تنقیدی و لسانیاتی اظہاریے

Page 1

‫تنقیدی و لس نی تی اظہ ریے‬ ‫مقصود حسنی‬ ‫ابوزر برقی کت خ نہ‬ ‫مئی‬ ‫فہرست‬ ‫سورتہ ف تحہ ک اردو ترجمہ ‪-‬‬ ‫عربی کی چینی انداز میں کی ی گرافی ‪-‬‬ ‫ح فظ شیرازی کی ش عری اور اردو زب ن ‪-‬‬ ‫اردو ہ ئیکو ایک مختصر ج ئزہ ‪-‬‬


‫کا ای نی اور بےم نی نہیں ہوت ‪-‬‬

‫ترجمہ سورتہ ف تحہ‬ ‫بروز‪ :‬اپریل ‪ 09:43:09 ,2016 ,25‬صبح‬ ‫ترجمہ سورتہ ف تحہ‬ ‫مترج‬ ‫ش ہ فضل الرحمن گنج مرادآب دی‬ ‫ترجمہ‬

‫ھ‬

‫ہندی اردو سے کوئی الگ سے زب ن نہیں۔ زب نوں ک دیگر‬


‫سم جی حوالوں کے س تھ س تھ‘ مذہبی ک چر بھی ہوت ۔ مذہبی‬ ‫ک چر سے مت ال ظ‘ روزمرہ زندگی ک حصہ بن ج تے ہیں۔‬ ‫مثا‬ ‫اس ک میں کوئی بچت ب م نی ن ع بھی ہوا‬ ‫جی ہ ں ه کے فضل سے دس ہزار بچت نک ی ہے۔‬ ‫رستے میں س ٹھیک رہ‬ ‫جی ه ک شکر ہے خیریت سے لوٹ آی ہوں۔‬ ‫ح دثے میں کوئی زی دہ نقص ن تو نہیں ہوا‬ ‫ه کی مہرب نی ہوئی ورنہ ج ن ج سکتی تھی۔‬ ‫ولیمے میں کھ ن ک تو نہیں پڑا‬ ‫م لک ک احس ن تھ کہ س کچھ وافر رہ ۔‬ ‫آؤ کھ ن کھ لو۔‬ ‫بس ه کریں میں کھ کر آی ہوں۔‬


‫قرآن ایم ن کی کہن کہ کون سچ اور کون جھوٹ ہے۔‬ ‫ه نے چ ہ تو کل س ری رق ادا کر دوں گ ۔‬ ‫ه ح فظ ا کل ماق ت ہو گی۔‬ ‫م ش ءه آج تو حوروں کو بھی م ت دے رہی ہو۔‬ ‫قس لے لو جو میں نے کسی چیز کو ہ تھ بھی لگ ی ہو‬ ‫آج کل ک ن دفن ک خرچہ بھی کوئی ک نہیں رہ ۔‬ ‫یہ س بھگوان کی کرپ ہے ورنہ میں اس ق بل ک ہوں۔‬ ‫یہ س ایشور کی کرپ تھی جو نپٹ آی ہوں۔‬ ‫پرمیشور بڑا دی لو ہے جو آج اکھوں میں کھیل رہ ہوں۔‬ ‫ایسے سیکڑوں مذہبی ل ظ ی مرکب ت روزمرہ کی عمومی و‬ ‫خصوصی‘ شخصی و اجتم عی‘ رسمی و غیر رسمی‘ ذاتی ی‬ ‫پوشیدہ زندگی کی گ ت گو ک حصہ بن گیے ہوتے ہیں۔ کوشش‬ ‫سے بھی‘ انہیں اس سم ج کی بول چ ل سے‘ الگ نہیں کی ج‬ ‫سکت ۔ ہندو مذہ سے مت ال ظ زب ن میں داخل ہو ج تے ہیں‘‬ ‫تو اس میں ایسی کوئی حیرت والی ب ت نہیں۔ ان ال ظ کے داخل‬ ‫ہونے سے‘ یہ کوئی نئی زب ن نہیں ہو گئی۔ عیس ئی مذہ کے‬ ‫ال ظ داخل ہو ج نے سے‘ زب ن عیس ئی نہیں ہو ج تی۔ زب ن وہ‬


‫ہی رہتی ہے‘ ہ ں وہ اس ک چر کے مذہ کی‘ نم ئندگی کر رہی‬ ‫ہوتی ہے۔‬ ‫گ ف سے ش ئع ہونے والے‘ رس لہ م ہ ن مہ واسطہ ک ص حہ‬ ‫نمبر انٹر نیٹ سے میسر آی ہے۔ اس ص حے پر‘ ش ہ فضل‬ ‫الرحمن گنج مرادآب دی ک سورتہ ف تحہ ک ترجمہ ش ئع ہوا ہے۔ یہ‬ ‫ھ سے ت رکھت ہے۔ سورتہ ف تحہ کے ب د‬ ‫ترجمہ‬ ‫سورتہ بقر کی کچھ آی ت ک ترجمہ‘ اسی اس و و طور کے س تھ‬ ‫کی گی ہے اور اس ذیل میں کوئی نوٹ نہیں دی گی ۔ اسے بھی‬ ‫سورتہ ف تحہ کے ترجمے کے س تھ ما دی گی ہے۔ عین ممکن‬ ‫ہے‘ پورے کا ک ترجمہ اس طور سے کی گی ہو۔ دیگر ترج‬ ‫سے یہ قط ی الگ تر اور ہٹ کر ہے۔ ایس ترجمہ‘ اس سے‬ ‫پہ ے دیکھنے اور پڑھنے سننے میں نہیں آی ۔ ش ہ فضل الرحمن‬ ‫گنج مرادآب دی کی اس ک وش کی داد نہ دین ‘ بدی نتی ہو گی۔ زب ن‬ ‫وطور کی م نوسیت بڑی م نویت کی ح مل ہوتی۔ ہندو دھر سے‬ ‫مت لوگ‘ اس کو پڑھتے ہوئے‘ غیریت محسوس نہیں کرتے۔‬ ‫اس سے رغبت ک دروازہ کھ ت ہے اور اجنبت کی دیوار گرتی‬ ‫ہے۔‬ ‫ش ہ فضل الرحمن گنج مرادآب دی کے مزید ترجمے کی تاش‬ ‫میں؛ چینی‘ ج پ نی اور انگریزی انداز عربی کی وگرافی دیکھنے‬


‫کی س دت ح صل ہو گئی۔ یہ طور‘ غیرمس لوگوں کی توجہ‬ ‫ح صل کرنے ک ‘ انتہ ئی ک می ذری ہ ہے۔ اچھ ئی پھیانے کے‬ ‫لیے‘ عر مس م نوں نے مق میوں ک لب س‘ انداز‘ زب ن وغیرہ‬ ‫اختی ر کی اور ب ت ریک رڈ میں موجود ہے۔ ش ہ فضل الرحمن‬ ‫گنج مرادآب دی نے‘ ہندو ک چر سے مت ‘ ترجمے کی زب ن‬ ‫اختی ر کی‘ یہ امر ائ تحسین ہے۔ بےشک ه بہتر اجر سے‬ ‫نوازنے واا ہے۔‬ ‫ش ہ فضل الرحمن گنج مرادآب دی کے اس ترجمے کو اس کے‬ ‫طور و اس و اور زب ن کے حوالہ سے‘ اولیت تو ح صل ہے ہی‘‬ ‫لیکن انہوں نے م روف سے ہٹ کر‘ ل ظوں کو م نویت عط کی‬ ‫ہے۔‬ ‫ه‪ :‬اس ذات ہے۔ اس کے مترداف کوئی ل ظ ہے ہی نہیں۔ مرحو‬ ‫نے‘ اس ک ترجمہ من موہن کی ہے۔ یہ ترجمہ محسوس سے‬ ‫ت رکھت ہے۔ یہ ل ظ صوری لح ظ سے باشبہ دل کو موہ لیت‬ ‫ہے۔‬ ‫حمد‪ :‬حمد کے م نی ت ریف اور ثن لیے ج تے ہیں‘ لیکن حضرت‬ ‫ش ہ ص ح نے‘ اس ل ظ کو ال کے لیے‘ س ج کہ حمد بم نی‬


