سوہنا شہر لصور۔۔۔ ایک تعارؾ مرتب ممصود حسنی ابوزر برلی کتب خانہ اپریل ٢٠١٦
بہت شکریہ بھائی جی اتنی مفید پوسٹ کو۔۔لصور کے جناب ارشاد حمانی سے بہت انسیت تھی لیکن لصور میں اتنی نامور شخصیات تعلك رکھتیں مجھے اس کا ہر گز نہیں پتہ تھا اور یہ بات بھی بہت کم لوگ جانتے کے رضیہ سلطان لصور میں مدفون ہیں بہت زیادہ خوش رہیں اور فورم پہ آتے رہا کریں
خوش رہیں ڈاکٹر فاسٹس http://www.pegham.com/showthread.php?t=83792
سوہنا شہر لصور۔۔۔ ایک تعارؾ انسان ہمیشہ سے اپنے سے پہلوں کی بڑی دلچسپی اور توجہ سے کھوج کرتا آ رہا ہے۔ وہ جاننا چاہتا ہے کہ اس کے بڑے فکری معاشی اور معاشرتی حوالہ سے کہاں کھڑے تھے۔ ان کی نفسیات کیا تھی۔ اس ذیل میں وہ اپنا اور ان کا موازنہ بھی کرتا آ رہا ہے۔ انسان اپنے پرکھوں کی عزت کرتا ہے۔ ان کی اخاللیات کی تحسین کرتا ہے۔ ان کی بہت سی باتوں پر فخر کرتا ہے۔ اس ضمن میں ان کو خود سے بہترسمجھتا آ رہا ہے۔ ان کی بعض کوتاہیوں کو صرؾ نظر کرتا ہے۔ ان کوتاہیوں کی نشاندہی کرنے والے کو برداشت نہیں کرتا۔ یہ اس کی نفساتی کمزوری ہی نہیں اپنے ماضی سے پیار اور اس سے اٹوٹ رشتہ ہونے کی دلیل بھی ہے۔ گویا انسان کی مثل زنجیر کی سی ہے۔ اگر وہ ماضی
کے کسی شخص کو برا سمجھتا ہے تو بھی یہ اس سے متعلك ہونے کا ثبوت ہے۔ مورکھ (مورخ) ہو کہ والعہ نگار‘ اس کو زندہ ہو کہ صدیوں پہلے کا مردہ بادشاہ عزیز رہتا ہے۔ کچھ ہی دن ہوے اخبار میں مع تصور خبر چھپی کہ جہانگیر بادشاہ کے ممبرے کی حالت بڑی بری ہے۔ خبر یوں لگی جیسے اس بر توجہ نہ دی گئ تو سماجی معاشی اور سیاسی دنیا برباد ہو جائے گی۔ ککھ نہیں رہے گا۔ مجھے دکھ اور افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ لصور میں موجود سات سے نو ہزار سال پرانی انسانی تہذیب کا ستیاناس مار کر رکھ دیا گیا ہے۔ بالی ماندہ آثار کی گردن مارنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور کسی کو پرواہ تک نہیں۔ میں نے کسی بادشاہ کی لبر مبارک کا سراغ لگانے کی پوری پوری کوشش کی ہے۔ چاہے دین الہی کا سا مذہب ایجاد کرنے واال مسلمان تاریخ میں شامل بادشاہ ہی کیوں نہ ہوتا۔ میں نے تالش کا عمل ابھی ختم نہیں کیا۔ ایک نہ ایک دن کوئ بادشاہ ضرور تالش لوں گا کیونکہ مؽلیہ عہد کی کچھ چیزوں کا سراغ مل گیا ہے۔ جس سات سے نو ہزار سال پرانی تہذیب کے فتل عام سے متعلك اپنی معروضات پیش کرنے جا رہا ہوں اس کا ہلکا پھلکا
تعارؾ پیش کر رہا ہوں تاکہ اس عاللہ کے تاریخی ہونے کے حوالہ چند ابتدائی معلومات درج کر رہا ہوں تاکہ لاری کسی حد تک لصور* کو جان اور پہچان سکے۔ لصور حضرت بابا بلھے شاہ کی سرزمین ہے۔ حضرت فریدالدین گنج شکر نے یہاں چلہ کاٹا۔ ان کی چلہ گاہ آج بھی موجود ہے اور اس کی زیارت کے لیے لوگ یہاں آتے رہتے ہیں شہرہ عالم کی حامل پنجابی مثنوی “ہیر“ جو ہیر وارث کے نام سے جانی جاتی ہے‘ کے شاعر پیر وارث شاہ نے کسب علم اسی شہر سے حاصل کیا۔ حضرت پیرمہر علی شاہ صاحب اکثر یہاں تشریؾ التے رہتے تھے۔ میرا سوہنا شہر کی گائیک ملکہ ترنم نور جہان اسی شہر سے تعلك رکھتی تھیں۔ حضرت شاہ حسین کے پیر بھائی‘ صدر دیوان یہاں الامت رکھتے تھے اس لیے حضرت شاہ حسین الہوری یہاں آتے جاتے رہتے تھے۔ حضرت ؼالم محی الدین دائم حضوری اور خواجہ ؼالم مرتضی کا تعلك لصور سے تھا۔ حضرت بابا گرو نانک دیو کے مسیر یعنی خالہ زاد رام تھمن لصور میں رہایش رکھتے تھے اس حوالہ سے وہ یہاں تشریؾ الئے۔ راجہ ٹوڈر مل ماہر مالیات اور اکبر کا نورتن لصور سے تعلك
رکھتا تھا۔ اکبر کے سرکاری گویے تان سین کو یہاں ( روہے وال) جاگیر عطا ہوئی۔ اپنی جاگیر پر آیا تو حضرت پیر اخوند سعید ان کا موزک سننے گئے۔گویا تان سین گویا ہی نہیں لصور کا جاگیردار بھی تھا۔ کہتے ہیں بادشاہ ہند رضیہ سلطان کی بادشاہی کو زوال آیا تو وہ لصور آگئ ۔ بڑے لبرستان میں آج بھی اس کی آخری آرام گاہ موجود ہے۔ سنگیت کی دنیا کے بادشاہ استاد بڑے ؼالم علی اور استاد چھوٹے ؼالم علی شہر لصور کے رہایشی تھے۔ راگ جنگلہ لصور کی ایجاد ہے۔ معروؾ سنگر منظور جھال لصور کا رہنے واال تھا۔ جہان فن کے مصنؾ ڈاکٹر ظہور احمد چوہدری کا تعلك کوٹ رادھا کشن‘ لصور ہے۔ موالنااحمد علی جنہیں کشؾ المبور میں مہارت حاصل تھی کی لصور بلھے اور کمال چشتی کے دربار پر حاضری ثابت ہوتی ہے۔ عبدهللا عبدی خویشگی مصنؾ اخباراالاولیا‘ مفتی ؼالم سرور چونیاں جو آج لصور کی تحصیل ہے میں مالزمت کرتے رہے' موالنا ؼالم هللا لصوری‘ موالنا ؼالم دستگیر‘ عالمہ شبیر احمد ہاشمی‘ عالمہ مہر دمحم خاں ہمدم (شاہنامہ اسالم ہمدم کے شاعر)‘
بانگ درا کا دیباچہ لکھنے والے سر عبدالمادر‘ تحریک مجاہدین کے سر گرم کارکن موالنا عبدالمادر وؼیرہ لصور کے رہنے والے تھے۔ عبدالستار نیازی تحریک ختم نبوت کی پکڑ دھکڑ سے بچنے کے لیے لصور کے مہمان بنے۔ صاحب خانہ کے صاحب زادے کی مخبری پر گرفتار ہوئے سید نادر سمشی جنہیں ١٩١٩کی مارشل کی خالؾ ورزی اور تھانے کی توڑ پھوڑ کے الزام میں کالے پانی بھیجا گیا لصور کے بہادر سپوت تھے۔ ناموس رسالت کی پاسداری میں ١٩٣٥میں پھانسی کی سزا پانے والے ؼازی دمحم صدیك کا تعلك لصور سے تھا۔ صوفی شاعر ؼالم حضور شاہ لصوری‘ سوہن سنگھ سیتل‘ احمد یار خاں مجبور(میرا ایم فل کا ممالہ ان کی شاعری پر تھا)' آزر روبی معروؾ مصور‘ منیر احمد سائنسدان‘ بھارت کی کسی ہائیکورٹ کے چیؾ جسٹس ملہوترا‘ خواجہ دمحم اسالم مصنؾ ‘موت کا منظر‘ پروفیسر صحافی وزیر ارشاد احمد حمانی
ڈاکٹر مولوی دمحم شفیع‘ علیم نصری مصنؾ شاہ نامہ باال کوٹ‘ سی ایل نارنگ‘ چنن سنگھ ورک محمك البال لیصر‘محمك البال مجدی‘ معروؾ صحافی اسدهللا ؼالب‘ تنویر بخاری‘ عبدالجبار شاکر‘ صادق لصوری وؼیرہ لصور کے رہایشی رہے ہیں۔ اسی طرح عالمی شہرت یافتہ کینسر مرض کے ماہر ڈاکٹر محمود‘ ڈاکٹر ہمایوں نیرو سرجن‘ ڈاکٹر نعیم لصوری‘ ۔ ڈاکٹر سید کنور عباس ماہر التصادیات لصور کے رہنے والے ہیں۔ آئین 1973کے خالك میاں محمود علی لصوری کا تعلك لصور سے ہے۔ زیڈ اے بھٹو کو تختہ دار تک پہچانے واال بھی لصور سے تعلك رکھتا ہے۔ پنجاب کے پہلے وزیراعظم نواب افتخار احمد ممدوٹ لصور سے ہیں انکے والد نواب شاہ نواز ممدوٹ لائداعظم کے دست راست تھے۔ معین لریشی سابمہ وزیراعظم پاکستان لصور سے تعلك رکھتے تھے۔ سردار آصؾ احمد علی‘ سردار عارؾ نکئ سبالہ وزیر اعلی پنجاب لصور کے ہیں ملک شوکت عزیز سابمہ وزیراعظم کا تعلك لصور سے ہے۔ پنجاب کا پہال چیؾ سیکریڑی عبدالمجید شیخ کا تعلك لصور سے ہے۔ یوسؾ خاں اور ضیاء محی الدین لصور کے ہیں۔ بھگت سنگھ
آزاد کے ننھیال لصور کے ہیں۔ ان کے ڈیتھ ورانٹ پر دستخط بھی ایک لصوری مجسڑیٹ نے کیے۔ کرانتی کار نظام لوہار اور ملنگی لصور کے ہیں۔ معوؾ ڈاکو جگت سنگھ المعروؾ جگا کا تعلك بھی لصور سے ہے۔ عالمہ عالؤالین صدیمی ،صوفی تبسم‘ سید عابد علی عابد‘ ڈاکٹر سید عبدهللا‘ اشفاق احمد‘ اختر شمار وؼیرہ لصور تشریؾ ال چکے ہیں۔ میتھی جوڑوں کے درد کی شفا اور بطور سبزی پوری دنیا میں اپنا الگ سے شہرہ رکھتی ہے۔ فالودہ اور اندرسے لصوری تحفہ ہیں۔ پیروں میں پورا نہ آنے کے سبب لصوری جتی کو کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے۔ لصور سے تعارؾ کے لیے یہ بہت ہی مختصر تفصیل کافی لگتی ہے۔ میں اسے یہاں ختم کرتا ہوں کیونکہ اس کے بعد کےانکشافات اس تفصیل سے کہیں زیادہ حیران کن ہوں گے۔ بابا جی بلھے شاہ کے مطابك لصور لصر سے ترکیب پایا ہے۔ لصر کی جمع لصور ہے۔ سترویں صدی میں یہ شہر آباد و
شاداب تھا اور سکھوں کا تسلط تھا راجہ راءے سنگھ کا سکہ چلتا تھا اور اس شہر کا نام شکر پور تھا۔ عین ممکن ہے کہ یہ نام گنج شکر کے حوالہ سے ترکیب پایا ہو۔ بابا فرید شکر گنج کے مرید اور ان کے متعلك اوروں کا بھی یہ شہر بسیرا رہا ہے۔ یہ بھی خبر ہے کہ وہ یہاں خود بھی تشریؾ الئے۔ بابا صاحب کے دادا جان لاضی شعیب الدین بھی یہاں تشریؾ الئے۔ گویا بابا فرید سے پہلے لصور سے ان کے خاندان کا تعلك واسطہ تھا۔ اس ذیل میں یہ روایت بھی موجود ہے حضرت) رام چندر (جی) کے دو بیٹے‘ الو اور کش ( تھے۔۔۔۔۔۔چوتھی صدی لبل مسیح میں الو (یا الہ) اور کش نے الہور اور لصور شہر لائم کئے۔ دوسرے بیٹے کا نام کس بھی بتایا جاتا ہے۔ لو اور کش سیتا کے بطن سے تھے اور راجپوتوں کے دو خاندان خود کو ان کی اوالد بتاتے ہیں۔ اس روایت کے مطابك اس عاللے کو لاءم ہوئے چوبیس سو سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے۔ کسی رویت کو اس وجہ سے تسلیم نہ کرنا کہ وہ مخالؾ نظریہ کے شخص کی ہے‘ کسی بھی حوالہ سے درست نہیں۔ لصور اگرچہ اس سے پہلے بھی موجود تھا تاہم یہ نام ( کسور) اس دور میں مال۔ اس سے پہلے اس کا نام کوئ اور رہا ہو گا۔
