مقصود حسنی کے چودہ اسالمی مقاالت پیش کار پروفیسر نیامت علی مرتضائی ابوزر برقی کتب خانہ نومبر ٦١٠٢
فہرست مذاہب اور حقوق العباد کی اہمیت ٠- زندگی کی درستی کرتے جان دینا انبیاء کی سنت ہے ٦- ہم اسالم کے ماننے والے ہیں' پیروکار نہیں ٣- نماز کا سو سے زیادہ سال کا پرانا اردو ترجمہ ٤- اسالمی سزائیں اور اسالمی و غیراسالمی انسان ٥- ترجمہ سورتہ فاتحہ ٢- منظوم شجرہ عالیہ حضور کریم....عہد جہانگیر ٧- شجرہ قادریہ ۔۔۔۔۔ ایک جائزہ ٨- ایک قدیم یادگار۔۔۔۔بارہ امام ٩- حضور کریم لملسو ہلص اور تخلیق کائنات ٠١- میں ناہیں سبھ توں۔۔۔۔۔۔۔چند معروضات ٠٠- بابا جی شکرهللا ٠٦- قصہءآدم ٠٣- خودی اور اس کے حدود ٠٤-
مذاہب اور حقوق العباد کی اہمیت ہر شخص جس کنبے میں جنم لیتا ہے اس کنبے کا مذہب' نظریہ اور اصول وضوابط لے کر بڑا ہوتا ہے .اس مذہب یا نظریے سےاس کا قلبی تعلق ہوتا ہے۔ وہ اس مذہب یا نظریے کو دینا کا سچا اور برحق مانتا ہے۔ اپنے مذہب یا نظریے پر فخر کرتا ہے۔ دوسرے مذاہب وغیرہ سے متعلق دالئل اسے الیعنی لگتے ہیں۔ میں کہتا ہوں جو ماں باپ کنبہ یا قبیلہ کی طرف سے پیدایشی نظریہ یا مدہب ملتا ہے اس پر اترانے والی ایسی کون سی بات ہے۔ اس میں شخص کا اپنا کیا کمال ہے۔ مزا تب ہے جب وہ اپنے مذہب یا نظریے کا غیر جانب دار ہو کر جائزہ کرے۔
دوسرے مذاہب اور نظریات کے امور سے موازنہ کرے اور اندازہ کرے کون سے اور کس مذہب یا نظریے کے امور انسانی فطرت کے قریب ہیں۔ اس کے مذہب یا نظریے پر اٹھائے گئے اعتراضات واقعی درست ہیں یا کس سطع پر بددیانتی اور جانبداری کا عنصر موجود ہے۔ جو غلط ہے' وہ غلط ہے .اس پر مادری پدری عصبیت کے حوالہ سے ڈٹے رہنا کسی طرح درست نہیں۔ میں نہ مانوں کی ہٹ کسی طرح ٹھیک نہیں۔ یا یہ کہ فالں کی کہی ہوئ بات فالں مذہب یا نظریے سے تعلق رکھتی ہے اس لیے درست نہیں ہو سکتی۔ اس قسم کے طرز عمل یا سوچ کی تحسین نہیں کی جا سکتی۔ ہر مذہب دو چیزوں سے جڑا ہوا ہوتا ہے اس مذہب کے پوجیور کے حقوق 1. مخلوق کے حقوق 2. پوجیور کے حقوق میں عبادات ہیں۔ عبادات پوجیور کو پوجیور تسلیم کرنے کا عملی ذریعہ ہوتی ہیں۔ وہ پوجیور ہی کیا جو اپنی مخلوق کا کسی بھی حوالہ سے محتاج ہو یا اس کا وجود مخلوق کی عبادات کی وجہ سے برقرار ہو۔ مخلوق کی عبادات اسے اس کی حالت پر برقرار رکھتی ہوں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ مخلوق کی عبادات یا اس کا کوئ منفی یا مثبت فعل پوجیور کی صحت پر
رائی بھر اثرانداز نہیں ہوتا۔ وہ ہمیشہ اپنی حالت پر رہتا ہے۔ کسی بھی سطع پر اس کی حالت میں کسی نوعیت کی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ وہ ناقابل تغیروتبدل ہوتا ہے۔ وہ قائم بذات ہوتا ہے۔ پوجیور کسی کا محتاج نہیں ہوتا سب اس کے محتاج ہوتے ہیں۔ کوئ اس کو مانے یا نہ مانےاس پر اس کا کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا۔ ادنی ہو کہ اعلی' باآلخر اسی کی طرف پھرنے والے ہیں۔ کوئی برا ہو کہ اچھا پالنے واال وہی ہے۔ وہ ہر کسی کو اس کے قول و فعل سے باال ہو کر رزق فراہم کرتا ہے۔ کسی کے فعل بد کے سبب وہ اس کے رب ہونے سے انکار نہیں کر دیتا۔ عبادات دراصل مخلوق کا اپنے پوجیور سے اظہار تعلق کا طور ہونے کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کی عملی تیاری ہے۔ اس سے مخلوق کی خدمت کرنے کا موقع میسر آتا ہے۔ مخلوق کی خدمت کا ڈھنگ بھی آتا ہے۔ باجماعت نماز کی ادائیگی سے شخص' شخص کے قریب تر رہتا ہے۔ اس طرح شخص' شخص کے دکھ سکھ سے آگاہ رہتاہے۔ اچھے برے وقت میں اس کا ساتھ دیتا ہے۔ کاروباری لین دین کرتا ہے۔جمعہ عیدین اور حج روزمرہ کے اجتماعات سے بڑے اجتماعات ہوتے ہیں۔ اس طرح اس کے تعلق کا حلقہ وسیع ہو جاتا ہے۔ اس سے سانجھیں وسیع پیمانے پر بڑھتی ہیں۔ ان وسیع اجتماعات میں دوستوں دشمنوں کے حوالہ سے مذاکرات ہوتے ہیں۔ دشمن کی
شر سے بچنے کے لیے تدابیر پر تبادلہ خیال ہوتا ہے۔ مناسق حج عہد رفتہ کے اصولوں کی یاد تازہ کرنے کے لیے ادا کیے جاتے ہیں ورنہ بھاگ دوڑ کنکر باری سے هللا کریم/پوجیور کی ذات عالیہ پر کیا فرق پڑتا ہے۔ خانہ کعبہ هللا نہیں' مسلمانوں کا نقطہ اجتماع ہے۔ هللا کا چونے گارے سے کیا تعلق یا یہ کہ وہ اس چونے گارے کے مکان میں اقامت رکھتا ہے۔ وہ تو ہر جگہ پر ہے یہاں تک کہ آسمان کے اس پار اور آسمان کی سرحدوں سے باہر بھی اپنے کامل وجود کے ساتھ موجود ہے۔ وہ الہ ہی کیا جو زمان و مکان کا پابند ہے۔ ہاں مخلوق زمان و مکان کی پابند ہوتی ہے۔ بڑی عید پر جانور ذبح کئے جاتے ہیں۔ یہ حضرت ابراہیم اور ان کے صاحبزادے حضرت اسماعیل کی قربانی کو یاد رکھنے کا ذریعہ ہے۔ سوال پیدا ہے هللا کو خون گوشت وغیرہ کی کیا حاجت ہے۔ یہ تو انسان اپنے ہم جنس انسان کی عظمت کا اعتراف کر رہا ہوتا ہے۔ هللا پر کیا احسان کر رہا ہوتا ہے۔ گوشت اور کھال وغیرہ اپنے تصرف میں التا ہے۔ ان تمام چیزوں سے هللا پر کیا فرق پڑ رہا ہوتا ہے۔ جانور وغیرہ جیب اجازت دیتی ہے تو ہی زمین کے عظیم انسانوں کی یاد تازہ کی جاتی ہے۔ انسان کی عظمت کے اعتراف کو هللا قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
زکواتہ کو دیکھ لیں انسان' انسان کو پیسے دے رہا ہوتا ہے اپنے پوجیور کو نہیں اور نہ ہی اس کو اس کی کوئی حاجت ہے۔ انسان پلے سے کچھ نہیں دے رہا ہوتا بلکہ رب کے دیے ہوئے میں سے دے رہا ہوتا۔ جب انسان اس حوالہ سے کسی کی ضرورت پوری کرتا ہے توانسان کا انسان سے معاشی تعاون هللا کو اچھا لگتا ہے۔ انسان' انسان سے معاشی تعاون نہ کرے تو رب گریب نہیں وہ حاجت مند کے لیے کوئی دوسرا دروازہ کھول دیتا ہے۔ اس کے آنےاور دینے کے ان حد رستے ہیں۔ تمام عبادات کا تجزیہ کر لیں یہ درحقیقت انسان کا انسان سے تعلق جوڑنے کا عملی ذریعہ ہیں۔ ایک شخص نےنماز پڑھ لی یا حج کر لیا یا روزہ رکھ لیا اور وہ سمجھتا ہے سیدھا جنت میں جائے گا۔ اسےعبادات کے عوض سیر کا تین پاؤ تولنے کی اجازت مل گئی ہے۔ حج کرنے کے بعد حاجی صاحب اور سر پر مکی ٹوپی رکھنے کے اعزاز میں ہر منفی فعل سر انجام دینے کی چھٹی مل گئ ہے تو اس سے زیادہ کوئی غلط بات ہو ہی نہیں سکتی۔ کوئ شخص بکرا ذبح نہیں کر سکتا حج کے لیے جا ہی نہیں سکتا اگر اس کے رشتہ داروں یا ارد گرد کے مقیموں میں کوئ حاجت مند موجود ہے۔ ہمسایہ میں جوان لڑکی باپ کی گربت کے سبب ڈولی نہیں چڑھتی یا کوئی کینسر کے
مرض میں مبتال ہے اور اس کے گھر والے عالج نہیں کرا سکتے ایسی صورت میں حج پر جانا یا بکرا ذبح کرنا معنویت اور اجر سے تہی رہتا ہے۔ یہ عبادات اسی وقت معنویت اور اجر کی حامل ہوں گی جب خوشحالی اور ہر طرح سے سماجی فرغت .ہوگی گھر یا قرب و جوار میں کوئ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتال ہے۔ ہر گزرتا لمحہ اس کو بچانے کے لیے بڑا اہم ہے۔ اس صورت حال میں نماز یا اور کوئ عبادت موآخر کرکے مریض کو یہ دیکھے بغیر کہ وہ کون ہے ہیاں تک کہ وہ دشمن ہی کیوں نہ ہو' معالج کے پاس لے جانا ضروری ہو گا۔ کسی کی جان بچانا یا اس کے مشکل وقت میں کام آنا بھی عبادت کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ اس کا شخصی اور سماجی حق ہے کہ اس کی جان بچائ جائے۔ نظر انداز کرنے کی صورت میں یہ قرض گردن پر رہے گا۔ قرض تو شہید کو بھی معاف نہیں کیا جائے گا۔ عبادات مذہب کا ایک حصہ ہے پورا مذہب نہیں۔ عبادات کو مذہب کا ایک جز الزم سمجھ کر ادا کرنا ضروری ہے لیکن عبادات کو مکمل مذہب سمجھ لینا اور ان کے حوالہ سے جنت االٹ کرا لینے کی سوج کا جنم لینا بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ پورا تولنا' بال تمیز وامتیاز انصاف کرنا سچی گواہی دینا حقدار کی مدد کرنا سچ
