آنندی پر ایک تنقیدی نظر

Page 1

‫‪1‬‬

‫پر ایک تنقیدی نظر‬

‫مقصود حسنی‬ ‫ابوزر برقی کت خ نہ‬ ‫جون ‪٧‬‬


‫‪2‬‬

‫غال عب س‬ ‫غال عب س ‪1909‬ءمیں پیدا ہوئے۔ ادبی زندگی ک آغ ز ‪1925‬ء‬ ‫میں ہوا۔ ‪1925‬ءسے ‪1928‬ءتک غیر م کی افس نوں کے‬ ‫ترجمے کرتے رہے۔ ‪1928‬ءسے ‪1937‬ءتک بچوں کے‬ ‫رس لوں (پھول) اور (تہذی نسواں) کے ایڈیٹر رہے۔ دوسری‬ ‫جنگ عظی کے دوران آل انڈی ریڈیو سے منس ک رہے۔ آل انڈی‬ ‫کے اردو ہندی رس لے (آواز) اور (س رنگ) کے مدیر بھی رہے۔‬ ‫تقسی کے ب د پ کست ن آگئے اور ریڈیو پ کست ن سے وابستہ‬ ‫رہے۔ مالزمت کے دوران افس نہ نگ ری کی طرف توجہ کی اور‬ ‫چند ک می افس نے لکھ کر اردو افس نہ نگ ری میں نم ی ں‬ ‫)حیثیت ح صل کر لی۔( انتخ و پیشکش ‪ :‬عبدالرزا واحدی‬


3


‫‪4‬‬

‫آنندی‬ ‫از غال عب س‬ ‫ب دیہ ک اجالس زوروں پر تھ ۔ ہ ل کھچ کھچ بھرا ہوا تھ اور‬ ‫خالف م مول ایک ممبر بھی غیر ح ضر نہ تھ ۔ ب دیہ کے زیر‬ ‫بحث مسئ ہ یہ تھ کہ زن ن ب زاری کو شہر بدر کر دی ج ئے‬ ‫کیونکہ ان ک وجود انس نیت‪ ،‬شرافت اور تہذی کے دامن پر‬ ‫بدنم دا ہے۔‬ ‫ب دیہ کے ایک بھ ری بھرک رکن جو م ک و قو کے سچے خیر‬ ‫خواہ اور دردمند سمجھے ج تے تھے نہ یت فص حت سے تقریر‬ ‫کر رہے تھے۔‬ ‫اور پھر حضرات آپ یہ بھی خی ل فرم ئیے کہ ان ک قی ‪”....‬‬ ‫شہر کے ایک ایسے حصے میں ہے جو نہ صرف شہر کے‬ ‫بیچوں بیچ ع گزر گ ہ ہے ب کہ شہر ک س سے بڑا تج رتی‬ ‫مرکز بھی ہے۔ چن نچہ ہر شریف آدمی کو چ رو ن چ ر اس ب زار‬ ‫سے گزرن پڑت ہے۔ عالوہ ازیں شرف کی پ ک دامن بہو بیٹی ں‬ ‫اس ب زار کی تج رتی اہمیت کی وجہ سے یہ ں آنے اور خرید و‬ ‫فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ ص حب ن! ج یہ شریف زادی ں ان‬ ‫آبرو ب ختہ‪ ،‬نی عری ں بیسواﺅں کے بن ﺅ سنگ رکو دیکھتی ہیں‬ ‫تو قدرتی طور پر ان کے دل میں بھی آرائش و دلرب ئی کی نئی‬


‫‪5‬‬

‫نئی امنگیں اور ولولے پیدا ہوتے ہیں اور اپنے غری شوہروں‬ ‫سے طرح طرح کے غ زوں لوینڈروں‪ ،‬زر بر س ڑھیوں اور‬ ‫قیمتی زیوروں کی فرم ئشیں کرنے لگتی ہیں۔نتیجہ یہ ہوت ہے‬ ‫کہ ان ک پرمسرت گھر‪ ،‬ان ک راحت کدہ ہمیشہ کے لیے جہن ک‬ ‫نمونہ بن ج ت ہے۔‬ ‫اور ص حب ن پھر آپ یہ بھی تو خی ل فرم ئیے کہ ہم رے ‪”....‬‬ ‫نونہ ل قو جو درس گ ہوں میں ت ی پ رہے ہیں اور جن کی‬ ‫آئندہ ترقیوں سے قو کی امیدیں وابستہ ہیں اور قی س چ ہت ہے‬ ‫کہ ایک نہ ایک دن قو کی کشتی کو بھنور سے نک لنے ک سہرا‬ ‫ان ہی کے سر بندھے گ ۔ انہیں صبح ش اسی ب زار سے ہو کر‬ ‫آن ج ن پڑ ج ت ہے۔ یہ قحب ئیں جو ہر وقت ب رہ بھرن! سولہ‬ ‫سنگ ر کئے ہر راہرو پر بے حج ب نہ نگ ہ و مژہ کے تیر و سن ں‬ ‫برس تی اور اسے دعوت دیتی ہیں۔کی انہیں دیکھ کر ہم رے‬ ‫بھولے بھ لے ن تجربہ ک ر جوانی کے نشے میں سرش ر سود و‬ ‫زی ں سے بے پرواہ نونہ الن قو اپنے جذب ت و خی الت اور اپنی‬ ‫اع ی سیرت کو م صیت کے مسمو اثرات سے مح وظ رکھ‬ ‫سکتے ہیں؟ ص حب ن! کی ان ک حسن زاہد فری ہم رے نونہ الن‬ ‫قو کو ج دہ مستقی سے بھٹک کر‪ ،‬ان کے دل میں گن ہ کی‬ ‫پراسرار لذتوں کی تشنگی پیدا کرکے ایک بے ک ی‪ ،‬ایک‬ ‫“‪....‬اضطرا ‪ ،‬ایک ہیج ن برپ نہ کردیت ہوگ‬ ‫اس موقع پر ایک رکن ب دیہ جو کسی زم نہ میں مدرس رہ چکے‬


‫‪6‬‬

‫تھے اور اعداد و شم ر سے خ ص شغف رکھتے تھے بول اٹھے‬ ‫ص حب ن واضح رہے کہ امتح نوں میں ن ک رہنے والے ط بہ ک ”‬ ‫“تن س پچھ ے پ نچ س ل کی نسبت ڈیوڑھ ہوگی ہے۔‬ ‫ایک رکن نے جو چشمہ لگ ئے تھے اور مہینہ وار اخب ر کے‬ ‫مدیر اعزازی تھے تقریر کرتے ہوئے کہ ‪” :‬ہم رے شہر سے‬ ‫روز بروز غیرت‪ ،‬شرافت‪ ،‬مردانگی‪ ،‬نیکو ک ری و پرہیز گ ری‬ ‫اٹھتی ج رہی ہے اور اس کے بج ئے بے غیرتی‪ ،‬ن مردی‪،‬‬ ‫بزدلی‪ ،‬بدم شی‪ ،‬چوری اور ج ل س زی ک دور دورہ ہوت ج رہ‬ ‫ہے‪ ،‬منشی ت ک است م ل بہت بڑھ گی ہے۔ قتل و غ رت‪ ،‬خود‬ ‫کشی اور دیوالہ نک نے کی وارداتیں بڑھتی ج رہی ہیں۔ اس ک‬ ‫سب محض ان زن ن ب زاری ک ن پ ک وجود ہے کیونکہ ہم رے‬ ‫بھولے بھ لے شہری ان کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہو کر ہوش‬ ‫و خرد کھو بیٹھتے ہیں اور ان کی ب رگ ہ تک رس ئی کی زی دہ‬ ‫سے زی دہ قیمت اداکرتے ہر ج ئز و ن ج ئز طریقہ سے زر ح صل‬ ‫کرتے ہیں۔ ب ض اوق ت وہ اس س ی و کوشش میں ج مہ‬ ‫انس نیت سے ب ہر ہو ج تے اور قبیح اف ل ک ارتک کر بیٹھتے‬ ‫ہیں۔ نتیجہ یہ ہوت ہے کہ وہ ج ن عزیز سے ہ تھ دھو بیٹھتے‬ ‫“ہیں اور ی جیل خ نونمیں پڑے سڑتے ہیں۔‬ ‫ایک پینشن ی فتہ م مر رکن جو ایک وسیع خ ندان کے سرپرست‬ ‫تھے اور دنی ک سردو گر دیکھ چکے تھے اور ا کشمکش‬


