ترجمہ سورتہ فاتحہ

Page 1

‫ترجمہ سورتہ فاتحہ‬


‫مترجم‬ ‫شاہ فضل الرحمن گنج مرادآبادی‬ ‫ترجمہ ‪١٠٢١‬ھ‬ ‫ہدیہ کار‬ ‫مقصود حسنی‬ ‫ابوزر برقی کتب خانہ‬ ‫اپریل ‪٠٢١٢‬‬

‫ہندی اردو سے کوئی الگ سے زبان نہیں۔ زبانوں کا دیگر‬ ‫سماجی حوالوں کے ساتھ ساتھ‘ مذہبی کلچر بھی ہوتا۔ مذہبی‬ ‫کلچر سے متعلق الفاظ‘ روزمرہ زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں۔‬


‫مثال‬ ‫اس کام میں کوئی بچت بامعنی نفع بھی ہوا‬ ‫جی ہاں هللا کے فضل سے دس ہزار بچت نکلی ہے۔‬ ‫رستے میں سب ٹھیک رہا‬ ‫جی هللا کا شکر ہے خیریت سے لوٹ آیا ہوں۔‬ ‫حادثے میں کوئی زیادہ نقصان تو نہیں ہوا‬ ‫هللا کی مہربانی ہوئی ورنہ جان جا سکتی تھی۔‬ ‫ولیمے میں کھانا کم تو نہیں پڑا‬ ‫مالک کا احسان تھا کہ سب کچھ وافر رہا۔‬ ‫آؤ کھانا کھا لو۔‬ ‫بسم هللا کریں میں کھا کر آیا ہوں۔‬


‫قرآن ایمان کی کہنا کہ کون سچا اور کون جھوٹا ہے۔‬ ‫هللا نے چاہا تو کل ساری رقم ادا کر دوں گا۔‬ ‫هللا حافظ اب کل مالقات ہو گی۔‬ ‫ماشاءهللا آج تو حوروں کو بھی مات دے رہی ہو۔‬ ‫قسم لے لو جو میں نے کسی چیز کو ہاتھ بھی لگایا ہو‬ ‫آج کل کفن دفن کا خرچہ بھی کوئی کم نہیں رہا۔‬ ‫یہ سب بھگوان کی کرپا ہے ورنہ میں اس قابل کب ہوں۔‬ ‫یہ سب ایشور کی کرپا تھی جو نپٹ آیا ہوں۔‬ ‫پرمیشور بڑا دیالو ہے جو آج الکھوں میں کھیل رہا ہوں۔‬

‫ایسے سیکڑوں مذہبی لفظ یا مرکبات روزمرہ کی عمومی و‬ ‫خصوصی‘ شخصی و اجتماعی‘ رسمی و غیر رسمی‘ ذاتی یا‬ ‫پوشیدہ زندگی کی گفت گو کا حصہ بن گیے ہوتے ہیں۔ کوشش‬ ‫سے بھی‘ انہیں اس سماج کی بول چال سے‘ الگ نہیں کیا جا‬ ‫سکتا۔ ہندو مذہب سے متعلق الفاظ زبان میں داخل ہو جاتے ہیں‘‬ ‫تو اس میں ایسی کوئی حیرت والی بات نہیں۔ ان الفاظ کے داخل‬ ‫ہونے سے‘ یہ کوئی نئی زبان نہیں ہو گئی۔ عیسائی مذہب کے‬ ‫الفاظ داخل ہو جانے سے‘ زبان عیسائی نہیں ہو جاتی۔ زبان وہ‬