بولنا معاف کرنا وغیرہ کو کس طرح مذہب سے الگ کیا جا سکتا ۔ پوجیور انسان کی فالح اور ظفر مندی چاہتا ہے ایک بوڑھا اور کمزور شخص اس پار جانے کے لیے مدد چاہتا ہے۔ پیدل یا کار پر بیٹھے شخص کو مذہب آگے بڑھ جانے کی اجازت نہیں دیتا۔ اگر بڑھ جاتا ہے تو وہ اس بوڑھے شخص کا مقروض مرے گا۔ پوجیور اس سے اس بوڑھے شخص کے قرض کو نظرانداز نہیں کرے گا۔ ایک شخص کے ایک سو ایک حج سات نمازیں اور دیگر عبادات هللا کے ہاں یقینا بڑا اعتبار رکھتی ہیں لیکن اس کی رائی بھر کی بددیانتی کی مثل ایسی ہی ہے کہ کوئی دس من خالص دودھ کے کڑاھے میں دو بوند پیشاب کی ڈال دے۔ دو بوند پیشاب دس من خالص دودھ کو غارت کرکے رکھ دے گا۔ گویا رائی بھر بددیانتی اور ہیرا پھیری ان خوبصورت عبادات کے ماتھے پر رسوائی کا کلنک ہو گا۔ حضرت ابراہیم حضرت رام چندر دیو حضرت زرتشت حضرت مہاتما بدھ حضرت کرشن مہاراج حضرت موسی کلیم هللا حضرت عیسی ابن مریم سکھ مت کے حضرت گرو نانک دیو یقینا اپنے
عہد کے بے مثل اور بےبدل لوگ تھے ۔ ان کی حیات کا دیانت داری سے مطالعہ کریں۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ انسان کی خدمت میں گزرا .انہوں اپنے بدترین دشمن کی بھی بہتری اور بھالئی چاہی۔ اس کے لیے دعائیں مانگیں۔ اس کا برے وقت میں بال مطلب ساتھ دیا۔ اس کے زخموں پر مرہم رکھا۔ وہ میرے سامنے نہیں ہیں جو میں ان کی ٹی سی کر رہا ہوں۔ وہ اپنے کردار کے حوالہ سے سالم و پرنام کے مستحق ہیں .اگر کوئی اس ذیل میں بخل سے کام لے گا تو بددیانتی کا مرتکب ہو گ حضرت دمحم آپ کی خدمت میں مجھ ناچیز کی طرف سے ان حد درود و سالم انسانی تاریخ کے الثانی کردار ہیں۔ ان کی زندگی کا ایک لمحہ بھی دستاب نہیں جو انسان کی خدمت کے سوا گزرا ہو۔ آپ سجدہ میں گئے حضرت حسین ابن علی ان کی پشت پر سوار ہو گئے .آپ کریم نے اس وقت تک سر سجدہ سے نہیں اٹھایا جب تک وہ نیچے اتر نہیں گئے۔ اگر آپ کریم سر اٹھاتے تو حضرت حسین ابن علی کو گرنے سے چوٹ لگ سکتی تھی۔ یہ کسی گریب ترین کا بچہ بھی ہوتا تو آپ کریم کا رویہ اس سے مختلف نہ ہوتا۔ اس سے بڑھ کر انسان کی خدمت اور عزت کیا ہو سکتی ہے۔ آپ کریم نے انسان کے لیے سجدہ التوا میں کیا .انسان کے معتبر ہونے کے وصف کو نمایاں فرمایا۔
درج باال شخصیات کے بلند مرتبہ ہونے میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش ممکن ہی نہیں۔ ان میں سے کوئی ہم میں موجود نہیں۔ آج جو موجود ہیں ان میں سے بھی کوئی باقی نہیں رہے گا۔ بقا صرف اور صرف هللا کی ذات گرامی کے لیے ہے۔ دمحم علی جناح دوہائی کے بیرسٹر تھے لیاقت علی خان نواب آف کاال باغ زیڈ اے بھٹو میجر جرنل سکندر مرزا جرنل ایوب خان جرنل آغا دمحم یحی خان جرنل ضیاءالحق جرنل موسی خان وغیرہ اپنے عہد کے بڑے پھنے خاں تھے' کہاں اور کدھر ہیں اپنے ساتھ کیا کچھ لے کر گیے بےشک رتی بھر دنیا کا مال اپنے ساتھ لے کر نہیں گئے۔ آج کے لوگ بھی پہلوں کی طرح خالی ہاتھ جائیں گے۔ یہی زندگی اور موت کا رواج ہے۔ آج گزرے کل کا سچ باقی ہے۔ مورخ ڈنڈی مار لے ادب اگلی نسلوں کو سچ پنچا دیتا ہے۔ یہ بھی کہ هللا تو سب جاننے واال ہے۔ اس سے کوئی کس طرح حقیقت کو چھپا سکے گا۔ میرا اصرار ہے حقوق العباد ایسا قرض ہے جس سے صرف نظر نہیں ہو گا۔ حاجی نمازی یا زکاتی حقوق العباد سے باالتر نہیں ہیں۔ ان کا حج یا ان کی نمازیں انھیں اس قرض سے مکتی نہیں دال سکیں گے بلکہ عبادات اس کے باطن کی خباثت کو کھول کر رکھ دیں گی۔ عبادات کا خلوص انسان کو برائی کی طرف پھرنے نہیں دیتا۔
بددیانت شخص کی عبادات میں کھراپن ہو ہی نہیں سکتا۔ کسی اللچ میں کی گئ عبادت کس کام کی۔ جنت کے حصول کے لیے کی گئ عبادت هللا کی عبادت تو نہ ہوئی جنت کی عبادت ہو ہوئی۔ عبادت تو یہ ہے کہ هللا کی عبادت کی جائے کیونکہ وہ عبادت کا حق رکھتا ہے۔ جنت تو انسان کا گھر ہے لہذا وہ اس گھر سےاس گھر هللا کی عطا سے جایے گا ہی۔ جو مذہب یا نظریہ انسان کی خدمت انسان سے پیار کرنا اور شخص کے شخصی اور سماجی حقوق پورے کرنا نہیں سکھاتا وہ مذہب یا نظریہ سچا ہو ہی نہیں سکتا۔ جو پوجیور صرف اور صرف اپنی پوجا پارٹ سے راضی ہو جاتا ہے اور حقوق العباد کو ثانوی درجہ دیتا ہے وہ سچا اور حقیقی پوجیور ہو ہی نہیں سکتا لہذا ایسے مذہب سے جڑے رہنا درست نہیں۔ جب انسان' انسان کے لیے اپنا مال اور خون پیش کرتا ہے' اس کے لیے فکرمند ہوتا ہے' دل سے اس کی بہتری اور بہبود کے لیے دعا کرتا ہے تو پوجیور اس پر راضی ہو جاتا ہے حاالنکہ شخص نے اپنے ہی بھائی بند کی خدمت کی ہوتی ہے ۔ پوجیور کی دیا اور عطا انسان تک ہی محدود نہیں۔ ایک چونٹی بھی اس کی مخلوق ہے اور اسے عزیز ہے۔ اگر انسان ایک چونٹی کو سکھ فراہم کرتا ہے تو گویا اپنے اسان ہونے کا حق ادا کر دیتا ہے۔
CaLmInG MeLoDy
مقصود حسنی صاحب آپ نے اس عنوان کو بہت عمدگی سے اپنے الفاظ میں پرویا ہے .اور بال شبہ بہت اچھے طریقے سے آپ نے ایک ایک بات کو دنیا کے ہر فعل کا موازنہ ایک عام انسان کی سوچ میں ڈھالتے ہوئے مذہب کے ساتھ کیا ہے .اور کوئی سمجھدار ہو تو ان باتوں کو ضرور سمجھے اور دینی کمزوری اگر اسکے ذہن میں ہے بھی تو اسے جھٹک دے. بہت عمدہ تحریر http://www.friendskorner.com/forum/showthread.php/292208-%D9%85%D8%B0%D8%A7%DB%81%D8%A8-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AD%D9%82%D9%88%D9%82-%D8%A7%D9%84%D8% B9%D8%A8%D8%A7%D8%AF-%DA%A9%DB%8C-%D8%A7%DB%81%D9%85%DB%8C%D8%AA
زندگی کی درستی کرتے جان دینا انبیاء کی سنت ہے بلور ذاتی طور پر کیسے ہیں‘ ان پر عدالت میں کتنے اور کس نوعیت کے کیس ہیں میں نہیں جانتا اور میرے موضوع کا اس
سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا بیان سیاسی ہے مجھے اس کی خبر نہیں کیونکہ دلوں کے حال صرف اور صرف هللا ہی جانتا ہے۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ ان کا بیان ایک سچے اور کھرے مسلمان کا ہے یہاں تک کہ ان کے مطابق وہ ناموس رسالت کے لیے جان سے بھی گزرنے کے لیے تیار ہے۔ مجھے تو بہر طور ان کے ہر لفظ میں آقا کریم کی سچی محبت نظر آتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ سیاست وزرات امارت کی اس ذیل میں کی کوئ پرواہ نہیں۔ جن دلوں میں شیطان وسوسے ڈالتا ہے ان کا کیا کیا جا سکتا ہے۔ ان کے بیان سے حکومتی حلقوں کو پوٹیاں لگ گئ ہیں اور ان کے بیان کو ان کا ذاتی بیان قرار دیا جا رہا ہے۔ کیا عجیب لوجک ہے۔ کیا وہ موجودہ سرکار سے متعلق نہیں۔ سرکاری ذمہ دار عہدے دار کی کوئی بات ذاتی نہیں ہوتی اسے سرکاری ہی سمجھا جاتا ہے اور سمجھا بھی جانا چاہیے۔ امام کعبہ فلم بنانے والے کو دوسرا سلمان رشدی قرار دے چکے ہیں۔ سلمان رشدی کے لیے دیا گیا فتوی ریکارڈ میں ہے۔ اس حوالہ وفاقی وزیر ریلوے کا بیان کس طرح غلط ہے۔ انھوں نے عین شرع کے مطابق کام کیا ہے۔ جعمہ کے روز سرکاری چھٹی دی گئ تاکہ لوگ مغربی قیادت کے اس فعل کی اپنے اپنے انداز سے مذمت کر سکیں اور سراپا احتجاج کا رستہ اختیار کریں۔ احتجاج کس طرح ہوا یہ باالکل
