1
پر ایک تنقیدی نظر
مقصود حسنی ابوزر برقی کت خ نہ جون ٧
2
غال عب س غال عب س 1909ءمیں پیدا ہوئے۔ ادبی زندگی ک آغ ز 1925ء میں ہوا۔ 1925ءسے 1928ءتک غیر م کی افس نوں کے ترجمے کرتے رہے۔ 1928ءسے 1937ءتک بچوں کے رس لوں (پھول) اور (تہذی نسواں) کے ایڈیٹر رہے۔ دوسری جنگ عظی کے دوران آل انڈی ریڈیو سے منس ک رہے۔ آل انڈی کے اردو ہندی رس لے (آواز) اور (س رنگ) کے مدیر بھی رہے۔ تقسی کے ب د پ کست ن آگئے اور ریڈیو پ کست ن سے وابستہ رہے۔ مالزمت کے دوران افس نہ نگ ری کی طرف توجہ کی اور چند ک می افس نے لکھ کر اردو افس نہ نگ ری میں نم ی ں )حیثیت ح صل کر لی۔( انتخ و پیشکش :عبدالرزا واحدی
3
4
آنندی از غال عب س ب دیہ ک اجالس زوروں پر تھ ۔ ہ ل کھچ کھچ بھرا ہوا تھ اور خالف م مول ایک ممبر بھی غیر ح ضر نہ تھ ۔ ب دیہ کے زیر بحث مسئ ہ یہ تھ کہ زن ن ب زاری کو شہر بدر کر دی ج ئے کیونکہ ان ک وجود انس نیت ،شرافت اور تہذی کے دامن پر بدنم دا ہے۔ ب دیہ کے ایک بھ ری بھرک رکن جو م ک و قو کے سچے خیر خواہ اور دردمند سمجھے ج تے تھے نہ یت فص حت سے تقریر کر رہے تھے۔ اور پھر حضرات آپ یہ بھی خی ل فرم ئیے کہ ان ک قی ”.... شہر کے ایک ایسے حصے میں ہے جو نہ صرف شہر کے بیچوں بیچ ع گزر گ ہ ہے ب کہ شہر ک س سے بڑا تج رتی مرکز بھی ہے۔ چن نچہ ہر شریف آدمی کو چ رو ن چ ر اس ب زار سے گزرن پڑت ہے۔ عالوہ ازیں شرف کی پ ک دامن بہو بیٹی ں اس ب زار کی تج رتی اہمیت کی وجہ سے یہ ں آنے اور خرید و فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ ص حب ن! ج یہ شریف زادی ں ان آبرو ب ختہ ،نی عری ں بیسواﺅں کے بن ﺅ سنگ رکو دیکھتی ہیں تو قدرتی طور پر ان کے دل میں بھی آرائش و دلرب ئی کی نئی
5
نئی امنگیں اور ولولے پیدا ہوتے ہیں اور اپنے غری شوہروں سے طرح طرح کے غ زوں لوینڈروں ،زر بر س ڑھیوں اور قیمتی زیوروں کی فرم ئشیں کرنے لگتی ہیں۔نتیجہ یہ ہوت ہے کہ ان ک پرمسرت گھر ،ان ک راحت کدہ ہمیشہ کے لیے جہن ک نمونہ بن ج ت ہے۔ اور ص حب ن پھر آپ یہ بھی تو خی ل فرم ئیے کہ ہم رے ”.... نونہ ل قو جو درس گ ہوں میں ت ی پ رہے ہیں اور جن کی آئندہ ترقیوں سے قو کی امیدیں وابستہ ہیں اور قی س چ ہت ہے کہ ایک نہ ایک دن قو کی کشتی کو بھنور سے نک لنے ک سہرا ان ہی کے سر بندھے گ ۔ انہیں صبح ش اسی ب زار سے ہو کر آن ج ن پڑ ج ت ہے۔ یہ قحب ئیں جو ہر وقت ب رہ بھرن! سولہ سنگ ر کئے ہر راہرو پر بے حج ب نہ نگ ہ و مژہ کے تیر و سن ں برس تی اور اسے دعوت دیتی ہیں۔کی انہیں دیکھ کر ہم رے بھولے بھ لے ن تجربہ ک ر جوانی کے نشے میں سرش ر سود و زی ں سے بے پرواہ نونہ الن قو اپنے جذب ت و خی الت اور اپنی اع ی سیرت کو م صیت کے مسمو اثرات سے مح وظ رکھ سکتے ہیں؟ ص حب ن! کی ان ک حسن زاہد فری ہم رے نونہ الن قو کو ج دہ مستقی سے بھٹک کر ،ان کے دل میں گن ہ کی پراسرار لذتوں کی تشنگی پیدا کرکے ایک بے ک ی ،ایک “....اضطرا ،ایک ہیج ن برپ نہ کردیت ہوگ اس موقع پر ایک رکن ب دیہ جو کسی زم نہ میں مدرس رہ چکے
6
تھے اور اعداد و شم ر سے خ ص شغف رکھتے تھے بول اٹھے ص حب ن واضح رہے کہ امتح نوں میں ن ک رہنے والے ط بہ ک ” “تن س پچھ ے پ نچ س ل کی نسبت ڈیوڑھ ہوگی ہے۔ ایک رکن نے جو چشمہ لگ ئے تھے اور مہینہ وار اخب ر کے مدیر اعزازی تھے تقریر کرتے ہوئے کہ ” :ہم رے شہر سے روز بروز غیرت ،شرافت ،مردانگی ،نیکو ک ری و پرہیز گ ری اٹھتی ج رہی ہے اور اس کے بج ئے بے غیرتی ،ن مردی، بزدلی ،بدم شی ،چوری اور ج ل س زی ک دور دورہ ہوت ج رہ ہے ،منشی ت ک است م ل بہت بڑھ گی ہے۔ قتل و غ رت ،خود کشی اور دیوالہ نک نے کی وارداتیں بڑھتی ج رہی ہیں۔ اس ک سب محض ان زن ن ب زاری ک ن پ ک وجود ہے کیونکہ ہم رے بھولے بھ لے شہری ان کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہو کر ہوش و خرد کھو بیٹھتے ہیں اور ان کی ب رگ ہ تک رس ئی کی زی دہ سے زی دہ قیمت اداکرتے ہر ج ئز و ن ج ئز طریقہ سے زر ح صل کرتے ہیں۔ ب ض اوق ت وہ اس س ی و کوشش میں ج مہ انس نیت سے ب ہر ہو ج تے اور قبیح اف ل ک ارتک کر بیٹھتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوت ہے کہ وہ ج ن عزیز سے ہ تھ دھو بیٹھتے “ہیں اور ی جیل خ نونمیں پڑے سڑتے ہیں۔ ایک پینشن ی فتہ م مر رکن جو ایک وسیع خ ندان کے سرپرست تھے اور دنی ک سردو گر دیکھ چکے تھے اور ا کشمکش
