ہے نہ کی قیامت

Page 1

‫ہے نہ کی قیامت‬

‫مقصود حسنی‬

‫ابوزر برقی کتب خانہ‬ ‫جون ‪6102‬‬


‫فہرست‬ ‫صفدر بےفیضا اور امریکی سازش‬ ‫مزاحیہ‬ ‫پہال اور آخری آپشن‬ ‫مزاحیہ‬ ‫ہے نہ کی قیامت‬ ‫مزاحیہ‬ ‫کتا اس لیے بھونکا‬


‫مزاحیہ‬ ‫زکراں کی خوش گوئی‬ ‫مزاحیہ‬ ‫وہ اندھی تھی‬ ‫افسانہ‬ ‫کچھ بعید نہیں‬ ‫افسانہ‬ ‫ڈی سی سر مائیکل جان‬ ‫افسانہ‬ ‫پرایا دھن‬ ‫افسانہ‬


‫صفدر بےفیضا اور امریکی سازش‬

‫اسے اپنی زبان دانی پر بڑا ناز تھا۔ دور دور سے لوگ'‬ ‫علمی و ادبی تعاون کی حصولی کے لیے تشریف التے۔ وہ‬ ‫بساط بھر' ان کی خدمت کرتا۔ مثل معروف چلی آتی ہے' کہ‬ ‫بھلے سے بھلے پڑی ہے۔ وہ اپنی زوجہ ماجدہ سے اس‬ ‫ذیل میں' مار کھا گیا۔ بال کی زبان طراز تھی۔ عموم میں'‬ ‫ایک سانس' انتالیس منٹ خصوص میں' اس کی زبان‬ ‫بردازی کی کوئی حد ہی نہ تھی۔ وہ وہ پلوتے تولتی' کہ‬ ‫شیطان کی رگ وجان سے واہ واہ کے کلمے نکل جاتے‬ ‫ہوں گے۔ ہر سائز کے' زنانہ و مردانہ آالت کے بخیے ادھڑ‬ ‫اکھیڑ کر رکھ دیتی۔ گرج اور گونج دار برس' آنجہانی والد‬ ‫مرحوم سے ورثہ میں پائی تھی۔ هللا انہیں بخشے نہ‬ ‫بخشے' هللا کی مرضی‘ جب بولتے دھرتی کانپ جاتی۔ ہاں‬ ‫البتہ اپنی عزت کی جگہ' بےغم صاحب کی سرکار میں بھ‬ ‫بھیڑ ہو جاتے تھے۔ بیٹی کچھ کم نہ تھی۔ آج رانی توپ‬ ‫ہوتی' تو گرج برس کے معامالت میں' بصد احترام اس کے‬ ‫قدم لیتی۔ اس کے برعکس اس کا میاں کسکتا تک نہ تھا۔‬


‫وہ اپنی آواز کی گرج برس میں ہیچ قسمتی سے خوب آگاہ‬ ‫تھا۔ ڈھول کے سامنے توتی کی آواز' مسکین کی میں میں‬ ‫سے کچھ زیادہ نہیں ہوتی۔‬ ‫بڑے بڑے قلغی بردار' کسی کاغذ پر تقریری پوائنٹس لکھ‬ ‫کر لے جاتے ہیں اور پھر جا کر' تقریر کرتے ہیں۔ کہیں‬ ‫سیکڑوں اور کہیں ہزاروں کا مجمع ہوتا ہے۔ زکراں جی کا‬ ‫کمال یہ ہوتا ہے' کہ انہوں نے پہلے سے کچھ نہیں لکھا‬ ‫ہوتا' سب موقع پر بولتی ہیں۔ رہ گئی مجمع کی بات ‘ ان‬ ‫کے مقوالت و مغلظات سے' پورا عالقہ حظ آلود ہو رہا ہوتا‬ ‫ہے۔ جوان لڑکے لڑکیوں میں' بالغ ہونے کا احساس جاگ‬ ‫اٹھتا ہے۔ خالہ کپتی اگر آج زندہ ہوتی' تو عش عش کر‬ ‫اٹھتی کہ عالقہ میں جانشین' اس کی بھی پیو ہے۔‬ ‫جو بھی سہی' وہ پنجابی کی ترقی میں اپنے حصہ کا‬ ‫کردار ادا کر رہی تھی۔ پنجابی کو نئے مرکبات' مہاورات'‬ ‫تشبیہات' عصری تلمیحات' مختلف نوع کے عصری‬ ‫حوالے' لفظوں کو نئے مفاہیم وغیرہ فراہم کر رہی تھی۔‬ ‫بےشک یہ بہت بڑی علمی خدمت ہے' جس کے لیے باطور‬


‫پنجابی' اسے اس کا احسان مند رہنا چاہیے‬ ‫باسابقہ لفظ بےبنیادا' جسے رحمان بابا نے بڑے اہتمام‬ ‫سے استعمال کیا تھا' کمال کی روانی میں بک جاتی۔ ان‬ ‫پڑھ ہو کر بھی اتنا باریک و عمیق مطالعہ' حیرت میں ڈال‬ ‫دیتا ہے۔ اگر صفدر عقل مند ہوتا تو سڑنے کڑنے کی‬ ‫بجائے' اس پنجابی در نایاب کی لفاظی اور لفظوں کی نشت‬ ‫و برخواست پر غور کرتا' تو بہت کچھ سیکھ سکتا تھا۔‬ ‫پورے پنجاب میں' ایک سے ایک بڑھ کر بوالر ہو گی'‬ ‫لیکن یقین کامل ہے کہ اس سی پہونکی' ڈھونڈے سے نہ‬ ‫مل سکے گی۔‬ ‫میں محسوس کر رہا ہوں' مرچیں شاید کچھ زیادہ ہو چلی‬ ‫ہیں۔ نمک اور دیگر مصالحوں کی اشد ضرورت ہے۔ اچھا‬ ‫اور پرذائقہ پکوان وہ ہی ہے' جس میں ناصرف نمک مرچ‬ ‫متوازن ہوں' بل کہ دیگر مصالحے بھی متناسب ہوں۔‬ ‫محترمہ نے فقط چار شوق پال رکھے ہیں۔‬


‫کھانا‘ کھانے میں مصالحے اور نمک مناسب ڈالتی ہیں ہاں‬ ‫البتہ مرچوں پر زور رکھتی ہیں۔ زور بھی ضرورت سے‬ ‫زیادہ۔ اتنا زیادہ کہ اوپر نیچے سے' پسینے کے چشمے‬ ‫جاری و ساری ہو جاتے ہیں۔‬ ‫سونا‘ خوب سوتی ہیں۔ سوتے میں' صفدر اور اس کے‬ ‫متعقین کو' لغویات سے سرفراز فرماتی ہیں۔‬ ‫پھڈا‘ پھڈے کے معاملہ میں' اس کا موقف گرامی ہے' کہ‬ ‫باوجہ پھڈا' پھڈا نہیں ہوتا۔ اس کا تعلق موڈ سے ہے۔ ایک‬ ‫موڈ اور کیفیت میں نہیں رہا جا سکتا' اس لیے پھڈا ناگزیر‬ ‫ہے۔‬ ‫چوتھا شوق ڈیش ڈیش ڈیش‬ ‫اہل اخگر یا گوڈویا نما اس ڈیش ڈیش کی تفہیم سے آگاہ‬ ‫ہوں گے۔‬ ‫صفدر شروع سے' امریکی قیادت کے حق میں نہیں رہا'‬ ‫تاہم وہ دنیا کے ہر شہری کی' عزت کرتا ہے۔ موجودہ‬ ‫واقعے' جس میں امریکی شہری نے' ہم جنسوں پرستوں‬ ‫کو جہنم رسید کیا' کے متعلق اس کا موقف ہے' کہ وہ‬


‫امریکہ اور اس کے شہری کا معاملہ ہے' کسی اور کا بھال‬ ‫اس سے کیا لینا دنیا۔ اسے شہری بنانے کے لیے' سرکاری‬ ‫سطع پر نائی نہیں بھیجا گیا ہو گا۔ وہ مسلمان ہے' اس‬ ‫سے کیا فرق پڑتا ہے۔ مسلمان تو دنیا کے ہر خطے میں‬ ‫آباد ہیں۔ یہ ہی صورت دیگر مذاہب سے متعلق لوگوں کی۔‬ ‫اگر کوئی عیسائی غلطی' خرابی یا اپنے نظریے کے خالف‬ ‫کی' سرزنش کرتا ہے تو اس کا مدا' مسلمانوں پر کیسے‬ ‫ڈاال جا سکتا ہے۔ اگر کسی نے' ایسا کرنے کے لیے قاصد‬ ‫بھیجا ہے' تو اس مدے پر بات کرنا بنتی ہے۔‬ ‫کچھ سال پہلے' صفدر کی بہن نے' زبردستی یہ رشتہ کرایا‬ ‫تھا۔ صفدر بار بار منع کرتا رہا' تو اس کی بہن نے جوابا‬ ‫کہا‪ :‬تم نبی ہو جو بالدیکھے اور جانے' نہی کا فتوی جاری‬ ‫کر رہے ہو۔‬ ‫اب وہ ہی' ڈرتی صفدر کی گلی سے گزرتی تک نہیں۔‬ ‫سوئے اتفاق' آ جائے تو کسکتی تک نہیں۔ اپنی اصل میں‬ ‫بات کوئی اور ہے۔ امریکہ سے بغض و عناد' اسے لے‬ ‫ڈوبا ہے۔ یہ پتھر پر لکیر ہے کہ یہ درپردہ امریکی سازش‬ ‫ہے کہ زکراں کو' صفدر کے گھر میں پالنٹ کرنے میں'‬


