ادبی مطالعے

Page 1

‫‪1‬‬

‫ادبی مط ل ے‬ ‫مقصود حسنی‬ ‫ابوزر برقی کت خ نہ‬ ‫م رچ‬


‫‪2‬‬

‫فہرست‬ ‫دیس بن پردیس‘‘ ایک کت‬

‫! بیسیوں رنگ‬

‫خوش بو کے امین‬ ‫ایک قدی اردو ش عر کے کال ک ت رفی و لس نی ج ئزہ‬ ‫مثنوی م سٹر نرائن داس' ایک ادبی ج ئزہ‬ ‫آش پربھ ت' مسک تے' س گتے اور ب کتے احس س ت کی ش عر‬ ‫اکبر اردو اد ک پہال بڑا مزاحمتی ش عر‬ ‫ام نت کی ایک غزل‪ ......‬فکری و لس نی رویہ‬ ‫منظو شجرہ ع لیہ حضور کری ‪....‬عہد جہ نگیر‬ ‫میرے اب ۔۔۔۔۔۔ ایک مط ل تی ج ئزہ‬

‫ڈاکٹر عبدال زیز س حر کی تدوینی تحقی کے ادبی اطوار‬ ‫رحم ن ب ب کی زب ن ک اردو کے تن ظر میں لس نی مط ل ہ‬ ‫عربی کے اردو پر لس نی تی اثرات ایک ج ئزہ‬ ‫گنج سواالت' ایک لس نی تی ج ئزہ‬ ‫ڈاکٹر عبد ال زیز س حر کی ایک ق بل تق ید تدوینی ک وش‬ ‫ڈاکٹر منیر کے افس نے اور مغربی طرز حی ت‬ ‫نم ز ک سو سے زی دہ س ل ک پران اردو ترجمہ‬


‫‪3‬‬

‫دیس بن پردیس‘‘ ایک کت‬

‫! بیسیوں رنگ‬

‫ن صر ن ک گ وا سے میری روبرو مالق ت الہور اردو نیٹ ج پ ن کی‬ ‫ایک تقری میں ہوئی۔ بڑا ن یس س دہ گو‪ ،‬م نس ر‪ ،‬مج سی اد و‬ ‫آدا سے آگ ہ مگر قدرے شرمیال س اور رکھ رکھ ؤ واال شخص‬ ‫ہے۔ بڑا اچھ اور پی را لگ ۔ مالق ت ک دورانیہ اگرچہ مختصر تھ‬ ‫لیکن پر لطف اور ی دگ ر تھ ۔ اس ک ادبی اور مالق تی ذائقہ آج‬ ‫اور ا بھی محسوس کرت ہوں۔ ’’دیس بن پردیس‘‘ ک میں نے‬ ‫پوری توجہ اور دی نتداری سے اول ت آخر مط ل ہ کی ہے۔ بڑے‬ ‫ک کی چیز ہے۔ یہی نہیں اردو اد میں اسے ایک خوبصورت‬ ‫اض فہ قرار دین کسی طرح بھی غ ط اور مب لغہ نہ ہو گ ۔‬ ‫کت کو تین حصوں میں تقسی کی گی ہے لیکن میں اسے پ نچ‬ ‫حصوں پر مشتمل کت سمجھت ہوں۔ پہال حصہ اہل ق کی آراء‬ ‫پر مشتمل ہے۔ اس حصہ کے مط ل ہ سے مصنف کی شخصیت‪،‬‬ ‫اردو نیٹ ج پ ن کے حوالہ سے خدم ت اور اس کے اس و کے‬ ‫ب رے میں بہت س ری م وم ت ہ تھ لگتی ہیں۔ پہ ے حصہ ہی‬ ‫میں اہل رائے حضرات سے چہرہ بہ چہرہ مالق ت ہوتی ہے۔ وہ‬ ‫س کت کے ق ری کو پر تحسین نظروں سے دیکھتے نظر آتے‬ ‫ہیں۔ زب ن سے نہیں ق سے بہت کچھ اور مخت ف زاویوں سے‬ ‫کہتے محسوس ہوتے ہیں۔ کت کے آخری حصہ میں ( جسے‬


‫‪4‬‬

‫میں پ نچواں حصہ کہہ رہ ہوں )بہت س رے خوبصورت چہروں‬ ‫سے مالق ت ہوتی ہے۔ ان کی آنکھوں میں بھی ن صر ن ک گ وا‬ ‫کے حوالہ سے بہت کچھ پڑھنے کو مل ج ت ہے۔ اس ’’بہت‬ ‫ت خ حق ئ ‪ ،‬مصنف ک سچ‬ ‫کچھ‘‘ میں جہ ں زندگی سے مت‬ ‫اور کھرا پن‪ ،‬ش مل ہے وہ ں طنز و مزاح ک عنصر پ ی ج ت ہے۔‬ ‫‪:‬کچھ ت خ حق ئ‬ ‫ج پ نی خواتین خوش اخال اور شوہروں کی وف دار ہیں۔ ’’‬ ‫ج پ نی بیوی ں پ کست نی بیویوں کی طرح نہیں ہوتیں کہ انہیں‬ ‫پ ؤں کی جوتی سمجھ کر تبدیل کر لی ج ئے۔ یہ ں کہ بچے بھی‬ ‫اتنے فرم نبردار اور بدھو نہیں ہوتے کہ آپ خود جس ک کو‬ ‫اچھ سمجھیں اسے بچوں کو کرنے سے روکیں۔ ‘‘ (پ کست نی‬ ‫شوہروں اور ج پ نی بیویوں کے درمی ن تشدد کے واق ت و‬ ‫)محرک ت‬ ‫‪:‬چند مزید حق ئ‬ ‫ج پ ن میں دیکھ گی ہے کہ زی دہ مس جد ج پ نی ب زاروں اور ’’‬ ‫گ ی مح ے میں ہی ق ئ ہیں مگر ش ذ و ن در ہی کبھی کوئی ن‬ ‫‘‘ خوشگوار واق ہ پیش آی ہو۔‬ ‫ج پ ن کی میٹرو پولیٹین پولیس ڈپ رٹمنٹ کی خ رج زدہ خ یہ (‬ ‫)ف ئ وں میں کی ہے ؟‬


‫‪5‬‬

‫پ کست ن میں قی کے دوران مجھے ہر جگہ انٹرنیٹ کی ’’‬ ‫سہولت میسر تھی مگر لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے میں است م ل‬ ‫ہی نہیں کر سکت تھ ۔ یہ کراچی تھ جسے روشنیوں ک شہر کہ‬ ‫کر تے تھے آج روشنی ائیرپورٹ کے عال قے اور زرداری اور‬ ‫بالول ہ ؤس اور می ں ہ ؤس تک محدود ہو کر رہ گئی ہے‬ ‫)کیونکہ یہ لوگ زی دہ حقدار ہیں۔ ‘‘(ٹوکیو سے کراچی تک‬ ‫‪ :‬ذرا یہ پر مزاح مک لمے مالحظہ ہوں‬ ‫خیبر پختونخواہ اسمب ی کے اسپیکر طویل ق مت کے کرامت ہللا ’’‬ ‫خ ن تشریف الئے تو ان کے استقب ل میں مجھ سمیت ندا خ ن‪،‬‬ ‫یوسف انص ری اور امین سجن بھی ش مل تھے‪ ،‬لو گوں کو‬ ‫کرامت ہللا سے گ ے م تے ہوئے دیکھ کر ایس لگ جیسے لوگ‬ ‫ان کے گھٹنوں میں کچھ سرگوشی کر رہے ہوں۔ ‘‘(ٹوکیو سے‬ ‫) متحدہ عر ام رات ک س ر‬ ‫امیگر یشن نو جوان افسر نے میرے پ سپو رٹ پر تین م ہ ک ’’‬ ‫ویزہ لگ ی تو میں نے اس سے پوچھ کہ آپ کی زب ن میں‬ ‫شکریہ کو کی کہتے ہیں ’’ تیری م ں کیسی ‘‘کی ؟’’تیری م ں‬ ‫کیسی‘‘۔ میں سمجھ اسے اردو آتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے کہ ان‬ ‫کی وف ت ہو گئی ہے۔ وہ کچھ سمجھ نہیں تو میں نے انگریزی‬ ‫میں کہ تو وہ ہنسنے لگ کہ نہیں میں نے جو کہ اس ک مط‬ ‫ہو ت ہے شکر یہ۔ وہ تو ب د میں پت چال کہ صحیح ت ظ یہ ہے‬


‫‪6‬‬

‫) کہ۔ ۔ ۔ ۔ ’’ تیری م ک سی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘(سہ روزہ دورۂ مالئشی ء‬ ‫‪:‬شنگھ ئی کے ایک ب تھ رو ک ن ک نقشہ مالحظہ ہو‬ ‫ب تھ رو کے تولیے گھسے ہوئے تھے اور گنجے تھے اور ’’‬ ‫امتی ز کرن مشکل تھ کہ تولیہ ہے ی رو م ل‪ ،‬لگت تھ ج سے‬ ‫ہوٹل ت میر ہوا ہے یہی تولیے چل رہے ہیں۔ چھو ٹی چھو ٹی‬ ‫ص بن کی ٹکیہ رکھی ہوئی تھیں ک فی دیر ہ تھوں میں رگڑنے‬ ‫سے بھی نہیں گھستی تھیں۔ شیمپو پال سٹک کی بوتل میں اس‬ ‫طر ح سے نک ت تھ جیسے سردیوں میں شہد کی بوتل الٹ بھی‬ ‫)دیں تو شہد ب ہر نہیں آت ۔ ‘‘(اسال آب د سے شنگھ ئی تک‬ ‫‪:‬ن صر ن ک گ وا کے کھرے اور سچے پن کی مث ل مالحظہ ہو‬ ‫اس سے قبل مہینوں گزر ج تے تھے مجھے نم ز کی توفی ’’‬ ‫نہیں ہوتی تھی‪ ،‬ات سے کسی مسجد ک دورہ ہو گی تو نم ز ادا‬ ‫کر لی کبھی خصوصی طور پر نم ز ادا کرنے کی توفی ہوئے‬ ‫‘‘ عرصہ گزر چک تھ ۔‬ ‫) ن گوی اور گی و ک ی دگ ر س ر۔ ۔ ۔ بذری ہ ب یٹ ٹرین(‬ ‫درج ب ال ٹکڑے کت کے مخت ف حصوں سے لیے گئے ہیں۔ ان‬ ‫کے مط ل ہ سے اندازہ ہو ج ت ہے کہ کت کتنی بھرپور ہے‬ ‫اور ن صر ن ک گ وا کس درجہ کی تحسین ک ح رکھتے ہیں۔‬ ‫کت میں افس نہ اور ایک خط بھی ش مل کی گی ہے۔ ایک کت‬


‫‪7‬‬

‫لیکن بیسیوں رنگ‪ ،‬ایسے میں ان کی خو صورت پیش کش پر‬ ‫شکریہ ادا کر ن ال ز آت ہے۔ ہللا کری ن صر ن ک گ وا کی‬ ‫توفیق ت میں اض فہ فر م ئے اور اسے ش د و ش دا رکھے۔‬

‫خوش بو کے امین‬


‫‪8‬‬

‫ہم رے ہ ں ک عج دستور ہے۔ ہر م تبر رشتے کے لیے کسی نہ‬ ‫س بقے الحقے ک ہون ضروری ہوت ہے۔ چ ہے وہ ‘‘خونی’’کسی‬ ‫س بقہ الحقہ دل و دم کی رگوں سے خون ہی کیوں نہ ‘‘’’خونی‬ ‫نچوڑ رہ ہو۔ اس کے ہ تھوں کتنی ب ر قر ہون پڑا ہو ی اس‬ ‫س بقے الحقے نے عزت اور جی کی ہمیشہ نیالمی لگ ئی ہو۔ ‘‘’’خونی‬ ‫تم من ی حق ئ کی موجودگی میں بھی انہیں سبقت اور اہمیت دی‬ ‫ج تی ہے۔ ش دی بی ہ ہوکہ مرگ م مے چ چے اور پھوپھی م سی کے‬ ‫ب رے میں دری فت کی ج ت ہے۔ اگر یہ موجود نہ ہوں تو دلہ کی‬ ‫خوشی ں تہ تیغ کر دی ج تی ہیں ج کہ ارم نوں کی الش کی بھ نت‬ ‫بھ نت کی بولیوں سے مٹی پ ید کی ج تی ہے ۔ ب ور رہے‪ ،‬خوشیوں‬ ‫س بقے الحقے سے جڑے ہوتے ہیں اور وہ ‘‘خونی’’کے ق تل کسی‬ ‫اپنے اس س بقے الحقے ک ح ادا کر رہے ہوتے ہیں ی یہ س کرن‬ ‫اپن فرض منصبی سمجھ رہے ہوتے ہیں ۔‬ ‫محبت کے ت کو کوئی قبول نہیں کرت ح الں کہ قبول نہ کرنے‬ ‫والے خود کسی نہ کسی کی محبت میں گرفت ر ہوتے ہیں اور وہ‬ ‫س بقوں الحقوں سے ن رت کررہے ہوتے ہیں ۔ منہ بوال اپن ‘‘’’خونی‬ ‫اعتب ر رکھتے ہوئے بھی کچھ نہیں ہوت ۔ اسے گھر کی دہ یز سے ب ہر‬ ‫رکھن شرافت کی دلیل سمجھ ج ت ہے۔ دہ یز کے اندر مستحک وجود‬ ‫رکھتے ہوئے بھی وہ غیرت پر بدنم لیبل ہوت ہے۔ اس حقیقت سے‬ ‫انک ر نہیں ب ض منہ بولے رشتے بد دی نتی کے مرتک ہوتے ہیں ۔‬ ‫س بقوں الحقوں سے آراستہ رشتے ک ‘‘سوال یہ ہے کہ ’’خونی‬ ‫اعتب ر کے ق بل رہے ہیں ۔‬


‫‪9‬‬

‫کی م مے چ چے م سی پھوپھی وغیرہ ک س بقہ الحقہ رکھنے والے‬ ‫رشتے ہ تھ نہیں دکھ تے۔ ان کی اوالدیں غیرت کی ج ئیداد پر ڈاکے‬ ‫نہیں ڈالتیں ۔ یہی کی ان کے بڑے آپس میں فیئر ہوتے ہیں ۔‬ ‫ان کی مخ صی ن ق بل چی نج رہتی ہے؟ ان ک اعتب ر م د کی ڈور سے‬ ‫بندھ رہت ہے۔ ج ایسی صورت ہے تو منہ بولے رشتوں پر انگشت‬ ‫نم ئی کیوں ؟ وہ خ نگی زندگی میں م تبر کیوں نہیں ہو پ تے۔ ان پر‬ ‫شک کی آتش کیوں برستی رہتی ہے۔ انہیں اعتب ر دےنے میں کیوں‬ ‫! بخل سے ک لی ج ت ہے۔ یہ عجی وتیرا اور چ ن نہیں ہے؟‬ ‫محبت مس ک مذہبوں اور ریتوں رواجوں سے آزاد ہوتی ہے۔ میں‬ ‫منہ بوال‘‘ س بقہ ’’نے اپنے کسی پی ر کے رشتے کے س تھ کبھی کوئی‬ ‫الحقہ پیوست کرنے کی حم قت نہیں کی۔ یہی نہیں انہیں گھر کی‬ ‫دہ یز کے اندر ال کر غیر م تبر نہیں ہونے دی ۔ ہ ں اپنے دل کے‬ ‫س رے در ان پر کھ ے رکھے ہیں وہ ں وہ بڑے آسودگی سے پروان‬ ‫چڑھے ہیں اور وہ ں وہ خو رنگ الئے ہیں ۔ میں نے ان کے‬ ‫پھول اورپھل ب نٹنے کی حم قت کبھی نہیں کی۔ ان پھولوں پھ وں پر‬ ‫صرف اپن ح سمجھ ہے۔ مجھے محبت کے پھولوں اور پھ وں کی‬ ‫بے حرمتی قط ً پسند نہیں ۔ ب ت کروں گ تو وہ تنقید ک نش نہ بنیں‬ ‫گے۔ ضروری نہیں یہ کوئی کسی دوسرے کی محبت کی خوشبو اور‬ ‫مٹھ س سے محظوظ ہو ۔ کدو اور بینگن میری پسند میں داخل ہیں ۔‬ ‫میں اپنی پسند اور است دے کی وض حت ک پ بند نہیں۔‬ ‫وض حت کو کون م نت ہے ۔ ہر کسی کے پ س اپنی وض حتوں کے انب ر‬ ‫لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ کسی اچھے مقرر ک اچھ س مع ہون ضروری تو‬


‫‪10‬‬

‫نہیں ۔ میں بڑا اچھ س مع ہوں ۔ حظ کی اس عن یت کے حوالہ سے‬ ‫بے حد سکھی ہوں ۔ اس طرح مجھے اپنی محبتوں کی تصریح و‬ ‫توضیع کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ خدا ک شکر ہے میری محبتیں‬ ‫میری ذات تک محدودرہی ہیں اور میری ذات ک حصہ رہی ہیں ۔‬ ‫میری بدقسمتی رہی ہے کہ میری محبتیں آخری س نسوں تک میرے‬ ‫س تھ نہیں چ یں ۔ پتہ نہیں راہ میں اکیال چھوڑن انہوں نے اپن کیوں‬ ‫فرض عین سمجھ ہے۔ سید غال حضور حسنی (اب جی) ہی کو لے‬ ‫لیں ۔ الکھ منتوں کے ب وجود دو چ ر لمحے مزید رکنے کی زحمت‬ ‫گوارا نہیں کی۔‬ ‫میں یہ نہیں کہت کہ میری محبت یک طرفہ تھی وہ مجھ سے بے‬ ‫تح ش محبت کرتے تھے۔ وہ زندگی میں س ر کے شوقین رہے۔ نئے‬ ‫س ر کے شو نے انہیں رکنے نہ دی ۔ میں نے اتن پی ر کرنے واال‬ ‫کبھی اور کہیں نہیں دیکھ ۔ اپنے تو خیر اپنے ہوتے ہیں وہ تو‬ ‫دوسروں کے لیے بھی حد درجے ک درد رکھتے تھے ۔ ان کے بھ ے‬ ‫کے لےے اپنے خس رے کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔(پنج بی) صوفی‬ ‫ش عر ہونے کے سب حد درجہ کے حس س واقع ہوئے تھے۔ ظ ہر ہے‬ ‫صوفی ہونے کے سب ان کی ش عری درد‪ ،‬سوز اور انس نی بھالئی‬ ‫کے درس کے لیے مخصوص تھی۔ انہوں نے ہمیشہ انس ن کی ظ ر‬ ‫مندی کے حوالہ سے گ تگو کی۔ وہ ہیر وارث اور سیف الم وک خوش‬ ‫الح نی سے پڑھتے تھے۔ اپنی ش عری بھی لے سے سن ی کرتے تھے۔‬ ‫میری بڑی بہن جو پڑھی لکھی ہونے کے ب وجود ج ہل مط ہے‪ ،‬کی‬ ‫ج ہل محبت کے س تھ ان کی ش عری گمن می کی اتھ ہ گہرائیوں میں‬ ‫مدغ ہوگئی ہے۔ وہ اب جی کی آواز میں بھری کیسٹوں کو ان کی‬


‫‪11‬‬

‫نش نی سمجھ کر سینے لگ ئے بیٹھی ہے۔ ا وہ کیسٹیں ج ہو گئی‬ ‫ہیں۔ بڑے بھ ئی ص ح کو اپنی عورتوں سے فرصت نہیں م ی۔ رہ‬ ‫میں جو پرچیوں اورپرزوں کو سنبھ لے بیٹھ ہوں ۔ ان کے تین‬ ‫پنج بی قصے جو ان کی زندگی میں ش ئع ہوئے تھے سینے سے‬ ‫لگ ئے بیٹھ ہوں ۔‬ ‫ان پر ک کرنے ک ارادہ رکھت ہوں ۔ اب جی کو ش عری ک شو ورثے‬ ‫میں مال تھ ۔ ان کے والد ع ی احمد حسنی اچھے ش عر اور الجوا‬ ‫ع ل دین تھے۔ میں جو یہ الٹے سیدھے ل ظ گھسیڑ رہ ہوں ان کی‬ ‫محبت اور ش قت ک انمول عطیہ ہیں ۔ ان کے مشورے میرے لےے‬ ‫ہمیشہ خضر راہ رہے۔‬ ‫ء عید ک دن تھ مگر لوگوں کے لیے‪ ،‬میرے لیے یہ‬ ‫اگست‬ ‫یتیمی کی خزاں لے کر ط وع ہوا۔ فرشتہءاجل نے میرے سر سے‬ ‫چھت الٹ دی اور دامن امید میں بے بسی کے چھید کر دےے۔اتنے‬ ‫مخ ص‪ ،‬ہمدرد اور محبت کرنے والے کو مجبور و بے بس کرنے سے‬ ‫پہ ے موت کو موت کیوں نہ آگئی۔ ہو سکت ہے ویدی کے ویدان کے‬ ‫ہ تھوں وہ بھی مجبو ر ہو‪ ،‬ورنہ اتنے خوبصورت‪ ،‬کومل اور خوش بو‬ ‫سے لبریز پھولوں کو کون مس ت ہے۔‬ ‫ڈاکٹر عالمہ وف راشدی کو ہی دیکھ لیں ۔ ایسے لوگ ک مرنے کے‬ ‫لیے ہوتے ہیں ۔ انہیں تو می ی آنکھ دیکھنے سے بھی پ پ لگت ہے۔‬ ‫میں سمجھت ہوں موت کو میرا پی ر کبھی راس آی ۔ وہ مجھ سے ج تی‬ ‫ہے‪ ،‬کی ہو ج ت جو وہ دس بیس س ل اور جی لیے ہوتے۔ش ید میری‬ ‫محبت کی انہیں سزا م ی ورنہ وہ مرنے والے ک تھے ورنہ اگر وہ‬


‫‪12‬‬

‫کچھ اور جی لےے ہوتے تو ج نے ع و اد کی چ در پر اور کتنے‬ ‫خوبصورت پھول گ ڑھ لیتے۔ اگرچہ ان ک ک پہ ے ہی بہت ہے۔ ان کے‬ ‫ب ض ک تو فرد واحد کے بس ک روگ نہیں ۔ بالشبہ وہ اپنی ذات میں‬ ‫ادبی جن تھے۔ اوروں کی طرح وہ ک ظرف اور بخیل نہیں تھے۔‬ ‫دوسروں کے ادبی ک موں کی دل کھول کر داد دے کر ان کی حوص ہ‬ ‫افزائی کرتے۔ ہر اچھے ادبی ک پر خوش ہوتے۔ اتنی پذیرائی کرتے کہ‬ ‫مخ ط مزید خوبصورتیوں کی تالش میں نکل کھڑا ہوت ۔ میرے س تھ‬ ‫بھی ان ک شروع سے ایس ہی رویہ اور انداز رہ ۔‬ ‫عجی انہونی دیکھیے ڈاکٹر عالمہ بیدل حیدری بھی مر گئے۔ انص ف‬ ‫کیجیے انہیں مرن چ ہئے تھ ؟ ایسے لوگوں کی روح قبض کرتے‬ ‫م ک الموت ک ک یجہ منہ کو کیوں نہ آی ۔ اس کے ظ ل اور بے رح‬ ‫ہ تھ لرز لرز کیوں نہ گئے۔ وہ عصر موجود کے م مولی ش عر نہ‬ ‫تھے۔ ‪١٨٦٩‬ء کے ب د ایس بڑا ش عر دیکھنے کو نہیں م ت ۔ ان کے در‬ ‫پر بڑی بڑی پگڑی ں سجدہ ریز نظر آتی ہیں ۔ کسی کے کال کے ب رے‬ ‫میں ان کے ق سے نکال ہر ل ظ پی ایچ ڈی کی ڈگری سے کہیں بڑھ‬ ‫کر تھ ۔ وہ میرے دل اور دم کی دنی کے چہکتے ب بل تھے۔ ان کے‬ ‫خوبصورت ل ظوں نے مجھے ہمیشہ شکتی دان کی۔ ان ک ہون میری‬ ‫توان ئیوں کے لیے سربکس ٹی ک درجہ رکھت تھ ۔ وہ ج تک زندہ‬ ‫رہے‪ ،‬میری روح میں گالبوں کی مہک بھرتے رہے۔ کی کہوں ‪ ،‬مجھ‬ ‫سے کی ہوا کہ وہ میرا س تھ نبھ نہ سکے۔ سوچت ہوں ا ل ظوں کی‬ ‫لوری ں کہ ں سے سنوں گ ۔‬ ‫ڈاکٹر سید م ین الرحمن سے تو مجھے قط ً توقع نہ تھی کہ مجھے‬ ‫الچ ر و بے بس چھوڑکر م ک عد کی راہ لیں گے۔ وہ تو محبتیں‬


‫‪13‬‬

‫نبھ ن ج نتے تھے۔ ان کی موت ک غ مجھے دیمک کی طرح چ ٹ رہ‬ ‫ہے۔ میں کوشش کے ب وجود خود کو سنبھ ال نہیں دے پ ر ہ ۔ ان کے‬ ‫بغیر کیسے جیوں ‪ ،‬کی کروں ۔ ان کی جگہ میں کیوں نہیں مر گی ۔‬ ‫اتنے بڑے آدمی ک مرن اد کی دنی میں عصر جدید کے بھونچ ل سے‬ ‫ک نہیں ۔ ان گنت لوگ یتی ہو گئے ہیں ۔ان ک ادبی کھ تہ کئی میدانوں‬ ‫میں کھال نظر آت ہے لیکن غ ل کے حوالہ سے وہ اپن جوا نہیں‬ ‫رکھتے تھے۔ سوچت ہوں ان کی روح میرے نہ رکنے والے آنسوئوں‬ ‫کو کیسے گوارا کرتی ہوگی۔ میری تنہ ئی کو وہ کس طرح برداشت‬ ‫کرتے ہوں گے۔ میں رون نہیں چ ہت ۔ ج نت ہوں مرد روی نہیں‬ ‫کرتے لیکن آنکھیں میرے بس میں نہیں ہیں ۔ دل میری بے چ رگی‬ ‫اور بے بسی کی استدع ئیں ک سنت ہے۔‬ ‫میں اپنے بہت ہی پی رے دوست اور بھ ئی ڈاکٹر ص بر آف قی کے ب رے‬ ‫کوئی خبر نہ پ کر پریش ن تھ ۔ سوچت تھ قسمت مجھ پر کبھی مہرب ن‬ ‫نہیں ہوئی۔ ا بہت ہی ک لوگ میری گرہ میں رہ گئے ہیں ۔ ب لکل‬ ‫کنگ ل اور م س ہو گی ہوں ۔ ج نے اس ب ر قسمت کو کیسے رح آگی ۔‬ ‫پرسوں ان ک فون آی کہ بچ گی ہوں ۔ کہہ رہے تھے کہ بکرے کی م ں‬ ‫ک تک خیر من ئے گی۔ سوچت ہوں میں اتن بدقسمت نہیں ہوں جتن‬ ‫کہ خود کو سمجھ رہ تھ چ و کچھ تو بچ رہ ہے۔ ہللا کرے میرا یہ بچ‬ ‫کھچ اث ثہ میری س نسوں تک مح وظ رہے۔‬ ‫مقصود حسنی‬ ‫شیر رب نی ک لونی‪ ،‬قصور‬


‫‪14‬‬

‫یک نومبر‪٥،‬‬

‫ء‬

‫بزرگوں سے رشتہ اد آدا ک متق ضی رہت ہے۔ ان سے کھل ج نے‬ ‫کے ب وجود ہ عمروں کی سی ب ت نہیں ہوتی ۔ ان سے نبھ بھی‬ ‫مشکل ہوت ہے کیونکہ سنجیدگی اور رکھ رکھ ئو بھی خت نہیں ہو‬ ‫پ ت ۔ زم نی ب د بھی بہر صورت ب قی رہت ہے۔ وہ اپنے عہد کی ب تیں‬ ‫کرتے ہیں جبکہ ان ک عہد م ضی کی لحد میں اتر گی ہوت ہے۔ نی‬ ‫عہد اپنے تق ضوں کے س تھ گزر رہ ہوت ہے۔ ان حق ئ کے ب وجود‬ ‫بزرگوں سے دوستی من فع بخش ہوتی ہے۔ ان ک تجربہ بال تردد ہ تھ‬ ‫لگت ہے۔ زندگی کے بہت سے اطوار اور س یقے میسر آتے ہیں ۔ آدمی‬ ‫وقت سے پہ ے بہت کچھ ج ن لیت ہے جس کے لیے وقت درک ر ہوت‬ ‫ہے ۔ ان کی ک می بیوں کے گردستی ہوتے ہیں اسی طرح ان کی‬ ‫خ میوں سے آگہی میسر آتی ہے۔ یہ آگہی آتے وقتوں میں ک آتی‬ ‫ہے۔ کت بوں کی بھ ش لگی لپٹی سمیٹے ہوتی ہے۔ کت بوں میں وہ‬ ‫کچھ نہیں ہوت جو انہوں نے اپنی آنکھوں سے مالحظہ کی ہوت ہے۔‬ ‫اسی طرح سن نے واال بھی کہیں نہ کہیں ‪،‬ڈنڈی ضرور م رت ہے اور‬ ‫یک طرفہ ہی کہت ہے ۔ بزرگ دوست لگی لپٹی کو ایک طرف رکھ دیت‬ ‫ہے اور جو اور جیس ہی پیش کرت ہے۔ اسی طرح اص ی صورتح ل‬ ‫سے آگہی میسر آتی ہے۔‬ ‫میری خوش قسمتی رہی ہے کہ مجھے بزرگ دوست میسر آتے رہے‬ ‫ہیں ۔ سچی ب ت تو یہ ہے کہ ان سے میں نے بہت کچھ سیکھ ہے۔‬ ‫یہی نہیں بے لوث ت ون بھی دستی ہوا ہے۔ ان کی پذیرائی ک یہ‬ ‫کم ل ہے کہ کچھ ن کچھ لکھنے کے ق بل ہوا ہوں ۔ کچھ دوستوں ک‬ ‫کہن ہے کہ میں اچھ لکھ لیت ہوں ۔ سچی ب ت تو یہ ہے کہ میں اچھ‬


‫‪15‬‬

‫لکھن تو دور کی ب ت ایک سطر بھی نہ لکھ پ ت ۔ یہ س میرے بزرگ‬ ‫دوستوں کی محبت اور ش قت ک نتیجہ ہے۔ مجھے بڑی اچھی طر ح‬ ‫ی د ہے کہ میرے گرامی والد ص ح مجھے س تھ س تھ لیے پھرتے‬ ‫تھے۔ بیٹھک میں کوئی آج ت تو بھی مجھے س تھ رکھتے ح النکہ‬ ‫بچوں کو عموم ً چ ت کی ج ت ہے۔ میں ان ک س سے چھوٹ بیٹ تھ‬ ‫۔ ش ید اسی لیے وہ مجھ سے اتن پی ر کرتے تھے۔ ہو سکت ہے‬ ‫ریٹ ئرمنٹ کی تنہ ئی نے انہیں بچے سے دوستی پر مجبور کر دی تھ ۔‬ ‫بہر طور جو بھی سہی‪ ،‬میں نے بہت کچھ سیکھ ۔ بہت سے بزرگ‬ ‫دوستوں سے میری کبھی مالق ت نہیں ہوئی۔ میری تحریر کے حوالہ‬ ‫سے انہوں نے مجھے بھی بوڑھ خی ل کرلی ہو او ر ان ک اس و و‬ ‫رویہ ہ عمر س تھیوں ک س رہ ۔ تحریر کی اچھی ہون ہے وہ س بڑے‬ ‫ب کہ بہت بڑے لوگ تھے اسی لیے ہر بڑی سے بڑی ب ت کی توقع کی‬ ‫ج سکتی ہے۔‬ ‫مجھے یہ کہنے میں کسی قس کی ع ر محسوس نہیں ہو رہی کہ میں‬ ‫نے جو کچھ بھی لکھ ہے ان کی محبتوں ک ثمر ہے۔‬ ‫بزرگوں سے دوستی ک من ی پہ و یہ ہے کہ وہ چھوڑ کر چ ے ج تے‬ ‫ہیں۔ان کے ج نے ک جو دکھ ہوت ہے میں وہ بی ن کرنے سے ق صر و‬ ‫ع جز ہوں ۔ ہر لمحہ ان کی یاد ست تی ہے۔ میں سوچ رہ تھ کہ‬ ‫ڈاکٹرری ض انج جو میرے بیٹے ک کالس فی و ہے اتن پختہ ک ر کیوں‬ ‫ہو گی ہے اس کی عمر کے بچے تو موب ئل ایس ای ایس کی زندگی‬ ‫گزارتے ہیں اور یہ تحقی ایسے دقی ک میں مشغول ہے۔ ج میں‬ ‫نے اس کے دوستوں کی لسٹ دیکھی تو کھال کہ اسے بزرگ دوست‬ ‫میسر آئے ہیں وہ اس کے ب پ کی عمر کے لوگ ہیں ۔ یہی نہیں بال‬


‫‪16‬‬

‫کے الئ اور تجربہ ک ر ہیں ۔ یہ بھی عمر میں ب بوں کی فکر رکھت‬ ‫ہے۔ میں پورے یقین کے س تھ کہت ہوں کہ یہ میری عمر تک آتے‬ ‫آتے میدان تحقی کی بہت بڑی بالہوگ ۔ میں دیکھ رہ ہوں کہ آتے‬ ‫س لوں میں تحقی سے مت لوگوں ک اس کے پ س ہجو ہوگ ۔‬ ‫آج ج بڑھ پ اپنی جوانی کی سرحدوں کو چھوڑ کر بڑی تیز رفت ری‬ ‫سے موت کی طرف بڑھ رہ ہے۔ م یوسی نہیں‪ ،‬بے چ رگی کے ع ل‬ ‫میں اپن دامن دیکھت ہوں تو لحد میں اترت بڑھ پ مسکرا دیت ہے۔‬ ‫ابھی کچھ پھول ب قی ہیں ۔ میں تہی دامن نہیں ہوا۔ میرے دامن کے‬ ‫پھولوں میں خوش بو ب قی ہے اور وہ اپنی خوشبو بڑی ذمہ داری سے‬ ‫زندگی کے حوالے کر رہے ہیں ۔ ان کی مہک میں رائی بھر کمی نہیں‬ ‫آئی۔ موت ان ک کچھ نہیں بگ ڑ سکتی۔ میں بھول رہ تھ کہ بیدل‬ ‫حیدری‪ ،‬سید م ین الرحمن‪ ،‬وف راشدی‪ ،‬فرم ن فتح پوری‪ ،‬سید غال‬ ‫حضور اور کئی ان سے حسین چہرے منوں مٹی ت ے ج چھپے۔ مریں‬ ‫ان کے دشمن‪ ،‬وہ مر نہیں سکتے۔ موت ان ک کچھ نہیں بگ ڑ سکتی۔‬ ‫انہیں گ شن اردو میں ل ظوں کے لب س میں زندہ رہن ہے۔ ان کے‬ ‫ق سے ل ظوں کو ک یوں ک تمث لی وجود مل چک ہے۔‬ ‫ہ ں ڈاکٹر تبس ک شمیری‪ ،‬ڈاکٹر محمد امین‪ ،‬ڈاکٹر مظ ر عب س‪ ،‬ڈاکٹر‬ ‫س دت س ید‪ ،‬ڈاکٹر نجی جم ل‪ ،‬ڈاکٹر اختر شم ر‪ ،‬ڈاکٹر غال شبیر‬ ‫ران ‪ ،‬ڈاکٹر عبدال زیز س حر‪ ،‬ڈاکٹر ق ضی محمد عبدہللا وغیرہ سے‬ ‫میری ج بھی موب ئل فون پر ب ت ہوتی ہے تو زندگی کو اپنے بہت‬ ‫قری پ ت ہوں ۔ مجھے اپنے ہونے ک یقین ہونے لگت ہے۔کون کہت ہے‬ ‫اردو اد زوال ک شک ر ہو چک ہے ی تحقی و تنقید ک میدان اردو کے‬ ‫انڈر ٹیکروں سے خ لی ہو رہ ہے۔ ج تک یہ لوگ زندہ ہیں اردو‬


‫‪17‬‬

‫اد پر بہ روں کے موس مہرب ن رہیں گے۔ ان ص حب ن ع و دانش‬ ‫ک کم ل ہے کہ انہوں نے اچھی خ صی نئی کھیپ پیدا کر دی ہے جو‬ ‫اردو اد کو حسن و خوبی سے سرفراز کرے گی۔اس طرح اردو زب ن‬ ‫و اد ک دامن خوش رنگ پھولوں سے بھرا رہے گ ‪ ،‬ان ش ئ ہللا۔‬ ‫ڈاکٹر ری ض انج جوان ہے لیکن اس کے ہررنگ اور ہر ترنگ میں‬ ‫بوڑھوں کے ل ظوں کی محبت اور خوش بو م تی ہے ۔اس کی یہی ادا‬ ‫اسے مجھ سے اور مجھے اس سے قری رکھتی ہے۔ ہللا اسے‬ ‫سرفرازیوں سے نوازے اور ہر نظر بد سے مح وظ فرم ئے۔آمین‬ ‫!مکرمی ومحترمی حسنی ص ح ‪ :‬سال مسنون‬ ‫یقین کیجئے کہ میں سوچ رہ تھ کہ عرصہ سے آپ یہ ں نظر نہیں‬ ‫آئے۔ کہیں ایس تو نہیں ہے کہ چونکہ یہ ں لکھنے پڑھنے والے‬ ‫م دودے چند رہ گئے ہیں آپ دل برداشتہ ہو کر انجمن سے کن رہ کش‬ ‫ہو گئے ہیں۔ آپ ک یہ انش ئیہ دیکھ تو دل ب ب ہو گی ۔ ہللا آپ کو‬ ‫طویل عمر اور صحت سے نوازے اور آپ اسی طرح گ شن اردو میں‬ ‫پھولوں کی ب رش کرتے رہیں۔‬ ‫آپ ک انش ئیہ پڑھ کر دل بھر آی ‪ ،‬کیسے کیسے لوگ ی د آئے‪ ،‬کیسی‬ ‫کیسی ی دوں نے دل پر کچوکے لگ ئے اور آنکھوں میں کیسے کیسے‬ ‫من ظر گھو گئے۔ دل م ول ہوا اور بہت م ول ہوا۔ لیکن انش ئیہ کے آخر‬ ‫میں جو امید اور خوش آئند مستقبل کی نوید م ی وہ بہت تقویت ک‬ ‫ب عث ہوئی۔ آپ کے ب رے میں جو لوگ کہتے ہیں کہ آپ بہت اچھ‬ ‫لکھتے ہیں وہ ب لکل صحیح کہتے ہیں۔ آپ کے ق میں درد ہے‪ ،‬کسک‬


