ڈاکٹر مقصود الہی شیخ کے چار خط

Page 1

‫ڈاکٹر ممصود الہی شیخ کے چار خط‬

‫ابوزر برلی کتب خانہ‬ ‫مئی ‪٢٠١٦‬‬


‫‪1‬‬ ‫ہمنام بزرگ !۔‬ ‫بات میں بات ۔ کوئی بات کرنا آپ سے سیکھے ۔ پیٹ سے‬ ‫ہونا کے حمیمی معنی معلوم ہوئے ۔ پیٹ سے ہونا‪ ،‬اتفاق‬ ‫الٹا پڑ سکتا ہے ۔ کیسے کہوں کہ یہ منزل کٹھن ہوتی ہے ۔‬ ‫اپ بھی جانتے ہیں ۔ ڈر یہ ہے اس پر نیا انشائیہ لکھت‬ ‫میں نہ آ جائے ۔‬ ‫اپ نے کسی کو نہیں چھوڑا ۔ سبھی پیٹ والوں کو نہایت‬ ‫ادب تہذیب سے پیٹ ڈاال ۔ خدا کرے مناسب حد تک پیٹ‬ ‫ہلکا ہو گیا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب کا! ۔‬ ‫میرے پیٹ سے بھی سو باتیں نوک للم پر آ رہی ہیں لیکن‬ ‫اپنے ممصود حسنی نے کیا خوب کہا ہے‬


‫"ایک چپ سو سکھ " ۔‬ ‫دوسرا ممصود‬ ‫) نمبر ‪ 2‬نہیں(‬ ‫اس کونہ اس کو کسی کو مزاح لکھنا نہیں آتا ۔ پیروی‬ ‫کرنے کے سزاوار جو ٹھہرے ۔‬ ‫‪2‬‬ ‫پچھلے نامے میں زور للم دکھاتے ہوئے منہ کےبل گر پڑا‬ ‫۔ "سینڈ " کرنے کے بعد یاد آیا کہ آخر میں لکھنا رہ گیا‬ ‫بات نہیں بنی پھر سستی غالب آ گئی ۔ اب یہ گرامی نامہ‬ ‫دیکھ کر غیبی تائید سمجھا ۔۔‪ ...‬بھئی‪ ,‬بات بن گئی ۔۔۔‬ ‫خوشبو کے امین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کس لیامت کے نامے ہوں گے‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منتظر ہوں ۔‬ ‫آپ تو بڑے مالپڑے ہیں ۔ مجھ سے کیوں پردہ رھا ‪،‬۔‬ ‫ہائے روؤں دل کو یا پیٹوں جگر کو میں ؟؟؟‬ ‫دور افتادہ‬ ‫ممصود‬ ‫‪3‬‬ ‫ڈاکٹر پروفیسر ممصود حسنی‬


‫گڑھوں پانی پڑ گیا ۔ میری بے خبری نہیں بلکہ جہالت کہ‬ ‫آپ ایسی نابغہء روزگار شخصیت سے غافل رہا ۔ یہ عذر‬ ‫بڑھاپا اور یادداشت کی کمزوری تو عذر گناہ بدترین از گناہ‬ ‫ہے ۔ میں اپنی اسی سالہ زندگی میں اتنا شرمندہ کبھی نہ‬ ‫ہوا تھا ۔ نتھی کردہ سارے مضامین محفوظ کر لئے ہیں‪،‬‬ ‫اپنے عذر و اعتراف گناہ کے ساتھ لیکن جیسے جیسے‬ ‫چسپاں لرطاس ہائے معلومات پر نگاہ پڑتی گئی میں حیران‬ ‫ہو ہو کر اپنے ظاہر و باطن پر نظروں کے کچوکے لگاتا‬ ‫گیا بلکہ تیشے گاڑتا رہا۔ نادانی کی بنا پر بڑی اذیت اٹھائی‬ ‫ہے‬ ‫اب تک ایک ہی وجہ سمجھ میں آئی ہے کہ ہم مختلف‬ ‫(گروہ نہیں) ادبی حلموں میں بٹے ہوئے ہیں ۔ اس وجہ‬ ‫سے میرا مطالعہ وغیرہ انہیں حلموں رسالوں کتب کی حد‬ ‫تک محدود‬ ‫رہا ہے ۔‬ ‫ان دنوں میں تخلیمی کام چھوڑ کر اردو رسائل کے مدیران‬ ‫کرام کے پیچھے پڑ گیا ہوں ( میرا یہ فعل بھی کھسیانی‬ ‫بلی کے کھمبا نوچنے کی مثال ہے ۔ میں پوچھ پوچھ کر ان‬ ‫کو ناراض کر رہا ہوں کیا سبب ہے کہ وہ دس سے لے کر‬ ‫‪ 90 / 80‬سال سے چھپ رہے ہیں اور ان کا اپنا‪ ،‬کسی کا‬ ‫پرنٹنگ پریس نہیں ہے۔ میں ان کی اشاعت کو للکار رہا‬


