تنقیدی و لس نی تی اظہ ریے مقصود حسنی ابوزر برقی کت خ نہ مئی فہرست سورتہ ف تحہ ک اردو ترجمہ - عربی کی چینی انداز میں کی ی گرافی - ح فظ شیرازی کی ش عری اور اردو زب ن - اردو ہ ئیکو ایک مختصر ج ئزہ -
کا ای نی اور بےم نی نہیں ہوت -
ترجمہ سورتہ ف تحہ بروز :اپریل 09:43:09 ,2016 ,25صبح ترجمہ سورتہ ف تحہ مترج ش ہ فضل الرحمن گنج مرادآب دی ترجمہ
ھ
ہندی اردو سے کوئی الگ سے زب ن نہیں۔ زب نوں ک دیگر
سم جی حوالوں کے س تھ س تھ‘ مذہبی ک چر بھی ہوت ۔ مذہبی ک چر سے مت ال ظ‘ روزمرہ زندگی ک حصہ بن ج تے ہیں۔ مثا اس ک میں کوئی بچت ب م نی ن ع بھی ہوا جی ہ ں ه کے فضل سے دس ہزار بچت نک ی ہے۔ رستے میں س ٹھیک رہ جی ه ک شکر ہے خیریت سے لوٹ آی ہوں۔ ح دثے میں کوئی زی دہ نقص ن تو نہیں ہوا ه کی مہرب نی ہوئی ورنہ ج ن ج سکتی تھی۔ ولیمے میں کھ ن ک تو نہیں پڑا م لک ک احس ن تھ کہ س کچھ وافر رہ ۔ آؤ کھ ن کھ لو۔ بس ه کریں میں کھ کر آی ہوں۔
قرآن ایم ن کی کہن کہ کون سچ اور کون جھوٹ ہے۔ ه نے چ ہ تو کل س ری رق ادا کر دوں گ ۔ ه ح فظ ا کل ماق ت ہو گی۔ م ش ءه آج تو حوروں کو بھی م ت دے رہی ہو۔ قس لے لو جو میں نے کسی چیز کو ہ تھ بھی لگ ی ہو آج کل ک ن دفن ک خرچہ بھی کوئی ک نہیں رہ ۔ یہ س بھگوان کی کرپ ہے ورنہ میں اس ق بل ک ہوں۔ یہ س ایشور کی کرپ تھی جو نپٹ آی ہوں۔ پرمیشور بڑا دی لو ہے جو آج اکھوں میں کھیل رہ ہوں۔ ایسے سیکڑوں مذہبی ل ظ ی مرکب ت روزمرہ کی عمومی و خصوصی‘ شخصی و اجتم عی‘ رسمی و غیر رسمی‘ ذاتی ی پوشیدہ زندگی کی گ ت گو ک حصہ بن گیے ہوتے ہیں۔ کوشش سے بھی‘ انہیں اس سم ج کی بول چ ل سے‘ الگ نہیں کی ج سکت ۔ ہندو مذہ سے مت ال ظ زب ن میں داخل ہو ج تے ہیں‘ تو اس میں ایسی کوئی حیرت والی ب ت نہیں۔ ان ال ظ کے داخل ہونے سے‘ یہ کوئی نئی زب ن نہیں ہو گئی۔ عیس ئی مذہ کے ال ظ داخل ہو ج نے سے‘ زب ن عیس ئی نہیں ہو ج تی۔ زب ن وہ
ہی رہتی ہے‘ ہ ں وہ اس ک چر کے مذہ کی‘ نم ئندگی کر رہی ہوتی ہے۔ گ ف سے ش ئع ہونے والے‘ رس لہ م ہ ن مہ واسطہ ک ص حہ نمبر انٹر نیٹ سے میسر آی ہے۔ اس ص حے پر‘ ش ہ فضل الرحمن گنج مرادآب دی ک سورتہ ف تحہ ک ترجمہ ش ئع ہوا ہے۔ یہ ھ سے ت رکھت ہے۔ سورتہ ف تحہ کے ب د ترجمہ سورتہ بقر کی کچھ آی ت ک ترجمہ‘ اسی اس و و طور کے س تھ کی گی ہے اور اس ذیل میں کوئی نوٹ نہیں دی گی ۔ اسے بھی سورتہ ف تحہ کے ترجمے کے س تھ ما دی گی ہے۔ عین ممکن ہے‘ پورے کا ک ترجمہ اس طور سے کی گی ہو۔ دیگر ترج سے یہ قط ی الگ تر اور ہٹ کر ہے۔ ایس ترجمہ‘ اس سے پہ ے دیکھنے اور پڑھنے سننے میں نہیں آی ۔ ش ہ فضل الرحمن گنج مرادآب دی کی اس ک وش کی داد نہ دین ‘ بدی نتی ہو گی۔ زب ن وطور کی م نوسیت بڑی م نویت کی ح مل ہوتی۔ ہندو دھر سے مت لوگ‘ اس کو پڑھتے ہوئے‘ غیریت محسوس نہیں کرتے۔ اس سے رغبت ک دروازہ کھ ت ہے اور اجنبت کی دیوار گرتی ہے۔ ش ہ فضل الرحمن گنج مرادآب دی کے مزید ترجمے کی تاش میں؛ چینی‘ ج پ نی اور انگریزی انداز عربی کی وگرافی دیکھنے
کی س دت ح صل ہو گئی۔ یہ طور‘ غیرمس لوگوں کی توجہ ح صل کرنے ک ‘ انتہ ئی ک می ذری ہ ہے۔ اچھ ئی پھیانے کے لیے‘ عر مس م نوں نے مق میوں ک لب س‘ انداز‘ زب ن وغیرہ اختی ر کی اور ب ت ریک رڈ میں موجود ہے۔ ش ہ فضل الرحمن گنج مرادآب دی نے‘ ہندو ک چر سے مت ‘ ترجمے کی زب ن اختی ر کی‘ یہ امر ائ تحسین ہے۔ بےشک ه بہتر اجر سے نوازنے واا ہے۔ ش ہ فضل الرحمن گنج مرادآب دی کے اس ترجمے کو اس کے طور و اس و اور زب ن کے حوالہ سے‘ اولیت تو ح صل ہے ہی‘ لیکن انہوں نے م روف سے ہٹ کر‘ ل ظوں کو م نویت عط کی ہے۔ ه :اس ذات ہے۔ اس کے مترداف کوئی ل ظ ہے ہی نہیں۔ مرحو نے‘ اس ک ترجمہ من موہن کی ہے۔ یہ ترجمہ محسوس سے ت رکھت ہے۔ یہ ل ظ صوری لح ظ سے باشبہ دل کو موہ لیت ہے۔ حمد :حمد کے م نی ت ریف اور ثن لیے ج تے ہیں‘ لیکن حضرت ش ہ ص ح نے‘ اس ل ظ کو ال کے لیے‘ س ج کہ حمد بم نی