‫‪18‬‬

‫ہے‪ ،‬ع ہے‪ ،‬م ضی کی گونج ہے‪ ،‬ح ل ک پی نو ہے اور مستقبل کی‬ ‫نوید نو۔ پھر اور کس چیز کی کمی ہے جو ہ شکوہ کریں ی دل چھوٹ‬ ‫کریں۔ دع ہے کہ آپ اسی طرح لکھتے رہیں۔ اور ش دک رہیں۔‬ ‫افسوس اس ک ہے کہ آپ کو پڑھنے والے بہت ک ہیں۔ لیکن اس ک‬ ‫عالج کی ہے یہ نہیں م و ۔ خیر کوئی ب ت نہیں۔ پھول کی خوشبو کے‬ ‫لئے ضروری نہیں کہ پھول ہ تھ ہی میں ہو۔ وہ خود ہوا کے دوش پر‬ ‫سوار کونے کونے میں پہنچ ج تی ہے اور س کو ش دک کرتی ہے۔‬ ‫انش ئیہ ک بہت بہت شکریہ۔‬ ‫ب قی راوی س چین بولت ہے۔‬ ‫سرور ع ل راز‬ ‫مکرمی ومحترمی جن‬

‫ڈاکٹر حسنی ص ح ‪ :‬سال ع یک‬

‫میں ن د ہوں کہ اتنے عرصے آپ کی تخ یق ت سے فیضی نہ ہو سک ۔‬ ‫انش ہللا کوشش کر کے آپ کو پڑھوں گ ۔ آپ ک یہ مضمون پڑھ کر‬ ‫انتہ ئی مسرت ہوئی اور یہ احس س بھی پیدا ہوا کہ آپ کی تحریر کتنی‬ ‫ع افزا اور دلکش ہوتی ہیں۔ یہ مضمون کہنے کو ایک س دہ اور‬ ‫سیدھے س دے موضوع پر لکھ گی ہے لیکن ہ نئی نسل کے لوگوں‬ ‫کے لئے ندرت زب ن و بی ن‪ ،‬ت زگی اور دلچسپی کے بہت سے پہ و‬ ‫رکھت ہے۔ پڑھ کر دل م ال م ل ہو گی ۔ ا ایسی تحریریں دیکھنے کو‬ ‫نہیں م تی ہیں۔ ہللا سے دع ہے کہ آپ کو طویل عمر اور اچھی صحت‬


‫‪19‬‬

‫عط فرم ئے ت کہ ہ اسی طرح فیضی‬

‫ہوتے رہیں۔ آمین۔‬

‫خ د ‪ :‬مشیر شمسی‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9832.0‬‬

‫ایک قدی اردو ش عر کے کال ک ت رفی و لس نی ج ئزہ‬ ‫مخدومی و مرشدی جنت مک نی قب ہ سید غال حضور کے ع می وادبی‬


‫‪20‬‬

‫ذخیرے سے م نے والی کت ' اظہ ر محمدی منظور احمدی' ک اور‬ ‫کس سن میں ش ئع ہوئی' ٹھیک سے کہ نہیں ج سکت ۔ اس پر ت ریخ‬ ‫اور سن درج نہیں ہے۔ ہ ں پب یشر ک ن ‪ .....‬فقیر فضل حسین ت جر‬ ‫کت ابن ح جی عالؤالدین مرحو س کن پتوکی نوآب د ض ع الہور‪.....‬‬ ‫درج ہے۔ پتوکی نوآب د ض ع الہور سے یہ ب ت وضح ہوتی ہے کہ اس‬ ‫چوبیس ص حے کی اش عت' اس وقت ہوئی' ج پتوکی نی نی آب د ہوا‬ ‫تھ ۔‬ ‫اس میں مولوی احمد ی ر کی پنج بی مثنوی' مرزا ص حب ن ک کچھ حصہ‬ ‫درج ہے۔ گوی یہ ان دنوں کی ب ت ہے' ج وہ زندہ تھے اور مثنوی‬ ‫مرزا ص حب ن تحریر کر رہے تھے۔ یہ کال ص‪ 10‬تک ہے۔ ص‪15-14‬‬ ‫پر سترہ پنج بی اش ر پر مشتمل ک فی بھی ہے۔ گوی مولوی احمد ی ر‬ ‫پنج بی ک فی بھی کہتے تھے۔ پنج بی میں ان کی صرف مثنوی مرزا‬ ‫ص حب ن پڑھنے کو م تی ہے۔‬ ‫کت کے بقیہ ص ح ت پر' مولوی غال محمد ک اردو پنج بی اور‬ ‫ف رسی کال ش مل ہے۔ سرور پر موجود م وم ت کے مط ب ' مولوی‬ ‫غال محمد قسم نہ س کن ص ب تحصیل دیپ لپور تھ نہ حجرہ ض ع‬ ‫منٹگمری ح ل س ہی وال کے تھے۔ ص‪ 12-11‬پر ریختہ کے ن سے‬ ‫کال درج ہے۔ یہ کل نو ش ر ہیں۔ انہوں نے ل ظ ریختہ زب ن کے لیے‬ ‫لکھ ہے ی اردو غزل کے لیے' واضح نہیں۔ پہال پ نچواں اور آخری‬ ‫ش ر غزل کے مزاج کے قری ہے۔ غزل کے ب قی اش ر' مروجہ‬ ‫عمومی مزاج سے لگ نہیں رکھتے۔ ہ ں غزل میں صوفی نہ طور'‬ ‫صوفی ش را کے ہ ں ضرور م ت ہے۔‬


‫‪21‬‬

‫نہ م ت گ رخن سے دل میرا مسرور کیوں ہوت‬ ‫نہ اس نرگس کوں دیکہت رنجور کیوں ہوت‬ ‫نہ پڑت پرہ تو ح ک اگر رخس ر خوب ں پر‬ ‫تو ہر ع ش کی آنکہونمیں حسن منظور کیوں ہوت‬ ‫مقی اس دا زل میں نہ بھنست اگر دل تیرا‬ ‫تو سر گردان ت ریکی شبے رتجور کیوں ہوت‬ ‫ص‪ 13‬پر ایک خمسہ ہے' جسے مولود شریف ک ن دی گی ہے۔ اس‬ ‫سے پہ ے مولود شریف شیخ س دی ص ح کے چ ر ش ر دیئے گیے‬ ‫ہیں۔ اردو مولود شریف کے ب د' مولود شریف مولوی ج می ص ح‬ ‫کے' نو ش ر درج کیے گیے ہیں۔ آخر میں مولود شریف کے عنوان‬ ‫سے' نو ش ر درج کیے گیے۔ ص ‪ 19‬پر موجود کال کو ک فی ک ن دی‬ ‫گی ہے۔ اس کال کو نہ پنج بی کہ ج سکت اور ن ہی اردو' ت ہ ب ض‬ ‫ش ر اردو کے قری تر ہیں۔ دو ایک ش ر ب طور نمونہ مالحظہ ہوں۔‬ ‫ک ئی کہو سجن کی ب ت‬

‫جن کے پری لگ ئی چ ٹ‬ ‫ذات‬

‫پہال ش ر‬

‫س یم ن نبی ب قیس نہ ہو‬

‫ہک آہی مط‬

‫بحر محیط نے جوش کی‬

‫ت نوروں ہوی خوش کی‬

‫چھٹ ش ر‬

‫ک مل پیر پن ہ ہم را‬

‫مو کرے دل لوہ س را‬

‫چھبسواں ش ر‬

‫دو غزلیں ف رسی کی ہیں۔ اوپر عنوان بھی دی گی ہے‬

‫پ نچواں ش ر‬


‫‪22‬‬

‫غزل مولوی غال محمد از ص ب‬ ‫اے بن ت تو مزین مسند پیغمبری‬ ‫خ وری‬

‫وے خجل گشتہءرویت آفت‬

‫مط ع ف رسی غزل ص ‪12‬‬ ‫غزل از غال محمد ص ح‬ ‫ج ں فدائے تو ی رسول ہللا‬

‫دل گدائے تو ی رسول ہللا‬

‫مط ع ف رسی غزل ص ‪23‬‬ ‫پنج بی کال کے لیے' ل ظ ک فی است م ل ہوا ہے۔ داخ ی شہ دت سے یہ‬ ‫ب ت واضح ہوتی ہے' کہ ل ظ ریختہ اردو غزل کے لیے ہی است م ل ہوا‬ ‫ہے۔ دلی وغیرہ میں جو مش عرے ہوا کرتے تھے' ان کے لیے دو‬ ‫اصطالح ت رواج رکھتی تھیں۔ ف رسی کال کے لیے مش عرے' ج کہ‬ ‫اردو کال کے لیے' ل ظ مراختے رواج رکھت تھ ‪ .‬ل ظ اردو محض‬ ‫شن خت کے لیے لکھ رہ ہوں' یہ ل ظ عمومی رواج نہ رکھت تھ ۔‬ ‫اس صورت ح ل کے پیش نظر' غ ل کے ہ ں است م ل ہونے واال ل ظ‬ ‫ریختہ' گڑبڑ ک شک ر ہو ج ت ہے۔ مولوی غال محمد پہ ے کے ہیں'‬ ‫عہد غ ل کے ہیں ی ب د کے' ب ت قط ی الگ تر ہے۔ مش عروں میں‬ ‫زی دہ تر غزلیہ کال سن ی ج ت تھ اور آج صورت ح ل مخت ف نہیں۔‬ ‫گوی غزل کے لیے ل ظ ریختہ' ج کہ مش عرے کے لیے ل ظ مراختہ‬ ‫است م ل ہوت تھ ۔ المح لہ زب ن کے لیے کوئی دوسرا ل ظ است م ل ہوت‬ ‫ہوگ ۔ اس حس سے غ ل کے ہ ں بھی غزل کے م نوں میں‬ ‫اسست م ل ہوا ہے۔ اگر یہ ص ح ' غ ل کے ب د کے ہیں' تو اس ک‬


‫‪23‬‬

‫مط یہ ٹھہرے گ کہ ل ظ اردو ب طور زب ن است م ل ہوت ہو گ لیکن‬ ‫عمومی مہ ورہ نہ بن سک تھ ۔ اس ک عمومی مہ ورہ بنن بہت ب د کی‬ ‫ب ت ہے۔‬ ‫ل ظوں کو مال کر لکھنے ک ع چ ن تھ ۔ اس کت‬ ‫موجود ہے۔ مثال‬

‫میں بھی یہ چ ن‬

‫ج نیکی بدی ت ے گی ہمسے کجہ نہیں غ‬ ‫ص ‪13‬‬ ‫تو ہر ع ش کی آنکہونمیں حسن منظور کیوں ہوت‬ ‫‪12‬‬

‫ہ سے‬ ‫آنکہون میں ص‬

‫دو چشمی حے کی جگہ حے مقصورہ ک رواج تھ ۔ مثال‬ ‫نہوت سر مولے ک اگر کجہ ذات انس نمیں‬ ‫بہت سے ل ظوں ک ت ظ اور مکتوبی صورت آج سے الگ تھی۔ مثال‬ ‫نہوت بھیت اسمیں خورشید فدا ک‬ ‫بھیت‬

‫بھید ص ‪11‬‬

‫ولیوں کے ک ندہے قد غوث اعظ‬ ‫ک ندہے‬

‫کندھے ص ‪24‬‬

‫تو سر گردان ت ریکی شبے رتجور کیوں ہوت‬ ‫میں اض فت کی بج ئے ے ک است م ل کی گی ہے۔‬ ‫ش عر نے خو‬

‫صورت مرکب ت سے بھی کال کو ج ز فکر بن نے‬


‫‪24‬‬

‫کی س ی کی ہے۔ مثال‬ ‫حسن منظور‬ ‫تو ہر ع ش کی آنکونمیں حسن منظور کیوں ہوت‬

‫ص ‪12‬‬

‫ست رہ محمدی‬ ‫غ ل س سے آی ست رہ محمدی ص‪13‬‬ ‫مست مل س‬

‫پہ ہے لیکن س سے است م ل کی گی ہے۔‬

‫مرک ل ظ دیکھیے‬ ‫خداگر‬ ‫عمر گر عدالت خداگر نہ کرتے ص ‪24‬‬ ‫کال میں ریشمیت ک عنصر بھی پ ی ج ت ہے۔ مثال‬ ‫نہ پڑت پرتوہ ح اگر رخس ر خوب ں پر‬ ‫تو ہرع ش کی آنکہونمیں حسن منظور کیوں ہوت‬

‫ص ‪12‬‬

‫کی زبردست طور سے صن ت تض د ک است م ل ہوا ہے۔‬ ‫تو دین اورک ر میں جدائی نہ ہوتی ص ‪24‬‬ ‫صن ت تض د کی مخت ف نوعیت کی دو ایک مث لیں اور مالحظہ ہوں۔‬ ‫نہ م ت گ رخن سے دل میرا مسرور کیوں ہوت‬ ‫نہ اس نرگس کوں دیکہت رنجور کیوں ہوت ص ‪12‬‬


‫‪25‬‬

‫جہ ں صن ت تض د ک است م ل ہوا ہے' وہ ں اردو زب ن کو دو خو‬ ‫صورت است رے بھی میسر آئے ہیں‪.‬اگر مخت ر ہو آد آپن کے خیر‬ ‫وشر اوپر‬ ‫تو دانہ کھ کے گند ک جنت سے دور کیوں ہوت ص ‪12‬‬ ‫اش ر ت میح ت سے مت ہوتے ہی۔ ت میح ت ک است م ل اسی حوالہ‬ ‫سے ہوا ہے۔ اس ذیل میں دو ایک مث لیں مالحظہ ہوں۔‬ ‫اگر مخت ر ہو آد آپن کے خیر وشر اوپر‬ ‫تو دانہ کھ کے گند ک جنت سے دور کیوں ہوت ص ‪12‬‬ ‫لکھی تہی لوح پر ل نت پڑھی تھی س فرشتوں نے‬ ‫اگر یوں ج نت شیط ں تو وہ مغرور کیوں ہوت‬

‫ص‪11‬‬

‫اس ک مط یہ بھی نہیں کہ دو چشمی حے ک است م ل ہی نہیں ہوت‬ ‫تھ ۔ دو ایک مث لیں مالحظہ ہوں۔‬ ‫لکھی تہی لوح پر ل نت پڑھی تھی س فرشتوں نے ص ‪11‬‬ ‫بھیت سجن کی خبر لی وے ص ‪19‬‬ ‫تو ہ ع جزوں کی رھ ئی نہوتی ص ‪24‬‬ ‫زب ن ک مہ ورہ بھی برا اور ن موس نہیں۔ مثال‬ ‫کی دعوئے ان الح‬

‫ک ہوی سردار کیوں ہوت‬

‫ک ئی کہو سجن کی ب ت‬

‫ص‪11‬‬


‫‪26‬‬

‫جن کے پری لگ ئی چ ٹ‬

‫ص‪19‬‬

‫گذر گی سر توں پ نی ص‪20‬‬ ‫اس ش ری مجموعے کے اردو کال پر' پنج بی کے اثراات واضح طور‬ ‫پر محسوس ہوتے ہیں۔ ب ض جگہ لس نی اور کہیں لہجہ پنج بی ہو ج ت‬ ‫ہے۔ مثال‬ ‫نہ ہوت بھیت اسمیں اگر خوشید ذرہ ک ص ‪11‬‬ ‫تو ہر ذرہ انہ ں خورشید سے پرنور کیوں ہوت ص‪12‬‬ ‫ہک لکھ کئی ہزار پیغمبر گذر گئے‬ ‫ا لہجے سے مت‬ ‫ج‬

‫ص ‪13‬‬

‫ایک دو مثث لیں مالحظ ہوں۔‬

‫نیکی بدی ت ے گی ہمسے کجھ نہیں غ‬

‫ص ‪13‬‬

‫ع ی کو جے مشکل کش ح نہ کرتے ص ‪24‬‬ ‫اردو پر ہی موقوف نہیں' پنج بی بھی اردو سے مت ثر نظر آتی ہے۔‬ ‫مصرعے کے مصرعے اردو کے ہیں۔‬ ‫کہیں میراں ش ہ جیالنی ہے‬

‫کہیں قط فرید حق نی ہے‬

‫کہیں بہ ؤالدین م ت نی ہے‬

‫کہیں پیر پن ہ لوہ ر ص ‪19‬‬

‫اس چوبیس ص حے کی مختصر سی کت سے' یہ ب ت واضح ہوتی‬ ‫ہے' کہ مولوی غال محمد آف ص ب تین زب نوں کے ش عر تھے‪.‬‬ ‫مخت ف اردو اصن ف میں ش ر کہتے تھے اور اچھ کہتے تھے۔ ان ک‬ ‫کال کی ہوا اور کدھر گی ' کھوج کرنے کی ضرورت ہے۔‬


‫‪27‬‬

‫مثنوی م سٹر نرائن داس' ایک ادبی ج ئزہ‬


‫‪28‬‬

‫دوسری زب نوں کی طرح اردو' وہ جس رس الغط میں بھی رہی' مخت ف‬ ‫حوالوں سے' اس کے س تھ دھرو ہوت آی ہے۔ مثال‬ ‫جنگجوں نے' اسے دشمن ک ذخیرہءع سمجھتے ہوئے' برب د کر دی '‬ ‫ح الں کہ ل ظ کسی قو ی عالقہ کی م کیت نہیں ہوتے۔‬ ‫اردو کو مسم نوں کی زب ن سمجھتے ہوئے' غیر مس موں کی تحریوں‬ ‫کو نظر انداز کر دی گی ۔ ج کہ اصل حقیقت تو یہ ہے' کہ زب ن تو اسی‬ ‫کی ہے' جو اسے است م ل میں الت ہے۔‬ ‫گھر والوں نے' چھنیوں' کولیوں اور لکڑیوں کو ترجیح میں رکھتے‬ ‫ہوئے' ع می وادبی سرم یہ ردی میں بیچ کر' دا کھرے کر لیے۔‬ ‫بہت کچھ' ح الت' ح دث ت اور عد توجہگی کی نذر ہو گی ۔‬ ‫قددرتی آف ت بھی' اپنے حصہ ک کردار ادا کرتی آئی ہیں۔‬ ‫تہذیبں مٹ گئیں' وہ ں محض کھنڈر اور ٹی ے رہ گیے۔ بہت کچھ ان‬ ‫میں بھی د گی ۔ ب د کے آنے والوں نے' انہیں ب ڈوز کرکے ص ف‬ ‫زمین کے ٹکڑے کو' س کچھ سمجہ لی ۔ اگر محت ط روی اختی ر کی‬ ‫ج تی تو وہ ں سے' بہت کچھ دستی ہو سکت تھ ۔‬ ‫م سٹر نرائن داس' اردو کے خوش فکر اور خوش زب ن' ش عر اور‬ ‫نث ر تھے۔ سردست ان کی ایک ک وش فکر فوٹو ک پی کی صورت میں'‬ ‫دستی ہوئی ہے' جو پیش خمت ہے۔ اس سے پہ ے سوامی را تیرتھ‬ ‫ک کال پیش کر چک ہوں۔‬ ‫م سٹر نرائن داس' جو قصور کے رہنے والے تھے اور فرید کوٹ کے‬ ‫مڈل سکول میں' ب طور ہیڈ م سٹر فرائض انج دے رہے تھے'‬


‫‪29‬‬

‫اٹھ ئیس بندوں پر مشتمل مسدس ب عنوان۔۔۔۔۔جوہر صداقت۔۔۔۔۔ تحریر‬ ‫کی ۔ یہ ‪ 1899‬میں باللی پریس س ڈھورہ ض ع انب لہ میں کری بخش و‬ ‫محمد بالل کے اہتم طبع ہوا۔ گوی یہ آج سے' ‪ 116‬س ل پہ ے ش ئع‬ ‫ہوا۔ اس مسدس کی زب ن آج سے' رائی بھر مخت ف نہیں۔ خدا لگتی یہ‬ ‫ہے' اسے پڑھنے کے ب د اندازہ ہوا' کہ م سٹر نرائن داس کو زب ن پر‬ ‫ک مل دسترس تھی۔ زب ن وبی ن میں فطری روانی موجود ہے۔ اپن نقطہء‬ ‫نظر' انہوں نے پوری دی نت' خ وص اور ذمہ داری سے پیش کی ہے۔‬ ‫انہوں نے اپنی پیش کش کے لیے' دس طور اختی ر کیے ہیں۔‬ ‫مزے کی ب ت یہ کہیں مذہبی ی نظری تی پرچھ ئیں تک نہیں م تی۔ حیرت‬ ‫کی ب ت تو یہ ہے' فقط آٹھ ئیس بندوں میں زب ن بی ن کے دس اطوار‬ ‫اختی ر کیے۔ بالشبہ م سٹر نرائن داس بڑے سچے کھرے اور ب اصول‬ ‫انس ن رہے ہوں گے۔‬ ‫انہوں نے سچ ئی کو مذہ پر فضی ت دی ہے۔ ان کے مط ب خدا‬ ‫سچ ئی سے ال ت رکھت ہے۔ کہتے ہیں۔‬ ‫سچ ئی کے عقیدے کو مذہ پر فضی ت ہے‬ ‫خدا کو بندگ ن راستی سے خ ص ال ت ہے‬ ‫صداقت اپنی حیثیت میں ہے کی ۔‬ ‫سچ ئی رحمت ازلی و ابدی ک خزینہ ہے‬ ‫صد اوج س دت ک عظی الش ن زینہ ہے‬ ‫اس ک فنکشن کی ہے۔‬


‫‪30‬‬

‫ذرا چھونے سے ادنے چیز کو اع ے بن تی ہے‬ ‫وہ قیمت بیشتر اکسیر اعظ سے بھی پ تی ہے‬ ‫صداقت اور کذ ک موازنہ‬ ‫م مع محض سمجھو جھوٹ کو آگے سچ ئی کے‬ ‫نکم محض سمجھو جھوٹ کو آگے سچ ئی کے‬ ‫صداقت کے فوائد‬ ‫سچ ئی ہر دوع ل میں ہے دیتی رتبہ اع ے‬ ‫سچ ئی کرتی ہے ہر دو جہ ں میں مرتبہ اع ے‬ ‫سچ ئی کے ضمن میں دالئل‬ ‫حکومت بھرتری نے چھوڑ دی خ طر سچ ئی کی‬ ‫‪..........‬‬ ‫تی گی ہو گی س کی منی خ طر سچ ئی کی‬ ‫‪.............‬‬ ‫سچ ئی کو بن ی راہنم پہالد نے اپن‬ ‫‪...........‬‬ ‫پکڑ کر ہ تھ سے اپنے پئے خ طر سچ ئی کی‬ ‫پی لے زہر کے سقراط نے خ طر سچ ئی کی‬


‫‪31‬‬

‫‪...........‬‬ ‫مسیح بھی ہوئے ص و تھے خ طر سچ ئی کی‬ ‫‪.............‬‬ ‫ہزاروں سر ہوئے تن سے جدا خ طر سچ ئی کی‬ ‫‪.............‬‬ ‫کئی بچھڑے پی رے وطن سے خ طر سچ ئی کی‬ ‫‪.............‬‬ ‫پڑے ش وں میں ج تی آگ کے خ طر سچ ئی کی‬ ‫سچ ئی فقرا ک مس ک ہوتی ہے۔‬ ‫سچ ئی ہی قدر قیمت فقیروں کی بڑھ تی ہے‬ ‫سچ ئی م رفت کے راستے انکو بت تی ہے‬ ‫سچ ئی کردگ ر پ ک کی قربت دالتی ہے‬ ‫یہی آخر انہیں درگ ہ ایزد میں پہنچ تی ہے‬ ‫کذ ک انج کی ہوت ہے۔‬ ‫کذ د میں گنوات ہے شہنش ہونکی عزت کو‬ ‫تب ہ کرت ہے انکی ش ن کو شوکت کو ہیبت کو‬ ‫اسی سے ڈر ہے وق ت کو خطر اس سے دولت کو‬


‫‪32‬‬

‫گرات سرنگوں ہے غرض ان کے ع ل رف ت کو‬ ‫ہزل پیشوں کو ہللا خ ک میں آخر مالت ہے‬ ‫مگر سچوں ک ح فظ اور مودی اور دات ہے‬ ‫حک ئتی انداز بھی اختی ر کی گی ہے۔‬ ‫گڈریے کی حک یت بھی نصیحت خو دیتی ہے‬ ‫کہ جسکی شیر کے پنجے سے پی ری ج ن نک تی ہے‬ ‫کذ کے ہ تھ سے اسپر مصیبت آن پڑتی ہے‬ ‫سزا جھوٹوں کو اپنے جھوٹ کی ایسے ہی م تی ہے‬ ‫اہل ہند کے ب رے چینیوں اور رومیوں کی آراء‬ ‫صداقت اہل ہندوست ں کے یون نی ثن خواں تھے‬ ‫چ ن کے اہل ہندوست ں کے چینی ثن خواں تھے‬ ‫موجودہ صورت ح ل‬ ‫صداقت ہو گئی ہے دور ہندوست ں کے لوگوں سے‬ ‫ہوئی ہے راستی ک فور ہندوست ں کے لوگوں سے‬ ‫سچ ئی کے رستے پر چ نے والوں کی تحسین اور مب رکب د‬ ‫مب رک ہو خوشی اے راستی کے چ ہنے والو‬ ‫مب رک مخروقی اے راستی کے چ ہنے والو‬


‫‪33‬‬

‫مب رک برتری اے راستی کے چ ہنے والو‬ ‫مب رک خوش روی اے راستی کے چ ہنے والو‬ ‫مب رک آپ کو مژدہ یہ خوشخبری مب رک ہو‬ ‫مب رک آپ کو یہ مہر رب نی مب رک ہو‬ ‫ان کی مذہبی عصبت سے دوری ک س سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ انہوں‬ ‫نے ذات ب ری کے لیے کردگ ر' ایزد' ہللا'ر ' خدا ن است م ل کیے‬ ‫ہیں۔‬ ‫م سٹر ص ح کے پ س متب دالت ک خزانہ موجود ہونے ک گم ن گزرت‬ ‫ہے۔‬ ‫سچ ئی سے خدا ت لے کی رحمت کی ترقی ہے‬ ‫‪........‬‬ ‫خدا کو بندگ ن راستی سے خ ص ال ت ہے‬ ‫‪........‬‬ ‫صد کو ی زرہ سمجھو کہ یہ اک زی تن کی ہے‬ ‫‪........‬‬ ‫نہ ہرگز س نچ کو ہے آنچ اس نے آزم دیکھ‬ ‫‪........‬‬ ‫صداقت کی مدد ان کو سچ ئی کے سہ رے ہیں‬


‫‪34‬‬

‫ا کچھ مرکب ت مالحظہ ہوں۔‬ ‫وہ ف ک راستی کے چمکتے گوی ست رے ہیں‬ ‫‪........‬‬ ‫مب رک گ ست ن راستی کے ٹہ نے والو‬ ‫مب رک زیور صد و صداقت پہننے والو‬ ‫‪.........‬‬ ‫ستون سرخ آہن سے خوشی سے دوڑ کر لپٹ‬ ‫‪.........‬‬ ‫شہیدان صداقت نے دی خ طر سچ ئی کی‬ ‫‪.........‬‬ ‫فتح کےلوک میں پرلوک میں ڈنکے بج تے ہیں‬ ‫‪........‬‬ ‫کی خو مصرع ہیں۔ فص حت و بالغت ک منہ بولت ثبوت ہیں۔ اس‬ ‫ن صح نہ انداز میں ت خی ضرور ہے' لیکن فکری و لس نی حوالہ سے'‬ ‫ان مصرعوں کو نظرانداز کرن ' زی دتی ہو گی۔ بےشک ان مصرعوں‬ ‫میں' انہوں نے آف قی سچ ئی بی ن کی ہے۔‬ ‫ہوا کرت ہے جھوٹوں پر سدا قہر خدا ن زل‬


‫‪35‬‬

‫کبھی درگ ہ سچی میں نہیں ک ز ہوئے داخل‬ ‫‪..........‬‬ ‫ہزل پیشوں کو ہللا خ ک میں آخر مالت ہے‬ ‫‪.........‬‬ ‫مب رک آپ کو یہ مہر رب نی مب رک ہو‬ ‫م سٹر ص ح کی زب ن ک مہ ورہ بھی ن ست سے گرا ہوانہیں۔ دو ایک‬ ‫مث لیں مالحظہ ہوں‬ ‫کذ کے ہ تھ سے اسپر مصیبت آن پڑتی ہے‬ ‫‪...........‬‬ ‫ک ہ ڑی ہ تھ سے اپنے وہ خود پ ؤں پہ دھرتے ہیں‬ ‫‪...........‬‬ ‫سچ ئی ک نصیبے والے ہی دامن پکڑتے ہیں‬ ‫‪............‬‬ ‫اسی سے ن رہت ہے جہ ں میں ی د سچوں ک‬ ‫‪..........‬‬ ‫ہوئی ہے راستی ک فور ہندوست ں کے لوگوں سے‬ ‫مثنوی ک پہال ش ر ہی تشبیہ پر استوار ہے۔ مالحظہ ہو‬ ‫سچ ئی مثل کندن چمکتی ہے دندن تی ہے‬


‫‪36‬‬

‫وہ ج وہ نور کوہ نور سے بڑھ کر دکھ تی ہے‬ ‫صن ت تکرار ل ظی ک است م ل بھی ہوا ہے۔ ہ ں البتہ' دندن تی کی‬ ‫جگہ' کوئی اور ل ظ رکھ دیتے' تو زی دہ اچھ ہوت ۔‬ ‫ایک اور خو صورت سی تشبیہ مالحظہ ہو۔‬ ‫مگر ہے جھوٹ مثل ک نچ اس نے آزم دیکھ‬ ‫ا صن ت تض د کی کچھ مث لیں مالحظہ فرم لیں۔‬ ‫شروع میں ہے خوشی اسکے خوشی ہی انتہ اسک‬ ‫انتہ کو مونث ب ندھ گی ہے اور یہ غ ط نہیں۔‬ ‫‪.......‬‬ ‫سچ ئی راحت ازلی و ابدی ک خزینہ ہے‬ ‫‪.......‬‬ ‫زب ن پ ک کو اے دل نہ آلودہ کذ سے کر‬ ‫م سٹر نرائن داس نے' اپنے عہد کی سچ ئی کے حوالہ سے' ہندوست ن‬ ‫کی ح لت کو' ریک رڈ میں دے دی ہے۔ کہتے ہیں‬ ‫بن ی جھوٹ کو ابتو ہے ہمنے راہنم اپن‬ ‫سچ ئی الودع! ہے آجکل کذ وری اپن‬ ‫دھر ب قی رہ اپن نہ دل ق ئ رہ اپن‬


‫‪37‬‬

‫نہ ی رو جھوٹ کے ہ تھوں سے ایم ں ہی بچ اپن‬ ‫صداقت ہو گئی ہے دور ہندوست ں کے لوگوں سے‬ ‫ہوئی ہے راستی ک فور ہندوست ں کے لوگوں سے‬ ‫مثنوی ک آخری ش ر جس میں تخ ص است م ل ہوا ہے' پیش خدمت ہے‬ ‫یہ ع صی اے سچ ئی تیرے ہی گھر ک سوالی ہے‬ ‫ترا ہی داس اور تیرے ہی گھر ک سوالی ہے‬ ‫کہ ج ت ہے' انس ن نے ترقی کر لی ہے۔ خ ک ترقی کی ہے' جہ ں ع‬ ‫دو نمبر کی چیز ہو اور اہل ق کی موت کے ب د' ان کے پچھ ے' ان‬ ‫کے لہو پ روں کو' ردی میں بیچ دیں ی ط قت کے نشہ میں چور‬ ‫حکمرانوں کے پیشہ ور بےرح جنگجو' اس انس نی ورثے کو' نیست‬ ‫ون بود کر دیں‪ .‬وہ ں ہوس اللچ اور ن س ن سی کے سوا کی ہو سکت‬ ‫ہے۔ اگر ہوس' اللچ اور ن س ن سی ترقی ہے' تو وہ بہت زی دہ ہوئی‬ ‫ہے۔‬ ‫م سٹر ص ح نے اور بھی بہت کچھ' ش ر و نثر میں لکھ ہو گ ' کچھ‬ ‫کہہ نہیں سکتے۔ تقسی ہند ک عمل تقریب نصف صدی ب د ک ہے۔۔ اس‬ ‫لیے' وہ تقسی میں ض ئع نہیں ہوا ہو گ ۔ آج ج م ت' تحیقی ڈگری‬ ‫چھ پنے میں مصروف ہیں' اگر وہ خ موش اردو کے خدمت گ روں کو'‬ ‫تالشنے کو بھی' تحقی سمجھیں' تو یہ اردو زب ن کی بہت بڑی خدمت ہوگی‬

‫محتر جن‬

‫ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ۔۔ السال ع یک‬


‫‪38‬‬

‫آج موج غزل سے نکل کر موج بی ن ک رخ کی تو اس نتیجہ پر پہنچ‬ ‫کہ اس س ئٹ میں موجود موج بی ن ک حصہ آپ کے د سے ق ئ ہے‬ ‫کیونکہ میں نے پچ نوے فیصد سے زائد تح ریر آپ کی یہ ں آپکی لگی‬ ‫ہوئ دیکھی ۔۔ ہللا پ ک آپکو اور آپکے اس ذو و شو اور فن کو‬ ‫سالمت رکھے اور وس ت و ترقی عط فرم ئے ۔ میں محتر سرور راز‬ ‫ص ح سے مت ہوں کہ یہ ں صنف ش عری کی نسبت احب کی توجہ‬ ‫نثر کی طرف بہت ک ہے جو احب نثری تخ یق ت لکھ سکتے ہیں ان‬ ‫کو ضرور اس ج ن بھی توجہ کرنی چ ہئے ۔۔‬ ‫آپ نے بہت اہ مسئ ہ کی طرف توجہ دالئی ہے آپکی سوچ اور فکر‬ ‫بج ہے کہ ادبی ورثہ کو مح وظ رکھنے کے لئے بھی ک ہون چ ہئے‬ ‫۔۔ ہللا پ ک آپکو ش دا رکھے اور آپکی تم تر نیک و ج ئز تمن ؤں کو‬ ‫پورا فرم ئے ۔۔‬ ‫والسال‬ ‫محمد یوسف‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9892.0‬‬

‫آش پربھ ت' مسک تے' س گتے اور ب کتے احس س ت کی ش عر‬


‫‪39‬‬

‫عزیزہ آش پربھ ت نے اپن مجموعہءکال ۔۔۔۔۔ مرموز۔۔۔۔۔۔ ان ال ظ کے‬ ‫س تھ عط کی ۔‬ ‫صف اول کے ف ل ادی ' نق د اور دانشور محتر بھ ئی ص ح کو‬ ‫احترا کے س تھ‬ ‫آش پربھ ت‬ ‫اگست ‪8 1996‬‬ ‫میں نے کچھ لکھ بھی تھ اور وہ کہیں ش ئع بھی ہوا تھ ۔ ب وجود‬ ‫کوشش کے' وہ لکھ دستی نہیں ہو پ رہ ۔ کال آج انیس س ل ب د'‬ ‫دوب رہ پڑھنے میں آی ہے' میں بڑی سنجیدگی اور دی نت داری سے'‬ ‫محسوس کر رہ ہوں' اس پر لکھ ج ن چ ہیے۔‬ ‫مرموز ‪ 1996‬میں' پب شرز اینڈ ایڈورٹ ئزرز جے ‪ 6‬کرشن نگر دلی‬ ‫سے' ش ئع ہوا۔ ٹ ئیٹل بیک پر' آش پربھ ت کی تصویر ت رف اور ان‬ ‫کے کال پر اظہ ر خی ل بھی' کی گی ہے۔ انہوں نے' اپنے کسی خط‬ ‫بت ی ہو گ ۔ ا اس خط ک م ن ' آس ن‬ ‫میں' لکھنے والے کے مت‬ ‫نہیں۔ اس تحریر کے مط ب ' آش پربھ ت کی والدت رکسول' بہ ر میں‬ ‫ہوئی۔ ان ک ن ول۔۔۔۔۔ دھند میں اگ پیڑ۔۔۔۔۔ م ہ ن مہ منشور کراچی میں‬ ‫ش ئع ہوا' جو ب د میں' کت بی شکل میں بھی ش ئع ہوا تھ ۔ انہوں نے'‬ ‫مہرب نی فرم تے ہوئے' ایک نسخہ مجھ ن چیز ف نی کو بھی' عن یت کی‬ ‫تھ ۔ ان ک ایک مجموعہء ش ر ۔۔۔۔۔۔ دریچے۔۔۔۔۔۔۔۔ اس زب ن کے'‬ ‫دیون گری خط میں بھی ش ئع ہوا تھ ۔ ان ک ایک ہ ئیکو پر مشتمل‬ ‫مجموعہ۔۔۔۔۔گردا ۔۔۔۔۔۔ زیر اش عت تھ ۔‬


