1
ایک سو ایک لوکانے منسانے شغالنے اور منظومے
مقصود حسنی ابوزر برقی کتب خانہ فروری ٢٠١٧
2
فہرست سہ گنیا
١-
اسے معلوم نہ تھا ان دنوں
٣-
آنٹی ثمرین
٤-
انصاف کا قتل
٢-
٥-
بےکار کی شرم ساری
٦-
میں مولوی بنوں گا
٧-
ایسا کیوں ہے
٨-
یہ اچھا ہی ہوا
٩-
وہی پرانا چاال
١٠
سدھر جاؤ
١١-
اچھا نہیں ہوتا
١٢-
آئندہ کے لیے
١٣-
منہ سے نکلی
١٤-
3
یک مشت
١٥-
دیگچہ تہی دامن تھا
١٦-
حکم عدولی
١٧-
لوگ کیا جانیں
١٨-
چپ کا معاہدہ
١٩-
کالی زبان
٢٠-
فیصلہ
٢١-
قاتل
٢٢-
میں کریک ہوں ٢٣- ان ہونی‘ ان ہونی نہیں ہوتی ٢٤- جذبے کی سزا ٢٥- ہللا بھلی کرے ٢٦- آخری کوشش ٢٧- تیسری دفع کا ذکر ہے ٢٨- انگلی ٢٩-
4
آخری تبدیلی کوئی نہیں ٣٠- کھڑ پینچ دی جئے ہو ٣١- سراپے کی دنیا ٣٢- میں ہی قاتل ہوں ٣٣- خیالی پالؤ ٣٤- تعلیم اور روٹی ٣٥- بوسیدہ الش ٣٦- وبال دیکھیے ٣٧- عصری ضرورت ٣٨- اماں جیناں ٣٩- اس کا نام ہدایتا ہی رہا ٤٠- بھاری پتھر ٤١- ایسے لوگ کہاں ہیں ٤٢- واہ مولوی صاحب واہ شغالن ٤٣- ذات کا خول ٤٤-
5
ہزار کا نوٹ ٤٥- پتنائی مہاورہ ٤٦- کچھ ہی دور ٤٧- ضروری نہیں ٤٨- اس حمام میں ٤٩- صرف اور صرف ٥٠- نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن ٥١- سنیئر سیٹیزنز ٥٢- امتیاز ٥٣- چوتھے کی چوتھی ٥٤- منظومے ٥٥- شاعر اور غزل ٥٦- ٹیکسالی کے شیشہ میں ٥٧- کالے سویرے ٥٨- کیچڑ کا کنول ٥٩-
6
دو لقمے ٦٠- آخری خبریں آنے تک ٦١- یہ ہی فیصلہ ہوا تھا ٦٢- حیرت تو یہ ہے٦٣- میں نے دیکھا ٦٤- کس منہ سے ٦٥- حیات کے برزخ میں ٦٦- سورج دوزخی ہو گیا تھا ٦٧- فیکٹری کا دھواں ٦٨- مطلع رہیں ٦٩- امید ہی تو زندگی ہے٧٠- میٹھی گولی ٧١- دو بیلوں کی مرضی ہے ٧٢- ذات کے قیدی ٧٣- چل' محمد کے در پر چل ٧٤-
7
عطائیں ہللا کی کب بخیل ہیں ٧٥- کرپانی فتوی ٧٦- مقدر ٧٧- دو بانٹ ٧٨- دو حرفی بات ٧٩- سوچ کے گھروندوں میں ٨٠- کیا یہ کافی نہیں ٨١- یادوں کی دودھ ندیا ٨٢- باؤ بہشتی ٨٣- کوئی کیا جانے ٨٤- کل کو آتی دفع کا ذکر ہے ٨٥- کڑکتا نوٹ ٨٦- اسالم سب کا ہے ٨٧- ڈنگ ٹپانی ٨٨- ایک اور اندھیر دیکھیے٨٩-
8
یہ حرف ٩٠- عہد کا در وا ہوا ٩١- مشینی دیو کے خواب ٩٢- اک مفتا سوال ٩٣- ریت بت کی شناسائی مانگ ٩٤- آنکھوں دیکھے موسم ٩٥- سوال کا جواب ٩٦- یہ ہی دنیا ہے ٩٧- مالک کی مرضی ہے ٩٨- سیاست ٩٩- وہ لفظ کہاں ہے‘ کدھر ہے ١٠٠- اچھا نہیں ہوتا ١٠١-
9
سہ گنیا لوکانہ
ایک بادشاہ اور اس کا وزیر گشت پر نکلے ہوئے تھے۔ دیکھا ایک درخت کے نیچے ایک ادمی سویا ہوا ہے۔ وزیر نے بادشاہ سے کہا :بادشاہ سالمت درخت کے نیچے سویا ہوا آدمی بڑے کام کا ہے۔ وہ دونوں اس شخص کے پاس چلے گئے۔ اسے جگایا اور پوچھا کہ تم کیا کیا ہنر رکھتے ہو۔ اس شخص نے بتایا کہ میں تین گن رکھتا ہوں: اول -میں اصلی اور نقلی ہیرے کی جانچ کر سکتا ہوں۔ دوئم -مجھے نسلی اور غیرنسلی گھوڑوں کی پہچان ہے۔ سوئم -مجھے آدمیوں کی پہچان ہے۔ بادشاہ اسے اپنے ساتھ لے آیا اور اس کی پانچ روپے ماہانہ تنخواہ مقرر کر دی اور اسے کہا جاؤ ہمارے قرب وجوار میں موج کرو جب تمہاری ضرورت پڑے گی بال لیں گے۔ ایک مرتبہ دربار میں ہیروں کا سوداگر آیا۔ بادشاہ کو ہیرے دکھائے۔ بادشاہ کو ایک ہیرا بہت پسند آیا۔ اچانک اسے اپنا سہ گنیا مالزم یاد آ گیا۔ اسے بالیا گیا اور پسند کیے گئے ہیرے کے متعلق پوچھا۔ اس نے وہ خوب صورت ہیرا دیکھا۔ جانچنے کے
10
بعد کہنے لگا یہ ہیرا نقلی ہے اور اس میں ریت بھری ہوئی ہے اور سوداگر سے کہا تم خاک ہیروں کے سوداگر ہو جو اصلی اور نقلی ہیرے کی پہچان نہیں رکھتے۔ سوداگر کے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے اور وہ بہت پریشان ہوا۔ حیران تو بادشا بھی ہوا۔ بادشاہ نے سوداگر سے کہا اگر اس شخص کی بات صحیح نکلی تو میں تمہارا سر اڑا دوں گا اگر یہ ہیرا اصلی نکال تو خرید لوں گا۔ پھر اس شخص سے کہا اگر ہیرا درست نکال تو تم جان سے جاؤ گے۔ ہیرا توڑا گیا تو ہیرے میں سے ریت برآمد ہوئی۔ بادشاہ اس شخص سے راضی ہوا اور اس کی پانچ روپے تنخواہ برقرار رکھی۔ کچھ ہی وقت گزا ہو گا کہ ایک گھوڑوں کا سوداگر آیا۔ اس کے پاس ون سونی نسل کے گھوڑے تھے۔ ان میں سے بادشاہ کو ایک گھوڑا بہت پسند ایا۔ پہچان کے لیے اس شخص کو دوبارہ سے طلب کیا گیا گیا اور اپنی پسند کے گھوڑے کے متعلق دریافت کیا۔ اس شخص نے گھوڑے کو دیکھنے کے بعد کہا :گھوڑے کے نسلی ہونے میں کوئی شک نہیں لیکن اس کی کمر میں رسولی ہے۔ گھوڑوں کے سوداگر سے کہا تم کیسے گھوڑوں کے سوداگر ہو کہ جانور میں موجود اعضائی نقص سے بےخبر
11
رہتے ہو۔ گھوڑوں کے سوداگر کو سخت پریشانی ہوئی۔ اس گھوڑے کے حوالہ سے اسے انعام واکرام ملنے کی امید تھی۔ جانوروں کے امراض کے ماہر کو بالیا گیا۔ اس نے گھوڑے کا طبی معائینہ کیا اور کمر میں رسولی ہونے کی تصدیق کر دی۔ بادشاہ گھوڑوں کے سوداگر سے سخت خفا ہوا اور اسے دربار سے دھکے دے کر نکال دیا۔ بادشاہ اپنے اس مالزم کی پرکھ پہچان پر بہت راضی ہوا اور اس کی تنخواہ پانچ روپے برقرار رکھی۔ ایک دن بادشاہ نے سوچا کیوں نہ تیسری خوبی بھی آزمائی جائے۔ اسے بالیا گیا۔ بادشاہ نے اس سے پوچھا کہ تم میرے بارے میں کیا کہتے ہو کہ میں کون ہوں۔ بادشاہ کو اپنے اعلی نسل ہونے کا یقین تھا اور اس پر فخر و غرور بھی تھا۔ اس شخص نے کافی پس و پیش سے کام لیا لیکن بادشاہ کا اصرار بڑھتا گیا۔ اس شخص نے جان بخشی کی درخواست کی۔ بادشاہ نے جان بخشی کا وعدہ کیا تو اس شخص نے بتایا کہ تم چوڑے کی اوالد ہو۔ بادشاہ نے تلوار نیام سے نکالی اور کہا کہ یہ تم کیسے اور کس بنیاد پر کہتے ہو۔ بادشاہ کے ہاتھ میں وعدہ خالفی کے حوالہ سے تلوار دیکھی تو زوردار قہقہ لگا کر کہنے لگا :اے بادشاہ
12
میں نے ہیرے کی پرکھ بتائی تم خوش ہوئے لیکن میری تنخواہ پانچ ہی رہنے دی۔ گھوڑے کے متعلق درست بتایا تم خوش ہوئے لیکن میری پانچ روپے ہی رہنے دی۔ اب وعدہ خالفی کرکے تلوار نیام سے نکال رہے ہو۔ جب میں نے بتانے سے انکار کیا تو تمہیں علیدگی میں پوچھنا چاہیے تھا۔ تمہارے کام ہی چوڑوں جیسے ہیں‘ میں نے اسی بنیاد پر تمہیں چوڑے کی اوالد کہا ہے۔ مجھے قتل کرنے سے پہلے اپنی ماں سے جا کر پوچھ کہ تم کس کی اوالد ہو۔ بادشاہ غصہ سے ہاتھ میں ننگی تلوار لے کر ماں کی طرف بھاگا۔ اس کی ماں آرام کر رہی تھی۔ اس نے جا کر ماں کو اٹھایا اور کہا سچ بتا کہ میں کس کی اوالد ہوں۔ ماں اس کا یہ رویہ اور تیور دیکھ کر حیران رہ گئی۔ اس نے کہا اپنے باپ کی اوالد ہو اور کس کی ہو۔ پھر بادشاہ نے تلوار لہرائی اور کہا سچ سچ بتاؤ کہ میں کس کی اوالد ہوں۔ پھر اس کی ماں نے بتایا کہ میرا خاوند جنگ میں تھا اور اسے گھر آئے کافی دن ہو گئے میرا دل بڑا چاہا تو میں نے گھر میں جھاڑو بھاری کرنے والے کو استعمال کر لیا اور پھر وہ ہی میرے کام آنے لگا۔ تمہارا وزیر وہی چوڑا ہی تو ہے۔ محلوں میں یہ الگ سے اور انوکھا واقعہ نہیں ہے۔ یہ سننا تھا کہ بادشاہ چکرا گیا اور وہیں سر پکڑ کر زمین پر بیٹھ گیا۔
13
اسے معلوم نہ تھا لوکانہ ایک شخص درخت کے نیچے منہ کھولے گہری نیند سو رہا تھا کہ ایک سپولیہ اس کی جانب بڑھا۔ دریں اثنا ایک گھڑسوار وہاں آ پہنچا۔ وہ پھرتی سے گھوڑے سے نیچے اترا۔ اس کے نیچے اترتے اترتے سپولیہ سوئے ہوئے شخص کے منہ میں گھس گیا۔ وہ بڑا پریشان ہوا۔ اچانک اسے کچھ سوجھا اور اس نے سوئے ہوئے شخص کو زور زور سے چھانٹے مارنا شروع کر دیے۔ سویا ہوا شخص گھبرا کر جاگ اٹھا اور اس نے گھڑسوار اس نے کہا وجہ چھوڑو ‘سے چھانٹے مارنے کی وجہ پوچھی اور تیز رفتاری سے بھاگو ورنہ اور زور سے ماروں گا۔ اس شخص نے بھاگنا شروع کر دیا۔ جب رکنے لگتا تو وہ چھانٹے مارنا شروع کر دیتا۔ رستے میں ایک ندی آ گئی۔ گھڑسوار نے کہا پانی پیو۔ اس نے پیا۔ اس نے چھانٹا مارتے ہوئے کہا اور پیو۔ اس نے اور پیا اور کہا اب مزید نہیں پی سکتا۔ اچھا نہیں پی سکتے تو بھاگو۔ وہ بھاگتا جا رہا تھا اور ساتھ میں وجہ بھی پوچھے جاتا۔ گھڑسوار وجہ نہیں بتا رہا تھا ہاں البتہ بھاگنے کے لیے کہے جاتا تھا۔
14
تھوڑا آگے گیے تو ایک سیبوں کا باغ آ گیا۔ گھڑ سوار نے کہا نیچے گرے ہوئے سیب کھاؤ۔ اس نے کھائے اور کہا مزید نہیں کھا سکتا۔ گھڑسوار نے زوردار چھانٹا مارتے ہوئے کہا‘ میں کہتا ہوں اور کھاؤ۔ اس نے کھانا شروع کر دیا۔ پھر کہنے لگا اور نہیں کھا سکتا مجھے قے آ رہی ہے۔ ہاں ہاں کھاتے جاؤ جب تک قے نہیں آ جاتی تمہیں سیب کھاتے رہنا ہو گا۔ وہ سیب کھاتا رہا کہ اسے زوردار قے آ گئی۔ قے کے ساتھ ہی سپولیہ بھی باہر آ گیا۔ تب اس پر اصل ماجرا کھال۔ وہ گھڑسوار کا شکرگزار ہوا اور اس نے معافی مانگی کہ وہ بھاگتے پانی پیتے اور سیب کھاتے ہوئے جی ہی جی میں اسے گالیاں اور بددعائیں دے رہا تھا اور اس مصبیت سے چھٹکارے کے لیے دعائیں کر رہا تھا۔ تمہاری بددعائیں مٹی ہوئیں ہاں البتہ دعائیں کارگر ثابت ہوئیں۔۔ اسے قطعا معلوم نہ تھا کہ اس ظاہری برائی میں خیر چھپی ہوئی ہے۔ گھڑسوار مسکرایا اور اپنی منزل کو چل دیا
15
ان دنوں لوکانہ
اس بچی کا اصل نام ارشاد تھا لیکن سیاہ رنگت کے سبب کالی ماتا نام عرف عام میں آ گیا تھا۔ خصوصا بچے اسے چھیڑنے کے لیے شاداں کالی ماتا کہہ کر پکارتے۔ وہ اس نام پر پٹ پٹ جاتی۔ اکثر نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی۔ وہ تو چڑتی تھی ہی لیکن اس کی ماں اس سے زیادہ تاؤ میں آ جاتی اور چھیڑنے والے کو اگلے گھر تک پہنچا کر آتی۔ اس روز ہم سائے کا لڑکا جو عمر میں شاداں کے برابر کا تھا۔ شاداں کو کالی ماتا کہہ کر اپنے گھر بھاگ گیا۔ شاداں نے اپنی ماں کو آ کر شکایت لگائی۔ شاداں کی ماں نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ ان کے گھر جا کر اس لڑکے کو دو تین زوردار جڑ آئی۔ پھر کیا تھا میدان لگ گیا۔ اس لڑکے کی ماں نے اونچی اونچی بولنا شروع کر دیا۔ شاداں کی ماں بھی نیچے چونکی رکھ کر دیوار کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ پہلے سادا گرم کاری ہوئی اس کے بعد آلودہ لفظوں کے دھارے کھل گئے۔ دونوں بیبیاں تھکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔ انہوں نے ایک دوسرے کے نئے پرانے راز اگل کر رکھ دیے۔ بہت سی پس پردہ باتیں اور حقائق کھل گئے اور دونوں کی کردای شرافت پر برسوں کا پڑا پردہ اٹھ گیا۔
16
ابھی زور دار بم باری کا سلسلہ جاری تھا کہ شاداں کا دادا گھر آ گیا۔ بہو کو گرجتے برستے دیکھ کر ماجرہ پوچھا۔ شاداں کی ماں نے بہت سی پاس سے لگا کر سسر کو کہانیاں سنائیں۔ یہ بھی بتایا کہ کافٹین کا بیٹا میری شاداں کو کالی ماتا کہہ کر چھیڑتا ہے۔ بندہ سیانا تھا۔ اس نے بہو سے پوچھا شاداں کدھر ہے۔ شاداں کی ماں نے گھر میں ادھر ادھر اسے تالشا وہ گھر پر نہ تھی۔ شاداں کا دادا کہنے لگا اسے نہ تالشو وہ گھر میں نہیں ہے باہر بچوں کے ساتھ کھیل رہی ہے۔ اس کی پارٹی میں ہم سائی کا لڑکا ہے۔ پھر اس نے اونچی آواز میں ہم سائی سے کہا بیٹا بچوں کی وجہ سے نہ لڑو‘ تم ادھر لڑ رہی ہو باہر یہ ہی بچے آپس میں مل کر کھیل رہے ہیں۔ بچوں کے لیے لڑنا کھلی حماقت ہے۔ بلڑے کی باتیں سن کر دونوں بیبیاں بڑی شرمندہ ہوئیں اور شرم سے اندر گھس گئیں۔ بچوں نے تو ان کے پلے کچھ نہ چھوڑا تھا۔ کئی دنوں تک بول بالرے کے نتیجہ میں ان کی باہمی رنجش چلتی رہی اور پھر ماضی گئی گزری کی قبر میں دفن ہو گیا۔ وقت پر لگا کر محو سفر رہا۔ بچے جوان ہو گئے۔ شیداں اور کافٹین کا لڑکا جیرا آپس میں سٹ ہو گئے۔ ان کی یہ باہمی ہیلو
17
ہائے دو سال تک چلی۔ عزت بچانے کی خاطر دونوں کے مائی باپ کو راضی ہونا پڑا اور ان کی شادی طے کر دی گئی۔ ان دنوں جیرا اور شیداں ایک چھت تلے رہ رہے ہیں اور جیرے کے لیے شیداں حسینہ عالم ہے۔ وہ اس کی بات ٹالنے کو بھی پاپ سمجھتا ہے۔
18
آنٹی ثمرین منسانہ ماں کی محبت کے بارے میں کچھ کہنا سورج کو چاند دکھانے والی بات ہے۔ یہ کسی دلیل یا ثبوت کی محتاج نہیں ہوتی۔ ماں بچوں کے لیے جو مشقت اٹھاتی ہے کوئی اٹھا ہی نہیں سکتا۔ اس کی سانسیں اپنے بچے کے ساتھ اول تا آخر جڑی رہتی ہیں۔ وہ اپنے بچے کے لیے کسی بھی سطع تک جا سکتی ہے۔ اس کا ہر کیا بال کا حیرت انگیز ہوتا ہے۔ ماں بچے کے لیے اپنی جان سے بھی گزر جاتی ہے۔ یہ محبت اور شفقت اس کی ممتا کی گرہ میں بندھا ہوا ہوتا ہے اس لیے حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔ محبت اس کی ممتا کا خاصا اور الزمہ ہے۔ عورت اپنے پچھلوں کے معاملہ میں اوالد سے بھی زیادہ حساس ہوتی ہے۔ اس ذیل میں اس کا قول زریں ہے کہ نہ ماں باپ نے دوبارہ آنا ہے اور نہ بہن اور بھائی پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس کا دو نمبر بھائی بھی قطب نما اور باپ کو نبی قریب سمجھتی ہے۔ ان کی کوئی کمی خامی یا خرابی اس کو نظر نہیں آتی یا ان سے کمی کوتاہی سرزد ہوتی ہی نہیں۔ جب کہ خاوند کی ماں عموما ففے کٹن اور باپ لوبھی اور اللچی ہوتا ہے۔ بہن بھائی تو خیر دو نمبری کی آخری سطع کو چھو رہے ہوتے ہیں۔
19
کرم بی بی بھی اول تا آخر عورت تھی اور وہ بھی یہ ہی اصولی اطوار رکھتی تھی۔ وہ اپنے بیٹے کے لیے بہن کی بیٹی النا چاہتی تھی جب کہ اس کا خاوند ادھر رشتہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ لڑکی میں کوئی کجی یا خامی نہ تھی۔ بس وہ ادھر رشتہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ ان کے گھر میں کئی ماہ سے یہ ہی رگڑا جھگڑا چل رہا تھا۔ جوں ہی گھر میں وہ قدم رکھتا کل کلیان شروع ہو جاتی اور یہ اگلے دن اس کے کام پر جانے تک تھوڑے تھوڑے وقفے کے ساتھ چلتی رہتی۔ ایک دن اس نے اپنے ایک قریبی دوست سے معاملہ شیئر کیا، وہ ہنس پڑا او یار اس میں پریشانی والی کیا بات ہے۔ بھابی کو اپنی ڈال دو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اپنی کیا ڈالوں۔ یہ ہی کہ تم درسری شادی کرنے والے ہو۔ عورت تم نے پسند کر لی ہے۔ اس نے کہا یار میں پاگل ہوں جو ایک بار شدگی کے بعد کوئی عورت پسند کروں گا۔ تمہیں کس نے کہا ہے کہ یہ حماقت کرو‘ جعلی کردار تخلیق کرو۔
20
اسے اپنے دوست کا آئیڈیا پسند آیا۔ طے یہ پایا کہ وہ ٹیلی فون پر مس کال کرے گا۔ اس کے بعد وہ جعلی عورت سے دیر تک رومان پرور باتیں کرتا رہے گا۔ پہلے ہفتے زبانی کالمی اگلے ہفتے سے ٹیلی فونک سلسلہ چلے گا۔ اس دن جب رشتے کی بات شروع ہوئی تو اس نے اپنی محبت کی کہانی چھیڑ دی۔ پہلے تو اس کی بیوی کو یقین نہ آیا۔ اس کا خیال تھا کہ اسے کون پسند کرے گی۔ اس نے بتایا کہ وہ بڑے بلند مرتبہ شخص کی سالی ہے۔ اسے طالق ہو گئی ہے۔ بڑی ہی خوب صورت ہے۔ اس کی چھوٹی چھوٹی دو بیٹیاں ہیں۔ کرم بی بی کچھ دن اسے الف زنی خیال کرتی رہی ۔ اگلے ہفتے ٹیلی فون آنا شروع ہو گئے۔ وہ دیر تک جعلی عورت سے جعلی رومان پرور باتیں کرتا۔ کئی بار باتوں کے درمیان کہیں سے ٹیلی فون بھی آیا۔ کرم بی بی اتنی پیدل ہو گئی کہ اس نے غور ہی نہ کیا کہ ٹیلی فون کرنے کے دوران ٹیلی فون کیسے آ سکتا ہے۔ کرم بی بی بھانجی کا رشتہ النے کا مسلہ بھول سی گئی اسے اپنی پڑ گئی۔ اسے گھر میں اپنے وجود کا خطرہ الحق ہو گیا۔ گھر میں اکیلی دھندناتی تھی سوت کے آ جانے کے دکھ نے اسے ادھ موا کر دیا۔ ان ہی دنوں لڑکے کا رشتہ آ گیا جیسے سوت کے آنے سے پہلے کر لیا گیا مبادہ سوت کے آنے کے بعد
21
کیا حاالت ہوں۔ کرم بی بی کے ذہن میں یہ بات نقش ہو گئی کہ سوت کے آنے کے بعد حاالت برعکس ہو جائیں گے۔ لڑکے کی شادی کو ابھی دس دن ہی گزرے ہوں گے کہ ولی محمد اپنے کمرے میں اداس بیٹھا ہوا تھا۔ بات بات پر برہم ہوتا اور کبھی رونے لگتا۔ کوئی کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اسے اچانک کیا ہو گیا ہے۔ اتنا اداس اور رنجیدہ کیوں ہے۔ سب بار بار پوچھتے کہ آپ اتنے پریشان اور اداس کیوں ہیں۔ ہر کسی سے یہ ہی کہتا کب پریشان ہوں۔ میں کیوں اور کس سے اداس ہونے لگا۔ آخر کرم بی بی ہی دور کی کوڑی الئی۔ کہنے لگی تمہاری ثمرین تو دغا نہیں دے گئی ۔ ولی محمد نے حیرت سے پوچھا تمہیں کیسے پتا چال۔ کوئی ٹیلی فون تو نہیں ایا۔ کرم بی بی کی باچھیں کھل گئیں۔ کہنے لگی کہتی تھی نا کہ تم سے عین غین بندے سے کون نبھا کر سکتا ہے وہ میں ہی ہوں جو تمہارے ساتھ نبھا کر رہی ہوں ۔ کرم بی بی بال تھکان بولتی رہی وہ موٹے موٹے آنسوبہاتا گیا۔ اس کی یہ کئی ماہ اور خصوصا اس روز کی اداکاری دلیپ کمار بھی دیکھ لیتا تو عش عش کر اٹھتا۔ اس گیم میں اسے تین نوعیت کے دکھوں سے پاال پڑا۔ سالی کی بیٹی کا بیٹے کے لیے رشتہ نہ لینے کی وجہ سے عارضی سہی
22
قیامت سے گزرنا پڑا۔ جعلی ثمرین کی جعلی محبت کا ڈرامہ زبردست بےسکونی کا سبب بنا لیکن اصل مسلہ حل ہو گیا۔ جعلی ثمرین آج بھی کنبہ میں اپنے حقیقی وجود کے ساتھ موجود ہے۔ آج جب وہ بوڑھا ہو چکا ہے۔ چلنے پھرنے سے بھی قاصر وعاجز ہے اسے ثمرین سے دیوانگی کے ساتھ محبت کا طعنہ ملتا ہے۔ یہ طعنہ اسے اتنا ذلیل نہیں کرتا جتنا کہ اس کے چھوڑ جانے کا طعنہ ذلیل کرتا ہے۔ کرم بی بی کہتی آ رہی ہے اگر تم ساؤ پتر ہوتے تو وہ تمہیں چھوڑ کر کیوں جاتی۔ یہ میں ہی ہوں جو تم ایسے بندے کے ساتھ گزرا کرتی چلی آ رہی ہوں کوئی اور ہوتی تو کب کی چھوڑ کرچلی جاتی۔ خاندانی ہوں اور میں اپنے مائی باپ کی الج نبھا رہی ہوں۔
23
انصاف کا قتل لوکانہ ایک بار ایک بادشاہ جوانوں کے لنگر خانے گیا۔ صفائی درست تھی۔ پھر اس نے پوچھا کہ جوانوں ‘ستھرائی چیک کی کے لیے کیا پکایا ہے۔ جواب مال بتاؤں یعنی بیگن۔ بادشاہ سخت ناراض ہوا کہ جوانوں کے لیے اتنا گھٹیا کھانا کیوں پکایا گیا ہے۔ اس کے مشیر نے بیگن کی بدتعریفی میں زمین آسمان ایک کر دیے۔ بہر کیف لنگر کمانڈڑ نے معذرت کی اور آئندہ سے بیگن نہ پکانے اور اچھا کھانا پکانے کا وعدہ کیا تو بادشاہ لنگرخانے سے رخصت ہو گیا۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد بادشاہ کو دوبارہ سے جوانوں کے لنگرخانے جانے کا اتفاق ہوا۔ سوئے اتفاق اس روز بھی بیگن پکائے گئے تھے۔ بادشاہ نے بیگن کی تعریف کی۔ وہ ہی مشیر ساتھ تھا اس نے بیگن کی تعریف میں ممکنہ سے بھی آگے بیگن کے فوائد بیان کر دیے۔ گویا بیگن کے توڑ کی کوئی سبزی اور پکوان باقی نہ رہے۔ لنگر کمانڈر خوش ہوا اور آگے سے بیگن کے برابر اور متوار پکائے جانے کا وعدہ کیا۔
24
بادشاہ اس مشیر کی جانب مڑا اور کہنے لگا کہ اس دن میں نے بیگن کی بدتعریفی کی تو تم نے بیگن کی بدتعریفی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ آج جب کہ میں نے تعریف کی ہے تو تم نے کیوں۔ ‘بیگن کی تعریف میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی اس نے جوابا کہا حضور میں آپ کا غالم ہوں بیگن کا نہیں۔ یہ سن کر بادشاہ نے کہا تم سے جی حضوریے حق اور سچ کو سامنے نہیں آنے دیتے جس کے سبب صاحب اقتدار متکبر ہو جاتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں ان سے انصاف نہیں ہو پاتا۔ انصاف کا قتل ہی قوموں کے زوال کا سبب بنتا ہے۔ پہلے تو وہ جی حضوریہ چپ رہا پھر کہنے لگا حضور جان کی امان پاؤں تو ایک عرض کروں۔ بادشاہ نے کہا :کہو کیا کہنا چاہتے ہو۔ حضور سچ اور حق کی کہنے والے ہمیشہ جان سے گئے ہیں۔ بادشاہ نے کہا :یاد رکھو سچ اور حق جان سے بڑھ کر قیمتی ہیں۔ مرنا تو ایک روز ہے ہی سچ کہتے مرو گے تو باقی رہو گے۔ ہاں جھوٹ کہنے یا اس پر درست کی مہر ثبت کرنے کی صورت میں بھی زندہ رہو گے لیکن لعنت اور پھٹکار اس زندگی کا مقدر بنی رہے گی۔
25
بےکار کی شرم ساری منسانہ
یہ ہی کوئی پچیس تیس سال پہلے کی بات ہے۔ یہاں ہللا بخشے مولوی دین محمد ہوا کرتے تھے۔ بڑے ہنس مکھ اور خوش طبع تھے۔ کھانے پینے کے معاملہ میں بڑے سادہ اور فراخ مزاج واقع ہوئے تھے۔ پہلے کتنا بھی کھا چکے ہوتے اس کے بعد بھی جو ملتا بسم ہللا کرکے ہڑپ جاتے۔ اس ذیل میں انکار نام کی چیز سے بھی ناآشنا تھے۔ اوالد بھی ہللا نے انہیں کافی سے زیادہ دے رکھی تھی۔ ان کی رن حد درجہ کی کپتی تھی۔ عزت افزائی کرتے آیا گیا بھی نہ دیکھتی تھی۔ گویا وہ مولوی صاحب کی لہہ پہا کے لیے موقع تالشتی رہتی تھی۔ بعض اوقات بالموقع بھی بہت کچھ منہ سے نکال جاتی تھی۔ انسان تھے چھوٹی موٹی غلطی ہو ہی جاتی بس پھر وہ شروع ہو جاتی۔ سب جانتے تھے کہ حد درجہ کی بوالر ہے۔ ہاں اس کے بوالرے سے مولوی صاحب کے بہت سے پوشیدہ راز ضرور کھل جاتے۔ مولوی صاحب نے کبھی اسے ذلیل کرنے کے لیے موقع کی تالش نہ کی تھی۔ ہاں البتہ خود بچاؤ کی حالت میں ضرور رہتے تھے۔ انسان تھے آخر کب تک برداشت کرتے‘ انہوں نے بھی اسے
26
ذلیل کرنے کی ٹھان لی۔ ایک مرتبہ ان کے گھر میں بہت سے مہمان آئے ہوئے تھے۔ کھرے میں دھونے والے کافی برتن پڑے ہوئے تھے‘ انہیں دھونے بیٹھ گئے اور ساتھ میں مولویانہ انداز میں آواز لگائی کہ کوئی اور برتن موجود ہو تو دے جاؤ۔ ان کی بیوی نے نوٹس لیا اور گرج دار آواز میں کہنے لگی کیوں ذلیل کرنے پر اتر آئے ہو پہلے تم دھوتے ہو۔ پھر اس نے زبردستی انہیں وہاں سے اٹھا دیا۔ مولوی نے اس کے ہارے ہارے سے طور کو خوب انجوائے کیا۔ کچھ ہی دنوں بعد ایک اور ایسا واقعہ پیش آیا۔ اندر پان سات عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں یہ کپڑے دھونے کے انداز میں بیٹھ گئے اور آواز لگائی کوئی اور دھونے واال کپڑا پڑا ہو تو دے جاؤ مجھے کہیں جانا ہے۔ کوئی رہ گیا تو مجھے نہ کہنا۔ مولویانی پر پہلے کی کیفیت طاری ہو گئی اور اس نے انہیں کھرے سے اٹھا دیا کہ کیوں ذلیل کرتے ہو۔ مولوی صاحب کا خیال تھا کہ ان کی رن عورتوں میں ذلیل ہو جائے گی اور سب اسے توئے توئے کریں گے لیکن معاملہ الٹ ہو گیا۔ عورتوں میں مشہور ہو گیا کہ مولوی صاحب کے پہلے کچھ نہیں رہا تب ہی تو اتنا تھلے لگ گیا ہے۔ پاگل تھیں کہ اگر مولوی صاحب کے پلے کچھ نہ ہوتا تو اتنے بچے کیسے ہو گئے۔ رشتہ داروں میں جاتے یا گلی سے گزرتے تو عورتیں انہیں دیکھ کر ہنستیں۔ وہ کیسے ان سب کو یقین دالتے کہ وہ
27
ٹھیک ہیں انہوں نے تو یہ سب ان کے ساتھ ہونی کا بدال اتارنے کے لیے کیا تھا۔ اتنے خوش طبع مولوی صاحب سنجیدہ سے ہو گئے۔ اسی طرح لوگوں کے ہاں سے کھانے پینے کے مواقع بھی بےکار کی شرم ساری کی لحد میں اتر گیے۔ اس واقعے کے بعد انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ کوئی کیا کرتا ہے اس کو مت دیکھو تم ہمیشہ اچھا کیا کرو کیوں کہ اچھا کرنے میں ہی خیر اور اچھائی ہے۔ .....................................
28
میں مولوی بنوں گا منسانہ میں نے تنویر کے مستقبل کے بڑے سنہرے خواب دیکھ رکھے تھے۔ ًمیں اسے بہت بڑا آدمی بنانا چاہتا تھا۔ اس نے میٹرک میں اچھے نمبر حاصل کرکے دل خوش کر دیا۔ اسے کھیل کود سے کم کتاب سے زیادہ دلچسپی تھی۔ جب کبھی اسکول گیا استاد اس کی تعلیمی حالت کی تعریف کرتے۔ ان کے منہ سے اپنے بیٹے کی تعریف سن کر دل خوشی سے باغ باغ ہو جاتا۔ منہ سے اس کے اچھے مستقبل کے لیے بےاختیار ڈھیر ساری دعائیں نکل جاتیں۔ ایف اے میں بھی تعلیمی معاملہ میں اچھا رہا۔ تھرڈ ایئر میں آیا تو اس نے چھوٹی چھوٹی داڑھی رکھ لی۔ نماز روزے کا بھی پابند ہو گیا۔ یہ دیکھ کر اور بھی خوشی ہوئی کہ چلو تعلیم میں بہتر کارگزاری کے ساتھ ساتھ نیک راہ پر بھی چل نکال ہے ورنہ آج کے ماحول میں بےراہروی ہی لڑکی لڑکوں کا وتیرہ بن گیا ہے۔ یہ بےراہروی انہیں بدتمیز بھی بنا رہی ہے۔ بڑے چھوٹے کا کوئی پاس لحاظ ہی نہیں رہا۔ تھرڈ ایئر تو خیر سے گزر گئی اور اس نے اچھے نمبر بھی حاصل کیے۔ فورتھ ائیر ہم سب کے لیے قیامت ثابت ہوئی۔ اس نے داڑھی بڑھا دی اور ایک
29
دن کالج کی پڑھائی چھوڑنے کا اعالن کر دیا۔ اس کا یہ اعالن میرے دل و دماغ پر اٹیم بم بن کر گرا۔ مجھے پریشانی کے ساتھ ساتھ حیرانی بھی ہوئی کہ آخر اسے اچانک یہ کیا ہو گیا ہے۔ اس نے یہ فیصلہ کیوں کیا ہے کہ میں دینی مدرسے میں داخل ہو کر مستند مولوی بنوں گا۔ کہاں کالج کی پڑھائی کہاں مولوی بننے کا اعالن‘ عجب مخمصے میں پڑ گیا۔ میں دو تین دن اس کے پیچھے پڑا رہا کہ آخر اس نے مولوی بننے کا کیوں ارادہ کیا ہے۔ کچھ بتاتا ہی نہ تھا۔ چوتھے دن اس نے بڑے غصے اور اکتائے ہوئے لہجے میں کہا کہ میں کفر کے فتوے جاری کرنے کے لیے مستند مولوی بننا چاہتا ہوں۔ کفر کے فتوے۔۔۔ کس پر۔۔۔۔ مگر کیوں۔ میں پہال کفر کا فتوی آپ کے خالف جاری کروں گا۔ یہ سن کر میرے طور پہوں گئے۔ میرے خالف یعنی باپ کے خالف۔ میں اس کا کھال اعالن سن کر دم بہ خود رہ گیا۔ پھر میں نے پوچھا :میاں آخر تم نے مجھ میں کون سی ایسی کفریہ بات دیکھ لی ہے۔ کہنے لگا :میری ماں آپ کی خالہ زاد ہے آپ انہیں خوب خوب جانتے تھے کہ بڑی بوالر ہے تو شادی کیوں کی۔ کیا اور لڑکیاں مر گئی تھیں۔ آپ دونوں نے لڑ لڑ کر ہم سب کا جینا حرام کر دیا ہے۔ غلطی آپ کی ہے کہ آپ اسے بولنے کا موقع دیتے ہیں۔
30
اییسی بات کیوں کرتے ہیں کہ وہ سارا سارا دن اور پھر رات گئے تک بولتی رہے۔ اس کی اس بات نے مجھے پریشان کر دیا۔ میں نے فیضاں کو بلوایا اور کہا بیٹے کے ارادے سنے ہیں نا۔ ہاں میں نے سب کچھ سن لیا ہے۔ ٹھیک ہی تو کہہ رہا ہے۔ ایسی بات کیوں کرتے ہیں جس سے مجھے غصہ آئے اور میں بولنے لگوں۔ چلو میں کسی دوسری جگہ تبادلہ کروا لیتا ہوں لہذا تم کالج کی پڑھائی جاری رکھو۔ ہاں ہاں اچھا فیصلہ ہے کہ پھر ہمارے ساتھ ڈٹ کر بول بوالرا کرتی رہے۔ وہ تلخ اور طنز آمیز لہجے میں بوال ماں آپ فکر نہ کرو آپ بھی میرے فتوے کی زد میں آؤ گی۔ خاوند کی اتنی بےعزتی اسالم میں جائز نہیں۔ بیٹے کی یہ بات سن کر وہ ہکا بکا رہ گئی۔ اسے امید نہ تھی کہ تنویر ایسی بات کرے۔ پھر ہم دونوں میاں بیوی کی نظریں ملیں۔ ہم دونوں کی آنکھوں میں دکھ اور پریشانی کے بادل تیر رہے تھے۔ ہم اسے بہت بڑا آدمی بنانے کے خواب دیکھ رہے تھے کہ بیٹا کچھ کا کچھ سوچ رہا تھا۔ پھر ہم دونوں کے منہ سے بےاختیار نکل گیا۔ بیٹا تم کالج کی پڑھائی نہ چھوڑو ہم آگے
31
سے نہیں لڑیں گے بل کہ معامالت بات چیت سے طے کر لیا کریں گے۔ تنویر مان ہی نہیں رہا تھا۔ اس کا اصرار تھا کہ وہ مولوی ہی بنے گا۔ وہ کہے جا رہا تھا کہ آپ وعدہ پر پورا نہیں اترو گے۔ کافی دیر تکرار و اصرار کا سلسلہ جاری رہا۔ تنویر کو آخر ہمارے تکرار اصرار کے سامنے ہتھیار ڈالنا ہی پڑے اور وہ کالج کی کتاب لے کر بیٹھ گیا اور ہم چپ چاپ اس کے کمرے سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلے گیے۔
32
ایسا کیوں ہے لوکانہ
میں عقیدت‘ پیار‘ محبت اور کچھ موسمی سوغات کی پنڈ اٹھائے پیر صاحب کے در دولت پر حاضر ہوا۔ دروازے پر دستک دی۔ اندر سے ان کی بےغم صاحب دروازے پر آئیں۔ میں نے انہیں اپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ میں ان کا ماننے واال خادم ہوں اور یہ سوغات باطور نذرانہ لے کر حاضر ہوا ہوں۔ بےغم صاحب نے سوغات کی پنڈ لے لی اور کہا :تمہارا جعلی پیر ادھر ادھر ہی کہیں دھکے کھاتا پھرتا ہو گا۔ جاؤ جا کر تالش لو۔ اس کے انداز اور رویے پر مجھے حیرت اور پریشانی ہوئی۔ اس کے خاوند کو ایک زمانہ مانتا تھا لیکن یہ ان کے لیے رائی بھر دل میں عزت نہ رکھتی تھی۔ اس کا لہجہ انتہائی ذلت آمیز طنز میں ملفوف تھا۔ بڑا ہی حیران کن تجربہ تھا۔ سوغات حاصل کرنے میں ایک منٹ کی دیر نہ کی۔ پانی دھانی ایک طرف اس کا اپنے خاوند کے بارے انداز قطعی افسوس ناک تھا۔ کیا کہتا‘ وہ میری عزت کی جا تھی۔ میں چپ چاپ وہاں سے افسوسیہ سوچ لے کر چل دیا۔ سوچوں میں غلطاں میں یوں ہی ایک طرف کو چل دیا۔ ابھی تھوڑی ہی دور گیا ہوں گا کہ حضرت پیر صاحب آتے دکھائی
33
دیے۔ وہ ببر شیر پر سوار تھے۔ شیر کو لگام ڈالی ہوئی تھی ببر شیر بڑی تابعداری سے ان کے حکم کی تعمیل میں قدم اٹھا رہا تھا۔ انہوں نے میری طرف دیکھا اور مسکرائے۔ فرمانے لگے: بیٹا شیر کو لگام ڈالنا آسان کام ہے مگر گھروالی کو تابع رکھنا ممکن نہیں۔ دیکھو سیدنا نوح علیہ السالم کتنے بڑے انسان تھے لیکن بیگم انہیں نہیں پہچانتی تھی تب ہی تو نافرمان تھی۔ سقراط کو لے لو منفرد اور نایاب شخص تھا۔ ساری دنیا عزت کرتی تھی لیکن گھروالی اسے نہیں پہچانتی تھی‘ تب ہی تو گستاخ تھی۔ یہ بھی یاد رکھو! پیٹ نواز حفظ مراتب جان لیں تو زندگی نکھر نہ جائے۔ بیٹا دل میں مالل نہ الؤ۔ جو تم نے دیکھا وہ اس کی کرنی ہے برداشت ہللا کے احسان سے میرا فعل ہے۔ میں درحقیقت اپنی گھر والی کی شکایت لے کر گیا تھا اور چاہتا تھا کہ وہ دعا فرمائیں تا کہ اس کا منہ بند ہو جائے۔ واپسی پر سوچتا سوچتا آ رہا تھا کہ ہم تو معمولی لوگ ہیں‘ پیر صاحب سے بڑے لوگ ان بیبیوں کے سامنے بےبس ہیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ ایسا کیوں ہے۔ پھر خیال گزرا کہ ان بیبیوں کے سامنے رات تنہائی میں فعل مخصوص انجام دینے کے دوران کمل مارنے واال شخص ہوتا ہے اور وہ اسی تناظر میں صبح انجام پانے والے امور کو دیکھتی ہیں اور وہ سب انہیں خودساختہ سا
34
محسوس ہوتا ہے حاالں کہ وہ ہر اچھا ہللا کی رضا کے لیے انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ ممکن ہے یہ سوچ غلط اور بےبنیاد ہو لیکن کہیں ناکہیں اور کسی سطح پر اس امر کا عمل دخل ضرور ہوتا ہے۔
35
یہ اچھا ہی ہوا لوکانہ عالقے کے مولوی صاحب دھنیے دکان دار سے ادھار سودا لیا کرتے تھے۔ چوں کہ مولوی صاحب تھے اس لیے وہ بڑی برداشت اور لحاظ مروت سے ادھار سودا دیتا رہا۔ ادھار کی رقم کافی ہو گئی اور معاملہ دھنیے کی بسات و برداشت سے باہر ہو گیا تو اس نے ادھار سودا دینے سے صاف انکار کر دیا۔ مولوی صاحب نے کہا :اگر تم نے سودا نہ دیا تو یہ تمہارے لیے اچھا نہ ہو گا۔ دھنیے نے کہا :ٹھیک ہے جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ مولوی صاحب نے اس کی جانب طنز آمیز غصے سے دیکھا۔ دھنیے کے چہرے پر کسی قسم کی فکرمندی یا مالل نہ تھا۔ گویا یہ ہی تاثر تھا کہ جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ مولوی صاحب کو تین قول پورے کرنا چاہیے تھے لیکن انہوں نے دوسری بار کچھ کہنے یا وارننگ کو مذید زوردار اور سخت بنانے کی زحمت ہی نہ اٹھائی اور پیر پٹکتے ہوئے وہاں سے روانہ ہو گئے۔ جاتے ہیں تو جائیں دھینا بڑبڑایا اور اس نے ان کی جانب سرسری نظر سے بھی نہ دیکھا۔
36
مولوی صاحب نے مسجد میں آ کر سپیکر کھوال اور دکھ بھری آواز میں اعالن کیا۔ حضرات ایک ضروری اعالن سنیے۔ بڑے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ دھنیا دکان دار وہابی ہو گیا ہے لہذا اس سے کسی قسم کی سودا نہ خریدا جائے اور نہ کسی قسم کا لین دین یا بول چال رکھا جائے جو اس سے سودا خریدے گا یا کسی قسم کا لین دین کرے گا یا بول چال رکھے گا سیدھا جہنم کی بھڑکتی آگ میں جائے گا۔ لوگوں نے دھنیے سے ہر قسم کی خریداری بول چال اور لین دین بند کر دیا۔ اس کے بعد دھنیا سارا دن ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا بدنصیبی کی مکھیاں مارتا رہتا۔ کوئی اس کی دکان کے نزدیک سے بھی نہ گزرتا۔ کچھ دن تو اس نے برداشت سے کام لیا جب بائیکاٹ میں کسی قسم کی لچک پیدا نہ ہوئی تو وہ مولوی صاحب کے در دولت پر حاضر ہوا اور ہتھیار ڈالتے ہوئے کہنے لگا :مولوی صاحب آپ جتنا جی چاہے سودا لے لیں لیکن یہ کٹھور پابندی اٹھا لیں۔ مولوی صاحب اس کی دکان پر گئے اور اچھا خاصا سودا لیا۔ سودا گھر پر چھوڑ کر مسجد میں جا کر اعالن کیا۔ حضرات آپ کے لیے خوشی کی یہ ہے بات کہ دھنیا دکان دار تائب ہو گیا ہے اب اسی سے سودا خرید کیا کریں کہیں اور سے سودا نہ
37
خریدیں ۔ اپنا قریبی دکان دار چھوڑ کر کسی اور سے سودا خریدنے سے پاپ لگتا ہے۔ دھنیے نے ایشور کا شکریہ ادا کیا اور چھری پہلے سے تیز کر دی۔ اپنی اصل میں بالوسطہ دھنیے کے لیے یہ اچھا ہی ہوا کہ اس کے منافع کی شرح میں ہرچند اضافہ ہی ہوا۔
38
وہی پرانا چاال منسانہ بیٹی کو رخصتی کے وقت یہ سختی سے ہداہت کی جانی چاہیے کہ وہ میکہ کی کوئی منفی بات سسرال میں یا سسرال کی کوئی منفی بات میکہ میں شیئر نہ کرے۔ اس علت بد کے سبب غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں جو بعد میں تلخیوں کا سبب بن جاتی ہیں۔ ہنستی مسکراتی زندگی پریشانیوں میں بدل جاتی ہے۔ بدقسمتی سے گھر کے گھر اس بیماری کے باعث تباہ ہو جاتے ہیں۔ یہ ہی لوتیاں بعد میں کورٹ کچہری والوں کی کھٹی کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ ڈاکٹر ہوں کہ یہ کورٹ کچہری والے‘ ہنستے مسکراتے چلتے پھرتے لوگ انہیں بھلے نہں لگتے۔ حنیف گربت کی چکی میں پس رہا تھا۔ سارا دن مشقت میں کٹ جاتا۔ رات میاں بیوی کی الیعنی چخ چخ میں گزر جاتی۔ دونوں میاں بیوی کو پچھلوں میں چھوٹی چھوٹی بات شیئر کرنے کی عادت بد الحق تھی۔ پچھلے کوئی مالی مدد تو نہ کرتے ہاں دونوں میاں بیوی میں غلط فہمیاں پیدا کرنے والے سبق ضرور پڑھاتے رہتے تھے۔ یہ تھے کہ اس عادت سے باز ہی نہیں آ رہے تھے۔ پچھلوں کے پڑھائے گئے اسباق کی وجہ سے ان کے درمیان نفرتوں میں ہرچند اضافہ ہی ہوتا چال جا رہا تھا۔
39