‫اس کی اپنی بہن کو استعمال کیا گیا۔ حیضرت امریکہ بہادر‬ ‫کے ہاتھ بڑے لمبے ہیں۔ صاحب جاہ کے ہاتھ ہمیشہ سے‬ ‫لمبے رہے ہیں۔ آج حیضرت امریکہ بہادر کے چرنوں میں‬ ‫سر رکھ دے' دودھ مالئی ملے گی' ڈالر بھی ملیں گے۔‬ ‫ضمیر کا کیا ہے' ہزاروں سال سے بکتا آ رہا ہے۔ بک رہا‬ ‫ہے' بکتا رہے گا۔‬ ‫کائنات ضدین پر استوار ہے۔ صبح کے ساتھ شام' جہاں‬ ‫خیر ہے' وہاں شر باوزن موجود رہتی ہے۔ سفیدی' سیاہی‬ ‫کی من بھاتی کھا جا ہے۔ زندگی دنداناتی ہے' لیکن موت‬ ‫اسے ساکت وجامد کرکے رکھ دیتی ہے۔ اسی تناظر میں'‬ ‫اس کی محبت اور تعلق کے' شروع سے دو اسلوب رہے‬ ‫ہیں۔ خیر کے لیے محبت و احترام' جب کہ شر کے لیے‬ ‫نفرت' بل کہ شدید ترین نفرت۔‬ ‫ان کے ابا حضور خلد قیامی نبی نہیں تو ناسہی' قطب ابدال‬ ‫ضرور تھے' اس لیے ان کے باقیان الئق عزت و احترام‬ ‫ہیں۔ جبی جب ان کی والدہ پدارتیں ہیں' تو انہیں چا چڑھ‬ ‫جاتا۔ صفدر کا کوئی ڈرتے آتا ہی نہ تھا۔ اگر کارقضا آ جاتا‬


‫ہے' تو صفدر کی جان لبوں پر آ جاتی ہے' مبادا کچھ غلط‬ ‫ہو گیا تو کئی دن بنے۔‬ ‫اس ذیل میں' اس کے تلفظی دو بانٹ ہیں۔‬ ‫امی ہوریں آئی تھیں۔‬ ‫تمہاری فالں ففے کٹن آئی تھی۔‬ ‫اس کا اقوال زریں ہے‪ :‬صفدر تو ہے ہی بےفیضا‬ ‫قول کی جگہ اقوال اس لیے استعمال کیا گیا ہے' کہ اس کا‬ ‫ایک قول' کئی قولوں پر بھاری اور کئی قولوں کا مجموعہ‬ ‫ہوتا ہے۔‬ ‫اس اقوال ارسطوی کے پیچھے' ایک چھوڑ دو جواز‬ ‫رکھتی ہے۔‬ ‫اول‪ :‬جب کوئی صفدر کا آتا ہے' چائے پانی سے تواضح‬ ‫کرتی ہے۔ یہ الگ بات ہے' کہ اس کا کوئی آتا ہی نہیں۔‬ ‫پہلے ابا ہجور آتے تھے' جاتے ہوئے بےچارے کچھ‬ ‫ناکچھ لے جاتے تھے۔ اب امی ہوریں اور ان کے متعلقین‬


‫آتے ہیں' البتہ جاتے ہوئے کچھ ناکچھ لے جانا نہیں‬ ‫بھولتے۔ وہ ابا ہجور کے قدموں پر ہیں۔‬ ‫دوئم‪ :‬سورگ باسی ابا ہجور کی موت پر' صفدر کو چائے‬ ‫اور بسکٹ سرو کیے گیے۔ یہ بات الگ سے ہے کہ چائے‬ ‫اور بسکٹ' اوروں نے بھی نوش جان کیے تھے۔‬ ‫صفدر تنہائی میں روتا ہے‘ کیا فائدہ ۔۔۔۔۔ وقت گزرا نہیں‘‬ ‫حیضرت امریکہ بہادر کے قدم لے۔ عین ممکن ہے کہ کوئی‬ ‫پھٹی پرانی چٹی مل جائے۔ ڈالرہا کے ہوتے' کوئی نئی‬ ‫دیسن مل سکتی ہے۔ پہلے موجودوں کو' موجود سے بڑھ‬ ‫کر میسر آ جائے گا۔ یہ بھی راضی' نئی بھی راضی اور‬ ‫عہد رفتہ کے بھی راضی۔ صفدر ہے ہی بےفیضا ‘ جو‬ ‫زمین کی بڑی سرکار کا ناشکرا ہے۔ سرکار کی ناشکری‬ ‫سے بڑھ کر' اس کے غلط ہونے کا ثبوت اور کیا ہو سکتا‬ ‫ہے۔‬ ‫‪...............‬‬ ‫بہت اعلی تحریر ہے حسنی صاحب لطف آ گیا۔ کیا کیا منظر‬


‫کشی اور کردار نگاری کے کماالت دکھائے ہیں کہ جواب‬ ‫نہیں اور مزاح کا تو اپنا ہی انداز ہے۔ بہت سی داد پی ِش‬ ‫!خدمت ہے‬ ‫ڈاکٹر سہیل ملک‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10260.0‬‬

‫پہال اور آخری آپشن‬

‫جو حق سچ اور انسانی فالح و خدمت کو شعار بنائے‘ الئق‬ ‫عزت و احترام ہے۔ سقراط اس حوالہ سے‘ یونان کا ہی‬ ‫نہیں‘ پوری انسانی برادری کا ہیرو ہے۔ علم و فضل میں‬ ‫کمال رکھتا تھا۔ وقت کے عالم فاضل یہاں تک کہ دیوتا‬ ‫بھی‘ اس کی اہلیت اور بلند فکری کے قائل تھے۔ ہر الجھا‬ ‫معاملہ‘ اس کی طرف پھیرتے۔ اتنے بڑے شخص کو وقت‬ ‫کی بےہدری قوت کھا گئی لیکن سقراط اور اس کی عظمت‬ ‫کے نشان نہ مٹا سکی۔‬


‫کہتے ہیں اس کی بیوی بولتی تھی اور بےتحاشا بولتی‬ ‫تھی۔ بولتے بولتے بےہوش جاتی۔ پھر سقراط دوا دارو‬ ‫کرتا‘ تو ہوش میں آتی۔ ایک بار اس نے پوچھا ‘ میں اتنا‬ ‫بولی تم کیوں نہیں بولے۔ جوابا سقراط نے کہا‘ میرے‬ ‫حصہ کا تم بول چکی ہو‘ میں کیا بولتا۔ بیگم سقراط کو‬ ‫حسن کی بدہضمی تھی۔ طاقت کو‘ شروع سے میں کی‬ ‫بدہضمی رہی ہے‘ تب ہی تو جب بولتی ہے‘ روزن پشت‬ ‫سے بولتی ہے۔‬ ‫حضور کریم لملسو ہلص نے دھیمی بااخالق آواز میں گفت گو کرنے‬ ‫کی ہدایت فرمائی۔ اس کے پیچھے فلسفہ یہ ہے کہ بولنے‬ ‫میں جسم کے بہت سے اعضا ملوث ہوتے ہیں۔ مثال‬ ‫پھیپھڑے‘ دل‘ سانس کی نالی‘ گال‘ زبان‘ دونوں جبڑے‘‬ ‫منہ کے زریں و باالئی حصے‘ سر کے اعصاب‘ کندھے‬ ‫کے اعصاب‘ جبین کے اعصاب‘ نتھنے‘ آنکھیں‘ اطراف‬ ‫کی کن پٹی‘ دو ہاتھ اور بازو‘ سپائنل کارڈ وغیرہ۔ گویا بلند‬ ‫آوازی نقصان دہ ہے۔ اسی تناظر میں غصہ کو حرام قرار‬ ‫دیا گیا۔‬


