مط ل ہءاقب ل
مقصود حسنی پیش ک ر پروفیسر نی مت ع ی مرتض ئی ابوزر برقی کت خ نہ جون
فہرست
اقب ل ک ف س ہءخودی ف س ہ خودی‘ اس کے حدود اور ڈاکٹر اقب ل ڈاکٹر اقب ل اور مغربی م کرین غزالی اور اقب ل کی فکر۔۔۔۔۔۔ایک ج ئزہ اقب ل کی یورپ روانگی سے پہ ے کے احوال اقب ل لندن میں
مط ل ہءاقب ل کے چند م خذ کال اقب ل مس م ن اقب ل کی نظر میں اقب ل اور تحریک آزادی اقب ل کے کال میں دعوت آزادی اقب ل اور تسخیر ک ئن ت کی فالس ی اقب ل ک نظریہءقومیت اقب ل اور ربط م ت کی اصطالح اقب ل کے سی سی م شی اور اخالقی نظری ت
االد آور اقب ل فہمی اقب ل کی نظ میں اور تو کے حواشی مط ل ہءش ر اقب ل کے حوالہ سے چند م روض ت اقب ل اور مغربی م کرین اقب ل کی یورپ روانگی سے پہ ے کے احوال اقب ل ک ف س ہءخودی
اقب ل ک ف س ہءخودی اقب ل نے زندگی‘ ک ئن ت‘ مظ ہر‘ مرئی‘ غیر مرئی‘ ازل‘ ابد غرض ہر شے اور ذی روح کو‘ خودی کی عینک سے دیکھ ہے۔ جہ ں خودی ک عنصر غ ل دیکھتے ہیں اسے پرتحسین نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک وجود کی آزادی اور بق خودی کی مرہون منت ہے۔ جہ ں کہیں اس میں کجی‘ ک زوری اور غیرمتوازن عن صر دیکھتے ہیں‘ خودی کو الزا دیتے ہیں۔ وہ تم ارتق ئی مراحل کے بنی دی تحرک میں‘ خودی کی ک رفرم ئی ک عمل دخل قرار دیتے ہیں۔ اقب ل کے ف س ہءخودی کے پس منظر میں س ت امور ک رفرم نظر آتے ہیں۔ ۔ شخص کی بےقدری‘ بےچ رگی اور بےبسی ۔ شخص کی فکری اور عم ی غالمی ۔ ط قت ور طبقوں کی جیریت اور استحص لی حی ے اور حربے ۔ جبریت اور استحص ل کے خالف بےبسی‘ چپ‘ من ی ی ک زور‘ بےج ن اور بےنتیجہ ردعمل
۔ ف س ہءوحدت الوجود ۔ نٹشے ک فو البشر ۔ ژاں پ ل س رتر ک ف س ہءتکمیل وجود مغر کی بڑھتی ہوئی صن تی ترقی کے ب عث‘ ک زور طبقوں ک وجود د توڑ رہ تھ ۔ ان کی فکری‘ م شی اور سم جی حیثیت‘ زوال ک شک ر تھی۔ ج تک فرد کی ذات کو استحق میسر نہ آت ‘ استحص ل کی جم ہ صورتیں اور کی یتیں خت نہیں ہو سکتی تھیں۔ فرد میں ج تک اپنے ہونے ک احس س‘ وجود ح صل نہ کرت اور اس ہونے کو ارتق ئی راہ نہ م تی‘ ک زور طبقے متحرک زندگی کی طرف لوٹ نہیں سکتے تھے۔ انس ن غظی تخ ی ہونے کے تصور سے‘ دور ہی رہت ۔۔ توازن کی راہ بند رہتی۔ اج م ہرین ن سی ت‘ شخصیت ک جو م ہو بی ن کرتے ہیں‘ خودی کے متوازی نظر آت ہے۔ خودی درحقیقت‘ ذات کی است دادی صالحیتوں کے واضح کرنے ک ن ہے۔ گوی خودی سے آگہی‘ اپنی ذات سے آگہی ک ن
ہے۔ اس کی نشوونم کرن ‘ اپنی شخصیت کی نشوونم کرنے کے مترادف ہے۔ ہم رے ہ ں‘ صوفی کرا خودی کو تکبر اور تمکنت کے م نوں میں لیتے آئے ہیں۔ تکبر‘ خودی کی ‘ ذات کو اس کی حدود سے نک ل ب ہر کرت ہے۔ اس کی مجوذہ است داد ک ر کی‘ غ رت گری ک ب عث بنت ہے۔ خودی کی س دہ ت ریف یہی ہو سکتی ہے‘ ایک ک و کو م و ہون چ ہیے کہ میں ایک ک و ہوں اور ایک ک و سے کی کچھ‘ اور کتن ہو سکت ہے۔ اگر وہ خود کو ک سمجھے گ ‘ تو اس کی خودی ک زوال ہوگ ۔ المح لہ اس سے اس کی است داد ک ر مت ثر ہو گی اور مح صل کو نقص ن پہنچے گ ۔ ورتھ میں کمی آ ج ئے گی۔ حیثیت سے کمتر ہون ی ٹھہرن خودی ک نقص ن ہے۔ تج ویز فرعونیت کو جن دے گ ۔ شخص کی بےحرمتی اور اشی ک غ ط است م ل دیکھ کر اقب ل کچھ زی دہ ہی جذب تی ہو گیے۔ ذرا یہ ش ر مالحظہ ہو خودی کو کر ب ند اتن کہ ہر تقدیر سے پہ ے خدا بندے سے خود پوچھے بت تری رض کی ہے
یہ ش ر تج وز کے عن صر لیے ہوئے ہے فرعونیت کے دروازے کھولت ہے اور شرک کی راہیں ہموار کرت ہے۔ ہم رے ہ ں صوفی کرا نے خودی کو تکبر م نوں میں لی ہے۔ اقب ل نے اس عمومی م ہو کی ن ی کرتے ہوئے اسرار خودی کے دیب چہ میں کہ ہے۔ یہ ل ظ بم نی غرور است م ل نہیں کی گی ۔ جیس کہ ع طور پر یہ اردو میں مست مل ہے۔ اس ک م ہو محض احس س ن س ی ت ین ذات ہے۔ یہ وحدت وجدانی ی ش ور ک روشن نقطہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ پراسرار شے جو فطرت انس نی کی شیرازہ بند ہے۔ مولوی صالح الدین احمد خودی کی وض حت کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ہم را م ی ر ہم ری اپنی نگ ہ میں اتن اونچ ہون چ ہیے کہ خود اپنی نظروں
سے گر ج نے ک خوف ہمیں ذلیل حرکت پر آم دہ ہونے سے بروقت روک سکے۔ سید وحیدالدین فقیر ک اس ذیل میں کہن ہے۔ ان ایک ن ق بل تغیر ی ن ق بل تقسی جوہر ہے اور یہی روح ہے۔ ہم را ش وری تجربہ ایک وحدت ہے اقب ل کے نزدیک خودی ج مد اور ٹھہری ہوئی چیز نہیں ہے۔ یہ ارتق پزیر ہے اور اس کی ح ظت اور است دادی قوت المحدود ہے۔ اس کی دسترس میں موجود اور غیر موجود اشی اور غیر اشی ہیں۔ سید وحیدالدین فقیر کہتے ہیں۔ ش وری تجربے کے سوا خودی تک رس ئی کسی دوسرے واسطے نہیں ہو سکتی۔ انس ن ک ئن ت ک جز ہوتے ہوئے بھی‘ ک ئن ت کی خودی کو اپنے اندر جذ کرنے کی صالحیت رکھت ہے اور اس کی خودی میں
زمین و آسم ن و کرسی و عرش خودی کی زد میں س ری خدائی خودی کی من زل تسخیر زم ن و مک ن پر ہی خت نہیں ہو ج تیں ب کہ جہد عمل اسے سوا a fine excess کی منزل تک لے ج تی ہے۔ قن عت نہ کر ع ل رنگ و بو پر چمن اور بھی آشی ں اور بھی ہیں تو ش ہین ہے پرواز ہے ک تیرا تیرے س منے آسم ن اور بھی ہیں اسی روز وش میں الجھ کر نہ رہ ج کہ تیرے زم ن و مک ں اور بھی ہیں ی نی جو پیش نظر اور زیر تصرف ہے وہی س کچھ نہیں۔ ک ئن ت میں اور بہت کچھ ہے جسے تالشن اور تصرف میں الن مقصود ہے۔ گوی شخص کو ہمہ وقت کھوج و تالش
میں رہن ہے اور کھوج و تالش ک س ر ج رک ج ئے گ خودی اس سے مت ثر ہو گی۔ خودی ک مت ثر ہون زوال کی دلیل ہے۔ خودی‘ ی نی میں ہوں‘ شخصیت میں فقر ک جوہر پیدا کرتی ہے تو ہی شخص اس کی ضر ک ری ث بت ہوتی ہے۔ اس سے تسخیر وحکومت ک عنصر پیدا ہوت ہے۔ چڑھتی ہے ج فقر کی س ن پر تیغ خودی ایک سپ ہی کی ضر کرتی ہے ک رسپ ہ گوی اس سے اس ک وجود استحق ح صل کرت ہے۔ یہ ن صرف اس کے ہونے کی دلیل ہوگی ب کہ دوسرے اس کے وجود کو تس ی کریں گے اور سر بہ خ کریں گے۔ شکست خوردگی‘ ان کی خودی کی کمزوری پر داللت کرے گی۔ دست سوال دراز کرن اقب ل کے نزدیک خودی ک قتل ہے۔۔۔
پ نی پ نی کر گئی مجھ کو ق ندر کی یہ ب ت تو جھک ج غیر کے آگے تو تن تیرا رہ نہ من اقب ل کے نزیک ہر قو کی خودی ہوتی ہے۔ اگر اس قو کی خودی کو ض ف آئے گ تو وہ قو کمزور پڑ ج ئے گی۔ عالمہ ابن خ دون ک نظریہءعصبت اس کے قری تر ہے۔ ب ض جگہوں پر خودی اس سے عب رت نظر آتی ہےم دہ اپنی خودی کی بن پر فن ہو ج ت ہے۔ ج وہ انس نی خودی کی زد میں آت ہے پ ش پ ش ہو ج ت ہے۔ م دہ خودی کے ابتدائی درجوں ک عکس ہے۔ ج روح اورم دہ میل ی عمل اور ردعمل ایک خ ص درجے پر پہنچ ج ت ہے تو ایک ب ند ش ور پیدا ہو ج ت ہے۔ ب ند ش ور ہی وہ قوت ہے جو ک ئن ت میں توازن پیدا کرت ہے۔ اسی کے د سے تصرف کے در وا ہوتے ہیں۔ اقب ل ک تصور ک چر ایک شخص کی خودی سے پوری قو پورے خطہ کی مج سی اور اجتم عی خودی سے منس ک
ہے۔ اسی طرح اقب ل‘ جم ہ فنون لطی ہ میں بھی خودی کی ک رفرم ئی ضروری خی ل کرت ہے۔ فنون لطی ہ میں خودی جتنے عروج پر ہو گی ک چر بھی اتنے عروج پر ہو گ ۔ آرٹ کی جن شک وں میں ض ف ک شک ر ہوگی زندگی کی قوت عمل بھی اسی تن س سے ریورس کے عمل میں داخل ہوگی۔ اقب ل ع و فن ک مقصد آگہی قرار نہیں دیت ب کہ یہ انہیں ح ظ خودی کے لیے من جم ہ اسب اور آالت کے سب اور ایک آلہ سمجھت ہے۔ اقب ل نے فرد‘ ک ئن ت‘ حی ت‘ سم ج‘ م شرت‘ سی ست‘ م یشت‘ غرض ہر چیز کو خودی کے پیم نے پر رکھ ہے۔ فرد کی ض یف خودی پورے م شرتی ڈھ نچے کو نقص ن پہنچ تی ہے۔ اسی طرح فرد کے خصوصی اور عمومی روے افراد کی خودی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگر اکثریت م ی ری افراد کی ہو گی تو ن صرف سم ج ب قی رہے گ ب کہ غیرم ی ری افراد بھی اس میں جذ ہو کر وجود برقرار
