1
ادبی مط ل ے مقصود حسنی ابوزر برقی کت خ نہ م رچ
2
فہرست دیس بن پردیس‘‘ ایک کت
! بیسیوں رنگ
خوش بو کے امین ایک قدی اردو ش عر کے کال ک ت رفی و لس نی ج ئزہ مثنوی م سٹر نرائن داس' ایک ادبی ج ئزہ آش پربھ ت' مسک تے' س گتے اور ب کتے احس س ت کی ش عر اکبر اردو اد ک پہال بڑا مزاحمتی ش عر ام نت کی ایک غزل ......فکری و لس نی رویہ منظو شجرہ ع لیہ حضور کری ....عہد جہ نگیر میرے اب ۔۔۔۔۔۔ ایک مط ل تی ج ئزہ
ڈاکٹر عبدال زیز س حر کی تدوینی تحقی کے ادبی اطوار رحم ن ب ب کی زب ن ک اردو کے تن ظر میں لس نی مط ل ہ عربی کے اردو پر لس نی تی اثرات ایک ج ئزہ گنج سواالت' ایک لس نی تی ج ئزہ ڈاکٹر عبد ال زیز س حر کی ایک ق بل تق ید تدوینی ک وش ڈاکٹر منیر کے افس نے اور مغربی طرز حی ت نم ز ک سو سے زی دہ س ل ک پران اردو ترجمہ
3
دیس بن پردیس‘‘ ایک کت
! بیسیوں رنگ
ن صر ن ک گ وا سے میری روبرو مالق ت الہور اردو نیٹ ج پ ن کی ایک تقری میں ہوئی۔ بڑا ن یس س دہ گو ،م نس ر ،مج سی اد و آدا سے آگ ہ مگر قدرے شرمیال س اور رکھ رکھ ؤ واال شخص ہے۔ بڑا اچھ اور پی را لگ ۔ مالق ت ک دورانیہ اگرچہ مختصر تھ لیکن پر لطف اور ی دگ ر تھ ۔ اس ک ادبی اور مالق تی ذائقہ آج اور ا بھی محسوس کرت ہوں۔ ’’دیس بن پردیس‘‘ ک میں نے پوری توجہ اور دی نتداری سے اول ت آخر مط ل ہ کی ہے۔ بڑے ک کی چیز ہے۔ یہی نہیں اردو اد میں اسے ایک خوبصورت اض فہ قرار دین کسی طرح بھی غ ط اور مب لغہ نہ ہو گ ۔ کت کو تین حصوں میں تقسی کی گی ہے لیکن میں اسے پ نچ حصوں پر مشتمل کت سمجھت ہوں۔ پہال حصہ اہل ق کی آراء پر مشتمل ہے۔ اس حصہ کے مط ل ہ سے مصنف کی شخصیت، اردو نیٹ ج پ ن کے حوالہ سے خدم ت اور اس کے اس و کے ب رے میں بہت س ری م وم ت ہ تھ لگتی ہیں۔ پہ ے حصہ ہی میں اہل رائے حضرات سے چہرہ بہ چہرہ مالق ت ہوتی ہے۔ وہ س کت کے ق ری کو پر تحسین نظروں سے دیکھتے نظر آتے ہیں۔ زب ن سے نہیں ق سے بہت کچھ اور مخت ف زاویوں سے کہتے محسوس ہوتے ہیں۔ کت کے آخری حصہ میں ( جسے
4
میں پ نچواں حصہ کہہ رہ ہوں )بہت س رے خوبصورت چہروں سے مالق ت ہوتی ہے۔ ان کی آنکھوں میں بھی ن صر ن ک گ وا کے حوالہ سے بہت کچھ پڑھنے کو مل ج ت ہے۔ اس ’’بہت ت خ حق ئ ،مصنف ک سچ کچھ‘‘ میں جہ ں زندگی سے مت اور کھرا پن ،ش مل ہے وہ ں طنز و مزاح ک عنصر پ ی ج ت ہے۔ :کچھ ت خ حق ئ ج پ نی خواتین خوش اخال اور شوہروں کی وف دار ہیں۔ ’’ ج پ نی بیوی ں پ کست نی بیویوں کی طرح نہیں ہوتیں کہ انہیں پ ؤں کی جوتی سمجھ کر تبدیل کر لی ج ئے۔ یہ ں کہ بچے بھی اتنے فرم نبردار اور بدھو نہیں ہوتے کہ آپ خود جس ک کو اچھ سمجھیں اسے بچوں کو کرنے سے روکیں۔ ‘‘ (پ کست نی شوہروں اور ج پ نی بیویوں کے درمی ن تشدد کے واق ت و )محرک ت :چند مزید حق ئ ج پ ن میں دیکھ گی ہے کہ زی دہ مس جد ج پ نی ب زاروں اور ’’ گ ی مح ے میں ہی ق ئ ہیں مگر ش ذ و ن در ہی کبھی کوئی ن ‘‘ خوشگوار واق ہ پیش آی ہو۔ ج پ ن کی میٹرو پولیٹین پولیس ڈپ رٹمنٹ کی خ رج زدہ خ یہ ( )ف ئ وں میں کی ہے ؟
5
پ کست ن میں قی کے دوران مجھے ہر جگہ انٹرنیٹ کی ’’ سہولت میسر تھی مگر لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے میں است م ل ہی نہیں کر سکت تھ ۔ یہ کراچی تھ جسے روشنیوں ک شہر کہ کر تے تھے آج روشنی ائیرپورٹ کے عال قے اور زرداری اور بالول ہ ؤس اور می ں ہ ؤس تک محدود ہو کر رہ گئی ہے )کیونکہ یہ لوگ زی دہ حقدار ہیں۔ ‘‘(ٹوکیو سے کراچی تک :ذرا یہ پر مزاح مک لمے مالحظہ ہوں خیبر پختونخواہ اسمب ی کے اسپیکر طویل ق مت کے کرامت ہللا ’’ خ ن تشریف الئے تو ان کے استقب ل میں مجھ سمیت ندا خ ن، یوسف انص ری اور امین سجن بھی ش مل تھے ،لو گوں کو کرامت ہللا سے گ ے م تے ہوئے دیکھ کر ایس لگ جیسے لوگ ان کے گھٹنوں میں کچھ سرگوشی کر رہے ہوں۔ ‘‘(ٹوکیو سے ) متحدہ عر ام رات ک س ر امیگر یشن نو جوان افسر نے میرے پ سپو رٹ پر تین م ہ ک ’’ ویزہ لگ ی تو میں نے اس سے پوچھ کہ آپ کی زب ن میں شکریہ کو کی کہتے ہیں ’’ تیری م ں کیسی ‘‘کی ؟’’تیری م ں کیسی‘‘۔ میں سمجھ اسے اردو آتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے کہ ان کی وف ت ہو گئی ہے۔ وہ کچھ سمجھ نہیں تو میں نے انگریزی میں کہ تو وہ ہنسنے لگ کہ نہیں میں نے جو کہ اس ک مط ہو ت ہے شکر یہ۔ وہ تو ب د میں پت چال کہ صحیح ت ظ یہ ہے
6
) کہ۔ ۔ ۔ ۔ ’’ تیری م ک سی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘(سہ روزہ دورۂ مالئشی ء :شنگھ ئی کے ایک ب تھ رو ک ن ک نقشہ مالحظہ ہو ب تھ رو کے تولیے گھسے ہوئے تھے اور گنجے تھے اور ’’ امتی ز کرن مشکل تھ کہ تولیہ ہے ی رو م ل ،لگت تھ ج سے ہوٹل ت میر ہوا ہے یہی تولیے چل رہے ہیں۔ چھو ٹی چھو ٹی ص بن کی ٹکیہ رکھی ہوئی تھیں ک فی دیر ہ تھوں میں رگڑنے سے بھی نہیں گھستی تھیں۔ شیمپو پال سٹک کی بوتل میں اس طر ح سے نک ت تھ جیسے سردیوں میں شہد کی بوتل الٹ بھی )دیں تو شہد ب ہر نہیں آت ۔ ‘‘(اسال آب د سے شنگھ ئی تک :ن صر ن ک گ وا کے کھرے اور سچے پن کی مث ل مالحظہ ہو اس سے قبل مہینوں گزر ج تے تھے مجھے نم ز کی توفی ’’ نہیں ہوتی تھی ،ات سے کسی مسجد ک دورہ ہو گی تو نم ز ادا کر لی کبھی خصوصی طور پر نم ز ادا کرنے کی توفی ہوئے ‘‘ عرصہ گزر چک تھ ۔ ) ن گوی اور گی و ک ی دگ ر س ر۔ ۔ ۔ بذری ہ ب یٹ ٹرین( درج ب ال ٹکڑے کت کے مخت ف حصوں سے لیے گئے ہیں۔ ان کے مط ل ہ سے اندازہ ہو ج ت ہے کہ کت کتنی بھرپور ہے اور ن صر ن ک گ وا کس درجہ کی تحسین ک ح رکھتے ہیں۔ کت میں افس نہ اور ایک خط بھی ش مل کی گی ہے۔ ایک کت
7
لیکن بیسیوں رنگ ،ایسے میں ان کی خو صورت پیش کش پر شکریہ ادا کر ن ال ز آت ہے۔ ہللا کری ن صر ن ک گ وا کی توفیق ت میں اض فہ فر م ئے اور اسے ش د و ش دا رکھے۔
خوش بو کے امین
8
ہم رے ہ ں ک عج دستور ہے۔ ہر م تبر رشتے کے لیے کسی نہ س بقے الحقے ک ہون ضروری ہوت ہے۔ چ ہے وہ ‘‘خونی’’کسی س بقہ الحقہ دل و دم کی رگوں سے خون ہی کیوں نہ ‘‘’’خونی نچوڑ رہ ہو۔ اس کے ہ تھوں کتنی ب ر قر ہون پڑا ہو ی اس س بقے الحقے نے عزت اور جی کی ہمیشہ نیالمی لگ ئی ہو۔ ‘‘’’خونی تم من ی حق ئ کی موجودگی میں بھی انہیں سبقت اور اہمیت دی ج تی ہے۔ ش دی بی ہ ہوکہ مرگ م مے چ چے اور پھوپھی م سی کے ب رے میں دری فت کی ج ت ہے۔ اگر یہ موجود نہ ہوں تو دلہ کی خوشی ں تہ تیغ کر دی ج تی ہیں ج کہ ارم نوں کی الش کی بھ نت بھ نت کی بولیوں سے مٹی پ ید کی ج تی ہے ۔ ب ور رہے ،خوشیوں س بقے الحقے سے جڑے ہوتے ہیں اور وہ ‘‘خونی’’کے ق تل کسی اپنے اس س بقے الحقے ک ح ادا کر رہے ہوتے ہیں ی یہ س کرن اپن فرض منصبی سمجھ رہے ہوتے ہیں ۔ محبت کے ت کو کوئی قبول نہیں کرت ح الں کہ قبول نہ کرنے والے خود کسی نہ کسی کی محبت میں گرفت ر ہوتے ہیں اور وہ س بقوں الحقوں سے ن رت کررہے ہوتے ہیں ۔ منہ بوال اپن ‘‘’’خونی اعتب ر رکھتے ہوئے بھی کچھ نہیں ہوت ۔ اسے گھر کی دہ یز سے ب ہر رکھن شرافت کی دلیل سمجھ ج ت ہے۔ دہ یز کے اندر مستحک وجود رکھتے ہوئے بھی وہ غیرت پر بدنم لیبل ہوت ہے۔ اس حقیقت سے انک ر نہیں ب ض منہ بولے رشتے بد دی نتی کے مرتک ہوتے ہیں ۔ س بقوں الحقوں سے آراستہ رشتے ک ‘‘سوال یہ ہے کہ ’’خونی اعتب ر کے ق بل رہے ہیں ۔
9
کی م مے چ چے م سی پھوپھی وغیرہ ک س بقہ الحقہ رکھنے والے رشتے ہ تھ نہیں دکھ تے۔ ان کی اوالدیں غیرت کی ج ئیداد پر ڈاکے نہیں ڈالتیں ۔ یہی کی ان کے بڑے آپس میں فیئر ہوتے ہیں ۔ ان کی مخ صی ن ق بل چی نج رہتی ہے؟ ان ک اعتب ر م د کی ڈور سے بندھ رہت ہے۔ ج ایسی صورت ہے تو منہ بولے رشتوں پر انگشت نم ئی کیوں ؟ وہ خ نگی زندگی میں م تبر کیوں نہیں ہو پ تے۔ ان پر شک کی آتش کیوں برستی رہتی ہے۔ انہیں اعتب ر دےنے میں کیوں ! بخل سے ک لی ج ت ہے۔ یہ عجی وتیرا اور چ ن نہیں ہے؟ محبت مس ک مذہبوں اور ریتوں رواجوں سے آزاد ہوتی ہے۔ میں منہ بوال‘‘ س بقہ ’’نے اپنے کسی پی ر کے رشتے کے س تھ کبھی کوئی الحقہ پیوست کرنے کی حم قت نہیں کی۔ یہی نہیں انہیں گھر کی دہ یز کے اندر ال کر غیر م تبر نہیں ہونے دی ۔ ہ ں اپنے دل کے س رے در ان پر کھ ے رکھے ہیں وہ ں وہ بڑے آسودگی سے پروان چڑھے ہیں اور وہ ں وہ خو رنگ الئے ہیں ۔ میں نے ان کے پھول اورپھل ب نٹنے کی حم قت کبھی نہیں کی۔ ان پھولوں پھ وں پر صرف اپن ح سمجھ ہے۔ مجھے محبت کے پھولوں اور پھ وں کی بے حرمتی قط ً پسند نہیں ۔ ب ت کروں گ تو وہ تنقید ک نش نہ بنیں گے۔ ضروری نہیں یہ کوئی کسی دوسرے کی محبت کی خوشبو اور مٹھ س سے محظوظ ہو ۔ کدو اور بینگن میری پسند میں داخل ہیں ۔ میں اپنی پسند اور است دے کی وض حت ک پ بند نہیں۔ وض حت کو کون م نت ہے ۔ ہر کسی کے پ س اپنی وض حتوں کے انب ر لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ کسی اچھے مقرر ک اچھ س مع ہون ضروری تو
10
نہیں ۔ میں بڑا اچھ س مع ہوں ۔ حظ کی اس عن یت کے حوالہ سے بے حد سکھی ہوں ۔ اس طرح مجھے اپنی محبتوں کی تصریح و توضیع کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ خدا ک شکر ہے میری محبتیں میری ذات تک محدودرہی ہیں اور میری ذات ک حصہ رہی ہیں ۔ میری بدقسمتی رہی ہے کہ میری محبتیں آخری س نسوں تک میرے س تھ نہیں چ یں ۔ پتہ نہیں راہ میں اکیال چھوڑن انہوں نے اپن کیوں فرض عین سمجھ ہے۔ سید غال حضور حسنی (اب جی) ہی کو لے لیں ۔ الکھ منتوں کے ب وجود دو چ ر لمحے مزید رکنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ میں یہ نہیں کہت کہ میری محبت یک طرفہ تھی وہ مجھ سے بے تح ش محبت کرتے تھے۔ وہ زندگی میں س ر کے شوقین رہے۔ نئے س ر کے شو نے انہیں رکنے نہ دی ۔ میں نے اتن پی ر کرنے واال کبھی اور کہیں نہیں دیکھ ۔ اپنے تو خیر اپنے ہوتے ہیں وہ تو دوسروں کے لیے بھی حد درجے ک درد رکھتے تھے ۔ ان کے بھ ے کے لےے اپنے خس رے کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔(پنج بی) صوفی ش عر ہونے کے سب حد درجہ کے حس س واقع ہوئے تھے۔ ظ ہر ہے صوفی ہونے کے سب ان کی ش عری درد ،سوز اور انس نی بھالئی کے درس کے لیے مخصوص تھی۔ انہوں نے ہمیشہ انس ن کی ظ ر مندی کے حوالہ سے گ تگو کی۔ وہ ہیر وارث اور سیف الم وک خوش الح نی سے پڑھتے تھے۔ اپنی ش عری بھی لے سے سن ی کرتے تھے۔ میری بڑی بہن جو پڑھی لکھی ہونے کے ب وجود ج ہل مط ہے ،کی ج ہل محبت کے س تھ ان کی ش عری گمن می کی اتھ ہ گہرائیوں میں مدغ ہوگئی ہے۔ وہ اب جی کی آواز میں بھری کیسٹوں کو ان کی
11
نش نی سمجھ کر سینے لگ ئے بیٹھی ہے۔ ا وہ کیسٹیں ج ہو گئی ہیں۔ بڑے بھ ئی ص ح کو اپنی عورتوں سے فرصت نہیں م ی۔ رہ میں جو پرچیوں اورپرزوں کو سنبھ لے بیٹھ ہوں ۔ ان کے تین پنج بی قصے جو ان کی زندگی میں ش ئع ہوئے تھے سینے سے لگ ئے بیٹھ ہوں ۔ ان پر ک کرنے ک ارادہ رکھت ہوں ۔ اب جی کو ش عری ک شو ورثے میں مال تھ ۔ ان کے والد ع ی احمد حسنی اچھے ش عر اور الجوا ع ل دین تھے۔ میں جو یہ الٹے سیدھے ل ظ گھسیڑ رہ ہوں ان کی محبت اور ش قت ک انمول عطیہ ہیں ۔ ان کے مشورے میرے لےے ہمیشہ خضر راہ رہے۔ ء عید ک دن تھ مگر لوگوں کے لیے ،میرے لیے یہ اگست یتیمی کی خزاں لے کر ط وع ہوا۔ فرشتہءاجل نے میرے سر سے چھت الٹ دی اور دامن امید میں بے بسی کے چھید کر دےے۔اتنے مخ ص ،ہمدرد اور محبت کرنے والے کو مجبور و بے بس کرنے سے پہ ے موت کو موت کیوں نہ آگئی۔ ہو سکت ہے ویدی کے ویدان کے ہ تھوں وہ بھی مجبو ر ہو ،ورنہ اتنے خوبصورت ،کومل اور خوش بو سے لبریز پھولوں کو کون مس ت ہے۔ ڈاکٹر عالمہ وف راشدی کو ہی دیکھ لیں ۔ ایسے لوگ ک مرنے کے لیے ہوتے ہیں ۔ انہیں تو می ی آنکھ دیکھنے سے بھی پ پ لگت ہے۔ میں سمجھت ہوں موت کو میرا پی ر کبھی راس آی ۔ وہ مجھ سے ج تی ہے ،کی ہو ج ت جو وہ دس بیس س ل اور جی لیے ہوتے۔ش ید میری محبت کی انہیں سزا م ی ورنہ وہ مرنے والے ک تھے ورنہ اگر وہ
12
کچھ اور جی لےے ہوتے تو ج نے ع و اد کی چ در پر اور کتنے خوبصورت پھول گ ڑھ لیتے۔ اگرچہ ان ک ک پہ ے ہی بہت ہے۔ ان کے ب ض ک تو فرد واحد کے بس ک روگ نہیں ۔ بالشبہ وہ اپنی ذات میں ادبی جن تھے۔ اوروں کی طرح وہ ک ظرف اور بخیل نہیں تھے۔ دوسروں کے ادبی ک موں کی دل کھول کر داد دے کر ان کی حوص ہ افزائی کرتے۔ ہر اچھے ادبی ک پر خوش ہوتے۔ اتنی پذیرائی کرتے کہ مخ ط مزید خوبصورتیوں کی تالش میں نکل کھڑا ہوت ۔ میرے س تھ بھی ان ک شروع سے ایس ہی رویہ اور انداز رہ ۔ عجی انہونی دیکھیے ڈاکٹر عالمہ بیدل حیدری بھی مر گئے۔ انص ف کیجیے انہیں مرن چ ہئے تھ ؟ ایسے لوگوں کی روح قبض کرتے م ک الموت ک ک یجہ منہ کو کیوں نہ آی ۔ اس کے ظ ل اور بے رح ہ تھ لرز لرز کیوں نہ گئے۔ وہ عصر موجود کے م مولی ش عر نہ تھے۔ ١٨٦٩ء کے ب د ایس بڑا ش عر دیکھنے کو نہیں م ت ۔ ان کے در پر بڑی بڑی پگڑی ں سجدہ ریز نظر آتی ہیں ۔ کسی کے کال کے ب رے میں ان کے ق سے نکال ہر ل ظ پی ایچ ڈی کی ڈگری سے کہیں بڑھ کر تھ ۔ وہ میرے دل اور دم کی دنی کے چہکتے ب بل تھے۔ ان کے خوبصورت ل ظوں نے مجھے ہمیشہ شکتی دان کی۔ ان ک ہون میری توان ئیوں کے لیے سربکس ٹی ک درجہ رکھت تھ ۔ وہ ج تک زندہ رہے ،میری روح میں گالبوں کی مہک بھرتے رہے۔ کی کہوں ،مجھ سے کی ہوا کہ وہ میرا س تھ نبھ نہ سکے۔ سوچت ہوں ا ل ظوں کی لوری ں کہ ں سے سنوں گ ۔ ڈاکٹر سید م ین الرحمن سے تو مجھے قط ً توقع نہ تھی کہ مجھے الچ ر و بے بس چھوڑکر م ک عد کی راہ لیں گے۔ وہ تو محبتیں
13
نبھ ن ج نتے تھے۔ ان کی موت ک غ مجھے دیمک کی طرح چ ٹ رہ ہے۔ میں کوشش کے ب وجود خود کو سنبھ ال نہیں دے پ ر ہ ۔ ان کے بغیر کیسے جیوں ،کی کروں ۔ ان کی جگہ میں کیوں نہیں مر گی ۔ اتنے بڑے آدمی ک مرن اد کی دنی میں عصر جدید کے بھونچ ل سے ک نہیں ۔ ان گنت لوگ یتی ہو گئے ہیں ۔ان ک ادبی کھ تہ کئی میدانوں میں کھال نظر آت ہے لیکن غ ل کے حوالہ سے وہ اپن جوا نہیں رکھتے تھے۔ سوچت ہوں ان کی روح میرے نہ رکنے والے آنسوئوں کو کیسے گوارا کرتی ہوگی۔ میری تنہ ئی کو وہ کس طرح برداشت کرتے ہوں گے۔ میں رون نہیں چ ہت ۔ ج نت ہوں مرد روی نہیں کرتے لیکن آنکھیں میرے بس میں نہیں ہیں ۔ دل میری بے چ رگی اور بے بسی کی استدع ئیں ک سنت ہے۔ میں اپنے بہت ہی پی رے دوست اور بھ ئی ڈاکٹر ص بر آف قی کے ب رے کوئی خبر نہ پ کر پریش ن تھ ۔ سوچت تھ قسمت مجھ پر کبھی مہرب ن نہیں ہوئی۔ ا بہت ہی ک لوگ میری گرہ میں رہ گئے ہیں ۔ ب لکل کنگ ل اور م س ہو گی ہوں ۔ ج نے اس ب ر قسمت کو کیسے رح آگی ۔ پرسوں ان ک فون آی کہ بچ گی ہوں ۔ کہہ رہے تھے کہ بکرے کی م ں ک تک خیر من ئے گی۔ سوچت ہوں میں اتن بدقسمت نہیں ہوں جتن کہ خود کو سمجھ رہ تھ چ و کچھ تو بچ رہ ہے۔ ہللا کرے میرا یہ بچ کھچ اث ثہ میری س نسوں تک مح وظ رہے۔ مقصود حسنی شیر رب نی ک لونی ،قصور
14
یک نومبر٥،
ء
بزرگوں سے رشتہ اد آدا ک متق ضی رہت ہے۔ ان سے کھل ج نے کے ب وجود ہ عمروں کی سی ب ت نہیں ہوتی ۔ ان سے نبھ بھی مشکل ہوت ہے کیونکہ سنجیدگی اور رکھ رکھ ئو بھی خت نہیں ہو پ ت ۔ زم نی ب د بھی بہر صورت ب قی رہت ہے۔ وہ اپنے عہد کی ب تیں کرتے ہیں جبکہ ان ک عہد م ضی کی لحد میں اتر گی ہوت ہے۔ نی عہد اپنے تق ضوں کے س تھ گزر رہ ہوت ہے۔ ان حق ئ کے ب وجود بزرگوں سے دوستی من فع بخش ہوتی ہے۔ ان ک تجربہ بال تردد ہ تھ لگت ہے۔ زندگی کے بہت سے اطوار اور س یقے میسر آتے ہیں ۔ آدمی وقت سے پہ ے بہت کچھ ج ن لیت ہے جس کے لیے وقت درک ر ہوت ہے ۔ ان کی ک می بیوں کے گردستی ہوتے ہیں اسی طرح ان کی خ میوں سے آگہی میسر آتی ہے۔ یہ آگہی آتے وقتوں میں ک آتی ہے۔ کت بوں کی بھ ش لگی لپٹی سمیٹے ہوتی ہے۔ کت بوں میں وہ کچھ نہیں ہوت جو انہوں نے اپنی آنکھوں سے مالحظہ کی ہوت ہے۔ اسی طرح سن نے واال بھی کہیں نہ کہیں ،ڈنڈی ضرور م رت ہے اور یک طرفہ ہی کہت ہے ۔ بزرگ دوست لگی لپٹی کو ایک طرف رکھ دیت ہے اور جو اور جیس ہی پیش کرت ہے۔ اسی طرح اص ی صورتح ل سے آگہی میسر آتی ہے۔ میری خوش قسمتی رہی ہے کہ مجھے بزرگ دوست میسر آتے رہے ہیں ۔ سچی ب ت تو یہ ہے کہ ان سے میں نے بہت کچھ سیکھ ہے۔ یہی نہیں بے لوث ت ون بھی دستی ہوا ہے۔ ان کی پذیرائی ک یہ کم ل ہے کہ کچھ ن کچھ لکھنے کے ق بل ہوا ہوں ۔ کچھ دوستوں ک کہن ہے کہ میں اچھ لکھ لیت ہوں ۔ سچی ب ت تو یہ ہے کہ میں اچھ
15
لکھن تو دور کی ب ت ایک سطر بھی نہ لکھ پ ت ۔ یہ س میرے بزرگ دوستوں کی محبت اور ش قت ک نتیجہ ہے۔ مجھے بڑی اچھی طر ح ی د ہے کہ میرے گرامی والد ص ح مجھے س تھ س تھ لیے پھرتے تھے۔ بیٹھک میں کوئی آج ت تو بھی مجھے س تھ رکھتے ح النکہ بچوں کو عموم ً چ ت کی ج ت ہے۔ میں ان ک س سے چھوٹ بیٹ تھ ۔ ش ید اسی لیے وہ مجھ سے اتن پی ر کرتے تھے۔ ہو سکت ہے ریٹ ئرمنٹ کی تنہ ئی نے انہیں بچے سے دوستی پر مجبور کر دی تھ ۔ بہر طور جو بھی سہی ،میں نے بہت کچھ سیکھ ۔ بہت سے بزرگ دوستوں سے میری کبھی مالق ت نہیں ہوئی۔ میری تحریر کے حوالہ سے انہوں نے مجھے بھی بوڑھ خی ل کرلی ہو او ر ان ک اس و و رویہ ہ عمر س تھیوں ک س رہ ۔ تحریر کی اچھی ہون ہے وہ س بڑے ب کہ بہت بڑے لوگ تھے اسی لیے ہر بڑی سے بڑی ب ت کی توقع کی ج سکتی ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کسی قس کی ع ر محسوس نہیں ہو رہی کہ میں نے جو کچھ بھی لکھ ہے ان کی محبتوں ک ثمر ہے۔ بزرگوں سے دوستی ک من ی پہ و یہ ہے کہ وہ چھوڑ کر چ ے ج تے ہیں۔ان کے ج نے ک جو دکھ ہوت ہے میں وہ بی ن کرنے سے ق صر و ع جز ہوں ۔ ہر لمحہ ان کی یاد ست تی ہے۔ میں سوچ رہ تھ کہ ڈاکٹرری ض انج جو میرے بیٹے ک کالس فی و ہے اتن پختہ ک ر کیوں ہو گی ہے اس کی عمر کے بچے تو موب ئل ایس ای ایس کی زندگی گزارتے ہیں اور یہ تحقی ایسے دقی ک میں مشغول ہے۔ ج میں نے اس کے دوستوں کی لسٹ دیکھی تو کھال کہ اسے بزرگ دوست میسر آئے ہیں وہ اس کے ب پ کی عمر کے لوگ ہیں ۔ یہی نہیں بال
16
کے الئ اور تجربہ ک ر ہیں ۔ یہ بھی عمر میں ب بوں کی فکر رکھت ہے۔ میں پورے یقین کے س تھ کہت ہوں کہ یہ میری عمر تک آتے آتے میدان تحقی کی بہت بڑی بالہوگ ۔ میں دیکھ رہ ہوں کہ آتے س لوں میں تحقی سے مت لوگوں ک اس کے پ س ہجو ہوگ ۔ آج ج بڑھ پ اپنی جوانی کی سرحدوں کو چھوڑ کر بڑی تیز رفت ری سے موت کی طرف بڑھ رہ ہے۔ م یوسی نہیں ،بے چ رگی کے ع ل میں اپن دامن دیکھت ہوں تو لحد میں اترت بڑھ پ مسکرا دیت ہے۔ ابھی کچھ پھول ب قی ہیں ۔ میں تہی دامن نہیں ہوا۔ میرے دامن کے پھولوں میں خوش بو ب قی ہے اور وہ اپنی خوشبو بڑی ذمہ داری سے زندگی کے حوالے کر رہے ہیں ۔ ان کی مہک میں رائی بھر کمی نہیں آئی۔ موت ان ک کچھ نہیں بگ ڑ سکتی۔ میں بھول رہ تھ کہ بیدل حیدری ،سید م ین الرحمن ،وف راشدی ،فرم ن فتح پوری ،سید غال حضور اور کئی ان سے حسین چہرے منوں مٹی ت ے ج چھپے۔ مریں ان کے دشمن ،وہ مر نہیں سکتے۔ موت ان ک کچھ نہیں بگ ڑ سکتی۔ انہیں گ شن اردو میں ل ظوں کے لب س میں زندہ رہن ہے۔ ان کے ق سے ل ظوں کو ک یوں ک تمث لی وجود مل چک ہے۔ ہ ں ڈاکٹر تبس ک شمیری ،ڈاکٹر محمد امین ،ڈاکٹر مظ ر عب س ،ڈاکٹر س دت س ید ،ڈاکٹر نجی جم ل ،ڈاکٹر اختر شم ر ،ڈاکٹر غال شبیر ران ،ڈاکٹر عبدال زیز س حر ،ڈاکٹر ق ضی محمد عبدہللا وغیرہ سے میری ج بھی موب ئل فون پر ب ت ہوتی ہے تو زندگی کو اپنے بہت قری پ ت ہوں ۔ مجھے اپنے ہونے ک یقین ہونے لگت ہے۔کون کہت ہے اردو اد زوال ک شک ر ہو چک ہے ی تحقی و تنقید ک میدان اردو کے انڈر ٹیکروں سے خ لی ہو رہ ہے۔ ج تک یہ لوگ زندہ ہیں اردو
17
اد پر بہ روں کے موس مہرب ن رہیں گے۔ ان ص حب ن ع و دانش ک کم ل ہے کہ انہوں نے اچھی خ صی نئی کھیپ پیدا کر دی ہے جو اردو اد کو حسن و خوبی سے سرفراز کرے گی۔اس طرح اردو زب ن و اد ک دامن خوش رنگ پھولوں سے بھرا رہے گ ،ان ش ئ ہللا۔ ڈاکٹر ری ض انج جوان ہے لیکن اس کے ہررنگ اور ہر ترنگ میں بوڑھوں کے ل ظوں کی محبت اور خوش بو م تی ہے ۔اس کی یہی ادا اسے مجھ سے اور مجھے اس سے قری رکھتی ہے۔ ہللا اسے سرفرازیوں سے نوازے اور ہر نظر بد سے مح وظ فرم ئے۔آمین !مکرمی ومحترمی حسنی ص ح :سال مسنون یقین کیجئے کہ میں سوچ رہ تھ کہ عرصہ سے آپ یہ ں نظر نہیں آئے۔ کہیں ایس تو نہیں ہے کہ چونکہ یہ ں لکھنے پڑھنے والے م دودے چند رہ گئے ہیں آپ دل برداشتہ ہو کر انجمن سے کن رہ کش ہو گئے ہیں۔ آپ ک یہ انش ئیہ دیکھ تو دل ب ب ہو گی ۔ ہللا آپ کو طویل عمر اور صحت سے نوازے اور آپ اسی طرح گ شن اردو میں پھولوں کی ب رش کرتے رہیں۔ آپ ک انش ئیہ پڑھ کر دل بھر آی ،کیسے کیسے لوگ ی د آئے ،کیسی کیسی ی دوں نے دل پر کچوکے لگ ئے اور آنکھوں میں کیسے کیسے من ظر گھو گئے۔ دل م ول ہوا اور بہت م ول ہوا۔ لیکن انش ئیہ کے آخر میں جو امید اور خوش آئند مستقبل کی نوید م ی وہ بہت تقویت ک ب عث ہوئی۔ آپ کے ب رے میں جو لوگ کہتے ہیں کہ آپ بہت اچھ لکھتے ہیں وہ ب لکل صحیح کہتے ہیں۔ آپ کے ق میں درد ہے ،کسک
18
ہے ،ع ہے ،م ضی کی گونج ہے ،ح ل ک پی نو ہے اور مستقبل کی نوید نو۔ پھر اور کس چیز کی کمی ہے جو ہ شکوہ کریں ی دل چھوٹ کریں۔ دع ہے کہ آپ اسی طرح لکھتے رہیں۔ اور ش دک رہیں۔ افسوس اس ک ہے کہ آپ کو پڑھنے والے بہت ک ہیں۔ لیکن اس ک عالج کی ہے یہ نہیں م و ۔ خیر کوئی ب ت نہیں۔ پھول کی خوشبو کے لئے ضروری نہیں کہ پھول ہ تھ ہی میں ہو۔ وہ خود ہوا کے دوش پر سوار کونے کونے میں پہنچ ج تی ہے اور س کو ش دک کرتی ہے۔ انش ئیہ ک بہت بہت شکریہ۔ ب قی راوی س چین بولت ہے۔ سرور ع ل راز مکرمی ومحترمی جن
ڈاکٹر حسنی ص ح :سال ع یک
میں ن د ہوں کہ اتنے عرصے آپ کی تخ یق ت سے فیضی نہ ہو سک ۔ انش ہللا کوشش کر کے آپ کو پڑھوں گ ۔ آپ ک یہ مضمون پڑھ کر انتہ ئی مسرت ہوئی اور یہ احس س بھی پیدا ہوا کہ آپ کی تحریر کتنی ع افزا اور دلکش ہوتی ہیں۔ یہ مضمون کہنے کو ایک س دہ اور سیدھے س دے موضوع پر لکھ گی ہے لیکن ہ نئی نسل کے لوگوں کے لئے ندرت زب ن و بی ن ،ت زگی اور دلچسپی کے بہت سے پہ و رکھت ہے۔ پڑھ کر دل م ال م ل ہو گی ۔ ا ایسی تحریریں دیکھنے کو نہیں م تی ہیں۔ ہللا سے دع ہے کہ آپ کو طویل عمر اور اچھی صحت
19
عط فرم ئے ت کہ ہ اسی طرح فیضی
ہوتے رہیں۔ آمین۔