‫زکراں کی آواز کی بلند پروازی قابل حیرت ہے۔ صفدر بھی‬ ‫منہ میں زبان رکھتا ہے‘ بول سکتا ہے‘ کیوں نہیں بولتا۔‬ ‫یقینا بہت بڑا سوالیہ ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ ایک کے مقابلے‬ ‫میں سو سننا پڑتیں تو بھی بولتا۔ یہاں معاملہ برعکس ہے۔‬ ‫ایک کا دس ہزار سے کیا مقابلہ۔ اوپر سے ٹائم کی کوئی‬ ‫قید نہیں۔ آلو کے مفاہیم الو لیے جائیں تو کچھ کہا سنا ہی‬ ‫نہیں جا سکتا۔ ایک بار اس نے کہا‘ کتنا بول چکی ہو‘ اب‬ ‫چپ ہو جاؤ۔ اس نے جوابا کہا‘ میں اپنے منہ سے بولتی‬ ‫ہوں‘ تمہارے منہ سے نہیں بولتی۔ جواب معقول تھا۔ اسے‬ ‫چپ لگ گئی۔ دوسرا اس کے تو صرف دونوں کان ملوث‬ ‫تھے۔ وہ بھی متضاد کردار ادا کرتے تھے‘ یعنی ایک سے‬ ‫سنتا تھا تو دوسرے سے نکالتا تھا۔ یہ منافقت نہیں‘‬ ‫نظریہءضرورت کے تحت تھا۔ کوئی ضرورت کی چیز النے‬ ‫کو کہتی‘ تو ال کر دیتا تھا۔ یہ بھی کہ اس قسم کی بات‬ ‫دوسرے کان سے نکالنے بھی نہیں دیتی تھی۔‬ ‫صفدر مہامنشی ہاؤس کا کارندہ نہ ہو کر‘ کارندہ سا بن گیا‬ ‫تھا۔ مہامنشی ہاؤس‘ ایک چپ اور سو سکھ کا قائل ہے۔‬


‫جتنی مرضی درخواستیں گزر لو‘ اپنی جان کو رو پیٹ لو‘‬ ‫جو مرضی کر لو‘ ان کا چلن نہیں بدلتا۔ ان کے ہاں کوئی‬ ‫کچھ نہیں۔ وہاں جاؤ باؤ بادشاہ کے قدم لو‘ کھیسہ گرم کرو‬ ‫اور واپس چلے آؤ‘ پھر آنیوں اور جانیوں کا سلسلہ‬ ‫شروع ہو جائے گا۔ مالزم کی اے سی آر انتہائی خفیہ‬ ‫دستاویز ہے۔ پرموشن کے وقت‘ مالزم کو خود مہیا کرنی‬ ‫پڑتی ہے۔ اس سے بڑھ کر چپ کا دور دورہ کیا ہو سکتا۔‬ ‫صفدر بےچارا عزت بچانے کی خاطر‘ بےعزتی کروا لیتا‬ ‫ہے اور چپ کا روزہ رکھ لیتا ہے۔ اس کے پاس کوئی‬ ‫دوسرا آپشن ہے ہی نہیں۔ مہامنشی ہاؤس والوں کے پاس‬ ‫بھی‘ وصولی ہی پہال اور آخری آپشن ہے۔‬

‫ہے نہ کی قیامت‬

‫بعض باتیں معمولی اور اکثر الیعنی سی ہوتی ہیں‘ لیکن‬ ‫جانتے ہوئے بھی کہ عملی زندگی سے خارج ہیں‘ دھائی کا‬


‫دکھ دیتی ہیں۔ ہم یہ امر جانتے ہوئے بھی کہ مقتدرہ‬ ‫طبقے‘ کہنے اور کرنے کو‘ دو الگ الگ خانوں میں‬ ‫رکھتے ہیں‘ ان کے کہے پر آس کے دیپ جال لیتے ہیں۔‬ ‫جب کچھ نہیں ہوتا‘ بے صبرے بل کہ بڑے ہی بے صبرے‬ ‫ہو جاتے ہیں۔ کیا یہ ضروری ہے کہ جو کہا جائے‘ وہ کیا‬ ‫بھی جائے۔ مقتدرہ طبقے‘ بعض باتیں محض ردعمل‬ ‫دیکھنے کے لیے کرتے ہیں۔‬ ‫لیاقا‘ نمبردار پچھلے دنوں میلے پر گیا۔ جوتا پرانا تھا‘ هللا‬ ‫رکھے کا نیا پہن کر چال گیا۔ واپسی پر کہنے لگا‪ :‬اس بار‬ ‫میلے پر جوتے بہت گم ہوئے ہیں۔‬ ‫پوچھا گیا‪ :‬تم اپنے جوتوں کا کہو۔‬ ‫ہنس کر کہنے لگا ‪ :‬وہ تو پہلے ہلے میں گیے۔‬ ‫شادی کے ابتدائی دنوں میں‘ سالیاں جوتے چھپاتی ہیں‘ اب‬ ‫مسجدوں میں یہ رسم سالے انجام دینے لگے ہیں۔ ہر دو‬ ‫صورتوں میں نقصان ہوا ہوتا ہے‘ المحالہ متاثرین کو‘ دکھ‬ ‫اور رنج ہوتا ہے۔ تاہم سننے والے‘ بالدام انجوائے کرتے‬


‫ہیں۔ انجوائے کرنا‘ ہر کسی کا آئینی حق ہے۔‬ ‫اب دوسری طرف دیکھیے‘ جب بجلی جاتی ہے زوجہ‬ ‫ماجدہ‘ خوب گرجتی برستی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ‬ ‫بجلی میں بند کرتا ہوں یا میرے حکم سے بند ہوتی ہے۔‬ ‫یعنی اس ذیل میں میں ہولی سولی بااختیار ہوں۔ بڑی قلبی‬ ‫تشفی سی ہوتی ہے۔ پسینے میں غرق ہوتے ہوئے بھی‘‬ ‫فخروناز سے ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھتا ہوں۔ یہ بات‬ ‫قطعی الگ سے ہے کہ واپڈا والے‘ سنتے ہی نہیں ہیں۔‬ ‫کہیں کوئی تار ٹوٹ جائے‘ تو پورا محلہ اندھیروں میں‬ ‫ڈوبا ہوتا ہے۔ جو مرضی کر لو‘ وہاں کوئی سنتا ہی نہیں۔‬ ‫محلے کے جوان لڑکوں کا بھال ہو‘ بچارے جھولی پھیر کر‬ ‫چندہ اکٹھا کرتے ہیں‘ مٹھی گرم ہونے کے تھوڑی ہی دیر‬ ‫بعد‘ یعنی دو چار گھنٹے میں بلبوں اور پنکھوں کی جان‬ ‫میں جان آتی ہے۔‬ ‫مجھ سے بہت سے بےقیمت مرد حضرات‘ بجلی والوں پر‬ ‫کانوں تک خوش ہوتے ہیں‘ بجلی کا بل تو انہیں دینا پڑتا‬ ‫ہے۔ اگر زوجہ حضور کے‘ فضول بجلی نہ جالنے کی‬


‫درخواست گزارو‘ تو کھری کھری سننا پڑتی ہیں۔ لمبے‬ ‫چوڑے قصے لے بیٹھتی ہے کہ دیکھو فالں کے گھر‘ دو‬ ‫اے سی لگے ہوئے ہیں۔ وہ ہر ماہ میٹر ریڈر کی خدمت کر‬ ‫دیتے ہیں۔ تم تو ہو ہی نکمے‘ زندگی بھر تم سے کوئی‬ ‫ڈھنگ کام نہیں ہوا۔ چند ساعتوں کی گرمی کے مداوے کے‬ ‫عوض‘ قیامت کی گرمی برداشت کروں‘ یہ سودا بڑا ہی‬ ‫مہنگا ہے۔ میں ایسی سہولت پر ہزار بار لعنت بھیجتا ہوں۔‬ ‫کچھ لوگوں کے اندر حرام کھا کھا کر جہنم فٹ ہو گیا ہوتا‬ ‫ہے‘ اسی لیے مصنوعی ٹھنڈک کا سہارا لیتے ہیں۔‬ ‫اس قسم کی کی چخ چخ ‘ کسی پٹھان یا سردار سے متعلق‬ ‫لطیفے کی ضرورت سے‘ بےنیاز کر دیتی ہے۔ یہاں ایسی‬ ‫لطف افروزی کا کوئی ایک واقعہ ہو تو ذکر بھی کیا جائے۔‬ ‫مرغی کے انڈے چھوٹے ہوں‘ تب بھی روال پڑ جاتا ہے۔‬ ‫گمان گزرنے لگتا کہ یہ انڈے میں نے دیے ہیں۔ اس قسم‬ ‫کی باتیں سن کر‘ مہینے بعد کڑک بیٹھنے کی حاجت‬ ‫محسوس ہونے لگتی ہے۔ مجھ سے پنشنر اور بڈھے‬ ‫حضرات آدھ مہینہ بعد ہی کڑک بیٹھ جاتے ہیں۔ گھر والے‬ ‫اسے بیماری کا نام دے دیتے ہیں۔‬