‫‪7‬‬

‫حی ت سے تھک کر ب قی م ندہ عمر سست نے اور اپنے اہل و‬ ‫عی ل کو اپنے س یہ میں پنپت ہوا دیکھنے کے متمنی تھے۔ تقریر‬ ‫کرنے اٹھے۔ ان کی آواز لرزتی ہوئی تھی اور لہجہ فری د ک انداز‬ ‫لیے ہوئے تھ ۔ بولے ‪” :‬ص حب ن رات رات بھر ان لوگوں کی‬ ‫طب ے کی تھ پ‪ ،‬ان کی گ ے ب زی ں‪ ،‬ان کے عش کی دھینگ‬ ‫مشتی‪ ،‬گ لی گ وچ‪ ،‬شور و غل‪ ،‬ہ ہ ہ ہو ہو سن سن کر آس پ س‬ ‫کے رہنے والے شرف کے ک ن پک گئے ہیں۔ ضی میں ج ن‬ ‫آگئی ہے۔ رات کی نیند حرا ہے تو دن ک چین م قود۔ عالوہ ازیں‬ ‫ان کے قر سے ہم ری بہو بیٹیوں کے اخال پر جو برا اثر پڑت‬ ‫“‪....‬ہے اس ک اندازہ ہر ص ح اوالد خودکرسکت ہے‬ ‫آخری فقرہ کہتے کہتے ان کی آواز بھرا گئی اور وہ اس سے‬ ‫زی دہ کچھ نہ کہہ سکے۔ س اراکین ب دیہ کو ان سے ہمدردی‬ ‫تھی کیونکہ بدقسمتی سے ان ک مک ن اس ب زار حسن کے عین‬ ‫وسط میں واقع تھ ۔‬ ‫ان کے ب د ایک رکن ب دیہ نے جو پرانی تہذی کے ع مبردار‬ ‫تھے اور آث ر قدیمہ کو اوالد سے زی دہ عزیز رکھتے تھے تقریر‬ ‫‪:‬کرتے ہوئے کہ‬ ‫حضرات! ب ہر سے جو سی ح اور ہم رے احب اس مشہور اور ”‬ ‫ت ریخی شہر کو دیکھنے آتے ہیں۔ ج وہ اس ب زار سے گزرتے‬ ‫اور اس کے مت است دہ کرتے ہیں تو یقین کیجئے کہ ہ پر‬


‫‪8‬‬

‫“گھڑوں پ نی پڑ ج ت ہے۔‬ ‫ا صدر ب دیہ تقریر کرنے اٹھے۔ گو قد ٹھگن اور ہ تھ پ ﺅں‬ ‫چھوٹے چھوٹے تھے مگر سر بڑا تھ ۔ ”حضرات! میں اس امر‬ ‫میں قط ی طور پر آپ سے مت ہوں کہ اس طبقہ ک وجود‬ ‫ہم رے شہر اور ہم ری تہذی و تمدن کے لیے ب عث صدع ر‬ ‫ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ اس ک تدارک کس طرح کی ج ئے۔‬ ‫اگر ان لوگوں کو مجبور کی ج ئے کہ یہ اپن ذلیل پیشہ چھوڑ‬ ‫“دیں تو سوال پیدا ہوت ہے کہ یہ لوگ کھ ئیں گے کہ ں سے؟‬ ‫“ایک ص ح بول اٹھے۔ ”یہ عورتیں ش دی کیوں نہیں کر لیتی؟‬ ‫اس پرا یک طویل فرم ئشی قہقہہ پڑا اور ہ ل کی م تمی فض میں‬ ‫یکب ر شگ تگی کے آث ر پیدا ہوگئے۔ ج اجالس میں خ موشی‬ ‫ہوئی تو ص ح صدر بولے ‪” :‬حضرات یہ تجویز ب رہ ان لوگوں‬ ‫کے س منے پیش کی ج چکی ہے۔ اس ک ان کی طرف سے یہ‬ ‫جوا دی ج ت ہے کہ آسودہ اور عزت دار لوگ خ ندانی حرمت و‬ ‫ن موس کے خی ل سے انہیں اپنے گھروں میں گھسنے نہ دیں‬ ‫گے اور م س اور ادنی طبقہ کے لوگوں کو جو محض ان کی‬ ‫دولت کے لیے ان سے ش دی کرنے پر آم دہ ہوں گے۔ یہ‬ ‫“عورتیں خود منہ نہیں لگ ئیں گی۔‬ ‫اس پر ایک ص ح بولے‪” :‬ب دیہ کو ان نجی م م وں میں پڑنے‬ ‫کی ضرورت نہیں۔ ب دیہ کے س منے تو یہ مسئ ہ ہے کہ لوگ‬


‫‪9‬‬

‫“چ ہے جہن میں ج ئیں مگر اس شہر کو خ لی کر دیں۔‬ ‫صدر نے کہ ‪” :‬ص حب ن! یہ بھی آس ن ک نہیں ہے۔ ان کی‬ ‫ت داد دس بیس نہیں سینکڑوں تک پہنچتی ہے اور پھر ان میں‬ ‫“سے بہت سی عورتوں کے ذاتی مک ن ت ہیں۔‬ ‫یہ مسئ ہ کوئی مہینے بھر تک ب دیہ کے زیر بحث رہ ۔ اور‬ ‫ب الخر تم اراکین کے ات رائے سے یہ امر قرار پ ی کہ زن ن‬ ‫ب زاری کے مم وکہ مک نوں کو خرید لین چ ہیے اور انہیں رہنے‬ ‫کے لیے شہر سے ک فی دور کوئی الگ تھ گ عالقہ دی ج ن‬ ‫چ ہیے۔ ان عورتوں نے ب دیہ کے اس فیص ہ کے خالف سخت‬ ‫احتج ج کی ب ض نے ن فرم نی کرکے بھ ری جرم نے اور قیدیں‬ ‫بھگتیں مگر ب دیہ کی مرضی کے آگے ان کی کوئی پیش نہ چل‬ ‫سکی اور وہ ن چ ر صبر کرکے رہ گئیں۔‬ ‫اس کے ب د ایک عرصہ تک ان زن ن ب زاری کے مم وکہ‬ ‫مک نوں کی فہرستیں اور نقشے تی ر ہوتے اور مک نوں کے‬ ‫گ ہک پیدا کیے ج تے رہے۔ بیشتر مک نوں کو بذری ہ نیال‬ ‫فروخت کرنے ک فیص ہ کی گی ۔ ان عورتوں کو چھ مہینے تک‬ ‫شہر میں اپنے ہی مک نونمیں رہنے کی اج زت دے دی گئی ت کہ‬ ‫اس عرصے میں وہ مخصوص عالقہ میں مک ن وغیرہ بنوا‬ ‫سکیں۔‬ ‫ان عورتوں کے لیے جو عالقہ منتخ کی گی ۔ وہ شہر سے چھ‬


