ڈاکٹر ممصود الہی شیخ کے چار خط
ابوزر برلی کتب خانہ مئی ٢٠١٦
1 ہمنام بزرگ !۔ بات میں بات ۔ کوئی بات کرنا آپ سے سیکھے ۔ پیٹ سے ہونا کے حمیمی معنی معلوم ہوئے ۔ پیٹ سے ہونا ،اتفاق الٹا پڑ سکتا ہے ۔ کیسے کہوں کہ یہ منزل کٹھن ہوتی ہے ۔ اپ بھی جانتے ہیں ۔ ڈر یہ ہے اس پر نیا انشائیہ لکھت میں نہ آ جائے ۔ اپ نے کسی کو نہیں چھوڑا ۔ سبھی پیٹ والوں کو نہایت ادب تہذیب سے پیٹ ڈاال ۔ خدا کرے مناسب حد تک پیٹ ہلکا ہو گیا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب کا! ۔ میرے پیٹ سے بھی سو باتیں نوک للم پر آ رہی ہیں لیکن اپنے ممصود حسنی نے کیا خوب کہا ہے
"ایک چپ سو سکھ " ۔ دوسرا ممصود ) نمبر 2نہیں( اس کونہ اس کو کسی کو مزاح لکھنا نہیں آتا ۔ پیروی کرنے کے سزاوار جو ٹھہرے ۔ 2 پچھلے نامے میں زور للم دکھاتے ہوئے منہ کےبل گر پڑا ۔ "سینڈ " کرنے کے بعد یاد آیا کہ آخر میں لکھنا رہ گیا بات نہیں بنی پھر سستی غالب آ گئی ۔ اب یہ گرامی نامہ دیکھ کر غیبی تائید سمجھا ۔۔ ...بھئی ,بات بن گئی ۔۔۔ خوشبو کے امین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کس لیامت کے نامے ہوں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منتظر ہوں ۔ آپ تو بڑے مالپڑے ہیں ۔ مجھ سے کیوں پردہ رھا ،۔ ہائے روؤں دل کو یا پیٹوں جگر کو میں ؟؟؟ دور افتادہ ممصود 3 ڈاکٹر پروفیسر ممصود حسنی
گڑھوں پانی پڑ گیا ۔ میری بے خبری نہیں بلکہ جہالت کہ آپ ایسی نابغہء روزگار شخصیت سے غافل رہا ۔ یہ عذر بڑھاپا اور یادداشت کی کمزوری تو عذر گناہ بدترین از گناہ ہے ۔ میں اپنی اسی سالہ زندگی میں اتنا شرمندہ کبھی نہ ہوا تھا ۔ نتھی کردہ سارے مضامین محفوظ کر لئے ہیں، اپنے عذر و اعتراف گناہ کے ساتھ لیکن جیسے جیسے چسپاں لرطاس ہائے معلومات پر نگاہ پڑتی گئی میں حیران ہو ہو کر اپنے ظاہر و باطن پر نظروں کے کچوکے لگاتا گیا بلکہ تیشے گاڑتا رہا۔ نادانی کی بنا پر بڑی اذیت اٹھائی ہے اب تک ایک ہی وجہ سمجھ میں آئی ہے کہ ہم مختلف (گروہ نہیں) ادبی حلموں میں بٹے ہوئے ہیں ۔ اس وجہ سے میرا مطالعہ وغیرہ انہیں حلموں رسالوں کتب کی حد تک محدود رہا ہے ۔ ان دنوں میں تخلیمی کام چھوڑ کر اردو رسائل کے مدیران کرام کے پیچھے پڑ گیا ہوں ( میرا یہ فعل بھی کھسیانی بلی کے کھمبا نوچنے کی مثال ہے ۔ میں پوچھ پوچھ کر ان کو ناراض کر رہا ہوں کیا سبب ہے کہ وہ دس سے لے کر 90 / 80سال سے چھپ رہے ہیں اور ان کا اپنا ،کسی کا پرنٹنگ پریس نہیں ہے۔ میں ان کی اشاعت کو للکار رہا