‫ہی رہتی ہے‘ ہاں وہ اس کلچر کے مذہب کی‘ نمائندگی کر رہی‬ ‫ہوتی ہے۔‬ ‫گلف سے شائع ہونے والے‘ رسالہ ماہ نامہ واسطہ کا صفحہ‬ ‫نمبر‪ ٤‬انٹر نیٹ سے میسر آیا ہے۔ اس صفحے پر‘ شاہ فضل‬ ‫الرحمن گنج مرادآبادی کا سورتہ فاتحہ کا ترجمہ شائع ہوا ہے۔‬ ‫یہ ترجمہ ‪١٠٢١‬ھ سے تعلق رکھتا ہے۔ سورتہ فاتحہ کے بعد‬ ‫سورتہ بقر کی کچھ آیات کا ترجمہ‘ اسی اسلوب و طور کے ساتھ‬ ‫کیا گیا ہے اور اس ذیل میں کوئی نوٹ نہیں دیا گیا۔ اسے بھی‬ ‫سورتہ فاتحہ کے ترجمے کے ساتھ مال دیا گیا ہے۔ عین ممکن‬ ‫ہے‘ پورے کالم کا ترجمہ اس طور سے کیا گیا ہو۔ دیگر ترجم‬ ‫سے یہ قطعی الگ تر اور ہٹ کر ہے۔ ایسا ترجمہ‘ اس سے‬ ‫پہلے دیکھنے اور پڑھنے سننے میں نہیں آیا۔ شاہ فضل الرحمن‬ ‫گنج مرادآبادی کی اس کاوش کی داد نہ دینا‘ بدیانتی ہو گی۔ زبان‬ ‫وطور کی مانوسیت بڑی معنویت کی حامل ہوتی۔ ہندو دھرم سے‬ ‫متعلق لوگ‘ اس کو پڑھتے ہوئے‘ غیریت محسوس نہیں کرتے۔‬ ‫اس سے رغبت کا دروازہ کھلتا ہے اور اجنبت کی دیوار گرتی‬ ‫ہے۔‬ ‫شاہ فضل الرحمن گنج مرادآبادی کے مزید ترجمے کی تالش‬ ‫میں؛ چینی‘ جاپانی اور انگریزی انداز عربی کیلوگرافی دیکھنے‬ ‫کی سعادت حاصل ہو گئی۔ یہ طور‘ غیرمسلم لوگوں کی توجہ‬ ‫حاصل کرنے کا‘ انتہائی کامیاب ذریعہ ہے۔ اچھائی پھیالنے کے‬


‫لیے‘ عرب مسلمانوں نے مقامیوں کا لباس‘ انداز‘ زبان وغیرہ‬ ‫اختیار کی اور بات ریکارڈ میں موجود ہے۔ شاہ فضل الرحمن‬ ‫گنج مرادآبادی نے‘ ہندو کلچر سے متعلق‘ ترجمے کی زبان‬ ‫اختیار کی‘ یہ امر الئق تحسین ہے۔ بےشک هللا بہتر اجر سے‬ ‫نوازنے واال ہے۔‬ ‫چینی انداز کی کیلوگرافی‬



‫جاپانی انداز کی کیلوگرافی‬







‫انگریزی انداز کی کیلوگرافی‬


‫شاہ فضل الرحمن گنج مرادآبادی کے اس ترجمے کو اس کے‬ ‫طور و اسلوب اور زبان کے حوالہ سے‘ اولیت تو حاصل ہے‬ ‫ہی‘ لیکن انہوں نے معروف سے ہٹ کر‘ لفظوں کو معنویت عطا‬ ‫کی ہے۔‬


‫هللا‪ :‬اسم ذات ہے۔ اس کے مترداف کوئی لفظ ہے ہی نہیں۔‬ ‫مرحوم نے‘ اس کا ترجمہ من موہن کیا ہے۔ یہ ترجمہ محسوس‬ ‫سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ لفظ صوری لحاظ سے بالشبہ دل کو موہ‬ ‫لیتا ہے۔‬ ‫حمد‪ :‬حمد کے معنی تعریف اور ثنا لیے جاتے ہیں‘ لیکن حضرت‬ ‫شاہ صاحب نے‘ اس لفظ کو ال کے لیے‘ سب جب کہ حمد بمعنی‬ ‫راحت‘ یعنی خوشی کے معنے دیے ہیں۔ گویا وہ سراپا خوشی‬ ‫ہے۔ اس کا نام لینے سے‘ رگ وپے میں خوشی کی لہر دوڑ‬ ‫جاتی ہے کیوں کہ وہ اول و آخر راحت ہے۔ یا یہ کہ خوشی جو‬ ‫اچھائی سے وابستہ ہوتی ہے یا یہ کہ اچھائی خوشی میسر کرتی‬ ‫ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں اچھائی خوشی ہے یعنی‬ ‫اچھائی باطنی راحت فراہم کرتی ہے۔ اس حوالہ سے‘ سب راحت‬ ‫یعنی راحتیں اسی کی ذات کے لیے ہیں۔ عالمتی حوالہ سے‬ ‫مفاہیم اچھائی بہتری وغیرہ کی طرف پھرتے ہیں۔‬ ‫رب ‪ :‬پالن ہار‬ ‫ال‪ :‬بڑی‬ ‫علمین‪ :‬سنسار‬ ‫اردو میں پالنا‘ جب کہ پنجابی میں پالن مصدر ہے۔ پالنے واال‬ ‫کے‘ مترداف پالن ہار غیرمانوس نہیں۔ حضرت شاہ صاحب نے‘‬ ‫رب کے معنی پالن ہار لیے ہیں۔ علمین بذات خود جمع ہے۔ ال‬


