1
قصور ہزاروں س ل پرانی تہذی ک امین مقصود حسنی
ابو زر برقی کت خ نہ مئی ٧
2
قصور ہزاروں س ل پرانی تہذی ک امین )(1 انس ن ہمیشہ سے اپنے سے پہ وں کی بڑی دلچسپی اور توجہ سے کھوج کرت آ رہ ہے۔ وہ ج نن چ ہت ہے کہ اس کے بڑے فکری م شی اور م شرتی حوالہ سے کہ ں کھڑے تھے۔ ان کی ن سی ت کی تھی۔ اس ذیل میں وہ اپن اور ان ک موازنہ بھی کرت آ رہ ہے۔ انس ن اپنے پرکھوں کی عزت کرت ہے۔ ان کی اخالقی ت کی تحسین کرت ہے۔ ان کی بہت سی ب توں پر فخر کرت ہے۔ اس ضمن میں ان کو خود سے بہترسمجھت آ رہ ہے۔ ان کی ب ض کوت ہیوں کو صرف نظر کرت ہے۔ ان کوت ہیوں کی نش ندہی کرنے والے کو برداشت نہیں کرت ۔ یہ اس کی ن س تی کمزوری ہی نہیں اپنے م ضی سے پی ر اور اس سے اٹوٹ رشتہ ہونے کی دلیل بھی ہے۔ گوی انس ن کی مثل زنجیر کی سی ہے۔ اگر وہ م ضی کے کسی شخص کو برا سمجھت ہے تو بھی یہ اس سے مت ہونے ک ثبوت ہے۔ مورکھ (مورخ) ہو کہ واق ہ نگ ر‘ اس کو زندہ ہو کہ
3
صدیوں پہ ے ک مردہ ب دش ہ عزیز رہت ہے۔ کچھ ہی دن ہوے اخب ر میں مع تصور خبر چھپی کہ جہ نگیر ب دش ہ کے مقبرے کی ح لت بڑی بری ہے۔ خبر یوں لگی جیسے اس بر توجہ نہ دی گئ تو سم جی م شی اور سی سی دنی برب د ہو ج ئے گی۔ ککھ نہیں رہے گ ۔ مجھے دکھ اور افسوس سے کہن پڑ رہ ہے کہ قصور میں موجود س ت سے ہزاروں س ل پرانی انس نی تہذی ک ستی ن س م ر کر رکھ دی گی ہے۔ ب قی م ندہ آث ر کی گردن م رنے کی کوشش کی ج رہی ہے اور کسی کو پرواہ تک نہیں۔ میں نے کسی ب دش ہ کی قبر مب رک ک سرا لگ نے کی پوری پوری کوشش کی ہے۔ چ ہے دین الہی ک س مذہ ایج د کرنے واال مس م ن ت ریخ میں ش مل ب دش ہ ہی کیوں نہ ہوت ۔ میں نے تالش ک عمل ابھی خت نہیں کی ۔ ایک نہ ایک دن کوئ ب دش ہ ضرور تالش لوں گ کیونکہ مغ یہ عہد کی کچھ چیزوں ک سرا مل گی ہے۔ جس ہزاروں س ل س ل پرانی تہذی کے فتل ع سے مت اپنی م روض ت پیش کرنے ج رہ ہوں اس ک ہ ک پھ ک ت رف پیش کر رہ ہوں اس عالقہ کے ت ریخی ہونے کے حوالہ چند ابتدائی م وم ت درج کر رہ ہوں ت کہ ق ری کسی
4
حد تک قصور* کو ج ن اور پہچ ن سکے۔ قصور حضرت ب ب ب ھے ش ہ کی سرزمین ہے۔ حضرت فریدالدین گنج شکر نے یہ ں چ ہ ک ٹ ۔ ان کی چ ہ گ ہ آج بھی موجود ہے اور اس کی زی رت کے لیے لوگ یہ ں آتے رہتے ہیں شہرہ ع ل کی ح مل پنج بی مثنوی “ہیر“ جو ہیر وارث کے ن سے ج نی ج تی ہے‘ کے ش عر پیر وارث ش ہ نے کس ع اسی شہر سے ح صل کی ۔ حضرت پیرمہر ع ی ش ہ ص ح اکثر یہ ں تشریف التے رہتے تھے۔ میرا سوہن شہر کی گ ءک م کہ ترن نور جہ ن اسی شہر سے ت رکھتی تھیں۔ حضرت ش ہ حسین کے پیر بھ ئی ‘صدر دیوان یہ ں اق مت رکھتے تھے اس لیے حضرت ش ہ الہوری یہ ں آتے ج تے رہتے تھے۔ حضرت غال حسین محی الدین دائ حضوری اور خواجہ غال مرتضی ک ت قصور سے تھ ۔ حضرت ب ب گرو ن نک دیو کے مسیر ی نی خ لہ زاد را تھمن قصور میں رہ یش رکھتے تھے اس حوالہ سے وہ یہ ں تشریف الئے۔ راجہ ٹوڈر مل م ہر م لی ت اور اکبر ک نورتن قصور سے ت رکھت تھ ۔ اکبر کے سرک ری گویے ت ن سین کو یہ ں
5
(روہے وال) ج گیر عط ہوئی۔ اپنی ج گیر پر آی تو حضرت پیر اخوند س ید ان ک موزک سننے گئے۔گوی ت ن سین گوی ہی نہیں قصور ک ج گیردار بھی تھ ۔ کہتے ہیں ب دش ہ ہند رضیہ س ط ن کی ب دش ہی کو زوال آی تو وہ قصور آگئ ۔ بڑے قبرست ن میں آج بھی اس کی آخری آرا گ ہ موجود ہے۔ سنگیت کی دنی کے ب دش ہ است د بڑے غال ع ی اور است د چھوٹے غال ع ی شہر قصور کے رہ یشی تھے۔ راگ جنگ ہ قصور کی ایج د ہے۔ م روف سنگر منظور جھال قصور ک رہنے واال تھ ۔ جہ ن فن کے مصنف ڈاکٹر ظہور احمد چوہدری ک ت کوٹ رادھ کشن‘ قصور ہے۔ موالن احمد ع ی جنہیں کشف القبور میں مہ رت ح صل تھی کی قصور ب ھے اور کم ل چشتی کے درب ر پر ح ضری ث بت ہوتی ہے۔ عبدهللا عبدی خویشگی مصنف اخب راالاولی ‘ م تی غال سرور چونی ں جو آج قصور کی تحصیل ہے میں مالزمت کرتے رہے' موالن غال هللا قصوری‘ موالن غال دستگیر‘ عالمہ شبیر احمد ہ شمی‘ عالمہ مہر محمد خ ں ہمد (ش ہن مہ اسال ہمد کے ش عر)‘ ب نگ درا ک دیب چہ
6
لکھنے والے سر عبدالق در‘ تحریک مج ہدین کے سر گر ک رکن موالن عبدالق در وغیرہ قصور کے رہنے والے تھے۔ عبدالست ر نی زی تحریک خت نبوت کی پکڑ دھکڑ سے بچنے کے لیے قصور کے مہم ن بنے۔ ص ح خ نہ کے ص ح زادے کی مخبری پر گرفت ر ہوئے کی م رشل کی خالف ورزی سید ن در سمشی جنہیں اور تھ نے کی توڑ پھوڑ کے الزا میں ک لے پ نی بھیج گی قصور کے بہ در سپوت تھے۔ میں پھ نسی کی ن موس رس لت کی پ سداری میں سزا پ نے والے غ زی محمد صدی ک ت قصور سے تھ ۔ صوفی ش عر غال حضور ش ہ قصوری‘ سوہن سنگھ سیتل‘ احمد ی ر خ ں مجبور(میرا ای فل ک مق لہ ان کی ش عری پر تھ )' آزر روبی م روف مصور‘ منیر احمد س ئنسدان‘ بھ رت کی کسی ہ ہیکورٹ کے چیف جسٹس م ہوترا‘ خواجہ محمد اسال مصنف موت ک منظر‘ پروفیسر صح فی ‘وزیر ارش د احمد حق نی ڈاکٹر مولوی محمد ش یع‘ ع ی نصری مصنف ش ہ ن مہ
7
ب ال کوٹ‘ سی ایل ن رنگ‘ چنن سنگھ ورک محق اقب ل قیصر‘محق اقب ل مجدی‘محق ڈاکٹر ری ض انج ‘ م روف صح فی اسدهللا غ ل ‘ تنویر بخ ری‘ عبدالجب ر ش کر‘ ص د قصوری وغیرہ قصور کے رہ یشی رہے ہیں۔ اسی طرح ع لمی شہرت ی فتہ کینسر مرض کے م ہر ڈاکٹر محمود‘ ڈاکٹر ہم یوں نیرو سرجن‘ ڈاکٹر ن ی قصوری‘ ۔ ڈاکٹر سید کنور عب س م ہر اقتص دی ت قصور کے رہنے والے ہیں۔ آءین 1973کے خ ل می ں محمود ع ی قصوری ک ت قصور سے ہے۔ زیڈ اے بھٹو کو تختہ دار تک پہچ نے واال بھی قصور سے ت رکھت ہے۔ پنج کے پہ ے وزیراعظ نوا افتخ ر احمد ممدوٹ قصور سے ہیں انکے والد نوا ش ہ نواز ممدوٹ ق ءداعظ کے دست راست تھے۔ م ین قریشی س بقہ وزیراعظ پ کست ن قصور سے ت رکھتے تھے۔ سردار آصف احمد ع ی‘ سردار ع رف نکئ سب قہ وزیر اع ی پنج قصور کے ہیں م ک شوکت عزیز س بقہ وزیراعظ ک ت قصور سے ہے۔ پنج ک پہال چیف سیکریڑی عبدالمجید شیخ ک ت قصور سے ہے۔ یوسف خ ں اور ضی ء محی الدین قصور کے ہیں۔ بھگت
8
سنگھ آزاد کے ننھی ل قصور کے ہیں۔ ان کے ڈیتھ ورانٹ پر دستخط بھی ایک قصوری مجسڑیٹ نے کیے۔ کرانتی ک ر نظ لوہ ر اور م نگی قصور کے ہیں۔ م وف ڈاکو جگت سنگھ الم روف جگ ک ت بھی قصور سے ہے۔ عالمہ عالؤالین صدیقی ،صوفی تبس ‘ سید ع بد ع ی ع بد‘ ڈاکٹر سید عبدهللا‘ اش احمد‘ اختر شم ر وغیرہ قصور تشریف ال چکے ہیں۔ میتھی جوڑوں کے درد کی ش اور بطور سبزی پوری دنی میں اپن الگ سے شہرہ رکھتی ہے۔ ف لودہ اور اندرسے قصوری تح ہ ہیں۔ پیروں میں پورا نہ آنے کے سب قصوری جتی کو کیسے فراموش کی ج سکت ہے۔3 قصور سے ت رف کے لیے یہ بہت ہی مختصر ت صیل ک فی لگتی ہے۔ میں اسے یہ ں خت کرت ہوں کیونکہ اس کے ب د کےانکش ف ت اس ت صیل سے کہیں زی دہ حیران کن ہوں گے۔
9
)(2 ب ب جی ب ھے ش ہ کے مط ب قصور قصر سے ترکی پ ی ہے۔ قصر کی جمع قصور ہے۔ سترویں صدی میں یہ شہر آب د و ش دا تھ اور سکھوں ک تس ط تھ راجہ رائے سنگھ ک سکہ چ ت تھ اور اس شہر ک ن شکر پور تھ ۔ عین ممکن ہے کہ یہ ن گنج شکر کے حوالہ سے ترکی پ ی ہو۔ ب ب فرید شکر گنج کے مرید اور ان کے مت اوروں ک بھی یہ شہر بسیرا رہ ہے۔ یہ بھی خبر ہے کہ وہ یہ ں خود تشریف الئے۔ ب ب ص ح کے دادا ج ن ق ضی ش ی الدین بھی یہ ں تشریف الئے۔ گوی ب ب فرید سے پہ ے قصور سے ان کے خ ندان ک ت واسطہ تھ ۔ اس ذیل میں یہ روایت بھی موجود ہے حضرت) را چندر (جی) کے دو بیٹے‘ الو اور کش تھے۔۔۔۔۔۔چوتھی صدی قبل مسیح میں الو (ی الہ) اور کش نے الہور اور قصور شہر ق ئ کئے۔ دوسرے بیٹے ک ن کس بھی بت ی ج ت ہے۔ ( ) لو اور کش سیت کے بطن
10
سے تھے اور راجپوتوں کے دو خ ندان خود کو ان کی اوالد بت تے ہیں۔ ( ) اس روایت کے مط ب اس عالقے کو ق ء ہوءے چوبیس سو س ل سے زی دہ عرصہ ہو گی ہے۔ کسی رویت کو اس وجہ سے تس ی نہ کرن کہ وہ مخ لف نظریہ کے شخص کی ہے‘ کسی بھی حوالہ سے درست نہیں۔ قصور اگرچہ اس سے پہ ے بھی موجود تھ ت ہ یہ ن ( کسور) اس دور میں مال۔ اس سے پہ ے اس ک ن کوئ اور رہ ہو گ ۔ موجودہ قصور مخت ف والئتوں پر مشتمل تھ ۔ ہر ایک ک الگ سے ن اور نظ حکومت تھ ۔ ان میں سے ایک والیت ک ن قصور تھ ۔ ا یہ صورت نہیں رہی۔ والئیتوں کے الگ سے ن ہیں اور انہیں مح ہ کوٹ وغیرہ سے م سو کی ج ت ہے ت ہ ا اس مجموعے ک ن قصور ہے۔ یہ کہن کسی طرح درست نہیں لگت کہ قصور کش نے آب د کی اصل م م ہ یہ تھ کہ حضرت را چندر جی نے الہ کو
11
الہور والی والیت اور کش کو قصور والی والیت بطور ی ج گیر عط کی۔ سکندر اعظ ویرانے میں میں نہیں آی ہو گ عالقہ بی س خو آب د رہ ہوگ ۔ یہی نہیں قصور پورے ہندوست ن کی ذرخیز ترین والیت تھی۔ گند مکئ گن سبزی ت بشمول میتھی خصوص ج نوروں ک چ رہ وغیرہ کی پیداوار کے حوالہ سے م روف رہ ہو گ ۔ سکندری فوج نے خو تب ہی مچ ئ ہو گی۔ جواب وہ بھی مرے ہوں گے۔ ان کی قبریں وغیرہ یہ ں ہی ہوں گی۔ ہو سکت ہے قبرست ن جٹو میں ان کو دفن ی گی ہو گ ۔ چینی سی ح ہیون س نگ جو بدھ مت ک پرچ رک بھی تھ ‘ کے ہ ں قصور ک ذکر موجود ہے۔ کپڑے کی صن ت کل پرسونسے ت نہیں رکھتی۔ اسی طرح اس حہ س زی میں کم ل رکھت تھ ۔ اس ذیل میں کم ل کے ہنرمند موجود تھے۔ پورس کی فوج کو آخر رسد کہ ں سے دستی ہوتی ہو گی۔ یہ م ن نہیں ج سکت رسد پوٹھوہ ر سے آتی ہو گی۔ عالقہ بی س کے حوالہ سے رسد اور سپ ہ اسی والیت سے دستی ہوتی ہو گی۔ الہور ن کے شہر افغ نست ن اور پش ور میں بھی بت ءے
12