راحت‘ ی نی خوشی کے م نے دیے ہیں۔ گوی وہ سراپ خوشی ہے۔ اس ک ن لینے سے‘ رگ وپے میں خوشی کی لہر دوڑ ج تی ہے کیوں کہ وہ اول و آخر راحت ہے۔ ی یہ کہ خوشی جو اچھ ئی سے وابستہ ہوتی ہے ی یہ کہ اچھ ئی خوشی میسر کرتی ہے۔ دوسرے ل ظوں میں یوں کہہ لیں اچھ ئی خوشی ہے ی نی اچھ ئی ب طنی راحت فراہ کرتی ہے۔ اس حوالہ سے‘ س راحت ی نی راحتیں اسی کی ذات کے لیے ہیں۔ عامتی حوالہ سے م ہی اچھ ئی بہتری وغیرہ کی طرف پھرتے ہیں۔ ر :پ لن ہ ر ال :بڑی ع مین :سنس ر اردو میں پ لن ‘ ج کہ پنج بی میں پ لن مصدر ہے۔ پ لنے واا کے‘ مترداف پ لن ہ ر غیرم نوس نہیں۔ حضرت ش ہ ص ح نے‘ ر کے م نی پ لن ہ ر لیے ہیں۔ ع مین بذات خود جمع ہے۔ ال سے یہ ب ت واضح ہوتی ہے کہ وہ ع ل جو س منے اورع میں وہ ہی نہیں وہ بھی جو س منے اورع میں نہیں۔ ج ہی س رے سنس ر م نی دیے ہیں۔ گوی س رے سنس ر ک پ لن ہ ر ی نی ع لموں ک با کسی تخصیص پ لنے واا۔ صوری اور م نوی اعتب ر سے‘ خو صورت ترجمہ ہے۔ ہندو ک چر کے لیے بھی م نوس ترین ہے۔
الرحمن :نی ہ موہ الرحمن :نی ہ موہ ترجمے میں‘ جہ ں مائمیت اور ریشمیت سی محسوس ہوتی ہے‘ وہ ں صوتی حوالہ سے‘ ک نوں میں رس گھولت محسوس ہوت ہے۔ اس میں پی ر محبت اور ش قت و عط ک عنصر غ بہ رکھت ہے۔ اسے اس کے مت قہ متن میں‘ ماحظہ فرم ئیں‘ میرے کہے کی سچ ئی واضح ہو ج ئے گی۔ تک یف دہ ح لت میں تش ی‘ باشبہ م مات حی ت میں‘ بڑی م نویت کی ح مل ہوتی ہے۔ نی ہ موہ کی اصل ت ی یہ ہی ٹھہرتی ہے۔ اس ک احس ن اور فضل بھی‘ نی ہ ب انص ف اور حس ح جت ہوت ہے۔ الرحی :مہر واا الرحی :مہر واا ی نی وہ جو کسی کی تکی ف نہ دیکھ سکت ہو۔ کسی کو دکھ تک یف میں دیکھ کر‘ محبت‘ احس ن اور رح میں آ ج ئے اور اس کے مداوے ک ان ہی لمحوں میں چ رہ کرئے۔ من موہن‘ کسی کو تکیف میں مبتا نہیں کرت ۔ ت ریخ اٹھ کر دیکھ لیں‘ نمرود‘ فرعون یزید وغیرہ‘ اپنی ہی کرنی کی پکڑ میں آئے ہیں۔ یہ ں ہو کہ روز آخرت‘ ہر کوئی اپنے کیے کی گرفت
میں آئے گ ۔ م لک :بس میں م لک کو بس میں ی نی اختی ر میں‘ کے م نوں میں لی گی ہے۔ وہ جس کے اختی ر میں ہو اور کسی اور کے اختی ر میں نہ ہو‘ م کیت کے زمرے میں آت ہے۔ اس میں کسی اور ک بس نہ چ ت ہو ی یوں کہہ لیں کہ اس کے سوا‘ وہ ں ہر کوئی مجبور و بےبس ہو۔ ہر کرن اسی کی مرضی پر مبنی ہو۔ وہ جیسے چ ہے اور جس طرح چ ہے کرئے ی کرنے پر ق در ہو۔ یہ الگ ب ت ہے‘ کہ وہ ح اور ح کے سوا نہیں کرت ۔ اس ک ہر کی ‘ عدل و انص ف پر استوار ہوت ہے۔ یو :دن یو :دن‘ دن اردو میں ع است م ل ک ل ظ ہے۔ الدین :چکوتی چک وتی یہ انص ف اور فیصے ک دن ہو گ ۔ زندگی کے دنوں میں‘ دنی کے ب دش ہ فیص ے کرتے آئے ہیں لیکن اس دن‘ وہ بےبس ہوں گے۔
انہیں خود اس عمل سے گزرن ہو گ ۔ گوی یہ دن ب دش ہوں کے ب دش ہ ک ہو گ ۔ اس دن سوائے اس ب دش ہ کے کوئی ب دش ہ نہیں ہو گ ۔ صرف اور صرف اسی ک حک چ ے گ ۔ م ہو یہ ہی ٹھہرے گ ۔ یو الدین :ب دش ہوں کے ب دش ہ ک دن ن بد :پوجتے‘ عب دت کے لیے ہندو ل ظ پوج است م ل کرتے ہیں۔ جس کی پوج کی ج ئے اسے پوجیور کہ ج ت ہے۔ و :اور و :اور‘ اردو میں واؤ اور کے لیے است م ل ہوت ہے۔ اردو میں واؤ مرکب ت میں اور کے م نوں میں مست مل ہے۔ مثا ش وروز‘ ش دی و غ ‘ سی ہ و س ید وغیرہ۔ نست ین :آسرا ل ظ نست ین اردو میں مست مل نہیں۔ آسرا سہ را‘ گرتے کو تھ من ‘ گرے کو اٹھ ن ۔ چھت میسر آن ۔ م ش کی صورت‘ کسی کے حوالہ سے پیدا ہون ۔ یہ ل ظ‘ صوری و م نوی اعتب ر سے‘ فصیح و ب یغ ہے۔ اسی طرح انس نی زندگی کے‘ ہر گوشے سے‘ کسی ن کسی حوالہ سے‘ منس ک ہے۔ اردو
والوں کے لیے‘ یہ ل ظ قط ی غیرم نوس نہیں۔ صراط :راہ ل ظ صراط اردو میں مست مل نہیں۔ اہل زب ن نے‘ اس ک ترجمہ راہ‘ رستہ کی ہے۔ حضرت ش ہ ص ح نے بھی یہ ہی ترجمہ کی ہے‘ جو غیرم نوس نہیں۔ مستقی :سیدھی ل ظ مستقی اردو والوں کے لیے اجنبی نہیں اور یہ ت ہیمی اعتب ر سے سیدھ ی سیدھی رواج رکھت ہے۔ جیسے خط مستقی ان مت :دی ان مت :دی ‘ ن مت اردو میں مست مل ہے۔ دی کے لغوی م نی محبت‘ عن یت‘ ش قت‘ رح ‘ مہرب نی‘ ترس‘ بخشش وغیرہ ہیں۔ متن کے لح ظ سے م ہو بخشش کے قری تر ہیں اس لیے دان دینے واا۔ ت ہ دان کی نوعیت دیگر دی لو حضرات سے الگ تر ہے۔ وہ ایس دان دینے واا ہے‘ کہ اس س دان دینے واا کوئی نہیں۔ ن ہی اوروں کے پ س اس س دان ہے۔ اس دان میں‘ اس کی محبت‘ عن یت‘ ش قت‘ رح ‘ مہرب نی‘ ترس ش مل ہوتے ہیں۔
