ایک سو ایک لوکانے منسانے شغلانے اور منظومے

Page 1

‫‪1‬‬

‫ایک سو ایک‬ ‫لوکانے منسانے شغالنے اور منظومے‬

‫مقصود حسنی‬ ‫ابوزر برقی کتب خانہ‬ ‫فروری ‪٢٠١٧‬‬


‫‪2‬‬

‫فہرست‬ ‫سہ گنیا‬

‫‪١-‬‬

‫اسے معلوم نہ تھا‬ ‫ان دنوں‬

‫‪٣-‬‬

‫آنٹی ثمرین‬

‫‪٤-‬‬

‫انصاف کا قتل‬

‫‪٢-‬‬

‫‪٥-‬‬

‫بےکار کی شرم ساری‬

‫‪٦-‬‬

‫میں مولوی بنوں گا‬

‫‪٧-‬‬

‫ایسا کیوں ہے‬

‫‪٨-‬‬

‫یہ اچھا ہی ہوا‬

‫‪٩-‬‬

‫وہی پرانا چاال‬

‫‪١٠‬‬

‫سدھر جاؤ‬

‫‪١١-‬‬

‫اچھا نہیں ہوتا‬

‫‪١٢-‬‬

‫آئندہ کے لیے‬

‫‪١٣-‬‬

‫منہ سے نکلی‬

‫‪١٤-‬‬


‫‪3‬‬

‫یک مشت‬

‫‪١٥-‬‬

‫دیگچہ تہی دامن تھا‬

‫‪١٦-‬‬

‫حکم عدولی‬

‫‪١٧-‬‬

‫لوگ کیا جانیں‬

‫‪١٨-‬‬

‫چپ کا معاہدہ‬

‫‪١٩-‬‬

‫کالی زبان‬

‫‪٢٠-‬‬

‫فیصلہ‬

‫‪٢١-‬‬

‫قاتل‬

‫‪٢٢-‬‬

‫میں کریک ہوں ‪٢٣-‬‬ ‫ان ہونی‘ ان ہونی نہیں ہوتی ‪٢٤-‬‬ ‫جذبے کی سزا ‪٢٥-‬‬ ‫ہللا بھلی کرے ‪٢٦-‬‬ ‫آخری کوشش ‪٢٧-‬‬ ‫تیسری دفع کا ذکر ہے ‪٢٨-‬‬ ‫انگلی ‪٢٩-‬‬


‫‪4‬‬

‫آخری تبدیلی کوئی نہیں ‪٣٠-‬‬ ‫کھڑ پینچ دی جئے ہو ‪٣١-‬‬ ‫سراپے کی دنیا ‪٣٢-‬‬ ‫میں ہی قاتل ہوں ‪٣٣-‬‬ ‫خیالی پالؤ ‪٣٤-‬‬ ‫تعلیم اور روٹی ‪٣٥-‬‬ ‫بوسیدہ الش ‪٣٦-‬‬ ‫وبال دیکھیے ‪٣٧-‬‬ ‫عصری ضرورت ‪٣٨-‬‬ ‫اماں جیناں ‪٣٩-‬‬ ‫اس کا نام ہدایتا ہی رہا ‪٤٠-‬‬ ‫بھاری پتھر ‪٤١-‬‬ ‫ایسے لوگ کہاں ہیں ‪٤٢-‬‬ ‫واہ مولوی صاحب واہ شغالن ‪٤٣-‬‬ ‫ذات کا خول ‪٤٤-‬‬


‫‪5‬‬

‫ہزار کا نوٹ ‪٤٥-‬‬ ‫پتنائی مہاورہ ‪٤٦-‬‬ ‫کچھ ہی دور ‪٤٧-‬‬ ‫ضروری نہیں ‪٤٨-‬‬ ‫اس حمام میں ‪٤٩-‬‬ ‫صرف اور صرف ‪٥٠-‬‬ ‫نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن ‪٥١-‬‬ ‫سنیئر سیٹیزنز ‪٥٢-‬‬ ‫امتیاز ‪٥٣-‬‬ ‫چوتھے کی چوتھی ‪٥٤-‬‬ ‫منظومے ‪٥٥-‬‬ ‫شاعر اور غزل ‪٥٦-‬‬ ‫ٹیکسالی کے شیشہ میں ‪٥٧-‬‬ ‫کالے سویرے ‪٥٨-‬‬ ‫کیچڑ کا کنول ‪٥٩-‬‬


‫‪6‬‬

‫دو لقمے ‪٦٠-‬‬ ‫آخری خبریں آنے تک ‪٦١-‬‬ ‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا ‪٦٢-‬‬ ‫حیرت تو یہ ہے‪٦٣-‬‬ ‫میں نے دیکھا ‪٦٤-‬‬ ‫کس منہ سے ‪٦٥-‬‬ ‫حیات کے برزخ میں ‪٦٦-‬‬ ‫سورج دوزخی ہو گیا تھا ‪٦٧-‬‬ ‫فیکٹری کا دھواں ‪٦٨-‬‬ ‫مطلع رہیں ‪٦٩-‬‬ ‫امید ہی تو زندگی ہے‪٧٠-‬‬ ‫میٹھی گولی ‪٧١-‬‬ ‫دو بیلوں کی مرضی ہے ‪٧٢-‬‬ ‫ذات کے قیدی ‪٧٣-‬‬ ‫چل' محمد کے در پر چل ‪٧٤-‬‬


‫‪7‬‬

‫عطائیں ہللا کی کب بخیل ہیں ‪٧٥-‬‬ ‫کرپانی فتوی ‪٧٦-‬‬ ‫مقدر ‪٧٧-‬‬ ‫دو بانٹ ‪٧٨-‬‬ ‫دو حرفی بات ‪٧٩-‬‬ ‫سوچ کے گھروندوں میں ‪٨٠-‬‬ ‫کیا یہ کافی نہیں ‪٨١-‬‬ ‫یادوں کی دودھ ندیا ‪٨٢-‬‬ ‫باؤ بہشتی ‪٨٣-‬‬ ‫کوئی کیا جانے ‪٨٤-‬‬ ‫کل کو آتی دفع کا ذکر ہے ‪٨٥-‬‬ ‫کڑکتا نوٹ ‪٨٦-‬‬ ‫اسالم سب کا ہے ‪٨٧-‬‬ ‫ڈنگ ٹپانی ‪٨٨-‬‬ ‫ایک اور اندھیر دیکھیے‪٨٩-‬‬


‫‪8‬‬

‫یہ حرف ‪٩٠-‬‬ ‫عہد کا در وا ہوا ‪٩١-‬‬ ‫مشینی دیو کے خواب ‪٩٢-‬‬ ‫اک مفتا سوال ‪٩٣-‬‬ ‫ریت بت کی شناسائی مانگ ‪٩٤-‬‬ ‫آنکھوں دیکھے موسم ‪٩٥-‬‬ ‫سوال کا جواب ‪٩٦-‬‬ ‫یہ ہی دنیا ہے ‪٩٧-‬‬ ‫مالک کی مرضی ہے ‪٩٨-‬‬ ‫سیاست ‪٩٩-‬‬ ‫وہ لفظ کہاں ہے‘ کدھر ہے ‪١٠٠-‬‬ ‫اچھا نہیں ہوتا ‪١٠١-‬‬


‫‪9‬‬

‫سہ گنیا‬ ‫لوکانہ‬

‫ایک بادشاہ اور اس کا وزیر گشت پر نکلے ہوئے تھے۔ دیکھا‬ ‫ایک درخت کے نیچے ایک ادمی سویا ہوا ہے۔ وزیر نے بادشاہ‬ ‫سے کہا‪ :‬بادشاہ سالمت درخت کے نیچے سویا ہوا آدمی بڑے‬ ‫کام کا ہے۔ وہ دونوں اس شخص کے پاس چلے گئے۔ اسے‬ ‫جگایا اور پوچھا کہ تم کیا کیا ہنر رکھتے ہو۔ اس شخص نے‬ ‫بتایا کہ میں تین گن رکھتا ہوں‪:‬‬ ‫اول‪ -‬میں اصلی اور نقلی ہیرے کی جانچ کر سکتا ہوں۔‬ ‫دوئم‪ -‬مجھے نسلی اور غیرنسلی گھوڑوں کی پہچان ہے۔‬ ‫سوئم‪ -‬مجھے آدمیوں کی پہچان ہے۔‬ ‫بادشاہ اسے اپنے ساتھ لے آیا اور اس کی پانچ روپے ماہانہ‬ ‫تنخواہ مقرر کر دی اور اسے کہا جاؤ ہمارے قرب وجوار میں‬ ‫موج کرو جب تمہاری ضرورت پڑے گی بال لیں گے۔‬ ‫ایک مرتبہ دربار میں ہیروں کا سوداگر آیا۔ بادشاہ کو ہیرے‬ ‫دکھائے۔ بادشاہ کو ایک ہیرا بہت پسند آیا۔ اچانک اسے اپنا سہ‬ ‫گنیا مالزم یاد آ گیا۔ اسے بالیا گیا اور پسند کیے گئے ہیرے کے‬ ‫متعلق پوچھا۔ اس نے وہ خوب صورت ہیرا دیکھا۔ جانچنے کے‬


‫‪10‬‬

‫بعد کہنے لگا یہ ہیرا نقلی ہے اور اس میں ریت بھری ہوئی ہے‬ ‫اور سوداگر سے کہا تم خاک ہیروں کے سوداگر ہو جو اصلی‬ ‫اور نقلی ہیرے کی پہچان نہیں رکھتے۔‬ ‫سوداگر کے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے اور وہ بہت پریشان‬ ‫ہوا۔ حیران تو بادشا بھی ہوا۔ بادشاہ نے سوداگر سے کہا اگر‬ ‫اس شخص کی بات صحیح نکلی تو میں تمہارا سر اڑا دوں گا‬ ‫اگر یہ ہیرا اصلی نکال تو خرید لوں گا۔ پھر اس شخص سے کہا‬ ‫اگر ہیرا درست نکال تو تم جان سے جاؤ گے۔‬ ‫ہیرا توڑا گیا تو ہیرے میں سے ریت برآمد ہوئی۔ بادشاہ اس‬ ‫شخص سے راضی ہوا اور اس کی پانچ روپے تنخواہ برقرار‬ ‫رکھی۔‬ ‫کچھ ہی وقت گزا ہو گا کہ ایک گھوڑوں کا سوداگر آیا۔ اس کے‬ ‫پاس ون سونی نسل کے گھوڑے تھے۔ ان میں سے بادشاہ کو‬ ‫ایک گھوڑا بہت پسند ایا۔ پہچان کے لیے اس شخص کو دوبارہ‬ ‫سے طلب کیا گیا گیا اور اپنی پسند کے گھوڑے کے متعلق‬ ‫دریافت کیا۔‬ ‫اس شخص نے گھوڑے کو دیکھنے کے بعد کہا‪ :‬گھوڑے کے‬ ‫نسلی ہونے میں کوئی شک نہیں لیکن اس کی کمر میں رسولی‬ ‫ہے۔ گھوڑوں کے سوداگر سے کہا تم کیسے گھوڑوں کے‬ ‫سوداگر ہو کہ جانور میں موجود اعضائی نقص سے بےخبر‬


‫‪11‬‬

‫رہتے ہو۔‬ ‫گھوڑوں کے سوداگر کو سخت پریشانی ہوئی۔ اس گھوڑے کے‬ ‫حوالہ سے اسے انعام واکرام ملنے کی امید تھی۔‬ ‫جانوروں کے امراض کے ماہر کو بالیا گیا۔ اس نے گھوڑے کا‬ ‫طبی معائینہ کیا اور کمر میں رسولی ہونے کی تصدیق کر دی۔‬ ‫بادشاہ گھوڑوں کے سوداگر سے سخت خفا ہوا اور اسے دربار‬ ‫سے دھکے دے کر نکال دیا۔ بادشاہ اپنے اس مالزم کی پرکھ‬ ‫پہچان پر بہت راضی ہوا اور اس کی تنخواہ پانچ روپے برقرار‬ ‫رکھی۔‬ ‫ایک دن بادشاہ نے سوچا کیوں نہ تیسری خوبی بھی آزمائی‬ ‫جائے۔ اسے بالیا گیا۔ بادشاہ نے اس سے پوچھا کہ تم میرے‬ ‫بارے میں کیا کہتے ہو کہ میں کون ہوں۔ بادشاہ کو اپنے اعلی‬ ‫نسل ہونے کا یقین تھا اور اس پر فخر و غرور بھی تھا۔ اس‬ ‫شخص نے کافی پس و پیش سے کام لیا لیکن بادشاہ کا اصرار‬ ‫بڑھتا گیا۔ اس شخص نے جان بخشی کی درخواست کی۔ بادشاہ‬ ‫نے جان بخشی کا وعدہ کیا تو اس شخص نے بتایا کہ تم چوڑے‬ ‫کی اوالد ہو۔‬ ‫بادشاہ نے تلوار نیام سے نکالی اور کہا کہ یہ تم کیسے اور کس‬ ‫بنیاد پر کہتے ہو۔ بادشاہ کے ہاتھ میں وعدہ خالفی کے حوالہ‬ ‫سے تلوار دیکھی تو زوردار قہقہ لگا کر کہنے لگا‪ :‬اے بادشاہ‬


‫‪12‬‬

‫میں نے ہیرے کی پرکھ بتائی تم خوش ہوئے لیکن میری تنخواہ‬ ‫پانچ ہی رہنے دی۔ گھوڑے کے متعلق درست بتایا تم خوش‬ ‫ہوئے لیکن میری پانچ روپے ہی رہنے دی۔ اب وعدہ خالفی‬ ‫کرکے تلوار نیام سے نکال رہے ہو۔ جب میں نے بتانے سے‬ ‫انکار کیا تو تمہیں علیدگی میں پوچھنا چاہیے تھا۔ تمہارے کام‬ ‫ہی چوڑوں جیسے ہیں‘ میں نے اسی بنیاد پر تمہیں چوڑے کی‬ ‫اوالد کہا ہے۔ مجھے قتل کرنے سے پہلے اپنی ماں سے جا کر‬ ‫پوچھ کہ تم کس کی اوالد ہو۔‬ ‫بادشاہ غصہ سے ہاتھ میں ننگی تلوار لے کر ماں کی طرف‬ ‫بھاگا۔ اس کی ماں آرام کر رہی تھی۔ اس نے جا کر ماں کو اٹھایا‬ ‫اور کہا سچ بتا کہ میں کس کی اوالد ہوں۔ ماں اس کا یہ رویہ‬ ‫اور تیور دیکھ کر حیران رہ گئی۔ اس نے کہا اپنے باپ کی اوالد‬ ‫ہو اور کس کی ہو۔ پھر بادشاہ نے تلوار لہرائی اور کہا سچ سچ‬ ‫بتاؤ کہ میں کس کی اوالد ہوں۔ پھر اس کی ماں نے بتایا کہ میرا‬ ‫خاوند جنگ میں تھا اور اسے گھر آئے کافی دن ہو گئے میرا دل‬ ‫بڑا چاہا تو میں نے گھر میں جھاڑو بھاری کرنے والے کو‬ ‫استعمال کر لیا اور پھر وہ ہی میرے کام آنے لگا۔ تمہارا وزیر‬ ‫وہی چوڑا ہی تو ہے۔ محلوں میں یہ الگ سے اور انوکھا واقعہ‬ ‫نہیں ہے۔‬ ‫یہ سننا تھا کہ بادشاہ چکرا گیا اور وہیں سر پکڑ کر زمین پر‬ ‫بیٹھ گیا۔‬


‫‪13‬‬

‫اسے معلوم نہ تھا‬ ‫لوکانہ‬ ‫ایک شخص درخت کے نیچے منہ کھولے گہری نیند سو رہا تھا‬ ‫کہ ایک سپولیہ اس کی جانب بڑھا۔ دریں اثنا ایک گھڑسوار وہاں‬ ‫آ پہنچا۔ وہ پھرتی سے گھوڑے سے نیچے اترا۔ اس کے نیچے‬ ‫اترتے اترتے سپولیہ سوئے ہوئے شخص کے منہ میں گھس‬ ‫گیا۔ وہ بڑا پریشان ہوا۔ اچانک اسے کچھ سوجھا اور اس نے‬ ‫سوئے ہوئے شخص کو زور زور سے چھانٹے مارنا شروع کر‬ ‫دیے۔ سویا ہوا شخص گھبرا کر جاگ اٹھا اور اس نے گھڑسوار‬ ‫اس نے کہا وجہ چھوڑو ‘سے چھانٹے مارنے کی وجہ پوچھی‬ ‫اور تیز رفتاری سے بھاگو ورنہ اور زور سے ماروں گا۔‬ ‫اس شخص نے بھاگنا شروع کر دیا۔ جب رکنے لگتا تو وہ‬ ‫چھانٹے مارنا شروع کر دیتا۔ رستے میں ایک ندی آ گئی۔‬ ‫گھڑسوار نے کہا پانی پیو۔ اس نے پیا۔ اس نے چھانٹا مارتے‬ ‫ہوئے کہا اور پیو۔ اس نے اور پیا اور کہا اب مزید نہیں پی‬ ‫سکتا۔ اچھا نہیں پی سکتے تو بھاگو۔‬ ‫وہ بھاگتا جا رہا تھا اور ساتھ میں وجہ بھی پوچھے جاتا۔‬ ‫گھڑسوار وجہ نہیں بتا رہا تھا ہاں البتہ بھاگنے کے لیے کہے‬ ‫جاتا تھا۔‬


‫‪14‬‬

‫تھوڑا آگے گیے تو ایک سیبوں کا باغ آ گیا۔ گھڑ سوار نے کہا‬ ‫نیچے گرے ہوئے سیب کھاؤ۔ اس نے کھائے اور کہا مزید نہیں‬ ‫کھا سکتا۔ گھڑسوار نے زوردار چھانٹا مارتے ہوئے کہا‘ میں‬ ‫کہتا ہوں اور کھاؤ۔ اس نے کھانا شروع کر دیا۔ پھر کہنے لگا‬ ‫اور نہیں کھا سکتا مجھے قے آ رہی ہے۔ ہاں ہاں کھاتے جاؤ‬ ‫جب تک قے نہیں آ جاتی تمہیں سیب کھاتے رہنا ہو گا۔‬ ‫وہ سیب کھاتا رہا کہ اسے زوردار قے آ گئی۔ قے کے ساتھ ہی‬ ‫سپولیہ بھی باہر آ گیا۔ تب اس پر اصل ماجرا کھال۔ وہ گھڑسوار‬ ‫کا شکرگزار ہوا اور اس نے معافی مانگی کہ وہ بھاگتے پانی‬ ‫پیتے اور سیب کھاتے ہوئے جی ہی جی میں اسے گالیاں اور‬ ‫بددعائیں دے رہا تھا اور اس مصبیت سے چھٹکارے کے لیے‬ ‫دعائیں کر رہا تھا۔‬ ‫تمہاری بددعائیں مٹی ہوئیں ہاں البتہ دعائیں کارگر ثابت ہوئیں۔۔‬ ‫اسے قطعا معلوم نہ تھا کہ اس ظاہری برائی میں خیر چھپی‬ ‫ہوئی ہے۔ گھڑسوار مسکرایا اور اپنی منزل کو چل دیا‬


‫‪15‬‬

‫ان دنوں‬ ‫لوکانہ‬

‫اس بچی کا اصل نام ارشاد تھا لیکن سیاہ رنگت کے سبب کالی‬ ‫ماتا نام عرف عام میں آ گیا تھا۔ خصوصا بچے اسے چھیڑنے‬ ‫کے لیے شاداں کالی ماتا کہہ کر پکارتے۔ وہ اس نام پر پٹ پٹ‬ ‫جاتی۔ اکثر نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی۔ وہ تو چڑتی تھی‬ ‫ہی لیکن اس کی ماں اس سے زیادہ تاؤ میں آ جاتی اور چھیڑنے‬ ‫والے کو اگلے گھر تک پہنچا کر آتی۔‬ ‫اس روز ہم سائے کا لڑکا جو عمر میں شاداں کے برابر کا تھا۔‬ ‫شاداں کو کالی ماتا کہہ کر اپنے گھر بھاگ گیا۔ شاداں نے اپنی‬ ‫ماں کو آ کر شکایت لگائی۔ شاداں کی ماں نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ‬ ‫ان کے گھر جا کر اس لڑکے کو دو تین زوردار جڑ آئی۔ پھر کیا‬ ‫تھا میدان لگ گیا۔ اس لڑکے کی ماں نے اونچی اونچی بولنا‬ ‫شروع کر دیا۔ شاداں کی ماں بھی نیچے چونکی رکھ کر دیوار‬ ‫کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ پہلے سادا گرم کاری ہوئی اس کے بعد‬ ‫آلودہ لفظوں کے دھارے کھل گئے۔ دونوں بیبیاں تھکنے کا نام‬ ‫ہی نہیں لے رہی تھیں۔ انہوں نے ایک دوسرے کے نئے پرانے‬ ‫راز اگل کر رکھ دیے۔ بہت سی پس پردہ باتیں اور حقائق کھل‬ ‫گئے اور دونوں کی کردای شرافت پر برسوں کا پڑا پردہ اٹھ گیا۔‬


‫‪16‬‬

‫ابھی زور دار بم باری کا سلسلہ جاری تھا کہ شاداں کا دادا گھر آ‬ ‫گیا۔ بہو کو گرجتے برستے دیکھ کر ماجرہ پوچھا۔ شاداں کی‬ ‫ماں نے بہت سی پاس سے لگا کر سسر کو کہانیاں سنائیں۔ یہ‬ ‫بھی بتایا کہ کافٹین کا بیٹا میری شاداں کو کالی ماتا کہہ کر‬ ‫چھیڑتا ہے۔‬ ‫بندہ سیانا تھا۔ اس نے بہو سے پوچھا شاداں کدھر ہے۔ شاداں‬ ‫کی ماں نے گھر میں ادھر ادھر اسے تالشا وہ گھر پر نہ تھی۔‬ ‫شاداں کا دادا کہنے لگا اسے نہ تالشو وہ گھر میں نہیں ہے باہر‬ ‫بچوں کے ساتھ کھیل رہی ہے۔ اس کی پارٹی میں ہم سائی کا‬ ‫لڑکا ہے۔ پھر اس نے اونچی آواز میں ہم سائی سے کہا بیٹا‬ ‫بچوں کی وجہ سے نہ لڑو‘ تم ادھر لڑ رہی ہو باہر یہ ہی بچے‬ ‫آپس میں مل کر کھیل رہے ہیں۔ بچوں کے لیے لڑنا کھلی حماقت‬ ‫ہے۔‬ ‫بلڑے کی باتیں سن کر دونوں بیبیاں بڑی شرمندہ ہوئیں اور شرم‬ ‫سے اندر گھس گئیں۔ بچوں نے تو ان کے پلے کچھ نہ چھوڑا‬ ‫تھا۔‬ ‫کئی دنوں تک بول بالرے کے نتیجہ میں ان کی باہمی رنجش‬ ‫چلتی رہی اور پھر ماضی گئی گزری کی قبر میں دفن ہو گیا۔‬ ‫وقت پر لگا کر محو سفر رہا۔ بچے جوان ہو گئے۔ شیداں اور‬ ‫کافٹین کا لڑکا جیرا آپس میں سٹ ہو گئے۔ ان کی یہ باہمی ہیلو‬


‫‪17‬‬

‫ہائے دو سال تک چلی۔ عزت بچانے کی خاطر دونوں کے مائی‬ ‫باپ کو راضی ہونا پڑا اور ان کی شادی طے کر دی گئی۔‬ ‫ان دنوں جیرا اور شیداں ایک چھت تلے رہ رہے ہیں اور جیرے‬ ‫کے لیے شیداں حسینہ عالم ہے۔ وہ اس کی بات ٹالنے کو بھی‬ ‫پاپ سمجھتا ہے۔‬


‫‪18‬‬

‫آنٹی ثمرین‬ ‫منسانہ‬ ‫ماں کی محبت کے بارے میں کچھ کہنا سورج کو چاند دکھانے‬ ‫والی بات ہے۔ یہ کسی دلیل یا ثبوت کی محتاج نہیں ہوتی۔ ماں‬ ‫بچوں کے لیے جو مشقت اٹھاتی ہے کوئی اٹھا ہی نہیں سکتا۔‬ ‫اس کی سانسیں اپنے بچے کے ساتھ اول تا آخر جڑی رہتی ہیں۔‬ ‫وہ اپنے بچے کے لیے کسی بھی سطع تک جا سکتی ہے۔ اس‬ ‫کا ہر کیا بال کا حیرت انگیز ہوتا ہے۔ ماں بچے کے لیے اپنی‬ ‫جان سے بھی گزر جاتی ہے۔ یہ محبت اور شفقت اس کی ممتا‬ ‫کی گرہ میں بندھا ہوا ہوتا ہے اس لیے حیران ہونے کی‬ ‫ضرورت نہیں۔ محبت اس کی ممتا کا خاصا اور الزمہ ہے۔‬ ‫عورت اپنے پچھلوں کے معاملہ میں اوالد سے بھی زیادہ‬ ‫حساس ہوتی ہے۔ اس ذیل میں اس کا قول زریں ہے کہ نہ ماں‬ ‫باپ نے دوبارہ آنا ہے اور نہ بہن اور بھائی پیدا ہو سکتے ہیں۔‬ ‫اس کا دو نمبر بھائی بھی قطب نما اور باپ کو نبی قریب‬ ‫سمجھتی ہے۔ ان کی کوئی کمی خامی یا خرابی اس کو نظر نہیں‬ ‫آتی یا ان سے کمی کوتاہی سرزد ہوتی ہی نہیں۔ جب کہ خاوند‬ ‫کی ماں عموما ففے کٹن اور باپ لوبھی اور اللچی ہوتا ہے۔ بہن‬ ‫بھائی تو خیر دو نمبری کی آخری سطع کو چھو رہے ہوتے ہیں۔‬


‫‪19‬‬

‫کرم بی بی بھی اول تا آخر عورت تھی اور وہ بھی یہ ہی‬ ‫اصولی اطوار رکھتی تھی۔ وہ اپنے بیٹے کے لیے بہن کی بیٹی‬ ‫النا چاہتی تھی جب کہ اس کا خاوند ادھر رشتہ نہیں کرنا چاہتا‬ ‫تھا۔ لڑکی میں کوئی کجی یا خامی نہ تھی۔ بس وہ ادھر رشتہ‬ ‫نہیں کرنا چاہتا تھا۔ ان کے گھر میں کئی ماہ سے یہ ہی رگڑا‬ ‫جھگڑا چل رہا تھا۔ جوں ہی گھر میں وہ قدم رکھتا کل کلیان‬ ‫شروع ہو جاتی اور یہ اگلے دن اس کے کام پر جانے تک‬ ‫تھوڑے تھوڑے وقفے کے ساتھ چلتی رہتی۔‬ ‫ایک دن اس نے اپنے ایک قریبی دوست سے معاملہ شیئر کیا‪،‬‬ ‫وہ ہنس پڑا‬ ‫او یار اس میں پریشانی والی کیا بات ہے۔ بھابی کو اپنی ڈال دو‬ ‫سب ٹھیک ہو جائے گا۔‬ ‫اپنی کیا ڈالوں۔‬ ‫یہ ہی کہ تم درسری شادی کرنے والے ہو۔ عورت تم نے پسند‬ ‫کر لی ہے۔ اس نے کہا‬ ‫یار میں پاگل ہوں جو ایک بار شدگی کے بعد کوئی عورت پسند‬ ‫کروں گا۔‬ ‫تمہیں کس نے کہا ہے کہ یہ حماقت کرو‘ جعلی کردار تخلیق‬ ‫کرو۔‬


‫‪20‬‬

‫اسے اپنے دوست کا آئیڈیا پسند آیا۔ طے یہ پایا کہ وہ ٹیلی فون‬ ‫پر مس کال کرے گا۔ اس کے بعد وہ جعلی عورت سے دیر تک‬ ‫رومان پرور باتیں کرتا رہے گا۔ پہلے ہفتے زبانی کالمی اگلے‬ ‫ہفتے سے ٹیلی فونک سلسلہ چلے گا۔‬ ‫اس دن جب رشتے کی بات شروع ہوئی تو اس نے اپنی محبت‬ ‫کی کہانی چھیڑ دی۔ پہلے تو اس کی بیوی کو یقین نہ آیا۔ اس کا‬ ‫خیال تھا کہ اسے کون پسند کرے گی۔ اس نے بتایا کہ وہ بڑے‬ ‫بلند مرتبہ شخص کی سالی ہے۔ اسے طالق ہو گئی ہے۔ بڑی ہی‬ ‫خوب صورت ہے۔ اس کی چھوٹی چھوٹی دو بیٹیاں ہیں۔‬ ‫کرم بی بی کچھ دن اسے الف زنی خیال کرتی رہی ۔ اگلے ہفتے‬ ‫ٹیلی فون آنا شروع ہو گئے۔ وہ دیر تک جعلی عورت سے جعلی‬ ‫رومان پرور باتیں کرتا۔ کئی بار باتوں کے درمیان کہیں سے‬ ‫ٹیلی فون بھی آیا۔ کرم بی بی اتنی پیدل ہو گئی کہ اس نے غور‬ ‫ہی نہ کیا کہ ٹیلی فون کرنے کے دوران ٹیلی فون کیسے آ سکتا‬ ‫ہے۔‬ ‫کرم بی بی بھانجی کا رشتہ النے کا مسلہ بھول سی گئی اسے‬ ‫اپنی پڑ گئی۔ اسے گھر میں اپنے وجود کا خطرہ الحق ہو گیا۔‬ ‫گھر میں اکیلی دھندناتی تھی سوت کے آ جانے کے دکھ نے‬ ‫اسے ادھ موا کر دیا۔ ان ہی دنوں لڑکے کا رشتہ آ گیا جیسے‬ ‫سوت کے آنے سے پہلے کر لیا گیا مبادہ سوت کے آنے کے بعد‬


‫‪21‬‬

‫کیا حاالت ہوں۔ کرم بی بی کے ذہن میں یہ بات نقش ہو گئی کہ‬ ‫سوت کے آنے کے بعد حاالت برعکس ہو جائیں گے۔‬ ‫لڑکے کی شادی کو ابھی دس دن ہی گزرے ہوں گے کہ ولی‬ ‫محمد اپنے کمرے میں اداس بیٹھا ہوا تھا۔ بات بات پر برہم ہوتا‬ ‫اور کبھی رونے لگتا۔ کوئی کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اسے‬ ‫اچانک کیا ہو گیا ہے۔ اتنا اداس اور رنجیدہ کیوں ہے۔ سب بار‬ ‫بار پوچھتے کہ آپ اتنے پریشان اور اداس کیوں ہیں۔ ہر کسی‬ ‫سے یہ ہی کہتا کب پریشان ہوں۔ میں کیوں اور کس سے اداس‬ ‫ہونے لگا۔‬ ‫آخر کرم بی بی ہی دور کی کوڑی الئی۔ کہنے لگی تمہاری‬ ‫ثمرین تو دغا نہیں دے گئی ۔ ولی محمد نے حیرت سے پوچھا‬ ‫تمہیں کیسے پتا چال۔ کوئی ٹیلی فون تو نہیں ایا۔‬ ‫کرم بی بی کی باچھیں کھل گئیں۔ کہنے لگی کہتی تھی نا کہ تم‬ ‫سے عین غین بندے سے کون نبھا کر سکتا ہے وہ میں ہی ہوں‬ ‫جو تمہارے ساتھ نبھا کر رہی ہوں ۔ کرم بی بی بال تھکان بولتی‬ ‫رہی وہ موٹے موٹے آنسوبہاتا گیا۔ اس کی یہ کئی ماہ اور‬ ‫خصوصا اس روز کی اداکاری دلیپ کمار بھی دیکھ لیتا تو عش‬ ‫عش کر اٹھتا۔‬ ‫اس گیم میں اسے تین نوعیت کے دکھوں سے پاال پڑا۔ سالی کی‬ ‫بیٹی کا بیٹے کے لیے رشتہ نہ لینے کی وجہ سے عارضی سہی‬


‫‪22‬‬

‫قیامت سے گزرنا پڑا۔ جعلی ثمرین کی جعلی محبت کا ڈرامہ‬ ‫زبردست بےسکونی کا سبب بنا لیکن اصل مسلہ حل ہو گیا۔‬ ‫جعلی ثمرین آج بھی کنبہ میں اپنے حقیقی وجود کے ساتھ‬ ‫موجود ہے۔‬ ‫آج جب وہ بوڑھا ہو چکا ہے۔ چلنے پھرنے سے بھی قاصر‬ ‫وعاجز ہے اسے ثمرین سے دیوانگی کے ساتھ محبت کا طعنہ‬ ‫ملتا ہے۔ یہ طعنہ اسے اتنا ذلیل نہیں کرتا جتنا کہ اس کے‬ ‫چھوڑ جانے کا طعنہ ذلیل کرتا ہے۔ کرم بی بی کہتی آ رہی ہے‬ ‫اگر تم ساؤ پتر ہوتے تو وہ تمہیں چھوڑ کر کیوں جاتی۔ یہ میں‬ ‫ہی ہوں جو تم ایسے بندے کے ساتھ گزرا کرتی چلی آ رہی ہوں‬ ‫کوئی اور ہوتی تو کب کی چھوڑ کرچلی جاتی۔ خاندانی ہوں اور‬ ‫میں اپنے مائی باپ کی الج نبھا رہی ہوں۔‬


‫‪23‬‬

‫انصاف کا قتل‬ ‫لوکانہ‬ ‫ایک بار ایک بادشاہ جوانوں کے لنگر خانے گیا۔ صفائی‬ ‫درست تھی۔ پھر اس نے پوچھا کہ جوانوں ‘ستھرائی چیک کی‬ ‫کے لیے کیا پکایا ہے۔ جواب مال بتاؤں یعنی بیگن۔ بادشاہ سخت‬ ‫ناراض ہوا کہ جوانوں کے لیے اتنا گھٹیا کھانا کیوں پکایا گیا‬ ‫ہے۔ اس کے مشیر نے بیگن کی بدتعریفی میں زمین آسمان ایک‬ ‫کر دیے۔ بہر کیف لنگر کمانڈڑ نے معذرت کی اور آئندہ سے‬ ‫بیگن نہ پکانے اور اچھا کھانا پکانے کا وعدہ کیا تو بادشاہ‬ ‫لنگرخانے سے رخصت ہو گیا۔‬ ‫کچھ وقت گزرنے کے بعد بادشاہ کو دوبارہ سے جوانوں کے‬ ‫لنگرخانے جانے کا اتفاق ہوا۔ سوئے اتفاق اس روز بھی بیگن‬ ‫پکائے گئے تھے۔ بادشاہ نے بیگن کی تعریف کی۔ وہ ہی مشیر‬ ‫ساتھ تھا اس نے بیگن کی تعریف میں ممکنہ سے بھی آگے‬ ‫بیگن کے فوائد بیان کر دیے۔ گویا بیگن کے توڑ کی کوئی سبزی‬ ‫اور پکوان باقی نہ رہے۔ لنگر کمانڈر خوش ہوا اور آگے سے‬ ‫بیگن کے برابر اور متوار پکائے جانے کا وعدہ کیا۔‬


‫‪24‬‬

‫بادشاہ اس مشیر کی جانب مڑا اور کہنے لگا کہ اس دن میں نے‬ ‫بیگن کی بدتعریفی کی تو تم نے بیگن کی بدتعریفی میں کوئی‬ ‫کسر نہ چھوڑی۔ آج جب کہ میں نے تعریف کی ہے تو تم نے‬ ‫کیوں۔ ‘بیگن کی تعریف میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی‬ ‫اس نے جوابا کہا حضور میں آپ کا غالم ہوں بیگن کا نہیں۔‬ ‫یہ سن کر بادشاہ نے کہا تم سے جی حضوریے حق اور سچ کو‬ ‫سامنے نہیں آنے دیتے جس کے سبب صاحب اقتدار متکبر ہو‬ ‫جاتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں ان سے انصاف نہیں ہو پاتا۔‬ ‫انصاف کا قتل ہی قوموں کے زوال کا سبب بنتا ہے۔‬ ‫پہلے تو وہ جی حضوریہ چپ رہا پھر کہنے لگا حضور جان کی‬ ‫امان پاؤں تو ایک عرض کروں۔‬ ‫بادشاہ نے کہا‪ :‬کہو کیا کہنا چاہتے ہو۔‬ ‫حضور سچ اور حق کی کہنے والے ہمیشہ جان سے گئے ہیں۔‬ ‫بادشاہ نے کہا‪ :‬یاد رکھو سچ اور حق جان سے بڑھ کر قیمتی‬ ‫ہیں۔ مرنا تو ایک روز ہے ہی سچ کہتے مرو گے تو باقی رہو‬ ‫گے۔ ہاں جھوٹ کہنے یا اس پر درست کی مہر ثبت کرنے کی‬ ‫صورت میں بھی زندہ رہو گے لیکن لعنت اور پھٹکار اس زندگی‬ ‫کا مقدر بنی رہے گی۔‬


‫‪25‬‬

‫بےکار کی شرم ساری‬ ‫منسانہ‬

‫یہ ہی کوئی پچیس تیس سال پہلے کی بات ہے۔ یہاں ہللا بخشے‬ ‫مولوی دین محمد ہوا کرتے تھے۔ بڑے ہنس مکھ اور خوش طبع‬ ‫تھے۔ کھانے پینے کے معاملہ میں بڑے سادہ اور فراخ مزاج‬ ‫واقع ہوئے تھے۔ پہلے کتنا بھی کھا چکے ہوتے اس کے بعد‬ ‫بھی جو ملتا بسم ہللا کرکے ہڑپ جاتے۔ اس ذیل میں انکار نام‬ ‫کی چیز سے بھی ناآشنا تھے۔ اوالد بھی ہللا نے انہیں کافی سے‬ ‫زیادہ دے رکھی تھی۔‬ ‫ان کی رن حد درجہ کی کپتی تھی۔ عزت افزائی کرتے آیا گیا بھی‬ ‫نہ دیکھتی تھی۔ گویا وہ مولوی صاحب کی لہہ پہا کے لیے موقع‬ ‫تالشتی رہتی تھی۔ بعض اوقات بالموقع بھی بہت کچھ منہ سے‬ ‫نکال جاتی تھی۔ انسان تھے چھوٹی موٹی غلطی ہو ہی جاتی بس‬ ‫پھر وہ شروع ہو جاتی۔ سب جانتے تھے کہ حد درجہ کی بوالر‬ ‫ہے۔ ہاں اس کے بوالرے سے مولوی صاحب کے بہت سے‬ ‫پوشیدہ راز ضرور کھل جاتے۔ مولوی صاحب نے کبھی اسے‬ ‫ذلیل کرنے کے لیے موقع کی تالش نہ کی تھی۔ ہاں البتہ خود‬ ‫بچاؤ کی حالت میں ضرور رہتے تھے۔‬ ‫انسان تھے آخر کب تک برداشت کرتے‘ انہوں نے بھی اسے‬


‫‪26‬‬

‫ذلیل کرنے کی ٹھان لی۔ ایک مرتبہ ان کے گھر میں بہت سے‬ ‫مہمان آئے ہوئے تھے۔ کھرے میں دھونے والے کافی برتن‬ ‫پڑے ہوئے تھے‘ انہیں دھونے بیٹھ گئے اور ساتھ میں مولویانہ‬ ‫انداز میں آواز لگائی کہ کوئی اور برتن موجود ہو تو دے جاؤ۔‬ ‫ان کی بیوی نے نوٹس لیا اور گرج دار آواز میں کہنے لگی‬ ‫کیوں ذلیل کرنے پر اتر آئے ہو پہلے تم دھوتے ہو۔ پھر اس نے‬ ‫زبردستی انہیں وہاں سے اٹھا دیا۔ مولوی نے اس کے ہارے‬ ‫ہارے سے طور کو خوب انجوائے کیا۔‬ ‫کچھ ہی دنوں بعد ایک اور ایسا واقعہ پیش آیا۔ اندر پان سات‬ ‫عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں یہ کپڑے دھونے کے انداز میں بیٹھ‬ ‫گئے اور آواز لگائی کوئی اور دھونے واال کپڑا پڑا ہو تو دے‬ ‫جاؤ مجھے کہیں جانا ہے۔ کوئی رہ گیا تو مجھے نہ کہنا۔‬ ‫مولویانی پر پہلے کی کیفیت طاری ہو گئی اور اس نے انہیں‬ ‫کھرے سے اٹھا دیا کہ کیوں ذلیل کرتے ہو۔‬ ‫مولوی صاحب کا خیال تھا کہ ان کی رن عورتوں میں ذلیل ہو‬ ‫جائے گی اور سب اسے توئے توئے کریں گے لیکن معاملہ الٹ‬ ‫ہو گیا۔ عورتوں میں مشہور ہو گیا کہ مولوی صاحب کے پہلے‬ ‫کچھ نہیں رہا تب ہی تو اتنا تھلے لگ گیا ہے۔ پاگل تھیں کہ اگر‬ ‫مولوی صاحب کے پلے کچھ نہ ہوتا تو اتنے بچے کیسے ہو‬ ‫گئے۔ رشتہ داروں میں جاتے یا گلی سے گزرتے تو عورتیں‬ ‫انہیں دیکھ کر ہنستیں۔ وہ کیسے ان سب کو یقین دالتے کہ وہ‬


‫‪27‬‬

‫ٹھیک ہیں انہوں نے تو یہ سب ان کے ساتھ ہونی کا بدال اتارنے‬ ‫کے لیے کیا تھا۔‬ ‫اتنے خوش طبع مولوی صاحب سنجیدہ سے ہو گئے۔ اسی طرح‬ ‫لوگوں کے ہاں سے کھانے پینے کے مواقع بھی بےکار کی شرم‬ ‫ساری کی لحد میں اتر گیے۔ اس واقعے کے بعد انہوں نے کہنا‬ ‫شروع کر دیا کہ کوئی کیا کرتا ہے اس کو مت دیکھو تم ہمیشہ‬ ‫اچھا کیا کرو کیوں کہ اچھا کرنے میں ہی خیر اور اچھائی ہے۔‬ ‫‪.....................................‬‬


‫‪28‬‬

‫میں مولوی بنوں گا‬ ‫منسانہ‬ ‫میں نے تنویر کے مستقبل کے بڑے سنہرے خواب دیکھ رکھے‬ ‫تھے۔ ًمیں اسے بہت بڑا آدمی بنانا چاہتا تھا۔ اس نے میٹرک میں‬ ‫اچھے نمبر حاصل کرکے دل خوش کر دیا۔ اسے کھیل کود سے‬ ‫کم کتاب سے زیادہ دلچسپی تھی۔ جب کبھی اسکول گیا استاد‬ ‫اس کی تعلیمی حالت کی تعریف کرتے۔ ان کے منہ سے اپنے‬ ‫بیٹے کی تعریف سن کر دل خوشی سے باغ باغ ہو جاتا۔ منہ‬ ‫سے اس کے اچھے مستقبل کے لیے بےاختیار ڈھیر ساری‬ ‫دعائیں نکل جاتیں۔‬ ‫ایف اے میں بھی تعلیمی معاملہ میں اچھا رہا۔ تھرڈ ایئر میں آیا‬ ‫تو اس نے چھوٹی چھوٹی داڑھی رکھ لی۔ نماز روزے کا بھی‬ ‫پابند ہو گیا۔ یہ دیکھ کر اور بھی خوشی ہوئی کہ چلو تعلیم میں‬ ‫بہتر کارگزاری کے ساتھ ساتھ نیک راہ پر بھی چل نکال ہے‬ ‫ورنہ آج کے ماحول میں بےراہروی ہی لڑکی لڑکوں کا وتیرہ بن‬ ‫گیا ہے۔ یہ بےراہروی انہیں بدتمیز بھی بنا رہی ہے۔ بڑے‬ ‫چھوٹے کا کوئی پاس لحاظ ہی نہیں رہا۔ تھرڈ ایئر تو خیر سے‬ ‫گزر گئی اور اس نے اچھے نمبر بھی حاصل کیے۔ فورتھ ائیر ہم‬ ‫سب کے لیے قیامت ثابت ہوئی۔ اس نے داڑھی بڑھا دی اور ایک‬


‫‪29‬‬

‫دن کالج کی پڑھائی چھوڑنے کا اعالن کر دیا۔ اس کا یہ اعالن‬ ‫میرے دل و دماغ پر اٹیم بم بن کر گرا۔ مجھے پریشانی کے ساتھ‬ ‫ساتھ حیرانی بھی ہوئی کہ آخر اسے اچانک یہ کیا ہو گیا ہے۔‬ ‫اس نے یہ فیصلہ کیوں کیا ہے کہ میں دینی مدرسے میں داخل‬ ‫ہو کر مستند مولوی بنوں گا۔ کہاں کالج کی پڑھائی کہاں مولوی‬ ‫بننے کا اعالن‘ عجب مخمصے میں پڑ گیا۔‬ ‫میں دو تین دن اس کے پیچھے پڑا رہا کہ آخر اس نے مولوی‬ ‫بننے کا کیوں ارادہ کیا ہے۔ کچھ بتاتا ہی نہ تھا۔ چوتھے دن اس‬ ‫نے بڑے غصے اور اکتائے ہوئے لہجے میں کہا کہ میں کفر‬ ‫کے فتوے جاری کرنے کے لیے مستند مولوی بننا چاہتا ہوں۔‬ ‫کفر کے فتوے۔۔۔ کس پر۔۔۔۔ مگر کیوں۔‬ ‫میں پہال کفر کا فتوی آپ کے خالف جاری کروں گا۔‬ ‫یہ سن کر میرے طور پہوں گئے۔ میرے خالف یعنی باپ کے‬ ‫خالف۔ میں اس کا کھال اعالن سن کر دم بہ خود رہ گیا۔‬ ‫پھر میں نے پوچھا‪ :‬میاں آخر تم نے مجھ میں کون سی ایسی‬ ‫کفریہ بات دیکھ لی ہے۔‬ ‫کہنے لگا‪ :‬میری ماں آپ کی خالہ زاد ہے آپ انہیں خوب خوب‬ ‫جانتے تھے کہ بڑی بوالر ہے تو شادی کیوں کی۔ کیا اور لڑکیاں‬ ‫مر گئی تھیں۔ آپ دونوں نے لڑ لڑ کر ہم سب کا جینا حرام کر‬ ‫دیا ہے۔ غلطی آپ کی ہے کہ آپ اسے بولنے کا موقع دیتے ہیں۔‬


‫‪30‬‬

‫اییسی بات کیوں کرتے ہیں کہ وہ سارا سارا دن اور پھر رات‬ ‫گئے تک بولتی رہے۔‬ ‫اس کی اس بات نے مجھے پریشان کر دیا۔ میں نے فیضاں کو‬ ‫بلوایا اور کہا بیٹے کے ارادے سنے ہیں نا۔‬ ‫ہاں میں نے سب کچھ سن لیا ہے۔ ٹھیک ہی تو کہہ رہا ہے۔‬ ‫ایسی بات کیوں کرتے ہیں جس سے مجھے غصہ آئے اور میں‬ ‫بولنے لگوں۔‬ ‫چلو میں کسی دوسری جگہ تبادلہ کروا لیتا ہوں لہذا تم کالج کی‬ ‫پڑھائی جاری رکھو۔‬ ‫ہاں ہاں اچھا فیصلہ ہے کہ پھر ہمارے ساتھ ڈٹ کر بول بوالرا‬ ‫کرتی رہے۔ وہ تلخ اور طنز آمیز لہجے میں بوال‬ ‫ماں آپ فکر نہ کرو آپ بھی میرے فتوے کی زد میں آؤ گی۔‬ ‫خاوند کی اتنی بےعزتی اسالم میں جائز نہیں۔‬ ‫بیٹے کی یہ بات سن کر وہ ہکا بکا رہ گئی۔ اسے امید نہ تھی کہ‬ ‫تنویر ایسی بات کرے۔ پھر ہم دونوں میاں بیوی کی نظریں ملیں۔‬ ‫ہم دونوں کی آنکھوں میں دکھ اور پریشانی کے بادل تیر رہے‬ ‫تھے۔ ہم اسے بہت بڑا آدمی بنانے کے خواب دیکھ رہے تھے‬ ‫کہ بیٹا کچھ کا کچھ سوچ رہا تھا۔ پھر ہم دونوں کے منہ سے‬ ‫بےاختیار نکل گیا۔ بیٹا تم کالج کی پڑھائی نہ چھوڑو ہم آگے‬


‫‪31‬‬

‫سے نہیں لڑیں گے بل کہ معامالت بات چیت سے طے کر لیا‬ ‫کریں گے۔‬ ‫تنویر مان ہی نہیں رہا تھا۔ اس کا اصرار تھا کہ وہ مولوی ہی‬ ‫بنے گا۔ وہ کہے جا رہا تھا کہ آپ وعدہ پر پورا نہیں اترو گے۔‬ ‫کافی دیر تکرار و اصرار کا سلسلہ جاری رہا۔ تنویر کو آخر‬ ‫ہمارے تکرار اصرار کے سامنے ہتھیار ڈالنا ہی پڑے اور وہ‬ ‫کالج کی کتاب لے کر بیٹھ گیا اور ہم چپ چاپ اس کے کمرے‬ ‫سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلے گیے۔‬


‫‪32‬‬

‫ایسا کیوں ہے‬ ‫لوکانہ‬

‫میں عقیدت‘ پیار‘ محبت اور کچھ موسمی سوغات کی پنڈ اٹھائے‬ ‫پیر صاحب کے در دولت پر حاضر ہوا۔ دروازے پر دستک دی۔‬ ‫اندر سے ان کی بےغم صاحب دروازے پر آئیں۔ میں نے انہیں‬ ‫اپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ میں ان کا ماننے واال خادم ہوں‬ ‫اور یہ سوغات باطور نذرانہ لے کر حاضر ہوا ہوں۔ بےغم‬ ‫صاحب نے سوغات کی پنڈ لے لی اور کہا‪ :‬تمہارا جعلی پیر ادھر‬ ‫ادھر ہی کہیں دھکے کھاتا پھرتا ہو گا۔ جاؤ جا کر تالش لو۔‬ ‫اس کے انداز اور رویے پر مجھے حیرت اور پریشانی ہوئی۔‬ ‫اس کے خاوند کو ایک زمانہ مانتا تھا لیکن یہ ان کے لیے رائی‬ ‫بھر دل میں عزت نہ رکھتی تھی۔ اس کا لہجہ انتہائی ذلت آمیز‬ ‫طنز میں ملفوف تھا۔ بڑا ہی حیران کن تجربہ تھا۔ سوغات حاصل‬ ‫کرنے میں ایک منٹ کی دیر نہ کی۔ پانی دھانی ایک طرف اس کا‬ ‫اپنے خاوند کے بارے انداز قطعی افسوس ناک تھا۔ کیا کہتا‘ وہ‬ ‫میری عزت کی جا تھی۔ میں چپ چاپ وہاں سے افسوسیہ سوچ‬ ‫لے کر چل دیا۔‬ ‫سوچوں میں غلطاں میں یوں ہی ایک طرف کو چل دیا۔ ابھی‬ ‫تھوڑی ہی دور گیا ہوں گا کہ حضرت پیر صاحب آتے دکھائی‬


‫‪33‬‬

‫دیے۔ وہ ببر شیر پر سوار تھے۔ شیر کو لگام ڈالی ہوئی تھی ببر‬ ‫شیر بڑی تابعداری سے ان کے حکم کی تعمیل میں قدم اٹھا رہا‬ ‫تھا۔ انہوں نے میری طرف دیکھا اور مسکرائے۔ فرمانے لگے‪:‬‬ ‫بیٹا شیر کو لگام ڈالنا آسان کام ہے مگر گھروالی کو تابع رکھنا‬ ‫ممکن نہیں۔ دیکھو سیدنا نوح علیہ السالم کتنے بڑے انسان‬ ‫تھے لیکن بیگم انہیں نہیں پہچانتی تھی تب ہی تو نافرمان تھی۔‬ ‫سقراط کو لے لو منفرد اور نایاب شخص تھا۔ ساری دنیا عزت‬ ‫کرتی تھی لیکن گھروالی اسے نہیں پہچانتی تھی‘ تب ہی تو‬ ‫گستاخ تھی۔‬ ‫یہ بھی یاد رکھو! پیٹ نواز حفظ مراتب جان لیں تو زندگی نکھر‬ ‫نہ جائے۔ بیٹا دل میں مالل نہ الؤ۔ جو تم نے دیکھا وہ اس کی‬ ‫کرنی ہے برداشت ہللا کے احسان سے میرا فعل ہے۔‬ ‫میں درحقیقت اپنی گھر والی کی شکایت لے کر گیا تھا اور چاہتا‬ ‫تھا کہ وہ دعا فرمائیں تا کہ اس کا منہ بند ہو جائے۔ واپسی پر‬ ‫سوچتا سوچتا آ رہا تھا کہ ہم تو معمولی لوگ ہیں‘ پیر صاحب‬ ‫سے بڑے لوگ ان بیبیوں کے سامنے بےبس ہیں۔ میں سوچ رہا‬ ‫تھا کہ ایسا کیوں ہے۔ پھر خیال گزرا کہ ان بیبیوں کے سامنے‬ ‫رات تنہائی میں فعل مخصوص انجام دینے کے دوران کمل‬ ‫مارنے واال شخص ہوتا ہے اور وہ اسی تناظر میں صبح انجام‬ ‫پانے والے امور کو دیکھتی ہیں اور وہ سب انہیں خودساختہ سا‬


‫‪34‬‬

‫محسوس ہوتا ہے حاالں کہ وہ ہر اچھا ہللا کی رضا کے لیے‬ ‫انجام دے رہے ہوتے ہیں۔‬ ‫ممکن ہے یہ سوچ غلط اور بےبنیاد ہو لیکن کہیں ناکہیں اور‬ ‫کسی سطح پر اس امر کا عمل دخل ضرور ہوتا ہے۔‬


‫‪35‬‬

‫یہ اچھا ہی ہوا‬ ‫لوکانہ‬ ‫عالقے کے مولوی صاحب دھنیے دکان دار سے ادھار سودا لیا‬ ‫کرتے تھے۔ چوں کہ مولوی صاحب تھے اس لیے وہ بڑی‬ ‫برداشت اور لحاظ مروت سے ادھار سودا دیتا رہا۔ ادھار کی رقم‬ ‫کافی ہو گئی اور معاملہ دھنیے کی بسات و برداشت سے باہر ہو‬ ‫گیا تو اس نے ادھار سودا دینے سے صاف انکار کر دیا۔‬ ‫مولوی صاحب نے کہا‪ :‬اگر تم نے سودا نہ دیا تو یہ تمہارے‬ ‫لیے اچھا نہ ہو گا۔‬ ‫دھنیے نے کہا‪ :‬ٹھیک ہے جو ہو گا دیکھا جائے گا۔‬ ‫مولوی صاحب نے اس کی جانب طنز آمیز غصے سے دیکھا۔‬ ‫دھنیے کے چہرے پر کسی قسم کی فکرمندی یا مالل نہ تھا۔ گویا‬ ‫یہ ہی تاثر تھا کہ جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ مولوی صاحب کو‬ ‫تین قول پورے کرنا چاہیے تھے لیکن انہوں نے دوسری بار‬ ‫کچھ کہنے یا وارننگ کو مذید زوردار اور سخت بنانے کی‬ ‫زحمت ہی نہ اٹھائی اور پیر پٹکتے ہوئے وہاں سے روانہ ہو‬ ‫گئے۔ جاتے ہیں تو جائیں دھینا بڑبڑایا اور اس نے ان کی جانب‬ ‫سرسری نظر سے بھی نہ دیکھا۔‬


‫‪36‬‬

‫مولوی صاحب نے مسجد میں آ کر سپیکر کھوال اور دکھ بھری‬ ‫آواز میں اعالن کیا۔‬ ‫حضرات ایک ضروری اعالن سنیے۔ بڑے دکھ اور افسوس کی‬ ‫بات ہے کہ دھنیا دکان دار وہابی ہو گیا ہے لہذا اس سے کسی‬ ‫قسم کی سودا نہ خریدا جائے اور نہ کسی قسم کا لین دین یا بول‬ ‫چال رکھا جائے جو اس سے سودا خریدے گا یا کسی قسم کا لین‬ ‫دین کرے گا یا بول چال رکھے گا سیدھا جہنم کی بھڑکتی آگ‬ ‫میں جائے گا۔‬ ‫لوگوں نے دھنیے سے ہر قسم کی خریداری بول چال اور لین‬ ‫دین بند کر دیا۔ اس کے بعد دھنیا سارا دن ہاتھ پہ ہاتھ دھرے‬ ‫بیٹھا بدنصیبی کی مکھیاں مارتا رہتا۔ کوئی اس کی دکان کے‬ ‫نزدیک سے بھی نہ گزرتا۔‬ ‫کچھ دن تو اس نے برداشت سے کام لیا جب بائیکاٹ میں کسی‬ ‫قسم کی لچک پیدا نہ ہوئی تو وہ مولوی صاحب کے در دولت پر‬ ‫حاضر ہوا اور ہتھیار ڈالتے ہوئے کہنے لگا‪ :‬مولوی صاحب آپ‬ ‫جتنا جی چاہے سودا لے لیں لیکن یہ کٹھور پابندی اٹھا لیں۔‬ ‫مولوی صاحب اس کی دکان پر گئے اور اچھا خاصا سودا لیا۔‬ ‫سودا گھر پر چھوڑ کر مسجد میں جا کر اعالن کیا۔ حضرات آپ‬ ‫کے لیے خوشی کی یہ ہے بات کہ دھنیا دکان دار تائب ہو گیا ہے‬ ‫اب اسی سے سودا خرید کیا کریں کہیں اور سے سودا نہ‬


‫‪37‬‬

‫خریدیں ۔ اپنا قریبی دکان دار چھوڑ کر کسی اور سے سودا‬ ‫خریدنے سے پاپ لگتا ہے۔ دھنیے نے ایشور کا شکریہ ادا کیا‬ ‫اور چھری پہلے سے تیز کر دی۔ اپنی اصل میں بالوسطہ دھنیے‬ ‫کے لیے یہ اچھا ہی ہوا کہ اس کے منافع کی شرح میں ہرچند‬ ‫اضافہ ہی ہوا۔‬


‫‪38‬‬

‫وہی پرانا چاال‬ ‫منسانہ‬ ‫بیٹی کو رخصتی کے وقت یہ سختی سے ہداہت کی جانی چاہیے‬ ‫کہ وہ میکہ کی کوئی منفی بات سسرال میں یا سسرال کی کوئی‬ ‫منفی بات میکہ میں شیئر نہ کرے۔ اس علت بد کے سبب غلط‬ ‫فہمیاں جنم لیتی ہیں جو بعد میں تلخیوں کا سبب بن جاتی ہیں۔‬ ‫ہنستی مسکراتی زندگی پریشانیوں میں بدل جاتی ہے۔ بدقسمتی‬ ‫سے گھر کے گھر اس بیماری کے باعث تباہ ہو جاتے ہیں۔ یہ‬ ‫ہی لوتیاں بعد میں کورٹ کچہری والوں کی کھٹی کا ذریعہ بن‬ ‫جاتی ہیں۔ ڈاکٹر ہوں کہ یہ کورٹ کچہری والے‘ ہنستے‬ ‫مسکراتے چلتے پھرتے لوگ انہیں بھلے نہں لگتے۔‬ ‫حنیف گربت کی چکی میں پس رہا تھا۔ سارا دن مشقت میں کٹ‬ ‫جاتا۔ رات میاں بیوی کی الیعنی چخ چخ میں گزر جاتی۔ دونوں‬ ‫میاں بیوی کو پچھلوں میں چھوٹی چھوٹی بات شیئر کرنے کی‬ ‫عادت بد الحق تھی۔ پچھلے کوئی مالی مدد تو نہ کرتے ہاں‬ ‫دونوں میاں بیوی میں غلط فہمیاں پیدا کرنے والے سبق ضرور‬ ‫پڑھاتے رہتے تھے۔ یہ تھے کہ اس عادت سے باز ہی نہیں آ‬ ‫رہے تھے۔ پچھلوں کے پڑھائے گئے اسباق کی وجہ سے ان‬ ‫کے درمیان نفرتوں میں ہرچند اضافہ ہی ہوتا چال جا رہا تھا۔‬


