مطالعہءاقبال

Page 1

‫مط ل ہءاقب ل‬

‫مقصود حسنی‬ ‫پیش ک ر‬ ‫پروفیسر نی مت ع ی مرتض ئی‬ ‫ابوزر برقی کت خ نہ‬ ‫جون‬


‫فہرست‬

‫اقب ل ک ف س ہءخودی‬ ‫ف س ہ خودی‘ اس کے حدود اور ڈاکٹر اقب ل‬ ‫ڈاکٹر اقب ل اور مغربی م کرین‬ ‫غزالی اور اقب ل کی فکر۔۔۔۔۔۔ایک ج ئزہ‬ ‫اقب ل کی یورپ روانگی سے پہ ے کے احوال‬ ‫اقب ل لندن میں‬

‫مط ل ہءاقب ل کے چند م خذ‬ ‫کال اقب ل‬ ‫مس م ن اقب ل کی نظر میں‬ ‫اقب ل اور تحریک آزادی‬ ‫اقب ل کے کال میں دعوت آزادی‬ ‫اقب ل اور تسخیر ک ئن ت کی فالس ی‬ ‫اقب ل ک نظریہءقومیت‬ ‫اقب ل اور ربط م ت کی اصطالح‬ ‫اقب ل کے سی سی م شی اور اخالقی نظری ت‬


‫االد آور اقب ل فہمی‬ ‫اقب ل کی نظ میں اور تو کے حواشی‬ ‫مط ل ہءش ر اقب ل کے حوالہ سے چند م روض ت‬ ‫اقب ل اور مغربی م کرین‬ ‫اقب ل کی یورپ روانگی سے پہ ے کے احوال‬ ‫اقب ل ک ف س ہءخودی‬


‫اقب ل ک ف س ہءخودی‬ ‫اقب ل نے زندگی‘ ک ئن ت‘ مظ ہر‘ مرئی‘ غیر مرئی‘ ازل‘ ابد‬ ‫غرض ہر شے اور ذی روح کو‘ خودی کی عینک سے‬ ‫دیکھ ہے۔ جہ ں خودی ک عنصر غ ل دیکھتے ہیں اسے‬ ‫پرتحسین نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک وجود‬ ‫کی آزادی اور بق خودی کی مرہون منت ہے۔ جہ ں کہیں‬ ‫اس میں کجی‘ ک زوری اور غیرمتوازن عن صر دیکھتے‬ ‫ہیں‘ خودی کو الزا دیتے ہیں۔ وہ تم ارتق ئی مراحل کے‬ ‫بنی دی تحرک میں‘ خودی کی ک رفرم ئی ک عمل دخل قرار‬ ‫دیتے ہیں۔ اقب ل کے ف س ہءخودی کے پس منظر میں س ت‬ ‫امور ک رفرم نظر آتے ہیں۔‬ ‫۔ شخص کی بےقدری‘ بےچ رگی اور بےبسی‬ ‫۔ شخص کی فکری اور عم ی غالمی‬ ‫۔ ط قت ور طبقوں کی جیریت اور استحص لی حی ے اور‬ ‫حربے‬ ‫۔ جبریت اور استحص ل کے خالف بےبسی‘ چپ‘ من ی ی‬ ‫ک زور‘ بےج ن اور بےنتیجہ ردعمل‬


‫۔ ف س ہءوحدت الوجود‬ ‫۔ نٹشے ک فو البشر‬ ‫۔ ژاں پ ل س رتر ک ف س ہءتکمیل وجود‬ ‫مغر کی بڑھتی ہوئی صن تی ترقی کے ب عث‘ ک زور‬ ‫طبقوں ک وجود د توڑ رہ تھ ۔ ان کی فکری‘ م شی اور‬ ‫سم جی حیثیت‘ زوال ک شک ر تھی۔ ج تک فرد کی ذات کو‬ ‫استحق میسر نہ آت ‘ استحص ل کی جم ہ صورتیں اور‬ ‫کی یتیں خت نہیں ہو سکتی تھیں۔‬ ‫فرد میں ج تک اپنے ہونے ک احس س‘ وجود ح صل نہ‬ ‫کرت اور اس ہونے کو ارتق ئی راہ نہ م تی‘ ک زور طبقے‬ ‫متحرک زندگی کی طرف لوٹ نہیں سکتے تھے۔ انس ن‬ ‫غظی تخ ی ہونے کے تصور سے‘ دور ہی رہت ۔۔ توازن کی‬ ‫راہ بند رہتی۔ اج م ہرین ن سی ت‘ شخصیت ک جو م ہو‬ ‫بی ن کرتے ہیں‘ خودی کے متوازی نظر آت ہے۔ خودی‬ ‫درحقیقت‘ ذات کی است دادی صالحیتوں کے واضح کرنے‬ ‫ک ن ہے۔ گوی خودی سے آگہی‘ اپنی ذات سے آگہی ک ن‬


‫ہے۔ اس کی نشوونم کرن ‘ اپنی شخصیت کی نشوونم‬ ‫کرنے کے مترادف ہے۔ ہم رے ہ ں‘ صوفی کرا خودی کو‬ ‫تکبر اور تمکنت کے م نوں میں لیتے آئے ہیں۔ تکبر‘‬ ‫خودی کی ‘ ذات کو اس کی حدود سے نک ل ب ہر کرت ہے۔‬ ‫اس کی مجوذہ است داد ک ر کی‘ غ رت گری ک ب عث بنت‬ ‫ہے۔‬ ‫خودی کی س دہ ت ریف یہی ہو سکتی ہے‘ ایک ک و کو‬ ‫م و ہون چ ہیے کہ میں ایک ک و ہوں اور ایک ک و سے‬ ‫کی کچھ‘ اور کتن ہو سکت ہے۔ اگر وہ خود کو ک سمجھے‬ ‫گ ‘ تو اس کی خودی ک زوال ہوگ ۔ المح لہ اس سے اس کی‬ ‫است داد ک ر مت ثر ہو گی اور مح صل کو نقص ن پہنچے گ ۔‬ ‫ورتھ میں کمی آ ج ئے گی۔ حیثیت سے کمتر ہون ی ٹھہرن‬ ‫خودی ک نقص ن ہے۔ تج ویز فرعونیت کو جن دے گ ۔‬ ‫شخص کی بےحرمتی اور اشی ک غ ط است م ل دیکھ کر‬ ‫اقب ل کچھ زی دہ ہی جذب تی ہو گیے۔ ذرا یہ ش ر مالحظہ ہو‬ ‫خودی کو کر ب ند اتن کہ ہر تقدیر سے پہ ے‬ ‫خدا بندے سے خود پوچھے بت تری رض کی ہے‬


‫یہ ش ر تج وز کے عن صر لیے ہوئے ہے فرعونیت کے‬ ‫دروازے کھولت ہے اور شرک کی راہیں ہموار کرت ہے۔‬ ‫ہم رے ہ ں صوفی کرا نے خودی کو تکبر م نوں میں لی‬ ‫ہے۔ اقب ل نے اس عمومی م ہو کی ن ی کرتے ہوئے‬ ‫اسرار خودی کے دیب چہ میں کہ ہے۔‬ ‫یہ ل ظ بم نی غرور است م ل نہیں کی گی ۔ جیس کہ ع طور‬ ‫پر یہ اردو‬ ‫میں مست مل ہے۔ اس ک م ہو محض احس س ن س ی ت ین‬ ‫ذات ہے۔‬ ‫یہ وحدت وجدانی ی ش ور ک روشن نقطہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ‬ ‫پراسرار شے جو‬ ‫فطرت انس نی کی شیرازہ بند ہے۔‬ ‫مولوی صالح الدین احمد‬ ‫خودی کی وض حت کرتے ہوئے کہتے ہیں۔‬ ‫ہم را م ی ر ہم ری اپنی نگ ہ میں اتن اونچ ہون چ ہیے کہ‬ ‫خود اپنی نظروں‬


‫سے گر ج نے ک خوف ہمیں ذلیل حرکت پر آم دہ ہونے‬ ‫سے بروقت روک‬ ‫سکے۔‬ ‫سید وحیدالدین فقیر ک اس ذیل میں کہن ہے۔‬ ‫ان ایک ن ق بل تغیر ی ن ق بل تقسی جوہر ہے اور یہی روح‬ ‫ہے۔ ہم را ش وری‬ ‫تجربہ ایک وحدت ہے‬ ‫اقب ل کے نزدیک خودی ج مد اور ٹھہری ہوئی چیز نہیں‬ ‫ہے۔ یہ ارتق پزیر ہے اور اس کی ح ظت اور است دادی‬ ‫قوت المحدود ہے۔ اس کی دسترس میں موجود اور غیر‬ ‫موجود اشی اور غیر اشی ہیں۔‬ ‫سید وحیدالدین فقیر کہتے ہیں۔‬ ‫ش وری تجربے کے سوا خودی تک رس ئی کسی دوسرے‬ ‫واسطے نہیں ہو سکتی۔‬ ‫انس ن ک ئن ت ک جز ہوتے ہوئے بھی‘ ک ئن ت کی خودی کو‬ ‫اپنے اندر جذ کرنے کی صالحیت رکھت ہے اور اس کی‬ ‫خودی میں‬


‫زمین و آسم ن و کرسی و عرش‬ ‫خودی کی زد میں س ری خدائی‬ ‫خودی کی من زل تسخیر زم ن و مک ن پر ہی خت نہیں ہو‬ ‫ج تیں ب کہ جہد عمل اسے سوا‬ ‫‪a fine excess‬‬ ‫کی منزل تک لے ج تی ہے۔‬ ‫قن عت نہ کر ع ل رنگ و بو پر‬ ‫چمن اور بھی آشی ں اور بھی ہیں‬ ‫تو ش ہین ہے پرواز ہے ک تیرا‬ ‫تیرے س منے آسم ن اور بھی ہیں‬ ‫اسی روز وش میں الجھ کر نہ رہ ج‬ ‫کہ تیرے زم ن و مک ں اور بھی ہیں‬ ‫ی نی جو پیش نظر اور زیر تصرف ہے وہی س کچھ نہیں۔‬ ‫ک ئن ت میں اور بہت کچھ ہے جسے تالشن اور تصرف میں‬ ‫الن مقصود ہے۔ گوی شخص کو ہمہ وقت کھوج و تالش‬


‫میں رہن ہے اور کھوج و تالش ک س ر ج رک ج ئے گ‬ ‫خودی اس سے مت ثر ہو گی۔ خودی ک مت ثر ہون زوال کی‬ ‫دلیل ہے۔‬ ‫خودی‘ ی نی میں ہوں‘ شخصیت میں فقر ک جوہر پیدا کرتی‬ ‫ہے تو ہی شخص اس کی ضر ک ری ث بت ہوتی ہے۔ اس‬ ‫سے تسخیر وحکومت ک عنصر پیدا ہوت ہے۔‬ ‫چڑھتی ہے ج فقر کی س ن پر تیغ خودی‬ ‫ایک سپ ہی کی ضر کرتی ہے ک رسپ ہ‬ ‫گوی اس سے اس ک وجود استحق ح صل کرت ہے۔ یہ‬ ‫ن صرف اس کے ہونے کی دلیل ہوگی ب کہ دوسرے اس‬ ‫کے وجود کو تس ی کریں گے اور سر بہ خ کریں گے۔‬ ‫شکست خوردگی‘ ان کی خودی کی کمزوری پر داللت کرے‬ ‫گی۔‬ ‫دست سوال دراز کرن اقب ل کے نزدیک خودی ک قتل ہے۔۔۔‬


‫پ نی پ نی کر گئی مجھ کو ق ندر کی یہ ب ت‬ ‫تو جھک ج غیر کے آگے تو تن تیرا رہ نہ من‬ ‫اقب ل کے نزیک ہر قو کی خودی ہوتی ہے۔ اگر اس قو‬ ‫کی خودی کو ض ف آئے گ تو وہ قو کمزور پڑ ج ئے گی۔‬ ‫عالمہ ابن خ دون ک نظریہءعصبت اس کے قری تر ہے۔‬ ‫ب ض جگہوں پر خودی اس سے عب رت نظر آتی ہے‬‫م دہ اپنی خودی کی بن پر فن ہو ج ت ہے۔ ج وہ انس نی‬ ‫خودی کی زد میں آت ہے پ ش پ ش ہو ج ت ہے۔ م دہ خودی‬ ‫کے ابتدائی درجوں ک عکس ہے۔ ج روح اورم دہ میل ی‬ ‫عمل اور ردعمل ایک خ ص درجے پر پہنچ ج ت ہے تو‬ ‫ایک ب ند ش ور پیدا ہو ج ت ہے۔ ب ند ش ور ہی وہ قوت ہے‬ ‫جو ک ئن ت میں توازن پیدا کرت ہے۔ اسی کے د سے‬ ‫تصرف کے در وا ہوتے ہیں۔‬ ‫اقب ل ک تصور ک چر ایک شخص کی خودی سے پوری قو‬ ‫پورے خطہ کی مج سی اور اجتم عی خودی سے منس ک‬


‫ہے۔ اسی طرح اقب ل‘ جم ہ فنون لطی ہ میں بھی خودی کی‬ ‫ک رفرم ئی ضروری خی ل کرت ہے۔ فنون لطی ہ میں خودی‬ ‫جتنے عروج پر ہو گی ک چر بھی اتنے عروج پر ہو گ ۔‬ ‫آرٹ کی جن شک وں میں ض ف ک شک ر ہوگی زندگی کی‬ ‫قوت عمل بھی اسی تن س سے ریورس کے عمل میں‬ ‫داخل ہوگی۔‬ ‫اقب ل ع و فن ک مقصد آگہی قرار نہیں دیت ب کہ یہ انہیں‬ ‫ح ظ خودی کے لیے من جم ہ اسب اور آالت کے سب‬ ‫اور ایک آلہ سمجھت ہے۔‬ ‫اقب ل نے فرد‘ ک ئن ت‘ حی ت‘ سم ج‘ م شرت‘ سی ست‘‬ ‫م یشت‘ غرض ہر چیز کو خودی کے پیم نے پر رکھ ہے۔‬ ‫فرد کی ض یف خودی پورے م شرتی ڈھ نچے کو نقص ن‬ ‫پہنچ تی ہے۔ اسی طرح فرد کے خصوصی اور عمومی‬ ‫روے افراد کی خودی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگر اکثریت‬ ‫م ی ری افراد کی ہو گی تو ن صرف سم ج ب قی رہے گ ب کہ‬ ‫غیرم ی ری افراد بھی اس میں جذ ہو کر وجود برقرار‬


