قصور ہزاروں سال پرانی تہذیب کا امین

Page 1

‫‪1‬‬

‫قصور ہزاروں س ل پرانی تہذی ک امین‬ ‫مقصود حسنی‬

‫ابو زر برقی کت خ نہ‬ ‫مئی ‪٧‬‬


‫‪2‬‬

‫قصور ہزاروں س ل پرانی تہذی ک امین‬ ‫)‪(1‬‬ ‫انس ن ہمیشہ سے اپنے سے پہ وں کی بڑی دلچسپی اور‬ ‫توجہ سے کھوج کرت آ رہ ہے۔ وہ ج نن چ ہت ہے کہ اس‬ ‫کے بڑے فکری م شی اور م شرتی حوالہ سے کہ ں‬ ‫کھڑے تھے۔ ان کی ن سی ت کی تھی۔ اس ذیل میں وہ اپن‬ ‫اور ان ک موازنہ بھی کرت آ رہ ہے۔ انس ن اپنے پرکھوں‬ ‫کی عزت کرت ہے۔ ان کی اخالقی ت کی تحسین کرت ہے۔ ان‬ ‫کی بہت سی ب توں پر فخر کرت ہے۔ اس ضمن میں ان کو‬ ‫خود سے بہترسمجھت آ رہ ہے۔ ان کی ب ض کوت ہیوں کو‬ ‫صرف نظر کرت ہے۔ ان کوت ہیوں کی نش ندہی کرنے والے‬ ‫کو برداشت نہیں کرت ۔ یہ اس کی ن س تی کمزوری ہی نہیں‬ ‫اپنے م ضی سے پی ر اور اس سے اٹوٹ رشتہ ہونے کی‬ ‫دلیل بھی ہے۔ گوی انس ن کی مثل زنجیر کی سی ہے۔ اگر‬ ‫وہ م ضی کے کسی شخص کو برا سمجھت ہے تو بھی یہ‬ ‫اس سے مت ہونے ک ثبوت ہے۔‬ ‫مورکھ (مورخ) ہو کہ واق ہ نگ ر‘ اس کو زندہ ہو کہ‬


‫‪3‬‬

‫صدیوں پہ ے ک مردہ ب دش ہ عزیز رہت ہے۔ کچھ ہی دن‬ ‫ہوے اخب ر میں مع تصور خبر چھپی کہ جہ نگیر ب دش ہ‬ ‫کے مقبرے کی ح لت بڑی بری ہے۔ خبر یوں لگی جیسے‬ ‫اس بر توجہ نہ دی گئ تو سم جی م شی اور سی سی دنی‬ ‫برب د ہو ج ئے گی۔ ککھ نہیں رہے گ ۔ مجھے دکھ اور‬ ‫افسوس سے کہن پڑ رہ ہے کہ قصور میں موجود س ت‬ ‫سے ہزاروں س ل پرانی انس نی تہذی ک ستی ن س م ر کر‬ ‫رکھ دی گی ہے۔ ب قی م ندہ آث ر کی گردن م رنے کی کوشش‬ ‫کی ج رہی ہے اور کسی کو پرواہ تک نہیں۔ میں نے کسی‬ ‫ب دش ہ کی قبر مب رک ک سرا لگ نے کی پوری پوری‬ ‫کوشش کی ہے۔ چ ہے دین الہی ک س مذہ ایج د کرنے‬ ‫واال مس م ن ت ریخ میں ش مل ب دش ہ ہی کیوں نہ ہوت ۔ میں‬ ‫نے تالش ک عمل ابھی خت نہیں کی ۔ ایک نہ ایک دن کوئ‬ ‫ب دش ہ ضرور تالش لوں گ کیونکہ مغ یہ عہد کی کچھ‬ ‫چیزوں ک سرا مل گی ہے۔‬ ‫جس ہزاروں س ل س ل پرانی تہذی کے فتل ع سے مت‬ ‫اپنی م روض ت پیش کرنے ج رہ ہوں اس ک ہ ک پھ ک‬ ‫ت رف پیش کر رہ ہوں اس عالقہ کے ت ریخی ہونے کے‬ ‫حوالہ چند ابتدائی م وم ت درج کر رہ ہوں ت کہ ق ری کسی‬


‫‪4‬‬

‫حد تک قصور* کو ج ن اور پہچ ن سکے۔‬ ‫قصور حضرت ب ب ب ھے ش ہ کی سرزمین ہے۔ حضرت‬ ‫فریدالدین گنج شکر نے یہ ں چ ہ ک ٹ ۔ ان کی چ ہ گ ہ آج‬ ‫بھی موجود ہے اور اس کی زی رت کے لیے لوگ یہ ں آتے‬ ‫رہتے ہیں شہرہ ع ل کی ح مل پنج بی مثنوی “ہیر“ جو ہیر‬ ‫وارث کے ن سے ج نی ج تی ہے‘ کے ش عر پیر وارث‬ ‫ش ہ نے کس ع اسی شہر سے ح صل کی ۔ حضرت‬ ‫پیرمہر ع ی ش ہ ص ح اکثر یہ ں تشریف التے رہتے تھے۔‬ ‫میرا سوہن شہر کی گ ءک م کہ ترن نور جہ ن اسی شہر‬ ‫سے ت رکھتی تھیں۔ حضرت ش ہ حسین کے پیر بھ ئی‬ ‫‘صدر دیوان یہ ں اق مت رکھتے تھے اس لیے حضرت ش ہ‬ ‫الہوری یہ ں آتے ج تے رہتے تھے۔ حضرت غال حسین‬ ‫محی الدین دائ حضوری اور خواجہ غال مرتضی ک ت‬ ‫قصور سے تھ ۔‬ ‫حضرت ب ب گرو ن نک دیو کے مسیر ی نی خ لہ زاد را‬ ‫تھمن قصور میں رہ یش رکھتے تھے اس حوالہ سے وہ‬ ‫یہ ں تشریف الئے۔‬ ‫راجہ ٹوڈر مل م ہر م لی ت اور اکبر ک نورتن قصور سے‬ ‫ت رکھت تھ ۔ اکبر کے سرک ری گویے ت ن سین کو یہ ں‬


‫‪5‬‬

‫(روہے وال) ج گیر عط ہوئی۔ اپنی ج گیر پر آی تو حضرت‬ ‫پیر اخوند س ید ان ک موزک سننے گئے۔گوی ت ن سین گوی‬ ‫ہی نہیں قصور ک ج گیردار بھی تھ ۔ کہتے ہیں ب دش ہ ہند‬ ‫رضیہ س ط ن کی ب دش ہی کو زوال آی تو وہ قصور آگئ ۔‬ ‫بڑے قبرست ن میں آج بھی اس کی آخری آرا گ ہ موجود‬ ‫ہے۔‬ ‫سنگیت کی دنی کے ب دش ہ است د بڑے غال ع ی اور است د‬ ‫چھوٹے غال ع ی شہر قصور کے رہ یشی تھے۔ راگ‬ ‫جنگ ہ قصور کی ایج د ہے۔ م روف سنگر منظور جھال‬ ‫قصور ک رہنے واال تھ ۔ جہ ن فن کے مصنف ڈاکٹر ظہور‬ ‫احمد چوہدری ک ت کوٹ رادھ کشن‘ قصور ہے۔‬ ‫موالن احمد ع ی جنہیں کشف القبور میں مہ رت ح صل تھی‬ ‫کی قصور ب ھے اور کم ل چشتی کے درب ر پر ح ضری‬ ‫ث بت ہوتی ہے۔‬ ‫عبدهللا عبدی خویشگی مصنف اخب راالاولی ‘ م تی غال‬ ‫سرور چونی ں جو آج قصور کی تحصیل ہے میں مالزمت‬ ‫کرتے رہے' موالن غال هللا قصوری‘ موالن غال دستگیر‘‬ ‫عالمہ شبیر احمد ہ شمی‘ عالمہ مہر محمد خ ں ہمد‬ ‫(ش ہن مہ اسال ہمد کے ش عر)‘ ب نگ درا ک دیب چہ‬


‫‪6‬‬

‫لکھنے والے سر عبدالق در‘ تحریک مج ہدین کے سر گر‬ ‫ک رکن موالن عبدالق در وغیرہ قصور کے رہنے والے تھے۔‬ ‫عبدالست ر نی زی تحریک خت نبوت کی پکڑ دھکڑ سے‬ ‫بچنے کے لیے قصور کے مہم ن بنے۔ ص ح خ نہ کے‬ ‫ص ح زادے کی مخبری پر گرفت ر ہوئے‬ ‫کی م رشل کی خالف ورزی‬ ‫سید ن در سمشی جنہیں‬ ‫اور تھ نے کی توڑ پھوڑ کے الزا میں ک لے پ نی بھیج گی‬ ‫قصور کے بہ در سپوت تھے۔‬ ‫میں پھ نسی کی‬ ‫ن موس رس لت کی پ سداری میں‬ ‫سزا پ نے والے غ زی محمد صدی ک ت قصور سے تھ‬ ‫۔‬ ‫صوفی ش عر غال حضور ش ہ قصوری‘ سوہن سنگھ سیتل‘‬ ‫احمد ی ر خ ں مجبور(میرا ای فل ک مق لہ ان کی ش عری پر‬ ‫تھ )' آزر روبی م روف مصور‘ منیر احمد س ئنسدان‘‬ ‫بھ رت کی کسی ہ ہیکورٹ کے چیف جسٹس م ہوترا‘‬ ‫خواجہ محمد اسال مصنف موت ک منظر‘ پروفیسر صح فی‬ ‫‘وزیر ارش د احمد حق نی‬ ‫ڈاکٹر مولوی محمد ش یع‘ ع ی نصری مصنف ش ہ ن مہ‬


‫‪7‬‬

‫ب ال کوٹ‘ سی ایل ن رنگ‘ چنن سنگھ ورک محق اقب ل‬ ‫قیصر‘محق اقب ل مجدی‘محق ڈاکٹر ری ض انج ‘ م روف‬ ‫صح فی اسدهللا غ ل ‘ تنویر بخ ری‘ عبدالجب ر ش کر‘ ص د‬ ‫قصوری وغیرہ قصور کے رہ یشی رہے ہیں۔ اسی طرح‬ ‫ع لمی شہرت ی فتہ کینسر مرض کے م ہر ڈاکٹر محمود‘‬ ‫ڈاکٹر ہم یوں نیرو سرجن‘ ڈاکٹر ن ی قصوری‘ ۔ ڈاکٹر سید‬ ‫کنور عب س م ہر اقتص دی ت قصور کے رہنے والے ہیں۔‬ ‫آءین ‪ 1973‬کے خ ل می ں محمود ع ی قصوری ک ت‬ ‫قصور سے ہے۔ زیڈ اے بھٹو کو تختہ دار تک پہچ نے واال‬ ‫بھی قصور سے ت رکھت ہے۔ پنج کے پہ ے‬ ‫وزیراعظ نوا افتخ ر احمد ممدوٹ قصور سے ہیں انکے‬ ‫والد نوا ش ہ نواز ممدوٹ ق ءداعظ کے دست راست‬ ‫تھے۔ م ین قریشی س بقہ وزیراعظ پ کست ن قصور سے‬ ‫ت رکھتے تھے۔ سردار آصف احمد ع ی‘ سردار ع رف‬ ‫نکئ سب قہ وزیر اع ی پنج قصور کے ہیں م ک شوکت‬ ‫عزیز س بقہ وزیراعظ ک ت قصور سے ہے۔ پنج ک‬ ‫پہال چیف سیکریڑی عبدالمجید شیخ ک ت قصور سے‬ ‫ہے۔‬ ‫یوسف خ ں اور ضی ء محی الدین قصور کے ہیں۔ بھگت‬


‫‪8‬‬

‫سنگھ آزاد کے ننھی ل قصور کے ہیں۔ ان کے ڈیتھ ورانٹ‬ ‫پر دستخط بھی ایک قصوری مجسڑیٹ نے کیے۔ کرانتی ک ر‬ ‫نظ لوہ ر اور م نگی قصور کے ہیں۔ م وف ڈاکو جگت‬ ‫سنگھ الم روف جگ ک ت بھی قصور سے ہے۔‬ ‫عالمہ عالؤالین صدیقی‪ ،‬صوفی تبس ‘ سید ع بد ع ی ع بد‘‬ ‫ڈاکٹر سید عبدهللا‘ اش احمد‘ اختر شم ر وغیرہ قصور‬ ‫تشریف ال چکے ہیں۔‬ ‫میتھی جوڑوں کے درد کی ش اور بطور سبزی پوری دنی‬ ‫میں اپن الگ سے شہرہ رکھتی ہے۔ ف لودہ اور اندرسے‬ ‫قصوری تح ہ ہیں۔ پیروں میں پورا نہ آنے کے سب‬ ‫قصوری جتی کو کیسے فراموش کی ج سکت ہے۔‪3‬‬ ‫قصور سے ت رف کے لیے یہ بہت ہی مختصر ت صیل ک فی‬ ‫لگتی ہے۔ میں اسے یہ ں خت کرت ہوں کیونکہ اس کے ب د‬ ‫کےانکش ف ت اس ت صیل سے کہیں زی دہ حیران کن ہوں‬ ‫گے۔‬


‫‪9‬‬

‫)‪(2‬‬ ‫ب ب جی ب ھے ش ہ کے مط ب قصور قصر سے ترکی پ ی‬ ‫ہے۔ قصر کی جمع قصور ہے۔ سترویں صدی میں یہ شہر‬ ‫آب د و ش دا تھ اور سکھوں ک تس ط تھ راجہ رائے‬ ‫سنگھ ک سکہ چ ت تھ اور اس شہر ک ن شکر پور تھ ۔‬ ‫عین ممکن ہے کہ یہ ن گنج شکر کے حوالہ سے ترکی‬ ‫پ ی ہو۔ ب ب فرید شکر گنج کے مرید اور ان کے مت‬ ‫اوروں ک بھی یہ شہر بسیرا رہ ہے۔ یہ بھی خبر ہے کہ وہ‬ ‫یہ ں خود تشریف الئے۔ ب ب ص ح کے دادا ج ن ق ضی‬ ‫ش ی الدین بھی یہ ں تشریف الئے۔ گوی ب ب فرید سے‬ ‫پہ ے قصور سے ان کے خ ندان ک ت واسطہ تھ ۔‬ ‫اس ذیل میں یہ روایت بھی موجود ہے‬ ‫حضرت) را چندر (جی) کے دو بیٹے‘ الو اور کش‬ ‫تھے۔۔۔۔۔۔چوتھی صدی قبل مسیح میں الو (ی الہ) اور کش‬ ‫نے الہور اور قصور شہر ق ئ کئے۔ دوسرے بیٹے ک ن‬ ‫کس بھی بت ی ج ت ہے۔ ( ) لو اور کش سیت کے بطن‬


‫‪10‬‬

‫سے تھے اور راجپوتوں کے دو خ ندان خود کو ان کی‬ ‫اوالد بت تے ہیں۔ ( ) اس روایت کے مط ب اس عالقے کو‬ ‫ق ء ہوءے چوبیس سو س ل سے زی دہ عرصہ ہو گی ہے۔‬ ‫کسی رویت کو اس وجہ سے تس ی نہ کرن کہ وہ مخ لف‬ ‫نظریہ کے شخص کی ہے‘ کسی بھی حوالہ سے درست‬ ‫نہیں۔ قصور اگرچہ اس سے پہ ے بھی موجود تھ ت ہ یہ‬ ‫ن ( کسور) اس دور میں مال۔ اس سے پہ ے اس ک ن‬ ‫کوئ اور رہ ہو گ ۔‬ ‫موجودہ قصور مخت ف والئتوں پر مشتمل تھ ۔ ہر ایک ک‬ ‫الگ سے ن اور نظ حکومت تھ ۔ ان میں سے ایک‬ ‫والیت ک ن قصور تھ ۔ ا یہ صورت نہیں رہی۔ والئیتوں‬ ‫کے الگ سے ن ہیں اور انہیں مح ہ کوٹ وغیرہ سے‬ ‫م سو کی ج ت ہے ت ہ ا اس مجموعے ک ن قصور‬ ‫ہے۔‬ ‫یہ کہن کسی طرح درست نہیں لگت کہ قصور کش نے آب د‬ ‫کی اصل م م ہ یہ تھ کہ حضرت را چندر جی نے الہ کو‬


‫‪11‬‬

‫الہور والی والیت اور کش کو قصور والی والیت بطور‬ ‫ی‬ ‫ج گیر عط کی۔ سکندر اعظ ویرانے میں‬ ‫میں نہیں آی ہو گ عالقہ بی س خو آب د رہ ہوگ ۔ یہی نہیں‬ ‫قصور پورے ہندوست ن کی ذرخیز ترین والیت تھی۔ گند‬ ‫مکئ گن سبزی ت بشمول میتھی خصوص ج نوروں ک چ رہ‬ ‫وغیرہ کی پیداوار کے حوالہ سے م روف رہ ہو گ ۔‬ ‫سکندری فوج نے خو تب ہی مچ ئ ہو گی۔ جواب وہ بھی‬ ‫مرے ہوں گے۔ ان کی قبریں وغیرہ یہ ں ہی ہوں گی۔ ہو‬ ‫سکت ہے قبرست ن جٹو میں ان کو دفن ی گی ہو گ ۔ چینی‬ ‫سی ح ہیون س نگ جو بدھ مت ک پرچ رک بھی تھ ‘ کے ہ ں‬ ‫قصور ک ذکر موجود ہے۔ کپڑے کی صن ت کل پرسونسے‬ ‫ت نہیں رکھتی۔ اسی طرح اس حہ س زی میں کم ل رکھت‬ ‫تھ ۔ اس ذیل میں کم ل کے ہنرمند موجود تھے۔ پورس کی‬ ‫فوج کو آخر رسد کہ ں سے دستی ہوتی ہو گی۔ یہ م ن‬ ‫نہیں ج سکت رسد پوٹھوہ ر سے آتی ہو گی۔ عالقہ بی س‬ ‫کے حوالہ سے رسد اور سپ ہ اسی والیت سے دستی‬ ‫ہوتی ہو گی۔‬ ‫الہور ن کے شہر افغ نست ن اور پش ور میں بھی بت ءے‬