‫‪10‬‬

‫کوس دور تھ ۔ پ نچ کوس تک پکی سڑک ج تی تھی اور اس‬ ‫سے آگے کوس بھر ک کچ راستہ تھ ۔ کسی زم نے میں وہ ں‬ ‫کوئی بستی ہوگی مگر ا تو کھنڈروں کے سوا کچھ نہ رہ تھ ۔‬ ‫جن میں س نپوں اور چمگ دڑوں کے مسکن تھے اور دن دہ ڑے‬ ‫الو بولت تھ ۔ اس عالقے کے نواح میں کچے گھروندوں والے‬ ‫کئی چھوٹے چھوٹے گ ﺅں تھے۔ کسی ک ف ص ہ بھی یہ ں سے‬ ‫دو ڈھ ئی میل سے ک نہ تھ ۔ ان گ ﺅں کے بسنے والے دن کے‬ ‫وقت کھیتی ب ڑی کرتے‪ ،‬ی یونہی پھرتے پھراتے ادھر نکل آتے‬ ‫تو نکل آتے ورنہ ع طور پر اس شہر خموش ں میں آد زاد کی‬ ‫صورت نظر نہ آتی تھی۔ ب ض اوق ت روز روشن ہی میں گیدڑ‬ ‫اس عالقے میں پھرتے دیکھے گئے تھے۔‬ ‫پ نسو سے کچھ اوپر بیسواﺅں میں سے صرف چودہ ایسی تھیں‬ ‫جو اپنے عش کی وابستگی ی خود اپنی دل بستگی ی کسی اور‬ ‫وجہ سے شہر کے قری آزادانہ رہنے پر مجبور تھیں اور اپنے‬ ‫دولت مند چ ہنے والوں کی مستقل م لی سرپرستی کے بھروسے‬ ‫ب دل نخواستہ اس عالقہ میں رہنے پر آم دہ ہوگئی تھیں۔ ورنہ‬ ‫ب قی عورتوں نے سوچ رکھ تھ کہ وہ ی تو اسی شہر کے‬ ‫شریف مح وں کے کونوں کھ لیوں میں ج چھپیں گی ی پھر اس‬ ‫شہر ہی کو چھوڑ کہیں اور نکل ج ئیں گی۔‬ ‫یہ چودہ اچھی خ صی م لدار تھیں۔ اس پر شہر میں ان کے جو‬ ‫مم وکہ مک ن تھے ان کے دا انہیں اچھے وصول ہوگئے تھے‬


‫‪11‬‬

‫اور اس عالقے میں زمین کی قیمت برائے ن تھی اور س سے‬ ‫بڑھ کر یہ ان کے م نے والے دل و ج ن سے ان کی م لی امداد‬ ‫کرنے کے لیے تی ر تھے۔ چن نچہ انہوں نے اس عالقے میں جی‬ ‫کھول کر بڑے بڑے ع لی ش ن مک ن بنوانے کی ٹھ ن لی۔ ایک‬ ‫اونچی اور ہموار جگہ جو ٹوٹی پھوٹی قبروں سے ہٹ کر تھی۔‬ ‫منتخ کی گئی۔ زمین کے قط ے ص ف کرائے اور چ بک دست‬ ‫نقشہ نویسوں سے مک ن کے نقشے بنوائے گئے اور چند ہی‬ ‫روز میں ت میر ک ک شروع ہوگی ۔‬ ‫دن بھر اینٹ‪ ،‬مٹی‪ ،‬چون ‪ ،‬شہتیر‪ ،‬گ رڈر اور دوسرا عم رتی‬ ‫س م ن الریوں‪ ،‬چھکڑوں‪ ،‬خچروں‪ ،‬گدھوں اور انس نوں پر لد کر‬ ‫اس بستی میں آت اور منشی حس کت کی ک پی ں بغ وں میں‬ ‫دب ئے انہیں گنواتے اور ک پیوں میں درج کرتے۔ میر عم رت‬ ‫م م روں کو ک کے مت ہدای ت دیتے۔ م م ر مزدوروں کو‬ ‫ڈپٹتے‪،‬مزدور ادھر ادھر دوڑتے پھرتے۔ مزدورنیوں کو چال چال‬ ‫کر پک رتے اور اپنے س تھ ک کرنے کے بالتے۔ غرض س را دن‬ ‫ایک شور‪ ،‬ایک ہنگ مہ رہت اور س را دن آس پ س کے گ ﺅں کے‬ ‫دیہ تی اپنے کھیتوں میں اور دیہ تنیں اپنے گھروں میں ہوا کے‬ ‫جھونکوں کے س تھ دور سے آتی ہوئی کھٹ کھٹ کی دھیمی‬ ‫آوازیں سنتی رہتی۔‬ ‫اس بستی کے کھنڈروں میں ایک جگہ مسجد کے آث ر تھے اور‬ ‫اس کے پ س ہی ایک کنواں تھ جو بند پڑا تھ ۔ راج مزدورں نے‬


‫‪12‬‬

‫کچھ تو پ نی ح صل کرنے اور بیٹھ کر سست نے کی غرض سے‬ ‫اور کچھ ثوا کم نے اور اپنے نم زی بھ ئیوں کی عب دت گزاری‬ ‫کے خی ل سے س سے پہ ے اسی کی مرمت کی۔ چونکہ یہ‬ ‫ف ئدہ بخش اور ثوا ک ک تھ اس لیے کسی نے کچھ اعتراض‬ ‫نہ کی ۔ چن نچہ دو تین روز میں مسجد تی ر ہوگئی۔‬ ‫دن کو ب رہ بجے جیسے ہی کھ ن کھ نے کی چھٹی ہوئی۔ دو‬ ‫ڈھ ئی سو‪،‬راج‪ ،‬مزدور‪ ،‬میر عم رت‪ ،‬منشی اور ان بیسواﺅں کے‬ ‫رشتہ دار ی ک رندے جو ت میر کی نگرانی پر م مور تھے اس‬ ‫مسجد کے آس پ س جمع ہوج تے اور اچھ خ ص می ہ س لگ‬ ‫جت۔‬ ‫ایک دن ایک دیہ تی بڑھی پ س کے کسی گ ﺅں میں رہتی تھی‬ ‫اس بستی کی خبر سن کر آگئی۔ اس کے س تھ ایک خورد س ل‬ ‫لڑک تھ ۔ دونوں نے مسجدکے قری ایک درخت کے نیچے گھٹی‬ ‫سگریٹ بیڑی‪ ،‬چنے اور گڑ کی بنی ہوئی مٹھ ئیوں ک خوانچہ‬ ‫لگ دی ۔ بڑھی کو آئے ابھی دو دن بھی نہ گزرے تھے کہ ایک‬ ‫بوڑھ کس ن کہیں سے ایک مٹک اٹھ الی اور کنویں کے پ س‬ ‫اینٹوں ک ایک چھوا س چبوترا بن کر پیسے کے دو دو شکر‬ ‫کے شربت کے گالس بیچنے لگ ۔ ایک کنجڑے کو جو خبر ہوئی‬ ‫وہ ایک ٹوکرے میں خربوزے بھر کرلے آی اور خوانچہ والی‬ ‫بڑھی کے پ س بیٹھ کر‪ ،‬لے لو خربوزے شہد سے میٹھے‬ ‫خربوزے کی صدا لگ نے لگ ۔ ایک شخص نے کی کی ۔ گھر سے‬


‫‪13‬‬

‫سری پ ئے پک ‪ ،‬دیگچی میں رکھ‪ ،‬خوانچہ میں لگ ۔ تھوڑی سی‬ ‫روٹی ں مٹی کے دو تین پی لے اور ٹین ک ایک گالس لے کے‬ ‫آموجود ہوا اور اس بستی کے ک رکنوں کو جنگل میں گھر کی‬ ‫ہنڈی اور مزا چکھ نے لگ ۔‬ ‫ظہر اور عصر کے وقت میر عم رت‪ ،‬منشی‪ ،‬م م ر اور دوسرے‬ ‫لوگ مزدوروں سے کنویں سے پ نی نک وا نک وا کر وضو کرتے‬ ‫نظر آتے۔ ایک شخص مسجد میں ج کر اذان دیت ۔ پھر ایک کو‬ ‫ام بن ی ج ت اور دوسرے لوگ اس کے پیچھے کھڑے ہو کر‬ ‫نم ز پڑھتے۔ کسی گ ﺅں میں ایک مال کے ک ن میں یہ بھنک پڑی‬ ‫کہ فالں مسجد میں ام کی ضرورت ہے۔ وہ دوسرے ہی دن ع ی‬ ‫الصبح ایک سبز جزدان میں قرآن شریف‪ ،‬پنجسورہ‪ ،‬رحل اور‬ ‫مس ے مس ئل کے چند چھوٹے چھوٹے رس لے رکھ کر آموجود‬ ‫ہوا اور اس مسجد کی ام مت ب ق عدہ طور پر اسے سونپ دی‬ ‫گئی۔‬ ‫ہر روز تیسرے پہر گ ﺅں ک ایک کب بی سر پر اپنے س م ن ک‬ ‫ٹوکرا اٹھ ئے آ ج ت اور خوانچہ والی بڑھی کے پ س زمین پر‬ ‫چولہ بن کر کب ‪ ،‬ک یجی‪ ،‬دل اور گردے سیخوں پر چڑھ بستی‬ ‫والوں کے ہ تھ بیچت ۔ ایک بھٹی ری نے یہ ح ل دیکھ تو اپنے‬ ‫می ں کو س تھ لے مسجد کے س منے میدان میں دھوپ سے‬ ‫بچنے کے لیے پھونس ک ایک چھپر ڈال تنور گر کرنے لگی‬ ‫کبھی کبھی ایک نوجوان دیہ تی ن ئی پھٹی پرانی کسبت گ ے میں‬