‫رکھیں گے ت ہ ان کی ان رادی خودی ب قی نہ رہے گی۔‬ ‫اقب ل کی زب ن میں مالحظہ ہو‬ ‫ہر فرد ہے م ت کے مقدر ک ست رہ‬ ‫خودی درحقیقت زم ن و مک ن میں تبدی ی التی ہے۔‬ ‫خودی کے حوالہ سے‬ ‫ہون استحق ح صل کرت ہے‬ ‫پہ ے سے موجود میں تغیر التی ہے۔‬ ‫تسخیر و تصرف کے دروازے کھولتی ہے۔‬ ‫ترمی وتنسیخ ک عمل ج ری رہت ہے۔‬ ‫موجود کی است دادی قوت بڑھتی ہے۔‬ ‫الموجود پر دسترس ح صل ہو کر اسے تجسی میسر آتی‬ ‫ہے۔‬ ‫اقب ل ک کہن ہے‬ ‫یہ ک ئن ت ابھی ن تم ہے ش ید‬ ‫کہ آ رہی ہے دم د صدائے کن فیکون‬


‫اقب ل ک ف س ہءخودی‘ درحقیت شخص کی پوزیش مضبوط‬ ‫کرت ہے۔ اسے ن صرف میں ہوں‘ ک احس س دالت ہے ب کہ‬ ‫اس کو مضبوطی سے سرفراز کرکے جھپٹنے اور پ ٹنے‬ ‫کے گر سیکھ ت ہے۔‬ ‫اکتوبر‬

‫‪-‬‬


‫ف س ہ خودی‘ اس کے حدود اور ڈاکٹر اقب ل‬ ‫خودی‘ است دادی قوت ک ن ہے‘ جو کسی چیز ی ذی روح‬ ‫وغیرہ سے مخصوص کر دی گئی ہوتی ہے۔ ت ہ یہ اض فہ‬ ‫پذیر ہے۔ اسی طرح اس میں کمی بھی آتی رہتی ہے۔ اس‬ ‫میں اض فہ ی کمی کی بھی‘ حدود مخصوص ہوتی ہیں۔‬ ‫کمی‘ اض فے کی راہ لے سکتی ہےاور اض فہ زوال ک‬ ‫رستہ اختی ر کر سکت ہے۔‬ ‫اض فے اور کمی کی صورت میں‘ اس کی است داد ک ر میں‬ ‫فر آ ج ت ہے۔ یہ است داد ک ر ہی فرد واحد‘ قوموں یہ ں‬ ‫تک‘ کہ پوری انس نی زندگی برادری کی موجودہ صورت‬ ‫ح ل کو تبدیل کر سکتی ہے۔ ک ئن ت کی کوئی شے‘ ایک‬ ‫دوسرے سے غیرمت نہیں۔ ایک ک کی ‘ دوسرے اور‬ ‫دوسرے سے دوسروں کو مت ثر کرت ہے۔ ی اس میں‬ ‫دوسروں کو مت ثر کرنے کی صالحیت موجود ہوتی ہے۔‬


‫اس میں اض فے کی بہت سی صورتیں موجود ہوتی ہیں ی‬ ‫ہو سکتی ہیں۔‬ ‫کسی ح جت‘ ضرورت‘ م د ی غرض کے تحت‘ دو ی ‪-‬‬ ‫دو سے زائد افراد ایک پ یٹ ف ر بن سکتے ہیں۔ یہ اجتم ع‬ ‫وقتی ی دیرپ بھی ہو سکت ہے۔‬ ‫ک ز‘ کسی بھی نوعیت ک ہو‘ اس کے زیر اثر لوگوں ک ‪-‬‬ ‫ب ہمی انسالک ممکن ہوت ہے۔ اس کے لیے افراد اکٹھے کر‬ ‫لیے ج تے ہیں ی ہو ج تے ہیں۔‬ ‫ردعم ی صورتیں بھی شخص کو‘ شخص کے قری لے ‪-‬‬ ‫آتی ہیں۔‬ ‫۔ ہنر متحرک زندگی ک بڑا اہ عنصر ہے۔‬ ‫ا۔ایک ہنر سے مت‬ ‫ہیں ی آ سکتے ہیں۔‬

‫شخص ایک دوسرے کے قری رہتے‬

‫۔ مق ب ہ ب زی راہ پ تی ہے۔‬ ‫ج۔ سیکھنے والے میدان میں اترتے ہیں۔‬ ‫د۔اس ہنر کے ضرورت مند ان سے رابطہ میں رہتے ہیں۔‬


‫مذہ اور نظریہ‘ بڑے مضبوط عن صر ہیں۔ یہ اشح ص ‪-‬‬ ‫کے اتح د ک ذری ہ بننے میں ک یدی کردار ادا کرتے ہیں۔‬ ‫۔ رنگ‘ نسل عالقہ اور زب ن‘ انس نی زندگی میں بڑی‬ ‫اہمیت کے ح مل ہیں۔ جہ ں ان کے حوالہ سے عصبیت جن‬ ‫لیتی ہے‘ وہ ں ب ہمی ت اور رابطہ بھی جگہ پ ت ہے۔‬ ‫۔ سی سی‘ فالحی اور سم جی گروپ تشکیل پ تے رہتے‬ ‫ہیں۔ یہ شخص کو‘ بہت سے حوالوں سے‘ دوسرے‬ ‫اشخ س سے پیوست کرتے ہیں۔‬ ‫قبی ہ اور قو ‘ شخص کو شخص سے نتھی رکھتے ‪-‬‬ ‫ہیں۔‬ ‫۔ مزاجوں میں م تی مم ث تیں شخصی قربت ک سب بنتی‬ ‫ہیں۔‬ ‫۔ ہ مزاج اور ہ خی ل ہونے کی وجہ سے‘ چ ہے ان کی‬ ‫صورت وقتی اورلمح تی ہی کیوں نہ ہو‘ شخص ک شخص‬ ‫سے‘ ارتب ط پیدا کرتی ہیں۔‬ ‫۔ دو غیر جنس بھی ہ رک‬

‫چل سکتےہیں۔‬

‫۔ ہ عمری بھی اس ذیل میں بڑا م تبرذری ہ ہے۔‬ ‫سم جی رس و رواج او ہ شغ ی اس ضمن میں بڑا ‪-‬‬


‫اہ ذری ہ ہے۔‬ ‫درج ب ال سطور میں چند ایک ک ذکر کی گی ہے ورنہ اس‬ ‫کی بہت سی صورتیں موجود ہیں۔ یہ ں تک کہ ب ہمی‬ ‫اختالف ت کو بھی نظر انداذ نہیں کی ج سکت ۔ ان تم‬ ‫صورتوں میں آگہی‘ اعتم د‘ حوص ہ‘ کچھ کرنے ک جذبہ‘‬ ‫ہنر‘ تجربہ‘ ع دات‘ اطوار اور کسی دوسرے کی شخصیت‬ ‫میں پوشیدہ خ ص جوہر اور کم ل‘ جو وہ است م ل میں‬ ‫نہیں ال رہ ہوت ‘ ہ تھ لگتے ہیں۔ ان عن صر سے شخصی‬ ‫خودی کو توان ئی میسر آتی ہے اور شخص ک وجود‬ ‫استحق پکڑت ہے۔ اس میں‘ میں ہوں‘ کو تقویت میسر آتی‬ ‫ہے۔‬ ‫ب لکل اسی طرح‘ خودی زوال ک شک ر بھی ہوتی ہے۔ اس‬ ‫کی بہت سی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ان میں تنہ ئی س‬ ‫سے مہ ک ہے۔ وہ خود الگ تھ گ ہو ج ت ہے۔ سوس ئٹی‬ ‫اس کو الگ تھ گ کر دیتی ہے۔ کوئی بھی صورت ہو‬ ‫سکتی ہے۔‬


‫خودی زوال ک شک ر ہو ی ترقی کی من زل طے کر رہی ہو‘‬ ‫ص ر پر نہیں آتی۔ یہ بھی کہ وہ المحدود نہیں ہوتی۔ فرش‘‬ ‫عرش‘ کرسی غرض س کچھ اس زد ی دسترس میں آ‬ ‫ج ئے‘ تو بھی اسے المحدود نہیں کہ ج سکت ‘ کیونکہ‬ ‫پوری ک ئن ت حددوں میں ہے۔ ج اسے المحدود ہونے ک‬ ‫گم ن گزرت ہے‘ ن بود ہو ج تی ہے۔ نمرود فرعون اور‬ ‫سکندر کو یہی گم ن گزرا‘ تو ہی ہالکت سے دوچ ر ہوئے‘‬ ‫کیوں کہ ک ئن ت المحدود نہیں۔ دوسرا فن ک عنصر‘ ہر کسی‬ ‫سے منس ک ہے۔ المحدود صرف اور صرف هللا کی ذات‬ ‫گرامی ہے‘ جس ک فن کے س تھ ت نہیں۔ فن اس کی‬ ‫تخ ی کردہ ہے۔ خودی کے المحدود ہونے کے لیے دو‬ ‫رستے ہیں۔‬ ‫میں ہوں کو المحدود کے ت بع کر دے۔ اس ذیل میں بالل‬ ‫اور عمر بن عبدال زیز کو بطور مث ل لی ج سکت ہے۔ وہ‬ ‫عم ی طور پر اپن مستحک وجود رکھتے تھے‬


‫میں ہوں کو خت کرکے‘ المحدود میں مدغ کر دے۔ منصور‬ ‫اور سرمد‘ اس کی بہترین مث لیں ہیں۔ یہ دونوں‘ عم ی طور‬ ‫پر‘ موجود کی ح جت سے ب التر تھے۔‬ ‫س ری ک ئن ت کی خودی مجتمع ہو ج ئے‘ تو بھی وہ‬ ‫المحدود نہیں ہو پ تی۔ انس ن هللا کی اشرف اور احسن‬ ‫مخ و ہے۔ ک ئن ت میں موجود ہر شے اور ذی روح کی‬ ‫خودی‘ اس کے برابر نہیں اور یہ ان کی گرفت سے ب ہر‬ ‫ہے۔ اس کی سوچ کے ح قے‘ ک ئن ت کے حوالہ سے‬ ‫المحدود ہیں۔ یہ کی کر ڈالے ی کروٹ لے‘ کوئی نہیں ج ن‬ ‫پ ت ۔ یہ س کچھ ہو کر بھی‘ مخصوص حدوں میں ہے۔‬ ‫منصور اور سرمد سے لوگوں کو اس میں نہ رکھیے۔ اسی‬ ‫طرح‘ اس محتر خ تون کو بھی الگ رکھیے‘ جسے خ وند‬ ‫اور اپنی اوالد کی شہ دت کی فکر نہیں۔ اس کی خودی‘‬ ‫نبوت سے منس ک تھی۔ نبوت هللا سے منس ک تھی۔ اگر‬ ‫اس کی خودی ک ئن ت کے دائرہ میں ہوتی‘ تو اسے خ وند‘‬ ‫بچوں کے س تھ س تھ نبی کی بھی چنت ہوتی۔‬ ‫اس سطع کی تخصیص کی صورت نہ ہوتی۔ یہ بھی کہ جب ی‬ ‫اور ممت کے حوالہ سے‘ وہ س سے پہ ے اپنے بچوں ک‬


‫پوچھتی۔ اس کے ب د خ وند اور اس ذیل میں تس ی پ کر‬ ‫نبی ک پوچھتی۔ بیٹوں کی شہ دت ک سن کر‘ اپنے آپے میں‬ ‫نہ رہتی۔ آج اگر بیٹوں کی عید پر قرب نی ک حک ی سنت‬ ‫موجود ہوتی‘ تو سچ یہی ہے‘ میرے سمیت‘ کوئی مس م ن‬ ‫ہی نہ ہوت ۔ زب نی کالمی کہہ دین اور ب ت ہے‘ اس کہے پر‬ ‫عمل کرن اس سے قط ی الگ ب ت ہے۔ اس حوالہ غور کی‬ ‫ج ئے تو‘ خودی ک ایک دائرہ اور ح قہ مخصوص و محدود‬ ‫ہو ج ت ہے۔‬ ‫اقب ل ک یہ ش ر‘ بڑا واضح ہے اور اس میں کوئی عالمت‬ ‫اور است رہ موجود نہیں۔‬ ‫خودی کو کر ب ند اتن کہ ہر تقدیر سے پہ ے‬ ‫خدا بندے سے خود پوچھے‘ بت تیری رض کی ہے‬ ‫خودی کو کر ب ند‬ ‫اتن کہ‬


‫ہر تقدیر سے پہ ے‬ ‫خدا بندے سے‬ ‫خود پوچھے‬ ‫بت تیری رض کی ہے‬ ‫اس ش ر کی ت ہی کی ذلیل میں یہ عن صر پیش نظر رکھیں۔‬ ‫خدا خ ل اور بندہ مخ و ہے۔ ‪-‬‬ ‫۔ دونوں ہ مرتبہ اور ہ جنس نہیں ہیں۔‬ ‫دونوں کی آگہی کی سطع ایک نہیں۔ ‪-‬‬ ‫۔ بندے ک ع عط ئی ہے۔ خدا ک ع ذاتی ہے۔‬ ‫خدا ق ئ بذات ہے۔ بندہ ق ئ بذات نہیں۔ ‪-‬‬ ‫خدا ہر حوالہ سے بےنی ز ہے۔ ‪-‬‬ ‫بندے ک ذاتی کچھ نہیں‘ جو ہے خدا ک دی ہوا ہے۔ خدا ‪-‬‬ ‫کے پ س جو کچھ ہے‘ بالشرک غیرے اس ک اپن ہے۔‬


‫خدا کو اس کی حدوں کے حوالہ سے کوئی نئیں ج نت ‪-‬‬ ‫اور ن ہی ج ننے کی بس ط رکھت ہے۔ اس کے برعکس‘ خدا‬ ‫بندے کو‘ اس سے کہیں زی دہ ج نت ہے۔۔‬ ‫کسی ک ر ک ‘ کتن عوض نہ کتن بنت ہے‘ وہ کرنے والے ‪-‬‬ ‫سے‘ کہیں بہتر اور زی دہ ج نت ہے۔‬ ‫وہ دینے کے حوالہ سے‘ محت ج اور زیردست نہیں۔ ‪-‬‬ ‫وہ فضل واال ہے اور توقع سے زائد دے سکت ہے۔ ‪-‬‬ ‫توقع سے زائد دی بالشبہ فضل هللا ہے۔‬ ‫وہ عط کے م م ہ میں‘ بخیل نہیں‘ غنی ہے۔ ‪-‬‬ ‫انس ن کی مرضی‘ خدا کی مرضی کے م تحت ہے۔ خدا ‪-‬‬ ‫کی مرضی‘ انس ن کی مرضی کے م تحت نہیں۔‬ ‫ڈاکٹر اقب ل ک یہ ش ر‘ شرک سے لبریز ہے اور میں ہوں‘‬ ‫کو اج گر کرتے کرتے‘ فرعونیت کی طرف لے ج ت ہے۔‬ ‫فرعون بھی یہی گم ن رکھت تھ ‘ اپنی اس کج فہمی کی‬ ‫وجہ سے‘ ہالکت سے دوچ ر ہوا۔ ایک ع آدمی کی ‘ نبی‬ ‫رسول بھی‘ اس طرح کی سوچ‘ نہیں سوچ سکت ۔ وہ اپنی‬ ‫مرضی ت بع رکھنے اور ازن پر سربہ خ کرنے‘ کی صورت‬