‫‪12‬‬

‫ج تے ہیں۔ راجپوت نہ میں شہر لوہ ر موجود ہے۔ لہ رو بھی‬ ‫ایک جگہ ک ن ہے۔ اس طرح کے اور ن بھی م تے ہیں۔‬ ‫گوی الہ کی دسترس دور دراز عالقوں پر رہی ہوگی۔ اسی‬ ‫طرح بقول سید محمد لطیف اور کنہی الل تحریروں میں‬ ‫الہور؛ لوہ ر‘ لوہر‘ لوہ آور‘ لھ نور‘ راہ رو‘ لہ ‘ لہ نو‘‬ ‫لوپور‘ لوہ رپور بھی آت ہے۔‬ ‫ایک روایت کے مط ب الہور کی بنی د راجہ پریچھت نے‬ ‫رکھی اور اس ک ن پریچھت پور رکھ ۔ اس راجے ک عہد‬ ‫شری شری را چندر جی کے ب د ک ہے۔ یہ روایت درست‬ ‫نہیں کیونکہ الہور عالقے ک وجود اس سے پہ ے تھ ۔‬ ‫راجہ پریچھت نے اس ایری میں کوئ الگ سے عالقہ آب د‬ ‫کی ہو گ ۔‬ ‫راجے مہ راجے اپنی اوالد اور دیگر خدمت گ روں کو‬ ‫گزارے کے لیے ج گیریں دے دی کرتے تھے۔ یہ س س ہ‬ ‫فوج کے حوالہ سے اور انگریز کی عط کی گئ ج گیروں‬ ‫والے لوگ ہم رے ہ ں موجود ہیں۔ غ لب لوہے سے مت‬


‫‪13‬‬

‫پیشہ کے ک کرنے والے کے لیے لوہ ر مست مل ہو گی ہو‬ ‫گ ۔ لوہ بہت بڑے یودھ رہے ہوں گے اور لوہ میں اس‬ ‫حوالہ سے ڈوبے رہتے ہوں گے۔ ویسے ہم رے ہ ں ب کہ‬ ‫پوری دنی میں ن بگ ڑنے ک ع رواج ہے۔ یہ ں ایک‬ ‫ص ح ک ن مولوی چھوٹیرا تھ وقت گزرنے کے ب د ن‬ ‫بگڑ گی مولوی بٹیرا ن م روف ہو گی ۔ فضل دین سے فج‬ ‫جنت بی بی سے جنتے ایسے ن سننے کو م یں گے۔‬ ‫حضرت را چندر جی کے خ ندان کے لوگ دونوں والئتوں‬ ‫میں حکومت کرتے رہے۔ اس خ ندان کے‬ ‫ایک راجے نے الہور پر حم ہ کرکے اس پر اپن تس ط‬ ‫ح صل کر لی ۔ ( ) الہور اور قصور ایک والیت ٹھہرے۔‬ ‫گوی اس حوالہ سے سی سی سم جی م شی اور م شرتی‬ ‫اختالط وجود میں آی ۔ قصور اس حوالہ سے بہت بڑی‬ ‫مضبوط اور توان والیت ٹھہرتی ہے۔ اس امر کے ثبوت اس‬ ‫کے کھنڈرات سے‘ جو ابھی کسی حد تک ب قی ہیں سے‬ ‫تھوڑی سی کوشش کے ب د دستی ہو سکتے ہیں۔ کچھ‬ ‫چیزیں ایسی بھی موجود ہیں جس سے اس عظی الش ن‬ ‫والیت کے دف عی نظ ک بخوبی اندازہ لگ ی ج سکت ہے۔‬


‫‪14‬‬

‫ش آواز ک س ی س ک ش میں تبدیل ہون کوئ نئ ب ت‬ ‫نہیں۔ کس پر ور کی بڑھوتی ہوئ ہے۔ ور پور ک تب دل‬ ‫ہے۔ جیسے جبل پور‘ نور پور‘ وزیر پور‘ بجید پور وغیرہ۔‬ ‫پور سے پورہ ترکی پ ی ہے۔ ت ہ ور بھی مستمل ہے‬ ‫جیسے بجنور بجن ور‘ اخنور اخن ور‘ پش ور پش ور‘‬ ‫سنور سن ور‘ کالنور کالن ور وغیرہ ۔ ور پور اور پورہ‬ ‫الحقے جگہوں کے لیے است م ل میں آتے ہیں۔‬ ‫کش سے کس ہوا اور کس پر ور ک الحقہ بڑھ ی گی اور‬ ‫اس سے کسور ترکی پ ی ۔ اس رویت سے مت قصور‬ ‫کش واال قصور ہے۔ پٹھ نوں کو جو عالقہ مال اس پر انھوں‬ ‫نے عم رتیں ت میر کیں اور یہ پٹھ نوں کے دور سے ن‬ ‫مست مل نہیں ہے۔ کثو بھی تحریروں میں آت ہے اور اسی‬ ‫سے کثور ترکی پ ی ہو۔ ث کے لیے بھی رومن لکھتے‬ ‫ایس است م ل ہوت ہے۔‬ ‫حضرت امیر خسرو یہ ں تشریف الئے اوران کے مط ب یہ‬


‫‪15‬‬

‫عم رتوں ک شہر تھ ا عم رتیں خت ہو گئ ہیں۔ یہ س ت‬ ‫سو س ل پہ ے کی ب ت ہے۔ گوی س ت سو س ل پہ ے بھی‬ ‫کھنڈرات پر ہی شہر آب د تھ اور اس ک ن قصور (کسور)‬ ‫تھ ۔‬ ‫انگریز کے آنے سے رومن رس الخط نے رواج پ ی ۔ ترقی‬ ‫پ نے کے لیے رومن خط ک ج نن ضروری تھ ۔ سپ ہی سے‬ ‫آنریری کیپٹن تک ترقی پ نے کے لیے فوج میں کالسیں‬ ‫ہوتی تھیں اور یہ صورت پ کست ن بننے کے ب د بھی‬ ‫موجود رہی ح النکہ ا اردو رس الخط ج ننے والے افسر آ‬ ‫گئے تھے۔ رومن خط میں‬ ‫کیو‬

‫‪Q‬جبکہ ک کے لیے کے ‪ K‬است م ل میں التے ہیں۔‬

‫قصور کے ‪ K‬سے شروع ہوت ہے‬ ‫‪ kas‬اور کس ک ت ظ ‪ lah‬ک ت ظ الہ ہی بنت ہے۔‬ ‫کس اور الہ پر ور کی بڑھوتی ہوئ ہے۔ ی نی کس ک شہر‬ ‫الہ ک شہر۔‬


‫‪16‬‬

‫قصور اگر قصر سے ہوت تو کیو سے اس ک آغ ز ہوت ن کہ‬ ‫کے سے یہ ل ظ تر کی پ ت ۔ زب نوں میں یہ کوئی نئی ب ت‬ ‫نہیں۔ ل ظ غری کو م س کے م نوں میں است م ل کی ج ت‬ ‫ہے ح النکہ اس کے م نی پردیسی کے ہیں۔ گوی غری‬ ‫لکھ کر م س م نی لیے ج تے ہیں۔ اپنی اصل میں یہ گری‬ ‫ہے۔ گری کو غ ط سمجھ ج ئے گ ۔ ق ی کو غ ط جبکہ‬ ‫ق ی کو درست سمجھ ج ت ہے جبکہ ق ی کوئی ل ظ ہی‬ ‫نہیں ہے۔‬ ‫کسو (کیشو) ب م نی خوبصورت ب لوں واال۔ روشن۔ درخش ں‬ ‫وشنو دیو ک ایک ن ہے۔ شری را چندر جی کو وشنو‬ ‫دیو ک اوت ر سمجھ ج ت ہے۔ اسی طرح سیتت می کو‬ ‫لکشمی ک اوت ر خی ل کی ج ت ہے۔ کسر ب م نی دودھ‘ کسر‬ ‫س گر کنی لکشمی دیوی جو وشنو دیو کی پتنی ہیں ک ایک‬ ‫ن ہے۔ اس لیے کش کس کسو وغیرہ ن فرضی قرار‬ ‫نہیں دیے ج سکتے۔ یہ س مس م نوں ک عقیدہ ن سہی‬ ‫انہیں میتھ ک درجہ تو ح صل ہے۔ کسی میتھ کو بےم نی‬ ‫اور بےک ر قرار نہیں دی ج سکت کیونکہ ہر میتھ غیر‬ ‫ج نبدارانہ تحقی ک تق ض کرتی ہے۔ اس حوالہ سے انہوں‬


‫‪17‬‬

‫نے اپنی سنت ن ک ن کش بم نی خوش شکل رکھ ہو گ ۔‬ ‫قصر مق می ل ظ نہیں ہے۔ جو پٹھ نوں نے شہر آب د کی وہ‬ ‫موجود قصور ہے۔ اور ص دیسی حروف نہیں ہیں۔ س‬ ‫دیسی ہے گو یہ آواز عربی اور ف رسی میں بھی موجودہ‬ ‫ہے۔ ت ن سین کو کھنڈروں کی ج گیر نہیں م ی تھی‬ ‫کھنڈروں پر آب د عالقہ تھ ۔ اسی طرح حضرت امیر خسرو‬ ‫بھی آب د عالقے میں آئے ہوں گے۔‬


‫‪18‬‬

‫)‪(3‬‬ ‫قصور کے مت کہ ج ت ہے کہ کم ل چشتی کے جو‬ ‫ٹی ے ہیں یہی پران قصور ہے۔ کم ل چستی کے حوالہ سے‬ ‫ایک رویت ع ہے کہ راجہ رائے سنگھ سترویں صدی‬ ‫عیسوی میں یہ ں ک ح ک تھ ۔ وہ ہر دلہن کے س تھ پہ ی‬ ‫رات گزارت ۔ کم ل چشتی کی ایک مریدنی جو دلہن تھی ان‬ ‫کے پ س بھ گ آئی اور س را م جرا سن ی ۔ کم ل چشتی نے‬ ‫اپن پی لہ الٹ کر دی ۔ اس طرح یہ شہر غر ہو گی ۔ انس نی‬ ‫ت ریخ کے حوالہ سے یہ گزرے کل پرسوں کی ب ت ہے۔‬ ‫امیر خسرو جو س ت سو پہ ے سے ت رکھتے ہیں ان‬ ‫کے مط ب کھنڈرات اس وقت بھی موجود تھے۔ کم ل‬ ‫چشتی ک مزار کھنڈر کے اوپر ہے۔ گوی سترویں صدی‬ ‫عیسوی میں شکرپور تب ہ ہوا۔ کھنڈر پر موجود شہر برب د‬ ‫ہوا۔‬ ‫کم ل چشتی کی ت ریخ موجود نہیں۔ احمد ع ی الہوری جو‬ ‫کشف القبور ک ع رکھتے تھے انھوں نے حضرت ب ھے‬


‫‪19‬‬

‫ش ہ کے مت راءے دی کہ یہ ں نیک ہستی دفن ہے جبکہ‬ ‫کم ل چشتی کے ب رے کہ کہ انھیں اس قبر کے ب رے کچھ‬ ‫سمجھ میں نہیں آ سک ۔ گوی انھوں نے ب ت کو گول مول‬ ‫رکھ اور یہ کہنے سے گریز کی کہ یہ ں کچھ بھی نہیں‬ ‫ہے۔‬ ‫مردہ دفن کرنے کے عالوہ قبر سے چ ر اور ک بھی لیے‬ ‫ج تے رہے ہیں۔ یہ ں کے ح الت کبھی اندرونی اور کبھی‬ ‫بیرونی حم وں کی وجہ سے ن س زگ ر رہے ہیں۔ محالتی‬ ‫س زشیں لوگوں ک سکون برب د کرتی رہی ہیں۔ ن س ز گ ر‬ ‫ح الت کے سب انھیں مہ جرت اختی ر کرن پڑتی۔ ایسے‬ ‫میں ص ح ج ہ اور اہل ثروت اپنی دولت قبر میں دفن کر‬ ‫دیتے اور م م ے کو قسمت کی ی وری پر چھوڑ دیتے۔‬ ‫‪ 1947‬کی مہ جرت میں بھی ایس ہوا۔ کئ ایک کو موقع مل‬ ‫گی لیکن جنھیں موقع نہیں مال ان ک خزانہ ابھی زیر زمین‬ ‫ہے ی کسی اور ک مقدر ٹھہرا۔‬ ‫قبریں دف ع کے ک بھی آئی ہیں۔ اوپر سے دیکھنے میں‬


‫‪20‬‬

‫قبریں ہیں لیکن ان کے اندر سرنگوں ک ج ل بچھ ہوا ہوت‬ ‫تھ ۔ عہد سالطین کی اس قس کی چیزیں م تی ہیں ممکن‬ ‫ہے یہ س س ہ پہ ے سے رواج رکھت ہو۔‬ ‫مرشد کے کپڑوں وغیرہ کو دفن کر دی اور اسے قبر کی‬ ‫شکل دے دی گئی۔ یہ ایک طرح سے مرشد ک احترا رہ‬ ‫ہے۔ اسے روزگ ر ذری ہ قرار دین بھی غ ط نہ ہو گ ۔ اسے‬ ‫اس جگہ پر قبضہ کرنے ک ن بھی دی ج سکت ہے۔‬ ‫چ ہ گ ہوں میں کسی ب بے کی چھوڑی ہوئ چیز کو دفن کر‬ ‫دی گی ہے۔ ب د ازاں وہ ڈھیری قبر ٹھہری ہے۔‬ ‫کم ل چشتی کے حوالہ سے مخت ف قس کے قی فے اور‬ ‫م روضے ق ئ کیے ج سکتے ہیں ت ہ انھیں حتمی قرار‬ ‫نہیں دی ج سکت ۔ مثال ق ضی ش ی الدین ص ح کوئی چیز‬ ‫چھوڑ گیے ہوں اور اسے دفن کر دی گی ہو۔ اسے ق ضی‬ ‫ش ی الدین ص ح کی چ ہ گ ہ بھی قرار دی ج سکت ہے۔‬ ‫کم ل عرفی ن ہو سکت ہے ی نی چشتی ک کم ل۔ ق ضی‬ ‫ش ی الدین ص ح کوئ م مولی شخصیت نہیں تھے۔ ان ک‬


‫‪21‬‬

‫دور راجہ راے سنگھ سے ت نہیں رکھت ۔ یہ تو عہد‬ ‫سالطین کی ب ت ہے۔ راجہ رائے سنگھ کے حوالہ سے‬ ‫غر ہونے والے قصہ کو سچ م نتے ہیں تو یہ کوئی یہ ں‬ ‫کہیں اور ص ح کرامت بزرگ موجود ہیں جن کے مق‬ ‫دفن کی کوئی ص ح کشف ہی خبر دے سکت ہے۔‬ ‫یہ مقبرہ سڑک سے قریب پچ س فٹ کی ب ندی پر ہے۔‬ ‫مقبرے تک ایک سو دوسیڑھی ں ہیں۔ شیر ش ہ سوری‬ ‫نےٹی ے ک ٹ کر یہ سڑک بنوائ تھی۔ اس کے ب د یہ سڑک‬ ‫کئ ب ر بنی۔ یہ سڑک اصل سڑک سے تقریب تیس فٹ سے‬ ‫زی دہ ب ندی پر ہے۔ اس طرح یہ ٹی ہ دو حصوں میں بٹ گی ۔‬ ‫دوسری ب ر یہ ت ریخی ٹی ہ انگریز عہد میں تب ہی ک شک ر‬ ‫ہوا۔ اسی ٹی ے کو ک ٹ کر وکیل خ ن ک مقبرہ ت میر ہوا۔ ب د‬ ‫ازاں اس مقبرے سے دف تر ک ک بھی لی گی اور ا یہ‬ ‫میوزی ہے۔ ڈسٹرکٹ جیل اور پولیس الئین بھی ٹی ہ ک ٹ کر‬ ‫بن ئ گئ ہیں۔ اس کے ب د سڑک کے س تھ موجود ٹی وں کی‬ ‫مسم ری ک ک شروع ہو گی ۔‬ ‫مزار کم ل چشتی سے دوسری طرف والے ٹی ے ب ڈوذ‬ ‫کرکے سڑک کے برابر کر دیے گیے ہیں اور یہ ں ا‬


‫‪22‬‬

‫دوک نیں ہیں۔ ٹی ے شیر ش ہ سوری سے پہ ے بھی مسم ر‬ ‫ہوءے ہیں لیکن اگ ی ش ٹ میں دوب رہ ٹی ے بنے ہیں۔ اس‬ ‫حوالہ سے مت گ تگو آگے آئے گی۔ انگریز راج میں‬ ‫ٹی ے ک ٹ کر ری وے الئن بن ئی گئی اس سے بھی پرانی‬ ‫تہذی کے نش ن ت غ رت ہوئے۔‬ ‫)‪8‬‬


‫‪23‬‬

‫)‪(4‬‬ ‫یہ بڑا ذرخیز عالقہ تھ ۔ س تھ میں دری بہت تھ ۔ ابتدا میں‬ ‫لوگ چھوٹی چھوٹی آب دیوں میں دور نزدیک اق مت رکھتے‬ ‫تھے۔ آج بھی یہی صورت ہے ت ہ آب دی ں چھوٹی نہیں ہیں۔‬ ‫پہ ے پ ن س ت گھروں پر مشتمل آب دی ں رہی ہوں گی لیکن‬ ‫آج گھروں کی ت داد سیکڑوں تک چ ی گئی ہے۔ تھوڑے‬ ‫تھوڑے ف ص ے پر گ ؤں اور بستی ں آب د ہیں۔ ان ک جیون‬ ‫بڑا س دہ تھ ۔ ب د ازاں ب ہمی لین دین پر ان کے جھگڑوں ک‬ ‫آغ ز ہو گی ہو گ ۔ ط قتور کمزور آب دی کو برب د کر دیتے۔‬ ‫ایک عرصہ ب د یہ برب د عالقے اسی ٹی ے کو ص ف کرکے‬ ‫دوب رہ سے آب د ہو ج تے۔ دری مخت ف اوق ت میں قی مت‬ ‫توڑت رہت ۔ بیرونی قسمت آزم بھی قسمت آزم ئی کرتے‬ ‫رہتے تھے۔ چور راہزن ن صرف م ل و دولت غ ے وغیرہ‬ ‫پر ہ تھ ص ف کرتے ب کہ توڑ پھوڑ سے بھی ک لیتے‬ ‫رہتے تھے۔ قری کی مضبوط والئتیں توسیع پسندی اور‬ ‫وس ئئل پر قبضہ کرنے کے لیے ط قت آزم ئی کرتی رہتی‬ ‫تھیں۔ اس عمل میں م م ہ قبضے تک محدود نہیں رہت تھ‬ ‫یہ کہن کہ ب کہ تب ہی برب دی اور مسم ری تک بڑھ ج ت ۔‬