یہ کہنا کسی طرح درست نہیں لگتا کہ لصور کش نے آباد کیا اصل معاملہ یہ تھا کہ حضرت رام چندر جی نے الہ کو الہور والی والیت اور کش کو لصور والی والیت بطور جاگیر عطا کی۔ سکندر اعظم ویرانے میں ٣٢٦یا ٣٢٩میں نہیں آیا ہو گا عاللہ بیاس خوب آباد رہا ہوگا۔ یہی نہیں لصور پورے ہندوستان کی ذرخیز ترین والیت تھی۔ گندم مکئ گنا سبزیات بشمول میتھی خصوصا جانوروں کا چارہ وؼیرہ کی پیداوار کے حوالہ سے معروؾ رہا ہو گا۔ سکندری فوج نے خوب تباہی مچائی ہو گی۔ جوابا وہ بھی مرے ہوں گے۔ ان کی لبریں وؼیرہ یہاں ہی ہوں گی۔ ہو سکتا ہے لبرستان جٹو میں ان کو دفنایا گیا ہو گا۔ چینی سیاح ہیون سانگ جو بدھ مت کا پرچارک بھی تھا‘ کے ہاں لصور کا ذکر موجود ہے۔ کپڑے کی صنعت کل پرسوں سے تعلك نہیں رکھتی۔ اسی طرح اسلحہ سازی میں کمال رکھتا تھا۔ اس ذیل میں کمال کے ہنرمند موجود تھے۔ پورس کی فوج کو آخر رسد کہاں سے دستیاب ہوتی ہو گی۔ یہ مانا نہیں جا سکتا رسد پوٹھوہار سے آتی ہو گی۔ عاللہ بیاس کے حوالہ سے رسد اور سپاہ اسی والیت سے دستیاب ہوتی ہو گی۔ الہور نام کے شہر افؽانستان اور پشاور میں بھی بتائے جاتے ہیں۔ راجپوتانہ میں شہر لوہار موجود ہے۔ لہارو بھی ایک جگہ کا نام ہے۔ اس طرح کے اور نام بھی ملتے ہیں۔ گویا الہ کی
دسترس دور دراز عاللوں پر رہی ہوگی۔ اسی طرح بمول سید دمحم لطیؾ اور کنہیا الل تحریروں میں الہور؛ لوہار‘ لوہر‘ لوہ آور‘ لھانور‘ راہ رو‘ لہا‘ لہانو‘ لوپور‘ لوہارپور بھی آتا ہے۔ ایک روایت کے مطابك الہور کی بنیاد راجہ پریچھت نے رکھی اور اس کا نام پریچھت پور رکھا۔ اس راجے کا عہد شری شری رام چندر جی کے بعد کا ہے۔ یہ رایت درست نہیں کیونکہ الہور عاللے کا وجود اس سے پہلے تھا۔ راجہ پریچھت نے اس ایریا میں کوئ الگ سے عاللہ آباد کیا ہو گا۔ راجے مہاراجے اپنی اوالد اور دیگر خدمت گاروں کو گزارے کے لیے جاگیریں دے دیا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ فوج کے حوالہ سے اور انگریز کی عطا کی گئ جاگیروں والے لوگ ہمارے ہاں موجود ہیں۔ ؼالبا لوہے سے متعلك پیشہ کے کام کرنے والے کے لیے لوہار مستعمل ہو گیا ہو گا۔ لوہ بہت بڑے یودھا رہے ہوں گے اور لوہا میں اس حوالہ سے ڈوبے رہتے ہوں گے۔ ویسے ہمارے ہاں بلکہ پوری دنیا میں نام بگاڑنے کا عام رواج ہے۔ یہاں ایک صاحب کا نام مولوی چھوٹیرا تھا ولت گزرنے کے بعد نام بگڑ گیا مولوی بٹیرا نام معروؾ ہو گیا۔ فضل دین سے فجا جنت بی بی سے جنتے ایسے نام سننے کو ملیں گے۔
حضرت رام چندر جی کے خاندان کے لوگ دونوں والءتوں میں حکومت کرتے رہے۔ اس خاندان کے ایک راجے نے الہور پر حملہ کرکے اس پر اپنا تسلط حاصل کر لیا۔ الہور اور لصور ایک والیت ٹھہرے۔ گویا اس حوالہ سے سیاسی سماجی معاشی اور معاشرتی اختالط وجود میں آیا۔ لصور اس حوالہ سے بہت بڑی مضبوط اور توانا والیت ٹھہرتی ہے۔ اس امر کے ثبوت اس کے کھنڈرات سے‘ جو ابھی کسی حد تک بالی ہیں سے تھوڑی سی کوشش کے بعد دستیاب ہو سکتے ہیں۔ کچھ چیزیں ایسی بھی موجود ہیں جس سے اس عظیم الشان والیت کے دفاعی نظام کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ش آواز کا س یا س کا ش میں تبدیل ہونا کوئ نئ بات نہیں۔ کس پر ور کی بڑھوتی ہوئ ہے۔ ور پور کا تبادل ہے۔ جیسے جبل پور‘ نور پور‘ وزیر پور‘ بجید پور وؼیرہ۔ پور سے پورہ ترکیب پایا ہے۔ تاہم ور بھی مستمل ہے جیسے بجنور بجن ور‘ اخنور اخن ور‘ پشاور پشا ور‘ سنور سن ور‘ کالنور کالن ور وؼیرہ ۔ ور پور اور پورہ الحمے جگہوں کے لیے استعمال میں آتے ہیں۔ کش سے کس ہوا اور کس پر ور کا الحمہ بڑھایا گیا اور اس
سے کسور ترکیب پایا۔ اس رویت سے متعلك لصور کش واال لصور ہے۔ پٹھانوں کو جو عاللہ مال اس پر انھوں نے عمارتیں تعمیر کیں اور یہ پٹھانوں کے دور سے نام مستعمل نہیں ہے۔ کثو بھی تحریروں میں آتا ہے اور اسی سے کثور ترکیب پایا ہو۔ ث کے لیے بھی رومن لکھتے ایس استعمال ہوتا ہے۔ حضرت امیر خسرو یہاں تشریؾ الئے اوران کے مطابك یہ عمارتوں کا شہر تھا اب عمارتیں ختم ہو گئی ہیں۔ یہ سات سو سال پہلے کی بات ہے۔ گویا سات سو سال پہلے بھی کھنڈرات پر ہی شہر آباد تھا اور اس کا نام لصور (کسور) تھا۔ انگریز کے آنے سے رومن رسم الخط نے رواج پایا۔ ترلی پانے کے لیے رومن خط کا جاننا ضروری تھا۔ سپاہی سے آنریری کیپٹن تک ترلی پانے کے لیے فوج میں کالسیں ہوتی تھیں اور یہ صورت پاکستان بننے کے بعد بھی موجود رہی حاالنکہ اب اردو رسم الخط جاننے والے افسر آ گئے تھے۔ رومن خط میں ق کیو Qجبکہ ک کے لیے کے Kاستعمال میں التے ہیں۔ لصور کے Kسے شروع ہوتا ہے kasاورکسکا تلفظ lahکا تلفظ الہ ہی بنتا ہے۔
کس اور الہ پر ور کی بڑھوتی ہوئی ہے۔ یعنی کس کا شہر الہ کا شہر۔ لصور اگر لصر سے ہوتا تو کیو سے اس کا آؼاز ہوتا ناکہ کے سے یہ لفظ تر کیب پاتا۔ زبانوں میں یہ کوئ نئ بات نہیں۔ لفظ ؼریب کو مفلس کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے حاالنکہ اس کے معنی پردیسی کے ہیں۔ گویا ؼریب لکھ کر مفلس معنی لیے جاتے ہیں۔ اپنی اصل میں یہ گریب ہے۔ گریب کو ؼلط سمجھا جائے گا۔ لفلی کو ؼلط جبکہ للفی کو درست سمجھا جاتا ہے جبکہ للفی کوئی لفظ ہی نہیں ہے۔ کسو (کیشو) بامعنی خوبصورت بالوں واال۔ روشن۔ درخشاں وشنو دیو کا ایک نام ہے۔ شری رام چندر جی کو وشنو دیو کا اوتار سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح سیتتا میا کو لکشمی کا اوتار خیال کیا جاتا ہے۔ کسر بامعنی دودھ‘ کسر ساگر کنیا لکشمی دیوی جو وشنو دیو کی پتنی ہیں کا ایک نام ہے۔ اس لیے کش کس کسو وؼیرہ نام فرضی لرار نہیں دیے جا سکتے۔ یہ سب مسلمانوں کا عمیدہ نہ سہی انہیں میتھ کا درجہ تو حاصل ہے۔ کسی میتھ کو بے معنی اور بےکار لرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ہر میتھ ؼیر جانبدارانہ تحمیك کا تماضا کرتی ہے۔ اس حوالہ سے انہوں نے اپنی سنتان کا نام کش بمعنی خوش شکل
رکھا ہو گا۔ لصر ممامی لفظ نہیں ہے۔ جو پٹھانوں نے شہر آباد کیا وہ موجود لصور ہے۔ ق اور ص دیسی حروؾ نہیں ہیں۔ س دیسی ہے گو یہ آواز عربی اور فارسی میں بھی موجودہ ہے۔ تان سین کو کھنڈروں کی جاگیر نہیں ملی تھی کھنڈروں پر آباد عاللہ تھا۔ اسی طرح حضرت امیر خسرو بھی آباد عاللے میں آئے ہوں گے۔ لصور کے متعلك کہا جاتا ہے کہ کمال چشتی کے جو ٹیلے ہیں یہی پرانا لصور ہے۔ کمال چستی کے حوالہ سے ایک رویت عام ہے کہ راجہ رائے سنگھ سترویں صدی عیسوی میں یہاں کا حاکم تھا۔ وہ ہر دلہن کے ساتھ پہلی رات گزارتا۔ کمال چشتی کی ایک مریدنی جو دلہن تھی ان کے پاس بھاگ آئ اور سارا ماجرا سنایا۔ کمال چشتی نے اپنا پیالہ الٹا کر دیا۔ اس طرح یہ شہر ؼرق ہو گیا۔ انسانی تاریخ کے حوالہ سے یہ گزرے کل پرسوں کی بات ہے۔ امیر خسرو جو سات سو پہلے سے تعلك رکھتے ہیں ان کے مطابك کھنڈرات اس ولت بھی موجود تھے۔ کمال چشتی کا مزار کھنڈر کے اوپر ہے۔ گویا سترویں صدی عیسوی میں شکرپور تباہ ہوا۔کھنڈر پر موجود شہر برباد ہوا۔
کمال چشتی کی تاریخ موجود نہیں۔ احمد علی الہوری جو کشؾ المبور کا علم رکھتے تھے انھوں نے حضرت بلھے شاہ کے متعلك رائے دی کہ یہاں نیک ہستی دفن ہے جبکہ کمال چشتی کے بارے کہا کہ انھیں اس لبر کے بارے کچھ سمجھ میں نہیں آ سکا۔ گویا انھوں نے بات کو گول مول رکھا اور یہ کہنے سے گریز کیا کہ یہاں کچھ بھی نہیں ہے۔ مردہ دفن کرنے کے عالوہ لبر سے چار اور کام بھی لیے جاتے رہے ہیں۔ یہاں کے حاالت کبھی اندرونی اور کبھی بیرونی حملوں کی وجہ سے ناسازگار رہے ہیں۔ محالتی سازشیں لوگوں کا سکون برباد کرتی رہی ہیں۔ ناساز گار حاالت کے سبب انھیں مہاجرت اختیار کرنا پڑتی۔ ایسے میں صاحب جاہ اور اہل ثروت اپنی دولت لبر میں دفن کر دیتے اور معاملے کو لسمت کی یاوری پر چھوڑ دیتے۔ 1947کی مہاجرت میں بھی ایسا ہوا۔ کئ ایک کو مولع مل گیا لیکن جنھیں مولع نہیں مال ان کا خزانہ ابھی زیر زمین ہے یا کسی اور کا ممدر ٹھہرا۔ لبریں دفاع کے کام بھی آئ ہیں۔ اوپر سے دیکھنے میں لبریں ہیں لیکن ان کے اندر سرنگوں کا جال بچھا ہوا ہوتا تھا۔ عہد