‫راحت‘ ی نی خوشی کے م نے دیے ہیں۔ گوی وہ سراپ خوشی‬ ‫ہے۔ اس ک ن لینے سے‘ رگ وپے میں خوشی کی لہر دوڑ‬ ‫ج تی ہے کیوں کہ وہ اول و آخر راحت ہے۔ ی یہ کہ خوشی جو‬ ‫اچھ ئی سے وابستہ ہوتی ہے ی یہ کہ اچھ ئی خوشی میسر کرتی‬ ‫ہے۔ دوسرے ل ظوں میں یوں کہہ لیں اچھ ئی خوشی ہے ی نی‬ ‫اچھ ئی ب طنی راحت فراہ کرتی ہے۔ اس حوالہ سے‘ س راحت‬ ‫ی نی راحتیں اسی کی ذات کے لیے ہیں۔ عامتی حوالہ سے‬ ‫م ہی اچھ ئی بہتری وغیرہ کی طرف پھرتے ہیں۔‬ ‫ر ‪ :‬پ لن ہ ر‬ ‫ال‪ :‬بڑی‬ ‫ع مین‪ :‬سنس ر‬ ‫اردو میں پ لن ‘ ج کہ پنج بی میں پ لن مصدر ہے۔ پ لنے واا‬ ‫کے‘ مترداف پ لن ہ ر غیرم نوس نہیں۔ حضرت ش ہ ص ح نے‘‬ ‫ر کے م نی پ لن ہ ر لیے ہیں۔ ع مین بذات خود جمع ہے۔ ال‬ ‫سے یہ ب ت واضح ہوتی ہے کہ وہ ع ل جو س منے اورع میں‬ ‫وہ ہی نہیں وہ بھی جو س منے اورع میں نہیں۔ ج ہی س رے‬ ‫سنس ر م نی دیے ہیں۔ گوی س رے سنس ر ک پ لن ہ ر ی نی‬ ‫ع لموں ک با کسی تخصیص پ لنے واا۔ صوری اور م نوی‬ ‫اعتب ر سے‘ خو صورت ترجمہ ہے۔ ہندو ک چر کے لیے بھی‬ ‫م نوس ترین ہے۔‬


‫الرحمن‪ :‬نی ہ موہ‬ ‫الرحمن‪ :‬نی ہ موہ ترجمے میں‘ جہ ں مائمیت اور ریشمیت سی‬ ‫محسوس ہوتی ہے‘ وہ ں صوتی حوالہ سے‘ ک نوں میں رس‬ ‫گھولت محسوس ہوت ہے۔ اس میں پی ر محبت اور ش قت و عط‬ ‫ک عنصر غ بہ رکھت ہے۔ اسے اس کے مت قہ متن میں‘ ماحظہ‬ ‫فرم ئیں‘ میرے کہے کی سچ ئی واضح ہو ج ئے گی۔ تک یف دہ‬ ‫ح لت میں تش ی‘ باشبہ م مات حی ت میں‘ بڑی م نویت کی‬ ‫ح مل ہوتی ہے۔ نی ہ موہ کی اصل ت ی یہ ہی ٹھہرتی ہے۔ اس ک‬ ‫احس ن اور فضل بھی‘ نی ہ ب انص ف اور حس ح جت ہوت ہے۔‬ ‫الرحی ‪ :‬مہر واا‬ ‫الرحی ‪ :‬مہر واا ی نی وہ جو کسی کی تکی ف نہ دیکھ سکت ہو۔‬ ‫کسی کو دکھ تک یف میں دیکھ کر‘ محبت‘ احس ن اور رح میں آ‬ ‫ج ئے اور اس کے مداوے ک ان ہی لمحوں میں چ رہ کرئے۔‬ ‫من موہن‘ کسی کو تکیف میں مبتا نہیں کرت ۔ ت ریخ اٹھ کر‬ ‫دیکھ لیں‘ نمرود‘ فرعون یزید وغیرہ‘ اپنی ہی کرنی کی پکڑ میں‬ ‫آئے ہیں۔ یہ ں ہو کہ روز آخرت‘ ہر کوئی اپنے کیے کی گرفت‬


‫میں آئے گ ۔‬ ‫م لک‪ :‬بس میں‬ ‫م لک کو بس میں ی نی اختی ر میں‘ کے م نوں میں لی گی ہے۔‬ ‫وہ جس کے اختی ر میں ہو اور کسی اور کے اختی ر میں نہ ہو‘‬ ‫م کیت کے زمرے میں آت ہے۔ اس میں کسی اور ک بس نہ چ ت‬ ‫ہو ی یوں کہہ لیں کہ اس کے سوا‘ وہ ں ہر کوئی مجبور و‬ ‫بےبس ہو۔ ہر کرن اسی کی مرضی پر مبنی ہو۔ وہ جیسے چ ہے‬ ‫اور جس طرح چ ہے کرئے ی کرنے پر ق در ہو۔ یہ الگ ب ت ہے‘‬ ‫کہ وہ ح اور ح کے سوا نہیں کرت ۔ اس ک ہر کی ‘ عدل و‬ ‫انص ف پر استوار ہوت ہے۔‬ ‫یو ‪ :‬دن‬ ‫یو ‪ :‬دن‘ دن اردو میں ع است م ل ک ل ظ ہے۔‬ ‫الدین‪ :‬چکوتی‬ ‫چک وتی‬ ‫یہ انص ف اور فیصے ک دن ہو گ ۔ زندگی کے دنوں میں‘ دنی کے‬ ‫ب دش ہ فیص ے کرتے آئے ہیں لیکن اس دن‘ وہ بےبس ہوں گے۔‬


‫انہیں خود اس عمل سے گزرن ہو گ ۔ گوی یہ دن ب دش ہوں کے‬ ‫ب دش ہ ک ہو گ ۔ اس دن سوائے اس ب دش ہ کے کوئی ب دش ہ نہیں‬ ‫ہو گ ۔ صرف اور صرف اسی ک حک چ ے گ ۔ م ہو یہ ہی‬ ‫ٹھہرے گ ۔‬ ‫یو الدین‪ :‬ب دش ہوں کے ب دش ہ ک دن‬ ‫ن بد‪ :‬پوجتے‘ عب دت کے لیے ہندو ل ظ پوج است م ل کرتے ہیں۔‬ ‫جس کی پوج کی ج ئے اسے پوجیور کہ ج ت ہے۔‬ ‫و‪ :‬اور‬ ‫و‪ :‬اور‘ اردو میں واؤ اور کے لیے است م ل ہوت ہے۔ اردو میں‬ ‫واؤ مرکب ت میں اور کے م نوں میں مست مل ہے۔ مثا ش‬ ‫وروز‘ ش دی و غ ‘ سی ہ و س ید وغیرہ۔‬ ‫نست ین‪ :‬آسرا‬ ‫ل ظ نست ین اردو میں مست مل نہیں۔‬ ‫آسرا سہ را‘ گرتے کو تھ من ‘ گرے کو اٹھ ن ۔ چھت میسر آن ۔‬ ‫م ش کی صورت‘ کسی کے حوالہ سے پیدا ہون ۔ یہ ل ظ‘ صوری‬ ‫و م نوی اعتب ر سے‘ فصیح و ب یغ ہے۔ اسی طرح انس نی زندگی‬ ‫کے‘ ہر گوشے سے‘ کسی ن کسی حوالہ سے‘ منس ک ہے۔ اردو‬


‫والوں کے لیے‘ یہ ل ظ قط ی غیرم نوس نہیں۔‬ ‫صراط ‪ :‬راہ‬ ‫ل ظ صراط اردو میں مست مل نہیں۔‬ ‫اہل زب ن نے‘ اس ک ترجمہ راہ‘ رستہ کی ہے۔ حضرت ش ہ‬ ‫ص ح نے بھی یہ ہی ترجمہ کی ہے‘ جو غیرم نوس نہیں۔‬ ‫مستقی ‪ :‬سیدھی‬ ‫ل ظ مستقی اردو والوں کے لیے اجنبی نہیں اور یہ ت ہیمی اعتب ر‬ ‫سے سیدھ ی سیدھی رواج رکھت ہے۔ جیسے‬ ‫خط مستقی‬ ‫ان مت‪ :‬دی‬ ‫ان مت‪ :‬دی ‘ ن مت اردو میں مست مل ہے۔ دی کے لغوی م نی‬ ‫محبت‘ عن یت‘ ش قت‘ رح ‘ مہرب نی‘ ترس‘ بخشش وغیرہ ہیں۔‬ ‫متن کے لح ظ سے م ہو بخشش کے قری تر ہیں اس لیے دان‬ ‫دینے واا۔ ت ہ دان کی نوعیت دیگر دی لو حضرات سے الگ تر‬ ‫ہے۔ وہ ایس دان دینے واا ہے‘ کہ اس س دان دینے واا کوئی‬ ‫نہیں۔ ن ہی اوروں کے پ س اس س دان ہے۔ اس دان میں‘ اس کی‬ ‫محبت‘ عن یت‘ ش قت‘ رح ‘ مہرب نی‘ ترس ش مل ہوتے ہیں۔‬