رکھیں گے ت ہ ان کی ان رادی خودی ب قی نہ رہے گی۔ اقب ل کی زب ن میں مالحظہ ہو ہر فرد ہے م ت کے مقدر ک ست رہ خودی درحقیقت زم ن و مک ن میں تبدی ی التی ہے۔ خودی کے حوالہ سے ہون استحق ح صل کرت ہے پہ ے سے موجود میں تغیر التی ہے۔ تسخیر و تصرف کے دروازے کھولتی ہے۔ ترمی وتنسیخ ک عمل ج ری رہت ہے۔ موجود کی است دادی قوت بڑھتی ہے۔ الموجود پر دسترس ح صل ہو کر اسے تجسی میسر آتی ہے۔ اقب ل ک کہن ہے یہ ک ئن ت ابھی ن تم ہے ش ید کہ آ رہی ہے دم د صدائے کن فیکون
اقب ل ک ف س ہءخودی‘ درحقیت شخص کی پوزیش مضبوط کرت ہے۔ اسے ن صرف میں ہوں‘ ک احس س دالت ہے ب کہ اس کو مضبوطی سے سرفراز کرکے جھپٹنے اور پ ٹنے کے گر سیکھ ت ہے۔ اکتوبر
-
ف س ہ خودی‘ اس کے حدود اور ڈاکٹر اقب ل خودی‘ است دادی قوت ک ن ہے‘ جو کسی چیز ی ذی روح وغیرہ سے مخصوص کر دی گئی ہوتی ہے۔ ت ہ یہ اض فہ پذیر ہے۔ اسی طرح اس میں کمی بھی آتی رہتی ہے۔ اس میں اض فہ ی کمی کی بھی‘ حدود مخصوص ہوتی ہیں۔ کمی‘ اض فے کی راہ لے سکتی ہےاور اض فہ زوال ک رستہ اختی ر کر سکت ہے۔ اض فے اور کمی کی صورت میں‘ اس کی است داد ک ر میں فر آ ج ت ہے۔ یہ است داد ک ر ہی فرد واحد‘ قوموں یہ ں تک‘ کہ پوری انس نی زندگی برادری کی موجودہ صورت ح ل کو تبدیل کر سکتی ہے۔ ک ئن ت کی کوئی شے‘ ایک دوسرے سے غیرمت نہیں۔ ایک ک کی ‘ دوسرے اور دوسرے سے دوسروں کو مت ثر کرت ہے۔ ی اس میں دوسروں کو مت ثر کرنے کی صالحیت موجود ہوتی ہے۔
اس میں اض فے کی بہت سی صورتیں موجود ہوتی ہیں ی ہو سکتی ہیں۔ کسی ح جت‘ ضرورت‘ م د ی غرض کے تحت‘ دو ی - دو سے زائد افراد ایک پ یٹ ف ر بن سکتے ہیں۔ یہ اجتم ع وقتی ی دیرپ بھی ہو سکت ہے۔ ک ز‘ کسی بھی نوعیت ک ہو‘ اس کے زیر اثر لوگوں ک - ب ہمی انسالک ممکن ہوت ہے۔ اس کے لیے افراد اکٹھے کر لیے ج تے ہیں ی ہو ج تے ہیں۔ ردعم ی صورتیں بھی شخص کو‘ شخص کے قری لے - آتی ہیں۔ ۔ ہنر متحرک زندگی ک بڑا اہ عنصر ہے۔ ا۔ایک ہنر سے مت ہیں ی آ سکتے ہیں۔
شخص ایک دوسرے کے قری رہتے
۔ مق ب ہ ب زی راہ پ تی ہے۔ ج۔ سیکھنے والے میدان میں اترتے ہیں۔ د۔اس ہنر کے ضرورت مند ان سے رابطہ میں رہتے ہیں۔
مذہ اور نظریہ‘ بڑے مضبوط عن صر ہیں۔ یہ اشح ص - کے اتح د ک ذری ہ بننے میں ک یدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ۔ رنگ‘ نسل عالقہ اور زب ن‘ انس نی زندگی میں بڑی اہمیت کے ح مل ہیں۔ جہ ں ان کے حوالہ سے عصبیت جن لیتی ہے‘ وہ ں ب ہمی ت اور رابطہ بھی جگہ پ ت ہے۔ ۔ سی سی‘ فالحی اور سم جی گروپ تشکیل پ تے رہتے ہیں۔ یہ شخص کو‘ بہت سے حوالوں سے‘ دوسرے اشخ س سے پیوست کرتے ہیں۔ قبی ہ اور قو ‘ شخص کو شخص سے نتھی رکھتے - ہیں۔ ۔ مزاجوں میں م تی مم ث تیں شخصی قربت ک سب بنتی ہیں۔ ۔ ہ مزاج اور ہ خی ل ہونے کی وجہ سے‘ چ ہے ان کی صورت وقتی اورلمح تی ہی کیوں نہ ہو‘ شخص ک شخص سے‘ ارتب ط پیدا کرتی ہیں۔ ۔ دو غیر جنس بھی ہ رک
چل سکتےہیں۔
۔ ہ عمری بھی اس ذیل میں بڑا م تبرذری ہ ہے۔ سم جی رس و رواج او ہ شغ ی اس ضمن میں بڑا -
اہ ذری ہ ہے۔ درج ب ال سطور میں چند ایک ک ذکر کی گی ہے ورنہ اس کی بہت سی صورتیں موجود ہیں۔ یہ ں تک کہ ب ہمی اختالف ت کو بھی نظر انداذ نہیں کی ج سکت ۔ ان تم صورتوں میں آگہی‘ اعتم د‘ حوص ہ‘ کچھ کرنے ک جذبہ‘ ہنر‘ تجربہ‘ ع دات‘ اطوار اور کسی دوسرے کی شخصیت میں پوشیدہ خ ص جوہر اور کم ل‘ جو وہ است م ل میں نہیں ال رہ ہوت ‘ ہ تھ لگتے ہیں۔ ان عن صر سے شخصی خودی کو توان ئی میسر آتی ہے اور شخص ک وجود استحق پکڑت ہے۔ اس میں‘ میں ہوں‘ کو تقویت میسر آتی ہے۔ ب لکل اسی طرح‘ خودی زوال ک شک ر بھی ہوتی ہے۔ اس کی بہت سی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ان میں تنہ ئی س سے مہ ک ہے۔ وہ خود الگ تھ گ ہو ج ت ہے۔ سوس ئٹی اس کو الگ تھ گ کر دیتی ہے۔ کوئی بھی صورت ہو سکتی ہے۔
خودی زوال ک شک ر ہو ی ترقی کی من زل طے کر رہی ہو‘ ص ر پر نہیں آتی۔ یہ بھی کہ وہ المحدود نہیں ہوتی۔ فرش‘ عرش‘ کرسی غرض س کچھ اس زد ی دسترس میں آ ج ئے‘ تو بھی اسے المحدود نہیں کہ ج سکت ‘ کیونکہ پوری ک ئن ت حددوں میں ہے۔ ج اسے المحدود ہونے ک گم ن گزرت ہے‘ ن بود ہو ج تی ہے۔ نمرود فرعون اور سکندر کو یہی گم ن گزرا‘ تو ہی ہالکت سے دوچ ر ہوئے‘ کیوں کہ ک ئن ت المحدود نہیں۔ دوسرا فن ک عنصر‘ ہر کسی سے منس ک ہے۔ المحدود صرف اور صرف هللا کی ذات گرامی ہے‘ جس ک فن کے س تھ ت نہیں۔ فن اس کی تخ ی کردہ ہے۔ خودی کے المحدود ہونے کے لیے دو رستے ہیں۔ میں ہوں کو المحدود کے ت بع کر دے۔ اس ذیل میں بالل اور عمر بن عبدال زیز کو بطور مث ل لی ج سکت ہے۔ وہ عم ی طور پر اپن مستحک وجود رکھتے تھے
میں ہوں کو خت کرکے‘ المحدود میں مدغ کر دے۔ منصور اور سرمد‘ اس کی بہترین مث لیں ہیں۔ یہ دونوں‘ عم ی طور پر‘ موجود کی ح جت سے ب التر تھے۔ س ری ک ئن ت کی خودی مجتمع ہو ج ئے‘ تو بھی وہ المحدود نہیں ہو پ تی۔ انس ن هللا کی اشرف اور احسن مخ و ہے۔ ک ئن ت میں موجود ہر شے اور ذی روح کی خودی‘ اس کے برابر نہیں اور یہ ان کی گرفت سے ب ہر ہے۔ اس کی سوچ کے ح قے‘ ک ئن ت کے حوالہ سے المحدود ہیں۔ یہ کی کر ڈالے ی کروٹ لے‘ کوئی نہیں ج ن پ ت ۔ یہ س کچھ ہو کر بھی‘ مخصوص حدوں میں ہے۔ منصور اور سرمد سے لوگوں کو اس میں نہ رکھیے۔ اسی طرح‘ اس محتر خ تون کو بھی الگ رکھیے‘ جسے خ وند اور اپنی اوالد کی شہ دت کی فکر نہیں۔ اس کی خودی‘ نبوت سے منس ک تھی۔ نبوت هللا سے منس ک تھی۔ اگر اس کی خودی ک ئن ت کے دائرہ میں ہوتی‘ تو اسے خ وند‘ بچوں کے س تھ س تھ نبی کی بھی چنت ہوتی۔ اس سطع کی تخصیص کی صورت نہ ہوتی۔ یہ بھی کہ جب ی اور ممت کے حوالہ سے‘ وہ س سے پہ ے اپنے بچوں ک
پوچھتی۔ اس کے ب د خ وند اور اس ذیل میں تس ی پ کر نبی ک پوچھتی۔ بیٹوں کی شہ دت ک سن کر‘ اپنے آپے میں نہ رہتی۔ آج اگر بیٹوں کی عید پر قرب نی ک حک ی سنت موجود ہوتی‘ تو سچ یہی ہے‘ میرے سمیت‘ کوئی مس م ن ہی نہ ہوت ۔ زب نی کالمی کہہ دین اور ب ت ہے‘ اس کہے پر عمل کرن اس سے قط ی الگ ب ت ہے۔ اس حوالہ غور کی ج ئے تو‘ خودی ک ایک دائرہ اور ح قہ مخصوص و محدود ہو ج ت ہے۔ اقب ل ک یہ ش ر‘ بڑا واضح ہے اور اس میں کوئی عالمت اور است رہ موجود نہیں۔ خودی کو کر ب ند اتن کہ ہر تقدیر سے پہ ے خدا بندے سے خود پوچھے‘ بت تیری رض کی ہے خودی کو کر ب ند اتن کہ
ہر تقدیر سے پہ ے خدا بندے سے خود پوچھے بت تیری رض کی ہے اس ش ر کی ت ہی کی ذلیل میں یہ عن صر پیش نظر رکھیں۔ خدا خ ل اور بندہ مخ و ہے۔ - ۔ دونوں ہ مرتبہ اور ہ جنس نہیں ہیں۔ دونوں کی آگہی کی سطع ایک نہیں۔ - ۔ بندے ک ع عط ئی ہے۔ خدا ک ع ذاتی ہے۔ خدا ق ئ بذات ہے۔ بندہ ق ئ بذات نہیں۔ - خدا ہر حوالہ سے بےنی ز ہے۔ - بندے ک ذاتی کچھ نہیں‘ جو ہے خدا ک دی ہوا ہے۔ خدا - کے پ س جو کچھ ہے‘ بالشرک غیرے اس ک اپن ہے۔
خدا کو اس کی حدوں کے حوالہ سے کوئی نئیں ج نت - اور ن ہی ج ننے کی بس ط رکھت ہے۔ اس کے برعکس‘ خدا بندے کو‘ اس سے کہیں زی دہ ج نت ہے۔۔ کسی ک ر ک ‘ کتن عوض نہ کتن بنت ہے‘ وہ کرنے والے - سے‘ کہیں بہتر اور زی دہ ج نت ہے۔ وہ دینے کے حوالہ سے‘ محت ج اور زیردست نہیں۔ - وہ فضل واال ہے اور توقع سے زائد دے سکت ہے۔ - توقع سے زائد دی بالشبہ فضل هللا ہے۔ وہ عط کے م م ہ میں‘ بخیل نہیں‘ غنی ہے۔ - انس ن کی مرضی‘ خدا کی مرضی کے م تحت ہے۔ خدا - کی مرضی‘ انس ن کی مرضی کے م تحت نہیں۔ ڈاکٹر اقب ل ک یہ ش ر‘ شرک سے لبریز ہے اور میں ہوں‘ کو اج گر کرتے کرتے‘ فرعونیت کی طرف لے ج ت ہے۔ فرعون بھی یہی گم ن رکھت تھ ‘ اپنی اس کج فہمی کی وجہ سے‘ ہالکت سے دوچ ر ہوا۔ ایک ع آدمی کی ‘ نبی رسول بھی‘ اس طرح کی سوچ‘ نہیں سوچ سکت ۔ وہ اپنی مرضی ت بع رکھنے اور ازن پر سربہ خ کرنے‘ کی صورت