الگ سے بحث ہے۔ وہ چھٹی کا اعالن محض ٹوپی ڈرامہ اور سیاست چمکانے کا ذریعہ سمجھا گیا اور اپنی حکومت کے وزیر کی کہی بات کو غیر سرکاری کہا جا رہا ہے۔ هللا کا ڈر اور آقا کریم کی محبت پر غیر هللا کا ڈر غالب آ گیا ہے۔ زمینی خدا عزت نہیں دے سکتے ہاں ذلت کی دلدل میں ضرور دھکیل سکتے ہیں۔ رزق بھی ان کے ہاتھ میں نہیں۔ رازق صرف اور صرف هللا کی ذات گرامی ہے۔ ماں کے پیٹ میں زمینی خدا رزق بھجواتے ہیں۔ پیدایش کے فورا بعد دودھ اور شہد کی دو نہریں جاری کرنے وا ال صرف اور صرف هللا ہی ہے۔ جب عزت ذلت رزق هللا کے ہاتھ میں ہے تو ڈنڈی مار زمینی خدا کی خدائی کو ماننا کیا خود اپنے ساتھ ظلم نہیں ہے۔ مسلمانی کے لیے هللا کو هللا ماننا اور آقا کریم کی رسا لت کو دل و جان سے تسلیم کرنا الزم ہے تو یہ کس طرح کی مسلمانی ہے جو ان جعلی خداؤں کی گھرکی سے لوٹا ان کے ہاتھ سے نہیں چھوٹ رہا۔ یہ لوٹا ہولڈر شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ ہمیشہ کے لیے موجودہ پوزیشن کے ساتھ قائم دائم رہیں گے۔ کوئی ہمیشہ کے لیے نہیں ہے۔ کوئ آج تو کوئی کل یہاں سے جانے واال ہے۔ ٹیپو نے کہا تھا شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سو سالہ زندی سے بہتر ہے۔ وہ آج بھی زندہ ہے اور کل بھی دلوں میں زندہ رہے گا۔ بزدل اور پیٹ کا بندہ زندہ ہو کر بھی
زندہ نہیں ہوتا۔ بلور صاحب دلوں کے صاحب بن کر ابھرے ہیں اور یہی زمین کی سرخروئ ہے۔ مغرب کی قیادت انسانی حقوق اور آزادی کا روال ڈالتی رہتی ہے۔ یہ کیسی انسانی حقوق کی پاسداری ہے جو کرڑوں انسانوں کو ڈسٹرب کرتی ہے۔ ان کے جذبات مجروع کرتی ہے۔ یہ کیسی آزادی ہے جو اوروں کے نظریات اور جذبات کا قتل کرتی ہے۔ ڈسٹرب کرنے اور امن وسکون برباد کرنے والے پر کوئ گرفت نہیں۔ اس کے خالف بات کرنے واال مجرم ہے۔ اگر اسے کھلی چھٹی دیے رکھنا ہے تو مذمتی بیان داغنے کی کیا ضرورت ہے۔ برطانیہ کا کہنا ہے انتہا پسند کو بردشت نہیں کریں گے۔ انتہا پسندی کی یہ دہری تعریف سمجھ سے باالتر ہے۔ زمین کا امن و سکون برباد کرنے واال انتہا پسند نہیں اور وہ ہر قسم کی تعزیر سے باالتر ہے۔ گویا تھپڑ مارنے واال درست ہے جوابی کاروائی کرنے واال مجرم یعنی انتہا پسند ہے۔ آتی نسلیں اس دہری تعریف کو لعنتی قرار دیں گی۔ ڈراون حملوں سے لوگوں سے زندگیاں چھین لینے واال انتہا پسند نہیں۔ اس کے فعل بد کی مذمت کرنے واال انتہا پسند ہے۔ جب چور درست اور گھر واال مجرم ٹھہرے گا تو زندگی کا پہیہ الٹا چلنے لگے گا۔ کچھ بھی درست نہیں رہے گا۔ انبیاء کرام زندگی کے پہیے کی درستی کے لیے تشریف التے رہے۔ انھیں صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ بہت سے شہید بھی ہوئے۔ گویا
زندگی کے پہیے کی درستی کے کام کے حوالہ سے مرنا انبیاء کی سنت ہے۔ اگر آج پیٹھ دکھائی گئی تو حقیقی اتہا پسندوں کے حوصلے بلند ہوں گے۔ وہ اس سے بڑھ کر ایسی مذموم حرکتیں کریں گے۔ آج ہماری لیڈر شپ کو شیر بننا پڑے گا اور بلور صاحب کے بیان کو سرکاری بیان تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھنی چاہیے۔ ان کے باہر اقامت رکھنے والے بچوں کو کچھ نہیں ہو گا کیونکہ هللا سے زیادہ حفاظت کرنے واال کوئی نہیں۔ اسی طرح ادھر پڑی قوم کی لوٹی اور اب ان کی رقوم کو خطرہ ہے۔ هللا سے زیادہ دینے واال کون ہو سکتا ہے۔ اس کے دینے کے ان حد رستے ہیں۔ آقا کریم کی شان اور قومی عزت سے بڑھ کر دولت اور زندگی کیسے باالتر ہو سکتی ہے۔ اصل مسلہ یہ ہے کہ وہ خود کو اس قوم کا سمجھیں وہ اپنا شمار مغربی دنیا میں کرتے ہیں۔ ن لیگ کی قیادت نے معاملے کو بین اال قومی عدالت میں لے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ قابل تحسین فیصلہ ہے۔ اپنا نقطہ نظر تو پیش ہونا چاہیے۔ اس حوالہ سے مجرم کو انسانی حقوق کا قاتل تو قرار دینے کی سعی کی جا سکتی ہے۔ اس سے آئندہ اس قسم کی مذموم حرکات کی راہ میں دیوار کھڑی کی جا سکتی ہے۔
ہم اسالم کے ماننے والے ہیں' پیروکار نہیں میں عرصہ سے حیران تھا کہ مسلمان دنیا کی ایک کثیر آبادی ہونے کے باوجود ذلت وخواری زیردستی اور قرض کے چنگل میں کیوں گرفتار ہیں۔ اگر کوئی سر اٹھاتا ہے تو اٹھنے واال سر کلسڑ سے قلم کر دیا جاتا ہے یا پھر پابندیاں لگا دی جاتی ہیں۔ کوئی اس قہر و غصب پر چوں بھی نہیں کر پاتا۔ میرے ذہن میں یہ سوال بھی اٹھا کیا اکثریت کی کوئی معنویت نہیں۔ اگر اکثریت معنویت سے تہی ہے تو پھر جمہوریت محض ایک پاکھنڈ ہے۔ اگر جمہوریت ایک ڈرامہ ہے تو ہم اس میں اپنی بقا کیوں خیال کرتے ہیں۔ ایک سوال نے پھر جنم لیا‘ کیا جمہوریت کوئی پروگرام بھی دیتی ہے۔ اس کا جواب یقینا نفی میں ہے۔ اگر جمہوریت کوئی پروگرام نہیں دیتی یا اس کا اپنا ذاتی کوئی پروگرام نہیں ہے تو کیا جمہوریت میں ترقی کی تالش کھلی حماقت نہیں۔ غیر مسلم جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں تو یہ ان کے سماجی اور مذہبی
سٹ اپ سے لگا رکھتی ہو گی وہ اسے شوق سے گلے کا ہار بنائیں۔ کسی مسلم کو اس پر اعتراض کرنے کا بھال کیا حق ہے۔ انھیں اپنی مرضی اور ضرورت کی زندگی گزارنے کا حق ہے۔ اسالم میں تقوی پرہیزگاری اور عمل صالح کو اہمیت حاصل ہے۔ اگر کوئی مزدور ہے لیکن یہ تینوں امور رکھتا ہے تو ریاستی امارت کا اس شخص سے زیادہ کون مستحق ہے۔ جو بے پناہ دولت طاقت یا ڈرانے دھمکانے اور دباؤ ڈالنے کی پوزیشن میں ہے لیکن قول و فعل کے حوالہ سے فاسق و فاجر ہے وہ یہ حق نہیں رکھتا۔ گویا اس کی دولت اور طاقت کوئی معنوت نہیں رکھتی۔ میں نے بڑا غور کیا ہے اکثریت کی کوئی معنویت نہیں۔ انسانی ترقی اور بقا کی ضامن کوئی اور چیز ہے۔ اؤل اؤل مسمان تعداد میں ناہونے کے برابر تھے لیکن کامیابی سے ہم کنار ہوتے تھے۔ نماز روزہ حج زکوتہ وغیرہ واجبات وہ بھی انجام دیتے تھے ہم بھی ان واجبات کی ادائیگی سے سرخرو ہونے کی کوشش کرتے ہیں قربانی بھی بڑے جوش و جذبے سے دیتے ہیں تو پھر ناکام ونامراد کیوں ہیں؟ موجودہ صورت حال کے حوالہ سے سوال اٹھتا ہے کیا مسلمان
ہونے کے معاملہ میں ان امور کی ادائیگی کافی نہیں؟! اگر مسلمان ہونے کے لیے یہ واجبات کافی ہوتے تو آج ہم دنیا میں سربلند ناسہی باعزت ضرور ہوتے۔ اسالم کا تعلق عملی زندگی سے ہے۔ اسالم کا تقاضا ہے کہ تمام مسلمان بال کسی تمیز وامتیاز آپس میں بھائی بھائی ہیں لیکن ہم میں بھائی چارہ سرے سے موجود نہیں۔ رنگ نسل زمین زبان اور عقیدہ کے حوالہ سے ایک دوسرے سے کوسوں دور ہیں۔ ہمارے معاشی اور نظریاتی مفادات ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ کوئی ظالم کسی مسلمان کو پھڑکاتا ہے تو ہم ساتھ دینے یا کم از کم بچ بچاؤ کرانے کی بجائے ظالم کی طرف داری ہی نہیں مسلمان کو مزید ازیت دینے کے لیے ظالم کا ساتھ دیتے ہیں اور اس کے فعل بد کو درست ثابت کرنے کے وہ وہ دالئل گزارتے ہیں جن کا خود ظالمکو علم نہیں ہوتا۔ اسالم میں کسی کو زبان یا ہاتھ سے دکھ اور تکلیف دینے کی اجازت نہیں لیکن ہمیں اوروں کو ان دونوں حوالوں سے دکھ اور تکیف دے کر خوشی ہی نہیں سرشاری ہوتی ہے۔
اسالم میں بدال لینے کی ممانعت نہیں اور ناہی دوسرا گال پیش کر دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ بدال لینے کا پورا پورا ہر کسی کو حق حاصل ہے ہاں معاف کر دینے میں بڑھ کر اجر رکھ دیا گیا ہے۔ ہمارے پاس معافی نام کی چیز ہی نہیں۔ ہم ناکردہ جرم کی سزا دینے کے بھی قائل ہیں۔ ایک شخص جرم نہیں کرتا یہ اس کا قصور ہے اس میں اذیت پسند کا کیا قصور ہے۔ چونکہ وہ کمزور ہے لہذا اسے بہرطور سزا اور ازیت سے باالتر نہیں رکھا جا سکتا۔ اسالم میں رشتہ دار تو الگ دشمن اور غیر مسلم ہمسایہ بھی بھوکا نہیں سو سکتا اس کے بارے میں ہم سے روز حشر سوال ہو گا۔ ہم اپنے سوا کسی اور کو پیٹ بھر کھاتا دیکھ ہی نہیں سکتے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ اس کے منہ کا لقمہ بھی چھین لیں۔ رہ گئی قیامت کی بات وہ ہمیں یاد تک نہیں۔ ہم موجودہ حیات ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں۔ اسالم چوری کی اجازت نہیں دیتا۔ ہر بڑا آدمی ٹیکس کی چوری اپنا بنیادی حق سمجھتا ہے۔ یہ چیز گریبوں سے متعلق ہے۔ بڑے قرضوں کی معافی کو اپنا قانونی حق سمجھتے ہیں جبکہ گریب کی سنگی پر انگوٹھا رکھ کر قرض وصول کر لیا جاتا ہے۔ طاقتور بجلی کی چوری کو چوری نہیں سمجھتا۔ خود واپڈا والے
اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ کیا کریں اپنے پیٹ کے عالوہ باال افسروں کے پیٹ کی ذمہ داری بھی ان کے سر پر ہوتی ہے۔ اسالم جھوٹ اور جھوٹے پر لعنت بھیجتا ہے۔ ہم اور ہماری جمہوریت سچ اور سچے کو مجرم ٹھہراتی ہے۔ سچ بولنا یا سچ کی حمایت کرنا آج کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ اسالم حق دار کو اس کا حق دینے کی تاکید کرتا ہے۔ یہاں حق دار کو حق دینا حق نہیں رہا۔ حق دار وہی ہوتا ہے جو پال جھاڑتا ہے۔ ہسپتال ہو یا کوئی بھی دفتر بال دے داال کے حق مل نہیں سکتا۔ ستم یہ کہ دے داال ناحق کو حق کے درجے پر فائز کر دیتا ہے۔ میں نے یہاں محض چند باتوں کا ذکر کیا ہے ورنہ اسالم انسان کی زندگی سے متعلق ہر معاملے میں اپنا پروگرام دیتا ہے۔ اس حوالہ سے دیکھا جائے تو یہ بات کھلتی ہے نماز روزہ حج زکواتہ قربانی وغیرہ کی ادائگی مسلمان ہونے کے لیے کافی نہیں۔ مسمان ہونے کے لیے اسالم کے دیے پروگرام کو عملی زندگی کا حصہ بنانا بھی ضروری ہے۔ ہم اسالم اور اس کے
متعلقات کو ماننے والے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح ہم قدیم انبیاء اور تمام الہامی کتب کو مانتے ہیں۔ ماننا اور عمل کرنا دو الگ باتیں ہیں۔ ماننے والے کو کوئی بھی نام دے دیں۔ ہم اسالم اور اس کے متعلقات کے پیروکار نہیں ہیں۔ میں کوئی عالم فاضل شخص نہیں ہوں سیدھی سادی کلیے کی بات کر رہا ہوں۔ میرا اصرار ہے کہ ہم اسالم کو ماننے والے لوگ ہیں اسالم کی پیروی سے ہمارا دور کا بھی رشتہ نہیں۔ ہماری کامیاب اور ظفرمندی کی زندگی کا آغاز اس وقت ہو گا جب ہم اسالم کے پروگرام کو ماننے کے ساتھ ساتھ اس کی پوری دیانت داری سےپیروی کریں گے۔
نماز کا سو سے زیادہ سال کا پرانا اردو ترجمہ مخدومی و مرشدی حضرت سید غالم حضور شاہ المعروف بہ باباجی شکرهللا کے ذخیرہءکتب سے' ایک کتاب.......نماز مترجم منظوم۔۔۔۔۔۔۔۔ بزبان پنجابی' دستیاب ہوئی ہے۔ اس کے مولف
مولوی دمحم فیروز الدین ڈسکوی' منشی فاضل' مدرس ایم بی ہائی سکول' سیالکوٹ ہیں۔ انہیں اس کتاب کی تالیف کا اعزاز' رائے صاحب منشی گالب سنگھ اینڈ سنز' تاجران کتب' الہور نے دیا۔ اس کتاب کا سن اشاعت 7091ہے اور یہ ہی سال' مخدومی و مرشدی حضرت باباجی شکرهللا کا سن پیدائش ہے۔ یہ کتاب بالشبہ' حضرت سید علی احمد شاہ کے کتب خانے کی' باقیات میں سے ہے۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ کتاب کے صفحہ نمبر 71پر' ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک شعر موجود ہے۔ ہم زیادہ تر شاعری یا پھر مخصوص اصناف نثر کو' ادب کا نام دیتے ہیں اور انہیں ہی' زبان کی ترقی کا ذریعہ خیال کرتے ہیں۔ اس قسم کی ہر سوچ' حقیقت سے کوئی عالقہ نہیں۔ ہر اظہار' اس کا تعلق کسی بھی شعبہ سے متعلق ہو' زبان کی نشوونما اور اس کی ابالغی قوتوں کو' ترقی دینے کا ذریعہ اور سبب بنتا ہے۔ مروجہ ادبی اصناف شعر ونثر کو اٹھا کر دیکھ لیجیے' شاید ہی' زندگی کا کوئی شعبہ نظرانداز ہوا ہو گا۔ یہاں تک کہ سائنس اور حکمت کے امور بھی' نظر آئیں گے۔ ریاضی اور شمایات جیسے شعبے' اس کی دسترس سے باہر نہیں رہے۔ جب ایسی صورت ہے' تو زبان کی ابالغی اور لسانی ترقی کے حوالہ سے' دیگر علوم و فنون کی کاوش ہا کو' کیوں صرف نظر کیا جائے۔
علوم اسالمی سے متعلق' اردو میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ دیگر زبانوں سے بھی' اسالمی علوم کی کتب کے تراجم ہوئے ہیں۔ اس حوالہ سے' اردو میں بہت سی مختلف شعبوں سے متعلق' اصطالحات داخل ہو کر رواج عام بنی ہیں۔ ان گنت تلمیحات' اردو شعروادب کا گہنا بنی ہیں۔ بات یہاں تک ہی محدود نہیں رہی' بہت سے عربی الفاظ' اردو کے ذخیرہءالفاظ میں داخل ہو کر' اردو کی ابالغی ثروت کا ذریعہ بنے ہیں۔ بچوں کے لیے' التعداد اسالمی لڑیچر کاشت ہوا ہے۔ غیر مسلم بھی' اس ذیل میں نظرانداز نہیں کیے جا سکتے۔ ان کا مذہبی اثاثہ بھی' اس زبان کا زیور بنا ہے۔ گویا ان مساعی کو' لسانی حوالہ سے نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ ماہرین لسانیات کو' صرف اور صرف اردو اصناف شعرونثر کو ہی' لسانیاتی مطالعہ میں نہیں رکھنا چاہیے۔ سب شعبوں سے متعلق کتب کا' اس ذیل میں' پیش نظر رہنا از بس ضروری ہے۔ زیر تجزیہ کتاب میں نماز کے عالوہ' منظوم پنجابی میں' مختلف مسائل بھی بیان کیے گیے ہیں۔ نماز سے معلقات' پہلے عربی میں' بعد ازاں اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے' اس کے بعد پنجابی میں منظوم ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس وقت میرے پیش نظر' کئی تراجم ہیں' خدا لگتی بات تو یہ ہی ہے' سادہ اور عام فہم ہونے کے ساتھ ساتھ' ترچمہ اور محاورہ کے اعتبار سے' یہ ترجمہ
اپنی ہی نوعیت کا ہے۔ بریکٹوں میں کچھ نہیں لکھا گیا۔ اس لحاظ سے بھی' یہ ترجمہ خوب تر ہے۔ لسانی اعتبار سے' اس کی فصاحت اور بالغت کا اقرار نہ کرنا' سراسر زیادتی کے مترادف ہو گا۔ میں اس ذیل میں مزید کچھ عرض کرنے کی بجائے' ترجمہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں۔ هللا بہت بڑا ہے اے هللا تیری ذات پاک ہے خوبیوں والی اور تیرا نام مبارک ہے اور تیری شان اونچی ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں میں مردود شیطان سے خدا کی پناہ لیتا ہوں خدائے رحمن و رحیم کے نام سےشروع سب خوبیاں هللا کو جو سارے جہان کا رب ہے بڑا مہربان نہایت رحم واال
انصاف کے دن کا مالک ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں ہم کو سیدھی راہ دکھا ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے اپنا فضل کیا ان کی نہیں جن پر غضب ہوا اور نہ گمراہوں کی ایسا ہی ہو تو کہہ وہ هللا ایک ہے هللا بےنیاز ہے نہ کسی کو جنا نہ کسی سے جنا گیا اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے هللا سب سے بڑا ہے میرا عظمت واال رب قدوس ہے
ہے جو اس کی خوبی بیان کرے...... اے هللا تجھے ہی سب خوبیاں ہیں میرا عالی شان رب قدوس ہے سب زبانی بدنی اور مالی عبادتیں هللا ہی کے لیے ہیں اے هللا کے نبی تجھپہ سالم اور خدا کی رحمت اور اسکی برکات نازل ہوں ہم پراور خدا کے نیک بخت بندوں پر سالم .....میں اقرار کرتا ہوں کہ هللا کے سوا اور میں اقرار کرتا ہوں کہ دمحم اسکا بندہ اور رسول ہے اے هللا حضرت دمحم اور حضرت دمحم کی آل پر رحمت نازل فرما جیسا کہ تو نے حضرت ابراہیم اور ان کی آل پر رحمت نازل کی یقینا تو خوبیوں واال بزرگی واال ہے اے هللا مجھے نمازوں کا قائم کرنے واال بنا دے
اوالد کو بھی اور خدایا میری دعا منظور فرما..... اے هللا اور میرے ماں باپ اور سب مومنوں کو بخشدے جب قیامت قائم ہو اے هللا ہمارا دنیا میں بھی بھال کر اورآخرت میں بھی بھال اور ہم کو عذاب دوزخ سے نجات دے تم پر سالم اور هللا کی رحمت دو جگہ نقطے لگائے گیے ہیں' وہاں سے صفحہ پھٹا ہوا ہے۔ میں نے اپنی طرف سے' ایک لفظ کم یا زیادہ نہیں کیا۔ ٹائپ بھی اسی خط کے مطابق کیا ہے۔
اسالمی سزائیں اور اسالمی و غیراسالمی انسان
مجھ سے سوال کیا گیا کہ مغرب میں اسالمی سزاؤں کو غیرانسانی سمجھا جاتا ہے۔ یہ سوال کسی اسالم پرعمل پیرا مولوی مفتی یا شیخ سے کیا جاتا تو وہ یقینا درست جواب دیتا۔ میں دوسروں کی طرح اسالم کو ماننے واال ہوں ہاں رائ کے دانے برابر سہی عمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ چونکہ سوال کیا گیا ہے اس لیے جواب عرض کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ مغرب کا موقف سولہ آنے درست ہے۔ اسالم کی سزاءیں ان کے حوالہ سے ظلمانہ اورغیرانسانی ہیں ان پر عمل نہ ہونا ہی بہتر اور انصاف ہے۔ یہ سزاءیں اسالم کے انسان کے لیے ہیں۔ اسالم کے انسان کا خدا هللا ہے۔ اسالم زبانی کالمی کی چیز نہیں۔ نماز پڑھ لی رزہ رکھ لیا حج کر لیا شلوار اوپر کر لی فرقے کی شرع کے مطابق دازھی رکھ لی تو سمچھ لیا گیا کہ جی میں مسلمان ہو گیا۔ یہ سب کچھ اسالم میں ہے اسالم نہیں۔ اسالم اول تا آخر عمل کا نام ہے۔ اسالم کا انسان مغرب اور اس کے پیروکاروں سے قطعی الگ تر اور مختلف انسان ہے۔ اسالم کا انسان کسی کی حق تلفی نہیں کرتا اور ناہی وہ کسی جان پر ظلم اور زیادتی کرتا ہے۔