ج تے ہیں۔ راجپوت نہ میں شہر لوہ ر موجود ہے۔ لہ رو بھی ایک جگہ ک ن ہے۔ اس طرح کے اور ن بھی م تے ہیں۔ گوی الہ کی دسترس دور دراز عالقوں پر رہی ہوگی۔ اسی طرح بقول سید محمد لطیف اور کنہی الل تحریروں میں الہور؛ لوہ ر‘ لوہر‘ لوہ آور‘ لھ نور‘ راہ رو‘ لہ ‘ لہ نو‘ لوپور‘ لوہ رپور بھی آت ہے۔ ایک روایت کے مط ب الہور کی بنی د راجہ پریچھت نے رکھی اور اس ک ن پریچھت پور رکھ ۔ اس راجے ک عہد شری شری را چندر جی کے ب د ک ہے۔ یہ روایت درست نہیں کیونکہ الہور عالقے ک وجود اس سے پہ ے تھ ۔ راجہ پریچھت نے اس ایری میں کوئ الگ سے عالقہ آب د کی ہو گ ۔ راجے مہ راجے اپنی اوالد اور دیگر خدمت گ روں کو گزارے کے لیے ج گیریں دے دی کرتے تھے۔ یہ س س ہ فوج کے حوالہ سے اور انگریز کی عط کی گئ ج گیروں والے لوگ ہم رے ہ ں موجود ہیں۔ غ لب لوہے سے مت
13
پیشہ کے ک کرنے والے کے لیے لوہ ر مست مل ہو گی ہو گ ۔ لوہ بہت بڑے یودھ رہے ہوں گے اور لوہ میں اس حوالہ سے ڈوبے رہتے ہوں گے۔ ویسے ہم رے ہ ں ب کہ پوری دنی میں ن بگ ڑنے ک ع رواج ہے۔ یہ ں ایک ص ح ک ن مولوی چھوٹیرا تھ وقت گزرنے کے ب د ن بگڑ گی مولوی بٹیرا ن م روف ہو گی ۔ فضل دین سے فج جنت بی بی سے جنتے ایسے ن سننے کو م یں گے۔ حضرت را چندر جی کے خ ندان کے لوگ دونوں والئتوں میں حکومت کرتے رہے۔ اس خ ندان کے ایک راجے نے الہور پر حم ہ کرکے اس پر اپن تس ط ح صل کر لی ۔ ( ) الہور اور قصور ایک والیت ٹھہرے۔ گوی اس حوالہ سے سی سی سم جی م شی اور م شرتی اختالط وجود میں آی ۔ قصور اس حوالہ سے بہت بڑی مضبوط اور توان والیت ٹھہرتی ہے۔ اس امر کے ثبوت اس کے کھنڈرات سے‘ جو ابھی کسی حد تک ب قی ہیں سے تھوڑی سی کوشش کے ب د دستی ہو سکتے ہیں۔ کچھ چیزیں ایسی بھی موجود ہیں جس سے اس عظی الش ن والیت کے دف عی نظ ک بخوبی اندازہ لگ ی ج سکت ہے۔
14
ش آواز ک س ی س ک ش میں تبدیل ہون کوئ نئ ب ت نہیں۔ کس پر ور کی بڑھوتی ہوئ ہے۔ ور پور ک تب دل ہے۔ جیسے جبل پور‘ نور پور‘ وزیر پور‘ بجید پور وغیرہ۔ پور سے پورہ ترکی پ ی ہے۔ ت ہ ور بھی مستمل ہے جیسے بجنور بجن ور‘ اخنور اخن ور‘ پش ور پش ور‘ سنور سن ور‘ کالنور کالن ور وغیرہ ۔ ور پور اور پورہ الحقے جگہوں کے لیے است م ل میں آتے ہیں۔ کش سے کس ہوا اور کس پر ور ک الحقہ بڑھ ی گی اور اس سے کسور ترکی پ ی ۔ اس رویت سے مت قصور کش واال قصور ہے۔ پٹھ نوں کو جو عالقہ مال اس پر انھوں نے عم رتیں ت میر کیں اور یہ پٹھ نوں کے دور سے ن مست مل نہیں ہے۔ کثو بھی تحریروں میں آت ہے اور اسی سے کثور ترکی پ ی ہو۔ ث کے لیے بھی رومن لکھتے ایس است م ل ہوت ہے۔ حضرت امیر خسرو یہ ں تشریف الئے اوران کے مط ب یہ
15
عم رتوں ک شہر تھ ا عم رتیں خت ہو گئ ہیں۔ یہ س ت سو س ل پہ ے کی ب ت ہے۔ گوی س ت سو س ل پہ ے بھی کھنڈرات پر ہی شہر آب د تھ اور اس ک ن قصور (کسور) تھ ۔ انگریز کے آنے سے رومن رس الخط نے رواج پ ی ۔ ترقی پ نے کے لیے رومن خط ک ج نن ضروری تھ ۔ سپ ہی سے آنریری کیپٹن تک ترقی پ نے کے لیے فوج میں کالسیں ہوتی تھیں اور یہ صورت پ کست ن بننے کے ب د بھی موجود رہی ح النکہ ا اردو رس الخط ج ننے والے افسر آ گئے تھے۔ رومن خط میں کیو
Qجبکہ ک کے لیے کے Kاست م ل میں التے ہیں۔
قصور کے Kسے شروع ہوت ہے kasاور کس ک ت ظ lahک ت ظ الہ ہی بنت ہے۔ کس اور الہ پر ور کی بڑھوتی ہوئ ہے۔ ی نی کس ک شہر الہ ک شہر۔
16
قصور اگر قصر سے ہوت تو کیو سے اس ک آغ ز ہوت ن کہ کے سے یہ ل ظ تر کی پ ت ۔ زب نوں میں یہ کوئی نئی ب ت نہیں۔ ل ظ غری کو م س کے م نوں میں است م ل کی ج ت ہے ح النکہ اس کے م نی پردیسی کے ہیں۔ گوی غری لکھ کر م س م نی لیے ج تے ہیں۔ اپنی اصل میں یہ گری ہے۔ گری کو غ ط سمجھ ج ئے گ ۔ ق ی کو غ ط جبکہ ق ی کو درست سمجھ ج ت ہے جبکہ ق ی کوئی ل ظ ہی نہیں ہے۔ کسو (کیشو) ب م نی خوبصورت ب لوں واال۔ روشن۔ درخش ں وشنو دیو ک ایک ن ہے۔ شری را چندر جی کو وشنو دیو ک اوت ر سمجھ ج ت ہے۔ اسی طرح سیتت می کو لکشمی ک اوت ر خی ل کی ج ت ہے۔ کسر ب م نی دودھ‘ کسر س گر کنی لکشمی دیوی جو وشنو دیو کی پتنی ہیں ک ایک ن ہے۔ اس لیے کش کس کسو وغیرہ ن فرضی قرار نہیں دیے ج سکتے۔ یہ س مس م نوں ک عقیدہ ن سہی انہیں میتھ ک درجہ تو ح صل ہے۔ کسی میتھ کو بےم نی اور بےک ر قرار نہیں دی ج سکت کیونکہ ہر میتھ غیر ج نبدارانہ تحقی ک تق ض کرتی ہے۔ اس حوالہ سے انہوں
17
نے اپنی سنت ن ک ن کش بم نی خوش شکل رکھ ہو گ ۔ قصر مق می ل ظ نہیں ہے۔ جو پٹھ نوں نے شہر آب د کی وہ موجود قصور ہے۔ اور ص دیسی حروف نہیں ہیں۔ س دیسی ہے گو یہ آواز عربی اور ف رسی میں بھی موجودہ ہے۔ ت ن سین کو کھنڈروں کی ج گیر نہیں م ی تھی کھنڈروں پر آب د عالقہ تھ ۔ اسی طرح حضرت امیر خسرو بھی آب د عالقے میں آئے ہوں گے۔
18
)(3 قصور کے مت کہ ج ت ہے کہ کم ل چشتی کے جو ٹی ے ہیں یہی پران قصور ہے۔ کم ل چستی کے حوالہ سے ایک رویت ع ہے کہ راجہ رائے سنگھ سترویں صدی عیسوی میں یہ ں ک ح ک تھ ۔ وہ ہر دلہن کے س تھ پہ ی رات گزارت ۔ کم ل چشتی کی ایک مریدنی جو دلہن تھی ان کے پ س بھ گ آئی اور س را م جرا سن ی ۔ کم ل چشتی نے اپن پی لہ الٹ کر دی ۔ اس طرح یہ شہر غر ہو گی ۔ انس نی ت ریخ کے حوالہ سے یہ گزرے کل پرسوں کی ب ت ہے۔ امیر خسرو جو س ت سو پہ ے سے ت رکھتے ہیں ان کے مط ب کھنڈرات اس وقت بھی موجود تھے۔ کم ل چشتی ک مزار کھنڈر کے اوپر ہے۔ گوی سترویں صدی عیسوی میں شکرپور تب ہ ہوا۔ کھنڈر پر موجود شہر برب د ہوا۔ کم ل چشتی کی ت ریخ موجود نہیں۔ احمد ع ی الہوری جو کشف القبور ک ع رکھتے تھے انھوں نے حضرت ب ھے
19
ش ہ کے مت راءے دی کہ یہ ں نیک ہستی دفن ہے جبکہ کم ل چشتی کے ب رے کہ کہ انھیں اس قبر کے ب رے کچھ سمجھ میں نہیں آ سک ۔ گوی انھوں نے ب ت کو گول مول رکھ اور یہ کہنے سے گریز کی کہ یہ ں کچھ بھی نہیں ہے۔ مردہ دفن کرنے کے عالوہ قبر سے چ ر اور ک بھی لیے ج تے رہے ہیں۔ یہ ں کے ح الت کبھی اندرونی اور کبھی بیرونی حم وں کی وجہ سے ن س زگ ر رہے ہیں۔ محالتی س زشیں لوگوں ک سکون برب د کرتی رہی ہیں۔ ن س ز گ ر ح الت کے سب انھیں مہ جرت اختی ر کرن پڑتی۔ ایسے میں ص ح ج ہ اور اہل ثروت اپنی دولت قبر میں دفن کر دیتے اور م م ے کو قسمت کی ی وری پر چھوڑ دیتے۔ 1947کی مہ جرت میں بھی ایس ہوا۔ کئ ایک کو موقع مل گی لیکن جنھیں موقع نہیں مال ان ک خزانہ ابھی زیر زمین ہے ی کسی اور ک مقدر ٹھہرا۔ قبریں دف ع کے ک بھی آئی ہیں۔ اوپر سے دیکھنے میں
20
قبریں ہیں لیکن ان کے اندر سرنگوں ک ج ل بچھ ہوا ہوت تھ ۔ عہد سالطین کی اس قس کی چیزیں م تی ہیں ممکن ہے یہ س س ہ پہ ے سے رواج رکھت ہو۔ مرشد کے کپڑوں وغیرہ کو دفن کر دی اور اسے قبر کی شکل دے دی گئی۔ یہ ایک طرح سے مرشد ک احترا رہ ہے۔ اسے روزگ ر ذری ہ قرار دین بھی غ ط نہ ہو گ ۔ اسے اس جگہ پر قبضہ کرنے ک ن بھی دی ج سکت ہے۔ چ ہ گ ہوں میں کسی ب بے کی چھوڑی ہوئ چیز کو دفن کر دی گی ہے۔ ب د ازاں وہ ڈھیری قبر ٹھہری ہے۔ کم ل چشتی کے حوالہ سے مخت ف قس کے قی فے اور م روضے ق ئ کیے ج سکتے ہیں ت ہ انھیں حتمی قرار نہیں دی ج سکت ۔ مثال ق ضی ش ی الدین ص ح کوئی چیز چھوڑ گیے ہوں اور اسے دفن کر دی گی ہو۔ اسے ق ضی ش ی الدین ص ح کی چ ہ گ ہ بھی قرار دی ج سکت ہے۔ کم ل عرفی ن ہو سکت ہے ی نی چشتی ک کم ل۔ ق ضی ش ی الدین ص ح کوئ م مولی شخصیت نہیں تھے۔ ان ک
21
دور راجہ راے سنگھ سے ت نہیں رکھت ۔ یہ تو عہد سالطین کی ب ت ہے۔ راجہ رائے سنگھ کے حوالہ سے غر ہونے والے قصہ کو سچ م نتے ہیں تو یہ کوئی یہ ں کہیں اور ص ح کرامت بزرگ موجود ہیں جن کے مق دفن کی کوئی ص ح کشف ہی خبر دے سکت ہے۔ یہ مقبرہ سڑک سے قریب پچ س فٹ کی ب ندی پر ہے۔ مقبرے تک ایک سو دوسیڑھی ں ہیں۔ شیر ش ہ سوری نےٹی ے ک ٹ کر یہ سڑک بنوائ تھی۔ اس کے ب د یہ سڑک کئ ب ر بنی۔ یہ سڑک اصل سڑک سے تقریب تیس فٹ سے زی دہ ب ندی پر ہے۔ اس طرح یہ ٹی ہ دو حصوں میں بٹ گی ۔ دوسری ب ر یہ ت ریخی ٹی ہ انگریز عہد میں تب ہی ک شک ر ہوا۔ اسی ٹی ے کو ک ٹ کر وکیل خ ن ک مقبرہ ت میر ہوا۔ ب د ازاں اس مقبرے سے دف تر ک ک بھی لی گی اور ا یہ میوزی ہے۔ ڈسٹرکٹ جیل اور پولیس الئین بھی ٹی ہ ک ٹ کر بن ئ گئ ہیں۔ اس کے ب د سڑک کے س تھ موجود ٹی وں کی مسم ری ک ک شروع ہو گی ۔ مزار کم ل چشتی سے دوسری طرف والے ٹی ے ب ڈوذ کرکے سڑک کے برابر کر دیے گیے ہیں اور یہ ں ا
22
دوک نیں ہیں۔ ٹی ے شیر ش ہ سوری سے پہ ے بھی مسم ر ہوءے ہیں لیکن اگ ی ش ٹ میں دوب رہ ٹی ے بنے ہیں۔ اس حوالہ سے مت گ تگو آگے آئے گی۔ انگریز راج میں ٹی ے ک ٹ کر ری وے الئن بن ئی گئی اس سے بھی پرانی تہذی کے نش ن ت غ رت ہوئے۔ )8
23
)(4 یہ بڑا ذرخیز عالقہ تھ ۔ س تھ میں دری بہت تھ ۔ ابتدا میں لوگ چھوٹی چھوٹی آب دیوں میں دور نزدیک اق مت رکھتے تھے۔ آج بھی یہی صورت ہے ت ہ آب دی ں چھوٹی نہیں ہیں۔ پہ ے پ ن س ت گھروں پر مشتمل آب دی ں رہی ہوں گی لیکن آج گھروں کی ت داد سیکڑوں تک چ ی گئی ہے۔ تھوڑے تھوڑے ف ص ے پر گ ؤں اور بستی ں آب د ہیں۔ ان ک جیون بڑا س دہ تھ ۔ ب د ازاں ب ہمی لین دین پر ان کے جھگڑوں ک آغ ز ہو گی ہو گ ۔ ط قتور کمزور آب دی کو برب د کر دیتے۔ ایک عرصہ ب د یہ برب د عالقے اسی ٹی ے کو ص ف کرکے دوب رہ سے آب د ہو ج تے۔ دری مخت ف اوق ت میں قی مت توڑت رہت ۔ بیرونی قسمت آزم بھی قسمت آزم ئی کرتے رہتے تھے۔ چور راہزن ن صرف م ل و دولت غ ے وغیرہ پر ہ تھ ص ف کرتے ب کہ توڑ پھوڑ سے بھی ک لیتے رہتے تھے۔ قری کی مضبوط والئتیں توسیع پسندی اور وس ئئل پر قبضہ کرنے کے لیے ط قت آزم ئی کرتی رہتی تھیں۔ اس عمل میں م م ہ قبضے تک محدود نہیں رہت تھ یہ کہن کہ ب کہ تب ہی برب دی اور مسم ری تک بڑھ ج ت ۔
24