سالطین کی اس لسم کی چیزیں ملتی ہیں ممکن ہے یہ سلسلہ پہلے سے رواج رکھتا ہو۔ مرشد کے کپڑوں وؼیرہ کو دفن کر دیا اور اسے لبر کی شکل دے دی گئی۔ یہ ایک طرح سے مرشد کا احترام رہا ہے۔ اسے روزگار ذریعہ لرار دینا بھی ؼلط نہ ہو گا۔ اسے اس جگہ پر لبضہ کرنے کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ چلہ گاہوں میں کسی بابے کی چھوڑی ہوئ چیز کو دفن کر دیا گیا ہے۔ بعد ازاں وہ ڈھیری لبر ٹھہری ہے۔ کمال چشتی کے حوالہ سے مختلؾ لسم کے لیافے اور مفروضے لائم کیے جا سکتے ہیں تاہم انھیں حتمی لرار نہیں دیا جا سکتا۔ مثال لاضی شعیب الدین صاحب کوئ چیز چھوڑ گیے ہوں اور اسے دفن کر دیا گیا ہو۔ اسے لاضی شعیب الدین صاحب کی چلہ گاہ بھی لرار دیا جا سکتا ہے۔ کمال عرفی نام ہو سکتا ہے یعنی چشتی کا کمال۔ لاضی شعیب الدین صاحب کوئی معمولی شخصیت نہیں تھے۔ ان کا دور راجہ رائے سنگھ سے تعلك نہیں رکھتا۔ یہ تو عہد سالطین کی بات ہے۔ راجہ رائے سنگھ کے حوالہ سے ؼرق ہونے والے لصہ کو سچ مانتے ہیں تو یہ کوئ یہاں کہیں اور صاحب کرامت بزرگ موجود ہیں جن کے ممام دفن
کی کوئ صاحب کشؾ ہی خبر دے سکتا ہے۔ یہ ممبرہ سڑک سے لریبا پچاس فٹ کی بلندی پر ہے۔ ممبرے تک ایک سو دوسیڑھیاں ہیں۔ شیر شاہ سوری نےٹیلے کاٹ کر یہ سڑک بنوائی تھی۔ اس کے بعد یہ سڑک کئ بار بنی۔ یہ سڑک اصل سڑک سے تمریبا تیس فٹ سے زیادہ بلندی پر ہے۔ اس طرح یہ ٹیلہ دو حصوں میں بٹ گیا۔ دوسری بار یہ تاریخی ٹیلہ انگریز عہد میں تباہی کا شکار ہوا۔ اسی ٹیلے کو کاٹ کر وکیل خان کا ممبرہ تعمیر ہوا۔ بعد ازاں اس ممبرے سے دفاتر کا کام بھی لیا گیا اور اب یہ میوزیم ہے۔ ڈسٹرکٹ جیل اور پولیس الئن بھی ٹیلہ کاٹ کر بنائی گئی ہیں۔ اس کے بعد سڑک کے ساتھ موجود ٹیلوں کی مسماری کا کام شروع ہو گیا۔ مزار کمال چشتی سے دوسری طرؾ والے ٹیلے بلڈوذ کرکے سڑک کے برابر کر دیے گیے ہیں اور یہاں اب دوکانیں ہیں۔ ٹیلے شیر شاہ سوری سے پہلے بھی مسمار ہوءے ہیں لیکن اگلی شفٹ میں دوبارہ ٹیلے بنے ہیں۔ اس حوالہ سے متعلك گفتگو آگے آئے گی۔ انگریز راج میں ٹیلے کاٹ کر ریلوے الئن بنائی گئی اس سے بھی پرانی تہذیب کے نشانتات ؼارت ہوئے۔
یہ بڑا ذرخیز عاللہ تھا۔ ساتھ میں دریا بہتا تھا۔ ابتدا میں لوگ چھوٹی چھوٹی آبادیوں میں دور نزدیک الامت رکھتے تھے۔ آج بھی یہی صورت ہے تاہم آبادیاں چھوٹی نہیں ہیں۔ پہلے پان سات گھروں پر مشتمل آبادیاں رہی ہوں گی لیکن آج گھروں کی تعداد سیکڑوں تک چلی گئ ہے۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر گاؤں اور بستیاں آباد ہیں۔ ان کا جیون بڑا سادہ تھا۔ بعد ازاں باہمی لین دین پر ان کے جھگڑوں کا آؼاز ہو گیا ہو گا۔ طالتور کمزور آبادی کو برباد کر دیتے۔ ایک عرصہ بعد یہ برباد عاللے اسی ٹیلے کو صاؾ کرکے دوبارہ سے آباد ہو جاتے۔ دریا مختلؾ اولات میں لیامت توڑتا رہتا۔ بیرونی لسمت آزما بھی لسمت آزمائی کرتے رہتے تھے۔ چور راہزن ناصرؾ مال و دولت ؼلے وؼیرہ پر ہاتھ صاؾ کرتے بلکہ توڑ پھوڑ سے بھی کام لیتے رہتے تھے۔ لریب کی مضبوط والئتیں توسیع پسندی اور وسائل پر لبضہ کرنے کے لیے طالت آزمائی کرتی رہتی تھیں۔ اس عمل میں معاملہ لبضے تک محدود نہیں رہتا تھا بلکہ تباہی بربادی اور مسماری تک بڑھ جاتا۔ یہ کہنا کہ کچھ سو سال پہلے دریائے بیاس نے اس عاللے کو کھنڈر میں بدل دیا درست نظریہ نہیں۔ دریا بار بار تباہی التا اس کے باوجود یہ عاللہ پھر سے آباد ہو جاتا۔ چونکہ پانی کے لریب آبادیوں کا رواج یا مجبوری تھی لہذا دوبارہ سے عاللہ
آباد ہو جاتا۔ آج بھی یہ صورت موجود ہے بہت سے علمے موجود ہیں جہاں ہر سال سیالب آتے ہیں۔ سیالب کی ستم ظریفی کے باوجود یہ عاللے کبھی بے آباد نہیں ہوئے۔ حملہ آوروں کی تباہی وبربادی کے باوجود دوبارہ سے آبادکاری کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ عموم کو اہل جاہ سے نمصان ہوتا رہا۔ وہ خود بھی عموم کی کھال اتارتے رہتے تھے بیرونی والئتوں سے ان کی ذاتی اور سیاسی دشمنی کا خمیازہ عموم کو بھگتنا پڑتا۔ اسی طرح ان کی ذاتی اور آپسی دشمنی بھی لوگوں کا جینا حرام کرتی رہتی تھی۔ ان کی ذاتی اور آپسی دشمنی میں لوگوں کی امالک اور گھر بار تباہی سے دوچار ہوتے رہتے تھے۔ یہ سلسلہ آج بھی ملکی اور بین االلوامی سطع پر موجود ہے۔ باہر سے بھی لوگ یہاں آتے جاتے رہے ہوں گے۔ ان آنے جانے والوں کی مختلؾ صورتیں رہی ہوں گی۔ اپنی ذرخیزی اور ترلی کے حوالہ سے دور نزدیک کی والئتوں میں معروؾ رہا ہو گا۔ معمولی عاللہ ہوتا تو اکبر اپنے نورتن تان سین کوجاگیرروہے وال میں نہ عطا کرتا۔ تان سین معمولی گویا ہوتا تو پیر اخوند سعید اس کا گانا سننے نہ جاتے اور خوش ہو کر ایک اشرفی انعام میں نہ دیتے۔ اسی طرح پیر صاحب موصوؾ کوئ معمولی شخصیت ہوتے تو تان سین واپسی ان کی خدمت
میں دو اشرفیاں بطور نذر بصد احترام پیش نہ کرتا۔ اکبر نے اپنے بیٹے سلیم کو دو عاللے عطا کیے ان میں سے ایک شیخ پور کے نام سے آج بھی اس ایریا میں موجود ہے۔ جس کا نام شیخوپور تھا شیخ پور بعد میں ہوا۔ یہ کوئ بزرگ تھے ان کا گاؤں میں مزار موجود نہیں۔ ہو سکتا ہے حاالت کا شکار ہو گیا ہو یا سرحد کے اس پار چال گیا ہو۔ کسی ایک شخص کے باہر سے آنے کا مطلب یہ ٹھہرتا ہے کہ وہ اپنی والیت کی تہذیب ثمافت زبان معاشرت معاشی ضابطے نظریات وؼیرہ لے کر آتا ہے۔ طالع آزما اپنا ممدر آزماتے رہے ہیں۔ اس طرح بہت سی عسکری رویات باواسطہ درآمد ہوئ ہیں۔ ایک عہد میں دو الگ واالءتیں تھیں پھر الہور لصور کا عاللہ ٹھہرا ۔ اس کے بعد لصور الہور کا عاللہ لرار پایا۔ لیام پاکستان کے بعد بھی یہ الہور کی تحصیل تھا۔ الہور ڈویژن جبکہ لصور ترلی کرکے ضلع ہوا اور الہور ڈویژن میں شامل ہے۔ الہور بعد کے ادوار میں پنجاب کا مرکز اور اہم ترین خطے کی حیثیت اختیار کر گیا اور ہر حوالہ سے ترلی کرتا گیا حاالنکہ لصور اس سے کہیں بڑھ کر برصؽیر کی والیت تھی۔ یہ اہل جاہ
کی آنکھ پر نہ رہ سکا نتیجہ کار بہترین اور تاریخی خطہ ہونے کے باوجود پس ماندگی کی دلدل میں چال گیا۔ آج یہ مساءل اور پریشانیوں کا بدترین مجموعہ ہے۔ شیر شاہ سوری کے بعد تک ٹیلے کی ہاءٹ اس کی بنائ ہوئ سڑک سے اوپر اسی فٹ کے لریب بنتی ہے۔ شیر شاہ سوری نے زمین پر نہیں ٹیلے کو کاٹ کر سڑک تعمیر کی۔ یہی صورت وکیل خان کے ممبرے کے ساتھ ٹھہرتی ہے۔ اس طرح سڑک کے نیچے اسی فٹ سے زیادہ ٹیال ہو گا۔ گویا یہ ایک سو ساٹھ سے دو سو فٹ کا یا اس سے زیادہ کا ٹھہرتا ہے۔ میں یہاں کمال چستی والے ٹیلے ٹبوں کی بات کر رہا ہوں۔ انگریز عہد میں اس عاللے کا اصل اجاڑہ ہوا۔ ان کے حوالہ سے لتل و ؼارت اور لوٹ مار تو الگ بات ہے اس نے ٹیلے کاٹ کر جیل خانہ تعمیر کیا‘ ریلوے الئین بنائی‘ پولیس الئین بنائ گئ۔ دفاتر تعمیر ہوئے۔ ان ٹیلوں کی آؼوش سے دستیاب ہونے والے نوواردت کا کیا ہوا کوئی نہیں جانتا۔ انگریز لے گیا ہوگا۔ اس کے گماشتوں کے گھروں کی زینت ٹھہرے ہوں گے۔ ابھی لریب کی تباہی میں ٹیلے بلڈوز ہوئے ہیں اور مٹی سڑک پر پڑی۔ اس طرح سڑک کافی اونچی ہو گئ ہے اور ٹیلوں سے ملنے والے نوادرات کا اتا پتا معلوم نہیں۔
حاجی گگن کا مزار آبادی سے بتتس فٹ کی بلندی پر ہے اور آبادی موجودہ زمین سے سترہ سے سنتیس فٹ ہے۔ حاجی گگن پٹھان ہیں اور ان کا دور سالطین کا ہے۔ پیر بولنا کا مزار ٹیلے پر ہے۔ بمول احسان هللا کیرءر ٹیکر گورنمنٹ اسالمیہ کالج لصور پیر بولنا کے لریب ٹیال جو تعمیر شدہ مزار سے بلند تھا اسے ڈھا کر زمین کاشت کے لابل بنائ گئ ہے ۔ مزار آج بھی اوپر ہے۔ اس ٹیلے کے لدموں سے نیچے تیس سے پنتس فٹ پر زیر حوالہ زمین پر فصل بوئ گئ ہے۔ مزے کی بات یہ کہ یہ زیر کاشت زمین بھی ٹیلے پر ہے۔ اس طرح یہ کوئ بہتر فٹ بلندی بنتی ہے۔ پیر بولنا کے متعلك کچھ معلومات وہاں درج ہیں نام حضرت عطا هللا خان خویشگی تاریخ پیدایش 480عیسوی وفات 550عیسوی(4 آپ کا روضہ مبارک شہنشاہ شہاب الدین ؼوری نے تعمیر کروایا۔ حضرت خواجہ خواجگان معین الدین چشتی تبلیػ اسالم کے لیے آءے تو اس مزار پر حاضری دی۔ حضرت بابا فرید‘ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء‘ حضرت خواجہ عالؤالدین کلیر‘ حضرت علی احمد صابر حضرت امیر خسرو‘ حضرت خواجہ