میں ہی‘ نبی ہے۔ بندہ بھی‘ ت بندہ ہے‘ ج وہ خدا کی مرضی کو ہی‘ حرف آخر‘ دل و دل و ج ن سے ج نت ہے۔ ڈاکٹر اقب ل ک ایک اور ش ر ہے۔ عبث ہے شکوہءتقدیر یزداں تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے خودی کی سرب ندی کے حوالہ سے‘ یہ ش ر پہ ے ش ر سے قربت رکھ ہے۔ میں ن ہیں سبھ توں‘ کے حوالہ سے‘ یہ درست ہے۔ ڈاکٹر اقب ل اس نظریہ کے ق ئل نہیں ہیں اس لیے‘ اس پر‘ میں ہوں ک اطال ہوت ہے۔ خودی کے ت بع ہونے کی صورت میں‘ یزداں کی مرضی ک ت بع ہے۔ کیس ‘ کس طرح اور کتن طے کرنے ک ح ‘ یزداں کے پ س ہی رہت ہے۔ یہ ش ر اس م ہو کی طرف لے ج ت ہے کہ یزداں تقدیر ک م م ہ اپنی نہیں‘ اس کی مرضی اور ایم پر طے کرے۔
ڈاکٹر اقب ل یہ ش ر بھی مالحظہ فرم ئیں‘ کھال آمریت ک پرچ ر ہے۔ نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ اسم ن کے لیے جہ ں ہے تیرے لیے تو نہیں جہ ں کے لیے ہر چیز‘ دوسری سے‘ فطری طور پر‘ وابستہ اور - انحص ر کرتی ہے۔ یہ تو یزداں کو مک ف و مق د کرن ہے۔ - اس سے‘ خود غرضی ک پہ و س منے آت ہے۔ - خدمت میں‘ عظمت پوشیدہ ہے۔ - لو س ‘ دو کچھ نہ‘ میں خودداری کی موت ہے اور یہ - مومن ک طور اور وتیرہ ہو ہی نہیں سکت ۔ آپ کری سے بڑھ کر کون ہو سکت ہے۔ آپ کری س کے لیے تھے۔ دے کر ہی ح صل ہوت ہے۔ -
-
دینے میں جو لطف پوشیدہ ہے‘ وہ لینے میں نہیں۔ - ا جہ ں ہے تیرے لیے - تو نہیں جہ ں کے لیے جہ ں خدمت گزار ہو -اس سے خدمت لین تیرا ح ہے۔ خدمت تیرے فرائض میں نہیں‘ سے زی دہ غیر م قول کوئی ب ت نہیں ہو گی۔ اقب ل کے ف س ہءخودی میں‘ س رتر اور نٹشے کے‘ قد لیت نظر آت ہے۔ یہ بھی کہ وہ تذبذ ک شک ر ہیں۔ کوئی ب ت‘ اس وقت تک ب اثر نہیں ہوتی‘ ج تک کہنے واال ع مل نہ ہو۔ اس ذیل کی زندگی ک دی نت دارانہ مط ل ہ ضروری ٹھہرت ہے۔ ع م کرا ‘ تحریر تقریر میں‘ ڈاکٹر اقب ل ک حوا لہ دینے سے پہ ے‘ ان کے کہے پر غور فرا لی کریں۔ یہ انداز درست نہیں‘ چونکہ یہ ب ت ڈاکٹر اقب ل کی کہی ہوئی ہے‘ اس لیے غ ط نہیں ہو سکتی ی اس میں خ می ہو ہی نہیں سکتی۔
ڈاکٹر اقب ل اور مغربی م کرین اقب ل نے اسک چ مشن اسکول‘ سی ل کوٹ سے‘ مشرقی و مغربی طرز پر ایف اے کی ۔ مزید ت ی کے لیے الہور آئے۔ یہ ں بیک وقت تین ت یمی و فکری دھ رے بہتے تھے۔ ا سر سید کے حوالہ سے‘ مغربی اطوار و نظری ت - م ت رف کرانے کی کوشش کی ج رہی تھی۔ گورنمنٹ ک لج‘ الہور میں‘ پروفیسر آرن ڈ کے حوالہ سے‘ ط ب مغر سے ب لواسطہ م ت رف ہو رہے تھے۔ ع و شرقیہ سے مت مخت ف اسکول مشرقی فکر - ع کرنے میں مصروف تھے۔ ایک طبقہ مخ وط نظری ت پھیال رہ تھ ۔ - اقب ل کے پروفیسر آرن ڈ سے‘ خصوصی ت خ طر ک اندازہ‘ اس امر سے لگ ی ج سکت ہے کہ ج وہ میں‘ انگ ست ن واپس گیے‘ تو اقب ل نے ان کے رخصت ہونے پر نظ ۔۔۔۔ن لہءفرا ۔۔۔۔۔ ق بند کی۔ اس نظ کے مندرج ت سے‘ اقب ل کی آرن ڈ سے ق بی وابستگی ک اندازہ
لگ ی ج سکت ہے۔ اقب ل نے اس نظ میں موصوف کو ک ی ‘ خورشید آشن ‘ ابر رحمت‘ موج ن س ب د نش ط وغیرہ ایسے الق ب ت سے م قو کی ۔ ان دنوں گورنمنٹ ک لج‘ الہور ب نجھ نہ تھ اور ن ہی کبھی رہ ہے۔ اسے ہر دور میں‘ س دت س ید اور تبس ک شمیری سے بےبدل ع ل ف ضل‘ میسر رہے ہیں۔ آرن ڈ ہی سے کیوں یہ رشتہءال ت استوار ہوا۔ اس سوالیے ک جوا نظ کے اندر موجود ہے۔ کھول دے گ دشت وحشت عقدہء تقدیر کو توڑ کر پہنچوں گ میں پنج
کی زنجیر کو
اقب ل زبردست نب ض تھے۔ مغر کو بھی نم ئندوں کی ضرورت تھی۔ اپنی دھرتی زنجیر نہیں ہوتی۔ اپنی دھرتی کو زنجیر کہنے واال اپنی دھرتی سے کتن مخ ص ہو سکت ہے اس ک اندازہ لگ ن کوئی پچیدہ عمل نہیں۔ اقب ل نے گورنمنٹ ک لج‘ الہور میں تدریسی فرائض بھی انج دئیے۔ جس سے‘ ن صرف سوچ کو فراخی میسر آئی‘ ب کہ نظری ت کو بھی ایک سمت‘ دستی ہوئی۔ الہور میں
رہتے ہوئے‘ انھوں نے مخت ف مش عروں میں شرکت کی۔ مخت ف نظری ت کے ش را سے مل بیٹھنے ک موقع بھی تک ہ تھ لگ ۔ اس سے ان ک ش ری ش ور پختہ ہوا۔ انھوں نے مشر کی اقدار سے وق یت ح صل کی۔ ستمبر
کو‘
ع ز انگ ست ن ہوئے۔ ابتدا ہی میں‘ ان کی مالت میگ ٹیگ رٹ سے ہوئی جو ہیگل ک پیرو تھ ۔ اس کے عالوہ آکس ررڈ یونیورسٹی میں پروفیسر براؤن اور پروفیسر وارڈ س رلے سے خصوصی طور پر ع می و فکری است دے ک موقع مال۔ پروفیسر س رلے کے حوالہ سے ل ظ کی حقیقی قدر اور حرمت سے آگ ہی ح صل کی۔ انگ ست ن میں رہتے ہوئے‘ ڈاکٹر نک سن کی ایم پر ف رسی ادبی ت ک مط ل ہ کی ۔ ح فظ شیرازی کے نظریہءوحدت الوجود کے تن ظر ی ک نٹ کے۔۔۔۔وجود کی تالش۔۔۔۔ اور فشٹے کے نظریہ ان ی نی ایگو کے تن ظر میں ح فظ شیرازی ک مط ل ہ کی ۔ پھر وہ ف س ہءخودی کے موجد قرار پ ءے۔ ک یس اخالقی اقدار ک سرچشمہ رہ ہے۔ اپنی اہمیت کھو بیٹھ تھ ۔ سی ست اور مذہ ‘ دو الگ الگ ش بے قرار پ
گیے تھے۔ مذہ ‘ ک یس کی چ ر دیواری کے اندر‘ محض دع ؤں ک مجموعہ ہو کر رہ گی تھ ۔ سی ست کے ع مبرداروں نے‘ اپنے الگ سے سی سی اصول وضع کر لیے تھے۔ اس طرح انھیں‘ سم جی اور م شرتی رویوں پر گرفت ح صل ہو گئی تھی۔ ک رل م رکس نے‘ سسکتی حی ت‘ م شرتی جبر‘ سی سی حی ہ س زیوں اور م شی قتل ع کے ردعمل میں‘ اپن نظریہء م یشت پیش کی ۔ انقال فرانس اور امریکہ کی جنگ آزادی بھی‘ اسی عد مس وات اور م شی ن ہمواریوں ک نتیجہ تھی۔ فرد کی حیثیت‘ مشین کے کسی کل پرزے سے زی دہ نہ رہی تھی۔ نطشے نے‘ انس ن کے وجود کو‘ استحق دینے کے لیے‘ فو البشر ی نی سپرمین ک نظریہ دی ۔ ک رل م رکس اور لینن نے مذہ کو افیون قرار دی ۔ نطشے‘ جمہوریت اور اشتراکیت کو بھی‘ عوا اور اقوا کو غال بن نے کی س زش قرار دیت ہے۔ وہ خدا کے وجود ک منکر ہے۔ وہ مغربی است م ر اور مسیحی ف س ہءاخال پر چوٹ کرت ہے۔ اس لیے‘ کسی غیر مسیحی کو‘ اس ک خوش آن فطری سی ب ت ہے۔ سپرمین کے حوالہ سے‘ جو ب تیں س منے آتی ہیں‘ ان میں سے اکثر اقب ل کے۔۔۔۔۔ مرد
ک مل۔۔۔۔۔ میں بھی م تی ہیں‘ ت ہ اسے اس ک بےلگ ہون کھٹکت ہے۔ اقب ل نے جس مرد ک مل ک نظریہ دی ‘ جہ ں وہ ذات پرست‘ ذات پسند اور دوسروں کے لیے کچھ نہیں‘ وہ ں اس ک خصوصی وصف یہ بھی ہے‘ کہ وہ ک ئن تی ہے۔ ک فر کی یہ پہچ ن کہ آف
میں گ ہے
مومن کی یہ پہچ ن کہ گ اس میں ہیں آف اقب ل ک مرد ک مل بہت سے حوالوں سے نطشے کے سپرمین سے الگ ہے۔ ہو ح قہءی راں تو ہے ابریش کی طرح نر رز ح و ب طل ہو تو فوالد ہے مومن اقب ل نے مرد ک مل میں چ ر ص ت کی نش ن دہی کی ہے۔ قہ ری و جب ری و قددسی و جبروت یہ چ ر عن صر ہوں تو بنت ہے مس م ن یہ ں مرد ک مل کے لیے مس م ن ہونے کی شرط ع ئد کر دی ہے۔ اقب ل کے محقیقن نے‘ مرد ک مل کے لیے اس ش ر کو
بھی حوالہ بن ی ہے۔ گوی س م ن ہونے کی صورت میں ہی‘ مرد ک مل کے اعزاز سے سرفراز ہو سکت ہے۔ اس ش ر کے حوالہ سے اس ک مخ ط انس ن نہیں ب کہ اسالمی برادری سے مت شخص ہی ک مل ہو سکت ہے۔ دوسری طرف ان عن ص سے محرو مس م ن ہی نہیں۔ اقب ل اس پیم نے ہر مس م ن ف تح بیٹھے گ ۔ مس م ن دل تسخیر کرت ہے۔ پتھر اینٹ برس نے والوں کے لیے دع کے لیے ہ تھ اٹھ ت ہے۔ دشمن کی بھی مدد کرت ہے۔ ب نٹ میں کسی قس کی تخصیص روا نہیں رکھت ۔ مہرب ن اور سراپ عط واال ہوت ہے۔ قہ ر اور جب ر کو دیسی م نوں میں است م ل کی گی ہے۔ نطشے کے مت اقب ل ک کہن ہے۔ تیرے سینے میں نہیں شمع یقین اس لیے ت ریک یہ ک ش نہ ہے کس طرح پ ءے سرا آشن تو کہ اپنے آپ سے بیگ نہ ہے