‫میں ہی‘ نبی ہے۔ بندہ بھی‘ ت بندہ ہے‘ ج وہ خدا کی‬ ‫مرضی کو ہی‘ حرف آخر‘ دل و دل و ج ن سے ج نت ہے۔‬ ‫ڈاکٹر اقب ل ک ایک اور ش ر ہے۔‬ ‫عبث ہے شکوہءتقدیر یزداں‬ ‫تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے‬ ‫خودی کی سرب ندی کے حوالہ سے‘ یہ ش ر پہ ے ش ر‬ ‫سے قربت رکھ ہے۔ میں ن ہیں سبھ توں‘ کے حوالہ سے‘‬ ‫یہ درست ہے۔ ڈاکٹر اقب ل اس نظریہ کے ق ئل نہیں ہیں اس‬ ‫لیے‘ اس پر‘ میں ہوں ک اطال ہوت ہے۔ خودی کے ت بع‬ ‫ہونے کی صورت میں‘ یزداں کی مرضی ک ت بع ہے۔ کیس ‘‬ ‫کس طرح اور کتن طے کرنے ک ح ‘ یزداں کے پ س ہی‬ ‫رہت ہے۔ یہ ش ر اس م ہو کی طرف لے ج ت ہے کہ یزداں‬ ‫تقدیر ک م م ہ اپنی نہیں‘ اس کی مرضی اور ایم پر طے‬ ‫کرے۔‬


‫ڈاکٹر اقب ل یہ ش ر بھی مالحظہ فرم ئیں‘ کھال آمریت ک‬ ‫پرچ ر ہے۔‬ ‫نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ اسم ن کے لیے‬ ‫جہ ں ہے تیرے لیے تو نہیں جہ ں کے لیے‬ ‫ہر چیز‘ دوسری سے‘ فطری طور پر‘ وابستہ اور ‪-‬‬ ‫انحص ر کرتی ہے۔‬ ‫یہ تو یزداں کو مک ف و مق د کرن ہے۔ ‪-‬‬ ‫اس سے‘ خود غرضی ک پہ و س منے آت ہے۔ ‪-‬‬ ‫خدمت میں‘ عظمت پوشیدہ ہے۔ ‪-‬‬ ‫لو س ‘ دو کچھ نہ‘ میں خودداری کی موت ہے اور یہ ‪-‬‬ ‫مومن ک طور اور وتیرہ ہو ہی نہیں سکت ۔‬ ‫آپ کری سے بڑھ کر کون ہو سکت ہے۔ آپ کری س‬ ‫کے لیے تھے۔‬ ‫دے کر ہی ح صل ہوت ہے۔ ‪-‬‬

‫‪-‬‬


‫دینے میں جو لطف پوشیدہ ہے‘ وہ لینے میں نہیں۔ ‪-‬‬ ‫ا جہ ں ہے تیرے لیے ‪-‬‬ ‫تو نہیں جہ ں کے لیے‬ ‫جہ ں خدمت گزار ہو‪ -‬اس سے خدمت لین تیرا ح ہے۔‬ ‫خدمت تیرے فرائض میں نہیں‘ سے زی دہ غیر م قول کوئی‬ ‫ب ت نہیں ہو گی۔‬ ‫اقب ل کے ف س ہءخودی میں‘ س رتر اور نٹشے کے‘ قد لیت‬ ‫نظر آت ہے۔ یہ بھی کہ وہ تذبذ ک شک ر ہیں۔ کوئی ب ت‘‬ ‫اس وقت تک ب اثر نہیں ہوتی‘ ج تک کہنے واال ع مل نہ‬ ‫ہو۔ اس ذیل کی زندگی ک دی نت دارانہ مط ل ہ ضروری‬ ‫ٹھہرت ہے۔ ع م کرا ‘ تحریر تقریر میں‘ ڈاکٹر اقب ل ک حوا‬ ‫لہ دینے سے پہ ے‘ ان کے کہے پر غور فرا لی کریں۔ یہ‬ ‫انداز درست نہیں‘ چونکہ یہ ب ت ڈاکٹر اقب ل کی کہی ہوئی‬ ‫ہے‘ اس لیے غ ط نہیں ہو سکتی ی اس میں خ می ہو ہی‬ ‫نہیں سکتی۔‬


‫ڈاکٹر اقب ل اور مغربی م کرین‬ ‫اقب ل نے اسک چ مشن اسکول‘ سی ل کوٹ سے‘ مشرقی و‬ ‫مغربی طرز پر ایف اے کی ۔ مزید ت ی کے لیے الہور آئے۔‬ ‫یہ ں بیک وقت تین ت یمی و فکری دھ رے بہتے تھے۔‬ ‫ا سر سید کے حوالہ سے‘ مغربی اطوار و نظری ت ‪-‬‬ ‫م ت رف کرانے کی کوشش کی ج رہی تھی۔‬ ‫گورنمنٹ ک لج‘ الہور میں‘ پروفیسر آرن ڈ کے حوالہ‬ ‫سے‘ ط ب مغر سے ب لواسطہ م ت رف ہو رہے تھے۔‬ ‫ع و شرقیہ سے مت مخت ف اسکول مشرقی فکر ‪-‬‬ ‫ع کرنے میں مصروف تھے۔‬ ‫ایک طبقہ مخ وط نظری ت پھیال رہ تھ ۔ ‪-‬‬ ‫اقب ل کے پروفیسر آرن ڈ سے‘ خصوصی ت خ طر ک‬ ‫اندازہ‘ اس امر سے لگ ی ج سکت ہے کہ ج وہ‬ ‫میں‘ انگ ست ن واپس گیے‘ تو اقب ل نے ان کے رخصت‬ ‫ہونے پر نظ ۔۔۔۔ن لہءفرا ۔۔۔۔۔ ق بند کی۔ اس نظ کے‬ ‫مندرج ت سے‘ اقب ل کی آرن ڈ سے ق بی وابستگی ک اندازہ‬


‫لگ ی ج سکت ہے۔ اقب ل نے اس نظ میں موصوف کو ک ی ‘‬ ‫خورشید آشن ‘ ابر رحمت‘ موج ن س ب د نش ط وغیرہ ایسے‬ ‫الق ب ت سے م قو کی ۔‬ ‫ان دنوں گورنمنٹ ک لج‘ الہور ب نجھ نہ تھ اور ن ہی کبھی‬ ‫رہ ہے۔ اسے ہر دور میں‘ س دت س ید اور تبس ک شمیری‬ ‫سے بےبدل ع ل ف ضل‘ میسر رہے ہیں۔ آرن ڈ ہی سے‬ ‫کیوں یہ رشتہءال ت استوار ہوا۔ اس سوالیے ک جوا نظ‬ ‫کے اندر موجود ہے۔‬ ‫کھول دے گ دشت وحشت عقدہء تقدیر کو‬ ‫توڑ کر پہنچوں گ میں پنج‬

‫کی زنجیر کو‬

‫اقب ل زبردست نب ض تھے۔ مغر کو بھی نم ئندوں کی‬ ‫ضرورت تھی۔ اپنی دھرتی زنجیر نہیں ہوتی۔ اپنی دھرتی کو‬ ‫زنجیر کہنے واال اپنی دھرتی سے کتن مخ ص ہو سکت ہے‬ ‫اس ک اندازہ لگ ن کوئی پچیدہ عمل نہیں۔‬ ‫اقب ل نے گورنمنٹ ک لج‘ الہور میں تدریسی فرائض بھی‬ ‫انج دئیے۔ جس سے‘ ن صرف سوچ کو فراخی میسر آئی‘‬ ‫ب کہ نظری ت کو بھی ایک سمت‘ دستی ہوئی۔ الہور میں‬


‫رہتے ہوئے‘ انھوں نے مخت ف مش عروں میں شرکت کی۔‬ ‫مخت ف نظری ت کے ش را سے مل بیٹھنے ک موقع بھی‬ ‫تک‬ ‫ہ تھ لگ ۔ اس سے ان ک ش ری ش ور پختہ ہوا۔‬ ‫انھوں نے مشر کی اقدار سے وق یت ح صل کی۔‬ ‫ستمبر‬

‫کو‘‬

‫ع ز انگ ست ن ہوئے۔ ابتدا ہی میں‘ ان کی مالت میگ‬ ‫ٹیگ رٹ سے ہوئی جو ہیگل ک پیرو تھ ۔ اس کے عالوہ‬ ‫آکس ررڈ یونیورسٹی میں پروفیسر براؤن اور پروفیسر وارڈ‬ ‫س رلے سے خصوصی طور پر ع می و فکری است دے ک‬ ‫موقع مال۔ پروفیسر س رلے کے حوالہ سے ل ظ کی حقیقی‬ ‫قدر اور حرمت سے آگ ہی ح صل کی۔‬ ‫انگ ست ن میں رہتے ہوئے‘ ڈاکٹر نک سن کی ایم پر ف رسی‬ ‫ادبی ت ک مط ل ہ کی ۔ ح فظ شیرازی کے نظریہءوحدت‬ ‫الوجود کے تن ظر ی ک نٹ کے۔۔۔۔وجود کی تالش۔۔۔۔ اور‬ ‫فشٹے کے نظریہ ان ی نی ایگو کے تن ظر میں ح فظ‬ ‫شیرازی ک مط ل ہ کی ۔ پھر وہ ف س ہءخودی کے موجد قرار‬ ‫پ ءے۔‬ ‫ک یس اخالقی اقدار ک سرچشمہ رہ ہے۔ اپنی اہمیت کھو‬ ‫بیٹھ تھ ۔ سی ست اور مذہ ‘ دو الگ الگ ش بے قرار پ‬


‫گیے تھے۔ مذہ ‘ ک یس کی چ ر دیواری کے اندر‘ محض‬ ‫دع ؤں ک مجموعہ ہو کر رہ گی تھ ۔ سی ست کے‬ ‫ع مبرداروں نے‘ اپنے الگ سے سی سی اصول وضع کر‬ ‫لیے تھے۔ اس طرح انھیں‘ سم جی اور م شرتی رویوں پر‬ ‫گرفت ح صل ہو گئی تھی۔‬ ‫ک رل م رکس نے‘ سسکتی حی ت‘ م شرتی جبر‘ سی سی‬ ‫حی ہ س زیوں اور م شی قتل ع کے ردعمل میں‘ اپن‬ ‫نظریہء م یشت پیش کی ۔ انقال فرانس اور امریکہ کی‬ ‫جنگ آزادی بھی‘ اسی عد مس وات اور م شی ن ہمواریوں‬ ‫ک نتیجہ تھی۔ فرد کی حیثیت‘ مشین کے کسی کل پرزے‬ ‫سے زی دہ نہ رہی تھی۔ نطشے نے‘ انس ن کے وجود کو‘‬ ‫استحق دینے کے لیے‘ فو البشر ی نی سپرمین ک نظریہ‬ ‫دی ۔ ک رل م رکس اور لینن نے مذہ کو افیون قرار دی ۔‬ ‫نطشے‘ جمہوریت اور اشتراکیت کو بھی‘ عوا اور اقوا‬ ‫کو غال بن نے کی س زش قرار دیت ہے۔ وہ خدا کے وجود‬ ‫ک منکر ہے۔ وہ مغربی است م ر اور مسیحی ف س ہءاخال‬ ‫پر چوٹ کرت ہے۔ اس لیے‘ کسی غیر مسیحی کو‘ اس ک‬ ‫خوش آن فطری سی ب ت ہے۔ سپرمین کے حوالہ سے‘ جو‬ ‫ب تیں س منے آتی ہیں‘ ان میں سے اکثر اقب ل کے۔۔۔۔۔ مرد‬


‫ک مل۔۔۔۔۔ میں بھی م تی ہیں‘ ت ہ اسے اس ک بےلگ ہون‬ ‫کھٹکت ہے۔‬ ‫اقب ل نے جس مرد ک مل ک نظریہ دی ‘ جہ ں وہ ذات پرست‘‬ ‫ذات پسند اور دوسروں کے لیے کچھ نہیں‘ وہ ں اس ک‬ ‫خصوصی وصف یہ بھی ہے‘ کہ وہ ک ئن تی ہے۔‬ ‫ک فر کی یہ پہچ ن کہ آف‬

‫میں گ ہے‬

‫مومن کی یہ پہچ ن کہ گ اس میں ہیں آف‬ ‫اقب ل ک مرد ک مل بہت سے حوالوں سے نطشے کے‬ ‫سپرمین سے الگ ہے۔‬ ‫ہو ح قہءی راں تو ہے ابریش کی طرح نر‬ ‫رز ح و ب طل ہو تو فوالد ہے مومن‬ ‫اقب ل نے مرد ک مل میں چ ر ص ت کی نش ن دہی کی ہے۔‬ ‫قہ ری و جب ری و قددسی و جبروت‬ ‫یہ چ ر عن صر ہوں تو بنت ہے مس م ن‬ ‫یہ ں مرد ک مل کے لیے مس م ن ہونے کی شرط ع ئد کر دی‬ ‫ہے۔ اقب ل کے محقیقن نے‘ مرد ک مل کے لیے اس ش ر کو‬


‫بھی حوالہ بن ی ہے۔ گوی س م ن ہونے کی صورت میں ہی‘‬ ‫مرد ک مل کے اعزاز سے سرفراز ہو سکت ہے۔‬ ‫اس ش ر کے حوالہ سے اس ک مخ ط انس ن نہیں ب کہ‬ ‫اسالمی برادری سے مت شخص ہی ک مل ہو سکت ہے۔‬ ‫دوسری طرف ان عن ص سے محرو مس م ن ہی نہیں۔‬ ‫اقب ل اس پیم نے ہر مس م ن ف تح بیٹھے گ ۔ مس م ن دل‬ ‫تسخیر کرت ہے۔ پتھر اینٹ برس نے والوں کے لیے دع‬ ‫کے لیے ہ تھ اٹھ ت ہے۔ دشمن کی بھی مدد کرت ہے۔ ب نٹ‬ ‫میں کسی قس کی تخصیص روا نہیں رکھت ۔‬ ‫مہرب ن اور سراپ عط واال ہوت ہے۔ قہ ر اور جب ر کو‬ ‫دیسی م نوں میں است م ل کی گی ہے۔ نطشے کے مت‬ ‫اقب ل ک کہن ہے۔‬ ‫تیرے سینے میں نہیں شمع یقین‬ ‫اس لیے ت ریک یہ ک ش نہ ہے‬ ‫کس طرح پ ءے سرا آشن‬ ‫تو کہ اپنے آپ سے بیگ نہ ہے‬


