سو مزاحیے مقصود حسنی ابوزر برقی کتب خانہ مئی 6102 نوٹ: سو کا بیلنس' تقریبا تقریبا چھیتر چڑھتا ہے' اس حساب سے ہی' سو لکھ کر چھیتر مزاحیے شامل کیے گیے ہیں۔ ہم مالوٹ کھانے اور کھالنے کے بھی بڑے شوقین ہیں' اس لیے رویہ تن ایک آدھ غیر مزاحیہ دانستہ طور پر داخل ہو گیا ہے۔ ہر دو معاملہ میں' میں از حد یا کم از کم شرمسار یا معذرت خواہ نہیں ہوں ۔۔۔۔۔ باطور سند مطلع رہیں ۔۔۔۔۔
باور رہنا چاہیے کہنا اور کرنا' دو الگ چیزیں ہیں۔ ہم انہیں ایک سمجھ کر مار کھا جاتے ہیں۔
گیارہ ہتھیار اور منشی گاہیں 1- ایم فل االؤنس اور میری معذرت خوانہ شرمندگی 2- گھر بیٹھے حج کے ایک رکن کا ثواب کمائیں 3- کھائی پکائی اور معیار کا تعین 4- ایجوکیشن‘ کوالیفیکیشن اور عسکری ضابطے 5- مشتری ہوشیار باش 6- مدن اور آلو ٹماٹر کا جال 7- وہ دن ضرور آئے گا 8- ناصر زیدی اور شعر غالب کا جدید شعری لباس 9- پروف ریڈنگ‘ ادارے اور ناصر زیدی 10-
دمہ گذیدہ دفتر شاہی اور بیمار بابا 11- غیرملکی بداطواری دفتری اخالقیات اور برفی کی چاٹ 12- انشورنس والے اور میں اور تو کا فلسفہ 13- تعلیم میر منشی ہاؤس اور میری ناچیز قاصری 14- زندگی‘ حقیقت اور چوہے کی عصری اہمیت 15- آدم خور چوہے اور بڈھا مکاؤ مہم 16- عوام بھوک اور گڑ کی پیسی 17- رشوت کو طالق ہو سکتی ہے 18- لوٹے کی سماجی اور ریاستی ضرورت 19- آزاد معاشرے اہل علم اور صعوبت کی جندریاں 20- پی ایچ ڈی راگ جنگہ کی دہلیز پر 21- استاد غالب ضدین اور آل ہند کی زبان 22- دو قومی نظریہ اور اسالمی ونڈو 23- شیڈولڈ رشوتی نظام کے قیام کی ضرورت 24- محاورہ پیٹ سے ہونا کے حقیقی معنی 25- نہ رہے گی بجلی نہ باجے گی ٹنڈ 26-
اپنے اکرام صاحب ڈاکٹر مس کال کی گرہ میں 27- روال رپا توازن کا ضامن ہے 28- من کا چوہا اور کل کلیان 29- زندگی میں میں کے سوا کچھ نہیں 30- بجلی آتے ہی 31- لوٹے کی سماجی اور ریاستی ضرورت 32- چور مچائے شور 33- بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟ 34- باس از آل ویز رائٹ 35- قانون ضابطے اور نورا گیم 36- جرم کو قانونی حیثیت دینا ناانصافی نہیں 37- پنجریانی اور گناہ گار آنکھوں کے خواب 38- دیگی ذائقہ اور مہر افروز کی نکتہ آفرینی 39- ہمارے لودھی صاحب اور امریکہ کی دو دوسیریاں 40- قصہ زہرا بٹیا سے مالقات کا 41- صیغہ ہم اور غالب نوازی 42-
ایک دفع کا ذکر ہے 43- الیکشن کی تاریخ بڑھانے کی پرزور اپیل 44- بےنکاحی گالیاں اور میری لسانی تحقیق 45- احباب اور ادارے آگاہ رہیں 46- مولوی صاحب کا فتوی اور ایچ ای سی پاکستان 47- سیری تک جشن آزادی مبارک ہو 48- جمہوریت سے عوام کو خطرہ ہے 49- رمضان میں رحمتوں پر نظر رہنی چاہیے 50- دنیا کا امن اور سکون بھنگ مت کرو 52- اس عذاب کا ذکر قرآن میں موجود نہیں 53- غیرت اور خشک آنتوں کا پرابلم 54- خدا بچاؤ مہم اور طالق کا آپشن 55- خودی بیچ کر امیری میں نام پیدا کر 56- امیری میں بھی شاہی طعام پیدا کر 57- رشتے خواب اور گندگی کی روڑیاں 58- طہارتی عمل اور مرغی نواز وڈیرہ 60-
الٹھی والے کی بھینس 61- علم عقل اور حبیبی اداروں کا قیام 62- امریکہ کی پاگلوں سے جنگ چھڑنے والی ہے 63- لوڈ شیڈنگ کی برکات 64- ہم زندہ قوم ہیں 65- بابا بولتا ہے 66- بابا چھیڑتا ہے 67- فتوی درکار ہے 68- الوارث بابا اوپر 69- ڈنگی ڈینگی کی زد میں ہے 70- حضرت ڈینگی شریف اور نفاذ اسالم 71- یہ بالئیں صدقہ کو کھا جاتی ہیں 72- سورج مغرب سے نکلتا ہے 73- حجامت بےسر کو سر میں التی ہے 74- طاقت اور ٹیڑھے مگر خوب صورت ہاتھ 75- انھی پئے گئی ہے 76-
آرا
................................. گیارہ ہتھیار اور منشی گاہیں باالدستی' زورزبردستی اور دھکہ شاہی کے لیے' گیارہ قسم کے ہتھیار درکار ہوتے ہیں۔ مال و منال کی فراوانی 1- کہو کچھ کرو کچھ 2- باسلیقہ سچ مارنے کا ڈھنگ 3- سنے اور جانے بغیر' فیصلہ یا معقول جواب دینے کا علم 4- باجواز اپنی منوانے کی شکتی 5- بااعتماد اور فرض شناس مخبر میسر ہوں 6- لوگوں کے معاملہ میں' ضرورت سے زیادہ بےحس اور 7- اپنے معاملہ میں' ضرورت سے زیادہ باحس ہوں میں نہ مانوں' کے گر خوب جانتے ہوں 8-
سو کے مقابلہ میں ایک سو دس جواذ ملکیت میں رکھتے 9- ہوں بدعنوانی کو عنوانی اور ان کے کارناموں کے گن لکھار 10- اور ڈگاگزار موجود ہوں چپ اور متواتر چپ کی چادر اوڑھے رکھنا کے ہنر سے 11- بہرہ ور ہوں۔ اس طور کے گیارہ پتے' اگر ہاتھ میں ہوں گے تو مات کھانے کا' سوال ہی نہیں اٹھتا۔ مات اسی وقت ہو گی' جب ان میں سے' دو ایک کی کمی ہو گی یا وہ کم زور ہوں گے۔ حال کیا' ماضی کے حکمرانوں اور ان کی بغل بچہ منشی شاہی' ان اعلی اور بااصول خصوصیات کی حاملہ رہی ہے۔ لہذا یہ سب روایت میں چال آتا ہے۔ آج کی منشی گاہیں کوئی نیا نہیں کر رہیں۔ پردھان منشی نگر کے باسیوں کے پاس' روز اؤل سے یہ گیارہ ہتھیار موجود رہے ہیں۔ وقت کے ساتھ' انہیں جال ملتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پھنے خاں سے پھنے' ان کے سامنے کسکتا تک نہیں۔ پیٹھ پیچھے تو لوگ' شاہوں کے بھی گنہگار ہوتے رہتے ہیں۔ بات تو تب ہے' جب کوئی منہ کے سامنے اپنا ان دھوتا منہ کھولے۔ یوں قلہ بازیاں کھائے گا' جیسے مکی کے
دانے' کڑاہی میں پھڑکتے اور تڑپتے ہیں' بآلخر پھال ہو کر رہتے ہیں۔ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں کے مصداق' ماتحت چھوٹے بڑے منشی ہاؤس' بڑی دیانت داری اور اصول پرستی سے' پردھان منشی نگر کے اصول ہائے ہائے زریں نوٹ ۔۔۔۔۔۔ ہائے ہائے کتابت کی غلطی ہے' اسے اصول ہا پڑھا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پر عمل درامد کرتے آ رہے ہیں۔ وہ ان گیارہ ہھتیاروں کو چمکا کر' گرہ میں رکھتے ہیں۔ ملک کی دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی میں' جہاں اور عناصر کا ہاتھ ہے' وہاں کاغذی کاروائی میں' ان اداروں کی' شبانہ کپتی روز خدمات اور محنت کو' نظر انداز نہیں کیا جا سکتا' جو آلو کو الو بنا دینے میں' کمال کی مہارت رکھتے ہیں۔ مخبرین دس باغیوں کے ساتھ' نوے اپنے مخالفیں کو بھی' پھٹے چڑھاتے آ رہے ہیں۔ چلو جو بھی سہی' حقی سچی بات تو یہی ہے' کہ اس مقدس اور عزت مآب نگر اور دیگر ہاؤسز کے' دس باغی تو ٹھکانے لگاتے ہیں۔
ان کے کار ہائے نمایاں کی فہرست بڑی لمبی چوڑی ہے' اسے رقم کرنے کے لیے' اگر آسمان کاغذ' سمندر سیاہی اور موجود ارض ہا کے درخت' قلم بن جائیں' تو بھی رقم نہ ہو پائیں گے۔ ہر کارنامہ اپنے باطن میں' شوخی اور چٹانی سختی رکھتا ہے۔ چوری خور مورکھ' زیادہ تر شاہوں کی' خصیہ اٹھائی میں مصروف رہا ہے۔ ادھر اس کی بہت کم توجہ گئی ہے۔ اسی طرح ماہرین لسانیات نے بھی' انہیں بری طرح نظر انداز کیا ہے۔ بدقسمتی سے' میں ماہر لسانیات نہیں' ورنہ اپنی بقیہ سانسیں' ان کی تحریررات کے لسانی مطالعہ میں گزارتا۔ نامہ بر سے' لوگوں کو گلہ ہی رہا ہے۔ غالب ایسا فراخ دل اور سمندر فکر' تحفظات کا شکار تھا۔ اب دیکھیے' کہاں میں جدید عہد کا آدمی' جس کی گھڑی پر چھے اور عملی طور پر' آٹھ بج رہے ہیں۔ آج سرکاری پترکدے بڑے جدید ہو گیے ہیں۔ اس کے باوجود' لوگوں کی ترجیح میں غیرسرکاری پتر گاہیں ہیں' حاالں کہ وہ سرکاری کی نسبت کہیں رقم دراز ہیں۔ یہ کچھ ہی دنوں کی بات ہے' مجھے ردی کاغذوں میں' ایک تحریر ملی' جس پر مرقوم ہے
محترم پوسٹ ماسٹر صاحب اسالم آباد ................. از راہ کرم پٹرول پمپ کے سامنے لیٹربکس کو قفل تو لگائیے تا کہ خطوط محفوظ رہ سکیں۔ مخلص وقار ..... ڈی۔ '58جی۔ 4-2 اسالم آباد فروری 9 0621 یہ خط ' اسالم آباد کے کسی غیر مصروف' بےفضول نکتہ چیں اور دفتر شاہی کے صدیوں پر محیط مزاج سے ناآشنا' شخص کا لگتا ہے۔ خط کھال النے کا گلہ تو بہت پرانا ہے۔ بازور اور باحیثیت لوگ یا مہذب اور مستعمل زبان میں' وڈیرا کہہ لیں' ٹیل اٹھائیکر ساتھ رکھتے تھے۔ اب چوں کہ ٹیل رکھنے اور اسے چکنے کا دور نہیں رہا۔ دوسرا آج ٹیل کیئر یعنی ٹی سی کی
معنویت ہی بدل گئی ہے۔ اب تفاخر کے اظہار کے لیے' گال کھال اور ٹانگیں چوڑی کرکے' چلنے کا رواج ترکیب پا گیا ہے۔ پوسٹ بکس کا بال تالہ ہونا اور پٹ کھلے ہونا' محکمہ ہذا کی بلند اطواری اور باحیثیت مزاجی کا غماز ہے۔ اس خط یا درخواست کے آخر میں' سرخ روشنائی میں کوئی حکم تو درج نہیں ہاں البتہ' اسی تاریخ میں
lock applied درج ہے ۔ یہ واضح نہیں کہ پوسٹ بکس کو تاال لگایا گیا یا درخواست گزار کی زبان بند کر دی گئی۔
1967 میں بازوری کی کیفیت' آج سے قطعا مختلف نہ تھی۔ وہ لوگ بھی' درج باال ہتھیاروں سے' لیس تھے۔ آج کو' درج باال ہتھیار وراثت میں ملے ہیں۔ مشین گن اور سٹین گن 0604میں استعمال میں آئی تھیں۔ مشین گن کے لیے' پان سات لوگ ہوا کرتے تھے۔ یہ جدید اور ٹیڈی ہو گئی ہے' اس لیے اسے اٹھانے کے لیے' ایک آدمی ہی کافی ہوتا ہے۔ گویا مشین گن کل بھی تھی' آج بھی ہے۔
نامہ ہاؤس سے' میرا خادمی و مخدومی کا تعلق' کل بھی تھا' آج بھی بھی ہے۔ میں نے' ان کی کوتاہی کو اپنی کوتاہی سمجھ کر درگزر کی کٹیا میں' پناہ لی ہے۔ ایک بار' درخواست گزاری کی حماقت' مجھ سے بھی سرزد ہوئی۔ ہوا یہ کہ میں نے' اپنے بیٹے کو کچھ اشیاء کا پارسل' وزنی تین کلو آٹھ سو نوے گرام' سرکاری ڈاک سے' اسٹریلیا بھجوایا' رولتا کھلتا' میرے پاس بالخریت آ گیا۔ سلیز ٹوٹی ہوئی تھیں۔ اسٹریلین ڈاک ہاؤس یا اس سے متعلقہ کسی اتھارٹی کی' مہر ثبت نہ تھی۔ میں نے ڈاک پر خرچ آنے والے 6258روپے کی' واپسی کے لیے بڑے ہی مودبانہ اور عاجزانہ انداز میں' درخواست گزاری۔ پارسل کھوال تو حیرت کی انتہا نہ رہی۔ اس مینبھیجے گیے سامان کی بجائے بانٹیوں' سالنٹیوں' گولیوں وغیرہ کے خالی کور اور پنے پائے گیے۔ نہایت بوسیدہ اور پرانے مردانہ کپڑوں کے جوڑے دستیاب ہوئے۔ میں نے هللا کا الکھ شکر ادا کیا کہ یہ پارسل میرے بیٹے' بہو اور پوتی تک نہیں پہنچا۔ پیرہ نمبر 4
درخواست بنام پوسٹ ماسٹر جنرل مورخہ 6100-8-01 میں نے دوبارہ سے سامان خریدا اور LEOPRDS COURIER SERVICES PVT. LTD
سے اسی ایڈریس پر بھیجا۔ پارسل پوری خیر خریت کے ساتھ' تھوڑے ہی دنوں میں' منزل مقصود تک جا پہنچا۔ میں نے هللا کا شکر ادا کیا۔ چوں کہ یہ پرائیویٹ سروس تھی اور مجبورا زیادہ پیسے بھرے تھے' اس لیے هللا کا شکر ادا کیا' ورنہ سرکاری شکریہ' مجھے شرک کی دہلیز کے اس بار کر دیتا۔ دو سرکاری چھٹیاں ملیں۔ ڈویژنل سپرنٹڈنٹ پوسٹل سروسز کے آخری جملے میں مشورہ دیا گیا
It is requested to kindly take up the matter with the Ausralian postal Authorities, for this purpose, if admissionable as per rules.
اس جملے کو الئق توجہ نہ سمجھا گیا۔ آفس آف دی کنٹرولر آئی ایم او الہور نے کچھ یوں کاروائی فرمائی
As regards the sender claim regarding booking charges, it is also not justified from any angle. As the booking charges were paid by the sender for the transmission of the parcel to Australia and our department has no fault for return of this parcel from Australia
گویا سرکاری ڈاک سے' عدم رابطہ کے سبب' بیرون ملک پارسل بھجوانا' کھلی حماقت سے کم نہیں۔ میری سادگی دیکھیے' میں سرکاری چٹھیوں کو' اپنے نام سمجھ رہا تھا اور یہی سمجھ رہا تھا کہ انہوں نے ہتھیار نمبر 00پھیکتے ہوئے' پہلی درخواست پر کاغذی کاروائی بھی کی ہے اور درخواست کا جواب بھی دیا ہے۔ ہاں البتہ' دوسری درخواست کو ہتھیار نمبر 00سے بال تکبیر ذبح کر دیا گیا ہے۔ جب غور کیا تو معلوم ہوا مجھے تو کبھی جواب ہی نہیں دیا گیا۔ یہ سب تو ان کی اپنی گٹ مٹ تھی۔ مجھے تو محض اطالعی نقول بھیجی گئی تھیں۔ ہتھیار
نمبر 00کی عزت' احترام اور وقار' پورے پہار کے ساتھ اپنی جگہ پر موجود تھا۔ ہاں البتہ حسب ضابطہ اور قانون چپ کے تحت میں بال تکبیر ذبح ہو گیا تھا۔
ایم فل االؤنس اور میری معذرت خوانہ شرمندگی
پیسہ' طاقت' ہتھیار اور اختیار بولتے نہیں' سر چڑھ کر' گرجتے اور برستے ہیں۔ وہ زندگی اپنے طور اور اپنی مرضی سے بسر کرتے ہیں۔ کون جیتا اور کون مرتا ہے' انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ انہیں کبھی اور کسی سطح پر' یہ امر خوش نہیں آتا کہ ان کے سوا' کوئی اور بھی ہے۔ زندگی کی پگ ڈنڈی پر چلتے لوگ' لوگ نہیں' محض غالظت بھرے کیڑے لگتے ہیں۔ ان کے لیے' ان کے پاس حقارت اور نفرت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ وہ انہیں اپنے گراں قیمت جوتے سے' ٹھوکر لگانا بھی پسند نہیں کرتے' مبادہ آلودہ ہو جائیں گے۔ ایسے کام کے لیے' ان کے پاس' چمچوں کڑچھوں کی کمی نہیں ہوتی۔
پیسہ' طاقت' ہتھیار اور اختیار خود کو اٹل اور مکمل سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک' ان کا کیا اور کہا' ہر کجی سے باالتر ہے۔ اس پر انگلی رکھنا' موت اور دکھ درد کو ماسی کہنے کے مترداف ہوتا ہے۔ چوری خور مورکھ اور قصیدہ گزار شاعر' اس سب کو' اقوال و افعال زریں قرار دے دیتا ہے۔ جہاں کہیں یہ باطورگیسٹ' باطالع یا بال اطالع ورد ہوتے ہیں' پروٹوکول' حفاظت اور دوسرے معامالت کے حوالہ سے' وختہ پڑ جاتا ہے۔ لوگوں کو سمجھ نہیں آتا کہ انہیں بٹھائیں کہاں' ڈکارنے اور پھاڑنے کے لیے 'کیا پیش کریں۔ اس ذیل میں' جملہ چمچگان اپنے پیچھے کا پورا زور لگا دیتے ہیں۔ یہ سب کرنے کے باوجود' انسان ہونے کے ناتے' کہیں ناکہیں کوئی کمی کوتاہی رہ ہی جاتی ہے۔ سارے کیتے کترائے پر' پانی پھر جاتا ہے۔ کسی چہاڑ چھنب کے باوجود' انہیں غصہ نہیں آتا۔ غصہ کرنے کا' انہیں حق بھی حاصل نہیں ہوتا۔ وہ کسی اگلی بار' اس کمی کوتاہی کو دور کرنے کا' اپنی ذات سے عہد باندھ لیتے ہیں۔ پیسہ' طاقت' ہتھیار اور اختیار کی معمولی خوشی پر' رو بہ رو ہی نہیں' دور دراز عالقوں میں رہتے ہوئے لوگ' دوہائی کا جشن مناتے ہیں۔ ظاہری اور باطنی سطح پر' وہ خالص اور اصلی ہی دکھائی پڑتا ہے۔ درحقیقت انہیں معلوم ہوتا ہے' کہ
مخبر کی آنکھیں کھلی اور معاملہ شناس ہوتی ہیں۔ دوسرا مقامی حرف گر' منٹ منٹ کی خبریں' قرطاس ہنر پر رقم کر رہا ہوتا ہے۔ وہ اس ساری عمومی کوشش کو' حتی المقدور اپنی کوشش اور خوشی ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ زیادہ تر کامیاب بھی ٹھہرتا ہے اور آوٹ آف ٹرن ترقی بھی حاصل کر لیتا' ورنہ گڈ بک میں اس کا نام نامی اسم گرامی' زعفرانی روشنائی سے' بالتکلف درج ہو جاتا ہے اور کسی دوسرے وقت' پچھلے کیے کا بھی انعام گرہ لگتا ہے۔ معمولی ناسازی طبع' یا گماشتے جی حضوری میں' اپنے کمال کا شیرہ ڈال کر' شفا گاہوں کے درودیوار اور ان کے اکڑوند باسی' ہال کر رکھ دیتے ہیں۔ گویا یہ پہلی ترجیح کالس ایمرجنسی ہوتی ہے۔ اس ڈرامے کے دورانیے میں' کتنے بی اور تھرڈ کالس' ایمرجنسی میں پڑے لوگ' جان سے جاتے ہیں یا جان جانے کی اسٹیج پر پہنچ جاتے ہیں .یہ سب' کسی کھاتے پر نہیں چڑھتا' ہاں یہ پہلی ترجیح پلس ایمرجنسی' یادوں کے کھاتے پر چڑھ جاتی ہے۔ میں نے پیسہ' طاقت' ہتھیار اور اختیارکو' کوئی شخصی نام نہیں دیا' کیوں کہ یہ خود کو فرعون کی پیروی میں خدا نہیں کہتے' حاالں کہ ان کا کہنا اور کرنا' فرعون کا سا ہی ہوتا ہے۔ انسان
اس لیے نہیں کہا جا سکتا' کہ وہ انسانوں کو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں۔ گزشتہ سے عبرت لینا' ان کے مزاج میں داخل نہیں ہوتا۔ فنا کا فلسفہ اور ان گنت مثالیں' ان کے مزاجی نالج میں داخل نہیں ہوتیں۔ اگر کوئی' یاد دالنے کی کوشش میں' سدھار اور ان ہی کی خیرخواہی کا جتن کرتا ہے' تو جان سے جاتا ہے۔ گویا فنا ان کے لیے نہیں ہے اور مالک کے دربار' ان کی حضوری کا کوئی تعلق واسطہ نہیں۔ ہر کوئی ان کے حضور حاضری کا پابند ہے۔ زندگی کے آخری موڑ پر بھی' دنیا سے جانا یاد میں نہیں آتا اور یہ گمان سے نکل نہیں پاتا کہ میں کے لیے فنا ہے اور بقا تو صرف اورصرف هللا ہی کی ذات کو ہے اور وہ ہی باقی رہنے کے لیے ہے۔ عین قانون قدرت کے مطابق' وہ فنا سے گزرتے ہیں' تو فقط چوری خور مورکھ کا لکھا باقی رہ جاتا ہے۔ اکثر اوقات وہ لکھا' متنازعہ ہو جاتا اور عمومی حلقوں کی تقسیم کا باعث بنتا ہے' جو آتے یگوں میں' آتی نسلوں کے لیے نقصان کا باعث بنتا ہے۔ یہ چاروں آواگونی ہیں' نئے انداز اور نئے روپ کے ساتھ نمودار ہو جاتی ہیں' تاہم چلن اور اطوار میں تبدیلی نہیں آتی۔ حجاج سفاک تھا' لیکن چرچل اس سے کسی طرح پیچھے نہ تھا۔ مسڑ چہاڑی کا ذکر امریکی ہونے کے باعث' نہیں کیا جا سکتا۔ جب کوئی نئی قوم' ہیرو کے مرتبے پر فائز ہو گی' تو
گزرا کل آتے لوگوں کے لیے' محض داستان ہو کر رہ جائے گا۔ ہوسکتا ہے' نئے کے چکر میں پرانے کو بھول جائیں' تاہم مورکھ کی لکھتوں کے باعث' تنازعہ کا دروازہ ضرور کھل جائے گا۔۔ ناظر مٹی میں مل کر مٹی ہو چکے ہوں گے۔ کسی عارضی اور مصنوعی و جعلی قوت کو' بقا نہیں۔ قارون اس لیے یاد میں ہے' کہ اس کا پاال' هللا کے منتخب شخص کے ساتھ تھا۔ طاقت کی بات اپنی جگہ' اس کے خصوصی بلکہ عمومی کنکبوتی بھی' انہیں وی آئی پیز کہا جاتا ہے' مذکوران سے کہیں زیادہ زہریلے ہوتے ہیں۔ ان کا ڈسا پانی بھی مانگ نہیں پاتا۔ بجلی پانی گیس کے بل کیا ہوتے ہیں' سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ عید پر قربانی کے بکرے' تحفہ میں مل جاتے ہیں۔ ہر چھوٹے موٹے تہوار پر' سو طرح کے مہنگے تحفے بال طلب کیے' ان کی دہلیز چڑھنے کا اعزاز حاصل کرتے ہیں۔ تہوار چڑھانے واال' اس میں فخر محسوس کرتا ہے اور خود کو' کنکبوتی کا اپنا آدمی سمجھنے لگتا ہے۔ یہ سوچ اسے' انھی پانے پر مجبور کر دیتی ہے۔ جنسی تسکین کے لیے' انہیں لڑکی پٹانے کے لیے' کسی طرح کا' ویل نہیں کرنا پڑتا اور اس ذیل میں جیب ہلکی کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بستر نواز' انہیں ہر قسم کی محتاجی سے'
بچائے رکھتے ہیں۔ یہ ہی نہیں' ورائٹی صاحب کے مزاج کے مطابق' بدلتے رہتے ہیں۔ لفافہ کلچر' ان ہی کی دین ہے۔ لفافہ اپنی کارگزاری کا جواب نہیں رکھتا۔ یہ لفافے ہی کا کمال ہے' کہ ڈی میرٹی کے جملہ داغ دھبے' مٹا دیتا ہے۔ میرٹ کو ڈی میرٹ کرنے کے' سارے گن' اس کے گرد رقص کرتے ہیں۔ لفافہ بردار کو اگر مسکراہٹ میسر آ جائے' تو گویا اس کے بھنے اگ پڑھتے ہیں' ورنہ سپلیمنٹری لفافہ پیش کرنے کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ منشی گاہوں میں بھی' کنکبوتی موجود ہوتے ہیں .یہ بڑی' بلکہ بہت بڑی شے ہوتے ہیں۔ یہ تو یہ' ان کے معاون پی یو سی طراز' بڑے بلند مرتبے پر فائز ہوتے ہیں۔ یس کو نو اور نو کو یس میں بدلنے کے ہر گر' سے واقف ہوتے ہیں۔ گویا آسمان سے ٹاکی اتارنا اور لگانا' ان پر ختم ہے۔ خواتین اپنے آپ میں' بڑی شے' بنتی ہیں لیکن نخرہ بازی میں' ان کے عشر عشیر بھی نہیں ہوتیں۔ ہوٹل کے کھانے' انہیں اور ان کی گھر والیوں کو' بڑے ہی خوش آتے ہیں۔ گرہ خود سے کھانا' رزق حرام کے زمرے میں آتا ہے۔ سامیاں اپنے اپنے
عالقے کی سوغات' النا نہیں بھولتیں۔ میں میں کرنے کے ساتھ ساتھ کھانے کا اہتمام بھی کرتی ہیں۔ ان کے گھر والوں کے لیے' الگ سے شاپر تیار کرواتی ہیں۔ گویا وی آئی پیز کے ماحت ہونے کے سبب' داسوں گھی میں اور سر کڑاہے میں رہتا ہے۔ گھر کی کسی تلخی کا غصہ نکالنے کے لیے' سامیاں قدم بوس ہوتی رہتی ہیں۔ کہا جاتا ہے' زندگی کرنا آسان نہیں' ان طبقوں میں' اس مقولے کا دور تک اتہ پتا نہیں ملتا۔ ہاں آخرالذکر طبقے پر' بعد از ریٹائرمنٹ اطالق کیا جا سکتا ہے۔ یہ طبقے' چوں کہ تعدادی حوالہ سے' زیادہ نہیں ہیں' لہذا تعدادی حوالہ سے زیادہ پر' اس کا اطالق ہوتا ہے۔ وہ ناصرف غیر محفوظ ہوتے ہیں' بل کہ ان گنت معاشی معاشرتی اور دفتری مسائل میں' گھرے ہوتے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ دہلیز کے اندر' چھے ستمبر کی کیفیت طاری رہتی ہے۔ نہ جی سکتے ہیں اور زندگی جیسی بھی سہی' انہیں مرنے نہیں دیتی۔ گویا نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن میں اسالمی جمہوریہ پاکستان کے حوالہ سے بات نہیں کر رہا۔ یہاں مسلمان اقامت پذیر ہیں۔ یہ ملک اپنی بنیادوں میں پروفسر
اصغر سودائی کا یہ نعرہ رکھتا ہے۔ پاکستان کا مطلب کیا ال الہ اال هللا یہاں کی طاقتیں اور ان کے کنکبوتی بھی بااصول اور مجوزہ شرع پر کار بند ہیں۔ اصولی طور پر کچھ حاصل کرنے کے لیے کچھ دینا تو پڑتا ہی ہے۔ دراصل میں ہی بےاصوال تھا' جو بالچہڑے' اپنے ایم فل االونس کی حصولی کا 0661سے منتظر رہا۔ بعد از ریٹائرمنٹ بھی درخواستیں گزارتا رہا۔ میں خواہش مند تھا' کہ اس مقدس بارگاہ کا اعتراض کردہ خط ہی میسر آ جاتا' تا کہ تبرکا تعویز بنا کر' گلے میں ڈال لیتا۔ بالشبہ وہاں کی حرف کاری' میرے لیے اعزاز خسروی سے' کسی طرح کم نہ ہوتی۔ میں اپنی درخواست بازی پر نہایت شرمندہ ہوں۔ ویسے بےلیے' یہ دے بھی دیا جاتا' تو حاتم کی روح اس لطف و عطا پر' شرمندہ و نادم ہوتی۔ میرا یہ بقایا' ان کے پوٹیکدے پر مہینے میں اٹھنے والے خرچے کا' عشر عشیر بھی نہ ہوتا۔
گھر بیٹھے حج کے ایک رکن کا ثواب کمائیں
اس میں کوئ شک نہیں سیکس زندگی میں بڑے مضبوط حوالے کا درجہ رکھتا ہے۔ ضرورت یا عدم تسکین کی صورت میں انسان درندہ کیا شیطان کو بھی مات دے جاتا ہے۔ اس سے جڑے حوالے روزمرہ کی زندگی میں نظر آتے ہیں۔ یہی صورت پیٹ سے جڑی ہوئی ہے۔ ان دونوں کے منہ زور ہونے میں کوئی شک نہیں لیکن یہ زندگی کے بہت سے حوالوں میں سے فقط دو حوالے ہیں۔ انہیں مکمل زندگی نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہ منہ زوری اور ناقابل کنٹرول سطع پر اس وقت آتے ہیں جب شخص انہیں خود پر طاری کر لیتا ہے اور انہیں زندگی سمجھنے لگتا ہے۔ اگر سیکس نسل کشی اور روٹی کو پیٹ بھرنے کا محض ایک ذریعہ سمجھ لیا جائے تو یقینا درندگی اور شطنت راہ نہ پا سکے گی۔ انسان کو هللا نے احسن تخلیق فرمایا ہے اس لیے یہ کہنا قطعی غلط ہے کہ حاجات نفس اور جذبے اس کی بنیادی اور حقیقی فطرت کی دسترس سے باہر ہیں۔ جب تک انسان‘ انسان رہتا ہے سب کچھ اس کے زیردست رہتا ہے جونہی وہ اپنی
بنیادی اور حقیقی فطرت سے گرتا ہے احسن کا درجہ اس سے دوریاں اختیار کر لیتا ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب دراصل انسان کو اس کی حقیقی فطرت پر رکھنے کی کوشش کرتے آئے ہیں۔ مذہب انسان سے کوئ الگ چیز نہیں ہیں۔ یہ انسان ہی کو واضح کرتے ہیں کہ وہ کیا ہے۔ گویا جب انسان غلط کرتا ہے وہ انسانی مذہب یعنی احسن سے گرتا ہے اور محض حاجت خواہش ضرورت نفس وغیرہ کی چلتی پھرتی تجسیم ہو کر رہ جاتا ہے۔ اسے انسان کہنا انسان کی توہین کے مترادف ہوتا ہے۔ اخبار میں ہم جنسی کے متعلق مباحثے کی خبر پڑھنے میں آئ۔ خبر پڑھ کر بڑی حیرت ہوئ۔ ہم جنسی انسانی مذہب سے لگا نہیں کھاتی تو اس پر کسی قسم کی گفتگو کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ دوسری بڑی بات یہ ہمارے معاشرتی سسٹم سے باہر کی چیز ہے۔ یہی نہیں یہ ہمارے کسی بھی مسلک سے متعلق نہیں ہے۔ اسالمی دنیا کا کوئ مسلک اس فعل کی اجازت نہیں دیتا لہذا اس موضوع پر کسی قسم اور کسی بھی سطع کی گفتگو نہیں بنتی۔ اس پر آپسی گفتگو اجازت نہیں مباحثوں کا اہتمام ہونا تو بڑی دور کی بات ہے۔ اگر یہ فعل بد موجود ہے تو ذاتی سطع پر ہے اور اس کا چرچا برسرعام نہیں کیا جاتا۔
ایک خبر یہ بھی ہے کہ یتیموں اور بے گھر بچوں کی مدد کے نام پر ادارہ کھوال گیا مدد کی آڑ میں مجبور بےبس اور الچار بچوں کے ساتھ یہی فعل بد ہو رہا ہے۔ حکومت کتنی بھی سخت اور اصول پسند کیوں نہ ہو انسان کو احسن کے درجے پر فائز نہیں کر سکتی۔ انسان اسی وقت تک انسان رہتا ہے جب تک اس کا ایمان هللا کی ذات گرامی پر مضبوط رہتا ہے۔ انسان اپنے خالق کے حکم اور پہلے سے طے شدہ انسانی حدود سےباہر قدم نہیں رکھتا۔ انسانی مذہب کسی لگی لپٹی کے بغیر واضح کرتا ہے کہ ہر انسان کو اپنے خالق کے حضور پیش ہونا ہے اور اپنے ہر کیے کا جواب دینا ہے۔ تجربہ بھی بتاتا ہے کہ کوئی باقی نہیں رہنے کا۔ ہر انسان پر واضح ہے کہ وہ باقی نہیں رہے گا۔ میں یہاں تحریری طور پر لکھ کر دے رہا ہوں قانون اور دیگر ضابطے برائ کو ختم نہیں کر سکتے جب تک ہر کوئ یہ سمجھ نہیں لیتا کہ اس کا کیا ریکارڈ میں آ رہا ہے اوراس کے کیے کے مطابق پھل ملے گا۔ جب میں جانتا ہوں کہ بجلی کی چوری درست نہیں‘ سارا زمانہ بجلی کی چوری کرتا پھرے‘ میں کیوں کروں۔ انسان مزدوری کر رہا ہو یا مالزمت یا وہ ملک کا حاکم ہی کیوں نہ ہو بنیادی طور پر انسانی مذہب (فطرت) ہی پر ہے۔
انسانی مذہب (فطرت) اسے احسن کے درجے سےنیچے آنے نہیں دیتا۔ نیچے آتا ہے تو انسان نہیں رہتا۔ غیر انسانی افعال سر انجام دینے والوں کو انسان کہنا انسان کی کھلی تذلیل ہے۔ دانستہ طور پر غیر انسانی افعال سر انجام دینے والے انسان نہیں شیطان ہیں۔ انسانی تجسیم انسان ہونے کے لیے کافی نہیں۔ حضرت ہاجرہ کے پاس شیطان انسانی بہروپ میں آیا تھا زوجہ حضرت ایوب کے پاس بھی شیطان انسانی روپ میں ہی آیا تھا۔ انسانی جسم لے لینے کے بعد اسے انسان کس طرح اور کس بنیاد پر قرار دیا جا سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح فعل بد (جوری ڈاکہ ہیرا پھیری بددیانتی رشوت غیر فطری جنسی افعال وغیرہ) سے متعلق کو انسان نہیں کہا جا سکتا ہیں۔ انسان انسانی مذہب سے الگ نہیں ہو سکتا۔ اس قماش سے متعلق دیکھنے میں انسان لیکن اپنی اصل میں شیطان ہیں۔ شیطان کو کنکریاں مارنا ثواب ہے۔ ہر کوئی مکے نہیں جا سکتا اس لیے ان پر واجب ہے کہ وہ شیطان پر رجم کریں اور اس کی شر سے بچنے کے لیے هللا کریم سے مدد طلب کریں۔ اگر هللا کریم توفیق وساءل اور ہمت دے تو کنکریوں کی بوچھاڑ کر دیں۔ دشمن سزا پائے گا اور هللا کریم سے اجر عطا ہو گا۔ جہاد اور کس کو کہتے ہیں۔ گویا آم کے آم گھٹلیوں
کے دام۔ یہاں بیٹھے کم از کم حج کے ایک رکن کا ثواب کمایا جا سکتا ہے۔
کھائی پکائی اور معیار کا تعین
زندگی محدود نہیں۔ کائنات زندگی سے الگ یا غیر متعلق نہیں۔ زندگی کو کاءنات سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح کائنات کو زندگی سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک دوسرے سے انتہائ متعلق ہیں۔ کائنات کی کوئ چیز جو تاحال انسان کی دسترس میں نہیں‘ کو بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس کے متعلق کسی ناکسی سطع پر سوچ‘ خیال‘ نظریہ ہا کہیں ناکہیں کوئ حوالہ ضرور موجود ہوتا ہے۔ اس لیے آگہی نہ ہونے کے سبب اسے مسترد کرنا یا یکسر نظرانداز کر دینا‘ درست نہیں ہوتا۔ یہ اس شخص کی محدود آگہی کا نقص ہوتا ہے ناکہ اس چیز یا زندگی کا نقص۔ بالکل اسی طرح کسی جز کو بنیاد بنا کر کل پر حرف غلط کی لکیر کھنچ دی جائے۔ کل کے
حوالہ سے ہر جز کو غلط قرار دینا بھی زیادتی کے مترادف ہوتا ہے کیونکہ ہر جز‘ کل کا حصہ ہوتے ہوئے بھی اپنا الگ سے ذاتی وجود رکھتا ہے۔ اشیاء اور جاندار فنا کی آغوش میں جا کر بھی جزوی طور پر فنا نہیں ہوئ ہوتیں۔ یہ اجزا تصرف میں الءے جا سکتے ہیں۔ کل میں مدغم ہونے کے بعد ان کی کارگزاری ماند نہیں پڑتی۔ نئے کل میں عین ممکن ہے ان کی کارگزاری پہلے سے بہتر ہو جائے یا وہ کسی دوسرے جز کے لیےمناسب‘ بہتر یا بہترین معاون ثابت ہو۔ ہر قدرے کار گزاری کو بھی نظرانداز کرنا زندگی کی روانی یا مزید ترقی کی سعی پر کلہڑی مارنے کےمترادف ہوتا ہے۔ کسی جز کی کجی کے سبب‘ کل کے تمام اجزا کو ناقص‘ بےکار یا ناکارہ قرار دے دینا کسی طرح دانش مندی نہیں۔ مثال ٹی وی بند ہو جاتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ ٹی وی کے تمام پرزے فیل یا خراب ہوگیے ہیں۔ کسی ایک پرزے میں نقص آ گیا ہوتا ہے جسے مکینک درست کر دیتا ہے یا بدل دیتا ہے۔ ٹی وی پھر سے کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔ تبدیل کیا جانے واال پرزہ الیعنی نہیں ہو جاتا۔ کسی ناکسی سطع پر اس کی کار گزاری باقی ہوتی ہے۔ کچھ نہیں میں کیڑے نکالنا کے لیے بےشمار مثالیں موجود ہیں۔
مواد ریسرچ اسکالر کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ کسی نوخیز یا تقریبا نوخیز بی بی سے ہم کالم نگران کے منہ سے جملہ نکلتا ہے یہ کام کیا ہے‘ جاؤ نظرثانی کرکے الؤ۔ میں اس میں نگران کا قصور نہیں سمجھتا۔ ریسرچ اسکالر کو موقع دیکھ کر جانا چاہیے۔ زنگی شخص سے اور شخص زندگی سے جڑا ہوا ہے۔ زندگی بےرنگ نہیں‘ زندگی تو بےشمار رنگوں سے وابستہ ہے اور معنویت کا تصرف ہی اصل ہنر مندی ہے۔ معمولی معنویت کا استعمال ناصرف ہنر کو نکھارنا ہے بلکہ وسائل کی بچت کا سبب بھی بنتا ہے۔ وسائل کا بچانا کسی نئی دریافت کے لیے آسانی پیدا کرتا ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ دس محرم کو ماتمی جلوس گزر رہا تھا۔ ایک انگریز کا ادھر سے گزر ہوا۔ اس نے اپنے گائیڈ سے ماجرا پوچھا۔ گائیڈ نے بتایا کہ حضرت امام حسین کی شہادت کا ماتم ہو رہا ہے۔ انگریز نے سمجھا کہ انہیں آج‘ چودہ سو برس بعد اتنے بڑے واقعے کا علم ہوا ہے۔ یہ واقعہ بطور دلیل عالقے کے لوگوں کو پس ماندہ سمجھنے کے لیے کافی ہے حاالنکہ سرے سے ایسی کوئ بات ہی نہ تھی۔ گویا جز کو کل پر محمول کرنا کھلی زیادتی اور خود اپنی جہالت کے مترادفف ہے۔ بےوجود یا اچھی بھلی میں کیڑے بلکہ کاکروچ نکالنا ہر دو درج
باال امور سے الگ معاملہ ہے۔ کرنل فوجی پریڈ کی سالمی لے رہا تھا۔ اس نے باآواز بلند کہا اوہ گنڈا سنگھ قدم مالؤ۔ کسی نے جواب دیا سر آج گنڈا سنگھ نہیں آیا۔ کرنل نے جوابا کہا بکو مت‘ وہ آئے نہ آئے میرا کام ٹوکائ کرنا ہے۔ چہاں اس قسم کی صورتحال ہو وہاں گفتگو کرنا ہی فضول ہے۔ انسان کا سوچ ناقابل گرفت ہے۔ انسانی جسم کو قید کیا جا سکتا ہے لیکن سوچ پر پہرے نہیں بٹھاءے جا سکتے۔ :محاورہ بلکہ ضرب المثل چلی آتی ہے پوری دیگ میں سے چند چاول بھی اس کے معیار کو پرکھنے “ “کو کافی ہوتے ہیں اس ضرب المثل جو محاورے کے درجے پر فائز ہے کا حقیت سے دور کا بھی رشتہ نہیں۔ ٹھیک اور احتیاط سے پکی ہوئ دیگ بھی چار ذائقوں کی حامل ہوتی ہے۔ کچھ بھی کر لیں یہ حوالے ختم نہیں ہو پائیں گے۔ ابتدائ‘ درمیانی‘ باالئ اور اطراف میں دیگ کے ساتھ لگے ہوئے چاؤلوں کا ذائقہ اور تاثیر الگ سے ہوگی۔ باالئ یا باالئ سے تھوڑا نیچے سے لیے گیے چاولوں کے حوالہ سے پوری دیگ کے متعلق جاری کیا گیا حکم محض یک طرفہ قیافہ ہو سکتا ہے۔ یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ یہ حکم پکانے واال لگا سکتا ہے یا کھانے واال۔ ہنرمندی کی بنا پر یہ حق پکانے والے کو دیا جاتا ہے حاالنکہ یہ حق کھانے
والے کا ہے۔ وہی بتا سکتا ہے کہ پکائ کی کیا صورتحال ہے۔ پکانے واال کبھی اپنی پکائ کی نندا نہیں کءے گا۔ دیگ جل جانے یا زیادہ آگ مل جانے کی صورت میں ذاءقے کی پانچ یا اس سے بڑھ کر صورتیں ہو سکتی ہیں۔ البتہ کروہڑی کے شوقینوں کی بن آتی ہے۔ میں ناصر زیدی سمیت تمام لکھنے والوں‘ خواہ وہ مفت میں مغز ماری کرتے ہوں یا معاوضہ پر لکھتے ہوں باالئ سطع کے چند چاولوں کو درستی کا معیار نہ بنا لیں۔ جب پکائ کھائ کی ابجد معلوم ہی نہ ہو تو گول مول درمیان کی بات کریں ورنہ پکائ اور کھائ کے جانو خالصی نہیں کریں گے۔ حق اور انصاف کو تو ایک طرف رکھیے۔ مخالف کے اچھے میں بھی کیڑے نکالنا کم ظرفوں اور چمچوں کڑچھوں کا کام ہوتا ہے۔ اعلی ظرفی یہی ہے کہ مخالف کی بہتر کارگزاری کو سر آنکھوں پر لیا جائے۔ جز پر کل کو قیاس نہ کر لیا جائے۔ اسی طرح ہر کل کے گوارا اجزا کی تحسین کی جاءے یا اس سے آگے کی بات کی جائے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مصور نے اپنا فن پارہ گھر کے باہر آویزاں کر دیا اور کہا غلطیوں کی نشاندہی کر دی جاہے۔ اگلے دن اس نے دیکھا کہ وہ فن پارہ غلطیؤں سے بھرا پڑا تھا۔ شاید ہی
کوئی حصہ غلطیوں سے پاک رہ گیا ہو گا۔ مصور کو بڑا دکھ ہوا۔ اس نے اگلے دن ایک اورفن پارہ آویزاں کیا اور نیچے لکھ دیا جہاں کہیں غلطی نظر آئے اسے درست کر دیا جائے۔ فن پارہ کئ دن آویزاں رہا اس میں رائ بھر تبدیلی نہ آئ۔ تبدیلی النے یا غلطیوں کی نشاندی کرنے کا حق صرف اسے ہے جو پکائی اور کھائی کے ہنر سے آگاہ ہو یا کھائی کے جملہ نشیب و فراز سے آگاہی رکھتا ہو۔
کوالیفیکیشن اور عسکری ضابطے ‘ایجوکیشن
لڑائ شخصی ہو کہ قومی یا پھر ملکی‘ اس کا آغاز گھورنے سے ہوتا ہے۔ گھورتے سمے فریقین کی ناسیں پھیلنا شروع ہوتی ہیں اور پھر یہ بتدریج پھیلتی چلی جاتی ہیں۔ نہیں پھیلیں گی تو معاشرے میں کٹ جائیں گی۔ ان کا رہنا‘ ان کے پھیلنے سے مشروط ہوتا ہے۔ آنکھوں میں ہوتی شام کی افقی گردش کرنے لگتی ہے۔ گردش دوراں کے ساتھ ساتھ اس کی گہرائ اور
گیرائ میں ہرچند اضافہ ہی ہوتا چال جاتا ہے۔ ان لہو آمیز نینن میں فاتح ہونے کی تمنا مچلنے لگتی ہے۔ کان ناصرف کھڑے ہوتے ہیں مہنگائ کے باوجود ٹماٹری ہو جاتے ہیں۔ ہونٹوں پر حالیہ کشمیری بھوکم کے آثار نمودار ہوتے ہیں اور بظاہر بےمعنی بربڑاہٹ سی سنائ دیتی ہے۔ دریں اثناء اگر کوئ جلنے قریب پر تیل ڈال دیتا ہے تو غیرسرکاری اور غیر سیاسی قسم کے بیانات کا آغاز ہو جاتا ہے بصورت دیگر پہلے ہاتھ میں موجود چیز کا فرش پر کڑاھپ سے مارنا عسکری ضابطہ ٹھہرا ہے۔ چیز کی مالی قدر دو نمبری کے کھاتے میں چلی جاتی ہے۔ گویا جاروب کش کے کام میں بالقصور اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ اس ذیل میں یہ بھی نہیں سوچا یا دیکھا جاتا کہ چور چور کر دی جانے والی چیز کا فریقن کی گرمی سے کوئ تعلق واسطہ ہی نہیں ہوتا۔ گرمی کے ساتھ سردی کا اس لیے اندراج نہیں کیا گیا کہ وہ موقع ٹھنڈک سے متعلق نہیں ہوتا۔خدا خدا کرکے ناسیں پھیالنے اور گھورنے کا مرحلہ طے ہوتا ہے۔ یہی لڑائ کے ضمن میں مشکل اور کٹھن گزار موقع ہوتا ہے۔ دل کی بھڑاس ہاتھ میں موجود شے پر نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس مرحلے پر یہ بات ذہن میں رکھیں شے زمین پر پھینکی جاتی ہے۔ فاءرنگ کا سلسلہ کافی بعد کا کام ہے۔ بہت پہلے سے یہ جنگی اصول مستعمل چال آتا ہے۔ اس سے انحراف
گویا جنگی اصول اور ضابطے کے خالف ہے۔ ناسیں پھیالنے‘ کان کھڑے کرنے اور آنکھوں میں جنگی عروسی بھرنے کے بعد غرانے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ یہ عمل تادیر برقرار نہیں رہتا۔ اس سے تھوڑی دیر بعد تکرار لفظی سننے میں آ جاتی جو درحقیقت شخصی رجز کے مترادف ہوتی ہے۔ ذاتی تعارف میں ماں بہن بیٹی کو بھی النا ضروری اور جزو جنگ سمجھا جاتا ہے۔ ان کی شان میں گستاخی کو فریقن اول درجے پر رکھتے ہیں حاالنکہ ان کا اس میں سرے سے عمل دخل ہی نہیں ہوتا۔ اگر وہ موقع پر موجود ہوتیں تو مرد لڑاکوں کو کھانسنے کا بھی موقع میسر نہ آتا۔ بول بوالرے سے متعلق امور وہ از خود طے کر لیتں اور مرد حضرات سے کہیں بہتر اور اعلی پاءے کے طے کرتیں۔ خواتین کی موجودگی میں یہ معاملہ مردانہ نہیں رہ جاتا۔ مردوں کا آدھا بھار وہ ونڈا دیتی ہیں۔ مرد میدان میں اچھا لگتا ہے۔ میدان کس نے مارا‘ کا اندازہ ایک کے قتل ہو جانے سے ہوتا ہے۔ اطراف میں کسی کی جان نہ جانے کی صورت میں بے ہوش ہو جانے واال پراجت سمجھا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا بھی نہ ہو تو چہرے کے آلو‘ جنگ کی اسکورسنگ کا کام دیتے ہیں۔ تاہم جنگ کا حق جان دینے یا لینے کی صورت میں ہی ادا ہوتا ہے۔ اس گیم پر اتنا وقت برباد کرنے کا حقیقی اور حتمی نتیجہ سامنے نہ آنا
جنگی اصولوں کے منافی ہوتا ہے۔ جنگ اچھی ہوتی ہے یا بری‘ سردست میرا اس موضؤع سے کوئ تعلق نہیں۔ اس سے امن کا رستہ نکلے گا بدامنی کی راہیں کھلیں گی‘ اس تحریر کا اس سے بھی کوئ لینا دینا نہیں۔ میرا موضوع یہ ہے کہ جنگ کو جنگی اصولوں ضابطوں اور صدیوں سے چلے آتے مراحل سے گزرنا چاہیے۔ اس میں کسی مرحلے کا جلد بازی میں رہ جانا مناسب نہیں اور ناہی وہ لطف رہتا ہے۔ للکار کر آنے اور چوروں کی طرح آنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ میدان میں فیصلہ ہونا چاہیے کہ کون جیت کر ہارا اور کون ہار کر جیتا۔ ناسیں پھیلنے کا نظارہ دیکھنے کو نہ ملےاور معاملہ توتکرار کی سرحدوں میں آ گھسے۔ یا دونوں عمل کا تارک ہو کر ماں بہن اور بیٹی کی شان میں گستاخی پر اتر آنا‘ کسی طرح جنگی دیانت میں نہیں آتا۔ کون کس بہادری اور جیداری سے لڑا‘ دیکھنے کا مزا پہلے مراحل کے بغیر نہیں آتا۔غالب سے کلکتہ والوں سمت کئ حلقوں کی جنگیں ہوءیں۔ یہ کوئی نئی جنگیں نہ تھیں۔ پہلے ازیں بعد سیکڑوں قلمی جنگیں ہوئی۔ ان جنگوں میں جنگی اصول وضوابط کے حفظ مراتب ہر سطع پر مدنظر رکھے گیے۔ بعض جنگوں میں بےاصولی بھی ہوئ لیکن ان کی تعداد
آٹے میں نمک برابر ہے۔ میں نہیں جانتا ناصر زیدی پرانے یودھا ہو کر بھی ابتدائ دونوں مراحل سے کیوں گزر جاتے ہیں۔ سنتے ہیں پڑھے لکھے بھی ہیں۔ پڑھائ کی ناموس بہرطور برقرار رہنی چاہیے۔ جب اٹھتے ہی ڈگریاں پنتے ہیں تو ان کی ایجوکیشن مشکوک ہو جاتی ہے۔ ایجوکیشن تمیز و امتیاز سکھاتی ہے جبکہ کوالیفیکیشن عملی میدان کے کارناموں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اب جب وہ کوالیفیکیشن کو ایجوکیشن پر محمول کریں گے تو ان کی ایجوکیشن پر المحالہ حرف آئے۔ جب وہ کوالیفیکیشن کو ایجوکیشن اور ایجوکیشن کو کوالیفیکیشن سمجھیں گے تو ان کے کہے کی معنویت باقی نہ رہے گی۔ دوسرا اندھیر یہ کہ اٹھتے ہی ماں بہن کی گستاخی پر اتر آتے ہیں تو ایسے شخص کو جوابا کیا کہا جائے۔ میرے نزدیک ڈگریوں پر انگلی رکھنے سے پہلے ان کی متعلقہ محکمہ سے‘ اصلی یا جعلی کی تصدیق کروا لی جائے تو ہی لو لڑائی لڑی جا سکے گی۔جنگ کے ضوابط اور جنگی سلیقہ ہی دراصل جنگی کیمسڑی ہے۔ کسی بھی چیز یا معاملے کی کیمسٹری سے آگہی ایجوکیشن ہے جبکہ اس کی اپلیکیشن اور رزلٹس کوالیفیکیش ہے۔ باور رہنا چاہیے کہ کسی بھی معاملے کے
سلیقے اور اس کی کمسٹری سے آگہی کے ناصرف بہتر نتائج سامنے آتے ہیں بلکہ جنگ میں نقصان بھی کم ہوتا ہے۔ جنگی کیمسٹری کا جانو دشمن کو بھاگا بھاگا کر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ جنگی نغموں کا کام گاءیک حضرات کے ذمے بھی رہا ہے۔ میدان سے باہر کھڑے مبصرین کی کارگزاری بالشبہ بڑی جان سوزی کا کام ہے۔ اسی طرح اکھاڑے سے باہر کھڑے داؤ و پیچ بتانے والوں کی محنتوں کو جنگی کوالیفیکیشن کا حصہ سمجھا جانا چاہیے تاہم ان پر عمل درامد ضروری نہیں کیونکہ یودھا اپنی حمکت عملی خود سے طے کرتا ہے۔ جنگی نغمے ناصرف جوش پیدا کرتے ہیں بلکہ رجز خوانی اور للکاری بولوں کو بھی نکھارتے ہیں۔ ایجوکیٹڈ‘ کوالیفیکیشن پر عمل درامد بہتر نتائج کا حامل خیال کیا جاتا ہے۔۔ ہمارے ہاں الئف ایکسپریس سے استفادہ کرنے کا رواج مخصوص حلقوں تک محدود ہے۔ طبقہ نوازی ہمیشہ سے چلی آتی ہے۔ یہاں زرہ نوازی کا رواج نہیں۔ ہاں یہ نوازتی طبقے خود کو ذزہ سمجھتے ہیں۔ ان کو نوازنے کے سبب ذرہ نوازی مرکب تاحال اپنے فل بٹا فل بھار کے ساتھ وجود رکھتا ہے۔
مشتری ہوشیآر باش
کسی کجی خرابی غلطی سچائ یا ہونی کو تسلیم نہ کرنا زمین کے ہر خطہ کے انسان کی سب سے بڑی اور مستمل خوبی ہے۔ جب یہ رواج پا گئی ہے تو اس کی کسی سطع پر مذمت کرنا کسی طرح درست نہیں۔ جب کوئ تسلیم نہیں کرتا تو وہ اول الذکر طبقے کی صف میں ا کھڑا ہوتا ہے۔ کسی گنجے کو اگر آپ ہیلو گنجا صاحب یا کسی کانے کو محترم کانا صاصب کہہ کر پکاریں گے تو وہ آپ کا سر پھوڑ دے گا۔ کتنی زیادتی کی بات ہے۔ کیا مخاطب گنجا یا کانا نہیں ہوتا۔ ادب آداب ملحوظ خاطر رکھا گیا ہوتا ہے۔ پھر غصہ اور تاؤ میں آنے کا‘ کیا جواز بنتا ہے۔غالبا اس طور سے پکارنے کا رویہ پروان نہیں چڑھ سکا جو بہرطور رواج پانا چاہیے۔ میری بات سن کر استاد ہوریں کھکھال کر ہنسے اور میں
شرمندہ سا ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد فرمانے لگے۔ فعل وجہء پہچان نہیں ہوا کرتا۔ حثیت مرتبہ عہدہ گروہ جماعت شخص کی وجہءپہچان بنتی ہے۔ دفتر میں بیٹھا بابو یا افسر رشوت کے بغیر کام ہی نہیں کرتے بلکہ کر ہی نہیں سکتے انہیں محترم رشوتی صاحب کہہ کر پکارنا موت کو ماسی کہنے کے مترادف ہے۔ ہوتا کام بھی نہیں ہو گا۔ یہی نہیں کسی نئ پھسنی میں پھس جاؤ گے حاالنکہ وہ ڈنکے کی چوٹ پر محترم رشوتی صاحب ہوتے ہیں اور یہ حقیقت ہر ایرے غیرے سے بھی بعید نہیں ہوتی۔ کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں یہ سچائ میں آپ پر اپالئی کرتا ہوں۔ بہت ہی پیارے اور محترم ڈھیٹ بےشرم صاحب اس موضوع کو چھوزیں اور کسی دوسرے موضوع پر بات کریں۔ استاد کا یہ طرز تکلم مجھے زہر میں بجھے تیر سے زیادہ تیزدھار محسوس ہوا اور میرے منہ سے بےساختہ نکل گیا :یہ آپ کیا بکواس کر رہے ہیں۔ میری بوکھالہٹ اور سیخ پائ پہ سیخ پا ہونے کی بجاءے انھوں نے پہلے سے زیادہ جاندار قہقہ داغا۔ پھر فرمایا جس چیز پر آپ عمل نہیں کر سکتے دوسروں !سے اس کی برداشت کی توقع کرنا کھلی حماقت نہیں؟ پہلے آپ یہ فرماءیے کہ آپ نے مجھے ڈھیٹ اور بے شرم کس بنیاد پر کہا ہے؟
آپ بیسویں صدی سے سیکرٹری ہاءر ایجوکیشن پنجاب کی خدمت میں اپنے ایم فل االؤنس کے لیے مسلسل اور متواتر درخواستیں گزار رہے ہیں اکیسویں صدی کے تیرہ سال گزر چکے ہیں کسی ایک کا بھی جواب موصول ہوا ہے‘ نہیں نا۔ آپ پھر درخواست گزارنے کی سوچ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ڈھیٹ ہوئے نا۔ آپ نےمجھے بےشرم کیوں کہا ہے؟ اس کا بھی جواب دیتا ہوں پہلے پہلی بات تسلیم کرو یا دلیل سے انکار کرو۔ استاد کی بات میں دم اور خم پورے پہار کے ساتھ توازن رکھتے تھے۔ دل اور دماغ استاد کی بات کو تسلیم کر رہے تھے لیکن زبان پر رعشہ طاری تھا۔ آپ نے مجھے بےشرم کیوں کہا ہے۔ یہ زیادتی ہے۔ سراسر زیادتی ہے۔ میں نے اپنی ہاں کو جعلی غصہ دکھا کر گول کرنے کی کوشش کی۔ میری چترایئ پر انھوں نے پتھرپاڑ قہقہ داغا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں من ہی من میں بڑا کچا ہوا۔ حضرت ٹالیے مت۔ دو ٹوک ہاں یا ناں میں جواب دیں۔
چلو ایک منٹ کے لیے درست مان لیتا ہوں لیکن آپ نے بےشرم ایسا ثقیل لفظ میری ذات کے ساتھ نتھی کیوں کیا ہے؟ منگنیں ڈال کر سہی‘ آپ نے میری بات کو آؤں گاؤں کرکے تسلیم تو کیا۔ کان اوپر سے پکڑو یا سیدھے‘ بات ایک ہی ہے تاہم آپ حد درجہ لسےاور پھوسٹر ثابت ہوءے ہیں۔ اہل جفا کے پاس ایک سے ایک بڑھ کر دلیل ہوتی ہے لیکن آپ کے پلے تو ککھ نہیں۔ آپ کا تو هللا ہی حافظ ہے۔ غلطی کرتے ہیں تو ہاتھ میں کوئ دلیل بھی رکھیے ورنہ سکے میں مارے جاؤ گے۔ آپ نے چھے ماہ پہلے پنجاب گورنمنٹ سروسز ہاؤسنگ فاؤنڈیشن والوں کو اپنی رقم کے لیے درخواست گزاری اور آس لگا کر بیٹھ گیے۔ بھولے بادشاہ وہ بھی اسی عدم تسلیمی نظام کا حصہ ہیں۔ وہاں جاؤ‘ گرہ کا منہ کھولو اور زبان والے منہ سے تسلیم کرو کہ ان کا کام صاف شفاف اور اک نمبری ہوتا ہے۔ انھوں نے ہمیشہ کچھ لیے بغیر ساءل کی داد رسی فرمائی ہے۔ تصوف جدید کے درازوں کی کلید ان کے پاس ہے۔ کیا یہ بےشرمی اور ہٹ دھرمی نہیں بن دیے لینے کی اچھا رکھتے ہو اوپر سے ان کے متعلق ٹکے ٹکے کی بےفضول اور معنی خیز باتیں کرتے ہو۔ استاد نے اور بھی بہت ساری باتیں کیں جن پر بخوشی ناسہی
جبری قہقہ لگایا جا سکتا تھا لیکن میں نے اپنے منہ کو اور اس سے متعلقہ اعضاء کو زحمت ہی نہ دی۔ پلہ نہ جھڑنا اور سکے تے مل ماہیا بےشک اور بالشبہ دفتری امور کی خالف ورزی اور اس مستعمل رویے کے خالف سازش نہیں‘ بغاوت ہے۔ اگر یہ لوگ اس سسٹم کا حصہ ہیں اور خرابی کو خرابی تسلیم نہیں کرتے تو میں اپنی ذات سے متعلق خرابی کو خرابی کیوں تسلیم کروں۔ تسلیم کر لینے کی صورت میں بھی غلط ٹھہرتا ہوں۔ غالب کا دور اور تھا تسلیم کی خو ڈالنا سرکاری مجبوری تھی۔ تسلیم کی خو نہ ڈالنا آج کی سرکاری مجبوری ہے۔ گو ادھر گرہ میں مال آتا ہے اور ادھر جاتا ہے۔ اب جو بات کرنے جا رہا یہ درج باال معاملے کا حصہ نہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ میں لکھ ہی نہیں رہا ناہی ایسی باتیں لکھی جا سکتی ہہں کہ گرہ میں کرایہ تک نہیں‘ ان منہ اور کھیسہ پاڑ حضرات کے تقدس مآب دامن میں قاءداعظم کے سفارشی رقعے کہاں سے رکھوں۔ وہ بےچارے بھی تو قانون کے پابند ہہں۔ میں اپنی حتمی مجبوری سے مجبور ہوں تبھی تو گرہ کا کڑوا سچ لکھا ہی نہیں۔ !مشتری ہوشیار باش
میں عصری سچائی کے تحت خود میں تسلیم کی خو ڈال کر عصری ضابطے کے توڑنے کا جرم اپنے سر پر نہیں لے سکتا۔ یہی پڑھا سمجھا اور سوچا جائے۔
مدن اور آلو ٹماٹر کا جال
لفظ جب تشکیل و ترکیب پاتا ہے مخصوص معنویت کا حامل ہوتا ہے۔ مخصوص ماحول‘ مزاج‘ نفسیات‘ موڈ‘ لب ولہجہ‘ بناوٹ‘ کلچر وغیرہ رکھتا ہے۔ مستعمل اور معروف ہو جانے کی صورت میں محدود نہیں رہتا۔ بلکل ایسی صورت مہاجر آوازوں اور الفاظ کے ساتھ پیش آتی ہے۔ شخص زبان کا پابند نہیں زبانیں شخص کی پابند ہیں۔ زبانوں کو اپنے استعمال کرنے والوں کے حاالت ضرورتوں ماحول موڈ کلچر وغیرہ کی پابندی کرنا ہوتی ہے۔ اگر شخص کو زبان کا پابند کر دیا جائے گا تواظہار میں مشکل یی نہیں خیال اور جذبے کی اصلیت باقی نہیں رہتی یا اس میں قوت برقرار نہیں رہ پاتی۔ وہ کچھ کا کچھ ہو سکتا ہے۔
اظہار کے ساتھ ساتھ زبان بھی محدود رہتی ہے۔ مکتوبی صورت کوئ بھی رہی ہو اسٹریٹ ان پابندیوں کو خاطر میں نہیں التی۔ شاعر عروضی پابندی کے سبب کہتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرا پیغمبر عظیم تر۔۔۔۔۔۔۔ عروضی مجبوری کے باعث وہ گستاخی کا مرتکب ہوا ہے۔ گویا پابندی خیال یا چذبے کا ستیاناس مار کر رکھ دیتی ہے۔ درست ابالغ تب ہی ممکن ہے جب زبان شخص کے خیال کی پابند ہو گی۔ اس حوالہ سے دیکھا جائے تو زبان کا تفہیمی واظہاری کلچر مخصوص ومحدود نہیں کیا جا سکتا۔ شخص سی ٹی کہہ کر سی ڈی‘ لیڈیاں کہہ کر لیڈیز مراد لے گا۔ قلفی کہہ کر قفلی مراد لے گا۔ حور اسامی اوقات احوال وغیرہ واحد استعمال ہوتے رہیں گے۔ جلوس کو عربی معنوں میں کبھی بھی استعمال نہیں کیا جائے گا۔ غریب کے معنی گریب ہی لیے جائیں گے۔ شراب کو وائین کے معنی دیے جاتے رہیں گے اور اسے عربی سمجھا جاتا رہے گا حاالنکہ یہ شر +آب ہے۔ عربی فارسی کا آمیزہ ہے۔ عینک عین +نک عربی اور دیسی زبانوں کا آمیزہ ہے۔ گالس کے معنی پانی پینے واال ظرف مستعمل رہیں گے۔ بات یہاں تک محدود نہیں ان کا استعمال بھی شخصی ضرورت خیال جذبے اور موڈ کا پابند ہے۔ متضاد الگ سے اور نئے معنی سامنے آتے رہنا حیرت کی بات نہیں۔
برتن کل کرنا کا برتن دھونے کے معنوں میں استعمال ہونا میرے سمیت ہر کسی کے لیے عجیب ہو گا۔ مزے کی بات‘ اسٹریلیا میں مستعمل ہے۔ ہم اسے توڑنا پھوڑنا کے معنی دیں گے۔ ناصر زیدی نے اپنے ٦٢نومبر کے کالم میں مرکب۔۔۔۔۔۔۔۔مرتب و مدن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ استعمال کیا۔ میں آگے بڑھنے کی بجاءے اس مرکب میں پھنس گیا۔ پہلے تو میں اسے مدن الل کے لباس کی ترتیب سمجھا۔ پھر میرے سوچ کا زاویہ مدن بان یعنی کام دیوا کی طرف مڑ گیا۔ کام دیوا کے حوالہ سے شخصی حسن اوراعضائی ترتیب کی جازبیت کی طرف توجہ پھر گیی۔ شخصی حسن اور آالت تخلیق کی صفائی ستھرائی کی طرف خیال کا پھر جانا فطری سی بات تھی۔ فنی چابک دستی یہ تھی کھ جنس کی تخصیص موجود نہ تھی۔ مردانہ ہوتے تو زنان کے لیے دلچسپی کا سبب ہو سکتے تھے۔ زنانہ ہوتے تو مرد روز اول سے لکیر کا فقیر رہا ہے۔ مجھے ناصر زیدی کے سوچ اور لفظ کے استعاراتی استعمال کو بےاختیار داد دینا پڑی۔ انھوں نے دونوں اصناف کو دائرے میں لے کر اپنی قلمی ہنر مندی کا ثبوت دیا۔ ان کا یہ کالم جیسا کہ مرتب و مدن سے پہلے کی سطور سے واضح ہوتا تھا کہ وہ کسی کتاب سے متعلق تھا۔
مجھے لگا یہ کتاب ڈاکٹر وی پی سوری کے پی ایچ ڈی کے مقالے شہوت سے شہوانی معلومات کو اکٹھا کر دیا گیا ہے۔ سوچا یہ کتاب واجدہ تبسم کا افسانہ اترن جسے کاما سوترا کا خالصہ کہا جا سکتا ہے‘ کی جدید ترین شرح بھی ہو سکتی ہے۔ میں نے سوچا عین مکن ہے ہیوالک ایلس کی کاوش تانترہ کو نیا کالب دے دیا گیا ہو گا۔ یہ کوئ حیرت کی بات نہیں کوک شاستر کے حوالہ سے مواد وافر دستیاب ہے۔ وہی وہانوی نے جنس پر بہت کچھ لکھا تھا۔ اسی طرح ڈاکٹر سلیم اختر نے مرد جنس کے آئنے میں‘ عورت جنس کے آئنے میں اور شادی جنس اور جذبات ایسی کتب کے تراجم کیے ہیں۔ اس حوالہ سے کام بند نہیں ہوا۔ گویا سلسلہ جاری ہے۔ جنس کوئ عام اور معمولی موضوع نہیں۔ بڑے بڑے لوگ آالت زنانہ کے معاملہ میں حساس واقع ہوئے ہیں۔ دو بیبیاں تنہائ میں بیٹھی آالت مردانہ پر بڑی خاموشی سے تبصرہ کر رہی تھیں۔ دو مرد قہقہے لگاتے ہوتے وہاں سے گزرے۔ ایک نے پوچھا یہ کس قسم کی باتیں کر رہے ہوں گے۔ دوسری نے جوابا کہا ان کی باڈی لنگوئج بتا رہی تھی کہ وہ ہمارے آالت پر گفتگو کرکے زبانی کالمی اور خیالی مزے لے رہے تھے۔ سوال کرنے والی کے منہ سے نکال بڑے بےشرم ہیں۔ یہ واقعہ یاد آتے ہی
میری توجہ پودوں کی طرف چلی گئی۔ مدن پودوں سے متعلق بھی ہے۔ عشق‘ محبت‘ بہار اور بغل گیری مفاہیم درج باال امور کی طرف چلے جاتے ہیں۔ شہد کی مکھی کو بھی گول کرنا پڑا کیونکہ ان کی آوازیں حاالت مخصوصہ کی آوازوں سے مماثل ہوتی ہیں۔ لفظ بےشرم نے جنسیات سے متعلق سوچنے سے منع کر دیا ورنہ نیاز فتح پوری کی تصنیف جنسیات کی طرف سوچ کا دھارا بڑی تیزی سے مڑ رہا تھا۔ درخت امن اور جنگ میں انسان کے کام آتا رہا ہے۔ مجھے یقین ہو گیا کہ یہ کتاب درختوں سے متعلق ہو گی چونکہ ناصر زیدی اس کتاب پر گفتگو کر رہے ہیں لہذا پڑھنے الءق ہو گی۔ میں مدن سے آگے بڑھنے واال ہی تھا کہ اندر سے آواز آئی منڈی سے آلو اور ٹماٹر ال دیں۔ حکم بےغم کا تھا اس لیے بقیہ کالم پڑھے بغیر آلو ٹماٹر اور ان کے تیز ببھاؤ کی سوچوں میں مقید منڈی کی طرف بڑھ گیا۔ اس حقیقت کا ویروا کہ لفظ معنویت اور استعمالی حوالہ سےمحدود نہیں‘ اگلی نششت تک ملتوی کرنا پڑا۔
وہ دن ضرور آئے گا
آج سبزی منڈی کے بھاؤ اعتدال پر تھے۔ بیگم نے اگر دو دن صبر کر لیا ہوتا تو اس کا کیا جاتا۔ مجھے اس پر غصہ نہ آیا کیونکہ اس وچاری کے پاس کون سی الہامی شکتی تھی۔ یہ بھی کہ حاالت بتا رہے تھے کہ بھاؤ اوپر ہی اوپر جاﺀیں گے۔ دوسرا ضرورت تو اس وقت تھی۔ بعد ضرورت میسر آتی چیز کو کیا کرنا ہوتا ہے۔ یہ بھی کہ ہم کون سے بیوپاری ہیں جو خوردنی اشیاء کو ذخیرہ کرنے کا شوق رکھتے ہیں۔ ذخیرہ منوں کا ہو یا آدھ پاؤ سیر کا ہو ذخیرہ ہی کہالئے گا۔ ذخیرہ کی عادت اس میں بہرطور ہے۔ آدھ کلو ٹماٹر اور دو کلو آلؤ تو ذخیرہ ہو گیے۔ اگر یہی ایک ٹماٹر اور آدھ کلو آلو دوکان سے منگوا لیتی تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ آج پنتس روپے کلو آلو چھیاسٹھ روپیے کلو ٹماٹر بک رہے تھے۔ قیمتیں آویزاں ہوں تو بھاؤ کرنے کا سیاپا نہیں کرنا پڑتا۔ بھاؤ کرنے کا عمل بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ میری اس عمل سے جان جاتی ہے۔ یہ جنجال گریبوں یعنی بھوکے ننگوں اور کنگلوں تک محدود ہے۔ اس کرپٹ معاشرے میں بھی جان مارتے ہیں اور ہاتھ کچھ نہیں لگتا۔ بیسیوں بالمحنت کمائ کے ذراءع موجود ہیں۔ یہ بھی امکان غالب ہے کہ ان دھندوں سے متعلق لوگ ان
لوگوں کو اپنے کام کا نہ سمجھتے ہوں۔ ایمان داری کی مہلک بیماری کے سبب ان پر یقین بھی نہیں کیا سکتا۔ ٹماٹر آلو اور پودینے کی جریداری کرنے کے بعد میں اپنی نشت پر آ بیٹھا بقیہ کالم پڑھنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ ایک صاحب آدھمکے۔ مروت کا تقاضا تھا کہ جعلی سی مسکراہٹ کے ساتھ انھیں خوش آمدید کہنا پڑا۔ وہ تو بعد میں پتہ چال کہ موصوف گن کی گتھلی ہیں۔ لطاءف و ظرافت کا ذوق رکھنے کے ساتھ ساتھ حکمت بھی بال کی رکھتے ہیں۔ ضرورت مندوں کے لیے گولیاں شلوار والی جیب میں رکھتے ہیں۔ ان سے گولیاں لیتے وقت گھبراہٹ نہیں ہوتی۔ پہلے اپنی ذات پر تجربہ کرتے ہیں۔ مدن بان کی ان پر خصوصی کرپا ہے۔ کام دیوا سے شفا کا بردان حاصل کر چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مدیانی امور بڑی کامیابی سے انجام دیتے ہیں۔ باتیں بڑی چٹخارے دار کرتے اور بناتے ہیں۔ دوسرا یہ معاملہ ہے ہی چٹچارے دار۔ میں بھی تو اس کالم کو جنسی کالم سمجھ کر پڑھ رہا تھا۔ مدن سے ٹھیک پانچ لفظ کے فاصلے پر ڈاکٹر تبسم کاشمیری کا نام تھا۔ ڈاکٹر صاحب سے میرا تیس چالیس سال سے محبت کا رشتہ ہے۔ بڑی صاف ستھری اور نکھری نکھری شخصیت کے مالک ہیں۔ تحقیق اور تنقید میدان ہے شاعری کا بھی شوق
رکھتے ہیں۔ جنسیات سے متعلق ان کی کوئی تحریر میری نظر سے نہیں گزری۔ حیرت ہوئ اس عمر میں انھیں مدن بانی کا شوق کیوں اور کیسے پیدا ہو گیا۔ سوچا بڑھاپے میں عموما وج کھج جاتی ہے۔ یہ بال اور بےجواز بات بھی نہیں۔ یہ مدنائزیشن کا عہد ہے۔ ہم شرقیوں کو مغربی بننے کا شوق کچھ زیادہ ہی ہے۔ بھال ہو حضرت ڈینگی شریف کا جو صبح سویرے اور شام قریب اسالم نافذ کر دیتا ہے۔ اس طرح جبری سہی‘ بے لباسی لباسی ہو جاتی ہے۔ یہ بات اہل علم کیا‘ ہر ایرا غیرا بھی جانتا ہے کہ نمرود کو ڈینگی ہی لڑا تھا اور وہ چار صدیاں چھتر کھاتا رہا۔ ہٹ کا پکا تھا چھتر کھاتا رہا لیکن ہم کے دائرے سے باہر نہ آیا۔ بادشاہ لوگ اگر ہٹ کے پکے نہ ہوں تو انھیں بادشاہ کون کہے گا۔ میں عصری دلیل بھی رکھتا ہوں۔ پنجاب سرونٹس ہاؤسنگ فاؤنڈیشن الہور اور سیکریٹری ہائر ایجوکیشن والی رقم دلوانا دور کی بات میری کسی داخواست کا جواب ہی دلوا ے تو مان جاؤں۔ جواب کو نہی کے معنوں میں نہ لیں۔ کیوں‘ وہ کلرک بادشادہ ہیں۔ ہٹ انھیں گٹی میں ملی ہے۔ بہرکیف یہ بادشاہوں کے معاملے ہیں اس لیے طے شدہ ہیں ان پر کالم سے پاپ لگتا ہے۔ ہمارے ہاں نامعلوم بالمعلوم اور غیر کالم پر گفتگو کا رواج بڑا
عام ہے۔ ہاں میں ہاں مالنا تو بڑی عام سی بات ہے۔ ہم مدلل گفتگو کی پوزیشن میں بھی ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جو کبھی خوردنی سامان کی خریداری کے لیے بازار گیے نہیں ہوتے۔ مال و منال بھی وافر سے زائد ہوتا ہے شاندار اور دھواں دھار لیکچر پال سکتے ہیں۔ ان کے لباس پر نہ جائیے صرف کہے سنے تک رہیے ایسا محسوس ہو گا جیسے کچھ کھائے انھیں ہفتے گزر گیے ہوں۔ دل نہیں مان رہا تھا کہ ڈاکٹر تبسم کاشمیری مدنائزیشن کا شکار ہو گیے ہیں۔ بندے کا کیا پتہ ہوتا ہے۔ میں نے کالم آگے کیا پڑھنا تھا میری سوئی یہاں پر اٹک گئی۔ دل مان نہیں رہا تھا آنکھوں دیکھا رد بھی نہیں کر سکتا۔ آخر انھوں نے اس کتاب کا دیباچہ کیوں لکھا۔ میں نے سوچا تصدیق کر لینی چاہیے کہ انھوں نے دیباچہ لکھا بھی کہ نہیں۔ ہمارے ہارے ہاں بال دیکھے دیباچہ لکھنے کا رواج موجود ہے۔ ہو سکتا ہے انھوں نے کسی مروت کے تحت کچھ لکھ دیا ہو۔ پھر میں نے کتاب منگوائی‘ دیباچہ موجود تھا۔ کتاب کے اگلے صفحوں میں کتاب پر ڈاکٹر نجیب جمال‘ ڈاکٹر صابر آفاقی‘ ڈاکٹر دمحم امین‘ ڈاکٹر غالم شبیر رانا اور ڈاکٹر دمحم عبدهللا قاضی کی تحریریں بھی موجودد تھیں۔
ناصر زیدی صاحب کو صرف ڈاکٹر تبسم کاشمیری ہی کیوں نظر آئے۔ بقیہ کالم کیا پڑھنا تھا میں اس سوال کا جواب تالشنے کی کوشش میں لگ گیا۔ کیا ایسا تو نہیں ناصر زیدی صاحب نے کتاب کا مطالعہ کیے بغیر ہی خانہ پری کے لیے کالم لکھ دیا ہو۔ آخر آلو ٹماٹر کی انھیں بھی ضرورت ہے۔ ہر طرف خانہ پری کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ بھی تو ہر طرف میں آتے ہیں۔ نزدیک کی کمائی خوش آنا رواج سا بن گیا ہے۔ سا میں نے رواجا لکھا ہے ورنہ معاملہ سا کی دسترس سے نکل کر مشبہ بہ کامال مشبہ کا روپ دھار چکا ہے۔ فعل بد شیطان سا تھا اب شیطان بن گیا ہے۔ اب سا کا کوئی روال ہی نہیں رہا۔ رشوت مالوٹ دغا عین کاروبار کا درجہ اختیار کر گیے ہیں لہذا ان پر گال بےفضول سا ہو گیا ہے۔ میں مطالعہ کے حوالہ سست رو رہا ہوں اسی لیے بقییہ کالم مجھے اگلی نشت تک اٹھا رکھنا پڑا۔ بینائ بےشک کمال کی چیز ہے لیکن اندھا بیک وقت دو فائدے اٹھاتا ہے۔ جی بھر کر سو سکتا ہے چھاؤں چھاؤں چل سکتا ہے۔ بالدیکھے کام کرکے پیسے کھیسے کرنے والے اندھے کی طرح موج میں ہوتے ہیں لیکن مجھ سا قدم قدم پر رک کر اپنا اور قارین کا وقت برباد کرتا ہے۔ کیا کریں اپنا اپنا طریقہ ہے۔ اندھے سے بلکہ اندھے کماتے اور ڈکارتے ہیں اور مجھ سے مفت میں مغز ماری کرکے رسوا ہوتے ہیں۔