‫سبڑی سباڑی کے لیے پیسے نہیں ہوتے‘ پرائیویٹ‬ ‫ڈاکٹروں کے ہاں یاترا کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‬ ‫سرکاری ہسپتال‘ جو ہسپتال کم‘ کانجی ہاؤس زیادہ ہیں‘‬ ‫وہاں کے باسی صم بکم ہوتے ہیں۔ سب سے بڑی دیا یہ‬ ‫ٹھہرتی ہے کہ الہور لے جاؤ۔ مقامی کے لیے گرہ میں مال‬ ‫نہیں‘ الہور کیسے لے جائیں۔ ناچار گھر لے آتے ہیں۔ پھر‬ ‫کسی عطائی کے سپرد کرکے‘ قسمت پر ڈوری چھوڑ دی‬ ‫جاتی ہے۔ ہزار بار کہہ چکا ہوں‘ فکر نہ کیا کرو‘ میں‬ ‫مہینے بعد کڑک بیٹھتا ہوں۔‬ ‫وہ اپنی جگہ سچے ہیں‘ چھوٹے سہی‘ انڈے تو کھا چکے‬ ‫ہوتے ہیں۔ انڈوں کے نہ ہونے کے سبب‘ میرے کڑک‬ ‫بیٹھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ میں تو آرام سے کڑک بیٹھ‬ ‫جاتا ہوں‘ خجل اور ذلیل وخوار وہ وچارے ہوتے ہیں۔ خیر‬ ‫اس امر کی انہیں تسلی رہی ہے کہ انڈے لمبڑ کے ڈیرے یا‬ ‫کسی غیر کے ہاں نہیں‘ اپنے ہاں دیتا ہوں۔ چھوٹے ہوں یا‬ ‫بڑے‘ دیتا تو ہوں۔ سارا مہینہ نہیں‘ بس دو چار بار ہی ہے‬ ‫نہ پڑتی ہے۔ دو چار بار کی ہے نہ کی قیامت‘ میں ہی‬


‫بھتگتا ہوں۔ اگر کڑک بیٹھنے کی مجبوری ختم ہو جائے‬ ‫اور مرغیاں مرد حضرات کی مجبوری پر ترس کھاتے‬ ‫ہوئے‘ انڈے بڑے دیا کریں‘ تو دس فیصد بڑھوتی کے‬ ‫تکلف کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہو گی۔‬

‫کتا اس لیے بھونکا‬

‫ملکیت میں کوئی کم یا زیادہ قیمت کی چیز‘ جہاں ذی روح‬ ‫کو اس کے ہونے کا احساس دالتی ہے‘ وہاں اس میں تکبر‬ ‫کا عنصر بھی سر اٹھا لیتا ہے۔ یہ الگ بات ہے‘ کہ فرعون‬ ‫کو یہ میں لے ہی ڈوبی۔ وہ تاریخ تو الگ رہی‘ الہامی کتب‬ ‫میں بھی مردود اور قابل دشنام قرار پایا۔ یہ سب جانتے‬ ‫ہیں‘ انسان کی ملک میں کچھ بھی نہیں۔ اصل مالک هللا کی‬ ‫سوہنی اور سچی ذات ہے۔ سب کچھ اسی کی طرف پھرتا‬ ‫ہے۔‬ ‫ملکیت کی چیز‘ چھن سکتی ہے‬


‫کسی خرابی کا شکار ہو سکتی ہے۔‬ ‫کسی وقت بھی حادثے کی نذر ہو سکتی ہے‬ ‫بالوجہ ریورس کے عمل میں داخل ہو سکتی ہے۔‬ ‫موت تہی دست کر دیتی ہے۔‬ ‫جب یہ طے ہے کہ انسان کا ذاتی کچھ نہیں‘ تو کچھ ہونے‬ ‫کی صورت میں‘ تشکر باری سے منہ موڑ کر تکبر کی‬ ‫وادی میں قدم رکھنا‘ جائز نہیں بنتا۔ اچھی کرنی اچھی کہنی‬ ‫ہی امرتا کا جام نوش کرتی ہے۔‬ ‫کہاں ہے مقتدر یا مال ابو عمر حمادی کسی کو معلوم تک‬ ‫نہیں کہ یہ کون ہیں‘ منصور کو ہر کوئی جانتا ہے۔سقراط‬ ‫کو کس بدبخت بادشاہ نے موت کے گھاٹ اتارا‘ اس کا‬ ‫کوئی نام تک نہیں جانتا۔ سقراط کو کون نہیں جانتا۔ کل میں‬ ‫انٹرنیٹ پر سرمد شہید کا مزار دیکھ رہا تھا‘ پھول اور‬ ‫عقیدت مند موجود تھے۔ اورنگ زیب بادشاہ تھا‘ مقبرہ تو‬ ‫بن گیا‘ وہاں ویرانیوں کا پہرہ تھا۔ مجھے تکبر اورعجز کا‬ ‫فرق محسوس ہو گیا۔‬


‫انتقام لینا ناجائز نہیں‘ ہاں البتہ معاف کر دینا‘ کہیں بڑھ کر‬ ‫بات ہے۔ جیسے کو تیسا‘ بہرطور رویہ موجود رہا ہے۔‬ ‫انو‘ بڑا ہی مذاقیہ ہے۔ روتے کو ہنسا دینا اس کے بائیں‬ ‫ہاتھ کا کھیل ہے۔ یہ ہی کوئی پان سات دن پہلے کی بات‬ ‫ہے‘ گلی میں سے گزر رہا تھا کہ شرفو درزی کا کتا بال‬ ‫چھیڑے‘ اس پر بھونکنے لگا۔ وہ نیچے بیٹھ گیا اور جوابا‬ ‫بھونکنے لگا۔ کتا چپ ہو گیا اور اسے بٹر بٹر دیکھنے‬ ‫لگا۔ شاید پہلی بار‘ عجب قسم کا ہم جنس دیکھنے کو مال‬ ‫تھا۔ میں نے پوچھا‪ :‬یار تم ادھر لینے کیا گیے تھے۔‬ ‫اوہ جی جانا کیا تھا‘ بہن کے گھر آٹا لینے گیا تھا۔‬ ‫مل گیا۔‬ ‫جی ہاں‘ مل گیا۔ میں کون سا پہلی بار گیا۔ مل ہی جانا تھا۔‬ ‫میرے اندر عرفی کا یہ مصرع‘ مچلنے لگا۔‬ ‫آواز سگاں کم نہ کند رزق گدا را‬ ‫کتا غالبا بل کہ یقینا‘ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے۔ پاگل‬ ‫کسی غیر کے سامنے دست سوال دراز کرنے کی بجائے‘‬


‫رب سے کیوں نہیں مانگتے۔ خیر انو تو ایک طرف‘ ہماری‬ ‫دفتر شاہی ہو کہ محالتی دنیا‘ کاسہ تھامے نظر آتی ہے۔‬ ‫مولویوں سے کیا گلہ‘ جو درس میں پڑھنے والے بچوں‬ ‫کو‘ گھر گھر مانگنے بھیجج دیتے ہیں۔ دست سوال دراز‬ ‫کرنے والے ذلت اٹھاتے ہیں‘ سو اٹھا رہے ہیں۔‬ ‫زکراں کا باپ‘ توڑے بھر سامان لے جاتا‘ تو بابے فجے کآ‬ ‫ناہنجار کتا ضرور بھونکتا۔ چوروں اور بھرے کھیسے‬ ‫والوں پر کتے ضرور بھونکتے ہیں اوریہ فطری امر ہے۔‬ ‫ہمارے ہاں کے لوگ‘ میمیں کرتے آ رہے ہیں۔ داماد یا‬ ‫داماد کے ملک کے وسائل سے البھ اٹھانا‘ ان کا آئینی حق‬ ‫ہے۔ یہ سب صفرر ہی تو ہیں ‘ جو مصلحت کی صلیب پر‬ ‫مصلوب ہو رہے ہیں۔ ایک کی ککرے آمیز بینائی‘ بہت‬ ‫سوؤں کے گوڈوں گٹوں میں بیٹھتی ہے‘ سو بیٹھ رہی ہے۔‬ ‫کسی کم زور پر کتے کا بھونکنا‘ بہ ظاہر حیرت سے خالی‬ ‫نہیں۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں‘ کتے کم زورں پر بھونکے‬


‫اور ان کی جانب لپکے ہیں۔ کم زوروں کے پاس بہت زیادہ‬ ‫ناسہی‘ ان کا کھیسہ خالی نہیں رہا۔ سومنات کا مندر یوں‬ ‫ہی نہیں توڑا گیا‘ اس میں منوں سونا تھا۔ زہے افسوس ‘‬ ‫فردوسی سے چوری خور لوگوں نے ایک لٹیرے کو نبی‬ ‫قریب کر دیا۔ اصل حقائق پس پشت چلے گیے۔‬ ‫مائی چراغ بی بی بیس سال سے رنڈیپا کاٹ رہی تھی۔ اس‬ ‫کے کردار پر انگی رکھنا‘ بہت بڑی زیادتی ہو گی۔‬ ‫بےچاری تھکے قدموں گلی میں سے گزر رہی تھی۔ گلی کا‬ ‫عام آوارہ بدبخت کتا پڑ گیا۔ گرنے کو تھی کہ پیچھے‬ ‫شیدے تیلی نے سمبھاال دے دیا۔ دعا دینے کی بجائے‘ بولنا‬ ‫کیا‘ نوکیلی اور دھار دھار آواز میں بھونکنے لگی۔‬ ‫بڑھاپے میں بھی یہ زناٹا‘ ارے توبہ۔ اس کی پوترتا کو‬ ‫سالم و پرنام۔ بڑھاپے کی جو بھی صورت رہی ہو‘ لگی‬ ‫ہونے کا احساس پوری شدت سے موجود تھا۔ کتا اس لیے‬ ‫بھونکا‘ کہ اس کے ہاتھ میں کلو بھر گوشت کا شاپر تھا۔‬