‫‪39‬‬

‫انہوں نے کبھی سر جوڑ کر حاالت سے لڑنے کی مشاورت کی‬ ‫ضرورت ہی محسوس نہ کی تھی حاالں کہ ایسے حاالت میں سر‬ ‫جوڑ کر مشاورت بہت ضروری ہوتی ہے۔‬ ‫خدا معلوم حنیف کی کس طرح درک لگ گئی کہ اس کی بیرون‬ ‫ملک میں سرکاری نوکری لگ گئی۔ پھر کیا تھا‘ نوٹ آنا شروع‬ ‫ہو گئے۔ جہاں بھوک بھنگڑے ڈالتی تھی وہاں رج کے نقارے‬ ‫بجنا شروع ہو گئے۔ جو بیوی کو رقم بھجتا اس کی خبریں‬ ‫پچھلوں کو بھجوا دیتا۔ ادھر اس کی بیوی میکہ اور ارد گرد میں‬ ‫یہ مشہور کرنے بیٹھ گئی جو کماتا ہے اپنے پچھلوں کو بھجوا‬ ‫دیتا ہے اور ہم اسی طرح گربت کی زندگی گزارتے ہیں۔ جب کہ‬ ‫حقیقت یہ تھی کہ جو حنیف بھجواتا اس سے اس کے میکہ کی‬ ‫بھوک نکلنے لگی تھی۔ اس غلطی کے سبب دونوں خاندانوں‬ ‫میں اٹ کتے کا بیر چل نکال۔ وہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے‬ ‫کے بھی روادار نہ رہے۔‬ ‫حنیف چھٹی پر آیا تو اطراف سے خوب لون مرچ محالحہ لگا کر‬ ‫اسے خبریں دی گئیں۔ بجائے چھٹی کے دن ہنس کھیڈ کر گزارے‬ ‫جاتے جنگ جدل کی عملی کیفیتں طاری رہیں۔ ان کی اس باہمی‬ ‫بکواس کے سبب بچے بڑے ڈسٹرب ہوتے۔ جب چھٹی کاٹ کر‬ ‫جانے لگا تو اس نے عنائتاں کو گھر سے نکال دیا۔‬


‫‪40‬‬

‫چند دن تو اس نے بھائیوں کے ہاں گزارے۔ باہر سے آئی رقم‬ ‫سے اس نے پائی بھی جمع نہ کی تھی۔ کھانے والے کب کھال‬ ‫سکتے ہیں۔ وہاں اس کی زندگی عذاب ہو گئی۔ بچے کھانے‬ ‫پینے کی چیزوں تک کو ترسنے لگے۔ حنیف نے رقم بھجوانا‬ ‫بند کر دی۔ حنیف کے بڑے بھائی نے بچوں کی یہ حالت دیکھی‬ ‫تو بڑا افسردہ ہوا۔ اس نے بچوں کو کچھ کھانے پینے کی چیزیں‬ ‫بھجوانا شروع کر دیں۔‬ ‫اپنے ہی لوگوں کو یہ برداشت نہ ہوا۔ اس امر کی بڑھا چڑھا کر‬ ‫حنیف کو خبریں بیجھنا شروع کر دیں۔‬ ‫حنیف کو بھائی کی اس حرکت پر سخت غصہ آیا۔ اس نے ٹیلی‬ ‫فون پر اپنے بڑے بھائی کی بڑی بےعزتی کی۔ اس نے کسی‬ ‫الزام سے بچنے کے لیے عنائتاں اور بچوں کو کچھ بیجھنا بند‬ ‫کر دیا۔ پھر ہونا کیا تھا‘ باپ کی بھری جیب ہوتے بچے بھوکوں‬ ‫مرنے لگے۔ ہللا تو نافرمان سے نافرمان کا رزق بند نہیں کرتا‬ ‫بل کہ اسے سدھرنے کے مواقع مسیر کرتا ہے اگر نہ سمجھے‬ ‫تو وہ اپنی ہی کسی کرنی میں پھنس جاتا ہے۔‬ ‫حنیف کے دماغ میں اوقات سے باہر میسر کا فتور آ گیا تھا اور‬ ‫وہ یہ سوچنے سے عاری ہو گیا تھا کہ رزق تو ہللا کا دیا ہوا‬ ‫ہے اور اس کی جیب میں پڑا بھی ہللا ہی کا ہے۔ وہ تو اپنے‬ ‫سانس کا بھی مالک و وارث نہیں۔‬


‫‪41‬‬

‫پتا نہیں اس سے کیا ہو گیا اور وہ نوکری سے نکال باہر کر دیا‬ ‫گیا۔ جوتے چٹخاتا ہوا واپس لوٹ آیا۔ اس نے عنائتاں سے‬ ‫چھٹکارے کے لیے عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا۔ جو ساتھ الیا‬ ‫تھا کورٹ کچہری کی نذر ہو گیا۔ دوبارہ سے مشقت کی جانب‬ ‫راغب ہوا۔ اس سے پہلے کی طرح کام نہیں ہو پا رہا تھا۔ بڑے‬ ‫بھائی نے کافی بھاگ دوڑ کی اور دونوں میاں بیوی کی صالح‬ ‫کروا دی۔ ان دنوں دونوں میاں بیوی ایک چھت کے نیچے رہ‬ ‫رہے تھے لیکن اتنا بڑا جھٹکا لگنے کے باوجود انہیں عقل‬ ‫نہیں آئی تھی اور اب بھی ان کا چاال وہ ہی پرانا تھا۔‬


‫‪42‬‬

‫سدھر جاؤ‬ ‫منسانہ‬

‫خوش حال زندگی کون گزارنا نہیں چاہتا۔ خوش حال زندگی کے‬ ‫لیے ہر کوئی کوشش اور محنت کرتا ہے۔ اٹھتے بیٹھتے چلتے‬ ‫پھرتے سوتے جاتے سوچتا اور سو طرح کے منصوبے بناتا‬ ‫ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کی کوشش اور سوچ کا ثمرہ محدود‬ ‫رہتا ہے اور ان حد دولت اس کے پاس آ نہیں پاتی۔ آنکھ کی‬ ‫سیری نہ ہونے کے باعث پریشانی بےسکونی اور گھر میں‬ ‫باہمی غلط فہمیوں کے سائے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔‬ ‫سب کچھ میسر ہونے کے باوجود مایوسی کی فضا طاری رہتی‬ ‫ہے۔ قناعت کا آئینہ اندھا ہو جاتا ہے اور شخص اپنی حقیقی‬ ‫صورت دیکھنے سے بھی معذور ہو جاتا ہے۔‬ ‫اللے کرم دین کے شریف اور بھالمانس ہونے میں قطعی شبہ‬ ‫نہیں کیا جا سکتا۔ زبردست مشقتی تھا۔ وہ میسر پر گزارا کرنے‬ ‫واال شخص تھا لیکن اس کے بیوی بچے اس قماش کے نہ‬ ‫تھے۔ وہ دنیا کی ساری دولت گرہ کر لینے کی ہوس رکھتے‬ ‫تھے۔ اس کا محنتانہ ان کی ہوس کے پاسنگ نہ تھا ۔ ان کی اس‬ ‫ہوس کے باعث گھر میں ہر وقت بےچینی اور بےسکونی کی‬ ‫کیفیت طاری رہتی۔‬


‫‪43‬‬

‫وہ اکثر سوچتا آخر اس کا جرم کیا ہے جو اس کے اپنے گھر‬ ‫والے اسے سزا دے رہے ہیں۔ فارغ تو نہیں رہتا۔۔۔۔ جوا نہیں‬ ‫کھلتا۔۔۔۔ شراب نہیں پیتا۔۔۔۔ عورتوں کے پیچھے نہیں جاتا۔۔۔۔ سارا‬ ‫دن مشقت کرتا ہے اور جو میسر آتا ہے ان لوگوں پر خرچ کر‬ ‫دیتا ہے۔ یہ ہیں کہ خوش ہی نہیں ہوتے۔ خدمت تو دور رہی‘ ان‬ ‫کے پاس تو اس کے لیے ایک مسکراہٹ تک نہیں۔ جب دیکھو‬ ‫گلے شکوے‘ بول بوالرا۔ آخر اس کا جرم کیا ہے۔ اس نے کیا کیا‬ ‫ہے جس کی یہ لوگ اسے سزا دے رہے ہیں۔‬ ‫اس روز اس نے طے کر لیا کہ شیداں سے ضرور پوچھے گا‬ ‫کہ اس کا جرم کیا ہے اور وہ کیا کرے کہ اس کی زبان بند ہو‬ ‫جائے۔‬ ‫قدرتی بات تھی کہ اس روز جانے کیوں شیداں کا موڈ خوشگوار‬ ‫تھا۔ اس نے موقع کو غنیمت جانا اور شیداں سے پوچھ ہی لیا‬ ‫کہ اس میں کیا پرائی اور خرابی ہے کہ وہ ہر وقت ٹکوا لے کر‬ ‫اس کے پیچھے پڑی رہتی ہے اور وہ کیا کرے جس سے گھر‬ ‫میں سکھ اورشانتی کی فضا قائم ہو۔‬ ‫شیداں نے جوابا کہا کہ وہ سدھر جائے اپنی ان حرکتوں سے‬ ‫باز آ جائے۔‬ ‫اس نے کہا یہ ہی تو میں جاننا چاہتا ہوں کہ کن حرکتوں سے‬ ‫باز آ جاؤں۔‬


‫‪44‬‬

‫اپنی کمائی غیروں پر خرچ کرنا بند کر دو۔ اپنے بچوں کا حق نہ‬ ‫مارو۔‬ ‫تم کن غیروں کی بات کر رہی ہو جن پر میں اپنی کمائی ضائع کر‬ ‫رہا ہوں۔‬ ‫کہنے لگی بڑے بھولے بنتے ہو۔ سب کچھ ماں ففےکٹن اور اپنی‬ ‫کمینی بہن کو کھال رہے ہو۔ ہمیں دیتے ہی کیا ہو۔‬ ‫وہ جانتا تھا کہ شیداں کو کیا پیڑ ہے اور وہ کیوں روال ڈالتی‬ ‫ہے۔ وہ ماں کو دیتا ہی کیا تھا۔ ہفتے عشرے بعد چند ٹکے اور‬ ‫بیوہ بہن اور اس کے بچوں کو عید شبرات پر سستے قسم کے‬ ‫کپُڑے بنا دیتا تھا اور بس۔ یہ ہی اسے کھٹکتے تھے۔ ماں اور‬ ‫بہن کا اس پر حق تھا۔‬ ‫شیداں جب بھی بولتی اس کی ماں کو ففےکٹن کہتی جب کہ اپنی‬ ‫ماں کو ہمیشہ امی جان کہتی۔ جب اس کی ماں آتی تو بوتھا‬ ‫ٹیڑھا کر لیتی پانی تک نہ پوچھتی۔ جب اس کی ماں آتی تو امی‬ ‫جان امی جان کرتی اس کے آگے پیچھے ہوتی۔ خوب خدمت‬ ‫تواضح کرتی۔ یہ ہی نہیں اچھا پکا تک ان کے گھر بھجوا کر‬ ‫سانس لیتی۔ بچت کرکے اس کی چوری چھپے مٹھی بھی گرم‬ ‫کرتی رہتی تھی۔ بھائی کے بیٹے کا اسکول کا خرچا اٹھایا ہوا‬ ‫تھا۔ بھائی تھا کہ سیدھے منہ سے حضرت کا سالم بالنا پسند‬ ‫نہیں کرتا تھا۔‬


‫‪45‬‬

‫اگر کبھی کبھار ماں کو پنج دس روپے دے دیتا ہے تو اس سے‬ ‫کیا فرق پڑتا ہے۔ کون سا روز روز دیتا ہے۔ رہ گئی بہن اس کو‬ ‫کیا دیتا ہے۔ عید شبرات پر تیسرے درجے کے کپڑے اور بس۔‬ ‫وہ کہتی تو پھر اتنی کمائی کہاں جاتی ہے۔ اتنی پر اسے بڑا تاؤ‬ ‫آتا جیسے اس کے باپ نے دو مربعے زمین اس کے نام کر دی‬ ‫ہو یا جہیز میں ملیں الئی تھی۔‬ ‫کمائی کیا تھی وہ ہی دن بھر کا محنتانہ جو وہ ان پر خرچ کر‬ ‫دیتا تھا۔‬ ‫وہ سوچتا رہا کہ دنیا کوئی آرام دہ مقام نہیں ہے۔ باہر دنیا اور‬ ‫گھر میں اپنے لوگ زمین پر پاؤں نہیں آنے دیتے۔ کتنا بھی کچھ‬ ‫کر لو‘ خوش نہیں ہوتے۔ ایک ہللا ہی ہے جو معمولی سی‬ ‫اچھائی پر خوش ہو جاتا ہے۔ اس روز وہ بڑا ہی ڈس ہارٹ ہوا‬ ‫تھا۔ کچھ بھی کر لے‘ کتنی قسمیں کھا لے‘ گھر میں کوئی یقین‬ ‫کرنے واال نہیں تھا۔ اس کے سوچ کے حلقے گہرے ہوتے چلے‬ ‫گئے۔‬ ‫اسے یاد آیا شیداں نے کہا تھا کہ سدھر جاؤ۔ اس نے سوچا یہ‬ ‫سدھرنا کیا ہے۔ ہللا کی طرف پھرنا ہی تو اپنی حقیقت میں‬ ‫سدھرنا ہے۔ اس نے پہلی بار ہللا کو دل سے یاد کیا اور درود‬ ‫پاک پڑھنے لگا۔ ابھی آدھا بھی نہیں پڑھ پایا ہو گا کہ گہری اور‬ ‫پرسکون نیند نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔‬


‫‪46‬‬

‫بےشک ہللا اور اس کے رسول کے ہاں ہی سکھ اور چین کی‬ ‫دنیا آباد ہے۔ اگر موت جو لمبی نیند ہے‘ میسر نہ ہوتی تو دنیا‬ ‫میں پاگلوں اور وحشیوں کے سوا کے سوا کچھ نہ ہوتا۔‬


‫‪47‬‬

‫اچھا نہیں ہوتا‬ ‫ہاں میں موت‬ ‫ناں میں بہن کا گھر اجڑتا تھا‬ ‫برسوں کا بنا کھیل بگڑتا تھا‬ ‫چپ میں کب سکھ تھا‬ ‫چار سو بچھا دکھ تھا‬ ‫زندگی کیا تھی اک وبال تھا‬ ‫بھاگ نکلنے کو نہ کوئی رستہ بچا تھا‬ ‫پہیہ زندگی کا پٹڑی سے اتر رہا تھا‬ ‫زیست کا پاؤں بےبصر دلدل میں گر رہا تھا‬ ‫بےچارگی کا نیا دانت نکل رہا تھا‬ ‫بہنوئی کی آنکھوں میں سکوں کی ہریالی تھی‬ ‫آتی ہر گھڑی اس کے لیے کرماوالی تھی‬ ‫بہن کی آنکھ سے چپ کے آنسو گرتے‬ ‫ماں کی آنکھوں کے حسیں سپنے‬ ‫بےکسی کے قدموں میں بکھرتے‬


‫‪48‬‬

‫کیا کرتا کدھر کو جاتا‬ ‫خود کو بچاتا‬ ‫کہ ماں کے آنسوؤں کے صدقے واری جاتا‬ ‫زہر کا پیالہ مرے رو بہ رو تھا‬ ‫تذبذب کی صلیب پہ لٹکا کے‬ ‫شنی اپنے کارے میں سفل ہوا‬ ‫پیتا تو یہ خود کشی ہوتی‬ ‫ٹھکراتا تو خود پرستی ہوتی‬ ‫پیچھے ہٹوں کہ آگے بڑھوں‬ ‫ہاں نہ کے پل پر‬ ‫بےکسی کی میت اٹھائے کھڑا تھا‬ ‫آگے پیچھے اندھیرا منہ پھاڑے‬ ‫فیصلے کی راہ دیکھ رہا تھا‬ ‫پھر میں آگے بڑھا اور زہر کا پیالہ اٹھا لیا‬ ‫خودکشی حرام سہی‬ ‫کیا کرتا‬


‫‪49‬‬

‫بہن کی بےکسی‬ ‫ماں کے آنسو بےوقار کیوں کرتا‬ ‫ابلیس قہقے لگا رہا تھا‬ ‫نہ پیتا تب بھی اسی کی جیت تھی‬ ‫پھر بھی وہ قہقے لگاتا‬ ‫دوزخی بال نے مرے گھر قدم رکھا‬ ‫گھر کا ہر ذرہ لرز لرز گیا‬ ‫میں بھی موت کے گھاٹ اتر گیا‬ ‫جسے تم دیکھ رہے ہو‬ ‫ہنستی بستی زندگی کا بےکفن الشہ ہے‬ ‫پہلے دو ٹھکانے لگا آئی تھی‬ ‫الشے کو کیوں ٹھکانے لگاتی‬ ‫الشے کا ماس کھا چکی ہے‬ ‫ہڈیاں مگر باقی ہیں‬ ‫بہن الشے کو دیکھ کر روتی ہے‬ ‫ہڈیاں مگر کیا تیاگ کریں‬


‫‪50‬‬

‫آنسوؤں کے قدموں میں کیا دھریں‬ ‫کوئی اس کو جا کر بتائے‬ ‫اللسہ سرحدوں کی کب چیز ہے‬ ‫جہاں تم کھڑی ہو وہ تو فقط اس کی دہلیز ہے‬ ‫کوئی حادثہ ہی‬ ‫تمہیں خاوند کی اللسہ کے جہنم سے باہر الئے گا‬ ‫پھر تمہارا ہر آنسو پچھتاوے کی اگنی میں جلے گا‬ ‫تب تک‬ ‫ہڈیاں بھی یہ دوزخ کی رانی کھا چکی ہوگی‬ ‫راکھ ہو گی نہ کوئی رفتہ کی چنگاری‬ ‫ہو گی تو اللسہ کی آری‬ ‫دکھ کا دریا بہہ رہا ہو گا‬ ‫ہر لمحہ تمہیں کہہ رہا ہو گا‬ ‫حق کی بھی کبھی سوچ لیا کرو‬ ‫لقموں کا دم بھرنا اچھا نہیں ہوتا‬ ‫اچھا نہیں ہوتا‬


‫‪51‬‬

‫آئندہ کے لیے‬ ‫بہت اعلی درجے کی چیزیں میسر ہوں‘ لیکن آدمی کا بسا اوقات‬ ‫ان سے کم تر درجے کی چیز کھانے کو جی چاہنے لگتا ہے۔‬ ‫ایک مرتبہ‘ اس کے ساتھ بھی کچھ ایسی ہی صورت گزری۔ سب‬ ‫کچھ میسر تھا‘ لیکن مولی کھانے کے لیے‘ اس کی طبیعت مچل‬ ‫مچل گئی۔ پھر وہ سبزی منڈی کی طرف بڑھ گیا۔‬ ‫منڈی کے دروازے سے ایک بابا جی‘ جنہوں نے اپنے کندھے‬ ‫پر‘ مولیوں کا گٹھا اٹھا رکھا تھا‘ نکلے۔ اس میں سے ایک‬ ‫مولی نکلی اور نیچے گر گئی۔ اس نے نیچے سے مولی اتھائی‬ ‫اور بابا جی کو دینے کی غرض سے آگے بڑھا۔ جب اس نے‬ ‫آواز دی تو بابا جی نے مڑ کر دیکھا۔ جب بابا جی نے مڑ کر‬ ‫دیکھا‘ تو اس نے مولی ان کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا‪ :‬بابا جی‬ ‫یہ مولی گر گئی تھی‘ لے لیں۔ وہ مسکرائے اور کہا‪ :‬تم لے لو۔‬ ‫یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گیے۔‬ ‫پہلے تو اس نے غور نہ کیا‘ اس کے بعد اس نے غور کیا کہ‬ ‫مولیوں کا گٹھا‘ اس انداز سے بندھا تھا کہ مزید مولیاں گرنے‬ ‫کا قوی امکان تھا۔ پھر وہ چھوٹے قدموں ان کے پیچھے پیچھے‬ ‫چلنے لگا۔ کافی دور تک گیا‘ لیکن مزید کوئی مولی نہ گری۔‬ ‫اچانک بابا جی نے دوبارہ سے پیچھے مڑ کر دیکھا‘ تو اس نے‬


‫‪52‬‬

‫کہا‪ :‬بابا جی میں یہ مولی آپ کو دینے کے لیے‘ آپ کے پیچھے‬ ‫آ رہ تھا۔ یہ سن کر‘ بابا جی نے بڑے غصے سے اس کی جانب‬ ‫دیکھا۔ مولی تو نہ لی‘ لیکن بڑی سنجیدگی سے کہا‪ :‬یاد رکھو‬ ‫ہللا تمہیں اور تمہاری حاجات کو‘ تم سے زیادہ جانتا ہے اور اس‬ ‫کے مطابق عطا کر دیتا ہے۔ جب بھی‘ موجود میں مزید کا طمع‬ ‫کرو گے‘ پہلے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھو گے۔ موجود پر ہللا کا‬ ‫شکر ادا کرو‘ تا کہ وہ تمہیں تمہاری ضرورت کے مطابق عطا‬ ‫فرماتا رہے۔‬ ‫اسے اپنی حرکت پر سخت شرمندگی ہوئی‘ لیکن آئندہ کے لیے‬ ‫کان ہو گئے۔‬ ‫محترم ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب السالم علیکم‬ ‫مختصر‪ ،‬پُرمغز‪ ،‬سبق آموز‪ ،‬فکر کا مواد لئے یہ افسانہ بہت‬ ‫دور حاضر کی " اشرافیہ" کے منہ‬ ‫اچھا لگا۔ خاص کر یہ ہماری ِ‬ ‫پر طمانچہ نہیں بلکہ تپنچہ ہے لیکن اگر اشرافیہ ڈھیٹ ہو ‪ ،‬جو‬ ‫ہے ‪ ،‬بڑے بڑے توپ بھی بےکار ہیں۔‬


‫‪53‬‬

‫ڈاکٹر صاحب‬ ‫معاشرہ کو آئینہ دکھانا آپ کا کام ہے اسی احسن طریقہ سے‬ ‫نباہتے رہئے۔‬ ‫سدا سالمت رہیں اور قلم کا پاس کرتے رہیں۔‬ ‫والسالم‬ ‫ب دعا‬ ‫طال ِ‬ ‫کفیل آحمد‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10463.0‬‬


‫‪54‬‬

‫منہ سے نکلی‬ ‫جب بھی کوئی بچہ گر جاتا یا اسے کسی اور وجہ سے چوٹ آ‬ ‫جاتی‘ فتو کے منہ سے بےساختہ نکل جاتا‪ :‬ہائے تیری ماں‬ ‫مرے۔‬ ‫یہ فتو کے نہیں‘ ممتا کے منہ نکلی آواز ہوتی اور اس میں درد‬ ‫بھی ہوتا۔ ماں بےشک ماں ہوتی ہے اور دنیا میں اس کا کوئی‬ ‫متبادل رشتہ موجود نہیں۔ اس قسم کی مادرانہ شفقت‘ میں اپنی‬ ‫ماں کے ہاں بھی دیکھتا اور سنتا آرہا ہوں۔ تب ہی تو تکلیف‬ ‫میں بےساختہ منہ سے ہائے ماں نکل‬ ‫جاتا ہے۔‬ ‫ایک بار میں بیمار پڑا۔ فتو میرا سر دبا رہی تھی۔ تکلیف میں‬ ‫شدت ہوئی تو میرے منہ سے ہائے ماں نکل گیا۔ فتو نے وہیں‬ ‫ہاتھ روک لیے اور غصہ سے اپنی چارپائی پر جا کر لیٹ گئی۔‬ ‫میں نے اس کی طرف دیکھا اور کہا‪ :‬کیا ہوا‘ کیوں روٹھ کر چلی‬ ‫گئی ہو۔ دیکھ تو رہی ہو کہ میں تکلیف میں ہوں۔‬ ‫بڑی غصیلی آواز میں کہنے لگی‪ :‬دبا میں رہی ہوں‘ یاد ماں کو‬ ‫کرتے ہو۔ جاؤ اسی سے دبوا لو۔‬


‫‪55‬‬

‫اس کی بات میں دم تھا اور میں شرمندہ سا ہو گیا۔ کافی دیر تک‬ ‫من من کرتا رہا لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ منہ سے نکلی‬ ‫کیسے منہ میں جا سکتی تھی۔ آئندہ سے اس کا نام لینے کا‬ ‫وعدہ بھی کیا حاالں کہ یہ بس سے باہر کی چیز تھی۔‬ ‫اس روز چھوٹی کاکی گر پڑی مجھے دکھ ہوا۔ میں تیزی سے‬ ‫اس کی جانب بڑا۔ میری پدرتا پورے پہار کے ساتھ جاگی۔ سابقہ‬ ‫تجربے کے تابع‘ میں نے منہ سے ہائے تیری ماں مرے نکاال۔‬ ‫اپنی اصل میں یہ مادرتا کی قدر کرنے کے مترادف تھا۔‬ ‫وہ کاکی کا دکھ تو بول گئی اور دونوں پاؤں سمیت مجھ پر چڑھ‬ ‫دوڑی۔ ہاں ہاں تم تو چاہتے کہ میں مر جاؤں‪ ،‬میں بڑے دنوں‬ ‫سے تمہارے بدلے بدلے تیور دیکھ رہی ہوں۔ تم تو ہو ہی‬ ‫ناشکرے۔ جتنا کرو یہاں اس کیے کی کوئی وٹک نہیں۔‬ ‫یہ کہہ کر بھائی کے گھر روٹھ کر جانے کے لیے تیار ہونے‬ ‫لگی۔ میں نے قسم کھا کر اس پر اصل حقیقت واضح کرنے کی‬ ‫کوشش کی‪ ،‬مگر کہاں جی خالصی نہیں کر رہی تھی۔‬ ‫مانتا ہوں میرے کہے میں سو فی صد دانستگی تھی۔ دس بیس‬ ‫پرسنٹ خواہش بھی تھی لیکن خواہش سو فی صد نہ تھی۔‬ ‫دوسرا میرے کہے پر وہ مر تھوڑا جاتی۔ اگر ایسا ہوتا تو دنیا‬ ‫میں کوئی عورت باقی نہ رہتی۔ اس کے منہ سے سیکڑوں بار‬ ‫ہائے تیری ماں مرے نکال لیکن وہ ایک بار بھی نہ مری تھی۔‬


‫‪56‬‬

‫کچھ باتیں کہنے کی ہوتی ہیں لیکن ہونے کا اس سے کوئی تعلق‬ ‫واسطہ نہیں ہوتا۔‬ ‫خیر چھوڑیے مجھے اپنی اس دانستگی کی بڑی کڑی سزا ملی۔‬ ‫منتیں ترلے تو کیے ہی‘ کانوں کو ہاتھ لگانا پڑے‘ ساتھ میں پال‬ ‫بھی جھاڑنا پڑا۔‬


‫‪57‬‬

‫عزیز مکرم حسنی صاحب‪ :‬سالم مسنون‬ ‫آپ کے یہ مختصر لیکن معنی آفریں انشائیے دلچسپ اور سبق‬ ‫آموز ہوتے ہیں باہر لوگ ان کو بہت شوق سے پڑھتے ہیں۔‬ ‫افسوس کہ ہر شخص (بشمول راقم الحروف) ہر انشائیے پر‬ ‫اظہار خیال نہیں کرتا ہے اور شاید کر بھی نہیں سکتا۔ میری‬ ‫ناچیز داد حاضر ہے۔ ہللا آپ کو نوازے‬ ‫آپ کی موجودگی ہمارے لئے باعث مسرت وافتخار ہے۔ اور‬ ‫اردو انجمن اس عنایت کے لئے آپ کی ممنون احسان ہے۔ یقین‬ ‫ہے کہ اپ اسی طرح ہماری ہمت افزائی کرتے رہیں گے۔‬ ‫ایک گزارش ہے۔ آپ لکھتے رہتے ہیں لیکن دوسروں کی‬ ‫تخلیقات پر کبھی اظہار خیال نہیں کرتےہیں۔ آپ کی اعانت اور‬ ‫رہنمائی اور گاہےگاہے داد کی ہم سب کو ضرورت ہے۔ خدا را‬ ‫دوسروں پر بھی لکھئے اورصرف رسمی ستائش نہیں بلکہ‬ ‫ناقدانہ نگاہ ڈالئے۔ بڑی عنایت ہوگی۔ شکریہ‬ ‫سرور راز‬

‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10464.0‬‬


‫‪58‬‬

‫یک مشت‬ ‫شہاب دین سارا دن دفتر میں صاحب کی چاکری کرتا۔ وہاں سے‬ ‫ایک مل مالک کے گھر جاتا۔ ان کا سودا سلف التا یا کوئی اور‬ ‫کام ہوتا تو وہ انجام دیتا۔ کبھی آٹھ بجے تو کبھی دس بجے وہاں‬ ‫سے خالصی پاتا تو گھر آتا۔ اس وقت اس کا جسم ٹوٹ پھوٹ سا‬ ‫گیا ہوتا اور اسے آرام کی اشد ضرورت ہوتی۔ مگر کہاں‘ گھر آتا‬ ‫تو کوئی ناکوئی گھریلو رپھڑ اس کا انتظار کر رہا ہوتا۔ اسے‬ ‫نپٹانے میں اچھا خاصا وقت اٹھ جاتا۔ گھر والی اس سے بےنیاز‬ ‫تھی کہ وہ سارا دن کتنی مشقت اٹھاتا ہے۔ گھر کی دال روٹی‬ ‫چالنے کے لیے اسے کتنے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔‬ ‫اس روز بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ اس نے گھر کی دہلیز پر قدم‬ ‫رکھا ہی تھا کہ زکو اپنے دانت درد کا سیاپا لے کر بیٹھ گئی۔ اس‬ ‫نے بڑے تحمل سے کہا۔ کاکے کو ساتھ لے کر ڈاکٹر سے دوا‬ ‫لے آنا تھی۔ ابھی ایک پیراسیٹامول کی گولی لے لو اور ساتھ‬ ‫میں اچھی طرح حکیم صاحب واال منجن کر لو۔ مجھے کھانے کو‬ ‫کچھ دو سخت بھوک لگی ہوئی ہے۔ تمہیں کھانے کی پڑی ہے‬ ‫ادھر میں درد سے مر رہی ہوں۔ وہ بڑ بڑ کرتا ہوا صبر شکر‬ ‫کرکے بھوکا ہی چارپائی پر لیٹ گیا۔ تھکا ہوا تھا سخت بھوک‬ ‫کے باوجود نیند نے اس کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ چوں کہ‬


‫‪59‬‬

‫پیشاب کرکے نہیں سویا تھا اس لیے اسے آدھی رات کو اٹھنا‬ ‫پڑا۔ زکو گہری نیند سو رہی تھی لہذا اس نے اسے جگانا مناسب‬ ‫نہ سمجھا اور دوبارہ آ کر لیٹ گیا۔‬ ‫صبح ٹھیک ٹھاک اٹھی بچوں کو کھال پال کر سکول بھیج دیا۔‬ ‫پھر خود بھی پیٹ بھر کر کھایا۔ وہ بھی اتنی دیر میں کام پر‬ ‫جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ ناشتہ پانی دینے کی بجائے دانت کا‬ ‫درد لے کر بیٹھ گئی۔ کہنے لگی ساری رات درد سے سو نہیں‬ ‫حاالں کہ وہ خراٹے بھری نیند سوئی تھی۔ وہ خود ہی ‘سکی‬ ‫رسوئی میں گھس گیا۔ بھوک نے اسے نڈل کر دیا‘ جو ہاتھ لگا‬ ‫کھا لیا۔ وہ متواتر بولے جا رہی تھی۔ اس نے کام پر جاتے ہوئے‬ ‫کہا‪ :‬ڈاکٹر کے پاس جا کر دوائی لے آنا۔ دانت کا درد سخت‬ ‫تکلیف دیتا ہے۔ پیسے تمہارے پاس ہیں ہی۔ اس کے بعد کوئی‬ ‫جواب سنے بغیر کام پر چال گیا۔ اسے زکو کی اس حرکت پر‬ ‫کوئی غصہ نہ آیا‘ کیوں کہ یہ کوئی نئی بات نہ تھی روز کا رونا‬ ‫تھا۔‬ ‫رات کو جب گھر لوٹا تو اس نے پوچھا‪ :‬دوا الئی ہو۔‬ ‫دانت میں سخت درد ہو رہا ہے۔ ‘اس نے جوابا کہا‪ :‬نہیں الئی‬ ‫النا تھی۔ خواہ مخواہ درد برداشت کر رہی ہو۔ ‘کیوں نہیں الئی‬ ‫لگتا ہے دانت نکلوانا پڑے گا۔‬


‫‪60‬‬

‫کیوں نکلواتی ہو‘ دانت دوبارہ تو نہیں اگے گا۔ کھانے پینے میں‬ ‫دشواری ہو گی۔‬ ‫باطنی طور پر وہ چاہتا تھا کہ نکلوا ہی لے چلو چار دن تو اس‬ ‫کے منہ کو چپ لگے گی۔ پھر وہ اس سے جعلی ہم دردانہ بحث‬ ‫کرتا رہا۔ اسے معلوم تھا کہ جس کام سے وہ منع کرئے گا زکو‬ ‫وہ کام کرکے ہی رہے گی۔ کافی دیر بحث کرنے کے بعد اس نے‬ ‫کہا چلو جس طرح مناسب سمجھتی ہو‘ کر لو۔‬ ‫اچھا تو کل میں گاؤں جاتی ہوں وہاں سے دانت نکلواتی ہوں۔‬ ‫ہمارے گاؤں کا ڈاکٹر بڑا سیانا ہے۔‬ ‫دلی طور پر وہ چاہتا تھا کہ چلی ہی جائے چار دن تو سکون کے‬ ‫کٹیں گے۔ دانت نکلوا کر آئے گی تو بھی دو ایک دن اس کے‬ ‫منہ کو سکون رہے گا۔‬ ‫اس نے کہا‪ :‬شہر چھوڑ کر گاؤں جاتی ہو۔۔۔۔ نہیں نہیں یہاں ہی‬ ‫سے نکلوا لو یا ڈاکٹر کو دیکھا لو جو مشورہ دے گا کر لینا۔‬ ‫اسے دوبارہ سے ناٹک کرنا پڑا۔ وہ گاؤں جانے پر اڑی رہی۔‬ ‫پھر اس نے کہا اچھا جیسے تمہاری مرضی کر لو۔‬ ‫وہ اپنی جیت پر خوش تھی۔ حاالں کہ جیت اسی کی ہوا کرتی‬ ‫تھی۔ اگلے دن صبح صبح ہی وہ گاؤں جانے کے لیے بچوں‬ ‫سمیت تیار ہو گئی۔ کام پر جاتے ہوئے اس نے کہا گھر کی چابی‬


‫‪61‬‬

‫خالہ رحمتے کو دے دینا۔‬ ‫زکو گاؤں میں پورا ہفتہ گزار کر آئی۔ اس نے گھر آتے ہی اس‬ ‫سے دانت کے متعلق پوچھا۔ تمہیں اس سے کیا۔ تم کون سا میرا‬ ‫پوچھنے گاؤں آ گئے تھے۔ اس نے ہفتہ عیش اور مرضی کا‬ ‫گزرا تھا۔ دانت اس نے نکلوایا یا نہیں نکلوایا وہ یہ نہ جان سکا‬ ‫ہاں البتہ اس نے اس کی کوتاہی کی پاداش میں ہفتہ بھر کی یک‬ ‫مشت کسر نکال دی اور اسے چوں تک کرنے کا موقع فراہم نہ‬ ‫کیا۔‬ ‫‪………………..‬‬


‫‪62‬‬

‫دیگچہ تہی دامن تھا‬ ‫بہت پہلے کی ناسہی لیکن اتنا ضرور طے ہے کہ یہ بات پہلے‬ ‫کی ہے۔ اب کہ دو نمبری کے لیے اتنی مشقت نہیں اٹھانا پڑتی۔‬ ‫دو نمبری کا سامان سامی خود اپنے ہاتھ سے فراہم کرتی ہے۔‬ ‫ہاں یہ بات حتمی طور پر نہیں کہی جا سکتی کہ دو نمبری کے‬ ‫لیے دو نمبر کا سامان فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہ چھین لینے‬ ‫کا رواج عام ہو گیا ہے۔ ہتھیار آکڑ خان کے لیے اٹھانا پڑتا ہے‬ ‫ورنہ قدرے شریف کو آنکھیں دیکھا کر اس کی گرہ صاف کر لی‬ ‫جاتی ہے۔ اسی طرح قدرے شریف‘ شریف سے اونچی یا گال‬ ‫پھاڑ آواز سے کام لے کر اس کی گرہ خالی کرنے کا ڈھنگ‬ ‫خوب خوب جانتا ہے۔‬ ‫اس روز ان چاروں کو کافی مشقت سے کام لینا پڑا تب جا کر‬ ‫ڈوموں کی مرغی ہاتھ لگی۔ مرغی پلی پالئی نفیس اور بڑی‬ ‫نخرے والی تھی۔ جھانسہ دینے میں بھی بڑی طاق تھی۔ ادھر‬ ‫سے ادھر اور ادھر سے ادھر آنے جانے میں اسے ملکہ حاصل‬ ‫تھا۔ وہ بھی ہٹ کے پکے تھے۔ ان کا روز کا کام تھا کیسے بچ‬ ‫کر نکل جاتی۔ ساتھ کے گاؤں کے مولوی صاحب سے تکبیر‬ ‫پڑھائی اور اسے ڈکرے ڈکرے کرکے دیگچے کے حوالے کر‬ ‫دیا۔ پکنے کے بعد حسب معاہدہ چوتھائی مولوی صاحب کی‬


‫‪63‬‬

‫خدمت میں نذرانہ پیش کر دیا۔ یہ ان کا یقینا بہت بڑا احسان تھا‬ ‫وہ حرام کو حالل میں تبدیل کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے آ‬ ‫رہے تھے تاہم حالل کو حرام قرار دینا بھی ان کے لیے قطعا‬ ‫دشوار نہ تھا۔‬ ‫کھانے لگے تو انہیں ایک انوکھا طور سوجھا۔ ان میں سے ایک‬ ‫کہنے لگا۔ اس پکوان کو کل صبح وہ کھائے جو سب سے اچھا‬ ‫اور بڑھیا خواب دیکھے۔ یہ تجویز سب کو بھائی۔ پھر وہ آرام‬ ‫اور سکون کی نیند سو گئے۔‬ ‫اگلی صبح اٹھے اور اپنا اپنا خواب سنانے لگے۔‬ ‫ایک نے اپنا خواب سنایا کہ وہ ساری رات پیرس کے بازاروں‬ ‫میں پھرا اور خوب خریداری کی۔ پیرس کی نخریلی چھوریوں‬ ‫کے ساتھ آنکھ مٹکا کرتا رہا۔ ایک دو تو اس کی باہوں میں بھی‬ ‫رہیں۔‬ ‫سب نے واہ واہ کی اور اس کے خواب کی اچھی خاصی داد دی۔‬ ‫دوسرے نے خواب سنایا کہ اسے خواب میں امریکی صدر کی‬ ‫جانب سے امریکہ آنے کی دعوت ملی۔ وہ خوشی خوشی ہوائی‬ ‫جہاز پر بیٹھ کر امریکہ گیا۔ امریکی صدر اور اس کے اعلی‬ ‫عہدےدار ہوائی اڈے پر اس کا استقبال کرنے آئے۔ اس کے بعد‬ ‫وہ امریکی صدر کے ساتھ بھاری پہرے میں امریکہ کی سیر‬ ‫کرتا رہا۔ ایک دو جگہ پر اسے خطاب کرنے کا موقع بھی مال۔‬


‫‪64‬‬

‫خواب کے اچھا نہیں‘ بہت اچھا ہونے میں رائی بھر شک نہ تھا۔‬ ‫زمینی خدا کے ساتھ ہونا اور پھر اتنی عزت ملنا کوئی عام بات‬ ‫نہ تھی۔‬ ‫اب تیسرے کی باری تھی۔ اس نے کہا خواب میں آسمانی گھوڑا‬ ‫اسے اسمانوں کی سیر کرانے کے لیے آ گیا۔ اس نے دل بھر کر‬ ‫چاند ستاروں کی سیر کی۔ حوریں اور فرشتے قطار در قطار اس‬ ‫کے ساتھ رہے۔ پھر اس نے جنت کی سیر کی۔ بڑے بڑے‬ ‫بزرگوں سے بھی مالقات ہوئی۔‬ ‫یہ خواب پہلے دونوں کو کٹ کر رہا تھا۔ پکوان پر اسی کا حق‬ ‫ٹھہرتا تھا۔‬ ‫چوتھے نے کہا یار رات کو میرے ساتھ بڑا دھرو ہو گیا۔ سب‬ ‫پریشان ہو گئے اور یک زبان ہو کر بولے کیوں کیا ہوا۔ بوال یار‬ ‫ہونا کیا تھا میں گہری نیند سو رہا تھا کہ ایک حبشی جس کے‬ ‫ہاتھ میں تیز دھار تلوار تھی۔ اس نے مجھے زور سے‬ ‫جھنجھوڑا۔ میں ڈر کر اٹھ بیٹھا۔ اس نے تلوار دیکھاتے ہوئے‬ ‫کہا‪ :‬یہ تمہارے دوست ہیں تمہیں یہاں اکیال چھوڑ کر موج مستی‬ ‫کر رہے ہیں۔ چل اٹھ اور تو مرغی کھا کر دیگچہ خالی کر۔ میں‬ ‫نے جب پس وپیش کی تو اس نے مجھے تلوار دیکھاتے ہوئے‬ ‫کہا اگر نہیں کھائے گا تو تمہارا سر اڑا دوں گا۔ زور دبردستی‬ ‫کے سامنے کب کسی کی چلی ہے‘ مجبورا مجھے سارا دیگچہ‬


‫‪65‬‬

‫خالی کرنا پڑا۔ یقین مانیں پریشانی اور بدہضمی کے سبب اس‬ ‫کے بعد مجھے نیند نہ آ سکی۔‬ ‫تینوں جلدی سے دیگچے کی جانب بڑے‘ دیکھا دیگچہ اپنی تہی‬ ‫دامنی پر خون کے آنسو بہا رہا تھا۔‬


‫‪66‬‬

‫حکم عدولی‬

‫زندگی جو جیسی تھی‘ چل رہی تھی۔ ہر کوئی اپنے کام میں مگن‬ ‫تھا۔۔ گریب‘ گربت عسرت بےبسی بےچارگی اور تنگی ترسی‘‬ ‫چودھری بالمشقت عیش وعشرت اور مولوی صاحب مذہبی‬ ‫مسلے مسائل سنا کر چوپڑی کھانے میں مصروف تھے۔ کوئی‬ ‫معاملہ الجھ جاتا تو چودھری کے ڈیرے پر چال جاتا اور وہاں‬ ‫سے اپنے بندے انصاف لے کر خوشی خوشی اور جیت کے‬ ‫نشے میں گھر لوٹتے۔ کوئی الجھاؤ کی گھمیر صورت نہ تھی۔‬ ‫ہر کسی کا شخصی اسٹیٹس طے تھا۔ صدیوں سے چودھری‬ ‫زمین کا مالک تھا‘ باقی اس کے کامے یا پھر کچھ کمی تھے۔‬ ‫مراسی باطور ڈاکیا اور ایلچی اپنے فرائض انجام دیتا تھا۔ مولوی‬ ‫صاحب مذہبی امور اپنی مرضی اور اپنے سلیقے سے طے‬ ‫کرتے تھے۔ مائی صاحبہ بچوں کو چار دیواری میں تعلیم دیتی‬ ‫تھیں۔ گویا زندگی سالوں سے ایک ہی ڈگر پر چلی آ رہی تھی۔‬ ‫چھوٹی موٹی زمینی و سماوی آفاتیں ٹوٹتی رہتی تھیں لوگ اپنی‬ ‫مدد آپ کے تحت ان سے نپٹتے رہتے تھے اور اپنی بسات میں‬ ‫رہتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کرتے۔ کچھ مجبوروں کی‬ ‫مجبوری سے فائدہ بھی اٹھاتے۔ چودھری اپنوں اور جوان‬ ‫بیٹیوں اور بہنوں والوں کی مدد کرتا۔ باقی لوگوں کو تسلی تشفی‬


‫‪67‬‬

‫دیتا۔ اپنے حریفوں یا بدتمیزوں کی مالی اور زبانی خوب لہہ پہہ‬ ‫کرتا۔ مولوی صاحب دعا وغیرہ کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو‬ ‫ان کے گناہوں کی یاد دالتے۔ اکثر فرماتے یہ سب شامت اعمال‬ ‫ہے۔ تمہارے کیے کے جرم میں یہ عذاب اترا ہے۔ توبہ کرو‬ ‫صدقہ خیرات کرو اور ہللا کے گھر کی خوب خدمت کرو تا کہ تم‬ ‫پر آسمان سے آسانیاں نازل ہوں۔‬ ‫وہ مصیبت یا عذاب سے زیادہ قیامت تھی۔ اس ہڑ کے سبب لوگ‬ ‫پریشانی اور افراتفری میں گھر گئے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا‬ ‫تھا کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ لوگوں کو اشیا سے زیادہ جان‬ ‫کی فکر تھی۔ جان بچ گئی تو یہ چیزیں دوبارہ سے بن جائیں‬ ‫گی۔ جان ہی نہ رہی تو چیزوں کو سر میں مارنا ہے۔‬ ‫چودھری کو اپنی پڑی تھی وہ کسی اپنے بندے کی کیا مدد کرتا۔‬ ‫آخر سب جڑ کر مولوی صاحب کے پاس گئے کہ دعا کریں کہ‬ ‫آسمان سے آسانیاں نازل ہوں۔ مولوی صاحب کے اپنے ہاتھوں‬ ‫کے توتے اڑے ہوئے تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے کہا کہ تم‬ ‫سب ہللا کو ماننے والے ہو بسم ہللا شریف پڑھو اور پانی میں‬ ‫قدم رکھو اور اس کی برکت سے دوسرے کنارے پر پہنچ جاؤ۔‬ ‫چودھری سمیت سب نے مولوی صاحب کے کہے پر عمل کیا‬ ‫اور ہللا کے فضل وکرم اور احسان سے‘ سالمتی کے ساتھ دریا‬ ‫کے دوسرے کنارے پر پہنچ گئے۔ انہیں کچھ بھی نہ ہوا‘ حاالں‬


‫‪68‬‬

‫کہ دریا سب کچھ مٹا دینے پر تال ہوا تھا۔ ہللا کے کالم اور ہللا پر‬ ‫کامل یقین ہونے کے سبب وہ ان کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکا۔‬ ‫مولوی صاحب ان میں نہ تھے۔ لوگ پریشان ہوئے کہ اتنا نیک‬ ‫اور ہللا کا بندہ ان کے ساتھ نہیں ہے۔ انہوں نے دیکھا مولوی‬ ‫صاحب اپنے بیوی بچوں سمیت چودھری کی رہائش گاہ کی‬ ‫تیسری منزل پر کھڑا تھا۔ انہوں نے مولوی صاحب کو آوازیں‬ ‫دی کہ آپ بھی ہللا کو یاد کرکے بسم ہللا شریف پڑھ کر آ جائیں۔‬ ‫مولوی صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے۔ پھر ایک قیامت خیز لہر‬ ‫ابھری اور گاؤں کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔ ہاں البتہ مولوی‬ ‫صاحب کا بڑا بیٹا باپ کی حکم عدولی کرکے گاؤں والوں کے‬ ‫ساتھ آ گیا تھا۔‬


‫‪69‬‬

‫لوگ کیا جانیں‬ ‫شمو کی شادی کو چھے سال ہو گئے تھے۔ یہ اس کے پیار کی‬ ‫تیسری شادی تھی۔ اس کی گود ابھی تک خالی تھی۔ پہلے پیار‬ ‫سے حمل ہوا تھا جو اس نے دوسرے پیار میں اندھی ہو کر گرا‬ ‫دیا تھا۔ دوسرا تین سال چال لیکن امید سے نہ ہوئی۔ تیسرے پیار‬ ‫سے ابھی تک کوئی پیار کی نشانی سامنے نہ آ سکی تھی۔ پھر‬ ‫وہ اچانک ایک مقامی بابا صاحب کے مزار پر حاضری دینے‬ ‫لگی۔ بگو نے سمجھا بےچاری کی گود خالی ہے اسی لیے بابا‬ ‫صاحب کے دربار پر حاضری دینے لگی ہے۔ بگو کا دل بھی گھر‬ ‫کی رونق کے لیے مچل مچل رہا تھا لیکن یہ اس کے اختیار میں‬ ‫نہ تھا۔ یہ تو ہللا کریم کی مہربانی ہوتی ہے کہ وہ گھر کو‬ ‫رونقیں بخش دے یا وہ ویرانہ رہے۔ اگر یہ شخص کے بس کا‬ ‫روگ ہوتا تو دھن دولت ہی نہیں اوالد کا میوا بھی اہل ثروت‬ ‫اپنے تک محدود رکھتے۔‬ ‫ایک دن اس نے سوچا کیوں نہ دیکھا جائے کہ شمو بابا صاحب‬ ‫کے دربار پر کس طرح سے اور کیا دعا مانگتی ہے۔ وہ دربار‬ ‫کے عقب میں چھپ گیا۔ شمو کی دعا سن کر حیرت میں گم ہو گیا‬ ‫اور کچھ نہ سمجھ پایا۔ وہ بڑی آہستگی سے بڑے قدموں اس‬ ‫سے پہلے گھر آ گیا اور سوچنے لگا کہ وہ اس قسم کی دعا کیوں‬


‫‪70‬‬

‫مانگ رہی ہے۔ اس کا سوچ سوچ کر دماغ پھٹنے لگا۔ اس نے‬ ‫اگلے روز دوبارہ سے دربار پر جانے کا فیصلہ کر لیا۔ اتنی دیر‬ ‫میں شمو گھر لوٹ آئی۔ وہ چپ رہا اور شمو کو کچھ نہ جتایا۔‬ ‫اگلے دن وہ شمو سے تھوڑا پہلے دربار پر پہنچ گیا۔ شمو بھی‬ ‫تھوڑی دیر کے بعد دربار کے اندر داخل ہوئی۔ اس نے دوبارہ‬ ‫سے دعا مانگنا شروع کر دی۔‬ ‫پیرا بگو کو اندھا کر دے میں میٹھے چاولوں کی دیگ چڑھوا‬ ‫چڑھاؤں گی۔‬ ‫بگو نے آواز بدل کر کہا‪ :‬ٹھیک ہے بچہ ہم تیری دعا قبول کرتے‬ ‫ہیں۔ پر ایک شرط ہے۔‬ ‫حکم کر سوہنیا پیرا‬ ‫جا بچہ تیس دن اپنے شوہر کو دیسی گھی میں دیسی مرغا بھون‬ ‫کر کھال۔ اس کی آنکھوں میں چربی چڑھ آئے گی اور وہ کچھ‬ ‫بھی نہ دیکھ سکے گا۔‬ ‫ٹھیک اے پیرا میں آج سے ہی یہ کام شروع کر دیتی ہوں۔‬ ‫اس نے گھر آ کر دیسی مرغا ذبح کروایا اور اسے دیسی گھی‬ ‫میں بھونا۔ بگو کو بڑی پلیٹ میں ڈال کر دے دیا۔ بگو جعلی‬ ‫حیرانی سے کہنے لگا۔ بھئی بڑی خدمت کر رہی ہو خیر تو ہے۔‬ ‫شمو نے بھرپور اداکاری دیکھاتے ہوئے کہا‪ :‬میں نے سوچا کام‬


‫‪71‬‬

‫بہت کرتے ہو تمہیں اچھی اور زبردست خوراک کی ضروت ہے۔‬ ‫کچھ دن دیسی گھی میں بھنا مرغا کھاؤ گے تو تمہاری جان بن‬ ‫جائے گی۔‬ ‫واہ بھئی واہ۔ کیا بات ہے۔‬ ‫پھر وہ کچھ دیر تک جعلی پیار محبت کی باتیں کرتے رہے۔‬ ‫دیسی گھی میں بھنا مرغا کھا کھا کر بگو کی واقعی جان بن گئی۔‬ ‫مرغا کھاتے وہ بائیسواں دن تھا۔ بگو کہنے لگا۔ شمو یار یہ‬ ‫مجھے کیا ہو رہا ہے۔ جی گھبرا رہا ہے اور آنکھوں میں تارے‬ ‫سے ناچنے لگے ہیں۔ شمو جی میں خوش ہوئی کہ پیر کی‬ ‫کرامت سامنے آ رہی ہے۔‬ ‫وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ سچے پیر کسی کا کسی بھی صورت‬ ‫میں برا نہیں کرتے۔‬ ‫اس نے قیامتی مسکراہٹ کے ساتھ کہا کچھ نہیں ہوا بس تمہیں‬ ‫وہم ہو رہا ہے۔‬ ‫اس دن کے بعد اس نے نظر کے کم اور پھر تقریبا ختم ہونے کی‬ ‫خبر سنائی۔ آخر تیسویں دن کچھ بھی نظر نہ آنے کی خوش‬ ‫خبری سنا ہی دی۔ وہ دن شمو کی خوشیوں کا دن تھا۔ اس کا‬ ‫زمین پر پیر ہی نہیں آ رہا تھا۔‬ ‫بگو نے کہا‪ :‬اب میں کسی کام کا نہیں رہا ڈیوڑی میں میرا منجا‬


‫‪72‬‬

‫بچھا دو اور میرا کھونڈا دے دو کتے بلے اندر نہ آنے دوں گا۔ آ‬ ‫کر چیزوں کا ستیاناس مار دیتے ہیں۔‬ ‫شمو نے کہا‪ :‬ٹھیک ہے۔‬ ‫اس نے ڈیوڑی میں اسے منجا بچھا دیا۔ وہ جانتا تھا کہ شمو‬ ‫جاگ رہی ہے۔ تھوڑی ہی دیر بعد وہ جعلی خراٹے بھرنے لگا۔‬ ‫شمو گھر سے چپکے سے باہر نکل گئی اور کچھ دیر کے بعد‬ ‫واپس آ گئی۔ اس نے اچھی طرح دیکھا۔ بگو گہری نیند سو رہا‬ ‫تھا۔‬ ‫کچھ ہی دیر ہوئی ہو گی کہ ایک مشٹنڈا چپکے چپکے گھر میں‬ ‫داخل ہونے لگا۔ وہ ذہنی طور پر تیار تھا۔ بگو نے اس کے سر پر‬ ‫ایسا کھونڈا مارا کہ وہ چوں بھی نہ کر سکا اور پاؤں پر ٹکی ہو‬ ‫گیا۔‬ ‫گھنٹہ ہی گزرا ہو گا ایک اور مشٹنڈا گھر میں داخل ہونے لگا اس‬ ‫کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا۔ غرض سرگی ویلے تک گیارہ ڈھیر‬ ‫ہو گئے۔ اندر شمو چارپائی پر کرواٹیں لے رہی تھی۔ اسے اپنے‬ ‫ان پیاروں کے پیار پر سخت غصہ آ رہا تھا۔ پھر وہ تھک ہار کر‬ ‫سو رہی۔‬ ‫بگو چارپائی سے اٹھا اور اس نے ڈبو چرسی کو جا اٹھایا۔ اس‬ ‫کے مال پانی کا اس نے پہلے ہی بندوبست کر رکھا تھا۔ جب وہ‬ ‫آسمانون کی سیریں کرنے لگا تو اس نے اسے نوٹ وکھائے اور‬


‫‪73‬‬

‫کہا یار یہ الش دریا میں پھنک آؤ اور آ کر سارے نوٹ لے لو۔‬ ‫ڈبو چرسی دریا میں الش پھینکنے چال گیا تو اس نے دیوار کے‬ ‫ساتھ دوسری الش کھڑی کر دی۔‬ ‫واپس آ کر کہنے لگا الؤ نوٹ تو بگو نے کہا الش تو پھینک کر‬ ‫آؤ دوبارہ سے آ گئی ہے۔ ڈبو چرسی رات بھر اسی کام میں‬ ‫مصروف رہا۔ جب آتا الش وہاں کھڑی ہوتی۔ گیارویں الش‬ ‫ٹھکانے لگاتے تقریبا دن چڑھ گیا تھا اور ایک بندہ دریا نہا کر‬ ‫گھر واپس جا رہا تھا۔ ڈبو چرسی کو بڑا قہر آیا کہ یہ اب پھر‬ ‫دوبارہ سے واپس جا رہا ہے۔ اس نے اسے گردن سے پکڑا اور‬ ‫گالیاں بکتا ہوا دریا کے اندر لے گیا۔ اسے خوب ڈبکیاں دیں جب‬ ‫مر گیا تو واپس بگو کے پاس آ گیا اور کہنے لگا ساال دریا سے‬ ‫نکل کر واپس آ رہا تھا‘ اب نہیں آئے گا‘ میں اسے مار کر ہی‬ ‫واپس آیا ہوں۔‬ ‫بگو ہنسا اور کہنے لگا گیارہ شمو کے ایک تمہارا۔ ڈبو چرسی‬ ‫کچھ نہ سمجھا اور مطلب پوچھنے لگا۔ خیر چھوڑو تم یہ کش‬ ‫لگاؤ اور نوٹ جیب میں پا کر غائب ہو جاؤ۔ صبح عالقے میں‬ ‫کہرام مچ گیا لوگ کیا جانیں کہ گیارہ جنسی پیار کی بھینٹ چڑھ‬ ‫گئے جب کہ باہرواں ان حدویں جنسی پیار کی غرقابی کی راہ میں‬ ‫آنے کے سبب دریا برد ہو گیا‬


‫‪74‬‬

‫چپ کا معاہدہ‬ ‫ہماری ساتھ کی گلی میں ایک صاحب رہا کرتے تھے جو آنٹا جی‬ ‫کے نام سے معروف تھے۔ کیا کام کرتے تھے۔ کوئی نہیں جان‬ ‫پایا ناہی کسی کے پاس اتنا وقت تھا کہ ان کی کھوج کو نکلتا‘‬ ‫ان کی بیگم اتنی ملنسار نہ تھی کہ اس کے پاس عورتیں آ کر‬ ‫بیٹھ جاتیں۔ وہ کسی سے کوئی بات ہی نہ کرتی تھی۔ اگر کوئی‬ ‫عورت اس کے پاس جاتی تو مسکرا کر ملتی۔ آنے والی کی‬ ‫باتیں سن لیتی لیکن خود ہوں ہاں سے زیادہ بات نہ کرتی۔ محلہ‬ ‫میں کسی عورت سے ملنے یا اس کے دکھ سکھ میں نہ جاتی۔‬ ‫ہاں آنٹا جی کوئی مر جاتا تو اس کا جنازہ ہر صورت میں اٹنڈ‬ ‫کرتے اور بس وہیں سے گھر لوٹ جاتے۔‬ ‫شام کو گھر آتے اور پھر تھوڑی ہی دیر بعد بیٹھک میں آ بیٹھ‬ ‫جاتے اور دیر تک اکیلے ہی بیٹھے رہتے۔ ہاں محلہ کے چھوٹے‬ ‫چھوٹے بچے ان کی بیٹھک میں جمع رہتے اور وہ ان کے ساتھ‬ ‫بچوں کی طرح کھیلتے ان کے ساتھ خوب موج مستی کرتے۔‬ ‫جیب میں کھال رکھتے بال تفریق بچوں کو پیسے دیتے۔ چھٹی‬ ‫واال دن ان بچوں کے ساتھ بیٹھک میں گزارتے۔ کسی بچے کو‬ ‫کوئی مارتا تو لڑ پڑتے چاہے اس بچے کا باپ ہی کیوں نہ ہوتا۔‬


‫‪75‬‬

‫میں نے غور کیا ایک بچے کے ساتھ وہ خصوصی برتاؤ کرتے۔‬ ‫وہ بچہ بھی ان کے ساتھ بڑا مانوس تھا۔ ایک بار میں نے دیکھا‬ ‫کہ اس بچے کا ناک بہہ رہا تھا اور وہ اس کا ناک بڑے پیار‬ ‫سے اپنے رومال کے ساتھ صآف کر رہے تھے۔ میں ان کی‬ ‫بیٹھک میں داخل ہو گیا۔ انہوں نے بڑی اپناہت سے بیٹھنے کو‬ ‫کہا اور دوبارہ سے اس بچے کا ناک صاف کرنے لگے۔ میں نے‬ ‫پوچھ ہی لیا کہ یہ آپ کا بچہ ہے۔ انہوں نے میری طرف‬ ‫دیکھنے کی بجائے اس بچے سے پوچھنے لگے تمہاری ماں‬ ‫کو میں نے دیکھا ہوا ہے۔ بچے نے نفی میں سر ہالیا۔ جب میں‬ ‫نے اس کی ماں کو دیکھا ہی نہیں تو اس کی کیسے دیکھ لی۔‬ ‫پھر میری طرف دیکھا اور کہا نہیں جی یہ میرا بچہ نہیں ہے۔‬ ‫مجھے ان کی اس حرکت پر حیرت ہوئی اور میں چپ چاپ اٹھ‬ ‫کر وہاں سے چال گیا۔ مجھے ان کی یہ حرکت بڑی عجیب لگی۔‬ ‫یہ حرکت تھی بھی عجیب نوعیت کی تھی۔‬ ‫ایک دن معلوم ہوا آنٹا جی فوت ہو گئے ہیں اور بیٹھک میں ہی‬ ‫ان کی موت ہوئی۔ کیا وہ اندر نہیں سوتے تھے۔ اس روز وہ‬ ‫آنٹی دھاڑیں مار مار کر روئی اور انہیں اکالپے کا احساس ہوا۔‬ ‫وہ ان کی تھی تو بیوی لیکن بیوی کے اطوار نہ رکھتی تھی۔ وہ‬ ‫اس کا ہر قسم کا خرچہ پانی‬ ‫اٹھائے ہوئے تھے۔‬