فکرمند نہ ہوں دیر اور قسطوں پر سہی‘ وہ دن ضرور آئے گا جب ناصر زیدی صاحب کے کالم کی آخری سطر میری نظر سے گزر رہی گی۔
ناصر زیدی اور شعر غالب کا جدید شعری لباس
اس میں کوئ شک نہیں کہ غالب اپنی فکر کے حوالہ سے عہد عہد کا شاعر ہے۔ اس حقیقت سے کوئی بالغ نظر شاعر دانشور محقق نقاد اور صاحب ذوق قاری انکار نہیں کر سکتا کہ غالب‘ غالب تھا اور شعر کی فکری دنیا پر آج بھی غالب ہے۔ وہ متاثر کرتا رہا آج بھی متاثر کرتا ہے۔ اس کی شعری بساط پر کھیلنے والے کمال کے لوگ رہے ہیں۔ غالب کے ساتھ وہ بھی فکری اور تحقیقی دنیا میں اپنا وجود رکھتے ہیں۔ اس امتیاز کو الگ رکھیے کہ فالں نے تو غالب کے خالف لکھا۔ مخالف لکھنے والے بھی تو غالب کے حوالہ سے تنقید کی دنیا میں اپنا وجود رکھتے ہیں۔
برہان قاطع وجود نہ رکھتی تو قاطع برہان ایسی نادر کتاب کس طرح وجود حاصل کرتی۔ لسانی تحقیق میں ان دونوں کتب کو نظرانداز کرنا یا ان پر باقاعدہ کام نہ ہونا‘ زیادتی کے مترادف ہوگا۔ اسی طرح غالب پر بہت کچھ ہونے کے باوجود متنی کام باقی ہے یا تشنگی کا گلہ رکھتا ہے۔ عہد حاضر میں آزاد اور نثری شاعری بڑا مضبوط وجود اور حوالہ رکھتی ہے۔ یہ شاعری اپنے عہد کے جملہ معامالت اپنے ساتھ لے کر چلتی نظر آتی ہے بلکہ اس کے وجود میں عصر جدید کا دکھ سکھ پوری شدت اور ادبی توانائ کے ساتھ رچا بسا نظر آتا ہے۔ اگر اس شاعری کو اپنے عہد کی معتبر شہادت کا نام دے دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ اس صنف سخن کے موجود ہونے کے سبب دنیا کی تقریبا تمام زبانوں کی شاعری ترجمہ ہو کر اردو ادب کا حصہ بنی ہے۔ اس ترجمے کے عمل سے دنیا کے ہر خطے کے شخص کی فکر حاجات اور نفسیات سے اردو کا قاری آگاہ ہوا ہے۔ تراجم کے حوالہ سے اسلوبیات میں کشادگی پیدا ہوئ ہے۔ آتا کل‘ آج کی سماجی معاشی اور سیاسی تاریخ کو اس صنف سخن
کے حوالہ سے جان اور پہچان سکے گا۔ اسی شاعری کے تناظر میں اپنے ماضی کو شاباشی اور لعنتی کلمے گزارے گا۔ مجید امجد‘ ن م راشد‘ میرا جی ‘ مبارک احمد‘ تبسم کاشمیری‘ سعادت سعید‘ فاطمہ حسن‘ انیس ناگی وغیرہ وغیرہ کو جدید اردو شعر وادب سے نکال دیں باقی رہ ہی کیا جاءے گا۔ ان ارباب سخن نے ناصرف زبان کی لسانی حوالہ سے گرانقدر خدمت انجام دی ہے بلکہ شعری لوازمات بھی فراہم کیے ہیں۔ شعری الزمے مہیا کیے ہیں۔ تشبہات‘ استعارے‘ عالمتیں اور تلمیحیں بکثرت دستیاب کی ہیں۔ نئی سوچ اور فکر اپنی جگہ‘ زبان کے اظہاری دائرے کو وقار اور ثروت سے سرفراز کیا ہے۔ اسطالحات مرکبات مترادفات اور استعماالت میسر ہوے ہیں۔ یہی نہیں‘ نئے نئے الفاظ گھڑے گیے ہیں۔ مستعمل الفاظ میں حیرت انگیز اشکالی تبدیلیاں بھی آئی ہیں۔ ان معروضات کے پیش نظر جدید شاعری کو آج کی ضرورت اور لوازمے کا درجہ دنیا عصری دیانت کے مترادف ہوگا جیسا کہ میں نے ابتدا میں عرض کیا غالب عہد عہد کا شاعر
ہے۔ اس کی فکر جدید ہے لیکن اس کی فکر کا شعری جامہ قدیم ہے۔ اس کی فکر کو جدید لباس ملنا آج کی اہم ترین ضرورت ہے بلکہ یہ ضرورت بھی ہر عہد سے تعلق کرتی ہے۔ بات نئ یلیکن لباس قدیم‘ سچی بات تو یہ ہے کہ بات جمتی نہیں۔ نئے لباس کے تحت ناصرف قربت بڑھے گی۔ اجنبت میں بھی اضافہ نہیں ہو گا اور تفہیمی سہولتیں بھی پیدا ہوں گی۔ ناصر زیدی روزنامہ پاکستان الہور کے کالم نگار ہی نہیں‘ شاعر بھی ہیں۔ انھیں تخت و تاج سے قربت کا بھی شرف حاصل رہا ہے۔ اس حوالہ سے بھی ان کی قرابتی و کرامتی عظمت سر آنکھوں پر ہرنی اور رہنی چاہیے۔ وہ ناصرف شاہی کروٹوں کے حوالہ سے جدیدیت پسند ہیں بلکہ ادبی تبدیلیوں کو بھی اشارتی اور ضرورتی لوازمات کے زیردست رکھنے کے قائل ومائل ہیں۔ موصوف غالب پسند‘ غالب نواز غالب کے سچے طرف دار اور غالبات کے محقق بھی ہیں۔ غالب کو ہر عہد پر غالب بھی مانتے ہیں۔ غالب کے حوالہ سے یہ امر بالشبہ الئق وتحسین و آفرین ہے۔ میں ان کی غالب نوازی کو سالم پیش کرتا ہوں اور ان کی توفیقات کے لیے دست بہ دعا بھی ہوں۔ ان کی جدت پسندی کا ایک پہلو کاال سیاہ بھی ہے۔ انھوں نے غالب کے شعر کو جدید لباس دینے کے جنوں میں قیامت ہی ڈھا
دی۔ روح غلب قبر میں پلسیٹے مار رہی ہو گی۔ دوبارہ زندگی ملنے کی صورت اس کوچے میں قدم رکھنے سے لرزہ بر اندام ہو گی۔ غالب کے ایک شعر کی جدت پسدی مالحظہ بلکہ مالخطہ فرمائیے ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پہ رونق وہ سمجھتے ہیں بیمار کا حال اچھا ہے میں ان کی جدید جسارت اور غالب کو عہد حاضر میں النے کی خواہش کو داد دوں گا لیکن اس بے سری تبدیلی کی داد نہیں دوں گا۔ اگر وہ غالب کی شاعری کو جدید لباس دینے کے معاملہ میں سنجیدہ ہیں تو اس کا ڈھنگ سیکھیں۔ اس ہنر کی آگہی کے لیے انھیں تبسم کاشمیری کے قدم لینا ہوں گے ورنہ اس ہنر سے بے بہرہ ہی رہیں گے۔۔ میں ہنرمند نہیں پھر بھی اس شعر کو عصر جدید کا لباس دینے کی حقیر سی سعی کرتا ہوں گر قبول اُفتد زہے ّ عزو شرف ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پہ رونق وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے آج کی نظم کا ایک نمونہ بطور ذائقہ مالحظہ ہو
مت لکھنا ہوا پر آنسو مت لکھنا فاختاؤں سے دشمنی اچھی نہیں ہوتی جو بھی سہی اشعار غالب کو جدید شعری لباس ملنا آج کا تقاضا ہے۔ اس سے تفہیمات غالب کے نئے نئے در وا ہوں گے۔ قارئین کو ناصر زیدی کی اس سوچ اور خواہش کی داد دینی چاہیے۔ بالشبہ وہ اس داد وتحسین کے مستحق ہیں۔
پروف ریڈنگ‘ ادارے اور ناصر زیدی
ہمارے ہاں بڑی سیٹ بر براجمان یا کسی بھی منفی حوالہ سے
قبضہ کر لینے والے کو دانشور سمجھا جاتا ہے۔ ایک حوالہ سے یہ بات غلط بھی نہیں۔ حاسدین پیٹھ پیچھے اس کے قول وفعل اور طریقہ کار میں دمبی سٹی ہی نہیں‘ امریکن سنڈی بھی نکال کر دیکھاتے ہیں۔ اس کے آگے بے بکری بن جاتے ہیں۔ اسے اس کی وہ وہ خوبیاں گنواتے ہیں‘ جن کا اس کے فرشتوں کو بھی علم نہیں ہوتا۔ سیٹ اس پر آگہی کے دروازے کھول دیتی ہے۔ یہاں تک کہ عہدی ارسطو اس کا پانی بھرتے ہیں۔ یقینا یہ اس کے عظیم سے دو چار انچ بڑھ کر دانشور ہونے کی دلیل ہوتی ہے۔ کتاب اور قلم سے رشتہ داری نہ ہوتے ہوئے بھی کتاب اور قلم والے انھیں زندگی کے پرچہ کا پہال اور آخری سوال ٹھہرا کر دم لیتے ہیں۔ ہر بات ان سے شروع ہو کر ان پر ختم ہو جاتی ہے۔ ان کا شخصی روپ فنا ہو کر دانش میں ڈھل جاتا ہے۔ میں ناہیں سبھ توں تک آتے آتے جان سے جانا پڑتا ہے۔ شخص سے دانش بننے تک ان کی گرہ سے کچھ نہیں جاتا۔ یہ سب کرسی قریب لوگوں کے حسن کمال کا کرشمہ ہوتا ہے۔ میرا موضوع یہ نکھری نکھری اور کھری کھری دانش نہیں۔ جو معاملہ میری سوچ‘ اپروچ اور ضمیر کی دسترس سے باہر ہوتا ہے‘ اس میں ٹانگ اڑا کر اہل دانش میں نام لکھوانے کی حماقت نہیں کرتا۔ میں زیریں منزل کا شخص ہوں اور زیریں منزل ہی مجھے خوش آتی ہے۔ سراپا دانش کے چرنوں میں بیٹھ
کر دوسری یا چوتھی منزل پر جا بیٹھوں اور پھر وہ نیچھے سے پوڑی کھینچ لے اور میں وہاں بال راشن پانی باں باں کرتا رہوں اور پھر اپنی آواز کی بازگشت کو بھی ترس جاؤں۔ میرا ہی کوئ پیٹی بھرا مجھےغدار قوم و ملت قرار دے کر اوپر ہی میری گرن لمبی کروا دے۔ میں اس جنس کا گاہک نہیں۔ میرا موقف یہ ہے کہ اپنی منزل اور اپنی اوقات کی آگہی سے مرحوم ہونا بدقسمتی کے مترادف ہے۔ مثال تاریخ کے طالب علم کو زیادہ سے جنگوں کی آگہی ہونی چاہیے۔ فاتحین کے نام اسے منہ زبانی یاد ہونا چاہیے تاہم عصر حاضر کی مقتدرہ قوت سے انھیں بیس تیس فٹ نیچے رکھے۔ ماضی کے فاتحین عصر حاضر کی مقتدرہ قوت سے کسی طرح بڑھ کر نہیں ہو سکتے۔ مثال بش کی تلوار کے ایک ہی وار سے ستر دائیں اور دو کم اسی بائیں پھڑک کر وہ جا گرے۔ ڈھائ سو آج بھی آخری سانسوں پرہیں۔ یہ بش کیا تھا اوباما تلوار زنی میں اس سے بھی چار پانچ سو قدم آگے ہے۔ آج سکندر سا سورما زندہ ہوتا تو سالم و پرنام ہی سے کام نہ لیتا پانی میں ناک ڈبو کر مر جاتا۔ ایڑھی چوٹی کا زور لگا کر بھی دنیا فتح نہ کر سکا۔ آخر بیاسی عالقہ کے کسی یودھا کے ہاتھوں زخمی ہو کر قوریں جا وڑیا۔
حضرت اوباما سرکار کو دیکھیے پوری دنیا کے سکندر فرشی سالم پیش کرتے ہیں۔ وہ پھر بھی خوش نہیں۔ اسے دنیا کا کوئ چلتا پھرتا اچھا نہیں لگتا۔ اس کی پہلی اور آخری خواہش یہی ہے کہ ہر ٹانگ سے اوباما اوباما کے بے بس اور بے کس آوازے نکلیں۔ دنیا کے تمام لوگ یک ٹنگے ہو کر کمائیں اور وہ یک ٹنگی کمائی کو بال تشکر ڈکارے۔ بڑے بڑے حملوں سے تاریخ کے طالب علم آگاہ ہوں گے لیکن چھوٹی چھوٹی حملیوں سے متعلق کسی کو سرے سے آگہی ہی نہیں۔ جس سے پوچھو یہی بتائے گا محمود غزنوی نے ہندوستان پر سترہ حملے کیے۔ سب کو آخری اور کامیاب حملے کا پتا ہے اس سے پہلے سولہ حملوں میں اس کے ساتھ کیا ہوا کوئی نہیں جانتا۔ یہ بھی کسی کو معلوم نہیں کہ اس نے حملے کیوں کیے اور ہندوستان میں کس قسم کا اسالم پھیالیا۔ وہ اسالم پھیالنے کے لیے آیا یا کسی اور کام کے لیے آیا۔ محمود وایاز کے ایک صف میں کھڑے ہونے کا قصہ ہر کسی کی زبان پر ہے۔ کوئی اور بھی اس سے ملتے جلتے واقعات رونما ہوئے ہوں گے معلومات کا فقدان دیکھیے کوئی جانتا ہی نہیں۔ میں خوف زدہ رہتا ہوں کوئی مجھ ہی سے نہ پوچھ لے۔ مجھے بھی ایک صف والے والے واقعے کے عالوہ کچھ معلوم نہیں میں لون مرچ مصالحہ لگا کر اس واقعے کو بیان کر سکتا ہوں۔
گھر اور باہر کی جنگوں کے متعلق تھوڑی بہت غیر تاریخی لوگ بھی معلومات رکھتے ہیں۔ دانشور حضرات کے پاس ان سے بڑھ کر معلومات کا ذخیرہ ہونا چاہیے۔ دانشور حضرات پاس سے بھی جوڑ جمع کرکے لوگوں کو بتا دینتو لوگ مان لیں گے اور پھر وہ آپس میں شئیر بھی کریں گے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی نوعیت کے مطابق باتوں میں کہاٹا وادھا کرتے رہیں گے۔ آتے وقتوں میں سینہ بہ سینہ چلتی باتیں کتابی شکل اختیار کر لیں گی۔ تاریخ بھی تو یہی کچھ ہے۔ جو بھی سہی تاریخ کے دانشور کے پاس ایک عام آدمی سے زیادہ معلومات ہونی چاہیں۔ میں عام آدمی ہوں تاریخی جنگوں کے متعلق زیادہ نہیں جانتا۔ اس کے باوجود یہ بھی جانتا ہوں ایک راجہ جنگ بھی ہے۔ کسی زمانے میں بڑی زبردست والیت تھی۔ ایک دن بیگم صاحبہ نے گوشت النے کا حکم دیا۔ میں گوبھی کو خوب صورت پھول سمجھتے ہوئے لے آیا۔ وہ پھولوں کو پسند کرتی ہے۔ سوچ رہا تھا کہ خوش ہو گی لیکن خوش ہونے کی بجاءے وہ بپھر گئ۔ کوئ مورخ اس جنگ کو نہیں جانتا۔ اس حوالہ سے میں مورخ سے دو قدم آگے ہوں۔ یہ تو فقط ایک جنگ ہے میں ایسی بیسیوں جنگوں سے آگاہ ہوں۔ اکثر سوچتا ہوں لکھ کر مورخ ہونے کا اعزاز حاصل کر لوں۔
کتنی ستم کی بات ہے کہ سب بادشاہ دمحم شاہ رنگیلے کی موج مستیوں کا ہر کوئ چٹخارے لے لے کر تذکرہ کرتا ہے لیکن فرخ سیر کا کوئ نام نہیں لیتا جو دن رات نشے میں غرق رہتا تھا۔ روپ کنور کے ساتھ ادھر ادھر اور کبھی نالیوں میں گرا پڑا ملتا۔ ادھر تو مورخ کی نظر نہیں گئ۔ ہر مورخ کے ہاں بہادر شاہ ظفر کا ذکر ملتا ہے جیسے وہ اکیال شاعر بادشاہ تھا۔ شاہ عالم ثانی جو آفتاب تخلص کرتا تھا کمال کا شاعر تھا۔ وہ تو وہ جہاندار بھی کا شاعر تھا۔ آج ایک صاحب فرما رہے تھے اورنگ زیب عالمگیر نے ناسخ کے کالم کو مدون کیا۔ اورنگ زیب عالمگیر شروع شروع میں مدن کا ذوق تھا۔ میں نے اپنا رعب جتانے کے لیے کہا حضرت یہ نسخہ انھیں وراثت میں مال۔ اصل کام تو بابر نے کیا تھا۔ انھوں نے گھورتے ہوئے کہا جناب میں تو ڈاکٹر اورنگ زیب عالگیر کی بات کر رہا ہوں۔ میں نے خفت مٹانے کے لیے کہا اچھا تو بادشاہی چھوڑ کر پروفیسر ہو گیا ہے۔ بولے وہ ٧١٧١ میں مر گیا تھا۔ چاہیے تو تھا میری جہالت کے پیش نظر بات کو ٹھپ کر دیتے اور اپنی دانش کا مجھ پر رعب نہ ڈالتے۔ میں نے غصے میں کہا میں نے اسے ٧١٧١میں مارا تھا؟ ناسخ کا دیوان اسی نے مرتب کیا تھا۔ میری طرف سے اسے
طے سمجھو اور اپنی کم علمی کی وجہ سے میرے ساتھ بحث نہ کرو۔ اہل دانش کیا‘ اشاعتی ادارے بھی اصل آگہی سے دور ہیں۔ اخبار ہو کہ کوئ ادبی یا غیر ادبی پرچہ‘ یہاں تک کہ حساس کتب بھی پروف ریڈنگ کی غلطیوں سے مبرا نہیں ہیں۔ اداروں نے باقاعدہ پروف ریڈر رکھے ہوئے ہیں۔ پھر بھی مطبوعہ تحریریں اس قباحت سے پاک صاف نہیں ہو پائیں۔ پروف ریڈنگ بڑی ذمہ داری کا کام ہے اس لیے اس معاملے کو سنجیدہ لیا جائے۔ میں نے کچھ نہایت ذمہ دار لوگوں سے بات بھی کی۔ کسی نے مثبت جواب نہیں دیا۔ ہر کسی نے نے کہا کچھ بھی کر لو پروف کی غلطی رہ ہی جاتی ہے۔ ایک صاحب نے کہا یہ اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک پروف ریڈرنگ کے لیے کوئی مشین تیار نہیں ہو جاتی غلطیوں کا سیاپا ختم نہیں ہو گا۔ مجھے حیرت ہوتی ہے ناک نیچے؛ اوپر بھی سمجھ سکتے ہیں بیٹھا کمال کا پروف ریڈر جو اعزازی کام کرنے کے لیے بھی تیار ہے‘ انھیں نظر نہیں آتا۔ کم علمی اور معلومات کی کمی ہمیں لے ڈوبی ہے۔ ہنر کی ناقدری اور بے قدری ہی عمومی دانش کو لے ڈوبی ہے۔ جو قومیں ہنر اور دانش کی قدر کرتی ہیں وہی ترقی کا منہ دیکھتی ہیں۔ اقتداری دانش اور ہنر الگ سے چیز ہے‘ یہ تو عمومی دانش و ہنر سے تعلق کرتی بات ہے۔
عمومی دانش و ہنر کی عزت اور قدرافزائی کرنا اداروں کا کام ہے۔ روزنامہ پاکستان الہور بڑے روزناموں میں شمار ہوتا ہے لیکن اپنے ہاں موجود ایک عظیم ہنرمند کا اسے پتا ہی نہیں۔ بالشبہ یہ بڑے دکھ اور افسوس کی بات ہے۔ اسے آج تک معلوم نہیں ہو سکا کہ ناصر زیدی شاعر اور کالم نگار سے بڑھ کر سچے سچے اور کھرے پروف ریڈر ہیں۔ یہی نہیں دیالو بھی ہیں۔ احباب کے لیے پروف ریڈنگ کی خدمات اعزازی طور پر انجام دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ معاملہ بدقسمتی اور المیہ کی حد تک ہے کہ ہنر کے مطابق کام دستیاب نہیں۔ اگر متعلقہ ہنر اور دانش کے مطابق لوگوں کو کام دستیاب ہو تو ترقی کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ افسوس روزنامہ پاکستان الہور والے ناصر زیدی کے اس ہنر سے بےبہرہ ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ وہ ان سے ان کے پرفیکٹ ہنر کا کام لیں۔ کالم نگاری کے لیے اپنے کسی پروف ریڈر کو تالش لیں۔ ہو سکتا ہے وہ موصوف سے کہیں بڑھ کر اور بہتر خدمت انجام دے۔
دمہ گذیدہ دفتر شاہی اور بیمار بابا
یہاں ایک بابا پہلے کئ دنوں اور اب کئ مہنوں سے بیمار چال آتا ہے۔ حرام ہے جو مرنے کا نام لے رہا ہو۔ اگرچہ وہ لمبی چوڑی عمر کا نہیں۔ یہی کوئ ساٹھ باٹھ کا ہو گا۔ عصری حاالت اور خاندانی ضروریات کے پیش نظر اب تک اسے مر جانا چاہیے تھا۔ هللا جانے کس مٹی سے اٹھا ہے۔ بڑے بڑے پھنے خان بابے دیکھے ہیں‘ بیماری کے ایک ہی جھٹکے سے اناللله ہو گیے۔ ان کے اٹھنے سے گھر والوں کی بےجا ڈاکٹروں کے پاس آنیاں جانیاں ختم ہو گیں۔ گھر والی اور اوالد خوشی سے بابے کی بیماری کی فٹیک برداشت کر نہیں رہے تھے۔ دنیاداری بھی آخر کوئی چیز ہوتی ہے۔ ہمارے ہمسائے میں ایک مائی تھی اور کپتی کے نام سے پورے عالقہ میں شہرہ رکھتی تھی۔ اس کا میاں شریف آدمی اور بال کا موقع شناس تھا۔ بیماری کے پہلے ہی جھٹکے میں وہ گیا۔ مائ بڑی دیالو تھی بڑھاپے میں بھی دیا کے بلند مقام پر فائز تھی۔ کوئی نہیں کہتا تھا کہ اسے بھی کبھی موت آئے گی۔ فرشتہ اجل بھی اس کے قریب آنے سے لرزتا ہو گا۔ ہاں فیض کی حصولی کے لیے اسے کبھی معمانت نہیں رہی ہو گی۔ بیمار پڑی؛ اہل ذوق تو اہل ذوق‘ اس کا چھوٹا بیٹا پوری دیانتت داری سے
اسے ڈاکٹروں کے پاس لیا پھرا تاہم چند دن ہی چلی اور اہل قلب و نظر کے لیے پچھتاوا چھوڑ گئ۔ اس کی بڑی بہو بڑی روئی۔ لوگوں کو ساس کے ساتھ اس کی مخلصی کا یقین ہو گیا۔ جو بھی سہی میں اس بابے کی کرنی کا معتقد ضرور ہو گیا جس کے تعویزوں نے بڑی بہو کو یہ دن دکھایا ورنہ وہ فرشتہ اجل کی گرفت میں آنے والی مائ ہی نہ تھی۔ خدا معلوم یہ ساٹھ باٹھ سالہ بابا کس قسم کا ہے جسے اتنی کرنی والے بابے کے تعویزوں نے بھی کچھ نہیں کیا۔ باچیاں نکلی پڑی ہیں اور حد درجہ کی کمزوری وارد ہو چکی ہے‘ اس کے باوجود مرنے کا نام نہیں لے رہا۔ بعید از قیاس نہیں کہ اسے زندگی لڑ گئی ہو۔ عین ممکن ہے کہ خضر آب حیات کے دوچار گھونٹ عطا کر گیے ہوں۔ دیوتاؤں سے بھی اس کا بگارڑ نہیں۔ ہو سکتا ہے کوئی دیوتا بصد مشقت نکالے گیے امرت میں سے دو گھونٹ چپکے سے پال گیا ہو۔ پرانا اور تجربہ کار ہوتے ہوئے نہیں سمجھ پا رہا کہ کتنوں کا مستقبل خراب کر رہا ہے۔۔ اس کے مرنے سے بڑا کاروبار وسیع کر سکتا ہے۔ چھوٹے کی تین جوان بیٹیاں‘ جن کی اب شادی ہو جانا چاہیے جبکہ منجھال اپنا بیٹا دوبئ بھیجنا چاہتا ہے۔ اسے باہر مفت تو نہیں ببھجا جا سکتا‘ دام لگتے ہیں۔ یہی صورت حال
اس کی لڑکیوں کی ہے۔ کئی خاندانوں کی ترقی خوشحالی اور آسؤدگی بابے کی موت سے وابستہ ہے۔ اتنی موٹی اور واضح بات بابے کی سمجھ میں نہیں آ رہی۔ بیمار اور الغر زندگی سے برابر علیک سلیک بڑھائے چال جا رہا ہے۔ ایک ہفتہ پہلے میری اس سے بستر حیات پر مالقات ہوئی۔ بچے پرامید نگاہوں سے اس کی آؤبھگت کر رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر بڑے خوش ہوئے۔ بابا چلتے پھرتے وقتوں میں میرے ملنے والوں میں تھا۔ بچے اس کے میرے تعلقات سے واقف تھے۔ انہوں نے مجھے امید بھری نظروں سے دیکھا اور اندر چلے گیے۔ ان کا خیال تھا کہ میں ان کے ڈھیٹ اور جینے پر مصر بابے کو سمجھاؤں گا۔ وہ کیا جانیں کہ ان کا بابا کتنا ضدی ہے۔ میں نے پوچھا یار تم نے رشوت کی کمائ سے اتنی جائیداد کیوں بنائی۔ مرنے والے ہو هللا کو جواب تو تمہیں ہی دینا پڑے گا۔ جواب میں کہنے لگا مریں میرے دشمن‘ میں کیوں مروں۔ اکیلے میں نے تھوڑی بنائی ہے ساری دنیا اسی طرح جائدایں اور بینک بیلنس بناتی ہے۔ اتنے لوگوں کے لیے جہنم میں جگہ کب ہو گی۔ میں وہاں جا کر بھی قبضہ گروپ کا لیڈر ہوں گا۔ ٹہوہر میں گزاری ہے‘ فکر نہ کرو وہاں بھی ٹہوہر کی گززے گی۔ بیشک هللا بڑا بےنیاز ہے۔ میں نے کہا یار یہ جائداد اپنے جیتے جی ان میں تقسیم کر دو۔ کیوں تقسیم کر دوں۔ جائیداد
میری ہے کسی کو دوں نہ دوں میری مرضی۔ اگر میں نے تقسیم کر دی تو ان میں سے کسی نے پوچھنا تک نہیں۔ گھر سے باہر نکال دیں گے۔ اس کی بات میں دم بھی تھا اور خم بھی۔ میں یہ اندازہ نہیں کر سکا کہ ان میں زیادہ کیا تھا۔ اس کے پاس میں قریبا بیس پچیس منٹ اس خوف کے ساتھ بیٹھا رہا کہ کہیں یہ نہ کہہ دے کہ تم بھی دو چار سال کے ہیر پھیر سے میرے ہم عمر ہو ابھی مرے کیوں نہیں۔ شاید اس لیے نہ بوال کہ میرے پاس ہے ہی کیا۔ زندہ ہوں کچھ ناکچھ تو التا ہوں۔ اور کچھ نہیں تو تھیال برداری سے تو جڑا ہوا ہوں۔ دوسرا اور کوئی اتنی بےعزتی کیوں کراے گا۔ شوہر کا بےعزتی کرائی کے لیے پہلے سوال کی طرح بہرطور الزمی ہے۔ اب اس صورتحال کے تحت میں کیا عرض کر سکتا ہوں تاہم مجھے بڈھے کی اوالد میں کمی اور خرابی نظر آئ۔ جو خود محنت اور مشقت کرنے کی بجائے اوروں کی کمائی پر مستقبل سنوارنے کی آشا کرنے والے زندگی میں ناکام رہتے ہیں۔ یہ اور دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک بابے وغیرہ دوسری دفتر شاہی وغیرہ۔ ثانی الذکر کو اوروں میں شمار نہ کریں۔ سائلین سے وصولیاں وغیرہ دفتری لوگوں کا اصولی استحقاق ہوتا ہے۔ پڑھائی لکھائی اور نوکری کی حصولی پر خرچہ کرکے اگر بہت
یا بہت سے بڑھ کر وصوال نہ گیا تو کیا فائدہبابے کے اپنے نما اپنے خود کو پنجاب سرونٹس ہاؤسنگ فاؤنڈیشن والے سمجھتے ہیں جو سراپا دیسی گھی کی کڑاہی میں ہیں۔ کملوں کو اتنی بات سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ سرکاری لٹیرے ہیں۔ انہیں تو پوچھ کرنے والوں کا اشیرباد حاصل ہے۔ دوسرا وہ لوگوں کا کام کرتے ہیں۔ تیسری بڑی بات یہ کہ وہ تو بھرتی ہی لوٹ مچانے کے لیے ہوئے ہیں۔ لوٹ سیل تو ان کے فرائض منصبی میں داخل ہے۔ مانتا ہوں بابے کا مال بھی لوٹ کا ہے لیکن وہ مال تو ہے اور مال بھال کون کسی کو دیتا ہے۔ گچی پر ناخن آئے تو ہی کھیسہ ڈھیال ہو سکتا ہے۔ کملے بابے کو کسی پھسنی میں پھاسائیں‘ خود ہی جڑے گا۔ مجھے بابے کے اپنوں پر افسوس ہوتا ہے۔ بیمار بابا ان سے برداشت نہیں ہو رہا۔ بڑے ہی دکھ اور افسوس کی بات ہے۔ پاکستان کو بنے ایک صدی ناسہی کچھ ہی سالوں بعد ہو جائے گی‘ بیمار الغر اور دمہ گزیدہ دفتر اور افسر شاہی سے کام چل رہا ہے اور خوب چل رہا ہے۔ انہیں اپنے بیمار الغر‘ دمہ گرفتہ نہیں‘ بوڑھے سے کام چالتے ہوئے مری پڑتی ہے۔ بیمار الغر اور دمہ گذیدہ دفتر اور افسر شاہی کے مرنے کے دور تک آثار نہیں۔ سچی کہوں گا چاہے بڈھے کے گھر
والوں کو غصہ ہی لگے‘ بابے کے مرنے کے مجھے دور تک آثار نظر نہیں آئے۔ ان کنبوں کا مستقبل اسی طرح تذبذب کی صلیب پر لٹکا رہے گا اور یہ میں پورے یقین کے ساتھ کہہ رہا ہوں۔
غیرملکی بداطواری دفتری اخالقیات اور برفی کی چاٹ
میرا بیٹا ڈاکٹر سید کنور عباس اول تا آخر پاکستانی ہے۔ پاکسستان کی محبت اس کے دل و دماغ میں رچی بسی ہوئی ہے تاہم میری طرح اس میں ایک کتی عادت موجود ہے۔ دشمن یہاں تک کہ غیر مسلم کی اچھی عادت اور احسن رویے کی اس کی پیٹھ پیچھے بھی تعریف کرتا ہے۔ یہ طور اور انداز ہمارے عمومی خصائل سے قطعی ہٹ کر ہے۔ ہم زیادہ تر اپنی اس کے بعد موجودہ صاحب اقتدار طبقے کی تعریف کرتے ہیں۔ ماضی قریب کے شاہوں کو قطب قریب جبکہ ماضی بعید کے شاہوں کو نبی نما قرار دینے میں منٹ بھی نہیں لگاتے۔ ہمیں ان کی
ناانصافی اور بددیانتی بھی وقت کی ضرورت سمجھ میں آتی ہے۔ ان کی نندا کرنے واال مسلمانی کھو بیھٹتا ہے اور واجب القتل قرار پاتا ہے۔ میں دائرہ اسالم سے خارج ہونے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا اس لیے اس نظریے کی نفی نہیں کرتا۔ ہاں ایک مسلم غیر ملک اسٹریلیا کے اپنے بیٹے کے حوالہ سے‘ جو ان دنوں وہاں اقامت رکھتا ہے‘ کی پست اخالقی رویے کی مذمت کرتے ہوئے‘ عرض پرداز ہوں۔ کتنے بداطوار لوگ ہیں وہ ہمارے ہاں ایسی بداخالقی اور بداطواری کی دھونڈے سے بھی مٹال نہیں ملتی۔ اس کی بیگم مارکیٹ میں کہیں اپنا پرس کھو بیٹھی۔ پرس میں ضروری کاغذات کے عالوہ معقول پیسے بھی تھے۔ سخت پریشان تھی۔ ٹھیک ایک گھنٹے کے بعد ایک پولیس مین آیا اور سب کچھ واپس کر گیا۔ بس جاتے ہوئے اس نے ایک رجسٹر پر دستخط کروائےجس میں پرس میں موجود اشیاء کا اندراج تھا۔ رخصت ہوتے وقت مسکراتےہوئےآل دی بیسٹ کہنا نہ بھوال۔ ہم اخالقی حوالہ سے اتنے گیے گزرے نہیں ہیں۔ ابھی ہم میں اخالقیات موجود ہے۔ میں قصور سے للیانی گیا۔ واپسی پر ویگن کے دروازے سے سیٹ تک میری شلوار کی جیب پر کسی نے ہاتھ دیکھا دیا۔۔ قدرتی ایک دوسری جیب میں پچاس روپے موجود تھے جو میں کرایہ کے لیے دست سوال ہونے سے بچ
گیا۔ کچھ ہی دنوں بعد بیرنگ لفافہ سے کاغذات مع ضروری نصیحت مل گیے۔ میرے بیٹے کا کہنا ہے کہ کسی کام کے لیے کسی دفتر میں بار بار کیا ایک بار جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ قانون اور سماجی رویت شکنی کا تصور تک موجود نہیں۔ کتنا بے لطف بےمزا اور بے ذائقہ سا ملک ہے۔ آوا جاوی کے بغیر انجام پانے والے امور اہمیت کھو بیٹھتے ہیں۔ جب تک دو چار جوتے نہ ٹوٹیں اور جیب ہولی نہ ہو‘ وہ کام بھی بھال کوئ کام ہوئے؟ہمارے ہاں کوئ ایک دفتر نہیں تقریبا سارے دفتر اخالق کے بلند درجے پر فائز ہیں۔ مک مکا چائے پانی اور لفافہ بازی پورے عروج پر ہے۔ میں عصر حاضر کے پاکستان کا سچا اور پکا باشندہ ہوں میری اتنی اوقات اور مجال کہاں جو دفتر شاہی کی گردن پر لفظوں کا انگوٹھا رکھوں۔ میں تو ان کی اعلی اخالقی روایات پر انگلی بھی نہیں رکھ سکتا۔ ہر عالقے کے اپنے اصول اوراخالقی ضابطے ہوتے ہیں۔ دوسرا ہر عہد اپنے حاالت اور ضروریات کے مطابق رویات تشکیل دیتا ہے۔ میرے ابے کا دور انگریز دشمن تھا تبھی تو وہ مسلم لیگ کا پیٹھو تھا۔ بےکار میں وقت ضائع کرتا رہا۔ ورثہ میں بھوک ننگ چھوڑ گیا۔ بڑی بڑی کہانیاں
سناتا تھا اور سمجھتا تھا ان لوگوں نے بڑا معرکہ مارا ہے۔ ہم ان سے بےوقوف نہیں ہیں‘ پچھلی صفوں میں رہ کر چوپڑی کھاتے ہیں۔ دانشمندی کا تقاضا بھی یہی ہے۔ میرے ابے کے دور میں بھی اس اعلی اخالقی ضابطے کے حامل لوگ موجود تھے۔ چوپڑی سے ان کے منہ اور کھیسے بھرے رہتے تھے۔ اتنا چھوڑ گیے کہ آج بھی ان کی نسلیں موج میں ہیں۔ ان کے طہارت کدے بھی حسن واخالق کے بلند مرتبے پر فائز ہیں۔ میں عصر دوراں کی دفتر شاہی خصوصا کلرک بادشاہ کا ہتھ بدھا خادم ہوں۔ میں کیا بڑے بڑے پھنے خاں ان کے ڈیروں پر منمناتے‘ پانی بھرتے اور نذر نیاز پیش کرتے ددیکھے گیے ہیں۔ جو ان کی بادشاہی و خدائ کے مرتد اور رائندہ ہیں یا حاضری سے اجتناب برتتے ہیں‘ الکھ درخواستیں رجسڑڈ ڈاک یا ای میل کرتے رہیں نامراد رہتے ہیں۔ درخواست یا ای میل افسر کے ہاتھ میں جائے گی تو ہی کام ہو گا۔ زیادہ تر ان کے افسر سے ہاتھ رلے ہوتے ہہں۔ میں یہ ہوا میں نہیں چھوڑ رہا۔ میں نے اپنے ایم فل االؤنس کے سلسلے میں پہلی درخواست اکیس اکتوبر انیس سو ستانویں کو گزاری اور آخری گیارہ نومبر بیس سو تیرہ کو سیکٹریری ہاہر ایجوکیشن پنجاب کے حضور گزاری۔ ان میں سے کسی درخواست کو
سیکٹریری صاحب سے مالقات کا شرف حاصل ہو جاتا تو االؤنس ملتا یا نہ ملتا جواب ضرور ملتا۔ جواب کو اس کے اصلی اور مستعمل معنوں میں لیں۔ جاؤ نہیں دیتے‘ تمہارا ایم فل عالمہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا ہے جو اپنے ٹیوٹر سے بالمعاوضہ کام کرواتی ہے۔ ثبوت کے لیے اسے دور نہ جانا پڑتا۔ اسے میری یہی فائل سے اگست ٦٧٧٢میں کیے گیے کام کی عدم ادائیگی سے متعلق گزاری گئ بہت سی درخواستیں مل جاتیں۔ درخواستوں کے جواب نہ دینے اور بابو کی فائل کے بیچھے زبردست حکمت موجود ہے۔ سائل کب تک درخواستیں گزارے گا آخر اسے آستانہ عالیہ میں حاضر ہونا ہی پڑے گا۔ مال تو خیر ملے گا ہی لیکن سائل کی میں میں کا سواد ہی اور ہے۔ اپنے سے کہیں بڑے گریڈ والے کا دو زانو بیٹھ کر باالتری اور بااختیاری کا اعتراف اسٹریلیا کی دفترشاہی کو کیا معلوم۔ وہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی دور جہالت کی زندگی گزارتے ہیں۔ وہاں کے بابو اس قسم کی اعلی ظرفی اور اعلی اخالقی اقدار سے محروم ہیں۔ انھیں برفی کی بال دام چاٹ نہیں لگی۔ اپنے پلے سے کھایا تو کیا کھایا۔ اپنے پلے سے برفی تو دور کی بات نان چھولے نہیں کھائے جا سکتے۔ انھیں فقط دو چار ہفتے پنجاب سرونٹس ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کے تقدس مآب دفتر
میں ال کر بیٹھا دیا جائے پوری سروس کی کمائ جیب لگ جائے گی۔ مہامنشی ہاؤس کے لوگ خانے خان بنے پھرتے ہیں یہاں ان کے بھی بقلم خود استاد تشریف رکھتے ہیں۔ یہ سب کرپشن نہیں‘ یہ تو باالئی ہے۔ آگ چڑھے دودھ پر ہئ باالئی آتی ہے۔ سارا دن بیوی بچوں کو چھوڑ کر باالئی کے ڈھنگ اور نسخے تالشنا اور سوچنا ایسا آسان کام نہیں۔ باہر بیٹھ کر ٹکے ٹکے کی باتیں کرنا آسان ہے میدان میں اترنا آسان نہیں ہوتا۔ یہ بالشبہ بڑے عظیم اور پہنچے ہوئے لوگ ہیں۔ ان کی عظمت کو بڑے ادب اور احترام سے ست سالم اور پرنام ۔ مہامنشی ہاؤس اور پنجاب سرونٹس ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کی پہنچ اور عزیزداری کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ عزت مآب واپڈا ان کا پانی بھرتا ہے۔ میں یہ تحریر اس سے پہلے چار مرتبہ ٹائپ کر چکا ہوں۔ جونہی سیف کرنے لگا بجلی چلی گئ اور اگلے ہی لمحے آگئی۔ پہلے تو میں اسے محض اتفاق سمجھا جب یہی دوسری تیسری اور پھر چوتھی بار ہوا تو مجھے اندازہ ہو گیا کہ واپڈا ہر دو متذکرہ محکمہ ہذا کو کتنا عزیز اور محترم رکھتا ہے۔ میں وفاقی محتسب اور صوبائی محتسب کے حوالہ سے معامالت کے متعلق درخواستیں گزارنے واال تھا کہ خیال گزرا کیوں نہ
جاپان اردو نیٹ کے ذریعے اپنی آواز متعلقین تک ہپنچاؤں۔ خدانخواستہ میں ان کے خالف کوئی شکایت کرنے واال نہیں تھا۔ میں تو صرف اتنا عرض کرنا چاہتا تھا کہ جب جب کسی کی درخواست آئے اس کا جواب دے دیا جائے۔ کون سا پلے سے ڈاک خرچ دینا ہے۔ سرکاری کاغذ سرکاری لفافہ اور سرکاری ٹکٹیں لگنا ہیں۔ لکھنا صرف اتنا ہے باری پر آپ کے مسلے پر غور کیا جائے گا۔ اتنا بڑا صوبہ ہے باری آتے آتے‘ آئے گی نا۔ باری کے انتظاری میں مفتا مر جائے گا اور معاملہ محض قصہء ماضی ہو کر رہ جائے گا۔ گویا سانپ بھی اپنی آئی مرے گا اور الٹھی بھی بچ جائے گی۔ میاں شہباز شریف نے جس لگن اور محنت سے کام کیا ہے اس کی تعریف نہ کرنا سراسر زیادتی ہو گی۔ جہاں اتنے کام کیے ہیں وہاں ایک اور کام کردیں تو دعاؤں کا شمار نہیں رہے گا۔ دو چار مخیر حضرات بھی صلہء رحمی کے حوالہ سے یہ کام کر سکتے ہیں۔ میاں صاحب ایک محکمہ قائم کریں جو میر منشی گاہ کے بابو حضرات کی باالئی کا اہتمام کرے۔ سائل آ کر رقم بتائے یہ محکمہ ضروری پوچھ گچھ اور کنفرمشن کے بعد سائل کو مطلوبہ رقم فراہم کر دے یا پھر ضروری بارگینگ یعنی مک مکا کر لے۔ اسی طرح بجلی کے دونوں طرف بہت کچھ لکھا ہوتا ہے مزید صرف اتنا لکھ دیا جائے کہ لکھنے پڑھنے اور ٹائپ
کرنے والے حضرات ہم پر نہ رہیں‘ جو کریں اپنی ذمہ داری پر کریں۔ لکھنے میں واپڈا آج سب کا پیو ثابت ہو رہا ہے۔ وہ انتہا درجے کے کنگالوں اور ان کے تھرڈ کالس سفارشیوں کو۔۔۔۔۔۔۔ پر لکھتے ہیں۔ سفارش کا دور گیا‘ اب مال چلتا ہے۔ ابھی ابھی اطالع ملی ہے کہ پرفارما پرموششن کا ریٹ چودہ ہزار روپے ہو گیا ہے۔ یہ بنیادی خرچہ ہے۔ تکمیل تک بقایا جات کے مطاابق دام اٹھیں گے اور جوتے گھسیں گے۔
انشورنس والے اور میں اور تو کا فلسفہ
دنیا ترقی کر رہی ہے‘ یہ مقولہ عام اور بزت سا ہو گیا ہے۔ ہر کوئ ترقی اور دودھ کی نہریں بہانے کی باتیں تو کرتا ہے لیکن آج تک کسی کو یہ بتانے کی کبھی توفیق نہیں ہوئ کہ ترقی کس چڑیا کا نام ہے۔ وہ رنگ روپ میں کیسی ہوتی ہے۔ اس کا سائز
کتنا ہوتا ہے۔ گولی ماریے ان باتوں کو‘ کوئ بس اتنا ہی بتا دے کہ وہ کس گلی کس محلے کس کوچے میں بانفس نفیس اقامت رکھتی ہے۔ دودھ کی نہر یا نہریں بہانے کے معاملہ کو چھوڑیے کیونکہ اس کا تعلق قیس المعروف مجنوں سے ہے۔ اب کون اس کی عشق گذیدہ ہڈیوں کو خراب کرے۔ امیدوار حضرات نے اسے بطور محارہ استعمال کیا تھا۔ محاورہ میں حقیقی معنی نہیں ہوتے اگر حقیقی معنی کود پڑیں تو محاورہ اسے قبولنے سے انکار کر دیتا ہے۔۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ محاورہ مہارت سے عالقہ رکھتا ہے۔ دودھ کی نہریں بہانے کا کبھی رواج نہیں رہا۔ ہاں پانی کی نہریں کبھی دانستہ کبھی نادانستہ اور کبھی باوجوہ غفلت چھوڑ کر لوگوں کو ڈبو کر ثواب اور آبادی کم کرنے کا رجحان ضرور رہا ہے۔ یہاں بجلی جاتی اور جاتی ہی ہے تاہم کبھی کبھار اپنے ہونے کا ثبوت بھی فراہم کرتی ہے اور یہ کوئ معولی بات نہیں۔ اگر وہ متواتر رہے تو اس کا قد اور مرتبہ صفر ہو کر رہ جائے گا۔ ہمیں بجلی سے کوئی گلہ نہیں اور ناہی اس کے عالی مرتبے سے انکار۔ ہاں بجلی والوں سے ایک ناحق اور ناجائز سا گلہ ضرور ہے۔ ہمارے محلے کے ایک مرکزی مقام پر بجلی کے تاروں کی چول ذرا ڈھیلی ہے جو ہفتے میں کم از کم ایک بار ضرور اکھڑتی ہے جس کے سبب بجلی مہاراج کے ہوتے
اندھیرے کا راج ہوتا ہے۔ ہر بار ہر گھر سے سو سو روپے جمع کیے جاتے ہیں۔ بجلی والے آتے ہیں تھوڑا سا اڑا کر چلے جاتے ہیں۔ یہ ان کی مستقل آمدنی ہے۔ آج لوگ منتخب ممبر صاحب کے ہاں گیے۔ ممبر صاحب کے کاموں نے کافی بیزت کرکے الٹے قدموں واپسی کی راہ دکھائی۔ شکر ہے وہ خود نہیں ملے ورنہ دو چار پھٹر ضرور ہو جاتے۔ لوگوں کا گلہ یہ تھا کہ ممبر صاحب نے تو دودھ کی نہریں بہا دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن یہاں تو پینے کے لیے پانی تک میسر نہیں۔ ایک صاحب نے بڑی پتے کی کہی‘ ممبر صاحب پاور میں ہیں محلے کے چھوٹے بڑوں کو بی آر بی پر لے جا کر ڈبکیاں دالئیں گے۔ اس کے بعد لوگ پانی کا نام تک بھول جائیں گے۔ میری رائے میں ہر چھوٹے بڑے کو بطور عبرت بجلی کے دو چار جھٹکے دے دیے جائیں۔ بجلی کی خطرناکی کے زیر اثر اٹھتے بیٹھتے ان کے حلق سے آوازے اٹھیں گے نو نو بجلی گو گو۔ ایک صاحب نے کہا متعلقہ الئن مین سے مک مکا کر لو اس طرح کچھ تو بچت ہو سکے گی۔ میں نے کہا یار ان کی ملیں تو نہیں چلتیں انہوں نے بھی تو یہیں سے کھانا ہے۔ تنخواہ میں بھنی مچھلی یا مرغے کی ٹانگیں تو نہیں کھائی جا سکتیں۔ سنتے آئے ہیں زندہ الکھ کا مردہ سوا الکھ کا۔ زمانے کی ترقی
کے ساتھ ہی یہ مقولہ بھی بدل گیا ہے۔ اب صورت کچھ یوں ہے کہ مردہ الکھ کا زندہ سوا الکھ کا۔ یہ مقولہ اہل واپڈا تک محدود نہیں اس میں ساری دفتر خدائی آ جاتی ہے۔ زندہ جس طرح اندھیر مچاتا ہے مردہ تو اس نعمت عظمی سے دور رہتا ہے۔ پنشن یا دیگر وصولیاں زندہ کی چند ماہ کی مار نہیں ہوتیں۔ کچھ زیادتیاں زندہ لوگوں کے ساتھ بھی ہوتی ہیں۔ مثال مالزم کی تنخواہ سے انشورنس کی جبری کٹوتی ہوتی ہے اور یہ معقول کٹوتی تا سروس ہوتی رہتی ہے۔ جب وہ ریٹائر ہوتا ہے اسے اس کی تنخواہ سے کی گئ کٹوتی میں سے ایک پائی تک نہیں دی جاتی۔ مجوزہ رقم کی ادائیگی اس کی موت سے مشروط ہوتی ہے یعنی وہ مرے گا تو ہی انشورنس کی رقم اسے نہیں‘ اس کے گھر والوں کو ملے گی۔ گھر والے اس کی ریٹائرمنٹ تک تو اس کی موت نہیں چاہیں گے۔ وہ الکھ کے لیے سوا الکھ کی قربانی کیسے اور کیونکر گوارہ کریں گے۔ ہاں ریٹائرمنٹ کے بعد اس کی زندگی انہیں خوش نہیں آئے گی۔ گویا ریٹائرمنٹ تک پیدائی مالزم سوا الکھ کا رہتا ہے لیکن اس کے بعد الکھ کا رہ جاتا ہے جبکہ اس کا مرنا سوا الکھ کا ٹھہرتا ہے۔ جیتے جی مرنے واال محروم گھر والوں کے لیے سہولتیں پیدا کرنے کے لیے کوشش کرتا ہے۔ مرنے کے بعد انشورنس والوں کو یاد دالنے اور مک مکا کرنے والے بیوہ اور یتیم بچے یاد آ
جاتے ہیں۔ وہ گھر والے جو زندگی میں اسے ضرورتوں کی صلیب پر لٹکائے رکھتے ہیں۔ مرنے کے بعد انہیں کبھی اس کی قبر پر دعا فاتحہ تک کہنا نصیب نہیں ہوتا۔ وہ صرف کاغذوں میں بطور خاوند یا باپ بادل نخواستہ تکلفا یاد رکھا جاتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ وہ بیٹی کے جہیز کی عدم دستیابی کے غم میں موت کے حوالے ہوا ہو۔ حق اور انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ انشورنس والے جس کی تنخواہ سے جگا وصول کرتے ہیں‘ ریٹائرمنٹ پر اس کی اپنی رقم جو اس سے وصول کی گئ ہوتی ہے اسے ادا کریں تاکہ بڑھاپے میں اس کے جیتے جی کسی کام آ سکے۔ کٹوتیاں کرنے واال کوئی بھی محکمہ ہو‘ لینے میں نر شیر ببر ہوتا ہے لیکن اس کی اپنی رقم دینے کے معاملہ میں اسے مرگی پڑ جاتی ہے۔ یہ معاملہ غور منٹ تک محدود نہیں حکومت خانہ بھی اس کی پیرو ہے۔ وصول تو پائی پائی کر لیتی ہے ضرورت پر کچھ طلب کر لو تو سماعت کے دروازے بند اور زبان کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ اصل حیرت اس بات پر ہے کہ آئیس کریم اور سوہن حلوا کھانے اور سو طرح کے مہنگے مشروب پینے والی زبان حنطل سے بڑھ کر کڑوی کیوں ہو جاتی ہے۔ زبان بھی نئے دور کی ہو گئی ہے اگلے زمانے میں زبان کہے پر اٹل رہتی تھی۔ ٹانگر اور مسی روٹی کی تاثیر اٹھ گئی ہے۔ آج گورمے کا چرچا ہے۔ نئی
نئی اشیا کو چھوڑ کر ٹانگر اور مرونذے کو کون پوچھتا ہے تب ہی تو زبان بھی سو طرح کی کرواٹیں لینے کی عادی ہو گئی ہے۔اگلے زمانے میں بکرے میں میں کیا کرتے تھے لیکن آج دفتروں میں سائل اور گھر پر شوہر نامدار میں میں کرتے نظر .آتے ہیں۔ ویسے تحقیق کر دیکھیں زندگی میں‘ میں میں کا غلبہ رہا ہے۔ گنتی کے چند لوگ تو تو کے مرتبے پر فائز ہو کر آج بھی احترام کے مستحق ٹھہرے ہیں۔ میں شریف کے حامل لوگ انہیں تسلیم نہیں کرتے۔ ان کی تو میں والوں سے عالقہ نہیں رکھتی۔ اگر تو سے مراد میں والے ہوتے تو آج بھی خان خاناں ہوتے۔ ان کی تو سے مراد هللا کی ذات گرامی ہے۔ آج تو تو کا نعرہ بلند کرکے بڑے لوگ خود میں کے درجے پر فائز ہو گیے ہیں۔ زہے افسوس شاہی تو تو ہر کسی کا نصیبا نہیں ٹھہرتی۔
تعلیم میر منشی ہاؤس اور میری ناچیز قاصری
آج مجھے ایک سیمنار میں حاضر ہونے کا اتفاق ہوا۔ بڑے بڑے عالم فاضل حضرات تشریف فرما تھے۔ اہل زر اور اہل اقتدار بھی جلوا فرما تھے۔ اس ذیل میں ہر اک اپنا واضع موقف رکھتا تھا۔ آپ کا دل اور ضمیر چاہے ناچاہے‘ اصول یہ رہا ہے کہ ہر بڑے کی ہاں میں مالنا زندگی اورصحت کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ اگر سقراط ہاں میں ہاں مالتا تو زندگی بھر گھیو کرولیاں کرتا۔ پاگل تھا' صدیوں سے چلے آتے اصول کی خالف ورزی کرتا رہتا۔ اسے الئن پر آنے کے مواقع دیے گئے۔ کمال تھا' مواقع ضائع کرتا رہا۔ نتیجہ کار کٹ کھانی ہی تھی اور پھر جان اور جہان سے گیا۔ بابے دراصل قوم اور اہل لٹھ کے لیے جنجال ہی رہے ہیں۔ جب بولتے ہیں وکھی پرنے بولتے ہیں۔ جی میں آیا اسٹیج سے اٹھ کر سامعین میں بیٹھ جاؤں اور کچھ کہنے سے معذرت کر لوں۔ پھر خود کو حوصلہ دیا کہ بڑے میاں شیر بنو شیر۔ ساری عمر سرخوں کو چاہا اور اب بڑھاپے میں پٹڑی سے اتر کر شیر کو بوڑھا اور بوسیدہ دل دے بیٹھے ہو' گیدڑ نہ بنو۔ سو پہاجی‘ میں بیٹھا رہا۔ باری پر میری طلبی ہوئی۔۔ میں نے کہا بابا کہہ دو جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ میری باتیں سامعین نے پسند کیں۔ اہل جاہ پر کیا گزری ہو گی میں نہیں جانتا۔ میں نے دانستہ ان کی طرف دیکھا ہی نہیں۔ بوڑھا ہوں‘ گھورتی آنکھوں کا سیکا
برداشت نہیں کر سکتا۔ تعلیم آگہی سے جڑی ہوئی ہے۔ حصول آگہی کی خواہش انسانی ہے؟ وہ فطرت میں شامل ہے دیتی ہے۔ بچہ کھلونے کیوں توڑتا ِ کھلونے کے متحرک ہونے کا راز جاننا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا جاننا ہے کہ آخر وہ کون سی چیز ہے جو کھلونے کو متحرک اور غیر متحرک بناتی ہے۔ اس حوالہ سے‘ گویا جاننا اس کا فطری حق ہے۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ پچے میں جستجو کا مادہ موجود ہے۔ ایک بہت بڑے عالم سے متعلق معروف ہے کہ وہ آخری سانسیں لے رہے تھے۔ کوئی مسلہ جاننے کے لیے انھوں نے کتاب طلب کی۔ انھیں کہا گیا آپ تو جا رہے ہیں اب اس کی کیا ضرورت ہے۔ انھوں نے جوابا کہا۔ کیا تم چاہتے ہو کہ میں .جاہل موت مروں۔ اس کی مثبت دو عملی صورتیں ہیں۔ حضرت مہاتما بدھ جی شہزادے تھے ۔ مالی آسودگی تھی۔ ان کا گیان کے لیے دنیا کو تیاگنا معاش سے وابستہ نہ تھا۔ گیان ہاتھ لگا تو انھوں نے خود کو دنیا کے لیے وابستہ کر دیا۔ ان کی انسانیت کے لیے خدمات کو کسی بھی سطع پر نظر انداز کرنا بہت بڑی زیادتی ہو گی۔ مارکونی نے بھی بال کسی معاشی حاجت کے لیے ریڈیو ایجاد کیا۔ یہ ایجاد آتے وقتوں میں بہت ساری ایجادات کا سبب بنی۔
دریافت ہر دو متذکرہ صاحبان کے لیے سب سے بڑی خوشی تھی۔ ان کی دریافت سے بال کسی تخصیص و امتیاز انسانیت کو فایدہ مال۔ تعلیم سے ہی یہ سب ہوا۔ تعلیم دراصل انسان کی شخصیت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ تعلیم اگر زندگی کے سلیقے میں تبدیلی نہیں التی تو اسے تعلیم کہنا بذات خود جہالت ہے۔ تعلیم ابوزر غفاری اور سلمان فارسی کے منصب پر فائز کرتی ہے۔ تعلیم حاکم وقت کو آزاد کردہ غالم کو اس کے تقوے کی بنیاد پر سیدنا کہنا سکھاتی ہے۔ تعلیم کے حصول کا ایک مقصد اور بھی رہا ہے۔ کمزور طبقے اپنے بچوں کو کلرک شپاہی وغیرہ کی مالزمت کے متمنی رہتے ہیں جبکہ صاحب حثیت طبقے اپنے بچوں کو افسر بنانے کے لیے بڑی سے بڑی درسگاہ میں جمع کراتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو کلرک یا افسر بنانا چاہتے۔ ان کے ذہن کے کسی گوشے میں اپنے بچے کو اعلی خصائل کا حامل انسان بنانے کی خواہش سرے سے موجود ہی نہیں ہوتی۔ میر منشی ہاؤس میں خواہش اور توقع کے حوالہ اعلی شکشا منشی کا دفتر ہے۔ ہر کسی کو ان میں کے قدموں پر چلنا ہوتا ہے۔ خواہش اور توقع کا
مجموعہ اگر توقع اور خواہش پر پورا نہیں اترتا تو گال درست ہے۔ کلرک تو بہت بڑا آدمی ہوتا ہے نائب قاصد بھی خواہش اور توقع کے باالتر معیار پر فائز ہے۔ اگر وہ سب باالئ نہ التے ہوں تو گال کیا جا سکتا ہے۔ وہ معیاری رقم نہ التے ہوں تو ہی ان کی تعلیم پر انوسٹمنٹ کی گئ رقم حرام جائے گی۔ سائل کیا کر لے گا۔ عدالت جائے گا۔ وہاں خرچہ کرکے کوئی آرڈر الئے گا۔ بعض معامالت چند ہزار سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ اب چند ہزار کے لیے ہر کوئ جھڑنے ہی میں عافیت سمجھے گا۔ میں سمجھتا ہوں یہ عزت مآب حضرات تعلیم کے مقاصد کے حصول میں کامیاب ترین لوگ ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے یہ بڑی ایمانداری سے تعلیمی مقاصد کا حق ادا کر رہے ہیں۔ ہم شاباش دینے کی بجائے شاواش دے رہے ہیں۔ ہمارا یہ رویہ تعلیم دشمنی کے مترادف ہے۔ جس کی جتنی مذمت کی جائے' کم ہے۔ واپڈا والوں پر گال اور شکوہ کیا جاتا ہے بڑے ہی افسوس کی بات ہے۔ ہم انھیں ان پڑھ کیوں سمجھتے ہیں۔ دوچار سو یونٹ زائد ڈال کر وہ صارف سے پاکستان تو اپنے نام نہیں لکھوا رہے ہوتے۔ افسروں کی ضرورتیں اپنی جگہ دیگر مالزمین کی بھی ضرورتیں ہوتی ہیں۔ رشتہ دار دوست یار تو اصولی استحقاق رکھتے ہیں لیکن جیب تو دیگر کسٹمر ہی بھرتے ہیں۔ اگر رشتہ دار اور دوست یار خوش نہ ہوئے تو تف ہے ایسی
نوکری پر۔ جیب میں باالئی نہ آئ تو تعلیم کا مقصد ہی عین غین ہو جاتا ہے۔ مالزمین کو کوٹھیاں دینے کے لیے اسکیم شروع ہوئی۔ اسکیم بالشبہ اعلی جھانسہ دار ہے۔ مالزمت ختم ہونے پر پتہ چلتا ہے کہ مالزم کی تنخواہ سے ایک الکھ نو ہزار کٹوتی ہوئی ہے۔ کوٹھی کے حصول کے لیے ساٹھ ستر الکھ مزید کی ضرورت ہوتی ہے۔ یتیم محکمہ سے متعلق مالزم دوچار زندگیوں میں بھی اتنی رقم ادا نہیں کر سکتا۔ ایک اردو یا پولیٹیکل ساءنس کا پروفیسر اتنی رقم چشم تصور میں بھی ادا نہیں کر سکتا۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ اپنی رقم کی واپسی کا مطالبہ کرے گا۔ یہ آرٹس کے پروفیسر بھی کتنے سادہ یا احمق لوگ ہوتے ہیں۔ شاید انھیں اس شعبے کی تعلیم یافتگی پر شک ہوتا ہے۔ انھیں اپنی درخواست کی بازگشت تک سنائی نہیں دیتی۔ میں کہتا ہوں اگر مک مکا کے بغیر بازگشت سنائفی دینے لگی تو تعلیم اور مالزمت کی حصولی پرادا کی گئی رقم حرام ہو گئی۔ سیمینار میں نصاب کے حوالہ سے عوامی نمائدگان سے بات کرنے کی بھی تجویز ہوئی۔ مانا عوامی نمائدگان میں اکثریت نے تعلیم پر خرچہ نہیں کیا لیکن وہ بھاری خرچہ کرکے ممبر بنے ہیں۔ یہ یقینا بڑی عجیب صورت ہو گی اگر وہ اس قسم کے
بےفضول کام پر پیداکار وقت صرف کریں گے۔ دوسرا یہ کام ان کا نہیں شکشا منشی صاحبان کا ہے جنھیں اپنی تعلیم سے البھ اٹھانے سے فرصت نہیں۔ تعلیم یافتہ مالزمین کے پاس مفتوں کے لیے ٹائم ہی کہاں ہے۔ مجھے پنجابی کے یہ مصرعے بس یوں ہی یاد آ رہے ہیں بنین لین جانندے اوہ بنین لئے کے آندے پاندے اوہ پیندی نہیں الندے اوہ لہندی نہیں موجودہ لنکنی نظام کے حوالہ سے حصول تعلیم کا حاصل یہی رہے گا۔ ہاں بنین میں دینا پاؤ گے پوے گی الوو گے لوے گی یہ قرآن و سنت کے حوالہ سے قائم ہونے والے نظام حکومت سے ہی ممکن ہے۔ شہباز شریف کی محنت اور دیانتداری پر پورے پنجاب کو ناز ہے۔ کیا وہ میرمنشی گاہ واپڈا ہاؤس وغیرہ کا قبلہ درست کر سکیں گے میں سردست اس ذیل میں کچھ عرض کرنے سے قاصر ہوں۔ میری اس ناچیز قاصری کو معذرت سمجھیں۔ شکریہ
حقیقت اور چوہے کی عصری اہمیت ‘زندگی
زندگی بظاہر بڑی حسین دلفریب اور جازب نظر ہے اور ہے بھی لیکن اپنی اصل میں اس بڑی سے بڑھ کر پچیدہ اور مشکل گزار ہے۔ اسے کرنا تو بعد کی بات ہے پہلے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اب سمجھنے کے لیے دو چار زندگیاں کہاں سے آئیں۔ ہزاروں سال سے انسان زمین پر رہ رہا ہے۔ تمیز و امتیاز کی دولت سے ماال مال ہوتے ہوئے بھی کنگال اور تہی دامن نظر آتا ہے۔ بعض اوقات کسی غلط فہمی کے زیر اثر غلط کو صحیح کہتا ہے لیکن زیادہ تر جانتے ہوئے کسی اللچ یا خوف کے تحت غلط کوعین سچ اور حق قرار دیتا ہے۔ اس کی دیکھا دیکھی دوسرے بھی غلط کو درست سمجھنے لگتے ہیں۔ اگر وہ نمبردار قسم کا بندہ ہے تو ایک وسیع حلقہ حق کا ساتھ چھوڑ کر ناحق کے چرنوں میں جا بیٹھتا ہے حاالنکہ اس ذیل میں ہر کسی کو خود سے غور کرنا چاہیے۔۔ دماغ اور ضمیر کی دولت ہر کسی کے پاس موجود ہوتی ہے۔ پیٹ شریف کے ہوتے اور اس سے سوچنے کے باعث دماغ اور ضمیر بےچارے دو نمبر ہو کر رہ جاتے ہیں۔ پیٹ کے سبب اتنا وقت ہی نہیں بچتا جو
دماغ اور ضمیر کی حال پکار سنی جائے یا ان کی جانب نادانستہ سہی‘ کان پھر جائیں۔ برے نتائج کو ہونی کا نام دے دیا جاتا ہے۔ نمرود ساری عمر چھیتر کھاتا رہا لیکن مچھر کو قہر خداوندی کی بجائے ہونی قرار دیتا رہا۔ پہلے میں بھی دفترشاہی کے بگڑے مزاج تیور اور اطوار کو ہونی سمجھ کر چپ کی بکل اوڑھنے کی سوچ رہا تھا۔ یہ کوئ آج کی بات ہے یہ تو سیکڑوں سال پرانا رویہ ہے۔ لوگ مٹھی گرم کرکے میرٹ کی سمت درست کر لیتے ہیں۔ جو گنڈ کے پکے ہوتے ہیں اول تا آخر میرٹ کے درجے پر فائز نہیں ہو پاتے۔ جو لوگ کاغذ قلم متحرک رکھتے ہیں متاثرین بھی انھیں درخواست باز ایسے ثقیل لقب سے ملقوب کرتے ہیں۔ وہ اس قسم کے بیان دفتر شاہی کی خوشنودی کے لیے داغتے ہیں۔ دوسرا ان کے پیسے پھسے ہوءے ہوتے ہیں اور دفترشاہی ان پر غصہ نکالتی ہے۔ وہ اپنا مال بچانے اور جس کام کے لیے مال دیا گیا ہوتا ہے اسے کسسی ناکسی طرح نکلوانے کی فکر میں ہوتے ہیں۔ دل میں وہ بھی درخواست باز کے ساتھ ہی ہوتے ہیں۔ دل کو کون دیکھتا ہے لوگ حق اسے ہی سمجھتے ہیں جو زبان پر ہوتا ہے۔ ہم سب اہل کوفہ کو آج بھی برا بھال کہتے کہ انہوں نے حسین کا ساتھ نہ دیا۔ یہ کوئی نہیں بتاتا گورنر کوفہ نے
کس طرح خون سے گلیاں رنگ دیں۔ گورنر مورکھ کا سگا ماسڑ تھا۔ اسی طرح مولوی وچارے کا بھی ذکر آتا ہے۔ بڑے بڑے پھنے خان باٹی ٹیک گیے ان کا پیٹ کس طرح حسین کو کیوں حق پر مانتا۔ پیٹ اور سچائی دو الگ چیزیں ہیں۔ میں اتنا بڑا جاہل ہوتے ہوئے جمہوریت اور امریکا بہادر کے خالف لکھتا رہا۔ مجھے اپنے لکھے پر ندامت ہوتی ہے۔ میں اتنی معمولی بات نہ سمجھ سکا کہ بادشاہ کا مستقل ہوتے ہوئے بھی پیٹ نہیں بھرتا۔ مرنے کے بعد بھی اس کا مقبرہ کئ کنال زمین گھرتا ہے۔ بادشاہ تو بادشاہ ہے اس کی بیگم کا مقبرہ بےحساب رقم ڈکار جاتا ہے۔ زندگی میں کیا کچھ ہضم کر جاتی ہو گی‘ مجھ سے جاہل کی سوچ میں بھی نہیں آ سکتا۔ بادشاہوں اور اس کے متعلقین کے گلچھرے اگر عموم کے سوچ میں آجائیں تو قیامت سے پہلے قیامت ہو جائے گی۔ عارضی اور مستقل کا معاملہ الگ سے ہے۔ مستتل کا مرتے دم تک پیٹ نہیں بھرتا اور آنکھیں تشنہ رہتی ہیں۔ یہی نہیں لوٹنے اور سمیٹنے کی اسے جلدی پڑی رہتی ہے۔ عارضی کے پاس تو مخصوص اور محدود مدت ہوتی ہے اس لیے تن مچانا غیر فطری نہیں۔ جمہوریت والے تو چند سالوں کے لیے آتے ہیں اس لیے ان کا انھی پانا غیر فطری نہیں۔ وہ عوام کو کیا کریں‘ انہیں اپنی لوٹ مار سے فراغت ملے گی تو ہی عوام کے سیاپے پیٹیں گے۔
حاکم کبھی غلط نہیں ہوتا گویا ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں۔ ہاں مات کھا کر سیٹ سے مرحوم ہونے واال کبھی درست ہو ہی نہیں سکتا۔ تمام ادارے بشمول عساکر‘ فاتح کے ساتھ ہوتے ہیں۔ طاقت کے ساتھ سب چلتے ہیں۔ یہی اصول رہا ہے اور رہے گا۔ اس کے خالف اٹھنے والے سر قلم ہوتے رہیں گے۔ نقطے کی بات یہ کہ ادارے شاہ کے بل پر کھاتے ہیں اور شاہ ان اداروں کے بل پر اندھیر مچاتا ہے۔ ناب قاصد سے شاہ تک ایک ہی زنجیر کی کڑیاں ہوتی ہیں۔ لہذا کسی چھوٹے کی اس سے بڑے کی شکایت کا فائدہ ہی کیا۔ تاہم یہ طے ہے کائنات میں ضدین بھی کام کرتی ہیں۔ ہر کوئ کسی ناکسی چیز سے ضرور ڈرتا ہے۔ اپنے اپنے کام نکلوانے کے لیے تحقیقی عمل کا تیز ہونا ضروری ہے۔ ہر بااختیار اور شکار کی چیر پھاڑ کا ماہر میل‘ اپنی اور پرائ منہ متھے والی فیمیل سے ڈرتا ہے فیمیل چوہے سے ڈرتی ہے لہذا چوہے چھوڑنے سے کام نکل سکتے ہیں۔ برمحل حسب ضرورت اور ایکٹیو چوہا نہ چھوڑا گیا تو کام پہلے سے بھی بگڑ سکتا ہے۔ حسین کی طرح قبلہ درست کرنے کی ضرورت نہیں۔ حسین ایک ہی تھا اور ہم حسین نہیں ہیں۔ ہر وقت معاملے کے حوالہ سے اپنے ساتھ دوچار چوہے ضرور رکھو اور یہ متعلقہ کی سرکاری
فیمیل کے دامن میں چھوڑو پھر دیکھو غائب سے کیا کیا نمودار ہوتا ہے۔ غیر سرکاری متعلقہ فیمیل کے دامن بے حیا میں بھی چھوڑا جا سکتا ہے۔ گریڈ ٧١کے ایم فل االؤنس سے متعلقہ کلرک بادشاہ کو معافی کے کھاتا میں رکھیں وہ بڑے معصوم شریف دیانت دار اور راہ راست کے راہی ہیں۔ دونوں بیبیوں سے ان کا کوئی واسطہ نہیں۔ وہ خود ہی سر چڑھتی ہیں اور چوتھائی سے زیادہ باالئی چٹ کر جاتی ہیں۔ ان سے قسم لے لو جو آج تک انہوں نے کبھی دعوت خورد و نوش کی دعوت دی ہو مگر حسین مہمان کی مہمانی کو بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کفران نعمت کے مترادف ہے۔ ان پر فضول خرچی کا الزام قطعی غلط بےبنیاد اور معنویت سے تہی ہے۔ وہ پلے سے ایک اکنی تک خرچ نہیں کرتے۔ سگریٹ کے پنے میں بڑی احتیاط سے محفوظ کی گئ جاز کی سم میں باالئی سے بیلنس ڈلوا کر پییکج کرکے اپنی معزز غیر سرکاری خواتین سے چھپ چھپا کر کچھ ہی وقت کے لیے تو خوش طبعی اور گوارا خوش طبعی فرماتے ہیں۔ وہ کوئی اکیلے ہیں جو ان کی پیٹھ پیچھے ساتھ والے غلط سلط باتیں کرتے ہیں۔ چغلی بہت بری بیماری ہے۔ اسالم اس کی سخت مخالفت کرتا ہے۔
ساتھ والے کون سا ہل پر نہائے ہوئے ہیں۔ ٹھرک اور جنسی عشق بازی تو روٹین کا معاملہ ٹھہرا ہے۔ اس حمام میں حسب توفیق تقریبا سارے بےلباس ہیں ۔ ان کی بےلباسی میں بھی حسن سلیقہ اور کمال کا رکھ رکھاؤ پایا جاتا ہے۔ اس کی باذوق حضرات کو کھل کر داد دینی چاہیے۔ میں نے یہ محض چوہا چھوڑا ہے اسے سچ نہ سمجھا جائے ورنہ وہ تو دیانت اور شرافت میں اپنی مثال آپ ہیں۔ انہوں نے آج تک میلی اور سچی آنکھ سے کبھی کسی غیر سرکاری عورت کو نہیں دیکھا۔ انہوں نے آج تک کسی سے ایک دمڑی تک نہیں لی۔ اگر لی ہو تو رشوت دینے والے کے ہاتھوں میں قبری کیڑے پڑیں۔ اس کا نہ اس جگ بھال ہو اور ناہی قیامت کے دن چھٹکارہ ہو۔ رشوت دینے والے سیدھے دوزخ میں جائیں گیے۔ جائز کام نہ کرائیں گے تو مر نہیں جائیں گے۔ انھیں یہ صاحب نائ بھیج کرنہیں بلواتے خود اپنے قدموں پر چل کر جاتے ہیں۔ رہ گئ خواتین کی بات اسے چوہا سمجھ کرنظرانداز کر دیں۔ ایسی کوئ بات ہی نہیں۔ یقین نہیں آتا تو ان سے یا ان خواتین سے قسم لے لیں۔ قسم کے معاملہ میں مجھے نہ الئیں۔ میں کسی کے ذاتی معاملہ میں دخل اندازی کا قائل نہیں۔ میں نے آغاز میں عرض کیا تھا کہ زندگی بڑی پچیدہ اور الجھی
ہوئ گھتی ہے۔ اسے سمجھنا آسان نہیں۔ ہم جو دیکھ یا سمجھ رہے ہوتے ہیں وہ اصلی اور حقیقی نہیں ہوتا۔ موصوف کی سرکاری محترمہ کو محض شک تھا۔ شک کوئ اچھی اور صحت مند چیز نہیں۔ اپنے جیون ساتھی پر شک کرنے سے پاپ لگتا ہے۔ شک درمیان کی چیز ہے گویا نہ مونٹ نہ مذکر۔ انھیں شک سے دور رہنا چاہیے یا ہونی سمجھ کر صبر و شکر سے کام لینا چاہیے عالی ظرف لوگوں کا یہی طور اور وتیرا رہا ہے۔ غلط سمجھنے یا تذبذب کی حالت میں زندگی کرنے والے اعتماد کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ شک سے جان چھڑا کر اور ہونی کو خوش آمدید کہنا چاہیے۔ ایک شخص سارا دن کھپتا کھپاتا ہے اسے ٹیسٹ بدلنے کا حق ملنا چاہیے۔ پرانی اشیاء ہے؟ سے منہ تو نہیں موڑ رہا ہوتا تو پھر روال کس بات کا ِ
آدم خور چوہے اور بڈھا مکاؤ مہم
ہم میں سے ہر کوئی لینے کے لیے اگلی صفوں میں کھڑا نظر آتا ہے۔ اپنے حقوق کی وصولی کے لیے احتجاج کرنے میں کوئ کسر نہیں چھوڑتا۔ جب حق دینے کی باری آتی ہے تو رونا
ہی نہیں موت پڑ جاتی ہے۔ وہ وہ جواز گھڑتا ہے کہ عقل دھنگ رہ جاتی ہے۔ اس بات کو یوں سمجھیں ہم لینا جانتےہیں لیکن دینے کا نام بھی سننا نہیں چاہتے۔ ریاستی ٹیکس کی وصولی تو یاد رہتی ہے لیکن ان ٹیکس دہندگان کو ریاستی حقوق اور سہولتیں یاد سے باہر ہو جاتی ہیں۔ ہاؤسز جو عوام کے خون پسینہ سے چلتے ہیں وہاں اکھاڑ پچھاڑ اور عوام کو الو بنانے کی تراکیب تراشی جاتی ہیں۔ وہاں بجلی پانی اور گیس کی تھوڑ نہیں آتی۔ عوام جو محنت کرتے ہیں اور ان کا بوجھ اٹھاتے ہیں ان تینوں بنیادی ضرورتوں سے محروم رہتے ہیں۔ آواز اٹھاتے ہیں تو چھتر کھاتے ہیں۔ کیا یہ اندھیر نہیں؟ اس سے بڑھ کر شخصی حقوق کی بےحرمتی اور کیا ہو گی۔ غاصب معزز بھوک و پیاس اوڑھنے واال شدت پسند۔ ڈاکٹر حضرات کے بارے بات کرتے خوف آتا ہے کیونکہ بیمار نظام و معاشرت کے باشندے بیمار رہتے ہیں اس لیے ڈاکٹر حضرات سے واسطہ رہتا ہے۔ تنقید کی صورت میں کھال تو اتاریں گے ہی لیکن ساتھ میں خدا معلوم کیا کر گزریں۔ ہماری شفا گاہوں کے چوہے بھی ہمارے ڈاکٹروں کی طرح انسانی گوشت کے شوقین ہیں۔ اپنے حقوق کے لیے کس شد و مد سے روال ڈالتے چلے آ رہے ہیں لیکن انہیں اپنی غلطیاں نظر نہیں آتیں۔ کہتے ہیں مالزمین پر انکواءریاں لگ گئ ہیں۔ اس سے کیا
ہو گا ہمیشہ کی طرح کچھ بھی نہیں۔ دو چار ماہ معطل رہیں گے۔ معاملہ ٹھنڈا ہونے کے بعد کچھ دو اور کچھ لو کے تحت پروانہ بحالی جاری ہو جائے گا یا کسی دور دراز عالقہ میں تبادلہ کر دیا جاءے گا اس طرح واپسی کےمعقول داموں کی وصولی کا بندوبست کر لیا جائے گا۔ گویا ہر حوالہ سے وصولی ہی وصولی۔ باور رہے معطلی میں تنخواہ بند نہیں ہوتی ہاں باالئ جو تنخواہ سے ٹن ٹائم زیادہ ہوتی ہے‘ بند ہو جایے گی۔ معطلی کے دن گربت کے دن ہوں گے لیکن بھوکوں مرنے کے دن نہیں ہوں گے۔ ایک انسان جس نے نہ اچھا اور نہ ہی کچھ برا کیا‘ بالکل فرشتوں اور دیوتاوں کے اوتار کا سا‘ بال جرم زندگی سے گیا۔ ماں باپ کو ہمیشہ کے لیے سوگوار کر گیا۔ کیا یہ قتل نہیں ہوا؟؟؟ ڈاکٹر اور ماتحت عملہ کس خدمت کی تنخواہ وصولتا ہے۔ کسی بھی مالزم سے پوچھیں اسے یہ خوب خوب معلوم ہو گا کہ مہنگائی بڑھ گئی ہے اور تنخواہ بہت کم ہے۔ اسے یہ یاد نہیں ہو گا کہ اس کے کچھ فرائض بھی ہیں۔ اس کے ذہن سے باالئی کی رقم بھی محو ہو چکی ہوتی ہے۔ اس معصوم بچے کا چوہے کے ہاتھوں مر جانا ڈاکٹری کے منہ پر طمانچہ ہے لیکن یہ تب
ہے جب وہ اسے طمانچہ سمجھیں گے۔ زخمی ہونے کی صورت میں بھی یہ جرم کوئی معمولی جرم نہیں۔ قتل یا زخمی ہونے کے حوالہ سے عدلیہ کے سامنے مسلہ الیا جانا چاہیے۔ حق اور انصاف کی بات تو یہ ہے کہ وہ بد نصیب بچہ ڈیوٹی پر موجود عملہ اور ڈیوٹی آفیسر کی الپرواہی سے مرا نہیں ان کے ہاتھوں قتل ہوا ہے۔ کس بات کی انکوائری جو اس دورانیے میں ڈیوٹی پر تھے اس بچے کے قاتل ہیں۔ قاتل کی سزا ہمارے قانون میں غیر واضع نہیں۔ اس سے یہ بات بھی کھلتی ہے کہ ہماری شفاگاہوں میں صفائ ستھرائی کا کیا عالم ہے۔ لوگوں میں صفائی ستھرائی کے پمفلٹ بانٹنے والوں کے اپنے ہاں صفائی ستھرائی معنویت نہیں رکھتی۔ کوئی ذمہ دار اور غیر جانب خود جا کر بال اطالع جا کر دیکھے‘ مجھے یقین ہے سر پکڑ کر بیٹھ جائے گا۔ سچی بات تو یہ ہے محکمہ صحت پر فضول خرچ کیا جاتا ہے۔ یہاں داخل ہو کر بھی یہاں کے لوگوں سے پرائیویٹ طبی امداد لینا پڑتی ہے ہماری شفا گاہیں