7
حی ت سے تھک کر ب قی م ندہ عمر سست نے اور اپنے اہل و عی ل کو اپنے س یہ میں پنپت ہوا دیکھنے کے متمنی تھے۔ تقریر کرنے اٹھے۔ ان کی آواز لرزتی ہوئی تھی اور لہجہ فری د ک انداز لیے ہوئے تھ ۔ بولے ” :ص حب ن رات رات بھر ان لوگوں کی طب ے کی تھ پ ،ان کی گ ے ب زی ں ،ان کے عش کی دھینگ مشتی ،گ لی گ وچ ،شور و غل ،ہ ہ ہ ہو ہو سن سن کر آس پ س کے رہنے والے شرف کے ک ن پک گئے ہیں۔ ضی میں ج ن آگئی ہے۔ رات کی نیند حرا ہے تو دن ک چین م قود۔ عالوہ ازیں ان کے قر سے ہم ری بہو بیٹیوں کے اخال پر جو برا اثر پڑت “....ہے اس ک اندازہ ہر ص ح اوالد خودکرسکت ہے آخری فقرہ کہتے کہتے ان کی آواز بھرا گئی اور وہ اس سے زی دہ کچھ نہ کہہ سکے۔ س اراکین ب دیہ کو ان سے ہمدردی تھی کیونکہ بدقسمتی سے ان ک مک ن اس ب زار حسن کے عین وسط میں واقع تھ ۔ ان کے ب د ایک رکن ب دیہ نے جو پرانی تہذی کے ع مبردار تھے اور آث ر قدیمہ کو اوالد سے زی دہ عزیز رکھتے تھے تقریر :کرتے ہوئے کہ حضرات! ب ہر سے جو سی ح اور ہم رے احب اس مشہور اور ” ت ریخی شہر کو دیکھنے آتے ہیں۔ ج وہ اس ب زار سے گزرتے اور اس کے مت است دہ کرتے ہیں تو یقین کیجئے کہ ہ پر
8
“گھڑوں پ نی پڑ ج ت ہے۔ ا صدر ب دیہ تقریر کرنے اٹھے۔ گو قد ٹھگن اور ہ تھ پ ﺅں چھوٹے چھوٹے تھے مگر سر بڑا تھ ۔ ”حضرات! میں اس امر میں قط ی طور پر آپ سے مت ہوں کہ اس طبقہ ک وجود ہم رے شہر اور ہم ری تہذی و تمدن کے لیے ب عث صدع ر ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ اس ک تدارک کس طرح کی ج ئے۔ اگر ان لوگوں کو مجبور کی ج ئے کہ یہ اپن ذلیل پیشہ چھوڑ “دیں تو سوال پیدا ہوت ہے کہ یہ لوگ کھ ئیں گے کہ ں سے؟ “ایک ص ح بول اٹھے۔ ”یہ عورتیں ش دی کیوں نہیں کر لیتی؟ اس پرا یک طویل فرم ئشی قہقہہ پڑا اور ہ ل کی م تمی فض میں یکب ر شگ تگی کے آث ر پیدا ہوگئے۔ ج اجالس میں خ موشی ہوئی تو ص ح صدر بولے ” :حضرات یہ تجویز ب رہ ان لوگوں کے س منے پیش کی ج چکی ہے۔ اس ک ان کی طرف سے یہ جوا دی ج ت ہے کہ آسودہ اور عزت دار لوگ خ ندانی حرمت و ن موس کے خی ل سے انہیں اپنے گھروں میں گھسنے نہ دیں گے اور م س اور ادنی طبقہ کے لوگوں کو جو محض ان کی دولت کے لیے ان سے ش دی کرنے پر آم دہ ہوں گے۔ یہ “عورتیں خود منہ نہیں لگ ئیں گی۔ اس پر ایک ص ح بولے” :ب دیہ کو ان نجی م م وں میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ ب دیہ کے س منے تو یہ مسئ ہ ہے کہ لوگ
9
“چ ہے جہن میں ج ئیں مگر اس شہر کو خ لی کر دیں۔ صدر نے کہ ” :ص حب ن! یہ بھی آس ن ک نہیں ہے۔ ان کی ت داد دس بیس نہیں سینکڑوں تک پہنچتی ہے اور پھر ان میں “سے بہت سی عورتوں کے ذاتی مک ن ت ہیں۔ یہ مسئ ہ کوئی مہینے بھر تک ب دیہ کے زیر بحث رہ ۔ اور ب الخر تم اراکین کے ات رائے سے یہ امر قرار پ ی کہ زن ن ب زاری کے مم وکہ مک نوں کو خرید لین چ ہیے اور انہیں رہنے کے لیے شہر سے ک فی دور کوئی الگ تھ گ عالقہ دی ج ن چ ہیے۔ ان عورتوں نے ب دیہ کے اس فیص ہ کے خالف سخت احتج ج کی ب ض نے ن فرم نی کرکے بھ ری جرم نے اور قیدیں بھگتیں مگر ب دیہ کی مرضی کے آگے ان کی کوئی پیش نہ چل سکی اور وہ ن چ ر صبر کرکے رہ گئیں۔ اس کے ب د ایک عرصہ تک ان زن ن ب زاری کے مم وکہ مک نوں کی فہرستیں اور نقشے تی ر ہوتے اور مک نوں کے گ ہک پیدا کیے ج تے رہے۔ بیشتر مک نوں کو بذری ہ نیال فروخت کرنے ک فیص ہ کی گی ۔ ان عورتوں کو چھ مہینے تک شہر میں اپنے ہی مک نونمیں رہنے کی اج زت دے دی گئی ت کہ اس عرصے میں وہ مخصوص عالقہ میں مک ن وغیرہ بنوا سکیں۔ ان عورتوں کے لیے جو عالقہ منتخ کی گی ۔ وہ شہر سے چھ
10