‫‪40‬‬

‫ان کی ش عری سے مت‬

‫کہ گی ہے۔‬

‫اس و اور ہیئت کے اعتب ر سے ان کی نظمیں ش ری اد کے‬ ‫سرم ئے میں ایک نئے ب ک اض فہ کرتی ہیں۔‬ ‫اس مجموعے میں' کل اکسٹھ ش ر پ رے ش مل ہیں' جن میں سولہ‬ ‫غزلیں اور پ نچ اوپر چ لیس نظمیں ش مل ہیں۔ آش بنی دی اور پیدائشی‬ ‫طور پر' دیون گری رس الخط سے مت ہیں' لیکن اردو رس الخط‬ ‫سے' ان کی محبت عش کی سطع پر نظر آتی ہے۔ ان ک کہن ہے۔‬ ‫اردو میری محبو ہے اور میری محبو کی آنکھوں میندھنک کے‬ ‫تم رنگ لہراتے ہیں۔‬ ‫ان ک کہن ' کہنے کی حد تک نہیں' مرموز اس کی عم ی صورت میں‬ ‫موجود ہے۔ واق ی اردو سے وہ عش کرتی ہیں۔‬ ‫اس ک وش فکر ک ابتدائیہ' جو آش پربھ ت ک لکھ ہوا ہے' سچی ب ت‬ ‫ہے' دل کے نہ ں گوشوں میں بھی' ارت ش پیدا کرت ہے۔ مالحظہ‬ ‫فرم ئیں۔‬ ‫اس ک وش فکر ک ابتدائیہ جو آش پربھ ت ک لکھ ہوا ہے سچی ب ت‬ ‫ہے دل کے نہ ں میں بھی ارت ش پیدا کرت ہے۔ مالحظہ فرم ئیں۔‬ ‫مجھے نہیں م و ش عری کی ہے۔ ش ری آہنگ کی ہوت ہے۔ ش ری‬ ‫ش ور کی ہے اور داخ ی عوامل سے یہ کس طرح ترتی پ ت ہے۔ میں‬ ‫بس اتن ج نتی ہوں کہ دھند صرف پہ ڑوں پر نہیں ہوتی آدمی کے اندر‬ ‫بھی پھی تی ہے۔ سمندر لہرات ہے۔ دری موجزن ہوت ہے۔ طوف ن اٹھتے‬ ‫ہیں' پھول کھ تے ہیں' خوشبو پھی تی ہے اور ج بھی میں ان کی یتوں‬


‫‪41‬‬

‫سے گزرتی ہوں تو ل ظوں ک سہ را لیتی ہوں اور محسوس ت کے‬ ‫پراسرار دھندلکوں میں ال ظ کی قندیل جالتی ہوں لیکن ال ظ دور تک‬ ‫میرا س تھ نہیں دیتے ۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫میرے نزدیک ش عری قندیل جالنے ک عمل ہے۔ مجھے نہیں م و‬ ‫میری قندیل کی روشنی محسوس ت کی کس سطع کو چھوتی ہے۔ لیکن‬ ‫کی یہ ک ہے کہ میں نے قندیل جالئی ہے اور جالئے رکھنے ک عز‬ ‫رکھتی ہوں۔‬ ‫یہ زب نی کالمی کی ب تیں نہیں' مرموز کے مط ل ے کے ب د' یہ تم‬ ‫کی ی ت پڑھنے کو م تی ہیں۔‬ ‫ل ظ بہ مثل قندیل روشن رہتے ہیں‬ ‫دل کے نہ ں خ نوں میں‬ ‫ت موجود ہو‬ ‫آک ش میں شبد کی طرح‬ ‫نظ آک ش میں شبد ص‪9‬‬ ‫دھند آدمی کے اندر بھی پھی تی ہے۔‬ ‫ا کسی بھی آنکھ میں‬ ‫پہچ ن کی خوشبو نہیں‬ ‫چوب روں کے دیئے‬ ‫ک کے بجھ چکے ہیں‬


‫‪42‬‬

‫بہت ج ن لیوا سن ٹ‬ ‫وہ ں لیٹ رہت ہے‬ ‫نظ گ ؤں ک المیہ ص ‪12‬‬ ‫اس ضمن میں ایک اور مث ل مالحظہ ہو۔‬ ‫ہر سو‬ ‫دھند ک پہرہ ہے‬ ‫رات خ موش ہے‬ ‫مٹ م ی چ ندنی‬ ‫اتر آئی ہے میرے آنگن میں‬ ‫نظ ۔ میری اداس آنکھیں ص‪27‬‬ ‫جذ و احس س ت ک اٹھت طوف ن اور ردعم ی پک ر مالحظہ ہو‬ ‫روک لو‬ ‫ان وحشی درندوں کو‬ ‫ان کی کنٹھ ؤں کے‬ ‫تیز ن خونوں کو توڑ ڈالو‬ ‫یہ نہیں ج نتے‬ ‫ب رود کی ڈھیر پر بیٹھ کر‬


‫‪43‬‬

‫خود م چس جالنے ک انج‬ ‫یہ نہیں ج نتے‬ ‫جھ ستے ہوئے انس نوں کے المیہ کو‬ ‫جنگ ص‪ 70‬نظ ۔‬ ‫موجزن دری اور لہراتے سمندر کی کی یت مالحظہ ہو‬ ‫تمہ ری چھوی ابھرتی ہے‬ ‫ایک روش ہ لہ کی طرح‬ ‫اور ایک شکتی بن کر‬ ‫میری روح میں سم ج تی ہے‬ ‫میں جی اٹھتی ہوں‬ ‫امبربیل کی طرح‬ ‫پ کیں جھپک اٹھتی ہیں‬ ‫توان ئی ک بےکراں سمندر‬ ‫لہرا اٹھت ہے میرے انگ انگ میں‬ ‫نظ تنہ ئی ص ‪16‬‬ ‫احس س کی کہ نی مالحظہ ہو‬ ‫میرے اندر‬


‫‪44‬‬

‫کہیں چپ سی پڑی ہے‬ ‫ایک ننھی چڑی‬ ‫وہ ا نہیں پھدکتی‬ ‫نہیں چہکتی‬ ‫نہ ہی ب رش میں‬ ‫اپنے پر بھگوتی ہے‬ ‫نظ ننھی چڑی ص‪24‬‬ ‫ل ظوں کی مسک ن اور خوش بو مالحظہ ہو۔‬ ‫آبگینے سے زی دہ ن زک لمحوں کے بی ن کے لیے ل ظوں ک انتخ‬ ‫آش کو خو خو آت ہے۔ ذرا یہ الئینیں مالحظہ ہوں۔‬ ‫تمہ ری آواز کی نمی‬ ‫ہمیشہ کی طرح‬ ‫اس ب ر بھی گمراہ کر گئی‬ ‫میں اس موڑ پر ہوں‬ ‫جہ ں سے واپس مڑ گئی تھی‬ ‫نظ تمہ ری آواز کی نمی ص‪37‬‬ ‫آش مح ک ت کی تشکیل میں کم ل رکھتی ہیں۔ مثال‬ ‫حس م مول‬


‫‪45‬‬

‫اس ب ر بھی ت‬ ‫میرے چہرے ک‬ ‫اپنے ہ تھوں سے‬ ‫کٹورا س بن ؤ گے‬ ‫میرے ل چومو گے‬ ‫اور بھر دو گے میرے آنچل کو‬ ‫عہد و پیم ں کے جگنوؤں سے‬ ‫نظ میرے ل س ے ہیں ص ‪32‬‬ ‫آش کے ہ ں' تشبیہ ت ک ب لکل نئے طور اور نئی زب ن کے س تھ‬ ‫است م ل ہوا ہے۔ چند ایک مث لیں مالحظہ ہوں‬ ‫دل کے نہ ں خ نوں میں‬ ‫ت موجود ہو‬ ‫آک ش میں شبد کی طرح‬ ‫نظ آک ش میں شبد ‪9‬‬ ‫تمہ رے س رے خی الت‬ ‫نی خوابیدہ ہنسی کی طرح‬ ‫میرے ہونٹوں پر پھیل ج ئیں گے‬ ‫تنہ ئی ص ‪15‬‬


‫‪46‬‬

‫شوخ لہریں‬ ‫سرکشی کرتی ہیں کن روں سے‬ ‫س نپ کے کینچل کی طرح‬ ‫نظ تمہ رے ج نے کے ب د ص‪17‬‬ ‫تمہ ری نر انگ یوں ک مخم ی لمس‬ ‫جیسے‬ ‫بند شیشوں سے ب ہر گرتی‬ ‫مس سل برف ب ری ک س س ہ‬ ‫نظ ایک احس س ص‪78‬‬ ‫اور سکھ‬ ‫م صو بچے س‬ ‫کونے میں دبک کر‬ ‫سو گی ہے‬ ‫نظ ریت کی ندی ‪85‬‬ ‫ت میح ک است م ل اور است م ل کی زب ن' مالحظہ ہو۔‬ ‫ریت کی ندی بہتی ہے۔۔۔۔۔‬ ‫گر ریت میں پھنس گی ہے کہیں‬


‫‪47‬‬

‫سوہنی ک گھڑا‬ ‫نظ ریت کی ندی ص‪85‬‬ ‫اٹھو‬ ‫ہ تھ بڑھ ؤ‬ ‫اور‬ ‫ص ی پر ٹنگے نصی کو ات ر لو‬ ‫ص ی پر ٹنگے نصی ص‪ 69‬نظ‬ ‫مندر کی روشنی میں‬ ‫مسجد کی روشنی میں‬ ‫کیوں کہرا بڑھ رہ ہے‬ ‫کیوں کہرا چھ رہ ہے‬ ‫نظ س نپ کو پکڑ لو ص‪60‬‬ ‫بہت دن ہوئے‬ ‫ج یوک پٹس کے پیڑوں کی طرح‬ ‫دن اگت تھ‬ ‫نظ بہت دن ہوئے ص‪10‬‬ ‫سم ج کی عمومی چیزیں بھی' است م ل میں التی ہیں اور یہ ہی' اس کی‬ ‫نظ کے لس نی حسن ک سب بنتی ہیں۔‬


‫‪48‬‬

‫آٹ گوندھنے کے درمی ن‬ ‫نظ تمہ ری ی د ص‪92‬‬ ‫‪........‬‬ ‫کھڑکیوں اور دروازوں کے مخم ی پردے‬ ‫‪........‬‬ ‫ہ نڈیوں میں دانے‬ ‫اکیسویں صدی ص‪ 73-72‬نظ‬ ‫‪.......‬‬ ‫گ ی ڈنڈے اور‬ ‫بچوں کے ہجو‬ ‫وقت پیرہن بدلت ہے ص‪ 91-90‬نظ‬ ‫‪.......‬‬ ‫چوپ لوں میں بجھے ہوئے گھوروں کی راکھ‬ ‫نظ گ ؤں ک المیہ ص‪13‬‬ ‫آش نے زب ن کو مخت ف نوعیت و حیثیت کے مرک فراہ کیے ہیں۔ یہ‬ ‫اردو کی لس نی و فکری ثروت ک سب بنے ہیں۔ مثال‬ ‫کر گل ص‪54‬‬


‫‪49‬‬

‫نی خوابیدہ ہنسی ص‪14‬‬ ‫خرگوشی لمس ص‪20‬‬ ‫مٹ م ی چ ندنی ص‪27‬‬ ‫من ک سن ٹ ص‪58‬‬ ‫ل ظوں ک پل ص‪67‬‬ ‫سکھ ک چل ص‪85‬‬ ‫دہشت کے س ئے ص‪46‬‬ ‫ت وار کے ق ص‪61‬‬ ‫موت کی دستک ص‪47‬‬ ‫کہرے کی دیوار ص‪47‬‬ ‫جھینگر کی جھنک ر ص‪78‬‬ ‫ریت کی ندی ص‪85‬‬ ‫خی لوں میں اڑان ص‪66‬‬ ‫آش کی زب ن ک مہ ورہ بھی فصیح وب یغ ہے۔مثال‬ ‫وقت پیرہن بدلت ہے‬ ‫زخ بھر ج تےہیں ص‪41‬‬ ‫آک ش نے‬


‫‪50‬‬

‫اپن پریچے کھو دی ہے‬ ‫وقت موک بن‬ ‫ٹھگ س دیکھت رہ گی ہے ص ‪88‬‬ ‫جو جتن م ہر ہے‬ ‫اتن بھوگت ہے اسٹیج ک سکھ ص‪86‬‬ ‫اور سپنے‬ ‫نی وا آنکھوں سے‬ ‫چھ ک پڑے ص‪83-82‬‬ ‫کوئی احس س‬ ‫کوئی درد تمہ رےپیروں کی‬ ‫بیڑی نہیں بن سک ص‪35‬‬ ‫میرے اندر چپ سی پڑی ص‪24‬‬ ‫خی لوں میں اڈان بھرو گے ص‪66‬‬ ‫میرا پچھت وا مکھر ہو اٹھ ہے ص‪56‬‬ ‫آش کے ہ ں' زب ن اور زب ن ک ل و لہجہ اور ذائقہ الگ پڑھنے کو م ت‬ ‫ہے۔ غیر محسوس اور رونی میں' عالمتوں اور است روں ک ' است م ل‬ ‫مت ثر کرت ہے۔ مثال‬ ‫توان ئی ک بےکراں سمندر ص‪16‬‬


‫‪51‬‬

‫درد چ ت ہے دبے پ ؤں ص‪79‬‬ ‫م ں کی چھ تیوں ک سمندر ص‪73‬‬ ‫ل ظوں ک پل ٹوٹ گی ص‪67‬‬ ‫کہر کی دیواروں کے بچ ص‪47‬‬ ‫اس خ موشی کے شکنجہ میں‬ ‫فقط ج ن بہ ل تھ میرا ایم ن ص‪55‬‬ ‫آش کے ہ ں' اس عہد کی سچی تصویریں دیکھنے کو م تی ہیں' س تھ‬ ‫میں' اس عہد کے شخص کے لیے پیغ بھی ہے۔ ب طور مث ل یہ نظ‬ ‫‪.‬مالحظہ ہو‬ ‫ص ی پر ٹنگے نصی‬ ‫اٹھو‬ ‫ہ تھ بڑھ ؤ‬ ‫اور‬ ‫ص ی پر ٹنگے نصی کو ات ر لو‬ ‫وہ بھی مضبوط ارادوں کی‬ ‫راہ دیکھت ہے‬ ‫زندگی کو دان کی‬ ‫پیٹی مت دو‬


‫‪52‬‬

‫کسی آدھے ادھورے‬ ‫مندر کی بنی د پر رکھی‬ ‫دان کی پیٹی‬ ‫جس میں‬ ‫مجبوری ی ڈر سے‬ ‫ڈال ج ت ہے کوئی‬ ‫پ نچ پیسے دس پیسے‬ ‫غرض آش پربھ ت کی ش عری' اپنے وجود میں' فکری اور لس نی‬ ‫اعتب ر سے' ق بل توجہ توان ئی رکھتی ہے اور اسے نظر انداز کرن '‬ ‫مبنی برانص ف نہ ہو گ ۔ غژل چوں کہ نظ سے' قط ی الگ صنف‬ ‫سخن ہے' اسی لیے اسے' کسی دوسرے وقت کے لیے اٹھ رکھ ہے۔‬

‫مکرمی جن‬

‫ڈاکٹر حسنی ص ح ‪ :‬سال ع یک‬


‫‪53‬‬

‫آش پربھ ت پر آپ ک سیرح صل مضمون پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔ وہ‬ ‫ہندوست ن کی ش عرہ ہیں۔ہندوست ن میں کسی ہندو ش عرہ ک اردو میں‬ ‫ش عری کرن ایک نہ یت خوش آئند م رکہ ہے۔ اس سے ایک اش رہ یہ‬ ‫بھی م ت ہے کہ اردو ک مستقبل وہ ں بھی خرا ہرگز نہیں ہے۔ ک ش‬ ‫اہل اردو ایسے ادیبوں اور ش عروں کی قدر کریں جو ن مس عد ح الت‬ ‫کے ب وجود محبت اور لگن سے زب ن و اد کی خدمت میں مصروف‬ ‫ہیں۔ اردو ک ح ل جیس کچھ بھی ہے وہ اہل اردو کے ہ تھوں ہی ہے۔‬ ‫آش پربھ ت کی تقریب تم نظمیں نثری نظمیں لگ رہی ہیں۔ کوئی آزاد‬ ‫نظ بھی نظر نہیں آئی۔ ان کے خی الت بہت ج ندار اور ت زہ ہیں اور‬ ‫بی ن پر ان کو عبور ہے۔ اتن تو ہ بہت سے اردو کے ش عروں کے‬ ‫ب رے میں بھی نہیں کہہ سکتے ہیں! مجھ کو آش ص حبہ کی غزلوں ک‬ ‫بے صبری سے انتظ ر ہے۔ امید ہے کہ آپ ج د ہی اس ج ن فکر‬ ‫فرم ئیں گے۔ بہت بہت شکریہ۔ ہللا سے دع ہے کہ آپ کو اسی طرح‬ ‫خدمت اد وش ر کے مح ز پر ت زہ ک ر اورت زہ د رکھے۔‬ ‫مہر افروز‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9894.0‬‬

‫اکبر اردو اد ک پہال بڑا مزاحمتی ش عر‬


‫‪54‬‬

‫ن خوشگوار اور ن س زگ ر ح الت میں' ح کہن آس ن ک نہیں۔ اکبر الہ‬ ‫آب دی نے' یہ فریضہ بڑے س یقے اور اہتم سے انج دی ۔ سرک ری‬ ‫مالز ہو کر' ن گوار ح الت پیدا کرنے والوں کو' آڑے ہ تھوں لی ۔ کہیں‬ ‫پوشیدہ کہیں نی پوشیدہ اور کہیں بالپوشیدگی' کہنے کی ب ت' کہہ دی۔‬ ‫ایک طرف سرسید' جو مغربی تہذی کے نم ئندہ تھے' س تھیوں سمیت'‬ ‫مغر کے لیے سرگر عمل تھے' تو دوسری طرف اکبر' اس کہے ی‬ ‫کیے کی' تکذی کر رہے تھے۔ ہمہ وقت سپ ٹ اور براہ راست کہن '‬ ‫آس ن ک نہ تھ اسی لیے انہوں نے طنز و مزاح ک رستہ اختی ر کی ۔‬ ‫ہ سے ہ سے میں' کسی عمل' فکر ی طور کی ڈنڈ الہ کر رکھ دیتے ہیں۔‬ ‫ایک طرف ٹی ورک ہو رہ تھ ' تو دوسری طرف فرد واحد'‬ ‫غیرسنجیدہ انداز میں' سرگر عمل تھ ۔ بدقسمتی یہ کہ جس پذیرائی‬ ‫اور اعزاز و اکرا کے مستح تھے' وہ انہیں میسر نہ آئی‪ .‬اس کے‬ ‫برعکس' سرک ری گم شتے سر خ ن بہ در اور ش ہی ت وے چوس' کی‬ ‫سے کی قرار دے دیے گیے۔ بدقسمتی کی ب ت یہ کہ وہ ت ریکیوں کے‬ ‫امین' آج بھی عظی ت ریخی اور قومی شخصی ت ہیں۔ ش ہی کڑچوں ک‬ ‫ہیرو ٹھہرن ' کوئی نئی نہیں' بہت پرانی ریت چ ی آتی ہے۔‬ ‫اکبر نے اردو کو نی طور اور نی اس و دی ۔ ان کے اکثر مرکب ت بڑے‬ ‫ک ٹ دار ہیں۔ ان کی ترکیب ت اور تشبیہ ت' حس س دلوں کی دھڑکنوں‬ ‫کو بڑی مالئمیت سے چھیڑتی ہیں۔ ج وہ پرانی اقدار کی تذلیل ک‬ ‫نوحہ کہتے ہیں' تو مغر پریدہ انہیں دقی نوس قرار دے کر' ان کی‬ ‫سننے سے انک ر کر دیت ہے۔ اس ذیل فقط یہ دو ش ر مالحظہ ہوں‬


‫‪55‬‬

‫تمھ ری پ لیسی ک ح ل کچھ کھ ت نہیں ص ح‬ ‫ہم ری پ لیسی تو ص ف ہے ایم ں فروشی کی‬ ‫شکست رنگ مذہ ک اثر دیکھیں نئے مرشد‬ ‫مس م نوں میں کثرت ہو رہی ہے ب دہ نوشی کی‬ ‫اکبر ک موقف رہ ہے' کہ بےشک ہم رے دشمنوں نے ہمیں روند ڈاال‬ ‫ہے' ہم رے مذہبی اور تہذیبی ورثے کو ن ق بل تالفی نقص ن پہنچ ہے'‬ ‫ریورس ک عمل اگرچہ ابھی ج ری ہے' ت ہ اس امر کو خ رج از امک ن‬ ‫قرار نہیں دی ج سکت ' کہ جو لوگ آج ک می ہیں' کل جہ ں ب نی کے‬ ‫م مالت میں ن ک ہو ج ئیں اور آج کے ن ک کل کو ک می ٹھہریں۔‬ ‫انگریز نے ‪ 1857‬میں جنگ جیت ج نے کے ب د' ظ وست کی انتہ‬ ‫کر دی۔ چوں کہ اس نے مس حکومت کو خت کی تھ اور ردعمل کی'‬ ‫اسی سے توقع تھی' اس لیے زی دہ تر مسم ن ہی اس کی تیغ ست ک‬ ‫نش نہ بنے۔ دہ ی اس وقت چھے الکھ آب دی ک شہر تھ ' جہ ں آہوں اور‬ ‫سسکیوں کے سوا' کچھ سن ئی نہ دیت تھ ۔ اس صورت ح ل سے‬ ‫گزرنے کے ب وجود' مس م نوں میں جذبہءآزادی بیدار ہوا' جس کے‬ ‫ب عث زندگی میں جدوجہد کی ایک نئی لہر‬ ‫دوڑنے لگی' اکبر کے ہ ں اس امر ک اش رہ م ت ہے' کہ ف تح اپنی فتح‬ ‫پر خوش نہ ہوں' کیوں کہ‬ ‫سورج ہمیشہ نئے انقال کے س تھ ط وع ہوا کرت ہے۔ ان ک موقف‬ ‫تھ ' کہ لوگ مرتے رہتے ہیں' آزادی کے متوالے جن لیتے رہتے ہیں۔‬ ‫غالمی سے آزادی تک ک س ر' ہر صورت اور ہر رنگ میں' ج ری رہت‬


‫‪56‬‬

‫ہے۔ پرانی نسل خت ہو رہی ہے تو اس سے کوئی فر نہیں پڑت ۔ جس‬ ‫تن س سے اموات ہو رہی ہیں' اسی تن س سے لوگ آ بھی رہے ہیں'‬ ‫جو اپنے سینے میں گزرا ہوا کل رکھتے ہیں۔ اکبر کے ہ ں جگہ جگہ‬ ‫موازنہ کی صورتیں نظر آتی ہیں اور واضح ا ل ظ میں' نئی آمدہ تہذی‬ ‫کے نق ئص کو واضح کی ۔‬ ‫نئی تہذی سے س قی نے ایسی گرمجوشی کی‬ ‫کہ آخر مس م نوں میں روح پھونکی ب دہ نوشی کی‬ ‫ہ ریش دکھ تے ہیں کہ اسال کو دیکھو‬ ‫مس زلف دکھ تی ہے کہ اس ال کو دیکھو‬ ‫اس پر تنقید بھی کرتے ہیں۔ ب ض اوق ت بڑی بےب قی سے ک لیتے‬ ‫ہیں۔ مثال‬ ‫یہی فرم تے رہے تیغ سے پھیال اسال‬ ‫یہ نہ ارش د ہوا توپ سے کی پھیال ہے‬ ‫وہ ح ک لوگوں کے رویے رجح ن اور اطوار سے خو خو آگ ہ‬ ‫تھے' ت ہی تو کہتے ہیں‬ ‫رع ی کو من س ہے کہ ب ہ دوستی رکھیں‬ ‫حم قت ح کموں سے ہے توقع گر جوشی کی‬ ‫وہ حکومتی چمچوں کڑچھوں کی ن یس ت سے آگہی رکھتے تھے۔ یہ‬ ‫پٹھو لوگ' اپنی پرانی تہذی کی خ می ں گنوا رہے تھے اور نئی تہذی‬


‫‪57‬‬

‫کی خوبیوں ک ڈھندورہ پیٹ رہے تھے اور اسی کو ترقی ک زینہ قرار‬ ‫دے رہے تھے۔ اس ذیل میں اکبر ایک جگہ کہتے ہیں‬ ‫چھپ نے کے عوض چھپوا رہے ہیں خود وہ عی اپنے‬ ‫نصیحت کی کروں میں قو کو ا عی پوشی کی‬ ‫چوں کہ آزادی اور ح سچ کی ب ت کرنے والے ج ن ج تے تھے اس‬ ‫‪:‬لیے انہوں نے اس کے لیے تین حربے است م ل کیے‬ ‫اش رتی انداز اختی ر کرتے ‪1-‬‬ ‫دبے ل ظوں بہت کچھ کہہ ج تے ‪2-‬‬ ‫کبھی تھوڑا کھل کر ب ت کرتے ‪3-‬‬ ‫انہیں اس امر ک ت سف رہ ' کہ ان کے ہ نوا اور ح کی ب ت کرنے‬ ‫والے' تقریب خت ہو گیے ہیں اور انگریز تہذی کے ح میوں میں'‬ ‫ہرچند اض فہ ہو رہ ہے۔ ان کے تکذی کرنے والے ان کے خالف من ی‬ ‫اطوار پر اتر آئے ہیں۔ کہتے ہیں‬ ‫رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے ج ج کے تھ نے میں‬ ‫کہ اکبر ن لیت ہے خدا ک اس زم نے میں‬ ‫انہوں نے عالمتی طور اختی ر کرکے' ایک اصول وضع کی ' کہ کچھ‬ ‫بھی سہی' ح الت کیسے بھی رہے ہوں' حریت ک س ر ج ری رہن‬ ‫چ ہیے۔ عیش و طر کی مح ل میں رونے والے بھی رہن چ ہیے۔ وہ‬ ‫روتے رہے۔‬


‫‪58‬‬

‫ت ی ک شور اتن تہذی ک غل اتن‬ ‫برکت جو نہیں ہوتی نیت کی خرابی ہے‬ ‫سرسید تحریک کی طرف اش رہ ہے۔ ایک دوسرے ش ر میں ایک ن‬ ‫نہ د مص ح طبقہ' نسل نو کو جس ت ی سے آرائستہ کرن چ ہت تھ ' پر‬ ‫چوٹ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔‬ ‫ہ ایسی کل کت بیں ق بل ضبطی سمجھتے ہیں‬ ‫کہ جن کو پڑھ کے بیٹے ب پ کو خبطی سمجھتے ہیں‬ ‫ح ک یہ ں کے وس ئل سے پچرے اڑا رہ تھ ' بچے کھچے میں سے‬ ‫پیٹ بھر انہیں بھی مل رہ تھ ۔ گوی کم ئے گی دنی کھ ئیں گے ہ ' کے‬ ‫مصد دونوں فریقوں ک موجو لگ ہوا تھ ۔ اکبر اسے وقتی اور‬ ‫ع رضی سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک' عیش و نش ط ک خ تمہ ن تم‬ ‫حسرتوں اور خواہشوں پر ہوا کرت ہے۔ ج یہ طے ہے' کہ عیش و‬ ‫عشرت ک خ تمہ ن تم حسرتوں پر ہوا کرت ہے' تو پھر کیوں نہ وقت‬ ‫مثبت ک موں پر صرف کی ج ئے۔ گوی وہ عیش کوشی کو تی گنے کے‬ ‫ح میں تھے۔ درحقیقت وہ مغ وں کی عیش کوشی کو زوال ک سب‬ ‫سمجھ رہے تھے۔ انہوں نے وس ئل ک غ ط کی ۔ انج ک ر زوال ک شک ر‬ ‫ہوئے۔ اگر وہ‬ ‫ب صول اور ڈھنگ کی زندگی کرتے' تو ذلت و رسوائی اور دیس بدری‬ ‫ان ک مقدر نہ ٹھہرتی۔ ا بھی یہ ہی کچھ چل رہ تھ ' لیکن اپنی اصل‬ ‫میں یہ ں کی تہذی کے مزاج سے ہٹ کر' کہ اور لکھ ج رہ تھ ۔ اس‬ ‫سے لمح تی ارت ش تو پیدا ہوا۔ مخصوص ح قوں کے سوا مجموعی‬


‫‪59‬‬

‫مزاج ترکی نہ پ سک ۔‬ ‫انس ن دکھ میں خدا کو ی د کرت ہے اور اس سے مدد م نگت ہے۔ کتن‬ ‫بڑا طنز ہے' کہ مغربی ت ی نے' خدا کی ی د ہی بھال دی ہے۔ شخص‬ ‫کے لیے ص ح ہی س کچھ ہو گی ۔ جم ہ توق ت اسی سے وابسطہ ہو‬ ‫گئیں۔‬ ‫مصیبت میں بھی ا ی دخدا آتی نہیں ان کو‬ ‫زب ں سے دع نہ نک ی جی سے عرضی ں نک یں‬ ‫شر وحی ' برصغیر کی تہذی ک الزمہ و لوازمہ رہ ہے۔ مس م نوں کے‬ ‫ہ ں تو پردہ حک میں داخل ہے۔ مغر میں' صورت ح ل اس سے‬ ‫مخت ف ہے۔ بےحج بی ک ایک ت ریخی جواز ہے۔ یہ ں اس کی ت صیل‬ ‫درج کرن ' الی نی طوالت کے مترادف ہوگ ۔ یہ م م ہ م دری اور پدری‬ ‫سوس ئٹی ک ہے۔ عہد اکبر میں مردوں اور عورتوں ک توازن بگڑا نہیں‬ ‫تھ ' لیکن مغربی اطوار کے زیر اثر ی ترغی دہی کے تحت'‬ ‫ب الاسٹیٹس کے ح مل شورےف کے ہ ں بھی' بیبی ں مم نم ئی وغیرہ پر'‬ ‫اتر آئی تھیں۔ اکبر نے جس طور سے چوٹ لگ ئی ہے' اس پر ان‬ ‫شورےف ک سیخ پ ہون ' فطری سی ب ت تھی۔ ت ہ ان ک طرز تک‬ ‫خ لص برصغیر کی اسالمی تہذی ک غم ز ہے۔‬ ‫بے پردہ نظر آئیں جو کل چند بیبی ں‬ ‫اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گی‬ ‫پوچھ جو ان سے آپ ک پردہ وہ کی ہوا‬ ‫کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گی‬


‫‪60‬‬

‫یہ بدیسی تہذی کے دل دادہ اور پرانی تہذی کو ن پسند کرنے والوں‬ ‫کے' رخس ر گرامی پر پرزن ٹ طم چہ تھ ۔ اگر شر وحی ہوتی' تو‬ ‫ضرور ج گ اٹھتی۔ ان کے نزدیک ایس شخص دھوکے میں ہے'‬ ‫اندھیروں میں بھٹک رہ ہے اور اسے م م ہ دکھ ہی نہیں رہ ۔ یہ بھی‬ ‫کہ ہمیں ان کی رہنم ئی کی ضرورت ہی نہیں۔‬ ‫اکبر' مغر کے چ ن اور اس کے کہے کو' طنز ک نش نہ بن تے اور‬ ‫اس کی تق ید کو مضر اثر قرار دیتے آئے ہیں۔ مغر کے چوری خور‬ ‫توتے کہتے تھے' تمہیں زندگی اور حکومت کرن نہیں آت ۔ مغر‬ ‫تمہ ری تربیت کر رہ ہے۔ اسی تن ظر میں' اکبر مغر اور اس کی‬ ‫تہذی پر چوٹ کرتے رہے۔ انہوں نے عی ری سے حکومت ہتھ ئی اور‬ ‫عی ری سے ہی لوگوں کو اپنے س تھ کی ۔‬ ‫گولوں اور گم شتوں کو ایک طرف رکھیے' یہ ہر دور میں' مقتدرہ‬ ‫قوتوں کے د ہالوے اور گری عوا کے خون چوس رہے ہیں۔ اللچ‬ ‫اور طمع انہیں گھٹی میں مال ہوت ہے۔ ان سے خیر کی توقع ن دانی کے‬ ‫سوا کچھ نہیں۔ کوئی مرت ہے ی م ر دی ج ت ہے' انہیں اس سے کوئی‬ ‫غرض نہیں ہوتی۔‬ ‫اکبر کے نزدیک' خ وص اور ت داری یک طرفہ چیز نہیں ہے۔ اس‬ ‫کی موجودگی اطراف میں ضروری ہوتی ہے۔ تپ ک سے م نے والے‬ ‫لوگوں ک ب طن بھی گر جوشی سے م مور ہو' یہ ضروری نہیں۔ ایسی‬ ‫صورت میں گمشتگ ن سے' خیر کی توقع اپنے پ ؤں پر خود ک ہ ڑی‬ ‫م رنے کے مترادف ہوت ہے۔‬ ‫اگر اکبر کی ش عری ک ' دی نت داری سے مط ل ہ کی ج ئے' تو یہ کہن‬


‫‪61‬‬

‫کسی طرح غ ط نہ ہو گ ' کہ انہوں نے مزاحمتی اد لکھنے ک آغ ز‬ ‫کی ۔ اس ذیل میں انہیں پہال بڑا مزحمتی ش عر قرار دین ' مبنی بر‬ ‫انص ف ہو گ ۔ اس حوالہ سے ان پر ک کرن ابھی ب قی ہے۔‬ ‫تحریر م رچ ‪1978 '6‬‬

‫مکرمی و محترمی جن‬

‫حسنی ص ح ‪ :‬سال مسنون‬

‫اکبر الہ آب دی پر آپ ک انش ئیہ دلچسپ ہے اور ع افزا بھی۔ اس انداز‬ ‫فکر ک مضمون اکبر پر مجھ کو ی د نہیں کہ کسی اور نے لکھ ہو۔‬ ‫گزارش ہے کہ اس فکر کو اور جالدے کر ایک طویل اور ج مع‬ ‫مضمون لکھیں اور ش ئع کروائیں۔ اس کی سخت ضرورت ہے۔ اکبر اور‬ ‫دوسرے مزاح نگ روں پر ہم رے یہ ں بہت ک ک ہوا ہے۔ مزاح کو‬ ‫ہم رے اد میں وہ مق نہیں دی گی جس ک یہ مستح ہے۔ آپ‬ ‫جیسےاہل ع کو اس ج ن فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ مضمون پر‬ ‫میری داد اور دلی شکریہ قبول کیجئے۔‬ ‫سر سید پر آپ کے خی الت جزوی طور پر صحیح ہیں لیکن یک طرفہ‬ ‫ہیں۔ سر سید کو برا بھال کہنے والے‪ ،‬غدار قو اور مغر کے غال‬ ‫کہنے والے پہ ے بھی بہت تھے اورا بھی ہیں لیکن ان کے احس ن ت‬ ‫ک اعتراف بھی بہت ضروری ہے۔ اگر انہوں نے مس م نوں ک گریب ن‬ ‫پکڑ کر نہ جھنجوڑا ہوت اور ان کی ت ی کی ایسی فکر نہ کی ہوتی تو‬ ‫نہ میں انجینئر ہوت اور نہ آپ ڈاکٹر۔ ان کی کوشش سے میری اور آپ‬ ‫کی اوالد جو فیض پ رہی ہے اس ک شکریہ ادا نہ کرن ن دانی ہے۔‬ ‫خ می ں کس میں نہیں ہوتیں اور ب ض اوق ت وقت ک دب ئو اور تق ضے‬


‫‪62‬‬

‫بھی انس ن کو مجبور کرتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ سر سید اور اکبر الہ‬ ‫آب دی کے ہر ک اور موقف کی ت ئید کی ج ئے۔ جس نے جو احس ن‬ ‫قو پر کی ہے اس ک اعتراف ضروری ہے۔ میں ع ی گڑھ ک پڑھ ہوا‬ ‫ہوں اور سرسید کے ک کو میں نے بہت قری سے دیکھ ہے۔ وہ‬ ‫فرشتہ نہیں تھے لیکن قو کے بہت بڑے ہمدرد تھے۔ انہوں نے جو‬ ‫ک کی وہ ک لوگ کر سکے ہیں۔ ہللا ان کی مغ رت فرم ئے۔‬ ‫سرور ع ل راز‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10009.0‬‬


‫‪63‬‬

‫ام نت کی ایک غزل‪ ......‬فکری و لس نی رویہ‬ ‫مخدومی و مرشدی حضرت قب ہ سید غال حضور حسنی الم روف ب ب‬ ‫شکرہللا سرک ر کے ذخیرہ ء کت سے' ایک مخطوطہ ص ح ت سولہ '‬ ‫دستی ہوا ہے۔ اس میں ایک بتیس اش ر پر مشتمل غزل اور ایک‬ ‫نظ ' جس میں ب سٹھ اش ر ہیں' دستی ہوئی ہے۔ غزل دیگر پرعنوان‬ ‫درج ہے' جس سے یہ کھ ت ہے' کہ مواد اور بھی تھ اور وہ مواد'‬ ‫حوادث زم نہ ک شک ر ہو گی ۔ ب ب جی مرحو کے جو ہ تھ لگ ' انہوں‬ ‫نے مح وظ کر لی ۔ غزل والے آٹھ ص ح ت پر' ص حوں کے نمبر درج‬ ‫نہیں ہیں' ج کہ نظ کے آٹھ ص حوں پر ص حہ ‪ 13‬ت ‪ 20‬درج ہے۔‬ ‫مخطوطے کی ح لت بڑی خستہ اور ق بل رح ہے‪ .‬غزل کے مقطع میں'‬ ‫ام نت تخ ص ہوا ہے' ش عر ک ن بھی ام نت تھ ی یہ محض ان ک‬ ‫تخ ص تھ ' ٹھیک سے کہ نہیں ج سکت ۔ ہ ں یہ ضرور کہ ج سکت‬ ‫ہے' کہ یہ ص ح ش ی ن ع ی سے مت تھے۔ مقطع مالحظہ ہو۔‬ ‫رکہ جنت میں ام نت جو قد حیدر نے‬ ‫دوڑے جبرائیل یہ کہہکر میرا است د آی‬ ‫ک غذ اور کت بت بت تی ہے' کہ یہ مسودہ ایک سو پچ س س ل سے زی دہ'‬ ‫عمر رکھت ہے۔ مض مین غزل کی عمومی روایت سے مت ہیں۔ ش عر‬ ‫کی زب ن رواں' ش یستہ اور شگ تہ ہے۔ کہیں کوئی ابہ می صورت‬ ‫موجود نہیں۔ یہ ایک مربوط غزل ہے۔ اس میں' بی نیہ' مخ طبیہ اور‬