نصیر الدین‘ حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز نے اس مزار پر حاضری دی۔ ان معلومات سے یہ واضع نہیں ہوتا کہ آپ کب‘ کہاں سے اور کس ممصد سے یہاں تشریؾ الئے ۔ بڑے بڑے اہل تصوؾ کی تشریؾ آوری سے یہ ضرور واضح ہوتا ہے کہ آپ عظیم صوفی رہے ہوں گے۔ خویشگی سے واضح ہوتا ہے کہ افؽانی ہوں گے۔ فتح خیبر کے مولع پر ان کے بڑے اسالم الئے ہوں گے۔ یہ بھی طے ہوتا ہے کہ آپ کا تعلك عہد سالطین سے ہے۔ آپ کا مزار ٹیلے پر ہے۔ صاؾ ظاہر ہے اس ٹیلے پر آبادی رہی ہو گی جنہیں وہ اسالم سے متعلك تعلیم دیتے رہے ہوں گے۔ آپ کے عمدہ کردار کی وجہ سے یہاں کے لوگ عزت دیتے ہوں گے۔ تب ہی تو سب کچھ مٹ گیا ہے لیکن ان کے دربار کو نمصان نہیں پنچایا گیا۔ یہ کوئ ضروری نہیں کہ یہ مسلمانوں کی آبادی رہی ہو۔ ان پیروں فمیروں اور اہل سلوک کو دیگر مذاہب کے لوگ بھی عزت دیتے آئے ہیں۔ پیر بولنا سے دائیں کچھ ہی فاصلے پر پنج پیر کا مزار ہے۔ یہ مزار بھی ٹیلے پر ہے۔ یہ ٹیال بھی تمریبا اتنی ہی بلندی پر ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ یہ ٹیال وہی ٹیال ہے اور یہاں بھی صرؾ مزار ہی بالی ہے۔ اس کے تھوڑے فاصلے پر ریلوے
الئین تھی۔ لرب و جوار میں آبادی موجود نہیں۔ صاحب مزار کا بسیرا یمینا آبادی میں رہا ہو گا۔ آبادی نابود ہو گئ لیکن مزار بالی ہے۔ مزار پر چھت نہیں۔ طرز تعمیر اور اس کا چونا گارا وؼیرہ عہد سالطین سے تعلك رکھتا ہے۔ صاحب مزار کا احترام رہا ہو گا تب ہی تو کسی بادشاہ نے اس دربار کی تعمیر کروائی ہو گی۔ مزار سے کچھ فاصلے پر ایک مختصر سا لبرستان ہے۔ یہ لبرستان ایک چوکھنڈی میں ہے۔ اس چوکھنڈی کے اندر پھر چار دیواری ہے۔ یہ چوکھنڈی بھی پرانی ہےاس چوکھنڈی کے اندر صاحب جاہ کو دفن کیا گیا ہو گا۔ سامنے دیوار کے ساتھ بڑے اہتمام والی لبر اس کی ہو گی۔ یہ لبر جھاڑیوں اور ایک درخت کے نیچے آگئ ہے۔ اندر کی چار دیواری میں اور بھی لبریں ہیں۔ یہ لبریں بعد کی ہیں‘ جو کچی ہیں۔ اندر کی چاردیواری کے باہر بھی لبریں بن گءیں۔ ان میں سے ایک لبر ١٩٢٣کی ہے۔ یہ لبر کسی پیر صاب کی ہے۔ یمینی طور پر یہ پنج پیر صاحب کے مجاور کی رہی ہو گی۔ موجودہ مجاور جو کافی عمر رسیدہ ہے‘ کے کسی بڑے کی لبر نہیں۔ پنج پیر کے نام کی یہ پہلی لبر نہیں ہے۔ اس نام کی لبریں بہت سے عاللوں میں ملتی ہیں۔ اس ٹیلے کے آخری گاؤں سہجرہ
میں بھی پنج پیر نام کی لبریں موجود ہیں۔ چار دیواری جو کافی پرانی ہے کے اندر پانچ لبریں ہیں۔ دروازے پر پنج پیر کی تختی آویزاں ہے۔ پنج پیر عالمتی عرفی یا پھر معروفی نام ہے۔ بنو امیہ کے دور سے سادات ڈسٹرب ہیں۔ زمین ان پر تنگ کر دی گئ اس لیے انہیں وہاں سے مہاجرت اختیار کرنا پڑی۔ برصؽیر مہاجر اور ستاءے ہوئے لوگوں کو بخوشی پناہ دیتا آیا ہے۔ منصورہ‘ کراچی میں فاطمی حکومت بھی رہی ہے۔ دمحم بن لاسم ان ساادات کے تعالب میں برصؽیر آیا تھا۔ بعد میں اور بہت سی کہانیاں گھڑ لی گءیں۔ سادات کے حوالہ سے پنج پیر یا پنج تن فارسی مرکب ہوتے ہوئے تفہمی حوالہ سے ممامی بن گیا۔ برصؽیر کے کچھ حصوں میں ایسے ہندو بھی رہے ہیں جو خود کو پنج پیر کا پیرو کار بتاتے ہیں۔ ہر بھگت خود ان پنج پیروں کا انتخاب کرتا ہے۔ بہر طور اس کی صورتیں یہ رہی ہیں۔ حضور اکرم‘ حضرت علی‘ حضرت فاطمہ‘ حضرت حسن اور حضرت حسین پانچ پانڈو درگاہ دیوی‘ گرو‘ خواجہ سلطان‘ ' گگا پیر‘ اس عہد کا معروؾ
)پیر (٥ شیخ سامیل‘ شاہ دولت‘ شخ فتح علی خاں اورشاہ مراد معین الدین چشتی‘ نظام الدین اولیاء‘ نصیر الدین ابو الخیر‘ خواجہ خضر‘ سید جالل الدین خواجہ خضر‘ سید جاالل الدین‘ زکریا ملتانی‘ الل شہباز للندر‘ خواجہ فرید سکھوں میں خواجہ خضر‘ درگاہ دیوی‘ وشنو‘سخی سرور‘گرو گوبند سنگھ گگا پیر‘ بالک ناتھ‘ ٹھاکر‘سخی سرور‘ شیو پنج پیر کی لبر پندرہ فٹ یعنی پانچ گز لمبی ہے۔ لمبی لبریں بنانے کا رواج عہد سالطین میں نظر نہیں آتا۔ عہد سالطین کی بہت ساری لبریں دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ انٹرنیٹ پر سالطین کی لبریں موجود ہیں‘ روٹین کی لبریں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ لمبی لبریں بنانے کے حوالہ سے زبانی کالمی مختلؾ روایات ملتی ہیں۔ مثال .سردار یا کی بڑے آدمی کی لبر لمبی بنائی جاتی تھی۔ 1 یہاں سردار اپنے وزیروں کے ساتھ بیٹھ کر کچری لگاتا تھا .2.
ہنگامی حاالت میں مال و دولت دفن کر دیا جا تھا 3. ۔ مرنے والے کے لد کے مطابك لبر بنائی جاتی تھی۔ 4 بعض اولات اگلے زمانے کی کھیت کی وٹ کو لبر سمجھ لیا گی 5. میں ان میں سے کسی پواءنٹ پر گفتگو نہیں کروں گا۔ زیر حوالہ لبر کی عمارت عہد سالطین کی ہے ہاں البتہ لبر کی تعمیری تجدید کی گئی۔ بتاتے ہیں لبر کی حالت خستہ ہو گئ تھی۔ عمارت کی حالت بھی بہتر لرار نہیں دی جا سکتی تاہم لابل رحم نہیں۔ عمارت بتاتی ہے کہ عمارت کسی مسلمان سلطان نے تعمیر کروائی ہو گی۔ عمارت کا ڈازاءن اسالمی تعمیرات سے تعلك رکھتا ہے۔ صاحب لبر کا احترام رہا ہو گا تب ہی تو عمارت تعمیر کی گئ ہو گی۔ اگر نام معروؾ ہوتا تو عرفی نام نہ دیا گیا ہوتا۔ سات آٹھ سو سال تاریخ میں کچھ زیادہ نہیں ہوتے۔ پیر بولنا کا اصل نام آج بھی لوگوں کو معلوم ہے۔ یہ لبر لبل مسیع سے تعلك رکھتی ہے۔ حضرت عیسی ابن مریم تک آتے لد نارمل ہو گیا تھا۔ بلکہ دو ہزار پانچ سو سال تک آدمی کا لد ؼیر معمولی نہیں رہا تھا۔
حضرت موسی کا لد تیس فٹ یا تیس گز یا تیس ہاتھ بتایا جاتا ہے۔ عوج بن عنك بن آدم کا لد نالابل یمین حد تک بتایا جاتا ہے۔ یہ بات تین ہزار سال پہلے کی ہے۔ ان کے عہد میں انسان کا عمومی لد اتنا ہی کہا جاتا ہے۔ ان سے پہلے کے لوگ اس بھی زیادہ لد والے تھے۔ ممامی انبیاء کے عالوہ دیگر والئتوں سے انبیاء نے تبیػ کی ؼرض سے یہاں تشریؾ النے کی زحمت گوارا فرمائی۔ حضرت آدم کے بیٹے حضرت لنبط حضرت صفدان حضرت شیث وؼیرہ یہاں تشریؾ الئے۔حضرت لنبیط حضرت موسی حجازی حضرت طانوخ حضرت آمنون وؼیرہ کی لبریں یہاں موجود ہیں۔ براس میں حضرت ہند بن حام بن عبدالؽفار المعروؾ نوح کی لبر موجود ہے۔ یہ سب لبریں لمبی ہیں اور آج بھی ان کا احترام بالی ہے۔ لوگ زیارت کے لیے وہاں جاتے ہیں۔ ان حماءق کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ زیر گفتگو لبر حضرت موسی کے عہد سے تھوڑا بعد کی ہے اور نسل در نسل احترام چال آ رہا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ لبر کسی نبی کی ہے۔ اس ذیل میں کوئی صاحب کشؾ ہی کالم کر سکتا ہے تاہم یہ ضرور کہا جا سکتا ہے یہ رشد و ہدایت سے متعلك شخص ہیں اور ان کا زمانہ ستائس یا اٹھائس سو سال پہلے کا رہا ہو گا۔ لاری کے ذہن میں یہ بات رہنی چاہیے کہ یہ لبر ٹیلے کی باالئی سطع پر
ہے۔ ٹیال ایک سو ساٹھ سے دو سو فٹ نیچے جاتا ہے۔ روہے وال جہاں تان سین کی جاگیر تھی بلند و باال ٹیلے پر ہے۔ اس آبادی کا بؽور مطالعہ کیا جائے تو یہاں عجاءبات کا کھال پنڈر نظر آتا ہے۔ یہاں کم از کم چھ آبادیاں تھیں۔ عاللے کے آؼاز سے تھوڑے فاصلے پر لبرستان آتا ہے۔ اس لبرستان میں بابا عبدالکریم جو پیر سید ؼالم نبی شاہ کی اوالد سے تھے کی لبر ہے۔ اس کے عالوہ اور بھی پرانی لبریں ہیں۔ کچھ لبریں معدوم ہو چکی ہیں فمط نشان بالی ہیں۔ لبرستان کے اندر اور لبر کے لریب بہت مختصر دیوار بھی ہے بمیہ دیوار ختم چکی ہے۔ بابا عبدالکریم کا ممبرہ ہے اور اس پر مجاور بھی موجود ہے۔ موجود صورت میں یہ لبرستان مؽلیہ عہد سے پیچھے نہیں جاتا۔ اس ذیل میں کوئ ایسی چیز دستیاب نہیں ہوتی۔ اس لبرستان کے پیچھے داءیں اور باءیں آبادی کے نشان موجود ہیں۔ یہ لبرستان بھی ٹیلے پر ہے تاہم بظاہر ٹیال موجود نہیں پکی سڑک اور لبرستان برابر سطع پر آ گیا ہے۔ اس لبرستان سے آگے پرانا لبرستان ہے۔ یہاں شاہ عالم شیر کا ممبرہ ہے۔ مجھے یہ نام عرفی لگتا ہے۔ ان صاحب کا تعلك مؽلیہ دور سے لگتا ہے۔ یہ حجرے میں ہے۔ یہاں اور بھی لبریں موجود ہیں۔ یہاں چار دیواری رہی ہو گی۔ اس چوکھنڈی کے اندر