ہوں کہ بزعم خود دنیا کے سب سے بڑے اردو کے رسالے ہیں مگر 300سو یا زیادہ سے زیادہ 500تک چھپتے ہوں گے ۔ میں زر ساالنہ ادا کر کے ہندوستان اور پاکستان کے رسالے پڑھتا رہا ہوں (اب کم کرتا جا رہا ہوں) ۔ مگر ان سب کا اپنا اپنا مخصوص حلمہ ہے ۔ تین ایڈیٹروں سے گہرے دوستانہ مراسم تھے ۔ میں نے پوچھ لیا اردو اور انگریزی کے ایڈیٹر میں کیا فرق ہے؟ برسوں کا یارانہ چھنک کر کے ٹوٹ گیا ۔ میں یہ کہہ ہی نہ سکا کہ انگریزی اخبار یا رسالے کا ایڈیٹر نئے خیاالت اور جدتوں سے لارئین کے دل جیتا ہے اور اس طرح اشاعت بڑھا کر اپنی نوکری برلرار رکھتا ہے جبکہ اردو والے گوشے چھاپ چھاپ کر مالیہ میں اضافہ کرتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے مگر ایسا کیوں ہوا کہ میں ممصود حسنی سے بے خبر و غافل رہا اور اتنے بزرگ و کہنہ مشك ادیب شہیر سے گستاخی کر بیٹھا ۔۔۔۔ مگر ایسا نہ ہوتا تو مجھے کیسے معلوم ہوتا کہ میں ادب کا مفرور ہوں !!۔ آخر فرد جرم عائد ہو کر رہی ۔ محترم ممصود حسنی صاحب! میں پا بہ سر ایستادہ ہوں اور ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتا ہوں ۔ یہ نالابل معافی گناہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا پھر بھی آپ معافی
گے ۔ لبول کر لیں َ والسالم ممصود۔ ٰالہی شیخ ۔ بریڈفورڈ 4 محترم ممصود حسنی صاحب یہ تحریر کچھ پیچدہ سی ہے ۔ چوتھی مرغی ،مرغی ہی ہے یاعالمت ہے ۔ اپ اپنی بات ٹھیک سے لاری تک نہیں پہنچا پائے ۔ ممکن ہے میں ہی غبی ہوں ۔ ٓاپ نے ایک نظریہ کو توڑ مڑوڑ دیا ہے خطے کی تمسیم کو دو لوموں کے بجائے مسلمانوں کی تمسیم کہنا مسلمانوں کی ذہانت سے ٹکرا رہا ہے۔ مسلمان اچھی طرح جانتے تھے ( وہ اج کی طرح کرپٹ نہ تھے وہ ایک نظریہ اور اپنے اجتماعی مفاد پر نظر رکھے ہوئے تھے) نظریہ تبادلہ ٓابادی کا نہیں یا سب کے سب مسلمان ادھر سےادھر منتمل ہوں سے متعلك نہیں تھا ۔ خطہ تمسیم ہو گا ،حموق پسندی کے اصولوں پر ،جیسے مذہب کے اصولوں کو تعلیم یافتہ اور امی سب سمجھتے ہیں ۔ دو لومی نظریہ بھی سوائے اختالف کرنے والوں کے اکثریت اس کے حك میں تھی۔ 1947کے بعد کتنے مسلمان ملک وجود میں ائے اور وہ ممالک جو پہلے سے بھی تھے تو کیا ان کی الگ الگ حیثیت کی وجہ سے کوئی یہ کہہ سکتا ہے اسالم بٹ گیا؟
ممصود حسنی صاحب اپ مہان ہیں برا نہ مانئیے گا میرا للم برداشتہ تاثر ایک طالب علمانہ سوال ہے ۔ امید ہے اپ کا تجربہ رہنمائی کرے گا ۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ اپ کژت سے لکھ رہے ہیں یا اگلی پچھلی ساری تحریریں پیش کر کے بزم کی تہذیب کر رہے ہیں ؟ اپ کا ہم نام ممصود (شیخ) ۔
چوتھی مرغی
اس سے پہلے‘ اس نے تین مرغیاں ذبح کیں۔ ہر مرغی نے‘ گردن پر چھری واال ہاتھ آنے سے پہلے‘ تھوڑا بہت شور مچایا۔ جوں ہی گردن‘ لصاب کی دو انگلیوں میں آتی‘ وہ اس کے بعد‘ شور بھی نہ مچا سکی۔ وہ کھلی آنکھوں سے‘ اپنی موت کا منظر دیکھتی۔ پھر وہ دیکھنے سے
