘ محمد اس اصالحی‘ مس ود خ ں‘ فقیر حسین‘ ح مد نواز‘ منیر احمد‘ غال ق در‘ ہ رون رشید منتخ ہولے۔ خ لد 66
67
بزمی نے اردو کے ح میں ایک رب عی پیش کی جو االد میں بطور خ ص ش ئع کی گئی:کے شم رہ اردو ک رواج ع ہو گ کہ نہیں حک وطن یہ ک ہو کہ نہیں دور انگریز کی ل نت ہے انگ ش ک اس ک تم ہو گ کہ نہیں انجمن اردو کی سرگرمی ں ج ری رہیں اور ان سرگرمیوں کے حوالہ سے االد میں تص ویر ش ءع ہوتی رہیں۔ میں ک لج کے پروفیسر وق ر احمد خ ں کے دور س النہ ج سہءتقسی ان م ت کے موقع پر ڈاکٹر سید محمد عبدهللا کو مدعو کی گی ۔ اس موقع پر سید ص ح نے اردو سوس ئٹی کے قی کی تحریک دی۔ اس ذیل میں انہوں نے اس تذہ اور ط ب ء کی مشترکہ انتظ می کمیٹی کی تشکیل کی تجویز دی۔ اردو کو سرک ری زب ن ک درجہ دینے کے لیے دستخطوں کی مہ چالئ اور کہ کہ وہ دستخط انہیں الہور پنچ ئے ج ئیں۔ اس مہ ک آغ ز ارش د احمد حق نی کی نگرانی میں ہوا۔ اس مہ میں پروفیسر محمد اکرا ہوشی رپوری‘ پروفیسر ح یظ ہ شمی‘ پرفیسر منیر بخ ری‘ 67
68
پروفیسر منظور نذر‘ اکبر راہی جبکہ منیر راج اور بشیرذاکر پیش پیش تھے۔ ایک ہزار دستخطوں پر مشتمل فہرست ممت ز منگ وی کے توسط سے سید ص ح کو پنچ دی گئی۔ انجمن اردو کی سرگرمی ں م ند سی پڑ گئی تھیں۔ پروفیسر محمد اکرا ہوشی رپوری کی کوششوں اور پروفیسر وق ر احمد خ ں کے ت ون سے انجمن کو ف ل بن ی گی ۔ انجمن اردو کے انتخ ب ت ک ان ق د ہوا۔ اس میں پرویز محمود‘ منیر راج‘ ش ہد رشید‘ محمد ذکری قریشی‘ ن ی محمود‘ محمد س ی شیخ‘ منظور حسین‘ ق ضی محمد رؤف‘ محمد ادریس ش د اور سردار قیصر خ ں ش مل تھے۔ میں احمد ندیانجمن اردو کی دو تقریب ت کی تقری کے حوالہ سے ان ق سمی تشریف الئے۔ کے س تھ ش بھی من ئی گئی۔ میں انجن اردو کے زیر اہتم ایک تقری ہوئی جس کی صدارت ڈیپٹی کمشنر قصور نے کی۔ اسی س ل ایک اور 68
69
تقری من قد ہوئی جس میں اش احمد اور ب نو قدسیہ نے شرکت کی۔ اس تقری میں اش احمد کی افس نہ نگ ری پر مض مین پڑھے گیے۔ اسی س ل انجمن اردو کی اور تقری ہوئی جس میں پنج بی ش عر فضل ش ہ گجراتی کو مدعو کی گی ۔ تقری کے اختت پر سید امتی ز ع ی ت ج کے س نحہءقتل کے س س ہ میں ت زیتی قرار منظور گئی۔ اس تقری میں وق ر احمد خ ں‘ پروفیسر منش س یمی‘ پروفیسر عبدالغ ور‘ پروفیسر محمد اکرا ہوشی رپوری‘ پروفیسر عبدالغنی‘ پروفیسر الہ ی ر خ ں‘ خ یل آتش اور محمد ع ی اسی س ل انجمن کی ایک اور ظہوری بھی ش مل تھے۔ تقری میں ڈاکٹر عب دت بری وی نے شرکت کی۔ میں پرفیسر ثن ءالرحمن نے انجمن اردو کو ف ل بن ی ۔ اسی س ل انجمن اردو کے زیر اہتم ایک ش سید ع بد ع ی ع بد کے س تھ من ئ گئ۔ موسیقی ک پروگرا بھی ہوا۔ س زندوں سے سید ص ح خود اٹھ کر م ے اور ش ک راگ ایمن سن نے فرم یش کی۔ ح فظ محمد ش ع نے طب ے پر ایک ایسی دھن پیش کی کہ س حیران رہ گیے۔ 69