کچھ سو س ل پہ ے دری ءے بی س نے اس عالقے کو کھنڈر میں بدل دی درست نظریہ نہیں۔ دری ب ر ب ر تب ہی الت اس کے ب وجود یہ عالقہ پھر سے آب د ہو ج ت ۔ چونکہ پ نی کے قری آب دیوں ک رواج ی مجبوری تھی لہذا دوب رہ سے عالقہ آب د ہو ج ت ۔ آج بھی یہ صورت موجود ہے بہت سے ع قے موجود ہیں جہ ں ہر س ل سیال آتے ہیں۔ سیال کی ست ظری ی کے ب وجود یہ عالقے کبھی بے آب د نہیں ہوئے۔ حم ہ آوروں کی تب ہی وبرب دی کے ب وجود دوب رہ سے آب دک ری ک س س ہ شروع ہو ج ت ۔ عمو کو اہل ج ہ سے نقص ن ہوت رہ ۔ وہ خود بھی عمو کی کھ ل ات رتے رہتے تھے بیرونی وال ئتوں سے ان کی ذاتی اور سی سی دشمنی ک خمی زہ عمو کو بھگتن پڑت ۔ اسی طرح ان کی ذاتی اور آپسی دشمنی بھی لوگوں ک جین حرا کرتی رہتی تھی۔ ان کی ذاتی اور آپسی دشمنی میں لوگوں کی امالک اور گھر ب ر تب ہی سے دوچ ر ہوتے رہتے تھے۔ یہ س س ہ آج بھی م کی اور بین االقوامی سطع پر موجود ہے۔
25
ب ہر سے بھی لوگ یہ ں آتے ج تے رہے ہوں گے۔ ان آنے ج نے والوں کی مخت ف صورتیں رہی ہوں گی۔ اپنی ذرخیزی اور ترقی کے حوالہ سے دور نزدیک کی والءتوں میں م روف رہ ہو گ ۔ م مولی عالقہ ہوت تو اکبر اپنے نورتن ت ن سین کوج گیرروہے وال میں نہ عط کرت ۔ ت ن سین م مولی گوی ہوت تو پیر اخوند س ید اس ک گ ن سننے نہ ج تے اور خوش ہو کر ایک اشرفی ان میں نہ دیتے۔ اسی طرح پیر ص ح موصوف کوئ م مولی شخصیت ہوتے تو ت ن سین واپسی ان کی خدمت میں دو اشرفی ں بطور نذر بصد احترا پیش نہ کرت ۔ اکبر نے اپنے بیٹے س ی کو دو عالقے عط کیے ان میں سے ایک شیخ پور کے ن سے آج بھی اس ایری میں موجود ہے۔ جس ک ن شیخوپور تھ شیخ پور ب د میں ہوا۔ یہ کوئ بزرگ تھے ان ک گ ؤں میں مزار موجود نہیں۔ ہو سکت ہے ح الت ک شک ر ہو گی ہو ی سرحد کے اس پ ر چال گی ہو۔
26
کسی ایک شخص کے ب ہر سے آنے ک مط یہ ٹھہرت ہے کہ وہ اپنی والیت کی تہذی ثق فت زب ن م شرت م شی ض بطے نظری ت وغیرہ لے کر آت ہے۔ ط لع آزم اپن مقدر آزم تے رہے ہیں۔ اس طرح بہت سی عسکری روی ت ب واسطہ درآمد ہوئی ہیں۔ ایک عہد میں دو الگ واالءتیں تھیں پھر الہور قصور ک عالقہ ٹھہرا ۔ اس کے ب د قصور الہور ک عالقہ قرار پ ی ۔ قی پ کست ن کے ب د بھی یہ الہور کی تحصیل تھ ۔ الہور ڈویژن جبکہ قصور ترقی کرکے ض ع ہوا اور الہور ڈویژن میں ش مل ہے۔ الہور ب د کے ادوار میں پنج ک مرکز اور اہ ترین خطے کی حیثیت اختی ر کر گی اور ہر حوالہ سے ترقی کرت گی ح النکہ قصور اس سے کہیں بڑھ کر برصغیر کی والیت تھی۔ یہ اہل ج ہ کی آنکھ پر نہ رہ سک نتیجہ ک ر بہترین اور ت ریخی خطہ ہونے کے ب وجود پس م ندگی کی دلدل میں چال گی ۔ آج یہ مس ءل اور پریش نیوں ک بدترین مجموعہ ہے۔
27
شیر ش ہ سوری کے ب د تک ٹی ے کی ہ یٹ اس کی بن ئ ہوئ سڑک سے اوپر اسی فٹ کے قری بنتی ہے۔ شیر ش ہ سوری نے زمین پر نہیں ٹی ے کو ک ٹ کر سڑک ت میر کی۔ یہی صورت وکیل خ ن کے مقبرے کے س تھ ٹھہرتی ہے۔ اس طرح سڑک کے نیچے اسی فٹ سے زی دہ ٹیال ہو گ ۔ گوی یہ ایک سو س ٹھ سے دو سو فٹ ک ی اس سے زی دہ ک ٹھہرت ہے۔ میں یہ ں کم ل چستی والے ٹی ے ٹبوں کی ب ت کر رہ ہوں۔ انگریز عہد میں اس عالقے ک اصل اج ڑہ ہوا۔ ان کے حوالہ سے قتل و غ رت اور لوٹ م ر تو الگ ب ت ہے اس نے ٹی ے ک ٹ کر جیل خ نہ ت میر کی ‘ ری وے الیین بن ئی ‘ پولیس الیین بن ئی گئی۔ دف تر ت میر ہویے۔ ان ٹی وں کی آغوش سے دستی ہونے والے نوواردت ک کی ہوا کوئی نہیں ج نت ۔ انگریز لے گی ہوگ ۔ اس کے گم شتوں کے گھروں کی زینت ٹھہرے ہوں گے۔ ابھی قری کی تب ہی میں ٹی ے ب ڈوز ہوے ہیں اور مٹی سڑک پر پڑی۔ اس طرح سڑک ک فی اونچی ہو گئی ہے اور ٹی وں سے م نے والے نوادرات ک ات پت م و نہیں۔
28
ح جی گگن ک مزار آب دی سے بتتس فٹ کی ب ندی پر ہے اور آب دی موجودہ زمین سے سترہ سے سنتیس فٹ ہے۔ ح جی گگن پٹھ ن ہیں اور ان ک دور سالطین ک ہے۔ پیر بولن ک مزار ٹی ے پر ہے۔ بقول احس ن هللا کیرئر ٹیکر گورنمنٹ اسالمیہ ک لج قصور پیر بولن کے قری ٹیال جو ت میر شدہ مزار سے ب ند تھ اسے ڈھ کر زمین ک شت کے ق بل بن ئی گئی ہے ۔ مزار آج بھی اوپر ہے۔ اس ٹی ے کے قدموں سے نیچے تیس سے پنتس فٹ پر زیر حوالہ زمین پر فصل بوئی گئی ہے۔ مزے کی ب ت یہ کہ یہ زیر ک شت زمین بھی ٹی ے پر ہے۔ اس طرح یہ کوئی بہتر فٹ ب ندی بنتی ہے۔ پیر بولن کے مت
کچھ م وم ت وہ ں درج ہیں
ن حضرت عط هللا خ ن خویشگی ت ریخ پیدایش 480 عیسوی وف ت 550عیسوی(4
29
ان ک روضہ مب رک شہنش ہ شہ الدین غوری نے ت میر کروای ۔ حضرت خواجہ خواجگ ن م ین الدین چشتی تب یغ اسال کے لیے آئے تو اس مزار پر ح ضری دی۔ حضرت ب ب فرید‘ حضرت خواجہ نظ الدین اولی ء‘ حضرت خواجہ عالؤالدین ک یر‘ حضرت ع ی احمد ص بر حضرت امیر خسرو‘ حضرت خواجہ نصیر الدین‘ حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز نے اس مزار پر ح ضری دی۔ ان م وم ت سے یہ واضع نہیں ہوت کہ آپ ک ‘ کہ ں سے اور کس مقصد سے یہ ں تشریف الئے ۔ بڑے بڑے اہل تصوف کی تشریف آوری سے یہ ضرور واضح ہوت ہے کہ آپ عظی صوفی رہے ہوں گے۔ خویشگی سے واضح ہوت ہے کہ افغ نی ہوں گے۔ فتح خیبر کے موقع پر ان کے بڑے اسال الءے ہوں گے۔ یہ بھی طے ہوت ہے کہ آپ ک ت عہد سالطین سے ہے۔ آپ ک مزار ٹی ے پر ہے۔ ص ف ظ ہر ہے اس ٹی ے پر آب دی رہی ہو گی جنہیں وہ اسال سے مت ت ی دیتے رہے ہوں گے۔ آپ کے عمدہ کردار کی وجہ سے یہ ں کے لوگ عزت دیتے ہوں گے۔ ت ہی تو س کچھ مٹ گی ہے لیکن ان کے درب ر کو نقص ن نہیں
30
پنچ ی گی ۔ یہ کوئی ضروری نہیں کہ یہ مس م نوں کی آب دی رہی ہو۔ ان پیروں فقیروں اور اہل س وک کو دیگر مذاہ کے لوگ بھی عزت دیتے آئے ہیں۔ پیر بولن سے دائیں کچھ ہی ف ص ے پر پنج پیر ک مزار ہے۔ یہ مزار بھی ٹی ے پر ہے۔ یہ ٹیال بھی تقریب اتنی ہی ب ندی پر ہے ب کہ یہ کہن زی دہ من س ہو گ کہ یہ ٹیال وہی ٹیال ہے اور یہ ں بھی صرف مزار ہی ب قی ہے۔ اس کے تھوڑے ف ص ے پر ری وے الئین تھی۔ قر و جوار میں آب دی موجود نہیں۔ ص ح مزار ک بسیرا یقین آب دی میں رہ ہو گ ۔ آب دی ن بود ہو گئ لیکن مزار ب قی ہے۔ مزار پر چھت نہیں۔ طرز ت میر اور اس ک چون گ را وغیرہ عہد سالطین سے ت رکھت ہے۔ ص ح مزار ک احترا رہ ہو گ ت ہی تو کسی ب دش ہ نے اس درب ر کی ت میر کروائی ہو گی۔ مزار سے کچھ ف ص ے پر ایک مختصر س قبرست ن ہے۔ یہ قبرست ن ایک چوکھنڈی میں ہے۔ اس چوکھنڈی کے اندر
31
پھر چ ر دیواری ہے۔ یہ چوکھنڈی بھی پرانی ہےاس چوکھنڈی کے اندر ص ح ج ہ کو دفن کی گی ہو گ ۔ س منے دیوار کے س تھ بڑے اہتم والی قبر اس کی ہو گی۔ یہ قبر جھ ڑیوں اور ایک درخت کے نیچے آگئی ہے۔ اندر کی چ ر دیواری میں اور بھی قبریں ہیں۔ یہ قبریں ب د کی ہیں‘ جو کچی ہیں۔ اندر کی چ ردیواری کے ب ہر بھی قبریں بن کی ہے۔ یہ قبر کسی گءیں۔ ان میں سے ایک قبر پیر ص کی ہے۔ یقینی طور پر یہ پنج پیر ص ح کے مج ور کی رہی ہو گی۔ موجودہ مج ور جو ک فی عمر رسیدہ ہے‘ کے کسی بڑے کی قبر نہیں۔ پنج پیر کے ن کی یہ پہ ی قبر نہیں ہے۔ اس ن کی قبریں بہت سے عالقوں میں م تی ہیں۔ اس ٹی ے کے آخری گ ؤں سہجرہ میں بھی پنج پیر ن کی قبریں موجود ہیں۔ چ ر دیواری جو ک فی پرانی ہے کے اندر پ نچ قبریں ہیں۔ دروازے پر پنج پیر کی تختی آویزاں ہے۔ پنج پیر عالمتی عرفی ی پھر م روفی ن ہے۔ بنو امیہ کے دور سے س دات ڈسٹر ہیں۔ زمین ان پر تنگ کر دی گئ اس لیے انہیں وہ ں سے مہ جرت اختی ر کرن
32
پڑی۔ برصغیر مہ جر اور ست ئے ہوئے لوگوں کو بخوشی پن ہ دیت آی ہے۔ منصورہ‘ کراچی میں ف طمی حکومت بھی رہی ہے۔ محمد بن ق س ان س ادات کے ت ق میں برصغیر آی تھ ۔ ب د میں اور بہت سی کہ نی ں گھڑ لی گئیں۔ س دات کے حوالہ سے پنج پیر ی پنج تن ف رسی مرک ہوتے ہوئے ت ہمی حوالہ سے مق می بن گی ۔ برصغیر کے کچھ حصوں میں ایسے ہندو بھی رہے ہیں جو خود کو پنج پیر ک پیرو ک ر بت تے ہیں۔ ہر بھگت خود ان پنج پیروں ک انتخ کرت ہے۔ بہر طور اس کی صورتیں یہ رہی ہیں۔ حضور اکر ‘ حضرت ع ی‘ حضرت ف طمہ‘ حضرت حسن اور حضرت حسین پ نچ پ نڈو درگ ہ دیوی‘ گرو‘ خواجہ س ط ن‘ ' گگ پیر‘ اس عہد ک )م روف پیر ( )شیخ س میل‘ ش ہ دولت‘ شخ فتح ع ی خ ں اورش ہ مراد (6
33
م ین الدین چشتی‘ نظ الدین اولی ء‘ نصیر الدین ابو الخیر‘ خواجہ خضر‘ سید جالل الدین خواجہ خضر‘ سید ج الل الدین‘ زکری م ت نی‘ الل شہب ز ق ندر‘ خواجہ فرید سکھوں میں خواجہ خضر‘ درگ ہ دیوی‘ وشنو‘سخی سرور‘گرو گوبند سنگھ گگ پیر‘ ب لک ن تھ‘ ٹھ کر‘سخی سرور‘ شیو )(7 پنج پیر کی قبر پندرہ فٹ ی نی پ نچ گز لمبی ہے۔ لمبی قبریں بن نے ک رواج عہد سالطین میں نظر نہیں آت ۔ عہد سالطین کی بہت س ری قبریں دیکھنے ک ات ہوا ہے۔ انٹرنیٹ پر سالطین کی قبریں موجود ہیں‘ روٹین کی قبریں دیکھنے کو م تی ہیں۔ لمبی قبریں بن نے کے حوالہ سے زب نی کالمی مخت ف روای ت م تی ہیں۔ مثال .سردار ی کی بڑے آدمی کی قبر لمبی بن ئ ج تی تھی۔ 1
34
یہ ں سردار اپنے وزیروں کے س تھ بیٹھ کر کچری لگ ت . تھ 2. ہنگ می ح الت میں م ل و دولت دفن کر دی ج تھ 3. ۔ مرنے والے کے قد کے مط ب قبر بن ئ ج تی تھی۔ 4 ب ض اوق ت اگ ے زم نے کی کھیت کی وٹ کو قبر سمجھ لی گی 5. میں ان میں سے کسی پوائنٹ پر گ تگو نہیں کروں گ ۔ زیر حوالہ قبر کی عم رت عہد سالطین کی ہے ہ ں البتہ قبر کی ت میری تجدید کی گئ۔ بت تے ہیں قبر کی ح لت خستہ ہو گئ تھی۔ عم رت کی ح لت بھی بہتر قرار نہیں دی ج سکتی ت ہ ق بل رح نہیں۔ عم رت بت تی ہے کہ عم رت کسی مس م ن س ط ن نے ت میر کروائی ہو گی۔ عم رت ک ڈازائین اسالمی ت میرات سے ت رکھت ہے۔ ص ح قبر ک احترا رہ ہو گ ت ہی تو عم رت ت میر کی گئ ہو گی۔ اگر ن م روف ہوت تو عرفی ن نہ دی گی ہوت ۔ س ت آٹھ سو س ل ت ریخ میں کچھ زی دہ نہیں ہوتے۔ پیر بولن ک اصل ن آج بھی لوگوں کو م و ہے۔ یہ قبر قبل مسیع سے ت