گوی اس کی دی اوروں سے الگ ترین ہے۔ المغضو :جھنجاہٹ جھنجاہٹ‘ غصہ اور خ گی کے لیے مست مل ہے۔ جھنجل سخت آندھی کے لیے ہے۔ ہٹ ک احقہ ق ئ ہونے کے لیے ہے‘ ی نی سخت آندھی ک آن ۔ دری ک حد سے بڑے مدوجر۔ یہ اپنی حقیقت میں غض ہی کی صورت ہے۔ یہ ں غصہ اور خ گی کی گرفت میں آئے مراد ہے۔ خ گی خ سے اور خ غصہ اور ن راضگی ہی تو ہے۔ الضآلین :کوراہوں کی الضآلین :کوراہوں کی‘ ی نی جو اصل راہ سے ہٹ گی ہو۔ کوراہ غیر م نوس نہیں۔ کو‘ من ی م ہو ک ح مل ہے۔ مثا کو -ت ہ‘ کو- ت ہی‘ کو۔ ہڈ‘ کو۔ سنگ‘ کو۔ ریت وغیرہ۔ یہ س بقہ اپنی اصل میں‘ مکمل ی جزوی غ طی‘ خرابی‘ کجی‘ کمی‘ خ می‘ بدنم ئی‘ بدن می‘ بدک ری وغیرہ کے لیے مخصوص ہے۔ یہ ں بھی ان ہی م نوں میں است م ل ہوا ہے۔ کو۔ راہ ی نی راہ سے ہٹ ہوا۔ ................................. ترجمہ سورتہ
پہ ے ہی پہل ن لیت ہوں من موہن ک جوہ بڑی نی ہ موہ واا ہے س راحت من موہن کو ہے جو س رے سنس ر ک پ لن ہ ر بڑی نی ہ موہ ک مہر واا ہے جس کے بس میں چکوتی ک دن ہے۔ ہ تیرا ہی آسرا چ ہتے ہیں اور تجہی کو پوجتے ہیں چا ہ کو سیدھی راہ ڈگ مگ نہیں۔ ان لوگوں کی جن پر تیری دی ہوگی۔ نہ ان کی جن پر تیری جھنجاہٹ ہوئی نہ راہ کوراہوں کی۔ اور نہ راہ کھوئے ہووں کی۔ اور راہ بھٹکے ہووں کی۔ اس مہ بید کے پرمیشور ہونے میں کوئی وگدھ نہیں۔ وہ بھگتوں کو بھ ی راہ پر ات ہے۔ جو اندیکھے دھر اتے ہیں اور پوج کو سنوارتے ہیں اور ہم رے دیئے ک دان بھی کرتے ہیں۔ اور جو جو تیرے بل اترا اس کو اور جو تجھ سے پہ ے ات را گی اس کو جی سے م نتے ہیں اورپچھ ے جگ کو بھی جی میں ٹھیک ج نتے ہیں۔ یہی لوگ اپنے پ لن ہ ر کی راہ پر ہیں۔ اور یہی اپنی امنگ پ ون ہ ر ہیں۔ اس میں کوئی وگدھ نہیں کہ م یچھوں کو تو کیس ہی ڈراوے ی نہ ڈراوے وہ دھر نہیں اویں گے۔ من موہن نے ان کے جی اور ک نوں پر ٹھپ لگ دی ہے اور ان کے نینوں میں موتی پھرا ہوا ہے اور کے لیے بھ ری م ر ہے۔ ش ہ فضل الرحمن گنج مرادآب ی
فرہنگ سورتہ ف تحہ ال س حمد راحت ه من موہن ر پ لن ہ ر ال س رے ع م ین سنس ر ال بڑی رحمن نی ہ موہ
الرحی مہر واا م لک بس میں یو دن الدین چکوتی ای ک تجہی کو ن بد پوجتے و اور ای ک تیرا نست ین
آسرا اھدن ہ کو الصراط راہ المستقی سیدھی ان مت دی ع یھ جن پر غیر جن پر المغضو جھنجاہٹ ع یھ ان کی
و اور الضآلین کوراہوں کی .................................
پہ ے ہی پہل ن لیت ہوں من موہن ک جوہ بڑی نی ہ موہ واا ہے الحمد ه س راحت من موہن کو ہے ر ال مین جو س رے سنس ر ک پ لن ہ ر الرحمن الرحی بڑی نی ہ موہ ک مہر واا ہے م ک یو الدین جس کے بس میں چکوتی ک دن ہے۔
ای ک ن بد و ای ک نست ین ہ تیرا ہی آسرا چ ہتے ہیں اور تجہی کو پوجتے ہیں ل ظی و ترتیبی تجہی کو پوجتے ہیں اور ہ تیرا ہی آسرا چ ہتے ہیں اھدن الصراط المستقی ان مت ع یھ چا ہ کو سیدھی راہ ڈگ مگ نہیں۔ ان لوگوں کی جن پر تیری دی ہوگی۔ چا ہ کو سیدھی راہ ڈگ مگ نہیں ان لوگوں کی جن پر تیری دی ہوگی۔ چا ہ کو سیدھی راہ‘ ڈگ مگ نہیں ان لوگوں کی جن پر تیری دی ہوگی۔ وض حتی ڈگ مگ نہیں غیرالمغضو ع یھ والضآلین نہ ان کی جن پر تیری جھنجاہٹ ہوئی نہ راہ کوراہوں کی۔ آمین ................ یہ سورتہ ف تحہ ک ترجمہ نہیں‘ سورتہ البقر کی کچھ آی ت ک
ترجمہ ہے۔ اس مہ بید کے پرمیشور ہونے میں کوئی وگدھ نہیں۔ وہ بھگتوں کو بھ ی راہ پر ات ہے۔ جو اندیکھے دھر اتے ہیں اور پوج کو سنوارتے ہیں اور ہم رے دیئے ک دان بھی کرتے ہیں۔ اور جو جو تیرے بل اترا اس کو اور جو تجھ سے پہ ے ات را گی اس کو جی سے م نتے ہیں اورپچھ ے جگ کو بھی جی میں ٹھیک ج نتے ہیں۔ یہی لوگ اپنے پ لن ہ ر کی راہ پر ہیں۔ اور یہی اپنی امنگ پ ون ہ ر ہیں۔ اس میں کوئی وگدھ نہیں کہ م یچھوں کو تو کیس ہی ڈراوے ی نہ ڈراوے وہ دھر نہیں اویں گے۔ من موہن نے ان کے جی اور ک نوں پر ٹھپ لگ دی ہے اور ان کے نینوں میں موتی پھرا ہوا ہے اور کے لیے بھ ری م ر ہے۔ ........... جوا :ترجمہ سورتہ ف تحہ بروز :اپریل 09:15:37 ,2016 ,25ش مکرمی و محترمی جن