کوس دور تھ ۔ پ نچ کوس تک پکی سڑک ج تی تھی اور اس سے آگے کوس بھر ک کچ راستہ تھ ۔ کسی زم نے میں وہ ں کوئی بستی ہوگی مگر ا تو کھنڈروں کے سوا کچھ نہ رہ تھ ۔ جن میں س نپوں اور چمگ دڑوں کے مسکن تھے اور دن دہ ڑے الو بولت تھ ۔ اس عالقے کے نواح میں کچے گھروندوں والے کئی چھوٹے چھوٹے گ ﺅں تھے۔ کسی ک ف ص ہ بھی یہ ں سے دو ڈھ ئی میل سے ک نہ تھ ۔ ان گ ﺅں کے بسنے والے دن کے وقت کھیتی ب ڑی کرتے ،ی یونہی پھرتے پھراتے ادھر نکل آتے تو نکل آتے ورنہ ع طور پر اس شہر خموش ں میں آد زاد کی صورت نظر نہ آتی تھی۔ ب ض اوق ت روز روشن ہی میں گیدڑ اس عالقے میں پھرتے دیکھے گئے تھے۔ پ نسو سے کچھ اوپر بیسواﺅں میں سے صرف چودہ ایسی تھیں جو اپنے عش کی وابستگی ی خود اپنی دل بستگی ی کسی اور وجہ سے شہر کے قری آزادانہ رہنے پر مجبور تھیں اور اپنے دولت مند چ ہنے والوں کی مستقل م لی سرپرستی کے بھروسے ب دل نخواستہ اس عالقہ میں رہنے پر آم دہ ہوگئی تھیں۔ ورنہ ب قی عورتوں نے سوچ رکھ تھ کہ وہ ی تو اسی شہر کے شریف مح وں کے کونوں کھ لیوں میں ج چھپیں گی ی پھر اس شہر ہی کو چھوڑ کہیں اور نکل ج ئیں گی۔ یہ چودہ اچھی خ صی م لدار تھیں۔ اس پر شہر میں ان کے جو مم وکہ مک ن تھے ان کے دا انہیں اچھے وصول ہوگئے تھے
11
اور اس عالقے میں زمین کی قیمت برائے ن تھی اور س سے بڑھ کر یہ ان کے م نے والے دل و ج ن سے ان کی م لی امداد کرنے کے لیے تی ر تھے۔ چن نچہ انہوں نے اس عالقے میں جی کھول کر بڑے بڑے ع لی ش ن مک ن بنوانے کی ٹھ ن لی۔ ایک اونچی اور ہموار جگہ جو ٹوٹی پھوٹی قبروں سے ہٹ کر تھی۔ منتخ کی گئی۔ زمین کے قط ے ص ف کرائے اور چ بک دست نقشہ نویسوں سے مک ن کے نقشے بنوائے گئے اور چند ہی روز میں ت میر ک ک شروع ہوگی ۔ دن بھر اینٹ ،مٹی ،چون ،شہتیر ،گ رڈر اور دوسرا عم رتی س م ن الریوں ،چھکڑوں ،خچروں ،گدھوں اور انس نوں پر لد کر اس بستی میں آت اور منشی حس کت کی ک پی ں بغ وں میں دب ئے انہیں گنواتے اور ک پیوں میں درج کرتے۔ میر عم رت م م روں کو ک کے مت ہدای ت دیتے۔ م م ر مزدوروں کو ڈپٹتے،مزدور ادھر ادھر دوڑتے پھرتے۔ مزدورنیوں کو چال چال کر پک رتے اور اپنے س تھ ک کرنے کے بالتے۔ غرض س را دن ایک شور ،ایک ہنگ مہ رہت اور س را دن آس پ س کے گ ﺅں کے دیہ تی اپنے کھیتوں میں اور دیہ تنیں اپنے گھروں میں ہوا کے جھونکوں کے س تھ دور سے آتی ہوئی کھٹ کھٹ کی دھیمی آوازیں سنتی رہتی۔ اس بستی کے کھنڈروں میں ایک جگہ مسجد کے آث ر تھے اور اس کے پ س ہی ایک کنواں تھ جو بند پڑا تھ ۔ راج مزدورں نے
12
کچھ تو پ نی ح صل کرنے اور بیٹھ کر سست نے کی غرض سے اور کچھ ثوا کم نے اور اپنے نم زی بھ ئیوں کی عب دت گزاری کے خی ل سے س سے پہ ے اسی کی مرمت کی۔ چونکہ یہ ف ئدہ بخش اور ثوا ک ک تھ اس لیے کسی نے کچھ اعتراض نہ کی ۔ چن نچہ دو تین روز میں مسجد تی ر ہوگئی۔ دن کو ب رہ بجے جیسے ہی کھ ن کھ نے کی چھٹی ہوئی۔ دو ڈھ ئی سو،راج ،مزدور ،میر عم رت ،منشی اور ان بیسواﺅں کے رشتہ دار ی ک رندے جو ت میر کی نگرانی پر م مور تھے اس مسجد کے آس پ س جمع ہوج تے اور اچھ خ ص می ہ س لگ جت۔ ایک دن ایک دیہ تی بڑھی پ س کے کسی گ ﺅں میں رہتی تھی اس بستی کی خبر سن کر آگئی۔ اس کے س تھ ایک خورد س ل لڑک تھ ۔ دونوں نے مسجدکے قری ایک درخت کے نیچے گھٹی سگریٹ بیڑی ،چنے اور گڑ کی بنی ہوئی مٹھ ئیوں ک خوانچہ لگ دی ۔ بڑھی کو آئے ابھی دو دن بھی نہ گزرے تھے کہ ایک بوڑھ کس ن کہیں سے ایک مٹک اٹھ الی اور کنویں کے پ س اینٹوں ک ایک چھوا س چبوترا بن کر پیسے کے دو دو شکر کے شربت کے گالس بیچنے لگ ۔ ایک کنجڑے کو جو خبر ہوئی وہ ایک ٹوکرے میں خربوزے بھر کرلے آی اور خوانچہ والی بڑھی کے پ س بیٹھ کر ،لے لو خربوزے شہد سے میٹھے خربوزے کی صدا لگ نے لگ ۔ ایک شخص نے کی کی ۔ گھر سے
13
سری پ ئے پک ،دیگچی میں رکھ ،خوانچہ میں لگ ۔ تھوڑی سی روٹی ں مٹی کے دو تین پی لے اور ٹین ک ایک گالس لے کے آموجود ہوا اور اس بستی کے ک رکنوں کو جنگل میں گھر کی ہنڈی اور مزا چکھ نے لگ ۔ ظہر اور عصر کے وقت میر عم رت ،منشی ،م م ر اور دوسرے لوگ مزدوروں سے کنویں سے پ نی نک وا نک وا کر وضو کرتے نظر آتے۔ ایک شخص مسجد میں ج کر اذان دیت ۔ پھر ایک کو ام بن ی ج ت اور دوسرے لوگ اس کے پیچھے کھڑے ہو کر نم ز پڑھتے۔ کسی گ ﺅں میں ایک مال کے ک ن میں یہ بھنک پڑی کہ فالں مسجد میں ام کی ضرورت ہے۔ وہ دوسرے ہی دن ع ی الصبح ایک سبز جزدان میں قرآن شریف ،پنجسورہ ،رحل اور مس ے مس ئل کے چند چھوٹے چھوٹے رس لے رکھ کر آموجود ہوا اور اس مسجد کی ام مت ب ق عدہ طور پر اسے سونپ دی گئی۔ ہر روز تیسرے پہر گ ﺅں ک ایک کب بی سر پر اپنے س م ن ک ٹوکرا اٹھ ئے آ ج ت اور خوانچہ والی بڑھی کے پ س زمین پر چولہ بن کر کب ،ک یجی ،دل اور گردے سیخوں پر چڑھ بستی والوں کے ہ تھ بیچت ۔ ایک بھٹی ری نے یہ ح ل دیکھ تو اپنے می ں کو س تھ لے مسجد کے س منے میدان میں دھوپ سے بچنے کے لیے پھونس ک ایک چھپر ڈال تنور گر کرنے لگی کبھی کبھی ایک نوجوان دیہ تی ن ئی پھٹی پرانی کسبت گ ے میں