‫‪64‬‬

‫خود کالمی ک اس و تک م ت ہے۔ آغ ز روح کے س ر سے ہوت ہے'‬ ‫ب قی اکتیس اش ر' کسی ن کسی سطح پر' اس س ر سے مربوط سے‬ ‫محسوس ہوتے ہیں۔‬ ‫غزل کے پہ ے چ ر اش ر میں ی د آی ب طور ردیف است م ل ہوا ہے ج‬ ‫کہ ب قی اٹھ ئیس اش ر میں آی کو ردیف بن ی گی ہے۔ ی د کی صوت پر'‬ ‫ال ظ ب طور ق فیہ است م ل ہوئے ہیں۔ اسے چ ر اش ر کی غزل کے‬ ‫طور پر لی ج سکت ہے۔‬ ‫مالحظ ہو۔‬ ‫روح کو راہ عد میں میرا تن ی د آی‬ ‫دشت غربت میں مس فر کو وطن ی د آی‬ ‫چہچہے بہول گئے رنج و مہن ی د آی‬ ‫روح دی میں نے ق س میں جو چمن ی د آی‬ ‫آ گی میرے جن زے پر جو وہ ہوش رب‬ ‫کر چکے دفن تو ی روں کو ک ن ی د آی‬ ‫میں وہ ہوں ب بل مست نہ جو مرجہ ون نہ ل‬ ‫بہول کر کنج ق س ۔۔۔۔۔۔۔چمن ی د آی‬


‫‪65‬‬

‫تشنگی محسوس نہیں ہوتی' ت ہ اگ ے اش ر' ارتب ط کے احس س سے‬ ‫خ لی نہیں ہیں۔‬ ‫حس رواج و رویت' ال ظ مال کر لکھے گیے ہیں۔ مثال‬ ‫دیکہکے' مجہپر' سمجہکر' کیطرح' کہہکر وغیرہ‬ ‫دوچشمی حے کی جگہ' حے مقصورہ ک است م ل کی گی ہے۔‬ ‫رکہ ' دیکہ ' بہولے' مجہے' مجہپر‬ ‫مہ پران بھی نظر انداز نہیں ہوئے۔‬ ‫'ھ' بھ' پھ' جھ' چھ' کھ‬ ‫ھے' کبھی' پھیر' برچھی ں' مجھے' کھیل‬ ‫ایک جگہ نون غنہ کی جگہ' نون ک است م ل بھی ہوا ہے۔‬ ‫ہچکی ں آتی ہیں کیون ع ل غربت میں دال‬ ‫حے مقصورہ کی جگہ' بڑی ے ک است م ل بھی پڑھنے کو م ت ہے۔‬ ‫ہوں وہ ب بل کے خریدار نے منہہ پھیر لی‬


‫‪66‬‬

‫متت ' مگر متض د ال ظ ک است م ل' کم ل حسن و خوبی سے کی گی‬ ‫ہے۔ مثال‬ ‫چہچہے بہول گئے رنج و مہن ی د آی‬ ‫روح دی میں نے ق س میں جو چمن ی د آی‬ ‫ق س‪ :‬قید' پ بندی‬ ‫چمن‪ :‬آزادی' خوشی' خوش ح لی‬ ‫پہ ے مصرعے میں چہچہے اور رنج و مہن۔ بھول اور ی د‬ ‫دوسرے مصرعے میں ق س اور چمن‬ ‫اس ش ر میں زندگی کی دونوں ح لتوں' رنج اور خوشی کو نم ی ں طور‬ ‫پر بی ن کی گی ہے۔‬ ‫ہ صوت' مگر مت‬

‫ل ظوں ک است م ل مالحظہ ہو۔‬

‫کر چکے دفن تو ی روں کو ک ن ی د آی‬ ‫ک ن دفن' مرک عمومی است م ل ک ہے۔‬ ‫ایک ہی ل ظ کے' دو اسم ء کے لیے است م ل کی ایک مث ل مالحظہ ہو۔‬ ‫گ بدن دیکہکے اس گل ک بدن ی د آی‬


‫‪67‬‬

‫عمومی مہ ورے میں مرک 'خی ل ہی خی ل میں' است م ل ہوت لیکن‬ ‫ام نت نے' وہ ہی وہ میں' است م ل کی ہے۔ گوی وہ کو' خی ل کے‬ ‫مترادف کے طور پر' است م ل کی گی ہے۔‬ ‫وہ ہی وہ میں اپنے ہوئے اوق ت بسر‬ ‫ام نت نے' بڑے خو صورت مرک بھی' اردو کے دامن میں رکھے‬ ‫ہیں۔ مثال‬ ‫دشت غربت' ست ایج د' تک ف سخن' راہ عد ' ع ل غربت' آوارہ وطن'‬ ‫چ ند گہی' کشتہ مقدر 'حسرت پرواز' آتش عش ' سخت ج نی ' مر‬ ‫بسمل‬ ‫رنج و مہن‬ ‫چشمہءکوثر‬ ‫عمومی طور پر حوض کوثر است م ل میں آت ہے۔‬ ‫ہ ر ک کھیل‬ ‫ع ش کے نصی‬ ‫سورج کی کرن‬ ‫چھینک آئے تو کہ ج ت ہے' کہ کسی نے ی د کی ہے۔ ام نت نے' اس‬ ‫کے لیے ہچکی ں آن است م ل کی ہے۔ اس کی م نویت چھینک آن سے'‬


‫‪68‬‬

‫الگ تر ہے۔‬ ‫ہچکی ں آتی ہیں کیون ع ل غربت میں دال‬ ‫کی عزیزوں کو میں آوارہ وطن ی د آی‬ ‫ام نت نے اپنی اس طول غزل میں' کئی ایک رائج اصطالح ت ک‬ ‫است م ل کی ہے۔ ان ک است م ل' س ر کے تن ظر میں ہوا ہے۔ مثال‬ ‫جن زہ' دفن' ک ن' غسل صحت' زاہد ' عد ' کشتہ‬ ‫ام نت کو مہ ورات کے است م ل میں' کم ل ح صل ہے۔ وہ مہ ورے ک‬ ‫است م ل' رواں روی میں کر ج تے ہیں۔ یہ است م ل لس نی تی حسن‬ ‫سے' بہرہ ور ہے۔ چند ایک مہ ورے مالحظہ ہوں۔‬ ‫ہوش اڑن ' پر ک ٹن ' نصی لڑن ' رع یت سوجھن ' گل لگ ن ' لہو خشک‬ ‫ہون ' خون میں نہالن ' امید قطع ہون ' دل کڑا کرن ' منہ پھیرن ' روح دین '‬ ‫دا لگ ن ' خی ل ب ندھن ' چٹکی ں لین ' اوق ت بسر ہون ' در بدر پھرن ' قد‬ ‫رکھن ' نقش کھیچن‬ ‫مہ ورے کے است م ل کی' صرف ایک مث ل مالحظہ ہو۔‬ ‫رع یت سوجھن ‪ :‬ب بل زار سمجہکر یہ رع یت سوجہی‬ ‫ام نت' تشببہ ت ک است م ل بھی بڑی خوبی سے کرتے ہیں۔ مثال‬ ‫ہوں وہ ب بل کے خریدار نے منہہ پھیر لی‬


‫‪69‬‬

‫شجر ق مت دلدار مجھے ی د آی‬ ‫مر بسمل کیطرح ب‬

‫میں تڑپی ب بل‬

‫حسن ش ر میں' ت میح کو بڑی اہمیت ح صل ہے۔ ام نت کے ایک ہی‬ ‫ش ر میں' ایک س تھ' تین ت میح ت ک است ل مالحظہ فرم ئیں۔‬ ‫تذکرہ چشمہءکوثر ک جو زاہد نے کی‬ ‫آپنے یوسف ک مجہے چ ہ زقند ی د آی‬ ‫شمش د کے س تھ' پہ یوں ک انتس‬ ‫پہ یوں کی ئے کوئی ب‬

‫بڑا ہی من بھ ت ہے۔ مالحظہ ہو‬

‫میں شمش د آی‬

‫مق می اور عمومی بول چ ل کے ل ظ بھی' است م ل میں التے ہیں۔ مثال‬ ‫ب ب وں کے لئے پ لی میں نہ صی د آی‬ ‫ہچکی ں آتی ہیں کیون ع ل غربت میں دال‬ ‫مست مل مرک ال ظ ک است م ل' اپنی ہی بن ٹھن رکھت ہے۔‬ ‫پر واز‪ :‬ہو گئی قطع اسیری میں امید پرواز‬ ‫گل بدن‪ :‬گ بدن دیکہکے اس گل ک بدن ی د آی‬


‫‪70‬‬

‫ش ش د‪ :‬پہ یوں کی ئے کوئی ب‬

‫میں شمش د آی‬

‫صن نت تکرار حرفی سے بھی' ک لیتے ہیں۔ مثال‬ ‫در بدر پھر کے دال گھر کی ہمیں قدر ہوئی‬ ‫ا ام نت کے' دو ایک س بقوں الحقوں سے ترکی پ نے والے' ال ظ‬ ‫مالحظہ فرم ئیں‬ ‫اہل وف ' بےاعتب روں' بےنش نی‬ ‫پری زاد' خریدار' دل دار' ب بل زار 'در گ ہ' سی ہ ف‬ ‫مترادف ال ظ ک است م ل' ان کے کال میں ایک الگ سے' ت ثیر'‬ ‫ج زبیت اور صوتی و بصری حسن و توجہ ک سب بنت ہے۔ مثال یہ‬ ‫مصرع مالحظہ فرم ئیں‬ ‫مجہکو رشک قمرچ ند گہی ی د آی‬ ‫ام نت کو ن صرف زب ن پر دسترس ح صل ہے' بل کہ ان کے بہت سے‬ ‫مض مین' بڑے پرلطف ہیں۔ ان سے فکری حظ ہی نہیں' سم عتی اور‬ ‫بصری لطف بھی میسر آت ہے۔ اس ذیل میں' ذرا ان اش ر کو دیکھیں'‬ ‫پڑھیں' غور کریں اور مزا لیں۔‬ ‫روح کو راہ عد میں میرا تن ی د آی‬


‫‪71‬‬

‫دشت غربت میں مس فر کو وطن ی د آی‬ ‫‪............‬‬ ‫آ گی میرے جن زے پر جو وہ ہوش رب‬ ‫کر چکے دفن تو ی روں کو ک ن ی د آی‬ ‫‪...........‬‬ ‫مر بسمل کیطرح ب‬

‫میں تڑپی ب بل‬

‫گل لگ کر کہ قمری نے میرا صی د آی‬ ‫‪............‬‬ ‫غسل صحت کی خبر سن کے ہوا خشک لہو‬ ‫خون میں نہالنے کو فورا مجھے جالد آی‬ ‫‪..........‬‬ ‫تذکرہ چشمہءکوثر ک جو زاہد نے کی‬ ‫اپنے یوسف ک مجہے چ ہ زقند ی د آی‬ ‫‪..........‬‬ ‫ہو گی حسرت پرواز میں دل سو ٹکڑے‬ ‫ہ نے دیکہ جو ق س تو ف ک ی د آی‬ ‫‪..........‬‬


‫‪72‬‬

‫کیوں تیرا ع ش برکشتہ مقدر کیطرح‬ ‫ست تو نے کئے تو چرخ کہن ی د آی‬ ‫‪........................................................................‬‬ ‫دیگر‬ ‫روح کو راہ عد میں میرا تن ی د آی‬ ‫دشت غربت میں مس فر کو وطن ی د آی‬ ‫چہچہے بہول گئے رنج و مہن ی د آی‬ ‫روح دی میں نے ق س میں جو چمن ی د آی‬ ‫آ گی میرے جن زے پر جو وہ ہوش رب‬ ‫کر چکے دفن تو ی روں کو ک ن ی د آی‬ ‫میں وہ ہوں ب بل مست نہ جو مرجہ ون نہ ل‬ ‫بہول کر کنج ق س ۔۔۔۔۔۔۔چمن ی د آی‬ ‫آتش عش ک پ کر میری رگ رگ میں اثر‬ ‫آپ ہمراہ لئے نشتر فص د آی‬ ‫سخت ج نی سے میری پھیر دی منہہ د میں‬ ‫دل کڑا کرکے اگر خنجر فوالد آی‬


‫‪73‬‬

‫ہوں وہ ب بل کے خریدار نے منہہ پھیر لی‬ ‫دا مجہپر لگ نے کو کوئی صی د آی‬ ‫برچھی ں ہیں مجہے سورج کی کرن‬ ‫سنہکی ے کے یہ چرخ ست ایج د آی‬ ‫دل ہوا سرو گ ست نی کے نظ رے سے نہ ل‬ ‫شجر ق مت دلدار مجھے ی د آی‬ ‫ہو گئی قطع اسیری میں امید پرواز‬ ‫اڑ گئی ہوش جو پر ک ٹنے صی د آی‬ ‫ہ ر ک کھیل ہوا لٹر گئے ع ش کے نصی‬ ‫غیر بوال جو فراموش تو میں ی د آی‬ ‫ب بل زار سمجہکر یہ رع یت سوجہی‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے پر ب ندھنے صی د آی‬ ‫اس درد دل فرموش کی ع ش کو‬ ‫نہ کبھی آپ کو بہولے سے بھی میں ی د آی‬ ‫مر بسمل کیطرح ب‬

‫میں تڑپی ب بل‬

‫گل لگ کر کہ قمری نے میرا صی د آی‬ ‫در ج ن ں ک ب ندھے ھے چمن دہر میں رنگ‬


‫‪74‬‬

‫پہ یوں کی ئے کوئی ب‬

‫میں شمش د آی‬

‫غسل صحت کی خبر سن کے ہوا خشک لہو‬ ‫خون میں نہالنے کو فورا مجھے جالد آی‬ ‫ہچکی ں آتی ہیں کیون ع ل غربت میں دال‬ ‫کی عزیزوں کو میں آوارہ وطن ی د آی‬ ‫رخ ج ن ں پہ نظر کرکے بندہ گل ک خی ل‬ ‫قد کو دیکہ تو مجہے سرو چمن ی د آی‬ ‫بےنش نی سے نش ں بہول گی آنے کو‬ ‫کھینچ چک ہ ر نقشہ تو وہی ی د آی‬ ‫تذکرہ چشمہءکوثر ک جو زاہد نے کی‬ ‫اپنے یوسف ک مجہے چ ہ زقند ی د آی‬ ‫خ کے ٹکڑے کئے شیشوں کو کی میں نے چور‬ ‫توڑے پیم نے جو وہ عہد شکنی ی د آی‬ ‫ط ل اشک آنکہوں میں بھرنے لگے مرد کیطرح‬ ‫خورد س لونکو بزرگوں ک چ ن ی د آی‬ ‫تیرے منہہ پر جو رکہ غیر سی ہ ف نے منہہ‬


‫‪75‬‬

‫مجہکو رشک قمرچ ند گہی ی د آی‬ ‫کیوں تیرا ع ش برکشتہ مقدر کیطرح‬ ‫ست تو نے کئے تو چرخ کہن ی د آی‬ ‫چٹکی ں دل میں میرے لینے لگ ن خن عش‬ ‫گ بدن دیکہکے اس گل ک بدن ی د آی‬ ‫وہ ہی وہ میں اپنے ہوئے اوق ت بسر‬ ‫کمر ی ر کو بہولے تو دہن ی د آی‬ ‫برگ گل دیکہکے آنکہوں میں تیرے پھر گئے آ‬ ‫غنچہ چٹک تو مجہے تک ف سخن ی د آی‬ ‫در بدر پھر کے دال گھر کی ہمیں قدر ہوئی‬ ‫راہ غربت میں جو بہولے تو وطن ی د آی‬ ‫چ و درگ ہ میں ہنگ مہ ہے دیوانوں ک‬ ‫بڑی منت کی بڑھ نے کو پری زاد آی‬ ‫ہو گی حسرت پرواز میں دل سو ٹکڑے‬ ‫ہ نے دیکہ جو ق س تو ف ک ی د آی‬ ‫بے اعتب روں سے نہیں اہل وف کو کچہ ک‬ ‫ب ب وں کے لئے پ لی میں نہ صی د آی‬


‫‪76‬‬

‫رکہ جنت میں ام نت جو قد حیدر نے‬ ‫دوڑے جبرائیل یہ کہہکر میرا است د آی‬ ‫مکرمی و محترمی حسنی ص ح ‪ :‬سال مسنون‬ ‫آپ ک شکریہ کس طرح ادا کی ج ئے کہ آپ ہمہ وقت اردو انجمن کی‬ ‫اور اردو ش ر واد کی بیش بہ خدم ت میں سرگر ہیں اور اس ک‬ ‫میں کسی ص ے ی ست ئش کے خواہشمند کبھی نہیں رہے ہیں۔ اردو کو‬ ‫آپ جیسے بے لوث اور وف ش ر خدا کی ضرورت ہے۔ آج کے ح الت‬ ‫میں ایس سوچن بھی گن ہ بن کر رہ گی ہے چہ ج ئیکہ ایسے افراد کو‬ ‫جمع کرنے ک ک ہ تھ میں لی ج ئے۔ ہللا آپ کو طویل عمر اور اچھی‬ ‫صحت سے نوازے اور جزائے خیر مرحمت فرم ئے۔‬ ‫حس م مول آپ ک انش ئیہ نہ یت ک می اور سیر ح صل ہے۔ ایسے‬ ‫نوادرات ا بزرگوں کے کت خ نوں ی ان کی میز کی درازوں میں ہی‬ ‫مل سکتے ہیں۔ نہ کوئی ان ک پرس ن ح ل ہے اور نہ کوئی ان سے‬ ‫است دہ کرنے واال۔ یہ اہل اردو ک بہت بڑا المیہ ہے کہ انہوں نے‬ ‫کت بیں پڑھنی ب لکل ہی چھوڑدی ہیں۔ والد مرحو کے کت خ نے سے‬ ‫مجھ کو بھی کئی نوادرات م ے ہیں۔ میں نے کوشش کی کہ ان کو یہ ں‬ ‫اور دوسری مح وں میں لوگوں کے است دے کے لئے پیش کروں‬ ‫لیکن مجھ کو م یوسی ک س من کرن پڑا اس لئے کہ ان چیزوں کو‬ ‫پڑھنے والے نہ مل سکے۔ اگر کسی نے انہیں دیکھ بھی تو دو ال ظ‬ ‫نہ لکھے کہ کی دیکھنے کے ب د انہوں نے ان شہ پ روں کو پڑھ بھی‬ ‫تھ ؟ ہ ر کر میں نے اس ک سے ہ تھ اٹھ لی ۔ ظ ہر ہے کہ میں ایک‬ ‫چن یہ بھ ڑ نہیں پھوڑسکت ہوں۔‬


‫‪77‬‬

‫آپ نے بہت ت صیل سے اپنے نوادرات ک تجزیہ کی ہے اور اس ک‬ ‫میں بہت محنت کی ہے۔ اوروں کی خبر نہیں لیکن میں اپنی ج ن سے‬ ‫یقین دالت ہوں کہ میں نے اس سے بھر پور است دہ کی اورابھی یہ ک‬ ‫دو ایک دن مزید چ ے گ ت کہ آپ کے مضمون سے پوری طرح مست ید‬ ‫ہو سکوں۔ بہت بہت شکریہ۔‬ ‫اور رہ گی وہ راوی تو اس مرتبہ بڑی بش شت کے س تھ چین ہی چین‬ ‫)‪! :‬بولت ہوا گی ہے‬ ‫سرور ع ل راز‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10052.0‬‬

‫منظو شجرہ ع لیہ حضور کری ‪....‬عہد جہ نگیر‬


‫‪78‬‬

‫ش عر‪ :‬غال حسین‬ ‫مخدومی ومرشدی قب ہ حضرت سید غال حضور حسنی کے ذخیرہءکت‬ ‫سے' ایک تین سو سے زائد ص ح ت ک ' مخطوطہ دستی ہوا ہے۔ اس‬ ‫کی ح لت بڑی خستہ و خرا ہے۔ اوپر سے' یہ کہ ص ح ت بےترتی‬ ‫ہیں۔ یہ مخطوطہ پنج بی عربی اور ف رسی میں ہے۔ اس میں اردو' آق‬ ‫کری ان پر ان حد درود وسال ' ک شجرہ ہے۔ یہ کل' آٹھ اوپر ستر‬ ‫اش ر پر مشتمل ہے۔ اس میں سے' ایک ش ر ک ٹ ہوا ہے۔ یہ ق می‬ ‫مسودہ حکمت' ع ج ر' ت ویزات اور حمد و ن ت سے مت ہے۔‬ ‫اس میں ف رسی نثر بھی موجود ہے۔ بے ترتی ہونے کے ب عث‬ ‫پڑھنے میں ہر چند دشواری ک س من کرن پڑ رہ ہے۔‬ ‫داخ ی شہ دت کے مط ب ' اس کے لکھنے والے غال حسین ولد پیر‬ ‫محمد متین ہیں اور اس کی ت ریخ نوشت‬ ‫بروزے چہ ر شنبہ شداند تم‬

‫بت ریخ ہشت کہ زالحج ن‬

‫ہے۔‬ ‫یہ ص ح ' پیر بہ ر ش ہ کی خ نق ہ سے مت‬ ‫خدای بتوفی خود راہ دہ‬

‫ہیں۔‬


‫‪79‬‬

‫کہ ت ہید ازین بندہءہیچ بہ‬ ‫خدای مقصد بک ر آمد‬ ‫تہے دستے امیدوار امید‬ ‫بپوش ازسر لطف غیبے نوشیے‬ ‫ش ر بزرک ن شوہ عی نوشیے‬ ‫سخنی بتوک ق بند کنے‬ ‫صر از ی دک رں جہ ن چند کنے‬ ‫نوشت ست ن مہءغال حسین‬ ‫صر پسر ست پیرے محمد متین‬ ‫بروزے چہ ر شنبہ شداند تم‬ ‫بت ریخ ہشت کہ زالحج ن‬ ‫بدر خ نق ہ پیر بہ ر ش ہ مدا‬ ‫کوہ دہ است دینہہ ثب‬ ‫‪............‬‬ ‫اس مخطوطہ میں' ایک قصیدہ جہ نگیر ب دش ہ ک ہے۔ قصیدہ میں'‬ ‫جہ نگیر سے عی ش اور عیش کوش ب دش ہ کو' دو چ ر انچ ہی' کسی‬ ‫ج یل القدر نبی سے ک رکھ گی ہے۔ دو چ ر س ل اور زندہ رہت تو'‬


‫‪80‬‬

‫ش ید وہ نبی ہو ہی ج ت ۔‬ ‫قصیدہ مالحظہ ہو۔‬ ‫ب ال فرخندہء بر جہ ن س الر‬ ‫ص ح الت ج احسن اآلآث ر‬ ‫روشن آئینہ ضمیر‬ ‫بحر عرف ن لجہء تدبیر‬ ‫داور دہر رست دوران‬ ‫س لک ح بہ در میدان‬ ‫مط ع آفت‬

‫ع و عمل‬

‫مظہر نور عین فیض ازل‬ ‫شمس ایوان ب رک ہ جالل‬ ‫قط دوران کم ل نور جم ل‬ ‫والی ء دہر رست ج ج ہ‬ ‫شہہ جہ نکیر ابن اکبر ش ہ‬ ‫اکمل ہللا روح عظمتہہ‬ ‫شرف اوالدہ بدرجتہہ‬ ‫لطف ح بر ہزاری ن ب ال‬


‫‪81‬‬

‫کز رہ عش پر ص ب ال‬ ‫مست ب ال از ج ل یزلیے‬ ‫ہست ب ال ہسستنے ازلے‬ ‫شجرے کے آغ ز کے پچھ ے ص حے پر' س ت دع ئیہ اش ر ہیں۔‬ ‫ص حہ کے چ روں طرف ح شیہ میں' ف رسی میں منظو ف رسی لکھ‬ ‫مٹ ' کٹ ی پھٹ ہوا ہے۔ اش ر میں ن ی تخ ص ک است م ل نہیں ہوا۔‬ ‫شجرہ 'جو پ نچ ص ح ت میں تم ہوا ہے‪ .‬دع ک آغ ز تو اوپر سے ہوا‬ ‫ہے' اسے پڑھن ممکن نہیں' جو پڑھ ج سکت ہے پیش خدمت ہے۔ان‬ ‫دع ئیہ اش ر کے آخر میں جہ نگیر کے قصیدے ک راز کھ ت ہے' کہ یہ‬ ‫ص ح جہ نگیر کے ق ضی تھے۔ اش ر میں ایک ن شمس الدین بھی‬ ‫‪:‬م ت ہے۔ اش ر مالحظہ فرم ئیں‬ ‫ی خداوندا بح قدسمع‬ ‫از کر ہ ر بکن خ طر جمع‬ ‫ی خداوندا بح سورتہ تب ر‬ ‫جم ہ عصی ن بندہ ع صے درکذر‬ ‫ی خداوندا بح سورہ ع‬ ‫در دو ع ل رفع کردن ہ زغ‬


‫‪82‬‬

‫ی خداوندا بح دعوت چنین‬ ‫ب سالمت دار ایم ن شمش الدین‬ ‫تم شد‬ ‫غال حسین‬ ‫ق ضے‬ ‫زب ن پر پنج بی اور ف رسی کے اثرات غ ل ہیں۔ مثال‬ ‫پنج بی‬ ‫بوالی ہے اپنے نکہت نور سین‬ ‫‪............‬‬ ‫دی ت ج لوالک ک سیس پر‬ ‫‪............‬‬ ‫جو مط‬

‫کے ہ ش کے کہر میں ہوی‬

‫‪..........‬‬ ‫عمر ہوک کر چہوڑ دنی چال‬


‫‪83‬‬

‫‪..........‬‬ ‫قی مت کون دیوندیں خالصی مجہے‬ ‫ف رسی‬ ‫ولد اوسک تہ ابرہیمش خ یل‬ ‫‪..........‬‬ ‫زغ ت ہمیشہ ک ر مون مواء‬ ‫‪............‬‬ ‫نبیے ب پ قنی ن ک یونس است‬ ‫‪........‬‬ ‫پت اوسکے ک ن مستوسبخ است‬ ‫‪.........‬‬ ‫کریں عدل و انص ف در ہر زم ن‬ ‫ف رسی میں کہے مصرعے اور ش ر ش مل کیے گیے ہیں۔‬ ‫امید چن ن است بر مصط ے‬


‫‪84‬‬

‫بدنی و دین دہد مدع‬ ‫‪.........‬‬ ‫نہ پیغمبر و ش ہ او ک فر است‬ ‫‪.........‬‬ ‫کی ذکر دربطن م ہے نشت‬ ‫ولدیت کے لیے ب پ' پت ' پدر اور ولد ال ظ است م ل کیے گیے ہیں۔‬ ‫نبیے ب پ قنی ن ک یونس است‬ ‫‪...........‬‬ ‫پت اوسک ی مرد پہی درجہ ن‬ ‫‪............‬‬ ‫پدر ویی لود است ن مش ضوح‬ ‫‪............‬‬ ‫پہر اوسک ولد ہود لکہی کت‬ ‫ل ظ مال کر لکھے گیے ہیں۔ مثال‬


‫‪85‬‬

‫محمد کے دادایک مط‬

‫ہے ن‬

‫‪..........‬‬ ‫ش ہ لویک ش ہ غ ل سالد‬ ‫‪..........‬‬ ‫پہر اوسک پت ج ن لیجو فرید‬ ‫‪........‬‬ ‫گ ف گ کی بج ئے ک ف ک است م ل کی گی ہے‬ ‫دہر و کوش مو مذہ خ ص و ع‬ ‫کوش بج ئے گوش‬ ‫میں ک ؤں محمد کون ہر صبح و ش‬ ‫ک ؤں بج ئے گ ؤں‬ ‫کریزان ہوا خوف جنکے سو پ پ‬ ‫کریزان بج ئے گریزاں‬ ‫جو مط‬

‫کے ہ ش کے کہر میں ہوی‬

‫کہر بج ئے گھر‬


‫‪86‬‬

‫بدیی عدل و انص ف کے ب رک ہ‬ ‫ک ہ بج ئے گ ہ‬ ‫مہ پران ی نی بھ ری آوزوں ک سرے سے است م ل نہیں ہوا۔ اس کی‬ ‫جگہ' حے مقصورہ ہ است م ل میں الئی گئی ہے۔ مثال‬ ‫محمد سین آد ت ک سبہہ کہول‬ ‫‪.............‬‬ ‫کہ شہنش ہ تہ وہ در کوو ق ف‬ ‫‪...............‬‬ ‫پہر اوسک پت ن ترار ہے‬ ‫‪................‬‬ ‫کت ب ن مین لکہی جہن پی‬ ‫‪..........‬‬ ‫عمر ہوک کر چہوڑ دنی چال‬ ‫شین کے لیے ص د ک است م ل بھی م ت ہے‬


‫‪87‬‬

‫کریی نصر دنی نمیں پیغمبرے‬ ‫نشر سے نصر‬ ‫ل ظوں کی' اشک لی اور اصواتی تبدی ی ں بھی م تی ہیں۔ مثال‬ ‫جس کی جگہ جن‬ ‫سے کے لیے سین‬ ‫کو کے لیے کون‬ ‫بہت کے لیے بہتہ‬ ‫س کے لیے سبہہ‬ ‫دین کے لے دیوند‬ ‫اس کے لیے اوس‬ ‫میں کے لیے مون‬ ‫ڑ کی جگھ' د ک است م ل کی گی ہے۔ مثال‬ ‫کریی ب دش ہی بدے ب صوا‬ ‫‪.........‬‬


‫‪88‬‬

‫بدا ک ر مین وہ ہوی جیون یزید‬ ‫چھوٹی ے کی جگہ بڑی ے ک است م ل کی گی ہے۔ مثال‬ ‫رم ن ش ہ ک ب پ برح نبے‬ ‫ال ظ کے س تھ ء ک است م ل م ت ہے۔‬ ‫پیغمبر کے کہر میں جو پیدا ہواء‬ ‫پہوالد۔۔۔۔ کون ک ر مین وہ موی ء‬ ‫نون غنہ کے لیے نون است م ل کی گئی ہے۔‬ ‫کہون ش ہ کال ک جو پت‬ ‫‪........‬‬ ‫بدا ک ر مین وہ ہوی جیون یزید‬ ‫جو بھی سہی' اس ش ر پ رے کے حوالہ سے' قدی زب ن ک طور و‬ ‫چ ن میسر آت ہے اوراس کے ہونے ک ' ثبوت م ت ہے۔ آئیے ا ' اس‬


‫‪89‬‬

‫ش ر پ رے کے مط ل ہ سے' لطف لیتے ہیں۔‬ ‫بس ہللا الرحمن الرحی‬ ‫تو سنو ا خدا کے کال‬ ‫کی جن محمد ع یہ‬ ‫کی ہے محمد خدا نور سین‬ ‫بوالی ہے اپنے نکہت نور سین‬ ‫دی ت ج لوالک ک سیس پر‬ ‫سن ی ہمہ راز خود سر بسر‬ ‫سنو ا محمد کے کرسے تم‬ ‫دہر و کوش مو مذہ خ ص و ع‬ ‫میرے ح مین ا دع ی ر ہوء‬ ‫تواضع سیتے بہتہ دلش د ہوء‬ ‫سنو شجرہ مصط ے ہر ہمہ‬ ‫مکن از بال ہچکس داعہ‬ ‫محمد سین آد ت ک سبہہ کہول‬ ‫لہون اجر بسی ر کہون ج رسول‬


‫‪90‬‬

‫چودہ د ہی خ‬

‫ک سو پ وں ان‬

‫میں ک ؤں محمد کون ہر صبح و ش‬ ‫قی مت کون دیوندیں خالصی مجہے‬ ‫یہے ب ت برح سن ؤں تجہے‬ ‫سرانج دین عین سبہہ ک ک‬ ‫برا ح دی صدقہ اس ن ک‬ ‫امید چن ن است بر مصط ے‬ ‫بدنی و دین دہد مدع‬ ‫محمد کے ب پ ک جو ن ہے‬ ‫سو عبدہللا ہے ن ہر کر نہ لے‬ ‫محمد کے دادایک مط‬

‫ہے ن‬

‫اوسے دین کوجہ ہنین غض ک‬ ‫جو مط‬

‫کے ہ ش کے کہر میں ہوی‬

‫کریں ب دش ہے سو ہ ش مواء‬ ‫پت ش ہ ہ ش ک عبدمن ف‬ ‫کہ شہنش ہ تہ وہ در کوو ق ف‬ ‫قصے ش ہ تہ ب پ عبد المن ف‬


‫‪91‬‬

‫اوسے ب دش ہے کرن خو ص ف‬ ‫قصے ک پت ش ہ سن لے کال‬ ‫کریی ب دش ہی بدے ب صوا‬ ‫کہون ش ہ کال ک جو پت‬ ‫سومرہ ت ج نون جسے جک جیت‬ ‫بدا ش ہ مرہ ت حکمین ہوی‬ ‫نہ ق ی رہ ایک دن وہ موی‬ ‫سنون ب پ مرہ ت ک ہے ک‬ ‫کریی خ‬ ‫ک‬

‫مین ب دش ہے عج‬

‫ک پت لویی ش ہ جہ ن‬

‫زوارال ن رفت دارالم ن‬ ‫ش ہ لویک ش ہ غ ل سالد‬ ‫عمر ہوک کر چہوڑ دنی چال‬ ‫پہر اوسک پت ج ن لیجو فرید‬ ‫بدا ک ر مین وہ ہوی جیون یزید‬ ‫سنون ب پ اوسک ہوی حکمین ش ہ‬ ‫بدا ن م لک سو ع ل پن ہ‬


‫‪92‬‬

‫پت ش ہ م لک ک تہ وہ نبیے‬ ‫کریی نصر دنی نمیں پیغمبرے‬ ‫کی ش ہ ہو ک ر کون جن تب ہ‬ ‫کریی س طنت ہ کت بت کے ب پ‬ ‫زجوخش زمین ظ لم ن کشت‬ ‫سنو مدارک اوس ش ہ ک ب پ تہ‬ ‫اوسے ک ر مون جک سون لین‬ ‫او تہ نبیے ب پ اوسک سو الی س ن‬ ‫عج خداوند مولی کے ک‬ ‫عدو او حزیمت شد اندر جہ ن‬ ‫حزیمت ک سن ن نصرت نش ن‬ ‫ک ر مون خدا نے پیغمبر کئے‬ ‫لطف کر بوال پ س اپنے لئے‬ ‫پیغمبر کے کہر میں جو پیدا ہواء‬ ‫پہوالد۔۔۔۔ کون ک ر مین وہ موی ء‬ ‫کئے ش ہ کیتے پیغمبر ہزار‬


‫‪93‬‬

‫کئے ک فران ک نہ آدمی شم ر‬ ‫خدا دست قدرت سون کردا۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫ہزراں مخنث نس ہ ں مرد‬ ‫جو بہ وی کون سوئی کوچہ کرتے‬ ‫ہنین ہ تہہ بند کے جو لکو کرے‬ ‫نبیے ب پ الی س ک ھوجوک‬ ‫کت ب ن مضر ن اوسک لکہ‬ ‫سنو کوش دہر کے جوتکرار نے‬ ‫پہر اوسک پت ن ترار ہے‬ ‫اوسے۔۔۔۔۔سون ک مط‬

‫ہنین‬

‫کریں بت پرستیے ستے ہن کہ ن‬ ‫م د ولد او ش ہ اندر جہ ن‬ ‫کریں عدل و انص ف در ہر زم ن‬ ‫م د ک پت ش ہ عدن ن تہ‬ ‫کریں ب دش ہے نہ حکمبین رہ‬ ‫ولد اوسک یسر ک ر مون کی‬ ‫کت ب ن مین لکہی جہن پی‬


‫‪94‬‬

‫کہون ب پ یسر ک ا ن مین‬ ‫بدا ک ر مین ن ن من کہ ین‬ ‫سنو ن ن من کی ا ب پ ک‬ ‫یسع ن تہ شجر وہ ب پ ک‬ ‫یسع ک جو تہ ب پ اورد ش ہ‬ ‫بدیی عدل و انص ف کے ب رک ہ‬ ‫ہمیش کرے ک ر ن مش ہمیش‬ ‫پت ش ہ اورد ک ک ر کیش‬ ‫جو تہ ب پ اوسک ہو اندر جہ ن‬ ‫سنو ن ان ش ہ ازمن رم ن‬ ‫رم ن ش ہ ک ب پ برح نبے‬ ‫مب ت شدہ ن او در صیح‬ ‫مب ت نبے ک کہ وں جو ب پ‬ ‫لئے ن ہمکت ک ہون ہی ب ت‬ ‫ک ر مون رہ ک ر ہے سون مواء‬ ‫کی ہ ر دنی سون ب زی جواء‬ ‫جو اوسک پت تہ سو قیدار ن‬


‫‪95‬‬

‫ہوا وہ نبیے خ ص بروں سال‬ ‫زبیح ہللا اوسک پت اسم عیل‬ ‫ولد اوسک تہ ابرہیمش خ یل‬ ‫پیغمبر سے تین اہ ن دار‬ ‫چہ ط قت کہ آری و ص تیں شم ر‬ ‫ہوی جد پیغمبرابراہی‬ ‫چکہ سین رکہی ح تی ذالیش کری‬ ‫جو ب پ اوسک اذر بدا بت تراش‬ ‫ہمیشہ بتون کی نب دیں وہ الش‬ ‫ہوی ک ر کی بیچ سردار خو‬ ‫بتون کیی پرستے مین رہت غرو‬ ‫جو تہ ب پ ک آزر ک ت رخ سو ن‬ ‫کریں ب دش ہے سو بدنی تم‬ ‫پت ش ہ ت رخ ف زح ہواء‬ ‫زغ ت ہمیشہ ک ر مون مواء‬ ‫جو تہ ب پ اوسک سو ی قو ن‬ ‫پیغمبر سن ہی سو ع ل تم‬