70
تقری کے آخر میں سید ص ح نے اپن کال سن ی ۔ جس ک :مقطع یہ تھ وقت رخصت وہ چپ رہے ع بد آنکھ میں پھی ت گی ک جل
میں انجمن اردو کی ایک تقری میں ح یظ ج لندھری مدعو میں بھی انجمن اردو کے مہم ن تھے۔ اسی طرح میں بنے اور ان کے س تھ ش من ئی گئی۔ فروری انجمن اردو کی تقری میں ڈاکٹر سید محمد عبدهللا دوسری ب ر تشریف الئے۔ بالشبہ ک لج ہذا کے لیے یہ بہت بڑے اعزاز کی ب ت تھی۔ میں انجمن اردو نے اپنی ایک تقری میں احس ن دانش کو مدعو کی ۔ تقری بھرپور رہی۔ ش را نے اپنے کال سے ح ضرین کو محظوظ کی ۔ بز اردو قصور جو عرصہ دراز سے انجمن اسالمیہ قصور 70
71
کے زیر اہتم اہل قصور کے لیے ادبی تسکین ک ذری ہ میں شیخ محمد اقب ل سودائی کی تھی۔ فروری صدارت میں بس س ہ ترویج وترقی اردو‘ انجمن کے دفتر میں اجالس ہوا۔ اجالس میں شیخ ری ض احمد اور شیخ محمد ط ہر بھی ش مل تھے۔ اجالس میں پروفیسر محمد اکرا ہوشی رپوری کو مت قہ طور پر سیکرٹری منتخ کی گی ۔ بدقسمتی سے منظور کی گئ قراردادیں س زشوں ک شک ر ہو گیں اور ترویج و ترقی اردو کے لیے کچھ نہ ہو سک ۔ میں گورنمنٹ ک لج الہور کے است د موالن اظہر انجمن اردو کے مہم ن بنے۔انہوں نے انجمن ہذا کی ک رگزاری کو سراہ ۔ میں ایک ب ر پھر پرفیسر محمد اکرا نومبر ہوشی رپوری اور پروفیسر مقصود حسنی کی کوششوں سے مج س اردو ق ئ ہوئی۔ اس میں پروفیسر عالمہ عبدالغ ور ‘ظ ر پروفیسر ع ی حسن چوہ ن پروفیسر عبدالغ ور رفیقی اور پروفیسر محمد مشت 71
72
انص ری سرگر رکن تھے۔ بدقسمتی سے یہ بھی ح الت ک شک ر ہو گئی۔ میں مقصود حسنی نے اردو سوس ئٹی کی بنی د رکھی۔ اردو سوس ئٹی کے حوالہ سے پ کست ن بھر میں ک ہوا۔ قراردادیں منظور کی گئیں۔ ع م ء کرا سے فتوی ج ت ح صل کیے گیے۔ ن ذ اردو کے لیے حک ب ال کو دخواستیں گزاری گیں۔ مضمون لکھے اور لکھوائے گیے۔ وف قی متس اور چیف جسٹس شری ت کورٹ میں م م ہ رکھ گی ۔ مقصود حسنی نے ن ذ اردو کے حوالہ سے ادارہ ع واد پ کست ن اور تحریک ن ذ اردو پ کست ن سے بڑھ چڑھ کر ت ون کی ۔ میں بز اردو ق ئ ہوئی ب ق عدہ انتخ ب ت ہوئے۔ پروفیسر عبدالغ ور ظ ر صدر‘ پروفیسر مقصود حسنی ن ء صدر‘ پروفیسر عط ءالرحمن جنرل سیکرٹری‘ پروفیسر عظی اکبر سیکرٹری م لی ت اور پروفیسر محمد رفی س گر سیکرٹری نشرواش عت منتخ ہوئے۔ بز اردو کے پندرہ روزہ 72
73
اجالس ب ق عدگی سے ہوتے۔ اراکین ن صرف ن ذ ارددو کے لیے آواز ب ند کرتے رہتے ب کہ اپنی نثری اور ش ری تخ یق ت بھی پیش کرتے۔ عالمہ عبدالغ ورظ ر اس حوالہ سے ق بل تحسین سرگرمی دکھ تے۔ اس انجمن کے اجالس ممبران کے گھروں پر ہوتے۔ بروفیسر راؤ اختر ع ی کے عہد میں م رننگ اسمب ی ک رواج پڑا۔ اس پ یٹ فور کے حوالہ سے ط ب ء کو اردو تق ریر کی طرف راغ کی گی ۔ فرو اردو کے حوالہ سے یہ اقدا ک رگز ث بت ہو رہ ہے۔ یہ عمل ت ح ل ج ری ہے۔ حوالہ ج ت ۔ االد
