ترجمہ سورتہ فاتحہ
مترجم شاہ فضل الرحمن گنج مرادآبادی ترجمہ ١٠٢١ھ ہدیہ کار مقصود حسنی ابوزر برقی کتب خانہ اپریل ٠٢١٢
ہندی اردو سے کوئی الگ سے زبان نہیں۔ زبانوں کا دیگر سماجی حوالوں کے ساتھ ساتھ‘ مذہبی کلچر بھی ہوتا۔ مذہبی کلچر سے متعلق الفاظ‘ روزمرہ زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں۔
مثال اس کام میں کوئی بچت بامعنی نفع بھی ہوا جی ہاں هللا کے فضل سے دس ہزار بچت نکلی ہے۔ رستے میں سب ٹھیک رہا جی هللا کا شکر ہے خیریت سے لوٹ آیا ہوں۔ حادثے میں کوئی زیادہ نقصان تو نہیں ہوا هللا کی مہربانی ہوئی ورنہ جان جا سکتی تھی۔ ولیمے میں کھانا کم تو نہیں پڑا مالک کا احسان تھا کہ سب کچھ وافر رہا۔ آؤ کھانا کھا لو۔ بسم هللا کریں میں کھا کر آیا ہوں۔
قرآن ایمان کی کہنا کہ کون سچا اور کون جھوٹا ہے۔ هللا نے چاہا تو کل ساری رقم ادا کر دوں گا۔ هللا حافظ اب کل مالقات ہو گی۔ ماشاءهللا آج تو حوروں کو بھی مات دے رہی ہو۔ قسم لے لو جو میں نے کسی چیز کو ہاتھ بھی لگایا ہو آج کل کفن دفن کا خرچہ بھی کوئی کم نہیں رہا۔ یہ سب بھگوان کی کرپا ہے ورنہ میں اس قابل کب ہوں۔ یہ سب ایشور کی کرپا تھی جو نپٹ آیا ہوں۔ پرمیشور بڑا دیالو ہے جو آج الکھوں میں کھیل رہا ہوں۔
ایسے سیکڑوں مذہبی لفظ یا مرکبات روزمرہ کی عمومی و خصوصی‘ شخصی و اجتماعی‘ رسمی و غیر رسمی‘ ذاتی یا پوشیدہ زندگی کی گفت گو کا حصہ بن گیے ہوتے ہیں۔ کوشش سے بھی‘ انہیں اس سماج کی بول چال سے‘ الگ نہیں کیا جا سکتا۔ ہندو مذہب سے متعلق الفاظ زبان میں داخل ہو جاتے ہیں‘ تو اس میں ایسی کوئی حیرت والی بات نہیں۔ ان الفاظ کے داخل ہونے سے‘ یہ کوئی نئی زبان نہیں ہو گئی۔ عیسائی مذہب کے الفاظ داخل ہو جانے سے‘ زبان عیسائی نہیں ہو جاتی۔ زبان وہ
ہی رہتی ہے‘ ہاں وہ اس کلچر کے مذہب کی‘ نمائندگی کر رہی ہوتی ہے۔ گلف سے شائع ہونے والے‘ رسالہ ماہ نامہ واسطہ کا صفحہ نمبر ٤انٹر نیٹ سے میسر آیا ہے۔ اس صفحے پر‘ شاہ فضل الرحمن گنج مرادآبادی کا سورتہ فاتحہ کا ترجمہ شائع ہوا ہے۔ یہ ترجمہ ١٠٢١ھ سے تعلق رکھتا ہے۔ سورتہ فاتحہ کے بعد سورتہ بقر کی کچھ آیات کا ترجمہ‘ اسی اسلوب و طور کے ساتھ کیا گیا ہے اور اس ذیل میں کوئی نوٹ نہیں دیا گیا۔ اسے بھی سورتہ فاتحہ کے ترجمے کے ساتھ مال دیا گیا ہے۔ عین ممکن ہے‘ پورے کالم کا ترجمہ اس طور سے کیا گیا ہو۔ دیگر ترجم سے یہ قطعی الگ تر اور ہٹ کر ہے۔ ایسا ترجمہ‘ اس سے پہلے دیکھنے اور پڑھنے سننے میں نہیں آیا۔ شاہ فضل الرحمن گنج مرادآبادی کی اس کاوش کی داد نہ دینا‘ بدیانتی ہو گی۔ زبان وطور کی مانوسیت بڑی معنویت کی حامل ہوتی۔ ہندو دھرم سے متعلق لوگ‘ اس کو پڑھتے ہوئے‘ غیریت محسوس نہیں کرتے۔ اس سے رغبت کا دروازہ کھلتا ہے اور اجنبت کی دیوار گرتی ہے۔ شاہ فضل الرحمن گنج مرادآبادی کے مزید ترجمے کی تالش میں؛ چینی‘ جاپانی اور انگریزی انداز عربی کیلوگرافی دیکھنے کی سعادت حاصل ہو گئی۔ یہ طور‘ غیرمسلم لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کا‘ انتہائی کامیاب ذریعہ ہے۔ اچھائی پھیالنے کے
لیے‘ عرب مسلمانوں نے مقامیوں کا لباس‘ انداز‘ زبان وغیرہ اختیار کی اور بات ریکارڈ میں موجود ہے۔ شاہ فضل الرحمن گنج مرادآبادی نے‘ ہندو کلچر سے متعلق‘ ترجمے کی زبان اختیار کی‘ یہ امر الئق تحسین ہے۔ بےشک هللا بہتر اجر سے نوازنے واال ہے۔ چینی انداز کی کیلوگرافی
جاپانی انداز کی کیلوگرافی
انگریزی انداز کی کیلوگرافی
شاہ فضل الرحمن گنج مرادآبادی کے اس ترجمے کو اس کے طور و اسلوب اور زبان کے حوالہ سے‘ اولیت تو حاصل ہے ہی‘ لیکن انہوں نے معروف سے ہٹ کر‘ لفظوں کو معنویت عطا کی ہے۔
هللا :اسم ذات ہے۔ اس کے مترداف کوئی لفظ ہے ہی نہیں۔ مرحوم نے‘ اس کا ترجمہ من موہن کیا ہے۔ یہ ترجمہ محسوس سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ لفظ صوری لحاظ سے بالشبہ دل کو موہ لیتا ہے۔ حمد :حمد کے معنی تعریف اور ثنا لیے جاتے ہیں‘ لیکن حضرت شاہ صاحب نے‘ اس لفظ کو ال کے لیے‘ سب جب کہ حمد بمعنی راحت‘ یعنی خوشی کے معنے دیے ہیں۔ گویا وہ سراپا خوشی ہے۔ اس کا نام لینے سے‘ رگ وپے میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے کیوں کہ وہ اول و آخر راحت ہے۔ یا یہ کہ خوشی جو اچھائی سے وابستہ ہوتی ہے یا یہ کہ اچھائی خوشی میسر کرتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں اچھائی خوشی ہے یعنی اچھائی باطنی راحت فراہم کرتی ہے۔ اس حوالہ سے‘ سب راحت یعنی راحتیں اسی کی ذات کے لیے ہیں۔ عالمتی حوالہ سے مفاہیم اچھائی بہتری وغیرہ کی طرف پھرتے ہیں۔ رب :پالن ہار ال :بڑی علمین :سنسار اردو میں پالنا‘ جب کہ پنجابی میں پالن مصدر ہے۔ پالنے واال کے‘ مترداف پالن ہار غیرمانوس نہیں۔ حضرت شاہ صاحب نے‘ رب کے معنی پالن ہار لیے ہیں۔ علمین بذات خود جمع ہے۔ ال
سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ عالم جو سامنے اورعلم میں وہ ہی نہیں وہ بھی جو سامنے اورعلم میں نہیں۔ جب ہی سارے سنسار معنی دیے ہیں۔ گویا سارے سنسار کا پالن ہار یعنی عالموں کا بال کسی تخصیص پالنے واال۔ صوری اور معنوی اعتبار سے‘ خوب صورت ترجمہ ہے۔ ہندو کلچر کے لیے بھی مانوس ترین ہے۔ الرحمن :نیاہ موہ الرحمن :نیاہ موہ ترجمے میں‘ جہاں مالئمیت اور ریشمیت سی محسوس ہوتی ہے‘ وہاں صوتی حوالہ سے‘ کانوں میں رس گھولتا محسوس ہوتا ہے۔ اس میں پیار محبت اور شفقت و عطا کا عنصر غلبہ رکھتا ہے۔ اسے اس کے متعلقہ متن میں‘ مالحظہ فرمائیں‘ میرے کہے کی سچائی واضح ہو جائے گی۔ تکلیف دہ حالت میں تشفی‘ بالشبہ معامالت حیات میں‘ بڑی معنویت کی حامل ہوتی ہے۔ نیاہ موہ کی اصل تفیم یہ ہی ٹھہرتی ہے۔ اس کا احسان اور فضل بھی‘ نیاہ باانصاف اور حسب حاجت ہوتا ہے۔ الرحیم :مہر واال الرحیم :مہر واال یعنی وہ جو کسی کی تکیلف نہ دیکھ سکتا ہو۔ کسی کو دکھ تکلیف میں دیکھ کر‘ محبت‘ احسان اور رحم میں آ جائے اور اس کے مداوے کا ان ہی لمحوں میں چارہ کرئے۔
من موہن‘ کسی کو تکیف میں مبتال نہیں کرتا۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں‘ نمرود‘ فرعون یزید وغیرہ‘ اپنی ہی کرنی کی پکڑ میں آئے ہیں۔ یہاں ہو کہ روز آخرت‘ ہر کوئی اپنے کیے کی گرفت میں آئے گا۔ مالک :بس میں مالک کو بس میں یعنی اختیار میں‘ کے معنوں میں لیا گیا ہے۔ وہ جس کے اختیار میں ہو اور کسی اور کے اختیار میں نہ ہو‘ ملکیت کے زمرے میں آتا ہے۔ اس میں کسی اور کا بس نہ چلتا ہو یا یوں کہہ لیں کہ اس کے سوا‘ وہاں ہر کوئی مجبور و بےبس ہو۔ ہر کرنا اسی کی مرضی پر مبنی ہو۔ وہ جیسے چاہے اور جس طرح چاہے کرئے یا کرنے پر قادر ہو۔ یہ الگ بات ہے‘ کہ وہ حق اور حق کے سوا نہیں کرتا۔ اس کا ہر کیا‘ عدل و انصاف پر استوار ہوتا ہے۔ یوم :دن یوم :دن‘ دن اردو میں عام استعمال کا لفظ ہے۔ الدین :چکوتی چک وتی
یہ انصاف اور فیصے کا دن ہو گا۔ زندگی کے دنوں میں‘ دنیا کے بادشاہ فیصلے کرتے آئے ہیں لیکن اس دن‘ وہ بےبس ہوں گے۔ انہیں خود اس عمل سے گزرنا ہو گا۔ گویا یہ دن بادشاہوں کے بادشاہ کا ہو گا۔ اس دن سوائے اس بادشاہ کے کوئی بادشاہ نہیں ہو گا۔ صرف اور صرف اسی کا حکم چلے گا۔ مفہوم یہ ہی ٹھہرے گا۔ یوم الدین :بادشاہوں کے بادشاہ کا دن نعبد :پوجتے‘ عبادت کے لیے ہندو لفظ پوجا استعمال کرتے ہیں۔ جس کی پوجا کی جائے اسے پوجیور کہا جاتا ہے۔ و :اور و :اور‘ اردو میں واؤ اور کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں واؤ مرکبات میں اور کے معنوں میں مستعمل ہے۔ مثال شب وروز‘ شادی و غم‘ سیاہ و سفید وغیرہ۔ نستعین :آسرا لفظ نستعین اردو میں مستعمل نہیں۔ آسرا سہارا‘ گرتے کو تھامنا‘ گرے کو اٹھانا۔ چھت میسر آنا۔ معاش کی صورت‘ کسی کے حوالہ سے پیدا ہونا۔ یہ لفظ‘ صوری و معنوی اعتبار سے‘ فصیح و بلیغ ہے۔ اسی طرح انسانی زندگی کے‘ ہر گوشے سے‘ کسی ناکسی حوالہ سے‘ منسلک ہے۔ اردو والوں کے لیے‘ یہ لفظ قطعی غیرمانوس نہیں۔