‫جو بھی سہی‘ اقب ل کے ف س ہءخودی میں نطشے کے‬ ‫کہے کی ب زگشت موجود ہے۔ مرد ک مل میں سپرمین کی‬ ‫پرچھ ئیں موجود ہے۔‬ ‫ک رل م رکس‘ درحقیقت مغر کے مظو ‘ م س اور پس‬ ‫م ندہ لوگوں ک نم ئندہ ہے۔ اس نے م دہ پرستی کے م حول‬ ‫و ح الت میں رہ کر‘ اپن نظرہءم یشت پیش کی ہے۔ اس‬ ‫کے نظریے کے پس منظر میں‘ ک یس ک استحص لی رویہ‘‬ ‫جمہوریت کے خوش نم لب س میں جمہوریت ک من ی‬ ‫طرزعمل‘ مس وات کے پردے میں توہین آدمیت جیسے قبیع‬ ‫ف ل تھے۔ م وکیت اور سرم یہ دارانہ جمہوریت کے خالف‬ ‫اس نے ن رہ ب ند کی ۔ اقب ل کو اس ک درس مس وات اور‬ ‫اس ک محنت کشوں سے ہمدردی ک رویہ‘ پسند آی ۔ اقب ل‬ ‫نے اس کے اس رویے کو پسند کی ہے لیکن اسے اس کی‬ ‫م دہ پرستی اور م دہ پسندی خوش نہیں آتی۔ جو بھی سہی‘‬ ‫م رکس کی مغربی تہذی پر ضر ‘ اقب ل کو اچھی لگی۔‬ ‫اقب ل نے مسیولینی سے بھی مالق ت کی۔ وہ اس کی‬ ‫شخصیت سے مت ثر ہوئے۔ اس کی شخصیت میں ت ثیر تھی۔‬ ‫اس عہد کے مش ہیر ع ل اس کی دل آویز شخصیت کے‬


‫مداح تھے۔ اقب ل کو اس ک نظ و ضبط پسند آی ۔ اس ذیل‬ ‫میں اقب ل ک یہ ش ر مالحظہ ہو۔‬ ‫فیض یہ کس کی نظر ک ہے‘ کرامت کس کی ہے‬ ‫وہ کہ ہے جس کی نگہ مثل ش ع آفت‬ ‫جرمن ش عر گوئٹے کے فکری رویے سے بھی اقب ل نے‬ ‫اثرات قبول کیے۔ اس کے دیوان کے جوا میں‬ ‫۔۔۔۔ پی مشر ۔۔۔۔۔ وجود میں آئی۔‬ ‫ڈاکٹر اقب ل‘ ہیگل کے نظری ت کو روح سے خ لی قرار دیت‬ ‫ہے۔ اقب ل کے خی ل میں اگر ہیگل کے نظری ت میں اسالمی‬ ‫روح ک رفرم ہوتی تو وہ بالشبہ انس نی سرفرازی کے لیے‬ ‫مث ل ہوتے۔‬ ‫اقب ل برگس ں کے نظریہء زم ن سے بھی اثر لیتے ہیں۔‬ ‫برگس ں کے نزدیک‘ زندگی تغیر اور تخ ی ہے۔ زندگی کے‬ ‫جن پہ وؤں میں تق ید اور ثب ت نظر آت ہے وہ ں زندگی‬ ‫موج بےت نہیں۔ اقب ل کے نزیک بھی زندگی متحرک اور‬ ‫تغیر پذیر ہے۔ اور ہر لمحہ تخ یقی مراحل سے گزرتی ہے۔‬ ‫ان کے نزدیک چ تے رہن زندگی‘ ج کہ ٹھہرن موت ہے۔‬


‫برگس ں نے زم ن و مکآن میں وجود کی حیثیت محض‬ ‫جب ی قرار دی ہے۔ اقب ل کے خی ل میں‘ زم ن عمل تخی‬ ‫سے پیدا ہوت ہے‘ ایک غیر متواتر حرکت‘ تغیر پر مبنی‬ ‫ہے۔‬ ‫س س ہءروز وش نقش گر ح دث ت‬ ‫س س ہءروز وش اصل حی ت و مم ت‬ ‫ایک دوسری جگہ کہتے ہیں‬ ‫فری نظر ہے سکون و ثب ت‬ ‫تڑپت ہے ہر زرہء ک ئن ت‬ ‫ٹھہرت نہیں ک روان وجود‬ ‫کہ ہر لحظہ ہے ت زہ ش ن وجود‬ ‫اقب ل کسی ایک منزل پر ٹھہر ج نے کے ق ئل نہیں ہیں۔ وہ‬ ‫متحرک زندگی کو زندگی م نتے ہیں۔ جوں جوں خودی ارتق‬ ‫کی من زل طے کرے گی زم نہ تخ ی ہوت چال ج ئے گ ۔‬ ‫کہتے ہیں۔‬ ‫ست روں سے آگے جہ ں اور بھی ہیں‬ ‫ابھی عش کے امتح ں اور بھی ہیں‬


‫اسی روز و ش میں الجھ کر نہ رہ ج‬ ‫کہ تیرے زم ن و مک ں اور بھی ہیں‬ ‫قن عت نہ کر ع ل رنگ و بو پر‬ ‫چمن اور بھی آشی ں اور بھی ہیں‬ ‫اقب ل ش رائے مغر کی ش ریت سے بھی مت ثر تھے۔‬ ‫ورڈزورتھ کی فطرت نگ ری‘ انھیں پسند تھی۔ اقب ل نے اس‬ ‫ک رنگ اپنی نظموں میں اختی ر کی ۔ نظ ۔۔۔۔ ایک ش ۔۔۔۔۔‬ ‫سے بطور نمونہ دو ش ر مالحظہ ہوں۔‬ ‫خ موش ہے چ ندنی قمر کی‬ ‫ش خیں ہیں خموش ہر شجر کی‬ ‫وادی کے نوا فروش خ موش‬ ‫کہس ر کے سبزپوش خ موش‬ ‫شی ے اور کیٹس کی رنگین مزاجی اور ٹی ایس کولرج ک‬ ‫زندگی سے گ ہ شکوہ بھی‘ اسے اچھ لگت ہے۔ اقب ل کے‬ ‫ہ ں حسن‘ عش اور محبت جہ ں نئے نئے رنگ لیے‬ ‫ہوئے ہیں‘ تو وہ ں روایت ک دامن بھی نہیں چھوڑتے۔‬ ‫شی ے اجزائے ع ل کی ب ہمی وابستگی کو محبت سے‬


‫ت بیر کرت ہے اور محبت کے بغیر ک ئن ت ک وجود ن ممکن‬ ‫خی ل کرت ہے۔‬ ‫شیشہء دہر میں م ند ہے ن‬

‫ہے عش‬

‫روح خورشید ہے خون رگ مہت‬

‫ہے عش‬

‫اقب ل کی حسن سے لطف اندوزی ک ذو مالحظہ ہو۔‬ ‫ہوئی ہے رنگ تغیر سے ج سے نمود اس کی‬ ‫وہی حسین ہے حقیقت زوال ہے جس کی‬ ‫اقب ل شیکسپیئر کے ل و لہجہ سے بھی مت ثر ہے اور‬ ‫اسے ان ال ظ میں خراج عقیدت پیش کرت ہے۔‬ ‫تجھ کو ج دیدہءدیدار ط‬ ‫ت‬

‫نے ڈھونڈا‬

‫خورشید میں خورشید کو پنہ ں دیکھ‬

‫چش ع ل سے تو ہستی رہی مستور تری‬ ‫اور ع ل کو تری آنکھ نے عری ں دیکھ‬ ‫ح ظ اسرار ک فطرت کو ہے سودا ایس‬ ‫رازداں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایس‬


‫اقب ل نے برصغیر میں رہتے ہوئے‘ مغر کو سنی سن ئی‬ ‫سے جوالئی‬ ‫کے حوالہ سے‘ ج ن پہچ ن ۔ ستمبر‬ ‫تک‘ وہ مغر میں قی پذیر رہے۔ اس عرصہ میں‘‬ ‫انھوں نے مخت ف م کرین سے مالق ت کی‘ انھیں پڑھ ۔‬ ‫مغر کے سم جی ح قوں اور اداروں سے ت رکھ ۔‬ ‫لوگوں کو اور ان کے رہن سہن کو‘ اپنی آنکھوں سے‬ ‫دیکھ ۔ مغر کے م شی نظ ک مش ہدہ کی ۔ مغر کی‬ ‫سی ست ک تنقیدی زاویوں سے مط ل ہ کی ۔ مغر کے‬ ‫ت یمی نظ ک مش ہدہ کی ۔ گوی س اپنی آنکھوں سے‬ ‫دیکھ ۔ ان تم امور سے‘ جو من ی ی مثبت اثرات لیے‘ ان‬ ‫کے اثرات ان کی ش عری میں نظر آتے ہیں۔‬


‫اس مضمون کی تی ری میں درج ذیل کت سے م ونت‬ ‫ح صل کی گئی۔‬ ‫نیرنگ خی ل‘ الہور‘ اقب ل نمبر‘ شم رہ ستمبر‘ اکتوبر‘ ‪-‬‬ ‫مق اقب ل‘ اش‬ ‫دکن‬

‫حسین‘ ادارہ اش عت اردو‘ حیدرآب د ‪-‬‬

‫مق الت اقب ل‘ مرتبہ انٹر ک لجیٹ مس برادرزہڈ‘ قومی ‪-‬‬ ‫کت خ نہ‘ الہور‘‬ ‫اقب ل ک مل‘ عبداال ندوی‘ مطبع م رف‘ اعظ گڑھ‘ ‪-‬‬ ‫اقب لی ت ک تنقیدی ج ئزہ‘ احمد می ں ق ضی جون گڑھی‘ ‪-‬‬ ‫اقب ل اک دمی‘ الہور‘‬ ‫اقب ل ک تنقیدی مط ل ہ‘ اے جی نی زی‘ عشرت پب شنگ ‪-‬‬ ‫ہ ؤس‘ الہور‘‬ ‫تصورات اقب ل ج‪ ‘ -‬مولوی صالح الدین احمد‘ مقبول ‪-‬‬ ‫پب ی کیشنز‘ الہور‘‬ ‫مط ل ہءاقب ل کے چند نئے رخ‘ ڈاکٹر سید محمد عبدهللا‘ ‪-‬‬ ‫بز اقب ل‘ الہور‘‬


‫اقب ل اور ثق فت‘ ڈاکٹر مظ ر حسن‘ اقب ل اک دمی‘ الہور‘ ‪-‬‬ ‫ڈاکٹر محمد اقب ل‘ ک ی ت اقب ل‪ -‬اردو‘ المس پب یشرز‘ ‪-‬‬ ‫کراچی ‘‬


‫غزالی اور اقب ل کی فکر۔۔۔۔۔۔ایک ج ئزہ‬ ‫عالمہ غزالی‘ غالمی کو پسند نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک‘‬ ‫غال سے بہتر س وک کی ج ن چ ہیے۔ وہ غال کو آزاد کر‬ ‫دین مستحسن ف ل قرار دیتے ہیں۔ عالمہ غزالی نے اس‬ ‫ج ن بھی اش رہ کرتے ہیں کہ وقت آق کو غالمی کی‬ ‫زنجیریں پہن سکت ہے۔‬ ‫اقب ل غالمی کو ن رت کی نگ ہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کے‬ ‫نزدیک‘ غالمی ذہنوں کو پس م ندہ بن دیتی ہے۔ غالموں‬ ‫کی صالحیتیں‘ م لک اپنے م دات کی تکمیل کے لیے‬ ‫است م ل میں التے ہیں۔ اس طرح غال اپنی ذاتی شن خت‬ ‫سے محرو ہو ج تے ہیں۔ اس کے برعکس‘ آق کی خودی‬ ‫مستحک ہوتی چ ی ج تی ہے۔ غال کی خودی کی ض ی ی‬ ‫ہی فرعونیت کو جن دیتی ہے۔ اسی بن پر اقب ل نے غالمی‬ ‫کو ل نت قرار دی ہے۔‬ ‫غالمی‘ غال سے وہ کہ وا دیتی ہے جو وہ کی بھی صورت‬ ‫اور ح لت میں کہن پسند نہیں کرت ۔ دانستہ اور ن دانستہ‬


‫بھی‘ غالمی کے مت اقب ل کے نظری ت کرختگی لیے‬ ‫ہوئے ہیں۔ وہ غالمی کو‘ بےبسی ک ن دیت ہے۔‬ ‫اقب ل کہتے ہیں۔‬ ‫بدن غال ک سوزعمل سے ہے محرو‬ ‫کہ ہے مرور غالموں کےروز وش پہ حرا‬ ‫عالمہ غزالی کے نزیک‘ ہر شخص کے س تھ مس وی‬ ‫س وک ہون چ ہیے‘ کیونکہ ہر شخص بطور انس ن‘ مس وی‬ ‫ہے اور ہر شخص جوا دہ ہے۔ اقب ل اسالمی تہذی‬ ‫وثق فت میں مس وات انس نی ک اصول انتہ ئی ترقی ی فتہ‬ ‫سمجھتے ہیں۔ رموز خودی میں‘ حریت اور مس وات کو‬ ‫ایک س تھ بی ن کرتے ہیں۔‬ ‫کہتے ہیں‬ ‫ت شکی امتی زات آمدہ‬ ‫در نہ د او مس وات آمدہ‬


‫آق ئے دوع ل نے‘ ج درس مس وات دی ‘ تو استحص لی‬ ‫اور مقتدرہ طبقے سیخ پ ہو گیے۔ اقب ل زندگی کے ہر‬ ‫ش بے میں‘ وحدت کے ق ئل ہیں۔ فرد کی خودی‘ اجتم ع کی‬ ‫خودی کی طرف بڑھتی ہے۔ اجتم ع‘ م یشت اور س ی‬ ‫وعمل میں‘ فرد سے اشتراک کرت ہے اور اس اشتراک کے‬ ‫بدلے‘ پذیرائی بخش کر اس کی زندگی کو متحرک بن دیت‬ ‫ہے۔ یہ استدراک اخوت و محبت کے بغیر‘ ممکن ہی نہیں۔‬ ‫ان ک کہن ہے۔‬ ‫ہوس نے کر دی ہے ٹکرے ٹکرے نوع انس ن کو‬ ‫اخوت ک بی ں ہو ج محبت کی زب ن ہو ج‬ ‫ایک دوسری جگہ کہتے ہیں۔‬ ‫یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مس م نی‬ ‫اخوت کی جہ نگیری محبت کی فراوانی‬ ‫غزالی اشتراک عمل‘ استدراک اجتم ع اور اشتراک م ش‬ ‫کے ق ئل ہیں۔ اس اشتراک میں‘ عدل اور اور دی نت داری‬ ‫کو الز قرار دیتے ہیں۔ اقب ل اشتراکی نظ سی ست کو‘‬ ‫جمہوری نظ سی ست سے بہتر خی ل کرتے ہیں۔ وہ ک رل‬


