سو مزاحیے

Page 1


‫سو مزاحیے‬ ‫مقصود حسنی‬ ‫ابوزر برقی کتب خانہ‬ ‫مئی ‪6102‬‬ ‫نوٹ‪:‬‬ ‫سو کا بیلنس' تقریبا تقریبا چھیتر چڑھتا ہے' اس حساب‬ ‫سے ہی' سو لکھ کر چھیتر مزاحیے شامل کیے گیے ہیں۔‬ ‫ہم مالوٹ کھانے اور کھالنے کے بھی بڑے شوقین ہیں'‬ ‫اس لیے رویہ تن ایک آدھ غیر مزاحیہ دانستہ طور پر داخل‬ ‫ہو گیا ہے۔‬ ‫ہر دو معاملہ میں' میں از حد یا کم از کم شرمسار یا معذرت‬ ‫خواہ نہیں ہوں‬ ‫۔۔۔۔۔ باطور سند مطلع رہیں ۔۔۔۔۔‬


‫باور رہنا چاہیے‬ ‫کہنا اور کرنا' دو الگ چیزیں ہیں۔ ہم انہیں ایک سمجھ کر‬ ‫مار کھا جاتے ہیں۔‬

‫گیارہ ہتھیار اور منشی گاہیں ‪1-‬‬ ‫ایم فل االؤنس اور میری معذرت خوانہ شرمندگی ‪2-‬‬ ‫گھر بیٹھے حج کے ایک رکن کا ثواب کمائیں ‪3-‬‬ ‫کھائی پکائی اور معیار کا تعین ‪4-‬‬ ‫ایجوکیشن‘ کوالیفیکیشن اور عسکری ضابطے ‪5-‬‬ ‫مشتری ہوشیار باش ‪6-‬‬ ‫مدن اور آلو ٹماٹر کا جال ‪7-‬‬ ‫وہ دن ضرور آئے گا ‪8-‬‬ ‫ناصر زیدی اور شعر غالب کا جدید شعری لباس ‪9-‬‬ ‫پروف ریڈنگ‘ ادارے اور ناصر زیدی ‪10-‬‬


‫دمہ گذیدہ دفتر شاہی اور بیمار بابا ‪11-‬‬ ‫غیرملکی بداطواری دفتری اخالقیات اور برفی کی چاٹ ‪12-‬‬ ‫انشورنس والے اور میں اور تو کا فلسفہ ‪13-‬‬ ‫تعلیم میر منشی ہاؤس اور میری ناچیز قاصری ‪14-‬‬ ‫زندگی‘ حقیقت اور چوہے کی عصری اہمیت ‪15-‬‬ ‫آدم خور چوہے اور بڈھا مکاؤ مہم ‪16-‬‬ ‫عوام بھوک اور گڑ کی پیسی ‪17-‬‬ ‫رشوت کو طالق ہو سکتی ہے ‪18-‬‬ ‫لوٹے کی سماجی اور ریاستی ضرورت ‪19-‬‬ ‫آزاد معاشرے اہل علم اور صعوبت کی جندریاں ‪20-‬‬ ‫پی ایچ ڈی راگ جنگہ کی دہلیز پر ‪21-‬‬ ‫استاد غالب ضدین اور آل ہند کی زبان ‪22-‬‬ ‫دو قومی نظریہ اور اسالمی ونڈو ‪23-‬‬ ‫شیڈولڈ رشوتی نظام کے قیام کی ضرورت ‪24-‬‬ ‫محاورہ پیٹ سے ہونا کے حقیقی معنی ‪25-‬‬ ‫نہ رہے گی بجلی نہ باجے گی ٹنڈ ‪26-‬‬


‫اپنے اکرام صاحب ڈاکٹر مس کال کی گرہ میں ‪27-‬‬ ‫روال رپا توازن کا ضامن ہے ‪28-‬‬ ‫من کا چوہا اور کل کلیان ‪29-‬‬ ‫زندگی میں میں کے سوا کچھ نہیں ‪30-‬‬ ‫بجلی آتے ہی ‪31-‬‬ ‫لوٹے کی سماجی اور ریاستی ضرورت ‪32-‬‬ ‫چور مچائے شور ‪33-‬‬ ‫بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟ ‪34-‬‬ ‫باس از آل ویز رائٹ ‪35-‬‬ ‫قانون ضابطے اور نورا گیم ‪36-‬‬ ‫جرم کو قانونی حیثیت دینا ناانصافی نہیں ‪37-‬‬ ‫پنجریانی اور گناہ گار آنکھوں کے خواب ‪38-‬‬ ‫دیگی ذائقہ اور مہر افروز کی نکتہ آفرینی ‪39-‬‬ ‫ہمارے لودھی صاحب اور امریکہ کی دو دوسیریاں ‪40-‬‬ ‫قصہ زہرا بٹیا سے مالقات کا ‪41-‬‬ ‫صیغہ ہم اور غالب نوازی ‪42-‬‬


‫ایک دفع کا ذکر ہے ‪43-‬‬ ‫الیکشن کی تاریخ بڑھانے کی پرزور اپیل ‪44-‬‬ ‫بےنکاحی گالیاں اور میری لسانی تحقیق ‪45-‬‬ ‫احباب اور ادارے آگاہ رہیں ‪46-‬‬ ‫مولوی صاحب کا فتوی اور ایچ ای سی پاکستان ‪47-‬‬ ‫سیری تک جشن آزادی مبارک ہو ‪48-‬‬ ‫جمہوریت سے عوام کو خطرہ ہے ‪49-‬‬ ‫رمضان میں رحمتوں پر نظر رہنی چاہیے ‪50-‬‬ ‫دنیا کا امن اور سکون بھنگ مت کرو ‪52-‬‬ ‫اس عذاب کا ذکر قرآن میں موجود نہیں ‪53-‬‬ ‫غیرت اور خشک آنتوں کا پرابلم ‪54-‬‬ ‫خدا بچاؤ مہم اور طالق کا آپشن ‪55-‬‬ ‫خودی بیچ کر امیری میں نام پیدا کر ‪56-‬‬ ‫امیری میں بھی شاہی طعام پیدا کر ‪57-‬‬ ‫رشتے خواب اور گندگی کی روڑیاں ‪58-‬‬ ‫طہارتی عمل اور مرغی نواز وڈیرہ ‪60-‬‬


‫الٹھی والے کی بھینس ‪61-‬‬ ‫علم عقل اور حبیبی اداروں کا قیام ‪62-‬‬ ‫امریکہ کی پاگلوں سے جنگ چھڑنے والی ہے ‪63-‬‬ ‫لوڈ شیڈنگ کی برکات ‪64-‬‬ ‫ہم زندہ قوم ہیں ‪65-‬‬ ‫بابا بولتا ہے ‪66-‬‬ ‫بابا چھیڑتا ہے ‪67-‬‬ ‫فتوی درکار ہے ‪68-‬‬ ‫الوارث بابا اوپر ‪69-‬‬ ‫ڈنگی ڈینگی کی زد میں ہے ‪70-‬‬ ‫حضرت ڈینگی شریف اور نفاذ اسالم ‪71-‬‬ ‫یہ بالئیں صدقہ کو کھا جاتی ہیں ‪72-‬‬ ‫سورج مغرب سے نکلتا ہے ‪73-‬‬ ‫حجامت بےسر کو سر میں التی ہے ‪74-‬‬ ‫طاقت اور ٹیڑھے مگر خوب صورت ہاتھ ‪75-‬‬ ‫انھی پئے گئی ہے ‪76-‬‬


‫آرا‬

‫‪.................................‬‬ ‫گیارہ ہتھیار اور منشی گاہیں‬ ‫باالدستی' زورزبردستی اور دھکہ شاہی کے لیے' گیارہ قسم کے‬ ‫ہتھیار درکار ہوتے ہیں۔‬ ‫مال و منال کی فراوانی ‪1-‬‬ ‫کہو کچھ کرو کچھ ‪2-‬‬ ‫باسلیقہ سچ مارنے کا ڈھنگ ‪3-‬‬ ‫سنے اور جانے بغیر' فیصلہ یا معقول جواب دینے کا علم ‪4-‬‬ ‫باجواز اپنی منوانے کی شکتی ‪5-‬‬ ‫بااعتماد اور فرض شناس مخبر میسر ہوں ‪6-‬‬ ‫لوگوں کے معاملہ میں' ضرورت سے زیادہ بےحس اور ‪7-‬‬ ‫اپنے معاملہ میں' ضرورت سے زیادہ باحس ہوں‬ ‫میں نہ مانوں' کے گر خوب جانتے ہوں ‪8-‬‬


‫سو کے مقابلہ میں ایک سو دس جواذ ملکیت میں رکھتے ‪9-‬‬ ‫ہوں‬ ‫بدعنوانی کو عنوانی اور ان کے کارناموں کے گن لکھار ‪10-‬‬ ‫اور ڈگاگزار موجود ہوں‬ ‫چپ اور متواتر چپ کی چادر اوڑھے رکھنا کے ہنر سے ‪11-‬‬ ‫بہرہ ور ہوں۔‬ ‫اس طور کے گیارہ پتے' اگر ہاتھ میں ہوں گے تو مات کھانے‬ ‫کا' سوال ہی نہیں اٹھتا۔ مات اسی وقت ہو گی' جب ان میں سے'‬ ‫دو ایک کی کمی ہو گی یا وہ کم زور ہوں گے۔ حال کیا' ماضی‬ ‫کے حکمرانوں اور ان کی بغل بچہ منشی شاہی' ان اعلی اور‬ ‫بااصول خصوصیات کی حاملہ رہی ہے۔ لہذا یہ سب روایت میں‬ ‫چال آتا ہے۔ آج کی منشی گاہیں کوئی نیا نہیں کر رہیں۔‬ ‫پردھان منشی نگر کے باسیوں کے پاس' روز اؤل سے یہ گیارہ‬ ‫ہتھیار موجود رہے ہیں۔ وقت کے ساتھ' انہیں جال ملتی رہی ہے۔‬ ‫یہی وجہ ہے کہ پھنے خاں سے پھنے' ان کے سامنے کسکتا‬ ‫تک نہیں۔ پیٹھ پیچھے تو لوگ' شاہوں کے بھی گنہگار ہوتے‬ ‫رہتے ہیں۔ بات تو تب ہے' جب کوئی منہ کے سامنے اپنا ان‬ ‫دھوتا منہ کھولے۔ یوں قلہ بازیاں کھائے گا' جیسے مکی کے‬


‫دانے' کڑاہی میں پھڑکتے اور تڑپتے ہیں' بآلخر پھال ہو کر‬ ‫رہتے ہیں۔‬ ‫ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں کے مصداق' ماتحت چھوٹے‬ ‫بڑے منشی ہاؤس' بڑی دیانت داری اور اصول پرستی سے'‬ ‫پردھان منشی نگر کے اصول ہائے ہائے زریں‬ ‫نوٹ‬ ‫۔۔۔۔۔۔ ہائے ہائے کتابت کی غلطی ہے' اسے اصول ہا پڑھا‬ ‫جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫پر عمل درامد کرتے آ رہے ہیں۔ وہ ان گیارہ ہھتیاروں کو چمکا‬ ‫کر' گرہ میں رکھتے ہیں۔ ملک کی دن دوگنی اور رات چوگنی‬ ‫ترقی میں' جہاں اور عناصر کا ہاتھ ہے' وہاں کاغذی کاروائی‬ ‫میں' ان اداروں کی' شبانہ کپتی روز خدمات اور محنت کو' نظر‬ ‫انداز نہیں کیا جا سکتا' جو آلو کو الو بنا دینے میں' کمال کی‬ ‫مہارت رکھتے ہیں۔ مخبرین دس باغیوں کے ساتھ' نوے اپنے‬ ‫مخالفیں کو بھی' پھٹے چڑھاتے آ رہے ہیں۔ چلو جو بھی سہی'‬ ‫حقی سچی بات تو یہی ہے' کہ اس مقدس اور عزت مآب نگر‬ ‫اور دیگر ہاؤسز کے' دس باغی تو ٹھکانے لگاتے ہیں۔‬


‫ان کے کار ہائے نمایاں کی فہرست بڑی لمبی چوڑی ہے' اسے‬ ‫رقم کرنے کے لیے' اگر آسمان کاغذ' سمندر سیاہی اور موجود‬ ‫ارض ہا کے درخت' قلم بن جائیں' تو بھی رقم نہ ہو پائیں گے۔‬ ‫ہر کارنامہ اپنے باطن میں' شوخی اور چٹانی سختی رکھتا ہے۔‬ ‫چوری خور مورکھ' زیادہ تر شاہوں کی' خصیہ اٹھائی میں‬ ‫مصروف رہا ہے۔ ادھر اس کی بہت کم توجہ گئی ہے۔ اسی طرح‬ ‫ماہرین لسانیات نے بھی' انہیں بری طرح نظر انداز کیا ہے۔‬ ‫بدقسمتی سے' میں ماہر لسانیات نہیں' ورنہ اپنی بقیہ سانسیں'‬ ‫ان کی تحریررات کے لسانی مطالعہ میں گزارتا۔‬ ‫نامہ بر سے' لوگوں کو گلہ ہی رہا ہے۔ غالب ایسا فراخ دل اور‬ ‫سمندر فکر' تحفظات کا شکار تھا۔ اب دیکھیے' کہاں میں جدید‬ ‫عہد کا آدمی' جس کی گھڑی پر چھے اور عملی طور پر' آٹھ بج‬ ‫رہے ہیں۔ آج سرکاری پترکدے بڑے جدید ہو گیے ہیں۔ اس کے‬ ‫باوجود' لوگوں کی ترجیح میں غیرسرکاری پتر گاہیں ہیں' حاالں‬ ‫کہ وہ سرکاری کی نسبت کہیں رقم دراز ہیں۔‬ ‫یہ کچھ ہی دنوں کی بات ہے' مجھے ردی کاغذوں میں' ایک‬ ‫تحریر ملی' جس پر مرقوم ہے‬


‫محترم پوسٹ ماسٹر صاحب‬ ‫اسالم آباد‬ ‫‪.................‬‬ ‫از راہ کرم پٹرول پمپ کے سامنے لیٹربکس کو قفل تو لگائیے تا‬ ‫کہ خطوط محفوظ رہ سکیں۔‬ ‫مخلص‬ ‫وقار ‪.....‬‬ ‫ڈی۔ ‪ '58‬جی۔ ‪4-2‬‬ ‫اسالم آباد‬ ‫فروری ‪9 0621‬‬ ‫یہ خط ' اسالم آباد کے کسی غیر مصروف' بےفضول نکتہ چیں‬ ‫اور دفتر شاہی کے صدیوں پر محیط مزاج سے ناآشنا' شخص کا‬ ‫لگتا ہے۔ خط کھال النے کا گلہ تو بہت پرانا ہے۔ بازور اور‬ ‫باحیثیت لوگ یا مہذب اور مستعمل زبان میں' وڈیرا کہہ لیں' ٹیل‬ ‫اٹھائیکر ساتھ رکھتے تھے۔ اب چوں کہ ٹیل رکھنے اور اسے‬ ‫چکنے کا دور نہیں رہا۔ دوسرا آج ٹیل کیئر یعنی ٹی سی کی‬


‫معنویت ہی بدل گئی ہے۔ اب تفاخر کے اظہار کے لیے' گال کھال‬ ‫اور ٹانگیں چوڑی کرکے' چلنے کا رواج ترکیب پا گیا ہے۔‬ ‫پوسٹ بکس کا بال تالہ ہونا اور پٹ کھلے ہونا' محکمہ ہذا کی‬ ‫بلند اطواری اور باحیثیت مزاجی کا غماز ہے۔‬ ‫اس خط یا درخواست کے آخر میں' سرخ روشنائی میں کوئی‬ ‫حکم تو درج نہیں ہاں البتہ' اسی تاریخ میں‬

‫‪lock applied‬‬ ‫درج ہے ۔ یہ واضح نہیں کہ پوسٹ بکس کو تاال لگایا گیا یا‬ ‫درخواست گزار کی زبان بند کر دی گئی۔‬

‫‪1967‬‬ ‫میں بازوری کی کیفیت' آج سے قطعا مختلف نہ تھی۔ وہ لوگ‬ ‫بھی' درج باال ہتھیاروں سے' لیس تھے۔ آج کو' درج باال ہتھیار‬ ‫وراثت میں ملے ہیں۔ مشین گن اور سٹین گن ‪ 0604‬میں‬ ‫استعمال میں آئی تھیں۔ مشین گن کے لیے' پان سات لوگ ہوا‬ ‫کرتے تھے۔ یہ جدید اور ٹیڈی ہو گئی ہے' اس لیے اسے‬ ‫اٹھانے کے لیے' ایک آدمی ہی کافی ہوتا ہے۔ گویا مشین گن کل‬ ‫بھی تھی' آج بھی ہے۔‬


‫نامہ ہاؤس سے' میرا خادمی و مخدومی کا تعلق' کل بھی تھا' آج‬ ‫بھی بھی ہے۔ میں نے' ان کی کوتاہی کو اپنی کوتاہی سمجھ کر‬ ‫درگزر کی کٹیا میں' پناہ لی ہے۔ ایک بار' درخواست گزاری کی‬ ‫حماقت' مجھ سے بھی سرزد ہوئی۔ ہوا یہ کہ میں نے' اپنے‬ ‫بیٹے کو کچھ اشیاء کا پارسل' وزنی تین کلو آٹھ سو نوے گرام'‬ ‫سرکاری ڈاک سے' اسٹریلیا بھجوایا' رولتا کھلتا' میرے پاس‬ ‫بالخریت آ گیا۔ سلیز ٹوٹی ہوئی تھیں۔ اسٹریلین ڈاک ہاؤس یا اس‬ ‫سے متعلقہ کسی اتھارٹی کی' مہر ثبت نہ تھی۔ میں نے ڈاک پر‬ ‫خرچ آنے والے ‪ 6258‬روپے کی' واپسی کے لیے بڑے ہی‬ ‫مودبانہ اور عاجزانہ انداز میں' درخواست گزاری۔‬ ‫پارسل کھوال تو حیرت کی انتہا نہ رہی۔‬ ‫اس مینبھیجے گیے سامان کی بجائے بانٹیوں' سالنٹیوں' گولیوں‬ ‫وغیرہ کے خالی کور اور پنے پائے گیے۔ نہایت بوسیدہ اور‬ ‫پرانے مردانہ کپڑوں کے جوڑے دستیاب ہوئے۔ میں نے هللا کا‬ ‫الکھ شکر ادا کیا کہ یہ پارسل میرے بیٹے' بہو اور پوتی تک‬ ‫نہیں پہنچا۔‬ ‫پیرہ نمبر ‪4‬‬


‫درخواست بنام پوسٹ ماسٹر جنرل‬ ‫مورخہ ‪6100-8-01‬‬ ‫میں نے دوبارہ سے سامان خریدا اور‬ ‫‪LEOPRDS COURIER SERVICES PVT. LTD‬‬

‫سے اسی ایڈریس پر بھیجا۔ پارسل پوری خیر خریت کے ساتھ'‬ ‫تھوڑے ہی دنوں میں' منزل مقصود تک جا پہنچا۔ میں نے هللا کا‬ ‫شکر ادا کیا۔ چوں کہ یہ پرائیویٹ سروس تھی اور مجبورا زیادہ‬ ‫پیسے بھرے تھے' اس لیے هللا کا شکر ادا کیا' ورنہ سرکاری‬ ‫شکریہ' مجھے شرک کی دہلیز کے اس بار کر دیتا۔‬ ‫دو سرکاری چھٹیاں ملیں۔‬ ‫ڈویژنل سپرنٹڈنٹ پوسٹل سروسز کے آخری جملے میں مشورہ‬ ‫دیا گیا‬

‫‪It is requested to kindly take up the matter with the Ausralian postal‬‬ ‫‪Authorities, for this purpose, if admissionable as per rules.‬‬


‫اس جملے کو الئق توجہ نہ سمجھا گیا۔ آفس آف دی کنٹرولر آئی‬ ‫ایم او الہور نے کچھ یوں کاروائی فرمائی‬

‫‪As regards the sender claim regarding booking charges, it is also not‬‬ ‫‪justified from any angle. As the booking charges were paid by the‬‬ ‫‪sender for the transmission of the parcel to Australia and our‬‬ ‫‪department has no fault for return of this parcel from Australia‬‬

‫گویا سرکاری ڈاک سے' عدم رابطہ کے سبب' بیرون ملک‬ ‫پارسل بھجوانا' کھلی حماقت سے کم نہیں۔ میری سادگی‬ ‫دیکھیے' میں سرکاری چٹھیوں کو' اپنے نام سمجھ رہا تھا اور‬ ‫یہی سمجھ رہا تھا کہ انہوں نے ہتھیار نمبر‪ 00‬پھیکتے ہوئے'‬ ‫پہلی درخواست پر کاغذی کاروائی بھی کی ہے اور درخواست کا‬ ‫جواب بھی دیا ہے۔ ہاں البتہ' دوسری درخواست کو ہتھیار نمبر‬ ‫‪ 00‬سے بال تکبیر ذبح کر دیا گیا ہے۔ جب غور کیا تو معلوم ہوا‬ ‫مجھے تو کبھی جواب ہی نہیں دیا گیا۔ یہ سب تو ان کی اپنی گٹ‬ ‫مٹ تھی۔ مجھے تو محض اطالعی نقول بھیجی گئی تھیں۔ ہتھیار‬


‫نمبر ‪ 00‬کی عزت' احترام اور وقار' پورے پہار کے ساتھ اپنی‬ ‫جگہ پر موجود تھا۔ ہاں البتہ حسب ضابطہ اور قانون چپ کے‬ ‫تحت میں بال تکبیر ذبح ہو گیا تھا۔‬

‫ایم فل االؤنس اور میری معذرت خوانہ شرمندگی‬

‫پیسہ' طاقت' ہتھیار اور اختیار بولتے نہیں' سر چڑھ کر' گرجتے‬ ‫اور برستے ہیں۔ وہ زندگی اپنے طور اور اپنی مرضی سے بسر‬ ‫کرتے ہیں۔ کون جیتا اور کون مرتا ہے' انہیں اس سے کوئی‬ ‫غرض نہیں ہوتی۔ انہیں کبھی اور کسی سطح پر' یہ امر خوش‬ ‫نہیں آتا کہ ان کے سوا' کوئی اور بھی ہے۔ زندگی کی پگ ڈنڈی‬ ‫پر چلتے لوگ' لوگ نہیں' محض غالظت بھرے کیڑے لگتے‬ ‫ہیں۔ ان کے لیے' ان کے پاس حقارت اور نفرت کے سوا کچھ‬ ‫نہیں ہوتا۔ وہ انہیں اپنے گراں قیمت جوتے سے' ٹھوکر لگانا‬ ‫بھی پسند نہیں کرتے' مبادہ آلودہ ہو جائیں گے۔ ایسے کام کے‬ ‫لیے' ان کے پاس' چمچوں کڑچھوں کی کمی نہیں ہوتی۔‬


‫پیسہ' طاقت' ہتھیار اور اختیار خود کو اٹل اور مکمل سمجھتے‬ ‫ہیں۔ ان کے نزدیک' ان کا کیا اور کہا' ہر کجی سے باالتر ہے۔‬ ‫اس پر انگلی رکھنا' موت اور دکھ درد کو ماسی کہنے کے‬ ‫مترداف ہوتا ہے۔ چوری خور مورکھ اور قصیدہ گزار شاعر' اس‬ ‫سب کو' اقوال و افعال زریں قرار دے دیتا ہے۔‬ ‫جہاں کہیں یہ باطورگیسٹ' باطالع یا بال اطالع ورد ہوتے ہیں'‬ ‫پروٹوکول' حفاظت اور دوسرے معامالت کے حوالہ سے' وختہ‬ ‫پڑ جاتا ہے۔ لوگوں کو سمجھ نہیں آتا کہ انہیں بٹھائیں کہاں'‬ ‫ڈکارنے اور پھاڑنے کے لیے 'کیا پیش کریں۔ اس ذیل میں' جملہ‬ ‫چمچگان اپنے پیچھے کا پورا زور لگا دیتے ہیں۔ یہ سب کرنے‬ ‫کے باوجود' انسان ہونے کے ناتے' کہیں ناکہیں کوئی کمی‬ ‫کوتاہی رہ ہی جاتی ہے۔ سارے کیتے کترائے پر' پانی پھر جاتا‬ ‫ہے۔ کسی چہاڑ چھنب کے باوجود' انہیں غصہ نہیں آتا۔ غصہ‬ ‫کرنے کا' انہیں حق بھی حاصل نہیں ہوتا۔ وہ کسی اگلی بار' اس‬ ‫کمی کوتاہی کو دور کرنے کا' اپنی ذات سے عہد باندھ لیتے ہیں۔‬ ‫پیسہ' طاقت' ہتھیار اور اختیار کی معمولی خوشی پر' رو بہ رو‬ ‫ہی نہیں' دور دراز عالقوں میں رہتے ہوئے لوگ' دوہائی کا‬ ‫جشن مناتے ہیں۔ ظاہری اور باطنی سطح پر' وہ خالص اور‬ ‫اصلی ہی دکھائی پڑتا ہے۔ درحقیقت انہیں معلوم ہوتا ہے' کہ‬


‫مخبر کی آنکھیں کھلی اور معاملہ شناس ہوتی ہیں۔ دوسرا مقامی‬ ‫حرف گر' منٹ منٹ کی خبریں' قرطاس ہنر پر رقم کر رہا ہوتا‬ ‫ہے۔ وہ اس ساری عمومی کوشش کو' حتی المقدور اپنی کوشش‬ ‫اور خوشی ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ زیادہ تر کامیاب بھی‬ ‫ٹھہرتا ہے اور آوٹ آف ٹرن ترقی بھی حاصل کر لیتا' ورنہ گڈ‬ ‫بک میں اس کا نام نامی اسم گرامی' زعفرانی روشنائی سے'‬ ‫بالتکلف درج ہو جاتا ہے اور کسی دوسرے وقت' پچھلے کیے‬ ‫کا بھی انعام گرہ لگتا ہے۔‬ ‫معمولی ناسازی طبع' یا گماشتے جی حضوری میں' اپنے کمال‬ ‫کا شیرہ ڈال کر' شفا گاہوں کے درودیوار اور ان کے اکڑوند‬ ‫باسی' ہال کر رکھ دیتے ہیں۔ گویا یہ پہلی ترجیح کالس‬ ‫ایمرجنسی ہوتی ہے۔ اس ڈرامے کے دورانیے میں' کتنے بی‬ ‫اور تھرڈ کالس' ایمرجنسی میں پڑے لوگ' جان سے جاتے ہیں‬ ‫یا جان جانے کی اسٹیج پر پہنچ جاتے ہیں‪ .‬یہ سب' کسی کھاتے‬ ‫پر نہیں چڑھتا' ہاں یہ پہلی ترجیح پلس ایمرجنسی' یادوں کے‬ ‫کھاتے پر چڑھ جاتی ہے۔‬ ‫میں نے پیسہ' طاقت' ہتھیار اور اختیارکو' کوئی شخصی نام نہیں‬ ‫دیا' کیوں کہ یہ خود کو فرعون کی پیروی میں خدا نہیں کہتے'‬ ‫حاالں کہ ان کا کہنا اور کرنا' فرعون کا سا ہی ہوتا ہے۔ انسان‬


‫اس لیے نہیں کہا جا سکتا' کہ وہ انسانوں کو کیڑے مکوڑے‬ ‫سمجھتے ہیں۔ گزشتہ سے عبرت لینا' ان کے مزاج میں داخل‬ ‫نہیں ہوتا۔ فنا کا فلسفہ اور ان گنت مثالیں' ان کے مزاجی نالج‬ ‫میں داخل نہیں ہوتیں۔ اگر کوئی' یاد دالنے کی کوشش میں'‬ ‫سدھار اور ان ہی کی خیرخواہی کا جتن کرتا ہے' تو جان سے‬ ‫جاتا ہے۔ گویا فنا ان کے لیے نہیں ہے اور مالک کے دربار' ان‬ ‫کی حضوری کا کوئی تعلق واسطہ نہیں۔ ہر کوئی ان کے حضور‬ ‫حاضری کا پابند ہے۔ زندگی کے آخری موڑ پر بھی' دنیا سے‬ ‫جانا یاد میں نہیں آتا اور یہ گمان سے نکل نہیں پاتا کہ میں کے‬ ‫لیے فنا ہے اور بقا تو صرف اورصرف هللا ہی کی ذات کو ہے‬ ‫اور وہ ہی باقی رہنے کے لیے ہے۔‬ ‫عین قانون قدرت کے مطابق' وہ فنا سے گزرتے ہیں' تو فقط‬ ‫چوری خور مورکھ کا لکھا باقی رہ جاتا ہے۔ اکثر اوقات وہ‬ ‫لکھا' متنازعہ ہو جاتا اور عمومی حلقوں کی تقسیم کا باعث بنتا‬ ‫ہے' جو آتے یگوں میں' آتی نسلوں کے لیے نقصان کا باعث‬ ‫بنتا ہے۔ یہ چاروں آواگونی ہیں' نئے انداز اور نئے روپ کے‬ ‫ساتھ نمودار ہو جاتی ہیں' تاہم چلن اور اطوار میں تبدیلی نہیں‬ ‫آتی۔ حجاج سفاک تھا' لیکن چرچل اس سے کسی طرح پیچھے‬ ‫نہ تھا۔ مسڑ چہاڑی کا ذکر امریکی ہونے کے باعث' نہیں کیا جا‬ ‫سکتا۔ جب کوئی نئی قوم' ہیرو کے مرتبے پر فائز ہو گی' تو‬


‫گزرا کل آتے لوگوں کے لیے' محض داستان ہو کر رہ جائے گا۔‬ ‫ہوسکتا ہے' نئے کے چکر میں پرانے کو بھول جائیں' تاہم‬ ‫مورکھ کی لکھتوں کے باعث' تنازعہ کا دروازہ ضرور کھل‬ ‫جائے گا۔۔ ناظر مٹی میں مل کر مٹی ہو چکے ہوں گے۔ کسی‬ ‫عارضی اور مصنوعی و جعلی قوت کو' بقا نہیں۔ قارون اس لیے‬ ‫یاد میں ہے' کہ اس کا پاال' هللا کے منتخب شخص کے ساتھ تھا۔‬ ‫طاقت کی بات اپنی جگہ' اس کے خصوصی بلکہ عمومی‬ ‫کنکبوتی بھی' انہیں وی آئی پیز کہا جاتا ہے' مذکوران سے کہیں‬ ‫زیادہ زہریلے ہوتے ہیں۔ ان کا ڈسا پانی بھی مانگ نہیں پاتا۔‬ ‫بجلی پانی گیس کے بل کیا ہوتے ہیں' سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ عید‬ ‫پر قربانی کے بکرے' تحفہ میں مل جاتے ہیں۔ ہر چھوٹے موٹے‬ ‫تہوار پر' سو طرح کے مہنگے تحفے بال طلب کیے' ان کی دہلیز‬ ‫چڑھنے کا اعزاز حاصل کرتے ہیں۔ تہوار چڑھانے واال' اس میں‬ ‫فخر محسوس کرتا ہے اور خود کو' کنکبوتی کا اپنا آدمی‬ ‫سمجھنے لگتا ہے۔ یہ سوچ اسے' انھی پانے پر مجبور کر دیتی‬ ‫ہے۔‬ ‫جنسی تسکین کے لیے' انہیں لڑکی پٹانے کے لیے' کسی طرح‬ ‫کا' ویل نہیں کرنا پڑتا اور اس ذیل میں جیب ہلکی کرنے کی‬ ‫ضرورت نہیں پڑتی۔ بستر نواز' انہیں ہر قسم کی محتاجی سے'‬


‫بچائے رکھتے ہیں۔ یہ ہی نہیں' ورائٹی صاحب کے مزاج کے‬ ‫مطابق' بدلتے رہتے ہیں۔‬ ‫لفافہ کلچر' ان ہی کی دین ہے۔ لفافہ اپنی کارگزاری کا جواب‬ ‫نہیں رکھتا۔ یہ لفافے ہی کا کمال ہے' کہ ڈی میرٹی کے جملہ داغ‬ ‫دھبے' مٹا دیتا ہے۔ میرٹ کو ڈی میرٹ کرنے کے' سارے گن'‬ ‫اس کے گرد رقص کرتے ہیں۔ لفافہ بردار کو اگر مسکراہٹ‬ ‫میسر آ جائے' تو گویا اس کے بھنے اگ پڑھتے ہیں' ورنہ‬ ‫سپلیمنٹری لفافہ پیش کرنے کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔‬ ‫منشی گاہوں میں بھی' کنکبوتی موجود ہوتے ہیں‪ .‬یہ بڑی' بلکہ‬ ‫بہت بڑی شے ہوتے ہیں۔ یہ تو یہ' ان کے معاون پی یو سی‬ ‫طراز' بڑے بلند مرتبے پر فائز ہوتے ہیں۔ یس کو نو اور نو کو‬ ‫یس میں بدلنے کے ہر گر' سے واقف ہوتے ہیں۔ گویا آسمان‬ ‫سے ٹاکی اتارنا اور لگانا' ان پر ختم ہے۔‬ ‫خواتین اپنے آپ میں' بڑی شے' بنتی ہیں لیکن نخرہ بازی میں'‬ ‫ان کے عشر عشیر بھی نہیں ہوتیں۔ ہوٹل کے کھانے' انہیں اور‬ ‫ان کی گھر والیوں کو' بڑے ہی خوش آتے ہیں۔ گرہ خود سے‬ ‫کھانا' رزق حرام کے زمرے میں آتا ہے۔ سامیاں اپنے اپنے‬


‫عالقے کی سوغات' النا نہیں بھولتیں۔ میں میں کرنے کے ساتھ‬ ‫ساتھ کھانے کا اہتمام بھی کرتی ہیں۔ ان کے گھر والوں کے‬ ‫لیے' الگ سے شاپر تیار کرواتی ہیں۔ گویا وی آئی پیز کے‬ ‫ماحت ہونے کے سبب' داسوں گھی میں اور سر کڑاہے میں رہتا‬ ‫ہے۔ گھر کی کسی تلخی کا غصہ نکالنے کے لیے' سامیاں قدم‬ ‫بوس ہوتی رہتی ہیں۔‬ ‫کہا جاتا ہے' زندگی کرنا آسان نہیں' ان طبقوں میں' اس مقولے‬ ‫کا دور تک اتہ پتا نہیں ملتا۔ ہاں آخرالذکر طبقے پر' بعد از‬ ‫ریٹائرمنٹ اطالق کیا جا سکتا ہے۔ یہ طبقے' چوں کہ تعدادی‬ ‫حوالہ سے' زیادہ نہیں ہیں' لہذا تعدادی حوالہ سے زیادہ پر' اس‬ ‫کا اطالق ہوتا ہے۔ وہ ناصرف غیر محفوظ ہوتے ہیں' بل کہ ان‬ ‫گنت معاشی معاشرتی اور دفتری مسائل میں' گھرے ہوتے ہیں۔‬ ‫اس پر طرہ یہ کہ دہلیز کے اندر' چھے ستمبر کی کیفیت طاری‬ ‫رہتی ہے۔ نہ جی سکتے ہیں اور زندگی جیسی بھی سہی' انہیں‬ ‫مرنے نہیں دیتی۔ گویا‬ ‫نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن‬ ‫میں اسالمی جمہوریہ پاکستان کے حوالہ سے بات نہیں کر رہا۔‬ ‫یہاں مسلمان اقامت پذیر ہیں۔ یہ ملک اپنی بنیادوں میں پروفسر‬


‫اصغر سودائی کا یہ نعرہ رکھتا ہے۔‬ ‫پاکستان کا مطلب کیا ال الہ اال هللا‬ ‫یہاں کی طاقتیں اور ان کے کنکبوتی بھی بااصول اور مجوزہ‬ ‫شرع پر کار بند ہیں۔‬ ‫اصولی طور پر کچھ حاصل کرنے کے لیے کچھ دینا تو پڑتا ہی‬ ‫ہے۔‬ ‫دراصل میں ہی بےاصوال تھا' جو بالچہڑے' اپنے ایم فل االونس‬ ‫کی حصولی کا ‪ 0661‬سے منتظر رہا۔ بعد از ریٹائرمنٹ بھی‬ ‫درخواستیں گزارتا رہا۔ میں خواہش مند تھا' کہ اس مقدس بارگاہ‬ ‫کا اعتراض کردہ خط ہی میسر آ جاتا' تا کہ تبرکا تعویز بنا کر'‬ ‫گلے میں ڈال لیتا۔ بالشبہ وہاں کی حرف کاری' میرے لیے اعزاز‬ ‫خسروی سے' کسی طرح کم نہ ہوتی۔ میں اپنی درخواست بازی‬ ‫پر نہایت شرمندہ ہوں۔ ویسے بےلیے' یہ دے بھی دیا جاتا' تو‬ ‫حاتم کی روح اس لطف و عطا پر' شرمندہ و نادم ہوتی۔ میرا یہ‬ ‫بقایا' ان کے پوٹیکدے پر مہینے میں اٹھنے والے خرچے کا'‬ ‫عشر عشیر بھی نہ ہوتا۔‬


‫گھر بیٹھے حج کے ایک رکن کا ثواب کمائیں‬

‫اس میں کوئ شک نہیں سیکس زندگی میں بڑے مضبوط حوالے‬ ‫کا درجہ رکھتا ہے۔ ضرورت یا عدم تسکین کی صورت میں‬ ‫انسان درندہ کیا شیطان کو بھی مات دے جاتا ہے۔ اس سے‬ ‫جڑے حوالے روزمرہ کی زندگی میں نظر آتے ہیں۔ یہی صورت‬ ‫پیٹ سے جڑی ہوئی ہے۔ ان دونوں کے منہ زور ہونے میں‬ ‫کوئی شک نہیں لیکن یہ زندگی کے بہت سے حوالوں میں سے‬ ‫فقط دو حوالے ہیں۔ انہیں مکمل زندگی نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہ‬ ‫منہ زوری اور ناقابل کنٹرول سطع پر اس وقت آتے ہیں جب‬ ‫شخص انہیں خود پر طاری کر لیتا ہے اور انہیں زندگی‬ ‫سمجھنے لگتا ہے۔‬ ‫اگر سیکس نسل کشی اور روٹی کو پیٹ بھرنے کا محض ایک‬ ‫ذریعہ سمجھ لیا جائے تو یقینا درندگی اور شطنت راہ نہ پا‬ ‫سکے گی۔ انسان کو هللا نے احسن تخلیق فرمایا ہے اس لیے یہ‬ ‫کہنا قطعی غلط ہے کہ حاجات نفس اور جذبے اس کی بنیادی اور‬ ‫حقیقی فطرت کی دسترس سے باہر ہیں۔ جب تک انسان‘ انسان‬ ‫رہتا ہے سب کچھ اس کے زیردست رہتا ہے جونہی وہ اپنی‬


‫بنیادی اور حقیقی فطرت سے گرتا ہے احسن کا درجہ اس سے‬ ‫دوریاں اختیار کر لیتا ہے۔‬ ‫دنیا کے تمام مذاہب دراصل انسان کو اس کی حقیقی فطرت پر‬ ‫رکھنے کی کوشش کرتے آئے ہیں۔ مذہب انسان سے کوئ الگ‬ ‫چیز نہیں ہیں۔ یہ انسان ہی کو واضح کرتے ہیں کہ وہ کیا ہے۔‬ ‫گویا جب انسان غلط کرتا ہے وہ انسانی مذہب یعنی احسن سے‬ ‫گرتا ہے اور محض حاجت خواہش ضرورت نفس وغیرہ کی‬ ‫چلتی پھرتی تجسیم ہو کر رہ جاتا ہے۔ اسے انسان کہنا انسان کی‬ ‫توہین کے مترادف ہوتا ہے۔‬ ‫اخبار میں ہم جنسی کے متعلق مباحثے کی خبر پڑھنے میں آئ۔‬ ‫خبر پڑھ کر بڑی حیرت ہوئ۔ ہم جنسی انسانی مذہب سے لگا‬ ‫نہیں کھاتی تو اس پر کسی قسم کی گفتگو کا سوال ہی نہیں‬ ‫اٹھتا۔ دوسری بڑی بات یہ ہمارے معاشرتی سسٹم سے باہر کی‬ ‫چیز ہے۔ یہی نہیں یہ ہمارے کسی بھی مسلک سے متعلق نہیں‬ ‫ہے۔ اسالمی دنیا کا کوئ مسلک اس فعل کی اجازت نہیں دیتا لہذا‬ ‫اس موضوع پر کسی قسم اور کسی بھی سطع کی گفتگو نہیں‬ ‫بنتی۔ اس پر آپسی گفتگو اجازت نہیں مباحثوں کا اہتمام ہونا تو‬ ‫بڑی دور کی بات ہے۔ اگر یہ فعل بد موجود ہے تو ذاتی سطع پر‬ ‫ہے اور اس کا چرچا برسرعام نہیں کیا جاتا۔‬


‫ایک خبر یہ بھی ہے کہ یتیموں اور بے گھر بچوں کی مدد کے‬ ‫نام پر ادارہ کھوال گیا مدد کی آڑ میں مجبور بےبس اور الچار‬ ‫بچوں کے ساتھ یہی فعل بد ہو رہا ہے۔ حکومت کتنی بھی سخت‬ ‫اور اصول پسند کیوں نہ ہو انسان کو احسن کے درجے پر فائز‬ ‫نہیں کر سکتی۔ انسان اسی وقت تک انسان رہتا ہے جب تک اس‬ ‫کا ایمان هللا کی ذات گرامی پر مضبوط رہتا ہے۔ انسان اپنے خالق‬ ‫کے حکم اور پہلے سے طے شدہ انسانی حدود سےباہر قدم‬ ‫نہیں رکھتا۔ انسانی مذہب کسی لگی لپٹی کے بغیر واضح کرتا‬ ‫ہے کہ ہر انسان کو اپنے خالق کے حضور پیش ہونا ہے اور‬ ‫اپنے ہر کیے کا جواب دینا ہے۔ تجربہ بھی بتاتا ہے کہ کوئی‬ ‫باقی نہیں رہنے کا۔ ہر انسان پر واضح ہے کہ وہ باقی نہیں رہے‬ ‫گا۔‬ ‫میں یہاں تحریری طور پر لکھ کر دے رہا ہوں قانون اور دیگر‬ ‫ضابطے برائ کو ختم نہیں کر سکتے جب تک ہر کوئ یہ سمجھ‬ ‫نہیں لیتا کہ اس کا کیا ریکارڈ میں آ رہا ہے اوراس کے کیے‬ ‫کے مطابق پھل ملے گا۔ جب میں جانتا ہوں کہ بجلی کی چوری‬ ‫درست نہیں‘ سارا زمانہ بجلی کی چوری کرتا پھرے‘ میں کیوں‬ ‫کروں۔ انسان مزدوری کر رہا ہو یا مالزمت یا وہ ملک کا حاکم‬ ‫ہی کیوں نہ ہو بنیادی طور پر انسانی مذہب (فطرت) ہی پر ہے۔‬


‫انسانی مذہب (فطرت) اسے احسن کے درجے سےنیچے آنے‬ ‫نہیں دیتا۔ نیچے آتا ہے تو انسان نہیں رہتا۔‬ ‫غیر انسانی افعال سر انجام دینے والوں کو انسان کہنا انسان کی‬ ‫کھلی تذلیل ہے۔ دانستہ طور پر غیر انسانی افعال سر انجام دینے‬ ‫والے انسان نہیں شیطان ہیں۔ انسانی تجسیم انسان ہونے کے‬ ‫لیے کافی نہیں۔ حضرت ہاجرہ کے پاس شیطان انسانی بہروپ‬ ‫میں آیا تھا زوجہ حضرت ایوب کے پاس بھی شیطان انسانی‬ ‫روپ میں ہی آیا تھا۔ انسانی جسم لے لینے کے بعد اسے انسان‬ ‫کس طرح اور کس بنیاد پر قرار دیا جا سکتا ہے۔ بالکل اسی‬ ‫طرح فعل بد (جوری ڈاکہ ہیرا پھیری بددیانتی رشوت غیر فطری‬ ‫جنسی افعال وغیرہ) سے متعلق کو انسان نہیں کہا جا سکتا ہیں۔‬ ‫انسان انسانی مذہب سے الگ نہیں ہو سکتا۔‬ ‫اس قماش سے متعلق دیکھنے میں انسان لیکن اپنی اصل میں‬ ‫شیطان ہیں۔ شیطان کو کنکریاں مارنا ثواب ہے۔ ہر کوئی مکے‬ ‫نہیں جا سکتا اس لیے ان پر واجب ہے کہ وہ شیطان پر رجم‬ ‫کریں اور اس کی شر سے بچنے کے لیے هللا کریم سے مدد‬ ‫طلب کریں۔ اگر هللا کریم توفیق وساءل اور ہمت دے تو کنکریوں‬ ‫کی بوچھاڑ کر دیں۔ دشمن سزا پائے گا اور هللا کریم سے اجر‬ ‫عطا ہو گا۔ جہاد اور کس کو کہتے ہیں۔ گویا آم کے آم گھٹلیوں‬


‫کے دام۔ یہاں بیٹھے کم از کم حج کے ایک رکن کا ثواب کمایا جا‬ ‫سکتا ہے۔‬

‫کھائی پکائی اور معیار کا تعین‬

‫زندگی محدود نہیں۔ کائنات زندگی سے الگ یا غیر متعلق نہیں۔‬ ‫زندگی کو کاءنات سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح کائنات‬ ‫کو زندگی سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک دوسرے سے‬ ‫انتہائ متعلق ہیں۔ کائنات کی کوئ چیز جو تاحال انسان کی‬ ‫دسترس میں نہیں‘ کو بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس‬ ‫کے متعلق کسی ناکسی سطع پر سوچ‘ خیال‘ نظریہ ہا کہیں‬ ‫ناکہیں کوئ حوالہ ضرور موجود ہوتا ہے۔ اس لیے آگہی نہ‬ ‫ہونے کے سبب اسے مسترد کرنا یا یکسر نظرانداز کر دینا‘‬ ‫درست نہیں ہوتا۔ یہ اس شخص کی محدود آگہی کا نقص ہوتا ہے‬ ‫ناکہ اس چیز یا زندگی کا نقص۔ بالکل اسی طرح کسی جز کو‬ ‫بنیاد بنا کر کل پر حرف غلط کی لکیر کھنچ دی جائے۔ کل کے‬


‫حوالہ سے ہر جز کو غلط قرار دینا بھی زیادتی کے مترادف ہوتا‬ ‫ہے کیونکہ ہر جز‘ کل کا حصہ ہوتے ہوئے بھی اپنا الگ سے‬ ‫ذاتی وجود رکھتا ہے۔ اشیاء اور جاندار فنا کی آغوش میں جا کر‬ ‫بھی جزوی طور پر فنا نہیں ہوئ ہوتیں۔ یہ اجزا تصرف میں‬ ‫الءے جا سکتے ہیں۔ کل میں مدغم ہونے کے بعد ان کی‬ ‫کارگزاری ماند نہیں پڑتی۔ نئے کل میں عین ممکن ہے ان کی‬ ‫کارگزاری پہلے سے بہتر ہو جائے یا وہ کسی دوسرے جز کے‬ ‫لیےمناسب‘ بہتر یا بہترین معاون ثابت ہو۔ ہر قدرے کار گزاری‬ ‫کو بھی نظرانداز کرنا زندگی کی روانی یا مزید ترقی کی سعی پر‬ ‫کلہڑی مارنے کےمترادف ہوتا ہے۔‬ ‫کسی جز کی کجی کے سبب‘ کل کے تمام اجزا کو ناقص‘ بےکار‬ ‫یا ناکارہ قرار دے دینا کسی طرح دانش مندی نہیں۔ مثال ٹی وی‬ ‫بند ہو جاتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ ٹی وی کے تمام پرزے‬ ‫فیل یا خراب ہوگیے ہیں۔ کسی ایک پرزے میں نقص آ گیا ہوتا‬ ‫ہے جسے مکینک درست کر دیتا ہے یا بدل دیتا ہے۔ ٹی وی پھر‬ ‫سے کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔ تبدیل کیا جانے واال پرزہ الیعنی‬ ‫نہیں ہو جاتا۔ کسی ناکسی سطع پر اس کی کار گزاری باقی ہوتی‬ ‫ہے۔‬ ‫کچھ نہیں میں کیڑے نکالنا کے لیے بےشمار مثالیں موجود ہیں۔‬


‫مواد ریسرچ اسکالر کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ کسی نوخیز یا تقریبا‬ ‫نوخیز بی بی سے ہم کالم نگران کے منہ سے جملہ نکلتا ہے یہ‬ ‫کام کیا ہے‘ جاؤ نظرثانی کرکے الؤ۔ میں اس میں نگران کا‬ ‫قصور نہیں سمجھتا۔ ریسرچ اسکالر کو موقع دیکھ کر جانا‬ ‫چاہیے۔ زنگی شخص سے اور شخص زندگی سے جڑا ہوا ہے۔‬ ‫زندگی بےرنگ نہیں‘ زندگی تو بےشمار رنگوں سے وابستہ ہے‬ ‫اور معنویت کا تصرف ہی اصل ہنر مندی ہے۔ معمولی معنویت کا‬ ‫استعمال ناصرف ہنر کو نکھارنا ہے بلکہ وسائل کی بچت کا‬ ‫سبب بھی بنتا ہے۔ وسائل کا بچانا کسی نئی دریافت کے لیے‬ ‫آسانی پیدا کرتا ہے۔‬ ‫سننے میں آیا ہے کہ دس محرم کو ماتمی جلوس گزر رہا تھا۔‬ ‫ایک انگریز کا ادھر سے گزر ہوا۔ اس نے اپنے گائیڈ سے ماجرا‬ ‫پوچھا۔ گائیڈ نے بتایا کہ حضرت امام حسین کی شہادت کا ماتم‬ ‫ہو رہا ہے۔ انگریز نے سمجھا کہ انہیں آج‘ چودہ سو برس بعد‬ ‫اتنے بڑے واقعے کا علم ہوا ہے۔ یہ واقعہ بطور دلیل عالقے کے‬ ‫لوگوں کو پس ماندہ سمجھنے کے لیے کافی ہے حاالنکہ سرے‬ ‫سے ایسی کوئ بات ہی نہ تھی۔ گویا جز کو کل پر محمول کرنا‬ ‫کھلی زیادتی اور خود اپنی جہالت کے مترادفف ہے۔‬ ‫بےوجود یا اچھی بھلی میں کیڑے بلکہ کاکروچ نکالنا ہر دو درج‬


‫باال امور سے الگ معاملہ ہے۔ کرنل فوجی پریڈ کی سالمی لے‬ ‫رہا تھا۔ اس نے باآواز بلند کہا اوہ گنڈا سنگھ قدم مالؤ۔ کسی نے‬ ‫جواب دیا سر آج گنڈا سنگھ نہیں آیا۔ کرنل نے جوابا کہا بکو‬ ‫مت‘ وہ آئے نہ آئے میرا کام ٹوکائ کرنا ہے۔ چہاں اس قسم کی‬ ‫صورتحال ہو وہاں گفتگو کرنا ہی فضول ہے۔ انسان کا سوچ‬ ‫ناقابل گرفت ہے۔ انسانی جسم کو قید کیا جا سکتا ہے لیکن سوچ‬ ‫پر پہرے نہیں بٹھاءے جا سکتے۔‬ ‫‪:‬محاورہ بلکہ ضرب المثل چلی آتی ہے‬ ‫پوری دیگ میں سے چند چاول بھی اس کے معیار کو پرکھنے “‬ ‫“کو کافی ہوتے ہیں‬ ‫اس ضرب المثل جو محاورے کے درجے پر فائز ہے کا حقیت‬ ‫سے دور کا بھی رشتہ نہیں۔ ٹھیک اور احتیاط سے پکی ہوئ‬ ‫دیگ بھی چار ذائقوں کی حامل ہوتی ہے۔ کچھ بھی کر لیں یہ‬ ‫حوالے ختم نہیں ہو پائیں گے۔ ابتدائ‘ درمیانی‘ باالئ اور اطراف‬ ‫میں دیگ کے ساتھ لگے ہوئے چاؤلوں کا ذائقہ اور تاثیر الگ‬ ‫سے ہوگی۔ باالئ یا باالئ سے تھوڑا نیچے سے لیے گیے‬ ‫چاولوں کے حوالہ سے پوری دیگ کے متعلق جاری کیا گیا حکم‬ ‫محض یک طرفہ قیافہ ہو سکتا ہے۔ یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ‬ ‫یہ حکم پکانے واال لگا سکتا ہے یا کھانے واال۔ ہنرمندی کی بنا‬ ‫پر یہ حق پکانے والے کو دیا جاتا ہے حاالنکہ یہ حق کھانے‬


‫والے کا ہے۔ وہی بتا سکتا ہے کہ پکائ کی کیا صورتحال ہے۔‬ ‫پکانے واال کبھی اپنی پکائ کی نندا نہیں کءے گا۔ دیگ جل‬ ‫جانے یا زیادہ آگ مل جانے کی صورت میں ذاءقے کی پانچ یا‬ ‫اس سے بڑھ کر صورتیں ہو سکتی ہیں۔ البتہ کروہڑی کے‬ ‫شوقینوں کی بن آتی ہے۔‬ ‫میں ناصر زیدی سمیت تمام لکھنے والوں‘ خواہ وہ مفت میں‬ ‫مغز ماری کرتے ہوں یا معاوضہ پر لکھتے ہوں باالئ سطع کے‬ ‫چند چاولوں کو درستی کا معیار نہ بنا لیں۔ جب پکائ کھائ کی‬ ‫ابجد معلوم ہی نہ ہو تو گول مول درمیان کی بات کریں ورنہ‬ ‫پکائ اور کھائ کے جانو خالصی نہیں کریں گے۔ حق اور‬ ‫انصاف کو تو ایک طرف رکھیے۔ مخالف کے اچھے میں بھی‬ ‫کیڑے نکالنا کم ظرفوں اور چمچوں کڑچھوں کا کام ہوتا ہے۔‬ ‫اعلی ظرفی یہی ہے کہ مخالف کی بہتر کارگزاری کو سر آنکھوں‬ ‫پر لیا جائے۔ جز پر کل کو قیاس نہ کر لیا جائے۔ اسی طرح ہر‬ ‫کل کے گوارا اجزا کی تحسین کی جاءے یا اس سے آگے کی بات‬ ‫کی جائے۔‬ ‫کہا جاتا ہے کہ ایک مصور نے اپنا فن پارہ گھر کے باہر آویزاں‬ ‫کر دیا اور کہا غلطیوں کی نشاندہی کر دی جاہے۔ اگلے دن اس‬ ‫نے دیکھا کہ وہ فن پارہ غلطیؤں سے بھرا پڑا تھا۔ شاید ہی‬


‫کوئی حصہ غلطیوں سے پاک رہ گیا ہو گا۔ مصور کو بڑا دکھ‬ ‫ہوا۔ اس نے اگلے دن ایک اورفن پارہ آویزاں کیا اور نیچے لکھ‬ ‫دیا جہاں کہیں غلطی نظر آئے اسے درست کر دیا جائے۔ فن پارہ‬ ‫کئ دن آویزاں رہا اس میں رائ بھر تبدیلی نہ آئ۔ تبدیلی النے یا‬ ‫غلطیوں کی نشاندی کرنے کا حق صرف اسے ہے جو پکائی اور‬ ‫کھائی کے ہنر سے آگاہ ہو یا کھائی کے جملہ نشیب و فراز سے‬ ‫آگاہی رکھتا ہو۔‬

‫کوالیفیکیشن اور عسکری ضابطے ‘ایجوکیشن‬

‫لڑائ شخصی ہو کہ قومی یا پھر ملکی‘ اس کا آغاز گھورنے‬ ‫سے ہوتا ہے۔ گھورتے سمے فریقین کی ناسیں پھیلنا شروع‬ ‫ہوتی ہیں اور پھر یہ بتدریج پھیلتی چلی جاتی ہیں۔ نہیں پھیلیں‬ ‫گی تو معاشرے میں کٹ جائیں گی۔ ان کا رہنا‘ ان کے پھیلنے‬ ‫سے مشروط ہوتا ہے۔ آنکھوں میں ہوتی شام کی افقی گردش‬ ‫کرنے لگتی ہے۔ گردش دوراں کے ساتھ ساتھ اس کی گہرائ اور‬


‫گیرائ میں ہرچند اضافہ ہی ہوتا چال جاتا ہے۔ ان لہو آمیز نینن‬ ‫میں فاتح ہونے کی تمنا مچلنے لگتی ہے۔ کان ناصرف کھڑے‬ ‫ہوتے ہیں مہنگائ کے باوجود ٹماٹری ہو جاتے ہیں۔ ہونٹوں پر‬ ‫حالیہ کشمیری بھوکم کے آثار نمودار ہوتے ہیں اور بظاہر‬ ‫بےمعنی بربڑاہٹ سی سنائ دیتی ہے۔ دریں اثناء اگر کوئ جلنے‬ ‫قریب پر تیل ڈال دیتا ہے تو غیرسرکاری اور غیر سیاسی قسم‬ ‫کے بیانات کا آغاز ہو جاتا ہے بصورت دیگر پہلے ہاتھ میں‬ ‫موجود چیز کا فرش پر کڑاھپ سے مارنا عسکری ضابطہ ٹھہرا‬ ‫ہے۔ چیز کی مالی قدر دو نمبری کے کھاتے میں چلی جاتی ہے۔‬ ‫گویا جاروب کش کے کام میں بالقصور اضافہ کر دیا جاتا ہے۔‬ ‫اس ذیل میں یہ بھی نہیں سوچا یا دیکھا جاتا کہ چور چور کر‬ ‫دی جانے والی چیز کا فریقن کی گرمی سے کوئ تعلق واسطہ‬ ‫ہی نہیں ہوتا۔ گرمی کے ساتھ سردی کا اس لیے اندراج نہیں کیا‬ ‫گیا کہ وہ موقع ٹھنڈک سے متعلق نہیں ہوتا۔خدا خدا کرکے‬ ‫ناسیں پھیالنے اور گھورنے کا مرحلہ طے ہوتا ہے۔ یہی لڑائ‬ ‫کے ضمن میں مشکل اور کٹھن گزار موقع ہوتا ہے۔‬ ‫دل کی بھڑاس ہاتھ میں موجود شے پر نکالنے کی کوشش کی‬ ‫جاتی ہے۔ اس مرحلے پر یہ بات ذہن میں رکھیں شے زمین پر‬ ‫پھینکی جاتی ہے۔ فاءرنگ کا سلسلہ کافی بعد کا کام ہے۔ بہت‬ ‫پہلے سے یہ جنگی اصول مستعمل چال آتا ہے۔ اس سے انحراف‬


‫گویا جنگی اصول اور ضابطے کے خالف ہے۔ ناسیں پھیالنے‘‬ ‫کان کھڑے کرنے اور آنکھوں میں جنگی عروسی بھرنے کے‬ ‫بعد غرانے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ یہ عمل تادیر برقرار نہیں‬ ‫رہتا۔ اس سے تھوڑی دیر بعد تکرار لفظی سننے میں آ جاتی جو‬ ‫درحقیقت شخصی رجز کے مترادف ہوتی ہے۔ ذاتی تعارف میں‬ ‫ماں بہن بیٹی کو بھی النا ضروری اور جزو جنگ سمجھا جاتا‬ ‫ہے۔ ان کی شان میں گستاخی کو فریقن اول درجے پر رکھتے‬ ‫ہیں حاالنکہ ان کا اس میں سرے سے عمل دخل ہی نہیں ہوتا۔‬ ‫اگر وہ موقع پر موجود ہوتیں تو مرد لڑاکوں کو کھانسنے کا‬ ‫بھی موقع میسر نہ آتا۔‬ ‫بول بوالرے سے متعلق امور وہ از خود طے کر لیتں اور مرد‬ ‫حضرات سے کہیں بہتر اور اعلی پاءے کے طے کرتیں۔ خواتین‬ ‫کی موجودگی میں یہ معاملہ مردانہ نہیں رہ جاتا۔ مردوں کا آدھا‬ ‫بھار وہ ونڈا دیتی ہیں۔ مرد میدان میں اچھا لگتا ہے۔ میدان کس‬ ‫نے مارا‘ کا اندازہ ایک کے قتل ہو جانے سے ہوتا ہے۔ اطراف‬ ‫میں کسی کی جان نہ جانے کی صورت میں بے ہوش ہو جانے‬ ‫واال پراجت سمجھا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا بھی نہ ہو تو چہرے‬ ‫کے آلو‘ جنگ کی اسکورسنگ کا کام دیتے ہیں۔ تاہم جنگ کا‬ ‫حق جان دینے یا لینے کی صورت میں ہی ادا ہوتا ہے۔ اس گیم‬ ‫پر اتنا وقت برباد کرنے کا حقیقی اور حتمی نتیجہ سامنے نہ آنا‬


‫جنگی اصولوں کے منافی ہوتا ہے۔‬ ‫جنگ اچھی ہوتی ہے یا بری‘ سردست میرا اس موضؤع سے‬ ‫کوئ تعلق نہیں۔ اس سے امن کا رستہ نکلے گا بدامنی کی راہیں‬ ‫کھلیں گی‘ اس تحریر کا اس سے بھی کوئ لینا دینا نہیں۔ میرا‬ ‫موضوع یہ ہے کہ جنگ کو جنگی اصولوں ضابطوں اور صدیوں‬ ‫سے چلے آتے مراحل سے گزرنا چاہیے۔ اس میں کسی مرحلے‬ ‫کا جلد بازی میں رہ جانا مناسب نہیں اور ناہی وہ لطف رہتا ہے۔‬ ‫للکار کر آنے اور چوروں کی طرح آنے میں زمین آسمان کا فرق‬ ‫ہے۔ میدان میں فیصلہ ہونا چاہیے کہ کون جیت کر ہارا اور کون‬ ‫ہار کر جیتا۔‬ ‫ناسیں پھیلنے کا نظارہ دیکھنے کو نہ ملےاور معاملہ توتکرار‬ ‫کی سرحدوں میں آ گھسے۔ یا دونوں عمل کا تارک ہو کر ماں‬ ‫بہن اور بیٹی کی شان میں گستاخی پر اتر آنا‘ کسی طرح جنگی‬ ‫دیانت میں نہیں آتا۔ کون کس بہادری اور جیداری سے لڑا‘‬ ‫دیکھنے کا مزا پہلے مراحل کے بغیر نہیں آتا۔غالب سے کلکتہ‬ ‫والوں سمت کئ حلقوں کی جنگیں ہوءیں۔ یہ کوئی نئی جنگیں نہ‬ ‫تھیں۔ پہلے ازیں بعد سیکڑوں قلمی جنگیں ہوئی۔ ان جنگوں میں‬ ‫جنگی اصول وضوابط کے حفظ مراتب ہر سطع پر مدنظر رکھے‬ ‫گیے۔ بعض جنگوں میں بےاصولی بھی ہوئ لیکن ان کی تعداد‬


‫آٹے میں نمک برابر ہے۔‬ ‫میں نہیں جانتا ناصر زیدی پرانے یودھا ہو کر بھی ابتدائ دونوں‬ ‫مراحل سے کیوں گزر جاتے ہیں۔ سنتے ہیں پڑھے لکھے بھی‬ ‫ہیں۔ پڑھائ کی ناموس بہرطور برقرار رہنی چاہیے۔ جب اٹھتے‬ ‫ہی ڈگریاں پنتے ہیں تو ان کی ایجوکیشن مشکوک ہو جاتی ہے۔‬ ‫ایجوکیشن تمیز و امتیاز سکھاتی ہے جبکہ کوالیفیکیشن عملی‬ ‫میدان کے کارناموں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اب جب وہ‬ ‫کوالیفیکیشن کو ایجوکیشن پر محمول کریں گے تو ان کی‬ ‫ایجوکیشن پر المحالہ حرف آئے۔‬ ‫جب وہ کوالیفیکیشن کو ایجوکیشن اور ایجوکیشن کو‬ ‫کوالیفیکیشن سمجھیں گے تو ان کے کہے کی معنویت باقی نہ‬ ‫رہے گی۔ دوسرا اندھیر یہ کہ اٹھتے ہی ماں بہن کی گستاخی پر‬ ‫اتر آتے ہیں تو ایسے شخص کو جوابا کیا کہا جائے۔ میرے‬ ‫نزدیک ڈگریوں پر انگلی رکھنے سے پہلے ان کی متعلقہ محکمہ‬ ‫سے‘ اصلی یا جعلی کی تصدیق کروا لی جائے تو ہی لو لڑائی‬ ‫لڑی جا سکے گی۔جنگ کے ضوابط اور جنگی سلیقہ ہی دراصل‬ ‫جنگی کیمسڑی ہے۔ کسی بھی چیز یا معاملے کی کیمسٹری سے‬ ‫آگہی ایجوکیشن ہے جبکہ اس کی اپلیکیشن اور رزلٹس‬ ‫کوالیفیکیش ہے۔ باور رہنا چاہیے کہ کسی بھی معاملے کے‬


‫سلیقے اور اس کی کمسٹری سے آگہی کے ناصرف بہتر نتائج‬ ‫سامنے آتے ہیں بلکہ جنگ میں نقصان بھی کم ہوتا ہے۔‬ ‫جنگی کیمسٹری کا جانو دشمن کو بھاگا بھاگا کر گھٹنے ٹیکنے‬ ‫پر مجبور کر دیتا ہے۔ جنگی نغموں کا کام گاءیک حضرات کے‬ ‫ذمے بھی رہا ہے۔ میدان سے باہر کھڑے مبصرین کی کارگزاری‬ ‫بالشبہ بڑی جان سوزی کا کام ہے۔ اسی طرح اکھاڑے سے باہر‬ ‫کھڑے داؤ و پیچ بتانے والوں کی محنتوں کو جنگی‬ ‫کوالیفیکیشن کا حصہ سمجھا جانا چاہیے تاہم ان پر عمل درامد‬ ‫ضروری نہیں کیونکہ یودھا اپنی حمکت عملی خود سے طے‬ ‫کرتا ہے۔ جنگی نغمے ناصرف جوش پیدا کرتے ہیں بلکہ رجز‬ ‫خوانی اور للکاری بولوں کو بھی نکھارتے ہیں۔‬ ‫ایجوکیٹڈ‘ کوالیفیکیشن پر عمل درامد بہتر نتائج کا حامل خیال کیا‬ ‫جاتا ہے۔۔ ہمارے ہاں الئف ایکسپریس سے استفادہ کرنے کا‬ ‫رواج مخصوص حلقوں تک محدود ہے۔ طبقہ نوازی ہمیشہ سے‬ ‫چلی آتی ہے۔ یہاں زرہ نوازی کا رواج نہیں۔ ہاں یہ نوازتی‬ ‫طبقے خود کو ذزہ سمجھتے ہیں۔ ان کو نوازنے کے سبب ذرہ‬ ‫نوازی مرکب تاحال اپنے فل بٹا فل بھار کے ساتھ وجود رکھتا‬ ‫ہے۔‬


‫مشتری ہوشیآر باش‬

‫کسی کجی خرابی غلطی سچائ یا ہونی کو تسلیم نہ کرنا زمین‬ ‫کے ہر خطہ کے انسان کی سب سے بڑی اور مستمل خوبی ہے۔‬ ‫جب یہ رواج پا گئی ہے تو اس کی کسی سطع پر مذمت کرنا‬ ‫کسی طرح درست نہیں۔ جب کوئ تسلیم نہیں کرتا تو وہ اول‬ ‫الذکر طبقے کی صف میں ا کھڑا ہوتا ہے۔ کسی گنجے کو اگر آپ‬ ‫ہیلو گنجا صاحب یا کسی کانے کو محترم کانا صاصب کہہ کر‬ ‫پکاریں گے تو وہ آپ کا سر پھوڑ دے گا۔ کتنی زیادتی کی بات‬ ‫ہے۔ کیا مخاطب گنجا یا کانا نہیں ہوتا۔ ادب آداب ملحوظ خاطر‬ ‫رکھا گیا ہوتا ہے۔ پھر غصہ اور تاؤ میں آنے کا‘ کیا جواز بنتا‬ ‫ہے۔غالبا اس طور سے پکارنے کا رویہ پروان نہیں چڑھ سکا‬ ‫جو بہرطور رواج پانا چاہیے۔‬ ‫میری بات سن کر استاد ہوریں کھکھال کر ہنسے اور میں‬


‫شرمندہ سا ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد فرمانے لگے۔ فعل وجہء‬ ‫پہچان نہیں ہوا کرتا۔ حثیت مرتبہ عہدہ گروہ جماعت شخص کی‬ ‫وجہءپہچان بنتی ہے۔ دفتر میں بیٹھا بابو یا افسر رشوت کے‬ ‫بغیر کام ہی نہیں کرتے بلکہ کر ہی نہیں سکتے انہیں محترم‬ ‫رشوتی صاحب کہہ کر پکارنا موت کو ماسی کہنے کے مترادف‬ ‫ہے۔ ہوتا کام بھی نہیں ہو گا۔ یہی نہیں کسی نئ پھسنی میں پھس‬ ‫جاؤ گے حاالنکہ وہ ڈنکے کی چوٹ پر محترم رشوتی صاحب‬ ‫ہوتے ہیں اور یہ حقیقت ہر ایرے غیرے سے بھی بعید نہیں‬ ‫ہوتی۔‬ ‫کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں یہ سچائ میں آپ پر اپالئی‬ ‫کرتا ہوں۔ بہت ہی پیارے اور محترم ڈھیٹ بےشرم صاحب اس‬ ‫موضوع کو چھوزیں اور کسی دوسرے موضوع پر بات کریں۔‬ ‫استاد کا یہ طرز تکلم مجھے زہر میں بجھے تیر سے زیادہ‬ ‫تیزدھار محسوس ہوا اور میرے منہ سے بےساختہ نکل گیا‪ :‬یہ‬ ‫آپ کیا بکواس کر رہے ہیں۔ میری بوکھالہٹ اور سیخ پائ پہ‬ ‫سیخ پا ہونے کی بجاءے انھوں نے پہلے سے زیادہ جاندار قہقہ‬ ‫داغا۔ پھر فرمایا جس چیز پر آپ عمل نہیں کر سکتے دوسروں‬ ‫!سے اس کی برداشت کی توقع کرنا کھلی حماقت نہیں؟‬ ‫پہلے آپ یہ فرماءیے کہ آپ نے مجھے ڈھیٹ اور بے شرم کس‬ ‫بنیاد پر کہا ہے؟‬


‫آپ بیسویں صدی سے سیکرٹری ہاءر ایجوکیشن پنجاب کی‬ ‫خدمت میں اپنے ایم فل االؤنس کے لیے مسلسل اور متواتر‬ ‫درخواستیں گزار رہے ہیں اکیسویں صدی کے تیرہ سال گزر‬ ‫چکے ہیں کسی ایک کا بھی جواب موصول ہوا ہے‘ نہیں نا۔ آپ‬ ‫پھر درخواست گزارنے کی سوچ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ڈھیٹ ہوئے نا۔‬ ‫آپ نےمجھے بےشرم کیوں کہا ہے؟‬ ‫اس کا بھی جواب دیتا ہوں پہلے پہلی بات تسلیم کرو یا دلیل سے‬ ‫انکار کرو۔‬ ‫استاد کی بات میں دم اور خم پورے پہار کے ساتھ توازن رکھتے‬ ‫تھے۔ دل اور دماغ استاد کی بات کو تسلیم کر رہے تھے لیکن‬ ‫زبان پر رعشہ طاری تھا۔‬ ‫آپ نے مجھے بےشرم کیوں کہا ہے۔ یہ زیادتی ہے۔ سراسر‬ ‫زیادتی ہے۔‬ ‫میں نے اپنی ہاں کو جعلی غصہ دکھا کر گول کرنے کی کوشش‬ ‫کی۔‬ ‫میری چترایئ پر انھوں نے پتھرپاڑ قہقہ داغا۔ سچی بات تو یہ‬ ‫ہے کہ میں من ہی من میں بڑا کچا ہوا۔‬ ‫حضرت ٹالیے مت۔ دو ٹوک ہاں یا ناں میں جواب دیں۔‬


‫چلو ایک منٹ کے لیے درست مان لیتا ہوں لیکن آپ نے‬ ‫بےشرم ایسا ثقیل لفظ میری ذات کے ساتھ نتھی کیوں کیا ہے؟‬ ‫منگنیں ڈال کر سہی‘ آپ نے میری بات کو آؤں گاؤں کرکے‬ ‫تسلیم تو کیا۔ کان اوپر سے پکڑو یا سیدھے‘ بات ایک ہی ہے‬ ‫تاہم آپ حد درجہ لسےاور پھوسٹر ثابت ہوءے ہیں۔ اہل جفا کے‬ ‫پاس ایک سے ایک بڑھ کر دلیل ہوتی ہے لیکن آپ کے پلے تو‬ ‫ککھ نہیں۔ آپ کا تو هللا ہی حافظ ہے۔ غلطی کرتے ہیں تو ہاتھ‬ ‫میں کوئ دلیل بھی رکھیے ورنہ سکے میں مارے جاؤ گے۔ آپ‬ ‫نے چھے ماہ پہلے پنجاب گورنمنٹ سروسز ہاؤسنگ فاؤنڈیشن‬ ‫والوں کو اپنی رقم کے لیے درخواست گزاری اور آس لگا کر‬ ‫بیٹھ گیے۔ بھولے بادشاہ وہ بھی اسی عدم تسلیمی نظام کا حصہ‬ ‫ہیں۔ وہاں جاؤ‘ گرہ کا منہ کھولو اور زبان والے منہ سے تسلیم‬ ‫کرو کہ ان کا کام صاف شفاف اور اک نمبری ہوتا ہے۔ انھوں نے‬ ‫ہمیشہ کچھ لیے بغیر ساءل کی داد رسی فرمائی ہے۔ تصوف‬ ‫جدید کے درازوں کی کلید ان کے پاس ہے۔ کیا یہ بےشرمی اور‬ ‫ہٹ دھرمی نہیں بن دیے لینے کی اچھا رکھتے ہو اوپر سے ان‬ ‫کے متعلق ٹکے ٹکے کی بےفضول اور معنی خیز باتیں کرتے‬ ‫ہو۔‬ ‫استاد نے اور بھی بہت ساری باتیں کیں جن پر بخوشی ناسہی‬


‫جبری قہقہ لگایا جا سکتا تھا لیکن میں نے اپنے منہ کو اور‬ ‫اس سے متعلقہ اعضاء کو زحمت ہی نہ دی۔ پلہ نہ جھڑنا اور‬ ‫سکے تے مل ماہیا بےشک اور بالشبہ دفتری امور کی خالف‬ ‫ورزی اور اس مستعمل رویے کے خالف سازش نہیں‘ بغاوت‬ ‫ہے۔ اگر یہ لوگ اس سسٹم کا حصہ ہیں اور خرابی کو خرابی‬ ‫تسلیم نہیں کرتے تو میں اپنی ذات سے متعلق خرابی کو خرابی‬ ‫کیوں تسلیم کروں۔ تسلیم کر لینے کی صورت میں بھی غلط‬ ‫ٹھہرتا ہوں۔ غالب کا دور اور تھا تسلیم کی خو ڈالنا سرکاری‬ ‫مجبوری تھی۔ تسلیم کی خو نہ ڈالنا آج کی سرکاری مجبوری‬ ‫ہے۔ گو ادھر گرہ میں مال آتا ہے اور ادھر جاتا ہے۔‬ ‫اب جو بات کرنے جا رہا یہ درج باال معاملے کا حصہ نہیں۔ سچی‬ ‫بات تو یہ ہے کہ یہ میں لکھ ہی نہیں رہا ناہی ایسی باتیں لکھی‬ ‫جا سکتی ہہں کہ گرہ میں کرایہ تک نہیں‘ ان منہ اور کھیسہ پاڑ‬ ‫حضرات کے تقدس مآب دامن میں قاءداعظم کے سفارشی رقعے‬ ‫کہاں سے رکھوں۔ وہ بےچارے بھی تو قانون کے پابند ہہں۔ میں‬ ‫اپنی حتمی مجبوری سے مجبور ہوں تبھی تو گرہ کا کڑوا سچ‬ ‫لکھا ہی نہیں۔‬ ‫!مشتری‬ ‫ہوشیار باش‬


‫میں عصری سچائی کے تحت خود میں تسلیم کی خو ڈال کر‬ ‫عصری ضابطے کے توڑنے کا جرم اپنے سر پر نہیں لے سکتا۔‬ ‫یہی پڑھا سمجھا اور سوچا جائے۔‬

‫مدن اور آلو ٹماٹر کا جال‬

‫لفظ جب تشکیل و ترکیب پاتا ہے مخصوص معنویت کا حامل ہوتا‬ ‫ہے۔ مخصوص ماحول‘ مزاج‘ نفسیات‘ موڈ‘ لب ولہجہ‘ بناوٹ‘‬ ‫کلچر وغیرہ رکھتا ہے۔ مستعمل اور معروف ہو جانے کی صورت‬ ‫میں محدود نہیں رہتا۔ بلکل ایسی صورت مہاجر آوازوں اور الفاظ‬ ‫کے ساتھ پیش آتی ہے۔ شخص زبان کا پابند نہیں زبانیں شخص‬ ‫کی پابند ہیں۔ زبانوں کو اپنے استعمال کرنے والوں کے حاالت‬ ‫ضرورتوں ماحول موڈ کلچر وغیرہ کی پابندی کرنا ہوتی ہے۔ اگر‬ ‫شخص کو زبان کا پابند کر دیا جائے گا تواظہار میں مشکل یی‬ ‫نہیں خیال اور جذبے کی اصلیت باقی نہیں رہتی یا اس میں قوت‬ ‫برقرار نہیں رہ پاتی۔ وہ کچھ کا کچھ ہو سکتا ہے۔‬


‫اظہار کے ساتھ ساتھ زبان بھی محدود رہتی ہے۔ مکتوبی صورت‬ ‫کوئ بھی رہی ہو اسٹریٹ ان پابندیوں کو خاطر میں نہیں التی۔‬ ‫شاعر عروضی پابندی کے سبب کہتا ہے‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرا پیغمبر عظیم تر۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫عروضی مجبوری کے باعث وہ گستاخی کا مرتکب ہوا ہے۔ گویا‬ ‫پابندی خیال یا چذبے کا ستیاناس مار کر رکھ دیتی ہے۔ درست‬ ‫ابالغ تب ہی ممکن ہے جب زبان شخص کے خیال کی پابند ہو‬ ‫گی۔ اس حوالہ سے دیکھا جائے تو زبان کا تفہیمی واظہاری‬ ‫کلچر مخصوص ومحدود نہیں کیا جا سکتا۔ شخص سی ٹی کہہ‬ ‫کر سی ڈی‘ لیڈیاں کہہ کر لیڈیز مراد لے گا۔ قلفی کہہ کر قفلی‬ ‫مراد لے گا۔ حور اسامی اوقات احوال وغیرہ واحد استعمال ہوتے‬ ‫رہیں گے۔ جلوس کو عربی معنوں میں کبھی بھی استعمال نہیں‬ ‫کیا جائے گا۔ غریب کے معنی گریب ہی لیے جائیں گے۔ شراب‬ ‫کو وائین کے معنی دیے جاتے رہیں گے اور اسے عربی سمجھا‬ ‫جاتا رہے گا حاالنکہ یہ شر‪ +‬آب ہے۔ عربی فارسی کا آمیزہ ہے۔‬ ‫عینک عین ‪ +‬نک عربی اور دیسی زبانوں کا آمیزہ ہے۔ گالس‬ ‫کے معنی پانی پینے واال ظرف مستعمل رہیں گے۔ بات یہاں تک‬ ‫محدود نہیں ان کا استعمال بھی شخصی ضرورت خیال جذبے اور‬ ‫موڈ کا پابند ہے۔ متضاد الگ سے اور نئے معنی سامنے آتے‬ ‫رہنا حیرت کی بات نہیں۔‬


‫برتن کل کرنا کا برتن دھونے کے معنوں میں استعمال ہونا‬ ‫میرے سمیت ہر کسی کے لیے عجیب ہو گا۔ مزے کی بات‘‬ ‫اسٹریلیا میں مستعمل ہے۔ ہم اسے توڑنا پھوڑنا کے معنی دیں‬ ‫گے۔‬ ‫ناصر زیدی نے اپنے ‪ ٦٢‬نومبر کے کالم میں مرکب۔۔۔۔۔۔۔۔مرتب و‬ ‫مدن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ استعمال کیا۔ میں آگے بڑھنے کی بجاءے اس مرکب‬ ‫میں پھنس گیا۔ پہلے تو میں اسے مدن الل کے لباس کی ترتیب‬ ‫سمجھا۔ پھر میرے سوچ کا زاویہ مدن بان یعنی کام دیوا کی‬ ‫طرف مڑ گیا۔ کام دیوا کے حوالہ سے شخصی حسن اوراعضائی‬ ‫ترتیب کی جازبیت کی طرف توجہ پھر گیی۔‬ ‫شخصی حسن اور آالت تخلیق کی صفائی ستھرائی کی طرف‬ ‫خیال کا پھر جانا فطری سی بات تھی۔ فنی چابک دستی یہ تھی‬ ‫کھ جنس کی تخصیص موجود نہ تھی۔ مردانہ ہوتے تو زنان کے‬ ‫لیے دلچسپی کا سبب ہو سکتے تھے۔ زنانہ ہوتے تو مرد روز‬ ‫اول سے لکیر کا فقیر رہا ہے۔ مجھے ناصر زیدی کے سوچ اور‬ ‫لفظ کے استعاراتی استعمال کو بےاختیار داد دینا پڑی۔ انھوں نے‬ ‫دونوں اصناف کو دائرے میں لے کر اپنی قلمی ہنر مندی کا‬ ‫ثبوت دیا۔ ان کا یہ کالم جیسا کہ مرتب و مدن سے پہلے کی‬ ‫سطور سے واضح ہوتا تھا کہ وہ کسی کتاب سے متعلق تھا۔‬


‫مجھے لگا یہ کتاب ڈاکٹر وی پی سوری کے پی ایچ ڈی کے‬ ‫مقالے شہوت سے شہوانی معلومات کو اکٹھا کر دیا گیا ہے۔‬ ‫سوچا یہ کتاب واجدہ تبسم کا افسانہ اترن جسے کاما سوترا کا‬ ‫خالصہ کہا جا سکتا ہے‘ کی جدید ترین شرح بھی ہو سکتی ہے۔‬ ‫میں نے سوچا عین مکن ہے ہیوالک ایلس کی کاوش تانترہ کو‬ ‫نیا کالب دے دیا گیا ہو گا۔ یہ کوئ حیرت کی بات نہیں کوک‬ ‫شاستر کے حوالہ سے مواد وافر دستیاب ہے۔ وہی وہانوی نے‬ ‫جنس پر بہت کچھ لکھا تھا۔ اسی طرح ڈاکٹر سلیم اختر نے مرد‬ ‫جنس کے آئنے میں‘ عورت جنس کے آئنے میں اور شادی‬ ‫جنس اور جذبات ایسی کتب کے تراجم کیے ہیں۔ اس حوالہ سے‬ ‫کام بند نہیں ہوا۔ گویا سلسلہ جاری ہے۔‬ ‫جنس کوئ عام اور معمولی موضوع نہیں۔ بڑے بڑے لوگ آالت‬ ‫زنانہ کے معاملہ میں حساس واقع ہوئے ہیں۔ دو بیبیاں تنہائ‬ ‫میں بیٹھی آالت مردانہ پر بڑی خاموشی سے تبصرہ کر رہی‬ ‫تھیں۔ دو مرد قہقہے لگاتے ہوتے وہاں سے گزرے۔ ایک نے‬ ‫پوچھا یہ کس قسم کی باتیں کر رہے ہوں گے۔ دوسری نے جوابا‬ ‫کہا ان کی باڈی لنگوئج بتا رہی تھی کہ وہ ہمارے آالت پر گفتگو‬ ‫کرکے زبانی کالمی اور خیالی مزے لے رہے تھے۔ سوال کرنے‬ ‫والی کے منہ سے نکال بڑے بےشرم ہیں۔ یہ واقعہ یاد آتے ہی‬


‫میری توجہ پودوں کی طرف چلی گئی۔ مدن پودوں سے متعلق‬ ‫بھی ہے۔ عشق‘ محبت‘ بہار اور بغل گیری مفاہیم درج باال امور‬ ‫کی طرف چلے جاتے ہیں۔ شہد کی مکھی کو بھی گول کرنا پڑا‬ ‫کیونکہ ان کی آوازیں حاالت مخصوصہ کی آوازوں سے مماثل‬ ‫ہوتی ہیں۔ لفظ بےشرم نے جنسیات سے متعلق سوچنے سے‬ ‫منع کر دیا ورنہ نیاز فتح پوری کی تصنیف جنسیات کی طرف‬ ‫سوچ کا دھارا بڑی تیزی سے مڑ رہا تھا۔‬ ‫درخت امن اور جنگ میں انسان کے کام آتا رہا ہے۔ مجھے یقین‬ ‫ہو گیا کہ یہ کتاب درختوں سے متعلق ہو گی چونکہ ناصر زیدی‬ ‫اس کتاب پر گفتگو کر رہے ہیں لہذا پڑھنے الءق ہو گی۔ میں‬ ‫مدن سے آگے بڑھنے واال ہی تھا کہ اندر سے آواز آئی منڈی‬ ‫سے آلو اور ٹماٹر ال دیں۔ حکم بےغم کا تھا اس لیے بقیہ کالم‬ ‫پڑھے بغیر آلو ٹماٹر اور ان کے تیز ببھاؤ کی سوچوں میں مقید‬ ‫منڈی کی طرف بڑھ گیا۔ اس حقیقت کا ویروا کہ لفظ معنویت اور‬ ‫استعمالی حوالہ سےمحدود نہیں‘ اگلی نششت تک ملتوی کرنا‬ ‫پڑا۔‬

‫وہ دن ضرور آئے گا‬


‫آج سبزی منڈی کے بھاؤ اعتدال پر تھے۔ بیگم نے اگر دو دن‬ ‫صبر کر لیا ہوتا تو اس کا کیا جاتا۔ مجھے اس پر غصہ نہ آیا‬ ‫کیونکہ اس وچاری کے پاس کون سی الہامی شکتی تھی۔ یہ بھی‬ ‫کہ حاالت بتا رہے تھے کہ بھاؤ اوپر ہی اوپر جاﺀیں گے۔ دوسرا‬ ‫ضرورت تو اس وقت تھی۔ بعد ضرورت میسر آتی چیز کو کیا‬ ‫کرنا ہوتا ہے۔ یہ بھی کہ ہم کون سے بیوپاری ہیں جو خوردنی‬ ‫اشیاء کو ذخیرہ کرنے کا شوق رکھتے ہیں۔ ذخیرہ منوں کا ہو یا‬ ‫آدھ پاؤ سیر کا ہو ذخیرہ ہی کہالئے گا۔ ذخیرہ کی عادت اس میں‬ ‫بہرطور ہے۔ آدھ کلو ٹماٹر اور دو کلو آلؤ تو ذخیرہ ہو گیے۔ اگر‬ ‫یہی ایک ٹماٹر اور آدھ کلو آلو دوکان سے منگوا لیتی تو یہ دن‬ ‫نہ دیکھنا پڑتا۔ آج پنتس روپے کلو آلو چھیاسٹھ روپیے کلو‬ ‫ٹماٹر بک رہے تھے۔‬ ‫قیمتیں آویزاں ہوں تو بھاؤ کرنے کا سیاپا نہیں کرنا پڑتا۔ بھاؤ‬ ‫کرنے کا عمل بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ میری اس عمل سے جان‬ ‫جاتی ہے۔ یہ جنجال گریبوں یعنی بھوکے ننگوں اور کنگلوں تک‬ ‫محدود ہے۔ اس کرپٹ معاشرے میں بھی جان مارتے ہیں اور‬ ‫ہاتھ کچھ نہیں لگتا۔ بیسیوں بالمحنت کمائ کے ذراءع موجود‬ ‫ہیں۔ یہ بھی امکان غالب ہے کہ ان دھندوں سے متعلق لوگ ان‬


‫لوگوں کو اپنے کام کا نہ سمجھتے ہوں۔ ایمان داری کی مہلک‬ ‫بیماری کے سبب ان پر یقین بھی نہیں کیا سکتا۔‬ ‫ٹماٹر آلو اور پودینے کی جریداری کرنے کے بعد میں اپنی نشت‬ ‫پر آ بیٹھا بقیہ کالم پڑھنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ ایک صاحب‬ ‫آدھمکے۔ مروت کا تقاضا تھا کہ جعلی سی مسکراہٹ کے ساتھ‬ ‫انھیں خوش آمدید کہنا پڑا۔ وہ تو بعد میں پتہ چال کہ موصوف‬ ‫گن کی گتھلی ہیں۔ لطاءف و ظرافت کا ذوق رکھنے کے ساتھ‬ ‫ساتھ حکمت بھی بال کی رکھتے ہیں۔ ضرورت مندوں کے لیے‬ ‫گولیاں شلوار والی جیب میں رکھتے ہیں۔ ان سے گولیاں لیتے‬ ‫وقت گھبراہٹ نہیں ہوتی۔ پہلے اپنی ذات پر تجربہ کرتے ہیں۔‬ ‫مدن بان کی ان پر خصوصی کرپا ہے۔ کام دیوا سے شفا کا بردان‬ ‫حاصل کر چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مدیانی امور بڑی کامیابی‬ ‫سے انجام دیتے ہیں۔ باتیں بڑی چٹخارے دار کرتے اور بناتے‬ ‫ہیں۔ دوسرا یہ معاملہ ہے ہی چٹچارے دار۔ میں بھی تو اس کالم‬ ‫کو جنسی کالم سمجھ کر پڑھ رہا تھا۔‬ ‫مدن سے ٹھیک پانچ لفظ کے فاصلے پر ڈاکٹر تبسم کاشمیری کا‬ ‫نام تھا۔ ڈاکٹر صاحب سے میرا تیس چالیس سال سے محبت کا‬ ‫رشتہ ہے۔ بڑی صاف ستھری اور نکھری نکھری شخصیت کے‬ ‫مالک ہیں۔ تحقیق اور تنقید میدان ہے شاعری کا بھی شوق‬


‫رکھتے ہیں۔ جنسیات سے متعلق ان کی کوئی تحریر میری نظر‬ ‫سے نہیں گزری۔ حیرت ہوئ اس عمر میں انھیں مدن بانی کا‬ ‫شوق کیوں اور کیسے پیدا ہو گیا۔ سوچا بڑھاپے میں عموما وج‬ ‫کھج جاتی ہے۔ یہ بال اور بےجواز بات بھی نہیں۔ یہ مدنائزیشن‬ ‫کا عہد ہے۔ ہم شرقیوں کو مغربی بننے کا شوق کچھ زیادہ ہی‬ ‫ہے۔ بھال ہو حضرت ڈینگی شریف کا جو صبح سویرے اور شام‬ ‫قریب اسالم نافذ کر دیتا ہے۔ اس طرح جبری سہی‘ بے لباسی‬ ‫لباسی ہو جاتی ہے۔‬ ‫یہ بات اہل علم کیا‘ ہر ایرا غیرا بھی جانتا ہے کہ نمرود کو‬ ‫ڈینگی ہی لڑا تھا اور وہ چار صدیاں چھتر کھاتا رہا۔ ہٹ کا پکا‬ ‫تھا چھتر کھاتا رہا لیکن ہم کے دائرے سے باہر نہ آیا۔ بادشاہ‬ ‫لوگ اگر ہٹ کے پکے نہ ہوں تو انھیں بادشاہ کون کہے گا۔ میں‬ ‫عصری دلیل بھی رکھتا ہوں۔ پنجاب سرونٹس ہاؤسنگ فاؤنڈیشن‬ ‫الہور اور سیکریٹری ہائر ایجوکیشن والی رقم دلوانا دور کی بات‬ ‫میری کسی داخواست کا جواب ہی دلوا ے تو مان جاؤں۔ جواب‬ ‫کو نہی کے معنوں میں نہ لیں۔ کیوں‘ وہ کلرک بادشادہ ہیں۔ ہٹ‬ ‫انھیں گٹی میں ملی ہے۔ بہرکیف یہ بادشاہوں کے معاملے ہیں‬ ‫اس لیے طے شدہ ہیں ان پر کالم سے پاپ لگتا ہے۔‬ ‫ہمارے ہاں نامعلوم بالمعلوم اور غیر کالم پر گفتگو کا رواج بڑا‬


‫عام ہے۔ ہاں میں ہاں مالنا تو بڑی عام سی بات ہے۔ ہم مدلل‬ ‫گفتگو کی پوزیشن میں بھی ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جو کبھی‬ ‫خوردنی سامان کی خریداری کے لیے بازار گیے نہیں ہوتے۔ مال‬ ‫و منال بھی وافر سے زائد ہوتا ہے شاندار اور دھواں دھار‬ ‫لیکچر پال سکتے ہیں۔ ان کے لباس پر نہ جائیے صرف کہے‬ ‫سنے تک رہیے ایسا محسوس ہو گا جیسے کچھ کھائے انھیں‬ ‫ہفتے گزر گیے ہوں۔‬ ‫دل نہیں مان رہا تھا کہ ڈاکٹر تبسم کاشمیری مدنائزیشن کا شکار‬ ‫ہو گیے ہیں۔ بندے کا کیا پتہ ہوتا ہے۔ میں نے کالم آگے کیا‬ ‫پڑھنا تھا میری سوئی یہاں پر اٹک گئی۔ دل مان نہیں رہا تھا‬ ‫آنکھوں دیکھا رد بھی نہیں کر سکتا۔ آخر انھوں نے اس کتاب کا‬ ‫دیباچہ کیوں لکھا۔ میں نے سوچا تصدیق کر لینی چاہیے کہ‬ ‫انھوں نے دیباچہ لکھا بھی کہ نہیں۔ ہمارے ہارے ہاں بال‬ ‫دیکھے دیباچہ لکھنے کا رواج موجود ہے۔ ہو سکتا ہے انھوں‬ ‫نے کسی مروت کے تحت کچھ لکھ دیا ہو۔ پھر میں نے کتاب‬ ‫منگوائی‘ دیباچہ موجود تھا۔ کتاب کے اگلے صفحوں میں کتاب‬ ‫پر ڈاکٹر نجیب جمال‘ ڈاکٹر صابر آفاقی‘ ڈاکٹر دمحم امین‘ ڈاکٹر‬ ‫غالم شبیر رانا اور ڈاکٹر دمحم عبدهللا قاضی کی تحریریں بھی‬ ‫موجودد تھیں۔‬