‫‪96‬‬

‫جو ی قو ک ب پ غ یر بہال‬ ‫دی ک ر کون خ ک مین جز مال‬ ‫سنو ص لح ہی غ یر ک ب پ‬ ‫کریزان ہوا خوف جنکے سو پ پ‬ ‫پہر اوسک ولد ہود لکہی کت‬ ‫ک ر کون کی آن چہ روں خرا‬ ‫پیغمبر ہوئی ج زاہ ج ن لے‬ ‫کہی سہبہ کت بون ک تون م ن لے‬ ‫کہو ش ہ ارفخشد اوسک پت ء‬ ‫بدا ش ہ ع ل کون جسنے جت‬ ‫پہر اوس ک پت س ک فر کہوء‬ ‫جیو ن اوسک نہہ کر رہوء‬ ‫یہی نوح آد ک ث نی نبیے‬ ‫پت س ک ج ن لیجو۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫کہنہ ک ر ہوئی خ‬

‫بیشم ر‬

‫بطوف ن میں غر کیتے ہزار‬ ‫بن ئی بدیی نوح کشتے کالں‬


‫‪97‬‬

‫رکہی بیچ ہر ج ت کے درمی ن‬ ‫ج‬ ‫جہ ن ازسر نو ہویدا شدہ‬ ‫ط یل نبیے نوح پیدا شدہ‬ ‫کہین نوح کون ث نی آد ہوی‬ ‫زوارال ن ہ آخر اوہ بہےموی‬ ‫پت اوسکے ک ن مستوسبخ است‬ ‫نہ پیغمبر و ش ہ او ک فر است‬ ‫پدر ویی لود است ن مش ضوح‬ ‫شدہ ک رمین‪........‬بدک صبوح‬ ‫پت اوسک ی مرد پہی درجہ ن‬ ‫بدا ک ر او ک فریمین عی ن‬ ‫کریی ب پ مہالن کے ک فر ہے‬ ‫سنو ن قنی ن او در کت‬ ‫بروز حشر ک فران اہ عذا‬ ‫نبیے ب پ قنی ن ک یونس است‬ ‫کی ذکر دربطن م ہے نشت‬


‫‪98‬‬

‫تولد شدہ یونس از ع شیش‬ ‫مب رک ز پیغمبریشیش ریش‬ ‫پت شیش ک آد اندر کت‬ ‫خدا کرو ص وات او بےحس‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫نوٹ‪ :‬یہ ش ر ک ٹ ہوا ہے‬ ‫سو ک فر نہ آی ہے دہر میں‬ ‫اوسے ی د کر ن ہنین مین نہ مین‬


‫‪99‬‬

‫میرے اب ۔۔۔۔۔۔ ایک مط ل تی ج ئزہ‬

‫خ کہ' سوانح عمری کی نسبت' مختصر ہوت ہے لیکن اس میں' زی دہ‬ ‫سے زی دہ اس شخص' اس کے کنبہ اور اس کے سم ج سے راہ و‬ ‫رس کے حوالہ سے' م وم ت فراہ کی گئی ہوتی ہیں۔ خ کہ کے دور‬ ‫نزدیک کے ج نو لکھ ری ہونے کے سب تین طور دیکھنے کو م تے‬ ‫ہیں۔‬ ‫لکھنے والے کے ذاتی ت‬

‫کے حوالہ سے م مالت‬

‫وقتی' ات فیہ ی ح دث تی امور و اطوار‬ ‫سنے سن ئے ی نی ب الوسطہ چ ن کی سرگزشت‬ ‫اول الذکر' بہت قری کی صورت ہے' لیکن اس ک ت دہ یز کے اس‬ ‫پ ر سے ہے' اس لیے یہ یک طرفہ ہوتی ہیں کیوں کہ اس شخص کے'‬ ‫دہ یز کے اندر اور دہ یز پ ر کے اطوار' مخت ف اور اکثر برعکس‬ ‫ہوتے ہیں۔ اس حوالہ سے' ان پر درست ی مکمل کی مہر' ثبت نہیں کی‬ ‫ج سکتی۔‬ ‫دوسری وقتی ہوتی ہے اور شخص کے' عمومی اطوار سے لگ نہیں‬ ‫رکھتی۔ اس لیے' اسے پیم نہ ٹھہرا کر' کوئی نتیجہ اخذ کرن ' درست‬


‫‪100‬‬

‫نہیں ہوت ہے۔‬ ‫تیسری صورت لمح تی ہوتی ہے‪ .‬اسے بھی' شخصی فطرت ی اس کی‬ ‫فطرت ث نیہ ک درجہ نہیں دی سکت اور ن ہی' اس کے حوالہ سے'‬ ‫شخصیت ک مجموعی اح طہ کی ج سکت ہے۔‬ ‫اگر کوئی دہ یز کے اندر ک لکھت ہے' تو اس کی ذاتی محبت ی ن رت ک‬ ‫جذبہ غ ل رہت ہے' ہ ں اگر اس کے اندرونی و بیرونی احوال کو ق‬ ‫بند کر دی ج ت ہے' تو یہ دوطرفہ ہونے کے سب ' زی دہ م وم ت‬ ‫افروز ہوت ہے' جس کے ب عث' اس شخص کی شخصیت کو ج ننے اور‬ ‫پہچ ننے میں' مدد م تی ہے۔ س تھ س تھ لکھنے والے اور دہ یز کے‬ ‫اندر کے ب ض لوگوں ک ' ت رف اور ان کی شخصیت کے' مضبوط اور‬ ‫ک زور پہ و بھی' س منے آتے چ ے ج تے ہیں۔‬ ‫ہر لکھنے والے ک ' اپن اس و ہوت ہے لیکن خ کہ نگ ری میں' مت‬ ‫اور رسمی مت ک عنصر' اس و پر اثر انداز ہوت ہے بل کہ غ ل‬ ‫رہت ہے۔ مت میں' محبت ی ن رت کے زیر اثر' اس و ترکی پ ت‬ ‫ہے۔ اس ذیل میں' غیرج ن داری کی ہر س ی' کسی ن کسی سطح پر'‬ ‫ضرور مجروع ہوتی ہے اور یہ امر' بہرطور بس ک نہیں ہوت ۔‬ ‫اچھے خ کے کی' س بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ ق ری کو' مت ثر بھی‬


‫‪101‬‬

‫‪:‬کرے اور اس میں یہ خواہش پیدا ہو ی زور پکڑے‬ ‫'ک ش کہ یہ خوبی میرے کردار ک حصہ بن ج ئے '‬ ‫اگر وہ خ کہ' ق ری کے سوچ میں' کسی بھی سطح پر' بدالؤ ک سب‬ ‫بنت ہے' تو سمجھیے لکھنے والے کی محنت' ک رگر ث بت ہوئی۔ اسی‬ ‫طرح' کسی م م ہ سے ن رت جن لیتی ہے' ت بھی تحریر کو' ک می‬ ‫تحریر قرار دی ج ئے گ ۔‬ ‫عزیزہ مہر افروز ک تحریر کردہ خ کہ۔۔۔۔۔۔۔ میرے اب ۔۔۔۔۔۔ نظر سے گزرا‬ ‫اور پھر' گزرت ہی گی ۔ بالمب لغہ کہوں گ ' کہ یہ کم ل کی تحریر ہے۔‬ ‫انہوں نے خ ن ص ح مرحو کی شخصیت ک ' جس انداز سےاح طہ‬ ‫کی ہے' وہ بالشبہ داد کی مستح ہیں۔ اس خ کہ کو پڑھ کر' میرے دل‬ ‫میں دو خواہشوں نے جن لی‬ ‫‪.‬ہللا' اس سوچ اور فکر کی بیٹی سے' ہر کسی کو نوازے‬ ‫ک ش خ ن ص ح مرحو سے اطوار' ہر کسی میں پیدا ج ئیں۔‬ ‫گھر کے ڈسپ ن میں' ہر کسی کو ایس ہی ہون چ ہیے' ت ہ چیخ و پک ر‬ ‫‪.‬سے زی دہ' گھرکی ج ن دار ہو‬ ‫اپنے بچوں کو' اپنے قری رکھے' ان کے ج ئز امور و م مالت سے'‬ ‫آگ ہی رکھے اور بہتری میں براہ راست م وث رہے۔‬


‫‪102‬‬

‫ع ح صل کرئے اور اس کی تقسی میں' بخل سے ک نہ لے۔‬ ‫اپنے بچوں کو' گ ت گو ی کہ نی کے انداز میں' اچھی ب تیں بت ئے۔‬ ‫بچوں کی ت ی کے م م ہ میں' غربت کو بہ نہ ی جواز نہ بن ئے‪ .‬ان‬ ‫کی ت ی کے لیے' ہر قس کی قرب نی سے ک لے۔‬ ‫اس خ کے سے یہ امور بھی وض حت کے س تھ س منے آتے ہیں کہ‬ ‫‪.‬بزرگوں اور اہل ع کے م م ے میں' آدمی کو کیس ہون چ ہیے‬ ‫ذات تک محدود سوچ' تھوڑدل بن تی ہے۔‬ ‫اوروں کے لیے سیری اور اپنے لیے' بھوک بچ ن ہی م راج انس یت‬ ‫ہے۔‬ ‫آدمی کو' بال کسی تمیز و امتی ز' لوگوں کی مدد کرتے رہن چ ہیے۔‬ ‫ہ دردانہ رویہ' انس نوں میں اعتب ر ک سب بنت ہے۔‬ ‫ص ح تقوی کبھی خس رے میں نہیں رہتے۔‬ ‫شخص پر' جم ہ مخ وق ت کی ذمہ داری ع ئد ہوتی ہے اور یہ ہی چیز'‬ ‫اسے اشرف المخوق ت ٹھہراتی ہے۔‬ ‫خ کہ' خ ن ص ح مرحو کی زندگی کے احوال و اطوار کھولنے کے‬ ‫س تھ س تھ' ان کے عہد کے اش رے فراہ کرت ہے۔ مثال‬


‫‪103‬‬

‫مٹی ک تیل بھی راشن میں م ت ۔ صرف چھوٹی سی ایک بتی ج تی "‬ ‫"رہتی‬ ‫اسی طرح' ان کی سی سی ہمدردی ں بھی غیرواضح نہیں رہتیں۔‬ ‫ان کی' س دات وشیوخ سے محبت و عقیدت' ہر قس کے شبے سے‬ ‫ب ال رہتی ہے۔ ہ ں البتہ' اس ذیل میں یہ پیرہ خصوصی توجہ چ ہت ہے۔‬ ‫اب بہت محنتی۔ اور ع جز مزاج تھے۔ صبح گھر اور آنگن میں جھ ڑو "‬ ‫لگ ن خود پر الز کر رکھ تھ ۔ ام ں چونکہ اع ی گھر سے تھیں۔‬ ‫اس ئے کبھی ام ں کو جھ ڑو لگ نے نہیں دی ۔ نہ گھر ک بیت الخالء اور‬ ‫موری ں ص ف کرنے دیں۔ کہتے' میں پٹھ ن ہوں اور تمہ ری ام ں شیخ‬ ‫"اور سید گھرانے سے ہے۔‬ ‫گھر گرہستی میں' بیٹی مہر افروز کی ام ں کی ک زور شخصیت کو‬ ‫س منے الت ہے۔ جو بھی سہی' وہ خ ن ص ح مرحو بیوی تھیں۔‬ ‫خ کے ک مط ل ہ کرتے' بیٹی مہر افروز کی اپنی شخصیت اور ان کی‬ ‫زندگی کے احوال بھی س منے آتے ہیں‬ ‫خ کے کی زب ن س دہ' رواں' ع فہ اور بےتک ف ہے۔ مط ل ہ کے‬ ‫دوران' کسی موڑ پر' ابہ می صورت پیدا نہیں ہوتی۔ ہر چند م وم ت'‬


‫‪104‬‬

‫لطف اور عصری شہ دتیں میسر آتی ہیں۔ اکت ہٹ کی' کہیں صورت پیدا‬ ‫نہیں ہوتی۔ کہیں کہیں مق می مہ ورے ک استم ل ہوا ہے' جو لس نی تی‬ ‫حظ ک سب بنت ہے۔‬ ‫بیٹی مہر افروز کی یہ تحریر' مجھے بہت ہی اچھی لگی ہے۔ ہللا ان‬ ‫کے ق کو' مزید توان ئی اور روانی سے سرفراز فرم ئے۔‬


‫‪105‬‬

‫ڈاکٹر عبدال زیز س حر‬ ‫کی‬ ‫تدوینی تحقی کے ادبی اطوار‬ ‫شخصی نظریہ اور رجح ن شخص کی ک رگزاری پر اثرانداز ہوت ہے۔‬ ‫اس ک کہن سنن اس نظریے ک عک س ہوت ۔ جہ ں م م ہ برعکس ہوت‬ ‫ہے' وہ ں من فقت غ ل رہتی ہے۔ من فقت سے بڑھ کر' کوئی شے بری‬ ‫نہیں ہوتی۔‬ ‫ڈاکٹر عبدال زیز س حر زب نی کالمی ہی نہیں' اپنی کرنی کے حوالہ سے‬ ‫بھی' صوفی ہیں۔ تحقیقی عمل میں بھی ان ک ' یہ ہی طور اور رویہ‬ ‫غ ل ہوت ہے۔ ان کی تین کت بیں مجھ ن چیز ف نی کی نظر سے گزری‬ ‫ہیں' جو ان کے ب عمل صوفی ہونے پر مہر ثبت کرتی ہیں۔ اس ذیل‬ ‫میں' ان کی کت ۔۔۔۔۔ محرا تحقی ۔۔۔۔۔ کو ہی لے لیں۔ اس میں دس‬ ‫تحقیقی مق لے ش مل ہیں' جن میں سے'آٹھ تصوف سے مت م زز و‬ ‫محتر حضرات کے ہیں۔ ان ک مط ل ہ کرنے کے ب د ان کہے‬ ‫تحقی ایک طرح ک صوفی نہ عمل ہے۔ اس میں بھی اس گہرے انہم ک‬ ‫اور استغرا کی ضرورت ہوتی ہے' جو راہ س وک کے مس فر ک‬ ‫الزمہءس ر ہے۔ جس طرح س لک اعتدال اور توازن کے حجرے میں‬ ‫بیٹھ کر انکش ف ذات کے رنگوں میں بےرنگ کی ی ت کی تج ی ت سے‬


‫‪106‬‬

‫لطف اندوز ہوت ہے' اسی طرح ایک محق بھی اد ' ت ریخ اور تہذی‬ ‫کے دائروں میں س ر کرت ہوا گوہر ہ ئے آ دار کی دری فت اور‬ ‫ب زی فت سے نئے رنگوں کی کشید کرت ہے۔ وہ ح کی تالش میں‬ ‫سرگر ک ر ہوت ہے اور اس عمل میں اس کی تالش اور جستجو کے‬ ‫رنگ دیدنی ہوتے ہیں۔‬ ‫محرا تحقی ‪ :‬ص ‪ϳ‬‬ ‫پر عمل کی مہر ثبت ہو ج تی ہے۔‬ ‫ص حب ن ذو کے لیے' یہ دس مق لے گراں قدر سرم یہ ہیں۔ رفتہ کی‬ ‫دھول سے' ان ک تالشن اور ان پر ک کرن ' ایس آس ن اور م مولی ک‬ ‫نہیں۔ پرانی تحریروں کو پڑھن ' بڑا ہی مشکل ک ہے۔ خط اور زب ن آج‬ ‫سے میل نہیں کھ تے۔ اوپر سے پرانی ف رسی' کچھ کرنے اور‬ ‫سمجھنے سے دور رکھتی۔ ان پرانی تحریروں کو نظرانداز کرن بھی'‬ ‫زی دتی کے مترادف ہے۔ پرکٹھن مشکل گزار اور پرخ ر راہوں کے‬ ‫راہی' بالشبہ سقراط منصور اور سرمد کے قد لیتے ہیں۔ وہ ان ہونی‬ ‫کو' ہونی میں بدل کر ہی ش نت ہوتے ہیں۔‬ ‫ڈاکٹر س حر کی تدوینی تحقی ' ب ض م مالت میں' اوروں سے قط ی‬ ‫ہٹ کر ہے۔ انہوں نے' اسے س ئنسی عمل کے طور پر' لی ہے۔ ان کی‬ ‫جم ہ ک وش ہ ' حس بی ک یوں سے' مط بقت رکھتی ہیں۔ گن چن کر'‬ ‫بڑے محت ط انداز میں' ل ظوں ک است م ل کرتے ہیں۔ اس نوعیت کی‬


‫‪107‬‬

‫تحریریں' خشک اور بور ہوتی ہیں لیکن ان ہ ں' یہ صورت' دیکھنے‬ ‫کو بھی نہیں م تی۔ اس وصف کی بن ء پر' ق ری ان کے ل ظوں میں‬ ‫انولو ہونے میں' دقت محسوس نہیں کرت ۔‬ ‫اظہ ر کے لیے ال ظ چن ؤ میں' کوت ہ کوسی ک شک ر نہیں ہوتے۔ اس‬ ‫کے لیے' ذمہ دارانہ اہتم کرتے ہین ور کسی سطع پر' زود نویسی ک‬ ‫شک ر نہیں ہوتے۔ مختصر نویسی انتہ ئی دشوار گزار عمل ہوت ہے۔‬ ‫ایک چیز کو' ب ر ب ر دیکھن ' قطر برید کے عمل سے گزارتے رہن ' اکت‬ ‫دینے واال عمل ہوت ہے۔ مزے کی ب ت یہ کہ شگ تگی اور شی تگی‬ ‫تحریروں‬ ‫م ند نہیں پڑتی‪ .‬فیکشن ک ق ری' تحقی و تنقید سے مت‬ ‫کے قری سے بھی' نہیں گزرت ۔‬ ‫تحققی و تننقید سے مت تحریروں میں' کہیں کہیں سہی' ب م نی اور‬ ‫موضوع سے مت تحریر میں' فیکشن ک س ذائقہ کم ل کے فن ک‬ ‫غم ز ہوت ہے۔ رؤف پ ریکھ نے یوں ہی نہیں کہہ دی ۔‬ ‫س حر ص ح تحقی اور تنقید کے تو مرد میدان ہیں ہی نثر بھی خو‬ ‫لکھتے ہیں۔ لہذا ا آپ س حر ص ح کی تحقی کے س تھ ان کی سحر‬ ‫طراز نثر سے بھی لطف اٹھ ئیے۔‬ ‫محرا تحقی ‪ :‬ص ‪ϭϬ‬‬


‫‪108‬‬

‫حس الدین الہوری کی غزل کے تم اش رع رف نہ اور صوفی نہ رنگ‬ ‫سخن کے غم ز ہیں۔‬ ‫ان کی فکر‪ :‬وحدت اور تس سل کی آئینہ دار ہے‬ ‫دنی مق فن ہے' اس سے دل لگ ن وب ل ج ن ہے' اصل زندگی خدائے‬ ‫ذوالجالل کی م رفت و آگہی سے عب رت ہے' تخ ی ک ئن ت ک مقصد و‬ ‫محور انس ن ہے' انس ن کی ب ثت اور عب دت الہیہ الز وم زو ہیں'‬ ‫مرشد' خداوند قدوس تک رس ئی ک ایک زینہ ہے' جیسےمتصوفی نہ‬ ‫مض مین اس غزل میں بی ن ہوئے ہیں۔‬ ‫محرا تحقی ‪ϭϲ :‬‬ ‫اس کہے کی سند میں' یہ جم ے مالحظہ فرم ئیں۔ حسن کے س تھ‬ ‫س تھ' قطرے میں دج ہ مقید دکھ ئی پڑت ہے۔ سید حس الدین الہوری‬ ‫کی گی رہ اش ر پر مشتمل غزل کی روح کو' صرف اور صرف تین‬ ‫‪.‬جم وں میں بند کر دی ہے‬ ‫محض تین جم وں پر مشتمل ایک پیرہ تین رنگ لئے ہوئے۔‬ ‫۔بڑا' چھوٹ ' اس سے چھوٹ ب لکل چھوٹ جم ہ۔ ہر جم ے کی تشریح و‬ ‫ت ہی کے لیے بہت سے پہروں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔‬ ‫ل ظ جیسے ک است م ل' ق ری کو اصل غزل کی طرف پھرنے پر مجبور‬


‫‪109‬‬

‫کر دیت ہے۔‬ ‫رموز م نویت اور تحریر کی درست قرآت میں م ون عنصر ک درجہ‬ ‫رکھتےہیں۔ یہ ابہ سے بچ ئے رکھتے ہیں۔ اسی بن ء پر انہوں نے‬ ‫اپنی تحریروں میں ان ک ب طور خ ص اہتم کی ہے۔‬ ‫وہ اپنی تحریروں میں' مصنف ی ش عر کی مجموعی فکری سے‬ ‫انسالک اور لس نی تی اثرپذیری ک ' بڑے ہی واضح ل ظوں میں اظہ ر‬ ‫کرتے ہیں۔ اس سے مت قہ ش عر ی ادی کے کہے کو' سمجھنے میں‬ ‫آس نی ں پیدا ہو ج تی ہیں۔ ب طور نمونہ یہ اقتب س مالحظہ فرم ئیں۔‬ ‫بہ در ش ہ ظ ر بنی دی طور پر ایک درویش منش اور فقیر مزاج انس ن‬ ‫تھے۔ ا بتدا ہی سے س س ہ چشتیہ کے صوفیہ کے س تھ خصوصی‬ ‫ت خ طر تھ ۔‬ ‫محرا تحقی ‪ :‬ص ‪ϳϳ‬‬ ‫سند میں بہ در ش ہ ظ ر کے پ نچ ش ر بھی درج کرتے ہیں۔ ان پ نچ‬ ‫اش ر میں سے ایک ش ر درج خدمت ہے۔‬ ‫یہی عقدہ کش میرے' یہی ہیں رہنم میرے‬


‫‪110‬‬

‫سمجھت ان کو اپن ح می دنی و دیں ہوں میں‬ ‫محرا تحقی ‪ :‬ص ‪ϳϴ‬‬ ‫لس نی تی حوالہ سے تذکرے کی یہ مث ل مالحظہ ہو۔‬ ‫لس نی اعتب ر سے نج الدین س یم نی کی زب ن ک دائرہءاثر کئی زب نوں‬ ‫اور بولیوں کے اثرات کو محیط ہے۔ اس میں ہری نی ک رنگ بھی ہے‬ ‫اور راجھست نی ک رس بھی' پنج بی کی خوش بو بھی ہےاور برج ک‬ ‫آہنگ بھی; سندھی چند ال ظ بھی اس ب رہ م سے کی منظر آرائی میں‬ ‫م ون ہیں اور ہندی ل ظوں کی ج وہ آرائی بھی ک نہیں; عربی اور‬ ‫ف رسی کے مت دد ال ظ پنج بی ت ظ اور آہنگ میں نظ ہوئے۔‬ ‫محرا تحقی ‪ :‬ص ‪ϭϰϯ‬‬ ‫رنگ' رس' خوش بو' آہنگ' منظر آرائی اور ج وہ آرائی جیسے ل ظوں‬ ‫اور مرکب ت کے است م ل نے' ڈاکٹر س حر کی نثر کو ش ر خیزی عط‬ ‫کی۔ یہ اس طرز اظہ ر ک اعج ز ہے' اس کے مط ل ے سے فیکش ک‬ ‫ق ری بھی' تک ن اور اکت ہٹ محسوس نہیں کرت ۔‬ ‫اد کی ت ریخ میں' تھوڑے میں زی دہ لکھنے کی مث ل ش ید ہی پ ئے‬ ‫گی۔ بہت ک ل ظوں میں بہت کچھ سمون دین ' ش عری ک وتیرہ رہ ہے۔‬


‫‪111‬‬

‫اس ذیل کی نثر میں' بہت ک مث لیں پڑھنے کو م تی ہیں۔ اس تھوزے‬ ‫میں م وم ت ک ایک انب ر لگ دی گی ہے۔ اس ضمن فقط ایک جم ہ ک '‬ ‫ایک ٹکرا مالحظہ ہو۔‬ ‫اس میں فکر و فرہنگ ک اس وبی تی آہنگ; ش ور وادراک کی ‪......‬‬ ‫جم لی تی م نویت کو اپنی تم تر رنگینی اور رعن ئی کے س تھ منکشف‬ ‫کر رہ ہے۔۔۔۔۔۔‬ ‫محرا تحقی ‪ :‬ص ‪ϵϵ‬‬ ‫اس ن مکمل جم ے میں روم ن خیزی اور ش ری حسن تو ہے ہی'‬ ‫م نویت کے اعتب ر سے بھی' ب کم ل ہے۔صن ت تکرار ل ظی اپنی جگہ'‬ ‫مرکب ت فکر و فرہنگ' اس وبی تی آہنگ' ش ور وادراک' جم لی تی‬ ‫م نویت' رنگینی اور رعن ئی کی تشکیل میں' ان کے فکر کے بھرپور‬ ‫ہونے میں شک و شبہ کی گنج ئش ب قی نہیں رہتی۔‬ ‫ڈاکٹر س حر ق ری کی سہولت اور ابہ می کی ی ت سے بچنے کے لیے'‬ ‫اپنے ک کو مخت ف حصوں میں ب نٹ دیتے ہیں۔ ہر حصہ' تخ کے‬ ‫ایک گوشہ کو پوری طرح سے واضح کر دیت ہے۔ اس طرح اگ ے‬ ‫گوشے میں' پہ ے گوشے سے قط ی ہٹ کر ب ت کی گئی ہوتی ہے۔ یہ‬ ‫تقسی ' ایک ہی ب ت کے دہرائے ج نے سے بچ ج تی ہے۔ ان ک یہ‬ ‫طور' مط ل ہ کے دوران' ق ری کے لیے فکری بوجھ پیدا نہیں ہونے‬


‫‪112‬‬

‫دیت ۔ اس ک دوسرا ف ئدہ یہ ہوت ہے' کہ ق ری انہیں فرصت کی مخت ف‬ ‫نشتووں میں پڑھ سکت ہے۔ مط ل تی تس سل ہر سطح پر' برقرار رہت‬ ‫ہے۔ ایک نشت میں' تخ ی سے مت ایک نقطہ اسے میسر آ ج ت‬ ‫ہے۔‬ ‫ڈاکٹر س حر کسی غ ط ی اختالفی ب ت کو گھم پھرا کر نہیں کرتے۔ جو‬ ‫کہتے کی ب ت' ص ف اور واضح طور پر کہہ دیتے ہیں۔ لپیٹ کر کرنے‬ ‫سے' ت ہی میں گڑبڑ اور الجھ ؤ پیدا ہو ج ت ہے۔ مثال‬ ‫مثنوی کے ب ض مصرعے س قط الوزن ہیں۔ اگر ان میں سے کچھ ال ظ‬ ‫کو قدی روش امال کے برعکس موجودہ دور میں مروج امال اور ت ظ‬ ‫کے مط ب پڑھ ج ئے' تو وہ مثنوی کے وزن پر پورا اترتے ہیں۔‬ ‫محرا تحقی ‪ :‬ص ‪ϰϴ‬‬ ‫وہ قی سی ب ت سے پرہیز رکھتے ہیں۔ ک کے دوران' تحقیقی خوردبین‬ ‫کو ہرچند متحرک رکھتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وہ دور کی کوڑی‬ ‫تالش التے ہیں۔ مت اور غیر مت کی تمیز و شن خت میں' انہیں‬ ‫کسی قس کی دشواری ک س من نہیں کرن پڑت ۔‬ ‫ڈاکٹر س حر کی تدوینی تحقی ک ' ایک اور پہ و بڑا ہی ج ندار ہے' کہ‬


‫‪113‬‬

‫وہ مت قہ مخطوطے کے غیرمست ل ال ظ کی جدید امال اور ل ظوں کے‬ ‫م ہی درج کر دیتے ہیں۔ ایک طرح ک ج مع فرہنگ تی ر کر دیتے ہیں۔‬ ‫متنی تحقی سے مت اسک لر حضرات کے لیے' بالشبہ یہ بڑے ک‬ ‫کی ہے۔ اگر جم ہ مخطوطوں کے اس بکھرے سرم ئے کو ایک جگہ‬ ‫جمع کر دی ج ئے تو یہ اہل تحقی کے لئے ایک تح ہ ہو گ اور اس‬ ‫حوالہ سے ک کرنے والے' ان کے احس ن مند رہیں گے‬ ‫ڈاکٹر س حر حوالہ ج ت اور حواشی کے م مالت میں' بڑے چوکس ہیں‬ ‫اور اس ذیل میں کوت ہ کوسی ک شک ر نہیں ہوتے۔ یہ ہی نہیں' اش ریے‬ ‫جیسی اہ چیز کو نظرانداز نہیں کرتے۔ اس سے کوئی بھی محق '‬ ‫بےج لیبر ک شک ر نہیں ہوت ۔ مت ق ت تک' اس کی رس ئی منٹوں‬ ‫سیکنٹوں میں ہو ج تی ہے۔‬ ‫مجموعی طور یہ ب ت کرنے میں' کسی قس ک ع ر ی تردد محسوس‬ ‫نہیں ہوت کہ ڈاکٹر س حر ہوش مند' ب لغ فکر اور ذمہ دار محق ہیں۔ ان‬ ‫کی جم ہ ک وش ہ متنی تحقی سے مت اسک لرز حضرات کے لئے'‬ ‫ق بل سند نمونہ رہیں گی‬


‫‪114‬‬

‫رحم ن ب ب کی زب ن ک اردو کے تن ظر میں لس نی مط ل ہ‬ ‫ب میں سو طرح کے پودے ہوتے ہیں۔ ہر پودے ک اپن رنگ ڈھنگ'‬ ‫طور اور م نویت ہوتی ہے۔ ہر پودے کے پھول ن صرف ہیت الگ سے‬ ‫رکھتے ہیں' ان کی خوش بو بھی دوسروں سے' الگ تر ہوتی ہے۔‬ ‫م لی کے لیے' کوئی پودا م نویت سے تہی نہیں ہوت ۔ اسی طرح' ب‬ ‫بھی ان سو طرح کے پودوں کی وجہ سے' ب کہالت ہے۔ یہ رنگ‬ ‫رنگی ہی' اس کے ب ہونے کی دلیل ہے۔ انہیں بہرصورت' ب ک‬ ‫حصہ ہی بنے رہن ہوت ہے۔‬ ‫انس ن بھی' ایک پودے کے مم ثل ہے' جو انس نوں کے ہجو میں‬ ‫زندگی کرت ہے' ب لکل ب کے پودوں کی طرح۔ اس ب میں بھی‬ ‫مخت ف رنگ' نس وں اور مزاجوں کے لوگ آب د ہیں۔ ہر رنگ' ہر نسل‬ ‫اور قو ک شخص زندگی کے ب کے حسن اور م نویت ک سب ہے۔‬ ‫کسی ایک کی غیرفطری موت' اس کے حسن اور م نویت کو گہن کر‬ ‫رکھ دیتی ہے۔ ج یہ ایک صف میں کھڑے' ہللا کے حضور ح ضری ک‬ ‫شرف ح صل کرتےہیں تو مخ و ف کی بھی' عش عش کر اٹھتی ہے۔‬ ‫ج کسی ہوس ی برتری کے زع میں' اپنے سے' کسی کی گردن‬ ‫اڑاتے ہیں' تو اب یس جشن من ت ہے۔‬ ‫یہ امر ہر کسی کے لیے' حیرت ک سب ہو گ ' کہ زب نیں جو انس ن کی‬


‫‪115‬‬

‫ہیں اورانس ن کے لیے ہیں' ایک دوسرے سے قری ہونے سے' پرہیز‬ ‫نہیں رکھتیں۔ دشمن قوموں کی زب نوں کے ل ظوں کو' اپنے‬ ‫ذخیرہءال ظ میں داخل ہونے سے' منع نہیں کرتیں۔ وہ انہیں اپنے‬ ‫دامن میں اس طرح سے جگہ دیتی ہیں' جیسے وہ ل ظ اس کے قریبی‬ ‫رشتہ دار ہوں اور ان سے کسی سطح پر چھوٹ ممکن ہی نہ ہو۔‬ ‫زب نیں کسی مخصوص کی ت بح فرم ن نہیں ہوتیں۔ جو' جس نظریہ اور‬ ‫مس ک ک ہوت ہے' اس ک س تھ دیتی ہیں۔ ہللا ج نے' انس ن ت ری و‬ ‫امتی ز سے' اٹھ کر' انس ن کے دکھ سکھ ک س تھی کیوں نہیں بنت ۔‬ ‫سیری اور سکھ اپنے لیے' ج کہ بھوک پی س اور دکھ دوسروں کے‬ ‫کھیسے میں ڈال کر' خوشی محسوس کرت ہے۔ ان سے تو ایک درخت‬ ‫اچھ ہے'جوخود دھوپ میں کھڑا ہوت ہے اور جڑیں ک ٹنے والوں کو‬ ‫بھی' س یہ فراہ کرنے میں بخل سے ک نہیں لیت ۔‬ ‫مخدومی و مرشدی حضرت سید غال حضور الم روف ب ب جی شکرہللا‬ ‫کی ب قی ت میں سے' پشتو زب ن کے عظی صوفی ش عر حضرت رحم ن‬ ‫ب ب ص ح ک دیوان مال ہے‪ .‬یہ ک قی پران ہے۔ اس کے ابتدائی ‪Ϯϴ‬‬ ‫ص حے پھٹے ہوئے ہیں۔ اسی طرح آخری ص حے بھی موجود نہیں‬ ‫ہیں۔ دیوان اول ص ‪ ϳϴ‬تک ہےاور یہ ں ک ت ک ن فضل ودود درج‬ ‫ہے۔ فضل ودود ک ت تہک ل ب ال' پش ور سے ہے۔ قی س کہ ج سکت‬ ‫ہے کہ دیوان کی جن بھومی ی نی مق اش عت پش ور رہی ہو گی' ت ہ‬ ‫اسے پکی ب ت نہیں کہ ج سکت ۔ حیران کن ب ت یہ ہے' کہ دو چ ر‬ ‫نہیں' سیکڑوں عربی ف رسی کے ال ظ' جو اردو زب ن میں رواج ع‬ ‫رکھتے ہیں' بڑی حسن و خوبی اور متن کی پوری م نویت کے س تھ'‬


‫‪116‬‬

‫پشتو میں سم گیے ہیں' کہیں اجنبت ک احس س تک نہیں ہوت ۔‬ ‫دیوان میں بہت سی غزلوں کے قوافی' عربی ف رسی کے ہیں اور یہ‬ ‫عصری اردو میں رواج رکھتے ہیں۔ ص ‪ Ϯϵ‬پر موجود غزل ک مط ع‬ ‫‪:‬یہ ہے‬ ‫یہ نظر د بےبصر‬

‫لکہ ش ھسے سحر‬

‫‪:‬اس غزل کے قوافی یہ ہیں‬ ‫گوھر' زر' شر' برابر' بتر' بھتر' زبر' نظر' ضرر' ھنر' خبر زن ور ی نی‬ ‫ج نور' روکر'اوتر' پیغمبر' محشر' س ر' بشر' عنبر' پسر' اثر' رھبر'‬ ‫شر' حجر' شجر' ج دوگر'مصور پرور' ثمر' سر' م در' زیور' کمر' منبر'‬ ‫قمر ق ندر' ب ور' ک فر' مرور' در' گذر' خر' افسر' میسر' مسخر' پدر'‬ ‫بتر' کشور' سکندر' بحروبر' ‪...‬نم ز‪ ...‬دیگر' بستر' چ کر' کوثر' منور'‬ ‫خطر' شر' دفتر' اختر' ب زیگر' شکر مقدر' سرور' اکثر‬ ‫ایک دوسری غزل جس کے تم قوافی عربی ف رسی کے ہیں۔ اس غزل‬ ‫‪:‬ک مقطع یہ ہے‬ ‫چہ منکر پرے اعتزاز کوے نہ شی‬ ‫داد ش ر دے رحم نہ کہ اعج ز‬ ‫‪:‬اس غزل کے قوافی مالحظہ ہوں‬ ‫آواز‪ -‬شہب ز‬

‫مط ع‬


‫‪117‬‬

‫غم ز' داز' آغ ز' ب ز' س ز' نم ز' اعج ز‬ ‫‪:‬ص حہ ‪ ϭϳϲ‬پر موجود ک مط ع ث نی مالحظہ ہو‬ ‫و ط ل و تہ وف شی‬

‫د مط و بےوف ئی‬

‫‪:‬ا اس کے قوافی مالحظہ ہوں‬ ‫آشن ئی‪ -‬جدائی‪ .........‬مط ع اول‬ ‫وف شی‪ -‬بےوف ئی۔۔۔۔۔۔۔۔مط ع ث نی‬ ‫'گدائی' دوست ئی‬ ‫اگ ے پ نچ ش ر پھٹے ہوئے ہیں۔‬ ‫شیدائی' مالئی' رسوائی' بےنوائی' ری ئی' فرم ئی' ست ئی' دان ئی'‬ ‫بھ ئی' کج ئی' ھمت ئی' عط ئی' دلکش ئی' رھ ئی' پیم ئی' صحرائی'‬ ‫تنھ ئی' گرم ئی' تمن ئی' پ رس ئی' آزم ئی' کم ئی' زیب ئی' سودائی'‬ ‫خدائی' ص ئی' سروپ ئی' رعن ئی' ب الئی' دری ئی' ح وائی‬ ‫‪:‬ص‪ ϴϴ :‬پر موجود غزل کے قوافی یہ ہیں‬ ‫راغ ' غ ئ ' ت ئ ' من س ' غ ل ' ط ل ' واج ' ک ت ' ق ل ' ن ئ '‬ ‫عج ئ ' مرات‬ ‫یہ محض ب طور نمونہ چند غزلوں کے قوافی درج کیے ہیں ورنہ ان‬ ‫کی کئی غزلوں کے قوافی عربی اورف رسی ال ظ پر مشتمل ہیں۔‬