ممبرے کے عالوہ تین چیزیں اور بھی لابل توجہ ہیں۔ اس کے اندر ایک کنواں ہے۔ اب اس میں صرؾ بارش کا پانی ہے۔ اسے پر کرنے کے باوجود اس کی گہرائ ساٹھ فٹ ہے۔ یہ کنواں یہاں کی پوری آبادی کے استعمال میں رہا ہو گا۔ اس کنویں کا تعلك عہد سالطین سے لگتا ہے۔ یہاں یمینا کسی دور میں بڑی رونك رہی ہو گی۔ یہ کنواں مؽلیہ عہد میں بھی استعمال میں رہا ہو گا۔ اس چار دیواری سے باہر‘ جنوب میں لریب ہی ایک عمارت ہے۔ تجدید کے باوجود لدیم نشانات ابھی موجود ہیں۔ اب یہ جناز گاہ وؼیرہ کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ یہ عمارت مؽلیہ عہد سے سے تعلك رکھتی ہے۔ عمارت کا محراب اب بھی لدیم ہے‘ سے واضح ہوتا ہے کہ یہ مؽلیہ عہد سے متعلك ہے۔ اس کے دائیں اور پیچھے رہایشی ٹیلے ہیں۔ یہاں یمینا آبادیاں رہی ہوں گی۔ شاہ عالم شیر کے ممبرے کی چوکھنڈی کے اندر ایک لدیم حجرہ اور ایک برآمدہ ہے۔ برآمدے کو تجدید دی گئ ہے۔ اس کے سامنے والے حصے پر مہ عالم درج ہے۔ لریبا چار کلو میٹر پر گاؤں مہالم آباد ہے۔ لصور میں دو مہالم آباد ہیں۔ مہ عالم حمیمی نام نہیں‘ استعاراتی نام ہے۔ شاہ عالم کا مہ عالم سے کوئ ناکوئ تعلك ضرور ہے۔ مہ عالم صاحب کی نسل موجود ہے لیکن وہ تفصیالت سے آگاہ نہیں۔ یہ دونوں‘ شاہ عالم اور مہ عالم شیر یمینا مؽلیہ عہد سے متعلك رہے ہوں گے۔
شاہ عالم شیر کی چوکھنڈی سے باہر مشرق میں ایک چوبترے پر چار دیواری میں لبر ہے۔ اس لبر پر چھت نہیں۔ یہ دربار شاہ عالم شیر سے پعد کا ہے۔ اس لبرستان میں نئ پرانی اور زیادہ پرانی لبریں ہیں۔ تین لبریں بناوٹ کے حوالہ سے دیگر لبروں سے بالکل الگ تر ہیں۔ چوروں نے سنے سناءے پر یمین کرتے ہوئے ایک لبر کھودی ہے۔ اندر سے مال مال یا نہیں‘ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس حوالہ سے چور ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔ اس کھولی ہولی ہوئ لبر کے اندر کوئی راز ضرور دفن ہے۔ دوسری لبر کو بھی کھوال گیا ہے لیکن سوراخ پر دوبارہ سے اینٹیں رکھ دی گئ ہیں۔ موبائل یا ٹارچ کی روشی سے اندر جھانکا گیا ہو گا۔ کچھ نہیں نظر آیا ہو گا تب ہی تو مزید تررد نہیں کیا گیا۔ کھولی جانے والی لبر کم کمرہ زیادہ ہے۔ یہ ساڑھے چھ فٹ لمبا ساڑھے چار فٹ چوڑا اور پانچ فٹ سات انچ گہرا ہے۔ دونوں طرؾ دیا رکھنے کے لیے آلے سے بنے ہوءے ہیں۔ پہلے میں اسے سرنگ سمجھا تھا کیونکہ یہ اینٹ نئ لگتی ہے۔چھت پر عجیب گول سا آلہ بنایا گیا ہے بعد میں دیکھا تو معلوم ہوا داڑے ملے ہوءے ہیں۔ اندر آنے جانے کا رستہ موجود نہیں۔ اس کے لریب ہی زمین بوس چھوٹی سی چار دیواری ہے ۔ یوں لگتا ہے یہاں کوئ بیٹھتا ہو گا۔ لبر یمینا زمین سے اونچی ہو گی۔ اب
زمین اور لبر کا نچال حصہ برابر ہو گیا ہے۔ یہ تینوں لبریں اپنے عہد میں بڑی ہی خوبصورت اور شاہکار رہی ہوں گی۔ باالئی سطع پر لبر بر چونا استعمال کیا گیا جبکہ اندر چونے کے ساتھ گارے کا بھی استعمال کیا گیا۔ اس لبر کا سالطیں کے عہد سے رشتہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ لبر اور دوسری دو لبریں اپنے دامن میں ضرور کوئ بہت بڑا راز لیے ہوئے ہیں۔ میں نے اس کا کھوج لگانے کی سعی کی ہے لیکن بوڑھا لٹھ بردار مجاور آڑے آگیا۔ اس لبر کے شرلنا معمول آبادی رہی ہو گی۔ یہاں دو نو گزا لبریں بھی موجود تھیں چوروں نے انھیں بھی اڈھیڑ ڈاال ۔ اب وہاں صرؾ پر کیے ہوئے کھڈے بالی رہ گیے ہیں اس لیے ان کے بارے کچھ بھی عرض کرنے سے لاصر ہوں۔ حالیہ آبادی کچھ سال پہلے روہے وال کے ٹیلے پر موجود پرانے مکانوں میں آباد تھی۔ چند ایک کے سوا بالی آبادی ٹیلے سے نیچے آ گئ ہے۔ یہ بھی پہلے ٹیال تھا اب اونچا ہو گیا ہے۔ ٹیلے کی انچائی اب بھی تینتس فٹ سے انچاس فٹ ہے۔ تمام مکانوں میں ایک مکان خصوصی توجہ کا حامل ہے۔ دیواریں کسی للعہ کی سی دیواریں ہیں۔ تنگ گلی اصل گلی سے اونچی ہو گئی ہے اور گلی موجودہ عہد کی اینٹوں سے سے تعمیر کی
گئی ہے۔ دیوار کی چوڑائ اٹھارہ فٹ ہے۔ شرلی حصہ مسمار ہو گیا ہے۔ اس سے آگے ٹیال بھی ختم ہو گیا ہے۔ میرے خیال میں یہ اس والیت کے مکھیا کا گھر رہا ہو گا۔ مکھیا کی رہایش گاہ اوروں سے الگ تر رہے ہے۔ ٹیلے پر آبادی بالکل ختم نہیں ہوئی۔ اترائی چڑھائی سے لگتا ہے ایبٹ آباد آگئے ہوں۔ مکان مسمار کرکے ایک مسجد ٹیلے پر بنا دی گئی ہے۔ موجودہ ٹیال بھی عجائبات کا مجموعہ ہے اور بہت سے راز رکھتا ہے۔ روہے وال سے کچھ آگے گاؤں شیخ پور بھی میرے مشاہدے میں آیا۔ پرانے اثار موجود ہیں لیکن بہت کم۔ یہ اصل میں شیخوپور تھا۔ شیخو اکبر کے بیٹے کا حضرت سلیم چشتی کے حوالہ سے فیملی نام تھا ا ور یہ عاللہ شیخو کو بطور جاگیر عطا ہوا ہو گا۔ بعد کے دنوں میں کوئ صاحب کرامت بزرگ یہاں تشریؾ الئے ہوں گے اور شیخ ان کا عرفی نام رہا ہو گا اس لیے ان کے عرفی نام شیخ کے حوالہ سے شیخ پور ٹھہر گیا ہو گا۔ یہاں بابا گلزار شاہ کا ممبرہ ہے۔ یہ بزرگ نو مسلم تھے۔ ان کے متعلك بہت سی کہانیاں مشہور ہیں۔ کہا جاتا ہے باپ سے لڑ کر یہاں آ کر آباد ہو گیے۔ ہو سکتا ہے نسال ہندو بنیا ہوں۔ انہیں شیخ بھی کہا ہو گا۔ یہ صاحب 1947میں فوت ہوئے۔ لوگ آج بھی وہاں جاتے ہیں اور یہاں گیارویں کا بالائدگی سے ختم ہوتا ہے۔
کمال چشتی سے سہجرہ تک بڑے عجیب وؼریب مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ۔سہجرہ ہے تو دیہات لیکن اسے گاؤں کہنا بڑا عجیب لگتا ہے۔ یہاں زندگی کی ہر چیز دستیاب ہے حاالنکہ یہ لصور سے بہت دور والع ہے۔ اس کے آگے انڈیا ہے۔ اس گاؤں کی تمریبا دو تہائی آبادی ٹیلے پر آباد ہے۔ یہ بھی ایبٹ آباد کی طرح اترائی چڑھائی پر استوار ہے۔ یہ گاؤں روہے وال سے کہیں بڑا ہے۔ تاحد نظر ٹیلہ ہے۔ مکان نئے بھی ہیں اور پرانے بھی۔ کچھ مکان نئے ہیں لیکن ان میں پرانی اینٹیں بھی استعمال میں الئی گئ ہیں۔ روہے وال کے مکانات میں زیادہ تر پرانی اینٹیں استعمال میں الئی گئی ہیں۔ باالئ سطع کے مکان پرانے ہیں۔ چھت بدل دی گئ ہے اور دیواروں پر مٹی کے گارے سے لیپ کر دیا گیا ہے لیکن اندر وہی پرانی دیواریں ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے گھر کے اندر گلی بناتے یا کسی لسم کی کھدائ کرتے انسانی ہڈیاں ملتی ہیں۔ پرانے برتنونں کے ٹکڑے وؼیرہ ملتے رہتے ہیں۔ ٹیلے سے نیچے بھی اس طرح کی چیزیں ملتی رہتی ہیں۔ ہڈیں ہاتھ لگاتے ہی مٹی ہو جاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے بعض درختوں کے ٹکڑے پتھر کی طرح سخت ہو گئے ہیں بلکہ پتھر کا ٹکڑا معلوم ہوتے۔ نچلی سطع پر یہ
صورت ہو تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن باالئ سطع پر اس لسم کی صورت ہو تو اس کے سوا کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ٹیلہ مزید تیرہ سے بائیس فٹ اونچا تھا جو کھار یا زمین کی سطع برابر کرنے کے لیے تین سے زیادہ بار مسماری کا شکار ہوا ہے۔ ایک عام آدمی کا پرانے برتنوں کے ثکڑوں یا ہڈیوں وؼیرہ سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ زمین میں حل چالتے یا سہاگہ کرتے بھی اکثر ہڈیاں وؼیرہ ملتی رہتی ہیں۔ لیمتی اشیاء وؼیرہ کوئ کیوں بتاءے گا۔ زیورات بھی ملتے ہوں گے۔ اوپر ٹیلے پر ایک مکمل چار دیواری کے اندر پانچ لبریں ہیں اور باہر پنج پیر کی تختی آویزاں ہے۔ یہ پانچ لبریں کن کی ہیں کوئ نہیں جانتا۔ اس چار دیواری کے باہر ایک مؽلیہ عہد کی لبر ہے۔ اس چار دیواری کی دوسری طرؾ ایک کھائ ہے۔ کھائ کے دونوں طرؾ نئے پرانے درخت ہیں۔ بہت پرانے درختوں کی جڑیں نظر آتی ہیں۔ یہ جڑیں پتھر کی طرح سخت ہو گئی ہیں۔ کھائ سے تھوڑا فاصلے پر ایک چوکھنڈی ہے۔ اس میں دو لبریں سادات سے متعلك بہن اور بھائ کی ہیں جنہوں نے تاحیات شادی نہیں کی اور عمر عبادت الہی میں گزار دی۔ ایک لبر کے متعلك کہا جاتا ہے کہ راتوں رات چل کر آئی ہے یعنی رات کو نہیں تھی لیکن صبح کو تھی۔ لریب ہی ایک لبر کا نشان بالی رہ گیا ہے لبر ختم ہو گئی ہے۔ یہ مرحومہ ١٣فٹ لمبی