انہوں نے کبھی سر جوڑ کر حاالت سے لڑنے کی مشاورت کی ضرورت ہی محسوس نہ کی تھی حاالں کہ ایسے حاالت میں سر جوڑ کر مشاورت بہت ضروری ہوتی ہے۔ خدا معلوم حنیف کی کس طرح درک لگ گئی کہ اس کی بیرون ملک میں سرکاری نوکری لگ گئی۔ پھر کیا تھا‘ نوٹ آنا شروع ہو گئے۔ جہاں بھوک بھنگڑے ڈالتی تھی وہاں رج کے نقارے بجنا شروع ہو گئے۔ جو بیوی کو رقم بھجتا اس کی خبریں پچھلوں کو بھجوا دیتا۔ ادھر اس کی بیوی میکہ اور ارد گرد میں یہ مشہور کرنے بیٹھ گئی جو کماتا ہے اپنے پچھلوں کو بھجوا دیتا ہے اور ہم اسی طرح گربت کی زندگی گزارتے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ تھی کہ جو حنیف بھجواتا اس سے اس کے میکہ کی بھوک نکلنے لگی تھی۔ اس غلطی کے سبب دونوں خاندانوں میں اٹ کتے کا بیر چل نکال۔ وہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے بھی روادار نہ رہے۔ حنیف چھٹی پر آیا تو اطراف سے خوب لون مرچ محالحہ لگا کر اسے خبریں دی گئیں۔ بجائے چھٹی کے دن ہنس کھیڈ کر گزارے جاتے جنگ جدل کی عملی کیفیتں طاری رہیں۔ ان کی اس باہمی بکواس کے سبب بچے بڑے ڈسٹرب ہوتے۔ جب چھٹی کاٹ کر جانے لگا تو اس نے عنائتاں کو گھر سے نکال دیا۔
40
چند دن تو اس نے بھائیوں کے ہاں گزارے۔ باہر سے آئی رقم سے اس نے پائی بھی جمع نہ کی تھی۔ کھانے والے کب کھال سکتے ہیں۔ وہاں اس کی زندگی عذاب ہو گئی۔ بچے کھانے پینے کی چیزوں تک کو ترسنے لگے۔ حنیف نے رقم بھجوانا بند کر دی۔ حنیف کے بڑے بھائی نے بچوں کی یہ حالت دیکھی تو بڑا افسردہ ہوا۔ اس نے بچوں کو کچھ کھانے پینے کی چیزیں بھجوانا شروع کر دیں۔ اپنے ہی لوگوں کو یہ برداشت نہ ہوا۔ اس امر کی بڑھا چڑھا کر حنیف کو خبریں بیجھنا شروع کر دیں۔ حنیف کو بھائی کی اس حرکت پر سخت غصہ آیا۔ اس نے ٹیلی فون پر اپنے بڑے بھائی کی بڑی بےعزتی کی۔ اس نے کسی الزام سے بچنے کے لیے عنائتاں اور بچوں کو کچھ بیجھنا بند کر دیا۔ پھر ہونا کیا تھا‘ باپ کی بھری جیب ہوتے بچے بھوکوں مرنے لگے۔ ہللا تو نافرمان سے نافرمان کا رزق بند نہیں کرتا بل کہ اسے سدھرنے کے مواقع مسیر کرتا ہے اگر نہ سمجھے تو وہ اپنی ہی کسی کرنی میں پھنس جاتا ہے۔ حنیف کے دماغ میں اوقات سے باہر میسر کا فتور آ گیا تھا اور وہ یہ سوچنے سے عاری ہو گیا تھا کہ رزق تو ہللا کا دیا ہوا ہے اور اس کی جیب میں پڑا بھی ہللا ہی کا ہے۔ وہ تو اپنے سانس کا بھی مالک و وارث نہیں۔
41
پتا نہیں اس سے کیا ہو گیا اور وہ نوکری سے نکال باہر کر دیا گیا۔ جوتے چٹخاتا ہوا واپس لوٹ آیا۔ اس نے عنائتاں سے چھٹکارے کے لیے عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا۔ جو ساتھ الیا تھا کورٹ کچہری کی نذر ہو گیا۔ دوبارہ سے مشقت کی جانب راغب ہوا۔ اس سے پہلے کی طرح کام نہیں ہو پا رہا تھا۔ بڑے بھائی نے کافی بھاگ دوڑ کی اور دونوں میاں بیوی کی صالح کروا دی۔ ان دنوں دونوں میاں بیوی ایک چھت کے نیچے رہ رہے تھے لیکن اتنا بڑا جھٹکا لگنے کے باوجود انہیں عقل نہیں آئی تھی اور اب بھی ان کا چاال وہ ہی پرانا تھا۔
42
سدھر جاؤ منسانہ
خوش حال زندگی کون گزارنا نہیں چاہتا۔ خوش حال زندگی کے لیے ہر کوئی کوشش اور محنت کرتا ہے۔ اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے سوتے جاتے سوچتا اور سو طرح کے منصوبے بناتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کی کوشش اور سوچ کا ثمرہ محدود رہتا ہے اور ان حد دولت اس کے پاس آ نہیں پاتی۔ آنکھ کی سیری نہ ہونے کے باعث پریشانی بےسکونی اور گھر میں باہمی غلط فہمیوں کے سائے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔ سب کچھ میسر ہونے کے باوجود مایوسی کی فضا طاری رہتی ہے۔ قناعت کا آئینہ اندھا ہو جاتا ہے اور شخص اپنی حقیقی صورت دیکھنے سے بھی معذور ہو جاتا ہے۔ اللے کرم دین کے شریف اور بھالمانس ہونے میں قطعی شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ زبردست مشقتی تھا۔ وہ میسر پر گزارا کرنے واال شخص تھا لیکن اس کے بیوی بچے اس قماش کے نہ تھے۔ وہ دنیا کی ساری دولت گرہ کر لینے کی ہوس رکھتے تھے۔ اس کا محنتانہ ان کی ہوس کے پاسنگ نہ تھا ۔ ان کی اس ہوس کے باعث گھر میں ہر وقت بےچینی اور بےسکونی کی کیفیت طاری رہتی۔
43
وہ اکثر سوچتا آخر اس کا جرم کیا ہے جو اس کے اپنے گھر والے اسے سزا دے رہے ہیں۔ فارغ تو نہیں رہتا۔۔۔۔ جوا نہیں کھلتا۔۔۔۔ شراب نہیں پیتا۔۔۔۔ عورتوں کے پیچھے نہیں جاتا۔۔۔۔ سارا دن مشقت کرتا ہے اور جو میسر آتا ہے ان لوگوں پر خرچ کر دیتا ہے۔ یہ ہیں کہ خوش ہی نہیں ہوتے۔ خدمت تو دور رہی‘ ان کے پاس تو اس کے لیے ایک مسکراہٹ تک نہیں۔ جب دیکھو گلے شکوے‘ بول بوالرا۔ آخر اس کا جرم کیا ہے۔ اس نے کیا کیا ہے جس کی یہ لوگ اسے سزا دے رہے ہیں۔ اس روز اس نے طے کر لیا کہ شیداں سے ضرور پوچھے گا کہ اس کا جرم کیا ہے اور وہ کیا کرے کہ اس کی زبان بند ہو جائے۔ قدرتی بات تھی کہ اس روز جانے کیوں شیداں کا موڈ خوشگوار تھا۔ اس نے موقع کو غنیمت جانا اور شیداں سے پوچھ ہی لیا کہ اس میں کیا پرائی اور خرابی ہے کہ وہ ہر وقت ٹکوا لے کر اس کے پیچھے پڑی رہتی ہے اور وہ کیا کرے جس سے گھر میں سکھ اورشانتی کی فضا قائم ہو۔ شیداں نے جوابا کہا کہ وہ سدھر جائے اپنی ان حرکتوں سے باز آ جائے۔ اس نے کہا یہ ہی تو میں جاننا چاہتا ہوں کہ کن حرکتوں سے باز آ جاؤں۔
44
اپنی کمائی غیروں پر خرچ کرنا بند کر دو۔ اپنے بچوں کا حق نہ مارو۔ تم کن غیروں کی بات کر رہی ہو جن پر میں اپنی کمائی ضائع کر رہا ہوں۔ کہنے لگی بڑے بھولے بنتے ہو۔ سب کچھ ماں ففےکٹن اور اپنی کمینی بہن کو کھال رہے ہو۔ ہمیں دیتے ہی کیا ہو۔ وہ جانتا تھا کہ شیداں کو کیا پیڑ ہے اور وہ کیوں روال ڈالتی ہے۔ وہ ماں کو دیتا ہی کیا تھا۔ ہفتے عشرے بعد چند ٹکے اور بیوہ بہن اور اس کے بچوں کو عید شبرات پر سستے قسم کے کپُڑے بنا دیتا تھا اور بس۔ یہ ہی اسے کھٹکتے تھے۔ ماں اور بہن کا اس پر حق تھا۔ شیداں جب بھی بولتی اس کی ماں کو ففےکٹن کہتی جب کہ اپنی ماں کو ہمیشہ امی جان کہتی۔ جب اس کی ماں آتی تو بوتھا ٹیڑھا کر لیتی پانی تک نہ پوچھتی۔ جب اس کی ماں آتی تو امی جان امی جان کرتی اس کے آگے پیچھے ہوتی۔ خوب خدمت تواضح کرتی۔ یہ ہی نہیں اچھا پکا تک ان کے گھر بھجوا کر سانس لیتی۔ بچت کرکے اس کی چوری چھپے مٹھی بھی گرم کرتی رہتی تھی۔ بھائی کے بیٹے کا اسکول کا خرچا اٹھایا ہوا تھا۔ بھائی تھا کہ سیدھے منہ سے حضرت کا سالم بالنا پسند نہیں کرتا تھا۔
45
اگر کبھی کبھار ماں کو پنج دس روپے دے دیتا ہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ کون سا روز روز دیتا ہے۔ رہ گئی بہن اس کو کیا دیتا ہے۔ عید شبرات پر تیسرے درجے کے کپڑے اور بس۔ وہ کہتی تو پھر اتنی کمائی کہاں جاتی ہے۔ اتنی پر اسے بڑا تاؤ آتا جیسے اس کے باپ نے دو مربعے زمین اس کے نام کر دی ہو یا جہیز میں ملیں الئی تھی۔ کمائی کیا تھی وہ ہی دن بھر کا محنتانہ جو وہ ان پر خرچ کر دیتا تھا۔ وہ سوچتا رہا کہ دنیا کوئی آرام دہ مقام نہیں ہے۔ باہر دنیا اور گھر میں اپنے لوگ زمین پر پاؤں نہیں آنے دیتے۔ کتنا بھی کچھ کر لو‘ خوش نہیں ہوتے۔ ایک ہللا ہی ہے جو معمولی سی اچھائی پر خوش ہو جاتا ہے۔ اس روز وہ بڑا ہی ڈس ہارٹ ہوا تھا۔ کچھ بھی کر لے‘ کتنی قسمیں کھا لے‘ گھر میں کوئی یقین کرنے واال نہیں تھا۔ اس کے سوچ کے حلقے گہرے ہوتے چلے گئے۔ اسے یاد آیا شیداں نے کہا تھا کہ سدھر جاؤ۔ اس نے سوچا یہ سدھرنا کیا ہے۔ ہللا کی طرف پھرنا ہی تو اپنی حقیقت میں سدھرنا ہے۔ اس نے پہلی بار ہللا کو دل سے یاد کیا اور درود پاک پڑھنے لگا۔ ابھی آدھا بھی نہیں پڑھ پایا ہو گا کہ گہری اور پرسکون نیند نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔
46
بےشک ہللا اور اس کے رسول کے ہاں ہی سکھ اور چین کی دنیا آباد ہے۔ اگر موت جو لمبی نیند ہے‘ میسر نہ ہوتی تو دنیا میں پاگلوں اور وحشیوں کے سوا کے سوا کچھ نہ ہوتا۔
47
اچھا نہیں ہوتا ہاں میں موت ناں میں بہن کا گھر اجڑتا تھا برسوں کا بنا کھیل بگڑتا تھا چپ میں کب سکھ تھا چار سو بچھا دکھ تھا زندگی کیا تھی اک وبال تھا بھاگ نکلنے کو نہ کوئی رستہ بچا تھا پہیہ زندگی کا پٹڑی سے اتر رہا تھا زیست کا پاؤں بےبصر دلدل میں گر رہا تھا بےچارگی کا نیا دانت نکل رہا تھا بہنوئی کی آنکھوں میں سکوں کی ہریالی تھی آتی ہر گھڑی اس کے لیے کرماوالی تھی بہن کی آنکھ سے چپ کے آنسو گرتے ماں کی آنکھوں کے حسیں سپنے بےکسی کے قدموں میں بکھرتے
48
کیا کرتا کدھر کو جاتا خود کو بچاتا کہ ماں کے آنسوؤں کے صدقے واری جاتا زہر کا پیالہ مرے رو بہ رو تھا تذبذب کی صلیب پہ لٹکا کے شنی اپنے کارے میں سفل ہوا پیتا تو یہ خود کشی ہوتی ٹھکراتا تو خود پرستی ہوتی پیچھے ہٹوں کہ آگے بڑھوں ہاں نہ کے پل پر بےکسی کی میت اٹھائے کھڑا تھا آگے پیچھے اندھیرا منہ پھاڑے فیصلے کی راہ دیکھ رہا تھا پھر میں آگے بڑھا اور زہر کا پیالہ اٹھا لیا خودکشی حرام سہی کیا کرتا
49
بہن کی بےکسی ماں کے آنسو بےوقار کیوں کرتا ابلیس قہقے لگا رہا تھا نہ پیتا تب بھی اسی کی جیت تھی پھر بھی وہ قہقے لگاتا دوزخی بال نے مرے گھر قدم رکھا گھر کا ہر ذرہ لرز لرز گیا میں بھی موت کے گھاٹ اتر گیا جسے تم دیکھ رہے ہو ہنستی بستی زندگی کا بےکفن الشہ ہے پہلے دو ٹھکانے لگا آئی تھی الشے کو کیوں ٹھکانے لگاتی الشے کا ماس کھا چکی ہے ہڈیاں مگر باقی ہیں بہن الشے کو دیکھ کر روتی ہے ہڈیاں مگر کیا تیاگ کریں
50
آنسوؤں کے قدموں میں کیا دھریں کوئی اس کو جا کر بتائے اللسہ سرحدوں کی کب چیز ہے جہاں تم کھڑی ہو وہ تو فقط اس کی دہلیز ہے کوئی حادثہ ہی تمہیں خاوند کی اللسہ کے جہنم سے باہر الئے گا پھر تمہارا ہر آنسو پچھتاوے کی اگنی میں جلے گا تب تک ہڈیاں بھی یہ دوزخ کی رانی کھا چکی ہوگی راکھ ہو گی نہ کوئی رفتہ کی چنگاری ہو گی تو اللسہ کی آری دکھ کا دریا بہہ رہا ہو گا ہر لمحہ تمہیں کہہ رہا ہو گا حق کی بھی کبھی سوچ لیا کرو لقموں کا دم بھرنا اچھا نہیں ہوتا اچھا نہیں ہوتا
51
آئندہ کے لیے بہت اعلی درجے کی چیزیں میسر ہوں‘ لیکن آدمی کا بسا اوقات ان سے کم تر درجے کی چیز کھانے کو جی چاہنے لگتا ہے۔ ایک مرتبہ‘ اس کے ساتھ بھی کچھ ایسی ہی صورت گزری۔ سب کچھ میسر تھا‘ لیکن مولی کھانے کے لیے‘ اس کی طبیعت مچل مچل گئی۔ پھر وہ سبزی منڈی کی طرف بڑھ گیا۔ منڈی کے دروازے سے ایک بابا جی‘ جنہوں نے اپنے کندھے پر‘ مولیوں کا گٹھا اٹھا رکھا تھا‘ نکلے۔ اس میں سے ایک مولی نکلی اور نیچے گر گئی۔ اس نے نیچے سے مولی اتھائی اور بابا جی کو دینے کی غرض سے آگے بڑھا۔ جب اس نے آواز دی تو بابا جی نے مڑ کر دیکھا۔ جب بابا جی نے مڑ کر دیکھا‘ تو اس نے مولی ان کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا :بابا جی یہ مولی گر گئی تھی‘ لے لیں۔ وہ مسکرائے اور کہا :تم لے لو۔ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گیے۔ پہلے تو اس نے غور نہ کیا‘ اس کے بعد اس نے غور کیا کہ مولیوں کا گٹھا‘ اس انداز سے بندھا تھا کہ مزید مولیاں گرنے کا قوی امکان تھا۔ پھر وہ چھوٹے قدموں ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ کافی دور تک گیا‘ لیکن مزید کوئی مولی نہ گری۔ اچانک بابا جی نے دوبارہ سے پیچھے مڑ کر دیکھا‘ تو اس نے
52
کہا :بابا جی میں یہ مولی آپ کو دینے کے لیے‘ آپ کے پیچھے آ رہ تھا۔ یہ سن کر‘ بابا جی نے بڑے غصے سے اس کی جانب دیکھا۔ مولی تو نہ لی‘ لیکن بڑی سنجیدگی سے کہا :یاد رکھو ہللا تمہیں اور تمہاری حاجات کو‘ تم سے زیادہ جانتا ہے اور اس کے مطابق عطا کر دیتا ہے۔ جب بھی‘ موجود میں مزید کا طمع کرو گے‘ پہلے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھو گے۔ موجود پر ہللا کا شکر ادا کرو‘ تا کہ وہ تمہیں تمہاری ضرورت کے مطابق عطا فرماتا رہے۔ اسے اپنی حرکت پر سخت شرمندگی ہوئی‘ لیکن آئندہ کے لیے کان ہو گئے۔ محترم ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب السالم علیکم مختصر ،پُرمغز ،سبق آموز ،فکر کا مواد لئے یہ افسانہ بہت دور حاضر کی " اشرافیہ" کے منہ اچھا لگا۔ خاص کر یہ ہماری ِ پر طمانچہ نہیں بلکہ تپنچہ ہے لیکن اگر اشرافیہ ڈھیٹ ہو ،جو ہے ،بڑے بڑے توپ بھی بےکار ہیں۔
53
ڈاکٹر صاحب معاشرہ کو آئینہ دکھانا آپ کا کام ہے اسی احسن طریقہ سے نباہتے رہئے۔ سدا سالمت رہیں اور قلم کا پاس کرتے رہیں۔ والسالم ب دعا طال ِ کفیل آحمد http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10463.0
54
منہ سے نکلی جب بھی کوئی بچہ گر جاتا یا اسے کسی اور وجہ سے چوٹ آ جاتی‘ فتو کے منہ سے بےساختہ نکل جاتا :ہائے تیری ماں مرے۔ یہ فتو کے نہیں‘ ممتا کے منہ نکلی آواز ہوتی اور اس میں درد بھی ہوتا۔ ماں بےشک ماں ہوتی ہے اور دنیا میں اس کا کوئی متبادل رشتہ موجود نہیں۔ اس قسم کی مادرانہ شفقت‘ میں اپنی ماں کے ہاں بھی دیکھتا اور سنتا آرہا ہوں۔ تب ہی تو تکلیف میں بےساختہ منہ سے ہائے ماں نکل جاتا ہے۔ ایک بار میں بیمار پڑا۔ فتو میرا سر دبا رہی تھی۔ تکلیف میں شدت ہوئی تو میرے منہ سے ہائے ماں نکل گیا۔ فتو نے وہیں ہاتھ روک لیے اور غصہ سے اپنی چارپائی پر جا کر لیٹ گئی۔ میں نے اس کی طرف دیکھا اور کہا :کیا ہوا‘ کیوں روٹھ کر چلی گئی ہو۔ دیکھ تو رہی ہو کہ میں تکلیف میں ہوں۔ بڑی غصیلی آواز میں کہنے لگی :دبا میں رہی ہوں‘ یاد ماں کو کرتے ہو۔ جاؤ اسی سے دبوا لو۔
55
اس کی بات میں دم تھا اور میں شرمندہ سا ہو گیا۔ کافی دیر تک من من کرتا رہا لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ منہ سے نکلی کیسے منہ میں جا سکتی تھی۔ آئندہ سے اس کا نام لینے کا وعدہ بھی کیا حاالں کہ یہ بس سے باہر کی چیز تھی۔ اس روز چھوٹی کاکی گر پڑی مجھے دکھ ہوا۔ میں تیزی سے اس کی جانب بڑا۔ میری پدرتا پورے پہار کے ساتھ جاگی۔ سابقہ تجربے کے تابع‘ میں نے منہ سے ہائے تیری ماں مرے نکاال۔ اپنی اصل میں یہ مادرتا کی قدر کرنے کے مترادف تھا۔ وہ کاکی کا دکھ تو بول گئی اور دونوں پاؤں سمیت مجھ پر چڑھ دوڑی۔ ہاں ہاں تم تو چاہتے کہ میں مر جاؤں ،میں بڑے دنوں سے تمہارے بدلے بدلے تیور دیکھ رہی ہوں۔ تم تو ہو ہی ناشکرے۔ جتنا کرو یہاں اس کیے کی کوئی وٹک نہیں۔ یہ کہہ کر بھائی کے گھر روٹھ کر جانے کے لیے تیار ہونے لگی۔ میں نے قسم کھا کر اس پر اصل حقیقت واضح کرنے کی کوشش کی ،مگر کہاں جی خالصی نہیں کر رہی تھی۔ مانتا ہوں میرے کہے میں سو فی صد دانستگی تھی۔ دس بیس پرسنٹ خواہش بھی تھی لیکن خواہش سو فی صد نہ تھی۔ دوسرا میرے کہے پر وہ مر تھوڑا جاتی۔ اگر ایسا ہوتا تو دنیا میں کوئی عورت باقی نہ رہتی۔ اس کے منہ سے سیکڑوں بار ہائے تیری ماں مرے نکال لیکن وہ ایک بار بھی نہ مری تھی۔
56
کچھ باتیں کہنے کی ہوتی ہیں لیکن ہونے کا اس سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہوتا۔ خیر چھوڑیے مجھے اپنی اس دانستگی کی بڑی کڑی سزا ملی۔ منتیں ترلے تو کیے ہی‘ کانوں کو ہاتھ لگانا پڑے‘ ساتھ میں پال بھی جھاڑنا پڑا۔
57
عزیز مکرم حسنی صاحب :سالم مسنون آپ کے یہ مختصر لیکن معنی آفریں انشائیے دلچسپ اور سبق آموز ہوتے ہیں باہر لوگ ان کو بہت شوق سے پڑھتے ہیں۔ افسوس کہ ہر شخص (بشمول راقم الحروف) ہر انشائیے پر اظہار خیال نہیں کرتا ہے اور شاید کر بھی نہیں سکتا۔ میری ناچیز داد حاضر ہے۔ ہللا آپ کو نوازے آپ کی موجودگی ہمارے لئے باعث مسرت وافتخار ہے۔ اور اردو انجمن اس عنایت کے لئے آپ کی ممنون احسان ہے۔ یقین ہے کہ اپ اسی طرح ہماری ہمت افزائی کرتے رہیں گے۔ ایک گزارش ہے۔ آپ لکھتے رہتے ہیں لیکن دوسروں کی تخلیقات پر کبھی اظہار خیال نہیں کرتےہیں۔ آپ کی اعانت اور رہنمائی اور گاہےگاہے داد کی ہم سب کو ضرورت ہے۔ خدا را دوسروں پر بھی لکھئے اورصرف رسمی ستائش نہیں بلکہ ناقدانہ نگاہ ڈالئے۔ بڑی عنایت ہوگی۔ شکریہ سرور راز
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10464.0
58
یک مشت شہاب دین سارا دن دفتر میں صاحب کی چاکری کرتا۔ وہاں سے ایک مل مالک کے گھر جاتا۔ ان کا سودا سلف التا یا کوئی اور کام ہوتا تو وہ انجام دیتا۔ کبھی آٹھ بجے تو کبھی دس بجے وہاں سے خالصی پاتا تو گھر آتا۔ اس وقت اس کا جسم ٹوٹ پھوٹ سا گیا ہوتا اور اسے آرام کی اشد ضرورت ہوتی۔ مگر کہاں‘ گھر آتا تو کوئی ناکوئی گھریلو رپھڑ اس کا انتظار کر رہا ہوتا۔ اسے نپٹانے میں اچھا خاصا وقت اٹھ جاتا۔ گھر والی اس سے بےنیاز تھی کہ وہ سارا دن کتنی مشقت اٹھاتا ہے۔ گھر کی دال روٹی چالنے کے لیے اسے کتنے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ اس روز بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ اس نے گھر کی دہلیز پر قدم رکھا ہی تھا کہ زکو اپنے دانت درد کا سیاپا لے کر بیٹھ گئی۔ اس نے بڑے تحمل سے کہا۔ کاکے کو ساتھ لے کر ڈاکٹر سے دوا لے آنا تھی۔ ابھی ایک پیراسیٹامول کی گولی لے لو اور ساتھ میں اچھی طرح حکیم صاحب واال منجن کر لو۔ مجھے کھانے کو کچھ دو سخت بھوک لگی ہوئی ہے۔ تمہیں کھانے کی پڑی ہے ادھر میں درد سے مر رہی ہوں۔ وہ بڑ بڑ کرتا ہوا صبر شکر کرکے بھوکا ہی چارپائی پر لیٹ گیا۔ تھکا ہوا تھا سخت بھوک کے باوجود نیند نے اس کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ چوں کہ
59
پیشاب کرکے نہیں سویا تھا اس لیے اسے آدھی رات کو اٹھنا پڑا۔ زکو گہری نیند سو رہی تھی لہذا اس نے اسے جگانا مناسب نہ سمجھا اور دوبارہ آ کر لیٹ گیا۔ صبح ٹھیک ٹھاک اٹھی بچوں کو کھال پال کر سکول بھیج دیا۔ پھر خود بھی پیٹ بھر کر کھایا۔ وہ بھی اتنی دیر میں کام پر جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ ناشتہ پانی دینے کی بجائے دانت کا درد لے کر بیٹھ گئی۔ کہنے لگی ساری رات درد سے سو نہیں حاالں کہ وہ خراٹے بھری نیند سوئی تھی۔ وہ خود ہی ‘سکی رسوئی میں گھس گیا۔ بھوک نے اسے نڈل کر دیا‘ جو ہاتھ لگا کھا لیا۔ وہ متواتر بولے جا رہی تھی۔ اس نے کام پر جاتے ہوئے کہا :ڈاکٹر کے پاس جا کر دوائی لے آنا۔ دانت کا درد سخت تکلیف دیتا ہے۔ پیسے تمہارے پاس ہیں ہی۔ اس کے بعد کوئی جواب سنے بغیر کام پر چال گیا۔ اسے زکو کی اس حرکت پر کوئی غصہ نہ آیا‘ کیوں کہ یہ کوئی نئی بات نہ تھی روز کا رونا تھا۔ رات کو جب گھر لوٹا تو اس نے پوچھا :دوا الئی ہو۔ دانت میں سخت درد ہو رہا ہے۔ ‘اس نے جوابا کہا :نہیں الئی النا تھی۔ خواہ مخواہ درد برداشت کر رہی ہو۔ ‘کیوں نہیں الئی لگتا ہے دانت نکلوانا پڑے گا۔
60
کیوں نکلواتی ہو‘ دانت دوبارہ تو نہیں اگے گا۔ کھانے پینے میں دشواری ہو گی۔ باطنی طور پر وہ چاہتا تھا کہ نکلوا ہی لے چلو چار دن تو اس کے منہ کو چپ لگے گی۔ پھر وہ اس سے جعلی ہم دردانہ بحث کرتا رہا۔ اسے معلوم تھا کہ جس کام سے وہ منع کرئے گا زکو وہ کام کرکے ہی رہے گی۔ کافی دیر بحث کرنے کے بعد اس نے کہا چلو جس طرح مناسب سمجھتی ہو‘ کر لو۔ اچھا تو کل میں گاؤں جاتی ہوں وہاں سے دانت نکلواتی ہوں۔ ہمارے گاؤں کا ڈاکٹر بڑا سیانا ہے۔ دلی طور پر وہ چاہتا تھا کہ چلی ہی جائے چار دن تو سکون کے کٹیں گے۔ دانت نکلوا کر آئے گی تو بھی دو ایک دن اس کے منہ کو سکون رہے گا۔ اس نے کہا :شہر چھوڑ کر گاؤں جاتی ہو۔۔۔۔ نہیں نہیں یہاں ہی سے نکلوا لو یا ڈاکٹر کو دیکھا لو جو مشورہ دے گا کر لینا۔ اسے دوبارہ سے ناٹک کرنا پڑا۔ وہ گاؤں جانے پر اڑی رہی۔ پھر اس نے کہا اچھا جیسے تمہاری مرضی کر لو۔ وہ اپنی جیت پر خوش تھی۔ حاالں کہ جیت اسی کی ہوا کرتی تھی۔ اگلے دن صبح صبح ہی وہ گاؤں جانے کے لیے بچوں سمیت تیار ہو گئی۔ کام پر جاتے ہوئے اس نے کہا گھر کی چابی
61
خالہ رحمتے کو دے دینا۔ زکو گاؤں میں پورا ہفتہ گزار کر آئی۔ اس نے گھر آتے ہی اس سے دانت کے متعلق پوچھا۔ تمہیں اس سے کیا۔ تم کون سا میرا پوچھنے گاؤں آ گئے تھے۔ اس نے ہفتہ عیش اور مرضی کا گزرا تھا۔ دانت اس نے نکلوایا یا نہیں نکلوایا وہ یہ نہ جان سکا ہاں البتہ اس نے اس کی کوتاہی کی پاداش میں ہفتہ بھر کی یک مشت کسر نکال دی اور اسے چوں تک کرنے کا موقع فراہم نہ کیا۔ ………………..
62
دیگچہ تہی دامن تھا بہت پہلے کی ناسہی لیکن اتنا ضرور طے ہے کہ یہ بات پہلے کی ہے۔ اب کہ دو نمبری کے لیے اتنی مشقت نہیں اٹھانا پڑتی۔ دو نمبری کا سامان سامی خود اپنے ہاتھ سے فراہم کرتی ہے۔ ہاں یہ بات حتمی طور پر نہیں کہی جا سکتی کہ دو نمبری کے لیے دو نمبر کا سامان فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہ چھین لینے کا رواج عام ہو گیا ہے۔ ہتھیار آکڑ خان کے لیے اٹھانا پڑتا ہے ورنہ قدرے شریف کو آنکھیں دیکھا کر اس کی گرہ صاف کر لی جاتی ہے۔ اسی طرح قدرے شریف‘ شریف سے اونچی یا گال پھاڑ آواز سے کام لے کر اس کی گرہ خالی کرنے کا ڈھنگ خوب خوب جانتا ہے۔ اس روز ان چاروں کو کافی مشقت سے کام لینا پڑا تب جا کر ڈوموں کی مرغی ہاتھ لگی۔ مرغی پلی پالئی نفیس اور بڑی نخرے والی تھی۔ جھانسہ دینے میں بھی بڑی طاق تھی۔ ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر آنے جانے میں اسے ملکہ حاصل تھا۔ وہ بھی ہٹ کے پکے تھے۔ ان کا روز کا کام تھا کیسے بچ کر نکل جاتی۔ ساتھ کے گاؤں کے مولوی صاحب سے تکبیر پڑھائی اور اسے ڈکرے ڈکرے کرکے دیگچے کے حوالے کر دیا۔ پکنے کے بعد حسب معاہدہ چوتھائی مولوی صاحب کی
63
خدمت میں نذرانہ پیش کر دیا۔ یہ ان کا یقینا بہت بڑا احسان تھا وہ حرام کو حالل میں تبدیل کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے آ رہے تھے تاہم حالل کو حرام قرار دینا بھی ان کے لیے قطعا دشوار نہ تھا۔ کھانے لگے تو انہیں ایک انوکھا طور سوجھا۔ ان میں سے ایک کہنے لگا۔ اس پکوان کو کل صبح وہ کھائے جو سب سے اچھا اور بڑھیا خواب دیکھے۔ یہ تجویز سب کو بھائی۔ پھر وہ آرام اور سکون کی نیند سو گئے۔ اگلی صبح اٹھے اور اپنا اپنا خواب سنانے لگے۔ ایک نے اپنا خواب سنایا کہ وہ ساری رات پیرس کے بازاروں میں پھرا اور خوب خریداری کی۔ پیرس کی نخریلی چھوریوں کے ساتھ آنکھ مٹکا کرتا رہا۔ ایک دو تو اس کی باہوں میں بھی رہیں۔ سب نے واہ واہ کی اور اس کے خواب کی اچھی خاصی داد دی۔ دوسرے نے خواب سنایا کہ اسے خواب میں امریکی صدر کی جانب سے امریکہ آنے کی دعوت ملی۔ وہ خوشی خوشی ہوائی جہاز پر بیٹھ کر امریکہ گیا۔ امریکی صدر اور اس کے اعلی عہدےدار ہوائی اڈے پر اس کا استقبال کرنے آئے۔ اس کے بعد وہ امریکی صدر کے ساتھ بھاری پہرے میں امریکہ کی سیر کرتا رہا۔ ایک دو جگہ پر اسے خطاب کرنے کا موقع بھی مال۔
64
خواب کے اچھا نہیں‘ بہت اچھا ہونے میں رائی بھر شک نہ تھا۔ زمینی خدا کے ساتھ ہونا اور پھر اتنی عزت ملنا کوئی عام بات نہ تھی۔ اب تیسرے کی باری تھی۔ اس نے کہا خواب میں آسمانی گھوڑا اسے اسمانوں کی سیر کرانے کے لیے آ گیا۔ اس نے دل بھر کر چاند ستاروں کی سیر کی۔ حوریں اور فرشتے قطار در قطار اس کے ساتھ رہے۔ پھر اس نے جنت کی سیر کی۔ بڑے بڑے بزرگوں سے بھی مالقات ہوئی۔ یہ خواب پہلے دونوں کو کٹ کر رہا تھا۔ پکوان پر اسی کا حق ٹھہرتا تھا۔ چوتھے نے کہا یار رات کو میرے ساتھ بڑا دھرو ہو گیا۔ سب پریشان ہو گئے اور یک زبان ہو کر بولے کیوں کیا ہوا۔ بوال یار ہونا کیا تھا میں گہری نیند سو رہا تھا کہ ایک حبشی جس کے ہاتھ میں تیز دھار تلوار تھی۔ اس نے مجھے زور سے جھنجھوڑا۔ میں ڈر کر اٹھ بیٹھا۔ اس نے تلوار دیکھاتے ہوئے کہا :یہ تمہارے دوست ہیں تمہیں یہاں اکیال چھوڑ کر موج مستی کر رہے ہیں۔ چل اٹھ اور تو مرغی کھا کر دیگچہ خالی کر۔ میں نے جب پس وپیش کی تو اس نے مجھے تلوار دیکھاتے ہوئے کہا اگر نہیں کھائے گا تو تمہارا سر اڑا دوں گا۔ زور دبردستی کے سامنے کب کسی کی چلی ہے‘ مجبورا مجھے سارا دیگچہ
65
خالی کرنا پڑا۔ یقین مانیں پریشانی اور بدہضمی کے سبب اس کے بعد مجھے نیند نہ آ سکی۔ تینوں جلدی سے دیگچے کی جانب بڑے‘ دیکھا دیگچہ اپنی تہی دامنی پر خون کے آنسو بہا رہا تھا۔
66
حکم عدولی
زندگی جو جیسی تھی‘ چل رہی تھی۔ ہر کوئی اپنے کام میں مگن تھا۔۔ گریب‘ گربت عسرت بےبسی بےچارگی اور تنگی ترسی‘ چودھری بالمشقت عیش وعشرت اور مولوی صاحب مذہبی مسلے مسائل سنا کر چوپڑی کھانے میں مصروف تھے۔ کوئی معاملہ الجھ جاتا تو چودھری کے ڈیرے پر چال جاتا اور وہاں سے اپنے بندے انصاف لے کر خوشی خوشی اور جیت کے نشے میں گھر لوٹتے۔ کوئی الجھاؤ کی گھمیر صورت نہ تھی۔ ہر کسی کا شخصی اسٹیٹس طے تھا۔ صدیوں سے چودھری زمین کا مالک تھا‘ باقی اس کے کامے یا پھر کچھ کمی تھے۔ مراسی باطور ڈاکیا اور ایلچی اپنے فرائض انجام دیتا تھا۔ مولوی صاحب مذہبی امور اپنی مرضی اور اپنے سلیقے سے طے کرتے تھے۔ مائی صاحبہ بچوں کو چار دیواری میں تعلیم دیتی تھیں۔ گویا زندگی سالوں سے ایک ہی ڈگر پر چلی آ رہی تھی۔ چھوٹی موٹی زمینی و سماوی آفاتیں ٹوٹتی رہتی تھیں لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ان سے نپٹتے رہتے تھے اور اپنی بسات میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کرتے۔ کچھ مجبوروں کی مجبوری سے فائدہ بھی اٹھاتے۔ چودھری اپنوں اور جوان بیٹیوں اور بہنوں والوں کی مدد کرتا۔ باقی لوگوں کو تسلی تشفی
67
دیتا۔ اپنے حریفوں یا بدتمیزوں کی مالی اور زبانی خوب لہہ پہہ کرتا۔ مولوی صاحب دعا وغیرہ کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو ان کے گناہوں کی یاد دالتے۔ اکثر فرماتے یہ سب شامت اعمال ہے۔ تمہارے کیے کے جرم میں یہ عذاب اترا ہے۔ توبہ کرو صدقہ خیرات کرو اور ہللا کے گھر کی خوب خدمت کرو تا کہ تم پر آسمان سے آسانیاں نازل ہوں۔ وہ مصیبت یا عذاب سے زیادہ قیامت تھی۔ اس ہڑ کے سبب لوگ پریشانی اور افراتفری میں گھر گئے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ لوگوں کو اشیا سے زیادہ جان کی فکر تھی۔ جان بچ گئی تو یہ چیزیں دوبارہ سے بن جائیں گی۔ جان ہی نہ رہی تو چیزوں کو سر میں مارنا ہے۔ چودھری کو اپنی پڑی تھی وہ کسی اپنے بندے کی کیا مدد کرتا۔ آخر سب جڑ کر مولوی صاحب کے پاس گئے کہ دعا کریں کہ آسمان سے آسانیاں نازل ہوں۔ مولوی صاحب کے اپنے ہاتھوں کے توتے اڑے ہوئے تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے کہا کہ تم سب ہللا کو ماننے والے ہو بسم ہللا شریف پڑھو اور پانی میں قدم رکھو اور اس کی برکت سے دوسرے کنارے پر پہنچ جاؤ۔ چودھری سمیت سب نے مولوی صاحب کے کہے پر عمل کیا اور ہللا کے فضل وکرم اور احسان سے‘ سالمتی کے ساتھ دریا کے دوسرے کنارے پر پہنچ گئے۔ انہیں کچھ بھی نہ ہوا‘ حاالں
68
کہ دریا سب کچھ مٹا دینے پر تال ہوا تھا۔ ہللا کے کالم اور ہللا پر کامل یقین ہونے کے سبب وہ ان کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکا۔ مولوی صاحب ان میں نہ تھے۔ لوگ پریشان ہوئے کہ اتنا نیک اور ہللا کا بندہ ان کے ساتھ نہیں ہے۔ انہوں نے دیکھا مولوی صاحب اپنے بیوی بچوں سمیت چودھری کی رہائش گاہ کی تیسری منزل پر کھڑا تھا۔ انہوں نے مولوی صاحب کو آوازیں دی کہ آپ بھی ہللا کو یاد کرکے بسم ہللا شریف پڑھ کر آ جائیں۔ مولوی صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے۔ پھر ایک قیامت خیز لہر ابھری اور گاؤں کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔ ہاں البتہ مولوی صاحب کا بڑا بیٹا باپ کی حکم عدولی کرکے گاؤں والوں کے ساتھ آ گیا تھا۔
69
لوگ کیا جانیں شمو کی شادی کو چھے سال ہو گئے تھے۔ یہ اس کے پیار کی تیسری شادی تھی۔ اس کی گود ابھی تک خالی تھی۔ پہلے پیار سے حمل ہوا تھا جو اس نے دوسرے پیار میں اندھی ہو کر گرا دیا تھا۔ دوسرا تین سال چال لیکن امید سے نہ ہوئی۔ تیسرے پیار سے ابھی تک کوئی پیار کی نشانی سامنے نہ آ سکی تھی۔ پھر وہ اچانک ایک مقامی بابا صاحب کے مزار پر حاضری دینے لگی۔ بگو نے سمجھا بےچاری کی گود خالی ہے اسی لیے بابا صاحب کے دربار پر حاضری دینے لگی ہے۔ بگو کا دل بھی گھر کی رونق کے لیے مچل مچل رہا تھا لیکن یہ اس کے اختیار میں نہ تھا۔ یہ تو ہللا کریم کی مہربانی ہوتی ہے کہ وہ گھر کو رونقیں بخش دے یا وہ ویرانہ رہے۔ اگر یہ شخص کے بس کا روگ ہوتا تو دھن دولت ہی نہیں اوالد کا میوا بھی اہل ثروت اپنے تک محدود رکھتے۔ ایک دن اس نے سوچا کیوں نہ دیکھا جائے کہ شمو بابا صاحب کے دربار پر کس طرح سے اور کیا دعا مانگتی ہے۔ وہ دربار کے عقب میں چھپ گیا۔ شمو کی دعا سن کر حیرت میں گم ہو گیا اور کچھ نہ سمجھ پایا۔ وہ بڑی آہستگی سے بڑے قدموں اس سے پہلے گھر آ گیا اور سوچنے لگا کہ وہ اس قسم کی دعا کیوں
70
مانگ رہی ہے۔ اس کا سوچ سوچ کر دماغ پھٹنے لگا۔ اس نے اگلے روز دوبارہ سے دربار پر جانے کا فیصلہ کر لیا۔ اتنی دیر میں شمو گھر لوٹ آئی۔ وہ چپ رہا اور شمو کو کچھ نہ جتایا۔ اگلے دن وہ شمو سے تھوڑا پہلے دربار پر پہنچ گیا۔ شمو بھی تھوڑی دیر کے بعد دربار کے اندر داخل ہوئی۔ اس نے دوبارہ سے دعا مانگنا شروع کر دی۔ پیرا بگو کو اندھا کر دے میں میٹھے چاولوں کی دیگ چڑھوا چڑھاؤں گی۔ بگو نے آواز بدل کر کہا :ٹھیک ہے بچہ ہم تیری دعا قبول کرتے ہیں۔ پر ایک شرط ہے۔ حکم کر سوہنیا پیرا جا بچہ تیس دن اپنے شوہر کو دیسی گھی میں دیسی مرغا بھون کر کھال۔ اس کی آنکھوں میں چربی چڑھ آئے گی اور وہ کچھ بھی نہ دیکھ سکے گا۔ ٹھیک اے پیرا میں آج سے ہی یہ کام شروع کر دیتی ہوں۔ اس نے گھر آ کر دیسی مرغا ذبح کروایا اور اسے دیسی گھی میں بھونا۔ بگو کو بڑی پلیٹ میں ڈال کر دے دیا۔ بگو جعلی حیرانی سے کہنے لگا۔ بھئی بڑی خدمت کر رہی ہو خیر تو ہے۔ شمو نے بھرپور اداکاری دیکھاتے ہوئے کہا :میں نے سوچا کام
71
بہت کرتے ہو تمہیں اچھی اور زبردست خوراک کی ضروت ہے۔ کچھ دن دیسی گھی میں بھنا مرغا کھاؤ گے تو تمہاری جان بن جائے گی۔ واہ بھئی واہ۔ کیا بات ہے۔ پھر وہ کچھ دیر تک جعلی پیار محبت کی باتیں کرتے رہے۔ دیسی گھی میں بھنا مرغا کھا کھا کر بگو کی واقعی جان بن گئی۔ مرغا کھاتے وہ بائیسواں دن تھا۔ بگو کہنے لگا۔ شمو یار یہ مجھے کیا ہو رہا ہے۔ جی گھبرا رہا ہے اور آنکھوں میں تارے سے ناچنے لگے ہیں۔ شمو جی میں خوش ہوئی کہ پیر کی کرامت سامنے آ رہی ہے۔ وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ سچے پیر کسی کا کسی بھی صورت میں برا نہیں کرتے۔ اس نے قیامتی مسکراہٹ کے ساتھ کہا کچھ نہیں ہوا بس تمہیں وہم ہو رہا ہے۔ اس دن کے بعد اس نے نظر کے کم اور پھر تقریبا ختم ہونے کی خبر سنائی۔ آخر تیسویں دن کچھ بھی نظر نہ آنے کی خوش خبری سنا ہی دی۔ وہ دن شمو کی خوشیوں کا دن تھا۔ اس کا زمین پر پیر ہی نہیں آ رہا تھا۔ بگو نے کہا :اب میں کسی کام کا نہیں رہا ڈیوڑی میں میرا منجا
72
بچھا دو اور میرا کھونڈا دے دو کتے بلے اندر نہ آنے دوں گا۔ آ کر چیزوں کا ستیاناس مار دیتے ہیں۔ شمو نے کہا :ٹھیک ہے۔ اس نے ڈیوڑی میں اسے منجا بچھا دیا۔ وہ جانتا تھا کہ شمو جاگ رہی ہے۔ تھوڑی ہی دیر بعد وہ جعلی خراٹے بھرنے لگا۔ شمو گھر سے چپکے سے باہر نکل گئی اور کچھ دیر کے بعد واپس آ گئی۔ اس نے اچھی طرح دیکھا۔ بگو گہری نیند سو رہا تھا۔ کچھ ہی دیر ہوئی ہو گی کہ ایک مشٹنڈا چپکے چپکے گھر میں داخل ہونے لگا۔ وہ ذہنی طور پر تیار تھا۔ بگو نے اس کے سر پر ایسا کھونڈا مارا کہ وہ چوں بھی نہ کر سکا اور پاؤں پر ٹکی ہو گیا۔ گھنٹہ ہی گزرا ہو گا ایک اور مشٹنڈا گھر میں داخل ہونے لگا اس کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا۔ غرض سرگی ویلے تک گیارہ ڈھیر ہو گئے۔ اندر شمو چارپائی پر کرواٹیں لے رہی تھی۔ اسے اپنے ان پیاروں کے پیار پر سخت غصہ آ رہا تھا۔ پھر وہ تھک ہار کر سو رہی۔ بگو چارپائی سے اٹھا اور اس نے ڈبو چرسی کو جا اٹھایا۔ اس کے مال پانی کا اس نے پہلے ہی بندوبست کر رکھا تھا۔ جب وہ آسمانون کی سیریں کرنے لگا تو اس نے اسے نوٹ وکھائے اور
73
کہا یار یہ الش دریا میں پھنک آؤ اور آ کر سارے نوٹ لے لو۔ ڈبو چرسی دریا میں الش پھینکنے چال گیا تو اس نے دیوار کے ساتھ دوسری الش کھڑی کر دی۔ واپس آ کر کہنے لگا الؤ نوٹ تو بگو نے کہا الش تو پھینک کر آؤ دوبارہ سے آ گئی ہے۔ ڈبو چرسی رات بھر اسی کام میں مصروف رہا۔ جب آتا الش وہاں کھڑی ہوتی۔ گیارویں الش ٹھکانے لگاتے تقریبا دن چڑھ گیا تھا اور ایک بندہ دریا نہا کر گھر واپس جا رہا تھا۔ ڈبو چرسی کو بڑا قہر آیا کہ یہ اب پھر دوبارہ سے واپس جا رہا ہے۔ اس نے اسے گردن سے پکڑا اور گالیاں بکتا ہوا دریا کے اندر لے گیا۔ اسے خوب ڈبکیاں دیں جب مر گیا تو واپس بگو کے پاس آ گیا اور کہنے لگا ساال دریا سے نکل کر واپس آ رہا تھا‘ اب نہیں آئے گا‘ میں اسے مار کر ہی واپس آیا ہوں۔ بگو ہنسا اور کہنے لگا گیارہ شمو کے ایک تمہارا۔ ڈبو چرسی کچھ نہ سمجھا اور مطلب پوچھنے لگا۔ خیر چھوڑو تم یہ کش لگاؤ اور نوٹ جیب میں پا کر غائب ہو جاؤ۔ صبح عالقے میں کہرام مچ گیا لوگ کیا جانیں کہ گیارہ جنسی پیار کی بھینٹ چڑھ گئے جب کہ باہرواں ان حدویں جنسی پیار کی غرقابی کی راہ میں آنے کے سبب دریا برد ہو گیا
74