‫‪24‬‬

‫کچھ سو س ل پہ ے دری ءے بی س نے اس عالقے کو کھنڈر‬ ‫میں بدل دی درست نظریہ نہیں۔ دری ب ر ب ر تب ہی الت اس‬ ‫کے ب وجود یہ عالقہ پھر سے آب د ہو ج ت ۔ چونکہ پ نی کے‬ ‫قری آب دیوں ک رواج ی مجبوری تھی لہذا دوب رہ سے‬ ‫عالقہ آب د ہو ج ت ۔ آج بھی یہ صورت موجود ہے بہت سے‬ ‫ع قے موجود ہیں جہ ں ہر س ل سیال آتے ہیں۔ سیال کی‬ ‫ست ظری ی کے ب وجود یہ عالقے کبھی بے آب د نہیں‬ ‫ہوئے۔‬ ‫حم ہ آوروں کی تب ہی وبرب دی کے ب وجود دوب رہ سے‬ ‫آب دک ری ک س س ہ شروع ہو ج ت ۔ عمو کو اہل ج ہ سے‬ ‫نقص ن ہوت رہ ۔ وہ خود بھی عمو کی کھ ل ات رتے رہتے‬ ‫تھے بیرونی وال ئتوں سے ان کی ذاتی اور سی سی دشمنی‬ ‫ک خمی زہ عمو کو بھگتن پڑت ۔ اسی طرح ان کی ذاتی اور‬ ‫آپسی دشمنی بھی لوگوں ک جین حرا کرتی رہتی تھی۔ ان‬ ‫کی ذاتی اور آپسی دشمنی میں لوگوں کی امالک اور گھر‬ ‫ب ر تب ہی سے دوچ ر ہوتے رہتے تھے۔ یہ س س ہ آج بھی‬ ‫م کی اور بین االقوامی سطع پر موجود ہے۔‬


‫‪25‬‬

‫ب ہر سے بھی لوگ یہ ں آتے ج تے رہے ہوں گے۔ ان آنے‬ ‫ج نے والوں کی مخت ف صورتیں رہی ہوں گی۔ اپنی‬ ‫ذرخیزی اور ترقی کے حوالہ سے دور نزدیک کی والءتوں‬ ‫میں م روف رہ ہو گ ۔ م مولی عالقہ ہوت تو اکبر اپنے‬ ‫نورتن ت ن سین کوج گیرروہے وال میں نہ عط کرت ۔ ت ن‬ ‫سین م مولی گوی ہوت تو پیر اخوند س ید اس ک گ ن سننے‬ ‫نہ ج تے اور خوش ہو کر ایک اشرفی ان میں نہ دیتے۔‬ ‫اسی طرح پیر ص ح موصوف کوئ م مولی شخصیت‬ ‫ہوتے تو ت ن سین واپسی ان کی خدمت میں دو اشرفی ں‬ ‫بطور نذر بصد احترا پیش نہ کرت ۔‬ ‫اکبر نے اپنے بیٹے س ی کو دو عالقے عط کیے ان میں‬ ‫سے ایک شیخ پور کے ن سے آج بھی اس ایری میں‬ ‫موجود ہے۔ جس ک ن شیخوپور تھ شیخ پور ب د میں ہوا۔‬ ‫یہ کوئ بزرگ تھے ان ک گ ؤں میں مزار موجود نہیں۔ ہو‬ ‫سکت ہے ح الت ک شک ر ہو گی ہو ی سرحد کے اس پ ر‬ ‫چال گی ہو۔‬


‫‪26‬‬

‫کسی ایک شخص کے ب ہر سے آنے ک مط یہ ٹھہرت ہے‬ ‫کہ وہ اپنی والیت کی تہذی ثق فت زب ن م شرت م شی‬ ‫ض بطے نظری ت وغیرہ لے کر آت ہے۔ ط لع آزم اپن مقدر‬ ‫آزم تے رہے ہیں۔ اس طرح بہت سی عسکری روی ت‬ ‫ب واسطہ درآمد ہوئی ہیں۔ ایک عہد میں دو الگ واالءتیں‬ ‫تھیں پھر الہور قصور ک عالقہ ٹھہرا ۔ اس کے ب د قصور‬ ‫الہور ک عالقہ قرار پ ی ۔ قی پ کست ن کے ب د بھی یہ الہور‬ ‫کی تحصیل تھ ۔ الہور ڈویژن جبکہ قصور ترقی کرکے ض ع‬ ‫ہوا اور الہور ڈویژن میں ش مل ہے۔‬ ‫الہور ب د کے ادوار میں پنج ک مرکز اور اہ ترین خطے‬ ‫کی حیثیت اختی ر کر گی اور ہر حوالہ سے ترقی کرت گی‬ ‫ح النکہ قصور اس سے کہیں بڑھ کر برصغیر کی والیت‬ ‫تھی۔ یہ اہل ج ہ کی آنکھ پر نہ رہ سک نتیجہ ک ر بہترین‬ ‫اور ت ریخی خطہ ہونے کے ب وجود پس م ندگی کی دلدل‬ ‫میں چال گی ۔ آج یہ مس ءل اور پریش نیوں ک بدترین‬ ‫مجموعہ ہے۔‬


‫‪27‬‬

‫شیر ش ہ سوری کے ب د تک ٹی ے کی ہ یٹ اس کی بن ئ‬ ‫ہوئ سڑک سے اوپر اسی فٹ کے قری بنتی ہے۔ شیر ش ہ‬ ‫سوری نے زمین پر نہیں ٹی ے کو ک ٹ کر سڑک ت میر کی۔‬ ‫یہی صورت وکیل خ ن کے مقبرے کے س تھ ٹھہرتی ہے۔‬ ‫اس طرح سڑک کے نیچے اسی فٹ سے زی دہ ٹیال ہو گ ۔‬ ‫گوی یہ ایک سو س ٹھ سے دو سو فٹ ک ی اس سے زی دہ‬ ‫ک ٹھہرت ہے۔‬ ‫میں یہ ں کم ل چستی والے ٹی ے ٹبوں کی ب ت کر رہ ہوں۔‬ ‫انگریز عہد میں اس عالقے ک اصل اج ڑہ ہوا۔ ان کے‬ ‫حوالہ سے قتل و غ رت اور لوٹ م ر تو الگ ب ت ہے اس‬ ‫نے ٹی ے ک ٹ کر جیل خ نہ ت میر کی ‘ ری وے الیین بن ئی ‘‬ ‫پولیس الیین بن ئی گئی۔ دف تر ت میر ہویے۔ ان ٹی وں کی‬ ‫آغوش سے دستی ہونے والے نوواردت ک کی ہوا کوئی‬ ‫نہیں ج نت ۔ انگریز لے گی ہوگ ۔ اس کے گم شتوں کے‬ ‫گھروں کی زینت ٹھہرے ہوں گے۔ ابھی قری کی تب ہی‬ ‫میں ٹی ے ب ڈوز ہوے ہیں اور مٹی سڑک پر پڑی۔ اس طرح‬ ‫سڑک ک فی اونچی ہو گئی ہے اور ٹی وں سے م نے والے‬ ‫نوادرات ک ات پت م و نہیں۔‬


‫‪28‬‬

‫ح جی گگن ک مزار آب دی سے بتتس فٹ کی ب ندی پر ہے‬ ‫اور آب دی موجودہ زمین سے سترہ سے سنتیس فٹ ہے۔‬ ‫ح جی گگن پٹھ ن ہیں اور ان ک دور سالطین ک ہے۔ پیر‬ ‫بولن ک مزار ٹی ے پر ہے۔ بقول احس ن هللا کیرئر ٹیکر‬ ‫گورنمنٹ اسالمیہ ک لج قصور پیر بولن کے قری ٹیال جو‬ ‫ت میر شدہ مزار سے ب ند تھ اسے ڈھ کر زمین ک شت کے‬ ‫ق بل بن ئی گئی ہے ۔ مزار آج بھی اوپر ہے۔ اس ٹی ے کے‬ ‫قدموں سے نیچے تیس سے پنتس فٹ پر زیر حوالہ زمین‬ ‫پر فصل بوئی گئی ہے۔ مزے کی ب ت یہ کہ یہ زیر ک شت‬ ‫زمین بھی ٹی ے پر ہے۔ اس طرح یہ کوئی بہتر فٹ ب ندی‬ ‫بنتی ہے۔‬ ‫پیر بولن کے مت‬

‫کچھ م وم ت وہ ں درج ہیں‬

‫ن حضرت عط هللا خ ن خویشگی ت ریخ پیدایش ‪480‬‬ ‫عیسوی وف ت ‪ 550‬عیسوی(‪4‬‬


‫‪29‬‬

‫ان ک روضہ مب رک شہنش ہ شہ الدین غوری نے ت میر‬ ‫کروای ۔ حضرت خواجہ خواجگ ن م ین الدین چشتی تب یغ‬ ‫اسال کے لیے آئے تو اس مزار پر ح ضری دی۔ حضرت‬ ‫ب ب فرید‘ حضرت خواجہ نظ الدین اولی ء‘ حضرت خواجہ‬ ‫عالؤالدین ک یر‘ حضرت ع ی احمد ص بر حضرت امیر‬ ‫خسرو‘ حضرت خواجہ نصیر الدین‘ حضرت خواجہ بندہ‬ ‫نواز گیسو دراز نے اس مزار پر ح ضری دی۔‬ ‫ان م وم ت سے یہ واضع نہیں ہوت کہ آپ ک ‘ کہ ں سے‬ ‫اور کس مقصد سے یہ ں تشریف الئے ۔ بڑے بڑے اہل‬ ‫تصوف کی تشریف آوری سے یہ ضرور واضح ہوت ہے کہ‬ ‫آپ عظی صوفی رہے ہوں گے۔ خویشگی سے واضح ہوت‬ ‫ہے کہ افغ نی ہوں گے۔ فتح خیبر کے موقع پر ان کے بڑے‬ ‫اسال الءے ہوں گے۔ یہ بھی طے ہوت ہے کہ آپ ک ت‬ ‫عہد سالطین سے ہے۔ آپ ک مزار ٹی ے پر ہے۔ ص ف ظ ہر‬ ‫ہے اس ٹی ے پر آب دی رہی ہو گی جنہیں وہ اسال سے‬ ‫مت ت ی دیتے رہے ہوں گے۔ آپ کے عمدہ کردار کی‬ ‫وجہ سے یہ ں کے لوگ عزت دیتے ہوں گے۔ ت ہی تو‬ ‫س کچھ مٹ گی ہے لیکن ان کے درب ر کو نقص ن نہیں‬


‫‪30‬‬

‫پنچ ی گی ۔ یہ کوئی ضروری نہیں کہ یہ مس م نوں کی آب دی‬ ‫رہی ہو۔ ان پیروں فقیروں اور اہل س وک کو دیگر مذاہ‬ ‫کے لوگ بھی عزت دیتے آئے ہیں۔‬ ‫پیر بولن سے دائیں کچھ ہی ف ص ے پر پنج پیر ک مزار‬ ‫ہے۔ یہ مزار بھی ٹی ے پر ہے۔ یہ ٹیال بھی تقریب اتنی ہی‬ ‫ب ندی پر ہے ب کہ یہ کہن زی دہ من س ہو گ کہ یہ ٹیال وہی‬ ‫ٹیال ہے اور یہ ں بھی صرف مزار ہی ب قی ہے۔ اس کے‬ ‫تھوڑے ف ص ے پر ری وے الئین تھی۔ قر و جوار میں‬ ‫آب دی موجود نہیں۔ ص ح مزار ک بسیرا یقین آب دی میں‬ ‫رہ ہو گ ۔ آب دی ن بود ہو گئ لیکن مزار ب قی ہے۔ مزار پر‬ ‫چھت نہیں۔ طرز ت میر اور اس ک چون گ را وغیرہ عہد‬ ‫سالطین سے ت رکھت ہے۔ ص ح مزار ک احترا رہ ہو‬ ‫گ ت ہی تو کسی ب دش ہ نے اس درب ر کی ت میر کروائی‬ ‫ہو گی۔‬ ‫مزار سے کچھ ف ص ے پر ایک مختصر س قبرست ن ہے۔ یہ‬ ‫قبرست ن ایک چوکھنڈی میں ہے۔ اس چوکھنڈی کے اندر‬


‫‪31‬‬

‫پھر چ ر دیواری ہے۔ یہ چوکھنڈی بھی پرانی ہےاس‬ ‫چوکھنڈی کے اندر ص ح ج ہ کو دفن کی گی ہو گ ۔ س منے‬ ‫دیوار کے س تھ بڑے اہتم والی قبر اس کی ہو گی۔ یہ قبر‬ ‫جھ ڑیوں اور ایک درخت کے نیچے آگئی ہے۔ اندر کی چ ر‬ ‫دیواری میں اور بھی قبریں ہیں۔ یہ قبریں ب د کی ہیں‘ جو‬ ‫کچی ہیں۔ اندر کی چ ردیواری کے ب ہر بھی قبریں بن‬ ‫کی ہے۔ یہ قبر کسی‬ ‫گءیں۔ ان میں سے ایک قبر‬ ‫پیر ص کی ہے۔ یقینی طور پر یہ پنج پیر ص ح کے‬ ‫مج ور کی رہی ہو گی۔ موجودہ مج ور جو ک فی عمر رسیدہ‬ ‫ہے‘ کے کسی بڑے کی قبر نہیں۔‬ ‫پنج پیر کے ن کی یہ پہ ی قبر نہیں ہے۔ اس ن کی قبریں‬ ‫بہت سے عالقوں میں م تی ہیں۔ اس ٹی ے کے آخری گ ؤں‬ ‫سہجرہ میں بھی پنج پیر ن کی قبریں موجود ہیں۔ چ ر‬ ‫دیواری جو ک فی پرانی ہے کے اندر پ نچ قبریں ہیں۔‬ ‫دروازے پر پنج پیر کی تختی آویزاں ہے۔ پنج پیر عالمتی‬ ‫عرفی ی پھر م روفی ن ہے۔‬ ‫بنو امیہ کے دور سے س دات ڈسٹر ہیں۔ زمین ان پر تنگ‬ ‫کر دی گئ اس لیے انہیں وہ ں سے مہ جرت اختی ر کرن‬


‫‪32‬‬

‫پڑی۔ برصغیر مہ جر اور ست ئے ہوئے لوگوں کو بخوشی‬ ‫پن ہ دیت آی ہے۔ منصورہ‘ کراچی میں ف طمی حکومت بھی‬ ‫رہی ہے۔ محمد بن ق س ان س ادات کے ت ق میں برصغیر‬ ‫آی تھ ۔ ب د میں اور بہت سی کہ نی ں گھڑ لی گئیں۔ س دات‬ ‫کے حوالہ سے پنج پیر ی پنج تن ف رسی مرک ہوتے‬ ‫ہوئے ت ہمی حوالہ سے مق می بن گی ۔‬ ‫برصغیر کے کچھ حصوں میں ایسے ہندو بھی رہے ہیں جو‬ ‫خود کو پنج پیر ک پیرو ک ر بت تے ہیں۔ ہر بھگت خود ان‬ ‫پنج پیروں ک انتخ کرت ہے۔ بہر طور اس کی صورتیں یہ‬ ‫رہی ہیں۔‬ ‫حضور اکر ‘ حضرت ع ی‘ حضرت ف طمہ‘ حضرت حسن‬ ‫اور حضرت حسین‬ ‫پ نچ پ نڈو‬ ‫درگ ہ دیوی‘ گرو‘ خواجہ س ط ن‘ ' گگ پیر‘ اس عہد ک‬ ‫)م روف پیر (‬ ‫)شیخ س میل‘ ش ہ دولت‘ شخ فتح ع ی خ ں اورش ہ مراد (‪6‬‬


‫‪33‬‬

‫م ین الدین چشتی‘ نظ الدین اولی ء‘ نصیر الدین ابو‬ ‫الخیر‘ خواجہ خضر‘ سید جالل الدین‬ ‫خواجہ خضر‘ سید ج الل الدین‘ زکری م ت نی‘ الل شہب ز‬ ‫ق ندر‘ خواجہ فرید‬ ‫سکھوں میں‬ ‫خواجہ خضر‘ درگ ہ دیوی‘ وشنو‘سخی سرور‘گرو گوبند‬ ‫سنگھ‬ ‫گگ پیر‘ ب لک ن تھ‘ ٹھ کر‘سخی سرور‘ شیو‬ ‫)(‪7‬‬ ‫پنج پیر کی قبر پندرہ فٹ ی نی پ نچ گز لمبی ہے۔ لمبی‬ ‫قبریں بن نے ک رواج عہد سالطین میں نظر نہیں آت ۔ عہد‬ ‫سالطین کی بہت س ری قبریں دیکھنے ک ات ہوا ہے۔‬ ‫انٹرنیٹ پر سالطین کی قبریں موجود ہیں‘ روٹین کی قبریں‬ ‫دیکھنے کو م تی ہیں۔ لمبی قبریں بن نے کے حوالہ سے‬ ‫زب نی کالمی مخت ف روای ت م تی ہیں۔ مثال‬ ‫‪.‬سردار ی کی بڑے آدمی کی قبر لمبی بن ئ ج تی تھی۔ ‪1‬‬