ہے۔ بہت ہی پرانا لبرستان یہاں دیکھنے کو ملتا ہے۔ لبریں ختم ہو گئی ہیں۔ لبروں کی اینٹیں وؼیرہ بکھری پڑی ہیں۔ ان چیزوں کا رشتہ ابتدائ مؽلیہ عہد سے بالتامل جوڑا جا سکتا ہے۔ کچھ چیزیں عہد سالطین سے بھی تعلك رکھتی ہیں۔ میں نے ان کی تصاویر لی ہیں انہیں دیکھ کر آپ ان کے زمانے کا بخوبی اندازہ کر سکیں گے۔ ٹیلے کی باالئی سطع پر لبرستان کی لبریں مسمار کرکے ایک ڈیرہ سا بنایا گیا ہے۔ یہ ڈیرہ دو کنال زمین سے کم نہیں ہو گا۔ اس کے چاروں طرؾ لوہے کی تار سے باڑ بنا دی گئ ہے۔ اندر آلو کے بیج کی بوریاں وؼیرہ رکھی ہوئ ہیں۔ سامنے بابے حاکم شاہ کا ممبرہ ہے۔ ممبرے سے باہر ایک نو فٹ لمبی لبر ہے۔ بابے حاکم شاہ کے ممبرے کا مجاور بھال آدمی ہے۔ جب میں بتایا کہ میں سید زادہ ہوں تو بڑے ہی احترام سے پیش آیا۔ اس نے مجھ ناچیز کو ایک چادر اور ایک سو رویہ نذر کیا۔ میرے ساتھ میں میرا منہ بوال بیٹا فاروق اور میرے گھر والے کچھ کھانے کو بیٹھ گئے۔ میں نے دو روٹیاں صادق حسین مجاور ممبرہ ہذا کو بھوائیں۔ اس نے دو بسکٹ کے پیکٹ رکھ کر چنگیر واپس بھجوائی۔ اس سے مجھے خوشی ہوئی کہ صادق حسین حفظ مراتب سے خوب آگاہ ہے۔ میری دعا ہے هللا اس پر آسانیوں کے دروازے کھولے۔اس طرح میں نے کمال چستی کے
شرلی ٹیلے کا کئی نشتوں میں سفر تمام کیا۔ لاری کو باور رہنا چاہیے کہ میں نے ٹیلے کی باالئی سطع کے احوال بیان کیے ہیں۔ کمال چشتی کا ؼربی ٹیال مسمار کر دیا گیا ہے۔ سٹرک کے ساتھ مختلؾ اشیاء کے متعلك دوکانیں بن گئ ہیں۔ یہ زمین سرکاری ہے یا ان دوکانوں والوں کو جسٹرڈ ہو گئ ہیں‘ مجھے کچھ معلوم نہیں۔ سڑک سے کافی پیچھے جا کر ٹیلے موجود ہیں۔ ان ٹیلوں پر اور ان ٹیلوں سے نیچے آبادی موجود ہے۔ ٹیلوں کی بلندی سترہ سے چھتیس فٹ رہ گءی ہے۔ ان ٹیلوں کو ڈھانے کا عمل ابھی تک جاری ہے۔ یہ مٹی مختلؾ عاللوں کو بھرتی کے لیے سپالئی ہوتی ہے۔ اس مسلسل عمل کی وجہ سے کمال چشتی کے ؼربی ٹیلے ختم ہو رہے ہیں۔ اگلے پانچ دس سالوں میں سب کچھ ختم ہو جاءے گا۔ کوئ بھی نہیں جان سکے گا کہ یہاں کبھی ٹیلے بھی تھے۔ معاملہ سنا ہے کے حصار میں چال جائے گا۔ مجھے ان ٹیلوں میں سے مٹی کے برتنوں کے ٹوٹے ٹکڑے‘ ہڈیاں‘ پرانے درختوں کی لکڑی کے ٹکڑے وؼیرہ ملے ہیں۔ درختوں کی لکڑی کے ٹکڑے لوہے کی ماند ہو چکے ہیں۔ ؼربی ٹیلوں میں رستے بنے ہوءے ہیں۔ ایک رستہ کوٹ حلیم خان کو جاتا ہے۔ ریلوے الئین واال رستہ اسالم پورہ سے ہوتا
ہوا بابا فرید صاحب کی چلہ گاہ کی طرؾ جاتا ہے۔ چلہ گاہ والے عاللہ کو مائ جوائ کہا جاتا ہے۔ کوٹ حلیم خان کا بیرونی عاللہ جٹو کے لبرستان تک جاتا ہے۔ یہی صورت اسالم پورہ اور کوٹ مراد خان کی ہے۔ پچھلے پچاس سال میں صورت حال ہی بدل گئ ہے۔ یہ سب میری آنکھوں کا دیکھا ہوا ہے۔ مائی جوائی واال عاللہ بلند ہو گیا ہے۔ تمام پرانی لبریں صاؾ ہو گئی ہیں۔ یہاں عاللہ بڑی بلندی پر تھا اور عہد سالطین کی لبریں عام دیکھنے کو ملتی تھیں۔ کامل شاہ واال لبرستان بھی بالی نہیں رہا۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ بابا صاحب کی چلہ گاہ محفوظ ہے۔ چاردیواری میں پرانا ون کا درخت بھی محفوظ ہے۔ اسالم پورہ جہاں میرا بچپن کھیتا کودتا رہا ہے کچھ کا کچھ ہو گیا ہے۔ میں خود کو یہاں اجنبی محسوس کر رہا تھا۔ دو بار تو مجھے رستہ پوچھنا پڑا۔ جٹو واال لبرستان آج سے کوئ پچاس پچپن سال پہلے سطع زمین سے اڑتیس سے باسٹھ فٹ پر تھا۔ نیچے روہی نالہ بہتا تھا۔ پرانی اور پرانی ترین لبریں یہاں موجود تھیں۔ اب سب سطع زمین کے برابر آ گیا ہے۔ مکانات بن گئے ہیں نالے والی جگہ پر سڑک نما گلی بن گئ ہے۔ لبرستان میں کھیل کا میدان بن گیا ہے۔ لبرستان دو حصوں میں بٹ گیا ہے درمیان میں بڑی ہی فراخ سڑک بن گئ ہے۔ لبرستان میں بھی جگہ جگہ کچی سڑکیں
بن گئی ہیں۔ کوٹ حلیم خان اور کوٹ مراد خان کے حوالہ سے اس لبرستان کا تعلك کمال چشتی کے ٹیلے سے بنتا ہے۔ جٹو واال لبرستان بہت ہی پرانا ہے۔ اس کے اطراؾ میں آبادیاں رہی ہوں گی۔ بذات خود یہاں آبادی رہی ہو گی۔ خواجہ صاحب واال لبرستان بڑا پرانا بتایا جاتا ہے لیکن میرے خیال میں یہ جٹو والے لبرستان سے زیادہ پرانا نہیں۔ رضیہ سلطان کی لبر کے حوالہ سے اس کا تعلك عہد سالطین سے بنتا ہے۔ پیر اخوند سعید اسحاق ترک اور حافظ سعد هللا لادری العروؾ ڈیھے شاہ کے حوالہ سے شیر شاہ سوری اور اکبری عہد سے رشتہ بنتا ہے۔ رضیہ سلطان کی لبر کا طرز تعمیر مؽلیہ عہد سے متعلك نہیں۔اس نمونہ کی ایک اور لبر بھی یہاں موجود ہے۔ اسی نمونہ کی تین لبریں روہے وال کے لبرستان میں ملتی ہیں۔ یہاں نو گزا لبریں بھی تھیں جنہیں مسمار کرکے خواجہ صاحب کی چار دیواری میں شامل کر دیا گیا ہے۔ چالیس سال پہلے وہ صحیح اور بہتر حالت میں تھیں۔ اگر آج وہ موجود ہوتیں تو زمانے کے تعین میں آسانی رہتی۔
شخصیات کے آئینہ میں
نوٹ دانستہ طور پر‘ کوئی نام نظر انداز نہیں کیا گیا۔ بہت سے نام درج نہیں ہو سکے‘ اسے میری تھوڑعلمی سمجھ کر‘ معاؾ کر دیا جائے۔ سربراہان حضرت لاضی شعیب دادا بابا فرید لاضی لصور وکیل خاں کا لصور میں ممبرہ موجود ہے۔ یہ شاہ سوری کا مرکزی عہدے دار تھا۔ راجہ ٹوڈرمل مؽل بادشاہ اکبر کے اعلی اہل کار تھے اخوند سعید مؽل بادشاہ اکبر کے دربار سے وابستہ تھے لیام پاکستان کے بعد
ڈاکٹرمعین الدین احمد لریشی وزیر اعظم پاکستان شوکت عزیز وزیر اعظم پاکستان وفالی وزرا سردار آصؾ احمد علی‘ خورشید محمود لصوری وفالی وزیر خارجہ‘ میاں محمود علی لصوری وفالی وزیر لانون ارشاد احمد حمانی وفالی وزیر اطالعات‘ سردار طالب حسن نکئی وفالی وزیر رانا دمحم البال خاں سپیکر‘ ملک دمحم علی آؾ کھائی ڈیپٹی چیئرمین سینٹ‘ سردار آصؾ احمد علی ڈیپٹی چیرمین پالنگ کمشن پاکستان صوبائی سیاسی اعلی عہدہ داران
سر شاہ نواز خاں ممڈوٹ لصوری صدر آل انڈیا مسلم لیگ پنجاب نواب جیلے خاں گورنر الہور‘ نواب افتخار حسین ممڈوٹ پہال وزیر اعلی پنجاب -گورنر سندھ‘ سردار دمحم عارؾ نکئی وزیر اعلی پنجاب نجم سیٹھی کیرئر ٹیکر وزیر اعلی‘ چیرمین پی بی سی‘ اینکر رانا پھول دمحم خاں صوبائی وزیر‘ اسپیکر پنجاب اسمبلی‘ ایکٹنگ گورنر پنجاب‘ سردار حسن اختر موکل ڈیپٹی اسپیکر سول آفیسرز وفالی اعلی عہدے داران عبدالحمید شیخ وفالی سیکرٹری دفاعی پیداوار -ایڈیٹر جنرل میاں طیب حسن وفالی سیکرٹری فنانس -وفالی سیکرٹری کیبنٹ‘ میاں سیمی سعید ایگزکٹیو ڈائریکٹر ایشین بنک -وفالی سیکرٹری کیبنٹ‘ احمد علی لصوری
ایڈوکیٹ لانونی مشیر حکومت پاکستان‘ ڈاکٹر سید کنور عباس حسنی اکونومسٹ وفالی فنانس ڈویژن صوبائی اعلی عہدے داران حافظ عبدالمجید چیؾ سیکرٹری پنجاب‘ جاوید محمود چیؾ سیکرٹری پنجاب۔ صوبائی محتسب لصور کے سول اعلی عہدے دار کرمت علی خاں بیوروکریٹ پاکستان ١٩٦٥ برگیڈیر ایم ظفر حسن جوائنٹ سیکرٹری ابالؼیات پاکستان- حامد علی جوائنٹ سیکرٹری داخلہ پاکستان میاں طیب حسن سیکرٹری فنانس خلیل احمد بھٹی ممبر بورڈ آؾ ریونیو عارؾ لطیؾ سینئر جرنل منیجر محمکہ سوئی گیس جالل الدین اکبر ڈائریکٹر اکاؤنٹس اکمل حسین کنٹرولر کسٹمز مجاہد انور جرنل منیجر محمکہ سوئی گیس
عبدالرحمن عابد ڈیپٹی کمشنر شوکت علی ڈیپٹی کمشنر ؼالم فرید ڈیپٹی ڈائریکٹر فردوس شاہ عالم دین کے بیٹے حامد شاہ پنجاب سول سیکرٹریٹ میں اعلی عہدے پر متمکن رہے ہیں اعلی فوجی آفیسر لیفٹینٹ جنرل دمحم جاوید ناصر‘ برگیڈیر دمحم لیوم‘ برگیڈیر میاں ظفرحسن راٹھور‘ برگیڈیر دمحم مجید‘ برگیڈیر دمحم اختر‘ برگیڈیر ڈاکٹر عرفان الحك‘ کرنل اظہر حسن راٹھور‘ کرنل احمد جاوید‘ کرنل ریٹائرڈ ضیا چوہان ضلع لصور کے پولیس میں اعلی افسیر لمر الدین ڈی آئی جی رانا دمحم اسلم ایس ایس پی
محمود مسعود ایس ایس پی دمحم طاہر ایس ایس پی امان پاشا ایس ایس پی یہ گورنمنٹ اسالمیہ کالج لصور میں‘ تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں۔ صوفیا کرام جو لصور تشریؾ الئے حضرت خواجہ سید معین الدین چشتی‘ حضرت امیر خسرو‘ حضرت پیر خواجہ خان دمحم‘ حضرت پیر مہر علی‘ حضرت پیر میاں شیر دمحم‘ حضرت بابا یحی خاں کالی پوش بابا فرید ان کی چلہ گاہ آج بھی لصور میں موجود ہے۔ رام تھمن جی بابا گرو نانک دیو کے خالہ زاد تھے۔ لصور کو اعزاز حاصل ہے کہ بابا صاحب لصور تشریؾ التے رہتے تھے۔ آج موضع رام تھمن میں گرودوارہ موجود ہے