14
ڈالے جوتی کی ٹھوکروں سے راستے کے روڑوں کو لڑھک ت ادھر ادھر گشت کرت دکھنے میں آ ج ت ۔ ان بیسواﺅں کے مک نوں کی ت میر کی نگرانی ،ان کے رشتہ دار ی ک رندے توکرتے ہی تھے۔ کسی کسی دن وہ دوپہر کے کھ نے سے ف ر ہو کر اپنے عش کے ہمراہ خود بھی اپنے مک نوں کو بنت دیکھنے آ ج تیں اور غرو آفت سے پہ ے یہ ں سے نہ ج تیں۔ اس موقع پر فقیروں اور فقیرنیوں کی ٹولیوں کی ٹولی ں نہ ج نے کہ ں سے آ ج تیں اور ج تک خیرات نہ لے لیتیں اپنی صداﺅں سے برابر شورمچ تی رہتیں اور انہیں ب ت نہ کرنے دیتیں۔ کبھی کبھی شہر کے ل نگے اوب ش بے ک ر مب ش کچھ کی کرکے مصدا شہر سے پیدل چل کر بیسواﺅں کی اس نئی بستی کی سن گن لینے آ ج تے اور اگر اس دن بیسوائیں بھی آئی ہوتیں تو ان کی عید ہو ج تی۔ وہ ان سے دور ہٹ کر ان سے گردا گرد چکر لگ تے رہتے۔ فقرے کستے ،بے تکے قہقہے لگ تے۔عجی عجی شک یں بن تے اور مجنون نہ حرکتیں کرتے۔ اس روز کب بی کی خو بکری ہوتی۔ اس عالقے میں جہ ں تھوڑے ہی دن پہ ے ہو ک ع ل تھ ا ہر طرف گہم گہمی اور چہل پہل نظر آنے لگی۔ شروع شروع میں اس عالقے کی ویرانی میں ان بیسواﺅں کو یہ ں آ کر رہنے کے خی ل سے جو وحشت ہوتی تھی وہ بڑی حد تک ج تی رہی تھی اور ا وہ ہر مرتبہ خوش خوش اپنے مک نوں کی آرائش اور
15
اپنے مرغو رنگوں کے مت تھیں۔
م م روں کو ت کیدیں کر ج تیں
بستی میں ایک جگہ ٹوٹ پھوٹ مزار تھ جو قرائن سے کسی بزرگ ک م و ہوت تھ ۔ ج یہ مک ن نصف سے زی دہ ت میر ہوچکے تو ایک دن صبح کو بستی کے راج مزدوروں نے کی دیکھ کہ مزار کے پ س دھواں اٹھ رہ ہے اور ایک سرخ سرخ آنکھوں واال لمب تڑنگ مست فقیر لنگوٹ ب ندھے چ ر ابرو ک ص ی کرائے۔ اس مزار کے اردگرد پھر رہ اور کنکر پتھر اٹھ اٹھ کر پرے پھینک رہ ہے۔ دوپہر کو وہ فقیر ایک گھڑا لے کر کنویں پر آی ،اور پ نی بھر بھر کر مزار پر لے ج نے اور اسے دھونے لگ ۔ ایک دف ہ جو آی تو کنویں پر دو تین راج مزدور کھڑے تھے۔ وہ نی دیوانگی اور نی فرزانگی کے ع ل میں ان سے کہنے لگ ” :ج نتے ہو وہ کس ک مزار ہے؟ کڑک ش ہ پیر ب دش ہ ک ! میرے ب پ دادا ان کے مج ور تھے۔“ اس کے ب د اس نے ہنس ہنس کر اور آنکھوں میں آنسو بھر بھر کر پیر کڑک ش ہ کی کچھ جاللی کرام تیں بھی ان راج مزدوروں سے بی ن ک ی ں۔ ش کو یہ فقیر کہیں سے م نگ ت نگ کر مٹی کے دو دیے اور سرسوں ک تیل لے آی اور پیر کڑک ش ہ کی قبر کے سرہ نے اور پ نتی چرا روشن کر دیئے۔ رات کو پچھ ے پہر کبھی کبھی اس مزار سے ہللا ہو ک مست ن رہ سن ئی دے ج ت ۔
16
چھ مہینے گزرنے نہ پ ئے تھے کہ چودہ مک ن بن کر تی ر ہوگئے۔ یہ س کے س دو منزلہ اور قری قری ایک ہی وضع کے تھے۔ س ت ایک طرف اور س ت دوسری طرف بیچ میں چوڑی چک ی سڑک تھی۔ ہر ایک مک ن کے نیچے چ ر چ ر دک نیں تھیں۔ مک ن کی ب الئی منزل میں سڑک کے رخ وسیع برآمدہ تھ ۔ اس کے آگے بیٹھنے کے لیے کشتی نم شہ نشین بن ئی گئی تھی۔جس کے دونوں سروں پر ی تو سنگ مرمر کے مور رقص کرتے ہوئے بن ئے گئے تھے اور ی جل پریوں کے مجسمے تراشے گئے تھے جن ک آدھ دھڑ مچھ ی اور آدھ انس ن ک تھ ۔ برآمدہ کے پیچھے جو بڑا کمرہ بیٹھنے کے لیے تھ ۔ اس مینسنگ مرمر کے ن زک ن زک ستوں بن ئے گئے تھے۔ دیواروں پر کوش نم پچی ک ری کی گئی تھی۔ فرش چمکدار پتھر ک بن ی گی تھ ۔ ج سنگ مرمر کے ستونوں کے عکس اس فرش زمردیں پر پڑتے تو ایس م و ہوت گوی س ید برا پروں والے ،راج ہنسوں نے اپنی لمبی لمبی گردنیں جھیل میں ڈبو دی ہ ی ں۔ بدھ ک شبھ دن اس بستی میں آنے کے لیے مقرر کی گی ۔ اس روز اس بستی کی س بیسواﺅں نے مل کر بہت بھ ری نی ز دلوائی۔ بستی کے کھ ے میدان میں زمین کو ص ف کرا کر ش می نے نص کر دیئے گئے۔ دیگیں کھڑکنے کی آواز اور گوشت اور گھی کی خوشبو بیس بیس کوس سے فقیروں اور
17