‫ناصر زیدی صاحب کو صرف ڈاکٹر تبسم کاشمیری ہی کیوں نظر‬ ‫آئے۔ بقیہ کالم کیا پڑھنا تھا میں اس سوال کا جواب تالشنے کی‬ ‫کوشش میں لگ گیا۔ کیا ایسا تو نہیں ناصر زیدی صاحب نے‬ ‫کتاب کا مطالعہ کیے بغیر ہی خانہ پری کے لیے کالم لکھ دیا ہو۔‬ ‫آخر آلو ٹماٹر کی انھیں بھی ضرورت ہے۔ ہر طرف خانہ پری کا‬ ‫سلسلہ جاری ہے۔ یہ بھی تو ہر طرف میں آتے ہیں۔ نزدیک کی‬ ‫کمائی خوش آنا رواج سا بن گیا ہے۔ سا میں نے رواجا لکھا ہے‬ ‫ورنہ معاملہ سا کی دسترس سے نکل کر مشبہ بہ کامال مشبہ کا‬ ‫روپ دھار چکا ہے۔ فعل بد شیطان سا تھا اب شیطان بن گیا ہے۔‬ ‫اب سا کا کوئی روال ہی نہیں رہا۔ رشوت مالوٹ دغا عین کاروبار‬ ‫کا درجہ اختیار کر گیے ہیں لہذا ان پر گال بےفضول سا ہو گیا‬ ‫ہے۔ میں مطالعہ کے حوالہ سست رو رہا ہوں اسی لیے بقییہ‬ ‫کالم مجھے اگلی نشت تک اٹھا رکھنا پڑا۔‬ ‫بینائ بےشک کمال کی چیز ہے لیکن اندھا بیک وقت دو فائدے‬ ‫اٹھاتا ہے۔ جی بھر کر سو سکتا ہے چھاؤں چھاؤں چل سکتا‬ ‫ہے۔ بالدیکھے کام کرکے پیسے کھیسے کرنے والے اندھے کی‬ ‫طرح موج میں ہوتے ہیں لیکن مجھ سا قدم قدم پر رک کر اپنا‬ ‫اور قارین کا وقت برباد کرتا ہے۔ کیا کریں اپنا اپنا طریقہ ہے۔‬ ‫اندھے سے بلکہ اندھے کماتے اور ڈکارتے ہیں اور مجھ سے‬ ‫مفت میں مغز ماری کرکے رسوا ہوتے ہیں۔‬


‫فکرمند نہ ہوں‬ ‫دیر اور قسطوں پر سہی‘ وہ دن ضرور آئے گا جب ناصر زیدی‬ ‫صاحب کے کالم کی آخری سطر میری نظر سے گزر رہی گی۔‬

‫ناصر زیدی اور شعر غالب کا جدید شعری لباس‬

‫اس میں کوئ شک نہیں کہ غالب اپنی فکر کے حوالہ سے عہد‬ ‫عہد کا شاعر ہے۔ اس حقیقت سے کوئی بالغ نظر شاعر دانشور‬ ‫محقق نقاد اور صاحب ذوق قاری انکار نہیں کر سکتا کہ غالب‘‬ ‫غالب تھا اور شعر کی فکری دنیا پر آج بھی غالب ہے۔ وہ متاثر‬ ‫کرتا رہا آج بھی متاثر کرتا ہے۔ اس کی شعری بساط پر کھیلنے‬ ‫والے کمال کے لوگ رہے ہیں۔ غالب کے ساتھ وہ بھی فکری‬ ‫اور تحقیقی دنیا میں اپنا وجود رکھتے ہیں۔ اس امتیاز کو الگ‬ ‫رکھیے کہ فالں نے تو غالب کے خالف لکھا۔ مخالف لکھنے‬ ‫والے بھی تو غالب کے حوالہ سے تنقید کی دنیا میں اپنا وجود‬ ‫رکھتے ہیں۔‬


‫برہان قاطع وجود نہ رکھتی تو قاطع برہان ایسی نادر کتاب کس‬ ‫طرح وجود حاصل کرتی۔ لسانی تحقیق میں ان دونوں کتب کو‬ ‫نظرانداز کرنا یا ان پر باقاعدہ کام نہ ہونا‘ زیادتی کے مترادف‬ ‫ہوگا۔ اسی طرح غالب پر بہت کچھ ہونے کے باوجود متنی کام‬ ‫باقی ہے یا تشنگی کا گلہ رکھتا ہے۔‬ ‫عہد حاضر میں آزاد اور نثری شاعری بڑا مضبوط وجود اور‬ ‫حوالہ رکھتی ہے۔ یہ شاعری اپنے عہد کے جملہ معامالت اپنے‬ ‫ساتھ لے کر چلتی نظر آتی ہے بلکہ اس کے وجود میں عصر‬ ‫جدید کا دکھ سکھ پوری شدت اور ادبی توانائ کے ساتھ رچا بسا‬ ‫نظر آتا ہے۔ اگر اس شاعری کو اپنے عہد کی معتبر شہادت کا‬ ‫نام دے دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ اس صنف سخن کے موجود‬ ‫ہونے کے سبب دنیا کی تقریبا تمام زبانوں کی شاعری ترجمہ ہو‬ ‫کر اردو ادب کا حصہ بنی ہے۔ اس ترجمے کے عمل سے دنیا‬ ‫کے ہر خطے کے شخص کی فکر حاجات اور نفسیات سے اردو‬ ‫کا قاری آگاہ ہوا ہے۔‬ ‫تراجم کے حوالہ سے اسلوبیات میں کشادگی پیدا ہوئ ہے۔ آتا‬ ‫کل‘ آج کی سماجی معاشی اور سیاسی تاریخ کو اس صنف سخن‬


‫کے حوالہ سے جان اور پہچان سکے گا۔ اسی شاعری کے تناظر‬ ‫میں اپنے ماضی کو شاباشی اور لعنتی کلمے گزارے گا۔‬ ‫مجید امجد‘ ن م راشد‘ میرا جی ‘ مبارک احمد‘ تبسم کاشمیری‘‬ ‫سعادت سعید‘ فاطمہ حسن‘ انیس ناگی وغیرہ وغیرہ کو جدید‬ ‫اردو شعر وادب سے نکال دیں باقی رہ ہی کیا جاءے گا۔ ان‬ ‫ارباب سخن نے ناصرف زبان کی لسانی حوالہ سے گرانقدر‬ ‫خدمت انجام دی ہے بلکہ شعری لوازمات بھی فراہم کیے ہیں۔‬ ‫شعری الزمے مہیا کیے ہیں۔ تشبہات‘ استعارے‘ عالمتیں اور‬ ‫تلمیحیں بکثرت دستیاب کی ہیں۔ نئی سوچ اور فکر اپنی جگہ‘‬ ‫زبان کے اظہاری دائرے کو وقار اور ثروت سے سرفراز کیا‬ ‫ہے۔‬ ‫اسطالحات مرکبات مترادفات اور استعماالت میسر ہوے ہیں۔ یہی‬ ‫نہیں‘ نئے نئے الفاظ گھڑے گیے ہیں۔ مستعمل الفاظ میں حیرت‬ ‫انگیز اشکالی تبدیلیاں بھی آئی ہیں۔ ان معروضات کے پیش نظر‬ ‫جدید شاعری کو آج کی ضرورت اور لوازمے کا درجہ دنیا‬ ‫عصری دیانت کے مترادف ہوگا‬ ‫جیسا کہ میں نے ابتدا میں عرض کیا غالب عہد عہد کا شاعر‬


‫ہے۔ اس کی فکر جدید ہے لیکن اس کی فکر کا شعری جامہ قدیم‬ ‫ہے۔ اس کی فکر کو جدید لباس ملنا آج کی اہم ترین ضرورت ہے‬ ‫بلکہ یہ ضرورت بھی ہر عہد سے تعلق کرتی ہے۔ بات نئ یلیکن‬ ‫لباس قدیم‘ سچی بات تو یہ ہے کہ بات جمتی نہیں۔ نئے لباس‬ ‫کے تحت ناصرف قربت بڑھے گی۔ اجنبت میں بھی اضافہ نہیں‬ ‫ہو گا اور تفہیمی سہولتیں بھی پیدا ہوں گی۔‬ ‫ناصر زیدی روزنامہ پاکستان الہور کے کالم نگار ہی نہیں‘ شاعر‬ ‫بھی ہیں۔ انھیں تخت و تاج سے قربت کا بھی شرف حاصل رہا‬ ‫ہے۔ اس حوالہ سے بھی ان کی قرابتی و کرامتی عظمت سر‬ ‫آنکھوں پر ہرنی اور رہنی چاہیے۔ وہ ناصرف شاہی کروٹوں کے‬ ‫حوالہ سے جدیدیت پسند ہیں بلکہ ادبی تبدیلیوں کو بھی اشارتی‬ ‫اور ضرورتی لوازمات کے زیردست رکھنے کے قائل ومائل ہیں۔‬ ‫موصوف غالب پسند‘ غالب نواز غالب کے سچے طرف دار اور‬ ‫غالبات کے محقق بھی ہیں۔ غالب کو ہر عہد پر غالب بھی مانتے‬ ‫ہیں۔ غالب کے حوالہ سے یہ امر بالشبہ الئق وتحسین و آفرین‬ ‫ہے۔ میں ان کی غالب نوازی کو سالم پیش کرتا ہوں اور ان کی‬ ‫توفیقات کے لیے دست بہ دعا بھی ہوں۔‬ ‫ان کی جدت پسندی کا ایک پہلو کاال سیاہ بھی ہے۔ انھوں نے‬ ‫غالب کے شعر کو جدید لباس دینے کے جنوں میں قیامت ہی ڈھا‬


‫دی۔ روح غلب قبر میں پلسیٹے مار رہی ہو گی۔ دوبارہ زندگی‬ ‫ملنے کی صورت اس کوچے میں قدم رکھنے سے لرزہ بر اندام‬ ‫ہو گی۔ غالب کے ایک شعر کی جدت پسدی مالحظہ بلکہ مالخطہ‬ ‫فرمائیے‬ ‫ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پہ رونق‬ ‫وہ سمجھتے ہیں بیمار کا حال اچھا ہے‬ ‫میں ان کی جدید جسارت اور غالب کو عہد حاضر میں النے کی‬ ‫خواہش کو داد دوں گا لیکن اس بے سری تبدیلی کی داد نہیں‬ ‫دوں گا۔ اگر وہ غالب کی شاعری کو جدید لباس دینے کے معاملہ‬ ‫میں سنجیدہ ہیں تو اس کا ڈھنگ سیکھیں۔ اس ہنر کی آگہی کے‬ ‫لیے انھیں تبسم کاشمیری کے قدم لینا ہوں گے ورنہ اس ہنر‬ ‫سے بے بہرہ ہی رہیں گے۔۔ میں ہنرمند نہیں پھر بھی اس شعر‬ ‫کو عصر جدید کا لباس دینے کی حقیر سی سعی کرتا ہوں‬ ‫گر قبول اُفتد زہے ّ‬ ‫عزو شرف‬ ‫ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پہ رونق‬ ‫وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے‬ ‫آج کی نظم کا ایک نمونہ بطور ذائقہ مالحظہ ہو‬


‫مت لکھنا‬ ‫ہوا پر آنسو مت لکھنا‬ ‫فاختاؤں سے دشمنی‬ ‫اچھی نہیں ہوتی‬ ‫جو بھی سہی اشعار غالب کو جدید شعری لباس ملنا آج کا تقاضا‬ ‫ہے۔ اس سے تفہیمات غالب کے نئے نئے در وا ہوں گے۔‬ ‫قارئین کو ناصر زیدی کی اس سوچ اور خواہش کی داد دینی‬ ‫چاہیے۔ بالشبہ وہ اس داد وتحسین کے مستحق ہیں۔‬

‫پروف ریڈنگ‘ ادارے اور ناصر زیدی‬

‫ہمارے ہاں بڑی سیٹ بر براجمان یا کسی بھی منفی حوالہ سے‬


‫قبضہ کر لینے والے کو دانشور سمجھا جاتا ہے۔ ایک حوالہ‬ ‫سے یہ بات غلط بھی نہیں۔ حاسدین پیٹھ پیچھے اس کے قول‬ ‫وفعل اور طریقہ کار میں دمبی سٹی ہی نہیں‘ امریکن سنڈی بھی‬ ‫نکال کر دیکھاتے ہیں۔ اس کے آگے بے بکری بن جاتے ہیں۔‬ ‫اسے اس کی وہ وہ خوبیاں گنواتے ہیں‘ جن کا اس کے فرشتوں‬ ‫کو بھی علم نہیں ہوتا۔ سیٹ اس پر آگہی کے دروازے کھول دیتی‬ ‫ہے۔ یہاں تک کہ عہدی ارسطو اس کا پانی بھرتے ہیں۔ یقینا یہ‬ ‫اس کے عظیم سے دو چار انچ بڑھ کر دانشور ہونے کی دلیل‬ ‫ہوتی ہے۔ کتاب اور قلم سے رشتہ داری نہ ہوتے ہوئے بھی‬ ‫کتاب اور قلم والے انھیں زندگی کے پرچہ کا پہال اور آخری‬ ‫سوال ٹھہرا کر دم لیتے ہیں۔ ہر بات ان سے شروع ہو کر ان پر‬ ‫ختم ہو جاتی ہے۔ ان کا شخصی روپ فنا ہو کر دانش میں ڈھل‬ ‫جاتا ہے۔ میں ناہیں سبھ توں تک آتے آتے جان سے جانا پڑتا‬ ‫ہے۔ شخص سے دانش بننے تک ان کی گرہ سے کچھ نہیں جاتا۔‬ ‫یہ سب کرسی قریب لوگوں کے حسن کمال کا کرشمہ ہوتا ہے۔‬ ‫میرا موضوع یہ نکھری نکھری اور کھری کھری دانش نہیں۔‬ ‫جو معاملہ میری سوچ‘ اپروچ اور ضمیر کی دسترس سے باہر‬ ‫ہوتا ہے‘ اس میں ٹانگ اڑا کر اہل دانش میں نام لکھوانے کی‬ ‫حماقت نہیں کرتا۔ میں زیریں منزل کا شخص ہوں اور زیریں‬ ‫منزل ہی مجھے خوش آتی ہے۔ سراپا دانش کے چرنوں میں بیٹھ‬


‫کر دوسری یا چوتھی منزل پر جا بیٹھوں اور پھر وہ نیچھے‬ ‫سے پوڑی کھینچ لے اور میں وہاں بال راشن پانی باں باں کرتا‬ ‫رہوں اور پھر اپنی آواز کی بازگشت کو بھی ترس جاؤں۔ میرا ہی‬ ‫کوئ پیٹی بھرا مجھےغدار قوم و ملت قرار دے کر اوپر ہی‬ ‫میری گرن لمبی کروا دے۔ میں اس جنس کا گاہک نہیں۔‬ ‫میرا موقف یہ ہے کہ اپنی منزل اور اپنی اوقات کی آگہی سے‬ ‫مرحوم ہونا بدقسمتی کے مترادف ہے۔ مثال تاریخ کے طالب علم‬ ‫کو زیادہ سے جنگوں کی آگہی ہونی چاہیے۔ فاتحین کے نام‬ ‫اسے منہ زبانی یاد ہونا چاہیے تاہم عصر حاضر کی مقتدرہ قوت‬ ‫سے انھیں بیس تیس فٹ نیچے رکھے۔ ماضی کے فاتحین عصر‬ ‫حاضر کی مقتدرہ قوت سے کسی طرح بڑھ کر نہیں ہو سکتے۔‬ ‫مثال بش کی تلوار کے ایک ہی وار سے ستر دائیں اور دو کم‬ ‫اسی بائیں پھڑک کر وہ جا گرے۔ ڈھائ سو آج بھی آخری‬ ‫سانسوں پرہیں۔ یہ بش کیا تھا اوباما تلوار زنی میں اس سے‬ ‫بھی چار پانچ سو قدم آگے ہے۔ آج سکندر سا سورما زندہ ہوتا‬ ‫تو سالم و پرنام ہی سے کام نہ لیتا پانی میں ناک ڈبو کر مر‬ ‫جاتا۔‬ ‫ایڑھی چوٹی کا زور لگا کر بھی دنیا فتح نہ کر سکا۔ آخر بیاسی‬ ‫عالقہ کے کسی یودھا کے ہاتھوں زخمی ہو کر قوریں جا وڑیا۔‬


‫حضرت اوباما سرکار کو دیکھیے پوری دنیا کے سکندر فرشی‬ ‫سالم پیش کرتے ہیں۔ وہ پھر بھی خوش نہیں۔ اسے دنیا کا کوئ‬ ‫چلتا پھرتا اچھا نہیں لگتا۔ اس کی پہلی اور آخری خواہش یہی‬ ‫ہے کہ ہر ٹانگ سے اوباما اوباما کے بے بس اور بے کس‬ ‫آوازے نکلیں۔ دنیا کے تمام لوگ یک ٹنگے ہو کر کمائیں اور وہ‬ ‫یک ٹنگی کمائی کو بال تشکر ڈکارے۔‬ ‫بڑے بڑے حملوں سے تاریخ کے طالب علم آگاہ ہوں گے لیکن‬ ‫چھوٹی چھوٹی حملیوں سے متعلق کسی کو سرے سے آگہی ہی‬ ‫نہیں۔ جس سے پوچھو یہی بتائے گا محمود غزنوی نے‬ ‫ہندوستان پر سترہ حملے کیے۔ سب کو آخری اور کامیاب حملے‬ ‫کا پتا ہے اس سے پہلے سولہ حملوں میں اس کے ساتھ کیا ہوا‬ ‫کوئی نہیں جانتا۔ یہ بھی کسی کو معلوم نہیں کہ اس نے حملے‬ ‫کیوں کیے اور ہندوستان میں کس قسم کا اسالم پھیالیا۔ وہ اسالم‬ ‫پھیالنے کے لیے آیا یا کسی اور کام کے لیے آیا۔ محمود وایاز‬ ‫کے ایک صف میں کھڑے ہونے کا قصہ ہر کسی کی زبان پر‬ ‫ہے۔ کوئی اور بھی اس سے ملتے جلتے واقعات رونما ہوئے‬ ‫ہوں گے معلومات کا فقدان دیکھیے کوئی جانتا ہی نہیں۔ میں‬ ‫خوف زدہ رہتا ہوں کوئی مجھ ہی سے نہ پوچھ لے۔ مجھے بھی‬ ‫ایک صف والے والے واقعے کے عالوہ کچھ معلوم نہیں میں‬ ‫لون مرچ مصالحہ لگا کر اس واقعے کو بیان کر سکتا ہوں۔‬


‫گھر اور باہر کی جنگوں کے متعلق تھوڑی بہت غیر تاریخی‬ ‫لوگ بھی معلومات رکھتے ہیں۔ دانشور حضرات کے پاس ان‬ ‫سے بڑھ کر معلومات کا ذخیرہ ہونا چاہیے۔ دانشور حضرات‬ ‫پاس سے بھی جوڑ جمع کرکے لوگوں کو بتا دینتو لوگ مان لیں‬ ‫گے اور پھر وہ آپس میں شئیر بھی کریں گے۔ وقت کے ساتھ‬ ‫ساتھ ان کی نوعیت کے مطابق باتوں میں کہاٹا وادھا کرتے رہیں‬ ‫گے۔ آتے وقتوں میں سینہ بہ سینہ چلتی باتیں کتابی شکل اختیار‬ ‫کر لیں گی۔ تاریخ بھی تو یہی کچھ ہے۔ جو بھی سہی تاریخ کے‬ ‫دانشور کے پاس ایک عام آدمی سے زیادہ معلومات ہونی چاہیں۔‬ ‫میں عام آدمی ہوں تاریخی جنگوں کے متعلق زیادہ نہیں جانتا۔‬ ‫اس کے باوجود یہ بھی جانتا ہوں ایک راجہ جنگ بھی ہے۔‬ ‫کسی زمانے میں بڑی زبردست والیت تھی۔ ایک دن بیگم صاحبہ‬ ‫نے گوشت النے کا حکم دیا۔ میں گوبھی کو خوب صورت پھول‬ ‫سمجھتے ہوئے لے آیا۔ وہ پھولوں کو پسند کرتی ہے۔ سوچ رہا‬ ‫تھا کہ خوش ہو گی لیکن خوش ہونے کی بجاءے وہ بپھر گئ۔‬ ‫کوئ مورخ اس جنگ کو نہیں جانتا۔ اس حوالہ سے میں مورخ‬ ‫سے دو قدم آگے ہوں۔ یہ تو فقط ایک جنگ ہے میں ایسی‬ ‫بیسیوں جنگوں سے آگاہ ہوں۔ اکثر سوچتا ہوں لکھ کر مورخ‬ ‫ہونے کا اعزاز حاصل کر لوں۔‬


‫کتنی ستم کی بات ہے کہ سب بادشاہ دمحم شاہ رنگیلے کی موج‬ ‫مستیوں کا ہر کوئ چٹخارے لے لے کر تذکرہ کرتا ہے لیکن‬ ‫فرخ سیر کا کوئ نام نہیں لیتا جو دن رات نشے میں غرق رہتا‬ ‫تھا۔ روپ کنور کے ساتھ ادھر ادھر اور کبھی نالیوں میں گرا پڑا‬ ‫ملتا۔ ادھر تو مورخ کی نظر نہیں گئ۔ ہر مورخ کے ہاں بہادر‬ ‫شاہ ظفر کا ذکر ملتا ہے جیسے وہ اکیال شاعر بادشاہ تھا۔ شاہ‬ ‫عالم ثانی جو آفتاب تخلص کرتا تھا کمال کا شاعر تھا۔ وہ تو وہ‬ ‫جہاندار بھی کا شاعر تھا۔‬ ‫آج ایک صاحب فرما رہے تھے اورنگ زیب عالمگیر نے ناسخ‬ ‫کے کالم کو مدون کیا۔ اورنگ زیب عالمگیر شروع شروع میں‬ ‫مدن کا ذوق تھا۔ میں نے اپنا رعب جتانے کے لیے کہا حضرت‬ ‫یہ نسخہ انھیں وراثت میں مال۔ اصل کام تو بابر نے کیا تھا۔‬ ‫انھوں نے گھورتے ہوئے کہا جناب میں تو ڈاکٹر اورنگ زیب‬ ‫عالگیر کی بات کر رہا ہوں۔ میں نے خفت مٹانے کے لیے کہا‬ ‫اچھا تو بادشاہی چھوڑ کر پروفیسر ہو گیا ہے۔ بولے وہ ‪٧١٧١‬‬ ‫میں مر گیا تھا۔ چاہیے تو تھا میری جہالت کے پیش نظر بات کو‬ ‫ٹھپ کر دیتے اور اپنی دانش کا مجھ پر رعب نہ ڈالتے۔ میں نے‬ ‫غصے میں کہا میں نے اسے ‪ ٧١٧١‬میں مارا تھا؟‬ ‫ناسخ کا دیوان اسی نے مرتب کیا تھا۔ میری طرف سے اسے‬


‫طے سمجھو اور اپنی کم علمی کی وجہ سے میرے ساتھ بحث‬ ‫نہ کرو۔‬ ‫اہل دانش کیا‘ اشاعتی ادارے بھی اصل آگہی سے دور ہیں۔ اخبار‬ ‫ہو کہ کوئ ادبی یا غیر ادبی پرچہ‘ یہاں تک کہ حساس کتب بھی‬ ‫پروف ریڈنگ کی غلطیوں سے مبرا نہیں ہیں۔ اداروں نے‬ ‫باقاعدہ پروف ریڈر رکھے ہوئے ہیں۔ پھر بھی مطبوعہ تحریریں‬ ‫اس قباحت سے پاک صاف نہیں ہو پائیں۔ پروف ریڈنگ بڑی ذمہ‬ ‫داری کا کام ہے اس لیے اس معاملے کو سنجیدہ لیا جائے۔ میں‬ ‫نے کچھ نہایت ذمہ دار لوگوں سے بات بھی کی۔ کسی نے مثبت‬ ‫جواب نہیں دیا۔ ہر کسی نے نے کہا کچھ بھی کر لو پروف کی‬ ‫غلطی رہ ہی جاتی ہے۔ ایک صاحب نے کہا یہ اس وقت تک ہوتا‬ ‫رہے گا جب تک پروف ریڈرنگ کے لیے کوئی مشین تیار نہیں‬ ‫ہو جاتی غلطیوں کا سیاپا ختم نہیں ہو گا۔ مجھے حیرت ہوتی ہے‬ ‫ناک نیچے؛ اوپر بھی سمجھ سکتے ہیں بیٹھا کمال کا پروف‬ ‫ریڈر جو اعزازی کام کرنے کے لیے بھی تیار ہے‘ انھیں نظر‬ ‫نہیں آتا۔ کم علمی اور معلومات کی کمی ہمیں لے ڈوبی ہے۔ ہنر‬ ‫کی ناقدری اور بے قدری ہی عمومی دانش کو لے ڈوبی ہے۔ جو‬ ‫قومیں ہنر اور دانش کی قدر کرتی ہیں وہی ترقی کا منہ دیکھتی‬ ‫ہیں۔ اقتداری دانش اور ہنر الگ سے چیز ہے‘ یہ تو عمومی‬ ‫دانش و ہنر سے تعلق کرتی بات ہے۔‬


‫عمومی دانش و ہنر کی عزت اور قدرافزائی کرنا اداروں کا کام‬ ‫ہے۔ روزنامہ پاکستان الہور بڑے روزناموں میں شمار ہوتا ہے‬ ‫لیکن اپنے ہاں موجود ایک عظیم ہنرمند کا اسے پتا ہی نہیں۔‬ ‫بالشبہ یہ بڑے دکھ اور افسوس کی بات ہے۔ اسے آج تک معلوم‬ ‫نہیں ہو سکا کہ ناصر زیدی شاعر اور کالم نگار سے بڑھ کر‬ ‫سچے سچے اور کھرے پروف ریڈر ہیں۔ یہی نہیں دیالو بھی‬ ‫ہیں۔ احباب کے لیے پروف ریڈنگ کی خدمات اعزازی طور پر‬ ‫انجام دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ معاملہ بدقسمتی اور المیہ کی حد‬ ‫تک ہے کہ ہنر کے مطابق کام دستیاب نہیں۔ اگر متعلقہ ہنر اور‬ ‫دانش کے مطابق لوگوں کو کام دستیاب ہو تو ترقی کے دروازے‬ ‫کھل سکتے ہیں۔ افسوس روزنامہ پاکستان الہور والے ناصر‬ ‫زیدی کے اس ہنر سے بےبہرہ ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ وہ ان‬ ‫سے ان کے پرفیکٹ ہنر کا کام لیں۔ کالم نگاری کے لیے اپنے‬ ‫کسی پروف ریڈر کو تالش لیں۔ ہو سکتا ہے وہ موصوف سے‬ ‫کہیں بڑھ کر اور بہتر خدمت انجام دے۔‬

‫دمہ گذیدہ دفتر شاہی اور بیمار بابا‬


‫یہاں ایک بابا پہلے کئ دنوں اور اب کئ مہنوں سے بیمار چال‬ ‫آتا ہے۔ حرام ہے جو مرنے کا نام لے رہا ہو۔ اگرچہ وہ لمبی‬ ‫چوڑی عمر کا نہیں۔ یہی کوئ ساٹھ باٹھ کا ہو گا۔ عصری حاالت‬ ‫اور خاندانی ضروریات کے پیش نظر اب تک اسے مر جانا‬ ‫چاہیے تھا۔ هللا جانے کس مٹی سے اٹھا ہے۔ بڑے بڑے پھنے‬ ‫خان بابے دیکھے ہیں‘ بیماری کے ایک ہی جھٹکے سے اناللله‬ ‫ہو گیے۔ ان کے اٹھنے سے گھر والوں کی بےجا ڈاکٹروں کے‬ ‫پاس آنیاں جانیاں ختم ہو گیں۔ گھر والی اور اوالد خوشی سے‬ ‫بابے کی بیماری کی فٹیک برداشت کر نہیں رہے تھے۔ دنیاداری‬ ‫بھی آخر کوئی چیز ہوتی ہے۔‬ ‫ہمارے ہمسائے میں ایک مائی تھی اور کپتی کے نام سے پورے‬ ‫عالقہ میں شہرہ رکھتی تھی۔ اس کا میاں شریف آدمی اور بال کا‬ ‫موقع شناس تھا۔ بیماری کے پہلے ہی جھٹکے میں وہ گیا۔ مائ‬ ‫بڑی دیالو تھی بڑھاپے میں بھی دیا کے بلند مقام پر فائز تھی۔‬ ‫کوئی نہیں کہتا تھا کہ اسے بھی کبھی موت آئے گی۔ فرشتہ اجل‬ ‫بھی اس کے قریب آنے سے لرزتا ہو گا۔ ہاں فیض کی حصولی‬ ‫کے لیے اسے کبھی معمانت نہیں رہی ہو گی۔ بیمار پڑی؛ اہل‬ ‫ذوق تو اہل ذوق‘ اس کا چھوٹا بیٹا پوری دیانتت داری سے‬


‫اسے ڈاکٹروں کے پاس لیا پھرا تاہم چند دن ہی چلی اور اہل قلب‬ ‫و نظر کے لیے پچھتاوا چھوڑ گئ۔ اس کی بڑی بہو بڑی روئی۔‬ ‫لوگوں کو ساس کے ساتھ اس کی مخلصی کا یقین ہو گیا۔ جو‬ ‫بھی سہی میں اس بابے کی کرنی کا معتقد ضرور ہو گیا جس‬ ‫کے تعویزوں نے بڑی بہو کو یہ دن دکھایا ورنہ وہ فرشتہ اجل‬ ‫کی گرفت میں آنے والی مائ ہی نہ تھی۔‬ ‫خدا معلوم یہ ساٹھ باٹھ سالہ بابا کس قسم کا ہے جسے اتنی‬ ‫کرنی والے بابے کے تعویزوں نے بھی کچھ نہیں کیا۔ باچیاں‬ ‫نکلی پڑی ہیں اور حد درجہ کی کمزوری وارد ہو چکی ہے‘ اس‬ ‫کے باوجود مرنے کا نام نہیں لے رہا۔ بعید از قیاس نہیں کہ‬ ‫اسے زندگی لڑ گئی ہو۔ عین ممکن ہے کہ خضر آب حیات کے‬ ‫دوچار گھونٹ عطا کر گیے ہوں۔ دیوتاؤں سے بھی اس کا بگارڑ‬ ‫نہیں۔ ہو سکتا ہے کوئی دیوتا بصد مشقت نکالے گیے امرت میں‬ ‫سے دو گھونٹ چپکے سے پال گیا ہو۔‬ ‫پرانا اور تجربہ کار ہوتے ہوئے نہیں سمجھ پا رہا کہ کتنوں کا‬ ‫مستقبل خراب کر رہا ہے۔۔ اس کے مرنے سے بڑا کاروبار وسیع‬ ‫کر سکتا ہے۔ چھوٹے کی تین جوان بیٹیاں‘ جن کی اب شادی ہو‬ ‫جانا چاہیے جبکہ منجھال اپنا بیٹا دوبئ بھیجنا چاہتا ہے۔ اسے‬ ‫باہر مفت تو نہیں ببھجا جا سکتا‘ دام لگتے ہیں۔ یہی صورت حال‬


‫اس کی لڑکیوں کی ہے۔ کئی خاندانوں کی ترقی خوشحالی اور‬ ‫آسؤدگی بابے کی موت سے وابستہ ہے۔ اتنی موٹی اور واضح‬ ‫بات بابے کی سمجھ میں نہیں آ رہی۔ بیمار اور الغر زندگی سے‬ ‫برابر علیک سلیک بڑھائے چال جا رہا ہے۔‬ ‫ایک ہفتہ پہلے میری اس سے بستر حیات پر مالقات ہوئی۔ بچے‬ ‫پرامید نگاہوں سے اس کی آؤبھگت کر رہے تھے۔ مجھے دیکھ‬ ‫کر بڑے خوش ہوئے۔ بابا چلتے پھرتے وقتوں میں میرے ملنے‬ ‫والوں میں تھا۔ بچے اس کے میرے تعلقات سے واقف تھے۔‬ ‫انہوں نے مجھے امید بھری نظروں سے دیکھا اور اندر چلے‬ ‫گیے۔ ان کا خیال تھا کہ میں ان کے ڈھیٹ اور جینے پر مصر‬ ‫بابے کو سمجھاؤں گا۔ وہ کیا جانیں کہ ان کا بابا کتنا ضدی ہے۔‬ ‫میں نے پوچھا یار تم نے رشوت کی کمائ سے اتنی جائیداد‬ ‫کیوں بنائی۔ مرنے والے ہو هللا کو جواب تو تمہیں ہی دینا پڑے‬ ‫گا۔ جواب میں کہنے لگا مریں میرے دشمن‘ میں کیوں مروں۔‬ ‫اکیلے میں نے تھوڑی بنائی ہے ساری دنیا اسی طرح جائدایں‬ ‫اور بینک بیلنس بناتی ہے۔ اتنے لوگوں کے لیے جہنم میں جگہ‬ ‫کب ہو گی۔ میں وہاں جا کر بھی قبضہ گروپ کا لیڈر ہوں گا۔‬ ‫ٹہوہر میں گزاری ہے‘ فکر نہ کرو وہاں بھی ٹہوہر کی گززے‬ ‫گی۔ بیشک هللا بڑا بےنیاز ہے۔ میں نے کہا یار یہ جائداد اپنے‬ ‫جیتے جی ان میں تقسیم کر دو۔ کیوں تقسیم کر دوں۔ جائیداد‬


‫میری ہے کسی کو دوں نہ دوں میری مرضی۔‬ ‫اگر میں نے تقسیم کر دی تو ان میں سے کسی نے پوچھنا تک‬ ‫نہیں۔ گھر سے باہر نکال دیں گے۔ اس کی بات میں دم بھی تھا‬ ‫اور خم بھی۔ میں یہ اندازہ نہیں کر سکا کہ ان میں زیادہ کیا تھا۔‬ ‫اس کے پاس میں قریبا بیس پچیس منٹ اس خوف کے ساتھ‬ ‫بیٹھا رہا کہ کہیں یہ نہ کہہ دے کہ تم بھی دو چار سال کے ہیر‬ ‫پھیر سے میرے ہم عمر ہو ابھی مرے کیوں نہیں۔ شاید اس لیے‬ ‫نہ بوال کہ میرے پاس ہے ہی کیا۔ زندہ ہوں کچھ ناکچھ تو التا‬ ‫ہوں۔ اور کچھ نہیں تو تھیال برداری سے تو جڑا ہوا ہوں۔ دوسرا‬ ‫اور کوئی اتنی بےعزتی کیوں کراے گا۔ شوہر کا بےعزتی کرائی‬ ‫کے لیے پہلے سوال کی طرح بہرطور الزمی ہے۔‬ ‫اب اس صورتحال کے تحت میں کیا عرض کر سکتا ہوں تاہم‬ ‫مجھے بڈھے کی اوالد میں کمی اور خرابی نظر آئ۔ جو خود‬ ‫محنت اور مشقت کرنے کی بجائے اوروں کی کمائی پر مستقبل‬ ‫سنوارنے کی آشا کرنے والے زندگی میں ناکام رہتے ہیں۔ یہ اور‬ ‫دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک بابے وغیرہ دوسری دفتر شاہی‬ ‫وغیرہ۔ ثانی الذکر کو اوروں میں شمار نہ کریں۔ سائلین سے‬ ‫وصولیاں وغیرہ دفتری لوگوں کا اصولی استحقاق ہوتا ہے۔‬ ‫پڑھائی لکھائی اور نوکری کی حصولی پر خرچہ کرکے اگر بہت‬


‫یا بہت سے بڑھ کر وصوال نہ گیا تو کیا فائدہ‬‫بابے کے اپنے نما اپنے خود کو پنجاب سرونٹس ہاؤسنگ‬ ‫فاؤنڈیشن والے سمجھتے ہیں جو سراپا دیسی گھی کی کڑاہی‬ ‫میں ہیں۔ کملوں کو اتنی بات سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ سرکاری‬ ‫لٹیرے ہیں۔ انہیں تو پوچھ کرنے والوں کا اشیرباد حاصل ہے۔‬ ‫دوسرا وہ لوگوں کا کام کرتے ہیں۔ تیسری بڑی بات یہ کہ وہ تو‬ ‫بھرتی ہی لوٹ مچانے کے لیے ہوئے ہیں۔ لوٹ سیل تو ان کے‬ ‫فرائض منصبی میں داخل ہے۔‬ ‫مانتا ہوں بابے کا مال بھی لوٹ کا ہے لیکن وہ مال تو ہے اور‬ ‫مال بھال کون کسی کو دیتا ہے۔ گچی پر ناخن آئے تو ہی کھیسہ‬ ‫ڈھیال ہو سکتا ہے۔ کملے بابے کو کسی پھسنی میں پھاسائیں‘‬ ‫خود ہی جڑے گا۔ مجھے بابے کے اپنوں پر افسوس ہوتا ہے۔‬ ‫بیمار بابا ان سے برداشت نہیں ہو رہا۔ بڑے ہی دکھ اور افسوس‬ ‫کی بات ہے۔ پاکستان کو بنے ایک صدی ناسہی کچھ ہی سالوں‬ ‫بعد ہو جائے گی‘ بیمار الغر اور دمہ گزیدہ دفتر اور افسر شاہی‬ ‫سے کام چل رہا ہے اور خوب چل رہا ہے۔ انہیں اپنے بیمار‬ ‫الغر‘ دمہ گرفتہ نہیں‘ بوڑھے سے کام چالتے ہوئے مری پڑتی‬ ‫ہے۔ بیمار الغر اور دمہ گذیدہ دفتر اور افسر شاہی کے مرنے‬ ‫کے دور تک آثار نہیں۔ سچی کہوں گا چاہے بڈھے کے گھر‬


‫والوں کو غصہ ہی لگے‘ بابے کے مرنے کے مجھے دور تک‬ ‫آثار نظر نہیں آئے۔ ان کنبوں کا مستقبل اسی طرح تذبذب کی‬ ‫صلیب پر لٹکا رہے گا اور یہ میں پورے یقین کے ساتھ کہہ رہا‬ ‫ہوں۔‬

‫غیرملکی بداطواری دفتری اخالقیات اور برفی کی چاٹ‬

‫میرا بیٹا ڈاکٹر سید کنور عباس اول تا آخر پاکستانی ہے۔‬ ‫پاکسستان کی محبت اس کے دل و دماغ میں رچی بسی ہوئی ہے‬ ‫تاہم میری طرح اس میں ایک کتی عادت موجود ہے۔ دشمن یہاں‬ ‫تک کہ غیر مسلم کی اچھی عادت اور احسن رویے کی اس کی‬ ‫پیٹھ پیچھے بھی تعریف کرتا ہے۔ یہ طور اور انداز ہمارے‬ ‫عمومی خصائل سے قطعی ہٹ کر ہے۔ ہم زیادہ تر اپنی اس کے‬ ‫بعد موجودہ صاحب اقتدار طبقے کی تعریف کرتے ہیں۔ ماضی‬ ‫قریب کے شاہوں کو قطب قریب جبکہ ماضی بعید کے شاہوں کو‬ ‫نبی نما قرار دینے میں منٹ بھی نہیں لگاتے۔ ہمیں ان کی‬


‫ناانصافی اور بددیانتی بھی وقت کی ضرورت سمجھ میں آتی ہے۔‬ ‫ان کی نندا کرنے واال مسلمانی کھو بیھٹتا ہے اور واجب القتل‬ ‫قرار پاتا ہے۔ میں دائرہ اسالم سے خارج ہونے کا کوئی ارادہ‬ ‫نہیں رکھتا اس لیے اس نظریے کی نفی نہیں کرتا۔ ہاں ایک‬ ‫مسلم غیر ملک اسٹریلیا کے اپنے بیٹے کے حوالہ سے‘ جو ان‬ ‫دنوں وہاں اقامت رکھتا ہے‘ کی پست اخالقی رویے کی مذمت‬ ‫کرتے ہوئے‘ عرض پرداز ہوں۔ کتنے بداطوار لوگ ہیں وہ‬ ‫ہمارے ہاں ایسی بداخالقی اور بداطواری کی دھونڈے سے بھی‬ ‫مٹال نہیں ملتی۔‬ ‫اس کی بیگم مارکیٹ میں کہیں اپنا پرس کھو بیٹھی۔ پرس میں‬ ‫ضروری کاغذات کے عالوہ معقول پیسے بھی تھے۔ سخت‬ ‫پریشان تھی۔ ٹھیک ایک گھنٹے کے بعد ایک پولیس مین آیا اور‬ ‫سب کچھ واپس کر گیا۔ بس جاتے ہوئے اس نے ایک رجسٹر پر‬ ‫دستخط کروائےجس میں پرس میں موجود اشیاء کا اندراج تھا۔‬ ‫رخصت ہوتے وقت مسکراتےہوئےآل دی بیسٹ کہنا نہ بھوال۔ ہم‬ ‫اخالقی حوالہ سے اتنے گیے گزرے نہیں ہیں۔ ابھی ہم میں‬ ‫اخالقیات موجود ہے۔ میں قصور سے للیانی گیا۔ واپسی پر ویگن‬ ‫کے دروازے سے سیٹ تک میری شلوار کی جیب پر کسی نے‬ ‫ہاتھ دیکھا دیا۔۔ قدرتی ایک دوسری جیب میں پچاس روپے‬ ‫موجود تھے جو میں کرایہ کے لیے دست سوال ہونے سے بچ‬


‫گیا۔ کچھ ہی دنوں بعد بیرنگ لفافہ سے کاغذات مع ضروری‬ ‫نصیحت مل گیے۔‬ ‫میرے بیٹے کا کہنا ہے کہ کسی کام کے لیے کسی دفتر میں بار‬ ‫بار کیا ایک بار جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ قانون اور سماجی‬ ‫رویت شکنی کا تصور تک موجود نہیں۔ کتنا بے لطف بےمزا‬ ‫اور بے ذائقہ سا ملک ہے۔ آوا جاوی کے بغیر انجام پانے والے‬ ‫امور اہمیت کھو بیٹھتے ہیں۔ جب تک دو چار جوتے نہ ٹوٹیں‬ ‫اور جیب ہولی نہ ہو‘ وہ کام بھی بھال کوئ کام ہوئے؟ہمارے ہاں‬ ‫کوئ ایک دفتر نہیں تقریبا سارے دفتر اخالق کے بلند درجے پر‬ ‫فائز ہیں۔ مک مکا چائے پانی اور لفافہ بازی پورے عروج پر‬ ‫ہے۔‬ ‫میں عصر حاضر کے پاکستان کا سچا اور پکا باشندہ ہوں میری‬ ‫اتنی اوقات اور مجال کہاں جو دفتر شاہی کی گردن پر لفظوں کا‬ ‫انگوٹھا رکھوں۔ میں تو ان کی اعلی اخالقی روایات پر انگلی‬ ‫بھی نہیں رکھ سکتا۔ ہر عالقے کے اپنے اصول اوراخالقی‬ ‫ضابطے ہوتے ہیں۔ دوسرا ہر عہد اپنے حاالت اور ضروریات‬ ‫کے مطابق رویات تشکیل دیتا ہے۔ میرے ابے کا دور انگریز‬ ‫دشمن تھا تبھی تو وہ مسلم لیگ کا پیٹھو تھا۔ بےکار میں وقت‬ ‫ضائع کرتا رہا۔ ورثہ میں بھوک ننگ چھوڑ گیا۔ بڑی بڑی کہانیاں‬


‫سناتا تھا اور سمجھتا تھا ان لوگوں نے بڑا معرکہ مارا ہے۔ ہم‬ ‫ان سے بےوقوف نہیں ہیں‘ پچھلی صفوں میں رہ کر چوپڑی‬ ‫کھاتے ہیں۔ دانشمندی کا تقاضا بھی یہی ہے۔ میرے ابے کے‬ ‫دور میں بھی اس اعلی اخالقی ضابطے کے حامل لوگ موجود‬ ‫تھے۔ چوپڑی سے ان کے منہ اور کھیسے بھرے رہتے تھے۔‬ ‫اتنا چھوڑ گیے کہ آج بھی ان کی نسلیں موج میں ہیں۔ ان کے‬ ‫طہارت کدے بھی حسن واخالق کے بلند مرتبے پر فائز ہیں۔‬ ‫میں عصر دوراں کی دفتر شاہی خصوصا کلرک بادشاہ کا ہتھ‬ ‫بدھا خادم ہوں۔ میں کیا بڑے بڑے پھنے خاں ان کے ڈیروں پر‬ ‫منمناتے‘ پانی بھرتے اور نذر نیاز پیش کرتے ددیکھے گیے‬ ‫ہیں۔ جو ان کی بادشاہی و خدائ کے مرتد اور رائندہ ہیں یا‬ ‫حاضری سے اجتناب برتتے ہیں‘ الکھ درخواستیں رجسڑڈ ڈاک یا‬ ‫ای میل کرتے رہیں نامراد رہتے ہیں۔ درخواست یا ای میل افسر‬ ‫کے ہاتھ میں جائے گی تو ہی کام ہو گا۔‬ ‫زیادہ تر ان کے افسر سے ہاتھ رلے ہوتے ہہں۔ میں یہ ہوا میں‬ ‫نہیں چھوڑ رہا۔ میں نے اپنے ایم فل االؤنس کے سلسلے میں‬ ‫پہلی درخواست اکیس اکتوبر انیس سو ستانویں کو گزاری اور‬ ‫آخری گیارہ نومبر بیس سو تیرہ کو سیکٹریری ہاہر ایجوکیشن‬ ‫پنجاب کے حضور گزاری۔ ان میں سے کسی درخواست کو‬


‫سیکٹریری صاحب سے مالقات کا شرف حاصل ہو جاتا تو‬ ‫االؤنس ملتا یا نہ ملتا جواب ضرور ملتا۔ جواب کو اس کے اصلی‬ ‫اور مستعمل معنوں میں لیں۔ جاؤ نہیں دیتے‘ تمہارا ایم فل عالمہ‬ ‫اقبال اوپن یونیورسٹی کا ہے جو اپنے ٹیوٹر سے بالمعاوضہ کام‬ ‫کرواتی ہے۔ ثبوت کے لیے اسے دور نہ جانا پڑتا۔ اسے میری‬ ‫یہی فائل سے اگست ‪ ٦٧٧٢‬میں کیے گیے کام کی عدم ادائیگی‬ ‫سے متعلق گزاری گئ بہت سی درخواستیں مل جاتیں۔‬ ‫درخواستوں کے جواب نہ دینے اور بابو کی فائل کے بیچھے‬ ‫زبردست حکمت موجود ہے۔ سائل کب تک درخواستیں گزارے گا‬ ‫آخر اسے آستانہ عالیہ میں حاضر ہونا ہی پڑے گا۔ مال تو خیر‬ ‫ملے گا ہی لیکن سائل کی میں میں کا سواد ہی اور ہے۔ اپنے‬ ‫سے کہیں بڑے گریڈ والے کا دو زانو بیٹھ کر باالتری اور‬ ‫بااختیاری کا اعتراف اسٹریلیا کی دفترشاہی کو کیا معلوم۔ وہ اس‬ ‫ترقی یافتہ دور میں بھی دور جہالت کی زندگی گزارتے ہیں۔ وہاں‬ ‫کے بابو اس قسم کی اعلی ظرفی اور اعلی اخالقی اقدار سے‬ ‫محروم ہیں۔ انھیں برفی کی بال دام چاٹ نہیں لگی۔‬ ‫اپنے پلے سے کھایا تو کیا کھایا۔ اپنے پلے سے برفی تو دور‬ ‫کی بات نان چھولے نہیں کھائے جا سکتے۔ انھیں فقط دو چار‬ ‫ہفتے پنجاب سرونٹس ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کے تقدس مآب دفتر‬


‫میں ال کر بیٹھا دیا جائے پوری سروس کی کمائ جیب لگ جائے‬ ‫گی۔ مہامنشی ہاؤس کے لوگ خانے خان بنے پھرتے ہیں یہاں‬ ‫ان کے بھی بقلم خود استاد تشریف رکھتے ہیں۔ یہ سب کرپشن‬ ‫نہیں‘ یہ تو باالئی ہے۔ آگ چڑھے دودھ پر ہئ باالئی آتی ہے۔‬ ‫سارا دن بیوی بچوں کو چھوڑ کر باالئی کے ڈھنگ اور نسخے‬ ‫تالشنا اور سوچنا ایسا آسان کام نہیں۔ باہر بیٹھ کر ٹکے ٹکے‬ ‫کی باتیں کرنا آسان ہے میدان میں اترنا آسان نہیں ہوتا۔ یہ‬ ‫بالشبہ بڑے عظیم اور پہنچے ہوئے لوگ ہیں۔ ان کی عظمت کو‬ ‫بڑے ادب اور احترام سے ست سالم اور پرنام ۔‬ ‫مہامنشی ہاؤس اور پنجاب سرونٹس ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کی پہنچ‬ ‫اور عزیزداری کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ عزت‬ ‫مآب واپڈا ان کا پانی بھرتا ہے۔ میں یہ تحریر اس سے پہلے چار‬ ‫مرتبہ ٹائپ کر چکا ہوں۔ جونہی سیف کرنے لگا بجلی چلی گئ‬ ‫اور اگلے ہی لمحے آگئی۔ پہلے تو میں اسے محض اتفاق‬ ‫سمجھا جب یہی دوسری تیسری اور پھر چوتھی بار ہوا تو‬ ‫مجھے اندازہ ہو گیا کہ واپڈا ہر دو متذکرہ محکمہ ہذا کو کتنا‬ ‫عزیز اور محترم رکھتا ہے۔‬ ‫میں وفاقی محتسب اور صوبائی محتسب کے حوالہ سے معامالت‬ ‫کے متعلق درخواستیں گزارنے واال تھا کہ خیال گزرا کیوں نہ‬


‫جاپان اردو نیٹ کے ذریعے اپنی آواز متعلقین تک ہپنچاؤں۔‬ ‫خدانخواستہ میں ان کے خالف کوئی شکایت کرنے واال نہیں تھا۔‬ ‫میں تو صرف اتنا عرض کرنا چاہتا تھا کہ جب جب کسی کی‬ ‫درخواست آئے اس کا جواب دے دیا جائے۔ کون سا پلے سے‬ ‫ڈاک خرچ دینا ہے۔ سرکاری کاغذ سرکاری لفافہ اور سرکاری‬ ‫ٹکٹیں لگنا ہیں۔ لکھنا صرف اتنا ہے باری پر آپ کے مسلے پر‬ ‫غور کیا جائے گا۔ اتنا بڑا صوبہ ہے باری آتے آتے‘ آئے گی نا۔‬ ‫باری کے انتظاری میں مفتا مر جائے گا اور معاملہ محض قصہء‬ ‫ماضی ہو کر رہ جائے گا۔ گویا سانپ بھی اپنی آئی مرے گا اور‬ ‫الٹھی بھی بچ جائے گی۔‬ ‫میاں شہباز شریف نے جس لگن اور محنت سے کام کیا ہے اس‬ ‫کی تعریف نہ کرنا سراسر زیادتی ہو گی۔ جہاں اتنے کام کیے ہیں‬ ‫وہاں ایک اور کام کردیں تو دعاؤں کا شمار نہیں رہے گا۔ دو‬ ‫چار مخیر حضرات بھی صلہء رحمی کے حوالہ سے یہ کام کر‬ ‫سکتے ہیں۔ میاں صاحب ایک محکمہ قائم کریں جو میر منشی‬ ‫گاہ کے بابو حضرات کی باالئی کا اہتمام کرے۔ سائل آ کر رقم‬ ‫بتائے یہ محکمہ ضروری پوچھ گچھ اور کنفرمشن کے بعد سائل‬ ‫کو مطلوبہ رقم فراہم کر دے یا پھر ضروری بارگینگ یعنی مک‬ ‫مکا کر لے۔ اسی طرح بجلی کے دونوں طرف بہت کچھ لکھا ہوتا‬ ‫ہے مزید صرف اتنا لکھ دیا جائے کہ لکھنے پڑھنے اور ٹائپ‬


‫کرنے والے حضرات ہم پر نہ رہیں‘ جو کریں اپنی ذمہ داری پر‬ ‫کریں۔‬ ‫لکھنے میں واپڈا آج سب کا پیو ثابت ہو رہا ہے۔ وہ انتہا درجے‬ ‫کے کنگالوں اور ان کے تھرڈ کالس سفارشیوں کو۔۔۔۔۔۔۔ پر‬ ‫لکھتے ہیں۔ سفارش کا دور گیا‘ اب مال چلتا ہے۔ ابھی ابھی‬ ‫اطالع ملی ہے کہ پرفارما پرموششن کا ریٹ چودہ ہزار روپے ہو‬ ‫گیا ہے۔ یہ بنیادی خرچہ ہے۔ تکمیل تک بقایا جات کے مطاابق‬ ‫دام اٹھیں گے اور جوتے گھسیں گے۔‬

‫انشورنس والے اور میں اور تو کا فلسفہ‬

‫دنیا ترقی کر رہی ہے‘ یہ مقولہ عام اور بزت سا ہو گیا ہے۔ ہر‬ ‫کوئ ترقی اور دودھ کی نہریں بہانے کی باتیں تو کرتا ہے لیکن‬ ‫آج تک کسی کو یہ بتانے کی کبھی توفیق نہیں ہوئ کہ ترقی کس‬ ‫چڑیا کا نام ہے۔ وہ رنگ روپ میں کیسی ہوتی ہے۔ اس کا سائز‬


‫کتنا ہوتا ہے۔ گولی ماریے ان باتوں کو‘ کوئ بس اتنا ہی بتا دے‬ ‫کہ وہ کس گلی کس محلے کس کوچے میں بانفس نفیس اقامت‬ ‫رکھتی ہے۔ دودھ کی نہر یا نہریں بہانے کے معاملہ کو چھوڑیے‬ ‫کیونکہ اس کا تعلق قیس المعروف مجنوں سے ہے۔ اب کون اس‬ ‫کی عشق گذیدہ ہڈیوں کو خراب کرے۔ امیدوار حضرات نے اسے‬ ‫بطور محارہ استعمال کیا تھا۔ محاورہ میں حقیقی معنی نہیں‬ ‫ہوتے اگر حقیقی معنی کود پڑیں تو محاورہ اسے قبولنے سے‬ ‫انکار کر دیتا ہے۔۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ محاورہ مہارت سے‬ ‫عالقہ رکھتا ہے۔ دودھ کی نہریں بہانے کا کبھی رواج نہیں رہا۔‬ ‫ہاں پانی کی نہریں کبھی دانستہ کبھی نادانستہ اور کبھی باوجوہ‬ ‫غفلت چھوڑ کر لوگوں کو ڈبو کر ثواب اور آبادی کم کرنے کا‬ ‫رجحان ضرور رہا ہے۔‬ ‫یہاں بجلی جاتی اور جاتی ہی ہے تاہم کبھی کبھار اپنے ہونے کا‬ ‫ثبوت بھی فراہم کرتی ہے اور یہ کوئ معولی بات نہیں۔ اگر وہ‬ ‫متواتر رہے تو اس کا قد اور مرتبہ صفر ہو کر رہ جائے گا۔‬ ‫ہمیں بجلی سے کوئی گلہ نہیں اور ناہی اس کے عالی مرتبے‬ ‫سے انکار۔ ہاں بجلی والوں سے ایک ناحق اور ناجائز سا گلہ‬ ‫ضرور ہے۔ ہمارے محلے کے ایک مرکزی مقام پر بجلی کے‬ ‫تاروں کی چول ذرا ڈھیلی ہے جو ہفتے میں کم از کم ایک بار‬ ‫ضرور اکھڑتی ہے جس کے سبب بجلی مہاراج کے ہوتے‬


‫اندھیرے کا راج ہوتا ہے۔ ہر بار ہر گھر سے سو سو روپے جمع‬ ‫کیے جاتے ہیں۔ بجلی والے آتے ہیں تھوڑا سا اڑا کر چلے‬ ‫جاتے ہیں۔ یہ ان کی مستقل آمدنی ہے۔ آج لوگ منتخب ممبر‬ ‫صاحب کے ہاں گیے۔ ممبر صاحب کے کاموں نے کافی بیزت‬ ‫کرکے الٹے قدموں واپسی کی راہ دکھائی۔ شکر ہے وہ خود نہیں‬ ‫ملے ورنہ دو چار پھٹر ضرور ہو جاتے۔‬ ‫لوگوں کا گلہ یہ تھا کہ ممبر صاحب نے تو دودھ کی نہریں بہا‬ ‫دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن یہاں تو پینے کے لیے پانی تک‬ ‫میسر نہیں۔ ایک صاحب نے بڑی پتے کی کہی‘ ممبر صاحب پاور‬ ‫میں ہیں محلے کے چھوٹے بڑوں کو بی آر بی پر لے جا کر‬ ‫ڈبکیاں دالئیں گے۔ اس کے بعد لوگ پانی کا نام تک بھول جائیں‬ ‫گے۔ میری رائے میں ہر چھوٹے بڑے کو بطور عبرت بجلی کے‬ ‫دو چار جھٹکے دے دیے جائیں۔ بجلی کی خطرناکی کے زیر اثر‬ ‫اٹھتے بیٹھتے ان کے حلق سے آوازے اٹھیں گے نو نو بجلی‬ ‫گو گو۔ ایک صاحب نے کہا متعلقہ الئن مین سے مک مکا کر لو‬ ‫اس طرح کچھ تو بچت ہو سکے گی۔ میں نے کہا یار ان کی ملیں‬ ‫تو نہیں چلتیں انہوں نے بھی تو یہیں سے کھانا ہے۔ تنخواہ میں‬ ‫بھنی مچھلی یا مرغے کی ٹانگیں تو نہیں کھائی جا سکتیں۔‬ ‫سنتے آئے ہیں زندہ الکھ کا مردہ سوا الکھ کا۔ زمانے کی ترقی‬


‫کے ساتھ ہی یہ مقولہ بھی بدل گیا ہے۔ اب صورت کچھ یوں ہے‬ ‫کہ مردہ الکھ کا زندہ سوا الکھ کا۔ یہ مقولہ اہل واپڈا تک محدود‬ ‫نہیں اس میں ساری دفتر خدائی آ جاتی ہے۔ زندہ جس طرح‬ ‫اندھیر مچاتا ہے مردہ تو اس نعمت عظمی سے دور رہتا ہے۔‬ ‫پنشن یا دیگر وصولیاں زندہ کی چند ماہ کی مار نہیں ہوتیں۔ کچھ‬ ‫زیادتیاں زندہ لوگوں کے ساتھ بھی ہوتی ہیں۔ مثال مالزم کی‬ ‫تنخواہ سے انشورنس کی جبری کٹوتی ہوتی ہے اور یہ معقول‬ ‫کٹوتی تا سروس ہوتی رہتی ہے۔ جب وہ ریٹائر ہوتا ہے اسے‬ ‫اس کی تنخواہ سے کی گئ کٹوتی میں سے ایک پائی تک نہیں‬ ‫دی جاتی۔ مجوزہ رقم کی ادائیگی اس کی موت سے مشروط‬ ‫ہوتی ہے یعنی وہ مرے گا تو ہی انشورنس کی رقم اسے نہیں‘‬ ‫اس کے گھر والوں کو ملے گی۔ گھر والے اس کی ریٹائرمنٹ‬ ‫تک تو اس کی موت نہیں چاہیں گے۔ وہ الکھ کے لیے سوا الکھ‬ ‫کی قربانی کیسے اور کیونکر گوارہ کریں گے۔ ہاں ریٹائرمنٹ‬ ‫کے بعد اس کی زندگی انہیں خوش نہیں آئے گی۔ گویا ریٹائرمنٹ‬ ‫تک پیدائی مالزم سوا الکھ کا رہتا ہے لیکن اس کے بعد الکھ کا‬ ‫رہ جاتا ہے جبکہ اس کا مرنا سوا الکھ کا ٹھہرتا ہے۔‬ ‫جیتے جی مرنے واال محروم گھر والوں کے لیے سہولتیں پیدا‬ ‫کرنے کے لیے کوشش کرتا ہے۔ مرنے کے بعد انشورنس والوں‬ ‫کو یاد دالنے اور مک مکا کرنے والے بیوہ اور یتیم بچے یاد آ‬


‫جاتے ہیں۔ وہ گھر والے جو زندگی میں اسے ضرورتوں کی‬ ‫صلیب پر لٹکائے رکھتے ہیں۔ مرنے کے بعد انہیں کبھی اس کی‬ ‫قبر پر دعا فاتحہ تک کہنا نصیب نہیں ہوتا۔ وہ صرف کاغذوں‬ ‫میں بطور خاوند یا باپ بادل نخواستہ تکلفا یاد رکھا جاتا ہے۔‬ ‫عین ممکن ہے کہ وہ بیٹی کے جہیز کی عدم دستیابی کے غم‬ ‫میں موت کے حوالے ہوا ہو۔ حق اور انصاف کا تقاضا یہی ہے‬ ‫کہ انشورنس والے جس کی تنخواہ سے جگا وصول کرتے ہیں‘‬ ‫ریٹائرمنٹ پر اس کی اپنی رقم جو اس سے وصول کی گئ ہوتی‬ ‫ہے اسے ادا کریں تاکہ بڑھاپے میں اس کے جیتے جی کسی کام‬ ‫آ سکے۔ کٹوتیاں کرنے واال کوئی بھی محکمہ ہو‘ لینے میں نر‬ ‫شیر ببر ہوتا ہے لیکن اس کی اپنی رقم دینے کے معاملہ میں‬ ‫اسے مرگی پڑ جاتی ہے۔ یہ معاملہ غور منٹ تک محدود نہیں‬ ‫حکومت خانہ بھی اس کی پیرو ہے۔ وصول تو پائی پائی کر لیتی‬ ‫ہے ضرورت پر کچھ طلب کر لو تو سماعت کے دروازے بند اور‬ ‫زبان کے دروازے کھل جاتے ہیں۔‬ ‫اصل حیرت اس بات پر ہے کہ آئیس کریم اور سوہن حلوا کھانے‬ ‫اور سو طرح کے مہنگے مشروب پینے والی زبان حنطل سے‬ ‫بڑھ کر کڑوی کیوں ہو جاتی ہے۔ زبان بھی نئے دور کی ہو گئی‬ ‫ہے اگلے زمانے میں زبان کہے پر اٹل رہتی تھی۔ ٹانگر اور‬ ‫مسی روٹی کی تاثیر اٹھ گئی ہے۔ آج گورمے کا چرچا ہے۔ نئی‬


‫نئی اشیا کو چھوڑ کر ٹانگر اور مرونذے کو کون پوچھتا ہے تب‬ ‫ہی تو زبان بھی سو طرح کی کرواٹیں لینے کی عادی ہو گئی‬ ‫ہے۔اگلے زمانے میں بکرے میں میں کیا کرتے تھے لیکن آج‬ ‫دفتروں میں سائل اور گھر پر شوہر نامدار میں میں کرتے نظر‬ ‫‪.‬آتے ہیں۔‬ ‫ویسے تحقیق کر دیکھیں زندگی میں‘ میں میں کا غلبہ رہا ہے۔‬ ‫گنتی کے چند لوگ تو تو کے مرتبے پر فائز ہو کر آج بھی‬ ‫احترام کے مستحق ٹھہرے ہیں۔ میں شریف کے حامل لوگ انہیں‬ ‫تسلیم نہیں کرتے۔ ان کی تو میں والوں سے عالقہ نہیں رکھتی۔‬ ‫اگر تو سے مراد میں والے ہوتے تو آج بھی خان خاناں ہوتے۔‬ ‫ان کی تو سے مراد هللا کی ذات گرامی ہے۔ آج تو تو کا نعرہ بلند‬ ‫کرکے بڑے لوگ خود میں کے درجے پر فائز ہو گیے ہیں۔ زہے‬ ‫افسوس شاہی تو تو ہر کسی کا نصیبا نہیں ٹھہرتی۔‬

‫تعلیم میر منشی ہاؤس اور میری ناچیز قاصری‬


‫آج مجھے ایک سیمنار میں حاضر ہونے کا اتفاق ہوا۔ بڑے بڑے‬ ‫عالم فاضل حضرات تشریف فرما تھے۔ اہل زر اور اہل اقتدار بھی‬ ‫جلوا فرما تھے۔ اس ذیل میں ہر اک اپنا واضع موقف رکھتا تھا۔‬ ‫آپ کا دل اور ضمیر چاہے ناچاہے‘ اصول یہ رہا ہے کہ ہر بڑے‬ ‫کی ہاں میں مالنا زندگی اورصحت کے لیے ضروری ہوتا ہے۔‬ ‫اگر سقراط ہاں میں ہاں مالتا تو زندگی بھر گھیو کرولیاں کرتا۔‬ ‫پاگل تھا' صدیوں سے چلے آتے اصول کی خالف ورزی کرتا‬ ‫رہتا۔ اسے الئن پر آنے کے مواقع دیے گئے۔ کمال تھا' مواقع‬ ‫ضائع کرتا رہا۔ نتیجہ کار کٹ کھانی ہی تھی اور پھر جان اور‬ ‫جہان سے گیا۔‬ ‫بابے دراصل قوم اور اہل لٹھ کے لیے جنجال ہی رہے ہیں۔ جب‬ ‫بولتے ہیں وکھی پرنے بولتے ہیں۔ جی میں آیا اسٹیج سے اٹھ‬ ‫کر سامعین میں بیٹھ جاؤں اور کچھ کہنے سے معذرت کر لوں۔‬ ‫پھر خود کو حوصلہ دیا کہ بڑے میاں شیر بنو شیر۔ ساری عمر‬ ‫سرخوں کو چاہا اور اب بڑھاپے میں پٹڑی سے اتر کر شیر کو‬ ‫بوڑھا اور بوسیدہ دل دے بیٹھے ہو' گیدڑ نہ بنو۔ سو پہاجی‘‬ ‫میں بیٹھا رہا۔ باری پر میری طلبی ہوئی۔۔ میں نے کہا بابا کہہ دو‬ ‫جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ میری باتیں سامعین نے پسند کیں۔ اہل‬ ‫جاہ پر کیا گزری ہو گی میں نہیں جانتا۔ میں نے دانستہ ان کی‬ ‫طرف دیکھا ہی نہیں۔ بوڑھا ہوں‘ گھورتی آنکھوں کا سیکا‬


‫برداشت نہیں کر سکتا۔‬ ‫تعلیم آگہی سے جڑی ہوئی ہے۔ حصول آگہی کی خواہش انسانی‬ ‫ہے؟ وہ‬ ‫فطرت میں شامل ہے دیتی ہے۔ بچہ کھلونے کیوں توڑتا ِ‬ ‫کھلونے کے متحرک ہونے کا راز جاننا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا جاننا‬ ‫ہے کہ آخر وہ کون سی چیز ہے جو کھلونے کو متحرک اور‬ ‫غیر متحرک بناتی ہے۔ اس حوالہ سے‘ گویا جاننا اس کا فطری‬ ‫حق ہے۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ پچے میں جستجو کا مادہ‬ ‫موجود ہے۔ ایک بہت بڑے عالم سے متعلق معروف ہے کہ وہ‬ ‫آخری سانسیں لے رہے تھے۔ کوئی مسلہ جاننے کے لیے انھوں‬ ‫نے کتاب طلب کی۔ انھیں کہا گیا آپ تو جا رہے ہیں اب اس کی‬ ‫کیا ضرورت ہے۔ انھوں نے جوابا کہا۔ کیا تم چاہتے ہو کہ میں‬ ‫‪.‬جاہل موت مروں۔‬ ‫اس کی مثبت دو عملی صورتیں ہیں۔ حضرت مہاتما بدھ جی‬ ‫شہزادے تھے ۔ مالی آسودگی تھی۔ ان کا گیان کے لیے دنیا کو‬ ‫تیاگنا معاش سے وابستہ نہ تھا۔ گیان ہاتھ لگا تو انھوں نے خود‬ ‫کو دنیا کے لیے وابستہ کر دیا۔ ان کی انسانیت کے لیے خدمات‬ ‫کو کسی بھی سطع پر نظر انداز کرنا بہت بڑی زیادتی ہو گی۔‬ ‫مارکونی نے بھی بال کسی معاشی حاجت کے لیے ریڈیو ایجاد‬ ‫کیا۔ یہ ایجاد آتے وقتوں میں بہت ساری ایجادات کا سبب بنی۔‬


‫دریافت ہر دو متذکرہ صاحبان کے لیے سب سے بڑی خوشی‬ ‫تھی۔ ان کی دریافت سے بال کسی تخصیص و امتیاز انسانیت کو‬ ‫فایدہ مال۔ تعلیم سے ہی یہ سب ہوا۔ تعلیم دراصل انسان کی‬ ‫شخصیت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ تعلیم اگر زندگی کے سلیقے میں‬ ‫تبدیلی نہیں التی تو اسے تعلیم کہنا بذات خود جہالت ہے۔ تعلیم‬ ‫ابوزر غفاری اور سلمان فارسی کے منصب پر فائز کرتی ہے۔‬ ‫تعلیم حاکم وقت کو آزاد کردہ غالم کو اس کے تقوے کی بنیاد پر‬ ‫سیدنا کہنا سکھاتی ہے۔‬ ‫تعلیم کے حصول کا ایک مقصد اور بھی رہا ہے۔ کمزور طبقے‬ ‫اپنے بچوں کو کلرک شپاہی وغیرہ کی مالزمت کے متمنی رہتے‬ ‫ہیں جبکہ صاحب حثیت طبقے اپنے بچوں کو افسر بنانے کے‬ ‫لیے بڑی سے بڑی درسگاہ میں جمع کراتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں‬ ‫کو کلرک یا افسر بنانا چاہتے۔ ان کے ذہن کے کسی گوشے میں‬ ‫اپنے بچے کو اعلی خصائل کا حامل انسان بنانے کی خواہش‬ ‫سرے سے موجود ہی نہیں ہوتی۔‬ ‫میر منشی ہاؤس میں‬ ‫خواہش اور توقع کے حوالہ اعلی شکشا منشی کا دفتر ہے۔ ہر‬ ‫کسی کو ان میں کے قدموں پر چلنا ہوتا ہے۔ خواہش اور توقع کا‬


‫مجموعہ اگر توقع اور خواہش پر پورا نہیں اترتا تو گال درست‬ ‫ہے۔ کلرک تو بہت بڑا آدمی ہوتا ہے نائب قاصد بھی خواہش اور‬ ‫توقع کے باالتر معیار پر فائز ہے۔ اگر وہ سب باالئ نہ التے ہوں‬ ‫تو گال کیا جا سکتا ہے۔ وہ معیاری رقم نہ التے ہوں تو ہی ان‬ ‫کی تعلیم پر انوسٹمنٹ کی گئ رقم حرام جائے گی۔ سائل کیا کر‬ ‫لے گا۔ عدالت جائے گا۔ وہاں خرچہ کرکے کوئی آرڈر الئے گا۔‬ ‫بعض معامالت چند ہزار سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ اب چند‬ ‫ہزار کے لیے ہر کوئ جھڑنے ہی میں عافیت سمجھے گا۔ میں‬ ‫سمجھتا ہوں یہ عزت مآب حضرات تعلیم کے مقاصد کے حصول‬ ‫میں کامیاب ترین لوگ ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے یہ بڑی‬ ‫ایمانداری سے تعلیمی مقاصد کا حق ادا کر رہے ہیں۔ ہم شاباش‬ ‫دینے کی بجائے شاواش دے رہے ہیں۔ ہمارا یہ رویہ تعلیم‬ ‫دشمنی کے مترادف ہے۔ جس کی جتنی مذمت کی جائے' کم ہے۔‬ ‫واپڈا والوں پر گال اور شکوہ کیا جاتا ہے بڑے ہی افسوس کی‬ ‫بات ہے۔ ہم انھیں ان پڑھ کیوں سمجھتے ہیں۔ دوچار سو یونٹ‬ ‫زائد ڈال کر وہ صارف سے پاکستان تو اپنے نام نہیں لکھوا‬ ‫رہے ہوتے۔ افسروں کی ضرورتیں اپنی جگہ دیگر مالزمین کی‬ ‫بھی ضرورتیں ہوتی ہیں۔ رشتہ دار دوست یار تو اصولی‬ ‫استحقاق رکھتے ہیں لیکن جیب تو دیگر کسٹمر ہی بھرتے ہیں۔‬ ‫اگر رشتہ دار اور دوست یار خوش نہ ہوئے تو تف ہے ایسی‬


‫نوکری پر۔ جیب میں باالئی نہ آئ تو تعلیم کا مقصد ہی عین غین‬ ‫ہو جاتا ہے۔‬ ‫مالزمین کو کوٹھیاں دینے کے لیے اسکیم شروع ہوئی۔ اسکیم‬ ‫بالشبہ اعلی جھانسہ دار ہے۔ مالزمت ختم ہونے پر پتہ چلتا ہے‬ ‫کہ مالزم کی تنخواہ سے ایک الکھ نو ہزار کٹوتی ہوئی ہے۔‬ ‫کوٹھی کے حصول کے لیے ساٹھ ستر الکھ مزید کی ضرورت‬ ‫ہوتی ہے۔ یتیم محکمہ سے متعلق مالزم دوچار زندگیوں میں‬ ‫بھی اتنی رقم ادا نہیں کر سکتا۔ ایک اردو یا پولیٹیکل ساءنس کا‬ ‫پروفیسر اتنی رقم چشم تصور میں بھی ادا نہیں کر سکتا۔ صاف‬ ‫ظاہر ہے کہ وہ اپنی رقم کی واپسی کا مطالبہ کرے گا۔ یہ آرٹس‬ ‫کے پروفیسر بھی کتنے سادہ یا احمق لوگ ہوتے ہیں۔ شاید‬ ‫انھیں اس شعبے کی تعلیم یافتگی پر شک ہوتا ہے۔ انھیں اپنی‬ ‫درخواست کی بازگشت تک سنائی نہیں دیتی۔ میں کہتا ہوں اگر‬ ‫مک مکا کے بغیر بازگشت سنائفی دینے لگی تو تعلیم اور‬ ‫مالزمت کی حصولی پرادا کی گئی رقم حرام ہو گئی۔‬ ‫سیمینار میں نصاب کے حوالہ سے عوامی نمائدگان سے بات‬ ‫کرنے کی بھی تجویز ہوئی۔ مانا عوامی نمائدگان میں اکثریت نے‬ ‫تعلیم پر خرچہ نہیں کیا لیکن وہ بھاری خرچہ کرکے ممبر بنے‬ ‫ہیں۔ یہ یقینا بڑی عجیب صورت ہو گی اگر وہ اس قسم کے‬


‫بےفضول کام پر پیداکار وقت صرف کریں گے۔ دوسرا یہ کام ان‬ ‫کا نہیں شکشا منشی صاحبان کا ہے جنھیں اپنی تعلیم سے البھ‬ ‫اٹھانے سے فرصت نہیں۔ تعلیم یافتہ مالزمین کے پاس مفتوں‬ ‫کے لیے ٹائم ہی کہاں ہے۔‬ ‫مجھے پنجابی کے یہ مصرعے بس یوں ہی یاد آ رہے ہیں بنین‬ ‫لین جانندے اوہ بنین لئے کے آندے پاندے اوہ پیندی نہیں الندے‬ ‫اوہ لہندی نہیں‬ ‫موجودہ لنکنی نظام کے حوالہ سے حصول تعلیم کا حاصل یہی‬ ‫رہے گا۔ ہاں بنین میں دینا‬ ‫پاؤ گے پوے گی الوو گے لوے گی‬ ‫یہ قرآن و سنت کے حوالہ سے قائم ہونے والے نظام حکومت‬ ‫سے ہی ممکن ہے۔ شہباز شریف کی محنت اور دیانتداری پر‬ ‫پورے پنجاب کو ناز ہے۔ کیا وہ میرمنشی گاہ واپڈا ہاؤس وغیرہ‬ ‫کا قبلہ درست کر سکیں گے میں سردست اس ذیل میں کچھ‬ ‫عرض کرنے سے قاصر ہوں۔ میری اس ناچیز قاصری کو‬ ‫معذرت سمجھیں۔ شکریہ‬


‫حقیقت اور چوہے کی عصری اہمیت ‘زندگی‬

‫زندگی بظاہر بڑی حسین دلفریب اور جازب نظر ہے اور ہے بھی‬ ‫لیکن اپنی اصل میں اس بڑی سے بڑھ کر پچیدہ اور مشکل گزار‬ ‫ہے۔ اسے کرنا تو بعد کی بات ہے پہلے اسے سمجھنے کی‬ ‫ضرورت ہے۔ اب سمجھنے کے لیے دو چار زندگیاں کہاں سے‬ ‫آئیں۔ ہزاروں سال سے انسان زمین پر رہ رہا ہے۔ تمیز و امتیاز‬ ‫کی دولت سے ماال مال ہوتے ہوئے بھی کنگال اور تہی دامن‬ ‫نظر آتا ہے۔ بعض اوقات کسی غلط فہمی کے زیر اثر غلط کو‬ ‫صحیح کہتا ہے لیکن زیادہ تر جانتے ہوئے کسی اللچ یا خوف‬ ‫کے تحت غلط کوعین سچ اور حق قرار دیتا ہے۔ اس کی دیکھا‬ ‫دیکھی دوسرے بھی غلط کو درست سمجھنے لگتے ہیں۔ اگر وہ‬ ‫نمبردار قسم کا بندہ ہے تو ایک وسیع حلقہ حق کا ساتھ چھوڑ‬ ‫کر ناحق کے چرنوں میں جا بیٹھتا ہے حاالنکہ اس ذیل میں ہر‬ ‫کسی کو خود سے غور کرنا چاہیے۔۔ دماغ اور ضمیر کی دولت‬ ‫ہر کسی کے پاس موجود ہوتی ہے۔ پیٹ شریف کے ہوتے اور‬ ‫اس سے سوچنے کے باعث دماغ اور ضمیر بےچارے دو نمبر‬ ‫ہو کر رہ جاتے ہیں۔ پیٹ کے سبب اتنا وقت ہی نہیں بچتا جو‬


‫دماغ اور ضمیر کی حال پکار سنی جائے یا ان کی جانب نادانستہ‬ ‫سہی‘ کان پھر جائیں۔ برے نتائج کو ہونی کا نام دے دیا جاتا ہے۔‬ ‫نمرود ساری عمر چھیتر کھاتا رہا لیکن مچھر کو قہر خداوندی‬ ‫کی بجائے ہونی قرار دیتا رہا۔‬ ‫پہلے میں بھی دفترشاہی کے بگڑے مزاج تیور اور اطوار کو‬ ‫ہونی سمجھ کر چپ کی بکل اوڑھنے کی سوچ رہا تھا۔ یہ کوئ‬ ‫آج کی بات ہے یہ تو سیکڑوں سال پرانا رویہ ہے۔ لوگ مٹھی‬ ‫گرم کرکے میرٹ کی سمت درست کر لیتے ہیں۔ جو گنڈ کے پکے‬ ‫ہوتے ہیں اول تا آخر میرٹ کے درجے پر فائز نہیں ہو پاتے۔ جو‬ ‫لوگ کاغذ قلم متحرک رکھتے ہیں متاثرین بھی انھیں درخواست‬ ‫باز ایسے ثقیل لقب سے ملقوب کرتے ہیں۔ وہ اس قسم کے بیان‬ ‫دفتر شاہی کی خوشنودی کے لیے داغتے ہیں۔ دوسرا ان کے‬ ‫پیسے پھسے ہوءے ہوتے ہیں اور دفترشاہی ان پر غصہ نکالتی‬ ‫ہے۔ وہ اپنا مال بچانے اور جس کام کے لیے مال دیا گیا ہوتا ہے‬ ‫اسے کسسی ناکسی طرح نکلوانے کی فکر میں ہوتے ہیں۔ دل‬ ‫میں وہ بھی درخواست باز کے ساتھ ہی ہوتے ہیں۔‬ ‫دل کو کون دیکھتا ہے لوگ حق اسے ہی سمجھتے ہیں جو زبان‬ ‫پر ہوتا ہے۔ ہم سب اہل کوفہ کو آج بھی برا بھال کہتے کہ انہوں‬ ‫نے حسین کا ساتھ نہ دیا۔ یہ کوئی نہیں بتاتا گورنر کوفہ نے‬


‫کس طرح خون سے گلیاں رنگ دیں۔ گورنر مورکھ کا سگا ماسڑ‬ ‫تھا۔ اسی طرح مولوی وچارے کا بھی ذکر آتا ہے۔ بڑے بڑے‬ ‫پھنے خان باٹی ٹیک گیے ان کا پیٹ کس طرح حسین کو کیوں‬ ‫حق پر مانتا۔ پیٹ اور سچائی دو الگ چیزیں ہیں۔‬ ‫میں اتنا بڑا جاہل ہوتے ہوئے جمہوریت اور امریکا بہادر کے‬ ‫خالف لکھتا رہا۔ مجھے اپنے لکھے پر ندامت ہوتی ہے۔ میں‬ ‫اتنی معمولی بات نہ سمجھ سکا کہ بادشاہ کا مستقل ہوتے ہوئے‬ ‫بھی پیٹ نہیں بھرتا۔ مرنے کے بعد بھی اس کا مقبرہ کئ کنال‬ ‫زمین گھرتا ہے۔ بادشاہ تو بادشاہ ہے اس کی بیگم کا مقبرہ‬ ‫بےحساب رقم ڈکار جاتا ہے۔ زندگی میں کیا کچھ ہضم کر جاتی‬ ‫ہو گی‘ مجھ سے جاہل کی سوچ میں بھی نہیں آ سکتا۔ بادشاہوں‬ ‫اور اس کے متعلقین کے گلچھرے اگر عموم کے سوچ میں‬ ‫آجائیں تو قیامت سے پہلے قیامت ہو جائے گی۔ عارضی اور‬ ‫مستقل کا معاملہ الگ سے ہے۔ مستتل کا مرتے دم تک پیٹ نہیں‬ ‫بھرتا اور آنکھیں تشنہ رہتی ہیں۔ یہی نہیں لوٹنے اور سمیٹنے‬ ‫کی اسے جلدی پڑی رہتی ہے۔ عارضی کے پاس تو مخصوص‬ ‫اور محدود مدت ہوتی ہے اس لیے تن مچانا غیر فطری نہیں۔‬ ‫جمہوریت والے تو چند سالوں کے لیے آتے ہیں اس لیے ان کا‬ ‫انھی پانا غیر فطری نہیں۔ وہ عوام کو کیا کریں‘ انہیں اپنی لوٹ‬ ‫مار سے فراغت ملے گی تو ہی عوام کے سیاپے پیٹیں گے۔‬


‫حاکم کبھی غلط نہیں ہوتا گویا ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں۔‬ ‫ہاں مات کھا کر سیٹ سے مرحوم ہونے واال کبھی درست ہو ہی‬ ‫نہیں سکتا۔ تمام ادارے بشمول عساکر‘ فاتح کے ساتھ ہوتے ہیں۔‬ ‫طاقت کے ساتھ سب چلتے ہیں۔ یہی اصول رہا ہے اور رہے گا۔‬ ‫اس کے خالف اٹھنے والے سر قلم ہوتے رہیں گے۔ نقطے کی‬ ‫بات یہ کہ ادارے شاہ کے بل پر کھاتے ہیں اور شاہ ان اداروں‬ ‫کے بل پر اندھیر مچاتا ہے۔ ناب قاصد سے شاہ تک ایک ہی‬ ‫زنجیر کی کڑیاں ہوتی ہیں۔ لہذا کسی چھوٹے کی اس سے بڑے‬ ‫کی شکایت کا فائدہ ہی کیا۔‬ ‫تاہم یہ طے ہے کائنات میں ضدین بھی کام کرتی ہیں۔ ہر کوئ‬ ‫کسی ناکسی چیز سے ضرور ڈرتا ہے۔ اپنے اپنے کام نکلوانے‬ ‫کے لیے تحقیقی عمل کا تیز ہونا ضروری ہے۔ ہر بااختیار اور‬ ‫شکار کی چیر پھاڑ کا ماہر میل‘ اپنی اور پرائ منہ متھے والی‬ ‫فیمیل سے ڈرتا ہے فیمیل چوہے سے ڈرتی ہے لہذا چوہے‬ ‫چھوڑنے سے کام نکل سکتے ہیں۔ برمحل حسب ضرورت اور‬ ‫ایکٹیو چوہا نہ چھوڑا گیا تو کام پہلے سے بھی بگڑ سکتا ہے۔‬ ‫حسین کی طرح قبلہ درست کرنے کی ضرورت نہیں۔ حسین ایک‬ ‫ہی تھا اور ہم حسین نہیں ہیں۔ ہر وقت معاملے کے حوالہ سے‬ ‫اپنے ساتھ دوچار چوہے ضرور رکھو اور یہ متعلقہ کی سرکاری‬


‫فیمیل کے دامن میں چھوڑو پھر دیکھو غائب سے کیا کیا نمودار‬ ‫ہوتا ہے۔ غیر سرکاری متعلقہ فیمیل کے دامن بے حیا میں بھی‬ ‫چھوڑا جا سکتا ہے۔‬ ‫گریڈ ‪ ٧١‬کے ایم فل االؤنس سے متعلقہ کلرک بادشاہ کو معافی‬ ‫کے کھاتا میں رکھیں وہ بڑے معصوم شریف دیانت دار اور راہ‬ ‫راست کے راہی ہیں۔ دونوں بیبیوں سے ان کا کوئی واسطہ نہیں۔‬ ‫وہ خود ہی سر چڑھتی ہیں اور چوتھائی سے زیادہ باالئی چٹ‬ ‫کر جاتی ہیں۔ ان سے قسم لے لو جو آج تک انہوں نے کبھی‬ ‫دعوت خورد و نوش کی دعوت دی ہو مگر حسین مہمان کی‬ ‫مہمانی کو بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کفران نعمت کے‬ ‫مترادف ہے۔‬ ‫ان پر فضول خرچی کا الزام قطعی غلط بےبنیاد اور معنویت سے‬ ‫تہی ہے۔ وہ پلے سے ایک اکنی تک خرچ نہیں کرتے۔ سگریٹ‬ ‫کے پنے میں بڑی احتیاط سے محفوظ کی گئ جاز کی سم میں‬ ‫باالئی سے بیلنس ڈلوا کر پییکج کرکے اپنی معزز غیر سرکاری‬ ‫خواتین سے چھپ چھپا کر کچھ ہی وقت کے لیے تو خوش‬ ‫طبعی اور گوارا خوش طبعی فرماتے ہیں۔ وہ کوئی اکیلے ہیں جو‬ ‫ان کی پیٹھ پیچھے ساتھ والے غلط سلط باتیں کرتے ہیں۔ چغلی‬ ‫بہت بری بیماری ہے۔ اسالم اس کی سخت مخالفت کرتا ہے۔‬


‫ساتھ والے کون سا ہل پر نہائے ہوئے ہیں۔ ٹھرک اور جنسی‬ ‫عشق بازی تو روٹین کا معاملہ ٹھہرا ہے۔ اس حمام میں حسب‬ ‫توفیق تقریبا سارے بےلباس ہیں ۔ ان کی بےلباسی میں بھی‬ ‫حسن سلیقہ اور کمال کا رکھ رکھاؤ پایا جاتا ہے۔ اس کی باذوق‬ ‫حضرات کو کھل کر داد دینی چاہیے۔‬ ‫میں نے یہ محض چوہا چھوڑا ہے اسے سچ نہ سمجھا جائے‬ ‫ورنہ وہ تو دیانت اور شرافت میں اپنی مثال آپ ہیں۔ انہوں نے‬ ‫آج تک میلی اور سچی آنکھ سے کبھی کسی غیر سرکاری‬ ‫عورت کو نہیں دیکھا۔ انہوں نے آج تک کسی سے ایک دمڑی‬ ‫تک نہیں لی۔ اگر لی ہو تو رشوت دینے والے کے ہاتھوں میں‬ ‫قبری کیڑے پڑیں۔ اس کا نہ اس جگ بھال ہو اور ناہی قیامت کے‬ ‫دن چھٹکارہ ہو۔ رشوت دینے والے سیدھے دوزخ میں جائیں‬ ‫گیے۔ جائز کام نہ کرائیں گے تو مر نہیں جائیں گے۔ انھیں یہ‬ ‫صاحب نائ بھیج کرنہیں بلواتے خود اپنے قدموں پر چل کر‬ ‫جاتے ہیں۔ رہ گئ خواتین کی بات اسے چوہا سمجھ کرنظرانداز‬ ‫کر دیں۔ ایسی کوئ بات ہی نہیں۔ یقین نہیں آتا تو ان سے یا ان‬ ‫خواتین سے قسم لے لیں۔ قسم کے معاملہ میں مجھے نہ الئیں۔‬ ‫میں کسی کے ذاتی معاملہ میں دخل اندازی کا قائل نہیں۔‬ ‫میں نے آغاز میں عرض کیا تھا کہ زندگی بڑی پچیدہ اور الجھی‬


‫ہوئ گھتی ہے۔ اسے سمجھنا آسان نہیں۔ ہم جو دیکھ یا سمجھ‬ ‫رہے ہوتے ہیں وہ اصلی اور حقیقی نہیں ہوتا۔ موصوف کی‬ ‫سرکاری محترمہ کو محض شک تھا۔ شک کوئ اچھی اور صحت‬ ‫مند چیز نہیں۔ اپنے جیون ساتھی پر شک کرنے سے پاپ لگتا‬ ‫ہے۔ شک درمیان کی چیز ہے گویا نہ مونٹ نہ مذکر۔ انھیں شک‬ ‫سے دور رہنا چاہیے یا ہونی سمجھ کر صبر و شکر سے کام‬ ‫لینا چاہیے عالی ظرف لوگوں کا یہی طور اور وتیرا رہا ہے۔ غلط‬ ‫سمجھنے یا تذبذب کی حالت میں زندگی کرنے والے اعتماد کی‬ ‫دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ شک سے جان چھڑا کر اور‬ ‫ہونی کو خوش آمدید کہنا چاہیے۔ ایک شخص سارا دن کھپتا‬ ‫کھپاتا ہے اسے ٹیسٹ بدلنے کا حق ملنا چاہیے۔ پرانی اشیاء‬ ‫ہے؟‬ ‫سے منہ تو نہیں موڑ رہا ہوتا تو پھر روال کس بات کا ِ‬

‫آدم خور چوہے اور بڈھا مکاؤ مہم‬

‫ہم میں سے ہر کوئی لینے کے لیے اگلی صفوں میں کھڑا نظر‬ ‫آتا ہے۔ اپنے حقوق کی وصولی کے لیے احتجاج کرنے میں‬ ‫کوئ کسر نہیں چھوڑتا۔ جب حق دینے کی باری آتی ہے تو رونا‬


‫ہی نہیں موت پڑ جاتی ہے۔ وہ وہ جواز گھڑتا ہے کہ عقل دھنگ‬ ‫رہ جاتی ہے۔ اس بات کو یوں سمجھیں ہم لینا جانتےہیں لیکن‬ ‫دینے کا نام بھی سننا نہیں چاہتے۔ ریاستی ٹیکس کی وصولی تو‬ ‫یاد رہتی ہے لیکن ان ٹیکس دہندگان کو ریاستی حقوق اور‬ ‫سہولتیں یاد سے باہر ہو جاتی ہیں۔ ہاؤسز جو عوام کے خون‬ ‫پسینہ سے چلتے ہیں وہاں اکھاڑ پچھاڑ اور عوام کو الو بنانے‬ ‫کی تراکیب تراشی جاتی ہیں۔ وہاں بجلی پانی اور گیس کی تھوڑ‬ ‫نہیں آتی۔ عوام جو محنت کرتے ہیں اور ان کا بوجھ اٹھاتے ہیں‬ ‫ان تینوں بنیادی ضرورتوں سے محروم رہتے ہیں۔ آواز اٹھاتے‬ ‫ہیں تو چھتر کھاتے ہیں۔ کیا یہ اندھیر نہیں؟ اس سے بڑھ کر‬ ‫شخصی حقوق کی بےحرمتی اور کیا ہو گی۔ غاصب معزز بھوک‬ ‫و پیاس اوڑھنے واال شدت پسند۔‬ ‫ڈاکٹر حضرات کے بارے بات کرتے خوف آتا ہے کیونکہ بیمار‬ ‫نظام و معاشرت کے باشندے بیمار رہتے ہیں اس لیے ڈاکٹر‬ ‫حضرات سے واسطہ رہتا ہے۔ تنقید کی صورت میں کھال تو‬ ‫اتاریں گے ہی لیکن ساتھ میں خدا معلوم کیا کر گزریں۔ ہماری‬ ‫شفا گاہوں کے چوہے بھی ہمارے ڈاکٹروں کی طرح انسانی‬ ‫گوشت کے شوقین ہیں۔ اپنے حقوق کے لیے کس شد و مد سے‬ ‫روال ڈالتے چلے آ رہے ہیں لیکن انہیں اپنی غلطیاں نظر نہیں‬ ‫آتیں۔ کہتے ہیں مالزمین پر انکواءریاں لگ گئ ہیں۔ اس سے کیا‬


‫ہو گا ہمیشہ کی طرح کچھ بھی نہیں۔ دو چار ماہ معطل رہیں گے۔‬ ‫معاملہ ٹھنڈا ہونے کے بعد کچھ دو اور کچھ لو کے تحت پروانہ‬ ‫بحالی جاری ہو جائے گا یا کسی دور دراز عالقہ میں تبادلہ کر‬ ‫دیا جاءے گا اس طرح واپسی کےمعقول داموں کی وصولی کا‬ ‫بندوبست کر لیا جائے گا۔ گویا ہر حوالہ سے وصولی ہی‬ ‫وصولی۔ باور رہے معطلی میں تنخواہ بند نہیں ہوتی ہاں باالئ‬ ‫جو تنخواہ سے ٹن ٹائم زیادہ ہوتی ہے‘ بند ہو جایے گی۔ معطلی‬ ‫کے دن گربت کے دن ہوں گے لیکن بھوکوں مرنے کے دن نہیں‬ ‫ہوں گے۔‬ ‫ایک انسان جس نے نہ اچھا اور نہ ہی کچھ برا کیا‘ بالکل‬ ‫فرشتوں اور دیوتاوں کے اوتار کا سا‘ بال جرم زندگی سے گیا۔‬ ‫ماں باپ کو ہمیشہ کے لیے سوگوار کر گیا۔ کیا یہ قتل نہیں‬ ‫ہوا؟؟؟‬ ‫ڈاکٹر اور ماتحت عملہ کس خدمت کی تنخواہ وصولتا ہے۔ کسی‬ ‫بھی مالزم سے پوچھیں اسے یہ خوب خوب معلوم ہو گا کہ‬ ‫مہنگائی بڑھ گئی ہے اور تنخواہ بہت کم ہے۔ اسے یہ یاد نہیں‬ ‫ہو گا کہ اس کے کچھ فرائض بھی ہیں۔ اس کے ذہن سے باالئی‬ ‫کی رقم بھی محو ہو چکی ہوتی ہے۔ اس معصوم بچے کا چوہے‬ ‫کے ہاتھوں مر جانا ڈاکٹری کے منہ پر طمانچہ ہے لیکن یہ تب‬


‫ہے جب وہ اسے طمانچہ سمجھیں گے۔‬ ‫زخمی ہونے کی صورت میں بھی یہ جرم کوئی معمولی جرم‬ ‫نہیں۔ قتل یا زخمی ہونے کے حوالہ سے عدلیہ کے سامنے مسلہ‬ ‫الیا جانا چاہیے۔‬ ‫حق اور انصاف کی بات تو یہ ہے کہ وہ بد نصیب بچہ ڈیوٹی پر‬ ‫موجود عملہ اور ڈیوٹی آفیسر کی الپرواہی سے مرا نہیں ان کے‬ ‫ہاتھوں قتل ہوا ہے۔ کس بات کی انکوائری جو اس دورانیے میں‬ ‫ڈیوٹی پر تھے اس بچے کے قاتل ہیں۔ قاتل کی سزا ہمارے‬ ‫قانون میں غیر واضع نہیں۔‬ ‫اس سے یہ بات بھی کھلتی ہے کہ ہماری شفاگاہوں میں صفائ‬ ‫ستھرائی کا کیا عالم ہے۔ لوگوں میں صفائی ستھرائی کے پمفلٹ‬ ‫بانٹنے والوں کے اپنے ہاں صفائی ستھرائی معنویت نہیں‬ ‫رکھتی۔ کوئی ذمہ دار اور غیر جانب خود جا کر بال اطالع جا کر‬ ‫دیکھے‘ مجھے یقین ہے سر پکڑ کر بیٹھ جائے گا۔ سچی بات تو‬ ‫یہ ہے محکمہ صحت پر فضول خرچ کیا جاتا ہے۔ یہاں داخل ہو‬ ‫کر بھی یہاں کے لوگوں سے پرائیویٹ طبی امداد لینا پڑتی ہے‬ ‫ہماری شفا گاہیں‬