اسالم کا انسان هللا پر پختہ یقین رکھتا ہے۔ اس کا هللا الہ اور وہ اپنی ذات میں یکتا اور مختار کل ہے۔ اس کی مخلوق بھوکی نہیں سوتی۔ وہ جیسی اور جہاں بھی ہے‘ اسے رزق ہر حال میں فراہم ہوتا ہے۔ زمین پر موجود ہر چیز کسی کی ملکیت نہیں۔ ایک باپ اپنی اوالد کو دانہ دنکا فراہم کرتا ہے یا بیٹا باپ کی خدمت کرتا ہے یا کوئ کسی کی معاشی مدد کرتا ہے تو پلے سے نہیں کرتا هللا کے دیے میں سے کرتا ہے۔ وہ صرف اور صرف ذریعہ ہے۔ اگر اس ذیل میں بددیانتی کرتا ہے تو هللا کوئ اور ذریعہ پیدا کر دیتا ہے۔ هللا نے اس کا ہاتھ اوپر رکھا تھا یہ اعزاز اس سے چھن گیا۔ یہ بہت بڑی بدنصیبی ہوتی ہے۔ اسالم کا انسان صبر شکر اور قناعت کی دولت سے ماال مال ہوتا ہے۔ اس کے پاس جو بھی کچھ ہوتا ہے خیر اور بالتفریق و امتیاز دوسروں کی بھالئ کے لیے ہوتا ہے۔ اسالم کے انسان کا جینا اور مرنا هللا کی مرضی اور رضا کے لیے ہوتا ہے۔ وہ دست سوال دراز نہیں کرتا کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ هللا اسے اور اس کی حاجات کو اس سے زیادہ جانتا ہے۔ اس کے ایک دروازہ سے اتنا مل جاتا ہے کہ اس کی نسلوں کا رج ہو جاتا ہے۔ وہ جانتا ہے اس کے هللا کے آنے کے ان حد رستے ہیں۔ وہ عطا واال ہے۔ اس کا قہر وغضب بھی عطاؤں سے خالی نہیں
ہوتا۔ ان وجوہ کے حوالہ سے دیانت اور خوداری اس کی شخصیت کا الزمہ ٹھہرتا ہے۔ اسالم کا انسان ظلم زیادتی ہیرا پھیری بددیانتی کرتا ہی نہیں۔ وہ صرف اتنا جانتا ہے کہ اسے اچھا اور اچھے کے سوا کچھ نہیں کرنا۔ انصاف اور بانٹ میں اپنے پراءے رنگ نسل عالقہ زبان مذہب وغیرہ کے امتیازات سے اسے کسی سطع پر علم ہی نہیں ہوتا۔ وہ اوروں کو ان کا حق دے رہا ہوتا ہے۔ اسالم کے انسان کو اپنے سے زیاددہ دوسروں کی فکر ہوتی ہے۔ خرابی میں دانستگی کی صورت میں سزا کے لیے خود کو پیش کر دیتا ہے۔ وہ اس میں ذات کا اطمینان خیال کرتا ہے۔ وہ تامرگ اپنی ذات هللا اور سوساءٹی کے سامنے سرخرو رہنے میں کامیابی سمجھتا ہے۔ ہر مسلمان کا دعوی ہے کہ وہ آپ کریم سے محبت کرتا ہے۔ یہ کیسی محبت ہے ہر وہ کچھ کرتا ہے جس سے آپ کریم نے منع فرمایا تھا۔ پہلے رشوت چوری کا دھندا تھا اب برسرعام ہوتا ہے۔ جانتے ہوئے کہ حق کیا ہے‘ ناحق کا ساتھ دیتا ہے۔ پیسے اللچ اور طمع میں آ کر جھوٹی گواہی دیتا ہے۔ یہ هللا سے نہیں‘ بندوں سے ڈرتا ہے۔ حج کرکے سیر کا تین پاؤ‘ تین پاؤ میں بھی آدھ پاؤ مالوٹ کرتا ہے۔ روزہ رکھ کر جھوٹ بولتا ہے۔ غیر
تو غیر اپنوں سے بھی بددیانتی کرتا ہے۔ نکاح کی اجازت ہونے کے باوجود زنا کا مرتکب ہوتا ہے۔ یہ حضور کریم سے کس طرح کی محبت ہے‘ سمجھ سے باالتر ہے۔ اسالم اور اسالم کا انسان جھوٹ اور منافقت سے نفرت کرتے ہیں۔ وہ جو کہتا ہے کرتا ہے۔ جتنا کرتا ہے اتنا ہی بتاتا ہے۔ اس کا اندر باہر ایک ہوتا ہے۔ اس کے کہنے میں فطری توازن ہوتا ہے۔ اس کے ہاتھ سے کسی کو ضر نہیں پہنچتا۔ وہ ایک ہاتھ سے اس طرح سے دیتا ہے کہ دوسرے ہاتھ کو علم تک نہیں ہونے دیتا۔ وہ حرام گوشت کے تکے نہیں بناتا۔ سبزیانی کو بریانی کا نام نہیں دیتا۔ اس کا لنگرخانہ مقاصد سے مشروط نہیں ہوتا۔ وہ بانٹ کر آسودگی محسوس کرتا ہے۔ مغرب کا انسان اسالم کو نہیں مانتا اس لیے اسالمی سزائیں اس کے لیے واجب نہیں ہیں۔ اس کے ماننے والوں کے لیے بھی یہ سزائیں نامناسب ہیں۔ وہ تو قرآن مجید کے ساتھ ساتھ تورات زبور انجیل کو بھی مانتے ہیں۔ نہیں مانیں گے تو مسلمانی کے لیبل سے محروم ہو جائیں گے۔ اسالم جب تک ان کی عملی زندگی کا جزو نہیں بن جاتا انہیں اسالم کا پیروکار نہیں کہا جا سکتا۔ مسلمانی کا لیبل ان کے لیے خوش فہمی اور ناماننے والوں کے لیے محض غلط فہمی ہے۔ اگر یہ اسالم کے انسان
ہوتے تو زمانہ ان کے قول و کردار کے قدم نہ لیتا؟! ذلت وخواری اسالم کے انسان کا مقدر بن ہی نہیں سکتی۔
ترجمہ سورتہ فاتحہ مترجم شاہ فضل الرحمن گنج مرادآبادی ترجمہ ٠٦١٠ھ ہدیہ کار مقصود حسنی ابوزر برقی کتب خانہ اپریل ٦١٠٢
ہندی اردو سے کوئی الگ سے زبان نہیں۔ زبانوں کا دیگر سماجی حوالوں کے ساتھ ساتھ‘ مذہبی کلچر بھی ہوتا۔ مذہبی کلچر سے متعلق الفاظ‘ روزمرہ زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ مثال اس کام میں کوئی بچت بامعنی نفع بھی ہوا جی ہاں هللا کے فضل سے دس ہزار بچت نکلی ہے۔ رستے میں سب ٹھیک رہا جی هللا کا شکر ہے خیریت سے لوٹ آیا ہوں۔ حادثے میں کوئی زیادہ نقصان تو نہیں ہوا هللا کی مہربانی ہوئی ورنہ جان جا سکتی تھی۔ ولیمے میں کھانا کم تو نہیں پڑا مالک کا احسان تھا کہ سب کچھ وافر رہا۔
آؤ کھانا کھا لو۔ بسم هللا کریں میں کھا کر آیا ہوں۔ قرآن ایمان کی کہنا کہ کون سچا اور کون جھوٹا ہے۔ هللا نے چاہا تو کل ساری رقم ادا کر دوں گا۔ هللا حافظ اب کل مالقات ہو گی۔ ماشاءهللا آج تو حوروں کو بھی مات دے رہی ہو۔ قسم لے لو جو میں نے کسی چیز کو ہاتھ بھی لگایا ہو آج کل کفن دفن کا خرچہ بھی کوئی کم نہیں رہا۔ یہ سب بھگوان کی کرپا ہے ورنہ میں اس قابل کب ہوں۔ یہ سب ایشور کی کرپا تھی جو نپٹ آیا ہوں۔ پرمیشور بڑا دیالو ہے جو آج الکھوں میں کھیل رہا ہوں۔ ایسے سیکڑوں مذہبی لفظ یا مرکبات روزمرہ کی عمومی و خصوصی‘ شخصی و اجتماعی‘ رسمی و غیر رسمی‘ ذاتی یا پوشیدہ زندگی کی گفت گو کا حصہ بن گیے ہوتے ہیں۔ کوشش
سے بھی‘ انہیں اس سماج کی بول چال سے‘ الگ نہیں کیا جا سکتا۔ ہندو مذہب سے متعلق الفاظ زبان میں داخل ہو جاتے ہیں‘ تو اس میں ایسی کوئی حیرت والی بات نہیں۔ ان الفاظ کے داخل ہونے سے‘ یہ کوئی نئی زبان نہیں ہو گئی۔ عیسائی مذہب کے الفاظ داخل ہو جانے سے‘ زبان عیسائی نہیں ہو جاتی۔ زبان وہ ہی رہتی ہے‘ ہاں وہ اس کلچر کے مذہب کی‘ نمائندگی کر رہی ہوتی ہے۔ گلف سے شائع ہونے والے‘ رسالہ ماہ نامہ واسطہ کا صفحہ نمبر ٤انٹر نیٹ سے میسر آیا ہے۔ اس صفحے پر‘ شاہ فضل الرحمن گنج مرادآبادی کا سورتہ فاتحہ کا ترجمہ شائع ہوا ہے۔ یہ ترجمہ ٠٦١٠ھ سے تعلق رکھتا ہے۔ سورتہ فاتحہ کے بعد سورتہ بقر کی کچھ آیات کا ترجمہ‘ اسی اسلوب و طور کے ساتھ کیا گیا ہے اور اس ذیل میں کوئی نوٹ نہیں دیا گیا۔ اسے بھی سورتہ فاتحہ کے ترجمے کے ساتھ مال دیا گیا ہے۔ عین ممکن ہے‘ پورے کالم کا ترجمہ اس طور سے کیا گیا ہو۔ دیگر ترجم سے یہ قطعی الگ تر اور ہٹ کر ہے۔ ایسا ترجمہ‘ اس سے پہلے دیکھنے اور پڑھنے سننے میں نہیں آیا۔ شاہ فضل الرحمن گنج مرادآبادی کی اس کاوش کی داد نہ دینا‘ بدیانتی ہو گی۔ زبان وطور کی مانوسیت بڑی معنویت کی حامل ہوتی۔ ہندو دھرم سے متعلق لوگ‘ اس کو پڑھتے ہوئے‘ غیریت محسوس نہیں کرتے۔
اس سے رغبت کا دروازہ کھلتا ہے اور اجنبت کی دیوار گرتی ہے۔ شاہ فضل الرحمن گنج مرادآبادی کے مزید ترجمے کی تالش میں؛ چینی‘ جاپانی اور انگریزی انداز عربی کیلوگرافی دیکھنے کی سعادت حاصل ہو گئی۔ یہ طور‘ غیرمسلم لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کا‘ انتہائی کامیاب ذریعہ ہے۔ اچھائی پھیالنے کے لیے‘ عرب مسلمانوں نے مقامیوں کا لباس‘ انداز‘ زبان وغیرہ اختیار کی اور بات ریکارڈ میں موجود ہے۔ شاہ فضل الرحمن گنج مرادآبادی نے‘ ہندو کلچر سے متعلق‘ ترجمے کی زبان اختیار کی‘ یہ امر الئق تحسین ہے۔ بےشک هللا بہتر اجر سے نوازنے واال ہے۔ شاہ فضل الرحمن گنج مرادآبادی کے اس ترجمے کو اس کے طور و اسلوب اور زبان کے حوالہ سے‘ اولیت تو حاصل ہے ہی‘ لیکن انہوں نے معروف سے ہٹ کر‘ لفظوں کو معنویت عطا کی ہے۔ هللا :اسم ذات ہے۔ اس کے مترداف کوئی لفظ ہے ہی نہیں۔ مرحوم نے‘ اس کا ترجمہ من موہن کیا ہے۔ یہ ترجمہ محسوس
سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ لفظ صوری لحاظ سے بالشبہ دل کو موہ لیتا ہے۔ حمد :حمد کے معنی تعریف اور ثنا لیے جاتے ہیں‘ لیکن حضرت شاہ صاحب نے‘ اس لفظ کو ال کے لیے‘ سب جب کہ حمد بمعنی راحت‘ یعنی خوشی کے معنے دیے ہیں۔ گویا وہ سراپا خوشی ہے۔ اس کا نام لینے سے‘ رگ وپے میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے کیوں کہ وہ اول و آخر راحت ہے۔ یا یہ کہ خوشی جو اچھائی سے وابستہ ہوتی ہے یا یہ کہ اچھائی خوشی میسر کرتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں اچھائی خوشی ہے یعنی اچھائی باطنی راحت فراہم کرتی ہے۔ اس حوالہ سے‘ سب راحت یعنی راحتیں اسی کی ذات کے لیے ہیں۔ عالمتی حوالہ سے مفاہیم اچھائی بہتری وغیرہ کی طرف پھرتے ہیں۔ رب :پالن ہار ال :بڑی علمین :سنسار اردو میں پالنا‘ جب کہ پنجابی میں پالن مصدر ہے۔ پالنے واال کے‘ مترداف پالن ہار غیرمانوس نہیں۔ حضرت شاہ صاحب نے‘
رب کے معنی پالن ہار لیے ہیں۔ علمین بذات خود جمع ہے۔ ال سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ عالم جو سامنے اورعلم میں وہ ہی نہیں وہ بھی جو سامنے اورعلم میں نہیں۔ جب ہی سارے سنسار معنی دیے ہیں۔ گویا سارے سنسار کا پالن ہار یعنی عالموں کا بال کسی تخصیص پالنے واال۔ صوری اور معنوی اعتبار سے‘ خوب صورت ترجمہ ہے۔ ہندو کلچر کے لیے بھی مانوس ترین ہے۔ الرحمن :نیاہ موہ الرحمن :نیاہ موہ ترجمے میں‘ جہاں مالئمیت اور ریشمیت سی محسوس ہوتی ہے‘ وہاں صوتی حوالہ سے‘ کانوں میں رس گھولتا محسوس ہوتا ہے۔ اس میں پیار محبت اور شفقت و عطا کا عنصر غلبہ رکھتا ہے۔ اسے اس کے متعلقہ متن میں‘ مالحظہ فرمائیں‘ میرے کہے کی سچائی واضح ہو جائے گی۔ تکلیف دہ حالت میں تشفی‘ بالشبہ معامالت حیات میں‘ بڑی معنویت کی حامل ہوتی ہے۔ نیاہ موہ کی اصل تفیم یہ ہی ٹھہرتی ہے۔ اس کا احسان اور فضل بھی‘ نیاہ باانصاف اور حسب حاجت ہوتا ہے۔ الرحیم :مہر واال
الرحیم :مہر واال یعنی وہ جو کسی کی تکیلف نہ دیکھ سکتا ہو۔ کسی کو دکھ تکلیف میں دیکھ کر‘ محبت‘ احسان اور رحم میں آ جائے اور اس کے مداوے کا ان ہی لمحوں میں چارہ کرئے۔ من موہن‘ کسی کو تکیف میں مبتال نہیں کرتا۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں‘ نمرود‘ فرعون یزید وغیرہ‘ اپنی ہی کرنی کی پکڑ میں آئے ہیں۔ یہاں ہو کہ روز آخرت‘ ہر کوئی اپنے کیے کی گرفت میں آئے گا۔ مالک :بس میں مالک کو بس میں یعنی اختیار میں‘ کے معنوں میں لیا گیا ہے۔ وہ جس کے اختیار میں ہو اور کسی اور کے اختیار میں نہ ہو‘ ملکیت کے زمرے میں آتا ہے۔ اس میں کسی اور کا بس نہ چلتا ہو یا یوں کہہ لیں کہ اس کے سوا‘ وہاں ہر کوئی مجبور و بےبس ہو۔ ہر کرنا اسی کی مرضی پر مبنی ہو۔ وہ جیسے چاہے اور جس طرح چاہے کرئے یا کرنے پر قادر ہو۔ یہ الگ بات ہے‘ کہ وہ حق اور حق کے سوا نہیں کرتا۔ اس کا ہر کیا‘ عدل و انصاف پر استوار ہوتا ہے۔
یوم :دن یوم :دن‘ دن اردو میں عام استعمال کا لفظ ہے۔ الدین :چکوتی چک وتی یہ انصاف اور فیصے کا دن ہو گا۔ زندگی کے دنوں میں‘ دنیا کے بادشاہ فیصلے کرتے آئے ہیں لیکن اس دن‘ وہ بےبس ہوں گے۔ انہیں خود اس عمل سے گزرنا ہو گا۔ گویا یہ دن بادشاہوں کے بادشاہ کا ہو گا۔ اس دن سوائے اس بادشاہ کے کوئی بادشاہ نہیں ہو گا۔ صرف اور صرف اسی کا حکم چلے گا۔ مفہوم یہ ہی ٹھہرے گا۔ یوم الدین :بادشاہوں کے بادشاہ کا دن نعبد :پوجتے‘ عبادت کے لیے ہندو لفظ پوجا استعمال کرتے ہیں۔ جس کی پوجا کی جائے اسے پوجیور کہا جاتا ہے۔ و :اور و :اور‘ اردو میں واؤ اور کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں واؤ مرکبات میں اور کے معنوں میں مستعمل ہے۔ مثال شب
وروز‘ شادی و غم‘ سیاہ و سفید وغیرہ۔ نستعین :آسرا لفظ نستعین اردو میں مستعمل نہیں۔ آسرا سہارا‘ گرتے کو تھامنا‘ گرے کو اٹھانا۔ چھت میسر آنا۔ معاش کی صورت‘ کسی کے حوالہ سے پیدا ہونا۔ یہ لفظ‘ صوری و معنوی اعتبار سے‘ فصیح و بلیغ ہے۔ اسی طرح انسانی زندگی کے‘ ہر گوشے سے‘ کسی ناکسی حوالہ سے‘ منسلک ہے۔ اردو والوں کے لیے‘ یہ لفظ قطعی غیرمانوس نہیں۔ صراط :راہ لفظ صراط اردو میں مستعمل نہیں۔ اہل زبان نے‘ اس کا ترجمہ راہ‘ رستہ کیا ہے۔ حضرت شاہ صاحب نے بھی یہ ہی ترجمہ کیا ہے‘ جو غیرمانوس نہیں۔ مستقیم :سیدھی لفظ مستقیم اردو والوں کے لیے اجنبی نہیں اور یہ تفہیمی اعتبار سے سیدھا یا سیدھی رواج رکھتا ہے۔ جیسے خط مستقیم
انعمت :دیا انعمت :دیا‘ نعمت اردو میں مستعمل ہے۔ دیا کے لغوی معنی محبت‘ عنایت‘ شفقت‘ رحم‘ مہربانی‘ ترس‘ بخشش وغیرہ ہیں۔ متن کے لحاظ سے مفہوم بخشش کے قریب تر ہیں اس لیے دان دینے واال۔ تاہم دان کی نوعیت دیگر دیالو حضرات سے الگ تر ہے۔ وہ ایسا دان دینے واال ہے‘ کہ اس سا دان دینے واال کوئی نہیں۔ ناہی اوروں کے پاس اس سا دان ہے۔ اس دان میں‘ اس کی محبت‘ عنایت‘ شفقت‘ رحم‘ مہربانی‘ ترس شامل ہوتے ہیں۔ گویا اس کی دیا اوروں سے الگ ترین ہے۔ المغضوب :جھنجالہٹ جھنجالہٹ‘ غصہ اور خفگی کے لیے مستعمل ہے۔ جھنجل سخت آندھی کے لیے ہے۔ ہٹ کا الحقہ قائم ہونے کے لیے ہے‘ یعنی سخت آندھی کا آنا۔ دریا کا حد سے بڑے مدوجر۔ یہ اپنی حقیقت میں غضب ہی کی صورت ہے۔ یہاں غصہ اور خفگی کی گرفت میں آئے مراد ہے۔ خفگی خفا سے اور خفا غصہ اور ناراضگی ہی تو ہے۔
الضآلین :کوراہوں کی الضآلین :کوراہوں کی‘ یعنی جو اصل راہ سے ہٹ گیا ہو۔ کوراہ غیر مانوس نہیں۔ کو‘ منفی مفہوم کا حامل ہے۔ مثال کو -تاہ‘ کو- تاہی‘ کو۔ ہڈ‘ کو۔ سنگ‘ کو۔ ریت وغیرہ۔ یہ سابقہ اپنی اصل میں‘ مکمل یا جزوی غلطی‘ خرابی‘ کجی‘ کمی‘ خامی‘ بدنمائی‘ بدنامی‘ بدکاری وغیرہ کے لیے مخصوص ہے۔ یہاں بھی ان ہی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ کو۔ راہ یعنی راہ سے ہٹا ہوا۔ ................................. ترجمہ سورتہ پہلے ہی پہل نام لیتا ہوں من موہن کا جوہ بڑی نیاہ موہ واال ہے سب راحت من موہن کو ہے جو سارے سنسار کا پالن ہار بڑی نیاہ موہ کا مہر واال ہے جس کے بس میں چکوتی کا دن ہے۔ ہم تیرا ہی آسرا چاہتے ہیں اور تجہی کو پوجتے ہیں چال ہم کو سیدھی راہ ڈگ مگ نہیں۔ ان لوگوں کی جن پر تیری دیا ہوگی۔ نہ ان کی جن پر تیری جھنجالہٹ ہوئی نہ راہ کوراہوں کی۔ اور نہ راہ کھوئے ہووں کی۔ اور راہ بھٹکے ہووں کی۔ اس مہابید کے پرمیشور ہونے میں کوئی وگدھا نہیں۔ وہ بھگتوں کو بھلی راہ پر التا ہے۔ جو اندیکھے دھرم التے ہیں اور پوجا کو سنوارتے ہیں اور ہمارے دیئے کا دان بھی کرتے ہیں۔ اور جو جو تیرے بل اترا اس کو اور جو تجھ سے پہلے اتارا گیا اس کو جی سے مانتے ہیں اورپچھلے جگ کو بھی جی میں ٹھیک
جانتے ہیں۔ یہی لوگ اپنے پالن ہار کی راہ پر ہیں۔ اور یہی اپنی امنگ پاون ہار ہیں۔ اس میں کوئی وگدھا نہیں کہ ملیچھوں کو تو کیسا ہی ڈراوے یا نہ ڈراوے وہ دھرم نہیں الویں گے۔ من موہن نے ان کے جی اور کانوں پر ٹھپا لگا دیا ہے اور ان کے نینوں میں موتیا پھرا ہوا ہے اور کے لیے بھاری مار ہے۔ شاہ فضل الرحمن گنج مرادآبای ٠٦١٠ فرہنگ سورتہ فاتحہ ال سب حمد راحت هللا من موہن رب
پالن ہار ال سارے علمین سنسار ال بڑی رحمن نیاہ موہ الرحیم مہر واال مالک بس میں یوم دن الدین
چکوتی ایاک تجہی کو نعبد پوجتے و اور ایاک تیرا نستعین آسرا اھدنا ہم کو الصراط راہ المستقیم
سیدھی انعمت دیا علیھم جن پر غیر جن پر المغضوب جھنجالہٹ علیھم ان کی و اور الضآلین کوراہوں کی .................................