خ د :مشیر شمسی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9832.0
ایک قدی اردو ش عر کے کال ک ت رفی و لس نی ج ئزہ مخدومی و مرشدی جنت مک نی قب ہ سید غال حضور کے ع می وادبی
20
ذخیرے سے م نے والی کت ' اظہ ر محمدی منظور احمدی' ک اور کس سن میں ش ئع ہوئی' ٹھیک سے کہ نہیں ج سکت ۔ اس پر ت ریخ اور سن درج نہیں ہے۔ ہ ں پب یشر ک ن .....فقیر فضل حسین ت جر کت ابن ح جی عالؤالدین مرحو س کن پتوکی نوآب د ض ع الہور..... درج ہے۔ پتوکی نوآب د ض ع الہور سے یہ ب ت وضح ہوتی ہے کہ اس چوبیس ص حے کی اش عت' اس وقت ہوئی' ج پتوکی نی نی آب د ہوا تھ ۔ اس میں مولوی احمد ی ر کی پنج بی مثنوی' مرزا ص حب ن ک کچھ حصہ درج ہے۔ گوی یہ ان دنوں کی ب ت ہے' ج وہ زندہ تھے اور مثنوی مرزا ص حب ن تحریر کر رہے تھے۔ یہ کال ص 10تک ہے۔ ص15-14 پر سترہ پنج بی اش ر پر مشتمل ک فی بھی ہے۔ گوی مولوی احمد ی ر پنج بی ک فی بھی کہتے تھے۔ پنج بی میں ان کی صرف مثنوی مرزا ص حب ن پڑھنے کو م تی ہے۔ کت کے بقیہ ص ح ت پر' مولوی غال محمد ک اردو پنج بی اور ف رسی کال ش مل ہے۔ سرور پر موجود م وم ت کے مط ب ' مولوی غال محمد قسم نہ س کن ص ب تحصیل دیپ لپور تھ نہ حجرہ ض ع منٹگمری ح ل س ہی وال کے تھے۔ ص 12-11پر ریختہ کے ن سے کال درج ہے۔ یہ کل نو ش ر ہیں۔ انہوں نے ل ظ ریختہ زب ن کے لیے لکھ ہے ی اردو غزل کے لیے' واضح نہیں۔ پہال پ نچواں اور آخری ش ر غزل کے مزاج کے قری ہے۔ غزل کے ب قی اش ر' مروجہ عمومی مزاج سے لگ نہیں رکھتے۔ ہ ں غزل میں صوفی نہ طور' صوفی ش را کے ہ ں ضرور م ت ہے۔
21
نہ م ت گ رخن سے دل میرا مسرور کیوں ہوت نہ اس نرگس کوں دیکہت رنجور کیوں ہوت نہ پڑت پرہ تو ح ک اگر رخس ر خوب ں پر تو ہر ع ش کی آنکہونمیں حسن منظور کیوں ہوت مقی اس دا زل میں نہ بھنست اگر دل تیرا تو سر گردان ت ریکی شبے رتجور کیوں ہوت ص 13پر ایک خمسہ ہے' جسے مولود شریف ک ن دی گی ہے۔ اس سے پہ ے مولود شریف شیخ س دی ص ح کے چ ر ش ر دیئے گیے ہیں۔ اردو مولود شریف کے ب د' مولود شریف مولوی ج می ص ح کے' نو ش ر درج کیے گیے ہیں۔ آخر میں مولود شریف کے عنوان سے' نو ش ر درج کیے گیے۔ ص 19پر موجود کال کو ک فی ک ن دی گی ہے۔ اس کال کو نہ پنج بی کہ ج سکت اور ن ہی اردو' ت ہ ب ض ش ر اردو کے قری تر ہیں۔ دو ایک ش ر ب طور نمونہ مالحظہ ہوں۔ ک ئی کہو سجن کی ب ت
جن کے پری لگ ئی چ ٹ ذات
پہال ش ر
س یم ن نبی ب قیس نہ ہو
ہک آہی مط
بحر محیط نے جوش کی
ت نوروں ہوی خوش کی
چھٹ ش ر
ک مل پیر پن ہ ہم را
مو کرے دل لوہ س را
چھبسواں ش ر
دو غزلیں ف رسی کی ہیں۔ اوپر عنوان بھی دی گی ہے
پ نچواں ش ر
22
غزل مولوی غال محمد از ص ب اے بن ت تو مزین مسند پیغمبری خ وری
وے خجل گشتہءرویت آفت
مط ع ف رسی غزل ص 12 غزل از غال محمد ص ح ج ں فدائے تو ی رسول ہللا
دل گدائے تو ی رسول ہللا
مط ع ف رسی غزل ص 23 پنج بی کال کے لیے' ل ظ ک فی است م ل ہوا ہے۔ داخ ی شہ دت سے یہ ب ت واضح ہوتی ہے' کہ ل ظ ریختہ اردو غزل کے لیے ہی است م ل ہوا ہے۔ دلی وغیرہ میں جو مش عرے ہوا کرتے تھے' ان کے لیے دو اصطالح ت رواج رکھتی تھیں۔ ف رسی کال کے لیے مش عرے' ج کہ اردو کال کے لیے' ل ظ مراختے رواج رکھت تھ .ل ظ اردو محض شن خت کے لیے لکھ رہ ہوں' یہ ل ظ عمومی رواج نہ رکھت تھ ۔ اس صورت ح ل کے پیش نظر' غ ل کے ہ ں است م ل ہونے واال ل ظ ریختہ' گڑبڑ ک شک ر ہو ج ت ہے۔ مولوی غال محمد پہ ے کے ہیں' عہد غ ل کے ہیں ی ب د کے' ب ت قط ی الگ تر ہے۔ مش عروں میں زی دہ تر غزلیہ کال سن ی ج ت تھ اور آج صورت ح ل مخت ف نہیں۔ گوی غزل کے لیے ل ظ ریختہ' ج کہ مش عرے کے لیے ل ظ مراختہ است م ل ہوت تھ ۔ المح لہ زب ن کے لیے کوئی دوسرا ل ظ است م ل ہوت ہوگ ۔ اس حس سے غ ل کے ہ ں بھی غزل کے م نوں میں اسست م ل ہوا ہے۔ اگر یہ ص ح ' غ ل کے ب د کے ہیں' تو اس ک
23
مط یہ ٹھہرے گ کہ ل ظ اردو ب طور زب ن است م ل ہوت ہو گ لیکن عمومی مہ ورہ نہ بن سک تھ ۔ اس ک عمومی مہ ورہ بنن بہت ب د کی ب ت ہے۔ ل ظوں کو مال کر لکھنے ک ع چ ن تھ ۔ اس کت موجود ہے۔ مثال
میں بھی یہ چ ن
ج نیکی بدی ت ے گی ہمسے کجہ نہیں غ ص 13 تو ہر ع ش کی آنکہونمیں حسن منظور کیوں ہوت 12
ہ سے آنکہون میں ص
دو چشمی حے کی جگہ حے مقصورہ ک رواج تھ ۔ مثال نہوت سر مولے ک اگر کجہ ذات انس نمیں بہت سے ل ظوں ک ت ظ اور مکتوبی صورت آج سے الگ تھی۔ مثال نہوت بھیت اسمیں خورشید فدا ک بھیت
بھید ص 11
ولیوں کے ک ندہے قد غوث اعظ ک ندہے
کندھے ص 24
تو سر گردان ت ریکی شبے رتجور کیوں ہوت میں اض فت کی بج ئے ے ک است م ل کی گی ہے۔ ش عر نے خو
صورت مرکب ت سے بھی کال کو ج ز فکر بن نے
24
کی س ی کی ہے۔ مثال حسن منظور تو ہر ع ش کی آنکونمیں حسن منظور کیوں ہوت
ص 12
ست رہ محمدی غ ل س سے آی ست رہ محمدی ص13 مست مل س
پہ ہے لیکن س سے است م ل کی گی ہے۔
مرک ل ظ دیکھیے خداگر عمر گر عدالت خداگر نہ کرتے ص 24 کال میں ریشمیت ک عنصر بھی پ ی ج ت ہے۔ مثال نہ پڑت پرتوہ ح اگر رخس ر خوب ں پر تو ہرع ش کی آنکہونمیں حسن منظور کیوں ہوت
ص 12
کی زبردست طور سے صن ت تض د ک است م ل ہوا ہے۔ تو دین اورک ر میں جدائی نہ ہوتی ص 24 صن ت تض د کی مخت ف نوعیت کی دو ایک مث لیں اور مالحظہ ہوں۔ نہ م ت گ رخن سے دل میرا مسرور کیوں ہوت نہ اس نرگس کوں دیکہت رنجور کیوں ہوت ص 12
25
جہ ں صن ت تض د ک است م ل ہوا ہے' وہ ں اردو زب ن کو دو خو صورت است رے بھی میسر آئے ہیں.اگر مخت ر ہو آد آپن کے خیر وشر اوپر تو دانہ کھ کے گند ک جنت سے دور کیوں ہوت ص 12 اش ر ت میح ت سے مت ہوتے ہی۔ ت میح ت ک است م ل اسی حوالہ سے ہوا ہے۔ اس ذیل میں دو ایک مث لیں مالحظہ ہوں۔ اگر مخت ر ہو آد آپن کے خیر وشر اوپر تو دانہ کھ کے گند ک جنت سے دور کیوں ہوت ص 12 لکھی تہی لوح پر ل نت پڑھی تھی س فرشتوں نے اگر یوں ج نت شیط ں تو وہ مغرور کیوں ہوت
ص11
اس ک مط یہ بھی نہیں کہ دو چشمی حے ک است م ل ہی نہیں ہوت تھ ۔ دو ایک مث لیں مالحظہ ہوں۔ لکھی تہی لوح پر ل نت پڑھی تھی س فرشتوں نے ص 11 بھیت سجن کی خبر لی وے ص 19 تو ہ ع جزوں کی رھ ئی نہوتی ص 24 زب ن ک مہ ورہ بھی برا اور ن موس نہیں۔ مثال کی دعوئے ان الح
ک ہوی سردار کیوں ہوت
ک ئی کہو سجن کی ب ت
ص11
26
جن کے پری لگ ئی چ ٹ
ص19
گذر گی سر توں پ نی ص20 اس ش ری مجموعے کے اردو کال پر' پنج بی کے اثراات واضح طور پر محسوس ہوتے ہیں۔ ب ض جگہ لس نی اور کہیں لہجہ پنج بی ہو ج ت ہے۔ مثال نہ ہوت بھیت اسمیں اگر خوشید ذرہ ک ص 11 تو ہر ذرہ انہ ں خورشید سے پرنور کیوں ہوت ص12 ہک لکھ کئی ہزار پیغمبر گذر گئے ا لہجے سے مت ج
ص 13
ایک دو مثث لیں مالحظ ہوں۔
نیکی بدی ت ے گی ہمسے کجھ نہیں غ
ص 13
ع ی کو جے مشکل کش ح نہ کرتے ص 24 اردو پر ہی موقوف نہیں' پنج بی بھی اردو سے مت ثر نظر آتی ہے۔ مصرعے کے مصرعے اردو کے ہیں۔ کہیں میراں ش ہ جیالنی ہے
کہیں قط فرید حق نی ہے
کہیں بہ ؤالدین م ت نی ہے
کہیں پیر پن ہ لوہ ر ص 19
اس چوبیس ص حے کی مختصر سی کت سے' یہ ب ت واضح ہوتی ہے' کہ مولوی غال محمد آف ص ب تین زب نوں کے ش عر تھے. مخت ف اردو اصن ف میں ش ر کہتے تھے اور اچھ کہتے تھے۔ ان ک کال کی ہوا اور کدھر گی ' کھوج کرنے کی ضرورت ہے۔
27
مثنوی م سٹر نرائن داس' ایک ادبی ج ئزہ
28
دوسری زب نوں کی طرح اردو' وہ جس رس الغط میں بھی رہی' مخت ف حوالوں سے' اس کے س تھ دھرو ہوت آی ہے۔ مثال جنگجوں نے' اسے دشمن ک ذخیرہءع سمجھتے ہوئے' برب د کر دی ' ح الں کہ ل ظ کسی قو ی عالقہ کی م کیت نہیں ہوتے۔ اردو کو مسم نوں کی زب ن سمجھتے ہوئے' غیر مس موں کی تحریوں کو نظر انداز کر دی گی ۔ ج کہ اصل حقیقت تو یہ ہے' کہ زب ن تو اسی کی ہے' جو اسے است م ل میں الت ہے۔ گھر والوں نے' چھنیوں' کولیوں اور لکڑیوں کو ترجیح میں رکھتے ہوئے' ع می وادبی سرم یہ ردی میں بیچ کر' دا کھرے کر لیے۔ بہت کچھ' ح الت' ح دث ت اور عد توجہگی کی نذر ہو گی ۔ قددرتی آف ت بھی' اپنے حصہ ک کردار ادا کرتی آئی ہیں۔ تہذیبں مٹ گئیں' وہ ں محض کھنڈر اور ٹی ے رہ گیے۔ بہت کچھ ان میں بھی د گی ۔ ب د کے آنے والوں نے' انہیں ب ڈوز کرکے ص ف زمین کے ٹکڑے کو' س کچھ سمجہ لی ۔ اگر محت ط روی اختی ر کی ج تی تو وہ ں سے' بہت کچھ دستی ہو سکت تھ ۔ م سٹر نرائن داس' اردو کے خوش فکر اور خوش زب ن' ش عر اور نث ر تھے۔ سردست ان کی ایک ک وش فکر فوٹو ک پی کی صورت میں' دستی ہوئی ہے' جو پیش خمت ہے۔ اس سے پہ ے سوامی را تیرتھ ک کال پیش کر چک ہوں۔ م سٹر نرائن داس' جو قصور کے رہنے والے تھے اور فرید کوٹ کے مڈل سکول میں' ب طور ہیڈ م سٹر فرائض انج دے رہے تھے'
29
اٹھ ئیس بندوں پر مشتمل مسدس ب عنوان۔۔۔۔۔جوہر صداقت۔۔۔۔۔ تحریر کی ۔ یہ 1899میں باللی پریس س ڈھورہ ض ع انب لہ میں کری بخش و محمد بالل کے اہتم طبع ہوا۔ گوی یہ آج سے' 116س ل پہ ے ش ئع ہوا۔ اس مسدس کی زب ن آج سے' رائی بھر مخت ف نہیں۔ خدا لگتی یہ ہے' اسے پڑھنے کے ب د اندازہ ہوا' کہ م سٹر نرائن داس کو زب ن پر ک مل دسترس تھی۔ زب ن وبی ن میں فطری روانی موجود ہے۔ اپن نقطہء نظر' انہوں نے پوری دی نت' خ وص اور ذمہ داری سے پیش کی ہے۔ انہوں نے اپنی پیش کش کے لیے' دس طور اختی ر کیے ہیں۔ مزے کی ب ت یہ کہیں مذہبی ی نظری تی پرچھ ئیں تک نہیں م تی۔ حیرت کی ب ت تو یہ ہے' فقط آٹھ ئیس بندوں میں زب ن بی ن کے دس اطوار اختی ر کیے۔ بالشبہ م سٹر نرائن داس بڑے سچے کھرے اور ب اصول انس ن رہے ہوں گے۔ انہوں نے سچ ئی کو مذہ پر فضی ت دی ہے۔ ان کے مط ب خدا سچ ئی سے ال ت رکھت ہے۔ کہتے ہیں۔ سچ ئی کے عقیدے کو مذہ پر فضی ت ہے خدا کو بندگ ن راستی سے خ ص ال ت ہے صداقت اپنی حیثیت میں ہے کی ۔ سچ ئی رحمت ازلی و ابدی ک خزینہ ہے صد اوج س دت ک عظی الش ن زینہ ہے اس ک فنکشن کی ہے۔
30
ذرا چھونے سے ادنے چیز کو اع ے بن تی ہے وہ قیمت بیشتر اکسیر اعظ سے بھی پ تی ہے صداقت اور کذ ک موازنہ م مع محض سمجھو جھوٹ کو آگے سچ ئی کے نکم محض سمجھو جھوٹ کو آگے سچ ئی کے صداقت کے فوائد سچ ئی ہر دوع ل میں ہے دیتی رتبہ اع ے سچ ئی کرتی ہے ہر دو جہ ں میں مرتبہ اع ے سچ ئی کے ضمن میں دالئل حکومت بھرتری نے چھوڑ دی خ طر سچ ئی کی .......... تی گی ہو گی س کی منی خ طر سچ ئی کی ............. سچ ئی کو بن ی راہنم پہالد نے اپن ........... پکڑ کر ہ تھ سے اپنے پئے خ طر سچ ئی کی پی لے زہر کے سقراط نے خ طر سچ ئی کی
31
........... مسیح بھی ہوئے ص و تھے خ طر سچ ئی کی ............. ہزاروں سر ہوئے تن سے جدا خ طر سچ ئی کی ............. کئی بچھڑے پی رے وطن سے خ طر سچ ئی کی ............. پڑے ش وں میں ج تی آگ کے خ طر سچ ئی کی سچ ئی فقرا ک مس ک ہوتی ہے۔ سچ ئی ہی قدر قیمت فقیروں کی بڑھ تی ہے سچ ئی م رفت کے راستے انکو بت تی ہے سچ ئی کردگ ر پ ک کی قربت دالتی ہے یہی آخر انہیں درگ ہ ایزد میں پہنچ تی ہے کذ ک انج کی ہوت ہے۔ کذ د میں گنوات ہے شہنش ہونکی عزت کو تب ہ کرت ہے انکی ش ن کو شوکت کو ہیبت کو اسی سے ڈر ہے وق ت کو خطر اس سے دولت کو
32
گرات سرنگوں ہے غرض ان کے ع ل رف ت کو ہزل پیشوں کو ہللا خ ک میں آخر مالت ہے مگر سچوں ک ح فظ اور مودی اور دات ہے حک ئتی انداز بھی اختی ر کی گی ہے۔ گڈریے کی حک یت بھی نصیحت خو دیتی ہے کہ جسکی شیر کے پنجے سے پی ری ج ن نک تی ہے کذ کے ہ تھ سے اسپر مصیبت آن پڑتی ہے سزا جھوٹوں کو اپنے جھوٹ کی ایسے ہی م تی ہے اہل ہند کے ب رے چینیوں اور رومیوں کی آراء صداقت اہل ہندوست ں کے یون نی ثن خواں تھے چ ن کے اہل ہندوست ں کے چینی ثن خواں تھے موجودہ صورت ح ل صداقت ہو گئی ہے دور ہندوست ں کے لوگوں سے ہوئی ہے راستی ک فور ہندوست ں کے لوگوں سے سچ ئی کے رستے پر چ نے والوں کی تحسین اور مب رکب د مب رک ہو خوشی اے راستی کے چ ہنے والو مب رک مخروقی اے راستی کے چ ہنے والو
33
مب رک برتری اے راستی کے چ ہنے والو مب رک خوش روی اے راستی کے چ ہنے والو مب رک آپ کو مژدہ یہ خوشخبری مب رک ہو مب رک آپ کو یہ مہر رب نی مب رک ہو ان کی مذہبی عصبت سے دوری ک س سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے ذات ب ری کے لیے کردگ ر' ایزد' ہللا'ر ' خدا ن است م ل کیے ہیں۔ م سٹر ص ح کے پ س متب دالت ک خزانہ موجود ہونے ک گم ن گزرت ہے۔ سچ ئی سے خدا ت لے کی رحمت کی ترقی ہے ........ خدا کو بندگ ن راستی سے خ ص ال ت ہے ........ صد کو ی زرہ سمجھو کہ یہ اک زی تن کی ہے ........ نہ ہرگز س نچ کو ہے آنچ اس نے آزم دیکھ ........ صداقت کی مدد ان کو سچ ئی کے سہ رے ہیں
34
ا کچھ مرکب ت مالحظہ ہوں۔ وہ ف ک راستی کے چمکتے گوی ست رے ہیں ........ مب رک گ ست ن راستی کے ٹہ نے والو مب رک زیور صد و صداقت پہننے والو ......... ستون سرخ آہن سے خوشی سے دوڑ کر لپٹ ......... شہیدان صداقت نے دی خ طر سچ ئی کی ......... فتح کےلوک میں پرلوک میں ڈنکے بج تے ہیں ........ کی خو مصرع ہیں۔ فص حت و بالغت ک منہ بولت ثبوت ہیں۔ اس ن صح نہ انداز میں ت خی ضرور ہے' لیکن فکری و لس نی حوالہ سے' ان مصرعوں کو نظرانداز کرن ' زی دتی ہو گی۔ بےشک ان مصرعوں میں' انہوں نے آف قی سچ ئی بی ن کی ہے۔ ہوا کرت ہے جھوٹوں پر سدا قہر خدا ن زل
35
کبھی درگ ہ سچی میں نہیں ک ز ہوئے داخل .......... ہزل پیشوں کو ہللا خ ک میں آخر مالت ہے ......... مب رک آپ کو یہ مہر رب نی مب رک ہو م سٹر ص ح کی زب ن ک مہ ورہ بھی ن ست سے گرا ہوانہیں۔ دو ایک مث لیں مالحظہ ہوں کذ کے ہ تھ سے اسپر مصیبت آن پڑتی ہے ........... ک ہ ڑی ہ تھ سے اپنے وہ خود پ ؤں پہ دھرتے ہیں ........... سچ ئی ک نصیبے والے ہی دامن پکڑتے ہیں ............ اسی سے ن رہت ہے جہ ں میں ی د سچوں ک .......... ہوئی ہے راستی ک فور ہندوست ں کے لوگوں سے مثنوی ک پہال ش ر ہی تشبیہ پر استوار ہے۔ مالحظہ ہو سچ ئی مثل کندن چمکتی ہے دندن تی ہے
36
وہ ج وہ نور کوہ نور سے بڑھ کر دکھ تی ہے صن ت تکرار ل ظی ک است م ل بھی ہوا ہے۔ ہ ں البتہ' دندن تی کی جگہ' کوئی اور ل ظ رکھ دیتے' تو زی دہ اچھ ہوت ۔ ایک اور خو صورت سی تشبیہ مالحظہ ہو۔ مگر ہے جھوٹ مثل ک نچ اس نے آزم دیکھ ا صن ت تض د کی کچھ مث لیں مالحظہ فرم لیں۔ شروع میں ہے خوشی اسکے خوشی ہی انتہ اسک انتہ کو مونث ب ندھ گی ہے اور یہ غ ط نہیں۔ ....... سچ ئی راحت ازلی و ابدی ک خزینہ ہے ....... زب ن پ ک کو اے دل نہ آلودہ کذ سے کر م سٹر نرائن داس نے' اپنے عہد کی سچ ئی کے حوالہ سے' ہندوست ن کی ح لت کو' ریک رڈ میں دے دی ہے۔ کہتے ہیں بن ی جھوٹ کو ابتو ہے ہمنے راہنم اپن سچ ئی الودع! ہے آجکل کذ وری اپن دھر ب قی رہ اپن نہ دل ق ئ رہ اپن
37
نہ ی رو جھوٹ کے ہ تھوں سے ایم ں ہی بچ اپن صداقت ہو گئی ہے دور ہندوست ں کے لوگوں سے ہوئی ہے راستی ک فور ہندوست ں کے لوگوں سے مثنوی ک آخری ش ر جس میں تخ ص است م ل ہوا ہے' پیش خدمت ہے یہ ع صی اے سچ ئی تیرے ہی گھر ک سوالی ہے ترا ہی داس اور تیرے ہی گھر ک سوالی ہے کہ ج ت ہے' انس ن نے ترقی کر لی ہے۔ خ ک ترقی کی ہے' جہ ں ع دو نمبر کی چیز ہو اور اہل ق کی موت کے ب د' ان کے پچھ ے' ان کے لہو پ روں کو' ردی میں بیچ دیں ی ط قت کے نشہ میں چور حکمرانوں کے پیشہ ور بےرح جنگجو' اس انس نی ورثے کو' نیست ون بود کر دیں .وہ ں ہوس اللچ اور ن س ن سی کے سوا کی ہو سکت ہے۔ اگر ہوس' اللچ اور ن س ن سی ترقی ہے' تو وہ بہت زی دہ ہوئی ہے۔ م سٹر ص ح نے اور بھی بہت کچھ' ش ر و نثر میں لکھ ہو گ ' کچھ کہہ نہیں سکتے۔ تقسی ہند ک عمل تقریب نصف صدی ب د ک ہے۔۔ اس لیے' وہ تقسی میں ض ئع نہیں ہوا ہو گ ۔ آج ج م ت' تحیقی ڈگری چھ پنے میں مصروف ہیں' اگر وہ خ موش اردو کے خدمت گ روں کو' تالشنے کو بھی' تحقی سمجھیں' تو یہ اردو زب ن کی بہت بڑی خدمت ہوگی
محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ۔۔ السال ع یک
38
آج موج غزل سے نکل کر موج بی ن ک رخ کی تو اس نتیجہ پر پہنچ کہ اس س ئٹ میں موجود موج بی ن ک حصہ آپ کے د سے ق ئ ہے کیونکہ میں نے پچ نوے فیصد سے زائد تح ریر آپ کی یہ ں آپکی لگی ہوئ دیکھی ۔۔ ہللا پ ک آپکو اور آپکے اس ذو و شو اور فن کو سالمت رکھے اور وس ت و ترقی عط فرم ئے ۔ میں محتر سرور راز ص ح سے مت ہوں کہ یہ ں صنف ش عری کی نسبت احب کی توجہ نثر کی طرف بہت ک ہے جو احب نثری تخ یق ت لکھ سکتے ہیں ان کو ضرور اس ج ن بھی توجہ کرنی چ ہئے ۔۔ آپ نے بہت اہ مسئ ہ کی طرف توجہ دالئی ہے آپکی سوچ اور فکر بج ہے کہ ادبی ورثہ کو مح وظ رکھنے کے لئے بھی ک ہون چ ہئے ۔۔ ہللا پ ک آپکو ش دا رکھے اور آپکی تم تر نیک و ج ئز تمن ؤں کو پورا فرم ئے ۔۔ والسال محمد یوسف http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9892.0
آش پربھ ت' مسک تے' س گتے اور ب کتے احس س ت کی ش عر
39
عزیزہ آش پربھ ت نے اپن مجموعہءکال ۔۔۔۔۔ مرموز۔۔۔۔۔۔ ان ال ظ کے س تھ عط کی ۔ صف اول کے ف ل ادی ' نق د اور دانشور محتر بھ ئی ص ح کو احترا کے س تھ آش پربھ ت اگست 8 1996 میں نے کچھ لکھ بھی تھ اور وہ کہیں ش ئع بھی ہوا تھ ۔ ب وجود کوشش کے' وہ لکھ دستی نہیں ہو پ رہ ۔ کال آج انیس س ل ب د' دوب رہ پڑھنے میں آی ہے' میں بڑی سنجیدگی اور دی نت داری سے' محسوس کر رہ ہوں' اس پر لکھ ج ن چ ہیے۔ مرموز 1996میں' پب شرز اینڈ ایڈورٹ ئزرز جے 6کرشن نگر دلی سے' ش ئع ہوا۔ ٹ ئیٹل بیک پر' آش پربھ ت کی تصویر ت رف اور ان کے کال پر اظہ ر خی ل بھی' کی گی ہے۔ انہوں نے' اپنے کسی خط بت ی ہو گ ۔ ا اس خط ک م ن ' آس ن میں' لکھنے والے کے مت نہیں۔ اس تحریر کے مط ب ' آش پربھ ت کی والدت رکسول' بہ ر میں ہوئی۔ ان ک ن ول۔۔۔۔۔ دھند میں اگ پیڑ۔۔۔۔۔ م ہ ن مہ منشور کراچی میں ش ئع ہوا' جو ب د میں' کت بی شکل میں بھی ش ئع ہوا تھ ۔ انہوں نے' مہرب نی فرم تے ہوئے' ایک نسخہ مجھ ن چیز ف نی کو بھی' عن یت کی تھ ۔ ان ک ایک مجموعہء ش ر ۔۔۔۔۔۔ دریچے۔۔۔۔۔۔۔۔ اس زب ن کے' دیون گری خط میں بھی ش ئع ہوا تھ ۔ ان ک ایک ہ ئیکو پر مشتمل مجموعہ۔۔۔۔۔گردا ۔۔۔۔۔۔ زیر اش عت تھ ۔
40
ان کی ش عری سے مت
کہ گی ہے۔
اس و اور ہیئت کے اعتب ر سے ان کی نظمیں ش ری اد کے سرم ئے میں ایک نئے ب ک اض فہ کرتی ہیں۔ اس مجموعے میں' کل اکسٹھ ش ر پ رے ش مل ہیں' جن میں سولہ غزلیں اور پ نچ اوپر چ لیس نظمیں ش مل ہیں۔ آش بنی دی اور پیدائشی طور پر' دیون گری رس الخط سے مت ہیں' لیکن اردو رس الخط سے' ان کی محبت عش کی سطع پر نظر آتی ہے۔ ان ک کہن ہے۔ اردو میری محبو ہے اور میری محبو کی آنکھوں میندھنک کے تم رنگ لہراتے ہیں۔ ان ک کہن ' کہنے کی حد تک نہیں' مرموز اس کی عم ی صورت میں موجود ہے۔ واق ی اردو سے وہ عش کرتی ہیں۔ اس ک وش فکر ک ابتدائیہ' جو آش پربھ ت ک لکھ ہوا ہے' سچی ب ت ہے' دل کے نہ ں گوشوں میں بھی' ارت ش پیدا کرت ہے۔ مالحظہ فرم ئیں۔ اس ک وش فکر ک ابتدائیہ جو آش پربھ ت ک لکھ ہوا ہے سچی ب ت ہے دل کے نہ ں میں بھی ارت ش پیدا کرت ہے۔ مالحظہ فرم ئیں۔ مجھے نہیں م و ش عری کی ہے۔ ش ری آہنگ کی ہوت ہے۔ ش ری ش ور کی ہے اور داخ ی عوامل سے یہ کس طرح ترتی پ ت ہے۔ میں بس اتن ج نتی ہوں کہ دھند صرف پہ ڑوں پر نہیں ہوتی آدمی کے اندر بھی پھی تی ہے۔ سمندر لہرات ہے۔ دری موجزن ہوت ہے۔ طوف ن اٹھتے ہیں' پھول کھ تے ہیں' خوشبو پھی تی ہے اور ج بھی میں ان کی یتوں
41
سے گزرتی ہوں تو ل ظوں ک سہ را لیتی ہوں اور محسوس ت کے پراسرار دھندلکوں میں ال ظ کی قندیل جالتی ہوں لیکن ال ظ دور تک میرا س تھ نہیں دیتے ۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے نزدیک ش عری قندیل جالنے ک عمل ہے۔ مجھے نہیں م و میری قندیل کی روشنی محسوس ت کی کس سطع کو چھوتی ہے۔ لیکن کی یہ ک ہے کہ میں نے قندیل جالئی ہے اور جالئے رکھنے ک عز رکھتی ہوں۔ یہ زب نی کالمی کی ب تیں نہیں' مرموز کے مط ل ے کے ب د' یہ تم کی ی ت پڑھنے کو م تی ہیں۔ ل ظ بہ مثل قندیل روشن رہتے ہیں دل کے نہ ں خ نوں میں ت موجود ہو آک ش میں شبد کی طرح نظ آک ش میں شبد ص9 دھند آدمی کے اندر بھی پھی تی ہے۔ ا کسی بھی آنکھ میں پہچ ن کی خوشبو نہیں چوب روں کے دیئے ک کے بجھ چکے ہیں
42
بہت ج ن لیوا سن ٹ وہ ں لیٹ رہت ہے نظ گ ؤں ک المیہ ص 12 اس ضمن میں ایک اور مث ل مالحظہ ہو۔ ہر سو دھند ک پہرہ ہے رات خ موش ہے مٹ م ی چ ندنی اتر آئی ہے میرے آنگن میں نظ ۔ میری اداس آنکھیں ص27 جذ و احس س ت ک اٹھت طوف ن اور ردعم ی پک ر مالحظہ ہو روک لو ان وحشی درندوں کو ان کی کنٹھ ؤں کے تیز ن خونوں کو توڑ ڈالو یہ نہیں ج نتے ب رود کی ڈھیر پر بیٹھ کر
43
خود م چس جالنے ک انج یہ نہیں ج نتے جھ ستے ہوئے انس نوں کے المیہ کو جنگ ص 70نظ ۔ موجزن دری اور لہراتے سمندر کی کی یت مالحظہ ہو تمہ ری چھوی ابھرتی ہے ایک روش ہ لہ کی طرح اور ایک شکتی بن کر میری روح میں سم ج تی ہے میں جی اٹھتی ہوں امبربیل کی طرح پ کیں جھپک اٹھتی ہیں توان ئی ک بےکراں سمندر لہرا اٹھت ہے میرے انگ انگ میں نظ تنہ ئی ص 16 احس س کی کہ نی مالحظہ ہو میرے اندر
44
کہیں چپ سی پڑی ہے ایک ننھی چڑی وہ ا نہیں پھدکتی نہیں چہکتی نہ ہی ب رش میں اپنے پر بھگوتی ہے نظ ننھی چڑی ص24 ل ظوں کی مسک ن اور خوش بو مالحظہ ہو۔ آبگینے سے زی دہ ن زک لمحوں کے بی ن کے لیے ل ظوں ک انتخ آش کو خو خو آت ہے۔ ذرا یہ الئینیں مالحظہ ہوں۔ تمہ ری آواز کی نمی ہمیشہ کی طرح اس ب ر بھی گمراہ کر گئی میں اس موڑ پر ہوں جہ ں سے واپس مڑ گئی تھی نظ تمہ ری آواز کی نمی ص37 آش مح ک ت کی تشکیل میں کم ل رکھتی ہیں۔ مثال حس م مول
45
اس ب ر بھی ت میرے چہرے ک اپنے ہ تھوں سے کٹورا س بن ؤ گے میرے ل چومو گے اور بھر دو گے میرے آنچل کو عہد و پیم ں کے جگنوؤں سے نظ میرے ل س ے ہیں ص 32 آش کے ہ ں' تشبیہ ت ک ب لکل نئے طور اور نئی زب ن کے س تھ است م ل ہوا ہے۔ چند ایک مث لیں مالحظہ ہوں دل کے نہ ں خ نوں میں ت موجود ہو آک ش میں شبد کی طرح نظ آک ش میں شبد 9 تمہ رے س رے خی الت نی خوابیدہ ہنسی کی طرح میرے ہونٹوں پر پھیل ج ئیں گے تنہ ئی ص 15
46