‫‪76‬‬

‫دس بیس سال پہلے منہ میں ڈھائی گز زبان رکھتی تھی۔ اس کا‬ ‫آگا پچھا کوئی بھی نہ تھا۔ بانجھ بھی تھی۔ اس کے باوجود انہوں‬ ‫نے اسے برداشت کیا ہوا تھا۔ تین بار طالق طالق طالق کہنے‬ ‫سے ہمیشہ کے لیے خالصی ہو سکتی تھی۔ وہ ان کی خالہ کی‬ ‫لے پالک بیٹی تھی۔ ماں نے مرتے وقت بیٹے سے اپنے سر پر‬ ‫ہاتھ رکھ کر قسم لی تھی کہ کبھی اور کسی صورت میں اس کا‬ ‫ساتھ نہیں چھوڑے گا۔ بس آنٹا جی کے منہ کو تاال لگ گیا اور‬ ‫وہ بیٹھک اور محلہ کے بچوں کے ہو رہے۔ آنٹی اور آنٹا جی‬ ‫کے درمیان چپ کا معاہدہ ہو گیا تھا۔‬ ‫اب وہ دروازے کی دہلیز پر بیٹھی رہتی تھی۔ جب بھی کوئی آنٹا‬ ‫جی کا ذکر کرتا تو زار و قطار رونے لگتی لیکن منہ سے کچھ‬ ‫نہ کہتی۔ بڑی بات ہے کہ اتنا بڑا سانحہ گزر گیا آنٹا جی ہمیشہ‬ ‫کے لیے چلے گئے پھر بھی اس نے چپ کا معاہدہ نہ توڑا۔‬


‫‪77‬‬

‫کالی زبان‬ ‫جیجاں اور سائیں کی دو سال سے سالم دعا چل رہی تھی۔ انہوں‬ ‫نے ایک ساتھ مرنے جینے قسمیں کھا رکھیں تھیں۔ معاشقہ‬ ‫اپنی جگہ دونوں برے نہ تھے اور ناہی ان کی محبت رواجی اور‬ ‫وقتی تھی۔ انہوں نے ایک ساتھ رہ کر اور موقع ملنے کے‬ ‫باوجود کوئی ناشائستہ حرکت نہ کی تھی۔ اس رشتے کے بارے‬ ‫ہر روز دونوں گھروں میں گرما گرم بحث اور تکرار چلتی۔‬ ‫معاملہ سنورنے کی بجائے دن بہ دن الجھتا ہی جا رہا تھا۔‬ ‫سائیں کی ماں جب کہ جیجاں کا باپ اس رشتے کے زبردست‬ ‫حامی تھے۔ اطراف میں کڑی منڈا اپنی جگہ میاں بیوی کا جھگڑا‬ ‫چلتا۔ باطور ہم سایہ تعلقات بھی برے نہ تھے۔ وہ لوگ ایک‬ ‫دوسرے کی عزت اور پاس لحاظ کرتے تھے۔ لین دین بھی تھا۔‬ ‫اوکھے سوکھے وقت میں ایک دوسرے کے کام بھی آتے تھے‬ ‫لیکن رشتہ داری بننے کی راہ میں ظالم سماج بنے ہوئے تھے۔‬ ‫کہا جاتا تھا کہ سائیں کی زبان کالی ہے۔ اس روز باپ بیٹے میں‬ ‫بڑی تکرار ہوئی۔ وہ ایک دوسرے کو مارنے پر تلے ہوئے‬ ‫تھے۔ سائیں تھک ہار کر سر پکڑ کر وہیں زمین پر بیٹھ گیا۔ اس‬ ‫کی ماں آ گئی اور بیٹے کو دالسا دینے لگی۔ سائیں کا باپ بوال‬ ‫جتنے مرضی دالسے دے لو میں یہ رشتہ نہیں کرنے واال۔‬


‫‪78‬‬

‫سائیں کے منہ سے بےساختہ نکل گیا یا ہللا میرا باپ مر ہی‬ ‫جائے۔ سائیں کا باپ اندر سے کانپ گیا لیکن اکڑ قائم رکھتے‬ ‫ہوئے کہنے لگا‪ :‬جتنی مرضی بددعائیں مانگ لو میرا کچھ نہیں‬ ‫بگڑے گا۔‬ ‫سائیں کا باپ ساری رات نہ سو سکا۔ اس کے اندر قیامت مچی‬ ‫رہی۔ صبح وہ صحیح سالمت اٹھا۔ ہاں البتہ جیجاں کا باپ مر گیا۔‬ ‫وہ سائیں کی ماں کو شریف عورت سمجھ رہا تھا لیکن وہ تو‬ ‫چھپی رستم نکلی۔ یہ بات ضرور خوش آئند تھی کہ وہ بچ گیا‬ ‫اور یہ بھی پردہ میں رہ گیا کہ جیجاں مرحوم کی نہیں لبھو کی‬ ‫بیٹی ہے۔ سائیں کی کالی زبان نے ایک کا پردہ جب کہ دوسرے‬ ‫کا پردہ چاک کر دیا۔‬


‫‪79‬‬

‫فیصلہ‬ ‫ندی پر بڑی سی لکڑی رکھ کر لوگوں کی سہولت کے لیے‬ ‫چودھری نے پل بنوایا تھا۔ ندی پار آبادی نہ تھی محض جھاڑیاں‬ ‫تھیں۔ عورتیں مل کر رات کو جھاڑے کے لیے ندی پار جاتی‬ ‫تھیں۔ جھاڑے کے ساتھ ساتھ معامالت کی مشاورت جاری رہتی۔‬ ‫زیادہ تر ساس سسر یا پھر نند کی زیادتیاں یا پھر جنسی‬ ‫کرتوتوں کے قصے بھی زیر بحث آتے۔ دو ایک خاوند بھی‬ ‫گفتگو کی گرفت میں آ جاتے۔ رات کو ہونے والے مذاکرات اگلی‬ ‫صبح گھر کے کام کاج سے فراغت اور خاندوں کو کام پر روانہ‬ ‫کرنے کے بعد دو دو گھنٹے بعض اوقات اس سے بھی زیادہ‬ ‫وقت دیوار پر کھڑے ہو کر رواں اور بالتھکان تبصرے ہوتے۔‬ ‫اس دن چودھری کے ڈیرے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ شیدو نے‬ ‫بتایا کہ اس کی عورت نے بتایا ہے کہ ندی پار رات کو کبوتر‬ ‫آتے ہیں۔ ڈیرے سے سنی بات کھبو نے گھر آ کر اپنی زنانی کو‬ ‫بتائی۔ اس کی زنانی نے پتا نہیں رات بھر یہ بات کس طرح ہضم‬ ‫کی پھر صبح اٹھتے ہی ہم سائی کے کان میں ڈالی۔ پھر یہ بات‬ ‫ایک سے دوسری پھر تیسری غرض شام تک وہ محلہ کیا آس‬ ‫پاس کے محلوں میں اپڑ گئی۔ اگلے وقتوں میں ریڈیو ٹی وی یا‬ ‫موبائل فون نہیں ہوا کرتے تھے‘ بس اسی طرح سے دور دراز‬


‫‪80‬‬

‫کے عالقوں کی خبریں دنیا بھر میں پھیل جاتیں تھیں۔ کوئی‬ ‫دوسری والئت سے آتا کوئی نئی خبر التا تو یہ پورے عالقے‬ ‫میں پھیل کر مختلف نوعیت کے تبصروں کی زد میں آ جاتی۔‬ ‫یہ خبر کہ رام نگر کی جھاڑیوں میں کبوتروں کی ڈاریں کی‬ ‫ڈاریں رات کو اترتی ہیں‘ جئےپور پہنچنے میں کوئی زیادہ دیر‬ ‫نہ لگی۔ وہاں کے معروف شکاری رات کو ان جھاریوں میں پہنچ‬ ‫گیے۔ صبح تک کبوتروں کا انتظار کرتے رہے لیکن صبح تک‬ ‫ایک کبوتر بھی نہ آیا۔ انہوں نے صبح اٹھ کر دیکھا۔ ایک کبوتر‬ ‫کے کچھ پر بکھرے پڑے تھے۔ انہیں سخت مایوسی ہوئی۔ انہوں‬ ‫نے طے کیا آئندہ زنانیوں کی باتوں میں آ کر عملی قدم نہیں‬ ‫اٹھائیں گے۔‬ ‫افسوس یہ فیصلہ محض زبانی کالمی کا تھا۔ عمل زنانیوں کے‬ ‫کہے پر ہی ہوتا رہا اور ہوتا آ رہا ہے۔ اگلے وقتوں میں کھمب‬ ‫سے ڈار بنتے تھوڑا وقت لگتا تھا لیکن آج بھال ہو موبائل فون‬ ‫کا ایسا ہونے کے لیے منٹ سکنٹ خرچ ہوتے ہیں۔ مڈیا بھی‬ ‫کمپنی کی مشہوری کے لیے کچھ کا کچھ بنا دیتا ہے۔‬


‫‪81‬‬

‫قاتل‬ ‫بہت سے اوروں کے کارنامے شاہوں اور شاہ والوں کے کھاتے‬ ‫چڑھتے آئے ہیں اور آتے وقتوں میں ان کارناموں کے حوالہ‬ ‫سے شاہ اور شاہ والے جانے اور پہچانے گئے ہیں۔ اسی طرح‬ ‫ناکردہ یا شاہوں کے کردہ پاپ اور جرم کم زوروں کا مقدر‬ ‫ٹھہرے ہیں۔ ہٹلر انسانیت کا بدترین دشمن کہا جاتا ہے لیکن‬ ‫‪ ١٨٥٧‬میں خون میں رنگ دینے واال چٹا ساب ہل پر نہایا تاریخ‬ ‫کے اوراق پر نظر آتا ہے۔ دھرتی اور دھرتی والوں سے غداری‬ ‫کرنے والے شورےفا میں داخل ہوئے۔ اندھیر یہ کہ آج بھی‬ ‫انہیں قوم کے ہیرو سمجھا اور جانا جاتا ہے۔‬ ‫شکورے کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا حاالں کہ وہ وچارہ شاہ‬ ‫یا کسی شاہ والے کا غدار نہ تھا۔ مشقتی تھا صبح جاتا رات کو‬ ‫آتا۔ جو محنتانہ میسر آتا بیوی بچوں پر خرچ کر دیتا۔ اپنے لیے‬ ‫ایک پائی بھی بچا کر نہ رکھتا۔ اس کا مؤقف تھا اگر یہ پل سمبھ‬ ‫گئے تو وہ سفل ہو جائے گا۔ اس کا خلوص اور پیار اس کی‬ ‫کپتی بیوی کے نزدیک صفر کی حیثیت نہ رکھتا تھا۔ اس کا خیال‬ ‫تھا کہ شکورے نے باہر باہر بہت کچھ جمع کر رکھا ہے اور اس‬ ‫جمع پونجی پر سانپ بن کر بیٹھا ہوا ہے۔ الکھ قسمیں کھانے‬ ‫اور یقین دالنے کے باوجود وہ اپنی ہٹ پر ڈٹی ہوئی تھی۔ وہ‬


‫‪82‬‬

‫چاہتی تھی کہ ساری جمع پونجی اور مکان جو شکورے کو‬ ‫واراثت مال تھا۔ اس کے نام کرکے مرنے کی کرے۔ اس کے پاس‬ ‫تھا ہی لیا جو بیوی کے نام کر دیتا۔ رہ گیا مکان وہ کون سا اس‬ ‫نے قبر میں لے جانا تھا۔ بچوں کا ہی تو تھا۔‬ ‫اس کی بیوی کا اصل مسلہ یہ تھا کہ وہ سب کچھ حاصل کرکے‬ ‫اپنے یار ڈرائیور کے ساتھ جنت بسانا چاہتی تھی۔ خود تو سارا‬ ‫دن کھاتی پیتی اور جی بھر کر سوتی جب شکورا گھر آتا تو‬ ‫کوئی ناکوئی بہانہ تراش کر رات گئے تک اس کی ماں بہن ایک‬ ‫کر دیتی۔ وہ وہ باتیں اس سے منسوب کر دیتی جن کا اس کے‬ ‫فرشتوں کو بھی علم نہ ہوتا۔ وہ جان چھڑانے کی الکھ کوشش‬ ‫کرتا مگر کہاں۔ رات گئے تک مختلف قسم کے میزائل اور بم‬ ‫برساتی۔ بڑی مشکل سے خالصی ہوتی تو بن کھائے پئے صبر‬ ‫شکر کے گھونٹ پی کر سو رہتا۔ وہ یہ سب اس لیے برداشت‬ ‫کرتا کہ اس کے بچے بڑے ہو کر یہ نہ کہیں کہ باپ نے انہیں‬ ‫راہ میں ہی چھوڑ دیا۔‬ ‫اس دن تو کمال ہی ہو گیا۔ شانو نے ایسا الزام اس پر دھر دیا‬ ‫جو کبھی اس سے متعلق رہا ہی نہ تھا۔ لڑائی میں کہنے لگی تم‬ ‫نے اپنی پہلی بیوی اور بچے کو اپنی معشوقہ رجو کے لیے زہر‬ ‫دے کر مار دیا۔ اس بیوی کو مارا جو اس کی جان تھی جب کہ‬ ‫بچہ بڑی منتوں مرادوں سے ہوا تھا۔ شکورے نے پوچھا یہ‬ ‫تمہیں کس نے بتایا‘ کہنے لگی تمہاری بھرجائی نے جو بڑی‬


‫‪83‬‬

‫کھری عورت تھی۔ وہ کھری عورت جو پچاس خصم بدل کر آئی‬ ‫تھی۔ سچ اور حق کی سخت دشمن تھی۔ وہ یہ سب سن کر بڑا‬ ‫حیران ہوا اس نے اپنے بچے اور بیوی کو اس رجو کے لیے‬ ‫مارا جسے اس نے کبھی دیکھا سنا ہی نہ تھا۔ جان پہچان یا پیار‬ ‫محبت تو بڑی دور کی بات۔‬ ‫آدھی رات کو باآواز بلند کہی گئی اس بات کو آج چالیس برس ہو‬ ‫چلے ہیں۔ وہ بہ مشکل چلتا پھرتا ہے لوگ اسے آج بھی بیوی‬ ‫اور بچے کا قاتل سمجھتے ہیں۔ وہ مسجد میں سر پر کالم مقدس‬ ‫رکھ کر قسمیں کھا چکا ہے لیکن لوگ کہتے ہیں چور یار اور‬ ‫ٹھگ کی قسم کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی شرافت اور‬ ‫عالقہ کے لوگوں سے بھالئی کسی کو یاد تک نہیں۔ قیامت یہ کہ‬ ‫اسے اس کے بچے بھی بڑی امی اور اپنے بڑے بھائی کا قاتل‬ ‫سمجھتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ کہ شکورے کی بیوی نہ شاہ‬ ‫تھی اور نہ شاہ والی تھی اس کے باوجود اس کا کہا شاہ یا شاہ‬ ‫والی کا سا ثابت ہوا۔‬


‫‪84‬‬

‫میں کریک ہوں‬ ‫ببو ہمارے محلے کا اکلوتا دکان دار ہے۔ برا نہیں تو اچھا بھی‬ ‫نہیں۔ بےایمان نہیں تو اسے ایمان دار بھی نہیں کہا جا سکتا۔‬ ‫میری اس سے کوئی گہری سالم دعا نہیں‘ بس راہ چلتے ہیلو‬ ‫ہائے ہو جاتی ہے۔‬ ‫اس نے دکان بدلی تو میں نے پوچھا‪ :‬دکان کیوں بدلی ہے۔ کہنے‬ ‫لگا‪ :‬ایک تو تنگ تھی سودا پورا نہیں آتا تھا دوسرا ٹپکنے لگی‬ ‫تھی۔‬ ‫میں نے کہا چلو تم نے ٹھیک کیا۔ یہ کہہ کر کام پر روانہ ہو گیا۔‬ ‫رستہ وہ ہی تھا واپسی پر سالم دعا کے بعد میں نے دکان بدلنے‬ ‫کی وجہ دریافت کی۔ اس نے بال تردد و ترمیم وہ ہی وجہ بتائی۔‬ ‫اگلے دن جمعہ تھا‘ چھٹی ہونے کے سبب میں نے سارا دن گھر‬ ‫پر ہی گزرا۔‬ ‫ہفتے کو کام پر جاتے ہوئے اس کے پاس رکا۔ دعا سالم اور حال‬ ‫احوال پوچھنے کے بعد دکان بدلنے کی وجہ پوچھی۔ اس نے‬ ‫میری طرف بڑے غور سے دیکھا اور وہ ہی وجہ بتائی۔ وہ‬ ‫مجھے بھلکڑ سمجھ رہا تھا۔‬ ‫اس کے ساتھ زیادہ تعلقات ہی نہ تھے اور بات کیا کرتا۔ یہ ہی‬


‫‪85‬‬

‫ایک بات تھی جو اس سے آتا جاتا کرتا۔ واپسی پر حسب معمول‬ ‫رکا۔ سالم بالیا حال احوال پوچھا اور دکان بدلنے کی وجہ‬ ‫پوچھی۔ وہ اونچی اونچی بولنے لگا اور مجھ سے لڑ پڑا۔‬ ‫لگتا تھا کہ ہاتھا پائی پر اتر آئے گا۔ میں بھی ذہنی طور پر‬ ‫بھاگنے کے لیے تیار تھا۔ مجھے معلوم تھا دوڑ میں وہ میرا‬ ‫مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ وہ تو خیر ہوئی لوگ جمع ہو گئے اور‬ ‫لڑنے کی وجہ پوچھی۔ وہ چوں کہ زور زور سے بول رہا تھا‬ ‫اس لیے میں نے بڑے تحمل سے وجہ بتا دی۔ ساتھ میں یہ بھی‬ ‫کہا میرا ببو سے کوئی خاص تعلق واسطہ نہیں اس لیے سالم‬ ‫دعا کی برقراری کے لیے پوچھ لیتا ہوں۔ یہ غصہ کر گیا ہے۔‬ ‫اس میں غصہ کرنے والی ایسی کون سی بات ہے۔‬ ‫سب ہنسنے لگے اور مجھے کہا باؤ جی آپ جائیں۔ اسی طرح‬ ‫کچھ ببو کو ٹھنڈا کرنے لگے۔ ایک بندے نے ببو کی طرف دیکھ‬ ‫کر سر پر انگلی رکھی۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ میں کریک ہوں۔‬ ‫میں جعلی سنجیدگی سے ہولے قدمدں سے اپنے گھر کی جانب‬ ‫بڑھ گیا۔‬


‫‪86‬‬

‫ان ہونی‘ ان ہونی نہیں ہوتی‬ ‫تھیال مردود ہیرا پھیری اور دو نمبری میں بےمثل اور بےمثال‬ ‫رہا جب کہ تھیال شکی زندگی کے ہر معاملے کو شک و شبہ کی‬ ‫نظروں سے دیکھنے میں ضرب المثل چال آتا تھا۔ اس کا کہنا کہ‬ ‫کچھ بھی خالص نہیں رہا۔ جعلی بھی اصلی کے موافق دکھتا ہے‘‬ ‫کو سو فی ناسہی کسی ناکسی فی صد تو درست ماننا ہی پڑے‬ ‫گا۔‬ ‫تھیال مردود بات اس انداز سے کرتا کہ اس کا کہا اصلی سے‬ ‫بھی دو چار قدم آگے نکل جاتا۔ جسے ہاتھ لگے ہوئے ہوتے وہ‬ ‫بھی دھوکہ کھا جاتا۔ بات کہے تک ہی محدود نہ تھی‘ اس کا کیا‬ ‫بھی عین اصلی کی چغلی کھا رہا ہوتا۔ اسی وقت نہیں‘ بہت بعد‬ ‫میں کھلتا کہ وہ تو سراسر فراڈ تھا لیکن اس وقت جھانسے میں‬ ‫آنے والے کا کھیسہ خالی ہو چکا ہوتا۔ لٹے کی باریابی کے لیے‬ ‫وہ مزید بل کہ برابر اور بار بار لٹتا چال جاتا۔‬ ‫ہم سب تھیلے شکی کے کہے کو بکواس کا نام دیتے رہے‘ بل‬ ‫کہ اس کا مذاق اڑاتے رہے۔ اس کا کہنا تھا کہ پیرو نے اس کے‬ ‫باپ اور بہن کو تعویز ڈال ڈال کر مارا۔ میری ماں نے پیرو سے‬ ‫نکاح تو کر لیا لیکن اپنے خاوند اور بیٹی کا قتل اسے مرتے دم‬ ‫تک معاف نہ کیا۔ اس کا یہ کہا میں نے بمشکل ہنسی پر قابو پا‬


‫‪87‬‬

‫کر سنا۔ وہاں تو اس کی ہاں میں مالئی لیکن گھر آ کر خوب ہنسا‬ ‫اور انجوائے کیا۔ ایسی بات پیٹ میں کب رہتی ہے۔ دوستوں کو‬ ‫بھی لطف اندوز کیا۔ دشمنی کا یہ انداز‘ یقین مانیں بالکل انوکھا‬ ‫اور الگ سے لگا۔ نکاح بھی خاوند اور بیٹی کے قاتل سے کیا‬ ‫اور معاف بھی نہ کیا۔ عجیب اور سمجھ سے باال لوجک تھی۔‬ ‫دوسرا اگر تعویزوں سے لوگ مرنے لگتے تو آج دنیا میں ایک‬ ‫بھی زندہ نہ پھرتا۔‬ ‫یہ بات عجیب بھی ہے اور فوق الفطرت بھی۔ یہ تو ایسی ہی بات‬ ‫ہے کہ کوئی آپ سے کہے کہ کل میں نے مگرمچھ کو جاگتے‬ ‫میں اڑتے دیکھا۔ ایسی بات کہنے واال پاگل ہی ہو سکتا ہے یا وہ‬ ‫آپ سے شغال لگا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے‘ بےوقوف بنا رہا ہو۔‬ ‫بکری صدیوں سے ہاتھی چٹ کرتے آئی ہے لیکن مگرمچھ‬ ‫اڑتے نہیں دیکھا گیا۔ عالمتا مگرمچھ ہی اڑتے آئے ہیں۔ مزے‬ ‫کی بات دیکھیے اس کی عملی صورت دیکھنے میں آ گئی۔ اس‬ ‫کا مطلب یہ ٹھہرے گا‘ ان ہونی‘ ان ہونی نہیں رہی۔ گویا‬ ‫مگرمچھ کا اڑنا‘ غلط نہیں رہا۔ کہنے والے نے مگرمچھ کو‬ ‫ضرور اڑتے دیکھا ہو گا۔ یعنی مگرمچھ کی اڑان امکان میں‬ ‫داخل ہے۔‬ ‫سدی پڑھا لکھا احمق اور یبل ہے۔ لکھائی پڑھائی کی بات کرو‘‬ ‫فٹافٹ وہ کچھ بتال دے گا جو کسی کے خواب وخیال میں نہیں ہو‬ ‫گا۔ زبانی کالمی سماجیات میں بھی بڑا کمال کا ہے۔ عملی طور‬


‫‪88‬‬

‫پر منفی صفر سے بھی گیا گزرا ہے۔ ہللا نے اسے دو بیٹے عطا‬ ‫فرمائے۔ بڑا لڑکا کچھ سال اور چھوٹا لڑکا کچھ دن کا تھا کہ‬ ‫بیوی انتقال کر گئی۔ بآمر مجبوری اسے شادی کرنا پڑی‘ جس‬ ‫عورت سے شادی کی زبان طراز تو تھی ہی‘ بانجھ بھی تھی۔‬ ‫تھیال مردود جو اس کا بہنوئی تھا نے سدی یبل کی بہن کو‬ ‫ہاتھوں میں کیا اور اس کا سب کچھ چٹ کر جانے کے طمع میں‬ ‫سدی کی شادی انتہائی گھٹیا اور چول عورت سے کروا دی۔‬ ‫لوٹنے کے ساتھ ساتھ اپنی ہوس کی آگ بھی بجھانے لگا۔‬ ‫تھوڑی ہی مدت کے بعد اس عورت کی تھیلے مردود سے ان بن‬ ‫ہو گئی اور وہ سدی یبل کو لے کر وہاں سے نکل آئی۔‬ ‫ہللا نے سدی یبل کو ایک بیٹے سے نوازا۔ سدی یبل کی خوشی‬ ‫کی انتہا نہ رہی ہاں البتہ اس عورت نے سدی کا سانس لینا بھی‬ ‫حرام کر دیا۔ پہلے ہی چھوٹا مر گیا تھا اب وہ اس بیٹے کی‬ ‫خاطر اس جہنم زادی کے ساتھ نبھا کر رہا تھا۔ وہ تھیلے شکی‬ ‫کی ماں کے گزارے کا مذاق اڑایا کرتا تھا لیکن اب اس کی‬ ‫سمجھ میں آیا تھیلے شکی کا کہا غلط نہیں تھا۔ بعض حاالت کے‬ ‫تحت ناخوش گواری اور ناپسند کو بھی سینے سے لگانا پڑتا‬ ‫ہے۔ گویا مگرمچھ کا ہوا میں پرواز کرنا غلط نہیں۔‬


‫‪89‬‬

‫جذبے کی سزا‬ ‫اس میں بگڑنے والی ایسی کوئی بات ہی نہ تھی۔ بنے میاں کا‬ ‫بیٹا اپنے چھوٹے بھائی کو مار رہا تھا۔ میں نے اسے دو تین‬ ‫بار منع کیا لیکن وہ مارنے سے باز نہ آیا تو میں نے اس کی‬ ‫کھتی میں ایک رکھ دی۔ وہ روتا ہوا گھر چال گیا۔ بنے میاں بڑے‬ ‫غصہ سے باہر آئے۔ کچھ پوچھے بغیر ناصرف مجھ پر برس‬ ‫پڑے بل کہ زناٹے کی دو تین دھر بھی دیں۔ میں ان کے اس‬ ‫رویے پر سخت حیران ہوا۔ یوں لگا جیسے انہوں نے مجھ سے‬ ‫کوئی پرانا بدال چکایا ہو۔ میں بھی جوابا ان کی ٹھیک ٹھاک‬ ‫خاطر تواضح کر سکتا تھا لیکن کیجو کا منہ مار گیا۔ میں نے‬ ‫بامشکل درگزر سے کام لیا۔‬ ‫اس نے ہاتھ چال لیے اور میں چپ رہا‘ وہ سمجھا کہ ڈر گیا‬ ‫ہوں اسی لیے زبان بھی دیر تک چالتا رہا۔ اردگرد کے لوگوں‬ ‫نے ٹھنڈا کیا کہ جسے بک رہے ہو وہ تو چپ ہے۔ میں بچوں‬ ‫کے معاملہ میں کبھی نہیں پڑا۔ شاید یہاں بھی نہ پڑتا‬ ‫جذبہءپدری نے مجھے بدحواس کر دیا اور میرا ہاتھ اٹھ گیا۔‬ ‫کیجو کا چھوٹا لڑکا میرے اچھے وقتوں کی یاد تھا۔ خیر اب بھی‬ ‫جب پہاگاں گھر پر نہ ہوتی تو کیجو مزے کرا جاتی۔ اس کا سنور‬ ‫جاتا اور میرا بھی ذائقہ تبدل ہو جاتا۔ بنے میاں کو محض شک‬


‫‪90‬‬

‫تھا مگر شک یقین میں نہ بدال تھا۔‬ ‫اس روز اگر میں بھی جوابا کچھ کرتا تو لمبا چوڑا کھڑاک ہو‬ ‫جاتا۔ کیجو دنیاداری میں کمال کی مہارت رکھتی تھی۔ اگرچہ سب‬ ‫جعلی کرتی لیکن اس کا یہ فرضی بھی اول درجے کا اصلی ہوتا۔‬ ‫پہاگاں گھر پر تھی اور وہ کیجو کی بھی نانی تھی۔ بول بوالرے‬ ‫کا ایسا میدان لگتا کہ شیطان بھی توبہ توبہ کر جاتا۔ ماضی اور‬ ‫حال کے وہ وہ قصے دہرائے جاتے جو کسی کے خواب و خیال‬ ‫میں نہیں رہے۔ بکوبکی سے میری بڑی جان جاتی ہے۔‬ ‫جذبے کی سزا بڑی ازیت خیز ہوتی ہے۔ مجھے بہت معمولی‬ ‫سزا ملی تھی‘ میری چپ نے متوقع رن کا رستہ بند کر دیا تھا۔‬ ‫سچی بات تو یہ ہے کہ میری چپ نے کیجو سے تعلق خراب‬ ‫ہونے کا دروازہ بھی بند کر دیا تھا۔‬


‫‪91‬‬

‫ہللا بھلی کرے‬ ‫وہ اچھا خاصا بیٹھا باتیں کر رہا تھا‘ قہقے لگا رہا تھا۔ پتا نہیں‬ ‫اچانک کیا ہو گیا‘ او خو کہتا ہوا اٹھ بیٹھا اور بڑی تیزی سے‬ ‫گھر کی طرف بڑھ گیا۔ پیچھے سے ککو نے آواز دی‘ اوے کیا‬ ‫ہوا جو بال بتالئے بھاگ اٹھے ہو۔ ایمرجنسی۔۔۔آ کر بتاتا ہوں۔‬ ‫وہ تو چال گیا لیکن ایک موضوع چھیڑ گیا۔‬ ‫اکی کا خیال تھا کہ اس کی بیوی کا آج کیس ہونا تھا۔ ہللا خیر‬ ‫کرے اور ہللا جو بھی دے نیک اور زندگی واال دے۔‬ ‫دوکڑ نے قہقہ لگایا او نئیں یار وہ کوئی دائی ہے جو کیس اس‬ ‫نے کرنا ہے۔‬ ‫آج اس کی کمیٹی نکلنی تھی‘ ادھر ہی گیا ہو گا۔ بگڑ نے اپنی‬ ‫چھوڑی۔‬ ‫ہاں ہاں یہ ہی بات ہے۔ نکے نے گرہ لگائی‬ ‫چھوڑو یار اس کا کیا ہے کہو کچھ کرتا کچھ ہے۔ گھر سے کچھ‬ ‫لینے آیا ہو گا‘ ادھر بیٹھ کر گپیں ہانکنے لگا۔ اب دو گھنٹے بعد‬ ‫یاد آیا ہو گا‘ تب ہی تو دوڑکی لگا کر گیا ہے۔ بیگم شری سے‬ ‫چھتر کھا رہا ہوگا۔‬


‫‪92‬‬

‫اس کی اس بات پر سب ہنس پڑے‬ ‫کالیے کی بات میں دم تھا لیکن مہاجے نے اپنی ہی کہہ دی۔‬ ‫کسی مار پر گیا ہے ورنہ اس طرح سے نہ بھاگ نکلتا۔ تم کیا‬ ‫جانو‘ جانو بڑا سیانا ہے۔‬ ‫اسے ملنے گیا ہوگا۔ شبے نے ایک اور ہی شگوفہ چھوڑا۔‬ ‫اسے کیسے نیکو نے حیرت سے پوچھا‬ ‫تمہیں نہیں پتا‬ ‫نہیں تو‬ ‫ادھر کان کرو‘ بیبو‬ ‫بیبو کون‬ ‫واہ گاؤں میں خاک رہتے ہو جگو کی بیٹی‬ ‫ہائیں‘ میں یہ کیا سن رہا ہوں‬ ‫جی ہاں‬ ‫بڑا چھپا رستم نکال‬ ‫پس دیوار کی کے سیکڑوں معنی نکالے جاتے ہیں‪ ،‬قیافوں‬ ‫اندازوں کا انبار لگ جاتا ہے۔ سب قریب قریب کی کہتے چلے‬ ‫جاتے ہیں۔ کھوج یا اسرار کھلنے کے وقت کا کوئی انتظار نہیں‬


‫‪93‬‬

‫کرتا۔‬ ‫منچلے اپنی اپنی تشریح و وضاحت میں مصروف تھے کہ جانو آ‬ ‫ہی گیا اور سر سٹ کر بیٹھ گیا۔ سب اس کے منہ کی طرف‬ ‫دیکھنے لگے۔‬ ‫یار کچھ بکو گے یا یوں ہی منہ لمکائے بیٹھے رہو گے۔ بگی‬ ‫نے پوچھا‬ ‫کام نہیں ہوا۔ جانو نے تقریبا روتے ہوئے کہا‬ ‫بڑا دکھ ہوا جانو یار لیکن کون سا کام۔ بگی نے افسوسیہ انداز‬ ‫اختیار کرتے ہو۔‬ ‫یار تم لوگ جانتے ہو معدے کا مریض ہوں۔ آج تین دن ہوئے‬ ‫پوٹی نہیں آئی۔ لگا تھا پوٹی آئی ہے۔ لیٹرین میں بیٹھ بیٹھ کر‬ ‫تھک گیا۔ صرف ہوا سری ہے۔ ہار کر اٹھ آیا ہوں۔‬ ‫سب اس کا جواب سن کر ہنسنے لگے۔ واہ جی واہ‘ کھودا پہاڑ‬ ‫نکال چوہا جگو نے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔‬ ‫او جگو یار تم جاہل ہو نا۔ جانو نے جوابا کہا‬ ‫ہاں جی میں جاہل ہوں تم تو دلی سے ایم آ پاس کرکے آ گئے ہو‬ ‫نا۔‬ ‫پاگل قبض تمام بیماروں کی ماں ہے۔ میرے اندر جو قیامت بپا‬


‫‪94‬‬

‫ہے وہ میں ہی جانتا ہوں۔ جانو نے روتے ہوئے کہا‬ ‫ماحول ناخوشگوار ہو گیا۔ چند لمحوں کے لیے سب کو چپ سی‬ ‫لگ گئی۔ جگو ہی نے سوگواری سی توڑتے ہوئے کیا۔ یار کیوں‬ ‫پریشان ہوتے ہو‘ ہللا بھلی کرے۔‬


‫‪95‬‬

‫آخری کوشش‬ ‫درندے کے قدموں کی آہٹ اور بھی قریب ہو گئی تھی۔ اس نے‬ ‫سوچا اگر اس کے دوڑنے کی رفتار یہی رہی تو جلد ہی درندے‬ ‫کے پنجوں میں ہو گا۔ اس نے دوڑنے کی رفتار اور تیز کر دی۔‬ ‫پھر اس نے سوچا کیا وہ اور اس جیسے کمزور طاقتور کے‬ ‫آگے دوڑنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں؟ جب اور جہاں کمزور کی‬ ‫رفتار کم پڑ جاتی ہے طاقتور دبوچ لیتا ہے۔ اس کے بعد زندگی‬ ‫کا ہر لمحہ طاقتور کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ چند لمحوں کے‬ ‫ذہنی سکون کے بعد طاقتور چیر پھاڑ کر اپنی مرضی کے حصے‬ ‫کھا پی کر جان بناتا ہے۔ لمحہ بھر کے لیے بھی وہ یہ سوچنے‬ ‫کی ذحمت گوارا نہیں کرتا کہ کمزور کے دودھ پیتے بچوں کا کیا‬ ‫ہو گا۔ اس کے جانے کے بعد اس سے کم طاقتور بقیہ پر بڑی‬ ‫بے دردی سے ٹوٹ پڑتے ہیں اور وہ بوٹی بوٹی نوچ لیتے ہیں۔‬ ‫یہاں تک کہ ہڈیوں پر بھی رحم کھایا نہیں جاتا۔ کھایا بھی کیوں‬ ‫جائے ہڈیاں فاسفورس کی کانیں ہیں۔ بٹنوں کے لیے ان کی‬ ‫ضرورت رہتی ہے۔‬ ‫اس کے بھاگنے کی رفتار میں مزید اضافہ ہو چکا تھا۔ سوچ‬ ‫خوف اور بچ نکلنے کی خواہش نے اس کے جسم میں ہونے‬ ‫والی ٹوٹ پھوٹ کا احساس تک نہ ہونے دیا۔ وہ ہر حالت میں‬


‫‪96‬‬

‫دشمن کی گرفت سے باہر نکل جانا جاہتا تھا لیکن دشمن بھی‬ ‫اسے بخش دینے کے موڈ میں نہ تھا کیونکہ اس کی رفتار میں‬ ‫بھی ہر اضافہ ہو گیا تھا۔‬ ‫موت کا گھیرا تنگ ہو گیا تھا۔ اس کے سامنے کھال میدان دائیں‬ ‫دریا بائیں گہری کھائی اور پیچھے خونخوار درندہ تھا۔ رستے‬ ‫کے انتخاب کے حوالہ سے یہ بڑی سخت گھڑی تھی۔ پھر وہ‬ ‫بائیں مڑ گیا۔ اس نے جسم کی ساری طاقت جمع کرکے کھائی‬ ‫تک پہنچنے کی کوشش کی۔ درندہ فقط ایک قدم کے فاصلے پر‬ ‫رہ گیا تھا۔ اس سے پہلے درندے کا پنجہ اس کی گردن پر پڑتا‬ ‫اس نے کھائی میں چھالنگ لگا دی۔ درندے کے اپنے قدم اس‬ ‫کی گرفت میں نہ رہے۔ کوشش کے باوجود رک نہ سکا اور وہ‬ ‫بھی گہری کھائی کی نذر ہو گیا۔‬ ‫کمزور کے جسم کی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں اور دم اکھڑ رہا تھا۔‬ ‫اس نے سراٹھا کر دیکھا کچھ ہی دور درندہ پڑا کراہ رہا تھا۔ اس‬ ‫کی ٹانگیں ٹوٹ گئی تھیں۔ بھوک درد کے زنداں میں مقید ہو گئی‬ ‫تھی۔ کمزور کے چہرے پر آخری مسکراہٹ صبح کازب کے‬ ‫ستارے کی طرح ابھری۔ اس کی آخری کوشش رنگ ال چکی‬ ‫تھی۔ اسے اپنی موت کا رائی بھر دکھ نہ تھا۔ اس نے خود یہ‬ ‫رستہ منتخب کیا تھا۔ اب یہ درندہ کبھی کسی کمزور کا وحشیانہ‬ ‫تعاقب نہ کر سکے گا اور اس کی ٹانگوں سے ہمیشہ اف اف اف‬ ‫کے بزدل نعرے بلند ہوتے رہیں گے۔‬


‫‪97‬‬

‫مکرم بندہ جناب حسنی صاحب‪ :‬تسلیمات‬ ‫فی زمانہ نثر نگاری کا فن زنگ آلود ہو چالہے۔ کوئی رسالہ بھی‬ ‫اٹھا کر دیکھئے توسوائے چند اوسط درجہ کے افسانوں اور چند‬ ‫منظومات (غزل اور آزاد نظمیں) کے عالوہ کچھ اور نظر نہیں‬ ‫آتا۔ ماضی میں رسالوں میں ادبی‪ ،‬علمی اور تحقیقی مضامین‬ ‫کثرت سے ہوا کرتے تھے۔ تنقید و تبصرہ فن کی حیثیت سے‬ ‫سیکھے اور سکھائے جاتے تھے اورافسانہ نگاری بھی اونچے‬ ‫معیار کی حامل تھی۔ اب ادب پر ایک عمومی زوال تو طاری ہے‬ ‫ہی نثر نگاری خصوصا اضمحالل کا شکار ہے۔ غزل کہنا لوگ‬ ‫آسان سمجھتے ہیں (حاالنکہ ایسا نہیں ہے)۔ غزل میں وقت کم‬ ‫لگتا ہے اور نظم میں اور نثر میں زیادہ ۔ نثر مطالعہ اور تحقیق‬ ‫بھی چاہتی ہے جس سے ہماری نئی نسل بیگانہ ہو کر رہ گئی‬ ‫ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ کوئی زبان بھی صرف ایک صنف سخن کے‬ ‫بل بوتے پر پھل پھول نہیں سکتی لیکن اردو والے اس معمولی‬ ‫سی حقیقت سے یا تو واقف ہی نہیں ہیں یا دانستہ اس سے‬ ‫صرف نظر کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ کی اردو محفلیں بھی اسی‬ ‫مرض کا شکار ہیں اور وہاں بھی سوائے معمولی غزلوں کے‬ ‫(جن میں سے بیشتر تک بندی ہوتی ہیں) کچھ اور نظر نہیں آتا۔‬ ‫آپ کی نثرنویسی میں مختلف کوششیں اس حوالے سےنہایت‬ ‫خوش آئند ہیں۔ آپ مطالعہ کرتے ہیں ‪،‬سوچتے ہیں اور انشائیے‬ ‫لکھتےہیں۔ اس جدوجہد کو قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔ میں‬


‫‪98‬‬

‫اپنی مثال کسی خودستائی کی شہ پر نہیں دیتا بلکہ دوستوں کو‬ ‫یہ بتانا چاہتا ہوں کہ شوق‪،‬محنت اور لگن ہو تو بہت کچھ ہو‬ ‫سکتا ہے۔ میں نے انجینیرنگ پر نصابی کتابیں لکھی ہیں۔ ان‬ ‫کے عالوہ غزل‪ ،‬نظم‪ ،‬افسانے‪ ،‬ادبی مضامین‪ ،‬تحقیقی مضامین‪،‬‬ ‫ادبی تنقید وغیرہ سب ہی لکھا ہے۔ یقینا سب کچھ اعلی معیار کا‬ ‫نہیں ہے لیکن بیشتر اچھے معیار کا ہے اور ہندو پاک کے‬ ‫معتبر اور موقر رسالوں میں شائع ہوتا ہے۔ میں آپ کی انشائیہ‬ ‫نگاری کا مداح ہوں اور درخواست کرتا ہوں کہ برابر لکھتے‬ ‫رہہئے۔‬ ‫زیر نظر انشائیہ اچھا ہے لیکن یہ مزید بہتر ہو سکتا تھا سو اپ‬ ‫وقت کے ساتھ خود ہی کر لیں گے۔ خاکسار کی داد حاضر ہے ۔‬ ‫باقی راوی سب چین بولتا ہے۔‬ ‫سرور عالم راز‬


‫‪99‬‬

‫ُمحترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم‬ ‫اس تحریر پر ہم کُچھ نہ لکھیں گے۔ فقط یہی کہ اسے پڑھ کر‬ ‫رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور تحریر کے اختتام کے قریب‬ ‫سانسیں ُرک جاتی ہیں۔ اور پھر منہ ک ُھال کا ک ُھال رہ جاتا ہے۔‬ ‫اس کے اندر جو کرب ہے اور جو کُچھ یہ انگلیاں لکھنے کو‬ ‫دوڑ رہی ہیں‪ ،‬اُسے بصد مشکل روکتے ہوئے‪ ،‬ایک بار پھر‬ ‫سے بھرپور داد ۔۔۔‬ ‫دُعا گو‬ ‫وی بی جی‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=7975.0‬‬


‫‪100‬‬

‫تیسری دفع کا ذکر ہے‬ ‫پہلی دفعہ کا ذکر اس لیے اتنا اہم نہیں کہ یہ دو ٹوک تھا اور اس‬ ‫کے ساتھ کوئی واقعہ‪ ،‬معاملہ یا مسلہ وابستہ نہیں۔ میں بیمار‬ ‫پڑا۔ طبعیت ضرورت سے زیادہ بوجھل تھی۔ طبعیت خراب ہو تو‬ ‫ہائے وائے کی آوازیں ناچاہتے ہوئے بھی بےساختہ بل کہ از‬ ‫خود منہ سے نکل جاتی ہیں۔ اگر توجہ اور خدمت کی تمنا ہو تو‬ ‫آدمی اس ذیل میں منہ کا سپیکر قدرے بلند کر دیتا ہے۔ یقین‬ ‫مانیے میں سچ مچ میں بیمار تھا اس لیے خصوصی توجہ کا‬ ‫طالب بھی تھی۔ خیال تھا کہ میرے پورے گھر والی پریشان ہو‬ ‫کر توجہ دے گی۔ میرا یہ خیال خاک کا شکار ہو گیا جب اس نے‬ ‫کہا نیچے چلے جاؤ کہیں میرے متھے لگتے ہو۔ میں کپڑے‬ ‫جھاڑتا ہوا نیچے آ گیا۔ ایک بیمار تھا اوپر اس بے رخی کا‬ ‫صدمہ بھی ہوا۔ چوں کہ پہلی دفعہ کا ذکر دو لمحوں کا تھا اس‬ ‫لیے اسے دفع کو ماریے۔‬ ‫دوسری دفعہ چوں کہ بے ہوشی کی حالت ناسہی نیم بےہوشی‬ ‫کی کیفیت ضرور تھی۔ ہسپتال سے چوتڑوں اور بازوں پر کئی‬ ‫ایک ٹیکے لگوا کر گھر الیا گیا۔ چوتڑوں کے ٹیکے اس لیے‬ ‫محسوس نہ ہوئے کہ پیاری سی نرس نے دلی ہم دردی سے‬ ‫لگائے تھے‘ ہاں البتہ بازو ضرور دکھے کہ وارڈ بوائے نے‬


‫‪101‬‬

‫پوری بےدردی سے لگائے تھے۔‬ ‫چھوٹی گھروالی کا ہسپتال جا کر پوچھنا تو بہت دور کی بات ہے‬ ‫اسے گھر میں آ جانے کے بعد آدھی زبان سے پوچھنے تک کی‬ ‫توفیق نہ ہوئی۔ میں نیم مردہ سی حالت میں لیٹا ہوا تھا۔ اچانک‬ ‫اسے کوئی خیال آیا‘ پھر کیا تھا کہ بالتکان دو گھنٹے انتالیس‬ ‫منٹ بولتی رہی۔ لب لباب یہ تھا کہ میں نے بیمار ہونے کا محض‬ ‫ڈونگ رچایا ہے۔ بیمار اس کا ابا ہوا تھا اور عالج معالجے کے‬ ‫باوجود قبر میں جا بسیرا کیا۔ اگر میں بیمار ہوا ہوتا تو الش گھر‬ ‫پر آتی۔ اس کی بات میں چوں کہ دم تھا اس لیے دوسری دفع کو‬ ‫بیچ میں النے کی ایسی کوئی خاص وجہ نظر نہیں آتی۔‬ ‫ہاں البتہ تیسری دفع اوج کمال کو چھوتی نظر آتی ہے اس لیے‬ ‫اس کا ذکر خصوص میں داخل کرنا اصؤلی سی بات نظر آتی ہے۔‬ ‫ہوا یہ کہ میں بیمار پڑا تو میری ہائے اوے ہائے اوے کے‬ ‫نعروں سے بےزار ہو گئی۔ میں بھی تو بالوقفہ اور بالتکان یہ‬ ‫آوازے کسے جا رہا تھا۔ ان آوازوں سے اس کا سر بوجھل ہو‬ ‫گیا۔ کچھ بولی تو نہ‘ البتہ سر پر کپڑا باندھ کر باہر صحن میں‬ ‫بیٹھ گئی اور میری آخری سانس کا انتظار کرنے لگی۔ آخری‬ ‫سانس بڑی ڈھیٹ تھی‘ کم بخت نہ آئی۔ میں نے اس کی آوازاری‬ ‫محسوس کر لی اور پوری طاقت سمیٹ کر بیٹھک میں آ کر‬ ‫صوفے پر لیٹ گیا۔ پتا نہیں رات کتنی دیر تک صوفے پر لیٹا‬ ‫رہا‘ جب قدرے بہتری ہوئی تو جا کر چارپائی پر لیٹ گیا۔ میرے‬


‫‪102‬‬

‫پاؤں کی آہٹ سے جاگ گئی لیکن سونے کا ناٹک جاری رکھا۔‬ ‫میں نے بھی ڈسٹرب کرنا مناسب نہ سمجھا اور چپکا رہا۔‬ ‫ہللا کے احسان سے رات گزر گئی۔ ٹھیک سے ٹھیک نہ ہوا‘‬ ‫ہاں البتہ پہلے سے قدرے بہتر ضرور تھا۔ میں نے اس کی‬ ‫جانب یوں ہی بالوجہ دیکھ لیا۔ چہرے پر بیمار ہونے کی کیفیت‬ ‫طاری کر لی۔ میں نے فورا سے پہلے نگاہ نیچی کر لی۔ آدھ‬ ‫گھنٹے بعد چارپائی لگ گئی۔ پوچھا کیا ہوا۔ سخت بیمار ہوں۔ میں‬ ‫پوچھنا چاہتا تھا ابے والی بیمار ہو یا میرے والی بیماری ہے۔‬ ‫چپ رہا‘ جانتا تھا آج اور آتا کل بےمزگی میں گزرے گا۔ اس کا‬ ‫کہنا تھا کہ میری شوگر چھے سو ستر پر پہنچ گئی ہے۔ بی پی‬ ‫بھی ہائی ہو گیا ہے۔ صبح سے مسلسل اور متواتر الٹیاں کر رہی‬ ‫ہوں۔ سر پھٹ رہا ہے۔ ایک دو بیماریاں اور بھی گنوائیں۔ میں‬ ‫نے کہا ہللا آسانی پیدا کرے گا۔ کہنے لگی سب ہللا پر چھوڑے‬ ‫رکھنا‘ خود سے کچھ نہ کرنا۔ چاہا کہ کہوں سر دبا دیتا ہوں پھر‬ ‫فورا خیال آیا بچو شام تک اسی کام میں رہو گے۔ مجبور قدموں‬ ‫چلتا ہوا بازار گیا نان چنے اور ساتھ میں حفظ ما ماتقدم سالئس‬ ‫اور انڈے بھی لے آیا۔ بےچاری نے اوکھے سوکھے ہو کر‬ ‫دونوں نان چنے اور ایک انڈا ڈکار لیا۔ اصوال بہتری آ جانی‬ ‫چاہیے تھی‘ قدرے آ بھی گئی۔ ہللا کا شکر ادا کیا زبان کی کوترا‬ ‫کتری سے بچ گیا ہوں۔ شام تک حاالت درست رہے۔ شام کو‬ ‫فائرنگ شروع ہو گئی۔ وجہ یہ تھی کہ نان چنے اور انڈے‬


‫‪103‬‬

‫سالئس تو لے آئے لیکن منہ میں بڑ بڑ کر رہے تھے‘ حاالں کہ‬ ‫ایسا نہیں تھا۔ تاہم دیر تک چل سو‬ ‫چل ہی رہی اور میں بھول گیا کہ بیمار ہوں۔‬


‫‪104‬‬

‫انگلی‬

‫مہاجا بڑے سکون اور آرام سے دکان پر بیٹھا‘ دودھ اوبال رہا‬ ‫تھا‘ ساتھ میں ُپڑوسی دکان دار سے باتیں کیے جا رہا تھا اور‬ ‫دودھ میں کڑچھا بھی مارے جا رہا تھا۔ اس کا پالتو بال اس کی‬ ‫نشت کے نیچے‘ پرسکون بیٹھا ہوا تھا۔ وقت بال کسی پریشانی‬ ‫کے گزر رہا تھا۔ کوئی نہیں جانتا کہ اگلے لمحے کیسے ہوں‬ ‫گے۔‬ ‫سب جانتے ہیں‘ شیطان انسانی سکون کا دشمن ہے۔ انسان کی‬ ‫پرسکون زندگی‘ اسے ہمیشہ سے کھٹکتی آئی ہے۔ اس نے ایک‬ ‫انگلی‘ جس پر ایک یا دو بوند ہی دودھ چڑھا ہو گا‘ سامنے‬ ‫دیوار پر لگا دی۔ دودھ پر مکھیاں عاشق ہوتی ہیں‘ جھٹ سے‬ ‫مکھیاں دیوار پر لگے دودھ پر آ گئیں۔ جہاں مکھیاں ہوں‘ وہاں‬ ‫چھپکلی کا آنا غیرفطری نہیں۔ جھٹ سے ایک چھوڑ‘ کئی‬ ‫چھپکلیاں آ گئیں۔ بال چھپکلیوں کو برداشت نہیں کرتا وہ‬ ‫چھپکلیوں پر جھپٹا‘ اتفاق دیکھیے اسی لمحے‘ ایک نواب‬ ‫صاحب اپنے ٹومی سمیت ادھر سے گزرے۔ ٹومی بلے کو‬ ‫کیسے برداشت کرتا۔ وہ بلے پر بڑی تیزی سے جھپٹا۔ بال دودھ‬ ‫میں گر گیا۔‬


‫‪105‬‬

‫ردعمل ہونا فطری سی بات تھی۔ مہاجے نے پوری طاقت سے‬ ‫ٹومی کے سر پر کڑچھا مارا اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ نواب‬ ‫صاحب ٹومی کی بےحرمتی اور اس پر ہونے واال یہ تشدد‬ ‫کیسے دیکھ سکتے تھے۔ انہوں نے چھے کی چھے مہاجے کے‬ ‫سینے میں اتار دیں۔‬ ‫مہاجا اتنی بڑی فیملی کا واحد کفیل تھا چل بسا۔ پوری فیملی‬ ‫الغر و اپاہج ہو گئی۔ وہ کیا کر سکتے تھے بس قسمت کو ہی‬ ‫کوس سکتے تھے۔ نواب صاحب کا کیا بگڑنا تھا۔ یہ لوگوں کا‬ ‫کب سنوارتے ہیں لوگ ان کا گلپ کرنے اور ظلم سہنے کے لیے‬ ‫جنم لیتے ہیں۔ ان کا گلپ ہی اقتداری طور رہا ہے اور شائد رہے‬ ‫گا۔‬ ‫ان پر یا ان کے کیے پر انگلی اٹھانے والے زہر پیتے رہیں گے‬ ‫سولی چڑھتے رہیں گے۔ اقتدار کا یہ ہی اصولی فیصلہ رہا ہے۔‬ ‫حال کیا مستقبل قریب میں بھی ان سے مکتی ملتی نظر نہیں آتی۔‬ ‫قصوروار کون تھا صاف ظاہر ہے مہاجا۔۔ نواب کبھی غلطی پر‬ ‫نہیں یا شیطان کوسنوں کی زد میں رہے گا۔ کوئی خود کو‬ ‫سدھارنے کی جسارت نہیں کرے گا۔ جی ہاں‘ یہ ہی سچ اور یہ‬ ‫ہی حقیقت ہے۔‬


‫‪106‬‬

‫آخری تبدیلی کوئی نہیں‬ ‫‪:‬نوٹ‬ ‫ہم چھوٹے چھوٹے چھوٹے ہوا کرتے تھے مخدومی و مرشدی‬ ‫بابا جی سید غالم حضور حسنی اس طرح کی کہانیاں سنایا کرتے‬ ‫تھے۔ وہ کہانیاں آج بھی لوح دل پر نقش ہیں۔ دن کبھی ایک‬ ‫سے نہیں رہتے۔ ہر لمحہ تبدیلی سے گزرتا ہے اور کل من عیھا‬ ‫فان کی طرف بڑھ جاتا ہے۔‬ ‫بھلے وقتوں کی بات ہے۔ دو دوست ہوا کرتے تھے۔ ایک‬ ‫سوداگر جب کہ دوسرا کوئی کام نہیں کرتا تھا۔ ایک دن سوداگر‬ ‫دوست نے کہا فارغ رہنے سے وقت نہیں گزرتا۔ ضرورتیں تو‬ ‫منہ پھاڑے رہتی ہیں۔ آؤ تمہیں اوبےنگر کی فوج میں بھرتی کرا‬ ‫دیتا ہوں۔ اس کی ریاست اوبے نگر میں وقفیت تھی لہذا جلد ہی‬ ‫اس کا دوست فوج میں بھرتی ہو گیا۔ دونوں کو خوشی ہوئی۔‬ ‫بات بھی خوشی والی تھی کہ روٹی کا سلسلہ چل نکال۔‬ ‫دو چار سال کے بعد اس کا ادھر سے گزر ہوا۔ اس نے سوچا‬ ‫کیوں نہ دوست ہی سے مل لوں۔ چھاؤنی گیا۔ اس نے پوچھا‬ ‫سپاہی تیغا رام کدھر ہوتا ہے۔ پتا چال اچھی کارگزاری کی وجہ‬


‫‪107‬‬

‫سے وہ حوالدار ہو گیا ہے۔ اسے خوشی ہوئی کہ اس کا دوست‬ ‫ترقی کر گیا ہے۔ دونوں کی مالقات ہوئی۔ سوداگر دوست نے‬ ‫‪:‬اپنی خوشی کا اظہار کیا تو جوابا تیغا رام نے کہا‬ ‫یار دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔‬ ‫اسے دوست کے جواب پر حیرانی ہوئی۔ کچھ نہ کہا‘ چپ رہا۔‬ ‫وقت اپنی مرضی‘ مزاج اور روٹین کی ڈگر پر چلتا رہا۔ شخص‬ ‫اوروں سے بےنیاز اپنے اپنے طور سے روٹی ٹکر تالشنے میں‬ ‫مصروف تھا۔ سوداگر بھی سوداگری میں مصروف تھا۔ اس کا‬ ‫روٹین میں اوبےنگر جانا ہوا۔ اس نے اپنے دوست حوالدار تیغا‬ ‫رام کا چھاؤنی میں جا کر پوچھا۔ وہاں سے پتا چال تیغا رام‬ ‫صوبےدار ہوگیا ہے۔ اس خبر نے اسے خوشی سے نہال کر دیا۔‬ ‫مالقات پر اس نے مبارک باد دی۔ تیغا رام نے بڑی سنجیدگی‬ ‫سے کہا۔‬ ‫یار دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔‬ ‫تیغا رام موج اور ٹھاٹھ کی گزار رہا تھا۔ حیرانی تو ہونا ہی تھی‬ ‫لیکن وہ چپ رہا۔ جواب میں کیا کہتا۔ سالوں میں تبدیلی تو آئی‬ ‫تھی۔ تیغا رام غلط نہیں کہہ رہا تھا۔‬ ‫کچھ سالوں کے بعد سوداگر کا اوبے نگر سے گزر ہوا۔ وہ اپنے‬ ‫دوست تیغا رام سے ملنے چال گیا۔ وہاں سے معلوم پڑا کہ وہ‬


‫‪108‬‬

‫بادشاہ کا منظور نظر ہو گیا ہے اور وزیر مقرر کر دیا گیا ہے۔‬ ‫اس نے سوچا وزیر ہو گیا تو کیا ہوا میرا تو دوست ہے۔ بامشکل‬ ‫مالقات ہوئی۔ سوداگر نے اپنی خوشی کا اظہار کیا تو جوابا تیغا‬ ‫رام نے وہ ہی پرانا ڈائیالگ دوہرا۔ اس کا کہنا غلط نہ تھا‘ لہذا‬ ‫اس نے ہاں میں ہاں مالئی اور تھوڑا وقت گزار کر رخصت ہو‬ ‫گیا۔‬ ‫جب قسمت کا ستارہ زحل سے نکل کر مشتری میں آ جائے‬ ‫انسان کچھ سے کچھ ہو جاتا۔ اوبےنگر کے بادشاہ کی موت کے‬ ‫بعد بادشاہی تیغا رام کے ہاتھ میں آئی۔ اصل بات یہ تھی کہ تیغا‬ ‫رام کی عادات میں تبدیلی نہ آئی۔ وہ اپنے سوداگر دوست سے‬ ‫اسی طرح پیش آیا۔ پہلے کی طرح کھل ڈھل کر گپ شپ لگائی۔‬ ‫اس کا کہنا وہ ہی رہا کہ‬ ‫دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔‬ ‫سوداگر حیران تھا کہ تیغا رام ترقی کی آخری سیڑھی کراس کر‬ ‫گیا اب بھی اسی بات پر ہے۔ اس سے آگے تو زندگی میں کچھ‬ ‫بھی نہیں۔ وہ اسے ڈائیالگ سمجھ کر چپ رہا۔‬ ‫اگلی بار جب سوداگر اوبے نگر آیا تو اسے معلوم پڑا کہ بادشاہ‬ ‫تیغا رام انتقال کر گیا ہے۔ شہر کے باہر کھلے میدان میں‬ ‫چاردیواری کے اندر اس کی یادگار بنائی گئی تھی۔ مختلف طرح‬ ‫کے پودے لگائے گئے تھے۔ اسے خوب صورت بنانے میں‬


‫‪109‬‬

‫کوئی کسر نہ چھوڑی گئی تھی۔ لوح یادگار پر تحریر کیا گیا تھا‬ ‫عادل بادشاہ مہاراج تیغا رام‬ ‫دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے‬ ‫سوداگر حیران تھا اب آخری تبدیلی بھال کیا آئے گی۔ موت کے‬ ‫بعد بھال کیا تبدیلی آ سکتی ہے۔‬ ‫سوداگر کا اوبے نگر میں وہ آخری پھیرا تھا۔ وہ تیغا رام کی‬ ‫آخری یاگار کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ماضی کا ہر لمحہ شعور کے‬ ‫دریچوں سے جھانک رہا تھا۔ اس کی آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں۔‬ ‫اس نے سوچا تیغا رام درست کہتا تھا کہ دن وہ نہیں رہے دن یہ‬ ‫بھی نہیں رہیں گے۔ وہ سوچ رہا تھا اب بھال اور کیا تبدیلی آئے‬ ‫گی۔ جب وہاں پہنچا تو دیکھا وہاں دریا بہہ رہا تھا۔ اس کے منہ‬ ‫‘سے بےاختیار نکل گیا‬ ‫دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔‬


‫‪110‬‬

‫کھڑ پینچ دی جئے ہو۔‬

‫ہیلو مسٹر!‬ ‫یو ار سویٹ اینڈ لولی ہوم غور منٹ کمپلینٹ اس دیٹ یو‬ ‫پھڑکائیٹڈ ہر برسرعام السٹ ڈے۔‬ ‫وائی۔‬ ‫نو حجور شی از جھوٹ مارنگ۔ آئی اونلی ون ویری سلو مکا‬ ‫ماریڈ‬ ‫او مائی گاڈ‘ یو بےغیرت مین۔ وائی یو مکا ماریڈ ہر ان دی‬ ‫بازار۔ یو نو پیپل ور ویکھنگ اینڈ الفنگ ایٹ یو‬ ‫آئی ایم ناٹ بےغیرت حجور شی از بےغیرت بی کاز شی مارڈ‬ ‫می سو مےنی لیترز ویری ٹھوک ٹھوک کر پیوپل ور الفنگ ایٹ‬ ‫ہر ری ایکشن‬ ‫اٹ از یو ار کیس وچ مے بی ڈسکسڈ لیٹر اون۔ فسٹ ٹل اس‬ ‫وائی یو مکا مارڈ‬ ‫حجور اٹ از آ شیم فل سٹوری اینڈ کن ناٹ ناریٹ ان دی پنچایت‬ ‫ڈونٹ وری یو گلٹی کمی کمین‬ ‫حجور آئی ناٹ کمی کمین۔ مائی کاسٹ از انصاری‬


‫‪111‬‬

‫او یس یو مین جوالیا‪ ،‬آئی نو یو ار جوالیا۔ جوالیا کاسٹ از ان‬ ‫فیکٹ کمی کمین۔ وائل یو ار ہوم گورمنٹ از قریشی گویا شی از‬ ‫ناٹ کمی کمین‬ ‫یس حجور شی از مراسی۔‬ ‫ڈونٹ بارک‘ ان فیکٹ دس ورڈ از مراثی۔‬ ‫از آئی ایم رائٹ او یو سویٹ اینٍڈ جنٹل لیڈی‬ ‫حجور یو ار ابسلوٹلی رائٹ‬ ‫او مین ناؤ سم تھنگ ہریلی پہونکو‬ ‫حجور شی ہیز ناٹ ذرا بھورا شرم‬ ‫وٹ ہپنڈ ٹل اس‬ ‫حجور شی واز ممانائزنگ ان دی بازار‬ ‫او مائی گارڈ واٹس آمیزنگ سیچویشن ول بی گوئنگ دیئر‬ ‫او جنٹل اینڈ سویٹ لیڈی شو اس یو ار فن‬ ‫شی سٹارٹیڈ ہر فن ود آؤٹ اینی ہیزیٹیشن۔ ایوری ون انجوائڈ اٹ‬ ‫اے الٹ‬ ‫او مسٹر جوالہے طالق ہر ایٹ دی سپاٹ اینڈ یو دفع دفان فروم‬ ‫ہیئر۔ شی ہیز اے ونڈرفل کوالٹی۔ ان فیوچر شی ول سٹے ہیئر۔‬


‫‪112‬‬

‫وین مسٹر جوالیا ڈو نٹھنگ ون مین گٹ اپ اینڈ رکھڈ پنج ست‬ ‫لتر ایٹ ہیز بوٹم۔ ہی گیو طالق دایٹ سویٹ ممانئیزر اینڈ دوڑ‬ ‫لگائیڈ۔‬ ‫اٹ واز اے نائس فیصلہ۔ پیوپل واز ریزنگ سلوگن‬ ‫کھڑ پینچ دی جئے ہو۔‬ ‫ناؤ آ ڈئیز شی از سرونگ ایٹ کھڑ پینچز ڈیرہ اینڈ ارننگ اچھی‬ ‫خاصی اماؤنٹ ود نائس فیم۔ شی ہیزناٹ کمپلینٹ فروم اینی سائڈ۔‬ ‫پیوپل ار سیٹسفائیڈ اینڈ ہیپی فروم دیئر چودھری ساب۔‬


‫‪113‬‬

‫سراپے کی دنیا‬ ‫اس کے حسن کی تعریف کرنے بیٹھوں تو شاید‘ بہت ساری‬ ‫تشبیہات کے استعمال کے باوجود‘ بات نہ بن پائے گی۔ اسے‬ ‫زمین پر ہللا کا تخلیق کردہ ماسٹر پیس کہنا‘ کسی طرح غلط نہ‬ ‫ہو گا۔ لباس کے اندر بھی شاید یہ ہی صورت رہی ہو گی۔ ہم‬ ‫لباس کے باہر پر مر مٹتے ہیں‘ جب لباس کے اندر جھانکتے‬ ‫ہیں تو سخت مایوسی ہوتی ہے۔ اسی طرح جب گوشت پوست اور‬ ‫ہڈیوں کے پیچھے جھانکنے کا موقع ملتا ہے‘ تو سر پر گھڑوں‬ ‫پانی پڑ جاتا ہے۔ جب تک یہ جاننے کا موقع ملتا ہے‘ اس وقت‬ ‫تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ گویا‬ ‫نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن‬ ‫کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ وقت گزرنے کے بعد‘ پھسی کو‬ ‫پھڑکن کیسا‬ ‫ہی باقی رہ جاتا ہے۔‬ ‫اس کے پاس میرا کسی کام کے سلسلے میں جانا ہوا تھا۔ اسے‬ ‫دیکھ کر‘ مجھے اصل مدعا ہی یاد نہ رہا۔ وہ تو اچھا ہوا کہ میں‬ ‫کچھ دیر بعد‘ اپنے آپے میں آ گیا۔ میں قریب چال گیا‘ سالم بالیا۔‬ ‫اس نے بال اوپر دیکھے‘ سالم کا تقریبا سا جواب دیا۔ میں نے‬


‫‪114‬‬

‫اسے ہی غنیمت سمجھا اور بڑے مالئم اور پریم بھرے لہجے‬ ‫میں عرض کیا‘ میڈم میں ایک سماجی معاملے پر ریسرچ کر رہا‬ ‫ہوں‘ اس ذیل میں چند ایک سواالت کے جواب درکار ہیں۔ اس‬ ‫نے سر اٹھایا اور بڑی بے رخی سے جواب دیا‪ :‬میں بہت‬ ‫مصروف ہوں جو پوچھنا ہے جلدی سے پوچھ لو۔‬ ‫جی میڈم‘ آپ کا نام‬ ‫تانیہ‬ ‫آپ مقامی ہیں یا باہر سے تشریف الئی ہیں‬ ‫کوئی ڈھنگ کا اور متعلق سوال پوچھو‬ ‫بہتر میڈم‘ پڑھائی سے وابستہ ہیں‬ ‫ایم فل فارمیسی کر رہی ہوں‬ ‫اس کے چہرے کی اکتاہٹ دیکھ کر میں نے آخری سوال کیا‬ ‫ایم فل فارمیسی کرنے کے بعد کیا جذبہ اور ارادہ رکھتی ہیں۔‬ ‫اس کے بعد کیا کرنا ہے‘ ٹیبل پر بیٹھی ون لیگ روزانہ کا‬ ‫کماؤں گی۔‬ ‫میرا خیال تھا کہ کہے گی‘ انسان کی بےلوث خدمت کروں گی۔‬ ‫خوب صورت لباس اور خوب صورت سراپے میں چھپا پیٹو‬ ‫شیطان‘ میرے سوچ کی دھجیاں بکھر رہا تھا۔ میرے سوچ کا‬


‫‪115‬‬

‫شیش محل کرچی کرچی ہو کر گندگی کی دلدل میں دھنس چکا‬ ‫تھا۔ میں نے سوچا‘ یہ کیسا انسان سا پتال ہے جو من میں اپنی‬ ‫ذات سے ہٹ کر‘ کچھ نہیں رکھتا۔ آگہی کا حصول محض پیٹ‬ ‫کے لیے ہو گیا ہے۔‬ ‫پھر میں نے سوچا‘ اتنا کما کر آخر کیا کر لے گی۔ کوٹھی بنگلہ‬ ‫اور بینک بیلنس بنا لے گی۔ اس سے کیا فرق پڑے گا۔ قبر میں‬ ‫تو کچھ نہیں جا سکے گا۔ مر جانے کے بعد‘ پیار کرنے والوں‬ ‫کو بھی جلدیاں ہوں گی۔ الش کے لیے کون بےکار میں وقت‬ ‫ضائع کرتا پھرے۔ اس کوٹھی بنگلے اور بینک بیلنس کی تقسیم‬ ‫پر‘ سگے بہن بھائیوں کے کئی یدھ ہوں گے۔ کورٹ کچری‬ ‫چڑھیں گے۔ کسی کو کبھی اس کی قبر پر بھولے سے بھی‘ چار‬ ‫پھول چڑھانے کی توفیق نہ ہو گی۔ مرنے والے نے ڈگری لے‬ ‫لی‘ پیسے بھی کما لیے‘ لیکن آگہی اس کا مقدر نہ بن سکی۔‬ ‫حسین گوشت پوست کے پیچھے اتنی پوشیدہ غالظت۔ توبہ بھی‬ ‫میری روح میں‘ توبہ کرنے لگی۔ جھوٹ نہیں بولوں گا‘ میں تو‬ ‫اس کے سراپے کی دنیا کا اسیر ہو کر‘ اسے جیون ساتھی‬ ‫بنانے کی سوچ بیٹھا تھا۔ اگر ہللا کی عنایت شامل نہ ہوتی‘ میں‬ ‫تو مارا گیا تھا۔‬


‫‪116‬‬

‫میں ہی قاتل ہوں‬ ‫کاما کبو‘ تیز قدموں سے کھیتر کی طرف بڑھ رہا تھا۔ آج کھیتر‬ ‫پر کام کافی تھا۔ دوسرا چودھری کے موڈ کا بھی کچھ پتا نہیں‬ ‫چلتا تھا۔ اس کے بگڑنے کے لیے‘ کسی وجہ کا ہونا ضروری نہ‬ ‫تھا۔ چودھرین سے اپنے لچھنوں کی وجہ سے‘ چھتر کھاتا رہتا‬ ‫تھا۔ گھر کا غصہ باہر آ کر کاموں پر نکالتا۔ کام کاج کوئی کرتا‬ ‫نہیں تھا‘ گھر سے یوں سج سنور کر نکلتا جیسے جنج چڑھنے‬ ‫جا رہا ہو۔ سارا دن ڈیرہ پر بیٹھا‘ آئے گئے کے ساتھ گپیں ہانکتا‬ ‫یا پنڈ کی سوہنی کڑیوں کے ناز و ادا کے قصے سنتا۔ کوئی‬ ‫ہتھے چڑھ جاتی تو معافی کا دروازہ بند کر دیتا۔ ناکامی کی‬ ‫صورت رہتی‘ تو سارا غصہ کاموں پر نکالتا۔ سب چپ رہتے‘ ہر‬ ‫کسی کو جان اور چمڑی بڑی عزیز ہوتی ہے۔‬ ‫کھیتر پر آتے جاتے اس طرح کی سوچیں اسے گھیرے رکھتیں‪،‬‬ ‫غلطی یا ظلم‘ زیادتی چودھری کرتا ڈال گریب کاموں پر دی‬ ‫جاتی۔ وہ سوچ رہا تھا‘ یہ زندگی بھی کیسی ہے گھر جاؤ‘ کوئی‬ ‫ناکوئی مسلہ راہ روکے کھڑا ہوتا۔ باہر آؤ تو کامے پر وہ کچھ‬ ‫بیت جاتا جو اس کے خواب و خیال میں بھی نہ ہوتا۔‬ ‫جب وہ کھیتر پہنچا‘ وہاں عجب کھیل رچا ہوا تھا۔ چودھری کے‬ ‫ہاتھ میں خون آلودہ چھرا تھا اور سامنے کاما ابی‘ خون میں لت‬


‫‪117‬‬

‫پت پڑا تھا۔ وہ یہ منظر دیکھ کر گھبرا گیا۔ چودھری سخت‬ ‫غصے میں تھا۔ اس نے چھرا کامے کبو کی طرف بڑھاتے ہوئے‬ ‫کہا‪ :‬ذرا اسے پکڑنا‘ کبو نے پکڑ لیا اور خود کامے ابی کے‬ ‫پاس پہنچ گیا اور افسردہ و پریشان ہو کر اس کے پاس بیٹھ گیا۔‬ ‫دریں اثنا پولیس پہنچ گئی اور کبو کو پکڑ لیا۔‬ ‫چودھری غصے سے اٹھا اور پان سات کبو کو رکھ دیں۔ مجھے‬ ‫پتا نہ تھا کہ تم اتنے ظالم اور کمینے ہو۔ پولیس والوں نے کہا‬ ‫چودھری تم چھوڑو‘ تھانے جا کر ہم اس کی طبیعت صاف کر‬ ‫دیں گے۔ وہاں موقع پر اور بھی دو تین کامے موجود تھے‘‬ ‫کسی کے منہ سے سچ نہ پھوٹا۔ اس اچانک نازلی آفت نے اس‬ ‫کے ہوش ہی گم کر دیے۔‬ ‫تھانے جا کر اس کی خوب لترول کی گئی۔ وہ کہے جا رہا تھا‘‬ ‫میں نے کچھ نہیں کیا۔ اس کی کب کوئی سن رہا تھا۔‬ ‫ایک شپائی بوال‪ :‬تمہیں ہم نے کچھ نہ کرنے سے روکا تھا۔‬ ‫ایک اور نے نعرہ لگاؤ‪ :‬کچھ کر لیتے نا‬ ‫ایک نے کہا‪ :‬اب یہاں سے جا کر کچھ کر لینا‬ ‫پہلے واال بوال‪ :‬یہاں سے جائے تو ہی کچھ کرئے گا‬ ‫ایک جو ذرا پرے کھڑا تھا کہنے لگا‪ :‬تو پھر یہ قتل کس نے کیا‬ ‫ہے۔ خون سے بھرا چھرا تو تمہارے ہاتھ میں تھا۔‬


‫‪118‬‬

‫حجور قتل کرنا تو دور کی بات‘ میں تو ایسا قیمتی چھرا خرید‬ ‫ہی نہیں سکتا۔ چھرا تو چودھری نے مجھے پکڑایا تھا۔‬ ‫الزام تراشی کرتے ہو۔ اس کے بعد التوں مکوں اور تھپڑوں کی‬ ‫برسات ہو گئی۔‬ ‫تھانہ تو تھانہ‘ کورٹ کچہری بھی اس کی سن نہیں رہی تھی۔‬ ‫لگتا تھا‘ کہ کورٹ کچہری بھی چودھری ہی کی تھی۔ ہر کوئی‬ ‫اسے دشنام کر رہا تھا۔ اس کی تو کوئی سن ہی نہیں رہا تھا۔‬ ‫ماجرے کو آنکھوں سے دیکھنے والے‘ اس کے ہی گریب‬ ‫ساتھی تھے۔ وہ بھی دیکھ اور جان کر‘ کبو ہی کو مجرم ٹھہرا‬ ‫رہے تھے۔ اس کے حق میں‘ ایک بھی نہ تھا۔ ہر کوئی اسے‬ ‫قاتل کہے جا رہا تھا۔ اس نے سوچا‘ جب اتنے لوگ کہہ رہے‬ ‫ہیں کہ میں قاتل ہوں تو یقینا میں ہی قاتل ہوں۔ پھر اس نے کہنا‬ ‫شوع کر دیا‪ :‬ہاں ہاں میں ہی قاتل ہوں۔۔۔۔ابی کو میں نے ہی قتل‬ ‫کیا تھا۔‬


‫‪119‬‬

‫خیالی پالؤ‬ ‫ہللا بخشے پہا خادم بڑے ہنس مکھ اور جی دار قسم کے بندے‬ ‫تھے۔ خوش حالی سے تہی دست ہوتے ہوئے بھی‘ انہیں کبھی‬ ‫کسی نے رنج و مالل کی حالت میں نہ دیکھا۔ منہ میں خوش بول‬ ‫رکھتے تھے۔ کبھی کسی کو معلوم نہ ہو سکا کہ اندر سے کتنے‬ ‫دکھی ہیں۔ ان کی بیگم فیجاں‘ اتنی ہی سڑیل اور بدمزاج تھی۔‬ ‫کردار کی بھی صاف ستھری نہ تھی۔ مزے کی بات یہ کہ گھر‬ ‫سے کبھی کسی نے دونوں کی اونچی آواز تک نہ سنی تھی۔ یہ‬ ‫تو محض خوش فہمی ہو گی کہ ان کے درمیان تلخی نہ ہوتی ہو‬ ‫گی۔‬ ‫ایک مرتبہ اپنے بیٹے سے الڈ پیار کر رہے تھے۔ منہ سے بھی‬ ‫بہت کچھ کہے جا رہے تھے۔ کہہ رہے تھے‘ میں اپنے بیٹے‬ ‫کو ڈاکٹر بناؤں گا‘ پھر سونے کے سہرے سجا کر‘ ہاتھی پر بٹھا‬ ‫کر‘ پیچھے گاڑیوں کی قطار ہو گی‘ بہو بیانے جاؤں گا۔ اس کی‬ ‫شادی پر بٹیروں کے گوشت کی دیگیں چڑھیں گی۔‬ ‫ساتھ میں بیسیوں بکرے زبح کر ڈالے۔ میٹھے میں بھی بہت‬ ‫ساری چیزیں دستر خوان پر سجا دیں۔‬ ‫میں کچھ دیر تو ان کی آسمان بوس باتیں سنتا رہا۔ پھر مجھ‬ ‫سے چپ نہ رہا گیا‘ میں نے پوچھ ہی لیا‘ پہا جی یہ آپ کیا کہہ‬


‫‪120‬‬

‫رہے ہیں۔ یہ سب کچھ کیسے ہو سکے گا۔ میری طرف انہوں‬ ‫نے ہنس کر دیکھا اور کہا‘ جب خیالی پالؤ پکایا جا رہا ہو تو‬ ‫راشن رسد کی کیوں کمی رکھی جائے۔ یہ کہہ کر ان کی آنکھیں‬ ‫لبریز ہو گیئں‘ ہاں منہ سے کچھ نہ بولے۔‬ ‫میں نے سوچا‘ کہہ تو ٹھیک رہے ہیں۔ ہمارے لیڈر صاحبان‬ ‫ووٹ کی حصولی کے لیے بڑے خیالی پالؤ پکاتے ہیں۔ راشن‬ ‫رسد کی اس میں کمی نہیں چھوڑتے۔ ایسے ایسے نقشے‬ ‫کھنچتے ہیں‘ کہ شداد کی ارم بھی کوسوں کے فاصلے پر چلی‬ ‫جاتی ہے۔ امن و سکون کی وہ فضا‘ خیالوں اور خوابوں کو‬ ‫سکھ چین سے نوازتی ہے۔ عملی طور پر بھوک‘ دکھ‘ درد اور‬ ‫مصیبت ان کے کھیسے لگی ہے۔ ہاں البتہ یہ رشک ارم دنیا‘ ان‬ ‫لیڈروں کی دنیا میں ضرور بسی چلی آتی ہے۔ گماشتے انہیں‬ ‫سب اچھا کا سندیسہ سناتے آئے ہیں۔‬ ‫اگر عورت چاہے تو صفر کو بھی‘ سو کے مرتبے پر فائز کر‬ ‫سکتی ہے۔ اگر الٹے پاؤں چلنے لگے تو سو کو صفر بھی نہیں‬ ‫رہنے دیتی۔ دوسرا گریب صرف خواب ہی دیکھ سکتا ہے‘ اس‬ ‫سے آگے اس کی اوقات و بسات ہی نہیں ہوتی۔ فیجاں کو تو اہل‬ ‫اخگر سے‘ موج مستی سے ہی فرصت نہ تھی‘ شوہر اور بچوں‬ ‫پر کیا توجہ دیتی۔ وہ ملکی لیڈر صاحبان کے قدموں پر تھی۔‬


‫‪121‬‬

‫ایک روز پتا چال‘ اس نے پہا خادم سے طالق لے لی ہے اور‬ ‫کسی کے ساتھ چلی گئی ہے۔ پہا خادم اکیال ہی زندگی کی گاڑی‬ ‫چالتا رہا۔ ایک روز شراب کے نشہ میں دھت‘ ایک سیٹھ صاحب‬ ‫کی گاڑی کے نیچے آ کر‘ ہللا کو پیارا ہو گیا۔ بچے در بہ در ہو‬ ‫گئے۔ جس بچے کو وہ ڈاکٹر بنانا چاہتا تھا‘ منڈی میں پلے داری‬ ‫کرنے لگا۔ بعد میں الری اڈے ہاکری کرنے لگا۔ اس کی ایک‬ ‫مزدور کی بیٹی سے شادی ہو گئی۔ ہللا نے اسے چاند سا بیٹا‬ ‫عطا کیا۔ بےشک باپ کی طرح بڑا محنتی ہے اور آج کل باپ کے‬ ‫سے خیالی پالؤ پکاتا ہے۔ اس کی بیوی سگھڑ ہے‘ عابی کی‬ ‫وفادار بھی ہے۔ کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ اس کے خیالی پالؤ‬ ‫کسی حد تک سہی‘ منزل پا ہی لیں۔‬


‫‪122‬‬

‫تعلیم اور روٹی‬ ‫وہ کم پڑھا لکھا کامیاب ہنرمند تھا۔ گزارے سے بڑھ کر کما لیتا‬ ‫تھا لیکن اپنی ایک الگ سے فکر رکھتا تھا۔ ہنرمندوں کی‬ ‫بدحالی اسے خون کے آنسو روالتی۔ کیا کر سکتا تھا۔ وہ کیا‘‬ ‫معامالت روٹی ٹکر میں بڑے بڑے کھنی خان مجبور و بےبس‬ ‫ہو گیے تھے۔ دفتر شاہی ہو کہ انتظامیہ‘ اقتداری طبقے کی‬ ‫گماشتہ چلی آتی تھی۔ اسی طرح اقتداری طبقہ اس کے بغیر زیرو‬ ‫میٹر تھا۔‬ ‫وہ دیر تک سوچتا رہا‘ آخر ہنرمند طبقے کی کس طرح مدد‬ ‫کرے۔ پھر اسے ایک خیال سوجھا۔ خوشی سے اس کا چہرا‬ ‫دمک اٹھا اور اس نے تعلیم ایسے مشکل گزار رستے پر چلنے‬ ‫کا فیصلہ کر لیا۔ کتاب‘ کاپی اور قلم کی خریدداری کے لیے اس‬ ‫کے پاس پیسے تھے۔ تعلیمی معامالت میں مشکل پیش آ جانے‬ ‫کی صورت میں ماسٹر نور دین سے رابطہ ممکن تھا۔‬ ‫صبح اٹھتے ہی‘ وہ سب سے پہلے کتابوں کی دکان پر گیا۔ پانچ‬ ‫پاس تھا‘ چٹھی کی کتابیں‘ ایک بڑا رجسٹر اور قلم خرید کیا۔ اس‬ ‫نے یہ غور ہی نہ کیا کہ پڑھے لکھے باشعور طبقے‘ روز اول‬ ‫سے‘ شعور سے عاری بااختیار طبقے کی چھتر چھاؤں میں‬ ‫زندگی کرتے آئے ہیں۔ ہنرمندوں کو‘ مکہ بردار اپنے محل اور‬


‫‪123‬‬

‫خودسر گھروالیوں کے مقبرے بنانے کے لیے استعمال کرتے‬ ‫آئے ہیں۔ دوسرا تعلیم اور روٹی کا کوئی رشتہ ہی نہیں‘ تعلیم تو‬ ‫آگہی فراہم کرتی ہے۔ یہ دماغ سے سوچنے کا درس دیتی ہے۔‬ ‫پیٹ سے سوچنے کے لیے جہالت کی ضرورت ہوتی ہے۔ دماغ‬ ‫کی سوچ شخص تعمیر کرتی ہے جب کہ پیٹ کی سوچ میں کو‬ ‫ہوا دیتی ہے اور کم زور سروں کی کھوپڑوں سے محل تعمیر‬ ‫کرتی ہے۔‬ ‫وہ دیر تک کتابوں کے اوراق الٹ پلٹ کرتا رہا۔ رجسٹر پر کچھ‬ ‫لکھنے کی کوشش بھی کرتا رہا۔ اس کی ذہنی کیفیت جنونیوں‬ ‫کی سی تھی۔ چوں کہ سورج روشنی دے رہا تھا‘ اس لیے اسے‬ ‫احساس تک نہ ہوا کہ بجلی کتنی بار گئی ہے۔ رات ہو گئی تھی‘‬ ‫پھر اچانک ایک جھٹکے سے بجلی چلی گئی۔ اس کے منہ سے‬ ‫بےاختیار او تیرے کی نکل گیا۔ دوسرے ہی لمحے اسے خیال‬ ‫آیا‘ کہ وہ میٹرک پاس کرکے واپڈا میں بھرتی ہو کر ہنرمندوں‬ ‫کی مدد کرنا چاہتا تھا۔ حکومت تو خود ہنرمندوں کی مدد کر رہی‬ ‫تھی۔‬ ‫فیکس ٹائم کے عالوہ بھی چار چھے اچانکیہ جھٹکے‘ انرجی‬ ‫سیور ہی نہیں‘ اور بھی بہت ساری چھوٹی بڑی چیزوں کو لے‬ ‫دے جاتے تھے۔ بڑی بڑی کمپنیوں سے لے کر‘ چھوٹے سے‬ ‫چھوٹے ہنر مند کی دال روٹی کا سامان تو ہو رہا تھا۔ یہ ہی تو‬ ‫وہ کرنا چاہتا تھا جو پہلے سے ہی ہو رہا تھا۔ اسے اپنی گھٹیا‬


‫‪124‬‬

‫سوچ پر بڑی شرمندگی ہوئی‘ کہ صاحب اختیار طبقے تو پہلے‬ ‫ہی ہنرمندوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اس نے کاپیاں‬ ‫کتابیں الماری میں رکھ دیں اور سر کے نیچے بازو رکھ کر‬ ‫سکون کی نیند سو گیا۔‬


‫‪125‬‬

‫بوسیدہ الش‬ ‫شباب مرزا ایمرجنسی وارڈ میں پڑا‘ زندگی کی آخری گھڑیاں گن‬ ‫رہا تھا۔ ڈاکٹر اور نرسیں‘ اس کی زندگی بچانے کی کوشش کر‬ ‫رہے تھے۔ اس پر کھل گیا تھا کہ اب کہانی‘ اپنے انجام کو پہنچ‬ ‫چکی ہے۔ دوا دارو دوبارہ سے‘ اسے زندگی کی شاہراہ پر ال‬ ‫کر‘ کھڑا نہیں کرسکتے۔ بچ بھی گیا تو وہ پہلے سی توانائی‘‬ ‫میسر نہ آ سکے گی۔ وہ زندگی بھر کسی کا سہارا نہیں بنا‘ اس‬ ‫کا کوئی کیوں سہارا بنے گا۔ ہر کسی کا قول و فعل‘ محض‬ ‫دکھاوے اور اسے خوش کرکے‘ کچھ حاصل کرنے کے لیے ہو‬ ‫گا۔‬ ‫زندگی کا ہر بیتا لمحہ‘ اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گھوم‬ ‫گیا۔ ابھی وہ اتنا بڑا نہیں ہوا تھا کہ اسے لذت کا احساس ہو گیا۔‬ ‫ہوا یوں کہ ان کے گھر اس کی خالہ اور اس کی بیٹی ملنے یا‬ ‫کسی کام سے آئیں۔ خالہ نے اسے گلے لگایا اور اس کی بالئیں‬ ‫لیں۔ اس کی خالہ زاد‘ جو عمر میں کوئی اس سے زیادہ بڑی نہ‬ ‫تھی‘ بھی اسے گلے ملی۔ خالہ کے گلے ملنے میں کوئی مزا نہ‬ ‫تھا لیکن خالہ زاد کے ملنے سے‘ اس کے بدن میں عجب سی‬ ‫لذت دوڑ گئی۔ وہ اسے بار بار ملنا چاہتا تھا۔ اس کے رونگٹے‬ ‫میں ان جانی سی ہلچل مچ گئی۔ کئی بار کھڑا بھی ہوا۔ شاید اس‬


‫‪126‬‬

‫لڑکی کی استفادہ میں بھی یہ ہی کیفیت رہی ہو گی۔‬ ‫اس کی اماں اور خالہ باتوں میں جھٹ گئیں۔ سسرالی خاندانوں‬ ‫کی خامیاں موضوع گفتگو تھیں۔ وہ تو اپنے مجازی خداؤں کو‬ ‫بھی لتاڑے چلی جا رہی تھیں۔ وہ اور اس کی خالہ زاد‘ اپنی‬ ‫ماؤں کے باہمی مذاکرات سے بےنیاز‘ رومان کی دنیا آباد کیے‬ ‫ہوئے تھے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہا‘ جب تک اس کی‬ ‫خالہ نے اپنی بیٹی کو آواز نہ دے دی۔‬ ‫لذت کے اس احساس نے‘ اسے متحرک کر دیا۔ تعلیمی معامالت‬ ‫طے کرنے کے لیے‘ اس نے ہر جائز ناجائز حربہ اختیار کیا۔ یہ‬ ‫ہی طور اس نے اچھے روزگار کے لیے اپنایا۔ اچھی رہائش اور‬ ‫اس کے لوازمات کے لیے جائز کو مستقل طور پر‘ زندگی سے‬ ‫خارج ہی کر دیا۔ دنیا کی کون سی ایسی آسائش ہو گی‘ جو اسے‬ ‫میسر نہ آئی۔ کوٹھی‘ کار‘ بنگلہ‘ بینک بیلس‘ نوکر چاکر گویا‬ ‫سب کچھ اس کے کھیسے لگ چکا تھا۔ ایسے حاالت میں‘ بڑے‬ ‫گھر کی بیٹی بھی رونق افروز ہو گئی۔ وہ ہی کیا‘ حسیناؤں کا‬ ‫ایک ہجوم اس کے گرد رہتا۔ اس کا قرب‘ بڑے حسن اور ناز و‬ ‫ادا والیوں کو ہی نصیب ہوتا۔‬ ‫رونگٹا ذرا کم زور پڑتا تو دواؤں کا انبار لگ جاتا۔ اٹھنے‬ ‫بیٹھنے‘ آنے جانے‘ کھانے پینے‘ سونے جاگنے غرض ہر نوع‬ ‫کی لذت اس کے قدم لیتی رہی۔ آخر کب تک‘ معدہ اپ سٹ رہنے‬


‫‪127‬‬

‫لگا۔ رونگٹا بھی ڈھیٹ سا ہو گیا۔ باہر تو باہر‘ اس ذیل میں گھر‬ ‫پر بھی ذلت اٹھانا پڑتی اور وہ وہ باتیں سنتا‘ جن کا وہ کبھی‬ ‫سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ ماں کی دیکھا دیکھی‘ بچے بھی اس‬ ‫کی پرواہ چھوڑ گیے۔ اب وہ بااختیار افسر نہیں تھا جو اردگرد‬ ‫چمچے کڑچھے ہوتے۔ باہر نکلتا تو ناانصافی برداشت کرنے‬ ‫والوں کی غصیلی نظریں کھانے کو دوڑتیں گھر آتا تو نادیہ پاگل‬ ‫کتیا کی طرح‘ کاٹنے کو آتی۔ لذت نے آزار کا بھیس اختیار کر لیا‬ ‫تھا۔‬ ‫ایک دو دن نہیں‘ پانچ سے زیادہ عرصہ‘ اس نے ذلت و عذاب‬ ‫میں گزارا۔ رونگٹے کی بےوفائی اس حالت تک لے آئی تھی۔‬ ‫ہسپتال بھی اسے شرم کوشرمی الیا گیا تھا دوسرا سارا دن اس‬ ‫عذاب کو کون جھیلتا۔ یہاں سابقہ سرکاری افسر ہونے کی وجہ‬ ‫سے‘ کسی حد تک سہی‘ خدمت میسر آ رہی تھی۔ وہ آنکھیں بند‬ ‫کیے یہ ہی سوچے جا رہا تھا کہ لذت کے لمحے آخر کیوں ختم‬ ‫ہو جاتے ہیں۔ آخر سب کچھ برقرار کیوں نہیں رہتا۔ پھر اس نے‬ ‫سوچا کہ اگر زندگی کی لذت کو استحقام نہیں تو زندگی کی اذیت‬ ‫کو بھی بقا نہیں ہو سکتی‘ یہ بھی ختم ہو جائے گی۔ سوچوں‬ ‫کے گرداب میں پھنسی اذیت آمیز زندگی نے‘ آخری ہچکی لی‬ ‫اور پھر وہاں ایک بوسیدہ الش کے سوا کچھ باقی نہ رہا۔‬


‫‪128‬‬

‫وبال دیکھیے‬ ‫اللے دینو سے‘ اکثر چائے کے کھوکھے پر مالقات ہوتی رہتی‬ ‫تھی۔ اس کے محنتی اور مشقتی ہونے میں‘ کوئی شک نہیں۔‬ ‫سارا دن ریڑھی پر سبزی بیچتا اور رات کو ریڑھی گھر ڈک کر‘‬ ‫یہاں چار یاری میں آ بیٹھتا۔ ہم سب مل کر گپ شپ کرتے‘ ہنسی‬ ‫مذاق بھی خوب چلتا‘ دن بھر کی باتیں ہوتیں‘ سیاسی موضوعات‬ ‫بھی گفتگو میں آ جاتے‘ ذاتی معامالت پر مشاورت ہوتی۔‬ ‫شقے کو بیوی کی بدسلوکی کے سوا‘ کچھ نہ آتا تھا۔ غریب تو‬ ‫سارے ہی تھے‘ لیکن لبھے پر غربت کچھ زیادہ ہی نازل ہو گئی‬ ‫تھی۔ طافی نے چوں کہ داڑھی رکھی ہوئی تھی‘ اس لیے ہم سب‬ ‫اسے مولوی کہہ کر پکارتے‘ مسلمان جرنیلوں کے کچھ تاریخی‬ ‫اور کچھ پاس سے گھڑ گھڑ کر قصے سناتا۔ اگر پڑھا لکھا ہوتا‬ ‫تو دوھائی کا کہانی کار ہوتا۔ اللے دینو کو اپنے بڑوں کی وڈیائی‬ ‫کے سوا کچھ نہ آتا تھا۔ وہ وہ چھوڑتا‘ کہ ہم سب دھنگ رہ‬ ‫جاتے۔ اکبر بادشاہ بھی جاہ و جالل اور مال و منال میں پیچھے‬ ‫رہ جاتا۔‬ ‫صدیقا منہ پھٹ بھی ہماری سالم دعا میں شامل تھا۔ اس کا کام‬ ‫ہی ہر اچھے برے‘ سچ جھوٹ پر تنقید کرنا تھا۔‬ ‫تنقید‘ مولوی اور اللے دینو کو تو آڑے ہاتھوں لیتا تھا۔ اس کی‬


‫‪129‬‬

‫کسی حد تک غلط بھی نہ تھی۔ اس کا کہنا تھا‘ ان جرنیلوں نے‬ ‫اسالم نہیں پھیالیا۔ جرنیل مسلمان ہوں یا غیرمسلم‘ قتل و غارت‬ ‫کا ہی بازار گرم کرتے آئے ہیں‘ ان پر فخر کیسا‘ ہاں داتا صاحب‬ ‫یا ایسے دوسروں نے‘ اپنے عجز و انکسار‘ پیار‘ رواداری‘‬ ‫بھائی چارے‘ انسانی برابری کے درس سے اسالم پھیالیا ہے۔‬ ‫اسی طرح اللے دینو سے کہتا‘ او چھوڑو یار‘ جو تم بتاتے ہو‘‬ ‫وہ ہوں گے‘ دیکھنا تو یہ ہے کہ تم کیا ہو‘ بس ماضی پر‬ ‫اتراتے رہو اور خود صفر رہو۔ یار ہمیں بھی کوئی خاص کرنا‬ ‫چاہیے تا کہ آتی نسل کے کام آ سکے۔‬ ‫اکثر معاملہ بحث اور پھر تو تکرار کی حدوں کو چھونے لگتا۔‬ ‫میرا موقف تھا‘ اس بیٹھک کو شغل میلے تک رہنا چاہیے۔‬ ‫کوشش کے باوجود‘ تو تکرار ہو ہی جاتی۔ اس روز الال دینو‬ ‫کچھ زیادہ ہی گرم ہو گیا۔ صدیقا بھی تو زبان کو تالہ نہیں لگا‬ ‫رہا تھا۔ صدیقے نے اللے دینو کا گریبان پکڑ لیا۔ اللے دینو نے‬ ‫وٹ کر صدیقے کے سینے میں گھونسہ مارا اور وہ نیچے گر‬ ‫پڑا۔ اللے دینو کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ صدیقہ زمین پر‬ ‫آ رہے گا۔ اب وہ ہی سب سے زیادہ ترلے لینے والوں میں تھا۔‬ ‫افسوس صدیقا اللے دینو کی ایک نہ سہہ سکا اور ہللا کو پیارا ہو گیا۔‬ ‫پلس آئی اور ہم سب کو پکڑ کر لے گئی۔ ہماری تو کچھ جھڑ جھڑا کر‬ ‫تھانے سے رخصتی ہو گئی ہاں اللے دینو کو پھنٹی کے ساتھ جیل بھی‬ ‫جانا پڑا۔ وبال دیکھیے‘ ہمیں بھی باطور گواہ حاضری پر رکھ لیا گیا۔‬


‫‪130‬‬

‫عصری ضرورت‬ ‫میں جدید لبرل مسلمان ہوں اور یہ سب جانتے ہیں‘ بتانے کی‬ ‫ضرورت نہیں۔ ایک شیطان ہی ہے جو نہیں مانتا‘ اس کا کہنا ہے‬ ‫کہ میں اس کا ہم پیشہ و ہم مشرب ہوں۔ پرسوں ہم انٹرنیشنل‬ ‫فائیو سٹار ہوٹل میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آتے جاتے جوڑوں کے‬ ‫لباس اور ان کے طور و اطوار کو پرذوق اور پرحسرت نگاہوں‬ ‫سے دیکھ رہے تھے۔ یقین مانیئے ہر آنے والی کا حسن و‬ ‫جمال اور ادائیں‘ کاش کے تند و تیز چھرے سے‘ میری روح کو‬ ‫زخمی کر رہی تھیں۔ بدبخت پاس ہی بیٹھا‘ ان کے حسن و جمال‬ ‫اور اداؤں سے کم‘ میری بےچینی پر زیادہ خوش ہو رہا تھا۔‬ ‫بیٹھا بیٹھا اچانک سنجیدہ سا ہو گیا۔ میں نے پوچھا‘ او سالے یہ‬ ‫اچانک تمہارا بوتھا شریف کیوں لمک گیا ہے۔ کہنے لگا یار دنیا‬ ‫بڑی خودی غرض ہے۔‬ ‫کیوں کیا ہو گیا‬ ‫ہونا کیا تھا‘ پرسوں بھابی اور بٹیا ادھر ہی‘ ملکوں کے ایک‬ ‫شوخے کے ساتھ آئے ہوئے تھے۔ کم بخت بھابی کا آنا پسند‬ ‫نہیں کر رہا تھا۔ پہلے اس نے اپنا مطلب نکال لیا۔ بھابی نے کیا‬ ‫کہنا تھا‘ بےچاری چپ چاپ بیٹھی ناشتے پانی کا انتظار کر رہی‬ ‫تھی۔ کافی دیر بعد کھانے میں کافی کچھ منگوایا گیا۔ خود بھی‬


‫‪131‬‬

‫کھاتا مرتا رہا۔ پھر واش روم جانے کے بہانے سے اٹھا اور‬ ‫کھسک گیا۔ ان بےچاریوں نے چھوٹے کے ہاتھ پیسے منگائے‬ ‫اور وہاں سے خالص ہوئیں۔‬ ‫مجھے بڑا تاؤ آیا۔ ان کی اس بیٹھک کا تو مجھے علم تھا‘ لیکن‬ ‫ملکوں کے شوخے کی اس کمینی حرکت سے آگاہ نہ تھا۔ سب‬ ‫بےمزا اور کرکرا ہو گیا۔ دل چاہتا تھا کہ اس شوخے کے ڈکرے‬ ‫ڈکرے کر دوں۔ میں نے اسے کہا‘ یار بس اب اٹھو‘ چلتے ہیں۔‬ ‫دنیا کی چال بازی پر مجھے دکھ اور افسوس ہوا۔ معامالت میں‬ ‫آدمی کو اتنا بھی نہیں گرنا چاہیے۔ میں اگر جھوٹ بولتا ہوں‘ تو‬ ‫لوگ میرے کہے کا یقین کرتے ہیں۔ اگر یقین نہ کریں تو مجھے‬ ‫کیا پڑی ہے‘ جوجھوٹ بولوں۔‬ ‫معامالت میں‘ میں نے کبھی دونمبری نہیں کی۔ وہ پیسے دیتے‬ ‫ہیں‘ میں گواہی دیتا ہوں۔ ان کا احسان نہ میرا احسان۔ رشوت کی‬ ‫رقم مفت میں تو نہیں لیتا‘ کام کرتا اور کرواتا ہوں۔ کسی‬ ‫دوسرے دفتر سے کام کرواتا ہوں تو ٹن پرسنٹ میرا اصولی حق‬ ‫بنتا ہے۔ میں دودھ میں پانی مالتا ہوں تو اس میں غلط کیا ہے‘‬ ‫پیچھے سے کب کھرا آتا ہے۔ میرا پانی مالنا دکھتا ہے تو‬ ‫سپالئی کرنے واال کیوں نظر نہیں آتا۔ دوسرا میں کون سا زور‬ ‫زبردستی فروخت کرتا ہوں‘ نہ خریدیں۔ انہیں حکیم نے کہا ہے‘‬ ‫جو وہ پانی یا کیمیکل مال دودھ خریدتے ہیں۔ خریددار کے سب‬


‫‪132‬‬

‫علم میں ہے تو یہ دو نمبری کس حساب سے ہوئی۔‬ ‫میں لبرل ماڈرن مسلمان ہوں‘ دو نمبری کو غلط اور قابل تعزیر‬ ‫سمجھتا ہوں۔ عہد قدیم کے مسلمانوں کا دائرہ محدود تھا‘ اس‬ ‫لیے اصول بھی اسی دور کے مطابق تھے۔ میرا واسطہ گلوبل‬ ‫ہے۔ امریکہ اور جاپان اب دو قدم کے ملک رہ گئے ہیں‘ لہذا‬ ‫مجھے عصری اصولوں کو فالو کرنا ہوتا ہے۔ حضرت بالل‬ ‫حضور کریم کے قریب تھے‘ لہذا وہ ویسے تھے۔ حضور کریم‬ ‫میرے قریب نہیں ہیں‘ کیا یہ میری برخورداری نہیں کہ میں‬ ‫حضور کریم سے بڑی محبت کرتا ہوں‘ ہاں ان کے کہے پر نہیں‬ ‫چلتا‘ بل کہ آج کی ضرورت کے مطابق زندگی کر رہا ہوں۔‬ ‫لبرل ماڈرن مسلمان ہونے کے ناتے‘ گیو ٹیک کو اپنائے ہوئے‬ ‫ہوں۔ میں نے ہر اس عورت کو اپنی ماں بہن سمجھا ہے جو‬ ‫میرے ساتھ پھنستی نہیں۔ بڑی سالی تکبر میں رہی‘ میں نے‬ ‫بھی اسے جوتے کی نوک پر رکھا۔ ہمیشہ باجی باجی کہہ کر‬ ‫مخاطب کیا ہے۔ ہاں چھوٹی لبرل ماڈرن مسلمان تھی‘ اس سے‬ ‫سالم دعا ہو گئی۔ اس کی شادی ہو گئی‘ اب جب کبھی آتی ہے‘‬ ‫تو ہمارا گیو ٹیک ہو جاتا ہے۔ ہاں البتہ ساس مجھ پر مہربان ہے‬ ‫تو میں بھی اس کے معاملہ میں بخیل نہیں۔‬ ‫مجھے ملکوں کے شوخے پر تاؤ آتا ہے‘ بےغیرت دونمبری‬ ‫کرتا ہے۔ کچھ لیا ہے تو کچھ دو بھی۔ ایسے ہی دو نمبر لوگ‬


‫‪133‬‬

‫قابل تعزیر ہوتے ہیں۔ اگر ملک کی باگ ڈور میرے ہاتھ میں آ‬ ‫جائے تو اس طور کے ہر دونمبری کو‘ چوراہے میں الٹا لٹکا‬ ‫دوں تا کہ کسی کو دونمبری کرنے کی جرآت ہی نہ ہو۔ وہ لبرل‬ ‫ماڈرن مسلمان نہیں ہیں‘ مولوی کو‘ ایسے دو نمبریوں پر کفر‬ ‫کا فتوی لگا دینا چاہیئے۔ مولوی عصری ضرورت سے ہٹ کر‘‬ ‫فتوی سازی میں مصروف ہیں۔ انہیں آج کی ضرورت اور حقائق‬ ‫کے مطابق چلنا ہو گا‘ ورنہ انہیں لبرل ماڈرن مسلمان نہیں کہا‬ ‫جا سکتا۔‬


‫‪134‬‬

‫اماں جیناں‬ ‫اماں جیناں محلہ کیا‘ اردگرد کے محلوں میں بھی پسند نہیں کی‬ ‫جاتی تھی۔ اسے بیوہ ہوئے آٹھ سال ہو گئے تھے۔ اس کا خاوند‬ ‫مشقتی تھا‘ لیکن تھا بھال آدمی۔ صبح کام پر چال جاتا اور رات‬ ‫دیر تک مشقت کرتا۔ اس نے اپنی محنت سے‘ چھوٹا اور کچا‬ ‫پکا ذاتی مکان بھی بنا لیا تھا۔ ضرورت کی ہر شے اس میں ال‬ ‫کر رکھ دی تھی۔ جتنا ایک مشقتی سے ممکن ہوتا ہے کیا۔ اپنی‬ ‫بوالر بیوی کو ہر طرح کا سکھ‘ فراہم کرنے کا جتن کیا۔‬ ‫اماں جیناں نے اپنے خاوند سحاکے کے ہر رشتہ دار‘ یہاں تک‬ ‫کہ اس ماں کی بھی دڑکی لگا دی۔ وہ بڑی برداشت کا مالک تھا۔‬ ‫اس زیادتی کو کوڑا گھونٹ سمجھ کر پی گیا اور حسب معمول‬ ‫محنت مشقت پر جھٹا رہا۔ ماں اور بہن بھائیوں کو وقت نکال کر‬ ‫مل لیتا۔ ہاں البتہ پانچ دس منٹ کے لیے سہی‘ ماں کو ہر روز‬ ‫بھرجائی کے کوسنے سن کر بھی‘ ملنے چال جاتا۔ معلوم پڑ‬ ‫جانے کے بعد جیناں بھی وقت کووقت اور اپنے خاوند کی حالت‬ ‫دیکھے بغیر‘ منہ میں زبان رکھنا بھول جاتی۔‬ ‫اس کی زبان نے بابے سحاکے کے اپنے تو اپنے‘ ملنے والے‬ ‫بھی بہت دور کر دیے تھے۔ ہر کوئی اس سے بات کرتے ڈرتا‘‬


‫‪135‬‬

‫مبادا کوئی گالواں ہی گلے آ پڑے گا۔ الٹی کھوپڑی کی مالک‬ ‫تھی‘ سیدھی بات کو غلط معنوں میں لے لیتی تھی۔ مثال کوئی‬ ‫بھولے سے بھی پوچھ بیٹھتا‪ :‬مائی جیناں کیا حال ہے۔ جواب‬ ‫میں اسے یہ ہی سننا پڑتا‘ اندھے ہو نظر نہیں آتا‘ چنگی بھلی‬ ‫ہوں۔ جب ایسی صورت ہو تو کوئی اس کے منہ کیوں لگتا۔‬ ‫منہ متھے لگتی تھی‘ عالقے میں انھی ڈال سکتی تھی۔ ہمیشہ‬ ‫سے بوڑھی نہ تھی۔ مجال ہے کوئی اس کے بارے غلط بھی‬ ‫سوچتا۔ کھگو نے جوانی کے دور میں‘ ٹرائی ماری تھی۔ اس‬ ‫کے ساتھ کیا ہوا جگ جانتا ہے۔ جب بھی وہ نظر آ جاتا‘ شروع‬ ‫ہو جاتی۔ اس نے معافی بھی مانگی لیکن جیناں نے معاف نہ کیا۔‬ ‫اس کا موقف تھا کہ کھگو کو ایسی جرآت ہی کیوں ہوئی۔ اس‬ ‫نے ایسا سوچ بھی کس طرح لیا۔ چوں کہ قریب کی گلی کے‬ ‫تھے‘ وہ گلی دیکھ کر گزرتا۔ اگر جیناں نظر آ جاتی تو بل باش‬ ‫ہو جاتا۔ اس کے برعکس اگر جیناں کی اس پر نظر پڑ جاتی‘ تو‬ ‫رانی توپ کا منہ کھل جاتا۔ جب تک زندہ رہا‘ نزع کی حالت میں‬ ‫ہی رہا۔‬ ‫اماں جیناں کی کوئی اوالد نہ تھی۔ خاوند کے مرنے کے بعد‬ ‫بےسہارا سی ہو گئی۔ پورے محلہ میں کوئی اسے پوچھنے واال‬ ‫نہ تھا۔ جب تک گھر پر جمع پونجی باقی رہی‘ گزارا کرتی رہی۔‬ ‫فاقوں پر آ گئی‘ اس نے کسی پر ظاہر تک نہ کیا۔ سب کچھ ذات‬ ‫اور آنسوؤں میں ضبط کرتی رہی۔ میری گھروالی کو جانے‬


‫‪136‬‬

‫کیسے معلوم ہو گیا۔ اس نے بات میرے سامنے رکھی۔ مجھے‬ ‫عزت عزیز تھی۔ میں اس کی مدد کرنا چاہتا تھا‘ لیکن ڈرتا تھا‬ ‫کہ کہیں معاملہ گلے ہی نہ آ پڑے۔‬ ‫ایک دن گلی سے گزر رہا تھا‘ اماں جیناں اپنے گھر کی دہلیز پر‬ ‫اداس اور افسردہ بیٹھی ہوئی نظر آئی۔ میں دور سے‘ جو اسے‬ ‫سنائی دے رہا جعلی بڑبڑاتا ہوا اس کے قریب سے گزرا۔ اس‬ ‫نے مجھے کبھی اس انداز میں نہ دیکھا تھا۔ قریب آیا تو اس‬ ‫‪:‬نے پوچھ ہی لیا‬ ‫پتر کیا ہوا‬ ‫ماں جی ہونا کیا ہے‘ کیسا دور آ گیا ہے‘ پیسے پورے لے کر‬ ‫بھی چیز درست نہیں دیتے۔ میرے بیگ میں کیلے تھے میں نے‬ ‫کیلے انہیں پکڑائے اور خود دوبارہ سے بڑبراتا ہوا آگے بڑھ‬ ‫گیا۔ اس نے بڑی حیرت سے میری طرف دیکھا اور کیلے لے کر‬ ‫اندر چلی گئی۔‬ ‫مجھے شہہ مل گئی اور پھر میں‘ آنے بہانے اماں جیناں کو‬ ‫کچھ ناکچھ دے کر کام پر چال جاتا۔ ایک مرتبہ میں نے کچھ‬ ‫پیسے بھی چیز کے ساتھ رکھ دیے۔ اگلے روز گھر واپس آتے‬ ‫اس نے مجھے روک لیا اور کہا غلطی سے پیسے بھی آ گیے‬ ‫تھے۔ میں نے کہا نہیں ماں جی‘ آپ کے حصہ ہی کے تھے اور‬ ‫میں جلدی سے وہاں سے رخصت ہو گیا‘ کہ کوئی تماشا کھڑا نہ‬


‫‪137‬‬

‫کر دے۔ جب اگلے دن وہاں سے گذرا تو دیکھا‘ اماں کی آنکھوں‬ ‫میں تشکر لبریز آنسو تھے۔ سچی بات ہے میری بھی آنکھیں‬ ‫چھلک پڑیں۔ اس کے بعد میں بالڈرے اس کی خدمت کرنے لگا۔۔‬ ‫دن گزر گئے‘ اور آج اماں کو حق ہوئے بھی کئی سال ہو چلے‬ ‫ہیں۔ کوئی نہیں جانتا تھا‘ وڈ ٹک سے پہلے اماں بڑے کھاتے‬ ‫پیتے خاندان کی تھی۔ سحاکا ہی اسے زخمی حالت میں‘ اس کی‬ ‫جان بچا کر لے آیا تھا ورنہ ہللا جانے اس کے ساتھ کیا گزرتی۔‬ ‫اماں نے سحاکے کے ساتھ نکاح کر لیا۔ سحاکا ازدواجی معامالت‬ ‫میں پیدل تھا‘ اماں نے پھر بھی پاک صاف رہ کر زندگی گزار‬ ‫دی۔‬ ‫مائی صوباں کا یہ انکشاف‘ حیرت سے خالی نہ تھا۔ سب خالئی‬ ‫سا معلوم ہو رہا تھا۔ سچ میں‘ ہللا کی اس زمین پر یہ وقوع میں‬ ‫آ چکا تھا۔‬


‫‪138‬‬

‫اس کا نام ہدایتا ہی رہا‬ ‫تجربہ زندگی کو سنوارتا‘ نکھارتا اور بعض اوقات شخصیت میں‬ ‫انقالب برپا کر دیتا ہے۔ ہداتے اور اس کی رن ماجدہ کا‘ ہر‬ ‫دوسرے تیسرے رن کچھ سا رن لگتا۔ وہ جند جان میں اس سے‬ ‫کہیں بھاری تھی۔ اڑبڑ کرتا‘ تو سیدھا چمٹا چالتی‘ جو اس کے‬ ‫کہیں ناکہیں آ لگتا۔ آشاں کا نشانہ بڑے کمال کا تھا۔ اس کے وڈ‬ ‫وڈیروں میں یقینا کوئی بہت بڑا شکاری رہا ہو گا۔ ایک بار تو‬ ‫سیدھا وہاں سے‘ تھوڑا ہی فاصلے پر آ لگا۔ کئی دن ٹانگیں‬ ‫چوڑی کرکے چلتا رہا۔ اگر خدا نخواستہ وہاں لگ جاتا‘ تو آج‬ ‫صحن میں اٹھکیلیاں کرتی منی سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ اس چوٹ‬ ‫نے آشاں پر تو کوئی اثر نہ ڈاال‘ ہاں البتہ اس تجربے نے اس‬ ‫کے معمول میں انقالبی تبدیلی ضرور کر دی۔ اب جب بھی رن‘‬ ‫رن میں اترنے کا موڑ بناتی‘ یہ فورا سے پہلے گھر کی دہلیز‬ ‫کے اس پار ہوتا۔‬ ‫وہ اندر فائرنگ کرتی یہ باہر کھڑا کبھی گولے اور کبھی تھری‬ ‫نٹ تھری کی گولیاں چالتا۔ ہاں البتہ‘ ہر دو تین گولیاں یا گولے‬ ‫چالنے کے بعد‘ اتنا ضرور کہتا‘ ہللا تمہیں ہدایت دے۔ اس کے‬ ‫بعد ہللا تمہیں ہدایت دے اس کا تکیہءکالم ہی بن گیا۔ اس کا اصل‬ ‫نام نور محمد تھا لیکن اس تکیہءکالم کی وجہ سے‘ اس کا نام‬


‫‪139‬‬

‫بھی ہدایتا پڑ گیا۔ پھر ہر دو تین کلمے منہ سے نکالنے کے بعد‘‬ ‫ہللا تمہیں ہدایت دے ضرور کہتا۔ لوگ چوں کہ اس کے اس‬ ‫تکیہءکالم سے آگاہ ہو چکے تھے‘ اس لیے غصہ نہ کرتے۔‬ ‫ایک بار سردار صاحب کے بیٹے کی جنج چڑھنا تھا۔ اچھے‬ ‫کپڑے سلوا لیے‘ اسی طرح اوکھے سوکھے ہو کر نیا جوتا بھی‬ ‫خرید لیا۔ اگلے دن جنج چڑھنا تھا‘ رن سرکار سے خوب حجامت‬ ‫کروانے کے بعد‘ شہر حجامت اور شیو بنوانے چال گیا۔ حجام کی‬ ‫دکان پر تھوڑا رش تھا۔ وہ ادھر ہی بیٹھ گیا اور موجود لوگوں‬ ‫کی باتیں سننے لگا اور ساتھ میں ہوں ہاں بھی کرنے لگا۔ خدا‬ ‫خدا کرکے‘ اس کی بھی باری آ ہی گئی۔‬ ‫حجام باتونی تھا۔ حجامت بھی بنائے جا رہا تھا اور ساتھ میں‬ ‫باتیں بھی کیے چلے جا رہا تھا۔ ہدایتا اس کی ہاں میں ہاں مال‬ ‫رہا تھا۔ ساری باتیں وہ ہی کیے جاتا تھا۔ خدا خدا کرکے ایک دو‬ ‫باتیں اسے بھی کرنے کا موقع مل گیا۔ حسب عادت دو تین باتیں‬ ‫کرنے کے بعد‘ ہللا تمیں ہدایت دے کہہ بیٹھا۔ حجام کام چھوڑ کر‘‬ ‫الل الل آنکھیں نکال کر کہنے لگا‘ اوئے پینڈو کیا میں بےہدایتا‬ ‫ہوں اور ہدایت تو سکھائے گا۔ چپ رہتا یا معذرت کر لیتا تو بات‬ ‫نہ بگڑتی۔‬ ‫لفظ پینڈو اسے چبھ سا گیا اور گھر سمجھ کر بکنے لگا۔ پھر کیا‬ ‫تھا‘ وہاں موجود لوگوں نے اسے پکڑ کر خوب وجایا۔ اور تو‬


‫‪140‬‬

‫اور چہرے پر بھی اچھے خاصے آلو ڈال دیے۔ ابھی آدھے ہی‬ ‫بال کٹے تھے کہ بقیہ جان بچا کر واپس آ گیا۔ آشاں زخموں پر‬ ‫مرہم رکھنے یا اس حجام کا گھر پر ہی زبانی کالمی گھر پورا‬ ‫کرنے کی بجائے‘ اس کے چہرے کے آلو دیکھ کر خوب ہنسی۔‬ ‫اس واقعے کے بعد وہ جنج چڑھنے سے محروم ہو گیا اور‬ ‫گاؤں بھر کے مردوں‘ عورتوں اور بچوں کے لیے مذاق بن گیا۔‬ ‫ہاں البتہ اس کا تکیہءکالم ضرور بدل گیا۔ ہللا تمہیں ہدایت دے‬ ‫کی بجائے‘ ہللا مجھے ہدایت دے بولنے لگا۔ یہ بات قطعی الگ‬ ‫سے ہے کہ زبان پر مجھے اور دل میں تجھے ہی ہوتا۔ اس نے‬ ‫اپنے لیے کبھی ہدایت کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی‘ جیسے‬ ‫پیدایشی ہدایت یافتہ ہو۔ اس حادثے کے بعد‘ نام بھی تبدیل ہو‬ ‫جانا چاہیے تھا‘ لیکن اس کا نام ہدایتا ہی رہا۔‬


‫‪141‬‬

‫بھاری پتھر‬ ‫مغرب میں اماں بابوں کا گالواں‘ اوالد گلے میں نہیں ڈالتی۔ وہاں‬ ‫ان پرانے وقتوں کے لوگوں کو‘ بڈھا ہاؤسز میں چھوڑ دیا جاتا‬ ‫ہے‘ جہاں وہ اپنے وقتوں کی کہانیاں‘ ایک دوسرے کو سنا کر‘‬ ‫ہنسی خوشی زندگی گزار لیتے ہیں۔ ہر نئے دور کے تقاضے‬ ‫اپنے ہوتے ہیں۔ نئے دور کے لوگ‘ اپنے ان تقاضوں کے ساتھ‬ ‫کھل ڈھل کر زندگی گزارتے ہیں۔ ان کی کرنی میں‘ کوئی میم میخ‬ ‫نکالنے واال نہیں ہوتا۔ ناہی انہیں ایک دوسرے کی کرنی پر کوئی‬ ‫اعتراض ہوتا ہے۔ جہاں جانا ہو دوڑ کر جا سکتے ہیں۔ ان کی‬ ‫موجودگی میں‘ انہیں بھی کندھا پکڑا کر ساتھ لے جانا پڑتا ہے۔‬ ‫واپس آ کر ان کی تقریریں سننا پڑتی ہیں۔‬ ‫دور کیا جانا ہے‘ کل ہی کی بات کو لے لیں۔ بابے مہنگے کو‬ ‫بھی شادی حال میں لے گئے۔ خیال تھا کہ نیا ماحول دیکھ کر‘‬ ‫تازہ دم ہو جائے گا اور آج کل کا پیٹ بھر کر کھا کر‘ خوش ہو‬ ‫گا۔ مگر کہاں جی‘ جتنی دیر وہاں بیٹھا‘ بڑ بڑ کرتا رہا۔ بہو اور‬ ‫بیٹیوں کو گھور گھور کر اور کھا جانے والی نظروں سے‬ ‫دیکھتا رہا۔ گھر آ کر‘ اماں پر برس پڑا کہ کتنا بےحیا دور آ گیا‬ ‫ہے۔ کسی کو اپنی عزت آبرو کا احساس تک نہیں رہا۔ یہ لباس‬ ‫تھا‘ باریک‘ آدھا اور وہ بھی ٹائٹ۔ ٹانگوں کی اگلی پچھلی اور‬