‫سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ عالم جو سامنے اورعلم میں‬ ‫وہ ہی نہیں وہ بھی جو سامنے اورعلم میں نہیں۔ جب ہی سارے‬ ‫سنسار معنی دیے ہیں۔ گویا سارے سنسار کا پالن ہار یعنی‬ ‫عالموں کا بال کسی تخصیص پالنے واال۔ صوری اور معنوی‬ ‫اعتبار سے‘ خوب صورت ترجمہ ہے۔ ہندو کلچر کے لیے بھی‬ ‫مانوس ترین ہے۔‬ ‫الرحمن‪ :‬نیاہ موہ‬ ‫الرحمن‪ :‬نیاہ موہ ترجمے میں‘ جہاں مالئمیت اور ریشمیت سی‬ ‫محسوس ہوتی ہے‘ وہاں صوتی حوالہ سے‘ کانوں میں رس‬ ‫گھولتا محسوس ہوتا ہے۔ اس میں پیار محبت اور شفقت و عطا‬ ‫کا عنصر غلبہ رکھتا ہے۔ اسے اس کے متعلقہ متن میں‘ مالحظہ‬ ‫فرمائیں‘ میرے کہے کی سچائی واضح ہو جائے گی۔ تکلیف دہ‬ ‫حالت میں تشفی‘ بالشبہ معامالت حیات میں‘ بڑی معنویت کی‬ ‫حامل ہوتی ہے۔ نیاہ موہ کی اصل تفیم یہ ہی ٹھہرتی ہے۔ اس کا‬ ‫احسان اور فضل بھی‘ نیاہ باانصاف اور حسب حاجت ہوتا ہے۔‬ ‫الرحیم‪ :‬مہر واال‬ ‫الرحیم‪ :‬مہر واال یعنی وہ جو کسی کی تکیلف نہ دیکھ سکتا ہو۔‬ ‫کسی کو دکھ تکلیف میں دیکھ کر‘ محبت‘ احسان اور رحم میں آ‬ ‫جائے اور اس کے مداوے کا ان ہی لمحوں میں چارہ کرئے۔‬


‫من موہن‘ کسی کو تکیف میں مبتال نہیں کرتا۔ تاریخ اٹھا کر‬ ‫دیکھ لیں‘ نمرود‘ فرعون یزید وغیرہ‘ اپنی ہی کرنی کی پکڑ میں‬ ‫آئے ہیں۔ یہاں ہو کہ روز آخرت‘ ہر کوئی اپنے کیے کی گرفت‬ ‫میں آئے گا۔‬ ‫مالک‪ :‬بس میں‬ ‫مالک کو بس میں یعنی اختیار میں‘ کے معنوں میں لیا گیا ہے۔‬ ‫وہ جس کے اختیار میں ہو اور کسی اور کے اختیار میں نہ ہو‘‬ ‫ملکیت کے زمرے میں آتا ہے۔ اس میں کسی اور کا بس نہ چلتا‬ ‫ہو یا یوں کہہ لیں کہ اس کے سوا‘ وہاں ہر کوئی مجبور و‬ ‫بےبس ہو۔ ہر کرنا اسی کی مرضی پر مبنی ہو۔ وہ جیسے چاہے‬ ‫اور جس طرح چاہے کرئے یا کرنے پر قادر ہو۔ یہ الگ بات ہے‘‬ ‫کہ وہ حق اور حق کے سوا نہیں کرتا۔ اس کا ہر کیا‘ عدل و‬ ‫انصاف پر استوار ہوتا ہے۔‬ ‫یوم ‪ :‬دن‬ ‫یوم ‪ :‬دن‘ دن اردو میں عام استعمال کا لفظ ہے۔‬ ‫الدین‪ :‬چکوتی‬ ‫چک وتی‬