‫زکراں کی خوش گوئی‬

‫زکراں نے' ایک مرتبہ اپنے خاوند کی شدید عاللت اور اس‬ ‫کے ہوش میں آنے پر' بالتیمارداری اور زبانی کالمی ہی‬ ‫پوچھے بغیر' بڑا حیرت انگیز بیان جاری فرمایا۔ جو دو‬ ‫حوالوں سے بڑی اہمیت کا حاملہ ہے۔ اس کے بیان سے'‬ ‫یہ کھل کھال کر سامنے آ جاتا ہے‬ ‫بیمار ہونے کا بھی ایک مخصوص پیمانہ ہے۔‬ ‫موجودہ میڈیکل سائینس کی ترقی' محض ایک فراڈ سے‬ ‫زیادہ نہیں اور میڈیکل سے متعلقین کی' موج لوائی کا‬ ‫ٹیکنیکل بہانہ ہے۔‬ ‫اس نے بصد قہر مع غضب ارشاد فرمایا‬ ‫تم نے ڈرامہ رچایا ہے۔ تمہیں تو کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔‬


‫دیکھو بیمار میرے ابا جنت مکانی ہوئے تھے' میرے ابا‬ ‫بیمار ہوئے تو چل بسے۔‬ ‫اس کا مطلب یہ ہوا' جو بیمار ہونے کے بعد بچ جائے' وہ‬ ‫بیمار ہی نہیں ہوتا' وہ صرف اور صرف بیمار ہونے کا‬ ‫ڈھونگ مچا رہا ہوتا ہے۔ اگر بیمار ہوا ہوتا' مر نہ جاتا۔‬ ‫بیماری کے بعد موت نہیں آتی تو بیماری' بیماری ہی نہیں'‬ ‫حقوق سے فرار کی ناکام کوشش ہے۔ خاوند حضرات پر‬ ‫الزم آتا ہے کہ وہ' زوجاتی حقوق سے فرار کی بجائے‬ ‫کاروبار کی راہ پکڑیں۔‬ ‫اگر بیمارہونے کا اتنا ہی شوق روح و قلب و بھیجا میں‬ ‫مچلتا ہو تو' زکراں کے والد کی پیروی میں' قبر کو بھی‬ ‫خدمت کا موقع دیں تا کہ بیوہ پر' لوگوں کو مختلف نوعیت‬ ‫کے ترس کھانے کے مواقع میسر آ سکیں۔‬ ‫‪.............‬‬ ‫واہ جناب حسنی صاحب لطف آ گیا۔ تراکیب بھی بہت پسند‬


‫!آئیں‬ ‫شکریہ‬ ‫والسالم‬ ‫ڈاکٹر سہیل ملک‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10257.0‬‬

‫وہ اندھی تھی‬ ‫وہ لنکویل قبیلے کا سانپ کم' چھالوہ زیادہ تھا۔ دوسرا‬ ‫حجم اور لمبائی چوڑائی میں بھی' جہنمی بال لگتا تھا۔ کسی‬ ‫ایک جگہ ٹھکانہ رکھتا تو گرفت کا کوئی ناکوئی رستہ‬ ‫ضرور نکل آتا' مصیبت تو یہ تھی کہ اس کا کوئی مستقل‬ ‫ٹھکانہ نہ تھا۔ لوگ سوچ میں تھے' آخر کہیں ناکہیں آرام‬ ‫تو کرتا ہو گا۔ یہ بال' پتا نہیں اچانک کیوں نازل ہو گئی‬ ‫تھی۔ عالقے کے سربراہ مہاراج چرچی ناتھ کی آمد اچانک‬ ‫نہ تھی' اس کے پیچھے ایک عوامی خون خوار تاریخی‬


‫پس منظر تھا۔ اس سپرپاور' جس کے سامنے عالقے کے‬ ‫پھنے خاں بھی' قطعی مجبور وبےبس تھے۔ گھروں میں‬ ‫بیٹھے' ان پر ہراس کے موسم کی کپکپی طاری تھی۔‬ ‫وہ گھریلو مویشیوں کے لیے بھی' عذاب بن گیا تھا۔ نر‬ ‫مویشی جان سے جاتے' جب کہ مادہ مویشیوں کا دودھ‬ ‫نچوڑ لیتا۔ جسے ڈستا پاؤں پر ٹکی ہو جاتا۔ جگہ جگہ‬ ‫الشیں بکھری پڑی تھیں۔ بو اور تعفن سے' سانس لینا‬ ‫محال ہو گیا تھا۔ عالقے کے ہر چھوٹے بڑے کو' بےچارگی‬ ‫اور بےبسی کا یہ عالم' مایوسی کے دروازے تک لے آیا‬ ‫تھا۔‬ ‫ذاتی اور اجتماعی طور پر' غوروفکر کیا جا رہا تھا لیکن‬ ‫کوئی حتمی حل ہاتھ نہیں لگ رہا تھا۔ زبانی جمع خرچ بہت‬ ‫ہوا' مگرمیدان میں کوئی اترنے کے لیے تیار نہ ہو رہا تھا۔‬ ‫کون اترتا' جان ہر کسی کو پیاری تھی۔ ایک دوسرے سے‬ ‫توقع' وابستہ کی جا سکتی تھی یا پھر کسی غیبی مدد کا‬ ‫انتظار کیا جا سکتا تھا۔‬


‫کئی دن گزر گئے' کچھ نہ ہو سکا۔ بھوک پیاس اور تعفنی‬ ‫گھٹن سے' موتیں ہو رہی تھیں۔ انسانوں اور مویشیوں کی‬ ‫الشیں ٹھکانے نہیں لگ رہی تھیں جس کے باعث' باہر کی‬ ‫بدبو تو تھی ہی' گھروں میں بھی بدبو پھیل گئی تھی۔ ہر‬ ‫کسی کا منہ لٹکا ہوا تھا۔ کمزوری کے سبب جیتے جاگتے‬ ‫انسان' چلتی پھرتی الشیں لگ رہے تھے۔‬ ‫ایک دن دوسری والیت سے آنے واال گامو سوچیار'‬ ‫چونکا دینے والی خوش خبری الیا۔ اس نے بتایا ادھر‬ ‫شہاب دین کے کھیت میں' ایک لنکویل قبیلے کا اژدھا' ایک‬ ‫مریل اور کرم خوردہ کتے کے منہ میں' بےبسی کے عالم‬ ‫میں' پیچ و تاب کھا رہا ہے۔ یہ سننا تھا کہ لوگ' گامو‬ ‫سوچیار سے لپٹ گئے۔ پھر لوگ' شہاب دین کے کھیت کی‬ ‫جانب دوڑ پڑے۔ یہ دینو نائی کا بیمار کتا تھا۔ سانپ کے‬ ‫درمیان' اس کے دانت گڑے ہوئے تھے۔ سانپ آدھا ادھر‬ ‫آدھا ادھر بےبسی کے عالم میں' چھٹکارے کی کوشش میں‬ ‫تھا۔ وہ بار بار اسے ڈس رہا تھا۔ ہر ڈنگ' ہیروشیما پر پر‬ ‫گرے بم سے' کسی طرح کم نہ تھا۔ الٹا سیدھا ہو کر ڈرون‬


‫گرا رہا تھا۔ مگر کہاں' کچھ بھی نہیں ہو پا رہا تھا۔‬ ‫اصول یہ ہی رہا ہے' طاقت سے ہر کوئی دور ہی رہا ہے‬ ‫اور اسی میں' عافیت خیال کرتا رہا ہے۔ اس رویے کے‬ ‫سبب' طاقت کو شہ ملی ہے اور عالقے میں دندناتی پھرتی‬ ‫ہے۔ ہر سامنے آنے واال ' کم زور یا طاقتور' جان سے جاتا‬ ‫ہے' تاہم ایک کی بلی اوروں کی نجات کا سبب بنتی ہے۔‬ ‫دینو کا کتا' ادھر سے گزرا ہو گا۔ اس گستاخی کی سزا‬ ‫میں' اس پر فرار کے چاروں رستے بند کر دیے گیے ہوں‬ ‫گے اور اس پر ترس کھانے کی بجائے' جھپٹ پڑا ہو گا۔‬ ‫موتی کا پہلے داؤ لگ گیا ہو گا۔ ڈنگ لگنے سے اس کی‬ ‫موت واقع ہو گئی ہو گی اور اکڑاؤ آ گیا ہو گا۔ اب اس کی‬ ‫کون اور کیوں مدد کرتا۔ تکبر تماشا بن چکا تھا۔ طاقت‬ ‫عبرت نہیں لیتی کیوں کہ وہ اندھی ہوتی ہے۔‬