‫گوی اس کی دی اوروں سے الگ ترین ہے۔‬ ‫المغضو ‪ :‬جھنجاہٹ‬ ‫جھنجاہٹ‘ غصہ اور خ گی کے لیے مست مل ہے۔ جھنجل سخت‬ ‫آندھی کے لیے ہے۔ ہٹ ک احقہ ق ئ ہونے کے لیے ہے‘ ی نی‬ ‫سخت آندھی ک آن ۔ دری ک حد سے بڑے مدوجر۔ یہ اپنی حقیقت‬ ‫میں غض ہی کی صورت ہے۔ یہ ں غصہ اور خ گی کی گرفت‬ ‫میں آئے مراد ہے۔ خ گی خ سے اور خ غصہ اور ن راضگی‬ ‫ہی تو ہے۔‬ ‫الضآلین‪ :‬کوراہوں کی‬ ‫الضآلین‪ :‬کوراہوں کی‘ ی نی جو اصل راہ سے ہٹ گی ہو۔ کوراہ‬ ‫غیر م نوس نہیں۔ کو‘ من ی م ہو ک ح مل ہے۔ مثا کو‪ -‬ت ہ‘ کو‪-‬‬ ‫ت ہی‘ کو۔ ہڈ‘ کو۔ سنگ‘ کو۔ ریت وغیرہ۔ یہ س بقہ اپنی اصل میں‘‬ ‫مکمل ی جزوی غ طی‘ خرابی‘ کجی‘ کمی‘ خ می‘ بدنم ئی‘‬ ‫بدن می‘ بدک ری وغیرہ کے لیے مخصوص ہے۔ یہ ں بھی ان ہی‬ ‫م نوں میں است م ل ہوا ہے۔ کو۔ راہ ی نی راہ سے ہٹ ہوا۔‬ ‫‪.................................‬‬ ‫ترجمہ سورتہ‬


‫پہ ے ہی پہل ن لیت ہوں من موہن ک جوہ بڑی نی ہ موہ واا ہے‬ ‫س راحت من موہن کو ہے جو س رے سنس ر ک پ لن ہ ر بڑی‬ ‫نی ہ موہ ک مہر واا ہے جس کے بس میں چکوتی ک دن ہے۔ ہ‬ ‫تیرا ہی آسرا چ ہتے ہیں اور تجہی کو پوجتے ہیں چا ہ کو‬ ‫سیدھی راہ ڈگ مگ نہیں۔ ان لوگوں کی جن پر تیری دی ہوگی۔ نہ‬ ‫ان کی جن پر تیری جھنجاہٹ ہوئی نہ راہ کوراہوں کی۔ اور نہ‬ ‫راہ کھوئے ہووں کی۔ اور راہ بھٹکے ہووں کی۔ اس مہ بید کے‬ ‫پرمیشور ہونے میں کوئی وگدھ نہیں۔ وہ بھگتوں کو بھ ی راہ‬ ‫پر ات ہے۔ جو اندیکھے دھر اتے ہیں اور پوج کو سنوارتے‬ ‫ہیں اور ہم رے دیئے ک دان بھی کرتے ہیں۔ اور جو جو تیرے بل‬ ‫اترا اس کو اور جو تجھ سے پہ ے ات را گی اس کو جی سے‬ ‫م نتے ہیں اورپچھ ے جگ کو بھی جی میں ٹھیک ج نتے ہیں۔‬ ‫یہی لوگ اپنے پ لن ہ ر کی راہ پر ہیں۔ اور یہی اپنی امنگ پ ون‬ ‫ہ ر ہیں۔ اس میں کوئی وگدھ نہیں کہ م یچھوں کو تو کیس ہی‬ ‫ڈراوے ی نہ ڈراوے وہ دھر نہیں اویں گے۔ من موہن نے ان‬ ‫کے جی اور ک نوں پر ٹھپ لگ دی ہے اور ان کے نینوں میں‬ ‫موتی پھرا ہوا ہے اور کے لیے بھ ری م ر ہے۔‬ ‫ش ہ فضل الرحمن گنج مرادآب ی‬


‫فرہنگ سورتہ ف تحہ‬ ‫ال‬ ‫س‬ ‫حمد‬ ‫راحت‬ ‫ه‬ ‫من موہن‬ ‫ر‬ ‫پ لن ہ ر‬ ‫ال‬ ‫س رے‬ ‫ع م ین‬ ‫سنس ر‬ ‫ال‬ ‫بڑی‬ ‫رحمن‬ ‫نی ہ موہ‬


‫الرحی‬ ‫مہر واا‬ ‫م لک‬ ‫بس میں‬ ‫یو‬ ‫دن‬ ‫الدین‬ ‫چکوتی‬ ‫ای ک‬ ‫تجہی کو‬ ‫ن بد‬ ‫پوجتے‬ ‫و‬ ‫اور‬ ‫ای ک‬ ‫تیرا‬ ‫نست ین‬


‫آسرا‬ ‫اھدن‬ ‫ہ کو‬ ‫الصراط‬ ‫راہ‬ ‫المستقی‬ ‫سیدھی‬ ‫ان مت‬ ‫دی‬ ‫ع یھ‬ ‫جن پر‬ ‫غیر‬ ‫جن پر‬ ‫المغضو‬ ‫جھنجاہٹ‬ ‫ع یھ‬ ‫ان کی‬


‫و‬ ‫اور‬ ‫الضآلین‬ ‫کوراہوں کی‬ ‫‪.................................‬‬

‫پہ ے ہی پہل ن لیت ہوں من موہن ک جوہ بڑی نی ہ موہ واا ہے‬ ‫الحمد ه‬ ‫س راحت من موہن کو ہے‬ ‫ر ال مین‬ ‫جو س رے سنس ر ک پ لن ہ ر‬ ‫الرحمن الرحی‬ ‫بڑی نی ہ موہ ک مہر واا ہے‬ ‫م ک یو الدین‬ ‫جس کے بس میں چکوتی ک دن ہے۔‬


‫ای ک ن بد و ای ک نست ین‬ ‫ہ تیرا ہی آسرا چ ہتے ہیں اور تجہی کو پوجتے ہیں‬ ‫ل ظی و ترتیبی‬ ‫تجہی کو پوجتے ہیں اور ہ تیرا ہی آسرا چ ہتے ہیں‬ ‫اھدن الصراط المستقی ان مت ع یھ‬ ‫چا ہ کو سیدھی راہ ڈگ مگ نہیں۔ ان لوگوں کی جن پر تیری‬ ‫دی ہوگی۔‬ ‫چا ہ کو سیدھی راہ ڈگ مگ نہیں ان لوگوں کی جن پر تیری‬ ‫دی ہوگی۔‬ ‫چا ہ کو سیدھی راہ‘ ڈگ مگ نہیں ان لوگوں کی جن پر تیری‬ ‫دی ہوگی۔‬ ‫وض حتی‬ ‫ڈگ مگ نہیں‬ ‫غیرالمغضو ع یھ والضآلین‬ ‫نہ ان کی جن پر تیری جھنجاہٹ ہوئی نہ راہ کوراہوں کی۔‬ ‫آمین‬ ‫‪................‬‬ ‫یہ سورتہ ف تحہ ک ترجمہ نہیں‘ سورتہ البقر کی کچھ آی ت ک‬