‫غالب کے اس مصرعے کا زندہ عکس ہیں‬ ‫دل کو خوش رکھنے کے لیے غالب یہ خیال اچھا ہے‬ ‫سنتے ہیں کھانسی کے سیرپ میں خطرناکی وارد ہو گئ ہےاور‬ ‫اس کے پینے سے کچھ کھانسنے والے هللا کو بھی پیارے ہو‬ ‫گئے ہیں۔ یہاں کا ہر دوسرا بڈھا کھانستا ہے۔ لگتا ہے بڈھا مکاؤ‬ ‫مہم کا آغاز ہو گیا ہے۔ بڈھے وقتا فوقتا معامالت میں ٹانگ‬ ‫اڑاتے رہتے ہیں۔ وہ بھی کیا کریں ان کی قوت برداشت کم یا ختم‬ ‫ہو چکی ہوتی ہے اسی لیے بالطلب مشورے دیتے رہتے ہیں۔‬ ‫بڈھوں کے لیے میرا مشورہ ہے کہ وہ اپنی چونچ بند رکھا‬ ‫کریں۔ قوم کو وہ کھٹکنے لگے ہیں۔ یہ کوئ ان کے حوالہ سے‬ ‫صحت مند عالمت نہیں۔ ایک مخصوص طبقہ ان کے پیچھے پڑ‬ ‫گیا ہے۔ خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے لہذا وہ محتاط ہو جائیں۔‬ ‫چونچ بند کرنے کی ابتدا میں اپنی ذات سے کرتا ہوں۔ کھانسی کا‬ ‫سیرپ بنانے والوں سے استدعا کرتا ہوں ایک بار بڈھوں‬ ‫کومعاف کر دیں۔ آئندہ وہ احتیاط سے کام لیں گے اور شکایت کا‬ ‫موقع نہیں دیں گے۔ ایک موقع تو ملنا چاہیے۔ حکومت سے اس‬ ‫لیے اپیل نہیں کروں گا کہ اس کے پاس جنتا کی بھالئی اور‬


‫بہبود کے لیے کچھ کرنے لیے وقت کہاں ہے۔‬

‫عوام بھوک اور گڑ کی پیسی‬

‫دو شخص ہوٹل میں گرما گرم بحث کر رہے تھے۔باتوں سے‬ ‫دونوں بےپارٹی کے لگتے تھے۔ بے پارٹی اشخاص کا مختلف‬ ‫سمتوں میں چلنا اوراتنی گرما گرمی دکھانا مجھے بڑا ہی عجب‬ ‫لگا۔ خیرمیں بے تعلقی ظاہر کرتے چائے نوشی میں مشغول رہا۔‬ ‫ان کا موضوع سخن مہنگائ اور بےروزگاری تھا۔ وہ یوں ایک‬ ‫دوسرے سے الھج رہے تھے جیسے ان دونوں میں سے کوئی‬ ‫ایک ان خرابیوں کا ذمہ دار ہے۔‬ ‫ایک صاحب کا کہنا تھا کہ موجودہ حاالت کے ذمہ دار خود عوام‬ ‫ہیں۔ آخرانھوں نے ان بدمعاشوں کو ووٹ ہی کیوں دیے۔‬ ‫دوسرے کا کہنا تھا اطراف میں بدمعاش تھے ایک کو ممبر بننا‬ ‫ہی تھا۔ دوسری طرف اگر کوئی شریف تھا اور ممبر نہیں بن‬


‫سکا تو بات کریں۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ کام شریفوں کا کبھی‬ ‫بھی نہیں رہا۔ پوری جمہوری تاریخ کو دیکھ لیں۔ اسمگلر‬ ‫چوراچکے سنیما کی ٹکٹیں بلیک کرنے والے رسہ گیر صاحب‬ ‫زادے نواب زادے حرام زادے امریکہ کے چہولی چک اس عمل‬ ‫کا حصہ رہے ہیں۔‬ ‫دوسرا اس بات پر بضد تھا کہ قصور سارا عوام کا ہے۔ کچھ‬ ‫فیصد ہی سہی لوگ جمہوریت کا حصہ کیوں بنتے ہیں۔ پہلے کا‬ ‫موقف تھا کہ لوگوں کو بھوک میں نک نک ڈبو کر الیکشنوں‬ ‫کے دنوں میں چوپڑی روٹی اور لگ پیس دکھا کر یہ لوگ ووٹ‬ ‫حاصل کر لیتے ہیں۔ لوگ چند دن کی سیری کو دیکھ کر پچھلے‬ ‫اور اگلے سالوں کی قیامت ناک بھوک کو بھول جاتے ہیں۔‬ ‫ان میں سے ایک جس نے جوش خطابت میں چائے کا ابھی تک‬ ‫ایک گھونٹ بھی نہیں لیا تھا‘ کا کہنا تھا کہ صدر وزیر اعظم اور‬ ‫اسپیکر تو ڈھنگ کے منتخب کیے جاءیں۔ شاید اسے معلوم نہ‬ ‫تھا کہ انھیں عوام منتخب نہیں کرتے۔ یہ عوامی نمائندے نہیں‘‬ ‫اپنی پارٹی کے نمائندے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے اور اپنی پارٹی کے‬ ‫مفاد کے لیے کام کرتے ہیں۔ انھیں عوام سے کیا مطلب۔ وہ عوام‬ ‫کو جوابدہ نہیں ہیں بلکہ پارٹی کو جوابدہ ہوتے ہیں۔ اسپیکر نے‬ ‫وزیر اعظم کے حوالہ سے جو فیصلہ دیا ہے۔ عوامی مفاد میں‬


‫نہیں دیا۔ اگر وہ عوام کا نمائندہ ہوتا تو اسے عوام کا مفاد عزیز‬ ‫ہوتا تو فیصلہ عوامی ہوتا۔ عدلیہ کی عزت اور وقار کو یوں‬ ‫پاؤں کی مٹی نہ بناتا۔ فیلصے میں واضع کرتا کہ کون آءین کا‬ ‫قاتل ہے۔ اس کے فصلے سے آئین بحال نہیں ہوا۔ آئین ابھی تک‬ ‫چیلنج یا معطل ہے۔‬ ‫اتنی دیر میں بجلی آ گئ۔ دونوں کا جوش ہوا ہو گیا۔ دونوں سر‬ ‫پر پاؤں رکھ کر بھاگ گئے۔ میں سوچ میں پڑ گیا اتنا گہرا شعور‬ ‫انھیں کس نے دیا ہے۔ کیا یہ بھوک پیاس اور اندھیرے کی‬ ‫مہربانی ہے یا میڈیے کی کارگزاری ہے۔دوسرا سوال یہ بھی‬ ‫کھڑا تھا کہ شعور انقالب کی طرف لے جا رہا ہے یا بھوک‬ ‫شعور کو کھا پی جائے گی۔‬ ‫ان دونوں کا بجلی کے آنے پر دوڑ لگانا ظاہر کرتا ہے کہ شعور‬ ‫کسی بھی سطع پر ہو بھوک سے تگڑا نہیں ہوتا۔ روٹی ایمان کی‬ ‫بناء ہے۔ شخص کتنا ہی مظبوط کیوں نہ ہو بھوک کے ہاتھوں‬ ‫بک جاتا ہے۔ لوگوں کو بھوک کی آخری سطع پر اسی لیے پنچا‬ ‫دیا گیا ہے کہ وہ اپنا ضمیر ایمان اور عزت بیچنے پر مجبور ہو‬ ‫جائیں۔ بھوک کےتیور دیکھتے ہوئے میں پورے یقین سے کہہ‬ ‫سکتا ہوں کہ یہاں کوئ تبدیلی نہیں آئے گی۔ لوگ ہوٹلوں میں‬ ‫بیٹھ کر بڑےاونچے درجے کی باتیں کرتے رہیں گے لیکن بجلی‬


‫آتے ہی روٹی کی طرف بھاگ اٹھیں گے۔‬ ‫بغداد والے کوا حالل ہے یا حرام پر بحثیں کرتے رہے ادھر‬ ‫ہالکو خان نے بغداد کی اینٹ سےاینٹ بجا دی۔ ہمارے ساتھ بھی‬ ‫یہی ہو رہا ہے۔ امریکہ ہماری خودداری پر ہر دوسرے کاری‬ ‫ضرب لگاتا ہے اور ہمارے لیڈر اگلے الیکشن جیتنے کے لیے‬ ‫بھوک میں اضافے کا کوئی نیا راستہ تالشنے کی سعی کرتے‬ ‫ہیں۔‬ ‫کار سستی آٹا چینی دال گھی مہنگی کر رہے ہیں۔ ایک عام آدمی‬ ‫کو کار سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ بس کرایہ کم ہو تو غریب‬ ‫سے تعاون سمجھ میں آتا ہے۔ اندھا بانٹے روڑیاں مڑ مڑ اپنیاں‬ ‫نوں۔ کار کا سستا ہونا غریب پروری کے کس زمرے میں آتا‬ ‫ہے۔ یہ بات میری سمجھ سے باال ہے کہ میک اپ بھی سستا کر‬ ‫دیا گیا ہے۔ غالبا قوم کوکوٹھے پر بیٹھانےکا ارادہ ہے۔‬ ‫قوم اس نام نہاد آزادی کے دن سے لے کر آج تک کوٹھے پر‬ ‫بیٹھی ہے۔ جوآتا ہےاس کی جان مال عزت آبرو انا اور غیرت‬ ‫سےکھیلتا ہے اور چلتا بنتا ہے۔ اس کے جانے کے بعد ہر کوئ‬ ‫اس کے جبروستم کے قصے چھیڑ دیتا ہے لیکن یہ سب زبانی‬


‫کالمی ہوتا ہے۔ کوئی اس پر گرفت نہیں کرتا۔ گئے وقت کی‬ ‫چھوڑیے کوئی موجودہ کے سدھار کی کوشش نہیں کرتا۔ ہر آتا‬ ‫دن گزرے سے بدترین ہوتا ہے۔‬ ‫عدم تحفظ کا احساس بڑھتا چال جاتا ہے۔ ان نام کے قومی‬ ‫لیڈروں کی ناک کے نیچے رشوت کا بازار گرم ہے۔ اکثر افسر ان‬ ‫کے اپنے بندے ہیں۔ کم از کم جو ان کے اپنے بندے نہیں ہیں ان‬ ‫پر تو گرفت کریں تاکہ وہ ان کا بندہ ہونے کا جتن کریں۔‬ ‫محکمہ تعلیم اوروں کے لیے نمونہ ہونا چاہیے لیکن اس کا حال‬ ‫بےحال ہے۔ ان دنوں لیکچرر سے اسسٹنٹ پروفیسرز کی‬ ‫پوسٹنگ کا سلسلہ چل رہا ہے۔ خالی پوسٹوں اور پوسٹوں کی‬ ‫اپ گریڈیشن کے بھاؤ لگ رہے ہیں۔ جو گرہ ڈھیلی نہئں کرے گا‬ ‫دور دراز عالقوں کی ہوا کھائے گا۔ نیلے پیلے نوٹ میرٹ بناتے‬ ‫ہیں۔ کوئ پوچھنے واال نہیں۔‬ ‫پوچھنے والوں کے ہاتھ میں سفید گڑ کی پیسی ہے اور وہ یہ‬ ‫سوچے بغیر کہ دانت خراب ہوں گے چوسے پہ چوسا مارے جا‬ ‫رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں خراب دانتوں کا عالج کون سا گرہ خود‬ ‫سےہونا ہے۔ سرکار کا اشیرواد اور قوم کا مال سالمت رہے۔‬


‫انھیں پریشان کی کیا ضرورت ہے۔‬

‫رشوت کو طالق ہو سکتی ہے‬

‫ایک چرسی نے پاس سے گزرتے شخص سے ٹائم پوچھا۔ اس‬ ‫شخص نے کہا پانچ بج کر بیس منٹ۔ اس پر چرسی بوال اس‬ ‫ملک نے خاک ترقی کرنی ہے۔ صبح سے پوچھ رہا ہوں ہر کسی‬ ‫کا اپنا ٹائم ہے۔ بات تو ہنسی والی ہے لیکن ذرا غور کریں گے‬ ‫تو اس بات کو معنویت سے تہی نہیں پائیں گے۔‬ ‫اس ملک میں ہر کسی کا شیڈول اپنا ہے۔ معامالت کو اپنے مطلب‬ ‫کے معنی دے رکھے ہیں اور اس ذیل میں دالئل بھی گھڑ رکھے‬ ‫ہیں۔ یہی منڈی کے بھاؤ کی صورت ہے۔ ایک ہی چیز کے‬ ‫مختلف بھاؤ سننے کو ملیں گے۔ بازار چلے جائیں اشیائے‬ ‫خوردنی کے ایک سے نرخ سننےکو نہیں ملیں گے۔ کپڑا خریدنا‬ ‫ہو یا سلوانا‘ ہر کسی کے اپنے نرخ ہوتے ہیں۔‬


‫سیاستدار ہو یا سیاست پرداز‘ صبح کو کچھ اور شام کو کچھ کہتا‬ ‫ہے۔ بعض تو اگلے لمحے ہی شخص اور موقع کی مناسبت سے‬ ‫بات کو بدل دیتے ہیں۔ پہلی کہی کے برعکس کہنے میں کوئ‬ ‫عار یا شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔واپڈا والے ہوں اکاؤنٹس‬ ‫آفس ہو گیس والوں کےہاں چلے جائیں خدا نخواستہ نادرہ‬ ‫والوں سے کام پڑ جائے جو عوما نہیں اکثر پڑتا ہی رہتا ہے۔ یہ‬ ‫تو خیر مقامی دفاتر ہیں بڑے دفاتر یہاں تک کہ مہا منشی ہاؤس‬ ‫کے دفاتر جن سے دادرسی کی امید رکھی جاتی ہے‘ کے بھاؤ‬ ‫ایک نہیں ہیں۔ ایک ہی کام کے مختلف نرخ ہیں۔ اپنا یا بیگانہ کی‬ ‫تخصیص موجود نہیں۔ یہاں کوئ اپنا یا پرایا نہیں۔ مفت بھر کسی‬ ‫سطع یا کسی حوالہ سے فیض حاصل نہیں کرپاتے۔ پلہ ہر کسی‬ ‫کوجھزنا ہی ہوتا ہے۔ بہوتا اوکھا فنی خرابیوں سے عمر بھر‬ ‫نبردآزما رہتا ہے۔‬ ‫مجھے بھتہ لینے یا دینے پر کوئی اعتراض نہیں۔ دنیا لین دین‬ ‫پر استوار ہے۔ بھتہ خور حاالت کے ہاتھوں خود مجبور ہیں۔‬ ‫تنخواہ میں وہ کچھ چل ہی نہیں سکتا جو بھتہ شریف کی برکت‬ ‫سے چلتا آ رہا ہے۔ تنخواہ سے دو انچ زمین خرید کر دکھا دیں۔‬ ‫کار تو بڑی دور کی بات تنخواہ میں سائیکل کا ایک پیڈل خریدا‬ ‫نہیں جا سکتا۔ بھتہ خوری خانگی مجبوری ہے۔ گھر میں سکون‬ ‫ہو گا تو پورے معاشرے میں سکون ہو گا۔ بھتہ سیاسی مجبوری‬


‫بھی ہے۔ لفافہ کلچر سیاسی لوگوں کی عطا ہے۔ عطا بری نہیں‬ ‫ہوتی۔ ہاں کچھ کو ماش موافق اور کچھ کو بادی۔‬ ‫یقین مانئیے میں اس سیاسی عطا کے خالف نہیں ہوں ہاں میرا‬ ‫موقف یہ ہے کہ اسے فکس ہونا چاہیے۔ یہ کیا ایک ہی کام کے‬ ‫ایک سے دس دوسرے سے پندرہ اور کسی پر آٹھ ہزار میں‬ ‫مہربانی کر دی جائے۔ ساتھ میں روٹی کی جگہ چائے بسکٹ‬ ‫کیک پیس اور نمکو پر ہی کام چال لیا جائے۔ ۔یہ انداز اور رویہ‬ ‫کسی طرح درست نہیں۔ اس انداز و رویہ کے حوالہ سے بے‬ ‫چینی پھیل رہی ہے۔ چرسی غلط نہیں کہہ رہا تھا۔ پوری قوم‬ ‫خصوصا دفاتر کو بےٹائیمی کے اندھے کنویں سے نکاال جائے۔‬ ‫بالکل اسی طرح نرخی نظام کا قیام دقت کا تقاضا ہے۔‬ ‫کچوپیے تو خیر اس ذیل میں نہیں آتے۔ ہمارے پاس یک نرخی‬ ‫کی ایک قابل تقلید مثال موجود ہے۔ کسی بھی نیٹ ورک کا سو‬ ‫روپیے کا لوڈ کروایں بیاسی روپیے اور کچھ پیسے کا بیلنس‬ ‫لوڈ ہوتا ہے۔ کہیں ایک پیسے کا فرق نہیں آتا۔ اس یک نرخی کا‬ ‫فایدہ یہ ہے کہ پاکستان میں پاکستانی روپیے کی حقیقی قیمت کا‬ ‫اندازہ ہوتا رہتا ہے۔ دیکھنے میں سرخ نوٹ سو روپیے کا ہوتا‬ ‫ہے لیکن اس کی اپنے ہی دیس میں قیمت بیاسی روپیے اور‬ ‫کچھ پیسے ہوتی ہے۔‬


‫حکومت کا اصولی اور اخالقی فرض بنتا ہے کہ وہ تمام دفتر‬ ‫سے ہر قسم کے چھوٹے موٹے کاموں کی فہرست طلب‬ ‫کرے۔روییےکی عصری پاکستانی قدر کے مطابق اپنا جگا ڈال کر‬ ‫ریٹ طے کرے۔ یہی نہیں اسے بینکنگ نظام سے وابسطہ کر دیا‬ ‫جائے۔ سائیلوں کو دفاتر کے دھکوں سے نجات مل جائے گی‬ ‫اور ہر کسی کو بینک چاالن پر طے شدہ کوڈ کے مطابق حصہ‬ ‫مل جائے گا۔ سائل چاالن کی نقل پاس رکھ کر اصل متعلقہ دفتر‬ ‫میں جمع کرا دے گا۔ مقررہ تاریخ کو چند روپیے کچوکیے کے‬ ‫ہاتھ میں رکھ کر اپنے کاغذ پتر خوشی خوشی گھرلے جائے گا۔‬ ‫اس سے رشوت اصطالح کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے طالق ہو‬ ‫جائے گی۔‬

‫لوٹے کی سماجی اور ریاستی ضرورت‬

‫لوٹا کوئی عہد جدید کی پیداوار نہیں۔ یہ صدیوں پہلے وجود میں‬ ‫آ کیا تھا اور اس نے اپنی بہترین کارگزاری کے حوالہ سے‬


‫انسانی زندگی میں بلند مقام حاصل کر لیا۔ اس کے وجود سے‬ ‫انسان خصوصا برصغیر کے بااختیار اور صاحب حیثیت لوگوں‬ ‫نے خوب خوب فائدہ اٹھایا۔ دیکھا جاءے یہ کمزور اور گریب‬ ‫طبقے کی چیز ہی نہیں۔ پکے محل رکھنے والے اس کی‬ ‫کارگزاری کے معترف رہے ہیں۔ کمزور اور گریب طبقے سے‬ ‫متعلق لوگ کچے اور تعفن کے مارے گھروں میں رہتے ہیں اس‬ ‫لیے ان کی گزر اوقات گھیسی سے ہو جاتی ہے۔ اس حیقیت کے‬ ‫پیش نظر لوٹے کو بلند پایہ طبقوں کی امانت سمجھنا چاہیے۔‬ ‫موجودہ بتی کے بحرانی دور میں بھی بڑے لوگوں کو گھیسی‬ ‫نہیں کرنا پڑے گی۔ یہ سعادت صرف اور صرف کمزور اور گریب‬ ‫طبقے کے مقدر کا حصہ رہے گی۔‬ ‫لوٹا" کو آفتابہ بھی کہا جاتا رہا ہے لوٹے کو استاوا بھی کہتے "‬ ‫ہیں اور یہ لفظ دیہاتوں میں آج بھی مستعمل ہے۔ تاہم شہروں‬ ‫میں مستعمل اور معروف لفظ لوٹا ہی ہے۔ یہ ایک قسم کا ٹونٹی‬ ‫واال برتن ہوتا ہے جو پاخانہ وغیرہ کے لیے پانی سے طہارت‬ ‫کرنے واال برتن ہوتا ہے۔ مغرب والے اس برتن اور اس کی‬ ‫افادیت سے آگاہ نہیں ہیں کیونکہ وہ طہارت کا کام ٹیشو پیپر‬ ‫سے چالتے ہیں۔ ویسے ٹیشو پیپر کا استعمال کھانا کھانے کے‬ ‫بعد ہاتھ صاف کرنے کے لیے بھی ہوتا ہے۔ اصطالحا ٹیشو پیپر‬ ‫کے معنی اس سے مختلف ہیں۔ کام نکل جانے کے بعد آنکھیں‬


‫بدل لینا کے لیے یہ مرکب استعمال کیا جاتا ہے۔ استعمال شدہ‬ ‫ٹیشو پیپر معنویت کھو دیتا ہے۔ انسان کے لیے اس مرکب کا‬ ‫استعمال کرنا مناسب نہیں لگتا کیونکہ انسان کی دوبارہ سے‬ ‫ضرورت پڑ سکتی ہے جبکہ ٹیشو پیپر دوبارہ سے استعمال میں‬ ‫نہیں الیا جا سکتا۔ دوبارہ سے ضرورت یا حاجت کے لیے نیا‬ ‫ٹیشو پیپر استعمال کرنا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس انسان دوبارہ‬ ‫سے کیا' بار بار استعمال میں الیا جا سکتا ہے ‪ .‬ٹیشو پیپر کا‬ ‫ہاتھ اور پیٹھ کی صفائی کے عالوہ کوئ قابل ذکراستعمال موجود‬ ‫نہیں۔‬ ‫مساجد میں مٹی کے لوٹے استعمال ہوا کرتے تھے آج بھی زیادہ‬ ‫تر مٹی کے لوٹے معتبر سمجھے جاتے ہیں۔ کہیں کہیں پالسٹک‬ ‫کے لوٹے بھی دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ جماعت والے جب‬ ‫چلے پر جاتے ہیں پالسٹک کے لوٹوں کو ترجیع دیتے ہیں‬ ‫کیونکہ ان کے ٹوٹنے کا ڈر نہیں ہوتا۔ سفر میں لوٹا ٹوٹنا یا بہہ‬ ‫جانا نہوست ہی نہیں مکروہات میں بھی ہے۔ لوٹے کی سالمتی‬ ‫میں ہی کامیابی پوشیدہ ہوتی ہے۔ طہارت کا سارا دارومدار لوٹے‬ ‫پر ہوتا ہے۔ لوٹا برقرار ہے تو طہارت برقرار ہے۔ طہارت برقرار‬ ‫ہے تو ہی عبادت ممکن ہے۔‬ ‫شہر کے گھروں میں کانسی سلور سٹیل چاندی پالسٹک وغیرہ‬


‫دھاتوں کے لوٹے دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ ایوا نوں میں‬ ‫پالسٹک کے لوٹے استعمال ہوا کرتے تھے غالبا آج بھی‬ ‫پالسٹک کے لوٹے استعمال ہوتے ہیں۔ فیشنی دور ہے ٹیشو پیپر‬ ‫بھی بڑی افادیت رکھتے ہیں۔ ٹیشو پیپر کو لوٹے کا مترادف‬ ‫سمجھا جاتا ہے۔ حقیت یہ ہے کہ ۔ ٹیشو پیپر لوٹے کا متبادل ہو‬ ‫ہی نہیں سکتا کیونکہ اس میں پانی کا عمل دخل نہیں ہوتا دوسرا‬ ‫ٹیشو پیپر ایک سے زیادہ بار استعمال نہیں ہو سکتا۔ گویا‬ ‫گھیسیی اور ٹیشو پیپر برابر کا مرتبہ رکھتے ہیں۔ گھیسیی‬ ‫طہارت کے حوالہ سے زیادہ معتبر ہے۔ مٹی سے وضو تک کیا‬ ‫جا ستا ہے۔ وضو کی ضرورت نماز تک محدود ہے۔ ہہاں لوگ‬ ‫بسم هللا شریف تک درست نہیں پڑھ سکتے لہذا ٹیشو پیپر کا‬ ‫استعمال ایسا غلط نہیں معلوم ہوتا۔ اگر اس قماش کے لوگ‬ ‫گھیسی بھی کر لیں تو کوئ برائ نہیں۔ طہارت کے لیے لوٹا'‬ ‫گھیسی یا ٹیشو پیپر نہ بھی استعال میں الئیں تو بھی ان کی سر‬ ‫جائے گی۔ یہ لوگ عوام کا ووٹ حاصل کرکے طہارتیوں میں‬ ‫شمار ہوتے ہیں۔ ان کی پاکی پلیدی پر انگلی نہیں رکھی جا‬ ‫سکتی۔‬ ‫لوٹے کے چھوٹا یا بڑا ہونے کے حوالہ سے بات ہوئ ہے لوٹا‬ ‫چھوٹا ہو یا بڑا' بظاہر ا س سے کوئ فرق نہیں پڑتا۔ لوٹا اول تا‬ ‫آخر لوٹا ہے کہاں تک ساتھ دے گا۔ مٹی کا لوٹا ٹوٹ ہی جاتا ہے۔‬


‫لوٹےکے بڑا یا چھوٹا ہونے سے اچھا خاصا اثر پڑتا ہے۔‬ ‫چھوٹے لوٹے میں پانی کم پڑتا ہے اس لیے طہارت کے لیے دو‬ ‫سے زیادہ لوٹوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اس کے برعکس‬ ‫بڑا لوٹا بڑی حد تک ایک ہی کافی ہوتا ہے۔ رہ گئ ٹیشو پیپر یا‬ ‫گھیسی کی بات ٹیشو پیپر بڑے ایوانوں یا بڑے گھروں کے کام‬ ‫کی چیز ہوسکتی ہے لیکن دیہاتوں یا جھونپڑوں کے مقیم اسے‬ ‫نہیں کر سکتے اور نہ ہی یہ ان کی تسلی کی چیز ہو ‪afford‬‬ ‫سکتی وہ گھیسی یا کچے روڑے کےاستعمال کو ترجیع میں‬ ‫رکھتے ہیں۔‬ ‫لوٹے کا اصطالحی استعمال بڑے ایوانوں میں ہوا کرتا تھا‬ ‫اصطالحی لوٹا عوام کے متعلق چیز نہ تھی اور نہ ہی ایوانی‬ ‫لوٹوں پر کسی قسم کی بات کرنے کا حق تھا ۔ ان کی یہ اوقات‬ ‫بھی نہ تھی کہ وہ ایوانی لوٹوں کے متعلق کوئ بات اپنی ناپاک‬ ‫زبان پر الءیں۔ لوٹے ا اپنی اوقات اورافادیت کے حوالہ سے بڑی‬ ‫رکھتے ہیں۔ کمی کمین عوام جو دوچار بتی کھچ ‪importance‬‬ ‫جھٹکوں کی مار نہیں ہیں' تقدس ماب لوٹوں پر اپنے حوالہ سے‬ ‫ایک شبد بھی منہ سے نہ نکالیں۔ ان کی اتنی جرات اور ہمت‬ ‫کہاں حاالنکہ لوٹوں کے بارے اں کی بقلم خود رائے موجود رہی‬ ‫ہے۔ عوام کو صرف اور صرف رائے دہی کا حق حاصل ہے۔ اگر‬


‫مخالف فریق کے ڈبے میں ووٹ چال جاتا ہے تو رائے دہی کا‬ ‫حق' داھندلی کے لقب سے ملقوب ہوتا ہے۔‬ ‫میں اصل نقطے کی بات عرض کرنا بھول گیا ہوں لوٹے کی ہیت‬ ‫ترکیبی ٹونٹی تک محدود نہیں پیندے کا اس میں بنیادی رول ہوتا‬ ‫ہے۔ مٹی کے بعض لوٹے بال پیندے کے بھی رہے ہیں۔ اس قسم‬ ‫کے لوٹوں کے لیے پیالہ نما جگہ بنا دی جاتی تھی لیکن پیندے‬ ‫وا لے لوٹے پیالے کی سعادت سے محروم رہتے تھے۔ پالسٹک‬ ‫کے لوٹے باپیندا ہوتے ہیں ہاں زیادہ استعمال کے باعث ان کا‬ ‫پیندا ٹوٹ بھی جاتا ہے لیکن ٹوٹ پھوٹ کے باوجود پیندے کا‬ ‫نام و نشان باقی رہتا ہے۔ انھیں استعمال کی کسی بھی سطع پر‬ ‫بے پیندا لوٹا قرار نہیں دیاجا سکتا۔ استعمال کے سبب نیچے‬ ‫سے کتنا بھی ٹوٹ جائے پیندے کا نشان ضرور باقی رہ جاتا‬ ‫ہے۔ معمولی نشان بھی اسے باپیندا قراردینے کے لیے کافی ہوتا‬ ‫ہے۔‬ ‫سیانے مولوی اپنا طہارت خانہ الگ سے رکھتے ہیں لہذا ان کا‬ ‫لوٹا بھی اوروں سے الگ تر ہوتا ہے۔ اس طر ح مولوی صاحب‬ ‫کا لوٹا' مقدس لوٹا ہوتا ہے۔ دفاتر میں عملے کے طہارت خانے‬ ‫عام استعمال میں رہتے ہیں اس لیے وہاں کے لوٹے کسی خاص‬ ‫دفتری کے لیے مخصوص نہیں ہوتے ہاں البتہ افسروں کے‬


‫طہارت کدے ان کے دفتر کے اندر ہی ہوتے ہیں۔ ان طہارت کدوں‬ ‫کے لوٹے بڑی معنویت کے حامل ہوتے ہیں۔ بعض افسر ٹیشو‬ ‫پیپر استعمال میں التے ہیں' وہاں لوٹے نہیں رکھے جاتے ۔ کچھ‬ ‫افسرز کے طہارت کدوں میں دونوں چیزیں موجود ہوتی ہیں۔‬ ‫موقع کی مناسبت سے لوٹے یا ٹیشو پیپر کا استعمال کرتے ہیں‬ ‫تاہم ان کے طہارت کدوں کی آن بان اور شان ہی کچھ اور ہوتی‬ ‫ہے۔‬ ‫حضرت پیر صاحبان کے واش روم زیر بحث نہیں لئے جا سکتے‬ ‫کیونکہ حضرت پیر صاحبان نیک پاک اور عزت کی جگہ پر‬ ‫ہوتے ہیں۔ یہ اپنی خانقاہ میں ہوں یا کسی ایوان کی زینت بڑھا‬ ‫رہے ہوں' ان کے لوٹے دوہرے کام کے ہوتے ہیں‪ .‬نہ گھومیں‬ ‫تو چاند گھوم جائیں تو زنجیر وٹ پر رہتی ہے۔ بہرطور طہارتی‬ ‫اور پرچی نکالنے والے لوٹے الگ ہوتے ہیں اس لیے ان کے‬ ‫حوالہ سے بات کرنے پر پاپ لگتا ہے۔ ایوانوں میں تشریف‬ ‫رکھنے والے حضرت پیر صاحبان سیاسی کھیل کے لیے پیندے‬ ‫اور بے پیندے لوٹے استعمال میں التے رہتے ہیں اور یہ ان کا‬ ‫پروفیشنل حق بھی ہوتا ہے لہذا کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا‬ ‫کہ وہ حضرت پیر صاحبان کے لوٹوں کی جانب میلی نظر سے‬ ‫بھی دیکھنے کی گستاخی کرے۔ اس قسم کے لوگوں کی زمین پر‬ ‫ٹہوئی نہیں ہوتیی۔‬


‫کوئ لوٹا نواز ہک پر ہتھ مار کر نہیں کہہ سکتا کہ لوٹا زندگی‬ ‫کے کسی موڑ پر اپنی مرضی سےاوور فلو ہونے کی گستاخی‬ ‫کرتا ہے۔ یہ لوٹے دار کی غلطی کوتاہی بے نیازی یا بے دھیانی‬ ‫کے سبب اوور فلو ہوتا ہے۔ چھوٹے لوٹے میں بڑے لوٹے کے‬ ‫برابر پانی ڈالو گے تو ہی بات بگڑے گی۔ اسی طرح بڑے لوٹے‬ ‫میں چھوٹے لوٹے کا پانی طہارتی امور سرانجام نہیں دے سکتا۔‬ ‫لوٹا دار کا فرض ہے کہ وہ تناسب کو ہاتھ سے ناجانے دے۔‬ ‫‪:‬استاد غالب بال کا لوٹا شناس تھا‪ .‬تبھی اس نے کہا تھا‬ ‫دیتے ہیں بادہ ظرف قدح خوار دیکھ کر‬ ‫اماں حوا سے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ آدم کی بچی ہوئ مٹی‬ ‫سے بنائ گئ تھیں۔ میں اس بات کو نہیں مانتا تاہم یہ ایک میتھ‬ ‫ضرور ہے۔ ایک عام آدمی کا خیال ہے کہ ہمارے ہاں کے لوٹے‬ ‫استاد غالب کے کسی نہایت حرامی لوٹے کی بچی ہوئ مٹی سے‬ ‫وجود پذیر ہوئے ہیں۔ میں اس عقیدے پر یقین نہیں رکھتا تاہم یہ‬ ‫ایک میتھ ضرور ہے۔‬ ‫جگہ' قانون' لوگ اورحکومت کسی بھی ریاست کے وجود کے‬ ‫لیے ضروری عناصر ہوتے ہیں۔ ان کے بغیر ریاست وجود میں‬ ‫نہیں آ سکتی۔ ان میں سے ایک عنصر بھی شارٹ ہو تو ریاست‬


‫نہیں بنتی۔ حکومتی ایوانوں میں لوٹے نہ ہوں تو معزز ممبران‬ ‫لبڑی پنٹوں شلواروں کے ساتھ نشتوں پر بیٹھینگے ' سوسائٹی‬ ‫میں پھیریں گے اس سے نا صرف حسن کو گریہن لگے گا بلکہ‬ ‫بدبو بھی پھیلے گی۔ لبڑی پنٹوں شلواروں والے ممبران کی‬ ‫عزت کون کرے گا۔ گریب عوام اور ان میں فرق ہی کیا رہ جائے‬ ‫گا۔ کھوتا گھوڑا ایک برابر ہو جائیں گے لہذا لوٹوں کی خرید و‬ ‫فروخت کا کام' اپنی ضرورت اور افادیت کے حوالہ سےپہال‬ ‫سوال الزمی کی حیثیت رکھتا ہے۔ لوٹوں کی تجارت پر کسی بھی‬ ‫سطع پر کبیدہ خاطر ہونا سراسر نادانی کے مترادف ہے۔ ریاست‬ ‫کے ضروری عنصر یعنی حکومت کے ہونے کے لیے لوٹوں‬ ‫کے کاروبار پر ناک منہ اور بھووں کو کسی قسم کی تکلیف دینا‬ ‫کھلی ریاست دشمنی ہے۔ اس کاروبار پر ناک منہ اور بھویں‬ ‫اوپر نیچے کرنے والے حضرات غدار ہیں اور غدار عناصر کا‬ ‫کیفرکردار تک پہنچنا بہت ضروری ہوتا ہے اورانھیں سزا دینے‬ ‫کی حمایت کرنا حکومت دوستی کے مترادف ہے۔‬

‫آزاد معاشرے اہل علم اور صعوبت کی جندریاں‬


‫هللا نے قلم کو معتبرمعزز اور محترم بنایا۔ اس کی حرمت کا‬ ‫اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ هللا نے اس کی قسم‬ ‫اٹھائ ہے۔ اگلے وقتوں میں کانے سے بڑے اہتمام کے ساتھ قلم‬ ‫گھڑی جاتی تھی۔ ماسٹر کے جیب میں قلم گھڑ کر دینے کے لیے‬ ‫کاچو ہوا کرتا تھا۔ دوکان سے بھی گھڑی گھڑائ قلمیں مل جاتی‬ ‫تھیں۔ ٹک بڑی احتیاط کے ساتھ لگایا جاتا تھا۔ گھڑائ کے ساتھ‬ ‫ساتھ خوش خطی میں اس ٹک کا بڑا عمل ہوتا تھا۔ خوش خطی‬ ‫باقاعدہ فن تھا اور خوش خطی کے الگ سے نمبر ملتے تھے۔‬ ‫اس میں شک نہیں کہ وہ لکھائ بڑی مشقت انگیز تھی۔ ہر اگال‬ ‫لفظ لکھنے کے لیے ٹوبا لینا پڑتا تھا۔ اس قلم کے ساتھ ڈنک‬ ‫اور کچی پنسل بھی مستعمل تھے تاہم انہیں قلم کا نام و مقام‬ ‫حاصل نہ تھا۔ جی کے نب واال ڈنک انگریز کے عہد میں مستعمل‬ ‫ہوا۔ جی کے نب والے ڈنک کو انگریز ہونے کا شرف حاصل تھا‬ ‫اس کے باوجود اسے قلم کا درجہ کبھی بھی حاصل نہیں رہا۔‬ ‫هللا نے کبھی اور کہیں ڈنک یا کچی پنسل کی قسم نہیں کھائ۔ قلم‬ ‫سے کچی اور پکی سیاہی سے لکھا جاتا تھا۔ ہر دو طرح کی‬ ‫سیاہی سے لکھی گئ تحریر قلم کی تحریر تھی اس لیے معتبر‬ ‫اور محترم تھی۔ پن تو بہت بعد میں والیت سے تشریف الیا۔‬ ‫چونکہ وہ والیت سے آیا اسے پن شریف کہنا غلط نہ ہو گا۔‬ ‫دیسی گوروں نے پن شریف کو بھی قلم ہی کہا اور کسی حد تک‬


‫یہ نام بھی مستعمل ہوا۔ دیدہءبینا نے اسے کبھی قلم تسلیم نہیں‬ ‫کیا۔ ان کے ہاں یہ پن ہی مستعمل رہا۔ بھیڑ کو وہ بکری کیوں‬ ‫تسلیم کرتے۔ دیسی گورے رنگت کے گندمی‘ احساس برتری میں‬ ‫اسے پن ہی کہتے تھے۔ یہ تھا بھی پن حاالنکہ اس کے نب میں‬ ‫بھی ٹک ہوتا تھا۔ پارکر جیسا قیمتی پن بھی ٹک کے بغیر نہیں‬ ‫ہوتا تھا۔‬ ‫وقت آگے بڑھا تو قلم پن متروک ہو گیے۔ ان جگہ بال پوانٹ نے‬ ‫لے لی۔ بال پوائنٹ کو بائرو بھی کہا جاتا ہے اور یہی رائج ہے۔‬ ‫جس پوائنٹ سے لکھتے ہیں وہ بال ٹک ایک کوکا سا ہوتا ہے۔‬ ‫ٹک نہ ہونے کے سبب اس سے مروت کی آشا بے فضول سی‬ ‫ہے۔ اس میں سیاہی نہیں پڑتی۔ یہ بھری بھرائی ہوتی ہے۔ صاف‬ ‫ظاہر ہے اس میں جو بھی بھرا جاتا ہے کیمیکل سے مبرا نہیں‬ ‫ہو گا۔ بھرنے والے اپنی طینت اور مقاصد اس میں آمیزہ کرتے‬ ‫ہوں گے۔ دفاتر ہوں یا شفاخانے یا درس گاہیں‘ اس کا سکہ چلتا‬ ‫ہے اور بڑے بھار سے چلتا ہے حاالنکہ اس کی اوقات اتنی ہے‬ ‫جب اس کے اندر کا مواد ختم ہو جاتا ہے اسے کچرے کے ڈبے‬ ‫کی زینت بننا پڑتا ہے۔ اس کے برعکس پن کی یہ حیثیت نہ تھی۔‬ ‫سیاہی ختم ہوتی تو دوبارہ سے بھر لی جاتی۔ نب ٹوٹ جاتا نیا‬ ‫نب بازار سے مل جاتا تھا۔‬


‫ڈاکٹر عبداقاضی هلل کمال کے عالم فاضل ہیں۔ خیر سے ڈبل پی‬ ‫ایچ ڈی ہیں۔ زندگی پڑھنے لکھنے میں گزار دی ہے۔ ان کی‬ ‫شرح بخاری کویت سے شائع ہو رہی ہے۔ اتنے پڑھ لکھ کر بال‬ ‫پوائنٹ کی طاقت کو نہیں مانتے۔ عہد جدید میں بھی پن سے‬ ‫لکھتے ہیں وہ بھی ایگل کے پن سے۔ پارکر کا قلم رکھتے ہوئے‬ ‫ایگل کے پن سے لکھنا پارکر کی توہین کرنے کے مترادف ہے۔‬ ‫کل فون پر گفتگو کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ قلم کی حرمت‬ ‫جان سے زیادہ قیمتی ہے۔ یہ تو سنا تھا عزت‘ عزت اور حرمت‬ ‫ایک ہی بات ہے بچانے کے لیے جان کی بھی پرواہ نہیں کی‬ ‫جاتی۔ جان بار ملنے کی چیز نہیں لہذا اسے بچانے کے لیے‬ ‫عزت نیالم کر دی جاتی ہے۔ دونوں طرح کی صورتیں تاریخ میں‬ ‫ملتی ہیں۔‬ ‫عزت پر جان قربان کرنے والے خال خال ملتے ہیں۔ سقراط نے‬ ‫زہر پی لیا لیکن ارسطو میدان چھوڑ گیا۔ پورس جب جان کو‬ ‫ہتھیلی پر لے کر میدان میں اترا تو سکندر کو فرار اختیارکرنا‬ ‫پڑا۔ اہل بال پوائنٹ کو دیکھیے اس نے نیچے والے بابے کو‬ ‫اوپر قرار دے دیا۔ ریفریری کسی کو بھی آؤٹ دے سکتا ہے۔‬ ‫اچھی بھلی بال کو نو بال قرار دے دینا اس کے ایک اشارے کی‬ ‫مار ہے۔‬


‫ڈاکٹر قاضی کے نزدیک قلم سے بددیانتی ماں بہن کے ساتھ‬ ‫زیادتی کے مترادف ہے۔ قلم مستعمل نہیں اس لیے بددیانتی کا‬ ‫سوال ہی نہیں اٹھتا۔ دوسرا ہر وہ کام جسے هللا اور اس کا‬ ‫رسول حرام قرار دیتا ہے بااختیار طبقے اسے کرکے فخر‬ ‫محسوس کرتے ہیں۔ زمین پر کسی ضمنی پارٹ کے سہی وہ خدا‬ ‫ہیں‘ اس لیے وہ زندگی بھی اپنی مرضی کی گزارتے ہیں اور‬ ‫اپنی ساختہ شرع پر عمل کرتے ہیں۔‬ ‫سماجی پابندی ہو یا اخالقی یہ ان کے لیے معنویت نہیں رکھتی۔‬ ‫قانون لوگوں کے لیے ہوتا ہے اگر وہ بھی قانون کو کچھ‬ ‫سمجھیں تو ان میں اور عام لوگوں میں فرق ہی کیا رہ جائے گا۔‬ ‫رہ گیا مذہب‘ تو یہ فرد کا ذاتی مسئلہ ہے۔ دوسرا مذہب عبادت‬ ‫گاہوں کی چیز ہے لہذا عبادت گاہوں کی حدود میں اس پر عمل‬ ‫درامد فرض ہوتا ہے۔‬ ‫قلم کی بےحرمتی لوگوں کی ماں بہن کے ساتھ زیادتی کے‬ ‫مترادف ہے۔ یہاں بال پوائنٹ کی موجودگی میں اپنی یا پرائ ماں‬ ‫بہن کے ساتھ زیادتی کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ بیٹی کا ذکر اس‬ ‫لیے مناسب نہیں کہ بیٹیاں سب کی سانجی ہوتی ہیں۔‬


‫آزاد معاشروں میں سب سے پہلے اہل علم کو داڑھ کے نیچے‬ ‫رکھتے ہیں۔ یہ طبقہ آگہی پھیال کر کمزور طبقوں کو بے‬ ‫حضوریہ بناتا ہے۔ اہل جاہ اور اہل زر کی بےادبی ہی درحقیقت‬ ‫خرابی کی جڑ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے کالج کیڈر سے متعلق‬ ‫لوگوں کا پرموشن کبھی کبھار ہوتا ہے۔ دس سال بعد بھی کسی‬ ‫لیکچرر سے پوچھو تو خود کو لیکچرر بتاءے گا۔ ایک طرح‬ ‫سے انھیں مستقل مزاج بنانے کی یہ سعی عظیم ہے۔ بھولے‬ ‫سے کبھی پرموشن ہو جائے تو ان کی مٹی پلید کرنے میں کوئی‬ ‫دقیقہ اٹھا نہیں رکھا جاتا۔ اسے پنشن کے دروازے پر ال کھڑا‬ ‫کرکے مسافر بنا دیا جاتا ہے۔ دکھ کی جندریوں میں مقید رہنے‬ ‫تک زندگی کی آخری سانس کا پتہ بھی نہیں چلتا۔ بال حرکت بھی‬ ‫کوئی زندگی ہے۔ فارغ رہیں گے تو آگہی پھیالنے سے باز نہیں‬ ‫آءیں گے۔‬ ‫وہ اہل علم کو ذلیل کرنے کا بڑی خوش اسلوبی اور بڑی دیانت‬ ‫داری سے فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ ان کی فرض شناسی کو‬ ‫آب زر سے قلم بند کیا جائے گا۔ ناخواندگی کی حوصلہ افزائ‬ ‫میں ان کا کردارکبھی فراموش نہ کیا جا سکے گا۔ ڈاکٹر قاضی‬ ‫جیسے اہل علم کو تو پرموشنی چکروں میں ڈالے رکھنا پورے‬ ‫سسٹم کے ساتھ بھالئ کرنے کے مترادف ہے۔ میں مہامنشی کے‬ ‫شعبہ اعلی شکشا کے باال وزیریں اہل کاروں کی تحسین کروں گا‬


‫کہ علماء و فضال کی اسی انداذ سے قدردانی ہونی چاہیے۔۔ اگر‬ ‫انہیں گریڈ بیس مل گیا تو گریڈ وائز اعلی شکشا منشی کے برابر‬ ‫ہو جاءیں۔ یہ بات الگ ہے کہ اوقات وائز اس کے نائب قاصد‬ ‫سے بھی کمتر ہوں گے۔‬ ‫قلم کے متروک ہو جانے کے بعد محاورہ قلم کی مار دینا بھی‬ ‫کسی حد تک سہی‘ ختم ہو گیا۔ مرا نہیں تو قریب المرگ ضرور‬ ‫ہے۔ مفتا ساتھ میں لفافہ نہیں الیا ہوتا اس لیے اسے گھاس بھی‬ ‫نہیں ڈالی جاتی۔‬ ‫مفتے کو دفتر اعلی شکشا منشی کے اہلکار پر بھی نہیں لکھتے‬ ‫اس کی فائل تھوڑا بہت مواد موجود ہونے کے باوجود بال‬ ‫پوائنٹ کی آلودگی سے محفوظ رہتی ہے۔ سفارشیے اور جھڑیے‬ ‫کی فائل گردش میں رہتی ہے اور اس کی آنیاں جانیاں لگی رہتی‬ ‫ہیں۔ ہر بار عالقے کی سوغات نہیں التا تو ناسہی ایسا شاز ہی‬ ‫ہوتا ہے ورنہ وہ خالی ہاتھ نہیں آتا‘ آ کر وہاں کے حاضرین و‬ ‫ناظرین کو چاء چو تو پیش کرتا رہتا ہے۔ چاء النے والے قریبا‬ ‫آفیسر سے بقایا طلب کرنے کی غلطی کا سزاوار نہیں ہوتا۔ بقایا‬ ‫طلب کرنے کے انجام سے وہ بخوبی واقف ہوتا ہے۔‬


‫پی ایچ ڈی راگ جنگہ کی دہلیز پر‬

‫میں اپنی کسی تحریر میں عرض کر چکا ہوں‘ کہ کام کے‬ ‫پیچھے موجود غرض و غایت کے حوالہ ہی سے‘ ثمرات ہاتھ‬ ‫لگتے ہیں۔ تحقیق کا حقیقی مقصد تو یہ ہوتا ہے‘ کہ اس سے‬ ‫کچھ نیا دریافت ہو اور وہ نئی دریافت‘ بنی نوع انسان کے لیے‬ ‫سکون اور آسودگی کا باعث بنے۔ عمومی اور خصوصی سوچ‬ ‫میں‘ بالیدگی پیدا ہو۔ جب سوچ کا محور پیسہ‘ حصول جاہ یا شو‬ ‫شا اور نوکری کا حصول رہا ہو‘ تو انسانی آسودگی اور سوچ کی‬ ‫بالیدگی حرف ثانی بھی نہیں رہ پاتی۔ خودغرضی‘ مطلب بری‘‬ ‫چھینا جھپٹی اور مزید کی ہوس میں‘ ہر چند اضافہ ہی ہو گا۔‬ ‫درس گاہیں تماشہ بن جائیں گی۔ وہاں ٹھرک بھورنا یا ٹھرک‬ ‫سے بڑھ کر‘ دیکھنے سننے کو رہ جائے گا۔ علی گڑھ برصغیر‬ ‫کا صف اول کا تعلیمی ادارہ‘ اگر سرور عالم راز صاحب کے بیان‬ ‫کیے گیے ناک نقشے کا رہ جائے گا‘ تو باقی کا تو هللا ہی حافظ‬ ‫ہے۔‬ ‫پی ایچ ڈی سطع کے کام‘ ٹوٹل پورا کرنے کے مترادف رہ‬


‫جاءیں گے‘ تو اس کے بعد تو کچھ کہنے کو باقی نہ رہے گا۔ نام‬ ‫کے ساتھ ڈاکٹر کا سابقہ نتھی ہو جانے سے‘ علمی فضیلت میں‬ ‫اضافہ نہیں ہو جاتا۔ ہمارے ایک ملنے والے پی ایچ ڈی کرنے‬ ‫سے پہلے‘ عالمہ صاحب عرف رکھتے تھے۔ کچھ ہی پہلے‬ ‫میری ان سے مالقات ہوئی اور میں انہیں عالمہ صاحب کہہ کر‬ ‫مخاطب ہوا۔ انہوں نے مجھے زہریلی نظروں سے دیکھا اور اٹھ‬ ‫کر چلے گیے۔ حیرت ہوئی کہ آخر ناراض کیوں ہو گیے ہیں۔ میں‬ ‫نے اپنے ایک دوست سے ماجرا کہا۔‬ ‫انہوں نے زوردار قہقہ لگایا۔ سمجھ میں کچھ نہ آیا‘ آخر میں‬ ‫نے کون سا کسی پٹھان یا سردار کا لطیفہ سنایا ہے‘ جو‬ ‫مسکرانا کی حدوں کو پھاند رہے ہیں۔ معلوم ہوا موصوف پی ایچ‬ ‫ڈی کر گیے ہیں‘ لہذا انہیں ڈاکٹر کہالنا خوش آتا ہے۔ پی آیچ ڈی‬ ‫کرنے کا آخر فاءدہ ہی کیا‘ جو لوگ دوبارہ سے پرانا دیسی‬ ‫سابقہ استعمال میں الءیں۔ عالمہ بھی اگرچہ برصغیر سے متعلق‬ ‫نہیں ہے‘ چوں کہ مستعمل ہو گیا ہے‘ اس لیے دیسی لگتا ہے۔‬ ‫آج چوں کہ انگریز کا طوطا بولتا ہے‘ اس میں چاشنی اور‬ ‫جازبیت کا عنصر مرزا غالب ہے‘ اس لیے بگڑنا‘ الیعنی اور بے‬ ‫معنی نہیں۔‬ ‫جب وہ صاحب اگلی بار ملے تو میں نے بصد احترام جناب پی‬ ‫ایچ ڈی صاحب کہہ کر مخاطب کیا۔ اس سے بڑھ کر سعادت مندی‬


‫اور ٹی سی کیا ہو سکتی تھی‘ کہ ایک ساتھ جناب کا سابقہ اور‬ ‫صاحب کا الحقہ استعمال کر ڈاال۔ چاہیے تو تھا کہ بڑے خلوص‬ ‫سے ملتے‘ بالجواب سوال‘ قیامت خور نگاہوں سے دیکھتے‬ ‫ہوئے‘ قریب کی مسجد کے غسل خانے میں‘ جوتوں سمیت چڑھ‬ ‫دوڑے۔ میری اردو پر خفا ہونے کی ضرورت نہیں‘ طہارت گاہ‬ ‫کے لیے‘ لفظ غسل خانہ بھی مستعمل ہے۔ مجھے حیرت ہوئی‬ ‫آخر اب کیا غلطی یا غلطان سرزد ہو گیا ہے۔ میرے ایک مغربی‬ ‫پرفیسر دوست ہوا کرتے تھے۔ ایک بار میں نے انھیں ڈاکٹر‬ ‫صاحب کہہ کر پکارا ۔ انھوں نے نیم ناراضگی کی حالت میں‬ ‫فرمایا‪ :‬حسنی صاحب میں پروفیسر ہوں۔ آپ یہ ڈاکٹر صاحب‬ ‫ڈاکٹر صاحب کہہ کر کیوں مخاطب کر رہے ہیں۔ ان کا غالبا‘ ہو‬ ‫سکتا ہے یقینا یہ کہنا ہو‘ یہ تو ایسے ہی ہے‘ جیسے کسی کو‬ ‫ہیلو ایف اے صاحب یا ہیلو بی اے صاحب کہہ کر پکارا جاءے۔‬ ‫‪:‬لکھنے میں بھی اس طرح آنا چاہیے‬ ‫پروفیسر صابر آفاقی پی ایچ ڈی۔‬ ‫اصل میں نفسیاتی عارضہ ہے‘ کہ ہم کچھ کر لینے کے بعد‘‬ ‫تفاخر کا شکار ہو جاتے ہیں حاالں کہ آگہی عجز سے سرفراز‬ ‫کرتی ہے۔ ڈگری اس امر کی گواہ ہوتی ہے‘ کہ یہ شخص عجز‬ ‫سے سرشار ہو گیا ہے۔ یہاں معاملہ ہی برعکس جا رہا ہے۔ پی‬ ‫ایچ ڈی کے بعد تکبر کی‘ آسمان سے باتیں کرتی روڑی لگ‬


‫جاتی ہے۔ مجھے ایک قصہ سا یاد آگیا ہے۔ ایک صاحب جو ایم‬ ‫فل کر رہے تھے‘ انھیں مارفونیات پر اسئنمنٹ دے دی گئ۔‬ ‫سیدھا سادا لٹریچر پڑھانے واال کالج پروفیسر‘ لسانیات کی اس‬ ‫اوکھی سی اصطالح کو کیا جانے۔ جب انھوں نے دریافت فرمایا‬ ‫کہ جناب یہ کس چڑیا کا نام ہے تو ڈاکٹر صاحب بپھر گیے۔‬ ‫کہنے لگے میرا امتحان لیتے ہوئے‘ تمہیں شرم آنی چاءیے۔ اب‬ ‫شکل گم کرو۔‬ ‫ایک صاحب سے کہا گیا‘ میجک ان ریسرچ پر اسءنمنٹ لکھ کر‬ ‫الؤ۔ انھوں نے بھی پوچھا تو جواب مال‪ :‬پہلے کام کرکے الؤ‘‬ ‫پھر سوال جواب کرنا۔ یہ معاملہ سمجھ سے باہر ہے‘ کہ یہ سب‬ ‫کیا ہو رہا ہے۔‬ ‫آج کل مقالے لکھ کر دینے کا رواج زور پکڑ رہا ہے۔ جناب‬ ‫سرور عالم راز کو بھی‘ میری طرح اس فعل بد کا افسوس ہے۔‬ ‫ان کے افسوس سے لوگ ناراض ہو جاتے ہیں۔ لوگ میری الٹی‬ ‫سیدھی بکواس کو خبط کا نام دیتے ہیں۔ ویسے یہ کاروبار اچھا‬ ‫ہے‘ دس بیس دن کی نقل بازی سے‘ ایک معقول نہیں‘ معقول‬ ‫ترین رقم ہتھے چڑھ جاتی ہے۔ ان دنوں بیمار اور مالی کمزوری‬


‫سرعت انزال کا سا‘ روپ دھار چکی ہے۔ سوچتا ہوں اگر میں‬ ‫حرف کاری اوز نقل طرازی کے ہنر سے آگاہ ہوتا‘ تو باہر کی‬ ‫طرح گھر میں بھی معزز شہری ہوتا۔ کہیں باہر جا کر ترلے‬ ‫لینے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ اس سے بیک وقت چار فائدے‬ ‫میسر آتے‬ ‫‪٧‬۔ معززی میرے قدم چومتی‬ ‫‪٦‬۔ گرہ میں کڑکتے کڑکتے نوٹ آتے ہیں۔‬ ‫‪٣‬۔ ملنے والوں میں اضافہ کے سبب کوئ کام نہیں رکتا‪،‬‬ ‫‪٤‬۔ مقالہ لکھوانے واال ساری عمر کے لیے کانا ہو جاتا ہے اور‬ ‫وقتا فوقتا ناجائز اور صرف ناجاءز کام بآسانی نکلوائے جا‬ ‫سکتے ہیں۔‬ ‫‪٢‬۔ داخلی نتھیا گوڈے لگے نالگے‘ خارجی نتھیا تکمیل مقالہ‬ ‫تک‘ سر سر کا راگ جنگلہ گاتی رہتی ہے۔ یہ کوئ عام اور گیا‬ ‫گزرا اعزاز نہیں۔‬ ‫چیز خریدتے وقت مال مات دے جاتا ہے۔ اب اہلیت نے ہاتھ‬ ‫کھڑے کر دیے ہیں۔ خیر دکھ کیا کرنا ہے یا ٹنشن کیا لینی ہے۔‬ ‫میکیش بہت پہلے گا گیا ہے۔‬ ‫وہ تیرے پیار کا غم اک بہانہ تھا صنم‬ ‫اپنی قسمت ہی کچھ ایسی تھی کہ دل ٹوٹ گیا‬


‫بول میں کہیں کمی بیشی نظر آئے تو معافی کا خواستگار نہیں‬ ‫ہوں کیوں کہ اپنی قسمت ہی کچھ ایسی ہے‘ کہ ربط اور ضبط‬ ‫ٹوٹ گیا ہے۔ یقیں مانئے‘ یہ حافظے کا قصور ہے۔ کچھ باتیں‬ ‫سچی مچی بھول جاتا ہوں ورنہ ہر وہ بات جو دینی آتی ہو‘‬ ‫سماج کے مزاج کی طرح دماغ سے دانستہ اور معلوم ہوتے‬ ‫ہوئے بھی بھول جاتا ہوں۔‬

‫استاد غالب ضدین اور آل ہند کی زبان‬

‫استاد غالب بالشبہ‘ جملہ زبانوں کے شعری ادب میں جھومر کا‬ ‫درجہ رکھتے ہیں۔ اس کی بنیادی طور پر تین وجوہ ہیں۔‬ ‫‪٧‬۔ اوروں سے ہٹ کر اور الگ سے بات کرتے ہیں۔‬ ‫‪٦‬۔ اپنے کہے کا جواب پیش کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کبھی‬ ‫بات اور کبھی جواز‘ غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے۔‬


‫‪٣‬۔ مزید وضاحت کے لئے ضدین کا بکثرت استعمال کرتے ہیں۔‬ ‫ان کی عملی زندگی میں‘ ضدین کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ آدھا‬ ‫کافر اور آدھا مسلمان ہونے کا جواز رکھتے تھے۔ کافری‘‬ ‫درحیقیقت ان کی مسلمانی کی شناخت تھی۔ استاد کا یہ بڑا پن‬ ‫تھا‘ جو انھوں نے اپنی کافری کا اقرار کیا‘ ورنہ سو میں سے‬ ‫ایک بھی نہیں نکلے گا‘ جو اپنی ذات کی غالب ضد کا اقرار‬ ‫کرے۔ دیکھائے کوئی ایک عیسائی‘ جو تپھڑ رسید کرنے والے‬ ‫کے سامنے‘ اپنا دوسرا پنجے سے پاک صاف رخسار پیش کر‬ ‫دیتا ہو۔ یہی صورت مسلمانوں کی ہے۔ آپ کریم نے ایک جملے‬ ‫میں انسانی آئین بیان کر دیا۔ آپ کریم کا فرمان گرامی ہے کہ‬ ‫مسلمان کے ہاتھ اور زبان سے کسی کو نقصان نہیں پہنچتا۔ آج‬ ‫مسلمانوں کی‘ کسی خطہ میں کمی نہیں‘ لیکن وہ اپنی شخصیت‬ ‫میں موجود غیر مسلمانی ضد کو‘ تسلیم نہیں کرے گا۔ اس لحاظ‬ ‫استاد غالب نمبر لے گئے ہیں۔‬ ‫ہمارے‘ هللا بخشے‘ ایک ملنے والے ہوا کرتے تھے۔ بڑے‬ ‫خوش مزاج تھے۔ ایک دو تین نہیں‘ چار عدد خواتین کے‬ ‫مجازی خدا تھے۔ چہرے پر اکلوتا چب یا ڈنٹ نہیں تھا۔ اکلوتی‬ ‫خاتون کے مزاجی خدا کا چہرا مبارک دس بیس سالوں میں لمک‬ ‫جاتا ہے۔ خواتین پھولتی جاتی ہیں‘ جبکہ مرد حضرات اپنے‬


‫مرحوم یا زندہ والدین کا محض صدقہ جاریہ رہ جاتے ہیں۔‬ ‫دوست احباب حیران تھے‘ چومکھی لڑائی کے بعد بھی حضرت‬ ‫ناصرف توانا اور صحیح سالمت ہیں‘ مزید کی خواہش بھی‬ ‫رکھتے ہیں۔ ہر بار اسالم آڑے آ جاتا۔‬ ‫مرحوم اور پانچویں سے محروم‘ بڑے اسالم پرست تھے۔‬ ‫اسالمی معروف کلمات موقع بہ موقع ادا کرتے رہتے تھے۔ مثال‬ ‫سبحان هللا‘ بسم هللا‘ هللا اکبر‘ ماشاءهللا‘ ان شاءهللا وغیرہ وغیرہ۔‬ ‫جنازہ اور عیدین کی نمازوں کا‘ شاید ہی‘ ان سا‘ کوئی پابند ہو‬ ‫گا۔ سالم میں پہل کرنا‘ بڑے پیار سے سالم کا جواب دینا‘ ان کی‬ ‫فطرت ثانیہ کا درجہ رکھتے تھے۔ تلقین تک ان کا اسالم اے ون‬ ‫تھا۔ اسی طرح اور بھی اسالمی واجبات میں ان کا ڈھونڈے سے‬ ‫ثانی نہ مل سکے گا۔‬ ‫ایک دن‘ میں نے بے تکلف ہونے کی کوشش میں‘ پوچھ ہی لیا‘‬ ‫آپ چاروں طرف سے گرفت میں ہیں لیکن عمال آپ کے چہرے‬ ‫اورجسم‘ جان اور روح پر گرفت کے رائی بھر آثار موجود نہیں‬ ‫ہیں۔ آپ اوپر نیچے کی بچی اطراف کو بھی‘ کوور کرنے کی‬ ‫فکر میں ہیں۔ آپ کی صحت اور خوش طبی کا راز کیا ہے۔‬ ‫خوراک سے یہ مسلہ حل ہونے واال نہیں‘ تیتر کھال کر ایک‬ ‫مرتبہ زوجہ ماجدہ کا چہرا کرا دینے سے‘ دو بوند بننے واال‬


‫کیا‘ پہلے سے موجود میں سے بھی‘ ڈیڑھ پاؤ ناسہی‘ پاؤ تو‬ ‫ضرور خشک ہو جاتا ہے۔ مرحوم میری بے تکلفی کے قریب کی‬ ‫سن کر ہنس پڑے۔ پھر سنجیدہ سے ہو گئے۔ دو تین منٹ‬ ‫سنجیدگی کی نذر ہو گئے۔‬ ‫اس سنجیدگی کو دیکھ کر ہم یہ سمجھے حضرات اندر سے‬ ‫دکھی اور زخمی ہیں۔ اگر یہ سنجیدگی تقریبا نہ ہوتی‘ تو میں‬ ‫شدید کا سابقہ استمال کرتا۔ سنجیدگی اور خاموشی بتا رہی تھی‬ ‫کہ یہ کچھ بتانے والے نہیں اور بات کو گول مول کر دیں گے۔‬ ‫ہمارا اندازہ غلط نکال۔ فرمانے لگے یک فنے ناکام رہتے ہیں۔‬ ‫اپنے اپنے استاد ہی کو لے لو‘ شاعر نثار اور نقاد ہونے کے‬ ‫ساتھ ساتھ بذلہ سنج بھی تھا۔ خوش طبی میں اس کا ثانی دکھاؤ۔‬ ‫ان کی خوش طبی جڑے واقعات ابھی تک جمع نہیں ہوئے۔ یک‬ ‫فنے تکرار کا شکار رہتے ہیں۔ میں چوفنا ہوں۔ میں ضدین کا‬ ‫قائل‘ مائل اور عامل ہوں۔‬ ‫کمال ہے‘ ازدواجین میں رہ کر بھی‘ مکمل ہوش و حواس اور‬ ‫دانش سے لبریز گف گو فرما رہے تھے۔‬ ‫میں یہ ضدین اور کامیابی کا فلسفہ نہیں سمجھ سکا۔‬


‫جاؤ‘ پہلے جا کر‘ عقد ثانی کرو‘ پھر آنا‘ سمجھا دوں گا۔ یہ‬ ‫تمہارے کام کی چیز نہیں اور ناہی تمہارے لئے‘ عمل کی راہ‬ ‫موجود ہے۔‬ ‫پہلے سمجھائیں‘ پھر عقد ثانی کا انتظام و اہتمام کروں گا۔ بڑے‬ ‫بڑے بادشاہوں نے دھڑلے سے حکومت کی ہے۔ کیوں‘ ضدین‬ ‫کے فلسفے سے آگاہی رکھتے تھے۔ کوئی دھڑا ہاتھ سے جانے‬ ‫نہیں دیتے تھے۔ چور کو کہتے چوری کرو‘ گھر والوں کو‘‬ ‫ہوشیار رہنے کی تاکید کرتے۔ دونوں سمجھتے‘ بادشاہ ہمارا‬ ‫ہے‘ ۔حاالں کہ وہ کسی کا نہیں ہوتا۔ وہ تو تاج و تخت کے‬ ‫معاملہ میں‘ اپنی اوالد کا خیر خواہ نہیں ہوتا۔ جو دائیں آنکھ پر‬ ‫چڑھتا‘ اسے طریقے سے‘ مروا دیتا تھا۔ یہ کام بھی تکنیکی‬ ‫انداز سے کرتا تھا۔ دو فریقوں سے گہری رکھ کر‘ ان میں نفاق‬ ‫پیدا کرکے‘ لڑا دیتا۔ ایک فریق قتل ہو جاتا‘ تو دوسرا انصاف‬ ‫بھینٹ چڑھ جا۔‬ ‫میں نے عرض کی‘ حضور اسالم نفاق ڈالنے کی اجازت نہیں‬ ‫دیتا۔ آپ اسالم دوست ہیں اپنے گھر میں ہی نفاق ڈالتے ہیں۔‬ ‫کہنے لگے‘ ہم سب آدھے مسلمان ہیں اور آدھے کافر۔‬


‫نکاح سنت ہے اور اس سنت کی میں نے آخری سطع چھو رکھی‬ ‫ہے‘ اس حوالہ سے آدھا مسلمان ہوں۔ تقسیم کرتا ہوں‘ اس‬ ‫حوالہ سے آدھا کافر ہوں۔ تقسیم نہیں کروں گا‘ تو حکومت‬ ‫کیسے کروں گا۔ یہ تو مانتے ہو‘ میری آدھی مسلمانی قائم ہے۔‬ ‫تم لوگ تو آدھی مسلمانی سے بھی محروم ہو‘ تب ہی تو تمہاری‬ ‫زندگی چھتر چھاوں میں بسر ہو رہی ہے۔‬ ‫نفاذ اسالم ایسا آسان کام نہیں‘ زوجہ جانی کا خوف اور دہشت‬ ‫گردی اپنی جگہ‘ مہنگائی نے سانس لینا دوبھر کر دیا ہے۔ دو‬ ‫کہووں کی واہی کے بیلوں کے لئے‘ چارہ وغیرہ کہاں سے آئے‬ ‫گا۔ ہاں البتہ‘ آدھی مسلمانی کا رستہ بند نہیں ہوتا۔ عقد ثانی‘ نفاذ‬ ‫اسالم کا ذریعہ موجود ہے۔ مالزم ہو‘ تو خوب رشوت لو‘ تاجر‬ ‫ہو‘ تو معمول کی بددیانتی کو تگنا کر دو۔ دوگنا زوجہ ثانی کے‬ ‫لئے‘ جبکہ تیسرا اگال چانس لینے کے لئے۔‬ ‫ہم انگریز کی شرع اور شرح پر چلتے آ رہے ہیں۔ ان سے پہلوں‬ ‫کی بھی یہی شرح تھی۔ جس کا واضح ثبوت‘ مقامی غداروں کا‬ ‫میسر آ جانا ہے۔ اگر یہ غدار میسر نہ آتے‘ تو آنے والوں کے‬ ‫لفڑے لہہ جاتے۔ آتا کوئی سر اور دھڑ سالمت نہ رہتا‘ بلکہ ان‬ ‫کی الشوں پر بین کرنے واال بھی نہ ملتا۔‬


‫برصغیر میں ٹوپی سالر کے عہد ہی سے‘ مسلم اقتدار کا زوال‬ ‫شروع ہو گیا تھا۔ تاہم اقتدار مسلمانوں کے پاس ہی تھا۔ بہادر‬ ‫شاہ اول کوئی مضبوط حکمران نہ ‘لیکن کسی حد تک سہی‘‬ ‫اپنے پیش رو کی طرح ایک ہی وقت میں‘ ایک ہی شخص کو‘‬ ‫قبض اور پیچس الحق کرنے سے آگاہ تھا۔ ‪ ٧١٧٦‬میں اس گر‬ ‫سے نابلد لوگ‘ تخت نشین ہوئے۔ والی مسیور کی شہادت کے‬ ‫بعد بھی‘ مزاحمت ہوتی رہی‘ لیکن ٹیپو آخری دیوار تھی۔ اسے‬ ‫غیر کیا فتح کرتے‘ گھر کے بھیدی لے ڈوبے۔‬ ‫اس ذیل میں میر صاحب کا کہا مالحظہ ہو۔‬ ‫غیر نے ہم کوذبح کیا ہے طاقت ہے نے یارا ہے‬ ‫ایک کتے نے کرکے دلیری صید حرم کو پھاڑا ہے‬ ‫اس کے بعد شدید خطرے کا کوئی امکان باقی نہ رہا۔ انگریز کو‬ ‫کھال میدان مل گیا۔ وہ ہر مرضی کی کھیل پر قادر ہو گیا۔‬ ‫ٹیپو کی شہادت کا بڑی دھوم سے جشن منایا گیا۔ اس جشن میں‘‬ ‫اس کے نام نہاد اپنے بھی شامل تھے۔ انگریز ضدین کی‬ ‫ضرورت اور اہمیت سے خوب خوب آگاہ تھا۔ یوں کہنا زیادہ‬


‫مناسب ہو گا‘ کہ وہ یہاں کے پہلوں کا بھی پیو تھا‘ تو غلط نہ‬ ‫ہو گا۔ قبض‘ پیچس اور ہیضہ ایک وقت میں‘ ایک شخص کو‬ ‫الحق کر دئے گئے۔ اس طرح‘ آل ہند کی تقسیم و تفریق کے بہت‬ ‫سارے دروازے کھول دئیے گئے۔‬ ‫اس ذیل میں‘ فورٹ ولیم کالج کے کردار کو نظر انداز کرنا‘‬ ‫زیادتی ہو گی۔ اس کی خدمات‘ سنہری حروف میں‘ درج کئے‬ ‫جانے کے قابل ہیں۔ اس نے‘ آل ہند کی زبان کے‘ دو خط‬ ‫متعارف کرائے۔‬ ‫اردو خط‘ مسلمانوں کے لئے اور اسے مسلمانوں کی زبان قرار‬ ‫دیا۔‬ ‫دوسرا خط‘ آل ہند کی غیرمسلم عقیدہ والی نسل کے لئے اور‬ ‫اسے ان کی زبان کا نام دیا۔‬ ‫اس سے بیک وقت تین فائدے ہوئے۔‬ ‫‪٧‬۔ آل ہند زبان پر تقسیم ہو کر باہمی نفاق کا شکار ہو گئی۔‬ ‫‪٦‬۔ ایک دوسرے کے‘ تحریری اور علمی و ادبی سرمائے سے‘‬ ‫دور ہو گئی۔‬ ‫‪٣‬۔ بولنے والوں کی گنتی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔‬


‫آل ہند کی یہ زبان‘ دنیا میں دوسرا نمبر رکھتی ہے۔ اپنے تعدادی‬ ‫اسٹیٹس سے محروم‘ نہیں مرحوم ہو گئی۔‬ ‫ایک ہی بات‘ دو خطوں میں لکھی‘ الیعنی ٹھہری۔انگریز نے‬ ‫اپنے رابطے کے لیے رومن خط کو رواج دیا‬ ‫حاالں کہ حقیقت یہ ہے‘ کہ زبان کسی کی نہیں ہوتی‘ زبان تو‬ ‫اسی کی ہے‘ جو اسے استعمال میں التا ہے۔‬ ‫زبان کی خواندگی کے لئے چار عمومی امور ہوتے ہیں۔‬ ‫‪٧‬۔ بولنا‬ ‫‪٦‬۔ سمجھنا‬ ‫‪٣‬۔ لکھنا‬ ‫‪٤‬۔ پڑھنا‬ ‫ان میں سے‘ کسی ایک سکل سے متعلق شخص کو‘ نا خواندہ‬ ‫قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہمارے ہاں‘ ان پڑھ حضرات کی کمی‬ ‫نہیں۔ وہ دیوناگری والوں کی فلمیں ڈرامے اور دیگر پروگرام‬ ‫دیکھتے ہیں۔ انھیں ان کی سمجھ بھی آتی ہے لیکن وہ بول نہیں‬ ‫سکتے۔ یہی حال‘ پڑھے لکھوں کا ہے۔ سمجھ اور بول سکتے‬


‫ہیں۔ اردو خط والوں کا کہا‘ دیو ناگری خط والوں کے لیے غیر‬ ‫نہیں‘ لیکن دونوں‘ ایک دوسرے کے تحریری سرمائے سے‘‬ ‫استفادہ کرنے سے قاصر ہیں۔‬ ‫رومن‘ آل ہند کو ایک مقام پر کھڑا کرتا ہے‘ لیکن اس سے فائدہ‬ ‫انگریزی جاننے والے ہی اٹھا سکتے ہیں۔ اس دائرے میں‘ دیگر‬ ‫لوگ‘ انگریز عرب جاپانی وغیرہ‘ آ جاتے ہیں۔ اس حوالہ سے‬ ‫دیکھا جائے تو‘ یہ دنیا کی نصف آبادی سے زیادہ لوگوں کی‬ ‫زبان شمار ہوگی۔‬ ‫آل ہند کی اس زبان کے ساتھ‘ غیر تو غیر‘ اپنے بھی سازشوں‬ ‫میں مصروف ہیں۔‬ ‫ایم فل اور پی ایچ ڈی سطع کے تحقیقی کام‘ ٹوٹل پورا کرنے‬ ‫کے مترادف ہو رہے ہیں۔‬ ‫دونوں خطوں کی تحریریں ایک دوسرے کے لیے حوالہ نہیں بن‬ ‫رہیں۔‬ ‫انگریزی یا کسی دوسری زبان کے مواد سے‘ تصرف عیب نہیں‬ ‫لیکن یہ ایک دوسرے سے حوالہ نہیں لے رہے۔‬


‫آل ہند کے درمیان زبان کے حوالہ سے‘ تعصب کی فلک بوس‬ ‫دیوار کھڑی کر دی گئی ہے۔‬ ‫ستم دیکھئیے سرور عالم راز صاحب بڑے زبردست عالم فاضل‬ ‫ہیں۔ اپنے ایک خط میں کیا فخر سے فرماتے ہیں۔‬ ‫اردو انجمن میں صرف اردو اور رومن اردو میں ہی چیزیں‬ ‫لگائی جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫ابھی کچھ عرصہ قبل ہی ایک صاحب نے ہندی میں یہاں لکھنے‬ ‫کی کوشش کی تھی‬ ‫اور بصد معذرت ان کو منع کر دیا گیا تھا۔‬ ‫آپ سے کوئی پوچھے‘ یہ رومن خط کس طرح کی اردو ہے؟‬ ‫اس زبان کے دو خط ‘ان کو گوارا ہیں‘ تیسرا انھیں خوش نہیں‬ ‫آتا۔ اصل انصاف تو یہ ہے‘ کہ یہاں صرف اردو خط والوں کو‬ ‫جگہ دی جائے۔ ہاں دیگر زبانوں کا مواد شائع نہیں ہونا چاہیے‬ ‫کیونکہ یہ فورم صرف اور صرف اردو خط والوں کا ہے۔ اس کا‬ ‫نام ہی اردو انجمن ہے‘ اس لئے دوسری زبان کا مواد آنا‘ درست‬ ‫اور مناسب نہیں۔ یہ معاملہ مبنی بر حق ہے۔‬


‫دو قومی نظریہ اور اسالمی ونڈو‬

‫کمپیوٹر سے وابستہ لوگ‘ اس امر سے خوب خوب آگاہ ہوں‬ ‫گے‘ کہ جب سسٹم میں وائرس داخل ہو جاتا ہے‘ تو وہ کمپیوٹر‬ ‫کی مت مار دیتا ہے۔ اچھا خاصا چلتا چلتا کمپیوٹر‘ آسیب زدہ ہو‬ ‫کر رہ جاتا ہے۔ بعض وائرس‘ کمپیوٹر کی غیر طبعی موت کا‬ ‫سبب بن جاتے ہیں۔ کچھ اسے موت کے گھاٹ نہیں اتارتے‘‬ ‫لیکن دائمی فالج کا موجب بن جاتے ہیں۔ ٹھیک ٹھاک اور قیمتی‬ ‫مواد کھا پی جاتے ہیں۔ یہی نہیں‘ ستم اس پر یہ‘ کہ مواد کو‬ ‫دسویں جماعت کا ریاضی بنا دیتے ہیں۔ دسویں جماعت کے‬ ‫ریاضی میں الجبرا بھی شامل ہے اور یہ الجبرا‘ جبر کے تمام‬ ‫رویوں اور رجحانات پر استوار ہوتا ہے۔ ہستا مسکراتا کھیلتا‬ ‫کودتا کمپیوٹر‘ نامراد وائرس کے باعت سکتے میں آ جاتا ہے۔‬ ‫گویا وائرس کی بن بالئے مہمانی‘ کچھ بھی گل کھال سکتی ہے‬ ‫یا یوں کہہ لیں‘ وہ کچھ ہو سکتا ہے‘ جس کا خواب بھی نہیں‬ ‫دیکھا گیا ہوتا۔‬


‫وائرس مرتا نہیں‘ مارتا ہےاور ہر حالت میں‘ من مانی میں‘ اپنی‬ ‫اصولی عمر‘ دبدبے اور پورے بھار سے پوری کرتا ہے۔ کوئ‬ ‫دوا‘ دارو ٹیکہ اس کا بال بیکا نہیں کر پاتا‘ ہاں متاثرہ کی قوت‬ ‫مدافعت میں‘ اضافہ کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔ کچھ لوگ اس‬ ‫امر سے آگاہ نہیں ہیں‘ کہ انٹی وائرس‘ وائرس کو مارنےکے‬ ‫لیے فیڈ نہیں کیے جاتے۔ یہ وائرس سے پاک سسٹم میں اس‬ ‫لیے فیڈ کیے جاتے ہیں کہ سسٹم میں وائرس داخل نہ ہونے‬ ‫پائے۔ انٹی وائرس کا‘ اول تا آخر مقصد یہ ہوتا ہے‘ کہ وائرس‬ ‫کو سسٹم سے دور رکھا جائے۔ دوسرا یہ سسٹم کی قوت مدافعت‬ ‫کی حفاظت کرتا ہے۔ اس کی مثل ویکسین کی سی ہوتی ہے۔‬ ‫عمومی زبان میں‘ اسے حفاظتی ٹیکے کا نام بھی دیا جا سکتا‬ ‫ہے۔ انٹی وائرس یا ویکسین‘ وائرس کے دخول سے پہلے کی‬ ‫چیزیں ہیں۔‬ ‫مختصر مختصر یوں کہہ لیں‘ انٹی وائرس یا ویکسین‘ دراصل‬ ‫سسٹم کی حفاظت سے متعلق چیزیں ہیں۔ انھیں خطرے سے‬ ‫بچاؤ کا عمل بھی کہا جا سکتا ہے۔ جیسے مچھر سے بچنے کے‬ ‫لیے مچھر دانی کا استعمال کیا جائے۔ ڈینگی سے بچنے کے‬ ‫لیے‘ یعنی الخق ہونے سے پہلے‘ حفاظتی تدابیر اختیار کی‬ ‫جائیں۔ ڈینگی حملے کی صورت میں‘ فوری موت واقع نہیں‬ ‫ہوتی‘ تو مدافعتی نظام کی طرف توجہ دی جائے۔‬


‫کسی دوائی وغیرہ سے وائرس نہیں مرے گا۔ متاثرہ کو پانی کی‬ ‫بھرتی رکھیں۔ سیب کا خود جوس نکال کر پالئیں۔ مرد ہو تو‬ ‫عورت اور عورت کی صورت میں‘ مرد کا جوس تیار کرنا‬ ‫مناسب رہے گا۔ اگر یہ خدمت‘ گھریلو‘ ذاتی اور پالتو قسم کے‬ ‫خواتین و حضرات نہ ہی انجام دیں تو مناسب رہے گا۔ وائسرسی‬ ‫عاللت بد کی صورت میں‘ بیرونی‘ مگر حسین دنیا سے رابطہ‘‬ ‫مریض کی قوت مدافعت میں‘ خاطر خواہ اضافے کا سبب ہو گا۔‬ ‫شہتوت کے پتوں کو پانی میں ابال کر‘ ٹھنڈا کرکے پالئیں۔ اس‬ ‫حالت میں کڑوی اشیا کا‘ قدرے اور خفیف استعمال‘ مفید رہتا‬ ‫ہے۔ دن میں ٹی ڈی ایس یعنی تین بار ذاتی جنس مخالف کا چہرہ‬ ‫کراتے رہنا‘ مریض کے لیے ناسہی‘ مرض کے لیے مناسب رہتا‬ ‫ہے۔ ہاں اس ذیل میں‘ ہمہ وقتی دیدار‘ جان لیوا بھی ثابت ہو‬ ‫سکتا ہے۔‬ ‫برصغیر عرصہ دراز سے‘ خارجی اور غیر درآمدہ وائرس کی زد‬ ‫میں ہے۔ سکندر سے پہلے‘ یہ یہاں سے بچے پکڑ کر لے جاتا‬ ‫اور ان کی قربانی‘ دیوتاؤں کے حضور نظر کر دیتا تھا۔ اس سے‬ ‫پہلے یا بعد کے وائرس بڑے خطرناک تھے۔ کیا کچھ کرتا تھا‘‬ ‫زیادہ معلومات موجود نہیں ہیں۔ بہرطور‘ یہ تو طے ہے کہ‬ ‫وائرس سسٹم کی تباہی کا سبب بنتا ہے۔ حفاظتی عمل اور‬ ‫مدافعتی قوت کے کامل صحت مند ہوتے ہوئے‘ جسم یعنی سسٹم‬


‫کے اندر سے‘ کوئ میر جعفر پیدا ہو جاتا ہے‘ جو داخلے کا‬ ‫رستہ بتا کر‘ ہنستے بستے‘ کھیلتے کودتے نظام کو‘ مٹی میں‬ ‫مال دیتا ہے۔ اس کی مت ماری جاتی ہے اور وہ یہ نہیں سمجھ‬ ‫پاتا‘ کہ وہ اسی سسٹم کا حصہ ہے۔‬ ‫ہوتا تو وہ بھی وائرس ہی ہے‘ اس کے کام بھی وائرسوں والے‬ ‫ہوتے ہیں‘ لیکن مقامی سسٹم‘ اسے اس کے کاموں سمیت‘ قبول‬ ‫چکا ہوتا ہے۔ سسٹم اس وائرس کی منفی فطرت کے باوجود‘‬ ‫اس سسٹم کا حصہ نہ ہوتے ہوئے بھی‘ اسے اپنا حصہ سمجھتا‬ ‫ہے۔ اس کے باعث‘ سسٹم میں سو طرح کی خرابیاں آتی رہتی‬ ‫ہیں‘ لیکن سسٹم کا مدافعتی نظام چلتا رہتا ہے۔ حاالں کہ اس کا‬ ‫سسٹم میں رہنا‘ کسی بھی حوالہ سے ٹھیک نہیں ہوتا۔ کیا کیا‬ ‫جائے‘ وائرس داخلی ہو یا خارجی‘ اس کا اس کی طبعی عمر‬ ‫سے پہلے‘ کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ سسٹم کو اس کی طبعی عمر‬ ‫تک‘ برداشت سے کام لینا پڑتا ہے۔ بس کرنے کا کام یہ ہوتا‬ ‫ہے‘ کہ سسٹم کے مدافعتی نظام کو ڈولنے نہ دیا جائے۔‬ ‫چٹی چمڑی واال وائرس‘ تو کل پرسوں سے تعلق رکھتا ہے اور‬ ‫ہم اس کی تباہ کاری کے باعث‘ بیمار جیون جی رہے ہیں۔ اس‬ ‫وائرس نے کمال ہوشیاری سے‘ تقسیم کے بہت سارے دروازے‬ ‫کھول دئیے۔ کبھی زبان کے حوالہ سے تقسیم کرکے‘ باہمی‬


‫نفرتوں کو سسٹم کا حصہ بنایا۔ زبان ہی کیا‘ رنگ‘ نسل‘ قومیت‬ ‫اور عالقہ کی افواہ بھی‘ تقسیم کی اگنی کو بڑی راس آئی۔ میں‬ ‫یہاں مولوی‘ پنڈت یا فادر کا نام احتراما نہیں لوں گا۔ هللا نے پیٹ‬ ‫تو خیر ان کو بھی دیا ہے۔ کیا ہوا‘ جو وہ عمومی کی ذیل میں‬ ‫نہیں آتا۔ خصوص کا تذکرہ‘ موت کو ماسی کہنے کے مترادف‬ ‫ہے۔ اگر کوئی مراد لیتا ہے‘ تو یہ اس کی اپنی جی جان پر۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫سیدھی سی بات ہے‘ میرا ذمہ اوش پوش۔۔۔۔۔۔۔ میری زبان پر‘ ان‬ ‫کے لیے عزت کے کلمے ہی رہے ہیں۔ عقیدے میں‘ زبان سے‬ ‫اقرار کو‘ ایمان کا حصہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ باقی رہ گیا دل‘ تو‬ ‫دلوں کی هللا ہی جانتا ہے۔ دل کے معاملے‘ کسی قسم کے فتوے‬ ‫کی زد میں نہیں آتے۔‬ ‫‪1905‬‬ ‫میں‘ دو قومی نظریے کو داخلی وائرس کے ذریعے‘ عام کیا گیا‬ ‫اور پھر اس تماشے سے‘ خوب البھ اٹھایا۔ یہ کون سا ایسا نیا‬ ‫نظریہ تھا‘ یہ نظریہ ہزاروں سال پر محیط ہے۔ سورہ کافرون‬ ‫میں بھی‘ تو دو قومی نظریے کی ہی نشان دہی کی گئی ہے۔‬ ‫لوگوں نے اصل مطب نہ سمجھا‘ وہ یہ ہی سمجھتے رہے‘ کہ‬ ‫الگ مملکت میں اپنے نظریاتی نظام کے تحت اصولی‘ قانونی‬ ‫اورآئینی زندگی بسر کریں گے۔ داخلی وائرس نے‘ مٹھی بند‬ ‫رکھی‘ تاہم اس ذیل میں کوئ قرارداد بھی منظور نہ کی اور ناہی‬


‫کوئ قرارداد پیش ہوئی۔ اس سسٹم کو کبھی بھی‘ اسالمی ونڈو‬ ‫نہیں دی گئی۔ جمہوریت کے حوالہ سے‘ اسالمی ونڈو کرنے کی‬ ‫ضرورت تھی۔ داخلی وائرس‘ جو سسٹم پر ڈومینٹ رہا ہے‘‬ ‫اسے اسالمی ونڈو کس طرح خوش آسکتی تھی یا خوش آسکتی‬ ‫ہے۔ وائرس سسٹم کے لیے بہتری سوچے‘ یہ کیسے اور‬ ‫!کیونکر ممکن ہے؟‬ ‫مزے کی بات یہ کہ‬ ‫پاکستان کا مطلب کیا‘ ال الہ اال هللا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نعرہ سیال کوٹ کے‬ ‫پروفیسر اصغر سودائی نے دیا۔ لوگ اسے لیڈری نعرہ سمجھھ‬ ‫بیٹھے۔ حقیقت تو یہ ہے‘ کہ یہ نعرہ پروفیسری تھا۔ پروفیسر‬ ‫اور سیاست کا کیا تعلق؟ یہ نعرہ بھی غیر سیاسی ثابت ہوتا ہے‘‬ ‫تاہم پاکستان بننے میں‘ اس نعرے کا کلیدی رول ہے۔ بنانے‬ ‫والے عوام ہیں۔ اس تناظر میں “پاکستان“ غیر لیڈری اور غیر‬ ‫سیاسی ٹھہرتا ہے۔‬ ‫ایک صاحب مرغے کے ساتھ روٹی کھا رہے تھے‘ یعنی ایک‬ ‫لقمہ خود لیتے‘ دوسرا لقمہ اپنے مرغے کو پھینک رہے تھے‬ ‫گو کہ مرغا سائز اور حجم میں چھوٹا ہوتا ہے۔ کسی نے پوچھا‘‬ ‫میاں یہ کیا رہے ہو؟ بولے‘ ہم خاندانی لوگ ہیں‘ ہمیشہ مرغے‬ ‫کے ساتھ روٹی کھاتے ہیں۔‬


‫چٹی چمڑی واال وائرس بڑا خاندانی ہے‘ مرغے کے ساتھ روٹی‬ ‫کھاتا ہے۔ جو لوگ مرغ باز ہیں‘ وہ اپنے مرغے کی صحت‘‬ ‫توانائ اور جوانی کا خیال رکھتے ہیں۔ سسٹم کے ہر پرزے پر‘‬ ‫یہ واضع کرنے کی اشد ضرورت ہے‘ کہ وائرس دسترخوان اور‬ ‫شہوت کے حوالہ سے‘ کبھی کسی نظریے کا قائل نہیں رہا۔ مرغا‬ ‫غیر زمین پر رہتے ہوئے‘ خارجی وائرس کے لیے‘ محترم اور‬ ‫معتبر رہتا ہے۔ وہ اس کا جٹھکا‘ اس وقت کرتا ہے‘ جب مرغا‬ ‫میدان کا نہیں رہتا۔ میدان واال مرغا‘ خاندانی لوگوں کے ساتھ‬ ‫ہی‘ ناشتہ پانی کرتا آیا ہے اور کرتا رہے گا۔‬ ‫اسالمی ونڈو کرنے سے‘ خارجی وائرس کبھی بھی‘ سسٹم میں‬ ‫داخل نہیں ہو سکے گا۔ داخلی وائرس کو‘ سسٹم کا مدافعتی‬ ‫نظام‘ پہلی سانس پر ہی‘ دبوچ لے گا۔ اس ونڈو میں‘ قباحت یہ‬ ‫ہے کہ لیڈری نہیں‘ عوامی ہے۔ عوام ڈبے میں ووٹ ڈالنے تک‘‬ ‫محترم اور معزز ہیں‘ اس کے بعد کیا ہیں‘ کچھ بھی نہیں ہیں۔‬ ‫اگر یہاں‘ میں ناہیں سبھ توں‘ تصوف واال ہوتا‘ تو شاہ حسین‬ ‫الہوری کے پیرو ہوتے۔ یہاں معاملہ برعکس ہے۔ لیڈری توں‬ ‫میں‘ عوام نہیں کے درجے پر فائز رہ کر‘ تصوف کے توں سے‬ ‫کوسوں دور رہتے ہیں۔‬


‫رونا سکول کے گرنے کا نہیں‘ اصل رونا تو ماسٹر کے بچ‬ ‫جانے کا ہے۔ ماسٹر مائنڈ وائرس سے پہلے‘ داخلی وائرس کو‬ ‫نکال باہر کرنے کے لیے‘ بڑا ہی موثر سافٹ وائر دریافت کرنے‬ ‫کی ضرورت ہے۔ آتی نسلوں کو‘ اس سے بچانے کے لیے‘‬ ‫سماجیات کے ڈاکٹر قدیر‘ سر جوڑ کر سوچیں‘ اور اس نوع کے‬ ‫سوفٹ وئر دریافت کرنے کی کوشش کریں۔ ہاں اس کی کسی کو‘‬ ‫ہوا تک لگنے نہ دیں‘ اور پھر‘ اچانک دھماکہ کردیں۔ سسٹم جب‬ ‫داخلی وائرس سے آزاد ہو گیا‘ تو خارجی وائرس سے بچنے‬ ‫‘کے لیے‬ ‫ایک نہیں‘ بیسیوں انٹی وائرس دریافت ہو جائیں گے۔‬ ‫اکتوبر ‪٦٧٧٦‬کی بہترین ماہانہ تحریر کا بیج حاصل کرنے والی‬ ‫تحریر‬

‫شیڈولڈ رشوتی نظام کے قیام کی ضرورت‬

‫ایک چرسی نے پاس سے گزرتے شخص سے ٹائم پوچھا‘ اس‬ ‫شخص نے کہا پانچ بج کر بیس منٹ۔ اس پر چرسی بوال‘ اس‬