غالب کے اس مصرعے کا زندہ عکس ہیں دل کو خوش رکھنے کے لیے غالب یہ خیال اچھا ہے سنتے ہیں کھانسی کے سیرپ میں خطرناکی وارد ہو گئ ہےاور اس کے پینے سے کچھ کھانسنے والے هللا کو بھی پیارے ہو گئے ہیں۔ یہاں کا ہر دوسرا بڈھا کھانستا ہے۔ لگتا ہے بڈھا مکاؤ مہم کا آغاز ہو گیا ہے۔ بڈھے وقتا فوقتا معامالت میں ٹانگ اڑاتے رہتے ہیں۔ وہ بھی کیا کریں ان کی قوت برداشت کم یا ختم ہو چکی ہوتی ہے اسی لیے بالطلب مشورے دیتے رہتے ہیں۔ بڈھوں کے لیے میرا مشورہ ہے کہ وہ اپنی چونچ بند رکھا کریں۔ قوم کو وہ کھٹکنے لگے ہیں۔ یہ کوئ ان کے حوالہ سے صحت مند عالمت نہیں۔ ایک مخصوص طبقہ ان کے پیچھے پڑ گیا ہے۔ خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے لہذا وہ محتاط ہو جائیں۔ چونچ بند کرنے کی ابتدا میں اپنی ذات سے کرتا ہوں۔ کھانسی کا سیرپ بنانے والوں سے استدعا کرتا ہوں ایک بار بڈھوں کومعاف کر دیں۔ آئندہ وہ احتیاط سے کام لیں گے اور شکایت کا موقع نہیں دیں گے۔ ایک موقع تو ملنا چاہیے۔ حکومت سے اس لیے اپیل نہیں کروں گا کہ اس کے پاس جنتا کی بھالئی اور
بہبود کے لیے کچھ کرنے لیے وقت کہاں ہے۔
عوام بھوک اور گڑ کی پیسی
دو شخص ہوٹل میں گرما گرم بحث کر رہے تھے۔باتوں سے دونوں بےپارٹی کے لگتے تھے۔ بے پارٹی اشخاص کا مختلف سمتوں میں چلنا اوراتنی گرما گرمی دکھانا مجھے بڑا ہی عجب لگا۔ خیرمیں بے تعلقی ظاہر کرتے چائے نوشی میں مشغول رہا۔ ان کا موضوع سخن مہنگائ اور بےروزگاری تھا۔ وہ یوں ایک دوسرے سے الھج رہے تھے جیسے ان دونوں میں سے کوئی ایک ان خرابیوں کا ذمہ دار ہے۔ ایک صاحب کا کہنا تھا کہ موجودہ حاالت کے ذمہ دار خود عوام ہیں۔ آخرانھوں نے ان بدمعاشوں کو ووٹ ہی کیوں دیے۔ دوسرے کا کہنا تھا اطراف میں بدمعاش تھے ایک کو ممبر بننا ہی تھا۔ دوسری طرف اگر کوئی شریف تھا اور ممبر نہیں بن
سکا تو بات کریں۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ کام شریفوں کا کبھی بھی نہیں رہا۔ پوری جمہوری تاریخ کو دیکھ لیں۔ اسمگلر چوراچکے سنیما کی ٹکٹیں بلیک کرنے والے رسہ گیر صاحب زادے نواب زادے حرام زادے امریکہ کے چہولی چک اس عمل کا حصہ رہے ہیں۔ دوسرا اس بات پر بضد تھا کہ قصور سارا عوام کا ہے۔ کچھ فیصد ہی سہی لوگ جمہوریت کا حصہ کیوں بنتے ہیں۔ پہلے کا موقف تھا کہ لوگوں کو بھوک میں نک نک ڈبو کر الیکشنوں کے دنوں میں چوپڑی روٹی اور لگ پیس دکھا کر یہ لوگ ووٹ حاصل کر لیتے ہیں۔ لوگ چند دن کی سیری کو دیکھ کر پچھلے اور اگلے سالوں کی قیامت ناک بھوک کو بھول جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک جس نے جوش خطابت میں چائے کا ابھی تک ایک گھونٹ بھی نہیں لیا تھا‘ کا کہنا تھا کہ صدر وزیر اعظم اور اسپیکر تو ڈھنگ کے منتخب کیے جاءیں۔ شاید اسے معلوم نہ تھا کہ انھیں عوام منتخب نہیں کرتے۔ یہ عوامی نمائندے نہیں‘ اپنی پارٹی کے نمائندے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے اور اپنی پارٹی کے مفاد کے لیے کام کرتے ہیں۔ انھیں عوام سے کیا مطلب۔ وہ عوام کو جوابدہ نہیں ہیں بلکہ پارٹی کو جوابدہ ہوتے ہیں۔ اسپیکر نے وزیر اعظم کے حوالہ سے جو فیصلہ دیا ہے۔ عوامی مفاد میں
نہیں دیا۔ اگر وہ عوام کا نمائندہ ہوتا تو اسے عوام کا مفاد عزیز ہوتا تو فیصلہ عوامی ہوتا۔ عدلیہ کی عزت اور وقار کو یوں پاؤں کی مٹی نہ بناتا۔ فیلصے میں واضع کرتا کہ کون آءین کا قاتل ہے۔ اس کے فصلے سے آئین بحال نہیں ہوا۔ آئین ابھی تک چیلنج یا معطل ہے۔ اتنی دیر میں بجلی آ گئ۔ دونوں کا جوش ہوا ہو گیا۔ دونوں سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ گئے۔ میں سوچ میں پڑ گیا اتنا گہرا شعور انھیں کس نے دیا ہے۔ کیا یہ بھوک پیاس اور اندھیرے کی مہربانی ہے یا میڈیے کی کارگزاری ہے۔دوسرا سوال یہ بھی کھڑا تھا کہ شعور انقالب کی طرف لے جا رہا ہے یا بھوک شعور کو کھا پی جائے گی۔ ان دونوں کا بجلی کے آنے پر دوڑ لگانا ظاہر کرتا ہے کہ شعور کسی بھی سطع پر ہو بھوک سے تگڑا نہیں ہوتا۔ روٹی ایمان کی بناء ہے۔ شخص کتنا ہی مظبوط کیوں نہ ہو بھوک کے ہاتھوں بک جاتا ہے۔ لوگوں کو بھوک کی آخری سطع پر اسی لیے پنچا دیا گیا ہے کہ وہ اپنا ضمیر ایمان اور عزت بیچنے پر مجبور ہو جائیں۔ بھوک کےتیور دیکھتے ہوئے میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہاں کوئ تبدیلی نہیں آئے گی۔ لوگ ہوٹلوں میں بیٹھ کر بڑےاونچے درجے کی باتیں کرتے رہیں گے لیکن بجلی
آتے ہی روٹی کی طرف بھاگ اٹھیں گے۔ بغداد والے کوا حالل ہے یا حرام پر بحثیں کرتے رہے ادھر ہالکو خان نے بغداد کی اینٹ سےاینٹ بجا دی۔ ہمارے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔ امریکہ ہماری خودداری پر ہر دوسرے کاری ضرب لگاتا ہے اور ہمارے لیڈر اگلے الیکشن جیتنے کے لیے بھوک میں اضافے کا کوئی نیا راستہ تالشنے کی سعی کرتے ہیں۔ کار سستی آٹا چینی دال گھی مہنگی کر رہے ہیں۔ ایک عام آدمی کو کار سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ بس کرایہ کم ہو تو غریب سے تعاون سمجھ میں آتا ہے۔ اندھا بانٹے روڑیاں مڑ مڑ اپنیاں نوں۔ کار کا سستا ہونا غریب پروری کے کس زمرے میں آتا ہے۔ یہ بات میری سمجھ سے باال ہے کہ میک اپ بھی سستا کر دیا گیا ہے۔ غالبا قوم کوکوٹھے پر بیٹھانےکا ارادہ ہے۔ قوم اس نام نہاد آزادی کے دن سے لے کر آج تک کوٹھے پر بیٹھی ہے۔ جوآتا ہےاس کی جان مال عزت آبرو انا اور غیرت سےکھیلتا ہے اور چلتا بنتا ہے۔ اس کے جانے کے بعد ہر کوئ اس کے جبروستم کے قصے چھیڑ دیتا ہے لیکن یہ سب زبانی
کالمی ہوتا ہے۔ کوئی اس پر گرفت نہیں کرتا۔ گئے وقت کی چھوڑیے کوئی موجودہ کے سدھار کی کوشش نہیں کرتا۔ ہر آتا دن گزرے سے بدترین ہوتا ہے۔ عدم تحفظ کا احساس بڑھتا چال جاتا ہے۔ ان نام کے قومی لیڈروں کی ناک کے نیچے رشوت کا بازار گرم ہے۔ اکثر افسر ان کے اپنے بندے ہیں۔ کم از کم جو ان کے اپنے بندے نہیں ہیں ان پر تو گرفت کریں تاکہ وہ ان کا بندہ ہونے کا جتن کریں۔ محکمہ تعلیم اوروں کے لیے نمونہ ہونا چاہیے لیکن اس کا حال بےحال ہے۔ ان دنوں لیکچرر سے اسسٹنٹ پروفیسرز کی پوسٹنگ کا سلسلہ چل رہا ہے۔ خالی پوسٹوں اور پوسٹوں کی اپ گریڈیشن کے بھاؤ لگ رہے ہیں۔ جو گرہ ڈھیلی نہئں کرے گا دور دراز عالقوں کی ہوا کھائے گا۔ نیلے پیلے نوٹ میرٹ بناتے ہیں۔ کوئ پوچھنے واال نہیں۔ پوچھنے والوں کے ہاتھ میں سفید گڑ کی پیسی ہے اور وہ یہ سوچے بغیر کہ دانت خراب ہوں گے چوسے پہ چوسا مارے جا رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں خراب دانتوں کا عالج کون سا گرہ خود سےہونا ہے۔ سرکار کا اشیرواد اور قوم کا مال سالمت رہے۔
انھیں پریشان کی کیا ضرورت ہے۔
رشوت کو طالق ہو سکتی ہے
ایک چرسی نے پاس سے گزرتے شخص سے ٹائم پوچھا۔ اس شخص نے کہا پانچ بج کر بیس منٹ۔ اس پر چرسی بوال اس ملک نے خاک ترقی کرنی ہے۔ صبح سے پوچھ رہا ہوں ہر کسی کا اپنا ٹائم ہے۔ بات تو ہنسی والی ہے لیکن ذرا غور کریں گے تو اس بات کو معنویت سے تہی نہیں پائیں گے۔ اس ملک میں ہر کسی کا شیڈول اپنا ہے۔ معامالت کو اپنے مطلب کے معنی دے رکھے ہیں اور اس ذیل میں دالئل بھی گھڑ رکھے ہیں۔ یہی منڈی کے بھاؤ کی صورت ہے۔ ایک ہی چیز کے مختلف بھاؤ سننے کو ملیں گے۔ بازار چلے جائیں اشیائے خوردنی کے ایک سے نرخ سننےکو نہیں ملیں گے۔ کپڑا خریدنا ہو یا سلوانا‘ ہر کسی کے اپنے نرخ ہوتے ہیں۔
سیاستدار ہو یا سیاست پرداز‘ صبح کو کچھ اور شام کو کچھ کہتا ہے۔ بعض تو اگلے لمحے ہی شخص اور موقع کی مناسبت سے بات کو بدل دیتے ہیں۔ پہلی کہی کے برعکس کہنے میں کوئ عار یا شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔واپڈا والے ہوں اکاؤنٹس آفس ہو گیس والوں کےہاں چلے جائیں خدا نخواستہ نادرہ والوں سے کام پڑ جائے جو عوما نہیں اکثر پڑتا ہی رہتا ہے۔ یہ تو خیر مقامی دفاتر ہیں بڑے دفاتر یہاں تک کہ مہا منشی ہاؤس کے دفاتر جن سے دادرسی کی امید رکھی جاتی ہے‘ کے بھاؤ ایک نہیں ہیں۔ ایک ہی کام کے مختلف نرخ ہیں۔ اپنا یا بیگانہ کی تخصیص موجود نہیں۔ یہاں کوئ اپنا یا پرایا نہیں۔ مفت بھر کسی سطع یا کسی حوالہ سے فیض حاصل نہیں کرپاتے۔ پلہ ہر کسی کوجھزنا ہی ہوتا ہے۔ بہوتا اوکھا فنی خرابیوں سے عمر بھر نبردآزما رہتا ہے۔ مجھے بھتہ لینے یا دینے پر کوئی اعتراض نہیں۔ دنیا لین دین پر استوار ہے۔ بھتہ خور حاالت کے ہاتھوں خود مجبور ہیں۔ تنخواہ میں وہ کچھ چل ہی نہیں سکتا جو بھتہ شریف کی برکت سے چلتا آ رہا ہے۔ تنخواہ سے دو انچ زمین خرید کر دکھا دیں۔ کار تو بڑی دور کی بات تنخواہ میں سائیکل کا ایک پیڈل خریدا نہیں جا سکتا۔ بھتہ خوری خانگی مجبوری ہے۔ گھر میں سکون ہو گا تو پورے معاشرے میں سکون ہو گا۔ بھتہ سیاسی مجبوری
بھی ہے۔ لفافہ کلچر سیاسی لوگوں کی عطا ہے۔ عطا بری نہیں ہوتی۔ ہاں کچھ کو ماش موافق اور کچھ کو بادی۔ یقین مانئیے میں اس سیاسی عطا کے خالف نہیں ہوں ہاں میرا موقف یہ ہے کہ اسے فکس ہونا چاہیے۔ یہ کیا ایک ہی کام کے ایک سے دس دوسرے سے پندرہ اور کسی پر آٹھ ہزار میں مہربانی کر دی جائے۔ ساتھ میں روٹی کی جگہ چائے بسکٹ کیک پیس اور نمکو پر ہی کام چال لیا جائے۔ ۔یہ انداز اور رویہ کسی طرح درست نہیں۔ اس انداز و رویہ کے حوالہ سے بے چینی پھیل رہی ہے۔ چرسی غلط نہیں کہہ رہا تھا۔ پوری قوم خصوصا دفاتر کو بےٹائیمی کے اندھے کنویں سے نکاال جائے۔ بالکل اسی طرح نرخی نظام کا قیام دقت کا تقاضا ہے۔ کچوپیے تو خیر اس ذیل میں نہیں آتے۔ ہمارے پاس یک نرخی کی ایک قابل تقلید مثال موجود ہے۔ کسی بھی نیٹ ورک کا سو روپیے کا لوڈ کروایں بیاسی روپیے اور کچھ پیسے کا بیلنس لوڈ ہوتا ہے۔ کہیں ایک پیسے کا فرق نہیں آتا۔ اس یک نرخی کا فایدہ یہ ہے کہ پاکستان میں پاکستانی روپیے کی حقیقی قیمت کا اندازہ ہوتا رہتا ہے۔ دیکھنے میں سرخ نوٹ سو روپیے کا ہوتا ہے لیکن اس کی اپنے ہی دیس میں قیمت بیاسی روپیے اور کچھ پیسے ہوتی ہے۔
حکومت کا اصولی اور اخالقی فرض بنتا ہے کہ وہ تمام دفتر سے ہر قسم کے چھوٹے موٹے کاموں کی فہرست طلب کرے۔روییےکی عصری پاکستانی قدر کے مطابق اپنا جگا ڈال کر ریٹ طے کرے۔ یہی نہیں اسے بینکنگ نظام سے وابسطہ کر دیا جائے۔ سائیلوں کو دفاتر کے دھکوں سے نجات مل جائے گی اور ہر کسی کو بینک چاالن پر طے شدہ کوڈ کے مطابق حصہ مل جائے گا۔ سائل چاالن کی نقل پاس رکھ کر اصل متعلقہ دفتر میں جمع کرا دے گا۔ مقررہ تاریخ کو چند روپیے کچوکیے کے ہاتھ میں رکھ کر اپنے کاغذ پتر خوشی خوشی گھرلے جائے گا۔ اس سے رشوت اصطالح کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے طالق ہو جائے گی۔
لوٹے کی سماجی اور ریاستی ضرورت
لوٹا کوئی عہد جدید کی پیداوار نہیں۔ یہ صدیوں پہلے وجود میں آ کیا تھا اور اس نے اپنی بہترین کارگزاری کے حوالہ سے
انسانی زندگی میں بلند مقام حاصل کر لیا۔ اس کے وجود سے انسان خصوصا برصغیر کے بااختیار اور صاحب حیثیت لوگوں نے خوب خوب فائدہ اٹھایا۔ دیکھا جاءے یہ کمزور اور گریب طبقے کی چیز ہی نہیں۔ پکے محل رکھنے والے اس کی کارگزاری کے معترف رہے ہیں۔ کمزور اور گریب طبقے سے متعلق لوگ کچے اور تعفن کے مارے گھروں میں رہتے ہیں اس لیے ان کی گزر اوقات گھیسی سے ہو جاتی ہے۔ اس حیقیت کے پیش نظر لوٹے کو بلند پایہ طبقوں کی امانت سمجھنا چاہیے۔ موجودہ بتی کے بحرانی دور میں بھی بڑے لوگوں کو گھیسی نہیں کرنا پڑے گی۔ یہ سعادت صرف اور صرف کمزور اور گریب طبقے کے مقدر کا حصہ رہے گی۔ لوٹا" کو آفتابہ بھی کہا جاتا رہا ہے لوٹے کو استاوا بھی کہتے " ہیں اور یہ لفظ دیہاتوں میں آج بھی مستعمل ہے۔ تاہم شہروں میں مستعمل اور معروف لفظ لوٹا ہی ہے۔ یہ ایک قسم کا ٹونٹی واال برتن ہوتا ہے جو پاخانہ وغیرہ کے لیے پانی سے طہارت کرنے واال برتن ہوتا ہے۔ مغرب والے اس برتن اور اس کی افادیت سے آگاہ نہیں ہیں کیونکہ وہ طہارت کا کام ٹیشو پیپر سے چالتے ہیں۔ ویسے ٹیشو پیپر کا استعمال کھانا کھانے کے بعد ہاتھ صاف کرنے کے لیے بھی ہوتا ہے۔ اصطالحا ٹیشو پیپر کے معنی اس سے مختلف ہیں۔ کام نکل جانے کے بعد آنکھیں
بدل لینا کے لیے یہ مرکب استعمال کیا جاتا ہے۔ استعمال شدہ ٹیشو پیپر معنویت کھو دیتا ہے۔ انسان کے لیے اس مرکب کا استعمال کرنا مناسب نہیں لگتا کیونکہ انسان کی دوبارہ سے ضرورت پڑ سکتی ہے جبکہ ٹیشو پیپر دوبارہ سے استعمال میں نہیں الیا جا سکتا۔ دوبارہ سے ضرورت یا حاجت کے لیے نیا ٹیشو پیپر استعمال کرنا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس انسان دوبارہ سے کیا' بار بار استعمال میں الیا جا سکتا ہے .ٹیشو پیپر کا ہاتھ اور پیٹھ کی صفائی کے عالوہ کوئ قابل ذکراستعمال موجود نہیں۔ مساجد میں مٹی کے لوٹے استعمال ہوا کرتے تھے آج بھی زیادہ تر مٹی کے لوٹے معتبر سمجھے جاتے ہیں۔ کہیں کہیں پالسٹک کے لوٹے بھی دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ جماعت والے جب چلے پر جاتے ہیں پالسٹک کے لوٹوں کو ترجیع دیتے ہیں کیونکہ ان کے ٹوٹنے کا ڈر نہیں ہوتا۔ سفر میں لوٹا ٹوٹنا یا بہہ جانا نہوست ہی نہیں مکروہات میں بھی ہے۔ لوٹے کی سالمتی میں ہی کامیابی پوشیدہ ہوتی ہے۔ طہارت کا سارا دارومدار لوٹے پر ہوتا ہے۔ لوٹا برقرار ہے تو طہارت برقرار ہے۔ طہارت برقرار ہے تو ہی عبادت ممکن ہے۔ شہر کے گھروں میں کانسی سلور سٹیل چاندی پالسٹک وغیرہ
دھاتوں کے لوٹے دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ ایوا نوں میں پالسٹک کے لوٹے استعمال ہوا کرتے تھے غالبا آج بھی پالسٹک کے لوٹے استعمال ہوتے ہیں۔ فیشنی دور ہے ٹیشو پیپر بھی بڑی افادیت رکھتے ہیں۔ ٹیشو پیپر کو لوٹے کا مترادف سمجھا جاتا ہے۔ حقیت یہ ہے کہ ۔ ٹیشو پیپر لوٹے کا متبادل ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ اس میں پانی کا عمل دخل نہیں ہوتا دوسرا ٹیشو پیپر ایک سے زیادہ بار استعمال نہیں ہو سکتا۔ گویا گھیسیی اور ٹیشو پیپر برابر کا مرتبہ رکھتے ہیں۔ گھیسیی طہارت کے حوالہ سے زیادہ معتبر ہے۔ مٹی سے وضو تک کیا جا ستا ہے۔ وضو کی ضرورت نماز تک محدود ہے۔ ہہاں لوگ بسم هللا شریف تک درست نہیں پڑھ سکتے لہذا ٹیشو پیپر کا استعمال ایسا غلط نہیں معلوم ہوتا۔ اگر اس قماش کے لوگ گھیسی بھی کر لیں تو کوئ برائ نہیں۔ طہارت کے لیے لوٹا' گھیسی یا ٹیشو پیپر نہ بھی استعال میں الئیں تو بھی ان کی سر جائے گی۔ یہ لوگ عوام کا ووٹ حاصل کرکے طہارتیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی پاکی پلیدی پر انگلی نہیں رکھی جا سکتی۔ لوٹے کے چھوٹا یا بڑا ہونے کے حوالہ سے بات ہوئ ہے لوٹا چھوٹا ہو یا بڑا' بظاہر ا س سے کوئ فرق نہیں پڑتا۔ لوٹا اول تا آخر لوٹا ہے کہاں تک ساتھ دے گا۔ مٹی کا لوٹا ٹوٹ ہی جاتا ہے۔
لوٹےکے بڑا یا چھوٹا ہونے سے اچھا خاصا اثر پڑتا ہے۔ چھوٹے لوٹے میں پانی کم پڑتا ہے اس لیے طہارت کے لیے دو سے زیادہ لوٹوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اس کے برعکس بڑا لوٹا بڑی حد تک ایک ہی کافی ہوتا ہے۔ رہ گئ ٹیشو پیپر یا گھیسی کی بات ٹیشو پیپر بڑے ایوانوں یا بڑے گھروں کے کام کی چیز ہوسکتی ہے لیکن دیہاتوں یا جھونپڑوں کے مقیم اسے نہیں کر سکتے اور نہ ہی یہ ان کی تسلی کی چیز ہو afford سکتی وہ گھیسی یا کچے روڑے کےاستعمال کو ترجیع میں رکھتے ہیں۔ لوٹے کا اصطالحی استعمال بڑے ایوانوں میں ہوا کرتا تھا اصطالحی لوٹا عوام کے متعلق چیز نہ تھی اور نہ ہی ایوانی لوٹوں پر کسی قسم کی بات کرنے کا حق تھا ۔ ان کی یہ اوقات بھی نہ تھی کہ وہ ایوانی لوٹوں کے متعلق کوئ بات اپنی ناپاک زبان پر الءیں۔ لوٹے ا اپنی اوقات اورافادیت کے حوالہ سے بڑی رکھتے ہیں۔ کمی کمین عوام جو دوچار بتی کھچ importance جھٹکوں کی مار نہیں ہیں' تقدس ماب لوٹوں پر اپنے حوالہ سے ایک شبد بھی منہ سے نہ نکالیں۔ ان کی اتنی جرات اور ہمت کہاں حاالنکہ لوٹوں کے بارے اں کی بقلم خود رائے موجود رہی ہے۔ عوام کو صرف اور صرف رائے دہی کا حق حاصل ہے۔ اگر
مخالف فریق کے ڈبے میں ووٹ چال جاتا ہے تو رائے دہی کا حق' داھندلی کے لقب سے ملقوب ہوتا ہے۔ میں اصل نقطے کی بات عرض کرنا بھول گیا ہوں لوٹے کی ہیت ترکیبی ٹونٹی تک محدود نہیں پیندے کا اس میں بنیادی رول ہوتا ہے۔ مٹی کے بعض لوٹے بال پیندے کے بھی رہے ہیں۔ اس قسم کے لوٹوں کے لیے پیالہ نما جگہ بنا دی جاتی تھی لیکن پیندے وا لے لوٹے پیالے کی سعادت سے محروم رہتے تھے۔ پالسٹک کے لوٹے باپیندا ہوتے ہیں ہاں زیادہ استعمال کے باعث ان کا پیندا ٹوٹ بھی جاتا ہے لیکن ٹوٹ پھوٹ کے باوجود پیندے کا نام و نشان باقی رہتا ہے۔ انھیں استعمال کی کسی بھی سطع پر بے پیندا لوٹا قرار نہیں دیاجا سکتا۔ استعمال کے سبب نیچے سے کتنا بھی ٹوٹ جائے پیندے کا نشان ضرور باقی رہ جاتا ہے۔ معمولی نشان بھی اسے باپیندا قراردینے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ سیانے مولوی اپنا طہارت خانہ الگ سے رکھتے ہیں لہذا ان کا لوٹا بھی اوروں سے الگ تر ہوتا ہے۔ اس طر ح مولوی صاحب کا لوٹا' مقدس لوٹا ہوتا ہے۔ دفاتر میں عملے کے طہارت خانے عام استعمال میں رہتے ہیں اس لیے وہاں کے لوٹے کسی خاص دفتری کے لیے مخصوص نہیں ہوتے ہاں البتہ افسروں کے
طہارت کدے ان کے دفتر کے اندر ہی ہوتے ہیں۔ ان طہارت کدوں کے لوٹے بڑی معنویت کے حامل ہوتے ہیں۔ بعض افسر ٹیشو پیپر استعمال میں التے ہیں' وہاں لوٹے نہیں رکھے جاتے ۔ کچھ افسرز کے طہارت کدوں میں دونوں چیزیں موجود ہوتی ہیں۔ موقع کی مناسبت سے لوٹے یا ٹیشو پیپر کا استعمال کرتے ہیں تاہم ان کے طہارت کدوں کی آن بان اور شان ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ حضرت پیر صاحبان کے واش روم زیر بحث نہیں لئے جا سکتے کیونکہ حضرت پیر صاحبان نیک پاک اور عزت کی جگہ پر ہوتے ہیں۔ یہ اپنی خانقاہ میں ہوں یا کسی ایوان کی زینت بڑھا رہے ہوں' ان کے لوٹے دوہرے کام کے ہوتے ہیں .نہ گھومیں تو چاند گھوم جائیں تو زنجیر وٹ پر رہتی ہے۔ بہرطور طہارتی اور پرچی نکالنے والے لوٹے الگ ہوتے ہیں اس لیے ان کے حوالہ سے بات کرنے پر پاپ لگتا ہے۔ ایوانوں میں تشریف رکھنے والے حضرت پیر صاحبان سیاسی کھیل کے لیے پیندے اور بے پیندے لوٹے استعمال میں التے رہتے ہیں اور یہ ان کا پروفیشنل حق بھی ہوتا ہے لہذا کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ حضرت پیر صاحبان کے لوٹوں کی جانب میلی نظر سے بھی دیکھنے کی گستاخی کرے۔ اس قسم کے لوگوں کی زمین پر ٹہوئی نہیں ہوتیی۔
کوئ لوٹا نواز ہک پر ہتھ مار کر نہیں کہہ سکتا کہ لوٹا زندگی کے کسی موڑ پر اپنی مرضی سےاوور فلو ہونے کی گستاخی کرتا ہے۔ یہ لوٹے دار کی غلطی کوتاہی بے نیازی یا بے دھیانی کے سبب اوور فلو ہوتا ہے۔ چھوٹے لوٹے میں بڑے لوٹے کے برابر پانی ڈالو گے تو ہی بات بگڑے گی۔ اسی طرح بڑے لوٹے میں چھوٹے لوٹے کا پانی طہارتی امور سرانجام نہیں دے سکتا۔ لوٹا دار کا فرض ہے کہ وہ تناسب کو ہاتھ سے ناجانے دے۔ :استاد غالب بال کا لوٹا شناس تھا .تبھی اس نے کہا تھا دیتے ہیں بادہ ظرف قدح خوار دیکھ کر اماں حوا سے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ آدم کی بچی ہوئ مٹی سے بنائ گئ تھیں۔ میں اس بات کو نہیں مانتا تاہم یہ ایک میتھ ضرور ہے۔ ایک عام آدمی کا خیال ہے کہ ہمارے ہاں کے لوٹے استاد غالب کے کسی نہایت حرامی لوٹے کی بچی ہوئ مٹی سے وجود پذیر ہوئے ہیں۔ میں اس عقیدے پر یقین نہیں رکھتا تاہم یہ ایک میتھ ضرور ہے۔ جگہ' قانون' لوگ اورحکومت کسی بھی ریاست کے وجود کے لیے ضروری عناصر ہوتے ہیں۔ ان کے بغیر ریاست وجود میں نہیں آ سکتی۔ ان میں سے ایک عنصر بھی شارٹ ہو تو ریاست
نہیں بنتی۔ حکومتی ایوانوں میں لوٹے نہ ہوں تو معزز ممبران لبڑی پنٹوں شلواروں کے ساتھ نشتوں پر بیٹھینگے ' سوسائٹی میں پھیریں گے اس سے نا صرف حسن کو گریہن لگے گا بلکہ بدبو بھی پھیلے گی۔ لبڑی پنٹوں شلواروں والے ممبران کی عزت کون کرے گا۔ گریب عوام اور ان میں فرق ہی کیا رہ جائے گا۔ کھوتا گھوڑا ایک برابر ہو جائیں گے لہذا لوٹوں کی خرید و فروخت کا کام' اپنی ضرورت اور افادیت کے حوالہ سےپہال سوال الزمی کی حیثیت رکھتا ہے۔ لوٹوں کی تجارت پر کسی بھی سطع پر کبیدہ خاطر ہونا سراسر نادانی کے مترادف ہے۔ ریاست کے ضروری عنصر یعنی حکومت کے ہونے کے لیے لوٹوں کے کاروبار پر ناک منہ اور بھووں کو کسی قسم کی تکلیف دینا کھلی ریاست دشمنی ہے۔ اس کاروبار پر ناک منہ اور بھویں اوپر نیچے کرنے والے حضرات غدار ہیں اور غدار عناصر کا کیفرکردار تک پہنچنا بہت ضروری ہوتا ہے اورانھیں سزا دینے کی حمایت کرنا حکومت دوستی کے مترادف ہے۔
آزاد معاشرے اہل علم اور صعوبت کی جندریاں
هللا نے قلم کو معتبرمعزز اور محترم بنایا۔ اس کی حرمت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ هللا نے اس کی قسم اٹھائ ہے۔ اگلے وقتوں میں کانے سے بڑے اہتمام کے ساتھ قلم گھڑی جاتی تھی۔ ماسٹر کے جیب میں قلم گھڑ کر دینے کے لیے کاچو ہوا کرتا تھا۔ دوکان سے بھی گھڑی گھڑائ قلمیں مل جاتی تھیں۔ ٹک بڑی احتیاط کے ساتھ لگایا جاتا تھا۔ گھڑائ کے ساتھ ساتھ خوش خطی میں اس ٹک کا بڑا عمل ہوتا تھا۔ خوش خطی باقاعدہ فن تھا اور خوش خطی کے الگ سے نمبر ملتے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ وہ لکھائ بڑی مشقت انگیز تھی۔ ہر اگال لفظ لکھنے کے لیے ٹوبا لینا پڑتا تھا۔ اس قلم کے ساتھ ڈنک اور کچی پنسل بھی مستعمل تھے تاہم انہیں قلم کا نام و مقام حاصل نہ تھا۔ جی کے نب واال ڈنک انگریز کے عہد میں مستعمل ہوا۔ جی کے نب والے ڈنک کو انگریز ہونے کا شرف حاصل تھا اس کے باوجود اسے قلم کا درجہ کبھی بھی حاصل نہیں رہا۔ هللا نے کبھی اور کہیں ڈنک یا کچی پنسل کی قسم نہیں کھائ۔ قلم سے کچی اور پکی سیاہی سے لکھا جاتا تھا۔ ہر دو طرح کی سیاہی سے لکھی گئ تحریر قلم کی تحریر تھی اس لیے معتبر اور محترم تھی۔ پن تو بہت بعد میں والیت سے تشریف الیا۔ چونکہ وہ والیت سے آیا اسے پن شریف کہنا غلط نہ ہو گا۔ دیسی گوروں نے پن شریف کو بھی قلم ہی کہا اور کسی حد تک
یہ نام بھی مستعمل ہوا۔ دیدہءبینا نے اسے کبھی قلم تسلیم نہیں کیا۔ ان کے ہاں یہ پن ہی مستعمل رہا۔ بھیڑ کو وہ بکری کیوں تسلیم کرتے۔ دیسی گورے رنگت کے گندمی‘ احساس برتری میں اسے پن ہی کہتے تھے۔ یہ تھا بھی پن حاالنکہ اس کے نب میں بھی ٹک ہوتا تھا۔ پارکر جیسا قیمتی پن بھی ٹک کے بغیر نہیں ہوتا تھا۔ وقت آگے بڑھا تو قلم پن متروک ہو گیے۔ ان جگہ بال پوانٹ نے لے لی۔ بال پوائنٹ کو بائرو بھی کہا جاتا ہے اور یہی رائج ہے۔ جس پوائنٹ سے لکھتے ہیں وہ بال ٹک ایک کوکا سا ہوتا ہے۔ ٹک نہ ہونے کے سبب اس سے مروت کی آشا بے فضول سی ہے۔ اس میں سیاہی نہیں پڑتی۔ یہ بھری بھرائی ہوتی ہے۔ صاف ظاہر ہے اس میں جو بھی بھرا جاتا ہے کیمیکل سے مبرا نہیں ہو گا۔ بھرنے والے اپنی طینت اور مقاصد اس میں آمیزہ کرتے ہوں گے۔ دفاتر ہوں یا شفاخانے یا درس گاہیں‘ اس کا سکہ چلتا ہے اور بڑے بھار سے چلتا ہے حاالنکہ اس کی اوقات اتنی ہے جب اس کے اندر کا مواد ختم ہو جاتا ہے اسے کچرے کے ڈبے کی زینت بننا پڑتا ہے۔ اس کے برعکس پن کی یہ حیثیت نہ تھی۔ سیاہی ختم ہوتی تو دوبارہ سے بھر لی جاتی۔ نب ٹوٹ جاتا نیا نب بازار سے مل جاتا تھا۔
ڈاکٹر عبداقاضی هلل کمال کے عالم فاضل ہیں۔ خیر سے ڈبل پی ایچ ڈی ہیں۔ زندگی پڑھنے لکھنے میں گزار دی ہے۔ ان کی شرح بخاری کویت سے شائع ہو رہی ہے۔ اتنے پڑھ لکھ کر بال پوائنٹ کی طاقت کو نہیں مانتے۔ عہد جدید میں بھی پن سے لکھتے ہیں وہ بھی ایگل کے پن سے۔ پارکر کا قلم رکھتے ہوئے ایگل کے پن سے لکھنا پارکر کی توہین کرنے کے مترادف ہے۔ کل فون پر گفتگو کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ قلم کی حرمت جان سے زیادہ قیمتی ہے۔ یہ تو سنا تھا عزت‘ عزت اور حرمت ایک ہی بات ہے بچانے کے لیے جان کی بھی پرواہ نہیں کی جاتی۔ جان بار ملنے کی چیز نہیں لہذا اسے بچانے کے لیے عزت نیالم کر دی جاتی ہے۔ دونوں طرح کی صورتیں تاریخ میں ملتی ہیں۔ عزت پر جان قربان کرنے والے خال خال ملتے ہیں۔ سقراط نے زہر پی لیا لیکن ارسطو میدان چھوڑ گیا۔ پورس جب جان کو ہتھیلی پر لے کر میدان میں اترا تو سکندر کو فرار اختیارکرنا پڑا۔ اہل بال پوائنٹ کو دیکھیے اس نے نیچے والے بابے کو اوپر قرار دے دیا۔ ریفریری کسی کو بھی آؤٹ دے سکتا ہے۔ اچھی بھلی بال کو نو بال قرار دے دینا اس کے ایک اشارے کی مار ہے۔
ڈاکٹر قاضی کے نزدیک قلم سے بددیانتی ماں بہن کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔ قلم مستعمل نہیں اس لیے بددیانتی کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ دوسرا ہر وہ کام جسے هللا اور اس کا رسول حرام قرار دیتا ہے بااختیار طبقے اسے کرکے فخر محسوس کرتے ہیں۔ زمین پر کسی ضمنی پارٹ کے سہی وہ خدا ہیں‘ اس لیے وہ زندگی بھی اپنی مرضی کی گزارتے ہیں اور اپنی ساختہ شرع پر عمل کرتے ہیں۔ سماجی پابندی ہو یا اخالقی یہ ان کے لیے معنویت نہیں رکھتی۔ قانون لوگوں کے لیے ہوتا ہے اگر وہ بھی قانون کو کچھ سمجھیں تو ان میں اور عام لوگوں میں فرق ہی کیا رہ جائے گا۔ رہ گیا مذہب‘ تو یہ فرد کا ذاتی مسئلہ ہے۔ دوسرا مذہب عبادت گاہوں کی چیز ہے لہذا عبادت گاہوں کی حدود میں اس پر عمل درامد فرض ہوتا ہے۔ قلم کی بےحرمتی لوگوں کی ماں بہن کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔ یہاں بال پوائنٹ کی موجودگی میں اپنی یا پرائ ماں بہن کے ساتھ زیادتی کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ بیٹی کا ذکر اس لیے مناسب نہیں کہ بیٹیاں سب کی سانجی ہوتی ہیں۔
آزاد معاشروں میں سب سے پہلے اہل علم کو داڑھ کے نیچے رکھتے ہیں۔ یہ طبقہ آگہی پھیال کر کمزور طبقوں کو بے حضوریہ بناتا ہے۔ اہل جاہ اور اہل زر کی بےادبی ہی درحقیقت خرابی کی جڑ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے کالج کیڈر سے متعلق لوگوں کا پرموشن کبھی کبھار ہوتا ہے۔ دس سال بعد بھی کسی لیکچرر سے پوچھو تو خود کو لیکچرر بتاءے گا۔ ایک طرح سے انھیں مستقل مزاج بنانے کی یہ سعی عظیم ہے۔ بھولے سے کبھی پرموشن ہو جائے تو ان کی مٹی پلید کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا جاتا۔ اسے پنشن کے دروازے پر ال کھڑا کرکے مسافر بنا دیا جاتا ہے۔ دکھ کی جندریوں میں مقید رہنے تک زندگی کی آخری سانس کا پتہ بھی نہیں چلتا۔ بال حرکت بھی کوئی زندگی ہے۔ فارغ رہیں گے تو آگہی پھیالنے سے باز نہیں آءیں گے۔ وہ اہل علم کو ذلیل کرنے کا بڑی خوش اسلوبی اور بڑی دیانت داری سے فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ ان کی فرض شناسی کو آب زر سے قلم بند کیا جائے گا۔ ناخواندگی کی حوصلہ افزائ میں ان کا کردارکبھی فراموش نہ کیا جا سکے گا۔ ڈاکٹر قاضی جیسے اہل علم کو تو پرموشنی چکروں میں ڈالے رکھنا پورے سسٹم کے ساتھ بھالئ کرنے کے مترادف ہے۔ میں مہامنشی کے شعبہ اعلی شکشا کے باال وزیریں اہل کاروں کی تحسین کروں گا
کہ علماء و فضال کی اسی انداذ سے قدردانی ہونی چاہیے۔۔ اگر انہیں گریڈ بیس مل گیا تو گریڈ وائز اعلی شکشا منشی کے برابر ہو جاءیں۔ یہ بات الگ ہے کہ اوقات وائز اس کے نائب قاصد سے بھی کمتر ہوں گے۔ قلم کے متروک ہو جانے کے بعد محاورہ قلم کی مار دینا بھی کسی حد تک سہی‘ ختم ہو گیا۔ مرا نہیں تو قریب المرگ ضرور ہے۔ مفتا ساتھ میں لفافہ نہیں الیا ہوتا اس لیے اسے گھاس بھی نہیں ڈالی جاتی۔ مفتے کو دفتر اعلی شکشا منشی کے اہلکار پر بھی نہیں لکھتے اس کی فائل تھوڑا بہت مواد موجود ہونے کے باوجود بال پوائنٹ کی آلودگی سے محفوظ رہتی ہے۔ سفارشیے اور جھڑیے کی فائل گردش میں رہتی ہے اور اس کی آنیاں جانیاں لگی رہتی ہیں۔ ہر بار عالقے کی سوغات نہیں التا تو ناسہی ایسا شاز ہی ہوتا ہے ورنہ وہ خالی ہاتھ نہیں آتا‘ آ کر وہاں کے حاضرین و ناظرین کو چاء چو تو پیش کرتا رہتا ہے۔ چاء النے والے قریبا آفیسر سے بقایا طلب کرنے کی غلطی کا سزاوار نہیں ہوتا۔ بقایا طلب کرنے کے انجام سے وہ بخوبی واقف ہوتا ہے۔
پی ایچ ڈی راگ جنگہ کی دہلیز پر
میں اپنی کسی تحریر میں عرض کر چکا ہوں‘ کہ کام کے پیچھے موجود غرض و غایت کے حوالہ ہی سے‘ ثمرات ہاتھ لگتے ہیں۔ تحقیق کا حقیقی مقصد تو یہ ہوتا ہے‘ کہ اس سے کچھ نیا دریافت ہو اور وہ نئی دریافت‘ بنی نوع انسان کے لیے سکون اور آسودگی کا باعث بنے۔ عمومی اور خصوصی سوچ میں‘ بالیدگی پیدا ہو۔ جب سوچ کا محور پیسہ‘ حصول جاہ یا شو شا اور نوکری کا حصول رہا ہو‘ تو انسانی آسودگی اور سوچ کی بالیدگی حرف ثانی بھی نہیں رہ پاتی۔ خودغرضی‘ مطلب بری‘ چھینا جھپٹی اور مزید کی ہوس میں‘ ہر چند اضافہ ہی ہو گا۔ درس گاہیں تماشہ بن جائیں گی۔ وہاں ٹھرک بھورنا یا ٹھرک سے بڑھ کر‘ دیکھنے سننے کو رہ جائے گا۔ علی گڑھ برصغیر کا صف اول کا تعلیمی ادارہ‘ اگر سرور عالم راز صاحب کے بیان کیے گیے ناک نقشے کا رہ جائے گا‘ تو باقی کا تو هللا ہی حافظ ہے۔ پی ایچ ڈی سطع کے کام‘ ٹوٹل پورا کرنے کے مترادف رہ
جاءیں گے‘ تو اس کے بعد تو کچھ کہنے کو باقی نہ رہے گا۔ نام کے ساتھ ڈاکٹر کا سابقہ نتھی ہو جانے سے‘ علمی فضیلت میں اضافہ نہیں ہو جاتا۔ ہمارے ایک ملنے والے پی ایچ ڈی کرنے سے پہلے‘ عالمہ صاحب عرف رکھتے تھے۔ کچھ ہی پہلے میری ان سے مالقات ہوئی اور میں انہیں عالمہ صاحب کہہ کر مخاطب ہوا۔ انہوں نے مجھے زہریلی نظروں سے دیکھا اور اٹھ کر چلے گیے۔ حیرت ہوئی کہ آخر ناراض کیوں ہو گیے ہیں۔ میں نے اپنے ایک دوست سے ماجرا کہا۔ انہوں نے زوردار قہقہ لگایا۔ سمجھ میں کچھ نہ آیا‘ آخر میں نے کون سا کسی پٹھان یا سردار کا لطیفہ سنایا ہے‘ جو مسکرانا کی حدوں کو پھاند رہے ہیں۔ معلوم ہوا موصوف پی ایچ ڈی کر گیے ہیں‘ لہذا انہیں ڈاکٹر کہالنا خوش آتا ہے۔ پی آیچ ڈی کرنے کا آخر فاءدہ ہی کیا‘ جو لوگ دوبارہ سے پرانا دیسی سابقہ استعمال میں الءیں۔ عالمہ بھی اگرچہ برصغیر سے متعلق نہیں ہے‘ چوں کہ مستعمل ہو گیا ہے‘ اس لیے دیسی لگتا ہے۔ آج چوں کہ انگریز کا طوطا بولتا ہے‘ اس میں چاشنی اور جازبیت کا عنصر مرزا غالب ہے‘ اس لیے بگڑنا‘ الیعنی اور بے معنی نہیں۔ جب وہ صاحب اگلی بار ملے تو میں نے بصد احترام جناب پی ایچ ڈی صاحب کہہ کر مخاطب کیا۔ اس سے بڑھ کر سعادت مندی
اور ٹی سی کیا ہو سکتی تھی‘ کہ ایک ساتھ جناب کا سابقہ اور صاحب کا الحقہ استعمال کر ڈاال۔ چاہیے تو تھا کہ بڑے خلوص سے ملتے‘ بالجواب سوال‘ قیامت خور نگاہوں سے دیکھتے ہوئے‘ قریب کی مسجد کے غسل خانے میں‘ جوتوں سمیت چڑھ دوڑے۔ میری اردو پر خفا ہونے کی ضرورت نہیں‘ طہارت گاہ کے لیے‘ لفظ غسل خانہ بھی مستعمل ہے۔ مجھے حیرت ہوئی آخر اب کیا غلطی یا غلطان سرزد ہو گیا ہے۔ میرے ایک مغربی پرفیسر دوست ہوا کرتے تھے۔ ایک بار میں نے انھیں ڈاکٹر صاحب کہہ کر پکارا ۔ انھوں نے نیم ناراضگی کی حالت میں فرمایا :حسنی صاحب میں پروفیسر ہوں۔ آپ یہ ڈاکٹر صاحب ڈاکٹر صاحب کہہ کر کیوں مخاطب کر رہے ہیں۔ ان کا غالبا‘ ہو سکتا ہے یقینا یہ کہنا ہو‘ یہ تو ایسے ہی ہے‘ جیسے کسی کو ہیلو ایف اے صاحب یا ہیلو بی اے صاحب کہہ کر پکارا جاءے۔ :لکھنے میں بھی اس طرح آنا چاہیے پروفیسر صابر آفاقی پی ایچ ڈی۔ اصل میں نفسیاتی عارضہ ہے‘ کہ ہم کچھ کر لینے کے بعد‘ تفاخر کا شکار ہو جاتے ہیں حاالں کہ آگہی عجز سے سرفراز کرتی ہے۔ ڈگری اس امر کی گواہ ہوتی ہے‘ کہ یہ شخص عجز سے سرشار ہو گیا ہے۔ یہاں معاملہ ہی برعکس جا رہا ہے۔ پی ایچ ڈی کے بعد تکبر کی‘ آسمان سے باتیں کرتی روڑی لگ
جاتی ہے۔ مجھے ایک قصہ سا یاد آگیا ہے۔ ایک صاحب جو ایم فل کر رہے تھے‘ انھیں مارفونیات پر اسئنمنٹ دے دی گئ۔ سیدھا سادا لٹریچر پڑھانے واال کالج پروفیسر‘ لسانیات کی اس اوکھی سی اصطالح کو کیا جانے۔ جب انھوں نے دریافت فرمایا کہ جناب یہ کس چڑیا کا نام ہے تو ڈاکٹر صاحب بپھر گیے۔ کہنے لگے میرا امتحان لیتے ہوئے‘ تمہیں شرم آنی چاءیے۔ اب شکل گم کرو۔ ایک صاحب سے کہا گیا‘ میجک ان ریسرچ پر اسءنمنٹ لکھ کر الؤ۔ انھوں نے بھی پوچھا تو جواب مال :پہلے کام کرکے الؤ‘ پھر سوال جواب کرنا۔ یہ معاملہ سمجھ سے باہر ہے‘ کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ آج کل مقالے لکھ کر دینے کا رواج زور پکڑ رہا ہے۔ جناب سرور عالم راز کو بھی‘ میری طرح اس فعل بد کا افسوس ہے۔ ان کے افسوس سے لوگ ناراض ہو جاتے ہیں۔ لوگ میری الٹی سیدھی بکواس کو خبط کا نام دیتے ہیں۔ ویسے یہ کاروبار اچھا ہے‘ دس بیس دن کی نقل بازی سے‘ ایک معقول نہیں‘ معقول ترین رقم ہتھے چڑھ جاتی ہے۔ ان دنوں بیمار اور مالی کمزوری
سرعت انزال کا سا‘ روپ دھار چکی ہے۔ سوچتا ہوں اگر میں حرف کاری اوز نقل طرازی کے ہنر سے آگاہ ہوتا‘ تو باہر کی طرح گھر میں بھی معزز شہری ہوتا۔ کہیں باہر جا کر ترلے لینے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ اس سے بیک وقت چار فائدے میسر آتے ٧۔ معززی میرے قدم چومتی ٦۔ گرہ میں کڑکتے کڑکتے نوٹ آتے ہیں۔ ٣۔ ملنے والوں میں اضافہ کے سبب کوئ کام نہیں رکتا، ٤۔ مقالہ لکھوانے واال ساری عمر کے لیے کانا ہو جاتا ہے اور وقتا فوقتا ناجائز اور صرف ناجاءز کام بآسانی نکلوائے جا سکتے ہیں۔ ٢۔ داخلی نتھیا گوڈے لگے نالگے‘ خارجی نتھیا تکمیل مقالہ تک‘ سر سر کا راگ جنگلہ گاتی رہتی ہے۔ یہ کوئ عام اور گیا گزرا اعزاز نہیں۔ چیز خریدتے وقت مال مات دے جاتا ہے۔ اب اہلیت نے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں۔ خیر دکھ کیا کرنا ہے یا ٹنشن کیا لینی ہے۔ میکیش بہت پہلے گا گیا ہے۔ وہ تیرے پیار کا غم اک بہانہ تھا صنم اپنی قسمت ہی کچھ ایسی تھی کہ دل ٹوٹ گیا
بول میں کہیں کمی بیشی نظر آئے تو معافی کا خواستگار نہیں ہوں کیوں کہ اپنی قسمت ہی کچھ ایسی ہے‘ کہ ربط اور ضبط ٹوٹ گیا ہے۔ یقیں مانئے‘ یہ حافظے کا قصور ہے۔ کچھ باتیں سچی مچی بھول جاتا ہوں ورنہ ہر وہ بات جو دینی آتی ہو‘ سماج کے مزاج کی طرح دماغ سے دانستہ اور معلوم ہوتے ہوئے بھی بھول جاتا ہوں۔
استاد غالب ضدین اور آل ہند کی زبان
استاد غالب بالشبہ‘ جملہ زبانوں کے شعری ادب میں جھومر کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس کی بنیادی طور پر تین وجوہ ہیں۔ ٧۔ اوروں سے ہٹ کر اور الگ سے بات کرتے ہیں۔ ٦۔ اپنے کہے کا جواب پیش کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کبھی بات اور کبھی جواز‘ غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے۔
٣۔ مزید وضاحت کے لئے ضدین کا بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ ان کی عملی زندگی میں‘ ضدین کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ آدھا کافر اور آدھا مسلمان ہونے کا جواز رکھتے تھے۔ کافری‘ درحیقیقت ان کی مسلمانی کی شناخت تھی۔ استاد کا یہ بڑا پن تھا‘ جو انھوں نے اپنی کافری کا اقرار کیا‘ ورنہ سو میں سے ایک بھی نہیں نکلے گا‘ جو اپنی ذات کی غالب ضد کا اقرار کرے۔ دیکھائے کوئی ایک عیسائی‘ جو تپھڑ رسید کرنے والے کے سامنے‘ اپنا دوسرا پنجے سے پاک صاف رخسار پیش کر دیتا ہو۔ یہی صورت مسلمانوں کی ہے۔ آپ کریم نے ایک جملے میں انسانی آئین بیان کر دیا۔ آپ کریم کا فرمان گرامی ہے کہ مسلمان کے ہاتھ اور زبان سے کسی کو نقصان نہیں پہنچتا۔ آج مسلمانوں کی‘ کسی خطہ میں کمی نہیں‘ لیکن وہ اپنی شخصیت میں موجود غیر مسلمانی ضد کو‘ تسلیم نہیں کرے گا۔ اس لحاظ استاد غالب نمبر لے گئے ہیں۔ ہمارے‘ هللا بخشے‘ ایک ملنے والے ہوا کرتے تھے۔ بڑے خوش مزاج تھے۔ ایک دو تین نہیں‘ چار عدد خواتین کے مجازی خدا تھے۔ چہرے پر اکلوتا چب یا ڈنٹ نہیں تھا۔ اکلوتی خاتون کے مزاجی خدا کا چہرا مبارک دس بیس سالوں میں لمک جاتا ہے۔ خواتین پھولتی جاتی ہیں‘ جبکہ مرد حضرات اپنے
مرحوم یا زندہ والدین کا محض صدقہ جاریہ رہ جاتے ہیں۔ دوست احباب حیران تھے‘ چومکھی لڑائی کے بعد بھی حضرت ناصرف توانا اور صحیح سالمت ہیں‘ مزید کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔ ہر بار اسالم آڑے آ جاتا۔ مرحوم اور پانچویں سے محروم‘ بڑے اسالم پرست تھے۔ اسالمی معروف کلمات موقع بہ موقع ادا کرتے رہتے تھے۔ مثال سبحان هللا‘ بسم هللا‘ هللا اکبر‘ ماشاءهللا‘ ان شاءهللا وغیرہ وغیرہ۔ جنازہ اور عیدین کی نمازوں کا‘ شاید ہی‘ ان سا‘ کوئی پابند ہو گا۔ سالم میں پہل کرنا‘ بڑے پیار سے سالم کا جواب دینا‘ ان کی فطرت ثانیہ کا درجہ رکھتے تھے۔ تلقین تک ان کا اسالم اے ون تھا۔ اسی طرح اور بھی اسالمی واجبات میں ان کا ڈھونڈے سے ثانی نہ مل سکے گا۔ ایک دن‘ میں نے بے تکلف ہونے کی کوشش میں‘ پوچھ ہی لیا‘ آپ چاروں طرف سے گرفت میں ہیں لیکن عمال آپ کے چہرے اورجسم‘ جان اور روح پر گرفت کے رائی بھر آثار موجود نہیں ہیں۔ آپ اوپر نیچے کی بچی اطراف کو بھی‘ کوور کرنے کی فکر میں ہیں۔ آپ کی صحت اور خوش طبی کا راز کیا ہے۔ خوراک سے یہ مسلہ حل ہونے واال نہیں‘ تیتر کھال کر ایک مرتبہ زوجہ ماجدہ کا چہرا کرا دینے سے‘ دو بوند بننے واال
کیا‘ پہلے سے موجود میں سے بھی‘ ڈیڑھ پاؤ ناسہی‘ پاؤ تو ضرور خشک ہو جاتا ہے۔ مرحوم میری بے تکلفی کے قریب کی سن کر ہنس پڑے۔ پھر سنجیدہ سے ہو گئے۔ دو تین منٹ سنجیدگی کی نذر ہو گئے۔ اس سنجیدگی کو دیکھ کر ہم یہ سمجھے حضرات اندر سے دکھی اور زخمی ہیں۔ اگر یہ سنجیدگی تقریبا نہ ہوتی‘ تو میں شدید کا سابقہ استمال کرتا۔ سنجیدگی اور خاموشی بتا رہی تھی کہ یہ کچھ بتانے والے نہیں اور بات کو گول مول کر دیں گے۔ ہمارا اندازہ غلط نکال۔ فرمانے لگے یک فنے ناکام رہتے ہیں۔ اپنے اپنے استاد ہی کو لے لو‘ شاعر نثار اور نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ بذلہ سنج بھی تھا۔ خوش طبی میں اس کا ثانی دکھاؤ۔ ان کی خوش طبی جڑے واقعات ابھی تک جمع نہیں ہوئے۔ یک فنے تکرار کا شکار رہتے ہیں۔ میں چوفنا ہوں۔ میں ضدین کا قائل‘ مائل اور عامل ہوں۔ کمال ہے‘ ازدواجین میں رہ کر بھی‘ مکمل ہوش و حواس اور دانش سے لبریز گف گو فرما رہے تھے۔ میں یہ ضدین اور کامیابی کا فلسفہ نہیں سمجھ سکا۔
جاؤ‘ پہلے جا کر‘ عقد ثانی کرو‘ پھر آنا‘ سمجھا دوں گا۔ یہ تمہارے کام کی چیز نہیں اور ناہی تمہارے لئے‘ عمل کی راہ موجود ہے۔ پہلے سمجھائیں‘ پھر عقد ثانی کا انتظام و اہتمام کروں گا۔ بڑے بڑے بادشاہوں نے دھڑلے سے حکومت کی ہے۔ کیوں‘ ضدین کے فلسفے سے آگاہی رکھتے تھے۔ کوئی دھڑا ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ چور کو کہتے چوری کرو‘ گھر والوں کو‘ ہوشیار رہنے کی تاکید کرتے۔ دونوں سمجھتے‘ بادشاہ ہمارا ہے‘ ۔حاالں کہ وہ کسی کا نہیں ہوتا۔ وہ تو تاج و تخت کے معاملہ میں‘ اپنی اوالد کا خیر خواہ نہیں ہوتا۔ جو دائیں آنکھ پر چڑھتا‘ اسے طریقے سے‘ مروا دیتا تھا۔ یہ کام بھی تکنیکی انداز سے کرتا تھا۔ دو فریقوں سے گہری رکھ کر‘ ان میں نفاق پیدا کرکے‘ لڑا دیتا۔ ایک فریق قتل ہو جاتا‘ تو دوسرا انصاف بھینٹ چڑھ جا۔ میں نے عرض کی‘ حضور اسالم نفاق ڈالنے کی اجازت نہیں دیتا۔ آپ اسالم دوست ہیں اپنے گھر میں ہی نفاق ڈالتے ہیں۔ کہنے لگے‘ ہم سب آدھے مسلمان ہیں اور آدھے کافر۔
نکاح سنت ہے اور اس سنت کی میں نے آخری سطع چھو رکھی ہے‘ اس حوالہ سے آدھا مسلمان ہوں۔ تقسیم کرتا ہوں‘ اس حوالہ سے آدھا کافر ہوں۔ تقسیم نہیں کروں گا‘ تو حکومت کیسے کروں گا۔ یہ تو مانتے ہو‘ میری آدھی مسلمانی قائم ہے۔ تم لوگ تو آدھی مسلمانی سے بھی محروم ہو‘ تب ہی تو تمہاری زندگی چھتر چھاوں میں بسر ہو رہی ہے۔ نفاذ اسالم ایسا آسان کام نہیں‘ زوجہ جانی کا خوف اور دہشت گردی اپنی جگہ‘ مہنگائی نے سانس لینا دوبھر کر دیا ہے۔ دو کہووں کی واہی کے بیلوں کے لئے‘ چارہ وغیرہ کہاں سے آئے گا۔ ہاں البتہ‘ آدھی مسلمانی کا رستہ بند نہیں ہوتا۔ عقد ثانی‘ نفاذ اسالم کا ذریعہ موجود ہے۔ مالزم ہو‘ تو خوب رشوت لو‘ تاجر ہو‘ تو معمول کی بددیانتی کو تگنا کر دو۔ دوگنا زوجہ ثانی کے لئے‘ جبکہ تیسرا اگال چانس لینے کے لئے۔ ہم انگریز کی شرع اور شرح پر چلتے آ رہے ہیں۔ ان سے پہلوں کی بھی یہی شرح تھی۔ جس کا واضح ثبوت‘ مقامی غداروں کا میسر آ جانا ہے۔ اگر یہ غدار میسر نہ آتے‘ تو آنے والوں کے لفڑے لہہ جاتے۔ آتا کوئی سر اور دھڑ سالمت نہ رہتا‘ بلکہ ان کی الشوں پر بین کرنے واال بھی نہ ملتا۔
برصغیر میں ٹوپی سالر کے عہد ہی سے‘ مسلم اقتدار کا زوال شروع ہو گیا تھا۔ تاہم اقتدار مسلمانوں کے پاس ہی تھا۔ بہادر شاہ اول کوئی مضبوط حکمران نہ ‘لیکن کسی حد تک سہی‘ اپنے پیش رو کی طرح ایک ہی وقت میں‘ ایک ہی شخص کو‘ قبض اور پیچس الحق کرنے سے آگاہ تھا۔ ٧١٧٦میں اس گر سے نابلد لوگ‘ تخت نشین ہوئے۔ والی مسیور کی شہادت کے بعد بھی‘ مزاحمت ہوتی رہی‘ لیکن ٹیپو آخری دیوار تھی۔ اسے غیر کیا فتح کرتے‘ گھر کے بھیدی لے ڈوبے۔ اس ذیل میں میر صاحب کا کہا مالحظہ ہو۔ غیر نے ہم کوذبح کیا ہے طاقت ہے نے یارا ہے ایک کتے نے کرکے دلیری صید حرم کو پھاڑا ہے اس کے بعد شدید خطرے کا کوئی امکان باقی نہ رہا۔ انگریز کو کھال میدان مل گیا۔ وہ ہر مرضی کی کھیل پر قادر ہو گیا۔ ٹیپو کی شہادت کا بڑی دھوم سے جشن منایا گیا۔ اس جشن میں‘ اس کے نام نہاد اپنے بھی شامل تھے۔ انگریز ضدین کی ضرورت اور اہمیت سے خوب خوب آگاہ تھا۔ یوں کہنا زیادہ
مناسب ہو گا‘ کہ وہ یہاں کے پہلوں کا بھی پیو تھا‘ تو غلط نہ ہو گا۔ قبض‘ پیچس اور ہیضہ ایک وقت میں‘ ایک شخص کو الحق کر دئے گئے۔ اس طرح‘ آل ہند کی تقسیم و تفریق کے بہت سارے دروازے کھول دئیے گئے۔ اس ذیل میں‘ فورٹ ولیم کالج کے کردار کو نظر انداز کرنا‘ زیادتی ہو گی۔ اس کی خدمات‘ سنہری حروف میں‘ درج کئے جانے کے قابل ہیں۔ اس نے‘ آل ہند کی زبان کے‘ دو خط متعارف کرائے۔ اردو خط‘ مسلمانوں کے لئے اور اسے مسلمانوں کی زبان قرار دیا۔ دوسرا خط‘ آل ہند کی غیرمسلم عقیدہ والی نسل کے لئے اور اسے ان کی زبان کا نام دیا۔ اس سے بیک وقت تین فائدے ہوئے۔ ٧۔ آل ہند زبان پر تقسیم ہو کر باہمی نفاق کا شکار ہو گئی۔ ٦۔ ایک دوسرے کے‘ تحریری اور علمی و ادبی سرمائے سے‘ دور ہو گئی۔ ٣۔ بولنے والوں کی گنتی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔
آل ہند کی یہ زبان‘ دنیا میں دوسرا نمبر رکھتی ہے۔ اپنے تعدادی اسٹیٹس سے محروم‘ نہیں مرحوم ہو گئی۔ ایک ہی بات‘ دو خطوں میں لکھی‘ الیعنی ٹھہری۔انگریز نے اپنے رابطے کے لیے رومن خط کو رواج دیا حاالں کہ حقیقت یہ ہے‘ کہ زبان کسی کی نہیں ہوتی‘ زبان تو اسی کی ہے‘ جو اسے استعمال میں التا ہے۔ زبان کی خواندگی کے لئے چار عمومی امور ہوتے ہیں۔ ٧۔ بولنا ٦۔ سمجھنا ٣۔ لکھنا ٤۔ پڑھنا ان میں سے‘ کسی ایک سکل سے متعلق شخص کو‘ نا خواندہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہمارے ہاں‘ ان پڑھ حضرات کی کمی نہیں۔ وہ دیوناگری والوں کی فلمیں ڈرامے اور دیگر پروگرام دیکھتے ہیں۔ انھیں ان کی سمجھ بھی آتی ہے لیکن وہ بول نہیں سکتے۔ یہی حال‘ پڑھے لکھوں کا ہے۔ سمجھ اور بول سکتے
ہیں۔ اردو خط والوں کا کہا‘ دیو ناگری خط والوں کے لیے غیر نہیں‘ لیکن دونوں‘ ایک دوسرے کے تحریری سرمائے سے‘ استفادہ کرنے سے قاصر ہیں۔ رومن‘ آل ہند کو ایک مقام پر کھڑا کرتا ہے‘ لیکن اس سے فائدہ انگریزی جاننے والے ہی اٹھا سکتے ہیں۔ اس دائرے میں‘ دیگر لوگ‘ انگریز عرب جاپانی وغیرہ‘ آ جاتے ہیں۔ اس حوالہ سے دیکھا جائے تو‘ یہ دنیا کی نصف آبادی سے زیادہ لوگوں کی زبان شمار ہوگی۔ آل ہند کی اس زبان کے ساتھ‘ غیر تو غیر‘ اپنے بھی سازشوں میں مصروف ہیں۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی سطع کے تحقیقی کام‘ ٹوٹل پورا کرنے کے مترادف ہو رہے ہیں۔ دونوں خطوں کی تحریریں ایک دوسرے کے لیے حوالہ نہیں بن رہیں۔ انگریزی یا کسی دوسری زبان کے مواد سے‘ تصرف عیب نہیں لیکن یہ ایک دوسرے سے حوالہ نہیں لے رہے۔
آل ہند کے درمیان زبان کے حوالہ سے‘ تعصب کی فلک بوس دیوار کھڑی کر دی گئی ہے۔ ستم دیکھئیے سرور عالم راز صاحب بڑے زبردست عالم فاضل ہیں۔ اپنے ایک خط میں کیا فخر سے فرماتے ہیں۔ اردو انجمن میں صرف اردو اور رومن اردو میں ہی چیزیں لگائی جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی کچھ عرصہ قبل ہی ایک صاحب نے ہندی میں یہاں لکھنے کی کوشش کی تھی اور بصد معذرت ان کو منع کر دیا گیا تھا۔ آپ سے کوئی پوچھے‘ یہ رومن خط کس طرح کی اردو ہے؟ اس زبان کے دو خط ‘ان کو گوارا ہیں‘ تیسرا انھیں خوش نہیں آتا۔ اصل انصاف تو یہ ہے‘ کہ یہاں صرف اردو خط والوں کو جگہ دی جائے۔ ہاں دیگر زبانوں کا مواد شائع نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ فورم صرف اور صرف اردو خط والوں کا ہے۔ اس کا نام ہی اردو انجمن ہے‘ اس لئے دوسری زبان کا مواد آنا‘ درست اور مناسب نہیں۔ یہ معاملہ مبنی بر حق ہے۔
دو قومی نظریہ اور اسالمی ونڈو
کمپیوٹر سے وابستہ لوگ‘ اس امر سے خوب خوب آگاہ ہوں گے‘ کہ جب سسٹم میں وائرس داخل ہو جاتا ہے‘ تو وہ کمپیوٹر کی مت مار دیتا ہے۔ اچھا خاصا چلتا چلتا کمپیوٹر‘ آسیب زدہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ بعض وائرس‘ کمپیوٹر کی غیر طبعی موت کا سبب بن جاتے ہیں۔ کچھ اسے موت کے گھاٹ نہیں اتارتے‘ لیکن دائمی فالج کا موجب بن جاتے ہیں۔ ٹھیک ٹھاک اور قیمتی مواد کھا پی جاتے ہیں۔ یہی نہیں‘ ستم اس پر یہ‘ کہ مواد کو دسویں جماعت کا ریاضی بنا دیتے ہیں۔ دسویں جماعت کے ریاضی میں الجبرا بھی شامل ہے اور یہ الجبرا‘ جبر کے تمام رویوں اور رجحانات پر استوار ہوتا ہے۔ ہستا مسکراتا کھیلتا کودتا کمپیوٹر‘ نامراد وائرس کے باعت سکتے میں آ جاتا ہے۔ گویا وائرس کی بن بالئے مہمانی‘ کچھ بھی گل کھال سکتی ہے یا یوں کہہ لیں‘ وہ کچھ ہو سکتا ہے‘ جس کا خواب بھی نہیں دیکھا گیا ہوتا۔
وائرس مرتا نہیں‘ مارتا ہےاور ہر حالت میں‘ من مانی میں‘ اپنی اصولی عمر‘ دبدبے اور پورے بھار سے پوری کرتا ہے۔ کوئ دوا‘ دارو ٹیکہ اس کا بال بیکا نہیں کر پاتا‘ ہاں متاثرہ کی قوت مدافعت میں‘ اضافہ کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔ کچھ لوگ اس امر سے آگاہ نہیں ہیں‘ کہ انٹی وائرس‘ وائرس کو مارنےکے لیے فیڈ نہیں کیے جاتے۔ یہ وائرس سے پاک سسٹم میں اس لیے فیڈ کیے جاتے ہیں کہ سسٹم میں وائرس داخل نہ ہونے پائے۔ انٹی وائرس کا‘ اول تا آخر مقصد یہ ہوتا ہے‘ کہ وائرس کو سسٹم سے دور رکھا جائے۔ دوسرا یہ سسٹم کی قوت مدافعت کی حفاظت کرتا ہے۔ اس کی مثل ویکسین کی سی ہوتی ہے۔ عمومی زبان میں‘ اسے حفاظتی ٹیکے کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ انٹی وائرس یا ویکسین‘ وائرس کے دخول سے پہلے کی چیزیں ہیں۔ مختصر مختصر یوں کہہ لیں‘ انٹی وائرس یا ویکسین‘ دراصل سسٹم کی حفاظت سے متعلق چیزیں ہیں۔ انھیں خطرے سے بچاؤ کا عمل بھی کہا جا سکتا ہے۔ جیسے مچھر سے بچنے کے لیے مچھر دانی کا استعمال کیا جائے۔ ڈینگی سے بچنے کے لیے‘ یعنی الخق ہونے سے پہلے‘ حفاظتی تدابیر اختیار کی جائیں۔ ڈینگی حملے کی صورت میں‘ فوری موت واقع نہیں ہوتی‘ تو مدافعتی نظام کی طرف توجہ دی جائے۔
کسی دوائی وغیرہ سے وائرس نہیں مرے گا۔ متاثرہ کو پانی کی بھرتی رکھیں۔ سیب کا خود جوس نکال کر پالئیں۔ مرد ہو تو عورت اور عورت کی صورت میں‘ مرد کا جوس تیار کرنا مناسب رہے گا۔ اگر یہ خدمت‘ گھریلو‘ ذاتی اور پالتو قسم کے خواتین و حضرات نہ ہی انجام دیں تو مناسب رہے گا۔ وائسرسی عاللت بد کی صورت میں‘ بیرونی‘ مگر حسین دنیا سے رابطہ‘ مریض کی قوت مدافعت میں‘ خاطر خواہ اضافے کا سبب ہو گا۔ شہتوت کے پتوں کو پانی میں ابال کر‘ ٹھنڈا کرکے پالئیں۔ اس حالت میں کڑوی اشیا کا‘ قدرے اور خفیف استعمال‘ مفید رہتا ہے۔ دن میں ٹی ڈی ایس یعنی تین بار ذاتی جنس مخالف کا چہرہ کراتے رہنا‘ مریض کے لیے ناسہی‘ مرض کے لیے مناسب رہتا ہے۔ ہاں اس ذیل میں‘ ہمہ وقتی دیدار‘ جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ برصغیر عرصہ دراز سے‘ خارجی اور غیر درآمدہ وائرس کی زد میں ہے۔ سکندر سے پہلے‘ یہ یہاں سے بچے پکڑ کر لے جاتا اور ان کی قربانی‘ دیوتاؤں کے حضور نظر کر دیتا تھا۔ اس سے پہلے یا بعد کے وائرس بڑے خطرناک تھے۔ کیا کچھ کرتا تھا‘ زیادہ معلومات موجود نہیں ہیں۔ بہرطور‘ یہ تو طے ہے کہ وائرس سسٹم کی تباہی کا سبب بنتا ہے۔ حفاظتی عمل اور مدافعتی قوت کے کامل صحت مند ہوتے ہوئے‘ جسم یعنی سسٹم
کے اندر سے‘ کوئ میر جعفر پیدا ہو جاتا ہے‘ جو داخلے کا رستہ بتا کر‘ ہنستے بستے‘ کھیلتے کودتے نظام کو‘ مٹی میں مال دیتا ہے۔ اس کی مت ماری جاتی ہے اور وہ یہ نہیں سمجھ پاتا‘ کہ وہ اسی سسٹم کا حصہ ہے۔ ہوتا تو وہ بھی وائرس ہی ہے‘ اس کے کام بھی وائرسوں والے ہوتے ہیں‘ لیکن مقامی سسٹم‘ اسے اس کے کاموں سمیت‘ قبول چکا ہوتا ہے۔ سسٹم اس وائرس کی منفی فطرت کے باوجود‘ اس سسٹم کا حصہ نہ ہوتے ہوئے بھی‘ اسے اپنا حصہ سمجھتا ہے۔ اس کے باعث‘ سسٹم میں سو طرح کی خرابیاں آتی رہتی ہیں‘ لیکن سسٹم کا مدافعتی نظام چلتا رہتا ہے۔ حاالں کہ اس کا سسٹم میں رہنا‘ کسی بھی حوالہ سے ٹھیک نہیں ہوتا۔ کیا کیا جائے‘ وائرس داخلی ہو یا خارجی‘ اس کا اس کی طبعی عمر سے پہلے‘ کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ سسٹم کو اس کی طبعی عمر تک‘ برداشت سے کام لینا پڑتا ہے۔ بس کرنے کا کام یہ ہوتا ہے‘ کہ سسٹم کے مدافعتی نظام کو ڈولنے نہ دیا جائے۔ چٹی چمڑی واال وائرس‘ تو کل پرسوں سے تعلق رکھتا ہے اور ہم اس کی تباہ کاری کے باعث‘ بیمار جیون جی رہے ہیں۔ اس وائرس نے کمال ہوشیاری سے‘ تقسیم کے بہت سارے دروازے کھول دئیے۔ کبھی زبان کے حوالہ سے تقسیم کرکے‘ باہمی
نفرتوں کو سسٹم کا حصہ بنایا۔ زبان ہی کیا‘ رنگ‘ نسل‘ قومیت اور عالقہ کی افواہ بھی‘ تقسیم کی اگنی کو بڑی راس آئی۔ میں یہاں مولوی‘ پنڈت یا فادر کا نام احتراما نہیں لوں گا۔ هللا نے پیٹ تو خیر ان کو بھی دیا ہے۔ کیا ہوا‘ جو وہ عمومی کی ذیل میں نہیں آتا۔ خصوص کا تذکرہ‘ موت کو ماسی کہنے کے مترادف ہے۔ اگر کوئی مراد لیتا ہے‘ تو یہ اس کی اپنی جی جان پر۔۔۔۔۔۔۔۔ سیدھی سی بات ہے‘ میرا ذمہ اوش پوش۔۔۔۔۔۔۔ میری زبان پر‘ ان کے لیے عزت کے کلمے ہی رہے ہیں۔ عقیدے میں‘ زبان سے اقرار کو‘ ایمان کا حصہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ باقی رہ گیا دل‘ تو دلوں کی هللا ہی جانتا ہے۔ دل کے معاملے‘ کسی قسم کے فتوے کی زد میں نہیں آتے۔ 1905 میں‘ دو قومی نظریے کو داخلی وائرس کے ذریعے‘ عام کیا گیا اور پھر اس تماشے سے‘ خوب البھ اٹھایا۔ یہ کون سا ایسا نیا نظریہ تھا‘ یہ نظریہ ہزاروں سال پر محیط ہے۔ سورہ کافرون میں بھی‘ تو دو قومی نظریے کی ہی نشان دہی کی گئی ہے۔ لوگوں نے اصل مطب نہ سمجھا‘ وہ یہ ہی سمجھتے رہے‘ کہ الگ مملکت میں اپنے نظریاتی نظام کے تحت اصولی‘ قانونی اورآئینی زندگی بسر کریں گے۔ داخلی وائرس نے‘ مٹھی بند رکھی‘ تاہم اس ذیل میں کوئ قرارداد بھی منظور نہ کی اور ناہی
کوئ قرارداد پیش ہوئی۔ اس سسٹم کو کبھی بھی‘ اسالمی ونڈو نہیں دی گئی۔ جمہوریت کے حوالہ سے‘ اسالمی ونڈو کرنے کی ضرورت تھی۔ داخلی وائرس‘ جو سسٹم پر ڈومینٹ رہا ہے‘ اسے اسالمی ونڈو کس طرح خوش آسکتی تھی یا خوش آسکتی ہے۔ وائرس سسٹم کے لیے بہتری سوچے‘ یہ کیسے اور !کیونکر ممکن ہے؟ مزے کی بات یہ کہ پاکستان کا مطلب کیا‘ ال الہ اال هللا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نعرہ سیال کوٹ کے پروفیسر اصغر سودائی نے دیا۔ لوگ اسے لیڈری نعرہ سمجھھ بیٹھے۔ حقیقت تو یہ ہے‘ کہ یہ نعرہ پروفیسری تھا۔ پروفیسر اور سیاست کا کیا تعلق؟ یہ نعرہ بھی غیر سیاسی ثابت ہوتا ہے‘ تاہم پاکستان بننے میں‘ اس نعرے کا کلیدی رول ہے۔ بنانے والے عوام ہیں۔ اس تناظر میں “پاکستان“ غیر لیڈری اور غیر سیاسی ٹھہرتا ہے۔ ایک صاحب مرغے کے ساتھ روٹی کھا رہے تھے‘ یعنی ایک لقمہ خود لیتے‘ دوسرا لقمہ اپنے مرغے کو پھینک رہے تھے گو کہ مرغا سائز اور حجم میں چھوٹا ہوتا ہے۔ کسی نے پوچھا‘ میاں یہ کیا رہے ہو؟ بولے‘ ہم خاندانی لوگ ہیں‘ ہمیشہ مرغے کے ساتھ روٹی کھاتے ہیں۔
چٹی چمڑی واال وائرس بڑا خاندانی ہے‘ مرغے کے ساتھ روٹی کھاتا ہے۔ جو لوگ مرغ باز ہیں‘ وہ اپنے مرغے کی صحت‘ توانائ اور جوانی کا خیال رکھتے ہیں۔ سسٹم کے ہر پرزے پر‘ یہ واضع کرنے کی اشد ضرورت ہے‘ کہ وائرس دسترخوان اور شہوت کے حوالہ سے‘ کبھی کسی نظریے کا قائل نہیں رہا۔ مرغا غیر زمین پر رہتے ہوئے‘ خارجی وائرس کے لیے‘ محترم اور معتبر رہتا ہے۔ وہ اس کا جٹھکا‘ اس وقت کرتا ہے‘ جب مرغا میدان کا نہیں رہتا۔ میدان واال مرغا‘ خاندانی لوگوں کے ساتھ ہی‘ ناشتہ پانی کرتا آیا ہے اور کرتا رہے گا۔ اسالمی ونڈو کرنے سے‘ خارجی وائرس کبھی بھی‘ سسٹم میں داخل نہیں ہو سکے گا۔ داخلی وائرس کو‘ سسٹم کا مدافعتی نظام‘ پہلی سانس پر ہی‘ دبوچ لے گا۔ اس ونڈو میں‘ قباحت یہ ہے کہ لیڈری نہیں‘ عوامی ہے۔ عوام ڈبے میں ووٹ ڈالنے تک‘ محترم اور معزز ہیں‘ اس کے بعد کیا ہیں‘ کچھ بھی نہیں ہیں۔ اگر یہاں‘ میں ناہیں سبھ توں‘ تصوف واال ہوتا‘ تو شاہ حسین الہوری کے پیرو ہوتے۔ یہاں معاملہ برعکس ہے۔ لیڈری توں میں‘ عوام نہیں کے درجے پر فائز رہ کر‘ تصوف کے توں سے کوسوں دور رہتے ہیں۔
رونا سکول کے گرنے کا نہیں‘ اصل رونا تو ماسٹر کے بچ جانے کا ہے۔ ماسٹر مائنڈ وائرس سے پہلے‘ داخلی وائرس کو نکال باہر کرنے کے لیے‘ بڑا ہی موثر سافٹ وائر دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔ آتی نسلوں کو‘ اس سے بچانے کے لیے‘ سماجیات کے ڈاکٹر قدیر‘ سر جوڑ کر سوچیں‘ اور اس نوع کے سوفٹ وئر دریافت کرنے کی کوشش کریں۔ ہاں اس کی کسی کو‘ ہوا تک لگنے نہ دیں‘ اور پھر‘ اچانک دھماکہ کردیں۔ سسٹم جب داخلی وائرس سے آزاد ہو گیا‘ تو خارجی وائرس سے بچنے ‘کے لیے ایک نہیں‘ بیسیوں انٹی وائرس دریافت ہو جائیں گے۔ اکتوبر ٦٧٧٦کی بہترین ماہانہ تحریر کا بیج حاصل کرنے والی تحریر
شیڈولڈ رشوتی نظام کے قیام کی ضرورت
ایک چرسی نے پاس سے گزرتے شخص سے ٹائم پوچھا‘ اس شخص نے کہا پانچ بج کر بیس منٹ۔ اس پر چرسی بوال‘ اس
ملک نے خاک ترقی کرنی ہے۔ صبح سے پوچھ رہا ہوں‘ ہر کسی کا اپنا ٹائم ہے۔ بات تو ہنسی والی ہے‘ لیکن ذرا غور کریں گے‘ تو اس بات کو معنویت سے تہی نہیں پائیں گے۔ اس ملک میں‘ ہر کسی کا شیڈول اپنا ہے۔ معامالت کو اپنے مطلب کے معنی دے رکھے ہیں اور اس ذیل میں دالئل بھی گھڑ رکھے ہیں۔ یہی منڈی کے بھاؤ کی صورت ہے۔ ایک ہی چیز کے مختلف بھاؤ سننے کو ملیں گے۔ بازار چلے جائیں‘ اشیائے خوردنی کے‘ ایک سے‘ نرخ سننے کو نہیں ملیں گے۔ کپڑا خریدنا ہو یا سلوانا‘ ہر کسی کے اپنے نرخ ہوتے ہیں۔ سیاستدار ہو یا سیاست پرداز‘ صبح کو کچھ‘ اور شام کو کچھ کہتا ہے۔ بعض تو اگلے لمحے ہی‘ شخص اور موقع کی مناسبت سے‘ بات کو بدل دیتے ہیں۔ پہلی کہی کے برعکس‘ کہنے میں کوئی عار یا شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ واپڈا والے ہوں‘ اکاؤنٹس آفس ہو‘ گیس والوں کے ہاں چلے جائیں‘ خدا نخواستہ نادرہ والوں سے کام پڑ جائے‘ جو عوما نہیں‘ اکثر پڑتا ہی رہتا ہے۔ یہ تو خیر مقامی دفاتر ہیں‘ بڑے دفاتر‘ یہاں تک کہ‘ مہا منشی ہاؤس کے دفاتر‘ جن سے دادرسی کی امید رکھی جاتی ہے‘ کے بھاؤ ایک نہیں ہیں۔ ایک ہی کام کے‘ مختلف نرخ ہیں۔ اپنا یا بیگانہ کی تخصیص موجود نہیں۔ یہاں کوئی اپنا یا پرایا
نہیں۔ مفتے‘ کسی سطع یا کسی حوالہ سے‘ فیض حاصل نہیں کرپاتے۔ پلہ ہر کسی کوجھڑنا ہی ہوتا ہے۔ بہوتا اوکھا فنی خرابیوں سے عمر بھر نبردآزما رہتا ہے۔ مجھے بھتہ لینے یا دینے پر کوئی اعتراض نہیں۔ دنیا لین دین پر استوار ہے۔ بھتہ خور‘ حاالت کے ہاتھوں خود مجبور ہیں۔ تنخواہ میں وہ کچھ چل ہی نہیں سکتا‘ جو بھتہ شریف کی برکت سے چلتا آ رہا ہے۔ تنخواہ سے‘ دو انچ زمین خرید کر دیکھا دیں۔ کار تو بڑی دور کی بات‘ تنخواہ میں‘ سائیکل کا ایک پیڈل خریدا نہیں جا سکتا۔ بھتہ خوری‘ دراصل خانگی مجبوری ہے۔ گھر میں سکون ہو گا‘ تو پورے معاشرے میں سکون ہو گا۔ ۔ بھتہ سیاسی مجبوری بھی ہے۔ لفافہ کلچر‘ سیاسی لوگوں کی عطا ہے۔ عطا بری نہیں ہوتی‘ ہاں کچھ کو ماش موافق اور کچھ کو بادی۔ یقین مانئیے‘ میں اس سیاسی عطا کے خالف نہیں ہوں‘ ہاں میرا موقف یہ ہے‘ کہ اسے فکس ہونا چاہیے۔ یہ کیا‘ ایک ہی کام کے‘ ایک سے دس‘ دوسرے سے پندرہ اور کسی پر آٹھ ہزار میں مہربانی کر دی جائے۔ ساتھ میں‘ روٹی کی جگہ‘ چائے‘ بسکٹ‘ کیک پیس اور نمکو پر ہی‘ کام چال لیا جائے۔ یہ انداز اور رویہ کسی طرح درست نہیں۔ اس انداز و رویہ کے حوالہ