‫‪34‬‬

‫یہ ں سردار اپنے وزیروں کے س تھ بیٹھ کر کچری لگ ت ‪.‬‬ ‫تھ ‪2.‬‬ ‫ہنگ می ح الت میں م ل و دولت دفن کر دی ج تھ ‪3.‬‬ ‫۔ مرنے والے کے قد کے مط ب قبر بن ئ ج تی تھی۔ ‪4‬‬ ‫ب ض اوق ت اگ ے زم نے کی کھیت کی وٹ کو قبر سمجھ‬ ‫لی گی ‪5.‬‬ ‫میں ان میں سے کسی پوائنٹ پر گ تگو نہیں کروں گ ۔‬ ‫زیر حوالہ قبر کی عم رت عہد سالطین کی ہے ہ ں البتہ قبر‬ ‫کی ت میری تجدید کی گئ۔ بت تے ہیں قبر کی ح لت خستہ ہو‬ ‫گئ تھی۔ عم رت کی ح لت بھی بہتر قرار نہیں دی ج سکتی‬ ‫ت ہ ق بل رح نہیں۔ عم رت بت تی ہے کہ عم رت کسی‬ ‫مس م ن س ط ن نے ت میر کروائی ہو گی۔ عم رت ک ڈازائین‬ ‫اسالمی ت میرات سے ت رکھت ہے۔ ص ح قبر ک احترا‬ ‫رہ ہو گ ت ہی تو عم رت ت میر کی گئ ہو گی۔ اگر ن‬ ‫م روف ہوت تو عرفی ن نہ دی گی ہوت ۔ س ت آٹھ سو س ل‬ ‫ت ریخ میں کچھ زی دہ نہیں ہوتے۔ پیر بولن ک اصل ن آج‬ ‫بھی لوگوں کو م و ہے۔ یہ قبر قبل مسیع سے ت‬


‫‪35‬‬

‫رکھتی ہے۔ حضرت عیسی ابن مری تک آتے قد ن رمل ہو‬ ‫گی تھ ۔ ب کہ دو ہزار پ نچ سو س ل تک آدمی ک قد غیر‬ ‫م مولی نہیں رہ تھ ۔‬ ‫حضرت موسی ک قد تیس فٹ ی تیس گز ی تیس ہ تھ بت ی‬ ‫ج ت ہے۔ عوج بن عن بن آد ک قد ن ق بل یقین حد تک بت ی‬ ‫ج ت ہے۔ یہ ب ت تین ہزار س ل پہ ے کی ہے۔ ان کے عہد‬ ‫میں انس ن ک عمومی قد اتن ہی کہ ج ت ہے۔ ان سے پہ ے‬ ‫کے لوگ اس بھی زی دہ قد والے تھے۔‬ ‫مق می انبی ء کے عالوہ دیگر والئیتوں سے انبی ء نے تبیغ‬ ‫کی غرض سے یہ ں تشریف النے کی زحمت گوارا فرم ئی۔‬ ‫حضرت آد کے بیٹے حضرت قنبط حضرت ص دان حضرت‬ ‫شیث وغیرہ یہ ں تشریف الئے۔حضرت قنبیط حضرت موسی‬ ‫حج زی حضرت ط نوخ حضرت آمنون وغیرہ کی قبریں یہ ں‬ ‫موجود ہیں۔ براس میں حضرت ہند بن ح بن عبدالغ ر‬ ‫الم روف نوح کی قبر موجود ہے۔ یہ س قبریں لمبی ہیں‬ ‫اور آج بھی ان ک احترا ب قی ہے۔ لوگ زی رت کے لیے‬ ‫وہ ں ج تے ہیں۔ ان حق ئ کے پیش نظر کہ ج سکت ہے‬ ‫کہ زیر گ تگو قبر حضرت موسی کے عہد سے تھوڑا ب د‬


‫‪36‬‬

‫کی ہے اور نسل در نسل احترا چال آ رہ ہے۔ میں یہ نہیں‬ ‫کہہ سکت کہ یہ قبر کسی نبی کی ہے۔ اس ذیل میں کوئی‬ ‫ص ح کشف ہی کال کر سکت ہے ت ہ یہ ضرور کہ ج‬ ‫سکت ہے یہ رشد و ہدایت سے مت شخص ہیں اور ان ک‬ ‫زم نہ ست ءس ی اٹھ ئیس سو س ل پہ ے ک رہ ہو گ ۔ ق ری‬ ‫کے ذہن میں یہ ب ت رہنی چ ہیے کہ یہ قبر ٹی ے کی ب الئی‬ ‫سطع پر ہے۔ ٹیال ایک سو س ٹھ سے دو سو فٹ نیچے ج ت‬ ‫ہے۔‬ ‫روہے وال جہ ں ت ن سین کی ج گیر تھی ب ند و ب ال ٹی ے پر‬ ‫ہے۔ اس آب دی ک بغور مط ل ہ کی ج ئے تو یہ ں عج ئب ت‬ ‫ک کھال پنڈر نظر آت ہے۔ یہ ں ک از ک چھ آب دی ں تھیں۔‬ ‫عالقے کے آغ ز سے تھوڑے ف ص ے پر قبرست ن آت ہے۔‬ ‫اس قبرست ن میں ب ب عبدالکری جو پیر سید غال نبی ش ہ‬ ‫کی اوالد سے تھے کی قبر ہے۔ اس کے عالوہ اور بھی‬ ‫پرانی قبریں ہیں۔ کچھ قبریں م دو ہو چکی ہیں فقط نش ن‬ ‫ب قی ہیں۔ قبرست ن کے اندر اور قبر کے قری بہت مختصر‬ ‫دیوار بھی ہے بقیہ دیوار خت چکی ہے۔ ب ب عبدالکری ک‬ ‫مقبرہ ہے اور اس پر مج ور بھی موجود ہے۔ موجود‬


‫‪37‬‬

‫صورت میں یہ قبرست ن مغ یہ عہد سے پیچھے نہیں ج ت ۔‬ ‫اس ذیل میں کوئی ایسی چیز دستی نہیں ہوتی۔ اس‬ ‫قبرست ن کے پیچھے دائیں اور ب ئیں آب دی کے نش ن‬ ‫موجود ہیں۔ یہ قبرست ن بھی ٹی ے پر ہے ت ہ بظ ہر ٹیال‬ ‫موجود نہیں پکی سڑک اور قبرست ن برابر سطع پر آ گی‬ ‫ہے۔‬ ‫اس قبرست ن سے آگے پران قبرست ن ہے۔ یہ ں ش ہ ع ل‬ ‫شیر ک مقبرہ ہے۔ مجھے یہ ن عرفی لگت ہے۔ ان ص ح‬ ‫ک ت مغ یہ دور سے لگت ہے۔ یہ حجرے میں ہے۔ یہ ں‬ ‫اور بھی قبریں موجود ہیں۔ یہ ں چ ر دیواری رہی ہو گی۔‬ ‫اس چوکھنڈی کے اندر مقبرے کے عالوہ تین چیزیں اور‬ ‫بھی ق بل توجہ ہیں۔ اس کے اندر ایک کنواں ہے۔ ا اس‬ ‫میں صرف ب رش ک پ نی ہے۔ اسے پر کرنے کے ب وجود‬ ‫اس کی گہرائ س ٹھ فٹ ہے۔ یہ کنواں یہ ں کی پوری آب دی‬ ‫کے است م ل میں رہ ہو گ ۔ اس کنویں ک ت عہد سالطین‬ ‫سے لگت ہے۔ یہ ں یقین کسی دور میں بڑی رون رہی ہو‬ ‫گی۔ یہ کنواں مغ یہ عہد میں بھی است م ل میں رہ ہو گ ۔‬ ‫اس چ ر دیواری سے ب ہر‘ جنو میں قری ہی ایک‬


‫‪38‬‬

‫عم رت ہے۔ تجدید کے ب وجود قدی نش ن ت ابھی موجود‬ ‫ہیں۔ ا یہ جن ز گ ہ وغیرہ کے طور پر است م ل ہوتی ہے۔‬ ‫یہ عم رت مغ یہ عہد سے سے ت رکھتی ہے۔ عم رت ک‬ ‫محرا ا بھی قدی ہے‘ سے واضح ہوت ہے کہ یہ مغ یہ‬ ‫عہد سے مت ہے۔ اس کے دائیں اور پیچھے رہ یشی‬ ‫ٹی ے ہیں۔ یہ ں یقین آب دی ں رہی ہوں گی۔‬ ‫ش ہ ع ل شیر کے مقبرے کی چوکھنڈی کے اندر ایک قدی‬ ‫حجرہ اور ایک برآمدہ ہے۔ برآمدے کو تجدید دی گئ ہے۔‬ ‫اس کے س منے والے حصے پر مہ ع ل درج ہے۔ قریب‬ ‫چ ر ک و میٹر پر گ ؤں مہ ل آب د ہے۔ قصور میں دو مہ ل‬ ‫آب د ہیں۔ مہ ع ل حقیقی ن نہیں‘ است راتی ن ہے۔ ش ہ‬ ‫ع ل ک مہ ع ل سے کوئی ن کوئی ت ضرور ہے۔ مہ ع ل‬ ‫ص ح کی نسل موجود ہے لیکن وہ ت صیالت سے آگ ہ‬ ‫نہیں۔ یہ دونوں‘ ش ہ ع ل اور مہ ع ل شیر یقین مغ یہ عہد‬ ‫سے مت رہے ہوں گے۔‬


‫‪39‬‬

‫ش ہ ع ل شیر کی چوکھنڈی سے ب ہر مشر میں ایک‬ ‫چوبترے پر چ ر دیواری میں قبر ہے۔ اس قبر پر چھت‬ ‫نہیں۔ یہ درب ر ش ہ ع ل شیر سے پ د ک ہے۔ اس قبرست ن‬ ‫میں نئ پرانی اور زی دہ پرانی قبریں ہیں۔ تین قبریں بن وٹ‬ ‫کے حوالہ سے دیگر قبروں سے ب لکل الگ تر ہیں۔‬ ‫چوروں نے سنے سن ئے پر یقین کرتے ہوئے ایک قبر‬ ‫کھودی ہے۔ اندر سے م ل مال ی نہیں‘ کچھ نہیں کہ ج‬ ‫سکت ۔ اس حوالہ سے چور ہی بہتر بت سکتے ہیں۔ اس‬ ‫کھولی ہولی ہوئی قبر کے اندر کوئی راز ضرور دفن ہے۔‬ ‫دوسری قبر کو بھی کھوال گی ہے لیکن سوراخ پر دوب رہ‬ ‫سے اینٹیں رکھ دی گئی ہیں۔ موب ئل ی ٹ رچ کی روشی‬ ‫سے اندر جھ نک گی ہو گ ۔ کچھ نہیں نظر آی ہو گ ت ہی‬ ‫تو مزید تررد نہں کی گی ۔‬ ‫کھولی ج نے والی قبر ک کمرہ زی دہ ہے۔ یہ س ڑھے چھے‬ ‫فٹ لمب س ڑھے چ ر فٹ چوڑا اور پ نچ فٹ س ت انچ گہرا‬ ‫ہے۔ دونوں طرف دی رکھنے کے لیے آلے سے بنے‬ ‫ہوءے ہیں۔ پہ ے میں اسے سرنگ سمجھ تھ کیونکہ یہ‬ ‫اینٹ نئ لگتی ہے۔چھت پر عجی گول س آلہ بن ی گی ہے‬


‫‪40‬‬

‫ب د میں دیکھ تو م و ہوا داڑے م ے ہوئے ہیں۔ اندر‬ ‫آنے ج نے ک رستہ موجود نہیں۔ اس کے قری ہی زمین‬ ‫بوس چھوٹی سی چ ر دیواری ہے ۔ یوں لگت ہے یہ ں کوئ‬ ‫بیٹھت ہو گ ۔ قبر یقین زمین سے اونچی ہو گی۔ ا زمین‬ ‫اور قبر ک نچال حصہ برابر ہو گی ہے۔ یہ تینوں قبریں اپنے‬ ‫عہد میں بڑی ہی خوبصورت اور ش ہک ر رہی ہوں گی۔‬ ‫ب الئی سطع پر قبر بر چون است م ل کی گی جبکہ اندر‬ ‫چونے کے س تھ گ رے ک بھی است م ل کی گی ۔ اس قبر ک‬ ‫سالطیں کے عہد سے رشتہ م و ہوت ہے۔‬ ‫یہ قبر اور دوسری دو قبریں اپنے دامن میں ضرور کوئ‬ ‫بہت بڑا راز لیے ہوءے ہیں۔ میں نے اس ک کھوج لگ نے‬ ‫کی س ی کی ہے لیکن بوڑھ لٹھ بردار مج ور آڑے آگی ۔‬ ‫اس قبر کے شرقن م قول آب دی رہی ہو گی۔ یہ ں دو نو گزا‬ ‫قبریں بھی موجود تھیں چوروں نے انھیں بھی اڈھیڑ ڈاال ۔‬ ‫ا وہ ں صرف پر کیے ہوئے کھڈے ب قی رہ گیے ہیں اس‬ ‫لیے ان کے ب رے کچھ بھی عرض کرنے سے ق صر ہوں۔‬


‫‪41‬‬

‫ح لیہ آب دی کچھ س ل پہ ے روہے وال کے ٹی ے پر موجود‬ ‫پرانے مک نوں میں آب د تھی۔ چند ایک کے سوا ب قی آب دی‬ ‫ٹی ے سے نیچے آ گئ ہے۔ یہ بھی پہ ے ٹیال تھ ا اونچ‬ ‫ہو گی ہے۔ ٹی ے کی انچ ئی ا بھی تینتس فٹ سے انچ س‬ ‫فٹ ہے۔ تم مک نوں میں ایک مک ن خصوصی توجہ ک‬ ‫ح مل ہے۔ دیواریں کسی ق ہ کی سی دیواریں ہیں۔ تنگ گ ی‬ ‫اصل گ ی سے اونچی ہو گئی ہے اور گ ی موجودہ عہد کی‬ ‫اینٹوں سے ت میر کی گئ ہے۔ دیوار کی چوڑائ اٹھ رہ فٹ‬ ‫ہے۔ شرقی حصہ مسم ر ہو گی ہے۔ اس سے آگے ٹیال بھی‬ ‫خت ہو گی ہے۔ میرے خی ل میں یہ اس والیت کے مکھی‬ ‫ک گھر رہ ہو گ ۔ مکھی کی رہ یش گ ہ اوروں سے الگ تر‬ ‫رہی ہے۔ ٹی ے پر آب دی ب لکل خت نہیں ہوئی۔ اترائی‬ ‫چڑھ ئی سے لگت ہے ایبٹ آب د آگئے ہوں۔ مک ن مسم ر‬ ‫کرکے ایک مسجد ٹی ے پر بن دی گئ ہے۔ موجودہ ٹیال بھی‬ ‫عج ئب ت ک مجموعہ ہے اور بہت سے راز رکھت ہے۔‬ ‫روہے وال سے کچھ آگے گ ؤں شیخ پور بھی میرے‬ ‫مش ہدے میں آی ۔ پرانے اث ر موجود ہیں لیکن بہت ک ۔ یہ‬ ‫اصل میں شیخوپور تھ ۔ شیخو اکبر کے بیٹے ک حضرت‬


‫‪42‬‬

‫س ی چشتی کے حوالہ سے فیم ی ن تھ ا ور یہ عالقہ‬ ‫شیخو کو بطور ج گیر عط ہوا ہو گ ۔ ب د کے دنوں میں‬ ‫کوئ ص ح کرامت بزرگ یہ ں تشریف الئے ہوں گے اور‬ ‫شیخ ان ک عرفی ن رہ ہو گ اس لیے ان کے عرفی ن‬ ‫شیخ کے حوالہ سے شیخ پور ٹھہر گی ہو گ ۔ یہ ں ب ب‬ ‫گ زار ش ہ ک مقبرہ ہے۔ یہ بزرگ نو مس تھے۔ ان کے‬ ‫مت بہت سی کہ نی ں مشہور ہیں۔ کہ ج ت ہے ب پ سے‬ ‫لڑ کر یہ ں آ کر آب د ہو گیے۔ ہو سکت ہے نسال ہندو بنی‬ ‫ہوں۔ انہیں شیخ بھی کہ ہو گ ۔ یہ ص ح ‪ 1947‬میں فوت‬ ‫ہوئے۔ لوگ آج بھی وہ ں ج تے ہیں اور یہ ں گی رویں ک‬ ‫ب ق ئدگی سے خت ہوت ہے۔‬


‫‪43‬‬

‫‪8‬‬ ‫کم ل چشتی سے سہجرہ‬ ‫تک بڑے عجی وغری من ظر دیکھنے کو م تے ہیں۔‬ ‫۔سہجرہ ہے تو دیہ ت لیکن اسے گ ؤں کہن بڑا عجی لگت‬ ‫ہے۔ یہ ں زندگی کی ہر چیز دستی ہے ح النکہ یہ قصور‬ ‫سے بہت دور واقع ہے۔ اس کے آگے انڈی ہے۔ اس گ ؤں‬ ‫کی تقریب دو تہ ئ آب دی ٹی ے پر آب د ہے۔ یہ بھی ایبٹ آب د‬ ‫کی طرح اترائ چڑھ ی پر استوار ہے۔ یہ گ ؤں روہے وال‬ ‫سے کہیں بڑا ہے۔ ت حد نظر ٹی ہ ہے۔ مک ن نءے بھی ہیں‬ ‫اور پرانے بھی۔ کچھ مک ن نئے ہیں لیکن ان میں پرانی‬ ‫اینٹیں بھی است م ل میں الئی گئی ہیں۔ روہے وال کے‬ ‫مک ن ت میں زی دہ تر پرانی اینٹیں است م ل میں الئ گئ ہیں۔‬ ‫ب الئی سطع کے مک ن پرانے ہیں۔ چھت بدل دی گئی ہے‬ ‫اور دیواروں پر مٹی کے گ رے سے لیپ کر دی گی ہے‬ ‫لیکن اندر وہی پرانی دیواریں ہیں۔‬ ‫لوگوں ک کہن ہے گھر کے اندر گ ی بن تے ی کسی قس کی‬ ‫کھدائ کرتے انس نی ہڈی ں م تی ہیں۔ پرانے برتنونں کے‬