چپ کا معاہدہ ہماری ساتھ کی گلی میں ایک صاحب رہا کرتے تھے جو آنٹا جی کے نام سے معروف تھے۔ کیا کام کرتے تھے۔ کوئی نہیں جان پایا ناہی کسی کے پاس اتنا وقت تھا کہ ان کی کھوج کو نکلتا‘ ان کی بیگم اتنی ملنسار نہ تھی کہ اس کے پاس عورتیں آ کر بیٹھ جاتیں۔ وہ کسی سے کوئی بات ہی نہ کرتی تھی۔ اگر کوئی عورت اس کے پاس جاتی تو مسکرا کر ملتی۔ آنے والی کی باتیں سن لیتی لیکن خود ہوں ہاں سے زیادہ بات نہ کرتی۔ محلہ میں کسی عورت سے ملنے یا اس کے دکھ سکھ میں نہ جاتی۔ ہاں آنٹا جی کوئی مر جاتا تو اس کا جنازہ ہر صورت میں اٹنڈ کرتے اور بس وہیں سے گھر لوٹ جاتے۔ شام کو گھر آتے اور پھر تھوڑی ہی دیر بعد بیٹھک میں آ بیٹھ جاتے اور دیر تک اکیلے ہی بیٹھے رہتے۔ ہاں محلہ کے چھوٹے چھوٹے بچے ان کی بیٹھک میں جمع رہتے اور وہ ان کے ساتھ بچوں کی طرح کھیلتے ان کے ساتھ خوب موج مستی کرتے۔ جیب میں کھال رکھتے بال تفریق بچوں کو پیسے دیتے۔ چھٹی واال دن ان بچوں کے ساتھ بیٹھک میں گزارتے۔ کسی بچے کو کوئی مارتا تو لڑ پڑتے چاہے اس بچے کا باپ ہی کیوں نہ ہوتا۔
75
میں نے غور کیا ایک بچے کے ساتھ وہ خصوصی برتاؤ کرتے۔ وہ بچہ بھی ان کے ساتھ بڑا مانوس تھا۔ ایک بار میں نے دیکھا کہ اس بچے کا ناک بہہ رہا تھا اور وہ اس کا ناک بڑے پیار سے اپنے رومال کے ساتھ صآف کر رہے تھے۔ میں ان کی بیٹھک میں داخل ہو گیا۔ انہوں نے بڑی اپناہت سے بیٹھنے کو کہا اور دوبارہ سے اس بچے کا ناک صاف کرنے لگے۔ میں نے پوچھ ہی لیا کہ یہ آپ کا بچہ ہے۔ انہوں نے میری طرف دیکھنے کی بجائے اس بچے سے پوچھنے لگے تمہاری ماں کو میں نے دیکھا ہوا ہے۔ بچے نے نفی میں سر ہالیا۔ جب میں نے اس کی ماں کو دیکھا ہی نہیں تو اس کی کیسے دیکھ لی۔ پھر میری طرف دیکھا اور کہا نہیں جی یہ میرا بچہ نہیں ہے۔ مجھے ان کی اس حرکت پر حیرت ہوئی اور میں چپ چاپ اٹھ کر وہاں سے چال گیا۔ مجھے ان کی یہ حرکت بڑی عجیب لگی۔ یہ حرکت تھی بھی عجیب نوعیت کی تھی۔ ایک دن معلوم ہوا آنٹا جی فوت ہو گئے ہیں اور بیٹھک میں ہی ان کی موت ہوئی۔ کیا وہ اندر نہیں سوتے تھے۔ اس روز وہ آنٹی دھاڑیں مار مار کر روئی اور انہیں اکالپے کا احساس ہوا۔ وہ ان کی تھی تو بیوی لیکن بیوی کے اطوار نہ رکھتی تھی۔ وہ اس کا ہر قسم کا خرچہ پانی اٹھائے ہوئے تھے۔
76
دس بیس سال پہلے منہ میں ڈھائی گز زبان رکھتی تھی۔ اس کا آگا پچھا کوئی بھی نہ تھا۔ بانجھ بھی تھی۔ اس کے باوجود انہوں نے اسے برداشت کیا ہوا تھا۔ تین بار طالق طالق طالق کہنے سے ہمیشہ کے لیے خالصی ہو سکتی تھی۔ وہ ان کی خالہ کی لے پالک بیٹی تھی۔ ماں نے مرتے وقت بیٹے سے اپنے سر پر ہاتھ رکھ کر قسم لی تھی کہ کبھی اور کسی صورت میں اس کا ساتھ نہیں چھوڑے گا۔ بس آنٹا جی کے منہ کو تاال لگ گیا اور وہ بیٹھک اور محلہ کے بچوں کے ہو رہے۔ آنٹی اور آنٹا جی کے درمیان چپ کا معاہدہ ہو گیا تھا۔ اب وہ دروازے کی دہلیز پر بیٹھی رہتی تھی۔ جب بھی کوئی آنٹا جی کا ذکر کرتا تو زار و قطار رونے لگتی لیکن منہ سے کچھ نہ کہتی۔ بڑی بات ہے کہ اتنا بڑا سانحہ گزر گیا آنٹا جی ہمیشہ کے لیے چلے گئے پھر بھی اس نے چپ کا معاہدہ نہ توڑا۔
77
کالی زبان جیجاں اور سائیں کی دو سال سے سالم دعا چل رہی تھی۔ انہوں نے ایک ساتھ مرنے جینے قسمیں کھا رکھیں تھیں۔ معاشقہ اپنی جگہ دونوں برے نہ تھے اور ناہی ان کی محبت رواجی اور وقتی تھی۔ انہوں نے ایک ساتھ رہ کر اور موقع ملنے کے باوجود کوئی ناشائستہ حرکت نہ کی تھی۔ اس رشتے کے بارے ہر روز دونوں گھروں میں گرما گرم بحث اور تکرار چلتی۔ معاملہ سنورنے کی بجائے دن بہ دن الجھتا ہی جا رہا تھا۔ سائیں کی ماں جب کہ جیجاں کا باپ اس رشتے کے زبردست حامی تھے۔ اطراف میں کڑی منڈا اپنی جگہ میاں بیوی کا جھگڑا چلتا۔ باطور ہم سایہ تعلقات بھی برے نہ تھے۔ وہ لوگ ایک دوسرے کی عزت اور پاس لحاظ کرتے تھے۔ لین دین بھی تھا۔ اوکھے سوکھے وقت میں ایک دوسرے کے کام بھی آتے تھے لیکن رشتہ داری بننے کی راہ میں ظالم سماج بنے ہوئے تھے۔ کہا جاتا تھا کہ سائیں کی زبان کالی ہے۔ اس روز باپ بیٹے میں بڑی تکرار ہوئی۔ وہ ایک دوسرے کو مارنے پر تلے ہوئے تھے۔ سائیں تھک ہار کر سر پکڑ کر وہیں زمین پر بیٹھ گیا۔ اس کی ماں آ گئی اور بیٹے کو دالسا دینے لگی۔ سائیں کا باپ بوال جتنے مرضی دالسے دے لو میں یہ رشتہ نہیں کرنے واال۔
78
سائیں کے منہ سے بےساختہ نکل گیا یا ہللا میرا باپ مر ہی جائے۔ سائیں کا باپ اندر سے کانپ گیا لیکن اکڑ قائم رکھتے ہوئے کہنے لگا :جتنی مرضی بددعائیں مانگ لو میرا کچھ نہیں بگڑے گا۔ سائیں کا باپ ساری رات نہ سو سکا۔ اس کے اندر قیامت مچی رہی۔ صبح وہ صحیح سالمت اٹھا۔ ہاں البتہ جیجاں کا باپ مر گیا۔ وہ سائیں کی ماں کو شریف عورت سمجھ رہا تھا لیکن وہ تو چھپی رستم نکلی۔ یہ بات ضرور خوش آئند تھی کہ وہ بچ گیا اور یہ بھی پردہ میں رہ گیا کہ جیجاں مرحوم کی نہیں لبھو کی بیٹی ہے۔ سائیں کی کالی زبان نے ایک کا پردہ جب کہ دوسرے کا پردہ چاک کر دیا۔
79
فیصلہ ندی پر بڑی سی لکڑی رکھ کر لوگوں کی سہولت کے لیے چودھری نے پل بنوایا تھا۔ ندی پار آبادی نہ تھی محض جھاڑیاں تھیں۔ عورتیں مل کر رات کو جھاڑے کے لیے ندی پار جاتی تھیں۔ جھاڑے کے ساتھ ساتھ معامالت کی مشاورت جاری رہتی۔ زیادہ تر ساس سسر یا پھر نند کی زیادتیاں یا پھر جنسی کرتوتوں کے قصے بھی زیر بحث آتے۔ دو ایک خاوند بھی گفتگو کی گرفت میں آ جاتے۔ رات کو ہونے والے مذاکرات اگلی صبح گھر کے کام کاج سے فراغت اور خاندوں کو کام پر روانہ کرنے کے بعد دو دو گھنٹے بعض اوقات اس سے بھی زیادہ وقت دیوار پر کھڑے ہو کر رواں اور بالتھکان تبصرے ہوتے۔ اس دن چودھری کے ڈیرے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ شیدو نے بتایا کہ اس کی عورت نے بتایا ہے کہ ندی پار رات کو کبوتر آتے ہیں۔ ڈیرے سے سنی بات کھبو نے گھر آ کر اپنی زنانی کو بتائی۔ اس کی زنانی نے پتا نہیں رات بھر یہ بات کس طرح ہضم کی پھر صبح اٹھتے ہی ہم سائی کے کان میں ڈالی۔ پھر یہ بات ایک سے دوسری پھر تیسری غرض شام تک وہ محلہ کیا آس پاس کے محلوں میں اپڑ گئی۔ اگلے وقتوں میں ریڈیو ٹی وی یا موبائل فون نہیں ہوا کرتے تھے‘ بس اسی طرح سے دور دراز
80
کے عالقوں کی خبریں دنیا بھر میں پھیل جاتیں تھیں۔ کوئی دوسری والئت سے آتا کوئی نئی خبر التا تو یہ پورے عالقے میں پھیل کر مختلف نوعیت کے تبصروں کی زد میں آ جاتی۔ یہ خبر کہ رام نگر کی جھاڑیوں میں کبوتروں کی ڈاریں کی ڈاریں رات کو اترتی ہیں‘ جئےپور پہنچنے میں کوئی زیادہ دیر نہ لگی۔ وہاں کے معروف شکاری رات کو ان جھاریوں میں پہنچ گیے۔ صبح تک کبوتروں کا انتظار کرتے رہے لیکن صبح تک ایک کبوتر بھی نہ آیا۔ انہوں نے صبح اٹھ کر دیکھا۔ ایک کبوتر کے کچھ پر بکھرے پڑے تھے۔ انہیں سخت مایوسی ہوئی۔ انہوں نے طے کیا آئندہ زنانیوں کی باتوں میں آ کر عملی قدم نہیں اٹھائیں گے۔ افسوس یہ فیصلہ محض زبانی کالمی کا تھا۔ عمل زنانیوں کے کہے پر ہی ہوتا رہا اور ہوتا آ رہا ہے۔ اگلے وقتوں میں کھمب سے ڈار بنتے تھوڑا وقت لگتا تھا لیکن آج بھال ہو موبائل فون کا ایسا ہونے کے لیے منٹ سکنٹ خرچ ہوتے ہیں۔ مڈیا بھی کمپنی کی مشہوری کے لیے کچھ کا کچھ بنا دیتا ہے۔
81
قاتل بہت سے اوروں کے کارنامے شاہوں اور شاہ والوں کے کھاتے چڑھتے آئے ہیں اور آتے وقتوں میں ان کارناموں کے حوالہ سے شاہ اور شاہ والے جانے اور پہچانے گئے ہیں۔ اسی طرح ناکردہ یا شاہوں کے کردہ پاپ اور جرم کم زوروں کا مقدر ٹھہرے ہیں۔ ہٹلر انسانیت کا بدترین دشمن کہا جاتا ہے لیکن ١٨٥٧میں خون میں رنگ دینے واال چٹا ساب ہل پر نہایا تاریخ کے اوراق پر نظر آتا ہے۔ دھرتی اور دھرتی والوں سے غداری کرنے والے شورےفا میں داخل ہوئے۔ اندھیر یہ کہ آج بھی انہیں قوم کے ہیرو سمجھا اور جانا جاتا ہے۔ شکورے کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا حاالں کہ وہ وچارہ شاہ یا کسی شاہ والے کا غدار نہ تھا۔ مشقتی تھا صبح جاتا رات کو آتا۔ جو محنتانہ میسر آتا بیوی بچوں پر خرچ کر دیتا۔ اپنے لیے ایک پائی بھی بچا کر نہ رکھتا۔ اس کا مؤقف تھا اگر یہ پل سمبھ گئے تو وہ سفل ہو جائے گا۔ اس کا خلوص اور پیار اس کی کپتی بیوی کے نزدیک صفر کی حیثیت نہ رکھتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ شکورے نے باہر باہر بہت کچھ جمع کر رکھا ہے اور اس جمع پونجی پر سانپ بن کر بیٹھا ہوا ہے۔ الکھ قسمیں کھانے اور یقین دالنے کے باوجود وہ اپنی ہٹ پر ڈٹی ہوئی تھی۔ وہ
82
چاہتی تھی کہ ساری جمع پونجی اور مکان جو شکورے کو واراثت مال تھا۔ اس کے نام کرکے مرنے کی کرے۔ اس کے پاس تھا ہی لیا جو بیوی کے نام کر دیتا۔ رہ گیا مکان وہ کون سا اس نے قبر میں لے جانا تھا۔ بچوں کا ہی تو تھا۔ اس کی بیوی کا اصل مسلہ یہ تھا کہ وہ سب کچھ حاصل کرکے اپنے یار ڈرائیور کے ساتھ جنت بسانا چاہتی تھی۔ خود تو سارا دن کھاتی پیتی اور جی بھر کر سوتی جب شکورا گھر آتا تو کوئی ناکوئی بہانہ تراش کر رات گئے تک اس کی ماں بہن ایک کر دیتی۔ وہ وہ باتیں اس سے منسوب کر دیتی جن کا اس کے فرشتوں کو بھی علم نہ ہوتا۔ وہ جان چھڑانے کی الکھ کوشش کرتا مگر کہاں۔ رات گئے تک مختلف قسم کے میزائل اور بم برساتی۔ بڑی مشکل سے خالصی ہوتی تو بن کھائے پئے صبر شکر کے گھونٹ پی کر سو رہتا۔ وہ یہ سب اس لیے برداشت کرتا کہ اس کے بچے بڑے ہو کر یہ نہ کہیں کہ باپ نے انہیں راہ میں ہی چھوڑ دیا۔ اس دن تو کمال ہی ہو گیا۔ شانو نے ایسا الزام اس پر دھر دیا جو کبھی اس سے متعلق رہا ہی نہ تھا۔ لڑائی میں کہنے لگی تم نے اپنی پہلی بیوی اور بچے کو اپنی معشوقہ رجو کے لیے زہر دے کر مار دیا۔ اس بیوی کو مارا جو اس کی جان تھی جب کہ بچہ بڑی منتوں مرادوں سے ہوا تھا۔ شکورے نے پوچھا یہ تمہیں کس نے بتایا‘ کہنے لگی تمہاری بھرجائی نے جو بڑی
83
کھری عورت تھی۔ وہ کھری عورت جو پچاس خصم بدل کر آئی تھی۔ سچ اور حق کی سخت دشمن تھی۔ وہ یہ سب سن کر بڑا حیران ہوا اس نے اپنے بچے اور بیوی کو اس رجو کے لیے مارا جسے اس نے کبھی دیکھا سنا ہی نہ تھا۔ جان پہچان یا پیار محبت تو بڑی دور کی بات۔ آدھی رات کو باآواز بلند کہی گئی اس بات کو آج چالیس برس ہو چلے ہیں۔ وہ بہ مشکل چلتا پھرتا ہے لوگ اسے آج بھی بیوی اور بچے کا قاتل سمجھتے ہیں۔ وہ مسجد میں سر پر کالم مقدس رکھ کر قسمیں کھا چکا ہے لیکن لوگ کہتے ہیں چور یار اور ٹھگ کی قسم کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی شرافت اور عالقہ کے لوگوں سے بھالئی کسی کو یاد تک نہیں۔ قیامت یہ کہ اسے اس کے بچے بھی بڑی امی اور اپنے بڑے بھائی کا قاتل سمجھتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ کہ شکورے کی بیوی نہ شاہ تھی اور نہ شاہ والی تھی اس کے باوجود اس کا کہا شاہ یا شاہ والی کا سا ثابت ہوا۔
84
میں کریک ہوں ببو ہمارے محلے کا اکلوتا دکان دار ہے۔ برا نہیں تو اچھا بھی نہیں۔ بےایمان نہیں تو اسے ایمان دار بھی نہیں کہا جا سکتا۔ میری اس سے کوئی گہری سالم دعا نہیں‘ بس راہ چلتے ہیلو ہائے ہو جاتی ہے۔ اس نے دکان بدلی تو میں نے پوچھا :دکان کیوں بدلی ہے۔ کہنے لگا :ایک تو تنگ تھی سودا پورا نہیں آتا تھا دوسرا ٹپکنے لگی تھی۔ میں نے کہا چلو تم نے ٹھیک کیا۔ یہ کہہ کر کام پر روانہ ہو گیا۔ رستہ وہ ہی تھا واپسی پر سالم دعا کے بعد میں نے دکان بدلنے کی وجہ دریافت کی۔ اس نے بال تردد و ترمیم وہ ہی وجہ بتائی۔ اگلے دن جمعہ تھا‘ چھٹی ہونے کے سبب میں نے سارا دن گھر پر ہی گزرا۔ ہفتے کو کام پر جاتے ہوئے اس کے پاس رکا۔ دعا سالم اور حال احوال پوچھنے کے بعد دکان بدلنے کی وجہ پوچھی۔ اس نے میری طرف بڑے غور سے دیکھا اور وہ ہی وجہ بتائی۔ وہ مجھے بھلکڑ سمجھ رہا تھا۔ اس کے ساتھ زیادہ تعلقات ہی نہ تھے اور بات کیا کرتا۔ یہ ہی
85
ایک بات تھی جو اس سے آتا جاتا کرتا۔ واپسی پر حسب معمول رکا۔ سالم بالیا حال احوال پوچھا اور دکان بدلنے کی وجہ پوچھی۔ وہ اونچی اونچی بولنے لگا اور مجھ سے لڑ پڑا۔ لگتا تھا کہ ہاتھا پائی پر اتر آئے گا۔ میں بھی ذہنی طور پر بھاگنے کے لیے تیار تھا۔ مجھے معلوم تھا دوڑ میں وہ میرا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ وہ تو خیر ہوئی لوگ جمع ہو گئے اور لڑنے کی وجہ پوچھی۔ وہ چوں کہ زور زور سے بول رہا تھا اس لیے میں نے بڑے تحمل سے وجہ بتا دی۔ ساتھ میں یہ بھی کہا میرا ببو سے کوئی خاص تعلق واسطہ نہیں اس لیے سالم دعا کی برقراری کے لیے پوچھ لیتا ہوں۔ یہ غصہ کر گیا ہے۔ اس میں غصہ کرنے والی ایسی کون سی بات ہے۔ سب ہنسنے لگے اور مجھے کہا باؤ جی آپ جائیں۔ اسی طرح کچھ ببو کو ٹھنڈا کرنے لگے۔ ایک بندے نے ببو کی طرف دیکھ کر سر پر انگلی رکھی۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ میں کریک ہوں۔ میں جعلی سنجیدگی سے ہولے قدمدں سے اپنے گھر کی جانب بڑھ گیا۔
86
ان ہونی‘ ان ہونی نہیں ہوتی تھیال مردود ہیرا پھیری اور دو نمبری میں بےمثل اور بےمثال رہا جب کہ تھیال شکی زندگی کے ہر معاملے کو شک و شبہ کی نظروں سے دیکھنے میں ضرب المثل چال آتا تھا۔ اس کا کہنا کہ کچھ بھی خالص نہیں رہا۔ جعلی بھی اصلی کے موافق دکھتا ہے‘ کو سو فی ناسہی کسی ناکسی فی صد تو درست ماننا ہی پڑے گا۔ تھیال مردود بات اس انداز سے کرتا کہ اس کا کہا اصلی سے بھی دو چار قدم آگے نکل جاتا۔ جسے ہاتھ لگے ہوئے ہوتے وہ بھی دھوکہ کھا جاتا۔ بات کہے تک ہی محدود نہ تھی‘ اس کا کیا بھی عین اصلی کی چغلی کھا رہا ہوتا۔ اسی وقت نہیں‘ بہت بعد میں کھلتا کہ وہ تو سراسر فراڈ تھا لیکن اس وقت جھانسے میں آنے والے کا کھیسہ خالی ہو چکا ہوتا۔ لٹے کی باریابی کے لیے وہ مزید بل کہ برابر اور بار بار لٹتا چال جاتا۔ ہم سب تھیلے شکی کے کہے کو بکواس کا نام دیتے رہے‘ بل کہ اس کا مذاق اڑاتے رہے۔ اس کا کہنا تھا کہ پیرو نے اس کے باپ اور بہن کو تعویز ڈال ڈال کر مارا۔ میری ماں نے پیرو سے نکاح تو کر لیا لیکن اپنے خاوند اور بیٹی کا قتل اسے مرتے دم تک معاف نہ کیا۔ اس کا یہ کہا میں نے بمشکل ہنسی پر قابو پا
87
کر سنا۔ وہاں تو اس کی ہاں میں مالئی لیکن گھر آ کر خوب ہنسا اور انجوائے کیا۔ ایسی بات پیٹ میں کب رہتی ہے۔ دوستوں کو بھی لطف اندوز کیا۔ دشمنی کا یہ انداز‘ یقین مانیں بالکل انوکھا اور الگ سے لگا۔ نکاح بھی خاوند اور بیٹی کے قاتل سے کیا اور معاف بھی نہ کیا۔ عجیب اور سمجھ سے باال لوجک تھی۔ دوسرا اگر تعویزوں سے لوگ مرنے لگتے تو آج دنیا میں ایک بھی زندہ نہ پھرتا۔ یہ بات عجیب بھی ہے اور فوق الفطرت بھی۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ کوئی آپ سے کہے کہ کل میں نے مگرمچھ کو جاگتے میں اڑتے دیکھا۔ ایسی بات کہنے واال پاگل ہی ہو سکتا ہے یا وہ آپ سے شغال لگا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے‘ بےوقوف بنا رہا ہو۔ بکری صدیوں سے ہاتھی چٹ کرتے آئی ہے لیکن مگرمچھ اڑتے نہیں دیکھا گیا۔ عالمتا مگرمچھ ہی اڑتے آئے ہیں۔ مزے کی بات دیکھیے اس کی عملی صورت دیکھنے میں آ گئی۔ اس کا مطلب یہ ٹھہرے گا‘ ان ہونی‘ ان ہونی نہیں رہی۔ گویا مگرمچھ کا اڑنا‘ غلط نہیں رہا۔ کہنے والے نے مگرمچھ کو ضرور اڑتے دیکھا ہو گا۔ یعنی مگرمچھ کی اڑان امکان میں داخل ہے۔ سدی پڑھا لکھا احمق اور یبل ہے۔ لکھائی پڑھائی کی بات کرو‘ فٹافٹ وہ کچھ بتال دے گا جو کسی کے خواب وخیال میں نہیں ہو گا۔ زبانی کالمی سماجیات میں بھی بڑا کمال کا ہے۔ عملی طور
88
پر منفی صفر سے بھی گیا گزرا ہے۔ ہللا نے اسے دو بیٹے عطا فرمائے۔ بڑا لڑکا کچھ سال اور چھوٹا لڑکا کچھ دن کا تھا کہ بیوی انتقال کر گئی۔ بآمر مجبوری اسے شادی کرنا پڑی‘ جس عورت سے شادی کی زبان طراز تو تھی ہی‘ بانجھ بھی تھی۔ تھیال مردود جو اس کا بہنوئی تھا نے سدی یبل کی بہن کو ہاتھوں میں کیا اور اس کا سب کچھ چٹ کر جانے کے طمع میں سدی کی شادی انتہائی گھٹیا اور چول عورت سے کروا دی۔ لوٹنے کے ساتھ ساتھ اپنی ہوس کی آگ بھی بجھانے لگا۔ تھوڑی ہی مدت کے بعد اس عورت کی تھیلے مردود سے ان بن ہو گئی اور وہ سدی یبل کو لے کر وہاں سے نکل آئی۔ ہللا نے سدی یبل کو ایک بیٹے سے نوازا۔ سدی یبل کی خوشی کی انتہا نہ رہی ہاں البتہ اس عورت نے سدی کا سانس لینا بھی حرام کر دیا۔ پہلے ہی چھوٹا مر گیا تھا اب وہ اس بیٹے کی خاطر اس جہنم زادی کے ساتھ نبھا کر رہا تھا۔ وہ تھیلے شکی کی ماں کے گزارے کا مذاق اڑایا کرتا تھا لیکن اب اس کی سمجھ میں آیا تھیلے شکی کا کہا غلط نہیں تھا۔ بعض حاالت کے تحت ناخوش گواری اور ناپسند کو بھی سینے سے لگانا پڑتا ہے۔ گویا مگرمچھ کا ہوا میں پرواز کرنا غلط نہیں۔
89
جذبے کی سزا اس میں بگڑنے والی ایسی کوئی بات ہی نہ تھی۔ بنے میاں کا بیٹا اپنے چھوٹے بھائی کو مار رہا تھا۔ میں نے اسے دو تین بار منع کیا لیکن وہ مارنے سے باز نہ آیا تو میں نے اس کی کھتی میں ایک رکھ دی۔ وہ روتا ہوا گھر چال گیا۔ بنے میاں بڑے غصہ سے باہر آئے۔ کچھ پوچھے بغیر ناصرف مجھ پر برس پڑے بل کہ زناٹے کی دو تین دھر بھی دیں۔ میں ان کے اس رویے پر سخت حیران ہوا۔ یوں لگا جیسے انہوں نے مجھ سے کوئی پرانا بدال چکایا ہو۔ میں بھی جوابا ان کی ٹھیک ٹھاک خاطر تواضح کر سکتا تھا لیکن کیجو کا منہ مار گیا۔ میں نے بامشکل درگزر سے کام لیا۔ اس نے ہاتھ چال لیے اور میں چپ رہا‘ وہ سمجھا کہ ڈر گیا ہوں اسی لیے زبان بھی دیر تک چالتا رہا۔ اردگرد کے لوگوں نے ٹھنڈا کیا کہ جسے بک رہے ہو وہ تو چپ ہے۔ میں بچوں کے معاملہ میں کبھی نہیں پڑا۔ شاید یہاں بھی نہ پڑتا جذبہءپدری نے مجھے بدحواس کر دیا اور میرا ہاتھ اٹھ گیا۔ کیجو کا چھوٹا لڑکا میرے اچھے وقتوں کی یاد تھا۔ خیر اب بھی جب پہاگاں گھر پر نہ ہوتی تو کیجو مزے کرا جاتی۔ اس کا سنور جاتا اور میرا بھی ذائقہ تبدل ہو جاتا۔ بنے میاں کو محض شک
90
تھا مگر شک یقین میں نہ بدال تھا۔ اس روز اگر میں بھی جوابا کچھ کرتا تو لمبا چوڑا کھڑاک ہو جاتا۔ کیجو دنیاداری میں کمال کی مہارت رکھتی تھی۔ اگرچہ سب جعلی کرتی لیکن اس کا یہ فرضی بھی اول درجے کا اصلی ہوتا۔ پہاگاں گھر پر تھی اور وہ کیجو کی بھی نانی تھی۔ بول بوالرے کا ایسا میدان لگتا کہ شیطان بھی توبہ توبہ کر جاتا۔ ماضی اور حال کے وہ وہ قصے دہرائے جاتے جو کسی کے خواب و خیال میں نہیں رہے۔ بکوبکی سے میری بڑی جان جاتی ہے۔ جذبے کی سزا بڑی ازیت خیز ہوتی ہے۔ مجھے بہت معمولی سزا ملی تھی‘ میری چپ نے متوقع رن کا رستہ بند کر دیا تھا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میری چپ نے کیجو سے تعلق خراب ہونے کا دروازہ بھی بند کر دیا تھا۔
91
ہللا بھلی کرے وہ اچھا خاصا بیٹھا باتیں کر رہا تھا‘ قہقے لگا رہا تھا۔ پتا نہیں اچانک کیا ہو گیا‘ او خو کہتا ہوا اٹھ بیٹھا اور بڑی تیزی سے گھر کی طرف بڑھ گیا۔ پیچھے سے ککو نے آواز دی‘ اوے کیا ہوا جو بال بتالئے بھاگ اٹھے ہو۔ ایمرجنسی۔۔۔آ کر بتاتا ہوں۔ وہ تو چال گیا لیکن ایک موضوع چھیڑ گیا۔ اکی کا خیال تھا کہ اس کی بیوی کا آج کیس ہونا تھا۔ ہللا خیر کرے اور ہللا جو بھی دے نیک اور زندگی واال دے۔ دوکڑ نے قہقہ لگایا او نئیں یار وہ کوئی دائی ہے جو کیس اس نے کرنا ہے۔ آج اس کی کمیٹی نکلنی تھی‘ ادھر ہی گیا ہو گا۔ بگڑ نے اپنی چھوڑی۔ ہاں ہاں یہ ہی بات ہے۔ نکے نے گرہ لگائی چھوڑو یار اس کا کیا ہے کہو کچھ کرتا کچھ ہے۔ گھر سے کچھ لینے آیا ہو گا‘ ادھر بیٹھ کر گپیں ہانکنے لگا۔ اب دو گھنٹے بعد یاد آیا ہو گا‘ تب ہی تو دوڑکی لگا کر گیا ہے۔ بیگم شری سے چھتر کھا رہا ہوگا۔
92
اس کی اس بات پر سب ہنس پڑے کالیے کی بات میں دم تھا لیکن مہاجے نے اپنی ہی کہہ دی۔ کسی مار پر گیا ہے ورنہ اس طرح سے نہ بھاگ نکلتا۔ تم کیا جانو‘ جانو بڑا سیانا ہے۔ اسے ملنے گیا ہوگا۔ شبے نے ایک اور ہی شگوفہ چھوڑا۔ اسے کیسے نیکو نے حیرت سے پوچھا تمہیں نہیں پتا نہیں تو ادھر کان کرو‘ بیبو بیبو کون واہ گاؤں میں خاک رہتے ہو جگو کی بیٹی ہائیں‘ میں یہ کیا سن رہا ہوں جی ہاں بڑا چھپا رستم نکال پس دیوار کی کے سیکڑوں معنی نکالے جاتے ہیں ،قیافوں اندازوں کا انبار لگ جاتا ہے۔ سب قریب قریب کی کہتے چلے جاتے ہیں۔ کھوج یا اسرار کھلنے کے وقت کا کوئی انتظار نہیں
93
کرتا۔ منچلے اپنی اپنی تشریح و وضاحت میں مصروف تھے کہ جانو آ ہی گیا اور سر سٹ کر بیٹھ گیا۔ سب اس کے منہ کی طرف دیکھنے لگے۔ یار کچھ بکو گے یا یوں ہی منہ لمکائے بیٹھے رہو گے۔ بگی نے پوچھا کام نہیں ہوا۔ جانو نے تقریبا روتے ہوئے کہا بڑا دکھ ہوا جانو یار لیکن کون سا کام۔ بگی نے افسوسیہ انداز اختیار کرتے ہو۔ یار تم لوگ جانتے ہو معدے کا مریض ہوں۔ آج تین دن ہوئے پوٹی نہیں آئی۔ لگا تھا پوٹی آئی ہے۔ لیٹرین میں بیٹھ بیٹھ کر تھک گیا۔ صرف ہوا سری ہے۔ ہار کر اٹھ آیا ہوں۔ سب اس کا جواب سن کر ہنسنے لگے۔ واہ جی واہ‘ کھودا پہاڑ نکال چوہا جگو نے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔ او جگو یار تم جاہل ہو نا۔ جانو نے جوابا کہا ہاں جی میں جاہل ہوں تم تو دلی سے ایم آ پاس کرکے آ گئے ہو نا۔ پاگل قبض تمام بیماروں کی ماں ہے۔ میرے اندر جو قیامت بپا
94
ہے وہ میں ہی جانتا ہوں۔ جانو نے روتے ہوئے کہا ماحول ناخوشگوار ہو گیا۔ چند لمحوں کے لیے سب کو چپ سی لگ گئی۔ جگو ہی نے سوگواری سی توڑتے ہوئے کیا۔ یار کیوں پریشان ہوتے ہو‘ ہللا بھلی کرے۔
95
آخری کوشش درندے کے قدموں کی آہٹ اور بھی قریب ہو گئی تھی۔ اس نے سوچا اگر اس کے دوڑنے کی رفتار یہی رہی تو جلد ہی درندے کے پنجوں میں ہو گا۔ اس نے دوڑنے کی رفتار اور تیز کر دی۔ پھر اس نے سوچا کیا وہ اور اس جیسے کمزور طاقتور کے آگے دوڑنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں؟ جب اور جہاں کمزور کی رفتار کم پڑ جاتی ہے طاقتور دبوچ لیتا ہے۔ اس کے بعد زندگی کا ہر لمحہ طاقتور کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ چند لمحوں کے ذہنی سکون کے بعد طاقتور چیر پھاڑ کر اپنی مرضی کے حصے کھا پی کر جان بناتا ہے۔ لمحہ بھر کے لیے بھی وہ یہ سوچنے کی ذحمت گوارا نہیں کرتا کہ کمزور کے دودھ پیتے بچوں کا کیا ہو گا۔ اس کے جانے کے بعد اس سے کم طاقتور بقیہ پر بڑی بے دردی سے ٹوٹ پڑتے ہیں اور وہ بوٹی بوٹی نوچ لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہڈیوں پر بھی رحم کھایا نہیں جاتا۔ کھایا بھی کیوں جائے ہڈیاں فاسفورس کی کانیں ہیں۔ بٹنوں کے لیے ان کی ضرورت رہتی ہے۔ اس کے بھاگنے کی رفتار میں مزید اضافہ ہو چکا تھا۔ سوچ خوف اور بچ نکلنے کی خواہش نے اس کے جسم میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کا احساس تک نہ ہونے دیا۔ وہ ہر حالت میں
96
دشمن کی گرفت سے باہر نکل جانا جاہتا تھا لیکن دشمن بھی اسے بخش دینے کے موڈ میں نہ تھا کیونکہ اس کی رفتار میں بھی ہر اضافہ ہو گیا تھا۔ موت کا گھیرا تنگ ہو گیا تھا۔ اس کے سامنے کھال میدان دائیں دریا بائیں گہری کھائی اور پیچھے خونخوار درندہ تھا۔ رستے کے انتخاب کے حوالہ سے یہ بڑی سخت گھڑی تھی۔ پھر وہ بائیں مڑ گیا۔ اس نے جسم کی ساری طاقت جمع کرکے کھائی تک پہنچنے کی کوشش کی۔ درندہ فقط ایک قدم کے فاصلے پر رہ گیا تھا۔ اس سے پہلے درندے کا پنجہ اس کی گردن پر پڑتا اس نے کھائی میں چھالنگ لگا دی۔ درندے کے اپنے قدم اس کی گرفت میں نہ رہے۔ کوشش کے باوجود رک نہ سکا اور وہ بھی گہری کھائی کی نذر ہو گیا۔ کمزور کے جسم کی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں اور دم اکھڑ رہا تھا۔ اس نے سراٹھا کر دیکھا کچھ ہی دور درندہ پڑا کراہ رہا تھا۔ اس کی ٹانگیں ٹوٹ گئی تھیں۔ بھوک درد کے زنداں میں مقید ہو گئی تھی۔ کمزور کے چہرے پر آخری مسکراہٹ صبح کازب کے ستارے کی طرح ابھری۔ اس کی آخری کوشش رنگ ال چکی تھی۔ اسے اپنی موت کا رائی بھر دکھ نہ تھا۔ اس نے خود یہ رستہ منتخب کیا تھا۔ اب یہ درندہ کبھی کسی کمزور کا وحشیانہ تعاقب نہ کر سکے گا اور اس کی ٹانگوں سے ہمیشہ اف اف اف کے بزدل نعرے بلند ہوتے رہیں گے۔
97
مکرم بندہ جناب حسنی صاحب :تسلیمات فی زمانہ نثر نگاری کا فن زنگ آلود ہو چالہے۔ کوئی رسالہ بھی اٹھا کر دیکھئے توسوائے چند اوسط درجہ کے افسانوں اور چند منظومات (غزل اور آزاد نظمیں) کے عالوہ کچھ اور نظر نہیں آتا۔ ماضی میں رسالوں میں ادبی ،علمی اور تحقیقی مضامین کثرت سے ہوا کرتے تھے۔ تنقید و تبصرہ فن کی حیثیت سے سیکھے اور سکھائے جاتے تھے اورافسانہ نگاری بھی اونچے معیار کی حامل تھی۔ اب ادب پر ایک عمومی زوال تو طاری ہے ہی نثر نگاری خصوصا اضمحالل کا شکار ہے۔ غزل کہنا لوگ آسان سمجھتے ہیں (حاالنکہ ایسا نہیں ہے)۔ غزل میں وقت کم لگتا ہے اور نظم میں اور نثر میں زیادہ ۔ نثر مطالعہ اور تحقیق بھی چاہتی ہے جس سے ہماری نئی نسل بیگانہ ہو کر رہ گئی ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ کوئی زبان بھی صرف ایک صنف سخن کے بل بوتے پر پھل پھول نہیں سکتی لیکن اردو والے اس معمولی سی حقیقت سے یا تو واقف ہی نہیں ہیں یا دانستہ اس سے صرف نظر کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ کی اردو محفلیں بھی اسی مرض کا شکار ہیں اور وہاں بھی سوائے معمولی غزلوں کے (جن میں سے بیشتر تک بندی ہوتی ہیں) کچھ اور نظر نہیں آتا۔ آپ کی نثرنویسی میں مختلف کوششیں اس حوالے سےنہایت خوش آئند ہیں۔ آپ مطالعہ کرتے ہیں ،سوچتے ہیں اور انشائیے لکھتےہیں۔ اس جدوجہد کو قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔ میں
98
اپنی مثال کسی خودستائی کی شہ پر نہیں دیتا بلکہ دوستوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ شوق،محنت اور لگن ہو تو بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ میں نے انجینیرنگ پر نصابی کتابیں لکھی ہیں۔ ان کے عالوہ غزل ،نظم ،افسانے ،ادبی مضامین ،تحقیقی مضامین، ادبی تنقید وغیرہ سب ہی لکھا ہے۔ یقینا سب کچھ اعلی معیار کا نہیں ہے لیکن بیشتر اچھے معیار کا ہے اور ہندو پاک کے معتبر اور موقر رسالوں میں شائع ہوتا ہے۔ میں آپ کی انشائیہ نگاری کا مداح ہوں اور درخواست کرتا ہوں کہ برابر لکھتے رہہئے۔ زیر نظر انشائیہ اچھا ہے لیکن یہ مزید بہتر ہو سکتا تھا سو اپ وقت کے ساتھ خود ہی کر لیں گے۔ خاکسار کی داد حاضر ہے ۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔ سرور عالم راز
99
ُمحترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم اس تحریر پر ہم کُچھ نہ لکھیں گے۔ فقط یہی کہ اسے پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور تحریر کے اختتام کے قریب سانسیں ُرک جاتی ہیں۔ اور پھر منہ ک ُھال کا ک ُھال رہ جاتا ہے۔ اس کے اندر جو کرب ہے اور جو کُچھ یہ انگلیاں لکھنے کو دوڑ رہی ہیں ،اُسے بصد مشکل روکتے ہوئے ،ایک بار پھر سے بھرپور داد ۔۔۔ دُعا گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=7975.0
100
تیسری دفع کا ذکر ہے پہلی دفعہ کا ذکر اس لیے اتنا اہم نہیں کہ یہ دو ٹوک تھا اور اس کے ساتھ کوئی واقعہ ،معاملہ یا مسلہ وابستہ نہیں۔ میں بیمار پڑا۔ طبعیت ضرورت سے زیادہ بوجھل تھی۔ طبعیت خراب ہو تو ہائے وائے کی آوازیں ناچاہتے ہوئے بھی بےساختہ بل کہ از خود منہ سے نکل جاتی ہیں۔ اگر توجہ اور خدمت کی تمنا ہو تو آدمی اس ذیل میں منہ کا سپیکر قدرے بلند کر دیتا ہے۔ یقین مانیے میں سچ مچ میں بیمار تھا اس لیے خصوصی توجہ کا طالب بھی تھی۔ خیال تھا کہ میرے پورے گھر والی پریشان ہو کر توجہ دے گی۔ میرا یہ خیال خاک کا شکار ہو گیا جب اس نے کہا نیچے چلے جاؤ کہیں میرے متھے لگتے ہو۔ میں کپڑے جھاڑتا ہوا نیچے آ گیا۔ ایک بیمار تھا اوپر اس بے رخی کا صدمہ بھی ہوا۔ چوں کہ پہلی دفعہ کا ذکر دو لمحوں کا تھا اس لیے اسے دفع کو ماریے۔ دوسری دفعہ چوں کہ بے ہوشی کی حالت ناسہی نیم بےہوشی کی کیفیت ضرور تھی۔ ہسپتال سے چوتڑوں اور بازوں پر کئی ایک ٹیکے لگوا کر گھر الیا گیا۔ چوتڑوں کے ٹیکے اس لیے محسوس نہ ہوئے کہ پیاری سی نرس نے دلی ہم دردی سے لگائے تھے‘ ہاں البتہ بازو ضرور دکھے کہ وارڈ بوائے نے
101
پوری بےدردی سے لگائے تھے۔ چھوٹی گھروالی کا ہسپتال جا کر پوچھنا تو بہت دور کی بات ہے اسے گھر میں آ جانے کے بعد آدھی زبان سے پوچھنے تک کی توفیق نہ ہوئی۔ میں نیم مردہ سی حالت میں لیٹا ہوا تھا۔ اچانک اسے کوئی خیال آیا‘ پھر کیا تھا کہ بالتکان دو گھنٹے انتالیس منٹ بولتی رہی۔ لب لباب یہ تھا کہ میں نے بیمار ہونے کا محض ڈونگ رچایا ہے۔ بیمار اس کا ابا ہوا تھا اور عالج معالجے کے باوجود قبر میں جا بسیرا کیا۔ اگر میں بیمار ہوا ہوتا تو الش گھر پر آتی۔ اس کی بات میں چوں کہ دم تھا اس لیے دوسری دفع کو بیچ میں النے کی ایسی کوئی خاص وجہ نظر نہیں آتی۔ ہاں البتہ تیسری دفع اوج کمال کو چھوتی نظر آتی ہے اس لیے اس کا ذکر خصوص میں داخل کرنا اصؤلی سی بات نظر آتی ہے۔ ہوا یہ کہ میں بیمار پڑا تو میری ہائے اوے ہائے اوے کے نعروں سے بےزار ہو گئی۔ میں بھی تو بالوقفہ اور بالتکان یہ آوازے کسے جا رہا تھا۔ ان آوازوں سے اس کا سر بوجھل ہو گیا۔ کچھ بولی تو نہ‘ البتہ سر پر کپڑا باندھ کر باہر صحن میں بیٹھ گئی اور میری آخری سانس کا انتظار کرنے لگی۔ آخری سانس بڑی ڈھیٹ تھی‘ کم بخت نہ آئی۔ میں نے اس کی آوازاری محسوس کر لی اور پوری طاقت سمیٹ کر بیٹھک میں آ کر صوفے پر لیٹ گیا۔ پتا نہیں رات کتنی دیر تک صوفے پر لیٹا رہا‘ جب قدرے بہتری ہوئی تو جا کر چارپائی پر لیٹ گیا۔ میرے
102
پاؤں کی آہٹ سے جاگ گئی لیکن سونے کا ناٹک جاری رکھا۔ میں نے بھی ڈسٹرب کرنا مناسب نہ سمجھا اور چپکا رہا۔ ہللا کے احسان سے رات گزر گئی۔ ٹھیک سے ٹھیک نہ ہوا‘ ہاں البتہ پہلے سے قدرے بہتر ضرور تھا۔ میں نے اس کی جانب یوں ہی بالوجہ دیکھ لیا۔ چہرے پر بیمار ہونے کی کیفیت طاری کر لی۔ میں نے فورا سے پہلے نگاہ نیچی کر لی۔ آدھ گھنٹے بعد چارپائی لگ گئی۔ پوچھا کیا ہوا۔ سخت بیمار ہوں۔ میں پوچھنا چاہتا تھا ابے والی بیمار ہو یا میرے والی بیماری ہے۔ چپ رہا‘ جانتا تھا آج اور آتا کل بےمزگی میں گزرے گا۔ اس کا کہنا تھا کہ میری شوگر چھے سو ستر پر پہنچ گئی ہے۔ بی پی بھی ہائی ہو گیا ہے۔ صبح سے مسلسل اور متواتر الٹیاں کر رہی ہوں۔ سر پھٹ رہا ہے۔ ایک دو بیماریاں اور بھی گنوائیں۔ میں نے کہا ہللا آسانی پیدا کرے گا۔ کہنے لگی سب ہللا پر چھوڑے رکھنا‘ خود سے کچھ نہ کرنا۔ چاہا کہ کہوں سر دبا دیتا ہوں پھر فورا خیال آیا بچو شام تک اسی کام میں رہو گے۔ مجبور قدموں چلتا ہوا بازار گیا نان چنے اور ساتھ میں حفظ ما ماتقدم سالئس اور انڈے بھی لے آیا۔ بےچاری نے اوکھے سوکھے ہو کر دونوں نان چنے اور ایک انڈا ڈکار لیا۔ اصوال بہتری آ جانی چاہیے تھی‘ قدرے آ بھی گئی۔ ہللا کا شکر ادا کیا زبان کی کوترا کتری سے بچ گیا ہوں۔ شام تک حاالت درست رہے۔ شام کو فائرنگ شروع ہو گئی۔ وجہ یہ تھی کہ نان چنے اور انڈے
103
سالئس تو لے آئے لیکن منہ میں بڑ بڑ کر رہے تھے‘ حاالں کہ ایسا نہیں تھا۔ تاہم دیر تک چل سو چل ہی رہی اور میں بھول گیا کہ بیمار ہوں۔
104
انگلی
مہاجا بڑے سکون اور آرام سے دکان پر بیٹھا‘ دودھ اوبال رہا تھا‘ ساتھ میں ُپڑوسی دکان دار سے باتیں کیے جا رہا تھا اور دودھ میں کڑچھا بھی مارے جا رہا تھا۔ اس کا پالتو بال اس کی نشت کے نیچے‘ پرسکون بیٹھا ہوا تھا۔ وقت بال کسی پریشانی کے گزر رہا تھا۔ کوئی نہیں جانتا کہ اگلے لمحے کیسے ہوں گے۔ سب جانتے ہیں‘ شیطان انسانی سکون کا دشمن ہے۔ انسان کی پرسکون زندگی‘ اسے ہمیشہ سے کھٹکتی آئی ہے۔ اس نے ایک انگلی‘ جس پر ایک یا دو بوند ہی دودھ چڑھا ہو گا‘ سامنے دیوار پر لگا دی۔ دودھ پر مکھیاں عاشق ہوتی ہیں‘ جھٹ سے مکھیاں دیوار پر لگے دودھ پر آ گئیں۔ جہاں مکھیاں ہوں‘ وہاں چھپکلی کا آنا غیرفطری نہیں۔ جھٹ سے ایک چھوڑ‘ کئی چھپکلیاں آ گئیں۔ بال چھپکلیوں کو برداشت نہیں کرتا وہ چھپکلیوں پر جھپٹا‘ اتفاق دیکھیے اسی لمحے‘ ایک نواب صاحب اپنے ٹومی سمیت ادھر سے گزرے۔ ٹومی بلے کو کیسے برداشت کرتا۔ وہ بلے پر بڑی تیزی سے جھپٹا۔ بال دودھ میں گر گیا۔
105
ردعمل ہونا فطری سی بات تھی۔ مہاجے نے پوری طاقت سے ٹومی کے سر پر کڑچھا مارا اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ نواب صاحب ٹومی کی بےحرمتی اور اس پر ہونے واال یہ تشدد کیسے دیکھ سکتے تھے۔ انہوں نے چھے کی چھے مہاجے کے سینے میں اتار دیں۔ مہاجا اتنی بڑی فیملی کا واحد کفیل تھا چل بسا۔ پوری فیملی الغر و اپاہج ہو گئی۔ وہ کیا کر سکتے تھے بس قسمت کو ہی کوس سکتے تھے۔ نواب صاحب کا کیا بگڑنا تھا۔ یہ لوگوں کا کب سنوارتے ہیں لوگ ان کا گلپ کرنے اور ظلم سہنے کے لیے جنم لیتے ہیں۔ ان کا گلپ ہی اقتداری طور رہا ہے اور شائد رہے گا۔ ان پر یا ان کے کیے پر انگلی اٹھانے والے زہر پیتے رہیں گے سولی چڑھتے رہیں گے۔ اقتدار کا یہ ہی اصولی فیصلہ رہا ہے۔ حال کیا مستقبل قریب میں بھی ان سے مکتی ملتی نظر نہیں آتی۔ قصوروار کون تھا صاف ظاہر ہے مہاجا۔۔ نواب کبھی غلطی پر نہیں یا شیطان کوسنوں کی زد میں رہے گا۔ کوئی خود کو سدھارنے کی جسارت نہیں کرے گا۔ جی ہاں‘ یہ ہی سچ اور یہ ہی حقیقت ہے۔
106