‫کچھ بعید نہیں‬


‫میں ایک دفتر میں مالزم ہوں۔ سارا دن‘ بہت سے سائل یا‬ ‫ان کے سفید پوش اور چرب زبان دلے دالل‘ جنہیں‬ ‫شورےفا کی زبان میں ایجنٹ کہا جاتا ہے‘ مک مکا کرتے‘‬ ‫چائے پانی پالتے لگاتے اور دو طرفہ مسکراہٹ میں اپنی‬ ‫راہ لیتے۔ ہم لوگ‘ ایک دوسرے کی جان پہچان میں ہیں۔‬ ‫ناگہانی حاالت میں‘ آنکھوں کی زبان میں‘ کافی کچھ کہہ‬ ‫سن لیتے ہیں۔ مقامی افسر بھی‘ ان سے ناواقف نہیں ہیں۔‬ ‫آنکھوں کی زبان کا استعمال‘ کسی باال افسر کے آنے کی‬ ‫صورت میں ہوتا ہے۔ بس ایک جعلی سی پردہ داری ہے۔‬ ‫حاالں کہ آنے والے کے ہاں‘ یہاں سے کہیں بڑھ کر‘ انھی‬ ‫مچی ہوتی ہے۔ ماہنانہ لفافے کی ترسیل کی‘ ہم میں سے‬ ‫کوئی ڈیوٹی انجام دیتا ہے۔ بس ایک بھرم سا چال آتا ہے۔‬ ‫کہیں کھال اور کہیں فی صد بھی طے ہے۔ عموم میں‘ لفافہ‬ ‫ہی متحرک رہتا ہے۔ گویا ہم دفتر والے‘ گردوپیش‘ باال‬ ‫دفاتر اور دفاتر سے منسلک دلے داللوں کے مزاج‘ رویے‬ ‫اور اطوار سے خوب آگاہ ہیں۔‬ ‫دفتر آتے جاتے‘ ایک چھوٹے قد کے شخص سے مالقات‬


‫ہوتی رہتی تھی۔ وہ کسی دفتر کا مالزم نہیں تھا‘ کیوں کہ‬ ‫میں مقامی دفتر کے ہر مالزم سے واقف ہوں۔ وہ یقینا‬ ‫کسی دفتر کا مستند دال تھا۔ جب ملتا‘ ہاتھ اٹھا کر‘ بڑے‬ ‫ادب سے سالم کرتا۔ میں بھی خوش خلقی سے سالم کا‬ ‫جواب دیتا۔ یہ دال حضرات بڑے عجیب واقع ہوئے ہیں۔‬ ‫چغلی اور مخبری میں بھی کمال کے ماہر ہوتے ہیں۔ بہت‬ ‫سے‘ میر جعفر کے بھی پیو ہیں۔ کھٹی بھی چغلی مخبری‬ ‫کی کھاتے ہیں۔‬ ‫یہ اس قماش کا دال نہ تھا۔ باادب سالم بھی حفظ ما تقدم‬ ‫کرتا تھا‘ کہ کبھی اور کسی وقت بھی‘ کوئی کام پڑ سکتا‬ ‫تھا۔ اس قسم کے باادب سالم‘ کام نکلوانے میں معاون ثابت‬ ‫ہوتے ہیں۔ وہ مجھے نہیں جانتا تھا۔ میں کام کی وصولی‬ ‫میں بڑا سخت اور کورا واقع ہوا ہوں۔ میرے اس اصول‬ ‫سے‘ اپنے پرائے خوب خوب آگاہ ہیں۔ سالم دعا کے حوالہ‬ ‫سے‘ رو رعایت کو دو نمبری سمجھتا ہوں۔ اگر رو رعایت‬ ‫سے کام لیتا تو اتنی بڑی جائیداد کبھی بن نہ پاتی۔‬ ‫ایک دن مال‘ بڑے رومنٹک اور مالپڑے سے موڈ میں تھا۔‬


‫میرے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔‬ ‫میں نے ہنس کر کہا‘ بھئی خیر تو ہے‘ کوئی کام تو نہیں۔‬ ‫سالم دعا اپنی جگہ‘ لیکھے میں بااصول ہوں۔‬ ‫ہنس پڑا اور کہنے لگا‪ :‬سرکار میں جانتا ہوں۔‬ ‫تو کہو‘ کیا کام ہے۔‬ ‫سرکار بڑی نفیس اور شان دار بکری ہاتھ آئی ہے۔ طبیت‬ ‫راضی ہو جائے گی۔ صرف اور صرف ایک ہزار میں۔‬ ‫میں حیران ہو گیا۔ کیسا بندہ ہے۔ بکری میں نے کیا کرنی‬ ‫ہے۔ پھر خیال گزرا‘ ایک ہزار میں مل رہی ہے‘ لے لیتا‬ ‫ہوں۔ چار دن چھوٹا گوشت کھائیں گے۔ صاحب اور پھر‬ ‫مخصوص احباب کی دعوت بھی کر لوں گا۔‬ ‫میں نے ہنس کر پوچھا‪ :‬ایسی ویسی تو نہیں۔‬ ‫ایسی ویسی سے میری مراد چوری کی تھی۔ ہوتی بھی تو‬ ‫کیا فرق پڑتا‘ مجھے تو ایک ہزار میں مل رہی تھی۔‬ ‫‪:‬بےغیرت سی ہنسی میں کہنے لگا‬ ‫نہیں سرکار‘ نمبر ون ہے۔‬ ‫پھر اس نے کئی نام گنوائے‘ جو پانچ وقتے اور مونچھ‬


‫چٹ تھے۔‬ ‫اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ سرکار مزا نہ آئے تو‬ ‫پھر کہنا۔‬ ‫جب اس نے یہ بات کہی‘ تو بکری کا مفہوم سمجھ میں آیا۔‬ ‫مجھے افسوس ہوا‘ کہ میں داللوں کی ہر اصطالح سے‬ ‫آگاہ ہوں۔ یہ اصطالح‘ میرے لیے قطعی الگ سے تھی۔‬ ‫دوسرا گشتوڑ اور بکری کی مماثلت میرے لیے قطعی نئی‬ ‫تھی۔ میں مانتا ہوں‘ رشوت ٹھوک کر لیتا ہوں لیکن زانی‬ ‫نہیں ہوں‘ ورنہ رشوت خور زانی اور گھونٹ نہ لگاتا ہو‘‬ ‫بھال کیسے ہو سکتا ہے۔‬ ‫مجھے اس پر بڑا تاؤ آیا۔ میں نے پوچھا‪ :‬تمہاری کوئی‬ ‫جوان بہن بھی ہے۔‬ ‫کہنے لگا‪ :‬جی ہاں‬ ‫تو اسے لے آؤ‘ میں اس کے ساتھ موج مستی کروں گا۔‬ ‫ہزار کا دو ہزار دوں گا۔ چلتی پھرتی ہو تو بھی لے آؤ‘‬ ‫چلے گا۔‬ ‫اس نے بڑے قہر سے میری جانب دیکھا اور بڑبڑاتا ہوا‬ ‫دوسری جانب نکل گیا۔‬


‫میں نے بیوی کا جان بوجھ کر نہیں کہا تھا‘ ایسے‬ ‫بےغیرتوں سے کچھ بعید نہیں‘ شاید لے ہی آتا۔‬

‫ڈی سی سر مائیکل جان‬

‫المبے قد کا مہنگا ماچھی‘ غربت کی آخری سطع پر تھا۔‬ ‫جوتے ہیں تو کپڑے نہیں‘ کپڑے ہیں تو جوتے نہیں۔ سارا‬ ‫دن جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر التا‘ رات کو آگ کے‬ ‫سامنے بیٹھتا۔ جب ہی‘ رنگ توے سے زیادہ سیاہ ہو گیا‬ ‫تھا۔ نہاتا بھی شاید ضرورت بری کے بعد تھا۔ اس سے‬ ‫گوڈے گوڈے بو آتی تھی۔ پتا نہیں‘ کیا درک لگی کہ یو کے‬ ‫جا پہہنچا۔ اس کی بیوی صوباں سگھڑ عورت تھی۔ اس نے‬ ‫مہنگے کی کمائی سے‘ جہاں میکے کی بھوک نکالی‘ وہاں‬ ‫گھر کی حالت بھی سنوار دی۔ تین سال میں‘ جھونپڑی نما‬ ‫مکان نے‘ عالی شان کوٹھی کی شکل اختیار کر لی۔ خود‬ ‫اور بچے‘ شان دار کپڑے پہننے لگے۔ شرفا کی خواتین‬