‫ہوں کہ بزعم خود دنیا کے سب سے بڑے اردو کے رسالے‬ ‫ہیں مگر‪ 300‬سو یا زیادہ سے زیادہ ‪ 500‬تک چھپتے‬ ‫ہوں گے ۔ میں زر ساالنہ ادا کر کے ہندوستان اور پاکستان‬ ‫کے رسالے پڑھتا رہا ہوں (اب کم کرتا جا رہا ہوں) ۔ مگر‬ ‫ان سب کا اپنا اپنا مخصوص حلمہ ہے ۔‬ ‫تین ایڈیٹروں سے گہرے دوستانہ مراسم تھے ۔ میں نے‬ ‫پوچھ لیا اردو اور انگریزی کے ایڈیٹر میں کیا فرق ہے؟‬ ‫برسوں کا یارانہ چھنک کر کے ٹوٹ گیا ۔ میں یہ کہہ ہی نہ‬ ‫سکا کہ انگریزی اخبار یا رسالے کا ایڈیٹر نئے خیاالت اور‬ ‫جدتوں سے لارئین کے دل جیتا ہے اور اس طرح اشاعت‬ ‫بڑھا کر اپنی نوکری برلرار رکھتا ہے جبکہ اردو والے‬ ‫گوشے چھاپ چھاپ کر مالیہ میں اضافہ کرتے ہیں ۔‬ ‫یہ الگ بات ہے‬ ‫مگر ایسا کیوں ہوا کہ میں ممصود حسنی سے بے خبر و‬ ‫غافل رہا اور اتنے بزرگ و کہنہ مشك ادیب شہیر سے‬ ‫گستاخی کر بیٹھا ۔۔۔۔ مگر ایسا نہ ہوتا تو مجھے کیسے‬ ‫معلوم ہوتا کہ میں ادب کا مفرور ہوں !!۔‬ ‫آخر فرد جرم عائد ہو کر رہی ۔‬ ‫محترم ممصود حسنی صاحب! میں پا بہ سر ایستادہ ہوں‬ ‫اور ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتا ہوں ۔‬ ‫یہ نالابل معافی گناہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا پھر بھی آپ معافی‬