‫‪142‬‬

‫سینے کی لکیریں‘ نمایاں ہو رہی تھیں۔ کسی کے سر پر دوپٹہ‬ ‫نہ تھا۔ یوں نچ ٹپ رہی تھیں‘ جیسے چوتڑوں میں کیڑا گھس گیا‬ ‫ہو۔ بھائی اور خاوند ساتھ تھے‘ کسی کو غیرت نہیں آ رہی تھی۔‬ ‫اب پتا چال کہ ہم مسلمان ہو کر بھی‘ دنیا جہان کے چھتروں کی‬ ‫زد میں کیوں ہیں۔‬ ‫بابے نے اتنے اعلی کھانے میں بھی‘ ہزار طرح کے کیڑے‬ ‫نکالے۔ اماں جس نے بابے کو ساری عمر نپ کر رکھا تھا‘ آج‬ ‫اسے قابو نہ کر پا رہی تھی۔ اپنی کہے جا رہی تھی لیکن پورا نہ‬ ‫اتر رہی تھی۔ بابا مکمل طور پر چھایا ہوا تھا اور پٹری سے اتر‬ ‫چکا تھا۔‬ ‫ملک کے سربراہوں کے بھی بابے ہوں گے‘ معلوم نہیں وہ ان‬ ‫پر کس طرح قابو پاتے ہوں گے یا پھر ان کے بابے بھی لکیر‬ ‫پسند ہوں گے۔ سربراہ بابا ہو تو بھی بابا نہیں ہوتا۔ حکیم ڈاکٹر‬ ‫ان کے مطیع ہوتے ہیں۔ دوسرا وہ سب کے ہوتے ہیں اس لیے‬ ‫ان کا لبرل اور لکیر نواز ہونا ضروری ہوتا ہے۔ رہ گئی بات دنیا‬ ‫جہاں کے چھتر کھانے کی‘ وہ تو ہم صدیوں سے کھا رہے ہیں۔‬ ‫اگر کوئی ان موقعوں پر ہماری بیویوں‘ بیٹیوں اور بہنوں کی‬ ‫لکیروں سے‘ نظری یا محض معمولی معمولی ٹچ سے لطف‬ ‫اندوز ہو رہا ہوتا ہے‘ تو ہم بھی کب پیچھے ہوتے ہیں۔ ہماری‬ ‫آنکھیں کھلی اور ہاتھ متحرک ہوتے ہیں۔ اگر ہماری عورتیں ان‬ ‫کے لیے لطف کا سامان ہوتی ہیں‘ تو ان کی عورتیں بھی ہمیں‬


‫‪143‬‬

‫حظ مہیا کر رہی ہوتی ہیں۔‬ ‫بابر سے لبرل بادشاہ نے کہا تھا ‪:‬‬ ‫بابر باعیش کوش کہ دنیا دوبارہ نیست‬ ‫یہ بابے کیا جانیں۔ خشک جیئے اور ہمیں بھی‘ اسی رہ پر رکھنا‬ ‫چاہتے ہیں۔ حاکم اپنی موج میں ہیں۔ ہمیں بھی جدید طرز کی‬ ‫زندگی گزارنا ہے لیکن ان بابوں کے ہوتے‘ مکمل طور پر یہ‬ ‫ممکن نہیں۔ بااختیار اداروں کا فرض بنتا ہے کہ ان بابوں کا کچھ‬ ‫کریں ورنہ ان کے لیکچر ہمیں جدید زندگی سے درر رکھیں گے۔‬ ‫ہم آزادی حاصل کرکے بھی آزادی سے دور رہیں گے۔ جو بھی‬ ‫سہی‘ یہ طے ہے کہ امرا کے ناسہی‘ ہمارے بابے عصری‬ ‫آزادی کی راہ کا بھاری پتھر ہیں اور ہم سے لبرل‘ ماڈرن‘ آزاد‘‬ ‫ترقی پسند اور مغرب کے پیروں کو غیرت کا لیکچر پال پال کر‬ ‫غیرت پسند بنا دینا چاہتے ہیں۔‬


‫‪144‬‬

‫ایسے لوگ کہاں ہیں‬ ‫یہ دنیا سرائے کی مانند ہے‘ کوئی آ رہا ہے تو کوئی جا رہا ہے۔‬ ‫سرائے میں مستقل کوئی اقمت نہیں رکھتا۔ ہاں ہر آنے واال اپنا‬ ‫ایک تاثر ضرور چھوڑ جاتا ہے۔ کوئی اچھا تو کوئی برا۔ اس‬ ‫تاثر کے حوالہ سے ہی‘ اس مسافر کو یاد میں رکھا جاتا ہے۔‬ ‫بابا صاحب بھلے آدمی تھے۔ طبعا مہربان‘ شفیق اور اپنے‬ ‫پرائے کے غم گسار تھے۔ کسی کو دکھ میں دیکھتے‘ تو تڑپ‬ ‫تڑپ جاتے۔ جب تک اس کی تکلیف دور کرنے کا پربند نہ کر‬ ‫لیتے‘ سکھ کا سانس نہ لیتے تھے۔ اچھائی اور خیر کے معاملہ‬ ‫میں‘ دھرم اور مسلک ان کے نزدیک‘ کوئی معنویت نہ رکھتا‬ ‫تھا۔ ان کا موقف تھا‘ جس طرح ہللا سب کا نگہبان ہے‘ اسی‬ ‫طرح انسان بھی سب کا نگہبان ہے۔ اس کی پیدا کی ہوئی کوئی‬ ‫بھی مخلوق‘ دکھ میں ہے تو انسان کو‘ اس کا ہر حال میں دکھ‬ ‫دور کرنا چاہیے۔ کوئی برا کرتا ہے تو یہ اس کا کام ہے‘ برائی‬ ‫کے بدلے برائی کرنا‘ تمہارا کام نہیں۔ تم جو بھی کرو‘ اچھا اور‬ ‫اچھے کے لیے کرو۔‬ ‫ان کے پاس‘ ہر دھرم سے متعلق لوگ آتے۔ کوئی خیر و برکت‬ ‫کی دعا کے لیے آتا‘ تو کوئی علم وادب اور مذہب سے متعلق‬ ‫گفتگو یا مشاورت کے لیے آتا۔ سب کے ساتھ یکساں سلوک روا‬


‫‪145‬‬

‫رکھتے۔ تحمل سے اس کی سنتے اور پھر اپنا موقف پیش‬ ‫کرتے۔ جب تک وہ مطمن نہ ہو جاتا‘ رخصت نہ کرتے۔‬ ‫بائیبل مقدس‘ رومائن‘ بھگوت گیتا‘ گرنتھ صاحب کا ورق ورق‬ ‫انہوں نے پڑھ رکھا تھا۔ بدھ مت کے متعلق بھی اچھا خاصا نالج‬ ‫رکھتے تھے۔ پہلے تو متعلقہ کی کتاب اور پھر قرآن مجید کے‬ ‫حوالہ سے بات کرتے۔ یار کمال کے شخص تھے۔ کوئی نذر نیاز‬ ‫لے آتا تو رکھ لیتے‘ جب جانے لگتا تو اس تاکید کے ساتھ‬ ‫واپس کر دیتے‘ کہ چیزیں صرف اپنے بیوی بچوں میں تقسیم‬ ‫کرنا۔ اصرار کے باوجود کچھ نہ رکھتے۔ فرماتے بیٹا‘ تم چنتا نہ‬ ‫کرو‘ ہللا مجھ اور میری بھوک پیاس سے خوب خوب واقف ہے۔‬ ‫ایک بار ایک اجنبی آیا۔ کچھ کہے سنے بغیر ہی‘ دروازے پر‬ ‫کھڑے ہو کر‘ بابا صاحب کو برا بھال کہنے لگا۔ جب حد سے‬ ‫گزرنے لگا‘ تو بیٹھے لوگوں میں سے ایک اٹھ کر اس کی‬ ‫ٹھکائی کرنے لگا۔ بابا صاحب نے اسے منع کر دیا۔ بہت کچھ‬ ‫کہہ لینے کے بعد وہ چال گیا۔‬ ‫ایک بوال بیڑا غرق ہو اس خانہ خراب کا‘ کتنی بکواس کر رہا‬ ‫تھا۔ اگر بابا صاحب نہ روکتے‘ تو آج میں اسے اس بدتمیزی کا‬ ‫ایسا مزا چکھاتا کہ نسلوں کو بھی منع کر جاتا۔ بابا صاحب اس‬ ‫کے اس طرز تکلم سے سخت پریشان ہوئے۔ پھر فرمانے لگے‘‬ ‫بیٹا کبھی اور بھی کسی بھی صورت میں‘ گفتگو میں شائستگی‬


‫‪146‬‬

‫کو ہاتھ سے نہ جانے دو۔ یاد رکھو‘ ایک طرف نیکیوں کا انبار‬ ‫لگا ہو تو دوسری طرف ایک بددعا‘ بددعا اس پر بھاری ہے۔ کیا‬ ‫تمہیں حضرت یونس علیہ السالم کی بددعا کا انجام یاد نہیں۔‬ ‫انہیں مچھلی کے پیٹ میں جانا پڑا۔ پھر فرمایا بددعا کی بجائے‬ ‫تم دعا بھی دے سکتے ہو کہ ہللا اسے ہدایت دے۔ بعید نہیں وہ‬ ‫وقت قبولیت کا وقت ہو۔‬ ‫تھوڑی دیر کے بعد وہ شخص دوبارہ سے آ گیا اور دروازے پر‬ ‫کھڑا ہو کر‘ اندر آنے کی اجازت طلب کرنے لگا۔ اب کہ وہ اور‬ ‫اس کا انداز بڑا مہذب اور شائستہ تھا۔ سب اس کے اس دوہرے‬ ‫روپ سے حیران رہ گئے۔ بابا صاحب نے اسے اندر آنے کی‬ ‫اجازت دے دی۔ اندر آ کر وہ بابا صاحب کے پاؤں پڑنے لگا تو‬ ‫بابا صاحب نے اسے سختی سے منع کر دیا اور پھر اس کی‬ ‫طرف دیکھ کر مسکرائے۔ وہ مسکراہٹ کیا تھی‘ جنت کی ہوا کا‬ ‫ایک جھونکا تھا‘ جو سب کو نہال کر گیا۔‬ ‫وہ شخص کہنے لگا‪ :‬سرکار میں تو آپ کے ظرف کا امتحان لے‬ ‫رہا تھا۔ جیسا اور جو سنا ویسا ہی پایا۔ آپ سچے ولی ہیں۔‬ ‫نہیں بیٹا‘ یہ تم محبت میں کہہ رہے ہو۔ میں بےچارہ کہاں اور‬ ‫والیت کہاں۔ ہاں یہ ہللا کا احسان اور لطف وکرم ہے‘ جو اس نے‬ ‫توفیق دی اور میں اس امتحان میں کامیاب ہوا۔‬ ‫سوچتا ہوں‘ اب ایسے لوگ کہاں ہیں۔ اگر کوئی ہے‘ تو چال‬


‫‪147‬‬

‫کیوں جاتا ہے۔ کیا کریں‘ یہاں کوئی ٹھہرنے کے لیے نہیں آتا۔‬ ‫اچھا ہو کہ برا‘ گریب ہو کہ امیر‘ شاہ ہو کہ فقیر‘ اسے ایک‬ ‫روز جانا ہی تو ہے۔ اللچ‘ ہوس اور حرص نے انسان کو‘ انسان‬ ‫نہیں رہنے دیا۔ کاش ہمیں یقین ہو جائے‘ کہ ہمیں ہر صورت‬ ‫میں جانا ہی ہے اور کوئی یہاں ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں آیا۔‬ ‫جمع پونجی ساتھ نہ جا سکے گی۔ جاتے وقت ہاتھ خالی ہوں‬ ‫گے اور اپنے قدموں پر نہیں جا سکیں گے۔‬


‫‪148‬‬

‫شاعر اور غزل‬ ‫چاند کی کرنوں سے غزل کی بھیک مانگی‬ ‫اس نے کاسے میں دو بوندیں نچوڑ دیں‬ ‫کہ غزل آنکھوں کی ٹھنڈک ہو جائے‬ ‫سیپ نے مروارید دیئے‬ ‫کہ دل اس کا پرسکون ہو جائے‬ ‫قوس قزح نے سرخی بخشی‬ ‫کہ رخ مثل یاقوت ہو جائے‬ ‫طبلے کی تھاپ نے‬ ‫گھنگھرو کی جھنکار نے‬ ‫مایوس نہیں کیا‬ ‫نسیم سحر سے بھی دست سوال دراز کیا‬ ‫قبروں کے کتبوں سے بھی‬ ‫غزل کی بھیک مانگ کے الیا‬ ‫سورج سے تھوڑی حدت مانگ لی‬


‫‪149‬‬

‫سیماب سے بےقراری لے لی‬ ‫لہر نے بغاوت دے دی‬ ‫گالب کے پاس بھی گیا‬ ‫اس نے کاسے کو بوسہ دیا‬ ‫اور اپنی اک پنکھڑی رکھ دی‬ ‫خوش تھا کہ‬ ‫آج محنت رنگ الئے گی‬ ‫وہ مری ہو جائے گی‬ ‫دامن مرا خوشیوں سے بھر جائے گا‬ ‫غزل کے چہرے پر‬ ‫حسین سا عنوان لکھ دے گی‬ ‫خلوص کی طشتری میں رکھ کر‬ ‫جب غزل میں نے پیش کی‬ ‫جسارت پہ مری وہ بپھر گئی‬ ‫ضبط کی پٹڑی سے اتر گئی‬ ‫کاسے میں تھوک دیا‬


‫‪150‬‬

‫بولی‬ ‫بھکاری! اپنا خون جگر نچوڑ کے الؤ‬ ‫غزل سے زندگی کی خوش بو آئے‬ ‫راحتوں کے لیے‬ ‫لہو کی اک بوند کافی ہے‬ ‫پھر اس نے‬ ‫چھاتی سے جدا کرکے‬ ‫اپنی بچی مری گود میں رکھ دی‬ ‫ممتا کی باہوں میں غزل تھی‬ ‫ممتا کی نگاہوں میں غزل تھی‬ ‫بچی کے لبوں پر‬ ‫بچی کی انگلیوں میں‬ ‫بچی کی سانسوں میں‬ ‫مگر بچی تو سراپا غزل تھی‬ ‫میں مشاہدے میں ہی تھا کہ‬ ‫اس نے بچی مجھ سے لے لی‬


‫‪151‬‬

‫مری آغوش میں شرمندگی رکھ دی‬ ‫درماندگی رکھ دی‬ ‫اپنی اور مانگے کی چیز میں‬ ‫کتنا فرق ہوتا ہے‬ ‫وہ الئق صد افتخار تھی‬ ‫پروقار تھی‬ ‫میں تنکے سے بھی حقیر تھا‬ ‫اس کا سر تنا ہوا تھا‬ ‫مرا سر جھکا ہوا تھا‬ ‫کہ غزل کے چہرے پر‬ ‫بھیک کا پیوند لگا ہوا تھا‬ ‫غزل کا بدن زیر عتاب تھا‬ ‫میں بھی تو ہار گیا تھا‬ ‫مری شاعری کی کائنات پر رعشہ تھا‬ ‫وہ مسکرا رہی تھی‬ ‫غزل سٹپٹا رہی تھی‬


‫‪152‬‬

‫اجتہاد کا در وا ہوا‬ ‫روایت کا دیا بجھ گیا‬ ‫حقیقیت سےپردہ اٹھ گیا‬ ‫شاعر نہیں‘ میں تو بھکاری تھا‬ ‫خورشید ضعیف ہو گیا‬ ‫مہتاب زرد پڑ گیا‬ ‫گالب مرجھا گیا‬ ‫طبلے کا پول کھل گیا‬ ‫جھنکار تھم گئی‬ ‫سمندر ندامت پی گئی‬ ‫کاسہ دو لخت ہوا‬ ‫جو جس کا تھا لے گیا‬ ‫ابلیس کرچیاں چننے لگا‬ ‫بھکاری مر گیا‬ ‫قبروں کو اپنا دیا مل گیا‬ ‫پھر شاعر جاگا‬


‫‪153‬‬

‫ذات میں کھو گیا‬ ‫خامشی چھا گئی‬ ‫ذات میں انقالب آ گیا‬ ‫اندر کا الوا ابلنے لگا‬ ‫حد سے گزرنے لگا‬ ‫ابلیس کے قہقہوں کا سلسلہ رک گیا‬ ‫اب ذات تھی‬ ‫شاعر تھا‬ ‫آنکھوں میں لہو کی بوندیں‬ ‫ہاتھ میں قلم‬ ‫کاغذ پر جگر تھا‬


‫‪154‬‬

‫ٹیکسالی کے شیشہ میں‬ ‫معصوم گڑیا سی‬ ‫سراپا جس کا‬ ‫کلیوں گالبوں نے بنا تھا‬ ‫شاید سراپے کا شیش محل‬ ‫چاند کی کرنوں سے تعمیر ہوا تھا‬ ‫زیست کے نشیب و فراز سے بے خبر‬ ‫کہکشانی رستوں کی تالش میں‬ ‫مشک و عنبر کی جہاں باس ہو‬ ‫ہوا جس کی مگر اسے راس ہو‬ ‫پریوں کے شہزادے کا میسر ساتھ ہو‬ ‫گھر سے بھاگ نکلی‬ ‫آنکھوں میں اس کے روشی تھی‬ ‫ہر دل سے درد اٹھا‬ ‫مونس و غم گسار بن گیا‬


‫‪155‬‬

‫وہ کیا جانے‬ ‫اس نگر میں بھنورے بھی رہتے ہیں‬ ‫بھیڑیے تاک میں ہیں‬ ‫اک روز پھر اخبار میں خبر چھپی‬ ‫مطلع ہوں‬ ‫اک لڑکی کے اعضاء بکھر گیے تھے‬ ‫گندے گٹر میں پڑے تھے‬ ‫ہر ٹکڑا زخموں سے چور تھا‬ ‫اور خون بھی بہہ رہا تھا‬ ‫گندے پانی کی ٹھوکریں سہہ رہا تھا‬ ‫کہہ رہا تھا‬ ‫شاید میرا کوئی بچ رہا ہو‬ ‫یہ بکھرے اعضاء بڑی حفاظت سے‬ ‫کڑی ریاضت سے‬ ‫جوڑ کر‘ سی کر‬ ‫داراالن بھیج دیے ہیں‬


‫‪156‬‬

‫داراالمان سے رابطہ کریں‬ ‫خوبی قسمت دیکھیے‬ ‫ٹیکسالی کے باسی قدر شناس نکلے‬ ‫آج بھی وہ اعضاء‬ ‫ٹیکسالی کے شیشہ میں سجے ہیں‬ ‫کہ ان کا کوئی مستقبل نہیں‬ ‫ماضی کہیں کھو گیا ہے‬ ‫حال متعین نہیں ہوا‬ ‫کہ اب ان پر سب کا حق ہے‬


‫‪157‬‬

‫کالے سویرے‬ ‫مجھے ڈر لگتا ہے‬ ‫علم و فن کے کالے سویروں سے‬ ‫جن کے بطن سے‬ ‫ہوس کے ناگ جنم لیتے ہیں‬ ‫منصف کے من کی آواز کو‬ ‫جو ڈس لیتے ہیں‬ ‫سہاگن کے سہاگ کی پیاسی آتما سے‬ ‫ہوس کی آگ بجھاتے ہیں‬ ‫سچ کے موسموں کے چراغوں کی روشنی‬ ‫دھندال دھندال دیتے ہیں‬ ‫حقیقتوں کا ہم زاد‬ ‫گھبرا کر‬ ‫ویران اور اداس لفظوں کا‬ ‫آس سے‬


‫‪158‬‬

‫جو خود فریبی کے جھولے میں پڑی‬ ‫فرار کے رستے سوچ رہی ہے‬ ‫رستہ پوچھتا ہے‬ ‫ان زہریلے ناگوں کی آنکھوں کی مقناطیسیت‬ ‫اپنے حصار میں‬ ‫اسے بھی لے لیتی ہے‬ ‫یہ ناگ‬ ‫انا اور اساس کو بھی ڈستے ہیں‬ ‫یہ خونی منظر دیکھ کر کانپ جاتا ہوں‬ ‫کہ یہ اب ضمیر کو بھی ڈس لیں گے‬ ‫کالے سویروں کی زرد روشنی کے سائے‬ ‫جوں جوں دراز ہوتے ہیں‬ ‫زندگی کو اک اور کربال سے گزرنا پڑتا ہے‬ ‫ان ناگوں کی زبانیں‬ ‫چمکتی‘ زہر میں بجھی‬ ‫تیز دھار تلواریں ہیں‬


‫‪159‬‬

‫گھاؤ کرنے میں‬ ‫یہ اپنا جواب نہیں رکھتیں‬ ‫زندگی خوف کے سائے میں‬ ‫کیوں کر پروان چڑھ سکتی ہے‬ ‫جہاں کوئی روٹی دینے واال نہیں‬ ‫پانی کی اک بوند نایاب ہے‬ ‫جہاں خودکشی حرام جینا جرم ہے‬ ‫جہاں نیلے آسمان کی‬ ‫چاند ستاروں سے لبریز چھت‬ ‫اپنی نہیں‬ ‫ہوا کا بھی گزر نہیں ہوتا‬ ‫بدلتے موسوں کا تصور‬ ‫شیخ چلی کا خواب ہے‬ ‫بوسیدگی اور غالظت‬ ‫شخص کا مقدر ہے‬ ‫یا پھر‬


‫‪160‬‬

‫زہر بجھی یہ چمکتی تلواریں ہیں‬ ‫یقین مانو‘ یہ ہی کچھ ہے‬ ‫پھر میں‬ ‫یاس کی تاریکیوں کی تمنا کرتا ہوں‬ ‫جانت ہوں کہ یہ ناگ‬ ‫تاریکیوں سے نہیں گھبرائیں گے‬ ‫پھر بھی کاٹیں گے‬ ‫گدھ نوچیں گے‬ ‫کتے ہڈیوں پر ٹوٹیں گے‬ ‫ہر ہڈی پر‬ ‫گھمسان کا رن ہو گا‬ ‫اپنا حصہ لگڑ بگڑ بھی مانگیں گے‬ ‫فاسفورس کی بانٹ ًپر بھی‬ ‫تنازعے اٹھیں گے‬ ‫درد پھر بھی ہو گا‬ ‫کرب پھر بھی ہو گا‬


‫‪161‬‬

‫زہر پھر بھی پھیلے گا‬ ‫کانچ بدن پھر بھی نیال ہو گا‬ ‫مایوسی کی سیاہ ذلفوں کے سائے میں‬ ‫بصارت کو بصیرت کو‬ ‫شائد پناہ مل جائے گی‬ ‫میں ناگوں کے پہرے نہ دیکھ سکوں گا‬ ‫لہو رستے پر نظر نہ جائے گی‬ ‫مگر کیا کروں‬ ‫سچ کی حسین تمنا مجھے مرنے نہیں‬ ‫مرنے نہیں دے گی‬ ‫اور میں اس سراب جیون میں‬ ‫نہ مروں گا نہ جی سکوں گا‬


‫‪162‬‬

‫کیچڑ کا کنول‬ ‫میال سا چیتھڑا ‘آلودہ‬ ‫شاید حاجت سے بچا ہوگا‬ ‫‘آدم زادے کا پراہین‬ ‫!عییب نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔؟‬ ‫گالب سے چہرے پر‬ ‫بلور ایسی‘ دیکھتی آنکھیں‬ ‫حیرت خوف غم غصہ اورافسوس‬ ‫جانے کیا کچھ تھا ان میں‬ ‫سماج کی بےحسی پہ‬ ‫ان ٹھہری مگر دیکھتی آنکھوں میں‬ ‫دو بوند‘ لہو سی‬ ‫صدیوں کے ظلم کی داستان‬ ‫لیے ہوئے تھیں‬ ‫اتنی حدت اتنی اتنی تپش کہ‬


‫‪163‬‬

‫پتھر بھی پگھل کر پانی ہو‬ ‫ترسی ترسی باہیں‬ ‫میرے بوبی کی باہیں ایسی ہی تھیں کہ‬ ‫جب وہ بچہ تھا‬ ‫تب محبتوں کا حصار تھا‬ ‫اور اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫خفت ندامت کا حصار‬ ‫مرے گرد ہے‬ ‫لمحہ بہ لمحہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫دائرہ تنگ ہو رہا ہے‬ ‫مجھے فنکار سے نسبت ہے‬ ‫فنکار‘ سب کا درد‬ ‫سینے کی وسعتوں میں سمو لیتا ہے‬ ‫‘اور میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫ساکت وجامد‬ ‫مٹی کے بت کی طرح‬


‫‪164‬‬

‫خاموش تماشائی تھا‬ ‫اس نے پکارا آواز دی‬ ‫احتجاج بھی کیا‬ ‫کچھ نہ میں کر سکا‬ ‫‘جیسے وہ آدم زادہ نہ ہو‬ ‫ہمالہ سے گرا‬ ‫کوئ پتھر ہو‬ ‫‪:‬اس نے کہا‬ ‫!فنکار۔۔۔۔۔۔۔“‬ ‫مجھے اپنی باہوں میں سما لو‬ ‫"ازل سے پیاسا ہوں‬ ‫گھبرا کر تھوڑا سا‬ ‫)پستیوں کی جانب)‬ ‫پیچھے سرکا‬ ‫کوئی مصیبت کوئی وبال‬ ‫تہمت یا بدنامی سر نہ آئے‬


‫‪165‬‬

‫چیخا “فنکار کا سینہ‬ ‫!کب سے تنگ ہوا ہے؟‬ ‫میری باہیں غیر جنس کی باہیں ہیں؟‬ ‫ان کا تم پر کوئی حق نہیں؟؟؟‬ ‫وہ کہتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں سنتا رہا‬ ‫کیا جواب تھا میرے پاس‬ ‫!کاش‬ ‫میرے شعور کی آنکھیں بند ہو جاتیں‬ ‫یوں جیسے ممتا کی سماج کی‬ ‫آنکھیں بند تھیں‬ ‫سوچتا ہوں‘ مجرم کون ہے‬ ‫‘گناہ کس نے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫ماں یا سماج نے‬ ‫وہ تو اپنے گھروں میں‬ ‫آسودہ سانسوں کے ساتھ‬ ‫گرم کافی پی رہے ہوں گے‬


‫‪166‬‬

‫یا میں نے جو‬ ‫شب کی بھیانک تنہائ میں‬ ‫ندامت سے‬ ‫سگریٹ کے دھوئیں میں‬ ‫تحلیل ہو رہا ہوں‬ ‫گٹرکے قریب پڑا‘ وہ کنول‬ ‫مجھ سے میرے ضمیر سے‬ ‫انصاف طلب کر رہا ہے‬ ‫کہ تم‘ خدائے عزوجل کی تخلق کا‬ ‫یہ حشر کرتے ہو‬ ‫مجھے حرامی کہتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟‬ ‫بتاؤ‘ حامی کون ہے؟‬ ‫ضمیر کس کا مردہ ہے؟‬ ‫مجرم کون ہے؟‬ ‫میں یا تم؟؟؟‬ ‫!میری بستی کے باسیو‬


‫‪167‬‬

‫کہ تمہیں عظیم مخلوق ہونے کا دعوی ہے‬ ‫کیا جواب دوں اسے؟‬ ‫اس کا ننھا سا معصوم چہرا‬ ‫احتجاج سے لبریزآنکھیں‬ ‫پنکھڑی سے ہونٹوں پر‬ ‫تھرکتی بےصدا سسکیاں‬ ‫مجھے پاگل کر دیں گی‬ ‫پاگل‬ ‫ہاں پاگل‬


‫‪168‬‬

‫دو لقمے‬ ‫تعفن میں اٹی‬ ‫‘اندھیاروں میں لیپٹی وہ بستی‬ ‫جہاں چھیتڑوں میں ملفوف زندہ الشوں کے دل کی دھڑکنیں‬ ‫دیوار پر آویزاں کالک کی ٹک ٹک کی آوازیں تھیں۔‬ ‫‘بھوک کی اہیں‬ ‫بےبسی کی سسکیوں میں مدغم ہو رہی تھیں۔‬ ‫آس کا سایہ آس پاس نہ تھا۔ تھا کچھ تو قاتل خاموشی تھی۔‬ ‫بھوک کا ناگ پھن پھیالئے بیٹھا تھا۔‬ ‫مایوسیوں کی اس بستی سے رحم کا دیوتا شاید خفا تھا یا پھر‬ ‫وہ بھی تہی دست تہی دامن ہو گیا تھا۔‬ ‫اک مسکراہٹ کے طلبگار یہ الشے بے حس نہیں‘ بے بس‬ ‫تھے۔‬ ‫پھر اک الشہ بھوک ناگ جس کے قریب تر تھا۔۔۔۔۔۔ تڑپا اور‬ ‫رینگ کر روشنی کی شہراہ پر آ گیا۔ اس حرکت میں اس نے اپنی‬ ‫ساری توانائی صرف کر دی۔ ہر سو اجالے تھے لیکن وہ بھوک‬


‫‪169‬‬

‫کے سیاہ کفن میں ملبوس تھا۔۔۔۔۔۔۔۔پھر بھی۔۔۔۔۔۔۔ ہاں پھر‘ بھی وہ‬ ‫زندہ تھا اور اجالوں کی شہراہ پر پڑا ہانپ رہا تھا۔ سانسیں‬ ‫بےترتیب تھیں۔ خوش پوش راہی شاید اسے دیکھ نہیں رہے‬ ‫تھے۔ جو دیکھ رہے تھے ناک پر رومال رکھ کر گزر رہے تھے۔‬ ‫وہ سب اس کے ہم جنس تھے۔ کتنی آس لے کر وہ یہاں تک آیا‬ ‫تھا۔ ان دیکھتے کرب لمحوں کو کون جان پاتا۔‬ ‫وہ اس بستی کا نہ تھا۔‬ ‫بھوک ناگ بوال‪ :‬کہاں تک بھاگو گے‘ تمہیں میرا لقمہ بننا ہی ہو‬ ‫گا کہ خود میں بھوکا ہوں۔‬ ‫پھر وہ تھوڑا آگے بڑھا۔‬ ‫الشہ چالیا‪ :‬نہیں۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔ رکو۔۔۔۔۔ٹھہرو۔۔۔۔۔۔ روٹی ضرور آئے‬ ‫گی۔‬ ‫سب بےکار۔۔۔۔۔روٹی کوئی نہیں دے گا۔۔۔۔۔۔ یہ پیٹ بھر کر بھی‬ ‫آنکھوں میں بھوک لیے پھرتے ہیں۔ ان میں سے کون دے گا‬ ‫روٹی۔ ان کے ہشاش بشاش چہروں پر نہ جاؤ۔ ان کے من کی‬ ‫بھوک کو دیکھو اور میرے صبر کا امتحان نہ لو۔‬ ‫‪:‬الشہ سٹپٹایا اور چالیا‬ ‫!اجالوں کے باسیو‬ ‫!علم و فن کے دعوےدارو‬


‫‪170‬‬

‫!سیاست میں شرافت کے مدعیو‬ ‫!جمہوریت کے علم بردارو‬ ‫!اسلحہ خرید کرنے والو‬ ‫!فالحی اداروں کے نمبردارو‬ ‫‘عالمی وڈیرو‬ ‫‘کہاں ہو تم سب‬ ‫تمہارے وعدے اور دعوے کیا ہوئے؟‬ ‫اپنی بھوک سے دو لقمے میرے لیے بچا لو۔ بھوک ناگ میرے‬ ‫قریب آ گیا ہے۔‬ ‫دیکھو غور کرو‘ میں تمہارا ہم جنس ہوں‬ ‫‘۔ دو لقمے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں فقط دو لقمے‬ ‫میری زندگی کے ضامن ہیں۔‬ ‫ایف سولہ ہائیڈروجن بم مجھے نہیں چاہیے۔‬ ‫میری ضرورت روٹی کے دو لقمے ہیں۔‬ ‫اس دور کی یہ تمہاری بہت بڑی جیت ہو گی جو تاریخ میں‬ ‫تمہیں امر کر دے گی۔‬


‫‪171‬‬

‫آخری خبریں آنے تک‬ ‫کون‬ ‫انصاف‬ ‫تمہارا یہاں کیا کام‬ ‫جہاں میری ضرورت ہوتی ہے بن بالئے چال آتا ہوں‬ ‫بن بالئے کی اوقات سمجھتے ہو‬ ‫جی ہاں‬ ‫اوقات عمل سے بنتی ہے‬ ‫تمہاری ماننے والے بھوکے مرے‬ ‫بھوک نے انہیں ہمیشہ سرخرو کیا ہے‬ ‫لوگ ہمیں سالم کرتے ہیں‬ ‫تمہیں نہیں‘ تمہاری شر کو سالم کہتے ہیں‬ ‫تاریخ میں دھنوان امر رہا ہے‬ ‫تاریخ پیٹ کے بندوں کا روزنامچہ ہے‬ ‫پیٹ ہی تو سب کچھ ہے‬


‫‪172‬‬

‫تب ہی تو باال سطع پر رہتے ہو‬ ‫تہہ کے متعلق تم کیا جانو‬ ‫بڑے ڈھیٹ ہو‬ ‫بننا پڑتا ہے‬ ‫تمہیں تمہاری اوقات میں النا پڑے گا‬ ‫کیا کر لو گے؟؟؟‬ ‫تمہاری ہڈی پسلی ایک کر دوں گا‬ ‫یہ سب تو پہلے بھی میرے ساتھ ہو چکا ہے‬ ‫کوئی نئی ترکیب سوچو‬ ‫تمہیں جال کر راکھ کر دوں گا‬ ‫عبرت کے لیے‬ ‫تمہاری راکھ گلیوں میں بکھیر دوں گا‬ ‫یہ تو اور بھی اچھا ہو گا‬ ‫وہ کیسے؟‬ ‫میری راکھ کا ہر ذرا انقالب بن ابھرے گا‬ ‫اہ مائی گاڈ‘ تو پھر میں کیا کروں؟‬


‫‪173‬‬

‫مجھے اپنے سینے سے لگا لو‬ ‫یہ مجھ سے نہیں ہو گا‬ ‫تو طے یہ ہوا‬ ‫تمہاری اور میری جنگ کا کوئی انت نہیں‬ ‫دیکھتا ہوں کہاں تک اذیت برداشت کرتے ہو‬ ‫چلو میں بھی دیکھتا ہوں‬ ‫اذیت میں کس حد تک جاتے ہو‬ ‫اس کے بعد‬ ‫گھمسان کی جنگ چھڑ گئی‬ ‫اور آخری خبریں آنے تک‬ ‫جنگ جاری تھی‬


‫‪174‬‬

‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا‬ ‫عہد شہاب میں بےحجاب بےکسی بھی عجب قیامت تھی۔ صبح‬ ‫اٹھتے مشقت اٹھاتےعوضوانے کو ہاتھ بڑھاتے بے نقط سنتے۔‬ ‫سانسیں اکھڑ جاتیں مہر بہ لب جیتے کہ سانسیں باقی تھیں۔ جینا‬ ‫تو تھا ہی لہو تو پینا تھا ہی۔‬ ‫ادھر ایونوں میں آزادی کی صدائیں گونج رہی تھیں ادھر گلیوں‬ ‫میں خوف کا پہرا تھا کہ شاہ بہرا تھا۔ شاہ والے گلیوں میں‬ ‫بےچنت کرپانیں لیے پھرتے تھے۔ نقاہت ہاتھ باندھے شکم میں‬ ‫بھوک آنکھوں میں پیاس لیے کھڑی تھی ہاں مگر شاہ کی دیا کا‬ ‫بول باال تھا۔‬ ‫پنڈت کے ہونٹوں پر شانتی بغل میں درانتی مالں بھی من میں‬ ‫تفریق کا بارود بھرے امن امن امن کیے جا رہا تھا۔‬ ‫اب جب کہ پیری پہ شنی کا پہرا ہے بھوک کا گھاؤ گہرا ہے۔‬ ‫جیب میں دمڑی نہیں امبڑی نہیں کہ وید حکیموں کے دام‬ ‫چکائے بڑے شفاخانے کے در پر الئے مایوسی کی کالک مٹائے‬ ‫آہیں سنے تشفی کی لوری سنائے۔ ہونٹوں پہ گالب سجائے دل‬ ‫میں کرب اٹھائے اب کون ہے جو مرے مرنے سے مر جائے۔‬


‫‪175‬‬

‫بیٹے کو اپنی پتنی سے فرصت نہیں بیٹی کی ساس کپتی ہے‬ ‫بھائی کے گھر تیل نہ بتی ہے مری بہن کی کون سنتا ہے سیٹھ‬ ‫کے برتن دھو سیٹھنی کے کوسنے سن کر پیٹ بھرتی ہے۔‬ ‫بیگم روتی ہے نہ ہنسی ہے سوچتی ہے کفن دفن کے لیے‬ ‫پیسے کہاں سے آئیں گے کہیں اس کے بھائیوں کی چمڑے نہ‬ ‫ادھڑ جائے وہ تو بہنوئی کی کھاتے تھے جب بھی آتے تھے‬ ‫کچھ ناکچھ لے جاتے تھے۔‬ ‫جیتا ہوں تو مصیبت مرتا ہوں تو مصیبت۔ میں وہ ہی ہوں‬ ‫جواندھیروں میں رہ کر ایونوں کے دیپ جالتا رہا دوا دور رہی‬ ‫مری گرہ میں تو اس اجڑے گلستان کا کرایہ نہیں۔‬ ‫گھر میں روشنی نہیں ناسہی شاید کوئی فرشتہ مری لحد میں‬ ‫بوند بھر روشنی لے کر آ جائے عمر بھر خود کو نہ دیکھ سکا‬ ‫سوچ سکا واں سکوں ہو گا خود کو دیکھ سکوں گا سوچ سکوں‬ ‫گا خود کو دیکھنے سوچنے کی حسرت بر آئے گی۔‬ ‫خود کو دیکھ کر سوچ کر ارضی خدائی سے مکتی قلبی خدا کی‬ ‫بےکراں عظمتوں کا اسرار کھل جائے گا وہ میرا تھا میرا ہے‬ ‫مجھے مل جائے گا۔ سردست کفن و دفن کے سامان کی فکر ہے۔‬ ‫کفن ملے ناملے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ عمر بھر اس نے‬ ‫مری پردہ پوشی کی ہے اب بھی کرئے گا۔‬


‫‪176‬‬

‫ایونوں میں بستے سفیدی میں لپٹے شیطانوں کا نگر مرا نہیں‬ ‫مرا نہیں گورنگر مرا ہو گا مرا خدا کچھ لیتا نہیں دیتا ہے۔ لینا‬ ‫مری عادت دینا اس کی فطرت روٹی کی فکر کیسی کرائے کی‬ ‫چنتا میں کیوں کروں مری جان میں آ رہا ہوں تو مختصر سہی‬ ‫مرے لیے مری حسرتوں کے لیے سات زمینوں سے بڑھ کر‬ ‫وسعت رکھتی ہے میں بھول میں رہا کہ یہاں کچھ بھی مرا نہ تھا‬ ‫زیست کے کچھ لمحوں کی دیری تھی تو ہی تو مری تھی‬ ‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا‬ ‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا‬ ‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا۔‬


‫‪177‬‬

‫حیرت تو یہ ہے‬ ‫موسم گل ابھی محو کالم تھا کہ‬ ‫مہتاب بادلوں میں جا چھپا‬ ‫اندھیرا چھا گیا‬ ‫پریت پرندہ‬ ‫ہوس کے جنگلوں میں کھو گیا‬ ‫اس کی بینائی کا دیا بجھ گیا‬ ‫کوئی ذات سے‘ کوئی حاالت سے الجھ گیا‬ ‫کیا اپنا ہے‘ کیا بیگانہ‘ یاد میں نہ رہا‬ ‫بادل چھٹنے کو تھے کہ‬ ‫افق لہو اگلنے لگا‬ ‫دو بم ادھر دو ادھر گرے‬ ‫پھر تو‬ ‫ہر سو دھواں ہی دھواں تھا‬ ‫چہرے جب دھول میں اٹے تو‬


‫‪178‬‬

‫ظلم کا اندھیر مچ گیا‬ ‫پھر اک درویش مینار آگہی پر چڑھا‬ ‫کہنے لگا سنو سنو‬ ‫دامن سب سمو لیتا ہے‬ ‫اپنے دامن سے چہرے صاف کرو‬ ‫شاید کہ تم میں سے کوئی‬ ‫ابھی یتیم نہ ہوا ہو‬ ‫یتیمی کا ذوق لٹیا ڈبو دیتا ہے‬ ‫من کے موسم دبوچ لیتا ہے‬ ‫کون سنتا پھٹی پرانی آواز کو‬ ‫حیرت تو یہ ہے‬ ‫موسم گل کا سب کو انتظار ہے‬ ‫گرد سے اپنا دامن بھی بچاتا ہے‬ ‫اوروں سے کہے جاتا ہے‬ ‫چہرہ اپنا صاف کرو‘ چہرہ اپنا صاف کرو‬


‫‪179‬‬

‫میں نے دیکھا‬ ‫پانیوں پر‬ ‫میں اشک لکھنے چال تھا‬ ‫دیدہءخوں دیکھ کر‬ ‫ہر بوند‬ ‫ہوا کے سفر بر نکل گئی‬ ‫منصف کے پاس گیا‬ ‫شاہ کی مجبوریوں میں‬ ‫وہ جکڑا ہوا تھا‬ ‫سوچا‬ ‫پانیوں کی بےمروتی کا‬ ‫فتوی ہی لے لیتا ہوں‬ ‫مالں شاہ کے دستر خوان پر‬ ‫مدہوش پڑا ہوا تھا‬ ‫دیکھا‘ شیخ کا در کھال ہوا ہے‬


‫‪180‬‬

‫سوچا‬ ‫شاید یہاں داد رسی کا‬ ‫کوئی سامان ہو جائے گا‬ ‫وہ بچارہ تو‬ ‫پریوں کے غول میں گھرا ہوا تھا‬ ‫کیا کرتا کدھر کو جاتا‬ ‫دل دروازہ کھال‬ ‫خدا جو میرے قریب تھا‬ ‫بوال‬ ‫کتنے عجیب ہو تم بھی‬ ‫کیا میں کافی نہیں‬ ‫جو ہوس کے اسیروں کے پاس جاتے ہو‬ ‫میرے پاس آؤ‬ ‫ادھر ادھر نہ جاؤ‬ ‫میری آغوش میں‬ ‫تمہارے اشکوں کو پناہ ملے گی‬


‫‪181‬‬

‫ہر بوند‬ ‫رشک لعل فردوس بریں ہو گی‬ ‫اک قظرہ مری آنکھ سے ٹپکا‬ ‫میں نے دیکھا‬ ‫شاہ اور شاہ والوں کی گردن میں‬ ‫بے نصیبی کی زنجیر پڑی ہوئی تھی‬


‫‪182‬‬

‫کس منہ سے‬ ‫چلم بھرتے ہات‘ اٹھ نہیں سکتے‬ ‫ہونٹوں پر فقیہ عصر نے‬ ‫چپ رکھ دی ہے‬ ‫کتنا عظیم تھا وہ شخص‬ ‫گلیوں میں‬ ‫رسولوں کے لفظ بانٹتا رہا‬ ‫ان بولتے لفظوں کو‘ ہم سن نہ سکے‬ ‫آنکھوں سے‘ چن نہ سکے‬ ‫ہمارے کانوں میں‘ جبر کی پوریں رہیں‬ ‫آنکھوں میں خوف نے پتھر رکھ دیے‬ ‫ہم جانتے ہیں‘ وہ سچا تھا‬ ‫قول کا پکا تھا‬ ‫مرنا تو ہے‘ ہمیں یاد نہ رہا‬ ‫ہم جانتے ہیں اس نے جو کیا‬


‫‪183‬‬

‫ہمارے لیے کیا‬ ‫جیا تو ہمارے لیے جیا‬ ‫کتنا عجیب تھا‬ ‫زندہ الشوں کا دم بھرتا رہا‬ ‫مصلوب ہوا ہم دیکھتے رہے‬ ‫نیزے چڑھا ہم دیکھتے رہے‬ ‫مرا جال راکھ اڑی ہم دیکھتے رہے‬ ‫اس کے کہے پر دو گام تو چال ہوتا‬ ‫کس منہ سے اب‬ ‫اس کی راہ دیکھتے ہیں‬ ‫ہم خاموش تماشائی‬ ‫مظلومیت کا فقط ڈھونگ رچاتے ہیں‬ ‫بے جان جیون کے دامن میں‬ ‫غیرت کہاں جو رن میں اترے‬ ‫یا پھر‬ ‫پس لب اس کی مدح ہی کر سکے‬


‫‪184‬‬

‫چلو دنیا چاری ہی سہی‬ ‫آؤ‬ ‫اندرون لب دعا کریں‬ ‫ان مول سی مدح کہیں‬


‫‪185‬‬

‫حیات کے برزخ میں‬ ‫تالش معنویت کے سب لمحے‬ ‫صدیاں ڈکار گئیں‬ ‫چیتھڑوں میں ملبوس معنویت کا سفر‬ ‫اس کنارے کو چھو نہ سکا‬ ‫تاسف کے دو آنسو‬ ‫کاسہءمحرومی کا مقدر نہ بن سکے‬ ‫کیا ہو پاتا کہ شب کشف‬ ‫دو رانوں کی مشقت میں کٹ گئی‬ ‫صبح دھیان‬ ‫نان نارسا کی نذر ہوئی‬ ‫شاعر کا کہا‬ ‫بےحواسی کا ہم نوا ہوا‬ ‫دفتر رفتہ شاہ کے گیت گاتا رہا‬ ‫وسیبی حکائتیں بےوقار ہوئیں‬


‫‪186‬‬

‫قرطاس فکر پہ نہ چڑھ سکیں‬ ‫گویا روایت کا جنازہ اٹھ گیا‬ ‫ضمیر بھی چاندی میں تل گیا‬ ‫مجذوب کے خواب میں گرہ پڑی‬ ‫مکیش کے نغموں سے طبلہ پھسل گیا‬ ‫درویش کے حواس بیدار نقطے‬ ‫ترقی کا ڈرم نگل گیا‬ ‫نہ مشرق رہا نہ مغرب اپنا بنا‬ ‫آخر کب تک یتیم جیون‬ ‫حیات کے برزخ میں‬ ‫شناخت کے لیے بھٹکتا رہے‬


‫‪187‬‬

‫سورج دوزخی ہو گیا تھا‬ ‫گدھ‬ ‫خلیج کے بیماروں کی سانسیں گن رہے ہیں‬ ‫الشوں کو کفن دفن‬ ‫غسل کی ضرورت نہیں ہو گی‬ ‫اگست ‪ ١٩٤٥‬کو ‪١٦‬‬ ‫سورج دوزخی ہو گیا تھا‬ ‫گنگا سے اٹھتے بخارات‬ ‫دعا کا اٹھتے ہات‬ ‫گالب کی مہک‬ ‫مٹی سے رشتے‬ ‫کب پوتر رہے ہیں‬ ‫درگاوتی کی عصمت مرنے کے بعد‬ ‫اپنوں کے ہات لٹ گئی تھی‬ ‫‘ہم تو‬


‫‪188‬‬

‫حنوط شدہ ممیاں ہیں‬ ‫رگوں میں لہو نہیں‬ ‫کیمیکل دوڑتا ہے کہ‬ ‫آکسیجن جلتی نہیں‬ ‫جلنے میں معاون ہے‬ ‫ڈوبتی سانسوں کو‬ ‫مسیحا کی ضرورت نہیں‬ ‫گوشت گدھ کھائیں گے‬ ‫‘ہڈیاں‬ ‫فاسفورس کی کانیں ہیں‬ ‫یہودی البی کے گلے کھلے ہیں‬ ‫بٹنوں کی سخت ضرورت ہے‬


‫‪189‬‬

‫فیکٹری کا دھواں‬ ‫اس نے کہا‬ ‫یہ سب کس کے لیے لکھتے ہو‬ ‫میں نے کہا‬ ‫تمہارے لیے‬ ‫بوال‬ ‫مگر مجھے تم سے گھن آتی ہے‬ ‫میلے میلے لفظوں میلے میلے جذبوں سے‬ ‫روشنیوں کی بات کرو‬ ‫حسن کی کہو‬ ‫حسین آنکھوں سے‬ ‫ٹپکتی شاب کی بات کرو‬ ‫کانچ سے بدنوں سے‬ ‫ٹپکتے رومان کی بات کرو‬ ‫بہاروں میں مچلتے شباب کی بات کرو‬


‫‪190‬‬

‫روٹی ملے گی‘ شہرت ملے گی‬ ‫بھوک اور افالس‬ ‫کیا رکھا ہے چیٹھڑوں کی دنیا میں‬ ‫سوچتا ہوں‬ ‫شہرت لے لوں‬ ‫روٹی لے لوں‬ ‫کئی روز کی بھوک ہے‬ ‫لباس بھی الجھا الجھا ہے‬ ‫سسکتے بلکتے جذبوں کو‬ ‫بےلباسی کی دنیا میں رہنے دوں‬ ‫پھر سوچ کے افق سے‬ ‫اک شہاب ثاقب ٹوٹا‬ ‫زہریلی سوچ کا چہرا‬ ‫فیکٹری کی چمنی سے‬ ‫اٹھتے دھویں میں مدغم ہو گیا‬


‫‪191‬‬

‫مطلع رہیں‬ ‫مسز ریحانہ کوثر‬ ‫بال دکھ تحریر کیا جاتا ہے‬ ‫آپ کی خدمات کی اب یہاں‬ ‫ضرورت نہیں رہی‬ ‫آپ کی بریزئر کا سائز بڑھ گیا ہے‬ ‫آنکھوں کے گرد حلقے بھی ہیں‬ ‫بالوں میں چاندی آ گئی ہے‬ ‫رخسار پچک گئے ہیں‬ ‫روزن نشاط کی فراخی سے‬ ‫پرفومنس گھٹ گئی ہے‬ ‫سابقہ کارگزاری کے پیش نظر‬ ‫کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے‬ ‫آپ کی بیٹی ظل ہما کو‬ ‫آپ کی سیٹ پر‬


‫‪192‬‬

‫آپ کے ہی پے سکیل پر‬ ‫مع مروجہ االؤنسز‬ ‫اکتیس مئی کلوزنگ ٹائم تک‬ ‫تعینات کیا جا سکتا ہے‬ ‫آپ کو ہدایت کی جاتی ہے‬ ‫تاریخ مقررہ کے اندر‬ ‫زیر دستخطی کو مطلع کریں‬ ‫اپنے واجبات کی وصولی کے لیے‬ ‫زیر دستخطی کے‬ ‫حاضر ہونے کی ضرورت نہیں‬ ‫یہ خدمت اب‬ ‫آفس سپرٹنڈنٹ انجام دیتا ہے‬ ‫فائلوں کی سیاہی سپیدی کا‬ ‫وہ ہی تو مالک ہے‬ ‫مطلع رہیں‬ ‫ضروری نوت‬


‫‪193‬‬

‫آپ اپنی کنگی اور نیل پالش‬ ‫ہمارے میز پر کل کی امید میں‬ ‫بھول گئی ہیں‬ ‫یہ چیزیں‬ ‫جن کی آپ کو اشد ضرورت ہو گی‬ ‫مس ظل ہما کو‬ ‫آفس ٹائم کے بعد بھیج کر‬ ‫منگوا سکتی ہیں‬ ‫کہ ان کی اب یاں ضرورت نہیں رہی‬ ‫مطلع رہیں‬


‫‪194‬‬

‫امید ہی تو زندگی ہے‬

‫زکرا بولے جا رہی تھی‬ ‫بولے جا رہی تھی‬ ‫شاید آتی صدیوں کے غم مٹا رہی تھی‬ ‫خوب گرجی خوب برسی‬ ‫اس کے گرجنے میں دھواں‬ ‫برسنے میں مسال دھار تھی‬ ‫رانی توپ کے گرجنے سے‬ ‫حمل گر جاتے تھے‬ ‫برسنے سے‬ ‫بستیاں زمین بوس ہوتی تھیں‬ ‫اس کے برسنے سے‬ ‫سکون کے شہر آگ پکڑتے تھے‬ ‫گرجنے سے حواس‬ ‫بدحواس ہوتے تھے‬


‫‪195‬‬

‫کس سے گلہ کرتا‬ ‫جھورا مردود مر چکا تھا‬ ‫تھیال مردود آج بھی‬ ‫رشوت ڈکارتا ہے‬ ‫وہ چپ تھا‬ ‫مسلسل چپ تھا‬ ‫منہ میں زبان رکھتا تھا‬ ‫پھر بھی چپ تھا‬ ‫چپ میں شاید اسے سکھ تھا‬ ‫جو بھی سہی‬ ‫یہ سوال نوشتہءدیوار بنا تھا‬ ‫وہ چپ تھا تو کیوں چپ تھا‬ ‫ہر زبان پر یہ ہی سوال تھا‬ ‫وہ بزدل تھا‬ ‫یا صبر میں باکمال تھا‬ ‫کچھ اسے زن مرید کہتے تھے‬


‫‪196‬‬

‫کسی کے خیال میں‬ ‫مرد کی انا کا وہ کھال زوال تھا‬ ‫وہ تو خیر زیر عتاب تھا ہی‬ ‫اس کے پچھلے بھی‬ ‫کوسنوں کے دفتر چڑھ رہے تھے‬ ‫اس سے کوئی کیوں پوچھتا‬ ‫ہر دوسرے‬ ‫امریش پوری سے ڈائیالگ‬ ‫سننے کو ملتے تھے‬ ‫نمرود وقت بھی‬ ‫کانوں پر پہرے نہیں رکھ سکتا‬ ‫پہلے ریڈیو ہی تو تھا‬ ‫ٹی وی تو کل کی دین ہے‬ ‫کان سنتے تھے‬ ‫تصور امیج بناتا تھا‬ ‫آخر چپ تھا تو کیوں چپ تھا‬


‫‪197‬‬

‫اک روز میں نے پوچھ ہی لیا‬ ‫میرا کہا‬ ‫اس کے قہقہوں میں اڑنے لگا‬ ‫میں نے سوچا‬ ‫کہنا کچھ تھا‬ ‫شاید کہہ کچھ اور گیا ہوں‬ ‫بھول میں‬ ‫کسی سردار کا لطیفہ کہہ گیا ہوں‬ ‫بھلکڑ ہوں‬ ‫یہ قول زریں مری زوجہ کا ہے‬ ‫زوجہ کے کہے کو غلط کہوں‬ ‫کہوں تو کس بل پر‬ ‫اگلے سے ناسہی اس جہان سے جاؤں گا‬ ‫مہر بہ لب رہا کہ‬ ‫دیواروں کو بھی کان ہوتے ہیں‬ ‫مجھے کیا پڑی غیروں کی اپنے سر لوں‬


‫‪198‬‬

‫میں نے بھی چپ میں عافیت جانی‬ ‫ہم کیؤں پرائی آگ میں کودیں‬ ‫مرے لیے خالہ کی لگائی ہی کافی ہے‬ ‫خود چل بسی‬ ‫میں بھی چل بسوں سامان کر گئی ہے‬ ‫پھر وہ دفعتا چپ ہو گیا‬ ‫مری طرف‬ ‫بےبس بے کس نظروں سے دیکھنے لگا‬ ‫چند لمحے خامشی رہی‬ ‫جاہل جانتے ہو‬ ‫بولنے میں کتنے اعضا خرچ ہوتے ہیں‬ ‫حیرت ہوئی‘ بھال یہ کیا جواب ہوا‬ ‫غصہ میں بولنے سے‬ ‫چودہ اعضا کشٹ اٹھاتے ہیں‬ ‫مرا کیا ہے‬ ‫ادھر سے سنتا ہوں ادھر سے نکال دیتا ہوں‬


‫‪199‬‬

‫چہرے کے بدلتے رنگوں کا اپنا ہی سواد ہوتا ہے‬ ‫ہاں سٹپٹانے میں‬ ‫کھونے کے آثار ہوتے ہیں‬ ‫گھورنے بسورنے میں‬ ‫کہکشانی اطوار ہوتے ہیں‬ ‫شخص پڑھو کہ حیات کے‬ ‫تم پر پوشیدہ اطوار کھلیں‬ ‫ہاں غصہ میں‬ ‫دماغ کی کوئی نس پھٹ سکتی ہے‬ ‫خیر یہ وقت خیر نہیں آئے گا‬ ‫دماغ ہوتا تو صبر کا جہاں آباد کرتی‬ ‫دل کا دورہ بھی بعید از قیاس نہیں‬ ‫اس امید پر ہی تو جی رہا ہوں‬ ‫کبھی تو غصہ کے افق سے‬ ‫خوشی کا چاند مسکرائے گا‬ ‫پھر مستی میں آ کر گنگنائے گا‬


‫‪200‬‬

‫آ گئی بہار گلوں کا رنگ اور بھی نکھر گیا‬ ‫پیاسی آتمائیں آ رہی ہیں روپ بدل بدل کے‬ ‫میں پڑھا لکھا سہی‬ ‫اپنی اوقات میں ہوں تو مزدور‬ ‫زوجہ گزیدہ ہوں‬ ‫بھاشا فلسفے کی میں کیا جانوں‬ ‫بوال‪ :‬جاؤ امید پر زندہ رہو‬ ‫امید پر میں زندہ ہوں‬ ‫امید ہی تو زندگی ہے‬


‫‪201‬‬

‫میٹھی گولی‬

‫ہم کچھ دوست‬ ‫ہوٹل میں چائے پیتے ہیں‬ ‫اور اکثر پیتے ہیں‬ ‫سچی پوچھو تو‬ ‫چائے پر ہی تو جیتے ہیں‬ ‫زندگی میں ورنہ‬ ‫چائے کے سوا رکھا کیا ہے‬ ‫بھوک کا پرنا پیاس کا پٹکا‬ ‫ہماری زیست کا یہ ہی اثاثہ ہے‬ ‫جسے دیکھو رکھے ہے ہزار گز کا نٹکا‬ ‫امیر وقت‬ ‫بات گریبوں کی کرتا ہے‬ ‫کھیسہ مگر اپنا بھرتا ہے‬ ‫ہر بولتا‬


‫‪202‬‬

‫سر بازار نیالم ہوتا ہے‬ ‫سر اس کے‬ ‫کوئی ناکوئی الزام ہوتا ہے‬ ‫بےکیے خوب بدنام ہوتا ہے‬ ‫امیر وقت کو کون پوچھے‬ ‫کہا اس کا بےلگام ہوتا ہے‬ ‫کوئی ایشور کا اسے اوتار کہے‬ ‫اس کی کرتوتوں سے بےخبر‬ ‫مقدس روحوں کا اسے ساالر سمجھیں‬ ‫یہ ہی نہیں‬ ‫نوع انسانی کا وقار سمجھیں‬ ‫سب چمچے اسے کان رزق کہتے ہیں‬ ‫مورکھ بھی اسی کے گن گاتا ہے‬ ‫حیرت تو یہ ہے‬ ‫جس خوبی کا وہ تاعمر قاتل رہا‬ ‫اسی خوبی کو‬


‫‪203‬‬

‫مورکھ اس کی گرہ میں رکھتا رہا‬ ‫اسے جینا ہے‬ ‫یہ ہی اس کا طور رہا‬ ‫یہ کوئی نئی بات نہیں‬ ‫ہر دور اہل ثروت کا دور رہا‬ ‫کوئی بھوک مرتا ہے مرے‬ ‫انہیں اس سے کیا‬ ‫ان کی بال سے‬ ‫گریب کے بچے بےلباس ہیں‬ ‫وہ کیا کریں انہیں کیا‬ ‫ان کا اس سے کوئی کام نہیں‬ ‫مالک تو ہے نا‬ ‫گریب کا سنور جاتا ہے دعا سے‬ ‫خیر چھوڑیے ان باتوں کو‬ ‫کوئی نئی بات ہو تو بات کریں‬ ‫جو وقت گزر گیا سو گزر گیا‬


‫‪204‬‬

‫ان بےگھر بےبستر راتوں کو‬ ‫یاد کیوں کریں‬ ‫ہاں بس اتنا دکھ ہے‬ ‫گریب کی روکھی سوکھی پر‬ ‫پنجہ رکھ کر‬ ‫تاج محل کبھی نور محل تعمیر ہوا‬ ‫شاہ پھر بھی دیالو ہے کرپالو ہے‬ ‫پھر بھی لوگ ان سے آسیں باندھیں‬ ‫ان کی آنکھوں میں ٹک تالشیں‬ ‫امید کی قاشیں کب یک جا ہوتی ہیں‬ ‫پتی پتی گالب بُنے‬ ‫قدموں میں اس کے بکھری پتیاں‬ ‫حسن کے ماتھے پر ناقدری کا ٹکا‬ ‫قدموں میں بکھری‬ ‫پتیوں کو کون چنے‬ ‫جو چننے بیٹھے گا‬


‫‪205‬‬

‫پولے کھائے گا۔‬ ‫خیر چھوڑیں‬ ‫میں کیا ظلم و ستم کی رام کہانی لے بیٹھا ہوں‬ ‫چائے کی مست پیالی میں‬ ‫ہمارا امریکی طور نہیں رہا‬ ‫کبھی میں کبھی وہ‬ ‫ادائیگی کر دیتے ہیں‬ ‫ہم ایک کشتی کے مسافر ہیں‬ ‫پھر تو میں کیسی‬ ‫اک روز کیا ہوا‬ ‫بچہ جو چائے ال کر دیتا تھا‬ ‫ہاتھ سے اس کے برتن گرے اور ٹوٹ گئے‬ ‫پھر کیا تھا‬ ‫مالک نے وہ مارا‬ ‫اشک فرشتوں کے بھی گرے ہوں گے‬ ‫وہ دن اس کے‬