35
رکھتی ہے۔ حضرت عیسی ابن مری تک آتے قد ن رمل ہو گی تھ ۔ ب کہ دو ہزار پ نچ سو س ل تک آدمی ک قد غیر م مولی نہیں رہ تھ ۔ حضرت موسی ک قد تیس فٹ ی تیس گز ی تیس ہ تھ بت ی ج ت ہے۔ عوج بن عن بن آد ک قد ن ق بل یقین حد تک بت ی ج ت ہے۔ یہ ب ت تین ہزار س ل پہ ے کی ہے۔ ان کے عہد میں انس ن ک عمومی قد اتن ہی کہ ج ت ہے۔ ان سے پہ ے کے لوگ اس بھی زی دہ قد والے تھے۔ مق می انبی ء کے عالوہ دیگر والئیتوں سے انبی ء نے تبیغ کی غرض سے یہ ں تشریف النے کی زحمت گوارا فرم ئی۔ حضرت آد کے بیٹے حضرت قنبط حضرت ص دان حضرت شیث وغیرہ یہ ں تشریف الئے۔حضرت قنبیط حضرت موسی حج زی حضرت ط نوخ حضرت آمنون وغیرہ کی قبریں یہ ں موجود ہیں۔ براس میں حضرت ہند بن ح بن عبدالغ ر الم روف نوح کی قبر موجود ہے۔ یہ س قبریں لمبی ہیں اور آج بھی ان ک احترا ب قی ہے۔ لوگ زی رت کے لیے وہ ں ج تے ہیں۔ ان حق ئ کے پیش نظر کہ ج سکت ہے کہ زیر گ تگو قبر حضرت موسی کے عہد سے تھوڑا ب د
36
کی ہے اور نسل در نسل احترا چال آ رہ ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکت کہ یہ قبر کسی نبی کی ہے۔ اس ذیل میں کوئی ص ح کشف ہی کال کر سکت ہے ت ہ یہ ضرور کہ ج سکت ہے یہ رشد و ہدایت سے مت شخص ہیں اور ان ک زم نہ ست ءس ی اٹھ ئیس سو س ل پہ ے ک رہ ہو گ ۔ ق ری کے ذہن میں یہ ب ت رہنی چ ہیے کہ یہ قبر ٹی ے کی ب الئی سطع پر ہے۔ ٹیال ایک سو س ٹھ سے دو سو فٹ نیچے ج ت ہے۔ روہے وال جہ ں ت ن سین کی ج گیر تھی ب ند و ب ال ٹی ے پر ہے۔ اس آب دی ک بغور مط ل ہ کی ج ئے تو یہ ں عج ئب ت ک کھال پنڈر نظر آت ہے۔ یہ ں ک از ک چھ آب دی ں تھیں۔ عالقے کے آغ ز سے تھوڑے ف ص ے پر قبرست ن آت ہے۔ اس قبرست ن میں ب ب عبدالکری جو پیر سید غال نبی ش ہ کی اوالد سے تھے کی قبر ہے۔ اس کے عالوہ اور بھی پرانی قبریں ہیں۔ کچھ قبریں م دو ہو چکی ہیں فقط نش ن ب قی ہیں۔ قبرست ن کے اندر اور قبر کے قری بہت مختصر دیوار بھی ہے بقیہ دیوار خت چکی ہے۔ ب ب عبدالکری ک مقبرہ ہے اور اس پر مج ور بھی موجود ہے۔ موجود
37
صورت میں یہ قبرست ن مغ یہ عہد سے پیچھے نہیں ج ت ۔ اس ذیل میں کوئی ایسی چیز دستی نہیں ہوتی۔ اس قبرست ن کے پیچھے دائیں اور ب ئیں آب دی کے نش ن موجود ہیں۔ یہ قبرست ن بھی ٹی ے پر ہے ت ہ بظ ہر ٹیال موجود نہیں پکی سڑک اور قبرست ن برابر سطع پر آ گی ہے۔ اس قبرست ن سے آگے پران قبرست ن ہے۔ یہ ں ش ہ ع ل شیر ک مقبرہ ہے۔ مجھے یہ ن عرفی لگت ہے۔ ان ص ح ک ت مغ یہ دور سے لگت ہے۔ یہ حجرے میں ہے۔ یہ ں اور بھی قبریں موجود ہیں۔ یہ ں چ ر دیواری رہی ہو گی۔ اس چوکھنڈی کے اندر مقبرے کے عالوہ تین چیزیں اور بھی ق بل توجہ ہیں۔ اس کے اندر ایک کنواں ہے۔ ا اس میں صرف ب رش ک پ نی ہے۔ اسے پر کرنے کے ب وجود اس کی گہرائ س ٹھ فٹ ہے۔ یہ کنواں یہ ں کی پوری آب دی کے است م ل میں رہ ہو گ ۔ اس کنویں ک ت عہد سالطین سے لگت ہے۔ یہ ں یقین کسی دور میں بڑی رون رہی ہو گی۔ یہ کنواں مغ یہ عہد میں بھی است م ل میں رہ ہو گ ۔ اس چ ر دیواری سے ب ہر‘ جنو میں قری ہی ایک
38
عم رت ہے۔ تجدید کے ب وجود قدی نش ن ت ابھی موجود ہیں۔ ا یہ جن ز گ ہ وغیرہ کے طور پر است م ل ہوتی ہے۔ یہ عم رت مغ یہ عہد سے سے ت رکھتی ہے۔ عم رت ک محرا ا بھی قدی ہے‘ سے واضح ہوت ہے کہ یہ مغ یہ عہد سے مت ہے۔ اس کے دائیں اور پیچھے رہ یشی ٹی ے ہیں۔ یہ ں یقین آب دی ں رہی ہوں گی۔ ش ہ ع ل شیر کے مقبرے کی چوکھنڈی کے اندر ایک قدی حجرہ اور ایک برآمدہ ہے۔ برآمدے کو تجدید دی گئ ہے۔ اس کے س منے والے حصے پر مہ ع ل درج ہے۔ قریب چ ر ک و میٹر پر گ ؤں مہ ل آب د ہے۔ قصور میں دو مہ ل آب د ہیں۔ مہ ع ل حقیقی ن نہیں‘ است راتی ن ہے۔ ش ہ ع ل ک مہ ع ل سے کوئی ن کوئی ت ضرور ہے۔ مہ ع ل ص ح کی نسل موجود ہے لیکن وہ ت صیالت سے آگ ہ نہیں۔ یہ دونوں‘ ش ہ ع ل اور مہ ع ل شیر یقین مغ یہ عہد سے مت رہے ہوں گے۔
39
ش ہ ع ل شیر کی چوکھنڈی سے ب ہر مشر میں ایک چوبترے پر چ ر دیواری میں قبر ہے۔ اس قبر پر چھت نہیں۔ یہ درب ر ش ہ ع ل شیر سے پ د ک ہے۔ اس قبرست ن میں نئ پرانی اور زی دہ پرانی قبریں ہیں۔ تین قبریں بن وٹ کے حوالہ سے دیگر قبروں سے ب لکل الگ تر ہیں۔ چوروں نے سنے سن ئے پر یقین کرتے ہوئے ایک قبر کھودی ہے۔ اندر سے م ل مال ی نہیں‘ کچھ نہیں کہ ج سکت ۔ اس حوالہ سے چور ہی بہتر بت سکتے ہیں۔ اس کھولی ہولی ہوئی قبر کے اندر کوئی راز ضرور دفن ہے۔ دوسری قبر کو بھی کھوال گی ہے لیکن سوراخ پر دوب رہ سے اینٹیں رکھ دی گئی ہیں۔ موب ئل ی ٹ رچ کی روشی سے اندر جھ نک گی ہو گ ۔ کچھ نہیں نظر آی ہو گ ت ہی تو مزید تررد نہں کی گی ۔ کھولی ج نے والی قبر ک کمرہ زی دہ ہے۔ یہ س ڑھے چھے فٹ لمب س ڑھے چ ر فٹ چوڑا اور پ نچ فٹ س ت انچ گہرا ہے۔ دونوں طرف دی رکھنے کے لیے آلے سے بنے ہوءے ہیں۔ پہ ے میں اسے سرنگ سمجھ تھ کیونکہ یہ اینٹ نئ لگتی ہے۔چھت پر عجی گول س آلہ بن ی گی ہے
40
ب د میں دیکھ تو م و ہوا داڑے م ے ہوئے ہیں۔ اندر آنے ج نے ک رستہ موجود نہیں۔ اس کے قری ہی زمین بوس چھوٹی سی چ ر دیواری ہے ۔ یوں لگت ہے یہ ں کوئ بیٹھت ہو گ ۔ قبر یقین زمین سے اونچی ہو گی۔ ا زمین اور قبر ک نچال حصہ برابر ہو گی ہے۔ یہ تینوں قبریں اپنے عہد میں بڑی ہی خوبصورت اور ش ہک ر رہی ہوں گی۔ ب الئی سطع پر قبر بر چون است م ل کی گی جبکہ اندر چونے کے س تھ گ رے ک بھی است م ل کی گی ۔ اس قبر ک سالطیں کے عہد سے رشتہ م و ہوت ہے۔ یہ قبر اور دوسری دو قبریں اپنے دامن میں ضرور کوئ بہت بڑا راز لیے ہوءے ہیں۔ میں نے اس ک کھوج لگ نے کی س ی کی ہے لیکن بوڑھ لٹھ بردار مج ور آڑے آگی ۔ اس قبر کے شرقن م قول آب دی رہی ہو گی۔ یہ ں دو نو گزا قبریں بھی موجود تھیں چوروں نے انھیں بھی اڈھیڑ ڈاال ۔ ا وہ ں صرف پر کیے ہوئے کھڈے ب قی رہ گیے ہیں اس لیے ان کے ب رے کچھ بھی عرض کرنے سے ق صر ہوں۔
41
ح لیہ آب دی کچھ س ل پہ ے روہے وال کے ٹی ے پر موجود پرانے مک نوں میں آب د تھی۔ چند ایک کے سوا ب قی آب دی ٹی ے سے نیچے آ گئ ہے۔ یہ بھی پہ ے ٹیال تھ ا اونچ ہو گی ہے۔ ٹی ے کی انچ ئی ا بھی تینتس فٹ سے انچ س فٹ ہے۔ تم مک نوں میں ایک مک ن خصوصی توجہ ک ح مل ہے۔ دیواریں کسی ق ہ کی سی دیواریں ہیں۔ تنگ گ ی اصل گ ی سے اونچی ہو گئی ہے اور گ ی موجودہ عہد کی اینٹوں سے ت میر کی گئ ہے۔ دیوار کی چوڑائ اٹھ رہ فٹ ہے۔ شرقی حصہ مسم ر ہو گی ہے۔ اس سے آگے ٹیال بھی خت ہو گی ہے۔ میرے خی ل میں یہ اس والیت کے مکھی ک گھر رہ ہو گ ۔ مکھی کی رہ یش گ ہ اوروں سے الگ تر رہی ہے۔ ٹی ے پر آب دی ب لکل خت نہیں ہوئی۔ اترائی چڑھ ئی سے لگت ہے ایبٹ آب د آگئے ہوں۔ مک ن مسم ر کرکے ایک مسجد ٹی ے پر بن دی گئ ہے۔ موجودہ ٹیال بھی عج ئب ت ک مجموعہ ہے اور بہت سے راز رکھت ہے۔ روہے وال سے کچھ آگے گ ؤں شیخ پور بھی میرے مش ہدے میں آی ۔ پرانے اث ر موجود ہیں لیکن بہت ک ۔ یہ اصل میں شیخوپور تھ ۔ شیخو اکبر کے بیٹے ک حضرت
42
س ی چشتی کے حوالہ سے فیم ی ن تھ ا ور یہ عالقہ شیخو کو بطور ج گیر عط ہوا ہو گ ۔ ب د کے دنوں میں کوئ ص ح کرامت بزرگ یہ ں تشریف الئے ہوں گے اور شیخ ان ک عرفی ن رہ ہو گ اس لیے ان کے عرفی ن شیخ کے حوالہ سے شیخ پور ٹھہر گی ہو گ ۔ یہ ں ب ب گ زار ش ہ ک مقبرہ ہے۔ یہ بزرگ نو مس تھے۔ ان کے مت بہت سی کہ نی ں مشہور ہیں۔ کہ ج ت ہے ب پ سے لڑ کر یہ ں آ کر آب د ہو گیے۔ ہو سکت ہے نسال ہندو بنی ہوں۔ انہیں شیخ بھی کہ ہو گ ۔ یہ ص ح 1947میں فوت ہوئے۔ لوگ آج بھی وہ ں ج تے ہیں اور یہ ں گی رویں ک ب ق ئدگی سے خت ہوت ہے۔
43
8 کم ل چشتی سے سہجرہ تک بڑے عجی وغری من ظر دیکھنے کو م تے ہیں۔ ۔سہجرہ ہے تو دیہ ت لیکن اسے گ ؤں کہن بڑا عجی لگت ہے۔ یہ ں زندگی کی ہر چیز دستی ہے ح النکہ یہ قصور سے بہت دور واقع ہے۔ اس کے آگے انڈی ہے۔ اس گ ؤں کی تقریب دو تہ ئ آب دی ٹی ے پر آب د ہے۔ یہ بھی ایبٹ آب د کی طرح اترائ چڑھ ی پر استوار ہے۔ یہ گ ؤں روہے وال سے کہیں بڑا ہے۔ ت حد نظر ٹی ہ ہے۔ مک ن نءے بھی ہیں اور پرانے بھی۔ کچھ مک ن نئے ہیں لیکن ان میں پرانی اینٹیں بھی است م ل میں الئی گئی ہیں۔ روہے وال کے مک ن ت میں زی دہ تر پرانی اینٹیں است م ل میں الئ گئ ہیں۔ ب الئی سطع کے مک ن پرانے ہیں۔ چھت بدل دی گئی ہے اور دیواروں پر مٹی کے گ رے سے لیپ کر دی گی ہے لیکن اندر وہی پرانی دیواریں ہیں۔ لوگوں ک کہن ہے گھر کے اندر گ ی بن تے ی کسی قس کی کھدائ کرتے انس نی ہڈی ں م تی ہیں۔ پرانے برتنونں کے
44
ٹکڑے وغیرہ م تے رہتے ہیں۔ ٹی ے سے نیچے بھی اس طرح کی چیزیں م تی رہتی ہیں۔ ہڈی نہ تھ لگ تے ہی مٹی ہو ج تی ہیں۔ ان ک کہن ہے ب ض درختوں کے ٹکڑے پتھر کی طرح سخت ہو گئے ہیں ب کہ پتھر ک ٹکڑا م و ہوتے۔ نچ ی سطع پر یہ صورت ہو تو ب ت سمجھ میں آتی ہے لیکن ب الئی سطع پر اس قس کی صورت ہو تو اس کے سوا کچھ سمجھ میں نہیں آت کہ ٹی ہ مزید تیرہ سے ب ءیس فٹ اونچ تھ جو کھ ر ی زمین کی سطع برابر کرنے کے لیے تین سے زی دہ ب ر مسم ری ک شک ر ہوا ہے۔ ایک ع آدمی کو پرانے برتنوں کے ثکڑوں ی ہڈیوں وغیرہ سے کی دلچسپی ہو سکتی ہے۔ زمین میں حل چالتے ی سہ گہ کرتے بھی اکثر ہڈی ں وغیرہ م تی رہتی ہیں۔ قیمتی اشی ء وغیرہ کوئی کیوں بت ئے گ ۔ زیورات بھی م تے ہوں گے۔ اوپر ٹی ے پر ایک مکمل چ ر دیواری کے اندر پ نچ قبریں ہیں اور ب ہر پنج پیر کی تختی آویزاں ہے۔ یہ پ نچ قبریں کن کی ہیں کوئ نہیں ج نت ۔ اس چ ر دیواری کے ب ہر ایک مغ یہ عہد کی قبر ہے۔ اس چ ر دیواری کی دوسری طرف ایک کھ ئی ہے۔ کھ ئی کے دونوں طرف نئے پرانے درخت