‫‪118‬‬

‫حضرت رحم ن ب ب ص ح کے کئی ردیف عربی ف رسی ال ظ ہیں اور‬ ‫یہ ال ظ اردو میں مست ل ہیں۔ مثال‬ ‫ص حہ‪ ϰϭ‬پر موجود ایک غزل ک ردیف اخالص ہے ج کہ دوسری ک‬ ‫ردیف غرض ہے۔‬ ‫ص حہ ‪ ϰϮ‬پر ایک غزل ک ردیف واعظ ہے ج کہ دوسری ک ردیف‬ ‫شمع ہے۔‬ ‫ص حہ ‪ ϲϬ‬پر ایک غزل ک ردیف تورو زل و‪....‬سی ہ زلف‪ .....‬ہے۔ زلف‬ ‫کو زل و کی شکل دی گئی ہے۔‬ ‫ص ‪ ϵϬ‬پر موجود دو غزلوں ک ردیف نشت ہے‬ ‫ص ‪ ϵϭ‬پرموجود دو غزلوں ک ردیف الغی ث ہے‬ ‫ص‪ ϭϬϬ‬پر موجود ایک غزل ک ردیف عمر ہے‬ ‫ص ‪ ϭϭϲ‬پر موجود دو غزلوں ک ردیف بےمخ ص ہے‬ ‫ا ذرا ب طور نمونہ' ان مصرعوں کو دیکھیں' ن صرف ص ف اور‬ ‫واضح ہیں' ب کہ ہر مصرعے میں ک از تین ل ظ ایسے ہیں جو اردو‬ ‫والوں کے لیے اجنبی نہیں ہیں۔‬ ‫نہ صی د بہ ترے خبر وہ نہ شہب ز‬ ‫کھ مک ن ئے پہ آسم ن دے غذا او شو‬


‫‪119‬‬

‫ھمیشہ د م صیت پہ اور کب‬

‫ی‬

‫لکہ خس وی ی زر‬ ‫تن د درست زیروزبر شو‬ ‫رحمن ب ب کے ہ ں صن ت تض د کے لیے است م ل ہونے والے ال ظ '‬ ‫اردو میں مست مل ہیں۔ مثال‬ ‫سی ھی واڑہ س یدی شوہ‬ ‫تن د درست زیروزبر شو‬ ‫نہ مس وی نہ ک فر‬ ‫ھمیشہ رفت و آمد کہ‬ ‫لکھ عذر چہ ص ح تہ غال نہ ک‬ ‫مالمت د خ ص و ع‬ ‫نور پیدا شو شوروشر‬ ‫منت ب ر دھر س ید دھر سی ہ یئ‬ ‫چہ د دین مت ع بدل بہ پھ دنی ک‬ ‫رحم ن ب ب ' اپنے کال صن ت تکرار ل ظی ک خو خو است م ل کرتے‬


‫‪120‬‬

‫ہیں۔ اس ذیل میں اردو میں رواج رکھتے ال ظ کو بھی بڑی حسن و‬ ‫خوبی سے است م ل میں التے ہیں ی یہ ال ظ' زب ن پر دسترس ہونے‬ ‫کے ب عث است م ل میں آ گیے ہیں‪ .‬مثال‬ ‫د ھجران عمر د عمر پھ شم ر نہ دے‬ ‫دنی دار د دنی ک ر ک زہ د دین‬ ‫ہ صوت ال ظ ' ش ر میں ش ریت کو جال بخشتے ہیں۔ ان سے ش ر‬ ‫میں نغمیت اور چستی پیدا ہوتی ہے۔ رحم ن ب ب اس صن ت ک ب کثرت‬ ‫است م ل کرتے ہیں۔ اس سے ن صرف ش ر ک مضمون روح کی گہرایوں‬ ‫میں اترت چال ج ت ہے' ب کہ جس میں تھرل سی پیدا کر دیت ہے۔ ب ب‬ ‫ص ح موصوف نے' اردو کے مست مل ال ظ کو تصرف میں ال کر اپنی‬ ‫جدت طرازی' زب ن دانی اور انس نوں کی فکری س نجھوں کو اج گر کی‬ ‫ہے۔ اس ضمن میں دو ایک مث لیں مالحظہ ہوں۔‬ ‫نہ ئے متل نہ مث ل نہ ئے زوال شتہ‬ ‫کہ مط‬

‫د نور چ نورے مرتبہ دی‬

‫پہ کینہ بہ آیئنہ نہ کڑی تہ خ ک‬ ‫ل ظ کے مت ق ت ک ' ایک مخصوص س یقے سے است م ل کرن ' ایک‬ ‫الگ سے فن ک درجہ رکھت ہے۔ ب ب ص ح کو اس فن میں کم ل‬


‫‪121‬‬

‫ح صل ہے۔ مت قہ ل ظ نکھر جت ہے۔ م ہو الجھ ؤ سے تہی ہو کر'‬ ‫فکر کے دھ رے موڑ دیت ہے۔ ان کے پ س ایک وسییع ذخییرہءال ظ‬ ‫ہے۔ اس حوالہ سے' وہ اردو کے مست مل ال ظ کو بھی' تصرف میں‬ ‫رکھتے ہوئے' انس ن کے ب ہمی بھ ئی چ رے کو واضح کرتے ہیں۔ چند‬ ‫‪:‬ایک مث لیں مالحظہ ہوں‬ ‫ب دش ھی د ھ ت کشور‬ ‫م شوقے ھمیشہ ن ز پھ ع ش ک ندی‬ ‫پک ر نہ دے مقتدی وی کہ ام‬ ‫چہ تصویر کہ مصور‬ ‫ست رہ بہ شمس قمر نہ شی ھرگز‬ ‫پہ عی ل د خپل پدر‬ ‫ھ ب دش ہ دے ھ سرور‬ ‫نہ سنت د پیغمبر‬ ‫رحمن ب ب ت میح ت کے است م ل کی ذیل میں' اردو ش را سےالگ تر‬ ‫رویہ اور انداز اختی ر نہیں کرتے۔ اسی طرح پشتو میں ان کے ن‬ ‫ع یحدہ سے نہیں ہیں۔ انہوں نے اپنے کال میں' بہت سی ت میح ت‬ ‫است م ل کی ہیں اور یہ اردو والوں کے لیے' غیر م نوس نہیں ہیں۔‬ ‫‪:‬چند ایک مث لیں مالحظہ ہوں‬


‫‪122‬‬

‫کہ جنت دے کہ دوزخ دے کہ اعراف‬ ‫د اب یس و ری ضت تھ نظر او کڑہ‬ ‫دغہ ک ر بھ پھ عص کوے تر کو‬ ‫مرتبہ د س یم ن چہ چ لہ ورشی‬ ‫چہ خ ورے د فرھ د او د مجنون دی‬ ‫ھغھ شیرین حوض کوثر‬ ‫رحمن ب ب کے بہت سے اش ر ضر االمث ل کے درجے پر ف ئز نظر‬ ‫آتے ہیں۔ ان اش ر میں اردو کے بہت سے عمومی رواج رکھتے ال ظ‬ ‫موجود ہیں۔ مثال‬ ‫ع میت د بےعق ہ ع لم نو‬

‫لکھ گنج د کت بونو پہ خرہ ب رش‬

‫پہ مث ل د من فقو‬

‫نہ مس وی نہ ک فر‬

‫نہ ئے فھ فراست وی نہ ئے عقل‬ ‫م کوس‬

‫خ لی نقش لکھ عکس د‬

‫پہ توا او پہ خدائے‬

‫نہ دلیل وی نہ نظر‬

‫نہ دے فرض د خدائے ادا کڑہ‬

‫نہ سنت د پیغمبر‬

‫نہ مئے حسن نہ جم ل وی‬

‫غ ہ وی خ‬

‫پہ زیور‬

‫پشتو اور اردو میں' ف رسی کے بہت سے مشترک ال ظ موجود ہیں۔‬


‫‪123‬‬

‫رحمن ب ب ف رسی مصددر ک بھی بالتک ف است م ل کر ج تے ہیں اور یہ‬ ‫رویہ اردو والوں کے ہ ں بھی موجود رہ ہے۔ رحمن ب ب کے ہ ں‬ ‫‪:‬مصدر رفتن ک است م ل مالحظہ ہو‬ ‫چہ ئے خواتہ رفتن دے‬ ‫مرکب ت ش عری کی ج ان ہوتے ہیں اور یہ زب ن کو ثروت عط کرتے‬ ‫ہیں۔ رحم ن ب ب کے ہ ں' پشتو مرکب ت اپنی جگہ' اردو زب ن میں‬ ‫مست مل ال ظ کے بہت سے مرکب ت نظرآتے ہیں۔ ان مرکب ت کے حوالہ‬ ‫سے' دونوں زب نوں کی لس نی قربت ک ب خوبی اندازہ لگ ی ج سکت‬ ‫ہے۔‬ ‫واؤ سے ترکی پ نے والے مرکب ت‬ ‫ھمیشہ رفت و آمد کہ‬ ‫نور پیدا شو شور و شر‬ ‫چہ ئے قیل و ق ل د ی رہ سرہ نہ دی‬ ‫د دنی چ رے پہ مثل خوا وخی ل دے‬ ‫مس وی د ع شقی پھ خ ص وع‬ ‫دیگر مرکب ت کی کچھ مث لیں مالحظہ ہوں۔‬ ‫ارم نو بھ کوی زار زار بھ ژااڑی‬


‫‪124‬‬

‫ع قبت بھ ئے جدا جدا منزل شی‬ ‫نہ ئے فھ فراست وی نہ ئے عقل‬ ‫و رئح بہ نھ شی ش ت ر د تورو زل و‬ ‫دی رغ لکھ مزرے دا ب ندی راشی‬ ‫کہ د خ قو و نظر تھ آدمے دے‬ ‫غرض دا چہ ع قبت خ نہ خرا ی‬ ‫بندیوان د ھغہ سی ذقن پہ چ ہ یئ‬ ‫منت ب ر دھر س ید دھر سی ہ یئ‬ ‫منت ب ر' دراصل منت کش ‪ ......‬منت کشیدن سے‪ ......‬ہی ک روپ ہے۔‬ ‫چہ پرے غ غ طہ د شپے پ س‬ ‫غ غ ط کرن ' ب ق عدہ اردو مح ورہ ہے۔ اس مصرعے میں بھی 'اس ک‬ ‫ب طور مح ورہ است م ل ہوا ہے۔‬ ‫چہ پرے غ غ طہ د شپے پ س‬ ‫دین دنی ' اردو اور پنج بی میں ع است م ل ک مرک ہے۔ ب ب ص ح‬


‫‪125‬‬

‫کے ہ ں اس ک است م ل' ب سواد اور الگ سے رنگ لیے ہوئے ہے۔‬ ‫مالحظہ ہو‬ ‫چہ د دین مت ع بدل بہ پھ دنی ک‬ ‫پنج میں بےمروت ' بےپرتیت ' بےنیت ' بےبنی دا ب طور گ لی است م ل‬ ‫ہوتے ہیں۔ رحم ن ب ب ص ح کے ہ ں بےبنی دہ اور بےبق کچھ اسی‬ ‫طرح سے' است م ل میں آئے ہیں۔ لہجہ میں سختی واضح طور پر‬ ‫موجود ہے۔‬ ‫سر ت پ یہ بےبنی دہ بےبق شو‬ ‫ایک دع ئیہ ش ر مالحظہ ہو۔ کی والہ نہ اور بےس ختہ پن ہے۔‬ ‫ح ت لی کہ ئے نصی کھ‬

‫ھغھ شیرین حوض کوثر‬

‫بے' نہی ک س بقہ ہے اور اردو میں ب کثرت استم ل ہوت ہے۔ رحم ن‬ ‫ب ب کے ہ ں بھی' یہ س بقہ است م ل ہوا ہے۔ چند مث لیں مالحظہ ہوں۔ یہ‬ ‫ال ظ اردو کے لیے اجنبی نہیں ہیں۔‬ ‫لکھ تش صورتہ بےروحہ‬ ‫بےب لین او بےبستر‬ ‫کہ جہ ن و بےھنر و تھ فراخ دے‬ ‫د بےدرد ھمدمی بہ د بےدردک‬


‫‪126‬‬

‫رحم ن ھسے بیوقوف سوداگر نہ دے‬ ‫لہ ک ذات بے دی نتھ بےنم زہ‬ ‫د بےمث ہ بےمث لہ بےمک ن دے‬ ‫لکہ تش کدو بے مغزہ‬ ‫مراد ئے بےدی ر لہ درہ بل ہ‬

‫نہ دے‬

‫رحم ن ھسے و خپل ی ر تہ بےحجت رے‬ ‫مزید کچھ نہی کے س بقے مالحظہ فرم ئیں۔ ال ظ اور س بقے اردو‬ ‫‪:‬زب ن سے مت بھی ہیں‬ ‫ن‬ ‫پہ ن بود ب ند ن ح د بود کم ن ک‬ ‫د ن مرد د ھمدمی بہ د ن مردک‬ ‫تہ ن ح پہ کینہ کڑے کینہ ن ک‬ ‫ک‬ ‫لہ ک ذات بے دی نتھ بےنم زہ‬ ‫ک اندیشہ کہ بیدار دے بیدار نہ دے‬


‫‪127‬‬

‫ھر ک فھ کج ئی‬ ‫ھر ک بخت ئے ک ہ مومی‬ ‫بد‬ ‫دع گو یہ د نیک خواہ او د بدخواہ ی‬ ‫مزید دو س بقوں ک است م ل مالحظہ ہو جو اردو میں بھی مست مل ہیں۔‬ ‫ھ‬ ‫یؤ صورت دے ھ نشی دے ھ فراز‬ ‫ہ گ ت ر بہ ئے د خدائی پہ در قبول شی‬ ‫نغمے ک ندی ھ رقص کہ ھ خ ندی‬ ‫ب‬ ‫د رحم ن پہ ش ر ترکے د ب کرا‬ ‫ا چند الحقے مالحظہ ہوں' یہ اور ان سے مت‬ ‫ذخیرہءال ظ میں داخل ہیں۔‬

‫ال ظ ' اردو کے‬


‫‪128‬‬

‫نک‬ ‫تہ ن ح پہ کینہ کڑے کینہ ن ک‬ ‫کینہ ن ک' اردو میں مست مل نہیں ت ہ کینہ اور ن ک' ب طور الحقہ‬ ‫مست مل ہیں۔‬ ‫گر‬ ‫صد رحمت شھ پھ روزگ ر د درویش نو‬ ‫دار‬ ‫دنی دار د دنی ک ر ک زہ د دین‬ ‫خواہ‬ ‫دع گو یہ د نیک خواہ او د بدخواہ ی‬ ‫گو‬ ‫دع گو یہ د نیک خواہ او د بدخواہ ی‬


‫‪129‬‬

‫مند‬ ‫بؤ لحد دے ھنرمند و لرہ تنگ‬ ‫پذیر‬ ‫ھر کال چہ دلپذیر او دلپسند وی‬ ‫یہ ہی نہیں' ب ب ص ح کے ہ ں پج بی ذائقہ بھی موجود۔ اردو میں پ ید‬ ‫اور پ یدی است م ل میں آتے ہیں۔ پنج بی میں پ ید سے پ یت اور پ یدی‬ ‫سے پ یتی' بولے لکھے ج تے ہیں۔ ب ب ص ح نے ایک مصرعے میں'‬ ‫یہ دونوں ال ظ است م ل کیے ہیں۔ اس کے ب وجود اس و پنج بی نہیں‬ ‫ہو پ ی ۔‬ ‫د دنی پھ پ یتی ح ن پ یت کڑو‬ ‫اردو میں ہمیشہ' ج کہ پنج بی میں ہمیش مست مل ہے۔ ب ب ص ح‬ ‫نے کم ل حسن و خوبی سے اس ل ظ ک است م ل کی ہے۔‬ ‫دھوا غشے ھمیش حکمتہ پھ زور شی‬ ‫الہور میں بیبی ں پ ک دامنہ کے محتر و م زز مزار ہیں۔ عوا میں پ ک‬ ‫دامنہ مرک م روف ہے۔ رحم ن ب ب نے اس مرک ک است م ل کی ہے۔‬


‫‪130‬‬

‫اس سے پ کیزگی کی فض پیدا ہو گئی ہے۔ مالحظہ ہو‬ ‫پ کدامنہ پرھیزگ رہ از تینھ‬ ‫ب ب ص ح ک ایک مقطع ب طور تبرک مالحظہ ہو۔‬ ‫چہ منکر پرے اعتزاز کوے نہ شی‬ ‫اعج ز‬

‫داد ش ر دے رحم نہ کہ‬

‫اگرب ب ص ح کے اس مقط ے کو پڑھ کر' اگر کوئی ان کی فکری‬ ‫پرواز اور پرذائقہ زب ن کی داد نہیں دیت ' تو اس سے بڑھ کر کوئی‬ ‫بدذو نہ رہ ہو گ ۔‬ ‫اس ن چیز سے لس نی مط ل ے کے ب د' میں اس نتیجہ پر پہنچ ہوں' کہ‬ ‫زب نیں بڑی م ن س ر ہوتی ہیں۔ اردو' پختو' پنج بی' عربی اور ف رسی‬ ‫ایک دوسرے سے یوں گ ے م تی ہیں' کہ کہیں اجنبیت ک احس س تک‬ ‫نہیں ہوت ۔ ت ظ' لہجہ' است م ل' م نویت اور ہیت تک بدل لیتی ہیں اور‬ ‫ل ظ' اختی ری زب ن کے قد لیتے ہیں۔ آخر انس ن کو کی ہو گی ہے' کہ‬ ‫یہ م دی' نظری تی' مذہبی' م شی' سی سی دائروں ک مکین ہو کر' ایک‬ ‫دوسرے سے' کوسوں کی دوری اختی ر کر لیت ہے۔ رنگ' نسل اور‬ ‫عالقہ' اسے دور کیے ج رہ ہے۔ لس نی ت ص بھی اسے دور کیے‬ ‫رکھت ہے۔ زب ن کے ن پر' دوری ں بڑھی ہیں' ج کہ ہر زب ن دوریوں‬ ‫‪.‬کو ن پسند کرتی ہے‬


‫‪131‬‬

‫انس ن آخر ک ' اپنی ہی زب ن سے' م ن س ری ک سب لے گ ۔‬ ‫!!!۔۔۔۔آخر ک‬


‫‪132‬‬

‫عربی کے اردو پر لس نی تی اثرات ایک ج ئزہ‬ ‫ح ک زب نیں' محکو عالقوں کی زب نوں اور بولیوں پر' اثر انداز ہوتی‬ ‫ہیں۔ ہ ں البتہ' انہیں محکو زب نوں اور بولیوں کے نحوی سیٹ اپ کو'‬ ‫ابن ن پڑت ہے۔ ان کے بولنے والوں ک لہجہ' اندازتک ' اظہ ری اطوار‬ ‫اور کال کی نوعیت اور فطری ضرورتوں کو بھی' اختی ر کرن پڑٹ ہے۔‬ ‫یہ ہی نہیں' م نویت کے پیم نے بھی بدلن پڑتے ہیں۔ اس کے سم جی'‬ ‫م شی اور سی سی ح الت کے زیر اثر ہون پڑت ہے۔ شخصی اور‬ ‫عالق ئی موسموں کے تحت' تشکیل پ ئے' آالت نط اور م ون آالت‬ ‫نط کو بہرصورت' مدنظر رکھن پڑت ہے۔ قدرتی ' شخصی ی خود‬ ‫سے' ترکی شدہ م حول کی حدود میں رہن پڑت ہے۔ نظری تی' فکری‬ ‫اور مذہبی ح الت و ضرورت کے زیراثر رہن پڑت ہے۔ اسی طرح' بدلتے‬ ‫ح الت' نظرانداز نہیں ہو پ تے۔ یہ ب ت پتھر پر لکیر سمجھی ج نی‬ ‫چ ہیے' کہ ل ظ چ ہے ح ک زب ن ہی ک کیوں نہ ہو' اسے است م ل‬ ‫کرنے والے کی ہر سطع پر' انگ ی پکڑن پڑتی ہے' ب صورت دیگر' وہ‬ ‫ل ظ اپنی موت آپ مر ج ئے گ ۔‬ ‫عربی بڑا ب د میں' برصغیر کی ح ک زب ن بنی۔ مسم نوں کی برصغیر‬ ‫میں آمد سے بہت پہ ے' برصغیر والوں کے' عربوں سے مخت ف‬ ‫نوعیت کے ت ق ت استوار تھے۔ یہ ت ق ت عوامی اور سرک ری سطح‬ ‫پر تھے۔ عربوں کو برصغیر میں' عزت اور قدر کی نگ ہ سے دیکھ‬ ‫ج ت تھ ۔ عربوں نے' یہ ں گھر بس ئے۔ ان کی اوالدیں ہوئیں۔ دور امیہ‬


‫‪133‬‬

‫میں س دات اوران کے ح می یہ ں آ کر آب د ہوئے۔ ‪ϰϰ‬ھ میں زبردست‬ ‫لشکرکشی ہوئی۔ ن ک می کے ب د' بچ رہنے والے بھی' یہ ں کے ہو کر‬ ‫رہ گیے۔ محمد بن ق س اوراس کے ب د' برصغیر عربوں ک ہو گی ۔ اس‬ ‫س رے عمل میں' جہ ں سم جی اطوار درآمد ہوئے' وہ ں عربی زب ن‬ ‫نے بھی' یہ ں کی زب نوں اور بولیوں پر' اپنے اثرات مرت کیے۔ یہ‬ ‫س ' الش وری سطح پر ہوا اور کہیں ش وری سطح پر بھی ہوا۔‬ ‫دوسری سطح' لس نی عصبیت سے ت رکھتی ہے۔‬ ‫مخدومی و مرشدی حضرت سید غال حضور الم روف ب ب جی شکرہللا‬ ‫کی ب قی ت میں سے' ت سیرالقران ب لقران کی تین ج دیں دستی ہوئیں۔‬ ‫اس کے مولف ڈاکٹر عبدالحکی خ ں ای بی ہیں۔ اسے مطبح عزیزی‬ ‫مق تراوڑی ض ع کرن ل نے' ب اہتم فتح محمد خ ں منیجر ‪ϭϵϬϭ‬ء‬ ‫میں ش ئع کی ۔ اسے دیکھ کر' ازحد مسرت ہوئی۔ یک د خی ل کوندا'‬ ‫کیوں نہ اس کی زب ن کے' کسی حصہ کو' عصری زب ن کے حوالہ سے‬ ‫دیکھ ج ئے۔ اس کے لیے میں نے' سورت ف تحہ ک انتخ کی ۔ ت سیر‬ ‫کی زب ن کے دیگر امور پر' ب د ازاں گ تگو کرنے کی جس رت کروں‬ ‫گ ' سردست عربی کے اردو پر لس ی تی اثرات ک ج ئزہ لین مقصود‬ ‫ہے۔‬ ‫تسمیہ کے ال ظ میں سے' اس ' ہللا' رحمن اور رحی رواج ع میں‬ ‫داخل ہیں اور ان ک ' ب کثرت است م ل ہوت رہت ہے۔‬


‫‪134‬‬

‫سورت ف تحہ میں‪ :‬حمد' هلل' ر ' ع لمین' رحمن' رحی ' م ک' یو ' دین'‬ ‫عبد' صراط' مستقی ' ن مت' مغضو ' ' ض لین‪ ....‬غیر' و' ال' ع یہ‬ ‫ایسے ال ظ ہیں' جو اردو والوں کے لیے غیر م نوس نہیں ہیں۔ ع م‬ ‫نے ان ک ترجمہ بھی کی ہے۔ ترجمہ کے ال ظ' اردو مترف ت کی حیثت‬ ‫رکھتے ہیں۔‬ ‫اس ' کسی جگہ' چیز' شخص ی جنس کے ن کو کہ ج ت ہے۔ یہ ں بھی‬ ‫‪.‬ن کے لیے است م ل ہوا ہے۔ ی نی ہللا کے ن سے‬ ‫تکیہءکال بھی ہے' کوئی گر ج ئے ی گرنے لگے' تو بےس ختہ منہ‬ ‫سے بس ہللا نکل ج ت ہے۔‬ ‫حمد' اردو میں ب ق عدہ ش ری صنف اد ہے اور ہللا کی ذات گرامی‬ ‫کے لیے مخصوص ہے۔‬ ‫ڈاکٹر عبدالحکی خ ن' مولوی بشیر احمد الہوری' مولوی فرم ن ع ی'‬ ‫مولوی محمد جون گڑھی' ش ہ عبدالق در محدث دہ وی' مولوی سید‬ ‫مودودی' مولوی اشرف ع ی تھ نوی اور س ودی ترجمہ ت ریف کی گی‬ ‫ہے۔‬ ‫‪ definition‬کے لیے بھی مخصوص ہے اور رواج ع میں ہے۔‬ ‫ت ریف‬ ‫کہ ج ت ہے' درج ذیل اصن ف کی ت ریف کریں اور دو دو مث لیں بھی‬ ‫دیں۔‬ ‫ش ہ ولی ہللا دہ وی نے' اپنے ف رسی ترجمہ میں' حمد کے لیے' ل ظ‬


‫‪135‬‬

‫ست ئش است م ل کی ہے۔ ل ظ ست ئش ردو میں مست مل ہے۔‬ ‫مولوی فیروزالدین ڈسکوی نے' خوبی ں ترجمہ کی ہے۔‬ ‫گوی حمد کو برصغیر میں ت ریف ست ئش اور خوبی ں کے م نوں میں‬ ‫لی گی ہے۔‬ ‫س ودی عر کے ترجمے میں بھی حمد کے لیے ت ریف مترادف لی گی‬ ‫ہے۔‬ ‫‪:‬قمر نقوی کے ہ ں اس کے است م ل کی صورت دیکھیں‬ ‫میں تیری حمد لکھن چ ہت ہوں‬ ‫جو ن مکن ہے کرن چ ہت ہوں‬ ‫تری توصیف۔۔۔۔اک گہرا سمندر‬ ‫سمنر میں اترن چ ہت ہوں‬ ‫قمر نقوی نے اس کے لیے مترادف ل ظ توصیف دی ہے۔‬ ‫ڈاکٹر عبدالحکی خ ن نے ص ‪ Ϯϯ‬پر' ایک ش ر میں ل ظ حمد ک‬ ‫‪:‬است م ل کچھ یوں کی ہے‬ ‫حمد الہی پر ہیں مبنی س ترقی ت روح‬ ‫اس سے ہی پیدا ہوتی ہیں س ری تج ی ت روح‬ ‫هلل کو' ہللا کے لیے' کے م نوں میں س نے لی ہے۔ ف رسی میں ش ہ‬


‫‪136‬‬

‫ولی ہللا دہ وی نے برائے ہللا' ترجمہ کی ۔ یہ بھی ہللا کے لیے' کے‬ ‫مترادف ہے۔‬ ‫هلل' ب طورتکیہءکال رائج ہے۔‬ ‫ہللا کے لیے' ب طورتکیہءکال بھی رواج میں ہے۔‬ ‫خدا کے لیے' خ گی ی غصے کی ح لت میں اکثر بوال ج ت ہے۔ مثال‬ ‫خدا کے لیے چپ ہو ج ؤ۔‬ ‫خدا کے لیے' استدع کے لیے بھی بوال ج ت ہے۔ مثال‬ ‫خدا کے لیے ا م ن بھی ج ؤ۔‬ ‫‪:‬ر‬ ‫ڈاکٹرعبدالحکی خ ن نے ترجمہ ر ہی ترجمہ کی ہے۔‬ ‫مولوی محمد فیروزالدین ڈسکوی نے بھی ر کے ترجمہ میں ر ہی‬ ‫لکھ ہے۔‬ ‫یہ ل ظ ع است م ل میں آت ۔ مثال‬ ‫وہ تو ر ہی بن بیٹھ ہے۔‬ ‫بندہ کی دے گ ' ر سے م نگو‬ ‫توں ر ایں۔۔۔۔۔۔ ب طور سوالیہ‬ ‫ش ہ عبدالق در محدث دہ وی' مولوی محمد جون گڑھی' مولوی فرم ن‬


‫‪137‬‬

‫ع ی نے پ لنے واال ترجمہ کی ہے‬ ‫س ودی ترجمہ بھی پ لنے واال ہے۔‬ ‫مولوی اشرف ع ی تھ نوی نے مربی مترادف درج کی ہے۔ مربی پ لنے‬ ‫والے ہی کے لیے است م ل ہوت ہے۔ مہرب ن' خی ل رکھنے والے' توجہ‬ ‫دینے والے' کسی قریبی کے لیے بولنے اور لکھنے میں مربی آت ہے۔‬ ‫ش ہ ولی ہللا دہ وی اور مولوی بشیر احمد الہوری نے ر ک ترجمہ‬ ‫پروردگ ر کی ہے۔‬ ‫پروردگ ر' ذرا ک ' لیکن بول چ ل میں ش مل ہے۔‬ ‫گوی اردو میں یہ ل ظ غیر م نوس نہیں۔‬ ‫ع مین' ع ل کی جمع ہے۔ ہر دو صورتیں' اردو میں مست مل ہیں۔‬ ‫پنج کی سٹریٹ لنگوئج میں زبر کے س تھ بول کر' مولوی ص ح ی‬ ‫ع دین ج ننے واال مراد لی ج ت ہے۔‬ ‫جہ ن بھی مراد لیتے ہیں۔‬ ‫قرآن مجید کو دو جہ نوں ک ب دش ہ بوال ج ت ہے۔‬ ‫ڈاکٹر عبدالحکی خ ں نے' ع مین ک جہ نوں ترجمہ کی ہے۔‬ ‫مولوی محمد جون گڑھی کے ہ ں اور س ودی ترجمہ بھی جہ نوں ہوا‬ ‫ہے۔‬ ‫ش ہ عبدالق در' مولوی محمد فیروزالدین اور مولوی فرم ن ع ی‬


‫‪138‬‬

‫نےس رے جہ نوں ترجمہ کی ہے۔‬ ‫مولوی اشرف ع ی تھ نوی نے ہر ع ل ترجمہ کی ہے۔‬ ‫مولوی بشیر احمد الہوری نے کل دنی ' مولوی مودودی نے ک ئن ت' ج‬ ‫کہ ش ہ ولی ہللا کے ہ ں ف رسی میں ع ل ہ ترجمہ ہوا‬ ‫ترجمے سے مت تم ال ظ' اردو میں مست ل ہیں۔ ہ رواج میں نہیں‬ ‫رہ ' ہ ں البتہ ہ ئے رواج میں ہے۔ جیسے انجمن ہ ئے امداد ب ہمی‬ ‫اردو بول چ ل میں ع لموں' ع لم ں بھی پڑھنے سننے میں آتے ہیں۔‬ ‫ن بھی رکھے ج تے ہیں۔ جیسے ع ل ش ہ' نور ع ل‬ ‫ب طور ٹ ئیٹل بھی رواج میں ہے۔ جیسے فخر ع ل ' فخر دو ع ل‬ ‫ل ظ رحمن' عمومی است م ل میں ہے۔ ن بھی رکھے ج تے ہیں۔ مثال‬ ‫‪.‬عبد الرحمن' عتی الرحمن فیض الرحمن' فضل الرحمن وغیرہ‬ ‫ڈاکٹر عبدالحکی خ ں نے رحمن ک ترجمہ' ل ظ کے عمومی بول چ ل‬ ‫میں مست مل ہونے کے سب ' رحمن ہی کی ہے۔‬ ‫مولوی سید مودودی نے بھی' رحمن ک ترجمہ رحم ن ہی کی ہے۔‬ ‫مولوی محمد فیروزالدین نے' رحمن ک ترجمہ مہرب ن کی ہے۔‬ ‫مولوی محمد جون گڑھی کے ہ ں' رحمن ک ترجمہ' بخشش کرنے واال‬ ‫ہوا ہے۔‬


‫‪139‬‬

‫ش ہ ولی ہللا نے' ف رسی ترجمہ بخش یندہ کی ہے' جو بخشش کرنے‬ ‫واال ہی ک مترادف ہے۔ بخش یندہ اردو میں مست مل نہیں ت ہ بخشنے‬ ‫واال' بخش دینے واال' بخشش کرنے واال' بخشن ہ ر وغیرہ غیر م نوس‬ ‫نہیں ہیں۔‬ ‫بخشیش خیرات کے لیے بھی' بوال ج ت ہے۔‬ ‫ش ہ عبدالق در' مولوی اشرف ع ی تھ نوی' مولوی احمد رض خ ں‬ ‫بری وی' مولوی بشیر احمد الہوری' مولوی فرم ن ع ی نے رحمن ک‬ ‫ترجمہ مہرب ن کی ہے۔‬ ‫س ودی ترجمہ بھی مہرب ن ہے۔‬ ‫ل ظ رحی ' اردو میں غیر م نوس نہیں۔ اشخ ص کے ن بھی رکھے‬ ‫ج تے ہیں‪ .‬جیسے عبدالرحی ۔‬ ‫اسی تن ظر میں ڈاکٹر عبدالحکی خ ں نے رحی ک ترجمہ رحی ہی کی‬ ‫ہے۔ مولوی سید مودودی نے بھی' اس ک ترجمہ رحی ہی کی ہے۔‬ ‫ش ہ عبدالق در' مولوی اشرف ع ی تھ نوی' مولوی احمد رض خ ں‬ ‫بری وی' مولوی بشیر احمد الہوری' مولوی فرم ن ع ی' مولوی محمد‬ ‫فیروزالدین نے رح واال ترجمہ کی ہے۔‬ ‫ش ہ ولی ہللا دہ وی اور مولوی محمد جون گڑھی نے رحی ک ترجمہ‬ ‫مہرب ن کی ہے۔‬


‫‪140‬‬

‫ل ظ م لک' م کیت والے کے لیے' ع بول چ ل میں ہے‪ .‬جیسے م لک‬ ‫مک ن ی وہ پ نچ ایکڑ زمین ک م لک ہے۔ بیشتر ترجمہ کنندگ ن نے'‬ ‫اس ک ترجمہ م لک ہی کی ہے۔ ہ ں مولوی فرم ن ع ی نے اس ک‬ ‫ترجمہ ح ک کی ہے۔اشخ ص کے ن بھی' سننے کو م تے ہیں‪ .‬مثال‬ ‫عبدالم لک' محمد م لک‬ ‫ڈاکٹر عبدالحکی خ ں' مولوی محمد جون گڑھی' مولوی فیروز الدین'‬ ‫مولوی اشرف ع ی تھ نوی' ش ہ عبدالق در' مولوی احمد رض خ ں‬ ‫بری وی' مولوی سید مودودی نے اس ک ترجمہ م لک ہی کی ہے۔‬ ‫س ودی ترجمہ بھی م لک ہی ہے۔ اس سے ب خوبی اندازہ کی ج سکت‬ ‫ہے کہ ل ظ م لک کس قدر عرف ع میں ہے۔‬ ‫ل ظ یو ' ع است م ل ک ہے۔ مرک است م ل بھی سننے کو م تے ہیں۔‬ ‫مثال یو آزادی' یو شہدا' یو ع شورہ' یو حج وغیرہ‬ ‫ڈاکٹر عبدالحکی خ ں نے' یو ک ترجمہ یو ہی کی ہے۔ مولوی سید‬ ‫مودودی نے بھی یو ک ترجمہ یو ہی کی ہے۔‬ ‫مولوی فیروز الدین' مولوی محمد جون گڑھی' مولوی بشیر احمد‬ ‫‪.‬الہوری نے اس ک ترجمہ دن کی ہے‬ ‫س ودی ترجمہ بھی دن ہی ہوا ہے۔‬ ‫ش ہ ولی ہللا' ش ہ عبدالق در' مولوی اشرف ع ی تھ نوی' مولوی احمد‬ ‫رض خ ں بری وی' مولوی فرم ن ع ی نے یو ک ترجمہ روز کی ہے۔‬


‫‪141‬‬

‫ل ظ دین' مذہ کے م نوں میں ع است م ل ک ہے۔‬ ‫مرک بھی است م ل ہوت ہے۔ مثال دین محمدی' دین اسال ' دین دار'‬ ‫دین دنی وغیرہ‬ ‫ن موں میں بھی مست مل ہے۔ مثال احمد دین' دین محمد' چرا دین ام‬ ‫دین وغیرہ‬ ‫دین دار ایک ذات اور قو کے لیے بھی مخصوص ہے۔‬ ‫دین کے م نی رستہ بھی لیے ج تے ہیں۔‬ ‫ڈاکٹر عدالحکی خ ں نے' اس ل ظ کو' جزا کے م نوں میں لی ہے۔‬ ‫ش ہ ولی ہللا دہ وی' ش ہ عبدالق در' مولوی سید مودودی' مولوی اشرف‬ ‫ع ی تھ نوی' مولوی احمد رض خ ں بری وی' مولوی فرم ن ع ی نے‬ ‫ل ظ دین کو جزا کے م نوں میں لی ہے۔‬ ‫مولوی محمد جون گڑھی نے' ل ظ دین ک ترجمہ قی مت کی ہے۔‬ ‫مولوی محمد قیروز الدین اور مولوی بشیر احمد الہوری نے' ل ظ دین‬ ‫کو انص ف کے م نوں میں لی ہے۔‬ ‫س ودی ترجمے میں' اس ک ترجمہ بدلے ک ' ج کہ قوسین میں قی مت‬ ‫درج ہے' م نی لیے گیے ہیں۔‬ ‫ل ظ عبد' اردو میں عمومی است م ل ک نہیں' ت ہ اشخ ص کے ن موں‬ ‫میں ب کثرت است م ل ہوت ہے۔ مثال عبدہللا' عبدالق در' عبداعزیز'‬


‫‪142‬‬

‫عبدالکری ' عبدالرحم ن' عبدالقوی وغیرہ‬ ‫ن بد ک ڈاکٹر عبدالحکی ' مولوی فیروز الدین' مولوی محمد جون گڑھی'‬ ‫مولوی سید مودودی' مولوی فرم ن ع ی' مولوی اشرف ع ی تھ نوی‬ ‫نے ترجمہ عب دت کی ہے۔‬ ‫س ودی ترجمے میں بھی م نی عب دت لیے گیے ہیں۔‬ ‫مولوی احمد رض خ ن نے پوجھیں ترجمہ کی ہے۔‬ ‫ش ہ عبدالق در اور مولوی بشیر احمد الہوری نے بندگی م نی دیے ہیں۔‬ ‫ش ہ ولی ہللا دہ وی نے' اپنے ف رسی ترجمہ میں می پرستی م نی دیے‬ ‫ہیں۔ ل ظ پرست' پرستی' پرستش اردو والوں کے لیے اجنبی نہیں ہیں'‬ ‫ب کہ بول چ ل میں موجود ہیں۔‬ ‫ل ظ صراط' اردو میں ع است م ل ک نہیں' لیکن غیر م نوس بھی‬ ‫نہیں۔ مرک پل صراط ع بولنےاور سننے میں آت ہے۔ لوگ اس امر‬ ‫سے آگ ہ نہیں' یہ دو الگ چیزیں ہیں۔‬ ‫ڈاکٹر عبدالحکی خ ن' مولوی اشرف ع ی تھ نوی' مولوی احمد رض‬ ‫خ ں بری وی اور مولوی سید مودودی نے' اسے رستہ کےم نی دیے‬ ‫ہیں۔‬ ‫ش ہ ولی ہللا دہ وی' ش ہ عبدالق در' مولوی محمد فیروزالدین' مولوی‬ ‫محمد جون گڑھی' مولوی بشیر احمد الہوری اور مولوی فرم ن ع ی‬ ‫نے صراط ک ترجمہ راہ کی ہے۔‬