‫‪206‬‬

‫الف انار بے بکری تے تختی پڑھنے کے تھے‬ ‫بھوک اسے وہاں الئی تھی‬ ‫ہللا جانے کتنی مجبور اس کی مائی تھی‬ ‫سچی بات تو یہ ہے‬ ‫مری چائے حرام ہوئی‬ ‫میں بےبس کنگال کیا کر سکتا تھا‬ ‫بس دو بےبس اشک بہا سکتا تھا‬ ‫میرا یہ ہی کل سرمایا تھا‬ ‫زیست میں یہ ہی کچھ کمایا تھا‬ ‫جب برتن لینے وہ آیا‬ ‫میں نے اسے گلے لگایا‬ ‫رویا پیار کیا منہ ماتھا چوما‬ ‫چپ چاپ وہاں سے اٹھ آیا‬ ‫جہاں نمرود کی شریعت چلتی ہو‬ ‫وہاں پھر کیا آنا کیا جانا‬ ‫بعد مدت مرا اس کا ملنا ہوا‬


‫‪207‬‬

‫ہماری آنکھیں ملیں‬ ‫ہم اک دوجے کو پہچان گئے‬ ‫وہ چھوٹا تھا میں نیچے بیٹھ گیا‬ ‫گلے لگایا خوب پیار کیا دعا دی‬ ‫مری گرہ کی یہ ہی اوقات تھی‬ ‫وہ ہاں وہ بچہ‬ ‫نوشیرواں سے کہیں بڑھ کر دیالو نکال‬ ‫میٹھی گولی اس کے منہ میں تھی‬ ‫اس نے اپنا وہ لقمہ‬ ‫مرے منہ میں ڈاال‬ ‫خوش ہو کر مرے منہ کو دیکھا‬ ‫مرے منہ میں وہ تھا‬ ‫جو جنت سوگ میں بھی نہ ہو گا‬ ‫مرے چہرے پر‬ ‫خوشی کے لڈو پھوٹ رہے تھے‬ ‫اس کے پاس ایک اور میٹھی گولی تھی‬


‫‪208‬‬

‫جو اس نے مرے ہاتھ پر رکھ دی‬ ‫اکبر ہو کہ کوئی اور شاہ‬ ‫کیا کسی کو دیں گے‬ ‫مہان تھا دیا کا پردھان تھا‬ ‫وہ معصوم بچہ‬ ‫شاہوں کی شاہی ایک طرف‬ ‫الفت پریم سے لبریز‬ ‫میٹھی گولی ایک طرف‬ ‫تول میں کہیں بھاری ہے‬ ‫گو اک عرصہ ہوا‬ ‫اس میٹھی گولی کا مزا‬ ‫مری رگ وپے میں‬ ‫آج بھی رقصاں ہے‬ ‫پریم و الفت کے آب زم زم میں بھیگی‬ ‫ہات پر اس بچے کی رکھی میٹھی گولی‬ ‫آتی نسلوں کے لیے میں نے رکھ دی ہے‬


‫‪209‬‬

‫کہ حجت رہے‬ ‫محبتوں کا کوئی مول نہیں‬ ‫یہ جیتی ہیں مرتی نہیں‬ ‫لوگوں کو یہ‬ ‫خیر کی شکتی بردان میں دیتی ہیں‬


‫‪210‬‬

‫دو بیلوں کی مرضی ہے‬

‫تمثالی وعالمتی افسانہ‬ ‫بندر کے بچوں کے‬ ‫آتے کل کی بھوک کے غم میں‬ ‫وہ اور یہ‬ ‫آدم کے زخموں سے چور‬ ‫بھوک سے نڈھال‬ ‫قول کے سچے‘ پکے‬ ‫بچوں پر‬ ‫بھونکتے ٹونکتے‬ ‫زخمی سؤر بھوکے کتے‬ ‫ٹوٹ پڑے ہیں‬ ‫ظلم کے ہر حامی کے منہ میں‬


‫‪211‬‬

‫خون کی ٹیکسال سے نکلے ڈالر‬ ‫ہاتھ میں وعدوں کے پرزے ہیں‬ ‫ظلم کی نندا کرنے والے‬ ‫توپوں کی زد میں ہیں‬ ‫جبر کے ٹوکے میں‬ ‫اپنی سانسیں گنتے ہیں‬ ‫ہونٹوں سے باہر آتی جیبا‬ ‫خنجر کی کھا جا ہے‬ ‫گھورتی آنکھیں‬ ‫اگنی کا رن ہے‬ ‫سچ تو یہ ہے‬ ‫کمزور باشندے‬ ‫پشو جناور کا اترن اور‬ ‫ماس خور درندوں کا جیون ہیں‬ ‫لومڑ اور گیڈر بھی‬ ‫گھاس پھوس سے نفرت کرتے ہیں‬


‫‪212‬‬

‫اک کا جیون‬ ‫دوجے کی مرتیو پر اٹھتا ہے‬ ‫دیا اور کرپا کے سب جذبے‬ ‫شوگر کو نائٹروکولین ہیں‬ ‫اب دو بیلوں کی مرضی ہے‬ ‫اک ساتھ چلیں‬ ‫بے خوفی کا جیون جئیں‬ ‫یا پھر‬ ‫دو راہوں کے راہی ٹھہریں‬ ‫کتوں سؤروں کا فضلہ بن کر‬ ‫بے نامی کی نالی میں بہہ جائیں‬


‫‪213‬‬

‫ذات کے قیدی‬ ‫قصور تو خیر دونوں کا تھا‬ ‫اس نے گالیاں بکیں‬ ‫اس نے خنجر چالیا‬ ‫سزا دونوں کو ملی‬ ‫وہ جان سے گیا‬ ‫یہ جہان سے گیا‬ ‫اس کے بچے یتیم ہوئے‬ ‫اس کے بچے گلیاں رولے‬ ‫اس کی ماں بینائی سے گئی‬ ‫اس کی ماں کے آنسو تھمتے نہیں‬ ‫اس کا باپ کچری چڑھا‬ ‫اس کا باپ بستر لگا‬ ‫دونوں کنبے کاسہء گدائی لیے‬ ‫گھر گھر کی دہلیز چڑھے‬


‫‪214‬‬

‫بے کسی کی تصویر بنے‬ ‫بے توقیر ہوئے‬ ‫ضبط کا فقدان‬ ‫بربادی کی انتہا بنا‬ ‫سماج کے سکون پر پتھر لگا‬ ‫قصور تو خیر دونوں کا تھا‬ ‫جیو اور جینے دو کے اصول پر‬ ‫جی سکتے تھے‬ ‫اپنے لیے جینا کیا جینا‬ ‫دھرتی کا ہر ذرہ‬ ‫تزئین کی آشا رکھتا ہے‬ ‫ذات کے قیدی‬ ‫مردوں سے بدتر‬ ‫سسی فس کا جینا جیتے ہیں‬


‫‪215‬‬

‫چل' محمد کے در پر چل‬ ‫اک پل‬ ‫آکاش اور دھرتی کو‬ ‫اک دھاگے میں بن کر‬ ‫رنگ دھنک اچھالے‬ ‫دوجا پل‬ ‫جو بھیک تھا پہلے کل کی‬ ‫کاسے سے اترا‬ ‫ماتھے کی ریکھا ٹھہرا‬ ‫کرپا اور دان کا پل‬ ‫پھن چکر مارا‬ ‫گرتا ہے منہ کے بل‬ ‫سلوٹ سے پاک سہی‬ ‫پھر بھی‬ ‫حنطل سے کڑوا‬


‫‪216‬‬

‫اترن کا پھل‬ ‫الفت میں کچھ دے کر‬ ‫پانے کی اچھا‬ ‫حاتم سے ہے چھل‬ ‫غیرت سے عاری‬ ‫حلق میں ٹپکا‬ ‫وہ قطرہ‬ ‫سقراط کا زہر‬ ‫نہ گنگا جل‬ ‫مہر محبت سے بھرپور‬ ‫نیم کا پانی‬ ‫نہ کڑا نہ کھارا‬ ‫وہ تو ہے‬ ‫آب زم زم‬ ‫اس میں رام کا بل‬ ‫ہر فرزانہ‬


‫‪217‬‬

‫عہد سے مکتی چاہے‬ ‫ہر دیوانہ عہد کا بندی‬ ‫مر مٹنے کی باتیں‬ ‫ٹالتے رہنا‬ ‫کل تا کل‬ ‫جب بھی‬ ‫پل کی بگڑی کل‬ ‫در نانک کے‬ ‫بیٹھا بےکل‬ ‫وید حکیم‬ ‫مالں پنڈٹ‬ ‫پیر فقیر‬ ‫جب تھک ہاریں‬ ‫جس ہتھ میں وقت کی نبضیں‬ ‫چل‬ ‫محمد کے در پر چل‬


‫‪218‬‬

‫عطائیں ہللا کی کب بخیل ہیں‬ ‫مدحیہ کہانی‬ ‫حضور کے قدموں کی برکت دیکھیے‬ ‫آنکھیں جو قدم بوس رہیں‬ ‫کمال ہوئیں‬ ‫رشک ہالل ہوئیں‬ ‫تہی بر مالل ہوئیں‬ ‫اس سے بڑھ کر یہ‬ ‫بالل ہوئیں‬ ‫ان آنکھوں نے موت کو حیات بخشی‬ ‫زمینی خداؤں کو بندگی بخشی‬ ‫ہر لمحہ ان سے اخوت ٹپکی‬ ‫شریعت ٹپکی‬ ‫طریقت ٹپکی‬


‫‪219‬‬

‫حقیقت ٹپکی‬ ‫میں نے سنا تھا‬ ‫شاہ حسین کے دربار کے عقب میں‬ ‫حضور کے قدموں کے نشان‬ ‫اہل ظرف نے محفوظ کر رکھے ہیں‬ ‫گناہ گار سیاہ کار سہی‬ ‫شوق لیکن مجھے وہاں لے گیا‬ ‫ڈرتے ڈرتے حضرت کے دربار میں داخل ہوا‬ ‫بساط بھر ادب سے سالم کیا‬ ‫درود پڑھا دعا کی اور دربار سے باہر آ گیا‬ ‫وجود میں ہمت باندھی‬ ‫ہر بری کرنی کی معافی مانگی‬ ‫تب کہیں جا کے دربار کے عقب میں گیا‬ ‫حضور کے قدموں کے نشان‬ ‫بڑے احترام بڑی ّعقیدت سے محفوظ تھے‬ ‫تازہ پھولوں سے سجے تھے‬


‫‪220‬‬

‫لوگ بھی وہاں کھڑے تھے‬ ‫ہر آنکھ میں محبت تھی ّعقیدت تھی‬ ‫دل بےشک طواف الفت میں تھے‬ ‫ہاں کچھ لب بھی متحرک تھے‬ ‫انگلیاں شیشہءپا کو چھو رہی تھیں‬ ‫سوچا آگے بڑھوں‬ ‫شیشہءنقش پا کو چوم لوں‬ ‫پھر سوچا مرے لب اس قابل کہاں‬ ‫انگلیوں سے ہی شیشہء پا چھو لیتا ہوں‬ ‫انگلیوں میں مگر اتنا دم کہاں‬ ‫خواہش ابھری قدموں کو چھوتی‬ ‫پھول کی اک پتی ہی مل جاتی‬ ‫دونوں جہاں گویا مل جائیں گے‬ ‫گناہ گا ہو کہ نیکوکار‬ ‫عطائیں ہللا کی کب بخیل ہیں‬ ‫ایسا اگر ہوتا‬


‫‪221‬‬

‫تو مجھ سے بھوکے مر جاتے‬ ‫تالہ اس شیشے کے بکسے کا‬ ‫کھوال خدمت گار نے‬ ‫حضور کے قدموں کو چھوتی‬ ‫اک پتی مرے ہات پر رکھ دی‬ ‫حیرت ہوئی‘ میں اور یہ فضل بےبہا‬ ‫دنیا و عقبی کی عطا‬ ‫سجدہ شکر کا مجھے کب ڈھنگ رہا ہے‬ ‫خدا جانتا تھا کہ اس کا بندہ ممنون ہے‬ ‫میں نے وہ پتی بصد شکر‬ ‫سدا خالی رہتے پرس میں ڈال لی‬ ‫مرے حضور کے قدموں کی برکت دیکھیے‬ ‫مری میں مر گئی‬ ‫مرا پرس بھی خالی نہیں رہتا‬ ‫راز یہ کھل گیا ہے‬ ‫قدموں میں ہی حضور کے‬


‫‪222‬‬

‫دونوں جہاں ہیں‬ ‫جاؤں گا اگر حضور سے‬ ‫کسی جہاں کا نہ رہوں گا‬ ‫جو حضور کے قدم لیتا رہے گا‬ ‫اویس بنے گا‬ ‫منصورٹھہرے گا‬ ‫سرمد لقب پائے گا‬


‫‪223‬‬

‫کرپانی فتوی‬

‫فیقا ہمارے محلے کا درزی ہے‬ ‫ہے تو سکا ان پڑھ‬ ‫سوچ میں مگر فالطو لگتا ہے‬ ‫دور کی کوڑی ڈھونڈ کے التا ہے‬ ‫سوچ ہی الگ تر نہیں‬ ‫کپڑے بھی بال کے سیتا ہے‬ ‫الجھا الجھا سڑا بجھا بھی رہتا ہے‬ ‫ہللا جانے گھر والی سے‬ ‫نبھا اس کا کیسے ہوتا ہے‬ ‫بےشک وہ اس کی عجیب باتوں سے‬ ‫گھبرا جاتی ہو گی‬ ‫پلے جو ُپڑ گیا‘ رو دھو کر نبھاتی ہو گی‬ ‫کم ہی لوگ اس کی باتوں پر غور کرتے ہیں‬ ‫ہاں جو کرتے ہیں اس کے ہو جاتے ہیں‬


‫‪224‬‬

‫بڑا زیرک ہے دانا ہے‬ ‫بات کرتے بندہ کوبندہ دیکھ لیتا ہے‬ ‫باتوں کی کھٹی کب کھاتا ہے‬ ‫ڈٹ محنت کرتا ہے‬ ‫خوب کماتا ہے‬ ‫اس روز سب چھوڑ چھاڑ کر‬ ‫چپ چاپ بستر پر لیٹا ہوا تھا‬ ‫خال میں بٹربٹر دیکھے جاتا تھا‬ ‫پہلے سوچا بیمار ہے‬ ‫بیماروں کے طور کب ایسے ہوتے ہیں‬ ‫سوچا چلو حال چال پوچھ لیتے ہیں‬ ‫بیمار ہوا تو کوئی خدمت پوچھ لیتے ہیں‬ ‫میں اس کی دکان میں داخل ہو گیا‬ ‫سالم دعا کرکے بیٹھ گیا‬ ‫پوچھا کیا حال ہے‬ ‫کیوں بےکار میں لیٹے ہوئے ہو‬


‫‪225‬‬

‫اٹھو شیر بنو‬ ‫کوئی دو چار تروپے بھرو‬ ‫آخر بات کیا ہے‬ ‫جو تم نے یہ حالت بنا رکھی ہے‬ ‫آ جی بات کیا ہونی ہے‬ ‫کل سے مسلسل سوچے جا رہا ہوں‬ ‫یہ کہہ کر وہ فالطو کی اوالد چپ ہو گیا‬ ‫کچھ دیر انتظار کیا کہ اب بولتا ہے‬ ‫جب خامشی نہ ٹوٹی تو میں نے کہا‬ ‫منہ سے کچھ پھوٹو گے تو پتا چلے گا‬ ‫نبی نہیں ہوں جو مجھ پر وحی اتر آئے گی‬ ‫اس نے مری طرف دیکھا‬ ‫اور اداس لفظوں میں یوں گویا ہوا‬ ‫کاال ہو کہ چٹا‬ ‫شرقی ہو کہ غربی‬ ‫پنجابی ہو کہ عربی‬


‫‪226‬‬

‫شعیہ ہو کہ وہابی‬ ‫چاہے اس سا ہو تول میں‬ ‫کھوٹا رہا ہو یا کھرا بول میں‬ ‫اس سے اسے کوئی غرض نہیں‬ ‫مسلماں کشی میں کہیں رائی بھر جھول نہیں‬ ‫ہر مسلمان کو ایک آنکھ سے دیکھتا ہے‬ ‫مطلب بری کے بعد‬ ‫اپنا چمچہ بھی توڑ دیتا ہے‬ ‫اس کے قریبی گولی کی زد میں آ جاتے ہیں‬ ‫جو لینا ہوتا ہے لے لیتا ہے‬ ‫اس کے ہر دینے میں بھی لینا ہوتا ہے‬ ‫شلوار ٹخنوں سے اوپر ہو کہ نیچے‬ ‫ہاتھ چھوڑے یا باندھے‬ ‫داڑھی بڑی ہو کہ چھوٹی‬ ‫توند پتلی ہو کہ موٹی‬ ‫اسے اس سے کیا‬


‫‪227‬‬

‫بس مسلمان ہو اتنا کافی ہے‬ ‫اس کے مجرم ہونے میں‬ ‫اس سے بڑا کوئی ثبوت نہیں‬ ‫یہ معاملہ مسلمانوں کا ہے‬ ‫اس کا نہیں‬ ‫وہ صرف اتنا جانتا ہے‬ ‫یہ مسلمان ہے‬ ‫اس کی گردن زنی ہونی چاہیے‬ ‫مسلمانوں کا عقیدہ و نظریہ اس سے الگ تر ہے‬ ‫ان وہابی سنی شعیوں نے‬ ‫اپنے اپنے مولوی پالے ہیں‬ ‫بال کی توندیں وہ رکھتے ہیں‬ ‫شورےفا بڑے ہوٹلوں میں‬ ‫سائلوں کی گرہ سے کھاتے ہیں‬ ‫مولوی بھی باہر کی کھاتے ہیں‬ ‫دونوں اوروں کے پلے کی‬


‫‪228‬‬

‫باہر سے گھر بھجواتے ہیں‬ ‫حلوہ ہو کہ ہو آوارہ مرغا‬ ‫توند اٹھائے بھاگے جاتے ہیں‬ ‫ہاں مگر کھیسہ میں کفر کا فتوی رکھتے ہیں‬ ‫مسلمانوں کے ہاں‬ ‫مسلمان کم پائے جاتے ہیں‬ ‫وہابی سنی شعیہ کی بہتات ہے‬ ‫کئی اور ایسوں کی برسات ہے‬ ‫فقط چند لقموں کے لیے‬ ‫تفریق کے ایٹم بم‬ ‫کبھی ادھر کبھی ادھر گراتے ہیں‬ ‫تفریق کا بم‬ ‫ایٹم بم سے کہیں مہلک ہے‬ ‫آخر وہ دن کب آئیں گے‬ ‫وہابی رہیں گے نہ شعیہ سنی‬ ‫سب مسلمان ہوں گے‬


‫‪229‬‬

‫اگر تفریق مٹ گئی‬ ‫تو اس کے ہر بم سے بچ جائیں گے‬ ‫ایکتا پیٹ کے بندوں کو‬ ‫کب خوش آتی ہے‬ ‫لڑانے مروانے کا شوق‬ ‫صدیوں سے چال آتا ہے‬ ‫وہ ان پڑھ درزی مسلسل بولتا رہا‬ ‫شاید پچھلے جنم میں‬ ‫مدینہ کی گلیوں میں گھوما پھرا تھا‬ ‫اک ان پڑھ درزی کے سامنے‬ ‫مری بولتی بند تھی‬ ‫بات تو وہ ٹھیک کہہ رہا تھا‬ ‫لیٹا ہوا تھا‬ ‫کب پیٹ سے سوچ رہا تھا‬ ‫پیٹ سے نکلتی سوچ مسمانوں کو کھا گئی ہے‬ ‫مگر کیا کریں‬


‫‪230‬‬

‫جو بولے گا مولوی کا کرپانی فتوی‬ ‫اسے کھا جائے گا‬ ‫اک درزی اور یہ سوچ‬ ‫یہاں کوئی باپ کے لیے نہیں سوچتا‬ ‫پوری امت کے لیے وہ سوچے جا رہا تھا‬ ‫سچ تو یہ ہے‬ ‫اس کا انداز فکر مجھے بھا گیا‬ ‫اس کا ہر لفظ قلب و نظر پر چھا گیا‬ ‫جواب میں کیا کہتآ‬ ‫بجھے دل اور بھیگی آنکھوں سے‬ ‫میں واں سے اٹھ گیا‬ ‫مرے بس میں یہ ہی کچھ تھا‬ ‫میں بھال اور کیا کر سکتا تھا‬


‫‪231‬‬

‫مقدر‬ ‫ہیلو ہیلو‬ ‫کون‬ ‫شانتی‬ ‫کیا چاہتی ہو‬ ‫دوستی‬ ‫کر لو‬ ‫تمہاری کرخت نگاہوں سے ڈر لگتا یے‬ ‫ہا۔۔۔ہا۔۔۔۔۔ہا۔۔۔۔۔ہا‬ ‫پگلی! نادان!‬ ‫گالب کانٹوں سے نبھا کرتا ہے‬ ‫تم بھی کر لو‬ ‫سسکیوں میں شانتی کی آواز ڈوب گئی‬ ‫بزدل‘ جاہل‘ دقیانوسی‬ ‫بارود تو امن کی ضمانت ہے‬


‫‪232‬‬

‫زمانہ روایت کی لحد میں‬ ‫اتار دے گا تم کو‬ ‫اور تم‬ ‫سسک بھی نہ سکو گی‬ ‫جدید سکول میں چار دن گزار دیکھو‬ ‫ہیلو‘ سن رہی ہو نا‬ ‫ہاں سن رہی ہوں‬ ‫مگر یہ مجھ سے نہ ہو گا‬ ‫‘تو پھر جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫تنہائی کے زنداں میں مقید رہو‬ ‫یہ ہی تمہارا مقدر ہے‬


‫‪233‬‬

‫دو بانٹ‬ ‫جھورے کے سسر تھے کمال کے‬ ‫تامرگ سگے رہے مال کے‬ ‫کدھر سے آتا ہے چھوڑیے‬ ‫انگلی اٹھائے جو‬ ‫بال تکلف سر اس کا پھوڑیے‬ ‫تول کے بھی ان کے دو بانٹ تھے‬ ‫ایک سے لیتے تھے ایک سے دیتے تھے‬ ‫یہاں ایک پیر صاحب رہتے تھے‬ ‫نام ان کا کچھ اور ہے‬ ‫پیار سے میں انہیں بابا دو بانٹ کہتا تھا‬ ‫برائیلر فروش کے ہاتھ کا گوشت‬ ‫خود پر حرام جانتے تھے‬ ‫روڑی کھا کر پال مرغا ہو کہ مرغی‬ ‫بڑے شوق سے کھاتے تھے‬


‫‪234‬‬

‫جو ان کا شوق یاد رکھتے‬ ‫بافیض بس وہ ہی ہوتے تھے‬ ‫کمال کے طبع شفیق تھے‬ ‫بوڑھی ہو کہ کم صورت‬ ‫بیٹا کہہ کر بالتے‬ ‫سر پر پیار دے کر دعا دیتے‬ ‫کام کی چیز اگر ساتھ الئی ہو‬ ‫اندر بھجوا دیتے‬ ‫دولت کو جیب میں رکھنے کا‬ ‫انہیں کوئی شوق نہ تھا‬ ‫گھٹنے کے نیچے دبا کر رکھتے تھے‬ ‫بڑے دیالو اور کرپالو تھے‬ ‫ہر عام چیز سے‬ ‫خلیفوں کی دنیا بساتے‬ ‫لنگر میں سے بےمایہ ادھر پڑا رہتا‬ ‫ہر ستھرا مگر اندر چال جاتا‬


‫‪235‬‬

‫گویا اندر بھی راضی باہر بھی راضی‬ ‫بے داغ کپڑے ہوں اور پیٹ میں دال روٹی‬ ‫بات کچھ جچتی نہیں‬ ‫ہاں پیٹ میں ہو اگر دیسی مرغا‬ ‫تو ہی بات بنتی ہے‬ ‫گویا من بھی راضی تن بھی راضی‬ ‫جھورے کے سسر سے مماثل بات کی بات ہی کچھ اور تھی‬ ‫باصورت عورتیں انہیں خوش آتی تھیں‬ ‫اوپر سے‬ ‫چھوئی موئی سی ہوتیں تو‬ ‫پیچے لڑ جاتے تھے‬ ‫یہ ہی اک بات تھی‬ ‫جس پر اندر اعتراض رہتا تھا‬ ‫وہ کیا جانے‬ ‫اک تو وہ پرانی تھی‬ ‫پیپا بھی تھی‬


‫‪236‬‬

‫اوپر سے عادات میں بال ایانی تھی‬ ‫دیسی مرغا جب ڈکارا ہو‬ ‫ہر سو کنول چہروں کا نظارہ ہو‬ ‫تن من میں مستی آ ہی جاتی ہے‬ ‫مستی حواس کیا‬ ‫ایمان بھی کھا جاتی ہے‬ ‫جھورے کا سسر یاد میں اپنی‬ ‫دو بانٹ چھوڑ گیا‬ ‫اس کی بیٹی‬ ‫یہ دونوں لے کر خاوند کے گھر گئی‬ ‫پھر یہ ہی متاع جہیز لے کر‬ ‫جھورے کے ساتھ نکل گئی‬ ‫طالق و نکاح کی اسے کیا ضرورت تھی‬ ‫دو بانٹ کا یہ ہی تو کمال ہے‬ ‫اصول و ضوابط سے آزادی دال دیتا ہے‬ ‫تاعمر مستی کی گزاری‬


‫‪237‬‬

‫جھورا مر گیا قوالں بھی مر گئی‬ ‫شیخ تو حضور کے قدموں پر ہوتا ہے‬ ‫حیرت تو یہ ہے‬ ‫اس پیر کے ہاتھ‬ ‫قوالں کے جہیز کی یہ متاع پلید‬ ‫کیسے آئی‬ ‫یہ بات پکی ہے‬ ‫مائی جہیز میں نہیں الئی تھی‬ ‫سنا ہے کھاتی خوب تھی‬ ‫لیکن نیک اور پردہ میں رہتی تھی‬ ‫ممکن ہے‬ ‫جھورے کے ہمسایا میں کبھی رہے ہوں‬ ‫وہاں سے چرا الئے ہوں‬ ‫یقین نہیں آتا‬ ‫پر کیا کریں‬ ‫چوروں کو مور پڑتے آئے ہیں‬


‫‪238‬‬

‫دو حرفی بات‬ ‫عادت نہ ماننے کی اچھی نہیں ہوتی‬ ‫جیتے جی مقدر اس کا بنتی ہے نیستی‬ ‫اس کے پیرو سدا زیر عتاب رہتے ہیں‬ ‫آگے بڑھتے قدم پیچھے کو آتے ہیں‬ ‫اپنی پہ اڑنا گھاٹے کا سودا ہے‬ ‫یہ بےجڑا پودا ہے‬ ‫ریت کی دیوار کیسے کھڑی کرو گے‬ ‫بال ہنر گر دریا میں چھالنگ لگاؤ گے‬ ‫غوطے کھاؤ گے ڈوبو گے مرو گے‬ ‫شیطان اپنی پہ اڑا ہوا ہے‬ ‫صبح و شام لعنتیں ہی نہیں‬ ‫ہر لمحہ پتھر روڑے کھاتا ہے‬ ‫بس سچے دل سے توبہ ہی کرنی ہے‬ ‫ایسا لمبا چوڑا اس کا حساب کتاب نہیں‬


‫‪239‬‬

‫پر کیا کریں‬ ‫شخص انا کی غالمی کیے جاتا ہے‬ ‫پھر بھی کہے جاتا ہے‬ ‫میں آزاد ہوں میں آزاد ہوں‬ ‫کہتا ہے یہ غیر کی داری نہیں‬ ‫میں کہتا ہوں انا کس کی پیرو ہے‬ ‫ہللا کے بنائے شخص کی یہ چیز نہیں‬ ‫برسوں سے‬ ‫میں اسے یہ ہی کہے جا رہا تھا‬ ‫مری وہ کب مانتا تھا‬ ‫مرا کہا حرف آخر ہے‬ ‫یہ ہی اس کی ہٹ تھی‬ ‫مرا کہا کوئی الف لیلی نہ تھا‬ ‫دو حرفی بات تھی‬ ‫میں کہتا تھا‬ ‫کرنا اور ہونا میں فرق ہے‬


‫‪240‬‬

‫وہ کہتا تھا‬ ‫ہونا کچھ نہیں کرنا ہی سب کچھ ہے‬ ‫ہونی کرنے سے ٹل جاتی ہے‬ ‫ہر بگڑی اس سے سنور جاتی ہے‬ ‫کئی بار بیمار پڑا‬ ‫میں کہتا رہا اب سناؤ‬ ‫کرنے اور ہونے میں بڑا فرق ہے‬ ‫جوابا کہتا بدپرہیزی کے سبب بیمار پڑا ہوں‬ ‫مری گرہ میں مال ہے‬ ‫ہتھیار دوا دارو کا مرے ہاتھ ہے‬ ‫چنگا بھال ہو جاؤں گا‬ ‫عشق کی گرفت میں آیا‬ ‫اٹھنا بیٹھنا سونا جاگنا گنوایا‬ ‫روپیا پیسا بھی اس راہ میں لٹایا‬ ‫گرہ کی بھی کوئی حد ہوتی ہے‬ ‫کنگال ہوا تو معشوقہ وہ گئی‬


‫‪241‬‬

‫بھوک ننگ کے نکاح میں کیوں آتی‬ ‫میں نے کہا کرنے کی‬ ‫اس سے بڑھ کر ناکامی اور کیا ہو گی‬ ‫ہونی کا تو اس میں عمل دخل ہی نہیں‬ ‫بھوکا ننگا ہو کر بھی‬ ‫اپنے کہے پر ڈٹا رہا‬ ‫کہنے لگا دولت ہاتھ کی میل ہے‬ ‫عورت پاؤں کی جوتی‬ ‫مری کرنی میں ہی کہیں چوک ہوئی ہے‬ ‫ورنہ اس سالی کی ایسی کی تیسی‬ ‫محنت کروں گا اور کما لوں گا‬ ‫پھر اس سی بیسیوں‬ ‫مرے چرنوں میں ہوں گی‬ ‫اک روز‬ ‫میں نے سنا آخری سانسوں پر ہے‬ ‫میں اسے ملنے گیا‬


‫‪242‬‬

‫حواس بگڑے ہوئے تھے‬ ‫چہرے کا رنگ بھی زرد پڑ گیا تھا‬ ‫میں نے کہا سناؤ بھیا کیسے ہو‬ ‫کیا سناؤں سانسیں گن رہا ہوں‬ ‫اب تو ہونی کو مانتے ہو‬ ‫یار اس میں ہونی کہاں سے آ گئی‬ ‫میں اپنی غلط کرنی کی بھگت رہا ہوں‬ ‫میں نے سوچا اب کچھ کہنا درست نہیں‬ ‫اس کے دل پر تو‬ ‫ختم ہللا کی مہر لگی ہوئی تھی‬ ‫اسی شام ہونی کی گرفت میں آیا‬ ‫چل بسا‬ ‫جاتے ہوئے بھی نٹکا اس نے اوپر رکھا‬ ‫ہونی کیسے ٹل سکتی تھی‬ ‫کرنی کے ساتھ اگر ہونی کو بھی مانتا‬ ‫اس میں آخر اس کا کیا بگڑ جاتا‬


‫‪243‬‬

‫مجنوں ہو کہ رانجھا‬ ‫کرنی کی کب کھٹی کھا سکے ہیں‬ ‫نکاح کرتے نہیں نکاح تو ہوتے آئے ہیں‬ ‫جوڑے آسمان پر بنتے ہیں‬ ‫زور زبردستی کے کام بگڑ جاتے ہیں‬


‫‪244‬‬

‫سوچ کے گھروندوں میں‬ ‫علم و فن کے‬ ‫کالے سویروں سے‬ ‫مجھے ڈر لگتا ہے‬ ‫ان کے بطن سے‬ ‫ہوس کے ناگ جنم لیتے ہیں‬ ‫سچ کی آواز کو‬ ‫جو ڈس لیتے ہیں‬ ‫سہاگنوں کی پیاسی آتما سے‬ ‫ہوس کی آگ بجھاتے ہیں‬ ‫صالحیتوں کے چراغوں کی روشنی کو‬ ‫دھندال دیتے ہیں‬ ‫بجھا دیتے ہیں‬ ‫حق کے ایوانوں میں‬ ‫اندھیر مچا دیتے ہیں‬


‫‪245‬‬

‫حقیقتوں کا ہم زاد‬ ‫اداس لفظوں کے جنگلوں کا‬ ‫آس سے‬ ‫ٹھکانہ پوچھتا ہے‬ ‫انا اور آس کو‬ ‫جب یہ ڈستے ہیں‬ ‫آدمیت کی آرتھی اٹھتی ہے‬ ‫کم کوسی' بےہمتی بےاعتنائی کے شراپ کے سائے‬ ‫ابلیس کے قدم لیتے ہیں‬ ‫شخص کبھی جیتا کبھی مرتا ہے‬ ‫کھانے کو عذاب ٹکڑے‬ ‫پینے کو تیزاب بوندیں ملتی ہیں‬ ‫خود کشی حرام سہی‬ ‫مگر جینا بھی تو جرم ٹھہرا ہے‬ ‫ستاروں سے لبریز چھت کا‬ ‫دور تک اتا پتا نہیں‬


‫‪246‬‬

‫ہوا ادھر سے گزرتے ڈرتی ہے‬ ‫بدلتے موسموں کا تصور‬ ‫شیخ چلی کا خواب ٹھہرا ہے‬ ‫یہاں اگر کچھ ہے‬ ‫تو‪'...........‬‬ ‫منہ میں زہر بجھی تلواریں ہیں‬ ‫پیٹ سوچ کا گھر‬ ‫ہات بھیک کا کٹورا ہوئے ہیں‬ ‫بچوں کے کانچ بدن‬ ‫بھوک سے‬ ‫کبھی نیلے کبھی پیلے پڑتے ہیں‬ ‫اے صبح بصیرت!‬ ‫تو ہی لوٹ آ‬ ‫کہ ناگوں کے پہرے‬ ‫کرب زخموں سے‬ ‫رستا برف لہو‬


‫‪247‬‬

‫تو نہ دیکھ سکوں گا‬ ‫سچ کے اجالوں کی حسین تمنا‬ ‫مجھے مرنے نہ دے گی‬ ‫اور میں‬ ‫اس بےوضو تمنا کے سہارے‬ ‫کچھ تو سوچ سکوں گا‬ ‫سوچ کے گھروندوں میں‬ ‫زیست کے سارے موسم بستے ہیں‬ ‫قاضی جرار حسنی‬ ‫‪1974‬‬


‫‪248‬‬

‫کیا یہ کافی نہیں‬ ‫ہللا بخشے نابخشے ہللا کی مرضی‬ ‫یہاں اک حاجی صاصب ہوا کرتے تھے‬ ‫پنج وقتے تھے‬ ‫ہاں صدقہ زکوت خیرت میں‬ ‫کافی بخل کرتے تھے‬ ‫حسیں بیبیوں کا دل کب توڑتے تھے‬ ‫دوریاں کم کرکے‬ ‫ان سے رشتے جوڑتے تھے‬ ‫ان کا کہنا تھا سچ بولو پورا تولو‬ ‫لوگوں کے لیے یہ ہی نصحیت تھی‬ ‫یہ الگ بات ہے‬ ‫ان کے کہے پر یقین کرنا‬ ‫سو کا گھاٹا تھا‬ ‫کہا کب کرتے تھے‬


‫‪249‬‬

‫کبھی اس سے الٹا بھی چل جاتے تھے‬ ‫اک عاشق اپنی معشوقہ سے کہتا رہا‬ ‫ستارے تمہارے لیے توڑ الؤں گا‬ ‫بپھرے دریا کی لہروں سے لڑ جاؤں گا‬ ‫اک روز فون پر اس کی معشوقہ نے کہا‬ ‫آج باغ میں ملو‘ مجھے تم سے اک کام ہے‬ ‫جواب میں اس نے کہا‬ ‫کیوں نہیں‘ آؤں گا اگر بارش نہ پڑی‬ ‫ہمارے یہاں اک لیڈر ہوا کرتے تھے‬ ‫تھے بال کے خوش خیال‬ ‫لباس میں اپنی مثال آپ تھے‬ ‫کار سے باہر جب قدم رنجہ فرماتے‬ ‫لوگ ان کی عیار معصومیت پر مر مر جاتے‬ ‫پھول تو پھول جئے جئے کار نثار کرتے‬ ‫کہا کرتے تھے‬ ‫شہر کو پیرس بنا دوں گا‬


‫‪250‬‬

‫شہر‘ شہر نہ بن سکا پیرس کہاں بنتا‬ ‫یہ جانتے کہ بےزر ہوں‬ ‫زبانی کالمی‬ ‫میں بھی گھر میں بیسیوں چیزیں التا ہوں‬ ‫بیگم کا اچھا مؤڈ اگر کبھی رہا ہو‬ ‫نور محل کبھی تاج محل‬ ‫لمحوں میں وائٹ ہاؤس سے کہیں بڑھ کر‬ ‫عمارت تعمیر کیے دیتا ہوں‬ ‫یہ الگ بات ہے‬ ‫آتے دنوں میں کچھ نہ ہو پانے پر‬ ‫عزت بچانے کی خاطر‬ ‫ٹھوک کر بیزتی کراتا ہوں‬ ‫کھسیانی ہنسی بھی ہنستا ہوں‬ ‫چلو کچھ لمحے اچھے کچھ برے گزرتے ہیں‬ ‫جیون کوئی ٹھہرا پانی نہیں‬ ‫ناہی یہ بےبل پگ ڈنڈی ہے‬


‫‪251‬‬

‫صالیحین کہتے آئے ہیں‬ ‫جو کہو وہ کرو‬ ‫ہم اہل شکم ضدین کے قائل ہیں‬ ‫کہنا اور کرنا زیست کے دو الگ رستے ہیں‬ ‫کہے بن بن نہیں آتی‬ ‫کرتے ہیں تو شکم پر الت لگتی ہے‬ ‫نہ کرنے میں ہی تو شکم کی سالمتی ہے‬ ‫جو شکم کا دشمن بنے گا‬ ‫نیزے چڑھے گا‬ ‫زہر کا پیالہ اس کا مقدر ٹھہرے گا‬ ‫آگ میں ڈاال جائے گا‬ ‫زبان سے کہتے رہو‬ ‫ہم جو کہتے ہیں وہ کرتے ہیں‬ ‫ہم بھی یہ جانتے ہیں سننے واال بھی‬ ‫اس حقیقت سے بے خبر نہیں‬ ‫ہم ہللا اور اس کے رسول کا‬


‫‪252‬‬

‫دل و جان سے احترام کرتے ہیں‬ ‫شیو ہو کہ وشنو‬ ‫موسی ہو کہ عیسی‬ ‫زرتشت ہو کہ مہآتما بدھ‬ ‫رام اور کرشن بڑے لوگ تھے‬ ‫بھال ہم ان سے کیسے ہو سکتے ہیں‬ ‫ان کی ہر کرنی کو سالم و پرنام‬ ‫بےشک وہ عزت کی جا ہیں‬ ‫ان کی کہنی اور کرنی ایک تھی‬ ‫وہ ایک کے قائل تھے‬ ‫مصیبت میں رہے ہر لمحہ صعوبت میں رہے‬ ‫اپنی کہنی پر استوار کرنی کا پرنالہ نہ وہ بدل سکے‬ ‫وہ بڑے تھے بھوکے رہ سکتے تھے‬ ‫ہماری ضرورتیں حاجتیں ان سے جدا‬ ‫وہ کہنی پر چل کر بڑے تھے‬ ‫کہہ کر نہ کرنے سے ہی مال آتا ہے‬


‫‪253‬‬

‫اچھا کھاتے ہیں بڑے گھر میں رہتے ہیں‬ ‫لوگ سالم بالتے ہیں‬ ‫یہ ہی نہیں ہم سے ڈرتے ہیں‬ ‫دنیا میں رہتے ہیں‬ ‫دنیا کی اور بڑائی کیا ہوتی ہے‬ ‫ان سے کون ڈرتا تھا‬ ‫ان کی کون سنتا تھا‬ ‫ان کے جو قدم لیتا رہا‬ ‫وہ ہی معتوب ہوا‬ ‫کیا یہ کم ہے کہ ہم خود سے گزر کر‬ ‫انہیں مانتے ہیں‬ ‫قبر میں کیا ہو گا حشر میں کیا ہو گا‬ ‫یہ آتے وقتوں کی بات ہے‬ ‫قبروں میں ان پر کیا ہو رہا ہے‬ ‫کب کوئی دیکھ رہا ہے‬ ‫مجرم تب ٹھہریں گے‬


‫‪254‬‬

‫جب کہنی پر کرنی استوار نہ مانیں گے‬ ‫یہ تو اصول حیات ہے‬ ‫اس کا کون کافر منکر ہے‬ ‫کیا یہ کافی نہیں‬ ‫اس پر ہمارا ایمان و یقین ہے‬


255


256


‫‪257‬‬

‫باؤ بہشتی‬ ‫باپ ہو کہ ماں‬ ‫معتبر ہیں محترم ہیں‬ ‫زندگی کی مشقت تو ہے ہی‬ ‫بچوں کے پالن پوسن کی بھی‬ ‫محبت سے پیار سے خلوص سے‬ ‫ماں مشقت اٹھاتی ہے‬ ‫زبان پر شکوے کا کلمہ‬ ‫کب التی ہے‬ ‫باپ بھی دنیا میں بےبدل رشتہ ہے‬ ‫منہ کا لقمہ جیب میں رکھ التا ہے‬ ‫منا کھائے گا گڑیا کے کام آئے گا‬ ‫دونمبری کمائی اکیال وہ کب کھا جاتا ہے‬ ‫پیٹ بھر سہی‘ حصہ کے لقمے‬ ‫پیٹ میں لے جاتا ہے‬


‫‪258‬‬

‫عمرا چور اپنے بچوں پر جان دیتا تھا‬ ‫خراش بھی آتی تو تڑپ تڑپ جاتا تھا‬ ‫کس کے لیے‬ ‫آدھی رات کو گھر سے قدم باہر رکھتا تھا‬ ‫وہ ڈاکو نہیں تھا‬ ‫ہاں چوری میں نام خوب کمایا تھا‬ ‫پر اتنی بات ہے‬ ‫عالقے کا ہر گھر عزیز رکھتا تھا‬ ‫اس ذیل میں‬ ‫کوئی اس پر انگلی اٹھا نہیں سکتا‬ ‫جانا تو ہے اس سے کب مفر ہے‬ ‫اک روز وہ بھی حرف آخر ہوا‬ ‫جنازے میں خاص و عام شامل تھے‬ ‫چڑھی قسمت دیکھیے‬ ‫سات صفوں کا جنازہ ہوا‬ ‫ہر کوئی‬


‫‪259‬‬

‫عالقے میں اس کی شرافت کے گن گا رہا تھا‬ ‫کئی دن بھورا بےرونق نہ ہوا‬ ‫اک آ رہا ہے تو اک جا رہا ہے‬ ‫اس کا بڑا لڑکا بھورا نشین رہا‬ ‫اپنے انداز سے باپ کے گن گاتا تھا‬ ‫کہتا تھا‬ ‫باؤ بہشی کوئی کچا چور نہ تھا‬ ‫بس اک ادھ بار پکڑا گیا‬ ‫پلس ٹل لگاتی رہی مگر وہ نہ مانا تھا‬ ‫قسم لے لو‬ ‫جو کبھی چوری کے جرم میں جیل گیا‬ ‫اس کی کوئی چوری پلس ریکارڈ میں نہیں‬ ‫یہ کھلی بکواس ہے کہ وہ چور تھا‬ ‫اس کے پکے پیڈے ہونے پر‬ ‫سب عش عش کر اٹھے‬ ‫یہ بھی اس نے بتایا‬


‫‪260‬‬

‫جب عمرا اس کی ماں کو بھگا کر الیا‬ ‫وہ اس کے پیٹ میں تھا‬ ‫نانا اس کا عالقے کا بڑا کھنی خاں تھا‬ ‫زور اس نے ایڑی چوٹی کا لگایا‬ ‫مگر کہاں‬ ‫باؤ بہشی نے اس کی ایک بھی نہ چلنے دی‬ ‫بازو دے دیتا تو کیا الج رہتی‬ ‫تھک ہار کر نانا ہی اس کا چپ ہو گیا‬ ‫اس کے پاس اس کے سوا کوئی رستہ بھی نہ تھا‬ ‫آفرین آفرین فلک بوس نعرہ بلند ہوا‬ ‫عمو کماگر نے یہ لقمہ دیا‬ ‫صدیوں بعد ایسے پوت جنم لیتے ہیں‬ ‫انو کہنے لگا‬ ‫ہمیں اس کی جی داری پر ناز ہے‬ ‫شیر تھا دلیر تھا‬ ‫یہ سب کیوں تھا‬


‫‪261‬‬

‫عمرے کا بڑا پوت‬ ‫باپ کے اصولوں کو بھول گیا تھا‬ ‫آغاز اس کا عالقے سے ہوتا تھا‬ ‫جب کبھی خالی ہاتھ رہتا تو ہی رخ باہر کا کرتا‬ ‫محنت کی کمائی ہر کسی کو عزیز ہوتی ہے‬ ‫ٹی سی ہی وہ راہ تھی کہ‬ ‫وہ اس کے گھر سے ٹال رہے‬ ‫اس حوالہ سے اس کے باؤ بہشتی کی‬ ‫ہر دل میں یاد تازہ بہ تازہ تھی‬ ‫اگلے وقتوں کے طور ہی کچھ اور تھے‬ ‫اپنے عالقے کی عزت ہر آنکھ میں تھی‬ ‫آج خرابی گھر سے شروع ہوتی ہے‬ ‫خیر اب چوری کی رسم بد کب رہ گئی ہے‬ ‫یہ رسم اگلے وقتوں کی تھی‬ ‫نمرود عصر بڑی کرسی پر بیٹھ کر‬ ‫ڈاکے ڈلواتا ہے‬


‫‪262‬‬

‫سامان لٹ جائے خیر ہے‬ ‫اور آ جائے گا‬ ‫فرعؤن بچوں کو مرواتا تھا‬ ‫یہ بچوں بوڑھوں ضعیفوں گریبوں مسکینوں کو بھی‬ ‫کھا پی جاتا ہے‬ ‫ہاں اتنا ضرور ہے‬ ‫عمرے کے قدموں پر ہے‬ ‫مگر اس کے حرامی بچے‬ ‫عمرے کے بچے کے پیرو ہیں‬ ‫لوگ آج بھی عمرے کو یاد کرتے ہیں‬ ‫منہ پر نہیں پر آگے پیچھے‬ ‫اس کے بیٹے کو برا بھال کہتے ہیں‬


‫‪263‬‬

‫کوئی کیا جانے‬ ‫اس کے اچھا اور سچا ہونے میں‬ ‫مجھ کو کیا‘ کسی کو شک نہیں‬ ‫برے وقت میں‬ ‫اوروں کی طرح منہ پھیر نہیں لیتا‬ ‫دامے درمے سخنے ساتھ رہتا ہے‬ ‫سچے کو سچا جھوٹے کو جھوٹا‬ ‫منہ پر کہتا ہے‬ ‫جینے کے لیے یہ طور اچھا نہیں‬ ‫اس کی اس گندگی عادت نے‬ ‫مفت میں‬ ‫اس کے کئی دشمن بنا رکھے ہیں‬ ‫اصل اندھیر یہ‬ ‫جن کے حق میں کہہ جاتا ہے‬ ‫وہ ہی اس سے منہ پھیر لیتے ہیں‬


‫‪264‬‬

‫بہت کم‬ ‫اسے پرے پنچایت میں بالیا جاتا ہے‬ ‫بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہو جاتی‬ ‫اٹھنے بیٹھنے کے‬ ‫مغرب نے ہمیں طور طریقے سکھائے ہیں‬ ‫بقول مغرب کے‬ ‫ابھی ہم چودہ سو سال پیچھے ہیں‬ ‫دس محرم کو‬ ‫اک ماتمی جلوس گزر رہا تھا‬ ‫اک انگریز جو ادھر سے گزر رہا تھا‬ ‫اس نے ساتھ چلتے چمچے سے پوچھا‬ ‫یہاں کیا معاملہ ہے کیا ہو رہا ہے‬ ‫چمچے نے بتایا‬ ‫حسین کی شہادت کا جلوس گزر رہا ہے‬ ‫وہ حیران ہوا اور کہا‬ ‫انہیں اب پتا چال ہے‬


‫‪265‬‬

‫چمچمے نے‬ ‫وضاحت نہ کی اور ہاں میں ہاں مالئی‬ ‫وہ صاحب تھا‬ ‫یس سری کا ہی تو عوضانہ دیتا تھا‬ ‫میاں حق قناعت لیے پھرتا تھا‬ ‫تب ہی تو بھوکا مرتا تھا‬ ‫سب چھوڑو‬ ‫ایک عادت اس کی عصری آدب سے قطعی ہٹ کر تھی‬ ‫کار قضا کبھی کسی تقریب میں بال لیا جاتا‬ ‫دیسی کپڑوں میں چال جاتا‬ ‫چٹے دیس کے اہل جاہ کی‬ ‫برائیاں گننے بیٹھ جاتا‬ ‫یہ بھی نہ دیکھتا کہ کوئی ناک منہ چڑھتا ہے‬ ‫لوگ کھانا کھانے کھڑے ہوتے‬ ‫زمین پر وہ رومال بچھا کر بیٹھ جاتا‬ ‫کانٹوں چمچوں کے ہوتے‬


‫‪266‬‬

‫ہاتھ سے کھاتا‬ ‫کھا کر اچھی طرح انگلیاں چاٹتا‬ ‫ٹشو پیپر کو چھوڑ کر ہاتھ دھوتا‬ ‫سچی بات ہے یہ اطوار دیکھ کر‬ ‫سب کو بڑی کراہت ہوتی‬ ‫ہمارے ہاں اک اور سچ پتر رہتے ہیں‬ ‫معاملہ ان سے پوچھنے چلے گیے‬ ‫بقول اس کے میاں حق کا کہنا ہے‬ ‫کھڑے ہو کر کھانے سے‬ ‫شخص کا زمین سے رشتہ نہیں رہتا‬ ‫معدہ متاثرہوتا ہے‬ ‫دل دماغ اعصاب پر برا اثر پڑتا ہے‬ ‫بیٹھ کر کھانے سے‬ ‫جسم کا زمین سے رشتہ رہتا ہے‬ ‫زمین میں سو طرح کی دھاتیں ہیں‬ ‫جو جسم پر اپنے اثر چھوڑتی ہیں‬


‫‪267‬‬

‫چوکڑی مار کر بیٹھنے سے‬ ‫سکون کی کیفیت رہتی ہے‬ ‫ہر انگلی کو دل ہر لمحہ‬ ‫تازہ خون سپالئی کرتا ہے‬ ‫ہر شخص کے خون کا گروپ الگ ہوتا ہے‬ ‫ہاتھ مالنے‬ ‫گلے ملنے سے‬ ‫سو طرح کے جراثیموں سے‬ ‫مکتی ملتی ہے‬ ‫ہاں زنا کی بات اور ہے‬ ‫زانی تم نے دیکھے ہوں گے‬ ‫ذرا غور کرنا‬ ‫یک زنی اور صد زنی کے اطوار میں‬ ‫فرق کیا ہے‬ ‫حاللی حرامی کی پیدائش کو الگ رکھیے‬ ‫زانی کا بدن زانی کے بول زانی کی شخصیت‬


‫‪268‬‬

‫فطری توزان میں نہیں رہتی‬ ‫ہمارے اس سچ پتر پر‬ ‫میاں حق کی باتوں کا بڑا اثر ہوا‬ ‫ساری رام لیلی اس نے آ کر ہمیں سنائی‬ ‫سارے ان باتوں پر خوب ہنسے اور ٹھٹھا بنایا‬ ‫وہ رائی بھر بھی نہ ہنسا نہ مسکرایا‬ ‫ہم نے اسے بڑا ڈھیٹ کیا‬ ‫ٹس سے مس نہ ہوا‬ ‫سب یک زبان ہو کر بولے‬ ‫لو اک اور عالقے کے گلے گالواں پڑا‬ ‫میاں حق چل بسا‬ ‫رنگو نے آ کر اچانک یہ خبر سنائی‬ ‫محفل پر سکوت چھا گیا‬ ‫سچ پتر ڈھاڑیں مار کر رونے لگا‬ ‫قانون قدرت ہے‬ ‫سچ باقی رہے گا اسے باقی رہنا ہے‬


‫‪269‬‬

‫کوئی کیا جانے‬ ‫میاں حق عالقے کا گہنا تھا‬ ‫اب سچ پتر گہنا ہے‬


‫‪270‬‬

‫کل کو آتی دفع کا ذکر ہے‬

‫پچھلی دفعہ کی اہمیت سے مجھ کو انکار نہیں‬ ‫شخص کا وہ اترن ہے‬ ‫یہ اترن ہی شخص کی وضاحت ہے‬ ‫اس پر ناز کیسا غرور کیسا‬ ‫میں کیسا ہوں یہ ہی اصل حقیقیت ہے‬ ‫خدارا مورکھ کے پاس نہ جائیے‬ ‫سچ کم جھوٹ زیادہ بولتا ہے‬ ‫جو ہوتا نہیں کہتا ہے جو ہوتا ہے کہتا نہیں‬ ‫شاہ کا چمچہ ہی نہیں‬ ‫وہ فصلی بٹیرا بھی ہے‬ ‫چوری خور کب حق سچ کی کہتے ہیں‬ ‫شخص کا کاتب نہیں‬ ‫شاہ اور شاہ والوں کی وہ منشی گیری کرتا ہے‬ ‫شخص کے اس اترن کی کتھا‬


‫‪271‬‬

‫شاعروں کے ہاں تالشیے‬ ‫سچ وہاں مل جائے گا‬ ‫عالمتوں استعاروں میں ہی سہی‬ ‫سب کچھ وہ کہہ گیے ہیں‬ ‫اورنگی عہد کا سچ کہیں اور کب ملتا ہے‬ ‫رحمان بابا کہتا ہے‬ ‫مجنوں کا کوئی کیا حال پوچھے‬ ‫ہر گھر صحرا کا نقشا ہے‬ ‫یہ شاعر ہی تھا جو اشارے میں‬ ‫بہت کچھ کہہ گیا‬ ‫مورکھ کو سچ کہنے کی توفیق کہاں‬ ‫ہاں داستانی ادب ہو کہ مقامی حکائتیں‬ ‫حق ان بھی بھی کہیں ناکہیں لکا چھپا ہوتا ہے‬ ‫خیر جو بھی معاملہ رہا ہو‬ ‫پچھلی دفعہ کا یہ ذکر ہی نہیں‬ ‫یہ کل کو آتی دفع کا ذکر ہے‬


‫‪272‬‬

‫شرق کا اک سیانا‬ ‫ستاروں کے علم سے آگاہ تھا‬ ‫زمین کا وڈیرا لٹیرا‬ ‫دھونس سے اسے اپنے پاس لے گیا‬ ‫پہلے آنکھیں دکھائیں‬ ‫نہ مانا تو تشدد کیا‬ ‫بڑا ڈھیٹ نکال تو بھوک کی چادر اڑھا دی‬ ‫آخر کب تب تک‬ ‫زبان اس نے کھول ہی دی‬ ‫موت سے ڈرا موت صلہ ٹھہری‬ ‫بھالئی کے بدلے شاباش کم ہی ملتی ہے‬ ‫خیر اس نے تو مجبوری میں آ کر اپنا سینہ کھوال‬ ‫پولے پیریں بتا دیتا تو بھی اس کا یہ ہی حشر ہوتا‬ ‫زمین کے ہر چپے پراس کی حکومت تھی‬ ‫سورج چاند ستارے سارے کے سارے‬ ‫تصرف میں اس کے آ چکے تھے‬


‫‪273‬‬

‫اس حقیقت کے باوجود‬ ‫کوئی ناکوئی زمین کا سانس لیتا مردہ‬ ‫کچھ ناکچھ کہیں ناکہیں گڑبڑ کر ہی دیتا‬ ‫سرکوبی کے جتن میں‬ ‫گرہ خود سے ہتھیایا سکہ نکل جاتا‬ ‫ہر جاتا سکہ اس کو ادھ مویا کر دیتا‬ ‫کل کو آتی دفع کے ذکر میں‬ ‫اس بات کا باور کرانا ضروری ہے‬ ‫وہ شرقی جان سے گیا‬ ‫کسی شریک کا ہونا وڈیرے کو کیسے گوارہ ہوتا‬ ‫ستاروں کا علم آنے کی دیر تھی کہ حوصلہ اس کا‬ ‫ہمالہ کی بلندی کو بھی پار کر گیا‬ ‫ہر چلتا پھرتا بدیسی‬ ‫اس کو کیڑا مکوڑا لگنے لگا‬ ‫اس کے کسی دیسی کو‬ ‫اس کے کسی عمل پر کیوں اعتراض ہوتا‬


‫‪274‬‬

‫پیٹ بھرے سوتا پیٹ بھرے اٹھتا‬ ‫جو بولتا اس کے منہ میں زیرہ رکھ دیتا‬ ‫بدیسی کسکتا بھی تو اس کا ستارہ بدل دیتا‬ ‫مشتری سے جب وہ زحل میں آتا‬ ‫وہ جی جان سے جاتا یہ مسکراتا قہقہے لگاتا‬ ‫اسے کوئی پوچھنے واال نہ رہا‬ ‫ہر سو خوف و ہراس کا پہرا ہوا‬ ‫ہر بدیسی کے زحل میں آنے سے‬ ‫قتل و غارت کی دنیا شاد و شاداب تھی‬ ‫اک بے سہارا وچارے سے لڑکے کا‬ ‫بھوک کے سبب میٹر گھوم گیا‬ ‫زحل میں آئے اس کے ستارے کی‬ ‫یہ بددیسی چال تھی‬ ‫کسی میاں میٹھو نے اسے خبر کر دی‬ ‫اس نے فورا سے پہلے اس کا ستارہ بدل دیا‬ ‫جلدی میں اس سے چوک ہو گئی‬


‫‪275‬‬

‫درمیاں زحل کے جانے کی بجائے‬ ‫ستارہ مشتری میں جا بسا‬ ‫پھر کیا تھا‬ ‫دیکھتے ہی دیکھتے کچھ کا کچھ ہو گیا‬ ‫اس کے اقتدار کا گراف نیچے گرنے لگا‬ ‫وہ بوکھال گیا‬ ‫بوکھالہٹ میں ہر صحیح بھی غلط ہونے لگا‬ ‫پھر کیا تھا‬ ‫آتے کل کی دفع میں وڈیرے کا اپنا ستارہ‬ ‫کہیں گم ہو گیا‬ ‫سب سے پہلی دفعہ میں بھی ایسا ہی ہوا تھا‬ ‫ابلیس کی گڈی چڑھی ہوئی تھی‬ ‫فرشتہ ہو کہ جن اس کے قدم لیتا تھا‬ ‫تکبر زہریال الوا اگلنے لگا‬ ‫اس کے سب کے خالق نے‬ ‫پہال آدم تخلیق کیا‬


‫‪276‬‬

‫اسے ہی نہیں‬ ‫سب کو سجدہ کا حکم دیا‬ ‫اس کا قیاس تھا کہ آدم زحل ًمیں وجود پایا ہے‬ ‫اس کی یہ ہی بھول تھی‬ ‫غصہ و قہر میں لمحوں کی گنتی بھول گیا‬ ‫آدم تو مشتری کی بہترین ساعت کی تخلیق تھا‬ ‫ہللا کی حکمت اگر کھل جائے تو وہ ہللا تو نہ ہوا‬ ‫ہللا کے آنے کے ان حد رستے ہیں‬ ‫قہر کے رستے سے آئے یا عطا کے رستے سے‬ ‫کون جان سکا ہے‬ ‫آتے کل کی دفع میں‬ ‫شکست آخر ابلیس کے پیرو کا مقدر ٹھہری‬ ‫ویدی کا ویدان تو اپنی ذات میں اٹل ہے‬ ‫دیو ہو کہ جن شخص ہو کہ ملک‬ ‫اس کے سامنے بےبس ہے‬ ‫اس کی ہونی میں کب کسی کا کوئی دخل ہے‬