بھی‘ ہمیشہ کے لیے محروم ہو گئی۔ چوتھی مرغی کی گردن پر چھری آنے ہی کو تھی‘ کہ بڑی بڑی مونچھوں والے‘ رستم نما ایک صاحب آ گیے۔ انہوں نے مرغی ذبح کرنے سے منع کر دیا۔ اس مرغی کا گوشت‘ مجھے ملنے واال تھا۔ مجھے بڑا تاؤ آیا‘ لیکن ان کا جثہ اور مونچھیں‘ حد درجہ خطرناک ہی نہیں‘ خوف ناک بھی تھی۔ اس پر طرہ یہ کہ انہوں نے‘ سات آنے زیادہ دے کر‘ مرغی خرید لی۔ لصاب ملنے والوں میں سے تھا۔ اس نے ہیلو ہائے کو باالئے طاق رکھتے ہوئے‘ سات آنوں کو‘ اہمیت دی۔ خاموشی کے سوا کیا ہو سکتا تھا۔ میں نے اس شخص سے دریافت کیا‘ کہ آخر اس مرغی میں کیا خاص بات ہے‘ جو وہ سات آنے زیادہ دے کر‘ اسے حاصل کر رہا ہے۔ میری بات کو سن کر‘ وہ ہنس دیا۔ بوال باؤ جی آپ نہیں جانتے‘ کہ یہ مرغی کیا چیز ہے۔ یہ مرغی‘ بڑی نسلی مرغی ہے۔ اس نسل کا ایک مرغا‘ میرے پاس ہے۔ یہ میری لسمت بنا دے گی۔ میں اگلے چند سالوں میں‘ امیر ہوجاؤں گا۔ آپ دیکھتے رہنا۔۔۔۔۔۔ کتنا احمك تھا‘ جو یہ کہہ رہا تھا۔ میرے پاس اتنا ولت کہاں‘ جو میں
مرغی کو دیکھتا پھروں۔ میں نے پھر پوچھا‘ کیا لصاب اس حمیمت سے آگاہ نہ تھا۔ وہ آگاہ تھا‘ لیکن اس نسل کا مرغا نہ ہونے کی وجہ سے‘ یہ مرغی اس کے لیے کوئی معنویت نہ رکھتی تھی۔ میں نے یہ سوچ کر‘ خاموشی اختیار کی‘ کہ گوشت ہی کھانا ہے‘ اس مرغی کا ہو‘ یا اس مرغی کا‘ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ مجھے لوگوں کی جہالت پر‘ افسوس ہوا۔ شیخ چلی کی سی سوچ رکھتے ہیں۔ مرغوں کے حوالہ سے‘ امارت آتی ہو‘ تو دنیا سارے کام کاج چھوڑ کر‘ اسی جانب لگ جائیں۔ میں دیر تک‘ ان سوچوں کے گرداب میں پھنسا رہا‘ کہ ہم بھی کیسی عجیب لوم ہیں‘ دنیا ترلی کرکے کہاں کی کہاں‘ پہنچ گئی۔ ہم ابھی تک‘ ان الیعنی اور بے معنی اشغال میں پڑے ہوئے ہیں۔ آخر ان اشغال کی‘ کیا معنویت ہے۔ غریب لوموں کو‘ اس لسم کے اشغال‘ وارہ نہیں کھاتے۔ ایک طرف بھوک نے نڈھال کر رکھا ہے‘ تو دوسری طرف انگریز کا سجن طبمہ‘ جس کے ہاتھ میں‘ وہ زندگی کی طنابیں دے گیا تھا‘ جونک کی طرح‘ اس عظیم خطہ کے لوگوں کا‘ خون چوس رہا ہے۔ لوگوں پر باور کر
دیا گیا ہے‘ کہ یہ اس لوم کے ہیرو ہیں۔ لوم کے لیے‘ لڑنے مرنے اور جیلوں میں جانے والے‘ ڈاکو لرار دے دیے گیے ہیں۔ وہ جنہوں نے‘ لمحہ بھر کی بھی صعوبت نہیں اٹھائی‘ عظمتوں کے معمار لرار پائے ہیں۔ آج تک‘ یہ کلی طور پر‘ طے نہیں پایا‘ کہ تمسیم‘ خطہ کی ہوئی ہے‘ یا مسمان لوم کی ہوئی ہے۔ اوپر سے مذہبی طبمہ‘ انسانوں کو لریب نہیں آنے دیتا۔ دیر تک سوچنے کے بعد‘ میں اس نتیجہ پر پہنچا‘ کہ منتشر اور حمائك سے دور لوموں کی زندگی‘ مرغوں اور بٹیروں کے گرد طواف کرتی رہتی ہے۔ معاشی بھاگ دوڑ نے‘ مجھے اس لسم کی سوچوں سے‘ کوسوں دور کر دیا۔ جب فرد‘ ذات کے خول میں گم ہو جاتا ہے‘ تو اجتماع کے اچھے برے‘ کی سوچوں سے دور۔۔۔۔۔ بہت دور چال جاتا ہے۔ اسے صرف اور صرف‘ اپنی بھوک یاد رہتی ہے۔ خونی رشتے بھی‘ اس بھاگ دوڑ میں‘ اپنی شناخت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ایسے عالم میں‘ چھینا جھپٹی اصول اور ضابطہ ٹھہرتی ہے۔ میں بھی‘ یہ سب بھول گیا۔ مجھے کیا پڑی‘ جو مرغوں اور بٹیروں کی سوچ میں‘ پڑ کر‘ جی ہلکان کرتا۔ کسی کو کہا بھی تو نہیں جا
سکتا۔ سچ کہنے واال‘ سماج دشمن لرار پا کر‘ زہر کا مسحك سمجھا جاتا ہے۔ اب ہر کوئی‘ سمراط بننے سے رہا۔ ایک دن‘ میں بازار سے گزر رہا تھا۔ شہر کے بڑے چوک کے بائیں‘ ایک اشتہار آویزاں تھا۔ یہ اشتہار‘ مرغوں کی لڑائی سے متعلك تھا۔ ایک عرصہ پہلے کی بات‘ ایک بار پھر میرے ذہن میں گھوم گئی۔ اشتہار پڑھ کر‘ میرا دماغ چکرا گیا۔ کیسی بےحس اور الپرواہ لوم ہے۔ جنگ سے نکلے‘ ابھی چند ماہ ہی گزرے ہوں گے‘ اور یہ‘ مرغوں کی لڑائیاں کروا رہی ہے۔ جس جنگ سے‘ لوم گزری تھی‘ کیا وہ کافی نہ تھی۔ کیا اب بھی لڑائی دیکھنے کی‘ کوئی کسر بالی رہ گئی تھی۔ میں ان ہی سوچوں میں گرفتار‘ ضروری خریداری کے بعد‘ گھر واپس آگیا۔ اچانک‘ میرے ذہن میں‘ چوتھی مرغی گردش کرنے لگی۔ ایک تجسس سا نمودار ہوا۔ پھر میں نے‘ مرغوں کی لڑائی دیکھنے کا‘ فیصلہ کر لیا۔ میں ولت پر ہی‘ مرغوں کے پڑ میں پہنچ گیا۔ میں یہ دیکھ کر‘ حیران رہ گیا‘ کہ پڑ میں‘ بہت سارے لوگ موجود
تھے۔ میری آنکھیں‘ مونچھوں والی سرکار کو‘ تالش کر رہی تھیں۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا‘ کہ مونچھوں والی سرکار‘ سرپنچ ہو گی۔ میں اسے لوگوں میں تالشتا رہا۔ وہ عام لوگوں میں‘ موجود نہ تھا۔ میں زیرلب مسکرایا‘ شیخ چلی طبع کے لوگ‘ عملی زندگی میں‘ اپنا وجود بالی نہیں رکھتے۔ میں گھر واپس جانے کے لیے مڑا ہی تھا‘ کہ سامنے گاؤ تکیہ لگی چارچائی پر‘مونچھوں والی سرکار‘ اکیلے ہی تشریف فرما تھی۔ اس کے ارد گرد‘ اس کے چیلے کھڑے تھے۔ ایک چیلہ‘ اس کے کندھے‘ جب کہ دوسرا پاؤں دبا رہا تھا۔ میں نے پاس کھڑے‘ ایک شخص سے‘ مونچھوں والی سرکار کا‘ تعارف جاننا چاہا۔ جواب دینے سے پہلے‘ اس شخص نے مجھے‘ سر سے پاؤں تک دیکھا‘ پھر بڑی حیرت سے پوچھا‘ کیا تم سیٹھ نادر کو نہیں جانتے۔ دیکھنے مرغوں کی لڑائی آئے ہو‘ اور سیٹھ نادر کو نہیں جانتے‘ بڑے ہی افسوس کی بات ہے۔ میں نے مزید سوال جواب کی بجائے‘ سیٹھ نادر کے پاس جانا مناسب سمجھا۔ میں سیٹھ نادر کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔ سیٹھ نادر نے‘