45
ہیں۔ بہت پرانے درختوں کی جڑیں نظر آتی ہیں۔ یہ جڑیں پتھر کی طرح سخت ہو گئی ہیں۔ کھ ئی سے تھوڑا ف ص ے پر ایک چوکھنڈی ہے۔ اس میں دو قبریں س دات سے مت بہن اور بھ ئ کی ہیں جنہوں نے ت حی ت ش دی نہیں کی اور عمر عب دت الہی میں گزار دی۔ ایک قبر کے مت کہ ج ت ہے کہ راتوں رات چل کر آئی ہے ی نی رات کو نہیں تھی لیکن صبح کو تھی۔ قری ہی ایک قبر ک نش ن فٹ ب قی رہ گی ہے قبر خت ہو گئی ہے۔ یہ مرحومہ لمبی ہے۔ بہت ہی پران قبرست ن یہ ں دیکھنے کو م ت ہے۔ قبریں خت ہو گئی ہیں۔ قبروں کی اینٹیں وغیرہ بکھری پڑی ہیں۔ ان چیزوں ک رشتہ ابتدائی مغ یہ عہد سے بالت مل جوڑا ج سکت ہے۔ کچھ چیزیں عہد سالطین سے بھی ت رکھتی ہیں۔ میں نے ان کی تص ویر لی ہیں انہیں دیکھ کر آپ ان کے زم نے ک بخوبی اندازہ کر سکیں گے۔ ٹی ے کی ب الئی سطع پر قبرست ن کی قبریں مسم ر کرکے ایک ڈیرہ س بن ی گی ہے۔ یہ ڈیرہ دو کن ل زمین سے ک نہیں ہو گ ۔ اس کے چ روں طرف لوہے کی ت ر سے ب ڑ بن دی گئی ہے۔ اندر آلو کے بیج کی بوری ں وغیرہ رکھی ہوئی
46
ہیں۔ س منے ب بے ح ک ش ہ ک مقبرہ ہے۔ مقبرے سے ب ہر ایک نو فٹ لمبی قبر ہے۔ ب بے ح ک ش ہ کے مقبرے ک مج ور بھال آدمی ہے۔ ج میں نے بت ی کہ میں سید زادہ ہوں تو بڑے ہی احترا سے پیش آی ۔ اس نے مجھ ن چیز کو ایک چ در اور ایک سو رویہ نذر کی ۔ میرے س تھ میں میرا منہ بوال بیٹ ف رو اور میرے گھر والے کچھ کھ نے کو بیٹھ گئے۔ میں نے دو روٹی ں ص د حسین مج ور مقبرہ ہذا کو بھوائیں۔ اس نے دو بسکٹ کے پیکٹ رکھ کر چنگیر واپس بھجوائی۔ اس سے مجھے خوشی ہوئی کہ ص د حسین ح ظ مرات سے خو آگ ہ ہے۔ میری دع ہے هللا اس پر آس نیوں کے دروازے کھولے۔اس طرح میں نے کم ل چستی کے شرقی ٹی ے ک کئ نشتوں میں س ر تم کی ۔ ق ری کو ب ور رہن چ ہیے کہ میں نے ٹی ے کی ب الئی سطع کے احوال بی ن کیے ہیں۔ کم ل چشتی ک غربی ٹیال مسم ر کر دی گی ہے۔ سٹرک کے س تھ مخت ف اشی ء کے مت دوک نیں بن گئی ہیں۔ یہ زمین سرک ری ہے ی ان دوک نوں والوں کو رجسٹرڈ ہو گئ ہیں‘ مجھے کچھ م و نہیں۔ سڑک سے ک فی پیچھے ج کر
47
ٹی ے موجود ہیں۔ ان ٹی وں پر اور ان ٹی وں سے نیچے آب دی موجود ہے۔ ٹی وں کی ب ندی سترہ سے چھتیس فٹ رہ گئی ہے۔ ان ٹی وں کو ڈھ نے ک عمل ابھی تک ج ری ہے۔ یہ مٹی مخت ف عالقوں کو بھرتی کے لیے سپالئی ہوتی ہے۔ اس مس سل عمل کی وجہ سے کم ل چشتی کے غربی ٹی ے خت ہو رہے ہیں۔ اگ ے پ نچ دس س لوں میں س کچھ خت ہو ج ءے گ ۔ کوئی بھی نہیں ج ن سکے گ کہ یہ ں کبھی ٹی ے بھی تھے۔ م م ہ سن ہے کے حص ر میں چال ج ئے گ ۔ مجھے ان ٹی وں میں سے مٹی کے برتنوں کے ٹوٹے ٹکڑے‘ ہڈی ں‘ پرانے درختوں کی لکڑی کے ٹکڑے وغیرہ م ے ہیں۔ درختوں کی لکڑی کے ٹکڑے لوہے کی م ند ہو چکے ہیں۔ غربی ٹی وں میں رستے بنے ہوئے ہیں۔ ایک رستہ کوٹ ح ی خ ن کو ج ت ہے۔ ری وے الئین واال رستہ اسال پورہ ( ) سے ہوت ہوا ب ب فرید ص ح کی چ ہ گ ہ کی طرف ج ت ہے۔ چ ہ گ ہ والے عالقہ کو م ئی جوائی کہ ج ت ہے۔ کوٹ ح ی خ ن ک بیرونی عالقہ جٹو کے قبرست ن تک ج ت ہے۔ یہی صورت اسال پورہ اور کوٹ مراد خ ن کی ہے۔
48
پچھ ے پچ س س ل میں صورت ح ل ہی بدل گئی ہے۔ یہ س میری آنکھوں ک دیکھ ہوا ہے۔ م ئی جوائی واال عالقہ ب ند ہو گی ہے۔ تم پرانی قبریں ص ف ہو گئ ہیں۔ یہ ں عالقہ بڑی ب ندی پر تھ اور عہد سالطین کی قبریں ع دیکھنے کو م تی تھیں۔ ک مل ش ہ واال قبرست ن بھی ب قی نہیں رہ ۔ خوشی کی ب ت یہ ہے کہ ب ب ص ح کی چ ہ گ ہ مح وظ ہے۔ چ ردیواری میں پران ون ک درخت بھی مح وظ ہے۔ اسال پورہ جہ ں میرا بچپن کھی ت کودت رہ ہے کچھ ک کچھ ہو گی ہے۔ میں خود کو یہ ں اجنبی محسوس کر رہ تھ ۔ دو ب ر تو مجھے رستہ پوچھن پڑا۔ جٹو واال قبرست ن آج سے کوئ پچ س پچپن س ل پہ ے سطع زمین سے اڑتیس سے ب سٹھ فٹ پر تھ ۔ نیچے روہی ن لہ بہت تھ ۔ پرانی اور پرانی ترین قبریں یہ ں موجود تھیں۔ ا س سطع زمین کے برابر آ گی ہے۔ مک ن ت بن گءے ہیں ن لے والی جگہ پر سڑک نم گ ی بن گئ ہے۔ قبرست ن میں کھیل ک میدان بن گی ہے۔ قبرست ن دو حصوں میں بٹ گی ہے درمی ن میں بڑی ہی فراخ سڑک بن گئ ہے۔ قبرست ن میں بھی جگہ جگہ کچی سڑکیں بن گئ ہیں۔ کوٹ
49
ح ی خ ن اور کوٹ مراد خ ن کے حوالہ سے اس قبرست ن ک ت کم ل چشتی کے ٹی ے سے بنت ہے۔ جٹو واال قبرست ن بہت ہی پران ہے۔ اس کے اطراف میں آب دی ں رہی ہوں گی۔ بذات خود یہ ں آب دی رہی ہو گی۔ خواجہ ص ح واال قبرست ن بڑا پران بت ی ج ت ہے لیکن میرے خی ل میں یہ جٹو والے قبرست ن سے زی دہ پران نہیں۔ رضیہ س ط ن کی قبر کے حوالہ سے اس ک ت عہد سالطین سے بنت ہے۔ پیر اخوند س ید اسح ترک اور ح فظ س د هللا ق دری ال روف ڈیھے ش ہ کے حوالہ سے شیر ش ہ سوری اور اکبری عہد سے رشتہ بنت ہے۔ رضیہ س ط ن کی قبر ک طرز ت میر مغ یہ عہد سے مت نہیں۔اس نمونہ کی ایک اور قبر بھی یہ ں موجود ہے۔ اسی نمونہ کی تین قبریں روہے وال کے قبرست ن میں م تی ہیں۔ یہ ں نو گزا قبریں بھی تھیں جنہیں مسم ر کرکے خواجہ ص ح کی چ ر دیواری میں ش مل کر دی گی ہے۔ چ لیس س ل پہ ے وہ صحیح اور بہتر ح لت میں تھیں۔ اگر آج وہ موجود ہوتیں تو زم نے کے ت ین میں آس نی رہتی۔
50
)(5 آرین کی برصغیر میں آمد کے حوالہ سے مخت ف ب تیں پڑھنے سننے کو م تی ہیں۔ ایک روایت کے مط ب وہ س ل پہ ے برصغیر میں داخل ہوئے۔ وہ سے ایک ہی نشت میں یہ ں نہیں آئے۔ وہ کئ نشتوں میں یہ ں آءے۔ چ رہ اور سبزی ت ہمیشہ سے انس ن کی ضرورت رہی ہے۔ اس عالقے سے بڑھ کر اس حوالہ سے کوئی والیت نہیں رہی۔ ان کی آمد سے مق می آب دی ں مت ثر ہوتی رہی ہیں۔ ۔پہ ے آرین یہ ں سٹ ہو پ تے تو دوسرے چ ے آتے اس طرح مق می اور مہ جر مق می بھی مت ثر ہوتے۔ خون ریزی ک ب زار گر ہوت ۔ امالک تب ہ وبرب د ہو ج تیں۔ رہ ییش گ ہیں مسم ر کر دی ج تیں۔ جو بچ ج تے مہ جرت اختی ر کر ج تے۔ اس طرح کسی دوسرے عالقوں میں نئ آب دی ں وجود میں آ ج تیں۔ ا یہ پڑھنے ک ات ہوا ہے کہ آرینز نے پچیس ہزار س ل پہ ے آن شروع کی اور ایک لمبے عرصے تک برہم ورت
51
ی نی پنج کو اپن ٹھک ن بن یے رکھ ۔ ( ) ان کی آب دی ک گڑھ بی س کن رہ رہ ہے۔ وہ جگہ ک ٹتے نہیں تھے ب کہ جگہ ص ف کرکے رہ یش اختی ر کر لیتے تھے۔ گوی وہ وق ے وق ے سے یہ ں آتے رہے۔ ص ف ظ ہر ہے کہ ان ک ت خشک عالقے سے رہ ہو گ ۔ ب رانی اور خشک عالقے میں آب دیوں ک بہت ک رجح ن رہ ہے۔ یہ ں پ نی اور ہری لی کی آج کے سوا کبھی کمی نہیں رہی۔ ہ ہمیشہ اگ ی کت لکھنے کے لیے پرانی کت بوں سے ن صرف است دہ کرتے آیے ہیں ب کہ کٹ پیسٹ کی بیم ری بھی ہمیں الح رہی ہے۔ حرا ہے جو کسی نے موقع پر ج کر دیکھ بھی ہو۔ اگر ہ موقع پر ج کر دیکھنے کی زحمت اٹھ ءیں تو ش ید نت یج برعکس ی بہتر ہ تھ آ سکیں گے۔ دن بدن آث ر خت ہو رہے ہیں اس لیے اس م م ہ میں تس ہل کسی بھی حوالہ سے درست نہیں۔ سندھ س ت دری ؤں کی دھرتی سمجھ ج ت تھ اور اس حوالہ سے دنی کی بہترین والءتوں میں سے ایک والیت تھی۔ ان س ت دری ؤں میں ایک بی س بھی تھ ۔ بی س ی کی تبدیل شدہ شکل ہے۔ ویپس Vipashaوی س دراصل
52
ویپش وریک اسی دری کے ن رہے ہیں۔ اس دری کے حوالہ سے بےشم ر کہ نی ں ت ریخ میں موجود ہیں۔ یہ دری برب دی ں الت رہ ہے۔ بیسیوں ب ر اس نے اپنے مکینوں کو ص حہ ہستی سے مٹ دی اس کے ب وجود لوگوں نے اس سے بےوف ئ نہیں کی۔ ب ر ب ر اس کے کن روں کو اپن مسکن بن ی ۔ اصل حقیقت یہ رہی ہے کہ اس ک پ نی فص وں کے حوالہ سے اپن بدل نہیں رکھت تھ دوسرا اس ک پ نی کھ را نہیں میٹھ اور صحت مند تھ ۔ اس حوالہ سے بی سی خطے کی قدی تہذی کو سندھی تہذی سے الگ نہیں کی ج سکت ۔ وہ ں م نے والی قدی تہذی کے بہت سے آث ر یہ ں بھی ب آس نی تالشے ج سکتے ہیں۔ اسی طرح اس خطے کے اثرات وہ ں تالش کیے ج سکتے ہیں۔ اس بی ن کو صرف نظر نہیں کی ج سکت کہ یہ تہذی پچیس ہزار س ل پرانی ہے۔ کھدائ میں س ڑھے تین سے چ ر فٹ ب د زم نہ ہی بدل ج ت ہے ت ہ ان زم نوں میں کچھ مم ث توں ک مل ج ن حیرت کی ب ت نہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ پہ ی آب دی کی ب قی ت رہی ہوں۔ پہ وں کے س تھ نئے لوگوں کی اکثریت بھی موجود رہی
53
ہے۔ بی س کی 470ک و میٹر ی نی 290میل لمب ئ تھی ۔ اس کے قر وجوار میں سیکڑوں چھوٹی بڑی بستی ں آب د تھیں۔ ہر آب دی ک اپن مکھی ہوا کرت تھ جسے راجہ مہ راج ب دش ہ وغیرہ ک درجہ ح صل ہوت تھ ۔ تکڑا ب دش ہ دوسری بستیوں پر قبضہ جم کر اپنی س طنت میں اض فہ کر لیت تھ ۔ ہر ری ست ی نی بستی کے اپنے اصول طور انداز اور ن ہوتے تھے لہذا اس عہد کے حس سے س ری والئتوں کو قصور ک ن نہیں دی ج سکت گو کہ وہ آج قصور ک حصہ ہیں۔ آج کی زب ن میں اور آس نی کے لیے اسے قصور ک ن دی ج سکت ہے۔ اس ب ت ک ت ہزاروں س ل سے نہیں ب کہ سیکڑوں س ل سے جڑی ہوئ ت ریخ سے بھی ہے۔ ابچیترا ن تک از گرو گوبند سنگھ کے مط ب قصور کش بن شری را نے بن ی جبکہ الہور الوا (لوہ) بن شری را نے بن ی ۔ یہ اس ایری کی الگ الگ دو والءتیں تھیں ن کہ پورا ایری ۔ یہ دونوں بڑے زبردست یودھ تھے۔ انھوں نے اور ب د میں ان کی اوالدوں نے دور نزدیک کے مم لک پر تس ط ح صل کر لی ۔ اس حوالہ سے انھیں بھی قصور ی الہور کہ ج نے لگ ۔ ب د ازاں قصور
54