پہلے ہی پہل نام لیتا ہوں من موہن کا جوہ بڑی نیاہ موہ واال ہے الحمد هلل سب راحت من موہن کو ہے رب العلمین جو سارے سنسار کا پالن ہار الرحمن الرحیم بڑی نیاہ موہ کا مہر واال ہے ملک یوم الدین جس کے بس میں چکوتی کا دن ہے۔ ایاک نعبد و ایاک نستعین ہم تیرا ہی آسرا چاہتے ہیں اور تجہی کو پوجتے ہیں لفظی و ترتیبی تجہی کو پوجتے ہیں اور ہم تیرا ہی آسرا چاہتے ہیں اھدناالصراط المستقیم انعمت علیھم
چال ہم کو سیدھی راہ ڈگ مگ نہیں۔ ان لوگوں کی جن پر تیری دیا ہوگی۔ چال ہم کو سیدھی راہ ڈگ مگ نہیں ان لوگوں کی جن پر تیری دیا ہوگی۔ چال ہم کو سیدھی راہ‘ ڈگ مگ نہیں ان لوگوں کی جن پر تیری دیا ہوگی۔ وضاحتی ڈگ مگ نہیں غیرالمغضوب علیھم والضآلین نہ ان کی جن پر تیری جھنجالہٹ ہوئی نہ راہ کوراہوں کی۔ آمین ................ یہ سورتہ فاتحہ کا ترجمہ نہیں‘ سورتہ البقر کی کچھ آیات کا ترجمہ ہے۔ اس مہابید کے پرمیشور ہونے میں کوئی وگدھا نہیں۔ وہ بھگتوں کو بھلی راہ پر التا ہے۔ جو اندیکھے دھرم التے ہیں اور پوجا کو سنوارتے ہیں اور ہمارے دیئے کا دان بھی کرتے ہیں۔ اور جو جو تیرے بل اترا اس کو اور جو تجھ سے پہلے اتارا گیا اس
کو جی سے مانتے ہیں اورپچھلے جگ کو بھی جی میں ٹھیک جانتے ہیں۔ یہی لوگ اپنے پالن ہار کی راہ پر ہیں۔ اور یہی اپنی امنگ پاون ہار ہیں۔ اس میں کوئی وگدھا نہیں کہ ملیچھوں کو تو کیسا ہی ڈراوے یا نہ ڈراوے وہ دھرم نہیں الویں گے۔ من موہن نے ان کے جی اور کانوں پر ٹھپا لگا دیا ہے اور ان کے نینوں میں موتیا پھرا ہوا ہے اور کے لیے بھاری مار ہے۔ ........... مکرمی و محترمی جناب حسنی صاحب :سالم علیکم آپ کی یہ تحریر دیکھ کر انتہائی مسرت ہوئی۔ یہ زبان الکھ پرانی سہی لیکن اس کی ضرورت آج بھی ویسی ہی ہے جیسے ماضی میں تھی۔ دوسری قوموں کے عالوہ خود مسلمانوں کے ایک طبقے میں بھی اس کی ضرورت ہے۔ جہاں تک مجھ کو یاد ہے شاہ ولی هللا صاحب نے بھی "پالن ہار" کی قبیل کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ یقینا "رب" کا لفظ ایسا جامع اور مکمل ہے کہ اس کا صحیح ترجمہ کرنا نہایت مشکل ہے۔ "پالن ہار" سے اس کے کئی پہلو واضح ہوجاتے ہیں اور یہ لفظ آج بھی عوام میں مستعمل ہے۔ ایسا ہی بہت سے الفاظ کے متعلق بھی کہا جاسکتا ہے جو موالنا فضل الرحمن گنج مرادآبادی نے اپنے ترجمے میں استعمال کئے ہیں۔ هللا ان کو جزائے خیر سے سرفراز فرمائے۔ اب ایسے بزرگ اور وسیع القلب علما کہاں رہ
گئے ہیں۔ آپ کی محنت اور محبت آپ کی تحریر سے صاف ظاہر ہے۔ هللا سے دعا ہے کہ اپ ہمارے سروں پر قایم رہیں اور یہ کام اسی طرح انجام دیتے رہیں۔ آپ کا دم بہت غنیمت ہے۔ مہر افروز
منظوم شجرہ عالیہ حضور کریم....عہد جہانگیر شاعر :غالم حسین مخدومی ومرشدی قبلہ حضرت سید غالم حضور حسنی کے ذخیرہءکتب سے' ایک تین سو سے زائد صفحات کا' مخطوطہ دستیاب ہوا ہے۔ اس کی حالت بڑی خستہ و خراب ہے۔ اوپر سے' یہ کہ صفحات بےترتیب ہیں۔ یہ مخطوطہ پنجابی عربی اور فارسی میں ہے۔ اس میں اردو' آقا کریم ان پر ان حد درود وسالم' کا شجرہ ہے۔ یہ کل' آٹھ اوپر ستر اشعار پر مشتمل ہے۔ اس میں سے' ایک شعر کاٹا ہوا ہے۔ یہ قلمی مسودہ حکمت' علم جعفر' تعویزات اور حمد و نعت سے متعلق ہے۔ اس میں فارسی نثر بھی موجود ہے۔ بے ترتیب ہونے کے باعث پڑھنے میں ہر
چند دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ داخلی شہادت کے مطابق' اس کے لکھنے والے غالم حسین ولد پیر دمحم متین ہیں اور اس کی تاریخ نوشت بروزے چہار شنبہ شداند تمام نام
بتاریخ ہشتم کہ زالحج
ہے۔ یہ صاحب' پیر بہار شاہ کی خانقاہ سے متعلق ہیں۔ خدایا بتوفیق خود راہ دہ کہ تاہید ازین بندہءہیچ بہ خدایا مقصد بکار آمدم تہے دستے امیدوار امیدم بپوش ازسر لطف غیبے نوشیے شعار بزرکان شوہ عیب نوشیے سخنی بتوک قلم بند کنے صر از یادکارں جہان چند کنے
نوشت ست نامہءغالم حسین صر پسر ست پیرے دمحم متین بروزے چہار شنبہ شداند تمام بتاریخ ہشتم کہ زالحج نام بدر خانقاہ پیر بہار شاہ مدام کوہ دہ است دینہہ ثبام ............ اس مخطوطہ میں' ایک قصیدہ جہانگیر بادشاہ کا ہے۔ قصیدہ میں' جہانگیر سے عیاش اور عیش کوش بادشاہ کو' دو چار انچ ہی' کسی جلیل القدر نبی سے کم رکھا گیا ہے۔ دو چار سال اور زندہ رہتا تو' شاید وہ نبی ہو ہی جاتا۔ قصیدہ مالحظہ ہو۔ باال فرخندہء بر جہان ساالر صاحب التاج احسن اآلآثار روشن آئینہ ضمیر بحر عرفان لجہء تدبیر
داور دہر رستم دوران سالک حق بہادر میدان مطلع آفتاب علم و عمل مظہر نور عین فیض ازل شمس ایوان بارکاہ جالل قطب دوران کمال نور جمال والی ء دہر رستم جم جاہ شہہ جہانکیر ابن اکبر شاہ اکمل هللا روح عظمتہہ شرف اوالدہ بدرجتہہ لطف حق بر ہزاریان باال کز رہ عشق پر صفا باال مست باال از جم لم یزلیے ہست باال ہسستنے ازلے شجرے کے آغاز کے پچھلے صفحے پر' سات دعائیہ اشعار ہیں۔ صفحہ کے چاروں طرف حاشیہ میں' فارسی میں منظوم
فارسی لکھا مٹا' کٹا یا پھٹا ہوا ہے۔ اشعار میں نام یا تخلص کا استعمال نہیں ہوا۔ شجرہ 'جو پانچ صفحات میں تمام ہوا ہے .دعا کا آغاز تو اوپر سے ہوا ہے' اسے پڑھنا ممکن نہیں' جو پڑھا جا سکتا ہے پیش خدمت ہے۔ان دعائیہ اشعار کے آخر میں جہانگیر کے قصیدے کا راز کھلتا ہے' کہ یہ صاحب جہانگیر کے قاضی تھے۔ اشعار میں ایک نام شمس الدین بھی ملتا ہے۔ اشعار :مالحظہ فرمائیں یا خداوندا بحق قدسمع از کرم ہار بکن خاطر جمع یا خداوندا بحق سورتہ تبار جملہ عصیان بندہ عاصے درکذر یا خداوندا بحق سورہ عم در دو عالم رفع کردن ہم زغم یا خداوندا بحق دعوت چنین باسالمت دار ایمان شمش الدین تمام شد
غالم حسین قاضے
زبان پر پنجابی اور فارسی کے اثرات غالب ہیں۔ مثال پنجابی بوالیا ہے اپنے نکہت نور سین ............ دیا تاج لوالک کا سیس پر ............ جو مطلب کے ہاشم کے کہر میں ہویا .......... عمر ہوک کر چہوڑ دنیا چال .......... قیامت کون دیوندیں خالصی مجہے
فارسی ولد اوسکا تہا ابرہیمش خلیل .......... زغفلت ہمیشہ کفر مون مواء ............ نبیے باپ قنیان کا یونس است ........ پتا اوسکے کا نام مستوسبخ است ......... کریں عدل و انصاف در ہر زمان فارسی میں کہے مصرعے اور شعر شامل کیے گیے ہیں۔ امیدم چنان است بر مصطفے
بدنیا و دینم دہد مدعا ......... نہ پیغمبر و شاہ او کافر است ......... کیا ذکر دربطن ماہے نشت ولدیت کے لیے باپ' پتا' پدر اور ولد الفاظ استعمال کیے گیے ہیں۔ نبیے باپ قنیان کا یونس است ........... پتا اوسکا یلمرد پہیا درجہان ............ پدر ویی لود است نامش ضوح ............ پہر اوسکا ولد ہود لکہیا کتاب
لفظ مال کر لکھے گیے ہیں۔ مثال دمحم کے دادایکا مطلب ہے نام .......... شاہ لویکا شاہ غالب سالد .......... پہر اوسکا پتا جان لیجو فرید ........ گاف گ کی بجائے کاف کا استعمال کیا گیا ہے دہر و کوش مو مذہب خاص و عام کوش بجائے گوش میں کاؤں دمحم کون ہر صبح و شام کاؤں بجائے گاؤں کریزان ہوا خوف جنکے سو پاپ
کریزان بجائے گریزاں جو مطلب کے ہاشم کے کہر میں ہویا کہر بجائے گھر بدیی عدل و انصاف کے بارکاہ کاہ بجائے گاہ مہاپران یعنی بھاری آوزوں کا سرے سے استعمال نہیں ہوا۔ اس کی جگہ' حے مقصورہ ہ استعمال میں الئی گئی ہے۔ مثال دمحم سین آدم تلک سبہہ کہول ............. کہ شہنشاہ تہا وہ در کوو قاف ............... پہر اوسکا پتا نام ترار ہے ................ کتابان مین لکہیا جہنم پیا ..........
