1
ذات ک خول منس نہ مقصود حسنی اہل فقر ک عصری ش ہ ی اس کے چمچوں کڑچوں سے کبھی کوئی ذاتی مس ہ نہیں رہ ۔ سقراط‘ پ دری وی نٹ ئن‘ حسین ع‘ منصور ہوں کہ سرمد‘ نے کسی ذاتی مس ہ کی وجہ سے ط قت کے خالف آواز نہیں اٹھ ئی اور ن ہی کسی حصولی کی پ داش میں موت کو گ ے لگ ی ۔ حصولی کے گ ہک موت کے خریددار نہیں ہوتے۔ وہ لوگوں کے س تھ ہونے والے ان جسٹ کے خالف میدان میں اترتے آئے ہیں۔ ظ اور ن انص فی کے خالف آواز اٹھ تے رہے ہیں۔ موت :کے منہ میں لوگوں کی خ طر گیے۔ لوگ مرے تھے جن کی خ طر وہ رہے وضو کرتے ایک ہی چیز ک ایک ہی فروخت کنندہ لوگوں سے الگ الگ بھ ؤ کرت ہے۔ ح الں کہ اصوال ایک ہی بھ ؤ ہون چ ہیے۔ کئی طرح کے بھ ؤ مع شی ن ہمواری ک سب بنتے ہیں۔
2
اس روز مجھ میں بھی فقیری نے سر اٹھ ی اور میں نے سوچ کہ یہ کئی بھ ؤ ک رواج خت ہون چ ہیے۔ میں نے ایک دوک ن دار سے اس طرح سے آخری بھ ؤ کے لیے اچھی خ صی بحث کی جیسے میں پرچون ک نہیں‘ تھوک ک گ ہک ہوں۔ میں نے اسے ص ف ص ف ل ظوں میں کہ کہ وہ بھ ؤ بت ؤ جو لین ہے۔ اس نے آخری بھ ؤ بت دی جو اس کے منہ سے نک نے والے بھ ؤ سے کہیں ک تھ ۔ مجھے بڑا برا لگ کہ یہ کیسے لوگ ہیں۔ اتن من فع کم تے ہیں۔ میں نے اسے اس طرح سے آرڈر ج ری کی ‘ جیسے میں م رکیٹ ک بڑا منشی ہوں ح الں کہ بڑے منشی کو ک ی زی دہ بھ ؤ سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ وہ تو مع م ے کو اپنی حصولی تک محدود رکھت ہے۔ دوک ن دار کو ج مع و ہوا کہ میں نے کچھ لین دین نہیں بل کہ ایک ریٹ مقرر کرنے کے لیے بحث کر رہ ہوں‘ پہ ے تو اس نے مجھے کھ ج نے والی نظروں سے دیکھ ‘ پھر پ ن س ت نہ یت آلودہ گ لی ں نک لیں۔ وہ اسی پر ہی نہ رہ بل کہ پھرتی سے اٹھ اور میرے بوتھے پر کرارے کرارے کئی تھپڑ بھی جڑ دیے۔ میں اس ن گہ نی حم ے کی توقع نہ کرت تھ لہذا ہللا کی زمین پر آ رہ ۔
3
اچھے خ صے لوگ جمع ہو گیے۔ میں نے تو لوگوں کی بھالئی اور آس نی کے لیے یہ س کی تھ ۔ لوگ میری سننے کے لیے تی ر ہی نہ تھے۔ دوک ن دار جو فروخت کے مع م ہ میں کئی زب نیں رکھت تھ ‘ کی اونچی اونچی ی وہ گوئی پر توجہ کر رہے تھے۔ کسی کو یہ کہنے کی توفی نہ ہوئی کہ ی ر وہ تو ٹھیک‘ ح اور مع شی توازن کی ب ت کر رہ ہے۔ ہر کوئی مجھ پر ہنس رہ تھ میرا ہی مذا اڑا رہ تھ ۔ اس واقعے کے بعد مجھ پر کھل گی کہ ح سچ کے لیے لڑن میرے بس ک روگ نہیں یہ منصور سے لوگوں ک ہی ک ہے۔ وہ دن ج ئے اور آج ک آئے میں نے بھی اوروں کی طرح مع مالت کو اپنی ذات تک محدود کر لی ہے۔ لوگ آج بھی مجھے دیکھ کر ہنس پڑتے ہیں۔ ان ک ہنسن مجھے ا ذات کے خول سے ب ہر نہیں ہی دیت ۔ ابوزر برقی کت خ نہ م رچ ٧