شوخ لہریں سرکشی کرتی ہیں کن روں سے س نپ کے کینچل کی طرح نظ تمہ رے ج نے کے ب د ص17 تمہ ری نر انگ یوں ک مخم ی لمس جیسے بند شیشوں سے ب ہر گرتی مس سل برف ب ری ک س س ہ نظ ایک احس س ص78 اور سکھ م صو بچے س کونے میں دبک کر سو گی ہے نظ ریت کی ندی 85 ت میح ک است م ل اور است م ل کی زب ن' مالحظہ ہو۔ ریت کی ندی بہتی ہے۔۔۔۔۔ گر ریت میں پھنس گی ہے کہیں
47
سوہنی ک گھڑا نظ ریت کی ندی ص85 اٹھو ہ تھ بڑھ ؤ اور ص ی پر ٹنگے نصی کو ات ر لو ص ی پر ٹنگے نصی ص 69نظ مندر کی روشنی میں مسجد کی روشنی میں کیوں کہرا بڑھ رہ ہے کیوں کہرا چھ رہ ہے نظ س نپ کو پکڑ لو ص60 بہت دن ہوئے ج یوک پٹس کے پیڑوں کی طرح دن اگت تھ نظ بہت دن ہوئے ص10 سم ج کی عمومی چیزیں بھی' است م ل میں التی ہیں اور یہ ہی' اس کی نظ کے لس نی حسن ک سب بنتی ہیں۔
48
آٹ گوندھنے کے درمی ن نظ تمہ ری ی د ص92 ........ کھڑکیوں اور دروازوں کے مخم ی پردے ........ ہ نڈیوں میں دانے اکیسویں صدی ص 73-72نظ ....... گ ی ڈنڈے اور بچوں کے ہجو وقت پیرہن بدلت ہے ص 91-90نظ ....... چوپ لوں میں بجھے ہوئے گھوروں کی راکھ نظ گ ؤں ک المیہ ص13 آش نے زب ن کو مخت ف نوعیت و حیثیت کے مرک فراہ کیے ہیں۔ یہ اردو کی لس نی و فکری ثروت ک سب بنے ہیں۔ مثال کر گل ص54
49
نی خوابیدہ ہنسی ص14 خرگوشی لمس ص20 مٹ م ی چ ندنی ص27 من ک سن ٹ ص58 ل ظوں ک پل ص67 سکھ ک چل ص85 دہشت کے س ئے ص46 ت وار کے ق ص61 موت کی دستک ص47 کہرے کی دیوار ص47 جھینگر کی جھنک ر ص78 ریت کی ندی ص85 خی لوں میں اڑان ص66 آش کی زب ن ک مہ ورہ بھی فصیح وب یغ ہے۔مثال وقت پیرہن بدلت ہے زخ بھر ج تےہیں ص41 آک ش نے
50
اپن پریچے کھو دی ہے وقت موک بن ٹھگ س دیکھت رہ گی ہے ص 88 جو جتن م ہر ہے اتن بھوگت ہے اسٹیج ک سکھ ص86 اور سپنے نی وا آنکھوں سے چھ ک پڑے ص83-82 کوئی احس س کوئی درد تمہ رےپیروں کی بیڑی نہیں بن سک ص35 میرے اندر چپ سی پڑی ص24 خی لوں میں اڈان بھرو گے ص66 میرا پچھت وا مکھر ہو اٹھ ہے ص56 آش کے ہ ں' زب ن اور زب ن ک ل و لہجہ اور ذائقہ الگ پڑھنے کو م ت ہے۔ غیر محسوس اور رونی میں' عالمتوں اور است روں ک ' است م ل مت ثر کرت ہے۔ مثال توان ئی ک بےکراں سمندر ص16
51
درد چ ت ہے دبے پ ؤں ص79 م ں کی چھ تیوں ک سمندر ص73 ل ظوں ک پل ٹوٹ گی ص67 کہر کی دیواروں کے بچ ص47 اس خ موشی کے شکنجہ میں فقط ج ن بہ ل تھ میرا ایم ن ص55 آش کے ہ ں' اس عہد کی سچی تصویریں دیکھنے کو م تی ہیں' س تھ میں' اس عہد کے شخص کے لیے پیغ بھی ہے۔ ب طور مث ل یہ نظ .مالحظہ ہو ص ی پر ٹنگے نصی اٹھو ہ تھ بڑھ ؤ اور ص ی پر ٹنگے نصی کو ات ر لو وہ بھی مضبوط ارادوں کی راہ دیکھت ہے زندگی کو دان کی پیٹی مت دو
52
کسی آدھے ادھورے مندر کی بنی د پر رکھی دان کی پیٹی جس میں مجبوری ی ڈر سے ڈال ج ت ہے کوئی پ نچ پیسے دس پیسے غرض آش پربھ ت کی ش عری' اپنے وجود میں' فکری اور لس نی اعتب ر سے' ق بل توجہ توان ئی رکھتی ہے اور اسے نظر انداز کرن ' مبنی برانص ف نہ ہو گ ۔ غژل چوں کہ نظ سے' قط ی الگ صنف سخن ہے' اسی لیے اسے' کسی دوسرے وقت کے لیے اٹھ رکھ ہے۔
مکرمی جن
ڈاکٹر حسنی ص ح :سال ع یک
53
آش پربھ ت پر آپ ک سیرح صل مضمون پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔ وہ ہندوست ن کی ش عرہ ہیں۔ہندوست ن میں کسی ہندو ش عرہ ک اردو میں ش عری کرن ایک نہ یت خوش آئند م رکہ ہے۔ اس سے ایک اش رہ یہ بھی م ت ہے کہ اردو ک مستقبل وہ ں بھی خرا ہرگز نہیں ہے۔ ک ش اہل اردو ایسے ادیبوں اور ش عروں کی قدر کریں جو ن مس عد ح الت کے ب وجود محبت اور لگن سے زب ن و اد کی خدمت میں مصروف ہیں۔ اردو ک ح ل جیس کچھ بھی ہے وہ اہل اردو کے ہ تھوں ہی ہے۔ آش پربھ ت کی تقریب تم نظمیں نثری نظمیں لگ رہی ہیں۔ کوئی آزاد نظ بھی نظر نہیں آئی۔ ان کے خی الت بہت ج ندار اور ت زہ ہیں اور بی ن پر ان کو عبور ہے۔ اتن تو ہ بہت سے اردو کے ش عروں کے ب رے میں بھی نہیں کہہ سکتے ہیں! مجھ کو آش ص حبہ کی غزلوں ک بے صبری سے انتظ ر ہے۔ امید ہے کہ آپ ج د ہی اس ج ن فکر فرم ئیں گے۔ بہت بہت شکریہ۔ ہللا سے دع ہے کہ آپ کو اسی طرح خدمت اد وش ر کے مح ز پر ت زہ ک ر اورت زہ د رکھے۔ مہر افروز http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9894.0
اکبر اردو اد ک پہال بڑا مزاحمتی ش عر
54
ن خوشگوار اور ن س زگ ر ح الت میں' ح کہن آس ن ک نہیں۔ اکبر الہ آب دی نے' یہ فریضہ بڑے س یقے اور اہتم سے انج دی ۔ سرک ری مالز ہو کر' ن گوار ح الت پیدا کرنے والوں کو' آڑے ہ تھوں لی ۔ کہیں پوشیدہ کہیں نی پوشیدہ اور کہیں بالپوشیدگی' کہنے کی ب ت' کہہ دی۔ ایک طرف سرسید' جو مغربی تہذی کے نم ئندہ تھے' س تھیوں سمیت' مغر کے لیے سرگر عمل تھے' تو دوسری طرف اکبر' اس کہے ی کیے کی' تکذی کر رہے تھے۔ ہمہ وقت سپ ٹ اور براہ راست کہن ' آس ن ک نہ تھ اسی لیے انہوں نے طنز و مزاح ک رستہ اختی ر کی ۔ ہ سے ہ سے میں' کسی عمل' فکر ی طور کی ڈنڈ الہ کر رکھ دیتے ہیں۔ ایک طرف ٹی ورک ہو رہ تھ ' تو دوسری طرف فرد واحد' غیرسنجیدہ انداز میں' سرگر عمل تھ ۔ بدقسمتی یہ کہ جس پذیرائی اور اعزاز و اکرا کے مستح تھے' وہ انہیں میسر نہ آئی .اس کے برعکس' سرک ری گم شتے سر خ ن بہ در اور ش ہی ت وے چوس' کی سے کی قرار دے دیے گیے۔ بدقسمتی کی ب ت یہ کہ وہ ت ریکیوں کے امین' آج بھی عظی ت ریخی اور قومی شخصی ت ہیں۔ ش ہی کڑچوں ک ہیرو ٹھہرن ' کوئی نئی نہیں' بہت پرانی ریت چ ی آتی ہے۔ اکبر نے اردو کو نی طور اور نی اس و دی ۔ ان کے اکثر مرکب ت بڑے ک ٹ دار ہیں۔ ان کی ترکیب ت اور تشبیہ ت' حس س دلوں کی دھڑکنوں کو بڑی مالئمیت سے چھیڑتی ہیں۔ ج وہ پرانی اقدار کی تذلیل ک نوحہ کہتے ہیں' تو مغر پریدہ انہیں دقی نوس قرار دے کر' ان کی سننے سے انک ر کر دیت ہے۔ اس ذیل فقط یہ دو ش ر مالحظہ ہوں
55
تمھ ری پ لیسی ک ح ل کچھ کھ ت نہیں ص ح ہم ری پ لیسی تو ص ف ہے ایم ں فروشی کی شکست رنگ مذہ ک اثر دیکھیں نئے مرشد مس م نوں میں کثرت ہو رہی ہے ب دہ نوشی کی اکبر ک موقف رہ ہے' کہ بےشک ہم رے دشمنوں نے ہمیں روند ڈاال ہے' ہم رے مذہبی اور تہذیبی ورثے کو ن ق بل تالفی نقص ن پہنچ ہے' ریورس ک عمل اگرچہ ابھی ج ری ہے' ت ہ اس امر کو خ رج از امک ن قرار نہیں دی ج سکت ' کہ جو لوگ آج ک می ہیں' کل جہ ں ب نی کے م مالت میں ن ک ہو ج ئیں اور آج کے ن ک کل کو ک می ٹھہریں۔ انگریز نے 1857میں جنگ جیت ج نے کے ب د' ظ وست کی انتہ کر دی۔ چوں کہ اس نے مس حکومت کو خت کی تھ اور ردعمل کی' اسی سے توقع تھی' اس لیے زی دہ تر مسم ن ہی اس کی تیغ ست ک نش نہ بنے۔ دہ ی اس وقت چھے الکھ آب دی ک شہر تھ ' جہ ں آہوں اور سسکیوں کے سوا' کچھ سن ئی نہ دیت تھ ۔ اس صورت ح ل سے گزرنے کے ب وجود' مس م نوں میں جذبہءآزادی بیدار ہوا' جس کے ب عث زندگی میں جدوجہد کی ایک نئی لہر دوڑنے لگی' اکبر کے ہ ں اس امر ک اش رہ م ت ہے' کہ ف تح اپنی فتح پر خوش نہ ہوں' کیوں کہ سورج ہمیشہ نئے انقال کے س تھ ط وع ہوا کرت ہے۔ ان ک موقف تھ ' کہ لوگ مرتے رہتے ہیں' آزادی کے متوالے جن لیتے رہتے ہیں۔ غالمی سے آزادی تک ک س ر' ہر صورت اور ہر رنگ میں' ج ری رہت
56
ہے۔ پرانی نسل خت ہو رہی ہے تو اس سے کوئی فر نہیں پڑت ۔ جس تن س سے اموات ہو رہی ہیں' اسی تن س سے لوگ آ بھی رہے ہیں' جو اپنے سینے میں گزرا ہوا کل رکھتے ہیں۔ اکبر کے ہ ں جگہ جگہ موازنہ کی صورتیں نظر آتی ہیں اور واضح ا ل ظ میں' نئی آمدہ تہذی کے نق ئص کو واضح کی ۔ نئی تہذی سے س قی نے ایسی گرمجوشی کی کہ آخر مس م نوں میں روح پھونکی ب دہ نوشی کی ہ ریش دکھ تے ہیں کہ اسال کو دیکھو مس زلف دکھ تی ہے کہ اس ال کو دیکھو اس پر تنقید بھی کرتے ہیں۔ ب ض اوق ت بڑی بےب قی سے ک لیتے ہیں۔ مثال یہی فرم تے رہے تیغ سے پھیال اسال یہ نہ ارش د ہوا توپ سے کی پھیال ہے وہ ح ک لوگوں کے رویے رجح ن اور اطوار سے خو خو آگ ہ تھے' ت ہی تو کہتے ہیں رع ی کو من س ہے کہ ب ہ دوستی رکھیں حم قت ح کموں سے ہے توقع گر جوشی کی وہ حکومتی چمچوں کڑچھوں کی ن یس ت سے آگہی رکھتے تھے۔ یہ پٹھو لوگ' اپنی پرانی تہذی کی خ می ں گنوا رہے تھے اور نئی تہذی
57
کی خوبیوں ک ڈھندورہ پیٹ رہے تھے اور اسی کو ترقی ک زینہ قرار دے رہے تھے۔ اس ذیل میں اکبر ایک جگہ کہتے ہیں چھپ نے کے عوض چھپوا رہے ہیں خود وہ عی اپنے نصیحت کی کروں میں قو کو ا عی پوشی کی چوں کہ آزادی اور ح سچ کی ب ت کرنے والے ج ن ج تے تھے اس :لیے انہوں نے اس کے لیے تین حربے است م ل کیے اش رتی انداز اختی ر کرتے 1- دبے ل ظوں بہت کچھ کہہ ج تے 2- کبھی تھوڑا کھل کر ب ت کرتے 3- انہیں اس امر ک ت سف رہ ' کہ ان کے ہ نوا اور ح کی ب ت کرنے والے' تقریب خت ہو گیے ہیں اور انگریز تہذی کے ح میوں میں' ہرچند اض فہ ہو رہ ہے۔ ان کے تکذی کرنے والے ان کے خالف من ی اطوار پر اتر آئے ہیں۔ کہتے ہیں رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے ج ج کے تھ نے میں کہ اکبر ن لیت ہے خدا ک اس زم نے میں انہوں نے عالمتی طور اختی ر کرکے' ایک اصول وضع کی ' کہ کچھ بھی سہی' ح الت کیسے بھی رہے ہوں' حریت ک س ر ج ری رہن چ ہیے۔ عیش و طر کی مح ل میں رونے والے بھی رہن چ ہیے۔ وہ روتے رہے۔
58
ت ی ک شور اتن تہذی ک غل اتن برکت جو نہیں ہوتی نیت کی خرابی ہے سرسید تحریک کی طرف اش رہ ہے۔ ایک دوسرے ش ر میں ایک ن نہ د مص ح طبقہ' نسل نو کو جس ت ی سے آرائستہ کرن چ ہت تھ ' پر چوٹ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ہ ایسی کل کت بیں ق بل ضبطی سمجھتے ہیں کہ جن کو پڑھ کے بیٹے ب پ کو خبطی سمجھتے ہیں ح ک یہ ں کے وس ئل سے پچرے اڑا رہ تھ ' بچے کھچے میں سے پیٹ بھر انہیں بھی مل رہ تھ ۔ گوی کم ئے گی دنی کھ ئیں گے ہ ' کے مصد دونوں فریقوں ک موجو لگ ہوا تھ ۔ اکبر اسے وقتی اور ع رضی سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک' عیش و نش ط ک خ تمہ ن تم حسرتوں اور خواہشوں پر ہوا کرت ہے۔ ج یہ طے ہے' کہ عیش و عشرت ک خ تمہ ن تم حسرتوں پر ہوا کرت ہے' تو پھر کیوں نہ وقت مثبت ک موں پر صرف کی ج ئے۔ گوی وہ عیش کوشی کو تی گنے کے ح میں تھے۔ درحقیقت وہ مغ وں کی عیش کوشی کو زوال ک سب سمجھ رہے تھے۔ انہوں نے وس ئل ک غ ط کی ۔ انج ک ر زوال ک شک ر ہوئے۔ اگر وہ ب صول اور ڈھنگ کی زندگی کرتے' تو ذلت و رسوائی اور دیس بدری ان ک مقدر نہ ٹھہرتی۔ ا بھی یہ ہی کچھ چل رہ تھ ' لیکن اپنی اصل میں یہ ں کی تہذی کے مزاج سے ہٹ کر' کہ اور لکھ ج رہ تھ ۔ اس سے لمح تی ارت ش تو پیدا ہوا۔ مخصوص ح قوں کے سوا مجموعی
59
مزاج ترکی نہ پ سک ۔ انس ن دکھ میں خدا کو ی د کرت ہے اور اس سے مدد م نگت ہے۔ کتن بڑا طنز ہے' کہ مغربی ت ی نے' خدا کی ی د ہی بھال دی ہے۔ شخص کے لیے ص ح ہی س کچھ ہو گی ۔ جم ہ توق ت اسی سے وابسطہ ہو گئیں۔ مصیبت میں بھی ا ی دخدا آتی نہیں ان کو زب ں سے دع نہ نک ی جی سے عرضی ں نک یں شر وحی ' برصغیر کی تہذی ک الزمہ و لوازمہ رہ ہے۔ مس م نوں کے ہ ں تو پردہ حک میں داخل ہے۔ مغر میں' صورت ح ل اس سے مخت ف ہے۔ بےحج بی ک ایک ت ریخی جواز ہے۔ یہ ں اس کی ت صیل درج کرن ' الی نی طوالت کے مترادف ہوگ ۔ یہ م م ہ م دری اور پدری سوس ئٹی ک ہے۔ عہد اکبر میں مردوں اور عورتوں ک توازن بگڑا نہیں تھ ' لیکن مغربی اطوار کے زیر اثر ی ترغی دہی کے تحت' ب الاسٹیٹس کے ح مل شورےف کے ہ ں بھی' بیبی ں مم نم ئی وغیرہ پر' اتر آئی تھیں۔ اکبر نے جس طور سے چوٹ لگ ئی ہے' اس پر ان شورےف ک سیخ پ ہون ' فطری سی ب ت تھی۔ ت ہ ان ک طرز تک خ لص برصغیر کی اسالمی تہذی ک غم ز ہے۔ بے پردہ نظر آئیں جو کل چند بیبی ں اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گی پوچھ جو ان سے آپ ک پردہ وہ کی ہوا کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گی
60
یہ بدیسی تہذی کے دل دادہ اور پرانی تہذی کو ن پسند کرنے والوں کے' رخس ر گرامی پر پرزن ٹ طم چہ تھ ۔ اگر شر وحی ہوتی' تو ضرور ج گ اٹھتی۔ ان کے نزدیک ایس شخص دھوکے میں ہے' اندھیروں میں بھٹک رہ ہے اور اسے م م ہ دکھ ہی نہیں رہ ۔ یہ بھی کہ ہمیں ان کی رہنم ئی کی ضرورت ہی نہیں۔ اکبر' مغر کے چ ن اور اس کے کہے کو' طنز ک نش نہ بن تے اور اس کی تق ید کو مضر اثر قرار دیتے آئے ہیں۔ مغر کے چوری خور توتے کہتے تھے' تمہیں زندگی اور حکومت کرن نہیں آت ۔ مغر تمہ ری تربیت کر رہ ہے۔ اسی تن ظر میں' اکبر مغر اور اس کی تہذی پر چوٹ کرتے رہے۔ انہوں نے عی ری سے حکومت ہتھ ئی اور عی ری سے ہی لوگوں کو اپنے س تھ کی ۔ گولوں اور گم شتوں کو ایک طرف رکھیے' یہ ہر دور میں' مقتدرہ قوتوں کے د ہالوے اور گری عوا کے خون چوس رہے ہیں۔ اللچ اور طمع انہیں گھٹی میں مال ہوت ہے۔ ان سے خیر کی توقع ن دانی کے سوا کچھ نہیں۔ کوئی مرت ہے ی م ر دی ج ت ہے' انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ اکبر کے نزدیک' خ وص اور ت داری یک طرفہ چیز نہیں ہے۔ اس کی موجودگی اطراف میں ضروری ہوتی ہے۔ تپ ک سے م نے والے لوگوں ک ب طن بھی گر جوشی سے م مور ہو' یہ ضروری نہیں۔ ایسی صورت میں گمشتگ ن سے' خیر کی توقع اپنے پ ؤں پر خود ک ہ ڑی م رنے کے مترادف ہوت ہے۔ اگر اکبر کی ش عری ک ' دی نت داری سے مط ل ہ کی ج ئے' تو یہ کہن
61
کسی طرح غ ط نہ ہو گ ' کہ انہوں نے مزاحمتی اد لکھنے ک آغ ز کی ۔ اس ذیل میں انہیں پہال بڑا مزحمتی ش عر قرار دین ' مبنی بر انص ف ہو گ ۔ اس حوالہ سے ان پر ک کرن ابھی ب قی ہے۔ تحریر م رچ 1978 '6
مکرمی و محترمی جن
حسنی ص ح :سال مسنون
اکبر الہ آب دی پر آپ ک انش ئیہ دلچسپ ہے اور ع افزا بھی۔ اس انداز فکر ک مضمون اکبر پر مجھ کو ی د نہیں کہ کسی اور نے لکھ ہو۔ گزارش ہے کہ اس فکر کو اور جالدے کر ایک طویل اور ج مع مضمون لکھیں اور ش ئع کروائیں۔ اس کی سخت ضرورت ہے۔ اکبر اور دوسرے مزاح نگ روں پر ہم رے یہ ں بہت ک ک ہوا ہے۔ مزاح کو ہم رے اد میں وہ مق نہیں دی گی جس ک یہ مستح ہے۔ آپ جیسےاہل ع کو اس ج ن فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ مضمون پر میری داد اور دلی شکریہ قبول کیجئے۔ سر سید پر آپ کے خی الت جزوی طور پر صحیح ہیں لیکن یک طرفہ ہیں۔ سر سید کو برا بھال کہنے والے ،غدار قو اور مغر کے غال کہنے والے پہ ے بھی بہت تھے اورا بھی ہیں لیکن ان کے احس ن ت ک اعتراف بھی بہت ضروری ہے۔ اگر انہوں نے مس م نوں ک گریب ن پکڑ کر نہ جھنجوڑا ہوت اور ان کی ت ی کی ایسی فکر نہ کی ہوتی تو نہ میں انجینئر ہوت اور نہ آپ ڈاکٹر۔ ان کی کوشش سے میری اور آپ کی اوالد جو فیض پ رہی ہے اس ک شکریہ ادا نہ کرن ن دانی ہے۔ خ می ں کس میں نہیں ہوتیں اور ب ض اوق ت وقت ک دب ئو اور تق ضے
62
بھی انس ن کو مجبور کرتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ سر سید اور اکبر الہ آب دی کے ہر ک اور موقف کی ت ئید کی ج ئے۔ جس نے جو احس ن قو پر کی ہے اس ک اعتراف ضروری ہے۔ میں ع ی گڑھ ک پڑھ ہوا ہوں اور سرسید کے ک کو میں نے بہت قری سے دیکھ ہے۔ وہ فرشتہ نہیں تھے لیکن قو کے بہت بڑے ہمدرد تھے۔ انہوں نے جو ک کی وہ ک لوگ کر سکے ہیں۔ ہللا ان کی مغ رت فرم ئے۔ سرور ع ل راز http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10009.0
63
ام نت کی ایک غزل ......فکری و لس نی رویہ مخدومی و مرشدی حضرت قب ہ سید غال حضور حسنی الم روف ب ب شکرہللا سرک ر کے ذخیرہ ء کت سے' ایک مخطوطہ ص ح ت سولہ ' دستی ہوا ہے۔ اس میں ایک بتیس اش ر پر مشتمل غزل اور ایک نظ ' جس میں ب سٹھ اش ر ہیں' دستی ہوئی ہے۔ غزل دیگر پرعنوان درج ہے' جس سے یہ کھ ت ہے' کہ مواد اور بھی تھ اور وہ مواد' حوادث زم نہ ک شک ر ہو گی ۔ ب ب جی مرحو کے جو ہ تھ لگ ' انہوں نے مح وظ کر لی ۔ غزل والے آٹھ ص ح ت پر' ص حوں کے نمبر درج نہیں ہیں' ج کہ نظ کے آٹھ ص حوں پر ص حہ 13ت 20درج ہے۔ مخطوطے کی ح لت بڑی خستہ اور ق بل رح ہے .غزل کے مقطع میں' ام نت تخ ص ہوا ہے' ش عر ک ن بھی ام نت تھ ی یہ محض ان ک تخ ص تھ ' ٹھیک سے کہ نہیں ج سکت ۔ ہ ں یہ ضرور کہ ج سکت ہے' کہ یہ ص ح ش ی ن ع ی سے مت تھے۔ مقطع مالحظہ ہو۔ رکہ جنت میں ام نت جو قد حیدر نے دوڑے جبرائیل یہ کہہکر میرا است د آی ک غذ اور کت بت بت تی ہے' کہ یہ مسودہ ایک سو پچ س س ل سے زی دہ' عمر رکھت ہے۔ مض مین غزل کی عمومی روایت سے مت ہیں۔ ش عر کی زب ن رواں' ش یستہ اور شگ تہ ہے۔ کہیں کوئی ابہ می صورت موجود نہیں۔ یہ ایک مربوط غزل ہے۔ اس میں' بی نیہ' مخ طبیہ اور
64
خود کالمی ک اس و تک م ت ہے۔ آغ ز روح کے س ر سے ہوت ہے' ب قی اکتیس اش ر' کسی ن کسی سطح پر' اس س ر سے مربوط سے محسوس ہوتے ہیں۔ غزل کے پہ ے چ ر اش ر میں ی د آی ب طور ردیف است م ل ہوا ہے ج کہ ب قی اٹھ ئیس اش ر میں آی کو ردیف بن ی گی ہے۔ ی د کی صوت پر' ال ظ ب طور ق فیہ است م ل ہوئے ہیں۔ اسے چ ر اش ر کی غزل کے طور پر لی ج سکت ہے۔ مالحظ ہو۔ روح کو راہ عد میں میرا تن ی د آی دشت غربت میں مس فر کو وطن ی د آی چہچہے بہول گئے رنج و مہن ی د آی روح دی میں نے ق س میں جو چمن ی د آی آ گی میرے جن زے پر جو وہ ہوش رب کر چکے دفن تو ی روں کو ک ن ی د آی میں وہ ہوں ب بل مست نہ جو مرجہ ون نہ ل بہول کر کنج ق س ۔۔۔۔۔۔۔چمن ی د آی
65
تشنگی محسوس نہیں ہوتی' ت ہ اگ ے اش ر' ارتب ط کے احس س سے خ لی نہیں ہیں۔ حس رواج و رویت' ال ظ مال کر لکھے گیے ہیں۔ مثال دیکہکے' مجہپر' سمجہکر' کیطرح' کہہکر وغیرہ دوچشمی حے کی جگہ' حے مقصورہ ک است م ل کی گی ہے۔ رکہ ' دیکہ ' بہولے' مجہے' مجہپر مہ پران بھی نظر انداز نہیں ہوئے۔ 'ھ' بھ' پھ' جھ' چھ' کھ ھے' کبھی' پھیر' برچھی ں' مجھے' کھیل ایک جگہ نون غنہ کی جگہ' نون ک است م ل بھی ہوا ہے۔ ہچکی ں آتی ہیں کیون ع ل غربت میں دال حے مقصورہ کی جگہ' بڑی ے ک است م ل بھی پڑھنے کو م ت ہے۔ ہوں وہ ب بل کے خریدار نے منہہ پھیر لی
66
متت ' مگر متض د ال ظ ک است م ل' کم ل حسن و خوبی سے کی گی ہے۔ مثال چہچہے بہول گئے رنج و مہن ی د آی روح دی میں نے ق س میں جو چمن ی د آی ق س :قید' پ بندی چمن :آزادی' خوشی' خوش ح لی پہ ے مصرعے میں چہچہے اور رنج و مہن۔ بھول اور ی د دوسرے مصرعے میں ق س اور چمن اس ش ر میں زندگی کی دونوں ح لتوں' رنج اور خوشی کو نم ی ں طور پر بی ن کی گی ہے۔ ہ صوت' مگر مت
ل ظوں ک است م ل مالحظہ ہو۔
کر چکے دفن تو ی روں کو ک ن ی د آی ک ن دفن' مرک عمومی است م ل ک ہے۔ ایک ہی ل ظ کے' دو اسم ء کے لیے است م ل کی ایک مث ل مالحظہ ہو۔ گ بدن دیکہکے اس گل ک بدن ی د آی
67
عمومی مہ ورے میں مرک 'خی ل ہی خی ل میں' است م ل ہوت لیکن ام نت نے' وہ ہی وہ میں' است م ل کی ہے۔ گوی وہ کو' خی ل کے مترادف کے طور پر' است م ل کی گی ہے۔ وہ ہی وہ میں اپنے ہوئے اوق ت بسر ام نت نے' بڑے خو صورت مرک بھی' اردو کے دامن میں رکھے ہیں۔ مثال دشت غربت' ست ایج د' تک ف سخن' راہ عد ' ع ل غربت' آوارہ وطن' چ ند گہی' کشتہ مقدر 'حسرت پرواز' آتش عش ' سخت ج نی ' مر بسمل رنج و مہن چشمہءکوثر عمومی طور پر حوض کوثر است م ل میں آت ہے۔ ہ ر ک کھیل ع ش کے نصی سورج کی کرن چھینک آئے تو کہ ج ت ہے' کہ کسی نے ی د کی ہے۔ ام نت نے' اس کے لیے ہچکی ں آن است م ل کی ہے۔ اس کی م نویت چھینک آن سے'
68
الگ تر ہے۔ ہچکی ں آتی ہیں کیون ع ل غربت میں دال کی عزیزوں کو میں آوارہ وطن ی د آی ام نت نے اپنی اس طول غزل میں' کئی ایک رائج اصطالح ت ک است م ل کی ہے۔ ان ک است م ل' س ر کے تن ظر میں ہوا ہے۔ مثال جن زہ' دفن' ک ن' غسل صحت' زاہد ' عد ' کشتہ ام نت کو مہ ورات کے است م ل میں' کم ل ح صل ہے۔ وہ مہ ورے ک است م ل' رواں روی میں کر ج تے ہیں۔ یہ است م ل لس نی تی حسن سے' بہرہ ور ہے۔ چند ایک مہ ورے مالحظہ ہوں۔ ہوش اڑن ' پر ک ٹن ' نصی لڑن ' رع یت سوجھن ' گل لگ ن ' لہو خشک ہون ' خون میں نہالن ' امید قطع ہون ' دل کڑا کرن ' منہ پھیرن ' روح دین ' دا لگ ن ' خی ل ب ندھن ' چٹکی ں لین ' اوق ت بسر ہون ' در بدر پھرن ' قد رکھن ' نقش کھیچن مہ ورے کے است م ل کی' صرف ایک مث ل مالحظہ ہو۔ رع یت سوجھن :ب بل زار سمجہکر یہ رع یت سوجہی ام نت' تشببہ ت ک است م ل بھی بڑی خوبی سے کرتے ہیں۔ مثال ہوں وہ ب بل کے خریدار نے منہہ پھیر لی
69
شجر ق مت دلدار مجھے ی د آی مر بسمل کیطرح ب
میں تڑپی ب بل
حسن ش ر میں' ت میح کو بڑی اہمیت ح صل ہے۔ ام نت کے ایک ہی ش ر میں' ایک س تھ' تین ت میح ت ک است ل مالحظہ فرم ئیں۔ تذکرہ چشمہءکوثر ک جو زاہد نے کی آپنے یوسف ک مجہے چ ہ زقند ی د آی شمش د کے س تھ' پہ یوں ک انتس پہ یوں کی ئے کوئی ب
بڑا ہی من بھ ت ہے۔ مالحظہ ہو
میں شمش د آی
مق می اور عمومی بول چ ل کے ل ظ بھی' است م ل میں التے ہیں۔ مثال ب ب وں کے لئے پ لی میں نہ صی د آی ہچکی ں آتی ہیں کیون ع ل غربت میں دال مست مل مرک ال ظ ک است م ل' اپنی ہی بن ٹھن رکھت ہے۔ پر واز :ہو گئی قطع اسیری میں امید پرواز گل بدن :گ بدن دیکہکے اس گل ک بدن ی د آی
70
ش ش د :پہ یوں کی ئے کوئی ب
میں شمش د آی
صن نت تکرار حرفی سے بھی' ک لیتے ہیں۔ مثال در بدر پھر کے دال گھر کی ہمیں قدر ہوئی ا ام نت کے' دو ایک س بقوں الحقوں سے ترکی پ نے والے' ال ظ مالحظہ فرم ئیں اہل وف ' بےاعتب روں' بےنش نی پری زاد' خریدار' دل دار' ب بل زار 'در گ ہ' سی ہ ف مترادف ال ظ ک است م ل' ان کے کال میں ایک الگ سے' ت ثیر' ج زبیت اور صوتی و بصری حسن و توجہ ک سب بنت ہے۔ مثال یہ مصرع مالحظہ فرم ئیں مجہکو رشک قمرچ ند گہی ی د آی ام نت کو ن صرف زب ن پر دسترس ح صل ہے' بل کہ ان کے بہت سے مض مین' بڑے پرلطف ہیں۔ ان سے فکری حظ ہی نہیں' سم عتی اور بصری لطف بھی میسر آت ہے۔ اس ذیل میں' ذرا ان اش ر کو دیکھیں' پڑھیں' غور کریں اور مزا لیں۔ روح کو راہ عد میں میرا تن ی د آی
71
دشت غربت میں مس فر کو وطن ی د آی ............ آ گی میرے جن زے پر جو وہ ہوش رب کر چکے دفن تو ی روں کو ک ن ی د آی ........... مر بسمل کیطرح ب
میں تڑپی ب بل
گل لگ کر کہ قمری نے میرا صی د آی ............ غسل صحت کی خبر سن کے ہوا خشک لہو خون میں نہالنے کو فورا مجھے جالد آی .......... تذکرہ چشمہءکوثر ک جو زاہد نے کی اپنے یوسف ک مجہے چ ہ زقند ی د آی .......... ہو گی حسرت پرواز میں دل سو ٹکڑے ہ نے دیکہ جو ق س تو ف ک ی د آی ..........