‫یہ انصاف اور فیصے کا دن ہو گا۔ زندگی کے دنوں میں‘ دنیا‬ ‫کے بادشاہ فیصلے کرتے آئے ہیں لیکن اس دن‘ وہ بےبس ہوں‬ ‫گے۔ انہیں خود اس عمل سے گزرنا ہو گا۔ گویا یہ دن بادشاہوں‬ ‫کے بادشاہ کا ہو گا۔ اس دن سوائے اس بادشاہ کے کوئی بادشاہ‬ ‫نہیں ہو گا۔ صرف اور صرف اسی کا حکم چلے گا۔ مفہوم یہ ہی‬ ‫ٹھہرے گا۔‬ ‫یوم الدین‪ :‬بادشاہوں کے بادشاہ کا دن‬ ‫نعبد‪ :‬پوجتے‘ عبادت کے لیے ہندو لفظ پوجا استعمال کرتے ہیں۔‬ ‫جس کی پوجا کی جائے اسے پوجیور کہا جاتا ہے۔‬ ‫و‪ :‬اور‬ ‫و‪ :‬اور‘ اردو میں واؤ اور کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں‬ ‫واؤ مرکبات میں اور کے معنوں میں مستعمل ہے۔ مثال شب‬ ‫وروز‘ شادی و غم‘ سیاہ و سفید وغیرہ۔‬ ‫نستعین‪ :‬آسرا‬ ‫لفظ نستعین اردو میں مستعمل نہیں۔‬ ‫آسرا سہارا‘ گرتے کو تھامنا‘ گرے کو اٹھانا۔ چھت میسر آنا۔‬ ‫معاش کی صورت‘ کسی کے حوالہ سے پیدا ہونا۔ یہ لفظ‘ صوری‬ ‫و معنوی اعتبار سے‘ فصیح و بلیغ ہے۔ اسی طرح انسانی زندگی‬ ‫کے‘ ہر گوشے سے‘ کسی ناکسی حوالہ سے‘ منسلک ہے۔ اردو‬ ‫والوں کے لیے‘ یہ لفظ قطعی غیرمانوس نہیں۔‬


‫صراط ‪ :‬راہ‬ ‫لفظ صراط اردو میں مستعمل نہیں۔‬ ‫اہل زبان نے‘ اس کا ترجمہ راہ‘ رستہ کیا ہے۔ حضرت شاہ‬ ‫صاحب نے بھی یہ ہی ترجمہ کیا ہے‘ جو غیرمانوس نہیں۔‬ ‫مستقیم ‪ :‬سیدھی‬ ‫لفظ مستقیم اردو والوں کے لیے اجنبی نہیں اور یہ تفہیمی‬ ‫اعتبار سے سیدھا یا سیدھی رواج رکھتا ہے۔ جیسے‬ ‫خط مستقیم‬ ‫انعمت‪ :‬دیا‬ ‫انعمت‪ :‬دیا‘ نعمت اردو میں مستعمل ہے۔ دیا کے لغوی معنی‬ ‫محبت‘ عنایت‘ شفقت‘ رحم‘ مہربانی‘ ترس‘ بخشش وغیرہ ہیں۔‬ ‫متن کے لحاظ سے مفہوم بخشش کے قریب تر ہیں اس لیے دان‬ ‫دینے واال۔ تاہم دان کی نوعیت دیگر دیالو حضرات سے الگ تر‬ ‫ہے۔ وہ ایسا دان دینے واال ہے‘ کہ اس سا دان دینے واال کوئی‬ ‫نہیں۔ ناہی اوروں کے پاس اس سا دان ہے۔ اس دان میں‘ اس‬ ‫کی محبت‘ عنایت‘ شفقت‘ رحم‘ مہربانی‘ ترس شامل ہوتے ہیں۔‬ ‫گویا اس کی دیا اوروں سے الگ ترین ہے۔‬ ‫المغضوب‪ :‬جھنجالہٹ‬