سے بے چینی پھیل رہی ہے۔ چرسی غلط نہیں کہہ رہا تھا۔ پوری قوم‘ خصوصا دفاتر کو‘ بےٹائمی کے اندھے کنویں سے نکاال جائے۔ بالکل اسی طرح‘ نرخی نظام کا قیام‘ وقت کا تقاضا ہے۔ کچوپیے تو خیر اس ذیل میں نہیں آتے۔ ہمارے پاس‘ یک نرخی کی ایک قابل تقلید مثال موجود ہے۔ کسی بھی نیٹ ورک کا‘ سو روپیے کا لوڈ کروایں‘ بیاسی روپیے اور کچھ پیسے کا بیلنس لوڈ ہوتا ہے۔ کہیں ایک پیسے کا فرق نہیں آتا۔ اس یک نرخی کا فایدہ یہ ہے‘ کہ پاکستان میں‘ پاکستانی روپیے کی حقیقی قیمت اور اوقات کا‘ اندازہ ہوتا رہتا ہے۔ دیکھنے میں‘ سرخ نوٹ سو روپیے کا ہوتا ہے‘ لیکن اس کی اپنے ہی دیس میں‘ قیمت بیاسی روپیے اور کچھ پیسے ہوتی ہے۔ حکومت کا‘ اصولی اور اخالقی فرض بنتا ہے‘ کہ وہ تمام دفتر سے‘ ہر قسم کے‘ چھوٹے موٹے کاموں کی فہرست طلب کرے۔ روییےکی عصری پاکستانی قدر کے مطابق‘ اپنا جگا ڈال کر ریٹ طے کرے۔ یہی نہیں‘ اسے بینکنگ نظام سے وابسطہ کر دیا جائے۔ سائلوں کو‘ دفاتر کے دھکوں سے نجات مل جاءے گی اور ہر کسی کو‘ بینک چاالن پر‘ طے شدہ کوڈ کے مطابق‘ حصہ مل جائے گا۔ سائل چاالن کی نقل پاس رکھ کر‘ اصل متعلقہ دفتر میں جمع کرا دے گا۔ مقررہ تاریخ کو‘ چند روپیے کچوپیے کے
ہاتھ پر رکھ کر‘ اپنے کاغذ پتر‘ خوشی خوشی گھرلے جائے گا۔ اس سے‘ رشوت اصطالح کو‘ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے طالق ہو جائے گی۔
محاورہ پیٹ سے ہونا کے حقیقی معنی
ایک صاحب نے مجھ سے پوچھا‘ پروفیسر! کوئی کام بھی کرتے ہو‘ یا صرف باتوں کی کھٹی کھاتے ہو۔ انھوں نے مزید فرمایا‘ مجھے تو یہ طبقہ فارغ ہی لگتا ہے۔ پروفیسر بیک وقت تین کام کرتا ہے ٧۔ معلومات فراہم کرتا ہے ٦۔ غلط اور صیحح ہی نہیں بتاتا‘ بلکہ ان کی تمیز بھی سکھاتا ہے‘ گویا رویے تشکیل دیتا ہے۔ ٣۔ سوچتا ہے اور اس کا اظہار کرتا ہے۔ ایک شخص‘ آٹھ گھنٹے بیالیس منٹ جسمانی کام کرتا ہے‘ جب
کہ پروفیسر اڑتیس منٹ کام کرتا ہے‘ دونوں برابر کی‘ تھکاوٹ محسوس کرتےہیں۔ پروفیسر جو سوچتا ہے‘ وہ ڈیلور بھی کرتا ہے۔ گویا جسمانی کام کرنے والوں سے‘ پروفیسرکی زیادہ انرجی صرف ہو جاتی ہے۔ شاید ہی‘ کوئی ایسا پروفیسر ہو گا‘ جو موٹا تازہ ہو۔ اگر کوئ موٹا تازہ پروفیسر نظر آ جائے‘ تو یقینا کسی پیٹ کے عارضے میں مبتال ہو گا۔ مناسب انداز سے‘ فکری نکاسی نہ ہونے کے سبب بھی‘ موٹاپا آ سکتا ہے۔ عزت اور جان‘ دونوں خطرے کی توپ کے دہانے پر‘ ڈیرہ گزیں رہتے ہیں‘ اس لیے‘ ڈیلوری ایسا آسان اور معمولی کام نہیں۔ اگر نہیں یقین آتا‘ تو کسی خاتون سے پوچھ لیں‘ کہ ڈیلوری کا عمل کتنا مشکل اور کٹھن گزار ہوتا ہے۔ کوئ خاتون خفیہ بات‘ دس پندرہ منٹ سے زیادہ پیٹ میں نہیں رکھ سکتی۔ خیر یہ بات عورتوں تک ہی محدود نہیں‘ پروفیسر تو الگ‘ کہ اس کا کام ہی یہی ہے۔ وکیل اور پروفیسر‘ بول بچن کی کھٹی کھاتے ہیں۔ ایک عام آدمی‘ خفیہ بات یا کسی کا کوئی انتہائی حساس راز‘ زیادہ دیر تک پیٹ میں نہیں رکھ سکتا۔ محاورہ پیٹ سے ہونا کے حقیقی معنی یہ ہی ہیں۔ آج‘ موٹے تھانیداروں کے حوالہ سے‘ بات ہو رہی تھی۔ سوال اٹھ سکتا ہے‘ وہ کیوں موٹے ہیں۔ اکثر یہ کہیں گے‘ وہ کھا کھا
کر موٹے ہو جاتے ہیں۔ مجھے اس سے‘ اسی فیصد اتفاق نہیں۔ معدہ کی بیماری کے سبب‘ کوئی تھانیدار موٹا ہوا ہو تو الگ بات ہے۔ وہ اوروں سے زیادہ ہمدردی کا مستحق ہے۔ ایک طرف معدہ پرابلم‘ دوسری طرف زیادہ کھا لینے کا مسلہ‘ تو تیسری طرف رازوں کی عدم نکاسی۔ کسی موٹے تھانیدار پر‘ کوئی دوسرا موٹا تھانیدار نعرہ تکبیر کہہ کر چڑھا دیں‘ وہ‘ وہ راز اگلے گا‘ کہ عقل سوچ اور دل و دماغ کی روح قبض ہو جائے گی۔ اس کے پیٹ میں بڑے افسروں‘ نبی نما سیاست دانوں سیٹھوں‘ مذہبی لوگوں کے وہ وہ راز ہوتے ہیں‘ جن کا کسی کے دونوں فرشتوں تک کو‘ علم نہیں ہوتا۔ اس مدے پر بات کرنا ہی فضول بات ہے‘ کیوں کہ تھانیدار ان لوگوں پر تھانیدار نہیں ہوتے۔ تھانیدار‘ عوام کو گز رکھنے کے لیے ہوتے ہیں۔ ان کا شورےفا کے اعلی طبقے میں شمار ہوتا ہے۔ سو گز رسہ سرے پہ گانٹھ‘ بات کا پیٹ میں رکھنا‘ بڑا ہی مشکل‘ بلکہ ناممکن کام ہے‘ اپھارہ ہونا ہی ہوتا ہےاور یہ‘ پہلے سوال کی طرح‘ الزمی بات ہے۔ آپ کے دیکھنے میں بات آئی ہو گی‘ کہ مرنے والے کا کوئی قریبی رو نہ رہا ہو‘ تو اس کو روالنے کے لیے سر توڑ کوشش کی جاتی ہے۔ یہ بات پردہ
میں رہتی ہے‘ کہ اس قریبی نے‘ اس کی موت پر شکر کا سانس لیا ہو۔ دلوں کے حال هللا ہی جانتا ہے‘ اس لیے بات پردہ میں ہی رہ جاتی ہے۔ تاہم اس کا کچھ ہی دنوں میں‘ پیٹ کپا ہو جاتا ہے۔ اس حوالہ سے‘ کسی تھانیدار پر انگلی رکھنے سے‘ بڑا ہی پاپ لگتا ہے۔ کسی موٹے پروفیسر پر بھی یہی کلیہ عائد ہوتا ہے۔ آج ہی کی بات ہے‘ بشپ صاحب کی طرف سے‘ امن سیمینار منعقد ہونے جا رہا ہے۔ پروفیسر ہونے کے ناتے‘ بد ہضمی اور گیس کا شکار ہوں۔ کیا کروں‘ میں بات نہیں کر سکتا‘ کہ اللہ جو گولیاں اور چھتر کھا رہے ہیں‘ انھیں امن کی کتھا سنا رہے ہو اور جو گولیاں اور چھتر مار رہا ہے‘اس کے معاملہ میں آنکھ بند کیے ہوئے ہو۔ میں یہ سب کہہ نہیں سکتا۔ کمزور‘ بوڑھا اور بیمار آدمی ہوں۔ میرے پاس ایک چپ اور سو سکھ کے سوا‘ کچھ نہیں۔ ایک موبائل ایس ایم ایس کا حوالہ دیتا ہوں۔ حضرت قائد اعظم کے پاس‘ ایک خاتون آئی اور اپنے بیٹے پر جھوٹے قتل کے مقدمے کے حوالہ سے درخواست کی۔ بابا صاحب نے‘ مقدمہ لڑا اور خاتون کے بیٹے کو بچا لیا۔ خاتون نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آج تو آپ ہیں اور کمزروں کو بچا لیتے ہیں‘ کل آپ نہ ہوئے‘ تو کمزروں کا کیا بنے گا۔ بابا صاحب نے فرمایا‘ نوٹوں
پر چھپی میری تصویر‘ ہر کسی کے کام آئے گی۔ اب مسلہ یہ آن پڑا ہے‘ کہ نوٹ‘ لسے اور ماڑے لوگوں کے قریب سے بھی نہیں گزرتے۔ ایسےبرے وقتوں میں‘ خاموشی ہی بہتر اور کارگر ہتھیار ہے۔ اپھارہ ہوتا ہے‘ تو ہوتا رہے‘ مجھے کیا پڑی ہے‘ جو اس امن سیمینار پر کوئی بات کروں بلکہ مجھ پر یہ کہنا الزم آتا ہے‘ کہ کہو گولیاں کھاؤ چھتر کھاؤ‘ چپ رہو‘ سکون کی گزارو۔ اؤں آں اور ہائے وائے کرکے‘ دنیا کا امن اور سکون بھنگ مت کرو۔
نہ رہے گی بجلی نہ باجے گی ٹنڈ
ہم میں یہ عادت‘ بڑی شدت اور تیز رفتاری سے پروان چڑھی ہے‘ کہ ہماری معاملے کے منفی پہلو یا پہلوں پر فورا سے پہلے‘ نظر جاتی ہے اور پھر الیعنی اور بےسروپا کہانیاں گھڑتے چلے جاتے ہیں‘ حاالں کہ مثبت پہلو بھی تو سامنے رکھے جا سکتےہیں۔ مثبت پہلو نظر میں رکھنے سے‘ خرابی
جنم نہیں لے پاتی۔ منفی کی سرشت میں ہی خرابی موجود ہوتی ہے۔ بجلی کے مسلے ہی کو دیکھ لیں‘ عوام تو عوام‘ سیاسی حلقوں نے بھی‘ اسے ایشو بنا لیا ہے‘ حاالں کہ یہ معاملہ‘ کوئ اتنا بڑا مسلہ نہیں‘ بلکہ معمولی سی مسلی ہے‘ جو اس قابل نہیں کہ اسے بہت بڑا مسلہ بنا کر‘ توڑ پھوڑ کی جائے ۔ یا پھر بےکار میں‘ رولے رپے سے کام لیا جائے۔ آخر اتنا واویال کرنے کر ضرورت ہی کیا ہے۔ کون سی قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ ہمارے باپ دادا‘ کب بجلی کے عادی تھے۔ بجلی امیر کبیر لوگوں کا چونچال تھی۔ آج بھی‘ ان ہی لوگوں کی عیاشی کا ذریعہ ہے۔ پہلے وقتوں کے لوگ بھلے تھے‘ ریس کرنے کی عادت سے دور رہ کر‘ سکھ چین کی گزارتے تھے۔ اس ریس کی عادت نے‘ ہر کسی کا دماغ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ روشنی بڑے بڑے ایوانوں کا مقدر تھی۔ روشنی بڑے ایوانوں کا‘ فطری اور اصولی حق ہے۔ آج ایک معمولی مزدور بھی‘ روشنی کی ڈیمانڈ کرنے لگا ہے۔ قوم کا‘ کھیلنے کے لیے چاند مانگنا‘ نادانی نہیں‘ تو پھراور کیا ہے۔ جب کوئی اپنی اوقات سے باہر نکلتا ہے‘ تو اوکھت اس کا مقدر ٹھرتی ہے۔ موجودہ عہد کی تیز رفتاری اور چمک دھمک نے‘ زندگی کو‘ انتہائی مشکل اور تکلیف دہ بنا دیا ہے۔ شخص کچھ کہنا چاہتا
ہے‘ لیکن کہہ نہیں پاتا۔ اس کی زبان پر‘ مجبوریوں کے چائینہ الک ثبت ہیں۔ جو چونچ کھولے گا‘ حضرت زوجہ ماجدہ کے‘ پولے کھائے گا۔ اگر بچ رہا‘ تو اوالد کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہو گا اور پھر متواتر ہوتا رہے۔ چونچ کھولنے والوں کے ساتھ‘ ازل سے یہی ہوتا آیا ہے۔ امید واثق ہے‘ یہی ہوتا رہے گا۔ ہمارے مدبر لیڈران‘ اس حقیقت سے خوب آگاہ ہیں‘ تب ہی تو‘ انھوں نے فساد کی جڑ کو ختم کر دینے کا‘ پکا پیڈا ارادہ باندھ لیا ہے‘ کہ نہ رہے گی بجلی اور نہ میاں کی باجے گی ٹنڈ۔ لوگوں کے اگلے وقتوں کے‘ خوبصورت اور آسان ہونے کا خواب‘ شرمندہء تعبیر ہو سکے گا۔ لوگ غاروں میں منتقل ہو جائیں گے۔ اس طرح‘ بے فضول اونچی اونچی عمارتیں بنانے کا‘ رواج دم توڑ دے گا۔ غار کے اقامتی‘ سیدھے سادے لوگ تقریبات کے تکلفات سے آزاد ہو جائیں گے۔ آبادی بڑھ جانے کے باوجود‘ ہریالی‘ جو ککڑیانی سے کم نہیں‘ پیٹ بھر نوش جان کر سکیں گے۔ بڑ کے درخت‘ افادیت کے حوالہ سے‘ کس مقام پر فائز ہیں‘ کسی حکیم سے پوچھیے' لباسی عشرت کا درجہ حاصل کر لیں گے۔ ہمارے لیڈر‘ بڑے سیانے ہیں اور جانتے ہیں‘ کہ امریکہ غصے کا سوئر ہے۔ وہ عزم کیے ہوئے ہے‘ کہ پوری دنیا کو کھنڈر بنا
کر رکھ دے گا۔ ہمارے لیڈر بڑے ہمدرد لوگ ہیں‘ وہ اپنی غالم رعایا کو‘ بے بسی کی موت مرتے‘ نہیں دیکھ سکیں گے۔ وہ اپنے مجبور اور بےبس غالموں کو‘ امریکہ کی غالمی میں نہیں دیکھ سکتے۔ وہ عوام کے بدلے‘ خود یہ صعوبت برداشت کر سکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے‘ کہ ان میں سے کوئ غدار نکل آئے اور اپنے ہمدرد لیڈر صاحبان کی‘ باطنی خباثت اگل نہ دے۔ آمدہ خطرات سے مقابلہ کرنے کے لیے‘ انھوں نے اس ملک کو کھنڈر اور عوام کو غار اقامتی بنانے کا پختہ ارادہ کر لیا ہے۔ کملے عوام‘ شور مچا رہے ہیں‘ لیکن کل کالں‘ ان کو اپنے لیڈر صاحبان کی بلند پایہ فراست اور دور اندیشی کا علم ہو جائے گا۔ لیکن اس وقت یہ نہ ہوں گے۔ وقت ہاتھ سے نکل چکا ہو گا۔ پھر ان کی تعریف کرنے کا کیا فائدہ ہو گا۔ آج وقت ہے‘ انھیں اپنے محسنوں کی قدر کرنی چاییے۔ انسان کی اصل بھی تو غار ہے۔ اس نے زندگی کا آغاز غار سے کیا ۔ اس ترقی یافتہ عہد میں بھی‘ غار باسی اسے خوش آتی ہے۔ بعد از موت‘ اس کا اصل ٹھکانہ غار ہی تو ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کا جنون کی سطع پر رواج کب تھا۔ خاص طبقے کے لوگ‘ اس پرخار میدان میں قدم رکھتے تھے۔ عام لوگوں کو‘ تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ انھوں نے کون سا جہان بانی کا فریضہ انجام دینا ہوتا ہے۔ نمبردار کا پسر
ناہنجار ہی‘ نمبردار بنتا ہے۔ اسی طرح بادشاہ کا ناخلف بیٹا‘ بادشاہ بنتا ہے۔ اگرچہ مورکھ‘ انہیں باانصاف‘ صاحب کردار اور اعلی پائے کا قرار دیتا ہے۔ ساری خوبیاں‘ اس سے مخصوص کر دیتا ہے۔ ہر نتھو خیرے کو‘ بادشاہی کے خواب دیکھنے کی‘ اجازت نہیں مل سکتی۔ اگلے وقتوں کے لوگ‘ اپنے اپنے آبائی پیشے میں‘ کمال حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے‘ بلکہ عالقہ میں نام پیدا کرنے کے لیے‘ عمر گزار دیتے تھے۔ ان کا مجوزہ پیشہ‘ ان کی ذات اور پہچان ٹھرتا تھا۔ وہ اس ذیل میں‘ فخر محسوس کرتے تھے۔ آج بڑے بڑے افسر اور لیڈر‘ اپنی ذات اور شناخت چھپاتے ہیں لیکن ان کی بعض حرکتیں‘ اور کام ان کی ذات اور شناخت کھول دیتی ہیں۔ حاالں کہ اس میں چھپانے والی کوئی بات ہی نہیں۔ ہمارے محترم اور معزز لیڈر صاحبان‘ لوگوں کو ان کی اصل کی جانب لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بجلی صرف خاص طبقے کے لوگوں کو میسر آ سکے‘ تاکہ وہ پڑھ لکھ کر حکم رانی کا معزز فریضہ انجام دے سکیں۔ عام آدمی‘ بڑے آدمیوں کا گوال ہوا کرتا تھا۔ اس کی چلمیں بھرتا تھا۔ ان کے جوتے سیدھےکیا کرتا‘ آج عام آدمی‘ اپنا ماضی بھول کر‘ تعلیم حاصل کرکے‘ کچھ بننے کی سعی میں مصروف ہے۔ یہ رویہ‘ کسی
طرح درست نہیں۔ بجلی نہ ہونے کے سبب‘ تعلیم حاصل کرنے کے میالن کی‘ حوصلہ شکنی ہو گی اور بڑے آدمیوں کی آنکھ میں انکھ مال کر‘ بات کرنے کا خواب‘ تعبیر کی منزل چھو نہ پائے گا اور لوگ اپنی اوقات کی جانب پھر کر‘ بہتر طور پر کام کر سکیں گے۔ تعلیمی بورڑوں کی مالی حالت مستحکم سہی‘ اس کے باوجود‘ انھیں مزید بےتحاشا مالی معاونت درکار ہے‘ تا کہ وہ لوگوں کا بہتر طور پر‘ استحصال کرنے کا فریضہ سر انجام دے سکیں۔ طلبہ کو بار بار فعل کرنے کے لیے‘ حساب اور انگریزی مضامین‘ آرٹس کے لیے الزم کر رکھے ہیں۔ انگریزی کا مضمون‘ اس لیے الزمی قرار دیا ہے‘ کہ عین ممکن ہے‘ ان میں سے کوئی‘ اوباما کے تخت پر جا بیٹھے۔ آج تک ہوا تو نہیں‘ لیکن وقت کی گرداش اور قسمت کا لکھا‘ کون جان سکتا ہے۔ امید پر دنیا قائم ہے۔ تجربے میں آیا ہے‘ پھر بھی کچھ‘ ناکچھ طلبہ بدقسمتی سے کامیاب ہو ہی جاتے تھے اور یہ صورتحال‘ بڑی مایوس کن اور تشویش ناک رہی ہے۔ اس مایوسی سے نجات کا واحد یہی ذریعہ رہ گیا تھا۔ اب کوئی طالب علم کامیاب ہوکر دکھائے گا تو مانیں گے۔ مغرب کی پیروی میں‘ بےلباسی ہمیں خوش آتی ہے۔ غالبا صالح
الدین ایوبی کا قول ہے‘ کہ گربت میں مرد کی غیرت اور عورت کی عزت‘ سستی ہو جاتی ہے۔ لوڈشیڈنگ سے بےروزگاری میں خوف ناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ بھوک نے جینا مشکل کر دیا ہے۔ ایسے حاالت میں‘ مغرب کی پیروی میں‘ بےلباسی معیوب نہیں رہے گی۔ مغرب کی بےلباسی اور جنسی آزادی‘ تاریخی وجوہ رکھتی ہے۔ یہاں کی بےلباسی میں بھی‘ حاالت کا جواز پیدا ہو جائے گا۔ امرا‘ وزرا اور اہل ثروت پہلے ہی‘ جنسی عیاشی کرتے ہیں‘ اس طرح مزید تر مال میسر آ سکے گا۔ گربا ہوتے ہی امرا کی غالمی کے لیے۔ آج تک گربا کے پاس صرف اور صرف عزت باقی تھی‘ ہمارے مدبر قوم دوست قائدین‘ اس کو بھی بازار میں النے کی‘ پوری پوری کوشش کر رہے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں‘ کہ قوم مغرب کی جنسی پیروی کرکے‘ دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرے۔ بنیاد پرستوں نے‘ آج تک اس ذیل میں اخالقیات کے نام پر‘ ٹانگ اڑائے رکھی ہے۔ گویا پہلوں کے اخالقی اصول وضوابط‘ آج کسی کام کے نہیں رہے درج باال معروضات کے تناظر میں‘ لوڈشیڈنگ کو مالحظہ فرمائیں گے تو‘ اس کی مزید برکات گربا اور پریشان حضرات پر کھلتی جائیں گی اور سارا روال رپا‘ سمجھ میں آ جاءے گا۔ یہ
بھی پوشیدہ نہیں رہے گا‘ کہ اس سازش کے پیچھے شرپسند‘ مفاد پرست اور حکومت دشمن لوگوں کا دایاں ہاتھ ہے۔ وہ سب عوام دوست نہیں ہیں‘ اور ناہی عوام کو ہزاروں سال پیچھے لے جانے کے حق میں ہیں۔ اس ملک کے عوام نہ آگے بڑھ رہے ہیں اور ناہی برق رفتاری سے‘ ماضی کا رخ کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کے پلٹنے کی رفتار حوصلہ شکن ہے اس لیے راہ میں پڑنے والی ہر دیوار کو‘ گرانا حکومت کے قومی تنزلی ایجنڈے کے ساتھ مخلصی ہو گی۔ ان کا اخالص‘ حکومت دوست مورخ‘ آب زر سے رقم کرے گا۔ کچھ ہی عرصہ پہلے کی بات ہے‘ کہ ایک ایم پی اے صاحب بڑی دھواں دھار تقریر فرما رہے تھے۔ انھوں نے بڑے پرعزم انداز میں فرمایا‘ ہم ناخوندگی بڑھانے کی ان تھک کوشش کر رہے ہیں۔ مدبرین کی سرتوڑ کوشش ہے‘ کہ کوئ طالب علم میٹرک کراس نہ کر پائے۔ ایف اے میں حساب فارغ ہو جائے گا‘ اس طرح تعلیم کی حوصلہ شکنی کے لیے‘ صرف اور صرف انگریزی باقی رہ جائے گی۔ انگریز کا کندھا اتنا مضبوط نہیں‘ جو تعلیم شکنی میں ہمارے پرعزم لیڈران کی مدد کر سکے۔ حساب سے زیادہ کوئ مضمون بہتر ہو ہی نہیں سکتا۔ لوڈ شیڈنگ اس تعلیم دشمنی کے معاملہ میں‘ جلتی کے لیے آکسیجن کا کام دے گی۔ اس مثبت پہلو کے پیش نظر‘ لوڈ شیڈنگ
کو منفی مفاہیم دینے والے‘ ایوان دشمن ہیں۔ ایوان دشمنی کبھی .بھی‘ کمزور طبقے کے لیے صحت مند نہیں رہی بجلی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے‘ کہ یہ مختلف حوالوں سے آگہی عام کرتی ہے۔ آگہی ے بڑھ کر کوئی عذاب نہیں۔ کوئ اخبار‘ کسی بھی دن کا اٹھا کر دیکھ لو‘ خیر کی خبر پڑھنے کو نہیں ملے گی۔ ٹی وی سچی باتیں سامنے ال کر‘ بےچینی کا سبب بنتا ہے۔ بعض اوقات تو‘ ٹی وی سازشی عنصر محسوس ہونے لگتا ہے۔ لوگ انٹرنیٹ پر تصاویر‘ تقاریر‘ کارٹون شائع کرکے‘ اور تحریریں لکھ لکھ کر‘ بڑے آدمیوں کو پوری دنیا میں ذلیل وخوار کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان کے خیال میں‘ وہ اپنے مذموم ارادے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ یہ ان کی بہت بڑی بھول ہے۔ کوئ بھی بڑا آدمی‘ اس وقت بےعزت ہو گا‘ جب اس کی جنتا میں عزت ہو گی۔ دوسرا وہ تسلیم کریں گے‘ تو ہی‘ ذلت کا کوئ پہلو نکلے گا۔ جو بھی سہی‘ میڈیا جھوٹا سچا کردار ادا .کرنے کی ناکام سعی تو کر رہا ہے میڈیا کے حوالہ سے‘ انھیں یاوہ گوئ پڑھنے سننے کو مل رہی ہے۔ بڑے لوگ‘ سچ پڑھنے سننے کے عادی نہیں ہوتے۔ میڈیا کی وجہ‘ کمی کمین بھی‘ جو تعداد میں سب سے زیادہ ہیں' بات کرنے کی جرات کریں گے۔ بجلی نہ رہی‘ تو ٹی وی انٹرنیٹ
وغیرہ‘ صفر ہو کر رہ جائیں گے۔ اگلے زمانے میں‘ آگہی کے دروازے بڑے تنگ اور محدود تھے‘ اسی لیے‘ امن وامان میں کسی طرح کا نقص نہیں آتا تھا۔ پانی بڑی قیمتی چیز ہے۔ بجلی کے دور میں‘ سرکاری اور گھریلو موٹروں کا پانی‘ بڑی بے دردی سے ضائع کیا جاتا تھا۔ انھیں کبھی احساس تک نہیں ہوتا تھا‘ کہ وہ کتنے بڑے گناہ کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ بجلی کی بندش سے‘ بڑے لوگوں نےاپنے پیارے پیارے عام کو‘ ظلم کبیرہ سے بچا کر‘ اربوں کی تعدد میں نیکیاں کما لی ہیں۔ قوم شکریہ ادا کرنے کی بجائے‘ سڑک پر آ جاتی ہے۔ ٹیشو پیر کی صنعت خسارے میں تو نہیں تھی‘ لیکن عام آدمی ٹیشو پیر بنا ہوا تھا .عام آدمی‘ اس ترقی یافتہ چیز سے‘ استفادہ نہیں کرتا تھا‘ لیکن پانی کی خطرناک قلت کے سبب‘ یہ طہارت کے حوالہ سے‘ ایک عام آدمی میں بھی‘ شرف قبولیت حاصل کر لے گا۔ لوگ پانی کو صرف پینے کے لیے‘ محفوظ کیا کریں گے اور یہ بڑے فخر اور اعزا والی بات ہو گی۔ پاکستان کی آبادی بہت بڑھ گئی ہے۔ محکمہ منصوبہ بندی نے‘
آبادی کےحوالہ سے‘ وہ نام نہیں کمایا اور یہ بڑے افسوس کی بات ہے۔ جو کام محکمہ منصوبہ بندی نہیں کر سکا وہ کام بجلی کی بندش سے باآسانی ہو سکے گا۔ اس کی کئ صورتیں سامنےآ سکیں گی۔ مثال ہسپتا ل میں پڑے مریض‘ اپریشن نہ ہونے کے باعث دم توڑ دیں گے۔ کام نہ ملنے کی وجہ سے بھوک میں اضافہ ہو گا۔ کچھ لوگوں کو بھوک کھا جائے۔ بہت سے لوگ بھوک کی سختی کے باعث خود کشی کر لیں گے۔ بھوک‘ چوری چکاری میں اضافے کا باعث بنے گی۔ ڈاکے پڑیں گے۔ ڈاکو برسرعام لوگوں کو لوٹیں گے۔ اس چھینا جھپٹی کے عالم میں‘ قتل وغارت کا بازار گرم ہو جائے گا۔ اس طرح‘ اچھی خاصی آبادی زندگی کی ظالم سختیوں سے‘ مکت ہو جائے گی۔ بجلی کی قیمتوں میں‘ جس قدر اضافہ ہوا ہے‘ اس سے روح بھی کانپ رہی ہے۔ بجلی نہ ہوئ تو‘ بجلی کی قیمت بل میں اندراج نہ ہو سکے گی۔ صرف اضافی چارجز کا بل آیا کرے گا‘
جو پہلے سالوں میں باآسانی ادا ہو سکے گا۔ بجلی فراہم ہونے کی صورت میں‘ لوگ آغاز عشق میں ہی‘ میٹر کٹوانے چل پڑیں گے۔ اس طرح بجلی والوں کے کام میں‘ خواہ مخواہ کا اضافہ ہو جائے گا‘ جو کسی طرح مناسب نہیں لگتا۔ مزدور صدیوں سے‘ مشقت کا شکار ہے۔ آج ہر کام بجلی سے جڑا ہوا ہے۔ اس طرح مزدور کو وافر آرام دسیاب ہو سکے گا۔ صدیوں کے تھکے ماندے مزدور کو‘ آرام ملنا شر پسند عناصر کو‘ ناجانےکیوں برا لگ رہا ہے۔ دفاتر آرام گاہیں بن گئی ہیں' سائلین سولی پر ہیں۔ بجلی کی بندش سے‘ کمپیوٹر ٹھپ ہو جائیں گے۔ لوگ ناامید ہو کر‘ گھربیٹھ جاءیں گے۔ اس سے دفاتر شاہی کو‘ سائلین کی اہمیت کا احساس ہو سکے گا۔ دستی کام کرنے کے لیے آوازیں لگائی جاییں گی۔ چلو دفاتر شاہی کو کچھ تو کام کرنے کی عادت پڑے گی۔ غرض ایسی اور بھی چیزیں ہیں‘ جو لوڈشیڈنگ کی برکات اور نادر فوائد کو واضح کرتی ہیں جن کے عام کرنے سے‘ پتھر کے سے‘ زمانے کا پرسکون‘ بےچنت‘ آزاد اور فطری ماحول میسر
آ سکے گا۔
اپنے اکرام صاحب ڈاکٹر مس کال کی گرہ میں پروفیسر دمحم اکرام ہوشیارپوری گورنمنٹ اسالمیہ کالج‘ قصور میں صدر شعبہءاردو تھے‘ اس حوالہ سے‘ میرا ان سے تعلق واسطہ تھا۔ یہ تعلق مالزمت کا تھا۔ اس تعلق کے عالوہ‘ ایک ذاتی تعلق بھی تھا۔ وہ سنجیدہ طبعیت کے مالک تھے اور غیرسنجیدہ گفتگو‘ پسند نہیں کرتے تھے۔ ہم دونوں میں‘ ایک بڑی اہم سانجھ تھی۔ کتاب سے‘ ان کا رشتہ کبھی کمزور نہیں پڑا۔ میرا خیال ہے‘ وہ قبر میں بھی کتاب بینی کر رہے ہوں گے‘ کیوں کہ منہ سے لگی چھٹتی نہیں‘ گویا یہ فطرت ثانیہ بن جاتی ہے۔ میں آج بھی‘ دوسرے تیسرے دن‘ ان کی قبر پر حاضر ہوتا رہتا ہوں اور پوچھتا ہوں‘ کیوں صاحب‘ کون سی کتاب مطالعہ میں جا رہی ہے۔ واپسی جواب تو خیر ملتا نہیں‘ ہاں مجھے اندزہ
ہے‘ کہ میر و غالب اور اقبال پر ہی مغز ماری ہو رہی ہو گی۔ ہاں تو عرض کر رہا تھا کہ ہم دونوں میں‘ کتاب ہی سانجھ کا ذریعہ تھی۔ میں بھی کتاب کا رہا ہوں‘ اس لیے‘ ہماری هللا کے فضل سے‘ خوب‘ بلکہ بہت خوب نبھی۔ وہ مر گیے ہیں‘ خدا لگتی تو یہ ہی ہے‘ کہ مرحوم سچے کھرے اسالم دوست اور پاکستان سے بےتحاشا محبت کرنے والے تھے۔ پرخلوص‘ مفید اور سودمند مشوروں سے‘ نوازے تھے۔ جس چیز کا مطالعہ کرتے‘ اس کی زبر زیر تک سے آگاہ کرکے‘ اپنی رائے دیتے اور اپنے مخاطب کی‘ رائے طلب کرتے۔ کسی مقام پر سنجیدہ اختالف‘ ان کی طبع پر ناگوار نہیں گزرتا تھا۔ وہ اختالف کو‘ پوری طرح چبا اور ہضم کرکے ہی‘ اپنے خیال کا اظہار کرتے۔ بہت کم لوگ‘ انہیں بطور شخص جانتے ہوں گے۔ شاید یہ ہی وجہ ہے‘ ساتھیوں میں سے‘ ایک آدھ نے‘ ان کے کثیر مطالعہ اور ان کے تجربات سے فائدہ اٹھایا ہو گا۔ وہ دیکھنے میں بڑے سخت‘ لیکن داخلی سطع پر‘ ریشم سے زیادہ مالئم اور محبت کرنے والے تھے۔ مرحوم صرف پڑھنے کے ہی شوقین نہیں تھے‘ بلکہ لکھتے بھی تھے۔ ہمارے ایک مرحوم کالج ساتھی‘ ہمیں ایک دوسرے کے پاس دیکھ کر‘ طنزا اور مزاحا کہا کرتے تھے‘ پڑھے
لکھے بیٹھے ہیں۔ پڑھا اکرام صاحب کے لیے‘ اور میرے لیے لکھا استعمال کرتے تھے۔ ان کی زندگی میں‘ مجھے ان کی۔۔۔۔۔۔۔ کتاب پاکستان اور پاکستانیت۔۔۔۔۔۔۔ پر بھی لکھنے کا موقع مال۔ اب مجھے یاد نہیں‘ میری یہ تحریر کس رسالے یا اخبار میں چھپی‘ تاہم میری کتاب اصول اور جائزے میں شامل ہے۔ اس حوالہ سے‘ وہ صرف پڑھے ہوئے ہی نہ تھے‘ بلکہ لکھے ہوئے بھی تھے۔ ان کے ہر لفظ سے‘ پکا مسلمان اور سچا پاکستانی دکھائی دیتا ہے۔ بالشبہ‘ پاکستانیت ان کی روح میں شامل تھی۔ وہ کسی کے منہ سے‘ ایک لفظ بھی‘ پاکستان کے خالف برداشت کرنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے۔ پاکستان کے حوالہ سے‘ کوئی اچھی خبر سنتے تو‘ مسرور ہو جاتے تھے۔ کسی نئی ایجاد یا دریافت پر‘ سارا سارا دن خوش ہوتے اور اسی کے حوالہ سے‘ بات کرنے کا جواز نکال لیتے۔ موجد کے فرشتوں کو کبھی خبر نہ ہوتی‘ کہ الئبریری میں بیٹھا ایک شخص‘ اس کے کارنامے سے‘ کس قدر خوش ہو رہا ہے۔ مغرب کا مجھے کچھ پتہ نہیں‘ لیکن ہمارے ہاں کا رواج ہے‘ کہ
کسی شخص کے مرنے کے بعد‘ اس کے بچھلے کفن دفن کے بعد‘ اس کے چھوڑے کو تقسیم کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ تقسیم پر جھگڑ پڑتے ہیں۔ یہ جھگڑنا‘ پانی پت کے نقشے سامنے لے آتا ہے۔ ادیب شاعر یا مطالعہ خور کے پاس‘ منوں کے حساب سے ردی جمع ہوئی ہوتی ہے‘ جسے وہ ساری عمر‘ سینے سے لگائے رکھتا ہے۔ اس کے پچھلے اس ردی کے دام کھرے کرکے‘ کمرے یا گیلری کا بہتر اور بامعنی استعمال نکال لیتے ہیں۔ اسی میں‘ انکی مسروری پنہاں ہوتی ہے۔ پروفیسر صاحب کی خوش قسمتی تھی‘ کہ ان کی اوالد پڑھی لکھی ہے۔ ان میں ایک بیٹا‘ اردو سے متعلق ہے۔ یہ ہی وجہ ہے‘ کہ ان کا ذخیرہءعلم‘ ردی میں‘ ردی کے بھاؤ نہیں گیا بلکہ محفوظ کر لیا گیا۔ اس حوالہ سے وہ شاباش کے مستحق ہیں۔ سننے میں آ رہا ہے کہ سردست ادب ادیب اور پاکستانیت کمپوز کروایا جا رہا ہے۔ کمپوزنگ پر اٹھنے واال خرچہ بچے اٹھا رہے ہیں۔ بڑی بات ہے۔ ہاں البتہ یہ کام‘ چور اور بددیانت ڈاکٹر مس کال‘ کے ہاتھوں میں چال گیا ہے‘ دیکھیے کیا بنتا ہے۔ یہ ہاتھ مجھے بھی لگ چکے‘ جو مال ہٹرپ اور میری عمر بھر کی جمع پونجی اڑا چکے ہیں۔ موقف معقول اختیار کیا گیا ہے‘ بابے کا دور ختم ہو گیا ہے‘ اس نے یہ ردی کیا کرنی ہے۔ اب ہمارا
دور ہے‘ اب ہم نے عمر گزارنی ہے۔ بابوں کی چیزیں‘ ان کے بچوں کی ہوتی ہیں۔ اہل قلم سب کے ہوتے ہیں۔ ضروری نہیں‘ ان کی اوالد فائدہ اٹھائے‘ یا اپنے نام سے چھاپے۔ سقراط سب کا تھا‘ افالطون نے اس کا کہا جمع کیا‘ بڑی بات ہے‘ اب یہ قاری کا کام ہے‘ کہ کون سا سقراط کا ہے اور کون سا افالطون کا‘ خود پہچاننے کی کوشش کرئے۔ اس کے لیے نظریہ اور اسلوب کو پیمانہ بنانا قاری کی ذمہ داری ہے۔
روال رپا توازن کا ضامن ہے
کل کی بات ہے بیغم بال فل سٹپ بولے چلی جا رہی تھی اور میں اس کے حضور کھوگو بنے بیٹھا تھا۔ میں جانتا تھا ایک لفظ بھی میرے منہ سے نکال تو دو چار گھنٹے بنے۔ مجھے ہمیشہ چپ کی چادر میں ہی پناہ ملی ہے۔ شوہر حضرات کو اکثر
یہ جملہ سننے کو مال ہو گا تم نے ساری عمر کیا ہی کیا ہے‘ کون سے تم نے " "میرے ماتھے پر ٹیکے سجا دیے ہیں یہ جملہ پہلے بھی کوترسو بار سن چکا تھا۔ میں سقراط کا زہر سمجھ کر پی جاتا تھا۔ کل مجھے تاؤ آ گیا۔ کمال ہے وہ ساری عمر میں اس عرصہ کو بھی شمار کر رہی تھی جو میرے کنوار پن کا تھا۔ یہ بھی معلوم نہیں مجھے ابھی اور کتنا جینا ہے۔ ساری عمر میں تو یہ دونوں زمانے بھی آتے ہیں۔ جی میں آیا اس حوالہ سے بات کروں لیکن مجھے اس کے اس جملے نکمے تو ہو ہی اوپر سے حکایتں کرتے ہو کے تصور نے لرزا کر رکھ دیا۔ مجھے غصہ بڑا تھا جو میں ہر حال میں نکالنا چاہتا تھا۔ میں نے بڑی کڑک دار آواز جو کمرے کی دہلیز بھی پار نہ کر سکی‘ میں کہا کیوں خوامخواہ مغز چاٹ رہی ہو۔ اس کا جواب میری سوچ سے بھی بڑھ کر نکال۔ کہنے لگی میں اپنے منہ سے بول رہی ہوں اس میں تمہارا کیا جاتا ہے۔ اس کی بات میں حد درجہ کی معقولیت تھی۔ ورزش تو اس کے دماغ اور منہ جس میں زبان اور جبڑے بھی شامل ہیں‘ ہو رہی۔ ہاں البتہ میرے کانوں کو زحمت ضرور تھی۔ دماغ کا خرچہ تب ہوتا جب میں اس کے کہے کو کوئ اہمیت دے رہا ہوتا۔ روز کی چخ چخ کو اہمیت دینا حماقت سے زیادہ نہیں۔
غصہ میں آ کر ڈھیٹ اور چکنا گھڑا تک کہہ جاتی ہے۔ میں دونوں کانوں سے کام لیتا ہوں یعنی ایک کان سے سنتا ہوں دوسرے کان سے نکال دیتا ہوں اور بس۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری لڑائ یک طرفہ رہتی ہے۔ معروف مقولہ ہے کہ رعایا ملک کے قدموں پر قدم رکھتی ہے۔ میں بھی اس ذیل میں حاکم کے قدموں پر قدم رکھنے واال ہوں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ میں اپنے گھر کے افراد کی پوری دیانتداری سے خدمت کرتا ہوں۔ چوک اسی معاملہ میں ہوتی ہے جو میری پہنچ سے باہر ہوتا ہے۔ گھر والے یقین نہیں کرتے۔ ہر گھر والی اپنے شوہر کو اوباما کا ساال سمجھتی ہے جو ہر کچھ اس کی دسترس میں ہے۔ بہر طور دسترس سے باہر کام کے لیے مجھے دونوں کانوں سے کام لینا پڑتا ہے۔ حکومت میں موجود لوگ دونوں کانوں سے کام نہیں لیتے۔ وہ کانوں میں روئ ٹھونس لیتے ہیں۔ لوگ جب سڑکوں پرآتے ہیں تو نظر آنے کے مطابق یہ سازش اور بغاوت کے مترادف ہوتا ہے اس لیے وہ اس رولے رپے کے لیے ڈنڈے کا استعمال فرض عین سمجھتے ہیں۔ لوگ اتنا بولتے اور لکھتے ہیں لیکن ان کی چال میں رائ بھر فرق نہیں آتا۔ رہ گئ تاریخ کی بات تو مورخ ان کا ہتھ بدھا گوال ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں پیٹو مورخ جسے میں مورکھ کہتا ہوں‘ انہیں نبی سے دو چار انچ ہئ نیچے رہنے دے گا۔ لہذا آتے وقت سے کیا ڈرنا۔
رعایا اور حکومت ریاست کے دو اہم رکن ہیں۔ رعایا حکومت کو ٹیکس دیتی ہے اگر نہیں ادا کرتی تو حکومت کو خوب خوب وصولنا آتا ہے۔ ٹیکس کے عوضانے میں حکومت رعایا کو سہولتیں جن میں تعلیم اورعالج معالجے کی سہولتیں شامل ہیں‘ فراہم کرتی ہے یہی نہیں انہیں تحفظ بھی فراہم کرتی ہے۔ ہمارے ہاں ٹیکس وصولنا یاد رہتا ہے لیکن سہولتیں فراہم کرنا گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے۔ میں ہر ابے یا شوہر کی پیروی میں مسیتے جا کر قسم کھانے کو تیار ہوں کہ گھر والوں سے ٹیڈی پیسہ ٹیکس وصول نہیں کرتا۔ اپنی مزدوری سے روٹی کپڑا مکان تعلیم عالج معالجہ وغیرہ دستیاب کرتا ہوں اس کے باوجود ڈھیٹ ایسے ثقیل کلمات سنتا ہوں۔ سن کر ہاتھ نہیں کھنچتا۔ میں یہ سب کرنا اپنا فرض جانتا ہوں۔ کل مجھے ایک پرائیویٹ میسج موصول ہوا جس میں کراچی کی حالت زار کا تذکرہ تھا۔ پرائیویٹ میسج پڑھ کر میرے ہاتھ پاؤں سے جان نکل گئ۔ پراءویٹ میسج میں ایک موثر اور منظم پارٹی کا ذکر تھا۔ لکھا تھا کہ ہر طبقہ کی عورت آبرو سے محروم ہو رہی ہے اور کوئی پوچھنے یا سننے واال موجود نہیں۔ ریاست کے اختیارات بے انتہا ہوتے ہیں۔ ریاست اپنے اور اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے کچھ بھی کر گزرتی ہے۔ ادارے اس
کے ماتحت ہوتے ہیں۔ اگر ادارے کچھ بھی نہیں کرتے تو ان کے ہونے کا کوئ جواز نہیں بنتا۔ جب جنگل کا قانون چلنا ہے تو انھیں چلتا کرنا چاہیے اور ان پر اٹھنے والی خطیر رقم ہاؤسز اور اس کے مکینوں کی بہتری کے لیے خرچ ہونی چاہیے۔ ایک خیال یہ ہے کہ ادارے اپنے اور ہاؤسز کے لیے کماتے ہیں لہذا انہیں ختم کرنا ہاؤسز اور اس کے مکینوں کے پیٹ پر الت مارنے کے مترادف ہے۔ اس مخصوص گروہ یا ارٹی کو نکیل ڈالنا ہاوسز سے مرحومی کے مترادف ہے۔ گویا ان عنصر کو کھلی چھٹی دینا سیاسی مجبوری ہے۔ مجبوری کچھ بھی کروا سکتی ہے۔ جن عورتوں کی عزت برباد ہوتی ہے کون سی ان کی اپنی مائیں بہنیں ہوتی ہیں۔ دوسرا عورت کے ساتھ شادی کے بعد بھی یہی کچھ ہوتا ہے بالشادی ہو رہا ہے تو کون سی قیامت ثوٹ رہی ہے۔ بس تھوڑا سا بے غیرت ہونے کی ضرورت ہے۔ بے غیرتی بھی کیسی۔ یہ ترقی پسندی کی عالمت ہے۔ بہت سے عالقے موجود ہیں جہاں باپ کا تصور ہی نہیں۔ ان کے ہاں کوئ روال نہیں تو ہمارے ہاں قدامت پسندی سے کام لیا جا رہا۔ ہمیں ہاؤسز کی سیاسی مجبوری دیکھتے ہوءے بے غیرت ہو جانا چاہیے۔عوام کا روال اور بے بس سسکیاں قطعی ناجاءز اور باؤسز کے خالف کھلی سازش ہے۔ گھر کی کرسی میرے پاس ہے رولے رپے کے حوالہ سے
خاموشی اختیار کرنا میری مالی مجبوری ہے۔ غنڈہ عناصر کے حوالہ سے خاموشی اختیار کرنا ہاؤسز کی سیاسی مجبوری ہے۔ اس کا اس سے بہتر اور کوئی حل نہیں کہ بیغم بولتی رہے اور میں کام سے کام رکھوں۔ اس کے بولنے سے اس کی بھڑاس نکل جاتی ہے۔ بےعزتی کرکےاس کی انا کو تسکین ملتی ہے اور وہ خود کو ونر سمجھتی ہے جبکہ میں اپنا پرنالہ آنے والی جگہ پر رکھتا ہوں۔ روال ڈالنے اور برداشت کرنے سے بدامنی پیدا نہیں ہوتی بلکہ توازن کا رستہ ہموار ہوتا ہے۔
من کا چوہا اور کل کلیان
اصولی سی اور صدیوں کے تجربے پر محیط بات ہے کہ غیرت قوموں کو تاج پہناتی ہیں۔ بے غیرتی روڑا کوڑا بھی رہنے نہیں دیتی۔ روڑا کوڑا اس لیے معتبر ہے کہ تالش کرنے والوں کو اس میں بھی رزق مل جاتا ہے۔ جب بھی معامالت گھر کی دہلیز سے باہر قدم رکھتے ہیں توقیر کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ سارا کا سارا بھرم خاک میں مل کر خاک ہو جاتا ہے۔ جس کو کوئی حیثیت نہیں دی گئی ہوتی وہ بھی انگلی اٹھاتا ہے۔ نمبردار بن
جاتا ہے۔ جس کے اپنے دامن میں سو چھید ہوتے ہیں اسے بھی باتیں بنانے کا ڈھنگ آ جاتا ہے۔ یہ قصور باتیں بنانے یا انگلی اٹھانے والوں کا نہیں ہوتا بلکہ موقع دینے والوں کا ہوتا ہے۔ یہ حقیقیت بھی روز روشن کی طرح واضح اور عیاں رہی ہے کہ طاقت کے سامنے اونچے شملے والے سر بھی خم رہے ہیں۔ گویا طاقت اور غیرت کا سنگم ہوتا ہے تو ہی بات بنتی ہے۔ کمزور صیح بھی غلط ٹھرایا جاتا ہے۔ اس کی ہر صفائ اور اعلی پاءے کی دلیل بھی اسے سچا قرار نہیں دیتی۔ بھیڑیے کا بہانہ اسے چیرنے پھاڑنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ انسان جونکہ اشرف المخلوقات ہے اس لیے اس کے بہانے اور دالئل بھی کمال کے ہوتے ہیں۔ انسان کی یہ بھی صفت ہے کہ وہ اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتا بلکہ اپنی غلطی اوروں کے سر پر رکھ دیتا ہے۔ ایسی صفائ سے رکھتا ہے کہ پورا زمانہ اسے تسلیم کرنے میں دیر نہیں کرتا۔ امریکہ کی عمارت گری اس میں کوئ کھوٹ نہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ عمارت گرانے پورا افغانستان امریکہ پر چڑھ دوڑا تھا۔ اس میں بچے بوڑھے عورتیں الغر بیمار وغیرہ‘ بھی شامل تھے؟
جواب یقینا نفی میں ہو گا۔ تو پھر ان سب کو بندوق نہیں توپ کے منہ پر کیوں رکھ دیا گیا؟ ان کا جرم تو بتایا جائے۔ لوگوں کو تو مذکرات اور سفارتی حوالہ سے مسائل کا حل تالشنے کے مشورے اور خود گولے سے مسائل حل کرنے کوشش کو کیا نام دیا جائے۔ ایک پکی پیڈی بات ہے کہ چوہا بلی سے بلی کتے سے کتا بھڑیے سے بھیڑیا چیتے سے چیتا شیر سے شیر ہاتھی سے ہاتھی مرد سے مرد عورت سےاورعورت چوہے سے ڈرتی ہے۔ ڈر کی ابتدا اور انتہا چوہا ہی ہے۔ میرے پاس اپنے موقف کی دلیل میں میرا ذاتی تجربہ شامل ہے۔ میں چھت پر بیھٹا کوئی کام کر رہا تھا۔ نیچے پہلے دھواندھار شور ہوا پھر مجھے پکارا گیا۔ میں پوری پھرتی سے نیچے بھاگ کر آیا۔ ماجرا پوچھا۔ بتایا گیا کہ صندوق میں چوہا گھس گیا ہے۔ بڑا تاؤ آیا لیکن کل کلیان سے ڈرتا‘ پی گیا۔ بس اتنا کہہ کر واپس چال گیا کہ تم نے مجھے
بلی یا کڑکی سمجھ کر طلب کیا ہے۔ تاہم میں نے دانستہ چوہا صندوق کے اندر ہی رہنے دیا۔ چوہا کمزور ہے لیکن ڈر کی عالمت ہے۔ ڈر اپنی اصل میں انتہائی کمزور چیز ہے۔ کمزوری سے ڈرنا‘ زنانہ خصلت ہے۔ امریکہ اپنی اصل میں انتہائی کمزور ہے۔ کیا کمزوری نہیں ہے کہ اس کی گرفت میں بچے بوڑھے عورتیں الغر بیمار بھی آ گئے۔ گھروں کے گھر برباد کر دینے کے بعد بھی اس کا چوہا ابھی زندہ ہے۔ چوہا اس سے مرے گا بھی نہیں۔ بشمار اسرائیلی بچے مروا دینے کے بعد بھی فرعون کے من کا چوہا مرا نہیں حاالں کہ وہ انہیں بانہ بازو بنا سکتا تھا۔ ہم اپنے ساتھ نہیں ہیں کسی اور کا خاک ساتھ دیں گے۔ یہ بڑی بڑی باتیں کرنے والے ایک جونیئر کلرک کی مار نہیں ہیں منشی تو بہت بڑا افسر ہوتا ہے۔ہمارا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو چور کو کہتے ہیں سوئے ہوئے ہیں اور گھر والوں کو کہتے ہیں چور آ رہا ہے۔اس نام نہاد ترقی کے دور میں ہم سچ کہہ نہیں سکتے سچ سن نہیں سکتے۔ یہ ہماری سیاسی سماجی یا پھر اقتصادی مجبوری ہے۔
ہمیں اپنے معامالت پر ہی گرفت نہیں کسی دوسرے کی کیا مدد کریں۔ صاف کہہ نہیں سکتے بھائ ہم پر نہ رہنا‘ جب بھی مشکل وقت پڑا ہمیں دشمن کی صف میں سینہ تانے کھڑا پاؤ گے۔ ہم ابراہیم لنکن کی نبوت اور ڈالر کے حسن پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں۔ ہماری عقل اور غیرت پیٹ میں بسیرا رکھتی ہے۔ ہم ازلوں سے بھوک کا شکار ہیں۔ اصل مجنوں کوئ اور ہے ہم تو چوری کھانے والے مجنوں ہیں۔ ہم کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں۔ کہا گیا بجلی نہیں جائے گی جبکہ بجلی گئ ہوئ ہے۔ گیس کا بل سو ڈیڑھ سو آتا تھا اور گیس سارا دن رہتی تھی۔ آج گیس صرف دکھائی دیتی ہے اور بل پیو کا پیو آتا ہے۔ بجلی جانے سے پہلے کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے کہ فالں گھر کے گیس کا بل سات ہزار روپیے آیا ہے اور گھر کے کل افراد چند ایک ہیں۔ لگتا ہے کہ دوزخ کو اس گھر سے پائپ جاتا ہے۔ ہم وہ لوگ ہیں جو الیکشنوں کے موسم میں لنگر خانے کھول دیتے ہیں۔ کٹوں بکروں اور مرغوں کی شامت آ جاتی ہے۔ لوگ دھر سمجھ کر بے دریغ کھاتے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں امیدوار پلے سے کھال رہا ہے اور اس کے بعد پیٹ بھر کر اگلے الیکشنوں میں ہی مل پائے۔ بات کا پہال حصہ درست نہیں۔ الیکشن وہی لڑتا ہے جس کی ہک میں زور ہوتا ہے۔ جس کی ہک میں زور ہوتا ہے وہ پلے سے کیوں کھالنے لگا ۔ چوری
کے ڈنگر ہی چھری تلے آتے ہیں۔ اتنا ضرور ہے کہ ان لنگر خانوں میں مردار گوشت دیگ نہیں چڑھتا۔
زندگی میں میں کے سوا کچھ نہیں
وزیر برقیات کے اعالن کے باوجود مختلف شہروں "مینلوڈشیڈنگ یہ خبر میری اس تحریر کے بعد شائع ہوئی جس میں‘ میں نے کہا تھا کہ کہنا اور کرنا دو الگ چیزیں ہیں۔ اس تحریر کے باوجود اس خبر کا شاءع ہونا اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ خبر نویس اس حقیقت سے بےخبر ہے یا پھر وہ پرتھوی پر بسیرا نہیں رکھتا اور سہانے خوابوں کے دیس کا اقامتی ہے۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ اس تک میری ناچیز تحریر رسائ حاصل کرنے میں ناکام رہی ہو۔ یا پھر میں اپنا مافی الضمیر بیان کرنے میں ناکام رہا ہوں۔ جو بھی ہے صحیح نہیں ہے۔ دوبارہ سے کوشش کرتا ہوں شاید اب کہ سمجھانے میں کامیاب ہو جاؤں۔
کہنا اور کرنا اپنی حیثیت میں دو الگ چیزیں ہیں۔ ان کے مابین المحدود فاصلے ہیں۔ بذات خود بجلی دیکھنے میں ایک ہو کر بھی ایک نہیں۔ متعلقہ پواءنٹ تک پہنچنے کے لیے دو تاروں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک ٹھنڈی تار دوسری گرم تار۔ دونوں تاروں کےالگ الگ رہنے میں ہی عافیت اور سالمتی ہوتی ہے۔ ہر سوئچ میں ان دونوں کے لیے الگ الگ پوائنٹ ہوتے ہیں۔ اگر یہ دونوں تاریں باہمی اختالط کر لیں تو بہت بڑا کھڑاک ہو سکتا ہے۔ اس ٹھاہ کے نتیجہ میں جان بلکہ جانیں جا سکتی ہیں۔ بالکل اسی طرح کہنا اور کرنا گلے مل جائیں تو مالی نقصان وٹ پر ہوتا ہے۔ نقصان جانی ہو یا مالی‘ نقصان ہی ہوتا ہے اور نقصان کی کسی بھی سطع پر حمایت نہیں کی جا سکتی۔ سکول کالج یہاں تک کہ یونیورسٹی میں کتابی تعلیم دی جاتی ہے۔ کامیاب طالب علم کو متعلقہ علم کی سند یا ڈگری دی اتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ڈگری ہولڈر اس علم کی کامل جانکاری حاصل کر چکا ہے۔ اس سند یا ڈگری کے باوجود ڈگری یافتہ عملی طور پر صفر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس عملی تجربہ رکھنے واال ڈگری یافتہ سے کرنے میں کمال کے درجے پر فائز ہوتا ہے حاالنکہ ڈگری یافتہ کرنے سے متعلق باتیں بار بار پڑھ بلکہ توتے سے بڑھ کر رٹ چکا ہوتا ہے۔ دونوں کے نام الگ سے ہوتے ہیں۔
کہنے کو تھیوری جب کہ کرنے کو پریکٹیکل کا نام دیا جاتا ہے اور یہ ایک دوسرے سے قطعی طور الگ ہیں۔ یہ درست سہی پڑھے کو عملی آزمایا جاتا ہے۔ گویا پڑھنا پہلے اور آزمانا بعد میں ہے۔ میں کہتا ہوں کرنا پہلے ہے اور کہنا یا آزمایا بعد میں ہے۔ ہمارے ہاں ایک ان پڑھ آدمی بڑے کمال کے کام سر انجام دے رہا ہے۔ نہیں یقین آتا تو بالل گنج میں جا کر دیکھ لیں۔ شکاگو یونیورسٹی کا ایک ساءنس کا پروفیسر وہ کام نہیں کر سکتا جو کام بالل گنج کا ان پڑھ خرادیا دے سرانجام سکتا ہے۔ اسے کہیں یہ ہے ایف سولہ ذرا اس سے بہتر بنا دو‘ بنا دے۔ ڈالرز میں ملنے والے سوفٹ ویئر یہاں بازار سے ان کی سی ڈی بیس رویے میں مل جاتی ہے۔ ہے نا کرنا اور کہنا ایک دوسے سے الگ تر؟ جو کرتے ہیں وہ بولتے نہیں۔ جو بولتے ہیں وہ کرتے نہیں۔ اس طرح دوہرا یعنی کرنا اور کہنا بوجھ بن کر سر پر آ جاتا ہے۔ کوئی بھی دوہرا بوجھ اٹھا نہیں سکتا۔ کیا‘ بقلم خود :بولتا ہے کہ میں ہوں کیا ہوا۔ غالبا یہ شعر بھیکا کا ہے بھیکا بات ہے کہن کی کہن سنن میں ناں جو جانے سو کہے نہ کہے سو جانے ناں
کہہ کر کیا تو کیا کیا۔ کیا وہی اچھا ہے جو کہا نہ جائے۔ کرکے کہنا تو احسان جتانے والی بات ہے۔ احسان جتانا سے بڑھ کر توہین آمیز بات ہی نہیں۔ ہمارے لیڈر اتنے بھی گیے گزرے نہیں ہیں جو احسان جتائیں۔ اسی بنیاد پر ہی وہ صرف کہتے ہیں‘ کرتے نہیں۔ وہ خوب خوب جانتے ہیں کہ کرنے کے لیے کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ ان کے نزدیک کیے کی خبر دوسرے ہاتھ تک کو نہیں ہونی چاہیے۔ جو وہ کرتے ہیں لوگوں کو خبر تک نہیں ہو پاتی۔ جب لوگوں کو خبر ہوتی ہے وقت بہت آگے نکل گیا ہوتا ہے۔ کوئی بےبابائی کام کسی بڑی سفارش کے ساتھ جہاں کہیں نازل ہوتا ہے اس کی زبانی کالمی سہی‘ پذیرائ تو ہوتی ہے۔ اس کے ہونے کی یقین دہانی بھی کرائی جاتی ہے۔ امید بلکہ یقین کے چراغ بھی جالئے جاتے ہیں۔ بعض اوقات لڈو بھی بانٹے جاتے ہیں۔ بےبابائی ہونے کی پاداش میں وہ کام نہیں ہو پاتا۔ اس مقام پر ناراض ہونا یا مایوس ہونا نہیں بنتا کیونکہ کرنا اور کہنا دو الگ باتیں ہیں۔ ایم این ایز یا ایم پی ایز یا منسٹرز لوگوں کی درخواستوں
پر سفارشی کلمات لکھتے ہیں۔ یہاں وہ دونوں فریقوں کی درخواستوں پر سفارشی کلمات ایک ہی طرح سے ثبت کرتے ہیں۔ وہ تو دیالو اور کرپالو مخلوق ہوتے ہیں۔ وہ کسی کو کیسے مایوس کر سکتے ہیں۔ اس حوالہ سے کسی کا کام ہو یا نہ ہو اس سے انھیں کوئی مطلب نہیں ہوتا کیونکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ سفارش اور کام کا سر انجام پانا دو الگ سے باتیں ہیں۔ سفارش اور کام کا ہونا اختالط پذیر نہیں ہونے والے ۔ ان کی الگ الگ اہمیت حیثیت اور ضرورت ہے۔ ایک ماں اور ایک باپ کی اوالد اپنی اپنی روٹی پکاتے ہیں۔ وہ سگے بھائ ہوتے ہیں۔ روٹئ سالن ایک رنگ روپ رکھتا ہے۔ ساتھ نبھانے کا وعدہ بھی کیا گیا ہوتا ہے۔ سگا ہونا یا وعدے میں بندھے ہونا یا روٹی کا رنگ روپ ایک ہونا اپنی جگہ لیکن نبھانا دو الگ باتیں ہیں۔ انھیں ایک دوسرے سے نتھی نہیں کیا جا سکتا اور ناہی کیا جانا حقیقت سے تعلق رکھتا ہے۔ پنجاب جو سب سے بڑا صوبہ ہے کی منشی شاہی سب سے زیادہ شریف‘ تحمل مزاج‘ بردبار اور زیرو رفتار ہے نہ یہ کچھ کہتی نہ کرتی ہے۔ یہ ہونے کے ہر کام کی راہ میں دیوار بن جاتی ہے۔ چونکہ قلم ،اٹکل اور داؤ و پیچ اس کی زنبیل میں پناہ
گزیں ہوتے ہیں اس لیے ہوتے بھی نہیں ہوتے۔ اس کی تحمل مزاجی اور زیرو رفتاری ہی وہ بڑا کارنامہ ہے کہ ہم روزاول سے بھی بہت قدم پیچھے کھڑے بھوک پیاس اور موت کی ہولی بڑی بےبسی اور بےکسی سے دیکھ رہے ہیں۔ یوں لگتا دیکھنا ہمارا مقصد حیات ہے۔ وزیر عوامی لوگ ہوتے ہیں اس لیے عوام کی بہبود ان کے پیش نظر رہتی ہے۔ وہ نہیں چاہتے لوڈ شیڈنگ ختم کرکے بجلی کے بل لوگوں کی جیب سے تجاوز کر جاءیں اور پھرلوگ لوڈ شیڈنگ کرنے کے لیے سڑکوں پر آ کر ذلت و خواری کا منہ دیکھیں۔ وہ بجلی کے بل اور لوڈشیڈنگ کی جدائی کو عوامی بہبود کے برعکس سمجھتے ہیں۔ مفروضوں میں زندگی کرنے کا عہد ہے۔ عین ممکن ہے یہ اخباری خبر ہاوسز سے متعلق ہو جہاں اتفاقا کسی فنی خرابی کے سبب بجلی دو چار لمحوں کے لیے کبھی کبھار چلی جاتی ہے۔ بڑے لوگوں کے بڑے کام۔ وہ مخاطب چھوٹے لوگوں سے ہوتے ہیں لیکن وعدے بڑے لوگوں کے ساتھ کر رہے ہوتے ہیں۔ بلند سطع پر کیفیت مختلف ہوتی ہے۔ اس لیے وہاں ٹھنڈی اور تتی تاروں کا روال باقی نہیں رہتا۔ وہاں کرنا اور ہونا دو نہیں رہتے۔ سچی درویشی یہی ہے کہ میں تو میں مدغم ہو کر میں
بن جاتی ہے اورپھر زندگی میں میں کے سوا کچھ نہیں رہتی۔
بجلی آتے ہی
دو شخص ہوٹل میں گرما گرم بحث کر رہے تھے۔باتوں سے دونوں بےپارٹی لگتے تھے۔ بے پارٹی اشخاص کا مختلف سمتوں میں چلنا اوراتنی گرما گرمی دکھانا مجھے بڑا ہی عجب لگا۔ خیرمیں بے تعلقی ظاہر کرتے چائے نوشی میں مشغول رہا۔ ان کا موضوع سخن مہنگائی اور بےروزگاری تھا۔ وہ یوں ایک دوسرے سے الجھ رہے تھے جیسے ان دونوں میں سے کوئی ایک ان خرابیوں کا ذمہ دار ہے۔ ایک صاحب کا کہنا تھا کہ موجودہ حاالت کے ذمہ دار خود عوام ہیں۔ آخرانھوں نے ان بدمعاشوں کو ووٹ ہی کیوں دیے۔ دوسرے کا کہنا تھا اطراف میں بدمعاش تھے ایک کو ممبر بننا ہی تھا۔ دوسری طرف اگر کوئی شریف تھا اور ممبر نہیں بن سکا تو بات کریں۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ کام شریفوں کا کبھی
بھی نہیں رہا۔ پوری جمہوری تاریخ کو دیکھ لیں۔ اسمگلر چوراچکے سنیما کی ٹکٹیں بلیک کرنے والے رسہ گیر صاحب زادے نواب زادے حرام زادے امریکہ کے چہولی چک اس عمل کا حصہ رہے ہیں۔ دوسرا اس بات پر بضد تھا کہ قصور سارا عوام کا ہے۔ کچھ فیصد ہی سہی لوگ جمہوریت کا حصہ کیوں بنتے ہیں۔ پہلے کا موقف تھا کہ لوگوں کو بھوک میں نک نک ڈبو کر الیکشنوں کے دنوں میں چوپڑی روٹی اور لگ پیس دکھا کر یہ لوگ ووٹ حاصل کر لیتے ہیں۔ لوگ چند دن کی سیری کو دیکھ کر پچھلے اور اگلے سالوں کی قیامت ناک بھوک کو بھول جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک جس نے جوش خطابت میں چائے کا ابھی تک ایک گھونٹ بھی نہیں لیا تھا‘ کا کہنا تھا کہ صدر وزیر اعظم اور اسپیکر تو ڈھنگ کے منتخب کیے جاءیں۔ شاید اسے معلوم نہ تھا کہ انھیں عوام منتخب نہیں کرتے۔ یہ عوامی نمائندے نہیں‘ اپنی پارٹی کے نمائندے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے اور اپنی پارٹی کے مفاد کے لیے کام کرتے ہیں۔ انھیں عوام سے کیا مطلب۔ وہ عوام کو جوابدہ نہیں ہیں بلکہ پارٹی کو جوابدہ ہوتے ہیں۔
اتنی دیر میں بجلی آ گئ۔ دونوں کا جوش ہوا ہو گیا۔ دونوں سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ گئے۔ میں سوچ میں پڑ گیا اتنا گہرا شعور انھیں کس نے دیا ہے۔ کیا یہ بھوک پیاس اور اندھیرے کی مہربانی ہے یا میڈیے کی کارگزاری ہے۔دوسرا سوال یہ بھی کھڑا تھا کہ شعور انقالب کی طرف لے جا رہا ہے یا بھوک شعور کو کھا پی جائے گی۔ ان دونوں کا بجلی کے آنے پر دوڑ لگانا ظاہر کرتا ہے کہ شعور کسی بھی سطع پر ہو بھوک سے تگڑا نہیں ہوتا۔ روٹی ایمان کی بناء ہے۔ شخص کتنا ہی مظبوط کیوں نہ ہو بھوک کے ہاتھوں بک جاتا ہے۔ لوگوں کو بھوک کی آخری سطع پر اسی لیے پنچا دیا گیا ہے کہ وہ اپنا ضمیر ایمان اور عزت بیچنے پر مجبور ہو جائیں۔ بھوک کےتیور دیکھتے ہوئے میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہاں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ لوگ ہوٹلوں میں بیٹھ کر بڑےاونچے درجے کی باتیں کرتے رہیں گے لیکن بجلی آتے ہی روٹی کی طرف بھاگ اٹھیں گے۔ بغداد والے کوا حالل ہے یا حرام پر بحثیں کرتے رہے ادھر ہالکو خان نے بغداد کی اینٹ سےاینٹ بجا دی۔ ہمارےساتھ
بھی یہی ہو رہا ہے۔ امریکہ ہماری خودداری پر ہر دوسرے کاری ضرب لگاتا ہے اور ہمارے لیڈر اگلے الیکشن جیتنے کے لیے بھوک میں اضافے کا کوئ نیا راستہ تالشنے کی سعی کرتے ہیں۔ کار سستی آٹا چینی دال گھی مہنگی کر رہے ہیں۔ ایک عام آدمی کو کار سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ بس کرایہ کم ہو تو غریب سے تعاون سمجھ میں آتا ہے۔ اندھا بانٹے روڑیاں مڑ مڑ اپنیاں نوں۔ کار کا سستا ہونا غریب پروری کے کس زمرے میں آتا ہے۔ یہ بات میری سمجھ سے باال ہے کہ میک اپ بھی سستا کر دیا گیا ہے۔ غالبا قوم کوکوٹھے پر بیٹھانےکا ارادہ ہے۔ قوم اس نام نہاد آزادی کے دن سے لے کر آج تک کوٹھے پر بیٹھی ہے۔ جوآتا ہےاس کی جان مال عزت آبرو انا اور غیرت سےکھیلتا ہے اور چلتا بنتا ہے۔ اس کے جانے کے بعد ہر کوئی اس کے جبروستم کے قصے چھیڑ دیتا ہے لیکن یہ سب زبانی کالمی ہوتا ہے۔ کوئی اس پر گرفت نہیں کرتا۔ گئے وقت کی چھوڑیے کوئی موجودہ کے سدھار کی کوشش نہیں کرتا۔ ہرآتا دن گزرے سے بدترین ہوتا ہے۔ عدم تحفظ کا احساس بڑھتا چال جاتا ہے۔ ان نام کے قومی
لیڈروں کی ناک کے نیچے رشوت کا بازار گرم ہے۔ اکثر افسر ان کے اپنے بندے ہیں۔ کم از کم جو ان کے اپنے بندے نہیں ہیں ان پر تو گرفت کریں تاکہ وہ ان کا بندہ ہونے کا جتن کریں۔ پوچھنے والوں کے ہاتھ میں سفید گڑ کی پیسی ہے اور وہ یہ سوچے بغیر کہ دانت خراب ہوں گے چوسے پہ چوسا مارے جا رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں خراب دانتوں کا عالج کون سا گرہ خود سےہونا ہے۔ سرکار کا اشیرواد اور قوم کا مال سالمت رہے۔ انھیں پریشان کی کیا ضرورت ہے۔
لوٹے کی سماجی اور ریاستی ضرورت
لوٹا کوئی عہد جدید کی پیداوار نہیں۔ یہ صدیوں پہلے وجود میں آ کیا تھا اور اس نے اپنی بہترین کارگزاری کے حوالہ سے انسانی زندگی میں بلند مقام حاصل کر لیا۔ اس کے وجود سے انسان خصوصا برصغیر کے بااختیار اور صاحب حیثیت لوگوں نے خوب خوب فاءدہ اٹھایا۔ دیکھا جاءے یہ کمزور اور
گریب طبقے کی چیز ہی نہیں۔ پکے محل رکھنے والے اس کی کارگزاری کے معترف رہے ہیں۔ کمزور اور گریب طبقے سے متعلق لوگ کچے اور تعفن کے مارے گھروں میں رہتے ہیں اس لیے ان کی گزر اوقات گھیسی سے ہو جاتی ہے۔ اس حیقیت کے پیش نظر لوٹے کو بلند پایہ طبقوں کی امانت سمجھنا چاہیے۔ موجودہ بتی کے بحرانی دور میں بھی بڑے لوگوں کو گھیسی نہیں کرنا پڑے گی۔ یہ سعادت صرف اور صرف کمزور اور گریب طبقے کے مقدر کا حصہ رہے گی۔ لوٹا" کو آفتابہ بھی کہا جاتا رہا ہے لوٹے کو استاوا بھی " کہتے ہیں اور یہ لفظ دیہاتوں میں آج بھی مستعمل ہے۔ تاہم شہروں میں مستعمل اور معروف لفظ لوٹا ہی ہے۔ یہ ایک قسم کا ٹونٹی واال برتن ہوتا ہے جو پاخانہ وغیرہ کے لیے پانی سے طہارت کرنے واال برتن ہوتا ہے۔ مغرب والے اس برتن اور اس کی افادیت سے آگاہ نہیں ہیں کیونکہ وہ طہارت کا کام ٹیشو پیپر سے چالتے ہیں۔ ویسے ٹیشو پیپر کا استعمال کھانا کھانے کے بعد ہاتھ صاف کرنے کے لیے بھی ہوتا ہے۔ اصطالحا ٹیشو پیپر کے معنی اس سے مختلف ہیں۔ کام نکل جانے کے بعد آنکھیں بدل لینا کے لیے یہ مرکب استعمال کیا جاتا ہے۔ استعمال شدہ ٹیشو پیپر معنویت کھو دیتا ہے۔ انسان کے لیے اس مرکب کا استعمال کرنا مناسب نہیں لگتا کیونکہ انسان کی دوبارہ سے
ضرورت پڑ سکتی ہے جبکہ ٹیشو پیپر دوبارہ سے استعمال میں نہیں الیا جا سکتا۔ دوبارہ سے ضرورت یا حاجت کے لیے نیا ٹیشو پیپر استعمال کرنا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس انسان دوبارہ سے کیا' بار بار استعمال میں الیا جا سکتا ہے .ٹیشو پیپر کا ہاتھ اور پیٹھ کی صفائی کے عالوہ کوئی قابل ذکراستعمال موجود نہیں۔ مساجد میں مٹی کے لوٹے استعمال ہوا کرتے تھے آج بھی زیادہ تر مٹی کے لوٹے معتبر سمجھے جاتے ہیں۔ کہیں کہیں پالسٹک کے لوٹے بھی دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ جماعت والے جب چلے پر جاتے ہیں پالسٹک کے لوٹوں کو ترجیع دیتے ہیں کیونکہ ان کے ٹوٹنے کا ڈر نہیں ہوتا۔ سفر میں لوٹا ٹوٹنا یا بہہ جانا نہوست ہی نہیں مکروہات میں بھی ہے۔ لوٹے کی سالمتی میں ہی کامیابی پوشیدہ ہوتی ہے۔ طہارت کا سارا دارومدار لوٹے پر ہوتا ہے۔ لوٹا برقرار ہے تو طہارت برقرار ہے۔ طہارت برقرار ہے تو ہی عبادت ممکن ہے۔ شہر کے گھروں میں کانسی سلور سٹیل چاندی پالسٹک وغیرہ دھاتوں کے لوٹے دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ ایوا نوں میں پالسٹک کے لوٹے استعمال ہوا کرتے تھے غالبا آج بھی پالسٹک کے لوٹے استعمال ہوتے ہیں۔ فیشنی دور ہے ٹیشو پیپر
بھی بڑی افادیت رکھتے ہیں۔ ٹیشو پیپر کو لوٹے کا مترادف سمجھا جاتا ہے۔ حقیت یہ ہے کہ ۔ ٹیشو پیپر لوٹے کا متبادل ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ اس میں پانی کا عمل دخل نہیں ہوتا دوسرا ٹیشو پیپر ایک سے زیادہ بار استعمال نہیں ہو سکتا۔ گویا گھیسیی اور ٹیشو پیپر برابر کا مرتبہ رکھتے ہیں۔ گھیسیی طہارت کے حوالہ سے زیادہ معتبر ہے۔ مٹی سے وضو تک کیا جا ستا ہے۔ وضو کی ضرورت نماز تک محدود ہے۔ ہہاں لوگ بسم هللا شریف تک درست نہیں پڑھ سکتے لہذا ٹیشو پیپر کا استعمال ایسا غلط نہیں معلوم ہوتا۔ اگر اس قماش کے لوگ گھیسی بھی کر لیں تو کوئی برائی نہیں۔ طہارت کے لیے لوٹا' گھیسی یا ٹیشو پیپر نہ بھی استعال میں الئیں تو بھی ان کی سر جاءے گی۔ یہ لوگ عوام کا ووٹ حاصل کرکے طہارتیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی پاکی پلیدی پر انگلی نہیں رکھی جا سکتی۔ لوٹے کے چھوٹا یا بڑا ہونے کے حوالہ سے بات ہوئی ہے لوٹا چھوٹا ہو یا بڑا' بظاہر ا س سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لوٹا اول تا آخر لوٹا ہے کہاں تک ساتھ دے گا۔ مٹی کا لوٹا ٹوٹ ہی جاتا ہے۔ لوٹےکے بڑا یا چھوٹا ہونے سے اچھا خاصا اثر پڑتا ہے۔ چھوٹے لوٹے میں پانی کم پڑتا ہے اس لیے طہارت کے لیے دو سے زیادہ لوٹوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اس کے
برعکس بڑا لوٹا بڑی حد تک ایک ہی کافی ہوتا ہے۔ رہ گئ ٹیشو پیپر یا گھیسی کی بات ٹیشو پیپر بڑے ایوانوں یا بڑے گھروں کے کام کی چیز ہوسکتی ہے لیکن دیہاتوں یا جھونپڑوں کے نہیں کر سکتے اور نہ ہی یہ ان کی تسلی کی affordمقیم اسے چیز ہو سکتی وہ گھیسی یا کچے روڑے کےاستعمال کو ترجیع میں رکھتے ہیں۔ لوٹے کا اصطالحی استعمال بڑے ایوانوں میں ہوا کرتا تھا اصطالحی لوٹا عوام کے متعلق چیز نہ تھی اور نہ ہی ایوانی لوٹوں پر کسی قسم کی بات کرنے کا حق تھا ۔ ان کی یہ اوقات بھی نہ تھی کہ وہ ایوانی لوٹوں کے متعلق کوئی بات اپنی ناپاک زبان پر الئیں۔ لوٹے ا اپنی اوقات اورافادیت کے حوالہ سے بڑی رکھتے ہیں۔ کمی کمین عوام جو دوچار بتی کھچ importance جھٹکوں کی مار نہیں ہیں' تقدس ماب لوٹوں پر اپنے حوالہ سے ایک شبد بھی منہ سے نہ نکالیں۔ ان کی اتنی جرات اور ہمت کہاں حاالنکہ لوٹوں کے بارے اں کی بقلم خود رائے موجود رہی ہے۔ عوام کو صرف اور صرف رائے دہی کا حق حاصل ہے۔ اگر مخالف فریق کے ڈبے میں ووٹ چال جاتا ہے تو رائے دہی کا حق' داھندلی کے لقب سے ملقوب ہوتا ہے۔
میں اصل نقطے کی بات عرض کرنا بھول گیا ہوں لوٹے کی ہیت ترکیبی ٹونٹی تک محدود نہیں پیندے کا اس میں بنیادی رول ہوتا ہے۔ مٹی کے بعض لوٹے بال پیندے کے بھی رہے ہیں۔ اس قسم کے لوٹوں کے لیے پیالہ نما جگہ بنا دی جاتی تھی لیکن پیندے وا لے لوٹے پیالے کی سعادت سے محروم رہتے تھے۔ پالسٹک کے لوٹے باپیندا ہوتے ہیں ہاں زیادہ استعمال کے باعث ان کا پیندا ٹوٹ بھی جاتا ہے لیکن ٹوٹ پھوٹ کے باوجود پیندے کا نام و نشان باقی رہتا ہے۔ انھیں استعمال کی کسی بھی سطع پر بے پیندا لوٹا قرار نہیں دیاجا سکتا۔ استعمال کے سبب نیچے سے کتنا بھی ٹوٹ جائے پیندے کا نشان ضرور باقی رہ جاتا ہے۔ معمولی نشان بھی اسے باپیندا قراردینے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ سیانے مولوی اپنا طہارت خانہ الگ سے رکھتے ہیں لہذا ان کا لوٹا بھی اوروں سے الگ تر ہوتا ہے۔ اس طر ح مولوی صاحب کا لوٹا' مقدس لوٹا ہوتا ہے۔ دفاتر میں عملے کے طہارت خانے عام استعمال میں رہتے ہیں اس لیے وہاں کے لوٹے کسی خاص دفتری کے لیے مخصوص نہیں ہوتے ہاں البتہ افسروں کے طہارت کدے ان کے دفتر کے اندر ہی ہوتے ہیں۔ ان طہارت کدوں کے لوٹے بڑی معنویت کے حامل ہوتے ہیں۔ بعض افسر ٹیشو پیپر استعمال میں التے ہیں' وہاں لوٹے نہیں رکھے جاتے
۔ کچھ افسرز کے طہارت کدوں میں دونوں چیزیں موجود ہوتی ہیں۔ موقع کی مناسبت سے لوٹے یا ٹیشو پیپر کا استعمال کرتے ہیں تاہم ان کے طہارت کدوں کی آن بان اور شان ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ حضرت پیر صاحبان کے واش روم زیر بحث نہیں لئےجا سکتے کیونکہ حضرت پیر صاحبان نیک پاک اور عزت کی جگہ پر ہوتے ہیں۔ یہ اپنی خانقاہ میں ہوں یا کسی ایوان کی زینت بڑھا رہے ہوں' ان کے لوٹے دوہرے کام کے ہوتے ہیں .نہ گھومیں تو چاند گھوم جاءں تو زنجیر وٹ پر رہتی ہے۔ بہرطور طہارتی اور پرچی نکالنے والے لوٹے الگ ہوتے ہیں اس لیے ان کے حوالہ سے بات کرنے پر پاپ لگتا ہے۔ ایوانوں میں تشریف رکھنے والے حضرت پیر صاحبان سیاسی کھیل کے لیے پیندے اور بے پیندے لوٹے استعمال میں التے رہتے ہیں اور یہ ان کا پروفیشنل حق بھی ہوتا ہے لہذا کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ حضرت پیر صاحبان کے لوٹوں کی جانب میلی نظر سے بھی دیکھنے کی گستاخی کرے۔ اس قسم کے لوگوں کی زمین پر ٹہوئی نہیں ہوتی۔ کوئ لوٹا نواز ہک پر ہتھ مار کر نہیں کہہ سکتا کہ لوٹا زندگی کے کسی موڑ پر اپنی مرضی سےاوور فلو ہونے کی