‫‪44‬‬

‫ٹکڑے وغیرہ م تے رہتے ہیں۔ ٹی ے سے نیچے بھی اس‬ ‫طرح کی چیزیں م تی رہتی ہیں۔ ہڈی نہ تھ لگ تے ہی مٹی ہو‬ ‫ج تی ہیں۔ ان ک کہن ہے ب ض درختوں کے ٹکڑے پتھر کی‬ ‫طرح سخت ہو گئے ہیں ب کہ پتھر ک ٹکڑا م و ہوتے۔‬ ‫نچ ی سطع پر یہ صورت ہو تو ب ت سمجھ میں آتی ہے‬ ‫لیکن ب الئی سطع پر اس قس کی صورت ہو تو اس کے‬ ‫سوا کچھ سمجھ میں نہیں آت کہ ٹی ہ مزید تیرہ سے ب ءیس‬ ‫فٹ اونچ تھ جو کھ ر ی زمین کی سطع برابر کرنے کے‬ ‫لیے تین سے زی دہ ب ر مسم ری ک شک ر ہوا ہے۔ ایک ع‬ ‫آدمی کو پرانے برتنوں کے ثکڑوں ی ہڈیوں وغیرہ سے کی‬ ‫دلچسپی ہو سکتی ہے۔ زمین میں حل چالتے ی سہ گہ‬ ‫کرتے بھی اکثر ہڈی ں وغیرہ م تی رہتی ہیں۔ قیمتی اشی ء‬ ‫وغیرہ کوئی کیوں بت ئے گ ۔ زیورات بھی م تے ہوں گے۔‬ ‫اوپر ٹی ے پر ایک مکمل چ ر دیواری کے اندر پ نچ قبریں‬ ‫ہیں اور ب ہر پنج پیر کی تختی آویزاں ہے۔ یہ پ نچ قبریں کن‬ ‫کی ہیں کوئ نہیں ج نت ۔ اس چ ر دیواری کے ب ہر ایک‬ ‫مغ یہ عہد کی قبر ہے۔ اس چ ر دیواری کی دوسری طرف‬ ‫ایک کھ ئی ہے۔ کھ ئی کے دونوں طرف نئے پرانے درخت‬


‫‪45‬‬

‫ہیں۔ بہت پرانے درختوں کی جڑیں نظر آتی ہیں۔ یہ جڑیں‬ ‫پتھر کی طرح سخت ہو گئی ہیں۔ کھ ئی سے تھوڑا ف ص ے‬ ‫پر ایک چوکھنڈی ہے۔ اس میں دو قبریں س دات سے‬ ‫مت بہن اور بھ ئ کی ہیں جنہوں نے ت حی ت ش دی نہیں‬ ‫کی اور عمر عب دت الہی میں گزار دی۔ ایک قبر کے مت‬ ‫کہ ج ت ہے کہ راتوں رات چل کر آئی ہے ی نی رات کو‬ ‫نہیں تھی لیکن صبح کو تھی۔ قری ہی ایک قبر ک نش ن‬ ‫فٹ‬ ‫ب قی رہ گی ہے قبر خت ہو گئی ہے۔ یہ مرحومہ‬ ‫لمبی ہے۔ بہت ہی پران قبرست ن یہ ں دیکھنے کو م ت ہے۔‬ ‫قبریں خت ہو گئی ہیں۔ قبروں کی اینٹیں وغیرہ بکھری پڑی‬ ‫ہیں۔ ان چیزوں ک رشتہ ابتدائی مغ یہ عہد سے بالت مل‬ ‫جوڑا ج سکت ہے۔ کچھ چیزیں عہد سالطین سے بھی ت‬ ‫رکھتی ہیں۔ میں نے ان کی تص ویر لی ہیں انہیں دیکھ کر‬ ‫آپ ان کے زم نے ک بخوبی اندازہ کر سکیں گے۔‬ ‫ٹی ے کی ب الئی سطع پر قبرست ن کی قبریں مسم ر کرکے‬ ‫ایک ڈیرہ س بن ی گی ہے۔ یہ ڈیرہ دو کن ل زمین سے ک‬ ‫نہیں ہو گ ۔ اس کے چ روں طرف لوہے کی ت ر سے ب ڑ بن‬ ‫دی گئی ہے۔ اندر آلو کے بیج کی بوری ں وغیرہ رکھی ہوئی‬


‫‪46‬‬

‫ہیں۔ س منے ب بے ح ک ش ہ ک مقبرہ ہے۔ مقبرے سے ب ہر‬ ‫ایک نو فٹ لمبی قبر ہے۔ ب بے ح ک ش ہ کے مقبرے ک‬ ‫مج ور بھال آدمی ہے۔ ج میں نے بت ی کہ میں سید زادہ‬ ‫ہوں تو بڑے ہی احترا سے پیش آی ۔ اس نے مجھ ن چیز‬ ‫کو ایک چ در اور ایک سو رویہ نذر کی ۔ میرے س تھ میں‬ ‫میرا منہ بوال بیٹ ف رو اور میرے گھر والے کچھ کھ نے‬ ‫کو بیٹھ گئے۔ میں نے دو روٹی ں ص د حسین مج ور‬ ‫مقبرہ ہذا کو بھوائیں۔ اس نے دو بسکٹ کے پیکٹ رکھ کر‬ ‫چنگیر واپس بھجوائی۔ اس سے مجھے خوشی ہوئی کہ‬ ‫ص د حسین ح ظ مرات سے خو آگ ہ ہے۔ میری دع‬ ‫ہے هللا اس پر آس نیوں کے دروازے کھولے۔اس طرح میں‬ ‫نے کم ل چستی کے شرقی ٹی ے ک کئ نشتوں میں س ر‬ ‫تم کی ۔ ق ری کو ب ور رہن چ ہیے کہ میں نے ٹی ے کی‬ ‫ب الئی سطع کے احوال بی ن کیے ہیں۔‬ ‫کم ل چشتی ک غربی ٹیال مسم ر کر دی گی ہے۔ سٹرک کے‬ ‫س تھ مخت ف اشی ء کے مت دوک نیں بن گئی ہیں۔ یہ زمین‬ ‫سرک ری ہے ی ان دوک نوں والوں کو رجسٹرڈ ہو گئ ہیں‘‬ ‫مجھے کچھ م و نہیں۔ سڑک سے ک فی پیچھے ج کر‬


‫‪47‬‬

‫ٹی ے موجود ہیں۔ ان ٹی وں پر اور ان ٹی وں سے نیچے‬ ‫آب دی موجود ہے۔ ٹی وں کی ب ندی سترہ سے چھتیس فٹ‬ ‫رہ گئی ہے۔ ان ٹی وں کو ڈھ نے ک عمل ابھی تک ج ری‬ ‫ہے۔ یہ مٹی مخت ف عالقوں کو بھرتی کے لیے سپالئی‬ ‫ہوتی ہے۔ اس مس سل عمل کی وجہ سے کم ل چشتی کے‬ ‫غربی ٹی ے خت ہو رہے ہیں۔ اگ ے پ نچ دس س لوں میں‬ ‫س کچھ خت ہو ج ءے گ ۔ کوئی بھی نہیں ج ن سکے گ‬ ‫کہ یہ ں کبھی ٹی ے بھی تھے۔ م م ہ سن ہے کے حص ر‬ ‫میں چال ج ئے گ ۔ مجھے ان ٹی وں میں سے مٹی کے‬ ‫برتنوں کے ٹوٹے ٹکڑے‘ ہڈی ں‘ پرانے درختوں کی لکڑی‬ ‫کے ٹکڑے وغیرہ م ے ہیں۔ درختوں کی لکڑی کے‬ ‫ٹکڑے لوہے کی م ند ہو چکے ہیں۔‬ ‫غربی ٹی وں میں رستے بنے ہوئے ہیں۔ ایک رستہ کوٹ‬ ‫ح ی خ ن کو ج ت ہے۔ ری وے الئین واال رستہ اسال پورہ‬ ‫( ) سے ہوت ہوا ب ب فرید ص ح کی چ ہ گ ہ کی طرف‬ ‫ج ت ہے۔ چ ہ گ ہ والے عالقہ کو م ئی جوائی کہ ج ت ہے۔‬ ‫کوٹ ح ی خ ن ک بیرونی عالقہ جٹو کے قبرست ن تک ج ت‬ ‫ہے۔ یہی صورت اسال پورہ اور کوٹ مراد خ ن کی ہے۔‬


‫‪48‬‬

‫پچھ ے پچ س س ل میں صورت ح ل ہی بدل گئی ہے۔ یہ‬ ‫س میری آنکھوں ک دیکھ ہوا ہے۔ م ئی جوائی واال عالقہ‬ ‫ب ند ہو گی ہے۔ تم پرانی قبریں ص ف ہو گئ ہیں۔ یہ ں‬ ‫عالقہ بڑی ب ندی پر تھ اور عہد سالطین کی قبریں ع‬ ‫دیکھنے کو م تی تھیں۔ ک مل ش ہ واال قبرست ن بھی ب قی‬ ‫نہیں رہ ۔ خوشی کی ب ت یہ ہے کہ ب ب ص ح کی چ ہ گ ہ‬ ‫مح وظ ہے۔ چ ردیواری میں پران ون ک درخت بھی مح وظ‬ ‫ہے۔‬ ‫اسال پورہ جہ ں میرا بچپن کھی ت کودت رہ ہے کچھ ک‬ ‫کچھ ہو گی ہے۔ میں خود کو یہ ں اجنبی محسوس کر رہ‬ ‫تھ ۔ دو ب ر تو مجھے رستہ پوچھن پڑا۔‬ ‫جٹو واال قبرست ن آج سے کوئ پچ س پچپن س ل پہ ے‬ ‫سطع زمین سے اڑتیس سے ب سٹھ فٹ پر تھ ۔ نیچے روہی‬ ‫ن لہ بہت تھ ۔ پرانی اور پرانی ترین قبریں یہ ں موجود تھیں۔‬ ‫ا س سطع زمین کے برابر آ گی ہے۔ مک ن ت بن گءے‬ ‫ہیں ن لے والی جگہ پر سڑک نم گ ی بن گئ ہے۔ قبرست ن‬ ‫میں کھیل ک میدان بن گی ہے۔ قبرست ن دو حصوں میں بٹ‬ ‫گی ہے درمی ن میں بڑی ہی فراخ سڑک بن گئ ہے۔‬ ‫قبرست ن میں بھی جگہ جگہ کچی سڑکیں بن گئ ہیں۔ کوٹ‬


‫‪49‬‬

‫ح ی خ ن اور کوٹ مراد خ ن کے حوالہ سے اس قبرست ن‬ ‫ک ت کم ل چشتی کے ٹی ے سے بنت ہے۔ جٹو واال‬ ‫قبرست ن بہت ہی پران ہے۔ اس کے اطراف میں آب دی ں رہی‬ ‫ہوں گی۔ بذات خود یہ ں آب دی رہی ہو گی۔‬ ‫خواجہ ص ح واال قبرست ن بڑا پران بت ی ج ت ہے لیکن‬ ‫میرے خی ل میں یہ جٹو والے قبرست ن سے زی دہ پران‬ ‫نہیں۔ رضیہ س ط ن کی قبر کے حوالہ سے اس ک ت عہد‬ ‫سالطین سے بنت ہے۔ پیر اخوند س ید اسح ترک اور‬ ‫ح فظ س د هللا ق دری ال روف ڈیھے ش ہ کے حوالہ سے‬ ‫شیر ش ہ سوری اور اکبری عہد سے رشتہ بنت ہے۔ رضیہ‬ ‫س ط ن کی قبر ک طرز ت میر مغ یہ عہد سے مت نہیں۔اس‬ ‫نمونہ کی ایک اور قبر بھی یہ ں موجود ہے۔ اسی نمونہ کی‬ ‫تین قبریں روہے وال کے قبرست ن میں م تی ہیں۔ یہ ں نو‬ ‫گزا قبریں بھی تھیں جنہیں مسم ر کرکے خواجہ ص ح کی‬ ‫چ ر دیواری میں ش مل کر دی گی ہے۔ چ لیس س ل پہ ے وہ‬ ‫صحیح اور بہتر ح لت میں تھیں۔ اگر آج وہ موجود ہوتیں‬ ‫تو زم نے کے ت ین میں آس نی رہتی۔‬


‫‪50‬‬

‫)‪(5‬‬ ‫آرین کی برصغیر میں آمد کے حوالہ سے مخت ف ب تیں‬ ‫پڑھنے سننے کو م تی ہیں۔ ایک روایت کے مط ب وہ‬ ‫س ل پہ ے برصغیر میں داخل ہوئے۔ وہ‬ ‫سے‬ ‫ایک ہی نشت میں یہ ں نہیں آئے۔ وہ کئ نشتوں میں یہ ں‬ ‫آءے۔ چ رہ اور سبزی ت ہمیشہ سے انس ن کی ضرورت‬ ‫رہی ہے۔ اس عالقے سے بڑھ کر اس حوالہ سے کوئی‬ ‫والیت نہیں رہی۔ ان کی آمد سے مق می آب دی ں مت ثر ہوتی‬ ‫رہی ہیں۔ ۔پہ ے آرین یہ ں سٹ ہو پ تے تو دوسرے چ ے‬ ‫آتے اس طرح مق می اور مہ جر مق می بھی مت ثر ہوتے۔‬ ‫خون ریزی ک ب زار گر ہوت ۔ امالک تب ہ وبرب د ہو ج تیں۔‬ ‫رہ ییش گ ہیں مسم ر کر دی ج تیں۔ جو بچ ج تے مہ جرت‬ ‫اختی ر کر ج تے۔ اس طرح کسی دوسرے عالقوں میں نئ‬ ‫آب دی ں وجود میں آ ج تیں۔‬ ‫ا یہ پڑھنے ک ات ہوا ہے کہ آرینز نے پچیس ہزار س ل‬ ‫پہ ے آن شروع کی اور ایک لمبے عرصے تک برہم ورت‬


‫‪51‬‬

‫ی نی پنج کو اپن ٹھک ن بن یے رکھ ۔ ( ) ان کی آب دی‬ ‫ک گڑھ بی س کن رہ رہ ہے۔ وہ جگہ ک ٹتے نہیں تھے ب کہ‬ ‫جگہ ص ف کرکے رہ یش اختی ر کر لیتے تھے۔ گوی وہ‬ ‫وق ے وق ے سے یہ ں آتے رہے۔ ص ف ظ ہر ہے کہ ان ک‬ ‫ت خشک عالقے سے رہ ہو گ ۔ ب رانی اور خشک‬ ‫عالقے میں آب دیوں ک بہت ک رجح ن رہ ہے۔ یہ ں پ نی‬ ‫اور ہری لی کی آج کے سوا کبھی کمی نہیں رہی۔ ہ ہمیشہ‬ ‫اگ ی کت لکھنے کے لیے پرانی کت بوں سے ن صرف‬ ‫است دہ کرتے آیے ہیں ب کہ کٹ پیسٹ کی بیم ری بھی‬ ‫ہمیں الح رہی ہے۔ حرا ہے جو کسی نے موقع پر ج کر‬ ‫دیکھ بھی ہو۔ اگر ہ موقع پر ج کر دیکھنے کی زحمت‬ ‫اٹھ ءیں تو ش ید نت یج برعکس ی بہتر ہ تھ آ سکیں گے۔ دن‬ ‫بدن آث ر خت ہو رہے ہیں اس لیے اس م م ہ میں تس ہل‬ ‫کسی بھی حوالہ سے درست نہیں۔‬ ‫سندھ س ت دری ؤں کی دھرتی سمجھ ج ت تھ اور اس‬ ‫حوالہ سے دنی کی بہترین والءتوں میں سے ایک والیت‬ ‫تھی۔ ان س ت دری ؤں میں ایک بی س بھی تھ ۔ بی س ی‬ ‫کی تبدیل شدہ شکل ہے۔ ویپس ‪ Vipasha‬وی س دراصل‬


‫‪52‬‬

‫ویپش وریک اسی دری کے ن رہے ہیں۔ اس دری کے‬ ‫حوالہ سے بےشم ر کہ نی ں ت ریخ میں موجود ہیں۔ یہ دری‬ ‫برب دی ں الت رہ ہے۔ بیسیوں ب ر اس نے اپنے مکینوں کو‬ ‫ص حہ ہستی سے مٹ دی اس کے ب وجود لوگوں نے اس‬ ‫سے بےوف ئ نہیں کی۔ ب ر ب ر اس کے کن روں کو اپن‬ ‫مسکن بن ی ۔ اصل حقیقت یہ رہی ہے کہ اس ک پ نی فص وں‬ ‫کے حوالہ سے اپن بدل نہیں رکھت تھ دوسرا اس ک پ نی‬ ‫کھ را نہیں میٹھ اور صحت مند تھ ۔‬ ‫اس حوالہ سے بی سی خطے کی قدی تہذی کو سندھی‬ ‫تہذی سے الگ نہیں کی ج سکت ۔ وہ ں م نے والی قدی‬ ‫تہذی کے بہت سے آث ر یہ ں بھی ب آس نی تالشے ج‬ ‫سکتے ہیں۔ اسی طرح اس خطے کے اثرات وہ ں تالش‬ ‫کیے ج سکتے ہیں۔ اس بی ن کو صرف نظر نہیں کی ج‬ ‫سکت کہ یہ تہذی پچیس ہزار س ل پرانی ہے۔ کھدائ میں‬ ‫س ڑھے تین سے چ ر فٹ ب د زم نہ ہی بدل ج ت ہے ت ہ ان‬ ‫زم نوں میں کچھ مم ث توں ک مل ج ن حیرت کی ب ت نہیں۔‬ ‫یہ ضروری نہیں کہ وہ پہ ی آب دی کی ب قی ت رہی ہوں۔‬ ‫پہ وں کے س تھ نئے لوگوں کی اکثریت بھی موجود رہی‬