جو بھی سہی‘ اقب ل کے ف س ہءخودی میں نطشے کے کہے کی ب زگشت موجود ہے۔ مرد ک مل میں سپرمین کی پرچھ ئیں موجود ہے۔ ک رل م رکس‘ درحقیقت مغر کے مظو ‘ م س اور پس م ندہ لوگوں ک نم ئندہ ہے۔ اس نے م دہ پرستی کے م حول و ح الت میں رہ کر‘ اپن نظرہءم یشت پیش کی ہے۔ اس کے نظریے کے پس منظر میں‘ ک یس ک استحص لی رویہ‘ جمہوریت کے خوش نم لب س میں جمہوریت ک من ی طرزعمل‘ مس وات کے پردے میں توہین آدمیت جیسے قبیع ف ل تھے۔ م وکیت اور سرم یہ دارانہ جمہوریت کے خالف اس نے ن رہ ب ند کی ۔ اقب ل کو اس ک درس مس وات اور اس ک محنت کشوں سے ہمدردی ک رویہ‘ پسند آی ۔ اقب ل نے اس کے اس رویے کو پسند کی ہے لیکن اسے اس کی م دہ پرستی اور م دہ پسندی خوش نہیں آتی۔ جو بھی سہی‘ م رکس کی مغربی تہذی پر ضر ‘ اقب ل کو اچھی لگی۔ اقب ل نے مسیولینی سے بھی مالق ت کی۔ وہ اس کی شخصیت سے مت ثر ہوئے۔ اس کی شخصیت میں ت ثیر تھی۔ اس عہد کے مش ہیر ع ل اس کی دل آویز شخصیت کے
مداح تھے۔ اقب ل کو اس ک نظ و ضبط پسند آی ۔ اس ذیل میں اقب ل ک یہ ش ر مالحظہ ہو۔ فیض یہ کس کی نظر ک ہے‘ کرامت کس کی ہے وہ کہ ہے جس کی نگہ مثل ش ع آفت جرمن ش عر گوئٹے کے فکری رویے سے بھی اقب ل نے اثرات قبول کیے۔ اس کے دیوان کے جوا میں ۔۔۔۔ پی مشر ۔۔۔۔۔ وجود میں آئی۔ ڈاکٹر اقب ل‘ ہیگل کے نظری ت کو روح سے خ لی قرار دیت ہے۔ اقب ل کے خی ل میں اگر ہیگل کے نظری ت میں اسالمی روح ک رفرم ہوتی تو وہ بالشبہ انس نی سرفرازی کے لیے مث ل ہوتے۔ اقب ل برگس ں کے نظریہء زم ن سے بھی اثر لیتے ہیں۔ برگس ں کے نزدیک‘ زندگی تغیر اور تخ ی ہے۔ زندگی کے جن پہ وؤں میں تق ید اور ثب ت نظر آت ہے وہ ں زندگی موج بےت نہیں۔ اقب ل کے نزیک بھی زندگی متحرک اور تغیر پذیر ہے۔ اور ہر لمحہ تخ یقی مراحل سے گزرتی ہے۔ ان کے نزدیک چ تے رہن زندگی‘ ج کہ ٹھہرن موت ہے۔
برگس ں نے زم ن و مکآن میں وجود کی حیثیت محض جب ی قرار دی ہے۔ اقب ل کے خی ل میں‘ زم ن عمل تخی سے پیدا ہوت ہے‘ ایک غیر متواتر حرکت‘ تغیر پر مبنی ہے۔ س س ہءروز وش نقش گر ح دث ت س س ہءروز وش اصل حی ت و مم ت ایک دوسری جگہ کہتے ہیں فری نظر ہے سکون و ثب ت تڑپت ہے ہر زرہء ک ئن ت ٹھہرت نہیں ک روان وجود کہ ہر لحظہ ہے ت زہ ش ن وجود اقب ل کسی ایک منزل پر ٹھہر ج نے کے ق ئل نہیں ہیں۔ وہ متحرک زندگی کو زندگی م نتے ہیں۔ جوں جوں خودی ارتق کی من زل طے کرے گی زم نہ تخ ی ہوت چال ج ئے گ ۔ کہتے ہیں۔ ست روں سے آگے جہ ں اور بھی ہیں ابھی عش کے امتح ں اور بھی ہیں
اسی روز و ش میں الجھ کر نہ رہ ج کہ تیرے زم ن و مک ں اور بھی ہیں قن عت نہ کر ع ل رنگ و بو پر چمن اور بھی آشی ں اور بھی ہیں اقب ل ش رائے مغر کی ش ریت سے بھی مت ثر تھے۔ ورڈزورتھ کی فطرت نگ ری‘ انھیں پسند تھی۔ اقب ل نے اس ک رنگ اپنی نظموں میں اختی ر کی ۔ نظ ۔۔۔۔ ایک ش ۔۔۔۔۔ سے بطور نمونہ دو ش ر مالحظہ ہوں۔ خ موش ہے چ ندنی قمر کی ش خیں ہیں خموش ہر شجر کی وادی کے نوا فروش خ موش کہس ر کے سبزپوش خ موش شی ے اور کیٹس کی رنگین مزاجی اور ٹی ایس کولرج ک زندگی سے گ ہ شکوہ بھی‘ اسے اچھ لگت ہے۔ اقب ل کے ہ ں حسن‘ عش اور محبت جہ ں نئے نئے رنگ لیے ہوئے ہیں‘ تو وہ ں روایت ک دامن بھی نہیں چھوڑتے۔ شی ے اجزائے ع ل کی ب ہمی وابستگی کو محبت سے
ت بیر کرت ہے اور محبت کے بغیر ک ئن ت ک وجود ن ممکن خی ل کرت ہے۔ شیشہء دہر میں م ند ہے ن
ہے عش
روح خورشید ہے خون رگ مہت
ہے عش
اقب ل کی حسن سے لطف اندوزی ک ذو مالحظہ ہو۔ ہوئی ہے رنگ تغیر سے ج سے نمود اس کی وہی حسین ہے حقیقت زوال ہے جس کی اقب ل شیکسپیئر کے ل و لہجہ سے بھی مت ثر ہے اور اسے ان ال ظ میں خراج عقیدت پیش کرت ہے۔ تجھ کو ج دیدہءدیدار ط ت
نے ڈھونڈا
خورشید میں خورشید کو پنہ ں دیکھ
چش ع ل سے تو ہستی رہی مستور تری اور ع ل کو تری آنکھ نے عری ں دیکھ ح ظ اسرار ک فطرت کو ہے سودا ایس رازداں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایس
اقب ل نے برصغیر میں رہتے ہوئے‘ مغر کو سنی سن ئی سے جوالئی کے حوالہ سے‘ ج ن پہچ ن ۔ ستمبر تک‘ وہ مغر میں قی پذیر رہے۔ اس عرصہ میں‘ انھوں نے مخت ف م کرین سے مالق ت کی‘ انھیں پڑھ ۔ مغر کے سم جی ح قوں اور اداروں سے ت رکھ ۔ لوگوں کو اور ان کے رہن سہن کو‘ اپنی آنکھوں سے دیکھ ۔ مغر کے م شی نظ ک مش ہدہ کی ۔ مغر کی سی ست ک تنقیدی زاویوں سے مط ل ہ کی ۔ مغر کے ت یمی نظ ک مش ہدہ کی ۔ گوی س اپنی آنکھوں سے دیکھ ۔ ان تم امور سے‘ جو من ی ی مثبت اثرات لیے‘ ان کے اثرات ان کی ش عری میں نظر آتے ہیں۔
اس مضمون کی تی ری میں درج ذیل کت سے م ونت ح صل کی گئی۔ نیرنگ خی ل‘ الہور‘ اقب ل نمبر‘ شم رہ ستمبر‘ اکتوبر‘ - مق اقب ل‘ اش دکن
حسین‘ ادارہ اش عت اردو‘ حیدرآب د -
مق الت اقب ل‘ مرتبہ انٹر ک لجیٹ مس برادرزہڈ‘ قومی - کت خ نہ‘ الہور‘ اقب ل ک مل‘ عبداال ندوی‘ مطبع م رف‘ اعظ گڑھ‘ - اقب لی ت ک تنقیدی ج ئزہ‘ احمد می ں ق ضی جون گڑھی‘ - اقب ل اک دمی‘ الہور‘ اقب ل ک تنقیدی مط ل ہ‘ اے جی نی زی‘ عشرت پب شنگ - ہ ؤس‘ الہور‘ تصورات اقب ل ج ‘ -مولوی صالح الدین احمد‘ مقبول - پب ی کیشنز‘ الہور‘ مط ل ہءاقب ل کے چند نئے رخ‘ ڈاکٹر سید محمد عبدهللا‘ - بز اقب ل‘ الہور‘
اقب ل اور ثق فت‘ ڈاکٹر مظ ر حسن‘ اقب ل اک دمی‘ الہور‘ - ڈاکٹر محمد اقب ل‘ ک ی ت اقب ل -اردو‘ المس پب یشرز‘ - کراچی ‘
غزالی اور اقب ل کی فکر۔۔۔۔۔۔ایک ج ئزہ عالمہ غزالی‘ غالمی کو پسند نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک‘ غال سے بہتر س وک کی ج ن چ ہیے۔ وہ غال کو آزاد کر دین مستحسن ف ل قرار دیتے ہیں۔ عالمہ غزالی نے اس ج ن بھی اش رہ کرتے ہیں کہ وقت آق کو غالمی کی زنجیریں پہن سکت ہے۔ اقب ل غالمی کو ن رت کی نگ ہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک‘ غالمی ذہنوں کو پس م ندہ بن دیتی ہے۔ غالموں کی صالحیتیں‘ م لک اپنے م دات کی تکمیل کے لیے است م ل میں التے ہیں۔ اس طرح غال اپنی ذاتی شن خت سے محرو ہو ج تے ہیں۔ اس کے برعکس‘ آق کی خودی مستحک ہوتی چ ی ج تی ہے۔ غال کی خودی کی ض ی ی ہی فرعونیت کو جن دیتی ہے۔ اسی بن پر اقب ل نے غالمی کو ل نت قرار دی ہے۔ غالمی‘ غال سے وہ کہ وا دیتی ہے جو وہ کی بھی صورت اور ح لت میں کہن پسند نہیں کرت ۔ دانستہ اور ن دانستہ
بھی‘ غالمی کے مت اقب ل کے نظری ت کرختگی لیے ہوئے ہیں۔ وہ غالمی کو‘ بےبسی ک ن دیت ہے۔ اقب ل کہتے ہیں۔ بدن غال ک سوزعمل سے ہے محرو کہ ہے مرور غالموں کےروز وش پہ حرا عالمہ غزالی کے نزیک‘ ہر شخص کے س تھ مس وی س وک ہون چ ہیے‘ کیونکہ ہر شخص بطور انس ن‘ مس وی ہے اور ہر شخص جوا دہ ہے۔ اقب ل اسالمی تہذی وثق فت میں مس وات انس نی ک اصول انتہ ئی ترقی ی فتہ سمجھتے ہیں۔ رموز خودی میں‘ حریت اور مس وات کو ایک س تھ بی ن کرتے ہیں۔ کہتے ہیں ت شکی امتی زات آمدہ در نہ د او مس وات آمدہ
آق ئے دوع ل نے‘ ج درس مس وات دی ‘ تو استحص لی اور مقتدرہ طبقے سیخ پ ہو گیے۔ اقب ل زندگی کے ہر ش بے میں‘ وحدت کے ق ئل ہیں۔ فرد کی خودی‘ اجتم ع کی خودی کی طرف بڑھتی ہے۔ اجتم ع‘ م یشت اور س ی وعمل میں‘ فرد سے اشتراک کرت ہے اور اس اشتراک کے بدلے‘ پذیرائی بخش کر اس کی زندگی کو متحرک بن دیت ہے۔ یہ استدراک اخوت و محبت کے بغیر‘ ممکن ہی نہیں۔ ان ک کہن ہے۔ ہوس نے کر دی ہے ٹکرے ٹکرے نوع انس ن کو اخوت ک بی ں ہو ج محبت کی زب ن ہو ج ایک دوسری جگہ کہتے ہیں۔ یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مس م نی اخوت کی جہ نگیری محبت کی فراوانی غزالی اشتراک عمل‘ استدراک اجتم ع اور اشتراک م ش کے ق ئل ہیں۔ اس اشتراک میں‘ عدل اور اور دی نت داری کو الز قرار دیتے ہیں۔ اقب ل اشتراکی نظ سی ست کو‘ جمہوری نظ سی ست سے بہتر خی ل کرتے ہیں۔ وہ ک رل