‫گے ۔‬ ‫لبول کر لیں َ‬ ‫والسالم‬ ‫ممصود۔ ٰالہی شیخ ۔ بریڈفورڈ‬ ‫‪4‬‬ ‫محترم ممصود حسنی صاحب‬ ‫یہ تحریر کچھ پیچدہ سی ہے ۔ چوتھی مرغی‪ ،‬مرغی ہی‬ ‫ہے یاعالمت ہے ۔ اپ اپنی بات ٹھیک سے لاری تک نہیں‬ ‫پہنچا پائے ۔ ممکن ہے میں ہی غبی ہوں ۔ ٓاپ نے ایک‬ ‫نظریہ کو توڑ مڑوڑ دیا ہے خطے کی تمسیم کو دو لوموں‬ ‫کے بجائے مسلمانوں کی تمسیم کہنا مسلمانوں کی ذہانت‬ ‫سے ٹکرا رہا ہے۔ مسلمان اچھی طرح جانتے تھے ( وہ اج‬ ‫کی طرح کرپٹ نہ تھے وہ ایک نظریہ اور اپنے اجتماعی‬ ‫مفاد پر نظر رکھے ہوئے تھے) نظریہ تبادلہ ٓابادی کا نہیں‬ ‫یا سب کے سب مسلمان ادھر سےادھر منتمل ہوں سے‬ ‫متعلك نہیں تھا ۔ خطہ تمسیم ہو گا‪ ،‬حموق پسندی کے‬ ‫اصولوں پر‪ ،‬جیسے مذہب کے اصولوں کو تعلیم یافتہ اور‬ ‫امی سب سمجھتے ہیں ۔ دو لومی نظریہ بھی سوائے‬ ‫اختالف کرنے والوں کے اکثریت اس کے حك میں تھی۔‬ ‫‪ 1947‬کے بعد کتنے مسلمان ملک وجود میں ائے اور وہ‬ ‫ممالک جو پہلے سے بھی تھے تو کیا ان کی الگ الگ‬ ‫حیثیت کی وجہ سے کوئی یہ کہہ سکتا ہے اسالم بٹ گیا؟‬


‫ممصود حسنی صاحب اپ مہان ہیں برا نہ مانئیے گا میرا‬ ‫للم برداشتہ تاثر ایک طالب علمانہ سوال ہے ۔ امید ہے اپ‬ ‫کا تجربہ رہنمائی کرے گا ۔‬ ‫ایک سوال یہ بھی ہے کہ اپ کژت سے لکھ رہے ہیں یا‬ ‫اگلی پچھلی ساری تحریریں پیش کر کے بزم کی تہذیب کر‬ ‫رہے ہیں ؟‬ ‫اپ کا ہم نام ممصود (شیخ) ۔‬

‫چوتھی مرغی‬

‫اس سے پہلے‘ اس نے تین مرغیاں ذبح کیں۔ ہر مرغی‬ ‫نے‘ گردن پر چھری واال ہاتھ آنے سے پہلے‘ تھوڑا بہت‬ ‫شور مچایا۔ جوں ہی گردن‘ لصاب کی دو انگلیوں میں آتی‘‬ ‫وہ اس کے بعد‘ شور بھی نہ مچا سکی۔ وہ کھلی آنکھوں‬ ‫سے‘ اپنی موت کا منظر دیکھتی۔ پھر وہ دیکھنے سے‬


‫بھی‘ ہمیشہ کے لیے محروم ہو گئی۔ چوتھی مرغی کی‬ ‫گردن پر چھری آنے ہی کو تھی‘ کہ بڑی بڑی مونچھوں‬ ‫والے‘ رستم نما ایک صاحب آ گیے۔ انہوں نے مرغی ذبح‬ ‫کرنے سے منع کر دیا۔ اس مرغی کا گوشت‘ مجھے ملنے‬ ‫واال تھا۔ مجھے بڑا تاؤ آیا‘ لیکن ان کا جثہ اور مونچھیں‘‬ ‫حد درجہ خطرناک ہی نہیں‘ خوف ناک بھی تھی۔ اس پر‬ ‫طرہ یہ کہ انہوں نے‘ سات آنے زیادہ دے کر‘ مرغی خرید‬ ‫لی۔ لصاب ملنے والوں میں سے تھا۔ اس نے ہیلو ہائے کو‬ ‫باالئے طاق رکھتے ہوئے‘ سات آنوں کو‘ اہمیت دی۔‬ ‫خاموشی کے سوا کیا ہو سکتا تھا۔‬ ‫میں نے اس شخص سے دریافت کیا‘ کہ آخر اس مرغی‬ ‫میں کیا خاص بات ہے‘ جو وہ سات آنے زیادہ دے کر‘‬ ‫اسے حاصل کر رہا ہے۔ میری بات کو سن کر‘ وہ ہنس دیا۔‬ ‫بوال باؤ جی آپ نہیں جانتے‘ کہ یہ مرغی کیا چیز ہے۔ یہ‬ ‫مرغی‘ بڑی نسلی مرغی ہے۔ اس نسل کا ایک مرغا‘ میرے‬ ‫پاس ہے۔ یہ میری لسمت بنا دے گی۔ میں اگلے چند سالوں‬ ‫میں‘ امیر ہوجاؤں گا۔ آپ دیکھتے رہنا۔۔۔۔۔۔ کتنا احمك تھا‘‬ ‫جو یہ کہہ رہا تھا۔ میرے پاس اتنا ولت کہاں‘ جو میں‬