‫‪14‬‬

‫ڈالے جوتی کی ٹھوکروں سے راستے کے روڑوں کو لڑھک ت‬ ‫ادھر ادھر گشت کرت دکھنے میں آ ج ت ۔‬ ‫ان بیسواﺅں کے مک نوں کی ت میر کی نگرانی‪ ،‬ان کے رشتہ دار‬ ‫ی ک رندے توکرتے ہی تھے۔ کسی کسی دن وہ دوپہر کے کھ نے‬ ‫سے ف ر ہو کر اپنے عش کے ہمراہ خود بھی اپنے مک نوں‬ ‫کو بنت دیکھنے آ ج تیں اور غرو آفت سے پہ ے یہ ں سے‬ ‫نہ ج تیں۔ اس موقع پر فقیروں اور فقیرنیوں کی ٹولیوں کی‬ ‫ٹولی ں نہ ج نے کہ ں سے آ ج تیں اور ج تک خیرات نہ لے‬ ‫لیتیں اپنی صداﺅں سے برابر شورمچ تی رہتیں اور انہیں ب ت نہ‬ ‫کرنے دیتیں۔ کبھی کبھی شہر کے ل نگے اوب ش بے ک ر مب ش‬ ‫کچھ کی کرکے مصدا شہر سے پیدل چل کر بیسواﺅں کی اس‬ ‫نئی بستی کی سن گن لینے آ ج تے اور اگر اس دن بیسوائیں‬ ‫بھی آئی ہوتیں تو ان کی عید ہو ج تی۔ وہ ان سے دور ہٹ کر ان‬ ‫سے گردا گرد چکر لگ تے رہتے۔ فقرے کستے‪ ،‬بے تکے‬ ‫قہقہے لگ تے۔عجی عجی شک یں بن تے اور مجنون نہ حرکتیں‬ ‫کرتے۔ اس روز کب بی کی خو بکری ہوتی۔‬ ‫اس عالقے میں جہ ں تھوڑے ہی دن پہ ے ہو ک ع ل تھ ا ہر‬ ‫طرف گہم گہمی اور چہل پہل نظر آنے لگی۔ شروع شروع میں‬ ‫اس عالقے کی ویرانی میں ان بیسواﺅں کو یہ ں آ کر رہنے کے‬ ‫خی ل سے جو وحشت ہوتی تھی وہ بڑی حد تک ج تی رہی تھی‬ ‫اور ا وہ ہر مرتبہ خوش خوش اپنے مک نوں کی آرائش اور‬


‫‪15‬‬

‫اپنے مرغو رنگوں کے مت‬ ‫تھیں۔‬

‫م م روں کو ت کیدیں کر ج تیں‬

‫بستی میں ایک جگہ ٹوٹ پھوٹ مزار تھ جو قرائن سے کسی‬ ‫بزرگ ک م و ہوت تھ ۔ ج یہ مک ن نصف سے زی دہ ت میر‬ ‫ہوچکے تو ایک دن صبح کو بستی کے راج مزدوروں نے کی‬ ‫دیکھ کہ مزار کے پ س دھواں اٹھ رہ ہے اور ایک سرخ سرخ‬ ‫آنکھوں واال لمب تڑنگ مست فقیر لنگوٹ ب ندھے چ ر ابرو ک‬ ‫ص ی کرائے۔ اس مزار کے اردگرد پھر رہ اور کنکر پتھر اٹھ‬ ‫اٹھ کر پرے پھینک رہ ہے۔ دوپہر کو وہ فقیر ایک گھڑا لے کر‬ ‫کنویں پر آی ‪ ،‬اور پ نی بھر بھر کر مزار پر لے ج نے اور اسے‬ ‫دھونے لگ ۔ ایک دف ہ جو آی تو کنویں پر دو تین راج مزدور‬ ‫کھڑے تھے۔ وہ نی دیوانگی اور نی فرزانگی کے ع ل میں ان‬ ‫سے کہنے لگ ‪” :‬ج نتے ہو وہ کس ک مزار ہے؟ کڑک ش ہ پیر‬ ‫ب دش ہ ک ! میرے ب پ دادا ان کے مج ور تھے۔“ اس کے ب د اس‬ ‫نے ہنس ہنس کر اور آنکھوں میں آنسو بھر بھر کر پیر کڑک‬ ‫ش ہ کی کچھ جاللی کرام تیں بھی ان راج مزدوروں سے بی ن‬ ‫ک ی ں۔‬ ‫ش کو یہ فقیر کہیں سے م نگ ت نگ کر مٹی کے دو دیے اور‬ ‫سرسوں ک تیل لے آی اور پیر کڑک ش ہ کی قبر کے سرہ نے اور‬ ‫پ نتی چرا روشن کر دیئے۔ رات کو پچھ ے پہر کبھی کبھی اس‬ ‫مزار سے ہللا ہو ک مست ن رہ سن ئی دے ج ت ۔‬


‫‪16‬‬

‫چھ مہینے گزرنے نہ پ ئے تھے کہ چودہ مک ن بن کر تی ر‬ ‫ہوگئے۔ یہ س کے س دو منزلہ اور قری قری ایک ہی وضع‬ ‫کے تھے۔ س ت ایک طرف اور س ت دوسری طرف بیچ میں‬ ‫چوڑی چک ی سڑک تھی۔ ہر ایک مک ن کے نیچے چ ر چ ر‬ ‫دک نیں تھیں۔ مک ن کی ب الئی منزل میں سڑک کے رخ وسیع‬ ‫برآمدہ تھ ۔ اس کے آگے بیٹھنے کے لیے کشتی نم شہ نشین‬ ‫بن ئی گئی تھی۔جس کے دونوں سروں پر ی تو سنگ مرمر کے‬ ‫مور رقص کرتے ہوئے بن ئے گئے تھے اور ی جل پریوں کے‬ ‫مجسمے تراشے گئے تھے جن ک آدھ دھڑ مچھ ی اور آدھ‬ ‫انس ن ک تھ ۔ برآمدہ کے پیچھے جو بڑا کمرہ بیٹھنے کے لیے‬ ‫تھ ۔ اس مینسنگ مرمر کے ن زک ن زک ستوں بن ئے گئے تھے۔‬ ‫دیواروں پر کوش نم پچی ک ری کی گئی تھی۔ فرش چمکدار پتھر‬ ‫ک بن ی گی تھ ۔ ج سنگ مرمر کے ستونوں کے عکس اس‬ ‫فرش زمردیں پر پڑتے تو ایس م و ہوت گوی س ید برا پروں‬ ‫والے‪ ،‬راج ہنسوں نے اپنی لمبی لمبی گردنیں جھیل میں ڈبو دی‬ ‫ہ ی ں۔‬ ‫بدھ ک شبھ دن اس بستی میں آنے کے لیے مقرر کی گی ۔ اس‬ ‫روز اس بستی کی س بیسواﺅں نے مل کر بہت بھ ری نی ز‬ ‫دلوائی۔ بستی کے کھ ے میدان میں زمین کو ص ف کرا کر‬ ‫ش می نے نص کر دیئے گئے۔ دیگیں کھڑکنے کی آواز اور‬ ‫گوشت اور گھی کی خوشبو بیس بیس کوس سے فقیروں اور‬