م رکس کو پیغبر بےجبریل کے لق سے م قو کرتے ہیں۔ جمہوری نظ میں‘ م وکیت کی روح ق ئ رہتی ہے۔ ج کہ اشتراکی نظ سی ست‘ اس کو ب لکل فن کر دیت ہے۔ اشتراکیت‘ جمہوری نظ کے پروردہ لوگوں میں اضطرا پیدا کر دیتی ہے۔ جمہوریت کی ہے‘ اس کی حقیقت اقب ل کی زب نی سنیے۔ جمہوریت اک طرزحکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گن کرتے ہیں‘ توال نہیں کرتے ک رل م رکس کے ب رے اقب ل ک کہن ہےروح س ط نی رہے ب قی تو پھر کی اضطرا ہے مگر اس یہودی کی شرارت ک جوا وہ ک ی بے تج ی وہ مسیح بے ص ی نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کت اس تحسین کے ب وجود‘ وہ اشتراکی نظ کو پیٹ پوج ہی ک ن دیتے ہیں۔ م وکیت والے‘ کس نوں اور مزدوروں کی محنت کو‘ خراج بن کر‘ ط قت ح صل کرتے ہیں۔ اشتراکیت
والے بغ وت ک ن دے کر‘ دوسروں سے ط قت چھین کر‘ اپنے ہ تھ مضبوط کرتے ہیں۔ گوی دونوں عوا کو دھوکہ دیتے ہیں۔ ہر دو ج ن ن صبور و ن شکی ہر دو یزداں ن شن س آد فری زندگی ایں را خروج آں را خراج درمی ں ایں دو سنگ آمد ج ج غزالی جموریت کے ق ئل ہیں۔ ان کے نزدیک ری ستی امور انج دینے کے لیے ایک الئ اور ق بل ترین شخص کی ضرورت پڑتی ہے۔ جسے بذری ہ انتخ مقرر کی ج سکت ہے۔ اقب ل جمہوریت کو م وکیت کی ارتق ئی شکل قرار دیتے ہیں۔ جمہوری نظ حکومت میں ذہ نت کو پنپنے اور آگے بڑھنے کے مواقع میسر نہیں آتے۔ مسند اقتدار پر ادنی درجہ کے لوگ ق بض ہو کر عوا اور محنت ک استحص ل کرتے ہیں۔
غزالی کے نزدیک‘ نظ ق ئ رکھنے کے لیے ایک ق نون کی ضرورت ہےاور یہ ق نون س ز ایک مج س جو ح الت کی سی سی ہ آہنگی کو پیش نظر رکھ کر‘ مرت کر سکتی ہے۔ اقب ل بھی‘ خالفت کی امین جم عت کے لیے‘ ایک مج س خالفت ک ہون ضروری سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس میں ع م کو ایک موثر جزو کے طور پر ہون چ ہیے۔ غزالی م شرے میں‘ انص ف کو جزو الز سمجھتے ہیں۔ اس سے خیر سگ لی اور جذبہءترقی پیدا ہوت ہے۔ انص ف‘ اشتحک ری ست میں اہ کردار ادا کرت ہے۔ ان کے نزدیک انص ف ک ‘ ایک دن کسی کی ستر س لہ عب دت سے بہتر ہے۔ اقب ل انص ف کو خودی ک راز قرار دیتے ہیں۔ غزالی ج بر س ط ن کی س ط ن کی اط عت میں مض ئقہ نہیں سمجھتے۔
اقب ل اس کی اط عت کے ق ئل نہیں ہیں۔ کیونکہ اس سے خودی کو نقص ن پہنچت ہے۔ اٹھو میری دنی کے غریبوں کو جگ دو ک خ امرا کے در و دیوار ہال دو جس کھیت سے دہق ں کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کے ہر خوشءگند کو جال دو اگر ایس کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ اے مرد خدا تجھ کو قوت نہیں ح صل ج بیٹھ غ ر میں وہ هللا کو کر ی د آئین جواں مرداں ح گوئی و بےب کی هللا کے شیروں کو آتی نہیں روب ہی غزالی مذہ اور سی ست کو دو الگ سے نظ ہ زیست نہیں م نتے۔ ان کے نزدیک‘ اگر سی ست کی بنی د مذہ پر استوار ہو گی‘ تو ری ستی امور خوشگوار طور پر انج پ ئیں گے۔ اقب ل بھی اس نظریے کے ق ئل ہیں۔ فرم تے ہیں۔
جدا ہو دیں سی ست سے تو رہ ج تی ہے چنگیزی غزالی ک نظریہءری ست سرحدوں ک محت ج ہے۔ اقب ل کی مم کت قید زم ن و مک ن کی پ بندیوں سے آزاد ہے۔ وہ قید زم ن و مک ن سے ب التر خالفت ارضی کو م نتے ہیں۔ مک ں ف نی مکیں آنی ازل ترا ابد ترا خدا ک آخری پیغ ہے تو ج وداں تو ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس سمت میں چ ہے ص ت سیل رواں چل وادی یہ ہم ری ہے وہ صحرا بھی ہم را ہے غزالی م شرے کی تنظی میں‘ عورت نظرانداز نہیں کرتے۔ ان ک خی ل ہے‘ ج ج نوروں میں دونوں جنسیں‘ ک موں کے لح ظ سے‘ ایک جیسے ک کرتی ہیں‘ تو عورت کو افزایش نسل اور نسل کی بق کے لیے است م ل کرتے رہن ‘ کہ ں کی دانش مندی ہے۔ عورت مرد کے س تھ اور دوسرے فرائض انج دے سکتی ہے۔
اقب ل عورت کو اجتم عی خودی ک ض من قرار دیتے ہیں۔ اقب ل کے نزدیک‘ عورت کو بھی وہی انس نی حقو ح صل ہیں‘ جو مرد کو ح صل ہیں‘ لیکن دونوں ک دائرہ عمل‘ الگ الگ ہے۔ ان کے خی ل میں‘ اسالمی م شرے میں‘ عورت پ بند بھی ہے اور آزاد بھی۔ کہتے ہیں۔ وجود زن سے ہے تصویر ک ئن ت میں رنگ اس کے س ز سے ہے زندگی ک سوز دروں شرف میں بڑھ کے ثری سے مشت خ ک اس کی کہ ہر شرف ہے اسی درج ک در مکنوں غزالی‘ ح ح ت کی تکمیل کے لیے‘ ایک عمدہ م شی نظ کی ضرورت کو نظرانداز نہیں کرتے۔ اس کے لیے‘ وہ ایک دوسرے سے‘ ن ت جوڑنے کو الزمی قرار دیتے ہیں۔ یہ ن ت جتن مضبوط ہو گ اتن ہی کھرا پن ہو گ ۔ م شی نظ بھی
اتن ہی مضبوط ہو گ ۔ ان کےنزدیک‘ کس حالل سے‘ اپنے کنبہ کی ک لت‘ ایک طرح ک جہ د ہے۔ اقب ل کے نزدیک‘ انس ن اپن فیص ہ اور ارادہ است م ل کرت ہے۔ م ین مقصد ح صل کرنے کے لیے مس عی وقف کرت ہے۔ اس کے نزدیک اسب م یشت کی فراہمی اخال کے اصولوں کے مط ب اس وقت تک نہیں ہو سکتی۔ ج تک کہ‘ ذات واحد کی ح کمیت نہ تس ی کر لی ج ئے اور اس کے س تھ‘ فرد اور جم عت کے حقو ک ت ین نہ ہو۔ فرد کو ایسےرز کی طرف بڑھن چ ہیے‘ جس سے‘ اس کی خودی پ م ل نہ ہواور وہ ب عزت زندگی بسرے۔ کہتے ہیں۔ اے ط ئر الہوتی اس رز سے مؤت اچھی جس رز سے آتی ہو پرواز میں کوت ہی غزالی ہر شخص پر‘ وہ ع ح صل کرن ضروری سمجھتے ہیں‘ جس ک وہ م م ہ کرت ہے۔
اقب ل ع کی قدر کرتے ہیں اور ان کے خی ل میں‘ ع حواس کی بےداری ہے۔ ع سے‘ طب ی قوت ہ تھ آتی ہے۔ اس کو‘ دین کے م تحت رہن چ ہیے۔ وہ ع کو‘ ع رضی حقیقت نہ سمجھتے تھے ب کہ اسے ح ظ خودی اور ح ظ حی ت ک سرم یہ تصور کرتے تھے۔ یہی نہیں‘ وہ ع کو‘ امراض م ت کی دوا خی ل کرتے تھے۔ فرم تے ہیں۔ زندگی کچھ اور شے ہے ع ہے کچھ اور شے زندگی سوز جگر ہے‘ ع ہے سوز دم ع میں دولت بھی ہے قدرت بھی ہے لذت بھی ہے ایک مشکل ہے کہ ہ تھ آت نہیں اپن سرا گوی ج تک ع دل میں جگہ نہیں بن لیت ‘ انس ن راہنم ئی سے محرو رہت ہے۔ غزالی فقر کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک‘ فقر وہ ہے‘ جس کے پ س اپنی ضرورت کی چیز نہ ہو۔ آدمی کے
لیے‘ پہ ے اپنی ہستی مط و ہے‘ پھر م ل و غذا اور اسی طرح‘ بہت سی چیزیں درک ر ہیں۔ یہ ان ک ح جت مند ہے اور غنی ہے۔ غزالی ایسی اشی کے ترک کی طرف توجہ دالتے ہیں‘ جو ح صل ہون قدرت میں نہ ہوں۔ اقب ل چھین لینے اور برب د کر دینے کے بھی ق ئل ہیں۔ اٹھو میری دنی کے غریبوں کو جگ دو ک خ امرا کے در و دیوار ہال دو جس کھیت سے دہق ں کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کے ہر خوشءگند کو جال دو اقب ل فقر کو قن عت اور خودداری کے س تھ توکل بص رت اور بصیرت کو ضروری خی ل کرت ہے۔ مزید یہ کہ وہ فقر سے مراد افالس اور تنگ دستی نہیں لیتے ب کہ استغن اور الپرواہی کو مراد لیت ہے۔ اس کے نزدیک دولت‘ جوہر جواں مردی کی ہے۔ ح جت سے مجبوری مردان آزادن آزاد کرتی ہے ح جت شیروں کو روب ہ
محر خودی سے جس د ہوا فقر تو بھی شہنش ہ میں بھی شہنش ہ اگر جہ ں میں میرا جوہر آشک را ہوا ق ندری سے ہوا تونگری سے نہیں غزالی تجزی تی ت کر سے م یوس ہو کر صوفی نہ تجرب ت کی طرف راغ ہوئے۔ انھیں مذہ کے لیے ایک آزاد اس س نصی ہوئی۔ اقب ل رومی کو غزالی کے مق ب ہ میں اسال کی اصل روح سے قری تر خی ل کرتے ہیں۔ 22-7-1980
اقب ل کی یورپ روانگی سے پہ ے کے احوال اقب ل نسال کشمیری براہمن تھے۔ ان کی گوتھ سپرو تھی۔ پندرھویں صدی عیسوی میں‘ ان کے آب ؤ اجداد ب ب لولی‘ مشرف بہ سال ہوئے۔ ب ب لولی‘ ح جی ب ب نصیرالدین کے مرید تھے۔ ح جی ب ب نصیرالدین‘ شیخ نورالدین ولی کے ادارت مندوں میں سے تھے۔ انہوں نے کئی پ پی دہ حج کیے۔ ان ک مزار چیراٹ شریف‘ کشمیر میں ہے۔ الہ آب د ہ ئی کورٹ کے وکیل سر تیج بہ در سپرو گھرانہ سے ت رکھتے تھے۔ اقب ل کے دادا‘ شیخ محمد رفی ‘ عرف شیخ رفیق نے‘ سی ل کوٹ کے مح ہ کھٹیک ں کے ایک مک ن میں سکونت اختی ر کی‘ ب د ازاں یہ مک ن خرید لی ۔ شیخ رفی تج رت سے منس ک تھے۔ یہ مک ن اس دور میں یک منزلہ تھ ۔ اسی مک ن میں اقب ل کے والد شیخ نور محمد پیدا ہوئے۔ میں شیخ نور محمد نے اس مک ن سے م حقہ مک ن خرید لی ۔ یہ رہ ئش‘ ب د ازاں اقب ل منزل کہالئی۔ اقب ل کی والدہ ک ن ام بی بی تھ ۔ وہ ایک دین دار خ تون