‫ترجمہ ہے۔‬ ‫اس مہ بید کے پرمیشور ہونے میں کوئی وگدھ نہیں۔ وہ بھگتوں‬ ‫کو بھ ی راہ پر ات ہے۔ جو اندیکھے دھر اتے ہیں اور پوج‬ ‫کو سنوارتے ہیں اور ہم رے دیئے ک دان بھی کرتے ہیں۔ اور‬ ‫جو جو تیرے بل اترا اس کو اور جو تجھ سے پہ ے ات را گی اس‬ ‫کو جی سے م نتے ہیں اورپچھ ے جگ کو بھی جی میں ٹھیک‬ ‫ج نتے ہیں۔ یہی لوگ اپنے پ لن ہ ر کی راہ پر ہیں۔ اور یہی اپنی‬ ‫امنگ پ ون ہ ر ہیں۔ اس میں کوئی وگدھ نہیں کہ م یچھوں کو تو‬ ‫کیس ہی ڈراوے ی نہ ڈراوے وہ دھر نہیں اویں گے۔ من موہن‬ ‫نے ان کے جی اور ک نوں پر ٹھپ لگ دی ہے اور ان کے نینوں‬ ‫میں موتی پھرا ہوا ہے اور کے لیے بھ ری م ر ہے۔‬ ‫‪...........‬‬ ‫جوا ‪ :‬ترجمہ سورتہ ف تحہ‬ ‫بروز‪ :‬اپریل ‪ 09:15:37 ,2016 ,25‬ش‬ ‫مکرمی و محترمی جن‬

‫حسنی ص ح ‪ :‬سا ع یک‬

‫آپ کی یہ تحریر دیکھ کر انتہ ئی مسرت ہوئی۔ یہ زب ن اکھ پرانی‬ ‫سہی لیکن اس کی ضرورت آج بھی ویسی ہی ہے جیسے م ضی‬ ‫میں تھی۔ دوسری قوموں کے عاوہ خود مس م نوں کے ایک‬


‫طبقے میں بھی اس کی ضرورت ہے۔ جہ ں تک مجھ کو ی د ہے‬ ‫ش ہ ولی ه ص ح نے بھی "پ لن ہ ر" کی قبیل کے ال ظ‬ ‫است م ل کئے ہیں۔ یقین "ر " ک ل ظ ایس ج مع اور مکمل ہے‬ ‫کہ اس ک صحیح ترجمہ کرن نہ یت مشکل ہے۔ "پ لن ہ ر" سے‬ ‫اس کے کئی پہ و واضح ہوج تے ہیں اور یہ ل ظ آج بھی عوا‬ ‫میں مست مل ہے۔ ایس ہی بہت سے ال ظ کے مت بھی کہ‬ ‫ج سکت ہے جو موان فضل الرحمن گنج مرادآب دی نے اپنے‬ ‫ترجمے میں است م ل کئے ہیں۔ ه ان کوجزائے خیر سے‬ ‫سرفراز فرم ئے۔ ا ایسے بزرگ اور وسیع الق ع م کہ ں رہ‬ ‫گئے ہیں۔ آپ کی محنت اور محبت آپ کی تحریر سے ص ف ظ ہر‬ ‫ہے۔ ه سے دع ہے کہ آپ ہم رے سروں پر ق ی رہیں اور یہ‬ ‫ک اسی طرح انج دیتے رہیں۔ آپ ک د بہت غنیمت ہے۔‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10208.‬‬ ‫‪msg61731#new‬‬

‫عربی کی چینی طور میں کی ی گرافی‬ ‫کسی کو ی کسی چیز کو دیکھ کر‘ اپن اپن ی دیکھ دیکھ س‬ ‫محسوس کرن ‘ انسیت اور م نوسیت کے زمرے میں آت ہے۔ اسی‬ ‫طرح‘ دی ر غیر میں اپنے م ک کے کسی ب شندے کو دیکھ کر‘‬


‫محبت آمیز خوشی ہوتی ہے۔ یہ الگ ب ت ہے‘ کہ وہ کوئی‬ ‫دوسری زب ن بولت ہو۔ تصویر دیکھ کر‘عش ہو ج نے کی حقیقی‬ ‫اور داست نی مث لیں موجود ہیں۔‬ ‫خو صورت اور ن یس سی خط طی دیکھ کر بھی‘ سرور میسر‬ ‫آت ہے۔ کسی دوسرے م ک کے من ظر بھی‘ ہمیشہ اہل ذو کو‘‬ ‫خوش آئے ہیں۔ اپنے سے ہوں‘ تو یہ اس سے بڑھ کر ب ت ہوتی‬ ‫ہے۔ یہ ہی صورت سم جی رس و رواج کی ہے۔ اپنے سے‘ ی‬ ‫رائی بھر مم ث ت رکھتے رواج اور اطوار‘ موڈ میں خوش گوار‬ ‫تبدی ی ک ب عث بنتے ہیں۔ یہ ہی نہیں‘ اپنے م ک ک کوئی لب س‬ ‫پہنے نظر آت ہے‘ تو وہ اچھ نہیں‘ بہت اچھ لگت ہے۔ دی ر غیر‬ ‫میں‘ اپنے م ک کی کوئی خوردنی ی است م ل کی چیز‘ دیکھ کر‬ ‫بڑا ہی اچھ لگت ہے۔‬ ‫مجھے چینی طور میں‘ عربی زب ن کی کی ی گرافی‘ دیکھنے ک‬ ‫ات ہوا ہے۔ چینی لوگوں کے پڑھنے میں نہیں آ سکتی‘ ہ ں‬ ‫اپنی سی ک احس س‘ ضرور موجود ہے۔ انہیں یہ گم ن ضرور‬ ‫گزرت ہو گ ‘ کہ یہ اپنی تو نہیں ہے‘ لیکن اپنی سی ضرور ہے۔‬ ‫لہذا اس سے مت قین سے ربطہ کرنے میں‘ کوئی حرج نہیں۔ ی‬ ‫ک از ک ان کو ج ننے میں‘ کوئی خرابی نہیں۔‬


‫رومن اردو‘ انگریزی ک ہر ج نو پڑھ سکت ہے‘ ب ت کی کی گئی‘‬ ‫اس کی سمجھ سے ب ہر رہے گی۔ رومن خط میں لکھی اردو‘‬ ‫پہ ی نظر میں انگریزی ہی لگے گی۔ پڑھنے کے ب د م و ہو گ ‘‬ ‫کہ یہ انگریزی نہیں ہے۔ ج وہ اسے پڑھے گ ‘ اردو والے ب ت‬ ‫سمجھ ج ئیں گے۔‬ ‫یک ہنری لس نی تی سکل یہ بھی ہے‘ کہ بہت سے لوگ قرآن‬ ‫مجید پڑھے ہوتے ہیں۔ وہ عربی روانی سے پڑھ سکتے ہیں‘‬ ‫لیکن اس پڑھے کے م ہی کی ہیں‘ اس سے وہ آگ ہ نہیں ہوتے۔‬ ‫یہ انسیت ی یک ہنری لس نی تی سکل بےم نی اور ای نی نہیں‬ ‫رشتہ ہے۔ ہے۔ یہ ان ج نی سے‘ اپنی سی ک‬ ‫یہ حرفی ک ‘ بڑی ذمہ داری ک ہے۔ اس ہنر سے مت لوگوں‬ ‫نے‘ اسے بڑی ن س ست اور دل جمی سے‘ انج دی ہے۔ ب ض‬ ‫جگوں پر‘ محسوس بھی نہیں ہوت کہ یہ عربی ہے۔ اول و آخر‬ ‫چینی ٹریسز م و ہوتے ہیں۔ اس ذیل میں‘ وہ داد و تحسین کے‬ ‫مستح ہیں۔‬ ‫میرے خی ل میں یہ ک ہوتے رہن چ ہیے۔ اس ک سرک ری سطع‬ ‫پر اہتم ہون چ ہیے ت کہ قومیں‘ ایک دوسرے کو اجنبی ی غیر‬


‫نہ سمجھیں اور ایک دوسرے کے قری آئیں۔ اردو سے مت‬ ‫لوگوں کو چ ہیے‘ کہ وہ جہ ں جہ ں اور جن جن مم لک میں ہیں‘‬ ‫اس ک کو ای نی قرار نہ دیں‘ بل کہ لکھنے میں ان کے اطوار‬ ‫اختی ر کرن کوئی عی نہیں۔ اہل زب ن کو اسے پڑھنے میں‘ کوئی‬ ‫دشواری محسوس نہیں ہو گی۔ جس ک واضح ثبوت عربی کی‬ ‫چینی طور میں کی گئی کی ی گرافی‘ موجود ہے۔‬