‫مرغی کو دیکھتا پھروں۔ میں نے پھر پوچھا‘ کیا لصاب‬ ‫اس حمیمت سے آگاہ نہ تھا۔ وہ آگاہ تھا‘ لیکن اس نسل کا‬ ‫مرغا نہ ہونے کی وجہ سے‘ یہ مرغی اس کے لیے کوئی‬ ‫معنویت نہ رکھتی تھی۔‬ ‫میں نے یہ سوچ کر‘ خاموشی اختیار کی‘ کہ گوشت ہی‬ ‫کھانا ہے‘ اس مرغی کا ہو‘ یا اس مرغی کا‘ اس سے کیا‬ ‫فرق پڑتا ہے۔ مجھے لوگوں کی جہالت پر‘ افسوس ہوا۔‬ ‫شیخ چلی کی سی سوچ رکھتے ہیں۔ مرغوں کے حوالہ‬ ‫سے‘ امارت آتی ہو‘ تو دنیا سارے کام کاج چھوڑ کر‘ اسی‬ ‫جانب لگ جائیں۔ میں دیر تک‘ ان سوچوں کے گرداب میں‬ ‫پھنسا رہا‘ کہ ہم بھی کیسی عجیب لوم ہیں‘ دنیا ترلی‬ ‫کرکے کہاں کی کہاں‘ پہنچ گئی۔ ہم ابھی تک‘ ان الیعنی اور‬ ‫بے معنی اشغال میں پڑے ہوئے ہیں۔ آخر ان اشغال کی‘ کیا‬ ‫معنویت ہے۔ غریب لوموں کو‘ اس لسم کے اشغال‘ وارہ‬ ‫نہیں کھاتے۔ ایک طرف بھوک نے نڈھال کر رکھا ہے‘ تو‬ ‫دوسری طرف انگریز کا سجن طبمہ‘ جس کے ہاتھ میں‘ وہ‬ ‫زندگی کی طنابیں دے گیا تھا‘ جونک کی طرح‘ اس عظیم‬ ‫خطہ کے لوگوں کا‘ خون چوس رہا ہے۔ لوگوں پر باور کر‬