گستاخی کرتا ہے۔ یہ لوٹے دار کی غلطی کوتاہی بے نیازی یا بے دھیانی کے سبب اوور فلو ہوتا ہے۔ چھوٹے لوٹے میں بڑے لوٹے کے برابر پانی ڈالو گے تو ہی بات بگڑے گی۔ اسی طرح بڑے لوٹے میں چھوٹے لوٹے کا پانی طہارتی امور سرانجام نہیں دے سکتا۔ لوٹا دار کا فرض ہے کہ وہ تناسب کو ہاتھ سے ناجانے دے۔ استاد غالب بال کا لوٹا شناس تھا .تبھی اس نے کہا تھا دیتے ہیں بادہ ظرف قدح خوار دیکھ کر اماں حوا سے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ آدم کی بچی ہوئ مٹی سے بنائی گئی تھیں۔ میں اس بات کو نہیں مانتا تاہم یہ ایک میتھ ضرور ہے۔ ایک عام آدمی کا خیال ہے کہ ہمارے ہاں کے لوٹے استاد غالب کے کسی نہایت حرامی لوٹے کی بچی ہوئی مٹی سے وجود پذیر ہوئے ہیں۔ میں اس عقیدے پر یقین نہیں رکھتا تاہم یہ ایک میتھ ضرور ہے۔ جگہ' قانون' لوگ اورحکومت کسی بھی ریاست کے وجود کے لیے ضروری عناصر ہوتے ہیں۔ ان کے بغیر ریاست وجود میں نہیں آ سکتی۔ ان میں سے ایک عنصر بھی شارٹ ہو تو ریاست نہیں بنتی۔ حکومتی ایوانوں میں لوٹے نہ ہوں تو معزز ممبران لبڑی پنٹوں شلواروں کے ساتھ نشتوں پر بیٹھینگے ' سوسائٹی میں پھیریں گے اس سے نا صرف حسن کو گریہن
لگے گا بلکہ بدبو بھی پھیلے گی۔ لبڑی پنٹوں شلواروں والے ممبران کی عزت کون کرے گا۔ گریب عوام اور ان میں فرق ہی کیا رہ جائے گا۔ کھوتا گھوڑا ایک برابر ہو جائیں گے لہذا لوٹوں کی خرید و فروخت کا کام' اپنی ضرورت اور افادیت کے حوالہ سےپہال سوال الزمی کی حیثیت رکھتا ہے۔ لوٹوں کی تجارت پر کسی بھی سطع پر کبیدہ خاطر ہونا سراسر نادانی کے مترادف ہے۔ ریاست کے ضروری عنصر یعنی حکومت کے ہونے کے لیے لوٹوں کے کاروبار پر ناک منہ اور بھووں کو کسی قسم کی تکلیف دینا کھلی ریاست دشمنی ہے۔ اس کاروبار پر ناک منہ اور بھویں اوپر نیچے کرنے والے حضرات غدار ہیں اور غدار عناصر کا کیفرکردار تک پہنچنا بہت ضروری ہوتا ہے اورانھیں سزا دینے کی حمایت کرنا حکومت دوستی کے مترادف ہے۔
چور مچائے شور
بچوں سے ناروا سلوک کرنے واال یا انہیں زخمی کرنے واال یا انہیں قتل کرنے واال زمین کی بدترین لعنت ہے۔ اہل دل اور اہل اوالد کو ان کی مذمت کرنی چاہیے جبکہ اہل جاہ کو ان
پر پکے پیڈے ہاتھوں سے گرفت کرنی چاہیے۔ ماللہ یوسف ذئی پر قاتالنہ حملہ سخت تعزیر کا تقاضا کرتا ہے۔ اس عمر کے بچے کیا اچھا اور کیا برا ہے کیا کہنا اور کیا نہیں کہنا‘ سے آگاہ نہیں ہوتے۔ اگر وہ کچھ غلط بھی کہہ جاتے ہیں اسے اہمیت دینے یا انتہائی ردعمل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہو سکتا ہے اس نے سنا سنایا کہہ دیا ہو یا ایسا کہنے کے لیے کسی نے پٹی پڑھائ گئی ہو۔ اگر اس نے دانستہ کہا ہو یا کیا ہو تو یہ خوشی کی بات ہے کہ اس عمر کے بچے رائے قائم کرنے کے قابل ہو گئے ہیں۔ رائے غلط بھی ہو سکتی ہے اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ان کی جان لینے کی پلید حرکت کی جئے۔ دنیا کے تمام ممالک کے دساتیر یو این او کا چارٹر بچوں کے لیے الگ سے دفعات رکھتا ہے۔ پاکستان کا آئین بھی اس حوالہ سے خاموش نہیں۔ سماجی اخالقیات بچوں کے لیے انتہائی نرم اور مالئم گوشے کی حامل رہی ہیں۔ مذاہب بھی اس حوالہ سے خاموش نہیں ہیں۔ خود آپ کریم بچوں سے بڑی محبت اور شفقت فرماتے تھے۔ تقسیم میں آغاز بچوں سے ہوتا۔ آپ کریم تو جانوروں اور پرندوں کے بچوں کے لیے بڑا ہی شفقت آمیز رویہ رکھتے تھے۔ اس حوالہ سے آپ کریم کے احکامات احادیث کی کتب میں موجود ہیں۔
بڑے فخر اور خوشی کی بات ہے کہ صدر پاکستان نے اس بچی کو اپنی بیٹی قراردیا ہے اور معالجے کا خرچہ اپنے سر پر لیا ہے۔ ماللہ یوسف زئی پر جس سفاک نے قاتالنہ کیا اس کو سات بار پھانسی کا حکم جاری ہونا چاہیے۔ شاید تب بھی اس کی سفاکی کا ازلہ نہ ہو سکے۔ ان کے اس بیان کی جتنی قدر کی جائے کم ہے۔ اور لیڈروں نے بھی بڑھ چڑھ کر بیان دیے ہیں۔ وہ سب اس قوم کی بچی کے حوالہ سے عزت مآب ہیں۔ اس سے کھلتا ہے ہمارے لیڈر بڑے منصف اور بڑے دل گردے والے ہیں۔ بچوں کے لیے انتہائی نرم اور مالئم گوشہ رکھتے۔ وہ بچوں کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ قوم کو ایسے لیڈروں کی قدر کرنی چاہیے اور ان کے پاؤں دھو دھو کر پینے کی ضرورت ہے اور یہ فعل لیڈر شناسی کے مترادف ہو گا۔ ہیروز کی عزت اور احترام کرنا قوم کی اخالقی سماجی اور سیاسی ضرورت ہے۔ ایسے لوگ کہاں ملتے ہیں۔ شاید ان کے لیے کہا گیا ہے ڈھونڈو گے ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم میرے خیال میں فیصلہ ہو گیا ہے اور اب کسی الیکشن
ولیکشن کی ضرورت ہی نہیں۔ تاحیات اسی قیادت کو برقرار رہنا چاہیے۔ ماللہ راقم کی بھی بیٹی ہے۔ کاش راقم آسودہ حال ہوتا اور اس کے قدموں میں دولت کے ڈھیر لگا دیتا تاہم اس پر قاتالنہ حملہ کرنے والے کو عبرت ناک سزا دی جائے۔ بچوں پر جو ظلم ڈھاتا ہے اسے کسی بھی صورت معاف نہ کیا جائے بلکہ قبر تک پیچھا کیا جا چاہیے۔ آج جنرل اسلم بیگ کا یہ بیان پڑھنے کومال کہ ماللہ پر حملہ کرنے والوں کو امریکہ کی مدد حاصل تھی۔ یہ بات کدھر کو جا رہی ہے۔ جرنل اسلم بیگ بڑے ذمہ دار اور باریک نظر کے مالک ہیں۔ ان کی بات کو کسی بھی حوالہ سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ گویا خود ہی کاروائی ڈال کر پکڑو پکڑو جانے نہ پائے۔ اس کی ساری ہمدردیاں ماللہ سے جڑ گئی ہیں۔ کیوں‘ آخر کیوں۔ ڈراؤن حملوں کے حوالہ سے شہید ہونے والے بچوں کے معاملہ میں اسے کیوں سانپ سونگھ گیا ہے۔
ان کے لیے اس کے یا کسی اور کے منہ سے دکھ کا رسمی یا عالمتی ایک لفظ تک نہیں نکال۔ کیا وہ انسان کے بچے نہیں تھے۔ لوگ گمان کر رہے ہیں کہ خود سے قرار دیے جانے والے شدت پسندوں کے خالف عوام میں نفرت پیدا کرنے اور مزید حملوں کے لیے جواز بنانے کے لیے یہ کھیل رچایا گیا ہے۔ اس امر کی تصدیق میں قاضی حسین احمد اور منور حسن کا بیان موجود ہے۔ منور حسن اور قاضی حسین احمد کے مطابق ماللہ حملہ شمالی وزیرستان پر حملے کا جواز ہے۔ یہ بیان کمزور نہیں اس میں وزن لگتا ہے۔ گویا چور مچائے شور۔ اگر مرزا اسلم بیگ کا بیان درست ہے تو عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ ذمہ دار کو سزا دے اور فراڈ کرنے کے حوالہ سے بھی تادیبی کاروائ کرے۔ میرے خیال میں اسلم بیگ کے بیان کی یہی تشریح بنتی ہے تاہم تشریح میں کمی بیشی کی ہمیشہ گنجایش رہتی ہے۔ موالنا فضل الرحمن نے ماللہ پر حملے کو غیر اسالمی قرار دیا ہے۔ وہ اسالم کے متعلق زیادہ جانتے ہیں تاہم اس سے
یہ طے ہو جاتا ہے کہ یہ فعل بہت ہی برا ہے۔ اس فعل کا سرانجام دینے واال مجرم ہی نہیں گنہگار بھی ہے لہذا وہ دوہری سزا کا مستحق ہے۔ عدلیہ مجرم کو الگ سے سزا دے اور اسالم میں جو سزا اس گنہگار کی بنتی ہے وہ اس گنہگار کو بہرصورت ملنی چاہیے۔ اگر حملہ کرنے واال ہاتھ نہیں لگتا تو دونوں ادارے اس حوالہ سے سزا سنا دیں۔ جب کبھی مجرم اور گنہگار ہاتھ لگ گیا عمل درامد بھی ہو جانے گا۔ موالنا موصوف کے بیان کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ ڈراؤن حملوں میں ہالک ہونے والے بچوں کے متعلق شور کیوں نہیں مچایا جا رہا۔ بات میں انتہا درجے کی سچائ اور معقولیت ہے۔ سوچنے کی بات ہے ماللہ پر حملے کے لیے پوری دنیا چیخ اٹھی ہے۔ دوسرے بچے بھی‘ بچے ہی تھے کسی کی رگ ہمدردی پھڑکی نہیں۔ دوسرا ہمارے سارے بچے مر جائیں اس کی صحت پر کیا اثر ہو سکتا ہے۔ اس بچی کے لیے جعلی ہی سہی تڑپا پھڑکا ہے دال میں ضرور کچھ کاال ہے۔ اس ذیل میں مرزا اسلم بیگ کا بیان نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بالجرم شہید ہونے والے بچے بھی اسی ملک اور اسی قوم کے ہیں۔ انہیں کیوں کوئ اپنے بچے قرار نہیں دے رہا اور ان کا خرچہ اٹھاتے ان کے دل اور پیٹ جو ایک دوسرے کا ساتھی ٹھہر گیے ہیں‘ میں کیوں کہاؤں مہاؤں ہو رہا ہے۔ اس دوہرے پیمانے کی
بہرصورت وضاحت ہونی چاہیے۔ بچوں کی ہالکت پر بڑے مضبوط اعصاب رکھنے والوں کا پتہ پانی ہو جاتا ہے جنرل ایلن نیٹو کے اہل کاروں کی ہالکت پر پاگل ہوتا ہے حاالنکہ اس میں پاگل ہونے والی کوئ بات ہی نہیں۔ جو مارنے آئے گا مر بھی سکتا ہے۔ فوجی کا کام مرنا یا مارنا ہوتا ہے۔ اس میں پاگل ہونے والی بات ہی نہیں۔ بچے جرم اور گناہ سے آگاہ نہیں ہوتے۔ کھلونے ان کی پوری کائنات ہوتے ہیں۔ جنرل موصوف پر بچوں کی موت کا کوئ اثر ہی نہیں ہوا۔ اخبار میں کوئ خبر شاءع نہیں ہوئی کہ جنرل ایلن کو پاگل پنے کے دورے پڑنے لگے ہیں۔ ہو سکتا یہ خبر میری نظر سے نہ گزری ہو۔ ہماری نیک شریف اور صالح قیادت کو ان کی ہالکت کو صرف نظر نہیں کرنا چاہیے۔ بصورت دیگر یہ فرعونی رویہ انہیں ان کے غسل خانے کےد ٹب میں ڈبو دے گا۔ کوئی بچانے نہیں آئے گا کیونکہ اندر سے انہوں نے خود کنڈی لگائی ہو گی۔
بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟
کل لوڈ شیڈنگ پر گفتگو ہو رہی تھی کہ بجلی بچاؤ کی تراکیب کے حوالہ سے ریڈیو پر تقریر نما بات چیت سننے کا موقع مال۔ ایک شخص جو شریک گفتگو نہیں تھا اور ناہی ہمارا ساتھی تھا‘ ایک دم کھڑا ہو گیا۔ اس نے موٹی ساری گالی ‘چھکے کے انداز میں اچھالی اور بوال "بکواس کر رہا ہے۔ بجلی کی کوئی کمی نہیں " ہم سب نے بڑی حیرت سےسر گھما کر اس کی جانب دیکھا۔ استاد جی کو اس کا طرز تکلم پسند نہ آیا۔ انھوں نے ‘بڑے ہی کھردارے انداز میں پوچھا بھائی صاحب یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ بجلی کی " کمی نہیں ہے۔ ملک میں تو بحران چل رہا ہے؟ اس نے بڑے زور کا قہقہ داغا جیسے وہ احمقوں سے مخاطب ہو۔ استاد جی دوبارہ سے بولے بھئ یہ تو بتاؤ کہ کس طرح کمی نہیں ہے اور بجلی کہاں " "!جا رہی ہے؟ لباس اور بات کرنے کے حوالہ سے مزدور پیشہ لگ رہا تھا لیکن اس کے کسی حوالے کو رد کرنے کی ہم میں سے
کسی کو جرات نہ ہوئی۔ اس کے کچھہ حوالے درج کر رہا ہوں شاید آپ کے پاس کوئی جواز موجود ہو۔ آپ کے کسی بھی ٹھوس حوالے سے حکومت دوستی کا ثبوت دیا جا سکتا ہے۔ اس نے کہا سب سے بڑے چور خود بجلی والے ہیں۔ وہ خدمت کے عوض تنخواہ وصول کرتے ہیں تو پھر کس کھاتے میں مفت بجلی استعمال کرتے ہیں۔ بڑے افسروں کا ذکر ہی کیا وہ ہر اصول قانون اور ضابطے سے بالتر ہیں۔ بجلی والوں کا ایک چوکیدار مان نہیں۔ خود تو مفت میں بجلی استعمال کرتا ہی ہے اس کےعزیزدوست رشتہ دار اس مفت برابری سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ انھوں نے اپنے اردگرد کے لوگوں کو بجلی دے رکھی ہے اور ان سے ماہانہ وصولتے ہیں۔ کوئی پوچھنے واال نہیں۔ پوچھنے والے تو ان سے بھی بیس قدم آگے نکلے ہوئے ہیں۔ وہ ناصرف یہ سب کچھ کر تے ہیں بلکہ بڑے بڑے کارخانہ داروں سے بددیانتی کا ماہانہ وصول کرتے ہیں۔ بڑے لوگوں سے بھی ان کی اٹی سٹی رلی ہوئی ہوتی ہے۔ دیہاتوں میں کنڈیاں لگواتے ہیں اور اچھی خاصی آمدن کرتے ہیں۔ سرکاری افسر اور ان کے عملہ والے کہاؤں کپ ہیں۔ بھال
ان سے کون پوچھہ سکتا ہے دوسرا خود بجلی والے اس میں ملوث ہوتے ہیں۔ اس سہولت کے عوض بڑے بڑے ناجائز کام نکلواتے ہیں۔ سرکاری تقریبات پر بے تحاشہ بجلی کا استعمال ہوتا ہے۔ ممبران وزیر مشیر اور دوسرے سیاسی لوگ مفت بجلی کا استعمال کرکے ووٹ کھرے کرتے ہیں لیکن بجلی کا بوجھ ماڑے طبقے کی جیب پر پڑتا ہے۔ بڑے لوگوں کی شادی بیاہ کی تقریبات پر بجلی کا بر سرعام غیر قانونی استعمال ہوتا ہے۔ اس حقیقت سے سب آگاہ ہیں کوئی بولتا ہی نہیں۔ کوئی بولے بھی کیا؛ کون سنے گا‘ سننے والے تو یہ سب کر رہے ہوتے ہیں جو بولے کا لیتر کھائے گا۔ اسی فیصد تاجر حضرات کا بجلی والوں سے مک مکا ہوا ہوتا ہے۔ بڑے بڑے ہاؤسز جہاں سوائے گفتگہوں کے کچھ نہیں ہوتا بجلی ایک لمحہ کے لیے بند نہیں ہوتی اور جہاں کام ہوتا
ہے وہاں بجلی سارا دن لکن میٹی کھلتی ہے۔ مزدور تو گھر سے آگیا ہوتا ہے لیکن صبح تک بجلی کے جانے اور جانے کی جندریوں میں اثکاپھسا سسکتا رہتا ہے۔ صبح سویرے گھر سے نکال دیہاڑی دار جب شام کو خالی ہاتھ گھر لوٹتا ہے اس پر اور اس کے بچوں پر کیا گزرتی ہے اس کیفیت کا سیاسی مداری بجلی والے بڑے لوگ سرکاری افسر وغیرہ اور ان کے گماشتے کیا جانیں۔ باؤ جی یہ سب درست ہو جائے تو بجلی کی کمی کا روال ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکتا ہے لیکن بلی کے گلے میں کون گھنٹی باندھے
باس از آل ویز رائٹ
لوگوں کو بھوک پیاس سرکاری معالجہ گاہوں کے آلودہ فرش پر ایڑیاں رگڑتے اور اندھیروں میں ڈوبا دیکھتا ہوں تو بےچین ہو جاتا ہوں۔ ہوٹلوں پر بچوں کو برتن صاف کرتے اور چائے کا
ٹرے پکڑے‘ گئ رات کے ننھی اور معصوم آواز میں گرم آنڈے کا آوازہ مجھے سونے نہیں دیتا۔ انڈے فروش بچہ جا چکا ہوتا ہے لیکن اس کی آواز کی بازگشت میرے حواس پرقبضہ جمائے رکھتی ہے۔ دوسری طرف عیش وعشرت کی زندگی حیرت میں غرق کر دیتی ہے۔ اتنا بڑا تضاد؟ سوچتا ہوں یہ کوئ الگ سے مخلوق ہے۔ بدقسمتی سے انھیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔ وہ موج میلے اور عیش کی کو اپنا حق سمجتے ہیں۔ کسی سے چھین لینے اور اس کے حق پر ڈاکے کو خوشحال زندگی کا پہال اور آخری حق سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہی زندگی اور زندگی کا مقصد بھی ہے اور اس کے بغیر زندگی‘ زندگی کہالنے کی مستحق نہیں۔ میری بیگم گلفشانی فرماتی ہے اور اس دہن تقدس مآب کے منہ سے پھر کرکے یہ جملہ نکلتا ہے تمہیں اوروں کی تو فکر رہتی ہے اپنے گھر کے لیے کیا " "کیا ہے۔ میں نے پوری دیانت داری سے محنت کی ہے۔ مجھے ہمیشہ ان لوگوں کی فکر رہی ہے۔ وہ ایمانداری اور دیانت داری کو منہ زبانی کی بات قرار دیتی ہے۔ اس کے نزدیک نماز روزہ
حج وغیرہ ہی ایمان اور دیانت ہیں اور ان ہی کے کے حوالہ سے شخص کی پہچان ہوتی ہے جبکہ میرا موقف یہ ہے کہ نماز روزہ حج وغیرہ اسالم نہیں بلکہ اسالم میں ہیں۔ وہ یہ مانتی ہی نہیں وہ کیا کوئی بھی نہیں مانتا۔ میں تاریخ کا طالب علم بھی رہا ہوں اور میں نے تاریخ کے ہر پنے کا غیر جانبداری سے مطالعہ کیا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں ٧۔ تخت اور اقتدار کو حرف آخر کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ ٦۔ تخت اور اقتدار کو جو چیلنج کرتا ہے کتے کی موت مرتا ہے۔ ٣۔ آئین اور قانون تخت اور اقتدار کو تحفظ دینے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ ٤۔ ملک کے ادارے تخت اور اقتدار کے لیے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔ ٢۔ عوام تخت و تاج کے لیے کماتے ہیں اور یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ شاہ کو کسی قسم کی تھوڑ نہ آنے دیں۔ تھوڑ آنے کی صورت میں شاہ کا آئینی حق ہے کہ وہ زبردستی ان کے منہ کا نوالہ چھین لے۔ ٢۔ حاکم کے منہ سے نکلی پہلے حکم پھر اصول پھر آءین اور اس کے بعد قانون کے درجے پر فائز ہوتی رہی ہے۔
یہ ضرب المثل سنے کو عام ملتی ہے۔ باس از آلویز رائٹ۔ یہ صرف زبانی کالمی کی بات نہیں چھوٹے بڑے تمام دفاتر کا نظام اس اصول کے تحت چلتا آیا ہے اور چل رہا ہے۔ اسی طرح لفظ ٹی سی بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ باس کے کہے پر انگلی رکھ کر تو دیکھیے بستر کے نیچے سے رسی نہیں نکلے گی۔ خفیہ رپورٹ تو اسی نے لکھنی ہوتی ہے۔ یس سر ڈی میرٹ کو میرٹ میں بدل دیتا ہے۔ انکار اور تنقید کے نتیجہ میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ پسلیاں چاباڑیاں اور ٹانگیں ٹوٹ سکتی ہیں۔ جان جا سکتی ہے۔ اشخاص اور الشوں کی بازیابی قاضی سے بھی مشکل ہو جاتی ہے۔ تاریخ ظلم وستم توڑنے والے حاکموں کی لکھی جاتی ہے۔ مظلوم کا اتہ پتہ نہیں ملتا۔ سب سے زیادہ عالقہ فتح کرنے والے کو عظیم حاکم قرار دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی اس کے کالے کرتوتوں پر سوالیہ ڈالتا ہے تو اس سے جینے کا حق چھین لیا جاتا کہ دیکھو جی اتنے عظیم حاکم پر انگلی رکھ کر کفر کر دیا گیا ہے۔ گویا انسان کو‘ انسان جو غلطی بھی کرتا ہے رہنے نہیں دیا جاتا۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ہر حاکم نبی سے دوچار انچ ہی نیچے رہا ہو گا۔ لوگ بےچارے کیوں تاریخ کو دیکھتے پھریں۔ وہ مورکھ اور اس کے درس کاروں ہی کو حرف آخر کا
درجہ دیتے ہیں۔ میں نے انٹرنٹ پر دیکھا چالیس ہزار مسلمانوں کی ہڈیوں سے گرجا گھر تعمیر کیا گیا۔ ہر کوئی معاملے کو مسلم یا عیسائ عینک سے دیکھے گا۔ اول اول میں نے بھی اسے مسلمان کی عینک سے دیکھا۔ میں ساری رات سو نہیں سکا۔ صبح پانچ بجے میری نظر عصر حاضر کے احوال پر پڑی۔ امریکہ کو اسامہ درکار تھا‘ میں نہیں جانتا اس کا کیا جرم تھا میں صرف اتنا جانتا ہوں اس پر گرفت کے لیے بچوں بوڑھوں بیماروں عورتوں سے زندگی چھین لی گئ۔ ان بےچاروں کوعلم تک نہ تھا کہ ان سے زندگی کیوں چھینی جا رہی ہے۔ جس کا باپ بیٹا بھائ ماں بالجرم مار دی گئی وہ خاموش بیٹھے گا؟ اب اس کی طرف سے ردعمل آتا ہے تو یہ غیرفطری نہیں اور اسے دہشت گردی قرار دینا دہشت گردی یا شدت پسندی نہیں ہے؟ ،، اس قریب قریب نبی فاتح حاکم نےعسائیوں کی الشیں بچھائ ہوں گی جواب میں عسائیوں نے کمزور اورغیر فوجیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہو گا اور اسی سے چرچ تعمیر کیا گیا ہو گا۔ کسی سے زندگی چھین لینا انتہائی برا فعل ہے اور یہ فعل سرانجام دینے واال مردود‘ سو فیصد مردود ہے لیکن یہ فتوی صرف غیر مسلم لوگوں کے لیے تیار رکھنا بعید از انصاف ہے
لیکن یہ رویہ عام ہے۔ ہمارے اسالم دوست طبقےوہ وہ خوبیاں تالشتے ہیں جو اس حاکم کے اپنے خواب بھی نہیں رہا ہو گا۔ چونکہ وہ مسلمان حاکم تھا اس لیے اس میں کو برائی نہیں رہی ہو گی بلکہ اس سے برائ سرزد ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ جو برائی نکالے گا اسے پاپ لگے گا۔ ،، اگر یہ چرچ فوجیوں کی الشوں سے تعمیر ہوا ہوتا تو یہ الفاظ میرے قلم سے نہ نکلتے۔ مارنے اور عالقہ فتح کرنے گئے تھے‘ مارے گئے۔ جنگ میں یہ کوئی نئی چیز نہیں۔ ایسا ہوتا ہی رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔ عوام کا مرنا قابل افسوس ہے۔جنگیں شاہوں کے کھیل کا حصہ ہے۔ اگرچہ حاکم کوئی نہ کوئی نعرہ دے کر میدان کارزار میں اترتا ہے۔ فتع ہو گئی تو پاؤں بارہ شکست کی صورت میں بھگتا رعایا کو ہی پڑتا ہے جن کا شاہ کی اس عیاشی سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ یہ معاملہ اسالمی تاریخ تک ہی محدود نہیں غیرمسلم حاکم بھی ایسے ہی تھے۔ اسالمی مولوی کی طرح پنڈت پادری بھی اپنے لوگوں کے پاڑشے اتارتے رہے ہیں۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آتی ہم میں مسلمان کون ہیں۔ آپ تالش لیں وہابی دیو بندی بریلوی شعیہ وغیرہ وغیرہ مل جاءیں گے مسلمان نہیں ملیں گے۔ یہ ایک دوسرے کو مشرک اور کافر قرار دیتے آئے ہیں۔
،، تقسیم کی پالیسی انگریز نے دی تھی اور اس کی یہ پالیسی بڑی کامئابی سے چل رہی ہے۔ فورٹ ولیم کالج نے بڑی دیانت سے اس خطے کی زبان کو دو خطوں میں تقسیم کر دیا۔ فوج کے لیےرومن خط قرار پایا۔ اس طرح حضرت ہند بن حضرت حام بن حضرت نوح کی سنتان ایک دوسرے سے کوسوں دور چلی گئی۔ یہ کون سا اسالم ہے جس میں انسان' انسان سے دور چال جائے بلکہ ایک دوسرے کا جانی دشمن ہو جائے۔ اس مسکین قوم کے ساتھ شروع سے ڈرامے ہوتے آ رہے ہیں۔ عوام کو استعمال کیا جاتا رہا ہےاور ہر معاملہ عوام کی جھولی میں ڈاال گیا ہے۔ چند ووٹ حاصل کرنے واال عوامی نمائندہ ٹھرا ہے۔ انیس سو چھے میں ہونے والے اجالس میں کون لوگ تھے کوئ بتانے کی جرائت کرسکتا ہے؟ خط آئین قومی منشی شاہی توہین عدالت عدالتی سزا مخصوص کا احتجاج الگ الگ المناک کہانیاں ہیں۔ مورخ وہی لکھے گا جس کے دام ملیں گے۔ ان کے عظیم
کارناموں کی کہانیاں چلیں گی بالکل اسی طرح جس طرح خطبہ الہ آباد کو اہمیت دی جاتی ہے۔ کوئی یہ کہنے کی جرائت نہیں رکھتا کہ اس میں ہے کیا؟ سب راز ہے اور آج آتے کل کو راز رہے گا۔ اورنگ زیب‘ ٹوپیاں سینے واال عظیم بادشاہ ہی رہے گا۔ کاش کوئی رحمان بابا کا کالم یا اس عہد کے شعرا کا کالم پڑھ دیکھے سب کھل جائے گا۔ یہ بھی کھلے گا کہ زوال کا موڈھی یہ ٹوپیاں سینے واال درویش بادشاہ ہی تھا۔
قانون ضابطے اور نورا گیم
اشفاق کی کل برات جانا تھی کہ اس کی ہمشیرہ کا سسر چل بسا۔ اشفاق کو اس کی اس ناشایستہ حرکت پر بڑا غصہ آیا۔ جل کر بوال چاچے کو جیتے جی چھیتیاں رہی ہیں اب مرنے کے معاملہ میں بھی بڑا جلدباز ثابت ہوا ہے۔ اشفاق کا سٹپٹانا عمل
ناجائز نہیں لگتا لیکن ہونی کے کون سر آ سکتا ہے۔ ہونی ویدی ہے اور ویدی کا ویدان کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔ ہونے کو تو ہر حال میں ہونا ہی ہوتا ہے تاہم تحمل میانہ روی اور سوچ سمجھ سے کام لینا آتے کل کو آسودہ رکھتا ہے۔ ہما کے سسر نے جانے کتنے دن اس انتہائ اقدام کے لیے سوچا ہو گا۔ اشفاق کا معاملہ بھنگ ہوا اس سے ہما کے سسر کو کیا مطلب ہو سکتا تھا۔ ہر کوئ اپنی ترجیع کو اولیت دیتا ہے‘ دینی بھی چاہیے لیکن فریق ثانی کو تو پابند نہیں کیا جا سکتا۔ فریق ثانی اگر ماڑا ہے تو وہ مجبوری کے تحت خفیہ ہو سکتا ہے۔ اس میں سچا یا جھوٹا ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا۔ ہر کوئ سامنے سے وار کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔ یہ فطری سی بات ہے کہ دو متصادم فریق طاقت کے حوالہ سے ایک ہی کیلیبر کے نہیں ہو سکتے۔ ایک ہی کیلیبر کے ہونے کی صورت میں ان کے درمیان تصادم نہیں ہو گا۔ ان کا ہر اگال دن منگل ہو کا اور منگل ناغے کا دن ہوتا ہے۔ طاقت حق پر ہوتی ہے اور اسے اپنا اور اوروں کا غصہ ماڑے پر آتا ہے۔ آنا بھی چاہیے ماڑا ہوتا کس لیے ہے۔ دہشت گردی بال شبہ پوری انسانیت کے جسم پر ناسور کا
درجہ رکھتی ہے اور اس کا ہر حال میں ختم ہونا امن آسودگی اور سکون کے لیے ضروری ہے لیکن یہ طے کرنا ابھی باقی ہے کہ دہشت گردی ہے کیا اور امریکہ کس قسم کی دہشت گردی کے خالف پاکستان سے یمن تک لڑ رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ القائدہ دہشت گردی کے خالف لڑ رہا ہے اور وہ القائدہ کو نہیں چھوڑے گا۔ جعلی ادویات سے لوگ مرے ہیں اور مرتے رہتے ہیں یہ کاروبار دہشت گردی نہیں ہے؟ اس کے خالف کیا ہوا اور کیا ہو سکتا ہے‘ سب جانتے ہیں۔ جعلی سپرے خریدا گیا معاملہ کورٹ کچہری گیا‘ کیا ہوا۔۔۔۔۔ سب جانتے ہیں‘ کچھ بھی نہیں۔ ڈینگی نے تن مچائے رکھی‘ آتے موسم میں کیا گل کھل سکتا ہے کوئی پوشیدہ بات نہیں۔ مہامنشی‘ جیون دان منشی‘ اعلی شکشا منشی‘ منشی بلدیات وغیرہ کے خالف کیا ہوا‘ سب جانتے ہیں‘ کچھ بھی نہیں ہوا۔ اگر یہ داخلی کاروباری دہشت گردی ہے اور اس دہشت گردی سے خود پاکستان کو لڑنا ہے تو القائدہ کس حوالہ سے خارجی دہشت گردی ٹھرتی ہے۔ القائدہ جانے اور پاکستان جانے‘ یہ کس طرح امریکہ بہادر کی سردردی قرار پاتی ہے۔ اشفاق کے ساتھ ہونے والی دہشت گردی داخلی بھی ہے اور خارجی بھی۔ اگر طبی امداد باہم کرنے میں محکمہ جیون دان پھرتی دکھاتا اور غفلت سے کام نہ لیتا تو ہو سکتا ہے ہما کا
سسر چند روز اور جی لیتا۔ ہما کے سسر کی موت کا مدا خارجی دہشت گردی کے حوالہ سے امریکہ پر بھی نہیں ڈاال جا سکتا کیونکہ وہ صرف اور صرف القائدہ دہشت گردی کا ٹھکیدار ہے۔ تاہم بقول صدر آصف علی زرداری دنیا کا مستقبل جمہوریت میں ہے۔ ہما کے سسر کی موت کو ایک اکثریت تسلیم کر چکی ہے۔ اس حوالہ سے اسے داخلی یا القائدہ سے متعلق دہشت گردی نہیں فرض کیا جا سکتا۔ اس نہج کی دہشت گردی کے خالف کسی قسم کا ایکشن لینا امریکہ کے کھاتے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ یہ سراسر جمہوریت کی تو ہین ہو گی جو اس جمہوری دور میں بہت بڑے جرم کے مترادف ہے۔ غداری کا فتوی بھی صادر ہو سکتا ہے۔ مسجد کی تعمیر کا مہشورہ ہوا۔ گاؤں کے لوگ جمع ہوئے جن میں نورا بھی شامل تھا۔ ہر کسی نے حب توفیق اپنا حصہ لکھوایا۔ ابھی کافی لوگ موجود تھے لکھت پڑھت پر وقت لگ جاتا۔ نورا دھڑلے سے اٹھا اور بوال لکھو میرا پچاس ہزار۔ اس کی اس فراخ دلی پر بڑی جئے جئے کار ہوئی۔ ہر کوئی چوہدری نور دمحم صاحب کو جھک جھک کر سالم و پرنام کر رہا تھا۔ مزید اگراہی کی ضرورت ہی نہ تھی لہذا مجلس برخواست ہو گئ۔ اگلی صبح مولوی صاحب چند لوگوں کے ساتھ چوہدری نور دمحم صاحب کے در دولت پر جا پہنچے۔ چوہدری نور دمحم صاحب بڑی
شان سے باہر نکلے۔ مولوی صاحب نے پچاس ہزار رپوؤں کا تقاضا کیا۔ چوہدری نور دمحم صاحب بڑی معصومیت سے بولے "کون سے پچاس ہزار روپیے؟" "وہی جو آپ نے کل لکھوائے تھے۔" وہ دینے بھی تھے؟“ چوہدری نور دمحم صاحب نے بڑی " حیرت سے پوچھا "جی ہاں" "ارے میں تو سمجھا تھا کہ صرف لکھوانے ہیں۔" اس مثال کے حوالہ سے بھی ہم کسی پر دہشت گردی کا الزام نہیں رکھ سکتے کہ کرنا اور کہنا قطعی دو الگ چیزیں ہیں۔ کاروباری دہشت گردی کے لیے سرکاری پروانے جاری ہوتے ہیں اس لیے جعلی ادویات خوری سے لوگ مرے ہیں تو اس
میں کاروباری دہشت گردی کس طرح ثابت ہوتی ہے۔ ایک نمبر کاروبار میں بچت ہی کیا ہوتی ہے۔ لوگ مالوٹ آمیز غذا کھا کر تل تل مرتے ہیں۔ مرتے تو ہیں نا! یہاں فورا مر گئے۔ ایک دن مرنا تو ہے ہی‘ دو دن پہلے کیا دو دن بعد میں کیا۔ اپنی اصل میں بات تو ایک ہی ہے۔ ادویات الئسنس کے بغیر تو تیار نہیں ہوئی ہوں گی۔ موت ٹھوس اور اٹل حقیقت ہے لوگ ادویات سے نہ مرتے تواپنی آئ سے اناهلل ہو جاتے۔ اقتدار میں آنے سے پہلے وعدہ باز بہت کچھ کہتے آئے ہیں۔ اقتدار میں آکر انھوں نے عوام کے لیے کبھی کچھ کیا ہے۔ نہیں۔ ان کے نہ کرنے کے خالف کبھی کوئی ہے؟ نہیں‘ بالکل نہیں۔ تو اب کیوں شور قابل ریکارڈ روال پڑا ِ مچایا جا رہا۔ سرکاری معاملہ ہے۔ این آر او کے تحت اس مدے پر مٹی ڈالنا ہی جائز اور مناسب بات لگتی ہے۔ موالنا فضل الرحمن کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیر اعظم معامالت پر تجاوز مانگ تو لیتے ہیں‘عمل درامد نہیں کرتے۔ موالنا پرانے سیاسی اور مذہبی لیڈر ہو کر بھی اس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں آج تک کبھی ایسا ہوا ہے کہ کسی لیڈر کا کرنا اور کہنا مساوی رہا ہو ۔ یہ دو الگ سے امور ہیں لہذا انھیں الگ الگ خانوں میں رکھ کر سوچنا
اور زیر بحث النے کی ضرورت ہے اور کسی سطع پر آلودگی نہیں ہونی چاہیے ورنہ خرابی اور فساد کا دروازہ کھل جائے گا یا کسی مذہبی کے کہنے اور کرنے میں کسی بھی سطع پر توازن ملتا ہو۔ یہ بات بالکل ایسی ہی ہے کہ کوئ آدمی بستر پر سو بھی رہا ہو اور دفتر میں کام بھی کر رہا ہو۔ کہنے اور کرنے کو دو الگ حتیتیں دی جائیں گی تو خرابی جگہ نہ پا سکے گی۔ کہہ کر نہ کرنا ہی تو نورا گیم ہے۔ اگر نورا خاموش رہتا تو جئے جئےکار کیسے ہوتی اور وہ نورا سے چوہدری نور دمحم !کیسے اور کن بنیادوں پر کہالتا؟ ان حقائق کے تناظر میں اشفاق کو بھی این آر او قانون اور سرکاری ضابطے کو بھولنا نہیں چاہیے اور اپنی بہن کے سسر کی موت پر مٹی ڈالنی چاہیے۔
جرم کو قانونی حیثیت دینا ناانصافی نہیں
پشاور ہائی کورٹ کا یہ کہنا کہ اگر ہم سچ بولنے لگیں تو ہمارے اسی فیصد مسائل حل ہو جاہیں گے‘ پشاور ہائی کورٹ کے یہ الفاظ آب زم زم سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ سچ سے بڑی کوئی حقیقت نہیں اور ناہی اس سے بڑھ کر کوئ طاقت ہے۔ سچ ظلم زیادتی ناانصافی بلکہ ہر خرابی کی راہ میں مونگے کی چٹان ہے۔ یہ کمزور کو کمزور نہیں رہنے دیتا۔ یہ بات ہر شخص جانتا ہے‘ اس کے باوجود ہر شخص اس سے دور بھاگتا ہے۔ شاید ہی کوئ ہو گا جو اس کی برکات کا قائل نہ ہو گا یا اس کی طاقت سے انکار کرتا ہو گا بلکہ اپنے سوا دوسروں کو درس نہ دیتا ہو گا۔ سچ کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کھ اسے الکھ پردوں میں رکھو‘ سامنے آنے سے باز نہیں رہتا۔ اس طرح بنا بنایا کھیل بگاڑ کر رکھ دیتا ہے۔ سچ یقینا پیار کرنے کے الئق چیز ہے۔ لوگ اس سے بےحد پیار کرتے ہیں۔ اسے بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور سچ سننا انھیں خوش آتا ہے۔ جو بھی ان کے سامنے جھوٹ اور غلط بیانی سے کام لیتا ہے اسے کڑی سے کڑی سزا دینے پر اتر آتے ہیں۔ جھوٹ اور غلط بیانی سے کام لینے واال بچ کر جائے گا کہاں۔ ان کی نگاہ بال کی کھال اتار لیتی ہے۔ وہ اس کو محدود نہیں رکھتے تاہم اقتصادیات سے جڑا جھوٹ انھیں موت کے گھاٹ اتار دینے کے مترادف ہوتا ہے۔ کسی اور کا دینا ایک
روپیے کا ہو یا الکھ روپیے کا‘ ان کےلیے اس میں ایک اکنی کی ہیر پھیر بھی الکھ کی حیثیت رکھتی ہے۔ دینے کا معاملہ اس پیمانے سے قطعی برعکس ہوتا ہے۔ اس ضمن میں سچ انھیں زہر لگتا ہے۔ ان کے سماجی معامالت بھی سچ کے پکے دشمن ہوتے ہیں۔ سماجی معاملہ ہو یا اقتصادی‘ جھوٹ اور منافقت کی جئے جئے کار رہتی ہے۔ منافقت‘ جھوٹ کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ امیدوار ممبر جب کسی کے پاس آتا ہے تو منہ پر جھوٹ بولتا ہے کہ میں شروع سے آپ کا خدمت گار رہا ہوں ۔ جب کہ عید کے روز بھی اس سے مسجد میں مالقات نہیں ہوئی ہوتی۔ اگلی صفوں میں بیٹھنے والوں کی نگاہ میں پیچھے بیٹھے لوگ روڑا کوڑا ہوتے ہیں۔ پرانے اور بوسیدہ لباس والے دکھائی کب دیتے ہیں۔ یہ فطری سی بات ہے کہ آسمان اور زمین کا ملن ممکن ہی نہیں۔ یہ اس لیے کہا ہے کہ الیکشن امراء کا کھیل ہو کر رہ گیا ہے۔ گریب تو موری ممبری کا الیکشن تک نہیں لڑ سکتا۔ ہاں گریب رات کو امیدوار ممبر کے ڈیرے سے پیٹ پوجا کے اللچ میں لوگوں سےلڑ جھگڑ سکتا ہے۔ امیدوارممبر جس طرح اپنے خادم ہونے کا جھوٹ بولتا ہے ووٹر بھی نہلے پر دہال مارتا ہے۔ وہ جوابا کہتا ہے کہ جناب
ہمیشہ آپ کا ساتھ دتیے آئے ہیں اب بھال آپ کو کس طر ح چھوڑیں گے حاالنکہ اس نے کبھی بھی اس کا ساتھ نہیں دیا ہوتا۔ عملی طور پر اس کا سخت مخالف رہا ہوتا ہے یا جھڑنے والے کے ڈبے میں اس کے ووٹ نے بسیرا کیا ہوتا ہے۔ کوتوالی کی بات چھوڑیں وہاں تو بڑے بڑےعین غین اور شریف باٹی ٹیک جاتے ہیں۔ وہ وہاں‘ وہ وہ جرم تسلیم کر لیتے ہیں جن کے کرنے کی خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے۔ میں یہاں عدالت کے حوالہ سے بات کرنے جا رہا ہوں۔ عدالت میں چور کو بھی وکیل کرنے کا پورا پورا حق ہے۔ یہ اس کا اصولی حق ہوتا ہے۔ چور کا وکیل وہ وہ دالءل پیش کرتا ہے کہ چور کو یقین ہونے لگتا ہے کہ وہ چور نہیں ہے۔ اس نے چوری کی ہی نہیں بلکہ اس پر چوری کا جھوٹا الزام لگایا جا رہا ہے جب کہ وکیل کو پورا پورا یقین ہوتا ہے کہ چوری اس کے موکل نے کی ہے۔ اس کے باوجود وہ چور کا مقدمہ لڑتا ہے اور اسےبچانے کی سر توڑ کوشش کرتا ہے۔ یہ اس کا پیشہ ہے۔ کامیابی کی صورت میں وہ اچھا وکیل قرار پاتا ہے۔ ہارنے کی صورت میں کوئی چور اس کے قریب سے بھی گزرنے کی حماقت نہیں کرتا۔ اگر کوئی چور اس کے پاس نہیں آئے گا تو وہ بھوکا مر جائے گا۔ گویا علم اور داؤوپیچ رکھنے واال پیٹ سے سوچے گا تو سچ بولنے کی بھال ایک عام آدمی کس طرح حماقت کرے گا۔ پیٹ ہی
جھوٹی گواہی دینے پر مجبور کرتا ہے۔ پیٹ ہی سب سے بڑا سچ ٹھرتا ہے۔ کسی کا حق ڈوب رہا ہے‘ اس جانب نظر کیسے جا سکتی ہے۔ مضروب اپنے جوگا نہیں ہوتا وہ ہرے نیلے نوٹ کس طرح وکھا سکتا ہے۔ سچا ہو کر بھی وہ جھوٹوں کی صف میں کھڑا ہوتا ہے۔ ہمارے تمام مسائل کا حل یقینا سچ بولنے میں ہے لیکن خالی پیٹ درویش لوگ ہی سچ بول سکتے ہیں۔ یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ سچ بولنے والےجان سے گئے ہیں۔ پیٹ کے غالم روز اؤل سےعزت بچانے کے لیے سارا دن بےعزتی کرواتے ہیں۔ پیٹ یقینا تکنیکی اور شکمی مجبوری ہے۔ پیٹ کو کسی بھی سطع پر خانہ نمبر دو میں نہیں رکھا جا سکتا۔ روٹی کپڑا اور مکان یا پاکستان کو جنت نظیر بنا دینے کے وعدے تو ہوتے رہے ہیں۔ جنت نظیر بنانا تو بہت دور کی بات ہے پاکستان کو پاکستان تک نہیں بنایا جا سکا۔ پاکستان میں بجلی روٹی کا پہال اور آخری ذریعہ ہو کر رہ گئ ہے۔ وزیر برقیات نے بند نہ ہونے کا وعدہ کیا لیکن لوڈ شیڈنگ کے معموالت میں رائی بھر فرق نہیں آیا۔ مزدور گھر
سے تو مزدوری پر آ گیا ہوتا ہے لیکن بجلی نہ ہونے کے کارن فارغ بیٹھا ہوتا ہے۔ ماں دروازے پر آنکھیں رکھ کر بیٹھی ہوتی ہے کہ بیٹا آئے گا۔ مزدوری الئے گا تو ہی اس کی دوا آ سکے گی۔ بیوی کو چولہا گرم کرنے کی فکر ہوتی۔ چھوٹا بچہ دودھ آنے کی امید لگا کر بیٹھا ہوتا ہے لیکن بیٹا باپ خاوند خالی ھاتھ واپس آ جاتا۔ ان میں سے کسی کا قصور نہیں ہوتا۔ سب اپنی اپنی جگہ پر حق بجانب ہوتے ہیں۔ لیکن لوڈ شیڈنگ کے معموالت میں رائی بھر فرق نہیں آیا۔ مزدور گھر سے تو مزدوری پر آ گیا ہوتا ہے لیکن بجلی نہ ہونے کے کارن فارغ بیٹھا ہوتا ہے۔ ماں دروازے پر آنکھیں رکھ کر بیٹھی ہوتی ہے کہ بیٹا آئے گا۔ مزدوری الئے گا تو ہی اس کی دوا آ سکے گی۔ بیوی کو چولہا گرم کرنے کی فکر ہوتی۔ چھوٹا بچہ دودھ آنے کی امید لگا کر بیٹھا ہوتا ہے لیکن بیٹا باپ خاوند خالی ھاتھ واپس آ جاتا۔ ان میں سے کسی کا قصور نہیں ہوتا۔ سب اپنی اپنی جگہ پر حق بجانب ہوتے ہیں۔ وکیل اپنی جگہ پر ٹھیک ہے کہ چور کی وکالت نہیں کرے گا تو کھائے گا کہاں سے۔ بابو اپنی جگہ پر سچا ہے کہ حق ناحق کا عوضانہ نہیں وصولے گا تو مرغ اور مچھلی کا سامان کیسے اور کیوں کر ہو سکے گا۔ جب وعدے پورے نہیں ہونے‘
مظلوم کو ظالم ٹھرایا جانا ہے‘ انصاف دوہرا ہونا یا کروانا ہے‘ چور کو بری کروانا ہے تو جھوٹ کو قانونی حیثیت دے دی جائے‘ کم از کم منافقت سے تو خالصی مل جائے گی۔ اصلی آدمی دیکھنے کو مل جائے گا۔ آج اصلی آدمی کو دیکنھے کو آنکھیں ترس گئی ہیں۔ جنی کوئ غلط اقدام نہیں ہو گا۔ جس کو بےوسیلہ اوربے بابائی ہونے کی وجہ سے قتل کیتا کرایا مل جانا مل جانا ہے‘اس کی داد رسی الیعنی اور ہر طرح کی معنویت سے باہر کی چیز ہے۔ ایسے حاالت میں جرم کو قانونی حیثیت دینا ناانصافی نہیں‘ انسانی مساوات قائم کرنے کے کے مترادف ہے۔۔ اگر بعض کو جرم کی سزا سے باالتر قرار دینے کی سعی کرنا ہے تو اوروں کو یہ حق دینا کس اصول کے تحت غلط !ہے؟
پنجریانی اور گناہ گار آنکھوں کے خواب
ہمارے منہ جھوٹ کہنے اور کان جھوٹ سننے کے عادی ہو
گیے ہیں۔ یہاں جس سے پوچھو کہے گا مجھ سے قسم لے لو جو میں نے کبھی جھوٹ مارا ہو۔ ہمارے ہاں جھوٹ مارنے کا رواج نہیں رہا ہاں البتہ بندہ مارنا روٹین ورک ہو گیا ہے سچ کہنے اور سچ سننے میں مزا نہیں رہا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سچ سے کسی قسم کا البھ وابستہ نہیں رہا۔ سچ کے حصہ میں پولے رہے ہیں۔ بعض اوقات سر سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔ سچ سے پرہیزی سونے کےچمچہ سے بریانی نوش کرتے ہیں۔ جی سر‘ جی حضور‘ جی جناب‘ درست عالی جاہ کہنے میں کچھ خرچ نہیں آتا لیکن صلہ میں تمغے اور جاگیریں مقدر ٹھہرتی ہیں۔ سچ کے پلے ہے ہی کیا‘ دکھ اور تکلیف۔ گولی مارو ایسے سچ کو جو بھوک اور پیاس بھی نہ مٹا سکے‘ تن کو ڈھنگ کا کپڑا بھی میسر کرنے سے معذور ہو۔ کل ایک صاحب فرما رہے تھے بابا جی آپ کے قلم میں بال کی طاقت ہے لیکن آپ اس کا انتہائی گھٹیا استعمال کر رہے ہیں۔ میرے ہی منہ پر جھوٹ بول کر مجھے الو بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ میں کونسا عالمہ شبلی نعمانی ہوں جو میرے قلم میں بال کی طاقت ہے۔ وہ درحقیقت سمجھانا چاہتے تھے کسی پارٹی اور اس کے بڑوں کے بڑی فصاحت و بالغت کے حامل قصیدے کہوں تاکہ وہ اسے کیش کروا کے پیٹ بھر صاف ستھرا نوش جاان فرماءیں اور ہڈی میری جانب پھینک دیں۔ اگر
اعتراض کروں تو سرکا دیں۔ پھینکنے اور سرکانے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس میں شک نہیں میرے اڑے پھسے کام بن سکتے ہیں۔ جی حضوریہ ہونا ایسا معمولی اعزاز نہیں۔ میں ایسا کر نہیں سکتا کیونکہ میرے قلم میں بال کی طاقت ہے نہیں۔ بس کسی حد تک گزرا چل رہا ہے۔ میرے جواب پر حضرت نے فرمایا حضور یہ آپ کا قصور نہیں بابے بولتے ہی وکھی سے ہیں۔ بہرطور میں جوابا کیا کہہ سکتا تھا خاموش ہو گیا۔ میرے پاس کوئ دوسرا رستہ ہی نہ تھا۔ ان دنوں امیدواروں کے ڈیرے حاتم کدے بنے ہوءے ہیں۔ پیٹھ مروڑتے اور منہ بناتے ہوئے وہ ادھر کو چل دیے اور میں ان کے یہ دونوں اعضاء دیکھتا ہی رہ گیا۔ میں خاں صاحب نہیں ورنہ ان کی پھرکی کی طرح پھرتی پیٹھ کے بارے ضرور کچھ عرض کرتا۔ عین ممکن ہے اس نظارے سے بےخود ہو کر الٹے قدموں بڑے پیار اور چاہ سے واپس مڑنے کی گزارش کرتا۔ سوچتا ہوں یہ حاتمی پروگرام اس سے پہلے کہاں تھا۔ کیا یہ تاحیات جاری رہے گا یا گیارہ مئی کے بعد ٹھس ہو جائے گا۔ اگر چلتا رہا تو کمال ہو گا اگر ٹھپ ہو گیا تو کمال کی ٹانگ ہی نہیں کمال کی ہڈی پسلی سالمت نہیں رہے گی۔
ڈیڑھ کلو آٹا خرید کر گھر کی بھوک مٹانے والوں میں ایک شخص کی روٹیاں بچیں گی اور یہ بچت گھر کے کسی فرد کی آدھی بھوک کو سیری میں بدل دیں گی۔۔ بالشبہ چند روز کے سہی بہت بڑا انقالب ہو گا۔ دوسری جانب اس ایک فرد کی سیری اس کی کار گزاری بہتر کر سکے گی۔ ووٹ کا کیا ہے کسی ایک کو تو دینا ہی ہے۔ جس نے کھانے کو دیا اس سے زیادہ ووٹ کا کون حقدار ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد دونوں کسی کو کچھ نہیں دیں گے۔ اپنے اپنے کاموں میں جھٹ جائیں گے۔ یہ مزدوری میں اگر میسر آتی رہی اور وہ کیے گیے خرچے کو سو گنا بنانے میں۔ یہی کچھ ہوتا آیا ہے اور آتے وقتوں میں یہی کچھ ہونے کے اثار ہہں۔ جس معاملے کی بنیاد جھوٹ پر رکھی جائے وہ توڑ نہیں چڑھتا بلکہ اؤل تا آخر خرابیاں مقدر رہتی ہیں۔ ہو سکتا ہے شروع شروع میں کچھ فائدہ مل جائے لیکن آگے جا کر پریشانیاں کھڑی ہو جاتی ہیں۔ جھوٹ بولنے والے کرنے والے کو شاید ہلکا پھلکا نقصان ہوتا ہے۔ عمومی سوچ کے حوالہ سے عزت کو کسر لگتی ہے۔ اگر اس کو کسر سمجھا جاءے تو لوگ اہل دھن اور اہل جاہ کو جھک جھک کر سالم کیوں کرتے ہیں۔ ان کے منہ پر ان کی تعریف میں زمین آسمان کے قالبے کیوں
مالتے ہیں۔ رہ گئ دل میں برا بھال کہنے یا گالیاں نکالنے کی بات دل کو کون دیکھتا ہے۔ لوگ تمثال کو نہیں تجسیم کو دیکھتے ہیں۔۔ ہاں برا ہو ترقی کا ریکاڈنگ کی صورت میں خرابی کی راہ نکل آتی ہے۔ پیٹھ پیچھے برائی کرنے والوں کی بھی بازی مات رہتی ہے۔ سامنے اور پیٹھ پیچھے کے مزے ایک سے نہیں ہوتے۔ سامنے کا آؤٹ پٹ موت یا کم از کم لترول ضرورت رہتا ہے۔ پیٹھ پیچھے کے لیے مکرنے کا سیف وے بہرطور ہر سطع پر باقی رہتا ہے۔ گریب ان پڑھ بوالراور چھوٹی عمر کی لڑکی سے شادی کرنے کا آخر مزا چھکنا پڑتا ہے یہ ووٹ کے مانگت بھی اس لڑکی کے مماثل ہوتے ہیں اوپر سے انھیں خوبصورت ہونے کا زعم بھی ہوتا ہے۔ بھوکا دور کی نہیں سوچتا۔ باشعور ہوتے ہوئے بھی اس کی سوچ روٹی دا سوال اے جواب جیہدا روٹی اے‘ سے باہر نہیں آتی۔ تسلیم کی انتہا مالحظہ کریں ان دنوں امیدواروں کے ڈیروں پر مرغے والے چاول چل رہے ہیں اور اسے بریانی کا نام دیا جاتا ہے۔ بڑے افسوس کی بات ہے اس میں بکرے کی ایک بوٹی بھی نہیں ہوتی۔ کھالنے واال اسے بریانی کا نام دے یہ بات سمجھ میں آتی ہے لیکن کھانے واال اسے بریانی تسلیم کرتا ہے۔ یہ تو ککڑیانی بھی نہیں ہوتی۔ چاولوں میں کھسرا مرغے کا کہیں کہیں گوشت یا ہڈی ہوتی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ
کھسرا مرغے کا پنجر ال کر چاؤلوں میں ڈال دیا گیا ہوتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اسے پنجریانی کا نام نامی اسم گرامی دیا جا سکتا ہے۔ جب اطراف میں اپنی اپنی ضرورت کے حوالہ سے جھوٹ چل رہا ہو تو آتے کل کی بہتری کا خواب گناہنگار آنکھوں سے کیونکر اور کیسے دیکھا جا سکتا ہے۔
دیگی ذائقہ اور مہر افروز کی نکتہ آفرینی
دانستہ غلطی کوتاہی بالشبہ الئق سرزنش ہے۔ کوشش کرتا ہوں جو بھی کروں پوری ذمہ داری اور ہوش مندی سے کروں لیکن پھر بھی کہیں نہ کہیں کمی کوتاہی کی راہ نکل ہی آتی ہے۔ اس ذیل میں وہ لوگ یقینا خوش قسمت ہیں جنھوں نے کچھ نہ کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ نتیجتا ان سے غلطی کوتاہی سرزد نہیں ہوتی۔ اگر کسی کے مجبور کرنے یا کسی سرکاری یا بیگماتی مجبوری کے تحت کچھ کرنا ہی پڑ جاتا ہے تو غلطی کوتاہی کی نشاندہی کرنے والے کی شامت آ جاتی ہے۔ غلطی کرنے والے کی گردن پر گرہ نہیں آتی۔ ہر کوئی کرنے والے ہی کا پکھ لیتا ہے۔ دیکھو یاراس نے کچھ تو کیا ہے حوصلہ افزائی
کی بجائے حوصلہ شکنی سے لیا جا رہا ہے۔ نکتہ چین تھوڑ دلی سے کام لے رہا ہے۔ اس وچارے نے کب کبھی کوئی کام کیا ہے۔ پہال پہال کام ہے‘ غلطیاں تو ہوں گی۔ پہال پہال کام کرنے واال خود کو عالمہ شبلی نعمانی کا بھی استاد سمجھنے لگتا ہے۔ اس کے لیے اس کا یہ پہال پہال بھگوت گیتا سے کی طرح کم نہیں ہوتا۔ چیلے چمٹے اسے عظیم فن پارہ قرار دے کر اڑے پھسے کام نکلوا لیتے ہیں۔ میں کوئی اعلی شکشا منشی ہاؤس کا اہلکار نہیں جو معاف کر دیا جاؤں گا۔ اس لیے خود ہی اپنی غلطی کوتاہی کا اعتراف کر لیتا ہوں۔ بڑے لوگوں کی طرف انگلی اٹھتی ہے مجھ پر لوگوں کا پنجہ اٹھے گا۔ پہلی پہلی غلطی کوتاہی کو الئق تعزیر قرار نہیں دیا سکتا کیونکہ کوشش تو کی گئی ہوتی ہے اور کرنے والے سے ہی غلطی ہوتی ہے۔ کرنے والوں میں عادی کرنے والے ہوتے ہیں جبکہ فٹیکی کرنے والے بھی ہوتے ہیں۔ دونوں کے کرنوں میں نمایاں فرق موجود ہوتا ہے۔ ذائقہ بھی اسی تناظر میں تشکیل پاتا ہے۔ ذاتی شوق اور گیڈر پروانہ کی حصولی سے وابستہ کیا ایک سا نہیں ہو سکتا۔ دونوں کے ذائقوں میں زمین آسمان کا فرق موجود ہوتا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود ذاتی واال دو نمبری
کے درجے پر فائز کیا جاتا ہے جبکہ گیڈڑائی کسی بڑی سیٹ پر بیٹھ جاتا ہے۔ اب ذائقے کا تعلق بندے کوبندے جڑ جاتا ہے۔ میں نے کھائی پکائی میں تیکنیکی امور کو مدنظر رکھا۔ کھائ کی تعبیر و تشریح میں انتہائی حساس امور کو نظر انداز کر گیا حاالنکہ ان کا کھائی سے چولی دامن کا تعلق ہے۔ محاورہ اگلے زمانے کا ہے محاورہ بنانے والوں نے دامن کے ساتھ چولی جانے کیوں اندراج کیا۔ اگلے زمانے میں چولی نہیں چولے ہوا کرتے تھے۔ چولی غالبا غرب کی دین ہے۔ لباسی اختصار پیچھلے پچاس سالوں میں ہوا ہے۔ اب تو لباس کا نام تکلفا لیا جاتا ہے اس لیے میں نے تکلفا مروتا چولی لفظ استعمال کر دیا ہے۔ رہ گیا دامن‘ جب چولی نہیں ہوگی دامن کہاں سے آئے گا۔ مترادف میں مرد حضرات نے بیگ جبکہ خواتین نے بڑے فینسی پرس رکھ لیے ہیں اور ان میں کافی کچھ سما سکتا ہے۔ مرد اور خواتین احتیاتا ساتھی بھی اہتماما رکھنے لگے ہیں۔ بیگ یا پرس میں وہ جو کچھ بھی رکھیں ان کا ذاتی معاملہ ہے اس پر کالم کا کسی کو حق نہیں پہنچتا۔ مرد اور عورت گاڑی کے دو پہیے ہیں اس لیے چولی دامن کی جگہ بیگ پرس کا ساتھ محاورہ ہونا چاہیے۔ میرے خیال میں یہی ارضی اور کلچری سچائی ہے۔
خیر غلطی کوتاہی کا حل یہی ہے کہ متعلقہ حصہ میں تبدیلی اضافہ وغیرہ کر دیا جائے۔ بھال ہو مہر افروز صاحبہ کا جو انھوں نے بروقت نشاندہی کر دی ہے۔ میں ان کا دل و جان سے احسان مند ہوں۔ اگر وہ نشاندہی نہ کرتیں‘ باریک بین مورخ کبھی معاف نہ کرتا۔ وہ کرتا نہ کرتا میرا ضمیر مجھے معاف نہ کرتا۔ پکائی بالشبہ بڑی معنویت کی حامل ہے لیکن ذائقے کا تعلق کھائی کے مختلف حوالوں سے جڑا ہوا ہے۔ ذائقے سے منہ مسلک ہے۔ منہ بڑا ہو یا چوٹا اس میں ایک عدد زبان بھی ہے جو چھکنے اور جالنے کے کام آتی ہے۔ چکھنے سے پہلے بھی چلتی دیکھنے سننے میں آتی رہتی ہے۔ یہ جہاں نائی کے کانوں پر بار بنتی ہے وہاں دیگ کا سامان النے والے اور سامان دینے والے دوکان دار کو بھی گرفت میں رکھتی ہے۔ ہیاں تک کہ بالچھکے ریمارکس پاس کر دیتی ہے۔ گویا یہ ذائقے کا پیش لفظ ہوتا ہے۔ سرکاری تنخواہ کی آمدنی کا ذائقہ پھیکا پھیکا اور قطعی ہلکا پھلکا ہوتا ہے۔ معقولی اور غیر معقولی باالئی کا ذائقہ الگ سے اور دو طرح کا ہوتا ہے۔ یہ ذائقہ زیادہ تر دفتری لوگوں سے منسوب کیا جاتا ہے حاالنکہ باالئی کا دائرہ دفتروں کے زندان سے آزادی حاصل کر چکا ہے۔ ستم اس پر یہ کہ رشوت لینے والے کو راشی کہا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے سائل رشوت
خور ٹھہرتا ہے۔ ظالم کا ظلم مظلوم پر ٹھہرنا صدیوں کی ریت ہے۔ یہ صرف رنجیت سنگھ ہی کو اعزاز حاصل تھا کہ وہ ہاتھ بندھے بری اور لک بندھک لٹکاتا تھا۔ بہرکیف لفظ راشی کا متضاد استعمال میرے لیے حیران کن نہیں۔ لفظ کا رمزی استعمال کالم میں شگفتگی اور بالغت پیدا کر دیتا ہے۔ اب معلوم ہوا ہے کہ زیریں کے دست مبارک سے لفافہ اوبر جاتا ہے۔ اس حوالہ سے اسے راشی ہی کہا جائے گا مرتشی اوپر والے کو کہا جائے گا۔ کھائ کے حوالہ سےتین ذائقے ترکیب پائیں گے۔ سائل کا ذائقہ کڑوا‘ راشی کا ذائقہ نمکین اور قدرے لذیذ جبکہ مرتشی کا ذائقہ لذتوں کا امین ہوتا ہے۔ چوری ڈاکے اسمگلنگ ہیرا پھیری وغیرہ کی کمائی کو حرام کی کمائی کا نام دیا جاتا ہے۔ پہلی تینوں طرح کی کمائی خطروں سے ہی نہیں بھری رسک آمیز بھی ہے جبکہ ہیرا پھیری میں دماغ کا خرچہ بڑھتا ہے اس لیے یک طرفہ سوچنے کی بجائے دو بلکہ سہ طرفہ سوچنے کی ضرورت ہے۔ لٹنے واال اور کما لے گا اسے دکھ ضرور ہوتا ہے۔ دوبارہ سے کمائی کا ذائقہ پسینہ آلود ہونے کے سبب چکنائی انگیز ہوگا۔ چوری ڈاکے اسمگلنگ ہیرا پھیری کی کمائی جو پرمشقت ہوتی ہے‘ کا ذائقہ اگلے رسک پر آمادہ کرتا ہے۔ گویا اس قسم کی کمائی کے ذائقے میں تحرک کا عنصر غالب اور نمایاں رہتا ہے۔
قوم و ملک سے غداری کے صلہ میں کھیسے پڑنے والی کمائ کا ذائقہ بی کچھ اور نوعیت کا ہوتا ہے۔۔ بی کا مخفف لمبی چوڑی فہرست سے بچاتا ہے۔ شراب کباب کے ساتھ شباب کی بڑھوتی کسی ایرے غیرے کو زیب نہیں دیتی۔ یہ ذائقہ دوسرے ذائقوں سے الگ ترین ہوتا ہے اور اس میں نوابی آن بان اور شان تھرک رہی ہوتی ہے۔ ان کے کتے بلے بھی ان کے اترن سے حصہ پا کر کا سا کے درجے پر فائز ہو جاتے ہیں اور ان کا ذائقہ بھی معمولی اور عمومی نہیں رہ پاتا۔ ان کا یہ موقف غلط نہیں لگتا کہ موجودہ حکمران کون سے خیر کے فعل انجام دیتے ہیں۔ آنے واال بھی یہی کچھ کرے گا۔ ہاں تبدیلیوں میں لہو بہتا ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں۔ غداریاں ہوتی ائ ہیں اور ہوتی رہیں گی۔ وہ کون سا اچرج کام کر رہے ہوتے ہیں۔ خون بہتا رہا ہے‘ بہتا رہے گا۔ عموم کا سماجی اسٹیٹس یہی رہا ہے اور یہی رہے گا۔ پلے سے کھایا تو کیا کھایا۔ مفت خوری کا ذائقہ غیرمعمولی ہوتا ہے۔ الریب فیہ میں مولوی صاحبان کو اپنے سوچ میں بھی نہیں ال سکتا۔ جو یہ سوچتے ہیں کہ میں ان کو درمیان میں ال رہا ہوں غلط سوچتے ہیں۔ یہ حضرات مفت خوری میں نہیں آتے۔ ان کی کمائ مشقت سے بھرپور ہوتی ہے۔ ان
سے بچوں کی تدریس کا ڈر اور خوف قطعی الیعنی ہے۔ آخر پمپر کس لیے بنے ہیں اور ان کا استعمال کب ہو گا۔ زندگی میں کرتا کوئی ہے کھاتا کوئی ہے۔ کرنے اور کھانے والے کا ذائقہ ایک سا نہیں ہو سکتا۔ لکھنے والوں کو ہوا کھانی پڑتی ہے جبکہ ناچے گائیکے پیٹ بھر کھاتے ہیں۔ لکھنے والوں کا دماغ خرچ ہوتا ہے جبکہ باقی طبقوں کی جسمی محنت رنگ التی ہے۔ لکھاری گائک رقص کندہ اور ان سے متعلقین کا ذائقہ ایک سا نہیں ہو سکتا۔ ایک دیگ کے چاول تیکنکی ذائقوں کے عالوہ بھی ذاہقے رکھتے ہیں۔ ہر موڈ اور ہر مزاج کا ذائقہ الگ سے ہوتا ہے۔ تنقید کرنے کا ذائقہ کٹھا مٹھا ہوتا ہے۔ تنقد برداشت کرنے کا ذائقہ کڑوا ہوتا ہے۔ کہنے والی زبان اور سننے والے کانوں کا ذائقہ ایک سا نہیں ہو سکتا۔ گویا موڈ مزاج اور رویہ زبان کے ریشوں میں تبدیلی ال کر ذائقہ کی حس پر اثر ڈالتے ہیں۔ شہید اور شہادت کا تلک سجا کر تاریخ کا جز بننے والے ہمیشہ سے موجود رہے ہیں۔ انہیں نہی میں ڈال کر جعلی کاروائی ڈال کر نہ کھلیں گے نہ کھیلنے دیں گے‘ بھی قرطاس حیات پر موجود رہیں گے۔ ماتمی بھی رہیں گے ان پر سنگ باری کرنے والے بھی زندگی کا حصہ رہیں گے۔ دیگ ایک ہی
ہوتی ہے۔ پکائی بھی ایک ہاتھ کی ہوتی ہے۔ کسی کو پکوان لذت دیتا ہے۔ کوئی اسے چاولوں کا حشر نشر خیال کرتا ہے۔ دیگ میں ناصر زیدی کو کیڑے آمیز چاول نظر آتے ہیں۔ وہی پکوان تبسم کاشمیری پر وجد طاری کر دیتا ہے۔ صابر آفاقی پکائی سے متاثر ہو کر پی ایچ ڈی کی دس ڈگریاں دینے کی سفارش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدهللا قاضی پوسٹ پی ایچ ڈی کا مستحق ٹھہراتے ہیں۔ ڈاکٹر نجیب جمال کو پکائی میں سلیقہ نظر آتا ہے۔ ۔ڈاکٹر دمحم امین اسی دیگ کے چاولوں میں نیا انداز اور پکانے والے کے ذہنی افق میں وسعت ذائقہ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر غالم شبیر رانا کو پکائی میں عصری ذائقوں سے آگہی محسوس ہوتی ہے۔ دیگ ایک ہے‘ ذائقے الگ الگ۔ گویا ذائقہ منہ میں موجود زبان‘ اس کے سائز اور ذہن کے سواد پر انحصار کرتا ہے۔ میں محترمہ مہرافروز کو داد دیتا ہوں کہ وہ ذائقے کا رشتہ انسانی موڈ سے جوڑتی ہیں۔ مجھے یقین ہے کھائی کے جانو حضرات ان کی اس انمول دریافت کو پرتحسین نظروں سے دیکھیں گے۔
ہمارے لودھی صاحب اور امریکہ کی دو دوسیریاں
ہمارے لودھی صاحب کسی اور کو رشوت دینے کے معاملہ میں بڑے ہی سخت واقع ہوئے ہیں۔ کل ہی کی بات ہے ہمارے ایک دوست اکاؤنٹ آفس میں ایک معمولی سے کام کے لیے پانچ سو روپیے چٹی دے کر آئے۔ مجبور تھے کیا کرتے' پچھلے دو ماہ سے ذلیل ہو رہے تھے۔ بار بار اعتراض لگ رہا تھا۔ ہر بار اعتراض دور کرتے لیکن اگلی بار اعتراض میں سے کوئ اور اعتراض جنم لے لیتا۔ کسی سیانے نے اصل اعتراض یعنی پانچ سو روپیے کی نشاندہی کر دی۔ اصل اعتراض دور ہونے پر ان کام فورا سے پہلے ہو گیا۔ ہمارے لودھی صاحب کو سخت غصہ آیا وہ وہ سنیما سکوپ گالیاں سنائیں کہ تمام پنجابی گالیاں آن واحد میں شرمندہ تعبیر ہو گئیں۔ میں حیران تھا کہ انھیں کیا بنیاں کیونکہ اسی کیس کی ذیل میں وہ دو بار نیال نوٹ وصول چکے تھے۔ کیا یہ رشوت نہ تھی?! غالبا ان کے سوا کسی اور کو کام کے حولہ سے نقدی یا بصورت جنس اداءگی رشوت کے زمرے میں آتا ہے۔ ہرے نیلے اور کبھی کبھار سرخ رنگ پر صرف اور صرف ان ہی کا حق
فائق رہتا ہے۔ درست طریقہ یہی ہے کہ بانٹ دو رکھو۔ بہت پہلے کی بات ہے کہ هللا بخشے' ہمارے بھائ کے سسر امام مسجد ہونے کے ساتھ ساتھ دؤکاندار بھی تھے۔ دوکان میں ڈاکخانہ بھی تھا۔ اگلے دور میں لوگوں کے پاس پیسے نہیں ہوا کرتے تھے۔ لوگ اجناس کے بدلے اشیاء حاصل کیا کرتے تھے۔ ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک مائی جنس لے کر آئی انھوں نے اندر :آواز دی "بیٹا دوسیری دینا" "?اندر سے آواز آئی" :کون سی ابا "بولے"سبحان هللا' بیٹا دو سیریاں بھی کوئی دو ہو تی ہیں دوسیری آ گئی لیکن ہماری سمجھ میں یہ عالمتی مکالمہ نہ آ سکا۔ یہ کہانی الگ سے ہے کہ ہم نے ان کی بیٹی تک کیسے رسائی حاصل کی تاہم بھید یہ کھال کہ جنس کی حصولی کے لیے سبحان هللا دوسیری ہے جو وزن میں زیادہ ہےجبکہ چیز دینے کی دوسیری الحمدهللا ہے جو وزن میں کم ہے۔ گویا لینے کی دوسیری اور دینے کی دوسیری' بہت پہلے سےالگ رہی ہے۔
امریکی رکن کانگرس کےمطابق بلوچستان کا مسلہ سنگین ہے۔ اس کے مطابق انسانی حقوق کی خالف ورزیاں بند ہونی چائیں۔ مغرب والے بڑے دیالو اور کرپالو ہیں۔ انھیں تو مچھلیوں تک کے "انسانی حقوق" عزیز ہیں۔ انسانی حقوق کی خالف ورزیاں بند ہونے والی بات غلط نہیں لیکن امریکہ دوسیریاں دو کیوں رکھ رہا ہے۔ اس کے اس چلن نے ہمارے لودھی صاحب پر گہرے اثرات مرتب کئے ئیں۔ امریکہ کی ایک عمارت گری اس نے پورے افغانستان کی عمارتیں گرا دیں۔ اس عمارت میں موجود چند لوگ مرے لیکن اس نے افغانستان میں ہزاروں لوگ موت کی نیند سال دئیے اور الکھوں بےگھر کر دئیے۔ وہ ذرا ونگا ہوتا ہے تو ملکوں پر' جہاں غربا کی تعداد زیادہ ہوتی ہے پر پابندیاں لگا دیتا ہے لیکن نیٹو کی رسد بند کرنے کو انسانی حقوق کی عینک سے دیکھتا ہے۔ ابیٹ آباد جس عمارت میں اسامہ رہتا تھا' کو مسمار کر دیا گیا مبادہ کسی کونے کھدرے سے اسامہ نکل آءے گا حاالنکہ اس عمارت کو مسمار کرنے کی کیا شرورت تھی۔ خود اسلحہ کے ڈھیر لگا رہا ہے ۔ لیکن کسی اور کا اسلحہ بنانا اس کے وارہ میں نہیں آتا امریکہ خود کے حوالہ سے دنیا کا باڑہ ہے۔ ایران کوریا یا دنیا کا کوئ ملک اسلحہ بناءے تو اس کے پیٹ میں مرو ڑاٹھنے لگتا ہے۔
سگریٹ پہ سیمینار ہو رہا تھا۔ اتفاق سے میں بھی وہاں کسی کام سے گیا ہوا تھا۔ انتظمیہ نے پکڑ کر مجھے بھی اسٹیج پر بیٹھا دیا۔ سگریٹ پر مقریرین نےدھؤاں دھار تقریریں کیں۔ سگریٹ کے خالف وہ وہ بکواس کی کہ خدا کی پناہ۔ سچ پوچھئے میں گھبرا ہی گیا۔ مجھے لگا یہ میرے خالف سا زش ہوئ ہے۔ ستم اس پر یہ کہ اظہار خیال کے لیے مجھے بھی طلب کر لیا گیا۔ منافقت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ ان سے میں ایسے بھی تھے جو سگریٹ پہ سگریٹ پیتے تھے۔اسٹیج پر آ کر سب حاجی ثناءهللا بن گءے تھے۔ اب چونکہ بال لیا گیا تھا اس لیے کچھ کہے بغیر بن نہیں سکتی تھی۔ جی میں آئ ان سب کی اصلیت کھول دوں مگر مروات آڑے آگئی۔ میں نے سگریٹ کے حق میں تقریر کی۔ ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ حیران تھا یہ انہونی کیسے ہو گئی۔ بعد میں معلوم ئوا حق میں کہتے کہتے خالف کہہ گیا ہوں یا حق کو خالف کے معنونوں میں لے لیا گیا۔ بلوچستان کے حوالے سے بات کرنے والے امریکہ کا باطن ایران کے بارے میں کھل گیا ہے۔ امریکہ اگر اتنا انسان دوست ہے تو سب سے پہلے اپنا اسلحہ تباہ کرے اور پھر اوروں کو گڑ نہ کھانے کی ترغیب دے۔ خود تو اس دوڑ میں سب سے آگے ہے لیکن اوروں کو اس سے منع کر رہا ہے بلکہ پابندیاں
لگاتا ہے دھمکیاں جڑتا ہے۔ ہمارے لودھی صاحب نے امریکی طور اپنایا ہے تو میرے سمیت سب انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ عملی طورپر امریکی فتاوی راءج ہے' زبانی اس کی نفی کھلی منافقت نہیں ہے? گڑ کھانے والے گڑ کی مذمت کرتے ہیں .خودمختاری کی بات کرکے مردوں کے گیٹ سے نکل رہے ہیں۔ پڑتال کرنے پر معلوم پڑتا ہے کہ امریکہ کے کہے پر اس گیٹ سے گزرے ہیں ادرلیاقت علی کے رستے کو حق کا رستہ سمجھتے ہیں اور اسے قوم کا عظیم لیڈر قرار دیتے ہیں۔ قوم اگر اپنے ان لیڈوں کے کہے کو سچ مانتی رہی ہے تو پٹرول گیس ڈیڑل بچلی وغیرہ کی قیمتوں میں اضفہ ہوتا چال جاءے گا۔ پھر وہ وقت بھی آئے گا' چیزیں نہیں رہیں گی صرف اور صرف ان کی قیمتیں رہ جائیں گی۔ جن کی ادرئیگی کے بغیر بن نہ پائے گی
قصہ زہرا بٹیا سے مالقات کا
ناصر ناکاگاوا صاحب کا مجھے فون آیا کہ ان کی ہمشیرہ زہرہ عمران مجھے ملنا چاہتی ہے‘ آ جائے؟ مجھے بینک چوکیدار واال قصہ یاد آگیا۔ ایک صاحب نے اس سے پوچھا کیا میں بینک کے اندر چال جاؤں۔ چوکیدار نے صاف منع کر دیا۔ ان صاحب نے پوچھا اتنے لوگ اندر جا رہے ہیں انھیں تو منع نہیں کر رہے مجھے کیوں منع کرتے ہو۔ چوکیدار نے ترنت جواب دیا وہ مجھ سے پوچھ رہے ہیں جو انھیں منع کروں۔ میرے لیے یہ چونکہ نیا تجربہ تھا۔ سارا دن واقف ناواقف آتے رہتے ہیں کبھی کسی کو اس قسم کی جرآت اور توفیق نہیں ہوئی۔ مجھ پر کھال ‘ پوچھا بھی جاتاہے۔ میں کوئی لیڈر یا دفتری اہلکار تھوڑا ہوں جو پوچھا جاءے چوہدری صاحب حاضر ہونے کی اجازت ہے اور وہ ہر مفتے کو کل تا کل ٹالتے رہیں۔ ان کے پوچھنے پر احساس تفاخر تو نہ جاگا ہاں یہ ضرور محسوس ہوا کہ میں بھی ہوں۔ سچی پوچھیں مجھے اپنے ہونے کا یقین ہی نہ تھا۔ اس نہ ہونے کے یقین کو تصوف واال نہ سمجھیں۔ اس ملک میں جھوٹ فریب ہیرا پھیری مالوٹ دغا دھوکا منافع خوری رشوت دھونس دھکا وغیرہ اور یہ شغل رکھنے والوں کی کمی نہیں۔ کمزور یعنی لسے طبقے جس کا میں بھی ایک سیل ہوں۔ میرے سے لوگوں سے اجازت کی طلبی