‫‪53‬‬

‫ہے۔‬ ‫بی س کی ‪ 470‬ک و میٹر ی نی ‪ 290‬میل لمب ئ تھی ۔ اس‬ ‫کے قر وجوار میں سیکڑوں چھوٹی بڑی بستی ں آب د‬ ‫تھیں۔ ہر آب دی ک اپن مکھی ہوا کرت تھ جسے راجہ‬ ‫مہ راج ب دش ہ وغیرہ ک درجہ ح صل ہوت تھ ۔ تکڑا ب دش ہ‬ ‫دوسری بستیوں پر قبضہ جم کر اپنی س طنت میں اض فہ‬ ‫کر لیت تھ ۔ ہر ری ست ی نی بستی کے اپنے اصول طور‬ ‫انداز اور ن ہوتے تھے لہذا اس عہد کے حس سے‬ ‫س ری والئتوں کو قصور ک ن نہیں دی ج سکت گو کہ وہ‬ ‫آج قصور ک حصہ ہیں۔ آج کی زب ن میں اور آس نی کے‬ ‫لیے اسے قصور ک ن دی ج سکت ہے۔ اس ب ت ک ت‬ ‫ہزاروں س ل سے نہیں ب کہ سیکڑوں س ل سے جڑی ہوئ‬ ‫ت ریخ سے بھی ہے۔ ابچیترا ن تک از گرو گوبند سنگھ‬ ‫کے مط ب قصور کش بن شری را نے بن ی جبکہ الہور‬ ‫الوا (لوہ) بن شری را نے بن ی ۔ یہ اس ایری کی الگ الگ‬ ‫دو والءتیں تھیں ن کہ پورا ایری ۔ یہ دونوں بڑے زبردست‬ ‫یودھ تھے۔ انھوں نے اور ب د میں ان کی اوالدوں نے دور‬ ‫نزدیک کے مم لک پر تس ط ح صل کر لی ۔ اس حوالہ سے‬ ‫انھیں بھی قصور ی الہور کہ ج نے لگ ۔ ب د ازاں قصور‬


‫‪54‬‬

‫کے راجے نے الہور پر قبضہ جم لی اور الہور قصور ک‬ ‫) بی س تک آی اور اس‬ ‫حصہ قرار پ ی ۔ ہیون س نگ (‬ ‫کے ہ ں م ک قصور ک ذکر آت ہے الہور ک ذکر نہیں م ت‬ ‫کیونکہ الہور اس ک محض ایک عالقہ تھ ۔ ہیون س نگ‬ ‫سی ح نہیں بدھ مت ک پرچ رک تھ ۔ میری اس ب ت ک ثبوت‬ ‫اس کی ی دداشت جسے س رن مہ قرار دی ج ت ہے‘ میں مل‬ ‫ج ئے گ ۔‬ ‫نمرود کے گودا میں ذرخیز ترین عالقہ ہونے کے سب‬ ‫بی سی عالقے (قصور) ک غ ہ س سے زی دہ ج ت تھ ۔‬ ‫میں حضرت س یم ن (ع) کشمیر تشریف الئے۔‬ ‫‪1798‬‬ ‫تین شہزادے ہشک‘ کنشک اور زشک بھی تھے۔ ان ک‬ ‫ت ترکست ن سے تھ ۔ ان میں سے ایک کے حصہ میں‬ ‫بی سی عالقہ آی ۔ اس میں موجودہ قصور بھی ش مل تھ ۔‬ ‫حضرت زرتشت اور حضرت مہ آتم بدھ کے پرچ رک اس‬ ‫عالقہ میں آئے۔ کہ ج ت ہے کہ وہ یہ ں کی م قول ترین‬ ‫اق یت تھے۔ یہ صورت محمد بن ق س کے حم ے تک رہی۔‬ ‫محمد بن ق س کے حم ے تک سندھ تہذی اور اس ک ایری‬ ‫موجودہ جہ سے آگے تک تھ اور اس ایری ک ح ک راجہ‬


‫‪55‬‬

‫داہر تھ ۔‬ ‫ایران کے ب دش ہ کرش کی حکومت بی س تک رہی۔ اس‬ ‫میں موجودہ قصور بھی ش مل تھ ۔ حضرت بدھ کی پیدایش‬ ‫سے پہ ے عالقہ بی س میں‬ ‫‪university Takshashila‬‬ ‫موجود تھی۔ یہ ں مذہبی ت ی ک انتظ واہتم بھی‬ ‫موجود تھ ۔ حضرت بدھ کی ت ی ک مرکز بھی یہ ں رہ ۔ ل ظ‬ ‫سہجرہ جو ا قصور کے ب ڈر ک شہر نم قصبہ ہے۔ کسی‬ ‫زم نے میں یہ بی س کی بہت بڑی والیت تھی اور ت ی ک‬ ‫اہتم تھ ۔ یہ ں ب ند آواز میں ت ی دینے کے تین مرکز‬ ‫رہے ہوں گے۔‬ ‫‪326‬‬ ‫میں سکندر اعظ کو دری ئے بی س پر بڑی مشکل پیش‬ ‫آئی۔ وہ تین دن اپنے خیمے میں بند رہ اس کے ب وجود‬ ‫اس کی فوج نے اپن ارادہ نہ بدال۔ اس کی فوج نے آگے‬


‫‪56‬‬

‫بڑھنے سے ص ف انک ر کر دی اسے واپس ج ن پڑا۔ اس‬ ‫عالقے کے لوگ بڑے شہ زور بڑے ہنر مند یودھ اور‬ ‫مشکل سے مشکل ح الت سے گزرنے کے ع دی تھے اور‬ ‫آج بھی ہیں‘ عین ممکن ہے اس نے یہ ں زخ کھ ی ہو اور‬ ‫یہی زخ اس کی موت ک سب بن گی ہو۔‬ ‫آق کری کے صح بی دنی کےچپے چپے پر گئے۔ ک شغر اور‬ ‫گ برگہ میں ان کی ی د گ ریں موجود ہیں۔ یہ کیسے ممکن‬ ‫ہے کہ اتنی گنج ن آب د آب دی ان کی نظر عط سے محرو‬ ‫رہی ہو۔ یہ ں اس ضمن میں صرف اور صرف حضرت عط‬ ‫محمد الم روف بہ پیر بولن ‪ 480‬ہجری ت ‪ 550‬ہجری کے‬ ‫نش ن م تے ہیں۔ پ ک پتن قصور کی قریبی والیت تھی وہ ں‬ ‫حضرت عزیز مکی تشریف الءے۔ کہ ج ت ہے ان کی عمر‬ ‫چھ سو س ل تھی۔ ان کی قبر چھبیس فٹ لمبی ہے جو ان‬ ‫کے مق و مرتبہ کو واضح کرتی ہے۔ ب لکل اسی طرح‬ ‫الہور میں پیر مکی کی قبر ہے۔‬


‫‪57‬‬

‫)‪(6‬‬ ‫زم نہ قدی سے انس ن خود ح ظتی تدابیر اختی ر کرت آی‬ ‫ہے۔ اس حہ وغیرہ کی ایج د اس ک واضح ثبوت ہے۔ شروع‬ ‫میں آگ بھی ح ظتی ذری ہ رہی ہے۔ ج اس نے‬ ‫جھونپڑے وغیرہ بن ن شروع کیے تو ن صرف دروازے ک‬ ‫اہتم کرت ب کہ گھر کے ب ہر ک نٹے دارجھ ڑیوں کی‬ ‫مضبوط ب ڑ بھی لگ ت ۔ اس طرح وہ ج نوروں کے حم ہ‬ ‫سے مح وظ ہو ج ت ۔ ب د ازاں گروپ کی شکل میں رہ یش‬ ‫ک س س ہ شروع ہو گی اور س تھ س تھ گھر ت میر کرنے‬ ‫لگ ۔ اس سے ن صرف ب ہمی روابط ک آغ ز ہوا ب کہ ح ظتی‬ ‫م مالت میں ارتب ط کی بہت سی صورتیں نکل آءیں۔ وہ‬ ‫حم ہ آور ک مل کر مق ب ہ کرت اور مل کر حم ہ کرنے کے‬ ‫رویے نے بھی جن لی ۔ تجربے کی روشنی میں مزید طریقہ‬ ‫ہ ءے ک ر اختی ر کرت ۔ ترقی اور ضرورت کے پیش نظر‬ ‫عالقہ کی رہ یش گ ہوں کے چ روں طرف دیوار بن کر اس‬ ‫ک ایک گیٹ رکھ دی ج ت اور رات کو یہ گیٹ مق ل کر دی‬ ‫ج ت ۔ ب ری ب ری پہرہ داری ک اہتم بھی ہونے لگ ۔ یہ‬ ‫طور بہت ب د تک رہ ۔ لوگ اپنے عالقہ کی گشت کرتے اور‬


‫‪58‬‬

‫س تھ میں آواز بھی لگ تے ج تے تھے۔‬ ‫عالقہ کے چ روں طرف دیوار بن نے ک رواج کوئ نی‬ ‫انوکھ اور دنی کی کسی ایک والیت میں نہیں رہ ۔ دنی میں‬ ‫قد ترین ق ے موجود ہیں۔ یہ ق ے صرف افواج کی‬ ‫رہ یش تک محدود نہیں تھے آب دی بھی ان کےاندر موجود‬ ‫رہتی تھی۔ چ ر دیواری کے اندر موجود آب دی کے لیے یہ‬ ‫چ ردیواری ان کے لیے ق ہ ک درجہ رکھتی تھی۔ اس ک‬ ‫ق ہ ج ت کی ت میر سے پہ ے رواج ع ہوا ہو گ ۔ اول اول‬ ‫س ری آب دی چ ردیواری کے اندر اندر اق مت رکھتی ہو گی‬ ‫ب د ازاں یہ انداز خصوص کے مخصوص ہو گی ہو گ ۔‬ ‫عمو کی رہ یش گ ہیں چ ردیواری سے ب ہر رہی ہوں گی۔‬ ‫حم ہ کے وقت وہ م رے ج تے ہوں گے ی ادھر ادھر بھ گ‬ ‫کر ج ن بچ تے ہوں گے۔‬ ‫موجودہ قصور کے مت آج تک یہی سنتے آ رہے ہیں کہ‬ ‫اصل قصور برب د ہو گی اور بہت ب د ک موجودہ قصور ہے۔‬ ‫میں پہ ے کہیں عرض کر چک ہوں کہ س رے عالقے ک ن‬


‫‪59‬‬

‫قصور ( کسور) نہیں تھ ۔ پورے عالقے کی فقط ایک والیت‬ ‫ک ن قصور ( کسور) تھ ۔ وہ کون س عالقہ تھ اس ک ب د‬ ‫میں ذکر آئے گ ۔ یہ ں صرف اتن واضح رہے کہ موجودہ‬ ‫قصور بہت ب د ک نہیں ہے ہ ں حس روایت آب دی وہ نہیں‬ ‫رہی ی نی یہ اگ وں کی نسل نہیں ہے۔ نسل در نسل اق مت ک‬ ‫س س ہ کبھی بھی نہیں رہ ۔ بہت س رے حوالوں سے پہ ی‬ ‫آب دی ں خت ی پھر مہ جرت اخت ر کرتی رہی ہیں۔ بی سی‬ ‫عالقے کی ذخیزی بھی آب دیوں کی تبدی ی ی برب دی ک‬ ‫موج رہی ہے۔‬ ‫موجودہ قصور جسے بہت ب د ک کہ ج ت ہے‘ ک تجزیہ‬ ‫پیش کرت ہوں۔ پک ق ہ ذرا غور کریں تو واضح ہو گ‬ ‫ب ندی پر واقع ہے۔ بڑے دروازے کے اندر مک ن ت اگرچہ‬ ‫دوب رہ سے ت میر کر لیے گیے ہیں لیکن اس ک ن ک نقشہ‬ ‫آج ی آج سے پ ن س ت سو س ل ک نہیں ہے۔ یہ عالقہ ٹبہ‬ ‫کم ل چشتی غربی ک حصہ ہے۔ شہر میں ہونے کے ب عث‬ ‫جدید محسوس ہوت ہے لیکن عہد قدی میں یہ والیت ٹی ے‬ ‫پر آب د ہوئی ہو گی۔ یہ ٹیال ہزاروں س ل کی عمر رکھت ہے۔‬ ‫کوٹ پک ق ہ کے شم ل میں کوٹ پیراں آب د ہے۔ کوٹ پک‬


‫‪60‬‬

‫ق ہ کی طرح یہ کوٹ بھی یک دروازے ک ح مل ہے۔‬ ‫دونوں قری قری ہیں لہذا ان ک ب ہمی ربط رہ ہوگ ۔‬ ‫چونکہ یہ دونوں اپنے اصل نقشہ کے مط ب ہیں اس لیے‬ ‫کہ ج سکت ہے کہ ان والیتوں میں تب ہ کن تص د نہیں ہوا‬ ‫ہوگ ۔ دونوں کوٹ ٹی ے پر ت میر ہوئے ہیں گو ا محسوس‬ ‫نہیں ہوتے۔‬ ‫کوٹ پک ق ہ کے جنو اور ٹی ہ کم ل چشتی کے مغر‬ ‫میں کوٹ ح ی خ ں واقع ہے۔‬ ‫یہ بھی چ ر دیواری کے اندر واقع ہے۔ دونوں طرف‬ ‫دروازے ہیں۔ بیرونی دروازے** کے آگے ب ندی نہیں ہے‬ ‫ب کہ اترائ ہے۔ دروازے سے ظ ہر ہوت ہے کہ اس طرف‬ ‫بھی ایسی ہی کوئی والیت رہی ہو گی جو بی س ی کسی‬ ‫تص د کے حوالہ سے ہمیشہ کے لیے بے ن ونش ن ہو‬ ‫گئ۔ اگر یہ انگریز ی اس سے تھوڑا پہ ے تب ہ ہوئ ہوتی‬ ‫تو اس کے نش ن ت ضرور ب قی ہوتے۔ اس دروازے سے‬ ‫ب ہر ک عالقہ تو کئ س لوں سے ویرانہ دیکھ رہے ہیں‬ ‫آب دی تو پچھ ے چ لیس پچ س س ل میں ہوئی ہے۔ چ لیس‬ ‫پچ س س ل پہ ے یہ ں کچھ بھی نہ تھ ۔‬


‫‪61‬‬

‫گورنمنٹ ک لج قصور کے س تھ ہی دو کوٹ ی نی کوٹ اعظ‬ ‫خ ن اور کوٹ فتح دین اسی انداز کے ہیں۔ دونوں کے‬ ‫دونوں طرف دروازے ہیں جس سے واضح ہوت ہے کہ ان‬ ‫کے اطرف میں اور والتیں موجود تھیں۔ کوٹ فتح دین کے‬ ‫شم لی دروازہ سے چند قدموں کے ف ص ے پر کوٹ اعظ‬ ‫خ ں ک دروازہ ہے گوی یہ ایک دوسرے کے پڑوس میں‬ ‫واقع دو حکومتیں تھیں۔ کوٹ اعظ کے غربی دروازے کی‬ ‫ن ک کی سیدھ میں پندرہ منٹ کے پیدل ف ص ے پر کوٹ‬ ‫رکن دین واقع ہے۔ کوٹ رکن دین س خت کے لح ظ سے‬ ‫متذکرہ چہ ر والئتوں سے کسی طرح مخت ف نہیں۔اس کے‬ ‫خ رجی دروازے کے س منے اس قس کوئی والیت موجود‬ ‫نہیں۔ یہ کوٹ بھی ٹی ے پرواقع ہے۔‬ ‫چوک شہیداں سے جنو میں تھوڑا دور اندر کو ایک‬ ‫آب دی ہے آج دوسرے کوٹوں کی طرح دروازے واال عالقہ‬ ‫نہیں رہ لیکن ایک سنجیدہ سوچ کے نتیجہ میں اسے بھی‬ ‫ان کوٹوں میں شم ر کریں گے۔ آج دروازے وغیرہ نہیں‬ ‫رہے۔ یہ ایری نی نہیں بہت پران ہے۔ قبرست ن جٹو اس کو‬ ‫لگت ہے جبکہ شہر ک ایک دروازہ بھی اس کو لگت ہے۔‬


‫‪62‬‬

‫پرانے قبرست نوں کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوت ہے‬ ‫مسم نوں سے پہ ے بھی مردے دفن نے ک رواج موجود‬ ‫تھ ۔ ہندو برادری کے س تھ س تھ عیس ئ زرتشتی بدھ متی‬ ‫وغیرہ اق یتیں موجود تھیں۔‬ ‫مرکزی شہر کے ب ہر کرشن نگر ہے۔ اس کے دونوں طرف‬ ‫دروازے ہیں۔ مرکزی شہر رقبہ کے لح ظ سے درج ب ال‬ ‫والیتوں سے س بڑا ہے۔ گم ن گزرت ہے کہ یہ الگ سے‬ ‫مخت ف والئتیں رہی ہوں گی اور ہر والیت ک اپن ح ک رہ‬ ‫ہو گ ۔ یہ حصہ تج رت گ ہ رہ ہو گ ۔ یہ ں خرید و فروخت ک‬ ‫ک ہوت ہو گ ۔ آج بھی رہ یش گ ہوں کے عالوہ ہر قس ک‬ ‫ب زار لگت ہے۔ آج اس کے س ت دروازے ہیں۔ ہر دروازے‬ ‫کے س تھ کوئی نہ کوئی کوٹ ضرور لگت ہے۔ یہی‬ ‫صورت قبرست نوں کی ہے۔‬ ‫محمد غال کوٹ‬ ‫بقول پروفیسر نی مت ع ی قبرست ن پر بن ی گی ہے۔ یہ‬ ‫قبرست ن ٹی ے پر تھ ۔ یہ صورت نئ نہیں۔ قبرست نوں کو‬


‫‪63‬‬

‫مسم ر کرکے ت میرات ک س س ہ نی نہیں۔ جیسے کوٹ‬ ‫اعظ خ ن اور کوٹ فتح دین کے قبرست ن کو ڈھ کر‬ ‫عم رتیں بن لی گئی ہیں۔ زیر حوالہ مح وں کوٹوں اور شہر‬ ‫سمیت ت میرات ٹی ے پر ہوئی ہیں اور یہ ب ندی ٹی ے کم ل‬ ‫چشتی شرقی کی ب الئی سطع کے مط ب ہے۔ ا یہ عالقے‬ ‫ٹی ے پر محسوس نہیں ہوتے۔ یہ ت میرات سیکڑوں س ل‬ ‫سے ت رکھتی ہیں۔ بہت والئیتوں کے مٹ ج نے میں‬ ‫بی س ک ہ تھ نہیں۔ یہ ب ہمی جنگ و جدل ک نتیجہ ہیں۔‬ ‫ان چ ردیواری کے ب ہر کے عالقوں کی آب دی چ ردیواری‬ ‫فیصد ہے۔ یہ بیرونی آب دی‬ ‫کے اندر کی آب دی ک تقریب‬ ‫بہت ب د کی ہے۔ اسے نی ی ب د ک قصور کہ ج سکت ہے۔‬ ‫چ ر دیواری کے اندر ک قصور پنج پیر‘ پیر بولن ‘ ح جی‬ ‫گگن وغیرہ کے مزاروں کی طرح پران ہے۔ چونکہ وہ‬ ‫عالقے شہر سے دور دراز ہیں اس لیے ٹی ے پر آب د لگتے‬ ‫ہیں ۔ اگر وہ عالقے شہر میں ہوتے تو ٹی ے ن و نش ن‬ ‫سے محرو ہو گءے ہوتے۔ اسی طرح اندرونی آب دی پر‬ ‫پہ ے ک ی ب د ک ‘ ک س بقہ نتھی کی ج سکت ہے لیکن‬ ‫جگہ ک مط ل ہ اور م ئینہ کرکے ہی کوئی نتیجہ اخذ کی‬ ‫ج سکت ہے۔‬