72
کیوں تیرا ع ش برکشتہ مقدر کیطرح ست تو نے کئے تو چرخ کہن ی د آی ........................................................................ دیگر روح کو راہ عد میں میرا تن ی د آی دشت غربت میں مس فر کو وطن ی د آی چہچہے بہول گئے رنج و مہن ی د آی روح دی میں نے ق س میں جو چمن ی د آی آ گی میرے جن زے پر جو وہ ہوش رب کر چکے دفن تو ی روں کو ک ن ی د آی میں وہ ہوں ب بل مست نہ جو مرجہ ون نہ ل بہول کر کنج ق س ۔۔۔۔۔۔۔چمن ی د آی آتش عش ک پ کر میری رگ رگ میں اثر آپ ہمراہ لئے نشتر فص د آی سخت ج نی سے میری پھیر دی منہہ د میں دل کڑا کرکے اگر خنجر فوالد آی
73
ہوں وہ ب بل کے خریدار نے منہہ پھیر لی دا مجہپر لگ نے کو کوئی صی د آی برچھی ں ہیں مجہے سورج کی کرن سنہکی ے کے یہ چرخ ست ایج د آی دل ہوا سرو گ ست نی کے نظ رے سے نہ ل شجر ق مت دلدار مجھے ی د آی ہو گئی قطع اسیری میں امید پرواز اڑ گئی ہوش جو پر ک ٹنے صی د آی ہ ر ک کھیل ہوا لٹر گئے ع ش کے نصی غیر بوال جو فراموش تو میں ی د آی ب بل زار سمجہکر یہ رع یت سوجہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے پر ب ندھنے صی د آی اس درد دل فرموش کی ع ش کو نہ کبھی آپ کو بہولے سے بھی میں ی د آی مر بسمل کیطرح ب
میں تڑپی ب بل
گل لگ کر کہ قمری نے میرا صی د آی در ج ن ں ک ب ندھے ھے چمن دہر میں رنگ
74
پہ یوں کی ئے کوئی ب
میں شمش د آی
غسل صحت کی خبر سن کے ہوا خشک لہو خون میں نہالنے کو فورا مجھے جالد آی ہچکی ں آتی ہیں کیون ع ل غربت میں دال کی عزیزوں کو میں آوارہ وطن ی د آی رخ ج ن ں پہ نظر کرکے بندہ گل ک خی ل قد کو دیکہ تو مجہے سرو چمن ی د آی بےنش نی سے نش ں بہول گی آنے کو کھینچ چک ہ ر نقشہ تو وہی ی د آی تذکرہ چشمہءکوثر ک جو زاہد نے کی اپنے یوسف ک مجہے چ ہ زقند ی د آی خ کے ٹکڑے کئے شیشوں کو کی میں نے چور توڑے پیم نے جو وہ عہد شکنی ی د آی ط ل اشک آنکہوں میں بھرنے لگے مرد کیطرح خورد س لونکو بزرگوں ک چ ن ی د آی تیرے منہہ پر جو رکہ غیر سی ہ ف نے منہہ
75
مجہکو رشک قمرچ ند گہی ی د آی کیوں تیرا ع ش برکشتہ مقدر کیطرح ست تو نے کئے تو چرخ کہن ی د آی چٹکی ں دل میں میرے لینے لگ ن خن عش گ بدن دیکہکے اس گل ک بدن ی د آی وہ ہی وہ میں اپنے ہوئے اوق ت بسر کمر ی ر کو بہولے تو دہن ی د آی برگ گل دیکہکے آنکہوں میں تیرے پھر گئے آ غنچہ چٹک تو مجہے تک ف سخن ی د آی در بدر پھر کے دال گھر کی ہمیں قدر ہوئی راہ غربت میں جو بہولے تو وطن ی د آی چ و درگ ہ میں ہنگ مہ ہے دیوانوں ک بڑی منت کی بڑھ نے کو پری زاد آی ہو گی حسرت پرواز میں دل سو ٹکڑے ہ نے دیکہ جو ق س تو ف ک ی د آی بے اعتب روں سے نہیں اہل وف کو کچہ ک ب ب وں کے لئے پ لی میں نہ صی د آی
76
رکہ جنت میں ام نت جو قد حیدر نے دوڑے جبرائیل یہ کہہکر میرا است د آی مکرمی و محترمی حسنی ص ح :سال مسنون آپ ک شکریہ کس طرح ادا کی ج ئے کہ آپ ہمہ وقت اردو انجمن کی اور اردو ش ر واد کی بیش بہ خدم ت میں سرگر ہیں اور اس ک میں کسی ص ے ی ست ئش کے خواہشمند کبھی نہیں رہے ہیں۔ اردو کو آپ جیسے بے لوث اور وف ش ر خدا کی ضرورت ہے۔ آج کے ح الت میں ایس سوچن بھی گن ہ بن کر رہ گی ہے چہ ج ئیکہ ایسے افراد کو جمع کرنے ک ک ہ تھ میں لی ج ئے۔ ہللا آپ کو طویل عمر اور اچھی صحت سے نوازے اور جزائے خیر مرحمت فرم ئے۔ حس م مول آپ ک انش ئیہ نہ یت ک می اور سیر ح صل ہے۔ ایسے نوادرات ا بزرگوں کے کت خ نوں ی ان کی میز کی درازوں میں ہی مل سکتے ہیں۔ نہ کوئی ان ک پرس ن ح ل ہے اور نہ کوئی ان سے است دہ کرنے واال۔ یہ اہل اردو ک بہت بڑا المیہ ہے کہ انہوں نے کت بیں پڑھنی ب لکل ہی چھوڑدی ہیں۔ والد مرحو کے کت خ نے سے مجھ کو بھی کئی نوادرات م ے ہیں۔ میں نے کوشش کی کہ ان کو یہ ں اور دوسری مح وں میں لوگوں کے است دے کے لئے پیش کروں لیکن مجھ کو م یوسی ک س من کرن پڑا اس لئے کہ ان چیزوں کو پڑھنے والے نہ مل سکے۔ اگر کسی نے انہیں دیکھ بھی تو دو ال ظ نہ لکھے کہ کی دیکھنے کے ب د انہوں نے ان شہ پ روں کو پڑھ بھی تھ ؟ ہ ر کر میں نے اس ک سے ہ تھ اٹھ لی ۔ ظ ہر ہے کہ میں ایک چن یہ بھ ڑ نہیں پھوڑسکت ہوں۔
77
آپ نے بہت ت صیل سے اپنے نوادرات ک تجزیہ کی ہے اور اس ک میں بہت محنت کی ہے۔ اوروں کی خبر نہیں لیکن میں اپنی ج ن سے یقین دالت ہوں کہ میں نے اس سے بھر پور است دہ کی اورابھی یہ ک دو ایک دن مزید چ ے گ ت کہ آپ کے مضمون سے پوری طرح مست ید ہو سکوں۔ بہت بہت شکریہ۔ اور رہ گی وہ راوی تو اس مرتبہ بڑی بش شت کے س تھ چین ہی چین )! :بولت ہوا گی ہے سرور ع ل راز http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10052.0
منظو شجرہ ع لیہ حضور کری ....عہد جہ نگیر
78
ش عر :غال حسین مخدومی ومرشدی قب ہ حضرت سید غال حضور حسنی کے ذخیرہءکت سے' ایک تین سو سے زائد ص ح ت ک ' مخطوطہ دستی ہوا ہے۔ اس کی ح لت بڑی خستہ و خرا ہے۔ اوپر سے' یہ کہ ص ح ت بےترتی ہیں۔ یہ مخطوطہ پنج بی عربی اور ف رسی میں ہے۔ اس میں اردو' آق کری ان پر ان حد درود وسال ' ک شجرہ ہے۔ یہ کل' آٹھ اوپر ستر اش ر پر مشتمل ہے۔ اس میں سے' ایک ش ر ک ٹ ہوا ہے۔ یہ ق می مسودہ حکمت' ع ج ر' ت ویزات اور حمد و ن ت سے مت ہے۔ اس میں ف رسی نثر بھی موجود ہے۔ بے ترتی ہونے کے ب عث پڑھنے میں ہر چند دشواری ک س من کرن پڑ رہ ہے۔ داخ ی شہ دت کے مط ب ' اس کے لکھنے والے غال حسین ولد پیر محمد متین ہیں اور اس کی ت ریخ نوشت بروزے چہ ر شنبہ شداند تم
بت ریخ ہشت کہ زالحج ن
ہے۔ یہ ص ح ' پیر بہ ر ش ہ کی خ نق ہ سے مت خدای بتوفی خود راہ دہ
ہیں۔
79
کہ ت ہید ازین بندہءہیچ بہ خدای مقصد بک ر آمد تہے دستے امیدوار امید بپوش ازسر لطف غیبے نوشیے ش ر بزرک ن شوہ عی نوشیے سخنی بتوک ق بند کنے صر از ی دک رں جہ ن چند کنے نوشت ست ن مہءغال حسین صر پسر ست پیرے محمد متین بروزے چہ ر شنبہ شداند تم بت ریخ ہشت کہ زالحج ن بدر خ نق ہ پیر بہ ر ش ہ مدا کوہ دہ است دینہہ ثب ............ اس مخطوطہ میں' ایک قصیدہ جہ نگیر ب دش ہ ک ہے۔ قصیدہ میں' جہ نگیر سے عی ش اور عیش کوش ب دش ہ کو' دو چ ر انچ ہی' کسی ج یل القدر نبی سے ک رکھ گی ہے۔ دو چ ر س ل اور زندہ رہت تو'
80
ش ید وہ نبی ہو ہی ج ت ۔ قصیدہ مالحظہ ہو۔ ب ال فرخندہء بر جہ ن س الر ص ح الت ج احسن اآلآث ر روشن آئینہ ضمیر بحر عرف ن لجہء تدبیر داور دہر رست دوران س لک ح بہ در میدان مط ع آفت
ع و عمل
مظہر نور عین فیض ازل شمس ایوان ب رک ہ جالل قط دوران کم ل نور جم ل والی ء دہر رست ج ج ہ شہہ جہ نکیر ابن اکبر ش ہ اکمل ہللا روح عظمتہہ شرف اوالدہ بدرجتہہ لطف ح بر ہزاری ن ب ال
81
کز رہ عش پر ص ب ال مست ب ال از ج ل یزلیے ہست ب ال ہسستنے ازلے شجرے کے آغ ز کے پچھ ے ص حے پر' س ت دع ئیہ اش ر ہیں۔ ص حہ کے چ روں طرف ح شیہ میں' ف رسی میں منظو ف رسی لکھ مٹ ' کٹ ی پھٹ ہوا ہے۔ اش ر میں ن ی تخ ص ک است م ل نہیں ہوا۔ شجرہ 'جو پ نچ ص ح ت میں تم ہوا ہے .دع ک آغ ز تو اوپر سے ہوا ہے' اسے پڑھن ممکن نہیں' جو پڑھ ج سکت ہے پیش خدمت ہے۔ان دع ئیہ اش ر کے آخر میں جہ نگیر کے قصیدے ک راز کھ ت ہے' کہ یہ ص ح جہ نگیر کے ق ضی تھے۔ اش ر میں ایک ن شمس الدین بھی :م ت ہے۔ اش ر مالحظہ فرم ئیں ی خداوندا بح قدسمع از کر ہ ر بکن خ طر جمع ی خداوندا بح سورتہ تب ر جم ہ عصی ن بندہ ع صے درکذر ی خداوندا بح سورہ ع در دو ع ل رفع کردن ہ زغ
82
ی خداوندا بح دعوت چنین ب سالمت دار ایم ن شمش الدین تم شد غال حسین ق ضے زب ن پر پنج بی اور ف رسی کے اثرات غ ل ہیں۔ مثال پنج بی بوالی ہے اپنے نکہت نور سین ............ دی ت ج لوالک ک سیس پر ............ جو مط
کے ہ ش کے کہر میں ہوی
.......... عمر ہوک کر چہوڑ دنی چال
83
.......... قی مت کون دیوندیں خالصی مجہے ف رسی ولد اوسک تہ ابرہیمش خ یل .......... زغ ت ہمیشہ ک ر مون مواء ............ نبیے ب پ قنی ن ک یونس است ........ پت اوسکے ک ن مستوسبخ است ......... کریں عدل و انص ف در ہر زم ن ف رسی میں کہے مصرعے اور ش ر ش مل کیے گیے ہیں۔ امید چن ن است بر مصط ے
84
بدنی و دین دہد مدع ......... نہ پیغمبر و ش ہ او ک فر است ......... کی ذکر دربطن م ہے نشت ولدیت کے لیے ب پ' پت ' پدر اور ولد ال ظ است م ل کیے گیے ہیں۔ نبیے ب پ قنی ن ک یونس است ........... پت اوسک ی مرد پہی درجہ ن ............ پدر ویی لود است ن مش ضوح ............ پہر اوسک ولد ہود لکہی کت ل ظ مال کر لکھے گیے ہیں۔ مثال
85
محمد کے دادایک مط
ہے ن
.......... ش ہ لویک ش ہ غ ل سالد .......... پہر اوسک پت ج ن لیجو فرید ........ گ ف گ کی بج ئے ک ف ک است م ل کی گی ہے دہر و کوش مو مذہ خ ص و ع کوش بج ئے گوش میں ک ؤں محمد کون ہر صبح و ش ک ؤں بج ئے گ ؤں کریزان ہوا خوف جنکے سو پ پ کریزان بج ئے گریزاں جو مط
کے ہ ش کے کہر میں ہوی
کہر بج ئے گھر
86
بدیی عدل و انص ف کے ب رک ہ ک ہ بج ئے گ ہ مہ پران ی نی بھ ری آوزوں ک سرے سے است م ل نہیں ہوا۔ اس کی جگہ' حے مقصورہ ہ است م ل میں الئی گئی ہے۔ مثال محمد سین آد ت ک سبہہ کہول ............. کہ شہنش ہ تہ وہ در کوو ق ف ............... پہر اوسک پت ن ترار ہے ................ کت ب ن مین لکہی جہن پی .......... عمر ہوک کر چہوڑ دنی چال شین کے لیے ص د ک است م ل بھی م ت ہے
87
کریی نصر دنی نمیں پیغمبرے نشر سے نصر ل ظوں کی' اشک لی اور اصواتی تبدی ی ں بھی م تی ہیں۔ مثال جس کی جگہ جن سے کے لیے سین کو کے لیے کون بہت کے لیے بہتہ س کے لیے سبہہ دین کے لے دیوند اس کے لیے اوس میں کے لیے مون ڑ کی جگھ' د ک است م ل کی گی ہے۔ مثال کریی ب دش ہی بدے ب صوا .........