مجھے پہچانا تک نہیں۔ میں نے خود ہی‘ اپنا تعارف کروایا‘ اور برسوں پہلے کا والعہ یاد کرایا۔ سیٹھ نادر نے‘ بڑا دھواں دھار لہمہ داغا‘ اور کہا‘ هللا نے اس مرغی کے طفیل‘ بڑے پہاگ لگائے ہیں۔ آج میں الکھوں میں کھیلتا ہوں۔ لوگ بڑی عزت کرتے ہیں۔ وہ اس چوتھی مرغی کی وجہ سے‘ امیر کبیر ہوگیا تھا۔ جب کہ میں‘ ابھی تک‘ اس پرانےعہدے پر ہی فائز تھا۔ ساالنہ ترلیوں کے عالوہ‘ مجھے کچھ نہ مال تھا۔ مجھ سے تو‘ مرغی پالنے واال‘ ہزار گنا بہتر اور خوش حال زندگی‘ گزار رہا تھا۔ ایک ان پڑھ‘ کہیں کا کہیں جا پہنچا تھا۔ میں پڑھ لکھ کر بھی‘ کچھ نہ کر سکا تھا۔ جاہل معاشروں میں‘ ان پڑھ ہی ترلی کرتے ہیں۔ ایسے حاالت میں‘ پڑھنا کھلی حمالت ہوتی ہے۔ جہاں میں‘ اس زندہ تضاد پر غم گین تھا‘ وہاں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ ہر ماڑے کی گردن‘ تگڑے کی دو انگیوں کی گرفت میں رہتی ہے۔ احتجاج کے لیے کھال منہ‘ کھال ہی رہ جاتا ہے اور احتجاجی کلموں کو‘ منہ سے باہر آنے کا‘ مولع بھی نہیں مل پاتا۔ جنگل کا شروع سے‘ یہ ہی وتیرا رہا ہے۔ جہاں میں بسیرا رکھتا تھا‘ وہاں رہتے توانسان تھے‘ لیکن ان کے اطوار اور لانون‘ جنگل کے لانون سے‘ کسی طرح کم نہ تھے۔ اس جبر کی فضا‘ اور ماحول میں‘
ایک بات ضرور موجود تھی‘ کہ بچانے واال‘ چوتھی مرغی کو‘ بچا ہی لیتا ہے۔ اس کی نسل‘ آتے ولتوں میں‘ اس کے ہونے‘ اور بچانے والے مہاکاتکر‘ کی گواہی دیتی رہتی ہے۔
ُمحترم جناب ڈاکٹر ممصود حسنی صاحب! سالم مسنون بُہت ہی خوبصورت تحریر ہے۔ آپ ماشاهللا بُہت ہی گہری نظر رکھتے ہیں۔ اور پھر آپ کے پاس نہ صرف خیاالت کو الفاظ دینے کا ہُنر ہے بلکہ وہ طالت بھی ہے کہ آپ کی تحریر پڑھنے واال نہ صرف لائل ہو جاتا ہے بلکہ ہمیں یمین ہے کہ اثر بھی لیتا ہے۔ ایک ُمعاشرتی مسئلہ کہ آپ نے کہاں ُمرغی سے شُروع کیا ہے اور کیسے تمام کہانی کے بعد اسے وہیں سمیٹا ہے۔ ہماری طرف سے بھرپور پھروا داد لبول کیجے۔ آپ کہاں :اسیلُ :مرغی پر چ ُھری ِ رہے تھے جناب یہ تو ُمرغے لڑانے والوں کی نظر میں
:کفر :سے کم نہیں۔ آپ کی تحریر پڑھ کر کُچھ باتیں ذہن میں آئی ہیں ایک تو یہ کہ عام خیال یہی ہے کہ پڑھنے لکھنے کا مطلب ہے رزق میں اضافہ اور یمین دہانی۔ ایک فارموال کہہ لیجے کہ ِجتنا ذیادہ پڑھا لکھا ہو گا انسان ،اُتنا ہی ذیادہ اُس کا رزق ہونا چاہیئے۔ اور دوسری بات یہ کہ جنگل کا لانون بُرا ہوتا ہے ،انسانوں کے لوانین اچھے ہوتے ہیں اور اُنہیں ہی رائج ہونا چاہیئے۔ رزق کے بارے تو ہمارا خیال ہے کہ اس کا کوئی فارموال نہیں ہے۔ ہم نے تو یہی دیکھا کہ اگر کوئی شخص ہماری طرح اپنی تعلیمی اخراجات کی رسیدیں جنہیں ڈگریاں بھی پھرے ،چاہے کوئی بڑا سائنس دان ہو، کہتے ہیں لیئے ِ چاہے عالم ہو شاطر ہو ،رزق کا حمدار اس ناطے سے نہیں ٹھہرتا۔ اس کو بانٹنے کا لدرت کا اگر کوئی فارموال ہے تو ہمیں ٹھیک سے سمجھ نہیں آیا آج تک۔ ایک طرف تو دین کہتا ہے کہ رزق صرف هللا کے ہاتھ میں ہے، دوسری طرف ١٠٠بچے بھوکے مر جاتے ہیں۔ الزام