تھیں۔ ان کے والد صوفی منش تھے اور اکثر درویشوں کی مح ل میں اٹھتے بیٹھتے تھے۔ ان کی دوسری اوالدوں میں شیخ عط محمد‘ ف طمہ بی بی اور ط لع بی تھیں۔ اقب ل کی پیدائش کے وقت‘ شیخ عط محمد اٹھ رہ برس کے تھے اور ان کی ش دی ہو چکی تھی۔ اقب ل کی پیدائش کے مت مخت ف روای ت س منے آتی ہیں ت ہ نومبر پر س ات کرتے ہیں۔ ج وید اقب ل کے میں پیدا ہوئے۔ مط ب وہ صبح کی ازان کے وقت کے وقت‘ سی ل کوٹ کے دو سکوت سی ل کوٹ س الروں کو‘ پھ نسی اور بیشتر جنگ جو جوانوں کو‘ گولی سے اڑا دی گی ۔ اس ح دثے نے‘ سی ل کوٹ کے ذہنوں پر من ی اثرات مرت کیے۔ وہ انگریز راج اور انگریزی اطوار سے ن رت کرتے تھے۔ اقب ل کے والد‘ اگرچہ کسی تحریک میں حصہ نہ لیتے تھے لیکن اس ح دثے نے ان پر گہرے اثرات مرت کیے۔ یہی وجہ ہے‘ کہ انہوں نے اقب ل کو چ ر برس کی عمر میں‘ مولوی غال حسین کے حوالے‘ دینی
ت ی کے لیے کر دی ۔ وہ وہ ں س ل کے لگ بھگ ت ی ح صل کرتے رہے۔ ایک دف ہ مولوی میر حسن‘ مولوی غال حسین کے ہ ں گیے‘ جہ ں انہوں نے اقب ل کو دیکھ ۔ انہوں نے شیخ نور محمد سے کہہ کر‘ اقب ل کو اپنی تحویل میں لے لی ۔ اقب ل‘ ان کے ہ ں عربی ف رسی اور اردو ادبی ت ک مط ل ہ کرنے لگے۔ اسی دوران‘ مولوی میرحسن نے اقب ل کو اسک چ مشن اسکول‘ سی ل کوٹ میں داخل کرا دی ۔ میں‘ اقب ل نے اسک چ مشن اسکول سے میٹرک درجہ اول میں پ س کی ۔ ادھر میٹرک ک امتح ن پ س کی ادھر ان کے سر پر ش دی ک سہرا سج گی ۔ ان کی بیوی کری بی بی‘ گجرات کے ایک م زز اور شریف کشمیری گھرانے سے ت رکھتی تھیں۔ خ ندانی شرافت ان کی رگ وپے میں موجود تھی۔ اسک چ مشن اسکول‘ ک لج ک درجہ اختی ر کر گی تھ ۔ یہ ں سے‘ درجہ دوئ میں ایف اے ک امتح ن پ س کی ۔ س ل اول کے دوران ہی‘ دا دہ وی سے کال میں اصالح لینے لگے۔ یہ ت یمی ادارہ مشرقی و مغربی اقدار ک نم ئندہ تھ ۔
میں‘ الہور تشریف لے آئے۔ گورنمٹ ک لج ستمبر الہور سے‘ ف س ہ اور عربی مض مین میں بی اے کی ۔ عربی کے مط ل ہ کے لیے اورئنیٹل ک لج آتے۔ وہ ں عالمہ محمد حسین آزاد‘ عالمہ فیض الحسن سہ رن پوری اور مولوی محمد دین ایسے ف ضل اس تذہ سے کس ع ک موقع دستی ہوا‘ ت ہ پروفیسر آرن ڈ کے بہت قری تھے۔ گورنمنٹ ک لج میں پروفیسر ڈب یو میل‘ پروفیسر اوشر اور پروفیسر آرنڈ سے ف س ہ کی ت ی ح حل کی۔ گورنمنٹ ک لج سے بی اے درجہ دوئ میں پ س کی ۔ ای اے ف س ہ‘ درجہ میں ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کے لیے سو میں کی ۔ ان فٹ قرار پ ئے۔ میں‘ اورنٹیل ک لج میں‘ بطور ریڈر مالز ہو گیے۔ میں گورنمنٹ ک لج الہور میں اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوءے۔ اسالمیہ ک لج الہور میں‘ سر عبدالق در کی سیٹ پر‘ بطور اسسٹنٹ پروفیسر آف انگ ش بھی ک کی ۔ قی الہور کے دوران‘ ان کی چ ر کت بیں منظر ع پر آئیں۔ تک‘ الہور کی درس گ ہوں میں فرائض سے انج دیتے رہے۔ اقب ل م نے والی م ہوار تنخواہ سے
مطمن نہ تھے۔ اس سے اندازہ ہو ج ت ہے کہ وہ بیرسٹر بن کر محکمہ ت ی کو خیرب د کہہ دین چ ہتے تھے‘ لیکن وہ بیرسڑی نہ کر سکے۔ خصوصی اج زت کے ب وجود ک می بی ح صل نہ ہو سکی۔ اس سے‘ ب خوبی یہ ں کے م ی ر ت ی ک اندازہ لگ ی ج سکت ہے۔ مغر کی بڑی دک ن سے‘ انہیں یہی س م ن دستی ہو گی ۔ اقب ل ک لج سے م نے والی سٹڈی لیو لے کر‘ انگ ست ن روانہ ہو گیے۔ رخصت کے دوران ہی‘ ان کی تنخواہ میں تیس روپے اض فہ گی ۔ یورپ سے واپسی پر‘ اپنی دیرینہ خواہش اور بہتر آمدن کے لیے مالزمت سے اسطی ے دے کر‘ بیرسٹری کی طرف آگیے۔ عالمہ اقب ل سیم بی طبی ت اور مزاج کے م لک تھے۔ ان ک ع می ادبی اور بہتر آمدن کی حصولی ک خوا شرمندہء ت بیر نہیں ہو سکت تھ ۔ الہور آ کر انہوں نے ن صرف ت ی ح صل کی‘ ب کہ مالزمت بھی اختی ر کی۔ بیرسٹر بن کر م شی صورت ح ل کو کروٹ دینے کی کوشش کی‘ لیکن اس حوالہ سے‘ بری طرح ن ک ہوئے۔ ط ل ع می کے زم نہ ہی سے‘ انہوں نے اد کی مخت ف حوالوں سے تسکین ک ک کی ۔ ‘سبھی دوست‘ ان کے
کمرے میں آ ج تے۔ فرش پر‘ حقہ سمیت‘ مح ل جمتی۔ یہ برہنہ سر‘ تہمد ب ندھے‘ کمبل اوڑھے حقہ پیتے رہتے۔ ش ر و ش عری مب حث اور خو خو خوش طب ی ک س م ن ہوت ۔ اقب ل سے قبل ہی‘ ایک انجن مش عرہ ق ئ تھی۔ اس انجمن میں رکھی تھی۔ کی بنی د حکی شج ح الدین نے‘ اس کی نشتیں‘ حکی امین الدین کے ہ ں ہوا کرتی تھیں۔ حکی شج ح الدین کی موت کے ب د یہ نشتیں‘ نوا غال محبو سبح نی‘ والئی کشمیر کی سرپرستی میں ہونے کی ایک ش کو‘ انجمن کے مش عرہ میں اپن لگیں۔ کال پڑھ ۔ اس مج س میں عالمہ ارشد گورگ نی اور میر ن ظ حسین ن ظ بھی موجود تھے۔ ج وہ اس ش ر تک :پہنچے موتی سمجھ کے ش ن کریمی نے چن لیے قطرے جو تھے میرے عر ان ل کے
عالمہ ارشد گورگ نی بے اختی ر ہو کر داد دینے لگے اور انہیں محبت بھری نظروں سے دیکھ ۔ الہور میں ق ئ شدہ انجمن ‘کشمیری مس م ن ن‘ میں بھی اپن کال سن ی اور داد پ ئی۔ مش عروں میں رنگ آ گی اور س م ین کی ت داد میں‘ ہر چند اض فہ ہوا۔ ان مش عروں کی تنظی کے لیے‘ ایک ادبی انجمن بھی ق ئ کی گئی۔ اس کے صدر مدن گوپ ل اور سیکرٹری خ ن احمد حسین خ ں تھے۔ خ ن احمد حسین خ ں‘ ان مج لس کے روح رواں ہوا کرتے تھے۔ نظ ‘ہم لہ‘ بھی‘ اس انجمن کے کسی اجالس میں پڑھ کر سن ئی گئی۔ اقب ل اپن کال تحت ال ظ سن تے تھے۔ ان آواز میں بال ک ج دو تھ ۔ دوستوں کے اصرار پر‘ انہوں نے کھی کبھ ر اپن کال ترن سے پڑھن شروع کر دی ۔ ادبی انجمن کے حوالہ سے‘ اقب ل الہور کی فض ؤں میں‘ نمودار ہوئے۔ اقب ل اس انجن کے سیکرٹری بھی رہے۔ یہ انجمن آگے چل کر‘ آل انڈی مس ک ن رنس کے ن سے م روف ہوئی۔
قی الہور کے دوران‘ ان کے ت ق ت خ صے وسیع ہو گیے۔ ان کے احب میں‘ انگریز‘ ہندو اور مس م نوں ش مل تھے۔ انگریز احب میں‘ پروفیسر ارن ڈ خصوصی اہمیت کے ح مل ہیں۔ پروفیسر موصوف نے ان کے فکری رویوں کو مت ثر کی ۔ میں‘ انہوں انجمن حم یت االسال کے س النہ ج سہ نے ‘ن لءیتی ‘ پڑھی۔ اس ج سے کی صدارت ڈیپٹی نذیر احمد کر رہے تھے۔ اس انجمن کے اور ج سوں میں بھی‘ اقب ل نے شرکت فرم ئی اور اپنے کال سے س م ین کو محظوظ کی ۔ اس انجمن کے ج سوں میں‘ کال پڑھنے کے دوران‘ عالمہ الط ف حسین ح لی سے دس روپے‘ خواجہ حسن نظ می سے عم مہ اور خواجہ عبدالصمد ککڑو سے چ ندی ک تمغہ‘ جو وہ کشمیر سے بنوا کر الئے تھے‘ وصول کی ۔ انہیں عالمہ الط ف حسین ح لی کی نظ سن نے ک اعزاز بھی ح صل ہوا۔ یہ س ‘ بالشبہ‘ اقب ل کی فکر کی ب ند پروازی‘ جدت طرازی‘ نی اس و تک ‘ نئی زب ن اور انگریز احب سے
قربت ک نتیجہ تھ ۔ ان کے کہے میں عصری کر کی تصویر کشی اور دلکش انداز میں پیش کش کو کسی بھی سطع پر نظر انداز نہیں کی ج ن چ ہیے۔ قی الہور کے دوران‘ انہوں نے ہم لہ‘ ن لءیتی ‘ ایک یتی ک خط ‘ ن لءفرا ‘ -خیر مقد ‘ دین و دنی ‘ فری د امت‘ تصویر درد ش ر پ رے ق بند کیے۔ یہ س فکری و لس نی اعتب ر سے‘ اپنی مث ل ہیں۔ انہیں اد ع لیہ کی بس ط پر رکھ ج سکت ہے۔ منشی محمد دین فو ‘ جو ایک ش عر سے زی دہ‘ اخب ر نویس تھے‘ نے اقب ل میں ترقی پسندی کے جوہر دیکھ کر‘ ان کے ن کو اچھ لن شروع کی ۔ ان کے کال کو اپنے اخب رات میں نم ی ں جگہ دی۔ ان دونوں حضرات کو‘ جن جن ک س تھی کہ ج ئے‘ تو مب لغہ نہ ہو گ ۔ دوسرا‘ وہ دونوں ایک ہی دھرتی کے سپوت تھے۔ دونوں دا دہ وی کے ش گرد تھے۔ وہ پیسہ اخب ر‘ پنجہءفوالد‘ کشمیری میگزین اور اخب ر کشمیری نک لتے تھے۔
جو پروفیسر آرن ڈ ک قصیدہ ہے۔ اس قصیدے کو قص ئد - سے الگ رکھ گی ہے‘ ح الں کہ اردو قصیدے میں اسے بڑا ہی خو صورت اض فہ قرار دی ج سکت ہے۔ مواد اور اس و تک کی جدت‘ اس قصیدے کو الگ سے‘ عزت اور توقیر دینے ک مستح ٹھہراتی ہے۔ غ لب ان کی زندگی کے س ر میں‘ یہ سنگ میل ک درجہ رکھت ہے۔