‫‪277‬‬

‫دجال آئے کہ اس کا پیو آئے‬ ‫اس کی خدائی نہیں چل سکتی‬ ‫حسین کے پیرو اس کی راہ میں آتے رہیں گے‬ ‫وہ آگ میں پڑنے سے زہر پینے سے‬ ‫سر کٹوانے سے کب ڈرتے ہیں‬ ‫دجال عصر سن لو!‬ ‫تمہیں میں یہ کہے دیتا ہوں‬ ‫تمہارا ستارہ زحل میں آنے کو ہے‬ ‫یہ ہی ہوتا آیا ہے یہ ہی ہوتا رہے گا‬ ‫کہاں ہیں یونانی کہاں ہیں رومی‬ ‫بس ان کی کہانیاں باقی ہیں‬ ‫ہاں وہ سب تکبر کی آگ کا ایندھن بنے‬ ‫جل بھن گئے راکھ تک باقی نہ رہی‬ ‫سکندر ہو کہ قاسم محمود ہو کہ چرچل‬ ‫بابر بھی عیش کوشی کے سامان کرتا رہا‬ ‫کچھ کھا پی گئے‬


‫‪278‬‬

‫کچھ جمع آوری میں مشغول رہے‬ ‫کسی نے تاج محل تعمیر کیا‬ ‫عورت کے تھلے کی خوشنودی کی خاطر‬ ‫کئی نور محل تعمیر ہوئے‬ ‫کوئی اپنے ساتھ کب کچھ لے گیا‬ ‫نام ہللا کا باقی ہے نام ہللا کا باقی رہے گا‬ ‫گزری دفعہ کی یہ ہی کتھا تھی‬ ‫آتی دفع کی بھی یہ ہی کتھا ہوگی‬


‫‪279‬‬

‫کڑکتا نوٹ‬ ‫اس بات کو‬ ‫آج کوئی نصف صدی ہوئی‬ ‫آج بھی نوششہءصدر ہے‬ ‫سکول کی اسمبلی میں کھڑے تھے‬ ‫بڑے ماسٹر صاحب نے‬ ‫باآواز بلند کہآ‬ ‫کسی کے پاس روپے کا کڑکتا نوٹ ہے‬ ‫خاموشی چھا گئی‬ ‫روپیے کا نوٹ اوپر سے کڑکتا‬ ‫گریبوں کا فیس معافی سکول تھا‬ ‫کسی سیٹھ کی تجوری نہ تھی‬ ‫سو کا نوٹ بھی پوچھتے‬ ‫اس کے غلے میں مقید ملتا‬ ‫آخر چپ ٹوٹی‬


‫‪280‬‬

‫سکول کے مالی کی جیب سے نکل آیا‬ ‫سب کو حیرت ہوئی‬ ‫مالی کی جیب میں روپیے کا کڑکتا نوٹ‬ ‫میال رام کا سر فخر سے تن گیا‬ ‫فخر اسے کیوں نہ ہوتا‬ ‫اتنوں میں فقط ایک وہ ہی تھا‬ ‫جس کی جیب سے‬ ‫روپیے کا کڑکتا نوٹ نکال تھا‬ ‫خیر چھوڑیں بات ذرا آگے بڑھاتے ہیں‬ ‫بڑے ماسٹر صاحب نے‬ ‫روپیے کا وہ نوٹ سب کو دکھایا‬ ‫پتا نہیں کتنے مونہوں میں پانی آ گیا‬ ‫انہوں نے پوچھا یہ نوٹ کتنے کا ہے‬ ‫سب نے یک زبان ہو کر کہا ایک کا ہے‬ ‫نوٹ انہوں نے دوہرا چوہرا کر دیا‬ ‫پوچھا اب یہ نوٹ کتنے کا ہے‬


‫‪281‬‬

‫سب نے کہا ایک کا‬ ‫ہاں البتہ میلہ رام کے تیور بگڑ گئے‬ ‫بعد اس کے‬ ‫نوٹ انہوں نے ہاتھوں میں مسل دیا‬ ‫پھر پوچھا یہ نوٹ کتنے کا‬ ‫جواب وہ ہی تھا کہ ایک کا‬ ‫نوٹ کی حالت دیکھ کر‬ ‫میلہ رام کا چہرا زرد پڑ گیا‬ ‫نوٹ انہوں نے اپنے پاؤں سے مسل دیا‬ ‫پوچھا اس نوٹ کی قدر کیا ہے‬ ‫سب نے کہا ایک روپیہ‬ ‫اب کہ میلہ رام کی طبیت خراب ہو گئی‬ ‫بڑے ماسٹر صاحب کی وہ نگاہ میں تھا‬ ‫انہوں نے فورا سے پہلے کڑکتا نوٹ‬ ‫جیب سے نکاال اور میال رام کو تھما دیا‬ ‫رگڑا مسال نوٹ اپنی جیب رکھ لیا‬


‫‪282‬‬

‫کہ وہ اب بھی ایک کا تھا‬ ‫چیز دونوں کی ایک سی آنی تھی‬ ‫نیا ہو کہ پرانا اس سے کیا فرق پڑتا ہے‬ ‫نوٹ دونوں ایک کے تھے‬ ‫بڑے ماسٹر صاحب بولے‬ ‫اس نوٹ پر کوئی بھی قیامت گزرے‬ ‫اس کی قیمت میں فرق نہ آئے گا‬ ‫ہاں اتنا ضرور ہے یہ ترا مرا نہیں‬ ‫یہ جس کا بھی ہو ایک کا ہے‬ ‫خرچ کرو گے تو ایک کا نہیں رہے گا‬ ‫آگہی جتنی بھی خرچ ہو‬ ‫اس کی قدر کم نہیں ہوتی‬ ‫میں نے سب کو دانش کی بات بتائی‬ ‫قدر مگر اس کی کم نہیں ہوئی‬ ‫تم جتنا بھی اسے خرچ کرو گے‬ ‫یہ جتنی ہے اتنی ہی رہے گی‬


‫‪283‬‬

‫اسے زنگ نہیں آتا یہ پرانی نہیں ہوتی‬ ‫کس نے کہا مت دیکھو‬ ‫کیا کہا یہ ہی دیکھو‬ ‫صوفی یا بھگت کے منہ سے نکلے‬ ‫گالی‘ گالی ہو گی‬ ‫بدمعاش لفنگے کے منہ نکلے‬ ‫دعا‘ دعا ہو گی‬ ‫پلے سے مری یہ بات باندھ لو‬ ‫علم کی جناب میں‬ ‫فرشتے بھی سجدہ ریز ہوئے‬ ‫اچھا‘ اچھا ہی رہتا ہے‬ ‫کالک سو غازوں کے پیچھے‬ ‫کالک ہی رہتی ہے‬ ‫سقراط ہو کہ منصور‬ ‫وقت کی دھول میں کب چھپ سکے ہیں‬ ‫انہیں مسال گیا کچال گیا‬


‫‪284‬‬

‫قدر ان کی مگر کوئی کم نہ کر سکا‬ ‫وقت انہیں سالم کرتا آیا ہے‬ ‫سالم کرتا رہے گا‬


‫‪285‬‬

‫اسالم سب کا ہے‬ ‫سچی کہانی‬

‫بابا شکر ہللا بھلے آدمی تھے‬ ‫صوم و صلوتہ کے ہی پابند نہ تھے‬ ‫قول کے کھرے‬ ‫ہاتھ کے بھی کھلے تھے‬ ‫اچھا کہتے اچھا کہنے کو کہتے‬ ‫اچھا کرتے اچھا کرنے کو کہتے‬ ‫لوگوں کا ان کے پاس آنا جانا تھا‬ ‫بساط بھر ان کی خدمت کرتے‬ ‫لینے کے خالف تھے‬ ‫اگر کوئی کچھ لے آتا‬ ‫واپس اسے لے جانا پڑتا‬ ‫جعلی پیروں کی ٹھگی پر افسردہ رہتے‬


‫‪286‬‬

‫کہتے‬ ‫انہیں تو لوگوں کو حضور کی راہ پر چالنا ہے‬ ‫حضور دیتے تھے‬ ‫ان کا لینا کہیں ثابت نہیں‬ ‫لوگ انہیں پیر سمجھتے تھے‬ ‫یہ الگ بات ہے‬ ‫انہوں نے خود کو کبھی پیر مانا نہیں‬ ‫کوئی پیر کہتا تو برا مناتے‬ ‫پنشن پر گزرا کرتے‬ ‫اماں جی گھر میں‬ ‫بال فیس بچوں کو پڑھاتیں‬ ‫عرصہ سے‬ ‫ان کے ہاں یہ ہی طور چال آتا تھا‬ ‫مجھ ناچیز کو بھی‬ ‫ان کے پاس بیٹھنے کا شرف رہتا‬ ‫ایک بار‬


‫‪287‬‬

‫اک مولوی صاحب ان کے پاس آئے‬ ‫سالم دعا بال کے بیٹھ گئے‬ ‫توند بس مناسب ہی تھی‬ ‫ہاں شلوار ٹخنوں سے اوپر تھی‬ ‫مونچھوں کا کہیں نام و نشان نہ تھا‬ ‫داڑھی سرسیدی تھی‬ ‫بولے حضرت اک سوال پوچھنا ہے‬ ‫بابا بولے ہللا علیم و خبیر ہے‬ ‫معلوم ہوا تو ہی جواب دے سکوں گا‬ ‫ہاں غور تو ہو سکتا ہے‬ ‫مولوی صاحب بولے‪ :‬کیا حضور کو ّعلم غائب تھا‬ ‫مولوی کے لہجے میں‬ ‫مولوی کی آنکھوں میں شرارت تھی‬ ‫بابا صاحب پہلے تو مسکرائے‬ ‫پھر رنجیدہ ہو گئے‬ ‫بابا صاحب نے کہا‪ :‬افسوس مولوی صاحب‬


‫‪288‬‬

‫افسوس صد افسوس‬ ‫کرنے کے کام کرتے نہیں ہو‬ ‫یہ ہللا اور اس رسول کا معاملہ ہے‬ ‫اس پر زور آزماتے ہو‬ ‫ہے تو بھی‘ نہیں ہے تو بھی‬ ‫یہ ہمارا معاملہ نہیں ہے‬ ‫ہمیں تو بس اس سے کام ہے‬ ‫آپ کے کہے میں وحی کا اہتمام ہے‬ ‫آپ کا کہا گویا ہللا کا کہا ہے‬ ‫مولوی صاحب کیسے ہیں آپ‬ ‫کان دیکھتے نہیں‬ ‫کتے کے پیچھے دوڑے بھاگے جاتے ہو‬ ‫کبھی خود سے بھی سوچ لیا کرو‬ ‫دعوی تمہارا ہو گا کہ پڑھا لکھا ہوں‬ ‫علم قریب سے بھی گزرا ہوتا‬ ‫یہ سوال نہ کرتے‬


‫‪289‬‬

‫کیا حضور کو ّعلم غائب تھا‬ ‫تمہارا کہا ہی تضاد کا شکار ہے‬ ‫کہتے ہو حضور‬ ‫صیغہ تھا کا استعمال کرتے ہو‬ ‫لفظ حضور حاضر کے لیے ہے‬ ‫مانتے ہو آپ حاضر ہیں‬ ‫تھا کہہ کر نفی کرتے ہو‬ ‫یہ کیا بات ہوئی‬ ‫وہ حاضر ہیں پر کیا کریں‬ ‫ہماری آنکھں‬ ‫انہیں دیکھنے کے قابل نہیں ہیں‬ ‫دیکھنے والے دیکھتے ہیں‬ ‫یوں بھی لے سکتے ہو‬ ‫تاقیامت قرآن باقی ہے‬ ‫آپ حاضر ہیں‬ ‫خیر یہ تضاد تمہارے پوچھنے میں ہے‬


‫‪290‬‬

‫تضاد کی دنیا سے نکلو کہ امت متحد ہو‬ ‫مذاہب غیب پر ایمان رکھنے پر استوار ہیں‬ ‫ہللا تم نے دیکھا‘ نہیں‬ ‫جنت دوزخ جن فرشتے تم دیکھے‘ نہیں‬ ‫حاضر کو دیکھا‘ نہیں‬ ‫قرآن اترتے دیکھا‘ نہیں‬ ‫ان سب پر ہر کلمہ گو کا ایمان ہے‬ ‫تب ہی تو مسلمان ہے‬ ‫حضور پر قرآن اترا‬ ‫بے شک النے والے کو حضور نے دیکھا‬ ‫وہ فرشتہ تھا انسان نہیں تھا‬ ‫بھیجنے والے سے متعلق آگہی ہو گی‬ ‫جو کسی نے نہیں دیکھا‬ ‫حضور نے دیکھا جانا‬ ‫علم غیب کا ہونا اور کس کو کہتے ہیں‬ ‫میں سے گزر کر تو میں آنے واال‬


‫‪291‬‬

‫کب کسی پر کھل سکتا ہے‬ ‫یہ معاملہ حضور کا ہے‬ ‫وہ جانیں یا ان کا خدا جانے‬ ‫ہمیں اس سے مطلب نہیں‬ ‫اگر ہم مسمان ہیں تو سیدھا چلیں‬ ‫ہللا کی مخوق کے کام آئیں‬ ‫الیعنی چکروں میں پڑو گے‬ ‫تو مرو گے‬ ‫خود ڈوبو گے یہ معاملہ تمہارا ہے‬ ‫اوروں کو ڈبو دو گے‬ ‫یہ معاملہ اسالم کا ہے‬ ‫اسالم اس کی اجازت نہیں دیتا‬ ‫اسالم تمہارا ہی نہیں‬ ‫اسالم سب کا ہے‬


‫‪292‬‬

‫ڈنگ ٹپانی‬ ‫ہللا بخشے تایا نواب لڑکوں کو‬ ‫چوکوں میں کھڑا ہونے سے منع کرتے تھے‬ ‫رشتہ میں وہ کسی کے کچھ نہ تھے‬ ‫بوڑھے تھے حیادار تھے‬ ‫سب انہیں تایا کہتے تھے‬ ‫اچھا دور تھا اچھے لوگ تھے‬ ‫ہر کس کی عزت اپنی عزت جانتے تھے‬ ‫سب کی بھنیں اپنی بھنیں تھیں‬ ‫آہ! وہ مر گئے‬ ‫اچھی روائتیں بھی مر گئیں‬ ‫آنکھوں میں شرم تھی حیا تھی‬ ‫آج کوئی کوئی پرانا بات کرے تو کہتے ہیں‪:‬‬ ‫چھوڑو جی دقیانوسی ہے‬ ‫بیبیاں بادوپٹہ یا بابرقعہ گھر سے نکلتی تھیں‬


‫‪293‬‬

‫آج برقعہ تو دور رہا دوپٹہ بھی غائب ہو گیا ہے‬ ‫شریف سے اور باحیا سے رہو تو‬ ‫کڑیاں مذاق اڑاتی ہیں‬ ‫چھیڑو تو پلے پڑ جاتی ہیں‬ ‫نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن‬ ‫اسی کو تو کہتے ہیں‬ ‫بیدا اور شیدا محلہ کے چوک میں کھڑے تھے‬ ‫الیعنی گپیں ہانک رہے تھے‬ ‫تانک جھانک دیدار بازی کا عمل جاری تھا‬ ‫کوئی ناک چڑھا کر کوئی مسکرا کر گزر جاتی‬ ‫ہاجاں تیلن کا بھی ادھر سے گزر ہوا‬ ‫منہ متھے لگتی تھی شیدا نہ رہ سکا‬ ‫اس نے پرامید پراسلوب فوجی سلیوٹ کیا‬ ‫وہ کھل کھالئی‬ ‫ہنسی اس کی پورے منہ کی تھی‬ ‫وہ گزر گئی بات آئی گئی ہو گئی‬


‫‪294‬‬

‫وہ پھر سے گپوں میں جھٹ گئے‬ ‫اسی شام ہاجاں تیلن بیدے کے گھر آئی‬ ‫بیدے کی ماں سے کہنے لگی‬ ‫بیدے نے محلہ کے چوک میں‬ ‫مجھے چھڑا ہے‬ ‫مرا ویر ادھر نہ تھا‬ ‫ورنہ‬ ‫پیر پر ڈکرے کر دیتا‬ ‫بیدے کی ماں شکایت سن کر ہکی بکی رہ گئی‬ ‫اس نے غصے سے بیدے کو آواز دی‬ ‫آیآ ماں جی کہہ کر‬ ‫کچھ ہی دیر بعد چھت سے نیچے اتر آیا‬ ‫وہ گڈی اڑا رہا تھا‬ ‫اتنی دیر میں ہاجاں تیلن جا چکی تھی‬ ‫بیدے کی ماں نے بنا کچھ سنے‬ ‫بیدے کی لہہ پہہ کر دی‬


‫‪295‬‬

‫بیدے نے تو اسے چھیڑا ہی نہ تھا‬ ‫یہ گالواں مفت میں اس کے گلے آ پڑا تھا‬ ‫بیدے کی ماں بےچاری کیا جانے‬ ‫روال چھیڑنے کا تھا ہی نہیں‬ ‫وہ شیدے کی پسند تھی‬ ‫شیدا مگر ہاجاں کی دل آنکھ میں نہ تھا‬ ‫ہاں وہ بیدے کی دیونی تھی‬ ‫بیدے کو کیا مری پڑی جو اس نے نہ چھیڑا‬ ‫پر کیا کریں‬ ‫چھماں بیدے کے دل کی رانی تھی‬ ‫سوہنی تو تھی ہی‬ ‫ہاجاں سے بڑھ کر سیانی تھی‬ ‫یہ بات تو‬ ‫فرشتوں کے لکھے پر‬ ‫ناحق پکڑے جانے والی کی سی تھی‬ ‫کیسی بات ہے یہ‬


‫‪296‬‬

‫شادی کرنے کے ارادے دور تک نہ تھے‬ ‫ہاں مگر دو طرفہ محض ڈنگ ٹپانی تھی‬


‫‪297‬‬

‫ایک اور اندھیر دیکھیے‬

‫ہر چپہ پہ سجدہ ریز ہوا‬ ‫پھر بھی میں کی گرفت میں رہا‬ ‫کرنی اپنی ہی کرنی تھی‬ ‫سجدوں کا محض ڈھونگ رچا تھا‬ ‫آخر کب تک‬ ‫آزمائش میں آ ہی گیا‬ ‫میں سر چڑھ کر بولی تو‬ ‫ڈھول کا بھید کھل گیا‬ ‫پھر کیا تھا‬ ‫مالک نے حضوری دوری میں بدل دی‬ ‫معافی کی طرف کیوں آتا‬ ‫دیکھتے ہی دیکھتے نٹکا اس کا آسمان لگا تھا‬ ‫خالق اسے جانتا تھا‬ ‫وہ تو خود سے بےبہرہ تھا‬


‫‪298‬‬

‫رنگ روپ شکل بدل بدل کے ملتا رہتا ہے‬ ‫کچھ ہی لمحے ہوئے ہوں گے‬ ‫مجھے مال تھا‬ ‫بےشک بڑا خوش لباس تھا‬ ‫مرے سامنے سو کا اس نے دنبہ خریدا‬ ‫میں دیکھ رہا ہوں اس سے وہ بےخبر تھا‬ ‫میں نے پوچھا دنبہ کتنے کا دو گے‬ ‫ریٹ دنبے کا اس نے ایک سو چالیس بتایا‬ ‫میں نے کہا کچھ تو کم کرو‬ ‫بڑی مشکل سے ایک سو تیس تک آیا‬ ‫اصرار کیا تو کہنے لگا‬ ‫قرآن کی قسم کھا کر کہتا ہؤں‬ ‫ایک سو پچیس مری خرید ہے‬ ‫پانچ منافع لوں گا‬ ‫میں نے بصد افسوس اس کی طرف دیکھا‬ ‫دنبہ خرید لیا کہ قرآن پر مرا یقین تھا‬


‫‪299‬‬

‫یہ قریبا دو بجے کی بات ہے‬ ‫باریش تھا مسجد سے نکل رہا تھا‬ ‫جلدیوں میں تھا‬ ‫لگتا تھا کہیں کام ڈالے گا‬ ‫سیدھا گودام میں آیا‬ ‫پیسی مرچوں کے دو بورے واں پڑے تھے‬ ‫پیسی اینٹوں کا ایک بورا‬ ‫اس کی راہ دیکھ رہا تھا‬ ‫اپنے ہنر میں صاحب کمال تھا‬ ‫منٹوں سکنٹوں میں یہ پرایا‬ ‫مرچوں کا ہم سفر ہوا‬ ‫اب کہ تین بورے مرچوں کے ٹھہرے‬ ‫رنگ روپ حسب نسب کا جھگڑا ہی ختم ہو گیا‬ ‫مسجد میں اس کے طور ہی کچھ اور تھے‬ ‫باہر آ کر یکسر بدل گیا‬ ‫حاجی کے روپ میں بھی مال‬


‫‪300‬‬

‫بڑا خوش اخالق شیریں زبان تھا‬ ‫مری بیوی کو شروع سے بیٹی کہتا تھا‬ ‫سر پر ہاتھ پھرتا نگاہ نیچی رکھتا‬ ‫یہ تو بہت بعد میں معلوم ہوا‬ ‫مرے گھر کی ساری رونق‬ ‫اسی کا لطف و احسان تھا‬ ‫مجھ سا ناکارہ وگرنہ کب اس الئق تھا‬ ‫کاش سائنس اتنی ترقی نہ کرتی‬ ‫اور میں بےخبر ہی رہتا‬ ‫عاشاں شکل و صورت میں کتنی معصوم لگتی تھی‬ ‫باطن میں شیطان ہی کا اترن تھی‬ ‫برسوں سے مرا پرموشن کیس اڑا پھسا تھا‬ ‫بڑا بابو کبھی یہ کبھی وہ کاغذ مانگ رہا تھا‬ ‫مرے ساتھ کیا ہو رہا ہے‬ ‫اکثر سوچتا‬ ‫مرے ساتھ کے ترقی انجوائے کر رہے تھے‬


‫‪301‬‬

‫میں ابھی تک قسمت کو کوس رہا تھا‬ ‫ایک صاحب نے بالتکلف کہا‬ ‫پاگل اصل کاغذ دیتے نہیں‬ ‫کبھی بابو کو کبھی قسمت کو کوستے ہو‬ ‫کس کاغذ کی آپ بات کرتے ہیں‬ ‫میں نے پوچھ ہی لیا‬ ‫بڑا نوٹ جس پر بانی کی تصویر چھپی ہو‬ ‫فائل میں لگاؤ پھر بےچنت ہو جاؤ‬ ‫کام ہو جائے گا‬ ‫سوچ میں پڑ گیا‬ ‫یہ بگال بھگت کتنے روپ دھارتا ہے‬ ‫لو دور کیا جانا ہے‬ ‫ہماری گلی کے موڑ پر ہی وہ رہتا ہے‬ ‫کچہری میں منصف کے روبرو‬ ‫کالم پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہے‬ ‫جو کہوں گا سچ کہوں گا‬


‫‪302‬‬

‫سچ کے سوا کچھ نہ کہوں گا‬ ‫ان دیکھے سچ کی کھاتا ہے‬ ‫کیا کروں‬ ‫اس کے کس روپ پر یقین کروں‬ ‫مرا ہم جنس بن کر دغا کرتا ہے‬ ‫ایک اور اندھیر دیکھیے‬ ‫انگلی مری اوروں کی جانب تو اٹھ رہی ہے‬ ‫جیسے ہل پر نہایا ہوا ہوں‬ ‫کرتوت یہ ہے کہ‬ ‫زوج کے حضور جب جاتا ہوں‬ ‫میں اس سا وہ مجھ سا ہو جاتا ہے‬ ‫سچ مر جاتا ہے‬ ‫یا پھر سات سمندر پار کر جاتا ہے‬


‫‪303‬‬

‫یہ حرف‬ ‫کل طلوع سے پہلے‬ ‫کان جزو جسد شرق تھے‬ ‫ودوا کا نالہ سنتے نہ تھے‬ ‫ہاتھ آہنی ضرور تھے‬ ‫ریکھاؤں میں مگر‬ ‫مغرب کے مانجے کا گوبر بھرا تھا‬ ‫خورشید اہل شرق کا سہی‬ ‫شرق کی صبح شام‬ ‫شرق کی نہیں‬ ‫منہ اپنا زبان اپنی‬ ‫بیان اپنا نہیں‬ ‫چٹے مندر کے دروازے پر‬ ‫یک ٹانگ کھڑا‬ ‫صبح شام‬


‫‪304‬‬

‫ہر آتے دم کے ساتھ‬ ‫شری جھاڑی مہاراج کی جئے ہو‬ ‫شری جھاڑی مہاراج کی جئے ہو‬ ‫بکے جاتا ہے‬ ‫فاختہ کے گلو میں‬ ‫نامہء منتی باندھ دیا‬ ‫کبوتر جھاڑی مہاراج کی قید میں ہے‬ ‫بازگزشت کٹی آواز‬ ‫تاریخ کا حرف کب بنتی ہے‬ ‫بےدر گھرانے‬ ‫کہرے کی زد میں رہتے ہیں‬ ‫‘جو ہیں‬ ‫نفرتوں کے بارود میں بھی‬ ‫جشن آزادی مناتے ہیں‬ ‫جو نہیں ہیں‬ ‫جھاڑی مہاراج کی خصیہ سہالئی کا‬


‫‪305‬‬

‫شغل باکمال رکھتے ہیں‬ ‫یہ حرف‬ ‫مورکھ کی کوئی لکھت نہیں ہیں‬ ‫پھر بھی کل کو‬ ‫شہید وفا ہوں گے‬ ‫شاہد جفا ہوں گے‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫منتی‘ منت سے‬ ‫مورکھ سے مراد مورخ‬


‫‪306‬‬

‫عہد کا در وا ہوا‬ ‫عہد کا در وا ہوا‬ ‫دور افق میں‬ ‫کم زور کی مقدر ریکھا‬ ‫لہو بن کر پھیل گئی تھی‬ ‫آس کا سورج ڈوب گیا تھا‬ ‫یاس کا سورج‬ ‫سوا نیزے پر آ چکا تھا‬ ‫شانتی کے شبد کھا چکا تھا‬ ‫پھر بھی‬ ‫ماتھے پر چٹا گھر کا ٹکا سجائے‬ ‫شانتی کی ڈگڈگی بجائے جا رہا تھا‬ ‫لومڑ گیڈر جشن سیری منا رہے تھے‬ ‫لگڑبگڑ اپنا حصہ کھا رہے تھے‬ ‫گریب ہڈیوں کا گودا‬


‫‪307‬‬

‫رینگتوں کے کام آ رہا تھا‬ ‫بٹنوں کی دوکان سج گئی تھی‬ ‫گوریوں کی چڈی ہو کہ پستانوں کے کھوپے‬ ‫ان ہی سے تو بندھے ہوئے تھے‬ ‫آگہی کا در وا ہوا تو‬ ‫گریب گلیوں میں‬ ‫بھوک کی دھند پھیل گئی‬ ‫محل جگمگا اٹھے‬ ‫ہواؤں میں‬ ‫کومل ہونٹوں پر‬ ‫شراب کی بو مچل گئی‬ ‫شاہ اور اہل شاہ‬ ‫پریوں کی کمر میں ہاتھ سجائے‬ ‫تھرک رہے تھے‬ ‫جھوم رہے تھے‬

‫اپریل ‪١٠- ١٩٧٨‬‬


‫‪308‬‬

‫مشینی دیو کے خواب‬

‫وہ‬ ‫اس کا باپ‬ ‫دادا پردادا بھی‬ ‫اسی پیشہ سے وابستہ تھے‬ ‫شکار کی ٹانگوں پر‬ ‫نام کے ساجی‬ ‫دم پر چمچے‬ ‫گردن پر کڑچھے‬ ‫لگڑبگڑ کے تیور لے کر‬ ‫پل پڑتے تھے‬ ‫اب کہ نخچیر‬ ‫کئی چیتوں بگھیاّڑوں کے‬ ‫دم خم دیکھ چکا تھا‬ ‫تب ہی تو‬


‫‪309‬‬

‫گرفت میں آ کر بھی‬ ‫گردن کے جھٹکے جاری تھے‬ ‫کرتب ان کا شیوا‬ ‫جھٹکے اس کا حق‬ ‫جگ کے دانے سوچ رہے تھے‬ ‫بھوکے پیاسے صید کا ماس‬ ‫صیاد کے پیٹ کی آنتیں‬ ‫جسم کا پانی‬ ‫کھا پی کر‬ ‫مشینی دیو کے خواب‬ ‫چکنا چور نہ کر دے‬


‫‪310‬‬

‫اک مفتا سوال‬

‫ہزاروں الکھوں کی حیثیت اپنی جگہ‬ ‫دس روپیے کی حیثیت اپنی جگہ‬ ‫رسک میں ایک روپیے کا ضیاع‬ ‫بھری تجوری کا زوال ہے‬ ‫جیت گیے تو چڑھی قسمت‬ ‫ہار گیے تو!‬ ‫تجوری کا یہ سوال ہے‬ ‫جیتنے واال سکون کی نیند لوٹے گا‬ ‫ہار عمر بھر کا مالل ہے‬ ‫کچھ دے کر پایا تو کیا پایا‬ ‫اس جہاں میں کہاں ملتا ایسا دالل ہے‬ ‫سوچ کے دائرہ وسعت لیتے گئے کہ‬ ‫پھر کان میں گونجی یہ آواز‬ ‫میاں صاحب دس روپیے کا سوال ہے‬


‫‪311‬‬

‫پھر ہوش آیا‬ ‫یہاں تو فقط لینا ہے دینے کا کب ذکر ہے‬ ‫میاں صاحب کی باچھیں کھل گیئں‬ ‫خوش ہو کر بولے‬ ‫پوچھ لو‘ ہو سکتا ہے بتا ہی دوں‬ ‫یہ بعید از قیاس نہیں‬ ‫فقیر کا سوچ حیرت کی نذر ہوا‬ ‫کچھ بھی نہ سمجھ سکا‬ ‫یہ تو خود اک مفتا سوال تھا‬ ‫بڑبڑاتا ہوا واں سے چل دیا‬ ‫میاں صاحب دکھ کے سمندر میں غرق ہوئے‬ ‫کم بخت دس کا چونا لگا گیا‬


‫‪312‬‬

‫سوال کا جواب‬

‫بےشک یہ ان ہونی تھی‬ ‫حیرت ہے کہ ہو گئی‬ ‫کمیوں کی بہو بیٹیاں‬ ‫لمبٹروں کے گلپ کرتی ہیں‬ ‫حاجت بھی بر التی‬ ‫اترن میں جیتی اترن میں مرتی ہیں‬ ‫کس سے کہیں کیا کہیں‬ ‫سر تاج ان کے‬ ‫ڈیرے کی چلم بھرتے ہیں‬ ‫اک مراسی اور لمبڑ کا کیا جوڑ‬ ‫پھر بھی سالم دعا لڑ گئی‬ ‫تعلق کی گڈی چڑھ گئی‬ ‫زمین پر لوگ آسمان پر فرشتے‬ ‫دیکھتے رہ گئے‬


‫‪313‬‬

‫اٹھنا اکٹھا بیٹھنا اکٹھا‬ ‫کھانا اکٹھا پینا اکٹھا‬ ‫آنا اکٹھا جانا اکٹھا‬ ‫صالح اکٹھی مشورہ اکٹھا‬ ‫اک روز مراسی کے ذہن میں آیا‬ ‫اتنی محبت اتنا پیار ہے‬ ‫کیوں نہ یہ نسلوں تک چلے‬ ‫آتے وقتوں میں‬ ‫چھوٹے بڑے کا فرق مٹ جائے‬ ‫موقع پاتے ہی مراسی نے لمبڑ سے کہا‬ ‫چودھری زندگی کیا خوب گزر رہی ہے‬ ‫محبت شاید ہی ایسی رہی ہو گی‬ ‫کیوں نہ ہم اس کو دوام بحشیں‬ ‫چودھری مسکرایا اور کہا‬ ‫کہو پھر ایسا کیا کریں‬ ‫لوہا گرم دیکھ کر مراسی نے چوٹ لگائی‬


‫‪314‬‬

‫بہن تمہاری جوان ہے‬ ‫اب اس کی شادی ہو جانی چاہیے‬ ‫چودھری خوش ہوا کہ یار ہے‬ ‫شاید کسی چودھری کا پیغام الیا ہے‬ ‫میں خوب صورت خوب سیرت ہوں‬ ‫بڑی بات یہ کہ تمہارا چھوٹا ویر ہوں‬ ‫اسے سکھی رکھوں گا‬ ‫جب تک زندہ ہوں‬ ‫پیر تمہارے دھو کر پیوں گا‬ ‫چودھری ہکا بکا رہ گیا‬ ‫پھر ہتھے سے اکھڑ گیا‬ ‫ذات کا مراسی اور یہ جرآت‬ ‫گردن سے پکڑا اور خوب وجایا‬ ‫نیچے گرا مراسی پاؤں پر کھڑا ہوا‬ ‫یار مار تو تم نے خواب لیا‬ ‫مرے سوال کا جواب اپنی جگہ رہا‬


‫‪315‬‬

‫چودھری نے چار گولے بالئے اور کہا‬ ‫اس حرامی کی طبعیت صاف کرو‬ ‫ذات کی کوڑ کرلی چھتیروں سے جپھے‬ ‫سالم دعا کیا ہوئی کہ اوقات ہی بھول گیا‬ ‫خوب پٹا بےہوش ہو گیا‬ ‫جب ہوش میں آیا تو بوال‬ ‫چودھری یار پیار میں اتنی مار‬ ‫کوئی بات نہیں‘ چلتا ہے‬ ‫دوستی میں تمہیں اتنا تو حق ہے‬ ‫کسی کی بھڑاس مجھ پر نکالو‬ ‫ہاں تو مرے سوال کا جواب تم نے دیا نہیں‬ ‫سب نے پوچھا‬ ‫چودھری یہ شوھدا ڈوم کیا کہتا ہے‬ ‫کیا جواب دیتا‬ ‫ہاتھوں کی دی گھانٹیں‬ ‫دانتوں سے کھول رہا تھا‬


‫‪316‬‬

‫تنا سر جھکا کر گھر کو چل دیا‬ ‫چودھری کب کسی کے ہوئے ہیں‬ ‫سب انسان ایک سے ہیں‘ یہ اسالم کہتا ہے‬ ‫اسالم ابھی حلق سے اترا نہیں‬ ‫حلق سے جب اترے گا‬ ‫سیاہ حبشی غالم‘ صاحب جاہ کا آقا ہو گا‬ ‫بامی متکبر کٹیرے میں کھڑا ہو گا‬


‫‪317‬‬

‫یہ ہی دنیا ہے‬

‫کاروبار کے لیے فجے سے‬ ‫خیرے نے قرض لیا‬ ‫کاروبار تو ہو نہ سکا‬ ‫ہاں سب کچھ معشوقہ کی بلی چڑھ گیا‬ ‫کنگال پھانگ ہوا تو‬ ‫کسی اور کی ڈولی وہ چڑھ گئی‬ ‫یہ کوئی نئی بات نہ تھی‬ ‫ایسا ہوتا آیا ہے‬ ‫قرض کی واپسی کے وعدے کا دن تو آنا ہی تھا‬ ‫آ گیا اور آ کر گزر گیا‬ ‫پھر کئی دن آئے اور گزر گئے‬ ‫وعدوں کی بھرمار ہوئی‬ ‫وعدوں کی بھی اک حد ہوتی ہے‬ ‫انتظار کی گھڑیاں مشکل سہی گزر جاتی ہیں‬


‫‪318‬‬

‫فجا کب تک انتظار کرتا‬ ‫کچے وعدوں پر اعتبار کرتا‬ ‫فجا خیرے کے تائے کو درمیان میں الیا‬ ‫خیرا اپنی بدحالی کا رونا لے کر بیٹھ گیا‬ ‫اس نے کچھ قرضہ معاف کروا دیا‬ ‫باقی کے لیے وعدہ لے لیا‬ ‫وعدے کا وہ دن بھی آیا اور گزر گیا‬ ‫رقم آئی نہ خیرا آیا‬ ‫نیا وعدہ ہی آ جاتا کہ فجے کو تسلی ہوتی‬ ‫خیرے کو قرضہ یاد ہے‬ ‫ٹال مٹول کا پھر سے سلسلہ شروع ہوا‬ ‫ناچار فجا اک اور معزز کو‬ ‫اس کے دروازے پر لے آیا‬ ‫خیرے نے پہلے سے بڑھ کر‬ ‫اپنی غربت کا ڈرامہ رچایا‬ ‫اس نے بھی رقم میں کچھ چھوٹ دلوا دی‬


‫‪319‬‬

‫جواب میں وعدہ لے لیا‬ ‫وہ صاحب بھی خیرے کو تاکید کرتے‬ ‫رخصت ہوئے‬ ‫امید بندھی اب کہ وصولی ہو گی‬ ‫‘مگر کہاں‬ ‫پھر سے آج کل پر بات پڑنے لگی‬ ‫فجا اس ٹال مٹول سے اکتا گیا‬ ‫جو نہیں چاہتا تھا کرنا پڑ گیا‬ ‫خیرے کو اس نے لمبڑ کے ڈیرے پر بال لیا‬ ‫وہاں آ کر وہ لمبڑ کے پاؤں لگ گیا‬ ‫یوں گڑگڑایا جیسے عرصہ سے فاقہ میں ہو‬ ‫لمبڑ کو بھی ترس آ گیا‬ ‫کچھ رعایت اس نے بھی کروا دی‬ ‫لمبڑ نے تاکیدا کہا وعدہ پر رقم دے دینا‬ ‫ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا‬ ‫حضور قسطوں پر سہی‬


‫‪320‬‬

‫رقم واپس ہو رہی ہے‬ ‫بات غلط نہ تھی‬ ‫ایک تہائی رقم دم توڑ چکی تھی‬ ‫اس کی اس بات پر سب ہنس پڑے‬ ‫اس پر وہ کہنے لگا‬ ‫ہاسے کیوں نہ آئیں رقمیں جو تر رہی ہیں‬ ‫بات اس کی سن کر سب کھل کھال پڑے‬ ‫اپنے اپنے گھر کو چل دیے‬ ‫فجے کا منہ لٹک گیا‬ ‫صبر شکر کے سوا اب کوئی چارہ نہ تھا‬ ‫نیکاں خاوند کے بستر پر بےچنت سوتی ہے‬ ‫خیرا بھی کوئی تھا‘ اسے یاد نہیں‬ ‫خیرا نیکاں کی بےوفائی پر دن رات روتا ہے‬ ‫فجے کو دی رقم کی جدائی کھا گئی ہے‬ ‫یہ ہی دنیا ہے‬ ‫کہیں ہریالی تو کہیں ویرانی ہے‬


‫‪321‬‬

‫مالک کی مرضی ہے‬

‫شاید ہی کوئی‬ ‫عیدے کے دست بد سے بچا ہو گا‬ ‫ہر گھر میں اس کی کہانی تھی‬ ‫ہر ڈیرے کا موضع کالم تھا‬ ‫کئی بار جیل گیا‬ ‫وہاں سے اور نکھر کے آیا‬ ‫باپ اس کا شریف اور مشقتی تھا‬ ‫ماں بھی اچھی تھی پنج وقتن تھی‬ ‫چودھری کا بھی ناک میں دم تھا‬ ‫کچھ دوست کھوکھے پر بیٹھے‬ ‫اسی کا ذکر بد کر رہے تھے‬ ‫اچانک انو اک خبر الیا‬ ‫عیدا ہللا کو پیارا ہو گیا‬ ‫خبر ہی ایسی تھی کہ سب حیران ہو گئے‬


‫‪322‬‬

‫پھر سب نے کلمہءشکر ادا کیا‬ ‫چنگا بھال تو تھا‬ ‫ایک دم سے کیا ہوا کہ حق ہو گیا‬ ‫او یار تم غلط سمجھے ہو‬ ‫انو نے زور کا قہقہ لگایا‬ ‫مرا نہیں زندہ ہے‬ ‫پتا نہیں اسے کیا ہوا‬ ‫مکے مدینے ٹر گیا‬ ‫واہ واہ کی صدائیں فلک بوس ہوئیں‬ ‫مالک کی مرضی ہے‬ ‫مٹی کو سونا سونے کو مٹی کر دے‬ ‫کارج کی بات میں دم تھا‬ ‫سب نے اس کی ہاں میں ہاں مالئی‬ ‫سینے میں کہیں خیر کی کرن باقی ہو‬ ‫تو ہی بگڑی سنورتی ہے‬ ‫ورنہ پنج وقتے پٹری سے اتر جاتے ہیں‬


‫‪323‬‬

‫دینے کی بات بھی غلط نہ تھی‬ ‫جو بھی سہی‬ ‫چائے کی پیالی میں آج‬ ‫خوشیوں کا اک جہاں آباد تھا‬ ‫ہر دل کھال گالب تھا‬ ‫خدا نے جانے کس کی سن لی‬ ‫ٹل گیا‬ ‫عالقے میں اترا جو عذاب تھا‬


‫‪324‬‬

‫سیاست‬

‫کسی چودھری کے سامنے کوئی چوں کرے‬ ‫کب کسی میں اتنا دم رہا ہے‬ ‫کون منصور بنے‬ ‫کون حسین کے قدموں پر چلے‬ ‫پکی پکائی کے سب گاہک ہیں‬ ‫جیدا چودھری کے خالف سرعام بک رہا تھا‬ ‫یہ خبر اٹم بم سے کچھ کم نہ تھی‬ ‫چودھری بھی سکتے میں آ گیا‬ ‫چپ رہا منہ سے کچھ نہ بوال‬ ‫بچارے دینو کی مفت میں لترول ہو گئی‬ ‫اس نے تو محض خبر سنائی تھی‬ ‫محفل کو پھر چپ لگ گئی‬ ‫یہ اس کا قصور نہیں‬ ‫جوانی کی بھول مرے آگے آئی ہے‬


‫‪325‬‬

‫بڑا خون ہی بولتا ہے‬ ‫ورنہ کوئی کمی اس قابل کہاں ہوتا ہے‬ ‫چودھری نے یہ کر‬ ‫محفل کی چپ کا روزہ توڑا‬ ‫پھر کیا تھا‬ ‫چودھری کا کہا‬ ‫اس ًموڑ سے اس موڑ تک گیا‬ ‫جیدے نے جب یہ بات سنی‬ ‫غصے سے آگ بگوال ہو گیا‬ ‫سیدھا گھر آیا‬ ‫ماں کا سر تن سے جدا کیا‬ ‫خود رسی سے لٹک مرا‬ ‫چودھری کو کچھ بھی نہ کرنا پڑا‬ ‫سیاست سے رستہ صاف ہو گیا‬


326


327


‫‪328‬‬

‫واہ مولوی صاحب واہ‬ ‫شغالنہ‬ ‫وہ سیدھا سادا مزدور آدمی تھا۔ بامشکل گھر کا خرچہ چال‬ ‫پا رہا تھا۔ غربت و عسرت کے سبب گھر میں ہر وقت کل‬ ‫کل چلتی رہتی۔ وہ اپنی حد تک تو مشقت اٹھا رہا تھا۔ یہ ہی‬ ‫اس کے بس میں تھا۔ وافر کہاں سے التا۔ باپ بھی مشقتی‬ ‫تھا۔ اس نے بھی اسی طرح محنت مشقت سے انہیں پاال‬ ‫پوسا تھا۔ بھوک اور ہمہ وقت کی تو تکرار نے اس کے‬ ‫ذہن کو تقریبا معطل سا کر دیا تھا۔ اس کی ہر سوچ کی تان‬ ‫روٹی پانی پر ہی ٹوٹتی تھی۔‬ ‫یہ اس نے کوئی پہلی بار مسجد میں قدم نہ رکھا تھا۔ اس‬ ‫سے پہلے بھی وہ کئی بار مسجد میں عید نماز پڑھنے آ‬ ‫چکا تھا۔ ہر بار اسے نصیحتوں سے پاال پڑا تھا۔ مولوی‬ ‫صاحب نے کبھی بھوک سے نجات کا کبھی کوئی طریقہ یا‬ ‫رستہ بیان نہ کیا تھا۔ مولوی صاحب کو کھال اچھا اور ون‬ ‫سوونا کھانے کو مل جاتا تھا۔ نئی پرانی عالقے کی حوریں‬ ‫‘دم اور تعویز دھاگے کے لیے آتی تھیں۔ پرہیزی سہی‬


‫‪329‬‬

‫ٹھرک جھاڑنے کا موقع مل جاتا۔ عادت سے مجبور اپنے‬ ‫اور دوسرے گھروں کے اندر کے بھید سنا جاتیں اس لیے‬ ‫اسے کسی قسم کی بھوک پیاس ہی نہ تھی۔ بھوک یا‬ ‫کاروباری قسم کی باتیں اس کے مطلب کی نہ تھیں۔‬ ‫یہ پہلی بار تھی جو مولوی صاحب کو کوئی کاروباری بات‬ ‫کرنے کی توفیق ہوئی۔ مولوی صاحب نے جنت کی حوروں‬ ‫کا بڑے ہی رومانی اور دلکش انداز میں تذکرہ کیا۔ مولوی‬ ‫صاحب نے کہا کہ وہ انڈے کی طرح سفید ہوں گی اور ہر‬ ‫جنتی کو تعداد میں ستر ملیں گی۔ مولوی صاحب نے تو ان‬ ‫کی رنگت بیان کی لیکن اس کی سمجھ میں یہ آیا کہ‬ ‫حوریں انڈے دیں گی۔ مولوی صاحب جانے اور کیا کچھ‬ ‫کہتے رہے لیکن بھوک نے اس کے سوچ کو انڈوں کے‬ ‫گرداب سے باہر نہ آنے دیا۔‬ ‫اس نے سوچا سب لوگ تو جنت میں نہیں جائیں گے۔ اچھا‬ ‫کرنے والے ہی جنت میں جا سکیں گے۔ وہ ستر انڈے ابال‬ ‫کر بےحوری عالقہ میں ہر روز بیچا کرے گا۔ ایک انڈا اگر‬ ‫دس روپے میں فروخت ہوا تو سات سو روپیے سیدھے ہو‬ ‫جائیں گے۔ سات سو روپیے منہ سے ہی کہنا ہے ہاتھ آنا‬ ‫اتنا آسان نہیں ہوتا۔ سوچ ذرا پھیلی تو مایوسی کا دوبارہ‬


‫‪330‬‬

‫سے دروازہ کھل گیا۔ سات سو میں ستر وہ اور ایک یہ‬ ‫گویا اکہتر کا ناشتہ پانی ہی نہیں ہو سکے گا۔ باقی کا خرچہ‬ ‫کہاں سے آئے گا۔ یہاں ایک کے لیے سارا دن مشقت اٹھاتا‬ ‫ہے پھر بھی پوری نہیں پڑتی اور رات گئے تک ہاجاں کے‬ ‫کوسنے سنتا ہے۔ وہاں ستر کے طعنے مینے کیسے سن‬ ‫سکے گا۔‬ ‫اسے مولوی صاحب کے اس ڈنڈی مار رویے پر سخت‬ ‫افسوس ہوا۔ خود پیٹ بھر کھاتا ہے اور اوروں کے لیے‬ ‫پیٹ بھر کھانے کا رستہ تنگ اور مشکل بنا رہا ہے۔ پھر‬ ‫اس کے منہ سے نکل گیا واہ مولوی صاحب واہ کیا کہنے‬ ‫آپ کے خود پیٹ بھر کھاتے ہو اور گریبوں کے لیے جنت‬ ‫میں بھی مشقت اور وہ ہی زمینی فاقہ۔‬


‫‪331‬‬

‫جواب‪ :‬واہ مولوی صاحب واہ‬ ‫بروز‪ :‬مئی ‪ 12:25:19 ,2017 ,18‬شام‬ ‫ُمحترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب۔ السالم علیکم۔ اپ‬ ‫سے شاید پہلی دفعہ ُمخاطب ہو رہا ہوں۔ اور دیکھا یہی ہے‬ ‫کہ جناب اپنے مضامین پر تبصروں کا کم کم ہی جواب‬ ‫دیتے ہیں۔ لیکن اج مجھے لکھنا پڑا۔ جناب نے میرے دل‬ ‫کی بات کی۔ مولوی صاحبان جس طرح حوروں کے قصے‬ ‫سناتے ہیں تعجب ہوتا ہے کہ جنت کی ساری نعمتوں کو‬ ‫چھوڑ کر اس ’نعمت‘ ہی کی تفصیل کیوں اتنی محنت سے‬ ‫کرتے ہیں۔ ہمارے جاوید احمد غامدی صاحب کے مطابق تو‬ ‫یہ سب بس قصے کہانیاں ہیں۔ حوریں تو دنیا ہی کی‬ ‫خواتین کو کہا گیا ہے۔ خیر‪ ،‬جو بھی ہے‪ ،‬مجھ جیسا انسان‬ ‫تو جنت میں جا کر شاید اس طرف توجہ ہی نہ کر سکے۔‬ ‫شاید کسی ابشار کے برابر چٹان پر بیٹھ کر غور و فکر‬ ‫میں محو رہے۔ غور و فکر نہ بھی کرے تو ُچپ چاپ خالی‬ ‫دماغ کے ساتھ دور افق کو گھورتا رہے۔ یہ بھی کسی‬ ‫نعمت سے کم نہیں۔ ابشار کا شور ہو‪ ،‬فرصت ہو‪ ،‬اور دماغ‬ ‫میں کوئی خیال نہ رہے۔ مارک گنگر کے مطابق‪ ،‬جو‬


‫‪332‬‬

‫شادیوں کے نباہ کے طریقوں پر درس دیتے ہیں‪ ،‬یہ نعمت‬ ‫(کہ دماغ میں کچھ سوچنے کی سرگرمی نہ چل رہی ہو)‬ ‫خواتین کو میسر نہیں۔ اور نہ ہی مرد ایسی کیفیت کے‬ ‫دوران خواتین کی مداخلت برداشت کرتے ہیں۔ اپنی بیویوں‬ ‫کی بھی نہیں‪ ،‬کُجا ستر ستر حوریں؟‬ ‫یا شاید میرے جیسا ادمی جنت میں جا کر ان تمام سوالوں‬ ‫کے جوابات مانگے جو ہمارے لیے معمہ ہی بنے رہے‬ ‫ہیں۔ مثالً کائنات کی ابتدا کیسے ہوئی؟ انسان کی تخلیق‬ ‫کیسے ہوئی؟ انسان کا ابتدائی دور کیسا رہا؟ کائینات کی‬ ‫وسعتیں کتنی ہیں؟ ہمارے مرنے کے بعد دُنیا میں کیا کیا‬ ‫ہوا؟ قران میں ہر خواہش پوری کرنے کا وعدہ ہے امید‬ ‫ہے یہ جوابات بھی ملیں گے۔ اور اگر رسائی پیغمبروں کے‬ ‫حصے تک ہو سکی تو ان سے ان کے قصے سن سن کر‬ ‫کتنا مزہ ائے گا؟ اس سب کے لیے وقت ہی کہاں ملے گا؟‬ ‫میری سمجھ میں نہیں اتا کہ قُران نے تین چار مقامات پر‬ ‫اور نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے حوروں کا بھی چلتے‬ ‫چلتے ذکر کر دیا لیکن مسلمانوں کی تمام دلچسپیوں کا‬ ‫مرکز یہ حوریں ہی کیوں ہیں؟ یہ دیکھیے اس وڈیو میں‬ ‫ایک مولوی صاحب کیسے للچائے ہوئے انداز میں حوروں‬


‫‪333‬‬

‫کا ذکر فرما رہے ہیں‪ ،‬اور حوروں کے شوق میں ایسے‬ ‫بہکے کہ دنیاوی خواتین کو میلی کُچیلی‪ ،‬سڑی گلی اور‬ ‫‪:‬نجانے کیا کیا کہ رہے ہیں‬ ‫‪https://www.youtube.com/watch?v=WyeLaf1BCH0‬‬

‫اور کس انداز میں جنتیوں کے حوروں کے ساتھ تعلقات کا‬ ‫ذکر فرما رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے نبی ﷺ‬ ‫نے ایسا کچھ نہیں کہا ہوگا۔ اور اگر کوئی حدیثوں کا حوالہ‬ ‫دے گا تو میں بغیر تحقیق راویوں کو تو جھوٹا مان لوں گا‬ ‫لیکن یہ بازاری باتیں اپنے نبی سے منسوب نہیں کرنے‬ ‫دوں گا۔ پتہ نہیں یہ وڈیو مجھے یہاں دکھانی چاہیے بھی‬ ‫تھی کہ نہیں‪ ،‬شرم محسوس ہوتی ہے۔‬ ‫یہاں انے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ چند اصطالحات جو‬ ‫اپ نے استعمال کی ہیں ان پر مجھے ذرا شک ہے۔ اور‬ ‫میں تمام احباب سے جو یہ پڑھ رہے ہوں رائے دینے کی‬ ‫درخواست کروں گا۔‬


‫‪334‬‬

‫‪١‬۔ ’سیدھا سادا‘۔ میرے خیال میں (اور جو میں نے پڑھا‬ ‫ہے) یہ لفظ ’سیدھا سادھا‘ ہونا چاہیے۔ سادھا مہمل ہے‬ ‫سیدھا کا۔ کچھ لوگ سیدھا سادہ بھی لکھتے ہیں‪ ،‬لیکن‬ ‫سادہ تو فارسی کا لفظ ہے اور اس کا مونث اور جمع بھی‬ ‫سادہ ہی ہونا چاہیے(سادہ روٹی‪ ،‬سادہ کپڑے)۔ اس طرح‬ ‫سیدھا سادہ سے سیدھی سادی اور سیدھے سادے غلط‬ ‫ہوگا۔‬ ‫سنا‪ ،‬ہاں یہاں پنجاب میں ’تُو تکار‘ عام‬ ‫’تو تکرار‘ نہیں ُ‬ ‫‪٢‬۔ ُ‬ ‫ہے۔ لیکن شاید اردو میں ’تو تڑاق‘ کی ترکیب مستعمل ہے۔‬ ‫‪٣‬۔ کیا ’ٹھرک‘ اردو کا لفظ ہے؟ کوئی یوپی کے بزرگ ہوں‬ ‫تو بتا دیں۔‬ ‫اخر میں پھر ڈاکٹر صاحب کا اپنی تحریر سے نوازنے کا‬ ‫شکریہ۔ ہمیں بھی دل کے پھپھولے پھوڑنے کا موقع مل‬ ‫گیا۔‬ ‫اسد ہللا‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10617.0‬‬


‫‪335‬‬

‫ذات کا خول‬ ‫منسانہ‬ ‫اہل فقر کا عصری شاہ یا اس کے چمچوں کڑچوں سے‬ ‫کبھی کوئی ذاتی مسلہ نہیں رہا۔ سقراط‘ پادری ویلنٹائن‘‬ ‫حسین ع‘ منصور ہوں کہ سرمد‘ نے کسی ذاتی مسلہ کی‬ ‫وجہ سے طاقت کے خالف آواز نہیں اٹھائی اور ناہی کسی‬ ‫حصولی کی پاداش میں موت کو گلے لگایا۔ حصولی کے‬ ‫گاہک موت کے خریددار نہیں ہوتے۔ وہ لوگوں کے ساتھ‬ ‫ہونے والے ان جسٹ کے خالف میدان میں اترتے آئے ہیں۔‬ ‫ظلم اور ناانصافی کے خالف آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ موت‬ ‫‪:‬کے منہ میں لوگوں کی خاطر گیے۔ لوگ‬ ‫مرے تھے جن کی خاطر وہ رہے وضو کرتے‬ ‫ایک ہی چیز کا ایک ہی فروخت کنندہ لوگوں سے الگ الگ‬ ‫بھاؤ کرتا ہے۔ حاالں کہ اصوال ایک ہی بھاؤ ہونا چاہیے۔‬ ‫کئی طرح کے بھاؤ معاشی ناہمواری کا سبب بنتے ہیں۔‬ ‫اس روز مجھ میں بھی فقیری نے سر اٹھایا اور میں نے‬ ‫سوچا کہ یہ کئی بھاؤ کا رواج ختم ہونا چاہیے۔ میں نے‬


‫‪336‬‬

‫ایک دوکان دار سے اس طرح سے آخری بھاؤ کے لیے‬ ‫اچھی خاصی بحث کی جیسے میں پرچون کا نہیں‘ تھوک کا‬ ‫گاہک ہوں۔ میں نے اسے صاف صاف لفظوں میں کہا کہ‬ ‫وہ بھاؤ بتاؤ جو لینا ہے۔ اس نے آخری بھاؤ بتا دیا جو اس‬ ‫کے منہ سے نکلنے والے بھاؤ سے کہیں کم تھا۔ مجھے‬ ‫بڑا برا لگا کہ یہ کیسے لوگ ہیں۔ اتنا منافع کماتے ہیں۔‬ ‫میں نے اسے اس طرح سے آرڈر جاری کیا‘ جیسے میں‬ ‫مارکیٹ کا بڑا منشی ہوں حاالں کہ بڑے منشی کو کم یا‬ ‫زیادہ بھاؤ سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ وہ تو معاملے کو‬ ‫اپنی حصولی تک محدود رکھتا ہے۔‬ ‫دوکان دار کو جب معلوم ہوا کہ میں نے کچھ لینا دینا نہیں‬ ‫بل کہ ایک ریٹ مقرر کرنے کے لیے بحث کر رہا ہوں‘‬ ‫پہلے تو اس نے مجھے کھا جانے والی نظروں سے‬ ‫دیکھا‘ پھر پان سات نہایت آلودہ گالیاں نکالیں۔ وہ اسی پر‬ ‫ہی نہ رہا بل کہ پھرتی سے اٹھا اور میرے بوتھے پر‬ ‫کرارے کرارے کئی تھپڑ بھی جڑ دیے۔ میں اس ناگہانی‬ ‫حملے کی توقع نہ کرتا تھا لہذا ہللا کی زمین پر آ رہا۔‬ ‫اچھے خاصے لوگ جمع ہو گیے۔ میں نے تو لوگوں کی‬ ‫بھالئی اور آسانی کے لیے یہ سب کیا تھا۔ لوگ میری‬


‫‪337‬‬

‫سننے کے لیے تیار ہی نہ تھے۔ دوکان دار جو فروخت کے‬ ‫معاملہ میں کئی زبانیں رکھتا تھا‘ کی اونچی اونچی یاوہ‬ ‫گوئی پر توجہ کر رہے تھے۔ کسی کو یہ کہنے کی توفیق‬ ‫نہ ہوئی کہ یار وہ تو ٹھیک‘ حق اور معاشی توازن کی بات‬ ‫کر رہا ہے۔ ہر کوئی مجھ پر ہنس رہا تھا میرا ہی مذاق اڑا‬ ‫رہا تھا۔‬ ‫اس واقعے کے بعد مجھ پر کھل گیا کہ حق سچ کے لیے‬ ‫لڑنا میرے بس کا روگ نہیں یہ منصور سے لوگوں کا ہی‬ ‫کام ہے۔ وہ دن جائے اور آج کا آئے میں نے بھی اوروں‬ ‫کی طرح معامالت کو اپنی ذات تک محدود کر لیا ہے۔ لوگ‬ ‫آج بھی مجھے دیکھ کر ہنس پڑتے ہیں۔ ان کا ہنسنا مجھے‬ ‫اب ذات کے خول سے باہر نہیں ہی دیتا۔‬


‫‪338‬‬

‫ہزار کا نوٹ‬ ‫منسانہ‬ ‫جیب خالی ہونے کے سبب اور تو اور‘ میرے اپنے بچے‬ ‫اور ان کی ماں‘ جن کے لیے میں دن رات جیا اور زندگی‬ ‫کی مشقت اٹھاتا رہا۔ ان کی خوش حالی اور بہبود کے لیے‬ ‫میری سوچیں‘ خون پسینے میں نہاتی رہیں‘ پیار تو بہت‬ ‫دور کی بات‘ ٹوٹ ٹوٹ پڑتے تھے۔ وہ مجھے الیعنی اور‬ ‫بےکار کا بوجھ سجھتے تھے۔ دنیا چاری کے تحت دو وقت‬ ‫کی بچی کچی چار و ناچار مہیا کر رہے تھے۔ گھر کے ہر‬ ‫چھوٹے بڑے کے منہ یہ ہی رہتا‘ تم نے ہمارے لیے کیا ہی‬ ‫کیا ہے۔ حاالں کہ میں نے زندگی کا ہر لمحہ ان کے لیے‬ ‫گزرا تھا۔ بچے اسی عمل سے گزر رہے تھے‘ لیکن انہیں‬ ‫کبھی بھی یاد نہ آیا کہ ابا بھی ان مراحل سے گزرا ہو گا۔‬ ‫مجھے دو روپیے دیتے ہوئے‘ ان پر غشی کی سی کیفیت‬ ‫طاری ہو جاتی۔‬ ‫میرا لنگوٹیا کرم الہی کمائی کے لیے والیت گیا ہوا تھا۔‬ ‫ایک عرصہ بعد واپس لوٹا۔ ایک روز مجھے ملنے آ گیا۔‬