‫‪17‬‬

‫کتوں کو کھینچ الئی۔ دوپہر ہوتے پیر کڑک ش ہ کے مزار کے‬ ‫پ س جہ ں لنگر تقسی کی ج ت تھ اس قدر فقیر جمع ہوگئے کہ‬ ‫عید کے روز کسی بڑے شہر کی ج مع مسجد کے پ س بھی نہ‬ ‫ہوتے ہوں گے۔ پیر کڑک ش ہ کے مزار کو خو ص ف کروای‬ ‫اور دھ وای گی اور اس پر پھولوں کی چ در چڑھ ئی گئی اور اس‬ ‫مست فقیر کو نی جوڑا س وا کر پہن ی گی جسے اس نے پہنتے‬ ‫ہی پھ ڑ ڈاال۔‬ ‫ش کو ش می نے کے نیچے دودھ سی اج ی چ ندنی ک فرش کر‬ ‫دی گی ۔ گ ﺅ تکیے اور راگ رنگ کی مح ل سج ئی گئی۔ دور دور‬ ‫سے بہت سی بیسواﺅں کو ب وای گی جو ان کی سہی ی ں ی‬ ‫برادری کی تھیں۔ ان کے س تھ ان کے بہت سے م نے والے بھی‬ ‫آئے جن کے لیے ایک الگ ش می نے میں کرسیونک انتظ کی‬ ‫گی اور ان کے س منے کے رخ چقیں ڈال دی گئیں۔بے شم ر‬ ‫گیسوں کی روشنی سے یہ جگہ بق ہ نور بنی ہوئی تھی۔ ان‬ ‫بیسواﺅں کے توندل سی ہ ف س زندے‪ ،‬زر ب ت اور کمخوا کی‬ ‫شیروانی ں پہنے‪ ،‬عطر میں بسے ہوئے پھوئے ک نوں میں‬ ‫رکھے ادھر ادھر مونچھوں کو ت ﺅ دیتے پھرتے اور زر بر‬ ‫لب س اور تت ی کے پرے بھی ب ریک س ڑھیوں میں م بوس‪،‬‬ ‫غ زوں اورخوشبوﺅں مینبسی ہوئی ن زنیں اٹکھکی یوں سے‬ ‫چ تیں‪ ،‬رات بھر رقص اور سرود ک ہنگ مہ برپ رہ اور جنگل‬ ‫میں منگل ہوگی ۔‬


‫‪18‬‬

‫دو تین دن کے ب د ج اس جشن کی تھک وٹ اتر گئی تو یہ‬ ‫بیسوائیں س زو س م ن کی فراہمی اور مک نوں کی آرائش میں‬ ‫مصروف ہوگئیں۔ جھ ڑ‪ ،‬ف نوس‪ ،‬ظروف ب وری قد آد آئینے‪،‬‬ ‫نواڑی پ نگ‪ ،‬تصویریں اور قط ت سنہری‪ ،‬چوکھٹوں میں جڑے‬ ‫ہوئے الئے گئے اور قرینے سے کمروں میں لگ ئے گئے اور‬ ‫کوئی آٹھ روز میں ج کر یہ مک ن کیل ک نٹے سے لیس ہوئے۔ یہ‬ ‫عورتیں دن ک بیشتر حصہ تو است دوں سے رقص و سرود کی‬ ‫ت ی لینے‪ ،‬غزلیں ی د کرنے‪ ،‬دھنیں بٹھ نے‪ ،‬سب پڑھنے‪ ،‬تختی‬ ‫لکھنے‪ ،‬سینے پرونے‪ ،‬ک ڑھنے‪ ،‬گراموفون سننے‪ ،‬است دوں‬ ‫سے ت ش اور کیر کھی نے‪ ،‬ض ع جگت‪ ،‬نوک جھونک سے جی‬ ‫بہالنے‪ ،‬سونے میں گزارتیں اور تیسرے پہر غسل خ نوں میں‬ ‫نہ نے ج تیں۔ جہ ں ان کے مالزموں نے دستی پمپوں سے پ نی‬ ‫نک ل نک ل کر ٹ بھر رکھے ہوتے۔ اس کے ب د وہ بن ﺅ سنگ ر‬ ‫میں مصروف ہو ج تیں۔‬ ‫جیسے ہی رات ک اندھیرا پھی ت یہ مک ن گیسوں کی روشنی سے‬ ‫جگمگ اٹھتے جو ج بج سنگ مرمر کے آدھے کھ ے ہوئے‬ ‫کنولوں میں نہ یت ص ئی سے چھپ ئے گئے تھے اور ان‬ ‫مک نوں کی کھڑکیوں اور دروازوں کے کواڑوں کے شیشے جو‬ ‫پھول پتیوں کی وضع کے ک ٹ کر جڑے گئے تھے۔ ان کی قوس‬ ‫قزح کے رنگوں کی سی روشنی ں دور سے جھ مل جھ مل کرتی‬ ‫نہ یت بھی م و ہوتیں۔ یہ بیسوائیں بن ﺅ سنگ ر کئے برآمدوں‬


‫‪19‬‬

‫میں ٹہ تی‪ ،‬آس پ س والیوں سے ب تیں کرتیں ہنس کر‬ ‫کھ کھالتیں ج کھڑے کھڑے تھک ج تیں تو اندر کمرے میں‬ ‫چ ندنی کے فرش پر گ ﺅ تکیوں سے لگ کر بیٹھ ج تیں۔ ان کے‬ ‫س زندے س ز مالتے رہتے اور یہ چھ لی ں کترتی رہتیں۔ ج رات‬ ‫ذرا بھیگ ج تی تو ان کے م نے والے ٹوکروں میں شرا کی‬ ‫بوت یں اور پھول پھالری لیے اپنے دوستوں کے س تھ موٹروں ی‬ ‫ت نگوں میں بیٹھ کر آتے۔ اس بستی میں ان کے قد رکھتے ہی‬ ‫ایک خ ص گہم گہمی اور چہل پہل ہونے لگتی۔نغمہ و سرود‪،‬‬ ‫س ز کے سر‪ ،‬رقص کرتی ہوئی ن زنینوں کے گھنگروﺅں کی آواز‬ ‫ق قل مین میں مل کر ایک عجی سرور کی سی کی یت پیدا کرتی۔‬ ‫عیش ومستی کے ان ہنگ موں میں م و بھی نہ ہوت اور رات‬ ‫بیت ج تی۔‬ ‫ان بیسواﺅں کو اس بستی میں آئے چند ہی روز ہوئے تھے کہ‬ ‫دک نوں کے کرایہ دار آب د ہوگئے جن ک کرایہ اس بستی کو آب د‬ ‫کرنے کے خی ل سے بہت ہی ک رکھ گی تھ ۔ س سے پہ ے جو‬ ‫دک ن دار آی وہ وہی بڑھی تھی جس نے س سے پہ ے مسجد‬ ‫کے س منے درخت کے نیچے خوانچہ لگ ی تھ ۔ دک ن کو پر‬ ‫کرنے کے لیے بڑھی اور اس ک لڑک سگرٹوں کے بہت سے‬ ‫خ لی ڈبے اٹھ الئے اور اسے منبر کے ط قوں میں سج کر رکھ‬ ‫دی گی ۔ بوت وں میں رنگ دار پ نی بھر دی گی ت کہ م و ہو‬ ‫شربت کی بوت یں ہیں۔ بڑھی نے اپنی بس ط کے مط ب ک غذی‬