‫ملک نے خاک ترقی کرنی ہے۔ صبح سے پوچھ رہا ہوں‘ ہر‬ ‫کسی کا اپنا ٹائم ہے۔ بات تو ہنسی والی ہے‘ لیکن ذرا غور کریں‬ ‫گے‘ تو اس بات کو معنویت سے تہی نہیں پائیں گے۔‬ ‫اس ملک میں‘ ہر کسی کا شیڈول اپنا ہے۔ معامالت کو اپنے‬ ‫مطلب کے معنی دے رکھے ہیں اور اس ذیل میں دالئل بھی گھڑ‬ ‫رکھے ہیں۔ یہی منڈی کے بھاؤ کی صورت ہے۔ ایک ہی چیز کے‬ ‫مختلف بھاؤ سننے کو ملیں گے۔ بازار چلے جائیں‘ اشیائے‬ ‫خوردنی کے‘ ایک سے‘ نرخ سننے کو نہیں ملیں گے۔ کپڑا‬ ‫خریدنا ہو یا سلوانا‘ ہر کسی کے اپنے نرخ ہوتے ہیں۔‬ ‫سیاستدار ہو یا سیاست پرداز‘ صبح کو کچھ‘ اور شام کو کچھ‬ ‫کہتا ہے۔ بعض تو اگلے لمحے ہی‘ شخص اور موقع کی مناسبت‬ ‫سے‘ بات کو بدل دیتے ہیں۔ پہلی کہی کے برعکس‘ کہنے میں‬ ‫کوئی عار یا شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ واپڈا والے ہوں‘‬ ‫اکاؤنٹس آفس ہو‘ گیس والوں کے ہاں چلے جائیں‘ خدا نخواستہ‬ ‫نادرہ والوں سے کام پڑ جائے‘ جو عوما نہیں‘ اکثر پڑتا ہی رہتا‬ ‫ہے۔ یہ تو خیر مقامی دفاتر ہیں‘ بڑے دفاتر‘ یہاں تک کہ‘ مہا‬ ‫منشی ہاؤس کے دفاتر‘ جن سے دادرسی کی امید رکھی جاتی‬ ‫ہے‘ کے بھاؤ ایک نہیں ہیں۔ ایک ہی کام کے‘ مختلف نرخ ہیں۔‬ ‫اپنا یا بیگانہ کی تخصیص موجود نہیں۔ یہاں کوئی اپنا یا پرایا‬


‫نہیں۔ مفتے‘ کسی سطع یا کسی حوالہ سے‘ فیض حاصل نہیں‬ ‫کرپاتے۔ پلہ ہر کسی کوجھڑنا ہی ہوتا ہے۔ بہوتا اوکھا فنی‬ ‫خرابیوں سے عمر بھر نبردآزما رہتا ہے۔‬ ‫مجھے بھتہ لینے یا دینے پر کوئی اعتراض نہیں۔ دنیا لین دین‬ ‫پر استوار ہے۔ بھتہ خور‘ حاالت کے ہاتھوں خود مجبور ہیں۔‬ ‫تنخواہ میں وہ کچھ چل ہی نہیں سکتا‘ جو بھتہ شریف کی برکت‬ ‫سے چلتا آ رہا ہے۔ تنخواہ سے‘ دو انچ زمین خرید کر دیکھا‬ ‫دیں۔ کار تو بڑی دور کی بات‘ تنخواہ میں‘ سائیکل کا ایک پیڈل‬ ‫خریدا نہیں جا سکتا۔ بھتہ خوری‘ دراصل خانگی مجبوری ہے۔‬ ‫گھر میں سکون ہو گا‘ تو پورے معاشرے میں سکون ہو گا۔ ۔‬ ‫بھتہ سیاسی مجبوری بھی ہے۔ لفافہ کلچر‘ سیاسی لوگوں کی‬ ‫عطا ہے۔ عطا بری نہیں ہوتی‘ ہاں کچھ کو ماش موافق اور کچھ‬ ‫کو بادی۔‬ ‫یقین مانئیے‘ میں اس سیاسی عطا کے خالف نہیں ہوں‘ ہاں میرا‬ ‫موقف یہ ہے‘ کہ اسے فکس ہونا چاہیے۔ یہ کیا‘ ایک ہی کام‬ ‫کے‘ ایک سے دس‘ دوسرے سے پندرہ اور کسی پر آٹھ ہزار‬ ‫میں مہربانی کر دی جائے۔ ساتھ میں‘ روٹی کی جگہ‘ چائے‘‬ ‫بسکٹ‘ کیک پیس اور نمکو پر ہی‘ کام چال لیا جائے۔ یہ انداز‬ ‫اور رویہ کسی طرح درست نہیں۔ اس انداز و رویہ کے حوالہ‬


‫سے بے چینی پھیل رہی ہے۔ چرسی غلط نہیں کہہ رہا تھا۔ پوری‬ ‫قوم‘ خصوصا دفاتر کو‘ بےٹائمی کے اندھے کنویں سے نکاال‬ ‫جائے۔ بالکل اسی طرح‘ نرخی نظام کا قیام‘ وقت کا تقاضا ہے۔‬ ‫کچوپیے تو خیر اس ذیل میں نہیں آتے۔ ہمارے پاس‘ یک نرخی‬ ‫کی ایک قابل تقلید مثال موجود ہے۔ کسی بھی نیٹ ورک کا‘ سو‬ ‫روپیے کا لوڈ کروایں‘ بیاسی روپیے اور کچھ پیسے کا بیلنس‬ ‫لوڈ ہوتا ہے۔ کہیں ایک پیسے کا فرق نہیں آتا۔ اس یک نرخی کا‬ ‫فایدہ یہ ہے‘ کہ پاکستان میں‘ پاکستانی روپیے کی حقیقی قیمت‬ ‫اور اوقات کا‘ اندازہ ہوتا رہتا ہے۔ دیکھنے میں‘ سرخ نوٹ سو‬ ‫روپیے کا ہوتا ہے‘ لیکن اس کی اپنے ہی دیس میں‘ قیمت‬ ‫بیاسی روپیے اور کچھ پیسے ہوتی ہے۔‬ ‫حکومت کا‘ اصولی اور اخالقی فرض بنتا ہے‘ کہ وہ تمام دفتر‬ ‫سے‘ ہر قسم کے‘ چھوٹے موٹے کاموں کی فہرست طلب کرے۔‬ ‫روییےکی عصری پاکستانی قدر کے مطابق‘ اپنا جگا ڈال کر ریٹ‬ ‫طے کرے۔ یہی نہیں‘ اسے بینکنگ نظام سے وابسطہ کر دیا‬ ‫جائے۔ سائلوں کو‘ دفاتر کے دھکوں سے نجات مل جاءے گی‬ ‫اور ہر کسی کو‘ بینک چاالن پر‘ طے شدہ کوڈ کے مطابق‘ حصہ‬ ‫مل جائے گا۔ سائل چاالن کی نقل پاس رکھ کر‘ اصل متعلقہ دفتر‬ ‫میں جمع کرا دے گا۔ مقررہ تاریخ کو‘ چند روپیے کچوپیے کے‬


‫ہاتھ پر رکھ کر‘ اپنے کاغذ پتر‘ خوشی خوشی گھرلے جائے گا۔‬ ‫اس سے‘ رشوت اصطالح کو‘ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے طالق ہو‬ ‫جائے گی۔‬

‫محاورہ پیٹ سے ہونا کے حقیقی معنی‬

‫ایک صاحب نے مجھ سے پوچھا‘ پروفیسر! کوئی کام بھی کرتے‬ ‫ہو‘ یا صرف باتوں کی کھٹی کھاتے ہو۔ انھوں نے مزید فرمایا‘‬ ‫مجھے تو یہ طبقہ فارغ ہی لگتا ہے۔‬ ‫پروفیسر بیک وقت تین کام کرتا ہے‬ ‫‪٧‬۔ معلومات فراہم کرتا ہے‬ ‫‪٦‬۔ غلط اور صیحح ہی نہیں بتاتا‘ بلکہ ان کی تمیز بھی سکھاتا‬ ‫ہے‘ گویا رویے تشکیل دیتا ہے۔‬ ‫‪٣‬۔ سوچتا ہے اور اس کا اظہار کرتا ہے۔‬ ‫ایک شخص‘ آٹھ گھنٹے بیالیس منٹ جسمانی کام کرتا ہے‘ جب‬


‫کہ پروفیسر اڑتیس منٹ کام کرتا ہے‘ دونوں برابر کی‘ تھکاوٹ‬ ‫محسوس کرتےہیں۔ پروفیسر جو سوچتا ہے‘ وہ ڈیلور بھی کرتا‬ ‫ہے۔ گویا جسمانی کام کرنے والوں سے‘ پروفیسرکی زیادہ‬ ‫انرجی صرف ہو جاتی ہے۔‬ ‫شاید ہی‘ کوئی ایسا پروفیسر ہو گا‘ جو موٹا تازہ ہو۔ اگر کوئ‬ ‫موٹا تازہ پروفیسر نظر آ جائے‘ تو یقینا کسی پیٹ کے عارضے‬ ‫میں مبتال ہو گا۔ مناسب انداز سے‘ فکری نکاسی نہ ہونے کے‬ ‫سبب بھی‘ موٹاپا آ سکتا ہے۔ عزت اور جان‘ دونوں خطرے کی‬ ‫توپ کے دہانے پر‘ ڈیرہ گزیں رہتے ہیں‘ اس لیے‘ ڈیلوری ایسا‬ ‫آسان اور معمولی کام نہیں۔ اگر نہیں یقین آتا‘ تو کسی خاتون‬ ‫سے پوچھ لیں‘ کہ ڈیلوری کا عمل کتنا مشکل اور کٹھن گزار‬ ‫ہوتا ہے۔ کوئ خاتون خفیہ بات‘ دس پندرہ منٹ سے زیادہ پیٹ‬ ‫میں نہیں رکھ سکتی۔ خیر یہ بات عورتوں تک ہی محدود نہیں‘‬ ‫پروفیسر تو الگ‘ کہ اس کا کام ہی یہی ہے۔ وکیل اور پروفیسر‘‬ ‫بول بچن کی کھٹی کھاتے ہیں۔ ایک عام آدمی‘ خفیہ بات یا کسی‬ ‫کا کوئی انتہائی حساس راز‘ زیادہ دیر تک پیٹ میں نہیں رکھ‬ ‫سکتا۔ محاورہ پیٹ سے ہونا کے حقیقی معنی یہ ہی ہیں۔‬ ‫آج‘ موٹے تھانیداروں کے حوالہ سے‘ بات ہو رہی تھی۔ سوال‬ ‫اٹھ سکتا ہے‘ وہ کیوں موٹے ہیں۔ اکثر یہ کہیں گے‘ وہ کھا کھا‬


‫کر موٹے ہو جاتے ہیں۔ مجھے اس سے‘ اسی فیصد اتفاق نہیں۔‬ ‫معدہ کی بیماری کے سبب‘ کوئی تھانیدار موٹا ہوا ہو تو الگ‬ ‫بات ہے۔ وہ اوروں سے زیادہ ہمدردی کا مستحق ہے۔ ایک‬ ‫طرف معدہ پرابلم‘ دوسری طرف زیادہ کھا لینے کا مسلہ‘ تو‬ ‫تیسری طرف رازوں کی عدم نکاسی۔‬ ‫کسی موٹے تھانیدار پر‘ کوئی دوسرا موٹا تھانیدار نعرہ تکبیر‬ ‫کہہ کر چڑھا دیں‘ وہ‘ وہ راز اگلے گا‘ کہ عقل سوچ اور دل و‬ ‫دماغ کی روح قبض ہو جائے گی۔ اس کے پیٹ میں بڑے‬ ‫افسروں‘ نبی نما سیاست دانوں سیٹھوں‘ مذہبی لوگوں کے وہ‬ ‫وہ راز ہوتے ہیں‘ جن کا کسی کے دونوں فرشتوں تک کو‘ علم‬ ‫نہیں ہوتا۔ اس مدے پر بات کرنا ہی فضول بات ہے‘ کیوں کہ‬ ‫تھانیدار ان لوگوں پر تھانیدار نہیں ہوتے۔ تھانیدار‘ عوام کو گز‬ ‫رکھنے کے لیے ہوتے ہیں۔ ان کا شورےفا کے اعلی طبقے میں‬ ‫شمار ہوتا ہے۔‬ ‫سو گز رسہ سرے پہ گانٹھ‘ بات کا پیٹ میں رکھنا‘ بڑا ہی‬ ‫مشکل‘ بلکہ ناممکن کام ہے‘ اپھارہ ہونا ہی ہوتا ہےاور یہ‘‬ ‫پہلے سوال کی طرح‘ الزمی بات ہے۔ آپ کے دیکھنے میں بات‬ ‫آئی ہو گی‘ کہ مرنے والے کا کوئی قریبی رو نہ رہا ہو‘ تو اس‬ ‫کو روالنے کے لیے سر توڑ کوشش کی جاتی ہے۔ یہ بات پردہ‬


‫میں رہتی ہے‘ کہ اس قریبی نے‘ اس کی موت پر شکر کا سانس‬ ‫لیا ہو۔ دلوں کے حال هللا ہی جانتا ہے‘ اس لیے بات پردہ میں ہی‬ ‫رہ جاتی ہے۔ تاہم اس کا کچھ ہی دنوں میں‘ پیٹ کپا ہو جاتا ہے۔‬ ‫اس حوالہ سے‘ کسی تھانیدار پر انگلی رکھنے سے‘ بڑا ہی پاپ‬ ‫لگتا ہے۔ کسی موٹے پروفیسر پر بھی یہی کلیہ عائد ہوتا ہے۔‬ ‫آج ہی کی بات ہے‘ بشپ صاحب کی طرف سے‘ امن سیمینار‬ ‫منعقد ہونے جا رہا ہے۔ پروفیسر ہونے کے ناتے‘ بد ہضمی اور‬ ‫گیس کا شکار ہوں۔ کیا کروں‘ میں بات نہیں کر سکتا‘ کہ اللہ‬ ‫جو گولیاں اور چھتر کھا رہے ہیں‘ انھیں امن کی کتھا سنا رہے‬ ‫ہو اور جو گولیاں اور چھتر مار رہا ہے‘اس کے معاملہ میں‬ ‫آنکھ بند کیے ہوئے ہو۔ میں یہ سب کہہ نہیں سکتا۔ کمزور‘‬ ‫بوڑھا اور بیمار آدمی ہوں۔ میرے پاس ایک چپ اور سو سکھ‬ ‫کے سوا‘ کچھ نہیں۔‬ ‫ایک موبائل ایس ایم ایس کا حوالہ دیتا ہوں۔ حضرت قائد اعظم‬ ‫کے پاس‘ ایک خاتون آئی اور اپنے بیٹے پر جھوٹے قتل کے‬ ‫مقدمے کے حوالہ سے درخواست کی۔ بابا صاحب نے‘ مقدمہ لڑا‬ ‫اور خاتون کے بیٹے کو بچا لیا۔ خاتون نے شکریہ ادا کیا اور‬ ‫کہا کہ آج تو آپ ہیں اور کمزروں کو بچا لیتے ہیں‘ کل آپ نہ‬ ‫ہوئے‘ تو کمزروں کا کیا بنے گا۔ بابا صاحب نے فرمایا‘ نوٹوں‬


‫پر چھپی میری تصویر‘ ہر کسی کے کام آئے گی۔ اب مسلہ یہ آن‬ ‫پڑا ہے‘ کہ نوٹ‘ لسے اور ماڑے لوگوں کے قریب سے بھی‬ ‫نہیں گزرتے۔ ایسےبرے وقتوں میں‘ خاموشی ہی بہتر اور کارگر‬ ‫ہتھیار ہے۔ اپھارہ ہوتا ہے‘ تو ہوتا رہے‘ مجھے کیا پڑی ہے‘‬ ‫جو اس امن سیمینار پر کوئی بات کروں بلکہ مجھ پر یہ کہنا‬ ‫الزم آتا ہے‘ کہ کہو گولیاں کھاؤ چھتر کھاؤ‘ چپ رہو‘ سکون‬ ‫کی گزارو۔ اؤں آں اور ہائے وائے کرکے‘ دنیا کا امن اور سکون‬ ‫بھنگ مت کرو۔‬

‫نہ رہے گی بجلی نہ باجے گی ٹنڈ‬

‫ہم میں یہ عادت‘ بڑی شدت اور تیز رفتاری سے پروان چڑھی‬ ‫ہے‘ کہ ہماری معاملے کے منفی پہلو یا پہلوں پر فورا سے‬ ‫پہلے‘ نظر جاتی ہے اور پھر الیعنی اور بےسروپا کہانیاں‬ ‫گھڑتے چلے جاتے ہیں‘ حاالں کہ مثبت پہلو بھی تو سامنے‬ ‫رکھے جا سکتےہیں۔ مثبت پہلو نظر میں رکھنے سے‘ خرابی‬


‫جنم نہیں لے پاتی۔ منفی کی سرشت میں ہی خرابی موجود ہوتی‬ ‫ہے۔ بجلی کے مسلے ہی کو دیکھ لیں‘ عوام تو عوام‘ سیاسی‬ ‫حلقوں نے بھی‘ اسے ایشو بنا لیا ہے‘ حاالں کہ یہ معاملہ‘ کوئ‬ ‫اتنا بڑا مسلہ نہیں‘ بلکہ معمولی سی مسلی ہے‘ جو اس قابل‬ ‫نہیں کہ اسے بہت بڑا مسلہ بنا کر‘ توڑ پھوڑ کی جائے ۔ یا پھر‬ ‫بےکار میں‘ رولے رپے سے کام لیا جائے۔‬ ‫آخر اتنا واویال کرنے کر ضرورت ہی کیا ہے۔ کون سی قیامت‬ ‫ٹوٹ پڑی ہے۔ ہمارے باپ دادا‘ کب بجلی کے عادی تھے۔ بجلی‬ ‫امیر کبیر لوگوں کا چونچال تھی۔ آج بھی‘ ان ہی لوگوں کی‬ ‫عیاشی کا ذریعہ ہے۔ پہلے وقتوں کے لوگ بھلے تھے‘ ریس‬ ‫کرنے کی عادت سے دور رہ کر‘ سکھ چین کی گزارتے تھے۔‬ ‫اس ریس کی عادت نے‘ ہر کسی کا دماغ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔‬ ‫روشنی بڑے بڑے ایوانوں کا مقدر تھی۔ روشنی بڑے ایوانوں کا‘‬ ‫فطری اور اصولی حق ہے۔ آج ایک معمولی مزدور بھی‘ روشنی‬ ‫کی ڈیمانڈ کرنے لگا ہے۔ قوم کا‘ کھیلنے کے لیے چاند مانگنا‘‬ ‫نادانی نہیں‘ تو پھراور کیا ہے۔ جب کوئی اپنی اوقات سے باہر‬ ‫نکلتا ہے‘ تو اوکھت اس کا مقدر ٹھرتی ہے۔‬ ‫موجودہ عہد کی تیز رفتاری اور چمک دھمک نے‘ زندگی کو‘‬ ‫انتہائی مشکل اور تکلیف دہ بنا دیا ہے۔ شخص کچھ کہنا چاہتا‬


‫ہے‘ لیکن کہہ نہیں پاتا۔ اس کی زبان پر‘ مجبوریوں کے چائینہ‬ ‫الک ثبت ہیں۔ جو چونچ کھولے گا‘ حضرت زوجہ ماجدہ کے‘‬ ‫پولے کھائے گا۔ اگر بچ رہا‘ تو اوالد کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہو‬ ‫گا اور پھر متواتر ہوتا رہے۔ چونچ کھولنے والوں کے ساتھ‘‬ ‫ازل سے یہی ہوتا آیا ہے۔ امید واثق ہے‘ یہی ہوتا رہے گا۔‬ ‫ہمارے مدبر لیڈران‘ اس حقیقت سے خوب آگاہ ہیں‘ تب ہی تو‘‬ ‫انھوں نے فساد کی جڑ کو ختم کر دینے کا‘ پکا پیڈا ارادہ باندھ‬ ‫لیا ہے‘ کہ نہ رہے گی بجلی اور نہ میاں کی باجے گی ٹنڈ۔‬ ‫لوگوں کے اگلے وقتوں کے‘ خوبصورت اور آسان ہونے کا‬ ‫خواب‘ شرمندہء تعبیر ہو سکے گا۔‬ ‫لوگ غاروں میں منتقل ہو جائیں گے۔ اس طرح‘ بے فضول‬ ‫اونچی اونچی عمارتیں بنانے کا‘ رواج دم توڑ دے گا۔ غار کے‬ ‫اقامتی‘ سیدھے سادے لوگ تقریبات کے تکلفات سے آزاد ہو‬ ‫جائیں گے۔ آبادی بڑھ جانے کے باوجود‘ ہریالی‘ جو ککڑیانی‬ ‫سے کم نہیں‘ پیٹ بھر نوش جان کر سکیں گے۔ بڑ کے درخت‘‬ ‫افادیت کے حوالہ سے‘ کس مقام پر فائز ہیں‘ کسی حکیم سے‬ ‫پوچھیے' لباسی عشرت کا درجہ حاصل کر لیں گے۔‬ ‫ہمارے لیڈر‘ بڑے سیانے ہیں اور جانتے ہیں‘ کہ امریکہ غصے‬ ‫کا سوئر ہے۔ وہ عزم کیے ہوئے ہے‘ کہ پوری دنیا کو کھنڈر بنا‬


‫کر رکھ دے گا۔ ہمارے لیڈر بڑے ہمدرد لوگ ہیں‘ وہ اپنی غالم‬ ‫رعایا کو‘ بے بسی کی موت مرتے‘ نہیں دیکھ سکیں گے۔ وہ‬ ‫اپنے مجبور اور بےبس غالموں کو‘ امریکہ کی غالمی میں نہیں‬ ‫دیکھ سکتے۔ وہ عوام کے بدلے‘ خود یہ صعوبت برداشت کر‬ ‫سکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے‘ کہ ان میں سے کوئ غدار نکل‬ ‫آئے اور اپنے ہمدرد لیڈر صاحبان کی‘ باطنی خباثت اگل نہ دے۔‬ ‫آمدہ خطرات سے مقابلہ کرنے کے لیے‘ انھوں نے اس ملک کو‬ ‫کھنڈر اور عوام کو غار اقامتی بنانے کا پختہ ارادہ کر لیا ہے۔‬ ‫کملے عوام‘ شور مچا رہے ہیں‘ لیکن کل کالں‘ ان کو اپنے لیڈر‬ ‫صاحبان کی بلند پایہ فراست اور دور اندیشی کا علم ہو جائے گا۔‬ ‫لیکن اس وقت یہ نہ ہوں گے۔ وقت ہاتھ سے نکل چکا ہو گا۔ پھر‬ ‫ان کی تعریف کرنے کا کیا فائدہ ہو گا۔ آج وقت ہے‘ انھیں اپنے‬ ‫محسنوں کی قدر کرنی چاییے۔ انسان کی اصل بھی تو غار ہے۔‬ ‫اس نے زندگی کا آغاز غار سے کیا ۔ اس ترقی یافتہ عہد میں‬ ‫بھی‘ غار باسی اسے خوش آتی ہے۔ بعد از موت‘ اس کا اصل‬ ‫ٹھکانہ غار ہی تو ہے۔‬ ‫تعلیم حاصل کرنے کا جنون کی سطع پر رواج کب تھا۔ خاص‬ ‫طبقے کے لوگ‘ اس پرخار میدان میں قدم رکھتے تھے۔ عام‬ ‫لوگوں کو‘ تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ انھوں نے‬ ‫کون سا جہان بانی کا فریضہ انجام دینا ہوتا ہے۔ نمبردار کا پسر‬


‫ناہنجار ہی‘ نمبردار بنتا ہے۔ اسی طرح بادشاہ کا ناخلف بیٹا‘‬ ‫بادشاہ بنتا ہے۔ اگرچہ مورکھ‘ انہیں باانصاف‘ صاحب کردار اور‬ ‫اعلی پائے کا قرار دیتا ہے۔ ساری خوبیاں‘ اس سے مخصوص‬ ‫کر دیتا ہے۔ ہر نتھو خیرے کو‘ بادشاہی کے خواب دیکھنے کی‘‬ ‫اجازت نہیں مل سکتی۔‬ ‫اگلے وقتوں کے لوگ‘ اپنے اپنے آبائی پیشے میں‘ کمال حاصل‬ ‫کرنے کی کوشش کرتے تھے‘ بلکہ عالقہ میں نام پیدا کرنے‬ ‫کے لیے‘ عمر گزار دیتے تھے۔ ان کا مجوزہ پیشہ‘ ان کی ذات‬ ‫اور پہچان ٹھرتا تھا۔ وہ اس ذیل میں‘ فخر محسوس کرتے تھے۔‬ ‫آج بڑے بڑے افسر اور لیڈر‘ اپنی ذات اور شناخت چھپاتے ہیں‬ ‫لیکن ان کی بعض حرکتیں‘ اور کام ان کی ذات اور شناخت کھول‬ ‫دیتی ہیں۔ حاالں کہ اس میں چھپانے والی کوئی بات ہی نہیں۔‬ ‫ہمارے محترم اور معزز لیڈر صاحبان‘ لوگوں کو ان کی اصل کی‬ ‫جانب لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بجلی صرف خاص‬ ‫طبقے کے لوگوں کو میسر آ سکے‘ تاکہ وہ پڑھ لکھ کر حکم‬ ‫رانی کا معزز فریضہ انجام دے سکیں۔ عام آدمی‘ بڑے آدمیوں کا‬ ‫گوال ہوا کرتا تھا۔ اس کی چلمیں بھرتا تھا۔ ان کے جوتے‬ ‫سیدھےکیا کرتا‘ آج عام آدمی‘ اپنا ماضی بھول کر‘ تعلیم حاصل‬ ‫کرکے‘ کچھ بننے کی سعی میں مصروف ہے۔ یہ رویہ‘ کسی‬


‫طرح درست نہیں۔ بجلی نہ ہونے کے سبب‘ تعلیم حاصل کرنے‬ ‫کے میالن کی‘ حوصلہ شکنی ہو گی اور بڑے آدمیوں کی آنکھ‬ ‫میں انکھ مال کر‘ بات کرنے کا خواب‘ تعبیر کی منزل چھو نہ‬ ‫پائے گا اور لوگ اپنی اوقات کی جانب پھر کر‘ بہتر طور پر کام‬ ‫کر سکیں گے۔‬ ‫تعلیمی بورڑوں کی مالی حالت مستحکم سہی‘ اس کے باوجود‘‬ ‫انھیں مزید بےتحاشا مالی معاونت درکار ہے‘ تا کہ وہ لوگوں کا‬ ‫بہتر طور پر‘ استحصال کرنے کا فریضہ سر انجام دے سکیں۔‬ ‫طلبہ کو بار بار فعل کرنے کے لیے‘ حساب اور انگریزی‬ ‫مضامین‘ آرٹس کے لیے الزم کر رکھے ہیں۔ انگریزی کا‬ ‫مضمون‘ اس لیے الزمی قرار دیا ہے‘ کہ عین ممکن ہے‘ ان‬ ‫میں سے کوئی‘ اوباما کے تخت پر جا بیٹھے۔ آج تک ہوا تو‬ ‫نہیں‘ لیکن وقت کی گرداش اور قسمت کا لکھا‘ کون جان سکتا‬ ‫ہے۔ امید پر دنیا قائم ہے۔ تجربے میں آیا ہے‘ پھر بھی کچھ‘‬ ‫ناکچھ طلبہ بدقسمتی سے کامیاب ہو ہی جاتے تھے اور یہ‬ ‫صورتحال‘ بڑی مایوس کن اور تشویش ناک رہی ہے۔ اس‬ ‫مایوسی سے نجات کا واحد یہی ذریعہ رہ گیا تھا۔ اب کوئی طالب‬ ‫علم کامیاب ہوکر دکھائے گا تو مانیں گے۔‬ ‫مغرب کی پیروی میں‘ بےلباسی ہمیں خوش آتی ہے۔ غالبا صالح‬


‫الدین ایوبی کا قول ہے‘ کہ گربت میں مرد کی غیرت اور عورت‬ ‫کی عزت‘ سستی ہو جاتی ہے۔ لوڈشیڈنگ سے بےروزگاری میں‬ ‫خوف ناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ بھوک نے جینا مشکل کر دیا‬ ‫ہے۔ ایسے حاالت میں‘ مغرب کی پیروی میں‘ بےلباسی معیوب‬ ‫نہیں رہے گی۔ مغرب کی بےلباسی اور جنسی آزادی‘ تاریخی‬ ‫وجوہ رکھتی ہے۔ یہاں کی بےلباسی میں بھی‘ حاالت کا جواز‬ ‫پیدا ہو جائے گا۔ امرا‘ وزرا اور اہل ثروت پہلے ہی‘ جنسی‬ ‫عیاشی کرتے ہیں‘ اس طرح مزید تر مال میسر آ سکے گا۔‬ ‫گربا ہوتے ہی امرا کی غالمی کے لیے۔ آج تک گربا کے پاس‬ ‫صرف اور صرف عزت باقی تھی‘ ہمارے مدبر قوم دوست‬ ‫قائدین‘ اس کو بھی بازار میں النے کی‘ پوری پوری کوشش کر‬ ‫رہے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں‘ کہ قوم مغرب کی جنسی پیروی‬ ‫کرکے‘ دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرے۔ بنیاد پرستوں نے‘‬ ‫آج تک اس ذیل میں اخالقیات کے نام پر‘ ٹانگ اڑائے رکھی ہے۔‬ ‫گویا پہلوں کے اخالقی اصول وضوابط‘ آج کسی کام کے نہیں‬ ‫رہے‬ ‫درج باال معروضات کے تناظر میں‘ لوڈشیڈنگ کو مالحظہ‬ ‫فرمائیں گے تو‘ اس کی مزید برکات گربا اور پریشان حضرات پر‬ ‫کھلتی جائیں گی اور سارا روال رپا‘ سمجھ میں آ جاءے گا۔ یہ‬


‫بھی پوشیدہ نہیں رہے گا‘ کہ اس سازش کے پیچھے شرپسند‘‬ ‫مفاد پرست اور حکومت دشمن لوگوں کا دایاں ہاتھ ہے۔ وہ سب‬ ‫عوام دوست نہیں ہیں‘ اور ناہی عوام کو ہزاروں سال پیچھے لے‬ ‫جانے کے حق میں ہیں۔ اس ملک کے عوام نہ آگے بڑھ رہے‬ ‫ہیں اور ناہی برق رفتاری سے‘ ماضی کا رخ کر رہے ہیں۔ ان‬ ‫لوگوں کے پلٹنے کی رفتار حوصلہ شکن ہے اس لیے راہ میں‬ ‫پڑنے والی ہر دیوار کو‘ گرانا حکومت کے قومی تنزلی ایجنڈے‬ ‫کے ساتھ مخلصی ہو گی۔ ان کا اخالص‘ حکومت دوست مورخ‘‬ ‫آب زر سے رقم کرے گا۔‬ ‫کچھ ہی عرصہ پہلے کی بات ہے‘ کہ ایک ایم پی اے صاحب‬ ‫بڑی دھواں دھار تقریر فرما رہے تھے۔ انھوں نے بڑے پرعزم‬ ‫انداز میں فرمایا‘ ہم ناخوندگی بڑھانے کی ان تھک کوشش کر‬ ‫رہے ہیں۔ مدبرین کی سرتوڑ کوشش ہے‘ کہ کوئ طالب علم‬ ‫میٹرک کراس نہ کر پائے۔ ایف اے میں حساب فارغ ہو جائے گا‘‬ ‫اس طرح تعلیم کی حوصلہ شکنی کے لیے‘ صرف اور صرف‬ ‫انگریزی باقی رہ جائے گی۔ انگریز کا کندھا اتنا مضبوط نہیں‘‬ ‫جو تعلیم شکنی میں ہمارے پرعزم لیڈران کی مدد کر سکے۔‬ ‫حساب سے زیادہ کوئ مضمون بہتر ہو ہی نہیں سکتا۔ لوڈ‬ ‫شیڈنگ اس تعلیم دشمنی کے معاملہ میں‘ جلتی کے لیے‬ ‫آکسیجن کا کام دے گی۔ اس مثبت پہلو کے پیش نظر‘ لوڈ شیڈنگ‬


‫کو منفی مفاہیم دینے والے‘ ایوان دشمن ہیں۔ ایوان دشمنی کبھی‬ ‫‪.‬بھی‘ کمزور طبقے کے لیے صحت مند نہیں رہی‬ ‫بجلی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے‘ کہ یہ مختلف حوالوں سے‬ ‫آگہی عام کرتی ہے۔ آگہی ے بڑھ کر کوئی عذاب نہیں۔ کوئ‬ ‫اخبار‘ کسی بھی دن کا اٹھا کر دیکھ لو‘ خیر کی خبر پڑھنے کو‬ ‫نہیں ملے گی۔ ٹی وی سچی باتیں سامنے ال کر‘ بےچینی کا سبب‬ ‫بنتا ہے۔ بعض اوقات تو‘ ٹی وی سازشی عنصر محسوس ہونے‬ ‫لگتا ہے۔ لوگ انٹرنیٹ پر تصاویر‘ تقاریر‘ کارٹون شائع کرکے‘‬ ‫اور تحریریں لکھ لکھ کر‘ بڑے آدمیوں کو پوری دنیا میں ذلیل‬ ‫وخوار کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان کے خیال میں‘ وہ‬ ‫اپنے مذموم ارادے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ یہ ان کی بہت بڑی‬ ‫بھول ہے۔ کوئ بھی بڑا آدمی‘ اس وقت بےعزت ہو گا‘ جب اس‬ ‫کی جنتا میں عزت ہو گی۔ دوسرا وہ تسلیم کریں گے‘ تو ہی‘ ذلت‬ ‫کا کوئ پہلو نکلے گا۔ جو بھی سہی‘ میڈیا جھوٹا سچا کردار ادا‬ ‫‪.‬کرنے کی ناکام سعی تو کر رہا ہے‬ ‫میڈیا کے حوالہ سے‘ انھیں یاوہ گوئ پڑھنے سننے کو مل رہی‬ ‫ہے۔ بڑے لوگ‘ سچ پڑھنے سننے کے عادی نہیں ہوتے۔ میڈیا‬ ‫کی وجہ‘ کمی کمین بھی‘ جو تعداد میں سب سے زیادہ ہیں' بات‬ ‫کرنے کی جرات کریں گے۔ بجلی نہ رہی‘ تو ٹی وی انٹرنیٹ‬


‫وغیرہ‘ صفر ہو کر رہ جائیں گے۔ اگلے زمانے میں‘ آگہی کے‬ ‫دروازے بڑے تنگ اور محدود تھے‘ اسی لیے‘ امن وامان میں‬ ‫کسی طرح کا نقص نہیں آتا تھا۔‬ ‫پانی بڑی قیمتی چیز ہے۔ بجلی کے دور میں‘ سرکاری اور‬ ‫گھریلو موٹروں کا پانی‘ بڑی بے دردی سے ضائع کیا جاتا تھا۔‬ ‫انھیں کبھی احساس تک نہیں ہوتا تھا‘ کہ وہ کتنے بڑے گناہ کا‬ ‫ارتکاب کر رہے ہیں۔ بجلی کی بندش سے‘ بڑے لوگوں نےاپنے‬ ‫پیارے پیارے عام کو‘ ظلم کبیرہ سے بچا کر‘ اربوں کی تعدد‬ ‫میں نیکیاں کما لی ہیں۔ قوم شکریہ ادا کرنے کی بجائے‘ سڑک‬ ‫پر آ جاتی ہے۔‬ ‫ٹیشو پیر کی صنعت خسارے میں تو نہیں تھی‘ لیکن عام آدمی‬ ‫ٹیشو پیر بنا ہوا تھا‪ .‬عام آدمی‘ اس ترقی یافتہ چیز سے‘ استفادہ‬ ‫نہیں کرتا تھا‘ لیکن پانی کی خطرناک قلت کے سبب‘ یہ طہارت‬ ‫کے حوالہ سے‘ ایک عام آدمی میں بھی‘ شرف قبولیت حاصل‬ ‫کر لے گا۔ لوگ پانی کو صرف پینے کے لیے‘ محفوظ کیا کریں‬ ‫گے اور یہ بڑے فخر اور اعزا والی بات ہو گی۔‬ ‫پاکستان کی آبادی بہت بڑھ گئی ہے۔ محکمہ منصوبہ بندی نے‘‬


‫آبادی کےحوالہ سے‘ وہ نام نہیں کمایا اور یہ بڑے افسوس کی‬ ‫بات ہے۔ جو کام محکمہ منصوبہ بندی نہیں کر سکا وہ کام بجلی‬ ‫کی بندش سے باآسانی ہو سکے گا۔ اس کی کئ صورتیں‬ ‫سامنےآ سکیں گی۔ مثال‬ ‫ہسپتا ل میں پڑے مریض‘ اپریشن نہ ہونے کے باعث دم توڑ‬ ‫دیں گے۔‬ ‫کام نہ ملنے کی وجہ سے بھوک میں اضافہ ہو گا۔ کچھ لوگوں‬ ‫کو بھوک کھا جائے۔ بہت سے لوگ بھوک کی سختی کے باعث‬ ‫خود کشی کر لیں گے۔‬ ‫بھوک‘ چوری چکاری میں اضافے کا باعث بنے گی۔ ڈاکے پڑیں‬ ‫گے۔ ڈاکو برسرعام لوگوں کو لوٹیں گے۔ اس چھینا جھپٹی کے‬ ‫عالم میں‘ قتل وغارت کا بازار گرم ہو جائے گا۔ اس طرح‘ اچھی‬ ‫خاصی آبادی زندگی کی ظالم سختیوں سے‘ مکت ہو جائے گی۔‬ ‫بجلی کی قیمتوں میں‘ جس قدر اضافہ ہوا ہے‘ اس سے روح‬ ‫بھی کانپ رہی ہے۔ بجلی نہ ہوئ تو‘ بجلی کی قیمت بل میں‬ ‫اندراج نہ ہو سکے گی۔ صرف اضافی چارجز کا بل آیا کرے گا‘‬


‫جو پہلے سالوں میں باآسانی ادا ہو سکے گا۔ بجلی فراہم ہونے‬ ‫کی صورت میں‘ لوگ آغاز عشق میں ہی‘ میٹر کٹوانے چل پڑیں‬ ‫گے۔ اس طرح بجلی والوں کے کام میں‘ خواہ مخواہ کا اضافہ ہو‬ ‫جائے گا‘ جو کسی طرح مناسب نہیں لگتا۔‬ ‫مزدور صدیوں سے‘ مشقت کا شکار ہے۔ آج ہر کام بجلی سے‬ ‫جڑا ہوا ہے۔ اس طرح مزدور کو وافر آرام دسیاب ہو سکے گا۔‬ ‫صدیوں کے تھکے ماندے مزدور کو‘ آرام ملنا شر پسند عناصر‬ ‫کو‘ ناجانےکیوں برا لگ رہا ہے۔‬ ‫دفاتر آرام گاہیں بن گئی ہیں' سائلین سولی پر ہیں۔ بجلی کی‬ ‫بندش سے‘ کمپیوٹر ٹھپ ہو جائیں گے۔ لوگ ناامید ہو کر‘‬ ‫گھربیٹھ جاءیں گے۔ اس سے دفاتر شاہی کو‘ سائلین کی اہمیت‬ ‫کا احساس ہو سکے گا۔ دستی کام کرنے کے لیے آوازیں لگائی‬ ‫جاییں گی۔ چلو دفاتر شاہی کو کچھ تو کام کرنے کی عادت پڑے‬ ‫گی۔‬ ‫غرض ایسی اور بھی چیزیں ہیں‘ جو لوڈشیڈنگ کی برکات اور‬ ‫نادر فوائد کو واضح کرتی ہیں جن کے عام کرنے سے‘ پتھر کے‬ ‫سے‘ زمانے کا پرسکون‘ بےچنت‘ آزاد اور فطری ماحول میسر‬


‫آ سکے گا۔‬

‫اپنے اکرام صاحب ڈاکٹر مس کال کی گرہ میں‬ ‫پروفیسر دمحم اکرام ہوشیارپوری گورنمنٹ اسالمیہ کالج‘ قصور‬ ‫میں صدر شعبہءاردو تھے‘ اس حوالہ سے‘ میرا ان سے تعلق‬ ‫واسطہ تھا۔ یہ تعلق مالزمت کا تھا۔ اس تعلق کے عالوہ‘ ایک‬ ‫ذاتی تعلق بھی تھا۔ وہ سنجیدہ طبعیت کے مالک تھے اور‬ ‫غیرسنجیدہ گفتگو‘ پسند نہیں کرتے تھے۔ ہم دونوں میں‘ ایک‬ ‫بڑی اہم سانجھ تھی۔ کتاب سے‘ ان کا رشتہ کبھی کمزور نہیں‬ ‫پڑا۔ میرا خیال ہے‘ وہ قبر میں بھی کتاب بینی کر رہے ہوں گے‘‬ ‫کیوں کہ منہ سے لگی چھٹتی نہیں‘ گویا یہ فطرت ثانیہ بن جاتی‬ ‫ہے۔‬ ‫میں آج بھی‘ دوسرے تیسرے دن‘ ان کی قبر پر حاضر ہوتا رہتا‬ ‫ہوں اور پوچھتا ہوں‘ کیوں صاحب‘ کون سی کتاب مطالعہ میں‬ ‫جا رہی ہے۔ واپسی جواب تو خیر ملتا نہیں‘ ہاں مجھے اندزہ‬


‫ہے‘ کہ میر و غالب اور اقبال پر ہی مغز ماری ہو رہی ہو گی۔‬ ‫ہاں تو عرض کر رہا تھا کہ ہم دونوں میں‘ کتاب ہی سانجھ کا‬ ‫ذریعہ تھی۔ میں بھی کتاب کا رہا ہوں‘ اس لیے‘ ہماری هللا کے‬ ‫فضل سے‘ خوب‘ بلکہ بہت خوب نبھی۔‬ ‫وہ مر گیے ہیں‘ خدا لگتی تو یہ ہی ہے‘ کہ مرحوم سچے کھرے‬ ‫اسالم دوست اور پاکستان سے بےتحاشا محبت کرنے والے‬ ‫تھے۔ پرخلوص‘ مفید اور سودمند مشوروں سے‘ نوازے تھے۔‬ ‫جس چیز کا مطالعہ کرتے‘ اس کی زبر زیر تک سے آگاہ کرکے‘‬ ‫اپنی رائے دیتے اور اپنے مخاطب کی‘ رائے طلب کرتے۔ کسی‬ ‫مقام پر سنجیدہ اختالف‘ ان کی طبع پر ناگوار نہیں گزرتا تھا۔ وہ‬ ‫اختالف کو‘ پوری طرح چبا اور ہضم کرکے ہی‘ اپنے خیال کا‬ ‫اظہار کرتے۔ بہت کم لوگ‘ انہیں بطور شخص جانتے ہوں گے۔‬ ‫شاید یہ ہی وجہ ہے‘ ساتھیوں میں سے‘ ایک آدھ نے‘ ان کے‬ ‫کثیر مطالعہ اور ان کے تجربات سے فائدہ اٹھایا ہو گا۔ وہ‬ ‫دیکھنے میں بڑے سخت‘ لیکن داخلی سطع پر‘ ریشم سے زیادہ‬ ‫مالئم اور محبت کرنے والے تھے۔‬ ‫مرحوم صرف پڑھنے کے ہی شوقین نہیں تھے‘ بلکہ لکھتے‬ ‫بھی تھے۔ ہمارے ایک مرحوم کالج ساتھی‘ ہمیں ایک دوسرے‬ ‫کے پاس دیکھ کر‘ طنزا اور مزاحا کہا کرتے تھے‘ پڑھے‬


‫لکھے بیٹھے ہیں۔ پڑھا اکرام صاحب کے لیے‘ اور میرے لیے‬ ‫لکھا استعمال کرتے تھے۔ ان کی زندگی میں‘ مجھے ان کی۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫کتاب پاکستان اور پاکستانیت۔۔۔۔۔۔۔ پر بھی لکھنے کا موقع مال۔ اب‬ ‫مجھے یاد نہیں‘ میری یہ تحریر کس رسالے یا اخبار میں چھپی‘‬ ‫تاہم میری کتاب اصول اور جائزے میں شامل ہے۔‬ ‫اس حوالہ سے‘ وہ صرف پڑھے ہوئے ہی نہ تھے‘ بلکہ لکھے‬ ‫ہوئے بھی تھے۔ ان کے ہر لفظ سے‘ پکا مسلمان اور سچا‬ ‫پاکستانی دکھائی دیتا ہے۔ بالشبہ‘ پاکستانیت ان کی روح میں‬ ‫شامل تھی۔‬ ‫وہ کسی کے منہ سے‘ ایک لفظ بھی‘ پاکستان کے خالف‬ ‫برداشت کرنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے۔ پاکستان کے حوالہ‬ ‫سے‘ کوئی اچھی خبر سنتے تو‘ مسرور ہو جاتے تھے۔ کسی‬ ‫نئی ایجاد یا دریافت پر‘ سارا سارا دن خوش ہوتے اور اسی کے‬ ‫حوالہ سے‘ بات کرنے کا جواز نکال لیتے۔ موجد کے فرشتوں‬ ‫کو کبھی خبر نہ ہوتی‘ کہ الئبریری میں بیٹھا ایک شخص‘ اس‬ ‫کے کارنامے سے‘ کس قدر خوش ہو رہا ہے۔‬ ‫مغرب کا مجھے کچھ پتہ نہیں‘ لیکن ہمارے ہاں کا رواج ہے‘ کہ‬


‫کسی شخص کے مرنے کے بعد‘ اس کے بچھلے کفن دفن کے‬ ‫بعد‘ اس کے چھوڑے کو تقسیم کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ تقسیم پر‬ ‫جھگڑ پڑتے ہیں۔ یہ جھگڑنا‘ پانی پت کے نقشے سامنے لے آتا‬ ‫ہے۔ ادیب شاعر یا مطالعہ خور کے پاس‘ منوں کے حساب سے‬ ‫ردی جمع ہوئی ہوتی ہے‘ جسے وہ ساری عمر‘ سینے سے‬ ‫لگائے رکھتا ہے۔ اس کے پچھلے اس ردی کے دام کھرے‬ ‫کرکے‘ کمرے یا گیلری کا بہتر اور بامعنی استعمال نکال لیتے‬ ‫ہیں۔ اسی میں‘ انکی مسروری پنہاں ہوتی ہے۔‬ ‫پروفیسر صاحب کی خوش قسمتی تھی‘ کہ ان کی اوالد پڑھی‬ ‫لکھی ہے۔ ان میں ایک بیٹا‘ اردو سے متعلق ہے۔ یہ ہی وجہ‬ ‫ہے‘ کہ ان کا ذخیرہءعلم‘ ردی میں‘ ردی کے بھاؤ نہیں گیا بلکہ‬ ‫محفوظ کر لیا گیا۔ اس حوالہ سے وہ شاباش کے مستحق ہیں۔‬ ‫سننے میں آ رہا ہے کہ سردست ادب ادیب اور پاکستانیت کمپوز‬ ‫کروایا جا رہا ہے۔ کمپوزنگ پر اٹھنے واال خرچہ بچے اٹھا رہے‬ ‫ہیں۔ بڑی بات ہے۔ ہاں البتہ یہ کام‘ چور اور بددیانت ڈاکٹر مس‬ ‫کال‘ کے ہاتھوں میں چال گیا ہے‘ دیکھیے کیا بنتا ہے۔ یہ ہاتھ‬ ‫مجھے بھی لگ چکے‘ جو مال ہٹرپ اور میری عمر بھر کی‬ ‫جمع پونجی اڑا چکے ہیں۔ موقف معقول اختیار کیا گیا ہے‘ بابے‬ ‫کا دور ختم ہو گیا ہے‘ اس نے یہ ردی کیا کرنی ہے۔ اب ہمارا‬


‫دور ہے‘ اب ہم نے عمر گزارنی ہے۔‬ ‫بابوں کی چیزیں‘ ان کے بچوں کی ہوتی ہیں۔ اہل قلم سب کے‬ ‫ہوتے ہیں۔ ضروری نہیں‘ ان کی اوالد فائدہ اٹھائے‘ یا اپنے نام‬ ‫سے چھاپے۔ سقراط سب کا تھا‘ افالطون نے اس کا کہا جمع‬ ‫کیا‘ بڑی بات ہے‘ اب یہ قاری کا کام ہے‘ کہ کون سا سقراط کا‬ ‫ہے اور کون سا افالطون کا‘ خود پہچاننے کی کوشش کرئے۔‬ ‫اس کے لیے نظریہ اور اسلوب کو پیمانہ بنانا قاری کی ذمہ‬ ‫داری ہے۔‬

‫روال رپا توازن کا ضامن ہے‬

‫کل کی بات ہے بیغم بال فل سٹپ بولے چلی جا رہی تھی اور‬ ‫میں اس کے حضور کھوگو بنے بیٹھا تھا۔ میں جانتا تھا ایک‬ ‫لفظ بھی میرے منہ سے نکال تو دو چار گھنٹے بنے۔ مجھے‬ ‫ہمیشہ چپ کی چادر میں ہی پناہ ملی ہے۔ شوہر حضرات کو اکثر‬


‫یہ جملہ سننے کو مال ہو گا‬ ‫تم نے ساری عمر کیا ہی کیا ہے‘ کون سے تم نے "‬ ‫"میرے ماتھے پر ٹیکے سجا دیے ہیں‬ ‫یہ جملہ پہلے بھی کوترسو بار سن چکا تھا۔ میں سقراط کا‬ ‫زہر سمجھ کر پی جاتا تھا۔ کل مجھے تاؤ آ گیا۔ کمال ہے وہ‬ ‫ساری عمر میں اس عرصہ کو بھی شمار کر رہی تھی جو میرے‬ ‫کنوار پن کا تھا۔ یہ بھی معلوم نہیں مجھے ابھی اور کتنا جینا‬ ‫ہے۔ ساری عمر میں تو یہ دونوں زمانے بھی آتے ہیں۔ جی میں‬ ‫آیا اس حوالہ سے بات کروں لیکن مجھے اس کے اس جملے‬ ‫نکمے تو ہو ہی اوپر سے حکایتں کرتے ہو کے تصور نے لرزا‬ ‫کر رکھ دیا۔ مجھے غصہ بڑا تھا جو میں ہر حال میں نکالنا چاہتا‬ ‫تھا۔ میں نے بڑی کڑک دار آواز جو کمرے کی دہلیز بھی پار نہ‬ ‫کر سکی‘ میں کہا کیوں خوامخواہ مغز چاٹ رہی ہو۔ اس کا‬ ‫جواب میری سوچ سے بھی بڑھ کر نکال۔ کہنے لگی میں اپنے‬ ‫منہ سے بول رہی ہوں اس میں تمہارا کیا جاتا ہے۔‬ ‫اس کی بات میں حد درجہ کی معقولیت تھی۔ ورزش تو اس‬ ‫کے دماغ اور منہ جس میں زبان اور جبڑے بھی شامل ہیں‘ ہو‬ ‫رہی۔ ہاں البتہ میرے کانوں کو زحمت ضرور تھی۔ دماغ کا خرچہ‬ ‫تب ہوتا جب میں اس کے کہے کو کوئ اہمیت دے رہا ہوتا۔ روز‬ ‫کی چخ چخ کو اہمیت دینا حماقت سے زیادہ نہیں۔‬


‫غصہ میں آ کر ڈھیٹ اور چکنا گھڑا تک کہہ جاتی ہے۔‬ ‫میں دونوں کانوں سے کام لیتا ہوں یعنی ایک کان سے سنتا ہوں‬ ‫دوسرے کان سے نکال دیتا ہوں اور بس۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری‬ ‫لڑائ یک طرفہ رہتی ہے۔ معروف مقولہ ہے کہ رعایا ملک کے‬ ‫قدموں پر قدم رکھتی ہے۔ میں بھی اس ذیل میں حاکم کے قدموں‬ ‫پر قدم رکھنے واال ہوں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ میں اپنے گھر‬ ‫کے افراد کی پوری دیانتداری سے خدمت کرتا ہوں۔ چوک اسی‬ ‫معاملہ میں ہوتی ہے جو میری پہنچ سے باہر ہوتا ہے۔ گھر‬ ‫والے یقین نہیں کرتے۔ ہر گھر والی اپنے شوہر کو اوباما کا ساال‬ ‫سمجھتی ہے جو ہر کچھ اس کی دسترس میں ہے۔ بہر طور‬ ‫دسترس سے باہر کام کے لیے مجھے دونوں کانوں سے کام لینا‬ ‫پڑتا ہے۔ حکومت میں موجود لوگ دونوں کانوں سے کام نہیں‬ ‫لیتے۔ وہ کانوں میں روئ ٹھونس لیتے ہیں۔ لوگ جب سڑکوں‬ ‫پرآتے ہیں تو نظر آنے کے مطابق یہ سازش اور بغاوت کے‬ ‫مترادف ہوتا ہے اس لیے وہ اس رولے رپے کے لیے ڈنڈے کا‬ ‫استعمال فرض عین سمجھتے ہیں۔ لوگ اتنا بولتے اور لکھتے‬ ‫ہیں لیکن ان کی چال میں رائ بھر فرق نہیں آتا۔ رہ گئ تاریخ کی‬ ‫بات تو مورخ ان کا ہتھ بدھا گوال ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں پیٹو‬ ‫مورخ جسے میں مورکھ کہتا ہوں‘ انہیں نبی سے دو چار انچ ہئ‬ ‫نیچے رہنے دے گا۔ لہذا آتے وقت سے کیا ڈرنا۔‬


‫رعایا اور حکومت ریاست کے دو اہم رکن ہیں۔ رعایا حکومت‬ ‫کو ٹیکس دیتی ہے اگر نہیں ادا کرتی تو حکومت کو خوب خوب‬ ‫وصولنا آتا ہے۔ ٹیکس کے عوضانے میں حکومت رعایا کو‬ ‫سہولتیں جن میں تعلیم اورعالج معالجے کی سہولتیں شامل ہیں‘‬ ‫فراہم کرتی ہے یہی نہیں انہیں تحفظ بھی فراہم کرتی ہے۔ ہمارے‬ ‫ہاں ٹیکس وصولنا یاد رہتا ہے لیکن سہولتیں فراہم کرنا گناہ‬ ‫کبیرہ سمجھا جاتا ہے۔ میں ہر ابے یا شوہر کی پیروی میں‬ ‫مسیتے جا کر قسم کھانے کو تیار ہوں کہ گھر والوں سے ٹیڈی‬ ‫پیسہ ٹیکس وصول نہیں کرتا۔ اپنی مزدوری سے روٹی کپڑا‬ ‫مکان تعلیم عالج معالجہ وغیرہ دستیاب کرتا ہوں اس کے‬ ‫باوجود ڈھیٹ ایسے ثقیل کلمات سنتا ہوں۔ سن کر ہاتھ نہیں‬ ‫کھنچتا۔ میں یہ سب کرنا اپنا فرض جانتا ہوں۔‬ ‫کل مجھے ایک پرائیویٹ میسج موصول ہوا جس میں کراچی‬ ‫کی حالت زار کا تذکرہ تھا۔ پرائیویٹ میسج پڑھ کر میرے ہاتھ‬ ‫پاؤں سے جان نکل گئ۔ پراءویٹ میسج میں ایک موثر اور منظم‬ ‫پارٹی کا ذکر تھا۔ لکھا تھا کہ ہر طبقہ کی عورت آبرو سے‬ ‫محروم ہو رہی ہے اور کوئی پوچھنے یا سننے واال موجود نہیں۔‬ ‫ریاست کے اختیارات بے انتہا ہوتے ہیں۔ ریاست اپنے اور اپنے‬ ‫شہریوں کے تحفظ کے لیے کچھ بھی کر گزرتی ہے۔ ادارے اس‬


‫کے ماتحت ہوتے ہیں۔ اگر ادارے کچھ بھی نہیں کرتے تو ان کے‬ ‫ہونے کا کوئ جواز نہیں بنتا۔ جب جنگل کا قانون چلنا ہے تو‬ ‫انھیں چلتا کرنا چاہیے اور ان پر اٹھنے والی خطیر رقم ہاؤسز‬ ‫اور اس کے مکینوں کی بہتری کے لیے خرچ ہونی چاہیے۔ ایک‬ ‫خیال یہ ہے کہ ادارے اپنے اور ہاؤسز کے لیے کماتے ہیں لہذا‬ ‫انہیں ختم کرنا ہاؤسز اور اس کے مکینوں کے پیٹ پر الت‬ ‫مارنے کے مترادف ہے۔ اس مخصوص گروہ یا ارٹی کو نکیل‬ ‫ڈالنا ہاوسز سے مرحومی کے مترادف ہے۔ گویا ان عنصر کو‬ ‫کھلی چھٹی دینا سیاسی مجبوری ہے۔ مجبوری کچھ بھی کروا‬ ‫سکتی ہے۔ جن عورتوں کی عزت برباد ہوتی ہے کون سی ان کی‬ ‫اپنی مائیں بہنیں ہوتی ہیں۔ دوسرا عورت کے ساتھ شادی کے‬ ‫بعد بھی یہی کچھ ہوتا ہے بالشادی ہو رہا ہے تو کون سی قیامت‬ ‫ثوٹ رہی ہے۔ بس تھوڑا سا بے غیرت ہونے کی ضرورت ہے۔‬ ‫بے غیرتی بھی کیسی۔ یہ ترقی پسندی کی عالمت ہے۔ بہت سے‬ ‫عالقے موجود ہیں جہاں باپ کا تصور ہی نہیں۔ ان کے ہاں کوئ‬ ‫روال نہیں تو ہمارے ہاں قدامت پسندی سے کام لیا جا رہا۔ ہمیں‬ ‫ہاؤسز کی سیاسی مجبوری دیکھتے ہوءے بے غیرت ہو جانا‬ ‫چاہیے۔عوام کا روال اور بے بس سسکیاں قطعی ناجاءز اور‬ ‫باؤسز کے خالف کھلی سازش ہے۔‬ ‫گھر کی کرسی میرے پاس ہے رولے رپے کے حوالہ سے‬


‫خاموشی اختیار کرنا میری مالی مجبوری ہے۔ غنڈہ عناصر کے‬ ‫حوالہ سے خاموشی اختیار کرنا ہاؤسز کی سیاسی مجبوری ہے۔‬ ‫اس کا اس سے بہتر اور کوئی حل نہیں کہ بیغم بولتی رہے اور‬ ‫میں کام سے کام رکھوں۔ اس کے بولنے سے اس کی بھڑاس‬ ‫نکل جاتی ہے۔ بےعزتی کرکےاس کی انا کو تسکین ملتی ہے‬ ‫اور وہ خود کو ونر سمجھتی ہے جبکہ میں اپنا پرنالہ آنے والی‬ ‫جگہ پر رکھتا ہوں۔ روال ڈالنے اور برداشت کرنے سے بدامنی‬ ‫پیدا نہیں ہوتی بلکہ توازن کا رستہ ہموار ہوتا ہے۔‬

‫من کا چوہا اور کل کلیان‬

‫اصولی سی اور صدیوں کے تجربے پر محیط بات ہے کہ غیرت‬ ‫قوموں کو تاج پہناتی ہیں۔ بے غیرتی روڑا کوڑا بھی رہنے نہیں‬ ‫دیتی۔ روڑا کوڑا اس لیے معتبر ہے کہ تالش کرنے والوں کو‬ ‫اس میں بھی رزق مل جاتا ہے۔ جب بھی معامالت گھر کی دہلیز‬ ‫سے باہر قدم رکھتے ہیں توقیر کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ سارا کا‬ ‫سارا بھرم خاک میں مل کر خاک ہو جاتا ہے۔ جس کو کوئی‬ ‫حیثیت نہیں دی گئی ہوتی وہ بھی انگلی اٹھاتا ہے۔ نمبردار بن‬


‫جاتا ہے۔ جس کے اپنے دامن میں سو چھید ہوتے ہیں اسے بھی‬ ‫باتیں بنانے کا ڈھنگ آ جاتا ہے۔ یہ قصور باتیں بنانے یا انگلی‬ ‫اٹھانے والوں کا نہیں ہوتا بلکہ موقع دینے والوں کا ہوتا ہے۔‬ ‫یہ حقیقیت بھی روز روشن کی طرح واضح اور عیاں رہی ہے کہ‬ ‫طاقت کے سامنے اونچے شملے والے سر بھی خم رہے ہیں۔‬ ‫گویا طاقت اور غیرت کا سنگم ہوتا ہے تو ہی بات بنتی ہے۔‬ ‫کمزور صیح بھی غلط ٹھرایا جاتا ہے۔ اس کی ہر صفائ اور‬ ‫اعلی پاءے کی دلیل بھی اسے سچا قرار نہیں دیتی۔ بھیڑیے کا‬ ‫بہانہ اسے چیرنے پھاڑنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ انسان جونکہ‬ ‫اشرف المخلوقات ہے اس لیے اس کے بہانے اور دالئل بھی‬ ‫کمال کے ہوتے ہیں۔ انسان کی یہ بھی صفت ہے کہ وہ اپنی‬ ‫غلطی تسلیم نہیں کرتا بلکہ اپنی غلطی اوروں کے سر پر رکھ‬ ‫دیتا ہے۔ ایسی صفائ سے رکھتا ہے کہ پورا زمانہ اسے تسلیم‬ ‫کرنے میں دیر نہیں کرتا۔‬ ‫امریکہ کی عمارت گری اس میں کوئ کھوٹ نہیں۔ سوال پیدا‬ ‫ہوتا ہے کہ یہ عمارت گرانے پورا افغانستان امریکہ پر چڑھ‬ ‫دوڑا تھا۔ اس میں بچے بوڑھے عورتیں الغر بیمار وغیرہ‘ بھی‬ ‫شامل تھے؟‬


‫جواب یقینا نفی میں ہو گا۔ تو پھر ان سب کو بندوق نہیں توپ‬ ‫کے منہ پر کیوں رکھ دیا گیا؟‬ ‫ان کا جرم تو بتایا جائے۔‬ ‫لوگوں کو تو مذکرات اور سفارتی حوالہ سے مسائل کا حل‬ ‫تالشنے کے مشورے اور خود گولے سے مسائل حل کرنے‬ ‫کوشش کو کیا نام دیا جائے۔‬ ‫ایک پکی پیڈی بات ہے کہ چوہا بلی سے بلی کتے سے کتا‬ ‫بھڑیے سے بھیڑیا چیتے سے چیتا شیر سے شیر ہاتھی سے‬ ‫ہاتھی مرد سے مرد عورت سےاورعورت چوہے سے ڈرتی ہے۔‬ ‫ڈر کی ابتدا اور انتہا چوہا ہی ہے۔ میرے پاس اپنے موقف کی‬ ‫دلیل میں میرا ذاتی تجربہ شامل ہے۔ میں چھت پر بیھٹا کوئی کام‬ ‫کر رہا تھا۔ نیچے پہلے دھواندھار شور ہوا پھر مجھے پکارا گیا۔‬ ‫میں پوری پھرتی سے نیچے بھاگ کر آیا۔ ماجرا پوچھا۔ بتایا گیا‬ ‫کہ صندوق میں چوہا گھس گیا ہے۔ بڑا تاؤ آیا لیکن کل کلیان‬ ‫سے ڈرتا‘ پی گیا۔ بس اتنا کہہ کر واپس چال گیا کہ تم نے مجھے‬


‫بلی یا کڑکی سمجھ کر طلب کیا ہے۔ تاہم میں نے دانستہ چوہا‬ ‫صندوق کے اندر ہی رہنے دیا۔‬ ‫چوہا کمزور ہے لیکن ڈر کی عالمت ہے۔ ڈر اپنی اصل میں‬ ‫انتہائی کمزور چیز ہے۔ کمزوری سے ڈرنا‘ زنانہ خصلت ہے۔‬ ‫امریکہ اپنی اصل میں انتہائی کمزور ہے۔ کیا کمزوری نہیں ہے‬ ‫کہ اس کی گرفت میں بچے بوڑھے عورتیں الغر بیمار بھی آ‬ ‫گئے۔ گھروں کے گھر برباد کر دینے کے بعد بھی اس کا چوہا‬ ‫ابھی زندہ ہے۔ چوہا اس سے مرے گا بھی نہیں۔ بشمار اسرائیلی‬ ‫بچے مروا دینے کے بعد بھی فرعون کے من کا چوہا مرا نہیں‬ ‫حاالں کہ وہ انہیں بانہ بازو بنا سکتا تھا۔‬ ‫ہم اپنے ساتھ نہیں ہیں کسی اور کا خاک ساتھ دیں گے۔ یہ بڑی‬ ‫بڑی باتیں کرنے والے ایک جونیئر کلرک کی مار نہیں ہیں‬ ‫منشی تو بہت بڑا افسر ہوتا ہے۔ہمارا شمار ان لوگوں میں ہوتا‬ ‫ہے جو چور کو کہتے ہیں سوئے ہوئے ہیں اور گھر والوں کو‬ ‫کہتے ہیں چور آ رہا ہے۔اس نام نہاد ترقی کے دور میں ہم سچ‬ ‫کہہ نہیں سکتے سچ سن نہیں سکتے۔ یہ ہماری سیاسی سماجی‬ ‫یا پھر اقتصادی مجبوری ہے۔‬


‫ہمیں اپنے معامالت پر ہی گرفت نہیں کسی دوسرے کی کیا مدد‬ ‫کریں۔ صاف کہہ نہیں سکتے بھائ ہم پر نہ رہنا‘ جب بھی مشکل‬ ‫وقت پڑا ہمیں دشمن کی صف میں سینہ تانے کھڑا پاؤ گے۔ ہم‬ ‫ابراہیم لنکن کی نبوت اور ڈالر کے حسن پر یقین رکھنے والے‬ ‫لوگ ہیں۔ ہماری عقل اور غیرت پیٹ میں بسیرا رکھتی ہے۔ ہم‬ ‫ازلوں سے بھوک کا شکار ہیں۔ اصل مجنوں کوئ اور ہے ہم تو‬ ‫چوری کھانے والے مجنوں ہیں۔ ہم کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ‬ ‫ہیں۔ کہا گیا بجلی نہیں جائے گی جبکہ بجلی گئ ہوئ ہے۔ گیس‬ ‫کا بل سو ڈیڑھ سو آتا تھا اور گیس سارا دن رہتی تھی۔ آج گیس‬ ‫صرف دکھائی دیتی ہے اور بل پیو کا پیو آتا ہے۔ بجلی جانے‬ ‫سے پہلے کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے کہ فالں گھر کے گیس کا‬ ‫بل سات ہزار روپیے آیا ہے اور گھر کے کل افراد چند ایک ہیں۔‬ ‫لگتا ہے کہ دوزخ کو اس گھر سے پائپ جاتا ہے۔‬ ‫ہم وہ لوگ ہیں جو الیکشنوں کے موسم میں لنگر خانے کھول‬ ‫دیتے ہیں۔ کٹوں بکروں اور مرغوں کی شامت آ جاتی ہے۔ لوگ‬ ‫دھر سمجھ کر بے دریغ کھاتے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں امیدوار‬ ‫پلے سے کھال رہا ہے اور اس کے بعد پیٹ بھر کر اگلے‬ ‫الیکشنوں میں ہی مل پائے۔ بات کا پہال حصہ درست نہیں۔‬ ‫الیکشن وہی لڑتا ہے جس کی ہک میں زور ہوتا ہے۔ جس کی‬ ‫ہک میں زور ہوتا ہے وہ پلے سے کیوں کھالنے لگا ۔ چوری‬


‫کے ڈنگر ہی چھری تلے آتے ہیں۔ اتنا ضرور ہے کہ ان لنگر‬ ‫خانوں میں مردار گوشت دیگ نہیں چڑھتا۔‬

‫زندگی میں میں کے سوا کچھ نہیں‬

‫وزیر برقیات کے اعالن کے باوجود مختلف شہروں‬ ‫"مینلوڈشیڈنگ‬ ‫یہ خبر میری اس تحریر کے بعد شائع ہوئی جس میں‘ میں‬ ‫نے کہا تھا کہ کہنا اور کرنا دو الگ چیزیں ہیں۔ اس تحریر کے‬ ‫باوجود اس خبر کا شاءع ہونا اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ‬ ‫خبر نویس اس حقیقت سے بےخبر ہے یا پھر وہ پرتھوی پر‬ ‫بسیرا نہیں رکھتا اور سہانے خوابوں کے دیس کا اقامتی ہے۔‬ ‫ایسا بھی ممکن ہے کہ اس تک میری ناچیز تحریر رسائ حاصل‬ ‫کرنے میں ناکام رہی ہو۔ یا پھر میں اپنا مافی الضمیر بیان کرنے‬ ‫میں ناکام رہا ہوں۔ جو بھی ہے صحیح نہیں ہے۔ دوبارہ سے‬ ‫کوشش کرتا ہوں شاید اب کہ سمجھانے میں کامیاب ہو جاؤں۔‬


‫کہنا اور کرنا اپنی حیثیت میں دو الگ چیزیں ہیں۔ ان کے‬ ‫مابین المحدود فاصلے ہیں۔ بذات خود بجلی دیکھنے میں ایک ہو‬ ‫کر بھی ایک نہیں۔ متعلقہ پواءنٹ تک پہنچنے کے لیے دو تاروں‬ ‫کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک ٹھنڈی تار دوسری گرم تار۔ دونوں‬ ‫تاروں کےالگ الگ رہنے میں ہی عافیت اور سالمتی ہوتی ہے۔‬ ‫ہر سوئچ میں ان دونوں کے لیے الگ الگ پوائنٹ ہوتے ہیں۔‬ ‫اگر یہ دونوں تاریں باہمی اختالط کر لیں تو بہت بڑا کھڑاک ہو‬ ‫سکتا ہے۔ اس ٹھاہ کے نتیجہ میں جان بلکہ جانیں جا سکتی‬ ‫ہیں۔ بالکل اسی طرح کہنا اور کرنا گلے مل جائیں تو مالی نقصان‬ ‫وٹ پر ہوتا ہے۔ نقصان جانی ہو یا مالی‘ نقصان ہی ہوتا ہے اور‬ ‫نقصان کی کسی بھی سطع پر حمایت نہیں کی جا سکتی۔‬ ‫سکول کالج یہاں تک کہ یونیورسٹی میں کتابی تعلیم دی‬ ‫جاتی ہے۔ کامیاب طالب علم کو متعلقہ علم کی سند یا ڈگری دی‬ ‫اتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ڈگری ہولڈر اس علم کی‬ ‫کامل جانکاری حاصل کر چکا ہے۔ اس سند یا ڈگری کے باوجود‬ ‫ڈگری یافتہ عملی طور پر صفر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس عملی‬ ‫تجربہ رکھنے واال ڈگری یافتہ سے کرنے میں کمال کے درجے‬ ‫پر فائز ہوتا ہے حاالنکہ ڈگری یافتہ کرنے سے متعلق باتیں بار‬ ‫بار پڑھ بلکہ توتے سے بڑھ کر رٹ چکا ہوتا ہے۔ دونوں کے‬ ‫نام الگ سے ہوتے ہیں۔‬


‫کہنے کو تھیوری جب کہ کرنے کو پریکٹیکل کا نام دیا‬ ‫جاتا ہے اور یہ ایک دوسرے سے قطعی طور الگ ہیں۔ یہ‬ ‫درست سہی پڑھے کو عملی آزمایا جاتا ہے۔ گویا پڑھنا پہلے اور‬ ‫آزمانا بعد میں ہے۔ میں کہتا ہوں کرنا پہلے ہے اور کہنا یا آزمایا‬ ‫بعد میں ہے۔ ہمارے ہاں ایک ان پڑھ آدمی بڑے کمال کے کام‬ ‫سر انجام دے رہا ہے۔ نہیں یقین آتا تو بالل گنج میں جا کر دیکھ‬ ‫لیں۔ شکاگو یونیورسٹی کا ایک ساءنس کا پروفیسر وہ کام نہیں‬ ‫کر سکتا جو کام بالل گنج کا ان پڑھ خرادیا دے سرانجام سکتا‬ ‫ہے۔ اسے کہیں یہ ہے ایف سولہ ذرا اس سے بہتر بنا دو‘ بنا‬ ‫دے۔ ڈالرز میں ملنے والے سوفٹ ویئر یہاں بازار سے ان کی‬ ‫سی ڈی بیس رویے میں مل جاتی ہے۔ ہے نا کرنا اور کہنا ایک‬ ‫دوسے سے الگ تر؟‬ ‫جو کرتے ہیں وہ بولتے نہیں۔ جو بولتے ہیں وہ کرتے‬ ‫نہیں۔ اس طرح دوہرا یعنی کرنا اور کہنا بوجھ بن کر سر پر آ‬ ‫جاتا ہے۔ کوئی بھی دوہرا بوجھ اٹھا نہیں سکتا۔ کیا‘ بقلم خود‬ ‫‪:‬بولتا ہے کہ میں ہوں کیا ہوا۔ غالبا یہ شعر بھیکا کا ہے‬ ‫بھیکا بات ہے کہن کی کہن سنن میں ناں‬ ‫جو جانے سو کہے نہ کہے سو جانے ناں‬


‫کہہ کر کیا تو کیا کیا۔ کیا وہی اچھا ہے جو کہا نہ جائے۔‬ ‫کرکے کہنا تو احسان جتانے والی بات ہے۔ احسان جتانا سے‬ ‫بڑھ کر توہین آمیز بات ہی نہیں۔ ہمارے لیڈر اتنے بھی گیے‬ ‫گزرے نہیں ہیں جو احسان جتائیں۔ اسی بنیاد پر ہی وہ صرف‬ ‫کہتے ہیں‘ کرتے نہیں۔ وہ خوب خوب جانتے ہیں کہ کرنے کے‬ ‫لیے کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ ان کے نزدیک کیے‬ ‫کی خبر دوسرے ہاتھ تک کو نہیں ہونی چاہیے۔ جو وہ کرتے‬ ‫ہیں لوگوں کو خبر تک نہیں ہو پاتی۔ جب لوگوں کو خبر ہوتی‬ ‫ہے وقت بہت آگے نکل گیا ہوتا ہے۔‬ ‫کوئی بےبابائی کام کسی بڑی سفارش کے ساتھ جہاں کہیں‬ ‫نازل ہوتا ہے اس کی زبانی کالمی سہی‘ پذیرائ تو ہوتی ہے۔‬ ‫اس کے ہونے کی یقین دہانی بھی کرائی جاتی ہے۔ امید بلکہ‬ ‫یقین کے چراغ بھی جالئے جاتے ہیں۔ بعض اوقات لڈو بھی‬ ‫بانٹے جاتے ہیں۔ بےبابائی ہونے کی پاداش میں وہ کام نہیں ہو‬ ‫پاتا۔ اس مقام پر ناراض ہونا یا مایوس ہونا نہیں بنتا کیونکہ کرنا‬ ‫اور کہنا دو الگ باتیں ہیں۔‬ ‫ایم این ایز یا ایم پی ایز یا منسٹرز لوگوں کی درخواستوں‬


‫پر سفارشی کلمات لکھتے ہیں۔ یہاں وہ دونوں فریقوں کی‬ ‫درخواستوں پر سفارشی کلمات ایک ہی طرح سے ثبت کرتے‬ ‫ہیں۔ وہ تو دیالو اور کرپالو مخلوق ہوتے ہیں۔ وہ کسی کو کیسے‬ ‫مایوس کر سکتے ہیں۔ اس حوالہ سے کسی کا کام ہو یا نہ ہو‬ ‫اس سے انھیں کوئی مطلب نہیں ہوتا کیونکہ وہ خوب جانتے‬ ‫ہیں کہ سفارش اور کام کا سر انجام پانا دو الگ سے باتیں ہیں۔‬ ‫سفارش اور کام کا ہونا اختالط پذیر نہیں ہونے والے ۔ ان کی‬ ‫الگ الگ اہمیت حیثیت اور ضرورت ہے۔‬ ‫ایک ماں اور ایک باپ کی اوالد اپنی اپنی روٹی پکاتے‬ ‫ہیں۔ وہ سگے بھائ ہوتے ہیں۔ روٹئ سالن ایک رنگ روپ‬ ‫رکھتا ہے۔ ساتھ نبھانے کا وعدہ بھی کیا گیا ہوتا ہے۔ سگا ہونا‬ ‫یا وعدے میں بندھے ہونا یا روٹی کا رنگ روپ ایک ہونا اپنی‬ ‫جگہ لیکن نبھانا دو الگ باتیں ہیں۔ انھیں ایک دوسرے سے‬ ‫نتھی نہیں کیا جا سکتا اور ناہی کیا جانا حقیقت سے تعلق رکھتا‬ ‫ہے۔‬ ‫پنجاب جو سب سے بڑا صوبہ ہے کی منشی شاہی سب‬ ‫سے زیادہ شریف‘ تحمل مزاج‘ بردبار اور زیرو رفتار ہے نہ یہ‬ ‫کچھ کہتی نہ کرتی ہے۔ یہ ہونے کے ہر کام کی راہ میں دیوار بن‬ ‫جاتی ہے۔ چونکہ قلم‪ ،‬اٹکل اور داؤ و پیچ اس کی زنبیل میں پناہ‬


‫گزیں ہوتے ہیں اس لیے ہوتے بھی نہیں ہوتے۔ اس کی تحمل‬ ‫مزاجی اور زیرو رفتاری ہی وہ بڑا کارنامہ ہے کہ ہم روزاول‬ ‫سے بھی بہت قدم پیچھے کھڑے بھوک پیاس اور موت کی ہولی‬ ‫بڑی بےبسی اور بےکسی سے دیکھ رہے ہیں۔ یوں لگتا دیکھنا‬ ‫ہمارا مقصد حیات ہے۔‬ ‫وزیر عوامی لوگ ہوتے ہیں اس لیے عوام کی بہبود ان‬ ‫کے پیش نظر رہتی ہے۔ وہ نہیں چاہتے لوڈ شیڈنگ ختم کرکے‬ ‫بجلی کے بل لوگوں کی جیب سے تجاوز کر جاءیں اور پھرلوگ‬ ‫لوڈ شیڈنگ کرنے کے لیے سڑکوں پر آ کر ذلت و خواری کا منہ‬ ‫دیکھیں۔ وہ بجلی کے بل اور لوڈشیڈنگ کی جدائی کو عوامی‬ ‫بہبود کے برعکس سمجھتے ہیں۔‬ ‫مفروضوں میں زندگی کرنے کا عہد ہے۔ عین ممکن ہے یہ‬ ‫اخباری خبر ہاوسز سے متعلق ہو جہاں اتفاقا کسی فنی خرابی‬ ‫کے سبب بجلی دو چار لمحوں کے لیے کبھی کبھار چلی جاتی‬ ‫ہے۔ بڑے لوگوں کے بڑے کام۔ وہ مخاطب چھوٹے لوگوں سے‬ ‫ہوتے ہیں لیکن وعدے بڑے لوگوں کے ساتھ کر رہے ہوتے‬ ‫ہیں۔ بلند سطع پر کیفیت مختلف ہوتی ہے۔ اس لیے وہاں ٹھنڈی‬ ‫اور تتی تاروں کا روال باقی نہیں رہتا۔ وہاں کرنا اور ہونا دو نہیں‬ ‫رہتے۔ سچی درویشی یہی ہے کہ میں تو میں مدغم ہو کر میں‬


‫بن جاتی ہے اورپھر زندگی میں میں کے سوا کچھ نہیں رہتی۔‬

‫بجلی آتے ہی‬

‫دو شخص ہوٹل میں گرما گرم بحث کر رہے تھے۔باتوں سے‬ ‫دونوں بےپارٹی لگتے تھے۔ بے پارٹی اشخاص کا مختلف‬ ‫سمتوں میں چلنا اوراتنی گرما گرمی دکھانا مجھے بڑا ہی عجب‬ ‫لگا۔ خیرمیں بے تعلقی ظاہر کرتے چائے نوشی میں مشغول رہا۔‬ ‫ان کا موضوع سخن مہنگائی اور بےروزگاری تھا۔ وہ یوں ایک‬ ‫دوسرے سے الجھ رہے تھے جیسے ان دونوں میں سے کوئی‬ ‫ایک ان خرابیوں کا ذمہ دار ہے۔‬ ‫ایک صاحب کا کہنا تھا کہ موجودہ حاالت کے ذمہ دار خود‬ ‫عوام ہیں۔ آخرانھوں نے ان بدمعاشوں کو ووٹ ہی کیوں دیے۔‬ ‫دوسرے کا کہنا تھا اطراف میں بدمعاش تھے ایک کو ممبر بننا‬ ‫ہی تھا۔ دوسری طرف اگر کوئی شریف تھا اور ممبر نہیں بن‬ ‫سکا تو بات کریں۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ کام شریفوں کا کبھی‬


‫بھی نہیں رہا۔ پوری جمہوری تاریخ کو دیکھ لیں۔ اسمگلر‬ ‫چوراچکے سنیما کی ٹکٹیں بلیک کرنے والے رسہ گیر صاحب‬ ‫زادے نواب زادے حرام زادے امریکہ کے چہولی چک اس عمل‬ ‫کا حصہ رہے ہیں۔‬ ‫دوسرا اس بات پر بضد تھا کہ قصور سارا عوام کا ہے۔‬ ‫کچھ فیصد ہی سہی لوگ جمہوریت کا حصہ کیوں بنتے ہیں۔‬ ‫پہلے کا موقف تھا کہ لوگوں کو بھوک میں نک نک ڈبو کر‬ ‫الیکشنوں کے دنوں میں چوپڑی روٹی اور لگ پیس دکھا کر یہ‬ ‫لوگ ووٹ حاصل کر لیتے ہیں۔ لوگ چند دن کی سیری کو دیکھ‬ ‫کر پچھلے اور اگلے سالوں کی قیامت ناک بھوک کو بھول جاتے‬ ‫ہیں۔‬ ‫ان میں سے ایک جس نے جوش خطابت میں چائے کا‬ ‫ابھی تک ایک گھونٹ بھی نہیں لیا تھا‘ کا کہنا تھا کہ صدر وزیر‬ ‫اعظم اور اسپیکر تو ڈھنگ کے منتخب کیے جاءیں۔ شاید اسے‬ ‫معلوم نہ تھا کہ انھیں عوام منتخب نہیں کرتے۔ یہ عوامی‬ ‫نمائندے نہیں‘ اپنی پارٹی کے نمائندے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے اور‬ ‫اپنی پارٹی کے مفاد کے لیے کام کرتے ہیں۔ انھیں عوام سے کیا‬ ‫مطلب۔ وہ عوام کو جوابدہ نہیں ہیں بلکہ پارٹی کو جوابدہ ہوتے‬ ‫ہیں۔‬


‫اتنی دیر میں بجلی آ گئ۔ دونوں کا جوش ہوا ہو گیا۔ دونوں‬ ‫سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ گئے۔ میں سوچ میں پڑ گیا اتنا گہرا‬ ‫شعور انھیں کس نے دیا ہے۔ کیا یہ بھوک پیاس اور اندھیرے‬ ‫کی مہربانی ہے یا میڈیے کی کارگزاری ہے۔دوسرا سوال یہ بھی‬ ‫کھڑا تھا کہ شعور انقالب کی طرف لے جا رہا ہے یا بھوک‬ ‫شعور کو کھا پی جائے گی۔‬ ‫ان دونوں کا بجلی کے آنے پر دوڑ لگانا ظاہر کرتا ہے کہ شعور‬ ‫کسی بھی سطع پر ہو بھوک سے تگڑا نہیں ہوتا۔ روٹی ایمان کی‬ ‫بناء ہے۔ شخص کتنا ہی مظبوط کیوں نہ ہو بھوک کے ہاتھوں‬ ‫بک جاتا ہے۔ لوگوں کو بھوک کی آخری سطع پر اسی لیے پنچا‬ ‫دیا گیا ہے کہ وہ اپنا ضمیر ایمان اور عزت بیچنے پر مجبور ہو‬ ‫جائیں۔ بھوک کےتیور دیکھتے ہوئے میں پورے یقین سے کہہ‬ ‫سکتا ہوں کہ یہاں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ لوگ ہوٹلوں میں‬ ‫بیٹھ کر بڑےاونچے درجے کی باتیں کرتے رہیں گے لیکن بجلی‬ ‫آتے ہی روٹی کی طرف بھاگ اٹھیں گے۔‬ ‫بغداد والے کوا حالل ہے یا حرام پر بحثیں کرتے رہے‬ ‫ادھر ہالکو خان نے بغداد کی اینٹ سےاینٹ بجا دی۔ ہمارےساتھ‬


‫بھی یہی ہو رہا ہے۔ امریکہ ہماری خودداری پر ہر دوسرے‬ ‫کاری ضرب لگاتا ہے اور ہمارے لیڈر اگلے الیکشن جیتنے کے‬ ‫لیے بھوک میں اضافے کا کوئ نیا راستہ تالشنے کی سعی‬ ‫کرتے ہیں۔‬ ‫کار سستی آٹا چینی دال گھی مہنگی کر رہے ہیں۔ ایک عام‬ ‫آدمی کو کار سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ بس کرایہ کم ہو تو‬ ‫غریب سے تعاون سمجھ میں آتا ہے۔ اندھا بانٹے روڑیاں مڑ مڑ‬ ‫اپنیاں نوں۔ کار کا سستا ہونا غریب پروری کے کس زمرے میں‬ ‫آتا ہے۔ یہ بات میری سمجھ سے باال ہے کہ میک اپ بھی سستا‬ ‫کر دیا گیا ہے۔ غالبا قوم کوکوٹھے پر بیٹھانےکا ارادہ ہے۔‬ ‫قوم اس نام نہاد آزادی کے دن سے لے کر آج تک کوٹھے‬ ‫پر بیٹھی ہے۔ جوآتا ہےاس کی جان مال عزت آبرو انا اور غیرت‬ ‫سےکھیلتا ہے اور چلتا بنتا ہے۔ اس کے جانے کے بعد ہر کوئی‬ ‫اس کے جبروستم کے قصے چھیڑ دیتا ہے لیکن یہ سب زبانی‬ ‫کالمی ہوتا ہے۔ کوئی اس پر گرفت نہیں کرتا۔ گئے وقت کی‬ ‫چھوڑیے کوئی موجودہ کے سدھار کی کوشش نہیں کرتا۔ ہرآتا‬ ‫دن گزرے سے بدترین ہوتا ہے۔‬ ‫عدم تحفظ کا احساس بڑھتا چال جاتا ہے۔ ان نام کے قومی‬


‫لیڈروں کی ناک کے نیچے رشوت کا بازار گرم ہے۔ اکثر افسر ان‬ ‫کے اپنے بندے ہیں۔ کم از کم جو ان کے اپنے بندے نہیں ہیں ان‬ ‫پر تو گرفت کریں تاکہ وہ ان کا بندہ ہونے کا جتن کریں۔‬ ‫پوچھنے والوں کے ہاتھ میں سفید گڑ کی پیسی ہے اور وہ‬ ‫یہ سوچے بغیر کہ دانت خراب ہوں گے چوسے پہ چوسا مارے‬ ‫جا رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں خراب دانتوں کا عالج کون سا گرہ‬ ‫خود سےہونا ہے۔ سرکار کا اشیرواد اور قوم کا مال سالمت‬ ‫رہے۔ انھیں پریشان کی کیا ضرورت ہے۔‬

‫لوٹے کی سماجی اور ریاستی ضرورت‬

‫لوٹا کوئی عہد جدید کی پیداوار نہیں۔ یہ صدیوں پہلے‬ ‫وجود میں آ کیا تھا اور اس نے اپنی بہترین کارگزاری کے حوالہ‬ ‫سے انسانی زندگی میں بلند مقام حاصل کر لیا۔ اس کے وجود‬ ‫سے انسان خصوصا برصغیر کے بااختیار اور صاحب حیثیت‬ ‫لوگوں نے خوب خوب فاءدہ اٹھایا۔ دیکھا جاءے یہ کمزور اور‬


‫گریب طبقے کی چیز ہی نہیں۔ پکے محل رکھنے والے اس کی‬ ‫کارگزاری کے معترف رہے ہیں۔ کمزور اور گریب طبقے سے‬ ‫متعلق لوگ کچے اور تعفن کے مارے گھروں میں رہتے ہیں اس‬ ‫لیے ان کی گزر اوقات گھیسی سے ہو جاتی ہے۔ اس حیقیت کے‬ ‫پیش نظر لوٹے کو بلند پایہ طبقوں کی امانت سمجھنا چاہیے۔‬ ‫موجودہ بتی کے بحرانی دور میں بھی بڑے لوگوں کو گھیسی‬ ‫نہیں کرنا پڑے گی۔ یہ سعادت صرف اور صرف کمزور اور گریب‬ ‫طبقے کے مقدر کا حصہ رہے گی۔‬ ‫لوٹا" کو آفتابہ بھی کہا جاتا رہا ہے لوٹے کو استاوا بھی "‬ ‫کہتے ہیں اور یہ لفظ دیہاتوں میں آج بھی مستعمل ہے۔ تاہم‬ ‫شہروں میں مستعمل اور معروف لفظ لوٹا ہی ہے۔ یہ ایک قسم کا‬ ‫ٹونٹی واال برتن ہوتا ہے جو پاخانہ وغیرہ کے لیے پانی سے‬ ‫طہارت کرنے واال برتن ہوتا ہے۔ مغرب والے اس برتن اور اس‬ ‫کی افادیت سے آگاہ نہیں ہیں کیونکہ وہ طہارت کا کام ٹیشو پیپر‬ ‫سے چالتے ہیں۔ ویسے ٹیشو پیپر کا استعمال کھانا کھانے کے‬ ‫بعد ہاتھ صاف کرنے کے لیے بھی ہوتا ہے۔ اصطالحا ٹیشو پیپر‬ ‫کے معنی اس سے مختلف ہیں۔ کام نکل جانے کے بعد آنکھیں‬ ‫بدل لینا کے لیے یہ مرکب استعمال کیا جاتا ہے۔ استعمال شدہ‬ ‫ٹیشو پیپر معنویت کھو دیتا ہے۔ انسان کے لیے اس مرکب کا‬ ‫استعمال کرنا مناسب نہیں لگتا کیونکہ انسان کی دوبارہ سے‬


‫ضرورت پڑ سکتی ہے جبکہ ٹیشو پیپر دوبارہ سے استعمال میں‬ ‫نہیں الیا جا سکتا۔ دوبارہ سے ضرورت یا حاجت کے لیے نیا‬ ‫ٹیشو پیپر استعمال کرنا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس انسان دوبارہ‬ ‫سے کیا' بار بار استعمال میں الیا جا سکتا ہے ‪ .‬ٹیشو پیپر کا‬ ‫ہاتھ اور پیٹھ کی صفائی کے عالوہ کوئی قابل ذکراستعمال موجود‬ ‫نہیں۔‬ ‫مساجد میں مٹی کے لوٹے استعمال ہوا کرتے تھے آج بھی‬ ‫زیادہ تر مٹی کے لوٹے معتبر سمجھے جاتے ہیں۔ کہیں کہیں‬ ‫پالسٹک کے لوٹے بھی دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ جماعت والے‬ ‫جب چلے پر جاتے ہیں پالسٹک کے لوٹوں کو ترجیع دیتے ہیں‬ ‫کیونکہ ان کے ٹوٹنے کا ڈر نہیں ہوتا۔ سفر میں لوٹا ٹوٹنا یا بہہ‬ ‫جانا نہوست ہی نہیں مکروہات میں بھی ہے۔ لوٹے کی سالمتی‬ ‫میں ہی کامیابی پوشیدہ ہوتی ہے۔ طہارت کا سارا دارومدار لوٹے‬ ‫پر ہوتا ہے۔ لوٹا برقرار ہے تو طہارت برقرار ہے۔ طہارت برقرار‬ ‫ہے تو ہی عبادت ممکن ہے۔‬ ‫شہر کے گھروں میں کانسی سلور سٹیل چاندی پالسٹک‬ ‫وغیرہ دھاتوں کے لوٹے دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ ایوا نوں‬ ‫میں پالسٹک کے لوٹے استعمال ہوا کرتے تھے غالبا آج بھی‬ ‫پالسٹک کے لوٹے استعمال ہوتے ہیں۔ فیشنی دور ہے ٹیشو پیپر‬


‫بھی بڑی افادیت رکھتے ہیں۔ ٹیشو پیپر کو لوٹے کا مترادف‬ ‫سمجھا جاتا ہے۔ حقیت یہ ہے کہ ۔ ٹیشو پیپر لوٹے کا متبادل ہو‬ ‫ہی نہیں سکتا کیونکہ اس میں پانی کا عمل دخل نہیں ہوتا دوسرا‬ ‫ٹیشو پیپر ایک سے زیادہ بار استعمال نہیں ہو سکتا۔ گویا‬ ‫گھیسیی اور ٹیشو پیپر برابر کا مرتبہ رکھتے ہیں۔ گھیسیی‬ ‫طہارت کے حوالہ سے زیادہ معتبر ہے۔ مٹی سے وضو تک کیا‬ ‫جا ستا ہے۔ وضو کی ضرورت نماز تک محدود ہے۔ ہہاں لوگ‬ ‫بسم هللا شریف تک درست نہیں پڑھ سکتے لہذا ٹیشو پیپر کا‬ ‫استعمال ایسا غلط نہیں معلوم ہوتا۔ اگر اس قماش کے لوگ‬ ‫گھیسی بھی کر لیں تو کوئی برائی نہیں۔ طہارت کے لیے لوٹا'‬ ‫گھیسی یا ٹیشو پیپر نہ بھی استعال میں الئیں تو بھی ان کی سر‬ ‫جاءے گی۔ یہ لوگ عوام کا ووٹ حاصل کرکے طہارتیوں میں‬ ‫شمار ہوتے ہیں۔ ان کی پاکی پلیدی پر انگلی نہیں رکھی جا‬ ‫سکتی۔‬ ‫لوٹے کے چھوٹا یا بڑا ہونے کے حوالہ سے بات ہوئی ہے‬ ‫لوٹا چھوٹا ہو یا بڑا' بظاہر ا س سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لوٹا‬ ‫اول تا آخر لوٹا ہے کہاں تک ساتھ دے گا۔ مٹی کا لوٹا ٹوٹ ہی‬ ‫جاتا ہے۔ لوٹےکے بڑا یا چھوٹا ہونے سے اچھا خاصا اثر پڑتا‬ ‫ہے۔ چھوٹے لوٹے میں پانی کم پڑتا ہے اس لیے طہارت کے‬ ‫لیے دو سے زیادہ لوٹوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اس کے‬


‫برعکس بڑا لوٹا بڑی حد تک ایک ہی کافی ہوتا ہے۔ رہ گئ ٹیشو‬ ‫پیپر یا گھیسی کی بات ٹیشو پیپر بڑے ایوانوں یا بڑے گھروں‬ ‫کے کام کی چیز ہوسکتی ہے لیکن دیہاتوں یا جھونپڑوں کے‬ ‫نہیں کر سکتے اور نہ ہی یہ ان کی تسلی کی ‪ afford‬مقیم اسے‬ ‫چیز ہو سکتی وہ گھیسی یا کچے روڑے کےاستعمال کو ترجیع‬ ‫میں رکھتے ہیں۔‬ ‫لوٹے کا اصطالحی استعمال بڑے ایوانوں میں ہوا کرتا تھا‬ ‫اصطالحی لوٹا عوام کے متعلق چیز نہ تھی اور نہ ہی ایوانی‬ ‫لوٹوں پر کسی قسم کی بات کرنے کا حق تھا ۔ ان کی یہ اوقات‬ ‫بھی نہ تھی کہ وہ ایوانی لوٹوں کے متعلق کوئی بات اپنی ناپاک‬ ‫زبان پر الئیں۔ لوٹے ا اپنی اوقات اورافادیت کے حوالہ سے بڑی‬ ‫رکھتے ہیں۔ کمی کمین عوام جو دوچار بتی کھچ ‪importance‬‬ ‫جھٹکوں کی مار نہیں ہیں' تقدس ماب لوٹوں پر اپنے حوالہ سے‬ ‫ایک شبد بھی منہ سے نہ نکالیں۔ ان کی اتنی جرات اور ہمت‬ ‫کہاں حاالنکہ لوٹوں کے بارے اں کی بقلم خود رائے موجود رہی‬ ‫ہے۔ عوام کو صرف اور صرف رائے دہی کا حق حاصل ہے۔ اگر‬ ‫مخالف فریق کے ڈبے میں ووٹ چال جاتا ہے تو رائے دہی کا‬ ‫حق' داھندلی کے لقب سے ملقوب ہوتا ہے۔‬