آخری تبدیلی کوئی نہیں :نوٹ ہم چھوٹے چھوٹے چھوٹے ہوا کرتے تھے مخدومی و مرشدی بابا جی سید غالم حضور حسنی اس طرح کی کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ وہ کہانیاں آج بھی لوح دل پر نقش ہیں۔ دن کبھی ایک سے نہیں رہتے۔ ہر لمحہ تبدیلی سے گزرتا ہے اور کل من عیھا فان کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ بھلے وقتوں کی بات ہے۔ دو دوست ہوا کرتے تھے۔ ایک سوداگر جب کہ دوسرا کوئی کام نہیں کرتا تھا۔ ایک دن سوداگر دوست نے کہا فارغ رہنے سے وقت نہیں گزرتا۔ ضرورتیں تو منہ پھاڑے رہتی ہیں۔ آؤ تمہیں اوبےنگر کی فوج میں بھرتی کرا دیتا ہوں۔ اس کی ریاست اوبے نگر میں وقفیت تھی لہذا جلد ہی اس کا دوست فوج میں بھرتی ہو گیا۔ دونوں کو خوشی ہوئی۔ بات بھی خوشی والی تھی کہ روٹی کا سلسلہ چل نکال۔ دو چار سال کے بعد اس کا ادھر سے گزر ہوا۔ اس نے سوچا کیوں نہ دوست ہی سے مل لوں۔ چھاؤنی گیا۔ اس نے پوچھا سپاہی تیغا رام کدھر ہوتا ہے۔ پتا چال اچھی کارگزاری کی وجہ
107
سے وہ حوالدار ہو گیا ہے۔ اسے خوشی ہوئی کہ اس کا دوست ترقی کر گیا ہے۔ دونوں کی مالقات ہوئی۔ سوداگر دوست نے :اپنی خوشی کا اظہار کیا تو جوابا تیغا رام نے کہا یار دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔ اسے دوست کے جواب پر حیرانی ہوئی۔ کچھ نہ کہا‘ چپ رہا۔ وقت اپنی مرضی‘ مزاج اور روٹین کی ڈگر پر چلتا رہا۔ شخص اوروں سے بےنیاز اپنے اپنے طور سے روٹی ٹکر تالشنے میں مصروف تھا۔ سوداگر بھی سوداگری میں مصروف تھا۔ اس کا روٹین میں اوبےنگر جانا ہوا۔ اس نے اپنے دوست حوالدار تیغا رام کا چھاؤنی میں جا کر پوچھا۔ وہاں سے پتا چال تیغا رام صوبےدار ہوگیا ہے۔ اس خبر نے اسے خوشی سے نہال کر دیا۔ مالقات پر اس نے مبارک باد دی۔ تیغا رام نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔ یار دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔ تیغا رام موج اور ٹھاٹھ کی گزار رہا تھا۔ حیرانی تو ہونا ہی تھی لیکن وہ چپ رہا۔ جواب میں کیا کہتا۔ سالوں میں تبدیلی تو آئی تھی۔ تیغا رام غلط نہیں کہہ رہا تھا۔ کچھ سالوں کے بعد سوداگر کا اوبے نگر سے گزر ہوا۔ وہ اپنے دوست تیغا رام سے ملنے چال گیا۔ وہاں سے معلوم پڑا کہ وہ
108
بادشاہ کا منظور نظر ہو گیا ہے اور وزیر مقرر کر دیا گیا ہے۔ اس نے سوچا وزیر ہو گیا تو کیا ہوا میرا تو دوست ہے۔ بامشکل مالقات ہوئی۔ سوداگر نے اپنی خوشی کا اظہار کیا تو جوابا تیغا رام نے وہ ہی پرانا ڈائیالگ دوہرا۔ اس کا کہنا غلط نہ تھا‘ لہذا اس نے ہاں میں ہاں مالئی اور تھوڑا وقت گزار کر رخصت ہو گیا۔ جب قسمت کا ستارہ زحل سے نکل کر مشتری میں آ جائے انسان کچھ سے کچھ ہو جاتا۔ اوبےنگر کے بادشاہ کی موت کے بعد بادشاہی تیغا رام کے ہاتھ میں آئی۔ اصل بات یہ تھی کہ تیغا رام کی عادات میں تبدیلی نہ آئی۔ وہ اپنے سوداگر دوست سے اسی طرح پیش آیا۔ پہلے کی طرح کھل ڈھل کر گپ شپ لگائی۔ اس کا کہنا وہ ہی رہا کہ دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔ سوداگر حیران تھا کہ تیغا رام ترقی کی آخری سیڑھی کراس کر گیا اب بھی اسی بات پر ہے۔ اس سے آگے تو زندگی میں کچھ بھی نہیں۔ وہ اسے ڈائیالگ سمجھ کر چپ رہا۔ اگلی بار جب سوداگر اوبے نگر آیا تو اسے معلوم پڑا کہ بادشاہ تیغا رام انتقال کر گیا ہے۔ شہر کے باہر کھلے میدان میں چاردیواری کے اندر اس کی یادگار بنائی گئی تھی۔ مختلف طرح کے پودے لگائے گئے تھے۔ اسے خوب صورت بنانے میں
109
کوئی کسر نہ چھوڑی گئی تھی۔ لوح یادگار پر تحریر کیا گیا تھا عادل بادشاہ مہاراج تیغا رام دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے سوداگر حیران تھا اب آخری تبدیلی بھال کیا آئے گی۔ موت کے بعد بھال کیا تبدیلی آ سکتی ہے۔ سوداگر کا اوبے نگر میں وہ آخری پھیرا تھا۔ وہ تیغا رام کی آخری یاگار کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ماضی کا ہر لمحہ شعور کے دریچوں سے جھانک رہا تھا۔ اس کی آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں۔ اس نے سوچا تیغا رام درست کہتا تھا کہ دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔ وہ سوچ رہا تھا اب بھال اور کیا تبدیلی آئے گی۔ جب وہاں پہنچا تو دیکھا وہاں دریا بہہ رہا تھا۔ اس کے منہ ‘سے بےاختیار نکل گیا دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔
110
کھڑ پینچ دی جئے ہو۔
ہیلو مسٹر! یو ار سویٹ اینڈ لولی ہوم غور منٹ کمپلینٹ اس دیٹ یو پھڑکائیٹڈ ہر برسرعام السٹ ڈے۔ وائی۔ نو حجور شی از جھوٹ مارنگ۔ آئی اونلی ون ویری سلو مکا ماریڈ او مائی گاڈ‘ یو بےغیرت مین۔ وائی یو مکا ماریڈ ہر ان دی بازار۔ یو نو پیپل ور ویکھنگ اینڈ الفنگ ایٹ یو آئی ایم ناٹ بےغیرت حجور شی از بےغیرت بی کاز شی مارڈ می سو مےنی لیترز ویری ٹھوک ٹھوک کر پیوپل ور الفنگ ایٹ ہر ری ایکشن اٹ از یو ار کیس وچ مے بی ڈسکسڈ لیٹر اون۔ فسٹ ٹل اس وائی یو مکا مارڈ حجور اٹ از آ شیم فل سٹوری اینڈ کن ناٹ ناریٹ ان دی پنچایت ڈونٹ وری یو گلٹی کمی کمین حجور آئی ناٹ کمی کمین۔ مائی کاسٹ از انصاری
111
او یس یو مین جوالیا ،آئی نو یو ار جوالیا۔ جوالیا کاسٹ از ان فیکٹ کمی کمین۔ وائل یو ار ہوم گورمنٹ از قریشی گویا شی از ناٹ کمی کمین یس حجور شی از مراسی۔ ڈونٹ بارک‘ ان فیکٹ دس ورڈ از مراثی۔ از آئی ایم رائٹ او یو سویٹ اینٍڈ جنٹل لیڈی حجور یو ار ابسلوٹلی رائٹ او مین ناؤ سم تھنگ ہریلی پہونکو حجور شی ہیز ناٹ ذرا بھورا شرم وٹ ہپنڈ ٹل اس حجور شی واز ممانائزنگ ان دی بازار او مائی گارڈ واٹس آمیزنگ سیچویشن ول بی گوئنگ دیئر او جنٹل اینڈ سویٹ لیڈی شو اس یو ار فن شی سٹارٹیڈ ہر فن ود آؤٹ اینی ہیزیٹیشن۔ ایوری ون انجوائڈ اٹ اے الٹ او مسٹر جوالہے طالق ہر ایٹ دی سپاٹ اینڈ یو دفع دفان فروم ہیئر۔ شی ہیز اے ونڈرفل کوالٹی۔ ان فیوچر شی ول سٹے ہیئر۔
112
وین مسٹر جوالیا ڈو نٹھنگ ون مین گٹ اپ اینڈ رکھڈ پنج ست لتر ایٹ ہیز بوٹم۔ ہی گیو طالق دایٹ سویٹ ممانئیزر اینڈ دوڑ لگائیڈ۔ اٹ واز اے نائس فیصلہ۔ پیوپل واز ریزنگ سلوگن کھڑ پینچ دی جئے ہو۔ ناؤ آ ڈئیز شی از سرونگ ایٹ کھڑ پینچز ڈیرہ اینڈ ارننگ اچھی خاصی اماؤنٹ ود نائس فیم۔ شی ہیزناٹ کمپلینٹ فروم اینی سائڈ۔ پیوپل ار سیٹسفائیڈ اینڈ ہیپی فروم دیئر چودھری ساب۔
113
سراپے کی دنیا اس کے حسن کی تعریف کرنے بیٹھوں تو شاید‘ بہت ساری تشبیہات کے استعمال کے باوجود‘ بات نہ بن پائے گی۔ اسے زمین پر ہللا کا تخلیق کردہ ماسٹر پیس کہنا‘ کسی طرح غلط نہ ہو گا۔ لباس کے اندر بھی شاید یہ ہی صورت رہی ہو گی۔ ہم لباس کے باہر پر مر مٹتے ہیں‘ جب لباس کے اندر جھانکتے ہیں تو سخت مایوسی ہوتی ہے۔ اسی طرح جب گوشت پوست اور ہڈیوں کے پیچھے جھانکنے کا موقع ملتا ہے‘ تو سر پر گھڑوں پانی پڑ جاتا ہے۔ جب تک یہ جاننے کا موقع ملتا ہے‘ اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ گویا نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ وقت گزرنے کے بعد‘ پھسی کو پھڑکن کیسا ہی باقی رہ جاتا ہے۔ اس کے پاس میرا کسی کام کے سلسلے میں جانا ہوا تھا۔ اسے دیکھ کر‘ مجھے اصل مدعا ہی یاد نہ رہا۔ وہ تو اچھا ہوا کہ میں کچھ دیر بعد‘ اپنے آپے میں آ گیا۔ میں قریب چال گیا‘ سالم بالیا۔ اس نے بال اوپر دیکھے‘ سالم کا تقریبا سا جواب دیا۔ میں نے
114
اسے ہی غنیمت سمجھا اور بڑے مالئم اور پریم بھرے لہجے میں عرض کیا‘ میڈم میں ایک سماجی معاملے پر ریسرچ کر رہا ہوں‘ اس ذیل میں چند ایک سواالت کے جواب درکار ہیں۔ اس نے سر اٹھایا اور بڑی بے رخی سے جواب دیا :میں بہت مصروف ہوں جو پوچھنا ہے جلدی سے پوچھ لو۔ جی میڈم‘ آپ کا نام تانیہ آپ مقامی ہیں یا باہر سے تشریف الئی ہیں کوئی ڈھنگ کا اور متعلق سوال پوچھو بہتر میڈم‘ پڑھائی سے وابستہ ہیں ایم فل فارمیسی کر رہی ہوں اس کے چہرے کی اکتاہٹ دیکھ کر میں نے آخری سوال کیا ایم فل فارمیسی کرنے کے بعد کیا جذبہ اور ارادہ رکھتی ہیں۔ اس کے بعد کیا کرنا ہے‘ ٹیبل پر بیٹھی ون لیگ روزانہ کا کماؤں گی۔ میرا خیال تھا کہ کہے گی‘ انسان کی بےلوث خدمت کروں گی۔ خوب صورت لباس اور خوب صورت سراپے میں چھپا پیٹو شیطان‘ میرے سوچ کی دھجیاں بکھر رہا تھا۔ میرے سوچ کا
115
شیش محل کرچی کرچی ہو کر گندگی کی دلدل میں دھنس چکا تھا۔ میں نے سوچا‘ یہ کیسا انسان سا پتال ہے جو من میں اپنی ذات سے ہٹ کر‘ کچھ نہیں رکھتا۔ آگہی کا حصول محض پیٹ کے لیے ہو گیا ہے۔ پھر میں نے سوچا‘ اتنا کما کر آخر کیا کر لے گی۔ کوٹھی بنگلہ اور بینک بیلنس بنا لے گی۔ اس سے کیا فرق پڑے گا۔ قبر میں تو کچھ نہیں جا سکے گا۔ مر جانے کے بعد‘ پیار کرنے والوں کو بھی جلدیاں ہوں گی۔ الش کے لیے کون بےکار میں وقت ضائع کرتا پھرے۔ اس کوٹھی بنگلے اور بینک بیلنس کی تقسیم پر‘ سگے بہن بھائیوں کے کئی یدھ ہوں گے۔ کورٹ کچری چڑھیں گے۔ کسی کو کبھی اس کی قبر پر بھولے سے بھی‘ چار پھول چڑھانے کی توفیق نہ ہو گی۔ مرنے والے نے ڈگری لے لی‘ پیسے بھی کما لیے‘ لیکن آگہی اس کا مقدر نہ بن سکی۔ حسین گوشت پوست کے پیچھے اتنی پوشیدہ غالظت۔ توبہ بھی میری روح میں‘ توبہ کرنے لگی۔ جھوٹ نہیں بولوں گا‘ میں تو اس کے سراپے کی دنیا کا اسیر ہو کر‘ اسے جیون ساتھی بنانے کی سوچ بیٹھا تھا۔ اگر ہللا کی عنایت شامل نہ ہوتی‘ میں تو مارا گیا تھا۔
116
میں ہی قاتل ہوں کاما کبو‘ تیز قدموں سے کھیتر کی طرف بڑھ رہا تھا۔ آج کھیتر پر کام کافی تھا۔ دوسرا چودھری کے موڈ کا بھی کچھ پتا نہیں چلتا تھا۔ اس کے بگڑنے کے لیے‘ کسی وجہ کا ہونا ضروری نہ تھا۔ چودھرین سے اپنے لچھنوں کی وجہ سے‘ چھتر کھاتا رہتا تھا۔ گھر کا غصہ باہر آ کر کاموں پر نکالتا۔ کام کاج کوئی کرتا نہیں تھا‘ گھر سے یوں سج سنور کر نکلتا جیسے جنج چڑھنے جا رہا ہو۔ سارا دن ڈیرہ پر بیٹھا‘ آئے گئے کے ساتھ گپیں ہانکتا یا پنڈ کی سوہنی کڑیوں کے ناز و ادا کے قصے سنتا۔ کوئی ہتھے چڑھ جاتی تو معافی کا دروازہ بند کر دیتا۔ ناکامی کی صورت رہتی‘ تو سارا غصہ کاموں پر نکالتا۔ سب چپ رہتے‘ ہر کسی کو جان اور چمڑی بڑی عزیز ہوتی ہے۔ کھیتر پر آتے جاتے اس طرح کی سوچیں اسے گھیرے رکھتیں، غلطی یا ظلم‘ زیادتی چودھری کرتا ڈال گریب کاموں پر دی جاتی۔ وہ سوچ رہا تھا‘ یہ زندگی بھی کیسی ہے گھر جاؤ‘ کوئی ناکوئی مسلہ راہ روکے کھڑا ہوتا۔ باہر آؤ تو کامے پر وہ کچھ بیت جاتا جو اس کے خواب و خیال میں بھی نہ ہوتا۔ جب وہ کھیتر پہنچا‘ وہاں عجب کھیل رچا ہوا تھا۔ چودھری کے ہاتھ میں خون آلودہ چھرا تھا اور سامنے کاما ابی‘ خون میں لت
117
پت پڑا تھا۔ وہ یہ منظر دیکھ کر گھبرا گیا۔ چودھری سخت غصے میں تھا۔ اس نے چھرا کامے کبو کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا :ذرا اسے پکڑنا‘ کبو نے پکڑ لیا اور خود کامے ابی کے پاس پہنچ گیا اور افسردہ و پریشان ہو کر اس کے پاس بیٹھ گیا۔ دریں اثنا پولیس پہنچ گئی اور کبو کو پکڑ لیا۔ چودھری غصے سے اٹھا اور پان سات کبو کو رکھ دیں۔ مجھے پتا نہ تھا کہ تم اتنے ظالم اور کمینے ہو۔ پولیس والوں نے کہا چودھری تم چھوڑو‘ تھانے جا کر ہم اس کی طبیعت صاف کر دیں گے۔ وہاں موقع پر اور بھی دو تین کامے موجود تھے‘ کسی کے منہ سے سچ نہ پھوٹا۔ اس اچانک نازلی آفت نے اس کے ہوش ہی گم کر دیے۔ تھانے جا کر اس کی خوب لترول کی گئی۔ وہ کہے جا رہا تھا‘ میں نے کچھ نہیں کیا۔ اس کی کب کوئی سن رہا تھا۔ ایک شپائی بوال :تمہیں ہم نے کچھ نہ کرنے سے روکا تھا۔ ایک اور نے نعرہ لگاؤ :کچھ کر لیتے نا ایک نے کہا :اب یہاں سے جا کر کچھ کر لینا پہلے واال بوال :یہاں سے جائے تو ہی کچھ کرئے گا ایک جو ذرا پرے کھڑا تھا کہنے لگا :تو پھر یہ قتل کس نے کیا ہے۔ خون سے بھرا چھرا تو تمہارے ہاتھ میں تھا۔
118
حجور قتل کرنا تو دور کی بات‘ میں تو ایسا قیمتی چھرا خرید ہی نہیں سکتا۔ چھرا تو چودھری نے مجھے پکڑایا تھا۔ الزام تراشی کرتے ہو۔ اس کے بعد التوں مکوں اور تھپڑوں کی برسات ہو گئی۔ تھانہ تو تھانہ‘ کورٹ کچہری بھی اس کی سن نہیں رہی تھی۔ لگتا تھا‘ کہ کورٹ کچہری بھی چودھری ہی کی تھی۔ ہر کوئی اسے دشنام کر رہا تھا۔ اس کی تو کوئی سن ہی نہیں رہا تھا۔ ماجرے کو آنکھوں سے دیکھنے والے‘ اس کے ہی گریب ساتھی تھے۔ وہ بھی دیکھ اور جان کر‘ کبو ہی کو مجرم ٹھہرا رہے تھے۔ اس کے حق میں‘ ایک بھی نہ تھا۔ ہر کوئی اسے قاتل کہے جا رہا تھا۔ اس نے سوچا‘ جب اتنے لوگ کہہ رہے ہیں کہ میں قاتل ہوں تو یقینا میں ہی قاتل ہوں۔ پھر اس نے کہنا شوع کر دیا :ہاں ہاں میں ہی قاتل ہوں۔۔۔۔ابی کو میں نے ہی قتل کیا تھا۔
119
خیالی پالؤ ہللا بخشے پہا خادم بڑے ہنس مکھ اور جی دار قسم کے بندے تھے۔ خوش حالی سے تہی دست ہوتے ہوئے بھی‘ انہیں کبھی کسی نے رنج و مالل کی حالت میں نہ دیکھا۔ منہ میں خوش بول رکھتے تھے۔ کبھی کسی کو معلوم نہ ہو سکا کہ اندر سے کتنے دکھی ہیں۔ ان کی بیگم فیجاں‘ اتنی ہی سڑیل اور بدمزاج تھی۔ کردار کی بھی صاف ستھری نہ تھی۔ مزے کی بات یہ کہ گھر سے کبھی کسی نے دونوں کی اونچی آواز تک نہ سنی تھی۔ یہ تو محض خوش فہمی ہو گی کہ ان کے درمیان تلخی نہ ہوتی ہو گی۔ ایک مرتبہ اپنے بیٹے سے الڈ پیار کر رہے تھے۔ منہ سے بھی بہت کچھ کہے جا رہے تھے۔ کہہ رہے تھے‘ میں اپنے بیٹے کو ڈاکٹر بناؤں گا‘ پھر سونے کے سہرے سجا کر‘ ہاتھی پر بٹھا کر‘ پیچھے گاڑیوں کی قطار ہو گی‘ بہو بیانے جاؤں گا۔ اس کی شادی پر بٹیروں کے گوشت کی دیگیں چڑھیں گی۔ ساتھ میں بیسیوں بکرے زبح کر ڈالے۔ میٹھے میں بھی بہت ساری چیزیں دستر خوان پر سجا دیں۔ میں کچھ دیر تو ان کی آسمان بوس باتیں سنتا رہا۔ پھر مجھ سے چپ نہ رہا گیا‘ میں نے پوچھ ہی لیا‘ پہا جی یہ آپ کیا کہہ
120
رہے ہیں۔ یہ سب کچھ کیسے ہو سکے گا۔ میری طرف انہوں نے ہنس کر دیکھا اور کہا‘ جب خیالی پالؤ پکایا جا رہا ہو تو راشن رسد کی کیوں کمی رکھی جائے۔ یہ کہہ کر ان کی آنکھیں لبریز ہو گیئں‘ ہاں منہ سے کچھ نہ بولے۔ میں نے سوچا‘ کہہ تو ٹھیک رہے ہیں۔ ہمارے لیڈر صاحبان ووٹ کی حصولی کے لیے بڑے خیالی پالؤ پکاتے ہیں۔ راشن رسد کی اس میں کمی نہیں چھوڑتے۔ ایسے ایسے نقشے کھنچتے ہیں‘ کہ شداد کی ارم بھی کوسوں کے فاصلے پر چلی جاتی ہے۔ امن و سکون کی وہ فضا‘ خیالوں اور خوابوں کو سکھ چین سے نوازتی ہے۔ عملی طور پر بھوک‘ دکھ‘ درد اور مصیبت ان کے کھیسے لگی ہے۔ ہاں البتہ یہ رشک ارم دنیا‘ ان لیڈروں کی دنیا میں ضرور بسی چلی آتی ہے۔ گماشتے انہیں سب اچھا کا سندیسہ سناتے آئے ہیں۔ اگر عورت چاہے تو صفر کو بھی‘ سو کے مرتبے پر فائز کر سکتی ہے۔ اگر الٹے پاؤں چلنے لگے تو سو کو صفر بھی نہیں رہنے دیتی۔ دوسرا گریب صرف خواب ہی دیکھ سکتا ہے‘ اس سے آگے اس کی اوقات و بسات ہی نہیں ہوتی۔ فیجاں کو تو اہل اخگر سے‘ موج مستی سے ہی فرصت نہ تھی‘ شوہر اور بچوں پر کیا توجہ دیتی۔ وہ ملکی لیڈر صاحبان کے قدموں پر تھی۔
121
ایک روز پتا چال‘ اس نے پہا خادم سے طالق لے لی ہے اور کسی کے ساتھ چلی گئی ہے۔ پہا خادم اکیال ہی زندگی کی گاڑی چالتا رہا۔ ایک روز شراب کے نشہ میں دھت‘ ایک سیٹھ صاحب کی گاڑی کے نیچے آ کر‘ ہللا کو پیارا ہو گیا۔ بچے در بہ در ہو گئے۔ جس بچے کو وہ ڈاکٹر بنانا چاہتا تھا‘ منڈی میں پلے داری کرنے لگا۔ بعد میں الری اڈے ہاکری کرنے لگا۔ اس کی ایک مزدور کی بیٹی سے شادی ہو گئی۔ ہللا نے اسے چاند سا بیٹا عطا کیا۔ بےشک باپ کی طرح بڑا محنتی ہے اور آج کل باپ کے سے خیالی پالؤ پکاتا ہے۔ اس کی بیوی سگھڑ ہے‘ عابی کی وفادار بھی ہے۔ کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ اس کے خیالی پالؤ کسی حد تک سہی‘ منزل پا ہی لیں۔
122
تعلیم اور روٹی وہ کم پڑھا لکھا کامیاب ہنرمند تھا۔ گزارے سے بڑھ کر کما لیتا تھا لیکن اپنی ایک الگ سے فکر رکھتا تھا۔ ہنرمندوں کی بدحالی اسے خون کے آنسو روالتی۔ کیا کر سکتا تھا۔ وہ کیا‘ معامالت روٹی ٹکر میں بڑے بڑے کھنی خان مجبور و بےبس ہو گیے تھے۔ دفتر شاہی ہو کہ انتظامیہ‘ اقتداری طبقے کی گماشتہ چلی آتی تھی۔ اسی طرح اقتداری طبقہ اس کے بغیر زیرو میٹر تھا۔ وہ دیر تک سوچتا رہا‘ آخر ہنرمند طبقے کی کس طرح مدد کرے۔ پھر اسے ایک خیال سوجھا۔ خوشی سے اس کا چہرا دمک اٹھا اور اس نے تعلیم ایسے مشکل گزار رستے پر چلنے کا فیصلہ کر لیا۔ کتاب‘ کاپی اور قلم کی خریدداری کے لیے اس کے پاس پیسے تھے۔ تعلیمی معامالت میں مشکل پیش آ جانے کی صورت میں ماسٹر نور دین سے رابطہ ممکن تھا۔ صبح اٹھتے ہی‘ وہ سب سے پہلے کتابوں کی دکان پر گیا۔ پانچ پاس تھا‘ چٹھی کی کتابیں‘ ایک بڑا رجسٹر اور قلم خرید کیا۔ اس نے یہ غور ہی نہ کیا کہ پڑھے لکھے باشعور طبقے‘ روز اول سے‘ شعور سے عاری بااختیار طبقے کی چھتر چھاؤں میں زندگی کرتے آئے ہیں۔ ہنرمندوں کو‘ مکہ بردار اپنے محل اور
123
خودسر گھروالیوں کے مقبرے بنانے کے لیے استعمال کرتے آئے ہیں۔ دوسرا تعلیم اور روٹی کا کوئی رشتہ ہی نہیں‘ تعلیم تو آگہی فراہم کرتی ہے۔ یہ دماغ سے سوچنے کا درس دیتی ہے۔ پیٹ سے سوچنے کے لیے جہالت کی ضرورت ہوتی ہے۔ دماغ کی سوچ شخص تعمیر کرتی ہے جب کہ پیٹ کی سوچ میں کو ہوا دیتی ہے اور کم زور سروں کی کھوپڑوں سے محل تعمیر کرتی ہے۔ وہ دیر تک کتابوں کے اوراق الٹ پلٹ کرتا رہا۔ رجسٹر پر کچھ لکھنے کی کوشش بھی کرتا رہا۔ اس کی ذہنی کیفیت جنونیوں کی سی تھی۔ چوں کہ سورج روشنی دے رہا تھا‘ اس لیے اسے احساس تک نہ ہوا کہ بجلی کتنی بار گئی ہے۔ رات ہو گئی تھی‘ پھر اچانک ایک جھٹکے سے بجلی چلی گئی۔ اس کے منہ سے بےاختیار او تیرے کی نکل گیا۔ دوسرے ہی لمحے اسے خیال آیا‘ کہ وہ میٹرک پاس کرکے واپڈا میں بھرتی ہو کر ہنرمندوں کی مدد کرنا چاہتا تھا۔ حکومت تو خود ہنرمندوں کی مدد کر رہی تھی۔ فیکس ٹائم کے عالوہ بھی چار چھے اچانکیہ جھٹکے‘ انرجی سیور ہی نہیں‘ اور بھی بہت ساری چھوٹی بڑی چیزوں کو لے دے جاتے تھے۔ بڑی بڑی کمپنیوں سے لے کر‘ چھوٹے سے چھوٹے ہنر مند کی دال روٹی کا سامان تو ہو رہا تھا۔ یہ ہی تو وہ کرنا چاہتا تھا جو پہلے سے ہی ہو رہا تھا۔ اسے اپنی گھٹیا
124
سوچ پر بڑی شرمندگی ہوئی‘ کہ صاحب اختیار طبقے تو پہلے ہی ہنرمندوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اس نے کاپیاں کتابیں الماری میں رکھ دیں اور سر کے نیچے بازو رکھ کر سکون کی نیند سو گیا۔
125
بوسیدہ الش شباب مرزا ایمرجنسی وارڈ میں پڑا‘ زندگی کی آخری گھڑیاں گن رہا تھا۔ ڈاکٹر اور نرسیں‘ اس کی زندگی بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس پر کھل گیا تھا کہ اب کہانی‘ اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے۔ دوا دارو دوبارہ سے‘ اسے زندگی کی شاہراہ پر ال کر‘ کھڑا نہیں کرسکتے۔ بچ بھی گیا تو وہ پہلے سی توانائی‘ میسر نہ آ سکے گی۔ وہ زندگی بھر کسی کا سہارا نہیں بنا‘ اس کا کوئی کیوں سہارا بنے گا۔ ہر کسی کا قول و فعل‘ محض دکھاوے اور اسے خوش کرکے‘ کچھ حاصل کرنے کے لیے ہو گا۔ زندگی کا ہر بیتا لمحہ‘ اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گھوم گیا۔ ابھی وہ اتنا بڑا نہیں ہوا تھا کہ اسے لذت کا احساس ہو گیا۔ ہوا یوں کہ ان کے گھر اس کی خالہ اور اس کی بیٹی ملنے یا کسی کام سے آئیں۔ خالہ نے اسے گلے لگایا اور اس کی بالئیں لیں۔ اس کی خالہ زاد‘ جو عمر میں کوئی اس سے زیادہ بڑی نہ تھی‘ بھی اسے گلے ملی۔ خالہ کے گلے ملنے میں کوئی مزا نہ تھا لیکن خالہ زاد کے ملنے سے‘ اس کے بدن میں عجب سی لذت دوڑ گئی۔ وہ اسے بار بار ملنا چاہتا تھا۔ اس کے رونگٹے میں ان جانی سی ہلچل مچ گئی۔ کئی بار کھڑا بھی ہوا۔ شاید اس
126
لڑکی کی استفادہ میں بھی یہ ہی کیفیت رہی ہو گی۔ اس کی اماں اور خالہ باتوں میں جھٹ گئیں۔ سسرالی خاندانوں کی خامیاں موضوع گفتگو تھیں۔ وہ تو اپنے مجازی خداؤں کو بھی لتاڑے چلی جا رہی تھیں۔ وہ اور اس کی خالہ زاد‘ اپنی ماؤں کے باہمی مذاکرات سے بےنیاز‘ رومان کی دنیا آباد کیے ہوئے تھے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہا‘ جب تک اس کی خالہ نے اپنی بیٹی کو آواز نہ دے دی۔ لذت کے اس احساس نے‘ اسے متحرک کر دیا۔ تعلیمی معامالت طے کرنے کے لیے‘ اس نے ہر جائز ناجائز حربہ اختیار کیا۔ یہ ہی طور اس نے اچھے روزگار کے لیے اپنایا۔ اچھی رہائش اور اس کے لوازمات کے لیے جائز کو مستقل طور پر‘ زندگی سے خارج ہی کر دیا۔ دنیا کی کون سی ایسی آسائش ہو گی‘ جو اسے میسر نہ آئی۔ کوٹھی‘ کار‘ بنگلہ‘ بینک بیلس‘ نوکر چاکر گویا سب کچھ اس کے کھیسے لگ چکا تھا۔ ایسے حاالت میں‘ بڑے گھر کی بیٹی بھی رونق افروز ہو گئی۔ وہ ہی کیا‘ حسیناؤں کا ایک ہجوم اس کے گرد رہتا۔ اس کا قرب‘ بڑے حسن اور ناز و ادا والیوں کو ہی نصیب ہوتا۔ رونگٹا ذرا کم زور پڑتا تو دواؤں کا انبار لگ جاتا۔ اٹھنے بیٹھنے‘ آنے جانے‘ کھانے پینے‘ سونے جاگنے غرض ہر نوع کی لذت اس کے قدم لیتی رہی۔ آخر کب تک‘ معدہ اپ سٹ رہنے
127
لگا۔ رونگٹا بھی ڈھیٹ سا ہو گیا۔ باہر تو باہر‘ اس ذیل میں گھر پر بھی ذلت اٹھانا پڑتی اور وہ وہ باتیں سنتا‘ جن کا وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ ماں کی دیکھا دیکھی‘ بچے بھی اس کی پرواہ چھوڑ گیے۔ اب وہ بااختیار افسر نہیں تھا جو اردگرد چمچے کڑچھے ہوتے۔ باہر نکلتا تو ناانصافی برداشت کرنے والوں کی غصیلی نظریں کھانے کو دوڑتیں گھر آتا تو نادیہ پاگل کتیا کی طرح‘ کاٹنے کو آتی۔ لذت نے آزار کا بھیس اختیار کر لیا تھا۔ ایک دو دن نہیں‘ پانچ سے زیادہ عرصہ‘ اس نے ذلت و عذاب میں گزارا۔ رونگٹے کی بےوفائی اس حالت تک لے آئی تھی۔ ہسپتال بھی اسے شرم کوشرمی الیا گیا تھا دوسرا سارا دن اس عذاب کو کون جھیلتا۔ یہاں سابقہ سرکاری افسر ہونے کی وجہ سے‘ کسی حد تک سہی‘ خدمت میسر آ رہی تھی۔ وہ آنکھیں بند کیے یہ ہی سوچے جا رہا تھا کہ لذت کے لمحے آخر کیوں ختم ہو جاتے ہیں۔ آخر سب کچھ برقرار کیوں نہیں رہتا۔ پھر اس نے سوچا کہ اگر زندگی کی لذت کو استحقام نہیں تو زندگی کی اذیت کو بھی بقا نہیں ہو سکتی‘ یہ بھی ختم ہو جائے گی۔ سوچوں کے گرداب میں پھنسی اذیت آمیز زندگی نے‘ آخری ہچکی لی اور پھر وہاں ایک بوسیدہ الش کے سوا کچھ باقی نہ رہا۔
128
وبال دیکھیے اللے دینو سے‘ اکثر چائے کے کھوکھے پر مالقات ہوتی رہتی تھی۔ اس کے محنتی اور مشقتی ہونے میں‘ کوئی شک نہیں۔ سارا دن ریڑھی پر سبزی بیچتا اور رات کو ریڑھی گھر ڈک کر‘ یہاں چار یاری میں آ بیٹھتا۔ ہم سب مل کر گپ شپ کرتے‘ ہنسی مذاق بھی خوب چلتا‘ دن بھر کی باتیں ہوتیں‘ سیاسی موضوعات بھی گفتگو میں آ جاتے‘ ذاتی معامالت پر مشاورت ہوتی۔ شقے کو بیوی کی بدسلوکی کے سوا‘ کچھ نہ آتا تھا۔ غریب تو سارے ہی تھے‘ لیکن لبھے پر غربت کچھ زیادہ ہی نازل ہو گئی تھی۔ طافی نے چوں کہ داڑھی رکھی ہوئی تھی‘ اس لیے ہم سب اسے مولوی کہہ کر پکارتے‘ مسلمان جرنیلوں کے کچھ تاریخی اور کچھ پاس سے گھڑ گھڑ کر قصے سناتا۔ اگر پڑھا لکھا ہوتا تو دوھائی کا کہانی کار ہوتا۔ اللے دینو کو اپنے بڑوں کی وڈیائی کے سوا کچھ نہ آتا تھا۔ وہ وہ چھوڑتا‘ کہ ہم سب دھنگ رہ جاتے۔ اکبر بادشاہ بھی جاہ و جالل اور مال و منال میں پیچھے رہ جاتا۔ صدیقا منہ پھٹ بھی ہماری سالم دعا میں شامل تھا۔ اس کا کام ہی ہر اچھے برے‘ سچ جھوٹ پر تنقید کرنا تھا۔ تنقید‘ مولوی اور اللے دینو کو تو آڑے ہاتھوں لیتا تھا۔ اس کی
129
کسی حد تک غلط بھی نہ تھی۔ اس کا کہنا تھا‘ ان جرنیلوں نے اسالم نہیں پھیالیا۔ جرنیل مسلمان ہوں یا غیرمسلم‘ قتل و غارت کا ہی بازار گرم کرتے آئے ہیں‘ ان پر فخر کیسا‘ ہاں داتا صاحب یا ایسے دوسروں نے‘ اپنے عجز و انکسار‘ پیار‘ رواداری‘ بھائی چارے‘ انسانی برابری کے درس سے اسالم پھیالیا ہے۔ اسی طرح اللے دینو سے کہتا‘ او چھوڑو یار‘ جو تم بتاتے ہو‘ وہ ہوں گے‘ دیکھنا تو یہ ہے کہ تم کیا ہو‘ بس ماضی پر اتراتے رہو اور خود صفر رہو۔ یار ہمیں بھی کوئی خاص کرنا چاہیے تا کہ آتی نسل کے کام آ سکے۔ اکثر معاملہ بحث اور پھر تو تکرار کی حدوں کو چھونے لگتا۔ میرا موقف تھا‘ اس بیٹھک کو شغل میلے تک رہنا چاہیے۔ کوشش کے باوجود‘ تو تکرار ہو ہی جاتی۔ اس روز الال دینو کچھ زیادہ ہی گرم ہو گیا۔ صدیقا بھی تو زبان کو تالہ نہیں لگا رہا تھا۔ صدیقے نے اللے دینو کا گریبان پکڑ لیا۔ اللے دینو نے وٹ کر صدیقے کے سینے میں گھونسہ مارا اور وہ نیچے گر پڑا۔ اللے دینو کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ صدیقہ زمین پر آ رہے گا۔ اب وہ ہی سب سے زیادہ ترلے لینے والوں میں تھا۔ افسوس صدیقا اللے دینو کی ایک نہ سہہ سکا اور ہللا کو پیارا ہو گیا۔ پلس آئی اور ہم سب کو پکڑ کر لے گئی۔ ہماری تو کچھ جھڑ جھڑا کر تھانے سے رخصتی ہو گئی ہاں اللے دینو کو پھنٹی کے ساتھ جیل بھی جانا پڑا۔ وبال دیکھیے‘ ہمیں بھی باطور گواہ حاضری پر رکھ لیا گیا۔
130
عصری ضرورت میں جدید لبرل مسلمان ہوں اور یہ سب جانتے ہیں‘ بتانے کی ضرورت نہیں۔ ایک شیطان ہی ہے جو نہیں مانتا‘ اس کا کہنا ہے کہ میں اس کا ہم پیشہ و ہم مشرب ہوں۔ پرسوں ہم انٹرنیشنل فائیو سٹار ہوٹل میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آتے جاتے جوڑوں کے لباس اور ان کے طور و اطوار کو پرذوق اور پرحسرت نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ یقین مانیئے ہر آنے والی کا حسن و جمال اور ادائیں‘ کاش کے تند و تیز چھرے سے‘ میری روح کو زخمی کر رہی تھیں۔ بدبخت پاس ہی بیٹھا‘ ان کے حسن و جمال اور اداؤں سے کم‘ میری بےچینی پر زیادہ خوش ہو رہا تھا۔ بیٹھا بیٹھا اچانک سنجیدہ سا ہو گیا۔ میں نے پوچھا‘ او سالے یہ اچانک تمہارا بوتھا شریف کیوں لمک گیا ہے۔ کہنے لگا یار دنیا بڑی خودی غرض ہے۔ کیوں کیا ہو گیا ہونا کیا تھا‘ پرسوں بھابی اور بٹیا ادھر ہی‘ ملکوں کے ایک شوخے کے ساتھ آئے ہوئے تھے۔ کم بخت بھابی کا آنا پسند نہیں کر رہا تھا۔ پہلے اس نے اپنا مطلب نکال لیا۔ بھابی نے کیا کہنا تھا‘ بےچاری چپ چاپ بیٹھی ناشتے پانی کا انتظار کر رہی تھی۔ کافی دیر بعد کھانے میں کافی کچھ منگوایا گیا۔ خود بھی
131
کھاتا مرتا رہا۔ پھر واش روم جانے کے بہانے سے اٹھا اور کھسک گیا۔ ان بےچاریوں نے چھوٹے کے ہاتھ پیسے منگائے اور وہاں سے خالص ہوئیں۔ مجھے بڑا تاؤ آیا۔ ان کی اس بیٹھک کا تو مجھے علم تھا‘ لیکن ملکوں کے شوخے کی اس کمینی حرکت سے آگاہ نہ تھا۔ سب بےمزا اور کرکرا ہو گیا۔ دل چاہتا تھا کہ اس شوخے کے ڈکرے ڈکرے کر دوں۔ میں نے اسے کہا‘ یار بس اب اٹھو‘ چلتے ہیں۔ دنیا کی چال بازی پر مجھے دکھ اور افسوس ہوا۔ معامالت میں آدمی کو اتنا بھی نہیں گرنا چاہیے۔ میں اگر جھوٹ بولتا ہوں‘ تو لوگ میرے کہے کا یقین کرتے ہیں۔ اگر یقین نہ کریں تو مجھے کیا پڑی ہے‘ جوجھوٹ بولوں۔ معامالت میں‘ میں نے کبھی دونمبری نہیں کی۔ وہ پیسے دیتے ہیں‘ میں گواہی دیتا ہوں۔ ان کا احسان نہ میرا احسان۔ رشوت کی رقم مفت میں تو نہیں لیتا‘ کام کرتا اور کرواتا ہوں۔ کسی دوسرے دفتر سے کام کرواتا ہوں تو ٹن پرسنٹ میرا اصولی حق بنتا ہے۔ میں دودھ میں پانی مالتا ہوں تو اس میں غلط کیا ہے‘ پیچھے سے کب کھرا آتا ہے۔ میرا پانی مالنا دکھتا ہے تو سپالئی کرنے واال کیوں نظر نہیں آتا۔ دوسرا میں کون سا زور زبردستی فروخت کرتا ہوں‘ نہ خریدیں۔ انہیں حکیم نے کہا ہے‘ جو وہ پانی یا کیمیکل مال دودھ خریدتے ہیں۔ خریددار کے سب
132
علم میں ہے تو یہ دو نمبری کس حساب سے ہوئی۔ میں لبرل ماڈرن مسلمان ہوں‘ دو نمبری کو غلط اور قابل تعزیر سمجھتا ہوں۔ عہد قدیم کے مسلمانوں کا دائرہ محدود تھا‘ اس لیے اصول بھی اسی دور کے مطابق تھے۔ میرا واسطہ گلوبل ہے۔ امریکہ اور جاپان اب دو قدم کے ملک رہ گئے ہیں‘ لہذا مجھے عصری اصولوں کو فالو کرنا ہوتا ہے۔ حضرت بالل حضور کریم کے قریب تھے‘ لہذا وہ ویسے تھے۔ حضور کریم میرے قریب نہیں ہیں‘ کیا یہ میری برخورداری نہیں کہ میں حضور کریم سے بڑی محبت کرتا ہوں‘ ہاں ان کے کہے پر نہیں چلتا‘ بل کہ آج کی ضرورت کے مطابق زندگی کر رہا ہوں۔ لبرل ماڈرن مسلمان ہونے کے ناتے‘ گیو ٹیک کو اپنائے ہوئے ہوں۔ میں نے ہر اس عورت کو اپنی ماں بہن سمجھا ہے جو میرے ساتھ پھنستی نہیں۔ بڑی سالی تکبر میں رہی‘ میں نے بھی اسے جوتے کی نوک پر رکھا۔ ہمیشہ باجی باجی کہہ کر مخاطب کیا ہے۔ ہاں چھوٹی لبرل ماڈرن مسلمان تھی‘ اس سے سالم دعا ہو گئی۔ اس کی شادی ہو گئی‘ اب جب کبھی آتی ہے‘ تو ہمارا گیو ٹیک ہو جاتا ہے۔ ہاں البتہ ساس مجھ پر مہربان ہے تو میں بھی اس کے معاملہ میں بخیل نہیں۔ مجھے ملکوں کے شوخے پر تاؤ آتا ہے‘ بےغیرت دونمبری کرتا ہے۔ کچھ لیا ہے تو کچھ دو بھی۔ ایسے ہی دو نمبر لوگ
133
قابل تعزیر ہوتے ہیں۔ اگر ملک کی باگ ڈور میرے ہاتھ میں آ جائے تو اس طور کے ہر دونمبری کو‘ چوراہے میں الٹا لٹکا دوں تا کہ کسی کو دونمبری کرنے کی جرآت ہی نہ ہو۔ وہ لبرل ماڈرن مسلمان نہیں ہیں‘ مولوی کو‘ ایسے دو نمبریوں پر کفر کا فتوی لگا دینا چاہیئے۔ مولوی عصری ضرورت سے ہٹ کر‘ فتوی سازی میں مصروف ہیں۔ انہیں آج کی ضرورت اور حقائق کے مطابق چلنا ہو گا‘ ورنہ انہیں لبرل ماڈرن مسلمان نہیں کہا جا سکتا۔
134
اماں جیناں اماں جیناں محلہ کیا‘ اردگرد کے محلوں میں بھی پسند نہیں کی جاتی تھی۔ اسے بیوہ ہوئے آٹھ سال ہو گئے تھے۔ اس کا خاوند مشقتی تھا‘ لیکن تھا بھال آدمی۔ صبح کام پر چال جاتا اور رات دیر تک مشقت کرتا۔ اس نے اپنی محنت سے‘ چھوٹا اور کچا پکا ذاتی مکان بھی بنا لیا تھا۔ ضرورت کی ہر شے اس میں ال کر رکھ دی تھی۔ جتنا ایک مشقتی سے ممکن ہوتا ہے کیا۔ اپنی بوالر بیوی کو ہر طرح کا سکھ‘ فراہم کرنے کا جتن کیا۔ اماں جیناں نے اپنے خاوند سحاکے کے ہر رشتہ دار‘ یہاں تک کہ اس ماں کی بھی دڑکی لگا دی۔ وہ بڑی برداشت کا مالک تھا۔ اس زیادتی کو کوڑا گھونٹ سمجھ کر پی گیا اور حسب معمول محنت مشقت پر جھٹا رہا۔ ماں اور بہن بھائیوں کو وقت نکال کر مل لیتا۔ ہاں البتہ پانچ دس منٹ کے لیے سہی‘ ماں کو ہر روز بھرجائی کے کوسنے سن کر بھی‘ ملنے چال جاتا۔ معلوم پڑ جانے کے بعد جیناں بھی وقت کووقت اور اپنے خاوند کی حالت دیکھے بغیر‘ منہ میں زبان رکھنا بھول جاتی۔ اس کی زبان نے بابے سحاکے کے اپنے تو اپنے‘ ملنے والے بھی بہت دور کر دیے تھے۔ ہر کوئی اس سے بات کرتے ڈرتا‘
135
مبادا کوئی گالواں ہی گلے آ پڑے گا۔ الٹی کھوپڑی کی مالک تھی‘ سیدھی بات کو غلط معنوں میں لے لیتی تھی۔ مثال کوئی بھولے سے بھی پوچھ بیٹھتا :مائی جیناں کیا حال ہے۔ جواب میں اسے یہ ہی سننا پڑتا‘ اندھے ہو نظر نہیں آتا‘ چنگی بھلی ہوں۔ جب ایسی صورت ہو تو کوئی اس کے منہ کیوں لگتا۔ منہ متھے لگتی تھی‘ عالقے میں انھی ڈال سکتی تھی۔ ہمیشہ سے بوڑھی نہ تھی۔ مجال ہے کوئی اس کے بارے غلط بھی سوچتا۔ کھگو نے جوانی کے دور میں‘ ٹرائی ماری تھی۔ اس کے ساتھ کیا ہوا جگ جانتا ہے۔ جب بھی وہ نظر آ جاتا‘ شروع ہو جاتی۔ اس نے معافی بھی مانگی لیکن جیناں نے معاف نہ کیا۔ اس کا موقف تھا کہ کھگو کو ایسی جرآت ہی کیوں ہوئی۔ اس نے ایسا سوچ بھی کس طرح لیا۔ چوں کہ قریب کی گلی کے تھے‘ وہ گلی دیکھ کر گزرتا۔ اگر جیناں نظر آ جاتی تو بل باش ہو جاتا۔ اس کے برعکس اگر جیناں کی اس پر نظر پڑ جاتی‘ تو رانی توپ کا منہ کھل جاتا۔ جب تک زندہ رہا‘ نزع کی حالت میں ہی رہا۔ اماں جیناں کی کوئی اوالد نہ تھی۔ خاوند کے مرنے کے بعد بےسہارا سی ہو گئی۔ پورے محلہ میں کوئی اسے پوچھنے واال نہ تھا۔ جب تک گھر پر جمع پونجی باقی رہی‘ گزارا کرتی رہی۔ فاقوں پر آ گئی‘ اس نے کسی پر ظاہر تک نہ کیا۔ سب کچھ ذات اور آنسوؤں میں ضبط کرتی رہی۔ میری گھروالی کو جانے
136
کیسے معلوم ہو گیا۔ اس نے بات میرے سامنے رکھی۔ مجھے عزت عزیز تھی۔ میں اس کی مدد کرنا چاہتا تھا‘ لیکن ڈرتا تھا کہ کہیں معاملہ گلے ہی نہ آ پڑے۔ ایک دن گلی سے گزر رہا تھا‘ اماں جیناں اپنے گھر کی دہلیز پر اداس اور افسردہ بیٹھی ہوئی نظر آئی۔ میں دور سے‘ جو اسے سنائی دے رہا جعلی بڑبڑاتا ہوا اس کے قریب سے گزرا۔ اس نے مجھے کبھی اس انداز میں نہ دیکھا تھا۔ قریب آیا تو اس :نے پوچھ ہی لیا پتر کیا ہوا ماں جی ہونا کیا ہے‘ کیسا دور آ گیا ہے‘ پیسے پورے لے کر بھی چیز درست نہیں دیتے۔ میرے بیگ میں کیلے تھے میں نے کیلے انہیں پکڑائے اور خود دوبارہ سے بڑبراتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ اس نے بڑی حیرت سے میری طرف دیکھا اور کیلے لے کر اندر چلی گئی۔ مجھے شہہ مل گئی اور پھر میں‘ آنے بہانے اماں جیناں کو کچھ ناکچھ دے کر کام پر چال جاتا۔ ایک مرتبہ میں نے کچھ پیسے بھی چیز کے ساتھ رکھ دیے۔ اگلے روز گھر واپس آتے اس نے مجھے روک لیا اور کہا غلطی سے پیسے بھی آ گیے تھے۔ میں نے کہا نہیں ماں جی‘ آپ کے حصہ ہی کے تھے اور میں جلدی سے وہاں سے رخصت ہو گیا‘ کہ کوئی تماشا کھڑا نہ
137
کر دے۔ جب اگلے دن وہاں سے گذرا تو دیکھا‘ اماں کی آنکھوں میں تشکر لبریز آنسو تھے۔ سچی بات ہے میری بھی آنکھیں چھلک پڑیں۔ اس کے بعد میں بالڈرے اس کی خدمت کرنے لگا۔۔ دن گزر گئے‘ اور آج اماں کو حق ہوئے بھی کئی سال ہو چلے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا تھا‘ وڈ ٹک سے پہلے اماں بڑے کھاتے پیتے خاندان کی تھی۔ سحاکا ہی اسے زخمی حالت میں‘ اس کی جان بچا کر لے آیا تھا ورنہ ہللا جانے اس کے ساتھ کیا گزرتی۔ اماں نے سحاکے کے ساتھ نکاح کر لیا۔ سحاکا ازدواجی معامالت میں پیدل تھا‘ اماں نے پھر بھی پاک صاف رہ کر زندگی گزار دی۔ مائی صوباں کا یہ انکشاف‘ حیرت سے خالی نہ تھا۔ سب خالئی سا معلوم ہو رہا تھا۔ سچ میں‘ ہللا کی اس زمین پر یہ وقوع میں آ چکا تھا۔