حیرت سے خالی نہ تھی۔ کسی ماڑے سے مطلب کے لیے پوچھا جاتا ہے یا کسی تگڑے کی کرنی اس کے سر ڈالنے کے لیے مرکب پوچھ گوچھ مستعمل ہے۔ ان کی تشریف آوری چونکہ خیر سگالی سے وابستہ تھی اس لیے کسی قسم کی فکرمندی بھی الحق نہ ہوئی۔ سوچا بڑے فیشن ایبل لوگ ہوں گے۔ بٹھاؤں گا کہاں اور ملے گی کس سے۔ میری رہایش گاہ ‘ میں اور میری زوجہ ماجدہ تو طوفان نوح کی باقیات میں سے ہیں۔ اسے خدشہ خوف احساس کہتری یا کوئی بھی نام دے لیں آپ قاری اپنی مرضی کے مالک ہیں۔ عین ممکن ہے یہ تینوں یا ایک آدھ چیز اور بھی شامل حال ہو۔ گھر والوں کو مانجا بوکر کرنے کو کیا کہتا۔ سوچا جو جیسا ہے چلنے دو۔ دیکھا جائے گا۔ درمیان میں ایک دن تھا اس ایک دن میں کیا ہو سکتا تھا۔ دوسرا کرنے کے لیے دام درکار تھے اور دام اعلی شکشا منشی اور پنجاب سرونٹس ہاؤسنگ فاؤنڈیش الہور کے چوری خور اہل کاروں کی مٹھی میں بند تھے۔ نہ ان کے کام کے اور نہ میرے کام کے۔ انھیں کچھ کہا ہی نہیں جا سکتا۔ یہ جینا جیسا بھی سہی‘ جی تو رہا ہوں ورنہ اس سے جاؤں گا۔ جب زوجہ ماجدہ کے کان میں یہ بات پڑی کہ وی آئ پی مہمان آرہے ہیں تو بیماری کے باوجود مجھ پر برس پڑیں۔ معاملہ برسنے تک رہتا تو خیر تھی‘ گرجیں بھی۔ یقین
جانیے میں آج تک نہیں سمجھ سکا یا یہ ہر شدہ کی سمجھ سے باالتر بات ہے۔ چارپائی لگی بیگم میں گرجنے برسنے کے لیے توانائ کہاں سے آ جاتی۔ اس کا ایک جملہ بڑے ہی کمال کا تھا: لوگوں کو بےایمانی لے ڈوبتی تھی لیکن آج بےایمانی کا شغل فرمانے والوں کی پانچوں انگلیاں ہی کیا وہ سراپا گھی کی کڑاہی میں ہیں۔ کوئ روک کوئی ٹوک نہیں۔ ہمیں تمہاری ایمانداری کی سزا بھگتنا پڑ رہی۔ اس کا گرجنا برسنا غلط نہیں تھا اس لیے پہلے میں میں کرتا رہا اور پھر سر سٹ کر بیٹھ گیا۔ اور کر بھی کیا سکتا تھا۔ کرنے کو میرے پاس تھا ہی کیا جو شدید ردعمل میں کرتا۔ میں پورے وجود کی ایمانداری کے ساتھ کہتا ہوں کہ میرے دل میں ایک آدھ فیصد بھی نہ آیا کہ موصوفہ کا آنا جھوٹ ہی ہو جائے۔ سوچا دور دراز سے لوگ آتے ہیں کبھی کسی نے میری اور رہایش کی حالت خستہ کی شکایت نہیں کی۔ غالبا چلیس سال زیادہ عرصہ ہوا میں قاضی جرار حسنی کے قلمی نام سے لکھا کرتا تھا۔ اس دور کی فیشنل ایبل دو بیبیاں میری ایک کہانی کی تعریف کر رہی تھیں۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ میں نے بڑے فخر اور چوڑے ہو کر کہا قاضی جرار حسنی میں ہوں۔ انھوں نے میری طرف دیکھا اور پھر ایک طنز سے بھرپور تیر پھینکا :ایسے ہوتے ہیں قاضی جرار حسنی۔ میری بولتی بند ہو
کر بوکی وہ جا گری۔ گھر آکر شیشہ دیکھا‘ ہمارے گھر میں آئینہ نہیں شیشہ ہوا کرتاتھا چہرے پر چب شب تو نہ تھے البتہ پہناوا غربا کی بستی والوں کا تھا۔ اندریں حاالت باال ان کا کہا غلط نہ تھا۔ مجھے مہمانوں کا انتظار تھا۔ کیسے مہمان تھے یہ بھی بازار سے کھا پی کر آگیے۔ اگلے وقتوں میں مہمان دو دن کی بھوک رکھ کر آتے تھے اور جانے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔ زہرہ اور عمران مجھ سے ملے۔ بڑی حیرت ہوئی برقعہ میں۔ چند لمحوں کے بعد ہی وہ ہم اگلے زمانوں کے لوگوں سے گھل مل گیے۔ کیا شایستگی کیا سلیقہ کی یہ لڑکی ہے۔ بولتی ہے تو منہ سے گالب جھڑتے ہیں۔ میں تو میں‘ میری بیٹی ارحا اور بیگم اسی کے ہو گیے۔ اجنبیت اور غیریت کا احساس تک نہ رہا۔ بال کی ذہین و فطین ہے یہ لڑکی بھی۔ ہم تینوں کا دل ہی لے گئی۔ وہ مجھے اپنی بیٹی ارحا سے رتی بھر کم نہ لگی۔ بیٹیوں کے خاوند بیٹیوں سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں۔ عمران صاحب بھی بڑے ہی پیارے لگے۔ باتیں ہوتی رہیں۔ پھر ہمارا مزار کمال چشتی جانے کا اتفاق ہوا۔ بڑا اچھا لگا میں دو بیٹیوں ایک داماد کے ساتھ گھومنے کے لیے نکلے ۔ میرا منہ بوال بیٹا فاروق بھی میرے ساتھ تھا۔
بے تکلفی اجازت دیتی تھی کہ رات رہنے کو کہوں لیکن بچوں کے حوالہ سے وہ رات ہمارے ہاں نہیں گزار سکتے تھے۔ بادل نخواستہ انھیں رخصت کرنا ہی پڑا۔ بیگم صاحب تو ساتھ تھیں ہی۔ بڑی ٹوہری عورت تھی بس وقت اور حاالت نے مجھ سے تھوڑ پونجیے کے ساتھ چلنے پر مجبور کر دیا ہے۔ زہرہ بٹیا نے ایسا کمال دیکھایا کہ اس کے آنے سے پہلے کی صورت حال یاد تک نہ رہی۔ وہ لمحہ تو وہ لمحہ اب تک یاد نہیں۔ دل میرا بھی کرتا اور چاہتا ہے کہ دونوں میاں بیوی دوبارہ سے اور اس کے بعد بار بار آتے رہیں لیکن کیا کریں زندگی کی تیز رفتاری نے مالقاتوں کے لمحے ہی چھین لیے ہیں۔ کل بیگم کہہ رہی تھیں زہرہ اور عمران سے کہو ایکبار آ کر مل جائیں۔ میں نے جوابا کہا زہرہ بٹیا میری اور تمہاری طرح فارغ نہیں ہیں انہیں اس آنے جانے کے عالوہ بھی بہت سے کام ہوں گے۔ ارحا تو زہرہ آپی کی ماال جپتی رہتی ہے۔ امید پر دنیا قائم ہے مجھے یقین ہے ایک دن ایسا ضرور آئےگا جب دروازہ کھلے گا کیا دیکھوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زہرہ اور عمران مجھے کہیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہیلو بابا۔
صیغہ ہم اور غالب نوازی
صیغہ ہم جمع کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ نواب‘ بادشاہ‘ بادشاہ نما اور اقتداری طبقہ سے متعلق لوگ اپنے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مخاطب کا اپنے سے بلند مرتبہ والے کے لیے یا بطور تکیہء کالم واحد کے لیے آپ وہ ان انہوں کا استعمال رواج عام رکھتا ہے تاہم فرد واحد جب خود کے لیے ہم کا صیغہ استعمال کرتا ہے تو یہ احساس تفاخر اور تکبر میں آتا ہے۔ پنجاب میں عوامی اور عمومی سطع پر فرد واحد کے لیے ہم رواج نہیں رکھتا۔ اگر کوئی استعمال کرتا ہے تو اوپرا سا اور معیوب سا لگتا ہے۔ اقتداری‘ نوابی اور بادشاہ لوگ جب یہ صیغہ استعمال کرتے ہیں تو اوپرا اور معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ ہاں ہم کا سامع سہما سہما اور کانپا کانپا ضرور ہوتا ہے۔ یہ صیغہ مخاطب پر احساس کہتری کے دورے ڈالنے اور پڑنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ صیغہ ہم کا استعمال کرنے والوں
کا لب و لہجہ ہم کا عکاس ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے شہنشاہ اکبر‘ جو اکبر اعظم کے عرف سے معروف ہے‘ کچھ فرما رہا ہو۔ بعض اوقات اس کا فرمانا دین الہی سے ماخوز لگتا ہے۔ پردھان منشی کے مکین صیغہ ہم کا بہت کم اور کبھی کبھار استعمال کرتے ہیں ہاں ان کا کردار ہم کا استعمال کرنے والوں سے زیادہ جارحاانہ ہوتا ہے حاالنکہ اختیارات وغیرہ کے حوالہ سے ہم والوں سے بڑھ کر بلکہ کہیں بڑھ کر ہوتے ہیں۔ اصل ستم کی بات تو یہ ہے ہر دو یعنی ہم اور ہم نما سے متعلق لوگوں کو اہل دانش اہل علم اور اہل قلم سمجھا جاتا ہے۔ ٹانی الذکر اہل قلم ہونے حوالہ سے خوف اور ہراس کی عالمت ہوتے ہیں۔ جو بھی سہی ہم اور ہم نما ہماری سوساءٹی میں پکا پیڈا وجود رکھتے ہیں۔ پیڈا کو مضبوط اور پیڈا کے معنوں میں لیا جا سکتا ہے۔ پیڈا کی کیا اتھارٹی ہے‘ اس کا احوال ان سے دریافت کیا جا سکتا ہے جن پر یہ خدانخواستہ فٹ ہو چکا ہے۔ میرے نزدیک ان کو باالتر اور صاحب تکبر مخلوق تسلیم کر لینے میں کوئی برائی اور مبالغہ نہیں۔ انھیں اہل علم اور اہل علم کہنے میں بھی حرج والی کوئی بات نہیں ہاں البتہ دل سے تسلیم
کرنا ظلم زیادتی اور کھال اندھیر ہے۔ تکبر اور علم کا کوئی تعلق ہی نہیں۔ یہ دو الگ سے رستے ہیں۔ جہاں تکبر ہو گا وہاں علم نہیں ہو گا اور جہاں علم ہو گا وہاں تکبر نہیں ہو گا۔ علم عجز اور انکساری کی طرف لے جاتا ہے۔ علم تقوے کی گرانقدر نعمت سے سرفراز کرتا ہے۔ تکبر شخص کو انسان نہیں رہنے دیتا۔ تکبر کے باطن میں خدا ہونے کے جراثیم موجود ہوتے ہیں۔ علم کے باطن میں هللا کا عاجز بندہ ہونے کا ارمان کروٹیں لیتا ہے۔ یہ میں ناہیں سبھ توں کی طرف لے جاتا ہے۔ تکبر کوئ ناہیں سبھ میں کی طرف لے جاتا ہے۔ ناصر زیدی ہم والوں میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ تحریروں میں بھی ہم کو پس پشت نہیں ڈالتے۔ وہ حقیقت کا گال گھونٹ نہیں دبا سکتے ہھی ہیں لیکن ہم پر آنچ نہیں آنے دیتے۔ وہ ہم کا استغمال کرنے کا حق بھی رکھتے ہیں۔ وہ الٹ ہاؤس کے قلم سے پاکستان میں کالم لکھتے ہیں۔ الٹ ہاؤس میں اج بھی بےشمار جونئیر ساتھی ہوں گے۔ الٹی قلم نے میڈیا میں ان کے ہم کی دھاک بٹھا دی ہے۔ عام لوگوں کی کیا بات کرنا ہے وہ وچارے تھے اور وچارے ہیں الٹی اور اقتداری بھی ان کےقلم کی مار سے خوف زدہ ہیں۔
میں اہل علم میں نہ اہل دانش میں ہوں اس لیے روٹی کو زندگی کے لیے ضروری خیال کرتا ہوں تاہم زندگی کو روٹی کے لیے نہیں سمجھتا۔ مجھے ایک مولوی صاحب یاد آگءے۔ حج پر جانے سے پہلے ایک درویش کے پاس گیے۔ سالم کیا اور فخر سے بتایا حج پر جا رہا ہوں۔ درویش نے پوچھا حضرت دین کے بناء کتنے ہیں۔ انہوں نے بتایا کلمہ نماز روز حج زکوات۔ درویش نے کہا روٹی کو چھوڑ رہے ہیں۔ مولوی صاحب نے کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ توبہ کہا اور اٹھ گیے۔ اتفاق سے حج سے واپسی پر بحری جہاز تباہ ہو گیا اور یہ ایک لکڑی کے تختے پر بیٹھ کر ایک جزیرے میں جا پھنسے۔ وہاں نہ بندہ نہ بندے کی ذات۔ بھوک نے سخت پریشان کیا۔ اچانک ایک بابا روٹی خرید لو کا آوازہ لگاتا گزرا۔ مولوی صاحب نے انھیں بالیا اور روٹی دینے کی استدعا کی۔ بابے نے قیمت طلب کی۔ انھوں نے کہا میرے پاس دام نہیں ہیں۔ بابے نے کہا کچھ تو ہو گا۔ انھوں نے کہا میرے پاس کلمہ نماز روز حج زکوات ہے۔ بابے نے نماز لکھوا لی اور روٹی دے دی۔ اگلی بار روزہ پھر حج اسی طرح زکوات بھی لکھوا لی۔ دریں اثنا ایک جہاز ادھر سے گزرا وہ کسی ناکسی طرح اس پر سوار ہو کر وطن آ گے۔ ملنے مالنے اور پرتکلف دعوتوں سے فراغت کے بعد اس
درویش کے پاس گیے۔ دعا سالم اور احوال پوچھنے کے بعد درویش نے دین کے بناء پوچھے۔ مولوی صاحب نے روٹی کو پھر گول کر دیا۔ درویش نے روٹی کا ذکر کیا تو مولوی صاحب حسب سابق توبہ توبہ پر اتر آئے۔ درویش نے دستخط شدہ کاغذ ان کے سامنے رکھ دیا۔ اگر دیکھا جاءے روٹی زندگی میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اہل تقوی کا جینا بھی اس سے منسلک ہے۔ روٹی نہ ملنے کی صورت میں منفی سوچ کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ اگر ہم کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ حقیقت پوشیدہ نہیں رہے گی کہ ناصر زیدی موجودہ اور سابقہ کے حوالہ سے بڑے بااختیار ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ الٹ ہاؤس واال قلم ان کے عزت مآب ہاتھ میں ہے۔ میں عرصہ دراز سے سیکڑیری ہائر ایجوکیشن کی خدمت میں اپنے ایم فل االؤنس کے لیے درخواستیں گزار رہا ہوں۔ اب تو مجھے درخواستوں کی تعداد بھی یاد نہیں رہی۔ رقم ملنا تو دور کی بات ان کی جانب سے واپسی جواب تک موصول نہیں ہوا۔ یہی حال پنجاب سرونٹس ہاؤسنگ فاؤنڈیشن الہور والوں کا ہے۔ انھوں نے تحریری طور پر کہا ہے کہ وہ میری کتاب کی اعزازی پروف ریڈنگ کے لیے تیار ہیں۔ اس خدمت کو سردست چھوڑیں۔
مجھے اپنا اثر رسوخ اور ہم کا جاءز استعمال کرتے ہوئے ہر دو محکموں سے میری ہی رقم دلوا دیں تاکہ میں ان سے کتاب کی اعزازی پروف ریڈنگ کروا کر دوبارہ سے کتاب شائع کرنے کی سعادت حاصل کر سکوں۔ مجھے یقین ہے کہ میرا حق دالنے میں صیغہ ہم مثبت کردار ادا کرکے ناصرف گریب پروری کر سکتا ہے بلکہ غالب نوازی کا اعزاز بھی حاصل کر سکتا ہے۔
ایک دفع کا ذکر ہے
ایک دفع کا ذکر ہے' تاہم باور رہے اس دفع کا تعلق زمانہ قبل از مسیح سے نہیں' یہی کوئی چار چھے ماہ پہلے کی بات ہے۔ میں حکیم صاحب سے شفائی پڑیاں لے کر' سڑک کے بالکل نکرے لگا واپس گھر آ رہا تھا۔ اگرچہ گھر والوں کو' عمر رسیدگی کے سبب میری خاص یا عام ضرورت نہ تھی' اس کے باوجود رواجا اور عادت کے ہاتھوں مجبور' آ رہا تھا۔ نہ آتا تب برا آتا تب سیاپا۔ جو بھی سہی' ایک
مدت سے گھر میرا آنا جانا تھا۔ یا یوں سمجھ لیں' گھر آنا میری فطرت ثانیہ بن چکی تھی۔ فطرت ثانیہ کو' عادت سے مجبور بھی کہا جاتا ہے۔ ہر کوئی خوب خوب جانتا ہے' سگریٹ انتہائی خطرناک ہے' اس کے باوجود پیتا ہے۔ اپنی اصل میں' یہ ہی فطرت ثانیہ یا عادت سے مجبوری ہے۔ ہر مرتشی جانتا ہے' کہ رشوت خور کو جہنم جانے کی خوش خبری دی گئی ہے۔ یہ محض ڈراوا نہیں پتھر پر لکیر ہے۔ بےشک لکیر ضعف کا ہی سبب نہیں بنتی' بزتی بدنامی سے بھی دو چار کرتی ہے اور ہر چند تعداد میں اضافہ ہی ہوتا چال جاتا ہے۔ سماج میں ابا سے' ماما یعنی ماموں کے عرفی نام سے' اپنی جان پہچان حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ شرمندگی سے زیادہ' اس کار دراز میں فخر محسوس کرکے' غیر متعلق لکیر کی فقیری میں' بڑی دل جمعی اور جان فشانی سے' عمر تمام کر دیتا ہے۔ اسی میں کامیابی اور کامرانی تصور کرتا ہے۔ ابھی گھر سے تھوڑا دور ہی تھا کہ پیچھے سے ایک کھوتی ریڑھی واال' بڑی تیزی سے آیا۔ شاید اس کے پیچھے ہلکا کتا یا پولیس پیچھے لگی ہوئی تھی۔ اس کی جلدیوں سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ ایمرجنسی کا مریض تھا۔ کچھ معامالت واقعتا
ایمرجنسی میں داخل ہوتے ہیں' کچھ یوں بالتکلف بنا لیے گیے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات' ایمرجنسی کی عادت یوں ہی ترکیب پا گئی ہوتی ہے۔ اگر اسے ہولناک قسم کی ایمرجنسی ہوتی' تو اپنی بےسری آواز میں اکرم راہی کا گانا نہ گا رہا ہوتا۔ مجھے بےسری شاید اس لیے لگی کہ بالساز تھی۔ خیر جو بھی سہی' اس دفع کا ذکر ہے کہ محتاط روی اختیار کرنے اور نکرے نکرے چلنے کے باوجود' اس نے کھوتی پر تو قابو رکھا' لیکن ریڑھی بےمہار ہونے کے باعث' بڑے کرارے بدذوق انداز میں آ لگی اور میں منہ کے بل وہ جا گرا۔ مجھے انسانی ہمدردی اور صلحہء رحمی کے ناتے ریڑھی سے نیچھے قدم رنجہ فرما کر' اٹھانے کی بجائے' یہ کہہ کر بابا ویکھ کے چل' چلتا بنا۔ اس بار کے ذکر میں اصل حیرت کی بات یہ تھی کہ اسے روکنے کی بجائے اکرم راہی کے سر میں کہے گیے باوزن جملے بابا ویکھ کے چل پر لوگ کھل کھال کر ہنس پڑے۔ میں ان کی پیروی میں' زہے نصیب ہنس تو نہ سکا' البتہ بےہوش سا ضرور ہو گیا۔ مجھ پر اس جملہ نما مصرعے پر بےہوشی کے ساتھ 'چوٹ بھی آئی
اور درد بھی اٹھ رہا تھا۔ اس کے بعد کا ذکر ہے' کہ کئی دن بستر لگا رہا۔ خرچہ اٹھا اور حضرت زوجہ ماجدہ کی بڑبڑ اور کڑ کڑ بھی سنتا رہا۔ اول آلذکر اور آخرالذکر کوئی نئی چیز نہ تھے۔ یہ دونوں معمول میں داخل تھے۔ آخرالذکر تو میری زندگی میں ہمزاد کی طرح داخل رہے ہیں۔ عزت بچانے اور جان کی امان پانے کے لیے' بیگمی بڑبڑ اور گرجن برسن بہرطور ضروری تھا۔ ضمنا اس سے' تھوڑا پہلے کا ذکر ہے کہ اچانک میرے سینے میں شدت کا درد اٹھا' میں نے بصد احترام اپنی اوپر والی زوجہ ماجدہ کو آواز دی زکراں۔۔۔۔۔ زکراں۔۔۔۔۔۔زکراں کافی دیر بعد سہی' بڑی مہربانی فرماتے ہوئے تشریف و غضب لے کر آ گئی۔ گھورتی نظروں کے ساتھ پوچھا :کیا ہے' کیوں چیخ و پکار رہے ہو۔ سراپا احترام میں غرق آواز کو چیخ و پکار کا نام دے رہی تھی۔ خیر میں نے منمناتے ہوئے کہا :سینے میں سخت درد اٹھ رہا ہے' لگتا ہے جا ہوں۔
بس اتنی سی بات پر آوازیں دے رہے تھے۔ میں گھبرا گئی تھی' پتا نہیں کیا ہو گیا ہے۔ 'میرا خیال تھا کہ کہے گی ہائے میں مر گئی' جائیں آپ کے دشمن۔ بہرکیف تکلیف اپنی جگہ میری خوش فہمی کرچی کرچی ہو گئی۔ پہلے دفع کے ذکر میں ثانی الذکر کا تذکرہ باقی ہے۔ تکلیفیں تو زندگی میں آتی جاتی رہتی ہیں۔ لکشمی ایک بار ہاتھ سے نکل جائے' تو پھر دوسری بار بڑے نصیب محنت' مشقت اور گراں قدر ہیرا پھیری سے ہاتھ لگتی ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ حضرت بےغم صاحبہ کو' میری ہی جھڑی ہوئی ناچیز رقم' میرے عالج معالجے پر خرچ کرنا پڑی۔ تاہم اس بار اس کی توپ کا دھانہ میری طرف ہی نہ رہا۔ کھوتی ریڑھی والے کا اٹھتی بیٹھتی خصوصا' دوا دارو کے حوالہ سے جھڑتی ناصرف بےحجاب گالیاں بکتی بلکہ بدعائیں بھی دیتی۔ اس پر مجھے رائی بھر افسوس نہ ہوتا۔ پتا نہیں بدعاؤں کے نتیجہ میں اس کا کچھ ہوا یا نہیں' میں اس کی خبر نہیں رکھتا۔ ہاں جب ڈاکٹر کو جھڑنے کے ردعمل میں گالیاں بکتی یا بد دعائیں دیتی تو مجھے بہت برا لگتا۔ ان کا رویہ قصابی سہی ' پھر بھی غیرفطری انداز میں کسی حد تک گراں وصولی کے ساتھ
مریضوں کے کام تو آتے ہیں۔ میرے' سب کے هللا کا ہر کرنا پرحکمت' پرعدل' برحق' برموقع' ہر قسم کی کجی خامی سے باالتر' بے مشاورت' بال تعاون اور آلودگی و آالئش سے پاک ہوتا ہے۔ اس اٹل حقیقت کے باوجود' میں سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ هللا نے گریب اور کم زور طبقے کو' پیچھے دیکھنے کی شکتی کیوں عطا نہیں فرمائی۔ مقتدرہ اور ان کے دور نزدیک کےگمشتگان کو' اس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ پیچھے پیچھے چلتے' بڑی باریک بینی سے دیکھنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ خیر ان کے آگے چلنے والے الٹھی بردار' لوگوں کو پیچھے دیکھ کر چلنے کی دعوت دیتے آئے ہیں۔ دائیں بائیں چلنے والے' ان کے قریب نہ جانے کی' باذریعہ الٹھی' دعوت دیتے آ رہے ہیں۔ آج یہ رویہ کچھ نیا نہیں ہمیشہ کا ہے۔ جب بادشاہ کی بگی گزرتی' الٹھ بردار دائیں بائیں اورسٹرک پر چلنے والوں کے خوب پاسے سیکتے۔ یہ کھال درس ہوتا' کہ شاہ اور اس کے دور نزدیک کے جھولی چھولی چکوں کے قریب جانے سے پرہیز رکھو۔
اس کھلی وراننگ اور الڑٹ کے باوجود' لوگ بڑے بےاثرے اور ڈھیٹ رہے ہیں۔ ان کی مثل ایسی رہی ہے۔ پلے نئیں دھیال کر دی پھرے میلہ میلہ جب جیب خالی ہے' تو پرائیویٹ ڈاکٹروں اور سرکاری ہسپتالوں میں کیا لینے جاتے ہو۔ 'موت کا ایک دن معین ہے' سب جانتے ہیں' اس کے باوجود پرخراٹا نیند سوتے ہیں اور صبح اٹھ کر' یا بےایمانی تیرا آسرا' کہہ کر کام پر روانہ ہو جاتے ہیں۔ بیمار کو' زندگی میں پہلی بار' بیماری نہیں ہوتی' جو فکرمندی سے کام لیا جائے۔ سانیس باقی ہوئیں تو اسے کچھ نہیں ہو گا۔ اتنے تردد کی ضرورت کیا ہے۔ دوسرا ڈاکٹر فیس رکھوائی اور ٹسٹ لکھائی کے سوا' جانتے ہی کیا ہیں۔ اس سے تین فائدے ہوں گے۔ فضول خرچی نہ ہو سکے گی اور وہی رقم' گھر کے کسی دوسرے رفاعی کام میں' صرف ہو سکے گی۔ جب مریض مرے گا' دیکھا جائے گا' کامے تسلی سے' اپنے اپنے کام پر جا سکیں گے۔ مریض گھر پر' بڑی تسلی سے' اپنی آئی پر' اپنے بستر پر دم .توڑے گا
شاہ اپنی عیش کوشی اور تاج محل سازی کے لیے' بےمعنی اور بےمعنی ٹیکس وصول کرتے ہیں' تو واپڈا' ٹیلی فون' اکاؤنٹ آفس' نادرہ والے وغیرہ کس حساب میں' مفتوں کے کیوں کام کریں۔ اعلی شکشا منشی اور اس سے متعلق وصولی گاہوں نے' کمال کی انھی مچا رکھی ہے۔ کوئی کام ہو یا کسی حق کی وصولی کا معاملہ ہو'تو صبر شکر سے کام لیں۔ آخر یہ صبر شکر ہوتے کس لیے ہیں۔ میں بھی ایسی حماقتیں کرتا رہا ہوں۔ مجھے ناکامی نامرادی اور خطرناک چپ کے سوا' کچھ ہاتھ نہیں لگا۔ اپنے ایم فل کے االؤنس کے لیے 0661سے درخواست بازی کرتا آ رہا ہوں۔ جواب میں خوفناک چپ کے سوا کچھ ہاتھ نہیں لگا۔ اب میں نے بھی غصہ میں آ کر' پکی پکی چپ وٹ لی ہے۔ نئیں تے ناسہی۔ انھیں اپنے موجود یا سابقہ کارکنوں کی پرواہ نہیں' تو میں ان کے کیوں قدم لیتا رہوں۔ ایک سوچ یہ بھی آتی ہے' کہ بار بار ان کے بیش بہا جوتے چھونے سے' گربت' عسرت' بےچارگی' بےبسی اور میں میں' کی آلودگی منتقل تو ہو گی ہی۔ بےشک یہ معاملہ سوچن ایبل ہے۔ ایک دفع کے ذکر کے حوالہ سے' ایک بات ذہن میں آتی ہے' اگر مقتدرہ طبقہ حکم جاری کر دے' کہ ہر چھوٹی بڑی گاڑی
خصوصا ریڑھی والے' چار نہیں تو دو مالزم رکھے' جو آگے آگے چل کر لوگوں کو پیچھے کے احوال سے آگاہ کرتے جائیں۔ اس سے' ان کے ایک طبقہ کی مٹھی گرم ہوتی رہے گی۔ بےروزگاروں کو روزگار مل جائے گا۔ بےگناہ' کوسنوں اور بےنکاحی گالیوں سے بچ جائیں گے۔
الیکشن کی تاریخ بڑھانے کی پرزور اپیل
بخدمت جنابہ حکومت صاحبہ عنوان :درخواست بسلسلہ الیکشن کی تاریخ بڑھانے اور متواتر بڑھاتے رہنے جناب عالیہ
بندہءناچیز بصد احترام و احتشام عرض گزار ہے کہ ملک اور اس کے عوام' پرکھٹن حاالت سے گزار رہے ہیں۔ موجودہ صورت حال کے پیش نظر' الیکشنوں کا اہتمام کرکے' ہر دو پر بہت بڑا احسان کیا گیا ہے۔ وقتی سہی' ان کی بھوک اور عزت و احترام کے مسائل حل ہوئے ہیں۔ ان میں اپنے ہونے کا احساس جاگ رہا ہے۔ بڑے لوگ' جب چھوٹے' مالی ضعفوں' بےسفارشی اور سماجی حیثیتی کم زوروں کے گھر دستک دے کر' ووٹ کی بھیک مانگتے ہیں' تو ان میں سربکس ٹی سے بڑھ کر' توانائی اترتی ہے۔ توانائی بالشبہ شگفتگی کے ساتھ ساتھ' چستی بھی پیدا کرتی ہے اور موڈ کو سٹ رکھنے میں مثبت کردار ادا کرتی ہے۔ جناب واال کسی پوسٹ پر آئے امیدوار سے' انٹرویو میں سوال کیا گیا: سلیکٹ ہو جانے کی صورت میں' ملک کی خدمت کرو گے۔ اس نے جوابا کہا :بالکل نہیں انٹرویو لینے والے کو اس جواب پر بڑی حیرانی ہوئی۔ جواب
بالشبہ بڑا کھردرا اور بےمروت سا تھا۔ اس نے کامل حیرانی سے پوچھا :یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ اس نے جواب میں کہا :مجھ سے پہلوں نے کچھ کیا' یقینا نہیں۔ کچھ وقت پاس کرتے رہے' کچھ نے لوٹ سیل لگائی۔ پھر پوچھا گیا :آپ ان میں سے کون سا طور اختیار کریں گے۔ صاف ظاہر ہے' شریف آدمی ہوں' سیل ہلکی پھلکی رکھوں گا' ہاں زیادہ تر وقت پاس کروں گا۔ جناب واال آج تک منتخبہ ممبروں نے' ملک کی جو خدمت کی ہے یا کر رہے ہیں' پر مثبت یا منفی گفت گو کرنے کی ضرورت نہیں' روز سیاہ کی طرح سیاہ ہے' کہ انہوں نے لوٹ سیل مچانے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ اس پر طرہ یہ کہ کچھ بھی نہیں کرنے کا' پروگرام اور ایجنڈا رکھتے ہیں۔ جناب واال
میڈیا مال پانی لگانے والوں کی' عیب پوشی میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتا' ہاں ان کے ناکردہ کارناموں کو' خوب اچھالتا ہےاور بےجھڑیوں کی خوب خوب مٹی پلید کرتا ہے۔ جھڑیوں کے کھیسہ میں' ہر اچھا ناکردہ ڈال دیتا ہے۔ تیز رفتار اور اعلی کارگزار میڈیا ہوتے ہوئے' شاہوں کی اچھائی اور برائی معلوم کی حدود سے باہر ہے۔ اپنے طور پر لوگ انٹرنیٹ پر کچھ ناکچھ رکھتے رہتے ہیں۔ جناب واال ایک نائب قاصد کی رکھوائی کے لیے' سو طرح کی شرائط اور باتصویر قائداعظم کے' اصلی کاغذات کی ضرورت ہوتی ہے۔ زبانی کہنا' سفارش کے کھاتے میں نہیں آتا۔ اب زبان بےوقار ہو گئی ہے۔ یہ ہی ایک کام رہ گیا ہے' جس میں ہاتھ حرکت کرتے ہیں' ورنہ ہر کام اور معاملہ میں غیرمتحرک ہو گیے ہیں۔ زبان کا کام' جوان جہان گلی گلی میں پھرتے' ان گنت فقیروں تک محدود ہو گیا ہے۔ درسوں کے چھوٹے بچے گلی گلی چندے کے لیے پھرتے ہیں۔ وہ منتی اور سماجتی انداز میں' جب زبان سے چندے کے لیے کہتے ہیں' تو دل بھر آتا ہے۔ خیر وعدے بازی اور بیان درازی کے لیے' لیڈر زبان ہی کا استعمال کرتے ہیں۔ ان امیدوران کو اس قماش کی سو طرح کی شرائط سے' استثناء
حاصل ہوتا ہے۔ جناب واال جن کی معاشرے میں کوئی اوقات نہیں' یہ امیدوران ان کے بےدر اور غیر محفوظ گربت کدوں پر' بڑی اپنائیت اور مصنوعی خلوص کے ساتھ' حاضری دے کر انہیں ووٹ دینے کی استدعا کرتے ہیں۔ راہ گزرتے ہاتھ اٹھا کر' سالم کرتے ہیں۔ گویا اسالم کا نفاذ پورے زوروں پر ہے۔ اگر یہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے' تو ناصرف اسالم کا نفاذ ہوتا رہے گا' بل کہ خلوص اور باہمی احترام کی فضا پیدا ہوتی رہے گی۔ گلی گلی محمود وایاز ایک ساتھ کھڑے نظر آئیں گے۔ انیچ نیچ' رنگ نسل' عالقہ' زبان وغیرہ کی تفریقات دم توڑ دیں گی۔ جناب واال امیدوار ممبران کے ڈیرے' حاتم کدے بن گیے ہیں۔ آنے جانے والوں کی' بڑے اہتمام سے تواضح کی جاتی ہے۔ اگر ڈیڑے پر معمولی سی بھی' کوتاہی نظر آتی ہے' تو لوگ دوسرے ڈیرے کا
رستہ لیتے ہیں۔ کچھ' اپنے بچوں کو بھی ساتھ لے جانا نہیں بھولتے۔ بےروزگاروں کو روزگار میسر آ گیا ہے۔ ٹی سی گاروں کی تو چاندی ہو گئی ہے۔ سونا اس لیے نہیں کہا' کہ اس کا تعلق بڑے الیکشنوں سے ہے۔ جناب واال الیکشن مہم ختم ہو جانے کے بعد' ان میں سے کچھ باقی نہیں رہے گا۔ یہ سیری کا شیش محل' ویرانے میں بدل جائے گا۔ عزت و احترام کی فضا' دم توڑ دے گی۔ نفاذ اسالم کی فضاؤں میں' جالل و تمکنت کا بارود بھر جائے گا۔ ایسے حاالت میں' وقت کا تقاضا یہی ہے کہ الیکشنوں کی تاریخ' بار بار ناسہی' دوچار بار تو اگلی تاریخوں میں منتقل کی جائے۔ ہاں جب بڑے الیکشن آئیں گے' تو اس عمل کا' المتناہی سلسلہ شروع کر دیا جائے۔ اس طرح گریبوں کی جیب پھاڑ کر' ڈکارنے کے لیے سیفوں میں رکھا گیا پیسہ' لوگوں کی صدیوں کی بھوک پیاس مٹانے کے کام آ سکے گا۔ ساتوں چہلموں پر میسر کھانا' محدود نوعیت اور محدود لوگوں کے کام آتا ہے۔ عید قربان کا گئوشط اپنوں میں' یا بڑوں کو چڑھاوا چڑھ جاتا ہے۔ اس لیے گریبوں کے مقدر میں' نہیں یا چھچھڑے آتے ہیں۔ گویا اس دن بھی' انہیں بھوک سے چھٹکارا حاصل نہیں ہو پاتا۔
جناب واال اندریں حاالت باال استدعا ہے کہ وقتی طور پر سہی انسانی تفریق و امتیاز کی فضا ختم کرنے کے لیے باہمی عزت و احترام قائم کرنے کے لیے جھوٹے وعدے اور بہالوے سننے کے لیے اسالم کے نفاذ یا اسالمی ماحول کے قیام کے لیے بھوک پیاس کے خاتمے کے لیے بار بار ناسہی' دوچار بار الیکشنوں کی تاریخ تبدیل کی جاتی رہے۔ آپ کی یہ عنایت' قوم کے لیے' بہت بڑا تحفہ ہو گا۔ آپ کے اس عظیم اور دانش مندانہ فیصلے کو' چوری خور مورکھ' زعفرانی سیاہی سے' رقم کرے گا۔ بھوکے پیاسے لوگ' آپ کو دعائیں دیں گے' جس سے آپ کا اقبال مریخ کی بلندیوں کو چھوتا رہے گا۔
آج مورخہ اکتوبر6108 '00 العارض اعلی شکشا منشی کی خدمت گرامی میں' 0661سے گزاری گئی درخواست ہائے ہائے' بسلسلہ ایم فل االؤنس' کے جواب سے مرحوم بےبس وبےکس وچارہ مقصود صفدر علی شاہ ریٹائرڈ ایسوی ایٹ پروفیسر اردو
بےنکاحی گالیاں اور میری لسانی تحقیق
بازار چلے جائیے' ہر چیز کی بےشمار سیل بند' یعنی ڈبہ
پیکنگ' بال ڈبہ پیکنگ ورائیٹیاں میسر آ جائیں گی' اوپن بھی مل جائیں گی۔ ظاہری حسن' چلتا پھرتا بل کہ بھاگتا دوڑتا نظر آئے گا۔ چمک دمک' بناوٹ کا حسن اور پیش کش وغیرہ' انتخاب کو مشکل بنا دے گی۔ آپ کا دل چاہے گا' ہر قسم کی ایک ایک خرید کر لوں۔ بس جیب کے ہاتھوں مار کھا جائیں گے۔ اگر حضرت بےغم حضور ساتھ ہوں گی' تو ایک کی ضرورت ہوتے' شاید نہیں یقینا کئی ایک خریدنے کی ضرورت پیش آ جائے گی۔ ضرورت اور تصرف کے' ان گنت اور ان حد بال فی میل' جواز جنم لے لیں گے۔ اکثر آپ کے حوالہ سے' اور آپ کی ضرورت کے تحت جنم لیں گے۔ یہ اس سے قطعی الگ بات ہے' کہ بعد میں ہاتھ لگانا تو دور کی بات' آپ کی بینائی انہیں دیکھنے سے بھی' معذور پڑ جائے گی۔ ان کا زبان پر نام النا بھی' جرم سرمدی بن جائے گا۔ شہادت کی فضیلت کے باوجود' حضرت قبلہ اپنی پیرومرشد بےغم صاحب مداذال اللی کے ہاتھوں' شہادت کا عظیم رتبہ دل وجان سے پانا پسند نہیں کریں گے لیکن ذلت کا دنبہ بن کر' ذبح ہو جائیں گے۔ یہ خریدداری' محض ظاہری کمال کی حامل ہوتی ہے۔ اس کے باطن میں' نقائص کی بےشمار خبائثتیں موجود ہوتی ہیں۔ خبائثتوں کی عریانی کے بعد' شکائتوں کا المتناہی سلسلہ' شروع ہو جائے گا۔ گھر والی' ہر جا یہ ہی کہے گی' کہ یہ محفل
میں بات کرنے اور خریداری میں' بالکل صفر ہیں۔ حاالں کہ نہ بولنے دیا گیا ہوتا ہے اور نہ ہی خریاری میں' مشورہ لیا گیا ہوتا ہے' بل کہ آپ کی پسند کی خریداری کی ہی نہیں گئی ہوتی۔ آپ کا اگر بس چلتا' تو شاید نہیں' یقینا خریدنے سے سو فی صد اجتناب برتتے۔ سوئے اتفاق' ایک بار بھی انکار کرکے پوری برادری اور عالقہ میں' تھوڑ دل معروف ہو جائیں گے۔ بات چیت میں نااہل خریداری میں نکما تھوڑ دل کردار و شخصیت کا جز قرار پا کر' عرف میں داخل ہو جائیں گے' اس لیے انہیں دو نمبر نہیں کہا جائے گا۔ اگر ان میں سے کوئی' عرف میں آنے سے مرحوم ہو جاتا ہے اور کوئی کہتا ہے' تو یہ بالشبہ دو نمبری ہو گی۔ بیگمی مہر ثبت نہ ہونے کے سبب' کوئی معاملہ اپنا وجود رکھتے ہوئے بھی' دو نمبری ہوگا۔ پہلی صورت میں نکاحی' جب کہ دوسری صورت میں' بےنکاحی ہو گا۔ نکاحی ہونے کے لیے' معاملے کا عرف میں آنا اور اس پر بیگماتی مہر کا ثبت ہونا' ضروری ہوتا ہے۔
ہمارے ادھر' ایک ہی نام اور ایک ہی مسلک کے' دو مولوی ہوا کرتے۔ نام اور مسلک کی مماثلت کے باعت' کنفوژن قسم کی چیز پیدا ہو جاتی۔ شناخت کے حوالہ سے' ایک کو مولوی وڈیرا جب کہ دوسرے کو' مولوی چھوٹیرا کہا جانے لگا۔ اتفاق سے' بظاہر بال کسی کرنی کے'مولوی چھوٹیرا حق ہو گیا۔ اگر اس کا کیا' معافی کے الئق ہے' تو هللا اس کو معاف فرمائے' ورنہ هللا کی اپنی مرضی ہے' معاف کرے ناکرے۔ یہ مذہبی لوگ' بڑے معصوم اور بےگناہ سے ہوتے ہیں۔ کھانا' اس کے بعد بھی کھاتے ہیں .انسانی تفریق' ان کا محبوب ترین مشغلہ رہا ہے۔ اس لیے' هللا انہیں ناہی معاف کرئے' تو اچھا ہے۔ مولوی چھوٹیرے کی موت کے بعد' مولوی وڈیڑے کی خوب بن آئی۔ موصوف تھوڑا سا' کافی سے زیادہ فربہ تھے .قد کے لحاظ سے' پورے پورے تھے' اس لیے باطور مولوی بٹیرا معروف ہو گیے۔ لوگ ان کا اصل نام بھی بھول گیے۔ اپنے عرفی نام سے' جان پہچان پکڑ گیے۔ هللا جھوٹ نہ بلوائے' یہ نام مولوانی صاحبہ کا دیا ہوا تھا۔ نہ بھی دیا ہوتا' تو بھی عرف میں آنے کے باعث' یہ نکاحی کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر مولوانی صاحبہ کا عطا کردہ تھا' تو سونے پر سہاگے والی بات ہے۔کسی سطح پر دو نمبری کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اس لیے مرکب مولوی وڈیرا ہر لحاظ سے نکاحی کے کھاتا میں جاتا ہے
ہمارے ادھر' عمر درزی ہوا کرتا تھا۔ بڑا زبردست ہنروند تھا۔ اس کا مختلف قماش کے لوگوں سے' سارا دن واسطہ رہتا تھا۔ اس کے پاس' تین بینڈ کا ریڈیو تھا۔ گانے شانے بہت کم سنتا' لیکن خبریں اور تبصرے خوب سنتا۔ سنتے ہیں' رات کو سونے سے پہلے' بی بی سی کی خبریں' اس کے بعد جہاں نما شاید یہ ہی نام تھا' ضرور سنتا۔ لوگ اچھا درزی ہونے کی وجہ سے' کپڑے اسی سے سلواتے۔ کپڑے اور ناپ دینے کے بعد' کھسکنے میں خاطر جمع سمجھتے۔ بولتا بڑا تھا۔ جب کبھی' کسی محفل میں آتا' تو لوگ یہ کہتے ہوئے' چلتے بنتے' چلتے ہیں' کتا آ گیا ہے۔ عمردرزی کہنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ اس کی بیوی بھی' اس کی اس عادت سے ناالں تھی۔ یہ الگ بات ہے' کہ اس ذیل میں وہ' اس کی بھی پیو تھی۔ عمر درزی اس کے حضور' کسکتا تک نہ تھا۔ کسی کو کتا کہنا' بدتمیزی کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ ہر لحاظ سے' دونمبری زبان میں داخل محسوس ہوتا ہے۔ مگر کیا کیا 'جائے .کتا آ گیا ہے' میں تشبیہ کا تعلق موجود تھا یہ استعارہ عرفی درجے پر فائز ہوگیا تھا۔
مہر زوجہ پورے پہار کے ساتھ ثبث ہو چکی تھی۔ کتے کے اس لقبی نام کو' ان سہ وجوہ کی بنا پر' اس دور کا سفاک ترین شخص' مسٹر چہاڑی بھی بےنکاحیا قرار نہیں دے سکتا تھا۔ اگر قرار دینے کی سوچتا بھی' تو ہفتوں بےنکاحی گالیاں سنتا۔ هللا بخشے پہاگاں کا بولنے کے حوالہ سے' بڑا سٹیمنا اور نام تھا۔ رانی توپ' اس کی سگی خالہ زاد تھی۔ سیاست' عمومی تفہیم اور سینس میں' ہیرا پھیری' جھوٹ' وعدوں کا پلندہ' لوٹ مار وغیرہ کے زمرے میں آتی ہے۔ سیاست اور ان امور و اصول کا' چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اگر کوئی سیاست دار' ان امور و اصول کی خالف ورزی کرتا ہے' تو دونمبری کا مرتکب ہوتا ہے۔ اگرچہ ایسا ہوتا' کبھی دیکھنے سننے میں نہیں آیا۔ ہاں ایک بات یاد آئی' جھوٹ بولے' تو اس پر سچ کا گمان سا ہو۔ وعدہ کرئے' تو اس طرح کرئے' کہ لوگوں کو اس کی اگلے یا کسی اور موڑ پر ایفائی کا یقین سا ہو جائے۔ غبن اور ہیرا پھیری پکڑ میں آ جاتے ہیں' یا ان کا کسی طبقے کو علم ہو جاتا ہے' تو ایسے شخص کو' شخص کہا جا سکتا ہے' اسے سیاست دار یا سیاست دان نہیں کہا جا سکتا .یہ سیاست میں بددیانتی' ہیرا پھیری اور دو نمبری ہو گی۔ گویا ہیرا پھیری' جھوٹ' وعدوں کا پلندہ' لوٹ مار وغیرہ کا' سیاست سے' چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ایسی سیاست کو ہی' نکاحی
سیاست کہا جائے گا' باصورت دیگر وہ بےنکاحی ہو گی۔ ایک تفہیم میں' یہ بات بھی آتی ہے' کہ امور و معامالت کے لیے' سلیقہ اور عالقائی پاسداری درکار ہوتی ہے۔ جیسے ایک پنجابی' کسی اردو اسپیکنگ کو' گالیاں نکال رہا۔ اس میں کوئی شک نہیں' کہ وہ بڑی سنیما سکوپ قسم کی گالیاں تھیں۔ اس سے سننے والوں کو حظ مل رہا تھا۔ اعضائے مردانہ و زنانہ عذاب میں تھے' تاہم اتنی اذیت میں نہ تھے' جتنی عورتوں کی لڑائی میں آ جاتے ہیں۔ گویا وہاں ان پر حاویانہ بدنصیبی نازل ہو جاتی ہے۔ درایں اثناء اردو بولنے والے صاحب کہنے لگے' حضرت تمیز سے گالی نکالیے' ورنہ ہم بھی آپ کی ماں بہن کی شان میں .گستاخی کر بیٹھیں گے اس میں' سوال عالقے کا اٹھتا ہے۔ اگر گالیاں دینے یا بکنے واال پنجابی' اردو بولنے والے صاحب کے' عالقہ میں تھا تو یہ کھلی دو نمبری تھی۔ اسے' ان کے عالقے کا طور' اختیار کرنا چاہیے تھا' جیسے ضمائر کے استعمال میں' میں کر رہا ہوں۔ اگر اردو بولنے واال' پنجابی کے عالقہ میں تھا' تو یہ دو نمبری
نہ تھی۔ اس کے عالقہ میں ہر گالی نکاحی' جب کہ اس کے عالقہ میں بےنکاحی تھی۔ مغرب کا اپنا رواج ہے' اس لیے معاملے کو' ان کے اصولوں کے تحت نہیں لیا جا سکتا۔ یہاں نکاح کے' اپنے اطوار ہیں۔ فریقین سے' الگ الگ گواہان کی موجودگی میں' قبولیت کے بارے میں پوچھا جاتا ہے۔ ہاں کی صورت میں' وہ ایک دوسرے کے لیے' جائز ہو جاتے ہیں۔ کسی سے' کتنا ہی تعلق پیار ہو' بالنکاح وہ ایک دوسرے کے لیے' دو نمبری ہوں گے۔ اگرچہ دونوں طرح سے' کام اور نتائج ایک سے ہی ہوتے ہیں لیکن جائز اور ناجائز کی حدود' قائم رہتی ہیں۔ پہال طور' عرف عام میں آ کر' ایک مستقل نام کا مستحق ٹھہرتا ہے جب کہ دوسری صورت میں' پوشیدگی ضروری ہوتی ہے' ورنہ عالقہ میں گڈا بندھ جاتا ہے۔ گویا نکاح میں' معاملہ عرف عام میں آ جاتا ہے' اس لیے درست اور جائز قرار پاتا ہے۔ میری بیوی مجھے بات چیت میں نااہل خریداری میں نکما
تھوڑ دل قرار دے دے تو غلط یا دونمبری نہ ہو گی' کیوں کہ سب جانتے ہیں' کہ میں اس کا بندہءناچیز ہوں۔ مالک اپنے بندے کو' کچھ بھی کہہ سکتا ہے یہ اس کا نکاحی استحقاق ہے۔ جس سے معتوب خاوند بھی' انکار نہیں کر سکتا۔ کھوتی ریڑی والے کو میں صرف اتنا جانتا ہوں' کہ کھوتی ریڑی ڈرائیو کرتے اکرام راہی کا گانا گا رہا تھا یا پھر ریڑی کا مارنا مجھے یاد ہے۔ وہ کون تھا کہاں رہتا تھا میں نہیں جانتا۔ میں اسے کس حساب میں' وہ کچھ کیسے کہہ سکتا ہوں جو عرف میں نہیں حاالں کہ میں نے' اسے دیکھا تھا۔ میں اسے زیادہ سے زیادہ بےسرا اور بےمہارا کہہ سکتا ہوں اگرچہ یہ بھی' عرف عام میں نہیں۔ گویا اصوال میں اسے بےسرا اور بےمہارا بھی نہیں کہہ سکتا۔ میری بیوی اگر اسے وہ وہ کچھ کہہ دیتی جو عرف میں نہیں' یہ دو نمری ہو گی ہر دو نمبری بےنکاحی ہوتی ہے۔ ساختیات کے مطابق' کوئی تشریح اور معنویت آخری نہیں۔ تحقیق کا بھی' یہی اصول اور کلیہ ہے۔ کسی بات کو آخری قرار دینا' مزید کے دروازے بند کرنا ہے۔ اضافہ' کمی اور تردید کا دروازہ' ہمیشہ کھال رہتا ہے۔ بعض اوقات' ماخذ وہ ہی رہتا ہے' لیکن بہتری کی صورتیں نکلتی رہتی ہیں۔ مارکونی کی ایجاد' ریڈیو ہی کو لے لیں۔ لہروں کا نظام وہ ہی ہے' لیکن اس سے
بہت کچھ تیار کر لیا گیا' کہ حیرت ہوتی ہے۔ اصل دکھ کی بات تو یہ ہے' کہ مادہ کے کھوجی کو بھال دیا گیا ہے۔ خیر جو بھی صورت رہی ہے' اس سے یہ بات ضرور کھلتی ہے کہ تحقیق میں کچھ بھی حرف آخر کے درجے پر فائز نہیں۔ بالکل اسی طرح کسی تشریح و معنویت' یہاں تک کہ ہئیت اور تلفظ کو' آخری ہونے کا درجہ نہیں دیا سکتا۔ لفظ اگر متحرک ہیں اور کسی ناکسی حوالے سے مقامی و غیر مقامی والئیتوں میں مہاجرت اختیار کرتے ہیں تو ان کی ہئیت' تلفظ' مکتوبی اشکال' اور معنویت میں بھی' ہرچند تبدیلی آتی رہتی ہے .اس تناظر میں' میرا کہا گیا' حرف آخر نہیں۔ مرکب بےنکاحی گالیوں کے اور بہت سے مفاہیم سامنے آتے جائیں گے۔
احباب اور ادارے آگاہ رہیں
اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان کو هللا نے بہترین تخلیق فرمایا۔ اسے اگہی کی نعمت سے سرفراز کیا۔ اس میں بےشمار
شکتیاں رکھ دیں۔ ہر شکتی کے ہر سیل کا کوڈ مقرر کیا اور یہ راز‘ راز میں رکھا۔ اگر اس راز کی آگہی انسان کی اپروچ میں ہوتی تو انسان کی خود انسان کے ہاتھوں کیا کیا ہئیتی صورتیں ہوتیں۔ انسان کیا سے کیا ہو جاتا۔ کائنات کا ہر ذرہ اس کی اپروچ میں رکھ دیا۔ یہی نہیں کیوں اور کیسے کی کھوج کا مادہ بھی اس کی فطرت کا حصہ بنایا تا کہ تخلیق کے ساتھ ساتھ تزئین کا عمل بھی جاری و ساری رہے۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ لیکن اسے محدود بھی کر دیا۔ اپنی موجودہ حالت میں المحدود بھی کہہ لیں تو کوئ حرج نہیں۔ اس کی المحدودیت بھی محدود کر دی۔ وہ نہیں جانتا کہ اسے اگال سانس آئے گا کہ نہیں آئے گا۔ اس طرح ہر ادھورہ کام اگلے انسان پر چھوڑ دیا تاکہ کھوج اور تالش کا عمل کسی سطع پر تعطل کا شکار نہ ہو۔ ضروری نہیں اگال انسان اسی سوچ کے ساتھ اسی طرح کرئے جس طرح کہ پہلے نے کیا تھا۔ یہ بھی ممکن ہے انسان اپنی تحقیق مکمل کر چکا ہوتا ہے اور پیش کر چکا ہوتا ہے بہت بعد میں یا پیش کش کے فورا بعد کوئی نیا سراغ مل جاتا ہے اور وہ اپنے کیے ہی کو مسترد کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ پہلی پیش کش کے بطن سے اور بہت سی چیزیں جنم لیتی ہیں۔ مارکونی نے ریڈیو ایجاد کیا۔ آج ریڈیو کے حوالہ سے ان گنت چیزیں وجود میں آئ ہیں۔ میں نے بڑی محنت اور مشقت سے لفظ ہند کی تحقیق کی اور اپنا مقالہ انٹرنیٹ پر پیش کر دیا۔ ازاں بعد ایک دوسرا سراغ مال۔ پہال کام یکسر غارت ہو کر رہ گیا۔ بات کدھر
کی کدھر نکل گئی۔ اس نئے کام کو۔۔۔۔۔۔اردو ہے جس کا نام۔۔۔۔۔۔ کےعنوان سے پیش کیا۔ میرا قطعا دعوی نہیں کہ جو میں نے پیش کیا ہے‘ حرف آخر ہے۔ تحقیق کی حد نہیں کہ معاملہ کہاں سے کہاں پہنچ جاءے۔ میرا کہا کیا سے کیا ہو جائے۔ میں کافی سوچ و بچار کے بعد اس نتیجہ پر پنچا ہوں کہ کامل صرف اور صرف هللا کی ذات گرامی ہے اور ہر کاملیت اسی کی طرف پھرتی ہے۔ اگر کوئی دعوی کرتا ہے تو جھوٹ سے کام لیتا ہے۔ انسان اس نوع کے دعوی کے لیے دلیل نہیں رکھتا۔۔ انسان کا کہا اور کیا ،کبھی اور کسی سطع پر حرف آخر کا درجہ حاصل نہیں کر سکتا۔ اگر وہ ایسا کہتا ہے تو غلط کہتا ہے۔ اگر وہ ایسا سوچتا ہے تو غلط سوچتا ہے۔ اس طرح کا کہنا اور سوچنا نادنی کے سوا کچھ نہیں۔ میں نے اپنی کسی تحریر میں کہا تھا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔ ناصر زیدی شاعر اور کالم نگار سے بڑھ کر سچے سچے اور کھرے پروف ریڈر ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے اپنے کہے پر ناز تھا۔ ان کا ٦٢نومبر کا کالم پڑھ کر مجھے اپنے کہے پر شرمندگی ہوئ ہے۔ وہ اس ہنر میں بھی پرفیکث نہیں ہیں۔ خیر وہ تو اچھا ہوا کسی نے ابھی تک ان سے اس ذیل میں خدمات حاصل نہیں کیں ورنہ ان کا کیا جانا تھا کوسنے تو مجھے ملنے تھے۔ میں اس تحریر میں کہی گئ اس بات کو واپس لیتا ہوں۔ اگر اب بھی پروف ریڈنگ کے ضمن میں کوئ ان کی خدمات حاصل کرتا ہے ہر غلط ملط کی ذمےواری خود اس پر عائد ہو گی۔ میرا ذمہ اوش پوش۔ غلط معلومات فراہم کرنے پر میں دلی طور پر معذرت خواہ ہوں۔
احباب اور ادارے آگاہ رہیں۔
مولوی صاحب کا فتوی اور ایچ ای سی پاکستان
دو میاں پیوی کسی بات پر بحث پڑے۔ میاں نےغصے میں آ کر اپنی زوجہ محترمہ کو ماں بہن کہہ دیا۔ مسلہ مولوی صاحب کی کورٹ میں آگیا۔ انہوں نے بکرے کی دیگ اور دو سو نان ڈال دیے۔ نئی شادی پر اٹھنے والے خرچے سے یہ کہیں کم تھا۔ میاں نے مولوی صاحب کے ڈالے گیے اصولی خرچے میں عافیت سمجھی۔ رات کو میاں بیوی چولہے کے قریب بیٹھے ہوئے تھے۔ بیوی نے اپنی فراست جتاتے ہوئے کہا "اگر تم ماں بہن نہ کہتے تو یہ خرچہ نہ پڑتا۔ بات میں سچائی اپنے پورے وجود کے ساتھ موجود تھی۔ میاں
نےدوبارہ بھڑک کر کہا "توں پیو نوں کیوں چھیڑیا سی بظاہر اس میں ایسی کوئی بات نہیں جس پر بھڑکا جائے بلکہ اس میں میاں کی ہی حماقت نظر آتی ہے۔ اصل معاملہ یہ نہیں جو بظاہر دکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زوجہ محترمہ غلطی میاں کی ثابت کرنا چاہتی تھی۔ گویا اس کی غلطی کے سبب خرچہ پڑا۔ اسے یہ یاد نہ رہا کہ اس نے کوئ ایسی چبویں بات کی ہو گی جس کے ردعمل میں میاں نے ماں بہن کہا ہو گا۔ اگر وہ یہ کہتی حضرت سوری میں نے اشتعال میں آ کر فالں بات کہہ دی جس کے سبب ہمیں دیگ اور نانوں کا خرچہ پڑ گیا۔ بات ختم ہو جاتی۔ وہ دراصل میاں کو سزا دینا چاہتی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ دیگ اور نان کا خرچہ برداشت کر لے گا کیونکہ یہ نئ شادی پر اٹھنے والے خرچے کا عشر عشیر بھی نہیں۔ ایچ ای سی پاکستان مندے حال میں ہے۔ اس کی کوئی سننے
واال نہیں کیونکہ سننے والوں کو اس نے بری طرح ڈسٹرب کیا اب اوپر سے خود کو سچا اور برحق سمجھ رہی ہے۔ مجھے اس کے دو ای میل ملے ہیں وہ ہسمجھ رہی ہے کہ میں اس کے حق میں کچھ لکھوں گا۔ میں پاگل ہوں جو اس کے حق میں قلم اٹھاؤں گا۔ کسی جھوٹے کے لیے قلم اٹھانا جھوٹے کے جھوٹ کی تائید کرنے کے مترادف ہے۔ ادارے تاج وتخت کے غالم ہوتے ہیں اور انہیں تاج وتخت کے غلط معامالت کو تحفظ اور انہیں درست ثابت کرنے کے لیے قیام میں میں الیا گیا ہوتا ہے۔ وہ پروفیسر ہیں اور خود کو سچائی کا ٹھیکیدارسمجھتے ہیں حاالنکہ سچائ ان کی گندی سوچ کے برعکس ہے۔ انہیں تنخواہ اس بات کی ملثی ہے کہ وہ تاج والوں کے اشاروں پر رقص کریں۔ انہوں نے حاکم طپقے کی ڈگریوں کو جعلی قرار دیا۔ حاکم طبقہ کبھی جعلی نہیں ہوتا۔ اگر تگڑے غلط قرار پانے لگے تو انہیں تگڑا کون مانے گا۔ ازل سے غلط عضو کمزور رہا ہے۔ انہیں کس حکیم نے اتنے ووٹ حاصل کرنے والے لوگوں کی ڈگریاں غلط قرار دینے کو کہا تھا۔ انہیں سیٹوں پر رعایا کی وقت پڑنے پر مرمت کرنے کے لیے عہدے دیے جاتے ہیں۔ ڈگری تو بہرصورت ڈگری ہوتی ہے اس میں غلط یا صیح ہونے کا سوال کہاں اٹھتا ہے۔ ویسے خود کو تابع فرفان لکھتے ہیں لیکن عملی طور پر خود
کو باالتر سے بھی باالتر سمجھتے ہیں۔ پانی اوپر سے نیچے آتا ہے‘ نیچے سے اوپر نہیں جاتا۔ جن کی انہوں نے ڈگریاں جعلی قرار دی ہیں جیل نہیں چلے گیے۔ موج میں تھے موج میں ہیں۔ اقبال نے کہا تھا موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں اصولی سی بات ہے مچھلی دریا میں زندہ رہ سکتی ہے لہذا وہ دریا سے باہر کیوں آئیں گئے۔ دریا ان کا اپنا ہے۔ اپنوں سے کبھی کوئی جدا ہوا ہے؟ ان کے نکالنے کی کوشش سے وہ کیوں نکلیں گے۔ دریا قطرے قطرے سے بنتا ہے۔ ان کے لیے چند قطرے معنویت نہ رکھتے ہوں لیکن دریا کے لیے بڑی معنویت رکھتے ہیں۔
تیر کمان سے نکل چکا ہےاب کچھ نہیں ہو سکتا ہاں البتہ ایچ ای سی‘ پاکستان دوسرے اداروں کے لیے نشان عبرت ضرور ہے۔ جو بھی چنیدہ اور دریا کے اندر موجود دریا کی ذاتی مخلوق کے خالف قدم اٹھاتا ہے گلیوں کا روڑا کوڑا بھی نہیں رہ
پاتا۔ ہٹ دھرمی اور ڈھیٹ پنا تو یہ ہے کہ یہ سچ پتر غلطی کو غلطی تسلم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حسین ایک ہی تھا۔ آج کسی کو ریاست کے گناہ گاروں کے لیے اپنے بچے مروانے کی کیا ضرورت پڑی ہے۔ ان کی مدد کے لیے کوئی میدان میں نہیں آئے گا۔ باور رہنا چاہیے سر کا بوجھ سر والے کے پاؤں پر آتا ہے۔
سیری تک جشن آزادی مبارک ہو
میں اس امر کا متعدد باراظہار کر چکا ہوں کہ برصغیر دنیا کا بہترین خطہء ارض ہے۔ یہاں کے وسنیک بڑے ہی محنتی اور ذہین ہیں۔ میدان کار زار میں بھی ناقابل یقین کارنامے سر انجام دیتے آئے ہیں۔ سکندر دنیا فتح کرنے چال تھا لیکن راجہ پورس سے پاال پڑا تو اسے نانی یاد آ گئی۔ ٹیپو کا نام لے کر انگریز مائیں اپنے بچوں کو ڈراتی تھیں۔ اہل قلم بھی بال کے ذہین اور بے باک رہے ہیں۔ شاعر عالمتوں
اشاروں میں تلخ حقیقتوں کو کاغذ کے بدن پر اترتے آئے ہیں۔ پیٹو مورخ نے؛ اورنگ زیب جو برصغیر کو جہنم میندھکیلنے کا موڈھی ہے‘ نبی کے قریب پنچا دیا ہے۔ رحمان بابا صاحب نے واضع الفاظ میں اس کی کرتوتوں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ بہادر شاہ ظفر نےبڑے ہی رومانوی الفاظ میں اپنے عہد کے کرب کو بیان کر دیا ہے۔ ذرا یہ شعرمالحظہ فرمائیں کتنا کرب پوشیدہ ہے۔ چشم قاتل تھی میری دشمن ہمیشہ‘ لیکن جیسی اب ہو گئ قاتل کبھی ایسی تو نہ تھی ذہانت کی پذیرائی تو بڑی دور کی بات‘ ان کی ذہانت کو کبھی تسلیم تک نہیں کیا گیا بلکہ ذہانت کی تذلیل ہی کی گئ ہے۔ ہنر مندوں کے ہاتھ کاٹے گئے ہیں۔ بعض تو جان سے بھی گءے ہیں۔ اس کے برعکس کرسی قریب جھولی چکوں کو نوازا گیا ہے۔ یہی جھولی چک اپنی عیاری کے بل پر کرسی پر شب خون مارتے آئے ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ کر دیکھیں غداروں اور دھرتی کے نمک حراموں کے سبب بیرونی طالع آزماؤں کے سبب یہ دھرتی
غیروں کی غالم رہی ہے۔ غیروں نے اس کےوساءل سےموجیں کی ہیں اور خوب پچرے اڑائے ہیں اوراڑا رہے ہیں۔ حاالت بتاتے ہیں کہ یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ یہ غدار اور دھرتی کے نمک حرام لوگوں کی ذہانت کا اسی طرح قیمہ کرتے رہیں گے۔ اس ذیل میں خدا کے خوف کی بات کرنا حماقت سے کم نہیں۔ خدا‘ خدا کا خوف کھاءیں؟ بادشاہ لوگوں کا شروع سے یہی طور اور وتیرا رہا ہے۔ دور کیا جانا ہے آج کے خدا نما بادشاہوں کو ہی دیکھ لیں کیا کر رہے ہیں۔ شخص ان کے لیے کیڑے مکوڑے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ اس کی بھوک پیاس سے انہیں کوئ غرض نہیں۔ انھیں تو باتوں اور جھوٹے دعوں کے عوض جنتی اور مفتی کھانا مل رہا ہے۔ ان کی دالل افسر شاہی تو گلچرے اڑا رہی ہے۔ لوگ اندھیروں میں ہیں تو وہ کیا کریں ان کے ہاں تو چانن ہے۔ چودہ اگست ہر سال آتا ہے۔ سرکاری اور نجی سطع پر جشن منائے جاتے ہیں۔ سرکاری چھٹی بھی ہوتی ہے۔ میں یہاں کے ذہین لوگوں کی بات کر رہا تھا اس دن کے حوالہ سے میں اس ذہین و فطین شخص کو سالم کرتا ہوں جس نے یہ نعرہ ایجاد کیا -----جشن آزادی مبارک ہو ------جشن آزادی کی مبارک ہے آزادی کی نہیں۔ نعرہ نے کمال کا ہاتھ دکھا یا ہے۔ وہ جانتا تھا ہم آزاد نہیں‘ آزادی کا سہانا خواب دیکھ رہے ہیں۔ خواب دیکھنے
اور خوش فہمی میں مبتال رہنے پر کوئی پابندی تو نہیں ورنہ قوم خادم اور حکومتی گماشتوں کی غالم ہے۔ یہ خادم اور حکومتی گماشتے امریکہ کے پیٹھوں کے غالم ہیں۔ کیسی آزادی کہاں ہے آزادی؟ جو لوگ منصف کے درپے ہو جاتے ہیں‘ اسے نیچا دکھانے اور اپنا دالل بنانے پر اتر آتے ہیں انھیں هللا ہی اپنی گرفت میں لے سکتا ہے۔ وہ صم بکم عم فاھم ال یرجعون کے درجے پر فائز ہو جاتے ہیں۔ قوم کے حصہ میں فقط جشن آیا ہے سو وہ دھوم سے منا رہی ہے۔ هللا ناکرے آتے سالوں میں بھی صرف جشن پر ہی اکتفا کرے۔ میں نے اپنے ایک کالم میں عرض کیا تھا کہ ملک کا آءین معطل یا چیلنج ہو چکا ہے۔ میری اس تحریر کو کسی ایک نے بھی چیلنج نہیں کیا۔ اس نام نہاد جشن آزادی کی کرتوت یہ ہے کہ ملک چیلنج یا معطل آئین کے حوالہ سے چل رہا ہے۔عوام آخر کس قانون اور آئین کے تحت جشن منا رہے ہیں۔ یہ جشن بھی غیر آئینی ہے۔ عوام کو تو جھوٹ موٹھ کی خوشی منانے کا بھی حق حاصل نہیں۔
سال رواں کے اس روائیتی جشن کے موقع پر مجھے دمحم نعیم صفدر انصاری ایم پی اے قصور کا ایک موبائل میسج مال ۔۔۔۔۔۔۔ زنجیریں غالمی کی‘ دن آتا ہے آزادی کا آزادی نہیں آتی ۔ ----چودہ اگست ہپی انڈیپنڈنس ڈےدمحم نعیم صفدر انصاری نوجوان سیاست دان ہے۔ اس کا موباءل میسج میرے مندرجہ باال موقف کا زندہ اور جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ ایک ایوان کے ممبر کے موبائل کے منہ سے نکلی یہ بات اس امر کا واضع ثبوت ہے کہ ملک اور قوم کا درد رکھنے والے نوجوان بھی اس غالم اور غبن اور کرپشن آلودہ فضا میں گھٹن محسوس کرتے ہیں۔ دمحم نعیم صفدر انصاریایوان کلچر کا نمائندہ ہےگویا یہ ون مین گھٹن نہیں ہے پورے ایوان کی گھٹن ہے۔ یہ تو مثل ایسی ہے کہ بہو کو کہا جائے بیٹا سب کچھ تمہارا ہے لیکن کسی چیز کو ہاتھ مت لگانا۔ یہ کیسی نمائندگی اور عالقائی سربراہی ہے کہ لیا سب کچھ جائے لیکن دیا اندھیرا جائے اور پھر بھی مورخ سے کہا جائے لکھو بادشاہ بڑا دیالو کرپالو اور
دیس بھگت تھا۔ بہر طور مجھے خوشی ہوئ کہ ہمارے ایوانوں میں دمحم نعیم صفدر انصاری جیسے نماہندے موجود ہیں جو اس امر کا شعور رکھتے ہیں کہ پاکستانی قوم کے ہاتھ صرف جشن آزادی لگا ہے‘ آزادی ابھی کوسوں دور ہے۔ پرانی نسل دیسی گھی کھاتی تھی اس کے جسم میں وافر خون تھا۔ دیسی گھی تو دور کی بات اس کے پاس تو سوکھی روٹی بھی نہیں۔ خون کہاں سے آئے گا۔ آزادی خون مانگتی ہے اس لیے پیٹ بھرنے تک جشن آزادی کی مبارک باد پر ہی گزارا کرنا کافی رہے گا۔
جمہوریت سے عوام کو خطرہ ہے
عبدالروف پڑھا لکھا آدمی تو نہیں ہے۔ آبائی مشقتی ہے۔ آج اس کی باتیں سن کر مجھے بڑی حیرانی ہوئی۔ اس قسم کی باتیں تو اکثر پڑھے لوگ بھی نہیں کرتے۔ میں نے اس سے دریافت کیا یہ باتیں تم نے کہاں سے سیکھی ہیں۔ کہنے لگا میں رات کو کام
سے فارغ ہو کر خبریں سنتا ہوں‘ تبصرے سنتا ہوں۔ دوہری حیرانی ہوئی اول تا آخر پنجابی ہے پڑھا لکھا بھی نہیں اور انگلش گزیدہ اردو کسی دقت کے بغیر سمجھ لیتا ہے۔ تیسری بڑی بات یہ کہ اپنی رائے بھی رکھتا ہے۔ اپنی رائے کے حوالہ دالئل بھی رکھتا ہے۔ اس کا کہنا ہے پاکستان دراصل انگریز کے چیلوں اور تلوے چاٹنے والوں کو نوازنےکےلیے بنایا گیا۔ دو نمبر لوگ حکومت کرتے آئے ہیں۔ شروع سے یہی کچھ ہوتا آیا ہے۔ اس وقت میڈیا محدود اور حکومت وقت کا غالم تھا اس لیے ان لوگوں کی کرتوتیں عوام تک نہیں پہنچ پاتی تھیں اس لیے لوگ بے بسی یبچارگی کو حاالت کا المیہ سمجھتے تھے۔ حاکم نت نئے نعرے استعمال کرکے اپنے عرصہ حکومت کو طوالت دیتے رہے۔ کشمیر کا نعرہ ایک عرصہ چال۔ روٹی کپڑا اور مکان والے نعرے میں بڑی جان تھی۔ کوئ یہ نہ سمجھ سکا کہ یہ نعرہ لگانے واال کس طبقے سے متعلق تھا اور بھوک پیاس کیا ہوتی ہے سے آگاہ بھی تھا یا بے خبر تھا۔ اس کے بعد اسالم جو یہاں کے عوام کی نفسیاتی کمزوری ہے کو استعمال کیا گیا۔ جنرل مشرف نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ دیا جو اسالمی روح کے ہی خالف تھا۔ آج جمہوریت کا نعرہ لگایا جا رہا ہے۔ جلد ہی کہا جاءے گا جمہوریت خطرے میں ہے۔ کوئی نہیں کہے گا کہ
جمہوریت نے یہاں کے لوگوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ جمہوریت عوام کا مسلہ نہیں ہے۔ آپ نے غور کیا ہو گا الیکشن والے دن امیدواوں کے چمچے اور کہیں خود امیدوار‘ لوگوں کو پکڑ پکڑ کر سو طرح کے سبز باغ دکھا کر ووٹوں کے پیسے دے کر اپنی گاڑیوں میں بیٹھا کر پولنگ اسٹیشن لے کر جاتے ہیں۔ اگر جمہوریت عوام کا مسلہ ہو تو وہ الیکشن کے عمل میں حصہ نا لیں۔ عوام کا مسلہ صرف روٹی کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کرسی والوں نے عوام کو روٹی کے چکروں میں ڈال دیا ہے۔ لوگ کرسی والوں کی باندر پوٹوسیوں سے خوب آگاہ ہیں لیکن کیا کریں انہیں بھوک نے نڈھال کر دیا ہے۔ آج ان کا مسلہ صرف اور روٹی ہے۔ عدلیہ طاقت کے سامنے ڈٹی ہوئ ہے۔ عدلیہ ان کے لیے مذاق بنی ہوئ ہے۔ یہ بھی ان چال بازوں کی ایک چال ہے۔ عدلیہ خط کے چکروں میں پڑی رہے اور اس کی توجہ اداروں میں ہر روز ہونے والی اربوں کی کرپشن اور غبن کی طرف نہ جائے۔ سارا قصور سیاست دانوں کا نہیں ہے اداروں کے افسر یقین دالتے رہتے ہیں کہ جناب فکر نہ کریں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ یہ افسر داؤ پیچ بھی بتاتےرہتے ہیں۔ اس خیرخواہی کے صلے میں لمے نوٹ کما رہے ہیں۔
اس کا کہنا ہے جن لوگوں کا اپنا پیٹ نہیں بھرا اور وہ اس حوالہ عدلیہ سے ٹکر لینے پر اترے ہوئے ہیں۔ یہی نہیں عدلیہ کو مجبور و بے بس کر دینے پر تلے ہوئے ہیں؛ اپنی اس سر کشی کو آئنی قرار دیتے ہیں۔ ان سے خیر کی توقع رکھنا کھلی حماقت ہو گی۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے گلے میں سب زیادہ ٹیکس دیتا ہے۔ اناج اور سبزیات پنجاب مہیا کرتا ہے پھر بھی بتی اسے محروم رکھا جا رہا ہے۔ بادشاہ کے لیے تو سب برابر ہوتے ہیں۔ کوئی اس کے اس ڈنڈی مار پروگرام پر بات نہیں کر رہا۔ اسے تو سب اچھا کی آواز سنائی دیتی ہو گی۔ اس کا موقف یہ ہے۔ لوگوں کے اختیار میں کچھ نہیں۔ لوگ تو ان کا کھلونا ہیں۔ جمہوریت یعنی ان کی بادشاہت کو کوئی خطرہ نہیں کیونکہ ساری گوٹیاں سارا گلہ افسر شاہی اس کے ہاتھ میں ہے۔ افسر شاہی کو اس سے بڑھ کر موجو میسر نہیں آ سکتا۔ عبدالروف کی باتوں سے اتفاق ہونا یا نہ ہونا قطعی الگ بات
ہے۔ ساری عوام بھی اس طور سے سوچے تو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ اصل سوچنے کی بات یہ ہے کہ لوگ جہوریت یعنی حکومت کے بارے میں سوچنے لگےہیں۔ اس قسم کی سوچوں سے بےچینی بڑ ھے گی جو بادشاہ لوگوں کی صحت کے لیے کسی طرح درست نہیں۔ عوام کی جمہوریت کے حوالہ سے آگہی کسی وقت بھی بغاوت کا دروازہ کھول سکتی ہے۔ آتے ممکنہ خطرے کے پیش نظر صرف ایک ٹی وی چینل پی ٹی وی رہنےدیا جاءے باقی سب بند کرا دیئے جائیں کیونہ یہ اتشار پھیالتے ہیں اور ان کے باعث نقص امن کا خطرہ ہے۔ کار سرکار میں یہ کھلی مداخلت ہے۔ اسی طرح دو ایک سرکاری اخبارات سے بخوبی کام چل سکتا ہے اور چلتا آیا ہے لہذا انھیں بند کرا دینے سے جموریت کو اس اپنے قدموں پر رکھا جا سکتا ہے
رمضان میں رحمتوں پر نظر رہنی چاہیے
رمضان برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے۔ نصیب والے اس مہینے میں زاد آخر جمع کرنے کا جتن کرتے ہیں۔ توبہ کے سارے دروازے کھل جاتے ہیں۔ اپنے لیے مغرفت کے طالب
ہوتے ہیں۔ بالشبہ هللا بڑا ہی معاف کرنے واال ہے اور وہ اپنے بندوں کو مایوس نہیں کرتا۔ ۔بندہ بھی هللا کی ان حد رحمتوں سے مایوس نہیں ہوتا۔ وہ کوئ لمحہ ضاءع نہیں کرتا۔ جانے کون سا لمحہ قبولیت کا لمحہ ہو اور بخشش اس کا مقدر ٹھہرے۔ ہمارے ہاں رمضان کی آمد کا سبزی منڈی ہو کہ فروٹ منڈی یا بازار‘ ایک ہفتہ پہلے ہی ڈنکا بج جاتا ہے۔ اصل میں یہ مہینہ بچتوں کا مینہ ہے۔ شخص جبری بچت پر مجبور ہوتا ہے۔ کوئی چیز جیب کی دسترس میں نہیں رہتی۔ سنا ہے شیطان اس مہینے قید کر دیا جاتا ہے البتہ سارے فروش آزاد ہی نہیں کھلے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہوتا تو شاید اشیاء گریب شخص کی اپروچ میں رہتیں۔ شیطان کھال رہتا اور یہ قید کر دیے جاتے‘ تو زندگی کی بیچارگی کم از کم چار گنا نہ بڑھتی۔ شخص موجودہ صورت سے کہیں زیادہ آسودہ حال ہوتا۔ لوگوں کا خیال ہے ہمارے بااختیار بادشاہ لوگ شیطان کی کمی پوری کرنے کے لیے اور مومنوں کی آزمائش کے لیے انہیں اپنے اشیرباد سے سرفراز کرتے ہیں۔ وہ ایک نہیں مومنوں کی آزمایش کے لیے بہت سارے دروازے