‫‪20‬‬

‫پھولوں اور سگریٹ کی خ لی ڈبیوں سے بن ئی ہوئی بی وں سے‬ ‫دک ن کی کچھ آرائش بھی کی۔ ب ض ایکٹروں اور ایکٹرسوں کی‬ ‫تصویریں بھی پرانے ف می رس لوں سے نک ل کر لئی سے‬ ‫دیواروں پر چپک دیں۔ دک ن ک اصل م ل دو تین قس کے سگریٹ‬ ‫تین تین چ ر چ ر پیکٹوں‪ ،‬بیڑی کے آٹھ دس بنڈلوں‪ ،‬دی سالئی‬ ‫کی نصف درجن ڈبیوں‪ ،‬پ نوں کی ڈھولی‪ ،‬پینے کے تمب کو کی‬ ‫تین چ ر ٹکیوں اور مو بتی کے نصف بنڈل سے زی دہ نہ تھ ۔‬ ‫دوسری دک ن میں ایک بنی ‪ ،‬تیسری میں ح وائی اور شیر فروش‪،‬‬ ‫چوتھی میں قص ئی‪ ،‬پ نچویں میں کب بی اور چھٹی میں ایک‬ ‫کنجڑا آ بسے۔ کنجڑا آس پ س کے دیہ ت سے سستے داموں چ ر‬ ‫پ نچ قس کی سبزی ں لے آت اور یہ ں خ صے من فع پر بیچ دیت ۔‬ ‫ایک آدھ ٹوکرا پھ وں ک بھی رکھ لیت ۔ چونکہ دک ن خ صی کھ ی‬ ‫تھی ایک پھول واال اس ک س تھی بن گی ۔ وہ دن بھر پھولوں کے‬ ‫ہ ر‪ ،‬گجرے اور طرح طرح کے گہنے بن ت رہت اور ش کو انہیں‬ ‫چنگیر میں ڈال کر ایک ایک مک ن پر لے ج ت اور نہ صرف‬ ‫پھول ہی بیچ آت ب کہ ہر جگہ ایک ایک دو دو گھڑی بیٹھ‬ ‫س زندوں سے گپ شپ بھی ہ نک لیت اور حقے کے د بھی لگ‬ ‫آت ۔ جس دن تم ش بینوں کی کوئی ٹولی اس کی موجودگی ہی‬ ‫میں کوٹھے پر چڑھ آتی اور گ ن بج ن شروع ہو ج ت وہ‬ ‫س زندوں کے ن ک بھوں چڑھ نے کے ب وجود گھنٹوں اٹھنے ک‬ ‫ن نہ لیت ‪،‬مزے سے گ نے پر سر دھنت اور بیوقوفوں کی طرح‬


‫‪21‬‬

‫ایک ایک کی صورت تکت رہت ۔ جس دن رات زی دہ گزر ج تی اور‬ ‫کوئی ہ ر بچ رہت تو اس اپنے گ ے میں ڈال لیت اور بستی کے‬ ‫ب ہر گال پھ ڑ پھ ڑ کر گ ت پھرت ۔‬ ‫ایک دک ن ایک بیسوا ک ب پ اور بھ ئی جو درزیوں ک ک ج نتے‬ ‫تھے سینے کی ایک مشین رکھ کر بیٹھ گئے۔ ہوتے ہوتے ایک‬ ‫حج بھی آگی اور اپنے س تھ ایک رنگریز کو بھی لیت آی ۔‬ ‫اسکی دک ن کے ب ہر الگنی پر لٹکتے ہوئے طرح طرح کے‬ ‫رنگوں کے دو پٹے ہوا میں لہراتے ہوئے آنکھوں کے بہت‬ ‫بھ ے م و ہونے لگے۔‬ ‫چند ہی روز گزرے تھے کہ ایک ٹٹ پونجئے‪ ،‬بس طی نے جس‬ ‫کی دک ن شہر میں چ تی نہ تھی‪ ،‬ب کہ اسے دک ن ک کرایہ نک لن‬ ‫بھی مشکل ہو ج ت تھ شہر کو خیر ب د کہہ کر اس بستی ک رخ‬ ‫کی ۔یہ ں اسے ہ تھوں ہ تھ لی گی اور اس کے طرح طرح کے‬ ‫لوینڈر‪ ،‬قس قس کے پ ﺅڈر‪ ،‬ص بن‪ ،‬کنگھی ں‪ ،‬بٹن‪ ،‬سوئی‪،‬‬ ‫دھ گ ‪ ،‬فیتے خوشبودار تیل‪ ،‬روم ل‪ ،‬منجن کی خو بکری ہونے‬ ‫لگے۔‬ ‫اس بستی کے رہنے والوں کی سرپرستی اور ان کے مربی نہ‬ ‫س وک کی وجہ سے اسی طرح دوسرے تیسرے روز کوئی نہ‬ ‫کوئی ٹٹ پونجی دک ندار کوئی بزاز‪ ،‬کوئی پنس ری‪ ،‬کوئی نیچہ‬ ‫بند‪ ،‬کوئی ن ن ب ئی مندے کی وجہ سے ی شہر کے بڑھے ہوئے‬


‫‪22‬‬

‫کرایہ سے گھبرا کر اس بستی میں آ پن ہ لیت ۔‬ ‫ایک بڑے می ں عط ر جو حکمت میں بھی کسی قدر دخل رکھتے‬ ‫تھے ان ک جی شہر کی گنج ن آب دی اور حکیموں اور دواخ نوں‬ ‫کی افراد سے جو گھبرای تو وہ اپنے ش گردوں کو س تھ لے شہر‬ ‫سے اٹھ آئے اور اس بستی میں ایک دک ن کرایہ پر لے لی۔ س را‬ ‫دن بڑے می ں اور ان کے ش گرد دواﺅں کے ڈبوں‪ ،‬شربت کی‬ ‫بوت وں اور مربے‪ ،‬چٹنی اچ ر کے بوی موں کو الم ریوں اور‬ ‫ط قوں میں اپنے اپنے ٹھک نے پر رکھتے رہے۔ ایک ط میں‬ ‫ط اکبر‪ ،‬قراب دین ق دری اور دوسری طبی کت بیں جم کر رکھ‬ ‫دیں۔ کواڑوں کی اندرونی ج ن اور دیداروں میں جو جگہ خ لی‬ ‫بچی۔ وہ ں انہوں نے اپنے خ ص الخ ص مجرب ت کے اشتہ ر‬ ‫سی ہ روشن ئی سے ج ی لکھ کر اور دفیتوں پر چپک کر آویزاں‬ ‫کر دیئے۔ ہر روز صبح کو بیسواﺅں کے مالز گالس لے لے کر‬ ‫آ موجود ہوتے اور شربت بزوری‪ ،‬شربت بن شہ‪ ،‬شربت ان ر اور‬ ‫ایسے نزہت بخش‪ ،‬روح افزا شربت و عر ‪ ،‬خمیرہ گ ﺅ زب ن اور‬ ‫تقویت پہنچ نے والے مربے مع ور ہ ئے نقرہ لے ج تے۔‬ ‫جو دک نیں بچ رہیں ان میں ان بیسواﺅں کے بھ ئی بندوں اور‬ ‫س زندوں نے اپنی چ رپ ئی ں ڈال دیں۔ دن بھر یہ لوگ ان دک نوں‬ ‫میں ت ش چوسر اور شطرنج کھی تے‪ ،‬بدن پر تیل م واتے‪ ،‬سبزی‬ ‫گھوٹتے‪ ،‬بٹیروں کی پ لی ں کراتے‪ ،‬تیتروں سے سبح ن تیری‬ ‫قدرت کی رٹ لگواتے اور گھڑا بج بج کر گ تے۔‬


‫‪23‬‬

‫ایک بیسوا کے س زندے نے ایک دک ن خ لی دیکھ کر اپنے‬ ‫بھ ئی کو جو س ز بن ن ج نت تھ اس میں ال بٹھ ی ۔ دک ن کی‬ ‫دیواروں کے س تھ س تھ کی یں ٹھونک کر ٹوٹی پھوٹی مرمت‬ ‫ط س رنگی ں‪ ،‬ست ر‪ ،‬طنبورے‪ ،‬دلرب وغیرہ ٹ نگ دیئے گئے۔‬ ‫یہ شخص ست ر بج نے میں بھی کم ل رکھت تھ ۔ ش کو وہ اپنی‬ ‫د ک ن میں ست ر بج ت جس کی میٹھی آواز سن کر آس پ س کے‬ ‫دک ن دار اپنی دک نوں سے اٹھ اٹھ کر آ ج تے اور دیر تک بت‬ ‫بنے ست ر سنتے رہتے۔ اس ست ر نواز ک ایک ش گرد تھ جو‬ ‫ری وے کے دفتر میں ک رک تھ ۔ اسے ست ر سیکھنے ک بہت‬ ‫شو تھ ‪ ،‬جیسے ہی دفتر سے چھٹی ہوتی سیدھ س ئیکل اڑات‬ ‫ہوا اس بستی ک رخ کرت اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ دک ن ہی میں بیٹھ‬ ‫کر مش کی کرت غرض اس ست ر نواز کے د سے بستی میں‬ ‫خ صی رون ہونے لگی۔‬ ‫مسجد کے مال جی‪ ،‬ج تک تو یہ بستی زیر ت میر رہی رات کو‬ ‫دیہ ت میں اپنے گھر چ ے ج تے رہے مگر ا جبکہ انہیں‬ ‫دونوں وقت مرغن کھ ن ب فراط پہنچنے لگ تو وہ رات کو بھی‬ ‫یہیں رہنے لگے۔ رفتہ رفتہ ب ض بیسواﺅں کے گھروں سے‬ ‫بچے بھی مسجد میں پڑھنے آنے لگے جس سے مال جی کو‬ ‫روپے پیسے کی آمدنی بھی ہونے لگی۔‬ ‫ایک شہر شہر گھومنے والی گھٹی درجہ کی تھیڑیکل کمپنی کو‬ ‫ج زمین کے چڑھے ہوئے کرایہ اور اپنی بے م ئیگی کے‬