صراط :راہ لفظ صراط اردو میں مستعمل نہیں۔ اہل زبان نے‘ اس کا ترجمہ راہ‘ رستہ کیا ہے۔ حضرت شاہ صاحب نے بھی یہ ہی ترجمہ کیا ہے‘ جو غیرمانوس نہیں۔ مستقیم :سیدھی لفظ مستقیم اردو والوں کے لیے اجنبی نہیں اور یہ تفہیمی اعتبار سے سیدھا یا سیدھی رواج رکھتا ہے۔ جیسے خط مستقیم انعمت :دیا انعمت :دیا‘ نعمت اردو میں مستعمل ہے۔ دیا کے لغوی معنی محبت‘ عنایت‘ شفقت‘ رحم‘ مہربانی‘ ترس‘ بخشش وغیرہ ہیں۔ متن کے لحاظ سے مفہوم بخشش کے قریب تر ہیں اس لیے دان دینے واال۔ تاہم دان کی نوعیت دیگر دیالو حضرات سے الگ تر ہے۔ وہ ایسا دان دینے واال ہے‘ کہ اس سا دان دینے واال کوئی نہیں۔ ناہی اوروں کے پاس اس سا دان ہے۔ اس دان میں‘ اس کی محبت‘ عنایت‘ شفقت‘ رحم‘ مہربانی‘ ترس شامل ہوتے ہیں۔ گویا اس کی دیا اوروں سے الگ ترین ہے۔ المغضوب :جھنجالہٹ
جھنجالہٹ‘ غصہ اور خفگی کے لیے مستعمل ہے۔ جھنجل سخت آندھی کے لیے ہے۔ ہٹ کا الحقہ قائم ہونے کے لیے ہے‘ یعنی سخت آندھی کا آنا۔ دریا کا حد سے بڑے مدوجر۔ یہ اپنی حقیقت میں غضب ہی کی صورت ہے۔ یہاں غصہ اور خفگی کی گرفت میں آئے مراد ہے۔ خفگی خفا سے اور خفا غصہ اور ناراضگی ہی تو ہے۔ الضآلین :کوراہوں کی الضآلین :کوراہوں کی‘ یعنی جو اصل راہ سے ہٹ گیا ہو۔ کوراہ غیر مانوس نہیں۔ کو‘ منفی مفہوم کا حامل ہے۔ مثال کو -تاہ‘ کو- تاہی‘ کو۔ ہڈ‘ کو۔ سنگ‘ کو۔ ریت وغیرہ۔ یہ سابقہ اپنی اصل میں‘ مکمل یا جزوی غلطی‘ خرابی‘ کجی‘ کمی‘ خامی‘ بدنمائی‘ بدنامی‘ بدکاری وغیرہ کے لیے مخصوص ہے۔ یہاں بھی ان ہی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ کو۔ راہ یعنی راہ سے ہٹا ہوا۔ ................................. ترجمہ سورتہ پہلے ہی پہل نام لیتا ہوں من موہن کا جوہ بڑی نیاہ موہ واال ہے سب راحت من موہن کو ہے جو سارے سنسار کا پالن ہار بڑی نیاہ موہ کا مہر واال ہے جس کے بس میں چکوتی کا دن ہے۔ ہم تیرا ہی آسرا چاہتے ہیں اور تجہی کو پوجتے ہیں چال ہم کو سیدھی راہ ڈگ مگ نہیں۔ ان لوگوں کی جن پر تیری دیا ہوگی۔ نہ ان کی جن پر تیری جھنجالہٹ ہوئی نہ راہ کوراہوں کی۔ اور نہ راہ کھوئے ہووں کی۔ اور راہ بھٹکے ہووں کی۔ اس مہابید