138
اس کا نام ہدایتا ہی رہا تجربہ زندگی کو سنوارتا‘ نکھارتا اور بعض اوقات شخصیت میں انقالب برپا کر دیتا ہے۔ ہداتے اور اس کی رن ماجدہ کا‘ ہر دوسرے تیسرے رن کچھ سا رن لگتا۔ وہ جند جان میں اس سے کہیں بھاری تھی۔ اڑبڑ کرتا‘ تو سیدھا چمٹا چالتی‘ جو اس کے کہیں ناکہیں آ لگتا۔ آشاں کا نشانہ بڑے کمال کا تھا۔ اس کے وڈ وڈیروں میں یقینا کوئی بہت بڑا شکاری رہا ہو گا۔ ایک بار تو سیدھا وہاں سے‘ تھوڑا ہی فاصلے پر آ لگا۔ کئی دن ٹانگیں چوڑی کرکے چلتا رہا۔ اگر خدا نخواستہ وہاں لگ جاتا‘ تو آج صحن میں اٹھکیلیاں کرتی منی سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ اس چوٹ نے آشاں پر تو کوئی اثر نہ ڈاال‘ ہاں البتہ اس تجربے نے اس کے معمول میں انقالبی تبدیلی ضرور کر دی۔ اب جب بھی رن‘ رن میں اترنے کا موڑ بناتی‘ یہ فورا سے پہلے گھر کی دہلیز کے اس پار ہوتا۔ وہ اندر فائرنگ کرتی یہ باہر کھڑا کبھی گولے اور کبھی تھری نٹ تھری کی گولیاں چالتا۔ ہاں البتہ‘ ہر دو تین گولیاں یا گولے چالنے کے بعد‘ اتنا ضرور کہتا‘ ہللا تمہیں ہدایت دے۔ اس کے بعد ہللا تمہیں ہدایت دے اس کا تکیہءکالم ہی بن گیا۔ اس کا اصل نام نور محمد تھا لیکن اس تکیہءکالم کی وجہ سے‘ اس کا نام
139
بھی ہدایتا پڑ گیا۔ پھر ہر دو تین کلمے منہ سے نکالنے کے بعد‘ ہللا تمہیں ہدایت دے ضرور کہتا۔ لوگ چوں کہ اس کے اس تکیہءکالم سے آگاہ ہو چکے تھے‘ اس لیے غصہ نہ کرتے۔ ایک بار سردار صاحب کے بیٹے کی جنج چڑھنا تھا۔ اچھے کپڑے سلوا لیے‘ اسی طرح اوکھے سوکھے ہو کر نیا جوتا بھی خرید لیا۔ اگلے دن جنج چڑھنا تھا‘ رن سرکار سے خوب حجامت کروانے کے بعد‘ شہر حجامت اور شیو بنوانے چال گیا۔ حجام کی دکان پر تھوڑا رش تھا۔ وہ ادھر ہی بیٹھ گیا اور موجود لوگوں کی باتیں سننے لگا اور ساتھ میں ہوں ہاں بھی کرنے لگا۔ خدا خدا کرکے‘ اس کی بھی باری آ ہی گئی۔ حجام باتونی تھا۔ حجامت بھی بنائے جا رہا تھا اور ساتھ میں باتیں بھی کیے چلے جا رہا تھا۔ ہدایتا اس کی ہاں میں ہاں مال رہا تھا۔ ساری باتیں وہ ہی کیے جاتا تھا۔ خدا خدا کرکے ایک دو باتیں اسے بھی کرنے کا موقع مل گیا۔ حسب عادت دو تین باتیں کرنے کے بعد‘ ہللا تمیں ہدایت دے کہہ بیٹھا۔ حجام کام چھوڑ کر‘ الل الل آنکھیں نکال کر کہنے لگا‘ اوئے پینڈو کیا میں بےہدایتا ہوں اور ہدایت تو سکھائے گا۔ چپ رہتا یا معذرت کر لیتا تو بات نہ بگڑتی۔ لفظ پینڈو اسے چبھ سا گیا اور گھر سمجھ کر بکنے لگا۔ پھر کیا تھا‘ وہاں موجود لوگوں نے اسے پکڑ کر خوب وجایا۔ اور تو
140
اور چہرے پر بھی اچھے خاصے آلو ڈال دیے۔ ابھی آدھے ہی بال کٹے تھے کہ بقیہ جان بچا کر واپس آ گیا۔ آشاں زخموں پر مرہم رکھنے یا اس حجام کا گھر پر ہی زبانی کالمی گھر پورا کرنے کی بجائے‘ اس کے چہرے کے آلو دیکھ کر خوب ہنسی۔ اس واقعے کے بعد وہ جنج چڑھنے سے محروم ہو گیا اور گاؤں بھر کے مردوں‘ عورتوں اور بچوں کے لیے مذاق بن گیا۔ ہاں البتہ اس کا تکیہءکالم ضرور بدل گیا۔ ہللا تمہیں ہدایت دے کی بجائے‘ ہللا مجھے ہدایت دے بولنے لگا۔ یہ بات قطعی الگ سے ہے کہ زبان پر مجھے اور دل میں تجھے ہی ہوتا۔ اس نے اپنے لیے کبھی ہدایت کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی‘ جیسے پیدایشی ہدایت یافتہ ہو۔ اس حادثے کے بعد‘ نام بھی تبدیل ہو جانا چاہیے تھا‘ لیکن اس کا نام ہدایتا ہی رہا۔
141
بھاری پتھر مغرب میں اماں بابوں کا گالواں‘ اوالد گلے میں نہیں ڈالتی۔ وہاں ان پرانے وقتوں کے لوگوں کو‘ بڈھا ہاؤسز میں چھوڑ دیا جاتا ہے‘ جہاں وہ اپنے وقتوں کی کہانیاں‘ ایک دوسرے کو سنا کر‘ ہنسی خوشی زندگی گزار لیتے ہیں۔ ہر نئے دور کے تقاضے اپنے ہوتے ہیں۔ نئے دور کے لوگ‘ اپنے ان تقاضوں کے ساتھ کھل ڈھل کر زندگی گزارتے ہیں۔ ان کی کرنی میں‘ کوئی میم میخ نکالنے واال نہیں ہوتا۔ ناہی انہیں ایک دوسرے کی کرنی پر کوئی اعتراض ہوتا ہے۔ جہاں جانا ہو دوڑ کر جا سکتے ہیں۔ ان کی موجودگی میں‘ انہیں بھی کندھا پکڑا کر ساتھ لے جانا پڑتا ہے۔ واپس آ کر ان کی تقریریں سننا پڑتی ہیں۔ دور کیا جانا ہے‘ کل ہی کی بات کو لے لیں۔ بابے مہنگے کو بھی شادی حال میں لے گئے۔ خیال تھا کہ نیا ماحول دیکھ کر‘ تازہ دم ہو جائے گا اور آج کل کا پیٹ بھر کر کھا کر‘ خوش ہو گا۔ مگر کہاں جی‘ جتنی دیر وہاں بیٹھا‘ بڑ بڑ کرتا رہا۔ بہو اور بیٹیوں کو گھور گھور کر اور کھا جانے والی نظروں سے دیکھتا رہا۔ گھر آ کر‘ اماں پر برس پڑا کہ کتنا بےحیا دور آ گیا ہے۔ کسی کو اپنی عزت آبرو کا احساس تک نہیں رہا۔ یہ لباس تھا‘ باریک‘ آدھا اور وہ بھی ٹائٹ۔ ٹانگوں کی اگلی پچھلی اور
142
سینے کی لکیریں‘ نمایاں ہو رہی تھیں۔ کسی کے سر پر دوپٹہ نہ تھا۔ یوں نچ ٹپ رہی تھیں‘ جیسے چوتڑوں میں کیڑا گھس گیا ہو۔ بھائی اور خاوند ساتھ تھے‘ کسی کو غیرت نہیں آ رہی تھی۔ اب پتا چال کہ ہم مسلمان ہو کر بھی‘ دنیا جہان کے چھتروں کی زد میں کیوں ہیں۔ بابے نے اتنے اعلی کھانے میں بھی‘ ہزار طرح کے کیڑے نکالے۔ اماں جس نے بابے کو ساری عمر نپ کر رکھا تھا‘ آج اسے قابو نہ کر پا رہی تھی۔ اپنی کہے جا رہی تھی لیکن پورا نہ اتر رہی تھی۔ بابا مکمل طور پر چھایا ہوا تھا اور پٹری سے اتر چکا تھا۔ ملک کے سربراہوں کے بھی بابے ہوں گے‘ معلوم نہیں وہ ان پر کس طرح قابو پاتے ہوں گے یا پھر ان کے بابے بھی لکیر پسند ہوں گے۔ سربراہ بابا ہو تو بھی بابا نہیں ہوتا۔ حکیم ڈاکٹر ان کے مطیع ہوتے ہیں۔ دوسرا وہ سب کے ہوتے ہیں اس لیے ان کا لبرل اور لکیر نواز ہونا ضروری ہوتا ہے۔ رہ گئی بات دنیا جہاں کے چھتر کھانے کی‘ وہ تو ہم صدیوں سے کھا رہے ہیں۔ اگر کوئی ان موقعوں پر ہماری بیویوں‘ بیٹیوں اور بہنوں کی لکیروں سے‘ نظری یا محض معمولی معمولی ٹچ سے لطف اندوز ہو رہا ہوتا ہے‘ تو ہم بھی کب پیچھے ہوتے ہیں۔ ہماری آنکھیں کھلی اور ہاتھ متحرک ہوتے ہیں۔ اگر ہماری عورتیں ان کے لیے لطف کا سامان ہوتی ہیں‘ تو ان کی عورتیں بھی ہمیں
143
حظ مہیا کر رہی ہوتی ہیں۔ بابر سے لبرل بادشاہ نے کہا تھا : بابر باعیش کوش کہ دنیا دوبارہ نیست یہ بابے کیا جانیں۔ خشک جیئے اور ہمیں بھی‘ اسی رہ پر رکھنا چاہتے ہیں۔ حاکم اپنی موج میں ہیں۔ ہمیں بھی جدید طرز کی زندگی گزارنا ہے لیکن ان بابوں کے ہوتے‘ مکمل طور پر یہ ممکن نہیں۔ بااختیار اداروں کا فرض بنتا ہے کہ ان بابوں کا کچھ کریں ورنہ ان کے لیکچر ہمیں جدید زندگی سے درر رکھیں گے۔ ہم آزادی حاصل کرکے بھی آزادی سے دور رہیں گے۔ جو بھی سہی‘ یہ طے ہے کہ امرا کے ناسہی‘ ہمارے بابے عصری آزادی کی راہ کا بھاری پتھر ہیں اور ہم سے لبرل‘ ماڈرن‘ آزاد‘ ترقی پسند اور مغرب کے پیروں کو غیرت کا لیکچر پال پال کر غیرت پسند بنا دینا چاہتے ہیں۔
144
ایسے لوگ کہاں ہیں یہ دنیا سرائے کی مانند ہے‘ کوئی آ رہا ہے تو کوئی جا رہا ہے۔ سرائے میں مستقل کوئی اقمت نہیں رکھتا۔ ہاں ہر آنے واال اپنا ایک تاثر ضرور چھوڑ جاتا ہے۔ کوئی اچھا تو کوئی برا۔ اس تاثر کے حوالہ سے ہی‘ اس مسافر کو یاد میں رکھا جاتا ہے۔ بابا صاحب بھلے آدمی تھے۔ طبعا مہربان‘ شفیق اور اپنے پرائے کے غم گسار تھے۔ کسی کو دکھ میں دیکھتے‘ تو تڑپ تڑپ جاتے۔ جب تک اس کی تکلیف دور کرنے کا پربند نہ کر لیتے‘ سکھ کا سانس نہ لیتے تھے۔ اچھائی اور خیر کے معاملہ میں‘ دھرم اور مسلک ان کے نزدیک‘ کوئی معنویت نہ رکھتا تھا۔ ان کا موقف تھا‘ جس طرح ہللا سب کا نگہبان ہے‘ اسی طرح انسان بھی سب کا نگہبان ہے۔ اس کی پیدا کی ہوئی کوئی بھی مخلوق‘ دکھ میں ہے تو انسان کو‘ اس کا ہر حال میں دکھ دور کرنا چاہیے۔ کوئی برا کرتا ہے تو یہ اس کا کام ہے‘ برائی کے بدلے برائی کرنا‘ تمہارا کام نہیں۔ تم جو بھی کرو‘ اچھا اور اچھے کے لیے کرو۔ ان کے پاس‘ ہر دھرم سے متعلق لوگ آتے۔ کوئی خیر و برکت کی دعا کے لیے آتا‘ تو کوئی علم وادب اور مذہب سے متعلق گفتگو یا مشاورت کے لیے آتا۔ سب کے ساتھ یکساں سلوک روا
145
رکھتے۔ تحمل سے اس کی سنتے اور پھر اپنا موقف پیش کرتے۔ جب تک وہ مطمن نہ ہو جاتا‘ رخصت نہ کرتے۔ بائیبل مقدس‘ رومائن‘ بھگوت گیتا‘ گرنتھ صاحب کا ورق ورق انہوں نے پڑھ رکھا تھا۔ بدھ مت کے متعلق بھی اچھا خاصا نالج رکھتے تھے۔ پہلے تو متعلقہ کی کتاب اور پھر قرآن مجید کے حوالہ سے بات کرتے۔ یار کمال کے شخص تھے۔ کوئی نذر نیاز لے آتا تو رکھ لیتے‘ جب جانے لگتا تو اس تاکید کے ساتھ واپس کر دیتے‘ کہ چیزیں صرف اپنے بیوی بچوں میں تقسیم کرنا۔ اصرار کے باوجود کچھ نہ رکھتے۔ فرماتے بیٹا‘ تم چنتا نہ کرو‘ ہللا مجھ اور میری بھوک پیاس سے خوب خوب واقف ہے۔ ایک بار ایک اجنبی آیا۔ کچھ کہے سنے بغیر ہی‘ دروازے پر کھڑے ہو کر‘ بابا صاحب کو برا بھال کہنے لگا۔ جب حد سے گزرنے لگا‘ تو بیٹھے لوگوں میں سے ایک اٹھ کر اس کی ٹھکائی کرنے لگا۔ بابا صاحب نے اسے منع کر دیا۔ بہت کچھ کہہ لینے کے بعد وہ چال گیا۔ ایک بوال بیڑا غرق ہو اس خانہ خراب کا‘ کتنی بکواس کر رہا تھا۔ اگر بابا صاحب نہ روکتے‘ تو آج میں اسے اس بدتمیزی کا ایسا مزا چکھاتا کہ نسلوں کو بھی منع کر جاتا۔ بابا صاحب اس کے اس طرز تکلم سے سخت پریشان ہوئے۔ پھر فرمانے لگے‘ بیٹا کبھی اور بھی کسی بھی صورت میں‘ گفتگو میں شائستگی
146
کو ہاتھ سے نہ جانے دو۔ یاد رکھو‘ ایک طرف نیکیوں کا انبار لگا ہو تو دوسری طرف ایک بددعا‘ بددعا اس پر بھاری ہے۔ کیا تمہیں حضرت یونس علیہ السالم کی بددعا کا انجام یاد نہیں۔ انہیں مچھلی کے پیٹ میں جانا پڑا۔ پھر فرمایا بددعا کی بجائے تم دعا بھی دے سکتے ہو کہ ہللا اسے ہدایت دے۔ بعید نہیں وہ وقت قبولیت کا وقت ہو۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ شخص دوبارہ سے آ گیا اور دروازے پر کھڑا ہو کر‘ اندر آنے کی اجازت طلب کرنے لگا۔ اب کہ وہ اور اس کا انداز بڑا مہذب اور شائستہ تھا۔ سب اس کے اس دوہرے روپ سے حیران رہ گئے۔ بابا صاحب نے اسے اندر آنے کی اجازت دے دی۔ اندر آ کر وہ بابا صاحب کے پاؤں پڑنے لگا تو بابا صاحب نے اسے سختی سے منع کر دیا اور پھر اس کی طرف دیکھ کر مسکرائے۔ وہ مسکراہٹ کیا تھی‘ جنت کی ہوا کا ایک جھونکا تھا‘ جو سب کو نہال کر گیا۔ وہ شخص کہنے لگا :سرکار میں تو آپ کے ظرف کا امتحان لے رہا تھا۔ جیسا اور جو سنا ویسا ہی پایا۔ آپ سچے ولی ہیں۔ نہیں بیٹا‘ یہ تم محبت میں کہہ رہے ہو۔ میں بےچارہ کہاں اور والیت کہاں۔ ہاں یہ ہللا کا احسان اور لطف وکرم ہے‘ جو اس نے توفیق دی اور میں اس امتحان میں کامیاب ہوا۔ سوچتا ہوں‘ اب ایسے لوگ کہاں ہیں۔ اگر کوئی ہے‘ تو چال
147
کیوں جاتا ہے۔ کیا کریں‘ یہاں کوئی ٹھہرنے کے لیے نہیں آتا۔ اچھا ہو کہ برا‘ گریب ہو کہ امیر‘ شاہ ہو کہ فقیر‘ اسے ایک روز جانا ہی تو ہے۔ اللچ‘ ہوس اور حرص نے انسان کو‘ انسان نہیں رہنے دیا۔ کاش ہمیں یقین ہو جائے‘ کہ ہمیں ہر صورت میں جانا ہی ہے اور کوئی یہاں ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں آیا۔ جمع پونجی ساتھ نہ جا سکے گی۔ جاتے وقت ہاتھ خالی ہوں گے اور اپنے قدموں پر نہیں جا سکیں گے۔
148
شاعر اور غزل چاند کی کرنوں سے غزل کی بھیک مانگی اس نے کاسے میں دو بوندیں نچوڑ دیں کہ غزل آنکھوں کی ٹھنڈک ہو جائے سیپ نے مروارید دیئے کہ دل اس کا پرسکون ہو جائے قوس قزح نے سرخی بخشی کہ رخ مثل یاقوت ہو جائے طبلے کی تھاپ نے گھنگھرو کی جھنکار نے مایوس نہیں کیا نسیم سحر سے بھی دست سوال دراز کیا قبروں کے کتبوں سے بھی غزل کی بھیک مانگ کے الیا سورج سے تھوڑی حدت مانگ لی
149
سیماب سے بےقراری لے لی لہر نے بغاوت دے دی گالب کے پاس بھی گیا اس نے کاسے کو بوسہ دیا اور اپنی اک پنکھڑی رکھ دی خوش تھا کہ آج محنت رنگ الئے گی وہ مری ہو جائے گی دامن مرا خوشیوں سے بھر جائے گا غزل کے چہرے پر حسین سا عنوان لکھ دے گی خلوص کی طشتری میں رکھ کر جب غزل میں نے پیش کی جسارت پہ مری وہ بپھر گئی ضبط کی پٹڑی سے اتر گئی کاسے میں تھوک دیا
150
بولی بھکاری! اپنا خون جگر نچوڑ کے الؤ غزل سے زندگی کی خوش بو آئے راحتوں کے لیے لہو کی اک بوند کافی ہے پھر اس نے چھاتی سے جدا کرکے اپنی بچی مری گود میں رکھ دی ممتا کی باہوں میں غزل تھی ممتا کی نگاہوں میں غزل تھی بچی کے لبوں پر بچی کی انگلیوں میں بچی کی سانسوں میں مگر بچی تو سراپا غزل تھی میں مشاہدے میں ہی تھا کہ اس نے بچی مجھ سے لے لی
151
مری آغوش میں شرمندگی رکھ دی درماندگی رکھ دی اپنی اور مانگے کی چیز میں کتنا فرق ہوتا ہے وہ الئق صد افتخار تھی پروقار تھی میں تنکے سے بھی حقیر تھا اس کا سر تنا ہوا تھا مرا سر جھکا ہوا تھا کہ غزل کے چہرے پر بھیک کا پیوند لگا ہوا تھا غزل کا بدن زیر عتاب تھا میں بھی تو ہار گیا تھا مری شاعری کی کائنات پر رعشہ تھا وہ مسکرا رہی تھی غزل سٹپٹا رہی تھی
152
اجتہاد کا در وا ہوا روایت کا دیا بجھ گیا حقیقیت سےپردہ اٹھ گیا شاعر نہیں‘ میں تو بھکاری تھا خورشید ضعیف ہو گیا مہتاب زرد پڑ گیا گالب مرجھا گیا طبلے کا پول کھل گیا جھنکار تھم گئی سمندر ندامت پی گئی کاسہ دو لخت ہوا جو جس کا تھا لے گیا ابلیس کرچیاں چننے لگا بھکاری مر گیا قبروں کو اپنا دیا مل گیا پھر شاعر جاگا
153
ذات میں کھو گیا خامشی چھا گئی ذات میں انقالب آ گیا اندر کا الوا ابلنے لگا حد سے گزرنے لگا ابلیس کے قہقہوں کا سلسلہ رک گیا اب ذات تھی شاعر تھا آنکھوں میں لہو کی بوندیں ہاتھ میں قلم کاغذ پر جگر تھا
154
ٹیکسالی کے شیشہ میں معصوم گڑیا سی سراپا جس کا کلیوں گالبوں نے بنا تھا شاید سراپے کا شیش محل چاند کی کرنوں سے تعمیر ہوا تھا زیست کے نشیب و فراز سے بے خبر کہکشانی رستوں کی تالش میں مشک و عنبر کی جہاں باس ہو ہوا جس کی مگر اسے راس ہو پریوں کے شہزادے کا میسر ساتھ ہو گھر سے بھاگ نکلی آنکھوں میں اس کے روشی تھی ہر دل سے درد اٹھا مونس و غم گسار بن گیا
155
وہ کیا جانے اس نگر میں بھنورے بھی رہتے ہیں بھیڑیے تاک میں ہیں اک روز پھر اخبار میں خبر چھپی مطلع ہوں اک لڑکی کے اعضاء بکھر گیے تھے گندے گٹر میں پڑے تھے ہر ٹکڑا زخموں سے چور تھا اور خون بھی بہہ رہا تھا گندے پانی کی ٹھوکریں سہہ رہا تھا کہہ رہا تھا شاید میرا کوئی بچ رہا ہو یہ بکھرے اعضاء بڑی حفاظت سے کڑی ریاضت سے جوڑ کر‘ سی کر داراالن بھیج دیے ہیں
156
داراالمان سے رابطہ کریں خوبی قسمت دیکھیے ٹیکسالی کے باسی قدر شناس نکلے آج بھی وہ اعضاء ٹیکسالی کے شیشہ میں سجے ہیں کہ ان کا کوئی مستقبل نہیں ماضی کہیں کھو گیا ہے حال متعین نہیں ہوا کہ اب ان پر سب کا حق ہے
157
کالے سویرے مجھے ڈر لگتا ہے علم و فن کے کالے سویروں سے جن کے بطن سے ہوس کے ناگ جنم لیتے ہیں منصف کے من کی آواز کو جو ڈس لیتے ہیں سہاگن کے سہاگ کی پیاسی آتما سے ہوس کی آگ بجھاتے ہیں سچ کے موسموں کے چراغوں کی روشنی دھندال دھندال دیتے ہیں حقیقتوں کا ہم زاد گھبرا کر ویران اور اداس لفظوں کا آس سے
158
جو خود فریبی کے جھولے میں پڑی فرار کے رستے سوچ رہی ہے رستہ پوچھتا ہے ان زہریلے ناگوں کی آنکھوں کی مقناطیسیت اپنے حصار میں اسے بھی لے لیتی ہے یہ ناگ انا اور اساس کو بھی ڈستے ہیں یہ خونی منظر دیکھ کر کانپ جاتا ہوں کہ یہ اب ضمیر کو بھی ڈس لیں گے کالے سویروں کی زرد روشنی کے سائے جوں جوں دراز ہوتے ہیں زندگی کو اک اور کربال سے گزرنا پڑتا ہے ان ناگوں کی زبانیں چمکتی‘ زہر میں بجھی تیز دھار تلواریں ہیں
159
گھاؤ کرنے میں یہ اپنا جواب نہیں رکھتیں زندگی خوف کے سائے میں کیوں کر پروان چڑھ سکتی ہے جہاں کوئی روٹی دینے واال نہیں پانی کی اک بوند نایاب ہے جہاں خودکشی حرام جینا جرم ہے جہاں نیلے آسمان کی چاند ستاروں سے لبریز چھت اپنی نہیں ہوا کا بھی گزر نہیں ہوتا بدلتے موسوں کا تصور شیخ چلی کا خواب ہے بوسیدگی اور غالظت شخص کا مقدر ہے یا پھر
160
زہر بجھی یہ چمکتی تلواریں ہیں یقین مانو‘ یہ ہی کچھ ہے پھر میں یاس کی تاریکیوں کی تمنا کرتا ہوں جانت ہوں کہ یہ ناگ تاریکیوں سے نہیں گھبرائیں گے پھر بھی کاٹیں گے گدھ نوچیں گے کتے ہڈیوں پر ٹوٹیں گے ہر ہڈی پر گھمسان کا رن ہو گا اپنا حصہ لگڑ بگڑ بھی مانگیں گے فاسفورس کی بانٹ ًپر بھی تنازعے اٹھیں گے درد پھر بھی ہو گا کرب پھر بھی ہو گا
161
زہر پھر بھی پھیلے گا کانچ بدن پھر بھی نیال ہو گا مایوسی کی سیاہ ذلفوں کے سائے میں بصارت کو بصیرت کو شائد پناہ مل جائے گی میں ناگوں کے پہرے نہ دیکھ سکوں گا لہو رستے پر نظر نہ جائے گی مگر کیا کروں سچ کی حسین تمنا مجھے مرنے نہیں مرنے نہیں دے گی اور میں اس سراب جیون میں نہ مروں گا نہ جی سکوں گا
162
کیچڑ کا کنول میال سا چیتھڑا ‘آلودہ شاید حاجت سے بچا ہوگا ‘آدم زادے کا پراہین !عییب نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔؟ گالب سے چہرے پر بلور ایسی‘ دیکھتی آنکھیں حیرت خوف غم غصہ اورافسوس جانے کیا کچھ تھا ان میں سماج کی بےحسی پہ ان ٹھہری مگر دیکھتی آنکھوں میں دو بوند‘ لہو سی صدیوں کے ظلم کی داستان لیے ہوئے تھیں اتنی حدت اتنی اتنی تپش کہ
163
پتھر بھی پگھل کر پانی ہو ترسی ترسی باہیں میرے بوبی کی باہیں ایسی ہی تھیں کہ جب وہ بچہ تھا تب محبتوں کا حصار تھا اور اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خفت ندامت کا حصار مرے گرد ہے لمحہ بہ لمحہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دائرہ تنگ ہو رہا ہے مجھے فنکار سے نسبت ہے فنکار‘ سب کا درد سینے کی وسعتوں میں سمو لیتا ہے ‘اور میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ساکت وجامد مٹی کے بت کی طرح
164
خاموش تماشائی تھا اس نے پکارا آواز دی احتجاج بھی کیا کچھ نہ میں کر سکا ‘جیسے وہ آدم زادہ نہ ہو ہمالہ سے گرا کوئ پتھر ہو :اس نے کہا !فنکار۔۔۔۔۔۔۔“ مجھے اپنی باہوں میں سما لو "ازل سے پیاسا ہوں گھبرا کر تھوڑا سا )پستیوں کی جانب) پیچھے سرکا کوئی مصیبت کوئی وبال تہمت یا بدنامی سر نہ آئے
165
چیخا “فنکار کا سینہ !کب سے تنگ ہوا ہے؟ میری باہیں غیر جنس کی باہیں ہیں؟ ان کا تم پر کوئی حق نہیں؟؟؟ وہ کہتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں سنتا رہا کیا جواب تھا میرے پاس !کاش میرے شعور کی آنکھیں بند ہو جاتیں یوں جیسے ممتا کی سماج کی آنکھیں بند تھیں سوچتا ہوں‘ مجرم کون ہے ‘گناہ کس نے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ ماں یا سماج نے وہ تو اپنے گھروں میں آسودہ سانسوں کے ساتھ گرم کافی پی رہے ہوں گے
166
یا میں نے جو شب کی بھیانک تنہائ میں ندامت سے سگریٹ کے دھوئیں میں تحلیل ہو رہا ہوں گٹرکے قریب پڑا‘ وہ کنول مجھ سے میرے ضمیر سے انصاف طلب کر رہا ہے کہ تم‘ خدائے عزوجل کی تخلق کا یہ حشر کرتے ہو مجھے حرامی کہتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ بتاؤ‘ حامی کون ہے؟ ضمیر کس کا مردہ ہے؟ مجرم کون ہے؟ میں یا تم؟؟؟ !میری بستی کے باسیو
167
کہ تمہیں عظیم مخلوق ہونے کا دعوی ہے کیا جواب دوں اسے؟ اس کا ننھا سا معصوم چہرا احتجاج سے لبریزآنکھیں پنکھڑی سے ہونٹوں پر تھرکتی بےصدا سسکیاں مجھے پاگل کر دیں گی پاگل ہاں پاگل
168
دو لقمے تعفن میں اٹی ‘اندھیاروں میں لیپٹی وہ بستی جہاں چھیتڑوں میں ملفوف زندہ الشوں کے دل کی دھڑکنیں دیوار پر آویزاں کالک کی ٹک ٹک کی آوازیں تھیں۔ ‘بھوک کی اہیں بےبسی کی سسکیوں میں مدغم ہو رہی تھیں۔ آس کا سایہ آس پاس نہ تھا۔ تھا کچھ تو قاتل خاموشی تھی۔ بھوک کا ناگ پھن پھیالئے بیٹھا تھا۔ مایوسیوں کی اس بستی سے رحم کا دیوتا شاید خفا تھا یا پھر وہ بھی تہی دست تہی دامن ہو گیا تھا۔ اک مسکراہٹ کے طلبگار یہ الشے بے حس نہیں‘ بے بس تھے۔ پھر اک الشہ بھوک ناگ جس کے قریب تر تھا۔۔۔۔۔۔ تڑپا اور رینگ کر روشنی کی شہراہ پر آ گیا۔ اس حرکت میں اس نے اپنی ساری توانائی صرف کر دی۔ ہر سو اجالے تھے لیکن وہ بھوک
169
کے سیاہ کفن میں ملبوس تھا۔۔۔۔۔۔۔۔پھر بھی۔۔۔۔۔۔۔ ہاں پھر‘ بھی وہ زندہ تھا اور اجالوں کی شہراہ پر پڑا ہانپ رہا تھا۔ سانسیں بےترتیب تھیں۔ خوش پوش راہی شاید اسے دیکھ نہیں رہے تھے۔ جو دیکھ رہے تھے ناک پر رومال رکھ کر گزر رہے تھے۔ وہ سب اس کے ہم جنس تھے۔ کتنی آس لے کر وہ یہاں تک آیا تھا۔ ان دیکھتے کرب لمحوں کو کون جان پاتا۔ وہ اس بستی کا نہ تھا۔ بھوک ناگ بوال :کہاں تک بھاگو گے‘ تمہیں میرا لقمہ بننا ہی ہو گا کہ خود میں بھوکا ہوں۔ پھر وہ تھوڑا آگے بڑھا۔ الشہ چالیا :نہیں۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔ رکو۔۔۔۔۔ٹھہرو۔۔۔۔۔۔ روٹی ضرور آئے گی۔ سب بےکار۔۔۔۔۔روٹی کوئی نہیں دے گا۔۔۔۔۔۔ یہ پیٹ بھر کر بھی آنکھوں میں بھوک لیے پھرتے ہیں۔ ان میں سے کون دے گا روٹی۔ ان کے ہشاش بشاش چہروں پر نہ جاؤ۔ ان کے من کی بھوک کو دیکھو اور میرے صبر کا امتحان نہ لو۔ :الشہ سٹپٹایا اور چالیا !اجالوں کے باسیو !علم و فن کے دعوےدارو
170
!سیاست میں شرافت کے مدعیو !جمہوریت کے علم بردارو !اسلحہ خرید کرنے والو !فالحی اداروں کے نمبردارو ‘عالمی وڈیرو ‘کہاں ہو تم سب تمہارے وعدے اور دعوے کیا ہوئے؟ اپنی بھوک سے دو لقمے میرے لیے بچا لو۔ بھوک ناگ میرے قریب آ گیا ہے۔ دیکھو غور کرو‘ میں تمہارا ہم جنس ہوں ‘۔ دو لقمے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں فقط دو لقمے میری زندگی کے ضامن ہیں۔ ایف سولہ ہائیڈروجن بم مجھے نہیں چاہیے۔ میری ضرورت روٹی کے دو لقمے ہیں۔ اس دور کی یہ تمہاری بہت بڑی جیت ہو گی جو تاریخ میں تمہیں امر کر دے گی۔
171
آخری خبریں آنے تک کون انصاف تمہارا یہاں کیا کام جہاں میری ضرورت ہوتی ہے بن بالئے چال آتا ہوں بن بالئے کی اوقات سمجھتے ہو جی ہاں اوقات عمل سے بنتی ہے تمہاری ماننے والے بھوکے مرے بھوک نے انہیں ہمیشہ سرخرو کیا ہے لوگ ہمیں سالم کرتے ہیں تمہیں نہیں‘ تمہاری شر کو سالم کہتے ہیں تاریخ میں دھنوان امر رہا ہے تاریخ پیٹ کے بندوں کا روزنامچہ ہے پیٹ ہی تو سب کچھ ہے
172
تب ہی تو باال سطع پر رہتے ہو تہہ کے متعلق تم کیا جانو بڑے ڈھیٹ ہو بننا پڑتا ہے تمہیں تمہاری اوقات میں النا پڑے گا کیا کر لو گے؟؟؟ تمہاری ہڈی پسلی ایک کر دوں گا یہ سب تو پہلے بھی میرے ساتھ ہو چکا ہے کوئی نئی ترکیب سوچو تمہیں جال کر راکھ کر دوں گا عبرت کے لیے تمہاری راکھ گلیوں میں بکھیر دوں گا یہ تو اور بھی اچھا ہو گا وہ کیسے؟ میری راکھ کا ہر ذرا انقالب بن ابھرے گا اہ مائی گاڈ‘ تو پھر میں کیا کروں؟
173
مجھے اپنے سینے سے لگا لو یہ مجھ سے نہیں ہو گا تو طے یہ ہوا تمہاری اور میری جنگ کا کوئی انت نہیں دیکھتا ہوں کہاں تک اذیت برداشت کرتے ہو چلو میں بھی دیکھتا ہوں اذیت میں کس حد تک جاتے ہو اس کے بعد گھمسان کی جنگ چھڑ گئی اور آخری خبریں آنے تک جنگ جاری تھی
174
یہ ہی فیصلہ ہوا تھا عہد شہاب میں بےحجاب بےکسی بھی عجب قیامت تھی۔ صبح اٹھتے مشقت اٹھاتےعوضوانے کو ہاتھ بڑھاتے بے نقط سنتے۔ سانسیں اکھڑ جاتیں مہر بہ لب جیتے کہ سانسیں باقی تھیں۔ جینا تو تھا ہی لہو تو پینا تھا ہی۔ ادھر ایونوں میں آزادی کی صدائیں گونج رہی تھیں ادھر گلیوں میں خوف کا پہرا تھا کہ شاہ بہرا تھا۔ شاہ والے گلیوں میں بےچنت کرپانیں لیے پھرتے تھے۔ نقاہت ہاتھ باندھے شکم میں بھوک آنکھوں میں پیاس لیے کھڑی تھی ہاں مگر شاہ کی دیا کا بول باال تھا۔ پنڈت کے ہونٹوں پر شانتی بغل میں درانتی مالں بھی من میں تفریق کا بارود بھرے امن امن امن کیے جا رہا تھا۔ اب جب کہ پیری پہ شنی کا پہرا ہے بھوک کا گھاؤ گہرا ہے۔ جیب میں دمڑی نہیں امبڑی نہیں کہ وید حکیموں کے دام چکائے بڑے شفاخانے کے در پر الئے مایوسی کی کالک مٹائے آہیں سنے تشفی کی لوری سنائے۔ ہونٹوں پہ گالب سجائے دل میں کرب اٹھائے اب کون ہے جو مرے مرنے سے مر جائے۔
175
بیٹے کو اپنی پتنی سے فرصت نہیں بیٹی کی ساس کپتی ہے بھائی کے گھر تیل نہ بتی ہے مری بہن کی کون سنتا ہے سیٹھ کے برتن دھو سیٹھنی کے کوسنے سن کر پیٹ بھرتی ہے۔ بیگم روتی ہے نہ ہنسی ہے سوچتی ہے کفن دفن کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے کہیں اس کے بھائیوں کی چمڑے نہ ادھڑ جائے وہ تو بہنوئی کی کھاتے تھے جب بھی آتے تھے کچھ ناکچھ لے جاتے تھے۔ جیتا ہوں تو مصیبت مرتا ہوں تو مصیبت۔ میں وہ ہی ہوں جواندھیروں میں رہ کر ایونوں کے دیپ جالتا رہا دوا دور رہی مری گرہ میں تو اس اجڑے گلستان کا کرایہ نہیں۔ گھر میں روشنی نہیں ناسہی شاید کوئی فرشتہ مری لحد میں بوند بھر روشنی لے کر آ جائے عمر بھر خود کو نہ دیکھ سکا سوچ سکا واں سکوں ہو گا خود کو دیکھ سکوں گا سوچ سکوں گا خود کو دیکھنے سوچنے کی حسرت بر آئے گی۔ خود کو دیکھ کر سوچ کر ارضی خدائی سے مکتی قلبی خدا کی بےکراں عظمتوں کا اسرار کھل جائے گا وہ میرا تھا میرا ہے مجھے مل جائے گا۔ سردست کفن و دفن کے سامان کی فکر ہے۔ کفن ملے ناملے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ عمر بھر اس نے مری پردہ پوشی کی ہے اب بھی کرئے گا۔
176
ایونوں میں بستے سفیدی میں لپٹے شیطانوں کا نگر مرا نہیں مرا نہیں گورنگر مرا ہو گا مرا خدا کچھ لیتا نہیں دیتا ہے۔ لینا مری عادت دینا اس کی فطرت روٹی کی فکر کیسی کرائے کی چنتا میں کیوں کروں مری جان میں آ رہا ہوں تو مختصر سہی مرے لیے مری حسرتوں کے لیے سات زمینوں سے بڑھ کر وسعت رکھتی ہے میں بھول میں رہا کہ یہاں کچھ بھی مرا نہ تھا زیست کے کچھ لمحوں کی دیری تھی تو ہی تو مری تھی یہ ہی فیصلہ ہوا تھا یہ ہی فیصلہ ہوا تھا یہ ہی فیصلہ ہوا تھا۔
177
حیرت تو یہ ہے موسم گل ابھی محو کالم تھا کہ مہتاب بادلوں میں جا چھپا اندھیرا چھا گیا پریت پرندہ ہوس کے جنگلوں میں کھو گیا اس کی بینائی کا دیا بجھ گیا کوئی ذات سے‘ کوئی حاالت سے الجھ گیا کیا اپنا ہے‘ کیا بیگانہ‘ یاد میں نہ رہا بادل چھٹنے کو تھے کہ افق لہو اگلنے لگا دو بم ادھر دو ادھر گرے پھر تو ہر سو دھواں ہی دھواں تھا چہرے جب دھول میں اٹے تو
178
ظلم کا اندھیر مچ گیا پھر اک درویش مینار آگہی پر چڑھا کہنے لگا سنو سنو دامن سب سمو لیتا ہے اپنے دامن سے چہرے صاف کرو شاید کہ تم میں سے کوئی ابھی یتیم نہ ہوا ہو یتیمی کا ذوق لٹیا ڈبو دیتا ہے من کے موسم دبوچ لیتا ہے کون سنتا پھٹی پرانی آواز کو حیرت تو یہ ہے موسم گل کا سب کو انتظار ہے گرد سے اپنا دامن بھی بچاتا ہے اوروں سے کہے جاتا ہے چہرہ اپنا صاف کرو‘ چہرہ اپنا صاف کرو
179
میں نے دیکھا پانیوں پر میں اشک لکھنے چال تھا دیدہءخوں دیکھ کر ہر بوند ہوا کے سفر بر نکل گئی منصف کے پاس گیا شاہ کی مجبوریوں میں وہ جکڑا ہوا تھا سوچا پانیوں کی بےمروتی کا فتوی ہی لے لیتا ہوں مالں شاہ کے دستر خوان پر مدہوش پڑا ہوا تھا دیکھا‘ شیخ کا در کھال ہوا ہے
180
سوچا شاید یہاں داد رسی کا کوئی سامان ہو جائے گا وہ بچارہ تو پریوں کے غول میں گھرا ہوا تھا کیا کرتا کدھر کو جاتا دل دروازہ کھال خدا جو میرے قریب تھا بوال کتنے عجیب ہو تم بھی کیا میں کافی نہیں جو ہوس کے اسیروں کے پاس جاتے ہو میرے پاس آؤ ادھر ادھر نہ جاؤ میری آغوش میں تمہارے اشکوں کو پناہ ملے گی
181
ہر بوند رشک لعل فردوس بریں ہو گی اک قظرہ مری آنکھ سے ٹپکا میں نے دیکھا شاہ اور شاہ والوں کی گردن میں بے نصیبی کی زنجیر پڑی ہوئی تھی
182
کس منہ سے چلم بھرتے ہات‘ اٹھ نہیں سکتے ہونٹوں پر فقیہ عصر نے چپ رکھ دی ہے کتنا عظیم تھا وہ شخص گلیوں میں رسولوں کے لفظ بانٹتا رہا ان بولتے لفظوں کو‘ ہم سن نہ سکے آنکھوں سے‘ چن نہ سکے ہمارے کانوں میں‘ جبر کی پوریں رہیں آنکھوں میں خوف نے پتھر رکھ دیے ہم جانتے ہیں‘ وہ سچا تھا قول کا پکا تھا مرنا تو ہے‘ ہمیں یاد نہ رہا ہم جانتے ہیں اس نے جو کیا
183
ہمارے لیے کیا جیا تو ہمارے لیے جیا کتنا عجیب تھا زندہ الشوں کا دم بھرتا رہا مصلوب ہوا ہم دیکھتے رہے نیزے چڑھا ہم دیکھتے رہے مرا جال راکھ اڑی ہم دیکھتے رہے اس کے کہے پر دو گام تو چال ہوتا کس منہ سے اب اس کی راہ دیکھتے ہیں ہم خاموش تماشائی مظلومیت کا فقط ڈھونگ رچاتے ہیں بے جان جیون کے دامن میں غیرت کہاں جو رن میں اترے یا پھر پس لب اس کی مدح ہی کر سکے
184
چلو دنیا چاری ہی سہی آؤ اندرون لب دعا کریں ان مول سی مدح کہیں
185
حیات کے برزخ میں تالش معنویت کے سب لمحے صدیاں ڈکار گئیں چیتھڑوں میں ملبوس معنویت کا سفر اس کنارے کو چھو نہ سکا تاسف کے دو آنسو کاسہءمحرومی کا مقدر نہ بن سکے کیا ہو پاتا کہ شب کشف دو رانوں کی مشقت میں کٹ گئی صبح دھیان نان نارسا کی نذر ہوئی شاعر کا کہا بےحواسی کا ہم نوا ہوا دفتر رفتہ شاہ کے گیت گاتا رہا وسیبی حکائتیں بےوقار ہوئیں
186
قرطاس فکر پہ نہ چڑھ سکیں گویا روایت کا جنازہ اٹھ گیا ضمیر بھی چاندی میں تل گیا مجذوب کے خواب میں گرہ پڑی مکیش کے نغموں سے طبلہ پھسل گیا درویش کے حواس بیدار نقطے ترقی کا ڈرم نگل گیا نہ مشرق رہا نہ مغرب اپنا بنا آخر کب تک یتیم جیون حیات کے برزخ میں شناخت کے لیے بھٹکتا رہے
187
سورج دوزخی ہو گیا تھا گدھ خلیج کے بیماروں کی سانسیں گن رہے ہیں الشوں کو کفن دفن غسل کی ضرورت نہیں ہو گی اگست ١٩٤٥کو ١٦ سورج دوزخی ہو گیا تھا گنگا سے اٹھتے بخارات دعا کا اٹھتے ہات گالب کی مہک مٹی سے رشتے کب پوتر رہے ہیں درگاوتی کی عصمت مرنے کے بعد اپنوں کے ہات لٹ گئی تھی ‘ہم تو
188
حنوط شدہ ممیاں ہیں رگوں میں لہو نہیں کیمیکل دوڑتا ہے کہ آکسیجن جلتی نہیں جلنے میں معاون ہے ڈوبتی سانسوں کو مسیحا کی ضرورت نہیں گوشت گدھ کھائیں گے ‘ہڈیاں فاسفورس کی کانیں ہیں یہودی البی کے گلے کھلے ہیں بٹنوں کی سخت ضرورت ہے
189
فیکٹری کا دھواں اس نے کہا یہ سب کس کے لیے لکھتے ہو میں نے کہا تمہارے لیے بوال مگر مجھے تم سے گھن آتی ہے میلے میلے لفظوں میلے میلے جذبوں سے روشنیوں کی بات کرو حسن کی کہو حسین آنکھوں سے ٹپکتی شاب کی بات کرو کانچ سے بدنوں سے ٹپکتے رومان کی بات کرو بہاروں میں مچلتے شباب کی بات کرو
190
روٹی ملے گی‘ شہرت ملے گی بھوک اور افالس کیا رکھا ہے چیٹھڑوں کی دنیا میں سوچتا ہوں شہرت لے لوں روٹی لے لوں کئی روز کی بھوک ہے لباس بھی الجھا الجھا ہے سسکتے بلکتے جذبوں کو بےلباسی کی دنیا میں رہنے دوں پھر سوچ کے افق سے اک شہاب ثاقب ٹوٹا زہریلی سوچ کا چہرا فیکٹری کی چمنی سے اٹھتے دھویں میں مدغم ہو گیا
191
مطلع رہیں مسز ریحانہ کوثر بال دکھ تحریر کیا جاتا ہے آپ کی خدمات کی اب یہاں ضرورت نہیں رہی آپ کی بریزئر کا سائز بڑھ گیا ہے آنکھوں کے گرد حلقے بھی ہیں بالوں میں چاندی آ گئی ہے رخسار پچک گئے ہیں روزن نشاط کی فراخی سے پرفومنس گھٹ گئی ہے سابقہ کارگزاری کے پیش نظر کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے آپ کی بیٹی ظل ہما کو آپ کی سیٹ پر
192
آپ کے ہی پے سکیل پر مع مروجہ االؤنسز اکتیس مئی کلوزنگ ٹائم تک تعینات کیا جا سکتا ہے آپ کو ہدایت کی جاتی ہے تاریخ مقررہ کے اندر زیر دستخطی کو مطلع کریں اپنے واجبات کی وصولی کے لیے زیر دستخطی کے حاضر ہونے کی ضرورت نہیں یہ خدمت اب آفس سپرٹنڈنٹ انجام دیتا ہے فائلوں کی سیاہی سپیدی کا وہ ہی تو مالک ہے مطلع رہیں ضروری نوت
193
آپ اپنی کنگی اور نیل پالش ہمارے میز پر کل کی امید میں بھول گئی ہیں یہ چیزیں جن کی آپ کو اشد ضرورت ہو گی مس ظل ہما کو آفس ٹائم کے بعد بھیج کر منگوا سکتی ہیں کہ ان کی اب یاں ضرورت نہیں رہی مطلع رہیں
194
امید ہی تو زندگی ہے
زکرا بولے جا رہی تھی بولے جا رہی تھی شاید آتی صدیوں کے غم مٹا رہی تھی خوب گرجی خوب برسی اس کے گرجنے میں دھواں برسنے میں مسال دھار تھی رانی توپ کے گرجنے سے حمل گر جاتے تھے برسنے سے بستیاں زمین بوس ہوتی تھیں اس کے برسنے سے سکون کے شہر آگ پکڑتے تھے گرجنے سے حواس بدحواس ہوتے تھے
195
کس سے گلہ کرتا جھورا مردود مر چکا تھا تھیال مردود آج بھی رشوت ڈکارتا ہے وہ چپ تھا مسلسل چپ تھا منہ میں زبان رکھتا تھا پھر بھی چپ تھا چپ میں شاید اسے سکھ تھا جو بھی سہی یہ سوال نوشتہءدیوار بنا تھا وہ چپ تھا تو کیوں چپ تھا ہر زبان پر یہ ہی سوال تھا وہ بزدل تھا یا صبر میں باکمال تھا کچھ اسے زن مرید کہتے تھے
196
کسی کے خیال میں مرد کی انا کا وہ کھال زوال تھا وہ تو خیر زیر عتاب تھا ہی اس کے پچھلے بھی کوسنوں کے دفتر چڑھ رہے تھے اس سے کوئی کیوں پوچھتا ہر دوسرے امریش پوری سے ڈائیالگ سننے کو ملتے تھے نمرود وقت بھی کانوں پر پہرے نہیں رکھ سکتا پہلے ریڈیو ہی تو تھا ٹی وی تو کل کی دین ہے کان سنتے تھے تصور امیج بناتا تھا آخر چپ تھا تو کیوں چپ تھا
197
اک روز میں نے پوچھ ہی لیا میرا کہا اس کے قہقہوں میں اڑنے لگا میں نے سوچا کہنا کچھ تھا شاید کہہ کچھ اور گیا ہوں بھول میں کسی سردار کا لطیفہ کہہ گیا ہوں بھلکڑ ہوں یہ قول زریں مری زوجہ کا ہے زوجہ کے کہے کو غلط کہوں کہوں تو کس بل پر اگلے سے ناسہی اس جہان سے جاؤں گا مہر بہ لب رہا کہ دیواروں کو بھی کان ہوتے ہیں مجھے کیا پڑی غیروں کی اپنے سر لوں
198