-
ص
۔ االد
-
ص
۔ االد
-
ص
۔ االاد
-
ص 73
74
ت
۔ االد
-
ص
۔ االد
-
ص
۔ االد
-
ص
۔ االد
-
ص
۔ االد
-
ص
راویت پروفیسر محمد اکرا ہوشی رپوری
74
75
االد اور اردو کے مش ہیر ت یمی ادارے مش ہیر کی تخ یقی تحقیقی اور تنقیدی ک وشوں سےآگہی اور ان کے حوالہ سے میسر آنے والی سرب ندیوں کو ع کرنے اور ان کی ت ہی و تشریح ت ک ذری ہ ہوتے ہیں۔ تدریسی عمل کے عالوہ انھیں مدعو کرکے ان کی فکر سے‘ ہر سطع پر است دے ک دروازہ کھوال ج ت رہ ہے۔ ج م ت اور ک لجز ن صرف ان کی خدم ت ح صل کرتے آئے ہیں‘ ب کہ ان کی اور ان سے مت م وم ت اپنے پرچوں میں ش ئع کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح ان کی فکر کی ت ہیم ت کے رستے ہموار ہوتے رہتے ہیں اور عمومی سطع پر بھی ب وغت ک رنگ چڑھ ج ت ہے۔ اسالمیہ ک لج‘ قصور ان تینوں حوالوں سے‘ یہ اہ ترین فریضہ سرانج دیت آی ہے۔ سیکڑوں نہیں ہزاروں‘ ط ب نے یہ ں سے کس فیض کے ب د ن صرف ن پ ی ہے‘ ب کہ زندگی کے حس س ش بوں میں خدم ت انج دیتے آئے ہیں۔ جس ک تذکرہ کسی دوسرے مضمون میں مل سکے گ ۔ 75
76
سردست صرف اتن بت ن مقصود ہے‘ کہ ک ج ہذا کے پرچے االد نے بھی مش ہیر کو نظرانداز نہیں کی ۔ ان کی تخ یق ت کے س تھ س تھ‘ ان سے مت مض مین ش ءع ہوتے رہے ہیں۔ اگ ے ص ح ت میں اس کی ت صیل درج کر دی گئ ہے۔ ممکن ہے کہ یہ ت صیل تحقیقی ک کرنے والوں کے لیے‘ :کسی ن کسی سطع پرک کی نک ے ح لی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تنقید برکت ع ی میر حسن دہ وی کی غزل گوئ پروفیسر منش س یمی خواجہ الط ف حین کی غزل گوئ محمد ص د ڈاکٹر محمد ش ع محمد ی مین س یمی
-
موالن ح لی اور اردو اد پروفیسر محمد اکرا ہوشی رپوری غ ل ک نظریہءحی ت احس ن الہی ن وک میر کی غزل زکری ف رو
۔
-
موالن حسرت موہ نی اور ان کی غزل بالل احمد شیخ 76
77
غ ل ک ایک ش ر ڈاکٹر سید محمد عبدهللا مرزا غ ل کے خطوط بالل احمد شیخ
-
غ ل ایک زندہء ج وید کردار پروفیسر محمد اکرا ہوشی رپوری ف رسی میں مرزا غ ل ک مق محمد عب س انج ن ش ہی کی ش عری -تحقیقی وتنقیدی مط ل ہ مقصوود حسنی ڈاکٹر گوہر نوش ہی کے تحقیقی تنقیدی اور لس نی نظریے مقصود حسنی پروین ش کر اور اس کی مسکراہٹ کی ش عری ق ضیہ الم س مط ل ہءغ ل -خطوط کی روشنی میں ڈاکٹر حسرت ک سگنجوی اد کے وزیر -وزیر آغ پروفیسر تنویر احمد مش
-
خواجہ کوئ کہ ں سے تمہ را جوا الئے ڈاکٹر غال 77
78
شبیر ران
-
مقصود حسنی -عہد ح ضر کے ایک ن مور غ ل شن س پروفیسر یونس حسن قرتہ ال ین حیدر ہندی تہذی کی نم ئندہ ن ول نگ ر پروفیسر یونس حسن
-
78