کے پرمیشور ہونے میں کوئی وگدھا نہیں۔ وہ بھگتوں کو بھلی راہ پر التا ہے۔ جو اندیکھے دھرم التے ہیں اور پوجا کو سنوارتے ہیں اور ہمارے دیئے کا دان بھی کرتے ہیں۔ اور جو جو تیرے بل اترا اس کو اور جو تجھ سے پہلے اتارا گیا اس کو جی سے مانتے ہیں اورپچھلے جگ کو بھی جی میں ٹھیک جانتے ہیں۔ یہی لوگ اپنے پالن ہار کی راہ پر ہیں۔ اور یہی اپنی امنگ پاون ہار ہیں۔ اس میں کوئی وگدھا نہیں کہ ملیچھوں کو تو کیسا ہی ڈراوے یا نہ ڈراوے وہ دھرم نہیں الویں گے۔ من موہن نے ان کے جی اور کانوں پر ٹھپا لگا دیا ہے اور ان کے نینوں میں موتیا پھرا ہوا ہے اور کے لیے بھاری مار ہے۔ شاہ فضل الرحمن گنج مرادآبای ١٠٢١ فرہنگ سورتہ فاتحہ ال سب حمد راحت هللا
من موہن رب پالن ہار ال سارے علمین سنسار ال بڑی رحمن نیاہ موہ الرحیم مہر واال مالک بس میں یوم
دن الدین چکوتی ایاک تجہی کو نعبد پوجتے و اور ایاک تیرا نستعین آسرا اھدنا ہم کو الصراط
راہ المستقیم سیدھی انعمت دیا علیھم جن پر غیر جن پر المغضوب جھنجالہٹ علیھم ان کی و اور الضآلین
کوراہوں کی
.................................
پہلے ہی پہل نام لیتا ہوں من موہن کا جوہ بڑی نیاہ موہ واال ہے الحمد هلل سب راحت من موہن کو ہے رب العلمین جو سارے سنسار کا پالن ہار الرحمن الرحیم بڑی نیاہ موہ کا مہر واال ہے ملک یوم الدین جس کے بس میں چکوتی کا دن ہے۔ ایاک نعبد و ایاک نستعین
ہم تیرا ہی آسرا چاہتے ہیں اور تجہی کو پوجتے ہیں لفظی و ترتیبی تجہی کو پوجتے ہیں اور ہم تیرا ہی آسرا چاہتے ہیں اھدناالصراط المستقیم انعمت علیھم چال ہم کو سیدھی راہ ڈگ مگ نہیں۔ ان لوگوں کی جن پر تیری دیا ہوگی۔ چال ہم کو سیدھی راہ ڈگ مگ نہیں ان لوگوں کی جن پر تیری دیا ہوگی۔ چال ہم کو سیدھی راہ‘ ڈگ مگ نہیں ان لوگوں کی جن پر تیری دیا ہوگی۔ وضاحتی ڈگ مگ نہیں غیرالمغضوب علیھم والضآلین نہ ان کی جن پر تیری جھنجالہٹ ہوئی نہ راہ کوراہوں کی۔ آمین ................ یہ سورتہ فاتحہ کا ترجمہ نہیں‘ سورتہ البقر کی کچھ آیات کا
ترجمہ ہے۔ اس مہابید کے پرمیشور ہونے میں کوئی وگدھا نہیں۔ وہ بھگتوں کو بھلی راہ پر التا ہے۔ جو اندیکھے دھرم التے ہیں اور پوجا کو سنوارتے ہیں اور ہمارے دیئے کا دان بھی کرتے ہیں۔ اور جو جو تیرے بل اترا اس کو اور جو تجھ سے پہلے اتارا گیا اس کو جی سے مانتے ہیں اورپچھلے جگ کو بھی جی میں ٹھیک جانتے ہیں۔ یہی لوگ اپنے پالن ہار کی راہ پر ہیں۔ اور یہی اپنی امنگ پاون ہار ہیں۔ اس میں کوئی وگدھا نہیں کہ ملیچھوں کو تو کیسا ہی ڈراوے یا نہ ڈراوے وہ دھرم نہیں الویں گے۔ من موہن نے ان کے جی اور کانوں پر ٹھپا لگا دیا ہے اور ان کے نینوں میں موتیا پھرا ہوا ہے اور کے لیے بھاری مار ہے۔ ...........