میں نے بھی چپ میں عافیت جانی ہم کیؤں پرائی آگ میں کودیں مرے لیے خالہ کی لگائی ہی کافی ہے خود چل بسی میں بھی چل بسوں سامان کر گئی ہے پھر وہ دفعتا چپ ہو گیا مری طرف بےبس بے کس نظروں سے دیکھنے لگا چند لمحے خامشی رہی جاہل جانتے ہو بولنے میں کتنے اعضا خرچ ہوتے ہیں حیرت ہوئی‘ بھال یہ کیا جواب ہوا غصہ میں بولنے سے چودہ اعضا کشٹ اٹھاتے ہیں مرا کیا ہے ادھر سے سنتا ہوں ادھر سے نکال دیتا ہوں
199
چہرے کے بدلتے رنگوں کا اپنا ہی سواد ہوتا ہے ہاں سٹپٹانے میں کھونے کے آثار ہوتے ہیں گھورنے بسورنے میں کہکشانی اطوار ہوتے ہیں شخص پڑھو کہ حیات کے تم پر پوشیدہ اطوار کھلیں ہاں غصہ میں دماغ کی کوئی نس پھٹ سکتی ہے خیر یہ وقت خیر نہیں آئے گا دماغ ہوتا تو صبر کا جہاں آباد کرتی دل کا دورہ بھی بعید از قیاس نہیں اس امید پر ہی تو جی رہا ہوں کبھی تو غصہ کے افق سے خوشی کا چاند مسکرائے گا پھر مستی میں آ کر گنگنائے گا
200
آ گئی بہار گلوں کا رنگ اور بھی نکھر گیا پیاسی آتمائیں آ رہی ہیں روپ بدل بدل کے میں پڑھا لکھا سہی اپنی اوقات میں ہوں تو مزدور زوجہ گزیدہ ہوں بھاشا فلسفے کی میں کیا جانوں بوال :جاؤ امید پر زندہ رہو امید پر میں زندہ ہوں امید ہی تو زندگی ہے
201
میٹھی گولی
ہم کچھ دوست ہوٹل میں چائے پیتے ہیں اور اکثر پیتے ہیں سچی پوچھو تو چائے پر ہی تو جیتے ہیں زندگی میں ورنہ چائے کے سوا رکھا کیا ہے بھوک کا پرنا پیاس کا پٹکا ہماری زیست کا یہ ہی اثاثہ ہے جسے دیکھو رکھے ہے ہزار گز کا نٹکا امیر وقت بات گریبوں کی کرتا ہے کھیسہ مگر اپنا بھرتا ہے ہر بولتا
202
سر بازار نیالم ہوتا ہے سر اس کے کوئی ناکوئی الزام ہوتا ہے بےکیے خوب بدنام ہوتا ہے امیر وقت کو کون پوچھے کہا اس کا بےلگام ہوتا ہے کوئی ایشور کا اسے اوتار کہے اس کی کرتوتوں سے بےخبر مقدس روحوں کا اسے ساالر سمجھیں یہ ہی نہیں نوع انسانی کا وقار سمجھیں سب چمچے اسے کان رزق کہتے ہیں مورکھ بھی اسی کے گن گاتا ہے حیرت تو یہ ہے جس خوبی کا وہ تاعمر قاتل رہا اسی خوبی کو
203
مورکھ اس کی گرہ میں رکھتا رہا اسے جینا ہے یہ ہی اس کا طور رہا یہ کوئی نئی بات نہیں ہر دور اہل ثروت کا دور رہا کوئی بھوک مرتا ہے مرے انہیں اس سے کیا ان کی بال سے گریب کے بچے بےلباس ہیں وہ کیا کریں انہیں کیا ان کا اس سے کوئی کام نہیں مالک تو ہے نا گریب کا سنور جاتا ہے دعا سے خیر چھوڑیے ان باتوں کو کوئی نئی بات ہو تو بات کریں جو وقت گزر گیا سو گزر گیا
204
ان بےگھر بےبستر راتوں کو یاد کیوں کریں ہاں بس اتنا دکھ ہے گریب کی روکھی سوکھی پر پنجہ رکھ کر تاج محل کبھی نور محل تعمیر ہوا شاہ پھر بھی دیالو ہے کرپالو ہے پھر بھی لوگ ان سے آسیں باندھیں ان کی آنکھوں میں ٹک تالشیں امید کی قاشیں کب یک جا ہوتی ہیں پتی پتی گالب بُنے قدموں میں اس کے بکھری پتیاں حسن کے ماتھے پر ناقدری کا ٹکا قدموں میں بکھری پتیوں کو کون چنے جو چننے بیٹھے گا
205
پولے کھائے گا۔ خیر چھوڑیں میں کیا ظلم و ستم کی رام کہانی لے بیٹھا ہوں چائے کی مست پیالی میں ہمارا امریکی طور نہیں رہا کبھی میں کبھی وہ ادائیگی کر دیتے ہیں ہم ایک کشتی کے مسافر ہیں پھر تو میں کیسی اک روز کیا ہوا بچہ جو چائے ال کر دیتا تھا ہاتھ سے اس کے برتن گرے اور ٹوٹ گئے پھر کیا تھا مالک نے وہ مارا اشک فرشتوں کے بھی گرے ہوں گے وہ دن اس کے
206
الف انار بے بکری تے تختی پڑھنے کے تھے بھوک اسے وہاں الئی تھی ہللا جانے کتنی مجبور اس کی مائی تھی سچی بات تو یہ ہے مری چائے حرام ہوئی میں بےبس کنگال کیا کر سکتا تھا بس دو بےبس اشک بہا سکتا تھا میرا یہ ہی کل سرمایا تھا زیست میں یہ ہی کچھ کمایا تھا جب برتن لینے وہ آیا میں نے اسے گلے لگایا رویا پیار کیا منہ ماتھا چوما چپ چاپ وہاں سے اٹھ آیا جہاں نمرود کی شریعت چلتی ہو وہاں پھر کیا آنا کیا جانا بعد مدت مرا اس کا ملنا ہوا
207
ہماری آنکھیں ملیں ہم اک دوجے کو پہچان گئے وہ چھوٹا تھا میں نیچے بیٹھ گیا گلے لگایا خوب پیار کیا دعا دی مری گرہ کی یہ ہی اوقات تھی وہ ہاں وہ بچہ نوشیرواں سے کہیں بڑھ کر دیالو نکال میٹھی گولی اس کے منہ میں تھی اس نے اپنا وہ لقمہ مرے منہ میں ڈاال خوش ہو کر مرے منہ کو دیکھا مرے منہ میں وہ تھا جو جنت سوگ میں بھی نہ ہو گا مرے چہرے پر خوشی کے لڈو پھوٹ رہے تھے اس کے پاس ایک اور میٹھی گولی تھی
208
جو اس نے مرے ہاتھ پر رکھ دی اکبر ہو کہ کوئی اور شاہ کیا کسی کو دیں گے مہان تھا دیا کا پردھان تھا وہ معصوم بچہ شاہوں کی شاہی ایک طرف الفت پریم سے لبریز میٹھی گولی ایک طرف تول میں کہیں بھاری ہے گو اک عرصہ ہوا اس میٹھی گولی کا مزا مری رگ وپے میں آج بھی رقصاں ہے پریم و الفت کے آب زم زم میں بھیگی ہات پر اس بچے کی رکھی میٹھی گولی آتی نسلوں کے لیے میں نے رکھ دی ہے
209
کہ حجت رہے محبتوں کا کوئی مول نہیں یہ جیتی ہیں مرتی نہیں لوگوں کو یہ خیر کی شکتی بردان میں دیتی ہیں
210
دو بیلوں کی مرضی ہے
تمثالی وعالمتی افسانہ بندر کے بچوں کے آتے کل کی بھوک کے غم میں وہ اور یہ آدم کے زخموں سے چور بھوک سے نڈھال قول کے سچے‘ پکے بچوں پر بھونکتے ٹونکتے زخمی سؤر بھوکے کتے ٹوٹ پڑے ہیں ظلم کے ہر حامی کے منہ میں
211
خون کی ٹیکسال سے نکلے ڈالر ہاتھ میں وعدوں کے پرزے ہیں ظلم کی نندا کرنے والے توپوں کی زد میں ہیں جبر کے ٹوکے میں اپنی سانسیں گنتے ہیں ہونٹوں سے باہر آتی جیبا خنجر کی کھا جا ہے گھورتی آنکھیں اگنی کا رن ہے سچ تو یہ ہے کمزور باشندے پشو جناور کا اترن اور ماس خور درندوں کا جیون ہیں لومڑ اور گیڈر بھی گھاس پھوس سے نفرت کرتے ہیں
212
اک کا جیون دوجے کی مرتیو پر اٹھتا ہے دیا اور کرپا کے سب جذبے شوگر کو نائٹروکولین ہیں اب دو بیلوں کی مرضی ہے اک ساتھ چلیں بے خوفی کا جیون جئیں یا پھر دو راہوں کے راہی ٹھہریں کتوں سؤروں کا فضلہ بن کر بے نامی کی نالی میں بہہ جائیں
213
ذات کے قیدی قصور تو خیر دونوں کا تھا اس نے گالیاں بکیں اس نے خنجر چالیا سزا دونوں کو ملی وہ جان سے گیا یہ جہان سے گیا اس کے بچے یتیم ہوئے اس کے بچے گلیاں رولے اس کی ماں بینائی سے گئی اس کی ماں کے آنسو تھمتے نہیں اس کا باپ کچری چڑھا اس کا باپ بستر لگا دونوں کنبے کاسہء گدائی لیے گھر گھر کی دہلیز چڑھے
214
بے کسی کی تصویر بنے بے توقیر ہوئے ضبط کا فقدان بربادی کی انتہا بنا سماج کے سکون پر پتھر لگا قصور تو خیر دونوں کا تھا جیو اور جینے دو کے اصول پر جی سکتے تھے اپنے لیے جینا کیا جینا دھرتی کا ہر ذرہ تزئین کی آشا رکھتا ہے ذات کے قیدی مردوں سے بدتر سسی فس کا جینا جیتے ہیں
215
چل' محمد کے در پر چل اک پل آکاش اور دھرتی کو اک دھاگے میں بن کر رنگ دھنک اچھالے دوجا پل جو بھیک تھا پہلے کل کی کاسے سے اترا ماتھے کی ریکھا ٹھہرا کرپا اور دان کا پل پھن چکر مارا گرتا ہے منہ کے بل سلوٹ سے پاک سہی پھر بھی حنطل سے کڑوا
216
اترن کا پھل الفت میں کچھ دے کر پانے کی اچھا حاتم سے ہے چھل غیرت سے عاری حلق میں ٹپکا وہ قطرہ سقراط کا زہر نہ گنگا جل مہر محبت سے بھرپور نیم کا پانی نہ کڑا نہ کھارا وہ تو ہے آب زم زم اس میں رام کا بل ہر فرزانہ
217
عہد سے مکتی چاہے ہر دیوانہ عہد کا بندی مر مٹنے کی باتیں ٹالتے رہنا کل تا کل جب بھی پل کی بگڑی کل در نانک کے بیٹھا بےکل وید حکیم مالں پنڈٹ پیر فقیر جب تھک ہاریں جس ہتھ میں وقت کی نبضیں چل محمد کے در پر چل
218
عطائیں ہللا کی کب بخیل ہیں مدحیہ کہانی حضور کے قدموں کی برکت دیکھیے آنکھیں جو قدم بوس رہیں کمال ہوئیں رشک ہالل ہوئیں تہی بر مالل ہوئیں اس سے بڑھ کر یہ بالل ہوئیں ان آنکھوں نے موت کو حیات بخشی زمینی خداؤں کو بندگی بخشی ہر لمحہ ان سے اخوت ٹپکی شریعت ٹپکی طریقت ٹپکی
219
حقیقت ٹپکی میں نے سنا تھا شاہ حسین کے دربار کے عقب میں حضور کے قدموں کے نشان اہل ظرف نے محفوظ کر رکھے ہیں گناہ گار سیاہ کار سہی شوق لیکن مجھے وہاں لے گیا ڈرتے ڈرتے حضرت کے دربار میں داخل ہوا بساط بھر ادب سے سالم کیا درود پڑھا دعا کی اور دربار سے باہر آ گیا وجود میں ہمت باندھی ہر بری کرنی کی معافی مانگی تب کہیں جا کے دربار کے عقب میں گیا حضور کے قدموں کے نشان بڑے احترام بڑی ّعقیدت سے محفوظ تھے تازہ پھولوں سے سجے تھے
220
لوگ بھی وہاں کھڑے تھے ہر آنکھ میں محبت تھی ّعقیدت تھی دل بےشک طواف الفت میں تھے ہاں کچھ لب بھی متحرک تھے انگلیاں شیشہءپا کو چھو رہی تھیں سوچا آگے بڑھوں شیشہءنقش پا کو چوم لوں پھر سوچا مرے لب اس قابل کہاں انگلیوں سے ہی شیشہء پا چھو لیتا ہوں انگلیوں میں مگر اتنا دم کہاں خواہش ابھری قدموں کو چھوتی پھول کی اک پتی ہی مل جاتی دونوں جہاں گویا مل جائیں گے گناہ گا ہو کہ نیکوکار عطائیں ہللا کی کب بخیل ہیں ایسا اگر ہوتا
221
تو مجھ سے بھوکے مر جاتے تالہ اس شیشے کے بکسے کا کھوال خدمت گار نے حضور کے قدموں کو چھوتی اک پتی مرے ہات پر رکھ دی حیرت ہوئی‘ میں اور یہ فضل بےبہا دنیا و عقبی کی عطا سجدہ شکر کا مجھے کب ڈھنگ رہا ہے خدا جانتا تھا کہ اس کا بندہ ممنون ہے میں نے وہ پتی بصد شکر سدا خالی رہتے پرس میں ڈال لی مرے حضور کے قدموں کی برکت دیکھیے مری میں مر گئی مرا پرس بھی خالی نہیں رہتا راز یہ کھل گیا ہے قدموں میں ہی حضور کے
222
دونوں جہاں ہیں جاؤں گا اگر حضور سے کسی جہاں کا نہ رہوں گا جو حضور کے قدم لیتا رہے گا اویس بنے گا منصورٹھہرے گا سرمد لقب پائے گا
223
کرپانی فتوی
فیقا ہمارے محلے کا درزی ہے ہے تو سکا ان پڑھ سوچ میں مگر فالطو لگتا ہے دور کی کوڑی ڈھونڈ کے التا ہے سوچ ہی الگ تر نہیں کپڑے بھی بال کے سیتا ہے الجھا الجھا سڑا بجھا بھی رہتا ہے ہللا جانے گھر والی سے نبھا اس کا کیسے ہوتا ہے بےشک وہ اس کی عجیب باتوں سے گھبرا جاتی ہو گی پلے جو ُپڑ گیا‘ رو دھو کر نبھاتی ہو گی کم ہی لوگ اس کی باتوں پر غور کرتے ہیں ہاں جو کرتے ہیں اس کے ہو جاتے ہیں
224
بڑا زیرک ہے دانا ہے بات کرتے بندہ کوبندہ دیکھ لیتا ہے باتوں کی کھٹی کب کھاتا ہے ڈٹ محنت کرتا ہے خوب کماتا ہے اس روز سب چھوڑ چھاڑ کر چپ چاپ بستر پر لیٹا ہوا تھا خال میں بٹربٹر دیکھے جاتا تھا پہلے سوچا بیمار ہے بیماروں کے طور کب ایسے ہوتے ہیں سوچا چلو حال چال پوچھ لیتے ہیں بیمار ہوا تو کوئی خدمت پوچھ لیتے ہیں میں اس کی دکان میں داخل ہو گیا سالم دعا کرکے بیٹھ گیا پوچھا کیا حال ہے کیوں بےکار میں لیٹے ہوئے ہو
225
اٹھو شیر بنو کوئی دو چار تروپے بھرو آخر بات کیا ہے جو تم نے یہ حالت بنا رکھی ہے آ جی بات کیا ہونی ہے کل سے مسلسل سوچے جا رہا ہوں یہ کہہ کر وہ فالطو کی اوالد چپ ہو گیا کچھ دیر انتظار کیا کہ اب بولتا ہے جب خامشی نہ ٹوٹی تو میں نے کہا منہ سے کچھ پھوٹو گے تو پتا چلے گا نبی نہیں ہوں جو مجھ پر وحی اتر آئے گی اس نے مری طرف دیکھا اور اداس لفظوں میں یوں گویا ہوا کاال ہو کہ چٹا شرقی ہو کہ غربی پنجابی ہو کہ عربی
226
شعیہ ہو کہ وہابی چاہے اس سا ہو تول میں کھوٹا رہا ہو یا کھرا بول میں اس سے اسے کوئی غرض نہیں مسلماں کشی میں کہیں رائی بھر جھول نہیں ہر مسلمان کو ایک آنکھ سے دیکھتا ہے مطلب بری کے بعد اپنا چمچہ بھی توڑ دیتا ہے اس کے قریبی گولی کی زد میں آ جاتے ہیں جو لینا ہوتا ہے لے لیتا ہے اس کے ہر دینے میں بھی لینا ہوتا ہے شلوار ٹخنوں سے اوپر ہو کہ نیچے ہاتھ چھوڑے یا باندھے داڑھی بڑی ہو کہ چھوٹی توند پتلی ہو کہ موٹی اسے اس سے کیا
227
بس مسلمان ہو اتنا کافی ہے اس کے مجرم ہونے میں اس سے بڑا کوئی ثبوت نہیں یہ معاملہ مسلمانوں کا ہے اس کا نہیں وہ صرف اتنا جانتا ہے یہ مسلمان ہے اس کی گردن زنی ہونی چاہیے مسلمانوں کا عقیدہ و نظریہ اس سے الگ تر ہے ان وہابی سنی شعیوں نے اپنے اپنے مولوی پالے ہیں بال کی توندیں وہ رکھتے ہیں شورےفا بڑے ہوٹلوں میں سائلوں کی گرہ سے کھاتے ہیں مولوی بھی باہر کی کھاتے ہیں دونوں اوروں کے پلے کی
228
باہر سے گھر بھجواتے ہیں حلوہ ہو کہ ہو آوارہ مرغا توند اٹھائے بھاگے جاتے ہیں ہاں مگر کھیسہ میں کفر کا فتوی رکھتے ہیں مسلمانوں کے ہاں مسلمان کم پائے جاتے ہیں وہابی سنی شعیہ کی بہتات ہے کئی اور ایسوں کی برسات ہے فقط چند لقموں کے لیے تفریق کے ایٹم بم کبھی ادھر کبھی ادھر گراتے ہیں تفریق کا بم ایٹم بم سے کہیں مہلک ہے آخر وہ دن کب آئیں گے وہابی رہیں گے نہ شعیہ سنی سب مسلمان ہوں گے
229
اگر تفریق مٹ گئی تو اس کے ہر بم سے بچ جائیں گے ایکتا پیٹ کے بندوں کو کب خوش آتی ہے لڑانے مروانے کا شوق صدیوں سے چال آتا ہے وہ ان پڑھ درزی مسلسل بولتا رہا شاید پچھلے جنم میں مدینہ کی گلیوں میں گھوما پھرا تھا اک ان پڑھ درزی کے سامنے مری بولتی بند تھی بات تو وہ ٹھیک کہہ رہا تھا لیٹا ہوا تھا کب پیٹ سے سوچ رہا تھا پیٹ سے نکلتی سوچ مسمانوں کو کھا گئی ہے مگر کیا کریں
230
جو بولے گا مولوی کا کرپانی فتوی اسے کھا جائے گا اک درزی اور یہ سوچ یہاں کوئی باپ کے لیے نہیں سوچتا پوری امت کے لیے وہ سوچے جا رہا تھا سچ تو یہ ہے اس کا انداز فکر مجھے بھا گیا اس کا ہر لفظ قلب و نظر پر چھا گیا جواب میں کیا کہتآ بجھے دل اور بھیگی آنکھوں سے میں واں سے اٹھ گیا مرے بس میں یہ ہی کچھ تھا میں بھال اور کیا کر سکتا تھا
231
مقدر ہیلو ہیلو کون شانتی کیا چاہتی ہو دوستی کر لو تمہاری کرخت نگاہوں سے ڈر لگتا یے ہا۔۔۔ہا۔۔۔۔۔ہا۔۔۔۔۔ہا پگلی! نادان! گالب کانٹوں سے نبھا کرتا ہے تم بھی کر لو سسکیوں میں شانتی کی آواز ڈوب گئی بزدل‘ جاہل‘ دقیانوسی بارود تو امن کی ضمانت ہے
232
زمانہ روایت کی لحد میں اتار دے گا تم کو اور تم سسک بھی نہ سکو گی جدید سکول میں چار دن گزار دیکھو ہیلو‘ سن رہی ہو نا ہاں سن رہی ہوں مگر یہ مجھ سے نہ ہو گا ‘تو پھر جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تنہائی کے زنداں میں مقید رہو یہ ہی تمہارا مقدر ہے
233
دو بانٹ جھورے کے سسر تھے کمال کے تامرگ سگے رہے مال کے کدھر سے آتا ہے چھوڑیے انگلی اٹھائے جو بال تکلف سر اس کا پھوڑیے تول کے بھی ان کے دو بانٹ تھے ایک سے لیتے تھے ایک سے دیتے تھے یہاں ایک پیر صاحب رہتے تھے نام ان کا کچھ اور ہے پیار سے میں انہیں بابا دو بانٹ کہتا تھا برائیلر فروش کے ہاتھ کا گوشت خود پر حرام جانتے تھے روڑی کھا کر پال مرغا ہو کہ مرغی بڑے شوق سے کھاتے تھے
234
جو ان کا شوق یاد رکھتے بافیض بس وہ ہی ہوتے تھے کمال کے طبع شفیق تھے بوڑھی ہو کہ کم صورت بیٹا کہہ کر بالتے سر پر پیار دے کر دعا دیتے کام کی چیز اگر ساتھ الئی ہو اندر بھجوا دیتے دولت کو جیب میں رکھنے کا انہیں کوئی شوق نہ تھا گھٹنے کے نیچے دبا کر رکھتے تھے بڑے دیالو اور کرپالو تھے ہر عام چیز سے خلیفوں کی دنیا بساتے لنگر میں سے بےمایہ ادھر پڑا رہتا ہر ستھرا مگر اندر چال جاتا
235
گویا اندر بھی راضی باہر بھی راضی بے داغ کپڑے ہوں اور پیٹ میں دال روٹی بات کچھ جچتی نہیں ہاں پیٹ میں ہو اگر دیسی مرغا تو ہی بات بنتی ہے گویا من بھی راضی تن بھی راضی جھورے کے سسر سے مماثل بات کی بات ہی کچھ اور تھی باصورت عورتیں انہیں خوش آتی تھیں اوپر سے چھوئی موئی سی ہوتیں تو پیچے لڑ جاتے تھے یہ ہی اک بات تھی جس پر اندر اعتراض رہتا تھا وہ کیا جانے اک تو وہ پرانی تھی پیپا بھی تھی
236
اوپر سے عادات میں بال ایانی تھی دیسی مرغا جب ڈکارا ہو ہر سو کنول چہروں کا نظارہ ہو تن من میں مستی آ ہی جاتی ہے مستی حواس کیا ایمان بھی کھا جاتی ہے جھورے کا سسر یاد میں اپنی دو بانٹ چھوڑ گیا اس کی بیٹی یہ دونوں لے کر خاوند کے گھر گئی پھر یہ ہی متاع جہیز لے کر جھورے کے ساتھ نکل گئی طالق و نکاح کی اسے کیا ضرورت تھی دو بانٹ کا یہ ہی تو کمال ہے اصول و ضوابط سے آزادی دال دیتا ہے تاعمر مستی کی گزاری
237
جھورا مر گیا قوالں بھی مر گئی شیخ تو حضور کے قدموں پر ہوتا ہے حیرت تو یہ ہے اس پیر کے ہاتھ قوالں کے جہیز کی یہ متاع پلید کیسے آئی یہ بات پکی ہے مائی جہیز میں نہیں الئی تھی سنا ہے کھاتی خوب تھی لیکن نیک اور پردہ میں رہتی تھی ممکن ہے جھورے کے ہمسایا میں کبھی رہے ہوں وہاں سے چرا الئے ہوں یقین نہیں آتا پر کیا کریں چوروں کو مور پڑتے آئے ہیں
238
دو حرفی بات عادت نہ ماننے کی اچھی نہیں ہوتی جیتے جی مقدر اس کا بنتی ہے نیستی اس کے پیرو سدا زیر عتاب رہتے ہیں آگے بڑھتے قدم پیچھے کو آتے ہیں اپنی پہ اڑنا گھاٹے کا سودا ہے یہ بےجڑا پودا ہے ریت کی دیوار کیسے کھڑی کرو گے بال ہنر گر دریا میں چھالنگ لگاؤ گے غوطے کھاؤ گے ڈوبو گے مرو گے شیطان اپنی پہ اڑا ہوا ہے صبح و شام لعنتیں ہی نہیں ہر لمحہ پتھر روڑے کھاتا ہے بس سچے دل سے توبہ ہی کرنی ہے ایسا لمبا چوڑا اس کا حساب کتاب نہیں
239
پر کیا کریں شخص انا کی غالمی کیے جاتا ہے پھر بھی کہے جاتا ہے میں آزاد ہوں میں آزاد ہوں کہتا ہے یہ غیر کی داری نہیں میں کہتا ہوں انا کس کی پیرو ہے ہللا کے بنائے شخص کی یہ چیز نہیں برسوں سے میں اسے یہ ہی کہے جا رہا تھا مری وہ کب مانتا تھا مرا کہا حرف آخر ہے یہ ہی اس کی ہٹ تھی مرا کہا کوئی الف لیلی نہ تھا دو حرفی بات تھی میں کہتا تھا کرنا اور ہونا میں فرق ہے
240
وہ کہتا تھا ہونا کچھ نہیں کرنا ہی سب کچھ ہے ہونی کرنے سے ٹل جاتی ہے ہر بگڑی اس سے سنور جاتی ہے کئی بار بیمار پڑا میں کہتا رہا اب سناؤ کرنے اور ہونے میں بڑا فرق ہے جوابا کہتا بدپرہیزی کے سبب بیمار پڑا ہوں مری گرہ میں مال ہے ہتھیار دوا دارو کا مرے ہاتھ ہے چنگا بھال ہو جاؤں گا عشق کی گرفت میں آیا اٹھنا بیٹھنا سونا جاگنا گنوایا روپیا پیسا بھی اس راہ میں لٹایا گرہ کی بھی کوئی حد ہوتی ہے کنگال ہوا تو معشوقہ وہ گئی
241
بھوک ننگ کے نکاح میں کیوں آتی میں نے کہا کرنے کی اس سے بڑھ کر ناکامی اور کیا ہو گی ہونی کا تو اس میں عمل دخل ہی نہیں بھوکا ننگا ہو کر بھی اپنے کہے پر ڈٹا رہا کہنے لگا دولت ہاتھ کی میل ہے عورت پاؤں کی جوتی مری کرنی میں ہی کہیں چوک ہوئی ہے ورنہ اس سالی کی ایسی کی تیسی محنت کروں گا اور کما لوں گا پھر اس سی بیسیوں مرے چرنوں میں ہوں گی اک روز میں نے سنا آخری سانسوں پر ہے میں اسے ملنے گیا
242
حواس بگڑے ہوئے تھے چہرے کا رنگ بھی زرد پڑ گیا تھا میں نے کہا سناؤ بھیا کیسے ہو کیا سناؤں سانسیں گن رہا ہوں اب تو ہونی کو مانتے ہو یار اس میں ہونی کہاں سے آ گئی میں اپنی غلط کرنی کی بھگت رہا ہوں میں نے سوچا اب کچھ کہنا درست نہیں اس کے دل پر تو ختم ہللا کی مہر لگی ہوئی تھی اسی شام ہونی کی گرفت میں آیا چل بسا جاتے ہوئے بھی نٹکا اس نے اوپر رکھا ہونی کیسے ٹل سکتی تھی کرنی کے ساتھ اگر ہونی کو بھی مانتا اس میں آخر اس کا کیا بگڑ جاتا
243
مجنوں ہو کہ رانجھا کرنی کی کب کھٹی کھا سکے ہیں نکاح کرتے نہیں نکاح تو ہوتے آئے ہیں جوڑے آسمان پر بنتے ہیں زور زبردستی کے کام بگڑ جاتے ہیں
244
سوچ کے گھروندوں میں علم و فن کے کالے سویروں سے مجھے ڈر لگتا ہے ان کے بطن سے ہوس کے ناگ جنم لیتے ہیں سچ کی آواز کو جو ڈس لیتے ہیں سہاگنوں کی پیاسی آتما سے ہوس کی آگ بجھاتے ہیں صالحیتوں کے چراغوں کی روشنی کو دھندال دیتے ہیں بجھا دیتے ہیں حق کے ایوانوں میں اندھیر مچا دیتے ہیں
245
حقیقتوں کا ہم زاد اداس لفظوں کے جنگلوں کا آس سے ٹھکانہ پوچھتا ہے انا اور آس کو جب یہ ڈستے ہیں آدمیت کی آرتھی اٹھتی ہے کم کوسی' بےہمتی بےاعتنائی کے شراپ کے سائے ابلیس کے قدم لیتے ہیں شخص کبھی جیتا کبھی مرتا ہے کھانے کو عذاب ٹکڑے پینے کو تیزاب بوندیں ملتی ہیں خود کشی حرام سہی مگر جینا بھی تو جرم ٹھہرا ہے ستاروں سے لبریز چھت کا دور تک اتا پتا نہیں
246
ہوا ادھر سے گزرتے ڈرتی ہے بدلتے موسموں کا تصور شیخ چلی کا خواب ٹھہرا ہے یہاں اگر کچھ ہے تو'........... منہ میں زہر بجھی تلواریں ہیں پیٹ سوچ کا گھر ہات بھیک کا کٹورا ہوئے ہیں بچوں کے کانچ بدن بھوک سے کبھی نیلے کبھی پیلے پڑتے ہیں اے صبح بصیرت! تو ہی لوٹ آ کہ ناگوں کے پہرے کرب زخموں سے رستا برف لہو
247
تو نہ دیکھ سکوں گا سچ کے اجالوں کی حسین تمنا مجھے مرنے نہ دے گی اور میں اس بےوضو تمنا کے سہارے کچھ تو سوچ سکوں گا سوچ کے گھروندوں میں زیست کے سارے موسم بستے ہیں قاضی جرار حسنی 1974
248
کیا یہ کافی نہیں ہللا بخشے نابخشے ہللا کی مرضی یہاں اک حاجی صاصب ہوا کرتے تھے پنج وقتے تھے ہاں صدقہ زکوت خیرت میں کافی بخل کرتے تھے حسیں بیبیوں کا دل کب توڑتے تھے دوریاں کم کرکے ان سے رشتے جوڑتے تھے ان کا کہنا تھا سچ بولو پورا تولو لوگوں کے لیے یہ ہی نصحیت تھی یہ الگ بات ہے ان کے کہے پر یقین کرنا سو کا گھاٹا تھا کہا کب کرتے تھے
249
کبھی اس سے الٹا بھی چل جاتے تھے اک عاشق اپنی معشوقہ سے کہتا رہا ستارے تمہارے لیے توڑ الؤں گا بپھرے دریا کی لہروں سے لڑ جاؤں گا اک روز فون پر اس کی معشوقہ نے کہا آج باغ میں ملو‘ مجھے تم سے اک کام ہے جواب میں اس نے کہا کیوں نہیں‘ آؤں گا اگر بارش نہ پڑی ہمارے یہاں اک لیڈر ہوا کرتے تھے تھے بال کے خوش خیال لباس میں اپنی مثال آپ تھے کار سے باہر جب قدم رنجہ فرماتے لوگ ان کی عیار معصومیت پر مر مر جاتے پھول تو پھول جئے جئے کار نثار کرتے کہا کرتے تھے شہر کو پیرس بنا دوں گا
250
شہر‘ شہر نہ بن سکا پیرس کہاں بنتا یہ جانتے کہ بےزر ہوں زبانی کالمی میں بھی گھر میں بیسیوں چیزیں التا ہوں بیگم کا اچھا مؤڈ اگر کبھی رہا ہو نور محل کبھی تاج محل لمحوں میں وائٹ ہاؤس سے کہیں بڑھ کر عمارت تعمیر کیے دیتا ہوں یہ الگ بات ہے آتے دنوں میں کچھ نہ ہو پانے پر عزت بچانے کی خاطر ٹھوک کر بیزتی کراتا ہوں کھسیانی ہنسی بھی ہنستا ہوں چلو کچھ لمحے اچھے کچھ برے گزرتے ہیں جیون کوئی ٹھہرا پانی نہیں ناہی یہ بےبل پگ ڈنڈی ہے
251
صالیحین کہتے آئے ہیں جو کہو وہ کرو ہم اہل شکم ضدین کے قائل ہیں کہنا اور کرنا زیست کے دو الگ رستے ہیں کہے بن بن نہیں آتی کرتے ہیں تو شکم پر الت لگتی ہے نہ کرنے میں ہی تو شکم کی سالمتی ہے جو شکم کا دشمن بنے گا نیزے چڑھے گا زہر کا پیالہ اس کا مقدر ٹھہرے گا آگ میں ڈاال جائے گا زبان سے کہتے رہو ہم جو کہتے ہیں وہ کرتے ہیں ہم بھی یہ جانتے ہیں سننے واال بھی اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہم ہللا اور اس کے رسول کا
252
دل و جان سے احترام کرتے ہیں شیو ہو کہ وشنو موسی ہو کہ عیسی زرتشت ہو کہ مہآتما بدھ رام اور کرشن بڑے لوگ تھے بھال ہم ان سے کیسے ہو سکتے ہیں ان کی ہر کرنی کو سالم و پرنام بےشک وہ عزت کی جا ہیں ان کی کہنی اور کرنی ایک تھی وہ ایک کے قائل تھے مصیبت میں رہے ہر لمحہ صعوبت میں رہے اپنی کہنی پر استوار کرنی کا پرنالہ نہ وہ بدل سکے وہ بڑے تھے بھوکے رہ سکتے تھے ہماری ضرورتیں حاجتیں ان سے جدا وہ کہنی پر چل کر بڑے تھے کہہ کر نہ کرنے سے ہی مال آتا ہے
253
اچھا کھاتے ہیں بڑے گھر میں رہتے ہیں لوگ سالم بالتے ہیں یہ ہی نہیں ہم سے ڈرتے ہیں دنیا میں رہتے ہیں دنیا کی اور بڑائی کیا ہوتی ہے ان سے کون ڈرتا تھا ان کی کون سنتا تھا ان کے جو قدم لیتا رہا وہ ہی معتوب ہوا کیا یہ کم ہے کہ ہم خود سے گزر کر انہیں مانتے ہیں قبر میں کیا ہو گا حشر میں کیا ہو گا یہ آتے وقتوں کی بات ہے قبروں میں ان پر کیا ہو رہا ہے کب کوئی دیکھ رہا ہے مجرم تب ٹھہریں گے
254
جب کہنی پر کرنی استوار نہ مانیں گے یہ تو اصول حیات ہے اس کا کون کافر منکر ہے کیا یہ کافی نہیں اس پر ہمارا ایمان و یقین ہے
255
256
257
باؤ بہشتی باپ ہو کہ ماں معتبر ہیں محترم ہیں زندگی کی مشقت تو ہے ہی بچوں کے پالن پوسن کی بھی محبت سے پیار سے خلوص سے ماں مشقت اٹھاتی ہے زبان پر شکوے کا کلمہ کب التی ہے باپ بھی دنیا میں بےبدل رشتہ ہے منہ کا لقمہ جیب میں رکھ التا ہے منا کھائے گا گڑیا کے کام آئے گا دونمبری کمائی اکیال وہ کب کھا جاتا ہے پیٹ بھر سہی‘ حصہ کے لقمے پیٹ میں لے جاتا ہے
258
عمرا چور اپنے بچوں پر جان دیتا تھا خراش بھی آتی تو تڑپ تڑپ جاتا تھا کس کے لیے آدھی رات کو گھر سے قدم باہر رکھتا تھا وہ ڈاکو نہیں تھا ہاں چوری میں نام خوب کمایا تھا پر اتنی بات ہے عالقے کا ہر گھر عزیز رکھتا تھا اس ذیل میں کوئی اس پر انگلی اٹھا نہیں سکتا جانا تو ہے اس سے کب مفر ہے اک روز وہ بھی حرف آخر ہوا جنازے میں خاص و عام شامل تھے چڑھی قسمت دیکھیے سات صفوں کا جنازہ ہوا ہر کوئی
259
عالقے میں اس کی شرافت کے گن گا رہا تھا کئی دن بھورا بےرونق نہ ہوا اک آ رہا ہے تو اک جا رہا ہے اس کا بڑا لڑکا بھورا نشین رہا اپنے انداز سے باپ کے گن گاتا تھا کہتا تھا باؤ بہشی کوئی کچا چور نہ تھا بس اک ادھ بار پکڑا گیا پلس ٹل لگاتی رہی مگر وہ نہ مانا تھا قسم لے لو جو کبھی چوری کے جرم میں جیل گیا اس کی کوئی چوری پلس ریکارڈ میں نہیں یہ کھلی بکواس ہے کہ وہ چور تھا اس کے پکے پیڈے ہونے پر سب عش عش کر اٹھے یہ بھی اس نے بتایا
260
جب عمرا اس کی ماں کو بھگا کر الیا وہ اس کے پیٹ میں تھا نانا اس کا عالقے کا بڑا کھنی خاں تھا زور اس نے ایڑی چوٹی کا لگایا مگر کہاں باؤ بہشی نے اس کی ایک بھی نہ چلنے دی بازو دے دیتا تو کیا الج رہتی تھک ہار کر نانا ہی اس کا چپ ہو گیا اس کے پاس اس کے سوا کوئی رستہ بھی نہ تھا آفرین آفرین فلک بوس نعرہ بلند ہوا عمو کماگر نے یہ لقمہ دیا صدیوں بعد ایسے پوت جنم لیتے ہیں انو کہنے لگا ہمیں اس کی جی داری پر ناز ہے شیر تھا دلیر تھا یہ سب کیوں تھا
261
عمرے کا بڑا پوت باپ کے اصولوں کو بھول گیا تھا آغاز اس کا عالقے سے ہوتا تھا جب کبھی خالی ہاتھ رہتا تو ہی رخ باہر کا کرتا محنت کی کمائی ہر کسی کو عزیز ہوتی ہے ٹی سی ہی وہ راہ تھی کہ وہ اس کے گھر سے ٹال رہے اس حوالہ سے اس کے باؤ بہشتی کی ہر دل میں یاد تازہ بہ تازہ تھی اگلے وقتوں کے طور ہی کچھ اور تھے اپنے عالقے کی عزت ہر آنکھ میں تھی آج خرابی گھر سے شروع ہوتی ہے خیر اب چوری کی رسم بد کب رہ گئی ہے یہ رسم اگلے وقتوں کی تھی نمرود عصر بڑی کرسی پر بیٹھ کر ڈاکے ڈلواتا ہے
262
سامان لٹ جائے خیر ہے اور آ جائے گا فرعؤن بچوں کو مرواتا تھا یہ بچوں بوڑھوں ضعیفوں گریبوں مسکینوں کو بھی کھا پی جاتا ہے ہاں اتنا ضرور ہے عمرے کے قدموں پر ہے مگر اس کے حرامی بچے عمرے کے بچے کے پیرو ہیں لوگ آج بھی عمرے کو یاد کرتے ہیں منہ پر نہیں پر آگے پیچھے اس کے بیٹے کو برا بھال کہتے ہیں
263
کوئی کیا جانے اس کے اچھا اور سچا ہونے میں مجھ کو کیا‘ کسی کو شک نہیں برے وقت میں اوروں کی طرح منہ پھیر نہیں لیتا دامے درمے سخنے ساتھ رہتا ہے سچے کو سچا جھوٹے کو جھوٹا منہ پر کہتا ہے جینے کے لیے یہ طور اچھا نہیں اس کی اس گندگی عادت نے مفت میں اس کے کئی دشمن بنا رکھے ہیں اصل اندھیر یہ جن کے حق میں کہہ جاتا ہے وہ ہی اس سے منہ پھیر لیتے ہیں
264
بہت کم اسے پرے پنچایت میں بالیا جاتا ہے بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہو جاتی اٹھنے بیٹھنے کے مغرب نے ہمیں طور طریقے سکھائے ہیں بقول مغرب کے ابھی ہم چودہ سو سال پیچھے ہیں دس محرم کو اک ماتمی جلوس گزر رہا تھا اک انگریز جو ادھر سے گزر رہا تھا اس نے ساتھ چلتے چمچے سے پوچھا یہاں کیا معاملہ ہے کیا ہو رہا ہے چمچے نے بتایا حسین کی شہادت کا جلوس گزر رہا ہے وہ حیران ہوا اور کہا انہیں اب پتا چال ہے
265
چمچمے نے وضاحت نہ کی اور ہاں میں ہاں مالئی وہ صاحب تھا یس سری کا ہی تو عوضانہ دیتا تھا میاں حق قناعت لیے پھرتا تھا تب ہی تو بھوکا مرتا تھا سب چھوڑو ایک عادت اس کی عصری آدب سے قطعی ہٹ کر تھی کار قضا کبھی کسی تقریب میں بال لیا جاتا دیسی کپڑوں میں چال جاتا چٹے دیس کے اہل جاہ کی برائیاں گننے بیٹھ جاتا یہ بھی نہ دیکھتا کہ کوئی ناک منہ چڑھتا ہے لوگ کھانا کھانے کھڑے ہوتے زمین پر وہ رومال بچھا کر بیٹھ جاتا کانٹوں چمچوں کے ہوتے
266
ہاتھ سے کھاتا کھا کر اچھی طرح انگلیاں چاٹتا ٹشو پیپر کو چھوڑ کر ہاتھ دھوتا سچی بات ہے یہ اطوار دیکھ کر سب کو بڑی کراہت ہوتی ہمارے ہاں اک اور سچ پتر رہتے ہیں معاملہ ان سے پوچھنے چلے گیے بقول اس کے میاں حق کا کہنا ہے کھڑے ہو کر کھانے سے شخص کا زمین سے رشتہ نہیں رہتا معدہ متاثرہوتا ہے دل دماغ اعصاب پر برا اثر پڑتا ہے بیٹھ کر کھانے سے جسم کا زمین سے رشتہ رہتا ہے زمین میں سو طرح کی دھاتیں ہیں جو جسم پر اپنے اثر چھوڑتی ہیں
267
چوکڑی مار کر بیٹھنے سے سکون کی کیفیت رہتی ہے ہر انگلی کو دل ہر لمحہ تازہ خون سپالئی کرتا ہے ہر شخص کے خون کا گروپ الگ ہوتا ہے ہاتھ مالنے گلے ملنے سے سو طرح کے جراثیموں سے مکتی ملتی ہے ہاں زنا کی بات اور ہے زانی تم نے دیکھے ہوں گے ذرا غور کرنا یک زنی اور صد زنی کے اطوار میں فرق کیا ہے حاللی حرامی کی پیدائش کو الگ رکھیے زانی کا بدن زانی کے بول زانی کی شخصیت
268
فطری توزان میں نہیں رہتی ہمارے اس سچ پتر پر میاں حق کی باتوں کا بڑا اثر ہوا ساری رام لیلی اس نے آ کر ہمیں سنائی سارے ان باتوں پر خوب ہنسے اور ٹھٹھا بنایا وہ رائی بھر بھی نہ ہنسا نہ مسکرایا ہم نے اسے بڑا ڈھیٹ کیا ٹس سے مس نہ ہوا سب یک زبان ہو کر بولے لو اک اور عالقے کے گلے گالواں پڑا میاں حق چل بسا رنگو نے آ کر اچانک یہ خبر سنائی محفل پر سکوت چھا گیا سچ پتر ڈھاڑیں مار کر رونے لگا قانون قدرت ہے سچ باقی رہے گا اسے باقی رہنا ہے
269
کوئی کیا جانے میاں حق عالقے کا گہنا تھا اب سچ پتر گہنا ہے
270
کل کو آتی دفع کا ذکر ہے
پچھلی دفعہ کی اہمیت سے مجھ کو انکار نہیں شخص کا وہ اترن ہے یہ اترن ہی شخص کی وضاحت ہے اس پر ناز کیسا غرور کیسا میں کیسا ہوں یہ ہی اصل حقیقیت ہے خدارا مورکھ کے پاس نہ جائیے سچ کم جھوٹ زیادہ بولتا ہے جو ہوتا نہیں کہتا ہے جو ہوتا ہے کہتا نہیں شاہ کا چمچہ ہی نہیں وہ فصلی بٹیرا بھی ہے چوری خور کب حق سچ کی کہتے ہیں شخص کا کاتب نہیں شاہ اور شاہ والوں کی وہ منشی گیری کرتا ہے شخص کے اس اترن کی کتھا
271
شاعروں کے ہاں تالشیے سچ وہاں مل جائے گا عالمتوں استعاروں میں ہی سہی سب کچھ وہ کہہ گیے ہیں اورنگی عہد کا سچ کہیں اور کب ملتا ہے رحمان بابا کہتا ہے مجنوں کا کوئی کیا حال پوچھے ہر گھر صحرا کا نقشا ہے یہ شاعر ہی تھا جو اشارے میں بہت کچھ کہہ گیا مورکھ کو سچ کہنے کی توفیق کہاں ہاں داستانی ادب ہو کہ مقامی حکائتیں حق ان بھی بھی کہیں ناکہیں لکا چھپا ہوتا ہے خیر جو بھی معاملہ رہا ہو پچھلی دفعہ کا یہ ذکر ہی نہیں یہ کل کو آتی دفع کا ذکر ہے
272
شرق کا اک سیانا ستاروں کے علم سے آگاہ تھا زمین کا وڈیرا لٹیرا دھونس سے اسے اپنے پاس لے گیا پہلے آنکھیں دکھائیں نہ مانا تو تشدد کیا بڑا ڈھیٹ نکال تو بھوک کی چادر اڑھا دی آخر کب تب تک زبان اس نے کھول ہی دی موت سے ڈرا موت صلہ ٹھہری بھالئی کے بدلے شاباش کم ہی ملتی ہے خیر اس نے تو مجبوری میں آ کر اپنا سینہ کھوال پولے پیریں بتا دیتا تو بھی اس کا یہ ہی حشر ہوتا زمین کے ہر چپے پراس کی حکومت تھی سورج چاند ستارے سارے کے سارے تصرف میں اس کے آ چکے تھے
273
اس حقیقت کے باوجود کوئی ناکوئی زمین کا سانس لیتا مردہ کچھ ناکچھ کہیں ناکہیں گڑبڑ کر ہی دیتا سرکوبی کے جتن میں گرہ خود سے ہتھیایا سکہ نکل جاتا ہر جاتا سکہ اس کو ادھ مویا کر دیتا کل کو آتی دفع کے ذکر میں اس بات کا باور کرانا ضروری ہے وہ شرقی جان سے گیا کسی شریک کا ہونا وڈیرے کو کیسے گوارہ ہوتا ستاروں کا علم آنے کی دیر تھی کہ حوصلہ اس کا ہمالہ کی بلندی کو بھی پار کر گیا ہر چلتا پھرتا بدیسی اس کو کیڑا مکوڑا لگنے لگا اس کے کسی دیسی کو اس کے کسی عمل پر کیوں اعتراض ہوتا
274
پیٹ بھرے سوتا پیٹ بھرے اٹھتا جو بولتا اس کے منہ میں زیرہ رکھ دیتا بدیسی کسکتا بھی تو اس کا ستارہ بدل دیتا مشتری سے جب وہ زحل میں آتا وہ جی جان سے جاتا یہ مسکراتا قہقہے لگاتا اسے کوئی پوچھنے واال نہ رہا ہر سو خوف و ہراس کا پہرا ہوا ہر بدیسی کے زحل میں آنے سے قتل و غارت کی دنیا شاد و شاداب تھی اک بے سہارا وچارے سے لڑکے کا بھوک کے سبب میٹر گھوم گیا زحل میں آئے اس کے ستارے کی یہ بددیسی چال تھی کسی میاں میٹھو نے اسے خبر کر دی اس نے فورا سے پہلے اس کا ستارہ بدل دیا جلدی میں اس سے چوک ہو گئی
275
درمیاں زحل کے جانے کی بجائے ستارہ مشتری میں جا بسا پھر کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے کچھ کا کچھ ہو گیا اس کے اقتدار کا گراف نیچے گرنے لگا وہ بوکھال گیا بوکھالہٹ میں ہر صحیح بھی غلط ہونے لگا پھر کیا تھا آتے کل کی دفع میں وڈیرے کا اپنا ستارہ کہیں گم ہو گیا سب سے پہلی دفعہ میں بھی ایسا ہی ہوا تھا ابلیس کی گڈی چڑھی ہوئی تھی فرشتہ ہو کہ جن اس کے قدم لیتا تھا تکبر زہریال الوا اگلنے لگا اس کے سب کے خالق نے پہال آدم تخلیق کیا
276
اسے ہی نہیں سب کو سجدہ کا حکم دیا اس کا قیاس تھا کہ آدم زحل ًمیں وجود پایا ہے اس کی یہ ہی بھول تھی غصہ و قہر میں لمحوں کی گنتی بھول گیا آدم تو مشتری کی بہترین ساعت کی تخلیق تھا ہللا کی حکمت اگر کھل جائے تو وہ ہللا تو نہ ہوا ہللا کے آنے کے ان حد رستے ہیں قہر کے رستے سے آئے یا عطا کے رستے سے کون جان سکا ہے آتے کل کی دفع میں شکست آخر ابلیس کے پیرو کا مقدر ٹھہری ویدی کا ویدان تو اپنی ذات میں اٹل ہے دیو ہو کہ جن شخص ہو کہ ملک اس کے سامنے بےبس ہے اس کی ہونی میں کب کسی کا کوئی دخل ہے
277