88
بدا ک ر مین وہ ہوی جیون یزید چھوٹی ے کی جگہ بڑی ے ک است م ل کی گی ہے۔ مثال رم ن ش ہ ک ب پ برح نبے ال ظ کے س تھ ء ک است م ل م ت ہے۔ پیغمبر کے کہر میں جو پیدا ہواء پہوالد۔۔۔۔ کون ک ر مین وہ موی ء نون غنہ کے لیے نون است م ل کی گئی ہے۔ کہون ش ہ کال ک جو پت ........ بدا ک ر مین وہ ہوی جیون یزید جو بھی سہی' اس ش ر پ رے کے حوالہ سے' قدی زب ن ک طور و چ ن میسر آت ہے اوراس کے ہونے ک ' ثبوت م ت ہے۔ آئیے ا ' اس
89
ش ر پ رے کے مط ل ہ سے' لطف لیتے ہیں۔ بس ہللا الرحمن الرحی تو سنو ا خدا کے کال کی جن محمد ع یہ کی ہے محمد خدا نور سین بوالی ہے اپنے نکہت نور سین دی ت ج لوالک ک سیس پر سن ی ہمہ راز خود سر بسر سنو ا محمد کے کرسے تم دہر و کوش مو مذہ خ ص و ع میرے ح مین ا دع ی ر ہوء تواضع سیتے بہتہ دلش د ہوء سنو شجرہ مصط ے ہر ہمہ مکن از بال ہچکس داعہ محمد سین آد ت ک سبہہ کہول لہون اجر بسی ر کہون ج رسول
90
چودہ د ہی خ
ک سو پ وں ان
میں ک ؤں محمد کون ہر صبح و ش قی مت کون دیوندیں خالصی مجہے یہے ب ت برح سن ؤں تجہے سرانج دین عین سبہہ ک ک برا ح دی صدقہ اس ن ک امید چن ن است بر مصط ے بدنی و دین دہد مدع محمد کے ب پ ک جو ن ہے سو عبدہللا ہے ن ہر کر نہ لے محمد کے دادایک مط
ہے ن
اوسے دین کوجہ ہنین غض ک جو مط
کے ہ ش کے کہر میں ہوی
کریں ب دش ہے سو ہ ش مواء پت ش ہ ہ ش ک عبدمن ف کہ شہنش ہ تہ وہ در کوو ق ف قصے ش ہ تہ ب پ عبد المن ف
91
اوسے ب دش ہے کرن خو ص ف قصے ک پت ش ہ سن لے کال کریی ب دش ہی بدے ب صوا کہون ش ہ کال ک جو پت سومرہ ت ج نون جسے جک جیت بدا ش ہ مرہ ت حکمین ہوی نہ ق ی رہ ایک دن وہ موی سنون ب پ مرہ ت ک ہے ک کریی خ ک
مین ب دش ہے عج
ک پت لویی ش ہ جہ ن
زوارال ن رفت دارالم ن ش ہ لویک ش ہ غ ل سالد عمر ہوک کر چہوڑ دنی چال پہر اوسک پت ج ن لیجو فرید بدا ک ر مین وہ ہوی جیون یزید سنون ب پ اوسک ہوی حکمین ش ہ بدا ن م لک سو ع ل پن ہ
92
پت ش ہ م لک ک تہ وہ نبیے کریی نصر دنی نمیں پیغمبرے کی ش ہ ہو ک ر کون جن تب ہ کریی س طنت ہ کت بت کے ب پ زجوخش زمین ظ لم ن کشت سنو مدارک اوس ش ہ ک ب پ تہ اوسے ک ر مون جک سون لین او تہ نبیے ب پ اوسک سو الی س ن عج خداوند مولی کے ک عدو او حزیمت شد اندر جہ ن حزیمت ک سن ن نصرت نش ن ک ر مون خدا نے پیغمبر کئے لطف کر بوال پ س اپنے لئے پیغمبر کے کہر میں جو پیدا ہواء پہوالد۔۔۔۔ کون ک ر مین وہ موی ء کئے ش ہ کیتے پیغمبر ہزار
93
کئے ک فران ک نہ آدمی شم ر خدا دست قدرت سون کردا۔۔۔۔۔۔۔ ہزراں مخنث نس ہ ں مرد جو بہ وی کون سوئی کوچہ کرتے ہنین ہ تہہ بند کے جو لکو کرے نبیے ب پ الی س ک ھوجوک کت ب ن مضر ن اوسک لکہ سنو کوش دہر کے جوتکرار نے پہر اوسک پت ن ترار ہے اوسے۔۔۔۔۔سون ک مط
ہنین
کریں بت پرستیے ستے ہن کہ ن م د ولد او ش ہ اندر جہ ن کریں عدل و انص ف در ہر زم ن م د ک پت ش ہ عدن ن تہ کریں ب دش ہے نہ حکمبین رہ ولد اوسک یسر ک ر مون کی کت ب ن مین لکہی جہن پی
94
کہون ب پ یسر ک ا ن مین بدا ک ر مین ن ن من کہ ین سنو ن ن من کی ا ب پ ک یسع ن تہ شجر وہ ب پ ک یسع ک جو تہ ب پ اورد ش ہ بدیی عدل و انص ف کے ب رک ہ ہمیش کرے ک ر ن مش ہمیش پت ش ہ اورد ک ک ر کیش جو تہ ب پ اوسک ہو اندر جہ ن سنو ن ان ش ہ ازمن رم ن رم ن ش ہ ک ب پ برح نبے مب ت شدہ ن او در صیح مب ت نبے ک کہ وں جو ب پ لئے ن ہمکت ک ہون ہی ب ت ک ر مون رہ ک ر ہے سون مواء کی ہ ر دنی سون ب زی جواء جو اوسک پت تہ سو قیدار ن
95
ہوا وہ نبیے خ ص بروں سال زبیح ہللا اوسک پت اسم عیل ولد اوسک تہ ابرہیمش خ یل پیغمبر سے تین اہ ن دار چہ ط قت کہ آری و ص تیں شم ر ہوی جد پیغمبرابراہی چکہ سین رکہی ح تی ذالیش کری جو ب پ اوسک اذر بدا بت تراش ہمیشہ بتون کی نب دیں وہ الش ہوی ک ر کی بیچ سردار خو بتون کیی پرستے مین رہت غرو جو تہ ب پ ک آزر ک ت رخ سو ن کریں ب دش ہے سو بدنی تم پت ش ہ ت رخ ف زح ہواء زغ ت ہمیشہ ک ر مون مواء جو تہ ب پ اوسک سو ی قو ن پیغمبر سن ہی سو ع ل تم
96
جو ی قو ک ب پ غ یر بہال دی ک ر کون خ ک مین جز مال سنو ص لح ہی غ یر ک ب پ کریزان ہوا خوف جنکے سو پ پ پہر اوسک ولد ہود لکہی کت ک ر کون کی آن چہ روں خرا پیغمبر ہوئی ج زاہ ج ن لے کہی سہبہ کت بون ک تون م ن لے کہو ش ہ ارفخشد اوسک پت ء بدا ش ہ ع ل کون جسنے جت پہر اوس ک پت س ک فر کہوء جیو ن اوسک نہہ کر رہوء یہی نوح آد ک ث نی نبیے پت س ک ج ن لیجو۔۔۔۔۔۔۔ کہنہ ک ر ہوئی خ
بیشم ر
بطوف ن میں غر کیتے ہزار بن ئی بدیی نوح کشتے کالں
97
رکہی بیچ ہر ج ت کے درمی ن ج جہ ن ازسر نو ہویدا شدہ ط یل نبیے نوح پیدا شدہ کہین نوح کون ث نی آد ہوی زوارال ن ہ آخر اوہ بہےموی پت اوسکے ک ن مستوسبخ است نہ پیغمبر و ش ہ او ک فر است پدر ویی لود است ن مش ضوح شدہ ک رمین........بدک صبوح پت اوسک ی مرد پہی درجہ ن بدا ک ر او ک فریمین عی ن کریی ب پ مہالن کے ک فر ہے سنو ن قنی ن او در کت بروز حشر ک فران اہ عذا نبیے ب پ قنی ن ک یونس است کی ذکر دربطن م ہے نشت
98
تولد شدہ یونس از ع شیش مب رک ز پیغمبریشیش ریش پت شیش ک آد اندر کت خدا کرو ص وات او بےحس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نوٹ :یہ ش ر ک ٹ ہوا ہے سو ک فر نہ آی ہے دہر میں اوسے ی د کر ن ہنین مین نہ مین
99
میرے اب ۔۔۔۔۔۔ ایک مط ل تی ج ئزہ
خ کہ' سوانح عمری کی نسبت' مختصر ہوت ہے لیکن اس میں' زی دہ سے زی دہ اس شخص' اس کے کنبہ اور اس کے سم ج سے راہ و رس کے حوالہ سے' م وم ت فراہ کی گئی ہوتی ہیں۔ خ کہ کے دور نزدیک کے ج نو لکھ ری ہونے کے سب تین طور دیکھنے کو م تے ہیں۔ لکھنے والے کے ذاتی ت
کے حوالہ سے م مالت
وقتی' ات فیہ ی ح دث تی امور و اطوار سنے سن ئے ی نی ب الوسطہ چ ن کی سرگزشت اول الذکر' بہت قری کی صورت ہے' لیکن اس ک ت دہ یز کے اس پ ر سے ہے' اس لیے یہ یک طرفہ ہوتی ہیں کیوں کہ اس شخص کے' دہ یز کے اندر اور دہ یز پ ر کے اطوار' مخت ف اور اکثر برعکس ہوتے ہیں۔ اس حوالہ سے' ان پر درست ی مکمل کی مہر' ثبت نہیں کی ج سکتی۔ دوسری وقتی ہوتی ہے اور شخص کے' عمومی اطوار سے لگ نہیں رکھتی۔ اس لیے' اسے پیم نہ ٹھہرا کر' کوئی نتیجہ اخذ کرن ' درست
100
نہیں ہوت ہے۔ تیسری صورت لمح تی ہوتی ہے .اسے بھی' شخصی فطرت ی اس کی فطرت ث نیہ ک درجہ نہیں دی سکت اور ن ہی' اس کے حوالہ سے' شخصیت ک مجموعی اح طہ کی ج سکت ہے۔ اگر کوئی دہ یز کے اندر ک لکھت ہے' تو اس کی ذاتی محبت ی ن رت ک جذبہ غ ل رہت ہے' ہ ں اگر اس کے اندرونی و بیرونی احوال کو ق بند کر دی ج ت ہے' تو یہ دوطرفہ ہونے کے سب ' زی دہ م وم ت افروز ہوت ہے' جس کے ب عث' اس شخص کی شخصیت کو ج ننے اور پہچ ننے میں' مدد م تی ہے۔ س تھ س تھ لکھنے والے اور دہ یز کے اندر کے ب ض لوگوں ک ' ت رف اور ان کی شخصیت کے' مضبوط اور ک زور پہ و بھی' س منے آتے چ ے ج تے ہیں۔ ہر لکھنے والے ک ' اپن اس و ہوت ہے لیکن خ کہ نگ ری میں' مت اور رسمی مت ک عنصر' اس و پر اثر انداز ہوت ہے بل کہ غ ل رہت ہے۔ مت میں' محبت ی ن رت کے زیر اثر' اس و ترکی پ ت ہے۔ اس ذیل میں' غیرج ن داری کی ہر س ی' کسی ن کسی سطح پر' ضرور مجروع ہوتی ہے اور یہ امر' بہرطور بس ک نہیں ہوت ۔ اچھے خ کے کی' س بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ ق ری کو' مت ثر بھی
101
:کرے اور اس میں یہ خواہش پیدا ہو ی زور پکڑے 'ک ش کہ یہ خوبی میرے کردار ک حصہ بن ج ئے ' اگر وہ خ کہ' ق ری کے سوچ میں' کسی بھی سطح پر' بدالؤ ک سب بنت ہے' تو سمجھیے لکھنے والے کی محنت' ک رگر ث بت ہوئی۔ اسی طرح' کسی م م ہ سے ن رت جن لیتی ہے' ت بھی تحریر کو' ک می تحریر قرار دی ج ئے گ ۔ عزیزہ مہر افروز ک تحریر کردہ خ کہ۔۔۔۔۔۔۔ میرے اب ۔۔۔۔۔۔ نظر سے گزرا اور پھر' گزرت ہی گی ۔ بالمب لغہ کہوں گ ' کہ یہ کم ل کی تحریر ہے۔ انہوں نے خ ن ص ح مرحو کی شخصیت ک ' جس انداز سےاح طہ کی ہے' وہ بالشبہ داد کی مستح ہیں۔ اس خ کہ کو پڑھ کر' میرے دل میں دو خواہشوں نے جن لی .ہللا' اس سوچ اور فکر کی بیٹی سے' ہر کسی کو نوازے ک ش خ ن ص ح مرحو سے اطوار' ہر کسی میں پیدا ج ئیں۔ گھر کے ڈسپ ن میں' ہر کسی کو ایس ہی ہون چ ہیے' ت ہ چیخ و پک ر .سے زی دہ' گھرکی ج ن دار ہو اپنے بچوں کو' اپنے قری رکھے' ان کے ج ئز امور و م مالت سے' آگ ہی رکھے اور بہتری میں براہ راست م وث رہے۔
102
ع ح صل کرئے اور اس کی تقسی میں' بخل سے ک نہ لے۔ اپنے بچوں کو' گ ت گو ی کہ نی کے انداز میں' اچھی ب تیں بت ئے۔ بچوں کی ت ی کے م م ہ میں' غربت کو بہ نہ ی جواز نہ بن ئے .ان کی ت ی کے لیے' ہر قس کی قرب نی سے ک لے۔ اس خ کے سے یہ امور بھی وض حت کے س تھ س منے آتے ہیں کہ .بزرگوں اور اہل ع کے م م ے میں' آدمی کو کیس ہون چ ہیے ذات تک محدود سوچ' تھوڑدل بن تی ہے۔ اوروں کے لیے سیری اور اپنے لیے' بھوک بچ ن ہی م راج انس یت ہے۔ آدمی کو' بال کسی تمیز و امتی ز' لوگوں کی مدد کرتے رہن چ ہیے۔ ہ دردانہ رویہ' انس نوں میں اعتب ر ک سب بنت ہے۔ ص ح تقوی کبھی خس رے میں نہیں رہتے۔ شخص پر' جم ہ مخ وق ت کی ذمہ داری ع ئد ہوتی ہے اور یہ ہی چیز' اسے اشرف المخوق ت ٹھہراتی ہے۔ خ کہ' خ ن ص ح مرحو کی زندگی کے احوال و اطوار کھولنے کے س تھ س تھ' ان کے عہد کے اش رے فراہ کرت ہے۔ مثال
103
مٹی ک تیل بھی راشن میں م ت ۔ صرف چھوٹی سی ایک بتی ج تی " "رہتی اسی طرح' ان کی سی سی ہمدردی ں بھی غیرواضح نہیں رہتیں۔ ان کی' س دات وشیوخ سے محبت و عقیدت' ہر قس کے شبے سے ب ال رہتی ہے۔ ہ ں البتہ' اس ذیل میں یہ پیرہ خصوصی توجہ چ ہت ہے۔ اب بہت محنتی۔ اور ع جز مزاج تھے۔ صبح گھر اور آنگن میں جھ ڑو " لگ ن خود پر الز کر رکھ تھ ۔ ام ں چونکہ اع ی گھر سے تھیں۔ اس ئے کبھی ام ں کو جھ ڑو لگ نے نہیں دی ۔ نہ گھر ک بیت الخالء اور موری ں ص ف کرنے دیں۔ کہتے' میں پٹھ ن ہوں اور تمہ ری ام ں شیخ "اور سید گھرانے سے ہے۔ گھر گرہستی میں' بیٹی مہر افروز کی ام ں کی ک زور شخصیت کو س منے الت ہے۔ جو بھی سہی' وہ خ ن ص ح مرحو بیوی تھیں۔ خ کے ک مط ل ہ کرتے' بیٹی مہر افروز کی اپنی شخصیت اور ان کی زندگی کے احوال بھی س منے آتے ہیں خ کے کی زب ن س دہ' رواں' ع فہ اور بےتک ف ہے۔ مط ل ہ کے دوران' کسی موڑ پر' ابہ می صورت پیدا نہیں ہوتی۔ ہر چند م وم ت'
104
لطف اور عصری شہ دتیں میسر آتی ہیں۔ اکت ہٹ کی' کہیں صورت پیدا نہیں ہوتی۔ کہیں کہیں مق می مہ ورے ک استم ل ہوا ہے' جو لس نی تی حظ ک سب بنت ہے۔ بیٹی مہر افروز کی یہ تحریر' مجھے بہت ہی اچھی لگی ہے۔ ہللا ان کے ق کو' مزید توان ئی اور روانی سے سرفراز فرم ئے۔
105
ڈاکٹر عبدال زیز س حر کی تدوینی تحقی کے ادبی اطوار شخصی نظریہ اور رجح ن شخص کی ک رگزاری پر اثرانداز ہوت ہے۔ اس ک کہن سنن اس نظریے ک عک س ہوت ۔ جہ ں م م ہ برعکس ہوت ہے' وہ ں من فقت غ ل رہتی ہے۔ من فقت سے بڑھ کر' کوئی شے بری نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر عبدال زیز س حر زب نی کالمی ہی نہیں' اپنی کرنی کے حوالہ سے بھی' صوفی ہیں۔ تحقیقی عمل میں بھی ان ک ' یہ ہی طور اور رویہ غ ل ہوت ہے۔ ان کی تین کت بیں مجھ ن چیز ف نی کی نظر سے گزری ہیں' جو ان کے ب عمل صوفی ہونے پر مہر ثبت کرتی ہیں۔ اس ذیل میں' ان کی کت ۔۔۔۔۔ محرا تحقی ۔۔۔۔۔ کو ہی لے لیں۔ اس میں دس تحقیقی مق لے ش مل ہیں' جن میں سے'آٹھ تصوف سے مت م زز و محتر حضرات کے ہیں۔ ان ک مط ل ہ کرنے کے ب د ان کہے تحقی ایک طرح ک صوفی نہ عمل ہے۔ اس میں بھی اس گہرے انہم ک اور استغرا کی ضرورت ہوتی ہے' جو راہ س وک کے مس فر ک الزمہءس ر ہے۔ جس طرح س لک اعتدال اور توازن کے حجرے میں بیٹھ کر انکش ف ذات کے رنگوں میں بےرنگ کی ی ت کی تج ی ت سے
106
لطف اندوز ہوت ہے' اسی طرح ایک محق بھی اد ' ت ریخ اور تہذی کے دائروں میں س ر کرت ہوا گوہر ہ ئے آ دار کی دری فت اور ب زی فت سے نئے رنگوں کی کشید کرت ہے۔ وہ ح کی تالش میں سرگر ک ر ہوت ہے اور اس عمل میں اس کی تالش اور جستجو کے رنگ دیدنی ہوتے ہیں۔ محرا تحقی :ص ϳ پر عمل کی مہر ثبت ہو ج تی ہے۔ ص حب ن ذو کے لیے' یہ دس مق لے گراں قدر سرم یہ ہیں۔ رفتہ کی دھول سے' ان ک تالشن اور ان پر ک کرن ' ایس آس ن اور م مولی ک نہیں۔ پرانی تحریروں کو پڑھن ' بڑا ہی مشکل ک ہے۔ خط اور زب ن آج سے میل نہیں کھ تے۔ اوپر سے پرانی ف رسی' کچھ کرنے اور سمجھنے سے دور رکھتی۔ ان پرانی تحریروں کو نظرانداز کرن بھی' زی دتی کے مترادف ہے۔ پرکٹھن مشکل گزار اور پرخ ر راہوں کے راہی' بالشبہ سقراط منصور اور سرمد کے قد لیتے ہیں۔ وہ ان ہونی کو' ہونی میں بدل کر ہی ش نت ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر س حر کی تدوینی تحقی ' ب ض م مالت میں' اوروں سے قط ی ہٹ کر ہے۔ انہوں نے' اسے س ئنسی عمل کے طور پر' لی ہے۔ ان کی جم ہ ک وش ہ ' حس بی ک یوں سے' مط بقت رکھتی ہیں۔ گن چن کر' بڑے محت ط انداز میں' ل ظوں ک است م ل کرتے ہیں۔ اس نوعیت کی
107
تحریریں' خشک اور بور ہوتی ہیں لیکن ان ہ ں' یہ صورت' دیکھنے کو بھی نہیں م تی۔ اس وصف کی بن ء پر' ق ری ان کے ل ظوں میں انولو ہونے میں' دقت محسوس نہیں کرت ۔ اظہ ر کے لیے ال ظ چن ؤ میں' کوت ہ کوسی ک شک ر نہیں ہوتے۔ اس کے لیے' ذمہ دارانہ اہتم کرتے ہین ور کسی سطع پر' زود نویسی ک شک ر نہیں ہوتے۔ مختصر نویسی انتہ ئی دشوار گزار عمل ہوت ہے۔ ایک چیز کو' ب ر ب ر دیکھن ' قطر برید کے عمل سے گزارتے رہن ' اکت دینے واال عمل ہوت ہے۔ مزے کی ب ت یہ کہ شگ تگی اور شی تگی تحریروں م ند نہیں پڑتی .فیکشن ک ق ری' تحقی و تنقید سے مت کے قری سے بھی' نہیں گزرت ۔ تحققی و تننقید سے مت تحریروں میں' کہیں کہیں سہی' ب م نی اور موضوع سے مت تحریر میں' فیکشن ک س ذائقہ کم ل کے فن ک غم ز ہوت ہے۔ رؤف پ ریکھ نے یوں ہی نہیں کہہ دی ۔ س حر ص ح تحقی اور تنقید کے تو مرد میدان ہیں ہی نثر بھی خو لکھتے ہیں۔ لہذا ا آپ س حر ص ح کی تحقی کے س تھ ان کی سحر طراز نثر سے بھی لطف اٹھ ئیے۔ محرا تحقی :ص ϭϬ
108
حس الدین الہوری کی غزل کے تم اش رع رف نہ اور صوفی نہ رنگ سخن کے غم ز ہیں۔ ان کی فکر :وحدت اور تس سل کی آئینہ دار ہے دنی مق فن ہے' اس سے دل لگ ن وب ل ج ن ہے' اصل زندگی خدائے ذوالجالل کی م رفت و آگہی سے عب رت ہے' تخ ی ک ئن ت ک مقصد و محور انس ن ہے' انس ن کی ب ثت اور عب دت الہیہ الز وم زو ہیں' مرشد' خداوند قدوس تک رس ئی ک ایک زینہ ہے' جیسےمتصوفی نہ مض مین اس غزل میں بی ن ہوئے ہیں۔ محرا تحقی ϭϲ : اس کہے کی سند میں' یہ جم ے مالحظہ فرم ئیں۔ حسن کے س تھ س تھ' قطرے میں دج ہ مقید دکھ ئی پڑت ہے۔ سید حس الدین الہوری کی گی رہ اش ر پر مشتمل غزل کی روح کو' صرف اور صرف تین .جم وں میں بند کر دی ہے محض تین جم وں پر مشتمل ایک پیرہ تین رنگ لئے ہوئے۔ ۔بڑا' چھوٹ ' اس سے چھوٹ ب لکل چھوٹ جم ہ۔ ہر جم ے کی تشریح و ت ہی کے لیے بہت سے پہروں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ ل ظ جیسے ک است م ل' ق ری کو اصل غزل کی طرف پھرنے پر مجبور
109
کر دیت ہے۔ رموز م نویت اور تحریر کی درست قرآت میں م ون عنصر ک درجہ رکھتےہیں۔ یہ ابہ سے بچ ئے رکھتے ہیں۔ اسی بن ء پر انہوں نے اپنی تحریروں میں ان ک ب طور خ ص اہتم کی ہے۔ وہ اپنی تحریروں میں' مصنف ی ش عر کی مجموعی فکری سے انسالک اور لس نی تی اثرپذیری ک ' بڑے ہی واضح ل ظوں میں اظہ ر کرتے ہیں۔ اس سے مت قہ ش عر ی ادی کے کہے کو' سمجھنے میں آس نی ں پیدا ہو ج تی ہیں۔ ب طور نمونہ یہ اقتب س مالحظہ فرم ئیں۔ بہ در ش ہ ظ ر بنی دی طور پر ایک درویش منش اور فقیر مزاج انس ن تھے۔ ا بتدا ہی سے س س ہ چشتیہ کے صوفیہ کے س تھ خصوصی ت خ طر تھ ۔ محرا تحقی :ص ϳϳ سند میں بہ در ش ہ ظ ر کے پ نچ ش ر بھی درج کرتے ہیں۔ ان پ نچ اش ر میں سے ایک ش ر درج خدمت ہے۔ یہی عقدہ کش میرے' یہی ہیں رہنم میرے
110
سمجھت ان کو اپن ح می دنی و دیں ہوں میں محرا تحقی :ص ϳϴ لس نی تی حوالہ سے تذکرے کی یہ مث ل مالحظہ ہو۔ لس نی اعتب ر سے نج الدین س یم نی کی زب ن ک دائرہءاثر کئی زب نوں اور بولیوں کے اثرات کو محیط ہے۔ اس میں ہری نی ک رنگ بھی ہے اور راجھست نی ک رس بھی' پنج بی کی خوش بو بھی ہےاور برج ک آہنگ بھی; سندھی چند ال ظ بھی اس ب رہ م سے کی منظر آرائی میں م ون ہیں اور ہندی ل ظوں کی ج وہ آرائی بھی ک نہیں; عربی اور ف رسی کے مت دد ال ظ پنج بی ت ظ اور آہنگ میں نظ ہوئے۔ محرا تحقی :ص ϭϰϯ رنگ' رس' خوش بو' آہنگ' منظر آرائی اور ج وہ آرائی جیسے ل ظوں اور مرکب ت کے است م ل نے' ڈاکٹر س حر کی نثر کو ش ر خیزی عط کی۔ یہ اس طرز اظہ ر ک اعج ز ہے' اس کے مط ل ے سے فیکش ک ق ری بھی' تک ن اور اکت ہٹ محسوس نہیں کرت ۔ اد کی ت ریخ میں' تھوڑے میں زی دہ لکھنے کی مث ل ش ید ہی پ ئے گی۔ بہت ک ل ظوں میں بہت کچھ سمون دین ' ش عری ک وتیرہ رہ ہے۔
111
اس ذیل کی نثر میں' بہت ک مث لیں پڑھنے کو م تی ہیں۔ اس تھوزے میں م وم ت ک ایک انب ر لگ دی گی ہے۔ اس ضمن فقط ایک جم ہ ک ' ایک ٹکرا مالحظہ ہو۔ اس میں فکر و فرہنگ ک اس وبی تی آہنگ; ش ور وادراک کی ...... جم لی تی م نویت کو اپنی تم تر رنگینی اور رعن ئی کے س تھ منکشف کر رہ ہے۔۔۔۔۔۔ محرا تحقی :ص ϵϵ اس ن مکمل جم ے میں روم ن خیزی اور ش ری حسن تو ہے ہی' م نویت کے اعتب ر سے بھی' ب کم ل ہے۔صن ت تکرار ل ظی اپنی جگہ' مرکب ت فکر و فرہنگ' اس وبی تی آہنگ' ش ور وادراک' جم لی تی م نویت' رنگینی اور رعن ئی کی تشکیل میں' ان کے فکر کے بھرپور ہونے میں شک و شبہ کی گنج ئش ب قی نہیں رہتی۔ ڈاکٹر س حر ق ری کی سہولت اور ابہ می کی ی ت سے بچنے کے لیے' اپنے ک کو مخت ف حصوں میں ب نٹ دیتے ہیں۔ ہر حصہ' تخ کے ایک گوشہ کو پوری طرح سے واضح کر دیت ہے۔ اس طرح اگ ے گوشے میں' پہ ے گوشے سے قط ی ہٹ کر ب ت کی گئی ہوتی ہے۔ یہ تقسی ' ایک ہی ب ت کے دہرائے ج نے سے بچ ج تی ہے۔ ان ک یہ طور' مط ل ہ کے دوران' ق ری کے لیے فکری بوجھ پیدا نہیں ہونے
112
دیت ۔ اس ک دوسرا ف ئدہ یہ ہوت ہے' کہ ق ری انہیں فرصت کی مخت ف نشتووں میں پڑھ سکت ہے۔ مط ل تی تس سل ہر سطح پر' برقرار رہت ہے۔ ایک نشت میں' تخ ی سے مت ایک نقطہ اسے میسر آ ج ت ہے۔ ڈاکٹر س حر کسی غ ط ی اختالفی ب ت کو گھم پھرا کر نہیں کرتے۔ جو کہتے کی ب ت' ص ف اور واضح طور پر کہہ دیتے ہیں۔ لپیٹ کر کرنے سے' ت ہی میں گڑبڑ اور الجھ ؤ پیدا ہو ج ت ہے۔ مثال مثنوی کے ب ض مصرعے س قط الوزن ہیں۔ اگر ان میں سے کچھ ال ظ کو قدی روش امال کے برعکس موجودہ دور میں مروج امال اور ت ظ کے مط ب پڑھ ج ئے' تو وہ مثنوی کے وزن پر پورا اترتے ہیں۔ محرا تحقی :ص ϰϴ وہ قی سی ب ت سے پرہیز رکھتے ہیں۔ ک کے دوران' تحقیقی خوردبین کو ہرچند متحرک رکھتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وہ دور کی کوڑی تالش التے ہیں۔ مت اور غیر مت کی تمیز و شن خت میں' انہیں کسی قس کی دشواری ک س من نہیں کرن پڑت ۔ ڈاکٹر س حر کی تدوینی تحقی ک ' ایک اور پہ و بڑا ہی ج ندار ہے' کہ
113
وہ مت قہ مخطوطے کے غیرمست ل ال ظ کی جدید امال اور ل ظوں کے م ہی درج کر دیتے ہیں۔ ایک طرح ک ج مع فرہنگ تی ر کر دیتے ہیں۔ متنی تحقی سے مت اسک لر حضرات کے لیے' بالشبہ یہ بڑے ک کی ہے۔ اگر جم ہ مخطوطوں کے اس بکھرے سرم ئے کو ایک جگہ جمع کر دی ج ئے تو یہ اہل تحقی کے لئے ایک تح ہ ہو گ اور اس حوالہ سے ک کرنے والے' ان کے احس ن مند رہیں گے ڈاکٹر س حر حوالہ ج ت اور حواشی کے م مالت میں' بڑے چوکس ہیں اور اس ذیل میں کوت ہ کوسی ک شک ر نہیں ہوتے۔ یہ ہی نہیں' اش ریے جیسی اہ چیز کو نظرانداز نہیں کرتے۔ اس سے کوئی بھی محق ' بےج لیبر ک شک ر نہیں ہوت ۔ مت ق ت تک' اس کی رس ئی منٹوں سیکنٹوں میں ہو ج تی ہے۔ مجموعی طور یہ ب ت کرنے میں' کسی قس ک ع ر ی تردد محسوس نہیں ہوت کہ ڈاکٹر س حر ہوش مند' ب لغ فکر اور ذمہ دار محق ہیں۔ ان کی جم ہ ک وش ہ متنی تحقی سے مت اسک لرز حضرات کے لئے' ق بل سند نمونہ رہیں گی
114
رحم ن ب ب کی زب ن ک اردو کے تن ظر میں لس نی مط ل ہ ب میں سو طرح کے پودے ہوتے ہیں۔ ہر پودے ک اپن رنگ ڈھنگ' طور اور م نویت ہوتی ہے۔ ہر پودے کے پھول ن صرف ہیت الگ سے رکھتے ہیں' ان کی خوش بو بھی دوسروں سے' الگ تر ہوتی ہے۔ م لی کے لیے' کوئی پودا م نویت سے تہی نہیں ہوت ۔ اسی طرح' ب بھی ان سو طرح کے پودوں کی وجہ سے' ب کہالت ہے۔ یہ رنگ رنگی ہی' اس کے ب ہونے کی دلیل ہے۔ انہیں بہرصورت' ب ک حصہ ہی بنے رہن ہوت ہے۔ انس ن بھی' ایک پودے کے مم ثل ہے' جو انس نوں کے ہجو میں زندگی کرت ہے' ب لکل ب کے پودوں کی طرح۔ اس ب میں بھی مخت ف رنگ' نس وں اور مزاجوں کے لوگ آب د ہیں۔ ہر رنگ' ہر نسل اور قو ک شخص زندگی کے ب کے حسن اور م نویت ک سب ہے۔ کسی ایک کی غیرفطری موت' اس کے حسن اور م نویت کو گہن کر رکھ دیتی ہے۔ ج یہ ایک صف میں کھڑے' ہللا کے حضور ح ضری ک شرف ح صل کرتےہیں تو مخ و ف کی بھی' عش عش کر اٹھتی ہے۔ ج کسی ہوس ی برتری کے زع میں' اپنے سے' کسی کی گردن اڑاتے ہیں' تو اب یس جشن من ت ہے۔ یہ امر ہر کسی کے لیے' حیرت ک سب ہو گ ' کہ زب نیں جو انس ن کی
115