‫میں اصل نقطے کی بات عرض کرنا بھول گیا ہوں لوٹے‬ ‫کی ہیت ترکیبی ٹونٹی تک محدود نہیں پیندے کا اس میں بنیادی‬ ‫رول ہوتا ہے۔ مٹی کے بعض لوٹے بال پیندے کے بھی رہے ہیں۔‬ ‫اس قسم کے لوٹوں کے لیے پیالہ نما جگہ بنا دی جاتی تھی‬ ‫لیکن پیندے وا لے لوٹے پیالے کی سعادت سے محروم رہتے‬ ‫تھے۔ پالسٹک کے لوٹے باپیندا ہوتے ہیں ہاں زیادہ استعمال کے‬ ‫باعث ان کا پیندا ٹوٹ بھی جاتا ہے لیکن ٹوٹ پھوٹ کے باوجود‬ ‫پیندے کا نام و نشان باقی رہتا ہے۔ انھیں استعمال کی کسی بھی‬ ‫سطع پر بے پیندا لوٹا قرار نہیں دیاجا سکتا۔ استعمال کے سبب‬ ‫نیچے سے کتنا بھی ٹوٹ جائے پیندے کا نشان ضرور باقی رہ‬ ‫جاتا ہے۔ معمولی نشان بھی اسے باپیندا قراردینے کے لیے کافی‬ ‫ہوتا ہے۔‬ ‫سیانے مولوی اپنا طہارت خانہ الگ سے رکھتے ہیں لہذا‬ ‫ان کا لوٹا بھی اوروں سے الگ تر ہوتا ہے۔ اس طر ح مولوی‬ ‫صاحب کا لوٹا' مقدس لوٹا ہوتا ہے۔ دفاتر میں عملے کے طہارت‬ ‫خانے عام استعمال میں رہتے ہیں اس لیے وہاں کے لوٹے کسی‬ ‫خاص دفتری کے لیے مخصوص نہیں ہوتے ہاں البتہ افسروں‬ ‫کے طہارت کدے ان کے دفتر کے اندر ہی ہوتے ہیں۔ ان طہارت‬ ‫کدوں کے لوٹے بڑی معنویت کے حامل ہوتے ہیں۔ بعض افسر‬ ‫ٹیشو پیپر استعمال میں التے ہیں' وہاں لوٹے نہیں رکھے جاتے‬


‫۔ کچھ افسرز کے طہارت کدوں میں دونوں چیزیں موجود ہوتی‬ ‫ہیں۔ موقع کی مناسبت سے لوٹے یا ٹیشو پیپر کا استعمال کرتے‬ ‫ہیں تاہم ان کے طہارت کدوں کی آن بان اور شان ہی کچھ اور‬ ‫ہوتی ہے۔‬ ‫حضرت پیر صاحبان کے واش روم زیر بحث نہیں لئےجا‬ ‫سکتے کیونکہ حضرت پیر صاحبان نیک پاک اور عزت کی جگہ‬ ‫پر ہوتے ہیں۔ یہ اپنی خانقاہ میں ہوں یا کسی ایوان کی زینت‬ ‫بڑھا رہے ہوں' ان کے لوٹے دوہرے کام کے ہوتے ہیں‪ .‬نہ‬ ‫گھومیں تو چاند گھوم جاءں تو زنجیر وٹ پر رہتی ہے۔ بہرطور‬ ‫طہارتی اور پرچی نکالنے والے لوٹے الگ ہوتے ہیں اس لیے‬ ‫ان کے حوالہ سے بات کرنے پر پاپ لگتا ہے۔ ایوانوں میں‬ ‫تشریف رکھنے والے حضرت پیر صاحبان سیاسی کھیل کے لیے‬ ‫پیندے اور بے پیندے لوٹے استعمال میں التے رہتے ہیں اور یہ‬ ‫ان کا پروفیشنل حق بھی ہوتا ہے لہذا کسی کو کوئی حق نہیں‬ ‫پہنچتا کہ وہ حضرت پیر صاحبان کے لوٹوں کی جانب میلی نظر‬ ‫سے بھی دیکھنے کی گستاخی کرے۔ اس قسم کے لوگوں کی‬ ‫زمین پر ٹہوئی نہیں ہوتی۔‬ ‫کوئ لوٹا نواز ہک پر ہتھ مار کر نہیں کہہ سکتا کہ لوٹا‬ ‫زندگی کے کسی موڑ پر اپنی مرضی سےاوور فلو ہونے کی‬


‫گستاخی کرتا ہے۔ یہ لوٹے دار کی غلطی کوتاہی بے نیازی یا‬ ‫بے دھیانی کے سبب اوور فلو ہوتا ہے۔ چھوٹے لوٹے میں بڑے‬ ‫لوٹے کے برابر پانی ڈالو گے تو ہی بات بگڑے گی۔ اسی طرح‬ ‫بڑے لوٹے میں چھوٹے لوٹے کا پانی طہارتی امور سرانجام‬ ‫نہیں دے سکتا۔ لوٹا دار کا فرض ہے کہ وہ تناسب کو ہاتھ سے‬ ‫ناجانے دے۔ استاد غالب بال کا لوٹا شناس تھا‪ .‬تبھی اس نے کہا‬ ‫تھا‬ ‫دیتے ہیں بادہ ظرف قدح خوار دیکھ کر‬ ‫اماں حوا سے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ آدم کی بچی ہوئ‬ ‫مٹی سے بنائی گئی تھیں۔ میں اس بات کو نہیں مانتا تاہم یہ ایک‬ ‫میتھ ضرور ہے۔ ایک عام آدمی کا خیال ہے کہ ہمارے ہاں کے‬ ‫لوٹے استاد غالب کے کسی نہایت حرامی لوٹے کی بچی ہوئی‬ ‫مٹی سے وجود پذیر ہوئے ہیں۔ میں اس عقیدے پر یقین نہیں‬ ‫رکھتا تاہم یہ ایک میتھ ضرور ہے۔‬ ‫جگہ' قانون' لوگ اورحکومت کسی بھی ریاست کے وجود‬ ‫کے لیے ضروری عناصر ہوتے ہیں۔ ان کے بغیر ریاست وجود‬ ‫میں نہیں آ سکتی۔ ان میں سے ایک عنصر بھی شارٹ ہو تو‬ ‫ریاست نہیں بنتی۔ حکومتی ایوانوں میں لوٹے نہ ہوں تو معزز‬ ‫ممبران لبڑی پنٹوں شلواروں کے ساتھ نشتوں پر بیٹھینگے '‬ ‫سوسائٹی میں پھیریں گے اس سے نا صرف حسن کو گریہن‬


‫لگے گا بلکہ بدبو بھی پھیلے گی۔ لبڑی پنٹوں شلواروں والے‬ ‫ممبران کی عزت کون کرے گا۔ گریب عوام اور ان میں فرق ہی‬ ‫کیا رہ جائے گا۔ کھوتا گھوڑا ایک برابر ہو جائیں گے لہذا لوٹوں‬ ‫کی خرید و فروخت کا کام' اپنی ضرورت اور افادیت کے حوالہ‬ ‫سےپہال سوال الزمی کی حیثیت رکھتا ہے۔ لوٹوں کی تجارت پر‬ ‫کسی بھی سطع پر کبیدہ خاطر ہونا سراسر نادانی کے مترادف‬ ‫ہے۔ ریاست کے ضروری عنصر یعنی حکومت کے ہونے کے‬ ‫لیے لوٹوں کے کاروبار پر ناک منہ اور بھووں کو کسی قسم کی‬ ‫تکلیف دینا کھلی ریاست دشمنی ہے۔ اس کاروبار پر ناک منہ اور‬ ‫بھویں اوپر نیچے کرنے والے حضرات غدار ہیں اور غدار‬ ‫عناصر کا کیفرکردار تک پہنچنا بہت ضروری ہوتا ہے اورانھیں‬ ‫سزا دینے کی حمایت کرنا حکومت دوستی کے مترادف ہے۔‬

‫چور مچائے شور‬

‫بچوں سے ناروا سلوک کرنے واال یا انہیں زخمی کرنے‬ ‫واال یا انہیں قتل کرنے واال زمین کی بدترین لعنت ہے۔ اہل دل‬ ‫اور اہل اوالد کو ان کی مذمت کرنی چاہیے جبکہ اہل جاہ کو ان‬


‫پر پکے پیڈے ہاتھوں سے گرفت کرنی چاہیے۔ ماللہ یوسف ذئی‬ ‫پر قاتالنہ حملہ سخت تعزیر کا تقاضا کرتا ہے۔ اس عمر کے‬ ‫بچے کیا اچھا اور کیا برا ہے کیا کہنا اور کیا نہیں کہنا‘ سے آگاہ‬ ‫نہیں ہوتے۔ اگر وہ کچھ غلط بھی کہہ جاتے ہیں اسے اہمیت‬ ‫دینے یا انتہائی ردعمل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہو سکتا ہے اس‬ ‫نے سنا سنایا کہہ دیا ہو یا ایسا کہنے کے لیے کسی نے پٹی‬ ‫پڑھائ گئی ہو۔ اگر اس نے دانستہ کہا ہو یا کیا ہو تو یہ خوشی‬ ‫کی بات ہے کہ اس عمر کے بچے رائے قائم کرنے کے قابل ہو‬ ‫گئے ہیں۔ رائے غلط بھی ہو سکتی ہے اس کا مطلب یہ تو نہیں‬ ‫کہ ان کی جان لینے کی پلید حرکت کی جئے۔‬ ‫دنیا کے تمام ممالک کے دساتیر یو این او کا چارٹر بچوں‬ ‫کے لیے الگ سے دفعات رکھتا ہے۔ پاکستان کا آئین بھی اس‬ ‫حوالہ سے خاموش نہیں۔ سماجی اخالقیات بچوں کے لیے‬ ‫انتہائی نرم اور مالئم گوشے کی حامل رہی ہیں۔ مذاہب بھی اس‬ ‫حوالہ سے خاموش نہیں ہیں۔ خود آپ کریم بچوں سے بڑی‬ ‫محبت اور شفقت فرماتے تھے۔ تقسیم میں آغاز بچوں سے ہوتا۔‬ ‫آپ کریم تو جانوروں اور پرندوں کے بچوں کے لیے بڑا ہی‬ ‫شفقت آمیز رویہ رکھتے تھے۔ اس حوالہ سے آپ کریم کے‬ ‫احکامات احادیث کی کتب میں موجود ہیں۔‬


‫بڑے فخر اور خوشی کی بات ہے کہ صدر پاکستان نے اس بچی‬ ‫کو اپنی بیٹی قراردیا ہے اور معالجے کا خرچہ اپنے سر پر لیا‬ ‫ہے۔ ماللہ یوسف زئی پر جس سفاک نے قاتالنہ کیا اس کو سات‬ ‫بار پھانسی کا حکم جاری ہونا چاہیے۔ شاید تب بھی اس کی‬ ‫سفاکی کا ازلہ نہ ہو سکے۔‬ ‫ان کے اس بیان کی جتنی قدر کی جائے کم ہے۔ اور‬ ‫لیڈروں نے بھی بڑھ چڑھ کر بیان دیے ہیں۔ وہ سب اس قوم کی‬ ‫بچی کے حوالہ سے عزت مآب ہیں۔ اس سے کھلتا ہے ہمارے‬ ‫لیڈر بڑے منصف اور بڑے دل گردے والے ہیں۔ بچوں کے لیے‬ ‫انتہائی نرم اور مالئم گوشہ رکھتے۔ وہ بچوں کے لیے کچھ بھی‬ ‫کر سکتے ہیں۔ قوم کو ایسے لیڈروں کی قدر کرنی چاہیے اور‬ ‫ان کے پاؤں دھو دھو کر پینے کی ضرورت ہے اور یہ فعل لیڈر‬ ‫شناسی کے مترادف ہو گا۔ ہیروز کی عزت اور احترام کرنا قوم‬ ‫کی اخالقی سماجی اور سیاسی ضرورت ہے۔ ایسے لوگ کہاں‬ ‫ملتے ہیں۔ شاید ان کے لیے کہا گیا ہے‬ ‫ڈھونڈو گے ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم‬ ‫میرے خیال میں فیصلہ ہو گیا ہے اور اب کسی الیکشن‬


‫ولیکشن کی ضرورت ہی نہیں۔ تاحیات اسی قیادت کو برقرار رہنا‬ ‫چاہیے۔‬ ‫ماللہ راقم کی بھی بیٹی ہے۔ کاش راقم آسودہ حال ہوتا اور‬ ‫اس کے قدموں میں دولت کے ڈھیر لگا دیتا تاہم اس پر قاتالنہ‬ ‫حملہ کرنے والے کو عبرت ناک سزا دی جائے۔ بچوں پر جو‬ ‫ظلم ڈھاتا ہے اسے کسی بھی صورت معاف نہ کیا جائے بلکہ‬ ‫قبر تک پیچھا کیا جا چاہیے۔‬ ‫آج جنرل اسلم بیگ کا یہ بیان پڑھنے کومال کہ ماللہ پر حملہ‬ ‫کرنے والوں کو امریکہ کی مدد حاصل تھی۔ یہ بات کدھر کو جا‬ ‫رہی ہے۔ جرنل اسلم بیگ بڑے ذمہ دار اور باریک نظر کے‬ ‫مالک ہیں۔ ان کی بات کو کسی بھی حوالہ سے نظر انداز نہیں‬ ‫کیا جا سکتا۔ گویا خود ہی کاروائی ڈال کر پکڑو پکڑو جانے نہ‬ ‫پائے۔ اس کی ساری ہمدردیاں ماللہ سے جڑ گئی ہیں۔ کیوں‘ آخر‬ ‫کیوں۔‬ ‫ڈراؤن حملوں کے حوالہ سے شہید ہونے والے بچوں کے‬ ‫معاملہ میں اسے کیوں سانپ سونگھ گیا ہے۔‬


‫ان کے لیے اس کے یا کسی اور کے منہ سے دکھ کا‬ ‫رسمی یا عالمتی ایک لفظ تک نہیں نکال۔ کیا وہ انسان کے بچے‬ ‫نہیں تھے۔ لوگ گمان کر رہے ہیں کہ خود سے قرار دیے جانے‬ ‫والے شدت پسندوں کے خالف عوام میں نفرت پیدا کرنے اور‬ ‫مزید حملوں کے لیے جواز بنانے کے لیے یہ کھیل رچایا گیا‬ ‫ہے۔‬ ‫اس امر کی تصدیق میں قاضی حسین احمد اور منور حسن‬ ‫کا بیان موجود ہے۔ منور حسن اور قاضی حسین احمد کے‬ ‫مطابق ماللہ حملہ شمالی وزیرستان پر حملے کا جواز ہے۔ یہ‬ ‫بیان کمزور نہیں اس میں وزن لگتا ہے۔ گویا چور مچائے شور۔‬ ‫اگر مرزا اسلم بیگ کا بیان درست ہے تو عالمی برادری کو‬ ‫چاہیے کہ وہ ذمہ دار کو سزا دے اور فراڈ کرنے کے حوالہ‬ ‫سے بھی تادیبی کاروائ کرے۔ میرے خیال میں اسلم بیگ کے‬ ‫بیان کی یہی تشریح بنتی ہے تاہم تشریح میں کمی بیشی کی‬ ‫ہمیشہ گنجایش رہتی ہے۔‬ ‫موالنا فضل الرحمن نے ماللہ پر حملے کو غیر اسالمی‬ ‫قرار دیا ہے۔ وہ اسالم کے متعلق زیادہ جانتے ہیں تاہم اس سے‬


‫یہ طے ہو جاتا ہے کہ یہ فعل بہت ہی برا ہے۔ اس فعل کا‬ ‫سرانجام دینے واال مجرم ہی نہیں گنہگار بھی ہے لہذا وہ دوہری‬ ‫سزا کا مستحق ہے۔ عدلیہ مجرم کو الگ سے سزا دے اور اسالم‬ ‫میں جو سزا اس گنہگار کی بنتی ہے وہ اس گنہگار کو‬ ‫بہرصورت ملنی چاہیے۔ اگر حملہ کرنے واال ہاتھ نہیں لگتا تو‬ ‫دونوں ادارے اس حوالہ سے سزا سنا دیں۔ جب کبھی مجرم اور‬ ‫گنہگار ہاتھ لگ گیا عمل درامد بھی ہو جانے گا۔‬ ‫موالنا موصوف کے بیان کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ ڈراؤن‬ ‫حملوں میں ہالک ہونے والے بچوں کے متعلق شور کیوں نہیں‬ ‫مچایا جا رہا۔ بات میں انتہا درجے کی سچائ اور معقولیت ہے۔‬ ‫سوچنے کی بات ہے ماللہ پر حملے کے لیے پوری دنیا چیخ‬ ‫اٹھی ہے۔ دوسرے بچے بھی‘ بچے ہی تھے کسی کی رگ‬ ‫ہمدردی پھڑکی نہیں۔ دوسرا ہمارے سارے بچے مر جائیں اس‬ ‫کی صحت پر کیا اثر ہو سکتا ہے۔ اس بچی کے لیے جعلی ہی‬ ‫سہی تڑپا پھڑکا ہے دال میں ضرور کچھ کاال ہے۔ اس ذیل میں‬ ‫مرزا اسلم بیگ کا بیان نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بالجرم‬ ‫شہید ہونے والے بچے بھی اسی ملک اور اسی قوم کے ہیں۔‬ ‫انہیں کیوں کوئ اپنے بچے قرار نہیں دے رہا اور ان کا خرچہ‬ ‫اٹھاتے ان کے دل اور پیٹ جو ایک دوسرے کا ساتھی ٹھہر گیے‬ ‫ہیں‘ میں کیوں کہاؤں مہاؤں ہو رہا ہے۔ اس دوہرے پیمانے کی‬


‫بہرصورت وضاحت ہونی چاہیے۔‬ ‫بچوں کی ہالکت پر بڑے مضبوط اعصاب رکھنے والوں کا‬ ‫پتہ پانی ہو جاتا ہے جنرل ایلن نیٹو کے اہل کاروں کی ہالکت پر‬ ‫پاگل ہوتا ہے حاالنکہ اس میں پاگل ہونے والی کوئ بات ہی‬ ‫نہیں۔ جو مارنے آئے گا مر بھی سکتا ہے۔ فوجی کا کام مرنا یا‬ ‫مارنا ہوتا ہے۔ اس میں پاگل ہونے والی بات ہی نہیں۔ بچے جرم‬ ‫اور گناہ سے آگاہ نہیں ہوتے۔ کھلونے ان کی پوری کائنات ہوتے‬ ‫ہیں۔ جنرل موصوف پر بچوں کی موت کا کوئ اثر ہی نہیں ہوا۔‬ ‫اخبار میں کوئ خبر شاءع نہیں ہوئی کہ جنرل ایلن کو پاگل پنے‬ ‫کے دورے پڑنے لگے ہیں۔ ہو سکتا یہ خبر میری نظر سے نہ‬ ‫گزری ہو۔‬ ‫ہماری نیک شریف اور صالح قیادت کو ان کی ہالکت کو‬ ‫صرف نظر نہیں کرنا چاہیے۔ بصورت دیگر یہ فرعونی رویہ‬ ‫انہیں ان کے غسل خانے کےد ٹب میں ڈبو دے گا۔ کوئی بچانے‬ ‫نہیں آئے گا کیونکہ اندر سے انہوں نے خود کنڈی لگائی ہو گی۔‬

‫بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟‬


‫کل لوڈ شیڈنگ پر گفتگو ہو رہی تھی کہ بجلی بچاؤ کی‬ ‫تراکیب کے حوالہ سے ریڈیو پر تقریر نما بات چیت سننے کا‬ ‫موقع مال۔ ایک شخص جو شریک گفتگو نہیں تھا اور ناہی ہمارا‬ ‫ساتھی تھا‘ ایک دم کھڑا ہو گیا۔ اس نے موٹی ساری گالی‬ ‫‘چھکے کے انداز میں اچھالی اور بوال‬ ‫"بکواس کر رہا ہے۔ بجلی کی کوئی کمی نہیں "‬ ‫ہم سب نے بڑی حیرت سےسر گھما کر اس کی جانب‬ ‫دیکھا۔ استاد جی کو اس کا طرز تکلم پسند نہ آیا۔ انھوں نے‬ ‫‘بڑے ہی کھردارے انداز میں پوچھا‬ ‫بھائی صاحب یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ بجلی کی "‬ ‫کمی نہیں ہے۔ ملک میں تو بحران چل رہا ہے؟‬ ‫اس نے بڑے زور کا قہقہ داغا جیسے وہ احمقوں سے‬ ‫مخاطب ہو۔ استاد جی دوبارہ سے بولے‬ ‫بھئ یہ تو بتاؤ کہ کس طرح کمی نہیں ہے اور بجلی کہاں "‬ ‫"!جا رہی ہے؟‬ ‫لباس اور بات کرنے کے حوالہ سے مزدور پیشہ لگ رہا‬ ‫تھا لیکن اس کے کسی حوالے کو رد کرنے کی ہم میں سے‬


‫کسی کو جرات نہ ہوئی۔ اس کے کچھہ حوالے درج کر رہا ہوں‬ ‫شاید آپ کے پاس کوئی جواز موجود ہو۔ آپ کے کسی بھی‬ ‫ٹھوس حوالے سے حکومت دوستی کا ثبوت دیا جا سکتا ہے۔‬ ‫اس نے کہا‬ ‫سب سے بڑے چور خود بجلی والے ہیں۔ وہ خدمت کے‬ ‫عوض تنخواہ وصول کرتے ہیں تو پھر کس کھاتے میں مفت‬ ‫بجلی استعمال کرتے ہیں۔ بڑے افسروں کا ذکر ہی کیا وہ ہر‬ ‫اصول قانون اور ضابطے سے بالتر ہیں۔ بجلی والوں کا ایک‬ ‫چوکیدار مان نہیں۔ خود تو مفت میں بجلی استعمال کرتا ہی ہے‬ ‫اس کےعزیزدوست رشتہ دار اس مفت برابری سے فائدہ اٹھاتے‬ ‫ہیں۔ انھوں نے اپنے اردگرد کے لوگوں کو بجلی دے رکھی ہے‬ ‫اور ان سے ماہانہ وصولتے ہیں۔ کوئی پوچھنے واال نہیں۔‬ ‫پوچھنے والے تو ان سے بھی بیس قدم آگے نکلے ہوئے ہیں۔‬ ‫وہ ناصرف یہ سب کچھ کر تے ہیں بلکہ بڑے بڑے‬ ‫کارخانہ داروں سے بددیانتی کا ماہانہ وصول کرتے ہیں۔ بڑے‬ ‫لوگوں سے بھی ان کی اٹی سٹی رلی ہوئی ہوتی ہے۔ دیہاتوں‬ ‫میں کنڈیاں لگواتے ہیں اور اچھی خاصی آمدن کرتے ہیں۔‬ ‫سرکاری افسر اور ان کے عملہ والے کہاؤں کپ ہیں۔ بھال‬


‫ان سے کون پوچھہ سکتا ہے دوسرا خود بجلی والے اس میں‬ ‫ملوث ہوتے ہیں۔ اس سہولت کے عوض بڑے بڑے ناجائز کام‬ ‫نکلواتے ہیں۔‬ ‫سرکاری تقریبات پر بے تحاشہ بجلی کا استعمال ہوتا ہے۔‬ ‫ممبران وزیر مشیر اور دوسرے سیاسی لوگ مفت بجلی کا‬ ‫استعمال کرکے ووٹ کھرے کرتے ہیں لیکن بجلی کا بوجھ ماڑے‬ ‫طبقے کی جیب پر پڑتا ہے۔‬ ‫بڑے لوگوں کی شادی بیاہ کی تقریبات پر بجلی کا بر سرعام غیر‬ ‫قانونی استعمال ہوتا ہے۔ اس حقیقت سے سب آگاہ ہیں کوئی‬ ‫بولتا ہی نہیں۔ کوئی بولے بھی کیا؛ کون سنے گا‘ سننے والے‬ ‫تو یہ سب کر رہے ہوتے ہیں جو بولے کا لیتر کھائے گا۔‬ ‫اسی فیصد تاجر حضرات کا بجلی والوں سے مک مکا ہوا ہوتا‬ ‫ہے۔‬ ‫بڑے بڑے ہاؤسز جہاں سوائے گفتگہوں کے کچھ نہیں‬ ‫ہوتا بجلی ایک لمحہ کے لیے بند نہیں ہوتی اور جہاں کام ہوتا‬


‫ہے وہاں بجلی سارا دن لکن میٹی کھلتی ہے۔ مزدور تو گھر‬ ‫سے آگیا ہوتا ہے لیکن صبح تک بجلی کے جانے اور جانے کی‬ ‫جندریوں میں اثکاپھسا سسکتا رہتا ہے۔ صبح سویرے گھر سے‬ ‫نکال دیہاڑی دار جب شام کو خالی ہاتھ گھر لوٹتا ہے اس پر اور‬ ‫اس کے بچوں پر کیا گزرتی ہے اس کیفیت کا سیاسی مداری‬ ‫بجلی والے بڑے لوگ سرکاری افسر وغیرہ اور ان کے گماشتے‬ ‫کیا جانیں۔‬ ‫باؤ جی یہ سب درست ہو جائے تو بجلی کی کمی کا روال‬ ‫ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکتا ہے لیکن بلی کے گلے میں کون‬ ‫گھنٹی باندھے‬

‫باس از آل ویز رائٹ‬

‫لوگوں کو بھوک پیاس سرکاری معالجہ گاہوں کے آلودہ فرش‬ ‫پر ایڑیاں رگڑتے اور اندھیروں میں ڈوبا دیکھتا ہوں تو بےچین‬ ‫ہو جاتا ہوں۔ ہوٹلوں پر بچوں کو برتن صاف کرتے اور چائے کا‬


‫ٹرے پکڑے‘ گئ رات کے ننھی اور معصوم آواز میں گرم آنڈے‬ ‫کا آوازہ مجھے سونے نہیں دیتا۔ انڈے فروش بچہ جا چکا ہوتا‬ ‫ہے لیکن اس کی آواز کی بازگشت میرے حواس پرقبضہ جمائے‬ ‫رکھتی ہے۔ دوسری طرف عیش وعشرت کی زندگی حیرت میں‬ ‫غرق کر دیتی ہے۔ اتنا بڑا تضاد؟‬ ‫سوچتا ہوں یہ کوئ الگ سے مخلوق ہے۔ بدقسمتی سے‬ ‫انھیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔ وہ موج میلے اور عیش کی‬ ‫کو اپنا حق سمجتے ہیں۔ کسی سے چھین لینے اور اس کے حق‬ ‫پر ڈاکے کو خوشحال زندگی کا پہال اور آخری حق سمجھتے ہیں۔‬ ‫ان کے نزدیک یہی زندگی اور زندگی کا مقصد بھی ہے اور اس‬ ‫کے بغیر زندگی‘ زندگی کہالنے کی مستحق نہیں۔‬ ‫میری بیگم گلفشانی فرماتی ہے اور اس دہن تقدس مآب‬ ‫کے منہ سے پھر کرکے یہ جملہ نکلتا ہے‬ ‫تمہیں اوروں کی تو فکر رہتی ہے اپنے گھر کے لیے کیا "‬ ‫"کیا ہے۔‬ ‫میں نے پوری دیانت داری سے محنت کی ہے۔ مجھے‬ ‫ہمیشہ ان لوگوں کی فکر رہی ہے۔ وہ ایمانداری اور دیانت داری‬ ‫کو منہ زبانی کی بات قرار دیتی ہے۔ اس کے نزدیک نماز روزہ‬


‫حج وغیرہ ہی ایمان اور دیانت ہیں اور ان ہی کے کے حوالہ‬ ‫سے شخص کی پہچان ہوتی ہے جبکہ میرا موقف یہ ہے کہ نماز‬ ‫روزہ حج وغیرہ اسالم نہیں بلکہ اسالم میں ہیں۔ وہ یہ مانتی ہی‬ ‫نہیں وہ کیا کوئی بھی نہیں مانتا۔ میں تاریخ کا طالب علم بھی رہا‬ ‫ہوں اور میں نے تاریخ کے ہر پنے کا غیر جانبداری سے‬ ‫مطالعہ کیا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں‬ ‫‪٧‬۔ تخت اور اقتدار کو حرف آخر کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔‬ ‫‪٦‬۔ تخت اور اقتدار کو جو چیلنج کرتا ہے کتے کی موت‬ ‫مرتا ہے۔‬ ‫‪٣‬۔ آئین اور قانون تخت اور اقتدار کو تحفظ دینے کے لیے‬ ‫بنائے جاتے ہیں۔‬ ‫‪٤‬۔ ملک کے ادارے تخت اور اقتدار کے لیے فرائض سر‬ ‫انجام دیتے ہیں۔‬ ‫‪٢‬۔ عوام تخت و تاج کے لیے کماتے ہیں اور یہ ان کی ذمہ‬ ‫داری ہے کہ وہ شاہ کو کسی قسم کی تھوڑ نہ آنے دیں۔ تھوڑ‬ ‫آنے کی صورت میں شاہ کا آئینی حق ہے کہ وہ زبردستی ان‬ ‫کے منہ کا نوالہ چھین لے۔‬ ‫‪٢‬۔ حاکم کے منہ سے نکلی پہلے حکم پھر اصول پھر آءین‬ ‫اور اس کے بعد قانون کے درجے پر فائز ہوتی رہی ہے۔‬


‫یہ ضرب المثل سنے کو عام ملتی ہے۔ باس از آلویز رائٹ۔ یہ‬ ‫صرف زبانی کالمی کی بات نہیں چھوٹے بڑے تمام دفاتر کا نظام‬ ‫اس اصول کے تحت چلتا آیا ہے اور چل رہا ہے۔ اسی طرح لفظ‬ ‫ٹی سی بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ باس کے کہے پر انگلی‬ ‫رکھ کر تو دیکھیے بستر کے نیچے سے رسی نہیں نکلے گی۔‬ ‫خفیہ رپورٹ تو اسی نے لکھنی ہوتی ہے۔ یس سر ڈی میرٹ کو‬ ‫میرٹ میں بدل دیتا ہے۔ انکار اور تنقید کے نتیجہ میں کچھ بھی‬ ‫ہو سکتا ہے۔ پسلیاں چاباڑیاں اور ٹانگیں ٹوٹ سکتی ہیں۔ جان‬ ‫جا سکتی ہے۔ اشخاص اور الشوں کی بازیابی قاضی سے بھی‬ ‫مشکل ہو جاتی ہے۔‬ ‫تاریخ ظلم وستم توڑنے والے حاکموں کی لکھی جاتی ہے۔‬ ‫مظلوم کا اتہ پتہ نہیں ملتا۔ سب سے زیادہ عالقہ فتح کرنے‬ ‫والے کو عظیم حاکم قرار دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی اس کے کالے‬ ‫کرتوتوں پر سوالیہ ڈالتا ہے تو اس سے جینے کا حق چھین لیا‬ ‫جاتا کہ دیکھو جی اتنے عظیم حاکم پر انگلی رکھ کر کفر کر دیا‬ ‫گیا ہے۔ گویا انسان کو‘ انسان جو غلطی بھی کرتا ہے رہنے‬ ‫نہیں دیا جاتا۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ہر حاکم نبی سے دوچار‬ ‫انچ ہی نیچے رہا ہو گا۔ لوگ بےچارے کیوں تاریخ کو دیکھتے‬ ‫پھریں۔ وہ مورکھ اور اس کے درس کاروں ہی کو حرف آخر کا‬


‫درجہ دیتے ہیں۔‬ ‫میں نے انٹرنٹ پر دیکھا چالیس ہزار مسلمانوں کی ہڈیوں‬ ‫سے گرجا گھر تعمیر کیا گیا۔ ہر کوئی معاملے کو مسلم یا‬ ‫عیسائ عینک سے دیکھے گا۔ اول اول میں نے بھی اسے‬ ‫مسلمان کی عینک سے دیکھا۔ میں ساری رات سو نہیں سکا۔‬ ‫صبح پانچ بجے میری نظر عصر حاضر کے احوال پر پڑی۔‬ ‫امریکہ کو اسامہ درکار تھا‘ میں نہیں جانتا اس کا کیا جرم تھا‬ ‫میں صرف اتنا جانتا ہوں اس پر گرفت کے لیے بچوں بوڑھوں‬ ‫بیماروں عورتوں سے زندگی چھین لی گئ۔ ان بےچاروں کوعلم‬ ‫تک نہ تھا کہ ان سے زندگی کیوں چھینی جا رہی ہے۔ جس کا‬ ‫باپ بیٹا بھائ ماں بالجرم مار دی گئی وہ خاموش بیٹھے گا؟ اب‬ ‫اس کی طرف سے ردعمل آتا ہے تو یہ غیرفطری نہیں اور اسے‬ ‫دہشت گردی قرار دینا دہشت گردی یا شدت پسندی نہیں ہے؟‬ ‫‪،،‬‬ ‫اس قریب قریب نبی فاتح حاکم نےعسائیوں کی الشیں بچھائ‬ ‫ہوں گی جواب میں عسائیوں نے کمزور اورغیر فوجیوں کو‬ ‫موت کے گھاٹ اتار دیا ہو گا اور اسی سے چرچ تعمیر کیا گیا ہو‬ ‫گا۔ کسی سے زندگی چھین لینا انتہائی برا فعل ہے اور یہ فعل‬ ‫سرانجام دینے واال مردود‘ سو فیصد مردود ہے لیکن یہ فتوی‬ ‫صرف غیر مسلم لوگوں کے لیے تیار رکھنا بعید از انصاف ہے‬


‫لیکن یہ رویہ عام ہے۔ ہمارے اسالم دوست طبقےوہ وہ خوبیاں‬ ‫تالشتے ہیں جو اس حاکم کے اپنے خواب بھی نہیں رہا ہو گا۔‬ ‫چونکہ وہ مسلمان حاکم تھا اس لیے اس میں کو برائی نہیں رہی‬ ‫ہو گی بلکہ اس سے برائ سرزد ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ جو‬ ‫برائی نکالے گا اسے پاپ لگے گا۔‬ ‫‪،،‬‬ ‫اگر یہ چرچ فوجیوں کی الشوں سے تعمیر ہوا ہوتا تو یہ‬ ‫الفاظ میرے قلم سے نہ نکلتے۔ مارنے اور عالقہ فتح کرنے‬ ‫گئے تھے‘ مارے گئے۔ جنگ میں یہ کوئی نئی چیز نہیں۔ ایسا‬ ‫ہوتا ہی رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔ عوام کا مرنا قابل افسوس‬ ‫ہے۔جنگیں شاہوں کے کھیل کا حصہ ہے۔ اگرچہ حاکم کوئی نہ‬ ‫کوئی نعرہ دے کر میدان کارزار میں اترتا ہے۔ فتع ہو گئی تو‬ ‫پاؤں بارہ شکست کی صورت میں بھگتا رعایا کو ہی پڑتا ہے‬ ‫جن کا شاہ کی اس عیاشی سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔‬ ‫یہ معاملہ اسالمی تاریخ تک ہی محدود نہیں غیرمسلم حاکم‬ ‫بھی ایسے ہی تھے۔ اسالمی مولوی کی طرح پنڈت پادری بھی‬ ‫اپنے لوگوں کے پاڑشے اتارتے رہے ہیں۔ مجھے یہ سمجھ نہیں‬ ‫آتی ہم میں مسلمان کون ہیں۔ آپ تالش لیں وہابی دیو بندی‬ ‫بریلوی شعیہ وغیرہ وغیرہ مل جاءیں گے مسلمان نہیں ملیں‬ ‫گے۔ یہ ایک دوسرے کو مشرک اور کافر قرار دیتے آئے ہیں۔‬


‫‪،،‬‬ ‫تقسیم کی پالیسی انگریز نے دی تھی اور اس کی یہ پالیسی‬ ‫بڑی کامئابی سے چل رہی ہے۔ فورٹ ولیم کالج نے بڑی دیانت‬ ‫سے اس خطے کی زبان کو دو خطوں میں تقسیم کر دیا۔ فوج‬ ‫کے لیےرومن خط قرار پایا۔ اس طرح حضرت ہند بن حضرت حام‬ ‫بن حضرت نوح کی سنتان ایک دوسرے سے کوسوں دور چلی‬ ‫گئی۔ یہ کون سا اسالم ہے جس میں انسان' انسان سے دور چال‬ ‫جائے بلکہ ایک دوسرے کا جانی دشمن ہو جائے۔‬ ‫اس مسکین قوم کے ساتھ شروع سے ڈرامے ہوتے آ رہے‬ ‫ہیں۔ عوام کو استعمال کیا جاتا رہا ہےاور ہر معاملہ عوام کی‬ ‫جھولی میں ڈاال گیا ہے۔ چند ووٹ حاصل کرنے واال عوامی‬ ‫نمائندہ ٹھرا ہے۔‬ ‫انیس سو چھے میں ہونے والے اجالس میں کون لوگ‬ ‫تھے کوئ بتانے کی جرائت کرسکتا ہے؟‬ ‫خط آئین قومی منشی شاہی توہین عدالت عدالتی سزا‬ ‫مخصوص کا احتجاج الگ الگ المناک کہانیاں ہیں۔‬ ‫مورخ وہی لکھے گا جس کے دام ملیں گے۔ ان کے عظیم‬


‫کارناموں کی کہانیاں چلیں گی بالکل اسی طرح جس طرح خطبہ‬ ‫الہ آباد کو اہمیت دی جاتی ہے۔ کوئی یہ کہنے کی جرائت نہیں‬ ‫رکھتا کہ اس میں ہے کیا؟‬ ‫سب راز ہے اور آج آتے کل کو راز رہے گا۔‬ ‫اورنگ زیب‘ ٹوپیاں سینے واال عظیم بادشاہ ہی رہے گا۔‬ ‫کاش کوئی رحمان بابا کا کالم یا اس عہد کے شعرا کا کالم‬ ‫پڑھ دیکھے سب کھل جائے گا۔ یہ بھی کھلے گا کہ زوال کا‬ ‫موڈھی یہ ٹوپیاں سینے واال درویش بادشاہ ہی تھا۔‬

‫قانون ضابطے اور نورا گیم‬

‫اشفاق کی کل برات جانا تھی کہ اس کی ہمشیرہ کا سسر‬ ‫چل بسا۔ اشفاق کو اس کی اس ناشایستہ حرکت پر بڑا غصہ آیا۔‬ ‫جل کر بوال چاچے کو جیتے جی چھیتیاں رہی ہیں اب مرنے کے‬ ‫معاملہ میں بھی بڑا جلدباز ثابت ہوا ہے۔ اشفاق کا سٹپٹانا عمل‬


‫ناجائز نہیں لگتا لیکن ہونی کے کون سر آ سکتا ہے۔ ہونی ویدی‬ ‫ہے اور ویدی کا ویدان کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔ ہونے کو تو‬ ‫ہر حال میں ہونا ہی ہوتا ہے تاہم تحمل میانہ روی اور سوچ‬ ‫سمجھ سے کام لینا آتے کل کو آسودہ رکھتا ہے۔ ہما کے سسر‬ ‫نے جانے کتنے دن اس انتہائ اقدام کے لیے سوچا ہو گا۔ اشفاق‬ ‫کا معاملہ بھنگ ہوا اس سے ہما کے سسر کو کیا مطلب ہو سکتا‬ ‫تھا۔‬ ‫ہر کوئ اپنی ترجیع کو اولیت دیتا ہے‘ دینی بھی چاہیے‬ ‫لیکن فریق ثانی کو تو پابند نہیں کیا جا سکتا۔ فریق ثانی اگر ماڑا‬ ‫ہے تو وہ مجبوری کے تحت خفیہ ہو سکتا ہے۔ اس میں سچا یا‬ ‫جھوٹا ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا۔ ہر کوئ سامنے سے‬ ‫وار کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔ یہ فطری سی بات ہے کہ‬ ‫دو متصادم فریق طاقت کے حوالہ سے ایک ہی کیلیبر کے نہیں‬ ‫ہو سکتے۔ ایک ہی کیلیبر کے ہونے کی صورت میں ان کے‬ ‫درمیان تصادم نہیں ہو گا۔ ان کا ہر اگال دن منگل ہو کا اور منگل‬ ‫ناغے کا دن ہوتا ہے۔ طاقت حق پر ہوتی ہے اور اسے اپنا اور‬ ‫اوروں کا غصہ ماڑے پر آتا ہے۔ آنا بھی چاہیے ماڑا ہوتا کس‬ ‫لیے ہے۔‬ ‫دہشت گردی بال شبہ پوری انسانیت کے جسم پر ناسور کا‬


‫درجہ رکھتی ہے اور اس کا ہر حال میں ختم ہونا امن آسودگی‬ ‫اور سکون کے لیے ضروری ہے لیکن یہ طے کرنا ابھی باقی‬ ‫ہے کہ دہشت گردی ہے کیا اور امریکہ کس قسم کی دہشت گردی‬ ‫کے خالف پاکستان سے یمن تک لڑ رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ‬ ‫وہ القائدہ دہشت گردی کے خالف لڑ رہا ہے اور وہ القائدہ کو‬ ‫نہیں چھوڑے گا۔ جعلی ادویات سے لوگ مرے ہیں اور مرتے‬ ‫رہتے ہیں یہ کاروبار دہشت گردی نہیں ہے؟ اس کے خالف کیا‬ ‫ہوا اور کیا ہو سکتا ہے‘ سب جانتے ہیں۔ جعلی سپرے خریدا گیا‬ ‫معاملہ کورٹ کچہری گیا‘ کیا ہوا۔۔۔۔۔ سب جانتے ہیں‘ کچھ بھی‬ ‫نہیں۔ ڈینگی نے تن مچائے رکھی‘ آتے موسم میں کیا گل کھل‬ ‫سکتا ہے کوئی پوشیدہ بات نہیں۔ مہامنشی‘ جیون دان منشی‘‬ ‫اعلی شکشا منشی‘ منشی بلدیات وغیرہ کے خالف کیا ہوا‘ سب‬ ‫جانتے ہیں‘ کچھ بھی نہیں ہوا۔ اگر یہ داخلی کاروباری دہشت‬ ‫گردی ہے اور اس دہشت گردی سے خود پاکستان کو لڑنا ہے تو‬ ‫القائدہ کس حوالہ سے خارجی دہشت گردی ٹھرتی ہے۔ القائدہ‬ ‫جانے اور پاکستان جانے‘ یہ کس طرح امریکہ بہادر کی‬ ‫سردردی قرار پاتی ہے۔‬ ‫اشفاق کے ساتھ ہونے والی دہشت گردی داخلی بھی ہے‬ ‫اور خارجی بھی۔ اگر طبی امداد باہم کرنے میں محکمہ جیون دان‬ ‫پھرتی دکھاتا اور غفلت سے کام نہ لیتا تو ہو سکتا ہے ہما کا‬


‫سسر چند روز اور جی لیتا۔ ہما کے سسر کی موت کا مدا خارجی‬ ‫دہشت گردی کے حوالہ سے امریکہ پر بھی نہیں ڈاال جا سکتا‬ ‫کیونکہ وہ صرف اور صرف القائدہ دہشت گردی کا ٹھکیدار ہے۔‬ ‫تاہم بقول صدر آصف علی زرداری دنیا کا مستقبل جمہوریت میں‬ ‫ہے۔ ہما کے سسر کی موت کو ایک اکثریت تسلیم کر چکی ہے۔‬ ‫اس حوالہ سے اسے داخلی یا القائدہ سے متعلق دہشت گردی‬ ‫نہیں فرض کیا جا سکتا۔ اس نہج کی دہشت گردی کے خالف‬ ‫کسی قسم کا ایکشن لینا امریکہ کے کھاتے میں نہیں رکھا جا‬ ‫سکتا۔ یہ سراسر جمہوریت کی تو ہین ہو گی جو اس جمہوری‬ ‫دور میں بہت بڑے جرم کے مترادف ہے۔ غداری کا فتوی بھی‬ ‫صادر ہو سکتا ہے۔‬ ‫مسجد کی تعمیر کا مہشورہ ہوا۔ گاؤں کے لوگ جمع ہوئے‬ ‫جن میں نورا بھی شامل تھا۔ ہر کسی نے حب توفیق اپنا حصہ‬ ‫لکھوایا۔ ابھی کافی لوگ موجود تھے لکھت پڑھت پر وقت لگ‬ ‫جاتا۔ نورا دھڑلے سے اٹھا اور بوال لکھو میرا پچاس ہزار۔ اس‬ ‫کی اس فراخ دلی پر بڑی جئے جئے کار ہوئی۔ ہر کوئی چوہدری‬ ‫نور دمحم صاحب کو جھک جھک کر سالم و پرنام کر رہا تھا۔ مزید‬ ‫اگراہی کی ضرورت ہی نہ تھی لہذا مجلس برخواست ہو گئ۔ اگلی‬ ‫صبح مولوی صاحب چند لوگوں کے ساتھ چوہدری نور دمحم‬ ‫صاحب کے در دولت پر جا پہنچے۔ چوہدری نور دمحم صاحب بڑی‬


‫شان سے باہر نکلے۔ مولوی صاحب نے پچاس ہزار رپوؤں کا‬ ‫تقاضا کیا۔ چوہدری نور دمحم صاحب بڑی معصومیت سے بولے‬ ‫"کون سے پچاس ہزار روپیے؟"‬ ‫"وہی جو آپ نے کل لکھوائے تھے۔"‬ ‫وہ دینے بھی تھے؟“ چوہدری نور دمحم صاحب نے بڑی "‬ ‫حیرت سے پوچھا‬ ‫"جی ہاں"‬ ‫"ارے میں تو سمجھا تھا کہ صرف لکھوانے ہیں۔"‬ ‫اس مثال کے حوالہ سے بھی ہم کسی پر دہشت گردی کا‬ ‫الزام نہیں رکھ سکتے کہ کرنا اور کہنا قطعی دو الگ چیزیں ہیں۔‬ ‫کاروباری دہشت گردی کے لیے سرکاری پروانے جاری ہوتے‬ ‫ہیں اس لیے جعلی ادویات خوری سے لوگ مرے ہیں تو اس‬


‫میں کاروباری دہشت گردی کس طرح ثابت ہوتی ہے۔ ایک نمبر‬ ‫کاروبار میں بچت ہی کیا ہوتی ہے۔ لوگ مالوٹ آمیز غذا کھا کر‬ ‫تل تل مرتے ہیں۔ مرتے تو ہیں نا! یہاں فورا مر گئے۔ ایک دن‬ ‫مرنا تو ہے ہی‘ دو دن پہلے کیا دو دن بعد میں کیا۔ اپنی اصل‬ ‫میں بات تو ایک ہی ہے۔‬ ‫ادویات الئسنس کے بغیر تو تیار نہیں ہوئی ہوں گی۔ موت‬ ‫ٹھوس اور اٹل حقیقت ہے لوگ ادویات سے نہ مرتے تواپنی آئ‬ ‫سے اناهلل ہو جاتے۔ اقتدار میں آنے سے پہلے وعدہ باز بہت‬ ‫کچھ کہتے آئے ہیں۔ اقتدار میں آکر انھوں نے عوام کے لیے‬ ‫کبھی کچھ کیا ہے۔ نہیں۔ ان کے نہ کرنے کے خالف کبھی کوئی‬ ‫ہے؟ نہیں‘ بالکل نہیں۔ تو اب کیوں شور‬ ‫قابل ریکارڈ روال پڑا ِ‬ ‫مچایا جا رہا۔ سرکاری معاملہ ہے۔ این آر او کے تحت اس مدے‬ ‫پر مٹی ڈالنا ہی جائز اور مناسب بات لگتی ہے۔‬ ‫موالنا فضل الرحمن کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیر اعظم‬ ‫معامالت پر تجاوز مانگ تو لیتے ہیں‘عمل درامد نہیں کرتے۔‬ ‫موالنا پرانے سیاسی اور مذہبی لیڈر ہو کر بھی اس قسم کی‬ ‫باتیں کرتے ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں آج تک کبھی ایسا ہوا‬ ‫ہے کہ کسی لیڈر کا کرنا اور کہنا مساوی رہا ہو ۔ یہ دو الگ‬ ‫سے امور ہیں لہذا انھیں الگ الگ خانوں میں رکھ کر سوچنا‬


‫اور زیر بحث النے کی ضرورت ہے اور کسی سطع پر آلودگی‬ ‫نہیں ہونی چاہیے ورنہ خرابی اور فساد کا دروازہ کھل جائے گا‬ ‫یا کسی مذہبی کے کہنے اور کرنے میں کسی بھی سطع پر‬ ‫توازن ملتا ہو۔ یہ بات بالکل ایسی ہی ہے کہ کوئ آدمی بستر پر‬ ‫سو بھی رہا ہو اور دفتر میں کام بھی کر رہا ہو۔ کہنے اور کرنے‬ ‫کو دو الگ حتیتیں دی جائیں گی تو خرابی جگہ نہ پا سکے گی۔‬ ‫کہہ کر نہ کرنا ہی تو نورا گیم ہے۔ اگر نورا خاموش رہتا تو‬ ‫جئے جئےکار کیسے ہوتی اور وہ نورا سے چوہدری نور دمحم‬ ‫!کیسے اور کن بنیادوں پر کہالتا؟‬ ‫ان حقائق کے تناظر میں اشفاق کو بھی این آر او قانون‬ ‫اور سرکاری ضابطے کو بھولنا نہیں چاہیے اور اپنی بہن کے‬ ‫سسر کی موت پر مٹی ڈالنی چاہیے۔‬

‫جرم کو قانونی حیثیت دینا ناانصافی نہیں‬


‫پشاور ہائی کورٹ کا یہ کہنا کہ اگر ہم سچ بولنے لگیں تو‬ ‫ہمارے اسی فیصد مسائل حل ہو جاہیں گے‘ پشاور ہائی کورٹ‬ ‫کے یہ الفاظ آب زم زم سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ سچ سے‬ ‫بڑی کوئی حقیقت نہیں اور ناہی اس سے بڑھ کر کوئ طاقت ہے۔‬ ‫سچ ظلم زیادتی ناانصافی بلکہ ہر خرابی کی راہ میں مونگے کی‬ ‫چٹان ہے۔ یہ کمزور کو کمزور نہیں رہنے دیتا۔ یہ بات ہر شخص‬ ‫جانتا ہے‘ اس کے باوجود ہر شخص اس سے دور بھاگتا ہے۔‬ ‫شاید ہی کوئ ہو گا جو اس کی برکات کا قائل نہ ہو گا یا اس کی‬ ‫طاقت سے انکار کرتا ہو گا بلکہ اپنے سوا دوسروں کو درس نہ‬ ‫دیتا ہو گا۔ سچ کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کھ اسے الکھ پردوں‬ ‫میں رکھو‘ سامنے آنے سے باز نہیں رہتا۔ اس طرح بنا بنایا‬ ‫کھیل بگاڑ کر رکھ دیتا ہے۔‬ ‫سچ یقینا پیار کرنے کے الئق چیز ہے۔ لوگ اس سے‬ ‫بےحد پیار کرتے ہیں۔ اسے بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں‬ ‫اور سچ سننا انھیں خوش آتا ہے۔ جو بھی ان کے سامنے جھوٹ‬ ‫اور غلط بیانی سے کام لیتا ہے اسے کڑی سے کڑی سزا دینے‬ ‫پر اتر آتے ہیں۔ جھوٹ اور غلط بیانی سے کام لینے واال بچ کر‬ ‫جائے گا کہاں۔ ان کی نگاہ بال کی کھال اتار لیتی ہے۔ وہ اس کو‬ ‫محدود نہیں رکھتے تاہم اقتصادیات سے جڑا جھوٹ انھیں موت‬ ‫کے گھاٹ اتار دینے کے مترادف ہوتا ہے۔ کسی اور کا دینا ایک‬


‫روپیے کا ہو یا الکھ روپیے کا‘ ان کےلیے اس میں ایک اکنی‬ ‫کی ہیر پھیر بھی الکھ کی حیثیت رکھتی ہے۔‬ ‫دینے کا معاملہ اس پیمانے سے قطعی برعکس ہوتا ہے۔‬ ‫اس ضمن میں سچ انھیں زہر لگتا ہے۔ ان کے سماجی معامالت‬ ‫بھی سچ کے پکے دشمن ہوتے ہیں۔ سماجی معاملہ ہو یا‬ ‫اقتصادی‘ جھوٹ اور منافقت کی جئے جئے کار رہتی ہے۔‬ ‫منافقت‘ جھوٹ کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ امیدوار ممبر جب کسی‬ ‫کے پاس آتا ہے تو منہ پر جھوٹ بولتا ہے کہ میں شروع سے‬ ‫آپ کا خدمت گار رہا ہوں ۔ جب کہ عید کے روز بھی اس سے‬ ‫مسجد میں مالقات نہیں ہوئی ہوتی۔ اگلی صفوں میں بیٹھنے‬ ‫والوں کی نگاہ میں پیچھے بیٹھے لوگ روڑا کوڑا ہوتے ہیں۔‬ ‫پرانے اور بوسیدہ لباس والے دکھائی کب دیتے ہیں۔ یہ فطری‬ ‫سی بات ہے کہ آسمان اور زمین کا ملن ممکن ہی نہیں۔ یہ اس‬ ‫لیے کہا ہے کہ الیکشن امراء کا کھیل ہو کر رہ گیا ہے۔ گریب تو‬ ‫موری ممبری کا الیکشن تک نہیں لڑ سکتا۔ ہاں گریب رات کو‬ ‫امیدوار ممبر کے ڈیرے سے پیٹ پوجا کے اللچ میں لوگوں‬ ‫سےلڑ جھگڑ سکتا ہے۔‬ ‫امیدوارممبر جس طرح اپنے خادم ہونے کا جھوٹ بولتا‬ ‫ہے ووٹر بھی نہلے پر دہال مارتا ہے۔ وہ جوابا کہتا ہے کہ جناب‬


‫ہمیشہ آپ کا ساتھ دتیے آئے ہیں اب بھال آپ کو کس طر ح‬ ‫چھوڑیں گے حاالنکہ اس نے کبھی بھی اس کا ساتھ نہیں دیا‬ ‫ہوتا۔ عملی طور پر اس کا سخت مخالف رہا ہوتا ہے یا جھڑنے‬ ‫والے کے ڈبے میں اس کے ووٹ نے بسیرا کیا ہوتا ہے۔‬ ‫کوتوالی کی بات چھوڑیں وہاں تو بڑے بڑےعین غین اور‬ ‫شریف باٹی ٹیک جاتے ہیں۔ وہ وہاں‘ وہ وہ جرم تسلیم کر لیتے‬ ‫ہیں جن کے کرنے کی خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے۔ میں‬ ‫یہاں عدالت کے حوالہ سے بات کرنے جا رہا ہوں۔ عدالت میں‬ ‫چور کو بھی وکیل کرنے کا پورا پورا حق ہے۔ یہ اس کا اصولی‬ ‫حق ہوتا ہے۔ چور کا وکیل وہ وہ دالءل پیش کرتا ہے کہ چور کو‬ ‫یقین ہونے لگتا ہے کہ وہ چور نہیں ہے۔ اس نے چوری کی ہی‬ ‫نہیں بلکہ اس پر چوری کا جھوٹا الزام لگایا جا رہا ہے جب کہ‬ ‫وکیل کو پورا پورا یقین ہوتا ہے کہ چوری اس کے موکل نے کی‬ ‫ہے۔ اس کے باوجود وہ چور کا مقدمہ لڑتا ہے اور اسےبچانے‬ ‫کی سر توڑ کوشش کرتا ہے۔ یہ اس کا پیشہ ہے۔ کامیابی کی‬ ‫صورت میں وہ اچھا وکیل قرار پاتا ہے۔ ہارنے کی صورت میں‬ ‫کوئی چور اس کے قریب سے بھی گزرنے کی حماقت نہیں کرتا۔‬ ‫اگر کوئی چور اس کے پاس نہیں آئے گا تو وہ بھوکا مر جائے‬ ‫گا۔ گویا علم اور داؤوپیچ رکھنے واال پیٹ سے سوچے گا تو سچ‬ ‫بولنے کی بھال ایک عام آدمی کس طرح حماقت کرے گا۔ پیٹ ہی‬


‫جھوٹی گواہی دینے پر مجبور کرتا ہے۔‬ ‫پیٹ ہی سب سے بڑا سچ ٹھرتا ہے۔ کسی کا حق ڈوب رہا‬ ‫ہے‘ اس جانب نظر کیسے جا سکتی ہے۔ مضروب اپنے جوگا‬ ‫نہیں ہوتا وہ ہرے نیلے نوٹ کس طرح وکھا سکتا ہے۔ سچا ہو‬ ‫کر بھی وہ جھوٹوں کی صف میں کھڑا ہوتا ہے۔‬ ‫ہمارے تمام مسائل کا حل یقینا سچ بولنے میں ہے لیکن‬ ‫خالی پیٹ درویش لوگ ہی سچ بول سکتے ہیں۔ یہ بھی تاریخی‬ ‫حقیقت ہے کہ سچ بولنے والےجان سے گئے ہیں۔ پیٹ کے غالم‬ ‫روز اؤل سےعزت بچانے کے لیے سارا دن بےعزتی کرواتے‬ ‫ہیں۔ پیٹ یقینا تکنیکی اور شکمی مجبوری ہے۔ پیٹ کو کسی‬ ‫بھی سطع پر خانہ نمبر دو میں نہیں رکھا جا سکتا۔ روٹی کپڑا‬ ‫اور مکان یا پاکستان کو جنت نظیر بنا دینے کے وعدے تو ہوتے‬ ‫رہے ہیں۔ جنت نظیر بنانا تو بہت دور کی بات ہے پاکستان کو‬ ‫پاکستان تک نہیں بنایا جا سکا۔‬ ‫پاکستان میں بجلی روٹی کا پہال اور آخری ذریعہ ہو کر رہ‬ ‫گئ ہے۔ وزیر برقیات نے بند نہ ہونے کا وعدہ کیا لیکن لوڈ‬ ‫شیڈنگ کے معموالت میں رائی بھر فرق نہیں آیا۔ مزدور گھر‬


‫سے تو مزدوری پر آ گیا ہوتا ہے لیکن بجلی نہ ہونے کے کارن‬ ‫فارغ بیٹھا ہوتا ہے۔ ماں دروازے پر آنکھیں رکھ کر بیٹھی ہوتی‬ ‫ہے کہ بیٹا آئے گا۔ مزدوری الئے گا تو ہی اس کی دوا آ سکے‬ ‫گی۔ بیوی کو چولہا گرم کرنے کی فکر ہوتی۔ چھوٹا بچہ دودھ‬ ‫آنے کی امید لگا کر بیٹھا ہوتا ہے لیکن بیٹا باپ خاوند خالی‬ ‫ھاتھ واپس آ جاتا۔ ان میں سے کسی کا قصور نہیں ہوتا۔ سب‬ ‫اپنی اپنی جگہ پر حق بجانب ہوتے ہیں۔‬ ‫لیکن لوڈ شیڈنگ کے معموالت میں رائی بھر فرق نہیں آیا۔‬ ‫مزدور گھر سے تو مزدوری پر آ گیا ہوتا ہے لیکن بجلی نہ‬ ‫ہونے کے کارن فارغ بیٹھا ہوتا ہے۔ ماں دروازے پر آنکھیں رکھ‬ ‫کر بیٹھی ہوتی ہے کہ بیٹا آئے گا۔ مزدوری الئے گا تو ہی اس‬ ‫کی دوا آ سکے گی۔ بیوی کو چولہا گرم کرنے کی فکر ہوتی۔‬ ‫چھوٹا بچہ دودھ آنے کی امید لگا کر بیٹھا ہوتا ہے لیکن بیٹا باپ‬ ‫خاوند خالی ھاتھ واپس آ جاتا۔ ان میں سے کسی کا قصور نہیں‬ ‫ہوتا۔ سب اپنی اپنی جگہ پر حق بجانب ہوتے ہیں۔‬ ‫وکیل اپنی جگہ پر ٹھیک ہے کہ چور کی وکالت نہیں کرے‬ ‫گا تو کھائے گا کہاں سے۔ بابو اپنی جگہ پر سچا ہے کہ حق‬ ‫ناحق کا عوضانہ نہیں وصولے گا تو مرغ اور مچھلی کا سامان‬ ‫کیسے اور کیوں کر ہو سکے گا۔ جب وعدے پورے نہیں ہونے‘‬


‫مظلوم کو ظالم ٹھرایا جانا ہے‘ انصاف دوہرا ہونا یا کروانا ہے‘‬ ‫چور کو بری کروانا ہے تو جھوٹ کو قانونی حیثیت دے دی‬ ‫جائے‘ کم از کم منافقت سے تو خالصی مل جائے گی۔ اصلی‬ ‫آدمی دیکھنے کو مل جائے گا۔ آج اصلی آدمی کو دیکنھے کو‬ ‫آنکھیں ترس گئی ہیں۔ جنی کوئ غلط اقدام نہیں ہو گا۔ جس کو‬ ‫بےوسیلہ اوربے بابائی ہونے کی وجہ سے قتل کیتا کرایا مل‬ ‫جانا مل جانا ہے‘اس کی داد رسی الیعنی اور ہر طرح کی معنویت‬ ‫سے باہر کی چیز ہے۔ ایسے حاالت میں جرم کو قانونی حیثیت‬ ‫دینا ناانصافی نہیں‘ انسانی مساوات قائم کرنے کے کے مترادف‬ ‫ہے۔۔ اگر بعض کو جرم کی سزا سے باالتر قرار دینے کی سعی‬ ‫کرنا ہے تو اوروں کو یہ حق دینا کس اصول کے تحت غلط‬ ‫!ہے؟‬

‫پنجریانی اور گناہ گار آنکھوں کے خواب‬

‫ہمارے منہ جھوٹ کہنے اور کان جھوٹ سننے کے عادی ہو‬


‫گیے ہیں۔ یہاں جس سے پوچھو کہے گا مجھ سے قسم لے لو‬ ‫جو میں نے کبھی جھوٹ مارا ہو۔ ہمارے ہاں جھوٹ مارنے کا‬ ‫رواج نہیں رہا ہاں البتہ بندہ مارنا روٹین ورک ہو گیا ہے سچ‬ ‫کہنے اور سچ سننے میں مزا نہیں رہا۔ شاید اس کی ایک وجہ‬ ‫یہ بھی ہے کہ سچ سے کسی قسم کا البھ وابستہ نہیں رہا۔ سچ‬ ‫کے حصہ میں پولے رہے ہیں۔ بعض اوقات سر سے ہاتھ دھونا‬ ‫پڑتے ہیں۔ سچ سے پرہیزی سونے کےچمچہ سے بریانی نوش‬ ‫کرتے ہیں۔ جی سر‘ جی حضور‘ جی جناب‘ درست عالی جاہ‬ ‫کہنے میں کچھ خرچ نہیں آتا لیکن صلہ میں تمغے اور جاگیریں‬ ‫مقدر ٹھہرتی ہیں۔ سچ کے پلے ہے ہی کیا‘ دکھ اور تکلیف۔‬ ‫گولی مارو ایسے سچ کو جو بھوک اور پیاس بھی نہ مٹا سکے‘‬ ‫تن کو ڈھنگ کا کپڑا بھی میسر کرنے سے معذور ہو۔‬ ‫کل ایک صاحب فرما رہے تھے بابا جی آپ کے قلم میں بال کی‬ ‫طاقت ہے لیکن آپ اس کا انتہائی گھٹیا استعمال کر رہے ہیں۔‬ ‫میرے ہی منہ پر جھوٹ بول کر مجھے الو بنانے کی کوشش کر‬ ‫رہے تھے۔ میں کونسا عالمہ شبلی نعمانی ہوں جو میرے قلم‬ ‫میں بال کی طاقت ہے۔ وہ درحقیقت سمجھانا چاہتے تھے کسی‬ ‫پارٹی اور اس کے بڑوں کے بڑی فصاحت و بالغت کے حامل‬ ‫قصیدے کہوں تاکہ وہ اسے کیش کروا کے پیٹ بھر صاف ستھرا‬ ‫نوش جاان فرماءیں اور ہڈی میری جانب پھینک دیں۔ اگر‬


‫اعتراض کروں تو سرکا دیں۔ پھینکنے اور سرکانے میں زمین‬ ‫آسمان کا فرق ہے۔ اس میں شک نہیں میرے اڑے پھسے کام بن‬ ‫سکتے ہیں۔ جی حضوریہ ہونا ایسا معمولی اعزاز نہیں۔ میں ایسا‬ ‫کر نہیں سکتا کیونکہ میرے قلم میں بال کی طاقت ہے نہیں۔ بس‬ ‫کسی حد تک گزرا چل رہا ہے۔‬ ‫میرے جواب پر حضرت نے فرمایا حضور یہ آپ کا قصور نہیں‬ ‫بابے بولتے ہی وکھی سے ہیں۔ بہرطور میں جوابا کیا کہہ سکتا‬ ‫تھا خاموش ہو گیا۔ میرے پاس کوئ دوسرا رستہ ہی نہ تھا۔ ان‬ ‫دنوں امیدواروں کے ڈیرے حاتم کدے بنے ہوءے ہیں۔ پیٹھ‬ ‫مروڑتے اور منہ بناتے ہوئے وہ ادھر کو چل دیے اور میں ان‬ ‫کے یہ دونوں اعضاء دیکھتا ہی رہ گیا۔ میں خاں صاحب نہیں‬ ‫ورنہ ان کی پھرکی کی طرح پھرتی پیٹھ کے بارے ضرور کچھ‬ ‫عرض کرتا۔ عین ممکن ہے اس نظارے سے بےخود ہو کر الٹے‬ ‫قدموں بڑے پیار اور چاہ سے واپس مڑنے کی گزارش کرتا۔‬ ‫سوچتا ہوں یہ حاتمی پروگرام اس سے پہلے کہاں تھا۔ کیا یہ‬ ‫تاحیات جاری رہے گا یا گیارہ مئی کے بعد ٹھس ہو جائے گا۔ اگر‬ ‫چلتا رہا تو کمال ہو گا اگر ٹھپ ہو گیا تو کمال کی ٹانگ ہی نہیں‬ ‫کمال کی ہڈی پسلی سالمت نہیں رہے گی۔‬


‫ڈیڑھ کلو آٹا خرید کر گھر کی بھوک مٹانے والوں میں ایک‬ ‫شخص کی روٹیاں بچیں گی اور یہ بچت گھر کے کسی فرد کی‬ ‫آدھی بھوک کو سیری میں بدل دیں گی۔۔ بالشبہ چند روز کے‬ ‫سہی بہت بڑا انقالب ہو گا۔ دوسری جانب اس ایک فرد کی سیری‬ ‫اس کی کار گزاری بہتر کر سکے گی۔ ووٹ کا کیا ہے کسی ایک‬ ‫کو تو دینا ہی ہے۔ جس نے کھانے کو دیا اس سے زیادہ ووٹ کا‬ ‫کون حقدار ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد دونوں کسی کو کچھ نہیں‬ ‫دیں گے۔ اپنے اپنے کاموں میں جھٹ جائیں گے۔ یہ مزدوری‬ ‫میں اگر میسر آتی رہی اور وہ کیے گیے خرچے کو سو گنا‬ ‫بنانے میں۔ یہی کچھ ہوتا آیا ہے اور آتے وقتوں میں یہی کچھ‬ ‫ہونے کے اثار ہہں۔‬ ‫جس معاملے کی بنیاد جھوٹ پر رکھی جائے وہ توڑ نہیں چڑھتا‬ ‫بلکہ اؤل تا آخر خرابیاں مقدر رہتی ہیں۔ ہو سکتا ہے شروع‬ ‫شروع میں کچھ فائدہ مل جائے لیکن آگے جا کر پریشانیاں‬ ‫کھڑی ہو جاتی ہیں۔ جھوٹ بولنے والے کرنے والے کو شاید‬ ‫ہلکا پھلکا نقصان ہوتا ہے۔ عمومی سوچ کے حوالہ سے عزت‬ ‫کو کسر لگتی ہے۔ اگر اس کو کسر سمجھا جاءے تو لوگ اہل‬ ‫دھن اور اہل جاہ کو جھک جھک کر سالم کیوں کرتے ہیں۔ ان‬ ‫کے منہ پر ان کی تعریف میں زمین آسمان کے قالبے کیوں‬


‫مالتے ہیں۔ رہ گئ دل میں برا بھال کہنے یا گالیاں نکالنے کی‬ ‫بات دل کو کون دیکھتا ہے۔ لوگ تمثال کو نہیں تجسیم کو‬ ‫دیکھتے ہیں۔۔ ہاں برا ہو ترقی کا ریکاڈنگ کی صورت میں‬ ‫خرابی کی راہ نکل آتی ہے۔ پیٹھ پیچھے برائی کرنے والوں کی‬ ‫بھی بازی مات رہتی ہے۔ سامنے اور پیٹھ پیچھے کے مزے ایک‬ ‫سے نہیں ہوتے۔ سامنے کا آؤٹ پٹ موت یا کم از کم لترول‬ ‫ضرورت رہتا ہے۔ پیٹھ پیچھے کے لیے مکرنے کا سیف وے‬ ‫بہرطور ہر سطع پر باقی رہتا ہے۔‬ ‫گریب ان پڑھ بوالراور چھوٹی عمر کی لڑکی سے شادی کرنے‬ ‫کا آخر مزا چھکنا پڑتا ہے یہ ووٹ کے مانگت بھی اس لڑکی‬ ‫کے مماثل ہوتے ہیں اوپر سے انھیں خوبصورت ہونے کا زعم‬ ‫بھی ہوتا ہے۔ بھوکا دور کی نہیں سوچتا۔ باشعور ہوتے ہوئے‬ ‫بھی اس کی سوچ روٹی دا سوال اے جواب جیہدا روٹی اے‘ سے‬ ‫باہر نہیں آتی۔ تسلیم کی انتہا مالحظہ کریں ان دنوں امیدواروں‬ ‫کے ڈیروں پر مرغے والے چاول چل رہے ہیں اور اسے بریانی‬ ‫کا نام دیا جاتا ہے۔ بڑے افسوس کی بات ہے اس میں بکرے کی‬ ‫ایک بوٹی بھی نہیں ہوتی۔ کھالنے واال اسے بریانی کا نام دے یہ‬ ‫بات سمجھ میں آتی ہے لیکن کھانے واال اسے بریانی تسلیم کرتا‬ ‫ہے۔ یہ تو ککڑیانی بھی نہیں ہوتی۔ چاولوں میں کھسرا مرغے‬ ‫کا کہیں کہیں گوشت یا ہڈی ہوتی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ‬


‫کھسرا مرغے کا پنجر ال کر چاؤلوں میں ڈال دیا گیا ہوتا ہے۔‬ ‫زیادہ سے زیادہ اسے پنجریانی کا نام نامی اسم گرامی دیا جا‬ ‫سکتا ہے۔ جب اطراف میں اپنی اپنی ضرورت کے حوالہ سے‬ ‫جھوٹ چل رہا ہو تو آتے کل کی بہتری کا خواب گناہنگار‬ ‫آنکھوں سے کیونکر اور کیسے دیکھا جا سکتا ہے۔‬

‫دیگی ذائقہ اور مہر افروز کی نکتہ آفرینی‬

‫دانستہ غلطی کوتاہی بالشبہ الئق سرزنش ہے۔ کوشش کرتا‬ ‫ہوں جو بھی کروں پوری ذمہ داری اور ہوش مندی سے کروں‬ ‫لیکن پھر بھی کہیں نہ کہیں کمی کوتاہی کی راہ نکل ہی آتی ہے۔‬ ‫اس ذیل میں وہ لوگ یقینا خوش قسمت ہیں جنھوں نے کچھ نہ‬ ‫کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ نتیجتا ان سے غلطی کوتاہی سرزد‬ ‫نہیں ہوتی۔ اگر کسی کے مجبور کرنے یا کسی سرکاری یا‬ ‫بیگماتی مجبوری کے تحت کچھ کرنا ہی پڑ جاتا ہے تو غلطی‬ ‫کوتاہی کی نشاندہی کرنے والے کی شامت آ جاتی ہے۔ غلطی‬ ‫کرنے والے کی گردن پر گرہ نہیں آتی۔ ہر کوئی کرنے والے ہی‬ ‫کا پکھ لیتا ہے۔ دیکھو یاراس نے کچھ تو کیا ہے حوصلہ افزائی‬


‫کی بجائے حوصلہ شکنی سے لیا جا رہا ہے۔ نکتہ چین تھوڑ‬ ‫دلی سے کام لے رہا ہے۔ اس وچارے نے کب کبھی کوئی کام کیا‬ ‫ہے۔ پہال پہال کام ہے‘ غلطیاں تو ہوں گی۔‬ ‫پہال پہال کام کرنے واال خود کو عالمہ شبلی نعمانی کا بھی‬ ‫استاد سمجھنے لگتا ہے۔ اس کے لیے اس کا یہ پہال پہال بھگوت‬ ‫گیتا سے کی طرح کم نہیں ہوتا۔ چیلے چمٹے اسے عظیم فن پارہ‬ ‫قرار دے کر اڑے پھسے کام نکلوا لیتے ہیں۔ میں کوئی اعلی‬ ‫شکشا منشی ہاؤس کا اہلکار نہیں جو معاف کر دیا جاؤں گا۔ اس‬ ‫لیے خود ہی اپنی غلطی کوتاہی کا اعتراف کر لیتا ہوں۔ بڑے‬ ‫لوگوں کی طرف انگلی اٹھتی ہے مجھ پر لوگوں کا پنجہ اٹھے‬ ‫گا۔‬ ‫پہلی پہلی غلطی کوتاہی کو الئق تعزیر قرار نہیں دیا سکتا‬ ‫کیونکہ کوشش تو کی گئی ہوتی ہے اور کرنے والے سے ہی‬ ‫غلطی ہوتی ہے۔ کرنے والوں میں عادی کرنے والے ہوتے ہیں‬ ‫جبکہ فٹیکی کرنے والے بھی ہوتے ہیں۔ دونوں کے کرنوں میں‬ ‫نمایاں فرق موجود ہوتا ہے۔ ذائقہ بھی اسی تناظر میں تشکیل‬ ‫پاتا ہے۔ ذاتی شوق اور گیڈر پروانہ کی حصولی سے وابستہ کیا‬ ‫ایک سا نہیں ہو سکتا۔ دونوں کے ذائقوں میں زمین آسمان کا‬ ‫فرق موجود ہوتا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود ذاتی واال دو نمبری‬


‫کے درجے پر فائز کیا جاتا ہے جبکہ گیڈڑائی کسی بڑی سیٹ پر‬ ‫بیٹھ جاتا ہے۔ اب ذائقے کا تعلق بندے کوبندے جڑ جاتا ہے۔‬ ‫میں نے کھائی پکائی میں تیکنیکی امور کو مدنظر رکھا۔‬ ‫کھائ کی تعبیر و تشریح میں انتہائی حساس امور کو نظر انداز‬ ‫کر گیا حاالنکہ ان کا کھائی سے چولی دامن کا تعلق ہے۔ محاورہ‬ ‫اگلے زمانے کا ہے محاورہ بنانے والوں نے دامن کے ساتھ‬ ‫چولی جانے کیوں اندراج کیا۔ اگلے زمانے میں چولی نہیں‬ ‫چولے ہوا کرتے تھے۔ چولی غالبا غرب کی دین ہے۔ لباسی‬ ‫اختصار پیچھلے پچاس سالوں میں ہوا ہے۔ اب تو لباس کا نام‬ ‫تکلفا لیا جاتا ہے اس لیے میں نے تکلفا مروتا چولی لفظ‬ ‫استعمال کر دیا ہے۔ رہ گیا دامن‘ جب چولی نہیں ہوگی دامن کہاں‬ ‫سے آئے گا۔ مترادف میں مرد حضرات نے بیگ جبکہ خواتین‬ ‫نے بڑے فینسی پرس رکھ لیے ہیں اور ان میں کافی کچھ سما‬ ‫سکتا ہے۔ مرد اور خواتین احتیاتا ساتھی بھی اہتماما رکھنے‬ ‫لگے ہیں۔ بیگ یا پرس میں وہ جو کچھ بھی رکھیں ان کا ذاتی‬ ‫معاملہ ہے اس پر کالم کا کسی کو حق نہیں پہنچتا۔ مرد اور‬ ‫عورت گاڑی کے دو پہیے ہیں اس لیے چولی دامن کی جگہ‬ ‫بیگ پرس کا ساتھ محاورہ ہونا چاہیے۔ میرے خیال میں یہی‬ ‫ارضی اور کلچری سچائی ہے۔‬


‫خیر غلطی کوتاہی کا حل یہی ہے کہ متعلقہ حصہ میں تبدیلی‬ ‫اضافہ وغیرہ کر دیا جائے۔ بھال ہو مہر افروز صاحبہ کا جو‬ ‫انھوں نے بروقت نشاندہی کر دی ہے۔ میں ان کا دل و جان سے‬ ‫احسان مند ہوں۔ اگر وہ نشاندہی نہ کرتیں‘ باریک بین مورخ‬ ‫کبھی معاف نہ کرتا۔ وہ کرتا نہ کرتا میرا ضمیر مجھے معاف نہ‬ ‫کرتا۔ پکائی بالشبہ بڑی معنویت کی حامل ہے لیکن ذائقے کا‬ ‫تعلق کھائی کے مختلف حوالوں سے جڑا ہوا ہے۔ ذائقے سے‬ ‫منہ مسلک ہے۔ منہ بڑا ہو یا چوٹا اس میں ایک عدد زبان بھی‬ ‫ہے جو چھکنے اور جالنے کے کام آتی ہے۔ چکھنے سے پہلے‬ ‫بھی چلتی دیکھنے سننے میں آتی رہتی ہے۔ یہ جہاں نائی کے‬ ‫کانوں پر بار بنتی ہے وہاں دیگ کا سامان النے والے اور‬ ‫سامان دینے والے دوکان دار کو بھی گرفت میں رکھتی ہے۔ ہیاں‬ ‫تک کہ بالچھکے ریمارکس پاس کر دیتی ہے۔ گویا یہ ذائقے کا‬ ‫پیش لفظ ہوتا ہے۔‬ ‫سرکاری تنخواہ کی آمدنی کا ذائقہ پھیکا پھیکا اور قطعی‬ ‫ہلکا پھلکا ہوتا ہے۔ معقولی اور غیر معقولی باالئی کا ذائقہ الگ‬ ‫سے اور دو طرح کا ہوتا ہے۔ یہ ذائقہ زیادہ تر دفتری لوگوں‬ ‫سے منسوب کیا جاتا ہے حاالنکہ باالئی کا دائرہ دفتروں کے‬ ‫زندان سے آزادی حاصل کر چکا ہے۔ ستم اس پر یہ کہ رشوت‬ ‫لینے والے کو راشی کہا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے سائل رشوت‬


‫خور ٹھہرتا ہے۔ ظالم کا ظلم مظلوم پر ٹھہرنا صدیوں کی ریت‬ ‫ہے۔ یہ صرف رنجیت سنگھ ہی کو اعزاز حاصل تھا کہ وہ ہاتھ‬ ‫بندھے بری اور لک بندھک لٹکاتا تھا۔ بہرکیف لفظ راشی کا‬ ‫متضاد استعمال میرے لیے حیران کن نہیں۔ لفظ کا رمزی استعمال‬ ‫کالم میں شگفتگی اور بالغت پیدا کر دیتا ہے۔ اب معلوم ہوا ہے‬ ‫کہ زیریں کے دست مبارک سے لفافہ اوبر جاتا ہے۔ اس حوالہ‬ ‫سے اسے راشی ہی کہا جائے گا مرتشی اوپر والے کو کہا‬ ‫جائے گا۔ کھائ کے حوالہ سےتین ذائقے ترکیب پائیں گے۔ سائل‬ ‫کا ذائقہ کڑوا‘ راشی کا ذائقہ نمکین اور قدرے لذیذ جبکہ مرتشی‬ ‫کا ذائقہ لذتوں کا امین ہوتا ہے۔‬ ‫چوری ڈاکے اسمگلنگ ہیرا پھیری وغیرہ کی کمائی کو‬ ‫حرام کی کمائی کا نام دیا جاتا ہے۔ پہلی تینوں طرح کی کمائی‬ ‫خطروں سے ہی نہیں بھری رسک آمیز بھی ہے جبکہ ہیرا‬ ‫پھیری میں دماغ کا خرچہ بڑھتا ہے اس لیے یک طرفہ سوچنے‬ ‫کی بجائے دو بلکہ سہ طرفہ سوچنے کی ضرورت ہے۔ لٹنے‬ ‫واال اور کما لے گا اسے دکھ ضرور ہوتا ہے۔ دوبارہ سے کمائی‬ ‫کا ذائقہ پسینہ آلود ہونے کے سبب چکنائی انگیز ہوگا۔ چوری‬ ‫ڈاکے اسمگلنگ ہیرا پھیری کی کمائی جو پرمشقت ہوتی ہے‘ کا‬ ‫ذائقہ اگلے رسک پر آمادہ کرتا ہے۔ گویا اس قسم کی کمائی کے‬ ‫ذائقے میں تحرک کا عنصر غالب اور نمایاں رہتا ہے۔‬


‫قوم و ملک سے غداری کے صلہ میں کھیسے پڑنے والی‬ ‫کمائ کا ذائقہ بی کچھ اور نوعیت کا ہوتا ہے۔۔ بی کا مخفف لمبی‬ ‫چوڑی فہرست سے بچاتا ہے۔ شراب کباب کے ساتھ شباب کی‬ ‫بڑھوتی کسی ایرے غیرے کو زیب نہیں دیتی۔ یہ ذائقہ دوسرے‬ ‫ذائقوں سے الگ ترین ہوتا ہے اور اس میں نوابی آن بان اور‬ ‫شان تھرک رہی ہوتی ہے۔ ان کے کتے بلے بھی ان کے اترن‬ ‫سے حصہ پا کر کا سا کے درجے پر فائز ہو جاتے ہیں اور ان‬ ‫کا ذائقہ بھی معمولی اور عمومی نہیں رہ پاتا۔ ان کا یہ موقف‬ ‫غلط نہیں لگتا کہ موجودہ حکمران کون سے خیر کے فعل انجام‬ ‫دیتے ہیں۔ آنے واال بھی یہی کچھ کرے گا۔ ہاں تبدیلیوں میں لہو‬ ‫بہتا ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں۔ غداریاں ہوتی ائ ہیں اور‬ ‫ہوتی رہیں گی۔ وہ کون سا اچرج کام کر رہے ہوتے ہیں۔ خون‬ ‫بہتا رہا ہے‘ بہتا رہے گا۔ عموم کا سماجی اسٹیٹس یہی رہا ہے‬ ‫اور یہی رہے گا۔‬ ‫پلے سے کھایا تو کیا کھایا۔ مفت خوری کا ذائقہ‬ ‫غیرمعمولی ہوتا ہے۔ الریب فیہ میں مولوی صاحبان کو اپنے‬ ‫سوچ میں بھی نہیں ال سکتا۔ جو یہ سوچتے ہیں کہ میں ان کو‬ ‫درمیان میں ال رہا ہوں غلط سوچتے ہیں۔ یہ حضرات مفت خوری‬ ‫میں نہیں آتے۔ ان کی کمائ مشقت سے بھرپور ہوتی ہے۔ ان‬


‫سے بچوں کی تدریس کا ڈر اور خوف قطعی الیعنی ہے۔ آخر‬ ‫پمپر کس لیے بنے ہیں اور ان کا استعمال کب ہو گا۔ زندگی میں‬ ‫کرتا کوئی ہے کھاتا کوئی ہے۔ کرنے اور کھانے والے کا ذائقہ‬ ‫ایک سا نہیں ہو سکتا۔ لکھنے والوں کو ہوا کھانی پڑتی ہے‬ ‫جبکہ ناچے گائیکے پیٹ بھر کھاتے ہیں۔ لکھنے والوں کا دماغ‬ ‫خرچ ہوتا ہے جبکہ باقی طبقوں کی جسمی محنت رنگ التی ہے۔‬ ‫لکھاری گائک رقص کندہ اور ان سے متعلقین کا ذائقہ ایک سا‬ ‫نہیں ہو سکتا۔‬ ‫ایک دیگ کے چاول تیکنکی ذائقوں کے عالوہ بھی ذاہقے‬ ‫رکھتے ہیں۔ ہر موڈ اور ہر مزاج کا ذائقہ الگ سے ہوتا ہے۔‬ ‫تنقید کرنے کا ذائقہ کٹھا مٹھا ہوتا ہے۔ تنقد برداشت کرنے کا‬ ‫ذائقہ کڑوا ہوتا ہے۔ کہنے والی زبان اور سننے والے کانوں کا‬ ‫ذائقہ ایک سا نہیں ہو سکتا۔ گویا موڈ مزاج اور رویہ زبان کے‬ ‫ریشوں میں تبدیلی ال کر ذائقہ کی حس پر اثر ڈالتے ہیں۔‬ ‫شہید اور شہادت کا تلک سجا کر تاریخ کا جز بننے والے‬ ‫ہمیشہ سے موجود رہے ہیں۔ انہیں نہی میں ڈال کر جعلی‬ ‫کاروائی ڈال کر نہ کھلیں گے نہ کھیلنے دیں گے‘ بھی قرطاس‬ ‫حیات پر موجود رہیں گے۔ ماتمی بھی رہیں گے ان پر سنگ‬ ‫باری کرنے والے بھی زندگی کا حصہ رہیں گے۔ دیگ ایک ہی‬


‫ہوتی ہے۔ پکائی بھی ایک ہاتھ کی ہوتی ہے۔ کسی کو پکوان لذت‬ ‫دیتا ہے۔ کوئی اسے چاولوں کا حشر نشر خیال کرتا ہے۔ دیگ‬ ‫میں ناصر زیدی کو کیڑے آمیز چاول نظر آتے ہیں۔ وہی پکوان‬ ‫تبسم کاشمیری پر وجد طاری کر دیتا ہے۔ صابر آفاقی پکائی سے‬ ‫متاثر ہو کر پی ایچ ڈی کی دس ڈگریاں دینے کی سفارش کرتے‬ ‫ہیں۔ ڈاکٹر عبدهللا قاضی پوسٹ پی ایچ ڈی کا مستحق ٹھہراتے‬ ‫ہیں۔ ڈاکٹر نجیب جمال کو پکائی میں سلیقہ نظر آتا ہے۔ ۔ڈاکٹر‬ ‫دمحم امین اسی دیگ کے چاولوں میں نیا انداز اور پکانے والے‬ ‫کے ذہنی افق میں وسعت ذائقہ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر غالم شبیر رانا‬ ‫کو پکائی میں عصری ذائقوں سے آگہی محسوس ہوتی ہے۔‬ ‫دیگ ایک ہے‘ ذائقے الگ الگ۔ گویا ذائقہ منہ میں موجود زبان‘‬ ‫اس کے سائز اور ذہن کے سواد پر انحصار کرتا ہے۔‬ ‫میں محترمہ مہرافروز کو داد دیتا ہوں کہ وہ ذائقے کا‬ ‫رشتہ انسانی موڈ سے جوڑتی ہیں۔ مجھے یقین ہے کھائی کے‬ ‫جانو حضرات ان کی اس انمول دریافت کو پرتحسین نظروں سے‬ ‫دیکھیں گے۔‬


‫ہمارے لودھی صاحب اور امریکہ کی دو دوسیریاں‬

‫ہمارے لودھی صاحب کسی اور کو رشوت دینے کے معاملہ میں‬ ‫بڑے ہی سخت واقع ہوئے ہیں۔ کل ہی کی بات ہے ہمارے ایک‬ ‫دوست اکاؤنٹ آفس میں ایک معمولی سے کام کے لیے پانچ سو‬ ‫روپیے چٹی دے کر آئے۔ مجبور تھے کیا کرتے' پچھلے دو ماہ‬ ‫سے ذلیل ہو رہے تھے۔ بار بار اعتراض لگ رہا تھا۔ ہر بار‬ ‫اعتراض دور کرتے لیکن اگلی بار اعتراض میں سے کوئ اور‬ ‫اعتراض جنم لے لیتا۔ کسی سیانے نے اصل اعتراض یعنی پانچ‬ ‫سو روپیے کی نشاندہی کر دی۔ اصل اعتراض دور ہونے پر ان‬ ‫کام فورا سے پہلے ہو گیا۔ ہمارے لودھی صاحب کو سخت غصہ‬ ‫آیا وہ وہ سنیما سکوپ گالیاں سنائیں کہ تمام پنجابی گالیاں آن‬ ‫واحد میں شرمندہ تعبیر ہو گئیں۔ میں حیران تھا کہ انھیں کیا‬ ‫بنیاں کیونکہ اسی کیس کی ذیل میں وہ دو بار نیال نوٹ وصول‬ ‫چکے تھے۔ کیا یہ رشوت نہ تھی?!‬ ‫غالبا ان کے سوا کسی اور کو کام کے حولہ سے نقدی یا‬ ‫بصورت جنس اداءگی رشوت کے زمرے میں آتا ہے۔ ہرے نیلے‬ ‫اور کبھی کبھار سرخ رنگ پر صرف اور صرف ان ہی کا حق‬


‫فائق رہتا ہے۔‬ ‫درست طریقہ یہی ہے کہ بانٹ دو رکھو۔ بہت پہلے کی بات ہے‬ ‫کہ هللا بخشے' ہمارے بھائ کے سسر امام مسجد ہونے کے‬ ‫ساتھ ساتھ دؤکاندار بھی تھے۔ دوکان میں ڈاکخانہ بھی تھا۔ اگلے‬ ‫دور میں لوگوں کے پاس پیسے نہیں ہوا کرتے تھے۔ لوگ‬ ‫اجناس کے بدلے اشیاء حاصل کیا کرتے تھے۔ ان کے پاس‬ ‫بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک مائی جنس لے کر آئی انھوں نے اندر‬ ‫‪:‬آواز دی‬ ‫"بیٹا دوسیری دینا"‬ ‫"?اندر سے آواز آئی‪" :‬کون سی ابا‬ ‫"بولے"سبحان هللا' بیٹا دو سیریاں بھی کوئی دو ہو تی ہیں‬ ‫دوسیری آ گئی لیکن ہماری سمجھ میں یہ عالمتی مکالمہ نہ آ‬ ‫سکا۔ یہ کہانی الگ سے ہے کہ ہم نے ان کی‬ ‫بیٹی تک کیسے رسائی حاصل کی تاہم بھید یہ کھال کہ جنس کی‬ ‫حصولی کے لیے سبحان هللا دوسیری ہے جو وزن میں زیادہ‬ ‫ہےجبکہ چیز دینے کی دوسیری الحمدهللا ہے جو وزن میں کم‬ ‫ہے۔ گویا لینے کی دوسیری‬ ‫اور دینے کی دوسیری' بہت پہلے سےالگ رہی ہے۔‬


‫امریکی رکن کانگرس کےمطابق بلوچستان کا مسلہ سنگین ہے۔‬ ‫اس کے مطابق انسانی حقوق کی خالف ورزیاں بند ہونی چائیں۔‬ ‫مغرب والے بڑے دیالو اور کرپالو ہیں۔ انھیں تو مچھلیوں تک‬ ‫کے "انسانی حقوق" عزیز ہیں۔ انسانی حقوق کی خالف ورزیاں‬ ‫بند ہونے والی بات غلط نہیں لیکن امریکہ دوسیریاں دو کیوں‬ ‫رکھ رہا ہے۔ اس کے اس چلن نے ہمارے لودھی صاحب پر‬ ‫گہرے اثرات مرتب کئے ئیں۔ امریکہ کی ایک عمارت گری اس‬ ‫نے پورے افغانستان کی عمارتیں گرا دیں۔ اس عمارت میں‬ ‫موجود چند لوگ مرے لیکن اس نے افغانستان میں ہزاروں لوگ‬ ‫موت کی نیند سال دئیے اور الکھوں بےگھر کر دئیے۔‬ ‫وہ ذرا ونگا ہوتا ہے تو ملکوں پر' جہاں غربا کی تعداد زیادہ‬ ‫ہوتی ہے پر پابندیاں لگا دیتا ہے لیکن نیٹو کی رسد بند کرنے‬ ‫کو انسانی حقوق کی عینک سے دیکھتا ہے۔ ابیٹ آباد جس‬ ‫عمارت میں اسامہ رہتا تھا' کو مسمار کر دیا گیا مبادہ کسی‬ ‫کونے کھدرے سے اسامہ نکل آءے گا حاالنکہ اس عمارت کو‬ ‫مسمار کرنے کی کیا شرورت تھی۔ خود اسلحہ کے ڈھیر لگا رہا‬ ‫ہے ۔ لیکن کسی اور کا اسلحہ بنانا اس کے وارہ میں نہیں آتا‬ ‫امریکہ خود کے حوالہ سے دنیا کا باڑہ ہے۔ ایران کوریا یا دنیا‬ ‫کا کوئ ملک اسلحہ بناءے تو اس کے پیٹ میں مرو ڑاٹھنے‬ ‫لگتا ہے۔‬


‫سگریٹ پہ سیمینار ہو رہا تھا۔ اتفاق سے میں بھی وہاں کسی‬ ‫کام سے گیا ہوا تھا۔ انتظمیہ نے پکڑ کر مجھے بھی اسٹیج پر‬ ‫بیٹھا دیا۔ سگریٹ پر مقریرین نےدھؤاں دھار تقریریں کیں۔‬ ‫سگریٹ کے خالف وہ وہ بکواس کی کہ خدا کی پناہ۔ سچ‬ ‫پوچھئے میں گھبرا ہی گیا۔ مجھے لگا یہ میرے خالف سا زش‬ ‫ہوئ ہے۔ ستم اس پر یہ کہ اظہار خیال کے لیے مجھے بھی‬ ‫طلب کر لیا گیا۔ منافقت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ ان سے میں‬ ‫ایسے بھی تھے جو سگریٹ پہ سگریٹ پیتے تھے۔اسٹیج پر آ‬ ‫کر سب حاجی ثناءهللا بن گءے تھے۔ اب چونکہ بال لیا گیا تھا‬ ‫اس لیے کچھ کہے بغیر بن نہیں سکتی تھی۔ جی میں آئ ان سب‬ ‫کی اصلیت کھول دوں مگر مروات آڑے آگئی۔ میں نے سگریٹ‬ ‫کے حق میں تقریر کی۔ ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ حیران تھا یہ‬ ‫انہونی کیسے ہو گئی۔ بعد میں معلوم ئوا حق میں کہتے کہتے‬ ‫خالف کہہ گیا ہوں یا حق کو خالف کے معنونوں میں لے لیا گیا۔‬ ‫بلوچستان کے حوالے سے بات کرنے والے امریکہ کا باطن‬ ‫ایران کے بارے میں کھل گیا ہے۔ امریکہ اگر اتنا انسان دوست‬ ‫ہے تو سب سے پہلے اپنا اسلحہ تباہ کرے اور پھر اوروں کو‬ ‫گڑ نہ کھانے کی ترغیب دے۔ خود تو اس دوڑ میں سب سے‬ ‫آگے ہے لیکن اوروں کو اس سے منع کر رہا ہے بلکہ پابندیاں‬