حسنی ص ح :سا ع یک
آپ کی یہ تحریر دیکھ کر انتہ ئی مسرت ہوئی۔ یہ زب ن اکھ پرانی سہی لیکن اس کی ضرورت آج بھی ویسی ہی ہے جیسے م ضی میں تھی۔ دوسری قوموں کے عاوہ خود مس م نوں کے ایک
طبقے میں بھی اس کی ضرورت ہے۔ جہ ں تک مجھ کو ی د ہے ش ہ ولی ه ص ح نے بھی "پ لن ہ ر" کی قبیل کے ال ظ است م ل کئے ہیں۔ یقین "ر " ک ل ظ ایس ج مع اور مکمل ہے کہ اس ک صحیح ترجمہ کرن نہ یت مشکل ہے۔ "پ لن ہ ر" سے اس کے کئی پہ و واضح ہوج تے ہیں اور یہ ل ظ آج بھی عوا میں مست مل ہے۔ ایس ہی بہت سے ال ظ کے مت بھی کہ ج سکت ہے جو موان فضل الرحمن گنج مرادآب دی نے اپنے ترجمے میں است م ل کئے ہیں۔ ه ان کوجزائے خیر سے سرفراز فرم ئے۔ ا ایسے بزرگ اور وسیع الق ع م کہ ں رہ گئے ہیں۔ آپ کی محنت اور محبت آپ کی تحریر سے ص ف ظ ہر ہے۔ ه سے دع ہے کہ آپ ہم رے سروں پر ق ی رہیں اور یہ ک اسی طرح انج دیتے رہیں۔ آپ ک د بہت غنیمت ہے۔ http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10208. msg61731#new
عربی کی چینی طور میں کی ی گرافی کسی کو ی کسی چیز کو دیکھ کر‘ اپن اپن ی دیکھ دیکھ س محسوس کرن ‘ انسیت اور م نوسیت کے زمرے میں آت ہے۔ اسی طرح‘ دی ر غیر میں اپنے م ک کے کسی ب شندے کو دیکھ کر‘
محبت آمیز خوشی ہوتی ہے۔ یہ الگ ب ت ہے‘ کہ وہ کوئی دوسری زب ن بولت ہو۔ تصویر دیکھ کر‘عش ہو ج نے کی حقیقی اور داست نی مث لیں موجود ہیں۔ خو صورت اور ن یس سی خط طی دیکھ کر بھی‘ سرور میسر آت ہے۔ کسی دوسرے م ک کے من ظر بھی‘ ہمیشہ اہل ذو کو‘ خوش آئے ہیں۔ اپنے سے ہوں‘ تو یہ اس سے بڑھ کر ب ت ہوتی ہے۔ یہ ہی صورت سم جی رس و رواج کی ہے۔ اپنے سے‘ ی رائی بھر مم ث ت رکھتے رواج اور اطوار‘ موڈ میں خوش گوار تبدی ی ک ب عث بنتے ہیں۔ یہ ہی نہیں‘ اپنے م ک ک کوئی لب س پہنے نظر آت ہے‘ تو وہ اچھ نہیں‘ بہت اچھ لگت ہے۔ دی ر غیر میں‘ اپنے م ک کی کوئی خوردنی ی است م ل کی چیز‘ دیکھ کر بڑا ہی اچھ لگت ہے۔ مجھے چینی طور میں‘ عربی زب ن کی کی ی گرافی‘ دیکھنے ک ات ہوا ہے۔ چینی لوگوں کے پڑھنے میں نہیں آ سکتی‘ ہ ں اپنی سی ک احس س‘ ضرور موجود ہے۔ انہیں یہ گم ن ضرور گزرت ہو گ ‘ کہ یہ اپنی تو نہیں ہے‘ لیکن اپنی سی ضرور ہے۔ لہذا اس سے مت قین سے ربطہ کرنے میں‘ کوئی حرج نہیں۔ ی ک از ک ان کو ج ننے میں‘ کوئی خرابی نہیں۔
رومن اردو‘ انگریزی ک ہر ج نو پڑھ سکت ہے‘ ب ت کی کی گئی‘ اس کی سمجھ سے ب ہر رہے گی۔ رومن خط میں لکھی اردو‘ پہ ی نظر میں انگریزی ہی لگے گی۔ پڑھنے کے ب د م و ہو گ ‘ کہ یہ انگریزی نہیں ہے۔ ج وہ اسے پڑھے گ ‘ اردو والے ب ت سمجھ ج ئیں گے۔ یک ہنری لس نی تی سکل یہ بھی ہے‘ کہ بہت سے لوگ قرآن مجید پڑھے ہوتے ہیں۔ وہ عربی روانی سے پڑھ سکتے ہیں‘ لیکن اس پڑھے کے م ہی کی ہیں‘ اس سے وہ آگ ہ نہیں ہوتے۔ یہ انسیت ی یک ہنری لس نی تی سکل بےم نی اور ای نی نہیں رشتہ ہے۔ ہے۔ یہ ان ج نی سے‘ اپنی سی ک یہ حرفی ک ‘ بڑی ذمہ داری ک ہے۔ اس ہنر سے مت لوگوں نے‘ اسے بڑی ن س ست اور دل جمی سے‘ انج دی ہے۔ ب ض جگوں پر‘ محسوس بھی نہیں ہوت کہ یہ عربی ہے۔ اول و آخر چینی ٹریسز م و ہوتے ہیں۔ اس ذیل میں‘ وہ داد و تحسین کے مستح ہیں۔ میرے خی ل میں یہ ک ہوتے رہن چ ہیے۔ اس ک سرک ری سطع پر اہتم ہون چ ہیے ت کہ قومیں‘ ایک دوسرے کو اجنبی ی غیر
نہ سمجھیں اور ایک دوسرے کے قری آئیں۔ اردو سے مت لوگوں کو چ ہیے‘ کہ وہ جہ ں جہ ں اور جن جن مم لک میں ہیں‘ اس ک کو ای نی قرار نہ دیں‘ بل کہ لکھنے میں ان کے اطوار اختی ر کرن کوئی عی نہیں۔ اہل زب ن کو اسے پڑھنے میں‘ کوئی دشواری محسوس نہیں ہو گی۔ جس ک واضح ثبوت عربی کی چینی طور میں کی گئی کی ی گرافی‘ موجود ہے۔
ح فظ شیرازی کی ش عری اور اردو زب ن ن :شمس الدین محمد ن والد :بہ ؤ الدین پیدائش :شیراز‘ ایران سن پیدائش:
ی
ح فظ قرآن تھے؛ اسی حوالہ سے ح فظ‘ شیراز کے حوالہ شیرازی‘ تو گوی اس طرح ح فظ شیرازی م روف ہوئے۔ ب پ کو سن سن کر‘ قرآن مجید ح ظ ہو گی ۔ ان ہی سے سن کر س دی‘ رومی‘ نظ می اور عط ر جیسے بڑے ش را ک کا ی د ہو گی ۔ باشبہ‘ وہ غض ک ح فظہ رکھتے تھے۔
اکیس س ل کی عمر میں‘ ایک خ تون سے عش بھی ہوا۔ اکیس س ل کی عمر میں‘ عط ر سے ماق ت ہوئی اوران کی ش گردی اختی ر کی۔ درب ری بھی رہے‘ جس سے شہرت میسر آئی۔ م کی ن گواری ح ات کے تحت اص ح ن کی مہ جرت اختی ر کی۔ ب ون س ل کی عمر میں ش ہی دعوت پر واپسی اختی ر کی۔ ان کی ش عری‘ پ نچ سو غزلوں‘ بی لیس رب عی ت اور کچھ قص ئد پر مبنی ہے۔ ی
میں‘ انہتر س ل عمر پ کر انتق ل کی ۔
اردو اور ف رسی انتہ ئی قری کی زب نیں ہیں۔ ان دونوں کے م بین‘ حیرت ن ک لس نی تی مم ث تں موجود ہیں۔ درج ذیل سطور میں ح فظ شیرازی کی ش عری کے تن ظر میں‘ اردو ک لس نی تی مط ل ہ کی ن چیز سی س ی کی گئی ہے۔ یقین ہے احب کو خوش آئے گی۔
ح فظ کی ش عری ورفتگی کی بہترین مث ل ہے۔ اس ورفتگی کی بنی دی وجہ خو صورت مرکب ت کی تشکیل اور ان ک برمحل است م ل ہے۔ ان کی ش عری میں مخت ف نوعیت کے است م ل ہونے والے یہ مرکب ت اردو والوں کے لیے نئے اور ن ق بل فہ بھی نہیں ہیں۔ ب طور نمونہ چند ایک مرکب ت ماحظہ فرم ئیں۔ اض فتی مرکب ت افت ای ‘ ایئن پ دش ہی‘ بحر عش ‘ بر عصی ں‘ تیغ اجل‘ جر ست رہ‘ چش خم ری‘ دولت بیدار‘ راہ گنج‘ رس بدعہدی‘ راہ دل‘ زخ نہ ں‘ سنگ خ رہ‘ ش دی ی ر‘ شطرنج رنداں‘ طری اد عز ص ح‘ غمزہ خط ‘قصر دل‘ گن ہ ط لع‘ مر دل‘ مر بہشتی‘ مج ل ش ہ‘ مج ل آہ‘ منزل اس ئش عط ی مرکب ت
آ و رنگ و خ ل و خط‘ ج ن و دل‘ دانہ و ا ‘ دشمن و دوست‘ راہ و رس ‘ رس و راہ‘ شیخ و زاہد‘ قرار و خوا ‘ م ل وج ہ‘ مر و م ہی‘ موج و گردابی‘ ن لہ و فری د‘ ی ر و اغی ر اندیشہ ء امرزش‘ ترانہ ء چنگ‘ چشمہء خراب ت‘ خرقہ ء مے‘ طریقہء رندی‘ گوشہ ء میخ نہ پروائے ثوا ‘ دع ئے پیر مغ ں‘ کوئے نیک ن می ص تی مرک شـ :ت ریک و بی شـ ت ریک و بی موج و گردابی چنین ھ یل عنبر افش ں :عنبر افش ں بتم ش ئے ری حیں امد ری حیں :عنبر افش ں ری حیں ریح ن وغیرہ ای قصر دل افروز کہ منزل گہہ انسی قصر :دل افروز
خواب بشداز دیدہ درین فکر جگر سوز فکر :جگر سوز تشبیہی مرک ہر دیدہ ج ئے ج وہء آں م ہ پ رہ نیست آں :م ہ پ رہ ۔۔۔۔۔ وہ :م ہ پ رہ کچھ غزلیں ایسی ہیں جن کے ہر ش ر ک پہا ل ظ اردو والوں کے اجنبی نہیں۔ ذرا اس غزل کو دیکھیں۔ دل می رود ز دست ص حبداں خدا را دردا کہ راز پنہ ں خواہد شد آشک را دل‘ دردا‘ کشتی‘ ب شد‘ ب دوست ں‘ در‘ گر‘ ح فظ‘ اے اس میں ایک ل ظ ب شد الگ سے ہے ورنہ ہر ل ظ اردو والوں کے است م ل میں ہے۔
ان کی بیشتر غزلوں کے قوافی‘ اردو میں مست مل ال ظ ہی نہیں‘ ب طور قوافی بھی است م ل میں آتے رہے ہیں۔ ح فظ :کی فقط دو غزلوں کے قوافی ماحظہ ہوں 1 بحریست بحر عش کہ بہیچش کن رہ نیست آن ج جز اینکہ ج ں بسپ رند چ رہ نیست چ رہ‘ استخ رہ‘ ک رہ‘ ست رہ‘ پ رہ‘ آشک رہ‘ خ رہ ‘کن رہ 2 زاہد ظ ہر پرست از ح ل م آگ ہ نیست در ح م ہر چہ گوید ج ئے ہیچ اکراہ نیست آگ ہ‘ اکراہ‘ گمراہ‘ ش ہ‘ آہ‘ نآگ ہ‘ ه‘ درگ ہ‘ کوت ہ‘ راہ‘ گہجہ
ب ض غزلوں کے ردیف اردو والوں کے لیے اپنے سے ہیں۔ مثا ایک غزل ک ردیف آمد ہے۔ ل ظ آمد اردو میں ع است م ل ک ل ظ ہے۔ ح فظ کی ش عری کی زب ن‘ عرصہ دراز کی ف رسی ہے۔ حیرت کی ب ت یہ ہے‘ کہ اس ک تکیہءکا اور طرز تک کی کئی ایک مث لیں‘ آج بھی اردو والوں کے لیے نئی نہیں ہیں۔ یہ م نوس ہی نہیں‘ آج بھی رائج ہے۔ اردو میں بانے کے لیے اے مست مل ہے۔ مثا اے لڑکے ف رسی میں بھی اے بانے کے لیے است م ل کرتے ہیں۔ مثا اے ش ہد قدسی اے ش ہد قدسی کہ کشد بند نق بت پنج بی میں بانے کے لیے وے مست مل ہے۔ مثا وے نور جم ا
ف رسی میں بھی وے بانے کے لیے است م ل کرتے ہیں۔ جیسے وے مر بہشتی وے مر بہشتی کہ دہد دانہ و ابت یہ صیغہءمخ ط ‘ ش ید پنج بی ہی سے‘ ف رسی میں منتقل ہوا ہے۔ کج کج ف رسی ل ظ ہے‘ لیکن پنج بی میں ف رسی م نوں اور پنج بی طور کے س تھ عمومی است م ل ک ل ظ ہے۔ مثا ف رسی: چرا مردہ کـج شمـع آفـت