‫ح فظ شیرازی کی ش عری اور اردو زب ن‬ ‫ن ‪ :‬شمس الدین محمد‬ ‫ن والد‪ :‬بہ ؤ الدین‬ ‫پیدائش‪ :‬شیراز‘ ایران‬ ‫سن پیدائش‪:‬‬

‫ی‬

‫ح فظ قرآن تھے؛ اسی حوالہ سے ح فظ‘ شیراز کے حوالہ‬ ‫شیرازی‘ تو گوی اس طرح ح فظ شیرازی م روف ہوئے۔‬ ‫ب پ کو سن سن کر‘ قرآن مجید ح ظ ہو گی ۔ ان ہی سے سن‬ ‫کر س دی‘ رومی‘ نظ می اور عط ر جیسے بڑے ش را ک‬ ‫کا ی د ہو گی ۔ باشبہ‘ وہ غض ک ح فظہ رکھتے تھے۔‬


‫اکیس س ل کی عمر میں‘ ایک خ تون سے عش بھی ہوا۔‬ ‫اکیس س ل کی عمر میں‘ عط ر سے ماق ت ہوئی اوران کی‬ ‫ش گردی اختی ر کی۔ درب ری بھی رہے‘ جس سے شہرت‬ ‫میسر آئی۔ م کی ن گواری ح ات کے تحت اص ح ن کی‬ ‫مہ جرت اختی ر کی۔ ب ون س ل کی عمر میں ش ہی دعوت پر‬ ‫واپسی اختی ر کی۔ ان کی ش عری‘ پ نچ سو غزلوں‘ بی لیس‬ ‫رب عی ت اور کچھ قص ئد پر مبنی ہے۔‬ ‫ی‬

‫میں‘ انہتر س ل عمر پ کر انتق ل کی ۔‬

‫اردو اور ف رسی انتہ ئی قری کی زب نیں ہیں۔ ان‬ ‫دونوں کے م بین‘ حیرت ن ک لس نی تی مم ث تں موجود ہیں۔‬ ‫درج ذیل سطور میں ح فظ شیرازی کی ش عری کے تن ظر‬ ‫میں‘ اردو ک لس نی تی مط ل ہ کی ن چیز سی س ی کی گئی‬ ‫ہے۔ یقین ہے احب کو خوش آئے گی۔‬


‫ح فظ کی ش عری ورفتگی کی بہترین مث ل ہے۔ اس ورفتگی‬ ‫کی بنی دی وجہ خو صورت مرکب ت کی تشکیل اور ان ک‬ ‫برمحل است م ل ہے۔ ان کی ش عری میں مخت ف نوعیت کے‬ ‫است م ل ہونے والے یہ مرکب ت اردو والوں کے لیے نئے‬ ‫اور ن ق بل فہ بھی نہیں ہیں۔ ب طور نمونہ چند ایک مرکب ت‬ ‫ماحظہ فرم ئیں۔‬ ‫اض فتی مرکب ت‬ ‫افت ای ‘ ایئن پ دش ہی‘ بحر عش ‘ بر عصی ں‘ تیغ اجل‘‬ ‫جر ست رہ‘ چش خم ری‘ دولت بیدار‘ راہ گنج‘ رس‬ ‫بدعہدی‘ راہ دل‘ زخ نہ ں‘ سنگ خ رہ‘ ش دی ی ر‘ شطرنج‬ ‫رنداں‘ طری اد عز ص ح‘ غمزہ خط ‘قصر دل‘ گن ہ‬ ‫ط لع‘ مر دل‘ مر بہشتی‘ مج ل ش ہ‘ مج ل آہ‘ منزل‬ ‫اس ئش‬ ‫عط ی مرکب ت‬


‫آ و رنگ و خ ل و خط‘ ج ن و دل‘ دانہ و ا ‘ دشمن و‬ ‫دوست‘ راہ و رس ‘ رس و راہ‘ شیخ و زاہد‘ قرار و خوا ‘‬ ‫م ل وج ہ‘ مر و م ہی‘ موج و گردابی‘ ن لہ و فری د‘ ی ر و‬ ‫اغی ر‬ ‫اندیشہ ء امرزش‘ ترانہ ء چنگ‘ چشمہء خراب ت‘ خرقہ ء‬ ‫مے‘ طریقہء رندی‘ گوشہ ء میخ نہ‬ ‫پروائے ثوا ‘ دع ئے پیر مغ ں‘ کوئے نیک ن می‬ ‫ص تی مرک‬ ‫شـ ‪ :‬ت ریک و بی‬ ‫شـ ت ریک و بی موج و گردابی چنین ھ یل‬ ‫عنبر افش ں‪ :‬عنبر افش ں بتم ش ئے ری حیں امد‬ ‫ری حیں‪ :‬عنبر افش ں‬ ‫ری حیں ریح ن وغیرہ‬ ‫ای قصر دل افروز کہ منزل گہہ انسی‬ ‫قصر‪ :‬دل افروز‬


‫خواب بشداز دیدہ درین فکر جگر سوز‬ ‫فکر‪ :‬جگر سوز‬ ‫تشبیہی مرک‬ ‫ہر دیدہ ج ئے ج وہء آں م ہ پ رہ نیست‬ ‫آں‪ :‬م ہ پ رہ ۔۔۔۔۔ وہ‪ :‬م ہ پ رہ‬ ‫کچھ غزلیں ایسی ہیں جن کے ہر ش ر ک پہا ل ظ اردو‬ ‫والوں کے اجنبی نہیں۔ ذرا اس غزل کو دیکھیں۔‬ ‫دل می رود ز دست ص حبداں خدا را‬ ‫دردا کہ راز پنہ ں خواہد شد آشک را‬ ‫دل‘ دردا‘ کشتی‘ ب شد‘ ب دوست ں‘ در‘ گر‘ ح فظ‘ اے‬ ‫اس میں ایک ل ظ ب شد الگ سے ہے ورنہ ہر ل ظ اردو‬ ‫والوں کے است م ل میں ہے۔‬


‫ان کی بیشتر غزلوں کے قوافی‘ اردو میں مست مل ال ظ ہی‬ ‫نہیں‘ ب طور قوافی بھی است م ل میں آتے رہے ہیں۔ ح فظ‬ ‫‪:‬کی فقط دو غزلوں کے قوافی ماحظہ ہوں‬ ‫‪1‬‬ ‫بحریست بحر عش کہ بہیچش کن رہ نیست‬ ‫آن ج جز اینکہ ج ں بسپ رند چ رہ نیست‬ ‫چ رہ‘ استخ رہ‘ ک رہ‘ ست رہ‘ پ رہ‘ آشک رہ‘ خ رہ ‘کن رہ‬ ‫‪2‬‬ ‫زاہد ظ ہر پرست از ح ل م آگ ہ نیست‬ ‫در ح م ہر چہ گوید ج ئے ہیچ اکراہ نیست‬ ‫آگ ہ‘ اکراہ‘ گمراہ‘ ش ہ‘ آہ‘ نآگ ہ‘ ه‘ درگ ہ‘ کوت ہ‘ راہ‘‬ ‫گہجہ‬


‫ب ض غزلوں کے ردیف اردو والوں کے لیے اپنے سے‬ ‫ہیں۔ مثا ایک غزل ک ردیف آمد ہے۔ ل ظ آمد اردو میں ع‬ ‫است م ل ک ل ظ ہے۔‬ ‫ح فظ کی ش عری کی زب ن‘ عرصہ دراز کی ف رسی ہے۔‬ ‫حیرت کی ب ت یہ ہے‘ کہ اس ک تکیہءکا اور طرز تک‬ ‫کی کئی ایک مث لیں‘ آج بھی اردو والوں کے لیے نئی نہیں‬ ‫ہیں۔ یہ م نوس ہی نہیں‘ آج بھی رائج ہے۔‬ ‫اردو میں بانے کے لیے اے مست مل ہے۔ مثا‬ ‫اے لڑکے‬ ‫ف رسی میں بھی اے بانے کے لیے است م ل کرتے ہیں۔‬ ‫مثا‬ ‫اے ش ہد قدسی‬ ‫اے ش ہد قدسی کہ کشد بند نق بت‬ ‫پنج بی میں بانے کے لیے وے مست مل ہے۔ مثا‬ ‫وے نور جم ا‬