‫جھنجالہٹ‘ غصہ اور خفگی کے لیے مستعمل ہے۔ جھنجل سخت‬ ‫آندھی کے لیے ہے۔ ہٹ کا الحقہ قائم ہونے کے لیے ہے‘ یعنی‬ ‫سخت آندھی کا آنا۔ دریا کا حد سے بڑے مدوجر۔ یہ اپنی حقیقت‬ ‫میں غضب ہی کی صورت ہے۔ یہاں غصہ اور خفگی کی گرفت‬ ‫میں آئے مراد ہے۔ خفگی خفا سے اور خفا غصہ اور ناراضگی‬ ‫ہی تو ہے۔‬ ‫الضآلین‪ :‬کوراہوں کی‬ ‫الضآلین‪ :‬کوراہوں کی‘ یعنی جو اصل راہ سے ہٹ گیا ہو۔ کوراہ‬ ‫غیر مانوس نہیں۔ کو‘ منفی مفہوم کا حامل ہے۔ مثال کو‪ -‬تاہ‘ کو‪-‬‬ ‫تاہی‘ کو۔ ہڈ‘ کو۔ سنگ‘ کو۔ ریت وغیرہ۔ یہ سابقہ اپنی اصل میں‘‬ ‫مکمل یا جزوی غلطی‘ خرابی‘ کجی‘ کمی‘ خامی‘ بدنمائی‘‬ ‫بدنامی‘ بدکاری وغیرہ کے لیے مخصوص ہے۔ یہاں بھی ان ہی‬ ‫معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ کو۔ راہ یعنی راہ سے ہٹا ہوا۔‬ ‫‪.................................‬‬ ‫ترجمہ سورتہ‬ ‫پہلے ہی پہل نام لیتا ہوں من موہن کا جوہ بڑی نیاہ موہ واال ہے‬ ‫سب راحت من موہن کو ہے جو سارے سنسار کا پالن ہار بڑی‬ ‫نیاہ موہ کا مہر واال ہے جس کے بس میں چکوتی کا دن ہے۔ ہم‬ ‫تیرا ہی آسرا چاہتے ہیں اور تجہی کو پوجتے ہیں چال ہم کو‬ ‫سیدھی راہ ڈگ مگ نہیں۔ ان لوگوں کی جن پر تیری دیا ہوگی۔‬ ‫نہ ان کی جن پر تیری جھنجالہٹ ہوئی نہ راہ کوراہوں کی۔ اور‬ ‫نہ راہ کھوئے ہووں کی۔ اور راہ بھٹکے ہووں کی۔ اس مہابید‬


‫کے پرمیشور ہونے میں کوئی وگدھا نہیں۔ وہ بھگتوں کو بھلی‬ ‫راہ پر التا ہے۔ جو اندیکھے دھرم التے ہیں اور پوجا کو‬ ‫سنوارتے ہیں اور ہمارے دیئے کا دان بھی کرتے ہیں۔ اور جو‬ ‫جو تیرے بل اترا اس کو اور جو تجھ سے پہلے اتارا گیا اس کو‬ ‫جی سے مانتے ہیں اورپچھلے جگ کو بھی جی میں ٹھیک‬ ‫جانتے ہیں۔ یہی لوگ اپنے پالن ہار کی راہ پر ہیں۔ اور یہی اپنی‬ ‫امنگ پاون ہار ہیں۔ اس میں کوئی وگدھا نہیں کہ ملیچھوں کو تو‬ ‫کیسا ہی ڈراوے یا نہ ڈراوے وہ دھرم نہیں الویں گے۔ من موہن‬ ‫نے ان کے جی اور کانوں پر ٹھپا لگا دیا ہے اور ان کے نینوں‬ ‫میں موتیا پھرا ہوا ہے اور کے لیے بھاری مار ہے۔‬ ‫شاہ فضل الرحمن گنج مرادآبای‬ ‫‪١٠٢١‬‬ ‫فرہنگ سورتہ فاتحہ‬ ‫ال‬ ‫سب‬ ‫حمد‬ ‫راحت‬ ‫هللا‬


‫من موہن‬ ‫رب‬ ‫پالن ہار‬ ‫ال‬ ‫سارے‬ ‫علمین‬ ‫سنسار‬ ‫ال‬ ‫بڑی‬ ‫رحمن‬ ‫نیاہ موہ‬ ‫الرحیم‬ ‫مہر واال‬ ‫مالک‬ ‫بس میں‬ ‫یوم‬