وہاں ہر سال میلہ ہوتا ہے۔ جہاں ہر دھرم کے لوگ آتے رہتے ہیں۔ اعلی سربراہان جو لصور آئے اورنگ زیب عالمگیر‘ مہاراجہ رنجیت سنگھ‘ گورنر جنرل چارلیس‘ وزیر اعظم ملک معراج خالد‘ وزیر اعظم معین لریشی‘ وزیر اعظم بےنظیر بھٹو‘ وزیر اعلی دمحم شہباز شریؾ برگیڈیر جنرل ڈائر‘ ایئر مارشل اصؽر خاں عبد الحمید سربراہ تحریک خاکسار‘ ایک بار خاکسار تحریک کے ایک جلسہ میں جب کہ دوسری بار ممصود حسنی کی والدہ کے انتمال کی تعزیت کے لیے آئے۔ عالمہ عالؤالدین صدیمی وائس چانسلر جامعہ پنجاب سیاسی لیڈر جو لصور آئے
میاں ممتاز احمد دولتانہ‘ مولوی عبد الحمید بھاشانی‘ محترمہ نصرت بھٹو‘ خان عبد الولی خاں‘ عبدالستار نیازی‘ عمران خاں آؾ پی ٹی آئی‘ ذالفمار علی بھٹو باطور سیاسی ‘ مولوی کوثر نیازی عاللہ بیاس تک یونانی لٹیرے اور لاتل اعظم المعروؾ سکندر اعظم کی لوٹ مار اورلتل و ؼارت گری کا سراغ ملتا ہے۔ چونیاں میں اس کے عہد کے یونانی سکے بھی ملے ہیں۔ لبرستان خواجہ صاحب لصور میں ایک لبر کے متعلك معروؾ ہے کہ یہ لبر رضیہ سلطان کی ہے۔ فن کار جو لصور آئے حضرت امیر خسرو موسیکار‘ ابرارالحك گائیگ‘ عطاهللا
‘عسیی خیلوی گائیگ حبیب اداکار‘ عرفان کھوسٹ اداکار‘ جمیل فرخی اداکار‘ جاوید احمد اداکار‘ کتھرینہ عظیم موسیکار تان سین کا بھی لصور آنا ہوا۔ ادیب شاعر نماد اور محمك جو لصور آئے عالمی فیضی عہد اکبر‘ ڈاکٹر سر دمحم البال‘ فیض احمد فیض‘ پروفیسررضی عابدی‘ پروفیسر صوفی تبسم‘ حفیظ جالندھری‘ فضل شاہ گجراتی‘ مرزا ادیب‘ بانو لدسیہ پروفیسر عابد علی عابد‘ ڈاکٹر سید دمحم عبدهللا‘ پروفیسر ولار عظیم‘ ڈاکٹر عبادت بریلوی‘ اشفاق احمد‘ ڈاکٹر وحید لریشی‘ ڈاکٹر ؼالم حسین ذوالفمار‘پروفیسر حمید عسکری‘ ڈاکٹر گوہر نوشاہی‘ ڈاکٹر فخرالزمان‘ ڈاکٹر شبیہ الحسن ڈاکٹر صابر آفالی دو بار جب کہ ڈاکٹر تبسم کاشمیری کی ممصود حسنی سے ادبی نشتیں ہوئیں۔
دیگر ڈاکٹر عبدالمدیر خاں سائنس دان‘ ڈاکٹر خالد محمود‘ مجیب الرحمان شامی‘ مبشر ربانی سماجی کارکن‘ آؼا شورش کاشمیری‘ عالمہ ڈاکٹر طاہرالمادری اعلی فوجی آفیسر جنھوں نے لصور میں خدمات انجام دیں جنرل دمحم موسی خاں ١٩٦٥ جنرل پرویز مشرؾ ١٩٦٥ اعلی آفیسر پولیس جو لصور میں خدمات انجام دیتے رہے آئی جی جہانگیر مرزا باطور ایس پی آئی جی ملک آصؾ حیات باطور ایس پی
سول اعلی آفیسر جو لصور میں خدمات انجام دیتے رہے سیکرٹری ہاؤس پاکستان جی ایم سکندر باطور اے سی چیرمین ریلوے کیپٹن اختر باطور اے سی چیؾ سیکرٹری پنجاب ایم حفیظ اختر باطور اے سی چیؾ سیکرٹری پنجاب مہر جیون باطور اے سی اہل للم اردو‘ پنجابی اور فارسی شاعر‘ محمك‘ نماد‘ افسانہ نگار‘ وؼیرہ راجا ٹوڈرمل شاعر‘ عبدالمادر عبدی‘ منشی نور الدین‘ پران کمار شرما‘ سوہن سنگھ سیتل‘ افسانہ نگار‘ ارشاد احمد حمانی وؼیرہ‘ حاجی لك لك‘ سر عبدالمادر‘ عبد الجبار شاکر‘ صوفی مہر ہمدم‘ احمد یار خان مجبور‘ عامر البال‘ خلیل آتش‘ سائیں دمحم عبدلؽفور‘ ؼالم حضور شاہ‘ چراغ دین جونکے‘ عباد علی عباد‘ منشی کرم بخش‘ عبدهللا
شاکر‘ میاں شادا‘ ماسٹر نرائن‘ بلھے شاہ‘ عبد الجبار شاکر‘ سائیں عبد الؽفور‘ پروفیسر اکرام ہوشیارپوری‘ صوفی دمحم دین چشتی‘ پروفیسر اظہر کاظمی‘ سلیم آفتاب‘ شریؾ انجم‘ شریؾ ساجد‘ مولوی ؼالم هللا‘ خواجہ دمحم اسالم‘ تجمل کلیم‘ عباد نبیل شاد‘ البال لیصر‘ فمیر دمحم شامی‘ عباد علی عباد‘ راؤ ندیم احسان‘ یونس حسن‘ نیامت علی نیامت‘ چنن سنگھ ورک‘ صادق لصوری‘ ممصود حسنی وؼیرہ وارث شاہ شاعر ہیر وارث شاہ لصور میں زیر تعلیم رہے۔ لصور کے رہائشی نہیں لیکن لصور میں خدمات انجام دیں ؼالم ربانی عزیز‘ ڈاکٹر اختر شمار‘پروفیسر امجد علی شاکر‘عباس تابش‘ ڈاکٹر صادق جنجوعہ‘ ڈاکٹر عطاالرحمن خان میو‘ پروفیسر جیکب پال ماہرین لسانیات
عبدهللا خوشیگی مولؾ فرہنگ عامرہ‘ مولوی ؼالم هللا نے ایک مختصر عربی فرہنگ ترتیب دی تھی۔ پروفیسر یونس حسن‘ ممصود حسنی فرہنگ ؼالب اردو مضامین کی فہرست دستیاب اردو ہے جس کا نام ١- لفظ ہند کی کہانی ٢- ہندوی تاریخ اور حمائك کے آئینہ میں ٣- ہندوستانی اور اس کے لسانی حدود ٤- اردو میں مستعمل ذاتی آوازیں ٥- اردو کی چار آوازوں سے متعلك گفتگو ٦- اردو اور جاپانی آوازوں کی سانجھ ٧- اردو میں رسم الخط کا مسلہ ٨- انگریزی کے اردو پر لسانی اثرات ٩- سرائیکی اور اردو کی مشترک آوازیں ١٠- اردو اور انگریزی کا محاوراتی اشتراک ١١-
اردو سائنسی علوم کا اظہار ١٢- لومی ترلی اپنی زبان میں ہی ممکن ہے ١٣- اردو‘ حدود اور اصالحی کوششیں ١٤- لدیم اردو شاعری کا لسانی مطالعہ ١٥- بلھے شاہ کی زبان کا لسانی مطالعہ ١٦- شاہی کی شاعری کا لسانی مطالعہ ١٧- خواجہ درد کے محاورے ١٨- سوامی رام تیرتھ کی اردو شاعری کا لسانی مطالعہ ١٩- الفاظ اور ان کا استعمال ٢٠- آوازوں کی ترکیب و تشکیل کے عناصر ٢١- الفاظ کی ترکیب‘ استعمال اور ان کی تفہیم کا مسلہ ٢٢- زبانوں کی مشترک آوازیں ٢٣- پاکستان کی زبانوں کی پانچ مخصوص آوازیں ٢٤- عربی زبان کی بنیادی آوازیں ٢٥- عربی کی عالمتی آوازیں ٢٦-
دوسری بدیسی آوازیں اور عربی کا تبادلی نظام ٢٧- پ کی متبادل عربی آوازیں ٢٨- گ کی متبادل عربی آوازیں ٢٩- چ کی متبادل عربی آوازیں ٣٠- مہاجر اور عربی کی متبادل آوازیں ٣١- بھاری آوازیں اور عربی کے لسانی مسائل ٣٢- چند انگریزی اور عربی کے مترادفات ٣٣- پنجابی اور عربی کا لسانی رشتہ ٣٤- چند انگریزی اور عربی مشترک آوازیں ٣٥- انٹرنیٹ پر عربی میں اظہار خیال کا مسلہ ٣٦- عربی کے پاکستانی زبانوں پراثرات ٣٧- عربی اور عہد جدید کے لسانی تماضے ٣٨- فارسی کے پاکستانی زبانوں پراثرات ٣٩- پشتو کی چار مخصوص آوازیں ٤٠- آتے کل کو کرہء ارض کی کون سی زبان ہو گی ٤١-
انگریزی دنیا کی بہترین زبان نہیں ٤٢- انگریزی اور اس کے حدود ٤٣- انگریزی آج اور آتا کل ٤٤- تبدیلیاں زبانوں کے لیے وٹامنز کا درجہ رکھتی ہیں ٤٥- زبانیں ضرورت اور حاالت کی ایجاد ہیں ٤٦- معاون عناصر کے پیش نظر مزید حروؾ کی تشکیل ٤٧- برصؽیر میں بدیسیوں کی آمد اور ان کے زبانوں پر ٤٨- اثرات کچھ دیسی زبانوں میں آوازوں کا تبادل ٤٩- جاپانی میں مخاطب کرنا ٥٠- جاپانی اور برصؽیر کی لسانی ممثالتیں ٥١- اختر حسین جعفری کی زبان کا لسانی جائزہ ٥٢- لسانیات کے متعلك کچھ سوال و جواب ٥٣- انگریزی مضامین کی دستیاب فہرست
1- Urdu has a strong expressing power and a sounds system 2- Word is to silence instrument of expression 3- This is the endless truth 4- The words will not remain the same style 5- Language experts can produce new letters 6- Sound sheen is very commen in the world languages 7- Native speakers are not feel problem 8- Languages are by the man and for the man 9- The language is a strong element of pride for the people 10- Why to learn Urdu under any language of the world 11- Word is nothing without a sentence
12- No language remain in one state 13- Expression is much important one than designates that correct or wrong writing 14- Student must be has left liberations in order to express his ideas 15- Six qualifications are required for a language 17- Sevevn Senses importence in the life of a language 18- Whats bad or wrong with it?! 19- No language remains in one state 20. The common compound souds of language 21- The identitical sounds used in Urdu 22- Some compound sounds in Urdu
23- Compound sounds in Urdu (2) 24- The idiomatic association of urdu and english 25- The exchange of sounds in some vernacular languages 26- The effects of persian on modern sindhi 27- The similar rules of making plurals in indigious and foreign languages 28- The common compounds of indigious and foreign languages 29- The trend of droping or adding sounds 30- The languages are in fact the result of sounds 31- Urdu and Japanese sound’s similirties