کـج
صـاح ک ر کـج و مـن خرا کـج پنج بی:
گوشت روٹی کج دال روٹی کج کج پہکھ ننگ کج تخت سکندری کج پہکھ ننگ کج ب دش ہی اردو میں ل ظ کہ ں است م ل میں آت ہے ح فظ کے ہ ں مست مل س بقے احقے اور ان سے ترکی پ نے والے ال ظ‘ اردو میں ع است م ل کے ہیں۔ مثا س بقے بد ھمـه ک ر ز خود ک می به بدن می کشید آخر ن ہر چہ ہست از ق مت ن س ز بی اندا م ست ز عشـ ن تـم م جم ل ی ر مستغنی اسـت بے تنہ جہ ں بگیرد و بےمنت سپ ہی
احقے یہ ل ظ اردو میں ع است م ل کے ہیں :مے آلود‘ ظ ہر پرست‘ میخ نہ‘ خ نق ہ‘ عذر خواہ‘ تکیہ گ ہ‘ سبک ب ر‘ سـ دت مـند مزید اردو کے احقوں سے بننے والے ال ظ :گردآلود بت پرست‘ کت خ نہ‘ خ نق ہ‘ خیر خیر‘ عید گ ہ‘ گراں ب ر‘ عقیدت مند آلود‘ ب ر‘ پرست‘ خ نہ‘ خواہ‘ ق ہ‘ گ ہ‘ مـند ح فظ بخود نپوشد ایں خرقہ ء مے آلود زاہد ظ ہر پرست از ح ل م آگ ہ نیست من کہ گوشہ ء میخ نہ خ نق ہ من ست نوائے من بسحر آہ عذر خواہ من ست فراز مسند خورشید تکیہ گ ہ من ست
کـج دانـند ح ل م سبک ب ران س حـلھ جوان ن سـ دت مـند پـند پیر دان را ح فظ کے ہ ں است م ل ہونے والی ت میح ت‘ اردو والوں کے لیے غیرم نوس نہیں ہیں۔ مثا ج ئیکہ بر عصی ں بر اد ص ی زد بر اہرمن نت بد انوار اس اعظ ز پ دش ہ و گدا ف رغ بحمده گ ت برخیز کہ اں خسرو شیریں امد در حشمت س یم ن ہر کس کہ شک نم ید گ ت خوش اں ہوائے کز ب
خ د خیزد
اا ی ایھ الـس قی ادر ک س و ن ولـھ حضوری گر ھمیخواھی از او غ ی مشو ح فظ مـتی م ت
من تھوی دع الدنی و اھم ـھ
ح فظ کے ہ ں ضدین ک است م ل‘ اردو والوں سے مخت ف نہیں۔ دو ایک مث لیں ماحظہ فرم ئیں۔ س قی مے بدہ و غ مخور از دشمن و دوست ز پ دش ہ و گدا ٖف رغ بحمده سـم ع وعـظ کـج نغمـه رب
کج
چرا مردہ کـج شمـع آفـت
کـج
مت
ال ظ ک است م ل بھی اردو والوں سے مخت ف نہیں۔
در طریقت ہر چہ پیش س لک آید خیر اوست ک یں ہمہ زخ نہ ں ہست و مج ل آہ نیست
ح فظ کے ہ ں‘ ش عری کے مخت ف انداز اختی ر کے گیے ہیں۔ ان میں سواا جواب ی مک لم تی انداز بھی اختی ر کی گی ہے۔ یہ انداز اردو والوں کے لیے الگ سے نہیں ہے۔ ح فظ کی ایک پوری غزل اس انداز میں م تی ہے۔
مط ع کے دونوں مصرعوں میں‘ پہ ے سوال پھر جوا گ ت غ تو دار گ ت غمت سر آید گ ت کہ م ہ من شو ،گ ت اگر برآید ب قی غزل میں ایک مصرعے میں سوال دوسرے مصرعے میں جوا گ ت ز مہرواں رس وف بی موز گ ت ز م ہ رعی ں ایں ک ر کمتر اید ہ مرتبہ ل ظوں ک بھی باتک ف کر ج تے ہیں۔ مثا ج ن ں گن ہ ط لع و جر ست رہ نیست مصرعے کے مصرعے اردو والوں کے لیے‘ م نوس سے ہیں۔ ت ہی میں دقت پیش نہیں آتی۔ مثا
سـم ع وعـظ کـج نغمـه رب
کج
چرا مردہ کـج شمـع آفـت
کـج
ن لہ فری د رس ع ش مسکیں امد اے در رخ تو پیدا انوار پ دش ہی صد چشمہ ا حیواں از قطرہ سی ہی در ک ر خیر ح جت ہیچ استخ رہ نیست آخری مصرعے میں‘ ل ظ نیست اردو میں مست مل نہیں لیکن ل ظ نیستی ب م نی ک ہ ی سستی است م ل میں ہے۔ نیست کو نہیں میں بدل دیں۔ در ک ر خیر ح جت ہیچ استخ رہ نہیں اردو اور ف رسی کی حیرت انگیز م ث توں کو دیکھ کر‘ اس تذبذ میں پڑ ج ت ہوں‘ کہ اردو ف رسی سے ی ف رسی اردو سے مت ثر ہے۔ یہ الگ سے ک ہے‘ کہ دونوں ک م ضی کی تھ ۔ اس حقیقت ک کھوج لگ نے کے لیے‘ سنجیدہ اور غیرج ن دار سے ک کرنے کی ضرورت ہے۔
اردو ہ ئیکو ایک مختصر ج ئزہ ہ ئیکو میں بنی دی چیز اس ک نظریہ تخ ی ہے جبکہ ہییت ث نوی :م م ہ ٹھہرت ہے۔ نظریہ تخ ی میں تین ب تیں آتی ہیں ۔ کسی چیز خصوص فطری اور قدرتی عن صر پر پہ ی نظر پڑنے سے پیدا ہونے واا انس نی ت ثر۔ ۔ اس ت ثر کو اسی طرح ک غذ ق کے حوالے کر دین ۔ ۔ پیدا ہونے والے ت ثر میں کی قس کی آلودگی کو شجر ممنوعہ سمجھن ۔ ہم رے ہ ں اردو میں جن پروفیسر محمد امین(پی ایچ ڈی) نےاس ج پ نی صنف سخن کو مت رف کرای ۔ اس صنف ش ر کے :تین مصرعے قرار پ ئے۔ اس ذیل میں چند مث لیں ماحظہ ہوں یہ س ر ہے قی ہے کی ہے یہ مس فت کہ طے ہوئی نہ کبھی زندگی کی ہے رتجگوں ک س ر