‫‪24‬‬

‫ب عث شہر میں کہیں جگہ نہ م ی تو اس نے اس بستی ک رخ کی‬ ‫اور ان بیسواﺅں کے مک نوں سے کچھ ف ص ہ پر میدان میں‬ ‫تنبو‪ ،‬کھڑے کرکے ڈیرے ڈال دیئے۔ اس کے ایکٹر ایکٹری کے‬ ‫فن سے محض ن ب د تھے۔ ان کے ڈریس پھٹے پرانے تھے جن‬ ‫کے بہت سے ست رے جھڑ چکے تھے اور یہ لوگ تم شے بھی‬ ‫بہت پرانے اور دقی نوسی کرتے تھے مگر اس کے ب وجود یہ‬ ‫کمپنی چل نک ی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ٹکٹ کے دا بہت ک‬ ‫تھے۔ شہر کے مزدوری پیشہ لوگ‪ ،‬ک رخ نوں میں ک کرنے‬ ‫والے اور غری غرب ‪ ،‬جو دن بھر کی نوکری‪ ،‬محنت مشقت کی‬ ‫کسر شوروغل‪ ،‬خرمستی ں اور ادنی عی شیوں سے نک لن چ ہتے‬ ‫تھے۔ پ نچ پ نچ چھ چھ کی ٹولی ں بن کر‪ ،‬گ ے میں پھولوں کے‬ ‫ہ ر ڈالتے‪ ،‬ہنستے بولتے‪ ،‬ب نسری اور الغوزے بج تے‪ ،‬راہ‬ ‫چ توں پر آوازیں کستے‪ ،‬گ لی گ وچ بکتے‪ ،‬شہر سے پیدل چل‬ ‫کر تھیٹر دیکھنے آتے اور لگے ہ تھوں ب زار حسن کی سیر بھی‬ ‫کر ج تے۔‬ ‫ج تک ن ٹک شروع نہ ہوت تھیٹر ک ایک مسخرہ تنبو کے ب ہر‬ ‫ایک اسٹول پر کھڑا کبھی کوال ہ ت ‪ ،‬کبھی منہ پھالت ‪ ،‬کبھی‬ ‫آنکھیں مٹک ت ۔ عجی عجی حی سوز حرکتیں کرت جنہیں دیکھ‬ ‫کر یہ لوگ زور سے قہقہے لگ تے اور گ لیوں کی صورت میں‬ ‫داد دیتے۔‬ ‫رفتہ رفتہ دوسرے لوگ بھی اس بستی میں آنے شروع ہوئے۔‬


‫‪25‬‬

‫چن نچہ شہر کے بڑے بڑے چوکوں میں ت نگے والے صدائیں‬ ‫لگ نے لگے۔ ”آﺅ کوئی نئی بستی کو۔“ شہر سے پ نچ کوس تک‬ ‫جو پکی سڑک ج تی تھی اس پر پہنچ کر ت نگے والے سواریوں‬ ‫سے ان ح صل کرنے کے اللچ میں ی ان کی فرم ئش پر‬ ‫ت نگوں کی دوڑیں کراتے۔ منہ سے ہ رن بج تے اور ج کوئی‬ ‫ت نگہ آگے نکل ج ت تو اس کی سواری ں ن روں سے آسم ن سر‬ ‫پر اٹھ لیتیں۔ اس دوڑ میں غری گھوڑوں ک برا ح ل ہو ج ت اور‬ ‫ان کے گ ے میں پڑے ہوئے پھولوں کے ہ روں سے بج ئے‬ ‫خوشبو کے پسینے کی بدبو آنے لگتی۔‬ ‫رکش والے ت نگے والوں سے کیوں پیچھے رہتے۔ وہ ان سے‬ ‫ک دا پر سواری ں بٹھ ‪ ،‬طرارے بھرتے اور گھنگرو بج تے اس‬ ‫بستی کو ج نے لگے۔ عالوہ ازیں ہر ہ تے کی ش کو اسکولوں‬ ‫اور ک لجوں کے ط بہ ایک ایک س ئیکل پر دو لدے‪ ،‬جو در‬ ‫جو اس پراسرار ب زار کی سیر دیکھنے آتے جس سے ان کے‬ ‫خی ل کے مط ب ان کے بڑوں نے خواہ مخواہ انہیں محرو کر‬ ‫دی تھ ۔‬ ‫رفتہ رفتہ اس بستی کی شہرت چ روں طرف پھی نے اور مک نوں‬ ‫اور دک نوں کی م نگ ہونے لگی۔ وہ بیسوائیں جو پہ ے اس‬ ‫بستی میں آنے پر تی ر نہ ہوئی تھیں ا اس کی دن دوگنی رات‬ ‫چوگنی ترقی دیکھ کر اپنی بیوقوفی پر افسوس کرنے لگیں۔ کئی‬ ‫عورتوں نے تو جھٹ زمینیں خرید ان بیسواﺅں کے س تھ س تھ‬


‫‪26‬‬

‫اسی وضع قطع کے مک ن بنوانے شروع کر دیئے۔ عالوہ ازیں‬ ‫شہر کے ب ض مہ جنوں نے بھی اس بستی کے آس پ س سستے‬ ‫داموں زمینیں خرید خریدکر کرایہ اٹھ نے کے لیے چھوٹے‬ ‫چھوٹے کئی مک ن بنوا ڈالے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ف حشہ عورتیں‬ ‫جو ہوٹ وں اور شریف مح وں میں روپوش تھیں مورو م خ کی‬ ‫طرح اپنے نہ ں خ نوں سے ب ہر نکل آئیں اور ان مک نوں میں‬ ‫آب د ہوگئیں۔ ب ض چھوٹے چھوٹے مک نوں میں اس بستی کے‬ ‫وہ دک ن دار آ بسے جو عی ل دار تھے اور رات کو دک ن میں سو‬ ‫نہ سکتے تھے۔‬ ‫اس بستی میں آب دی تو خ صی ہوگئی تھی۔ مگر ابھی تک بج ی‬ ‫کی روشنی ک انتظ نہیں ہوا تھ ۔ چن نچہ ان بیسواﺅں اور بستی‬ ‫کے تم رہنے والوں کی طرف سے سرک ر کے پ س بج ی کے‬ ‫لیے درخواست بھیجی گئی جو تھوڑے دنوں ب د منظور کر لی‬ ‫گئی اس کے س تھ ہی ایک ڈاک خ نہ بھی کھول دی گی ۔ ایک‬ ‫بڑے می ں ڈاک خ نہ کے ب ہر ایک صندوقچے میں ل فے‪ ،‬ک رڈ‬ ‫اور ق دوات رکھ‪ ،‬بستی کے لوگوں کے خط پتر لکھنے لگے۔‬ ‫ایک دف ہ بستی میں شرابیوں کی دو ٹولیوں میں فس د ہوگی ۔‬ ‫جس میں سوڈا واٹر کی بوت وں‪ ،‬چ قوﺅں اور اینٹوں ک آزادانہ‬ ‫است م ل کی گی اور کئی لوگ سخت مجروح ہوئے۔ اس پر سرک ر‬ ‫کو خی ل آی اس بستی میں ایک تھ نہ بھی کھول دین چ ہیے۔‬