‫م رکس کو پیغبر بےجبریل کے لق سے م قو کرتے ہیں۔‬ ‫جمہوری نظ میں‘ م وکیت کی روح ق ئ رہتی ہے۔ ج کہ‬ ‫اشتراکی نظ سی ست‘ اس کو ب لکل فن کر دیت ہے۔‬ ‫اشتراکیت‘ جمہوری نظ کے پروردہ لوگوں میں اضطرا‬ ‫پیدا کر دیتی ہے۔‬ ‫جمہوریت کی ہے‘ اس کی حقیقت اقب ل کی زب نی سنیے۔‬ ‫جمہوریت اک طرزحکومت ہے کہ جس میں‬ ‫بندوں کو گن کرتے ہیں‘ توال نہیں کرتے‬ ‫ک رل م رکس کے ب رے اقب ل ک کہن ہے‬‫روح س ط نی رہے ب قی تو پھر کی اضطرا‬ ‫ہے مگر اس یہودی کی شرارت ک جوا‬ ‫وہ ک ی بے تج ی وہ مسیح بے ص ی‬ ‫نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کت‬ ‫اس تحسین کے ب وجود‘ وہ اشتراکی نظ کو پیٹ پوج ہی‬ ‫ک ن دیتے ہیں۔ م وکیت والے‘ کس نوں اور مزدوروں کی‬ ‫محنت کو‘ خراج بن کر‘ ط قت ح صل کرتے ہیں۔ اشتراکیت‬


‫والے بغ وت ک ن دے کر‘ دوسروں سے ط قت چھین کر‘‬ ‫اپنے ہ تھ مضبوط کرتے ہیں۔ گوی دونوں عوا کو دھوکہ‬ ‫دیتے ہیں۔‬ ‫ہر دو ج ن ن صبور و ن شکی‬ ‫ہر دو یزداں ن شن س آد فری‬ ‫زندگی ایں را خروج آں را خراج‬ ‫درمی ں ایں دو سنگ آمد ج ج‬ ‫غزالی جموریت کے ق ئل ہیں۔ ان کے نزدیک ری ستی امور‬ ‫انج دینے کے لیے ایک الئ اور ق بل ترین شخص کی‬ ‫ضرورت پڑتی ہے۔ جسے بذری ہ انتخ مقرر کی ج سکت‬ ‫ہے۔‬ ‫اقب ل جمہوریت کو م وکیت کی ارتق ئی شکل قرار دیتے ہیں۔‬ ‫جمہوری نظ حکومت میں ذہ نت کو پنپنے اور آگے‬ ‫بڑھنے کے مواقع میسر نہیں آتے۔ مسند اقتدار پر ادنی‬ ‫درجہ کے لوگ ق بض ہو کر عوا اور محنت ک استحص ل‬ ‫کرتے ہیں۔‬


‫غزالی کے نزدیک‘ نظ ق ئ رکھنے کے لیے ایک ق نون‬ ‫کی ضرورت ہےاور یہ ق نون س ز ایک مج س جو ح الت‬ ‫کی سی سی ہ آہنگی کو پیش نظر رکھ کر‘ مرت کر سکتی‬ ‫ہے۔‬ ‫اقب ل بھی‘ خالفت کی امین جم عت کے لیے‘ ایک مج س‬ ‫خالفت ک ہون ضروری سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس‬ ‫میں ع م کو ایک موثر جزو کے طور پر ہون چ ہیے۔‬ ‫غزالی م شرے میں‘ انص ف کو جزو الز سمجھتے ہیں۔‬ ‫اس سے خیر سگ لی اور جذبہءترقی پیدا ہوت ہے۔ انص ف‘‬ ‫اشتحک ری ست میں اہ کردار ادا کرت ہے۔ ان کے نزدیک‬ ‫انص ف ک ‘ ایک دن کسی کی ستر س لہ عب دت سے بہتر‬ ‫ہے۔‬ ‫اقب ل انص ف کو خودی ک راز قرار دیتے ہیں۔ غزالی ج بر‬ ‫س ط ن کی س ط ن کی اط عت میں مض ئقہ نہیں سمجھتے۔‬


‫اقب ل اس کی اط عت کے ق ئل نہیں ہیں۔ کیونکہ اس سے‬ ‫خودی کو نقص ن پہنچت ہے۔‬ ‫اٹھو میری دنی کے غریبوں کو جگ دو‬ ‫ک خ امرا کے در و دیوار ہال دو‬ ‫جس کھیت سے دہق ں کو میسر نہ ہو روزی‬ ‫اس کھیت کے ہر خوشءگند کو جال دو‬ ‫اگر ایس کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔‬ ‫اے مرد خدا تجھ کو قوت نہیں ح صل‬ ‫ج بیٹھ غ ر میں وہ هللا کو کر ی د‬ ‫آئین جواں مرداں ح گوئی و بےب کی‬ ‫هللا کے شیروں کو آتی نہیں روب ہی غزالی مذہ اور‬ ‫سی ست کو دو الگ سے نظ ہ زیست نہیں م نتے۔ ان کے‬ ‫نزدیک‘ اگر سی ست کی بنی د مذہ پر استوار ہو گی‘ تو‬ ‫ری ستی امور خوشگوار طور پر انج پ ئیں گے۔ اقب ل بھی‬ ‫اس نظریے کے ق ئل ہیں۔‬ ‫فرم تے ہیں۔‬


‫جدا ہو دیں سی ست سے تو رہ ج تی ہے چنگیزی‬ ‫غزالی ک نظریہءری ست سرحدوں ک محت ج ہے۔ اقب ل کی‬ ‫مم کت قید زم ن و مک ن کی پ بندیوں سے آزاد ہے۔ وہ قید‬ ‫زم ن و مک ن سے ب التر خالفت ارضی کو م نتے ہیں۔‬ ‫مک ں ف نی مکیں آنی ازل ترا ابد ترا‬ ‫خدا ک آخری پیغ ہے تو ج وداں تو ہے‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫جس سمت میں چ ہے ص ت سیل رواں چل‬ ‫وادی یہ ہم ری ہے وہ صحرا بھی ہم را ہے‬ ‫غزالی م شرے کی تنظی میں‘ عورت نظرانداز نہیں کرتے۔‬ ‫ان ک خی ل ہے‘ ج ج نوروں میں دونوں جنسیں‘ ک موں‬ ‫کے لح ظ سے‘ ایک جیسے ک کرتی ہیں‘ تو عورت کو‬ ‫افزایش نسل اور نسل کی بق کے لیے است م ل کرتے رہن ‘‬ ‫کہ ں کی دانش مندی ہے۔ عورت مرد کے س تھ اور‬ ‫دوسرے فرائض انج دے سکتی ہے۔‬


‫اقب ل عورت کو اجتم عی خودی ک ض من قرار دیتے ہیں۔‬ ‫اقب ل کے نزدیک‘ عورت کو بھی وہی انس نی حقو ح صل‬ ‫ہیں‘ جو مرد کو ح صل ہیں‘ لیکن دونوں ک دائرہ عمل‘‬ ‫الگ الگ ہے۔ ان کے خی ل میں‘ اسالمی م شرے میں‘‬ ‫عورت پ بند بھی ہے اور آزاد بھی۔‬ ‫کہتے ہیں۔‬ ‫وجود زن سے ہے تصویر ک ئن ت میں رنگ‬ ‫اس کے س ز سے ہے زندگی ک سوز دروں‬ ‫شرف میں بڑھ کے ثری سے مشت خ ک اس کی‬ ‫کہ ہر شرف ہے اسی درج ک در مکنوں‬ ‫غزالی‘ ح ح ت کی تکمیل کے لیے‘ ایک عمدہ م شی نظ‬ ‫کی ضرورت کو نظرانداز نہیں کرتے۔ اس کے لیے‘ وہ ایک‬ ‫دوسرے سے‘ ن ت جوڑنے کو الزمی قرار دیتے ہیں۔ یہ ن ت‬ ‫جتن مضبوط ہو گ اتن ہی کھرا پن ہو گ ۔ م شی نظ بھی‬


‫اتن ہی مضبوط ہو گ ۔ ان کےنزدیک‘ کس حالل سے‘ اپنے‬ ‫کنبہ کی ک لت‘ ایک طرح ک جہ د ہے۔‬ ‫اقب ل کے نزدیک‘ انس ن اپن فیص ہ اور ارادہ است م ل کرت‬ ‫ہے۔ م ین مقصد ح صل کرنے کے لیے مس عی وقف کرت‬ ‫ہے۔ اس کے نزدیک اسب م یشت کی فراہمی اخال کے‬ ‫اصولوں کے مط ب اس وقت تک نہیں ہو سکتی۔ ج تک‬ ‫کہ‘ ذات واحد کی ح کمیت نہ تس ی کر لی ج ئے اور اس‬ ‫کے س تھ‘ فرد اور جم عت کے حقو ک ت ین نہ ہو۔ فرد کو‬ ‫ایسےرز کی طرف بڑھن چ ہیے‘ جس سے‘ اس کی‬ ‫خودی پ م ل نہ ہواور وہ ب عزت زندگی بسرے۔‬ ‫کہتے ہیں۔‬ ‫اے ط ئر الہوتی اس رز سے مؤت اچھی‬ ‫جس رز سے آتی ہو پرواز میں کوت ہی‬ ‫غزالی ہر شخص پر‘ وہ ع ح صل کرن ضروری سمجھتے‬ ‫ہیں‘ جس ک وہ م م ہ کرت ہے۔‬


‫اقب ل ع کی قدر کرتے ہیں اور ان کے خی ل میں‘ ع‬ ‫حواس کی بےداری ہے۔ ع سے‘ طب ی قوت ہ تھ آتی ہے۔‬ ‫اس کو‘ دین کے م تحت رہن چ ہیے۔ وہ ع کو‘ ع رضی‬ ‫حقیقت نہ سمجھتے تھے ب کہ اسے ح ظ خودی اور ح ظ‬ ‫حی ت ک سرم یہ تصور کرتے تھے۔ یہی نہیں‘ وہ ع کو‘‬ ‫امراض م ت کی دوا خی ل کرتے تھے۔‬ ‫فرم تے ہیں۔‬ ‫زندگی کچھ اور شے ہے ع ہے کچھ اور شے‬ ‫زندگی سوز جگر ہے‘ ع ہے سوز دم‬ ‫ع میں دولت بھی ہے قدرت بھی ہے لذت بھی ہے‬ ‫ایک مشکل ہے کہ ہ تھ آت نہیں اپن سرا‬ ‫گوی ج تک ع دل میں جگہ نہیں بن لیت ‘ انس ن راہنم ئی‬ ‫سے محرو رہت ہے۔‬ ‫غزالی فقر کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک‘ فقر وہ‬ ‫ہے‘ جس کے پ س اپنی ضرورت کی چیز نہ ہو۔ آدمی کے‬


‫لیے‘ پہ ے اپنی ہستی مط و ہے‘ پھر م ل و غذا اور اسی‬ ‫طرح‘ بہت سی چیزیں درک ر ہیں۔ یہ ان ک ح جت مند ہے‬ ‫اور غنی ہے۔ غزالی ایسی اشی کے ترک کی طرف توجہ‬ ‫دالتے ہیں‘ جو ح صل ہون قدرت میں نہ ہوں۔‬ ‫اقب ل چھین لینے اور برب د کر دینے کے بھی ق ئل ہیں۔‬ ‫اٹھو میری دنی کے غریبوں کو جگ دو‬ ‫ک خ امرا کے در و دیوار ہال دو‬ ‫جس کھیت سے دہق ں کو میسر نہ ہو روزی‬ ‫اس کھیت کے ہر خوشءگند کو جال دو‬ ‫اقب ل فقر کو قن عت اور خودداری کے س تھ توکل بص رت‬ ‫اور بصیرت کو ضروری خی ل کرت ہے۔ مزید یہ کہ وہ فقر‬ ‫سے مراد افالس اور تنگ دستی نہیں لیتے ب کہ استغن اور‬ ‫الپرواہی کو مراد لیت ہے۔ اس کے نزدیک دولت‘ جوہر‬ ‫جواں مردی کی ہے۔‬ ‫ح جت سے مجبوری مردان آزادن آزاد‬ ‫کرتی ہے ح جت شیروں کو روب ہ‬


‫محر خودی سے جس د ہوا فقر‬ ‫تو بھی شہنش ہ میں بھی شہنش ہ‬ ‫اگر جہ ں میں میرا جوہر آشک را ہوا‬ ‫ق ندری سے ہوا تونگری سے نہیں‬ ‫غزالی تجزی تی ت کر سے م یوس ہو کر صوفی نہ تجرب ت‬ ‫کی طرف راغ ہوئے۔ انھیں مذہ کے لیے ایک آزاد‬ ‫اس س نصی ہوئی۔ اقب ل رومی کو غزالی کے مق ب ہ میں‬ ‫اسال کی اصل روح سے قری تر خی ل کرتے ہیں۔‬ ‫‪22-7-1980‬‬


‫اقب ل کی یورپ روانگی سے پہ ے کے احوال‬ ‫اقب ل نسال کشمیری براہمن تھے۔ ان کی گوتھ سپرو تھی۔‬ ‫پندرھویں صدی عیسوی میں‘ ان کے آب ؤ اجداد ب ب لولی‘‬ ‫مشرف بہ سال ہوئے۔ ب ب لولی‘ ح جی ب ب نصیرالدین کے‬ ‫مرید تھے۔ ح جی ب ب نصیرالدین‘ شیخ نورالدین ولی کے‬ ‫ادارت مندوں میں سے تھے۔ انہوں نے کئی پ پی دہ حج‬ ‫کیے۔ ان ک مزار چیراٹ شریف‘ کشمیر میں ہے۔ الہ آب د‬ ‫ہ ئی کورٹ کے وکیل سر تیج بہ در سپرو گھرانہ سے ت‬ ‫رکھتے تھے۔‬ ‫اقب ل کے دادا‘ شیخ محمد رفی ‘ عرف شیخ رفیق نے‘‬ ‫سی ل کوٹ کے مح ہ کھٹیک ں کے ایک مک ن میں سکونت‬ ‫اختی ر کی‘ ب د ازاں یہ مک ن خرید لی ۔ شیخ رفی تج رت‬ ‫سے منس ک تھے۔ یہ مک ن اس دور میں یک منزلہ تھ ۔‬ ‫اسی مک ن میں اقب ل کے والد شیخ نور محمد پیدا ہوئے۔‬ ‫میں شیخ نور محمد نے اس مک ن سے م حقہ‬ ‫مک ن خرید لی ۔ یہ رہ ئش‘ ب د ازاں اقب ل منزل کہالئی۔ اقب ل‬ ‫کی والدہ ک ن ام بی بی تھ ۔ وہ ایک دین دار خ تون‬


‫تھیں۔ ان کے والد صوفی منش تھے اور اکثر درویشوں کی‬ ‫مح ل میں اٹھتے بیٹھتے تھے۔ ان کی دوسری اوالدوں میں‬ ‫شیخ عط محمد‘ ف طمہ بی بی اور ط لع بی تھیں۔ اقب ل کی‬ ‫پیدائش کے وقت‘ شیخ عط محمد اٹھ رہ برس کے تھے‬ ‫اور ان کی ش دی ہو چکی تھی۔‬ ‫اقب ل کی پیدائش کے مت مخت ف روای ت س منے آتی ہیں‬ ‫ت ہ نومبر پر س ات کرتے ہیں۔ ج وید اقب ل کے‬ ‫میں پیدا ہوئے۔‬ ‫مط ب وہ صبح کی ازان کے وقت‬ ‫کے وقت‘ سی ل کوٹ کے دو‬ ‫سکوت سی ل کوٹ‬ ‫س الروں کو‘ پھ نسی اور بیشتر جنگ جو جوانوں کو‘ گولی‬ ‫سے اڑا دی گی ۔ اس ح دثے نے‘ سی ل کوٹ کے ذہنوں پر‬ ‫من ی اثرات مرت کیے۔ وہ انگریز راج اور انگریزی اطوار‬ ‫سے ن رت کرتے تھے۔ اقب ل کے والد‘ اگرچہ کسی تحریک‬ ‫میں حصہ نہ لیتے تھے لیکن اس ح دثے نے ان پر گہرے‬ ‫اثرات مرت کیے۔ یہی وجہ ہے‘ کہ انہوں نے اقب ل کو چ ر‬ ‫برس کی عمر میں‘ مولوی غال حسین کے حوالے‘ دینی‬