)محمد امین( صبر لکھ گی لہو سے ترے تشنگی سو رہی تھی خیموں میں س تھ اس کے فرات بہت تھ )اختر شم ر( مجھ کو اتنی سی روشنی دے دے دل کے کمرے میں بیٹھ کر پل بھر اپنے ح ات زندگی پڑھ سکوں )حیدر گردیزی( ب د ازاں اس کے اوازن پر مب حث ک س س ہ چل نکا۔ اس میں ارک ن - -کی پ بندی از ٹھہری۔ میں مقصود حسنی کے نثری ہ ئیکو ک مجموعہ سپنے اگ ے پہر کے ش ئع ہو گی ۔ یقین یہ بہت بڑا ب غی نہ اقدا تھ ۔ خی ل تھ کہ یہ مجموعہ اچھی خ صی لے دے ک شک ر ہو گ ۔ خدش ت کے برعکس اسے پذیرائ ح صل ہوئی۔ اس کے مخت ف زب نوں میں تراج ہوئے۔ نثری ہ ئیکو کے پیش کرنے ک مقصد پہ ے ت ثر کو
برقرار رکھن تھ ۔ نثری کا میں آہنگ کو بنی دی حثیت ح صل ہوتی ہے۔ آہنگ درحقیت توازن ک ن ہے۔ بطور نمونہ کچھ :ہ ئیکو ماحظہ فرم ئیں ک ا کوا ک لی راتوں میں مہم ن ہوااج لوں ک آؤ زہد و تق تق ید عصر میں پ میا کے ن کر دیں جیون کے پچھ ے پہر اگ ے پہر کے سپنے سونے نہیں دیتے اکثر پروفیسر ص بر آف قی (پی ایچ ڈی) ک کہن تھ کہ ہ ئیکو نثری نہیں ہیں۔ ان کے ہر مصرعے میں وزن موجود ہے۔ اور تینوں
مصرعوں کے اوازن الگ الگ ہیں۔ ب ت ذرا آگے بڑی تو پہ ے اور تیسرےمصرعے کو ہ ق فیہ قرار :دے دی گی ۔ اس ضمن میں یہ ن تیہ ہ ئیکو ماحظہ ہو ن اد سے لے س رے اج ے پھی ے ہیں اس محمد سے اصل م م ہ یہ ہے کہ مہ جراپنے دیس کی سم جی م شی عمرانی اورن سی تی روای ت س تھ ات ہے لیکن مہ جر وایت میں یہ س نہیں چ ت اسے مہ جر وایت کے اطوار اور اصول اپن ن پڑیں گے ورنہ وہ اول ت آخر مہ جر ہی رہے گ ۔ یہ ں اس ب ت کو بھی بھولن نہیں چ ہیے کہ یہ اردو ہ ئیکو ک ابتدائ دور تھ ۔ انس ن کی طرح ی انس ن کے س تھ س تھ اصنف سخن میں بھی تغیرات آتے رہتے ہیں۔ غزل کو دیکھ اسے کون ایرانی تس ی کرے گ ۔ اردو غزل میں ایرانی مزاج ک ایک حوالہ بھی تاش نہیں کی ج سکت ۔ ہ ءیکو آج پردیسی نہیں۔ اس ک رنگ ڈھنگ ج پ نی نہیں رہ ۔ یہ اردو مزاج سے ک ی طور پر ہ آہنگ ہے۔ اس کی روح میں اردو مزاج رچ بس گی ہے لہذا ا اسے اردو صنف اد ہی کہ ج ن
من س لگت ہے۔ ہ ں یہ ت ریخی حقیقت رہے گی کہ ہ ئیکو ج پ ن سے درامد ہوئی ہے اور اس ک موڈھی پروفیسر محمد امین(پی ایچ ڈی) ہے۔ زندگی اور اس کے مت ق ت کو ہر ح ل میں چ تے رہن ہےمیرے ی کسی اور کے کہنے ی کوشش سےیہ رک نہیں سکتی۔ چند ج پ نی ہ ئیکو درج کر رہ ہوں اوپر درج کئے گئے اردو ہ ئیکو سے موازنہ کر لیں دونوں کے مزاج میں زمین آسم ن ک :فر نظر آئے گ برف جو ہ دونوں نے دیکھی تھی کی اس س ل بھی گرے گی ب شو تنہ ئی بھی مسرت ہے ش خزاں
ہوس بوس ن کتنی حسین ہے دروزے کے سوراخ سے کہکش ں کوب شی اس
برس ت گھر ک رستہ سیابی ہے اور مینڈک وہ ں تیر رہے ہیں م س ؤک شی کی زرد پھولوں کی خوشبو مترج ڈاکٹر محمد امین وکٹری بک ( )بینک اہور آج کی اردو ہ ئیکو اردو غزل کے مزاج سے بہت قری ہو کر بھی اپنی الگ سے پہچ ن اور رنگ ڈھنگ رکھتی ہے۔ ہ ءیکو نے خوش دلی سے اردو مزاج اپن ی ہے۔ اپنے اس سھ ؤ کے
سب آتے وقتوں میں اردو ہ ئیکواپن ج ءز مق ح صل کر لے گی اور اسے وافر ت داد میں ش عر اور ق ری میسر آ ج ئیں گے۔ : http://www.forumpakistan.com/urdu-hyku-eak-mukhtasar-jaaeza-t89904.html#ixzz43tSN4k fw
کا ای نی اور بےم نی نہیں ہوت ش ید ہی کوئی پڑھ ی ان پڑھ‘ موسیقی سے شغف نہ رکھت ہو گ ۔ حمد‘ ن ت‘ نغمہ‘ گیت‘ غزل‘ گ ن وغیرہ ہمیشہ ن سہی‘ کبھی کبھ ر ضرور سنت ہو گ ۔ مزدور طبقہ سے مت لوگ‘ اوروں سے زی دہ‘ اس کے ش ئ ہوتے ہیں۔ یہ ایک الگ ب ت ہے‘ کہ وہ ش ر کہتے نہیں۔ اگر کسی کو ش ر کہنے ک شو لپک پڑے‘ تو وہ پوری دل جمی سے‘ اس کی کوشش کرتے ہیں۔ ان غیر ش را کی کوشش کو‘ اگر ش ر نہیں تو نثر بھی نہیں کہ ج سکت ۔ اس میں‘ کسی ن کسی سطع پر آہنگ ضرور موجود ہوت ہے۔