‫دیا گیا ہے‘ کہ یہ اس لوم کے ہیرو ہیں۔ لوم کے لیے‘‬ ‫لڑنے مرنے اور جیلوں میں جانے والے‘ ڈاکو لرار دے‬ ‫دیے گیے ہیں۔ وہ جنہوں نے‘ لمحہ بھر کی بھی صعوبت‬ ‫نہیں اٹھائی‘ عظمتوں کے معمار لرار پائے ہیں۔ آج تک‘ یہ‬ ‫کلی طور پر‘ طے نہیں پایا‘ کہ تمسیم‘ خطہ کی ہوئی ہے‘ یا‬ ‫مسمان لوم کی ہوئی ہے۔ اوپر سے مذہبی طبمہ‘ انسانوں‬ ‫کو لریب نہیں آنے دیتا۔ دیر تک سوچنے کے بعد‘ میں اس‬ ‫نتیجہ پر پہنچا‘ کہ منتشر اور حمائك سے دور لوموں کی‬ ‫زندگی‘ مرغوں اور بٹیروں کے گرد طواف کرتی رہتی ہے۔‬ ‫معاشی بھاگ دوڑ نے‘ مجھے اس لسم کی سوچوں سے‘‬ ‫کوسوں دور کر دیا۔ جب فرد‘ ذات کے خول میں گم ہو جاتا‬ ‫ہے‘ تو اجتماع کے اچھے برے‘ کی سوچوں سے دور۔۔۔۔۔‬ ‫بہت دور چال جاتا ہے۔ اسے صرف اور صرف‘ اپنی بھوک‬ ‫یاد رہتی ہے۔ خونی رشتے بھی‘ اس بھاگ دوڑ میں‘ اپنی‬ ‫شناخت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ایسے عالم میں‘ چھینا‬ ‫جھپٹی اصول اور ضابطہ ٹھہرتی ہے۔ میں بھی‘ یہ سب‬ ‫بھول گیا۔ مجھے کیا پڑی‘ جو مرغوں اور بٹیروں کی سوچ‬ ‫میں‘ پڑ کر‘ جی ہلکان کرتا۔ کسی کو کہا بھی تو نہیں جا‬


‫سکتا۔ سچ کہنے واال‘ سماج دشمن لرار پا کر‘ زہر کا‬ ‫مسحك سمجھا جاتا ہے۔ اب ہر کوئی‘ سمراط بننے سے رہا۔‬ ‫ایک دن‘ میں بازار سے گزر رہا تھا۔ شہر کے بڑے چوک‬ ‫کے بائیں‘ ایک اشتہار آویزاں تھا۔ یہ اشتہار‘ مرغوں کی‬ ‫لڑائی سے متعلك تھا۔ ایک عرصہ پہلے کی بات‘ ایک بار‬ ‫پھر میرے ذہن میں گھوم گئی۔ اشتہار پڑھ کر‘ میرا دماغ‬ ‫چکرا گیا۔ کیسی بےحس اور الپرواہ لوم ہے۔ جنگ سے‬ ‫نکلے‘ ابھی چند ماہ ہی گزرے ہوں گے‘ اور یہ‘ مرغوں‬ ‫کی لڑائیاں کروا رہی ہے۔ جس جنگ سے‘ لوم گزری تھی‘‬ ‫کیا وہ کافی نہ تھی۔ کیا اب بھی لڑائی دیکھنے کی‘ کوئی‬ ‫کسر بالی رہ گئی تھی۔ میں ان ہی سوچوں میں گرفتار‘‬ ‫ضروری خریداری کے بعد‘ گھر واپس آگیا۔ اچانک‘ میرے‬ ‫ذہن میں‘ چوتھی مرغی گردش کرنے لگی۔ ایک تجسس سا‬ ‫نمودار ہوا۔ پھر میں نے‘ مرغوں کی لڑائی دیکھنے کا‘‬ ‫فیصلہ کر لیا۔‬ ‫میں ولت پر ہی‘ مرغوں کے پڑ میں پہنچ گیا۔ میں یہ دیکھ‬ ‫کر‘ حیران رہ گیا‘ کہ پڑ میں‘ بہت سارے لوگ موجود‬