‫‪143‬‬

‫س ودی ترجمہ بھی راہ ہی ہوا ہے۔‬ ‫ل ظ مستقی ' عمومی است م ل میں نہیں۔ ن کے لیے است م ل ہوت آ رہ‬ ‫ہے۔ جیسے محمد مستقی‬ ‫اسی طرح' خط مستقی جیویٹری کی اصطالح سننے میں آتی ہے۔‬ ‫ڈاکٹر عبدالحکی خ ن' مولوی اشرف ع ی تھ نوی' مولوی احمد رض‬ ‫خ ں بری وی' اور مولوی سید مودودی نے' سیدھ ترجمہ کی ہے۔‬ ‫صراط مستقی بم نی سیدھ رستہ‬ ‫مولوی محمد جون گڑھی' مولوی بشیر احمد الہوری اور مولوی فرم ن‬ ‫ع ی نے سیدھی ترجمہ کی ہے۔ س ودی ترجمہ بھی سیدھی ہوا ہے‬ ‫لیکن قوسین میں سچی درج کی گی ہے۔‬ ‫صراط مستقی ی نی سیدھی راہ‬ ‫ش ہ ولی ہللا دہ وی نے' اس کے لیے ل ظ راست است م ل کی ہے۔‬ ‫صراط مستقی ی نی راہ راست‬ ‫ان مت' ن مت سے ہے۔ ل ظ ن مت' بولنے اور لکھنے پڑھنے میں‬ ‫است م ل ہوت آ رہ ہے۔ پنج بی میں اسے نی مت روپ مل گی ہے۔‬ ‫ن بھی رکھے ج تے ہیں جیسے ن مت ع ی' ن مت ہللا‬ ‫ڈاکٹر عبدالحکی خ ن' مولوی اشرف ع ی تھ نوی' مولوی محمد جون‬


‫‪144‬‬

‫گڑھی اور مولوی سید مودودی نے' اس ک ان‬ ‫س ودی ترجمہ میں بھی ان‬

‫ترجمہ کی ہے۔‬

‫است م ل میں آی ہے۔‬

‫ش ہ عبدالق در' مولوی محمد فیروزالدین اور مولوی بشیر احمد الہوری‬ ‫نے اس ک ترجمہ فضل کی ہے۔‬ ‫مولوی فرم ن ع ی نے ن مت' احمد رض خ ں بری وی نے احس ن' ج‬ ‫کہ ش ہ ولی ہللا دہ وی نے اسے اکرا م نی دیے ہیں۔‬ ‫ان‬

‫و اکرا عمومی است ل ک مرک ہے۔‬

‫مغضو ' اردو میں است م ل نہیں ہوت ' ت ہ اس ک روپ غض ' اردو‬ ‫میں ع است م ل ہوت ہے۔ مولوی محمد فیروزالدین' مولوی بشیر احمد‬ ‫الہوری' مولوی محمد جون گڑھی' مولوی احمد رض خ ں بری وی اور‬ ‫مولوی فرم ن ع ی نے غض کے م نی لیے ہیں۔‬ ‫س ودی ترجمہ میں بھی غض مراد لی گی ہے۔‬ ‫ش ہ عبدالق در نے غصہ' ج کہ مولوی سید مودودی نے عت‬ ‫لیے ہیں۔‬

‫م نی‬

‫ش ہ ولی ہللا دہ وی نے' اپنے ف رسی ترجمہ میں خش م نی لیے ہیں۔‬ ‫ض لین' ضاللت سے ہے۔ اردو میں یہ ل ظ' ع بول چ ل میں نہیں۔ ہ ں‬ ‫البتہ ذاللت عمومی است م ل میں ہے۔ ضاللت لکھنے میں آت رہ ہے۔‬


‫‪145‬‬

‫ش ہ عبدالق در اور ڈاکٹر عبدالحکی خ ن نے گمراہ' مولوی محمد جون‬ ‫گڑھی ' مولوی محمد فیروزالدین' مولوی بشیر احمد الہوری اور مولوی‬ ‫فرم ن ع ی نے گمراہوں ترجمہ کی ہے۔‬ ‫مولوی احمد رض خ ں بری وی نے بہکن م نی مراد لیے ہیں۔‬ ‫مولوی سید مودودی نے' بھٹکے ہوئے ترجمہ کی ہے۔‬ ‫س ودی ترجمہ گمراہی ہوا ہے۔‬ ‫ش ہ ولی ہللا دہ وی نے گمراہ ن ترجمہ کی ہے۔‬ ‫ان کے عالوہ' چ ر ل ظ اردو میں ب کثرت است م ل ہوتے ہیں‬ ‫ع یہ‪ :‬ک مہء احترا کے دوران' جیسے حضرت داؤد ع یہ‬ ‫اسال ‪........‬مدع ع یہ' مکتو ع یہ وغیرہ‬ ‫غیر‪ :‬نہی ک س بقہ ہے' جیسے غیر محر ' غیر ارادی' غیر ضروری'‬ ‫غیر منطقی وغیرہ‬ ‫ال‪ :‬نہی ک س بقہ ہے' جیسے الح صل' الع ' ال ی نی' الت‬

‫وغیرہ‬

‫و‪ :‬و اور کے م نی میں مست مل چال آت ہے۔ مثال‬ ‫ش و روز' رنگ ونمو' ش ر وسخن' ق‬

‫ونظر وغیرہ‬

‫کمشنر و سپرنٹنڈنٹ' منیجر و پرنٹر وغیرہ‬ ‫درج ب ال ن چیز سے ج ئزے کے ب د' یہ اندازہ کرن دشوار نہیں رہت ' کہ‬ ‫عربی نے اردو پر کس قدر گہرے اثرات مر ت کیے ہیں۔ مس م نوں ک‬


‫‪146‬‬

‫حج اور کئی دوسرے حوالوں سے' اہل عر سے واسظہ رہت ہے۔‬ ‫اس لیے مخت ف نوعیت کی اصطالح ت ک ' اردو میں چ ے آن ' ہر گز‬ ‫حیرت کی ب ت نہیں۔ روزمرہ کی گ ت گو ک ' تجزیہ کر دیکھیں' کسی‬ ‫ن کسی شکل میں' کئی ایک لقظ ن دانسہ اور اظہ ری روانی کے تحت'‬ ‫بولے چ ے ج تے ہیں۔ مکتوبی صورتیں بھی' اس سے مخت ف نہیں‬ ‫ہیں۔‬

‫مکرمی حسنی ص ح ‪ :‬سال مسنون‬ ‫آپ ادھر کچھ عرصہ سے اردو انجمن میں نظرنہیں آرہے ہیں۔ آپ کو‬ ‫ایک خط بھی لکھ چک ہوں۔ ہللا سے دع ہے کہ آپ ب فیت ہوں اور‬ ‫انجمن کو بھولے نہ ہوں۔ میں زندگی کی تگ ودو میں ایس گرفت ر رہ‬ ‫کہ آپ کی تخ یق ت کی ج ن رخ نہ کرسک ‪ ،‬ن د ہوں۔ سوچ کہ ا آی‬ ‫ہوں تو آپ کے پچھ ی تحریریں دیکھ لوں۔ سو آج عربی زب ن کے اردو‬ ‫پر اثرات سے مت یہ مضمون دیکھ رہ ہوں اور عش عش کر رہ‬ ‫ہوں۔‬ ‫ویسے دیکھنے میں یہ مضمون آس ن م و ہوت ہے کہ چند کت بیں‬ ‫دیکھ کر ان سے کچھ ب تیں اخذ کر لی ج ئیں تو مضمون ہوج ت ہے‬ ‫لیکن یہ تو لکھنے واال ہی ج نت ہے کہ اسیے مق لے کی تشکیل میں‬ ‫کی کی پ پڑ بی نے پڑتے ہیں‪ ،‬کیسی دم سوزی کرن ہوتی ہے اورکس‬ ‫طرح اپنے ک کی ب توں کو مرت کرکے ق ری کو پہنچ ن پڑت ہے۔‬ ‫سبح ن ہللا! کی خو تحریر ہے۔ آپ نے جس دلسوزی سے یہ ک کی‬


‫‪147‬‬

‫ہے اس ک اجر تو ہللا ہی دے گ ۔ہ ن اہل بندے تو صرف اس سے‬ ‫مست ید ہی ہوسکتے ہیں اور یہ دع کرتے ہیں کہ ایس ک کرنے کی‬ ‫توفی اور اہ یت ہ کوبھی ح صل ہو۔آمین۔ آپ کی محنت اور آپ ک ع‬ ‫اپنے جوا آپ ہی ہیں۔ لکھتے رہئے۔ انش ہللا ف ئدہ اٹھ نے والے‬ ‫ہمیشہ آپ کو اپنی دع ئے خیر میں ی د رکھیں گے۔‬ ‫سرور ع ل راز‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9490.0‬‬


‫‪148‬‬

‫گنج سواالت' ایک لس نی تی ج ئزہ‬ ‫مخدومی و مرشدی حضرت سید غال حضور الم روف ب ب جی شکرہللا‬ ‫کی ب قی ت میں سے' ایک انچ س ص ح ت کی کت ۔۔۔۔۔ گنج سواالت ۔۔۔۔۔‬ ‫دستی ہوئی ہے۔ یہ کت ‪ϭϴϱϴ‬ء میں ش ئع ہوئی۔ اس ک ٹ ئیٹل پیج‬ ‫‪:‬کچھ یوں ہے‬ ‫گنج سواالت‬ ‫ق نون دیوانی پنج‬

‫وسرک رات‬

‫ص ح جوڈیشل کمشنر بہ در پنج‬

‫مجریہ‬

‫ب د مشتہر ہونے ق نون مذکور کے‬ ‫مول ہ‬ ‫مستر رابرٹ ینڈہ کسٹ ص ح بہ در کمشنر و سپرنٹنڈنٹ قسمت الہور‬ ‫جسکو‬ ‫مستر ایف اسک رلٹ ص ح بہ در پرنسپل اسسٹنٹ کمشنر نے‬ ‫ب ع نت‬ ‫منشی درگ پرش د پنڈت کے ترجمہ کی‬ ‫ء‪1858‬‬ ‫مطبع کوہ نور الہور میں ب ہتم پنڈت سورج بہ ن منیجر وغال محمد‬ ‫پرنٹر کے چہپہ‬


‫‪149‬‬

‫اس کت کے ت ئیٹل پیج سے اندازہ ہوت ہے کہ ‪ϭϴϱϴ‬ء میں' الہور‬ ‫ذویژن تھ اور یہ ں سے ج ری ہونے والے احک م ت' پنج پر الگو‬ ‫ہوتے تھے' ی یوں کہہ لیں' الہور قسمت میں پورا پنج داخل تھ ۔‬ ‫الہور قسمت ک کمشنر اور سپرنٹنڈنٹ رابرٹ ینڈہ کسٹ' ج کہ‬ ‫پرنسپل اسسٹنٹ کمشنر ایف اسک رلٹ تھ ۔ منشی درگ پرش د پنڈت'‬ ‫پرنسپل اسسنٹ کمشنر ایف اسک رلٹ سے وابستہ تھے۔ ترجمہ ص ف‬ ‫اور رواں دوا ں ہے۔ تحریر سے یہ ظ ہر ہوت ہے کہ ترجمہ' ایف‬ ‫اسک رلٹ نے کی ہے ج کہ منشی درگ پرش د پنڈت نے' محض‬ ‫م ونت کی ہے۔ ترجمے کیی روانی اور ترجمے کی زب ن' اس امر کی‬ ‫یکسر تردید کر رہی ہے‪ .‬ب اختی ر لوگ اوروں ک کی ' اپنی گرہ میں‬ ‫کرتے آئے ہیں یہ کوئی ایسی نئی اور حیران کن ب ت نہیں۔‬ ‫انگریز اگرچہ ایک عرصہ پہ ے سے' ہندوست ن کے اقتدار پر ق بض‬ ‫تھ ' ت ہ ب طور ح ک واضح نہ ہوا تھ ۔ گ یوں میں' کسی من دی کے‬ ‫ابتدائی ک موں میں کہ ج ت تھ ۔۔۔۔۔۔ م ک ش ہ ک حکومت کمپنی بہ در‬ ‫کی۔۔۔۔۔۔ ‪ϭϴϱϳ‬ء میں' م ک بھی انگریز ک ہو گی تھ ۔ انگریز فقط دو‬ ‫ڈھ ئی ہزار کی ت داد میں تھے۔ فتح ‪ϭϴϱϳ‬ء میں' م ون کرداروں کو'‬ ‫جہ ں ج گیریں وغیرہ دی گئیں' وہ ں خط ب ت اور اعزای عہدوں سے‬ ‫بھی نوازا گی ۔ یہ حضرات مخبری' چغل خوری اور دو نمبری میں ط‬ ‫ضرور تھے' لیکن اطوار و ضوابط جہ ں ب نی سے' آگ ہ نہ تھے۔ انہیں‬ ‫م مالت ب طری احسن اور ب ض بطہ نپٹ نے کے لیے' الئحہ عمل فراہ‬ ‫کرن ضروری تھ ت کہ ان کی من م نی کے زیراثر' کوئی شورش جن‬ ‫نہ لے سکے۔ اس کت کے متن سے' بہرصورت یہ ہی اندازہ ہوت ہے۔‬


‫‪150‬‬

‫‪:‬اس ذیل میں ب طور نمونہ دو چ ر مث لیں مالحظہ فرم ئیں‬ ‫‪.‬۔ نہ یت ق نون نہ یت ظ ہے‪1‬‬ ‫۔ وکیل ک س ختہ برداختہ تمہ را س ختہ برداختہ ہے۔‪2‬‬ ‫۔ شرع و ق نون رواج سے گہرا ہوا ہے۔‪3‬‬ ‫۔ خرچہ دیوانی مین تمیز کرو اور غیر واجبی خرچہ ہرگز نہ درج ‪4‬‬ ‫کرو۔‬ ‫۔ ہنگ رجوع ن لش کے ح ک کو یہہ الز نہین کہ بطور ن بین حک ‪5.‬‬ ‫ق مبندی اظہ ر ص در کرے اور پہر حس ض بطہ حک ط بی گواہ ن و‬ ‫مدع ع یہ ص در کرے ب کہ ہوشی ر ح ک اول ذرا تک یف اوٹہ ت ہے اور‬ ‫پیچہے بہت تکیف سے مح وظ رہت ہے ی نی اوسکو اول ۔ہنگ رجوع‬ ‫مقدمہ ان ب تونک خی ل کرن چ ہئے۔‬ ‫جو افسر اور اہل ک ر' یہ ں آئے غیر مث قہ فی ڈ کے تھے دوسرا انہیں‬ ‫ان کی اوق ت سے بڑھ کر عہدے دے دیے گیے ی ک از ک ون سٹیپ‬ ‫اپ کی گی ۔ اوپر سے' غال قو کی جی حضوری اور گم شتوں کی حد‬ ‫سے بڑھ کر چ پ وسی نے' ان کے دم خرا کر دیے تھے‪ .‬ایسے‬ ‫میں ن انص فی ک جن لین ' فطری سی ب ت تھی۔ اس کے نتیجہ میں' اس‬ ‫قس کی ہدای ت ک ج ری کی ج ن ضروری تھ ۔ آزادی ہند میں' جہ ں‬ ‫یہ ں کے حریت پسندوں' امریکہ کی مداخ ت اور ہٹ ر کی اندھی یورش‬ ‫ک ہ تھ ہے' وہ ں بےانص فی اور حد سے بڑھ کر دالنوازی کو بھی نظر‬


‫‪151‬‬

‫‪.‬انداز نہیں کی ج سکت‬ ‫اس کت کے پہ ے حصہ میں' تمہید کے ب د' ہدای ت ب عنوان۔۔۔۔ ہدای ت‬ ‫و اصول م ص ہ ذیل پر افسران دیوانی ن آزمودء ک ر کو توجہ کرن‬ ‫'چ ہیے۔۔۔۔۔‬ ‫دوسرے حصہ میں ۔۔۔۔۔۔۔ فہرست ابوا گنج سواالت ق نون دیوانی پنج‬ ‫ج کہ تیسرے حصہ میں۔۔۔۔۔سواالت دستورال مل ق نون دیوانی پنج '‬ ‫دیے گیے ہیں۔‬ ‫کت‬

‫انچ س ص ح ت پر مشتمل ہے۔‬

‫رموز ک اہتم نہیں کی ج ت تھ ۔ اس کت میں بھی رموز ک اہتم نہیں‬ ‫کی گی ۔ یہ امر چوں کہ رواج میں نہ تھ ' س لیے اسے' مکتوبی نقص‬ ‫نہیں سمجھ ج سکت ۔ فقرے لمبے بن نے ک رواج تھ ۔ یہ کت چوں‬ ‫کہ سواالت اور ہدای ت سے مت ہے' اس لیے اس ذیل سے ب ہر ہے‪.‬‬ ‫ہ ں ب ض جگہوں پر مث لیں م تی ہیں‪ .‬مثال تمہید تقریب چھے سطور پر‬ ‫مشتمل ہے۔ یہ بال رموز اور ایک ہی فقرہ میں ہے۔ کت کی تحریر‬ ‫ش ئستہ اور رواں دواں ہے۔ چند امور' لس نی تی اور مکتوبی طور کے‬ ‫حوالہ سے' آج اور گزرے کل کی شن خت ک ذری ہ ہیں۔ مثال‬ ‫دو ل ظ مال کر' لکھن ع تھ اور اس کی مث لیں' اس کت‬

‫میں جگہ‬


‫‪152‬‬

‫جگہ پر م تی ہیں۔ مثال‬ ‫جنکے' کونسی' کسب ت' کسکو' قرضخوانونکی وغیرہ‬ ‫ف رسی آمیز دو مرک ل ظ بھی پڑھنے کو م تے ہیں۔ مثال‬ ‫درصورتکہ‬ ‫اس کت‬ ‫ہیں۔ مثال‬

‫میں' تین ل ظوں کو مال کر لکھنے کی' بہت سی مث لیں م تی‬

‫کسطرحکی' کسطرحپر' کسطرحک ' کسیطرحکی' کسطرحسے'‬ ‫کیصورتمین' اس یئیکہ' دونوب تونک وغیرہ‬ ‫ل ظوں میں واؤ کی بڑھوتی م تی ہے' جو آج متروک ہو چکی ہے۔ مثال‬ ‫اوس' اون' ج وے' اوٹہ نی وغیرہ‬ ‫نون غنہ ک است م ل ب لکل نہیں م ت ' ح الں کہ نون غنہ اردو کے‬ ‫حروف ابجد میں موجود تھ ۔ نون غنہ کی جگہ' نون است م ل میں الی‬ ‫گی ہے۔ مثال‬ ‫مین' ب تین' ہین' عورتین' نہین وغیرہ‬ ‫یہ کو ڈبل حے مقصورہ کے س تھ رق کی گی ہے‪ .‬ی نی یہہ‬ ‫بھ ری آوازوں ک است م ل نہیں کی گی ۔ ان کی جگہ حے مقصورہ‬ ‫است م ل کی گئی ہے۔ مثال‬ ‫دہوک ' پیچہے'س تہ' بہ ئی' رکہت وغیرہ‬ ‫دو جگہ مہ پران ک است م ل بھی ہوا۔ مثال ہدایت کے لیے' ھدایت اور‬


‫‪153‬‬

‫پہال کے لے' پھال رق کی گی ہے۔‬ ‫چ کے لیے ج است م ل کی گئی ہے۔ ی نی دی چہ کو دیب جہ کت بت کی گی‬ ‫ہے۔‬ ‫ٹ کی جگہ ت' است م ل میں الئی گئی ہے۔ مسٹر کو مستر لکھ گی‬ ‫ہے۔‬ ‫دونوں کو' دونو لکھ گی ہے‪ .‬ی نی ں ی ن ک است م ل نہیں گی ۔ ں‬ ‫حشوی سہی' لیکن آج رواج ع میں ہے۔‬ ‫ء کی جگہ' ی ک است م ل ہوا ہے۔ یہ ف رسی کی ییروی میں ہے' ح الں‬ ‫کہ ہمزہ اردو حروف ابجد میں' داخل تھی۔ جیسے دائرہ کی بج ئے‬ ‫دایرہ لکھ گی ہے۔‬ ‫گ ف کے لیے' ک ف ک است م ل ہوا ہے۔ ی نی ڈگری کو ڈکری لکھ گی‬ ‫ہے۔‬ ‫ڑ کی جگہ ڈ ک است م ل کی گی ی نی بڑھ ن کو بڈہ نہ تحریر میں الی‬ ‫گی ہے۔‬ ‫ت کی جگہ ط ک است م ل ہوا ہے۔‬ ‫تی ری کو طی ری رق کی گی ہے۔‬ ‫ا کچھ جم یں مالحظہ ہوں۔‬ ‫ن لش ت' ہنڈوی ت' ڈکری ت' سرک رات' بواعث' ہنڈویوں وغیرہ‬


‫‪154‬‬

‫ے کو ی کی طرز پر رق کی گی ہے' ۔فر صرف اتن ہے کہ نیچے‬ ‫سے' گول نہیں کی گی ۔ ڈبل آنے کی صورت میں پہ ی ی کو حس‬ ‫روٹین ج کہ دوسری کو ے کی شکل میں درج کی گی ہے۔‬ ‫آج ل ظ دیوالیہ لکھ ج ت ہے' ج کہ اس میں ی ش مل نہیں۔ ی نی دوالہ‬ ‫لکھ گی ہے۔‬ ‫‪.‬اردو اور انگریزی مرک پڑھنے کو م تے ہیں‬ ‫پنج‬

‫وسرک رات' منیجر وغال محمد پرنٹر‬

‫اسی طرح' دو انگریزی ل ظوں کو واؤ سے مالی گی ہے۔‬ ‫کمشنر و سپرنٹنڈنٹ‬ ‫ہر دو میں' واؤ الگ سے بولت ہے۔‬ ‫دیسی روایت بھی م تی ہے‪ .‬مثال فش و ہدایت‬ ‫اض فتی مرک بھی پڑھنے کو م تے ہیں۔ مثال دعوی ن بین ' ک ید گنج‬ ‫ایک مرک بال اض فت مالحظہ ہو‪ :‬ن بین حک‬ ‫زب ن پر مق میت کے بھی اثرات م تے ہیں۔ مثال‬ ‫ذمہ واری' دوالہ' نظیر دیو' چودہریوں وغیرہ‬ ‫ل ظ اردوائے بھی گیے ہیں۔ مثال تمسکی‬ ‫یہ کت ' اگرچہ ق نون اور ض بطہ سے مت‬

‫ہے' لیکن اس کے‬


‫‪155‬‬

‫مندرج ت کے مط ل ہ سے' ڈیڑھ سو سے زائد عرصہ پہ ے کی'‬ ‫سرک ری ی نی دفتری اردو پڑھنے ک موقع م ت ہے۔ چوں کہ یہ عوا‬ ‫سے مت ہے' اس لیے اس میں' عوامیت بھرپور انداز میں م تی ہے۔‬ ‫یہ بھی کہ سرک ری' مزاج و رویہ اور عوا ' خصوص اور گوروں کے‬ ‫م بین ت ری وامتی ز س منے آتی ہے۔ ق نون' سم ج اور مذہی ضوابط‬ ‫کو' متوازی رکھتے ہوئے' یہ کت ترکی پ ئی ہے۔ اردو خط میں'‬ ‫انگریزی ال ظ است م ل ہوئے ہیں' لیکن بہت ک ۔ اس کی روانی اور‬ ‫شستگی مچھے اچھی لگی ہے۔‬ ‫‪31-12-2014‬‬


‫‪156‬‬

‫ڈاکٹر عبد ال زیز س حر کی ایک ق بل تق ید تدوینی ک وش‬ ‫تدوینی ک بھی' اپنی اصل میں' تخ یقی عمل ک حصہ ہے۔ یہ حد درجہ‬ ‫حس س عمل تو ہے ہی' دوسری طرف انتہ ئی ذمہ داری ک ک ہے۔ اس‬ ‫ک کی انج دہی میں' م مولی کوت ہی اور غ ت کی گنج ئش نہیں‬ ‫ہوتی۔ م مولی سی کوت ہی اور غ ت' صدیوں کے لیے مخممصے پیدا‬ ‫کر دیتی ہے۔ یہ مخمصے درحقیقت' متن کی ت ہی میں خرابی ک سب‬ ‫بن ج تے ہیں۔ آتے وقتوں میں' اصل کو کر کھ چکی ہوتی ی وہ ردی‬ ‫چڑھ چکے ہوتے ہیں ی ان تک رس ئی ن ممکن ت کی وادی میں داخل‬ ‫ہو چکی ہوتی ہے۔ ہونے والے ک آس نی ں پیدا کرنے کی بج ئے' ب ض‬ ‫الی نی پچیدگیوں ک سب بن ج تے ہیں۔‬ ‫ہم رے ہ ں زی دہ تر' ذاتی دل چسپی سے ہٹ کر' تدوینی ک محض‬ ‫خ نہ پری کی حد تک ہوا ہے اور یہ ہی ک پچیدگیوں کے دروازے‬ ‫کھولت آی ہے۔ ایس بھی ہوا ہے' ص ح کت ہونے ک ' ن کے س تھ‬ ‫لیبل چسپ ں کرنے کے لیے' کت ک دیب چہ لکھ دی اور دیب چے میں‬ ‫اپنی کوشش کو بڑھ چڑھ کر پیش کر دی اور کی ' بس۔ یہ ہی نہیں'‬ ‫خ نہ پری کے لیے' دو چ ر تبصرے لکھوا لیے۔ تبصرہ نگ ر نے'‬ ‫چوں کہ کت کو پڑھ ہی نہیں ہوت ' اس لیے وہ بھی محض ٹوٹل پری‬ ‫کے لیے' مرت کی ہمتوں اور شخصی اوص ف ہی کو موضوع گ تگو‬ ‫بن ت ہے۔ لوگ ان تبصروں کو مدنظر رکھتے ہوئے' ت لیف کی حیثیت و‬ ‫اہمیت ک ت ین کرتے آئے ہیں۔‬


‫‪157‬‬

‫ڈاکٹر عبد ال زیز س حر میرے دیرینہ اور بہت اچھے دوستوں میں ہیں۔‬ ‫انہوں نے نہ یت مہرب نی فرم تے ہوئے۔۔۔۔ خیراالذک ر فی من ق‬ ‫االبرار۔۔۔۔ از مولوی محمد گھ وی مرید خواجہ نور محمد ث نی ن رووالہ‬ ‫رح عن یت فرم ئی۔ ترتی و تہذی اور حواشی لکھنے کی' ہللا نے‬ ‫موصوف کو توفی عط فرم ئی۔ کت پر' جس محنت اور لگن سے ک‬ ‫کی گی ہے' اس کے مط ل ہ کے لیے بھی' اس سی ی اس سے بہت‬ ‫قری کی لگن اور ذو کی ضرورت ہے۔ میں نے کئی ب ر پڑھ ' غور‬ ‫کی ' ہر ب ر یہ ہی محسوس کی ' کہ مجھ س بےچ رہ تھوڑ ع ' اس پر‬ ‫کی ' کیسے اور کیوں کر ب ت کر سکت ہے۔ یہ عرصہ پہ ے کی ف رسی‬ ‫ہے' اس کے ب وجود ت زگی اور لس نی حسن میں' رائی بھر فر نہیں‬ ‫آی ۔ اس میں عصری لس نی تی سواد اور ذائقہ موجود ہے۔ ب طور ذائقہ‬ ‫‪:‬فقط یہ جم ہ اور ش ر مالحظہ فرم ئیں‬ ‫وروزی در جوا استدع ی غالمی کہ در ب ب نوا غ زی الدین گل‬ ‫‪:‬ہ ی رنگ رنگ شگ تہ اند' تم ش ی آن ب ید کرد۔ این بیت فرمودند کہ‬ ‫م اسیراں را تم ش ی چمن درک ر نیست‬ ‫دا ہ ی سینہ م ک تر از گ زار نیست‬ ‫یہ تخ ی ' ن صرف ایک ع ل ف ضل کی ہے' ب کہ ایک ب مرشد ع مل کی‬ ‫بھی ہے' جو گزرے وقت کے پ کیزہ لمحوں کی ی د دالتی ہے۔ کردار‬ ‫س زی کے عم ی نمونے بھی پیش کرتی ہے۔ بڑے لوگوں کے کرنے‬ ‫اور کہنے کے اطوار وانداز سے' آگ ہ کرتی ہے۔ بہت سے ان سنے'‬ ‫مگر کم ل کے لوگوں سے' م نے کے مواقع مہی کرتی ہے۔‬


‫‪158‬‬

‫نثر میں' حسن و شی تگی کے عن صر اج گر کرنے کے لیے' گ ہے بہ‬ ‫گ ہے ش ر بھی است م ل کیے گیے ہیں' جو حضرت ص ح کے اع ی‬ ‫ذو کی نش ندہی کرتے ہیں۔ ب ت یہ ں تک محدود نہیں' ان کی ج ر‬ ‫ش ری تخ یق ت اس تصنیف ک حصہ ہیں۔ ان میں دو آق کری کی ن ت‬ ‫ہیں' ج کہ ب قی دو غزلیں ہیں۔ ایک ن ت ف رسی میں' ج کہ دوسری‬ ‫عربی میں ہے۔ اسی طرح ایک غزل ف رسی' ج کہ دوسری غزل عربی‬ ‫اور ف رسی میں ہے' ی نی پہال مصرع ف رسی' ج کہ دوسرا مصرع‬ ‫عربی میں ہے۔ چ روں ش ری تخ یق ت کم ل کی ہیں‪ .‬ب طور نمونہ‬ ‫‪:‬صرف تین ش ر مالحظہ ہوں‬ ‫تو پ دش ہی من گدا' تو قب ہ من قب ہ نم‬ ‫ای پیشوای مرسالں مشت‬

‫دیدار تو ا‬

‫‪..............‬‬ ‫من بداں حضرت ع لی کہ غمش سینہ گداخت‬ ‫رس آخر بہ نش طی کہ بداں دلبر م بود‬ ‫گرچہ بدک ر و بیک ر ام بدو صد دل‬ ‫دار امید بش ہی کہ نگ ہش بگدا بود‬ ‫ان اش ر کے حوالہ سے' حضرت ص ح کے ن صرف ذو ش ر ک‬ ‫اندازہ لگ ی ج سکت ہے' ب کہ ل ظوں کے است م ل کے ہنر سے آگہی'‬ ‫ک بھی پت چ ت ہے۔‬ ‫ڈاکٹر عبد ال زیز س حر نے' اس تخ ی کی تدوین کے ذیل میں' اتہت ئی‬


‫‪159‬‬

‫ذمہ داری ک ثبوت دی ہے۔ ان کے ک میں س یقہ اور ن ست پ ئی ج تی‬ ‫ہے۔ مثال‬ ‫نثری رموز ک خی ل نہیں رکھ ج ت تھ ' ی پھر یہ مست مل ہی نہ ‪1-‬‬ ‫تھیں۔ میرے پ س میرے بڑوں کے' سو سے س ڑھے س ت سوس ل‬ ‫کے' اردو' پنج بی اور ف رسی مخطوطے پڑے ہیں اور میں ان پر'‬ ‫بس ط بھر ک بھی کر رہ ہوں۔ ان میں سے ایک بھی نہیں' جس میں‬ ‫رموز ک است م ل کی گی ہو' ڈاکٹر عبد ال زیز س حر نے اس ن ی‬ ‫تخ ی کے' اصل متن میں رموز ک است م ل کرکے' اس کے مط ل ہ کو‬ ‫آس ن بن دی ہے۔ ان کی اس کوشش سے ت ہیی پچیدگیوں سے ایک حد‬ ‫تک سہی' نج ت مل ج تی ہے۔‬ ‫تذکرے ی اس قس تخ یق ت عموم رواں روی میں لکھی گئی ہوتی ‪2-‬‬ ‫ہیں۔ یہ بھی کہ اصل مسودے وقت کی دھول میں کھو گیے ہوتے ہیں۔‬ ‫ک ت بھی' اپنی ع می ک رہ گری میں ہ تھ دکھ گیے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر‬ ‫عبد ال زیز س حر نے مسنگز کو' متن ک حصہ بن نے کی بج ئے'‬ ‫بریکٹوں میں درج کر دی ہے۔‬ ‫‪:‬قوسین میں مسنگز کے عالوہ ‪3-‬‬ ‫ا۔ ت ظیمی ک مے درج کرکے' ان بزرگوں سے' اپنی محبت اور عقیدت و‬ ‫س دت مندی ک اظہ ر کر گیے ہیں۔ بےشک ہللا بہتر اجر دینے واال ہے۔‬ ‫۔ شخص سے مت‬

‫امرجہ ک اندراج کر دی ہے۔‬

‫ج۔ ہللا کری کی ذات گرامی کے س تھ ت ظیمی ک مے بڑھ ئے گیے ہیں۔‬


‫‪160‬‬

‫د۔ جہ ں محض اش رہ ہے' وہ ں مت قہ ک ن لکھ دی گی ہے۔‬ ‫ھ۔ کی یت ک بڑی خوبی سے اندراج کی گی ہے۔ مثال‬ ‫ودو سہ ک مہ در آن ح لت و رقص' یہ ں قوسین میں جاللت درج کر دی‬ ‫گی ہے۔‪.......‬بر زب ن مب رک می راندند و در فہ من نمی آمدند' ام آن‬ ‫ک م ت را فرای د گرفت ۔ ص۔‪ϴϲ‬‬ ‫ل ظوں کو مال کر لکھنے ک رواج تھ ' انہوں نے نثر کو عصری ‪4-‬‬ ‫مزاج اور مست مل انداز میں' پیش کی ہے۔ اس سے پڑھنے میں' آج‬ ‫کے ق ری کے لیے آس نی پیدا ہوئی ہے۔‬ ‫ڈاکٹر عبد ال زیز س حر نے ک ک دائرہ' متن کی ذمہ دارانہ اور ب س یقہ‬ ‫پیش کش تک محدود نہیں رکھ ' ب کہ مقدمہ تحریر کی ہے‪ .‬انہوں نے‬ ‫مقدمے کو ب رہ حصوں میں تقسی کی ہے۔ اس تقسی سے' ت یہی میں‬ ‫اآس نی اور اس پیش کش کی ادبی و فکری قدروقیمت ک اندازہ ہوت‬ ‫ہے۔‬ ‫مقدمے کے پہ ے حصہ میں' مولوی گھ وی ص ح ک ت رف اور اس‬ ‫تخ ی کی ذیل میں' ان کی مصروفی ت کے ب رے میں' م وم ت فراہ‬ ‫کی گئی ہیں۔ ان م وم ت کے حوالہ سے' مولوی گھ وی ص ح کی‬ ‫ع دات و اطوار اور عمومی رویے سے بھی آگہی دستی ہوتی ہے۔‬ ‫کت خ نہ تونسہ شریف اور کت خ نہ موالن محمد ع ی مکھڈ شریف‬ ‫میں موجود سولہ کت کی فہرست دی گئی ہے۔‬ ‫مقدمے کے دوسرے حصہ میں' خیراالذک ر کے آخر میں موجود چ ر‬


‫‪161‬‬

‫منظوم ت' یہ ں الگ سے ب طور خ ص پیش کی گئی ہیں ابتدا میں ان‬ ‫کے پیش کرنے کی توضیح دی گئی ہے۔‬ ‫مقدمے کے چوتھے حصہ میں مولوی گھ وی ص ح کے سقر آخر ک‬ ‫احوال بی ن کی ہے۔ اس ذیل میں ران غال یسین کے ایک خط ک اقتب س‬ ‫دی ہے۔ یہ اقتب س اس ذیل میں بڑی اہمیت ک ح مل ہے۔‬ ‫مقدمے کے پ نچویں حصہ میں' خیراالذک ر ک مختصر تخ یقی ت رف‬ ‫اور اس کے سن تخ ی کے مت گ تگو کی گئی ہے۔‬ ‫مقدمے کے چھٹے حصہ میں' اس تخ ی کی زب ن' روح نی حیثیت اور‬ ‫ت ریخی اہمیت کو واضح کی گی ہے۔‬ ‫مقدمے کے س تویں حصہ میں' اس تضنیف کی ترتی وتہذی میں جن‬ ‫امور کو مدنظر رکھ گی اور جن جن سورسز کو است م ل کی گی ہے'‬ ‫ان ک کم ل اختص ر کے س تھ' بی ن کی گی ہے‬ ‫آٹھواں حصہ' اختص ر کی بڑی ہی ش ن دار مث ل ہے۔ چند سطور میں'‬ ‫مقدمہ کے س تویں حصہ کے نت ئج درج کر دیے گیے ہینگی‬ ‫مقدمے کے نواں حصہ میں'خیراالذک ر کی ترتی وتہذی کے دوران'‬ ‫جن امور کو مدنظر رکھ گی ' رق کیے گیے ہیں۔‬ ‫دسویں حصہ میں جس نسخے کو بنی دی رکھ گی ' اس کی چھے وجوہ‬ ‫درج کی ہیں۔‬ ‫گی رواں حصہ' ایک تحقیقی وض حت سے مت‬