‫ف رسی میں بھی وے بانے کے لیے است م ل کرتے ہیں۔‬ ‫جیسے‬ ‫وے مر بہشتی‬ ‫وے مر بہشتی کہ دہد دانہ و ابت‬ ‫یہ صیغہءمخ ط ‘ ش ید پنج بی ہی سے‘ ف رسی میں منتقل‬ ‫ہوا ہے۔‬ ‫کج‬ ‫کج ف رسی ل ظ ہے‘ لیکن پنج بی میں ف رسی م نوں اور‬ ‫پنج بی طور کے س تھ عمومی است م ل ک ل ظ ہے۔ مثا‬ ‫ف رسی‪:‬‬ ‫چرا مردہ کـج شمـع آفـت‬

‫کـج‬

‫صـاح ک ر کـج و مـن خرا کـج‬ ‫پنج بی‪:‬‬


‫گوشت روٹی کج دال روٹی کج‬ ‫کج پہکھ ننگ کج تخت سکندری‬ ‫کج پہکھ ننگ کج ب دش ہی‬ ‫اردو میں ل ظ کہ ں است م ل میں آت ہے‬ ‫ح فظ کے ہ ں مست مل س بقے احقے اور ان سے ترکی‬ ‫پ نے والے ال ظ‘ اردو میں ع است م ل کے ہیں۔ مثا‬ ‫س بقے‬ ‫بد‬ ‫ھمـه ک ر ز خود ک می به بدن می کشید آخر‬ ‫ن‬ ‫ہر چہ ہست از ق مت ن س ز بی اندا م ست‬ ‫ز عشـ ن تـم م جم ل ی ر مستغنی اسـت‬ ‫بے‬ ‫تنہ جہ ں بگیرد و بےمنت سپ ہی‬


‫احقے‬ ‫یہ ل ظ اردو میں ع است م ل کے ہیں‪ :‬مے آلود‘ ظ ہر‬ ‫پرست‘ میخ نہ‘ خ نق ہ‘ عذر خواہ‘ تکیہ گ ہ‘ سبک ب ر‘‬ ‫سـ دت مـند‬ ‫مزید اردو کے احقوں سے بننے والے ال ظ‪ :‬گردآلود بت‬ ‫پرست‘ کت خ نہ‘ خ نق ہ‘ خیر خیر‘ عید گ ہ‘ گراں ب ر‘‬ ‫عقیدت مند‬ ‫آلود‘ ب ر‘ پرست‘ خ نہ‘ خواہ‘ ق ہ‘ گ ہ‘ مـند‬ ‫ح فظ بخود نپوشد ایں خرقہ ء مے آلود‬ ‫زاہد ظ ہر پرست از ح ل م آگ ہ نیست‬ ‫من کہ گوشہ ء میخ نہ خ نق ہ من ست‬ ‫نوائے من بسحر آہ عذر خواہ من ست‬ ‫فراز مسند خورشید تکیہ گ ہ من ست‬


‫کـج دانـند ح ل م سبک ب ران س حـلھ‬ ‫جوان ن سـ دت مـند پـند پیر دان را‬ ‫ح فظ کے ہ ں است م ل ہونے والی ت میح ت‘ اردو والوں کے‬ ‫لیے غیرم نوس نہیں ہیں۔ مثا‬ ‫ج ئیکہ بر عصی ں بر اد ص ی زد‬ ‫بر اہرمن نت بد انوار اس اعظ‬ ‫ز پ دش ہ و گدا ف رغ بحمده‬ ‫گ ت برخیز کہ اں خسرو شیریں امد‬ ‫در حشمت س یم ن ہر کس کہ شک نم ید‬ ‫گ ت خوش اں ہوائے کز ب‬

‫خ د خیزد‬

‫اا ی ایھ الـس قی ادر ک س و ن ولـھ‬ ‫حضوری گر ھمیخواھی از او غ ی مشو ح فظ‬ ‫مـتی م ت‬

‫من تھوی دع الدنی و اھم ـھ‬


‫ح فظ کے ہ ں ضدین ک است م ل‘ اردو والوں سے مخت ف‬ ‫نہیں۔ دو ایک مث لیں ماحظہ فرم ئیں۔‬ ‫س قی مے بدہ و غ مخور از دشمن و دوست‬ ‫ز پ دش ہ و گدا ٖف رغ بحمده‬ ‫سـم ع وعـظ کـج نغمـه رب‬

‫کج‬

‫چرا مردہ کـج شمـع آفـت‬

‫کـج‬

‫مت‬

‫ال ظ ک است م ل بھی اردو والوں سے مخت ف نہیں۔‬

‫در طریقت ہر چہ پیش س لک آید خیر اوست‬ ‫ک یں ہمہ زخ نہ ں ہست و مج ل آہ نیست‬

‫ح فظ کے ہ ں‘ ش عری کے مخت ف انداز اختی ر کے گیے‬ ‫ہیں۔ ان میں سواا جواب ی مک لم تی انداز بھی اختی ر کی‬ ‫گی ہے۔ یہ انداز اردو والوں کے لیے الگ سے نہیں ہے۔‬ ‫ح فظ کی ایک پوری غزل اس انداز میں م تی ہے۔‬


‫مط ع کے دونوں مصرعوں میں‘ پہ ے سوال پھر جوا‬ ‫گ ت غ تو دار گ ت غمت سر آید‬ ‫گ ت کہ م ہ من شو‪ ،‬گ ت اگر برآید‬ ‫ب قی غزل میں ایک مصرعے میں سوال دوسرے مصرعے‬ ‫میں جوا‬ ‫گ ت ز مہرواں رس وف بی موز‬ ‫گ ت ز م ہ رعی ں ایں ک ر کمتر اید‬ ‫ہ مرتبہ ل ظوں ک بھی باتک ف کر ج تے ہیں۔ مثا‬ ‫ج ن ں گن ہ ط لع و جر ست رہ نیست‬ ‫مصرعے کے مصرعے اردو والوں کے لیے‘ م نوس سے‬ ‫ہیں۔ ت ہی میں دقت پیش نہیں آتی۔ مثا‬


‫سـم ع وعـظ کـج نغمـه رب‬

‫کج‬

‫چرا مردہ کـج شمـع آفـت‬

‫کـج‬

‫ن لہ فری د رس ع ش مسکیں امد‬ ‫اے در رخ تو پیدا انوار پ دش ہی‬ ‫صد چشمہ ا حیواں از قطرہ سی ہی‬ ‫در ک ر خیر ح جت ہیچ استخ رہ نیست‬ ‫آخری مصرعے میں‘ ل ظ نیست اردو میں مست مل نہیں‬ ‫لیکن ل ظ نیستی ب م نی ک ہ ی سستی است م ل میں ہے۔‬ ‫نیست کو نہیں میں بدل دیں۔‬ ‫در ک ر خیر ح جت ہیچ استخ رہ نہیں‬ ‫اردو اور ف رسی کی حیرت انگیز م ث توں کو دیکھ کر‘ اس‬ ‫تذبذ میں پڑ ج ت ہوں‘ کہ اردو ف رسی سے ی ف رسی اردو‬ ‫سے مت ثر ہے۔ یہ الگ سے ک ہے‘ کہ دونوں ک م ضی‬ ‫کی تھ ۔ اس حقیقت ک کھوج لگ نے کے لیے‘ سنجیدہ اور‬ ‫غیرج ن دار سے ک کرنے کی ضرورت ہے۔‬


‫اردو ہ ئیکو ایک مختصر ج ئزہ‬ ‫ہ ئیکو میں بنی دی چیز اس ک نظریہ تخ ی ہے جبکہ ہییت ث نوی‬ ‫‪:‬م م ہ ٹھہرت ہے۔ نظریہ تخ ی میں تین ب تیں آتی ہیں‬ ‫۔ کسی چیز خصوص فطری اور قدرتی عن صر پر پہ ی نظر‬ ‫پڑنے سے پیدا ہونے واا انس نی ت ثر۔‬ ‫۔ اس ت ثر کو اسی طرح ک غذ ق کے حوالے کر دین ۔‬ ‫۔ پیدا ہونے والے ت ثر میں کی قس کی آلودگی کو شجر ممنوعہ‬ ‫سمجھن ۔‬ ‫ہم رے ہ ں اردو میں جن پروفیسر محمد امین(پی ایچ ڈی)‬ ‫نےاس ج پ نی صنف سخن کو مت رف کرای ۔ اس صنف ش ر کے‬ ‫‪:‬تین مصرعے قرار پ ئے۔ اس ذیل میں چند مث لیں ماحظہ ہوں‬ ‫یہ س ر ہے قی ہے کی ہے‬ ‫یہ مس فت کہ طے ہوئی نہ کبھی‬ ‫زندگی کی ہے رتجگوں ک س ر‬