کے راجے نے الہور پر قبضہ جم لی اور الہور قصور ک ) بی س تک آی اور اس حصہ قرار پ ی ۔ ہیون س نگ ( کے ہ ں م ک قصور ک ذکر آت ہے الہور ک ذکر نہیں م ت کیونکہ الہور اس ک محض ایک عالقہ تھ ۔ ہیون س نگ سی ح نہیں بدھ مت ک پرچ رک تھ ۔ میری اس ب ت ک ثبوت اس کی ی دداشت جسے س رن مہ قرار دی ج ت ہے‘ میں مل ج ئے گ ۔ نمرود کے گودا میں ذرخیز ترین عالقہ ہونے کے سب بی سی عالقے (قصور) ک غ ہ س سے زی دہ ج ت تھ ۔ میں حضرت س یم ن (ع) کشمیر تشریف الئے۔ 1798 تین شہزادے ہشک‘ کنشک اور زشک بھی تھے۔ ان ک ت ترکست ن سے تھ ۔ ان میں سے ایک کے حصہ میں بی سی عالقہ آی ۔ اس میں موجودہ قصور بھی ش مل تھ ۔ حضرت زرتشت اور حضرت مہ آتم بدھ کے پرچ رک اس عالقہ میں آئے۔ کہ ج ت ہے کہ وہ یہ ں کی م قول ترین اق یت تھے۔ یہ صورت محمد بن ق س کے حم ے تک رہی۔ محمد بن ق س کے حم ے تک سندھ تہذی اور اس ک ایری موجودہ جہ سے آگے تک تھ اور اس ایری ک ح ک راجہ
55
داہر تھ ۔ ایران کے ب دش ہ کرش کی حکومت بی س تک رہی۔ اس میں موجودہ قصور بھی ش مل تھ ۔ حضرت بدھ کی پیدایش سے پہ ے عالقہ بی س میں university Takshashila موجود تھی۔ یہ ں مذہبی ت ی ک انتظ واہتم بھی موجود تھ ۔ حضرت بدھ کی ت ی ک مرکز بھی یہ ں رہ ۔ ل ظ سہجرہ جو ا قصور کے ب ڈر ک شہر نم قصبہ ہے۔ کسی زم نے میں یہ بی س کی بہت بڑی والیت تھی اور ت ی ک اہتم تھ ۔ یہ ں ب ند آواز میں ت ی دینے کے تین مرکز رہے ہوں گے۔ 326 میں سکندر اعظ کو دری ئے بی س پر بڑی مشکل پیش آئی۔ وہ تین دن اپنے خیمے میں بند رہ اس کے ب وجود اس کی فوج نے اپن ارادہ نہ بدال۔ اس کی فوج نے آگے
56
بڑھنے سے ص ف انک ر کر دی اسے واپس ج ن پڑا۔ اس عالقے کے لوگ بڑے شہ زور بڑے ہنر مند یودھ اور مشکل سے مشکل ح الت سے گزرنے کے ع دی تھے اور آج بھی ہیں‘ عین ممکن ہے اس نے یہ ں زخ کھ ی ہو اور یہی زخ اس کی موت ک سب بن گی ہو۔ آق کری کے صح بی دنی کےچپے چپے پر گئے۔ ک شغر اور گ برگہ میں ان کی ی د گ ریں موجود ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنی گنج ن آب د آب دی ان کی نظر عط سے محرو رہی ہو۔ یہ ں اس ضمن میں صرف اور صرف حضرت عط محمد الم روف بہ پیر بولن 480ہجری ت 550ہجری کے نش ن م تے ہیں۔ پ ک پتن قصور کی قریبی والیت تھی وہ ں حضرت عزیز مکی تشریف الءے۔ کہ ج ت ہے ان کی عمر چھ سو س ل تھی۔ ان کی قبر چھبیس فٹ لمبی ہے جو ان کے مق و مرتبہ کو واضح کرتی ہے۔ ب لکل اسی طرح الہور میں پیر مکی کی قبر ہے۔
57
)(6 زم نہ قدی سے انس ن خود ح ظتی تدابیر اختی ر کرت آی ہے۔ اس حہ وغیرہ کی ایج د اس ک واضح ثبوت ہے۔ شروع میں آگ بھی ح ظتی ذری ہ رہی ہے۔ ج اس نے جھونپڑے وغیرہ بن ن شروع کیے تو ن صرف دروازے ک اہتم کرت ب کہ گھر کے ب ہر ک نٹے دارجھ ڑیوں کی مضبوط ب ڑ بھی لگ ت ۔ اس طرح وہ ج نوروں کے حم ہ سے مح وظ ہو ج ت ۔ ب د ازاں گروپ کی شکل میں رہ یش ک س س ہ شروع ہو گی اور س تھ س تھ گھر ت میر کرنے لگ ۔ اس سے ن صرف ب ہمی روابط ک آغ ز ہوا ب کہ ح ظتی م مالت میں ارتب ط کی بہت سی صورتیں نکل آءیں۔ وہ حم ہ آور ک مل کر مق ب ہ کرت اور مل کر حم ہ کرنے کے رویے نے بھی جن لی ۔ تجربے کی روشنی میں مزید طریقہ ہ ءے ک ر اختی ر کرت ۔ ترقی اور ضرورت کے پیش نظر عالقہ کی رہ یش گ ہوں کے چ روں طرف دیوار بن کر اس ک ایک گیٹ رکھ دی ج ت اور رات کو یہ گیٹ مق ل کر دی ج ت ۔ ب ری ب ری پہرہ داری ک اہتم بھی ہونے لگ ۔ یہ طور بہت ب د تک رہ ۔ لوگ اپنے عالقہ کی گشت کرتے اور
58
س تھ میں آواز بھی لگ تے ج تے تھے۔ عالقہ کے چ روں طرف دیوار بن نے ک رواج کوئ نی انوکھ اور دنی کی کسی ایک والیت میں نہیں رہ ۔ دنی میں قد ترین ق ے موجود ہیں۔ یہ ق ے صرف افواج کی رہ یش تک محدود نہیں تھے آب دی بھی ان کےاندر موجود رہتی تھی۔ چ ر دیواری کے اندر موجود آب دی کے لیے یہ چ ردیواری ان کے لیے ق ہ ک درجہ رکھتی تھی۔ اس ک ق ہ ج ت کی ت میر سے پہ ے رواج ع ہوا ہو گ ۔ اول اول س ری آب دی چ ردیواری کے اندر اندر اق مت رکھتی ہو گی ب د ازاں یہ انداز خصوص کے مخصوص ہو گی ہو گ ۔ عمو کی رہ یش گ ہیں چ ردیواری سے ب ہر رہی ہوں گی۔ حم ہ کے وقت وہ م رے ج تے ہوں گے ی ادھر ادھر بھ گ کر ج ن بچ تے ہوں گے۔ موجودہ قصور کے مت آج تک یہی سنتے آ رہے ہیں کہ اصل قصور برب د ہو گی اور بہت ب د ک موجودہ قصور ہے۔ میں پہ ے کہیں عرض کر چک ہوں کہ س رے عالقے ک ن
59
قصور ( کسور) نہیں تھ ۔ پورے عالقے کی فقط ایک والیت ک ن قصور ( کسور) تھ ۔ وہ کون س عالقہ تھ اس ک ب د میں ذکر آئے گ ۔ یہ ں صرف اتن واضح رہے کہ موجودہ قصور بہت ب د ک نہیں ہے ہ ں حس روایت آب دی وہ نہیں رہی ی نی یہ اگ وں کی نسل نہیں ہے۔ نسل در نسل اق مت ک س س ہ کبھی بھی نہیں رہ ۔ بہت س رے حوالوں سے پہ ی آب دی ں خت ی پھر مہ جرت اخت ر کرتی رہی ہیں۔ بی سی عالقے کی ذخیزی بھی آب دیوں کی تبدی ی ی برب دی ک موج رہی ہے۔ موجودہ قصور جسے بہت ب د ک کہ ج ت ہے‘ ک تجزیہ پیش کرت ہوں۔ پک ق ہ ذرا غور کریں تو واضح ہو گ ب ندی پر واقع ہے۔ بڑے دروازے کے اندر مک ن ت اگرچہ دوب رہ سے ت میر کر لیے گیے ہیں لیکن اس ک ن ک نقشہ آج ی آج سے پ ن س ت سو س ل ک نہیں ہے۔ یہ عالقہ ٹبہ کم ل چشتی غربی ک حصہ ہے۔ شہر میں ہونے کے ب عث جدید محسوس ہوت ہے لیکن عہد قدی میں یہ والیت ٹی ے پر آب د ہوئی ہو گی۔ یہ ٹیال ہزاروں س ل کی عمر رکھت ہے۔ کوٹ پک ق ہ کے شم ل میں کوٹ پیراں آب د ہے۔ کوٹ پک
60
ق ہ کی طرح یہ کوٹ بھی یک دروازے ک ح مل ہے۔ دونوں قری قری ہیں لہذا ان ک ب ہمی ربط رہ ہوگ ۔ چونکہ یہ دونوں اپنے اصل نقشہ کے مط ب ہیں اس لیے کہ ج سکت ہے کہ ان والیتوں میں تب ہ کن تص د نہیں ہوا ہوگ ۔ دونوں کوٹ ٹی ے پر ت میر ہوئے ہیں گو ا محسوس نہیں ہوتے۔ کوٹ پک ق ہ کے جنو اور ٹی ہ کم ل چشتی کے مغر میں کوٹ ح ی خ ں واقع ہے۔ یہ بھی چ ر دیواری کے اندر واقع ہے۔ دونوں طرف دروازے ہیں۔ بیرونی دروازے** کے آگے ب ندی نہیں ہے ب کہ اترائ ہے۔ دروازے سے ظ ہر ہوت ہے کہ اس طرف بھی ایسی ہی کوئی والیت رہی ہو گی جو بی س ی کسی تص د کے حوالہ سے ہمیشہ کے لیے بے ن ونش ن ہو گئ۔ اگر یہ انگریز ی اس سے تھوڑا پہ ے تب ہ ہوئ ہوتی تو اس کے نش ن ت ضرور ب قی ہوتے۔ اس دروازے سے ب ہر ک عالقہ تو کئ س لوں سے ویرانہ دیکھ رہے ہیں آب دی تو پچھ ے چ لیس پچ س س ل میں ہوئی ہے۔ چ لیس پچ س س ل پہ ے یہ ں کچھ بھی نہ تھ ۔
61
گورنمنٹ ک لج قصور کے س تھ ہی دو کوٹ ی نی کوٹ اعظ خ ن اور کوٹ فتح دین اسی انداز کے ہیں۔ دونوں کے دونوں طرف دروازے ہیں جس سے واضح ہوت ہے کہ ان کے اطرف میں اور والتیں موجود تھیں۔ کوٹ فتح دین کے شم لی دروازہ سے چند قدموں کے ف ص ے پر کوٹ اعظ خ ں ک دروازہ ہے گوی یہ ایک دوسرے کے پڑوس میں واقع دو حکومتیں تھیں۔ کوٹ اعظ کے غربی دروازے کی ن ک کی سیدھ میں پندرہ منٹ کے پیدل ف ص ے پر کوٹ رکن دین واقع ہے۔ کوٹ رکن دین س خت کے لح ظ سے متذکرہ چہ ر والئتوں سے کسی طرح مخت ف نہیں۔اس کے خ رجی دروازے کے س منے اس قس کوئی والیت موجود نہیں۔ یہ کوٹ بھی ٹی ے پرواقع ہے۔ چوک شہیداں سے جنو میں تھوڑا دور اندر کو ایک آب دی ہے آج دوسرے کوٹوں کی طرح دروازے واال عالقہ نہیں رہ لیکن ایک سنجیدہ سوچ کے نتیجہ میں اسے بھی ان کوٹوں میں شم ر کریں گے۔ آج دروازے وغیرہ نہیں رہے۔ یہ ایری نی نہیں بہت پران ہے۔ قبرست ن جٹو اس کو لگت ہے جبکہ شہر ک ایک دروازہ بھی اس کو لگت ہے۔
62
پرانے قبرست نوں کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوت ہے مسم نوں سے پہ ے بھی مردے دفن نے ک رواج موجود تھ ۔ ہندو برادری کے س تھ س تھ عیس ئ زرتشتی بدھ متی وغیرہ اق یتیں موجود تھیں۔ مرکزی شہر کے ب ہر کرشن نگر ہے۔ اس کے دونوں طرف دروازے ہیں۔ مرکزی شہر رقبہ کے لح ظ سے درج ب ال والیتوں سے س بڑا ہے۔ گم ن گزرت ہے کہ یہ الگ سے مخت ف والئتیں رہی ہوں گی اور ہر والیت ک اپن ح ک رہ ہو گ ۔ یہ حصہ تج رت گ ہ رہ ہو گ ۔ یہ ں خرید و فروخت ک ک ہوت ہو گ ۔ آج بھی رہ یش گ ہوں کے عالوہ ہر قس ک ب زار لگت ہے۔ آج اس کے س ت دروازے ہیں۔ ہر دروازے کے س تھ کوئی نہ کوئی کوٹ ضرور لگت ہے۔ یہی صورت قبرست نوں کی ہے۔ محمد غال کوٹ بقول پروفیسر نی مت ع ی قبرست ن پر بن ی گی ہے۔ یہ قبرست ن ٹی ے پر تھ ۔ یہ صورت نئ نہیں۔ قبرست نوں کو
63
مسم ر کرکے ت میرات ک س س ہ نی نہیں۔ جیسے کوٹ اعظ خ ن اور کوٹ فتح دین کے قبرست ن کو ڈھ کر عم رتیں بن لی گئی ہیں۔ زیر حوالہ مح وں کوٹوں اور شہر سمیت ت میرات ٹی ے پر ہوئی ہیں اور یہ ب ندی ٹی ے کم ل چشتی شرقی کی ب الئی سطع کے مط ب ہے۔ ا یہ عالقے ٹی ے پر محسوس نہیں ہوتے۔ یہ ت میرات سیکڑوں س ل سے ت رکھتی ہیں۔ بہت والئیتوں کے مٹ ج نے میں بی س ک ہ تھ نہیں۔ یہ ب ہمی جنگ و جدل ک نتیجہ ہیں۔ ان چ ردیواری کے ب ہر کے عالقوں کی آب دی چ ردیواری فیصد ہے۔ یہ بیرونی آب دی کے اندر کی آب دی ک تقریب بہت ب د کی ہے۔ اسے نی ی ب د ک قصور کہ ج سکت ہے۔ چ ر دیواری کے اندر ک قصور پنج پیر‘ پیر بولن ‘ ح جی گگن وغیرہ کے مزاروں کی طرح پران ہے۔ چونکہ وہ عالقے شہر سے دور دراز ہیں اس لیے ٹی ے پر آب د لگتے ہیں ۔ اگر وہ عالقے شہر میں ہوتے تو ٹی ے ن و نش ن سے محرو ہو گءے ہوتے۔ اسی طرح اندرونی آب دی پر پہ ے ک ی ب د ک ‘ ک س بقہ نتھی کی ج سکت ہے لیکن جگہ ک مط ل ہ اور م ئینہ کرکے ہی کوئی نتیجہ اخذ کی ج سکت ہے۔
64
قصور شخصی ت کے آئینہ میں نوٹ دانستہ طور پر‘ کوئی ن نظر انداز نہیں کی گی ۔ بہت سے ن درج نہیں ہو سکے‘ اسے میری تھوڑع می سمجھ کر‘ م ف کر دی ج ئے۔ ÌÌÌÌÌÌÌ سربراہ ن حضرت ق ضی ش ی دادا ب ب فرید ق ضی قصور وکیل خ ں ک قصور میں مقبرہ موجود ہے۔ یہ ش ہ سوری ک مرکزی عہدے دار تھ ۔ راجہ ٹوڈرمل مغل ب دش ہ اکبر کے اع ی اہل ک ر تھے اخوند س ید مغل ب دش ہ اکبر کے درب ر سے وابستہ تھے ÌÌÌÌÌÌÌ قی پ کست ن کے ب د ڈاکٹرم ین الدین احمد قریشی وزیر اعظ پ کست ن
65