‫ت ی کے لیے کر دی ۔ وہ وہ ں س ل کے لگ بھگ ت ی‬ ‫ح صل کرتے رہے۔‬ ‫ایک دف ہ مولوی میر حسن‘ مولوی غال حسین کے ہ ں‬ ‫گیے‘ جہ ں انہوں نے اقب ل کو دیکھ ۔ انہوں نے شیخ نور‬ ‫محمد سے کہہ کر‘ اقب ل کو اپنی تحویل میں لے لی ۔ اقب ل‘‬ ‫ان کے ہ ں عربی ف رسی اور اردو ادبی ت ک مط ل ہ کرنے‬ ‫لگے۔ اسی دوران‘ مولوی میرحسن نے اقب ل کو اسک چ‬ ‫مشن اسکول‘ سی ل کوٹ میں داخل کرا دی ۔‬ ‫میں‘ اقب ل نے اسک چ مشن اسکول سے میٹرک‬ ‫درجہ اول میں پ س کی ۔ ادھر میٹرک ک امتح ن پ س کی‬ ‫ادھر ان کے سر پر ش دی ک سہرا سج گی ۔ ان کی بیوی‬ ‫کری بی بی‘ گجرات کے ایک م زز اور شریف کشمیری‬ ‫گھرانے سے ت رکھتی تھیں۔ خ ندانی شرافت ان کی رگ‬ ‫وپے میں موجود تھی۔ اسک چ مشن اسکول‘ ک لج ک درجہ‬ ‫اختی ر کر گی تھ ۔ یہ ں سے‘ درجہ دوئ میں ایف اے ک‬ ‫امتح ن پ س کی ۔ س ل اول کے دوران ہی‘ دا دہ وی سے‬ ‫کال میں اصالح لینے لگے۔ یہ ت یمی ادارہ مشرقی و‬ ‫مغربی اقدار ک نم ئندہ تھ ۔‬


‫میں‘ الہور تشریف لے آئے۔ گورنمٹ ک لج‬ ‫ستمبر‬ ‫الہور سے‘ ف س ہ اور عربی مض مین میں بی اے کی ۔ عربی‬ ‫کے مط ل ہ کے لیے اورئنیٹل ک لج آتے۔ وہ ں عالمہ محمد‬ ‫حسین آزاد‘ عالمہ فیض الحسن سہ رن پوری اور مولوی‬ ‫محمد دین ایسے ف ضل اس تذہ سے کس ع ک موقع‬ ‫دستی ہوا‘ ت ہ پروفیسر آرن ڈ کے بہت قری تھے۔‬ ‫گورنمنٹ ک لج میں پروفیسر ڈب یو میل‘ پروفیسر اوشر اور‬ ‫پروفیسر آرنڈ سے ف س ہ کی ت ی ح حل کی۔ گورنمنٹ ک لج‬ ‫سے بی اے درجہ دوئ میں پ س کی ۔ ای اے ف س ہ‘ درجہ‬ ‫میں ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کے لیے‬ ‫سو میں کی ۔‬ ‫ان فٹ قرار پ ئے۔‬ ‫میں‘ اورنٹیل ک لج میں‘ بطور ریڈر مالز ہو گیے۔‬ ‫میں گورنمنٹ ک لج الہور میں اسسٹنٹ پروفیسر‬ ‫مقرر ہوءے۔ اسالمیہ ک لج الہور میں‘ سر عبدالق در کی‬ ‫سیٹ پر‘ بطور اسسٹنٹ پروفیسر آف انگ ش بھی ک کی ۔‬ ‫قی الہور کے دوران‘ ان کی چ ر کت بیں منظر ع پر آئیں۔‬ ‫تک‘ الہور کی درس گ ہوں میں فرائض‬ ‫سے‬ ‫انج دیتے رہے۔ اقب ل م نے والی م ہوار تنخواہ سے‬


‫مطمن نہ تھے۔ اس سے اندازہ ہو ج ت ہے کہ وہ بیرسٹر‬ ‫بن کر محکمہ ت ی کو خیرب د کہہ دین چ ہتے تھے‘ لیکن‬ ‫وہ بیرسڑی نہ کر سکے۔ خصوصی اج زت کے ب وجود‬ ‫ک می بی ح صل نہ ہو سکی۔ اس سے‘ ب خوبی یہ ں کے‬ ‫م ی ر ت ی ک اندازہ لگ ی ج سکت ہے۔ مغر کی بڑی دک ن‬ ‫سے‘ انہیں یہی س م ن دستی ہو گی ۔ اقب ل ک لج سے م نے‬ ‫والی سٹڈی لیو لے کر‘ انگ ست ن روانہ ہو گیے۔ رخصت‬ ‫کے دوران ہی‘ ان کی تنخواہ میں تیس روپے اض فہ گی ۔‬ ‫یورپ سے واپسی پر‘ اپنی دیرینہ خواہش اور بہتر آمدن‬ ‫کے لیے مالزمت سے اسطی ے دے کر‘ بیرسٹری کی طرف‬ ‫آگیے۔‬ ‫عالمہ اقب ل سیم بی طبی ت اور مزاج کے م لک تھے۔ ان ک‬ ‫ع می ادبی اور بہتر آمدن کی حصولی ک خوا شرمندہء‬ ‫ت بیر نہیں ہو سکت تھ ۔ الہور آ کر انہوں نے ن صرف ت ی‬ ‫ح صل کی‘ ب کہ مالزمت بھی اختی ر کی۔ بیرسٹر بن کر‬ ‫م شی صورت ح ل کو کروٹ دینے کی کوشش کی‘ لیکن‬ ‫اس حوالہ سے‘ بری طرح ن ک ہوئے۔‬ ‫ط ل ع می کے زم نہ ہی سے‘ انہوں نے اد کی مخت ف‬ ‫حوالوں سے تسکین ک ک کی ۔ ‘سبھی دوست‘ ان کے‬


‫کمرے میں آ ج تے۔ فرش پر‘ حقہ سمیت‘ مح ل جمتی۔ یہ‬ ‫برہنہ سر‘ تہمد ب ندھے‘ کمبل اوڑھے حقہ پیتے رہتے۔‬ ‫ش ر و ش عری مب حث اور خو خو خوش طب ی ک‬ ‫س م ن ہوت ۔‬ ‫اقب ل سے قبل ہی‘ ایک انجن مش عرہ ق ئ تھی۔ اس انجمن‬ ‫میں رکھی تھی۔‬ ‫کی بنی د حکی شج ح الدین نے‘‬ ‫اس کی نشتیں‘ حکی امین الدین کے ہ ں ہوا کرتی تھیں۔‬ ‫حکی شج ح الدین کی موت کے ب د یہ نشتیں‘ نوا غال‬ ‫محبو سبح نی‘ والئی کشمیر کی سرپرستی میں ہونے‬ ‫کی ایک ش کو‘ انجمن کے مش عرہ میں اپن‬ ‫لگیں۔‬ ‫کال پڑھ ۔ اس مج س میں عالمہ ارشد گورگ نی اور میر‬ ‫ن ظ حسین ن ظ بھی موجود تھے۔ ج وہ اس ش ر تک‬ ‫‪:‬پہنچے‬ ‫موتی سمجھ کے ش ن کریمی نے چن لیے‬ ‫قطرے جو تھے میرے عر ان ل کے‬


‫عالمہ ارشد گورگ نی بے اختی ر ہو کر داد دینے لگے اور‬ ‫انہیں محبت بھری نظروں سے دیکھ ۔‬ ‫الہور میں ق ئ شدہ انجمن ‘کشمیری مس م ن ن‘ میں بھی‬ ‫اپن کال سن ی اور داد پ ئی۔ مش عروں میں رنگ آ گی اور‬ ‫س م ین کی ت داد میں‘ ہر چند اض فہ ہوا۔ ان مش عروں کی‬ ‫تنظی کے لیے‘ ایک ادبی انجمن بھی ق ئ کی گئی۔ اس کے‬ ‫صدر مدن گوپ ل اور سیکرٹری خ ن احمد حسین خ ں تھے۔‬ ‫خ ن احمد حسین خ ں‘ ان مج لس کے روح رواں ہوا کرتے‬ ‫تھے۔ نظ ‘ہم لہ‘ بھی‘ اس انجمن کے کسی اجالس میں‬ ‫پڑھ کر سن ئی گئی۔‬ ‫اقب ل اپن کال تحت ال ظ سن تے تھے۔ ان آواز میں بال ک‬ ‫ج دو تھ ۔ دوستوں کے اصرار پر‘ انہوں نے کھی کبھ ر اپن‬ ‫کال ترن سے پڑھن شروع کر دی ۔ ادبی انجمن کے حوالہ‬ ‫سے‘ اقب ل الہور کی فض ؤں میں‘ نمودار ہوئے۔ اقب ل اس‬ ‫انجن کے سیکرٹری بھی رہے۔ یہ انجمن آگے چل کر‘ آل‬ ‫انڈی مس ک ن رنس کے ن سے م روف ہوئی۔‬


‫قی الہور کے دوران‘ ان کے ت ق ت خ صے وسیع ہو‬ ‫گیے۔ ان کے احب میں‘ انگریز‘ ہندو اور مس م نوں ش مل‬ ‫تھے۔ انگریز احب میں‘ پروفیسر ارن ڈ خصوصی اہمیت‬ ‫کے ح مل ہیں۔ پروفیسر موصوف نے ان کے فکری رویوں‬ ‫کو مت ثر کی ۔‬ ‫میں‘ انہوں‬ ‫انجمن حم یت االسال کے س النہ ج سہ‬ ‫نے ‘ن لءیتی ‘ پڑھی۔ اس ج سے کی صدارت ڈیپٹی نذیر‬ ‫احمد کر رہے تھے۔ اس انجمن کے اور ج سوں میں بھی‘‬ ‫اقب ل نے شرکت فرم ئی اور اپنے کال سے س م ین کو‬ ‫محظوظ کی ۔ اس انجمن کے ج سوں میں‘ کال پڑھنے کے‬ ‫دوران‘ عالمہ الط ف حسین ح لی سے دس روپے‘ خواجہ‬ ‫حسن نظ می سے عم مہ اور خواجہ عبدالصمد ککڑو سے‬ ‫چ ندی ک تمغہ‘ جو وہ کشمیر سے بنوا کر الئے تھے‘‬ ‫وصول کی ۔ انہیں عالمہ الط ف حسین ح لی کی نظ سن نے‬ ‫ک اعزاز بھی ح صل ہوا۔‬ ‫یہ س ‘ بالشبہ‘ اقب ل کی فکر کی ب ند پروازی‘ جدت‬ ‫طرازی‘ نی اس و تک ‘ نئی زب ن اور انگریز احب سے‬


‫قربت ک نتیجہ تھ ۔ ان کے کہے میں عصری کر کی‬ ‫تصویر کشی اور دلکش انداز میں پیش کش کو کسی بھی‬ ‫سطع پر نظر انداز نہیں کی ج ن چ ہیے۔‬ ‫قی الہور کے دوران‘ انہوں نے ہم لہ‘ ن لءیتی ‘ ایک یتی‬ ‫ک خط ‘ ن لءفرا ‪ ‘ -‬خیر مقد ‘ دین و دنی ‘ فری د امت‘‬ ‫تصویر درد ش ر پ رے ق بند کیے۔ یہ س فکری و لس نی‬ ‫اعتب ر سے‘ اپنی مث ل ہیں۔ انہیں اد ع لیہ کی بس ط پر‬ ‫رکھ ج سکت ہے۔‬ ‫منشی محمد دین فو ‘ جو ایک ش عر سے زی دہ‘ اخب ر‬ ‫نویس تھے‘ نے اقب ل میں ترقی پسندی کے جوہر دیکھ‬ ‫کر‘ ان کے ن کو اچھ لن شروع کی ۔ ان کے کال کو اپنے‬ ‫اخب رات میں نم ی ں جگہ دی۔ ان دونوں حضرات کو‘ جن‬ ‫جن ک س تھی کہ ج ئے‘ تو مب لغہ نہ ہو گ ۔ دوسرا‘ وہ‬ ‫دونوں ایک ہی دھرتی کے سپوت تھے۔ دونوں دا دہ وی‬ ‫کے ش گرد تھے۔ وہ پیسہ اخب ر‘ پنجہءفوالد‘ کشمیری‬ ‫میگزین اور اخب ر کشمیری نک لتے تھے۔‬


‫جو پروفیسر آرن ڈ ک قصیدہ ہے۔ اس قصیدے کو قص ئد ‪-‬‬ ‫سے الگ رکھ گی ہے‘ ح الں کہ اردو قصیدے میں اسے‬ ‫بڑا ہی خو صورت اض فہ قرار دی ج سکت ہے۔ مواد اور‬ ‫اس و تک کی جدت‘ اس قصیدے کو الگ سے‘ عزت اور‬ ‫توقیر دینے ک مستح ٹھہراتی ہے۔ غ لب ان کی زندگی کے‬ ‫س ر میں‘ یہ سنگ میل ک درجہ رکھت ہے۔‬


‫اس مضمون کی تی ری کے لیے ان کت سے است دہ کی‬ ‫‪:‬گی ہے‬ ‫زندہ رود از شیخ اکرا ‪-‬‬ ‫اقب ل مرتبہ وحید عشرت ‪-‬‬ ‫مط لہء اقب ل از ڈاکٹر گوہر نوش ہی ‪-‬‬ ‫اقب ل ک مل از عبدالسال ندوی ‪-‬‬ ‫نقوش اقب ل نمبر شم رہ‬