‫‪339‬‬

‫میرے گھر والوں نے اس کی بڑی عزت کی۔ اس کے‬ ‫باوجود اس نے نوٹ کیا کہ جیب کے بےوفائی نے مجھے‬ ‫گلی کے کتے سے بھی بدتر کر دیا ہے۔ میں نے اس سے‬ ‫ان لوگوں کی کوئی شکایت نہ کی تھی۔ ان کے میرے ساتھ‬ ‫رویے اور لباس کی عسرت نے اس پر سب کچھ کھول دیا۔‬ ‫اس نے چلتے ہوئے ہزار کا نوٹ ۔۔۔۔۔ یقین مانیں ہزار کا‬ ‫نوٹ‘ میری مٹھی میں بند کر دیا اور آنکھوں آنکھوں میں‬ ‫کہہ دیا‪ :‬احتیاط سے خود پر خرچ کرتے رہو‘ دیر تک‬ ‫چلے گا۔ میری آنکھیں تشکر سے لبریز ہو گیئں۔ یہ کوئی‬ ‫معمولی بات نہیں۔ اس سے میرا کوئی خون رشتہ نہ تھا۔‬ ‫بیس پچیس سال پہلے کی سالم دعا تھی۔ بےشک یہ بہت‬ ‫بڑے جگرے کی بات تھی۔‬ ‫میری جیب کی ہریالی جانے گھر والوں پر کس طرح کھل‬ ‫گئی کہ وہ ہی گھر والے مجھے ہاتھوں پر اٹھائے پھرتے‬ ‫تھے۔ بڑے لڑکے نے اپنا تقریبا نیا جوڑا مجھے دے دیا۔‬ ‫گھر والی میری چائے پانی کا خیال کرنے لگی۔ میمو‬ ‫ٹھگنی کی طرح شہد سے بڑھ کر میٹھی ہو گئی۔ میں ان‬ ‫کی ان اداؤں کو سمجھ رہا تھا۔ میں نے انہیں اپنا پلو نہ‬ ‫پکڑایا اور گانٹھ کا پکا رہا۔‬


‫‪340‬‬

‫گاؤں میں ہزار کا کھال مل جانا ممکن نہ تھا۔ سوچا کرم‬ ‫الہی ہی سے کہتا ہوں کہ اس کا کھال کروا دو۔ پھر سوچ‬ ‫گزرا کہیں اتنا بڑا نوٹ اس کی نیت ہی خراب نہ کر دے۔‬ ‫میں نے چار کوس کا سفر طے کرنا مناسب جانا۔ بازار آ کر‬ ‫کھال کروایا اور کھلے پر گرفت کرکے اکیلے میں اسے گنا‬ ‫تو اس میں سے بیس کم تھے۔ مجھے بڑا افسوس ہوا کہ‬ ‫شحص کے اندر بددیانتی کس طرح گھر کیے ہوئے ہے۔ اب‬ ‫وہ ہزار کا نوٹ نہیں نو سو اسی تھے۔ پھر مجھے خود‬ ‫اپنے اندر کی بددیانتی کا احساس ہوا کہ یار بال مانگے‬ ‫دینے واال واپس کیوں لے گا‪ ،‬کیسے ہیں ہم لوگ جو‬ ‫اوروں پر تو انگلی رکھتے ہیں لیکن اپنے گریبان میں نہیں‬ ‫جھانکتے۔ شاید مفلسی و ناداری شخص کے سوچ کو گھٹیا‬ ‫بنا دیتی ہے۔‬ ‫میں ان میں سے تھوڑے تھوڑے کرکے استعمال میں التا‬ ‫رہا۔ ایک دن گنتی کی تو معلوم ہوا کہ وہ سات سو اسی‬ ‫روپیے تھے۔ میں دیر تک غور کرتا رہا کہ ہزار کے نوٹ‬ ‫کی یہ اوقات ہے کہ اپنی حالت برقرار نہیں رکھ سکا۔ اس‬ ‫ہزار کے لیے سب میری عزت کر رہے تھے اور اس کے‬ ‫نہ ہونے کے سبب مجھے کتے سے بھی برتر سمجھ رہے‬


‫‪341‬‬

‫تھے۔ میں نے بقیہ رقم رشتے سے بڑھ کر نوٹ کی عزت‬ ‫کرنے والوں میں تقسیم کر دی اور خود مسجد میں ظہر کی‬ ‫نماز ادا کرنے چال گیا۔‬ ‫میں نے سوچا جو ہللا ماں کے پیٹ میں رزق فراہم کرتا‬ ‫مجھے کرتا ہی رہے گا۔ ہللا کو بھول کر نوٹ کے پجاریوں‬ ‫کی گرہ پر کیوں اعتماد کروں۔ اس بات کو دو سال ہو گئے‬ ‫ہیں یقین مانیں کبھی فاقہ سے نہیں سویا۔ کہیں ناکہیں سے‬ ‫میسر آ ہی رہا ہے۔‬


‫‪342‬‬

‫پتنائی مہاورہ‬ ‫منسانہ‬ ‫کچھ بھی جو مہارت میں آ جائے اس کا روایت بن جانا‬ ‫فطری سی بات ہوتی ہے۔ روایت ایک شخص تک محدود‬ ‫نہیں رہتی۔ ایک سے دوسرا دوسرے سے تیسرا اور پھر‬ ‫اس کا سماج گیر ہو جانا اور اگلی نسلوں کو منتقل ہونا‬ ‫فطری عمل ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مختلف امرجہ میں اس‬ ‫کی ہیتی اور معنوی صورت بدل جاتی ہے۔ آتے وقتوں میں‬ ‫بھی وہ رواج میں رہتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ ویسا‬ ‫نہیں رہ پاتا جیسا ابتدا میں تھا۔‬ ‫تکیہ ء کالم بھی اگر رواج میں آ جائے تو اسے محاورے‪-‬‬ ‫مہاورے کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے۔‬ ‫اسی طرح الگ سے کہی ہوئی بات بھی مہاورہ بن جاتی‬ ‫ہے یا بن سکتی ہے‘ جیسے‬ ‫کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک‬


‫‪343‬‬

‫زلف کا سر ہونا‪ :‬مہاورہ نہیں غالب کی اختراع ہے لیکن‬ ‫اسے مہاورے کا درجہ حاصل ہو چکا ہے۔‬ ‫یہ ہی صورت ایجادات و تخلیقات کی ہے۔ مارکونی کا ریڈیو‬ ‫کہاں سے کہاں تک جا پہنچا۔ آج اس کے بانی کا کوئی نام‬ ‫تک نہیں جانتا یا مار کونی کسی کو یاد تک نہیں۔‬ ‫داستانی ادب میں دیکھیے کس طرح سے تبدیلی آئی۔ ناول‬ ‫افسانہ منی افسانہ نظمانہ منظومہ منسانہ شغالنہ وغیرہ‬ ‫اسی کی ترقی یافتہ صورتیں ہیں۔‬ ‫ہائے میں مر جاں‘ ماں صدقے جائے‘ کتی دیا پترا وغیرہ‬ ‫صدیوں سے چلے آتے‘ زنانہ مہاورے ہیں۔ کتی دیا پترا کو‬ ‫گلی میں مختلف اشکال ملی ہیں۔ ہاں البتہ باقی دو محض‬ ‫شخصی اور تقریبا ہر ماں خاتون کے تکیہءکالم تک محدود‬ ‫رہے ہیں۔‬ ‫بھاگ پری بچوں کے حوالہ سے اس قسم کی بولیاں بولتی‬ ‫چلی آتی ہے۔ ایک دن مجھے خیال گزرا گلی میں خاتونی‬ ‫تکیہ کالم کو گھر میں بھی رواج دیا جائے۔ میں تاڑ میں‬ ‫رہا کہ کب لڑکا یا لڑکی کوئی شرارت کرتی ہے تو اسے‬ ‫کتی دیا پترا یا کتی دیئے دھیے کہتا ہوں۔ ایک بار بال‬


‫‪344‬‬

‫ردعمل معاملہ ہو گیا تو اسے تکیہءکالم بنانا چنداں مشکل‬ ‫نہ ہو گا۔‬ ‫میری خواہش تھی کہ لڑکا ہی ٹارگٹ میں آئے کیوں کہ میں‬ ‫نے اپنی بچیوں کو کبھی کچھ نہیں کہا۔ پتا نہیں کیسا نصیبا‬ ‫ہو۔ ماں باپ کے گھر میں ہی سکھ سکون ملتا آیا ہے۔‬ ‫میری خواہش پوری ہوئی منجھال ہی گرفت میں آیا اور‬ ‫خاتونی مہاورے کے گھر میں رواج پانے کی خواہش کا‬ ‫تلخ تجربہ ہوا۔ وہ شرارتیں کرتا ہوا اچھل کود رہا تھا کہ گر‬ ‫گیا۔ بری چوٹ آئی۔ میں پھرتی سے اٹھا۔ خیال گزرا موقع‬ ‫ہے مہاورہ آزمایا اور اس کا ردعمل دیکھا جائے۔ میں نے‬ ‫اٹھتے ہی اسے کتی دیا پترا دیکھتے نہیں ہو چوٹ آ گئی‬ ‫ہے‘ کہا۔ یقین مانیے میں نے چور آنکھ سے بھی بھاگ‬ ‫پری کی طرف نہ دیکھا۔‬ ‫جب کوئی بچہ گر جاتا اس کا بھی ردعمل یہ ہی ہوتا تھا۔‬ ‫میں نے کوئی الگ سے نہ کیا تھا۔ بچہ برابر روئے جا رہا‬ ‫تھا۔ اس کو پوچھنے اور دیکھنے کی بجائے مجھ پر برس‬ ‫پڑی کہ اب میں کتی ہو گئی ہوں۔ میں ہی زیادہ بولتی ہوں۔‬ ‫تمہارا ماں کم بولتی ہے۔ تمہاری بہن کی تو گز پھر زبان‬ ‫ہے۔ انہیں تو تم نے کبھی کتی نہیں کہا۔ دیر تک بالتھکان‬


‫‪345‬‬

‫بولتی رہی اور میں بھ بھیڑ بنا بیٹھا رہا۔ کچھ میں بھی کہتا‬ ‫تو سارا دن بنے تھا۔‬ ‫پھر اس نے برقعہ اوڑھا اور میکے جانے کے لیے اٹھ‬ ‫کھڑی ہوئی۔ میں نے بڑی منت سماجت کی لیکن وہ نہ‬ ‫مانی۔ آخر وہ جا کر رہی۔ آج اس کو گئے بیس دن ہو گئے‬ ‫ہیں۔ دو بار لینے گیا ہوں لیکن وہ نہ آئی۔‬ ‫اب صبح سویرے اٹھتا ہوں بچوں کو اسکول کے لیے تیار‬ ‫کرتا ہوں۔ انہیں رخصت کرکے دوکان پر بیٹھ جاتا ہوں۔‬ ‫بچے اسکول سے سیدھے دوکان پر آ جاتے ہیں۔ انہیں لے‬ ‫کر گھر آ جاتا ہوں۔ ان کے ناشتے پانی کا بندوبست کرتا‬ ‫ہوں۔ گویا بھاگ پری کی ذمہ داری بھی اچھی بری مجھے‬ ‫ہی نبھانا پڑ رہی ہے۔‬ ‫ایک بار اس نے کہا تھا میں چلی گئی تو ہی تمہیں میری‬ ‫قدر پڑے گی۔ اس کے جانے سے میری جیب اور کان‬ ‫سکھی ہیں لیکن لیبر کے اضافے نے تھوڑا نہیں کافی‬ ‫پریشان کر رکھا ہے۔ اس تجربے کی بنا پر میں یہ کہتا ہوں‬ ‫کہ پتنائی مہاورے کو گھر میں رواج دینے کی بجائے ان کا‬ ‫پتنی تک محدود رہنا ہی گھریلو لیبریائی حیات سے بچا‬ ‫سکتا ہے۔‬


‫‪346‬‬

‫سوچا تھا اگر برداشت کر گئی تو اس کے بولنے پر یا دن‬ ‫بھر کی تھکن ان مہاوروں کے استعمال سے کچھ ناکچھ تو‬ ‫کم کرنے میں آسانی ہو جائے گی۔ یہ بھی ایک طرح سے‬ ‫میری تھکن اور غصے کا کتھارس‪-‬انشراع ہوتا۔ مگر ایسی‬ ‫قسمت کہاں کہ میری خواہش کو بھی تکمیل کا مزا مل جاتا۔‬ ‫اب مجھے کیا پتا تھا کہ میں دانستہ اپنے کلہاڑی مار رہا‬ ‫ہوں۔ اس کا عمل کتنا دوہرا تھا کہ اپنے ہی عمومی کہے‬ ‫گئے کے دہرانے کو گل سے لل ‪ ١‬بنانے پر اتر آئی تھی۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫گل بات ‪١-‬‬ ‫لل لیال سے‘ داستان کہانی‪ -‬پھیالؤ‬


‫‪347‬‬

‫کچھ ہی دور‬ ‫لوکانہ‬ ‫کرداری اعتبار سے بالشبہ وہ بےمثال تھی۔ اب تو وہ ادھ‬ ‫کھڑ تھی لیکن جوانی میں بھی کبھی کسی نے اس کے‬ ‫متعلق کوئی غلط بات نہ سنی تھی۔ جوان تھی خوب صورت‬ ‫تھی ہر لباس اس پر جچ جاتا تھا۔ ناز نخرا ادائیں سب کچھ‬ ‫تھا لیکن کسی کو اس کی جانب نظر اٹھانے کی جرآت نہ‬ ‫ہوتی تھی۔ برے کا اس کی قبر تک پیچھا کرتی تھی۔ غصہ‬ ‫کی اس وقت بھی سور‪ ١‬تھی۔ اب تو خیر تجربہ کار تھی۔‬ ‫منٹ سکنٹ میں الل پیلی ہو جاتی۔ میاں اور اس کے رشتہ‬ ‫دار ایک طرف ہم سایہ کی عورتیں بھی اس کے سامنے‬ ‫کسکتی نہ تھی۔ میدان کی بڑی بڑی یودھا اس کے سامنے‬ ‫ڈھیر ہو جاتی تھیں۔‬ ‫کوئی مان نہیں سکتا تھا کہ وہ بھی مر جائے گی۔ اس کا‬ ‫سامنا کرتے موت کا فرشتہ بھی کانپ کانپ جائے گا۔ بڑی‬ ‫حیرت کی بات تھی کہ موت کا فرشتہ اس کی جان لے ہی‬ ‫گیا۔ اچھی بھلی تھی۔ باتیں کر رہی تھی۔ صبح ہی اس نے‬


‫‪348‬‬

‫خاتون میدان خالہ کرامتے کی بس بس کرا دی تھی۔ سارا‬ ‫دن یہ ہی موضوع زیر گفت گو رہا۔ سب حیران تھے کہ اس‬ ‫نے خالہ کرامتے کو بھی میدان میں چت کر دیا۔ زہے‬ ‫افسوس موت کا فرشتہ میدان مر گیا۔ یہ ایک کرشمہ تھا‬ ‫جو ہو گیا۔‬ ‫اس کا سفر آخرت شروع ہوا۔ جنازہ میں توقع سے زیادہ‬ ‫لوگ شامل تھے۔ ہر کسی کے منہ سے اس کے لیے اچھا‬ ‫ہی کلمہ نکل رہا۔ اس کے کردار کی ہر کسی کے منہ میں‬ ‫ستائش تھی۔ جنازے کی روانگی میں حسب روایت بڑی‬ ‫سرعت تھی۔ اچانک ارتھی کھمبے سے تکرائی۔ کندھا‬ ‫دینے والوں نے نیچے تو نہ گرنے دی لیکن ایک اچھا‬ ‫خاصا جھٹکا ضرور لگا کہ میت کا انجر پنجر ہل گیا۔ میت‬ ‫اٹھ کر بیٹھ گئی۔ سب حیرت میں ڈوب گئے کہ موت کی‬ ‫تصدیق تو ڈاکٹر نے بھی کر دی تھی۔ عالم برزخ تک جاتے‬ ‫دھائی کے یدھ ہوئے ہوں گے۔ وہ سب کو پچھاڑ کر واپس‬ ‫لوٹ آئی تھی۔ بڑے بڑے وجیتا رہے ہوں گے لیکن اس سا‬ ‫وجئی شاید ہی کوئی رہا ہو گا۔‬ ‫اب وہ پہلے سی نہ تھی۔ کوئی کچھ کہتا تو زیادہ تر‬ ‫خاموش رہتی۔ پہلے کی طرح مرنے مارنے پر نہ اترتی۔ یہ‬


‫‪349‬‬

‫بہت بڑی تبدیلی تھی۔ اس کی اس تبدیلی پر سب حیران‬ ‫تھے۔ اس سے جب کوئی اس عارضی موت کے متعلق‬ ‫پوچھتا تو وہ منہ کھولنے سے زیادہ کچھ نہ کر پاتی۔‬ ‫خدائی راز ہوں گے جو کہے نہ جا سکتے ہوں گے۔‬ ‫اس حادثے کے بعد وہ چار سال زندہ رہی۔ نماز روزہ کی‬ ‫پابند ہو گئی۔ اچھے منہ بولتی ہاں البتہ کام کاج سے موڑ‬ ‫گئی۔ سارا دن بیٹھی رہتی گویا پکی پکائی کی طالب ہو گئی۔‬ ‫پہلے اس کی زبان سے گھر اور باہر کے چالو تھے۔ اب‬ ‫باہر کسی خاتون کو اس سے کوئی شکایت نہ تھی ہاں گھر‬ ‫کے لوگ اس کے نکمےپن سے اکتا اور تھک سے گئے‬ ‫تھے۔ وہ ان کے لیے الیعنی سی ہو گئی تھی۔‬ ‫پھر ایک دن ہللا کو پیاری ہو گئی۔ محلہ کے لوگ ان کے‬ ‫ہاں بڑھے چلے آئے۔ گھر کے لوگ پہلی مرتبہ کی طرح‬ ‫جعلی رونا دھونا کر رہے تھے۔ آخر آخری آرام گاہ کی‬ ‫طرف سفر شروع ہو گیا۔ ہر کوئی جانتا تھا کہ اب وہ موت‬ ‫کے فرشتے سے جنگ نہیں کرے گی۔ اب اس کی واپسی‬ ‫نہیں ہو سکے گی۔ کھبے سے کچھ ہی دور سے اس کے‬ ‫‪:‬خاوند نے چالنا شروع کر دیا‬


‫‪350‬‬

‫پہا جی کھمبا بچا کے ۔۔۔۔ پہا جی کھمبا بچا کے۔۔۔۔۔ پہا جی‬ ‫کھمبا بچا کے‬ ‫کھمبا خیر خیریت سے گزرا تو اس کی زبان منہ میں پڑی۔‬ ‫یہ بات سب کے لیے حیرت کی تھی کی اب وہ یدھا نہ رہی‬ ‫تھی۔ وہ پہلے کی سی تھی ہی نہیں پھر اس کا خاوند کیوں‬ ‫مسلسل چالئے جا رہا تھا پہا جی کمبا بچا کے۔ شاید اسے‬ ‫اب بھی شک تھا کہ مرنے والی کا اس موقع پر پرانا جوش‬ ‫و جذبہ بیدار نہ ہو جائے۔‬ ‫اسے آسودہءخاک ہوئے آج ایک عرصہ ہو گیا ہے لیکن‬ ‫لوگ اس واقعہ کو اب تک نہیں بھال سکے۔ کبھی کبھار اس‬ ‫واقعہ کا ذکر کہیں ناکہیں ہو ہی جاتا ہے۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫زبردست‘ بہادر ‪١-‬‬


‫‪351‬‬

‫ضروری نہیں‬ ‫بادشاہ لوگ برے نہیں ہوتے۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے‬ ‫شاید ہی کوئی بادشاہ برا رہا ہوگا۔ چمچے‘ کڑچھے‘‬ ‫گماشتے‘ خوشامدی وغیرہ تو الگ رہے‘ مورکھ بھی ان‬ ‫کے گن گاتا چال آ رہا ہے۔ وہ وہ کارنامے ان کے نام کر‬ ‫دیے گیے ہیں‘ جو ان کے فرشتوں تک کو علم نہیں رہا ہو‬ ‫گا۔ ان کی دیا و کرپا ایک طرف‘ زنجیر عدل کے ڈھنڈورے‬ ‫پیٹنے میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ حاالں کہ‬ ‫عدل و انصاف کا ان سے کبھی کوئی تعلق اور واسطہ ہی‬ ‫نہیں رہا تھا۔ چوری خور مورکھ کے لفظوں نے آتے وقت‬ ‫کے لوگوں کو گم راہ کیا ہے۔ ان کی کرتوتوں سے نفرت‬ ‫کی بجائے‘ آتی نسل کی جذباتی وابستگی محبت اور‬ ‫عقیدتوں کو چھوتی نظر آتی ہے۔‬ ‫ان کے تعمیر کیے گیے محلوں‘ عشرت کدوں اور ایسی‬ ‫بہت سی لغویات کو تحسین کی نظروں سے دیکھا گیا ہے۔‬ ‫کبھی کسی نے ان پر انگلی نہیں رکھی کہ یہ سب کن کی‬ ‫کمائی سے بنایا گیا۔ انگلی رکھنے والے کی جذبات میں آ‬


‫‪352‬‬

‫کر انگلی کاٹی جاتی رہی ہے‘ جیسے کسی نبی یا بزرگ کی‬ ‫شان میں گستاخی کر دی گئی ہو۔‬ ‫کیا شاہ نے گلیوں میں گول گپے بیچ کر سب بنایا تھا یا وہ‬ ‫کسی سیٹھ کے ہاں مزدوری کرتا رہا تھا۔ عوام کی مشقت‬ ‫کی کمائی جو ان کی بہبود کے نام پر حاصل کی گئی‘ اپنی‬ ‫عیش کوشی پر صرف کی۔ ان پہلووں پر کبھی کسی نے‬ ‫سوچنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی۔‬ ‫اس روز بوبا اور اس کی بیوی اچھے اور رومانی موڈ میں‬ ‫بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کی بیوی نے بڑے نخرے اور الڈ‬ ‫میں آ کر کہا‪ :‬شاہ جہاں نے اپنی بیوی کے لیے تاج محل‬ ‫بنایا تھا اور آج وہ دنیا جہاں کے لیے محبت کی خوب‬ ‫صورت نشانی ہے۔ دور دور سے لوگ اسے دیکھنے آتے‬ ‫ہیں۔ کیا تم بھی میرے مرنے کے بعد میرے لیے تاج محل‬ ‫بناؤ گے۔‬ ‫بوبے نے یہ کہنے کی بجائے کہ وہ بادشاہ نہیں ایک‬ ‫مزدور ہے۔ دوسرا اس کی کمائی لوٹ کی نہیں۔ یہ بھی کہ‬ ‫تم ملکہ نہیں ہو جو ملکہ ماں کا نام دے کر لوگوں سے‬ ‫چندہ اکٹھا کر لے گا۔‬


‫‪353‬‬

‫بوبے نے بھی پررومان انداز میں کہا‪ :‬میں نے پالٹ خرید‬ ‫لیا ہے بس اب دیر تمہاری طرف سے ہے۔‬ ‫اس کی کہنی اندر کی نہ تھی۔ اس نے ڈیڑھ مرلے کا پالٹ‬ ‫نیچے دکان اور اوپر اپنی محبوبہ چھما کے ساتھ رہائش‬ ‫کے لیے خرید کیا تھا۔‬ ‫ضروری نہیں کہنی اندر کی پر استوار ہو۔ بیوی بھی خوش‬ ‫اور اندر کی کا اظہار بھی ہو گیا۔‬ ‫ہونی کا اندر کی پر استوار ہونا ضروری نہیں۔ ہونی اپنی‬ ‫مرضی کی مالک ہوتی ہے۔ بوبا بازار سے آ رہا تھا کہ‬ ‫کھتوتی ریڑھی سے ٹکرا کر سر کے بل گرا اور گرتے ہی‬ ‫تھاں پر ٹکی ہو گیا۔ اس کی موت پر شنو نے رونے‬ ‫دھونے کا خوب ڈراما رچایا کہ زمانہ اس کی محبت پرعش‬ ‫عش کر اٹھا۔ یہ الگ بات ہے کہ ادھر عدت پوری ہوئی‬ ‫ادھر اس نے اپنے بچپن کے سنگی سے نکاح کر لیا۔‬ ‫ان دنوں اس ڈیڑھ مرلہ پر بوبے کے سالے کا دھکے‬ ‫شاہی قبضہ ہے۔ شنو کا سنگی ہاتھ ملتا پھرتا ہے کہ جس‬ ‫زمین کے لیے اس نے شنو فٹ فٹی سے شادی کی تھی وہ‬


‫‪354‬‬

‫ہاتھ نہ آئی اور پلے میں یہ سیکنڈ ہینڈ شنو فٹ فٹی ہی رہ‬ ‫گئی ہے۔‬ ‫اس حمام میں‬ ‫منسانہ‬ ‫محلہ کے اکلوتے عطائی ڈاکٹر کے پاس‘ میرے اکیلے کا‬ ‫ہی نہیں‘ سب کا آنا جانا رہتا ہے۔ کافی تجربہ کار ہو گیا‬ ‫ہے۔ دوسری سب سے بڑی بات یہ کہ کچھ ناکچھ مدد مل‬ ‫جاتی ہے اور چمڑی برقرار رہتی ہے۔ تسلی کی بات یہ کہ‬ ‫بڑے ڈاکٹروں کی طرح مکمل چیک اپ کرتا ہے لیکن چیک‬ ‫اپ کروائی نہیں لیتا اور ناہی ٹستوں کے چکروں میں ڈالتا‬ ‫ہے۔ بڑے ڈاکٹر چیک اپ کم ٹسٹ زیادہ لکھتے ہیں۔ اس‬ ‫روز سے سمجھو اجاڑہ شروع ہو جاتا ہے۔ ان کے اپنے‬ ‫ٹسٹ کدے موجود ہوتے ہیں۔ اگر باہر سے کروائیں تو‬ ‫وہاں ان کا بھی فی صد مقرر ہوتا ہے۔ ایک کا رزلٹ‬ ‫دوسرے سے قطعی الگ تر ہوتا ہے۔‬ ‫کبھی ایک اور کبھی کبھی ایک ساتھ تین چار بیماریاں‬ ‫گھیر لیتی ہیں۔ مجال ہے جو اس کے ماتھے پر کبھی کوئی‬


‫‪355‬‬

‫تریلی آئی ہو۔ بڑی تسلی سے دوائی دینے کے ساتھ ساتھ‬ ‫ہم دردی کا اظہار بھی کرتا ہے۔ آدھی بیماری تو اس کے‬ ‫حسن سلوک ہی سے کٹ جاتی ہے۔‬ ‫اس کی دواگاہ پر جاتے ہوئے کئی سال بیت گیے ہیں۔ ایک‬ ‫ساتھ دو دو چار چار بیماریاں الحق ہوئی ہیں۔ ہللا نے شفا‬ ‫بھی دی۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نیت کا کھوتا‪١‬‬ ‫نہیں۔ اسے ضرورت بھر ہللا رزق دیے جا رہا ہے اسی لیے‬ ‫مریض کی شفا کی خواہش کرتا ہے۔ مریض کی دیر تک‬ ‫آنیاں جانیاں اسے خوش نہیں آتیں۔ اگر کوئی تین چار بار‬ ‫ایک ہی بیماری کے لیے آتا ہے تو پریشان ہو جاتا ہے‘‬ ‫ہاں کسی دوسری بیماری کے لیے آتا ہے تو سو بسم ہللا‬ ‫ہزار بار آئے کوئی بات نہیں۔ یہ تو خوش گوار چیز ہوتی‬ ‫ہے۔ اسی بہانے مالقات ہو جاتی ہے‘ دوا دارو کا کام بھی‬ ‫چلتا رہتا ہے۔‬ ‫کھرک کو میں نے ہمیشہ خوش گوار اور پرلطف بیماری‬ ‫سمجھا ہے لیکن یہ اس بار ایسی جگہ الحق ہوئی جہاں‬ ‫سماجی سطع پر متواتر کھرکے جانا معیوب سمجھا جاتا‬ ‫ہے۔ گھر میں بہو بیٹیاں ہیں۔ بڑی ہی حیا آتی تھی۔ مجبورا‬ ‫مجھے دوا کے لیے جانا پڑا۔ میں نے ڈاکٹر سے براہ‬


‫‪356‬‬

‫راست حقیقت کہہ دی۔ دریں اثنا ایک اور صاحب آ گئے اور‬ ‫انہوں نے کھرک کو الرجی کا نام دیتے ہوئے دوا طلب کی۔‬ ‫اب میں کچھ ٹھیک سے نہیں کہہ سکتا کہ انہیں کہاں‬ ‫کھرک پڑی ہوئی تھی۔ میرے منہ سے بےساختہ نکل گیا‪:‬‬ ‫یا ہللا تیرا الکھ الکھ شکر ہے۔‬ ‫میں نے بقیہ جملہ کہ میں اس حمام میں اکیال ہی نہیں ہوں‘‬ ‫کو پس زبان ہی رکھا۔‬ ‫انہوں نے کھا جانے کے انداز کی گھرکی سے میری جانب‬ ‫دیکھا۔ ڈاکٹر نے بھی بڑی سنجیدگی سے میری طرف‬ ‫دیکھا۔ میں نے خطرہ محسوس کر لیا کہ کچھ بھی ہو سکتا‬ ‫ہے‘ تاہم میرے لیے یہ کوئی غیرمتوقع ردعمل نہ تھا۔ میں‬ ‫جانتا تھا کہ کیا ردعمل ہو سکتا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ‬ ‫مجھے ایک دو جڑ دیتے‘ میں نے ان کی جانب دیکھتے‬ ‫ہوئے کہا‪ :‬محتاجی بری بال ہے۔ ہللا اپنے پاؤں پر ہی‬ ‫رکھے۔ آج کل تو سگی اوالد تک نہیں پوچھتی۔ غیر کو کیا‬ ‫پڑی جو دکھ میں ساتھ دیتا پھرے۔ ہللا کا شکر ہے جو‬ ‫اپنے پاؤں پر چل رہے ہیں۔‬ ‫میں نے احتیاطا ان کی ہاں بھی ملوائی تا کہ تلخی کے ختم‬ ‫ہونے کا یقین ہو جائے۔ انہوں نے میری ہاں میں ہاں‬


‫‪357‬‬

‫مالئی‘ اس کے باوجود کسی ناگواری کی صورت سے‬ ‫بچنے کے لیے‘ ڈاکٹر نے انہیں پہلے فارغ کر دیا حاالں کہ‬ ‫پہلے میں آیا تھا۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫یہ کتابت کی غلطی ہے ٹ کی بجائے ت درج ہو گیا ہے۔‬


‫‪358‬‬

‫صرف اور صرف‬ ‫لوکانہ‬ ‫ایک خوشامدی نے بادشاہ سے کہا‪ :‬حضور آپ کی کیا بات‬ ‫ہے۔ آپ سا نہ کوئی ہوا ہے اور نہ کبھی کوئی ہوگا۔ آپ کی‬ ‫بڑی لمبی عمر ہے اور آپ تا دیر سالمت رہیں گے۔ جب‬ ‫کوئی نہیں ہو گا تب بھی آپ کی بادشاہت قائم ہو گی۔ دریا‬ ‫کی منہ زور لہریں بھی آپ کے حکم کی تابع ہیں اور تابع‬ ‫رہیں گی۔ وہ بھی آپ کے حکم کے بغیر حرکت میں نہیں‬ ‫آتیں۔‬ ‫خوش آمدی کے کہے نے بادشاہ کی روح کو سکون دیا‬ ‫اور دل تر وتازہ کر دیا۔ اس نے بہت سی اشرفیاں اس کی‬ ‫آغوش میں ڈال دیں۔‬ ‫بادشاہ نے پاس کھڑے گماشتے سے کہا۔ رملی کو بلواؤ۔‬ ‫اس نے فورا سے پہلے ایلچی کو حکم دیا کہ رملی کو‬ ‫شاہی دربار میں حاضر کیا جائے۔‬


‫‪359‬‬

‫وہ تیر کی طرح اڑتا ہوا رملی کو بالنے چال گیا۔ دریں اثنا‬ ‫بادشاہ نے جی حضوریے سے کہا کہ ہمارا تخت فوری‬ ‫طور پر دریا کے کنارے لگوایا جائے۔ جی حضوریہ بادشاہ‬ ‫کے حکم کی تعمیل میں جٹ گیا۔‬ ‫رملی آ گیا۔ بادشاہ نے کہا کہ ہمارے اس کارندے نے کہا‬ ‫ہے کہ ہم تادیر جیئں گے۔ جب کچھ بھی نہیں ہو گا اس‬ ‫وقت بھی ہماری بادشاہت قائم ہو گی۔ بتاؤ اس کا کہنا کہاں‬ ‫تک درست ہے۔‬ ‫رملی تھوڑی دیر تک حساب کتاب لگاتا رہا۔ وہ جانتا تھا‬ ‫کہ بادشاہ سچ اور حق کی سننے کے عادی نہیں ہوتے۔‬ ‫حق سچ کی کہنے والے ہمیشہ جان سے گیے ہیں۔ اگر اس‬ ‫نے بھی آج حق سچ کی کہی تو جان سے جائے گا۔‬ ‫خوشامدی انعام و اکرام لے کر گیا ہے اور وہ اپنے قدموں‬ ‫واپس گھر نہ جا سکے گا۔ پھر اس نے جعلی خوش خبری‬ ‫لبریز خوشی کے ساتھ اس خبر کی تصدیق کر دی۔ یہ ہی‬ ‫نہیں اس نے پان سات جملے اپنے پاس سے بھی جڑ‬ ‫دیئے۔‬


‫‪360‬‬

‫رملی کی باتوں نے بادشاہ کو خوش کر دیا ہاں البتہ خوش‬ ‫آمدی پر ناراض ہوا کہ اس نے ساری باتیں کیوں نہیں‬ ‫بتائیں۔‬ ‫اسی دوران حکم شاہی کی تعمیل میں بادشاہ کا تخت دریا‬ ‫کنارے آراستہ کر دیا گیا۔ بادشاہ چیلوں‘ چمٹوں‘ گماشتوں‘‬ ‫خوش آمدیوں وغیرہ کے ساتھ دریا کنارے لگے تخت پر آ‬ ‫بیٹھا۔ سرد اور رومان خیز ہوا نے اسے بہت لطف دیا۔‬ ‫بادشاہ نے ماحول اور فضا کی تعریف کی اور آئندہ سے‬ ‫دریا کنارے تخت آراستہ کرنے کا حکم دیا۔ کسی کو اصل‬ ‫حقیقت کہنے کی جرآت نہ ہوئی۔‬ ‫بادشاہ خوش آمدیوں کی خوش آمد سننے میں مگن تھا کہ‬ ‫دریا کی ایک منہ زور لہر آئی سب کچھ بہا کر لے گئی۔‬ ‫بادشاہ کی ٹانگیں اوپر اور سر نیچے ہو گیا۔ بادشاہ کا تخت‬ ‫بہتا ہوا جانے کہاں چال گیا اور وہ خود بہتا ہوا اپنی سلطنت‬ ‫کی حدوں بہت دور نکل گیا۔ دیکھا وہاں ویرانیوں کے سوا‬ ‫کچھ بھی نہ تھا۔ کسے حکم جاری کرتا کہ اسے اس کے‬ ‫قدموں پر کرے۔ ہاں ہللا کے حکم کی تعمیل میں موت کا‬ ‫فرشتہ اس کے سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا اور چند لمحوں‬ ‫کی مہلت دینے کے لیے بھی تیار نہ تھا۔‬


‫‪361‬‬

‫رملی سیانا تھا تب ہی تو خبر کی تصدیق اور اپنے جھوٹ‬ ‫کا انعام لے کر چپکے سے دربار سے کھسک گیا تھا۔‬ ‫دریا کی ایک لہر نے ثابت کر دیا کچھ باقی رہنے کے لیے‬ ‫نہیں ہے۔ بقا صرف اور صرف ہللا ہی کی ذات کے لیے ہے۔‬


‫‪362‬‬

‫نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن‬ ‫منسانہ‬ ‫کسی کے معاملے میں یوں ہی ٹانگ اڑانا بال طلب مشورہ‬ ‫دینا یا ذاتی معامالت میں دخل اندازی مجھے اچھی نہیں‬ ‫لگتی۔ ہاں کسی برائی سے روکنا مجھے کبھی برا نہیں لگا۔‬ ‫کوئی غصہ کرتا ہے تو کرتا رہے‘ میں نےکبھی اس کی‬ ‫پرواہ نہیں کی۔ اچھائی کے زمرے میں‘ میں کسی‬ ‫کمپرومائز کا قائل نہیں۔ برائی کو ہر حال میں برائی ہی کہا‬ ‫جانا چاہیے۔ برائی کی تائید یا خاموشی بہت بڑے سماجی‬ ‫نقصان کا موجب ہو سکتی ہے۔‬ ‫میں کسی کے کیا اپنی اوالد کے ذاتی گھریلو معامالت میں‬ ‫دخل اندازی کا قائل نہیں۔ ہاں البتہ مشورہ طلب کرنے کی‬ ‫صورت میں بڑی دیانت داری سے دو ٹوک اور بال لگی‬ ‫لپٹی اپنی رائے کا اظہار کر دیتا ہوں۔ یہ پہال موقع تھا کہ‬ ‫میں نے ڈرتے ڈرتے اور جھجکتے ہوئے اس سے پوچھ‬ ‫ہی لیا کہ وہ گھر میں صرف دو لوگ رہتے ہیں تو پھر اتنا‬ ‫گوشت کیوں لے کر جاتے ہو۔ مہمان بھی کوئی خاص آتے‬


‫‪363‬‬

‫جاتے نہیں دیکھے۔ میری سن کر وہ کھل کھال کر ہنس پڑا‬ ‫اور کہنے لگا۔ میری بیگم صرف گوشت کھانا پسند کرتی‬ ‫ہے۔ گوشت کی مختلف نوعیت کی ڈیشیں بنانے میں مہارت‬ ‫رکھتی ہے۔ وہ سبزی سے چڑتی ہے لیکن میں گوشت‬ ‫پسند نہیں کرتا۔ لیگ پیس تو اس کی من بھاتی کھا جا ہے۔‬ ‫رات کو آخر سونا بھی ہوتا ہے۔‬ ‫ابے لیگ پیس اور رات کو سونا بھی ہوتا ہے کوئی میل‬ ‫کھاتی بات نہیں۔ بالکل بےسری سی کہہ گئے ہو‬ ‫جناب بےسری نہیں حقیقت اور میل کھاتی ہوئی بات کی‬ ‫ہے۔‬ ‫وہ کیسے‘ میں سجھا نہیں‬ ‫جناب مرغ کی ٹانگیں نہیں ال کر دوں گا تو ہو سکتا ہے کہ‬ ‫رات کو اس کا موڈ بن جائے اور اٹھ کر میری ایک یا زیادہ‬ ‫ضرورت کی صورت میں دونوں ہڑپ جائے اور مجھے‬ ‫صبح اٹھ کر پتا چلے۔ ایک ٹانگوں سے جاؤں اوپر سے یہ‬ ‫معنا سنوں‘ تم جیب کے بڑے پکے ہو‘ یہ الگ بات ہے کہ‬ ‫میری کوئی جیب ہی نہیں جیب تو اسی کی ہے۔‬


‫‪364‬‬

‫میں اس کی بات پر ہنسا بھی اور مجھے اس کی کمال کی‬ ‫مبالغہ آرائی نے لطف بھی دیا‪،‬‬ ‫اس نے بتایا کہ اس کی زوجہ سرکار نے فقط چار شوق‬ ‫پالے ہیں۔ کھانا‘ لڑنا‘ سونا اور چوتھا ڈیش ڈیش ڈیش۔ ان‬ ‫چاروں میں سے کسی ایک پر کمپرومائز نہیں ہو سکتا۔‬ ‫لڑائی میں چاردیواری میں مقفل آواز کی قائل نہیں۔‬ ‫اس کی آواز صور اسرافیل سے مماثل ہوتی ہے۔ گھر کے‬ ‫در و دیوار پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے۔ لفظوں کے پھوٹتے‬ ‫انگارے میرے وجود اور روح کو چھلنی کر رہے ہوتے‬ ‫ہیں جب کہ محلہ لفظوں کی ادائیگی اسلوب اور نشت و‬ ‫برخواست سے لظف اندوز ہو رہا ہوتا ہے۔ وہ ان لمحات‬ ‫میں غلط اور صحیح کو ایک آنکھ سے دیکھ رہی ہوتی‬ ‫ہے۔ اس کے منہ سے نکلتے زہر آلود لفظ‘ لفظ کم حاویہ‬ ‫کے دہکتے انگارے زیادہ ہوتے ہیں جو انا اور ہونے کی‬ ‫حسوں کو تنور کی راکھ میں بدل رہے ہوتے ہیں۔ ان خوف‬ ‫ناک لمحوں میں کانوں میں شائیں شائیں ہوتی ہے اور‬ ‫آنکھوں میں اندھیرا چھا رہا ہوتا ہے۔ اپنی خیر مناتے‬ ‫کوئی بچ بچا کے لیے راہ میں نہیں آتا۔‬


‫‪365‬‬

‫دسمبر کی قلفی بنا دینے والی سردی میں پنکھا فل اسپیڈ‬ ‫پر چال کر استراحت فرماتی ہے۔ سوچتا ہوں جہنم میں گئی‬ ‫تو جہنم کی آگ کا اس پر کیا اثر انداز ہو سکے گی ہاں‬ ‫البتہ اس میں تیزی ضرور آ جائے گی۔ بےچارے جہنمیوں‬ ‫پر مزید قیامت توڑے گی۔‬ ‫ایک مرتبہ غلطی سے میں سگریٹ ایش ٹرے کی بجائے‬ ‫نیچے پھینک بیٹھا۔ یہ ننگے پاؤں تھی اس کا پاؤں‬ ‫سگریٹ پر آ گیا۔ یوں پٹ پٹ پئی جیسے تنور میں گر گئی‬ ‫ہو۔ میرے ساتھ جو ہوا اس کو چھوڑیے مجھ پر یہ‬ ‫انکشاف ضرور ہوا کہ آگ‘ آگ کو بھی جالتی ہے اور کم‬ ‫زور آگ ازیت کا شکار ہوتی ہے۔‬ ‫پھر خیال گزرا اگر خدا نخواستہ جنت میں داخل ہو گئی تو‬ ‫وہاں کا ماحول حبسی ہو جائے گا۔ اس بات کو چھوڑیے‬ ‫میرا کیا بنے گا۔ ہر وقت میری بہتر حوروں کو اسٹینڈ ٹو‬ ‫رکھے گی۔ میری ہر چھوٹی موٹی غلطی پر یلغار کا کاشن‬ ‫جاری کرتی رہے گی۔‬ ‫میں اٹھنا چاہتا تھا کہ یہ حضرت چل سو چل ہو گئے تھے۔‬ ‫ان کی رام کہانی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ میری‬ ‫کیفیت نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کی سی تھی۔ اٹھتا ہوں‬


‫‪366‬‬

‫تو بد اخالقی بیٹھا رہتا ہوں تو دماغ میں سوراخ ہو رہے‬ ‫تھے۔ پہلے تو میں مداخلت کو غیراخالقی کام سمجھتا تھا‬ ‫لیکن اب معلوم ہوا کہ مداخلت وقت اور دماغ کے زیاں‬ ‫سے زیادہ چیز نہیں۔ میں نے دل ہی دل میں توبہ کی کہ‬ ‫اس کے بعد ایسی غلطی نہیں کروں گا۔ دو حرفی بات کو‬ ‫انہوں نے شیطان کی آنت بنا دیا۔‬


‫‪367‬‬

‫امتیاز‬ ‫لوکانہ‬ ‫تھانے دار جو گھوڑے پر سوار تھا‘ گاؤں میں کسی‬ ‫ضروری تفتیش کے لیے آیا۔ صاف ظاہر ہے اس نے سیدھا‬ ‫لمبڑ کے گھر جانا تھا۔ لمبڑ کے گھر کا اسے اتا پتا نہ تھا۔‬ ‫اس نے گاؤں میں داخل ہوتے ہی سامنے آتی ایک خاتون‬ ‫سے لمبڑ کے گھر کا پوچھا۔ اس بی بی نے بتایا کہ جو‬ ‫مکان سب سے اونچا پکا اور خوب صورت ہے وہ ہی لمبڑ‬ ‫کا ہے۔ تھانے دار نے ادھر ادھر نظر دوڑائی اسے سب‬ ‫سے اونچا پکا اور خوب صورت مکان نظر آ گیا۔‬ ‫بی بی گھر آ گئی۔ بہو نے کچھ پوچھا تو اس بی بی نے‬ ‫ناک چڑھا کر منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ اس نے یہ ہی‬ ‫طور بیٹے اور بیٹی سے اختیار کیا۔ شام کو جب تھکا ہارا‬ ‫خاوند گھر آیا تو اس نے اس کے ساتھ بھی یہ ہی انداز‬ ‫اختیار کیا۔ اسے بڑی حیرت ہوئی۔ اس نے بہو سے ماجرہ‬ ‫پوچھا۔ بہو نے جوابا کہا‪ :‬پتا نہیں کہ بےبے کو کیا ہو گیا‬ ‫ہے صبح ہی سے ایسا کر رہی ہے۔‬


‫‪368‬‬

‫اس نے پہلے پیار سے پوچھا تو وہ اور مچھر گئی۔ اس‬ ‫نے اس کے بعد دو چار چوندی چوندی گالیاں ٹکائیں‬ ‫اورمعاملہ پوچھا۔ گالیاں سن کر وہ ٹھٹھکی اور بولی‪:‬‬ ‫تھانےدار سے تو نہیں مل کر آئے ہو۔‬ ‫اس کا جواب سن کر المحالہ اسے حیرت ہونا ہی تھی۔ اس‬ ‫نے پوچھی گئی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا‪ :‬تم‬ ‫مجھے چھوڑو اپنے اس انداز کی وجہ بتاؤ۔‬ ‫بی بی نے جواب دیا‪ :‬اس منہ سے میں نے تھانےدار سے‬ ‫بات کی تھی اور اب اسی منہ سے کتوں بلوں کے ساتھ‬ ‫بھی بات کروں۔‬ ‫وہ شخص افسردہ ہو گیا اور چارپائی پر چپ چاپ لیٹ گیا۔‬ ‫تھوڑی دیر بعد اٹھا اور اس نے فخریہ قسم کا قہقہ داغا۔‬ ‫سب اس کے اس طور پر حیران رہ گئے۔ اب کہ تھانےدار‬ ‫کی سابقہ ہم کالم نے تکبر کی گرہ توڑتے ہوئے کہا‪ :‬بھلیا‬ ‫کیا ہوا‘ پہلے افسردہ ہو گئے تھے اور اب قہقہے لگا رہے‬ ‫ہو۔‬ ‫پاگل اگر میں تھانےدار سے ہم کالم ہوا ہوتا تو تمہیں‬ ‫دھکے مار کر گھر سے نہ نکال دیتا۔ ہاں اتنا ٍفخر ضرور‬


‫‪369‬‬

‫ہے کہ میں ایسی عورت کا خاوند ہوں جسے تھانےدار‬ ‫سے ہم کالم ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ تمہارے مائی باپ‬ ‫بالشبہ بڑے عظیم ہیں جو انہؤں نے تم ایسی عزت مآب‬ ‫بیٹی کو جنم دیا۔ اٹھو اور تیاری کرو کہ ان عظیم ہستیوں‬ ‫کے چرن چھونے چلیں۔ پھر وہ بہو بیٹی اور بیٹے کو نظر‬ ‫انداز کرتے ہوئے گھر سے باہر نکل گئے۔‬ ‫اس واقعے کے بعد بہو کا نظرانداز ہو جانا فطری سی بات‬ ‫تھی۔ کہاں وہ تھوڑ پونجوں کی اوالد کہاں یہ تھانےدار‬ ‫سے ہم کالم ہونے والی ماں کی اوالد‘ دونوں خان دانوں‬ ‫میں حاالت نے زمین آسمان کا فرق ڈال دیا تھا۔ بےشک یہ‬ ‫اونچ نیچ کا امتیاز نسلوں کو ورثہ میں منتقل ہو جانا تھا۔‬ ‫کھوتے کہوڑے کا امتیاز اگر مٹ جائے تو عام اور خاص‬ ‫کی اصطالحیں بےمعنی اور الیعنی سی ہو کر رہ جائیں۔‬


‫‪370‬‬

‫چوتھے کی چوتھی‬ ‫ہمارے گھر سے خالہ کا گھر کوئی بیس پچیس منٹ پیدل‬ ‫فاصلے کا رستہ تھا۔ دونوں گھروں کے مراسم بھی خوش‬ ‫گوار تھے۔ ہم ایک دوسرے کے ہاں بال کسی ٹوک آتے‬ ‫جاتے رہتے تھے۔‬ ‫دونوں گھروں کا ماحول عادات رویے طور و اطوار معاشی‬ ‫حاالت ایک جیسے تھے۔ مثال میری خالہ‘ خالو کی عزت‬ ‫نہیں کرتی تھی ہماری اماں بھی ابا کی دن میں دو چار بار‬ ‫بےعزتی ضرور کرتی تھی۔ ان کی معاشی حالت درمیانی‬ ‫تھی ہمارا گھرانہ بھی کھاتا پیتا نہ تھا۔ وہ تین بہنیں اور‬ ‫تین بھائی تھے جب کہ تعدادی اعتبار سے ہم بھی اتنے ہی‬ ‫تھے۔ جیا کا گھر میں چوتھا نمبر تھا میرا بھی چوتھا نمبر‬ ‫تھا۔ جیا کے ابا پرلے درجے کے جھوٹے تھے جب کہ سچ‬ ‫میرے ابا کے بھی قریب سے نہ گزرا تھا۔‬ ‫خالہ دیوار کے اس پار کی ہمسائی سے دو دو گھنٹے‬ ‫کھڑی ہو کر باتیں کرتی تھی۔ میری ماں بھی یہ ہی طور‬ ‫رکھتی تھی۔ گھر میں آئی ہمسائی کے ساتھ گھنٹوں باتیں‬


‫‪371‬‬

‫کر لینے کے بعد بھی اماں دروازے پر آ کر اس سے دیر‬ ‫تک مکالمہ کرتی خالہ بھی اس عادت سے دور نہ تھی۔‬ ‫کہیں جا رہے ہوتے رستہ میں اگر کوئی مل جاتی اماں‬ ‫اسے گلے ملتی جیسے صدیوں بعد مالقات ہوئی ہو اور‬ ‫پھر وہاں کھڑے ہو کر دیر تک ان کی بیت بازی ہوتی اور‬ ‫ہم سب ان کی باتوں کے اختتام کا انتظار کرتے۔ خالہ بھی‬ ‫اس ملنساری کے طور سے بہرہ ور تھی۔‬ ‫بجلی کے جانے آنے کے اوقات ایک سے تھے۔ بجلی‬ ‫خراب ہو جاتی تو بالوصولی نہ ادھر نہ ادھر بجلی والے‬ ‫آتے تھے۔‬ ‫سردیوں میں دونوں طرف گیس کا کرفیو لگ جاتا۔ عمومی‬ ‫اطوار ایک طرف میرے اور جیا کے شخصی اطوار بھی‬ ‫ایک سے تھے مثال بھوک وہ برداشت نہ کرتی تھی بھوک‬ ‫کے معاملہ میں میں بھی بڑا کم زور واقع ہوا تھا۔ لگ پیس‬ ‫اسے خوش آتے تھے لگ پیس میری بھی کم زوری تھی۔‬ ‫کسی کی جیب سے کھانا ہمیں اچھا لگتا تھا۔ جیا سیر‬ ‫سپاٹے کی بڑی شوقین تھی پھرنا ٹرنا مجھے بھی اچھا‬ ‫لگتا تھا۔ جیا بڑی کام چور تھی اس معاملے میں میں اس‬ ‫سے پیچھے نہ تھا۔‬


‫‪372‬‬

‫عادات اطوار ایک سے ہونے کی وجہ سے میرا خیال تھا‬ ‫کہ ہماری جوڑی خوب جمے گی۔ خالہ منتیں ترلے کروانے‬ ‫کی عادی تھی اسی لیے اڑی ہوئی تھی۔ میری ماں بھی اس‬ ‫کی بری بہن تھی۔ ہر دوسرے ان کے ہاں چلی جاتی۔ خوب‬ ‫بول بالرا کرکے آتی اور ہر بار دوبارہ سے نہ آنے کا کہہ‬ ‫کر چلی آتی۔ آخر خالہ کو ہتھیار ڈالنا پڑے اور ہماری شادی‬ ‫ہو ہی گئی۔‬ ‫اتنا قریب ہو کر بھی میں جیا کے باطن کو نہ پڑھ سکا‘‬ ‫شادی کے بعد جیا‘ جیا وہ نہ رہی۔ حد درجہ کی ہٹ دھرم‬ ‫تھی۔ میری ماں کا بول بالرے میں چار سو ڈنکا بجتا تھا‬ ‫لیکن جیا کے سامنے بھیڑ ہو گئی۔ کسکتی بھی نہ تھی۔‬ ‫ہمہ وقت کی قربت کے بعد معلوم پڑا کہ ہمارا ظاہر ایک سا‬ ‫کنورپن میں ضرور تھا لیکن شادی کے بعد باطن تو باطن‘‬ ‫ظاہر میں بھی زمین آسمان کا فرق تھا۔‬ ‫وہ کھانے‘ سونے اور لڑنے میں اپنی مثال آپ تھی۔ ہر‬ ‫اچھی چیز ماں کے گھر بھجوا دیتی اور پھر ہے نا کی‬ ‫گردان پڑھنا شروع کر دیتی۔ ہم میں سے کسی میں اتنی‬ ‫ہمت نہ تھی کہ پہلی کا تذکرہ بھی کر پاتا۔ وہ ہی چیز‬ ‫دوبارہ سے النا پڑتی۔‬


‫‪373‬‬

‫جنسی معامالت میں بھی کچھ کم نہ تھی۔ اسے تو لوہے کا‬ ‫مرد چاہیے تھا۔ ہمارا ظاہر باطن تو ایک ثابت نہ ہوا ہاں‬ ‫البتہ بچوں کے حوالہ سے ہم اپنی ماؤں پر ضرور گئے۔‬ ‫ہمارے بھی گنتی میں چھے بچے ہوئے۔ مماثلت میں ایک‬ ‫ان ہونی ضرور ہوئی۔ ہمارا چوتھا اپنی خالہ کی بیٹی کا‬ ‫دیوانہ ہو گیا۔ میرے سمجھانے پر بھی نہ سمجھا۔ وہ‬ ‫مجھے کھپتا خیال کرتا تھا۔ اس کی ماں نے میری ماں کا‬ ‫سا کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔ آخر ان کی شادی ہو گئی۔‬ ‫ہاں البتہ جیا اور چوتھے کی چوتھی میں یہ فرق باقی رہا‬ ‫کہ وہ دس دن بعد ہی ہم سے الگ ہو گئے۔ جیا اپنی خالہ‬ ‫کی بےعزتی کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا خیال بھی رکھتی‬ ‫تھی۔ زندگی بھر ساس سسر کے ہاں ہی رہی۔ یہ تو آدھا‬ ‫مہینہ بھی ہمارے ساتھ نہ رہے۔‬


‫‪374‬‬

‫وہ لفظ کہاں ہے‘ کدھر ہے‬ ‫سرخ ہو کہ سپید‬ ‫سیاہ ہو کہ کاسنی‬ ‫جدید ہو کہ قدیم‬ ‫دوست ہو کہ دشمن‬ ‫کیسا بھی رہا ہو‬ ‫مجھے اس سے کوئی غرض نہیں‬ ‫ہاں مگر‬ ‫سخت ہو مونگے کی طرح‬ ‫نرم ہو ریشم کی طرح‬ ‫بلند ہو ہمالہ ایسا‬ ‫روشن ہو آفتاب ایسا‬ ‫حسین ہو مہتاب ایسا‬ ‫عاشق ہو بالل ایسا‬


‫‪375‬‬

‫عمیق ہو بحر الکاہل ایسا‬ ‫پرواز میں جبریل ایسا‬ ‫سماّعت میں صور اسرافیل ایسا‬ ‫بےکراں‘ چرخ نیل فام ایسا‬ ‫ذات کا کھوجی لہر ایسا‬ ‫گوہر شناس ہو ہنس ایسا‬ ‫بےقرار‘ سیماب ایسا‬ ‫شجاع‘ حیدر کرار ایسا‬ ‫یہ ہی نہیں‬ ‫اپنی ذات میں‘ باکمال ہو الزوال ہو‬ ‫وہ لفظ کہاں ہے‘ کدھر ہے‬ ‫صدیوں سے میں اس کی تالش میں ہوں‬ ‫کہ‬ ‫نوع بشر کو‬ ‫اس کی عظمتوں کا راز کہہ دوں‬


‫‪376‬‬

‫عظمت آدم کا آج پھر چرچا ہو‬ ‫مخلوق فلکی پھر سے‬ ‫تجدید عظمت آدم کرے‬ ‫خدا لم یزل کہہ دے‬ ‫کہتا نہ تھا‬ ‫جو جانتا ہوں میں کب جانتے ہو تم‬ ‫کوئی تو کھوجے‘ کوئی تو تالشے‬ ‫کہ‬ ‫وہ لفظ کہاں ہے‘ کدھر ہے‬ ‫‪...........‬‬ ‫قاضی جرار حسنی‬ ‫فروری ‪١٩٧٧‬‬


‫‪377‬‬

‫اچھا نہیں ہوتا‬ ‫منظومہ‬

‫ہاں میں موت‬ ‫ناں میں بہن کا گھر اجڑتا تھا‬ ‫برسوں کا بنا کھیل بگڑتا تھا‬ ‫چپ میں کب سکھ تھا‬ ‫چار سو بچھا دکھ تھا‬ ‫زندگی کیا تھی اک وبال تھا‬ ‫بھاگ نکلنے کو نہ کوئی رستہ بچا تھا‬ ‫پہیہ زندگی کا پٹڑی سے اتر رہا تھا‬ ‫زیست کا پاؤں بےبصر دلدل میں گر رہا تھا‬ ‫بےچارگی کا نیا دانت نکل رہا تھا‬ ‫بہنوئی کی آنکھوں میں سکوں کی ہریالی تھی‬


‫‪378‬‬

‫آتی ہر گھڑی اس کے لیے کرماوالی تھی‬ ‫بہن کی آنکھ سے چپ کے آنسو گرتے‬ ‫ماں کی آنکھوں کے حسیں سپنے‬ ‫بےکسی کے قدموں میں بکھرتے‬ ‫کیا کرتا کدھر کو جاتا‬ ‫خود کو بچاتا‬ ‫کہ ماں کے آنسوؤں کے صدقے واری جاتا‬ ‫زہر کا پیالہ مرے رو بہ رو تھا‬ ‫تذبذب کی صلیب پہ لٹکا کے‬ ‫شنی اپنے کارے میں سفل ہوا‬ ‫پیتا تو یہ خود کشی ہوتی‬ ‫ٹھکراتا تو خود پرستی ہوتی‬ ‫پیچھے ہٹوں کہ آگے بڑھوں‬ ‫ہاں نہ کے پل پر‬ ‫بےکسی کی میت اٹھائے کھڑا تھا‬


‫‪379‬‬

‫آگے پیچھے اندھیرا منہ پھاڑے‬ ‫فیصلے کی راہ دیکھ رہا تھا‬ ‫پھر میں آگے بڑھا اور زہر کا پیالہ اٹھا لیا‬ ‫خودکشی حرام سہی‬ ‫کیا کرتا‬ ‫بہن کی بےکسی‬ ‫ماں کے آنسو بےوقار کیوں کرتا‬ ‫ابلیس قہقے لگا رہا تھا‬ ‫نہ پیتا تب بھی اسی کی جیت تھی‬ ‫پھر بھی وہ قہقے لگاتا‬ ‫دوزخی بال نے مرے گھر قدم رکھا‬ ‫گھر کا ہر ذرہ لرز لرز گیا‬ ‫میں بھی موت کے گھاٹ اتر گیا‬ ‫جسے تم دیکھ رہے ہو‬ ‫ہنستی بستی زندگی کا بےکفن الشہ ہے‬


‫‪380‬‬

‫پہلے دو ٹھکانے لگا آئی تھی‬ ‫الشے کو کیوں ٹھکانے لگاتی‬ ‫الشے کا ماس کھا چکی ہے‬ ‫ہڈیاں مگر باقی ہیں‬ ‫بہن الشے کو دیکھ کر روتی ہے‬ ‫ہڈیاں مگر کیا تیاگ کریں‬ ‫آنسوؤں کے قدموں میں کیا دھریں‬ ‫کوئی اس کو جا کر بتائے‬ ‫اللسہ سرحدوں کی کب چیز ہے‬ ‫جہاں تم کھڑی ہو وہ تو فقط اس کی دہلیز ہے‬ ‫کوئی حادثہ ہی‬ ‫تمہیں خاوند کی اللسہ کے جہنم سے باہر الئے گا‬ ‫پھر تمہارا ہر آنسو پچھتاوے کی اگنی میں جلے گا‬ ‫تب تک‬ ‫ہڈیاں بھی یہ دوزخ کی رانی کھا چکی ہوگی‬


‫‪381‬‬

‫راکھ ہو گی نہ کوئی رفتہ کی چنگاری‬ ‫ہو گی تو اللسہ کی آری‬ ‫دکھ کا دریا بہہ رہا ہو گا‬ ‫ہر لمحہ تمہیں کہہ رہا ہو گا‬ ‫حق کی بھی کبھی سوچ لیا کرو‬ ‫لقموں کا دم بھرنا اچھا نہیں ہوتا‬ ‫اچھا نہیں ہوتا‬

‫ابوزر برقی کتب خانہ‬ ‫مئی ‪٢٠١٧‬‬


382


Turn static files into dynamic content formats.

Create a flipbook
Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.