‫ہے' ج کہ ب رہواں‬


‫‪162‬‬

‫حصہ کت‬

‫کی تکمیل اور احب‬

‫کے شکریہ وغیرہ سے مت‬

‫ہے۔‬

‫مزے ب ت یہ کہ مقدمہ قی فی نہیں' جو کہ گی ہے' دلیل اور سند کے‬ ‫س تھ کہ گی ہے۔ متن کو ثق لت سے بچ نے کے لیے' حواشی ک اہتم‬ ‫کی گی ۔ یہ ت داد میں تیس اور چھے سے زی دہ ص ح ت پر مشتمل‬ ‫ہیں۔حواشی سمیت مقدمہ انتیس سے زی دہ ص ح ت لیے ہوئے ہے۔‬ ‫کت ک اصل متن ص‪ ϯϳ:‬ت ص‪ ϵϵ:‬ج ت ہے۔ کت کی ضخ مت ‪ϭϰϭ‬‬ ‫ص ح ت ہے۔ ص‪ ϭϬϬ‬سے ‪ ϭϯϭ‬تک متن کے مت حواشی ہیں۔‬ ‫ص‪ ϭϯϮ:‬ت ص‪ ϭϰϭ:‬پر اش رہ اور کت بی ت ہیں۔‬ ‫خدا لگتی تو یہ ہے' زیر مط ل ہ ک اپنی نوعیت ک ' پروق ر اور پر‬ ‫‪:‬س یقہ ک ہے۔ حواشی کی ہیں' م وم ت ک بہت دری ہیں۔ ان میں‬ ‫‪.‬اشخ ص اور اشخ ص کے مت‬ ‫امرجہ اور ان کی متن سے مت‬ ‫کی گی ہے۔‬ ‫کئی امور کے مت‬

‫م وم ت فراہ کی گئی ہیں ‪1-‬‬ ‫اشخ ص کی نسبت ی ت‬

‫وض حتی نوٹ ہیں۔ ‪3-‬‬

‫ب ض م مالت کی تشریح کی گئی ہے۔ ‪4-‬‬ ‫ب ض کت کی طرف اش رے ہیں۔ ‪5-‬‬ ‫بہت سی ع می و ادبی م وم ت درج کی گئی ہیں۔ ‪6-‬‬ ‫کچھ ک رگزاریوں ک تذکرہءخیر کی گی ہے۔ ‪7-‬‬

‫واضع ‪2-‬‬


‫‪163‬‬

‫ب ض اش ر کے ش را کے ن درج کیے گیے ہیں۔ ‪8-‬‬ ‫ہم رے ہ ں ف رسی تقریب خت سی ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر عبد ال زیز س حر ک‬ ‫کم ل یہ ہے' کہ انہوں نے متن کی ترتی ' مقدمہ اور حوشی کے‬ ‫ذری ے' اردو سے مت لوگوں کے لیے بھی' اس ک مط ہ بڑی حد‬ ‫تک آس ن بن دی ہے۔ اگر ترجمہ بھی س تھ میں پیش کر دی گی ہوت ' تو‬ ‫مزید بہہ ج بہہ ہو ج تی۔ تدوینی ک کرنے والوں کو چ ہیے' کہ وہ ک‬ ‫کرنے سے پہ ے' اس ک وش کو ایک نظر ضرور دیکھ لیں' ب کہ اسے‬ ‫نمونہ بن نے میں ع ر نہ سمجھیں۔ اس سے ان کے ک کو وق ر اور‬ ‫ثروت میسر آئے گی۔ ڈاکٹر عبد ال زیز س حر اس ب س یقہ اور پر مشقت‬ ‫ک ر گزاری کے لیے' ڈھیر س ری داد کے مسح ہیں۔ ہللا انہیں برکت‬ ‫دے اور اس نیک ک ک بہتر اجر عط فرم ئے۔‬


‫‪164‬‬

‫شریف س جد کی غزلوں کے ردیف‬ ‫سیم بی فکر کے ح مل لوگ‘ قرار سے دور رہتے ہیں۔ ہر لمحہ نئی‬ ‫سوچ اور نئے انداز و اطوار‘ ان کی زندگی ک الزمہ و لوازمہ رہت ہے۔‬ ‫زندگی کے بدلتے موس ‘ ان کے سوچ سمندر میں کنکر پتھر تنکے‬ ‫پھینکتے رہتے ہیں۔ یہ م م ہ ٹھہر ٹھہر کر نہیں‘ تس سل کے س تھ‬ ‫ج ری رہت ہے۔ یہ بےقرار اور بےچین سے لوگ ہی‘ زندگی کو کچھ‬ ‫نی اور الگ سے دیتے ہیں۔ اس میں ان کی دانستگی ک عنصر‘ ش مل‬ ‫نہیں ہوت ۔ یہ خودک ر عمل‘ ان کے اندر ج ری رہت ہے۔ یہ لوگ زندگی‬ ‫اور اس کے م مالت کو‘ نئی ت ہی ہی نہیں‘ نئی ہئیتیں بھی عط‬ ‫کرتے ہیں۔ رائج کو نی اس و ‘ نی حسن اور نئی ترتی سے سرفراز‬ ‫کرتے۔ یہ لوگ‘ ج د سمجھ میں آ ج نے کے نہیں ہوتے۔ خدا م و ‘ ک‬ ‫اور کس طور کی کروٹ لے لیں۔‬ ‫شریف س جد ص ح سے میرا کبھی زب نی ی ق می رابطہ نہیں رہ ۔ ان‬ ‫ک مجموعہءکال ۔۔۔۔ چ ند کسے دیکھت رہ ۔۔۔۔۔ پروفیسر لطیف اش ر کے‬ ‫حوالہ سے ہ تھ لگ ہے۔ دیکھ ‘ پھر پڑھ اور لطف لی ۔ کال بت ت ہے‘‬ ‫کہ شریف س جد سیم بی اطوار کے شخص ہیں۔ ب ت کے لیے کئی طرح‬ ‫کے رنگ اور ڈھنگ‘ اختی ر کرتے ہیں۔ بی نیہ‘ طنزیہ‘ مخ طبیہ‘‬ ‫مک لم تی اور خود کالمی ک انداز اختی ر کرکے‘ بڑے س یقہ اور پک‬ ‫‪:‬س منہ کر ب ت کرتے ہیں۔ اس ذیل میں‘ فقط یہ دو ش ر مالحظہ ہوں‬ ‫کہ اپنوں سے بھی بدظن بہت ہیں‬


‫‪165‬‬

‫کہ لنک ہے یہ راون بہت ہیں‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫رخصت اے عظمت جنوں کہ یہ ں‬ ‫عقل م ی ر خیر وشر ٹھہری‬ ‫انہوں نے غزل میں ہئتی تجربے بھی کیے ہیں۔ یہ م م ہ بڑا دل چسپ‬ ‫پر آزاد مک لم تی غزل ہے۔ یہ غزل‬ ‫‬‫ہے۔ مجموعہ کے ص‪:‬‬ ‫ان کی جدت طرازی ک منہ بولت ثبوت ہے۔ اس غزل ک صرف ایک ش ر‬ ‫مالحظہ ہو۔‬ ‫کہ روتی ہوئی شک یں ہمیں اچھی نہیں لگتیں‬ ‫کہ ہے کس قدر مشکل جہ ں میں آئینہ ہون‬ ‫انہوں نے اپنے اس مجوعہ کال میں‘ ردیف کےاست م ل کے مخت ف‬ ‫نوعیت کے تجربے کیے ہیں۔ ان تجربوں نے‘ ان کے کال میں الگ‬ ‫سے وق ر اور وج ہت پیدا کر دی ہے۔ اس کے س تھ غن ئیت اور‬ ‫م نویت میں ہرچند اض فہ ہوا ہے۔ مثال‬ ‫ش ر ک ردیف حرف تشبیہ ہے۔ اس ک پہال مصرعہ بھی حرف تشبیہ‬ ‫ہے۔ گوی ش ر کے دونوں مصرعوں ک اختت حرف تشبیہ پر ہوت ہے۔‬ ‫میری مجبوری وں ہیں پہ ی سی‬ ‫وہ ہے ب اختی ر پہ ے س‬


‫‪166‬‬

‫دونوں مصرعے حروف ج ر پر خت ہوتے ہیں۔ دوسرے مصرعے میں‬ ‫ب طور ردیف است م ل ہوا ہوت ہے۔‬ ‫کسی کی زلف ہے ش نے کسی کے‬ ‫کسی کی ہے ہوا موس کسی ک‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫ست روں میں چمک ہے شوخیوں کی‬ ‫ش‬

‫میں رنگ بکھرا ہے حی ک‬

‫حروف زم نی ب طور ردیف استم ل کرتے ہیں تو ش ر ک پہال مصرعہ‬ ‫بھی اسی قم ش ک ہوت ہے۔ مثال‬ ‫کسی کی ت نے سنی سرگذشت ہی ک تھی‬ ‫و گرنہ ہ تو ہر اک داست ں میں رہتے ہیں‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫ہر ایک س نس ترا ن ہی پک رت ہے‬ ‫ہم رے دل میں بھال غیر ک سم تے ہیں‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫میرے ہمدرد س حل پر کھڑے تھے‬ ‫طالط میں س ینہ ڈوبت تھ‬


‫‪167‬‬

‫ردیف کی ہی کوئی ح لت‘ ش ر کے پہ ے مصرعے میں ہوتی ہے۔ اس‬ ‫سے‘ ب ت حرکت میں محسوس ہوتی ہے۔ جمود ی سکتہ ط ری نہیں‬ ‫ہوت ۔ مثال‬ ‫میں نے جو کچھ کہ غ ط ٹھہرا‬ ‫اس کی ہر ب ت م تبر ٹھہری‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫اس کے لہجے کی کھنک اچھی لگی‬ ‫اپن س نس اکھڑا ہوا اچھ لگ‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫سوز ال ت ک مزہ بھی اچھ‬ ‫سوزن غ کی خ ش بھی اچھی‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫شوخی ں اس کی بہت اچھی لگیں‬ ‫اپن دل ڈرت ہوا اچھ لگ‬ ‫ش ر ک آخری ل ظ ردیف ک ہ صوت اور ہ ق فیہ ہوت ہے۔‬ ‫ہ دی گمرہ ں اسے کہیے‬ ‫غ نصیبوں ک چ رہگر لکھیے‬


‫‪168‬‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫کبھی جو سیر چمن کو ج ن تو رک کے چ ن ٹھٹھک کے رکن‬ ‫کبھی درختوں پہ ن لکھ کر دلوں کی دھژکن تالش کرن‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫مری ب تیں کوئی جھٹال نہ پ ئے‬ ‫تمھ را ن ہی سوگند ہو ج ئے‬ ‫‪............‬‬ ‫کس پہ تکیہ کروں امید وف کس سے کروں‬ ‫پھول کو ڈستی ہوئی ب د بہ ری دیکھوں‬ ‫‪:‬دونوں مصرعوں کے ردیف اور ق فیہ ہ ق فیہ ہوتے ہیں‬ ‫ن سنتے ہی ترا سرخی سی رخ پر پھی ن‬ ‫وہ تری تصویر کو س سے چھپ کر دیکھن‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫کتن دشوار ہے دین میں تم ش بنن‬ ‫کس قدر سہل ہے مصروف تم ش ہون‬


‫‪169‬‬

‫‪:‬ش ر کے دونوں مصرعے ہ ردیف ہوتے ہیں‬ ‫درد کی شدت پی ر کی شدت ظ ہر کرتی ہے‬ ‫دل میں پھ نس چھبوئے رہن اچھ لگت ہے‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫مال ک ہ تھ اور کالشنکوف عج‬

‫منظر ہے‬

‫کی سنگ ہے خیر اور شر ک اچھ لگت ہے‬ ‫‪:‬ہ ق فیہ اور ہ ردیف کی یہ مث ل مالحظ ہو‬ ‫ہر ایک ب ت کی وہ تو دلیل م نگتے ہیں‬ ‫اور ہ ہیں کہ سحرالبی ن میں رہتے ہیں‬ ‫شریف س جد کی غزلوں میں‘ ردیف کےاستم ل کی رنگ رنگی لس نی‬ ‫اعتب ر سے‘ بڑی م نویت کی ح مل ہے۔ اس سے ان کے کال میں‬ ‫چ شنی اور شگ تگی میں اض فہ ہوا ہے۔ ان کے یہ ہئیتی تجربےآتے‬ ‫وقتوں میں اردو غزل گو ش را کے لیے نمونہ بنے رہیں گے۔ گوی‬ ‫انہوں نے‘ صدیوں کے بند دروازوں کو‘ کھول دی ہے۔ اگر اسی طور‬ ‫سے‘ غزل میں تجربے ہوتے رہے‘ تو یہ اردو کی غزلیہ ش عری کے‬ ‫ح میں‘ بہت ہی اچھ ہو گ اور آتے وقتوں میں‘ ش را کو اس کی‬ ‫تنگ دامنی ک ‘ گ ہ نہیں رہے گ ۔‬


‫‪170‬‬

‫محتر جن‬

‫ڈاکٹر ص ح‬

‫ب د التحی ت الطیبہ‬ ‫بہت عمدہ تجزئیہ کی آپ نے‪ ،‬داد ح ضر ہے اور کت‬ ‫انش ہللا مط ل ہ ہو گ‬

‫جیسے ہی م ی‬

‫ش د رہئے اور آب د رہئے‬ ‫خ کس ر‬ ‫اظہر‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9362.0‬‬


‫‪171‬‬

‫ڈاکٹر عبدال زیز س حر کی تدوینی ک وش ب رہ م ھیہء نج ک ت رفی‬ ‫ج ئزہ‬ ‫جہ ں ح الت‘ ضروری ت‘ ح ج ت‘ ترجیح ت‘ موقع اور صورت ح ل‬ ‫انس نی مزاج اور رویے میں تبدی ی التے ہیں وہ ں بدلت وقت اور بدلتے‬ ‫موس بھی‘ ن دانستہ طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس کے ب عث‘ جذب ت‬ ‫میں ارت ش پیدا ہوت رہت ہے۔ ہ چل سی مچ ج تی ہے۔ آدمی ج ن بھی‬ ‫نہیں پ ت کہ وہ کیوں خوش‘ م یوس ی افسردہ ہے۔ موس کی ہ کی سی‬ ‫تبدی ی بھی اس کے موڈ کو مت ثر کرتی ہے۔ یہ کوئی اختی ری عمل نہیں‬ ‫ہوت ۔ کسی م م ے میں م وث ہونے کی صورت میں‘ اس کی شدت میں‬ ‫اور بھی اض فہ ہوت ہے۔ ب ض ن گہ نی جذب تی صورتیں بھی‘ اثر انداز‬ ‫ہوتی ہیں۔ ہزار طرح کے ات ر چڑھ آتے ہیں۔ یہ ات ر چڑھ اپنی ہیت‬ ‫میں‘ دری ئی مدوجذر سے مم ثل ہوتے ہیں۔ مروجہ اصن ف ش ر‘ انس ن‬ ‫کے جذب ت کو اپنے ق ل میں جگہ دیتے آئے ہیں‘ لیکن رت کی تبدی ی‬ ‫ک ‘ ان سے اندازہ نہیں ہو پ ت ۔‬ ‫برصغیر کی زب نوں‘ خصوص پنج بی میں صنف ب رہ م ہ مست مل رہی‬ ‫ہے۔ اردو میں بھی یہ صنف سخن نظر انداز نہیں ہوئی۔ کئی ایک ش را‬ ‫نے‘ اس صنف ش ر میں طبع آزم ئی کی ہے۔ ان میں سے ایک م تبر‬ ‫ن ح جی محمد نج الدین ہے۔ آپ تیرویں صدی کے اردو اور ف رسی‬ ‫کے‘ خوش سخن ش عر اور نثر نگ ر ہیں۔ آپ بنی دی طور پر صوفی‬ ‫ہیں اور تصوف میں‘ الئ عزت مق ومرتبہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے‬


‫‪172‬‬

‫اس صنف ش ر میں طبع آزم ئی کی ہے۔‬ ‫م ہ بہ م ہ شخص کی داخ ی کی ی ت ک بی ن‘ اتن آس ن ک نہیں‘ اس کے‬ ‫لیے نہ یت ب ریک بینی کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسرا اس ک ت‬ ‫محسوس سے ہوت ہے۔ ج تک اس ک اطال ذات پر نہیں کی ج ت‬ ‫درست سے اظہ ر ممکن نہیں ہوت ۔ اس تخ ی ک ہر ش ر ذاتی محسوس‬ ‫سے ت رکھت ہے۔ ح جی محمد نج الدین کی ک وش فکر ۔۔۔۔۔۔ ب رہ‬ ‫م ھیہءنج ۔۔۔۔۔۔۔ میں جہ ں شخصی جذب ت کی عک سی م تی ہے‘ وہ ں‬ ‫عمومی صورت ح ل کو بھی اظہ ر میں الی گی ہے۔ یوں محسوس ہوت‬ ‫ہے جیسے وہ اپنی ق بی کی ی ت ک اظہ ر کررہے ہیں۔‬ ‫اس تخ ی کی س سے بڑی خوبی یہ ہے‘ کہ کہیں مصنوعی پن ک‬ ‫احس س نہیں ہوت ۔ خ رجی اور داخ ی احوال کے اظہ ر کے لیے فوٹو‬ ‫گرافی کی تکنیک اختی ر کی گی ہے‘ جس سے ش عر کی عہدی مروج‬ ‫اردو زب ن پر قدرت ک احس س ہوت ہے۔ انہوں نے‘ اس تخ ی میں‬ ‫ثمثی ی انداز بھی اختی ر کی ہے۔ خو صورت تشبیہ ت ک استم ل کرتے‬ ‫ہیں۔ دل موہ لینے والے مرکب ت بھی تشکیل پ ئے ہیں۔ مثال‬ ‫رین ڈراونی‘ برہ اگن‘ رخ زرد‬ ‫م ہ بہ م ہ جذب ت کی عک سی کے ذیل میں ۔۔۔۔۔۔ ب رہ م ھیہءنج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫‪:‬سے چند ایک مث لیں ب طور ذائقہ مالحظ ہوں‬ ‫س ون‬ ‫س ون م س سو رنگ میں گھر گھر بسی امنگ‬

‫میں پ پن اس م س‬


‫‪173‬‬

‫میں روتی رہی نسنگ‬ ‫م ن ہوا اس م س میں دھرتی اور اک ش‬ ‫نسدن رہے اداس‬

‫نج دین پیو ک رنی‬

‫بھ دروں‬ ‫بھ دروں رین ڈراونی گھر ن ہیں دلدار‬ ‫آدھین پر کر کرو کرت ر‬

‫مجھ برہن‬

‫نجم جوبن بس نہیں دوجی نس اندھی ر‬ ‫پیو ک تین طرح کے م ر‬

‫ایک بچھوا‬

‫آسوج‬ ‫نجم رت آسوج نے جگ میں کی ظہور‬ ‫سی‘ برہن ک دکھ دور‬

‫نہ ج نوں ک ہوے‬

‫جگ میں جیو آپن پی ہن ہے درک ر‬ ‫پھرے وے پردیسی ی ر‬

‫ا تک ا لٹے نہ‬

‫ک تک‬ ‫ک تی میں‘ چھ تی ج ی‘ ک تی لکھی نہ یو‬ ‫طرح میں سمجھ ؤں جیو‬

‫س تھی بن ا کس‬

‫نجم ک تک م س میں س سیتل سنس ر‬ ‫ج وں جیوں دھند کے انگ ر‬

‫برہ اگن سے میں‬

‫منگسر‬


‫‪174‬‬

‫یہ منگسر م س کی رت سرد آئی‬ ‫بوائی‬ ‫یہ دکھ اوپر مرے دکھ اور آی‬ ‫خدای‬

‫لگی پھٹن مرے دل کی‬ ‫کروں ا کی فکر اپن‬

‫پوہ‬ ‫سجن یہ پوہ رت ات سرد ہینگی‬ ‫زرد ہینگی‬

‫تر ے دھن غ ستی رخ‬

‫سبھی سنس ر میں سردی پڑی ہے‬ ‫جری ہے‬

‫یہ آتش ہجر سے برہن‬

‫م گھ‬ ‫سکھی! یہ م ہ مہینہ آ گی ہے‬ ‫ہے‬ ‫کہو‪ :‬ا کی کروں! کس پ س ج ؤں‬ ‫سن ؤں‬

‫اری پردیس پیو کو بھ گی‬ ‫کسے یہ درد دل اپن‬

‫پھ گن‬ ‫عج پھ گن کی یہ رت مست آئی‬ ‫لوگ ئی‬

‫کہ ہوری ر رہے لوگ اور‬

‫کوئی رنگ گھول کر پیت پہ ڈالے‬ ‫کے م رے‬

‫کوئی پچک ری ں بھر بھر‬


‫‪175‬‬

‫چیت‬ ‫سجن کی خو رت یہ چیت آئی‬ ‫جدائی‬

‫نہیں یہ م نس ہے الئ‬

‫عج اس م نس کی رت ہے سورنگی‬ ‫برنگی‬

‫کی س نے لب س رنگ‬

‫زمیں نے سبز رنگ اپن بن ی‬ ‫لبھ ی‬

‫کہ جن نے دیکھ ‘ اسی ک دل‬

‫بیس کھ‬ ‫رت آئی بیس کھ کی‘ س جن نہ مجھ پ س‬ ‫در در پھرے ہراس‬

‫ب ل بن یہ برہنی‬

‫لوگو رے مت م نیو م شوق ں کی ب ت‬ ‫کھوس کر دل ع ش لے ج ت‬

‫دے دے دھیرج‬

‫جیٹھ‬ ‫سکھی یہ جیٹھ رت جگ بیچ آئی‬ ‫پ ئی‬

‫مرے دکھ کی دوا اب گ نہ‬

‫نہ آئے ا ت ک وے ی ر ج نی‬ ‫زندگ نی‬

‫گئی جس عش میں یہ‬

‫م ہ آس ڑ‬ ‫دو جگ میں مشہور ہے س ڈ تمھ را ن‬

‫جو مل ج ں تجھ م نس میں‬


‫‪176‬‬

‫مجھ دکھی کے ش‬ ‫نج پی کے م ن ک نسدن ہے مشت‬ ‫ج ۔ ئے۔ تری‬

‫ن گ ڈسے کو ڈر نہیں جو مل‬

‫ڈاکٹر عبدال ز س حر نے‘ ح جی محمد نج الدین کی اس ی دگ راور ق بل‬ ‫قدر تصنیف پر ک کی ہے۔ ان ک ک ‘ کئی حوالوں سے الئ تحسین‬ ‫ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔ب رہ م ھیہءنج ۔۔۔۔۔۔کے آغ ز میں انتس کے ب د تونسہ‬ ‫مقدسہ کے لیے ایک نظ ‘ کےعنوان سے نظ پیش کی ہے۔ یہ نظ ان‬ ‫کی تونسہ شریف سے دلی عقیدت‘ محبت اور وابستگی ک منہ بولت‬ ‫‪:‬ثبوت ہے۔ ب طور ذائقہ صرف تین الئیں مالحظہ ہوں‬ ‫یہ تونسہ ہے‬ ‫ابد کے ط‬

‫پر رکھے دیے کی لو مس سل بڑھ رہی ہے‬

‫!اور زم نہ دیکھت ج ت ہے حیرانی کے موس میں‬ ‫کت کے مقدمے میں‘ بڑے ک کی م وم ت فراہ کی گئی ہیں۔ مقدمہ‬ ‫دس حصوں میں تقسی کی گی ہے۔‬ ‫پہ ے حصہ میں اس صنف ش ر کے موضوع پر گ تگو کی گئی ہے۔‬ ‫اپنے موقف کی تصدی و وض حت کے لیے شمی احمد اور ڈاکٹر‬ ‫نورالحسن ہ شمی کے حوالے‘ درج کیے گیے ہیں۔‬ ‫دوسرے حصہ میں‘ اردو میں اس صنف ش ر کی روایت‘ حیثیت‬ ‫ونوعیت اور ہو نے والے ک پر روشنی ڈالی گئی ہے۔‬


‫‪177‬‬

‫تیسرے حصہ میں ۔۔۔۔۔۔ ب رہ م ھیہءنج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے مواد کو زیر بحث‬ ‫الی گی ہے۔‬ ‫چوتھ حصہ‘ ح جی محمد نج الدین کی حی ت اور ان کی اردو اور‬ ‫ف رسی میں تصنی ت سے مت ہے اور یہ تیس کے قری ہیں۔‬ ‫پ نچواں حصہ میں‘ اس کت کی تین اش عت ہ اوران کی خوبیوں اور‬ ‫خ میوں کے ب رے میں گ تگو کی گئی ہے۔‬ ‫کے دو م خذ ۔۔۔۔۔ ‪٥‬‬ ‫چھٹ حصہ موجودہ اش عت‬ ‫۔۔۔۔۔۔ کی نوعیت و ت رف سے مت ہے۔‬

‫ھ اور‬

‫س تویں حصہ ۔۔۔۔۔۔ ب رہ م ھیہءنج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کے متنی ت رف سے مت‬ ‫ہے۔‬ ‫آٹھواں حصہ میں‘ امال کی صورت ح ل کے س تھ س تھ‘ دیگر لس نی‬ ‫امور پر بھی گ تگو کی گئی ہے۔ اس ذیل میں‘ م نوی ت کے حس س‬ ‫پہ ووں کو نظرانداز نہیں کی گی ۔‬ ‫نویں حصہ میں‘ موجودہ پیش کش میں مدنظر رکھے گیے ب رہ امور‬ ‫درج کیے گیے ہیں۔‬ ‫دسویں ی نی اختت می حصہ میں‘ ۔۔۔۔۔۔ ب رہ م ھیہءنج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پر مق می‬ ‫غیر مق می زب نوں کے مرتبہ اثرات ک ج ئزہ پیش کی گی ہے۔‬ ‫درج ب ال دس حصوں کے ت رف ک مقصد یہ ہے‘ کہ ق ری ڈاکٹر‬ ‫عبدال زیز س حر کی س یقہ ش ری ک اندازہ لگ سکے۔ کوئی بھی‬


‫‪178‬‬

‫ب س یقہ پیش کش‘ جہ ں پیش ک ر کے ہنر اور س یقہ ش ری کو واضح‬ ‫کرتی ہے‘ وہ ں تصیف کی حیثیت اور قدروقیمت ک بھی ت ین کرتی ہے۔‬ ‫مقدمہ کے مط ل ہ کے ب د‘ یہ حقیقت واضح ہو ج تی ہے‘ کہ ڈاکٹر‬ ‫عبدال زیز س حر کھرے‘ ب س یقہ اور محنتی متن ش س ہیں۔ عج ت اور‬ ‫ٹوٹل پورا کرنے کی ع ت بد سے‘ کوسوں دور ہیں۔‬ ‫سے شروع ہوت ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ ب رہ م ھیہءنج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کل‬ ‫متن ص حہ‬ ‫‪ ٥‬اش ر پر مشتمل ہے۔۔ حواشی ب طور فٹ نوٹ دیے گیے ہیں۔‬ ‫حواشی‘ اس ش ری تصیف کے حوالہ سے‘ بڑے ہی ک کے ہیں۔ ان‬ ‫کے حوالہ سے ڈاکٹر عبدال زیز س حر کی محنت اور وس ت نظری ک‬ ‫‪:‬ب خوبی اندازہ لگ ی ج سکت ہے۔ حواشی میں‬ ‫غیر مست مل‘ قدی ‘ غیرواضع‘ متروک اور کسی دوسری زب ن کے‬ ‫ال ظ کے م ہی درج کیے گیے ہیں۔‬ ‫ف رسی زب ن میں کہے گیے اش ر ک ترجمہ دی گی ہے۔‬ ‫ش عر کسی دوسرے ش عر ک مصرع لگ ت ہے‘ تو اس کی نش ن دہی‬ ‫کر دی گئی ہے۔ ش عرک ن وغیرہ درج کر دی گی ہے۔‬ ‫تق ب ی صورتیں بھی پڑھنے کو م تی ہیں۔‬ ‫فنی کجیوں کی نش ن دہی واضح ال ظ میں کی گئی ہے۔‬ ‫تشریحی صورتیں م تی ہیں۔‬ ‫جم ہ ابہ کی وض حت کردی گئی ہے۔‬ ‫ل ظوں کی ہیئتی صورتوں کو واضح کی ۔گی ہے۔‬


‫‪179‬‬

‫متنی‘ لس نی‘ فنی‘ سم جی‘ تہواری‘ رسو وغیرہ سے مت‬ ‫وض حتیں درج کر دی گئی ہیں۔‬

‫امور کی‘‬

‫کت میں‘ اش ریہ اور کت بی ت ک اہتم کی گی ہے۔ آخر میں‘ پہ ی تین‬ ‫اش عتوں کے‘ سرور کے عکس ش مل کیے گیے ہیں۔ ان تینوں میں‬ ‫ایک دیون گری خط میں ہے۔ جس پہ و سے بھی‘ اس ک کو دیکھتے‬ ‫ہیں‘ بہترین تدوینی س یقہ محسوس کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدال زیز س حر‬ ‫اس خو صورت اور ک می پیش کش کے لیے مب رک ب د کے مستح‬ ‫ٹھہرتے ہیں۔‬

‫ڈاکٹر منیر کے افس نے اور مغربی طرز حی ت‬

‫‪https://imgur.com/account/favorites/UjAzS‬‬


‫‪180‬‬

‫نم ز ک سو سے زی دہ س ل ک پران اردو ترجمہ‬ ‫مخدومی و مرشدی حضرت سید غال حضور ش ہ الم روف بہ ب ب جی‬ ‫شکرہللا کے ذخیرہءکت سے' ایک کت ‪.......‬نم ز مترج منظو ۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫بزب ن پنج بی' دستی ہوئی ہے۔ اس کے مولف مولوی محمد فیروز‬ ‫الدین ڈسکوی' منشی ف ضل' مدرس ای بی ہ ئی سکول' سی لکوٹ ہیں۔‬ ‫انہیں اس کت کی ت لیف ک اعزاز' رائے ص ح منشی گال سنگھ اینڈ‬ ‫سنز' ت جران کت ' الہور نے دی ۔ اس کت ک سن اش عت ‪ 1907‬ہے‬ ‫اور یہ ہی س ل' مخدومی و مرشدی حضرت ب ب جی شکرہللا ک سن‬ ‫پیدائش ہے۔ یہ کت بالشبہ' حضرت سید ع ی احمد ش ہ کے کت خ نے‬ ‫کی' ب قی ت میں سے ہے۔ اس ک واضح ثبوت یہ ہے کہ کت کے‬ ‫ص حہ نمبر ‪ 17‬پر' ان کے ہ تھ ک لکھ ہوا ایک ش ر موجود ہے۔‬ ‫ہ زی دہ تر ش عری ی پھر مخصوص اصن ف نثر کو' اد ک ن دیتے‬ ‫ہیں اور انہیں ہی' زب ن کی ترقی ک ذری ہ خی ل کرتے ہیں۔ اس قس کی‬ ‫ہر سوچ' حقیقت سے کوئی عالقہ نہیں۔ ہر اظہ ر' اس ک ت کسی بھی‬ ‫ش بہ سے مت ہو' زب ن کی نشوونم اور اس کی ابالغی قوتوں کو'‬ ‫ترقی دینے ک ذری ہ اور سب بنت ہے۔ مروجہ ادبی اصن ف ش ر ونثر‬ ‫کو اٹھ کر دیکھ لیجیے' ش ید ہی' زندگی ک کوئی ش بہ نظرانداز ہوا ہو‬ ‫گ ۔ یہ ں تک کہ س ئنس اور حکمت کے امور بھی' نظر آئیں گے۔‬ ‫ری ضی اور شم ی ت جیسے ش بے' اس کی دسترس سے ب ہر نہیں‬ ‫رہے۔ ج ایسی صورت ہے' تو زب ن کی ابالغی اور لس نی ترقی کے‬


‫‪181‬‬

‫حوالہ سے' دیگر ع و و فنون کی ک وش ہ کو' کیوں صرف نظر کی‬ ‫ج ئے۔‬ ‫ع و اسالمی سے مت ' اردو میں بہت کچھ لکھ گی ہے۔ دیگر‬ ‫زب نوں سے بھی' اسالمی ع و کی کت کے تراج ہوئے ہیں۔ اس‬ ‫حوالہ سے' اردو میں بہت سی مخت ف ش بوں سے مت ' اصطالح ت‬ ‫داخل ہو کر رواج ع بنی ہیں۔ ان گنت ت میح ت' اردو ش رواد ک گہن‬ ‫بنی ہیں۔ ب ت یہ ں تک ہی محدود نہیں رہی' بہت سے عربی ال ظ' اردو‬ ‫کے ذخیرہءال ظ میں داخل ہو کر' اردو کی ابالغی ثروت ک ذری ہ بنے‬ ‫ہیں۔ بچوں کے لیے' الت داد اسالمی لڑیچر ک شت ہوا ہے۔ غیر مس‬ ‫بھی' اس ذیل میں نظرانداز نہیں کیے ج سکتے۔ ان ک مذہبی اث ثہ بھی'‬ ‫اس زب ن ک زیور بن ہے۔ گوی ان مس عی کو' لس نی حوالہ سے‬ ‫نظرانداز نہیں کی ج ن چ ہیے۔ م ہرین لس نی ت کو' صرف اور صرف‬ ‫اردو اصن ف ش رونثر کو ہی' لس نی تی مط ل ہ میں نہیں رکھن چ ہیے۔‬ ‫س ش بوں سے مت کت ک ' اس ذیل میں' پیش نظر رہن از بس‬ ‫ضروری ہے۔‬ ‫زیر تجزیہ کت میں نم ز کے عالوہ' منظو پنج بی میں' مخت ف مس ئل‬ ‫بھی بی ن کیے گیے ہیں۔ نم ز سے م ق ت' پہ ے عربی میں' ب د ازاں‬ ‫اردو میں ترجمہ کی گی ہے' اس کے ب د پنج بی میں منظو ترجمہ کی‬ ‫گی ہے۔ اس وقت میرے پیش نظر' کئی تراج ہیں' خدا لگتی ب ت تو یہ‬ ‫ہی ہے' س دہ اور ع فہ ہونے کے س تھ س تھ' ترچمہ اور مح ورہ‬


‫‪182‬‬

‫کے اعتب ر سے' یہ ترجمہ اپنی ہی نوعیت ک ہے۔ بریکٹوں میں کچھ‬ ‫نہیں لکھ گی ۔ اس لح ظ سے بھی' یہ ترجمہ خو تر ہے۔ لس نی اعتب ر‬ ‫سے' اس کی فص حت اور بالغت ک اقرار نہ کرن ' سراسر زی دتی کے‬ ‫مترادف ہو گ ۔ میں اس ذیل میں مزید کچھ عرض کرنے کی بج ئے'‬ ‫ترجمہ پیش کرنے کی س دت ح صل کرت ہوں۔‬ ‫ہللا بہت بڑا ہے‬ ‫اے ہللا تیری ذات پ ک ہے خوبیوں والی اور تیرا ن مب رک ہے‬ ‫اور تیری ش ن اونچی ہے اور تیرے سوا کوئی م بود نہیں‬ ‫میں مردود شیط ن سے خدا کی پن ہ لیت ہوں‬ ‫خدائے رحمن و رحی کے ن سےشروع‬ ‫س خوبی ں ہللا کو جو س رے جہ ن ک ر ہے‬ ‫بڑا مہرب ن نہ یت رح واال‬ ‫انص ف کے دن ک م لک‬


‫‪183‬‬

‫ہ تیری عب دت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد م نگتے ہیں‬ ‫ہ کو سیدھی راہ دکھ‬ ‫ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے اپن فضل کی‬ ‫ان کی نہیں جن پر غض ہوا‬ ‫اور نہ گمراہوں کی‬ ‫ایس ہی ہو‬ ‫تو کہہ وہ ہللا ایک ہے‬ ‫ہللا بےنی ز ہے‬ ‫نہ کسی کو جن نہ کسی سے جن گی‬ ‫اور نہ کوئی اس ک ہمسر ہے‬ ‫ہللا س سے بڑا ہے‬ ‫میرا عظمت واال ر قدوس ہے‬ ‫ہے جو اس کی خوبی بی ن کرے‪......‬‬ ‫اے ہللا تجھے ہی س خوبی ں ہیں‬


‫‪184‬‬

‫میرا ع لی ش ن ر قدوس ہے‬ ‫س زب نی بدنی اور م لی عب دتیں ہللا ہی کے لیے ہیں‬ ‫اے ہللا کے نبی تجھپہ سال اور خدا کی رحمت اور اسکی برک ت ن زل‬ ‫ہوں‬ ‫ہ پراور خدا کے نیک بخت بندوں پر سال‬ ‫‪ .....‬میں اقرار کرت ہوں کہ ہللا کے سوا‬ ‫اور میں اقرار کرت ہوں کہ محمد اسک بندہ اور رسول ہے‬ ‫اے ہللا حضرت محمد اور حضرت محمد کی آل پر رحمت ن زل فرم‬ ‫جیس کہ تو نے حضرت ابراہی اور ان کی آل پر رحمت ن زل کی‬ ‫یقین تو خوبیوں واال بزرگی واال ہے‬ ‫اے ہللا مجھے نم زوں ک ق ئ کرنے واال بن دے‬ ‫اوالد کو بھی اور خدای میری دع منظور فرم ‪.....‬‬ ‫اے ہللا اور میرے م ں ب پ اور س مومنوں کو بخشدے ج قی مت ق ئ‬ ‫ہو‬ ‫اے ہللا ہم را دنی میں بھی بھال کر اورآخرت میں بھی بھال اور‬


‫‪185‬‬

‫ہ کو عذا دوزخ سے نج ت دے‬ ‫ت پر سال اور ہللا کی رحمت‬ ‫میں ب طور تبرک کت کے مت ص ح ت کی عکسی نقول بھی پیش‬ ‫کر رہ ہوں۔ دو جگہ نقطے لگ ئے گیے ہیں' وہ ں سے ص حہ پھٹ ہوا‬ ‫ہے۔ میں نے اپنی طرف سے' ایک ل ظ ک ی زی دہ نہیں کی ۔ ٹ ئپ بھی‬ ‫اسی خط کے مط ب کی ہے۔‬


Turn static files into dynamic content formats.

Create a flipbook
Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.