‫‪-‬‬

‫۔ نیرنگ خی ل شم رہ ستمبر اکتوبر‬ ‫‪9-1-1980‬‬


‫مط ل ہءاقب ل کے چند م خذ‬ ‫است د غ ل اور ڈاکٹر اقب ل‘ اردو کے دو ایسے ش عر ہیں‘‬ ‫جن پر بڑا ک ہوا ہے۔ غ لبی ت اور اقب لی ت دو الگ سے‘‬ ‫ش بے بن گئے ہیں۔ گوی انھیں مضمون ک درجہ ح صل‬ ‫ہوگی ہے۔ ان پر اتن زی دہ ک ہو ج نے کے ب وجود‘ مزید‬ ‫ک کے دروازے ابھی تک کھ ے ہوئے ہیں۔ ان پر ہونے‬ ‫والے ک کی نوعیت و حیثیت ک ابھی تک ج ئزہ کرن ‘ ب قی‬ ‫ہے۔ جم ہ م خذ کی ج مع اور اپنی نوعیت کی جمع بندی ک‬ ‫ک بھی ابھی ب قی ہے۔ اس ذیل میں کسی م خذ کو م مولی‬ ‫سمجھ کر‘ نظرانداز کرن زی دتی کے مترادف ہوگ ۔ میں یہ ں‬ ‫چند ایک مص در کی نش ن دہی کر رہ ہوں۔ یہ فہرست بھی‘‬ ‫بیس س ل سے زی دہ پرانی ہے۔ ہو سکت ہے‘ اقب ل پر ک‬ ‫کرنے والوں کے لیے‘ یہ مص در کسی ن کسی سطع پر ک‬ ‫کے نک یں۔‬ ‫ا۔ اقب ل‘ ڈاکٹر ب نگ درا شیخ غال ع ی اینڈ سنز‘ الہور‬ ‫۔ اقب ل‘ ڈاکٹر ب ل جبریل شیخ غال ع ی اینڈ سنز‘ الہور‬


‫۔اقب ل‘ ڈاکٹر ضر ک ی شیخ غال ع ی اینڈ سنز‘ الہور‬ ‫۔اقب ل‘ ڈاکٹر ارمغ ن حج ز احسن برادر‘ ان ر ک ی‘ الہور‬ ‫۔اقب ل‘ ڈاکٹر ب قی ت اقب ل آئنہءاد ‘ ان ر ک ی‘ الہور‬ ‫۔ابوال یث صدیقی‘ ڈاکٹر آج ک اردو اد ‘ قصر کت ‘‬ ‫کراچی‬ ‫۔احمد می ں اختر‘ ق ضی اقب لی ت ک تنقیدی ج ئزہ اقب ل‬ ‫اک دمی پ کست ن الہور‬ ‫۔ انور سدید‘ ڈاکٹر اقب ل کے کالسیکی نقوش اقب ل اک دمی‘‬ ‫پ کست ن‘ الہور‬ ‫۔ اس و احمد انص ری‘ پروفیسر اقب ل کی تیرہ نظمیں‬ ‫مج س ترقی اد ‘ الہور‬ ‫۔این میری شمل مترج ڈاکٹر محمد ری ض‘ شہپر اقب ل‘‬ ‫گ و پب یشرز‘ الہور‬ ‫۔اس انص ری اقب ل عہد آفرین ک روان اد ‘ م ت ن صدر‬


‫۔اکبر ع ی سید‘ ایڈووکیٹ اقب ل اس کی ش عری اور‬ ‫پیغ ‘ اقب ل اک دمی‘ پ کست ن‘ الہور‬ ‫۔افتخ ر حسین ش ہ‘ سید اقب ل اور پیروی شب ی‘ سنگ‬ ‫میل پب یشرز‘ الہور‘‬ ‫۔اکبر حسین‘ ڈاکٹر‘ مط ل ہءت میح ت واش رات اقب ل اقب ل‬ ‫اک دمی‘ پ کست ن‘ الہور‬ ‫۔ایس اے رحمن‘ جسٹس‘ اقب ل اور سوش ز ادارہ ثق فت‬ ‫اسالمیہ‘ الہور‬ ‫۔احمد ندی ق سمی ‘ یونس ج وید ادارت‘ صحی ہءاقب ل‬ ‫مج س ترقی اد ‘ الہور‬ ‫۔ ت ثیر‘ ڈاکٹر اقب ل ک فکر و فن یونیورسل بکس‘ اردو‬ ‫ب زار الہور‬ ‫۔ج بر ع ی سید اقب ل ک فنی ارتق بز اقب ل‘ ک‬ ‫الہور‬

‫روڑ‘‬

‫۔جگن ن تھ آزاد اقب ل اور اس ک عہد االد ‘ ان ر ک ی‘‬ ‫الہور‬ ‫حمید احمد خ ں‘ پروفیسر اقب ل شخصیت اور ش عری‬ ‫بز اقب ل‘ ک روڑ‘ الہور‬


‫۔حمید رض صدیقی‘ اجمل صدیقی اقب ل جدوجہد آزادی؛‬ ‫ک روان اد ‘ م ت ن صدر‬ ‫۔ خ لد س ید بٹ‘ ڈاکٹر اقب ل ک نظریہءثق فت ادارہء‬ ‫ثق فت‘ پ کست ن‬ ‫۔ رئیس احمد ج ری اقب ل اور عش رسول شیخ غال‬ ‫ع ی اینڈ سنز‘ الہور‬ ‫۔ رئیس احمد ج ری اقب ل اپنے آءینے میں کت‬ ‫کشمیری ب زار‘ الہور‬

‫منزل‘‬

‫۔ رشید احمد‘ ف رو احمد مرتبین پ کست نی اد ‘ فیڈرل‬ ‫گورنمنٹ سرسید ک لج‘ رآولپنڈی‘‬ ‫۔ رشید احمد صدیقی‘ پروفیسر اقب ل شخصیت اور‬ ‫ش عری‘ اقب ل اک دمی‘ الہور‬ ‫س ی اختر‘ ڈاکٹر اقب لی ت کے نقوش اقب ل اک دمی‘‬ ‫پ کست‬ ‫ن‬ ‫۔ س ی اختر‘ ڈاکٹر اقب ل شن سی کے زاویے بز اقب ل‘‬ ‫الہور‬


‫۔ س ی اختر‘ ڈاکٹر اقب ل اور ہم رے فکری رویے سنگ‬ ‫میل پب یشرز‘ الہور‬ ‫۔ س ی اختر‘ ڈاکٹر اقب ل ش ع صد رنگ سنگ میل‬ ‫پب یشرز‘ الہور‬ ‫۔ س ی اختر‘ ڈاکٹر اقب ل ممدوح ع ل بز اقب ل‘ الہور‬ ‫۔ س ید احمد رفی اقب ل ک نظریہءاقب ل ادارہ ثق فت‬ ‫اسالمیہ‘ الہور‬ ‫۔ سج د ب قر رضوی‘ سید تہذی و اخال مکتبہ اد‬ ‫جدید‬ ‫۔ شورش ک شمیری‘ آغ اقب ل پی مبر انقال فیروز سنز‬ ‫۔ ش ہد حسین رزاقی مق الت حکی ادارہ ثق فت اسالمیہ‘‬ ‫الہور‬ ‫۔ شمی م ک‘ ڈاکٹر اقب ل کی قومی ش عری مقبول‬ ‫اکیڈمی‘ الہور‬ ‫۔ ص لح‘ ابو محمد قرآن اور اقب ل سنگ میل پب شرز‘‬ ‫ھ‬ ‫الہور‬


‫۔ صالح الدین احمد‘ موالن تصورات اقب ل ادبی دنی ‘‬ ‫الہور‬ ‫۔ عزیز احمد اقب ل اور پ کست نی اد مکتبہ ع لیہ‘ الہور‬ ‫۔ عزیز احمد اقب ل اور نئی تشکیل گ و پب شرز‘ الہور‬ ‫۔ عب دت بری وی‘ ڈاکٹر اقب ل احوال و افک ر مکتبہ ع لیہ‬ ‫الہور‬ ‫۔ عب دت بری وی‘ ڈاکٹر جدید ش عری انجمن ترقی اردو‬ ‫پ کست ن‬ ‫۔ عب دت بری وی‘ ڈاکٹر غزل اور مط ل ہءغزل انجمن‬ ‫ترقی اردو پ کست ن‬ ‫۔ عبدهللا‘ سید‘ ڈاکٹر اش رات تنقید مکتبہ خی ب ن‘ الہور‘‬ ‫۔ عبدهللا‘ سید‘ ڈاکٹر مط ل ہء اقب ل کے چند نئے رخ بز‬ ‫اقب ل‘ الہور‘‬ ‫۔ عبدهللا‘ سید‘ ڈاکٹر مس ئل اقب ل مغربی پ کست ن اردو‬ ‫اکیڈمی‘ الہور‬


‫۔ ع بد ع ی ع بد‘ سید‘ ش ر اقب ل بز اقب ل الہور‘‬ ‫۔ عبدالوحد‘ سید نقش اقب ل آئینہ‘ الہور‬ ‫۔ عبد الحکی ‘ خ ی ہ‘ ڈاکٹر فکر اقب ل بز اقب ل الہور‬ ‫۔ عبدالرحمن ط ر اش رات اقب ل کت‬ ‫ب زار‘ الہور‬

‫منزل‘ کشمیری‬

‫عبدالرحمن ط ر جوہر اقب ل شیخ غال ع ی اینڈ سنز‘‬ ‫الہور‬ ‫۔ عبدالمجید م لک ذکر اقب ل بز اقب ل‘ الہور‬ ‫عبدهللا قریشی آئینہءاقب ل آئینہءاد ‘ الہور‬ ‫۔ عبدالرشید ف ضل‘ کوک ش دانی اقب ل اسرارورموز‬ ‫اقب ل اک دمی پ کست ن‬ ‫۔ عبدالحمید اقب ل بحیثیت م کر پ کست ن منظور ع کت‬ ‫خ نہ‘ پش ور‬ ‫۔ عبدالصمد خ ں‘ میر خوشح ل و اقب ل منظور ع کت‬ ‫خ نہ‘ پش ور‬


‫۔ عبدالح ‘ مولوی مرت اقب ل دان ئے راز انجمن ترقی‬ ‫اردو پ کست ن‬ ‫۔ غال مصط ے خ ں‘ ڈاکٹر اقب ل اور قرآن اقب ل اک دمی‘‬ ‫الہور‬ ‫۔ غال عمر‘ ڈاکٹر اقب ل ک ک مل انس ن مکتبہ ع لیہ‘‬ ‫الہور‬ ‫۔ غال احمد پرویز اقب ل اور قرآن ادارہ ط وع اسال ‘‬ ‫کراچی‬ ‫۔ فتح محمد م ک اقب ل فکر و عمل بز اقب ل‘ الہور‬ ‫۔ محمد فرم ن‘ پروفیسر اقب ل اور تصوف بز اقب ل‘‬ ‫الہور‬ ‫۔ محمد حنیف ش ہد م کر پ کست ن سنگ میل پب یشرز‘‬ ‫الہور‬ ‫۔ مظ ر حسن م ک‘ ڈاکٹر اقب ل اور ثق فت اقب ل اک دمی‘‬ ‫الہور‬ ‫۔ محمد منور‘ پروفیسر برہ ن اقب ل اقب ل اک دمی پ کست ن‬


‫۔ محمد منور‘ پروفیسر میزان اقب ل اقب ل اقب ل اک دمی‬ ‫پ کست ن‬ ‫۔ محمد ح مد افک ر اقب ل اقب ل اقب ل اک دمی پ کست ن‬ ‫۔ محمد یوسف حسرت ک ید اقب ل اقب ل اک دمی پ کست ن‬ ‫۔م ین الرحمن‘ ڈاکٹر مرت اقب لی ت ک مط ل ہ اقب ل اقب ل‬ ‫اک دمی پ کست ن‬ ‫۔ منہ ج الدین‘ ڈاکٹر اقب ل و تصورات اقب ل ک روان اد‬ ‫م ت ن صدر‬ ‫۔ محمد احمد صدیقی اقب ل ت یمی نظری ت آل پ کست ن‬ ‫ایجوکیشنل ک ن رنس کراچی‬ ‫۔ مہر‘ غال رسول‘ مرت سرود رفتہ شیخ غال ع ی‬ ‫اینڈ سنز‘ الہور‬ ‫۔ محبو ع ی زیدی‘ سید اقب ل ح اہل بیت شیخ غال‬ ‫ع ی اینڈ سنز‘ الہور‬ ‫۔ محمد ظریف‘ ق ضی اقب ل قرآن کی روشنی میں کت‬ ‫منزل‘ الہور‬


‫۔ میزا ادی مط ل ہءاقب ل کے چند پہ و بز اقب ل‘ الہور‬ ‫۔ محمد ع ی‘ شیخ نظریہ و افک ر اقب ل نیشنل ف ؤنذیشن‬ ‫۔ محمد ری ض‘ ڈاکٹر اف دات اقب ل ت ج بک ڈپو‘ الہور‬ ‫۔ محمد ش ہ‘ سید مرت اقب ل پر ایک نظر اقب ل اکیڈمی‘‬ ‫الہور‬ ‫۔ م ک حسن اختر‘ ڈاکٹر اقب ل‘ ایک تحقیقی مط ل ہ‬ ‫یونیورسل بکس‘ الہور‬ ‫۔ محمد رفیع الدین حکمت اقب ل ع می کت خ نہ‘ الہور‬ ‫۔ محمد رفیع الدین ہ شمی‘ سید اقب ل کی طویل نظمیں‬ ‫گ و پب یشرز‘ الہور‬ ‫۔ مقصود حسنی کال اقب ل روزن مہ وف ‘ الہور‬ ‫۔ مقصودحسنی مس م ن اقب ل کی نظر میں روزن مہ‬ ‫وف ‘ الہور م رچ‬

‫نومبر‬


‫۔ مقصودحسنی اقب ل اور تحریک آزادی روزن مہ وف ‘‬ ‫الہور ‪ -‬اپریل‬ ‫۔ مقصود حسنی اقب ل کے کال میں دعوت آزادی‬ ‫روزن مہ وف ‘ الہور ‪ -‬اکتوبر‬ ‫۔ مقصود حسنی اقب ل اور تسخیر ک ئن ت کی فالس ی‬ ‫روزن مہ وف ‘ الہور ‪ -‬فروری‬ ‫۔ مقصود حسنی اقب ل ک نظریہءقومیت روزن مہ وف ‘‬ ‫الہور ‪ -‬جوالئی‬ ‫۔ مقصود حسنی اقب ل اور ربط م ت کی اصطالح روزن مہ‬ ‫مشر ‘ الہور ‪ -‬جنوری‬ ‫۔ مقصود حسنی اقب ل کے سی سی م شی اور اخالقی‬ ‫نظری ت‘ م ہن مہ تحریریں‘ الہور‘ اپریل‬ ‫۔ مقصود حسنی اقب ل لندن میں اردو نیٹ ج پ ن‘ انجمن‬ ‫۔ نصیر احمد ن صر‘ ڈاکٹر اقب ل اور جم لی ت اقب ل اک دمی‬ ‫پ کست ن‬ ‫۔ نذیر احمد اقب ل کے صن ئع بدائع آئینہءاد ‘ الہور‬