‫لگاتا ہے دھمکیاں جڑتا ہے۔‬ ‫ہمارے لودھی صاحب نے امریکی طور اپنایا ہے تو میرے سمیت‬ ‫سب انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ عملی طورپر امریکی فتاوی راءج‬ ‫ہے' زبانی اس کی نفی کھلی منافقت نہیں ہے? گڑ کھانے والے‬ ‫گڑ کی مذمت کرتے ہیں‪ .‬خودمختاری کی بات کرکے مردوں کے‬ ‫گیٹ سے نکل رہے ہیں۔ پڑتال کرنے پر معلوم پڑتا ہے کہ‬ ‫امریکہ کے کہے پر اس گیٹ سے گزرے ہیں ادرلیاقت علی کے‬ ‫رستے کو حق کا رستہ سمجھتے ہیں اور اسے قوم کا عظیم‬ ‫لیڈر قرار دیتے ہیں۔ قوم اگر اپنے ان لیڈوں کے کہے کو سچ‬ ‫مانتی رہی ہے تو پٹرول گیس ڈیڑل بچلی وغیرہ کی قیمتوں میں‬ ‫اضفہ ہوتا چال جاءے گا۔ پھر وہ وقت بھی آئے گا' چیزیں نہیں‬ ‫رہیں گی صرف اور صرف ان کی قیمتیں رہ جائیں گی۔ جن کی‬ ‫ادرئیگی کے بغیر بن نہ پائے گی‬

‫قصہ زہرا بٹیا سے مالقات کا‬


‫ناصر ناکاگاوا صاحب کا مجھے فون آیا کہ ان کی ہمشیرہ زہرہ‬ ‫عمران مجھے ملنا چاہتی ہے‘ آ جائے؟ مجھے بینک چوکیدار‬ ‫واال قصہ یاد آگیا۔ ایک صاحب نے اس سے پوچھا کیا میں بینک‬ ‫کے اندر چال جاؤں۔ چوکیدار نے صاف منع کر دیا۔ ان صاحب‬ ‫نے پوچھا اتنے لوگ اندر جا رہے ہیں انھیں تو منع نہیں کر‬ ‫رہے مجھے کیوں منع کرتے ہو۔ چوکیدار نے ترنت جواب دیا وہ‬ ‫مجھ سے پوچھ رہے ہیں جو انھیں منع کروں۔ میرے لیے یہ‬ ‫چونکہ نیا تجربہ تھا۔ سارا دن واقف ناواقف آتے رہتے ہیں کبھی‬ ‫کسی کو اس قسم کی جرآت اور توفیق نہیں ہوئی۔ مجھ پر کھال ‘‬ ‫پوچھا بھی جاتاہے۔ میں کوئی لیڈر یا دفتری اہلکار تھوڑا ہوں‬ ‫جو پوچھا جاءے چوہدری صاحب حاضر ہونے کی اجازت ہے‬ ‫اور وہ ہر مفتے کو کل تا کل ٹالتے رہیں۔‬ ‫ان کے پوچھنے پر احساس تفاخر تو نہ جاگا ہاں یہ ضرور‬ ‫محسوس ہوا کہ میں بھی ہوں۔ سچی پوچھیں مجھے اپنے ہونے‬ ‫کا یقین ہی نہ تھا۔ اس نہ ہونے کے یقین کو تصوف واال نہ‬ ‫سمجھیں۔ اس ملک میں جھوٹ فریب ہیرا پھیری مالوٹ دغا‬ ‫دھوکا منافع خوری رشوت دھونس دھکا وغیرہ اور یہ شغل‬ ‫رکھنے والوں کی کمی نہیں۔ کمزور یعنی لسے طبقے جس کا‬ ‫میں بھی ایک سیل ہوں۔ میرے سے لوگوں سے اجازت کی طلبی‬


‫حیرت سے خالی نہ تھی۔ کسی ماڑے سے مطلب کے لیے پوچھا‬ ‫جاتا ہے یا کسی تگڑے کی کرنی اس کے سر ڈالنے کے لیے‬ ‫مرکب پوچھ گوچھ مستعمل ہے۔ ان کی تشریف آوری چونکہ خیر‬ ‫سگالی سے وابستہ تھی اس لیے کسی قسم کی فکرمندی بھی‬ ‫الحق نہ ہوئی۔‬ ‫سوچا بڑے فیشن ایبل لوگ ہوں گے۔ بٹھاؤں گا کہاں اور ملے‬ ‫گی کس سے۔ میری رہایش گاہ ‘ میں اور میری زوجہ ماجدہ تو‬ ‫طوفان نوح کی باقیات میں سے ہیں۔ اسے خدشہ خوف احساس‬ ‫کہتری یا کوئی بھی نام دے لیں آپ قاری اپنی مرضی کے مالک‬ ‫ہیں۔ عین ممکن ہے یہ تینوں یا ایک آدھ چیز اور بھی شامل حال‬ ‫ہو۔ گھر والوں کو مانجا بوکر کرنے کو کیا کہتا۔ سوچا جو جیسا‬ ‫ہے چلنے دو۔ دیکھا جائے گا۔ درمیان میں ایک دن تھا اس ایک‬ ‫دن میں کیا ہو سکتا تھا۔ دوسرا کرنے کے لیے دام درکار تھے‬ ‫اور دام اعلی شکشا منشی اور پنجاب سرونٹس ہاؤسنگ‬ ‫فاؤنڈیش الہور کے چوری خور اہل کاروں کی مٹھی میں بند‬ ‫تھے۔ نہ ان کے کام کے اور نہ میرے کام کے۔ انھیں کچھ کہا ہی‬ ‫نہیں جا سکتا۔ یہ جینا جیسا بھی سہی‘ جی تو رہا ہوں ورنہ اس‬ ‫سے جاؤں گا۔ جب زوجہ ماجدہ کے کان میں یہ بات پڑی کہ وی‬ ‫آئ پی مہمان آرہے ہیں تو بیماری کے باوجود مجھ پر برس‬ ‫پڑیں۔ معاملہ برسنے تک رہتا تو خیر تھی‘ گرجیں بھی۔ یقین‬


‫جانیے میں آج تک نہیں سمجھ سکا یا یہ ہر شدہ کی سمجھ سے‬ ‫باالتر بات ہے۔ چارپائی لگی بیگم میں گرجنے برسنے کے لیے‬ ‫توانائ کہاں سے آ جاتی۔ اس کا ایک جملہ بڑے ہی کمال کا تھا‪:‬‬ ‫لوگوں کو بےایمانی لے ڈوبتی تھی لیکن آج بےایمانی کا شغل‬ ‫فرمانے والوں کی پانچوں انگلیاں ہی کیا وہ سراپا گھی کی‬ ‫کڑاہی میں ہیں۔ کوئ روک کوئی ٹوک نہیں۔ ہمیں تمہاری‬ ‫ایمانداری کی سزا بھگتنا پڑ رہی۔ اس کا گرجنا برسنا غلط نہیں‬ ‫تھا اس لیے پہلے میں میں کرتا رہا اور پھر سر سٹ کر بیٹھ‬ ‫گیا۔ اور کر بھی کیا سکتا تھا۔ کرنے کو میرے پاس تھا ہی کیا‬ ‫جو شدید ردعمل میں کرتا۔‬ ‫میں پورے وجود کی ایمانداری کے ساتھ کہتا ہوں کہ میرے دل‬ ‫میں ایک آدھ فیصد بھی نہ آیا کہ موصوفہ کا آنا جھوٹ ہی ہو‬ ‫جائے۔ سوچا دور دراز سے لوگ آتے ہیں کبھی کسی نے میری‬ ‫اور رہایش کی حالت خستہ کی شکایت نہیں کی۔ غالبا چلیس سال‬ ‫زیادہ عرصہ ہوا میں قاضی جرار حسنی کے قلمی نام سے لکھا‬ ‫کرتا تھا۔ اس دور کی فیشنل ایبل دو بیبیاں میری ایک کہانی کی‬ ‫تعریف کر رہی تھیں۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ میں نے بڑے‬ ‫فخر اور چوڑے ہو کر کہا قاضی جرار حسنی میں ہوں۔ انھوں‬ ‫نے میری طرف دیکھا اور پھر ایک طنز سے بھرپور تیر‬ ‫پھینکا‪ :‬ایسے ہوتے ہیں قاضی جرار حسنی۔ میری بولتی بند ہو‬


‫کر بوکی وہ جا گری۔ گھر آکر شیشہ دیکھا‘ ہمارے گھر میں‬ ‫آئینہ نہیں شیشہ ہوا کرتاتھا چہرے پر چب شب تو نہ تھے البتہ‬ ‫پہناوا غربا کی بستی والوں کا تھا۔ اندریں حاالت باال ان کا کہا‬ ‫غلط نہ تھا۔‬ ‫مجھے مہمانوں کا انتظار تھا۔ کیسے مہمان تھے یہ بھی بازار‬ ‫سے کھا پی کر آگیے۔ اگلے وقتوں میں مہمان دو دن کی بھوک‬ ‫رکھ کر آتے تھے اور جانے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔ زہرہ اور‬ ‫عمران مجھ سے ملے۔ بڑی حیرت ہوئی برقعہ میں۔ چند لمحوں‬ ‫کے بعد ہی وہ ہم اگلے زمانوں کے لوگوں سے گھل مل گیے۔ کیا‬ ‫شایستگی کیا سلیقہ کی یہ لڑکی ہے۔ بولتی ہے تو منہ سے گالب‬ ‫جھڑتے ہیں۔ میں تو میں‘ میری بیٹی ارحا اور بیگم اسی کے ہو‬ ‫گیے۔ اجنبیت اور غیریت کا احساس تک نہ رہا۔ بال کی ذہین و‬ ‫فطین ہے یہ لڑکی بھی۔ ہم تینوں کا دل ہی لے گئی۔ وہ مجھے‬ ‫اپنی بیٹی ارحا سے رتی بھر کم نہ لگی۔ بیٹیوں کے خاوند‬ ‫بیٹیوں سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں۔ عمران صاحب بھی بڑے ہی‬ ‫پیارے لگے۔ باتیں ہوتی رہیں۔ پھر ہمارا مزار کمال چشتی جانے‬ ‫کا اتفاق ہوا۔ بڑا اچھا لگا میں دو بیٹیوں ایک داماد کے ساتھ‬ ‫گھومنے کے لیے نکلے ۔ میرا منہ بوال بیٹا فاروق بھی میرے‬ ‫ساتھ تھا۔‬


‫بے تکلفی اجازت دیتی تھی کہ رات رہنے کو کہوں لیکن بچوں‬ ‫کے حوالہ سے وہ رات ہمارے ہاں نہیں گزار سکتے تھے۔ بادل‬ ‫نخواستہ انھیں رخصت کرنا ہی پڑا۔‬ ‫بیگم صاحب تو ساتھ تھیں ہی۔ بڑی ٹوہری عورت تھی بس وقت‬ ‫اور حاالت نے مجھ سے تھوڑ پونجیے کے ساتھ چلنے پر‬ ‫مجبور کر دیا ہے۔ زہرہ بٹیا نے ایسا کمال دیکھایا کہ اس کے‬ ‫آنے سے پہلے کی صورت حال یاد تک نہ رہی۔ وہ لمحہ تو وہ‬ ‫لمحہ اب تک یاد نہیں۔ دل میرا بھی کرتا اور چاہتا ہے کہ دونوں‬ ‫میاں بیوی دوبارہ سے اور اس کے بعد بار بار آتے رہیں لیکن‬ ‫کیا کریں زندگی کی تیز رفتاری نے مالقاتوں کے لمحے ہی‬ ‫چھین لیے ہیں۔ کل بیگم کہہ رہی تھیں زہرہ اور عمران سے کہو‬ ‫ایکبار آ کر مل جائیں۔ میں نے جوابا کہا زہرہ بٹیا میری اور‬ ‫تمہاری طرح فارغ نہیں ہیں انہیں اس آنے جانے کے عالوہ بھی‬ ‫بہت سے کام ہوں گے۔ ارحا تو زہرہ آپی کی ماال جپتی رہتی ہے۔‬ ‫امید پر دنیا قائم ہے مجھے یقین ہے ایک دن ایسا ضرور آئےگا‬ ‫جب دروازہ کھلے گا کیا دیکھوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زہرہ اور عمران‬ ‫مجھے کہیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہیلو بابا۔‬


‫صیغہ ہم اور غالب نوازی‬

‫صیغہ ہم جمع کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ نواب‘ بادشاہ‘ بادشاہ‬ ‫نما اور اقتداری طبقہ سے متعلق لوگ اپنے لیے استعمال کرتے‬ ‫ہیں۔ مخاطب کا اپنے سے بلند مرتبہ والے کے لیے یا بطور‬ ‫تکیہء کالم واحد کے لیے آپ وہ ان‬ ‫انہوں کا استعمال رواج عام رکھتا ہے تاہم فرد واحد جب خود‬ ‫کے لیے ہم کا صیغہ استعمال کرتا ہے تو یہ احساس تفاخر اور‬ ‫تکبر میں آتا ہے۔‬ ‫پنجاب میں عوامی اور عمومی سطع پر فرد واحد کے لیے ہم‬ ‫رواج نہیں رکھتا۔ اگر کوئی استعمال کرتا ہے تو اوپرا سا اور‬ ‫معیوب سا لگتا ہے۔ اقتداری‘ نوابی اور بادشاہ لوگ جب یہ‬ ‫صیغہ استعمال کرتے ہیں تو اوپرا اور معیوب نہیں سمجھا جاتا۔‬ ‫ہاں ہم کا سامع سہما سہما اور کانپا کانپا ضرور ہوتا ہے۔ یہ‬ ‫صیغہ مخاطب پر احساس کہتری کے دورے ڈالنے اور پڑنے‬ ‫میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ صیغہ ہم کا استعمال کرنے والوں‬


‫کا لب و لہجہ ہم کا عکاس ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے شہنشاہ اکبر‘‬ ‫جو اکبر اعظم کے عرف سے معروف ہے‘ کچھ فرما رہا ہو۔‬ ‫بعض اوقات اس کا فرمانا دین الہی سے ماخوز لگتا ہے۔‬ ‫پردھان منشی کے مکین صیغہ ہم کا بہت کم اور کبھی کبھار‬ ‫استعمال کرتے ہیں ہاں ان کا کردار ہم کا استعمال کرنے والوں‬ ‫سے زیادہ جارحاانہ ہوتا ہے حاالنکہ اختیارات وغیرہ کے حوالہ‬ ‫سے ہم والوں سے بڑھ کر بلکہ کہیں بڑھ کر ہوتے ہیں۔‬ ‫اصل ستم کی بات تو یہ ہے ہر دو یعنی ہم اور ہم نما سے متعلق‬ ‫لوگوں کو اہل دانش اہل علم اور اہل قلم سمجھا جاتا ہے۔ ٹانی‬ ‫الذکر اہل قلم ہونے حوالہ سے خوف اور ہراس کی عالمت‬ ‫ہوتے ہیں۔ جو بھی سہی ہم اور ہم نما ہماری سوساءٹی میں پکا‬ ‫پیڈا وجود رکھتے ہیں۔ پیڈا کو مضبوط اور پیڈا کے معنوں میں‬ ‫لیا جا سکتا ہے۔ پیڈا کی کیا اتھارٹی ہے‘ اس کا احوال ان سے‬ ‫دریافت کیا جا سکتا ہے جن پر یہ خدانخواستہ فٹ ہو چکا ہے۔‬ ‫میرے نزدیک ان کو باالتر اور صاحب تکبر مخلوق تسلیم کر‬ ‫لینے میں کوئی برائی اور مبالغہ نہیں۔ انھیں اہل علم اور اہل علم‬ ‫کہنے میں بھی حرج والی کوئی بات نہیں ہاں البتہ دل سے تسلیم‬


‫کرنا ظلم زیادتی اور کھال اندھیر ہے۔‬ ‫تکبر اور علم کا کوئی تعلق ہی نہیں۔ یہ دو الگ سے رستے‬ ‫ہیں۔ جہاں تکبر ہو گا وہاں علم نہیں ہو گا اور جہاں علم ہو گا‬ ‫وہاں تکبر نہیں ہو گا۔ علم عجز اور انکساری کی طرف لے جاتا‬ ‫ہے۔ علم تقوے کی گرانقدر نعمت سے سرفراز کرتا ہے۔ تکبر‬ ‫شخص کو انسان نہیں رہنے دیتا۔ تکبر کے باطن میں خدا ہونے‬ ‫کے جراثیم موجود ہوتے ہیں۔ علم کے باطن میں هللا کا عاجز‬ ‫بندہ ہونے کا ارمان کروٹیں لیتا ہے۔ یہ میں ناہیں سبھ توں کی‬ ‫طرف لے جاتا ہے۔ تکبر کوئ ناہیں سبھ میں کی طرف لے جاتا‬ ‫ہے۔‬ ‫ناصر زیدی ہم والوں میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ تحریروں میں بھی‬ ‫ہم کو پس پشت نہیں ڈالتے۔ وہ حقیقت کا گال گھونٹ نہیں دبا‬ ‫سکتے ہھی ہیں لیکن ہم پر آنچ نہیں آنے دیتے۔ وہ ہم کا‬ ‫استغمال کرنے کا حق بھی رکھتے ہیں۔ وہ الٹ ہاؤس کے قلم‬ ‫سے پاکستان میں کالم لکھتے ہیں۔ الٹ ہاؤس میں اج بھی‬ ‫بےشمار جونئیر ساتھی ہوں گے۔ الٹی قلم نے میڈیا میں ان کے‬ ‫ہم کی دھاک بٹھا دی ہے۔ عام لوگوں کی کیا بات کرنا ہے وہ‬ ‫وچارے تھے اور وچارے ہیں الٹی اور اقتداری بھی ان کےقلم‬ ‫کی مار سے خوف زدہ ہیں۔‬


‫میں اہل علم میں نہ اہل دانش میں ہوں اس لیے روٹی کو زندگی‬ ‫کے لیے ضروری خیال کرتا ہوں تاہم زندگی کو روٹی کے لیے‬ ‫نہیں سمجھتا۔ مجھے ایک مولوی صاحب یاد آگءے۔ حج پر‬ ‫جانے سے پہلے ایک درویش کے پاس گیے۔ سالم کیا اور فخر‬ ‫سے بتایا حج پر جا رہا ہوں۔ درویش نے پوچھا حضرت دین کے‬ ‫بناء کتنے ہیں۔ انہوں نے بتایا کلمہ نماز روز حج زکوات۔‬ ‫درویش نے کہا روٹی کو چھوڑ رہے ہیں۔ مولوی صاحب نے‬ ‫کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ توبہ کہا اور اٹھ گیے۔ اتفاق سے حج‬ ‫سے واپسی پر بحری جہاز تباہ ہو گیا اور یہ ایک لکڑی کے‬ ‫تختے پر بیٹھ کر ایک جزیرے میں جا پھنسے۔ وہاں نہ بندہ نہ‬ ‫بندے کی ذات۔ بھوک نے سخت پریشان کیا۔ اچانک ایک بابا‬ ‫روٹی خرید لو کا آوازہ لگاتا گزرا۔ مولوی صاحب نے انھیں بالیا‬ ‫اور روٹی دینے کی استدعا کی۔ بابے نے قیمت طلب کی۔ انھوں‬ ‫نے کہا میرے پاس دام نہیں ہیں۔ بابے نے کہا کچھ تو ہو گا۔‬ ‫انھوں نے کہا میرے پاس کلمہ نماز روز حج زکوات ہے۔ بابے‬ ‫نے نماز لکھوا لی اور روٹی دے دی۔ اگلی بار روزہ پھر حج‬ ‫اسی طرح زکوات بھی لکھوا لی۔ دریں اثنا ایک جہاز ادھر سے‬ ‫گزرا وہ کسی ناکسی طرح اس پر سوار ہو کر وطن آ گے۔‬ ‫ملنے مالنے اور پرتکلف دعوتوں سے فراغت کے بعد اس‬


‫درویش کے پاس گیے۔ دعا سالم اور احوال پوچھنے کے بعد‬ ‫درویش نے دین کے بناء پوچھے۔ مولوی صاحب نے روٹی کو‬ ‫پھر گول کر دیا۔ درویش نے روٹی کا ذکر کیا تو مولوی صاحب‬ ‫حسب سابق توبہ توبہ پر اتر آئے۔ درویش نے دستخط شدہ کاغذ‬ ‫ان کے سامنے رکھ دیا۔ اگر دیکھا جاءے روٹی زندگی میں‬ ‫بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اہل تقوی کا جینا بھی اس سے منسلک‬ ‫ہے۔ روٹی نہ ملنے کی صورت میں منفی سوچ کے دروازے کھل‬ ‫جاتے ہیں۔‬ ‫اگر ہم کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ حقیقت پوشیدہ نہیں‬ ‫رہے گی کہ ناصر زیدی موجودہ اور سابقہ کے حوالہ سے بڑے‬ ‫بااختیار ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ الٹ ہاؤس واال قلم ان کے‬ ‫عزت مآب ہاتھ میں ہے۔ میں عرصہ دراز سے سیکڑیری ہائر‬ ‫ایجوکیشن کی خدمت میں اپنے ایم فل االؤنس کے لیے‬ ‫درخواستیں گزار رہا ہوں۔ اب تو مجھے درخواستوں کی تعداد‬ ‫بھی یاد نہیں رہی۔ رقم ملنا تو دور کی بات ان کی جانب سے‬ ‫واپسی جواب تک موصول نہیں ہوا۔ یہی حال پنجاب سرونٹس‬ ‫ہاؤسنگ فاؤنڈیشن الہور والوں کا ہے۔‬ ‫انھوں نے تحریری طور پر کہا ہے کہ وہ میری کتاب کی اعزازی‬ ‫پروف ریڈنگ کے لیے تیار ہیں۔ اس خدمت کو سردست چھوڑیں۔‬


‫مجھے اپنا اثر رسوخ اور ہم کا جاءز استعمال کرتے ہوئے ہر دو‬ ‫محکموں سے میری ہی رقم دلوا دیں تاکہ میں ان سے کتاب کی‬ ‫اعزازی پروف ریڈنگ کروا کر دوبارہ سے کتاب شائع کرنے کی‬ ‫سعادت حاصل کر سکوں۔ مجھے یقین ہے کہ میرا حق دالنے‬ ‫میں صیغہ ہم مثبت کردار ادا کرکے ناصرف گریب پروری کر‬ ‫سکتا ہے بلکہ غالب نوازی کا اعزاز بھی حاصل کر سکتا ہے۔‬

‫ایک دفع کا ذکر ہے‬

‫ایک دفع کا ذکر ہے' تاہم باور رہے اس دفع کا تعلق زمانہ قبل از‬ ‫مسیح سے نہیں' یہی کوئی چار چھے ماہ پہلے کی بات ہے۔ میں‬ ‫حکیم صاحب سے شفائی پڑیاں لے کر' سڑک کے بالکل نکرے‬ ‫لگا واپس گھر آ رہا تھا۔‬ ‫اگرچہ گھر والوں کو' عمر رسیدگی کے سبب میری خاص یا عام‬ ‫ضرورت نہ تھی' اس کے باوجود رواجا اور عادت کے ہاتھوں‬ ‫مجبور' آ رہا تھا۔ نہ آتا تب برا آتا تب سیاپا۔ جو بھی سہی' ایک‬


‫مدت سے گھر میرا آنا جانا تھا۔ یا یوں سمجھ لیں' گھر آنا میری‬ ‫فطرت ثانیہ بن چکی تھی۔ فطرت ثانیہ کو' عادت سے مجبور‬ ‫بھی کہا جاتا ہے۔‬ ‫ہر کوئی خوب خوب جانتا ہے' سگریٹ انتہائی خطرناک ہے' اس‬ ‫کے باوجود پیتا ہے۔ اپنی اصل میں' یہ ہی فطرت ثانیہ یا عادت‬ ‫سے مجبوری ہے۔ ہر مرتشی جانتا ہے' کہ رشوت خور کو جہنم‬ ‫جانے کی خوش خبری دی گئی ہے۔ یہ محض ڈراوا نہیں پتھر پر‬ ‫لکیر ہے۔ بےشک لکیر ضعف کا ہی سبب نہیں بنتی' بزتی‬ ‫بدنامی سے بھی دو چار کرتی ہے اور ہر چند تعداد میں اضافہ‬ ‫ہی ہوتا چال جاتا ہے۔ سماج میں ابا سے' ماما یعنی ماموں کے‬ ‫عرفی نام سے' اپنی جان پہچان حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا‬ ‫ہے۔ شرمندگی سے زیادہ' اس کار دراز میں فخر محسوس‬ ‫کرکے' غیر متعلق لکیر کی فقیری میں' بڑی دل جمعی اور جان‬ ‫فشانی سے' عمر تمام کر دیتا ہے۔ اسی میں کامیابی اور کامرانی‬ ‫تصور کرتا ہے۔‬ ‫ابھی گھر سے تھوڑا دور ہی تھا کہ پیچھے سے ایک کھوتی‬ ‫ریڑھی واال' بڑی تیزی سے آیا۔ شاید اس کے پیچھے ہلکا کتا یا‬ ‫پولیس پیچھے لگی ہوئی تھی۔ اس کی جلدیوں سے صاف ظاہر‬ ‫ہو رہا تھا کہ ایمرجنسی کا مریض تھا۔ کچھ معامالت واقعتا‬


‫ایمرجنسی میں داخل ہوتے ہیں' کچھ یوں بالتکلف بنا لیے گیے‬ ‫ہوتے ہیں۔ بعض اوقات' ایمرجنسی کی عادت یوں ہی ترکیب پا‬ ‫گئی ہوتی ہے۔ اگر اسے ہولناک قسم کی ایمرجنسی ہوتی' تو اپنی‬ ‫بےسری آواز میں اکرم راہی کا گانا نہ گا رہا ہوتا۔ مجھے‬ ‫بےسری شاید اس لیے لگی کہ بالساز تھی۔‬ ‫خیر جو بھی سہی' اس دفع کا ذکر ہے کہ محتاط روی اختیار‬ ‫کرنے اور نکرے نکرے چلنے کے باوجود' اس نے کھوتی پر‬ ‫تو قابو رکھا' لیکن ریڑھی بےمہار ہونے کے باعث' بڑے‬ ‫کرارے بدذوق انداز میں آ لگی اور میں منہ کے بل وہ جا گرا۔‬ ‫مجھے انسانی ہمدردی اور صلحہء رحمی کے ناتے ریڑھی سے‬ ‫نیچھے قدم رنجہ فرما کر' اٹھانے کی بجائے' یہ کہہ کر بابا‬ ‫ویکھ کے چل' چلتا بنا۔‬ ‫اس بار کے ذکر میں اصل حیرت کی بات یہ تھی کہ اسے روکنے‬ ‫کی بجائے اکرم راہی کے سر میں کہے گیے باوزن جملے‬ ‫بابا ویکھ کے چل‬ ‫پر لوگ کھل کھال کر ہنس پڑے۔ میں ان کی پیروی میں' زہے‬ ‫نصیب ہنس تو نہ سکا' البتہ بےہوش سا ضرور ہو گیا۔ مجھ پر‬ ‫اس جملہ نما مصرعے پر بےہوشی کے ساتھ 'چوٹ بھی آئی‬


‫اور درد بھی اٹھ رہا تھا۔ اس کے بعد کا ذکر ہے' کہ کئی دن‬ ‫بستر لگا رہا۔ خرچہ اٹھا اور حضرت زوجہ ماجدہ کی بڑبڑ اور‬ ‫کڑ کڑ بھی سنتا رہا۔‬ ‫اول آلذکر اور آخرالذکر کوئی نئی چیز نہ تھے۔ یہ دونوں معمول‬ ‫میں داخل تھے۔ آخرالذکر تو میری زندگی میں ہمزاد کی طرح‬ ‫داخل رہے ہیں۔ عزت بچانے اور جان کی امان پانے کے لیے'‬ ‫بیگمی بڑبڑ اور گرجن برسن بہرطور ضروری تھا۔ ضمنا اس‬ ‫سے' تھوڑا پہلے کا ذکر ہے کہ اچانک میرے سینے میں شدت‬ ‫کا درد اٹھا' میں نے بصد احترام اپنی اوپر والی زوجہ ماجدہ کو‬ ‫آواز دی‬ ‫زکراں۔۔۔۔۔ زکراں۔۔۔۔۔۔زکراں‬ ‫کافی دیر بعد سہی' بڑی مہربانی فرماتے ہوئے تشریف و غضب‬ ‫لے کر آ گئی۔‬ ‫گھورتی نظروں کے ساتھ پوچھا‪ :‬کیا ہے' کیوں چیخ و پکار‬ ‫رہے ہو۔‬ ‫سراپا احترام میں غرق آواز کو چیخ و پکار کا نام دے رہی تھی۔‬ ‫خیر میں نے منمناتے ہوئے کہا‪ :‬سینے میں سخت درد اٹھ رہا‬ ‫ہے' لگتا ہے جا ہوں۔‬


‫بس اتنی سی بات پر آوازیں دے رہے تھے۔ میں گھبرا گئی تھی'‬ ‫پتا نہیں کیا ہو گیا ہے۔‬ ‫'میرا خیال تھا کہ کہے گی‬ ‫ہائے میں مر گئی' جائیں آپ کے دشمن۔‬ ‫بہرکیف تکلیف اپنی جگہ میری خوش فہمی کرچی کرچی ہو گئی۔‬ ‫پہلے دفع کے ذکر میں ثانی الذکر کا تذکرہ باقی ہے۔ تکلیفیں تو‬ ‫زندگی میں آتی جاتی رہتی ہیں۔ لکشمی ایک بار ہاتھ سے نکل‬ ‫جائے' تو پھر دوسری بار بڑے نصیب محنت' مشقت اور گراں‬ ‫قدر ہیرا پھیری سے ہاتھ لگتی ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ‬ ‫حضرت بےغم صاحبہ کو' میری ہی جھڑی ہوئی ناچیز رقم'‬ ‫میرے عالج معالجے پر خرچ کرنا پڑی۔ تاہم اس بار اس کی توپ‬ ‫کا دھانہ میری طرف ہی نہ رہا۔ کھوتی ریڑھی والے کا اٹھتی‬ ‫بیٹھتی خصوصا' دوا دارو کے حوالہ سے جھڑتی ناصرف‬ ‫بےحجاب گالیاں بکتی بلکہ بدعائیں بھی دیتی۔ اس پر مجھے‬ ‫رائی بھر افسوس نہ ہوتا۔ پتا نہیں بدعاؤں کے نتیجہ میں اس کا‬ ‫کچھ ہوا یا نہیں' میں اس کی خبر نہیں رکھتا۔ ہاں جب ڈاکٹر کو‬ ‫جھڑنے کے ردعمل میں گالیاں بکتی یا بد دعائیں دیتی تو‬ ‫مجھے بہت برا لگتا۔ ان کا رویہ قصابی سہی ' پھر بھی‬ ‫غیرفطری انداز میں کسی حد تک گراں وصولی کے ساتھ‬


‫مریضوں کے کام تو آتے ہیں۔‬ ‫میرے' سب کے هللا کا ہر کرنا پرحکمت' پرعدل' برحق' برموقع'‬ ‫ہر قسم کی کجی خامی سے باالتر' بے مشاورت' بال تعاون اور‬ ‫آلودگی و آالئش سے پاک ہوتا ہے۔‬ ‫اس اٹل حقیقت کے باوجود' میں سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ هللا‬ ‫نے گریب اور کم زور طبقے کو' پیچھے دیکھنے کی شکتی‬ ‫کیوں عطا نہیں فرمائی۔‬ ‫مقتدرہ اور ان کے دور نزدیک کےگمشتگان کو' اس کی‬ ‫ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ پیچھے پیچھے چلتے' بڑی باریک بینی‬ ‫سے دیکھنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ خیر ان کے آگے چلنے‬ ‫والے الٹھی بردار' لوگوں کو پیچھے دیکھ کر چلنے کی دعوت‬ ‫دیتے آئے ہیں۔ دائیں بائیں چلنے والے' ان کے قریب نہ جانے‬ ‫کی' باذریعہ الٹھی' دعوت دیتے آ رہے ہیں۔ آج یہ رویہ کچھ نیا‬ ‫نہیں ہمیشہ کا ہے۔ جب بادشاہ کی بگی گزرتی' الٹھ بردار دائیں‬ ‫بائیں اورسٹرک پر چلنے والوں کے خوب پاسے سیکتے۔ یہ‬ ‫کھال درس ہوتا' کہ شاہ اور اس کے دور نزدیک کے جھولی‬ ‫چھولی چکوں کے قریب جانے سے پرہیز رکھو۔‬


‫اس کھلی وراننگ اور الڑٹ کے باوجود' لوگ بڑے بےاثرے اور‬ ‫ڈھیٹ رہے ہیں۔ ان کی مثل ایسی رہی ہے۔‬ ‫پلے نئیں دھیال کر دی پھرے میلہ میلہ‬ ‫جب جیب خالی ہے' تو پرائیویٹ ڈاکٹروں اور سرکاری ہسپتالوں‬ ‫میں کیا لینے جاتے ہو۔ 'موت کا ایک دن معین ہے' سب جانتے‬ ‫ہیں' اس کے باوجود پرخراٹا نیند سوتے ہیں اور صبح اٹھ کر' یا‬ ‫بےایمانی تیرا آسرا' کہہ کر کام پر روانہ ہو جاتے ہیں۔ بیمار کو'‬ ‫زندگی میں پہلی بار' بیماری نہیں ہوتی' جو فکرمندی سے کام‬ ‫لیا جائے۔ سانیس باقی ہوئیں تو اسے کچھ نہیں ہو گا۔ اتنے تردد‬ ‫کی ضرورت کیا ہے۔ دوسرا ڈاکٹر فیس رکھوائی اور ٹسٹ‬ ‫لکھائی کے سوا' جانتے ہی کیا ہیں۔ اس سے تین فائدے ہوں‬ ‫گے۔‬ ‫فضول خرچی نہ ہو سکے گی اور وہی رقم' گھر کے کسی‬ ‫دوسرے رفاعی کام میں' صرف ہو سکے گی۔‬ ‫جب مریض مرے گا' دیکھا جائے گا' کامے تسلی سے' اپنے‬ ‫اپنے کام پر جا سکیں گے۔‬ ‫مریض گھر پر' بڑی تسلی سے' اپنی آئی پر' اپنے بستر پر دم‬ ‫‪.‬توڑے گا‬


‫شاہ اپنی عیش کوشی اور تاج محل سازی کے لیے' بےمعنی اور‬ ‫بےمعنی ٹیکس وصول کرتے ہیں' تو واپڈا' ٹیلی فون' اکاؤنٹ‬ ‫آفس' نادرہ والے وغیرہ کس حساب میں' مفتوں کے کیوں کام‬ ‫کریں۔ اعلی شکشا منشی اور اس سے متعلق وصولی گاہوں نے'‬ ‫کمال کی انھی مچا رکھی ہے۔ کوئی کام ہو یا کسی حق کی‬ ‫وصولی کا معاملہ ہو'تو صبر شکر سے کام لیں۔ آخر یہ صبر‬ ‫شکر ہوتے کس لیے ہیں۔ میں بھی ایسی حماقتیں کرتا رہا ہوں۔‬ ‫مجھے ناکامی نامرادی اور خطرناک چپ کے سوا' کچھ ہاتھ نہیں‬ ‫لگا۔ اپنے ایم فل کے االؤنس کے لیے ‪ 0661‬سے درخواست‬ ‫بازی کرتا آ رہا ہوں۔ جواب میں خوفناک چپ کے سوا کچھ ہاتھ‬ ‫نہیں لگا۔ اب میں نے بھی غصہ میں آ کر' پکی پکی چپ وٹ لی‬ ‫ہے۔ نئیں تے ناسہی۔‬ ‫انھیں اپنے موجود یا سابقہ کارکنوں کی پرواہ نہیں' تو میں ان‬ ‫کے کیوں قدم لیتا رہوں۔ ایک سوچ یہ بھی آتی ہے' کہ بار بار‬ ‫ان کے بیش بہا جوتے چھونے سے' گربت' عسرت' بےچارگی'‬ ‫بےبسی اور میں میں' کی آلودگی منتقل تو ہو گی ہی۔ بےشک یہ‬ ‫معاملہ سوچن ایبل ہے۔‬ ‫ایک دفع کے ذکر کے حوالہ سے' ایک بات ذہن میں آتی ہے'‬ ‫اگر مقتدرہ طبقہ حکم جاری کر دے' کہ ہر چھوٹی بڑی گاڑی‬


‫خصوصا ریڑھی والے' چار نہیں تو دو مالزم رکھے' جو آگے‬ ‫آگے چل کر لوگوں کو پیچھے کے احوال سے آگاہ کرتے جائیں۔‬ ‫اس سے' ان کے ایک طبقہ کی مٹھی گرم ہوتی رہے گی۔‬ ‫بےروزگاروں کو روزگار مل جائے گا۔ بےگناہ' کوسنوں اور‬ ‫بےنکاحی گالیوں سے بچ جائیں گے۔‬

‫الیکشن کی تاریخ بڑھانے کی پرزور اپیل‬

‫بخدمت جنابہ حکومت صاحبہ‬ ‫عنوان‪ :‬درخواست بسلسلہ الیکشن کی تاریخ بڑھانے اور متواتر‬ ‫بڑھاتے رہنے‬ ‫جناب عالیہ‬


‫بندہءناچیز بصد احترام و احتشام عرض گزار ہے کہ‬ ‫ملک اور اس کے عوام' پرکھٹن حاالت سے گزار رہے ہیں۔‬ ‫موجودہ صورت حال کے پیش نظر' الیکشنوں کا اہتمام کرکے'‬ ‫ہر دو پر بہت بڑا احسان کیا گیا ہے۔ وقتی سہی' ان کی بھوک‬ ‫اور عزت و احترام کے مسائل حل ہوئے ہیں۔ ان میں اپنے ہونے‬ ‫کا احساس جاگ رہا ہے۔ بڑے لوگ' جب چھوٹے' مالی ضعفوں'‬ ‫بےسفارشی اور سماجی حیثیتی کم زوروں کے گھر دستک دے‬ ‫کر' ووٹ کی بھیک مانگتے ہیں' تو ان میں سربکس ٹی سے‬ ‫بڑھ کر' توانائی اترتی ہے۔ توانائی بالشبہ شگفتگی کے ساتھ‬ ‫ساتھ' چستی بھی پیدا کرتی ہے اور موڈ کو سٹ رکھنے میں‬ ‫مثبت کردار ادا کرتی ہے۔‬ ‫جناب واال‬ ‫کسی پوسٹ پر آئے امیدوار سے' انٹرویو میں سوال کیا گیا‪:‬‬ ‫سلیکٹ ہو جانے کی صورت میں' ملک کی خدمت کرو گے۔‬ ‫اس نے جوابا کہا‪ :‬بالکل نہیں‬ ‫انٹرویو لینے والے کو اس جواب پر بڑی حیرانی ہوئی۔ جواب‬


‫بالشبہ بڑا کھردرا اور بےمروت سا تھا۔ اس نے کامل حیرانی‬ ‫سے پوچھا‪ :‬یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔‬ ‫اس نے جواب میں کہا‪ :‬مجھ سے پہلوں نے کچھ کیا' یقینا نہیں۔‬ ‫کچھ وقت پاس کرتے رہے' کچھ نے لوٹ سیل لگائی۔‬ ‫پھر پوچھا گیا‪ :‬آپ ان میں سے کون سا طور اختیار کریں گے۔‬ ‫صاف ظاہر ہے' شریف آدمی ہوں' سیل ہلکی پھلکی رکھوں گا'‬ ‫ہاں زیادہ تر وقت پاس کروں گا۔‬ ‫جناب واال‬ ‫آج تک منتخبہ ممبروں نے' ملک کی جو خدمت کی ہے یا کر‬ ‫رہے ہیں' پر مثبت یا منفی گفت گو کرنے کی ضرورت نہیں' روز‬ ‫سیاہ کی طرح سیاہ ہے' کہ انہوں نے لوٹ سیل مچانے کے سوا‬ ‫کچھ نہیں کیا۔ اس پر طرہ یہ کہ کچھ بھی نہیں کرنے کا' پروگرام‬ ‫اور ایجنڈا رکھتے ہیں۔‬ ‫جناب واال‬


‫میڈیا مال پانی لگانے والوں کی' عیب پوشی میں کوئی دقیقہ اٹھا‬ ‫نہیں رکھتا' ہاں ان کے ناکردہ کارناموں کو' خوب اچھالتا ہےاور‬ ‫بےجھڑیوں کی خوب خوب مٹی پلید کرتا ہے۔ جھڑیوں کے‬ ‫کھیسہ میں' ہر اچھا ناکردہ ڈال دیتا ہے۔ تیز رفتار اور اعلی‬ ‫کارگزار میڈیا ہوتے ہوئے' شاہوں کی اچھائی اور برائی معلوم‬ ‫کی حدود سے باہر ہے۔ اپنے طور پر لوگ انٹرنیٹ پر کچھ ناکچھ‬ ‫رکھتے رہتے ہیں۔‬ ‫جناب واال‬ ‫ایک نائب قاصد کی رکھوائی کے لیے' سو طرح کی شرائط اور‬ ‫باتصویر قائداعظم کے' اصلی کاغذات کی ضرورت ہوتی ہے۔‬ ‫زبانی کہنا' سفارش کے کھاتے میں نہیں آتا۔ اب زبان بےوقار ہو‬ ‫گئی ہے۔ یہ ہی ایک کام رہ گیا ہے' جس میں ہاتھ حرکت کرتے‬ ‫ہیں' ورنہ ہر کام اور معاملہ میں غیرمتحرک ہو گیے ہیں۔ زبان‬ ‫کا کام' جوان جہان گلی گلی میں پھرتے' ان گنت فقیروں تک‬ ‫محدود ہو گیا ہے۔ درسوں کے چھوٹے بچے گلی گلی چندے کے‬ ‫لیے پھرتے ہیں۔ وہ منتی اور سماجتی انداز میں' جب زبان سے‬ ‫چندے کے لیے کہتے ہیں' تو دل بھر آتا ہے۔ خیر وعدے بازی‬ ‫اور بیان درازی کے لیے' لیڈر زبان ہی کا استعمال کرتے ہیں۔ ان‬ ‫امیدوران کو اس قماش کی سو طرح کی شرائط سے' استثناء‬


‫حاصل ہوتا ہے۔‬ ‫جناب واال‬ ‫جن کی معاشرے میں کوئی اوقات نہیں' یہ امیدوران ان کے‬ ‫بےدر اور غیر محفوظ گربت کدوں پر' بڑی اپنائیت اور مصنوعی‬ ‫خلوص کے ساتھ' حاضری دے کر انہیں ووٹ دینے کی استدعا‬ ‫کرتے ہیں۔ راہ گزرتے ہاتھ اٹھا کر' سالم کرتے ہیں۔ گویا اسالم‬ ‫کا نفاذ پورے زوروں پر ہے۔ اگر یہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے'‬ ‫تو ناصرف اسالم کا نفاذ ہوتا رہے گا' بل کہ خلوص اور باہمی‬ ‫احترام کی فضا پیدا ہوتی رہے گی۔ گلی گلی محمود وایاز ایک‬ ‫ساتھ کھڑے نظر آئیں گے۔ انیچ نیچ' رنگ نسل' عالقہ' زبان‬ ‫وغیرہ کی تفریقات دم توڑ دیں گی۔‬ ‫جناب واال‬ ‫امیدوار ممبران کے ڈیرے' حاتم کدے بن گیے ہیں۔ آنے جانے‬ ‫والوں کی' بڑے اہتمام سے تواضح کی جاتی ہے۔ اگر ڈیڑے پر‬ ‫معمولی سی بھی' کوتاہی نظر آتی ہے' تو لوگ دوسرے ڈیرے کا‬


‫رستہ لیتے ہیں۔ کچھ' اپنے بچوں کو بھی ساتھ لے جانا نہیں‬ ‫بھولتے۔ بےروزگاروں کو روزگار میسر آ گیا ہے۔ ٹی سی گاروں‬ ‫کی تو چاندی ہو گئی ہے۔ سونا اس لیے نہیں کہا' کہ اس کا تعلق‬ ‫بڑے الیکشنوں سے ہے۔‬ ‫جناب واال‬ ‫الیکشن مہم ختم ہو جانے کے بعد' ان میں سے کچھ باقی نہیں‬ ‫رہے گا۔ یہ سیری کا شیش محل' ویرانے میں بدل جائے گا۔‬ ‫عزت و احترام کی فضا' دم توڑ دے گی۔ نفاذ اسالم کی فضاؤں‬ ‫میں' جالل و تمکنت کا بارود بھر جائے گا۔ ایسے حاالت میں'‬ ‫وقت کا تقاضا یہی ہے کہ الیکشنوں کی تاریخ' بار بار ناسہی'‬ ‫دوچار بار تو اگلی تاریخوں میں منتقل کی جائے۔ ہاں جب بڑے‬ ‫الیکشن آئیں گے' تو اس عمل کا' المتناہی سلسلہ شروع کر دیا‬ ‫جائے۔ اس طرح گریبوں کی جیب پھاڑ کر' ڈکارنے کے لیے‬ ‫سیفوں میں رکھا گیا پیسہ' لوگوں کی صدیوں کی بھوک پیاس‬ ‫مٹانے کے کام آ سکے گا۔ ساتوں چہلموں پر میسر کھانا' محدود‬ ‫نوعیت اور محدود لوگوں کے کام آتا ہے۔ عید قربان کا گئوشط‬ ‫اپنوں میں' یا بڑوں کو چڑھاوا چڑھ جاتا ہے۔ اس لیے گریبوں‬ ‫کے مقدر میں' نہیں یا چھچھڑے آتے ہیں۔ گویا اس دن بھی'‬ ‫انہیں بھوک سے چھٹکارا حاصل نہیں ہو پاتا۔‬


‫جناب واال‬ ‫اندریں حاالت باال استدعا ہے کہ وقتی طور پر سہی‬ ‫انسانی تفریق و امتیاز کی فضا ختم کرنے کے لیے‬ ‫باہمی عزت و احترام قائم کرنے کے لیے‬ ‫جھوٹے وعدے اور بہالوے سننے کے لیے‬ ‫اسالم کے نفاذ یا اسالمی ماحول کے قیام کے لیے‬ ‫بھوک پیاس کے خاتمے کے لیے‬ ‫بار بار ناسہی' دوچار بار الیکشنوں کی تاریخ تبدیل کی جاتی‬ ‫رہے۔ آپ کی یہ عنایت' قوم کے لیے' بہت بڑا تحفہ ہو گا۔ آپ‬ ‫کے اس عظیم اور دانش مندانہ فیصلے کو' چوری خور مورکھ'‬ ‫زعفرانی سیاہی سے' رقم کرے گا۔ بھوکے پیاسے لوگ' آپ کو‬ ‫دعائیں دیں گے' جس سے آپ کا اقبال مریخ کی بلندیوں کو‬ ‫چھوتا رہے گا۔‬


‫آج مورخہ اکتوبر‪6108 '00‬‬ ‫العارض‬ ‫اعلی شکشا منشی کی خدمت گرامی میں' ‪ 0661‬سے گزاری‬ ‫گئی درخواست ہائے ہائے' بسلسلہ ایم فل االؤنس' کے جواب‬ ‫سے مرحوم‬ ‫بےبس وبےکس وچارہ مقصود صفدر علی شاہ‬ ‫ریٹائرڈ ایسوی ایٹ پروفیسر اردو‬

‫بےنکاحی گالیاں اور میری لسانی تحقیق‬

‫بازار چلے جائیے' ہر چیز کی بےشمار سیل بند' یعنی ڈبہ‬


‫پیکنگ' بال ڈبہ پیکنگ ورائیٹیاں میسر آ جائیں گی' اوپن بھی مل‬ ‫جائیں گی۔ ظاہری حسن' چلتا پھرتا بل کہ بھاگتا دوڑتا نظر آئے‬ ‫گا۔ چمک دمک' بناوٹ کا حسن اور پیش کش وغیرہ' انتخاب کو‬ ‫مشکل بنا دے گی۔ آپ کا دل چاہے گا' ہر قسم کی ایک ایک خرید‬ ‫کر لوں۔ بس جیب کے ہاتھوں مار کھا جائیں گے۔ اگر حضرت‬ ‫بےغم حضور ساتھ ہوں گی' تو ایک کی ضرورت ہوتے' شاید‬ ‫نہیں یقینا کئی ایک خریدنے کی ضرورت پیش آ جائے گی۔‬ ‫ضرورت اور تصرف کے' ان گنت اور ان حد بال فی میل' جواز‬ ‫جنم لے لیں گے۔ اکثر آپ کے حوالہ سے' اور آپ کی ضرورت‬ ‫کے تحت جنم لیں گے۔ یہ اس سے قطعی الگ بات ہے' کہ بعد‬ ‫میں ہاتھ لگانا تو دور کی بات' آپ کی بینائی انہیں دیکھنے سے‬ ‫بھی' معذور پڑ جائے گی۔ ان کا زبان پر نام النا بھی' جرم‬ ‫سرمدی بن جائے گا۔ شہادت کی فضیلت کے باوجود' حضرت‬ ‫قبلہ اپنی پیرومرشد بےغم صاحب مداذال اللی کے ہاتھوں' شہادت‬ ‫کا عظیم رتبہ دل وجان سے پانا پسند نہیں کریں گے لیکن ذلت‬ ‫کا دنبہ بن کر' ذبح ہو جائیں گے۔‬ ‫یہ خریدداری' محض ظاہری کمال کی حامل ہوتی ہے۔ اس کے‬ ‫باطن میں' نقائص کی بےشمار خبائثتیں موجود ہوتی ہیں۔‬ ‫خبائثتوں کی عریانی کے بعد' شکائتوں کا المتناہی سلسلہ'‬ ‫شروع ہو جائے گا۔ گھر والی' ہر جا یہ ہی کہے گی' کہ یہ محفل‬


‫میں بات کرنے اور خریداری میں' بالکل صفر ہیں۔ حاالں کہ نہ‬ ‫بولنے دیا گیا ہوتا ہے اور نہ ہی خریاری میں' مشورہ لیا گیا‬ ‫ہوتا ہے' بل کہ آپ کی پسند کی خریداری کی ہی نہیں گئی ہوتی۔‬ ‫آپ کا اگر بس چلتا' تو شاید نہیں' یقینا خریدنے سے سو فی صد‬ ‫اجتناب برتتے۔ سوئے اتفاق' ایک بار بھی انکار کرکے پوری‬ ‫برادری اور عالقہ میں' تھوڑ دل معروف ہو جائیں گے۔‬ ‫بات چیت میں نااہل‬ ‫خریداری میں نکما‬ ‫تھوڑ دل‬ ‫کردار و شخصیت کا جز قرار پا کر' عرف میں داخل ہو جائیں‬ ‫گے' اس لیے انہیں دو نمبر نہیں کہا جائے گا۔ اگر ان میں سے‬ ‫کوئی' عرف میں آنے سے مرحوم ہو جاتا ہے اور کوئی کہتا‬ ‫ہے' تو یہ بالشبہ دو نمبری ہو گی۔ بیگمی مہر ثبت نہ ہونے کے‬ ‫سبب' کوئی معاملہ اپنا وجود رکھتے ہوئے بھی' دو نمبری ہوگا۔‬ ‫پہلی صورت میں نکاحی' جب کہ دوسری صورت میں' بےنکاحی‬ ‫ہو گا۔ نکاحی ہونے کے لیے' معاملے کا عرف میں آنا اور اس‬ ‫پر بیگماتی مہر کا ثبت ہونا' ضروری ہوتا ہے۔‬


‫ہمارے ادھر' ایک ہی نام اور ایک ہی مسلک کے' دو مولوی ہوا‬ ‫کرتے۔ نام اور مسلک کی مماثلت کے باعت' کنفوژن قسم کی‬ ‫چیز پیدا ہو جاتی۔ شناخت کے حوالہ سے' ایک کو مولوی وڈیرا‬ ‫جب کہ دوسرے کو' مولوی چھوٹیرا کہا جانے لگا۔ اتفاق سے'‬ ‫بظاہر بال کسی کرنی کے'مولوی چھوٹیرا حق ہو گیا۔ اگر اس کا‬ ‫کیا' معافی کے الئق ہے' تو هللا اس کو معاف فرمائے' ورنہ هللا‬ ‫کی اپنی مرضی ہے' معاف کرے ناکرے۔ یہ مذہبی لوگ' بڑے‬ ‫معصوم اور بےگناہ سے ہوتے ہیں۔ کھانا' اس کے بعد بھی‬ ‫کھاتے ہیں‪ .‬انسانی تفریق' ان کا محبوب ترین مشغلہ رہا ہے۔‬ ‫اس لیے' هللا انہیں ناہی معاف کرئے' تو اچھا ہے۔‬ ‫مولوی چھوٹیرے کی موت کے بعد' مولوی وڈیڑے کی خوب بن‬ ‫آئی۔ موصوف تھوڑا سا' کافی سے زیادہ فربہ تھے‪ .‬قد کے لحاظ‬ ‫سے' پورے پورے تھے' اس لیے باطور مولوی بٹیرا معروف‬ ‫ہو گیے۔ لوگ ان کا اصل نام بھی بھول گیے۔ اپنے عرفی نام‬ ‫سے' جان پہچان پکڑ گیے۔ هللا جھوٹ نہ بلوائے' یہ نام مولوانی‬ ‫صاحبہ کا دیا ہوا تھا۔ نہ بھی دیا ہوتا' تو بھی عرف میں آنے‬ ‫کے باعث' یہ نکاحی کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر مولوانی صاحبہ‬ ‫کا عطا کردہ تھا' تو سونے پر سہاگے والی بات ہے۔کسی سطح‬ ‫پر دو نمبری کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اس لیے مرکب مولوی‬ ‫وڈیرا ہر لحاظ سے نکاحی کے کھاتا میں جاتا ہے‬


‫ہمارے ادھر' عمر درزی ہوا کرتا تھا۔ بڑا زبردست ہنروند تھا۔‬ ‫اس کا مختلف قماش کے لوگوں سے' سارا دن واسطہ رہتا تھا۔‬ ‫اس کے پاس' تین بینڈ کا ریڈیو تھا۔ گانے شانے بہت کم سنتا'‬ ‫لیکن خبریں اور تبصرے خوب سنتا۔ سنتے ہیں' رات کو سونے‬ ‫سے پہلے' بی بی سی کی خبریں' اس کے بعد جہاں نما شاید یہ‬ ‫ہی نام تھا' ضرور سنتا۔ لوگ اچھا درزی ہونے کی وجہ سے'‬ ‫کپڑے اسی سے سلواتے۔ کپڑے اور ناپ دینے کے بعد'‬ ‫کھسکنے میں خاطر جمع سمجھتے۔ بولتا بڑا تھا۔ جب کبھی'‬ ‫کسی محفل میں آتا' تو لوگ یہ کہتے ہوئے' چلتے بنتے' چلتے‬ ‫ہیں' کتا آ گیا ہے۔ عمردرزی کہنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ اس‬ ‫کی بیوی بھی' اس کی اس عادت سے ناالں تھی۔ یہ الگ بات‬ ‫ہے' کہ اس ذیل میں وہ' اس کی بھی پیو تھی۔ عمر درزی اس‬ ‫کے حضور' کسکتا تک نہ تھا۔‬ ‫کسی کو کتا کہنا' بدتمیزی کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ ہر لحاظ‬ ‫سے' دونمبری زبان میں داخل محسوس ہوتا ہے۔ مگر کیا کیا‬ ‫'جائے‬ ‫‪.‬کتا آ گیا ہے' میں تشبیہ کا تعلق موجود تھا‬ ‫یہ استعارہ عرفی درجے پر فائز ہوگیا تھا۔‬


‫مہر زوجہ پورے پہار کے ساتھ ثبث ہو چکی تھی۔‬ ‫کتے کے اس لقبی نام کو' ان سہ وجوہ کی بنا پر' اس دور کا‬ ‫سفاک ترین شخص' مسٹر چہاڑی بھی بےنکاحیا قرار نہیں دے‬ ‫سکتا تھا۔ اگر قرار دینے کی سوچتا بھی' تو ہفتوں بےنکاحی‬ ‫گالیاں سنتا۔ هللا بخشے پہاگاں کا بولنے کے حوالہ سے' بڑا‬ ‫سٹیمنا اور نام تھا۔ رانی توپ' اس کی سگی خالہ زاد تھی۔‬ ‫سیاست' عمومی تفہیم اور سینس میں' ہیرا پھیری' جھوٹ'‬ ‫وعدوں کا پلندہ' لوٹ مار وغیرہ کے زمرے میں آتی ہے۔‬ ‫سیاست اور ان امور و اصول کا' چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اگر‬ ‫کوئی سیاست دار' ان امور و اصول کی خالف ورزی کرتا ہے' تو‬ ‫دونمبری کا مرتکب ہوتا ہے۔ اگرچہ ایسا ہوتا' کبھی دیکھنے‬ ‫سننے میں نہیں آیا۔ ہاں ایک بات یاد آئی' جھوٹ بولے' تو اس‬ ‫پر سچ کا گمان سا ہو۔ وعدہ کرئے' تو اس طرح کرئے' کہ‬ ‫لوگوں کو اس کی اگلے یا کسی اور موڑ پر ایفائی کا یقین سا ہو‬ ‫جائے۔ غبن اور ہیرا پھیری پکڑ میں آ جاتے ہیں' یا ان کا کسی‬ ‫طبقے کو علم ہو جاتا ہے' تو ایسے شخص کو' شخص کہا جا‬ ‫سکتا ہے' اسے سیاست دار یا سیاست دان نہیں کہا جا سکتا‪ .‬یہ‬ ‫سیاست میں بددیانتی' ہیرا پھیری اور دو نمبری ہو گی۔ گویا ہیرا‬ ‫پھیری' جھوٹ' وعدوں کا پلندہ' لوٹ مار وغیرہ کا' سیاست‬ ‫سے' چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ایسی سیاست کو ہی' نکاحی‬


‫سیاست کہا جائے گا' باصورت دیگر وہ بےنکاحی ہو گی۔‬ ‫ایک تفہیم میں' یہ بات بھی آتی ہے' کہ امور و معامالت کے‬ ‫لیے' سلیقہ اور عالقائی پاسداری درکار ہوتی ہے۔ جیسے ایک‬ ‫پنجابی' کسی اردو اسپیکنگ کو' گالیاں نکال رہا۔ اس میں کوئی‬ ‫شک نہیں' کہ وہ بڑی سنیما سکوپ قسم کی گالیاں تھیں۔ اس‬ ‫سے سننے والوں کو حظ مل رہا تھا۔ اعضائے مردانہ و زنانہ‬ ‫عذاب میں تھے' تاہم اتنی اذیت میں نہ تھے' جتنی عورتوں کی‬ ‫لڑائی میں آ جاتے ہیں۔ گویا وہاں ان پر حاویانہ بدنصیبی نازل ہو‬ ‫جاتی ہے۔‬ ‫درایں اثناء اردو بولنے والے صاحب کہنے لگے' حضرت تمیز‬ ‫سے گالی نکالیے' ورنہ ہم بھی آپ کی ماں بہن کی شان میں‬ ‫‪.‬گستاخی کر بیٹھیں گے‬ ‫اس میں' سوال عالقے کا اٹھتا ہے۔ اگر گالیاں دینے یا بکنے‬ ‫واال پنجابی' اردو بولنے والے صاحب کے' عالقہ میں تھا تو یہ‬ ‫کھلی دو نمبری تھی۔ اسے' ان کے عالقے کا طور' اختیار کرنا‬ ‫چاہیے تھا' جیسے ضمائر کے استعمال میں' میں کر رہا ہوں۔‬ ‫اگر اردو بولنے واال' پنجابی کے عالقہ میں تھا' تو یہ دو نمبری‬


‫نہ تھی۔ اس کے عالقہ میں ہر گالی نکاحی' جب کہ اس کے‬ ‫عالقہ میں بےنکاحی تھی۔‬ ‫مغرب کا اپنا رواج ہے' اس لیے معاملے کو' ان کے اصولوں‬ ‫کے تحت نہیں لیا جا سکتا۔ یہاں نکاح کے' اپنے اطوار ہیں۔‬ ‫فریقین سے' الگ الگ گواہان کی موجودگی میں' قبولیت کے‬ ‫بارے میں پوچھا جاتا ہے۔ ہاں کی صورت میں' وہ ایک دوسرے‬ ‫کے لیے' جائز ہو جاتے ہیں۔ کسی سے' کتنا ہی تعلق پیار ہو'‬ ‫بالنکاح وہ ایک دوسرے کے لیے' دو نمبری ہوں گے۔ اگرچہ‬ ‫دونوں طرح سے' کام اور نتائج ایک سے ہی ہوتے ہیں لیکن‬ ‫جائز اور ناجائز کی حدود' قائم رہتی ہیں۔ پہال طور' عرف عام‬ ‫میں آ کر' ایک مستقل نام کا مستحق ٹھہرتا ہے جب کہ دوسری‬ ‫صورت میں' پوشیدگی ضروری ہوتی ہے' ورنہ عالقہ میں گڈا‬ ‫بندھ جاتا ہے۔ گویا نکاح میں' معاملہ عرف عام میں آ جاتا ہے'‬ ‫اس لیے درست اور جائز قرار پاتا ہے۔‬ ‫میری بیوی مجھے‬ ‫بات چیت میں نااہل‬ ‫خریداری میں نکما‬


‫تھوڑ دل‬ ‫قرار دے دے تو غلط یا دونمبری نہ ہو گی' کیوں کہ سب جانتے‬ ‫ہیں' کہ میں اس کا بندہءناچیز ہوں۔ مالک اپنے بندے کو' کچھ‬ ‫بھی کہہ سکتا ہے یہ اس کا نکاحی استحقاق ہے۔ جس سے‬ ‫معتوب خاوند بھی' انکار نہیں کر سکتا۔ کھوتی ریڑی والے کو‬ ‫میں صرف اتنا جانتا ہوں' کہ کھوتی ریڑی ڈرائیو کرتے اکرام‬ ‫راہی کا گانا گا رہا تھا یا پھر ریڑی کا مارنا مجھے یاد ہے۔ وہ‬ ‫کون تھا کہاں رہتا تھا میں نہیں جانتا۔ میں اسے کس حساب میں'‬ ‫وہ کچھ کیسے کہہ سکتا ہوں جو عرف میں نہیں حاالں کہ میں‬ ‫نے' اسے دیکھا تھا۔ میں اسے زیادہ سے زیادہ بےسرا اور‬ ‫بےمہارا کہہ سکتا ہوں اگرچہ یہ بھی' عرف عام میں نہیں۔ گویا‬ ‫اصوال میں اسے بےسرا اور بےمہارا بھی نہیں کہہ سکتا۔ میری‬ ‫بیوی اگر اسے وہ وہ کچھ کہہ دیتی جو عرف میں نہیں' یہ دو‬ ‫نمری ہو گی ہر دو نمبری بےنکاحی ہوتی ہے۔‬ ‫ساختیات کے مطابق' کوئی تشریح اور معنویت آخری نہیں۔‬ ‫تحقیق کا بھی' یہی اصول اور کلیہ ہے۔ کسی بات کو آخری قرار‬ ‫دینا' مزید کے دروازے بند کرنا ہے۔ اضافہ' کمی اور تردید کا‬ ‫دروازہ' ہمیشہ کھال رہتا ہے۔ بعض اوقات' ماخذ وہ ہی رہتا ہے'‬ ‫لیکن بہتری کی صورتیں نکلتی رہتی ہیں۔ مارکونی کی ایجاد'‬ ‫ریڈیو ہی کو لے لیں۔ لہروں کا نظام وہ ہی ہے' لیکن اس سے‬


‫بہت کچھ تیار کر لیا گیا' کہ حیرت ہوتی ہے۔ اصل دکھ کی بات تو‬ ‫یہ ہے' کہ مادہ کے کھوجی کو بھال دیا گیا ہے۔ خیر جو بھی‬ ‫صورت رہی ہے' اس سے یہ بات ضرور کھلتی ہے کہ تحقیق‬ ‫میں کچھ بھی حرف آخر کے درجے پر فائز نہیں۔ بالکل اسی‬ ‫طرح کسی تشریح و معنویت' یہاں تک کہ ہئیت اور تلفظ کو'‬ ‫آخری ہونے کا درجہ نہیں دیا سکتا۔‬ ‫لفظ اگر متحرک ہیں اور کسی ناکسی حوالے سے مقامی و غیر‬ ‫مقامی والئیتوں میں مہاجرت اختیار کرتے ہیں تو ان کی ہئیت'‬ ‫تلفظ' مکتوبی اشکال' اور معنویت میں بھی' ہرچند تبدیلی آتی‬ ‫رہتی ہے‪ .‬اس تناظر میں' میرا کہا گیا' حرف آخر نہیں۔ مرکب‬ ‫بےنکاحی گالیوں کے اور بہت سے مفاہیم سامنے آتے جائیں‬ ‫گے۔‬

‫احباب اور ادارے آگاہ رہیں‬

‫اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان کو هللا نے بہترین تخلیق‬ ‫فرمایا۔ اسے اگہی کی نعمت سے سرفراز کیا۔ اس میں بےشمار‬


‫شکتیاں رکھ دیں۔ ہر شکتی کے ہر سیل کا کوڈ مقرر کیا اور یہ‬ ‫راز‘ راز میں رکھا۔ اگر اس راز کی آگہی انسان کی اپروچ میں‬ ‫ہوتی تو انسان کی خود انسان کے ہاتھوں کیا کیا ہئیتی صورتیں‬ ‫ہوتیں۔ انسان کیا سے کیا ہو جاتا۔ کائنات کا ہر ذرہ اس کی اپروچ‬ ‫میں رکھ دیا۔ یہی نہیں کیوں اور کیسے کی کھوج کا مادہ بھی‬ ‫اس کی فطرت کا حصہ بنایا تا کہ تخلیق کے ساتھ ساتھ تزئین کا‬ ‫عمل بھی جاری و ساری رہے۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ لیکن اسے‬ ‫محدود بھی کر دیا۔ اپنی موجودہ حالت میں المحدود بھی کہہ لیں‬ ‫تو کوئ حرج نہیں۔ اس کی المحدودیت بھی محدود کر دی۔ وہ‬ ‫نہیں جانتا کہ اسے اگال سانس آئے گا کہ نہیں آئے گا۔ اس طرح‬ ‫ہر ادھورہ کام اگلے انسان پر چھوڑ دیا تاکہ کھوج اور تالش کا‬ ‫عمل کسی سطع پر تعطل کا شکار نہ ہو۔ ضروری نہیں اگال‬ ‫انسان اسی سوچ کے ساتھ اسی طرح کرئے جس طرح کہ پہلے‬ ‫نے کیا تھا۔‬ ‫یہ بھی ممکن ہے انسان اپنی تحقیق مکمل کر چکا ہوتا ہے اور‬ ‫پیش کر چکا ہوتا ہے بہت بعد میں یا پیش کش کے فورا بعد‬ ‫کوئی نیا سراغ مل جاتا ہے اور وہ اپنے کیے ہی کو مسترد‬ ‫کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ پہلی پیش کش‬ ‫کے بطن سے اور بہت سی چیزیں جنم لیتی ہیں۔ مارکونی نے‬ ‫ریڈیو ایجاد کیا۔ آج ریڈیو کے حوالہ سے ان گنت چیزیں وجود‬ ‫میں آئ ہیں۔ میں نے بڑی محنت اور مشقت سے لفظ ہند کی‬ ‫تحقیق کی اور اپنا مقالہ انٹرنیٹ پر پیش کر دیا۔ ازاں بعد ایک‬ ‫دوسرا سراغ مال۔ پہال کام یکسر غارت ہو کر رہ گیا۔ بات کدھر‬


‫کی کدھر نکل گئی۔ اس نئے کام کو۔۔۔۔۔۔اردو ہے جس کا نام۔۔۔۔۔۔‬ ‫کےعنوان سے پیش کیا۔ میرا قطعا دعوی نہیں کہ جو میں نے‬ ‫پیش کیا ہے‘ حرف آخر ہے۔ تحقیق کی حد نہیں کہ معاملہ کہاں‬ ‫سے کہاں پہنچ جاءے۔ میرا کہا کیا سے کیا ہو جائے۔‬ ‫میں کافی سوچ و بچار کے بعد اس نتیجہ پر پنچا ہوں کہ کامل‬ ‫صرف اور صرف هللا کی ذات گرامی ہے اور ہر کاملیت اسی کی‬ ‫طرف پھرتی ہے۔ اگر کوئی دعوی کرتا ہے تو جھوٹ سے کام‬ ‫لیتا ہے۔ انسان اس نوع کے دعوی کے لیے دلیل نہیں رکھتا۔۔‬ ‫انسان کا کہا اور کیا‪ ،‬کبھی اور کسی سطع پر حرف آخر کا درجہ‬ ‫حاصل نہیں کر سکتا۔ اگر وہ ایسا کہتا ہے تو غلط کہتا ہے۔ اگر‬ ‫وہ ایسا سوچتا ہے تو غلط سوچتا ہے۔ اس طرح کا کہنا اور‬ ‫سوچنا نادنی کے سوا کچھ نہیں۔‬ ‫میں نے اپنی کسی تحریر میں کہا تھا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔ ناصر زیدی شاعر‬ ‫اور کالم نگار سے بڑھ کر سچے سچے اور کھرے پروف ریڈر‬ ‫ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے اپنے کہے پر ناز تھا۔ ان کا ‪ ٦٢‬نومبر کا کالم‬ ‫پڑھ کر مجھے اپنے کہے پر شرمندگی ہوئ ہے۔ وہ اس ہنر میں‬ ‫بھی پرفیکث نہیں ہیں۔ خیر وہ تو اچھا ہوا کسی نے ابھی تک ان‬ ‫سے اس ذیل میں خدمات حاصل نہیں کیں ورنہ ان کا کیا جانا تھا‬ ‫کوسنے تو مجھے ملنے تھے۔ میں اس تحریر میں کہی گئ اس‬ ‫بات کو واپس لیتا ہوں۔ اگر اب بھی پروف ریڈنگ کے ضمن میں‬ ‫کوئ ان کی خدمات حاصل کرتا ہے ہر غلط ملط کی ذمےواری‬ ‫خود اس پر عائد ہو گی۔ میرا ذمہ اوش پوش۔‬ ‫غلط معلومات فراہم کرنے پر میں دلی طور پر معذرت خواہ ہوں۔‬


‫احباب اور ادارے آگاہ رہیں۔‬

‫مولوی صاحب کا فتوی اور ایچ ای سی پاکستان‬

‫دو میاں پیوی کسی بات پر بحث پڑے۔ میاں نےغصے میں آ کر‬ ‫اپنی زوجہ محترمہ کو ماں بہن کہہ دیا۔ مسلہ مولوی صاحب کی‬ ‫کورٹ میں آگیا۔ انہوں نے بکرے کی دیگ اور دو سو نان ڈال‬ ‫دیے۔ نئی شادی پر اٹھنے والے خرچے سے یہ کہیں کم تھا۔‬ ‫میاں نے مولوی صاحب کے ڈالے گیے اصولی خرچے میں‬ ‫عافیت سمجھی۔ رات کو میاں بیوی چولہے کے قریب بیٹھے‬ ‫ہوئے تھے۔ بیوی نے اپنی فراست جتاتے ہوئے کہا‬ ‫"اگر تم ماں بہن نہ کہتے تو یہ خرچہ نہ پڑتا۔‬ ‫بات میں سچائی اپنے پورے وجود کے ساتھ موجود تھی۔ میاں‬


‫نےدوبارہ بھڑک کر کہا‬ ‫"توں پیو نوں کیوں چھیڑیا سی‬ ‫بظاہر اس میں ایسی کوئی بات نہیں جس پر بھڑکا جائے بلکہ‬ ‫اس میں میاں کی ہی حماقت نظر آتی ہے۔ اصل معاملہ یہ نہیں‬ ‫جو بظاہر دکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زوجہ محترمہ غلطی میاں‬ ‫کی ثابت‬ ‫کرنا چاہتی تھی۔ گویا اس کی غلطی کے سبب خرچہ پڑا۔ اسے یہ‬ ‫یاد نہ رہا کہ اس نے کوئ ایسی چبویں بات کی ہو گی جس کے‬ ‫ردعمل میں میاں نے ماں بہن کہا ہو گا۔ اگر وہ یہ کہتی حضرت‬ ‫سوری میں نے اشتعال میں آ کر فالں بات کہہ دی جس کے سبب‬ ‫ہمیں دیگ اور نانوں کا خرچہ پڑ گیا۔ بات ختم ہو جاتی۔ وہ‬ ‫دراصل میاں کو سزا دینا چاہتی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ دیگ‬ ‫اور نان کا خرچہ برداشت کر لے گا کیونکہ یہ نئ شادی پر‬ ‫اٹھنے والے خرچے کا عشر عشیر بھی نہیں۔‬ ‫ایچ ای سی پاکستان مندے حال میں ہے۔ اس کی کوئی سننے‬


‫واال نہیں کیونکہ سننے والوں کو اس نے بری طرح ڈسٹرب کیا‬ ‫اب اوپر سے خود کو سچا اور برحق سمجھ رہی ہے۔ مجھے‬ ‫اس کے دو ای میل ملے ہیں وہ ہسمجھ رہی ہے کہ میں اس کے‬ ‫حق میں کچھ لکھوں گا۔ میں پاگل ہوں جو اس کے حق میں قلم‬ ‫اٹھاؤں گا۔ کسی جھوٹے کے لیے قلم اٹھانا جھوٹے کے جھوٹ‬ ‫کی تائید کرنے کے مترادف ہے۔ ادارے تاج وتخت کے غالم‬ ‫ہوتے ہیں اور انہیں تاج وتخت کے غلط معامالت کو تحفظ اور‬ ‫انہیں درست ثابت کرنے کے لیے قیام میں میں الیا گیا ہوتا ہے۔‬ ‫وہ پروفیسر ہیں اور خود کو سچائی کا ٹھیکیدارسمجھتے ہیں‬ ‫حاالنکہ سچائ ان کی گندی سوچ کے برعکس ہے۔ انہیں تنخواہ‬ ‫اس بات کی ملثی ہے کہ وہ تاج والوں کے اشاروں پر رقص‬ ‫کریں۔ انہوں نے حاکم طپقے کی ڈگریوں کو جعلی قرار دیا۔ حاکم‬ ‫طبقہ کبھی جعلی نہیں ہوتا۔ اگر تگڑے غلط قرار پانے لگے تو‬ ‫انہیں تگڑا کون مانے گا۔ ازل سے غلط عضو کمزور رہا ہے۔‬ ‫انہیں کس حکیم نے اتنے ووٹ حاصل کرنے والے لوگوں کی‬ ‫ڈگریاں غلط قرار دینے کو کہا تھا۔ انہیں سیٹوں پر رعایا کی‬ ‫وقت پڑنے پر مرمت کرنے کے لیے عہدے دیے جاتے ہیں۔‬ ‫ڈگری تو بہرصورت ڈگری ہوتی ہے اس میں غلط یا صیح ہونے‬ ‫کا سوال کہاں اٹھتا ہے۔‬ ‫ویسے خود کو تابع فرفان لکھتے ہیں لیکن عملی طور پر خود‬


‫کو باالتر سے بھی باالتر سمجھتے ہیں۔ پانی اوپر سے نیچے آتا‬ ‫ہے‘ نیچے سے اوپر نہیں جاتا۔ جن کی انہوں نے ڈگریاں جعلی‬ ‫قرار دی ہیں جیل نہیں چلے گیے۔ موج میں تھے موج میں ہیں۔‬ ‫اقبال نے کہا تھا‬ ‫موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں‬ ‫اصولی سی بات ہے مچھلی دریا میں زندہ رہ سکتی ہے لہذا وہ‬ ‫دریا سے باہر کیوں آئیں گئے۔ دریا ان کا اپنا ہے۔ اپنوں سے‬ ‫کبھی کوئی جدا ہوا ہے؟‬ ‫ان کے نکالنے کی کوشش سے وہ کیوں نکلیں گے۔ دریا قطرے‬ ‫قطرے سے بنتا ہے۔ ان کے لیے چند قطرے معنویت نہ رکھتے‬ ‫ہوں لیکن دریا کے لیے بڑی معنویت رکھتے ہیں۔‬

‫تیر کمان سے نکل چکا ہےاب کچھ نہیں ہو سکتا ہاں البتہ ایچ‬ ‫ای سی‘ پاکستان دوسرے اداروں کے لیے نشان عبرت ضرور‬ ‫ہے۔ جو بھی چنیدہ اور دریا کے اندر موجود دریا کی ذاتی‬ ‫مخلوق کے خالف قدم اٹھاتا ہے گلیوں کا روڑا کوڑا بھی نہیں رہ‬


‫پاتا۔ ہٹ دھرمی اور ڈھیٹ پنا تو یہ ہے کہ یہ سچ پتر غلطی کو‬ ‫غلطی تسلم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حسین ایک ہی تھا۔ آج‬ ‫کسی کو ریاست کے گناہ گاروں کے لیے اپنے بچے مروانے کی‬ ‫کیا ضرورت پڑی ہے۔ ان کی مدد کے لیے کوئی میدان میں نہیں‬ ‫آئے گا۔ باور رہنا چاہیے سر کا بوجھ سر والے کے پاؤں پر آتا‬ ‫ہے۔‬

‫سیری تک جشن آزادی مبارک ہو‬

‫میں اس امر کا متعدد باراظہار کر چکا ہوں کہ برصغیر دنیا کا‬ ‫بہترین خطہء ارض ہے۔ یہاں کے وسنیک بڑے ہی محنتی اور‬ ‫ذہین ہیں۔ میدان کار زار میں بھی ناقابل یقین کارنامے سر انجام‬ ‫دیتے آئے ہیں۔ سکندر دنیا فتح کرنے چال تھا لیکن راجہ پورس‬ ‫سے پاال پڑا تو اسے نانی یاد آ گئی۔ ٹیپو کا نام لے کر انگریز‬ ‫مائیں اپنے بچوں کو ڈراتی تھیں۔‬ ‫اہل قلم بھی بال کے ذہین اور بے باک رہے ہیں۔ شاعر عالمتوں‬


‫اشاروں میں تلخ حقیقتوں کو کاغذ کے بدن پر اترتے آئے ہیں۔‬ ‫پیٹو مورخ نے؛ اورنگ زیب جو برصغیر کو جہنم میندھکیلنے کا‬ ‫موڈھی ہے‘ نبی کے قریب پنچا دیا ہے۔ رحمان بابا صاحب نے‬ ‫واضع الفاظ میں اس کی کرتوتوں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔‬ ‫بہادر شاہ ظفر نےبڑے ہی رومانوی الفاظ میں اپنے عہد کے‬ ‫کرب کو بیان کر دیا ہے۔ ذرا یہ شعرمالحظہ فرمائیں کتنا کرب‬ ‫پوشیدہ ہے۔‬ ‫چشم قاتل تھی میری دشمن ہمیشہ‘ لیکن جیسی اب ہو گئ قاتل‬ ‫کبھی ایسی تو نہ تھی‬ ‫ذہانت کی پذیرائی تو بڑی دور کی بات‘ ان کی ذہانت کو کبھی‬ ‫تسلیم تک نہیں کیا گیا بلکہ ذہانت کی تذلیل ہی کی گئ ہے۔ ہنر‬ ‫مندوں کے ہاتھ کاٹے گئے ہیں۔ بعض تو جان سے بھی گءے‬ ‫ہیں۔ اس کے برعکس کرسی قریب جھولی چکوں کو نوازا گیا‬ ‫ہے۔ یہی جھولی چک اپنی عیاری کے بل پر کرسی پر شب خون‬ ‫مارتے آئے ہیں۔‬ ‫تاریخ کا مطالعہ کر دیکھیں غداروں اور دھرتی کے نمک‬ ‫حراموں کے سبب بیرونی طالع آزماؤں کے سبب یہ دھرتی‬


‫غیروں کی غالم رہی ہے۔ غیروں نے اس کےوساءل سےموجیں‬ ‫کی ہیں اور خوب پچرے اڑائے ہیں اوراڑا رہے ہیں۔ حاالت‬ ‫بتاتے ہیں کہ یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ یہ غدار اور دھرتی کے‬ ‫نمک حرام لوگوں کی ذہانت کا اسی طرح قیمہ کرتے رہیں گے۔‬ ‫اس ذیل میں خدا کے خوف کی بات کرنا حماقت سے کم نہیں۔‬ ‫خدا‘ خدا کا خوف کھاءیں؟ بادشاہ لوگوں کا شروع سے یہی طور‬ ‫اور وتیرا رہا ہے۔ دور کیا جانا ہے آج کے خدا نما بادشاہوں کو‬ ‫ہی دیکھ لیں کیا کر رہے ہیں۔ شخص ان کے لیے کیڑے مکوڑے‬ ‫سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ اس کی بھوک پیاس سے انہیں‬ ‫کوئ غرض نہیں۔ انھیں تو باتوں اور جھوٹے دعوں کے عوض‬ ‫جنتی اور مفتی کھانا مل رہا ہے۔ ان کی دالل افسر شاہی تو‬ ‫گلچرے اڑا رہی ہے۔ لوگ اندھیروں میں ہیں تو وہ کیا کریں ان‬ ‫کے ہاں تو چانن ہے۔‬ ‫چودہ اگست ہر سال آتا ہے۔ سرکاری اور نجی سطع پر جشن‬ ‫منائے جاتے ہیں۔ سرکاری چھٹی بھی ہوتی ہے۔ میں یہاں کے‬ ‫ذہین لوگوں کی بات کر رہا تھا اس دن کے حوالہ سے میں اس‬ ‫ذہین و فطین شخص کو سالم کرتا ہوں جس نے یہ نعرہ ایجاد‬ ‫کیا‪ -----‬جشن آزادی مبارک ہو‪ ------‬جشن آزادی کی مبارک ہے‬ ‫آزادی کی نہیں۔ نعرہ نے کمال کا ہاتھ دکھا یا ہے۔ وہ جانتا تھا ہم‬ ‫آزاد نہیں‘ آزادی کا سہانا خواب دیکھ رہے ہیں۔ خواب دیکھنے‬


‫اور خوش فہمی میں مبتال رہنے پر کوئی پابندی تو نہیں ورنہ‬ ‫قوم خادم اور حکومتی گماشتوں کی غالم ہے۔ یہ خادم اور‬ ‫حکومتی گماشتے امریکہ کے پیٹھوں کے غالم ہیں۔ کیسی آزادی‬ ‫کہاں ہے آزادی؟‬ ‫جو لوگ منصف کے درپے ہو جاتے ہیں‘ اسے نیچا دکھانے اور‬ ‫اپنا دالل بنانے پر اتر آتے ہیں انھیں هللا ہی اپنی گرفت میں لے‬ ‫سکتا ہے۔ وہ صم بکم عم فاھم ال یرجعون کے درجے پر فائز ہو‬ ‫جاتے ہیں۔ قوم کے حصہ میں فقط جشن آیا ہے سو وہ دھوم‬ ‫سے منا رہی ہے۔ هللا ناکرے آتے سالوں میں بھی صرف جشن‬ ‫پر ہی اکتفا کرے۔‬ ‫میں نے اپنے ایک کالم میں عرض کیا تھا کہ ملک کا آءین‬ ‫معطل یا چیلنج ہو چکا ہے۔ میری اس تحریر‬ ‫کو کسی ایک نے بھی چیلنج نہیں کیا۔ اس نام نہاد جشن آزادی‬ ‫کی کرتوت یہ ہے کہ ملک چیلنج یا معطل آئین کے حوالہ سے‬ ‫چل رہا ہے۔عوام آخر کس قانون اور آئین کے تحت جشن منا‬ ‫رہے ہیں۔ یہ جشن بھی غیر آئینی ہے۔ عوام کو تو جھوٹ موٹھ‬ ‫کی خوشی منانے کا بھی حق حاصل نہیں۔‬


‫سال رواں کے اس روائیتی جشن کے موقع پر مجھے دمحم نعیم‬ ‫صفدر انصاری ایم پی اے قصور کا ایک موبائل میسج مال‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔ زنجیریں غالمی کی‘ دن آتا ہے آزادی کا آزادی نہیں آتی ۔‬ ‫‪----‬چودہ اگست ہپی انڈیپنڈنس ڈے‬‫دمحم نعیم صفدر انصاری نوجوان سیاست دان ہے۔ اس کا موباءل‬ ‫میسج میرے مندرجہ باال موقف کا زندہ اور جیتا جاگتا ثبوت ہے۔‬ ‫ایک ایوان کے ممبر کے موبائل کے منہ سے نکلی یہ بات اس‬ ‫امر کا واضع ثبوت ہے کہ ملک اور قوم کا درد رکھنے والے‬ ‫نوجوان بھی اس غالم اور غبن اور کرپشن آلودہ فضا میں گھٹن‬ ‫محسوس کرتے ہیں۔ دمحم نعیم صفدر انصاریایوان کلچر کا نمائندہ‬ ‫ہےگویا یہ ون مین گھٹن نہیں ہے پورے ایوان کی گھٹن ہے۔‬ ‫یہ تو مثل ایسی ہے کہ بہو کو کہا جائے بیٹا سب کچھ تمہارا ہے‬ ‫لیکن کسی چیز کو ہاتھ مت لگانا۔ یہ کیسی نمائندگی اور عالقائی‬ ‫سربراہی ہے کہ لیا سب کچھ جائے لیکن دیا اندھیرا جائے اور‬ ‫پھر بھی مورخ سے کہا جائے لکھو بادشاہ بڑا دیالو کرپالو اور‬


‫دیس بھگت تھا۔ بہر طور مجھے خوشی ہوئ کہ ہمارے ایوانوں‬ ‫میں دمحم نعیم صفدر انصاری جیسے نماہندے موجود ہیں جو اس‬ ‫امر کا شعور رکھتے ہیں کہ پاکستانی قوم کے ہاتھ صرف جشن‬ ‫آزادی لگا ہے‘ آزادی ابھی کوسوں دور ہے۔ پرانی نسل دیسی‬ ‫گھی کھاتی تھی اس کے جسم میں وافر خون تھا۔ دیسی گھی تو‬ ‫دور کی بات اس کے پاس تو‬ ‫سوکھی روٹی بھی نہیں۔ خون کہاں سے آئے گا۔ آزادی خون‬ ‫مانگتی ہے اس لیے پیٹ بھرنے تک جشن آزادی کی مبارک باد‬ ‫پر ہی گزارا کرنا کافی رہے گا۔‬

‫جمہوریت سے عوام کو خطرہ ہے‬

‫عبدالروف پڑھا لکھا آدمی تو نہیں ہے۔ آبائی مشقتی ہے۔ آج اس‬ ‫کی باتیں سن کر مجھے بڑی حیرانی ہوئی۔ اس قسم کی باتیں تو‬ ‫اکثر پڑھے لوگ بھی نہیں کرتے۔ میں نے اس سے دریافت کیا‬ ‫یہ باتیں تم نے کہاں سے سیکھی ہیں۔ کہنے لگا میں رات کو کام‬


‫سے فارغ ہو کر خبریں سنتا ہوں‘ تبصرے سنتا ہوں۔ دوہری‬ ‫حیرانی ہوئی اول تا آخر پنجابی ہے پڑھا لکھا بھی نہیں اور‬ ‫انگلش گزیدہ اردو کسی دقت کے بغیر سمجھ لیتا ہے۔ تیسری‬ ‫بڑی بات یہ کہ اپنی رائے بھی رکھتا ہے۔ اپنی رائے کے حوالہ‬ ‫دالئل بھی رکھتا ہے۔‬ ‫اس کا کہنا ہے پاکستان دراصل انگریز کے چیلوں اور تلوے‬ ‫چاٹنے والوں کو نوازنےکےلیے بنایا گیا۔ دو نمبر لوگ حکومت‬ ‫کرتے آئے ہیں۔ شروع سے یہی کچھ ہوتا آیا ہے۔ اس وقت میڈیا‬ ‫محدود اور حکومت وقت کا غالم تھا اس لیے ان لوگوں کی‬ ‫کرتوتیں عوام تک نہیں پہنچ پاتی تھیں اس لیے لوگ بے بسی‬ ‫یبچارگی کو حاالت کا المیہ سمجھتے تھے۔ حاکم نت نئے نعرے‬ ‫استعمال کرکے اپنے عرصہ حکومت کو طوالت دیتے رہے۔‬ ‫کشمیر کا نعرہ ایک عرصہ چال۔ روٹی کپڑا اور مکان والے‬ ‫نعرے میں بڑی جان تھی۔ کوئ یہ نہ سمجھ سکا کہ یہ نعرہ‬ ‫لگانے واال کس طبقے سے متعلق تھا اور بھوک پیاس کیا ہوتی‬ ‫ہے سے آگاہ بھی تھا یا بے خبر تھا۔ اس کے بعد اسالم جو یہاں‬ ‫کے عوام کی نفسیاتی کمزوری ہے کو استعمال کیا گیا۔ جنرل‬ ‫مشرف نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ دیا جو اسالمی روح‬ ‫کے ہی خالف تھا۔ آج جمہوریت کا نعرہ لگایا جا رہا ہے۔ جلد ہی‬ ‫کہا جاءے گا جمہوریت خطرے میں ہے۔ کوئی نہیں کہے گا کہ‬


‫جمہوریت نے یہاں کے لوگوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔‬ ‫جمہوریت عوام کا مسلہ نہیں ہے۔ آپ نے غور کیا ہو گا الیکشن‬ ‫والے دن امیدواوں کے چمچے اور کہیں خود امیدوار‘ لوگوں کو‬ ‫پکڑ پکڑ کر سو طرح کے سبز باغ دکھا کر ووٹوں کے پیسے‬ ‫دے کر اپنی گاڑیوں میں بیٹھا کر پولنگ اسٹیشن لے کر جاتے‬ ‫ہیں۔ اگر جمہوریت عوام کا مسلہ ہو تو وہ الیکشن کے عمل میں‬ ‫حصہ نا لیں۔ عوام کا مسلہ صرف روٹی کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ‬ ‫کرسی والوں نے عوام کو روٹی کے چکروں میں ڈال دیا ہے۔‬ ‫لوگ کرسی والوں کی باندر پوٹوسیوں سے خوب آگاہ ہیں لیکن‬ ‫کیا کریں انہیں بھوک نے نڈھال کر دیا ہے۔ آج ان کا مسلہ صرف‬ ‫اور روٹی ہے۔‬ ‫عدلیہ طاقت کے سامنے ڈٹی ہوئ ہے۔ عدلیہ ان کے لیے مذاق‬ ‫بنی ہوئ ہے۔ یہ بھی ان چال بازوں کی ایک چال ہے۔ عدلیہ خط‬ ‫کے چکروں میں پڑی رہے اور اس کی توجہ اداروں میں ہر‬ ‫روز ہونے والی اربوں کی کرپشن اور غبن کی طرف نہ جائے۔‬ ‫سارا قصور سیاست دانوں کا نہیں ہے اداروں کے افسر یقین‬ ‫دالتے رہتے ہیں کہ جناب فکر نہ کریں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ یہ‬ ‫افسر داؤ پیچ بھی بتاتےرہتے ہیں۔ اس خیرخواہی کے صلے میں‬ ‫لمے نوٹ کما رہے ہیں۔‬


‫اس کا کہنا ہے جن لوگوں کا اپنا پیٹ نہیں بھرا اور وہ اس‬ ‫حوالہ عدلیہ سے ٹکر لینے پر اترے ہوئے ہیں۔ یہی نہیں عدلیہ‬ ‫کو مجبور و بے بس کر دینے پر تلے ہوئے ہیں؛ اپنی اس سر‬ ‫کشی کو آئنی قرار دیتے ہیں۔ ان سے خیر کی توقع رکھنا کھلی‬ ‫حماقت ہو گی۔‬ ‫اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے گلے‬ ‫میں سب زیادہ ٹیکس دیتا ہے۔ اناج اور سبزیات پنجاب مہیا کرتا‬ ‫ہے پھر بھی بتی اسے محروم رکھا جا رہا ہے۔ بادشاہ کے لیے‬ ‫تو سب برابر ہوتے ہیں۔ کوئی اس کے اس ڈنڈی مار پروگرام پر‬ ‫بات نہیں کر رہا۔ اسے تو سب اچھا کی آواز سنائی دیتی ہو گی۔‬ ‫اس کا موقف یہ ہے۔ لوگوں کے اختیار میں کچھ نہیں۔ لوگ تو‬ ‫ان کا کھلونا ہیں۔ جمہوریت یعنی ان کی بادشاہت کو کوئی خطرہ‬ ‫نہیں کیونکہ ساری گوٹیاں سارا گلہ افسر شاہی اس کے ہاتھ میں‬ ‫ہے۔ افسر شاہی کو اس سے بڑھ کر موجو میسر نہیں آ سکتا۔‬ ‫عبدالروف کی باتوں سے اتفاق ہونا یا نہ ہونا قطعی الگ بات‬


‫ہے۔ ساری عوام بھی اس طور سے سوچے تو کچھ فرق نہیں‬ ‫پڑتا۔ اصل سوچنے کی بات یہ ہے کہ لوگ جہوریت یعنی حکومت‬ ‫کے بارے میں سوچنے لگےہیں۔ اس قسم کی سوچوں سے‬ ‫بےچینی بڑ ھے گی جو بادشاہ لوگوں کی صحت کے لیے کسی‬ ‫طرح درست نہیں۔ عوام کی جمہوریت کے حوالہ سے آگہی کسی‬ ‫وقت بھی بغاوت کا دروازہ کھول سکتی ہے۔ آتے ممکنہ خطرے‬ ‫کے پیش نظر صرف ایک ٹی وی چینل پی ٹی وی رہنےدیا‬ ‫جاءے باقی سب بند کرا دیئے جائیں کیونہ یہ اتشار پھیالتے ہیں‬ ‫اور ان کے باعث نقص امن کا خطرہ ہے۔ کار سرکار میں یہ‬ ‫کھلی مداخلت ہے۔ اسی طرح دو ایک سرکاری اخبارات سے‬ ‫بخوبی کام چل سکتا ہے اور چلتا آیا ہے لہذا انھیں بند کرا دینے‬ ‫سے جموریت کو اس اپنے قدموں پر رکھا جا سکتا ہے‬

‫رمضان میں رحمتوں پر نظر رہنی چاہیے‬

‫رمضان برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے۔ نصیب والے اس‬ ‫مہینے میں زاد آخر جمع کرنے کا جتن کرتے ہیں۔ توبہ کے‬ ‫سارے دروازے کھل جاتے ہیں۔ اپنے لیے مغرفت کے طالب‬


‫ہوتے ہیں۔ بالشبہ هللا بڑا ہی معاف کرنے واال ہے اور وہ اپنے‬ ‫بندوں کو مایوس نہیں کرتا۔ ۔بندہ بھی هللا کی ان حد رحمتوں‬ ‫سے مایوس نہیں ہوتا۔ وہ کوئ لمحہ ضاءع نہیں کرتا۔ جانے‬ ‫کون سا لمحہ قبولیت کا لمحہ ہو اور بخشش اس کا مقدر ٹھہرے۔‬ ‫ہمارے ہاں رمضان کی آمد کا سبزی منڈی ہو کہ فروٹ منڈی یا‬ ‫بازار‘ ایک ہفتہ پہلے ہی ڈنکا بج جاتا ہے۔ اصل میں یہ مہینہ‬ ‫بچتوں کا مینہ ہے۔ شخص جبری بچت پر مجبور ہوتا ہے۔ کوئی‬ ‫چیز جیب کی دسترس میں نہیں رہتی۔ سنا ہے شیطان اس مہینے‬ ‫قید کر دیا جاتا ہے البتہ سارے فروش آزاد ہی نہیں کھلے چھوڑ‬ ‫دیے جاتے ہیں۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہوتا تو شاید اشیاء‬ ‫گریب شخص کی اپروچ میں رہتیں۔ شیطان کھال رہتا اور یہ قید‬ ‫کر دیے جاتے‘ تو زندگی کی بیچارگی کم از کم چار گنا نہ بڑھتی۔‬ ‫شخص موجودہ صورت سے کہیں زیادہ آسودہ حال ہوتا۔‬ ‫لوگوں کا خیال ہے ہمارے بااختیار بادشاہ لوگ شیطان کی کمی‬ ‫پوری کرنے کے لیے اور مومنوں کی آزمائش کے لیے انہیں‬ ‫اپنے اشیرباد سے سرفراز کرتے ہیں۔‬ ‫وہ ایک نہیں مومنوں کی آزمایش کے لیے بہت سارے دروازے‬