کتوں کو کھینچ الئی۔ دوپہر ہوتے پیر کڑک ش ہ کے مزار کے پ س جہ ں لنگر تقسی کی ج ت تھ اس قدر فقیر جمع ہوگئے کہ عید کے روز کسی بڑے شہر کی ج مع مسجد کے پ س بھی نہ ہوتے ہوں گے۔ پیر کڑک ش ہ کے مزار کو خو ص ف کروای اور دھ وای گی اور اس پر پھولوں کی چ در چڑھ ئی گئی اور اس مست فقیر کو نی جوڑا س وا کر پہن ی گی جسے اس نے پہنتے ہی پھ ڑ ڈاال۔ ش کو ش می نے کے نیچے دودھ سی اج ی چ ندنی ک فرش کر دی گی ۔ گ ﺅ تکیے اور راگ رنگ کی مح ل سج ئی گئی۔ دور دور سے بہت سی بیسواﺅں کو ب وای گی جو ان کی سہی ی ں ی برادری کی تھیں۔ ان کے س تھ ان کے بہت سے م نے والے بھی آئے جن کے لیے ایک الگ ش می نے میں کرسیونک انتظ کی گی اور ان کے س منے کے رخ چقیں ڈال دی گئیں۔بے شم ر گیسوں کی روشنی سے یہ جگہ بق ہ نور بنی ہوئی تھی۔ ان بیسواﺅں کے توندل سی ہ ف س زندے ،زر ب ت اور کمخوا کی شیروانی ں پہنے ،عطر میں بسے ہوئے پھوئے ک نوں میں رکھے ادھر ادھر مونچھوں کو ت ﺅ دیتے پھرتے اور زر بر لب س اور تت ی کے پرے بھی ب ریک س ڑھیوں میں م بوس، غ زوں اورخوشبوﺅں مینبسی ہوئی ن زنیں اٹکھکی یوں سے چ تیں ،رات بھر رقص اور سرود ک ہنگ مہ برپ رہ اور جنگل میں منگل ہوگی ۔
18
دو تین دن کے ب د ج اس جشن کی تھک وٹ اتر گئی تو یہ بیسوائیں س زو س م ن کی فراہمی اور مک نوں کی آرائش میں مصروف ہوگئیں۔ جھ ڑ ،ف نوس ،ظروف ب وری قد آد آئینے، نواڑی پ نگ ،تصویریں اور قط ت سنہری ،چوکھٹوں میں جڑے ہوئے الئے گئے اور قرینے سے کمروں میں لگ ئے گئے اور کوئی آٹھ روز میں ج کر یہ مک ن کیل ک نٹے سے لیس ہوئے۔ یہ عورتیں دن ک بیشتر حصہ تو است دوں سے رقص و سرود کی ت ی لینے ،غزلیں ی د کرنے ،دھنیں بٹھ نے ،سب پڑھنے ،تختی لکھنے ،سینے پرونے ،ک ڑھنے ،گراموفون سننے ،است دوں سے ت ش اور کیر کھی نے ،ض ع جگت ،نوک جھونک سے جی بہالنے ،سونے میں گزارتیں اور تیسرے پہر غسل خ نوں میں نہ نے ج تیں۔ جہ ں ان کے مالزموں نے دستی پمپوں سے پ نی نک ل نک ل کر ٹ بھر رکھے ہوتے۔ اس کے ب د وہ بن ﺅ سنگ ر میں مصروف ہو ج تیں۔ جیسے ہی رات ک اندھیرا پھی ت یہ مک ن گیسوں کی روشنی سے جگمگ اٹھتے جو ج بج سنگ مرمر کے آدھے کھ ے ہوئے کنولوں میں نہ یت ص ئی سے چھپ ئے گئے تھے اور ان مک نوں کی کھڑکیوں اور دروازوں کے کواڑوں کے شیشے جو پھول پتیوں کی وضع کے ک ٹ کر جڑے گئے تھے۔ ان کی قوس قزح کے رنگوں کی سی روشنی ں دور سے جھ مل جھ مل کرتی نہ یت بھی م و ہوتیں۔ یہ بیسوائیں بن ﺅ سنگ ر کئے برآمدوں
19
میں ٹہ تی ،آس پ س والیوں سے ب تیں کرتیں ہنس کر کھ کھالتیں ج کھڑے کھڑے تھک ج تیں تو اندر کمرے میں چ ندنی کے فرش پر گ ﺅ تکیوں سے لگ کر بیٹھ ج تیں۔ ان کے س زندے س ز مالتے رہتے اور یہ چھ لی ں کترتی رہتیں۔ ج رات ذرا بھیگ ج تی تو ان کے م نے والے ٹوکروں میں شرا کی بوت یں اور پھول پھالری لیے اپنے دوستوں کے س تھ موٹروں ی ت نگوں میں بیٹھ کر آتے۔ اس بستی میں ان کے قد رکھتے ہی ایک خ ص گہم گہمی اور چہل پہل ہونے لگتی۔نغمہ و سرود، س ز کے سر ،رقص کرتی ہوئی ن زنینوں کے گھنگروﺅں کی آواز ق قل مین میں مل کر ایک عجی سرور کی سی کی یت پیدا کرتی۔ عیش ومستی کے ان ہنگ موں میں م و بھی نہ ہوت اور رات بیت ج تی۔ ان بیسواﺅں کو اس بستی میں آئے چند ہی روز ہوئے تھے کہ دک نوں کے کرایہ دار آب د ہوگئے جن ک کرایہ اس بستی کو آب د کرنے کے خی ل سے بہت ہی ک رکھ گی تھ ۔ س سے پہ ے جو دک ن دار آی وہ وہی بڑھی تھی جس نے س سے پہ ے مسجد کے س منے درخت کے نیچے خوانچہ لگ ی تھ ۔ دک ن کو پر کرنے کے لیے بڑھی اور اس ک لڑک سگرٹوں کے بہت سے خ لی ڈبے اٹھ الئے اور اسے منبر کے ط قوں میں سج کر رکھ دی گی ۔ بوت وں میں رنگ دار پ نی بھر دی گی ت کہ م و ہو شربت کی بوت یں ہیں۔ بڑھی نے اپنی بس ط کے مط ب ک غذی
20