‫تھے۔ میری آنکھیں‘ مونچھوں والی سرکار کو‘ تالش کر‬ ‫رہی تھیں۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا‘ کہ مونچھوں والی‬ ‫سرکار‘ سرپنچ ہو گی۔ میں اسے لوگوں میں تالشتا رہا۔ وہ‬ ‫عام لوگوں میں‘ موجود نہ تھا۔ میں زیرلب مسکرایا‘ شیخ‬ ‫چلی طبع کے لوگ‘ عملی زندگی میں‘ اپنا وجود بالی نہیں‬ ‫رکھتے۔ میں گھر واپس جانے کے لیے مڑا ہی تھا‘ کہ‬ ‫سامنے گاؤ تکیہ لگی چارچائی پر‘مونچھوں والی سرکار‘‬ ‫اکیلے ہی تشریف فرما تھی۔ اس کے ارد گرد‘ اس کے‬ ‫چیلے کھڑے تھے۔ ایک چیلہ‘ اس کے کندھے‘ جب کہ‬ ‫دوسرا پاؤں دبا رہا تھا۔ میں نے پاس کھڑے‘ ایک شخص‬ ‫سے‘ مونچھوں والی سرکار کا‘ تعارف جاننا چاہا۔ جواب‬ ‫دینے سے پہلے‘ اس شخص نے مجھے‘ سر سے پاؤں‬ ‫تک دیکھا‘ پھر بڑی حیرت سے پوچھا‘ کیا تم سیٹھ نادر کو‬ ‫نہیں جانتے۔ دیکھنے مرغوں کی لڑائی آئے ہو‘ اور سیٹھ‬ ‫نادر کو نہیں جانتے‘ بڑے ہی افسوس کی بات ہے۔ میں نے‬ ‫مزید سوال جواب کی بجائے‘ سیٹھ نادر کے پاس جانا‬ ‫مناسب سمجھا۔‬ ‫میں سیٹھ نادر کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔ سیٹھ نادر نے‘‬


‫مجھے پہچانا تک نہیں۔ میں نے خود ہی‘ اپنا تعارف‬ ‫کروایا‘ اور برسوں پہلے کا والعہ یاد کرایا۔ سیٹھ نادر نے‘‬ ‫بڑا دھواں دھار لہمہ داغا‘ اور کہا‘ هللا نے اس مرغی کے‬ ‫طفیل‘ بڑے پہاگ لگائے ہیں۔ آج میں الکھوں میں کھیلتا‬ ‫ہوں۔ لوگ بڑی عزت کرتے ہیں۔ وہ اس چوتھی مرغی کی‬ ‫وجہ سے‘ امیر کبیر ہوگیا تھا۔ جب کہ میں‘ ابھی تک‘ اس‬ ‫پرانےعہدے پر ہی فائز تھا۔ ساالنہ ترلیوں کے عالوہ‘‬ ‫مجھے کچھ نہ مال تھا۔ مجھ سے تو‘ مرغی پالنے واال‘‬ ‫ہزار گنا بہتر اور خوش حال زندگی‘ گزار رہا تھا۔ ایک ان‬ ‫پڑھ‘ کہیں کا کہیں جا پہنچا تھا۔ میں پڑھ لکھ کر بھی‘ کچھ‬ ‫نہ کر سکا تھا۔ جاہل معاشروں میں‘ ان پڑھ ہی ترلی کرتے‬ ‫ہیں۔ ایسے حاالت میں‘ پڑھنا کھلی حمالت ہوتی ہے۔‬ ‫جہاں میں‘ اس زندہ تضاد پر غم گین تھا‘ وہاں یہ بھی‬ ‫سوچ رہا تھا کہ ہر ماڑے کی گردن‘ تگڑے کی دو انگیوں‬ ‫کی گرفت میں رہتی ہے۔ احتجاج کے لیے کھال منہ‘ کھال ہی‬ ‫رہ جاتا ہے اور احتجاجی کلموں کو‘ منہ سے باہر آنے کا‘‬ ‫مولع بھی نہیں مل پاتا۔ جنگل کا شروع سے‘ یہ ہی وتیرا‬ ‫رہا ہے۔ جہاں میں بسیرا رکھتا تھا‘ وہاں رہتے توانسان‬ ‫تھے‘ لیکن ان کے اطوار اور لانون‘ جنگل کے لانون سے‘‬ ‫کسی طرح کم نہ تھے۔ اس جبر کی فضا‘ اور ماحول میں‘‬