دجال آئے کہ اس کا پیو آئے اس کی خدائی نہیں چل سکتی حسین کے پیرو اس کی راہ میں آتے رہیں گے وہ آگ میں پڑنے سے زہر پینے سے سر کٹوانے سے کب ڈرتے ہیں دجال عصر سن لو! تمہیں میں یہ کہے دیتا ہوں تمہارا ستارہ زحل میں آنے کو ہے یہ ہی ہوتا آیا ہے یہ ہی ہوتا رہے گا کہاں ہیں یونانی کہاں ہیں رومی بس ان کی کہانیاں باقی ہیں ہاں وہ سب تکبر کی آگ کا ایندھن بنے جل بھن گئے راکھ تک باقی نہ رہی سکندر ہو کہ قاسم محمود ہو کہ چرچل بابر بھی عیش کوشی کے سامان کرتا رہا کچھ کھا پی گئے
278
کچھ جمع آوری میں مشغول رہے کسی نے تاج محل تعمیر کیا عورت کے تھلے کی خوشنودی کی خاطر کئی نور محل تعمیر ہوئے کوئی اپنے ساتھ کب کچھ لے گیا نام ہللا کا باقی ہے نام ہللا کا باقی رہے گا گزری دفعہ کی یہ ہی کتھا تھی آتی دفع کی بھی یہ ہی کتھا ہوگی
279
کڑکتا نوٹ اس بات کو آج کوئی نصف صدی ہوئی آج بھی نوششہءصدر ہے سکول کی اسمبلی میں کھڑے تھے بڑے ماسٹر صاحب نے باآواز بلند کہآ کسی کے پاس روپے کا کڑکتا نوٹ ہے خاموشی چھا گئی روپیے کا نوٹ اوپر سے کڑکتا گریبوں کا فیس معافی سکول تھا کسی سیٹھ کی تجوری نہ تھی سو کا نوٹ بھی پوچھتے اس کے غلے میں مقید ملتا آخر چپ ٹوٹی
280
سکول کے مالی کی جیب سے نکل آیا سب کو حیرت ہوئی مالی کی جیب میں روپیے کا کڑکتا نوٹ میال رام کا سر فخر سے تن گیا فخر اسے کیوں نہ ہوتا اتنوں میں فقط ایک وہ ہی تھا جس کی جیب سے روپیے کا کڑکتا نوٹ نکال تھا خیر چھوڑیں بات ذرا آگے بڑھاتے ہیں بڑے ماسٹر صاحب نے روپیے کا وہ نوٹ سب کو دکھایا پتا نہیں کتنے مونہوں میں پانی آ گیا انہوں نے پوچھا یہ نوٹ کتنے کا ہے سب نے یک زبان ہو کر کہا ایک کا ہے نوٹ انہوں نے دوہرا چوہرا کر دیا پوچھا اب یہ نوٹ کتنے کا ہے
281
سب نے کہا ایک کا ہاں البتہ میلہ رام کے تیور بگڑ گئے بعد اس کے نوٹ انہوں نے ہاتھوں میں مسل دیا پھر پوچھا یہ نوٹ کتنے کا جواب وہ ہی تھا کہ ایک کا نوٹ کی حالت دیکھ کر میلہ رام کا چہرا زرد پڑ گیا نوٹ انہوں نے اپنے پاؤں سے مسل دیا پوچھا اس نوٹ کی قدر کیا ہے سب نے کہا ایک روپیہ اب کہ میلہ رام کی طبیت خراب ہو گئی بڑے ماسٹر صاحب کی وہ نگاہ میں تھا انہوں نے فورا سے پہلے کڑکتا نوٹ جیب سے نکاال اور میال رام کو تھما دیا رگڑا مسال نوٹ اپنی جیب رکھ لیا
282
کہ وہ اب بھی ایک کا تھا چیز دونوں کی ایک سی آنی تھی نیا ہو کہ پرانا اس سے کیا فرق پڑتا ہے نوٹ دونوں ایک کے تھے بڑے ماسٹر صاحب بولے اس نوٹ پر کوئی بھی قیامت گزرے اس کی قیمت میں فرق نہ آئے گا ہاں اتنا ضرور ہے یہ ترا مرا نہیں یہ جس کا بھی ہو ایک کا ہے خرچ کرو گے تو ایک کا نہیں رہے گا آگہی جتنی بھی خرچ ہو اس کی قدر کم نہیں ہوتی میں نے سب کو دانش کی بات بتائی قدر مگر اس کی کم نہیں ہوئی تم جتنا بھی اسے خرچ کرو گے یہ جتنی ہے اتنی ہی رہے گی
283
اسے زنگ نہیں آتا یہ پرانی نہیں ہوتی کس نے کہا مت دیکھو کیا کہا یہ ہی دیکھو صوفی یا بھگت کے منہ سے نکلے گالی‘ گالی ہو گی بدمعاش لفنگے کے منہ نکلے دعا‘ دعا ہو گی پلے سے مری یہ بات باندھ لو علم کی جناب میں فرشتے بھی سجدہ ریز ہوئے اچھا‘ اچھا ہی رہتا ہے کالک سو غازوں کے پیچھے کالک ہی رہتی ہے سقراط ہو کہ منصور وقت کی دھول میں کب چھپ سکے ہیں انہیں مسال گیا کچال گیا
284
قدر ان کی مگر کوئی کم نہ کر سکا وقت انہیں سالم کرتا آیا ہے سالم کرتا رہے گا
285
اسالم سب کا ہے سچی کہانی
بابا شکر ہللا بھلے آدمی تھے صوم و صلوتہ کے ہی پابند نہ تھے قول کے کھرے ہاتھ کے بھی کھلے تھے اچھا کہتے اچھا کہنے کو کہتے اچھا کرتے اچھا کرنے کو کہتے لوگوں کا ان کے پاس آنا جانا تھا بساط بھر ان کی خدمت کرتے لینے کے خالف تھے اگر کوئی کچھ لے آتا واپس اسے لے جانا پڑتا جعلی پیروں کی ٹھگی پر افسردہ رہتے
286
کہتے انہیں تو لوگوں کو حضور کی راہ پر چالنا ہے حضور دیتے تھے ان کا لینا کہیں ثابت نہیں لوگ انہیں پیر سمجھتے تھے یہ الگ بات ہے انہوں نے خود کو کبھی پیر مانا نہیں کوئی پیر کہتا تو برا مناتے پنشن پر گزرا کرتے اماں جی گھر میں بال فیس بچوں کو پڑھاتیں عرصہ سے ان کے ہاں یہ ہی طور چال آتا تھا مجھ ناچیز کو بھی ان کے پاس بیٹھنے کا شرف رہتا ایک بار
287
اک مولوی صاحب ان کے پاس آئے سالم دعا بال کے بیٹھ گئے توند بس مناسب ہی تھی ہاں شلوار ٹخنوں سے اوپر تھی مونچھوں کا کہیں نام و نشان نہ تھا داڑھی سرسیدی تھی بولے حضرت اک سوال پوچھنا ہے بابا بولے ہللا علیم و خبیر ہے معلوم ہوا تو ہی جواب دے سکوں گا ہاں غور تو ہو سکتا ہے مولوی صاحب بولے :کیا حضور کو ّعلم غائب تھا مولوی کے لہجے میں مولوی کی آنکھوں میں شرارت تھی بابا صاحب پہلے تو مسکرائے پھر رنجیدہ ہو گئے بابا صاحب نے کہا :افسوس مولوی صاحب
288
افسوس صد افسوس کرنے کے کام کرتے نہیں ہو یہ ہللا اور اس رسول کا معاملہ ہے اس پر زور آزماتے ہو ہے تو بھی‘ نہیں ہے تو بھی یہ ہمارا معاملہ نہیں ہے ہمیں تو بس اس سے کام ہے آپ کے کہے میں وحی کا اہتمام ہے آپ کا کہا گویا ہللا کا کہا ہے مولوی صاحب کیسے ہیں آپ کان دیکھتے نہیں کتے کے پیچھے دوڑے بھاگے جاتے ہو کبھی خود سے بھی سوچ لیا کرو دعوی تمہارا ہو گا کہ پڑھا لکھا ہوں علم قریب سے بھی گزرا ہوتا یہ سوال نہ کرتے
289
کیا حضور کو ّعلم غائب تھا تمہارا کہا ہی تضاد کا شکار ہے کہتے ہو حضور صیغہ تھا کا استعمال کرتے ہو لفظ حضور حاضر کے لیے ہے مانتے ہو آپ حاضر ہیں تھا کہہ کر نفی کرتے ہو یہ کیا بات ہوئی وہ حاضر ہیں پر کیا کریں ہماری آنکھں انہیں دیکھنے کے قابل نہیں ہیں دیکھنے والے دیکھتے ہیں یوں بھی لے سکتے ہو تاقیامت قرآن باقی ہے آپ حاضر ہیں خیر یہ تضاد تمہارے پوچھنے میں ہے
290
تضاد کی دنیا سے نکلو کہ امت متحد ہو مذاہب غیب پر ایمان رکھنے پر استوار ہیں ہللا تم نے دیکھا‘ نہیں جنت دوزخ جن فرشتے تم دیکھے‘ نہیں حاضر کو دیکھا‘ نہیں قرآن اترتے دیکھا‘ نہیں ان سب پر ہر کلمہ گو کا ایمان ہے تب ہی تو مسلمان ہے حضور پر قرآن اترا بے شک النے والے کو حضور نے دیکھا وہ فرشتہ تھا انسان نہیں تھا بھیجنے والے سے متعلق آگہی ہو گی جو کسی نے نہیں دیکھا حضور نے دیکھا جانا علم غیب کا ہونا اور کس کو کہتے ہیں میں سے گزر کر تو میں آنے واال
291
کب کسی پر کھل سکتا ہے یہ معاملہ حضور کا ہے وہ جانیں یا ان کا خدا جانے ہمیں اس سے مطلب نہیں اگر ہم مسمان ہیں تو سیدھا چلیں ہللا کی مخوق کے کام آئیں الیعنی چکروں میں پڑو گے تو مرو گے خود ڈوبو گے یہ معاملہ تمہارا ہے اوروں کو ڈبو دو گے یہ معاملہ اسالم کا ہے اسالم اس کی اجازت نہیں دیتا اسالم تمہارا ہی نہیں اسالم سب کا ہے
292
ڈنگ ٹپانی ہللا بخشے تایا نواب لڑکوں کو چوکوں میں کھڑا ہونے سے منع کرتے تھے رشتہ میں وہ کسی کے کچھ نہ تھے بوڑھے تھے حیادار تھے سب انہیں تایا کہتے تھے اچھا دور تھا اچھے لوگ تھے ہر کس کی عزت اپنی عزت جانتے تھے سب کی بھنیں اپنی بھنیں تھیں آہ! وہ مر گئے اچھی روائتیں بھی مر گئیں آنکھوں میں شرم تھی حیا تھی آج کوئی کوئی پرانا بات کرے تو کہتے ہیں: چھوڑو جی دقیانوسی ہے بیبیاں بادوپٹہ یا بابرقعہ گھر سے نکلتی تھیں
293
آج برقعہ تو دور رہا دوپٹہ بھی غائب ہو گیا ہے شریف سے اور باحیا سے رہو تو کڑیاں مذاق اڑاتی ہیں چھیڑو تو پلے پڑ جاتی ہیں نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن اسی کو تو کہتے ہیں بیدا اور شیدا محلہ کے چوک میں کھڑے تھے الیعنی گپیں ہانک رہے تھے تانک جھانک دیدار بازی کا عمل جاری تھا کوئی ناک چڑھا کر کوئی مسکرا کر گزر جاتی ہاجاں تیلن کا بھی ادھر سے گزر ہوا منہ متھے لگتی تھی شیدا نہ رہ سکا اس نے پرامید پراسلوب فوجی سلیوٹ کیا وہ کھل کھالئی ہنسی اس کی پورے منہ کی تھی وہ گزر گئی بات آئی گئی ہو گئی
294
وہ پھر سے گپوں میں جھٹ گئے اسی شام ہاجاں تیلن بیدے کے گھر آئی بیدے کی ماں سے کہنے لگی بیدے نے محلہ کے چوک میں مجھے چھڑا ہے مرا ویر ادھر نہ تھا ورنہ پیر پر ڈکرے کر دیتا بیدے کی ماں شکایت سن کر ہکی بکی رہ گئی اس نے غصے سے بیدے کو آواز دی آیآ ماں جی کہہ کر کچھ ہی دیر بعد چھت سے نیچے اتر آیا وہ گڈی اڑا رہا تھا اتنی دیر میں ہاجاں تیلن جا چکی تھی بیدے کی ماں نے بنا کچھ سنے بیدے کی لہہ پہہ کر دی
295
بیدے نے تو اسے چھیڑا ہی نہ تھا یہ گالواں مفت میں اس کے گلے آ پڑا تھا بیدے کی ماں بےچاری کیا جانے روال چھیڑنے کا تھا ہی نہیں وہ شیدے کی پسند تھی شیدا مگر ہاجاں کی دل آنکھ میں نہ تھا ہاں وہ بیدے کی دیونی تھی بیدے کو کیا مری پڑی جو اس نے نہ چھیڑا پر کیا کریں چھماں بیدے کے دل کی رانی تھی سوہنی تو تھی ہی ہاجاں سے بڑھ کر سیانی تھی یہ بات تو فرشتوں کے لکھے پر ناحق پکڑے جانے والی کی سی تھی کیسی بات ہے یہ
296
شادی کرنے کے ارادے دور تک نہ تھے ہاں مگر دو طرفہ محض ڈنگ ٹپانی تھی
297
ایک اور اندھیر دیکھیے
ہر چپہ پہ سجدہ ریز ہوا پھر بھی میں کی گرفت میں رہا کرنی اپنی ہی کرنی تھی سجدوں کا محض ڈھونگ رچا تھا آخر کب تک آزمائش میں آ ہی گیا میں سر چڑھ کر بولی تو ڈھول کا بھید کھل گیا پھر کیا تھا مالک نے حضوری دوری میں بدل دی معافی کی طرف کیوں آتا دیکھتے ہی دیکھتے نٹکا اس کا آسمان لگا تھا خالق اسے جانتا تھا وہ تو خود سے بےبہرہ تھا
298
رنگ روپ شکل بدل بدل کے ملتا رہتا ہے کچھ ہی لمحے ہوئے ہوں گے مجھے مال تھا بےشک بڑا خوش لباس تھا مرے سامنے سو کا اس نے دنبہ خریدا میں دیکھ رہا ہوں اس سے وہ بےخبر تھا میں نے پوچھا دنبہ کتنے کا دو گے ریٹ دنبے کا اس نے ایک سو چالیس بتایا میں نے کہا کچھ تو کم کرو بڑی مشکل سے ایک سو تیس تک آیا اصرار کیا تو کہنے لگا قرآن کی قسم کھا کر کہتا ہؤں ایک سو پچیس مری خرید ہے پانچ منافع لوں گا میں نے بصد افسوس اس کی طرف دیکھا دنبہ خرید لیا کہ قرآن پر مرا یقین تھا
299
یہ قریبا دو بجے کی بات ہے باریش تھا مسجد سے نکل رہا تھا جلدیوں میں تھا لگتا تھا کہیں کام ڈالے گا سیدھا گودام میں آیا پیسی مرچوں کے دو بورے واں پڑے تھے پیسی اینٹوں کا ایک بورا اس کی راہ دیکھ رہا تھا اپنے ہنر میں صاحب کمال تھا منٹوں سکنٹوں میں یہ پرایا مرچوں کا ہم سفر ہوا اب کہ تین بورے مرچوں کے ٹھہرے رنگ روپ حسب نسب کا جھگڑا ہی ختم ہو گیا مسجد میں اس کے طور ہی کچھ اور تھے باہر آ کر یکسر بدل گیا حاجی کے روپ میں بھی مال
300
بڑا خوش اخالق شیریں زبان تھا مری بیوی کو شروع سے بیٹی کہتا تھا سر پر ہاتھ پھرتا نگاہ نیچی رکھتا یہ تو بہت بعد میں معلوم ہوا مرے گھر کی ساری رونق اسی کا لطف و احسان تھا مجھ سا ناکارہ وگرنہ کب اس الئق تھا کاش سائنس اتنی ترقی نہ کرتی اور میں بےخبر ہی رہتا عاشاں شکل و صورت میں کتنی معصوم لگتی تھی باطن میں شیطان ہی کا اترن تھی برسوں سے مرا پرموشن کیس اڑا پھسا تھا بڑا بابو کبھی یہ کبھی وہ کاغذ مانگ رہا تھا مرے ساتھ کیا ہو رہا ہے اکثر سوچتا مرے ساتھ کے ترقی انجوائے کر رہے تھے
301
میں ابھی تک قسمت کو کوس رہا تھا ایک صاحب نے بالتکلف کہا پاگل اصل کاغذ دیتے نہیں کبھی بابو کو کبھی قسمت کو کوستے ہو کس کاغذ کی آپ بات کرتے ہیں میں نے پوچھ ہی لیا بڑا نوٹ جس پر بانی کی تصویر چھپی ہو فائل میں لگاؤ پھر بےچنت ہو جاؤ کام ہو جائے گا سوچ میں پڑ گیا یہ بگال بھگت کتنے روپ دھارتا ہے لو دور کیا جانا ہے ہماری گلی کے موڑ پر ہی وہ رہتا ہے کچہری میں منصف کے روبرو کالم پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہے جو کہوں گا سچ کہوں گا
302
سچ کے سوا کچھ نہ کہوں گا ان دیکھے سچ کی کھاتا ہے کیا کروں اس کے کس روپ پر یقین کروں مرا ہم جنس بن کر دغا کرتا ہے ایک اور اندھیر دیکھیے انگلی مری اوروں کی جانب تو اٹھ رہی ہے جیسے ہل پر نہایا ہوا ہوں کرتوت یہ ہے کہ زوج کے حضور جب جاتا ہوں میں اس سا وہ مجھ سا ہو جاتا ہے سچ مر جاتا ہے یا پھر سات سمندر پار کر جاتا ہے
303
یہ حرف کل طلوع سے پہلے کان جزو جسد شرق تھے ودوا کا نالہ سنتے نہ تھے ہاتھ آہنی ضرور تھے ریکھاؤں میں مگر مغرب کے مانجے کا گوبر بھرا تھا خورشید اہل شرق کا سہی شرق کی صبح شام شرق کی نہیں منہ اپنا زبان اپنی بیان اپنا نہیں چٹے مندر کے دروازے پر یک ٹانگ کھڑا صبح شام
304
ہر آتے دم کے ساتھ شری جھاڑی مہاراج کی جئے ہو شری جھاڑی مہاراج کی جئے ہو بکے جاتا ہے فاختہ کے گلو میں نامہء منتی باندھ دیا کبوتر جھاڑی مہاراج کی قید میں ہے بازگزشت کٹی آواز تاریخ کا حرف کب بنتی ہے بےدر گھرانے کہرے کی زد میں رہتے ہیں ‘جو ہیں نفرتوں کے بارود میں بھی جشن آزادی مناتے ہیں جو نہیں ہیں جھاڑی مہاراج کی خصیہ سہالئی کا
305
شغل باکمال رکھتے ہیں یہ حرف مورکھ کی کوئی لکھت نہیں ہیں پھر بھی کل کو شہید وفا ہوں گے شاہد جفا ہوں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منتی‘ منت سے مورکھ سے مراد مورخ
306
عہد کا در وا ہوا عہد کا در وا ہوا دور افق میں کم زور کی مقدر ریکھا لہو بن کر پھیل گئی تھی آس کا سورج ڈوب گیا تھا یاس کا سورج سوا نیزے پر آ چکا تھا شانتی کے شبد کھا چکا تھا پھر بھی ماتھے پر چٹا گھر کا ٹکا سجائے شانتی کی ڈگڈگی بجائے جا رہا تھا لومڑ گیڈر جشن سیری منا رہے تھے لگڑبگڑ اپنا حصہ کھا رہے تھے گریب ہڈیوں کا گودا
307
رینگتوں کے کام آ رہا تھا بٹنوں کی دوکان سج گئی تھی گوریوں کی چڈی ہو کہ پستانوں کے کھوپے ان ہی سے تو بندھے ہوئے تھے آگہی کا در وا ہوا تو گریب گلیوں میں بھوک کی دھند پھیل گئی محل جگمگا اٹھے ہواؤں میں کومل ہونٹوں پر شراب کی بو مچل گئی شاہ اور اہل شاہ پریوں کی کمر میں ہاتھ سجائے تھرک رہے تھے جھوم رہے تھے
اپریل ١٠- ١٩٧٨
308
مشینی دیو کے خواب
وہ اس کا باپ دادا پردادا بھی اسی پیشہ سے وابستہ تھے شکار کی ٹانگوں پر نام کے ساجی دم پر چمچے گردن پر کڑچھے لگڑبگڑ کے تیور لے کر پل پڑتے تھے اب کہ نخچیر کئی چیتوں بگھیاّڑوں کے دم خم دیکھ چکا تھا تب ہی تو
309
گرفت میں آ کر بھی گردن کے جھٹکے جاری تھے کرتب ان کا شیوا جھٹکے اس کا حق جگ کے دانے سوچ رہے تھے بھوکے پیاسے صید کا ماس صیاد کے پیٹ کی آنتیں جسم کا پانی کھا پی کر مشینی دیو کے خواب چکنا چور نہ کر دے
310
اک مفتا سوال
ہزاروں الکھوں کی حیثیت اپنی جگہ دس روپیے کی حیثیت اپنی جگہ رسک میں ایک روپیے کا ضیاع بھری تجوری کا زوال ہے جیت گیے تو چڑھی قسمت ہار گیے تو! تجوری کا یہ سوال ہے جیتنے واال سکون کی نیند لوٹے گا ہار عمر بھر کا مالل ہے کچھ دے کر پایا تو کیا پایا اس جہاں میں کہاں ملتا ایسا دالل ہے سوچ کے دائرہ وسعت لیتے گئے کہ پھر کان میں گونجی یہ آواز میاں صاحب دس روپیے کا سوال ہے
311
پھر ہوش آیا یہاں تو فقط لینا ہے دینے کا کب ذکر ہے میاں صاحب کی باچھیں کھل گیئں خوش ہو کر بولے پوچھ لو‘ ہو سکتا ہے بتا ہی دوں یہ بعید از قیاس نہیں فقیر کا سوچ حیرت کی نذر ہوا کچھ بھی نہ سمجھ سکا یہ تو خود اک مفتا سوال تھا بڑبڑاتا ہوا واں سے چل دیا میاں صاحب دکھ کے سمندر میں غرق ہوئے کم بخت دس کا چونا لگا گیا
312
سوال کا جواب
بےشک یہ ان ہونی تھی حیرت ہے کہ ہو گئی کمیوں کی بہو بیٹیاں لمبٹروں کے گلپ کرتی ہیں حاجت بھی بر التی اترن میں جیتی اترن میں مرتی ہیں کس سے کہیں کیا کہیں سر تاج ان کے ڈیرے کی چلم بھرتے ہیں اک مراسی اور لمبڑ کا کیا جوڑ پھر بھی سالم دعا لڑ گئی تعلق کی گڈی چڑھ گئی زمین پر لوگ آسمان پر فرشتے دیکھتے رہ گئے
313
اٹھنا اکٹھا بیٹھنا اکٹھا کھانا اکٹھا پینا اکٹھا آنا اکٹھا جانا اکٹھا صالح اکٹھی مشورہ اکٹھا اک روز مراسی کے ذہن میں آیا اتنی محبت اتنا پیار ہے کیوں نہ یہ نسلوں تک چلے آتے وقتوں میں چھوٹے بڑے کا فرق مٹ جائے موقع پاتے ہی مراسی نے لمبڑ سے کہا چودھری زندگی کیا خوب گزر رہی ہے محبت شاید ہی ایسی رہی ہو گی کیوں نہ ہم اس کو دوام بحشیں چودھری مسکرایا اور کہا کہو پھر ایسا کیا کریں لوہا گرم دیکھ کر مراسی نے چوٹ لگائی
314
بہن تمہاری جوان ہے اب اس کی شادی ہو جانی چاہیے چودھری خوش ہوا کہ یار ہے شاید کسی چودھری کا پیغام الیا ہے میں خوب صورت خوب سیرت ہوں بڑی بات یہ کہ تمہارا چھوٹا ویر ہوں اسے سکھی رکھوں گا جب تک زندہ ہوں پیر تمہارے دھو کر پیوں گا چودھری ہکا بکا رہ گیا پھر ہتھے سے اکھڑ گیا ذات کا مراسی اور یہ جرآت گردن سے پکڑا اور خوب وجایا نیچے گرا مراسی پاؤں پر کھڑا ہوا یار مار تو تم نے خواب لیا مرے سوال کا جواب اپنی جگہ رہا
315
چودھری نے چار گولے بالئے اور کہا اس حرامی کی طبعیت صاف کرو ذات کی کوڑ کرلی چھتیروں سے جپھے سالم دعا کیا ہوئی کہ اوقات ہی بھول گیا خوب پٹا بےہوش ہو گیا جب ہوش میں آیا تو بوال چودھری یار پیار میں اتنی مار کوئی بات نہیں‘ چلتا ہے دوستی میں تمہیں اتنا تو حق ہے کسی کی بھڑاس مجھ پر نکالو ہاں تو مرے سوال کا جواب تم نے دیا نہیں سب نے پوچھا چودھری یہ شوھدا ڈوم کیا کہتا ہے کیا جواب دیتا ہاتھوں کی دی گھانٹیں دانتوں سے کھول رہا تھا
316
تنا سر جھکا کر گھر کو چل دیا چودھری کب کسی کے ہوئے ہیں سب انسان ایک سے ہیں‘ یہ اسالم کہتا ہے اسالم ابھی حلق سے اترا نہیں حلق سے جب اترے گا سیاہ حبشی غالم‘ صاحب جاہ کا آقا ہو گا بامی متکبر کٹیرے میں کھڑا ہو گا
317
یہ ہی دنیا ہے
کاروبار کے لیے فجے سے خیرے نے قرض لیا کاروبار تو ہو نہ سکا ہاں سب کچھ معشوقہ کی بلی چڑھ گیا کنگال پھانگ ہوا تو کسی اور کی ڈولی وہ چڑھ گئی یہ کوئی نئی بات نہ تھی ایسا ہوتا آیا ہے قرض کی واپسی کے وعدے کا دن تو آنا ہی تھا آ گیا اور آ کر گزر گیا پھر کئی دن آئے اور گزر گئے وعدوں کی بھرمار ہوئی وعدوں کی بھی اک حد ہوتی ہے انتظار کی گھڑیاں مشکل سہی گزر جاتی ہیں
318
فجا کب تک انتظار کرتا کچے وعدوں پر اعتبار کرتا فجا خیرے کے تائے کو درمیان میں الیا خیرا اپنی بدحالی کا رونا لے کر بیٹھ گیا اس نے کچھ قرضہ معاف کروا دیا باقی کے لیے وعدہ لے لیا وعدے کا وہ دن بھی آیا اور گزر گیا رقم آئی نہ خیرا آیا نیا وعدہ ہی آ جاتا کہ فجے کو تسلی ہوتی خیرے کو قرضہ یاد ہے ٹال مٹول کا پھر سے سلسلہ شروع ہوا ناچار فجا اک اور معزز کو اس کے دروازے پر لے آیا خیرے نے پہلے سے بڑھ کر اپنی غربت کا ڈرامہ رچایا اس نے بھی رقم میں کچھ چھوٹ دلوا دی
319
جواب میں وعدہ لے لیا وہ صاحب بھی خیرے کو تاکید کرتے رخصت ہوئے امید بندھی اب کہ وصولی ہو گی ‘مگر کہاں پھر سے آج کل پر بات پڑنے لگی فجا اس ٹال مٹول سے اکتا گیا جو نہیں چاہتا تھا کرنا پڑ گیا خیرے کو اس نے لمبڑ کے ڈیرے پر بال لیا وہاں آ کر وہ لمبڑ کے پاؤں لگ گیا یوں گڑگڑایا جیسے عرصہ سے فاقہ میں ہو لمبڑ کو بھی ترس آ گیا کچھ رعایت اس نے بھی کروا دی لمبڑ نے تاکیدا کہا وعدہ پر رقم دے دینا ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا حضور قسطوں پر سہی
320
رقم واپس ہو رہی ہے بات غلط نہ تھی ایک تہائی رقم دم توڑ چکی تھی اس کی اس بات پر سب ہنس پڑے اس پر وہ کہنے لگا ہاسے کیوں نہ آئیں رقمیں جو تر رہی ہیں بات اس کی سن کر سب کھل کھال پڑے اپنے اپنے گھر کو چل دیے فجے کا منہ لٹک گیا صبر شکر کے سوا اب کوئی چارہ نہ تھا نیکاں خاوند کے بستر پر بےچنت سوتی ہے خیرا بھی کوئی تھا‘ اسے یاد نہیں خیرا نیکاں کی بےوفائی پر دن رات روتا ہے فجے کو دی رقم کی جدائی کھا گئی ہے یہ ہی دنیا ہے کہیں ہریالی تو کہیں ویرانی ہے
321
مالک کی مرضی ہے
شاید ہی کوئی عیدے کے دست بد سے بچا ہو گا ہر گھر میں اس کی کہانی تھی ہر ڈیرے کا موضع کالم تھا کئی بار جیل گیا وہاں سے اور نکھر کے آیا باپ اس کا شریف اور مشقتی تھا ماں بھی اچھی تھی پنج وقتن تھی چودھری کا بھی ناک میں دم تھا کچھ دوست کھوکھے پر بیٹھے اسی کا ذکر بد کر رہے تھے اچانک انو اک خبر الیا عیدا ہللا کو پیارا ہو گیا خبر ہی ایسی تھی کہ سب حیران ہو گئے
322
پھر سب نے کلمہءشکر ادا کیا چنگا بھال تو تھا ایک دم سے کیا ہوا کہ حق ہو گیا او یار تم غلط سمجھے ہو انو نے زور کا قہقہ لگایا مرا نہیں زندہ ہے پتا نہیں اسے کیا ہوا مکے مدینے ٹر گیا واہ واہ کی صدائیں فلک بوس ہوئیں مالک کی مرضی ہے مٹی کو سونا سونے کو مٹی کر دے کارج کی بات میں دم تھا سب نے اس کی ہاں میں ہاں مالئی سینے میں کہیں خیر کی کرن باقی ہو تو ہی بگڑی سنورتی ہے ورنہ پنج وقتے پٹری سے اتر جاتے ہیں
323
دینے کی بات بھی غلط نہ تھی جو بھی سہی چائے کی پیالی میں آج خوشیوں کا اک جہاں آباد تھا ہر دل کھال گالب تھا خدا نے جانے کس کی سن لی ٹل گیا عالقے میں اترا جو عذاب تھا
324
سیاست
کسی چودھری کے سامنے کوئی چوں کرے کب کسی میں اتنا دم رہا ہے کون منصور بنے کون حسین کے قدموں پر چلے پکی پکائی کے سب گاہک ہیں جیدا چودھری کے خالف سرعام بک رہا تھا یہ خبر اٹم بم سے کچھ کم نہ تھی چودھری بھی سکتے میں آ گیا چپ رہا منہ سے کچھ نہ بوال بچارے دینو کی مفت میں لترول ہو گئی اس نے تو محض خبر سنائی تھی محفل کو پھر چپ لگ گئی یہ اس کا قصور نہیں جوانی کی بھول مرے آگے آئی ہے
325
بڑا خون ہی بولتا ہے ورنہ کوئی کمی اس قابل کہاں ہوتا ہے چودھری نے یہ کر محفل کی چپ کا روزہ توڑا پھر کیا تھا چودھری کا کہا اس ًموڑ سے اس موڑ تک گیا جیدے نے جب یہ بات سنی غصے سے آگ بگوال ہو گیا سیدھا گھر آیا ماں کا سر تن سے جدا کیا خود رسی سے لٹک مرا چودھری کو کچھ بھی نہ کرنا پڑا سیاست سے رستہ صاف ہو گیا
326
327
328
واہ مولوی صاحب واہ شغالنہ وہ سیدھا سادا مزدور آدمی تھا۔ بامشکل گھر کا خرچہ چال پا رہا تھا۔ غربت و عسرت کے سبب گھر میں ہر وقت کل کل چلتی رہتی۔ وہ اپنی حد تک تو مشقت اٹھا رہا تھا۔ یہ ہی اس کے بس میں تھا۔ وافر کہاں سے التا۔ باپ بھی مشقتی تھا۔ اس نے بھی اسی طرح محنت مشقت سے انہیں پاال پوسا تھا۔ بھوک اور ہمہ وقت کی تو تکرار نے اس کے ذہن کو تقریبا معطل سا کر دیا تھا۔ اس کی ہر سوچ کی تان روٹی پانی پر ہی ٹوٹتی تھی۔ یہ اس نے کوئی پہلی بار مسجد میں قدم نہ رکھا تھا۔ اس سے پہلے بھی وہ کئی بار مسجد میں عید نماز پڑھنے آ چکا تھا۔ ہر بار اسے نصیحتوں سے پاال پڑا تھا۔ مولوی صاحب نے کبھی بھوک سے نجات کا کبھی کوئی طریقہ یا رستہ بیان نہ کیا تھا۔ مولوی صاحب کو کھال اچھا اور ون سوونا کھانے کو مل جاتا تھا۔ نئی پرانی عالقے کی حوریں ‘دم اور تعویز دھاگے کے لیے آتی تھیں۔ پرہیزی سہی
329
ٹھرک جھاڑنے کا موقع مل جاتا۔ عادت سے مجبور اپنے اور دوسرے گھروں کے اندر کے بھید سنا جاتیں اس لیے اسے کسی قسم کی بھوک پیاس ہی نہ تھی۔ بھوک یا کاروباری قسم کی باتیں اس کے مطلب کی نہ تھیں۔ یہ پہلی بار تھی جو مولوی صاحب کو کوئی کاروباری بات کرنے کی توفیق ہوئی۔ مولوی صاحب نے جنت کی حوروں کا بڑے ہی رومانی اور دلکش انداز میں تذکرہ کیا۔ مولوی صاحب نے کہا کہ وہ انڈے کی طرح سفید ہوں گی اور ہر جنتی کو تعداد میں ستر ملیں گی۔ مولوی صاحب نے تو ان کی رنگت بیان کی لیکن اس کی سمجھ میں یہ آیا کہ حوریں انڈے دیں گی۔ مولوی صاحب جانے اور کیا کچھ کہتے رہے لیکن بھوک نے اس کے سوچ کو انڈوں کے گرداب سے باہر نہ آنے دیا۔ اس نے سوچا سب لوگ تو جنت میں نہیں جائیں گے۔ اچھا کرنے والے ہی جنت میں جا سکیں گے۔ وہ ستر انڈے ابال کر بےحوری عالقہ میں ہر روز بیچا کرے گا۔ ایک انڈا اگر دس روپے میں فروخت ہوا تو سات سو روپیے سیدھے ہو جائیں گے۔ سات سو روپیے منہ سے ہی کہنا ہے ہاتھ آنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ سوچ ذرا پھیلی تو مایوسی کا دوبارہ
330
سے دروازہ کھل گیا۔ سات سو میں ستر وہ اور ایک یہ گویا اکہتر کا ناشتہ پانی ہی نہیں ہو سکے گا۔ باقی کا خرچہ کہاں سے آئے گا۔ یہاں ایک کے لیے سارا دن مشقت اٹھاتا ہے پھر بھی پوری نہیں پڑتی اور رات گئے تک ہاجاں کے کوسنے سنتا ہے۔ وہاں ستر کے طعنے مینے کیسے سن سکے گا۔ اسے مولوی صاحب کے اس ڈنڈی مار رویے پر سخت افسوس ہوا۔ خود پیٹ بھر کھاتا ہے اور اوروں کے لیے پیٹ بھر کھانے کا رستہ تنگ اور مشکل بنا رہا ہے۔ پھر اس کے منہ سے نکل گیا واہ مولوی صاحب واہ کیا کہنے آپ کے خود پیٹ بھر کھاتے ہو اور گریبوں کے لیے جنت میں بھی مشقت اور وہ ہی زمینی فاقہ۔
331
جواب :واہ مولوی صاحب واہ بروز :مئی 12:25:19 ,2017 ,18شام ُمحترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب۔ السالم علیکم۔ اپ سے شاید پہلی دفعہ ُمخاطب ہو رہا ہوں۔ اور دیکھا یہی ہے کہ جناب اپنے مضامین پر تبصروں کا کم کم ہی جواب دیتے ہیں۔ لیکن اج مجھے لکھنا پڑا۔ جناب نے میرے دل کی بات کی۔ مولوی صاحبان جس طرح حوروں کے قصے سناتے ہیں تعجب ہوتا ہے کہ جنت کی ساری نعمتوں کو چھوڑ کر اس ’نعمت‘ ہی کی تفصیل کیوں اتنی محنت سے کرتے ہیں۔ ہمارے جاوید احمد غامدی صاحب کے مطابق تو یہ سب بس قصے کہانیاں ہیں۔ حوریں تو دنیا ہی کی خواتین کو کہا گیا ہے۔ خیر ،جو بھی ہے ،مجھ جیسا انسان تو جنت میں جا کر شاید اس طرف توجہ ہی نہ کر سکے۔ شاید کسی ابشار کے برابر چٹان پر بیٹھ کر غور و فکر میں محو رہے۔ غور و فکر نہ بھی کرے تو ُچپ چاپ خالی دماغ کے ساتھ دور افق کو گھورتا رہے۔ یہ بھی کسی نعمت سے کم نہیں۔ ابشار کا شور ہو ،فرصت ہو ،اور دماغ میں کوئی خیال نہ رہے۔ مارک گنگر کے مطابق ،جو
332
شادیوں کے نباہ کے طریقوں پر درس دیتے ہیں ،یہ نعمت (کہ دماغ میں کچھ سوچنے کی سرگرمی نہ چل رہی ہو) خواتین کو میسر نہیں۔ اور نہ ہی مرد ایسی کیفیت کے دوران خواتین کی مداخلت برداشت کرتے ہیں۔ اپنی بیویوں کی بھی نہیں ،کُجا ستر ستر حوریں؟ یا شاید میرے جیسا ادمی جنت میں جا کر ان تمام سوالوں کے جوابات مانگے جو ہمارے لیے معمہ ہی بنے رہے ہیں۔ مثالً کائنات کی ابتدا کیسے ہوئی؟ انسان کی تخلیق کیسے ہوئی؟ انسان کا ابتدائی دور کیسا رہا؟ کائینات کی وسعتیں کتنی ہیں؟ ہمارے مرنے کے بعد دُنیا میں کیا کیا ہوا؟ قران میں ہر خواہش پوری کرنے کا وعدہ ہے امید ہے یہ جوابات بھی ملیں گے۔ اور اگر رسائی پیغمبروں کے حصے تک ہو سکی تو ان سے ان کے قصے سن سن کر کتنا مزہ ائے گا؟ اس سب کے لیے وقت ہی کہاں ملے گا؟ میری سمجھ میں نہیں اتا کہ قُران نے تین چار مقامات پر اور نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے حوروں کا بھی چلتے چلتے ذکر کر دیا لیکن مسلمانوں کی تمام دلچسپیوں کا مرکز یہ حوریں ہی کیوں ہیں؟ یہ دیکھیے اس وڈیو میں ایک مولوی صاحب کیسے للچائے ہوئے انداز میں حوروں
333
کا ذکر فرما رہے ہیں ،اور حوروں کے شوق میں ایسے بہکے کہ دنیاوی خواتین کو میلی کُچیلی ،سڑی گلی اور :نجانے کیا کیا کہ رہے ہیں https://www.youtube.com/watch?v=WyeLaf1BCH0
اور کس انداز میں جنتیوں کے حوروں کے ساتھ تعلقات کا ذکر فرما رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے نبی ﷺ نے ایسا کچھ نہیں کہا ہوگا۔ اور اگر کوئی حدیثوں کا حوالہ دے گا تو میں بغیر تحقیق راویوں کو تو جھوٹا مان لوں گا لیکن یہ بازاری باتیں اپنے نبی سے منسوب نہیں کرنے دوں گا۔ پتہ نہیں یہ وڈیو مجھے یہاں دکھانی چاہیے بھی تھی کہ نہیں ،شرم محسوس ہوتی ہے۔ یہاں انے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ چند اصطالحات جو اپ نے استعمال کی ہیں ان پر مجھے ذرا شک ہے۔ اور میں تمام احباب سے جو یہ پڑھ رہے ہوں رائے دینے کی درخواست کروں گا۔
334
١۔ ’سیدھا سادا‘۔ میرے خیال میں (اور جو میں نے پڑھا ہے) یہ لفظ ’سیدھا سادھا‘ ہونا چاہیے۔ سادھا مہمل ہے سیدھا کا۔ کچھ لوگ سیدھا سادہ بھی لکھتے ہیں ،لیکن سادہ تو فارسی کا لفظ ہے اور اس کا مونث اور جمع بھی سادہ ہی ہونا چاہیے(سادہ روٹی ،سادہ کپڑے)۔ اس طرح سیدھا سادہ سے سیدھی سادی اور سیدھے سادے غلط ہوگا۔ سنا ،ہاں یہاں پنجاب میں ’تُو تکار‘ عام ’تو تکرار‘ نہیں ُ ٢۔ ُ ہے۔ لیکن شاید اردو میں ’تو تڑاق‘ کی ترکیب مستعمل ہے۔ ٣۔ کیا ’ٹھرک‘ اردو کا لفظ ہے؟ کوئی یوپی کے بزرگ ہوں تو بتا دیں۔ اخر میں پھر ڈاکٹر صاحب کا اپنی تحریر سے نوازنے کا شکریہ۔ ہمیں بھی دل کے پھپھولے پھوڑنے کا موقع مل گیا۔ اسد ہللا http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10617.0
335
ذات کا خول منسانہ اہل فقر کا عصری شاہ یا اس کے چمچوں کڑچوں سے کبھی کوئی ذاتی مسلہ نہیں رہا۔ سقراط‘ پادری ویلنٹائن‘ حسین ع‘ منصور ہوں کہ سرمد‘ نے کسی ذاتی مسلہ کی وجہ سے طاقت کے خالف آواز نہیں اٹھائی اور ناہی کسی حصولی کی پاداش میں موت کو گلے لگایا۔ حصولی کے گاہک موت کے خریددار نہیں ہوتے۔ وہ لوگوں کے ساتھ ہونے والے ان جسٹ کے خالف میدان میں اترتے آئے ہیں۔ ظلم اور ناانصافی کے خالف آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ موت :کے منہ میں لوگوں کی خاطر گیے۔ لوگ مرے تھے جن کی خاطر وہ رہے وضو کرتے ایک ہی چیز کا ایک ہی فروخت کنندہ لوگوں سے الگ الگ بھاؤ کرتا ہے۔ حاالں کہ اصوال ایک ہی بھاؤ ہونا چاہیے۔ کئی طرح کے بھاؤ معاشی ناہمواری کا سبب بنتے ہیں۔ اس روز مجھ میں بھی فقیری نے سر اٹھایا اور میں نے سوچا کہ یہ کئی بھاؤ کا رواج ختم ہونا چاہیے۔ میں نے
336
ایک دوکان دار سے اس طرح سے آخری بھاؤ کے لیے اچھی خاصی بحث کی جیسے میں پرچون کا نہیں‘ تھوک کا گاہک ہوں۔ میں نے اسے صاف صاف لفظوں میں کہا کہ وہ بھاؤ بتاؤ جو لینا ہے۔ اس نے آخری بھاؤ بتا دیا جو اس کے منہ سے نکلنے والے بھاؤ سے کہیں کم تھا۔ مجھے بڑا برا لگا کہ یہ کیسے لوگ ہیں۔ اتنا منافع کماتے ہیں۔ میں نے اسے اس طرح سے آرڈر جاری کیا‘ جیسے میں مارکیٹ کا بڑا منشی ہوں حاالں کہ بڑے منشی کو کم یا زیادہ بھاؤ سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ وہ تو معاملے کو اپنی حصولی تک محدود رکھتا ہے۔ دوکان دار کو جب معلوم ہوا کہ میں نے کچھ لینا دینا نہیں بل کہ ایک ریٹ مقرر کرنے کے لیے بحث کر رہا ہوں‘ پہلے تو اس نے مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا‘ پھر پان سات نہایت آلودہ گالیاں نکالیں۔ وہ اسی پر ہی نہ رہا بل کہ پھرتی سے اٹھا اور میرے بوتھے پر کرارے کرارے کئی تھپڑ بھی جڑ دیے۔ میں اس ناگہانی حملے کی توقع نہ کرتا تھا لہذا ہللا کی زمین پر آ رہا۔ اچھے خاصے لوگ جمع ہو گیے۔ میں نے تو لوگوں کی بھالئی اور آسانی کے لیے یہ سب کیا تھا۔ لوگ میری
337
سننے کے لیے تیار ہی نہ تھے۔ دوکان دار جو فروخت کے معاملہ میں کئی زبانیں رکھتا تھا‘ کی اونچی اونچی یاوہ گوئی پر توجہ کر رہے تھے۔ کسی کو یہ کہنے کی توفیق نہ ہوئی کہ یار وہ تو ٹھیک‘ حق اور معاشی توازن کی بات کر رہا ہے۔ ہر کوئی مجھ پر ہنس رہا تھا میرا ہی مذاق اڑا رہا تھا۔ اس واقعے کے بعد مجھ پر کھل گیا کہ حق سچ کے لیے لڑنا میرے بس کا روگ نہیں یہ منصور سے لوگوں کا ہی کام ہے۔ وہ دن جائے اور آج کا آئے میں نے بھی اوروں کی طرح معامالت کو اپنی ذات تک محدود کر لیا ہے۔ لوگ آج بھی مجھے دیکھ کر ہنس پڑتے ہیں۔ ان کا ہنسنا مجھے اب ذات کے خول سے باہر نہیں ہی دیتا۔
338
ہزار کا نوٹ منسانہ جیب خالی ہونے کے سبب اور تو اور‘ میرے اپنے بچے اور ان کی ماں‘ جن کے لیے میں دن رات جیا اور زندگی کی مشقت اٹھاتا رہا۔ ان کی خوش حالی اور بہبود کے لیے میری سوچیں‘ خون پسینے میں نہاتی رہیں‘ پیار تو بہت دور کی بات‘ ٹوٹ ٹوٹ پڑتے تھے۔ وہ مجھے الیعنی اور بےکار کا بوجھ سجھتے تھے۔ دنیا چاری کے تحت دو وقت کی بچی کچی چار و ناچار مہیا کر رہے تھے۔ گھر کے ہر چھوٹے بڑے کے منہ یہ ہی رہتا‘ تم نے ہمارے لیے کیا ہی کیا ہے۔ حاالں کہ میں نے زندگی کا ہر لمحہ ان کے لیے گزرا تھا۔ بچے اسی عمل سے گزر رہے تھے‘ لیکن انہیں کبھی بھی یاد نہ آیا کہ ابا بھی ان مراحل سے گزرا ہو گا۔ مجھے دو روپیے دیتے ہوئے‘ ان پر غشی کی سی کیفیت طاری ہو جاتی۔ میرا لنگوٹیا کرم الہی کمائی کے لیے والیت گیا ہوا تھا۔ ایک عرصہ بعد واپس لوٹا۔ ایک روز مجھے ملنے آ گیا۔
339
میرے گھر والوں نے اس کی بڑی عزت کی۔ اس کے باوجود اس نے نوٹ کیا کہ جیب کے بےوفائی نے مجھے گلی کے کتے سے بھی بدتر کر دیا ہے۔ میں نے اس سے ان لوگوں کی کوئی شکایت نہ کی تھی۔ ان کے میرے ساتھ رویے اور لباس کی عسرت نے اس پر سب کچھ کھول دیا۔ اس نے چلتے ہوئے ہزار کا نوٹ ۔۔۔۔۔ یقین مانیں ہزار کا نوٹ‘ میری مٹھی میں بند کر دیا اور آنکھوں آنکھوں میں کہہ دیا :احتیاط سے خود پر خرچ کرتے رہو‘ دیر تک چلے گا۔ میری آنکھیں تشکر سے لبریز ہو گیئں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ اس سے میرا کوئی خون رشتہ نہ تھا۔ بیس پچیس سال پہلے کی سالم دعا تھی۔ بےشک یہ بہت بڑے جگرے کی بات تھی۔ میری جیب کی ہریالی جانے گھر والوں پر کس طرح کھل گئی کہ وہ ہی گھر والے مجھے ہاتھوں پر اٹھائے پھرتے تھے۔ بڑے لڑکے نے اپنا تقریبا نیا جوڑا مجھے دے دیا۔ گھر والی میری چائے پانی کا خیال کرنے لگی۔ میمو ٹھگنی کی طرح شہد سے بڑھ کر میٹھی ہو گئی۔ میں ان کی ان اداؤں کو سمجھ رہا تھا۔ میں نے انہیں اپنا پلو نہ پکڑایا اور گانٹھ کا پکا رہا۔
340