‫دن‬ ‫الدین‬ ‫چکوتی‬ ‫ایاک‬ ‫تجہی کو‬ ‫نعبد‬ ‫پوجتے‬ ‫و‬ ‫اور‬ ‫ایاک‬ ‫تیرا‬ ‫نستعین‬ ‫آسرا‬ ‫اھدنا‬ ‫ہم کو‬ ‫الصراط‬


‫راہ‬ ‫المستقیم‬ ‫سیدھی‬ ‫انعمت‬ ‫دیا‬ ‫علیھم‬ ‫جن پر‬ ‫غیر‬ ‫جن پر‬ ‫المغضوب‬ ‫جھنجالہٹ‬ ‫علیھم‬ ‫ان کی‬ ‫و‬ ‫اور‬ ‫الضآلین‬


‫کوراہوں کی‬

‫‪.................................‬‬

‫پہلے ہی پہل نام لیتا ہوں من موہن کا جوہ بڑی نیاہ موہ واال ہے‬ ‫الحمد هلل‬ ‫سب راحت من موہن کو ہے‬ ‫رب العلمین‬ ‫جو سارے سنسار کا پالن ہار‬ ‫الرحمن الرحیم‬ ‫بڑی نیاہ موہ کا مہر واال ہے‬ ‫ملک یوم الدین‬ ‫جس کے بس میں چکوتی کا دن ہے۔‬ ‫ایاک نعبد و ایاک نستعین‬


‫ہم تیرا ہی آسرا چاہتے ہیں اور تجہی کو پوجتے ہیں‬ ‫لفظی و ترتیبی‬ ‫تجہی کو پوجتے ہیں اور ہم تیرا ہی آسرا چاہتے ہیں‬ ‫اھدناالصراط المستقیم انعمت علیھم‬ ‫چال ہم کو سیدھی راہ ڈگ مگ نہیں۔ ان لوگوں کی جن پر تیری‬ ‫دیا ہوگی۔‬ ‫چال ہم کو سیدھی راہ ڈگ مگ نہیں ان لوگوں کی جن پر تیری‬ ‫دیا ہوگی۔‬ ‫چال ہم کو سیدھی راہ‘ ڈگ مگ نہیں ان لوگوں کی جن پر تیری‬ ‫دیا ہوگی۔‬ ‫وضاحتی‬ ‫ڈگ مگ نہیں‬ ‫غیرالمغضوب علیھم والضآلین‬ ‫نہ ان کی جن پر تیری جھنجالہٹ ہوئی نہ راہ کوراہوں کی۔‬ ‫آمین‬ ‫‪................‬‬ ‫یہ سورتہ فاتحہ کا ترجمہ نہیں‘ سورتہ البقر کی کچھ آیات کا‬


‫ترجمہ ہے۔‬ ‫اس مہابید کے پرمیشور ہونے میں کوئی وگدھا نہیں۔ وہ بھگتوں‬ ‫کو بھلی راہ پر التا ہے۔ جو اندیکھے دھرم التے ہیں اور پوجا‬ ‫کو سنوارتے ہیں اور ہمارے دیئے کا دان بھی کرتے ہیں۔ اور‬ ‫جو جو تیرے بل اترا اس کو اور جو تجھ سے پہلے اتارا گیا اس‬ ‫کو جی سے مانتے ہیں اورپچھلے جگ کو بھی جی میں ٹھیک‬ ‫جانتے ہیں۔ یہی لوگ اپنے پالن ہار کی راہ پر ہیں۔ اور یہی اپنی‬ ‫امنگ پاون ہار ہیں۔ اس میں کوئی وگدھا نہیں کہ ملیچھوں کو تو‬ ‫کیسا ہی ڈراوے یا نہ ڈراوے وہ دھرم نہیں الویں گے۔ من موہن‬ ‫نے ان کے جی اور کانوں پر ٹھپا لگا دیا ہے اور ان کے نینوں‬ ‫میں موتیا پھرا ہوا ہے اور کے لیے بھاری مار ہے۔‬ ‫‪...........‬‬




Turn static files into dynamic content formats.

Create a flipbook
Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.