اس مضمون کی تی ری کے لیے ان کت سے است دہ کی :گی ہے زندہ رود از شیخ اکرا - اقب ل مرتبہ وحید عشرت - مط لہء اقب ل از ڈاکٹر گوہر نوش ہی - اقب ل ک مل از عبدالسال ندوی - نقوش اقب ل نمبر شم رہ
-
۔ نیرنگ خی ل شم رہ ستمبر اکتوبر 9-1-1980
مط ل ہءاقب ل کے چند م خذ است د غ ل اور ڈاکٹر اقب ل‘ اردو کے دو ایسے ش عر ہیں‘ جن پر بڑا ک ہوا ہے۔ غ لبی ت اور اقب لی ت دو الگ سے‘ ش بے بن گئے ہیں۔ گوی انھیں مضمون ک درجہ ح صل ہوگی ہے۔ ان پر اتن زی دہ ک ہو ج نے کے ب وجود‘ مزید ک کے دروازے ابھی تک کھ ے ہوئے ہیں۔ ان پر ہونے والے ک کی نوعیت و حیثیت ک ابھی تک ج ئزہ کرن ‘ ب قی ہے۔ جم ہ م خذ کی ج مع اور اپنی نوعیت کی جمع بندی ک ک بھی ابھی ب قی ہے۔ اس ذیل میں کسی م خذ کو م مولی سمجھ کر‘ نظرانداز کرن زی دتی کے مترادف ہوگ ۔ میں یہ ں چند ایک مص در کی نش ن دہی کر رہ ہوں۔ یہ فہرست بھی‘ بیس س ل سے زی دہ پرانی ہے۔ ہو سکت ہے‘ اقب ل پر ک کرنے والوں کے لیے‘ یہ مص در کسی ن کسی سطع پر ک کے نک یں۔ ا۔ اقب ل‘ ڈاکٹر ب نگ درا شیخ غال ع ی اینڈ سنز‘ الہور ۔ اقب ل‘ ڈاکٹر ب ل جبریل شیخ غال ع ی اینڈ سنز‘ الہور
۔اقب ل‘ ڈاکٹر ضر ک ی شیخ غال ع ی اینڈ سنز‘ الہور ۔اقب ل‘ ڈاکٹر ارمغ ن حج ز احسن برادر‘ ان ر ک ی‘ الہور ۔اقب ل‘ ڈاکٹر ب قی ت اقب ل آئنہءاد ‘ ان ر ک ی‘ الہور ۔ابوال یث صدیقی‘ ڈاکٹر آج ک اردو اد ‘ قصر کت ‘ کراچی ۔احمد می ں اختر‘ ق ضی اقب لی ت ک تنقیدی ج ئزہ اقب ل اک دمی پ کست ن الہور ۔ انور سدید‘ ڈاکٹر اقب ل کے کالسیکی نقوش اقب ل اک دمی‘ پ کست ن‘ الہور ۔ اس و احمد انص ری‘ پروفیسر اقب ل کی تیرہ نظمیں مج س ترقی اد ‘ الہور ۔این میری شمل مترج ڈاکٹر محمد ری ض‘ شہپر اقب ل‘ گ و پب یشرز‘ الہور ۔اس انص ری اقب ل عہد آفرین ک روان اد ‘ م ت ن صدر
۔اکبر ع ی سید‘ ایڈووکیٹ اقب ل اس کی ش عری اور پیغ ‘ اقب ل اک دمی‘ پ کست ن‘ الہور ۔افتخ ر حسین ش ہ‘ سید اقب ل اور پیروی شب ی‘ سنگ میل پب یشرز‘ الہور‘ ۔اکبر حسین‘ ڈاکٹر‘ مط ل ہءت میح ت واش رات اقب ل اقب ل اک دمی‘ پ کست ن‘ الہور ۔ایس اے رحمن‘ جسٹس‘ اقب ل اور سوش ز ادارہ ثق فت اسالمیہ‘ الہور ۔احمد ندی ق سمی ‘ یونس ج وید ادارت‘ صحی ہءاقب ل مج س ترقی اد ‘ الہور ۔ ت ثیر‘ ڈاکٹر اقب ل ک فکر و فن یونیورسل بکس‘ اردو ب زار الہور ۔ج بر ع ی سید اقب ل ک فنی ارتق بز اقب ل‘ ک الہور
روڑ‘
۔جگن ن تھ آزاد اقب ل اور اس ک عہد االد ‘ ان ر ک ی‘ الہور حمید احمد خ ں‘ پروفیسر اقب ل شخصیت اور ش عری بز اقب ل‘ ک روڑ‘ الہور
۔حمید رض صدیقی‘ اجمل صدیقی اقب ل جدوجہد آزادی؛ ک روان اد ‘ م ت ن صدر ۔ خ لد س ید بٹ‘ ڈاکٹر اقب ل ک نظریہءثق فت ادارہء ثق فت‘ پ کست ن ۔ رئیس احمد ج ری اقب ل اور عش رسول شیخ غال ع ی اینڈ سنز‘ الہور ۔ رئیس احمد ج ری اقب ل اپنے آءینے میں کت کشمیری ب زار‘ الہور
منزل‘
۔ رشید احمد‘ ف رو احمد مرتبین پ کست نی اد ‘ فیڈرل گورنمنٹ سرسید ک لج‘ رآولپنڈی‘ ۔ رشید احمد صدیقی‘ پروفیسر اقب ل شخصیت اور ش عری‘ اقب ل اک دمی‘ الہور س ی اختر‘ ڈاکٹر اقب لی ت کے نقوش اقب ل اک دمی‘ پ کست ن ۔ س ی اختر‘ ڈاکٹر اقب ل شن سی کے زاویے بز اقب ل‘ الہور
۔ س ی اختر‘ ڈاکٹر اقب ل اور ہم رے فکری رویے سنگ میل پب یشرز‘ الہور ۔ س ی اختر‘ ڈاکٹر اقب ل ش ع صد رنگ سنگ میل پب یشرز‘ الہور ۔ س ی اختر‘ ڈاکٹر اقب ل ممدوح ع ل بز اقب ل‘ الہور ۔ س ید احمد رفی اقب ل ک نظریہءاقب ل ادارہ ثق فت اسالمیہ‘ الہور ۔ سج د ب قر رضوی‘ سید تہذی و اخال مکتبہ اد جدید ۔ شورش ک شمیری‘ آغ اقب ل پی مبر انقال فیروز سنز ۔ ش ہد حسین رزاقی مق الت حکی ادارہ ثق فت اسالمیہ‘ الہور ۔ شمی م ک‘ ڈاکٹر اقب ل کی قومی ش عری مقبول اکیڈمی‘ الہور ۔ ص لح‘ ابو محمد قرآن اور اقب ل سنگ میل پب شرز‘ ھ الہور
۔ صالح الدین احمد‘ موالن تصورات اقب ل ادبی دنی ‘ الہور ۔ عزیز احمد اقب ل اور پ کست نی اد مکتبہ ع لیہ‘ الہور ۔ عزیز احمد اقب ل اور نئی تشکیل گ و پب شرز‘ الہور ۔ عب دت بری وی‘ ڈاکٹر اقب ل احوال و افک ر مکتبہ ع لیہ الہور ۔ عب دت بری وی‘ ڈاکٹر جدید ش عری انجمن ترقی اردو پ کست ن ۔ عب دت بری وی‘ ڈاکٹر غزل اور مط ل ہءغزل انجمن ترقی اردو پ کست ن ۔ عبدهللا‘ سید‘ ڈاکٹر اش رات تنقید مکتبہ خی ب ن‘ الہور‘ ۔ عبدهللا‘ سید‘ ڈاکٹر مط ل ہء اقب ل کے چند نئے رخ بز اقب ل‘ الہور‘ ۔ عبدهللا‘ سید‘ ڈاکٹر مس ئل اقب ل مغربی پ کست ن اردو اکیڈمی‘ الہور
۔ ع بد ع ی ع بد‘ سید‘ ش ر اقب ل بز اقب ل الہور‘ ۔ عبدالوحد‘ سید نقش اقب ل آئینہ‘ الہور ۔ عبد الحکی ‘ خ ی ہ‘ ڈاکٹر فکر اقب ل بز اقب ل الہور ۔ عبدالرحمن ط ر اش رات اقب ل کت ب زار‘ الہور
منزل‘ کشمیری
عبدالرحمن ط ر جوہر اقب ل شیخ غال ع ی اینڈ سنز‘ الہور ۔ عبدالمجید م لک ذکر اقب ل بز اقب ل‘ الہور عبدهللا قریشی آئینہءاقب ل آئینہءاد ‘ الہور ۔ عبدالرشید ف ضل‘ کوک ش دانی اقب ل اسرارورموز اقب ل اک دمی پ کست ن ۔ عبدالحمید اقب ل بحیثیت م کر پ کست ن منظور ع کت خ نہ‘ پش ور ۔ عبدالصمد خ ں‘ میر خوشح ل و اقب ل منظور ع کت خ نہ‘ پش ور
۔ عبدالح ‘ مولوی مرت اقب ل دان ئے راز انجمن ترقی اردو پ کست ن ۔ غال مصط ے خ ں‘ ڈاکٹر اقب ل اور قرآن اقب ل اک دمی‘ الہور ۔ غال عمر‘ ڈاکٹر اقب ل ک ک مل انس ن مکتبہ ع لیہ‘ الہور ۔ غال احمد پرویز اقب ل اور قرآن ادارہ ط وع اسال ‘ کراچی ۔ فتح محمد م ک اقب ل فکر و عمل بز اقب ل‘ الہور ۔ محمد فرم ن‘ پروفیسر اقب ل اور تصوف بز اقب ل‘ الہور ۔ محمد حنیف ش ہد م کر پ کست ن سنگ میل پب یشرز‘ الہور ۔ مظ ر حسن م ک‘ ڈاکٹر اقب ل اور ثق فت اقب ل اک دمی‘ الہور ۔ محمد منور‘ پروفیسر برہ ن اقب ل اقب ل اک دمی پ کست ن
۔ محمد منور‘ پروفیسر میزان اقب ل اقب ل اقب ل اک دمی پ کست ن ۔ محمد ح مد افک ر اقب ل اقب ل اقب ل اک دمی پ کست ن ۔ محمد یوسف حسرت ک ید اقب ل اقب ل اک دمی پ کست ن ۔م ین الرحمن‘ ڈاکٹر مرت اقب لی ت ک مط ل ہ اقب ل اقب ل اک دمی پ کست ن ۔ منہ ج الدین‘ ڈاکٹر اقب ل و تصورات اقب ل ک روان اد م ت ن صدر ۔ محمد احمد صدیقی اقب ل ت یمی نظری ت آل پ کست ن ایجوکیشنل ک ن رنس کراچی ۔ مہر‘ غال رسول‘ مرت سرود رفتہ شیخ غال ع ی اینڈ سنز‘ الہور ۔ محبو ع ی زیدی‘ سید اقب ل ح اہل بیت شیخ غال ع ی اینڈ سنز‘ الہور ۔ محمد ظریف‘ ق ضی اقب ل قرآن کی روشنی میں کت منزل‘ الہور
۔ میزا ادی مط ل ہءاقب ل کے چند پہ و بز اقب ل‘ الہور ۔ محمد ع ی‘ شیخ نظریہ و افک ر اقب ل نیشنل ف ؤنذیشن ۔ محمد ری ض‘ ڈاکٹر اف دات اقب ل ت ج بک ڈپو‘ الہور ۔ محمد ش ہ‘ سید مرت اقب ل پر ایک نظر اقب ل اکیڈمی‘ الہور ۔ م ک حسن اختر‘ ڈاکٹر اقب ل‘ ایک تحقیقی مط ل ہ یونیورسل بکس‘ الہور ۔ محمد رفیع الدین حکمت اقب ل ع می کت خ نہ‘ الہور ۔ محمد رفیع الدین ہ شمی‘ سید اقب ل کی طویل نظمیں گ و پب یشرز‘ الہور ۔ مقصود حسنی کال اقب ل روزن مہ وف ‘ الہور ۔ مقصودحسنی مس م ن اقب ل کی نظر میں روزن مہ وف ‘ الہور م رچ
نومبر
۔ مقصودحسنی اقب ل اور تحریک آزادی روزن مہ وف ‘ الہور -اپریل ۔ مقصود حسنی اقب ل کے کال میں دعوت آزادی روزن مہ وف ‘ الہور -اکتوبر ۔ مقصود حسنی اقب ل اور تسخیر ک ئن ت کی فالس ی روزن مہ وف ‘ الہور -فروری ۔ مقصود حسنی اقب ل ک نظریہءقومیت روزن مہ وف ‘ الہور -جوالئی ۔ مقصود حسنی اقب ل اور ربط م ت کی اصطالح روزن مہ مشر ‘ الہور -جنوری ۔ مقصود حسنی اقب ل کے سی سی م شی اور اخالقی نظری ت‘ م ہن مہ تحریریں‘ الہور‘ اپریل ۔ مقصود حسنی اقب ل لندن میں اردو نیٹ ج پ ن‘ انجمن ۔ نصیر احمد ن صر‘ ڈاکٹر اقب ل اور جم لی ت اقب ل اک دمی پ کست ن ۔ نذیر احمد اقب ل کے صن ئع بدائع آئینہءاد ‘ الہور