شوکت عزیز وزیر اعظ پ کست ن ÌÌÌÌÌÌÌ وف قی وزرا سردار آصف احمد ع ی‘ خورشید محمود قصوری وف قی وزیر خ رجہ‘ می ں محمود ع ی قصوری وف قی وزیر ق نون ارش د احمد حق نی وف قی وزیر اطالع ت‘ سردار ط ل حسن نکئی وف قی وزیر ÌÌÌÌÌÌÌ ران محمد اقب ل خ ں سپیکر‘ م ک محمد ع ی آف کھ ئی ڈیپٹی چیئرمین سینٹ‘ سردار آصف احمد ع ی ڈیپٹی چیرمین پالنگ کمشن پ کست ن ÌÌÌÌÌÌÌ صوب ئی سی سی اع ی عہدہ داران سر ش ہ نواز خ ں ممڈوٹ قصوری صدر آل انڈی مس لیگ پنج نوا جی ے خ ں گورنر الہور‘ نوا افتخ ر حسین ممڈوٹ
66
پہال وزیر اع ی پنج -گورنر سندھ‘ سردار محمد ع رف نکئی وزیر اع ی پنج نج سیٹھی کیرئر ٹیکر وزیر اع ی‘ چیرمین پی بی سی‘ اینکر ران پھول محمد خ ں صوب ئی وزیر‘ اسپیکر پنج اسمب ی‘ ایکٹنگ گورنر پنج ‘ سردار حسن اختر موکل ڈیپٹی اسپیکر ÌÌÌÌÌÌÌ سول آفیسرز وف قی اع ی عہدے داران عبدالحمید شیخ وف قی سیکرٹری دف عی پیداوار -ایڈیٹر جنرل می ں طی حسن وف قی سیکرٹری فن نس -وف قی سیکرٹری کیبنٹ‘ می ں سیمی س ید ایگزکٹیو ڈائریکٹر ایشین بنک -وف قی سیکرٹری کیبنٹ‘ احمد ع ی قصوری ایڈوکیٹ ق نونی مشیر حکومت پ کست ن‘ ڈاکٹر سید کنور عب س حسنی اکونومسٹ وف قی فن نس ڈویژن ÌÌÌÌÌÌÌ
67
صوب ئی اع ی عہدے داران ح فظ عبدالمجید چیف سیکرٹری پنج ‘ ج وید محمود چیف سیکرٹری پنج ۔ صوب ئی محتس قصور کے سول اع ی عہدے دار کرمت ع ی خ ں بیوروکریٹ پ کست ن برگیڈیر ای ظ ر حسن جوائنٹ سیکرٹری ابالغی ت پ کست ن- ح مد ع ی جوائنٹ سیکرٹری داخ ہ پ کست ن می ں طی حسن سیکرٹری فن نس خ یل احمد بھٹی ممبر بورڈ آف ریونیو ع رف لطیف سینئر جرنل منیجر محمکہ سوئی گیس جالل الدین اکبر ڈائریکٹر اک ؤنٹس اکمل حسین کنٹرولر کسٹمز مج ہد انور جرنل منیجر محمکہ سوئی گیس عبدالرحمن ع بد ڈیپٹی کمشنر شوکت ع ی ڈیپٹی کمشنر
68
غال فرید ڈیپٹی ڈائریکٹر فردوس ش ہ ع ل دین کے بیٹے ح مد ش ہ پنج سیکرٹریٹ میں اع ی عہدے پر متمکن رہے ہیں
سول
ÌÌÌÌÌÌÌ اع ی فوجی آفیسر لی ٹینٹ جنرل محمد ج وید ن صر‘ برگیڈیر محمد قیو ‘ برگیڈیر می ں ظ رحسن راٹھور‘ برگیڈیر محمد مجید‘ برگیڈیر محمد اختر‘ برگیڈیر ڈاکٹر عرف ن الح ‘ کرنل اظہر حسن راٹھور‘ کرنل احمد ج وید‘ کرنل ریٹ ئرڈ ضی چوہ ن ÌÌÌÌÌÌÌ ض ع قصور کے پولیس میں اع ی افسیر قمر الدین ڈی آئی جی ران محمد اس ایس ایس پی محمود مس ود ایس ایس پی محمد ط ہر ایس ایس پی ام ن پ ش ایس ایس پی یہ گورنمنٹ اسالمیہ ک لج قصور
69
میں‘ ت ی ح صل کرتے رہے ہیں۔ ÌÌÌÌÌÌÌ صوفی کرا جو قصور تشریف الئے حضرت خواجہ سید م ین الدین چشتی‘ حضرت امیر خسرو‘ حضرت پیر خواجہ خ ن محمد‘ حضرت پیر مہر ع ی‘ حضرت پیر می ں شیر محمد‘ حضرت ب ب یحی خ ں ک لی پوش ب ب فرید ان کی چ ہ گ ہ آج بھی قصور میں موجود ہے۔ ÌÌÌÌÌÌÌ را تھمن جی ب ب گرو ن نک دیو کے خ لہ زاد تھے۔ قصور کو اعزاز ح صل ہے کہ ب ب ص ح قصور تشریف التے رہتے تھے۔ آج موضع را تھمن میں گرودوارہ موجود ہے وہ ں ہر س ل می ہ ہوت ہے۔ جہ ں ہر دھر کے لوگ آتے رہتے ہیں۔ ÌÌÌÌÌÌÌ اع ی سربراہ ن جو قصور آئے
70
اورنگ زی ع لمگیر‘ مہ راجہ رنجیت سنگھ‘ گورنر جنرل چ رلیس‘ وزیر اعظ م ک م راج خ لد‘ وزیر اعظ م ین قریشی‘ وزیر اعظ بےنظیر بھٹو‘ وزیر اع ی محمد شہب ز شریف برگیڈیر جنرل ڈائر‘ ایئر م رشل اصغر خ ں عبد الحمید سربراہ تحریک خ کس ر‘ ایک ب ر خ کس ر تحریک کے ایک ج سہ میں ج کہ دوسری ب ر مقصود حسنی کی والدہ کے انتق ل کی ت زیت کے لیے آئے۔ عالمہ عالؤالدین صدیقی وائس چ نس ر ج م ہ پنج ÌÌÌÌÌÌÌ سی سی لیڈر جو قصور آئے می ں ممت ز احمد دولت نہ‘ مولوی عبد الحمید بھ ش نی‘ محترمہ نصرت بھٹو‘ خ ن عبد الولی خ ں‘ عبدالست ر نی زی‘ عمران خ ں آف پی ٹی آئی‘ ذال ق ر ع ی بھٹو ب طور سی سی ‘ مولوی کوثر نی زی ÌÌÌÌÌÌÌ عالقہ بی س تک یون نی لٹیرے اور ق تل اعظ الم روف
71
سکندر اعظ کی لوٹ م ر اورقتل و غ رت گری ک سرا م ت ہے۔ چونی ں میں اس کے عہد کے یون نی سکے بھی م ے ہیں۔ ÌÌÌÌÌÌÌ قبرست ن خواجہ ص ح قصور میں ایک قبر کے مت م روف ہے کہ یہ قبر رضیہ س ط ن کی ہے۔ ÌÌÌÌÌÌÌ فن ک ر جو قصور آئے حضرت امیر خسرو موسیک ر‘ ابرارالح گ ئیگ‘ عط هللا ‘عسیی خی وی گ ئیگ حبی اداک ر‘ عرف ن کھوسٹ اداک ر‘ جمیل فرخی اداک ر‘ ج وید احمد اداک ر‘ کتھرینہ عظی موسیک ر ت ن سین ک بھی قصور آن ہوا۔ ÌÌÌÌÌÌÌ ادی ش عر نق د اور محق جو قصور آئے عالمی فیضی عہد اکبر‘ ڈاکٹر سر محمد اقب ل‘ فیض احمد
72
فیض‘ پروفیسررضی ع بدی‘ پروفیسر صوفی تبس ‘ ح یظ ج لندھری‘ فضل ش ہ گجراتی‘ مرزا ادی ‘ ب نو قدسیہ پروفیسر ع بد ع ی ع بد‘ ڈاکٹر سید محمد عبدهللا‘ پروفیسر وق ر عظی ‘ ڈاکٹر عب دت بری وی‘ اش احمد‘ ڈاکٹر وحید قریشی‘ ڈاکٹر غال حسین ذوال ق ر‘پروفیسر حمید عسکری‘ ڈاکٹر شبیہ الحسن ‘ڈاکٹر گوہر نوش ہی‘ ڈاکٹر فخرالزم ن ڈاکٹر ص بر آف قی دو ب ر ج کہ ڈاکٹر تبس ک شمیری کی مقصود حسنی سے ادبی نشتیں ہوئیں۔ ÌÌÌÌÌÌÌ دیگر ڈاکٹر عبدالقدیر خ ں س ئنس دان‘ ڈاکٹر خ لد محمود‘ مجی الرحم ن ش می‘ مبشر رب نی سم جی ک رکن‘ آغ شورش ک شمیری‘ عالمہ ڈاکٹر ط ہرالق دری ÌÌÌÌÌÌÌ اع ی فوجی آفیسر جنھوں نے قصور میں خدم ت انج دیں جنرل محمد موسی خ ں جنرل پرویز مشرف
73
ÌÌÌÌÌÌÌ اع ی آفیسر پولیس جو قصور میں خدم ت انج دیتے رہے آئی جی جہ نگیر مرزا ب طور ایس پی آئی جی م ک آصف حی ت ب طور ایس پی ÌÌÌÌÌÌÌ سول اع ی آفیسر جو قصور میں خدم ت انج دیتے رہے سیکرٹری ہ ؤس پ کست ن جی ای سکندر ب طور اے سی چیرمین ری وے کیپٹن اختر ب طور اے سی چیف سیکرٹری پنج
ای ح یظ اختر ب طور اے سی
چیف سیکرٹری پنج
مہر جیون ب طور اے سی
ÌÌÌÌÌÌÌ اہل ق اردو‘ پنج بی اور ف رسی ش عر‘ محق ‘ نق د‘ افس نہ نگ ر‘ وغیرہ راج ٹوڈرمل ش عر‘ عبدالق در عبدی‘ منشی نور الدین‘ پران
74
کم ر شرم ‘ سوہن سنگھ سیتل‘ افس نہ نگ ر‘ ارش د احمد حق نی وغیرہ‘ ح جی ل ل ‘ سر عبدالق در‘ عبد الجب ر ش کر‘ صوفی مہر ہمد ‘ احمد ی ر خ ن مجبور‘ ع مر اقب ل‘ خ یل آتش‘ س ئیں محمد عبدلغ ور‘ غال حضور ش ہ‘ چرا دین جونکے‘ عب د ع ی عب د‘ منشی کر بخش‘ عبدهللا ش کر‘ می ں ش دا‘ م سٹر نرائن‘ ب ھے ش ہ‘ عبد الجب ر ش کر‘ س ئیں عبد الغ ور‘ پروفیسر اکرا ہوشی رپوری‘ صوفی محمد دین چشتی‘ پروفیسر اظہر ک ظمی‘ س ی آفت ‘ شریف انج ‘ شریف س جد‘ مولوی غال هللا‘ خواجہ محمد اسال ‘ تجمل ک ی ‘ عب د نبیل ش د‘ اقب ل قیصر‘ فقیر محمد ش می‘ عب د ع ی عب د‘ راؤ ندی احس ن‘ یونس حسن‘ نی مت ع ی نی مت‘ چنن سنگھ ورک‘ ص د قصوری‘ مقصود حسنی وغیرہ ÌÌÌÌÌÌÌ وارث ش ہ ش عر ہیر وارث ش ہ قصور میں زیر ت ی رہے۔ ÌÌÌÌÌÌÌ قصور کے رہ ئشی نہیں لیکن قصور میں خدم ت انج دیں غال رب نی عزیز‘ ڈاکٹر اختر شم ر‘پروفیسر امجد ع ی
75
ش کر‘عب س ت بش‘ ڈاکٹر ص د جنجوعہ‘ ڈاکٹر عط الرحمن خ ن میو‘ پروفیسر جیک پ ل ÌÌÌÌÌÌÌ م ہرین لس نی ت عبدهللا خوشیگی مولف فرہنگ ع مرہ‘ مولوی غال هللا نے ایک مختصر عربی فرہنگ ترتی دی تھی۔ پروفیسر یونس حسن‘ مقصود حسنی فرہنگ غ ل اردو مض مین کی فہرست دستی اردو ہے جس ک ن
-
ل ظ ہند کی کہ نی - ہندوی ت ریخ اور حق ئ کے آئینہ میں - ہندوست نی اور اس کے لس نی حدود - اردو میں مست مل ذاتی آوازیں - اردو کی چ ر آوازوں سے مت
گ تگو -
اردو اور ج پ نی آوازوں کی س نجھ -
76
اردو میں رس الخط ک مس ہ - انگریزی کے اردو پر لس نی اثرات - سرائیکی اور اردو کی مشترک آوازیں - اردو اور انگریزی ک مح وراتی اشتراک - اردو س ئنسی ع و ک اظہ ر - قومی ترقی اپنی زب ن میں ہی ممکن ہے - اردو‘ حدود اور اصالحی کوششیں - قدی اردو ش عری ک لس نی مط ل ہ - ب ھے ش ہ کی زب ن ک لس نی مط ل ہ - ش ہی کی ش عری ک لس نی مط ل ہ - خواجہ درد کے مح ورے - سوامی را تیرتھ کی اردو ش عری ک لس نی مط ل ہ - ال ظ اور ان ک است م ل - آوازوں کی ترکی و تشکیل کے عن صر - ال ظ کی ترکی ‘ است م ل اور ان کی ت ہی ک مس ہ -
77
زب نوں کی مشترک آوازیں - پ کست ن کی زب نوں کی پ نچ مخصوص آوازیں - عربی زب ن کی بنی دی آوازیں - عربی کی عالمتی آوازیں - دوسری بدیسی آوازیں اور عربی ک تب دلی نظ پ کی متب دل عربی آوازیں - گ کی متب دل عربی آوازیں - چ کی متب دل عربی آوازیں - مہ جر اور عربی کی متب دل آوازیں - بھ ری آوازیں اور عربی کے لس نی مس ئل - چند انگریزی اور عربی کے مترادف ت - پنج بی اور عربی ک لس نی رشتہ - چند انگریزی اور عربی مشترک آوازیں - انٹرنیٹ پر عربی میں اظہ ر خی ل ک مس ہ - عربی کے پ کست نی زب نوں پراثرات -
-
78
عربی اور عہد جدید کے لس نی تق ضے - ف رسی کے پ کست نی زب نوں پراثرات - پشتو کی چ ر مخصوص آوازیں - آتے کل کو کرہء ارض کی کون سی زب ن ہو گی - انگریزی دنی کی بہترین زب ن نہیں - انگریزی اور اس کے حدود - انگریزی آج اور آت کل - تبدی ی ں زب نوں کے لیے وٹ منز ک درجہ رکھتی ہیں - زب نیں ضرورت اور ح الت کی ایج د ہیں - م ون عن صر کے پیش نظر مزید حروف کی تشکیل - برصغیر میں بدیسیوں کی آمد اور ان کے زب نوں پر - اثرات کچھ دیسی زب نوں میں آوازوں ک تب دل - ج پ نی میں مخ ط کرن - ج پ نی اور برصغیر کی لس نی ممث لتیں -
79
- اختر حسین ج ری کی زب ن ک لس نی ج ئزہ فہرست
کچھ سوال و جوا
لس نی ت کے مت
انگریزی مض مین کی دستی
1- Urdu has a strong expressing power and a sounds system 2- Word is to silence instrument of expression 3- This is the endless truth 4- The words will not remain the same style 5- Language experts can produce new letters 6- Sound sheen is very commen in the world languages 7- Native speakers are not feel problem 8- Languages are by the man and for the man 9- The language is a strong element of pride for the people
80