‫‪64‬‬

‫قصور شخصی ت کے آئینہ میں‬ ‫نوٹ‬ ‫دانستہ طور پر‘ کوئی ن نظر انداز نہیں کی گی ۔ بہت سے‬ ‫ن درج نہیں ہو سکے‘ اسے میری تھوڑع می سمجھ کر‘‬ ‫م ف کر دی ج ئے۔‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫سربراہ ن‬ ‫حضرت ق ضی ش ی دادا ب ب فرید ق ضی قصور‬ ‫وکیل خ ں ک قصور میں مقبرہ موجود ہے۔ یہ ش ہ سوری‬ ‫ک مرکزی عہدے دار تھ ۔‬ ‫راجہ ٹوڈرمل مغل ب دش ہ اکبر کے اع ی اہل ک ر تھے‬ ‫اخوند س ید مغل ب دش ہ اکبر کے درب ر سے وابستہ تھے‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫قی پ کست ن کے ب د‬ ‫ڈاکٹرم ین الدین احمد قریشی وزیر اعظ پ کست ن‬


‫‪65‬‬

‫شوکت عزیز وزیر اعظ پ کست ن‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫وف قی وزرا‬ ‫سردار آصف احمد ع ی‘ خورشید محمود قصوری وف قی‬ ‫وزیر خ رجہ‘ می ں محمود ع ی قصوری وف قی وزیر ق نون‬ ‫ارش د احمد حق نی وف قی وزیر اطالع ت‘ سردار ط ل حسن‬ ‫نکئی وف قی وزیر‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫ران محمد اقب ل خ ں سپیکر‘ م ک محمد ع ی آف کھ ئی‬ ‫ڈیپٹی چیئرمین سینٹ‘ سردار آصف احمد ع ی ڈیپٹی‬ ‫چیرمین پالنگ کمشن پ کست ن‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫صوب ئی سی سی اع ی عہدہ داران‬ ‫سر ش ہ نواز خ ں ممڈوٹ قصوری صدر آل انڈی مس لیگ‬ ‫پنج‬ ‫نوا جی ے خ ں گورنر الہور‘ نوا افتخ ر حسین ممڈوٹ‬


‫‪66‬‬

‫پہال وزیر اع ی پنج ‪ -‬گورنر سندھ‘ سردار محمد ع رف‬ ‫نکئی وزیر اع ی پنج‬ ‫نج سیٹھی کیرئر ٹیکر وزیر اع ی‘ چیرمین پی بی سی‘‬ ‫اینکر‬ ‫ران پھول محمد خ ں صوب ئی وزیر‘ اسپیکر پنج اسمب ی‘‬ ‫ایکٹنگ گورنر پنج ‘ سردار حسن اختر موکل ڈیپٹی‬ ‫اسپیکر‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫سول آفیسرز‬ ‫وف قی اع ی عہدے داران‬ ‫عبدالحمید شیخ وف قی سیکرٹری دف عی پیداوار‪ -‬ایڈیٹر‬ ‫جنرل می ں طی حسن وف قی سیکرٹری فن نس‪ -‬وف قی‬ ‫سیکرٹری کیبنٹ‘ می ں سیمی س ید ایگزکٹیو ڈائریکٹر‬ ‫ایشین بنک‪ -‬وف قی سیکرٹری کیبنٹ‘ احمد ع ی قصوری‬ ‫ایڈوکیٹ ق نونی مشیر حکومت پ کست ن‘ ڈاکٹر سید کنور‬ ‫عب س حسنی اکونومسٹ وف قی فن نس ڈویژن‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬


‫‪67‬‬

‫صوب ئی اع ی عہدے داران‬ ‫ح فظ عبدالمجید چیف سیکرٹری پنج ‘ ج وید محمود چیف‬ ‫سیکرٹری پنج ۔ صوب ئی محتس‬ ‫قصور کے سول اع ی عہدے دار‬ ‫کرمت ع ی خ ں بیوروکریٹ پ کست ن‬ ‫برگیڈیر ای ظ ر حسن جوائنٹ سیکرٹری ابالغی ت پ کست ن‪-‬‬ ‫ح مد ع ی جوائنٹ سیکرٹری داخ ہ پ کست ن‬ ‫می ں طی حسن سیکرٹری فن نس‬ ‫خ یل احمد بھٹی ممبر بورڈ آف ریونیو‬ ‫ع رف لطیف سینئر جرنل منیجر محمکہ سوئی گیس‬ ‫جالل الدین اکبر ڈائریکٹر اک ؤنٹس‬ ‫اکمل حسین کنٹرولر کسٹمز‬ ‫مج ہد انور جرنل منیجر محمکہ سوئی گیس‬ ‫عبدالرحمن ع بد ڈیپٹی کمشنر‬ ‫شوکت ع ی ڈیپٹی کمشنر‬


‫‪68‬‬

‫غال فرید ڈیپٹی ڈائریکٹر‬ ‫فردوس ش ہ ع ل دین کے بیٹے ح مد ش ہ پنج‬ ‫سیکرٹریٹ میں اع ی عہدے پر متمکن رہے ہیں‬

‫سول‬

‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫اع ی فوجی آفیسر‬ ‫لی ٹینٹ جنرل محمد ج وید ن صر‘ برگیڈیر محمد قیو ‘‬ ‫برگیڈیر می ں ظ رحسن راٹھور‘ برگیڈیر محمد مجید‘‬ ‫برگیڈیر محمد اختر‘ برگیڈیر ڈاکٹر عرف ن الح ‘ کرنل اظہر‬ ‫حسن راٹھور‘ کرنل احمد ج وید‘ کرنل ریٹ ئرڈ ضی چوہ ن‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫ض ع قصور کے پولیس میں اع ی افسیر‬ ‫قمر الدین ڈی آئی جی‬ ‫ران محمد اس ایس ایس پی‬ ‫محمود مس ود ایس ایس پی‬ ‫محمد ط ہر ایس ایس پی‬ ‫ام ن پ ش ایس ایس پی یہ گورنمنٹ اسالمیہ ک لج قصور‬


‫‪69‬‬

‫میں‘ ت ی ح صل کرتے رہے ہیں۔‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫صوفی کرا جو قصور تشریف الئے‬ ‫حضرت خواجہ سید م ین الدین چشتی‘ حضرت امیر خسرو‘‬ ‫حضرت پیر خواجہ خ ن محمد‘ حضرت پیر مہر ع ی‘‬ ‫حضرت پیر می ں شیر محمد‘ حضرت ب ب یحی خ ں ک لی‬ ‫پوش‬ ‫ب ب فرید‬ ‫ان کی چ ہ گ ہ آج بھی قصور میں موجود ہے۔‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫را تھمن جی ب ب گرو ن نک دیو کے خ لہ زاد تھے۔ قصور‬ ‫کو اعزاز ح صل ہے کہ ب ب ص ح قصور تشریف التے‬ ‫رہتے تھے۔ آج موضع را تھمن میں گرودوارہ موجود ہے‬ ‫وہ ں ہر س ل می ہ ہوت ہے۔ جہ ں ہر دھر کے لوگ آتے‬ ‫رہتے ہیں۔‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫اع ی سربراہ ن جو قصور آئے‬


‫‪70‬‬

‫اورنگ زی ع لمگیر‘ مہ راجہ رنجیت سنگھ‘ گورنر جنرل‬ ‫چ رلیس‘ وزیر اعظ م ک م راج خ لد‘ وزیر اعظ م ین‬ ‫قریشی‘ وزیر اعظ بےنظیر بھٹو‘ وزیر اع ی محمد شہب ز‬ ‫شریف‬ ‫برگیڈیر جنرل ڈائر‘ ایئر م رشل اصغر خ ں‬ ‫عبد الحمید سربراہ تحریک خ کس ر‘ ایک ب ر خ کس ر‬ ‫تحریک کے ایک ج سہ میں ج کہ دوسری ب ر مقصود‬ ‫حسنی کی والدہ کے انتق ل کی ت زیت کے لیے آئے۔‬ ‫عالمہ عالؤالدین صدیقی وائس چ نس ر ج م ہ پنج‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫سی سی لیڈر جو قصور آئے‬ ‫می ں ممت ز احمد دولت نہ‘ مولوی عبد الحمید بھ ش نی‘‬ ‫محترمہ نصرت بھٹو‘ خ ن عبد الولی خ ں‘ عبدالست ر‬ ‫نی زی‘ عمران خ ں آف پی ٹی آئی‘ ذال ق ر ع ی بھٹو ب طور‬ ‫سی سی ‘ مولوی کوثر نی زی‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫عالقہ بی س تک یون نی لٹیرے اور ق تل اعظ الم روف‬


‫‪71‬‬

‫سکندر اعظ کی لوٹ م ر اورقتل و غ رت گری ک سرا‬ ‫م ت ہے۔ چونی ں میں اس کے عہد کے یون نی سکے بھی‬ ‫م ے ہیں۔‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫قبرست ن خواجہ ص ح قصور میں ایک قبر کے مت‬ ‫م روف ہے کہ یہ قبر رضیہ س ط ن کی ہے۔‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫فن ک ر جو قصور آئے‬ ‫حضرت امیر خسرو موسیک ر‘ ابرارالح گ ئیگ‘ عط هللا‬ ‫‘عسیی خی وی گ ئیگ‬ ‫حبی اداک ر‘ عرف ن کھوسٹ اداک ر‘ جمیل فرخی اداک ر‘‬ ‫ج وید احمد اداک ر‘ کتھرینہ‬ ‫عظی موسیک ر ت ن سین ک بھی قصور آن ہوا۔‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫ادی ش عر نق د اور محق جو قصور آئے‬ ‫عالمی فیضی عہد اکبر‘ ڈاکٹر سر محمد اقب ل‘ فیض احمد‬


‫‪72‬‬

‫فیض‘ پروفیسررضی ع بدی‘ پروفیسر صوفی تبس ‘ ح یظ‬ ‫ج لندھری‘ فضل ش ہ گجراتی‘ مرزا ادی ‘ ب نو قدسیہ‬ ‫پروفیسر ع بد ع ی ع بد‘ ڈاکٹر سید محمد عبدهللا‘ پروفیسر‬ ‫وق ر عظی ‘ ڈاکٹر عب دت بری وی‘ اش احمد‘ ڈاکٹر وحید‬ ‫قریشی‘ ڈاکٹر غال حسین ذوال ق ر‘پروفیسر حمید عسکری‘‬ ‫ڈاکٹر شبیہ الحسن ‘ڈاکٹر گوہر نوش ہی‘ ڈاکٹر فخرالزم ن‬ ‫ڈاکٹر ص بر آف قی دو ب ر ج کہ ڈاکٹر تبس ک شمیری کی‬ ‫مقصود حسنی سے ادبی نشتیں ہوئیں۔‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫دیگر‬ ‫ڈاکٹر عبدالقدیر خ ں س ئنس دان‘ ڈاکٹر خ لد محمود‘ مجی‬ ‫الرحم ن ش می‘ مبشر رب نی سم جی ک رکن‘ آغ شورش‬ ‫ک شمیری‘ عالمہ ڈاکٹر ط ہرالق دری‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫اع ی فوجی آفیسر جنھوں نے قصور میں خدم ت انج دیں‬ ‫جنرل محمد موسی خ ں‬ ‫جنرل پرویز مشرف‬


‫‪73‬‬

‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫اع ی آفیسر پولیس جو قصور میں خدم ت انج دیتے رہے‬ ‫آئی جی جہ نگیر مرزا ب طور ایس پی‬ ‫آئی جی م ک آصف حی ت ب طور ایس پی‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫سول اع ی آفیسر جو قصور میں خدم ت انج دیتے رہے‬ ‫سیکرٹری ہ ؤس پ کست ن جی ای سکندر ب طور اے سی‬ ‫چیرمین ری وے کیپٹن اختر ب طور اے سی‬ ‫چیف سیکرٹری پنج‬

‫ای ح یظ اختر ب طور اے سی‬

‫چیف سیکرٹری پنج‬

‫مہر جیون ب طور اے سی‬

‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫اہل ق‬ ‫اردو‘ پنج بی اور ف رسی‬ ‫ش عر‘ محق ‘ نق د‘ افس نہ نگ ر‘ وغیرہ‬ ‫راج ٹوڈرمل ش عر‘ عبدالق در عبدی‘ منشی نور الدین‘ پران‬


‫‪74‬‬

‫کم ر شرم ‘ سوہن سنگھ سیتل‘ افس نہ نگ ر‘ ارش د احمد‬ ‫حق نی وغیرہ‘ ح جی ل ل ‘ سر عبدالق در‘ عبد الجب ر‬ ‫ش کر‘ صوفی مہر ہمد ‘ احمد ی ر خ ن مجبور‘ ع مر اقب ل‘‬ ‫خ یل آتش‘ س ئیں محمد عبدلغ ور‘ غال حضور ش ہ‘ چرا‬ ‫دین جونکے‘ عب د ع ی عب د‘ منشی کر بخش‘ عبدهللا‬ ‫ش کر‘ می ں ش دا‘ م سٹر نرائن‘ ب ھے ش ہ‘ عبد الجب ر‬ ‫ش کر‘ س ئیں عبد الغ ور‘ پروفیسر اکرا ہوشی رپوری‘‬ ‫صوفی محمد دین چشتی‘ پروفیسر اظہر ک ظمی‘ س ی آفت ‘‬ ‫شریف انج ‘ شریف س جد‘ مولوی غال هللا‘ خواجہ محمد‬ ‫اسال ‘ تجمل ک ی ‘ عب د نبیل ش د‘ اقب ل قیصر‘ فقیر محمد‬ ‫ش می‘ عب د ع ی عب د‘ راؤ ندی احس ن‘ یونس حسن‘ نی مت‬ ‫ع ی نی مت‘ چنن سنگھ ورک‘ ص د قصوری‘ مقصود‬ ‫حسنی وغیرہ‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫وارث ش ہ ش عر ہیر وارث ش ہ قصور میں زیر ت ی رہے۔‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫قصور کے رہ ئشی نہیں لیکن قصور میں خدم ت انج دیں‬ ‫غال رب نی عزیز‘ ڈاکٹر اختر شم ر‘پروفیسر امجد ع ی‬


‫‪75‬‬

‫ش کر‘عب س ت بش‘ ڈاکٹر ص د جنجوعہ‘ ڈاکٹر عط الرحمن‬ ‫خ ن میو‘ پروفیسر جیک پ ل‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫م ہرین لس نی ت‬ ‫عبدهللا خوشیگی مولف فرہنگ ع مرہ‘ مولوی غال هللا نے‬ ‫ایک مختصر عربی فرہنگ ترتی دی تھی۔ پروفیسر یونس‬ ‫حسن‘ مقصود حسنی‬ ‫فرہنگ غ ل‬ ‫اردو مض مین کی فہرست دستی‬ ‫اردو ہے جس ک ن‬

‫‪-‬‬

‫ل ظ ہند کی کہ نی ‪-‬‬ ‫ہندوی ت ریخ اور حق ئ کے آئینہ میں ‪-‬‬ ‫ہندوست نی اور اس کے لس نی حدود ‪-‬‬ ‫اردو میں مست مل ذاتی آوازیں ‪-‬‬ ‫اردو کی چ ر آوازوں سے مت‬

‫گ تگو ‪-‬‬

‫اردو اور ج پ نی آوازوں کی س نجھ ‪-‬‬


‫‪76‬‬

‫اردو میں رس الخط ک مس ہ ‪-‬‬ ‫انگریزی کے اردو پر لس نی اثرات ‪-‬‬ ‫سرائیکی اور اردو کی مشترک آوازیں ‪-‬‬ ‫اردو اور انگریزی ک مح وراتی اشتراک ‪-‬‬ ‫اردو س ئنسی ع و ک اظہ ر ‪-‬‬ ‫قومی ترقی اپنی زب ن میں ہی ممکن ہے ‪-‬‬ ‫اردو‘ حدود اور اصالحی کوششیں ‪-‬‬ ‫قدی اردو ش عری ک لس نی مط ل ہ ‪-‬‬ ‫ب ھے ش ہ کی زب ن ک لس نی مط ل ہ ‪-‬‬ ‫ش ہی کی ش عری ک لس نی مط ل ہ ‪-‬‬ ‫خواجہ درد کے مح ورے ‪-‬‬ ‫سوامی را تیرتھ کی اردو ش عری ک لس نی مط ل ہ ‪-‬‬ ‫ال ظ اور ان ک است م ل ‪-‬‬ ‫آوازوں کی ترکی و تشکیل کے عن صر ‪-‬‬ ‫ال ظ کی ترکی ‘ است م ل اور ان کی ت ہی ک مس ہ ‪-‬‬


‫‪77‬‬

‫زب نوں کی مشترک آوازیں ‪-‬‬ ‫پ کست ن کی زب نوں کی پ نچ مخصوص آوازیں ‪-‬‬ ‫عربی زب ن کی بنی دی آوازیں ‪-‬‬ ‫عربی کی عالمتی آوازیں ‪-‬‬ ‫دوسری بدیسی آوازیں اور عربی ک تب دلی نظ‬ ‫پ کی متب دل عربی آوازیں ‪-‬‬ ‫گ کی متب دل عربی آوازیں ‪-‬‬ ‫چ کی متب دل عربی آوازیں ‪-‬‬ ‫مہ جر اور عربی کی متب دل آوازیں ‪-‬‬ ‫بھ ری آوازیں اور عربی کے لس نی مس ئل ‪-‬‬ ‫چند انگریزی اور عربی کے مترادف ت ‪-‬‬ ‫پنج بی اور عربی ک لس نی رشتہ ‪-‬‬ ‫چند انگریزی اور عربی مشترک آوازیں ‪-‬‬ ‫انٹرنیٹ پر عربی میں اظہ ر خی ل ک مس ہ ‪-‬‬ ‫عربی کے پ کست نی زب نوں پراثرات ‪-‬‬