۔ نذیر نی زی‘ سید دان ئے راز اقب ل اک دمی پ کست ن ۔ وحید قریشی‘ ڈاکٹر اقب ل اقب ل اک دمی پ کست ن ۔ وحید قریشی‘ ڈاکٹر مرت منتخ مق الت‘ اقب ل ریوریو ۔ وزیر آغ ‘ ڈاکٹر تصورات اقب ل اک دمی پ کست ن عش وخرد اقب ل اک دمی پ کست ن ۔ وزیر آغ ‘ ڈاکٹر اردو ش عری ک مزا مکتبہ ع لیہ‘ الہور ۔ وزیر آغ ‘ ڈاکٹر روح تنقید اد عشرت پب یشنگ ہ ؤس‘ الہور ۔ وزیر آغ ‘ ڈاکٹر مط ل ہءاقب ل بز اقب ل‘ الہور ۔ وق ر عظی ‘ سید‘ پروفیسر اقب ل ش عر اور ف س ی تصنی ت ۔ واجد رضوی دان ئے راز مقبول اکیڈمی‘ الہور 102. The work of Mohammad Iqbal Edited by: Abdur Rauf , People's publishing house, Lahore, 1983
103. A message from the east By: M. Hadi Hussain, Iqbal Ac. Pak. Lahore, 1977 104. Iqbal-- a critical study By: Mesba-ul-Haq, Farhan Publishers, Lahore, 1976 105. About Iqbal and his thought, By; M.M. Sharif, Inst. of Islamic Culture, lahore, 1976 106. Iqbal the great poet of Islam By: Shah Abdul Qadir, Sung-e-meal publications, Lahore, 1987 107. Iqbal and Quranic Wisdom by: Mohammad Munawar, Islamic Books Foundation 1981 108. Some Aspects of Iqbal's thought, By Aasif Iqbal, Islamic Books Service, Lahore 109. Poetry of Iqbal, By: Sir Zulifqar Ali, Aziz Publishers, Lahore, 1972 110. Iqbal the Universal Poet, By: Dr. A. D. Taseer, Munoib Publishers, Lahore, !977
رس ئل افش ں‘ مج ہ گورنمنٹ دی ل سنگھ ک لج‘ الہور‘ اقب ل نمبر جنوری افک ر م ‘ م ہ ن مہ‘ الہور اقب ل نمبر نومبر اورا ‘ سہ م ہی اقب ل نمبر م ہ نو‘ م ہ ن مہ‘ الہور‘ نومبر مواخذہ‘م ہ ن مہ الہور‘ اقب ل نمبر نومبر م ہ ن مہ ستمبر اکتوبر
نیرنگ خی ل
اخب رات روزن مہ آفت الہور ‘ ،نومبر
‘
روزن مہ امروز الہور
فروری
‘ ‘
ستمبر ‘ ‘
‘
‘
‘
نومبر
روزن مہ جنگ الہور
نومبر
روزن مہ جہ ں نم الہور ‘ روزن مہ مشر الہور
نومبر
نومبر
روزن مہ نوائے وقت الہور
نومبر
روزن مہ مشر الہور
نومبر
روزن مہ وف الہور نومبر ‘ دسمبر
ستمبر‘ ‘
غیر مطبوعہ مض مین‘ مقصود حسنی ۔ اقب ل ک نظریہءم ش و م شرت ۔اقب ل ک ف سفءعش ۔ نظ ط وع اسال ایک ج ئزہ
‘
‘
‘
-
اقب ل کی نظ میں اور تو کے حواشی مقصود حسنی https://www.yumpu.com/xx/document/view/38649019/-/-
مط ل ہءش ر اقب ل کے حوالہ سے چند م روض ت مقصود حسنی http://www.youblisher.com/p/1204999-%D9%85%D8%B7%D8%A7%D9%84%D8%B9%DB%81%D8 %A1%D8%A7%D9%82%D8%A8%D8%A7%D9%84-%DA%A9%DB%8C-%D8%B0%DB%8C%D9%84%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%86%D9%86%D8%AF-%D9%85%D8%B9%D8%B1%D9%88%D8 %B6%D8%A7%D8%AA/
اقب ل اور مغربی م کرین مقصود حسنی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8653.0
اقب ل کی یورپ روانگی سے پہ ے کے احوال مقصود حسنی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8681.0
اقب ل لندن میں مقصود حسنی https://imgur.com/gallery/sWQOX
اقب ل ک ف س ہءخودی مقصود حسنی http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=43858
مقصود حسنی کال اقب ل روزن مہ وف ‘ الہور
نومبر
مس م ن اقب ل کی نظر میں روزن مہ وف ‘ الہور م رچ اقب ل اور تحریک آزادی روزن مہ وف ‘ الہور -اپریل
اقب ل کے کال میں دعوت آزادی روزن مہ وف ‘ الہور
-اکتوبر
اقب ل اور تسخیر ک ئن ت کی فالس ی روزن مہ وف ‘ الہور
-فروری
اقب ل ک نظریہءقومیت روزن مہ وف ‘ الہور
-جوالئی
اقب ل اور ربط م ت کی اصطالح روزن مہ مشر ‘ الہور
-جنوری
اقب ل کے سی سی م شی اور اخالقی نظری ت ‘ م ہن مہ تحریریں‘ الہور‘ اپریل
االد آور اقب ل فہمی ایک شخص کی بہتر ک رگزاری‘ ایک کنبہ ی قبی ہ کی ‘ پورے عالقہ کی شہرت ک سب بنتی ہے۔ مت قہ عہد تک موقوف نہیں‘ آتی نس یں بھی اس پر فخر محسوس کرتی ہیں۔ لوگ کسی ن کسی حوالہ سے‘ اس سے اپنے ت ک جواز تالشتے ہیں۔ ت نہ نک نے کی صورت میں؛ ہ عالقہ‘ ہ زب ن ی ہ وطن ہونے ک س بقہ کسی سطع پر نظر انداز نہیں کرتے۔ اس میں سرفرازی ہی نہیں‘ شن خت بھی میسر آتی ہے اور یہ کوئی ایسی م مولی ب ت بھی نہیں۔ اقب ل شر و غر میں ب ند اور جدا فکری حوالہ سے شہرا رکھت ہے۔ اس کی فکر و زب ں پر ہزاروں ص ح ت تحریر ہو چکے ہیں۔ ج م ت میں اقب لی ت سے مت ش بہ ج ت ق ئ ہو چکے ہیں۔ محقیقن اقب ل پر تحقیقی ک کرکے ڈگری ں ح صل کر رہے ہیں۔ انجمن اسالمیہ قصور کے ایک اجالس میں اقب ل تشریف ال چکے ہیں اور یہ انجمن کے لیے بڑے اعزاز کی ب ت تھی۔
اسالمیہ ک لج قصور اور اسالمیہ ہ ئ اسکول قصور‘ انجمن سے مت رہے ہیں‘ المح لہ یہ ب ت‘ ہر دو اداروں کےلیے بھی‘ اعزاز کی ب ت ہے۔ اسالمیہ ک لج قصور کو یہ بھی فخر ح صل ہے‘ کہ اس نے اپنے پرچے االد کے ذری ے‘ اقب ل سےمت مض مین ش ءع کیے ہیں۔ یہ اطراف میں بڑے اعزاز اور فخر کی ب ت ہے۔ ک لج کے موجودہ سربراہ پروفیسر راؤ اختر ع ی‘ اقب الت میں خصوصی توجہ رکھتے ہیں۔ وہ اس ذیل میں مخت ف نوعیت کےکے پروگرا کراتے رہتے ہیں۔ شم رہ لیے‘ ان کی ہدایت پر‘ راق نے ایک تحریر پیش کی ہے۔ االد میں اقب ل پر مواد تو چھپ ہی ہے‘ ڈاکٹر سید محمد عبدهللا‘ ڈآکٹر نصیر احمد ن صر‘ ڈاکتر عبدالسال خورشید‘ ڈاکٹر تبس ک شمیری‘ داکٹر غال شبیر ران ‘ ارش د احمد حق نی‘ عشرت رحم نی‘ شریف کنج ہی ایسے ل ظ شن س لوگوں کی اقب ل کے حوالہ سے ک وش ہ ‘ کی اش عت ک بھی االد کو اعزاز ح صل ہے۔ ان کے انمول ل ظ‘ یقین حوالہ ک درجہ رکھتے ہیں۔ اگ ے ص ح ت میں‘ االد میں
اقب ل پر ش ئع ہونے والی تحریروں کی ت صیل پیش کی گئ ہے۔ عالمہ سر محمد اقب ل -فی ض احمد - اقب ل ک ف س ہء خودی -شوکت ع ی - ست روں سے آگے -م راج الدین احمد - اقب ل ک مرد ک مل -ای مبشر احمد - اقب ل اور فطرت -محبت ع ی - فکر اقب ل اور عورت -ش کر انج -
-
اقب ل اور مس ہءخودی -شیخ محمود احمد - عالمہ اقب ل کے حضور ح ضری کے چند مواقع -ڈاکٹر سید عبدهللا - اقب ل ک ف س ہ عقل و عش -خورشید خواجہ - اقب ل اور مس ہءجبروقدر -سمیہ اشرف گورا - اقب ل ک ف سفءخودی -ح مد نواز - اقب ل اور م شی ت -محمد ش یع - اقب ل ک تصور ش ہین -رضیہ ران -
-
اقب ل اور نظریہء م وکیت و اشتراکیت -محمد ح مد نواز - اقب ل اور فنون لطی ہ -محمد اکرا ہوشی رپوری - اقب ل دور ح ضر ک عظی م کر -رض هللا ط ل
-
اقب ل کے صوفی نہ تصورات -محمد اکرا ہوشی رپوری - عالمہ اقب ل اور محمد ع ی جوہر -ڈاکٹر سید محمد عبدهللا - فرد اور م ت اقب ل کی نظر میں -ڈاکٹر نصیر احمد ن صر - زم نہ ب تو نہ س ز و تو بہ زم نہ ستیز -ش ی الرحمن ہ شمی - مس قومیت اور نظریہءپ کست ن -ڈااکٹر عبدالسال خورشید - اقب ل اور قومی ثق فت -ڈاکٹر تبس ک شمیری -
-
اقب ل اور قومی تہذی ک تح ظ -ارش د احمد حق نی - -
اقب ل اور تصور آزادی -عشرت رحم نی - اقب ل ک ف س ہءت ی -عبدالغ ر نظمی - اقب ل اور پنج
-شریف کنج ہی -
-
اقب ل کی فکری تشکیل اور موالن رو -اختر ع ی میرٹھی -
اقب ل ک نظرءسی ست -محمد جہ نگیر - اقب ل ک تصور اقتص دی ت -حنیف اس -
-
اقب ل اور عقل وعش ع الدین غ زی -
-
عالمہ اقب ل ایک اسالمی ش عر -محمد یسین -
-
اقب ل ت میر نو ک ع مبردار -صغری انص ری -
-
اقب ل کے م شی و ق نونی تصورات -اسم ء جبین - اقب ل ایک نظر میں -ط ہرہ اکرا - اقب ل اور نظریہء خودی -ن ی محمود -
-
-
حکی االمت ک مشن -محمود احمد -
اقب ل م صرین کی نظر میں -اکرا ہوشی رپوری - عالمہ اقب ل اور کردار س زی -عبدالزا انص ری - -
اقب ل اور ف ہءخودی -شوکت ع ی -
فکر اقب ل میں یقین کی اہمیت -ڈاکٹر غال شبر ران - -
اقب ل اور االد -ڈاکٹر عط لرحمن میو - اقب ل اور آج ک نوجوان -راشد مقصود اقب ل قومی ش عر -جنیدالرحمن -
-