‫‪27‬‬

‫تھیٹریکل کمپنی دو مہینے تک رہی اور اپنی بس ط کے مط ب‬ ‫خ ص کم لے گئی۔ اس شہر کے ایک سینم کے م لک نے سوچ‬ ‫کہ کیوں نہ اس بستی میں بھی ایک سینم کھول دی ج ئے۔ یہ‬ ‫خی ل آنے کی دیر تھی کہ اس نے جھٹ ایک موقع کی جگہ چن‬ ‫کر خرید لی اور ج د ج د ت میر ک ک شروع کرا دی ۔ چند ہی‬ ‫مہینوں میں سینم ہ ل تی ر ہوگی ۔ اس کے سینم کے اندر ایک‬ ‫چھوٹ س ب غیچہ بھی لگوای گی ت کہ تم ش ئی اگر ب ئیسکوپ‬ ‫شروع ہونے سے پہ ے آ ج ئیں تو آرا سے ب غیچہ میں بیٹھ‬ ‫سکیں۔ ان کے س تھ بستی کے لوگ یونہی سست نے ی سیر‬ ‫دیکھنے کی غرض سے آ آ کر بیٹھنے لگے۔ یہ ب غیچہ خ صی‬ ‫سیر گ ہ بن گی ۔ رفتہ رفتہ سقے کٹورا بج تے اس ب غیچے میں‬ ‫آنے اور پی سوں کی پی س بجھ نے لگے۔ سر کی تیل م لش والے‬ ‫نہ یت گھٹی قس کے تیز خوشبو والے تیل کی شیشی ں واسکٹ‬ ‫کی جیبوں میں ٹھونسے ک ندھے پر میال کچیال تولیہ ڈالے‪ ،‬دل‬ ‫پسند دل بہ ر م لش کی صدا لگ تے درد سر کے مریضوں کو‬ ‫اپنی خدم ت پیش کرنے لگے۔سینم کے م لک نے سینم ہ ل کی‬ ‫عم رت کی بیرونی ج ن دو ایک مک ن اور کئی دک نیں بھی‬ ‫بنوائیں۔ مک ن میں ہوٹل کھل گی جس میں رات کو قی کرنے‬ ‫کے لیے کمرے بھی مل سکتے تھے ا وردک نوں میں ایک سوڈا‬ ‫کی فیکٹری واال‪ ،‬ایک فوٹو گرافر‪ ،‬ایک س ئیکل کی مرمت واال‪،‬‬ ‫ایک النڈری واال‪ ،‬دو پنواڑی‪ ،‬ایک بوٹ ش پ واال ایک ڈاکٹر مع‬


‫‪28‬‬

‫اپنے دواخ نہ کے آ رہے‪ ،‬ہوتے ہوتے پ س ہی ایک دک ن میں‬ ‫کالل خ نہ کھ نے کی اج زت مل گئی۔ فوٹو گرافر کی دک ن کے‬ ‫ب ہر ایک کونے میں ایک گھڑی س ز نے آڈیر ا جم ی اور ہر‬ ‫وقت محد شیشہ آنکھ پر چڑھ ئے گھڑیوں کے کل پرزوں میں‬ ‫غ ط ں و پیچ ں رہنے لگ ۔‬ ‫اس کے کچھ ہی دن ب د بستی میں نل‪ ،‬روشنی اور ص ئی کے‬ ‫ب ق عدہ انتظ کی طرف توجہ کی ج نے لگی۔ سرک ری ک رندے‬ ‫سرخ جھنڈی ں‪ ،‬جریبیں اور اونچ نیچ دیکھنے والے آلے لے کر‬ ‫آ پہنچے اور ن پ ن پ کر سڑکوں اور گ ی کوچوں کی دا بل‬ ‫ڈالنے لگے اور بستی کی کچی سڑکوں پر سڑک کوٹنے واال‪،‬‬ ‫“‪....‬انجن چ نے لگ‬ ‫اس واقع کو بیس برس گزر چکے ہیں۔ یہ بستی ا ایک بھرا‬ ‫پڑا شہر بن گئی ہے۔ جس ک اپن ری وے اسٹیشن بھی ہے اور‬ ‫ٹ ﺅن ہ ل بھی۔ کچہری بھی اور جیل خ نہ بھی۔ آب دی ڈھ ئی الکھ‬ ‫کے لگ بھگ ہے۔ شہر میں ایک ک لج‪ ،‬دو ہ ئی اسکول‪ ،‬ایک‬ ‫لڑکوں کے لیے‪ ،‬ایک لڑکیوں کے لیے اور آٹھ پرائمری سکول‬ ‫ہیں جن میں میونسپ ٹی کی طرف سے م ت ت ی دی ج تی ہے۔‬ ‫چھ سینم ہیں اور چ ر بنک جن میں سے دو دنی کے بڑے بڑے‬ ‫بنکوں کی ش خیں ہیں۔‬ ‫شہر سے دو روزانہ‪ ،‬تین ہ تہ وار دس م ہ نہ رس ئل و جرائد‬


‫‪29‬‬

‫ش ئع ہوتے ہیں۔ ان میں چ ر ادبی‪ ،‬دو اخالقی و م شرتی و‬ ‫مذہبی‪ ،‬ایک صن تی‪ ،‬ایک طبی‪ ،‬ایک زن نہ اور ایک بچوں ک‬ ‫رس لہ ہے۔ شہر کے مخت ف حصوں میں بیس مسجدیں‪ ،‬پندرہ‬ ‫مندر اور دھر س لے‪ ،‬چھ یتی خ نے‪ ،‬پ نچ ان تھ آشر اور تین‬ ‫بڑے سرک ری ہسپت ل ہیں۔ جن میں سے ایک صرف عورتوں‬ ‫کے لیے مخصوص ہے۔‬ ‫شروع شروع میں کئی س ل تک یہ شہر اپنے رہنے والوں کی‬ ‫من سبت سے ”حسن آب د“ کے ن سے موسو کی ج ت رہ ۔ مگر‬ ‫ب د میں اسے من س سمجھ کر اس میں تھوڑی سی ترمی کر‬ ‫دی گئی۔ی نی بج ئے ”حسن آب د“ کے ”حسن آب د“ کہالنے لگ ۔‬ ‫مگر یہ ن چل نہ سک ۔ کیونکہ عوا حسن اور حسن میں کچھ‬ ‫امتی ز نہ کرتے‪ ،‬آخری بڑی بڑی بوسیدہ کت بوں کی ور گردانی‬ ‫اور پرانے نوشتوں کی چھ ن بین کے ب د اس ک اص ی ن‬ ‫دری فت کی گی جس سے یہ بستی آج سے سینکڑوں برس قبل‬ ‫“!اجڑنے سے پہ ے موسو تھی اور وہ ن ہے ”آنندی‬ ‫یوں تو س را شہر بھرا پرا‪ ،‬ص ف ستھرا اور خوشن ہے مگر‬ ‫س سے خوبصورت س سے ب رون اور تج رت ک س سے‬ ‫بڑامرکز وہی ب زار ہے جس میں زن ن ب زاری رہتی ہیں۔‬ ‫آنندی ب دیہ ک اجالس زوروں پر ہے‪ ،‬ہ ل کھچ کھچ بھرا ہوا ہے‬ ‫اور خالف م مول ایک ممبر بھی غیر ح ضر نہیں۔ ب دیہ کے زیر‬


‫‪30‬‬

‫بحث مسئ ہ یہ ہے کہ زن ن ب زاری کو شہر بدر کر دی ج ئے۔‬ ‫کیونکہ ان ک وجود انس نیت‪ ،‬شرافت اور تہذی کے دامن پر‬ ‫بدنم دا ہے۔‬ ‫ایک فصیح مقرر تقریر کر رہے ہیں۔ ”م و نہیں وہ کی مص حت‬ ‫تھی جس کے زیر اثر ن پ ک طبقے کو ہم رے اس قدیمی اور‬ ‫“‪....‬ت ریخی شہر کے عین بیچوں بیچ رہنے کی اج زت دی گئی‬ ‫اس مرتبہ ان عورتوں کے لیے جو عالقہ منتخ کی گی وہ شہر‬ ‫سے ب رہ کوس دور تھ ۔‬

‫ابوزر برقی کت خ نہ‬









Turn static files into dynamic content formats.

Create a flipbook
Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.