جس تحریر میں کسی بھی سطع ک آہنگ موجود ہوت ہے وہ نثر نہیں ہوتی۔ دوسری ب ت یہ کہ اس ک اس و اور نحوی اہتم نثر سے قط ی ہٹ کر ہوت ہے۔ تیسری بڑی ب ت یہ کہ خی ل ی جذبے کی پیش کش نثر سے مخت ف ہوتی ہے۔ اسی طرح جذبے ی خی ل کی پیش کش کے زیر اثر ل ظوں کی م نویت اور ل ظ کی گرائمری حیثیت میں بھی فر آ ج ت ہے۔ ان م روض ت کے تن ظر میں اس ع سے شخص کی یہ کوشش نثر نہیں کہا سکتی۔ عروضی اسے ش عری م نیں ی ن م نیں لیکن دی نت داری سے اس ک مط ل ہ کریں تواسے نثر کہتے ہوئے ان کی زب ن میں لکنت ضرور آئے گی۔ اردو ش ر و نثر کی ت ریخ ک مط ل ہ کردیکھیں فورٹ ولی ک لج‘ سرسید تحریک‘ ش ہ ی پھر ش ہ کے شورےف سے
جڑے‘ گنتی کے چند لوگ ہی نظر آئیں گے۔ کچھ خوش نصیبوں کے دو چ ر ش ر تذکروں میں مل ج ئیں گے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ میر و سودا سے کہیں بڑے ش عر گ ن می کی بستی میں ج بسے۔ فردوسی اس لیے زندہ رہ ‘ کہ وہ محمود ک چمچہ تھ ۔ ادھر ذو کی بھی یہ ہی صورت ہے۔ کسی بھی کہنے والے کو بےوزن کہہ کر رد کر دین سراسر زی دتی کے مترادف ہے۔ اج رہ دار ن نہ د است د ش را ک اس زی دتی میں کوئی ک حصہ نہیں۔ کہنہ مش ہو کہ نوآموز ش عر ی ابھی ابھی شوقیہ‘ کسی جذبے‘ کسی واق ے‘ کسی م م ے ی ح دثے سے مت ثر ہو کر کہنے والے کے کہے کو کسی طور پر نظر انداز نہیں کی ج سکت ی کی ج ن چ ہیے۔ مزے کی ب ت یہ کہ ابھی ابھی کہنے والے کی فکر اور زب ن میں ہر دو پہ وں سے بڑھ کر مت ثر کرنے کی صاحیت ہو گی۔ اگر وہ ایک ب ر پٹری چڑھ گی تو آتے وقتوں میں دھ ئی ڈال دے گ ۔ یہ الگ ب ت ہے کہ موجود قرار دیے گیے است د ش را اور ش ہی جھولی چک قرار پ ئے بڑھ ش را اسے قد قد پر ٹیز کریں گے ت کہ کسی کی اس کی ج ن نظر ہی نہ ج ئے۔
ہر وہ جو اپنی دانست میں ش ر کہ رہ ہے کے کہے کو نثر نہیں ٹھہرای ج سکت ۔ وہ مت قہ زب ن کو کچھ ن کچھ دے رہ ہوت ہے۔ مثا کسی رائج مہ ورے ک نی است م ل دے رہ ہوت ہے۔ اس کے الگ سے م نی فراہ کر رہ ہوت ہے۔ پ س سے کوئی نی مہ ورہ گھڑ رہ ہوت ہے۔ سٹریٹ میں موجود مہ ورہ است م ل کر رہ ہوت ہے۔ اس کے کہے میں موجود روزمرہ اور تکیہ کا موجود ہوت ہے۔ کوئی ن کوئی فنی‘ سم جی‘ م شی‘ سی سی اصطاح است م ل میں ا رہ ہوت ہے۔ نئے ال ظ است ل میں ا رہ ہوت ہے۔ -
ال ظ ک نی است م ل اور ان کے نئے م ہی دری فت کر رہ ہوت ہے۔ نئے ال ظ گھڑ رہ ہوت ہے۔ ال ظ میں اشک لی تبدی ی ں ا رہ ہوت ہے۔ آوازوں کے تب دل ک عمل پوری شدت سے متحرک ہوت ہے۔ ب ت یہ ں تک ہی محدود نہیں رہتی۔ وہ زب ن کو مخت ف نوعیت کے مرکب ت مہی کر رہ ہوت ہے۔ ن دانستہ طور پر عامتیں است رے اور اش رے تشکیل پ رہے ہوتے ہیں۔ -
مروجہ سے ہٹ کر تشبیہ ت اور ت میح ت زب ن کو میسر آ رہے ہوتے ہیں۔ مزید یہ بھی کہ اس کے کہے میں ل ظ کی اس کے ک چر سے میل کھ تی سم جی ت موجود ہوتی ہے۔ ال ظ کی نئی ن سی ت وضع ہو رہی ہوتی ہے۔ کسی عصری واق ے‘ م م ے اور ح دثے کی شہ دت موجود ہوتی ہے۔ کوئی انکش ف موجود ہو سکت ہے۔ کسی ع لمی غنڈہ ط قت کی بدم شی کی طرف اش رہ موجود ہو سکت ہے۔
کسی عصری تخ ی ی شے ک ن است م ل آی ہوت ہے۔ انس نی جذب ت کی والہ نہ انداز میں عک سی موجود ہوتی ہے۔ غ ‘ غصہ‘ درد‘ کھونے ک غ پوری شدت سے موجود ہوت ہے۔ خوشی کے اظہ ر کے لیے بھی‘ یہ ہی طوراختی ر کی گی ہوت ہے۔ اس کا میں مخت ف ش ری صن تی اور حسن ش ر پڑھنے کو م تی ہیں۔ مثا تکرار ل ظی و تکرار حرفی صن ت تض د ہ صوت ال ظ ک است م ل
تحت النقط‘ فو النقط اور بےنقط ائنیں ہ مرتبہ ال ظ ک است م ل مت
ال ظ ک است م ل
اس کا میں مخت ف طور بھی پڑھنے کو م تے ہیں۔ مثا بی نیہ‘ است س ریہ‘ حک ئی‘ مک لم تی‘ مزاحمتی ج رح نہ وغیرہ یہ کا ای نی اور بےم نی نہیں ہوت اس میں ب ق عدہ پیغ ہوت ہے۔ ب ض اوق ت اس قس ک کا لکھنے والے ش را کے ہ ں ب س بقہ ش را کے کا سے کہیں بڑھ کر روانی ش ئستگی اور شی تگی کے س تھ س تھ کم ل درجے ک پیغ بھی موجود ہوت ہے کہ ب س بقہ ش را اس کی گرد تک کو بھی نہیں پہنچ پ تے۔ ضروری نہیں کوئی ب س بقہ اور ش ہی چمچہ ش عر ہی بڑی ب ت کرے۔ بڑوں ک ہونے کے سب اس کے کہے ج ئے یہ قط ی الگ سے ب ت ہے۔ بڑی ب ت عمر تجربہ ت ی سے وابستہ نہیں۔ ایک بچہ بھی بڑی ب ت کہہ کر حیرت میں ڈال سکت ہے۔