ہیں اورانس ن کے لیے ہیں' ایک دوسرے سے قری ہونے سے' پرہیز نہیں رکھتیں۔ دشمن قوموں کی زب نوں کے ل ظوں کو' اپنے ذخیرہءال ظ میں داخل ہونے سے' منع نہیں کرتیں۔ وہ انہیں اپنے دامن میں اس طرح سے جگہ دیتی ہیں' جیسے وہ ل ظ اس کے قریبی رشتہ دار ہوں اور ان سے کسی سطح پر چھوٹ ممکن ہی نہ ہو۔ زب نیں کسی مخصوص کی ت بح فرم ن نہیں ہوتیں۔ جو' جس نظریہ اور مس ک ک ہوت ہے' اس ک س تھ دیتی ہیں۔ ہللا ج نے' انس ن ت ری و امتی ز سے' اٹھ کر' انس ن کے دکھ سکھ ک س تھی کیوں نہیں بنت ۔ سیری اور سکھ اپنے لیے' ج کہ بھوک پی س اور دکھ دوسروں کے کھیسے میں ڈال کر' خوشی محسوس کرت ہے۔ ان سے تو ایک درخت اچھ ہے'جوخود دھوپ میں کھڑا ہوت ہے اور جڑیں ک ٹنے والوں کو بھی' س یہ فراہ کرنے میں بخل سے ک نہیں لیت ۔ مخدومی و مرشدی حضرت سید غال حضور الم روف ب ب جی شکرہللا کی ب قی ت میں سے' پشتو زب ن کے عظی صوفی ش عر حضرت رحم ن ب ب ص ح ک دیوان مال ہے .یہ ک قی پران ہے۔ اس کے ابتدائی Ϯϴ ص حے پھٹے ہوئے ہیں۔ اسی طرح آخری ص حے بھی موجود نہیں ہیں۔ دیوان اول ص ϳϴتک ہےاور یہ ں ک ت ک ن فضل ودود درج ہے۔ فضل ودود ک ت تہک ل ب ال' پش ور سے ہے۔ قی س کہ ج سکت ہے کہ دیوان کی جن بھومی ی نی مق اش عت پش ور رہی ہو گی' ت ہ اسے پکی ب ت نہیں کہ ج سکت ۔ حیران کن ب ت یہ ہے' کہ دو چ ر نہیں' سیکڑوں عربی ف رسی کے ال ظ' جو اردو زب ن میں رواج ع رکھتے ہیں' بڑی حسن و خوبی اور متن کی پوری م نویت کے س تھ'
116
پشتو میں سم گیے ہیں' کہیں اجنبت ک احس س تک نہیں ہوت ۔ دیوان میں بہت سی غزلوں کے قوافی' عربی ف رسی کے ہیں اور یہ عصری اردو میں رواج رکھتے ہیں۔ ص Ϯϵپر موجود غزل ک مط ع :یہ ہے یہ نظر د بےبصر
لکہ ش ھسے سحر
:اس غزل کے قوافی یہ ہیں گوھر' زر' شر' برابر' بتر' بھتر' زبر' نظر' ضرر' ھنر' خبر زن ور ی نی ج نور' روکر'اوتر' پیغمبر' محشر' س ر' بشر' عنبر' پسر' اثر' رھبر' شر' حجر' شجر' ج دوگر'مصور پرور' ثمر' سر' م در' زیور' کمر' منبر' قمر ق ندر' ب ور' ک فر' مرور' در' گذر' خر' افسر' میسر' مسخر' پدر' بتر' کشور' سکندر' بحروبر' ...نم ز ...دیگر' بستر' چ کر' کوثر' منور' خطر' شر' دفتر' اختر' ب زیگر' شکر مقدر' سرور' اکثر ایک دوسری غزل جس کے تم قوافی عربی ف رسی کے ہیں۔ اس غزل :ک مقطع یہ ہے چہ منکر پرے اعتزاز کوے نہ شی داد ش ر دے رحم نہ کہ اعج ز :اس غزل کے قوافی مالحظہ ہوں آواز -شہب ز
مط ع
117
غم ز' داز' آغ ز' ب ز' س ز' نم ز' اعج ز :ص حہ ϭϳϲپر موجود ک مط ع ث نی مالحظہ ہو و ط ل و تہ وف شی
د مط و بےوف ئی
:ا اس کے قوافی مالحظہ ہوں آشن ئی -جدائی .........مط ع اول وف شی -بےوف ئی۔۔۔۔۔۔۔۔مط ع ث نی 'گدائی' دوست ئی اگ ے پ نچ ش ر پھٹے ہوئے ہیں۔ شیدائی' مالئی' رسوائی' بےنوائی' ری ئی' فرم ئی' ست ئی' دان ئی' بھ ئی' کج ئی' ھمت ئی' عط ئی' دلکش ئی' رھ ئی' پیم ئی' صحرائی' تنھ ئی' گرم ئی' تمن ئی' پ رس ئی' آزم ئی' کم ئی' زیب ئی' سودائی' خدائی' ص ئی' سروپ ئی' رعن ئی' ب الئی' دری ئی' ح وائی :ص ϴϴ :پر موجود غزل کے قوافی یہ ہیں راغ ' غ ئ ' ت ئ ' من س ' غ ل ' ط ل ' واج ' ک ت ' ق ل ' ن ئ ' عج ئ ' مرات یہ محض ب طور نمونہ چند غزلوں کے قوافی درج کیے ہیں ورنہ ان کی کئی غزلوں کے قوافی عربی اورف رسی ال ظ پر مشتمل ہیں۔
118
حضرت رحم ن ب ب ص ح کے کئی ردیف عربی ف رسی ال ظ ہیں اور یہ ال ظ اردو میں مست ل ہیں۔ مثال ص حہ ϰϭپر موجود ایک غزل ک ردیف اخالص ہے ج کہ دوسری ک ردیف غرض ہے۔ ص حہ ϰϮپر ایک غزل ک ردیف واعظ ہے ج کہ دوسری ک ردیف شمع ہے۔ ص حہ ϲϬپر ایک غزل ک ردیف تورو زل و....سی ہ زلف .....ہے۔ زلف کو زل و کی شکل دی گئی ہے۔ ص ϵϬپر موجود دو غزلوں ک ردیف نشت ہے ص ϵϭپرموجود دو غزلوں ک ردیف الغی ث ہے ص ϭϬϬپر موجود ایک غزل ک ردیف عمر ہے ص ϭϭϲپر موجود دو غزلوں ک ردیف بےمخ ص ہے ا ذرا ب طور نمونہ' ان مصرعوں کو دیکھیں' ن صرف ص ف اور واضح ہیں' ب کہ ہر مصرعے میں ک از تین ل ظ ایسے ہیں جو اردو والوں کے لیے اجنبی نہیں ہیں۔ نہ صی د بہ ترے خبر وہ نہ شہب ز کھ مک ن ئے پہ آسم ن دے غذا او شو
119
ھمیشہ د م صیت پہ اور کب
ی
لکہ خس وی ی زر تن د درست زیروزبر شو رحمن ب ب کے ہ ں صن ت تض د کے لیے است م ل ہونے والے ال ظ ' اردو میں مست مل ہیں۔ مثال سی ھی واڑہ س یدی شوہ تن د درست زیروزبر شو نہ مس وی نہ ک فر ھمیشہ رفت و آمد کہ لکھ عذر چہ ص ح تہ غال نہ ک مالمت د خ ص و ع نور پیدا شو شوروشر منت ب ر دھر س ید دھر سی ہ یئ چہ د دین مت ع بدل بہ پھ دنی ک رحم ن ب ب ' اپنے کال صن ت تکرار ل ظی ک خو خو است م ل کرتے
120
ہیں۔ اس ذیل میں اردو میں رواج رکھتے ال ظ کو بھی بڑی حسن و خوبی سے است م ل میں التے ہیں ی یہ ال ظ' زب ن پر دسترس ہونے کے ب عث است م ل میں آ گیے ہیں .مثال د ھجران عمر د عمر پھ شم ر نہ دے دنی دار د دنی ک ر ک زہ د دین ہ صوت ال ظ ' ش ر میں ش ریت کو جال بخشتے ہیں۔ ان سے ش ر میں نغمیت اور چستی پیدا ہوتی ہے۔ رحم ن ب ب اس صن ت ک ب کثرت است م ل کرتے ہیں۔ اس سے ن صرف ش ر ک مضمون روح کی گہرایوں میں اترت چال ج ت ہے' ب کہ جس میں تھرل سی پیدا کر دیت ہے۔ ب ب ص ح موصوف نے' اردو کے مست مل ال ظ کو تصرف میں ال کر اپنی جدت طرازی' زب ن دانی اور انس نوں کی فکری س نجھوں کو اج گر کی ہے۔ اس ضمن میں دو ایک مث لیں مالحظہ ہوں۔ نہ ئے متل نہ مث ل نہ ئے زوال شتہ کہ مط
د نور چ نورے مرتبہ دی
پہ کینہ بہ آیئنہ نہ کڑی تہ خ ک ل ظ کے مت ق ت ک ' ایک مخصوص س یقے سے است م ل کرن ' ایک الگ سے فن ک درجہ رکھت ہے۔ ب ب ص ح کو اس فن میں کم ل
121
ح صل ہے۔ مت قہ ل ظ نکھر جت ہے۔ م ہو الجھ ؤ سے تہی ہو کر' فکر کے دھ رے موڑ دیت ہے۔ ان کے پ س ایک وسییع ذخییرہءال ظ ہے۔ اس حوالہ سے' وہ اردو کے مست مل ال ظ کو بھی' تصرف میں رکھتے ہوئے' انس ن کے ب ہمی بھ ئی چ رے کو واضح کرتے ہیں۔ چند :ایک مث لیں مالحظہ ہوں ب دش ھی د ھ ت کشور م شوقے ھمیشہ ن ز پھ ع ش ک ندی پک ر نہ دے مقتدی وی کہ ام چہ تصویر کہ مصور ست رہ بہ شمس قمر نہ شی ھرگز پہ عی ل د خپل پدر ھ ب دش ہ دے ھ سرور نہ سنت د پیغمبر رحمن ب ب ت میح ت کے است م ل کی ذیل میں' اردو ش را سےالگ تر رویہ اور انداز اختی ر نہیں کرتے۔ اسی طرح پشتو میں ان کے ن ع یحدہ سے نہیں ہیں۔ انہوں نے اپنے کال میں' بہت سی ت میح ت است م ل کی ہیں اور یہ اردو والوں کے لیے' غیر م نوس نہیں ہیں۔ :چند ایک مث لیں مالحظہ ہوں
122
کہ جنت دے کہ دوزخ دے کہ اعراف د اب یس و ری ضت تھ نظر او کڑہ دغہ ک ر بھ پھ عص کوے تر کو مرتبہ د س یم ن چہ چ لہ ورشی چہ خ ورے د فرھ د او د مجنون دی ھغھ شیرین حوض کوثر رحمن ب ب کے بہت سے اش ر ضر االمث ل کے درجے پر ف ئز نظر آتے ہیں۔ ان اش ر میں اردو کے بہت سے عمومی رواج رکھتے ال ظ موجود ہیں۔ مثال ع میت د بےعق ہ ع لم نو
لکھ گنج د کت بونو پہ خرہ ب رش
پہ مث ل د من فقو
نہ مس وی نہ ک فر
نہ ئے فھ فراست وی نہ ئے عقل م کوس
خ لی نقش لکھ عکس د
پہ توا او پہ خدائے
نہ دلیل وی نہ نظر
نہ دے فرض د خدائے ادا کڑہ
نہ سنت د پیغمبر
نہ مئے حسن نہ جم ل وی
غ ہ وی خ
پہ زیور
پشتو اور اردو میں' ف رسی کے بہت سے مشترک ال ظ موجود ہیں۔
123
رحمن ب ب ف رسی مصددر ک بھی بالتک ف است م ل کر ج تے ہیں اور یہ رویہ اردو والوں کے ہ ں بھی موجود رہ ہے۔ رحمن ب ب کے ہ ں :مصدر رفتن ک است م ل مالحظہ ہو چہ ئے خواتہ رفتن دے مرکب ت ش عری کی ج ان ہوتے ہیں اور یہ زب ن کو ثروت عط کرتے ہیں۔ رحم ن ب ب کے ہ ں' پشتو مرکب ت اپنی جگہ' اردو زب ن میں مست مل ال ظ کے بہت سے مرکب ت نظرآتے ہیں۔ ان مرکب ت کے حوالہ سے' دونوں زب نوں کی لس نی قربت ک ب خوبی اندازہ لگ ی ج سکت ہے۔ واؤ سے ترکی پ نے والے مرکب ت ھمیشہ رفت و آمد کہ نور پیدا شو شور و شر چہ ئے قیل و ق ل د ی رہ سرہ نہ دی د دنی چ رے پہ مثل خوا وخی ل دے مس وی د ع شقی پھ خ ص وع دیگر مرکب ت کی کچھ مث لیں مالحظہ ہوں۔ ارم نو بھ کوی زار زار بھ ژااڑی
124
ع قبت بھ ئے جدا جدا منزل شی نہ ئے فھ فراست وی نہ ئے عقل و رئح بہ نھ شی ش ت ر د تورو زل و دی رغ لکھ مزرے دا ب ندی راشی کہ د خ قو و نظر تھ آدمے دے غرض دا چہ ع قبت خ نہ خرا ی بندیوان د ھغہ سی ذقن پہ چ ہ یئ منت ب ر دھر س ید دھر سی ہ یئ منت ب ر' دراصل منت کش ......منت کشیدن سے ......ہی ک روپ ہے۔ چہ پرے غ غ طہ د شپے پ س غ غ ط کرن ' ب ق عدہ اردو مح ورہ ہے۔ اس مصرعے میں بھی 'اس ک ب طور مح ورہ است م ل ہوا ہے۔ چہ پرے غ غ طہ د شپے پ س دین دنی ' اردو اور پنج بی میں ع است م ل ک مرک ہے۔ ب ب ص ح
125
کے ہ ں اس ک است م ل' ب سواد اور الگ سے رنگ لیے ہوئے ہے۔ مالحظہ ہو چہ د دین مت ع بدل بہ پھ دنی ک پنج میں بےمروت ' بےپرتیت ' بےنیت ' بےبنی دا ب طور گ لی است م ل ہوتے ہیں۔ رحم ن ب ب ص ح کے ہ ں بےبنی دہ اور بےبق کچھ اسی طرح سے' است م ل میں آئے ہیں۔ لہجہ میں سختی واضح طور پر موجود ہے۔ سر ت پ یہ بےبنی دہ بےبق شو ایک دع ئیہ ش ر مالحظہ ہو۔ کی والہ نہ اور بےس ختہ پن ہے۔ ح ت لی کہ ئے نصی کھ
ھغھ شیرین حوض کوثر
بے' نہی ک س بقہ ہے اور اردو میں ب کثرت استم ل ہوت ہے۔ رحم ن ب ب کے ہ ں بھی' یہ س بقہ است م ل ہوا ہے۔ چند مث لیں مالحظہ ہوں۔ یہ ال ظ اردو کے لیے اجنبی نہیں ہیں۔ لکھ تش صورتہ بےروحہ بےب لین او بےبستر کہ جہ ن و بےھنر و تھ فراخ دے د بےدرد ھمدمی بہ د بےدردک
126
رحم ن ھسے بیوقوف سوداگر نہ دے لہ ک ذات بے دی نتھ بےنم زہ د بےمث ہ بےمث لہ بےمک ن دے لکہ تش کدو بے مغزہ مراد ئے بےدی ر لہ درہ بل ہ
نہ دے
رحم ن ھسے و خپل ی ر تہ بےحجت رے مزید کچھ نہی کے س بقے مالحظہ فرم ئیں۔ ال ظ اور س بقے اردو :زب ن سے مت بھی ہیں ن پہ ن بود ب ند ن ح د بود کم ن ک د ن مرد د ھمدمی بہ د ن مردک تہ ن ح پہ کینہ کڑے کینہ ن ک ک لہ ک ذات بے دی نتھ بےنم زہ ک اندیشہ کہ بیدار دے بیدار نہ دے
127
ھر ک فھ کج ئی ھر ک بخت ئے ک ہ مومی بد دع گو یہ د نیک خواہ او د بدخواہ ی مزید دو س بقوں ک است م ل مالحظہ ہو جو اردو میں بھی مست مل ہیں۔ ھ یؤ صورت دے ھ نشی دے ھ فراز ہ گ ت ر بہ ئے د خدائی پہ در قبول شی نغمے ک ندی ھ رقص کہ ھ خ ندی ب د رحم ن پہ ش ر ترکے د ب کرا ا چند الحقے مالحظہ ہوں' یہ اور ان سے مت ذخیرہءال ظ میں داخل ہیں۔
ال ظ ' اردو کے
128
نک تہ ن ح پہ کینہ کڑے کینہ ن ک کینہ ن ک' اردو میں مست مل نہیں ت ہ کینہ اور ن ک' ب طور الحقہ مست مل ہیں۔ گر صد رحمت شھ پھ روزگ ر د درویش نو دار دنی دار د دنی ک ر ک زہ د دین خواہ دع گو یہ د نیک خواہ او د بدخواہ ی گو دع گو یہ د نیک خواہ او د بدخواہ ی
129
مند بؤ لحد دے ھنرمند و لرہ تنگ پذیر ھر کال چہ دلپذیر او دلپسند وی یہ ہی نہیں' ب ب ص ح کے ہ ں پج بی ذائقہ بھی موجود۔ اردو میں پ ید اور پ یدی است م ل میں آتے ہیں۔ پنج بی میں پ ید سے پ یت اور پ یدی سے پ یتی' بولے لکھے ج تے ہیں۔ ب ب ص ح نے ایک مصرعے میں' یہ دونوں ال ظ است م ل کیے ہیں۔ اس کے ب وجود اس و پنج بی نہیں ہو پ ی ۔ د دنی پھ پ یتی ح ن پ یت کڑو اردو میں ہمیشہ' ج کہ پنج بی میں ہمیش مست مل ہے۔ ب ب ص ح نے کم ل حسن و خوبی سے اس ل ظ ک است م ل کی ہے۔ دھوا غشے ھمیش حکمتہ پھ زور شی الہور میں بیبی ں پ ک دامنہ کے محتر و م زز مزار ہیں۔ عوا میں پ ک دامنہ مرک م روف ہے۔ رحم ن ب ب نے اس مرک ک است م ل کی ہے۔
130
اس سے پ کیزگی کی فض پیدا ہو گئی ہے۔ مالحظہ ہو پ کدامنہ پرھیزگ رہ از تینھ ب ب ص ح ک ایک مقطع ب طور تبرک مالحظہ ہو۔ چہ منکر پرے اعتزاز کوے نہ شی اعج ز
داد ش ر دے رحم نہ کہ
اگرب ب ص ح کے اس مقط ے کو پڑھ کر' اگر کوئی ان کی فکری پرواز اور پرذائقہ زب ن کی داد نہیں دیت ' تو اس سے بڑھ کر کوئی بدذو نہ رہ ہو گ ۔ اس ن چیز سے لس نی مط ل ے کے ب د' میں اس نتیجہ پر پہنچ ہوں' کہ زب نیں بڑی م ن س ر ہوتی ہیں۔ اردو' پختو' پنج بی' عربی اور ف رسی ایک دوسرے سے یوں گ ے م تی ہیں' کہ کہیں اجنبیت ک احس س تک نہیں ہوت ۔ ت ظ' لہجہ' است م ل' م نویت اور ہیت تک بدل لیتی ہیں اور ل ظ' اختی ری زب ن کے قد لیتے ہیں۔ آخر انس ن کو کی ہو گی ہے' کہ یہ م دی' نظری تی' مذہبی' م شی' سی سی دائروں ک مکین ہو کر' ایک دوسرے سے' کوسوں کی دوری اختی ر کر لیت ہے۔ رنگ' نسل اور عالقہ' اسے دور کیے ج رہ ہے۔ لس نی ت ص بھی اسے دور کیے رکھت ہے۔ زب ن کے ن پر' دوری ں بڑھی ہیں' ج کہ ہر زب ن دوریوں .کو ن پسند کرتی ہے
131
انس ن آخر ک ' اپنی ہی زب ن سے' م ن س ری ک سب لے گ ۔ !!!۔۔۔۔آخر ک
132
عربی کے اردو پر لس نی تی اثرات ایک ج ئزہ ح ک زب نیں' محکو عالقوں کی زب نوں اور بولیوں پر' اثر انداز ہوتی ہیں۔ ہ ں البتہ' انہیں محکو زب نوں اور بولیوں کے نحوی سیٹ اپ کو' ابن ن پڑت ہے۔ ان کے بولنے والوں ک لہجہ' اندازتک ' اظہ ری اطوار اور کال کی نوعیت اور فطری ضرورتوں کو بھی' اختی ر کرن پڑٹ ہے۔ یہ ہی نہیں' م نویت کے پیم نے بھی بدلن پڑتے ہیں۔ اس کے سم جی' م شی اور سی سی ح الت کے زیر اثر ہون پڑت ہے۔ شخصی اور عالق ئی موسموں کے تحت' تشکیل پ ئے' آالت نط اور م ون آالت نط کو بہرصورت' مدنظر رکھن پڑت ہے۔ قدرتی ' شخصی ی خود سے' ترکی شدہ م حول کی حدود میں رہن پڑت ہے۔ نظری تی' فکری اور مذہبی ح الت و ضرورت کے زیراثر رہن پڑت ہے۔ اسی طرح' بدلتے ح الت' نظرانداز نہیں ہو پ تے۔ یہ ب ت پتھر پر لکیر سمجھی ج نی چ ہیے' کہ ل ظ چ ہے ح ک زب ن ہی ک کیوں نہ ہو' اسے است م ل کرنے والے کی ہر سطع پر' انگ ی پکڑن پڑتی ہے' ب صورت دیگر' وہ ل ظ اپنی موت آپ مر ج ئے گ ۔ عربی بڑا ب د میں' برصغیر کی ح ک زب ن بنی۔ مسم نوں کی برصغیر میں آمد سے بہت پہ ے' برصغیر والوں کے' عربوں سے مخت ف نوعیت کے ت ق ت استوار تھے۔ یہ ت ق ت عوامی اور سرک ری سطح پر تھے۔ عربوں کو برصغیر میں' عزت اور قدر کی نگ ہ سے دیکھ ج ت تھ ۔ عربوں نے' یہ ں گھر بس ئے۔ ان کی اوالدیں ہوئیں۔ دور امیہ
133
میں س دات اوران کے ح می یہ ں آ کر آب د ہوئے۔ ϰϰھ میں زبردست لشکرکشی ہوئی۔ ن ک می کے ب د' بچ رہنے والے بھی' یہ ں کے ہو کر رہ گیے۔ محمد بن ق س اوراس کے ب د' برصغیر عربوں ک ہو گی ۔ اس س رے عمل میں' جہ ں سم جی اطوار درآمد ہوئے' وہ ں عربی زب ن نے بھی' یہ ں کی زب نوں اور بولیوں پر' اپنے اثرات مرت کیے۔ یہ س ' الش وری سطح پر ہوا اور کہیں ش وری سطح پر بھی ہوا۔ دوسری سطح' لس نی عصبیت سے ت رکھتی ہے۔ مخدومی و مرشدی حضرت سید غال حضور الم روف ب ب جی شکرہللا کی ب قی ت میں سے' ت سیرالقران ب لقران کی تین ج دیں دستی ہوئیں۔ اس کے مولف ڈاکٹر عبدالحکی خ ں ای بی ہیں۔ اسے مطبح عزیزی مق تراوڑی ض ع کرن ل نے' ب اہتم فتح محمد خ ں منیجر ϭϵϬϭء میں ش ئع کی ۔ اسے دیکھ کر' ازحد مسرت ہوئی۔ یک د خی ل کوندا' کیوں نہ اس کی زب ن کے' کسی حصہ کو' عصری زب ن کے حوالہ سے دیکھ ج ئے۔ اس کے لیے میں نے' سورت ف تحہ ک انتخ کی ۔ ت سیر کی زب ن کے دیگر امور پر' ب د ازاں گ تگو کرنے کی جس رت کروں گ ' سردست عربی کے اردو پر لس ی تی اثرات ک ج ئزہ لین مقصود ہے۔ تسمیہ کے ال ظ میں سے' اس ' ہللا' رحمن اور رحی رواج ع میں داخل ہیں اور ان ک ' ب کثرت است م ل ہوت رہت ہے۔
134
سورت ف تحہ میں :حمد' هلل' ر ' ع لمین' رحمن' رحی ' م ک' یو ' دین' عبد' صراط' مستقی ' ن مت' مغضو ' ' ض لین ....غیر' و' ال' ع یہ ایسے ال ظ ہیں' جو اردو والوں کے لیے غیر م نوس نہیں ہیں۔ ع م نے ان ک ترجمہ بھی کی ہے۔ ترجمہ کے ال ظ' اردو مترف ت کی حیثت رکھتے ہیں۔ اس ' کسی جگہ' چیز' شخص ی جنس کے ن کو کہ ج ت ہے۔ یہ ں بھی .ن کے لیے است م ل ہوا ہے۔ ی نی ہللا کے ن سے تکیہءکال بھی ہے' کوئی گر ج ئے ی گرنے لگے' تو بےس ختہ منہ سے بس ہللا نکل ج ت ہے۔ حمد' اردو میں ب ق عدہ ش ری صنف اد ہے اور ہللا کی ذات گرامی کے لیے مخصوص ہے۔ ڈاکٹر عبدالحکی خ ن' مولوی بشیر احمد الہوری' مولوی فرم ن ع ی' مولوی محمد جون گڑھی' ش ہ عبدالق در محدث دہ وی' مولوی سید مودودی' مولوی اشرف ع ی تھ نوی اور س ودی ترجمہ ت ریف کی گی ہے۔ definitionکے لیے بھی مخصوص ہے اور رواج ع میں ہے۔ ت ریف کہ ج ت ہے' درج ذیل اصن ف کی ت ریف کریں اور دو دو مث لیں بھی دیں۔ ش ہ ولی ہللا دہ وی نے' اپنے ف رسی ترجمہ میں' حمد کے لیے' ل ظ
135
ست ئش است م ل کی ہے۔ ل ظ ست ئش ردو میں مست مل ہے۔ مولوی فیروزالدین ڈسکوی نے' خوبی ں ترجمہ کی ہے۔ گوی حمد کو برصغیر میں ت ریف ست ئش اور خوبی ں کے م نوں میں لی گی ہے۔ س ودی عر کے ترجمے میں بھی حمد کے لیے ت ریف مترادف لی گی ہے۔ :قمر نقوی کے ہ ں اس کے است م ل کی صورت دیکھیں میں تیری حمد لکھن چ ہت ہوں جو ن مکن ہے کرن چ ہت ہوں تری توصیف۔۔۔۔اک گہرا سمندر سمنر میں اترن چ ہت ہوں قمر نقوی نے اس کے لیے مترادف ل ظ توصیف دی ہے۔ ڈاکٹر عبدالحکی خ ن نے ص Ϯϯپر' ایک ش ر میں ل ظ حمد ک :است م ل کچھ یوں کی ہے حمد الہی پر ہیں مبنی س ترقی ت روح اس سے ہی پیدا ہوتی ہیں س ری تج ی ت روح هلل کو' ہللا کے لیے' کے م نوں میں س نے لی ہے۔ ف رسی میں ش ہ
136
ولی ہللا دہ وی نے برائے ہللا' ترجمہ کی ۔ یہ بھی ہللا کے لیے' کے مترادف ہے۔ هلل' ب طورتکیہءکال رائج ہے۔ ہللا کے لیے' ب طورتکیہءکال بھی رواج میں ہے۔ خدا کے لیے' خ گی ی غصے کی ح لت میں اکثر بوال ج ت ہے۔ مثال خدا کے لیے چپ ہو ج ؤ۔ خدا کے لیے' استدع کے لیے بھی بوال ج ت ہے۔ مثال خدا کے لیے ا م ن بھی ج ؤ۔ :ر ڈاکٹرعبدالحکی خ ن نے ترجمہ ر ہی ترجمہ کی ہے۔ مولوی محمد فیروزالدین ڈسکوی نے بھی ر کے ترجمہ میں ر ہی لکھ ہے۔ یہ ل ظ ع است م ل میں آت ۔ مثال وہ تو ر ہی بن بیٹھ ہے۔ بندہ کی دے گ ' ر سے م نگو توں ر ایں۔۔۔۔۔۔ ب طور سوالیہ ش ہ عبدالق در محدث دہ وی' مولوی محمد جون گڑھی' مولوی فرم ن
137
ع ی نے پ لنے واال ترجمہ کی ہے س ودی ترجمہ بھی پ لنے واال ہے۔ مولوی اشرف ع ی تھ نوی نے مربی مترادف درج کی ہے۔ مربی پ لنے والے ہی کے لیے است م ل ہوت ہے۔ مہرب ن' خی ل رکھنے والے' توجہ دینے والے' کسی قریبی کے لیے بولنے اور لکھنے میں مربی آت ہے۔ ش ہ ولی ہللا دہ وی اور مولوی بشیر احمد الہوری نے ر ک ترجمہ پروردگ ر کی ہے۔ پروردگ ر' ذرا ک ' لیکن بول چ ل میں ش مل ہے۔ گوی اردو میں یہ ل ظ غیر م نوس نہیں۔ ع مین' ع ل کی جمع ہے۔ ہر دو صورتیں' اردو میں مست مل ہیں۔ پنج کی سٹریٹ لنگوئج میں زبر کے س تھ بول کر' مولوی ص ح ی ع دین ج ننے واال مراد لی ج ت ہے۔ جہ ن بھی مراد لیتے ہیں۔ قرآن مجید کو دو جہ نوں ک ب دش ہ بوال ج ت ہے۔ ڈاکٹر عبدالحکی خ ں نے' ع مین ک جہ نوں ترجمہ کی ہے۔ مولوی محمد جون گڑھی کے ہ ں اور س ودی ترجمہ بھی جہ نوں ہوا ہے۔ ش ہ عبدالق در' مولوی محمد فیروزالدین اور مولوی فرم ن ع ی
138
نےس رے جہ نوں ترجمہ کی ہے۔ مولوی اشرف ع ی تھ نوی نے ہر ع ل ترجمہ کی ہے۔ مولوی بشیر احمد الہوری نے کل دنی ' مولوی مودودی نے ک ئن ت' ج کہ ش ہ ولی ہللا کے ہ ں ف رسی میں ع ل ہ ترجمہ ہوا ترجمے سے مت تم ال ظ' اردو میں مست ل ہیں۔ ہ رواج میں نہیں رہ ' ہ ں البتہ ہ ئے رواج میں ہے۔ جیسے انجمن ہ ئے امداد ب ہمی اردو بول چ ل میں ع لموں' ع لم ں بھی پڑھنے سننے میں آتے ہیں۔ ن بھی رکھے ج تے ہیں۔ جیسے ع ل ش ہ' نور ع ل ب طور ٹ ئیٹل بھی رواج میں ہے۔ جیسے فخر ع ل ' فخر دو ع ل ل ظ رحمن' عمومی است م ل میں ہے۔ ن بھی رکھے ج تے ہیں۔ مثال .عبد الرحمن' عتی الرحمن فیض الرحمن' فضل الرحمن وغیرہ ڈاکٹر عبدالحکی خ ں نے رحمن ک ترجمہ' ل ظ کے عمومی بول چ ل میں مست مل ہونے کے سب ' رحمن ہی کی ہے۔ مولوی سید مودودی نے بھی' رحمن ک ترجمہ رحم ن ہی کی ہے۔ مولوی محمد فیروزالدین نے' رحمن ک ترجمہ مہرب ن کی ہے۔ مولوی محمد جون گڑھی کے ہ ں' رحمن ک ترجمہ' بخشش کرنے واال ہوا ہے۔
139
ش ہ ولی ہللا نے' ف رسی ترجمہ بخش یندہ کی ہے' جو بخشش کرنے واال ہی ک مترادف ہے۔ بخش یندہ اردو میں مست مل نہیں ت ہ بخشنے واال' بخش دینے واال' بخشش کرنے واال' بخشن ہ ر وغیرہ غیر م نوس نہیں ہیں۔ بخشیش خیرات کے لیے بھی' بوال ج ت ہے۔ ش ہ عبدالق در' مولوی اشرف ع ی تھ نوی' مولوی احمد رض خ ں بری وی' مولوی بشیر احمد الہوری' مولوی فرم ن ع ی نے رحمن ک ترجمہ مہرب ن کی ہے۔ س ودی ترجمہ بھی مہرب ن ہے۔ ل ظ رحی ' اردو میں غیر م نوس نہیں۔ اشخ ص کے ن بھی رکھے ج تے ہیں .جیسے عبدالرحی ۔ اسی تن ظر میں ڈاکٹر عبدالحکی خ ں نے رحی ک ترجمہ رحی ہی کی ہے۔ مولوی سید مودودی نے بھی' اس ک ترجمہ رحی ہی کی ہے۔ ش ہ عبدالق در' مولوی اشرف ع ی تھ نوی' مولوی احمد رض خ ں بری وی' مولوی بشیر احمد الہوری' مولوی فرم ن ع ی' مولوی محمد فیروزالدین نے رح واال ترجمہ کی ہے۔ ش ہ ولی ہللا دہ وی اور مولوی محمد جون گڑھی نے رحی ک ترجمہ مہرب ن کی ہے۔
140
ل ظ م لک' م کیت والے کے لیے' ع بول چ ل میں ہے .جیسے م لک مک ن ی وہ پ نچ ایکڑ زمین ک م لک ہے۔ بیشتر ترجمہ کنندگ ن نے' اس ک ترجمہ م لک ہی کی ہے۔ ہ ں مولوی فرم ن ع ی نے اس ک ترجمہ ح ک کی ہے۔اشخ ص کے ن بھی' سننے کو م تے ہیں .مثال عبدالم لک' محمد م لک ڈاکٹر عبدالحکی خ ں' مولوی محمد جون گڑھی' مولوی فیروز الدین' مولوی اشرف ع ی تھ نوی' ش ہ عبدالق در' مولوی احمد رض خ ں بری وی' مولوی سید مودودی نے اس ک ترجمہ م لک ہی کی ہے۔ س ودی ترجمہ بھی م لک ہی ہے۔ اس سے ب خوبی اندازہ کی ج سکت ہے کہ ل ظ م لک کس قدر عرف ع میں ہے۔ ل ظ یو ' ع است م ل ک ہے۔ مرک است م ل بھی سننے کو م تے ہیں۔ مثال یو آزادی' یو شہدا' یو ع شورہ' یو حج وغیرہ ڈاکٹر عبدالحکی خ ں نے' یو ک ترجمہ یو ہی کی ہے۔ مولوی سید مودودی نے بھی یو ک ترجمہ یو ہی کی ہے۔ مولوی فیروز الدین' مولوی محمد جون گڑھی' مولوی بشیر احمد .الہوری نے اس ک ترجمہ دن کی ہے س ودی ترجمہ بھی دن ہی ہوا ہے۔ ش ہ ولی ہللا' ش ہ عبدالق در' مولوی اشرف ع ی تھ نوی' مولوی احمد رض خ ں بری وی' مولوی فرم ن ع ی نے یو ک ترجمہ روز کی ہے۔
141