‫ایک بات ضرور موجود تھی‘ کہ بچانے واال‘ چوتھی مرغی‬ ‫کو‘ بچا ہی لیتا ہے۔ اس کی نسل‘ آتے ولتوں میں‘ اس کے‬ ‫ہونے‘ اور بچانے والے مہاکاتکر‘ کی گواہی دیتی رہتی‬ ‫ہے۔‬

‫ُمحترم جناب ڈاکٹر ممصود حسنی صاحب!‬ ‫سالم مسنون‬ ‫بُہت ہی خوبصورت تحریر ہے۔ آپ ماشاهللا بُہت ہی گہری‬ ‫نظر رکھتے ہیں۔ اور پھر آپ کے پاس نہ صرف خیاالت کو‬ ‫الفاظ دینے کا ہُنر ہے بلکہ وہ طالت بھی ہے کہ آپ کی‬ ‫تحریر پڑھنے واال نہ صرف لائل ہو جاتا ہے بلکہ ہمیں‬ ‫یمین ہے کہ اثر بھی لیتا ہے۔ ایک ُمعاشرتی مسئلہ کہ آپ‬ ‫نے کہاں ُمرغی سے شُروع کیا ہے اور کیسے تمام کہانی‬ ‫کے بعد اسے وہیں سمیٹا ہے۔ ہماری طرف سے بھرپور‬ ‫پھروا‬ ‫داد لبول کیجے۔ آپ کہاں ‪:‬اسیل‪ُ :‬مرغی پر چ ُھری ِ‬ ‫رہے تھے جناب یہ تو ُمرغے لڑانے والوں کی نظر میں‬


‫‪:‬کفر‪ :‬سے کم نہیں۔‬ ‫آپ کی تحریر پڑھ کر کُچھ باتیں ذہن میں آئی ہیں ایک تو یہ‬ ‫کہ عام خیال یہی ہے کہ پڑھنے لکھنے کا مطلب ہے رزق‬ ‫میں اضافہ اور یمین دہانی۔ ایک فارموال کہہ لیجے کہ ِجتنا‬ ‫ذیادہ پڑھا لکھا ہو گا انسان‪ ،‬اُتنا ہی ذیادہ اُس کا رزق ہونا‬ ‫چاہیئے۔ اور دوسری بات یہ کہ جنگل کا لانون بُرا ہوتا‬ ‫ہے‪ ،‬انسانوں کے لوانین اچھے ہوتے ہیں اور اُنہیں ہی‬ ‫رائج ہونا چاہیئے۔‬ ‫رزق کے بارے تو ہمارا خیال ہے کہ اس کا کوئی فارموال‬ ‫نہیں ہے۔ ہم نے تو یہی دیکھا کہ اگر کوئی شخص ہماری‬ ‫طرح اپنی تعلیمی اخراجات کی رسیدیں جنہیں ڈگریاں بھی‬ ‫پھرے‪ ،‬چاہے کوئی بڑا سائنس دان ہو‪،‬‬ ‫کہتے ہیں لیئے ِ‬ ‫چاہے عالم ہو شاطر ہو‪ ،‬رزق کا حمدار اس ناطے سے‬ ‫نہیں ٹھہرتا۔ اس کو بانٹنے کا لدرت کا اگر کوئی فارموال‬ ‫ہے تو ہمیں ٹھیک سے سمجھ نہیں آیا آج تک۔ ایک طرف‬ ‫تو دین کہتا ہے کہ رزق صرف هللا کے ہاتھ میں ہے‪،‬‬ ‫دوسری طرف ‪ ١٠٠‬بچے بھوکے مر جاتے ہیں۔ الزام‬