32- Other languages have a natural link with Japanese’s sounds 33- Man does not live in his own land 34- A person is related to the whole universe 35- Where ever a person 36- Linguistic set up is provided by poetry 37- How to resolve problems of native and second language 38- A student must be instigated to do something himself 39- Languages never die till its two speakers 40- A language and society don’t delovp in days 41- Poet can not keep himself aloof from the universe
42- The words not remain in the same style 43- Hindustani can be suggested as man's comunicational language 44- Nothing new has been added in the alphabets 45- A language teacher can makea lot for the human society 46- A language teacher would have to be aware 47- Hiden sounds of alphabet are not in the books 48- The children are large importence and sensative resource of the sounds 49- The search of new sounds is not dificult matter 50- The strange thought makes an odinary to special one 51- For the relevation of expression man collects the words from
the different caltivations 52- Eevery language sound has more then two prononciations 53- Language and living beings اکانومسٹ راجہ ٹوڈرمل‘ ڈاکٹر معین لریشی‘ خورشید محمود لصوری‘ سردار آصؾ احمد علی ورلڈ بنک‘ شیخ عبدالمجید وفالی سیکرٹری‘ میاں طیب حسن وفالی سیکرٹری‘ ڈاکٹر کنور عباس حسنی‘ ڈاکٹر ممصود حسنی میڈیکل ڈاکٹر اسد الرحمن ڈائریکٹر ہیلتھ‘ ڈاکٹر مسعود ہمایوں ایگزکٹیو سر گنگا رام‘ نیورو فزیشن ڈاکٹر دمحم نعیم میو
ہسپتال الہور‘ نیورو سرجن ڈاکٹر عبدالحمید جرنل ہسپتال الہور‘ ڈاکٹر رضا ہاشمی‘ ڈاکٹر لمر ارشاد‘ ڈاکٹر صفدر ممصود حسنی نے کینسر پر ایک عرصہ تحمیمی کام کیا۔ اپنے اس تحمیمی کام کو۔۔۔۔ کینسر از ناٹ اے مسٹیریس ڈازیز۔۔۔۔۔ نام دیا۔ اس کا کچھ حصہ اردو ترجمہ ہو کر دو لسطوں میں اردو نیٹ جاپان پر شائع ہو چکا ہے۔ ڈینگی پر تحممی کام کیا جو۔۔۔۔۔ ڈینگی معالجہ اور حفاظتی تدابیر۔۔۔۔۔ کے نام سے اردو نیٹ جاپان پر شائع ہو چکا ہے۔ عدلیہ مسٹر جسٹس کے ایچ ملہوترا بھارت ہائی کورٹ کے چیؾ جسٹس لصور کے تھے۔ مسٹر جسٹس عبدل عزیز خاں‘ مسٹر جسٹس عبد الستار اصؽر‘ مسٹر جسٹس رشید عزیز خاں دمحم علی لصوری ڈیپٹی اٹارنی جنرل پاکستان
سر‘ ساز اور آواز لصوری ایجاد راگ جنگال ڈاکٹرظہور احمد چودھری مصنؾ جہان فن حافظ شفیع برصؽیر میں دوسرے نمبر پر طبلہ نواز تھے گائیک بڑے ؼالم علی خاں‘ چھوٹے ؼالم علی خاں استاد برکت علی‘ استاد نیامت علی‘ استاد سالمت علی‘ استاد ؼالم دمحم‘ هللا رکھی المعروؾ ملکہ ترنم نور جہاں‘ منظور جھال‘ خورشید بانو‘ بشری صادق لوالی مہر علی اور شیر علی لوال نعت گو نعت خواں دمحم علی ظہوری لصوری
اداکار یوسؾ خاں کھیل کھالڑی کرکٹ ایمپائر :امان هللا سابمہ کریکٹر :علی احمد پاکستانی کرکٹ ٹیم پہلوان استاد گلزارے خاں رستم ہند‘ شوکت پہلوان اولیمپین‘ جہارا پہلوان جس نے انوکی کو شکست دی۔ بھولو پہلوان رستم زمان‘ گاما پہلوان عابد بوکسر پنجاب چھڈ دیو تحریک کے بانی اور موڈی نظام لوہار کا ممبرہ لصور میں موجود ہے۔
مولوی ؼالم هللا لصوری نے تحریک خالفت میں حصہ لیا۔ مورخ عبدهللا عبدالمادر خویشگی‘ صادق لصوری مورخ تذکرہ نگار‘ البال لیصر‘ البال بخاری‘ ممصود حسنی صوفیا: پیر جہانیاں‘ جن کا ممبرہ چونیاں میں موجود ہے۔ یہ جہانیاں سے تشریؾ الئے۔ ان کی مرید چونی‘ جو بابا جی کی خدمت گار تھی‘ کے نام پر اس مختصر سی آبادی کا نام‘ چونیاں رکھ دیا گیا۔ بابا کامل شاہ جنہوں نے بلھے شاہ صاحب کی نماز جنازہ پڑھائی۔ ‘خواجہ دائم حضوری خواجہ ؼالم مرتضی لصوری‘ بلھے شاہ لصوری‘ اخوند سعید‘ بلھے شاہ‘ کمال چشتی‘ امام شاہ بخاری‘ لعل حبیب
المعروؾ شیخ عماد‘ حاجی گگن‘ ؼالم حضور شاہ‘ پنج پیر‘ عطا هللا خویشگی المعروؾ پیر بولنا‘ بابا کمال شاہ‘ حاجی شاہ شریؾ‘ بابا پنے شاہ‘ عباس شاہ‘ صدر دیوان‘ حاکم شاہ‘ شاہ عنایت‘ بابا سہارے رب‘ پیر ڈھئیے شاہ‘ سخی پیر بہاول‘ مٹھو شاہ‘ بابا حسین شاہ‘ بابا نمیب هللا شاہ‘ بابا جھنڈے شاہ‘ بابا عبدالخالك وؼیرہ بابا فرید کی دوران چلہ خدمت گار مائی جوائی کا مزار بھی موجود ہے۔ ٹی وی اینکر ضیاء محی الدین مصور آزر روبی منیر احمد سائنس دان
سول اور ملٹری ایواڑ یافتہ لصوریے ملٹری ایواڑ یافتہ برگیڈیر احسن رشید شامی شہید ہالل جرات‘ کرنل ؼالم حسین شہید ہالل جرات جنرل دمحم رفیك صابر ہالل امتیاز‘ لیفٹینٹ جنرل دمحم جاوید ناصر ہالل امتیاز کیپٹن احمد منیر شہید ستارہء جرات‘ کیپٹن نسیم حیات شہید ستارہء جرات‘ کرنل احمد جاوید ٢٣مارچ ٢٠٠٧ستارہء جرات‘ کرنل احمد جاوید ٢٣مارچ ٢٠٠٧ستارہءجرات برگیڈیردمحم جاوید اختر ستارہءامتیاز‘ برگیڈیر میاں ظفر حسین راٹھور ستارہء امتیاز‘ کرنل احمد جاوید ستارہءامتیاز‘ حوالدار دمحم شفیع ١٩٧١ستارہء امتیاز
:سول ایوارڈز ڈاکٹر مولوی دمحم شفیع ستارہ پاکستان ڈاکٹر منیر احمد ہالل امتیاز ملکہءترنم نور جہان تمؽہءا متیاز سردار شوکت علی لینن ایواڈ پروفیسر جیکب پال لصور سے نہیں ہیں‘ لیکن گورنمنٹ اسالمیہ کالج لصور کے شعبہءاردو میں سینئر استاد ہیں۔ انہیں جناح نیشنل یوتھ ایوارڈ منجانب حکومت پاکستان ٢٠٠٧میں مال۔ ممصود حسنی جینس رائٹر‘ رائٹر آؾ دی ایئر ٢٠١٥اردو تہذیب ڈاٹ کام بابائے گوشہءمصنفین فرینڈز کارنر ڈاٹ کام ‘بیدل حیدری ایوارڈ ایوان ادب‘ ملتان مسٹر اردو‘ فورم پاکستان شہر لصور کو اعزاز حاصل ہے کہ لصور کے رہائشی و پیدایشی‘ ممصود حسنی کے یو این او کے مستمل ممبر اور روحانی اسمبلی کے نمائندہ ہز ہائینس ڈاکٹر نور العالم سے
ذاتی تعلمات رہے ہیں۔ ممصود حسنی کو انہوں نے یو این او میں آنے کی دعوت بھی دی۔ گورنمنٹ اسالمیہ کالج لصور کے پی ایچ ڈی پرنسپل صاحبان ڈاکٹر ندیم‘ ڈاکٹر آصؾ ہمایوں‘ ڈاکٹر اختر علی میرٹھی‘ ڈاکٹر ذوالفمار علی رانا ڈی لٹ ڈاکٹر مولوی دمحم شفیع پی ایچ ڈی صاحبان ڈاکٹر معین لریشی‘ ڈاکٹر آفاق احمد‘ ڈاکٹر احمد بشیر‘ ڈاکٹر اختر سندھو‘ ڈاکٹر عنبرین صؽیر‘ ڈاکٹرخالد محمود‘ پروفیسر دمحم رفیك ساگر‘ ڈاکٹر دمحم ارشد شاہد ڈاکٹر زیب النسا‘ ڈاکٹر نیلوفر مہدی‘ ڈاکٹر رضوان هللا کوکب‘ ڈاکٹر شبانہ سحر‘ ڈاکٹر ظہور احمد چودھری‘ ڈاکٹر منظور الہی
ممتاز‘ ڈاکٹر عطا الرحمن میو‘ ڈاکٹر دمحم ایوب‘ گورنمٹ کالج پتوکی‘ ڈاکٹر کنور عباس حسنی‘ ڈاکٹر ؼالم مصطفے‘ ڈاکٹر یاسمین تبسم‘ ڈاکٹر رمضانہ برکت‘ ڈاکٹر ممصود حسنی پی ایچ ڈی اسکالرز صاحبان پروفیسر علی حسن چوہان‘ پروفیسر عامر علی‘ پروفیسر راشد علی‘ پروفیسر یونس حسن‘ پروفیسر نیامت علی‘ پروفیسر دمحم لطیؾ اشعر‘ پروفیسر ریاض محبوب‘ پروفیسر حافظ ؼالم سرور‘ پروفیسر سرور گوہر‘ پروفیسر دمحم مشتاق‘ محبوب عالم‘ دمحم اسلم طاہر‘ وؼیرہ لصور کے مذہبی علما کرام مولوی ؼالم هللا مولوی دمحم شریؾ نوری یہ ایک رسالہ بھی نکالتے تھے مولوی فرودس علی شاہ مذہبی کتب بھی تحریر کیں مولوی طیب شاہ ہمدانی تحریری کام بھی کیا مولوی دمحم عبدهللا لادری ان کا لائم کردہ آج بھی چل رہا
ہے مولوی عبدالرحمن‘ مولوی عبدالعزیز‘ مولوی ؼالم رسول گوہر ڈاکٹر خالد محمود انگریزی زبان کے شاعر پروفیسر نیامت علی شعبہ گورنمنٹ اسالمیہ کالج لصور ممصود حسنی‘ پروفیسر نیامت علی شعبہ گورنمنٹ اسالمیہ کالج لصور نے ان کی شاعری پر ایم فل سطع کا تحمیمی تحریر کیا۔ مترجم ڈاکٹر مولوی دمحم شفیع نے تذکرتہ اولیا اردو ترجمہ کیا۔ پروفیسر تاثیر عابد جو گورنمنٹ کالج للیانی میں تھے نے ؼالب کے اردو دیوان میں ترجمہ کیا۔ ممصود حسنی نے عمر خیام کی چوراسی رباعیات کا سہ مصرعی اردو ترجمہ
کیا۔ کتاب شعریات خیام کے نام سے شائع ہوئی۔ ترک شاعری کا اردو ترجمہ کیا۔ کتاب ۔۔۔۔ ستارے بنتی آنکھیں ۔۔۔ کے نام سے شائع ہوئی۔ عالوہ ازیں فینگ سیو فینگ‘ ہنری النگ فیلو‘ ولیم بلیک کی نظموں کے اردو ترجم کیے۔ لرتہ العین طاہرہ کی فارسی ؼزلوں کے اردو اور انگریزی میں ترجمہ کیے۔ ؼالب کے ٦٥اشعار کا پنجابی میں ترجمہ کیا نوٹ دانستہ طور پر‘ کوئی نام نظر انداز نہیں کیا گیا۔ بہت سے نام درج نہیں ہو سکے‘ اسے میری تھوڑعلمی سمجھ کر‘ معاؾ کر دیا جائے۔