‫)محمد امین(‬ ‫صبر لکھ گی لہو سے ترے‬ ‫تشنگی سو رہی تھی خیموں میں‬ ‫س تھ اس کے فرات بہت تھ‬ ‫)اختر شم ر(‬ ‫مجھ کو اتنی سی روشنی دے دے‬ ‫دل کے کمرے میں بیٹھ کر پل بھر‬ ‫اپنے ح ات زندگی پڑھ سکوں‬ ‫)حیدر گردیزی(‬ ‫ب د ازاں اس کے اوازن پر مب حث ک س س ہ چل نکا۔ اس میں‬ ‫ارک ن ‪ - -‬کی پ بندی از ٹھہری۔‬ ‫میں‬ ‫مقصود حسنی کے نثری ہ ئیکو ک مجموعہ سپنے اگ ے پہر کے‬ ‫ش ئع ہو گی ۔ یقین یہ بہت بڑا ب غی نہ اقدا تھ ۔ خی ل تھ کہ یہ‬ ‫مجموعہ اچھی خ صی لے دے ک شک ر ہو گ ۔ خدش ت کے‬ ‫برعکس اسے پذیرائ ح صل ہوئی۔ اس کے مخت ف زب نوں میں‬ ‫تراج ہوئے۔ نثری ہ ئیکو کے پیش کرنے ک مقصد پہ ے ت ثر کو‬


‫برقرار رکھن تھ ۔ نثری کا میں آہنگ کو بنی دی حثیت ح صل‬ ‫ہوتی ہے۔ آہنگ درحقیت توازن ک ن ہے۔ بطور نمونہ کچھ‬ ‫‪:‬ہ ئیکو ماحظہ فرم ئیں‬ ‫ک ا کوا‬ ‫ک لی راتوں میں‬ ‫مہم ن ہوااج لوں ک‬ ‫آؤ زہد و تق‬ ‫تق ید عصر میں‬ ‫پ میا کے ن کر دیں‬ ‫جیون کے پچھ ے پہر‬ ‫اگ ے پہر کے سپنے‬ ‫سونے نہیں دیتے اکثر‬ ‫پروفیسر ص بر آف قی (پی ایچ ڈی) ک کہن تھ کہ ہ ئیکو نثری‬ ‫نہیں ہیں۔ ان کے ہر مصرعے میں وزن موجود ہے۔ اور تینوں‬


‫مصرعوں کے اوازن الگ الگ ہیں۔‬ ‫ب ت ذرا آگے بڑی تو پہ ے اور تیسرےمصرعے کو ہ ق فیہ قرار‬ ‫‪:‬دے دی گی ۔ اس ضمن میں یہ ن تیہ ہ ئیکو ماحظہ ہو‬ ‫ن اد سے لے‬ ‫س رے اج ے پھی ے ہیں‬ ‫اس محمد سے‬ ‫اصل م م ہ یہ ہے کہ مہ جراپنے دیس کی سم جی م شی‬ ‫عمرانی اورن سی تی روای ت س تھ ات ہے لیکن مہ جر وایت میں‬ ‫یہ س نہیں چ ت اسے مہ جر وایت کے اطوار اور اصول اپن ن‬ ‫پڑیں گے ورنہ وہ اول ت آخر مہ جر ہی رہے گ ۔ یہ ں اس ب ت کو‬ ‫بھی بھولن نہیں چ ہیے کہ یہ اردو ہ ئیکو ک ابتدائ دور تھ ۔‬ ‫انس ن کی طرح ی انس ن کے س تھ س تھ اصنف سخن میں بھی‬ ‫تغیرات آتے رہتے ہیں۔ غزل کو دیکھ اسے کون ایرانی تس ی‬ ‫کرے گ ۔ اردو غزل میں ایرانی مزاج ک ایک حوالہ بھی تاش‬ ‫نہیں کی ج سکت ۔‬ ‫ہ ءیکو آج پردیسی نہیں۔ اس ک رنگ ڈھنگ ج پ نی نہیں رہ ۔ یہ‬ ‫اردو مزاج سے ک ی طور پر ہ آہنگ ہے۔ اس کی روح میں اردو‬ ‫مزاج رچ بس گی ہے لہذا ا اسے اردو صنف اد ہی کہ ج ن‬


‫من س لگت ہے۔ ہ ں یہ ت ریخی حقیقت رہے گی کہ ہ ئیکو ج پ ن‬ ‫سے درامد ہوئی ہے اور اس ک موڈھی پروفیسر محمد امین(پی‬ ‫ایچ ڈی) ہے۔ زندگی اور اس کے مت ق ت کو ہر ح ل میں چ تے‬ ‫رہن ہےمیرے ی کسی اور کے کہنے ی کوشش سےیہ رک نہیں‬ ‫سکتی۔‬ ‫چند ج پ نی ہ ئیکو درج کر رہ ہوں اوپر درج کئے گئے اردو‬ ‫ہ ئیکو سے موازنہ کر لیں دونوں کے مزاج میں زمین آسم ن ک‬ ‫‪:‬فر نظر آئے گ‬ ‫برف‬ ‫جو ہ دونوں نے دیکھی تھی‬ ‫کی اس س ل بھی گرے گی‬ ‫ب شو‬ ‫تنہ ئی بھی‬ ‫مسرت ہے‬ ‫ش خزاں‬


‫ہوس بوس ن‬ ‫کتنی حسین ہے‬ ‫دروزے کے سوراخ سے‬ ‫کہکش ں‬ ‫کوب شی اس‬

‫برس ت‬ ‫گھر ک رستہ سیابی ہے‬ ‫اور مینڈک وہ ں تیر رہے ہیں‬ ‫م س ؤک شی کی‬ ‫زرد پھولوں کی خوشبو مترج ڈاکٹر محمد امین وکٹری بک (‬ ‫)بینک اہور‬ ‫آج کی اردو ہ ئیکو اردو غزل کے مزاج سے بہت قری ہو کر‬ ‫بھی اپنی الگ سے پہچ ن اور رنگ ڈھنگ رکھتی ہے۔ ہ ءیکو‬ ‫نے خوش دلی سے اردو مزاج اپن ی ہے۔ اپنے اس سھ ؤ کے‬


‫سب آتے وقتوں میں اردو ہ ئیکواپن ج ءز مق ح صل کر لے گی‬ ‫اور اسے وافر ت داد میں ش عر اور ق ری میسر آ ج ئیں گے۔‬ ‫‪:‬‬ ‫‪http://www.forumpakistan.com/urdu-hyku-eak-mukhtasar-jaaeza-t89904.html#ixzz43tSN4k‬‬ ‫‪fw‬‬

‫کا ای نی اور بےم نی نہیں ہوت‬ ‫ش ید ہی کوئی پڑھ ی ان پڑھ‘ موسیقی سے شغف نہ رکھت‬ ‫ہو گ ۔ حمد‘ ن ت‘ نغمہ‘ گیت‘ غزل‘ گ ن وغیرہ ہمیشہ‬ ‫ن سہی‘ کبھی کبھ ر ضرور سنت ہو گ ۔ مزدور طبقہ سے‬ ‫مت لوگ‘ اوروں سے زی دہ‘ اس کے ش ئ ہوتے ہیں۔ یہ‬ ‫ایک الگ ب ت ہے‘ کہ وہ ش ر کہتے نہیں۔ اگر کسی کو‬ ‫ش ر کہنے ک شو لپک پڑے‘ تو وہ پوری دل جمی سے‘‬ ‫اس کی کوشش کرتے ہیں۔ ان غیر ش را کی کوشش کو‘ اگر‬ ‫ش ر نہیں تو نثر بھی نہیں کہ ج سکت ۔ اس میں‘ کسی‬ ‫ن کسی سطع پر آہنگ ضرور موجود ہوت ہے۔‬