ل ظ دین' مذہ کے م نوں میں ع است م ل ک ہے۔ مرک بھی است م ل ہوت ہے۔ مثال دین محمدی' دین اسال ' دین دار' دین دنی وغیرہ ن موں میں بھی مست مل ہے۔ مثال احمد دین' دین محمد' چرا دین ام دین وغیرہ دین دار ایک ذات اور قو کے لیے بھی مخصوص ہے۔ دین کے م نی رستہ بھی لیے ج تے ہیں۔ ڈاکٹر عدالحکی خ ں نے' اس ل ظ کو' جزا کے م نوں میں لی ہے۔ ش ہ ولی ہللا دہ وی' ش ہ عبدالق در' مولوی سید مودودی' مولوی اشرف ع ی تھ نوی' مولوی احمد رض خ ں بری وی' مولوی فرم ن ع ی نے ل ظ دین کو جزا کے م نوں میں لی ہے۔ مولوی محمد جون گڑھی نے' ل ظ دین ک ترجمہ قی مت کی ہے۔ مولوی محمد قیروز الدین اور مولوی بشیر احمد الہوری نے' ل ظ دین کو انص ف کے م نوں میں لی ہے۔ س ودی ترجمے میں' اس ک ترجمہ بدلے ک ' ج کہ قوسین میں قی مت درج ہے' م نی لیے گیے ہیں۔ ل ظ عبد' اردو میں عمومی است م ل ک نہیں' ت ہ اشخ ص کے ن موں میں ب کثرت است م ل ہوت ہے۔ مثال عبدہللا' عبدالق در' عبداعزیز'
142
عبدالکری ' عبدالرحم ن' عبدالقوی وغیرہ ن بد ک ڈاکٹر عبدالحکی ' مولوی فیروز الدین' مولوی محمد جون گڑھی' مولوی سید مودودی' مولوی فرم ن ع ی' مولوی اشرف ع ی تھ نوی نے ترجمہ عب دت کی ہے۔ س ودی ترجمے میں بھی م نی عب دت لیے گیے ہیں۔ مولوی احمد رض خ ن نے پوجھیں ترجمہ کی ہے۔ ش ہ عبدالق در اور مولوی بشیر احمد الہوری نے بندگی م نی دیے ہیں۔ ش ہ ولی ہللا دہ وی نے' اپنے ف رسی ترجمہ میں می پرستی م نی دیے ہیں۔ ل ظ پرست' پرستی' پرستش اردو والوں کے لیے اجنبی نہیں ہیں' ب کہ بول چ ل میں موجود ہیں۔ ل ظ صراط' اردو میں ع است م ل ک نہیں' لیکن غیر م نوس بھی نہیں۔ مرک پل صراط ع بولنےاور سننے میں آت ہے۔ لوگ اس امر سے آگ ہ نہیں' یہ دو الگ چیزیں ہیں۔ ڈاکٹر عبدالحکی خ ن' مولوی اشرف ع ی تھ نوی' مولوی احمد رض خ ں بری وی اور مولوی سید مودودی نے' اسے رستہ کےم نی دیے ہیں۔ ش ہ ولی ہللا دہ وی' ش ہ عبدالق در' مولوی محمد فیروزالدین' مولوی محمد جون گڑھی' مولوی بشیر احمد الہوری اور مولوی فرم ن ع ی نے صراط ک ترجمہ راہ کی ہے۔
143
س ودی ترجمہ بھی راہ ہی ہوا ہے۔ ل ظ مستقی ' عمومی است م ل میں نہیں۔ ن کے لیے است م ل ہوت آ رہ ہے۔ جیسے محمد مستقی اسی طرح' خط مستقی جیویٹری کی اصطالح سننے میں آتی ہے۔ ڈاکٹر عبدالحکی خ ن' مولوی اشرف ع ی تھ نوی' مولوی احمد رض خ ں بری وی' اور مولوی سید مودودی نے' سیدھ ترجمہ کی ہے۔ صراط مستقی بم نی سیدھ رستہ مولوی محمد جون گڑھی' مولوی بشیر احمد الہوری اور مولوی فرم ن ع ی نے سیدھی ترجمہ کی ہے۔ س ودی ترجمہ بھی سیدھی ہوا ہے لیکن قوسین میں سچی درج کی گی ہے۔ صراط مستقی ی نی سیدھی راہ ش ہ ولی ہللا دہ وی نے' اس کے لیے ل ظ راست است م ل کی ہے۔ صراط مستقی ی نی راہ راست ان مت' ن مت سے ہے۔ ل ظ ن مت' بولنے اور لکھنے پڑھنے میں است م ل ہوت آ رہ ہے۔ پنج بی میں اسے نی مت روپ مل گی ہے۔ ن بھی رکھے ج تے ہیں جیسے ن مت ع ی' ن مت ہللا ڈاکٹر عبدالحکی خ ن' مولوی اشرف ع ی تھ نوی' مولوی محمد جون
144
گڑھی اور مولوی سید مودودی نے' اس ک ان س ودی ترجمہ میں بھی ان
ترجمہ کی ہے۔
است م ل میں آی ہے۔
ش ہ عبدالق در' مولوی محمد فیروزالدین اور مولوی بشیر احمد الہوری نے اس ک ترجمہ فضل کی ہے۔ مولوی فرم ن ع ی نے ن مت' احمد رض خ ں بری وی نے احس ن' ج کہ ش ہ ولی ہللا دہ وی نے اسے اکرا م نی دیے ہیں۔ ان
و اکرا عمومی است ل ک مرک ہے۔
مغضو ' اردو میں است م ل نہیں ہوت ' ت ہ اس ک روپ غض ' اردو میں ع است م ل ہوت ہے۔ مولوی محمد فیروزالدین' مولوی بشیر احمد الہوری' مولوی محمد جون گڑھی' مولوی احمد رض خ ں بری وی اور مولوی فرم ن ع ی نے غض کے م نی لیے ہیں۔ س ودی ترجمہ میں بھی غض مراد لی گی ہے۔ ش ہ عبدالق در نے غصہ' ج کہ مولوی سید مودودی نے عت لیے ہیں۔
م نی
ش ہ ولی ہللا دہ وی نے' اپنے ف رسی ترجمہ میں خش م نی لیے ہیں۔ ض لین' ضاللت سے ہے۔ اردو میں یہ ل ظ' ع بول چ ل میں نہیں۔ ہ ں البتہ ذاللت عمومی است م ل میں ہے۔ ضاللت لکھنے میں آت رہ ہے۔
145
ش ہ عبدالق در اور ڈاکٹر عبدالحکی خ ن نے گمراہ' مولوی محمد جون گڑھی ' مولوی محمد فیروزالدین' مولوی بشیر احمد الہوری اور مولوی فرم ن ع ی نے گمراہوں ترجمہ کی ہے۔ مولوی احمد رض خ ں بری وی نے بہکن م نی مراد لیے ہیں۔ مولوی سید مودودی نے' بھٹکے ہوئے ترجمہ کی ہے۔ س ودی ترجمہ گمراہی ہوا ہے۔ ش ہ ولی ہللا دہ وی نے گمراہ ن ترجمہ کی ہے۔ ان کے عالوہ' چ ر ل ظ اردو میں ب کثرت است م ل ہوتے ہیں ع یہ :ک مہء احترا کے دوران' جیسے حضرت داؤد ع یہ اسال ........مدع ع یہ' مکتو ع یہ وغیرہ غیر :نہی ک س بقہ ہے' جیسے غیر محر ' غیر ارادی' غیر ضروری' غیر منطقی وغیرہ ال :نہی ک س بقہ ہے' جیسے الح صل' الع ' ال ی نی' الت
وغیرہ
و :و اور کے م نی میں مست مل چال آت ہے۔ مثال ش و روز' رنگ ونمو' ش ر وسخن' ق
ونظر وغیرہ
کمشنر و سپرنٹنڈنٹ' منیجر و پرنٹر وغیرہ درج ب ال ن چیز سے ج ئزے کے ب د' یہ اندازہ کرن دشوار نہیں رہت ' کہ عربی نے اردو پر کس قدر گہرے اثرات مر ت کیے ہیں۔ مس م نوں ک
146
حج اور کئی دوسرے حوالوں سے' اہل عر سے واسظہ رہت ہے۔ اس لیے مخت ف نوعیت کی اصطالح ت ک ' اردو میں چ ے آن ' ہر گز حیرت کی ب ت نہیں۔ روزمرہ کی گ ت گو ک ' تجزیہ کر دیکھیں' کسی ن کسی شکل میں' کئی ایک لقظ ن دانسہ اور اظہ ری روانی کے تحت' بولے چ ے ج تے ہیں۔ مکتوبی صورتیں بھی' اس سے مخت ف نہیں ہیں۔
مکرمی حسنی ص ح :سال مسنون آپ ادھر کچھ عرصہ سے اردو انجمن میں نظرنہیں آرہے ہیں۔ آپ کو ایک خط بھی لکھ چک ہوں۔ ہللا سے دع ہے کہ آپ ب فیت ہوں اور انجمن کو بھولے نہ ہوں۔ میں زندگی کی تگ ودو میں ایس گرفت ر رہ کہ آپ کی تخ یق ت کی ج ن رخ نہ کرسک ،ن د ہوں۔ سوچ کہ ا آی ہوں تو آپ کے پچھ ی تحریریں دیکھ لوں۔ سو آج عربی زب ن کے اردو پر اثرات سے مت یہ مضمون دیکھ رہ ہوں اور عش عش کر رہ ہوں۔ ویسے دیکھنے میں یہ مضمون آس ن م و ہوت ہے کہ چند کت بیں دیکھ کر ان سے کچھ ب تیں اخذ کر لی ج ئیں تو مضمون ہوج ت ہے لیکن یہ تو لکھنے واال ہی ج نت ہے کہ اسیے مق لے کی تشکیل میں کی کی پ پڑ بی نے پڑتے ہیں ،کیسی دم سوزی کرن ہوتی ہے اورکس طرح اپنے ک کی ب توں کو مرت کرکے ق ری کو پہنچ ن پڑت ہے۔ سبح ن ہللا! کی خو تحریر ہے۔ آپ نے جس دلسوزی سے یہ ک کی
147
ہے اس ک اجر تو ہللا ہی دے گ ۔ہ ن اہل بندے تو صرف اس سے مست ید ہی ہوسکتے ہیں اور یہ دع کرتے ہیں کہ ایس ک کرنے کی توفی اور اہ یت ہ کوبھی ح صل ہو۔آمین۔ آپ کی محنت اور آپ ک ع اپنے جوا آپ ہی ہیں۔ لکھتے رہئے۔ انش ہللا ف ئدہ اٹھ نے والے ہمیشہ آپ کو اپنی دع ئے خیر میں ی د رکھیں گے۔ سرور ع ل راز http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9490.0
148
گنج سواالت' ایک لس نی تی ج ئزہ مخدومی و مرشدی حضرت سید غال حضور الم روف ب ب جی شکرہللا کی ب قی ت میں سے' ایک انچ س ص ح ت کی کت ۔۔۔۔۔ گنج سواالت ۔۔۔۔۔ دستی ہوئی ہے۔ یہ کت ϭϴϱϴء میں ش ئع ہوئی۔ اس ک ٹ ئیٹل پیج :کچھ یوں ہے گنج سواالت ق نون دیوانی پنج
وسرک رات
ص ح جوڈیشل کمشنر بہ در پنج
مجریہ
ب د مشتہر ہونے ق نون مذکور کے مول ہ مستر رابرٹ ینڈہ کسٹ ص ح بہ در کمشنر و سپرنٹنڈنٹ قسمت الہور جسکو مستر ایف اسک رلٹ ص ح بہ در پرنسپل اسسٹنٹ کمشنر نے ب ع نت منشی درگ پرش د پنڈت کے ترجمہ کی ء1858 مطبع کوہ نور الہور میں ب ہتم پنڈت سورج بہ ن منیجر وغال محمد پرنٹر کے چہپہ
149
اس کت کے ت ئیٹل پیج سے اندازہ ہوت ہے کہ ϭϴϱϴء میں' الہور ذویژن تھ اور یہ ں سے ج ری ہونے والے احک م ت' پنج پر الگو ہوتے تھے' ی یوں کہہ لیں' الہور قسمت میں پورا پنج داخل تھ ۔ الہور قسمت ک کمشنر اور سپرنٹنڈنٹ رابرٹ ینڈہ کسٹ' ج کہ پرنسپل اسسٹنٹ کمشنر ایف اسک رلٹ تھ ۔ منشی درگ پرش د پنڈت' پرنسپل اسسنٹ کمشنر ایف اسک رلٹ سے وابستہ تھے۔ ترجمہ ص ف اور رواں دوا ں ہے۔ تحریر سے یہ ظ ہر ہوت ہے کہ ترجمہ' ایف اسک رلٹ نے کی ہے ج کہ منشی درگ پرش د پنڈت نے' محض م ونت کی ہے۔ ترجمے کیی روانی اور ترجمے کی زب ن' اس امر کی یکسر تردید کر رہی ہے .ب اختی ر لوگ اوروں ک کی ' اپنی گرہ میں کرتے آئے ہیں یہ کوئی ایسی نئی اور حیران کن ب ت نہیں۔ انگریز اگرچہ ایک عرصہ پہ ے سے' ہندوست ن کے اقتدار پر ق بض تھ ' ت ہ ب طور ح ک واضح نہ ہوا تھ ۔ گ یوں میں' کسی من دی کے ابتدائی ک موں میں کہ ج ت تھ ۔۔۔۔۔۔ م ک ش ہ ک حکومت کمپنی بہ در کی۔۔۔۔۔۔ ϭϴϱϳء میں' م ک بھی انگریز ک ہو گی تھ ۔ انگریز فقط دو ڈھ ئی ہزار کی ت داد میں تھے۔ فتح ϭϴϱϳء میں' م ون کرداروں کو' جہ ں ج گیریں وغیرہ دی گئیں' وہ ں خط ب ت اور اعزای عہدوں سے بھی نوازا گی ۔ یہ حضرات مخبری' چغل خوری اور دو نمبری میں ط ضرور تھے' لیکن اطوار و ضوابط جہ ں ب نی سے' آگ ہ نہ تھے۔ انہیں م مالت ب طری احسن اور ب ض بطہ نپٹ نے کے لیے' الئحہ عمل فراہ کرن ضروری تھ ت کہ ان کی من م نی کے زیراثر' کوئی شورش جن نہ لے سکے۔ اس کت کے متن سے' بہرصورت یہ ہی اندازہ ہوت ہے۔
150
:اس ذیل میں ب طور نمونہ دو چ ر مث لیں مالحظہ فرم ئیں .۔ نہ یت ق نون نہ یت ظ ہے1 ۔ وکیل ک س ختہ برداختہ تمہ را س ختہ برداختہ ہے۔2 ۔ شرع و ق نون رواج سے گہرا ہوا ہے۔3 ۔ خرچہ دیوانی مین تمیز کرو اور غیر واجبی خرچہ ہرگز نہ درج 4 کرو۔ ۔ ہنگ رجوع ن لش کے ح ک کو یہہ الز نہین کہ بطور ن بین حک 5. ق مبندی اظہ ر ص در کرے اور پہر حس ض بطہ حک ط بی گواہ ن و مدع ع یہ ص در کرے ب کہ ہوشی ر ح ک اول ذرا تک یف اوٹہ ت ہے اور پیچہے بہت تکیف سے مح وظ رہت ہے ی نی اوسکو اول ۔ہنگ رجوع مقدمہ ان ب تونک خی ل کرن چ ہئے۔ جو افسر اور اہل ک ر' یہ ں آئے غیر مث قہ فی ڈ کے تھے دوسرا انہیں ان کی اوق ت سے بڑھ کر عہدے دے دیے گیے ی ک از ک ون سٹیپ اپ کی گی ۔ اوپر سے' غال قو کی جی حضوری اور گم شتوں کی حد سے بڑھ کر چ پ وسی نے' ان کے دم خرا کر دیے تھے .ایسے میں ن انص فی ک جن لین ' فطری سی ب ت تھی۔ اس کے نتیجہ میں' اس قس کی ہدای ت ک ج ری کی ج ن ضروری تھ ۔ آزادی ہند میں' جہ ں یہ ں کے حریت پسندوں' امریکہ کی مداخ ت اور ہٹ ر کی اندھی یورش ک ہ تھ ہے' وہ ں بےانص فی اور حد سے بڑھ کر دالنوازی کو بھی نظر
151
.انداز نہیں کی ج سکت اس کت کے پہ ے حصہ میں' تمہید کے ب د' ہدای ت ب عنوان۔۔۔۔ ہدای ت و اصول م ص ہ ذیل پر افسران دیوانی ن آزمودء ک ر کو توجہ کرن 'چ ہیے۔۔۔۔۔ دوسرے حصہ میں ۔۔۔۔۔۔۔ فہرست ابوا گنج سواالت ق نون دیوانی پنج ج کہ تیسرے حصہ میں۔۔۔۔۔سواالت دستورال مل ق نون دیوانی پنج ' دیے گیے ہیں۔ کت
انچ س ص ح ت پر مشتمل ہے۔
رموز ک اہتم نہیں کی ج ت تھ ۔ اس کت میں بھی رموز ک اہتم نہیں کی گی ۔ یہ امر چوں کہ رواج میں نہ تھ ' س لیے اسے' مکتوبی نقص نہیں سمجھ ج سکت ۔ فقرے لمبے بن نے ک رواج تھ ۔ یہ کت چوں کہ سواالت اور ہدای ت سے مت ہے' اس لیے اس ذیل سے ب ہر ہے. ہ ں ب ض جگہوں پر مث لیں م تی ہیں .مثال تمہید تقریب چھے سطور پر مشتمل ہے۔ یہ بال رموز اور ایک ہی فقرہ میں ہے۔ کت کی تحریر ش ئستہ اور رواں دواں ہے۔ چند امور' لس نی تی اور مکتوبی طور کے حوالہ سے' آج اور گزرے کل کی شن خت ک ذری ہ ہیں۔ مثال دو ل ظ مال کر' لکھن ع تھ اور اس کی مث لیں' اس کت
میں جگہ
152
جگہ پر م تی ہیں۔ مثال جنکے' کونسی' کسب ت' کسکو' قرضخوانونکی وغیرہ ف رسی آمیز دو مرک ل ظ بھی پڑھنے کو م تے ہیں۔ مثال درصورتکہ اس کت ہیں۔ مثال
میں' تین ل ظوں کو مال کر لکھنے کی' بہت سی مث لیں م تی
کسطرحکی' کسطرحپر' کسطرحک ' کسیطرحکی' کسطرحسے' کیصورتمین' اس یئیکہ' دونوب تونک وغیرہ ل ظوں میں واؤ کی بڑھوتی م تی ہے' جو آج متروک ہو چکی ہے۔ مثال اوس' اون' ج وے' اوٹہ نی وغیرہ نون غنہ ک است م ل ب لکل نہیں م ت ' ح الں کہ نون غنہ اردو کے حروف ابجد میں موجود تھ ۔ نون غنہ کی جگہ' نون است م ل میں الی گی ہے۔ مثال مین' ب تین' ہین' عورتین' نہین وغیرہ یہ کو ڈبل حے مقصورہ کے س تھ رق کی گی ہے .ی نی یہہ بھ ری آوازوں ک است م ل نہیں کی گی ۔ ان کی جگہ حے مقصورہ است م ل کی گئی ہے۔ مثال دہوک ' پیچہے'س تہ' بہ ئی' رکہت وغیرہ دو جگہ مہ پران ک است م ل بھی ہوا۔ مثال ہدایت کے لیے' ھدایت اور
153
پہال کے لے' پھال رق کی گی ہے۔ چ کے لیے ج است م ل کی گئی ہے۔ ی نی دی چہ کو دیب جہ کت بت کی گی ہے۔ ٹ کی جگہ ت' است م ل میں الئی گئی ہے۔ مسٹر کو مستر لکھ گی ہے۔ دونوں کو' دونو لکھ گی ہے .ی نی ں ی ن ک است م ل نہیں گی ۔ ں حشوی سہی' لیکن آج رواج ع میں ہے۔ ء کی جگہ' ی ک است م ل ہوا ہے۔ یہ ف رسی کی ییروی میں ہے' ح الں کہ ہمزہ اردو حروف ابجد میں' داخل تھی۔ جیسے دائرہ کی بج ئے دایرہ لکھ گی ہے۔ گ ف کے لیے' ک ف ک است م ل ہوا ہے۔ ی نی ڈگری کو ڈکری لکھ گی ہے۔ ڑ کی جگہ ڈ ک است م ل کی گی ی نی بڑھ ن کو بڈہ نہ تحریر میں الی گی ہے۔ ت کی جگہ ط ک است م ل ہوا ہے۔ تی ری کو طی ری رق کی گی ہے۔ ا کچھ جم یں مالحظہ ہوں۔ ن لش ت' ہنڈوی ت' ڈکری ت' سرک رات' بواعث' ہنڈویوں وغیرہ
154
ے کو ی کی طرز پر رق کی گی ہے' ۔فر صرف اتن ہے کہ نیچے سے' گول نہیں کی گی ۔ ڈبل آنے کی صورت میں پہ ی ی کو حس روٹین ج کہ دوسری کو ے کی شکل میں درج کی گی ہے۔ آج ل ظ دیوالیہ لکھ ج ت ہے' ج کہ اس میں ی ش مل نہیں۔ ی نی دوالہ لکھ گی ہے۔ .اردو اور انگریزی مرک پڑھنے کو م تے ہیں پنج
وسرک رات' منیجر وغال محمد پرنٹر
اسی طرح' دو انگریزی ل ظوں کو واؤ سے مالی گی ہے۔ کمشنر و سپرنٹنڈنٹ ہر دو میں' واؤ الگ سے بولت ہے۔ دیسی روایت بھی م تی ہے .مثال فش و ہدایت اض فتی مرک بھی پڑھنے کو م تے ہیں۔ مثال دعوی ن بین ' ک ید گنج ایک مرک بال اض فت مالحظہ ہو :ن بین حک زب ن پر مق میت کے بھی اثرات م تے ہیں۔ مثال ذمہ واری' دوالہ' نظیر دیو' چودہریوں وغیرہ ل ظ اردوائے بھی گیے ہیں۔ مثال تمسکی یہ کت ' اگرچہ ق نون اور ض بطہ سے مت
ہے' لیکن اس کے
155
مندرج ت کے مط ل ہ سے' ڈیڑھ سو سے زائد عرصہ پہ ے کی' سرک ری ی نی دفتری اردو پڑھنے ک موقع م ت ہے۔ چوں کہ یہ عوا سے مت ہے' اس لیے اس میں' عوامیت بھرپور انداز میں م تی ہے۔ یہ بھی کہ سرک ری' مزاج و رویہ اور عوا ' خصوص اور گوروں کے م بین ت ری وامتی ز س منے آتی ہے۔ ق نون' سم ج اور مذہی ضوابط کو' متوازی رکھتے ہوئے' یہ کت ترکی پ ئی ہے۔ اردو خط میں' انگریزی ال ظ است م ل ہوئے ہیں' لیکن بہت ک ۔ اس کی روانی اور شستگی مچھے اچھی لگی ہے۔ 31-12-2014
156
ڈاکٹر عبد ال زیز س حر کی ایک ق بل تق ید تدوینی ک وش تدوینی ک بھی' اپنی اصل میں' تخ یقی عمل ک حصہ ہے۔ یہ حد درجہ حس س عمل تو ہے ہی' دوسری طرف انتہ ئی ذمہ داری ک ک ہے۔ اس ک کی انج دہی میں' م مولی کوت ہی اور غ ت کی گنج ئش نہیں ہوتی۔ م مولی سی کوت ہی اور غ ت' صدیوں کے لیے مخممصے پیدا کر دیتی ہے۔ یہ مخمصے درحقیقت' متن کی ت ہی میں خرابی ک سب بن ج تے ہیں۔ آتے وقتوں میں' اصل کو کر کھ چکی ہوتی ی وہ ردی چڑھ چکے ہوتے ہیں ی ان تک رس ئی ن ممکن ت کی وادی میں داخل ہو چکی ہوتی ہے۔ ہونے والے ک آس نی ں پیدا کرنے کی بج ئے' ب ض الی نی پچیدگیوں ک سب بن ج تے ہیں۔ ہم رے ہ ں زی دہ تر' ذاتی دل چسپی سے ہٹ کر' تدوینی ک محض خ نہ پری کی حد تک ہوا ہے اور یہ ہی ک پچیدگیوں کے دروازے کھولت آی ہے۔ ایس بھی ہوا ہے' ص ح کت ہونے ک ' ن کے س تھ لیبل چسپ ں کرنے کے لیے' کت ک دیب چہ لکھ دی اور دیب چے میں اپنی کوشش کو بڑھ چڑھ کر پیش کر دی اور کی ' بس۔ یہ ہی نہیں' خ نہ پری کے لیے' دو چ ر تبصرے لکھوا لیے۔ تبصرہ نگ ر نے' چوں کہ کت کو پڑھ ہی نہیں ہوت ' اس لیے وہ بھی محض ٹوٹل پری کے لیے' مرت کی ہمتوں اور شخصی اوص ف ہی کو موضوع گ تگو بن ت ہے۔ لوگ ان تبصروں کو مدنظر رکھتے ہوئے' ت لیف کی حیثیت و اہمیت ک ت ین کرتے آئے ہیں۔
157
ڈاکٹر عبد ال زیز س حر میرے دیرینہ اور بہت اچھے دوستوں میں ہیں۔ انہوں نے نہ یت مہرب نی فرم تے ہوئے۔۔۔۔ خیراالذک ر فی من ق االبرار۔۔۔۔ از مولوی محمد گھ وی مرید خواجہ نور محمد ث نی ن رووالہ رح عن یت فرم ئی۔ ترتی و تہذی اور حواشی لکھنے کی' ہللا نے موصوف کو توفی عط فرم ئی۔ کت پر' جس محنت اور لگن سے ک کی گی ہے' اس کے مط ل ہ کے لیے بھی' اس سی ی اس سے بہت قری کی لگن اور ذو کی ضرورت ہے۔ میں نے کئی ب ر پڑھ ' غور کی ' ہر ب ر یہ ہی محسوس کی ' کہ مجھ س بےچ رہ تھوڑ ع ' اس پر کی ' کیسے اور کیوں کر ب ت کر سکت ہے۔ یہ عرصہ پہ ے کی ف رسی ہے' اس کے ب وجود ت زگی اور لس نی حسن میں' رائی بھر فر نہیں آی ۔ اس میں عصری لس نی تی سواد اور ذائقہ موجود ہے۔ ب طور ذائقہ :فقط یہ جم ہ اور ش ر مالحظہ فرم ئیں وروزی در جوا استدع ی غالمی کہ در ب ب نوا غ زی الدین گل :ہ ی رنگ رنگ شگ تہ اند' تم ش ی آن ب ید کرد۔ این بیت فرمودند کہ م اسیراں را تم ش ی چمن درک ر نیست دا ہ ی سینہ م ک تر از گ زار نیست یہ تخ ی ' ن صرف ایک ع ل ف ضل کی ہے' ب کہ ایک ب مرشد ع مل کی بھی ہے' جو گزرے وقت کے پ کیزہ لمحوں کی ی د دالتی ہے۔ کردار س زی کے عم ی نمونے بھی پیش کرتی ہے۔ بڑے لوگوں کے کرنے اور کہنے کے اطوار وانداز سے' آگ ہ کرتی ہے۔ بہت سے ان سنے' مگر کم ل کے لوگوں سے' م نے کے مواقع مہی کرتی ہے۔
158
نثر میں' حسن و شی تگی کے عن صر اج گر کرنے کے لیے' گ ہے بہ گ ہے ش ر بھی است م ل کیے گیے ہیں' جو حضرت ص ح کے اع ی ذو کی نش ندہی کرتے ہیں۔ ب ت یہ ں تک محدود نہیں' ان کی ج ر ش ری تخ یق ت اس تصنیف ک حصہ ہیں۔ ان میں دو آق کری کی ن ت ہیں' ج کہ ب قی دو غزلیں ہیں۔ ایک ن ت ف رسی میں' ج کہ دوسری عربی میں ہے۔ اسی طرح ایک غزل ف رسی' ج کہ دوسری غزل عربی اور ف رسی میں ہے' ی نی پہال مصرع ف رسی' ج کہ دوسرا مصرع عربی میں ہے۔ چ روں ش ری تخ یق ت کم ل کی ہیں .ب طور نمونہ :صرف تین ش ر مالحظہ ہوں تو پ دش ہی من گدا' تو قب ہ من قب ہ نم ای پیشوای مرسالں مشت
دیدار تو ا
.............. من بداں حضرت ع لی کہ غمش سینہ گداخت رس آخر بہ نش طی کہ بداں دلبر م بود گرچہ بدک ر و بیک ر ام بدو صد دل دار امید بش ہی کہ نگ ہش بگدا بود ان اش ر کے حوالہ سے' حضرت ص ح کے ن صرف ذو ش ر ک اندازہ لگ ی ج سکت ہے' ب کہ ل ظوں کے است م ل کے ہنر سے آگہی' ک بھی پت چ ت ہے۔ ڈاکٹر عبد ال زیز س حر نے' اس تخ ی کی تدوین کے ذیل میں' اتہت ئی
159
ذمہ داری ک ثبوت دی ہے۔ ان کے ک میں س یقہ اور ن ست پ ئی ج تی ہے۔ مثال نثری رموز ک خی ل نہیں رکھ ج ت تھ ' ی پھر یہ مست مل ہی نہ 1- تھیں۔ میرے پ س میرے بڑوں کے' سو سے س ڑھے س ت سوس ل کے' اردو' پنج بی اور ف رسی مخطوطے پڑے ہیں اور میں ان پر' بس ط بھر ک بھی کر رہ ہوں۔ ان میں سے ایک بھی نہیں' جس میں رموز ک است م ل کی گی ہو' ڈاکٹر عبد ال زیز س حر نے اس ن ی تخ ی کے' اصل متن میں رموز ک است م ل کرکے' اس کے مط ل ہ کو آس ن بن دی ہے۔ ان کی اس کوشش سے ت ہیی پچیدگیوں سے ایک حد تک سہی' نج ت مل ج تی ہے۔ تذکرے ی اس قس تخ یق ت عموم رواں روی میں لکھی گئی ہوتی 2- ہیں۔ یہ بھی کہ اصل مسودے وقت کی دھول میں کھو گیے ہوتے ہیں۔ ک ت بھی' اپنی ع می ک رہ گری میں ہ تھ دکھ گیے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر عبد ال زیز س حر نے مسنگز کو' متن ک حصہ بن نے کی بج ئے' بریکٹوں میں درج کر دی ہے۔ :قوسین میں مسنگز کے عالوہ 3- ا۔ ت ظیمی ک مے درج کرکے' ان بزرگوں سے' اپنی محبت اور عقیدت و س دت مندی ک اظہ ر کر گیے ہیں۔ بےشک ہللا بہتر اجر دینے واال ہے۔ ۔ شخص سے مت
امرجہ ک اندراج کر دی ہے۔
ج۔ ہللا کری کی ذات گرامی کے س تھ ت ظیمی ک مے بڑھ ئے گیے ہیں۔
160
د۔ جہ ں محض اش رہ ہے' وہ ں مت قہ ک ن لکھ دی گی ہے۔ ھ۔ کی یت ک بڑی خوبی سے اندراج کی گی ہے۔ مثال ودو سہ ک مہ در آن ح لت و رقص' یہ ں قوسین میں جاللت درج کر دی گی ہے۔.......بر زب ن مب رک می راندند و در فہ من نمی آمدند' ام آن ک م ت را فرای د گرفت ۔ ص۔ϴϲ ل ظوں کو مال کر لکھنے ک رواج تھ ' انہوں نے نثر کو عصری 4- مزاج اور مست مل انداز میں' پیش کی ہے۔ اس سے پڑھنے میں' آج کے ق ری کے لیے آس نی پیدا ہوئی ہے۔ ڈاکٹر عبد ال زیز س حر نے ک ک دائرہ' متن کی ذمہ دارانہ اور ب س یقہ پیش کش تک محدود نہیں رکھ ' ب کہ مقدمہ تحریر کی ہے .انہوں نے مقدمے کو ب رہ حصوں میں تقسی کی ہے۔ اس تقسی سے' ت یہی میں اآس نی اور اس پیش کش کی ادبی و فکری قدروقیمت ک اندازہ ہوت ہے۔ مقدمے کے پہ ے حصہ میں' مولوی گھ وی ص ح ک ت رف اور اس تخ ی کی ذیل میں' ان کی مصروفی ت کے ب رے میں' م وم ت فراہ کی گئی ہیں۔ ان م وم ت کے حوالہ سے' مولوی گھ وی ص ح کی ع دات و اطوار اور عمومی رویے سے بھی آگہی دستی ہوتی ہے۔ کت خ نہ تونسہ شریف اور کت خ نہ موالن محمد ع ی مکھڈ شریف میں موجود سولہ کت کی فہرست دی گئی ہے۔ مقدمے کے دوسرے حصہ میں' خیراالذک ر کے آخر میں موجود چ ر
161
منظوم ت' یہ ں الگ سے ب طور خ ص پیش کی گئی ہیں ابتدا میں ان کے پیش کرنے کی توضیح دی گئی ہے۔ مقدمے کے چوتھے حصہ میں مولوی گھ وی ص ح کے سقر آخر ک احوال بی ن کی ہے۔ اس ذیل میں ران غال یسین کے ایک خط ک اقتب س دی ہے۔ یہ اقتب س اس ذیل میں بڑی اہمیت ک ح مل ہے۔ مقدمے کے پ نچویں حصہ میں' خیراالذک ر ک مختصر تخ یقی ت رف اور اس کے سن تخ ی کے مت گ تگو کی گئی ہے۔ مقدمے کے چھٹے حصہ میں' اس تخ ی کی زب ن' روح نی حیثیت اور ت ریخی اہمیت کو واضح کی گی ہے۔ مقدمے کے س تویں حصہ میں' اس تضنیف کی ترتی وتہذی میں جن امور کو مدنظر رکھ گی اور جن جن سورسز کو است م ل کی گی ہے' ان ک کم ل اختص ر کے س تھ' بی ن کی گی ہے آٹھواں حصہ' اختص ر کی بڑی ہی ش ن دار مث ل ہے۔ چند سطور میں' مقدمہ کے س تویں حصہ کے نت ئج درج کر دیے گیے ہینگی مقدمے کے نواں حصہ میں'خیراالذک ر کی ترتی وتہذی کے دوران' جن امور کو مدنظر رکھ گی ' رق کیے گیے ہیں۔ دسویں حصہ میں جس نسخے کو بنی دی رکھ گی ' اس کی چھے وجوہ درج کی ہیں۔ گی رواں حصہ' ایک تحقیقی وض حت سے مت