‫سے علیک سلیک ہو گئی۔ صوباں‘ صوباں کم‘ میم زیادہ‬ ‫لگتی تھی۔ چوتھے سال دروازے پر تختی آویزاں ہوگئی۔‬ ‫ڈی سی سر مائیکل جان یو کے‬ ‫گلی نبر چار‘ کوٹ امر ناتھ‬ ‫رام پور خاص‬ ‫چاروں اور باتیں ہونے لگیں۔ یار مہنگا تو سکا ان پڑھ‘ بل‬ ‫کہ ان پاڑ ‘ یو کے میں ڈی سی کیسے ہو گیا۔ آخر اس نے‬ ‫ایسا کون سا کارنامہ انجام دیا ہو گا‘ جس کی پاداش میں‬ ‫اتنا بڑا عہدہ ہاتھ لگ گیا۔ صوباں کی کوئی ایرا غیرا سہیلی‬ ‫نہ رہی تھی‘ جو کچھ دریافت کرتی۔ ان کے ہاں فقط بیگمات‬ ‫کا آنا جانا تھا۔ ہمارے ہاں کسی کی خوش حالی اور ترقی‬ ‫دیکھ کر‘ گھروں اور گلیوں میں‘ بےچینی سی ضرور سر‬ ‫اٹھاتی ہے۔ کسی کی خوش حالی اور ترقی دیکھ کر‘ خوش‬ ‫ہونا‘ ہماری عادت اور فطرت کا خاصہ نہیں۔ کیا ہو سکتا‬ ‫ہے‘ جسے هللا دے‘ اسے زمین پر کون ال سکتا ہے۔ حقی‬ ‫سچی بات یہ بھی ہے کہ اپنی ذات کے گریبوں کی‘ تھوڑی‬ ‫بہت مدد بھی کرتی تھی۔‬


‫چار سال بعد‘ مہنگا دو ماہ کے لیے واپس رام پور آیا۔‬ ‫مہنگا‘ مہنگا کم ڈی سی سر مائیکل جان زیادہ لگتا تھا۔ اس‬ ‫کا رنگ ڈھنگ‘ لباس‘ اٹھنا بیٹھنا‘ ملنا جلنا‘ کھانا پینا‘‬ ‫غرض سب کچھ بدل گیا تھا۔ انگریزی فرفر بولتا تھا۔ پھنے‬ ‫خاں میڑک پاس بھی‘ اس کے سامنے بھیگی چوہی بن‬ ‫جاتے۔ سب حیران تھے‘ آخر اس کے ہاتھ ایسی کون سی‬ ‫گیدڑ سنگی لگی ہے‘ جو فقط چار سالوں میں‘ مالی‘‬ ‫شخصی اور اطواری تبدیلیوں کا سبب بنی۔ کچھ تو اس کے‬ ‫پیچھے رہا ہو گا۔‬ ‫مخبر اپنے کام میں بڑی جان فشانی سے مصروف تھے۔‬ ‫کب تک معاملہ مخمصے میں رہتا‘ خیر کی خبر آ ہی گئی۔‬ ‫وہ وہاں دریا پر‘ میموں کے کتے نہالتا تھا۔ ڈی سی مراد‬ ‫ڈوگ کلینر تھا۔ کھودا پہاڑ نکال چوہا‘ وہ بھی مرا ہوا۔ سب‬ ‫کھل جانے کے بعد بھی‘ انڈر پریشر اور احساس کہتری‬ ‫کے مارے لوگ‘ اسے سالم کرتے تھے۔ اسے کیا‘ یہ دھن‬ ‫کو سالم تھا۔‬


‫مغرب میں ڈوگ صاحب بہادر وفاداری کے حوالہ سے‬ ‫معتبر اور باعزت نہیں‘ بل کہ کئی ایک ذاتی اور خفیہ‬ ‫خدمات کے تحت‘ نام و مقام رکھتے ہیں۔ یہ تو اچھا ہے‘‬ ‫مطلب بری کے بعد کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔ گوریاں‬ ‫ڈوگ صاحب بہادر کی بڑی ہی عزت کرتی ہیں۔ اس کی ہر‬ ‫ضرورت کا خیال رکھتی ہیں۔ اسے نہالنے دھالنے والے‬ ‫کو‘ معقول عوضانہ پپش کرتی ہیں۔ دریا کنارے‘ سن باتھ‬ ‫کرنے آئی گوریاں‘ ڈی سی کے حوالے اپنے ڈوگی کر دیتی‬ ‫ہیں۔ ڈی سی تہرا البھ اٹھاتا ہے۔‬ ‫مختصر چڈی اور بریزئر میں ملبوس پتلی‘ موٹی اور پیپا‬ ‫گوریاں مالحظہ کرتا ہے۔ الکھ حاجی شریف سہی‘ آنکھیں‬ ‫تو بند نہیں کر سکتا۔‬ ‫بھیگی‘ سیکسی اور رومان پرور مسکراہٹیں وصولتا ہے۔‬ ‫پاؤنڈ گرہ لگتے ہیں۔‬ ‫ہمارے ہاں کے لوگ بھی عجیب ہیں‘ گرمیوں میں مری‬ ‫جاتے ہیں۔ پگلے ساتھ گھر والی بھی لے جاتے ہیں۔ اچھا‬ ‫خاصا خرچہ کرتے ہیں۔ گرمیوں میں چار پیسے زیادہ خرچ‬


‫کرکے‘ مغرب کے کسی دریا کا رخ کریں۔ پیسے کمائیں اور‬ ‫دوہری ٹھنڈک حاصل کریں۔‬ ‫ہمارے ہاں کتا گریب کا ہو یا امیر کا‘ وفاداری کے حوالہ‬ ‫سے بلند مقام و مرتبہ رکھتا ہے۔ اگرچہ یہ وفاداری محض‬ ‫ایک دل کو بہالنے کا ذریعہ ہے۔ میر جعفر نے ٹیپو کو اپنی‬ ‫وفاداری کا یقین دال رکھا تھا لیکن اندرخانے بک چکا تھا۔‬ ‫اپنی وفاداری کے انعام میں‘ ٹیپو سے بھی دو دن پہلے‬ ‫ٹھکانے لگ گیا۔‬ ‫سیانے چور‘ اپنے ساتھ ہڈی واال گوشت لے کر جاتے ہیں۔‬ ‫کتا گوشت پر‘ چور سامان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ کتا مالک کا‬ ‫نہیں ہڈی کا وفادار ہوتا ہے۔‬ ‫رشوت خور کو دیکھ لیں‘ جہاں سے ہڈی ملتی ہے‘ وہاں‬ ‫میرٹ بنا دے گا۔ ایمان کوئی مادی شے نہیں‘ جو اس سے‬ ‫وفاداری نبھائے۔ نوٹ اور ڈبہ نظر آتے ہیں‘ ایمان نظر‬ ‫نہیں آتا۔ کتے کو گوشت نظر آتا ہے‘ مالک نہیں‘ مالک تو‬


‫سویا ہوتا ہے۔ مالک رات کو پیٹ بھر کھالتا ہے‘ لیکن‬ ‫کتے کی آنکھ نہیں بھرتی‘ اسی لیے ہڈی اس کی ترجیح‬ ‫میں رہتی ہے۔‬ ‫میرے کرائےدار سرور کو‘ هللا نے تین پیارے پیارے بچوں‬ ‫سے نوازا۔ اس کی بیوی بیمار پڑ گئی۔ کئی ماہ بیماری‬ ‫سے لڑی‘ لیکن لڑائی ہار گئی۔ میں نے اسے سمجھایا کہ‬ ‫بچوں کا خیال رکھنا۔ اب تم ہی ان کی ماں اور تم ہی ان کے‬ ‫باپ ہو۔ اسے جلد ہی‘ ایک کنوری مل گئی۔ مال‘ پورے ادب‬ ‫و آداب کے ساتھ اس کا ذکر کرتا رہا۔ گن گنوانے میں زمین‬ ‫آسمان ایک کر دیا۔ بچے سکول سے اٹھا لیے گیے ہیں‬ ‫اور ان کے مندے حال ہیں۔ مرحومہ بیماری میں بھی بچوں‬ ‫کا خیال رکھتی تھی۔ کتا کتنا ہی نسلی اور اعلی پائے کا‬ ‫کیوں نہ ہو‘ اس کی وفاداری ہڈی سے مشروط رہتی ہے۔‬ ‫ڈی سی سر مائیکل جان نے‘ سترہ سال گوریوں کے ڈوگ‬ ‫صاحب بہادران کی نہالئی دھالئی کی۔ اب وہ بوڑھا اور چڑ‬ ‫چڑا ہو گیا تھا۔ اسے ایک ایسے ڈوگ صاحب بہادر سے‘‬ ‫پاال پڑا جو نچال نہیں بیٹھتا تھا۔ اس نے تاؤ میں آ کر‘ اسے‬


‫پان سات جڑ دیں۔ پھر کیا تھا‘ اچھی خاصی مرمت ہوئی‘‬ ‫جیل بھی گیا۔ جیل کی یاترا کے بعد‘ گھر کی راہ دکھائی‬ ‫گئی۔ اب وہ بےکار اور نکمی شے سے زیادہ نہ تھا۔ گھر‬ ‫میں صوباں تو ایک طرف‘ اس کے نازوں پلے بچے‘ اسے‬ ‫توئے کرتے رہتے۔‬ ‫غضب خدا کا گھر پر نکما نہیں‘ گھر کا نسلی کتا ٹومی‬ ‫بالناغہ دو ٹائم نہالتا ہے۔ اس کے باوجود‘ بےوقار ہو چکا‬ ‫ہے۔ جس دن نہالنے میں تھوڑا دیر ہو جائے‘ ٹومی غراتا‬ ‫نہیں‘ بھونکتا ہے۔ خدمت یہ کرتا ہے‘ دم گھر والوں یا ان‬ ‫کے ملنے والوں کے سامنے ہالتا ہے۔ ٹومی خوب جانتا‬ ‫ہے‘ خدمت کرنے واال اس کا مالک نہیں‘ تھرڈ کالس نوکر‬ ‫ہے۔‬ ‫دروازے سے تختی اتر چکی ہے۔ اس کی انگریزی‬ ‫بےاوقات ہو چکی ہے۔ باہر نکلتا ہے تو کل تک سالم‬ ‫کرنے والے‘ مذاق اڑاتے ہیں۔ وہ اب مہنگا نہیں‘ مہنگو‬ ‫کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔‬


‫پرایا دھن‬

‫ہنسی مذاق میں‘ احمقانہ گفت گو یا حرکت چل جاتی ہے‬ ‫لیکن سنجیدہ اور دکھ سکھ کے معامالت میں‘ احمقانہ گفت‬ ‫گو یا حرکت کی‘ سرے سے گنجائش نہیں ہوتی۔ بخشو کے‬ ‫بیٹے کا‘ اس کی سگی سالی کی بیٹی سے نکاح ہونے جا‬ ‫رہا تھا۔ شوکے کی ماں اور بہنیں‘ مختلف نوعیت کے‬ ‫شگن کر رہی تھیں۔ وہ سب خوش تھیں۔ بذات خود شوکا‬ ‫بڑا ہی خوش تھا۔ بخشو بھی‘ خوشی خوشی جملہ معامالت‬ ‫انجام دے رہا تھا۔ جوں ہی شوکا سہرہ باندھے‘ گلے میں‬ ‫ماال ڈالے‘ سجی پھبی گھوڑی پر بیٹھنے لگا‘ بخشو نے نیا‬ ‫ہی تماشا کھڑا کر دیا۔ اس نے شوکے کو گلے لگا لیا اور‬ ‫زاروقطار رونے لگا۔ یہ بالکل الگ سے بات تھی اور‬ ‫سمجھ سے باالتر تھی۔ لوگ بیٹوں کی شادی پر خوشیاں‬ ‫مناتے‘ یہ احمق رو رہا تھا۔‬


‫پہاگاں حسب سابق اور حسب عادت آپے سے باہر ہو گئی۔‬ ‫اس دن کچھ زیادہ ہی ہو گئی۔ اس نے بخشو کی بہہ بہہ‬ ‫کرا دی۔ بخشو کے لیے‘ یہ کوئی نئی اور الگ سے بات نہ‬ ‫تھی۔ برداشت کر گیا۔ برداشت کیوں نہ کرتا‘ جھوٹا تھا‘ سب‬ ‫فٹکیں دے رہے تھے۔ خوشیاں غم و غصہ میں بدل گئیں۔‬ ‫وہ تو خیر ہوئی‘ چاچا فضلو ساتھ تھا۔ اس نے بیچ میں پڑ‬ ‫کر‘ بچ بچاؤ کا رستہ نکال لیا‘ ورنہ جنگ عظیم چہارم کا‬ ‫آغاز تو ہو ہی گیا تھا۔‬ ‫تمام رسمیں ہوئیں۔ شوکے اور گھر والوں نے‘ جعلی ہنسی‬ ‫اور خوشی میں سب نبھایا۔ ہاں البتہ براتیوں کی ہنسی اور‬ ‫قہقہے قطعی جعلی نہ تھے۔ بخشو نے حرکت ہی ایسی کی‬ ‫تھی‘ آج تک دیکھنے سننے میں نہ آئی تھی۔ دوسری‬ ‫طرف لوگ یہ بھی سوچ رہے تھے کہ بخشو نے ایسا کیا‘‬ ‫تو کیوں کیا۔ بخشو پاگل نہیں‘ سیانا بیانا اور چار بندوں‬ ‫میں بیٹھنے واال تھا۔ معامالت میں لوگ اس سے مشاورت‬ ‫کرتے تھے۔ اس دن پتا نہیں اسے کیا ہو گیا تھا۔‬


‫سب خاموشی اور حیرت میں‘ تمام ہوا۔ دلہن گھر لے آئے۔‬ ‫شوکے کی ماں اور بہنوں نے نئے جی کے گھر آنے کی‬ ‫خوشیاں منائیں۔ رات دیر گیے تک‘ بخشو پال جھاڑتا رہا۔‬ ‫جیب ڈھیلی رکھنے کے باوجود‘ چھبتی اور زہرناک نگاہوں‬ ‫کا شکار رہا۔ روٹی پانی تو دور کی بات‘ کسی نے اس کی‬ ‫طرف دیکھنا تک گوارا نہ کیا۔ اس نے بھی خود کو‘ بری‬ ‫طرح نظرانداز کیا۔ سگریٹ پہ سگریٹ پیتا رہا اور دیر تک‬ ‫چارپائی پر کروٹیں لیتا رہا۔‬ ‫دھوم کا ولیمہ ہوا۔ اچھے خاصے لوگ بالئے گیے تھے۔‬ ‫خوب وصولیاں ہوئیں۔ کھتونی کے کئی کورے پنے کالے‬ ‫ہوئے۔ تمام خرچے بخشو کی گرہ سے ہوئے‘ لیکن ہر قسم‬ ‫کی وصولیاں‘ پہگاں کے پلے بندھیں۔ اس روز بھی اسے‬ ‫کسی نے پوچھا تک نہیں۔ اس کی حیثیت‘ گرہ دار موئے‬ ‫کتے سے زیادہ نہ رہی تھی۔‬ ‫شادی گزر گئی‘ لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو‬ ‫گیے۔ صاف ظاہر ہے‘ بخشو کے ساتھ بری ہوئی ہو گی۔ یہ‬ ‫واقعہ دوستوں یاروں میں کئی دن‘ باطور مذاق چلتا رہا اور‬


‫پھر گزرے دنوں کی یاد سے زیادہ نہ رہا۔ ہر کوئی فکر‬ ‫معاش میں گرفتار ہے‘ کون معاملے کی کھوج میں پڑتا۔‬ ‫ایک دن بخشو دوستوں میں بیٹھا ہوا تھا۔ اچھو نے شرارتا‬ ‫اور مذاقا پوچھ ہی لیا۔‬ ‫یار بخشو تمہیں کیا سوجھی کہ بیٹے کی شادی پر‘ خوش‬ ‫ہونے کی بجائے‘ اس گلے لگا کر باں باں کرنے لگے۔‬ ‫کتنے احمق ہو تم بھی۔‬ ‫بخشو جذباتی سا ہو گیا اور کہنے لگا‪ :‬آج تک سنتے آئے‬ ‫ہیں‘ بیٹیاں پرایا دھن ہیں۔ میں کہتا ہوں یہ غلط ہے‘ بیٹیاں‬ ‫نہیں‘ بیٹے پرایا دھن ہیں۔ میری اماں نے‘ ابا کے ماں باپ‬ ‫بہن بھائی‘ سب چھڑا دیے۔ یہ ہی تائی اماں اور ممانی نے‬ ‫کیا۔ خیر ان کو چھوڑو‘ تم سب بھائی‘ الگ ہو گیے ہو۔‬ ‫تمہارے بڈھا بڈھی بےچارگی کی زندگی گزار رہے ہیں۔‬ ‫کچھ دینا لینا تو دور کی بات‘ زبانی کالمی نہیں پوچھتے‬ ‫ہو۔ شوکا بھی دوسرے ہفتے ہی ہمیں چھوڑ گیا۔ کہاں گیا‬ ‫ماں کا پیار اور ماں کی ممتا۔ وہاں شوکے کی ساس کا آرڈر‬


‫چلتا ہے۔ ہر جگہ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ میں بھی‘ چوری‬ ‫چھپے اماں ابا سے ملنے جاتا تھا۔ تم سب اپنے گریبانوں‬ ‫میں جھانک کر دیکھو‘ کتنے کو اپنے مائی باپ کے فرماں‬ ‫بردار ہو۔ بہن بھائیوں سے‘ کتنی اور کس سطع کی قربت‬ ‫رکھتے ہو۔ میں کہتا ہوں‘ بیٹیاں نہیں‘ بیٹے پرایا دھن ہیں۔‬ ‫میرا بیٹا دور ہو رہا تھا‘ کیوں نہ روتا۔‬ ‫بخشو کی کھری کھری سن کر‘ سب کو چپ سی لگ گئی۔‬ ‫ایک کرکے سب اٹھ گیے۔ بخشو اکیال ہی رہ گیا۔ یہ معلوم‬ ‫نہ ہو سکا‘ کہ سچ کی کڑواہٹ برداشت نہ کر سکے یا‬ ‫ندامت کا گھیراؤ کچھ زیادہ ہی گہرا ہو گیا تھا۔‬


‫ہے نہ کی قیامت‬

‫مقصود حسنی‬

‫ابوزر برقی کتب خانہ‬ ‫جون ‪6102‬‬


Turn static files into dynamic content formats.

Create a flipbook
Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.