ِکسے دیں؟ لے دے کر اگر رزق کا کوئی فارموال ہمیں دین سے مال ہے تو یہی ہے کہ صدلہ خیرات دو کہ یہ دوگنا ہو کر واپس ملے گا۔ جس کے پاس کُچھ نہ ہو وہ کیا کرے یہ کہیں نہیں ِمال۔ دوسری طرف اگر رزق هللا کے ہاتھ نہ ہو تو پورے ملک کو وہ بیرونی کمپنیاں کھا جائیں ،جو ایک ہی ولت میں نہ صرف کئی لسم کے صابن بنا کر اشتہاروں میں آپس میں لڑ کر دکھاتی ہیں بلکہ انہیں صابنوں کے دو نمبر بھی خود ہی بناتی ہیں کہ کوئی دوسرا فریك کیوں بنا کر کمائے۔ جنگل کے لانون سے ُمتعلك ہمارا خیال ہے کہ یہ انسان کی تعصب سے بھری ہوئی سوچ ہے کہ خود کو جانوروں سے بہتر سمجھتا ہے۔ انسان اشرف المخلولات ہے لیکن یہاں انسان کی جو :تعریف :ہے وہ کُچھ اور ہے۔ آپ خود ہی سوچئیے کونسی ایسی بُرائی ہے جو جانوروں نے کی ہوں اور انسانوں نے وہ بُرائی نہ کی ہو۔ اچھائیاں بُرائیں دونوں سوچ لیجے۔ ایک بھی ایسی نہ ملے گی۔ انسان، انسانوں تک کا گوشت محوارتا ً نہیں بلکہ حمیمتا ً کھا رہا ہے۔ ادھر انسانوں کی وہ بُرائیں دیکھ لیجے جو جانوروں
نے کبھی نہ کی ہوں۔ اتنی لمبی فہرست نکلے گی کہ ُخدا کی پناہ۔ سو ہمارا خیال ہے کہ اگر تعصب کو تھوڑا سا ایک طرف رکھ کر سوچا جائے تو جانور بدرجحا بہتر نظر آئیں گے۔ وہ تو معصوم نظر آتے ہیں ہمیں۔ جنگل کے لوانین میں شکار تبھی ہوتا ہے جب بھوک لگے۔ یہاں اُلٹا ُمعاملہ ہے ،بھوک لگنے سے پہلے انتظام کرنا ہوتا ہے۔ بھیڑیے کی خصلت تھی کہ وہ کمزور پڑ جانے والے بھیڑیئے کو مل کھا جاتے ہیں۔ لیکن یہاں مل بانٹ کر بھی نہیں کھاتے۔ واہ رے انسان۔۔ سو صاحب جب تک دُنیا میں کمزور اور طالتور موجود ہیں ،کمزور کی گردن طالتور کی دو انگلیوں میں رہے گی۔ یہ اصول ہم نے صرف انسانوں کے گھٹیا ُمعاشرے اور سلجھے لوانین سے ہی نہیں اخذ کیا بلکہ جانوروں کے ُ ہوئے اور ُمہذب ُمعاشرے اور جنگل کے لوانین سے بھی ثابت ہے۔ آپ کی تحریر بُہت خوب ہے۔ اُمید ہے اگر نا انصافی کو دُنیا سے ہم مٹا نہیں سکتے تو کسی حد تک کم کرنے کی
ُجستجو تو کر سکتے ہیں۔ اور یہی آپ کر رہے ہیں۔ آپ کی یہ تحریر بھی اسی کاوش کا حصہ ہے اور ُممام رکھتی ہے۔ ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ ۔ ۔ ۔ دُعا گو Vb Jee
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.p hp?topic=8841.0