ہے' ج کہ ب رہواں
162
حصہ کت
کی تکمیل اور احب
کے شکریہ وغیرہ سے مت
ہے۔
مزے ب ت یہ کہ مقدمہ قی فی نہیں' جو کہ گی ہے' دلیل اور سند کے س تھ کہ گی ہے۔ متن کو ثق لت سے بچ نے کے لیے' حواشی ک اہتم کی گی ۔ یہ ت داد میں تیس اور چھے سے زی دہ ص ح ت پر مشتمل ہیں۔حواشی سمیت مقدمہ انتیس سے زی دہ ص ح ت لیے ہوئے ہے۔ کت ک اصل متن ص ϯϳ:ت ص ϵϵ:ج ت ہے۔ کت کی ضخ مت ϭϰϭ ص ح ت ہے۔ ص ϭϬϬسے ϭϯϭتک متن کے مت حواشی ہیں۔ ص ϭϯϮ:ت ص ϭϰϭ:پر اش رہ اور کت بی ت ہیں۔ خدا لگتی تو یہ ہے' زیر مط ل ہ ک اپنی نوعیت ک ' پروق ر اور پر :س یقہ ک ہے۔ حواشی کی ہیں' م وم ت ک بہت دری ہیں۔ ان میں .اشخ ص اور اشخ ص کے مت امرجہ اور ان کی متن سے مت کی گی ہے۔ کئی امور کے مت
م وم ت فراہ کی گئی ہیں 1- اشخ ص کی نسبت ی ت
وض حتی نوٹ ہیں۔ 3-
ب ض م مالت کی تشریح کی گئی ہے۔ 4- ب ض کت کی طرف اش رے ہیں۔ 5- بہت سی ع می و ادبی م وم ت درج کی گئی ہیں۔ 6- کچھ ک رگزاریوں ک تذکرہءخیر کی گی ہے۔ 7-
واضع 2-
163
ب ض اش ر کے ش را کے ن درج کیے گیے ہیں۔ 8- ہم رے ہ ں ف رسی تقریب خت سی ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر عبد ال زیز س حر ک کم ل یہ ہے' کہ انہوں نے متن کی ترتی ' مقدمہ اور حوشی کے ذری ے' اردو سے مت لوگوں کے لیے بھی' اس ک مط ہ بڑی حد تک آس ن بن دی ہے۔ اگر ترجمہ بھی س تھ میں پیش کر دی گی ہوت ' تو مزید بہہ ج بہہ ہو ج تی۔ تدوینی ک کرنے والوں کو چ ہیے' کہ وہ ک کرنے سے پہ ے' اس ک وش کو ایک نظر ضرور دیکھ لیں' ب کہ اسے نمونہ بن نے میں ع ر نہ سمجھیں۔ اس سے ان کے ک کو وق ر اور ثروت میسر آئے گی۔ ڈاکٹر عبد ال زیز س حر اس ب س یقہ اور پر مشقت ک ر گزاری کے لیے' ڈھیر س ری داد کے مسح ہیں۔ ہللا انہیں برکت دے اور اس نیک ک ک بہتر اجر عط فرم ئے۔
164
شریف س جد کی غزلوں کے ردیف سیم بی فکر کے ح مل لوگ‘ قرار سے دور رہتے ہیں۔ ہر لمحہ نئی سوچ اور نئے انداز و اطوار‘ ان کی زندگی ک الزمہ و لوازمہ رہت ہے۔ زندگی کے بدلتے موس ‘ ان کے سوچ سمندر میں کنکر پتھر تنکے پھینکتے رہتے ہیں۔ یہ م م ہ ٹھہر ٹھہر کر نہیں‘ تس سل کے س تھ ج ری رہت ہے۔ یہ بےقرار اور بےچین سے لوگ ہی‘ زندگی کو کچھ نی اور الگ سے دیتے ہیں۔ اس میں ان کی دانستگی ک عنصر‘ ش مل نہیں ہوت ۔ یہ خودک ر عمل‘ ان کے اندر ج ری رہت ہے۔ یہ لوگ زندگی اور اس کے م مالت کو‘ نئی ت ہی ہی نہیں‘ نئی ہئیتیں بھی عط کرتے ہیں۔ رائج کو نی اس و ‘ نی حسن اور نئی ترتی سے سرفراز کرتے۔ یہ لوگ‘ ج د سمجھ میں آ ج نے کے نہیں ہوتے۔ خدا م و ‘ ک اور کس طور کی کروٹ لے لیں۔ شریف س جد ص ح سے میرا کبھی زب نی ی ق می رابطہ نہیں رہ ۔ ان ک مجموعہءکال ۔۔۔۔ چ ند کسے دیکھت رہ ۔۔۔۔۔ پروفیسر لطیف اش ر کے حوالہ سے ہ تھ لگ ہے۔ دیکھ ‘ پھر پڑھ اور لطف لی ۔ کال بت ت ہے‘ کہ شریف س جد سیم بی اطوار کے شخص ہیں۔ ب ت کے لیے کئی طرح کے رنگ اور ڈھنگ‘ اختی ر کرتے ہیں۔ بی نیہ‘ طنزیہ‘ مخ طبیہ‘ مک لم تی اور خود کالمی ک انداز اختی ر کرکے‘ بڑے س یقہ اور پک :س منہ کر ب ت کرتے ہیں۔ اس ذیل میں‘ فقط یہ دو ش ر مالحظہ ہوں کہ اپنوں سے بھی بدظن بہت ہیں
165
کہ لنک ہے یہ راون بہت ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رخصت اے عظمت جنوں کہ یہ ں عقل م ی ر خیر وشر ٹھہری انہوں نے غزل میں ہئتی تجربے بھی کیے ہیں۔ یہ م م ہ بڑا دل چسپ پر آزاد مک لم تی غزل ہے۔ یہ غزل ہے۔ مجموعہ کے ص: ان کی جدت طرازی ک منہ بولت ثبوت ہے۔ اس غزل ک صرف ایک ش ر مالحظہ ہو۔ کہ روتی ہوئی شک یں ہمیں اچھی نہیں لگتیں کہ ہے کس قدر مشکل جہ ں میں آئینہ ہون انہوں نے اپنے اس مجوعہ کال میں‘ ردیف کےاست م ل کے مخت ف نوعیت کے تجربے کیے ہیں۔ ان تجربوں نے‘ ان کے کال میں الگ سے وق ر اور وج ہت پیدا کر دی ہے۔ اس کے س تھ غن ئیت اور م نویت میں ہرچند اض فہ ہوا ہے۔ مثال ش ر ک ردیف حرف تشبیہ ہے۔ اس ک پہال مصرعہ بھی حرف تشبیہ ہے۔ گوی ش ر کے دونوں مصرعوں ک اختت حرف تشبیہ پر ہوت ہے۔ میری مجبوری وں ہیں پہ ی سی وہ ہے ب اختی ر پہ ے س
166
دونوں مصرعے حروف ج ر پر خت ہوتے ہیں۔ دوسرے مصرعے میں ب طور ردیف است م ل ہوا ہوت ہے۔ کسی کی زلف ہے ش نے کسی کے کسی کی ہے ہوا موس کسی ک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ست روں میں چمک ہے شوخیوں کی ش
میں رنگ بکھرا ہے حی ک
حروف زم نی ب طور ردیف استم ل کرتے ہیں تو ش ر ک پہال مصرعہ بھی اسی قم ش ک ہوت ہے۔ مثال کسی کی ت نے سنی سرگذشت ہی ک تھی و گرنہ ہ تو ہر اک داست ں میں رہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر ایک س نس ترا ن ہی پک رت ہے ہم رے دل میں بھال غیر ک سم تے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے ہمدرد س حل پر کھڑے تھے طالط میں س ینہ ڈوبت تھ
167
ردیف کی ہی کوئی ح لت‘ ش ر کے پہ ے مصرعے میں ہوتی ہے۔ اس سے‘ ب ت حرکت میں محسوس ہوتی ہے۔ جمود ی سکتہ ط ری نہیں ہوت ۔ مثال میں نے جو کچھ کہ غ ط ٹھہرا اس کی ہر ب ت م تبر ٹھہری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے لہجے کی کھنک اچھی لگی اپن س نس اکھڑا ہوا اچھ لگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوز ال ت ک مزہ بھی اچھ سوزن غ کی خ ش بھی اچھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شوخی ں اس کی بہت اچھی لگیں اپن دل ڈرت ہوا اچھ لگ ش ر ک آخری ل ظ ردیف ک ہ صوت اور ہ ق فیہ ہوت ہے۔ ہ دی گمرہ ں اسے کہیے غ نصیبوں ک چ رہگر لکھیے
168
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی جو سیر چمن کو ج ن تو رک کے چ ن ٹھٹھک کے رکن کبھی درختوں پہ ن لکھ کر دلوں کی دھژکن تالش کرن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مری ب تیں کوئی جھٹال نہ پ ئے تمھ را ن ہی سوگند ہو ج ئے ............ کس پہ تکیہ کروں امید وف کس سے کروں پھول کو ڈستی ہوئی ب د بہ ری دیکھوں :دونوں مصرعوں کے ردیف اور ق فیہ ہ ق فیہ ہوتے ہیں ن سنتے ہی ترا سرخی سی رخ پر پھی ن وہ تری تصویر کو س سے چھپ کر دیکھن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتن دشوار ہے دین میں تم ش بنن کس قدر سہل ہے مصروف تم ش ہون
169
:ش ر کے دونوں مصرعے ہ ردیف ہوتے ہیں درد کی شدت پی ر کی شدت ظ ہر کرتی ہے دل میں پھ نس چھبوئے رہن اچھ لگت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مال ک ہ تھ اور کالشنکوف عج
منظر ہے
کی سنگ ہے خیر اور شر ک اچھ لگت ہے :ہ ق فیہ اور ہ ردیف کی یہ مث ل مالحظ ہو ہر ایک ب ت کی وہ تو دلیل م نگتے ہیں اور ہ ہیں کہ سحرالبی ن میں رہتے ہیں شریف س جد کی غزلوں میں‘ ردیف کےاستم ل کی رنگ رنگی لس نی اعتب ر سے‘ بڑی م نویت کی ح مل ہے۔ اس سے ان کے کال میں چ شنی اور شگ تگی میں اض فہ ہوا ہے۔ ان کے یہ ہئیتی تجربےآتے وقتوں میں اردو غزل گو ش را کے لیے نمونہ بنے رہیں گے۔ گوی انہوں نے‘ صدیوں کے بند دروازوں کو‘ کھول دی ہے۔ اگر اسی طور سے‘ غزل میں تجربے ہوتے رہے‘ تو یہ اردو کی غزلیہ ش عری کے ح میں‘ بہت ہی اچھ ہو گ اور آتے وقتوں میں‘ ش را کو اس کی تنگ دامنی ک ‘ گ ہ نہیں رہے گ ۔
170
محتر جن
ڈاکٹر ص ح
ب د التحی ت الطیبہ بہت عمدہ تجزئیہ کی آپ نے ،داد ح ضر ہے اور کت انش ہللا مط ل ہ ہو گ
جیسے ہی م ی
ش د رہئے اور آب د رہئے خ کس ر اظہر http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9362.0
171
ڈاکٹر عبدال زیز س حر کی تدوینی ک وش ب رہ م ھیہء نج ک ت رفی ج ئزہ جہ ں ح الت‘ ضروری ت‘ ح ج ت‘ ترجیح ت‘ موقع اور صورت ح ل انس نی مزاج اور رویے میں تبدی ی التے ہیں وہ ں بدلت وقت اور بدلتے موس بھی‘ ن دانستہ طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس کے ب عث‘ جذب ت میں ارت ش پیدا ہوت رہت ہے۔ ہ چل سی مچ ج تی ہے۔ آدمی ج ن بھی نہیں پ ت کہ وہ کیوں خوش‘ م یوس ی افسردہ ہے۔ موس کی ہ کی سی تبدی ی بھی اس کے موڈ کو مت ثر کرتی ہے۔ یہ کوئی اختی ری عمل نہیں ہوت ۔ کسی م م ے میں م وث ہونے کی صورت میں‘ اس کی شدت میں اور بھی اض فہ ہوت ہے۔ ب ض ن گہ نی جذب تی صورتیں بھی‘ اثر انداز ہوتی ہیں۔ ہزار طرح کے ات ر چڑھ آتے ہیں۔ یہ ات ر چڑھ اپنی ہیت میں‘ دری ئی مدوجذر سے مم ثل ہوتے ہیں۔ مروجہ اصن ف ش ر‘ انس ن کے جذب ت کو اپنے ق ل میں جگہ دیتے آئے ہیں‘ لیکن رت کی تبدی ی ک ‘ ان سے اندازہ نہیں ہو پ ت ۔ برصغیر کی زب نوں‘ خصوص پنج بی میں صنف ب رہ م ہ مست مل رہی ہے۔ اردو میں بھی یہ صنف سخن نظر انداز نہیں ہوئی۔ کئی ایک ش را نے‘ اس صنف ش ر میں طبع آزم ئی کی ہے۔ ان میں سے ایک م تبر ن ح جی محمد نج الدین ہے۔ آپ تیرویں صدی کے اردو اور ف رسی کے‘ خوش سخن ش عر اور نثر نگ ر ہیں۔ آپ بنی دی طور پر صوفی ہیں اور تصوف میں‘ الئ عزت مق ومرتبہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے
172
اس صنف ش ر میں طبع آزم ئی کی ہے۔ م ہ بہ م ہ شخص کی داخ ی کی ی ت ک بی ن‘ اتن آس ن ک نہیں‘ اس کے لیے نہ یت ب ریک بینی کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسرا اس ک ت محسوس سے ہوت ہے۔ ج تک اس ک اطال ذات پر نہیں کی ج ت درست سے اظہ ر ممکن نہیں ہوت ۔ اس تخ ی ک ہر ش ر ذاتی محسوس سے ت رکھت ہے۔ ح جی محمد نج الدین کی ک وش فکر ۔۔۔۔۔۔ ب رہ م ھیہءنج ۔۔۔۔۔۔۔ میں جہ ں شخصی جذب ت کی عک سی م تی ہے‘ وہ ں عمومی صورت ح ل کو بھی اظہ ر میں الی گی ہے۔ یوں محسوس ہوت ہے جیسے وہ اپنی ق بی کی ی ت ک اظہ ر کررہے ہیں۔ اس تخ ی کی س سے بڑی خوبی یہ ہے‘ کہ کہیں مصنوعی پن ک احس س نہیں ہوت ۔ خ رجی اور داخ ی احوال کے اظہ ر کے لیے فوٹو گرافی کی تکنیک اختی ر کی گی ہے‘ جس سے ش عر کی عہدی مروج اردو زب ن پر قدرت ک احس س ہوت ہے۔ انہوں نے‘ اس تخ ی میں ثمثی ی انداز بھی اختی ر کی ہے۔ خو صورت تشبیہ ت ک استم ل کرتے ہیں۔ دل موہ لینے والے مرکب ت بھی تشکیل پ ئے ہیں۔ مثال رین ڈراونی‘ برہ اگن‘ رخ زرد م ہ بہ م ہ جذب ت کی عک سی کے ذیل میں ۔۔۔۔۔۔ ب رہ م ھیہءنج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :سے چند ایک مث لیں ب طور ذائقہ مالحظ ہوں س ون س ون م س سو رنگ میں گھر گھر بسی امنگ
میں پ پن اس م س
173
میں روتی رہی نسنگ م ن ہوا اس م س میں دھرتی اور اک ش نسدن رہے اداس
نج دین پیو ک رنی
بھ دروں بھ دروں رین ڈراونی گھر ن ہیں دلدار آدھین پر کر کرو کرت ر
مجھ برہن
نجم جوبن بس نہیں دوجی نس اندھی ر پیو ک تین طرح کے م ر
ایک بچھوا
آسوج نجم رت آسوج نے جگ میں کی ظہور سی‘ برہن ک دکھ دور
نہ ج نوں ک ہوے
جگ میں جیو آپن پی ہن ہے درک ر پھرے وے پردیسی ی ر
ا تک ا لٹے نہ
ک تک ک تی میں‘ چھ تی ج ی‘ ک تی لکھی نہ یو طرح میں سمجھ ؤں جیو
س تھی بن ا کس
نجم ک تک م س میں س سیتل سنس ر ج وں جیوں دھند کے انگ ر
برہ اگن سے میں
منگسر
174
یہ منگسر م س کی رت سرد آئی بوائی یہ دکھ اوپر مرے دکھ اور آی خدای
لگی پھٹن مرے دل کی کروں ا کی فکر اپن
پوہ سجن یہ پوہ رت ات سرد ہینگی زرد ہینگی
تر ے دھن غ ستی رخ
سبھی سنس ر میں سردی پڑی ہے جری ہے
یہ آتش ہجر سے برہن
م گھ سکھی! یہ م ہ مہینہ آ گی ہے ہے کہو :ا کی کروں! کس پ س ج ؤں سن ؤں
اری پردیس پیو کو بھ گی کسے یہ درد دل اپن
پھ گن عج پھ گن کی یہ رت مست آئی لوگ ئی
کہ ہوری ر رہے لوگ اور
کوئی رنگ گھول کر پیت پہ ڈالے کے م رے
کوئی پچک ری ں بھر بھر
175
چیت سجن کی خو رت یہ چیت آئی جدائی
نہیں یہ م نس ہے الئ
عج اس م نس کی رت ہے سورنگی برنگی
کی س نے لب س رنگ
زمیں نے سبز رنگ اپن بن ی لبھ ی
کہ جن نے دیکھ ‘ اسی ک دل
بیس کھ رت آئی بیس کھ کی‘ س جن نہ مجھ پ س در در پھرے ہراس
ب ل بن یہ برہنی
لوگو رے مت م نیو م شوق ں کی ب ت کھوس کر دل ع ش لے ج ت
دے دے دھیرج
جیٹھ سکھی یہ جیٹھ رت جگ بیچ آئی پ ئی
مرے دکھ کی دوا اب گ نہ
نہ آئے ا ت ک وے ی ر ج نی زندگ نی
گئی جس عش میں یہ
م ہ آس ڑ دو جگ میں مشہور ہے س ڈ تمھ را ن
جو مل ج ں تجھ م نس میں
176
مجھ دکھی کے ش نج پی کے م ن ک نسدن ہے مشت ج ۔ ئے۔ تری
ن گ ڈسے کو ڈر نہیں جو مل
ڈاکٹر عبدال ز س حر نے‘ ح جی محمد نج الدین کی اس ی دگ راور ق بل قدر تصنیف پر ک کی ہے۔ ان ک ک ‘ کئی حوالوں سے الئ تحسین ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔ب رہ م ھیہءنج ۔۔۔۔۔۔کے آغ ز میں انتس کے ب د تونسہ مقدسہ کے لیے ایک نظ ‘ کےعنوان سے نظ پیش کی ہے۔ یہ نظ ان کی تونسہ شریف سے دلی عقیدت‘ محبت اور وابستگی ک منہ بولت :ثبوت ہے۔ ب طور ذائقہ صرف تین الئیں مالحظہ ہوں یہ تونسہ ہے ابد کے ط
پر رکھے دیے کی لو مس سل بڑھ رہی ہے
!اور زم نہ دیکھت ج ت ہے حیرانی کے موس میں کت کے مقدمے میں‘ بڑے ک کی م وم ت فراہ کی گئی ہیں۔ مقدمہ دس حصوں میں تقسی کی گی ہے۔ پہ ے حصہ میں اس صنف ش ر کے موضوع پر گ تگو کی گئی ہے۔ اپنے موقف کی تصدی و وض حت کے لیے شمی احمد اور ڈاکٹر نورالحسن ہ شمی کے حوالے‘ درج کیے گیے ہیں۔ دوسرے حصہ میں‘ اردو میں اس صنف ش ر کی روایت‘ حیثیت ونوعیت اور ہو نے والے ک پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
177
تیسرے حصہ میں ۔۔۔۔۔۔ ب رہ م ھیہءنج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے مواد کو زیر بحث الی گی ہے۔ چوتھ حصہ‘ ح جی محمد نج الدین کی حی ت اور ان کی اردو اور ف رسی میں تصنی ت سے مت ہے اور یہ تیس کے قری ہیں۔ پ نچواں حصہ میں‘ اس کت کی تین اش عت ہ اوران کی خوبیوں اور خ میوں کے ب رے میں گ تگو کی گئی ہے۔ کے دو م خذ ۔۔۔۔۔ ٥ چھٹ حصہ موجودہ اش عت ۔۔۔۔۔۔ کی نوعیت و ت رف سے مت ہے۔
ھ اور
س تویں حصہ ۔۔۔۔۔۔ ب رہ م ھیہءنج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کے متنی ت رف سے مت ہے۔ آٹھواں حصہ میں‘ امال کی صورت ح ل کے س تھ س تھ‘ دیگر لس نی امور پر بھی گ تگو کی گئی ہے۔ اس ذیل میں‘ م نوی ت کے حس س پہ ووں کو نظرانداز نہیں کی گی ۔ نویں حصہ میں‘ موجودہ پیش کش میں مدنظر رکھے گیے ب رہ امور درج کیے گیے ہیں۔ دسویں ی نی اختت می حصہ میں‘ ۔۔۔۔۔۔ ب رہ م ھیہءنج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پر مق می غیر مق می زب نوں کے مرتبہ اثرات ک ج ئزہ پیش کی گی ہے۔ درج ب ال دس حصوں کے ت رف ک مقصد یہ ہے‘ کہ ق ری ڈاکٹر عبدال زیز س حر کی س یقہ ش ری ک اندازہ لگ سکے۔ کوئی بھی
178
ب س یقہ پیش کش‘ جہ ں پیش ک ر کے ہنر اور س یقہ ش ری کو واضح کرتی ہے‘ وہ ں تصیف کی حیثیت اور قدروقیمت ک بھی ت ین کرتی ہے۔ مقدمہ کے مط ل ہ کے ب د‘ یہ حقیقت واضح ہو ج تی ہے‘ کہ ڈاکٹر عبدال زیز س حر کھرے‘ ب س یقہ اور محنتی متن ش س ہیں۔ عج ت اور ٹوٹل پورا کرنے کی ع ت بد سے‘ کوسوں دور ہیں۔ سے شروع ہوت ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ ب رہ م ھیہءنج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کل متن ص حہ ٥اش ر پر مشتمل ہے۔۔ حواشی ب طور فٹ نوٹ دیے گیے ہیں۔ حواشی‘ اس ش ری تصیف کے حوالہ سے‘ بڑے ہی ک کے ہیں۔ ان کے حوالہ سے ڈاکٹر عبدال زیز س حر کی محنت اور وس ت نظری ک :ب خوبی اندازہ لگ ی ج سکت ہے۔ حواشی میں غیر مست مل‘ قدی ‘ غیرواضع‘ متروک اور کسی دوسری زب ن کے ال ظ کے م ہی درج کیے گیے ہیں۔ ف رسی زب ن میں کہے گیے اش ر ک ترجمہ دی گی ہے۔ ش عر کسی دوسرے ش عر ک مصرع لگ ت ہے‘ تو اس کی نش ن دہی کر دی گئی ہے۔ ش عرک ن وغیرہ درج کر دی گی ہے۔ تق ب ی صورتیں بھی پڑھنے کو م تی ہیں۔ فنی کجیوں کی نش ن دہی واضح ال ظ میں کی گئی ہے۔ تشریحی صورتیں م تی ہیں۔ جم ہ ابہ کی وض حت کردی گئی ہے۔ ل ظوں کی ہیئتی صورتوں کو واضح کی ۔گی ہے۔
179
متنی‘ لس نی‘ فنی‘ سم جی‘ تہواری‘ رسو وغیرہ سے مت وض حتیں درج کر دی گئی ہیں۔
امور کی‘
کت میں‘ اش ریہ اور کت بی ت ک اہتم کی گی ہے۔ آخر میں‘ پہ ی تین اش عتوں کے‘ سرور کے عکس ش مل کیے گیے ہیں۔ ان تینوں میں ایک دیون گری خط میں ہے۔ جس پہ و سے بھی‘ اس ک کو دیکھتے ہیں‘ بہترین تدوینی س یقہ محسوس کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدال زیز س حر اس خو صورت اور ک می پیش کش کے لیے مب رک ب د کے مستح ٹھہرتے ہیں۔
ڈاکٹر منیر کے افس نے اور مغربی طرز حی ت
https://imgur.com/account/favorites/UjAzS
180
نم ز ک سو سے زی دہ س ل ک پران اردو ترجمہ مخدومی و مرشدی حضرت سید غال حضور ش ہ الم روف بہ ب ب جی شکرہللا کے ذخیرہءکت سے' ایک کت .......نم ز مترج منظو ۔۔۔۔۔۔۔۔ بزب ن پنج بی' دستی ہوئی ہے۔ اس کے مولف مولوی محمد فیروز الدین ڈسکوی' منشی ف ضل' مدرس ای بی ہ ئی سکول' سی لکوٹ ہیں۔ انہیں اس کت کی ت لیف ک اعزاز' رائے ص ح منشی گال سنگھ اینڈ سنز' ت جران کت ' الہور نے دی ۔ اس کت ک سن اش عت 1907ہے اور یہ ہی س ل' مخدومی و مرشدی حضرت ب ب جی شکرہللا ک سن پیدائش ہے۔ یہ کت بالشبہ' حضرت سید ع ی احمد ش ہ کے کت خ نے کی' ب قی ت میں سے ہے۔ اس ک واضح ثبوت یہ ہے کہ کت کے ص حہ نمبر 17پر' ان کے ہ تھ ک لکھ ہوا ایک ش ر موجود ہے۔ ہ زی دہ تر ش عری ی پھر مخصوص اصن ف نثر کو' اد ک ن دیتے ہیں اور انہیں ہی' زب ن کی ترقی ک ذری ہ خی ل کرتے ہیں۔ اس قس کی ہر سوچ' حقیقت سے کوئی عالقہ نہیں۔ ہر اظہ ر' اس ک ت کسی بھی ش بہ سے مت ہو' زب ن کی نشوونم اور اس کی ابالغی قوتوں کو' ترقی دینے ک ذری ہ اور سب بنت ہے۔ مروجہ ادبی اصن ف ش ر ونثر کو اٹھ کر دیکھ لیجیے' ش ید ہی' زندگی ک کوئی ش بہ نظرانداز ہوا ہو گ ۔ یہ ں تک کہ س ئنس اور حکمت کے امور بھی' نظر آئیں گے۔ ری ضی اور شم ی ت جیسے ش بے' اس کی دسترس سے ب ہر نہیں رہے۔ ج ایسی صورت ہے' تو زب ن کی ابالغی اور لس نی ترقی کے
181
حوالہ سے' دیگر ع و و فنون کی ک وش ہ کو' کیوں صرف نظر کی ج ئے۔ ع و اسالمی سے مت ' اردو میں بہت کچھ لکھ گی ہے۔ دیگر زب نوں سے بھی' اسالمی ع و کی کت کے تراج ہوئے ہیں۔ اس حوالہ سے' اردو میں بہت سی مخت ف ش بوں سے مت ' اصطالح ت داخل ہو کر رواج ع بنی ہیں۔ ان گنت ت میح ت' اردو ش رواد ک گہن بنی ہیں۔ ب ت یہ ں تک ہی محدود نہیں رہی' بہت سے عربی ال ظ' اردو کے ذخیرہءال ظ میں داخل ہو کر' اردو کی ابالغی ثروت ک ذری ہ بنے ہیں۔ بچوں کے لیے' الت داد اسالمی لڑیچر ک شت ہوا ہے۔ غیر مس بھی' اس ذیل میں نظرانداز نہیں کیے ج سکتے۔ ان ک مذہبی اث ثہ بھی' اس زب ن ک زیور بن ہے۔ گوی ان مس عی کو' لس نی حوالہ سے نظرانداز نہیں کی ج ن چ ہیے۔ م ہرین لس نی ت کو' صرف اور صرف اردو اصن ف ش رونثر کو ہی' لس نی تی مط ل ہ میں نہیں رکھن چ ہیے۔ س ش بوں سے مت کت ک ' اس ذیل میں' پیش نظر رہن از بس ضروری ہے۔ زیر تجزیہ کت میں نم ز کے عالوہ' منظو پنج بی میں' مخت ف مس ئل بھی بی ن کیے گیے ہیں۔ نم ز سے م ق ت' پہ ے عربی میں' ب د ازاں اردو میں ترجمہ کی گی ہے' اس کے ب د پنج بی میں منظو ترجمہ کی گی ہے۔ اس وقت میرے پیش نظر' کئی تراج ہیں' خدا لگتی ب ت تو یہ ہی ہے' س دہ اور ع فہ ہونے کے س تھ س تھ' ترچمہ اور مح ورہ
182
کے اعتب ر سے' یہ ترجمہ اپنی ہی نوعیت ک ہے۔ بریکٹوں میں کچھ نہیں لکھ گی ۔ اس لح ظ سے بھی' یہ ترجمہ خو تر ہے۔ لس نی اعتب ر سے' اس کی فص حت اور بالغت ک اقرار نہ کرن ' سراسر زی دتی کے مترادف ہو گ ۔ میں اس ذیل میں مزید کچھ عرض کرنے کی بج ئے' ترجمہ پیش کرنے کی س دت ح صل کرت ہوں۔ ہللا بہت بڑا ہے اے ہللا تیری ذات پ ک ہے خوبیوں والی اور تیرا ن مب رک ہے اور تیری ش ن اونچی ہے اور تیرے سوا کوئی م بود نہیں میں مردود شیط ن سے خدا کی پن ہ لیت ہوں خدائے رحمن و رحی کے ن سےشروع س خوبی ں ہللا کو جو س رے جہ ن ک ر ہے بڑا مہرب ن نہ یت رح واال انص ف کے دن ک م لک
183
ہ تیری عب دت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد م نگتے ہیں ہ کو سیدھی راہ دکھ ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے اپن فضل کی ان کی نہیں جن پر غض ہوا اور نہ گمراہوں کی ایس ہی ہو تو کہہ وہ ہللا ایک ہے ہللا بےنی ز ہے نہ کسی کو جن نہ کسی سے جن گی اور نہ کوئی اس ک ہمسر ہے ہللا س سے بڑا ہے میرا عظمت واال ر قدوس ہے ہے جو اس کی خوبی بی ن کرے...... اے ہللا تجھے ہی س خوبی ں ہیں
184
میرا ع لی ش ن ر قدوس ہے س زب نی بدنی اور م لی عب دتیں ہللا ہی کے لیے ہیں اے ہللا کے نبی تجھپہ سال اور خدا کی رحمت اور اسکی برک ت ن زل ہوں ہ پراور خدا کے نیک بخت بندوں پر سال .....میں اقرار کرت ہوں کہ ہللا کے سوا اور میں اقرار کرت ہوں کہ محمد اسک بندہ اور رسول ہے اے ہللا حضرت محمد اور حضرت محمد کی آل پر رحمت ن زل فرم جیس کہ تو نے حضرت ابراہی اور ان کی آل پر رحمت ن زل کی یقین تو خوبیوں واال بزرگی واال ہے اے ہللا مجھے نم زوں ک ق ئ کرنے واال بن دے اوالد کو بھی اور خدای میری دع منظور فرم ..... اے ہللا اور میرے م ں ب پ اور س مومنوں کو بخشدے ج قی مت ق ئ ہو اے ہللا ہم را دنی میں بھی بھال کر اورآخرت میں بھی بھال اور
185
ہ کو عذا دوزخ سے نج ت دے ت پر سال اور ہللا کی رحمت میں ب طور تبرک کت کے مت ص ح ت کی عکسی نقول بھی پیش کر رہ ہوں۔ دو جگہ نقطے لگ ئے گیے ہیں' وہ ں سے ص حہ پھٹ ہوا ہے۔ میں نے اپنی طرف سے' ایک ل ظ ک ی زی دہ نہیں کی ۔ ٹ ئپ بھی اسی خط کے مط ب کی ہے۔