‫جس تحریر میں کسی بھی سطع ک آہنگ موجود ہوت ہے وہ‬ ‫نثر نہیں ہوتی۔‬ ‫دوسری ب ت یہ کہ اس ک اس و اور نحوی اہتم نثر سے‬ ‫قط ی ہٹ کر ہوت ہے۔‬ ‫تیسری بڑی ب ت یہ کہ خی ل ی جذبے کی پیش کش نثر سے‬ ‫مخت ف ہوتی ہے۔‬ ‫اسی طرح جذبے ی خی ل کی پیش کش کے زیر اثر ل ظوں‬ ‫کی م نویت اور ل ظ کی گرائمری حیثیت میں بھی فر آ‬ ‫ج ت ہے۔‬ ‫ان م روض ت کے تن ظر میں اس ع سے شخص کی یہ‬ ‫کوشش نثر نہیں کہا سکتی۔ عروضی اسے ش عری م نیں‬ ‫ی ن م نیں لیکن دی نت داری سے اس ک مط ل ہ کریں‬ ‫تواسے نثر کہتے ہوئے ان کی زب ن میں لکنت ضرور آئے‬ ‫گی۔‬ ‫اردو ش ر و نثر کی ت ریخ ک مط ل ہ کردیکھیں فورٹ ولی‬ ‫ک لج‘ سرسید تحریک‘ ش ہ ی پھر ش ہ کے شورےف سے‬


‫جڑے‘ گنتی کے چند لوگ ہی نظر آئیں گے۔ کچھ خوش‬ ‫نصیبوں کے دو چ ر ش ر تذکروں میں مل ج ئیں گے۔ اصل‬ ‫حقیقت یہ ہے کہ میر و سودا سے کہیں بڑے ش عر گ ن می‬ ‫کی بستی میں ج بسے۔ فردوسی اس لیے زندہ رہ ‘ کہ وہ‬ ‫محمود ک چمچہ تھ ۔ ادھر ذو کی بھی یہ ہی صورت ہے۔‬ ‫کسی بھی کہنے والے کو بےوزن کہہ کر رد کر دین سراسر‬ ‫زی دتی کے مترادف ہے۔ اج رہ دار ن نہ د است د ش را ک‬ ‫اس زی دتی میں کوئی ک حصہ نہیں۔‬ ‫کہنہ مش ہو کہ نوآموز ش عر ی ابھی ابھی شوقیہ‘ کسی‬ ‫جذبے‘ کسی واق ے‘ کسی م م ے ی ح دثے سے مت ثر ہو‬ ‫کر کہنے والے کے کہے کو کسی طور پر نظر انداز نہیں‬ ‫کی ج سکت ی کی ج ن چ ہیے۔ مزے کی ب ت یہ کہ ابھی‬ ‫ابھی کہنے والے کی فکر اور زب ن میں ہر دو پہ وں سے‬ ‫بڑھ کر مت ثر کرنے کی صاحیت ہو گی۔ اگر وہ ایک ب ر‬ ‫پٹری چڑھ گی تو آتے وقتوں میں دھ ئی ڈال دے گ ۔ یہ الگ‬ ‫ب ت ہے کہ موجود قرار دیے گیے است د ش را اور ش ہی‬ ‫جھولی چک قرار پ ئے بڑھ ش را اسے قد قد پر ٹیز کریں‬ ‫گے ت کہ کسی کی اس کی ج ن نظر ہی نہ ج ئے۔‬


‫ہر وہ جو اپنی دانست میں ش ر کہ رہ ہے کے کہے کو نثر‬ ‫نہیں ٹھہرای ج سکت ۔ وہ مت قہ زب ن کو کچھ ن کچھ دے‬ ‫رہ ہوت ہے۔ مثا‬ ‫‬‫کسی رائج مہ ورے ک نی است م ل دے رہ ہوت ہے۔‬ ‫اس کے الگ سے م نی فراہ کر رہ ہوت ہے۔‬ ‫پ س سے کوئی نی مہ ورہ گھڑ رہ ہوت ہے۔‬ ‫سٹریٹ میں موجود مہ ورہ است م ل کر رہ ہوت ہے۔‬ ‫‬‫اس کے کہے میں موجود روزمرہ اور تکیہ کا موجود‬ ‫ہوت ہے۔‬ ‫‬‫کوئی ن کوئی فنی‘ سم جی‘ م شی‘ سی سی اصطاح‬ ‫است م ل میں ا رہ ہوت ہے۔‬ ‫‬‫نئے ال ظ است ل میں ا رہ ہوت ہے۔‬ ‫‪-‬‬


‫ال ظ ک نی است م ل اور ان کے نئے م ہی دری فت کر رہ‬ ‫ہوت ہے۔‬ ‫‬‫نئے ال ظ گھڑ رہ ہوت ہے۔‬ ‫‬‫ال ظ میں اشک لی تبدی ی ں ا رہ ہوت ہے۔‬ ‫‬‫آوازوں کے تب دل ک عمل پوری شدت سے متحرک ہوت ہے۔‬ ‫ب ت یہ ں تک ہی محدود نہیں رہتی۔ وہ‬ ‫‬‫زب ن کو مخت ف نوعیت کے مرکب ت مہی کر رہ ہوت ہے۔‬ ‫‬‫ن دانستہ طور پر عامتیں است رے اور اش رے تشکیل پ‬ ‫رہے ہوتے ہیں۔‬ ‫‪-‬‬


‫مروجہ سے ہٹ کر تشبیہ ت اور ت میح ت زب ن کو میسر آ‬ ‫رہے ہوتے ہیں۔‬ ‫مزید یہ بھی کہ‬ ‫‬‫اس کے کہے میں ل ظ کی اس کے ک چر سے میل کھ تی‬ ‫سم جی ت موجود ہوتی ہے۔‬ ‫‬‫ال ظ کی نئی ن سی ت وضع ہو رہی ہوتی ہے۔‬ ‫‬‫کسی عصری واق ے‘ م م ے اور ح دثے کی شہ دت موجود‬ ‫ہوتی ہے۔‬ ‫‬‫کوئی انکش ف موجود ہو سکت ہے۔‬ ‫‬‫کسی ع لمی غنڈہ ط قت کی بدم شی کی طرف اش رہ موجود‬ ‫ہو سکت ہے۔‬


‫‬‫کسی عصری تخ ی ی شے ک ن است م ل آی ہوت ہے۔‬ ‫‬‫انس نی جذب ت کی والہ نہ انداز میں عک سی موجود ہوتی‬ ‫ہے۔‬ ‫‬‫غ ‘ غصہ‘ درد‘ کھونے ک غ پوری شدت سے موجود ہوت‬ ‫ہے۔‬ ‫‬‫خوشی کے اظہ ر کے لیے بھی‘ یہ ہی طوراختی ر کی گی‬ ‫ہوت ہے۔‬ ‫اس کا میں مخت ف ش ری صن تی اور حسن ش ر پڑھنے‬ ‫کو م تی ہیں۔ مثا‬ ‫تکرار ل ظی و تکرار حرفی‬ ‫صن ت تض د‬ ‫ہ صوت ال ظ ک است م ل‬


‫تحت النقط‘ فو النقط اور بےنقط ائنیں‬ ‫ہ مرتبہ ال ظ ک است م ل‬ ‫مت‬

‫ال ظ ک است م ل‬

‫اس کا میں مخت ف طور بھی پڑھنے کو م تے ہیں۔ مثا‬ ‫بی نیہ‘ است س ریہ‘ حک ئی‘ مک لم تی‘ مزاحمتی ج رح نہ‬ ‫وغیرہ‬ ‫یہ کا ای نی اور بےم نی نہیں ہوت اس میں ب ق عدہ پیغ‬ ‫ہوت ہے۔ ب ض اوق ت اس قس ک کا لکھنے والے ش را‬ ‫کے ہ ں ب س بقہ ش را کے کا سے کہیں بڑھ کر روانی‬ ‫ش ئستگی اور شی تگی کے س تھ س تھ کم ل درجے ک پیغ‬ ‫بھی موجود ہوت ہے کہ ب س بقہ ش را اس کی گرد تک کو‬ ‫بھی نہیں پہنچ پ تے۔ ضروری نہیں کوئی ب س بقہ اور ش ہی‬ ‫چمچہ ش عر ہی بڑی ب ت کرے۔ بڑوں ک ہونے کے سب‬ ‫اس کے کہے ج ئے یہ قط ی الگ سے ب ت ہے۔ بڑی ب ت‬ ‫عمر تجربہ ت ی سے وابستہ نہیں۔ ایک بچہ بھی بڑی ب ت‬ ‫کہہ کر حیرت میں ڈال سکت ہے۔‬



Turn static files into dynamic content formats.

Create a flipbook
Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.