پھولوں اور سگریٹ کی خ لی ڈبیوں سے بن ئی ہوئی بی وں سے دک ن کی کچھ آرائش بھی کی۔ ب ض ایکٹروں اور ایکٹرسوں کی تصویریں بھی پرانے ف می رس لوں سے نک ل کر لئی سے دیواروں پر چپک دیں۔ دک ن ک اصل م ل دو تین قس کے سگریٹ تین تین چ ر چ ر پیکٹوں ،بیڑی کے آٹھ دس بنڈلوں ،دی سالئی کی نصف درجن ڈبیوں ،پ نوں کی ڈھولی ،پینے کے تمب کو کی تین چ ر ٹکیوں اور مو بتی کے نصف بنڈل سے زی دہ نہ تھ ۔ دوسری دک ن میں ایک بنی ،تیسری میں ح وائی اور شیر فروش، چوتھی میں قص ئی ،پ نچویں میں کب بی اور چھٹی میں ایک کنجڑا آ بسے۔ کنجڑا آس پ س کے دیہ ت سے سستے داموں چ ر پ نچ قس کی سبزی ں لے آت اور یہ ں خ صے من فع پر بیچ دیت ۔ ایک آدھ ٹوکرا پھ وں ک بھی رکھ لیت ۔ چونکہ دک ن خ صی کھ ی تھی ایک پھول واال اس ک س تھی بن گی ۔ وہ دن بھر پھولوں کے ہ ر ،گجرے اور طرح طرح کے گہنے بن ت رہت اور ش کو انہیں چنگیر میں ڈال کر ایک ایک مک ن پر لے ج ت اور نہ صرف پھول ہی بیچ آت ب کہ ہر جگہ ایک ایک دو دو گھڑی بیٹھ س زندوں سے گپ شپ بھی ہ نک لیت اور حقے کے د بھی لگ آت ۔ جس دن تم ش بینوں کی کوئی ٹولی اس کی موجودگی ہی میں کوٹھے پر چڑھ آتی اور گ ن بج ن شروع ہو ج ت وہ س زندوں کے ن ک بھوں چڑھ نے کے ب وجود گھنٹوں اٹھنے ک ن نہ لیت ،مزے سے گ نے پر سر دھنت اور بیوقوفوں کی طرح
21
ایک ایک کی صورت تکت رہت ۔ جس دن رات زی دہ گزر ج تی اور کوئی ہ ر بچ رہت تو اس اپنے گ ے میں ڈال لیت اور بستی کے ب ہر گال پھ ڑ پھ ڑ کر گ ت پھرت ۔ ایک دک ن ایک بیسوا ک ب پ اور بھ ئی جو درزیوں ک ک ج نتے تھے سینے کی ایک مشین رکھ کر بیٹھ گئے۔ ہوتے ہوتے ایک حج بھی آگی اور اپنے س تھ ایک رنگریز کو بھی لیت آی ۔ اسکی دک ن کے ب ہر الگنی پر لٹکتے ہوئے طرح طرح کے رنگوں کے دو پٹے ہوا میں لہراتے ہوئے آنکھوں کے بہت بھ ے م و ہونے لگے۔ چند ہی روز گزرے تھے کہ ایک ٹٹ پونجئے ،بس طی نے جس کی دک ن شہر میں چ تی نہ تھی ،ب کہ اسے دک ن ک کرایہ نک لن بھی مشکل ہو ج ت تھ شہر کو خیر ب د کہہ کر اس بستی ک رخ کی ۔یہ ں اسے ہ تھوں ہ تھ لی گی اور اس کے طرح طرح کے لوینڈر ،قس قس کے پ ﺅڈر ،ص بن ،کنگھی ں ،بٹن ،سوئی، دھ گ ،فیتے خوشبودار تیل ،روم ل ،منجن کی خو بکری ہونے لگے۔ اس بستی کے رہنے والوں کی سرپرستی اور ان کے مربی نہ س وک کی وجہ سے اسی طرح دوسرے تیسرے روز کوئی نہ کوئی ٹٹ پونجی دک ندار کوئی بزاز ،کوئی پنس ری ،کوئی نیچہ بند ،کوئی ن ن ب ئی مندے کی وجہ سے ی شہر کے بڑھے ہوئے
22
کرایہ سے گھبرا کر اس بستی میں آ پن ہ لیت ۔ ایک بڑے می ں عط ر جو حکمت میں بھی کسی قدر دخل رکھتے تھے ان ک جی شہر کی گنج ن آب دی اور حکیموں اور دواخ نوں کی افراد سے جو گھبرای تو وہ اپنے ش گردوں کو س تھ لے شہر سے اٹھ آئے اور اس بستی میں ایک دک ن کرایہ پر لے لی۔ س را دن بڑے می ں اور ان کے ش گرد دواﺅں کے ڈبوں ،شربت کی بوت وں اور مربے ،چٹنی اچ ر کے بوی موں کو الم ریوں اور ط قوں میں اپنے اپنے ٹھک نے پر رکھتے رہے۔ ایک ط میں ط اکبر ،قراب دین ق دری اور دوسری طبی کت بیں جم کر رکھ دیں۔ کواڑوں کی اندرونی ج ن اور دیداروں میں جو جگہ خ لی بچی۔ وہ ں انہوں نے اپنے خ ص الخ ص مجرب ت کے اشتہ ر سی ہ روشن ئی سے ج ی لکھ کر اور دفیتوں پر چپک کر آویزاں کر دیئے۔ ہر روز صبح کو بیسواﺅں کے مالز گالس لے لے کر آ موجود ہوتے اور شربت بزوری ،شربت بن شہ ،شربت ان ر اور ایسے نزہت بخش ،روح افزا شربت و عر ،خمیرہ گ ﺅ زب ن اور تقویت پہنچ نے والے مربے مع ور ہ ئے نقرہ لے ج تے۔ جو دک نیں بچ رہیں ان میں ان بیسواﺅں کے بھ ئی بندوں اور س زندوں نے اپنی چ رپ ئی ں ڈال دیں۔ دن بھر یہ لوگ ان دک نوں میں ت ش چوسر اور شطرنج کھی تے ،بدن پر تیل م واتے ،سبزی گھوٹتے ،بٹیروں کی پ لی ں کراتے ،تیتروں سے سبح ن تیری قدرت کی رٹ لگواتے اور گھڑا بج بج کر گ تے۔
23
ایک بیسوا کے س زندے نے ایک دک ن خ لی دیکھ کر اپنے بھ ئی کو جو س ز بن ن ج نت تھ اس میں ال بٹھ ی ۔ دک ن کی دیواروں کے س تھ س تھ کی یں ٹھونک کر ٹوٹی پھوٹی مرمت ط س رنگی ں ،ست ر ،طنبورے ،دلرب وغیرہ ٹ نگ دیئے گئے۔ یہ شخص ست ر بج نے میں بھی کم ل رکھت تھ ۔ ش کو وہ اپنی د ک ن میں ست ر بج ت جس کی میٹھی آواز سن کر آس پ س کے دک ن دار اپنی دک نوں سے اٹھ اٹھ کر آ ج تے اور دیر تک بت بنے ست ر سنتے رہتے۔ اس ست ر نواز ک ایک ش گرد تھ جو ری وے کے دفتر میں ک رک تھ ۔ اسے ست ر سیکھنے ک بہت شو تھ ،جیسے ہی دفتر سے چھٹی ہوتی سیدھ س ئیکل اڑات ہوا اس بستی ک رخ کرت اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ دک ن ہی میں بیٹھ کر مش کی کرت غرض اس ست ر نواز کے د سے بستی میں خ صی رون ہونے لگی۔ مسجد کے مال جی ،ج تک تو یہ بستی زیر ت میر رہی رات کو دیہ ت میں اپنے گھر چ ے ج تے رہے مگر ا جبکہ انہیں دونوں وقت مرغن کھ ن ب فراط پہنچنے لگ تو وہ رات کو بھی یہیں رہنے لگے۔ رفتہ رفتہ ب ض بیسواﺅں کے گھروں سے بچے بھی مسجد میں پڑھنے آنے لگے جس سے مال جی کو روپے پیسے کی آمدنی بھی ہونے لگی۔ ایک شہر شہر گھومنے والی گھٹی درجہ کی تھیڑیکل کمپنی کو ج زمین کے چڑھے ہوئے کرایہ اور اپنی بے م ئیگی کے