10- Why to learn Urdu under any language of the world 11- Word is nothing without a sentence 12- No language remain in one state 13- Expression is much important one than designates that correct or wrong writing 14- Student must be has left liberations in order to express his ideas 15- Six qualifications are required for a language 17- Sevevn Senses importence in the life of a language 18- Whats bad or wrong with it?! 19- No language remains in one state 20. The common compound souds of language 21- The identitical sounds used in Urdu 22- Some compound sounds in Urdu 23- Compound sounds in Urdu (2)
81
24- The idiomatic association of urdu and english 25- The exchange of sounds in some vernacular languages 26- The effects of persian on modern sindhi 27- The similar rules of making plurals in indigious and foreign languages 28- The common compounds of indigious and foreign languages 29- The trend of droping or adding sounds 30- The languages are in fact the result of sounds 31- Urdu and Japanese sound’s similirties 32- Other languages have a natural link with Japanese’s sounds 33- Man does not live in his own land 34- A person is related to the whole universe
82
35- Where ever a person 36- Linguistic set up is provided by poetry 37- How to resolve problems of native and second language 38- A student must be instigated to do something himself 39- Languages never die till its two speakers 40- A language and society don’t delovp in days 41- Poet can not keep himself aloof from the universe 42- The words not remain in the same style 43- Hindustani can be suggested as man's comunicational language 44- Nothing new has been added in the alphabets 45- A language teacher can makea lot for the human society 46- A language teacher would have to be aware
83
47- Hiden sounds of alphabet are not in the books 48- The children are large importence and sensative resource of the sounds 49- The search of new sounds is not dificult matter 50- The strange thought makes an odinary to special one 51- For the relevation of expression man collects the words from the different caltivations 52- Eevery language sound has more then two prononciations 53- Language and living beings ÌÌÌÌÌÌÌ اک نومسٹ ‘راجہ ٹوڈرمل‘ ڈاکٹر م ین قریشی‘ خورشید محمود قصوری سردار آصف احمد ع ی ورلڈ بنک‘ شیخ عبدالمجید وف قی سیکرٹری‘ می ں طی حسن وف قی سیکرٹری‘ ڈاکٹر کنور ‘عب س حسنی
84
ÌÌÌÌÌÌÌ میڈیکل ڈاکٹر اسد الرحمن ڈائریکٹر ہی تھ‘ ڈاکٹر مس ود ہم یوں ایگزکٹیو سر گنگ را ‘ نیورو فزیشن ڈاکٹر محمد ن ی میو ہسپت ل الہور‘ نیورو سرجن ڈاکٹر عبدالحمید جرنل ہسپت ل الہور‘ ڈاکٹر رض ہ شمی‘ ڈاکٹر قمر ارش د‘ ڈاکٹر ص در مقصود حسنی نے کینسر پر ایک عرصہ تحقیقی ک کی ۔ اپنے اس تحقیقی ک کو۔۔۔۔ کینسر از ن ٹ اے مسٹیریس ڈازیز۔۔۔۔۔ ن دی ۔ اس ک کچھ حصہ اردو ترجمہ ہو کر دو قسطوں میں اردو نیٹ ج پ ن پر ش ئع ہو چک ہے۔ ڈینگی پر تحققی ک کی جو۔۔۔۔۔ ڈینگی م لجہ اور ح ظتی تدابیر۔۔۔۔۔ کے ن سے اردو نیٹ ج پ ن پر ش ئع ہو چک ہے۔ ÌÌÌÌÌÌÌ عدلیہ مسٹر جسٹس کے ایچ م ہوترا بھ رت ہ ئی کورٹ کے چیف جسٹس قصور کے تھے۔ مسٹر جسٹس عبدل عزیز خ ں‘ مسٹر جسٹس عبد الست ر
85
اصغر‘ مسٹر جسٹس رشید عزیز خ ں محمد ع ی قصوری ڈیپٹی اٹ رنی جنرل پ کست ن ÌÌÌÌÌÌÌ سر‘ س ز اور آواز قصوری ایج د راگ جنگال ڈاکٹرظہور احمد چودھری مصنف جہ ن فن ح فظ ش یع برصغیر میں دوسرے نمبر پر طب ہ نواز تھے گ ئیک بڑے غال ع ی خ ں‘ چھوٹے غال ع ی خ ں است د برکت ع ی‘ است د نی مت ع ی‘ است د سالمت ع ی‘ است د غال محمد‘ هللا رکھی الم روف م کہ ترن نور جہ ں‘ منظور جھال‘ خورشید ب نو‘ بشری ص د قوالی مہر ع ی اور شیر ع ی قوال ÌÌÌÌÌÌÌ
86
ن ت گو ن ت خواں محمد ع ی ظہوری قصوری ÌÌÌÌÌÌÌ اداک ر یوسف خ ں ÌÌÌÌÌÌÌ کھیل کھالڑی کرکٹ ایمپ ئر :ام ن هللا س بقہ کریکٹر :ع ی احمد پ کست نی کرکٹ ٹی ÌÌÌÌÌÌÌ پہ وان است د گ زارے خ ں رست ہند‘ شوکت پہ وان اولیمپین‘ جہ را پہ وان جس نے انوکی کو شکست دی۔ بھولو پہ وان رست زم ن‘ گ م پہ وان ع بد بوکسر
87
ÌÌÌÌÌÌÌ پنج چھڈ دیو تحریک کے ب نی اور موڈی نظ لوہ ر ک مقبرہ قصور میں موجود ہے۔ مولوی غال هللا قصوری نے تحریک خالفت میں حصہ لی ۔ ÌÌÌÌÌÌÌ مورخ عبدهللا عبدالق در خویشگی‘ ص د قصوری مورخ تذکرہ نگ ر‘ اقب ل قیصر‘ اقب ل بخ ری‘ مقصود حسنی ÌÌÌÌÌÌÌ :صوفی پیر جہ نی ں‘ جن ک مقبرہ چونی ں میں موجود ہے۔ یہ جہ نی ں سے تشریف الئے۔ ان کی مرید چونی‘ جو ب ب جی کی خدمت گ ر تھی‘ کے ن پر اس مختصر سی آب دی ک ن ‘ چونی ں رکھ دی گی ۔ ب ب ک مل ش ہ جنہوں نے ب ھے ش ہ ص ح کی نم ز جن زہ پڑھ ئی۔
88
‘خواجہ دائ حضوری خواجہ غال مرتضی قصوری‘ ب ھے ش ہ قصوری‘ اخوند س ید‘ ب ھے ش ہ‘ کم ل چشتی‘ ام ش ہ بخ ری‘ ل ل حبی الم روف شیخ عم د‘ ح جی گگن‘ غال حضور ش ہ‘ پنج پیر‘ عط هللا خویشگی الم روف پیر بولن ‘ ب ب کم ل ش ہ‘ ح جی ش ہ شریف‘ ب ب پنے ش ہ‘ عب س ش ہ‘ صدر دیوان‘ ح ک ش ہ‘ ش ہ عن یت‘ ب ب سہ رے ر ‘ پیر ڈھئیے ش ہ‘ سخی پیر بہ ول‘ مٹھو ش ہ‘ ب ب حسین ش ہ‘ ب ب نقی هللا ش ہ‘ ب ب جھنڈے ش ہ‘ ب ب عبدالخ ل وغیرہ ب ب فرید کی دوران چ ہ خدمت گ ر م ئی جوائی ک مزار بھی موجود ہے۔ ÌÌÌÌÌÌÌ ٹی وی اینکر ضی ء محی الدین ÌÌÌÌÌÌÌ مصور آزر روبی
89
ÌÌÌÌÌÌÌ منیر احمد س ئنس دان ÌÌÌÌÌÌÌ سول اور م ٹری ایواڑ ی فتہ قصوریے م ٹری ایواڑ ی فتہ برگیڈیر احسن رشید ش می شہید ہالل جرات‘ کرنل غال حسین شہید ہالل جرات جنرل محمد رفی ص بر ہالل امتی ز‘ لی ٹینٹ جنرل محمد ج وید ن صر ہالل امتی ز کیپٹن احمد منیر شہید ست رہء جرات‘ کیپٹن نسی حی ت م رچ شہید ست رہء جرات‘ کرنل احمد ج وید م رچ ست رہء جرات‘ کرنل احمد ج وید ست رہءجرات برگیڈیرمحمد ج وید اختر ست رہءامتی ز‘ برگیڈیر می ں ظ ر
90
حسین راٹھور ست رہء امتی ز‘ کرنل احمد ج وید ست رہء امتی ز ست رہءامتی ز‘ حوالدار محمد ش یع ÌÌÌÌÌÌÌ :سول ایوارڈز ڈاکٹر مولوی محمد ش یع ست رہ پ کست ن ڈاکٹر منیر احمد ہالل امتی ز م کہءترن نور جہ ن تمغہءا متی ز سردار شوکت ع ی لینن ایواڈ پروفیسر جیک پ ل قصور سے نہیں ہیں‘ لیکن گورنمنٹ اسالمیہ ک لج قصور کے ش بہءاردو میں سینئر است د ہیں۔ انہیں جن ح نیشنل یوتھ ایوارڈ منج ن حکومت پ کست ن میں مال۔ مقصود حسنی جینس رائٹر‘ رائٹر آف دی ایئر
اردو تہذی ڈاٹ ک
ب ب ئے گوشہءمصن ین فرینڈز ک رنر ڈاٹ ک ‘بیدل حیدری ایوارڈ ایوان اد ‘ م ت ن
91
مسٹر اردو‘ فور پ کست ن شہر قصور کو اعزاز ح صل ہے کہ قصور کے رہ ئشی و پیدایشی‘ مقصود حسنی کے یو این او کے مستقل ممبر اور روح نی اسمب ی کے نم ئندہ ہز ہ ئینس ڈاکٹر نور ال ل سے ذاتی ت ق ت رہے ہیں۔ مقصود حسنی کو انہوں نے یو این او میں آنے کی دعوت بھی دی۔ ÌÌÌÌÌÌÌ گورنمنٹ اسالمیہ ک لج قصور کے پی ایچ ڈی پرنسپل ص حب ن ڈاکٹر ندی ‘ ڈاکٹر آصف ہم یوں‘ ڈاکٹر اختر ع ی میرٹھی‘ ڈاکٹر ذوال ق ر ع ی ران ÌÌÌÌÌÌÌ ڈی لٹ ڈاکٹر مولوی محمد ش یع ÌÌÌÌÌÌÌ پی ایچ ڈی ص حب ن
92
ڈاکٹر م ین قریشی‘ ڈاکٹر آف احمد‘ ڈاکٹر احمد بشیر‘ ڈاکٹر اختر سندھو‘ ڈاکٹر عنبرین صغیر‘ ڈاکٹرخ لد محمود‘ پروفیسر محمد رفی س گر‘ ڈاکٹر محمد ارشد ش ہد ڈاکٹر زی النس ‘ ڈاکٹر نی وفر مہدی‘ ڈاکٹر رضوان هللا کوک ‘ ڈاکٹر شب نہ سحر‘ ڈاکٹر ظہور احمد چودھری‘ ڈاکٹر منظور الہی ممت ز‘ ڈاکٹر عط الرحمن میو‘ ڈاکٹر محمد ایو ‘ گورنمٹ ک لج پتوکی‘ ڈاکٹر کنور عب س حسنی‘ ڈاکٹر غال مصط ے‘ ڈاکٹر ی سمین تبس ‘ ڈاکٹر رمض نہ برکت‘ ڈاکٹر مقصود حسنی ÌÌÌÌÌÌÌ پی ایچ ڈی اسک لرز ص حب ن پروفیسر ع ی حسن چوہ ن‘ پروفیسر ع مر ع ی‘ پروفیسر راشد ع ی‘ پروفیسر یونس حسن‘ پروفیسر نی مت ع ی‘ پروفیسر محمد لطیف اش ر‘ پروفیسر ری ض محبو ‘ پروفیسر ح فظ غال سرور‘ پروفیسر سرور گوہر‘ پروفیسر محمد مشت ‘ محبو ع ل ‘ محمد اس ط ہر‘ وغیرہ ÌÌÌÌÌÌÌ قصور کے مذہبی ع م کرا
93
مولوی غال هللا مولوی محمد شریف نوری یہ ایک رس لہ بھی نک لتے تھے مولوی فرودس ع ی ش ہ مذہبی کت بھی تحریر کیں مولوی طی ش ہ ہمدانی تحریری ک بھی کی مولوی محمد عبدهللا ق دری ان ک ق ئ کردہ آج بھی چل رہ ہے مولوی عبدالرحمن‘ مولوی عبدال زیز‘ مولوی غال رسول گوہر ڈاکٹر خ لد محمود ÌÌÌÌÌÌÌ انگریزی زب ن کے ش عر پروفیسر نی مت ع ی ش بہ گورنمنٹ اسالمیہ ک لج قصور مقصود حسنی‘ پروفیسر نی مت ع ی ش بہ گورنمنٹ اسالمیہ ک لج قصور نے ان کی ش عری پر ای فل سطع ک تحقیقی تحریر کی ۔ ÌÌÌÌÌÌÌ
94
مترج ڈاکٹر مولوی محمد ش یع نے تذکرتہ اولی اردو ترجمہ کی ۔ پروفیسر ت ثیر ع بد جو گورنمنٹ ک لج ل ی نی میں تھے نے غ ل کے اردو دیوان میں ترجمہ کی ۔ مقصود حسنی نے عمر خی کی چوراسی رب عی ت ک سہ مصرعی اردو ترجمہ کی ۔ کت ش ری ت خی کے ن سے ش ئع ہوئی۔ ترک ش عری ک اردو ترجمہ کی ۔ کت آنکھیں ۔۔۔ کے ن سے ش ئع ہوئی۔
۔۔۔۔ ست رے بنتی
عالوہ ازیں فینگ سیو فینگ‘ ہنری النگ فی و‘ ولی ب یک کی نظموں کے اردو ترج کیے۔ قرتہ ال ین ط ہرہ کی ف رسی غزلوں کے اردو اور انگریزی میں ترجمہ کیے۔ غ ل کے ÌÌÌÌÌÌÌ
اش ر ک پنج بی میں ترجمہ کی
95
نوٹ دانستہ طور پر‘ کوئی ن نظر انداز نہیں کی گی ۔ بہت سے ن درج نہیں ہو سکے‘ اسے میری تھوڑع می سمجھ کر‘ م ف کر دی ج ئے۔ ÌÌÌÌÌÌÌ