گاؤں میں ہزار کا کھال مل جانا ممکن نہ تھا۔ سوچا کرم الہی ہی سے کہتا ہوں کہ اس کا کھال کروا دو۔ پھر سوچ گزرا کہیں اتنا بڑا نوٹ اس کی نیت ہی خراب نہ کر دے۔ میں نے چار کوس کا سفر طے کرنا مناسب جانا۔ بازار آ کر کھال کروایا اور کھلے پر گرفت کرکے اکیلے میں اسے گنا تو اس میں سے بیس کم تھے۔ مجھے بڑا افسوس ہوا کہ شحص کے اندر بددیانتی کس طرح گھر کیے ہوئے ہے۔ اب وہ ہزار کا نوٹ نہیں نو سو اسی تھے۔ پھر مجھے خود اپنے اندر کی بددیانتی کا احساس ہوا کہ یار بال مانگے دینے واال واپس کیوں لے گا ،کیسے ہیں ہم لوگ جو اوروں پر تو انگلی رکھتے ہیں لیکن اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے۔ شاید مفلسی و ناداری شخص کے سوچ کو گھٹیا بنا دیتی ہے۔ میں ان میں سے تھوڑے تھوڑے کرکے استعمال میں التا رہا۔ ایک دن گنتی کی تو معلوم ہوا کہ وہ سات سو اسی روپیے تھے۔ میں دیر تک غور کرتا رہا کہ ہزار کے نوٹ کی یہ اوقات ہے کہ اپنی حالت برقرار نہیں رکھ سکا۔ اس ہزار کے لیے سب میری عزت کر رہے تھے اور اس کے نہ ہونے کے سبب مجھے کتے سے بھی برتر سمجھ رہے
341
تھے۔ میں نے بقیہ رقم رشتے سے بڑھ کر نوٹ کی عزت کرنے والوں میں تقسیم کر دی اور خود مسجد میں ظہر کی نماز ادا کرنے چال گیا۔ میں نے سوچا جو ہللا ماں کے پیٹ میں رزق فراہم کرتا مجھے کرتا ہی رہے گا۔ ہللا کو بھول کر نوٹ کے پجاریوں کی گرہ پر کیوں اعتماد کروں۔ اس بات کو دو سال ہو گئے ہیں یقین مانیں کبھی فاقہ سے نہیں سویا۔ کہیں ناکہیں سے میسر آ ہی رہا ہے۔
342
پتنائی مہاورہ منسانہ کچھ بھی جو مہارت میں آ جائے اس کا روایت بن جانا فطری سی بات ہوتی ہے۔ روایت ایک شخص تک محدود نہیں رہتی۔ ایک سے دوسرا دوسرے سے تیسرا اور پھر اس کا سماج گیر ہو جانا اور اگلی نسلوں کو منتقل ہونا فطری عمل ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مختلف امرجہ میں اس کی ہیتی اور معنوی صورت بدل جاتی ہے۔ آتے وقتوں میں بھی وہ رواج میں رہتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ ویسا نہیں رہ پاتا جیسا ابتدا میں تھا۔ تکیہ ء کالم بھی اگر رواج میں آ جائے تو اسے محاورے- مہاورے کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح الگ سے کہی ہوئی بات بھی مہاورہ بن جاتی ہے یا بن سکتی ہے‘ جیسے کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک
343
زلف کا سر ہونا :مہاورہ نہیں غالب کی اختراع ہے لیکن اسے مہاورے کا درجہ حاصل ہو چکا ہے۔ یہ ہی صورت ایجادات و تخلیقات کی ہے۔ مارکونی کا ریڈیو کہاں سے کہاں تک جا پہنچا۔ آج اس کے بانی کا کوئی نام تک نہیں جانتا یا مار کونی کسی کو یاد تک نہیں۔ داستانی ادب میں دیکھیے کس طرح سے تبدیلی آئی۔ ناول افسانہ منی افسانہ نظمانہ منظومہ منسانہ شغالنہ وغیرہ اسی کی ترقی یافتہ صورتیں ہیں۔ ہائے میں مر جاں‘ ماں صدقے جائے‘ کتی دیا پترا وغیرہ صدیوں سے چلے آتے‘ زنانہ مہاورے ہیں۔ کتی دیا پترا کو گلی میں مختلف اشکال ملی ہیں۔ ہاں البتہ باقی دو محض شخصی اور تقریبا ہر ماں خاتون کے تکیہءکالم تک محدود رہے ہیں۔ بھاگ پری بچوں کے حوالہ سے اس قسم کی بولیاں بولتی چلی آتی ہے۔ ایک دن مجھے خیال گزرا گلی میں خاتونی تکیہ کالم کو گھر میں بھی رواج دیا جائے۔ میں تاڑ میں رہا کہ کب لڑکا یا لڑکی کوئی شرارت کرتی ہے تو اسے کتی دیا پترا یا کتی دیئے دھیے کہتا ہوں۔ ایک بار بال
344
ردعمل معاملہ ہو گیا تو اسے تکیہءکالم بنانا چنداں مشکل نہ ہو گا۔ میری خواہش تھی کہ لڑکا ہی ٹارگٹ میں آئے کیوں کہ میں نے اپنی بچیوں کو کبھی کچھ نہیں کہا۔ پتا نہیں کیسا نصیبا ہو۔ ماں باپ کے گھر میں ہی سکھ سکون ملتا آیا ہے۔ میری خواہش پوری ہوئی منجھال ہی گرفت میں آیا اور خاتونی مہاورے کے گھر میں رواج پانے کی خواہش کا تلخ تجربہ ہوا۔ وہ شرارتیں کرتا ہوا اچھل کود رہا تھا کہ گر گیا۔ بری چوٹ آئی۔ میں پھرتی سے اٹھا۔ خیال گزرا موقع ہے مہاورہ آزمایا اور اس کا ردعمل دیکھا جائے۔ میں نے اٹھتے ہی اسے کتی دیا پترا دیکھتے نہیں ہو چوٹ آ گئی ہے‘ کہا۔ یقین مانیے میں نے چور آنکھ سے بھی بھاگ پری کی طرف نہ دیکھا۔ جب کوئی بچہ گر جاتا اس کا بھی ردعمل یہ ہی ہوتا تھا۔ میں نے کوئی الگ سے نہ کیا تھا۔ بچہ برابر روئے جا رہا تھا۔ اس کو پوچھنے اور دیکھنے کی بجائے مجھ پر برس پڑی کہ اب میں کتی ہو گئی ہوں۔ میں ہی زیادہ بولتی ہوں۔ تمہارا ماں کم بولتی ہے۔ تمہاری بہن کی تو گز پھر زبان ہے۔ انہیں تو تم نے کبھی کتی نہیں کہا۔ دیر تک بالتھکان
345
بولتی رہی اور میں بھ بھیڑ بنا بیٹھا رہا۔ کچھ میں بھی کہتا تو سارا دن بنے تھا۔ پھر اس نے برقعہ اوڑھا اور میکے جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ میں نے بڑی منت سماجت کی لیکن وہ نہ مانی۔ آخر وہ جا کر رہی۔ آج اس کو گئے بیس دن ہو گئے ہیں۔ دو بار لینے گیا ہوں لیکن وہ نہ آئی۔ اب صبح سویرے اٹھتا ہوں بچوں کو اسکول کے لیے تیار کرتا ہوں۔ انہیں رخصت کرکے دوکان پر بیٹھ جاتا ہوں۔ بچے اسکول سے سیدھے دوکان پر آ جاتے ہیں۔ انہیں لے کر گھر آ جاتا ہوں۔ ان کے ناشتے پانی کا بندوبست کرتا ہوں۔ گویا بھاگ پری کی ذمہ داری بھی اچھی بری مجھے ہی نبھانا پڑ رہی ہے۔ ایک بار اس نے کہا تھا میں چلی گئی تو ہی تمہیں میری قدر پڑے گی۔ اس کے جانے سے میری جیب اور کان سکھی ہیں لیکن لیبر کے اضافے نے تھوڑا نہیں کافی پریشان کر رکھا ہے۔ اس تجربے کی بنا پر میں یہ کہتا ہوں کہ پتنائی مہاورے کو گھر میں رواج دینے کی بجائے ان کا پتنی تک محدود رہنا ہی گھریلو لیبریائی حیات سے بچا سکتا ہے۔
346
سوچا تھا اگر برداشت کر گئی تو اس کے بولنے پر یا دن بھر کی تھکن ان مہاوروں کے استعمال سے کچھ ناکچھ تو کم کرنے میں آسانی ہو جائے گی۔ یہ بھی ایک طرح سے میری تھکن اور غصے کا کتھارس-انشراع ہوتا۔ مگر ایسی قسمت کہاں کہ میری خواہش کو بھی تکمیل کا مزا مل جاتا۔ اب مجھے کیا پتا تھا کہ میں دانستہ اپنے کلہاڑی مار رہا ہوں۔ اس کا عمل کتنا دوہرا تھا کہ اپنے ہی عمومی کہے گئے کے دہرانے کو گل سے لل ١بنانے پر اتر آئی تھی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گل بات ١- لل لیال سے‘ داستان کہانی -پھیالؤ
347
کچھ ہی دور لوکانہ کرداری اعتبار سے بالشبہ وہ بےمثال تھی۔ اب تو وہ ادھ کھڑ تھی لیکن جوانی میں بھی کبھی کسی نے اس کے متعلق کوئی غلط بات نہ سنی تھی۔ جوان تھی خوب صورت تھی ہر لباس اس پر جچ جاتا تھا۔ ناز نخرا ادائیں سب کچھ تھا لیکن کسی کو اس کی جانب نظر اٹھانے کی جرآت نہ ہوتی تھی۔ برے کا اس کی قبر تک پیچھا کرتی تھی۔ غصہ کی اس وقت بھی سور ١تھی۔ اب تو خیر تجربہ کار تھی۔ منٹ سکنٹ میں الل پیلی ہو جاتی۔ میاں اور اس کے رشتہ دار ایک طرف ہم سایہ کی عورتیں بھی اس کے سامنے کسکتی نہ تھی۔ میدان کی بڑی بڑی یودھا اس کے سامنے ڈھیر ہو جاتی تھیں۔ کوئی مان نہیں سکتا تھا کہ وہ بھی مر جائے گی۔ اس کا سامنا کرتے موت کا فرشتہ بھی کانپ کانپ جائے گا۔ بڑی حیرت کی بات تھی کہ موت کا فرشتہ اس کی جان لے ہی گیا۔ اچھی بھلی تھی۔ باتیں کر رہی تھی۔ صبح ہی اس نے
348
خاتون میدان خالہ کرامتے کی بس بس کرا دی تھی۔ سارا دن یہ ہی موضوع زیر گفت گو رہا۔ سب حیران تھے کہ اس نے خالہ کرامتے کو بھی میدان میں چت کر دیا۔ زہے افسوس موت کا فرشتہ میدان مر گیا۔ یہ ایک کرشمہ تھا جو ہو گیا۔ اس کا سفر آخرت شروع ہوا۔ جنازہ میں توقع سے زیادہ لوگ شامل تھے۔ ہر کسی کے منہ سے اس کے لیے اچھا ہی کلمہ نکل رہا۔ اس کے کردار کی ہر کسی کے منہ میں ستائش تھی۔ جنازے کی روانگی میں حسب روایت بڑی سرعت تھی۔ اچانک ارتھی کھمبے سے تکرائی۔ کندھا دینے والوں نے نیچے تو نہ گرنے دی لیکن ایک اچھا خاصا جھٹکا ضرور لگا کہ میت کا انجر پنجر ہل گیا۔ میت اٹھ کر بیٹھ گئی۔ سب حیرت میں ڈوب گئے کہ موت کی تصدیق تو ڈاکٹر نے بھی کر دی تھی۔ عالم برزخ تک جاتے دھائی کے یدھ ہوئے ہوں گے۔ وہ سب کو پچھاڑ کر واپس لوٹ آئی تھی۔ بڑے بڑے وجیتا رہے ہوں گے لیکن اس سا وجئی شاید ہی کوئی رہا ہو گا۔ اب وہ پہلے سی نہ تھی۔ کوئی کچھ کہتا تو زیادہ تر خاموش رہتی۔ پہلے کی طرح مرنے مارنے پر نہ اترتی۔ یہ
349
بہت بڑی تبدیلی تھی۔ اس کی اس تبدیلی پر سب حیران تھے۔ اس سے جب کوئی اس عارضی موت کے متعلق پوچھتا تو وہ منہ کھولنے سے زیادہ کچھ نہ کر پاتی۔ خدائی راز ہوں گے جو کہے نہ جا سکتے ہوں گے۔ اس حادثے کے بعد وہ چار سال زندہ رہی۔ نماز روزہ کی پابند ہو گئی۔ اچھے منہ بولتی ہاں البتہ کام کاج سے موڑ گئی۔ سارا دن بیٹھی رہتی گویا پکی پکائی کی طالب ہو گئی۔ پہلے اس کی زبان سے گھر اور باہر کے چالو تھے۔ اب باہر کسی خاتون کو اس سے کوئی شکایت نہ تھی ہاں گھر کے لوگ اس کے نکمےپن سے اکتا اور تھک سے گئے تھے۔ وہ ان کے لیے الیعنی سی ہو گئی تھی۔ پھر ایک دن ہللا کو پیاری ہو گئی۔ محلہ کے لوگ ان کے ہاں بڑھے چلے آئے۔ گھر کے لوگ پہلی مرتبہ کی طرح جعلی رونا دھونا کر رہے تھے۔ آخر آخری آرام گاہ کی طرف سفر شروع ہو گیا۔ ہر کوئی جانتا تھا کہ اب وہ موت کے فرشتے سے جنگ نہیں کرے گی۔ اب اس کی واپسی نہیں ہو سکے گی۔ کھبے سے کچھ ہی دور سے اس کے :خاوند نے چالنا شروع کر دیا
350
پہا جی کھمبا بچا کے ۔۔۔۔ پہا جی کھمبا بچا کے۔۔۔۔۔ پہا جی کھمبا بچا کے کھمبا خیر خیریت سے گزرا تو اس کی زبان منہ میں پڑی۔ یہ بات سب کے لیے حیرت کی تھی کی اب وہ یدھا نہ رہی تھی۔ وہ پہلے کی سی تھی ہی نہیں پھر اس کا خاوند کیوں مسلسل چالئے جا رہا تھا پہا جی کمبا بچا کے۔ شاید اسے اب بھی شک تھا کہ مرنے والی کا اس موقع پر پرانا جوش و جذبہ بیدار نہ ہو جائے۔ اسے آسودہءخاک ہوئے آج ایک عرصہ ہو گیا ہے لیکن لوگ اس واقعہ کو اب تک نہیں بھال سکے۔ کبھی کبھار اس واقعہ کا ذکر کہیں ناکہیں ہو ہی جاتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زبردست‘ بہادر ١-
351
ضروری نہیں بادشاہ لوگ برے نہیں ہوتے۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے شاید ہی کوئی بادشاہ برا رہا ہوگا۔ چمچے‘ کڑچھے‘ گماشتے‘ خوشامدی وغیرہ تو الگ رہے‘ مورکھ بھی ان کے گن گاتا چال آ رہا ہے۔ وہ وہ کارنامے ان کے نام کر دیے گیے ہیں‘ جو ان کے فرشتوں تک کو علم نہیں رہا ہو گا۔ ان کی دیا و کرپا ایک طرف‘ زنجیر عدل کے ڈھنڈورے پیٹنے میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ حاالں کہ عدل و انصاف کا ان سے کبھی کوئی تعلق اور واسطہ ہی نہیں رہا تھا۔ چوری خور مورکھ کے لفظوں نے آتے وقت کے لوگوں کو گم راہ کیا ہے۔ ان کی کرتوتوں سے نفرت کی بجائے‘ آتی نسل کی جذباتی وابستگی محبت اور عقیدتوں کو چھوتی نظر آتی ہے۔ ان کے تعمیر کیے گیے محلوں‘ عشرت کدوں اور ایسی بہت سی لغویات کو تحسین کی نظروں سے دیکھا گیا ہے۔ کبھی کسی نے ان پر انگلی نہیں رکھی کہ یہ سب کن کی کمائی سے بنایا گیا۔ انگلی رکھنے والے کی جذبات میں آ
352
کر انگلی کاٹی جاتی رہی ہے‘ جیسے کسی نبی یا بزرگ کی شان میں گستاخی کر دی گئی ہو۔ کیا شاہ نے گلیوں میں گول گپے بیچ کر سب بنایا تھا یا وہ کسی سیٹھ کے ہاں مزدوری کرتا رہا تھا۔ عوام کی مشقت کی کمائی جو ان کی بہبود کے نام پر حاصل کی گئی‘ اپنی عیش کوشی پر صرف کی۔ ان پہلووں پر کبھی کسی نے سوچنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی۔ اس روز بوبا اور اس کی بیوی اچھے اور رومانی موڈ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کی بیوی نے بڑے نخرے اور الڈ میں آ کر کہا :شاہ جہاں نے اپنی بیوی کے لیے تاج محل بنایا تھا اور آج وہ دنیا جہاں کے لیے محبت کی خوب صورت نشانی ہے۔ دور دور سے لوگ اسے دیکھنے آتے ہیں۔ کیا تم بھی میرے مرنے کے بعد میرے لیے تاج محل بناؤ گے۔ بوبے نے یہ کہنے کی بجائے کہ وہ بادشاہ نہیں ایک مزدور ہے۔ دوسرا اس کی کمائی لوٹ کی نہیں۔ یہ بھی کہ تم ملکہ نہیں ہو جو ملکہ ماں کا نام دے کر لوگوں سے چندہ اکٹھا کر لے گا۔
353
بوبے نے بھی پررومان انداز میں کہا :میں نے پالٹ خرید لیا ہے بس اب دیر تمہاری طرف سے ہے۔ اس کی کہنی اندر کی نہ تھی۔ اس نے ڈیڑھ مرلے کا پالٹ نیچے دکان اور اوپر اپنی محبوبہ چھما کے ساتھ رہائش کے لیے خرید کیا تھا۔ ضروری نہیں کہنی اندر کی پر استوار ہو۔ بیوی بھی خوش اور اندر کی کا اظہار بھی ہو گیا۔ ہونی کا اندر کی پر استوار ہونا ضروری نہیں۔ ہونی اپنی مرضی کی مالک ہوتی ہے۔ بوبا بازار سے آ رہا تھا کہ کھتوتی ریڑھی سے ٹکرا کر سر کے بل گرا اور گرتے ہی تھاں پر ٹکی ہو گیا۔ اس کی موت پر شنو نے رونے دھونے کا خوب ڈراما رچایا کہ زمانہ اس کی محبت پرعش عش کر اٹھا۔ یہ الگ بات ہے کہ ادھر عدت پوری ہوئی ادھر اس نے اپنے بچپن کے سنگی سے نکاح کر لیا۔ ان دنوں اس ڈیڑھ مرلہ پر بوبے کے سالے کا دھکے شاہی قبضہ ہے۔ شنو کا سنگی ہاتھ ملتا پھرتا ہے کہ جس زمین کے لیے اس نے شنو فٹ فٹی سے شادی کی تھی وہ
354
ہاتھ نہ آئی اور پلے میں یہ سیکنڈ ہینڈ شنو فٹ فٹی ہی رہ گئی ہے۔ اس حمام میں منسانہ محلہ کے اکلوتے عطائی ڈاکٹر کے پاس‘ میرے اکیلے کا ہی نہیں‘ سب کا آنا جانا رہتا ہے۔ کافی تجربہ کار ہو گیا ہے۔ دوسری سب سے بڑی بات یہ کہ کچھ ناکچھ مدد مل جاتی ہے اور چمڑی برقرار رہتی ہے۔ تسلی کی بات یہ کہ بڑے ڈاکٹروں کی طرح مکمل چیک اپ کرتا ہے لیکن چیک اپ کروائی نہیں لیتا اور ناہی ٹستوں کے چکروں میں ڈالتا ہے۔ بڑے ڈاکٹر چیک اپ کم ٹسٹ زیادہ لکھتے ہیں۔ اس روز سے سمجھو اجاڑہ شروع ہو جاتا ہے۔ ان کے اپنے ٹسٹ کدے موجود ہوتے ہیں۔ اگر باہر سے کروائیں تو وہاں ان کا بھی فی صد مقرر ہوتا ہے۔ ایک کا رزلٹ دوسرے سے قطعی الگ تر ہوتا ہے۔ کبھی ایک اور کبھی کبھی ایک ساتھ تین چار بیماریاں گھیر لیتی ہیں۔ مجال ہے جو اس کے ماتھے پر کبھی کوئی
355
تریلی آئی ہو۔ بڑی تسلی سے دوائی دینے کے ساتھ ساتھ ہم دردی کا اظہار بھی کرتا ہے۔ آدھی بیماری تو اس کے حسن سلوک ہی سے کٹ جاتی ہے۔ اس کی دواگاہ پر جاتے ہوئے کئی سال بیت گیے ہیں۔ ایک ساتھ دو دو چار چار بیماریاں الحق ہوئی ہیں۔ ہللا نے شفا بھی دی۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نیت کا کھوتا١ نہیں۔ اسے ضرورت بھر ہللا رزق دیے جا رہا ہے اسی لیے مریض کی شفا کی خواہش کرتا ہے۔ مریض کی دیر تک آنیاں جانیاں اسے خوش نہیں آتیں۔ اگر کوئی تین چار بار ایک ہی بیماری کے لیے آتا ہے تو پریشان ہو جاتا ہے‘ ہاں کسی دوسری بیماری کے لیے آتا ہے تو سو بسم ہللا ہزار بار آئے کوئی بات نہیں۔ یہ تو خوش گوار چیز ہوتی ہے۔ اسی بہانے مالقات ہو جاتی ہے‘ دوا دارو کا کام بھی چلتا رہتا ہے۔ کھرک کو میں نے ہمیشہ خوش گوار اور پرلطف بیماری سمجھا ہے لیکن یہ اس بار ایسی جگہ الحق ہوئی جہاں سماجی سطع پر متواتر کھرکے جانا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ گھر میں بہو بیٹیاں ہیں۔ بڑی ہی حیا آتی تھی۔ مجبورا مجھے دوا کے لیے جانا پڑا۔ میں نے ڈاکٹر سے براہ
356
راست حقیقت کہہ دی۔ دریں اثنا ایک اور صاحب آ گئے اور انہوں نے کھرک کو الرجی کا نام دیتے ہوئے دوا طلب کی۔ اب میں کچھ ٹھیک سے نہیں کہہ سکتا کہ انہیں کہاں کھرک پڑی ہوئی تھی۔ میرے منہ سے بےساختہ نکل گیا: یا ہللا تیرا الکھ الکھ شکر ہے۔ میں نے بقیہ جملہ کہ میں اس حمام میں اکیال ہی نہیں ہوں‘ کو پس زبان ہی رکھا۔ انہوں نے کھا جانے کے انداز کی گھرکی سے میری جانب دیکھا۔ ڈاکٹر نے بھی بڑی سنجیدگی سے میری طرف دیکھا۔ میں نے خطرہ محسوس کر لیا کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے‘ تاہم میرے لیے یہ کوئی غیرمتوقع ردعمل نہ تھا۔ میں جانتا تھا کہ کیا ردعمل ہو سکتا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ مجھے ایک دو جڑ دیتے‘ میں نے ان کی جانب دیکھتے ہوئے کہا :محتاجی بری بال ہے۔ ہللا اپنے پاؤں پر ہی رکھے۔ آج کل تو سگی اوالد تک نہیں پوچھتی۔ غیر کو کیا پڑی جو دکھ میں ساتھ دیتا پھرے۔ ہللا کا شکر ہے جو اپنے پاؤں پر چل رہے ہیں۔ میں نے احتیاطا ان کی ہاں بھی ملوائی تا کہ تلخی کے ختم ہونے کا یقین ہو جائے۔ انہوں نے میری ہاں میں ہاں
357
مالئی‘ اس کے باوجود کسی ناگواری کی صورت سے بچنے کے لیے‘ ڈاکٹر نے انہیں پہلے فارغ کر دیا حاالں کہ پہلے میں آیا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کتابت کی غلطی ہے ٹ کی بجائے ت درج ہو گیا ہے۔
358
صرف اور صرف لوکانہ ایک خوشامدی نے بادشاہ سے کہا :حضور آپ کی کیا بات ہے۔ آپ سا نہ کوئی ہوا ہے اور نہ کبھی کوئی ہوگا۔ آپ کی بڑی لمبی عمر ہے اور آپ تا دیر سالمت رہیں گے۔ جب کوئی نہیں ہو گا تب بھی آپ کی بادشاہت قائم ہو گی۔ دریا کی منہ زور لہریں بھی آپ کے حکم کی تابع ہیں اور تابع رہیں گی۔ وہ بھی آپ کے حکم کے بغیر حرکت میں نہیں آتیں۔ خوش آمدی کے کہے نے بادشاہ کی روح کو سکون دیا اور دل تر وتازہ کر دیا۔ اس نے بہت سی اشرفیاں اس کی آغوش میں ڈال دیں۔ بادشاہ نے پاس کھڑے گماشتے سے کہا۔ رملی کو بلواؤ۔ اس نے فورا سے پہلے ایلچی کو حکم دیا کہ رملی کو شاہی دربار میں حاضر کیا جائے۔
359
وہ تیر کی طرح اڑتا ہوا رملی کو بالنے چال گیا۔ دریں اثنا بادشاہ نے جی حضوریے سے کہا کہ ہمارا تخت فوری طور پر دریا کے کنارے لگوایا جائے۔ جی حضوریہ بادشاہ کے حکم کی تعمیل میں جٹ گیا۔ رملی آ گیا۔ بادشاہ نے کہا کہ ہمارے اس کارندے نے کہا ہے کہ ہم تادیر جیئں گے۔ جب کچھ بھی نہیں ہو گا اس وقت بھی ہماری بادشاہت قائم ہو گی۔ بتاؤ اس کا کہنا کہاں تک درست ہے۔ رملی تھوڑی دیر تک حساب کتاب لگاتا رہا۔ وہ جانتا تھا کہ بادشاہ سچ اور حق کی سننے کے عادی نہیں ہوتے۔ حق سچ کی کہنے والے ہمیشہ جان سے گیے ہیں۔ اگر اس نے بھی آج حق سچ کی کہی تو جان سے جائے گا۔ خوشامدی انعام و اکرام لے کر گیا ہے اور وہ اپنے قدموں واپس گھر نہ جا سکے گا۔ پھر اس نے جعلی خوش خبری لبریز خوشی کے ساتھ اس خبر کی تصدیق کر دی۔ یہ ہی نہیں اس نے پان سات جملے اپنے پاس سے بھی جڑ دیئے۔
360
رملی کی باتوں نے بادشاہ کو خوش کر دیا ہاں البتہ خوش آمدی پر ناراض ہوا کہ اس نے ساری باتیں کیوں نہیں بتائیں۔ اسی دوران حکم شاہی کی تعمیل میں بادشاہ کا تخت دریا کنارے آراستہ کر دیا گیا۔ بادشاہ چیلوں‘ چمٹوں‘ گماشتوں‘ خوش آمدیوں وغیرہ کے ساتھ دریا کنارے لگے تخت پر آ بیٹھا۔ سرد اور رومان خیز ہوا نے اسے بہت لطف دیا۔ بادشاہ نے ماحول اور فضا کی تعریف کی اور آئندہ سے دریا کنارے تخت آراستہ کرنے کا حکم دیا۔ کسی کو اصل حقیقت کہنے کی جرآت نہ ہوئی۔ بادشاہ خوش آمدیوں کی خوش آمد سننے میں مگن تھا کہ دریا کی ایک منہ زور لہر آئی سب کچھ بہا کر لے گئی۔ بادشاہ کی ٹانگیں اوپر اور سر نیچے ہو گیا۔ بادشاہ کا تخت بہتا ہوا جانے کہاں چال گیا اور وہ خود بہتا ہوا اپنی سلطنت کی حدوں بہت دور نکل گیا۔ دیکھا وہاں ویرانیوں کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ کسے حکم جاری کرتا کہ اسے اس کے قدموں پر کرے۔ ہاں ہللا کے حکم کی تعمیل میں موت کا فرشتہ اس کے سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا اور چند لمحوں کی مہلت دینے کے لیے بھی تیار نہ تھا۔
361
رملی سیانا تھا تب ہی تو خبر کی تصدیق اور اپنے جھوٹ کا انعام لے کر چپکے سے دربار سے کھسک گیا تھا۔ دریا کی ایک لہر نے ثابت کر دیا کچھ باقی رہنے کے لیے نہیں ہے۔ بقا صرف اور صرف ہللا ہی کی ذات کے لیے ہے۔
362
نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن منسانہ کسی کے معاملے میں یوں ہی ٹانگ اڑانا بال طلب مشورہ دینا یا ذاتی معامالت میں دخل اندازی مجھے اچھی نہیں لگتی۔ ہاں کسی برائی سے روکنا مجھے کبھی برا نہیں لگا۔ کوئی غصہ کرتا ہے تو کرتا رہے‘ میں نےکبھی اس کی پرواہ نہیں کی۔ اچھائی کے زمرے میں‘ میں کسی کمپرومائز کا قائل نہیں۔ برائی کو ہر حال میں برائی ہی کہا جانا چاہیے۔ برائی کی تائید یا خاموشی بہت بڑے سماجی نقصان کا موجب ہو سکتی ہے۔ میں کسی کے کیا اپنی اوالد کے ذاتی گھریلو معامالت میں دخل اندازی کا قائل نہیں۔ ہاں البتہ مشورہ طلب کرنے کی صورت میں بڑی دیانت داری سے دو ٹوک اور بال لگی لپٹی اپنی رائے کا اظہار کر دیتا ہوں۔ یہ پہال موقع تھا کہ میں نے ڈرتے ڈرتے اور جھجکتے ہوئے اس سے پوچھ ہی لیا کہ وہ گھر میں صرف دو لوگ رہتے ہیں تو پھر اتنا گوشت کیوں لے کر جاتے ہو۔ مہمان بھی کوئی خاص آتے
363
جاتے نہیں دیکھے۔ میری سن کر وہ کھل کھال کر ہنس پڑا اور کہنے لگا۔ میری بیگم صرف گوشت کھانا پسند کرتی ہے۔ گوشت کی مختلف نوعیت کی ڈیشیں بنانے میں مہارت رکھتی ہے۔ وہ سبزی سے چڑتی ہے لیکن میں گوشت پسند نہیں کرتا۔ لیگ پیس تو اس کی من بھاتی کھا جا ہے۔ رات کو آخر سونا بھی ہوتا ہے۔ ابے لیگ پیس اور رات کو سونا بھی ہوتا ہے کوئی میل کھاتی بات نہیں۔ بالکل بےسری سی کہہ گئے ہو جناب بےسری نہیں حقیقت اور میل کھاتی ہوئی بات کی ہے۔ وہ کیسے‘ میں سجھا نہیں جناب مرغ کی ٹانگیں نہیں ال کر دوں گا تو ہو سکتا ہے کہ رات کو اس کا موڈ بن جائے اور اٹھ کر میری ایک یا زیادہ ضرورت کی صورت میں دونوں ہڑپ جائے اور مجھے صبح اٹھ کر پتا چلے۔ ایک ٹانگوں سے جاؤں اوپر سے یہ معنا سنوں‘ تم جیب کے بڑے پکے ہو‘ یہ الگ بات ہے کہ میری کوئی جیب ہی نہیں جیب تو اسی کی ہے۔
364
میں اس کی بات پر ہنسا بھی اور مجھے اس کی کمال کی مبالغہ آرائی نے لطف بھی دیا، اس نے بتایا کہ اس کی زوجہ سرکار نے فقط چار شوق پالے ہیں۔ کھانا‘ لڑنا‘ سونا اور چوتھا ڈیش ڈیش ڈیش۔ ان چاروں میں سے کسی ایک پر کمپرومائز نہیں ہو سکتا۔ لڑائی میں چاردیواری میں مقفل آواز کی قائل نہیں۔ اس کی آواز صور اسرافیل سے مماثل ہوتی ہے۔ گھر کے در و دیوار پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے۔ لفظوں کے پھوٹتے انگارے میرے وجود اور روح کو چھلنی کر رہے ہوتے ہیں جب کہ محلہ لفظوں کی ادائیگی اسلوب اور نشت و برخواست سے لظف اندوز ہو رہا ہوتا ہے۔ وہ ان لمحات میں غلط اور صحیح کو ایک آنکھ سے دیکھ رہی ہوتی ہے۔ اس کے منہ سے نکلتے زہر آلود لفظ‘ لفظ کم حاویہ کے دہکتے انگارے زیادہ ہوتے ہیں جو انا اور ہونے کی حسوں کو تنور کی راکھ میں بدل رہے ہوتے ہیں۔ ان خوف ناک لمحوں میں کانوں میں شائیں شائیں ہوتی ہے اور آنکھوں میں اندھیرا چھا رہا ہوتا ہے۔ اپنی خیر مناتے کوئی بچ بچا کے لیے راہ میں نہیں آتا۔
365
دسمبر کی قلفی بنا دینے والی سردی میں پنکھا فل اسپیڈ پر چال کر استراحت فرماتی ہے۔ سوچتا ہوں جہنم میں گئی تو جہنم کی آگ کا اس پر کیا اثر انداز ہو سکے گی ہاں البتہ اس میں تیزی ضرور آ جائے گی۔ بےچارے جہنمیوں پر مزید قیامت توڑے گی۔ ایک مرتبہ غلطی سے میں سگریٹ ایش ٹرے کی بجائے نیچے پھینک بیٹھا۔ یہ ننگے پاؤں تھی اس کا پاؤں سگریٹ پر آ گیا۔ یوں پٹ پٹ پئی جیسے تنور میں گر گئی ہو۔ میرے ساتھ جو ہوا اس کو چھوڑیے مجھ پر یہ انکشاف ضرور ہوا کہ آگ‘ آگ کو بھی جالتی ہے اور کم زور آگ ازیت کا شکار ہوتی ہے۔ پھر خیال گزرا اگر خدا نخواستہ جنت میں داخل ہو گئی تو وہاں کا ماحول حبسی ہو جائے گا۔ اس بات کو چھوڑیے میرا کیا بنے گا۔ ہر وقت میری بہتر حوروں کو اسٹینڈ ٹو رکھے گی۔ میری ہر چھوٹی موٹی غلطی پر یلغار کا کاشن جاری کرتی رہے گی۔ میں اٹھنا چاہتا تھا کہ یہ حضرت چل سو چل ہو گئے تھے۔ ان کی رام کہانی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ میری کیفیت نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کی سی تھی۔ اٹھتا ہوں
366
تو بد اخالقی بیٹھا رہتا ہوں تو دماغ میں سوراخ ہو رہے تھے۔ پہلے تو میں مداخلت کو غیراخالقی کام سمجھتا تھا لیکن اب معلوم ہوا کہ مداخلت وقت اور دماغ کے زیاں سے زیادہ چیز نہیں۔ میں نے دل ہی دل میں توبہ کی کہ اس کے بعد ایسی غلطی نہیں کروں گا۔ دو حرفی بات کو انہوں نے شیطان کی آنت بنا دیا۔
367
امتیاز لوکانہ تھانے دار جو گھوڑے پر سوار تھا‘ گاؤں میں کسی ضروری تفتیش کے لیے آیا۔ صاف ظاہر ہے اس نے سیدھا لمبڑ کے گھر جانا تھا۔ لمبڑ کے گھر کا اسے اتا پتا نہ تھا۔ اس نے گاؤں میں داخل ہوتے ہی سامنے آتی ایک خاتون سے لمبڑ کے گھر کا پوچھا۔ اس بی بی نے بتایا کہ جو مکان سب سے اونچا پکا اور خوب صورت ہے وہ ہی لمبڑ کا ہے۔ تھانے دار نے ادھر ادھر نظر دوڑائی اسے سب سے اونچا پکا اور خوب صورت مکان نظر آ گیا۔ بی بی گھر آ گئی۔ بہو نے کچھ پوچھا تو اس بی بی نے ناک چڑھا کر منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ اس نے یہ ہی طور بیٹے اور بیٹی سے اختیار کیا۔ شام کو جب تھکا ہارا خاوند گھر آیا تو اس نے اس کے ساتھ بھی یہ ہی انداز اختیار کیا۔ اسے بڑی حیرت ہوئی۔ اس نے بہو سے ماجرہ پوچھا۔ بہو نے جوابا کہا :پتا نہیں کہ بےبے کو کیا ہو گیا ہے صبح ہی سے ایسا کر رہی ہے۔
368
اس نے پہلے پیار سے پوچھا تو وہ اور مچھر گئی۔ اس نے اس کے بعد دو چار چوندی چوندی گالیاں ٹکائیں اورمعاملہ پوچھا۔ گالیاں سن کر وہ ٹھٹھکی اور بولی: تھانےدار سے تو نہیں مل کر آئے ہو۔ اس کا جواب سن کر المحالہ اسے حیرت ہونا ہی تھی۔ اس نے پوچھی گئی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا :تم مجھے چھوڑو اپنے اس انداز کی وجہ بتاؤ۔ بی بی نے جواب دیا :اس منہ سے میں نے تھانےدار سے بات کی تھی اور اب اسی منہ سے کتوں بلوں کے ساتھ بھی بات کروں۔ وہ شخص افسردہ ہو گیا اور چارپائی پر چپ چاپ لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر بعد اٹھا اور اس نے فخریہ قسم کا قہقہ داغا۔ سب اس کے اس طور پر حیران رہ گئے۔ اب کہ تھانےدار کی سابقہ ہم کالم نے تکبر کی گرہ توڑتے ہوئے کہا :بھلیا کیا ہوا‘ پہلے افسردہ ہو گئے تھے اور اب قہقہے لگا رہے ہو۔ پاگل اگر میں تھانےدار سے ہم کالم ہوا ہوتا تو تمہیں دھکے مار کر گھر سے نہ نکال دیتا۔ ہاں اتنا ٍفخر ضرور
369
ہے کہ میں ایسی عورت کا خاوند ہوں جسے تھانےدار سے ہم کالم ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ تمہارے مائی باپ بالشبہ بڑے عظیم ہیں جو انہؤں نے تم ایسی عزت مآب بیٹی کو جنم دیا۔ اٹھو اور تیاری کرو کہ ان عظیم ہستیوں کے چرن چھونے چلیں۔ پھر وہ بہو بیٹی اور بیٹے کو نظر انداز کرتے ہوئے گھر سے باہر نکل گئے۔ اس واقعے کے بعد بہو کا نظرانداز ہو جانا فطری سی بات تھی۔ کہاں وہ تھوڑ پونجوں کی اوالد کہاں یہ تھانےدار سے ہم کالم ہونے والی ماں کی اوالد‘ دونوں خان دانوں میں حاالت نے زمین آسمان کا فرق ڈال دیا تھا۔ بےشک یہ اونچ نیچ کا امتیاز نسلوں کو ورثہ میں منتقل ہو جانا تھا۔ کھوتے کہوڑے کا امتیاز اگر مٹ جائے تو عام اور خاص کی اصطالحیں بےمعنی اور الیعنی سی ہو کر رہ جائیں۔
370
چوتھے کی چوتھی ہمارے گھر سے خالہ کا گھر کوئی بیس پچیس منٹ پیدل فاصلے کا رستہ تھا۔ دونوں گھروں کے مراسم بھی خوش گوار تھے۔ ہم ایک دوسرے کے ہاں بال کسی ٹوک آتے جاتے رہتے تھے۔ دونوں گھروں کا ماحول عادات رویے طور و اطوار معاشی حاالت ایک جیسے تھے۔ مثال میری خالہ‘ خالو کی عزت نہیں کرتی تھی ہماری اماں بھی ابا کی دن میں دو چار بار بےعزتی ضرور کرتی تھی۔ ان کی معاشی حالت درمیانی تھی ہمارا گھرانہ بھی کھاتا پیتا نہ تھا۔ وہ تین بہنیں اور تین بھائی تھے جب کہ تعدادی اعتبار سے ہم بھی اتنے ہی تھے۔ جیا کا گھر میں چوتھا نمبر تھا میرا بھی چوتھا نمبر تھا۔ جیا کے ابا پرلے درجے کے جھوٹے تھے جب کہ سچ میرے ابا کے بھی قریب سے نہ گزرا تھا۔ خالہ دیوار کے اس پار کی ہمسائی سے دو دو گھنٹے کھڑی ہو کر باتیں کرتی تھی۔ میری ماں بھی یہ ہی طور رکھتی تھی۔ گھر میں آئی ہمسائی کے ساتھ گھنٹوں باتیں
371
کر لینے کے بعد بھی اماں دروازے پر آ کر اس سے دیر تک مکالمہ کرتی خالہ بھی اس عادت سے دور نہ تھی۔ کہیں جا رہے ہوتے رستہ میں اگر کوئی مل جاتی اماں اسے گلے ملتی جیسے صدیوں بعد مالقات ہوئی ہو اور پھر وہاں کھڑے ہو کر دیر تک ان کی بیت بازی ہوتی اور ہم سب ان کی باتوں کے اختتام کا انتظار کرتے۔ خالہ بھی اس ملنساری کے طور سے بہرہ ور تھی۔ بجلی کے جانے آنے کے اوقات ایک سے تھے۔ بجلی خراب ہو جاتی تو بالوصولی نہ ادھر نہ ادھر بجلی والے آتے تھے۔ سردیوں میں دونوں طرف گیس کا کرفیو لگ جاتا۔ عمومی اطوار ایک طرف میرے اور جیا کے شخصی اطوار بھی ایک سے تھے مثال بھوک وہ برداشت نہ کرتی تھی بھوک کے معاملہ میں میں بھی بڑا کم زور واقع ہوا تھا۔ لگ پیس اسے خوش آتے تھے لگ پیس میری بھی کم زوری تھی۔ کسی کی جیب سے کھانا ہمیں اچھا لگتا تھا۔ جیا سیر سپاٹے کی بڑی شوقین تھی پھرنا ٹرنا مجھے بھی اچھا لگتا تھا۔ جیا بڑی کام چور تھی اس معاملے میں میں اس سے پیچھے نہ تھا۔
372
عادات اطوار ایک سے ہونے کی وجہ سے میرا خیال تھا کہ ہماری جوڑی خوب جمے گی۔ خالہ منتیں ترلے کروانے کی عادی تھی اسی لیے اڑی ہوئی تھی۔ میری ماں بھی اس کی بری بہن تھی۔ ہر دوسرے ان کے ہاں چلی جاتی۔ خوب بول بالرا کرکے آتی اور ہر بار دوبارہ سے نہ آنے کا کہہ کر چلی آتی۔ آخر خالہ کو ہتھیار ڈالنا پڑے اور ہماری شادی ہو ہی گئی۔ اتنا قریب ہو کر بھی میں جیا کے باطن کو نہ پڑھ سکا‘ شادی کے بعد جیا‘ جیا وہ نہ رہی۔ حد درجہ کی ہٹ دھرم تھی۔ میری ماں کا بول بالرے میں چار سو ڈنکا بجتا تھا لیکن جیا کے سامنے بھیڑ ہو گئی۔ کسکتی بھی نہ تھی۔ ہمہ وقت کی قربت کے بعد معلوم پڑا کہ ہمارا ظاہر ایک سا کنورپن میں ضرور تھا لیکن شادی کے بعد باطن تو باطن‘ ظاہر میں بھی زمین آسمان کا فرق تھا۔ وہ کھانے‘ سونے اور لڑنے میں اپنی مثال آپ تھی۔ ہر اچھی چیز ماں کے گھر بھجوا دیتی اور پھر ہے نا کی گردان پڑھنا شروع کر دیتی۔ ہم میں سے کسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ پہلی کا تذکرہ بھی کر پاتا۔ وہ ہی چیز دوبارہ سے النا پڑتی۔
373
جنسی معامالت میں بھی کچھ کم نہ تھی۔ اسے تو لوہے کا مرد چاہیے تھا۔ ہمارا ظاہر باطن تو ایک ثابت نہ ہوا ہاں البتہ بچوں کے حوالہ سے ہم اپنی ماؤں پر ضرور گئے۔ ہمارے بھی گنتی میں چھے بچے ہوئے۔ مماثلت میں ایک ان ہونی ضرور ہوئی۔ ہمارا چوتھا اپنی خالہ کی بیٹی کا دیوانہ ہو گیا۔ میرے سمجھانے پر بھی نہ سمجھا۔ وہ مجھے کھپتا خیال کرتا تھا۔ اس کی ماں نے میری ماں کا سا کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔ آخر ان کی شادی ہو گئی۔ ہاں البتہ جیا اور چوتھے کی چوتھی میں یہ فرق باقی رہا کہ وہ دس دن بعد ہی ہم سے الگ ہو گئے۔ جیا اپنی خالہ کی بےعزتی کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا خیال بھی رکھتی تھی۔ زندگی بھر ساس سسر کے ہاں ہی رہی۔ یہ تو آدھا مہینہ بھی ہمارے ساتھ نہ رہے۔
374
وہ لفظ کہاں ہے‘ کدھر ہے سرخ ہو کہ سپید سیاہ ہو کہ کاسنی جدید ہو کہ قدیم دوست ہو کہ دشمن کیسا بھی رہا ہو مجھے اس سے کوئی غرض نہیں ہاں مگر سخت ہو مونگے کی طرح نرم ہو ریشم کی طرح بلند ہو ہمالہ ایسا روشن ہو آفتاب ایسا حسین ہو مہتاب ایسا عاشق ہو بالل ایسا
375
عمیق ہو بحر الکاہل ایسا پرواز میں جبریل ایسا سماّعت میں صور اسرافیل ایسا بےکراں‘ چرخ نیل فام ایسا ذات کا کھوجی لہر ایسا گوہر شناس ہو ہنس ایسا بےقرار‘ سیماب ایسا شجاع‘ حیدر کرار ایسا یہ ہی نہیں اپنی ذات میں‘ باکمال ہو الزوال ہو وہ لفظ کہاں ہے‘ کدھر ہے صدیوں سے میں اس کی تالش میں ہوں کہ نوع بشر کو اس کی عظمتوں کا راز کہہ دوں
376
عظمت آدم کا آج پھر چرچا ہو مخلوق فلکی پھر سے تجدید عظمت آدم کرے خدا لم یزل کہہ دے کہتا نہ تھا جو جانتا ہوں میں کب جانتے ہو تم کوئی تو کھوجے‘ کوئی تو تالشے کہ وہ لفظ کہاں ہے‘ کدھر ہے ........... قاضی جرار حسنی فروری ١٩٧٧
377
اچھا نہیں ہوتا منظومہ
ہاں میں موت ناں میں بہن کا گھر اجڑتا تھا برسوں کا بنا کھیل بگڑتا تھا چپ میں کب سکھ تھا چار سو بچھا دکھ تھا زندگی کیا تھی اک وبال تھا بھاگ نکلنے کو نہ کوئی رستہ بچا تھا پہیہ زندگی کا پٹڑی سے اتر رہا تھا زیست کا پاؤں بےبصر دلدل میں گر رہا تھا بےچارگی کا نیا دانت نکل رہا تھا بہنوئی کی آنکھوں میں سکوں کی ہریالی تھی
378
آتی ہر گھڑی اس کے لیے کرماوالی تھی بہن کی آنکھ سے چپ کے آنسو گرتے ماں کی آنکھوں کے حسیں سپنے بےکسی کے قدموں میں بکھرتے کیا کرتا کدھر کو جاتا خود کو بچاتا کہ ماں کے آنسوؤں کے صدقے واری جاتا زہر کا پیالہ مرے رو بہ رو تھا تذبذب کی صلیب پہ لٹکا کے شنی اپنے کارے میں سفل ہوا پیتا تو یہ خود کشی ہوتی ٹھکراتا تو خود پرستی ہوتی پیچھے ہٹوں کہ آگے بڑھوں ہاں نہ کے پل پر بےکسی کی میت اٹھائے کھڑا تھا
379
آگے پیچھے اندھیرا منہ پھاڑے فیصلے کی راہ دیکھ رہا تھا پھر میں آگے بڑھا اور زہر کا پیالہ اٹھا لیا خودکشی حرام سہی کیا کرتا بہن کی بےکسی ماں کے آنسو بےوقار کیوں کرتا ابلیس قہقے لگا رہا تھا نہ پیتا تب بھی اسی کی جیت تھی پھر بھی وہ قہقے لگاتا دوزخی بال نے مرے گھر قدم رکھا گھر کا ہر ذرہ لرز لرز گیا میں بھی موت کے گھاٹ اتر گیا جسے تم دیکھ رہے ہو ہنستی بستی زندگی کا بےکفن الشہ ہے
380
پہلے دو ٹھکانے لگا آئی تھی الشے کو کیوں ٹھکانے لگاتی الشے کا ماس کھا چکی ہے ہڈیاں مگر باقی ہیں بہن الشے کو دیکھ کر روتی ہے ہڈیاں مگر کیا تیاگ کریں آنسوؤں کے قدموں میں کیا دھریں کوئی اس کو جا کر بتائے اللسہ سرحدوں کی کب چیز ہے جہاں تم کھڑی ہو وہ تو فقط اس کی دہلیز ہے کوئی حادثہ ہی تمہیں خاوند کی اللسہ کے جہنم سے باہر الئے گا پھر تمہارا ہر آنسو پچھتاوے کی اگنی میں جلے گا تب تک ہڈیاں بھی یہ دوزخ کی رانی کھا چکی ہوگی
381
راکھ ہو گی نہ کوئی رفتہ کی چنگاری ہو گی تو اللسہ کی آری دکھ کا دریا بہہ رہا ہو گا ہر لمحہ تمہیں کہہ رہا ہو گا حق کی بھی کبھی سوچ لیا کرو لقموں کا دم بھرنا اچھا نہیں ہوتا اچھا نہیں ہوتا
ابوزر برقی کتب خانہ مئی ٢٠١٧
382