‫‪-‬‬


‫‪78‬‬

‫عربی اور عہد جدید کے لس نی تق ضے ‪-‬‬ ‫ف رسی کے پ کست نی زب نوں پراثرات ‪-‬‬ ‫پشتو کی چ ر مخصوص آوازیں ‪-‬‬ ‫آتے کل کو کرہء ارض کی کون سی زب ن ہو گی ‪-‬‬ ‫انگریزی دنی کی بہترین زب ن نہیں ‪-‬‬ ‫انگریزی اور اس کے حدود ‪-‬‬ ‫انگریزی آج اور آت کل ‪-‬‬ ‫تبدی ی ں زب نوں کے لیے وٹ منز ک درجہ رکھتی ہیں ‪-‬‬ ‫زب نیں ضرورت اور ح الت کی ایج د ہیں ‪-‬‬ ‫م ون عن صر کے پیش نظر مزید حروف کی تشکیل ‪-‬‬ ‫برصغیر میں بدیسیوں کی آمد اور ان کے زب نوں پر ‪-‬‬ ‫اثرات‬ ‫کچھ دیسی زب نوں میں آوازوں ک تب دل ‪-‬‬ ‫ج پ نی میں مخ ط کرن ‪-‬‬ ‫ج پ نی اور برصغیر کی لس نی ممث لتیں ‪-‬‬


79

- ‫اختر حسین ج ری کی زب ن ک لس نی ج ئزہ‬ ‫فہرست‬

‫کچھ سوال و جوا‬

‫لس نی ت کے مت‬

‫انگریزی مض مین کی دستی‬

1- Urdu has a strong expressing power and a sounds system 2- Word is to silence instrument of expression 3- This is the endless truth 4- The words will not remain the same style 5- Language experts can produce new letters 6- Sound sheen is very commen in the world languages 7- Native speakers are not feel problem 8- Languages are by the man and for the man 9- The language is a strong element of pride for the people


80

10- Why to learn Urdu under any language of the world 11- Word is nothing without a sentence 12- No language remain in one state 13- Expression is much important one than designates that correct or wrong writing 14- Student must be has left liberations in order to express his ideas 15- Six qualifications are required for a language 17- Sevevn Senses importence in the life of a language 18- Whats bad or wrong with it?! 19- No language remains in one state 20. The common compound souds of language 21- The identitical sounds used in Urdu 22- Some compound sounds in Urdu 23- Compound sounds in Urdu (2)


81

24- The idiomatic association of urdu and english 25- The exchange of sounds in some vernacular languages 26- The effects of persian on modern sindhi 27- The similar rules of making plurals in indigious and foreign languages 28- The common compounds of indigious and foreign languages 29- The trend of droping or adding sounds 30- The languages are in fact the result of sounds 31- Urdu and Japanese sound’s similirties 32- Other languages have a natural link with Japanese’s sounds 33- Man does not live in his own land 34- A person is related to the whole universe


82

35- Where ever a person 36- Linguistic set up is provided by poetry 37- How to resolve problems of native and second language 38- A student must be instigated to do something himself 39- Languages never die till its two speakers 40- A language and society don’t delovp in days 41- Poet can not keep himself aloof from the universe 42- The words not remain in the same style 43- Hindustani can be suggested as man's comunicational language 44- Nothing new has been added in the alphabets 45- A language teacher can makea lot for the human society 46- A language teacher would have to be aware


83

47- Hiden sounds of alphabet are not in the books 48- The children are large importence and sensative resource of the sounds 49- The search of new sounds is not dificult matter 50- The strange thought makes an odinary to special one 51- For the relevation of expression man collects the words from the different caltivations 52- Eevery language sound has more then two prononciations 53- Language and living beings ÌÌÌÌÌÌÌ ‫اک نومسٹ‬ ‘‫راجہ ٹوڈرمل‘ ڈاکٹر م ین قریشی‘ خورشید محمود قصوری‬ ‫سردار آصف احمد ع ی ورلڈ بنک‘ شیخ عبدالمجید وف قی‬ ‫سیکرٹری‘ می ں طی حسن وف قی سیکرٹری‘ ڈاکٹر کنور‬ ‘‫عب س حسنی‬


‫‪84‬‬

‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫میڈیکل‬ ‫ڈاکٹر اسد الرحمن ڈائریکٹر ہی تھ‘ ڈاکٹر مس ود ہم یوں‬ ‫ایگزکٹیو سر گنگ را ‘ نیورو فزیشن ڈاکٹر محمد ن ی میو‬ ‫ہسپت ل الہور‘ نیورو سرجن ڈاکٹر عبدالحمید جرنل ہسپت ل‬ ‫الہور‘ ڈاکٹر رض ہ شمی‘ ڈاکٹر قمر ارش د‘ ڈاکٹر ص در‬ ‫مقصود حسنی نے کینسر پر ایک عرصہ تحقیقی ک کی ۔‬ ‫اپنے اس تحقیقی ک کو۔۔۔۔ کینسر از ن ٹ اے مسٹیریس‬ ‫ڈازیز۔۔۔۔۔ ن دی ۔ اس ک کچھ حصہ اردو ترجمہ ہو کر دو‬ ‫قسطوں میں اردو نیٹ ج پ ن پر ش ئع ہو چک ہے۔‬ ‫ڈینگی پر تحققی ک کی جو۔۔۔۔۔ ڈینگی م لجہ اور ح ظتی‬ ‫تدابیر۔۔۔۔۔ کے ن سے اردو نیٹ ج پ ن پر ش ئع ہو چک ہے۔‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫عدلیہ‬ ‫مسٹر جسٹس کے ایچ م ہوترا بھ رت ہ ئی کورٹ کے چیف‬ ‫جسٹس قصور کے تھے۔‬ ‫مسٹر جسٹس عبدل عزیز خ ں‘ مسٹر جسٹس عبد الست ر‬


‫‪85‬‬

‫اصغر‘ مسٹر جسٹس رشید عزیز خ ں‬ ‫محمد ع ی قصوری ڈیپٹی اٹ رنی جنرل پ کست ن‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫سر‘ س ز اور آواز‬ ‫قصوری ایج د‬ ‫راگ جنگال‬ ‫ڈاکٹرظہور احمد چودھری مصنف جہ ن فن‬ ‫ح فظ ش یع برصغیر میں دوسرے نمبر پر طب ہ نواز تھے‬ ‫گ ئیک‬ ‫بڑے غال ع ی خ ں‘ چھوٹے غال ع ی خ ں است د برکت‬ ‫ع ی‘ است د نی مت ع ی‘ است د سالمت ع ی‘ است د غال‬ ‫محمد‘ هللا رکھی الم روف م کہ ترن نور جہ ں‘ منظور‬ ‫جھال‘ خورشید ب نو‘ بشری ص د‬ ‫قوالی‬ ‫مہر ع ی اور شیر ع ی قوال‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬


‫‪86‬‬

‫ن ت گو ن ت خواں‬ ‫محمد ع ی ظہوری قصوری‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫اداک ر‬ ‫یوسف خ ں‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫کھیل کھالڑی‬ ‫کرکٹ ایمپ ئر‪ :‬ام ن هللا‬ ‫س بقہ کریکٹر‪ :‬ع ی احمد پ کست نی کرکٹ ٹی‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫پہ وان‬ ‫است د گ زارے خ ں رست ہند‘ شوکت پہ وان اولیمپین‘ جہ را‬ ‫پہ وان جس نے انوکی کو شکست دی۔ بھولو پہ وان رست‬ ‫زم ن‘ گ م پہ وان‬ ‫ع بد بوکسر‬


‫‪87‬‬

‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫پنج چھڈ دیو تحریک کے ب نی اور موڈی نظ لوہ ر ک‬ ‫مقبرہ قصور میں موجود ہے۔‬ ‫مولوی غال هللا قصوری نے تحریک خالفت میں حصہ لی ۔‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫مورخ‬ ‫عبدهللا عبدالق در خویشگی‘ ص د قصوری مورخ تذکرہ‬ ‫نگ ر‘ اقب ل قیصر‘ اقب ل بخ ری‘ مقصود حسنی‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫‪:‬صوفی‬ ‫پیر جہ نی ں‘ جن ک مقبرہ چونی ں میں موجود ہے۔ یہ‬ ‫جہ نی ں سے تشریف الئے۔ ان کی مرید چونی‘ جو ب ب جی‬ ‫کی خدمت گ ر تھی‘ کے ن پر اس مختصر سی آب دی ک‬ ‫ن ‘ چونی ں رکھ دی گی ۔‬ ‫ب ب ک مل ش ہ جنہوں نے ب ھے ش ہ ص ح کی نم ز جن زہ‬ ‫پڑھ ئی۔‬


‫‪88‬‬

‫‘خواجہ دائ حضوری‬ ‫خواجہ غال مرتضی قصوری‘ ب ھے ش ہ قصوری‘ اخوند‬ ‫س ید‘ ب ھے ش ہ‘ کم ل چشتی‘ ام ش ہ بخ ری‘ ل ل حبی‬ ‫الم روف شیخ عم د‘ ح جی گگن‘ غال حضور ش ہ‘ پنج‬ ‫پیر‘ عط هللا خویشگی الم روف پیر بولن ‘ ب ب کم ل ش ہ‘‬ ‫ح جی ش ہ شریف‘ ب ب پنے ش ہ‘ عب س ش ہ‘ صدر دیوان‘‬ ‫ح ک ش ہ‘ ش ہ عن یت‘ ب ب سہ رے ر ‘ پیر ڈھئیے ش ہ‘‬ ‫سخی پیر بہ ول‘ مٹھو ش ہ‘ ب ب حسین ش ہ‘ ب ب نقی هللا‬ ‫ش ہ‘ ب ب جھنڈے ش ہ‘ ب ب عبدالخ ل وغیرہ‬ ‫ب ب فرید کی دوران چ ہ خدمت گ ر م ئی جوائی ک مزار بھی‬ ‫موجود ہے۔‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫ٹی وی اینکر‬ ‫ضی ء محی الدین‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫مصور‬ ‫آزر روبی‬


‫‪89‬‬

‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫منیر احمد‬ ‫س ئنس دان‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫سول اور م ٹری ایواڑ ی فتہ قصوریے‬ ‫م ٹری ایواڑ ی فتہ‬ ‫برگیڈیر احسن رشید ش می شہید ہالل جرات‘ کرنل غال‬ ‫حسین شہید ہالل جرات‬ ‫جنرل محمد رفی ص بر ہالل امتی ز‘ لی ٹینٹ جنرل محمد‬ ‫ج وید ن صر ہالل امتی ز‬ ‫کیپٹن احمد منیر شہید ست رہء جرات‘ کیپٹن نسی حی ت‬ ‫م رچ‬ ‫شہید ست رہء جرات‘ کرنل احمد ج وید‬ ‫م رچ‬ ‫ست رہء جرات‘ کرنل احمد ج وید‬ ‫ست رہءجرات‬ ‫برگیڈیرمحمد ج وید اختر ست رہءامتی ز‘ برگیڈیر می ں ظ ر‬


‫‪90‬‬

‫حسین راٹھور ست رہء امتی ز‘ کرنل احمد ج وید‬ ‫ست رہء امتی ز‬ ‫ست رہءامتی ز‘ حوالدار محمد ش یع‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫‪:‬سول ایوارڈز‬ ‫ڈاکٹر مولوی محمد ش یع ست رہ پ کست ن‬ ‫ڈاکٹر منیر احمد ہالل امتی ز‬ ‫م کہءترن نور جہ ن تمغہءا متی ز‬ ‫سردار شوکت ع ی لینن ایواڈ‬ ‫پروفیسر جیک پ ل قصور سے نہیں ہیں‘ لیکن گورنمنٹ‬ ‫اسالمیہ ک لج قصور کے ش بہءاردو میں سینئر است د ہیں۔‬ ‫انہیں جن ح نیشنل یوتھ ایوارڈ منج ن حکومت پ کست ن‬ ‫میں مال۔‬ ‫مقصود حسنی‬ ‫جینس رائٹر‘ رائٹر آف دی ایئر‬

‫اردو تہذی ڈاٹ ک‬

‫ب ب ئے گوشہءمصن ین فرینڈز ک رنر ڈاٹ ک‬ ‫‘بیدل حیدری ایوارڈ ایوان اد ‘ م ت ن‬


‫‪91‬‬

‫مسٹر اردو‘ فور پ کست ن‬ ‫شہر قصور کو اعزاز ح صل ہے کہ قصور کے رہ ئشی و‬ ‫پیدایشی‘ مقصود حسنی کے یو این او کے مستقل ممبر اور‬ ‫روح نی اسمب ی کے نم ئندہ ہز ہ ئینس ڈاکٹر نور ال ل سے‬ ‫ذاتی ت ق ت رہے ہیں۔ مقصود حسنی کو انہوں نے یو این‬ ‫او میں آنے کی دعوت بھی دی۔‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫گورنمنٹ اسالمیہ ک لج قصور کے پی ایچ ڈی پرنسپل‬ ‫ص حب ن‬ ‫ڈاکٹر ندی ‘ ڈاکٹر آصف ہم یوں‘ ڈاکٹر اختر ع ی میرٹھی‘‬ ‫ڈاکٹر ذوال ق ر ع ی ران‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫ڈی لٹ‬ ‫ڈاکٹر مولوی محمد ش یع‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫پی ایچ ڈی ص حب ن‬


‫‪92‬‬

‫ڈاکٹر م ین قریشی‘ ڈاکٹر آف احمد‘ ڈاکٹر احمد بشیر‘‬ ‫ڈاکٹر اختر سندھو‘ ڈاکٹر عنبرین صغیر‘ ڈاکٹرخ لد محمود‘‬ ‫پروفیسر محمد رفی س گر‘ ڈاکٹر محمد ارشد ش ہد ڈاکٹر‬ ‫زی النس ‘ ڈاکٹر نی وفر مہدی‘ ڈاکٹر رضوان هللا کوک ‘‬ ‫ڈاکٹر شب نہ سحر‘ ڈاکٹر ظہور احمد چودھری‘ ڈاکٹر منظور‬ ‫الہی ممت ز‘ ڈاکٹر عط الرحمن میو‘ ڈاکٹر محمد ایو ‘‬ ‫گورنمٹ ک لج پتوکی‘ ڈاکٹر کنور عب س حسنی‘ ڈاکٹر غال‬ ‫مصط ے‘ ڈاکٹر ی سمین تبس ‘ ڈاکٹر رمض نہ برکت‘ ڈاکٹر‬ ‫مقصود حسنی‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫پی ایچ ڈی اسک لرز ص حب ن‬ ‫پروفیسر ع ی حسن چوہ ن‘ پروفیسر ع مر ع ی‘ پروفیسر‬ ‫راشد ع ی‘ پروفیسر یونس حسن‘ پروفیسر نی مت ع ی‘‬ ‫پروفیسر محمد لطیف اش ر‘ پروفیسر ری ض محبو ‘‬ ‫پروفیسر ح فظ غال سرور‘ پروفیسر سرور گوہر‘ پروفیسر‬ ‫محمد مشت ‘ محبو ع ل ‘ محمد اس ط ہر‘ وغیرہ‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫قصور کے مذہبی ع م کرا‬


‫‪93‬‬

‫مولوی غال هللا‬ ‫مولوی محمد شریف نوری یہ ایک رس لہ بھی نک لتے تھے‬ ‫مولوی فرودس ع ی ش ہ مذہبی کت بھی تحریر کیں‬ ‫مولوی طی ش ہ ہمدانی تحریری ک بھی کی‬ ‫مولوی محمد عبدهللا ق دری ان ک ق ئ کردہ آج بھی چل رہ‬ ‫ہے‬ ‫مولوی عبدالرحمن‘ مولوی عبدال زیز‘ مولوی غال رسول‬ ‫گوہر‬ ‫ڈاکٹر خ لد محمود‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬ ‫انگریزی زب ن کے ش عر‬ ‫پروفیسر نی مت ع ی ش بہ گورنمنٹ اسالمیہ ک لج قصور‬ ‫مقصود حسنی‘ پروفیسر نی مت ع ی ش بہ گورنمنٹ اسالمیہ‬ ‫ک لج قصور نے ان کی ش عری پر ای فل سطع ک تحقیقی‬ ‫تحریر کی ۔‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬


‫‪94‬‬

‫مترج‬ ‫ڈاکٹر مولوی محمد ش یع نے تذکرتہ اولی اردو ترجمہ کی ۔‬ ‫پروفیسر ت ثیر ع بد جو گورنمنٹ ک لج ل ی نی میں تھے نے‬ ‫غ ل کے اردو دیوان میں ترجمہ کی ۔‬ ‫مقصود حسنی نے‬ ‫عمر خی کی چوراسی رب عی ت ک سہ مصرعی اردو ترجمہ‬ ‫کی ۔ کت ش ری ت خی کے ن سے ش ئع ہوئی۔‬ ‫ترک ش عری ک اردو ترجمہ کی ۔ کت‬ ‫آنکھیں ۔۔۔ کے ن سے ش ئع ہوئی۔‬

‫۔۔۔۔ ست رے بنتی‬

‫عالوہ ازیں فینگ سیو فینگ‘ ہنری النگ فی و‘ ولی ب یک‬ ‫کی نظموں کے اردو ترج کیے۔‬ ‫قرتہ ال ین ط ہرہ کی ف رسی غزلوں کے اردو اور انگریزی‬ ‫میں ترجمہ کیے۔‬ ‫غ ل کے‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬

‫اش ر ک پنج بی میں ترجمہ کی‬


‫‪95‬‬

‫نوٹ‬ ‫دانستہ طور پر‘ کوئی ن نظر انداز نہیں کی گی ۔ بہت سے‬ ‫ن درج نہیں ہو سکے‘ اسے میری تھوڑع می سمجھ کر‘‬ ‫م ف کر دی ج ئے۔‬ ‫‪ÌÌÌÌÌÌÌ‬‬


Turn static files into dynamic content formats.

Create a flipbook
Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.