24
ب عث شہر میں کہیں جگہ نہ م ی تو اس نے اس بستی ک رخ کی اور ان بیسواﺅں کے مک نوں سے کچھ ف ص ہ پر میدان میں تنبو ،کھڑے کرکے ڈیرے ڈال دیئے۔ اس کے ایکٹر ایکٹری کے فن سے محض ن ب د تھے۔ ان کے ڈریس پھٹے پرانے تھے جن کے بہت سے ست رے جھڑ چکے تھے اور یہ لوگ تم شے بھی بہت پرانے اور دقی نوسی کرتے تھے مگر اس کے ب وجود یہ کمپنی چل نک ی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ٹکٹ کے دا بہت ک تھے۔ شہر کے مزدوری پیشہ لوگ ،ک رخ نوں میں ک کرنے والے اور غری غرب ،جو دن بھر کی نوکری ،محنت مشقت کی کسر شوروغل ،خرمستی ں اور ادنی عی شیوں سے نک لن چ ہتے تھے۔ پ نچ پ نچ چھ چھ کی ٹولی ں بن کر ،گ ے میں پھولوں کے ہ ر ڈالتے ،ہنستے بولتے ،ب نسری اور الغوزے بج تے ،راہ چ توں پر آوازیں کستے ،گ لی گ وچ بکتے ،شہر سے پیدل چل کر تھیٹر دیکھنے آتے اور لگے ہ تھوں ب زار حسن کی سیر بھی کر ج تے۔ ج تک ن ٹک شروع نہ ہوت تھیٹر ک ایک مسخرہ تنبو کے ب ہر ایک اسٹول پر کھڑا کبھی کوال ہ ت ،کبھی منہ پھالت ،کبھی آنکھیں مٹک ت ۔ عجی عجی حی سوز حرکتیں کرت جنہیں دیکھ کر یہ لوگ زور سے قہقہے لگ تے اور گ لیوں کی صورت میں داد دیتے۔ رفتہ رفتہ دوسرے لوگ بھی اس بستی میں آنے شروع ہوئے۔
25
چن نچہ شہر کے بڑے بڑے چوکوں میں ت نگے والے صدائیں لگ نے لگے۔ ”آﺅ کوئی نئی بستی کو۔“ شہر سے پ نچ کوس تک جو پکی سڑک ج تی تھی اس پر پہنچ کر ت نگے والے سواریوں سے ان ح صل کرنے کے اللچ میں ی ان کی فرم ئش پر ت نگوں کی دوڑیں کراتے۔ منہ سے ہ رن بج تے اور ج کوئی ت نگہ آگے نکل ج ت تو اس کی سواری ں ن روں سے آسم ن سر پر اٹھ لیتیں۔ اس دوڑ میں غری گھوڑوں ک برا ح ل ہو ج ت اور ان کے گ ے میں پڑے ہوئے پھولوں کے ہ روں سے بج ئے خوشبو کے پسینے کی بدبو آنے لگتی۔ رکش والے ت نگے والوں سے کیوں پیچھے رہتے۔ وہ ان سے ک دا پر سواری ں بٹھ ،طرارے بھرتے اور گھنگرو بج تے اس بستی کو ج نے لگے۔ عالوہ ازیں ہر ہ تے کی ش کو اسکولوں اور ک لجوں کے ط بہ ایک ایک س ئیکل پر دو لدے ،جو در جو اس پراسرار ب زار کی سیر دیکھنے آتے جس سے ان کے خی ل کے مط ب ان کے بڑوں نے خواہ مخواہ انہیں محرو کر دی تھ ۔ رفتہ رفتہ اس بستی کی شہرت چ روں طرف پھی نے اور مک نوں اور دک نوں کی م نگ ہونے لگی۔ وہ بیسوائیں جو پہ ے اس بستی میں آنے پر تی ر نہ ہوئی تھیں ا اس کی دن دوگنی رات چوگنی ترقی دیکھ کر اپنی بیوقوفی پر افسوس کرنے لگیں۔ کئی عورتوں نے تو جھٹ زمینیں خرید ان بیسواﺅں کے س تھ س تھ
26
اسی وضع قطع کے مک ن بنوانے شروع کر دیئے۔ عالوہ ازیں شہر کے ب ض مہ جنوں نے بھی اس بستی کے آس پ س سستے داموں زمینیں خرید خریدکر کرایہ اٹھ نے کے لیے چھوٹے چھوٹے کئی مک ن بنوا ڈالے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ف حشہ عورتیں جو ہوٹ وں اور شریف مح وں میں روپوش تھیں مورو م خ کی طرح اپنے نہ ں خ نوں سے ب ہر نکل آئیں اور ان مک نوں میں آب د ہوگئیں۔ ب ض چھوٹے چھوٹے مک نوں میں اس بستی کے وہ دک ن دار آ بسے جو عی ل دار تھے اور رات کو دک ن میں سو نہ سکتے تھے۔ اس بستی میں آب دی تو خ صی ہوگئی تھی۔ مگر ابھی تک بج ی کی روشنی ک انتظ نہیں ہوا تھ ۔ چن نچہ ان بیسواﺅں اور بستی کے تم رہنے والوں کی طرف سے سرک ر کے پ س بج ی کے لیے درخواست بھیجی گئی جو تھوڑے دنوں ب د منظور کر لی گئی اس کے س تھ ہی ایک ڈاک خ نہ بھی کھول دی گی ۔ ایک بڑے می ں ڈاک خ نہ کے ب ہر ایک صندوقچے میں ل فے ،ک رڈ اور ق دوات رکھ ،بستی کے لوگوں کے خط پتر لکھنے لگے۔ ایک دف ہ بستی میں شرابیوں کی دو ٹولیوں میں فس د ہوگی ۔ جس میں سوڈا واٹر کی بوت وں ،چ قوﺅں اور اینٹوں ک آزادانہ است م ل کی گی اور کئی لوگ سخت مجروح ہوئے۔ اس پر سرک ر کو خی ل آی اس بستی میں ایک تھ نہ بھی کھول دین چ ہیے۔