کھول دیتے ہیں۔ مثال عین ہانڈی روٹی کے وقت گیس بند کر دیتے ہیں۔ روزے کی افطاری سے پہلے بجلی کا دروازہ بند کر دیا جاتا۔ ادھیر روزے کی افطاری کا وقت ادھیر گیس کی آمد ہو جاتی ہے جبکہ بجلی اس روایت کی تابع فرمان رہتی ہے۔ استاد نے شاگرد کو کہا اس فقرے کا انگریزی میں جملہ بناؤ: وہ گیا ایسا گیا کہ چال ہی گیا۔ شاگرد نے کچھ ایسا انگریزی جملہ بنایا :ہی ونٹ ایسا ونٹ کہ بس ونٹ ہی ونٹ۔ بجلی بھی بس ونٹ ہی ونٹ کو اپنا شعار ٹھراتی ہے۔ گیس اور گرمی کی تپش جب کرکر لمبے ہاتھ گلے ملتی ہیں تو بے خبروں کو بھی قیامت یاد آ جاتی ہے۔ کملے لوگ یہ جانتے ہوءے بھی کہ شیطان قید میں ہے شیطان کو برا بھال کہتے ہیں۔ اس مہینے میں شیطان پر لعنتیں انتہائ زیادی اور انصافی کی بات ہے۔ قید میں پڑے شیطان کو کیا معللوم کہ اس کے گندے انڈے بچے اس سے بازی لے گیے ہیں۔ روزوں کے بعد جب وہ رہا ہو گا تو مومنوں سے کہیں بڑھ کر عید کی خوشیاں منائے گا کہ اس کے بالکوں نے وہ کر دکھایا جو وہ شاید کبھی بھی نہ کر پاتا۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ گیس کی بندش سے لوگ بازار سے خریداری پر مجبور ہو جائیں گے۔ اس طرح بادشاہ لوگوں کی رمضانی رحمتیں ان کے کھیسہ مبارک میں بال تکلف اور بالتررد بسیرا فرما لیں گی اور الزام اشیاء فروشوں کے سر پر آءے گا اور وہ نہاتے دہوتے عوام کے روبرو رہیں گے۔ لوگ گالیاں دیں گے تو فروشوں کو دیں گے اور وہ عوام کی ہاں میں ہاں مالنے کے قابل رہیں گے۔ رمضان شریف نے دفاتر کی بھی چھٹی حس بیدار کر دی ہے۔ ان کے مروجہ ریٹ سہ گنا ترقی کر گئے ہیں۔ غالبا دفاتر نشین بھی سچے ہیں۔ وہ بھی وہاں ہی سے خریداری کرتے ہیں جہاں سے دوسرے لوگ کرتے ہیں۔ مارکیٹ سے قدم سانجھے کرنے کے لیے وہ بھی امور کے بھاؤ بڑھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ کسی کے ہاں تین سو روپیے درجن کیلوں کی فروٹ چارٹ بنانے کا خواب دیکھنا مانع ہو لیکن ان کے ہاں اس کے بغیر بنتی نہیں۔ کیا کریں‘ بیگمی مجبوری ہے۔ بچوں کو کس طرح معلوم ہو گا کہ ان کے ابا گرامی دفتر میں بڑے بااختیار عہدے پر قبضہ فرما ہیں۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ملک نفاذ اسالم کے لیے حاصل کیا گیا تھا۔ اس قسم کی سوچ رکھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ یہ ملک کبھی بھی نفاذ اسالم کے لیے حاصل نہیں کیا گیا۔ ان کے خیال میں اگر میں غلط کہتا ہوں تو ٧١٧٢سے لے ل کر ٧٤اگست ٧١٤١تک مسلم لیگ کی ایک بھی قرارداد نکال کر دکھا دیں‘ میں ان کی فراست کو مان جاؤں گا۔ یہ محض عوامی نعرہ اور عوامی خواہش تھی اور ہے۔ نئ نسل کو شاید معلوم نہیں‘ پرانی نسل کو بتانا چاہیے تحریک نفاذ نظام مصطفے کا کیا حشر ہوا تھا۔ کتنے لوگ حواالتی ہوءے اور کتنوں کے پاسے سیکے گءے تھے۔ روزوں کے اس بارکت مہینے میں اسالم کو بچ میں النے کی آخر کیا ضرورت ہے۔ اسالم فرد کا ذاتی معاملہ ہے اور فرد کو کسی نے نہیں روکا کہ وہ روزے نہ رکھے یا مسجد میں اپنی ذمےداری پر ترابیاں پڑھنے نہ جائے۔ سو بار جاءے اور بے شک ساری رات ترابیاں پڑھتا رہے۔ کسی پر کیا احسان ہے‘ مہنگی اشیار نہ خریدی جاءیں۔ روزےدار پانی سے افطاری کرے اور هللا کی اس گراں یایاں نعمت کا الکھ الکھ ادا شکر کرے۔ رہ گئ بجلی کے باعث پانی نہ ملنے کی بات‘ بجلی والی موٹروں کی کیا ضرورت ہے۔ گھروں
میں نلکے لگوائیں۔ بجلی کی محتاجی ختم ہو جائے گی۔ مہینے میں بیس تیس یونٹ کم استعمال ہوں گے۔ زیادہ یونٹ کے بل آنے کا قرضہ واپڈا بہادر پر رہے گا۔ دو ڈھائ سو روپے کلو والی مہنگی کھجور خریدنے کو کس نے کہا ہے‘ اسی نوے رویے کلو والی کھجور کو کیا ہوا ہے۔ اسے کون سی ماتا نکلی ہوئی ہے بلکہ کھجور خریدنے کی ضرورت ہی کیا ہے دس روپیے کلو واال نمک کس دن کام آءے گا۔ رمضان رحمتوں اور برکتوں واال مہینہ ہے اور یہ بال رقم میسر آتی ہیں۔ لوگوں کی نظر رحمتوں اور برکتوں سے ادھر ادھر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی روزہ داری میں کسی ناکسی سطع بر کھوٹ ضرور موجود ہے۔ مہینگائی کا رونا رونے کی بجائے کھوٹ کی تالش کہیں اہمیت رکھتی ہے
دنیا کا امن اور سکون بھنگ مت کرو
ایک صاحب نے مجھ سے پوچھا پروفیسر کے کیا فرائض ہیں۔
انھوں نے مزید فرمایا مجھے تو یہ طبقہ فارغ لگتا ہے۔ بات کے دوسرے حصہ سے متعلق ایک سیاسی طبقہ اور اس کی جی حضوریہ ناالئق اور ناخلف منشی برادری پروپگنڈا کرنے میں مصروف ہے۔ ناالئق اور ناخلف کی اگر کسی کو وضاحت درکار ہے تو میں بسروچشم حاضر ہوں۔ پروفیسر بیک وقت تین کام کرتا ہے ٧۔ معلومات فراہم کرتا ہے ٦۔ غلط اور صیحح ہی نہیں بتاتا بلکہ ان کی تمیز بھی سکھاتا ہےگویا رویے تشکیل دیتا ہے۔ ٣۔ سوچتا ہے اور اس کا اظہار کرتا ہے۔ ایک شخص آٹھ گھنٹے بیاس منٹ جسمانی کام کرتا ہے جبکہ پروفیسر اڑتیس منٹ کام کرتا ہے۔ دونوں برابر کی تھکاوٹ محسوس کرتےہیں پروفیسرکی زیادہ انرجی صرف ہو جاتی ہے۔ پروفیسر جو سوچتا ہے وہ ڈیلور بھی کرتا ہے۔ گویا جسمانی کام کرنے والوں سے پروفیسرکی زیادہ انرجی صرف ہو جاتی ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا پروفیسر ہو گا جو موٹا تازہ ہو۔ اگر کوئی
موٹا تازہ پروفیسر نظر آ جائے تو یقینا کسی پیٹ کے عارضے میں مبتال ہو گا۔ مناسب انداز سے فکری نکاسی نہ ہونے کے سبب بھی موٹاپا آ سکتا ہے۔ عزت اور جان دونوں خطرے کی توپ کے دہانے پر ڈیرہ گزیں رہتے ہیں اس لیے ڈیلوری ایسا آسان اور معمولی کام نہیں۔ اگر نہیں یقین آتا تو کسی خاتون سے پوچھ لیں کہ ڈیلوری کا عمل کتنا مشکل اور کٹھن گزار ہوتا ہے۔ کوئی خاتون خفیہ بات دس پندرہ منٹ سے زیادہ پیٹ میں نہیں رکھ سکتی۔ خیر یہ بات عورتوں تک ہی محدود نہیں پروفیسر تو الگ کہ ان کا یہ کام ہی یہی ہے۔ وکیل اور پروفیسر بول بچن کی کھٹی کھاتے ہیں۔ ایک عام آدمی خفیہ بات یا کسی کا کوئی انتہائی حساس راز زیادہ دیر تک پیٹ میں نہیں رکھ سکتا۔ محاورہ پیٹ سے ہونا کے حقیقی معنی یہی ہیں۔ آج موٹے تھانیداروں کے حوالہ سے بات ہو رہی تھی۔ سوال اٹھ سکتا ہے وہ کیوں موٹے ہیں۔ اکثر یہ کہیں گے وہ کھا کھا کر موٹے ہو جاتے ہیں۔ مجھے اس سے اسی فیصد اتفاق نہیں۔ معدہ کی بیماری کے سبب کوئی تھانیدار موٹا ہوا ہو تو الگ بات ہے۔ وہ اوروں سے زیادہ ہمدردی کا مستحق ہے۔ ایک طرف معدہ پرابلم دوسری طرف زیادہ کھا لینے کا مسلہ تو تیسری طرف رازوں کی عدم نکاسی۔
کسی موٹے تھانیدار پر کوئی دوسرا موٹا تھانیدار نعرہ تکبیر کہہ کر چڑھا دیں وہ وہ راز اگلے گا کہ عقل سوچ اور دل و دماغ کی روح قبض ہو جائے گی۔ اس کے پیٹ میں بڑے افسروں نبی نما سیاست دانوں سیٹھوں مذہبی لوگوں کے وہ وہ راز ہوتے ہیں جن کا کسی کے دونوں فرشتوں تک کو علم نہیں ہوتا۔ اس مدے پر بات کرنا ہی فضول بات ہے کیوں کہ تھانیدار ان لوگوں پر تھانیدار نہیں ہوتے۔ تھانیدار عوام کو گز رکھنے کےلیے ہوتے ہیں۔ ان کا شرفاء کے اعلی طبقے میں شمار ہوتا ہے۔ ۔سو گز رسہ سرے پہ گانٹھ‘ بات کا پیٹ میں رکھنا بڑا ہی مشکل بلکہ ناممکن کام ہے‘ اپھارہ ہونا ہی ہوتا ہےاور یہ پہلے سوال کی طرح الزمی بات ہے۔ آپ کے دیکھنے میں بات آئ ہو گی کہ مرنے والے کا کوئ قریبی رو نہ رہا ہو تو اس کو روالنے کے لیے سر توڑ کوشش کی جاتی ہے۔ یہ بات پردہ میں رہتی ہے کہ اس قریبی نے اس کی موت پر شکر کا سانس لیا ہو۔ دلوں کے حال هللا جانتا ہے اس لیے بات پردہ میں ہی رہ جاتی ہے تاہم اس کا کچھ ہی دنوں میں پیٹ کپا ہو جاتا ہے۔۔ اس حوالہ سے کسی تھانیدار پر انگلی رکھنے سے بڑا ہی پاپ لگتا ہے۔ کسی موٹے پروفیسر پر بھی یہی کلیہ عائد ہوت ہے۔ آج ہی کی بات ہے بشپ صاحب کی طرف سے امن سیمینار منعقد
ہونے جا رہا ہے۔ پروفیسر ہونے کے ناتے بد ہضمی اور گیس کا شکار ہوں کیا کروں میں بات نہیں کر سکتا کہ اللہ جو گولیاں اور چھتر کھا رہے ہیں انھیں امن کی کتھا سنا رہے ہو اور جو گولیاں اور چھتر مار رہا ہےاس کے معاملہ میں آنکھ بند کیے ہوئے ہو۔ میں سب کہہ نہیں سکتا کمزور بوڑھا اور بیمار آدمی ہوں میرے پاس ایک چپ اور سو سکھ کے سوا کچھ نہیں۔ ایک موباءل ایس ایم ایس کا حوالہ دیتا ہوں۔ حضرت قاءد اعظم کے پاس ایک خاتون آئی اور اپنے بیٹے پر جھوٹے قتل کے مقدمے کے حوالہ سے درخواست کی۔ بابا صاحب نے مقدمہ لڑا اور خاتون کے بیٹے کو بچا لیا۔ خاتون نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آج تو آپ ہیں اور کمزروں کو بچا لیتے ہیں کل آپ نہ ہوئے تو کمزروں کا کیا بنے گا۔ بابا صاحب نے فرمایا نوٹوں پر چھپی میری تصویر ہر کسی کے کام آئے گی۔ اب مسلہ یہ آن پڑا ہے کہ نوٹ لسے اور ماڑے لوگوں کے قریب سے بھی نہیں گزرتے۔ایسےبرے وقتوں میں خاموشی ہی بہتر اور کارگر ہتھیار ہے۔ اپھارہ ہوتا ہے تو ہوتا رہے مجھے کیا پڑی ہے جو اس امن سیمینار پر کوئی بات کروں بلکہ مجھ پر یہ کہنا الزم آتا ہے کہ کہوں گولیاں کھاؤ چھتر کھاؤ چپ رہو۔ اؤں آں اور ہائے واءے کرکے دنیا کا امن اور سکون بھنگ مت کرو
اس عذاب کا ذکر قرآن میں موجود نہیں
یہ حیقیقت ہر قسم کے شک اور شبے سے باالتر ہے کہ ہر خیر هللا کی طرف پھرتی ہے۔ لطف و عطا رحم وکرم درگزر کرنے میں کوئ اس کا ہمسر نہیں۔ هللا ہر حال اور ہر حوالہ سے اپنی مخلوق کی بہتری چاہتا ہے۔ انسان کی طرح سرزنش میں جلدباز نہیں۔ وہ بار بار مواقع فرام کرتا ہے۔ وہ ہر سطع پر اپنی بہترین مخلوق یعنی انسان کی ظفرمندی چاہتا ہے۔ وہ انسان کو آسودگی فراہم کرتا۔ وہ مولوی پنڈت یا پادری نہیں جو معمولی معمولی بات پرکفر کا فتوی صادر کر دیتا ہے۔ وہ تو هللا ہے اور اس کی درگزر کے لیے کوئی پیمانہ موجود ہی نہیں۔ انسان کو جو ملتا ہے اس کے اپنے کئے کا ملتا ہے۔انسان اپنے ہاتھوں اپنے لیے آگ جمع کرتا ہے۔ اپنی جمع کی ہوئ آگ میں اس زندگی میں صعوبت اٹھاتا ہے۔ روز حشر جو برحق ہے' میں
جلے گا اور جلتا رہے گا۔ یہاں زندگی کے دن مقرر ہیں لیکن بعد از مرگ کی زندگی کے دن کبھی ختم نہ ہونے والے ہیں۔ اس زندگی جمع کئے گئے پھل پھول یہاں آسودگی کا نام پاتے ہیں جبکہ روزحشر اسے جنت کا نام دیا جائے گا۔ هللا اس جمع پونجی کو ستر گنا برکت غطا فرمائے گا اور انسان اپنے اثاثے کے حوالہ سے عیش کی گزارے گا۔ بالکل اسی طرح اپنی جمع کی گئ آگ میں آخرت کی زندگی گزارے گا اور اسے دوزخ کا نام دیا جاءے گا۔ گویا یہاں اپنے کئے کی بھرنی ہے۔ کسی قسم کے جبر یا انتقام کی صورت نہ ہو گی۔ هللا بےشک بڑا انصاف کرنے واال ہے۔ جبر یا انتقام اس کی ذات اقدس کو زیب ہی نہیں دیتے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ جہان میٹھا ہے .سب لوگ مر جاءیں گےاور ہمیں موت نہیں آئے گی یا یہ کہ جو پوچھنے والے ہیں وہ خود حصہ خور ہیں۔ بیمار ہونے کی صورت میں بہترین ڈاکٹروں کی خدمت حاصل کرکے موت سے بچ جاءیں گے۔ غالبا ہمیں یہ غلط فہمی بھی الحق ہے کہ عذاب وغیرہ کا کوئی چکر ہی نہیں یہ صرف مولوی حضرات اپنے ذاتی اغراض ومقاصد کے لیے ڈراتے رہتے ہیں۔ ڈرنے کی صرف کمزور طبقے کو ضرورت ہے۔ صاحب اختیار اور آسودہ حال لوگوں کو ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔ مذہب وغیرہ کمزور طبقوں کی تسلی وتشفی کے حوالہ سے ضرورت ہے۔ وہ اجر اور ثواب وغیرہ کے حوالہ
سے مرنے کے بعد موج میلہ کر لیں گے۔ ان کا کام وعدہ سے چل جاتا لہذا نقد ونقد فقط ان کی اپنی ضرورت ہے۔ ایسے بدعقیدہ لوگوں کے لیے یہاں بھی تاریخ نے ان گنت مثالیں چھوڑی ہیں۔ یہی نہیں' انسانوں کی اس بےراہرو بستی میں آج بھی مثالیں مل جاتی ہیں۔ یہاں ایک صاحب ڈی سی آفس میں چھوٹے موٹے عہدے دار تھے۔ بہت ہی مختصر سے عرصے میں اس نے کام میں مہارت حاصل کر لی۔ پھر کیا تھا' انی ڈال دی .فرعون کی ساری صفات اس میں جمع ہو گئیں۔ منہ میں کتا اور آنکھوں میں سور بسیرا کر گیا۔ اس عالقہ میں شاید ہی اس کے پائے کا راشی شرابی اور زانی ہو گا۔ اس نے اپنے گھر میں جوائے کا آغاز کیا ۔ اس کے اس کام کو دن دوگنی ترقی ملی۔ دیکھتے دیکھتے اس کے جوئے کے تین اڈے کھل گئے۔ دن دہاڑے گھر میں عورتیں التا۔ اسے اتنی بھی حیا نہ آتی کہ گھر میں اس کی دو جوان بیٹیاں بھی ہیں۔ ایک عرصہ تک وہ دوزخ کی آگ جمع کرتا رہا۔ پھر ریورس کا عمل شروع ہوا۔ اس کی دونوں یٹیاں گھر پر منہ کاال کرنے لگیں۔ جب گھر میں آگ لگی تو جھگڑا اور مار پٹائی کا کام شروع ہوا۔ واپسی کا دروازہ بند ہو چکا تھا۔ دونوں کسی کے ساتھ بھاگ گئیں اور اس کا اثرورسوخ کام نہ آ سکا۔ اس کے
دونوں بیٹے لفنٹر نکلے۔ اس کی جمع کی ہوئ دولت کو لٹانے لگے۔ وہ ان کے سامنے بھیڑ سے بھی زیادہ کمزور ثابت ہو۔ اس کے تین اپریشن ہوئے۔ حرام کی کمائ سے بنائے گئے تینوں مکان بک گئے۔ دو دوکانیں نیالم ہو گئیں۔ کرائے کی ایک نہایت بوسیدہ سی دوکان میں رہایش پذیر ہوا۔ اب فالج کا اٹیک ہوا ہے۔ کوئی ملنے یا حال احوال پوچھنے تک نہیں آتا عبرت کی تصویر بنا ہوا ہے۔ یہ آگ اس کی اپنی جمع کی ہوئی ہے۔ هللا کی طرف سے بار بار وارننگ آئی ہے لیکن اس نے اس کی کوئ پرواہ نہیں کی۔ معافی کا دروا زہ بند ہو چکا ہے۔ جن پر اس نے ظلم توڑے تھے ان میں سے بہت سارے اس دنیا سے کوچ کر گئے ہیں۔ جو زندہ ہیں وہ اس کا نام تک سننا پسند نہیں کرتے۔ یہ جہنم دنیا کی ہے لیکن آخرت کا عذاب ابھی باقی ہے۔ یہ محض ایک مثال ہے ایسی مثالیں ہر گلی اور ہر محلے میں موجود ہیں۔ کوئی ان سے عبرت لینے کو تیار نہیں۔ میرا اصرار ہے کہ جنت کے پھل اور پھول انسان کے اپنے جمع کئے ہوں گے۔ دوزخ کی آگ پہلے وہاں موجود نہیں بلک یہ آگ انسان اپنے ساتھ اپنے حوالہ سے لے کر جائے گا۔ جو شخص
آج زندہ ہے زندگی کے ہر لمحے کو غنیمت جانتے ہوئے پھل اور پھول جمکرنے کی سعی کرے۔ مہامنشی ہاؤس پنجاب کا ادنی مالزم بھی دہکتی آگ جمع کر ر ہا ہے اور الزام سیاسی حلقوں پر آ رہا ہے کبھی فوج کو دشنام کیا جاتا ہے۔ میری یہ بات پکی سیاہی سے پتھر کی دیوار پر لکھ دیں اصل فساد اور خرابی کی جڑ یہی لوگ ہیں جب تک ان کا کوئی قبلہ درست کرنے نہیں آ چاتا اس خطہ میں موجود ہر انسان کی زندگی جہنم کی آگ میں جلتی رہے گی۔ ڈینگی ان کے ایک ناخن برابر خطرناک نہیں ہیں۔ هللا پناہ' یہ وہ حاویہ ہیں جن کا جانے بائی نیم قرآن مجید مں ذکر کیوں نہیں ہوا۔
غیرت اور خشک آنتوں کا پرابلم
اصولی سی اور صدیوں کے تجربے پر محیط بات ہے کہ غیرت قوموں کو تاج پہناتی ہیں۔ بے غیرتی روڑا کوڑا بھی رہنے نہیں دیتی۔ روڑا کوڑا اس لیے معتبر ہے کہ تالش کرنے والوں کو
اس میں بھی رزق مل جاتا ہے۔ جب بھی معامالت گھر کی دہلیز سے باہر قدم رکھتے ہیں توقیر کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ سارا کا سارا بھرم خاک میں مل کر خاک ہو جاتا ہے۔ جس کو کوئی حیثیت نہیں دی گئی ہوتی وہ بھی انگلی اٹھاتا ہے۔ نمبردار بن جاتا ہے۔ جس کے اپنے دامن میں سو چھید ہوتے ہیں اسے بھی باتیں بنانے کا ڈھنگ آ جاتا ہے۔ یہ قصور باتیں بنانے یا انگلی اٹھانے والوں کا نہیں ہوتا بلکہ موقع دینے والوں کا ہوتا ہے۔ یہ حقیقیت بھی روز روشن کی طرح واضح اور عیاں رہی ہے کہ طاقت کے سامنے اونچے شملے والے سر بھی خم رہے ہیں۔ گویا طاقت اور غیرت کا سنگم ہوتا ہے تو ہی بات بنتی ہے۔ کمزور صیح بھی غلط ٹھرایا جاتا ہے۔ اس کی ہر صفائ اور اعلی پائے کی دلیل بھی اسے سچا قرار نہیں دیتی۔ بھڑیے کا بہانہ اسے چیرنے پھاڑنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ انسان جونکہ اشرف المخلوقات ہے اس لیے اس کے بہانے اور دالئل بھی کمال کے ہوتے ہیں۔ انسان کی یہ بھی صفت ہے کہ وہ اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتا بلکہ اپنی غلطی اوروں کے سر پر رکھ دیتا ہے۔ ایسی صفائی سے رکھتا ہے کہ پورا زمانہ اسے تسلیم کرنے میں دیر نہیں کرتا۔ امریکہ کی عمارت گری اس میں کوئ کھوٹ نہیں۔ سوال پیدا
ہوتا ہے کہ یہ عمارت گرانے پورا افغانستان امریکہ پر چڑھ دوڑا تھا۔ اس میں بچے بوڑھے عورتیں الغر بیمار وغیرہ‘ بھی !شامل تھے؟ جواب یقینا نفی میں ہو گا۔ تو پھر ان سب کو بندوق نہیں توپ کے منہ پر کیوں رکھ دیا گیا؟ ان کا جرم تو بتایا جائے۔ لوگوں کو تو مذکرات اور سفارتی حوالہ سے مسائل کا حل تالشنے کے مشورے اور خود گولے سے مسائل حل کرنے کوشش کو کیا نام دیا جائے۔ ایک پکی پیڈی بات ہے کہ چوہا بلی سے بلی کتے سے کتا بھڑیے سے بھیڑیا چیتے سے چیتا شیر سے شیر ہاتھی سے ہاتھی مرد سے مرد عورت سےاورعورت چوہے سے ڈرتی ہے۔ ڈر کی ابتدا اور انتہا چوہا ہی ہے۔ میرے پاس اپنے موقف کی دلیل میں میرا ذاتی تجربہ شامل ہے۔ میں چھت پر بیھٹا کوئی کام کر رہا تھا۔ نیچے پہلے دھواندھار شور ہوا پھر مجھے پکارا گیا۔
میں پوری پھرتی سے نیچے بھاگ کر آیا۔ ماجرا پوچھا۔ بتایا گیا کہ صندوق میں چوہا گھس گیا ہے۔ بڑا تاؤ آیا لیکن کل کلیان سے ڈرتا‘ پی گیا۔ بس اتنا کہہ کر واپس چال گیا کہ تم نے مجھے بلی یا کڑکی سمجھ کر طلب کیا ہے۔ تاہم میں نے دانستہ چوہا صندوق کے اندر ہی رہنے دیا۔ چوہا کمزور ہے لیکن ڈر کی عالمت ہے۔ ڈر اپنی اصل میں انتہائ کمزور چیز ہے۔ کمزوری سے ڈرنا‘ زنانہ خصلت ہے۔ امریکہ اپنی اصل میں انتہائ کمزور ہے۔ کیا کمزوری نہیں ہے کہ اس کی گرفت میں بچے بوڑھے عورتیں الغر بیمار بھی آ گئے۔ گھروں کے گھر برباد کر دینے کے بعد بھی اس کا چوہا ابھی زندہ ہے۔ چوہا اس سے مرے گا بھی نہیں۔ بشمار اسرائیلی بچے مروا دینے کے بعد بھی فرعون کے من کا چوہا مرا نہیں حالنکہ وہ انہیں بانہ بازو بنا سکتا تھا۔ بلوچستان میں انسانی قتل و غارت کا مسلہ امریکی پارلیمان میں بطور قرار داد آ گیا ہے۔ ہمارا ذاتی معاملہ کسی دوسرے ملک :کی پارلیان میں آنے کے تین معنی ہیں ٧۔ بلوچستان کی صورت حال بدترین ہو گئ ہے۔
٦۔ بلوچستان کی صورت حال ہماری دسترس میں نہیں رہی۔ ٣۔ امریکہ‘ ایران اور چین پر گرفت کے لیے بھیڑیے کا بہانہ بنا کر فوجی کاروائ کا رستہ بنا رہا ہے۔ میری اس گزارش کو ڈینا روہر کے اس بیان کے تناظر میں :دیکھیں گے تو معاملہ صاف ہو جاے گا امریکہ بلوچ عوام کے قاتلوں کو ہی امداد اور اسلحہ دے رہا۔ صدر آصف علی زرداری کے اس بیان کو بھی آتے کل کے :حوالہ سے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے ایران کے ساتھ ہیں۔ جارحیت پر امریکہ کو اڈے نہیں دیں گے۔ چوکیدار رات کو آوازہ بلند کرتا ہے کہ جاگدے رہنا میرے تے نہ رہنا۔
ہم اپنے ساتھ نہیں ہیں کسی اور کا خاک ساتھ دیں گے۔ یہ بڑی بڑی باتیں کرنے والے ایک جونیءر کلرک کی مار نہیں ہیں منشی تو بہت بڑا افسر ہوتا ہے۔ہمارا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو چور کو کہتے ہیں سوئے ہوئے ہیں اور گھر والوں کو کہتے ہیں چور آ رہا ہے۔اس نام نہاد ترقی کے دور میں ہم سچ کہہ نہیں سکتے سچ سن نہیں سکتے۔ یہ ہماری سیاسی سماجی یا پھر اقتصادی مجبوری ہے۔ ہمیں اپنے معامالت پر ہی گرفت نہیں کسی دوسرے کی کیا مدد کریں۔ صاف کہہ نہیں سکتے بھائی ہم پر نہ رہنا‘ جب بھی مشکل وقت پڑا ہمیں دشمن کی صف میں سینہ تانے کھڑا پاؤ گے۔ ہم ابراہیم لنکن کی نبوت اور ڈالر کے حسن پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں۔ ہماری عقل اور غیرت پیٹ می بسیرا رکھتی ہے۔ ہم ازلوں سے بھوک کا شکار ہیں۔ اصل مجنوں کوئ اور ہے ہم تو چوری کھانے والے مجنوں ہیں۔ ہم کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں۔ کہا گیا بجلی نہیں جائے گی جبکہ بجلی گئی ہوئی ہے۔ گیس کا بل سو ڈیڑھ سو آتا تھا اور گیس سارا دن رہتی تھی۔ آج گیس صرف دکھائ دیتی ہے اور بل پیو کا پیو آتا ہے۔ بجلی جانے سے پہلے کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے کہ فالں گھر کے گیس کا بل سات ہزار روپیے آیا ہے اور گھر کے کل افراد چند ایک ہیں۔ لگتا ہے کہ دوزخ کو اس گھر سے پائپ جاتا
ہ ے۔ ہم وہ لوگ ہیں جو الیکشنوں کے موسم میں لنگر خانے کھول دیتے ہیں۔ کٹوں بکروں اور مرغوں کی شامت آ جاتی ہے۔ لوگ دھر سمجھ کر بے دریغ کھاتے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں امیدوار پلے سے کھال رہا ہے اور اس کے بعد پیٹ بھر کر اگلے الیکشنوں میں ہی مل پاءے۔ بات کا پہال حصہ درست نہیں۔ الیکشن وہی لڑتا ہے جس کی ہک میں زور ہوتا ہے۔ جس کی ہک میں زور ہوتا ہے وہ پلے سے کیوں کھالنے لگا ۔ چوری کے ڈنگر ہی چھری تلے آتے ہیں۔ اتنا ضرور ہے کہ ان لنگر خانوں میں مردار گوشت دیگ نہیں چڑھتا۔ مردار گوشت دیگ چڑ ھنے کی ایک مثال پچھلے دنوں سننے میں آئی۔ محکمہ ایجوکیشن کے ایک نئے آنے والے ضلعی افسر نے اپنے درجہ چہارم کے مالزم سے کہا بھئی ہمارے آنے کی خوشی میں دعوت وغیرہ کرو۔ اس نے مردہ مرغے دیگ چڑھا دئے۔ دونوں اپنی اپنی جگہ پر سچے تھے۔ افسر کے آنے کی خوشی میں دعوت تو ہونی چاہیے۔ درجہ چہارم کا مالزم دیگ کیسے چڑھا سکتا ہے۔ دونوں سرخرو ہوئے۔ دیگ چڑھی افسر کی خوشی پوری ہو گئ مالزم کا خرچہ لون مرچ مصالحے پر اٹھا۔ وہ اتنا ہی کر سکتا تھا۔
ممبری کے امیدواروں کا بھی غالبا خرچہ لون مرچ مصالحے پر ہی اٹھتا ہے۔ اب تو اس کی بھی شاید نوبت نہیں آئے گی کیونکہ لون مرچ مصالحے کا خرچہ ادھر ہی بارہ کروڑ ادا کر دیا جائے گا۔ ایران کے حوالہ سے روس کا بیان حوصلہ بخش لگتا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کو ایران پر حملے کی صورت میں :بھرپور جواب ملے گا۔ اس بیان کے اندر چند چیزیں پوشیدہ ہیں ٧۔ جو مرنا جانتے ہیں‘ مارنے میں بھی کم نہیں ہوتے۔ امریکہ نے یہ غلطی کی تو الشیں اٹھانے میں شاید اسے صدیاں لگ جاءیں۔ ٦۔ ایران کا ساتھ دیا جاءے گا۔ ٣۔ غیرت مند‘ مرد ہوتا ہے اور چوہا اس کی دسترس سےکبھی باہر نہیں ہو پاتا۔ ترکی کا کہنا ہے کہ تباہ کن نتائج ہوں گے۔ جنگ ہے ہی تباہی و بربادی کا نام۔ بلوچ غیرت مند قوم ہے۔ بلوچ جانتے ہیں کہ
امریکہ ان کے قاتلوں کو امداد اور اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔ افغانی اپنی تباہی کے ذمہ دار سے آگاہ ہیں۔ پاکستان کو وافر چوری فراہم کرنے کے باوجود لوگوں کے دل میں امریکہ کے لیے نفرت اور صرف نفرت ہے۔ چوری عوام کے پیٹ میں نہیں گئ۔ ان کے پیٹ میں خوشکی کا ڈیرہ ہے۔ خشک آنتیں غصے اور خفگی کا سبب رہتی ہیں۔ خشک آنتوں کا حاصل تباہی اور بربادی کےسوا کچھ نہیں ہوتا ہوتا ہے
خدا بچاؤ مہم اور طالق کا آپشن
خدا بچاؤ مہم کا بڑی ہوشیاری اور چاالکی سے آغاز کیا گیا۔ کسی نے اس جانب توجہ ہی نہ کی کہ خدا تو سب کو بچانے واال ہے۔ وہ ہر گرفت سے باال ہے۔ پوری کائنات اس کی محتاج ہے اور وہ کسی کا محتاج نہیں۔ اگر وہ خدا منکر لوگوں کا رب نہ ہوتا تو وہ سارے کے سارے بھوک پیاس سے مر جاتے۔ وہ تو ساری کائنات کا مالک و خالق ہے۔ یہی نہیں وہ تو اپنی مرضی کا مالک ہے۔ اسے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں بلکہ ہر کوئی اس کی مرضی و منشا کے تابع ہے۔ کسی نے یہ غور کرنے کی
زحمت ہی گوارہ نہ کی کہ ہمارا اور ان کا خدا ایک ہی ہے لیکن ہمارے اور ان کے خدا میں زمین آسمان کا نظریاتی فرق ہے۔ ان کا خدا تین میں تقسیم ہے جب کہ ہمارا خدا تین نہیں‘ ایک ہے۔ وہ تقسیم کے نقص سے باال ہے۔ خدا بچاؤ مہم کے لیے اسلحہ اور ڈالرز کی بارش ہو گئی۔ خدا بچاؤ مہم میں شامل لوگ ماال مال ہو گئے۔ وہ شیطان کے بہکاوے میں آ گئے تھے۔ وہ شیطان کی ہولناک چال کو سمجھ نہ سکے۔ خدا بچاؤ مہم میں ان گنت بچے بوڑھے عورتیں اور گھبرو جوان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ وہ تو ان موت کے گھاٹ اترنے والوں کا بھی خالق ومالک ہے۔ خدا بچاؤ مہم کے ڈالر خوروں کو رجعت پسند‘ شر پسند اور بنیاد پرست کہہ کر زندگی سے محروم کیا گیا۔ خدا بچاؤ پتہ ناکام ٹھرا ہے تو ازدواجی رشتہ ہونے کا دعوی داغ دیا گیا ہے۔ طالق یقینا بہت برا فعل ہے۔ اہل دانش تو الگ رہے‘ مذاہب نے بھی اس کی آخری حد تک ممانعت کی ہے۔ طالق کے نتیجہ میں سماجی سطع پر خرابی آتی ہے۔ دو برادریوں میں دشمنی چل نکلتی ہے۔ اس طالق دشمنی کے نتیجہ میں آتے کل کو کوئ بھی خطرناک صورتحال پیش آ سکتی ہے۔ بات محدود نہیں رہتی۔ بےگناہ‘ غیر متعلق اور بعض اوقات صلع کار بھی اس کی لپیٹ
میں آ جاتے ہیں۔ پھر بجھائے نہ بنے والی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک اخباری اطالع کے مطابق امریکہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں طالق کا آپشن موجود ہی نہیں۔ امریکہ کا یہ بیان پاک امریکہ دوستی کے اٹوٹ ہونے کا زندہ ثبوت ہے۔ یہی نہیں یہ اس کی سماج اور مذہب دوستی کا بھی منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کمبل سے چھٹکارے کی کوشش کرو گے تو بھی کمبل خالصی نہیں کرے گا۔ اس کمبل کی گرمایش اتنی ہے کہ اس کے بغیر بن نہ پاءے گی۔ امریکی چوری کا سواد اور چسکا ہی ایسا ہے کہ کم بخت لگی منہ سے چھٹتی نہیں۔ میں نے یہ تیر ہوا میں نہیں چالیا۔ اس کے بہ ہدف ہونے کا ثبوت کیمرون کا یہ ٹوٹکا ہے کہ پاکستان کے سیاستدان نہیں چاہتے کہ امریکی ان کے ملک سے واپس جائیں۔ دنیا کا کوئ بھی اوالد واال طالق کی حمایت نہیں کرے گا۔ یہاں یہ واضح نہیں کون کس کو طالق دے گا۔ ہمارے ہاں زیادہ تر مرد‘ عورت کو طالق دیتا ہے۔ کیمرون کا بیان واضح کرتا ہے کہ پاکستانی سیاست دان امریکہ کو طالق نہیں دینا چاہتے۔ گویا امریکہ کو ان کی ایسی کوئ خاص ضرورت ہی نہیں بلکہ ان کو چولہا چونکا چالنے کے لیے امریکہ کی ضرورت ہے۔ یہاں کی
سماجی روایت کے تناظر میں دیکھا جائے تو طالق کا حق پاکستان کے پاس ہے۔ مرد چاہے نامرد ہو‘ اسے عورت نہیں کہا جا سکتا۔ سیاست دانوں کی یہ غنڈہ نوازی ہے کہ جھوٹ موٹھ سہی‘ ہم پاکستانی مردوں میں شمار ہوتے ہیں۔ یہ طالق کے معاملے کا فقط ایک پہلو ہے۔ مغرب میں عورتیں مردوں کو طالق دیتی ہیں۔اس حوالہ سے طالق دینے کا حق امریکہ کے پاس چال جاتا ہے۔ طالق کا حق ان کے پاس ہو یا ان کے پاس‘ ہم پاکستانی مرد ضرور قرار پاتے ہیں اور یہ ہمارے لیے کمال فخر کی بات ہے کہ ہم نام کے سہی‘ مرد ہیں۔ اس حوالہ سے بات نہیں کروں گا کہ زندگی پر حکومت عورت کرتی ہے۔ مرد زبانی کالمی دبکاڑے اور بڑکیں مارتا ہے۔ لیکن بیگم کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوتا ہے۔ جہانگیر کے سارے فیصلے‘ نور جہان کے فیصلے ہیں۔ مرد جو باہر ناسیں پھالتا ہے لیکن گھر میں صرف اور صرف بطور پانڈی داخل ہوتا ہے۔ کسی معاملہ میں بیگم کی سفارش آ جانے کے بعد اپنا طرز تکلم ہی بدل لیتا ہے۔ جو بھی سہی مرد‘ مرد ہوتا ہے۔ اس کی انا اور سطع بلند ہوتی ہے۔ میں پہلے کہہ چکا ہوں اس معاملے پر گفتگو نہیں کروں گا۔ طالق کا نقطہ اس امر کی کھلی وضاحت ہے کہ ہم مرد ہیں۔ کیا ہوا جو مردانہ قوت میں ضعف آ گیا ہے۔ یہ ضعف پیدایشی نہیں اس لیے قابل عالج ہے۔ آج ان گنت
دواخانے موجود ہیں لہذا عین غین معالجہ ممکن ہے۔ اس میں ایسی گھبرانے یا پریشان ہونے والی کوئی بات ہی نہیں۔ معاملے کا یہ پہلو ذرا پیچیدہ اور گرہ خور ہے کہ آخر وچارے امریکیوں پر یہ دھونس کاری کیوں؟؟؟ پاکستانی سیاست دان !اتنے لچڑ کیوں ہو گے ہیں؟ پشاور یا اس سے پار کے مرد اس ضمن میں ضد کریں تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ پاکستانی سیاست دانوں کا پشاوری ذوق عجیب لگتا ہے۔ اس عالقہ کے لوگ بھی سیاسی نشتوں میں ہوتے ہیں لیکن تعدادی حوالہ سے زیادہ نہیں ہیں۔ جمہوریت کو تعداد سے مطلب ہوتا ہے۔ مردانہ طاقت چاہے کسی بھی سطع کی ہو۔ عین ممکن ہے سیاسی ہیلو ہاءے میں وہ ڈومینٹ ہوں اور شاید اسی حوالہ سے مردوں کا زنانہ شوق مردانہ میں بدل گیا ہو۔ دینی اور سیاسی راہنماؤں کا کہنا ہے کہ نیٹو سپالئی انسانی نہیں‘ امریکی بنیادوں پر بحال ہوئی ہے۔ اس ضمن میں دو باتیں :پیش نظر رہنی چاہیں
ا۔ امریکہ انسانی حقوق کا ٹھکیدار ہے۔ اگر امریکہ کے حوالے سے بحال ہوئ ہے تو اسے انسانی بنیادوں پر لیا جانا چاہیے۔ ب۔ بیگمانہ حکم عدولی کل کلیان کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ یہ کل کلیان طالق کا دروازہ کھول سکتی ہے جبکہ پاکستان سے تعلقات کے ضمن میں طالق کا آپشن موجود ہی نہیں۔ جب آپشن ٹھپ ہے تو نیٹو سپالئی کا امریکی بنیادوں پر بحال ہونا غلط اور غیر ضروری نہیں۔ ایک طرف یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کے فضائ راستے سےنیٹو کو رسد کی سپالئی روز اول سے جاری ہے۔ ہم سخی لوگ ہیں اور سخیوں کے ڈیرے سے دوست دشمن بال تخصیص فیض یاب ہوتے رہتے ہیں۔ دوسرا ہمارے ہاں کا اصول رہا کہ کہو کچھ کرو کچھ۔ جب کہا جاتا ہے کہ فالں کام نہیں ہو گا تو سمجھ لو وہ کام ہو چکا ہے یا ہونے واال ہے۔ ہم کسی بھی سطع کی صفائی دے سکتے ہیں لیکن پرنالہ اپنی جگہ پر رکھتے ہیں۔ کسی کو بھوک سے مرتے دیکھنا کوئی صحت مند بات نہیں۔ ہم اپنے لوگوں کو بھوک پیاس اور اندھیروں کی موت مار سکتے ہیں لیکن سفید رانوں والوں کو بھوکا مرتے نہیں دیکھ سکتے۔ یہ بھی کہ معاملہ سفید رانوں تک محدود نہیں ہماری محبوبہ کے پاس ابراہیم لنکن والے نوٹ بھی ہوتے ہیں۔ نوٹ دیکھتے
ہی ہمارا موجی موڈ بن جاتا ہے۔ غیرت اصول اور کہا سنا اپنی جگہ‘ نوٹ اپنی جگہ۔ طالق دینے کی کوئ تو وجہ ہو نی چاہیے۔ امریکہ سے تعلقات آخر کیوں ختم یا خراب کئے جائیں۔ بچارے سیاسی لوگ پلے سے خرچہ کرکے ممبر بنتے ہیں۔ کیا عوام ان کی ضرورتوں کے مطابق کما کر دیتے ہیں‘ بالکل نہیں۔ امریکہ نوٹ وکھاتا اور چکھاتا ہے اس لیے موڈ کا نہ بننا احمقانہ سی بات ہے۔ یہ لوگ امریکہ کے کام هللا واسطے نہیں کرتے۔ اگر پاکستانی عوام کو خود مختاری حاصل کرنے کا اتنا ہی شونق ہے تو امریکہ برابر نوٹ کمائیں وکھائیں اور ان کی تلی ترائی کریں۔ اگر تلی ترائی نہیں کر سکتے تو چونچ بند رکھیں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ طالق دینے کی صورت میں ناصرف جہیز واپس کرنا پڑے گا بلکہ حق !مہر بھی دینا پڑے گا۔ کون دے گا؟ عوام کے پاس تو دو وقت کی روٹی کھانے کو نہیں حق مہر کہاں سے آئے گا۔ جہیز جو کھایا پیا جا چکا ہے کدھر سے آئے گا۔ امریکہ کو طالق دینے کا فیصلہ کوئی ون مین گیم نہیں ہے۔
سابق سفیر کا کہنا ہے کہ جب تک پارلیمنٹ فیصلہ نہیں کرتی امریکہ سے تعلقات منجمد نہیں کر سکتے۔ گویا امریکہ کو طالق دینے کا حق عوام کے پاس نہیں ہے۔ عوام کو اپنی حد میں رہنا چاہیے۔ عوام الڈلی بھی نہیں ہے جو کھیلن کو چاند مانگ رہی ہے دوسرا چاند ملوکہ جگہ ہے۔ چاند پر صرف اور صرف قبضہ گروپ کا حق ہے۔ ہمارے پڑوس میں ایک جوڑا اقامت رکھتا ہے۔ ان کے تین لڑکے اور ایک لڑکی ہے۔ بڑے ہی پیارے پیارے بچے ہیں۔ بد قسمتی سے مرد جوا کھیلتا ہے اور نشہ بھی کرتا ہے۔ عورت محنت مشقت کرکے ان سب کا پیٹ بھر تی ہے۔تھکی ماندی جب گھر آتی ہے تو اس کی حالت قابل رحم ہوتی ہے۔ ایسے میں کوئ چوں بھی کرتا ہے۔ زبانی اور عملی طور خوب لترول کرتی ہے۔ مرد چوں بھی نہیں کرتا۔ چوں کرنے کی اس کے پس گنجائش ہی نہیں۔ هللا نے مرد کو کنبہ کا کفیل بنایا ہے۔ اگر عورت کام کرتی ہے تو یہ مرد کے ساتھ تعاون ہے ورنہ وہ کفالت کی ذمہ دار نہیں۔ خرچ اٹھانے اور تعاون کرنے والے کا ہاتھ اوپر رہتا ہے۔ اس حوالہ سے اسے بزتی کرنے کا بھی پورا حق حاصل ہے۔
امریکہ ہماری کفالت کرتا ہے۔ سارے حق حقوق پورے کر رہا ہے لہذا بزتی کرنے کا بھی اصولی طور پر اسے حق حاصل ہے۔ ہم اس چمکیلی اور نخریلی محوبہ کو طالق دینا بھی چاہیں تو طالق نہیں دے سکتے۔ جو ڈالر دیتا ہے اصول اور قانون بھی اسی کا چلتا ہے۔ امریکی عورتیں طالق دیتی ہیں۔ ہم اس وقت تک امریکہ کی غالمی میں رہیں گے جب تک وہ ہمیں طالق نہیں دے دیتا۔ ویسے ہماری خیر اسی میں ہے کہ ہم طالق کا نام بھی زبان پر نہ الئیں کیونکہ اس نے جس کو بھی طالق دی ہے اسے لنڈا بچا ہی نہیں کیا اسے لولہ لنگڑا بھی کیا ہے
خودی بیچ کر امیری میں نام پیدا کر
ایک شخص چور کے پیچھے بھاگا جا رہا تھا۔ رستے میں قبرستان آ گیا۔ چور آگے نکل گیا جبکہ وہ شخص قبرستان میں داخل ہو گیا۔
کسی نے پوچھا “یہ کیا؟ اس نے جوابا کہا “اس نے آخر آنا تو یہاں پر ہے نا“۔ ایک اخباری اطالع کے مطابق الہور ہائیکورٹ نےتوہین عدالت کے حوالہ سے اعلی شکشا منشی کالجز کے قابل ضمانت وارنٹ جاری کر دئے ہیں۔ یہ کاروائی ڈی ڈی سی (کالجز) ڈاکٹر اکرم کی رٹ کے حوالہ سے عمل میں آئ ہے۔ ڈی ڈی سی (کالجز) ڈاکٹر اکرم اپنی جیت کے نشہ سے سرشار ہوں گے۔ اعلی شکشا منشی کالجز کے قابل ضمانت وارنٹ جاری ہونا کوئ ایسی عام اور معمولی بات نہیں۔ عدالت نے وہی کیا جو کیا جانا چاہیے تھا۔ منصف قانون کے دائرے میں رہتا ہے اور قانون کی حدود کسی کو توڑنے نہیں دیتا۔ کاال گورا ماڑا تگڑا گریب امیر قانون کی نظروں میں برابر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ عدالت نے جو کیا درست کیا اور درست کے سوا کچھ نہیں کیا۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ ڈی ڈی سی(کالجز) ڈاکٹر اکرم نے اعلی شکشا منشی کالجز ہاؤس کے مروجہ اصول و ضابط کی پھٹیاں اکھیڑنے کی جسارت تو نہیں کی؟
اگر اس نے ایسا کیا ہے تو اپنے انجام کو کیوں بھول گیا۔ کیا وہ یہ نہیں جانتا کہ آخر لوٹ کر آنا تو یہاں پر ہی ہے۔ کیا وہ نہیں جانتا تھا کہ اعلی شکشا منشی کالجز ہاؤس میں بڑے بڑے پھنے خانوں کی زندہ ہڈیاں بوٹیاں دفن ہیں۔ کوئ نشان تک نہیں تالشا جا سکتا۔ اب صرف اور معاملہ ہے لیکن آتے وقتوں میں اس معاملے کے بطن سےان گنت معامالت جنم لیں گے۔ یہ بڑے کمال کا سچ ہے کہ اس عہد کی عدلیہ آتے کل کے لیے اعی درجے کا حوالہ چھوڑ جاءے گی۔ اس کا کردارمثال بنا رہے گا۔ عدالت کو کوئی اور کام نہیں جو ڈاکٹر اکرم کےمعامالت کو دیکھتی پھرے گی۔ کہاں تک بھاگیں گے۔ دوڑ دھوپ کرنے والوں کو پہاڑ کے نیچے آنا ہی پڑتا ہے۔ جو بھی مہا منشی ہاؤس سے ٹکرایا ہے‘ عبرت کی جیتی جاگتی تصویر بن گیا ہے۔ کوئی مائی کا الل پیدا نہیں ہوا جو ان کی پہلی رکات سے بچ کر نکل گیا ہو۔ یہ بھی کہ کسی ریسرچ اسکالر کو ہمت نہں ہو سکی کہ وہ یہاں بلڈوز ہونے والوں کا اتا پتا دریافت کرنے کی ہمت کر پایا ہو۔ یہ ہڈیوں بوٹیوں کا بال کنار سمندر ہے۔ میں سب جانتے تجربہ رکھتے اور بال مرہم زخمی‘ ڈاکٹر اکرم کی ہڈی بوٹی کی خیر کی دوا کےلیے دست بہ دعا ہوں۔ تصویری نمایش کے شوقین اس کمزوروں کے پرحسرت قبرستان کی جانب شوقین
نظریں اٹھا کر تو دیکھیں‘ نانی نہ یاد آ گئ تو اس پرحسرت قبرستان کا نام بدل دیں۔ ہمارے ہاں تعلیم عام کرنےکی رانی توپ سے دعوے داغے جاتے ہیں لیکن عملی طور پر ناخواگی کے بیج بوئے جاتے ہیں۔ اعلی اور تحقیق سے متعلق تعلیم کی راہوں میں مونگے کی چٹانیں کھڑی کرنے کی ہر ممکنہ کوششیں کی جاتی ہیں۔ اس ضمن میں صرف ایک حوالہ درج کرنے کی جسارت کروں گا۔ ۔حساب شماریات وغیرہ این ٹی ایس میں شامل ہوتے ہیں۔ آرٹس والوں کا ان مضامین سے کیا کام ۔ اس ٹسٹ میں ان کے مضامین سے متعلق سوال داخل کئے جائیں۔ یوں لگتا ہے یہ مضامین انھیں فیل کرنے یا ٹسٹ میں حصہ نہ لینے کی جرات پیدا کرنے کے لیے این ٹی ایس سی میں داخل کئے گئے ہیں۔ حساب اور شماریات کا تعلق چناؤ وغیرہ سے ہے۔ ان مضامین کا چناؤ ٹسٹ میں شامل کرنا بےمعنی اور الیعنی نہیں لگتا۔ ایک اخباری خبر کے مطابق چناؤ کے حوالہ سے بارہ کروڑ روپے سکہ رائج الوقت بھاؤ لگ گیا ہے۔ اگر یہ رقم کسی گریب آدمی کو دے دی جائے تو وہ اتنی بڑی رقم دیکھ کر ہی پھر جائے گا۔ اگر چیڑا اور پکا پیڈا نکال تو گنتے گنتے عمر تمام کر دے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ گنتی کے دوران ہی کوئی ڈاکو لٹیرا اسے
گنتی کی مشقت سے چھٹکارا دال دے۔ حساب اور شماریات اگرچہ بڑے اہم اور کام کے مضامین ہیں لیکن ان کا متعلق پر اطالق ہونا چاہیے۔ غیر متعلق پر اطالق بڑا عجیب وغریب لگتا ہے۔ عجیب ہو یا نہ ہو' اس معاملے کا تعلق غربت سے ضرور ہے۔ جمہوریت امریکہ سے درامد ہوئی ہے۔ یہ مقامی‘ عربی یا :اسالمی نہیں ہے۔ اس کا نعرہ ہے عوام کی حکومت‘ حکومت تو هللا کی ہے۔ عوام کے ذریعے‘ پاکستان کا مطلب کیا ال الہ اال هللا' کدھر گیا۔ عوام کے لیے‘ وڈیرے کیا ہوئے۔ وہ حکومت کرنے کے لیے باقی رہ جاتے ہیں۔ گویا وہ سرکار ٹھرتے ہیں اور عوام رعایا۔ براءے نام سہی‘ رعایا عوام کا حوالہ موجود ہےاور یہ رعایا عوام کی تسکین کا بہترین موجو ہے۔ بارہ کروڑ بھاؤ نے تو برائے نام رعایا عوام کی اصل حیقیت کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ میری اس دلیل سے واضح ہو جاتا ہے کہ حساب اور شماریات جیسے مضامین ہر کسی کے لیے ہو ہی نہیں سکتے۔
ہاں البتہ مال خور منشی شاہی کے لیے بھی الزمی سے لگتے ہیں۔ ان کی سلیکشن کے حوالہ سے ان مضامین کی برکات کو نظرانداز کرنا‘ مال خور منشی شاہی کو ناقابل تالفی نقصان پہچانے کے مترادف ہے۔ اقبال ساری عمر خودی خودی کرتا رہا اور خودی میں ترقی بتاتا رہا۔ میں نے تو آج تک خوددار لوگوں کو ذلیل وخوار ہوتے دیکھا ہے۔ اپنی اور سماجی خودی بیچنے والے نام پیدا کرتے آئے ہیں ۔جمہوریت کے لفافے میں انھوں نے قومی آزادی عزت اور حمیت کا خون ملفوف کیا ہے۔ اس کارنامے کے صلہ میں پیٹ بھر کھایا ہے اور محلوں میں اقامت رکھی ہے۔ عہد حاضر میں خودی وکاؤ مال ہو گئی ہے۔ جو بھی رج کھاناچاہتا ہے اسے اقبال کے کہے پر مٹی ڈال کر اس کے مصرعے کو :یوں پڑھنا اور اسی حوالہ سے زندگی کرنا ہو گی خودی بیچ کر امیری میں نام پیدا کر اگر کوئ اقبال کے فلسفے پر جما رہا تو نام پیدا کرنے کا خواب گلیوں میں بےچارگی اور شرمندگی کی زندگی بسر کرے گا۔ خودی کو زندگی کا مقصد بنانے والے ہوم گورنمنٹ سے بھی
چھتر کھاتے دیکھے گئے ہیں۔
امیری میں بھی شاہی طعام پیدا کر
ضلع قصور بلھےشاہ صاحب نور جہان فالودہ میتھی اندرسےاور جوتوں کےحوالہ سے پوری دنیا میں پہچانا جاتا ہے لیکن اب دو اور چیزیں اس کی شہرت کے کھاتے میں داخل ہو گئی ہیں۔ عمران خان کے جلسےمیں لوگوں نےکرسیاں اٹھا لیں۔ کرسیاں کیوں اٹھائی گئیں بالکل الگ سے موضوع گفتگو ہےتاہم یہ وقوعہ تاریخ میں یاد رکھا جائے گا یہی نہیں قصورکی وجہ شہرت ضرور بنا رہے گا۔ دوسراوقعہ بجلی کےحوالہ سے ہڑتال جلوس اورعوامی ردعمل ہے۔ اس کاکوئی اثرنہیں ہوا یہ کوئ نئی اورعجیب بات نہیں ہاں نئی اورعجیب با ت یہ ہےکہ لوگوں کی جوتوں الٹھیوں سےمرمت اورسیوا نہیں ہوئی ورنہ ہر گستاخ اورحق مانگے والے کے پاسے ضرورسیکے گئے ہیں۔ بات بھی اصولی ہے احتجاجی اور
ہڑتالی نقص امن اور کارسرکار میں خلل کا باعث بنتے ہیں۔ کارسرکار کیاہے کھانا پینا اورموج مستی کرنا۔ میرےنزدیک جیب کترےدفترشاہی اورہاؤسزسےمتعلق لوگ سچےدرویش اورهللا کوماننےوالے ہیں۔ جب ان مینسےکوئ واردات ڈالتاہےتواسےپورایقین ہوتاہےکہ متاثرہ کا هللا مالک ہےاوروہ اسےاپنی جناب سے اورعطاکردےگا۔ گویامتاثرہ پر رائ بھرفرق نہینپڑےگا۔ ایک شخص دوالینےجارہاہےاوررستےمینجیب کٹ جاتی ہےکیاجیب کٹ جانے کےبعددوانہینآتی دواپھربھی آتی ہے۔ گویاسبب توهللا کےپاس ہیناس لیئےجیب کاٹنا جیب کترےکااصولی حق ہے۔ میرے نزدیک جیب کترے دفترشاہی اورہاؤسز سے متعلق لوگ سچے درویش اور هللا کو ماننے والے ہیں۔ جب ان میں سےکوئی واردات ڈالتا ہےتو اسے پورا یقین ہوتا ہےکہ متاثرہ کا هللا مالک ہے او روہ اسے اپنی جناب سے اورعطا کر دے گا۔ گویا متاثرہ پر رائی بھرفرق نہیں پڑے گا۔ ایک شخص دوا لینےجا رہا ہےاور رستےمیں جیب کٹ جاتی ہے کیا جیب کٹ جانے کےبعد دوانہیں آتی دوا پھر بھی آتی ہے۔ گویا سبب تو هللا
کے پاس ہیں اس لیئے جیب کاٹنا جیب کترے کا اصولی حق ہے۔ کچھ ادارےعوام کے حق کواپنے ہاتھ میں لینےکی کوشش میں ہیں۔ یقینا یہ غلط طرزعمل ہے۔ ہرکسی کواپنی حد میں رہنا چاہیے۔ وہ خلفاء کےقاضی صاحبان تھے جوخلیفہ کو بھی کٹہرے میں کھڑا کر لیتےتھے۔ یہ خلیفہ نہیں خلیفے ہیں۔ ایک طالب علم کےمحترم والد صاحب ماسٹرصاحب کے پاس اپنےبیٹے کی تعلیمی حالت دریافت کرنے گئے۔ ماسٹر صاحب نےانھیں بتایا کہ ان کا الڈال تو خلیفہ ہے۔ انھیں اس جواب پر شرمندگی ہوئی ہوگی۔ ہمارےعوام شرمندہ نہیں ہیں کیونکہ ۔ 66سے 10فیصدعوام اس کاربد میں حصہ لینے کے سزاوار 1 ہوتے ہیں ۔ حصہ لینے کے بعد وہ سبزہ بیگانہ ہو گئے ہوتے ہیں اور 2 کسی معاملے میں ان کا اچھا برا عمل دخل نیہں رہ گیا ہوتا۔ ۔ 66سے 10فیصدعوام خلیفہ نہیں خلیفے ہی چن سکتےہیں۔3 ۔ تمام پڑھے لکھے لوگ خلیفے چننےمیں مصروف ہوتےہیں۔4 ۔ 66سے 10فیصد ووٹ تقسیم کےعمل میں داخل ہو کرن ودو 5 گیا رہ ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں خیرکی توقع کوئی دیوانہ ہی
کرسکتا ہے۔
۔ چناؤمیں حصہ لینے کا عمل مال سے ممکن ہےعوام کی گرہ 6 میں مال کہاں اس حقیقت کے با وجود عوام کا مقدر بھوک پیاس اندھیرہ اور جوتےکھانا ہے زبانی کالمی سہی ان کا مان تو رکھا جارہا ہےاو ریہ کوئی یہ معمولی بات نہیں۔ ۔ نازکی اس کے لب کی کیا کہیے پنھکڑی اک گالب کی سی 7 ہے ستر میں سے پچاس لڑکوں نے فیض احمد فیض کا شعر بتایا۔ جمہوریت کےحوالہ سے اسے درست ماننا پڑے گا۔ اگرتعداد درستی کا معیارہے تو کوئی حق گو اور حق پسند درست نہیں ٹھرےگا۔ چھوٹی ہو یا بڑی غلطی' غلطی ہی ہوتی ہے اوراس کا بھگتان زندگی کو متوازن رکھ سکتا ہے۔ پروفیسر صاحبان ہڑتال کر رہے ہیں اوراحتجاج بھی کریں گے یہ ان کا اصولی حق ہے حق نہ دینا اورنہ دینے کا مشہورہ با اختیارلوگوں کا اصولی حق ہے۔ وہ پروفیسر صاحبان کا ووٹ
لے کرسرکارنہیں بنے او رنہ ہی ان کی مدد سے شکشا منشی ک والٹ ہاؤس میں کرسی ملی ہے۔ یہ تو ان کے ایک کلرک کی مار نہیں ہیں۔ پتہ نہیں یہ خود کو کیا سمجھتے ہیں۔ قصور کے حالیہ تاحد نظرمجمع کو خاطرمیں نہیں الیا گیا ۔ یہ کس کھیت کی .مولی گاجر ہیں میری موجودہ بحران کے حوالہ سے بہت سارے مزدور پیشہ لوگوں سے بات ہوئی اکثرت کو اس سے دل چسپی ہی نہیں۔ وہ اسے بڑوں کا کھیل سمجھتے ہیں۔ وہ اسے اپنا مسلہ نہیں سمجھتے۔ وہ دال روثی اور پانی کی بقدر ضرورت فراہمی کو پہال اور آخری مسلہ سمجھتے ہیں۔ بیل کو کسی نے کہا تمہیں چور لے جائیں اس نے کہا مجھے اس سے کیا کام کروں گا تو چارہ ملےگا۔ یہاں کون سا اکبر بادشاہ کے تخت پر بیٹھا ہوں' جو وہاں جا کر بےسکون ہو جاؤں گا۔ بات کام اورچارے تک رہے تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔ لوگ کام اور چارے سےمحروم ہو گئےہیں۔ وہ کام پر آتےہیں لیکن بجلی کے سبب کام نہیں کر پاتے۔ جب خالی ہاتھ واپس جاتےہیں تو ان پر پریشانی کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے۔ وہ خود کومجرم سا محسوس کرتے ہیں۔ بچوں کی بھوک اور باپ کی بیماری کے لیے دوا میسر نہ آنے کے سبب مایوسی سے بار بار مرتے ہیں۔
دوسری طرف معاملہ یہ کہ کوئی سچائی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ بحث چھڑ گئی کہ ہاتھی انڈے دیتا ہے یا بچےمولوی صاحب نے انڈے پرشرط لگا دی۔ جب اس کی بیوی کوعلم ہوا توخفا ہوئی۔ جوابا مولوی صاحب نےکہا ہاروں تب جب مانوں گا۔ ہہ سب نواب صاحب صاحبزادہ صاحب راجہ صاحب چوہدری صاحب وغیرہ ہیں اوراپنے پرائےاورملکی مال کی کمی نہیں۔ بس اب امیری میں شاہی طعام کا ذائقہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لوگ سڑکوں پرآ جائیں یا بھوک پیاس سے مر جائیں انہیں اس سےکوئی غرض نہیں۔ وہ هللا کریم کی ذات پر بھروسہ رکھتے ہیں کہ وہ بہتر رزق دینے واال ہے۔ اس لیے یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ عوام بھوک سے مرجائیں گے۔ هللا کریم پتھرمیں کیڑے کورزق عطا کرتا ہے۔ عوام کا یہ کہنا الیعنی اوربےمعنی بلکہ چٹا ننگا جھوٹ ہےکہ وہ بھوک رکھتے ہیں کہ وہ بہتررزق دینے واال ہے۔ اس لیے یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ عوام بھوک سے مر جائیں گے۔ هللا کریم پتھرمیں کیڑے کورزق عطا کرتا ہے۔ عوام کا یہ کہنا الیعنی اور
بےمعنی بلکہ چٹا ننگا جھوٹ ہے کہ وہ بھوک سےمر رہے ہیں بھوک پیاس کے متعلق بات کرنے والے سازشی غیرذمہ دار بیرونی ایجنٹ دہشت گرد امریکہ کےمجرم اورنائن الیون کی سازش میں شریک تھےاس لیےانھیں معاف کرنا یا کھال چھوڑ دینا اس عہد کی بہت بڑی غلطی ہوگی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ لوگ پاکستان دشمن ملک کے لیےکام کر رہےہوں اور پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کے بےمثال اتحاد کو پارپارہ کرنے کی کامیاب کوشش کررہےہوں۔ ۔
رشتے خواب اور گندگی کی روڑیاں
پچھلے دنوں ایک محترم لیڈر کا محترم ڈیپٹی وزیر اعظم کے حوالہ سے قول زریں پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ان کا کہنا تھا ڈیپٹی وزیر اعظم دن میں خواب دیکھنا بند کریں۔ محترم کا سابقہ اس لیے استعمال نہیں کیا کہ وہاں یہ سابقہ موچود نہیں تھا لہذا یہ میرے قلم کی گردن پر نہیں آتا۔ ہاں البتہ اس قول زریں کے
عجیب و غریب ہونے پر شبہ نہیں۔ نیند میں خواب ہی تو دیکھے جاتے ہیں۔ جاگتے میں سپنے دیکھے جاتے۔ خواب اور سپنے قریب قریب کی چیزیں ہیں۔ ان میں انتر یہ ہے کہ خواب سوتے میں اور سپنے جاگتے میں دیکھتے ہیں تاہم اپنی حقیقت کے حوالہ سےدونوں چیزیں برابر کا سٹیٹس رکھتی ہیں۔ دونوں کی تعبیر حقیقت سے ہمکنار ہو قطعی ضروری نہیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ سیاسیی خواب اور سیاسیی سپنے اپنی تعبیر کے حوالہ سے بالکل ٹھس ہو جائیں۔ خواب یا سپنے دیکھنے پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی ہاں البتہ خواب پر کسی نہ کسی سطع پر روک ممکن ہے۔ سونے ہی نہ دیا جائے۔ کوئی بہت ہی بڑی پریشانی کٹھری کر دو نیند حرام ہو جائے۔ موت سے بڑھ کر کوئی پریشانی نہیں ہو سکتی۔ کہاوت ہے نیند تو سولی پر بھی آ جاتی ہے۔ نیند آئے گی تو خواب ناگزیر ہیں۔ گویا سو ہتھ رسہ سرے پہ گانٹھ خوابوں پر روک ممکن نہیں۔ یہ ڈیپٹی وزیر اعظم کا مسلہ نہیں ہے کہ وہ سیاشی خواب نہ دیکھیں بلکہ یہ بیان دینے والے کی سر پیڑ ہے کہ وہ سیاسی خواب دیکھنے پر روک کس طرح لگاتے ہیں۔ چلو سونے پر روک لگ جاتی ہے لیکن جاگتے میں سپنے دیکھنے پر روک کیسے لگے گی۔
طاقت نشہ پیسہ اور اقتدار نیند کی مترادف حالت کا نام ہے۔ ان چاروں صورتوں میں خواب دیکھنا فطری سی چیز ہے بلکہ یہ سارا موسم خواب سا ہوتا ہے۔ چاروں اور رومانی نظارے موجود رہتے ہیں۔ ادھر ادھر پریوں کا رقص غلمان جام لیے رقص نما حالت میں پھرتے ہیں جی حضوریے ہمہ وقت گردش کرتے رہتے ہیں۔ شہر کو آگ لگا کر نظارہ کیا جاتا ہے۔ ٹی سی افروزوں کی زبان پر ہوتا ہے حضور کا شوق سالمت رہے شہر اور بہت۔ کوئی بھوک سے مر رہا ہے انھیں اس سے کچھ غرض نہیں ہوتی۔ انھیں یہ سب دیکھائ نہیں دے رہا ہوتا اور ناہی کوئی آگاہ کرنے واال ہوتا ہے۔ ناہی انھیں خراب موسم دیکھنے کی تمنا ہوتی ہے جو آگاہ کرنے کی جسارت کرتا ہے جان سے جاتا گویا جان کی سالمتی کے حوالہ سے سب ہرا کا ورد کرنا ضروری ہوتا ہے۔ یہ مشاہدہ کی بات ہے کہ سوئے شخص کو جگانا ناگوار عمل کے زمرے میں آتا ہے۔ جگانے سے راحت ہی ختم نہیں ہوتی حسین خوابوں کا بھی ستیاناس مار کر رکھ دیا جاتا ہے۔ ماڑے شخص کے خواب ماڑے اور غیر سیاسی قسم کے ہوتے ہیں۔ ماڑے شخص کے خواب کی چھالنگ سڑکی ہوٹل میں بیٹھ کر سالم مرغے کی پلیٹ اور چھابے میں موجود تین سے چار
روٹیوں تک محدود ہوتی ہے۔ ماڑا بھی یہ پسند نہیں کرے گا کہ ابھی اس نے مرغے کی ٹانگ کو ہاتھ لگایا ہی ہو کہ حضرت زوجہ ماجدہ نیند سے جگا کر آٹا نہ ہونے کی منحوس خبرسنائے۔ اس کا لہجہ گرجداراور طعنہ آمیز بھی ہو۔ ماڑا گھور کر دیکھنے کی غلطی نہیں کر سکتا۔ گھور کر دیکھنے کی جسارت کا نتیجہ کئ گھنٹوں کی الیعنی کل کل کو دعوت دینا ہے۔ پیسے نہیں ہیں تو وہ کیا کرے یہ اس کا مسلہ نہیں ہے۔ اس نے کون سا امریکہ اپنے نام لگوانے کے لیے کہہ دیا ہوتا ہے۔ یہ تو ایک ماژے کے خوابی نظآرے کی حالت ہے۔ وہ خواب میں بھی مرغ کے الون سے پیٹ بھر روٹی نہیں کھا سکتا۔ حاکم کے سامنے بڑے بڑوں کا پتہ پانی ہو جاتا ہے۔ ماڑے کے منہ میں مرغے کی دائیں یا بائیں ٹانگ کہاں سیاسی خواب تو بڑی دور کی بات ہے۔ ہاں سیاسی دنوں میں سیاسی خواب دیکھ سکتا ہے۔ اس کے سیاسی خواب بادشاہ لوگوں کے سے نہیں ہوتے۔ بڑے بی بے ضرر اور معصوم سے ہوتے ہیں۔ کسی بھی سیای ڈیرے پر پیٹ بھر روٹی میسر آ جاتی ہے۔ ووٹوں کے عوض پان سات دن کا آٹا وٹا الیا جا سکتا ہے۔ عوامی فالحی جمہوریت یہی ہے کہ ہر پندرہ بیس دن بعد اس سیاسی میلے کا اہتمام ہوتے رہنا چاہیے۔ یہ کیا گھپال ہے چار دن دے کر چار پانچ سالوں میں لوٹ سیل کو شعار بنایا جائے۔ یہ ٹھیک ہے آج کے بادشاہ لوگ
خرچہ کرکے بادشاہی منصب حاصل کرتے ہیں۔ لوٹ میلہ منانا ان کا سیاسی اور معاشی حق ہے۔ روال یہ ہے کہ دینا لینے کے پاسنگ بھی نہیں ہوتا۔ اس حوالہ سے راءج الوقت جمہوریت فالحی جمہوریت نہیں گل پھاہی جمہوریت ہے۔ پندرہ دن بعد نا سہی تیس دن بعد ایکشن کرا دینے میں کیا برائ یا خرابی ہے۔ ماڑا ایک ہفتہ پیٹ بھر کھا کر باقی تین ہفتے گزار سکتا ہے۔ پورے چار ہفتے بھوکا یا زیادہ تر بھوکا رکھنا غیر فالحی جمہوریت کے کھاتے میں آتا ہے۔ لوٹ مار کے تین ہفتے اتنے تھوڑے بھی نہیں ہوتےگویا ایک ہفتہ گریب کا تین ہفتے شاہ کے۔
ایک کھاتے پیتے گھرانے کی کڑی گریبوں کے بدبودار گھرانے میں بیاہی گئی۔ بات کو ذرا آگے بڑھنے دیں۔ ابھی سے یہ سوال ذ ہن میں نہ الئیں کہ کیسے بیاہی گئ اور گریب گھرانے کے لیے میں نے بدبودار کا سابقہ کیوں بڑھایا ہے۔ میں نے کھاتے پیتے گھرانے کے لیے خوشبودار کا سابقہ استعمال نہیں کیا حاالنکہ کھاتے پیتے گھرانوں میں خوشبوئیں ہمہ وقت تھرکتی رہتی ہیں۔ دونوں سوالیے کسی دوسرے وقت کے لیےاٹھا رکھیے۔ آتے ہی اس کڑی نے اس گھر لیپا پوچی کے لیے کمر کس لی۔ تین چار دن بعد کہنے لگی دیکھا میں نے گندگی ختم کر
دی ہے۔ گندگی اور گندگی کی بو ختم نہیں ہوئی ہوتی بلکہ وہ اس ماحول کی عادی ہو چکی ہوتی ہے۔ آج کے دور میں باراستہ لنکنی جمہوریت ہر آنے والے بادشاہ کو تخت اختیار پر بیٹھنے سے پہلے تخت اختیار کے چاروں پاسے غبن رشوت ہیرا پھیری بدمعاشی دھونس د اھندلی وغیرہ کی روڑیاں نظر آتی ہیں۔ تخت اختیار پر قبضہ فرما ہونے کے کچھ ہی دونوں بعد سب اچھا نظر آنے لگتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس نے ہر خرابی کو جڑ سے اکھیڑ دیا ہے۔ جی حضوریے بھی اسے یقین دال دیتے ہیں کہ آپ نے صفایاں کر دی ھیں۔ اس کے چمچوں اور گماشتوں کے حوالہ سے صفایاں ہو چکی ہوتی ہیں اب صرف سب اچھا باقی ہوتا ہے۔ اہل قلم نمبر ٹانکنے کے لیے اس کے کارناموں کی توتیاں بجاتے ہیں۔ بعض تو بڑے بھو نپو پکڑ لیتے ہیں۔ کوئی یہ کہنے لے یے تیار نہیں ہوتا کہ حضور آپ بھرے بازار میں پورے پروٹوکول کے ساتھ الف ننگے پھر رہے ہیں۔ عین ممکن ہے انھیں ظل سبحانی بالباس نظر آتے ہوں۔ لوگوں کا سچ کہا چاہے اکثرتی کیوں نہ ہو اپوزیش کی سازش معلوم ہوتی ہے حاالنکہ وہ سازش نہیں حقیقت ہوتی ہے۔ خواب خواب ہوتے ہیں حقیقت کا ان سے دور کا بھی رشتہ نہیں ہوتا۔ رشتے بننے میں ایک وقت لگتا ہے اور رشتے سچائی کے متقاضی ہوتے ہیں۔
طہارتی عمل اور مرغی نواز وڈیرہ
آپ کریم کا یہ ارشاد گرامی ۔۔۔۔۔۔ طہارت نصف ایمان ہے۔۔۔۔۔۔۔ دوسروں کی طرح میرے بھی علم میں تھا تاہم میرا دوسروں سے مختلف تفہمی نظریہ رہا ہے۔ دوسروں میں کچھ کپڑوں کی صفائ کو طہارت سمجھتے ہیں۔ کچھ کا ماننا یہ ہے کہ جسم کی خوب صفائی ستھرائی ہونی چاہیے۔ پولیس والے دھالئی کے معنی الگ سے لیتے ہیں۔ ان کے نزدیک دھالئی اس طور سے ہونی چاہیے کہ دھالئی دہندہ ناکردہ کو بھی بخوشی اپنی جھولی ڈال کر پاک صاف ہو جائے۔ ایک طرف صفائی عروج کو پہنچ جاتی ہے تو دوسری طرف اور کیسز کے کھپ کھپا سے بچاؤ کا رستہ نکل آتا ہے اور ان کیسز کے کار گزران سے مک مکا بہتر اور شفاف طور پر ممکن ہو جاتا ہے۔ ان کا کیا چونکہ کوئ اور اپنے سر لے چکا ہوتا ہے اس طرح وہ بھی طہارت کے عمل سے گزر جاتے ہیں۔ دولت آنی جانی شے اور مردوں کے
ہاتھ کی میل ہوتی ہے۔ جیل سے باہر رہ کر دیے سے کہیں بڑھ کر کما لیتے ہیں۔ پولیس سے علیک سلیک کے بعد ہاتھ بھی رل جاتے ہیں۔ اپنی اپنی سوچ کی بات ہے۔ میں طہارت کو الگ سے معنوں میں لیتا ہوں۔ کپڑوں اور جسم کا صاف ہونا انسانی صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔ انسان صرف جسم سے ہی تشکیل نہیں پاتا۔ جسم کے اندر روح بھی ہو تو ہی اسے چلتا پھرتا جیتا جاگتا انسان کہا جائے گا۔ بے روح کو دنیا کے ہر خطے میں الش مردہ میت جسد ڈیڈ باڈی کورپو مورٹو کورپس وغیرہ وغیرہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ گویا جسم کے ساتھ ساتھ باطنی طہارت کو کسی طور اور کسی سطع پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ظاہری سوٹر بوٹر ہونے کا کیا فائدہ جب اندر روڑی جھوٹ چغلی بخیلی تکبر بےانصافی بےایمانی ہیراپھیری بددیانتی بدمعاشی وغیرہ سمیٹے زندگی کی شاہراہ پر بڑی ڈھیٹائی سے دندناتی پھرتی ہو۔ روک ٹوک کرنے واال اگال سانس بھی نہ لے سکے۔ مجھے کسی اردو لغت کے بیک ٹائٹل پر ِ ے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان اپنا اسے صاف رکھی ِ
پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اصالح کرنے واال کہہ ہی سکتا ہے۔ عمل درامد تو پڑھنے سننے والے کو کرنا ہوتا ہے۔ طہارت کی بات چودہ سو سال پہلے کہی گئی تھی۔ یہ بات مختلف حوالوں سے بار بار دہرائی جاتی رہی۔ جن لوگوں نے باطنی طہارت کو اپنا شعار بنایا وہ بوعلی قلندر داتا گنج بخش معین الدین چشتی شاہ حسین الہوری بن گیے۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک سب پاکستان کو اپنا کہتے رہے لیکن صفائی ستھرائی کے عمل سے کوسوں دور رہے۔ اس بے الپرواہی اور مجرمانہ غفلت کے سبب گند پڑ گیا۔ بھال ہو الیکشن ٦٧٧٣کا۔ اس کی آمد پاکستان کے لیے خوش کن ٹابت ہو رہی ہے۔ گند پوری دیانتداری اور ہنرمندی سے صاف کیا جا رہا ہے۔ اگر یہ روایت بن گئ تو صاف شفاف سماج تشکیل پا سکے گا۔ اگر ظاہری صفائ کو اہمیت ہوتی تو غالظت کے بڑے ڈھیر ختم نہ ہوتے۔ چہرا مبارک اور لباس فاخرانہ اور امریکانہ تو سب کا دھال ہوا تھا۔ جب اندر سے پھروال گیا تو پوٹی رسیدہ بوسیدہ لیریں نکلیں۔ الیکشن کمشن اور عدلیہ کا جتنا بھی شکریہ ادا کیا جایے کم ہو گا۔ طہارت کےعمل کے حوالہ سے ایک عزت جاہ جو کسی کے ہاں اقامت رکھتے تھے کا قصہ یاد آ گیا۔ انھوں نے خوب مرغیوں پھڑکائیں جاتے ہوتے ایک مرغی ساتھ لے گیے۔ جو مر کھپ
گیے ان کی چھوڑیے جو ابھی ابھی رخصت ہوئے ہیں ان سے اڑائی گئی مرغی برآمد کی جا سکتی ہے۔ آگہی رکھنے والوں کو بات اٹھا کر اس طہارتی عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔ یہ قومی فریضہ ہے۔ عدلیہ نے آزادی حاص کرکے قومی اور شخصی ضمیر کو آزاد دالئی ہے۔ اس عہد آزای سے فائدہ نہ اٹھایا گیا تو مرغی عزت جاہ کی ملکیت کا درجہ حاصل کر لے گی۔ کل کیسا ہو گا کسی کے علم میں نہیں۔ طہارتی عمل میں ذاتی اور قریبی تعلقات کی کوئ معنویت نہیں ہوتی۔ آج یعنی دس اپریل کی ایک اخباری خبر کے مطابق اسٹیٹ بینک نے نادہندگان کی فہرست جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس انکار کے پیچھے هللا جانے کتنا بڑا تھرٹ ہو گا۔ یہ بھی امکان ہے مل جل کر مرغی کے مزے لوٹے گیے ہوں۔ یہ بھی بعید از امکان نہیں کہ مرغیوں کا اقامت کدہ اور نادہندگان کی موجگاہ اسٹیٹ بینک کے کسی مرغی نواز وڈیرے کا ڈیرہ رہا ہو۔ انکار کے تناظر میں کچھ بھی اور کتنا ہی کہا جا سکتا ہے۔ غالبا اس کی بینک قانون اجازت نہیں دیتا تاہم دو رستے پھر بھی کھلے ہیں۔ خصوصی اجازت حاصل کی جا سکتی ہے یا پھر نادہندگان کا معاملہ بینک عدالت ے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے۔ کیا انکار سے طہارت کے عمل کو نقصان نہیں پہنچے گا؟ جسم و روح پیشاب کی بوند سے آلودہ نہیں رہیں گے اور اس کے
اثرات دیر تک باقی نہیں رہیں گے؟! سو من دودھ کے کڑاہے میں پیشاب کی ایک بوند بھی سو من دودھ کو نجس کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ گویا طہارتی عمل کا ستیاناس مارنے کے حوالہ سے صرف مرغی نواز وڈیرے کا نام ہی بدنام نہیں ہو گا بلکہ اسٹیٹ بینک اور اس کے جملہ کارپردازگان کی بھی رسوائی ہو گی۔ غداری کے حوالہ سے مخبریاں ہوتی آئی ہیں کوئی دیس بھگت اس کی مخبری کرکے ملک و قوم اور مقید مرغیوں کو ان کے حقیقی مالکوں کے حوالے ہونے کا پن کما سکتا ہے یہی نہیں آتی بےگناہ نسلوں پراحسان کر سکتا ہے۔