‫ِکسے دیں؟ لے دے کر اگر رزق کا کوئی فارموال ہمیں دین‬ ‫سے مال ہے تو یہی ہے کہ صدلہ خیرات دو کہ یہ دوگنا ہو‬ ‫کر واپس ملے گا۔ جس کے پاس کُچھ نہ ہو وہ کیا کرے یہ‬ ‫کہیں نہیں ِمال۔ دوسری طرف اگر رزق هللا کے ہاتھ نہ ہو تو‬ ‫پورے ملک کو وہ بیرونی کمپنیاں کھا جائیں‪ ،‬جو ایک ہی‬ ‫ولت میں نہ صرف کئی لسم کے صابن بنا کر اشتہاروں‬ ‫میں آپس میں لڑ کر دکھاتی ہیں بلکہ انہیں صابنوں کے دو‬ ‫نمبر بھی خود ہی بناتی ہیں کہ کوئی دوسرا فریك کیوں بنا‬ ‫کر کمائے۔‬ ‫جنگل کے لانون سے ُمتعلك ہمارا خیال ہے کہ یہ انسان کی‬ ‫تعصب سے بھری ہوئی سوچ ہے کہ خود کو جانوروں‬ ‫سے بہتر سمجھتا ہے۔ انسان اشرف المخلولات ہے لیکن‬ ‫یہاں انسان کی جو ‪:‬تعریف‪ :‬ہے وہ کُچھ اور ہے۔ آپ خود‬ ‫ہی سوچئیے کونسی ایسی بُرائی ہے جو جانوروں نے کی‬ ‫ہوں اور انسانوں نے وہ بُرائی نہ کی ہو۔ اچھائیاں بُرائیں‬ ‫دونوں سوچ لیجے۔ ایک بھی ایسی نہ ملے گی۔ انسان‪،‬‬ ‫انسانوں تک کا گوشت محوارتا ً نہیں بلکہ حمیمتا ً کھا رہا‬ ‫ہے۔ ادھر انسانوں کی وہ بُرائیں دیکھ لیجے جو جانوروں‬


‫نے کبھی نہ کی ہوں۔ اتنی لمبی فہرست نکلے گی کہ ُخدا‬ ‫کی پناہ۔ سو ہمارا خیال ہے کہ اگر تعصب کو تھوڑا سا ایک‬ ‫طرف رکھ کر سوچا جائے تو جانور بدرجحا بہتر نظر آئیں‬ ‫گے۔ وہ تو معصوم نظر آتے ہیں ہمیں۔ جنگل کے لوانین‬ ‫میں شکار تبھی ہوتا ہے جب بھوک لگے۔ یہاں اُلٹا ُمعاملہ‬ ‫ہے‪ ،‬بھوک لگنے سے پہلے انتظام کرنا ہوتا ہے۔ بھیڑیے‬ ‫کی خصلت تھی کہ وہ کمزور پڑ جانے والے بھیڑیئے کو‬ ‫مل کھا جاتے ہیں۔ لیکن یہاں مل بانٹ کر بھی نہیں کھاتے۔‬ ‫واہ رے انسان۔۔‬ ‫سو صاحب جب تک دُنیا میں کمزور اور طالتور موجود‬ ‫ہیں‪ ،‬کمزور کی گردن طالتور کی دو انگلیوں میں رہے گی۔‬ ‫یہ اصول ہم نے صرف انسانوں کے گھٹیا ُمعاشرے اور‬ ‫سلجھے‬ ‫لوانین سے ہی نہیں اخذ کیا بلکہ جانوروں کے ُ‬ ‫ہوئے اور ُمہذب ُمعاشرے اور جنگل کے لوانین سے بھی‬ ‫ثابت ہے۔‬ ‫آپ کی تحریر بُہت خوب ہے۔ اُمید ہے اگر نا انصافی کو دُنیا‬ ‫سے ہم مٹا نہیں سکتے تو کسی حد تک کم کرنے کی‬


‫ُجستجو تو کر سکتے ہیں۔ اور یہی آپ کر رہے ہیں۔ آپ کی‬ ‫یہ تحریر بھی اسی کاوش کا حصہ ہے اور ُممام رکھتی ہے۔‬ ‫ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ ۔ ۔ ۔‬ ‫دُعا گو‬ ‫‪Vb Jee‬‬

‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.p‬‬ ‫‪hp?topic=8841.0‬‬



Turn static files into dynamic content formats.

Create a flipbook
Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.