27
تھیٹریکل کمپنی دو مہینے تک رہی اور اپنی بس ط کے مط ب خ ص کم لے گئی۔ اس شہر کے ایک سینم کے م لک نے سوچ کہ کیوں نہ اس بستی میں بھی ایک سینم کھول دی ج ئے۔ یہ خی ل آنے کی دیر تھی کہ اس نے جھٹ ایک موقع کی جگہ چن کر خرید لی اور ج د ج د ت میر ک ک شروع کرا دی ۔ چند ہی مہینوں میں سینم ہ ل تی ر ہوگی ۔ اس کے سینم کے اندر ایک چھوٹ س ب غیچہ بھی لگوای گی ت کہ تم ش ئی اگر ب ئیسکوپ شروع ہونے سے پہ ے آ ج ئیں تو آرا سے ب غیچہ میں بیٹھ سکیں۔ ان کے س تھ بستی کے لوگ یونہی سست نے ی سیر دیکھنے کی غرض سے آ آ کر بیٹھنے لگے۔ یہ ب غیچہ خ صی سیر گ ہ بن گی ۔ رفتہ رفتہ سقے کٹورا بج تے اس ب غیچے میں آنے اور پی سوں کی پی س بجھ نے لگے۔ سر کی تیل م لش والے نہ یت گھٹی قس کے تیز خوشبو والے تیل کی شیشی ں واسکٹ کی جیبوں میں ٹھونسے ک ندھے پر میال کچیال تولیہ ڈالے ،دل پسند دل بہ ر م لش کی صدا لگ تے درد سر کے مریضوں کو اپنی خدم ت پیش کرنے لگے۔سینم کے م لک نے سینم ہ ل کی عم رت کی بیرونی ج ن دو ایک مک ن اور کئی دک نیں بھی بنوائیں۔ مک ن میں ہوٹل کھل گی جس میں رات کو قی کرنے کے لیے کمرے بھی مل سکتے تھے ا وردک نوں میں ایک سوڈا کی فیکٹری واال ،ایک فوٹو گرافر ،ایک س ئیکل کی مرمت واال، ایک النڈری واال ،دو پنواڑی ،ایک بوٹ ش پ واال ایک ڈاکٹر مع
28
اپنے دواخ نہ کے آ رہے ،ہوتے ہوتے پ س ہی ایک دک ن میں کالل خ نہ کھ نے کی اج زت مل گئی۔ فوٹو گرافر کی دک ن کے ب ہر ایک کونے میں ایک گھڑی س ز نے آڈیر ا جم ی اور ہر وقت محد شیشہ آنکھ پر چڑھ ئے گھڑیوں کے کل پرزوں میں غ ط ں و پیچ ں رہنے لگ ۔ اس کے کچھ ہی دن ب د بستی میں نل ،روشنی اور ص ئی کے ب ق عدہ انتظ کی طرف توجہ کی ج نے لگی۔ سرک ری ک رندے سرخ جھنڈی ں ،جریبیں اور اونچ نیچ دیکھنے والے آلے لے کر آ پہنچے اور ن پ ن پ کر سڑکوں اور گ ی کوچوں کی دا بل ڈالنے لگے اور بستی کی کچی سڑکوں پر سڑک کوٹنے واال، “....انجن چ نے لگ اس واقع کو بیس برس گزر چکے ہیں۔ یہ بستی ا ایک بھرا پڑا شہر بن گئی ہے۔ جس ک اپن ری وے اسٹیشن بھی ہے اور ٹ ﺅن ہ ل بھی۔ کچہری بھی اور جیل خ نہ بھی۔ آب دی ڈھ ئی الکھ کے لگ بھگ ہے۔ شہر میں ایک ک لج ،دو ہ ئی اسکول ،ایک لڑکوں کے لیے ،ایک لڑکیوں کے لیے اور آٹھ پرائمری سکول ہیں جن میں میونسپ ٹی کی طرف سے م ت ت ی دی ج تی ہے۔ چھ سینم ہیں اور چ ر بنک جن میں سے دو دنی کے بڑے بڑے بنکوں کی ش خیں ہیں۔ شہر سے دو روزانہ ،تین ہ تہ وار دس م ہ نہ رس ئل و جرائد
29
ش ئع ہوتے ہیں۔ ان میں چ ر ادبی ،دو اخالقی و م شرتی و مذہبی ،ایک صن تی ،ایک طبی ،ایک زن نہ اور ایک بچوں ک رس لہ ہے۔ شہر کے مخت ف حصوں میں بیس مسجدیں ،پندرہ مندر اور دھر س لے ،چھ یتی خ نے ،پ نچ ان تھ آشر اور تین بڑے سرک ری ہسپت ل ہیں۔ جن میں سے ایک صرف عورتوں کے لیے مخصوص ہے۔ شروع شروع میں کئی س ل تک یہ شہر اپنے رہنے والوں کی من سبت سے ”حسن آب د“ کے ن سے موسو کی ج ت رہ ۔ مگر ب د میں اسے من س سمجھ کر اس میں تھوڑی سی ترمی کر دی گئی۔ی نی بج ئے ”حسن آب د“ کے ”حسن آب د“ کہالنے لگ ۔ مگر یہ ن چل نہ سک ۔ کیونکہ عوا حسن اور حسن میں کچھ امتی ز نہ کرتے ،آخری بڑی بڑی بوسیدہ کت بوں کی ور گردانی اور پرانے نوشتوں کی چھ ن بین کے ب د اس ک اص ی ن دری فت کی گی جس سے یہ بستی آج سے سینکڑوں برس قبل “!اجڑنے سے پہ ے موسو تھی اور وہ ن ہے ”آنندی یوں تو س را شہر بھرا پرا ،ص ف ستھرا اور خوشن ہے مگر س سے خوبصورت س سے ب رون اور تج رت ک س سے بڑامرکز وہی ب زار ہے جس میں زن ن ب زاری رہتی ہیں۔ آنندی ب دیہ ک اجالس زوروں پر ہے ،ہ ل کھچ کھچ بھرا ہوا ہے اور خالف م مول ایک ممبر بھی غیر ح ضر نہیں۔ ب دیہ کے زیر
30
بحث مسئ ہ یہ ہے کہ زن ن ب زاری کو شہر بدر کر دی ج ئے۔ کیونکہ ان ک وجود انس نیت ،شرافت اور تہذی کے دامن پر بدنم دا ہے۔ ایک فصیح مقرر تقریر کر رہے ہیں۔ ”م و نہیں وہ کی مص حت تھی جس کے زیر اثر ن پ ک طبقے کو ہم رے اس قدیمی اور “....ت ریخی شہر کے عین بیچوں بیچ رہنے کی اج زت دی گئی اس مرتبہ ان عورتوں کے لیے جو عالقہ منتخ کی گی وہ شہر سے ب رہ کوس دور تھ ۔
ابوزر برقی کت خ نہ