الٹھی والے کی بھینس
الہور بورڈ نے میری پنشنری غربت سے متاثر اور عبرت پکڑتے ہوئے مجھے ہیڈ ایگزامینر مقرر کر دیا۔ میں کام کی غرض سے نکلنے لگا۔ دروازے سے ایک قدم باہر اور ایک قدم
اندر تھا کہ زوجہ ماجدہ کی پیار بھری آواز واپسی بالوے کی صورت میں میرے ناچیز اور پراز گناہ کانوں میں پڑی۔ بڑھاپے کے باوجود میں پوری پھرتی اور کسی نوبہاتا نوجوان کی طرح واپس پلٹا۔ زوجہ حضور کے ہاتھ میں منڈی کے سامان کی لسٹ تھی۔ سخت گھبرایا اور نزع کی حالت کے نیم مردہ شخص کی طرح منمنایا بلکہ گڑگڑایا :رمضان کی برکتوں کے سبب منڈی کی اشیاء دسترس سے باہر ہو گئ ہیں۔ بس دو چار روز صبر فرما لیں پھر سب کچھ آپ کے مقدس چرنوں میں ہو گا۔ بس پھر کیا تھا کام اسٹارٹ ہو گیا جیسے میں نے کوئی ماں بہن کی بےلباس گالی نکال دی ہو۔ یہ کوئی ایسی نئ بات نہیں تھی تحفظ عزت و مال کے لیے سارا دن بےعزتی کرانا میرے معمول کا حصہ ہے۔ میں نے بھی دل ہی دل میں جی بھر سنائیں۔ سالی یوں گرج برس رہی ہے جیسے روزہ میرے لیے رکھا ہو۔۔ باور رہے یہ بھی دل ہی دل میں کہا۔ اونچی آواز میں کچھ کہنا میرے کیا بڑے بڑوں کے ابے کے بس کا روگ نہیں رہا۔ بیگمی حوصلہ اور عزت افزائی کے باوجود میں خود کو معاشرے کا معزز شہری سمجھتا ہوں۔ لوگ تو خیر اس غلط فہمی میں مبتال ہیں ہی۔ وہ کیا جانیں روزوں میں منڈی چڑھنے کے ساتھ ہی میری عزت اور وقار بےعزتی کی سولی پر مصلوب ہو جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے اوروں کے ساتھ بھی کم
وبیش یہی ہوتا ہو تاہم میرے ساتھ باالضرور ہوتا ہے اور شاید یہی مقدر اور نصیبا رہا ہو۔ سنٹر میں ابھی میں نے تشریف نہیں رکھی تھی کہ ایک بی بی جو میری سب تھی اپنا کام لے کر آ گئ۔ سر میرا کیا قصور ہے جو کلرک کام میں دیری کرتا ہے بمعنی دوسروں کے پہلے کرتا ہے حاالنکہ اسے لیڈیز فسٹ کے اصول کی پابندی کرنی چاہیے گویا جس کا کام کر رہا ہوتا ہے اسے موخر کے کھاتے میں ڈال دے۔ اس کے سوال کا جواب دینے کی بجاءے منہ سے بےساختہ اور بےمحل نکل گیا جانے کیا کر بیٹھا ہوں جو گھر میں بھی عورتیں دیکھنے کو ملتی ہیں باہر آؤ تو بھی عورتوں سے پاال پڑتا ہے۔ کہنے کو تو کہہ گیا لیکن مجھے احساس ہو گیا کہ کچھ زیادہ ہی غلط کہہ گیا ہوں۔ بعد میں نے لیپا پوچی کی بڑی کوشش کی لیکن اب کیا ہوت کمان سے نکال تیر نشانے پر بیٹھ کر اپنا اثر دکھا چکا تھا۔ بات آئ گئ ہو کر وقتی طور پر ٹل گئ۔ مارکنگ کا یہ آخری دن تھا ایک دوسری خاتون نے برسرعام پوچھا سر اگر آپ برا نہ مناءیں تو ایک ذاتی سا سوال پوچھ سکتی ہوں۔ ذاتی پر زور تھا سا کا الحقہ اس نے تکلفا استعمال کیا۔ کیا کہہ سکتا تھا ذاتی سا سوال سرعام دریافت کر رہی تھی۔ احمق میں ہی تھا جو ماتحت
لوگوں کے بیچ بیٹھ کر کام کر رہا تھا۔ یہ لوگ تقریبا ماتحت تھے میں تو درجہ چہارم کے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر پلے سے سب کے لیے چائے منگوا کر پی لیتا ہوں گپ شپ کر لیتا ہوں۔ بالشبہ یہ اصول جاہی کے خالف ہے۔ بہر کیف میں نے بی بی کو پوچھ گچھ کی اجازت دے دی۔ ۔سر آپ کی تینوں بیگمات اسی شہر میں اقامت رکھتی ہی۔ تین کے ہندسے نے مجھے چکرا دیا۔ پھر میں نے سوچا مفت میں ٹہوہر بن رہا ہے اور اس حوالہ سے یہ جائے انکار کب ہے۔ نہیں وہ تو ایک ہی گھر میں رہتی ہیں۔ جس طرح مجھے تین کے ہندسے نے چکرا دیا تھا بالکل اسی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اس بی بی کو چکر آ گیا اور میں جوابی کاروائ کی اثر انگیزی پر مسرور تھا۔ کچھ ہی لمحوں کے بعد میری مسروری کو دیکھ کر اس نے دوسرا سوال داغ دیا۔ سر وہ آپس میں خوب لڑتی ہوں گی۔ میں یہ کہہ کر چلتا بنا :کیوں میں مر گیا ہوں۔ بعد میں کسی اور کی زبانی معلوم ہوا کہ انہوں نے کیوں میں مر گیا ہوں کی تفہیم بالکل الگ سے لی ہے۔ انہوں نے سمجھا کہ بابے نے تینوں کو نپ کر رکھا ہوا ہے۔ عورت اور وہ بھی سرکاری؛ دب کر رہے کس کتاب میں لکھا ہے۔ میرے کہنے کا
مطلب یہ تھا کہ آپس میں کیوں لڑیں گی لڑائی اورعزت افزائی کے لیے میں ابھی زندہ ہوں۔ یہ قصہ تو زیب داستان کے لیے عرض کر گیا ہوں اصل تحقیق کی ضرورت تین کا ہندسہ تھا۔ آخر یہ کہاں سے آ ٹپکا اور پورے مارکنگ سنٹر میں میری وجہ ء شہرت بن گیا۔ بڑا غور کیا سوچا سیاق و سباق میں گیا۔ کچھ بھی پلے نہ پڑا۔ آج کچھ ہی لمحے پہلے مجھے مشکوک نظروں سے دیکھا گیا تو میں نے سنجیدہ توجہ دی تو کھال میں نے ایک بی بی سے کہا تھا گھر میں عورتوں اور باہر بھی عورتوں سے پاال ہے۔ جمع کے صیغے نے کہانی کو جنم دیا تھا۔ خاتون کے حافظہ میں ایک جمع رہی دوسری کو اس نے واحد لیا۔ وہ عورت تھی مکالمہ اسی سے ہوا۔ غالبا اردو نحو کا اصول بھی یہی ہے کہ دوسری جمع واحد میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ سننے اور پڑھنے واال بولنے اور لکھنے والے کا پابند نہیں وہ مرضی کے مطابق مفاہیم اخذ کرتا ہے۔ میرے کہے میں ابہام موجود تھا۔ بال ابہام لفظوں اور جملوں کے بہت سے مفاہیم لیے جاتے ہیں یا پھر لیے جا سکتے ہیں۔ ساختیات بھی یہی کہتی ہے۔ اسے کہنا بھی چاہیے۔ ابہام اور لفظوں کی کثیر معنویت عدالتوں میں اپیل کے دروازے کھولتی ہے۔ لفظ اپنی حیثیت میں
جامد اور اٹل نہیں۔ اسے استعمال میں النے والے کی انگلی پکڑنا ہوتی ہے۔ ان کے جامد اور اٹل ہونے سے زبان کے اظہار کا دائرہ تنگ ہو جاءے گا۔ نتیجہ کار زبان مر جائے گی یا محض بولی ہو کر رہ جائے گی۔ اس تھیوری کے تناظر میں مجھے کسی بھی خاتون کے کہے کو دل پر لگانا نہیں چاہیے۔ کچھ ہی پہلے اندر سے آواز سنائی دی حضرت بیغم صاحب حیدر امام سے کہہ رہی تھیں بیٹا اپنے ابو سے پیسے لے کر بابے فجے سے غلہ لے آؤ۔ عید قریب آ رہی ہے کچھ تو جمع ہوں گے عید پر کپڑے خرید الئیں گے۔ بڑا سادا اور عام فیہم جملہ ہے لیکن اس کے مفاہیم سے میں ہی آگاہ ہوں۔ یہ عید پر کپڑوں النے کے حوالہ سے بڑا بلیغ اور طرحدار طنز ہے۔ طنز اور مزاح میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ طنز لڑائ کے دروازے کھولتا ہے جبکہ مزاح کے بطن سے قہقہے جنم لیتے ہیں۔ جب دونوں کا آمیزہ پیش کیا جائے تو زہریلی مسکراہٹ نمودار ہوتی ہے اور ایسی جعلی مسکراہٹ سے صبر بھال دوسرا بات گرہ میں بندھ جاتی ہے۔ میں نے کئ بار عرض کیا کہ طنز لبریز مذاق نہ کیا کرو۔ کہتی ہے اب اس گھر میں بات کرنے کی بھی اجازت نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حکم نامے طاقت جاری کرتی ہے۔ ماتحت کمزور مفلس
اور کامے حقوق کی مانگ بھی گزاشی انداز میں کرتے ہیں۔ لمحہ بھر کی خوش فہمی بھی ہضم نہ ہو سکی کہ گھر والی کو بےفضول کہنے کی جرآت نہیں میرے حصے کا بھی بقول سقراط گھر والی نے بول دیا۔ سردار دمحم حسین آج کی نشت میں کہہ رہے تھے کہ آخر آپ کی تان اعلی شکشا منشی پر ہی کیوں ٹوٹتی ہے۔ میں نے کہا سردار صاحب کل گاؤں سے ایک توڑا آلو لیتے آنا۔ آپ ہی فرمائیے اس میں زوردار ہنسنے والی کونسی بات ہے۔ میں نے اپنی بات دہرائ تو پھر ہنس دیے۔ نہ ہاں نہ ناں یہ کیا ہوا۔ میں اپنی لکھتوں میں اپنا حق طلب کرتا ہوں کیونکہ آلو کے بغیر گزرا نہیں اور آلو مفت میں نہیں ملتے۔ اعلی شکشا منشی کے دفتر سے پیسے ملیں گے تو ہی آلو ال سکوں گا۔ میرے آلو النے کے لیے کہنے میں سادگی نہ تھی بالکل اسی طرح سردار صاحب کے دھماکہ دار قہقہوں میں بھی نزدیک کے معنی موجود نہ تھے۔ میں جانتا ہوں وہاں بھی آلو کا روال ہے۔ سکی تنخواہ میں آلو اور ٹوہر ایک ساتھ نہی چل سکتے اور ناہی کسی سطع پر ان کا کوئ کنبینیشن ترکیب پاتا ہے۔ انہیں ضدین کا درجہ حاصل ہے۔ سردار صاحب نےآلو النے کی بات کو گول کرکے میرے اندر ڈر
اور خوف کی لہر دوڑا دی۔ میں یہ بھول ہی گیا کہ میں نے ان سے کیا گزارش کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ میں جن کے متعلق لکھتا ہوں ان کے ہاتھ بڑے لمبے ہیں کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ سردار صاحب کا کہنا غلط نہ تھا۔ تاہم یہ بھی طے ہے لوگ جیل سے باہر جیل سی زندگی گزار رہے ہیں۔ سفید پوش کی اوقات آلو برابر نہیں رہی۔ کیا عجیب صورت حال درپیش ہے۔ چور کی نشندہی کرنے واال مجرم اور الئق تعزیر ٹھہرتا ہے۔ چور یقینا دودھ دیتی بھینس کی مثل ہوتا ہے۔ چور چور کی آوازیں نکالنے واال دودھ دیتی بھینس کو چھڑی مار رہا ہوتا ہے۔ نشاندہی کرنے واال ایک طرف چور کو تو دوسری طرف چور سے مال انٹنے والے کے پیٹ پر الت رسید کر رہا ہوتا ہے۔ ویسے سچ اور حق کی آنکھ سے دیکھا جاءے تو حقیقت یہ ہے کہ چور اس وقت تک چور ہوتا ہے جب تک دوسرے کا مال اس کی گرہ میں نہیں آ جاتا۔ مال چاہے شور مچانے والے کا ہی کیوں نہ ہو۔ چور کی گرہ میں آنے کے بعد مال چور کا ہوتا ہے۔ کسی صاحب مال کو چور کہنا سراسر زیادتی کے مترادف ہے۔ اگر شور مچانے واال بخوشی گرہ سے کچھ نہیں دے سکتا تو کسی کے مال پر دعوے کا بھی اسے حق نہیں۔ حق اور انصاف کا تقاضا یہی کہ جس کی الٹھی اس کی بھینس ہے۔
علم عقل اور حبیبی اداروں کا قیام
یہ واقعہ میں نے پڑھا نہیں' کسی سے سنا ہے۔ راجا رنجیت سنگھ کے پاس دو آدمی حصول مالزمت کے لیے آئے۔ ان میں سےایک پڑھا لکھا جبکہ دوسرا پڑھا لکھا نہیں تھا بس اپنے دستخط کر لیتا تھا۔ اس نے پڑھے لکھے کو پٹواری اور دوسرے کو تحصیل دار بھرتی کر لیا۔ کسی نے پوچھا یہ کیا' پڑھا لکھا پٹواری اور ان پڑھ تحصیل دار! راجا رنجیت سنگھ نے جواب دیا کام تو پڑھے لکھے نے کرنا ہے جبکہ تحصیل دار نے دستخطوں کے سوا اور کرنا ہی کیا ہے۔ اس کی بات غلط نہ تھی افسر کام کب کرتا ہے کام تو کلرک وغیرہ ہی کرتے ہیں۔ افسر کئے کرائے پر دستخط مارتا ہے۔ اسے تو بہت سارے کاغذات کے بارے میں علم نہیں ہوتا کہ وہ ہیں کیا۔ مزے کی بات یہ کہ اس کی ذاتی دلچسپی سے متعلق کیسز بھی بابو کے ہاتھوں پراسس ہوتے ہیں۔ وہ بڑے بڑے اہم سرکاری امور کے بارے بابو صاحبان سے قانونی مشورے لیتا ہے اور بابو کے مشوروں کو ہی حرف آخر خیال کرتا ہے۔ کہیں
گرفت میں آ جائے توبھی بابو کا اگال حکیم جالینوس کا نسخہ ثابت ہوتا ہے۔ بابو کے پاس۔ ہر مرض کی دوا اور گیدڑ سنگی ہوتی ہے۔ جس کام سے افسر انکار کر دیتا ہے پٹواری (بابو بادشاہ) وہ کام نکلوا لیتا ہےاور اس انداز سے نکلواتا ہے کہ افسر کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں ہو پاتی۔ موجودہ عملی صورت حال کو دیکھتے ہوئے راجا رنجیت سنگھ کے فیصلے میں رائی بھر کجی یا خرابی نظر نہیں آتی۔ یونس حبیب کا موقف ہے کہ اس نے بڑا عہدہ علم کے ذریعے حاصل نہیں کیا بلکہ عقل کا اس میں عمل دخل ہے۔ اس کا موقف سولہ آنے درست ہے .ایک ایف اے پاس آدمی اتنے بڑے مرتبے پر کیسے جا سکتا تھا۔ ایم اے پاس لوگ ناءب قاصد کی کرسی کے لیے مستحق نہیں ٹھرتے۔ ایف اے پاس آدمی اس لحاظ سے گلی گلی آوازیں لگاتا پھرے منجی پیڑی ٹھوا لو۔ ہمارے بہت سے پڑھے لکھے افسر کام تو یونس حبیب سے ملتا جلتا کرتے ہیں لیکن شاید اس سطع کا کر نہیں پاتے۔ تعلیم کچھ ناکچھ تو بزدل بنانے میں کامیاب ہوتی ہے۔ وہ نا صرف بلند سطع کا کام نہیں کر پاتے ہیں بلکہ بلیک میلنگ میں بھی ناکام رہتے ہیں۔ ان کے پاس یونیورسٹی واال علم ہوتاہے لیکن یونس حبیب کی سی عقل نہیں ہوتی اور ناہی ہونی چاہیے۔ اس کی سی عقل ہو جائے تو پڑھے لکھے اور عقل والے میں انتر ہی کیا رہ جائے گا۔
عوامی حلقوں میں سوال گردش کر رہا ہے کہ آج یہ حضرت بیان بازی کر رہے ہیں اس وقت انھوں نے حاتم طائ کا کردار کیوں ادا کیا۔ گرہ خود سے دیتے تو مزا آتا۔ بڑے لوگ گرہ خود سے جوں مار کر نہیں دیتے نوٹ کس طرح دے سکتے ہیں۔ نوٹ دینے کا حوصلہ ہوتا تو آج ملک مقروض نہ ہوتا۔ دینا تو ان وچاروں کے عقیدہ میں داخل نہیں ہوتا۔ یہ نوٹ لینے کے جنون میں لوگوں کی جان تک قربان کر سکتے ہیں۔ جان سب سے زیادہ قیمتی چیز کیا ہے۔ اس سے بڑھ کر دھرتی کی خدمت کیا ہو سکتی ہے۔ دھرتی پھر بھی ان کے خلوص حصول پر انگلی رکھتی ہے تو اس مسلے کے حل کے ضمن میں اپنی جان عزیز دینے سے رہے۔ کچھ بھی کر لو کسی کو اس کی سطع پر خوش نہیں کیا جا سکتا۔ راجا رنجیت سنگھ کے حوالہ سے ایک بات صاف ہو جاتی ہے کہ افسری کے لیے تعلیم ضروری نہیں اور نہ ہی یہ فاءدہ مند چیز ہے۔ مطوبہ کرسی شاہی معیار عقل والے ہی میسر کر سکتے ہیں .آج ضرورت اس امر کی ہے کہ کالج اور یونیورسٹیاں بلند پایہ بابو تیار کریں تاکہ وہ عقل والوں کے قدموں پر قدم رکھ کر اپنی اوراپنے گھر والوں کی بہتر طورپر خدمت سرانجام دے سکیں۔ رہ گیے لوگ اور دھرتی' یہ نہ پہلے
کبھی خوش ہوئے ہیں اور ناہی آءندہ خوش ہو سکتے ہیں۔ آرام سکون اورآسودہ زندگی بسر کرنا ہے تو انھیں ہر سطع پراور ہر حال میں نظر انداز کرنا ہو گا۔ سوچ کو کسی طرح اپنی ذات کے حلقے سے باہر نہیں نکلنے دینا ہو گا۔ جہاں بابو سازی کے لیے تعلیمی اداروں کو پوری لگن دلچسپی اور دیانتداری سے میدان کار زار میں اترنا ہوگا وہاں حصولی عقل کے لیے ادارے کھولنا ہوں گے ان کی فیسیں کے لیے امریکہ جیسے بڑے ملکوں سے امداد حاصل کرنے کی سعی کی جانی چاہیے۔ وہاں سے انکار نہیں ہو گا کیونکہ امریکہ جیسے بڑے ملک عقل والوں کی دل و جان سے قدر کرتے ہیں۔ ماضی کی برٹش شاہی کو دیکہ لیں تعلیمی اداروں سے نکلے لوگ پٹواری بنے ہیں بلکہ تعلیمی اداروں نے پٹواری سازی کا فریضہ سرانجام دیا ہے جبکہ عقل والے تحصیل داری کرتے رہے ہیں۔ آج بھی برٹش شاہی کی تعریف کرنے والے مل جائیں گے۔ تعلیم' عقل کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتی۔ برطانیہ کا انگریز بڑا عقل واال تھا اس نے راجا رنجیت سنگھ کے کلیے کو گرہ میں باندھ لیا اور کامیاب رہا۔ جرمن ٹانگ نہ اڑاتےتو انھیں برصغیر سے کون مائی کا الل نکال سکتا تھا۔ ہم بڑے مذہبی لوگ ہیں کسی سکھ کی سیاسی شریعت تسلیم
نہیں کر سکتے۔ راجا رنجیت سنگھ اول تا آخر مقامی غیر مسلم تھا اس لیے اس کا کہا کس طرح درست ہو سکتا ہے۔ راجا رنجیت سنگھ اگر گورا ہوتا تو اس کی سیاسی شریعت کا مقام بڑا بلند ہوتا۔ گورا دیس سے آئی ہر چیز ہمیں خوش آتی ہے۔ کسی بوتل میں میم کا پیشاب بھرا ہوا ہو اور اوپر میڈ ان امریک مدرج ہو تو ہم اسے فورا خرید لیں گے۔ میکاؤلی' راجا رنجیت سنگھ سے کہیں بلند پاءے کا عقلمند تھا۔ جو بھی سہی راجا رنجیت سنگھ ہے تو مقامی غیر مسلم۔ اگر وہ مسلم ہوتا تو ہم اس کے اس اصول کوعملی ہی نہیں' زبانی بھی توقیر دیتے۔ نام کو بھی بڑا شرف حاصل ہوتا ہے۔ اکبر دین الہی کا بانی تھا لیکن اس کا نام دمحم اکبر تھا۔ اسے ہند اسالمی تاریخ کا ہیرو سمجھا جاتا ہے۔ وہ ہند اسالمی تاریخ میں پورے جالل و کمال کے ساتھ داخل ہے .یونس حبیب کو راجا رنجیت سنگھ کے حوالہ سے سے نہیں لیا جا سکتا۔ کہاں عقلمند مسلم بادشاہ اور .کہاں غیر مسلم مقامی عقلمند راجا جالل الدین دمحم اکبر ان پڑھ تھا لیکن تاریخی مسلمان عقلمند بادشاہ تھا جبکہ پڑھے لکھے اس کے پٹواری اور منشی مسدی تھے۔ نصف صدی اس نے عقل کے زور پر حکومت کی اور پڑھے لکھے اس کے پیچھے دم ہالتے پھرتے تھے۔ اس کے ہر
قول وفعل پر جئے جئے کار کے پھول نچھار کرتے تھے۔ کوئ سچا مسلمان یونس حبیب کی عقلمندی کو راجا رنجیت سنگ کی عقلمندی سے نسبت دینے کی مذہبی بےادبی کا مرتکب نہیں ہوسکتا ہاں البتہ اسے جالل الدین دمحم اکبر سے نسبت دینا غلط نہ ہو گا۔ اگر یہ اصول غلط ۔یا غیر فطری ہوتا تو اکبر بادشاہ تادم مرگ حکومت نہ کرتا' حکومتیں نہ گرتیں یا پھر آج امریکہ پوری دنیا کا تھانیدار نہ ہوتا۔ علم سے عقل' مال ودولت اور بلند مرتبہ ہاتھ نہیں لگتا ہاں عقل سے مال ودولت اور بلند مرتبہ ہاتھ لگ جاتا ہے۔ علم درویشی اور فقیری تک لے آتا ہے۔ علم والے بانٹ پر یقین رکھتے ہیں .حبیبی عقل گرہ خود سے بانٹ کو دماغ کا خلل قرار دیتی ہے۔ بانٹ اگر زمین سے اٹھا کر بلند ترین کرسی تک نہ لے جاءے تو دوسروں کے مال کی بانٹ حماقت سے کسی طرح کم نہیں ہوتی۔ بانٹ اگر کسی صاحب جاہ کو کانا نہ کرے تو ایسی بانٹ کا کیا فائدہ? شروع سے بیگانے مال سے تخت گرے ہیں اور بادشاہوں کی ٹانگیں ٹٹیری ٹانگیں ہوتی آئی ہیں۔ پہلے زمانوں میں اپنا مال چھپا دیا جاتا تھا لیکن عہد جدید میں مغربی ملکوں کے بنکوں
کو منتقل کر دیا جاتا ہے۔ قوم پر اپنی سیاسی شریعت کا نفاذ قوم کے مال ہی سے کیا جاتا ہے۔ ان حاالت کو دیکھتے ہوئے دانش اسکولوں کی طرز کے حبیبی ادارے کھولنا عقل کو فروغ دینےکےمترادف ہوگا۔
امریکہ کی پاگلوں سے جنگ چھڑنے والی ہے اخباری خبر اگلے روز کل کی بات ہو کر رہ جاتی ہے حاالنکہ آتے کل کی خبریں گزرے کل کی بازگشت یا اس کی عملی شکل ہوتی ہیں۔ جو قومیں اپنے گزرے کل کی تلخ یادوں کو بھول جاتی ہیں متواتر اوراوپر تلے نقصان اٹھاتی ہیں۔ ماضی کے مثبت کاموں پر اترانا برا نہیں لیکن موجودہ ناخوشگوار صورت حال کی وجوہ کو گزرے کل کے دامن میں تالشا جا سکتا ہے۔ بعض حاالت کو ہم ناگہانی قرار دے دیتے ہیں لیکن کچھ بھی اچانک نہیں ہوتا ۔ ناگہانی کا کسی ناکسی سطع پر کوئی ناکوئی اشارہ ماضی کےحاالت یا کہی ہوئ کسی بات میں موجود ہوتا .ہے
کشمیر میں قیامت آئی اوراسے بھوکم کا نام دیا گیا۔ کیا یہ بھونچال تھا یا کوئی اور چیز تھی آج تک کسی نے کھوج لگانے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ جاپان ہتھیار ڈال چکا تھا اس کے باوجود ایک کے بعد دوسرا بم !?گرایا گیا' کیوں فساد تو مغرب سے اٹھا تھا وہ بھی برطانیہ کے خالف۔ اصوال بم ?مغرب میں گرایا جانا چاہیے لیکن وہاں نہیں گرایا گیا کیوں مغرب والے کیوں کا جواب کیوں دیں۔ جواب کبھی مانگا ہی نہیں گیا۔ قتل وغات کا میدان مشرق میں ہی کیوں گرم کیوں ہوتا آیا ہے۔ ہم میں پوچھنے کی جرات ہی نہیں۔ قرض پر چلنے والی دوکان کے مالک کو بولنے یا کسی قسم کے قدم لینے کا حق نہیں ہوتا۔ سر وہی اٹھا سکتا ہے جو اپنی زندگی جی رہا ہو۔ چوری خور قومیں یا ان کے چوری خور لیڈر سکی بھڑک بھی نہیں مار سکتے۔ اس قماش کے لیڈر نیچے سے نکل کر اوپر والے کو مفعول بتاتے ہیں۔ اوپر واال بھی کہتا ہے ہاں ہاں یہی سبق دہراتے جاؤ اور لوگوں کو اندھیروں میں ہی رکھو تا کہ تمہاری چوری کا سلسلہ جاری رہے۔ اس قسم کے لیڈر اپنوں پر چڑھائ کے حوالہ سے شیر ببر ہوتے ہیں۔ یہی نہیں وہ قرب و جوار کی قوموں کی غلطیاں چن چن کر سامنے التے رہتے ہیں تاکہ ان کے کوچج پردہ میں رہیں۔ معاملے کی وجہ بھی اوروں
کے سر پر رکھتے ہیں۔ قوم یہ جان نہیں پاتی اصل دشمن تو ان کے اپنے ہی ہیں۔ کچھ خبریں درج کر رہا ہوں جو آج کی نہیں ہیں ہاں آج سے کچھ ہی دن پہلے کی ہیں اور ان کا آتے دنوں سے بڑا گہرا تعلق ہے اور ان خبروں کے حوالہ سے بہت ساری باتوں کا اندزہ لگایا جا سکتا ہے۔ ایران گیس منصوبہ۔ پاکستان فیصلہ کرنے سے پہلے دوبارہ سوچ لے۔ امریکہ کی پھر دھمکی اپنی دھمکیوں پر درست وقت پر عمل کریں گے۔ امریکہ ایران پر ممکنہ حملے کے لیےمکمل تیار ہیں۔ سربراہ امریکی فضاییہ چوری خوری :تعلیم کے شعبہ میں برطانیہ کی امداد قابل تحسین ہے۔ صدر زرداری چند طفل تسلیاں پاکستان پر پابندیوں کی امریکی دھمکی مسترد .وقت آیا تو نپٹ لیں گے۔ حنا کھر
امریکہ ہمارے اندرونی معامالت میں مداخلت نہ کرے۔ ایران گیس منصوبے پر کسی دھمکی میں نہیں آییں گے۔ وزیر اعظم پاکستان ایک مردانہ بیان :اٹیمی پاکستان ثابت قدم رہے۔ امریکہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ایرانی صدر پاکستان امریکہ کی مجبوری افغانستان سے انخال کے لیے پاکستان کی ضرورت پڑے گی۔ امریکی جرنل افغانستان میں مسمانوں کی مذہبی کتاب قرآن مجید کی گھس بیٹھیوں کے ہاتھوں بے حرمتی ہوئ۔ قندھار۔ امریکی فوجی نے گھروں پر فایرنگ کرکے عورتوں اور بچوں سمیت سولہ افراد کو ہالک کر دیا امریکی فوجیوں میں خودکشی کے رجحان بڑھنے کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ پاکستان سے مطلب ہونے کے باوجود امریکہ پاکستان کو گھٹنوں تلے دبا کر رکھ رہا ہے۔ مقروض اور چوری خور ہونے کے باعث دبنا ان کی مجبوری ہے۔ ان حاالت میں کوئ کتنا ہی پیروں پر کھڑارہنے کا مشورہ دے کیسے کھڑا رہا جا سکتا ہے۔
وقت پر کیسے نپٹا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے پہلے سے تیاری کی جاتی ہے۔ بھگتنا لیڈروں کا کام نہیں ہوتا وہ تو حملہ آور کے ساتھی بن جاتے ہیں اور اپنی کھال بچا لیتے ہیں کھال عوام کی اترتی ہے۔ تاریخ یہی بتاتی ہے .ہمارے لیڈر تو پہلے ہی گورا ہاؤس کے جارب کش ہیں۔ ان سے توقع رکھنے والے احمقوں کے سردار ہیں۔ ایران والوں کو دیکھیں' کن سے خیر کی امید رکھتےہیں۔ وہ جو اپنے ہی دیس باسیوں کے سجن نہیں ہیں کسی اور کے کیا خیرخواہ ہوں گے۔ یہ صرف اور صرف اپنی ذات اور اپنے مفاد سے غرض رکھتے ہیں۔ اوپر تین خبریں ایسی درج کی گئی ہیں جو بڑی افسوس ناک اور تکلیف دہ ہیں۔ قرآن مجید کی بے حرمتی سےدل دماغ اور جذبات :زخمی ہوءے ہیں۔ دوسری طرف یہ خبر خوشی کی ہے ا۔ مسلمانوں کو اپنے مسمان لیڈروں کی مسلمانی اورغیرت ایمانی کا اندازہ ہو گیا ہےیا ہو جانا چاہیے۔ یہ بھی پوشیدہ نہیں رہا کہ وہ ان کے کتنے دوست ہیں۔ لوگ جان گئے ہیں کہ یہ اول تا آخر تلوے چٹ ہیں۔ ان سے امید وابستہ رکھنا خودکشی کے مترادف ہے۔ ب۔ بزدل اور ناکام لوگ ہی اس قسم کی حرکتوں پر اترتے ہیں۔ .یہ دراصل ان کی شرمناک ناکامی کا اعالن ہے
ج۔ خطہ کے ممالک کو ذاتی چوکسی سے کام لینا پڑے گا۔ یہاں کے لیڈروں پر اعتماد موت کو ماسی کہنےکے مترادف ہو گا۔ د۔ پاکستان کے لوگوں کو بھوک پیاس اور موت سے متھا لگانے کے لیےتیاررہنا ہو گا۔ ان کے لیڈر کسی موڑ پر بھی زخموں پر مرہم نہیں رکھیں گے بلکہ دانت نکال کر دکھا دیں گے۔ امریکی فوجیوں میں خود کشی کا رجحاں بڑھنا اور کسی فوجی کا بالوجہ فائرنگ کرکے عورتوں اور بچوں سمیت سولہ لوگوں کو موت ے گھاٹ اتار دینا اورمعاملےکی تحقیق امریکہ کا ہاتہ میں لے لینا خوش آءند بات ہے۔ جب بھی انصاف کے ضمن میں ڈنڈی ماری جاتی ہے' سمجھ لو وقت پورا ہو گیا ہے۔ بےانصاف قومیں دنیا کے نقشے پر زیادہ دیر تک نہیں رہتیں' مٹ جاتی ہیں۔ امریکہ جس فوج کے بل بوتے پر دنیا پر نمبر داری کر رہا ہے نفسیاتی طور پر مریض ہو گئی ہے۔ جب بات بس سے باہر نکل جاءے تو شخص اپنی ذات سے جنگ پر اتر آتا ہے اور اس کے نتیجہ میں خود کشی پر اتر آتا ہے۔ کمزوروں کی جان کے درپے ہو جاتا ہے .۔جنجھالہٹ خوف غصہ اکتاہٹ تواتر وغیرہ کا کچھ بھی نتیجہ برامد ہو سکتا ہے۔ امریکی فوجی خود کو دوہرے حصار میں بند محسوس کرتے
ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ جبرکا شکار ہیں۔ انسان ایک حد تک جبرکی حالت میں رہ سکتا ہے .جب معاملہ حد تجاوز کرتا ہے توخوداذیتی کی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ بغاوت اور خود سری راہ پا جاتی ہے۔ بالشبہ تھپڑمارنے واال باال دست ہوتا ہے لیکن انرجی تپھڑ مارنے والے کی بھی خرچ ہوتی ہے۔ غرض ان خبروں کے حوالہ سے یہ کہنا الیعنی نہیں لگتاکہ امریکی فوج نفسیاتی امراض کا شکار ہو گئ ہے۔ پاگل کتا جہاں اوروں کے لیے خطرناک ہوتا ہے وہاں گھروالوں کے لیے بھی نقصان دہ ہوتا۔ وقت دیکھ لےگا انہی پاگل کتوں کے ہاتھوں خود ان کے لیڈر معاشرے کےلوگ ان کے گھر والے گولے اور گولیاں کھاءیں گے۔ پاگل کتے کی موت مریں گے۔ دوسری طرف جن کے بچے عورتیں اور مرد موت کے گھاٹ اترے ہیں ان کے دلوں میں نفرت کی چنگاریاں مزید شدت اختیار کریں گی۔ ردعمل میں اضافہ ہو گا اور یہ اضافہ امریکہ اور اس کی فوج کےلیے کسی طرح صحت مند ثابت نہیں ہو گا۔ یہ تو ایک واقعہ ہے پتا نہیں ایسے کتنے واقعے ہوتے ہوں گے لیکن منظر عام پر نہیں آ رہے۔ اب نفرت اور جنون کے درمیان جنگ ہے اس جنگ میں امریکہ کی شکست ہو گی۔ عالقے کے لوگ
آزادی اور نفرت کی لڑائی لڑیں گے جبکہ امریکی فوج کے پاس جنگ لڑنے کی کوئی وجہ موجود نہیں۔ موجودہ حاالت میں جنگ کا پانسہ پلٹ چکاہے۔ امریکی قیادت پر الزم آتا ہے کہ وہ اپنے فوجیوں کا نفسیاتی معالجہ کروائیں تاکہ امریکی شہری ان کے دست شر سے محفوظ ہو جائیں۔ مظلوم قوموں کو نوید ہو کہ قدرت کے کلسٹر بموں کی ان کے اپنے پاگل فوجیوں کے ہاتھوں بڑی خوفناک .بارش ہونےوالی ہے بوڑھا اور کمزور ہونے کے سبب میں آتے وقتوں کا یہ منظر شاید نہ دیکھ سکوں لیکن زندہ بچ رہنے والے ضرور دیکھیں گے۔ امریکی فوجی اپنے لیڈروں اور امریکی شہریوں سے سکندر اعظم کے حشر سے بھی بدتر حشر کرنے کی سطع پر آ رہے ہیں۔ امریکی لیڈروں کی حد سے بڑی ہٹ دھرمی خود ان کے اپنے پاؤں کی زنجیر بنتی چلی جا رہی ہے۔ وقت ہے کہ گزرا جا رہا ہے۔ امریکی لیڈر اپنی آتی نسلوں کی راہ میں مصائب کےکانٹے بن رہے ہیں حاالنکہ لوگ اپنی نسلوں کے لیے بیرون ملک دوستیوں کے دروازے کھولتے ہیں۔
امریکی عوام پر الزم آتا ہے کہ وہ طاقت کی غلط فہمی کے حصار کو توڑ کر اصل صورت حال کا تجزیہ کریں اور دیکھں کہ ان کے لیڈر انھیں کس نفرت کے جہنم میں دھکیل رہے ہیں۔
لوڈ شیڈنگ کی برکات ہم میں یہ عادت بڑی شدت اور تیز رفتاری سے پروان چڑھی ہے کہ ہماری معاملے کے منفی پہلو ہا پہلوں پر فورا سے پہلے نظر جاتی ہے اور پھر الیعنی اور بےسروپا کہانیاں گھڑتے چلے جاتے ہیں حاالنکہ مثبت پہلو بھی تو سامنے رکھے جا سکتےہیں۔ مثبت پہلو نظر میں رکھنے سے خرابی جنم نہیں لے پاتی۔ منفی کی سرشت میں ہی خرابی موجود ہوتی ہے۔ بجلی کے مسلے ہی کو دیکھ لیں عوام تو عوام سیاسی حلقوں نے بھی اسے ایشو بنا لیا ہے حاالنکہ یہ معاملہ کوئی اتنا بڑا مسلہ نہیں بلکہ معمولی سی مسلی ہے جو اس قابل نہیں کہ اسے بہت بڑا مسلہ بنا کر توڑ پھوڑ کی جائے ۔یا پھر بےکار میں رولےلپے سے کام لیا جاءے۔
آخر اتنا واویال کرنے کر ضرورت ہی کیا ہے۔ کون سی قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ ہمارے باپ دادا کب بجلی کے عادی تھے۔ بجلی امیر کبیر لوگوں کا چونچال تھی۔ آج بھی ان ہی لوگوں کی عیاشی کا ذریعہ ہے۔ پہلے وقتوں کے لوگ بھلے تھے ریس کرنے کی عادت سے دور رہ کر سکھ چین کی گزارتے تھے۔ اس ریس کی عادت نے ہر کسی کا دماغ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ روشنی بڑے بڑے ایوانوں کا مقدر تھی۔ روشنی بڑے ایوانوں کا فطری حق ہے۔ آج ایک معمولی مزدور بھی روشنی کی ڈیمانڈ کرنے لگا ہے۔ قوم کا کھیلنے کے لیے چاند مانگنا نادانی نہیں تو پھراور کیا ہے۔ جب کوئ اپنی اوقات سے باہر نکلتا ہے تو اوکھت اس کا مقدر ٹھرتی ہے۔ موجودہ عہد کی تیز رفتاری اور چمک دھمک نے زندگی کو انتہائ مشکل اور تکلیف دہ بنا دیا ہے۔ شخص کچھ کہنا چاہتا ہے لیکن کہہ نہیں پاتا۔ اس کی زبان پر مجبوریوں کے چائینہ الک ثبت ہیں۔ جو چونچ کھولے گا حضرت زوجہ ماجدہ کے پولے کھاءے گا۔ اگربچ رہا تو اوالد کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہو گا اورپھر متواتر ہوتا رہے۔ چونچ کھولنے والوں کے ساتھ ازل سے یہی ہوتا آیا ہے امید واثق ہے یہی ہوتا رہے گا ۔ہمارے مدبر لیڈران اس حقیقت سے خوب آگاہ ہیں تب ہی تو انھوں نے فساد کی جڑ کو ختم کر دینے کا پکا پیڈا ارادہ باندھ لیا ہے کہ نہ
رہے گی بجلی اور نہ میاں کی باجے گی ٹنڈ۔ لوگوں کے اگلے وقتوں کےخوبصورت اور آسان ہونے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا۔ لوگ غاروں میں منتقل ہو جائیں گے۔ اس طرح بے فضول اونچی اونچی عمارتیں بنانے کا رواج دم توڑ دے گا۔ غار کے اقامتی سیدھے سادے لوگ تقریبات کے تکلفات سے آزاد ہو جاءیں گے۔ آبادی بڑھ جانے کے باوجود ہریالی جو ککڑیانی سے کم نہیں پیٹ بھر نوش جان کر سکیں گے۔ بڑ کے درخت افادیت کے حوالہ سے کس مقام پر فائز ہیں کسی حکیم سے پوچھیے' لباسی عشرت کا درجہ حاصل کر لیں گے۔ ہمارے لیڈر بڑے سیانے ہیں اور جانتے ہیں کہ امریکہ غصے کا سوءر ہے۔ وہ عزم کیے ہوئے ہے کہ پوری دنیا کو کھنڈر بنا کر رکھ دے گا۔ ہمارے لیڈر بڑے ہمدرد لوگ ہیں وہ اپنی غالم رعایا کو بے بسی کی موت مرتے نہیں دیکھ سکیں گے۔ وہ اپنے مجبور اور بےبس غالموں کو امریکہ کی غالمی میں نہیں دیکھ سکتے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان میں سے کوئی غدار نکل آئے اور اپنے ہمدرد لیڈر صاحبان کی باطنی خباثت اگل نہ دے۔ آمدہ خطرات سے مقابلہ کرنے کے لیے انھوں نے اس ملک کو کھنڈر اور عوام کو غار اقامتی بنانے کا پختہ ارادہ کر لیا ہے۔
کملے عوام شور مچا رہے ہیں لیکن کل کالں ان کو اپنے لیڈر صاحبان کی بلند پایہ فراست اور دور اندیشی کا علم ہو جاءے گا۔ لیکن اس وقت یہ نہ ہوں گے۔ وقت ہاتھ سے نکل چکا ہو گا۔ پھر ان کی تعرف کرنے کا کیا فائدہ ہو گا۔ آج وقت ہے انھیں اپنے محسنوں کی قدر کرنی چائیے۔ انسان کی اصل بھی تو غار ہے۔ اس نے زندگی کا آغاز غار سے کیا ۔ اس ترقی یافتہ عہد میں بھی غار باسی اسے خوش آتی ہے۔ بعد از موت اس کا اصل ٹھکانہ غار ہی تو ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کا جنون کی سطع پر رواج کب تھا۔ خاص طبقے کے لوگ اس پرخار میدان میں قدم رکھتے تھے۔ عام لوگوں کو تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ انھوں نے کون سا جہانبانی کا فریضہ سر انجام دینا ہوتا ہے۔ نمبردار کا پسر ناہنجار ہی نمبردار بنتا ہے۔ اسی طرح بادشاہ کا بیٹا بادشاہ بنتا ہے۔ ہر نتھو خیرے کو بادشاہی کے خواب دیکھنے کی اجازت نہیں مل سکتی۔ اگلے وقتوں کے لوگ اپنے اپنے آبائی پیشے میں کمال حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے بلکہ عالقہ میں نام پیدا کرنے کے لیے عمر گزار دیتے تھے۔ ان کا مجوزہ پیشہ ان کی ذات اور پہچان ٹھرتا تھا۔ وہ اس ذیل میں فخر محسوس کرتے تھے۔ آج
بڑے بڑے افسر اور لیڈر اپنی ذات اور شناخت چھپاتے ہیں لیکن ان کی بعض حرکتیں اور کام ان کی ذات اور شناخت کھول دیتی ہیں۔ حاالنکہ اس میں چھپانے والی کوئی بات ہی نہیں ہمارےمحترم اور معزز لیڈر صاحبان لوگوں کو ان کی اصل کی جانب لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بجلی صرف خاص طبقے کے لوگوں کو میسر آ سکے تاکہ وہ پڑھ لکھ کر حکمرانی کا معزز فریضہ سرانجام دے سکیں۔ عام آدمی بڑے آدمیوں کا گوال ہوا کرتا تھا۔ اس کی چلمیں بھرتا تھا۔ ان کے جوتے سیدھےکیا کرتا آج عام آدمی اپنا ماضی بھول کر تعلیم صاصل کرکے کچھ بننے کی سعی میں مصروف ہے۔ یہ رویہ کسی طرح درست نہیں۔ بجلی نہ ہونے کے سبب تعلیم حاصل کرنے کے میالن کی حوصلہ شکنی ہو گی اور بڑے آدمیوں کی آنکھ میں انکھ مال کر بات کرنے کا خواب تعبیر کی منزل چھو نہ پائے گا اور لوگ اپنی اوقات کی جانب پھر کر بہتر طور پر کام کر سکیں گے۔ تعلیمی بورڑوں کی مالی حالت مستحکم سہی اس کے باوجود انھیں مزید بے تحاشا مالی معاونت درکار ہے تا کہ وہ لوگوں کا بہتر طور پر استحصال کرنے کا فریضہ سر انجام دے سکیں۔ طلباء کو بار بار فعل کرنے کے لیے حساب انگریزی مضامین
آرٹس کے لیے الزم کر رکھے ہیں۔ تجربے میں آیا ہے پھر بھی کچھ ناکچھ طلباء کامیاب ہو ہی جاتے تھے اور یہ صورتحال بڑی مایوس کن رہی ہے۔ اس مایوسی سے نجات کا واحد یہی ذریعہ رہ گیا تھا۔ اب کوئ طالب علم کامیاب ہوکر دکھاءے گا تو مانیں گے۔ کچھ ہی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ایک ایم پی اے صاحب بڑی دھواں دھار تقریر فرما رہے تھے۔ انھوں نے بڑے پرعزم انداز میں فرمایا ہم ناخوندگی بڑھانے کی ان تھک کوشش کر رہے ہیں۔ مدبرین کی سرتوڑ کوشش ہے کہ کوئی طالب علم میٹرک کراس نہ کر پائے ایف اے میں حساب فارغ ہو جائے گا اس طرح تعلیم کی حوصلہ شکنی کے لیے صرف اور صرف انگریزی باقی رہ جائے گی۔ انگریز کا کندھا اتنا مضبوط نہیں جو تعلیم شکنی میں ہمارے پرعزم لیڈران کی مدد کر سکے۔ حساب سے زیادہ کوئ مضمون بہتر ہو ہی نہیں سکتا۔ لوڈ شیڈنگ اس تعلیم دشمنی کے معاملہ میں جلتی کے لیے آکسیجن کا کام دے گی۔ اس مثبت پہلو کے پیش نظر لوڈ شیڈنگ کو منفی مفاہیم دینے والے ایوان دشمن ہیں۔ ایوان دشمنی کبھی بھی کمزور .طبقے کے لیے صحت مند نہیں رہی بجلی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ مختلف حوالوں سے
آگہی عام کرتی ہے۔ آگہی ے بڑھ کر کوئی عذاب نہیں۔ کوئ اخبار کسی بھی دن کا اٹھا کر دیکھ لو خیر کی خبر پڑھنے کو نہیں ملے گی۔ ٹی وی سچی باتیں سامنے ال کر بےچینی کا سبب بنتا ہے۔ بعض اوقات تو ٹی وی سازشی عنصر محسوس ہونے لگتا ہے۔ لوگ انٹرنیٹ پر تصاویر تقاریر کارٹون شائع کرکے اور تحریریں لکھ لکھ کر بڑے آدمیوں کو پوری دنیا میں ذلیل وخوار کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان کے خیال میں وہ اپنے مذموم ارادے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ یہ ان کی بہت بڑی بھول ہے۔ کوئی بھی بڑا آدمی اس وقت بےعزت ہو گا جب اس کی جنتا میں عزت ہو گی۔ دوسرا وہ تسلیم کریں گے تو ہی ذلت کا کوئی پہلو نکلے گا۔ جو بھی سہی میڈیا جھوٹا سچا کردار ادا .کرنے کی ناکام سعی تو کر رہا ہے کچھ بھی سہی میڈیا کے حوالہ سے انھیں یاوہ گوئ پڑھنے سننے کو مل رہی ہے۔ بڑے لوگ سچ پڑھنے سننے کے عادی نہیں ہوتے۔ میڈیا کی وجہ کمی کمین بھی جو تعداد میں سب سے زیادہ ہیں' بات کرنے کی جرات کریں گے۔ بجلی نہ رہی تو ٹی وی انٹرنیٹ وغیرہ صفر ہو کر رہ جاءیں گے۔ اگلے زمانے میں آگہی کے دروازے بڑے تنگ اور محدود تھے اسی لیے امن وامان میں کسی طرح کا نقص نہیں آتا تھا۔
پانی بڑی قیمتی چیز ہے۔ بجلی کے دور میں سرکاری اور گھریلو موٹروں کا پانی بڑی بے دردی سے ضائع کیا جاتا تھا۔ انھیں کبھی احساس تک نہیں ہوتا تھا کہ وہ کتنے بڑے گناہ کا ارتکاب کررہے ہیں۔ بجلی کی بندش سے بڑے لوگوں نےاپنے پیارے پیارے عام کو ظلم کبیرہ سے بچا کر اربوں کی تعدد میں نیکیاں کما لی ہیں۔ قوم شکریہ ادا کرنے کی بجائے سڑک پر آ گئی ہے۔ ٹیشو پیر کی صنعت خسارے میں تو نہیں تھی لیکن عام آدمی ٹیشو پیر بنا ہوا تھا .عام آدمی اس ترقی یافتہ چیز سے استفادہ نہیں کرتا تھا لیکن پانی کی خطرناک قلت کے سبب یہ طہارت کے حوالہ سے ایک عام آدمی میں بھی شرف قبولیت حاصل کر لے گا۔ لوگ پانی کو صرف پینےکے لیے محفوظ کیا کریں گے اور یہ بڑے فخر اور اعزا والی بات ہو گی۔ پاکستان کی آبادی بہت بڑھ گئ ہے۔ محکمہ منصوبہ بندی نے آبادی کےحوالہ سے وہ نام نہیں کمایا اور یہ بڑے افسوس کی بات ہے۔ جو کام محکمہ منصوبہ بندی نہیں کر سکا وہ کام بجلی کی بندش سے باآسانی ہو سکے گا۔ اس کی کئ صورتیں سامنےآ سکیں گی۔ مثل
ہسپتال میں پڑے مریض اپریشن نہ ہونے کے کے باعث دم توڑ دیں گے۔ کام نہ ملنے کی وجہ سے بھوک میں اضافہ ہو گا کچھ لوگوں کو بھوک کھا جائے۔ بہت سے لوگ بھوک کی سختی کے باعث خود کشی کر لیں گے۔ بھوک چوری چکاری میں اضافے کا باعث بنے گی۔ ڈاکے پڑیں گے ڈاکو برسرعام لوگوں کو لوٹیں گے۔ اس چھینا جھپٹی کے عالم میں قتل وغارت کا بازار گرم ہو جائے گا۔ اس طرح اچھی خاصی آبادی زندگی کی ظالم سختیوں سے مکت ہو جائے گی۔ بجلی کی قیمتوں میں جس قدر اضافہ ہوا ہے اس سے روح بھی کانپ رہی ہے۔ بجلی نہ ہوئی تو بجلی کی قیمت بل میں اندراج نہ ہو سکے گی۔ صرف اضافی چارجز کا بل آیا کرے گا جو پہلے سالوں میں باآسانی ادا ہو سکے گا۔ بجلی فراہم ہونے کی صورت میں لوگ آغاز عشق میں ہی میٹر کٹوانے چل پڑیں گے۔ اس طرح بجلی والوں کے کام میں خواہ مخواہ کا اضافہ ہو جائے گا جو کسی طرح مناسب نہیں لگتا۔
مزدور صدیوں سے مشقت کا شکار ہے۔ آج ہر کام بجلی سے جڑا ہوا ہے۔ اس طرح مزدور کو وافر آرام دسیاب ہو سکے گا۔ صدیوں کے تھکے ماندے مزدور کو آرام ملنا شر پسند عناصر کو ناجانےکیوں برالگ رہا ہے۔ دفاتر آرام گاہیں بن گئی ہیں' سائلین سولی پر ہیں۔ بجلی کی بندش سے کمپیوٹر ٹھپ ہو جائیں گے۔ لوگ ناامید ہو کر گھربیٹھ جائیں گے۔ اس سے دفاتر شاہی کو سائلین کی اہمیت کااحساس ہو سکے گا۔ دستی کام کرنے کے لیے آوازیں لگائی جائیں گی۔ چلو دفاتر شاہی کو کچھ تو کام کرنے کی عادت پڑے گی۔ مغرب کی پیروی میں بےلباسی ہمیں خوش آتی ہے۔ غالبا صالح الدین ایوبی کا قول ہے کہ گربت میں مرد کی غیرت اور عورت کی عزت سستی ہو جاتی ہے۔ لوڈشیڈنگ سے بےروزگاری میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ بھوک نے جینا مشکل کر دیا ہے۔ ایسے حاالت میں مغرب کی پیروی میں بےلباسی معیوب نہیں رہے گی۔ مغرب کی بےلباسی اور جنسی آزادی تاریخی وجوہ رکھتی ہے۔ یہاں کی بےلباسی میں بھی حاالت کا جواز پیدا ہو جائے گا۔ امرا وزرا اور اہل ثروت پہلے ہی جنسی عیاشی کرتے ہیں اس طرح مزید تر مال میسر آ سکے گا۔
گربا ہوتے ہی امرا کی غالمی کے لیے۔ آج تک گربا کے پاس صرف اور صرف عزت باقی تھی ہمارے مدبر قوم دوست قاءدین اس کو بھی بازار میں النے کی پوری پوری کوشش کر رہے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ قوم مغرب کی جنسی پیروی کرکے دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرے۔ بنیاد پرستوں نے آج تک اس ذیل میں اخالقیات کے نام پر ٹانگ اڑاے رکھی ہے گویا پہلوں کے .اخالقی اصول وضوابط آج کسی کام کے نہیں رہے درج باال معروضات کے تناظر میں لوڈشیڈنگ کو مالحظہ فرماءیں گے تواس کی مزید برکات غربا اور پریشان حضرات پر کھلتی جائیں گی اور سارا روال رپا سمجھ میں آ جاءے گا۔ یہ بھی پوشیدہ نہیں رہے گا کہ اس سازش کے پیچھے شرپسند مفاد پرست اور حکومت دشمن لوگوں کا دایاں ہاتھ ہے۔ وہ سب عوام دوست نہیں ہیں اور ناہی عوام کو ہزاروں سال پیچھے لے جانے کے حق میں ہیں۔ اس ملک کے عوام نہ آگے بڑھ رہے ہیں اور ناہی برق رفتاری سے ماضی کا رخ کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کے پلٹنے کی رفتار حوصلہ شکن ہے اس لیے راہ میں پڑنے والی ہر دیوار کو گرانا حکومت کے قومی تنزلی ایجنڈے کے ساتھ مخلصی ہو گی۔ ان کا اخالص حکومت دوست مورخ آب زر سے رقم کرے گا۔
ہم زندہ قوم ہیں
ہم بڑے الئی لگ قسم کے لوگ ہیں۔ اپنے دماغ سے سوچنے کی زحمت نہیں اٹھاتے۔ اگر کسی نے کہا کتا تہارے کان لے گیا ہے۔ کان دیکھنے کی بجائے کتے کے پیچھے دوڑ لگا دیں گے۔ کوئی کتنا ہی کوکتا رہے کان دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کریں گے بلکہ کوکنے والے کو ہی کوسنے دیں گے۔ یہ رویہ آج سے مخصوص نہیں بہت پہلےسے انسان کتے کے پیچھے پورے زور شور سے بھاگے چال جا رہا ہے۔ هللا جانے دونوں ابھی تک تھکن کا شکار کیوں نہیں ہوئے۔ دونوں کی رفتار میں رائی بھر کمی نہیں آئی۔ لفظ رائی کا استعمال اس لیے کیا ہے کہ رائی سے کوئی چھوٹی مادی شے ابھی تک دریافت نہیں ہو سکی۔ سل جاندار ہے اور دکھائی نہیں دیتا۔ دکھائی نہ دینے کے سبب ہی مر رہا ہے اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے سل بھر محاورہ نہیں اخترایا۔ کتے کی
وفاداری اپنی جگہ مڑ کر دندی نہیں کاٹ رہا اور بال جواز مشقت اٹھائے چال جا رہا ہے۔ انصاف کی بات تو یہ ہے کہ وہ انسان کےکچے کانوں کی بالجرم سزا بھگت رہا ہے۔ اگر ایک بار وفاداری کے خول سے باہر نکل کر اچانک پیچھے مڑ کر دندی کاٹ لیتا توانسان کو کان ہو جاتے۔ ڈاکٹر پیٹ میں ٹیکے ٹھوکتا۔ جیب ہلکی کرتا۔ نادانستگی میں کانوں کو ہاتھ لگاتا تو اسے معلوم پڑتا کہ کان تو سالمت ہیں۔ ہاں البتہ سر سالمت نہیں رہا۔ اسے یہ بھی پتہ چل جاتا کہ زخموں سے چور اور نڈھال سرآج بھی غداروں اور مداریوں کے قدموں میں پڑا انسان کی کتا چیکی کا رونا رو رہا ہے۔ استاد کو میری بات سے اتفاق نہیں رہا بلکہ اس کا ماننا یہ ہے کہ سوچنے واال سر پیٹ میں چال گیا ہے۔ ہمارے ہاں کا شخص پیٹ سے سوچنے کا عادی ہو گیا۔ پیٹ میں حسب ضرورت گرم ٹھنڈا تھندا ڈالتے رہو یہ کتے کے پیچھے بھاگتا رہے گا ۔ پیٹ اور گٹھنوں کان اور پیٹ کا فاصلہ برابر ہو گیا ہے اس لیے پیٹ کان اور گٹھنوں سے پہلے ہے۔ ہر معاملہ میں پیٹ پہلے ہو گیا ہے۔ کان اور گٹھنے روٹی نہیں کھاتے اس لیے وہ قابل ترجیع نہیں ہیں۔ بات میں دم اور خم کی کسی حوالہ سے کمی نہیں۔ دھرتی ماں ہی ہوتی ہے۔ ماں کسی غیر کے حوالے کرکے دیسی
گھی کی چوری والئتیوں کے ہاتھ سےکھا نےکا مزا دیس بھگت کیا جانیں۔ وہ جانتے ہوئے کہ والءتیوں نےمولوی ابوبکر کی گولی کھا رکھی ہے اور ماں کا کیا حشر کرے گا کا تصور بھی پیٹ دشمنی کے مترادف سمجھتے ہیں۔ اسے ماں سے غداری یا بے غیرتی سے زیادہ وقت اور حاالت کا تقاضا سمجھا جاتا ہے۔ استاد کی باتوں کا برا نہ مانئیے گا۔ میں بھی اوروں کی طرح ہنس کر ٹال دیتا ہوں۔ اور کیا کروں مجھے محسن کش اور پاکستان دشمن کہالنے کا کوئی شوق نہیں۔ بھال یہ بھی کوئ کرنے کی باتیں ہیں کہ کتے کے منہ سے نکلی سانپ کے منہ میں آ گئی۔ سانپ سے خالصی ہونے کے ساتھ ہی چھپکلی کے منہ میں چلی گئی۔ پاکستان اور بھارت کی قیادت بڑی اعلی درجے کی رہی ہے۔ یہ بڑے نیک شریف اور دیس بھگت رہے ہیں۔ جو بھی ان کے کردار پرانگلی رکھے گا ناک کی سیدھ پر دوزخ نرک میں جائے گا۔ پاکستان کی قیادت کو بسم هللا تک آئے یا نہ آے اسالم دوست رہی ہے۔اس نے ہر قدم پراسالم دوستی کا ثبوت دیا ہے۔ استاد کا کیا ہے وہ تو بونگیاں مارتا رہتا ہے۔ ساری دنیا مورخ کی مانتی آئی ہے اور مورکھ اقتدار کا گماشتہ رہا ہے۔ مورکھ وچارہ بھی تو نسان رہا ہے۔ پاپی پیٹ اسے بھی لگا لگایا مال ہے۔ اس نے
چند لقموں کے لیے ضمیر بیچا ہے۔ بڑی پگڑی والے سر خان بہادرز بھی یہی کچھ کرتے آئے ہیں اور وہ ہمارے ہیرو ہیں۔ کیوں نہ ہوں انگریز ساختہ ہیں۔ ان کے انگریز ساختہ ہونے میں رائی بھر کھوٹ نہیں۔ نظام ملنگی سلطانہ بھگت سنگھ آزاد وغیرہ انگریز ساختہ ڈاکو ہیں اور ہم میں سے ہر کسی کا یہی ماننا ہے۔ میں بھی باالئے زبان یہی کہتا ہوں۔ میں دل سے نہیں مانتا۔ کسی کو میرے دل سے کیا مطبل منہ زبانی ایک بار نہیں ہزار کہتا ہوں کہ یہ ڈاکو تھے ڈاکو تھے۔ ان کا ڈاکو ہونا ہر شک سے باالتر ہے۔ انگریز ساختہ ہیروز بھی اپنی اصل میں مہا ڈاکو تھے۔ وہ انگریز کی اشیرباد سے گریب اور کمزور لوگوں کی جان مال اور عزت پر دن دھاڑے برسرعام پوری دھونس سےڈاکہ نہیں باربار ڈاکے ڈالتے تھے۔ نظام ملنگی سلطانہ وغیرہ ان سرکاری خان بہادر ڈاکوں کے گھروں میں رات کےوقت ڈاکے نہیں ڈاکہ ڈالتے اور گریبوں میں تقسیم کردیتے تھے۔ سرکاری ڈاکو محلوں میں رہتے تھے اور یہ خالی ہاتھ چھانگا مانگا کے جنگوں میں چھپتے پھرتے تھے۔ سرکاری خان بہادر ڈاکو دھرتی ماں کے دالل تھے۔ یہ دھرتی ماں کے بھگت تھے۔
پاکستان بنانے والوں کا نام تک کسی کو یاد نہیں لیکن ان انگریز ساختہ ہیروز کو سب جانتے۔ ٹیپو ہیرو تھا ساری عمر تلوار کی نوک تلے رہا۔ یہ ایسے ہیروز ہیں جنہوں نے پوری قوم کو تلوار کی نوک تلے رکھا۔ پاکستان کے لیے اسالم کا نام استعمال ہوا لوگوں نے اسالم کے نام پر جانیں قربان کیں۔ بے گھر ہوئے۔ لیکن انھیں کوئی جانتا تک نہیں۔ ذرا ان سوالوں کا جواب تالشیں ٧١٧٢ میں وائسرائے ہند سے ملنے والے گروہ کا سردار کون تھا اور اس کا انگریز سے کیا رشتہ تھا؟ تقریر کس انگریز نے لکھ کر دی اور وہ انگریز کس کا نمائندہ تھا؟ وائسرائے نے کیا اور کیوں مشورہ دیا؟ ٧١٧٢ میں مسلم لیگ کی قررداد پیش کرنے والے کے پاس انگریز سرکار کے کتنے ٹائیٹل تھے؟ کیا وہ انگریز سے پوچھے بغیر ٹٹی پیشاب کر لیتا تھا؟
مسلم لیگ کے جملہ صدور عہدے دران وغیرہ میں سے کتنے سر اور انگریز سرکار کے چمچے کڑچھے تھے؟ استاد کہتا ہے جو ہیروز تھے ان کا کہیں ذکر تک نہیں اور جو زیرو بھی نہیں تھے پیٹ نواز مورکھ نے انھیں زمین کا سنگار بنا دیا ہے۔ استاد کی باتیں اگرچہ سچ اور حقائق پر مبنی ہیں لیکن سچ کو کب تسلیم کیا گیا ہے۔ میں استاد سے اکثر کہتا ہوں ایسی کڑوی بات نہ کیا کرے۔ لوگوں کو کتے کے پیچھے بھاگنے دے۔ زندہ قومیں مسلسل بھاگتی ہیں۔ بھاگنے سےہی بھاگ جاگتے ہیں۔ اس بات کا دکھ نہیں ہونا چاہیے کہ بجلی بند ہے خوشی اس بات کی ہونی چاہیے کہ سب کی بند ہے۔ ہم زندہ قوم ہیں اور اس پرچم تلے سب ایک ہیں۔
........................... بابا بولتا ہے http://urdunetjpn.com/ur/category/maqsood-hasni/page124//
بابا چھیڑتا ہے http://urdunetjpn.com/ur/category/maqsood-hasni/page/123/
فتوی درکار ہے http://urdunetjpn.com/ur/category/maqsood-hasni/page/122/
الوارث بابا اوپر http://urdunetjpn.com/ur/category/maqsood-hasni/page121//
ڈنگی ڈینگی کی زد میں ہے http://urdunetjpn.com/ur/category/maqsood-hasni/page120//
حضرت ڈینگی شریف اور نفاذ اسالم http://urdunetjpn.com/ur/category/maqsood-hasni/page119//
یہ بالئیں صدقہ کو کھا جاتی ہیں http://urdunetjpn.com/ur/category/maqsood-hasni/page/118/
سورج مغرب سے نکلتا ہے http://urdunetjpn.com/ur/category/maqsood-hasni/page/116/
حجامت بےسر کو سر میں التی ہے http://urdunetjpn.com/ur/category/maqsood-hasni/pag e/114/
طاقت اور ٹیڑھے مگر خوب صورت ہاتھ http://urdunetjpn.com/ur/category/maqsood-hasni/page/111/
انھی پئے گئی ہے http://urdunetjpn.com/ur/category/maqsood-hasni/page/103
آرا
ایک دفع کا ذکر ہے مکرمی و محترمی حسنی صاحب :سالم علیکم مدت ہوئی کہ آشتیءچشم وگوش ہے! کتنا عرصہ ہوگیا کہ آپ سے نیاز حاصل نہ کر سکا۔ اس زندگی اور اس کے خراج کا برا ہو کہ اپنے بیگانوں سے سالم دعا بھی اب ہونا مشکل ہوچال ہے۔ معذرت خواہ ہوں۔ امید ہے کہ اپ بعافیت ہوں گے۔ قلم کی شگفتگی تو بظاہر بدستور قایم ہے،هللا سے دعا ہے کہ آپ بذات خود بھی حسب معمول شکفتہ ہوں۔ آپ کا انشائیہ حسب دستور سابق دلچسپ اور پر لطف ہے۔ پڑھتا رہا اور مزے لیتا رہا۔ اور جب "بے نکاحی" گالیوں تک پہنچا تو بے اختیار قہقہہ منھ سے نکل گیا۔ کیوں صاحب یہ "نکاحی" گالیاں کیسی ہوتی ہیں؟ دو ایک مثالیں عنایت فرمائیں تاکہ فرق معلوم ہو سکے۔ آپ کی زبان میں جا بجا پنجابی کا چٹخارہ لگا ہوتا ہے جو عجیب مزا دیتا ہے۔ پنجابی ویسے خاصی کھردری زبان ہے لیکن مزاح میں خوب کام آتی ہے۔ انشائیہ پر خادم کی داد حاضر ہے۔ اسی طرح لکھتے رہئے اور ثواب دارین سمیٹتے رہئے۔ اور ہاں "نکاحی" !اور "بے نکاحی" گالیوں کا فرق ضرور بتائیں
سرور عالم راز http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10041.0
غیرملکی بداطواری دفتری اخالقیات اور برفی کی چاٹ ،، مکرمی حسنی صاحب :سالم علیکم میرے اس خط کو نشانی سمجھ لیں کہ آپ کا انشائیہ میں نے مزے لے لے کر اور با ضابطہ عبرت پکڑپکڑ کر پڑھ لیا ہے۔ اگر انشائیہ کا تعلق آپ کے وطن سے مخصوص نہ ہوتا اور میں ہندوستان کا سابق شہری نہ ہوتا تو کچھ عرض کرتا لیکن تجربوں سے ظاہر ہوگیا ہے کہ ایسے نازک معامالت میں خاموشی اچھی ہوتی ہے۔ سو میری خاموشی قبول کیجئے اور ساتھ ہی داد بھی۔ سرور عالم راز
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=7961.0
انشورنس والے اور میں اور تو کا فلسفہ ! عزیز گرامی حسنی صاحب :سالم شوق آپ کا انشائیہ پڑھ کر مزا آ گیا۔ کاش آپ اپنی اس صالحیت پر مزید محنت کریں اور مزاح اور طنز کی دنیا میں ایک مقام بنا لیں۔ آپ کا قلم نہایت شگفتہ و شستہ ہے ،خیال آرائی اور منظر کشی میں آپ ماہر ہیں،زبان و بیان بہت اچھے ہیں تو پھر دیر کس بات کی؟ میری مخلصانہ گزارش ہے کہ طنز ومزاح کی جانب سجنیدگی سے توجہ دیں اور اپنے انداز فکر و سخن کو نکھاریں۔ اردو میں طنز و مزاح بہت کم ہے کیونکہ ہماری زندگی اور معاشرہ خود درد و رنج اور استحصال کا مارا ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب انسان کی زندگی عذاب ہو تو اس کو ہنسی کیسے سوجھے گی؟ اس حوالے سے مزاح نگار ایک رحمت بن جاتا ہے کیونکہ وہ لوگوں کو ہنساتا ہے اور سبق سکھاتا ہے۔ آپ کا انشائیہ صرف واپڈا کا انشائیہ نہیں ہے بلکہ ہر ایسے ادارہ اور ایسے لوگوں کا خاکہ ہے جنہوں نے عوام کی زندگی
عذاب بنا رکھی ہے۔ اچھے انشائیہ پر داد قبول کیجئے اور میری گزارش پر ضرور سوچئے اور کام کیجئے۔ شکریہ ۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔ سرور عالم راز http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=7974.0
الٹھی والے کی بھینس مکرم بندہ جناب حسنی صاحب :سالم شوق خدا گواہ ہے کہ اردو انجمن نہایت خوش قسمت ہے کہ اس کو بیک وقت آپ اور اعجاز خیال صاحب جیسے انشائیہ نگار مل گئے ۔ آپ دوسری محفلوں کو دیکھیں تو قحط الرجال کی کیفیت طاری معلوم ہوتی ہے۔ ویسے بھی اردو دنیا میں نثرنگاری اور
نثر نگاروں کاکال پڑا ہوا ہے۔ انجمن آپ دونوں کی احسان مند ہے اور شکرگزار بھی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آپ دونوں احباب اپنے انشائیوں پر نظر ثانی کر کے اور انھیں مزید نکھار کے کتابی شکل میں اشاعت کی فکر کریں۔ کیا خیال ہے آپ دونوں کا؟ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔ سرورعالم راز http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=7963.0
میری ناچیز بدعا
محترمی حسنی صاحب :سالم مسنون
آپ کے انشائیے پر لطف ہوتے ہیں۔ خصوصا اس لئے بھی کہ آپ ان میں اپنی طرف کی یا پنجابی کی معرور عوامی
اصطالحات (میں تو انہیں یہی سمجھتا ہوں۔ ہو سکتا ہوں کہ غلطی پر ہوں) استعمال کرتے ہیں جن کامطلب سر کھجانے کے بعد آدھا پونا سمجھ میں آ ہی جاتی ہے جیسے ادھ گھر والی یا کھرک۔ یا ایم بی بی ایس۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ کھرک جیسا با مزہ مرض ابھی تک جدید سائنس نے ایجاد نہیں کیا ہے۔ وہللا بعض اوقات تو جی چاہتا ہے کہ یہ مشغلہ جاری رہے اور تا قیامت جاری رہے۔ اس سے یہ فائدہ بھی ہے کہ صور کی آواز کو پس پشت ڈال کر ہم :کھرک اندازی :میں مشغول رہیں گے۔ ہللا ہللا خیر سال۔
لکھتے رہئے اور شغل جاری رکھئے۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے سرور عالم راز http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8069.0
مشتری ہوشیآر باش
مکرمی بندہ حسنی صاحب :سالم مسنون
آپ کا یہ نہایت دلچسپ انشائیہ پڑھا اور بہت محظوظ و مستفید ہوا۔ جب اس کے اصول کا خود پر اطالق کیا تو اتنے نام اور خطاب نظر آئے کہ اگر ان کا اعالن کر دوں تو دنیا اور عاقبت دونوں میں خوار ہوں۔ سو خاموشی سے سر جھکا کر یہ خط لکھنے بیٹھ گیا ۔ انشائیہ بہت مزیدار ہے شاید اس لئے کہ حقیقت پر مبنی ہے۔ اس آئنیہ میں سب اپنی صورت دیکھ سکتے ہیں۔ بہت شکریہ مضمون عنایت کرنے کا۔
باقی راوی سب چین بولتا ہے۔
سرور عالم راز http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8277.0
ہدایت نامہ خاوند
محترم مقصود حسنی صاحب ،سالم۔ آپ کا عنایت کردہ ہدایت نامہ توجہ سے پڑھا اور اس سے محظوظ ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ بہت ہی خوبصورتی سے آپ نے سب ذمہ داریاں قبول کرتے ہوئے معاملے کی سچائی کو سفرِ ازدواج کے پرانے اور نئے مسافروں کے سامنے رکھا ہے اور صدقہِ جاریہ کا ثواب لوٹ لیا ہے تخلیق کی عمدگی پر داد اور یہاں پیش کرنے پر شکریہ قبول کیجیے اور محفل کو یوں ہی رونق بخشتے رہیے۔
احقر عامر عباس
عزیز مکرم حسنی صاحب:سالم مسنون
آپ کا انشائیہ پڑھا اور محظوظ و مستفید ہوا۔ جب سب کچھ پڑھ چکا تو گریبان میں جھانک کر دیکھا اور اس کے بعد
خاموشی میں ہی بہتری نظر آئی۔ صاحب! اتنی ذمہ داریاں نبھانے سے بہتر تو یہ ہے کہ آدمی شادی ہی نہ کرے! بہر کیف آپ کی انشا پردازی کا یہ مضمون بہت اچھا نمونہ ہے۔ اب یہ نہیں معلوم کہ جتنا اچھا مضمون ہے اتنا ہی اچھا اس پر عمل بھی ہے یا آج کل کے مولوی صاحب کی طرح لوگوں سے درود شریف پڑھنے کی تاکید کر کے خود چائے پینے کا شغل پسند ہے۔ ہمارے بچپن میں مسجد کے مولوی صاحب میالد شریف پڑھتے وقت بار بار لوگوں سے کہتے تھے کہ "بھائیو، آپ زور زور سے درود شریف پڑھیں ،تب تک میں چائے کا ایک آدھ گھونٹ لے لوں"۔ مذاق برطرف انشائیوں کا سلسلہ جاری رکھیں۔ اور ثواب دارین حاصل کریں۔
باقی راوی سب چین بولتا ہے۔
سرور عالم راز http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8315.0
آزاد معاشرے اہل علم اور صعوبت کی جندریاں
جناب محترم ڈاکٹر حسنی صاحب سالم مسنون پیشِ خدمت ہے جناب عالیِِ آپ کے قلم کی مار اہلِ قلم کے لئے باعثِ ترقِی ء فہم و دانش ہے ،کس محبت اور خوبصورتی سے آپ نے قلم کی بناوٹ سے لیکر اسکی وجہِ تخیلق اور ذمہ داری پر روشنی ڈالی یقیناًبہت پُر مغز باکمال تحریر ہے جسے طنز و مزاح کے ساتھ مگر پُرفکر انداز میں آپ نے پیش کیا اور قارئین کی توجہ حاصل کرنا چاہی ،میری جانب سے داد اور شکریہ اس دلکش تحریر سے مستفید فرمانے کے لئے قبول فرمائیے ،اس ضمن میں آپ کی اور قارئین کرام کی توجہ بھی چاہوں گا کہ آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں اس میں قلم تو زندگیوں سے تقریباًنکل ہی چکا ہے االِ دیہاتوں میں مگر پین بال پین پینسل بھی نکلتی جارہی ہے ،ہم ڈیجیٹل پین استعمال کرنے لگے ہیں الیکٹرونکس پین سوفٹ ویئر کی بورڈز اور مزید آگے ہی آگے بڑھ رہے ہیں اب ایسا وقت آنے واال ہے یا تجرباتی طور پر آچکا ہے کہ جس میں آپ بات کریں گے اور کمپیوٹر صاحب یا رائیٹنگ ڈیوائس آپ کی بات کو اسکرین پر ٹائیپ کردے گی آپ
چاہے کسی بھی زبان کے بولنے والے کیوں نہ ہوں تو قلم کی تو ہو گئی چھٹِی ۔۔۔ کسی زمانے میں پرندوں کے پر اور روشنائی کی مدد سے کاغذ پر لکھی جانے والے محبت نامے اب ایس ایم ایس کے ذریعے ہوا کے پروں پر سوار ہو کر الیکٹرانک قلم سے دل کا حال محبوب کو جب سناتے ہیں تو چند سیکنڈ لگتے ہیں دونوں طرف کی آگ کے شعلے ایک دوسرے کو لپیٹ لیتے ہیں ،پرانے وقتوں میں پاگل ہونے والے کو ذرا وقت لگتا تھا اب تو لمحے لگتے ہیں مر مٹنے کے لئے دیوانہ ہو جانے کے لئے پاگل بن جانے کے لئے کبوتر کی بھی چھٹِی قلم کی بھی چھٹِی کاغذ کی بھی چھٹِی وقت کی بھی چھٹِی
لمحوں میں نفرت کی مار لمحوں میں محبت کی بانہوں کے ہار دلوں کی جیت لمحوں میں دنیا اتھل پتھل ہونے میں صرف چند لمحے ادھر کی دنیا ادھر بیچ میں سیٹالئیٹ سسٹم محکمہ ء پیغام رساں عرف (ٹیلی کمیونیکیشن )سسٹم نہ وہ عاشق نہ وہ معشوق نہ وہ خون سے لکھی تحریریں نہ وہ پیغام رساں کبوتر نہ وہ انتظار نہ وہ بے قراری نہ وہ پیار نہ وہ قلم نہ وہ محبوب نہ وہ محب سب ڈیجیٹل ہے سب الیکٹرونک کی دنیا کا کمال ہے محبت بھی الیکٹرانک نفرت
بھی الیکٹرونک چاہت بھی الیکڑونک بے قراری بھی الیکٹرونک رشتے بھی الیکٹرونک ،غم بھی الیکٹرونگ روگ بھی الیکٹرونک وفا بھی الیکٹرونک بے وفائی بھی الیکٹرونک جدائی بھی الیکٹرونک
شاعری بھی اب کچھ اس طرح ہو گی جسے دمحم رفیع مرحوم صاحب کچھ یوں فرما تے
ایس ایم ایس جو کئے تمھاری یاد میں بیلنس نہیں تھا وہ پینڈنگ چلے گئے اپ لوڈنگ سے میرا ریچارج سیل ہوا میسج مال کہ تم کسی اور کے ہو گئے صاحب جاری رکھئے ہللا کرے زورِ قلم اور زیادہ
اعجاز خیال http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8439.0
محاورہ پیٹ سے ہونا کے حقیقی معنی
عزیز مکرم حسنی صاحب :سالم مسنون
آپ کا مضمون پڑھ تو لیا تھا لیکن لکھنے کا موقع نہ مل سکا۔ معذرت خواہ ہوں۔ آپ کے مضامین نہایت دلچسپ اور پر لطف ہوتے ہیں۔ خاص طور سے جہاں آپ پنجابی کا ہلکا سا لشکارا لگاتے ہیں یا کوئی کہاوت لکھتے ہیں۔ اب کہاوت کہنے اور سمجھنے والے خود افسانہ ہوتے جا رہے ہیں۔ میں نے حال ہی میں "ہماری کہاوتیں" کے عنوان سے ایک کتاب تالیف کی ہےجو راولپنڈی سے شائع ہونے والی ہے۔ اس کی ترویج کے دوران اندازہ ہوا کہ کہاوتیں اب بڑے بوڑھوں تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہیں اور کوئی دن جاتا ہے جب یہ ہمارے ادبی منظر نامے سے بالکل غائب ہو جائیں گی۔ اور یہ بہت بڑا سانحہ ہو گا۔ نئی نسل تو ان سے بالکل ہی بیگانہ ہے۔ اس صورت حال کا کوئی عالج بھی نہیں ہے۔
زمین چمن گل کھالتی ہے کیا کیا دکھاتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
ایک کامیاب اور دلکش تحریر پر میری داد قبول کیجئے۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔
سرور عالم راز http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8709.0
...........................