‫۔ نذیر نی زی‘ سید دان ئے راز اقب ل اک دمی پ کست ن‬ ‫۔ وحید قریشی‘ ڈاکٹر اقب ل اقب ل اک دمی پ کست ن‬ ‫۔ وحید قریشی‘ ڈاکٹر مرت منتخ مق الت‘ اقب ل ریوریو‬ ‫۔ وزیر آغ ‘ ڈاکٹر تصورات‬ ‫اقب ل اک دمی پ کست ن‬ ‫عش وخرد اقب ل اک دمی پ کست ن‬ ‫۔ وزیر آغ ‘ ڈاکٹر اردو ش عری ک مزا مکتبہ ع لیہ‘‬ ‫الہور‬ ‫۔ وزیر آغ ‘ ڈاکٹر روح تنقید اد عشرت پب یشنگ‬ ‫ہ ؤس‘ الہور‬ ‫۔ وزیر آغ ‘ ڈاکٹر مط ل ہءاقب ل بز اقب ل‘ الہور‬ ‫۔ وق ر عظی ‘ سید‘ پروفیسر اقب ل ش عر اور ف س ی‬ ‫تصنی ت‬ ‫۔ واجد رضوی دان ئے راز مقبول اکیڈمی‘ الہور‬ ‫‪102. The work of Mohammad Iqbal Edited by: Abdur Rauf ,‬‬ ‫‪People's publishing house, Lahore, 1983‬‬


103. A message from the east By: M. Hadi Hussain, Iqbal Ac. Pak. Lahore, 1977 104. Iqbal-- a critical study By: Mesba-ul-Haq, Farhan Publishers, Lahore, 1976 105. About Iqbal and his thought, By; M.M. Sharif, Inst. of Islamic Culture, lahore, 1976 106. Iqbal the great poet of Islam By: Shah Abdul Qadir, Sung-e-meal publications, Lahore, 1987 107. Iqbal and Quranic Wisdom by: Mohammad Munawar, Islamic Books Foundation 1981 108. Some Aspects of Iqbal's thought, By Aasif Iqbal, Islamic Books Service, Lahore 109. Poetry of Iqbal, By: Sir Zulifqar Ali, Aziz Publishers, Lahore, 1972 110. Iqbal the Universal Poet, By: Dr. A. D. Taseer, Munoib Publishers, Lahore, !977


‫رس ئل‬ ‫افش ں‘ مج ہ گورنمنٹ دی ل سنگھ ک لج‘ الہور‘ اقب ل نمبر‬ ‫جنوری‬ ‫افک ر م ‘ م ہ ن مہ‘ الہور اقب ل نمبر نومبر‬ ‫اورا ‘ سہ م ہی اقب ل نمبر‬ ‫م ہ نو‘ م ہ ن مہ‘ الہور‘ نومبر‬ ‫مواخذہ‘م ہ ن مہ الہور‘ اقب ل نمبر نومبر‬ ‫م ہ ن مہ ستمبر اکتوبر‬

‫نیرنگ خی ل‬

‫اخب رات‬ ‫روزن مہ آفت الہور‬ ‫‘ ‪ ،‬نومبر‬

‫‘‬

‫روزن مہ امروز الہور‬

‫فروری‬

‫‘ ‘‬

‫ستمبر‬ ‫‘ ‘‬

‫‘‬

‫‘‬

‫‘‬

‫نومبر‬


‫روزن مہ جنگ الہور‬

‫نومبر‬

‫روزن مہ جہ ں نم الہور ‘‬ ‫روزن مہ مشر الہور‬

‫نومبر‬

‫نومبر‬

‫روزن مہ نوائے وقت الہور‬

‫نومبر‬

‫روزن مہ مشر الہور‬

‫نومبر‬

‫روزن مہ وف الہور‬ ‫نومبر ‘ دسمبر‬

‫ستمبر‘ ‘‬

‫غیر مطبوعہ مض مین‘ مقصود حسنی‬ ‫۔ اقب ل ک نظریہءم ش و م شرت‬ ‫۔اقب ل ک ف سفءعش‬ ‫۔ نظ ط وع اسال ایک ج ئزہ‬

‫‘‬

‫‘‬

‫‘‬

‫‪-‬‬


‫اقب ل کی نظ میں اور تو کے حواشی‬ ‫مقصود حسنی‬ https://www.yumpu.com/xx/document/view/38649019/-/-

‫مط ل ہءش ر اقب ل کے حوالہ سے چند م روض ت‬ ‫مقصود حسنی‬ http://www.youblisher.com/p/1204999-%D9%85%D8%B7%D8%A7%D9%84%D8%B9%DB%81%D8 %A1%D8%A7%D9%82%D8%A8%D8%A7%D9%84-%DA%A9%DB%8C-%D8%B0%DB%8C%D9%84%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%86%D9%86%D8%AF-%D9%85%D8%B9%D8%B1%D9%88%D8 %B6%D8%A7%D8%AA/

‫اقب ل اور مغربی م کرین‬ ‫مقصود حسنی‬ http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8653.0

‫اقب ل کی یورپ روانگی سے پہ ے کے احوال‬ ‫مقصود حسنی‬ http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8681.0


‫اقب ل لندن میں‬ ‫مقصود حسنی‬ ‫‪https://imgur.com/gallery/sWQOX‬‬

‫اقب ل ک ف س ہءخودی‬ ‫مقصود حسنی‬ ‫‪http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=43858‬‬

‫مقصود حسنی‬ ‫کال اقب ل‬ ‫روزن مہ وف ‘ الہور‬

‫نومبر‬

‫مس م ن اقب ل کی نظر میں‬ ‫روزن مہ وف ‘ الہور م رچ‬ ‫اقب ل اور تحریک آزادی‬ ‫روزن مہ وف ‘ الہور ‪ -‬اپریل‬


‫اقب ل کے کال میں دعوت آزادی‬ ‫روزن مہ وف ‘ الہور‬

‫‪ -‬اکتوبر‬

‫اقب ل اور تسخیر ک ئن ت کی فالس ی‬ ‫روزن مہ وف ‘ الہور‬

‫‪ -‬فروری‬

‫اقب ل ک نظریہءقومیت‬ ‫روزن مہ وف ‘ الہور‬

‫‪ -‬جوالئی‬

‫اقب ل اور ربط م ت کی اصطالح‬ ‫روزن مہ مشر ‘ الہور‬

‫‪ -‬جنوری‬

‫اقب ل کے سی سی م شی اور اخالقی نظری ت‬ ‫‘ م ہن مہ تحریریں‘ الہور‘ اپریل‬


‫االد آور اقب ل فہمی‬ ‫ایک شخص کی بہتر ک رگزاری‘ ایک کنبہ ی قبی ہ کی ‘‬ ‫پورے عالقہ کی شہرت ک سب بنتی ہے۔ مت قہ عہد تک‬ ‫موقوف نہیں‘ آتی نس یں بھی اس پر فخر محسوس کرتی‬ ‫ہیں۔ لوگ کسی ن کسی حوالہ سے‘ اس سے اپنے ت ک‬ ‫جواز تالشتے ہیں۔ ت نہ نک نے کی صورت میں؛ ہ‬ ‫عالقہ‘ ہ زب ن ی ہ وطن ہونے ک س بقہ کسی سطع پر نظر‬ ‫انداز نہیں کرتے۔ اس میں سرفرازی ہی نہیں‘ شن خت بھی‬ ‫میسر آتی ہے اور یہ کوئی ایسی م مولی ب ت بھی نہیں۔‬ ‫اقب ل شر و غر میں ب ند اور جدا فکری حوالہ سے‬ ‫شہرا رکھت ہے۔ اس کی فکر و زب ں پر ہزاروں ص ح ت‬ ‫تحریر ہو چکے ہیں۔ ج م ت میں اقب لی ت سے مت ش بہ‬ ‫ج ت ق ئ ہو چکے ہیں۔ محقیقن اقب ل پر تحقیقی ک کرکے‬ ‫ڈگری ں ح صل کر رہے ہیں۔‬ ‫انجمن اسالمیہ قصور کے ایک اجالس میں اقب ل تشریف ال‬ ‫چکے ہیں اور یہ انجمن کے لیے بڑے اعزاز کی ب ت تھی۔‬


‫اسالمیہ ک لج قصور اور اسالمیہ ہ ئ اسکول قصور‘ انجمن‬ ‫سے مت رہے ہیں‘ المح لہ یہ ب ت‘ ہر دو اداروں‬ ‫کےلیے بھی‘ اعزاز کی ب ت ہے۔ اسالمیہ ک لج قصور کو یہ‬ ‫بھی فخر ح صل ہے‘ کہ اس نے اپنے پرچے االد کے‬ ‫ذری ے‘ اقب ل سےمت مض مین ش ءع کیے ہیں۔ یہ‬ ‫اطراف میں بڑے اعزاز اور فخر کی ب ت ہے۔ ک لج کے‬ ‫موجودہ سربراہ پروفیسر راؤ اختر ع ی‘ اقب الت میں‬ ‫خصوصی توجہ رکھتے ہیں۔ وہ اس ذیل میں مخت ف نوعیت‬ ‫ کے‬‫کے پروگرا کراتے رہتے ہیں۔ شم رہ‬ ‫لیے‘ ان کی ہدایت پر‘ راق نے ایک تحریر پیش کی ہے۔‬ ‫االد میں اقب ل پر مواد تو چھپ ہی ہے‘ ڈاکٹر سید محمد‬ ‫عبدهللا‘ ڈآکٹر نصیر احمد ن صر‘ ڈاکتر عبدالسال خورشید‘‬ ‫ڈاکٹر تبس ک شمیری‘ داکٹر غال شبیر ران ‘ ارش د احمد‬ ‫حق نی‘ عشرت رحم نی‘ شریف کنج ہی ایسے ل ظ شن س‬ ‫لوگوں کی اقب ل کے حوالہ سے ک وش ہ ‘ کی اش عت ک‬ ‫بھی االد کو اعزاز ح صل ہے۔ ان کے انمول ل ظ‘ یقین‬ ‫حوالہ ک درجہ رکھتے ہیں۔ اگ ے ص ح ت میں‘ االد میں‬


‫اقب ل پر ش ئع ہونے والی تحریروں کی ت صیل پیش کی گئ‬ ‫ہے۔‬ ‫عالمہ سر محمد اقب ل ‪ -‬فی ض احمد ‪-‬‬ ‫اقب ل ک ف س ہء خودی ‪ -‬شوکت ع ی ‪-‬‬ ‫ست روں سے آگے ‪ -‬م راج الدین احمد ‪-‬‬ ‫اقب ل ک مرد ک مل ‪ -‬ای مبشر احمد ‪-‬‬ ‫اقب ل اور فطرت ‪ -‬محبت ع ی ‪-‬‬ ‫فکر اقب ل اور عورت ‪ -‬ش کر انج ‪-‬‬

‫‬‫‬‫‪-‬‬

‫اقب ل اور مس ہءخودی ‪ -‬شیخ محمود احمد ‪-‬‬ ‫عالمہ اقب ل کے حضور ح ضری کے چند مواقع ‪ -‬ڈاکٹر سید‬ ‫عبدهللا ‪-‬‬ ‫اقب ل ک ف س ہ عقل و عش ‪ -‬خورشید خواجہ ‪-‬‬ ‫اقب ل اور مس ہءجبروقدر ‪ -‬سمیہ اشرف گورا ‪-‬‬ ‫اقب ل ک ف سفءخودی ‪ -‬ح مد نواز ‪-‬‬ ‫اقب ل اور م شی ت ‪ -‬محمد ش یع ‪-‬‬ ‫اقب ل ک تصور ش ہین ‪ -‬رضیہ ران ‪-‬‬

‫‪-‬‬


‫اقب ل اور نظریہء م وکیت و اشتراکیت ‪ -‬محمد ح مد نواز ‪-‬‬ ‫‬‫اقب ل اور فنون لطی ہ ‪ -‬محمد اکرا ہوشی رپوری ‪-‬‬ ‫‬‫اقب ل دور ح ضر ک عظی م کر ‪ -‬رض هللا ط ل‬

‫‪-‬‬

‫اقب ل کے صوفی نہ تصورات ‪ -‬محمد اکرا ہوشی رپوری ‪-‬‬ ‫‬‫عالمہ اقب ل اور محمد ع ی جوہر ‪ -‬ڈاکٹر سید محمد عبدهللا ‪-‬‬ ‫‬‫فرد اور م ت اقب ل کی نظر میں ‪ -‬ڈاکٹر نصیر احمد ن صر ‪-‬‬ ‫‬‫‬‫زم نہ ب تو نہ س ز و تو بہ زم نہ ستیز ‪ -‬ش ی الرحمن‬ ‫‬‫ہ شمی ‪-‬‬ ‫مس قومیت اور نظریہءپ کست ن ‪ -‬ڈااکٹر عبدالسال‬ ‫‬‫خورشید ‪-‬‬ ‫اقب ل اور قومی ثق فت ‪ -‬ڈاکٹر تبس ک شمیری ‪-‬‬

‫‪-‬‬


‫اقب ل اور قومی تہذی ک تح ظ ‪ -‬ارش د احمد حق نی ‪-‬‬ ‫‬‫‪-‬‬

‫اقب ل اور تصور آزادی ‪ -‬عشرت رحم نی ‪-‬‬ ‫اقب ل ک ف س ہءت ی ‪ -‬عبدالغ ر نظمی ‪-‬‬ ‫اقب ل اور پنج‬

‫‪ -‬شریف کنج ہی ‪-‬‬

‫‬‫‪-‬‬

‫اقب ل کی فکری تشکیل اور موالن رو ‪ -‬اختر ع ی میرٹھی‬ ‫‬‫‬‫‪-‬‬

‫اقب ل ک نظرءسی ست ‪ -‬محمد جہ نگیر ‪-‬‬ ‫اقب ل ک تصور اقتص دی ت ‪ -‬حنیف اس ‪-‬‬

‫‪-‬‬

‫اقب ل اور عقل وعش ع الدین غ زی ‪-‬‬

‫‪-‬‬

‫عالمہ اقب ل ایک اسالمی ش عر ‪ -‬محمد یسین ‪-‬‬

‫‪-‬‬

‫اقب ل ت میر نو ک ع مبردار ‪ -‬صغری انص ری ‪-‬‬

‫‪-‬‬

‫اقب ل کے م شی و ق نونی تصورات ‪ -‬اسم ء جبین ‪-‬‬ ‫‬‫اقب ل ایک نظر میں ‪ -‬ط ہرہ اکرا ‪-‬‬ ‫اقب ل اور نظریہء خودی ‪ -‬ن ی محمود ‪-‬‬

‫‬‫‪-‬‬


‫‪-‬‬

‫حکی االمت ک مشن ‪ -‬محمود احمد ‪-‬‬

‫اقب ل م صرین کی نظر میں ‪ -‬اکرا ہوشی رپوری ‪-‬‬ ‫‬‫عالمہ اقب ل اور کردار س زی ‪ -‬عبدالزا انص ری ‪-‬‬ ‫‬‫‪-‬‬

‫اقب ل اور ف ہءخودی ‪ -‬شوکت ع ی ‪-‬‬

‫فکر اقب ل میں یقین کی اہمیت ‪ -‬ڈاکٹر غال شبر ران ‪-‬‬ ‫‬‫‪-‬‬

‫اقب ل اور االد ‪ -‬ڈاکٹر عط لرحمن میو ‪-‬‬ ‫اقب ل اور آج ک نوجوان ‪ -‬راشد مقصود‬ ‫اقب ل قومی ش عر ‪ -‬جنیدالرحمن ‪-‬‬

‫‬‫‪-‬‬


Turn static files into dynamic content formats.

Create a flipbook
Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.