‫کھول دیتے ہیں۔ مثال عین ہانڈی روٹی کے وقت گیس بند کر‬ ‫دیتے ہیں۔ روزے کی افطاری سے پہلے بجلی کا دروازہ بند کر‬ ‫دیا جاتا۔ ادھیر روزے کی افطاری کا وقت ادھیر گیس کی آمد ہو‬ ‫جاتی ہے جبکہ بجلی اس روایت کی تابع فرمان رہتی ہے۔‬ ‫استاد نے شاگرد کو کہا اس فقرے کا انگریزی میں جملہ بناؤ‪:‬‬ ‫وہ گیا ایسا گیا کہ چال ہی گیا۔‬ ‫شاگرد نے کچھ ایسا انگریزی جملہ بنایا‪ :‬ہی ونٹ ایسا ونٹ کہ‬ ‫بس ونٹ ہی ونٹ۔‬ ‫بجلی بھی بس ونٹ ہی ونٹ کو اپنا شعار ٹھراتی ہے۔ گیس اور‬ ‫گرمی کی تپش جب کرکر لمبے ہاتھ گلے ملتی ہیں تو بے خبروں‬ ‫کو بھی قیامت یاد آ جاتی ہے۔ کملے لوگ یہ جانتے ہوءے بھی‬ ‫کہ شیطان قید میں ہے شیطان کو برا بھال کہتے ہیں۔ اس مہینے‬ ‫میں شیطان پر لعنتیں انتہائ زیادی اور انصافی کی بات ہے۔ قید‬ ‫میں پڑے شیطان کو کیا معللوم کہ اس کے گندے انڈے بچے اس‬ ‫سے بازی لے گیے ہیں۔ روزوں کے بعد جب وہ رہا ہو گا تو‬ ‫مومنوں سے کہیں بڑھ کر عید کی خوشیاں منائے گا کہ اس کے‬ ‫بالکوں نے وہ کر دکھایا جو وہ شاید کبھی بھی نہ کر پاتا۔‬


‫کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ گیس کی بندش سے لوگ بازار سے‬ ‫خریداری پر مجبور ہو جائیں گے۔ اس طرح بادشاہ لوگوں کی‬ ‫رمضانی رحمتیں ان کے کھیسہ مبارک میں بال تکلف اور بالتررد‬ ‫بسیرا فرما لیں گی اور الزام اشیاء فروشوں کے سر پر آءے گا‬ ‫اور وہ نہاتے دہوتے عوام کے روبرو رہیں گے۔ لوگ گالیاں دیں‬ ‫گے تو فروشوں کو دیں گے اور وہ عوام کی ہاں میں ہاں مالنے‬ ‫کے قابل رہیں گے۔‬ ‫رمضان شریف نے دفاتر کی بھی چھٹی حس بیدار کر دی ہے۔ ان‬ ‫کے مروجہ ریٹ سہ گنا ترقی کر گئے ہیں۔ غالبا دفاتر نشین بھی‬ ‫سچے ہیں۔ وہ بھی وہاں ہی سے خریداری کرتے ہیں جہاں سے‬ ‫دوسرے لوگ کرتے ہیں۔ مارکیٹ سے قدم سانجھے کرنے کے‬ ‫لیے وہ بھی امور کے بھاؤ بڑھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ کسی‬ ‫کے ہاں تین سو روپیے درجن کیلوں کی فروٹ چارٹ بنانے کا‬ ‫خواب دیکھنا مانع ہو لیکن ان کے ہاں اس کے بغیر بنتی نہیں۔‬ ‫کیا کریں‘ بیگمی مجبوری ہے۔ بچوں کو کس طرح معلوم ہو گا‬ ‫کہ ان کے ابا گرامی دفتر میں بڑے بااختیار عہدے پر قبضہ فرما‬ ‫ہیں۔‬


‫کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ملک نفاذ اسالم کے لیے حاصل‬ ‫کیا گیا تھا۔ اس قسم کی سوچ رکھنے والے احمقوں کی جنت میں‬ ‫رہتے ہیں۔ یہ ملک کبھی بھی نفاذ اسالم کے لیے حاصل نہیں کیا‬ ‫گیا۔ ان کے خیال میں اگر میں غلط کہتا ہوں تو ‪ ٧١٧٢‬سے لے‬ ‫ل کر ‪ ٧٤‬اگست ‪ ٧١٤١‬تک مسلم لیگ کی ایک بھی قرارداد‬ ‫نکال کر دکھا دیں‘ میں ان کی فراست کو مان جاؤں گا۔ یہ محض‬ ‫عوامی نعرہ اور عوامی خواہش تھی اور ہے۔ نئ نسل کو شاید‬ ‫معلوم نہیں‘ پرانی نسل کو بتانا چاہیے تحریک نفاذ نظام‬ ‫مصطفے کا کیا حشر ہوا تھا۔ کتنے لوگ حواالتی ہوءے اور‬ ‫کتنوں کے پاسے سیکے گءے تھے۔‬ ‫روزوں کے اس بارکت مہینے میں اسالم کو بچ میں النے کی‬ ‫آخر کیا ضرورت ہے۔ اسالم فرد کا ذاتی معاملہ ہے اور فرد کو‬ ‫کسی نے نہیں روکا کہ وہ روزے نہ رکھے یا مسجد میں اپنی‬ ‫ذمےداری پر ترابیاں پڑھنے نہ جائے۔ سو بار جاءے اور بے‬ ‫شک ساری رات ترابیاں پڑھتا رہے۔‬ ‫کسی پر کیا احسان ہے‘ مہنگی اشیار نہ خریدی جاءیں۔‬ ‫روزےدار پانی سے افطاری کرے اور هللا کی اس گراں یایاں‬ ‫نعمت کا الکھ الکھ ادا شکر کرے۔ رہ گئ بجلی کے باعث پانی نہ‬ ‫ملنے کی بات‘ بجلی والی موٹروں کی کیا ضرورت ہے۔ گھروں‬


‫میں نلکے لگوائیں۔ بجلی کی محتاجی ختم ہو جائے گی۔ مہینے‬ ‫میں بیس تیس یونٹ کم استعمال ہوں گے۔ زیادہ یونٹ کے بل‬ ‫آنے کا قرضہ واپڈا بہادر پر رہے گا۔‬ ‫دو ڈھائ سو روپے کلو والی مہنگی کھجور خریدنے کو کس نے‬ ‫کہا ہے‘ اسی نوے رویے کلو والی کھجور کو کیا ہوا ہے۔ اسے‬ ‫کون سی ماتا نکلی ہوئی ہے بلکہ کھجور خریدنے کی ضرورت‬ ‫ہی کیا ہے دس روپیے کلو واال نمک کس دن کام آءے گا۔‬ ‫رمضان رحمتوں اور برکتوں واال مہینہ ہے اور یہ بال رقم میسر‬ ‫آتی ہیں۔ لوگوں کی نظر رحمتوں اور برکتوں سے ادھر ادھر‬ ‫ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی روزہ داری میں کسی ناکسی‬ ‫سطع بر کھوٹ ضرور موجود ہے۔ مہینگائی کا رونا رونے کی‬ ‫بجائے کھوٹ کی تالش کہیں اہمیت رکھتی ہے‬

‫دنیا کا امن اور سکون بھنگ مت کرو‬

‫ایک صاحب نے مجھ سے پوچھا پروفیسر کے کیا فرائض ہیں۔‬


‫انھوں نے مزید فرمایا مجھے تو یہ طبقہ فارغ لگتا ہے۔ بات کے‬ ‫دوسرے حصہ سے متعلق ایک سیاسی طبقہ اور اس کی جی‬ ‫حضوریہ ناالئق اور ناخلف منشی برادری پروپگنڈا کرنے میں‬ ‫مصروف ہے۔ ناالئق اور ناخلف کی اگر کسی کو وضاحت درکار‬ ‫ہے تو میں بسروچشم حاضر ہوں۔ پروفیسر بیک وقت تین کام‬ ‫کرتا ہے‬ ‫‪٧‬۔ معلومات فراہم کرتا ہے‬ ‫‪٦‬۔ غلط اور صیحح ہی نہیں بتاتا بلکہ ان کی تمیز بھی سکھاتا‬ ‫ہےگویا رویے تشکیل دیتا ہے۔‬ ‫‪٣‬۔ سوچتا ہے اور اس کا اظہار کرتا ہے۔‬ ‫ایک شخص آٹھ گھنٹے بیاس منٹ جسمانی کام کرتا ہے جبکہ‬ ‫پروفیسر اڑتیس منٹ کام کرتا ہے۔ دونوں برابر کی تھکاوٹ‬ ‫محسوس کرتےہیں پروفیسرکی زیادہ انرجی صرف ہو جاتی ہے۔‬ ‫پروفیسر جو سوچتا ہے وہ ڈیلور بھی کرتا ہے۔ گویا جسمانی کام‬ ‫کرنے والوں سے پروفیسرکی زیادہ انرجی صرف ہو جاتی ہے۔‬ ‫شاید ہی کوئی ایسا پروفیسر ہو گا جو موٹا تازہ ہو۔ اگر کوئی‬


‫موٹا تازہ پروفیسر نظر آ جائے تو یقینا کسی پیٹ کے عارضے‬ ‫میں مبتال ہو گا۔ مناسب انداز سے فکری نکاسی نہ ہونے کے‬ ‫سبب بھی موٹاپا آ سکتا ہے۔ عزت اور جان دونوں خطرے کی‬ ‫توپ کے دہانے پر ڈیرہ گزیں رہتے ہیں اس لیے ڈیلوری ایسا‬ ‫آسان اور معمولی کام نہیں۔ اگر نہیں یقین آتا تو کسی خاتون‬ ‫سے پوچھ لیں کہ ڈیلوری کا عمل کتنا مشکل اور کٹھن گزار ہوتا‬ ‫ہے۔ کوئی خاتون خفیہ بات دس پندرہ منٹ سے زیادہ پیٹ میں‬ ‫نہیں رکھ سکتی۔ خیر یہ بات عورتوں تک ہی محدود نہیں‬ ‫پروفیسر تو الگ کہ ان کا یہ کام ہی یہی ہے۔ وکیل اور پروفیسر‬ ‫بول بچن کی کھٹی کھاتے ہیں۔ ایک عام آدمی خفیہ بات یا کسی‬ ‫کا کوئی انتہائی حساس راز زیادہ دیر تک پیٹ میں نہیں رکھ‬ ‫سکتا۔ محاورہ پیٹ سے ہونا کے حقیقی معنی یہی ہیں۔‬ ‫آج موٹے تھانیداروں کے حوالہ سے بات ہو رہی تھی۔ سوال اٹھ‬ ‫سکتا ہے وہ کیوں موٹے ہیں۔ اکثر یہ کہیں گے وہ کھا کھا کر‬ ‫موٹے ہو جاتے ہیں۔ مجھے اس سے اسی فیصد اتفاق نہیں۔‬ ‫معدہ کی بیماری کے سبب کوئی تھانیدار موٹا ہوا ہو تو الگ بات‬ ‫ہے۔ وہ اوروں سے زیادہ ہمدردی کا مستحق ہے۔ ایک طرف‬ ‫معدہ پرابلم دوسری طرف زیادہ کھا لینے کا مسلہ تو تیسری‬ ‫طرف رازوں کی عدم نکاسی۔‬


‫کسی موٹے تھانیدار پر کوئی دوسرا موٹا تھانیدار نعرہ تکبیر کہہ‬ ‫کر چڑھا دیں وہ وہ راز اگلے گا کہ عقل سوچ اور دل و دماغ کی‬ ‫روح قبض ہو جائے گی۔ اس کے پیٹ میں بڑے افسروں نبی نما‬ ‫سیاست دانوں سیٹھوں مذہبی لوگوں کے وہ وہ راز ہوتے ہیں‬ ‫جن کا کسی کے دونوں فرشتوں تک کو علم نہیں ہوتا۔ اس مدے‬ ‫پر بات کرنا ہی فضول بات ہے کیوں کہ تھانیدار ان لوگوں پر‬ ‫تھانیدار نہیں ہوتے۔ تھانیدار عوام کو گز رکھنے کےلیے ہوتے‬ ‫ہیں۔ ان کا شرفاء کے اعلی طبقے میں شمار ہوتا ہے۔‬ ‫۔سو گز رسہ سرے پہ گانٹھ‘ بات کا پیٹ میں رکھنا بڑا ہی مشکل‬ ‫بلکہ ناممکن کام ہے‘ اپھارہ ہونا ہی ہوتا ہےاور یہ پہلے سوال‬ ‫کی طرح الزمی بات ہے۔ آپ کے دیکھنے میں بات آئ ہو گی کہ‬ ‫مرنے والے کا کوئ قریبی رو نہ رہا ہو تو اس کو روالنے کے‬ ‫لیے سر توڑ کوشش کی جاتی ہے۔ یہ بات پردہ میں رہتی ہے کہ‬ ‫اس قریبی نے اس کی موت پر شکر کا سانس لیا ہو۔ دلوں کے‬ ‫حال هللا جانتا ہے اس لیے بات پردہ میں ہی رہ جاتی ہے تاہم‬ ‫اس کا کچھ ہی دنوں میں پیٹ کپا ہو جاتا ہے۔۔ اس حوالہ سے‬ ‫کسی تھانیدار پر انگلی رکھنے سے بڑا ہی پاپ لگتا ہے۔ کسی‬ ‫موٹے پروفیسر پر بھی یہی کلیہ عائد ہوت ہے۔‬ ‫آج ہی کی بات ہے بشپ صاحب کی طرف سے امن سیمینار منعقد‬


‫ہونے جا رہا ہے۔ پروفیسر ہونے کے ناتے بد ہضمی اور گیس‬ ‫کا شکار ہوں کیا کروں میں بات نہیں کر سکتا کہ اللہ جو گولیاں‬ ‫اور چھتر کھا رہے ہیں انھیں امن کی کتھا سنا رہے ہو اور جو‬ ‫گولیاں اور چھتر مار رہا ہےاس کے معاملہ میں آنکھ بند کیے‬ ‫ہوئے ہو۔ میں سب کہہ نہیں سکتا کمزور بوڑھا اور بیمار آدمی‬ ‫ہوں میرے پاس ایک چپ اور سو سکھ کے سوا کچھ نہیں۔‬ ‫ایک موباءل ایس ایم ایس کا حوالہ دیتا ہوں۔ حضرت قاءد اعظم‬ ‫کے پاس ایک خاتون آئی اور اپنے بیٹے پر جھوٹے قتل کے‬ ‫مقدمے کے حوالہ سے درخواست کی۔ بابا صاحب نے مقدمہ لڑا‬ ‫اور خاتون کے بیٹے کو بچا لیا۔ خاتون نے شکریہ ادا کیا اور‬ ‫کہا کہ آج تو آپ ہیں اور کمزروں کو بچا لیتے ہیں کل آپ نہ‬ ‫ہوئے تو کمزروں کا کیا بنے گا۔ بابا صاحب نے فرمایا نوٹوں پر‬ ‫چھپی میری تصویر ہر کسی کے کام آئے گی۔ اب مسلہ یہ آن پڑا‬ ‫ہے کہ نوٹ لسے اور ماڑے لوگوں کے قریب سے بھی نہیں‬ ‫گزرتے۔ایسےبرے وقتوں میں خاموشی ہی بہتر اور کارگر ہتھیار‬ ‫ہے۔ اپھارہ ہوتا ہے تو ہوتا رہے مجھے کیا پڑی ہے جو اس‬ ‫امن سیمینار پر کوئی بات کروں بلکہ مجھ پر یہ کہنا الزم آتا ہے‬ ‫کہ کہوں گولیاں کھاؤ چھتر کھاؤ چپ رہو۔ اؤں آں اور ہائے‬ ‫واءے کرکے دنیا کا امن اور سکون بھنگ مت کرو‬


‫اس عذاب کا ذکر قرآن میں موجود نہیں‬

‫یہ حیقیقت ہر قسم کے شک اور شبے سے باالتر ہے کہ ہر خیر‬ ‫هللا کی طرف پھرتی ہے۔ لطف و عطا رحم وکرم درگزر کرنے‬ ‫میں کوئ اس کا ہمسر نہیں۔ هللا ہر حال اور ہر حوالہ سے اپنی‬ ‫مخلوق کی بہتری چاہتا ہے۔ انسان کی طرح سرزنش میں جلدباز‬ ‫نہیں۔ وہ بار بار مواقع فرام کرتا ہے۔ وہ ہر سطع پر اپنی بہترین‬ ‫مخلوق یعنی‬ ‫انسان کی ظفرمندی چاہتا ہے۔ وہ انسان کو آسودگی فراہم کرتا۔‬ ‫وہ مولوی پنڈت یا پادری نہیں جو معمولی معمولی بات پرکفر کا‬ ‫فتوی صادر کر دیتا ہے۔ وہ تو هللا ہے اور اس کی درگزر کے‬ ‫لیے کوئی پیمانہ موجود ہی نہیں۔‬ ‫انسان کو جو ملتا ہے اس کے اپنے کئے کا ملتا ہے۔انسان اپنے‬ ‫ہاتھوں اپنے لیے آگ جمع کرتا ہے۔ اپنی جمع کی ہوئ آگ میں‬ ‫اس زندگی میں صعوبت اٹھاتا ہے۔ روز حشر جو برحق ہے' میں‬


‫جلے گا اور جلتا رہے گا۔ یہاں زندگی کے دن مقرر ہیں لیکن بعد‬ ‫از مرگ کی زندگی کے دن کبھی ختم نہ ہونے والے ہیں۔ اس‬ ‫زندگی جمع کئے گئے پھل پھول یہاں آسودگی کا نام پاتے ہیں‬ ‫جبکہ روزحشر اسے جنت کا نام دیا جائے گا۔ هللا اس جمع‬ ‫پونجی کو ستر گنا برکت غطا فرمائے گا اور انسان اپنے اثاثے‬ ‫کے حوالہ سے عیش کی گزارے گا۔ بالکل اسی طرح اپنی جمع‬ ‫کی گئ آگ میں آخرت کی زندگی گزارے گا اور اسے دوزخ کا نام‬ ‫دیا جاءے گا۔ گویا یہاں اپنے کئے کی بھرنی ہے۔ کسی قسم کے‬ ‫جبر یا انتقام کی صورت نہ ہو گی۔ هللا بےشک بڑا انصاف کرنے‬ ‫واال ہے۔ جبر یا انتقام اس کی ذات اقدس کو زیب ہی نہیں دیتے‬ ‫ہم سمجھتے ہیں کہ یہ جہان میٹھا ہے‪ .‬سب لوگ مر جاءیں‬ ‫گےاور ہمیں موت نہیں آئے گی یا یہ کہ جو پوچھنے والے ہیں‬ ‫وہ خود حصہ خور ہیں۔ بیمار ہونے کی صورت میں بہترین‬ ‫ڈاکٹروں کی خدمت حاصل کرکے موت سے بچ جاءیں گے۔ غالبا‬ ‫ہمیں یہ غلط فہمی بھی الحق ہے کہ عذاب وغیرہ کا کوئی چکر‬ ‫ہی نہیں یہ صرف مولوی حضرات اپنے ذاتی اغراض ومقاصد‬ ‫کے لیے ڈراتے رہتے ہیں۔ ڈرنے کی صرف کمزور طبقے کو‬ ‫ضرورت ہے۔ صاحب اختیار اور آسودہ حال لوگوں کو ڈرنے کی‬ ‫کیا ضرورت ہے۔ مذہب وغیرہ کمزور طبقوں کی تسلی وتشفی‬ ‫کے حوالہ سے ضرورت ہے۔ وہ اجر اور ثواب وغیرہ کے حوالہ‬


‫سے مرنے کے بعد موج میلہ کر لیں گے۔ ان کا کام وعدہ سے‬ ‫چل جاتا لہذا نقد ونقد فقط ان کی اپنی ضرورت ہے۔‬ ‫ایسے بدعقیدہ لوگوں کے لیے یہاں بھی تاریخ نے ان گنت‬ ‫مثالیں چھوڑی ہیں۔ یہی نہیں' انسانوں کی اس بےراہرو بستی‬ ‫میں آج بھی مثالیں مل جاتی ہیں۔ یہاں ایک صاحب ڈی سی آفس‬ ‫میں چھوٹے موٹے عہدے دار تھے۔ بہت ہی مختصر سے‬ ‫عرصے میں اس نے کام میں مہارت حاصل کر لی۔ پھر کیا تھا'‬ ‫انی ڈال دی‪ .‬فرعون کی ساری صفات اس میں جمع ہو گئیں۔ منہ‬ ‫میں کتا اور آنکھوں میں سور بسیرا کر گیا۔ اس عالقہ میں شاید‬ ‫ہی اس کے پائے کا راشی شرابی اور زانی ہو گا۔ اس نے اپنے‬ ‫گھر میں جوائے کا آغاز کیا ۔ اس کے اس کام کو دن دوگنی‬ ‫ترقی ملی۔ دیکھتے دیکھتے اس کے جوئے کے تین اڈے کھل‬ ‫گئے۔ دن دہاڑے گھر میں عورتیں التا۔ اسے اتنی بھی حیا نہ آتی‬ ‫کہ گھر میں اس کی دو جوان بیٹیاں بھی ہیں۔‬ ‫ایک عرصہ تک وہ دوزخ کی آگ جمع کرتا رہا۔ پھر ریورس کا‬ ‫عمل شروع ہوا۔ اس کی دونوں یٹیاں گھر پر منہ کاال کرنے‬ ‫لگیں۔ جب گھر میں آگ لگی تو جھگڑا اور مار پٹائی کا کام‬ ‫شروع ہوا۔ واپسی کا دروازہ بند ہو چکا تھا۔ دونوں کسی کے‬ ‫ساتھ بھاگ گئیں اور اس کا اثرورسوخ کام نہ آ سکا۔ اس کے‬


‫دونوں بیٹے لفنٹر نکلے۔ اس کی جمع کی ہوئ دولت کو لٹانے‬ ‫لگے۔ وہ ان کے سامنے بھیڑ سے بھی زیادہ کمزور ثابت ہو۔‬ ‫اس کے تین اپریشن ہوئے۔ حرام کی کمائ سے بنائے گئے‬ ‫تینوں مکان بک گئے۔ دو دوکانیں نیالم ہو گئیں۔ کرائے کی ایک‬ ‫نہایت بوسیدہ سی دوکان میں رہایش پذیر ہوا۔ اب فالج کا اٹیک‬ ‫ہوا ہے۔ کوئی ملنے یا حال احوال پوچھنے تک نہیں آتا عبرت‬ ‫کی تصویر بنا ہوا ہے۔ یہ آگ اس کی اپنی جمع کی ہوئی ہے۔‬ ‫هللا کی طرف سے بار بار وارننگ آئی ہے لیکن اس نے اس کی‬ ‫کوئ پرواہ نہیں کی۔ معافی کا دروا زہ بند ہو چکا ہے۔ جن پر‬ ‫اس نے ظلم توڑے تھے ان میں سے بہت سارے اس دنیا سے‬ ‫کوچ کر گئے ہیں۔ جو زندہ ہیں وہ اس کا نام تک سننا پسند نہیں‬ ‫کرتے۔ یہ جہنم دنیا کی ہے لیکن آخرت کا عذاب ابھی باقی ہے۔‬ ‫یہ محض ایک مثال ہے ایسی مثالیں ہر گلی اور ہر محلے میں‬ ‫موجود ہیں۔ کوئی ان سے عبرت لینے کو تیار نہیں۔‬ ‫میرا اصرار ہے کہ جنت کے پھل اور پھول انسان کے اپنے جمع‬ ‫کئے ہوں گے۔ دوزخ کی آگ پہلے وہاں موجود نہیں بلک یہ آگ‬ ‫انسان اپنے ساتھ اپنے حوالہ سے لے کر جائے گا۔ جو شخص‬


‫آج زندہ ہے زندگی کے ہر لمحے کو غنیمت جانتے ہوئے پھل‬ ‫اور پھول جمکرنے کی سعی کرے۔‬ ‫مہامنشی ہاؤس پنجاب کا ادنی مالزم بھی دہکتی آگ جمع کر ر ہا‬ ‫ہے اور الزام سیاسی حلقوں پر آ رہا ہے کبھی فوج کو دشنام کیا‬ ‫جاتا ہے۔ میری یہ بات پکی سیاہی سے پتھر کی دیوار پر لکھ‬ ‫دیں اصل فساد اور خرابی کی جڑ یہی لوگ ہیں جب تک ان کا‬ ‫کوئی قبلہ درست کرنے نہیں آ چاتا اس خطہ میں موجود ہر‬ ‫انسان کی زندگی جہنم کی آگ میں جلتی رہے گی۔ ڈینگی ان کے‬ ‫ایک ناخن برابر خطرناک نہیں ہیں۔ هللا پناہ' یہ وہ حاویہ ہیں جن‬ ‫کا جانے بائی نیم قرآن مجید مں ذکر کیوں نہیں ہوا۔‬

‫غیرت اور خشک آنتوں کا پرابلم‬

‫اصولی سی اور صدیوں کے تجربے پر محیط بات ہے کہ غیرت‬ ‫قوموں کو تاج پہناتی ہیں۔ بے غیرتی روڑا کوڑا بھی رہنے نہیں‬ ‫دیتی۔ روڑا کوڑا اس لیے معتبر ہے کہ تالش کرنے والوں کو‬


‫اس میں بھی رزق مل جاتا ہے۔ جب بھی معامالت گھر کی دہلیز‬ ‫سے باہر قدم رکھتے ہیں توقیر کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ سارا کا‬ ‫سارا بھرم خاک میں مل کر خاک ہو جاتا ہے۔ جس کو کوئی‬ ‫حیثیت نہیں دی گئی ہوتی وہ بھی انگلی اٹھاتا ہے۔ نمبردار بن‬ ‫جاتا ہے۔ جس کے اپنے دامن میں سو چھید ہوتے ہیں اسے بھی‬ ‫باتیں بنانے کا ڈھنگ آ جاتا ہے۔ یہ قصور باتیں بنانے یا انگلی‬ ‫اٹھانے والوں کا نہیں ہوتا بلکہ موقع دینے والوں کا ہوتا ہے۔‬ ‫یہ حقیقیت بھی روز روشن کی طرح واضح اور عیاں رہی ہے کہ‬ ‫طاقت کے سامنے اونچے شملے والے سر بھی خم رہے ہیں۔‬ ‫گویا طاقت اور غیرت کا سنگم ہوتا ہے تو ہی بات بنتی ہے۔‬ ‫کمزور صیح بھی غلط ٹھرایا جاتا ہے۔ اس کی ہر صفائ اور‬ ‫اعلی پائے کی دلیل بھی اسے سچا قرار نہیں دیتی۔ بھڑیے کا‬ ‫بہانہ اسے چیرنے پھاڑنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ انسان جونکہ‬ ‫اشرف المخلوقات ہے اس لیے اس کے بہانے اور دالئل بھی‬ ‫کمال کے ہوتے ہیں۔ انسان کی یہ بھی صفت ہے کہ وہ اپنی‬ ‫غلطی تسلیم نہیں کرتا بلکہ اپنی غلطی اوروں کے سر پر رکھ‬ ‫دیتا ہے۔ ایسی صفائی سے رکھتا ہے کہ پورا زمانہ اسے تسلیم‬ ‫کرنے میں دیر نہیں کرتا۔‬ ‫امریکہ کی عمارت گری اس میں کوئ کھوٹ نہیں۔ سوال پیدا‬


‫ہوتا ہے کہ یہ عمارت گرانے پورا افغانستان امریکہ پر چڑھ‬ ‫دوڑا تھا۔ اس میں بچے بوڑھے عورتیں الغر بیمار وغیرہ‘ بھی‬ ‫!شامل تھے؟‬ ‫جواب یقینا نفی میں ہو گا۔ تو پھر ان سب کو بندوق نہیں توپ‬ ‫کے منہ پر کیوں رکھ دیا گیا؟‬ ‫ان کا جرم تو بتایا جائے۔‬ ‫لوگوں کو تو مذکرات اور سفارتی حوالہ سے مسائل کا حل‬ ‫تالشنے کے مشورے اور خود گولے سے مسائل حل کرنے‬ ‫کوشش کو کیا نام دیا جائے۔‬ ‫ایک پکی پیڈی بات ہے کہ چوہا بلی سے بلی کتے سے کتا‬ ‫بھڑیے سے بھیڑیا چیتے سے چیتا شیر سے شیر ہاتھی سے‬ ‫ہاتھی مرد سے مرد عورت سےاورعورت چوہے سے ڈرتی ہے۔‬ ‫ڈر کی ابتدا اور انتہا چوہا ہی ہے۔ میرے پاس اپنے موقف کی‬ ‫دلیل میں میرا ذاتی تجربہ شامل ہے۔ میں چھت پر بیھٹا کوئی کام‬ ‫کر رہا تھا۔ نیچے پہلے دھواندھار شور ہوا پھر مجھے پکارا گیا۔‬


‫میں پوری پھرتی سے نیچے بھاگ کر آیا۔ ماجرا پوچھا۔ بتایا گیا‬ ‫کہ صندوق میں چوہا گھس گیا ہے۔ بڑا تاؤ آیا لیکن کل کلیان‬ ‫سے ڈرتا‘ پی گیا۔ بس اتنا کہہ کر واپس چال گیا کہ تم نے مجھے‬ ‫بلی یا کڑکی سمجھ کر طلب کیا ہے۔ تاہم میں نے دانستہ چوہا‬ ‫صندوق کے اندر ہی رہنے دیا۔‬ ‫چوہا کمزور ہے لیکن ڈر کی عالمت ہے۔ ڈر اپنی اصل میں‬ ‫انتہائ کمزور چیز ہے۔ کمزوری سے ڈرنا‘ زنانہ خصلت ہے۔‬ ‫امریکہ اپنی اصل میں انتہائ کمزور ہے۔ کیا کمزوری نہیں ہے‬ ‫کہ اس کی گرفت میں بچے بوڑھے عورتیں الغر بیمار بھی آ‬ ‫گئے۔ گھروں کے گھر برباد کر دینے کے بعد بھی اس کا چوہا‬ ‫ابھی زندہ ہے۔ چوہا اس سے مرے گا بھی نہیں۔ بشمار اسرائیلی‬ ‫بچے مروا دینے کے بعد بھی فرعون کے من کا چوہا مرا نہیں‬ ‫حالنکہ وہ انہیں بانہ بازو بنا سکتا تھا۔‬ ‫بلوچستان میں انسانی قتل و غارت کا مسلہ امریکی پارلیمان میں‬ ‫بطور قرار داد آ گیا ہے۔ ہمارا ذاتی معاملہ کسی دوسرے ملک‬ ‫‪:‬کی پارلیان میں آنے کے تین معنی ہیں‬ ‫‪٧‬۔ بلوچستان کی صورت حال بدترین ہو گئ ہے۔‬


‫‪٦‬۔ بلوچستان کی صورت حال ہماری دسترس میں نہیں رہی۔‬ ‫‪٣‬۔ امریکہ‘ ایران اور چین پر گرفت کے لیے بھیڑیے کا بہانہ بنا‬ ‫کر فوجی کاروائ کا رستہ بنا رہا ہے۔‬ ‫میری اس گزارش کو ڈینا روہر کے اس بیان کے تناظر میں‬ ‫‪:‬دیکھیں گے تو معاملہ صاف ہو جاے گا‬ ‫امریکہ بلوچ عوام کے قاتلوں کو ہی امداد اور اسلحہ دے رہا۔‬ ‫صدر آصف علی زرداری کے اس بیان کو بھی آتے کل کے‬ ‫‪:‬حوالہ سے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے‬ ‫ایران کے ساتھ ہیں۔ جارحیت پر امریکہ کو اڈے نہیں دیں گے۔‬ ‫چوکیدار رات کو آوازہ بلند کرتا ہے کہ جاگدے رہنا میرے تے نہ‬ ‫رہنا۔‬


‫ہم اپنے ساتھ نہیں ہیں کسی اور کا خاک ساتھ دیں گے۔ یہ بڑی‬ ‫بڑی باتیں کرنے والے ایک جونیءر کلرک کی مار نہیں ہیں‬ ‫منشی تو بہت بڑا افسر ہوتا ہے۔ہمارا شمار ان لوگوں میں ہوتا‬ ‫ہے جو چور کو کہتے ہیں سوئے ہوئے ہیں اور گھر والوں کو‬ ‫کہتے ہیں چور آ رہا ہے۔اس نام نہاد ترقی کے دور میں ہم سچ‬ ‫کہہ نہیں سکتے سچ سن نہیں سکتے۔ یہ ہماری سیاسی سماجی‬ ‫یا پھر اقتصادی مجبوری ہے۔‬ ‫ہمیں اپنے معامالت پر ہی گرفت نہیں کسی دوسرے کی کیا مدد‬ ‫کریں۔ صاف کہہ نہیں سکتے بھائی ہم پر نہ رہنا‘ جب بھی‬ ‫مشکل وقت پڑا ہمیں دشمن کی صف میں سینہ تانے کھڑا پاؤ‬ ‫گے۔ ہم ابراہیم لنکن کی نبوت اور ڈالر کے حسن پر یقین‬ ‫رکھنے والے لوگ ہیں۔ ہماری عقل اور غیرت پیٹ می بسیرا‬ ‫رکھتی ہے۔ ہم ازلوں سے بھوک کا شکار ہیں۔ اصل مجنوں کوئ‬ ‫اور ہے ہم تو چوری کھانے والے مجنوں ہیں۔ ہم کہتے کچھ ہیں‬ ‫کرتے کچھ ہیں۔ کہا گیا بجلی نہیں جائے گی جبکہ بجلی گئی‬ ‫ہوئی ہے۔ گیس کا بل سو ڈیڑھ سو آتا تھا اور گیس سارا دن‬ ‫رہتی تھی۔ آج گیس صرف دکھائ دیتی ہے اور بل پیو کا پیو آتا‬ ‫ہے۔ بجلی جانے سے پہلے کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے کہ فالں‬ ‫گھر کے گیس کا بل سات ہزار روپیے آیا ہے اور گھر کے کل‬ ‫افراد چند ایک ہیں۔ لگتا ہے کہ دوزخ کو اس گھر سے پائپ جاتا‬


‫ہ ے۔‬ ‫ہم وہ لوگ ہیں جو الیکشنوں کے موسم میں لنگر خانے کھول‬ ‫دیتے ہیں۔ کٹوں بکروں اور مرغوں کی شامت آ جاتی ہے۔ لوگ‬ ‫دھر سمجھ کر بے دریغ کھاتے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں امیدوار‬ ‫پلے سے کھال رہا ہے اور اس کے بعد پیٹ بھر کر اگلے‬ ‫الیکشنوں میں ہی مل پاءے۔ بات کا پہال حصہ درست نہیں۔‬ ‫الیکشن وہی لڑتا ہے جس کی ہک میں زور ہوتا ہے۔ جس کی‬ ‫ہک میں زور ہوتا ہے وہ پلے سے کیوں کھالنے لگا ۔ چوری‬ ‫کے ڈنگر ہی چھری تلے آتے ہیں۔ اتنا ضرور ہے کہ ان لنگر‬ ‫خانوں میں مردار گوشت دیگ نہیں چڑھتا۔‬ ‫مردار گوشت دیگ چڑ ھنے کی ایک مثال پچھلے دنوں سننے‬ ‫میں آئی۔ محکمہ ایجوکیشن کے ایک نئے آنے والے ضلعی افسر‬ ‫نے اپنے درجہ چہارم کے مالزم سے کہا بھئی ہمارے آنے کی‬ ‫خوشی میں دعوت وغیرہ کرو۔ اس نے مردہ مرغے دیگ چڑھا‬ ‫دئے۔ دونوں اپنی اپنی جگہ پر سچے تھے۔ افسر کے آنے کی‬ ‫خوشی میں دعوت تو ہونی چاہیے۔ درجہ چہارم کا مالزم دیگ‬ ‫کیسے چڑھا سکتا ہے۔ دونوں سرخرو ہوئے۔ دیگ چڑھی افسر‬ ‫کی خوشی پوری ہو گئ مالزم کا خرچہ لون مرچ مصالحے پر‬ ‫اٹھا۔ وہ اتنا ہی کر سکتا تھا۔‬


‫ممبری کے امیدواروں کا بھی غالبا خرچہ لون مرچ مصالحے‬ ‫پر ہی اٹھتا ہے۔ اب تو اس کی بھی شاید نوبت نہیں آئے گی‬ ‫کیونکہ لون مرچ مصالحے کا خرچہ ادھر ہی بارہ کروڑ ادا کر‬ ‫دیا جائے گا۔‬ ‫ایران کے حوالہ سے روس کا بیان حوصلہ بخش لگتا ہے۔ بیان‬ ‫میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کو ایران پر حملے کی صورت میں‬ ‫‪:‬بھرپور جواب ملے گا۔ اس بیان کے اندر چند چیزیں پوشیدہ ہیں‬ ‫‪٧‬۔ جو مرنا جانتے ہیں‘ مارنے میں بھی کم نہیں ہوتے۔ امریکہ‬ ‫نے یہ غلطی کی تو الشیں اٹھانے میں شاید اسے صدیاں لگ‬ ‫جاءیں۔‬ ‫‪٦‬۔ ایران کا ساتھ دیا جاءے گا۔‬ ‫‪٣‬۔ غیرت مند‘ مرد ہوتا ہے اور چوہا اس کی دسترس سےکبھی‬ ‫باہر نہیں ہو پاتا۔‬ ‫ترکی کا کہنا ہے کہ تباہ کن نتائج ہوں گے۔ جنگ ہے ہی تباہی و‬ ‫بربادی کا نام۔ بلوچ غیرت مند قوم ہے۔ بلوچ جانتے ہیں کہ‬


‫امریکہ ان کے قاتلوں کو امداد اور اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔‬ ‫افغانی اپنی تباہی کے ذمہ دار سے آگاہ ہیں۔ پاکستان کو وافر‬ ‫چوری فراہم کرنے کے باوجود لوگوں کے دل میں امریکہ کے‬ ‫لیے نفرت اور صرف نفرت ہے۔ چوری عوام کے پیٹ میں نہیں‬ ‫گئ۔ ان کے پیٹ میں خوشکی کا ڈیرہ ہے۔ خشک آنتیں غصے‬ ‫اور خفگی کا سبب رہتی ہیں۔ خشک آنتوں کا حاصل تباہی اور‬ ‫بربادی کےسوا کچھ نہیں ہوتا ہوتا ہے‬

‫خدا بچاؤ مہم اور طالق کا آپشن‬

‫خدا بچاؤ مہم کا بڑی ہوشیاری اور چاالکی سے آغاز کیا گیا۔‬ ‫کسی نے اس جانب توجہ ہی نہ کی کہ خدا تو سب کو بچانے واال‬ ‫ہے۔ وہ ہر گرفت سے باال ہے۔ پوری کائنات اس کی محتاج ہے‬ ‫اور وہ کسی کا محتاج نہیں۔ اگر وہ خدا منکر لوگوں کا رب نہ‬ ‫ہوتا تو وہ سارے کے سارے بھوک پیاس سے مر جاتے۔ وہ تو‬ ‫ساری کائنات کا مالک و خالق ہے۔ یہی نہیں وہ تو اپنی مرضی‬ ‫کا مالک ہے۔ اسے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں بلکہ ہر کوئی‬ ‫اس کی مرضی و منشا کے تابع ہے۔ کسی نے یہ غور کرنے کی‬


‫زحمت ہی گوارہ نہ کی کہ ہمارا اور ان کا خدا ایک ہی ہے لیکن‬ ‫ہمارے اور ان کے خدا میں زمین آسمان کا نظریاتی فرق ہے۔ ان‬ ‫کا خدا تین میں تقسیم ہے جب کہ ہمارا خدا تین نہیں‘ ایک ہے۔‬ ‫وہ تقسیم کے نقص سے باال ہے۔‬ ‫خدا بچاؤ مہم کے لیے اسلحہ اور ڈالرز کی بارش ہو گئی۔ خدا‬ ‫بچاؤ مہم میں شامل لوگ ماال مال ہو گئے۔ وہ شیطان کے‬ ‫بہکاوے میں آ گئے تھے۔ وہ شیطان کی ہولناک چال کو سمجھ‬ ‫نہ سکے۔ خدا بچاؤ مہم میں ان گنت بچے بوڑھے عورتیں اور‬ ‫گھبرو جوان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ وہ تو ان موت کے گھاٹ‬ ‫اترنے والوں کا بھی خالق ومالک ہے۔ خدا بچاؤ مہم کے ڈالر‬ ‫خوروں کو رجعت پسند‘ شر پسند اور بنیاد پرست کہہ کر زندگی‬ ‫سے محروم کیا گیا۔ خدا بچاؤ پتہ ناکام ٹھرا ہے تو ازدواجی‬ ‫رشتہ ہونے کا دعوی داغ دیا گیا ہے۔‬ ‫طالق یقینا بہت برا فعل ہے۔ اہل دانش تو الگ رہے‘ مذاہب نے‬ ‫بھی اس کی آخری حد تک ممانعت کی ہے۔ طالق کے نتیجہ میں‬ ‫سماجی سطع پر خرابی آتی ہے۔ دو برادریوں میں دشمنی چل‬ ‫نکلتی ہے۔ اس طالق دشمنی کے نتیجہ میں آتے کل کو کوئ‬ ‫بھی خطرناک صورتحال پیش آ سکتی ہے۔ بات محدود نہیں رہتی۔‬ ‫بےگناہ‘ غیر متعلق اور بعض اوقات صلع کار بھی اس کی لپیٹ‬


‫میں آ جاتے ہیں۔ پھر بجھائے نہ بنے والی صورت پیدا ہو جاتی‬ ‫ہے۔‬ ‫ایک اخباری اطالع کے مطابق امریکہ کا کہنا ہے کہ پاکستان‬ ‫کے ساتھ تعلقات میں طالق کا آپشن موجود ہی نہیں۔ امریکہ کا‬ ‫یہ بیان پاک امریکہ دوستی کے اٹوٹ ہونے کا زندہ ثبوت ہے۔‬ ‫یہی نہیں یہ اس کی سماج اور مذہب دوستی کا بھی منہ بولتا‬ ‫ثبوت ہے۔ اس کمبل سے چھٹکارے کی کوشش کرو گے تو بھی‬ ‫کمبل خالصی نہیں کرے گا۔ اس کمبل کی گرمایش اتنی ہے کہ‬ ‫اس کے بغیر بن نہ پاءے گی۔ امریکی چوری کا سواد اور چسکا‬ ‫ہی ایسا ہے کہ کم بخت لگی منہ سے چھٹتی نہیں۔ میں نے یہ‬ ‫تیر ہوا میں نہیں چالیا۔ اس کے بہ ہدف ہونے کا ثبوت کیمرون‬ ‫کا یہ ٹوٹکا ہے کہ پاکستان کے سیاستدان نہیں چاہتے کہ‬ ‫امریکی ان کے ملک سے واپس جائیں۔‬ ‫دنیا کا کوئ بھی اوالد واال طالق کی حمایت نہیں کرے گا۔ یہاں یہ‬ ‫واضح نہیں کون کس کو طالق دے گا۔ ہمارے ہاں زیادہ تر مرد‘‬ ‫عورت کو طالق دیتا ہے۔ کیمرون کا بیان واضح کرتا ہے کہ‬ ‫پاکستانی سیاست دان امریکہ کو طالق نہیں دینا چاہتے۔ گویا‬ ‫امریکہ کو ان کی ایسی کوئ خاص ضرورت ہی نہیں بلکہ ان کو‬ ‫چولہا چونکا چالنے کے لیے امریکہ کی ضرورت ہے۔ یہاں کی‬


‫سماجی روایت کے تناظر میں دیکھا جائے تو طالق کا حق‬ ‫پاکستان کے پاس ہے۔ مرد چاہے نامرد ہو‘ اسے عورت نہیں کہا‬ ‫جا سکتا۔ سیاست دانوں کی یہ غنڈہ نوازی ہے کہ جھوٹ موٹھ‬ ‫سہی‘ ہم پاکستانی مردوں میں شمار ہوتے ہیں۔ یہ طالق کے‬ ‫معاملے کا فقط ایک پہلو ہے۔ مغرب میں عورتیں مردوں کو‬ ‫طالق دیتی ہیں۔اس حوالہ سے طالق دینے کا حق امریکہ کے‬ ‫پاس چال جاتا ہے۔ طالق کا حق ان کے پاس ہو یا ان کے پاس‘‬ ‫ہم پاکستانی مرد ضرور قرار پاتے ہیں اور یہ ہمارے لیے کمال‬ ‫فخر کی بات ہے کہ ہم نام کے سہی‘ مرد ہیں۔‬ ‫اس حوالہ سے بات نہیں کروں گا کہ زندگی پر حکومت عورت‬ ‫کرتی ہے۔ مرد زبانی کالمی دبکاڑے اور بڑکیں مارتا ہے۔ لیکن‬ ‫بیگم کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوتا ہے۔ جہانگیر کے‬ ‫سارے فیصلے‘ نور جہان کے فیصلے ہیں۔ مرد جو باہر ناسیں‬ ‫پھالتا ہے لیکن گھر میں صرف اور صرف بطور پانڈی داخل ہوتا‬ ‫ہے۔ کسی معاملہ میں بیگم کی سفارش آ جانے کے بعد اپنا طرز‬ ‫تکلم ہی بدل لیتا ہے۔ جو بھی سہی مرد‘ مرد ہوتا ہے۔ اس کی انا‬ ‫اور سطع بلند ہوتی ہے۔ میں پہلے کہہ چکا ہوں اس معاملے پر‬ ‫گفتگو نہیں کروں گا۔ طالق کا نقطہ اس امر کی کھلی وضاحت‬ ‫ہے کہ ہم مرد ہیں۔ کیا ہوا جو مردانہ قوت میں ضعف آ گیا ہے۔‬ ‫یہ ضعف پیدایشی نہیں اس لیے قابل عالج ہے۔ آج ان گنت‬


‫دواخانے موجود ہیں لہذا عین غین معالجہ ممکن ہے۔ اس میں‬ ‫ایسی گھبرانے یا پریشان ہونے والی کوئی بات ہی نہیں۔‬ ‫معاملے کا یہ پہلو ذرا پیچیدہ اور گرہ خور ہے کہ آخر وچارے‬ ‫امریکیوں پر یہ دھونس کاری کیوں؟؟؟ پاکستانی سیاست دان‬ ‫!اتنے لچڑ کیوں ہو گے ہیں؟‬ ‫پشاور یا اس سے پار کے مرد اس ضمن میں ضد کریں تو بات‬ ‫سمجھ میں آتی ہے۔ پاکستانی سیاست دانوں کا پشاوری ذوق‬ ‫عجیب لگتا ہے۔ اس عالقہ کے لوگ بھی سیاسی نشتوں میں‬ ‫ہوتے ہیں لیکن تعدادی حوالہ سے زیادہ نہیں ہیں۔ جمہوریت کو‬ ‫تعداد سے مطلب ہوتا ہے۔ مردانہ طاقت چاہے کسی بھی سطع‬ ‫کی ہو۔ عین ممکن ہے سیاسی ہیلو ہاءے میں وہ ڈومینٹ ہوں‬ ‫اور شاید اسی حوالہ سے مردوں کا زنانہ شوق مردانہ میں بدل‬ ‫گیا ہو۔‬ ‫دینی اور سیاسی راہنماؤں کا کہنا ہے کہ نیٹو سپالئی انسانی‬ ‫نہیں‘ امریکی بنیادوں پر بحال ہوئی ہے۔ اس ضمن میں دو باتیں‬ ‫‪:‬پیش نظر رہنی چاہیں‬


‫ا۔ امریکہ انسانی حقوق کا ٹھکیدار ہے۔ اگر امریکہ کے حوالے‬ ‫سے بحال ہوئ ہے تو اسے انسانی بنیادوں پر لیا جانا چاہیے۔‬ ‫ب۔ بیگمانہ حکم عدولی کل کلیان کو دعوت دینے کے مترادف‬ ‫ہے۔ یہ کل کلیان طالق کا دروازہ کھول سکتی ہے جبکہ پاکستان‬ ‫سے تعلقات کے ضمن میں طالق کا آپشن موجود ہی نہیں۔ جب‬ ‫آپشن ٹھپ ہے تو نیٹو سپالئی کا امریکی بنیادوں پر بحال ہونا‬ ‫غلط اور غیر ضروری نہیں۔‬ ‫ایک طرف یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کے فضائ راستے‬ ‫سےنیٹو کو رسد کی سپالئی روز اول سے جاری ہے۔ ہم سخی‬ ‫لوگ ہیں اور سخیوں کے ڈیرے سے دوست دشمن بال تخصیص‬ ‫فیض یاب ہوتے رہتے ہیں۔ دوسرا ہمارے ہاں کا اصول رہا کہ‬ ‫کہو کچھ کرو کچھ۔ جب کہا جاتا ہے کہ فالں کام نہیں ہو گا تو‬ ‫سمجھ لو وہ کام ہو چکا ہے یا ہونے واال ہے۔ ہم کسی بھی سطع‬ ‫کی صفائی دے سکتے ہیں لیکن پرنالہ اپنی جگہ پر رکھتے ہیں۔‬ ‫کسی کو بھوک سے مرتے دیکھنا کوئی صحت مند بات نہیں۔ ہم‬ ‫اپنے لوگوں کو بھوک پیاس اور اندھیروں کی موت مار سکتے‬ ‫ہیں لیکن سفید رانوں والوں کو بھوکا مرتے نہیں دیکھ سکتے۔‬ ‫یہ بھی کہ معاملہ سفید رانوں تک محدود نہیں ہماری محبوبہ‬ ‫کے پاس ابراہیم لنکن والے نوٹ بھی ہوتے ہیں۔ نوٹ دیکھتے‬


‫ہی ہمارا موجی موڈ بن جاتا ہے۔ غیرت اصول اور کہا سنا اپنی‬ ‫جگہ‘ نوٹ اپنی جگہ۔‬ ‫طالق دینے کی کوئ تو وجہ ہو نی چاہیے۔ امریکہ سے تعلقات‬ ‫آخر کیوں ختم یا خراب کئے جائیں۔ بچارے سیاسی لوگ پلے‬ ‫سے خرچہ کرکے ممبر بنتے ہیں۔ کیا عوام ان کی ضرورتوں‬ ‫کے مطابق کما کر دیتے ہیں‘ بالکل نہیں۔ امریکہ نوٹ وکھاتا اور‬ ‫چکھاتا ہے اس لیے موڈ کا نہ بننا احمقانہ سی بات ہے۔ یہ لوگ‬ ‫امریکہ کے کام هللا واسطے نہیں کرتے۔ اگر پاکستانی عوام کو‬ ‫خود مختاری حاصل کرنے کا اتنا ہی شونق ہے تو امریکہ برابر‬ ‫نوٹ کمائیں وکھائیں اور ان کی تلی ترائی کریں۔ اگر تلی ترائی‬ ‫نہیں کر سکتے تو چونچ بند رکھیں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ طالق‬ ‫دینے کی صورت میں ناصرف جہیز واپس کرنا پڑے گا بلکہ حق‬ ‫!مہر بھی دینا پڑے گا۔ کون دے گا؟‬ ‫عوام کے پاس تو دو وقت کی روٹی کھانے کو نہیں حق مہر‬ ‫کہاں سے آئے گا۔ جہیز جو کھایا پیا جا چکا ہے کدھر سے آئے‬ ‫گا۔‬ ‫امریکہ کو طالق دینے کا فیصلہ کوئی ون مین گیم نہیں ہے۔‬


‫سابق سفیر کا کہنا ہے کہ جب تک پارلیمنٹ فیصلہ نہیں کرتی‬ ‫امریکہ سے تعلقات منجمد نہیں کر سکتے۔ گویا امریکہ کو طالق‬ ‫دینے کا حق عوام کے پاس نہیں ہے۔ عوام کو اپنی حد میں رہنا‬ ‫چاہیے۔ عوام الڈلی بھی نہیں ہے جو کھیلن کو چاند مانگ رہی‬ ‫ہے دوسرا چاند ملوکہ جگہ ہے۔ چاند پر صرف اور صرف قبضہ‬ ‫گروپ کا حق ہے۔‬ ‫ہمارے پڑوس میں ایک جوڑا اقامت رکھتا ہے۔ ان کے تین‬ ‫لڑکے اور ایک لڑکی ہے۔ بڑے ہی پیارے پیارے بچے ہیں۔ بد‬ ‫قسمتی سے مرد جوا کھیلتا ہے اور نشہ بھی کرتا ہے۔ عورت‬ ‫محنت مشقت کرکے ان سب کا پیٹ بھر تی ہے۔تھکی ماندی جب‬ ‫گھر آتی ہے تو اس کی حالت قابل رحم ہوتی ہے۔ ایسے میں‬ ‫کوئ چوں بھی کرتا ہے۔ زبانی اور عملی طور خوب لترول کرتی‬ ‫ہے۔ مرد چوں بھی نہیں کرتا۔ چوں کرنے کی اس کے پس‬ ‫گنجائش ہی نہیں۔‬ ‫هللا نے مرد کو کنبہ کا کفیل بنایا ہے۔ اگر عورت کام کرتی ہے تو‬ ‫یہ مرد کے ساتھ تعاون ہے ورنہ وہ کفالت کی ذمہ دار نہیں۔‬ ‫خرچ اٹھانے اور تعاون کرنے والے کا ہاتھ اوپر رہتا ہے۔ اس‬ ‫حوالہ سے اسے بزتی کرنے کا بھی پورا حق حاصل ہے۔‬


‫امریکہ ہماری کفالت کرتا ہے۔ سارے حق حقوق پورے کر رہا‬ ‫ہے لہذا بزتی کرنے کا بھی اصولی طور پر اسے حق حاصل ہے۔‬ ‫ہم اس چمکیلی اور نخریلی محوبہ کو طالق دینا بھی چاہیں تو‬ ‫طالق نہیں دے سکتے۔ جو ڈالر دیتا ہے اصول اور قانون بھی‬ ‫اسی کا چلتا ہے۔ امریکی عورتیں طالق دیتی ہیں۔ ہم اس وقت‬ ‫تک امریکہ کی غالمی میں رہیں گے جب تک وہ ہمیں طالق‬ ‫نہیں دے دیتا۔ ویسے ہماری خیر اسی میں ہے کہ ہم طالق کا نام‬ ‫بھی زبان پر نہ الئیں کیونکہ اس نے جس کو بھی طالق دی‬ ‫ہے اسے لنڈا بچا ہی نہیں کیا اسے لولہ لنگڑا بھی کیا ہے‬

‫خودی بیچ کر امیری میں نام پیدا کر‬

‫ایک شخص چور کے پیچھے بھاگا جا رہا تھا۔ رستے میں‬ ‫قبرستان آ گیا۔ چور آگے نکل گیا جبکہ وہ شخص قبرستان میں‬ ‫داخل ہو گیا۔‬


‫کسی نے پوچھا “یہ کیا؟‬ ‫اس نے جوابا کہا “اس نے آخر آنا تو یہاں پر ہے نا“۔‬ ‫ایک اخباری اطالع کے مطابق الہور ہائیکورٹ نےتوہین عدالت‬ ‫کے حوالہ سے اعلی شکشا منشی کالجز کے قابل ضمانت وارنٹ‬ ‫جاری کر دئے ہیں۔ یہ کاروائی ڈی ڈی سی (کالجز) ڈاکٹر اکرم‬ ‫کی رٹ کے حوالہ سے عمل میں آئ ہے۔ ڈی ڈی سی (کالجز)‬ ‫ڈاکٹر اکرم اپنی جیت کے نشہ سے سرشار ہوں گے۔ اعلی شکشا‬ ‫منشی کالجز کے قابل ضمانت وارنٹ جاری ہونا کوئ ایسی عام‬ ‫اور معمولی بات نہیں۔ عدالت نے وہی کیا جو کیا جانا چاہیے تھا۔‬ ‫منصف قانون کے دائرے میں رہتا ہے اور قانون کی حدود کسی‬ ‫کو توڑنے نہیں دیتا۔ کاال گورا ماڑا تگڑا گریب امیر قانون کی‬ ‫نظروں میں برابر کی حیثیت رکھتے ہیں۔‬ ‫عدالت نے جو کیا درست کیا اور درست کے سوا کچھ نہیں کیا۔‬ ‫سوال یہ اٹھتا ہے کہ ڈی ڈی سی(کالجز) ڈاکٹر اکرم نے اعلی‬ ‫شکشا منشی کالجز ہاؤس کے مروجہ اصول و ضابط کی پھٹیاں‬ ‫اکھیڑنے کی جسارت تو نہیں کی؟‬


‫اگر اس نے ایسا کیا ہے تو اپنے انجام کو کیوں بھول گیا۔ کیا‬ ‫وہ یہ نہیں جانتا کہ آخر لوٹ کر آنا تو یہاں پر ہی ہے۔ کیا وہ‬ ‫نہیں جانتا تھا کہ اعلی شکشا منشی کالجز ہاؤس میں بڑے بڑے‬ ‫پھنے خانوں کی زندہ ہڈیاں بوٹیاں دفن ہیں۔ کوئ نشان تک نہیں‬ ‫تالشا جا سکتا۔ اب صرف اور معاملہ ہے لیکن آتے وقتوں میں‬ ‫اس معاملے کے بطن سےان گنت معامالت جنم لیں گے۔‬ ‫یہ بڑے کمال کا سچ ہے کہ اس عہد کی عدلیہ آتے کل کے لیے‬ ‫اعی درجے کا حوالہ چھوڑ جاءے گی۔ اس کا کردارمثال بنا رہے‬ ‫گا۔ عدالت کو کوئی اور کام نہیں جو ڈاکٹر اکرم کےمعامالت کو‬ ‫دیکھتی پھرے گی۔ کہاں تک بھاگیں گے۔ دوڑ دھوپ کرنے‬ ‫والوں کو پہاڑ کے نیچے آنا ہی پڑتا ہے۔ جو بھی مہا منشی‬ ‫ہاؤس سے ٹکرایا ہے‘ عبرت کی جیتی جاگتی تصویر بن گیا ہے۔‬ ‫کوئی مائی کا الل پیدا نہیں ہوا جو ان کی پہلی رکات سے بچ کر‬ ‫نکل گیا ہو۔ یہ بھی کہ کسی ریسرچ اسکالر کو ہمت نہں ہو سکی‬ ‫کہ وہ یہاں بلڈوز ہونے والوں کا اتا پتا دریافت کرنے کی ہمت کر‬ ‫پایا ہو۔ یہ ہڈیوں بوٹیوں کا بال کنار سمندر ہے۔ میں سب جانتے‬ ‫تجربہ رکھتے اور بال مرہم زخمی‘ ڈاکٹر اکرم کی ہڈی بوٹی کی‬ ‫خیر کی دوا کےلیے دست بہ دعا ہوں۔ تصویری نمایش کے‬ ‫شوقین اس کمزوروں کے پرحسرت قبرستان کی جانب شوقین‬


‫نظریں اٹھا کر تو دیکھیں‘ نانی نہ یاد آ گئ تو اس پرحسرت‬ ‫قبرستان کا نام بدل دیں۔‬ ‫ہمارے ہاں تعلیم عام کرنےکی رانی توپ سے دعوے داغے‬ ‫جاتے ہیں لیکن عملی طور پر ناخواگی کے بیج بوئے جاتے ہیں۔‬ ‫اعلی اور تحقیق سے متعلق تعلیم کی راہوں میں مونگے کی‬ ‫چٹانیں کھڑی کرنے کی ہر ممکنہ کوششیں کی جاتی ہیں۔ اس‬ ‫ضمن میں صرف ایک حوالہ درج کرنے کی جسارت کروں گا۔‬ ‫۔حساب شماریات وغیرہ این ٹی ایس میں شامل ہوتے ہیں۔‬ ‫آرٹس والوں کا ان مضامین سے کیا کام ۔ اس ٹسٹ میں ان کے‬ ‫مضامین سے متعلق سوال داخل کئے جائیں۔ یوں لگتا ہے یہ‬ ‫مضامین انھیں فیل کرنے یا ٹسٹ میں حصہ نہ لینے کی جرات‬ ‫پیدا کرنے کے لیے این ٹی ایس سی میں داخل کئے گئے ہیں۔‬ ‫حساب اور شماریات کا تعلق چناؤ وغیرہ سے ہے۔ ان مضامین‬ ‫کا چناؤ ٹسٹ میں شامل کرنا بےمعنی اور الیعنی نہیں لگتا۔ ایک‬ ‫اخباری خبر کے مطابق چناؤ کے حوالہ سے بارہ کروڑ روپے‬ ‫سکہ رائج الوقت بھاؤ لگ گیا ہے۔ اگر یہ رقم کسی گریب آدمی‬ ‫کو دے دی جائے تو وہ اتنی بڑی رقم دیکھ کر ہی پھر جائے گا۔‬ ‫اگر چیڑا اور پکا پیڈا نکال تو گنتے گنتے عمر تمام کر دے گا۔ یہ‬ ‫بھی ممکن ہے کہ گنتی کے دوران ہی کوئی ڈاکو لٹیرا اسے‬


‫گنتی کی مشقت سے چھٹکارا دال دے۔ حساب اور شماریات‬ ‫اگرچہ بڑے اہم اور کام کے مضامین ہیں لیکن ان کا متعلق پر‬ ‫اطالق ہونا چاہیے۔ غیر متعلق پر اطالق بڑا عجیب وغریب لگتا‬ ‫ہے۔‬ ‫عجیب ہو یا نہ ہو' اس معاملے کا تعلق غربت سے ضرور ہے۔‬ ‫جمہوریت امریکہ سے درامد ہوئی ہے۔ یہ مقامی‘ عربی یا‬ ‫‪:‬اسالمی نہیں ہے۔ اس کا نعرہ ہے‬ ‫عوام کی حکومت‘ حکومت تو هللا کی ہے۔‬ ‫عوام کے ذریعے‘ پاکستان کا مطلب کیا ال الہ اال هللا' کدھر گیا۔‬ ‫عوام کے لیے‘ وڈیرے کیا ہوئے۔ وہ حکومت کرنے کے لیے‬ ‫باقی رہ جاتے ہیں۔ گویا وہ سرکار ٹھرتے ہیں اور عوام رعایا۔‬ ‫براءے نام سہی‘ رعایا عوام کا حوالہ موجود ہےاور یہ رعایا‬ ‫عوام کی تسکین کا بہترین موجو ہے۔ بارہ کروڑ بھاؤ نے تو‬ ‫برائے نام رعایا عوام کی اصل حیقیت کی قلعی کھول کر رکھ دی‬ ‫ہے۔ میری اس دلیل سے واضح ہو جاتا ہے کہ حساب اور‬ ‫شماریات جیسے مضامین ہر کسی کے لیے ہو ہی نہیں سکتے۔‬


‫ہاں البتہ مال خور منشی شاہی کے لیے بھی الزمی سے لگتے‬ ‫ہیں۔ ان کی سلیکشن کے حوالہ سے ان مضامین کی برکات کو‬ ‫نظرانداز کرنا‘ مال خور منشی شاہی کو ناقابل تالفی نقصان‬ ‫پہچانے کے مترادف ہے۔‬ ‫اقبال ساری عمر خودی خودی کرتا رہا اور خودی میں ترقی بتاتا‬ ‫رہا۔ میں نے تو آج تک خوددار لوگوں کو ذلیل وخوار ہوتے‬ ‫دیکھا ہے۔ اپنی اور سماجی خودی بیچنے والے نام پیدا کرتے‬ ‫آئے ہیں ۔جمہوریت کے لفافے میں انھوں نے قومی آزادی‬ ‫عزت اور حمیت کا خون ملفوف کیا ہے۔ اس کارنامے کے صلہ‬ ‫میں پیٹ بھر کھایا ہے اور محلوں میں اقامت رکھی ہے۔ عہد‬ ‫حاضر میں خودی وکاؤ مال ہو گئی ہے۔ جو بھی رج کھاناچاہتا‬ ‫ہے اسے اقبال کے کہے پر مٹی ڈال کر اس کے مصرعے کو‬ ‫‪:‬یوں پڑھنا اور اسی حوالہ سے زندگی کرنا ہو گی‬ ‫خودی بیچ کر امیری میں نام پیدا کر‬ ‫اگر کوئ اقبال کے فلسفے پر جما رہا تو نام پیدا کرنے کا خواب‬ ‫گلیوں میں بےچارگی اور شرمندگی کی زندگی بسر کرے گا۔‬ ‫خودی کو زندگی کا مقصد بنانے والے ہوم گورنمنٹ سے بھی‬


‫چھتر کھاتے دیکھے گئے ہیں۔‬

‫امیری میں بھی شاہی طعام پیدا کر‬

‫ضلع قصور بلھےشاہ صاحب نور جہان فالودہ میتھی اندرسےاور‬ ‫جوتوں کےحوالہ سے پوری دنیا‬ ‫میں پہچانا جاتا ہے لیکن اب دو اور چیزیں اس کی شہرت کے‬ ‫کھاتے میں داخل ہو گئی ہیں۔ عمران خان کے جلسےمیں لوگوں‬ ‫نےکرسیاں اٹھا لیں۔ کرسیاں کیوں اٹھائی گئیں بالکل الگ سے‬ ‫موضوع گفتگو ہےتاہم یہ وقوعہ تاریخ میں یاد رکھا جائے گا‬ ‫یہی نہیں قصورکی وجہ شہرت ضرور بنا رہے گا۔ دوسراوقعہ‬ ‫بجلی کےحوالہ سے ہڑتال جلوس اورعوامی ردعمل ہے۔ اس‬ ‫کاکوئی اثرنہیں ہوا یہ کوئ نئی اورعجیب بات نہیں ہاں نئی‬ ‫اورعجیب با ت یہ ہےکہ لوگوں کی جوتوں الٹھیوں سےمرمت‬ ‫اورسیوا نہیں ہوئی ورنہ ہر گستاخ اورحق مانگے والے کے‬ ‫پاسے ضرورسیکے گئے ہیں۔ بات بھی اصولی ہے احتجاجی اور‬


‫ہڑتالی نقص امن اور کارسرکار میں خلل کا باعث بنتے ہیں۔‬ ‫کارسرکار کیاہے‬ ‫کھانا پینا اورموج مستی کرنا۔‬ ‫میرےنزدیک جیب کترےدفترشاہی اورہاؤسزسےمتعلق لوگ‬ ‫سچےدرویش اورهللا کوماننےوالے ہیں۔ جب ان مینسےکوئ‬ ‫واردات ڈالتاہےتواسےپورایقین ہوتاہےکہ متاثرہ کا هللا مالک‬ ‫ہےاوروہ اسےاپنی جناب سے اورعطاکردےگا۔ گویامتاثرہ پر‬ ‫رائ بھرفرق نہینپڑےگا۔ ایک شخص‬ ‫دوالینےجارہاہےاوررستےمینجیب کٹ جاتی ہےکیاجیب کٹ جانے‬ ‫کےبعددوانہینآتی دواپھربھی آتی ہے۔ گویاسبب توهللا کےپاس‬ ‫ہیناس لیئےجیب کاٹنا جیب کترےکااصولی حق ہے۔‬ ‫میرے نزدیک جیب کترے دفترشاہی اورہاؤسز سے متعلق لوگ‬ ‫سچے درویش اور هللا کو ماننے والے ہیں۔ جب ان میں‬ ‫سےکوئی واردات ڈالتا ہےتو اسے پورا یقین ہوتا ہےکہ متاثرہ‬ ‫کا هللا مالک ہے او روہ اسے اپنی جناب سے اورعطا کر دے گا۔‬ ‫گویا متاثرہ پر رائی بھرفرق نہیں پڑے گا۔ ایک شخص دوا‬ ‫لینےجا رہا ہےاور رستےمیں جیب کٹ جاتی ہے کیا جیب کٹ‬ ‫جانے کےبعد دوانہیں آتی دوا پھر بھی آتی ہے۔ گویا سبب تو هللا‬


‫کے پاس ہیں اس لیئے جیب کاٹنا جیب کترے کا اصولی حق ہے۔‬ ‫کچھ ادارےعوام کے حق کواپنے ہاتھ میں لینےکی کوشش میں‬ ‫ہیں۔ یقینا یہ غلط طرزعمل ہے۔ ہرکسی کواپنی حد میں رہنا‬ ‫چاہیے۔ وہ خلفاء کےقاضی صاحبان تھے جوخلیفہ کو بھی‬ ‫کٹہرے میں کھڑا کر لیتےتھے۔ یہ خلیفہ نہیں خلیفے ہیں۔ ایک‬ ‫طالب علم کےمحترم والد صاحب ماسٹرصاحب کے پاس‬ ‫اپنےبیٹے کی تعلیمی حالت دریافت کرنے گئے۔ ماسٹر صاحب‬ ‫نےانھیں بتایا کہ ان کا الڈال تو خلیفہ ہے۔ انھیں اس جواب پر‬ ‫شرمندگی ہوئی ہوگی۔ ہمارےعوام شرمندہ نہیں ہیں کیونکہ‬ ‫۔ ‪ 66‬سے‪ 10‬فیصدعوام اس کاربد میں حصہ لینے کے سزاوار ‪1‬‬ ‫ہوتے ہیں‬ ‫۔ حصہ لینے کے بعد وہ سبزہ بیگانہ ہو گئے ہوتے ہیں اور ‪2‬‬ ‫کسی معاملے میں ان کا اچھا برا عمل دخل نیہں رہ گیا ہوتا۔‬ ‫۔ ‪ 66‬سے‪ 10‬فیصدعوام خلیفہ نہیں خلیفے ہی چن سکتےہیں۔‪3‬‬ ‫۔ تمام پڑھے لکھے لوگ خلیفے چننےمیں مصروف ہوتےہیں۔‪4‬‬ ‫۔ ‪66‬سے‪ 10‬فیصد ووٹ تقسیم کےعمل میں داخل ہو کرن ودو ‪5‬‬ ‫گیا رہ ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں خیرکی توقع کوئی دیوانہ ہی‬


‫کرسکتا ہے۔‬

‫۔ چناؤمیں حصہ لینے کا عمل مال سے ممکن ہےعوام کی گرہ ‪6‬‬ ‫میں مال کہاں اس حقیقت کے با وجود عوام کا مقدر بھوک‬ ‫پیاس اندھیرہ اور جوتےکھانا ہے زبانی کالمی سہی ان کا مان تو‬ ‫رکھا جارہا ہےاو ریہ کوئی یہ معمولی بات نہیں۔‬ ‫۔ نازکی اس کے لب کی کیا کہیے پنھکڑی اک گالب کی سی ‪7‬‬ ‫ہے‬ ‫ستر میں سے پچاس لڑکوں نے فیض احمد فیض کا شعر بتایا۔‬ ‫جمہوریت کےحوالہ سے اسے درست ماننا پڑے گا۔ اگرتعداد‬ ‫درستی کا معیارہے تو کوئی حق گو اور حق پسند درست نہیں‬ ‫ٹھرےگا۔ چھوٹی ہو یا بڑی غلطی' غلطی ہی ہوتی ہے اوراس کا‬ ‫بھگتان زندگی کو متوازن رکھ سکتا ہے۔‬ ‫پروفیسر صاحبان ہڑتال کر رہے ہیں اوراحتجاج بھی کریں گے‬ ‫یہ ان کا اصولی حق ہے حق نہ دینا اورنہ دینے کا مشہورہ با‬ ‫اختیارلوگوں کا اصولی حق ہے۔ وہ پروفیسر صاحبان کا ووٹ‬


‫لے کرسرکارنہیں بنے او رنہ ہی ان کی مدد سے شکشا منشی‬ ‫ک والٹ ہاؤس میں کرسی ملی ہے۔ یہ تو ان کے ایک کلرک کی‬ ‫مار نہیں ہیں۔ پتہ نہیں یہ خود کو کیا سمجھتے ہیں۔ قصور کے‬ ‫حالیہ تاحد نظرمجمع کو خاطرمیں نہیں الیا گیا ۔ یہ کس کھیت کی‬ ‫‪.‬مولی گاجر ہیں‬ ‫میری موجودہ بحران کے حوالہ سے بہت سارے مزدور پیشہ‬ ‫لوگوں سے بات ہوئی اکثرت کو اس سے دل چسپی ہی نہیں۔ وہ‬ ‫اسے بڑوں کا کھیل سمجھتے ہیں۔ وہ اسے اپنا مسلہ نہیں‬ ‫سمجھتے۔ وہ دال روثی اور پانی کی بقدر ضرورت فراہمی کو‬ ‫پہال اور آخری مسلہ سمجھتے ہیں۔ بیل کو کسی نے کہا تمہیں‬ ‫چور لے جائیں اس نے کہا مجھے اس سے کیا کام کروں گا تو‬ ‫چارہ ملےگا۔ یہاں کون سا اکبر بادشاہ کے تخت پر بیٹھا ہوں'‬ ‫جو وہاں جا کر بےسکون ہو جاؤں گا۔ بات کام اورچارے تک‬ ‫رہے تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔ لوگ کام اور چارے‬ ‫سےمحروم ہو گئےہیں۔ وہ کام پر آتےہیں لیکن بجلی کے سبب‬ ‫کام نہیں کر پاتے۔ جب خالی ہاتھ واپس جاتےہیں تو ان پر‬ ‫پریشانی کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے۔ وہ خود کومجرم سا محسوس‬ ‫کرتے ہیں۔ بچوں کی بھوک اور باپ کی بیماری کے لیے دوا‬ ‫میسر نہ آنے کے سبب مایوسی سے بار بار مرتے ہیں۔‬


‫دوسری طرف معاملہ یہ کہ کوئی سچائی کو تسلیم کرنے کے‬ ‫لیے تیار ہی نہیں۔ بحث چھڑ گئی کہ ہاتھی انڈے دیتا ہے یا‬ ‫بچےمولوی صاحب نے انڈے پرشرط لگا دی۔ جب اس کی بیوی‬ ‫کوعلم ہوا توخفا ہوئی۔‬ ‫جوابا مولوی صاحب نےکہا ہاروں تب جب مانوں گا۔‬ ‫ہہ سب نواب صاحب صاحبزادہ صاحب راجہ صاحب چوہدری‬ ‫صاحب وغیرہ ہیں اوراپنے پرائےاورملکی مال کی کمی نہیں۔‬ ‫بس اب امیری میں شاہی طعام کا ذائقہ پیدا کرنے کی کوشش کر‬ ‫رہے ہیں۔ لوگ سڑکوں پرآ جائیں یا بھوک پیاس سے مر جائیں‬ ‫انہیں اس سےکوئی غرض نہیں۔ وہ هللا کریم کی ذات پر بھروسہ‬ ‫رکھتے ہیں کہ وہ بہتر رزق دینے واال ہے۔ اس لیے یہ ہو ہی‬ ‫نہیں سکتا کہ عوام بھوک سے مرجائیں گے۔ هللا کریم پتھرمیں‬ ‫کیڑے کورزق عطا کرتا ہے۔‬ ‫عوام کا یہ کہنا الیعنی اوربےمعنی بلکہ چٹا ننگا جھوٹ ہےکہ وہ‬ ‫بھوک رکھتے ہیں کہ وہ بہتررزق دینے واال ہے۔ اس لیے یہ ہو‬ ‫ہی نہیں سکتا کہ عوام بھوک سے مر جائیں گے۔ هللا کریم‬ ‫پتھرمیں کیڑے کورزق عطا کرتا ہے۔ عوام کا یہ کہنا الیعنی اور‬


‫بےمعنی بلکہ چٹا ننگا جھوٹ ہے کہ وہ بھوک سےمر رہے ہیں‬ ‫بھوک پیاس کے متعلق بات کرنے والے سازشی غیرذمہ دار‬ ‫بیرونی ایجنٹ دہشت گرد امریکہ کےمجرم اورنائن الیون کی‬ ‫سازش میں شریک تھےاس لیےانھیں معاف کرنا یا کھال چھوڑ‬ ‫دینا اس عہد کی بہت بڑی غلطی ہوگی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ‬ ‫لوگ پاکستان دشمن ملک کے لیےکام کر رہےہوں اور پاکستان‬ ‫کی سیاسی پارٹیوں کے بےمثال اتحاد کو پارپارہ کرنے کی‬ ‫کامیاب کوشش کررہےہوں۔‬ ‫۔‬

‫رشتے خواب اور گندگی کی روڑیاں‬

‫پچھلے دنوں ایک محترم لیڈر کا محترم ڈیپٹی وزیر اعظم کے‬ ‫حوالہ سے قول زریں پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ان کا کہنا تھا ڈیپٹی‬ ‫وزیر اعظم دن میں خواب دیکھنا بند کریں۔ محترم کا سابقہ اس‬ ‫لیے استعمال نہیں کیا کہ وہاں یہ سابقہ موچود نہیں تھا لہذا یہ‬ ‫میرے قلم کی گردن پر نہیں آتا۔ ہاں البتہ اس قول زریں کے‬


‫عجیب و غریب ہونے پر شبہ نہیں۔ نیند میں خواب ہی تو دیکھے‬ ‫جاتے ہیں۔ جاگتے میں سپنے دیکھے جاتے۔ خواب اور سپنے‬ ‫قریب قریب کی چیزیں ہیں۔ ان میں انتر یہ ہے کہ خواب سوتے‬ ‫میں اور سپنے جاگتے میں دیکھتے ہیں تاہم اپنی حقیقت کے‬ ‫حوالہ سےدونوں چیزیں برابر کا سٹیٹس رکھتی ہیں۔ دونوں کی‬ ‫تعبیر حقیقت سے ہمکنار ہو قطعی ضروری نہیں اور یہ بھی‬ ‫ضروری نہیں کہ سیاسیی خواب اور سیاسیی سپنے اپنی تعبیر‬ ‫کے حوالہ سے بالکل ٹھس ہو جائیں۔‬ ‫خواب یا سپنے دیکھنے پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی ہاں البتہ‬ ‫خواب پر کسی نہ کسی سطع پر روک ممکن ہے۔ سونے ہی نہ‬ ‫دیا جائے۔ کوئی بہت ہی بڑی پریشانی کٹھری کر دو نیند حرام ہو‬ ‫جائے۔ موت سے بڑھ کر کوئی پریشانی نہیں ہو سکتی۔ کہاوت‬ ‫ہے نیند تو سولی پر بھی آ جاتی ہے۔ نیند آئے گی تو خواب‬ ‫ناگزیر ہیں۔ گویا سو ہتھ رسہ سرے پہ گانٹھ خوابوں پر روک‬ ‫ممکن نہیں۔ یہ ڈیپٹی وزیر اعظم کا مسلہ نہیں ہے کہ وہ سیاشی‬ ‫خواب نہ دیکھیں بلکہ یہ بیان دینے والے کی سر پیڑ ہے کہ وہ‬ ‫سیاسی خواب دیکھنے پر روک کس طرح لگاتے ہیں۔ چلو‬ ‫سونے پر روک لگ جاتی ہے لیکن جاگتے میں سپنے دیکھنے‬ ‫پر روک کیسے لگے گی۔‬


‫طاقت نشہ پیسہ اور اقتدار نیند کی مترادف حالت کا نام ہے۔ ان‬ ‫چاروں صورتوں میں خواب دیکھنا فطری سی چیز ہے بلکہ یہ‬ ‫سارا موسم خواب سا ہوتا ہے۔ چاروں اور رومانی نظارے‬ ‫موجود رہتے ہیں۔ ادھر ادھر پریوں کا رقص غلمان جام لیے‬ ‫رقص نما حالت میں پھرتے ہیں جی حضوریے ہمہ وقت گردش‬ ‫کرتے رہتے ہیں۔ شہر کو آگ لگا کر نظارہ کیا جاتا ہے۔ ٹی سی‬ ‫افروزوں کی زبان پر ہوتا ہے حضور کا شوق سالمت رہے شہر‬ ‫اور بہت۔‬ ‫کوئی بھوک سے مر رہا ہے انھیں اس سے کچھ غرض نہیں‬ ‫ہوتی۔ انھیں یہ سب دیکھائ نہیں دے رہا ہوتا اور ناہی کوئی آگاہ‬ ‫کرنے واال ہوتا ہے۔ ناہی انھیں خراب موسم دیکھنے کی تمنا‬ ‫ہوتی ہے جو آگاہ کرنے کی جسارت کرتا ہے جان سے جاتا گویا‬ ‫جان کی سالمتی کے حوالہ سے سب ہرا کا ورد کرنا ضروری‬ ‫ہوتا ہے۔ یہ مشاہدہ کی بات ہے کہ سوئے شخص کو جگانا‬ ‫ناگوار عمل کے زمرے میں آتا ہے۔ جگانے سے راحت ہی ختم‬ ‫نہیں ہوتی حسین خوابوں کا بھی ستیاناس مار کر رکھ دیا جاتا‬ ‫ہے۔‬ ‫ماڑے شخص کے خواب ماڑے اور غیر سیاسی قسم کے ہوتے‬ ‫ہیں۔ ماڑے شخص کے خواب کی چھالنگ سڑکی ہوٹل میں بیٹھ‬ ‫کر سالم مرغے کی پلیٹ اور چھابے میں موجود تین سے چار‬


‫روٹیوں تک محدود ہوتی ہے۔ ماڑا بھی یہ پسند نہیں کرے گا کہ‬ ‫ابھی اس نے مرغے کی ٹانگ کو ہاتھ لگایا ہی ہو کہ حضرت‬ ‫زوجہ ماجدہ نیند سے جگا کر آٹا نہ ہونے کی منحوس‬ ‫خبرسنائے۔ اس کا لہجہ گرجداراور طعنہ آمیز بھی ہو۔ ماڑا گھور‬ ‫کر دیکھنے کی غلطی نہیں کر سکتا۔ گھور کر دیکھنے کی‬ ‫جسارت کا نتیجہ کئ گھنٹوں کی الیعنی کل کل کو دعوت دینا ہے۔‬ ‫پیسے نہیں ہیں تو وہ کیا کرے یہ اس کا مسلہ نہیں ہے۔ اس نے‬ ‫کون سا امریکہ اپنے نام لگوانے کے لیے کہہ دیا ہوتا ہے۔‬ ‫یہ تو ایک ماژے کے خوابی نظآرے کی حالت ہے۔ وہ خواب میں‬ ‫بھی مرغ کے الون سے پیٹ بھر روٹی نہیں کھا سکتا۔ حاکم کے‬ ‫سامنے بڑے بڑوں کا پتہ پانی ہو جاتا ہے۔ ماڑے کے منہ میں‬ ‫مرغے کی دائیں یا بائیں ٹانگ کہاں سیاسی خواب تو بڑی دور‬ ‫کی بات ہے۔ ہاں سیاسی دنوں میں سیاسی خواب دیکھ سکتا ہے۔‬ ‫اس کے سیاسی خواب بادشاہ لوگوں کے سے نہیں ہوتے۔ بڑے‬ ‫بی بے ضرر اور معصوم سے ہوتے ہیں۔ کسی بھی سیای ڈیرے‬ ‫پر پیٹ بھر روٹی میسر آ جاتی ہے۔ ووٹوں کے عوض پان سات‬ ‫دن کا آٹا وٹا الیا جا سکتا ہے۔ عوامی فالحی جمہوریت یہی ہے‬ ‫کہ ہر پندرہ بیس دن بعد اس سیاسی میلے کا اہتمام ہوتے رہنا‬ ‫چاہیے۔ یہ کیا گھپال ہے چار دن دے کر چار پانچ سالوں میں‬ ‫لوٹ سیل کو شعار بنایا جائے۔ یہ ٹھیک ہے آج کے بادشاہ لوگ‬


‫خرچہ کرکے بادشاہی منصب حاصل کرتے ہیں۔ لوٹ میلہ منانا ان‬ ‫کا سیاسی اور معاشی حق ہے۔ روال یہ ہے کہ دینا لینے کے‬ ‫پاسنگ بھی نہیں ہوتا۔ اس حوالہ سے راءج الوقت جمہوریت‬ ‫فالحی جمہوریت نہیں گل پھاہی جمہوریت ہے۔ پندرہ دن بعد نا‬ ‫سہی تیس دن بعد ایکشن کرا دینے میں کیا برائ یا خرابی ہے۔‬ ‫ماڑا ایک ہفتہ پیٹ بھر کھا کر باقی تین ہفتے گزار سکتا ہے۔‬ ‫پورے چار ہفتے بھوکا یا زیادہ تر بھوکا رکھنا غیر فالحی‬ ‫جمہوریت کے کھاتے میں آتا ہے۔ لوٹ مار کے تین ہفتے اتنے‬ ‫تھوڑے بھی نہیں ہوتےگویا ایک ہفتہ گریب کا تین ہفتے شاہ‬ ‫کے۔‬

‫ایک کھاتے پیتے گھرانے کی کڑی گریبوں کے بدبودار گھرانے‬ ‫میں بیاہی گئی۔ بات کو ذرا آگے بڑھنے دیں۔ ابھی سے یہ سوال‬ ‫ذ ہن میں نہ الئیں کہ کیسے بیاہی گئ اور گریب گھرانے کے‬ ‫لیے میں نے بدبودار کا سابقہ کیوں بڑھایا ہے۔ میں نے کھاتے‬ ‫پیتے گھرانے کے لیے خوشبودار کا سابقہ استعمال نہیں کیا‬ ‫حاالنکہ کھاتے پیتے گھرانوں میں خوشبوئیں ہمہ وقت تھرکتی‬ ‫رہتی ہیں۔ دونوں سوالیے کسی دوسرے وقت کے لیےاٹھا‬ ‫رکھیے۔ آتے ہی اس کڑی نے اس گھر لیپا پوچی کے لیے کمر‬ ‫کس لی۔ تین چار دن بعد کہنے لگی دیکھا میں نے گندگی ختم کر‬


‫دی ہے۔ گندگی اور گندگی کی بو ختم نہیں ہوئی ہوتی بلکہ وہ‬ ‫اس ماحول کی عادی ہو چکی ہوتی ہے۔‬ ‫آج کے دور میں باراستہ لنکنی جمہوریت ہر آنے والے بادشاہ‬ ‫کو تخت اختیار پر بیٹھنے سے پہلے تخت اختیار کے چاروں‬ ‫پاسے غبن رشوت ہیرا پھیری بدمعاشی دھونس د اھندلی وغیرہ‬ ‫کی روڑیاں نظر آتی ہیں۔ تخت اختیار پر قبضہ فرما ہونے کے‬ ‫کچھ ہی دونوں بعد سب اچھا نظر آنے لگتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے‬ ‫کہ اس نے ہر خرابی کو جڑ سے اکھیڑ دیا ہے۔ جی حضوریے‬ ‫بھی اسے یقین دال دیتے ہیں کہ آپ نے صفایاں کر دی ھیں۔ اس‬ ‫کے چمچوں اور گماشتوں کے حوالہ سے صفایاں ہو چکی ہوتی‬ ‫ہیں اب صرف سب اچھا باقی ہوتا ہے۔ اہل قلم نمبر ٹانکنے کے‬ ‫لیے اس کے کارناموں کی توتیاں بجاتے ہیں۔ بعض تو بڑے بھو‬ ‫نپو پکڑ لیتے ہیں۔ کوئی یہ کہنے لے یے تیار نہیں ہوتا کہ‬ ‫حضور آپ بھرے بازار میں پورے پروٹوکول کے ساتھ الف‬ ‫ننگے پھر رہے ہیں۔ عین ممکن ہے انھیں ظل سبحانی بالباس‬ ‫نظر آتے ہوں۔ لوگوں کا سچ کہا چاہے اکثرتی کیوں نہ ہو‬ ‫اپوزیش کی سازش معلوم ہوتی ہے حاالنکہ وہ سازش نہیں‬ ‫حقیقت ہوتی ہے۔ خواب خواب ہوتے ہیں حقیقت کا ان سے دور‬ ‫کا بھی رشتہ نہیں ہوتا۔ رشتے بننے میں ایک وقت لگتا ہے اور‬ ‫رشتے سچائی کے متقاضی ہوتے ہیں۔‬


‫طہارتی عمل اور مرغی نواز وڈیرہ‬

‫آپ کریم کا یہ ارشاد گرامی‬ ‫۔۔۔۔۔۔ طہارت نصف ایمان ہے۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫دوسروں کی طرح میرے بھی علم میں تھا تاہم میرا دوسروں‬ ‫سے مختلف تفہمی نظریہ رہا ہے۔ دوسروں میں کچھ کپڑوں کی‬ ‫صفائ کو طہارت سمجھتے ہیں۔ کچھ کا ماننا یہ ہے کہ جسم کی‬ ‫خوب صفائی ستھرائی ہونی چاہیے۔ پولیس والے دھالئی کے‬ ‫معنی الگ سے لیتے ہیں۔ ان کے نزدیک دھالئی اس طور سے‬ ‫ہونی چاہیے کہ دھالئی دہندہ ناکردہ کو بھی بخوشی اپنی جھولی‬ ‫ڈال کر پاک صاف ہو جائے۔ ایک طرف صفائی عروج کو پہنچ‬ ‫جاتی ہے تو دوسری طرف اور کیسز کے کھپ کھپا سے بچاؤ کا‬ ‫رستہ نکل آتا ہے اور ان کیسز کے کار گزران سے مک مکا‬ ‫بہتر اور شفاف طور پر ممکن ہو جاتا ہے۔ ان کا کیا چونکہ کوئ‬ ‫اور اپنے سر لے چکا ہوتا ہے اس طرح وہ بھی طہارت کے‬ ‫عمل سے گزر جاتے ہیں۔ دولت آنی جانی شے اور مردوں کے‬


‫ہاتھ کی میل ہوتی ہے۔ جیل سے باہر رہ کر دیے سے کہیں بڑھ‬ ‫کر کما لیتے ہیں۔ پولیس سے علیک سلیک کے بعد ہاتھ بھی رل‬ ‫جاتے ہیں۔‬ ‫اپنی اپنی سوچ کی بات ہے۔ میں طہارت کو الگ سے معنوں میں‬ ‫لیتا ہوں۔ کپڑوں اور جسم کا صاف ہونا انسانی صحت کے لیے‬ ‫بہت ضروری ہے۔ انسان صرف جسم سے ہی تشکیل نہیں پاتا۔‬ ‫جسم کے اندر روح بھی ہو تو ہی اسے چلتا پھرتا جیتا جاگتا‬ ‫انسان کہا جائے گا۔ بے روح کو دنیا کے ہر خطے میں الش‬ ‫مردہ میت جسد ڈیڈ باڈی کورپو مورٹو کورپس وغیرہ‬ ‫وغیرہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ گویا جسم کے ساتھ‬ ‫ساتھ باطنی طہارت کو کسی طور اور کسی سطع پر نظر انداز‬ ‫نہیں کیا جا سکتا۔ ظاہری سوٹر بوٹر ہونے کا کیا فائدہ جب اندر‬ ‫روڑی جھوٹ چغلی بخیلی تکبر بےانصافی بےایمانی ہیراپھیری‬ ‫بددیانتی بدمعاشی وغیرہ سمیٹے زندگی کی شاہراہ پر بڑی‬ ‫ڈھیٹائی سے دندناتی پھرتی ہو۔ روک ٹوک کرنے واال اگال سانس‬ ‫بھی نہ لے سکے۔‬ ‫مجھے کسی اردو لغت کے بیک ٹائٹل پر ِ‬ ‫ے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان اپنا اسے صاف رکھی ِ‬


‫پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اصالح کرنے واال کہہ ہی سکتا ہے۔ عمل‬ ‫درامد تو پڑھنے سننے والے کو کرنا ہوتا ہے۔ طہارت کی بات‬ ‫چودہ سو سال پہلے کہی گئی تھی۔ یہ بات مختلف حوالوں سے‬ ‫بار بار دہرائی جاتی رہی۔ جن لوگوں نے باطنی طہارت کو اپنا‬ ‫شعار بنایا وہ بوعلی قلندر داتا گنج بخش معین الدین چشتی‬ ‫شاہ حسین الہوری بن گیے۔‬ ‫قیام پاکستان سے لے کر آج تک سب پاکستان کو اپنا کہتے رہے‬ ‫لیکن صفائی ستھرائی کے عمل سے کوسوں دور رہے۔ اس بے‬ ‫الپرواہی اور مجرمانہ غفلت کے سبب گند پڑ گیا۔ بھال ہو الیکشن‬ ‫‪ ٦٧٧٣‬کا۔ اس کی آمد پاکستان کے لیے خوش کن ٹابت ہو رہی‬ ‫ہے۔ گند پوری دیانتداری اور ہنرمندی سے صاف کیا جا رہا ہے۔‬ ‫اگر یہ روایت بن گئ تو صاف شفاف سماج تشکیل پا سکے گا۔‬ ‫اگر ظاہری صفائ کو اہمیت ہوتی تو غالظت کے بڑے ڈھیر ختم‬ ‫نہ ہوتے۔ چہرا مبارک اور لباس فاخرانہ اور امریکانہ تو سب کا‬ ‫دھال ہوا تھا۔ جب اندر سے پھروال گیا تو پوٹی رسیدہ بوسیدہ‬ ‫لیریں نکلیں۔ الیکشن کمشن اور عدلیہ کا جتنا بھی شکریہ ادا کیا‬ ‫جایے کم ہو گا۔‬ ‫طہارت کےعمل کے حوالہ سے ایک عزت جاہ جو کسی کے ہاں‬ ‫اقامت رکھتے تھے کا قصہ یاد آ گیا۔ انھوں نے خوب مرغیوں‬ ‫پھڑکائیں جاتے ہوتے ایک مرغی ساتھ لے گیے۔ جو مر کھپ‬


‫گیے ان کی چھوڑیے جو ابھی ابھی رخصت ہوئے ہیں ان سے‬ ‫اڑائی گئی مرغی برآمد کی جا سکتی ہے۔ آگہی رکھنے والوں کو‬ ‫بات اٹھا کر اس طہارتی عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔‬ ‫یہ قومی فریضہ ہے۔ عدلیہ نے آزادی حاص کرکے قومی اور‬ ‫شخصی ضمیر کو آزاد دالئی ہے۔ اس عہد آزای سے فائدہ نہ‬ ‫اٹھایا گیا تو مرغی عزت جاہ کی ملکیت کا درجہ حاصل کر لے‬ ‫گی۔ کل کیسا ہو گا کسی کے علم میں نہیں۔ طہارتی عمل میں‬ ‫ذاتی اور قریبی تعلقات کی کوئ معنویت نہیں ہوتی۔‬ ‫آج یعنی دس اپریل کی ایک اخباری خبر کے مطابق اسٹیٹ بینک‬ ‫نے نادہندگان کی فہرست جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس‬ ‫انکار کے پیچھے هللا جانے کتنا بڑا تھرٹ ہو گا۔ یہ بھی امکان‬ ‫ہے مل جل کر مرغی کے مزے لوٹے گیے ہوں۔ یہ بھی بعید از‬ ‫امکان نہیں کہ مرغیوں کا اقامت کدہ اور نادہندگان کی موجگاہ‬ ‫اسٹیٹ بینک کے کسی مرغی نواز وڈیرے کا ڈیرہ رہا ہو۔ انکار‬ ‫کے تناظر میں کچھ بھی اور کتنا ہی کہا جا سکتا ہے۔ غالبا اس‬ ‫کی بینک قانون اجازت نہیں دیتا تاہم دو رستے پھر بھی کھلے‬ ‫ہیں۔ خصوصی اجازت حاصل کی جا سکتی ہے یا پھر نادہندگان‬ ‫کا معاملہ بینک عدالت ے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے۔ کیا‬ ‫انکار سے طہارت کے عمل کو نقصان نہیں پہنچے گا؟ جسم و‬ ‫روح پیشاب کی بوند سے آلودہ نہیں رہیں گے اور اس کے‬


‫اثرات دیر تک باقی نہیں رہیں گے؟!‬ ‫سو من دودھ کے کڑاہے میں پیشاب کی ایک بوند بھی سو من‬ ‫دودھ کو نجس کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ گویا طہارتی عمل‬ ‫کا ستیاناس مارنے کے حوالہ سے صرف مرغی نواز وڈیرے کا‬ ‫نام ہی بدنام نہیں ہو گا بلکہ اسٹیٹ بینک اور اس کے جملہ‬ ‫کارپردازگان کی بھی رسوائی ہو گی۔ غداری کے حوالہ سے‬ ‫مخبریاں ہوتی آئی ہیں کوئی دیس بھگت اس کی مخبری کرکے‬ ‫ملک و قوم اور مقید مرغیوں کو ان کے حقیقی مالکوں کے‬ ‫حوالے ہونے کا پن کما سکتا ہے یہی نہیں آتی بےگناہ نسلوں‬ ‫پراحسان کر سکتا ہے۔‬

‫الٹھی والے کی بھینس‬

‫الہور بورڈ نے میری پنشنری غربت سے متاثر اور عبرت‬ ‫پکڑتے ہوئے مجھے ہیڈ ایگزامینر مقرر کر دیا۔ میں کام کی‬ ‫غرض سے نکلنے لگا۔ دروازے سے ایک قدم باہر اور ایک قدم‬


‫اندر تھا کہ زوجہ ماجدہ کی پیار بھری آواز واپسی بالوے کی‬ ‫صورت میں میرے ناچیز اور پراز گناہ کانوں میں پڑی۔ بڑھاپے‬ ‫کے باوجود میں پوری پھرتی اور کسی نوبہاتا نوجوان کی طرح‬ ‫واپس پلٹا۔ زوجہ حضور کے ہاتھ میں منڈی کے سامان کی لسٹ‬ ‫تھی۔ سخت گھبرایا اور نزع کی حالت کے نیم مردہ شخص کی‬ ‫طرح منمنایا بلکہ گڑگڑایا‪ :‬رمضان کی برکتوں کے سبب منڈی‬ ‫کی اشیاء دسترس سے باہر ہو گئ ہیں۔ بس دو چار روز صبر‬ ‫فرما لیں پھر سب کچھ آپ کے مقدس چرنوں میں ہو گا۔ بس پھر‬ ‫کیا تھا کام اسٹارٹ ہو گیا جیسے میں نے کوئی ماں بہن کی‬ ‫بےلباس گالی نکال دی ہو۔ یہ کوئی ایسی نئ بات نہیں تھی تحفظ‬ ‫عزت و مال کے لیے سارا دن بےعزتی کرانا میرے معمول کا‬ ‫حصہ ہے۔ میں نے بھی دل ہی دل میں جی بھر سنائیں۔ سالی‬ ‫یوں گرج برس رہی ہے جیسے روزہ میرے لیے رکھا ہو۔۔ باور‬ ‫رہے یہ بھی دل ہی دل میں کہا۔ اونچی آواز میں کچھ کہنا میرے‬ ‫کیا بڑے بڑوں کے ابے کے بس کا روگ نہیں رہا۔‬ ‫بیگمی حوصلہ اور عزت افزائی کے باوجود میں خود کو‬ ‫معاشرے کا معزز شہری سمجھتا ہوں۔ لوگ تو خیر اس غلط‬ ‫فہمی میں مبتال ہیں ہی۔ وہ کیا جانیں روزوں میں منڈی چڑھنے‬ ‫کے ساتھ ہی میری عزت اور وقار بےعزتی کی سولی پر‬ ‫مصلوب ہو جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے اوروں کے ساتھ بھی کم‬


‫وبیش یہی ہوتا ہو تاہم میرے ساتھ باالضرور ہوتا ہے اور شاید‬ ‫یہی مقدر اور نصیبا رہا ہو۔‬ ‫سنٹر میں ابھی میں نے تشریف نہیں رکھی تھی کہ ایک بی بی‬ ‫جو میری سب تھی اپنا کام لے کر آ گئ۔ سر میرا کیا قصور ہے‬ ‫جو کلرک کام میں دیری کرتا ہے بمعنی دوسروں کے پہلے کرتا‬ ‫ہے حاالنکہ اسے لیڈیز فسٹ کے اصول کی پابندی کرنی چاہیے‬ ‫گویا جس کا کام کر رہا ہوتا ہے اسے موخر کے کھاتے میں ڈال‬ ‫دے۔ اس کے سوال کا جواب دینے کی بجاءے منہ سے‬ ‫بےساختہ اور بےمحل نکل گیا جانے کیا کر بیٹھا ہوں جو گھر‬ ‫میں بھی عورتیں دیکھنے کو ملتی ہیں باہر آؤ تو بھی عورتوں‬ ‫سے پاال پڑتا ہے۔ کہنے کو تو کہہ گیا لیکن مجھے احساس ہو‬ ‫گیا کہ کچھ زیادہ ہی غلط کہہ گیا ہوں۔ بعد میں نے لیپا پوچی کی‬ ‫بڑی کوشش کی لیکن اب کیا ہوت کمان سے نکال تیر نشانے پر‬ ‫بیٹھ کر اپنا اثر دکھا چکا تھا۔‬ ‫بات آئ گئ ہو کر وقتی طور پر ٹل گئ۔ مارکنگ کا یہ آخری دن‬ ‫تھا ایک دوسری خاتون نے برسرعام پوچھا سر اگر آپ برا نہ‬ ‫مناءیں تو ایک ذاتی سا سوال پوچھ سکتی ہوں۔ ذاتی پر زور تھا‬ ‫سا کا الحقہ اس نے تکلفا استعمال کیا۔ کیا کہہ سکتا تھا ذاتی سا‬ ‫سوال سرعام دریافت کر رہی تھی۔ احمق میں ہی تھا جو ماتحت‬


‫لوگوں کے بیچ بیٹھ کر کام کر رہا تھا۔ یہ لوگ تقریبا ماتحت‬ ‫تھے میں تو درجہ چہارم کے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر پلے سے‬ ‫سب کے لیے چائے منگوا کر پی لیتا ہوں گپ شپ کر لیتا ہوں۔‬ ‫بالشبہ یہ اصول جاہی کے خالف ہے۔ بہر کیف میں نے بی بی‬ ‫کو پوچھ گچھ کی اجازت دے دی۔‬ ‫۔سر آپ کی تینوں بیگمات اسی شہر میں اقامت رکھتی ہی۔ تین‬ ‫کے ہندسے نے مجھے چکرا دیا۔ پھر میں نے سوچا مفت میں‬ ‫ٹہوہر بن رہا ہے اور اس حوالہ سے یہ جائے انکار کب ہے۔‬ ‫نہیں وہ تو ایک ہی گھر میں رہتی ہیں۔ جس طرح مجھے تین‬ ‫کے ہندسے نے چکرا دیا تھا بالکل اسی طرح بلکہ اس سے‬ ‫بھی بڑھ کر اس بی بی کو چکر آ گیا اور میں جوابی کاروائ کی‬ ‫اثر انگیزی پر مسرور تھا۔ کچھ ہی لمحوں کے بعد میری‬ ‫مسروری کو دیکھ کر اس نے دوسرا سوال داغ دیا۔ سر وہ آپس‬ ‫میں خوب لڑتی ہوں گی۔ میں یہ کہہ کر چلتا بنا‪ :‬کیوں میں مر‬ ‫گیا ہوں۔‬ ‫بعد میں کسی اور کی زبانی معلوم ہوا کہ انہوں نے کیوں میں مر‬ ‫گیا ہوں کی تفہیم بالکل الگ سے لی ہے۔ انہوں نے سمجھا کہ‬ ‫بابے نے تینوں کو نپ کر رکھا ہوا ہے۔ عورت اور وہ بھی‬ ‫سرکاری؛ دب کر رہے کس کتاب میں لکھا ہے۔ میرے کہنے کا‬


‫مطلب یہ تھا کہ آپس میں کیوں لڑیں گی لڑائی اورعزت افزائی‬ ‫کے لیے میں ابھی زندہ ہوں۔ یہ قصہ تو زیب داستان کے لیے‬ ‫عرض کر گیا ہوں اصل تحقیق کی ضرورت تین کا ہندسہ تھا۔‬ ‫آخر یہ کہاں سے آ ٹپکا اور پورے مارکنگ سنٹر میں میری وجہ‬ ‫ء شہرت بن گیا۔‬ ‫بڑا غور کیا سوچا سیاق و سباق میں گیا۔ کچھ بھی پلے نہ پڑا۔‬ ‫آج کچھ ہی لمحے پہلے مجھے مشکوک نظروں سے دیکھا گیا‬ ‫تو میں نے سنجیدہ توجہ دی تو کھال میں نے ایک بی بی سے‬ ‫کہا تھا گھر میں عورتوں اور باہر بھی عورتوں سے پاال ہے۔‬ ‫جمع کے صیغے نے کہانی کو جنم دیا تھا۔ خاتون کے حافظہ‬ ‫میں ایک جمع رہی دوسری کو اس نے واحد لیا۔ وہ عورت تھی‬ ‫مکالمہ اسی سے ہوا۔ غالبا اردو نحو کا اصول بھی یہی ہے کہ‬ ‫دوسری جمع واحد میں تبدیل ہو جاتی ہے۔‬ ‫سننے اور پڑھنے واال بولنے اور لکھنے والے کا پابند نہیں وہ‬ ‫مرضی کے مطابق مفاہیم اخذ کرتا ہے۔ میرے کہے میں ابہام‬ ‫موجود تھا۔ بال ابہام لفظوں اور جملوں کے بہت سے مفاہیم لیے‬ ‫جاتے ہیں یا پھر لیے جا سکتے ہیں۔ ساختیات بھی یہی کہتی‬ ‫ہے۔ اسے کہنا بھی چاہیے۔ ابہام اور لفظوں کی کثیر معنویت‬ ‫عدالتوں میں اپیل کے دروازے کھولتی ہے۔ لفظ اپنی حیثیت میں‬


‫جامد اور اٹل نہیں۔ اسے استعمال میں النے والے کی انگلی‬ ‫پکڑنا ہوتی ہے۔ ان کے جامد اور اٹل ہونے سے زبان کے اظہار‬ ‫کا دائرہ تنگ ہو جاءے گا۔ نتیجہ کار زبان مر جائے گی یا محض‬ ‫بولی ہو کر رہ جائے گی۔ اس تھیوری کے تناظر میں مجھے‬ ‫کسی بھی خاتون کے کہے کو دل پر لگانا نہیں چاہیے۔‬ ‫کچھ ہی پہلے اندر سے آواز سنائی دی حضرت بیغم صاحب حیدر‬ ‫امام سے کہہ رہی تھیں بیٹا اپنے ابو سے پیسے لے کر بابے‬ ‫فجے سے غلہ لے آؤ۔ عید قریب آ رہی ہے کچھ تو جمع ہوں‬ ‫گے عید پر کپڑے خرید الئیں گے۔ بڑا سادا اور عام فیہم جملہ‬ ‫ہے لیکن اس کے مفاہیم سے میں ہی آگاہ ہوں۔ یہ عید پر کپڑوں‬ ‫النے کے حوالہ سے بڑا بلیغ اور طرحدار طنز ہے۔ طنز اور‬ ‫مزاح میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ طنز لڑائ کے دروازے‬ ‫کھولتا ہے جبکہ مزاح کے بطن سے قہقہے جنم لیتے ہیں۔ جب‬ ‫دونوں کا آمیزہ پیش کیا جائے تو زہریلی مسکراہٹ نمودار ہوتی‬ ‫ہے اور ایسی جعلی مسکراہٹ سے صبر بھال دوسرا بات گرہ‬ ‫میں بندھ جاتی ہے۔‬ ‫میں نے کئ بار عرض کیا کہ طنز لبریز مذاق نہ کیا کرو۔ کہتی‬ ‫ہے اب اس گھر میں بات کرنے کی بھی اجازت نہیں۔ حقیقت یہ‬ ‫ہے کہ حکم نامے طاقت جاری کرتی ہے۔ ماتحت کمزور مفلس‬


‫اور کامے حقوق کی مانگ بھی گزاشی انداز میں کرتے ہیں۔‬ ‫لمحہ بھر کی خوش فہمی بھی ہضم نہ ہو سکی کہ گھر والی کو‬ ‫بےفضول کہنے کی جرآت نہیں میرے حصے کا بھی بقول‬ ‫سقراط گھر والی نے بول دیا۔‬ ‫سردار دمحم حسین آج کی نشت میں کہہ رہے تھے کہ آخر آپ کی‬ ‫تان اعلی شکشا منشی پر ہی کیوں ٹوٹتی ہے۔ میں نے کہا‬ ‫سردار صاحب کل گاؤں سے ایک توڑا آلو لیتے آنا۔ آپ ہی‬ ‫فرمائیے اس میں زوردار ہنسنے والی کونسی بات ہے۔ میں نے‬ ‫اپنی بات دہرائ تو پھر ہنس دیے۔ نہ ہاں نہ ناں یہ کیا ہوا۔ میں‬ ‫اپنی لکھتوں میں اپنا حق طلب کرتا ہوں کیونکہ آلو کے بغیر‬ ‫گزرا نہیں اور آلو مفت میں نہیں ملتے۔ اعلی شکشا منشی کے‬ ‫دفتر سے پیسے ملیں گے تو ہی آلو ال سکوں گا۔ میرے آلو‬ ‫النے کے لیے کہنے میں سادگی نہ تھی بالکل اسی طرح سردار‬ ‫صاحب کے دھماکہ دار قہقہوں میں بھی نزدیک کے معنی موجود‬ ‫نہ تھے۔‬ ‫میں جانتا ہوں وہاں بھی آلو کا روال ہے۔ سکی تنخواہ میں آلو‬ ‫اور ٹوہر ایک ساتھ نہی چل سکتے اور ناہی کسی سطع پر ان کا‬ ‫کوئ کنبینیشن ترکیب پاتا ہے۔ انہیں ضدین کا درجہ حاصل ہے۔‬ ‫سردار صاحب نےآلو النے کی بات کو گول کرکے میرے اندر ڈر‬


‫اور خوف کی لہر دوڑا دی۔ میں یہ بھول ہی گیا کہ میں نے ان‬ ‫سے کیا گزارش کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ میں جن کے متعلق‬ ‫لکھتا ہوں ان کے ہاتھ بڑے لمبے ہیں کچھ بھی کر سکتے ہیں۔‬ ‫سردار صاحب کا کہنا غلط نہ تھا۔ تاہم یہ بھی طے ہے لوگ جیل‬ ‫سے باہر جیل سی زندگی گزار رہے ہیں۔ سفید پوش کی اوقات‬ ‫آلو برابر نہیں رہی۔ کیا عجیب صورت حال درپیش ہے۔ چور کی‬ ‫نشندہی کرنے واال مجرم اور الئق تعزیر ٹھہرتا ہے۔ چور یقینا‬ ‫دودھ دیتی بھینس کی مثل ہوتا ہے۔ چور چور کی آوازیں نکالنے‬ ‫واال دودھ دیتی بھینس کو چھڑی مار رہا ہوتا ہے۔ نشاندہی کرنے‬ ‫واال ایک طرف چور کو تو دوسری طرف چور سے مال انٹنے‬ ‫والے کے پیٹ پر الت رسید کر رہا ہوتا ہے۔‬ ‫ویسے سچ اور حق کی آنکھ سے دیکھا جاءے تو حقیقت یہ ہے‬ ‫کہ چور اس وقت تک چور ہوتا ہے جب تک دوسرے کا مال اس‬ ‫کی گرہ میں نہیں آ جاتا۔ مال چاہے شور مچانے والے کا ہی‬ ‫کیوں نہ ہو۔ چور کی گرہ میں آنے کے بعد مال چور کا ہوتا ہے۔‬ ‫کسی صاحب مال کو چور کہنا سراسر زیادتی کے مترادف ہے۔‬ ‫اگر شور مچانے واال بخوشی گرہ سے کچھ نہیں دے سکتا تو‬ ‫کسی کے مال پر دعوے کا بھی اسے حق نہیں۔ حق اور انصاف‬ ‫کا تقاضا یہی کہ جس کی الٹھی اس کی بھینس ہے۔‬


‫علم عقل اور حبیبی اداروں کا قیام‬

‫یہ واقعہ میں نے پڑھا نہیں' کسی سے سنا ہے۔ راجا رنجیت‬ ‫سنگھ کے پاس دو آدمی حصول مالزمت کے لیے آئے۔ ان میں‬ ‫سےایک پڑھا لکھا جبکہ دوسرا پڑھا لکھا نہیں تھا بس اپنے‬ ‫دستخط کر لیتا تھا۔ اس نے پڑھے لکھے کو پٹواری اور‬ ‫دوسرے کو تحصیل دار بھرتی کر لیا۔ کسی نے پوچھا یہ کیا'‬ ‫پڑھا لکھا پٹواری اور ان پڑھ تحصیل دار! راجا رنجیت سنگھ‬ ‫نے جواب دیا کام تو پڑھے لکھے نے کرنا ہے جبکہ تحصیل‬ ‫دار نے دستخطوں کے سوا اور کرنا ہی کیا ہے۔‬ ‫اس کی بات غلط نہ تھی افسر کام کب کرتا ہے کام تو کلرک‬ ‫وغیرہ ہی کرتے ہیں۔ افسر کئے کرائے پر دستخط مارتا ہے۔‬ ‫اسے تو بہت سارے کاغذات کے بارے میں علم نہیں ہوتا کہ وہ‬ ‫ہیں کیا۔ مزے کی بات یہ کہ اس کی ذاتی دلچسپی سے متعلق‬ ‫کیسز بھی بابو کے ہاتھوں پراسس ہوتے ہیں۔ وہ بڑے بڑے اہم‬ ‫سرکاری امور کے بارے بابو صاحبان سے قانونی مشورے لیتا‬ ‫ہے اور بابو کے مشوروں کو ہی حرف آخر خیال کرتا ہے۔ کہیں‬


‫گرفت میں آ جائے توبھی بابو کا اگال حکیم جالینوس کا نسخہ‬ ‫ثابت ہوتا ہے۔ بابو کے پاس۔ ہر مرض کی دوا اور گیدڑ سنگی‬ ‫ہوتی ہے۔ جس کام سے افسر انکار کر دیتا ہے پٹواری (بابو‬ ‫بادشاہ) وہ کام نکلوا لیتا ہےاور اس انداز سے نکلواتا ہے کہ‬ ‫افسر کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں ہو پاتی۔‬ ‫موجودہ عملی صورت حال کو دیکھتے ہوئے راجا رنجیت سنگھ‬ ‫کے فیصلے میں رائی بھر کجی یا خرابی نظر نہیں آتی۔ یونس‬ ‫حبیب کا موقف ہے کہ اس نے بڑا عہدہ علم کے ذریعے حاصل‬ ‫نہیں کیا بلکہ عقل کا اس میں عمل دخل ہے۔ اس کا موقف سولہ‬ ‫آنے درست ہے‪ .‬ایک ایف اے پاس آدمی اتنے بڑے مرتبے پر‬ ‫کیسے جا سکتا تھا۔ ایم اے پاس لوگ ناءب قاصد کی کرسی کے‬ ‫لیے مستحق نہیں ٹھرتے۔ ایف اے پاس آدمی اس لحاظ سے گلی‬ ‫گلی آوازیں لگاتا پھرے منجی پیڑی ٹھوا لو۔ ہمارے بہت سے‬ ‫پڑھے لکھے افسر کام تو یونس حبیب سے ملتا جلتا کرتے ہیں‬ ‫لیکن شاید اس سطع کا کر نہیں پاتے۔ تعلیم کچھ ناکچھ تو بزدل‬ ‫بنانے میں کامیاب ہوتی ہے۔ وہ نا صرف بلند سطع کا کام نہیں‬ ‫کر پاتے ہیں بلکہ بلیک میلنگ میں بھی ناکام رہتے ہیں۔ ان کے‬ ‫پاس یونیورسٹی واال علم ہوتاہے لیکن یونس حبیب کی سی عقل‬ ‫نہیں ہوتی اور ناہی ہونی چاہیے۔ اس کی سی عقل ہو جائے تو‬ ‫پڑھے لکھے اور عقل والے میں انتر ہی کیا رہ جائے گا۔‬


‫عوامی حلقوں میں سوال گردش کر رہا ہے کہ آج یہ حضرت‬ ‫بیان بازی کر رہے ہیں اس وقت انھوں نے حاتم طائ کا کردار‬ ‫کیوں ادا کیا۔ گرہ خود سے دیتے تو مزا آتا۔ بڑے لوگ گرہ خود‬ ‫سے جوں مار کر نہیں دیتے نوٹ کس طرح دے سکتے ہیں۔‬ ‫نوٹ دینے کا حوصلہ ہوتا تو آج ملک مقروض نہ ہوتا۔ دینا تو‬ ‫ان وچاروں کے عقیدہ میں داخل نہیں ہوتا۔ یہ نوٹ لینے کے‬ ‫جنون میں لوگوں کی جان تک قربان کر سکتے ہیں۔ جان سب‬ ‫سے زیادہ قیمتی چیز کیا ہے۔ اس سے بڑھ کر دھرتی کی خدمت‬ ‫کیا ہو سکتی ہے۔ دھرتی پھر بھی ان کے خلوص حصول پر‬ ‫انگلی رکھتی ہے تو اس مسلے کے حل کے ضمن میں اپنی جان‬ ‫عزیز دینے سے رہے۔ کچھ بھی کر لو کسی کو اس کی سطع پر‬ ‫خوش نہیں کیا جا سکتا۔‬ ‫راجا رنجیت سنگھ کے حوالہ سے ایک بات صاف ہو جاتی ہے‬ ‫کہ افسری کے لیے تعلیم ضروری نہیں اور نہ ہی یہ فاءدہ مند‬ ‫چیز ہے۔ مطوبہ کرسی شاہی معیار عقل والے ہی میسر کر‬ ‫سکتے ہیں‪ .‬آج ضرورت اس امر کی ہے کہ کالج اور‬ ‫یونیورسٹیاں بلند پایہ بابو تیار کریں تاکہ وہ عقل والوں کے‬ ‫قدموں پر قدم رکھ کر اپنی اوراپنے گھر والوں کی بہتر طورپر‬ ‫خدمت سرانجام دے سکیں۔ رہ گیے لوگ اور دھرتی' یہ نہ پہلے‬


‫کبھی خوش ہوئے ہیں اور ناہی آءندہ خوش ہو سکتے ہیں۔ آرام‬ ‫سکون اورآسودہ زندگی بسر کرنا ہے تو انھیں ہر سطع پراور ہر‬ ‫حال میں نظر انداز کرنا ہو گا۔ سوچ کو کسی طرح اپنی ذات کے‬ ‫حلقے سے باہر نہیں نکلنے دینا ہو گا۔‬ ‫جہاں بابو سازی کے لیے تعلیمی اداروں کو پوری لگن دلچسپی‬ ‫اور دیانتداری سے میدان کار زار میں اترنا ہوگا وہاں حصولی‬ ‫عقل کے لیے ادارے کھولنا ہوں گے ان کی فیسیں کے لیے‬ ‫امریکہ جیسے بڑے ملکوں سے امداد حاصل کرنے کی سعی کی‬ ‫جانی چاہیے۔ وہاں سے انکار نہیں ہو گا کیونکہ امریکہ جیسے‬ ‫بڑے ملک عقل والوں کی دل و جان سے قدر کرتے ہیں۔ ماضی‬ ‫کی برٹش شاہی کو دیکہ لیں تعلیمی اداروں سے نکلے لوگ‬ ‫پٹواری بنے ہیں بلکہ تعلیمی اداروں نے پٹواری سازی کا‬ ‫فریضہ سرانجام دیا ہے جبکہ عقل والے تحصیل داری کرتے‬ ‫رہے ہیں۔ آج بھی برٹش شاہی کی تعریف کرنے والے مل جائیں‬ ‫گے۔ تعلیم' عقل کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتی۔ برطانیہ کا انگریز‬ ‫بڑا عقل واال تھا اس نے راجا رنجیت سنگھ کے کلیے کو گرہ‬ ‫میں باندھ لیا اور کامیاب رہا۔ جرمن ٹانگ نہ اڑاتےتو انھیں‬ ‫برصغیر سے کون مائی کا الل نکال سکتا تھا۔‬ ‫ہم بڑے مذہبی لوگ ہیں کسی سکھ کی سیاسی شریعت تسلیم‬


‫نہیں کر سکتے۔ راجا رنجیت سنگھ اول تا آخر مقامی غیر مسلم‬ ‫تھا اس لیے اس کا کہا کس طرح درست ہو سکتا ہے۔ راجا‬ ‫رنجیت سنگھ اگر گورا ہوتا تو اس کی سیاسی شریعت کا مقام بڑا‬ ‫بلند ہوتا۔ گورا دیس سے آئی ہر چیز ہمیں خوش آتی ہے۔ کسی‬ ‫بوتل میں میم کا پیشاب بھرا ہوا ہو اور اوپر میڈ ان امریک مدرج‬ ‫ہو تو ہم اسے فورا خرید لیں گے۔ میکاؤلی' راجا رنجیت سنگھ‬ ‫سے کہیں بلند پاءے کا عقلمند تھا۔ جو بھی سہی راجا رنجیت‬ ‫سنگھ ہے تو مقامی غیر مسلم۔ اگر وہ مسلم ہوتا تو ہم اس کے‬ ‫اس اصول کوعملی ہی نہیں' زبانی بھی توقیر دیتے۔‬ ‫نام کو بھی بڑا شرف حاصل ہوتا ہے۔ اکبر دین الہی کا بانی تھا‬ ‫لیکن اس کا نام دمحم اکبر تھا۔ اسے ہند اسالمی تاریخ کا ہیرو‬ ‫سمجھا جاتا ہے۔ وہ ہند اسالمی تاریخ میں پورے جالل و کمال‬ ‫کے ساتھ داخل ہے‪ .‬یونس حبیب کو راجا رنجیت سنگھ کے‬ ‫حوالہ سے سے نہیں لیا جا سکتا۔ کہاں عقلمند مسلم بادشاہ اور‬ ‫‪.‬کہاں غیر مسلم مقامی عقلمند راجا‬ ‫جالل الدین دمحم اکبر ان پڑھ تھا لیکن تاریخی مسلمان عقلمند‬ ‫بادشاہ تھا جبکہ پڑھے لکھے اس کے پٹواری اور منشی مسدی‬ ‫تھے۔ نصف صدی اس نے عقل کے زور پر حکومت کی اور‬ ‫پڑھے لکھے اس کے پیچھے دم ہالتے پھرتے تھے۔ اس کے ہر‬


‫قول وفعل پر جئے جئے کار کے پھول نچھار کرتے تھے۔ کوئ‬ ‫سچا مسلمان یونس حبیب کی عقلمندی کو راجا رنجیت سنگ کی‬ ‫عقلمندی سے نسبت دینے کی مذہبی بےادبی کا مرتکب نہیں‬ ‫ہوسکتا ہاں البتہ اسے جالل الدین دمحم اکبر سے نسبت دینا غلط‬ ‫نہ ہو گا۔ اگر یہ اصول غلط ۔یا غیر فطری ہوتا تو اکبر بادشاہ تادم‬ ‫مرگ حکومت نہ کرتا' حکومتیں نہ گرتیں یا پھر آج امریکہ‬ ‫پوری دنیا کا تھانیدار نہ ہوتا۔‬ ‫علم سے عقل' مال ودولت اور بلند مرتبہ ہاتھ نہیں لگتا ہاں عقل‬ ‫سے مال ودولت اور بلند مرتبہ ہاتھ لگ جاتا ہے۔ علم‬ ‫درویشی اور فقیری تک لے آتا ہے۔ علم والے بانٹ پر یقین‬ ‫رکھتے ہیں‪ .‬حبیبی عقل گرہ خود سے بانٹ کو دماغ کا خلل قرار‬ ‫دیتی ہے۔ بانٹ اگر زمین سے اٹھا کر بلند ترین کرسی تک نہ لے‬ ‫جاءے تو دوسروں کے مال کی بانٹ حماقت سے کسی طرح کم‬ ‫نہیں ہوتی۔ بانٹ اگر کسی صاحب جاہ کو کانا نہ کرے تو ایسی‬ ‫بانٹ کا کیا فائدہ?‬ ‫شروع سے بیگانے مال سے تخت گرے ہیں اور بادشاہوں کی‬ ‫ٹانگیں ٹٹیری ٹانگیں ہوتی آئی ہیں۔ پہلے زمانوں میں اپنا مال‬ ‫چھپا دیا جاتا تھا لیکن عہد جدید میں مغربی ملکوں کے بنکوں‬


‫کو منتقل کر دیا جاتا ہے۔ قوم پر اپنی سیاسی شریعت کا نفاذ قوم‬ ‫کے مال ہی سے کیا جاتا ہے۔ ان حاالت کو دیکھتے ہوئے دانش‬ ‫اسکولوں کی طرز کے حبیبی ادارے کھولنا عقل کو فروغ‬ ‫دینےکےمترادف ہوگا۔‬

‫امریکہ کی پاگلوں سے جنگ چھڑنے والی ہے‬ ‫اخباری خبر اگلے روز کل کی بات ہو کر رہ جاتی ہے حاالنکہ‬ ‫آتے کل کی خبریں گزرے کل کی بازگشت یا اس کی عملی شکل‬ ‫ہوتی ہیں۔ جو قومیں اپنے گزرے کل کی تلخ یادوں کو بھول‬ ‫جاتی ہیں متواتر اوراوپر تلے نقصان اٹھاتی ہیں۔ ماضی کے‬ ‫مثبت کاموں پر اترانا برا نہیں لیکن موجودہ ناخوشگوار صورت‬ ‫حال کی وجوہ کو گزرے کل کے دامن میں تالشا جا سکتا ہے۔‬ ‫بعض حاالت کو ہم ناگہانی قرار دے دیتے ہیں لیکن کچھ بھی‬ ‫اچانک نہیں ہوتا ۔ ناگہانی کا کسی ناکسی سطع پر کوئی ناکوئی‬ ‫اشارہ ماضی کےحاالت یا کہی ہوئ کسی بات میں موجود ہوتا‬ ‫‪.‬ہے‬


‫کشمیر میں قیامت آئی اوراسے بھوکم کا نام دیا گیا۔ کیا یہ‬ ‫بھونچال تھا یا کوئی اور چیز تھی آج تک کسی نے کھوج لگانے‬ ‫کی زحمت گوارا نہیں کی۔‬ ‫جاپان ہتھیار ڈال چکا تھا اس کے باوجود ایک کے بعد دوسرا بم‬ ‫!?گرایا گیا' کیوں‬ ‫فساد تو مغرب سے اٹھا تھا وہ بھی برطانیہ کے خالف۔ اصوال بم‬ ‫?مغرب میں گرایا جانا چاہیے لیکن وہاں نہیں گرایا گیا کیوں‬ ‫مغرب والے کیوں کا جواب کیوں دیں۔ جواب کبھی مانگا ہی نہیں‬ ‫گیا۔ قتل وغات کا میدان مشرق میں ہی کیوں گرم کیوں ہوتا آیا‬ ‫ہے۔ ہم میں پوچھنے کی جرات ہی نہیں۔ قرض پر چلنے والی‬ ‫دوکان کے مالک کو بولنے یا کسی قسم کے قدم لینے کا حق‬ ‫نہیں ہوتا۔ سر وہی اٹھا سکتا ہے جو اپنی زندگی جی رہا ہو۔‬ ‫چوری خور قومیں یا ان کے چوری خور لیڈر سکی بھڑک بھی‬ ‫نہیں مار سکتے۔ اس قماش کے لیڈر نیچے سے نکل کر اوپر‬ ‫والے کو مفعول بتاتے ہیں۔ اوپر واال بھی کہتا ہے ہاں ہاں یہی‬ ‫سبق دہراتے جاؤ اور لوگوں کو اندھیروں میں ہی رکھو تا کہ‬ ‫تمہاری چوری کا سلسلہ جاری رہے۔ اس قسم کے لیڈر اپنوں پر‬ ‫چڑھائ کے حوالہ سے شیر ببر ہوتے ہیں۔ یہی نہیں وہ قرب و‬ ‫جوار کی قوموں کی غلطیاں چن چن کر سامنے التے رہتے ہیں‬ ‫تاکہ ان کے کوچج پردہ میں رہیں۔ معاملے کی وجہ بھی اوروں‬


‫کے سر پر رکھتے ہیں۔ قوم یہ جان نہیں پاتی اصل دشمن تو ان‬ ‫کے اپنے ہی ہیں۔‬ ‫کچھ خبریں درج کر رہا ہوں جو آج کی نہیں ہیں ہاں آج سے‬ ‫کچھ ہی دن پہلے کی ہیں اور ان کا آتے دنوں سے بڑا گہرا تعلق‬ ‫ہے اور ان خبروں کے حوالہ سے بہت ساری باتوں کا اندزہ‬ ‫لگایا جا سکتا ہے۔‬ ‫ایران گیس منصوبہ۔ پاکستان فیصلہ کرنے سے پہلے دوبارہ‬ ‫سوچ لے۔ امریکہ کی پھر دھمکی‬ ‫اپنی دھمکیوں پر درست وقت پر عمل کریں گے۔ امریکہ‬ ‫ایران پر ممکنہ حملے کے لیےمکمل تیار ہیں۔ سربراہ امریکی‬ ‫فضاییہ‬ ‫چوری خوری‪ :‬تعلیم کے شعبہ میں برطانیہ کی امداد قابل تحسین‬ ‫ہے۔ صدر زرداری‬ ‫چند طفل تسلیاں‬ ‫پاکستان پر پابندیوں کی امریکی دھمکی مسترد‪ .‬وقت آیا تو نپٹ‬ ‫لیں گے۔ حنا کھر‬


‫امریکہ ہمارے اندرونی معامالت میں مداخلت نہ کرے۔ ایران‬ ‫گیس منصوبے پر کسی دھمکی میں نہیں آییں گے۔‬ ‫وزیر اعظم پاکستان‬ ‫ایک مردانہ بیان‪ :‬اٹیمی پاکستان ثابت قدم رہے۔ امریکہ ہمارا‬ ‫کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ایرانی صدر‬ ‫پاکستان امریکہ کی مجبوری‬ ‫افغانستان سے انخال کے لیے پاکستان کی ضرورت پڑے گی۔‬ ‫امریکی جرنل‬ ‫افغانستان میں مسمانوں کی مذہبی کتاب قرآن مجید کی گھس‬ ‫بیٹھیوں کے ہاتھوں بے حرمتی ہوئ۔‬ ‫قندھار۔ امریکی فوجی نے گھروں پر فایرنگ کرکے عورتوں اور‬ ‫بچوں سمیت سولہ افراد کو ہالک کر دیا‬ ‫امریکی فوجیوں میں خودکشی کے رجحان بڑھنے کی خبریں‬ ‫سامنے آ رہی ہیں۔‬ ‫پاکستان سے مطلب ہونے کے باوجود امریکہ پاکستان کو‬ ‫گھٹنوں تلے دبا کر رکھ رہا ہے۔ مقروض اور چوری خور ہونے‬ ‫کے باعث دبنا ان کی مجبوری ہے۔ ان حاالت میں کوئ کتنا ہی‬ ‫پیروں پر کھڑارہنے کا مشورہ دے کیسے کھڑا رہا جا سکتا ہے۔‬


‫وقت پر کیسے نپٹا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے پہلے سے تیاری‬ ‫کی جاتی ہے۔ بھگتنا لیڈروں کا کام نہیں ہوتا وہ تو حملہ آور کے‬ ‫ساتھی بن جاتے ہیں اور اپنی کھال بچا لیتے ہیں کھال عوام کی‬ ‫اترتی ہے۔ تاریخ یہی بتاتی ہے‪ .‬ہمارے لیڈر تو پہلے ہی گورا‬ ‫ہاؤس کے جارب کش ہیں۔ ان سے توقع رکھنے والے احمقوں‬ ‫کے سردار ہیں۔ ایران والوں کو دیکھیں' کن سے خیر کی امید‬ ‫رکھتےہیں۔ وہ جو اپنے ہی دیس باسیوں کے سجن نہیں ہیں‬ ‫کسی اور کے کیا خیرخواہ ہوں گے۔ یہ صرف اور صرف اپنی‬ ‫ذات اور اپنے مفاد سے غرض رکھتے ہیں۔‬ ‫اوپر تین خبریں ایسی درج کی گئی ہیں جو بڑی افسوس ناک اور‬ ‫تکلیف دہ ہیں۔ قرآن مجید کی بے حرمتی سےدل دماغ اور جذبات‬ ‫‪:‬زخمی ہوءے ہیں۔ دوسری طرف یہ خبر خوشی کی ہے‬ ‫ا۔ مسلمانوں کو اپنے مسمان لیڈروں کی مسلمانی اورغیرت‬ ‫ایمانی کا اندازہ ہو گیا ہےیا ہو جانا چاہیے۔ یہ بھی پوشیدہ نہیں‬ ‫رہا کہ وہ ان کے کتنے دوست ہیں۔ لوگ جان گئے ہیں کہ یہ اول‬ ‫تا آخر تلوے چٹ ہیں۔ ان سے امید وابستہ رکھنا خودکشی کے‬ ‫مترادف ہے۔‬ ‫ب۔ بزدل اور ناکام لوگ ہی اس قسم کی حرکتوں پر اترتے ہیں۔‬ ‫‪.‬یہ دراصل ان کی شرمناک ناکامی کا اعالن ہے‬


‫ج۔ خطہ کے ممالک کو ذاتی چوکسی سے کام لینا پڑے گا۔ یہاں‬ ‫کے لیڈروں پر اعتماد موت کو ماسی کہنےکے مترادف ہو گا۔‬ ‫د۔ پاکستان کے لوگوں کو بھوک پیاس اور موت سے متھا لگانے‬ ‫کے لیےتیاررہنا ہو گا۔ ان کے لیڈر کسی موڑ پر بھی زخموں پر‬ ‫مرہم نہیں رکھیں گے بلکہ دانت نکال کر دکھا دیں گے۔‬ ‫امریکی فوجیوں میں خود کشی کا رجحاں بڑھنا اور کسی فوجی‬ ‫کا بالوجہ فائرنگ کرکے عورتوں اور بچوں سمیت سولہ لوگوں‬ ‫کو موت ے گھاٹ اتار دینا اورمعاملےکی تحقیق امریکہ کا ہاتہ‬ ‫میں لے لینا خوش آءند بات ہے۔ جب بھی انصاف کے ضمن میں‬ ‫ڈنڈی ماری جاتی ہے' سمجھ لو وقت پورا ہو گیا ہے۔ بےانصاف‬ ‫قومیں دنیا کے نقشے پر زیادہ دیر تک نہیں رہتیں' مٹ جاتی‬ ‫ہیں۔ امریکہ جس فوج کے بل بوتے پر دنیا پر نمبر داری کر رہا‬ ‫ہے نفسیاتی طور پر مریض ہو گئی ہے۔‬ ‫جب بات بس سے باہر نکل جاءے تو شخص اپنی ذات سے‬ ‫جنگ پر اتر آتا ہے اور اس کے نتیجہ میں خود کشی پر اتر آتا‬ ‫ہے۔ کمزوروں کی جان کے درپے ہو جاتا ہے‪ .‬۔جنجھالہٹ خوف‬ ‫غصہ اکتاہٹ تواتر وغیرہ کا کچھ بھی نتیجہ برامد ہو سکتا ہے۔‬ ‫امریکی فوجی خود کو دوہرے حصار میں بند محسوس کرتے‬


‫ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ جبرکا شکار ہیں۔ انسان ایک حد‬ ‫تک جبرکی حالت میں رہ سکتا ہے‪ .‬جب معاملہ حد تجاوز کرتا‬ ‫ہے توخوداذیتی کی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ بغاوت اور خود‬ ‫سری راہ پا جاتی ہے۔ بالشبہ تھپڑمارنے واال باال دست ہوتا ہے‬ ‫لیکن انرجی تپھڑ مارنے والے کی بھی خرچ ہوتی ہے۔ غرض‬ ‫ان خبروں کے حوالہ سے یہ کہنا الیعنی نہیں لگتاکہ امریکی‬ ‫فوج نفسیاتی امراض کا شکار ہو گئ ہے۔ پاگل کتا جہاں اوروں‬ ‫کے لیے خطرناک ہوتا ہے وہاں گھروالوں کے لیے بھی نقصان‬ ‫دہ ہوتا۔‬ ‫وقت دیکھ لےگا انہی پاگل کتوں کے ہاتھوں خود ان کے لیڈر‬ ‫معاشرے کےلوگ ان کے گھر والے گولے اور گولیاں کھاءیں‬ ‫گے۔ پاگل کتے کی موت مریں گے۔‬ ‫دوسری طرف جن کے بچے عورتیں اور مرد موت کے گھاٹ‬ ‫اترے ہیں ان کے دلوں میں نفرت کی چنگاریاں مزید شدت اختیار‬ ‫کریں گی۔ ردعمل میں اضافہ ہو گا اور یہ اضافہ امریکہ اور اس‬ ‫کی فوج کےلیے کسی طرح صحت مند ثابت نہیں ہو گا۔ یہ تو‬ ‫ایک واقعہ ہے پتا نہیں ایسے کتنے واقعے ہوتے ہوں گے لیکن‬ ‫منظر عام پر نہیں آ رہے۔ اب نفرت اور جنون کے درمیان جنگ‬ ‫ہے اس جنگ میں امریکہ کی شکست ہو گی۔ عالقے کے لوگ‬


‫آزادی اور نفرت کی لڑائی لڑیں گے جبکہ امریکی فوج کے پاس‬ ‫جنگ لڑنے کی کوئی وجہ موجود نہیں۔ موجودہ حاالت میں جنگ‬ ‫کا پانسہ پلٹ چکاہے۔‬ ‫امریکی قیادت پر الزم آتا ہے کہ وہ اپنے فوجیوں کا نفسیاتی‬ ‫معالجہ کروائیں تاکہ امریکی شہری ان کے دست شر سے‬ ‫محفوظ ہو جائیں۔ مظلوم قوموں کو نوید ہو کہ قدرت کے کلسٹر‬ ‫بموں کی ان کے اپنے پاگل فوجیوں کے ہاتھوں بڑی خوفناک‬ ‫‪.‬بارش ہونےوالی ہے‬ ‫بوڑھا اور کمزور ہونے کے سبب میں آتے وقتوں کا یہ منظر‬ ‫شاید نہ دیکھ سکوں لیکن زندہ بچ رہنے والے ضرور دیکھیں‬ ‫گے۔ امریکی فوجی اپنے لیڈروں اور امریکی شہریوں سے‬ ‫سکندر اعظم کے حشر سے بھی بدتر حشر کرنے کی سطع پر آ‬ ‫رہے ہیں۔ امریکی لیڈروں کی حد سے بڑی ہٹ دھرمی خود ان‬ ‫کے اپنے پاؤں کی زنجیر بنتی چلی جا رہی ہے۔ وقت ہے کہ‬ ‫گزرا جا رہا ہے۔ امریکی لیڈر اپنی آتی نسلوں کی راہ میں‬ ‫مصائب کےکانٹے بن رہے ہیں حاالنکہ لوگ اپنی نسلوں کے‬ ‫لیے بیرون ملک دوستیوں کے دروازے کھولتے ہیں۔‬


‫امریکی عوام پر الزم آتا ہے کہ وہ طاقت کی غلط فہمی کے‬ ‫حصار کو توڑ کر اصل صورت حال کا تجزیہ کریں اور دیکھں کہ‬ ‫ان کے لیڈر انھیں کس نفرت کے جہنم میں دھکیل رہے ہیں۔‬

‫لوڈ شیڈنگ کی برکات‬ ‫ہم میں یہ عادت بڑی شدت اور تیز رفتاری سے پروان چڑھی‬ ‫ہے کہ ہماری معاملے کے منفی پہلو ہا پہلوں پر فورا سے پہلے‬ ‫نظر جاتی ہے اور پھر الیعنی اور بےسروپا کہانیاں گھڑتے چلے‬ ‫جاتے ہیں حاالنکہ مثبت پہلو بھی تو سامنے رکھے جا‬ ‫سکتےہیں۔ مثبت پہلو نظر میں رکھنے سے خرابی جنم نہیں لے‬ ‫پاتی۔ منفی کی سرشت میں ہی خرابی موجود ہوتی ہے۔ بجلی کے‬ ‫مسلے ہی کو دیکھ لیں عوام تو عوام سیاسی حلقوں نے بھی‬ ‫اسے ایشو بنا لیا ہے حاالنکہ یہ معاملہ کوئی اتنا بڑا مسلہ نہیں‬ ‫بلکہ معمولی سی مسلی ہے جو اس قابل نہیں کہ اسے بہت بڑا‬ ‫مسلہ بنا کر توڑ پھوڑ کی جائے ۔یا پھر بےکار میں رولےلپے‬ ‫سے کام لیا جاءے۔‬


‫آخر اتنا واویال کرنے کر ضرورت ہی کیا ہے۔ کون سی قیامت‬ ‫ٹوٹ پڑی ہے۔ ہمارے باپ دادا کب بجلی کے عادی تھے۔ بجلی‬ ‫امیر کبیر لوگوں کا چونچال تھی۔ آج بھی ان ہی لوگوں کی عیاشی‬ ‫کا ذریعہ ہے۔ پہلے وقتوں کے لوگ بھلے تھے ریس کرنے کی‬ ‫عادت سے دور رہ کر سکھ چین کی گزارتے تھے۔ اس ریس کی‬ ‫عادت نے ہر کسی کا دماغ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ روشنی بڑے‬ ‫بڑے ایوانوں کا مقدر تھی۔ روشنی بڑے ایوانوں کا فطری حق‬ ‫ہے۔ آج ایک معمولی مزدور بھی روشنی کی ڈیمانڈ کرنے لگا‬ ‫ہے۔ قوم کا کھیلنے کے لیے چاند مانگنا نادانی نہیں تو پھراور‬ ‫کیا ہے۔ جب کوئ اپنی اوقات سے باہر نکلتا ہے تو اوکھت اس‬ ‫کا مقدر ٹھرتی ہے۔‬ ‫موجودہ عہد کی تیز رفتاری اور چمک دھمک نے زندگی کو‬ ‫انتہائ مشکل اور تکلیف دہ بنا دیا ہے۔ شخص کچھ کہنا چاہتا‬ ‫ہے لیکن کہہ نہیں پاتا۔ اس کی زبان پر مجبوریوں کے چائینہ‬ ‫الک ثبت ہیں۔ جو چونچ کھولے گا حضرت زوجہ ماجدہ کے‬ ‫پولے کھاءے گا۔ اگربچ رہا تو اوالد کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہو‬ ‫گا اورپھر متواتر ہوتا رہے۔ چونچ کھولنے والوں کے ساتھ ازل‬ ‫سے یہی ہوتا آیا ہے امید واثق ہے یہی ہوتا رہے گا ۔ہمارے‬ ‫مدبر لیڈران اس حقیقت سے خوب آگاہ ہیں تب ہی تو انھوں نے‬ ‫فساد کی جڑ کو ختم کر دینے کا پکا پیڈا ارادہ باندھ لیا ہے کہ نہ‬


‫رہے گی بجلی اور نہ میاں کی باجے گی ٹنڈ۔ لوگوں کے اگلے‬ ‫وقتوں کےخوبصورت اور آسان ہونے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو‬ ‫سکے گا۔‬ ‫لوگ غاروں میں منتقل ہو جائیں گے۔ اس طرح بے فضول‬ ‫اونچی اونچی عمارتیں بنانے کا رواج دم توڑ دے گا۔ غار کے‬ ‫اقامتی سیدھے سادے لوگ تقریبات کے تکلفات سے آزاد ہو‬ ‫جاءیں گے۔ آبادی بڑھ جانے کے باوجود ہریالی جو ککڑیانی‬ ‫سے کم نہیں پیٹ بھر نوش جان کر سکیں گے۔ بڑ کے درخت‬ ‫افادیت کے حوالہ سے کس مقام پر فائز ہیں کسی حکیم سے‬ ‫پوچھیے' لباسی عشرت کا درجہ حاصل کر لیں گے۔‬ ‫ہمارے لیڈر بڑے سیانے ہیں اور جانتے ہیں کہ امریکہ غصے‬ ‫کا سوءر ہے۔ وہ عزم کیے ہوئے ہے کہ پوری دنیا کو کھنڈر بنا‬ ‫کر رکھ دے گا۔ ہمارے لیڈر بڑے ہمدرد لوگ ہیں وہ اپنی غالم‬ ‫رعایا کو بے بسی کی موت مرتے نہیں دیکھ سکیں گے۔ وہ‬ ‫اپنے مجبور اور بےبس غالموں کو امریکہ کی غالمی میں نہیں‬ ‫دیکھ سکتے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان میں سے کوئی غدار نکل‬ ‫آئے اور اپنے ہمدرد لیڈر صاحبان کی باطنی خباثت اگل نہ دے۔‬ ‫آمدہ خطرات سے مقابلہ کرنے کے لیے انھوں نے اس ملک کو‬ ‫کھنڈر اور عوام کو غار اقامتی بنانے کا پختہ ارادہ کر لیا ہے۔‬


‫کملے عوام شور مچا رہے ہیں لیکن کل کالں ان کو اپنے لیڈر‬ ‫صاحبان کی بلند پایہ فراست اور دور اندیشی کا علم ہو جاءے گا۔‬ ‫لیکن اس وقت یہ نہ ہوں گے۔ وقت ہاتھ سے نکل چکا ہو گا۔ پھر‬ ‫ان کی تعرف کرنے کا کیا فائدہ ہو گا۔ آج وقت ہے انھیں اپنے‬ ‫محسنوں کی قدر کرنی چائیے۔ انسان کی اصل بھی تو غار ہے۔‬ ‫اس نے زندگی کا آغاز غار سے کیا ۔ اس ترقی یافتہ عہد میں‬ ‫بھی غار باسی اسے خوش آتی ہے۔ بعد از موت اس کا اصل‬ ‫ٹھکانہ غار ہی تو ہے۔‬ ‫تعلیم حاصل کرنے کا جنون کی سطع پر رواج کب تھا۔ خاص‬ ‫طبقے کے لوگ اس پرخار میدان میں قدم رکھتے تھے۔ عام‬ ‫لوگوں کو تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ انھوں نے‬ ‫کون سا جہانبانی کا فریضہ سر انجام دینا ہوتا ہے۔ نمبردار کا‬ ‫پسر ناہنجار ہی نمبردار بنتا ہے۔ اسی طرح بادشاہ کا بیٹا بادشاہ‬ ‫بنتا ہے۔ ہر نتھو خیرے کو بادشاہی کے خواب دیکھنے کی‬ ‫اجازت نہیں مل سکتی۔‬ ‫اگلے وقتوں کے لوگ اپنے اپنے آبائی پیشے میں کمال حاصل‬ ‫کرنے کی کوشش کرتے تھے بلکہ عالقہ میں نام پیدا کرنے کے‬ ‫لیے عمر گزار دیتے تھے۔ ان کا مجوزہ پیشہ ان کی ذات اور‬ ‫پہچان ٹھرتا تھا۔ وہ اس ذیل میں فخر محسوس کرتے تھے۔ آج‬


‫بڑے بڑے افسر اور لیڈر اپنی ذات اور شناخت چھپاتے ہیں لیکن‬ ‫ان کی بعض حرکتیں اور کام ان کی ذات اور شناخت کھول دیتی‬ ‫ہیں۔ حاالنکہ اس میں چھپانے والی کوئی بات ہی نہیں‬ ‫ہمارےمحترم اور معزز لیڈر صاحبان لوگوں کو ان کی اصل کی‬ ‫جانب لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بجلی صرف خاص‬ ‫طبقے کے لوگوں کو میسر آ سکے تاکہ وہ پڑھ لکھ کر‬ ‫حکمرانی کا معزز فریضہ سرانجام دے سکیں۔ عام آدمی بڑے‬ ‫آدمیوں کا گوال ہوا کرتا تھا۔ اس کی چلمیں بھرتا تھا۔ ان کے‬ ‫جوتے سیدھےکیا کرتا آج عام آدمی اپنا ماضی بھول کر تعلیم‬ ‫صاصل کرکے کچھ بننے کی سعی میں مصروف ہے۔ یہ رویہ‬ ‫کسی طرح درست نہیں۔ بجلی نہ ہونے کے سبب تعلیم حاصل‬ ‫کرنے کے میالن کی حوصلہ شکنی ہو گی اور بڑے آدمیوں کی‬ ‫آنکھ میں انکھ مال کر بات کرنے کا خواب تعبیر کی منزل چھو نہ‬ ‫پائے گا اور لوگ اپنی اوقات کی جانب پھر کر بہتر طور پر کام‬ ‫کر سکیں گے۔‬ ‫تعلیمی بورڑوں کی مالی حالت مستحکم سہی اس کے باوجود‬ ‫انھیں مزید بے تحاشا مالی معاونت درکار ہے تا کہ وہ لوگوں کا‬ ‫بہتر طور پر استحصال کرنے کا فریضہ سر انجام دے سکیں۔‬ ‫طلباء کو بار بار فعل کرنے کے لیے حساب انگریزی مضامین‬


‫آرٹس کے لیے الزم کر رکھے ہیں۔ تجربے میں آیا ہے پھر بھی‬ ‫کچھ ناکچھ طلباء کامیاب ہو ہی جاتے تھے اور یہ صورتحال‬ ‫بڑی مایوس کن رہی ہے۔ اس مایوسی سے نجات کا واحد یہی‬ ‫ذریعہ رہ گیا تھا۔ اب کوئ طالب علم کامیاب ہوکر دکھاءے گا تو‬ ‫مانیں گے۔‬ ‫کچھ ہی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ایک ایم پی اے صاحب بڑی‬ ‫دھواں دھار تقریر فرما رہے تھے۔ انھوں نے بڑے پرعزم انداز‬ ‫میں فرمایا ہم ناخوندگی بڑھانے کی ان تھک کوشش کر رہے‬ ‫ہیں۔ مدبرین کی سرتوڑ کوشش ہے کہ کوئی طالب علم میٹرک‬ ‫کراس نہ کر پائے ایف اے میں حساب فارغ ہو جائے گا اس‬ ‫طرح تعلیم کی حوصلہ شکنی کے لیے صرف اور صرف‬ ‫انگریزی باقی رہ جائے گی۔ انگریز کا کندھا اتنا مضبوط نہیں جو‬ ‫تعلیم شکنی میں ہمارے پرعزم لیڈران کی مدد کر سکے۔ حساب‬ ‫سے زیادہ کوئ مضمون بہتر ہو ہی نہیں سکتا۔ لوڈ شیڈنگ اس‬ ‫تعلیم دشمنی کے معاملہ میں جلتی کے لیے آکسیجن کا کام دے‬ ‫گی۔ اس مثبت پہلو کے پیش نظر لوڈ شیڈنگ کو منفی مفاہیم‬ ‫دینے والے ایوان دشمن ہیں۔ ایوان دشمنی کبھی بھی کمزور‬ ‫‪.‬طبقے کے لیے صحت مند نہیں رہی‬ ‫بجلی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ مختلف حوالوں سے‬


‫آگہی عام کرتی ہے۔ آگہی ے بڑھ کر کوئی عذاب نہیں۔ کوئ اخبار‬ ‫کسی بھی دن کا اٹھا کر دیکھ لو خیر کی خبر پڑھنے کو نہیں‬ ‫ملے گی۔ ٹی وی سچی باتیں سامنے ال کر بےچینی کا سبب بنتا‬ ‫ہے۔ بعض اوقات تو ٹی وی سازشی عنصر محسوس ہونے لگتا‬ ‫ہے۔ لوگ انٹرنیٹ پر تصاویر تقاریر کارٹون شائع کرکے اور‬ ‫تحریریں لکھ لکھ کر بڑے آدمیوں کو پوری دنیا میں ذلیل وخوار‬ ‫کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان کے خیال میں وہ اپنے‬ ‫مذموم ارادے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ یہ ان کی بہت بڑی بھول‬ ‫ہے۔ کوئی بھی بڑا آدمی اس وقت بےعزت ہو گا جب اس کی‬ ‫جنتا میں عزت ہو گی۔ دوسرا وہ تسلیم کریں گے تو ہی ذلت کا‬ ‫کوئی پہلو نکلے گا۔ جو بھی سہی میڈیا جھوٹا سچا کردار ادا‬ ‫‪.‬کرنے کی ناکام سعی تو کر رہا ہے‬ ‫کچھ بھی سہی میڈیا کے حوالہ سے انھیں یاوہ گوئ پڑھنے‬ ‫سننے کو مل رہی ہے۔ بڑے لوگ سچ پڑھنے سننے کے عادی‬ ‫نہیں ہوتے۔ میڈیا کی وجہ کمی کمین بھی جو تعداد میں سب سے‬ ‫زیادہ ہیں' بات کرنے کی جرات کریں گے۔ بجلی نہ رہی تو ٹی‬ ‫وی انٹرنیٹ وغیرہ صفر ہو کر رہ جاءیں گے۔ اگلے زمانے میں‬ ‫آگہی کے دروازے بڑے تنگ اور محدود تھے اسی لیے امن‬ ‫وامان میں کسی طرح کا نقص نہیں آتا تھا۔‬


‫پانی بڑی قیمتی چیز ہے۔ بجلی کے دور میں سرکاری اور‬ ‫گھریلو موٹروں کا پانی بڑی بے دردی سے ضائع کیا جاتا تھا۔‬ ‫انھیں کبھی احساس تک نہیں ہوتا تھا کہ وہ کتنے بڑے گناہ کا‬ ‫ارتکاب کررہے ہیں۔ بجلی کی بندش سے بڑے لوگوں نےاپنے‬ ‫پیارے پیارے عام کو ظلم کبیرہ سے بچا کر اربوں کی تعدد میں‬ ‫نیکیاں کما لی ہیں۔ قوم شکریہ ادا کرنے کی بجائے سڑک پر آ‬ ‫گئی ہے۔‬ ‫ٹیشو پیر کی صنعت خسارے میں تو نہیں تھی لیکن عام آدمی‬ ‫ٹیشو پیر بنا ہوا تھا‪ .‬عام آدمی اس ترقی یافتہ چیز سے استفادہ‬ ‫نہیں کرتا تھا لیکن پانی کی خطرناک قلت کے سبب یہ طہارت‬ ‫کے حوالہ سے ایک عام آدمی میں بھی شرف قبولیت حاصل کر‬ ‫لے گا۔ لوگ پانی کو صرف پینےکے لیے محفوظ کیا کریں گے‬ ‫اور یہ بڑے فخر اور اعزا والی بات ہو گی۔‬ ‫پاکستان کی آبادی بہت بڑھ گئ ہے۔ محکمہ منصوبہ بندی نے‬ ‫آبادی کےحوالہ سے وہ نام نہیں کمایا اور یہ بڑے افسوس کی‬ ‫بات ہے۔ جو کام محکمہ منصوبہ بندی نہیں کر سکا وہ کام بجلی‬ ‫کی بندش سے باآسانی ہو سکے گا۔ اس کی کئ صورتیں‬ ‫سامنےآ سکیں گی۔ مثل‬


‫ہسپتال میں پڑے مریض اپریشن نہ ہونے کے کے باعث دم توڑ‬ ‫دیں گے۔‬ ‫کام نہ ملنے کی وجہ سے بھوک میں اضافہ ہو گا کچھ لوگوں کو‬ ‫بھوک کھا جائے۔ بہت سے لوگ بھوک کی سختی کے باعث خود‬ ‫کشی کر لیں گے۔‬ ‫بھوک چوری چکاری میں اضافے کا باعث بنے گی۔ ڈاکے پڑیں‬ ‫گے ڈاکو برسرعام لوگوں کو لوٹیں گے۔ اس چھینا جھپٹی کے‬ ‫عالم میں قتل وغارت کا بازار گرم ہو جائے گا۔ اس طرح اچھی‬ ‫خاصی آبادی زندگی کی ظالم سختیوں سے مکت ہو جائے گی۔‬ ‫بجلی کی قیمتوں میں جس قدر اضافہ ہوا ہے اس سے روح بھی‬ ‫کانپ رہی ہے۔ بجلی نہ ہوئی تو بجلی کی قیمت بل میں اندراج نہ‬ ‫ہو سکے گی۔ صرف اضافی چارجز کا بل آیا کرے گا جو پہلے‬ ‫سالوں میں باآسانی ادا ہو سکے گا۔ بجلی فراہم ہونے کی صورت‬ ‫میں لوگ آغاز عشق میں ہی میٹر کٹوانے چل پڑیں گے۔ اس‬ ‫طرح بجلی والوں کے کام میں خواہ مخواہ کا اضافہ ہو جائے گا‬ ‫جو کسی طرح مناسب نہیں لگتا۔‬


‫مزدور صدیوں سے مشقت کا شکار ہے۔ آج ہر کام بجلی سے‬ ‫جڑا ہوا ہے۔ اس طرح مزدور کو وافر آرام دسیاب ہو سکے گا۔‬ ‫صدیوں کے تھکے ماندے مزدور کو آرام ملنا شر پسند عناصر‬ ‫کو ناجانےکیوں برالگ رہا ہے۔‬ ‫دفاتر آرام گاہیں بن گئی ہیں' سائلین سولی پر ہیں۔ بجلی کی‬ ‫بندش سے کمپیوٹر ٹھپ ہو جائیں گے۔ لوگ ناامید ہو کر گھربیٹھ‬ ‫جائیں گے۔ اس سے دفاتر شاہی کو سائلین کی اہمیت کااحساس‬ ‫ہو سکے گا۔ دستی کام کرنے کے لیے آوازیں لگائی جائیں گی۔‬ ‫چلو دفاتر شاہی کو کچھ تو کام کرنے کی عادت پڑے گی۔‬ ‫مغرب کی پیروی میں بےلباسی ہمیں خوش آتی ہے۔ غالبا صالح‬ ‫الدین ایوبی کا قول ہے کہ گربت میں مرد کی غیرت اور عورت‬ ‫کی عزت سستی ہو جاتی ہے۔ لوڈشیڈنگ سے بےروزگاری میں‬ ‫خوفناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ بھوک نے جینا مشکل کر دیا‬ ‫ہے۔ ایسے حاالت میں مغرب کی پیروی میں بےلباسی معیوب‬ ‫نہیں رہے گی۔ مغرب کی بےلباسی اور جنسی آزادی تاریخی‬ ‫وجوہ رکھتی ہے۔ یہاں کی بےلباسی میں بھی حاالت کا جواز پیدا‬ ‫ہو جائے گا۔ امرا وزرا اور اہل ثروت پہلے ہی جنسی عیاشی‬ ‫کرتے ہیں اس طرح مزید تر مال میسر آ سکے گا۔‬


‫گربا ہوتے ہی امرا کی غالمی کے لیے۔ آج تک گربا کے پاس‬ ‫صرف اور صرف عزت باقی تھی ہمارے مدبر قوم دوست قاءدین‬ ‫اس کو بھی بازار میں النے کی پوری پوری کوشش کر رہے ہیں‬ ‫۔ وہ چاہتے ہیں کہ قوم مغرب کی جنسی پیروی کرکے دن دگنی‬ ‫اور رات چوگنی ترقی کرے۔ بنیاد پرستوں نے آج تک اس ذیل‬ ‫میں اخالقیات کے نام پر ٹانگ اڑاے رکھی ہے گویا پہلوں کے‬ ‫‪.‬اخالقی اصول وضوابط آج کسی کام کے نہیں رہے‬ ‫درج باال معروضات کے تناظر میں لوڈشیڈنگ کو مالحظہ‬ ‫فرماءیں گے تواس کی مزید برکات غربا اور پریشان حضرات پر‬ ‫کھلتی جائیں گی اور سارا روال رپا سمجھ میں آ جاءے گا۔ یہ‬ ‫بھی پوشیدہ نہیں رہے گا کہ اس سازش کے پیچھے شرپسند‬ ‫مفاد پرست اور حکومت دشمن لوگوں کا دایاں ہاتھ ہے۔ وہ سب‬ ‫عوام دوست نہیں ہیں اور ناہی عوام کو ہزاروں سال پیچھے لے‬ ‫جانے کے حق میں ہیں۔ اس ملک کے عوام نہ آگے بڑھ رہے‬ ‫ہیں اور ناہی برق رفتاری سے ماضی کا رخ کر رہے ہیں۔ ان‬ ‫لوگوں کے پلٹنے کی رفتار حوصلہ شکن ہے اس لیے راہ میں‬ ‫پڑنے والی ہر دیوار کو گرانا حکومت کے قومی تنزلی ایجنڈے‬ ‫کے ساتھ مخلصی ہو گی۔ ان کا اخالص حکومت دوست مورخ آب‬ ‫زر سے رقم کرے گا۔‬


‫ہم زندہ قوم ہیں‬

‫ہم بڑے الئی لگ قسم کے لوگ ہیں۔ اپنے دماغ سے سوچنے کی‬ ‫زحمت نہیں اٹھاتے۔ اگر کسی نے کہا کتا تہارے کان لے گیا ہے۔‬ ‫کان دیکھنے کی بجائے کتے کے پیچھے دوڑ لگا دیں گے۔ کوئی‬ ‫کتنا ہی کوکتا رہے کان دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں‬ ‫کریں گے بلکہ کوکنے والے کو ہی کوسنے دیں گے۔‬ ‫یہ رویہ آج سے مخصوص نہیں بہت پہلےسے انسان کتے کے‬ ‫پیچھے پورے زور شور سے بھاگے چال جا رہا ہے۔ هللا جانے‬ ‫دونوں ابھی تک تھکن کا شکار کیوں نہیں ہوئے۔ دونوں کی‬ ‫رفتار میں رائی بھر کمی نہیں آئی۔ لفظ رائی کا استعمال اس لیے‬ ‫کیا ہے کہ رائی سے کوئی چھوٹی مادی شے ابھی تک دریافت‬ ‫نہیں ہو سکی۔ سل جاندار ہے اور دکھائی نہیں دیتا۔ دکھائی نہ‬ ‫دینے کے سبب ہی مر رہا ہے اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ یہی‬ ‫وجہ ہے کہ میں نے سل بھر محاورہ نہیں اخترایا۔ کتے کی‬


‫وفاداری اپنی جگہ مڑ کر دندی نہیں کاٹ رہا اور بال جواز مشقت‬ ‫اٹھائے چال جا رہا ہے۔‬ ‫انصاف کی بات تو یہ ہے کہ وہ انسان کےکچے کانوں کی‬ ‫بالجرم سزا بھگت رہا ہے۔ اگر ایک بار وفاداری کے خول سے‬ ‫باہر نکل کر اچانک پیچھے مڑ کر دندی کاٹ لیتا توانسان کو کان‬ ‫ہو جاتے۔ ڈاکٹر پیٹ میں ٹیکے ٹھوکتا۔ جیب ہلکی کرتا۔‬ ‫نادانستگی میں کانوں کو ہاتھ لگاتا تو اسے معلوم پڑتا کہ کان‬ ‫تو سالمت ہیں۔ ہاں البتہ سر سالمت نہیں رہا۔ اسے یہ بھی پتہ‬ ‫چل جاتا کہ زخموں سے چور اور نڈھال سرآج بھی غداروں اور‬ ‫مداریوں کے قدموں میں پڑا انسان کی کتا چیکی کا رونا رو رہا‬ ‫ہے۔‬ ‫استاد کو میری بات سے اتفاق نہیں رہا بلکہ اس کا ماننا یہ ہے‬ ‫کہ سوچنے واال سر پیٹ میں چال گیا ہے۔ ہمارے ہاں کا شخص‬ ‫پیٹ سے سوچنے کا عادی ہو گیا۔ پیٹ میں حسب ضرورت گرم‬ ‫ٹھنڈا تھندا ڈالتے رہو یہ کتے کے پیچھے بھاگتا رہے گا ۔ پیٹ‬ ‫اور گٹھنوں کان اور پیٹ کا فاصلہ برابر ہو گیا ہے اس لیے پیٹ‬ ‫کان اور گٹھنوں سے پہلے ہے۔ ہر معاملہ میں پیٹ پہلے ہو گیا‬ ‫ہے۔ کان اور گٹھنے روٹی نہیں کھاتے اس لیے وہ قابل ترجیع‬ ‫نہیں ہیں۔ بات میں دم اور خم کی کسی حوالہ سے کمی نہیں۔‬ ‫دھرتی ماں ہی ہوتی ہے۔ ماں کسی غیر کے حوالے کرکے دیسی‬


‫گھی کی چوری والئتیوں کے ہاتھ سےکھا نےکا مزا دیس بھگت‬ ‫کیا جانیں۔ وہ جانتے ہوئے کہ والءتیوں نےمولوی ابوبکر کی‬ ‫گولی کھا رکھی ہے اور ماں کا کیا حشر کرے گا کا تصور بھی‬ ‫پیٹ دشمنی کے مترادف سمجھتے ہیں۔ اسے ماں سے غداری یا‬ ‫بے غیرتی سے زیادہ وقت اور حاالت کا تقاضا سمجھا جاتا ہے۔‬ ‫استاد کی باتوں کا برا نہ مانئیے گا۔ میں بھی اوروں کی طرح‬ ‫ہنس کر ٹال دیتا ہوں۔ اور کیا کروں مجھے محسن کش اور‬ ‫پاکستان دشمن کہالنے کا کوئی شوق نہیں۔ بھال یہ بھی کوئ‬ ‫کرنے کی باتیں ہیں کہ کتے کے منہ سے نکلی سانپ کے منہ‬ ‫میں آ گئی۔ سانپ سے خالصی ہونے کے ساتھ ہی چھپکلی کے‬ ‫منہ میں چلی گئی۔‬ ‫پاکستان اور بھارت کی قیادت بڑی اعلی درجے کی رہی ہے۔ یہ‬ ‫بڑے نیک شریف اور دیس بھگت رہے ہیں۔ جو بھی ان کے‬ ‫کردار پرانگلی رکھے گا ناک کی سیدھ پر دوزخ نرک میں جائے‬ ‫گا۔ پاکستان کی قیادت کو بسم هللا تک آئے یا نہ آے اسالم دوست‬ ‫رہی ہے۔اس نے ہر قدم پراسالم دوستی کا ثبوت دیا ہے۔ استاد کا‬ ‫کیا ہے وہ تو بونگیاں مارتا رہتا ہے۔ ساری دنیا مورخ کی مانتی‬ ‫آئی ہے اور مورکھ اقتدار کا گماشتہ رہا ہے۔ مورکھ وچارہ بھی‬ ‫تو نسان رہا ہے۔ پاپی پیٹ اسے بھی لگا لگایا مال ہے۔ اس نے‬


‫چند لقموں کے لیے ضمیر بیچا ہے۔ بڑی پگڑی والے سر خان‬ ‫بہادرز بھی یہی کچھ کرتے آئے ہیں اور وہ ہمارے ہیرو ہیں۔‬ ‫کیوں نہ ہوں انگریز ساختہ ہیں۔ ان کے انگریز ساختہ ہونے میں‬ ‫رائی بھر کھوٹ نہیں۔‬ ‫نظام ملنگی سلطانہ بھگت سنگھ آزاد وغیرہ انگریز ساختہ ڈاکو‬ ‫ہیں اور ہم میں سے ہر کسی کا یہی ماننا ہے۔ میں بھی باالئے‬ ‫زبان یہی کہتا ہوں۔ میں دل سے نہیں مانتا۔ کسی کو میرے دل‬ ‫سے کیا مطبل منہ زبانی ایک بار نہیں ہزار کہتا ہوں کہ یہ ڈاکو‬ ‫تھے ڈاکو تھے۔ ان کا ڈاکو ہونا ہر شک سے باالتر ہے۔‬ ‫انگریز ساختہ ہیروز بھی اپنی اصل میں مہا ڈاکو تھے۔ وہ‬ ‫انگریز کی اشیرباد سے گریب اور کمزور لوگوں کی جان مال‬ ‫اور عزت پر دن دھاڑے برسرعام پوری دھونس سےڈاکہ نہیں‬ ‫باربار ڈاکے ڈالتے تھے۔ نظام ملنگی سلطانہ وغیرہ ان سرکاری‬ ‫خان بہادر ڈاکوں کے گھروں میں رات کےوقت ڈاکے نہیں ڈاکہ‬ ‫ڈالتے اور گریبوں میں تقسیم کردیتے تھے۔ سرکاری ڈاکو‬ ‫محلوں میں رہتے تھے اور یہ خالی ہاتھ چھانگا مانگا کے‬ ‫جنگوں میں چھپتے پھرتے تھے۔ سرکاری خان بہادر ڈاکو‬ ‫دھرتی ماں کے دالل تھے۔ یہ دھرتی ماں کے بھگت تھے۔‬


‫پاکستان بنانے والوں کا نام تک کسی کو یاد نہیں لیکن ان‬ ‫انگریز ساختہ ہیروز کو سب جانتے۔ ٹیپو ہیرو تھا ساری عمر‬ ‫تلوار کی نوک تلے رہا۔ یہ ایسے ہیروز ہیں جنہوں نے پوری‬ ‫قوم کو تلوار کی نوک تلے رکھا۔ پاکستان کے لیے اسالم کا نام‬ ‫استعمال ہوا لوگوں نے اسالم کے نام پر جانیں قربان کیں۔ بے‬ ‫گھر ہوئے۔ لیکن انھیں کوئی جانتا تک نہیں۔‬ ‫ذرا ان سوالوں کا جواب تالشیں‬ ‫‪٧١٧٢‬‬ ‫میں وائسرائے ہند سے ملنے والے گروہ کا سردار کون تھا‬ ‫اور اس کا انگریز سے کیا رشتہ تھا؟‬ ‫تقریر کس انگریز نے لکھ کر دی اور وہ انگریز کس کا نمائندہ‬ ‫تھا؟‬ ‫وائسرائے نے کیا اور کیوں مشورہ دیا؟‬ ‫‪٧١٧٢‬‬ ‫میں مسلم لیگ کی قررداد پیش کرنے والے کے پاس انگریز‬ ‫سرکار کے کتنے ٹائیٹل تھے؟‬ ‫کیا وہ انگریز سے پوچھے بغیر ٹٹی پیشاب کر لیتا تھا؟‬


‫مسلم لیگ کے جملہ صدور عہدے دران وغیرہ میں سے کتنے‬ ‫سر اور انگریز سرکار کے چمچے کڑچھے تھے؟‬ ‫استاد کہتا ہے جو ہیروز تھے ان کا کہیں ذکر تک نہیں اور جو‬ ‫زیرو بھی نہیں تھے پیٹ نواز مورکھ نے انھیں زمین کا سنگار‬ ‫بنا دیا ہے۔‬ ‫استاد کی باتیں اگرچہ سچ اور حقائق پر مبنی ہیں لیکن سچ کو‬ ‫کب تسلیم کیا گیا ہے۔ میں استاد سے اکثر کہتا ہوں ایسی کڑوی‬ ‫بات نہ کیا کرے۔ لوگوں کو کتے کے پیچھے بھاگنے دے۔ زندہ‬ ‫قومیں مسلسل بھاگتی ہیں۔ بھاگنے سےہی بھاگ جاگتے ہیں۔‬ ‫اس بات کا دکھ نہیں ہونا چاہیے کہ بجلی بند ہے خوشی اس بات‬ ‫کی ہونی چاہیے کہ سب کی بند ہے۔ ہم زندہ قوم ہیں اور اس‬ ‫پرچم تلے سب ایک ہیں۔‬

‫‪...........................‬‬ ‫بابا بولتا ہے‬ ‫‪http://urdunetjpn.com/ur/category/maqsood-hasni/page124//‬‬


‫بابا چھیڑتا ہے‬ http://urdunetjpn.com/ur/category/maqsood-hasni/page/123/

‫فتوی درکار ہے‬ http://urdunetjpn.com/ur/category/maqsood-hasni/page/122/

‫الوارث بابا اوپر‬ http://urdunetjpn.com/ur/category/maqsood-hasni/page121//

‫ڈنگی ڈینگی کی زد میں ہے‬ http://urdunetjpn.com/ur/category/maqsood-hasni/page120//

‫حضرت ڈینگی شریف اور نفاذ اسالم‬ http://urdunetjpn.com/ur/category/maqsood-hasni/page119//

‫یہ بالئیں صدقہ کو کھا جاتی ہیں‬ http://urdunetjpn.com/ur/category/maqsood-hasni/page/118/


‫سورج مغرب سے نکلتا ہے‬ http://urdunetjpn.com/ur/category/maqsood-hasni/page/116/

‫حجامت بےسر کو سر میں التی ہے‬ http://urdunetjpn.com/ur/category/maqsood-hasni/pag e/114/

‫طاقت اور ٹیڑھے مگر خوب صورت ہاتھ‬ http://urdunetjpn.com/ur/category/maqsood-hasni/page/111/

‫انھی پئے گئی ہے‬ http://urdunetjpn.com/ur/category/maqsood-hasni/page/103

‫آرا‬


‫ایک دفع کا ذکر ہے‬ ‫مکرمی و محترمی حسنی صاحب‪ :‬سالم علیکم‬ ‫مدت ہوئی کہ آشتیءچشم وگوش ہے! کتنا عرصہ ہوگیا کہ آپ‬ ‫سے نیاز حاصل نہ کر سکا۔ اس زندگی اور اس کے خراج کا برا‬ ‫ہو کہ اپنے بیگانوں سے سالم دعا بھی اب ہونا مشکل ہوچال‬ ‫ہے۔ معذرت خواہ ہوں۔ امید ہے کہ اپ بعافیت ہوں گے۔ قلم کی‬ ‫شگفتگی تو بظاہر بدستور قایم ہے‪،‬هللا سے دعا ہے کہ آپ بذات‬ ‫خود بھی حسب معمول شکفتہ ہوں۔ آپ کا انشائیہ حسب دستور‬ ‫سابق دلچسپ اور پر لطف ہے۔ پڑھتا رہا اور مزے لیتا رہا۔ اور‬ ‫جب "بے نکاحی" گالیوں تک پہنچا تو بے اختیار قہقہہ منھ سے‬ ‫نکل گیا۔ کیوں صاحب یہ "نکاحی" گالیاں کیسی ہوتی ہیں؟ دو‬ ‫ایک مثالیں عنایت فرمائیں تاکہ فرق معلوم ہو سکے۔ آپ کی‬ ‫زبان میں جا بجا پنجابی کا چٹخارہ لگا ہوتا ہے جو عجیب مزا‬ ‫دیتا ہے۔ پنجابی ویسے خاصی کھردری زبان ہے لیکن مزاح میں‬ ‫خوب کام آتی ہے۔ انشائیہ پر خادم کی داد حاضر ہے۔ اسی طرح‬ ‫لکھتے رہئے اور ثواب دارین سمیٹتے رہئے۔ اور ہاں "نکاحی"‬ ‫!اور "بے نکاحی" گالیوں کا فرق ضرور بتائیں‬


‫سرور عالم راز‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10041.0‬‬

‫غیرملکی بداطواری دفتری اخالقیات اور برفی کی چاٹ‬ ‫‪،،‬‬ ‫مکرمی حسنی صاحب‪ :‬سالم علیکم‬ ‫میرے اس خط کو نشانی سمجھ لیں کہ آپ کا انشائیہ میں نے‬ ‫مزے لے لے کر اور با ضابطہ عبرت پکڑپکڑ کر پڑھ لیا ہے۔‬ ‫اگر انشائیہ کا تعلق آپ کے وطن سے مخصوص نہ ہوتا اور میں‬ ‫ہندوستان کا سابق شہری نہ ہوتا تو کچھ عرض کرتا لیکن‬ ‫تجربوں سے ظاہر ہوگیا ہے کہ ایسے نازک معامالت میں‬ ‫خاموشی اچھی ہوتی ہے۔ سو میری خاموشی قبول کیجئے اور‬ ‫ساتھ ہی داد بھی۔‬ ‫سرور عالم راز‬


‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=7961.0‬‬

‫انشورنس والے اور میں اور تو کا فلسفہ‬ ‫! عزیز گرامی حسنی صاحب ‪:‬سالم شوق‬ ‫آپ کا انشائیہ پڑھ کر مزا آ گیا۔ کاش آپ اپنی اس صالحیت پر‬ ‫مزید محنت کریں اور مزاح اور طنز کی دنیا میں ایک مقام بنا‬ ‫لیں۔ آپ کا قلم نہایت شگفتہ و شستہ ہے‪ ،‬خیال آرائی اور منظر‬ ‫کشی میں آپ ماہر ہیں‪،‬زبان و بیان بہت اچھے ہیں تو پھر دیر‬ ‫کس بات کی؟ میری مخلصانہ گزارش ہے کہ طنز ومزاح کی‬ ‫جانب سجنیدگی سے توجہ دیں اور اپنے انداز فکر و سخن کو‬ ‫نکھاریں۔ اردو میں طنز و مزاح بہت کم ہے کیونکہ ہماری‬ ‫زندگی اور معاشرہ خود درد و رنج اور استحصال کا مارا ہوا ہے۔‬ ‫ظاہر ہے کہ جب انسان کی زندگی عذاب ہو تو اس کو ہنسی‬ ‫کیسے سوجھے گی؟ اس حوالے سے مزاح نگار ایک رحمت بن‬ ‫جاتا ہے کیونکہ وہ لوگوں کو ہنساتا ہے اور سبق سکھاتا ہے۔‬ ‫آپ کا انشائیہ صرف واپڈا کا انشائیہ نہیں ہے بلکہ ہر ایسے‬ ‫ادارہ اور ایسے لوگوں کا خاکہ ہے جنہوں نے عوام کی زندگی‬


‫عذاب بنا رکھی ہے۔‬ ‫اچھے انشائیہ پر داد قبول کیجئے اور میری گزارش پر ضرور‬ ‫سوچئے اور کام کیجئے۔ شکریہ ۔ باقی راوی سب چین بولتا‬ ‫ہے۔‬ ‫سرور عالم راز‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=7974.0‬‬

‫الٹھی والے کی بھینس‬ ‫مکرم بندہ جناب حسنی صاحب‪ :‬سالم شوق‬ ‫خدا گواہ ہے کہ اردو انجمن نہایت خوش قسمت ہے کہ اس کو‬ ‫بیک وقت آپ اور اعجاز خیال صاحب جیسے انشائیہ نگار مل‬ ‫گئے ۔ آپ دوسری محفلوں کو دیکھیں تو قحط الرجال کی کیفیت‬ ‫طاری معلوم ہوتی ہے۔ ویسے بھی اردو دنیا میں نثرنگاری اور‬


‫نثر نگاروں کاکال پڑا ہوا ہے۔ انجمن آپ دونوں کی احسان مند‬ ‫ہے اور شکرگزار بھی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آپ دونوں احباب اپنے‬ ‫انشائیوں پر نظر ثانی کر کے اور انھیں مزید نکھار کے کتابی‬ ‫شکل میں اشاعت کی فکر کریں۔ کیا خیال ہے آپ دونوں کا؟‬ ‫باقی راوی سب چین بولتا ہے۔‬ ‫سرورعالم راز‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=7963.0‬‬

‫میری ناچیز بدعا‬

‫محترمی حسنی صاحب ‪ :‬سالم مسنون‬

‫آپ کے انشائیے پر لطف ہوتے ہیں۔ خصوصا اس لئے بھی کہ‬ ‫آپ ان میں اپنی طرف کی یا پنجابی کی معرور عوامی‬


‫اصطالحات (میں تو انہیں یہی سمجھتا ہوں۔ ہو سکتا ہوں کہ‬ ‫غلطی پر ہوں) استعمال کرتے ہیں جن کامطلب سر کھجانے کے‬ ‫بعد آدھا پونا سمجھ میں آ ہی جاتی ہے جیسے ادھ گھر والی‬ ‫یا کھرک۔ یا ایم بی بی ایس۔ اس میں تو کوئی شک نہیں‬ ‫کہ کھرک جیسا با مزہ مرض ابھی تک جدید سائنس نے ایجاد‬ ‫نہیں کیا ہے۔ وہللا بعض اوقات تو جی چاہتا ہے کہ یہ مشغلہ‬ ‫جاری رہے اور تا قیامت جاری رہے۔ اس سے یہ فائدہ بھی ہے‬ ‫کہ صور کی آواز کو پس پشت ڈال کر ہم ‪:‬کھرک اندازی‪ :‬میں‬ ‫مشغول رہیں گے۔ ہللا ہللا خیر سال۔‬

‫لکھتے رہئے اور شغل جاری رکھئے۔ باقی راوی سب چین بولتا‬ ‫ہے‬ ‫سرور عالم راز‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8069.0‬‬

‫مشتری ہوشیآر باش‬


‫مکرمی بندہ حسنی صاحب‪ :‬سالم مسنون‬

‫آپ کا یہ نہایت دلچسپ انشائیہ پڑھا اور بہت محظوظ و‬ ‫مستفید ہوا۔ جب اس کے اصول کا خود پر اطالق کیا تو اتنے‬ ‫نام اور خطاب نظر آئے کہ اگر ان کا اعالن کر دوں تو دنیا اور‬ ‫عاقبت دونوں میں خوار ہوں۔ سو خاموشی سے سر جھکا کر‬ ‫یہ خط لکھنے بیٹھ گیا ۔ انشائیہ بہت مزیدار ہے شاید‬ ‫اس لئے کہ حقیقت پر مبنی ہے۔ اس آئنیہ میں سب اپنی‬ ‫صورت دیکھ سکتے ہیں۔ بہت شکریہ مضمون عنایت کرنے‬ ‫کا۔‬

‫باقی راوی سب چین بولتا ہے۔‬

‫سرور عالم راز‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8277.0‬‬


‫ہدایت نامہ خاوند‬

‫محترم مقصود حسنی صاحب‪ ،‬سالم۔‬ ‫آپ کا عنایت کردہ ہدایت نامہ توجہ سے پڑھا اور اس سے‬ ‫محظوظ ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ بہت ہی خوبصورتی سے آپ‬ ‫نے سب ذمہ داریاں قبول کرتے ہوئے معاملے کی سچائی کو‬ ‫سفرِ ازدواج کے پرانے اور نئے مسافروں کے سامنے رکھا ہے‬ ‫اور صدقہِ جاریہ کا ثواب لوٹ لیا ہے‬ ‫تخلیق کی عمدگی پر داد اور یہاں پیش کرنے پر شکریہ‬ ‫قبول کیجیے اور محفل کو یوں ہی رونق بخشتے رہیے۔‬

‫احقر‬ ‫عامر عباس‬

‫عزیز مکرم حسنی صاحب‪:‬سالم مسنون‬

‫آپ کا انشائیہ پڑھا اور محظوظ و مستفید ہوا۔ جب سب کچھ‬ ‫پڑھ چکا تو گریبان میں جھانک کر دیکھا اور اس کے بعد‬


‫خاموشی میں ہی بہتری نظر آئی۔ صاحب! اتنی ذمہ داریاں‬ ‫نبھانے سے بہتر تو یہ ہے کہ آدمی شادی ہی نہ کرے! بہر‬ ‫کیف آپ کی انشا پردازی کا یہ مضمون بہت اچھا نمونہ ہے۔‬ ‫اب یہ نہیں معلوم کہ جتنا اچھا مضمون ہے اتنا ہی اچھا اس پر‬ ‫عمل بھی ہے یا آج کل کے مولوی صاحب کی طرح لوگوں سے‬ ‫درود شریف پڑھنے کی تاکید کر کے خود چائے پینے کا‬ ‫شغل پسند ہے۔ ہمارے بچپن میں مسجد کے مولوی صاحب میالد‬ ‫شریف پڑھتے وقت بار بار لوگوں سے کہتے تھے کہ "بھائیو‪،‬‬ ‫آپ زور زور سے درود شریف پڑھیں ‪ ،‬تب تک میں چائے کا‬ ‫ایک آدھ گھونٹ لے لوں"۔ مذاق برطرف انشائیوں کا سلسلہ‬ ‫جاری رکھیں۔ اور ثواب دارین حاصل کریں۔‬

‫باقی راوی سب چین بولتا ہے۔‬

‫سرور عالم راز‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8315.0‬‬

‫آزاد معاشرے اہل علم اور صعوبت کی جندریاں‬


‫جناب محترم ڈاکٹر حسنی صاحب‬ ‫سالم مسنون پیشِ خدمت ہے‬ ‫جناب عالیِ​ِ آپ کے قلم کی مار اہلِ قلم کے لئے باعثِ ترقِی ء‬ ‫فہم و دانش ہے ‪ ،‬کس محبت اور خوبصورتی سے آپ نے قلم‬ ‫کی بناوٹ سے لیکر اسکی وجہِ تخیلق اور ذمہ داری پر‬ ‫روشنی ڈالی یقیناًبہت پُر مغز باکمال تحریر ہے جسے طنز و‬ ‫مزاح کے ساتھ مگر پُرفکر انداز میں آپ نے پیش کیا اور‬ ‫قارئین کی توجہ حاصل کرنا چاہی ‪ ،‬میری جانب سے داد اور‬ ‫شکریہ اس دلکش تحریر سے مستفید فرمانے کے لئے قبول‬ ‫فرمائیے ‪ ،‬اس ضمن میں آپ کی اور قارئین کرام کی‬ ‫توجہ بھی چاہوں گا کہ آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں اس‬ ‫میں قلم تو زندگیوں سے تقریباًنکل ہی چکا ہے االِ دیہاتوں‬ ‫میں مگر پین بال پین پینسل بھی نکلتی جارہی ہے ‪ ،‬ہم‬ ‫ڈیجیٹل پین استعمال کرنے لگے ہیں الیکٹرونکس پین‬ ‫سوفٹ ویئر کی بورڈز اور مزید آگے ہی آگے بڑھ رہے ہیں‬ ‫اب ایسا وقت آنے واال ہے یا تجرباتی طور پر آچکا ہے کہ جس‬ ‫میں آپ بات کریں گے اور کمپیوٹر صاحب یا رائیٹنگ‬ ‫ڈیوائس آپ کی بات کو اسکرین پر ٹائیپ کردے گی آپ‬


‫چاہے کسی بھی زبان کے بولنے والے کیوں نہ ہوں تو قلم‬ ‫کی تو ہو گئی چھٹِی ۔۔۔ کسی زمانے میں پرندوں کے پر اور‬ ‫روشنائی کی مدد سے کاغذ پر لکھی جانے والے محبت نامے‬ ‫اب ایس ایم ایس کے ذریعے ہوا کے پروں پر سوار ہو کر‬ ‫الیکٹرانک قلم سے دل کا حال محبوب کو جب سناتے ہیں تو چند‬ ‫سیکنڈ لگتے ہیں دونوں طرف کی آگ کے شعلے ایک‬ ‫دوسرے کو لپیٹ لیتے ہیں ‪ ،‬پرانے وقتوں میں پاگل ہونے‬ ‫والے کو ذرا وقت لگتا تھا اب تو لمحے لگتے ہیں مر مٹنے کے‬ ‫لئے دیوانہ ہو جانے کے لئے پاگل بن جانے کے لئے کبوتر کی‬ ‫بھی چھٹِی قلم کی بھی چھٹِی کاغذ کی بھی چھٹِی وقت‬ ‫کی بھی چھٹِی‬

‫لمحوں میں نفرت کی مار لمحوں میں محبت کی بانہوں کے‬ ‫ہار دلوں کی جیت لمحوں میں دنیا اتھل پتھل ہونے میں‬ ‫صرف چند لمحے ادھر کی دنیا ادھر بیچ میں سیٹالئیٹ‬ ‫سسٹم محکمہ ء پیغام رساں عرف (ٹیلی کمیونیکیشن‬ ‫)سسٹم‬ ‫نہ وہ عاشق نہ وہ معشوق نہ وہ خون سے لکھی تحریریں نہ‬ ‫وہ پیغام رساں کبوتر نہ وہ انتظار نہ وہ بے قراری نہ وہ پیار‬ ‫نہ وہ قلم نہ وہ محبوب نہ وہ محب سب ڈیجیٹل ہے سب‬ ‫الیکٹرونک کی دنیا کا کمال ہے محبت بھی الیکٹرانک نفرت‬


‫بھی الیکٹرونک چاہت بھی الیکڑونک بے قراری بھی‬ ‫الیکٹرونک رشتے بھی الیکٹرونک ‪ ،‬غم بھی الیکٹرونگ‬ ‫روگ بھی الیکٹرونک وفا بھی الیکٹرونک بے وفائی بھی‬ ‫الیکٹرونک جدائی بھی الیکٹرونک‬

‫شاعری بھی اب کچھ اس طرح ہو گی جسے دمحم رفیع مرحوم‬ ‫صاحب کچھ یوں فرما تے‬

‫ایس ایم ایس جو کئے تمھاری یاد میں‬ ‫بیلنس نہیں تھا وہ پینڈنگ چلے گئے‬ ‫اپ لوڈنگ سے میرا ریچارج سیل ہوا‬ ‫میسج مال کہ تم کسی اور کے ہو گئے‬ ‫صاحب جاری رکھئے ہللا کرے زورِ قلم اور زیادہ‬

‫اعجاز خیال‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8439.0‬‬


‫محاورہ پیٹ سے ہونا کے حقیقی معنی‬

‫عزیز مکرم حسنی صاحب‪ :‬سالم مسنون‬

‫آپ کا مضمون پڑھ تو لیا تھا لیکن لکھنے کا موقع نہ مل سکا۔‬ ‫معذرت خواہ ہوں۔ آپ کے مضامین نہایت دلچسپ اور پر لطف‬ ‫ہوتے ہیں۔ خاص طور سے جہاں آپ پنجابی کا ہلکا سا لشکارا‬ ‫لگاتے ہیں یا کوئی کہاوت لکھتے ہیں۔ اب کہاوت کہنے اور‬ ‫سمجھنے والے خود افسانہ ہوتے جا رہے ہیں۔ میں نے حال ہی‬ ‫میں "ہماری کہاوتیں" کے عنوان سے ایک کتاب تالیف کی‬ ‫ہےجو راولپنڈی سے شائع ہونے والی ہے۔ اس کی ترویج کے‬ ‫دوران اندازہ ہوا کہ کہاوتیں اب بڑے بوڑھوں تک ہی محدود ہو‬ ‫کر رہ گئی ہیں اور کوئی دن جاتا ہے جب یہ ہمارے ادبی‬ ‫منظر نامے سے بالکل غائب ہو جائیں گی۔ اور یہ بہت بڑا‬ ‫سانحہ ہو گا۔ نئی نسل تو ان سے بالکل ہی بیگانہ ہے۔ اس‬ ‫صورت حال کا کوئی عالج بھی نہیں ہے۔‬

‫زمین چمن گل کھالتی ہے کیا کیا‬ ‫دکھاتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے‬


‫ایک کامیاب اور دلکش تحریر پر میری داد قبول کیجئے۔‬ ‫باقی راوی سب چین بولتا ہے۔‬

‫سرور عالم راز‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8709.0‬‬

‫‪...........................‬‬



Turn static files into dynamic content formats.

Create a flipbook
Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.