عمر ہوک کر چہوڑ دنیا چال شین کے لیے صعاد کا استعمال بھی ملتا ہے کریی نصر دنیانمیں پیغمبرے نشر سے نصر لفظوں کی' اشکالی اور اصواتی تبدیلیاں بھی ملتی ہیں۔ مثال جس کی جگہ جن سے کے لیے سین کو کے لیے کون بہت کے لیے بہتہ سب کے لیے سبہہ دینا کے لے دیوند اس کے لیے اوس
میں کے لیے مون ڑ کی جگھ' د کا استعمال کیا گیا ہے۔ مثال کریی بادشاہی بدے باصواب ......... بدا کفر مین وہ ہویا جیون یزید چھوٹی ے کی جگہ بڑی ے کا استعمال کیا گیا ہے۔ مثال رمان شاہ کا باپ برحق نبے الفاظ کے ساتھ ء کا استعمال ملتا ہے۔ پیغمبر کے کہر میں جو پیدا ہواء پہوالد۔۔۔۔ کون کفر مین وہ مویاء
نون غنہ کے لیے نون استعمال کی گئی ہے۔ کہون شاہ کالب کا جو پتا ........ بدا کفر مین وہ ہویا جیون یزید جو بھی سہی' اس شعر پارے کے حوالہ سے' قدیم زبان کا طور و چلن میسر آتا ہے اوراس کے ہونے کا' ثبوت ملتا ہے۔ آئیے اب' اس شعر پارے کے مطالعہ سے' لطف لیتے ہیں۔ بسم هللا الرحمن الرحیم تو سنو اب خدا کے کالم کیا جن دمحم علیہ کیا ہے دمحم خدا نور سین بوالیا ہے اپنے نکہت نور سین
دیا تاج لوالک کا سیس پر سنایا ہمہ راز خود سر بسر سنو اب دمحم کے کرسے تمام دہر و کوش مو مذہب خاص و عام میرے حق مین اب دعا یار ہوء تواضع سیتے بہتہ دلشاد ہوء سنو شجرہ مصطفے ہر ہمہ مکن از بال ہچکس داعہ دمحم سین آدم تلک سبہہ کہول لہون اجر بسیار کہون جب رسول چودہاد ہی خلق کا سو پاوں انعام میں کاؤں دمحم کون ہر صبح و شام قیامت کون دیوندیں خالصی مجہے یہے بات برحق سناؤں تجہے سرانجام دینا عین سبہہ کام کا برا حق دیا صدقہ اس نام کا
امیدم چنان است بر مصطفے بدنیا و دینم دہد مدعا دمحم کے باپ کا جو نام ہے سو عبدهللا ہے نام ہر کر نہ لے دمحم کے دادایکا مطلب ہے نام اوسے دین کوجہ ہنین غض کام جو مطلب کے ہاشم کے کہر میں ہویا کریں بادشاہے سو ہاشم مواء پتا شاہ ہاشم کا عبدمناف کہ شہنشاہ تہا وہ در کوو قاف قصے شاہ تہا باپ عبد المناف اوسے بادشاہے کرن خوب صاف قصے کا پتا شاہ سن لے کالب کریی بادشاہی بدے باصواب کہون شاہ کالب کا جو پتا سومرہات جانون جسے جک جیتا
بدا شاہ مرہات حکمین ہویا نہ قایم رہا ایک دن وہ مویا سنون باپ مرہات کا ہے کعب کریی خلق مین بادشاہے عجب کعب کا پتا لویی شاہ جہان زوارالفنا رفت دارالمان شاہ لویکا شاہ غالب سالد عمر ہوک کر چہوڑ دنیا چال پہر اوسکا پتا جان لیجو فرید بدا کفر مین وہ ہویا جیون یزید سنون باپ اوسکا ہویا حکمین شاہ بدا نام مالک سو عالم پناہ پتا شاہ مالک کا تہا وہ نبیے کریی نصر دنیا نمیں پیغمبرے کیا شاہ ہو کفر کون جن تباہ کریی سلطنت ہم کتابت کے باپ
زجوخش زمین ظالمان کشت سنو مدارک اوس شاہ کا باپ تہا اوسے کفر مون جک سون لینا او تہا نبیے باپ اوسکا سو الیاس نام عجب خداوند مولیعکے کام عدو او حزیمت شد اندر جہان حزیمت کا سن نام نصرت نشان کفر مون خدا نے پیغمبر کئے لطف کر بوال پاس اپنے لئے پیغمبر کے کہر میں جو پیدا ہواء پہوالد۔۔۔۔ کون کفر مین وہ مویاء کئے شاہ کیتے پیغمبر ہزار کئے کافران کا نہ آدمی شمار خدا دست قدرت سون کردا۔۔۔۔۔۔۔ ہزراں مخنث نساہاں مرد جو بہاوی کون سوئی کوچہ کرتے
ہنین ہاتہہ بند کے جو لکو کرے نبیے باپ الیاس کا ھوجوکا کتابان مضر نام اوسکا لکہا سنو کوش دہر کے جوتکرار نے پہر اوسکا پتا نام ترار ہے اوسے۔۔۔۔۔سون کام مطلب ہنین کریں بت پرستیے ستے ہن کہلن معد ولد او شاہ اندر جہان کریں عدل و انصاف در ہر زمان معد کا پتا شاہ عدنان تہا کریں بادشاہے نہ حکمبین رہا ولد اوسکا یسرب کفر مون کیا کتابان مین لکہیا جہنم پیا کہون باپ یسرب کا اب نام مین بدا کفر مین نام نامن کہلین سنو نام نامن کی اب باپ کا
یسع نام تہا شجر وہ باپ کا یسع کا جو تہا باپ اورد شاہ بدیی عدل و انصاف کے بارکاہ ہمیش کرے کفر نامش ہمیش پتا شاہ اورد کا کفر کیش جو تہا باپ اوسکا ہو اندر جہان سنو نام ان شاہ ازمن رمان رمان شاہ کا باپ برحق نبے مبلت شدہ نام او در صیح مبلت نبے کا کہاوں جو باپ لئے نام ہمکت کا ہونا ہی بات کفر مون رہا کفر ہے سون مواء کیا ہار دنیا سون بازی جواء جو اوسکا پتا تہا سو قیدار نام ہوا وہ نبیے خاص بروں سالم زبیح هللا اوسکا پتا اسماعیل
ولد اوسکا تہا ابرہیمش خلیل پیغمبر سے تین اہ نام دار چہ طاقت کہ آریم و صفتیں شمار ہویا جد پیغمبرابراہیم چکہا سین رکہی حق تی ذالیش کریم جو باپ اوسکا اذر بدا بت تراش ہمیشہ بتون کی نبادیں وہ الش ہویا کفر کی بیچ سردار خوب بتون کیی پرستے مین رہتا غروب جو تہا باپ کا آزر کا تارخ سو نام کریں بادشاہے سو بدنیا تمام پتا شاہ تارخ فازح ہواء زغفلت ہمیشہ کفر مون مواء جو تہا باپ اوسکا سو یعقوب نام پیغمبر سنا ہی سو عالم تمام جو یعقوب کا باپ غایر بہال
دیا کفر کون خاک مین جز مال سنو صالح ہی غایر کا باپ کریزان ہوا خوف جنکے سو پاپ پہر اوسکا ولد ہود لکہیا کتاب کفر کون کیا آن چہاروں خراب پیغمبر ہوئی جازاہ جان لے کہیا سہبہ کتابون کا تون مان لے کہو شاہ ارفخشد اوسکا پتاء بدا شاہ عالم کون جسنے جتا پہر اوس کا پتا سام کافر کہوء جیو نام اوسکا نہہ کر رہوء یہیا نوح آدم کا ثانی نبیے پتا سام کا جان لیجو۔۔۔۔۔۔۔ کہنہ کار ہوئی خلق بیشمار بطوفان میں غرق کیتے ہزار بنائی بدیی نوح کشتے کالں
رکہی بیچ ہر جفت کے درمیان جہان ازسر نو ہویدا شدہ طفیل نبیے نوح پیدا شدہ کہین نوح کون ثانی آدم ہویا زوارالفناہ آخر اوہ بہےمویا پتا اوسکے کا نام مستوسبخ است نہ پیغمبر و شاہ او کافر است پدر ویی لود است نامش ضوح شدہ کفرمین........بدکا صبوح پتا اوسکا یلمرد پہیا درجہان بدا کفر او کافریمین عیان کریی باپ مہالن کے کافر ہے سنو نام قنیان او در کتاب بروز حشر کافران اہ عذاب نبیے باپ قنیان کا یونس است کیا ذکر دربطن ماہے نشت
تولد شدہ یونس از عم شیش مبارک ز پیغمبریشیش ریش پتا شیش کا آدم اندر کتاب خدا کرو صلوات او بےحساب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نوٹ :یہ شعر کاٹا ہوا ہے سو کافر نہ آیا ہے دہر میں اوسے یاد کر نا ہنین مین نہ مین
شجرہ قادریہ ۔۔۔۔۔ ایک جائزہ جنت مکانی حضرت سیدہ سردار بی بی' دختر حضرت سید برکت علی زوج مخدومی ومرشدی حضرت سید غالم حضور'سابق اقامتی ننگلی' امرت سر' بھارت' متوفی 7001کی
پاکٹ ڈائری کا' کس حد تک' اپنے کسی مضون میں ذکر کر چکا ہوں۔ اس ڈائری میں شجرہ قادریہ بھی درج ہے۔ اس کی بڑی خوبی یہ ہے کہ شاعر کا نام اور قادریہ خاندان سے تعلق بھی' داخلی شہادت کے طور مل جاتا ہے۔ یہ پیر سید غالم جیالنی کے مرید تھے جو گڑھ شنکر پنجاب بھارت میں' رہائش پذیر تھے۔ اس ذیل میں شجرے کا یہ بند مالحظہ ہو۔ حضرت پیر غالم جیالنی مہر علی دے رہبر جانی ہر دم وسن وچ دھیان یا رب مشکل کریں آسان یہ شجرہ کل ستائس بندوں پر مشتمل ہے۔ شجرے کے پہلے نو بند کمال کی روانی رکھتے ہیں۔ اس میں شخصی تعارف کے لئے صفتی کلمات سے کام لیا گیا ہے۔ مثال علی ولی ہیں زوج بتول
شاہ مرداں ہیں شیر خدا بی بی زہرہ بنت رسول حسن عسکری نورالنور عبدالعزیز ہیں یمنی ہادی عبدالوہاب فضل الہی حضرت یحیی رہبر کامل تاج الدین نے زہد کمایا حضرت پیر غالم جیالنی گڑھ شنکر وچ تخت مکان
عموما پڑھنے اور سننے میں بھی آیا ہے کہ اردو پر پنجابی اثرات پائے جاتے ہیں۔ پنجابی بھی اردو کے اثرات سے محفوظ نہیں۔ اس شجرہ کے حوالہ سے اردو کے اثرات مالحظہ فرمائیں۔ نحوی اس پر میرا تکیہ مان مہدی زمان کا جان ظہور کچھ مصرعے لسانی اعتبار سے اردو اور پنجابی کے نہیں ہیں۔ اسلوبی اعتبار سے اردو کے ضرور ہیں مستعمل اور قابل فہم بھی ہیں۔ باقر وجعفر و موسی کاظم حسن عسکری نورالنور خواجہ کرخی در بیان ابوالعباس احمد دل شاداں حضرت یحیی رہبر کامل
شاہ جنید پیر بغدادی ہمارے ہمارے ہاں بیوی کے لئے لفظ زوجہ استعمال کیا جاتا ہے۔ خاوند کے لئے یہ یا اس کی کوئی شکل مستعمل نہیں ہے۔ شاعر نے خاوند کے لئے لفظ زوج استعمال کیا ہے۔ یہ استعمال کے حوالہ سے غیرمانوس ہے حاالں کہ درست اور فصیح ہے۔ علی ولی ہیں زوج بتول مہر علی نے ان ستائیں بندوں میں خوب صورت مرکبات بھی دئیے ہیں۔ مثال سید طالح اہل حضور ہر دم تیرا شکر احسان مہر علی ہے عاجز خاکی راہ خدا ہیں جان فدا حضرت یحیی رہبر کامل
اس پر میرا تکیہ مان ایک مرکب تو لسانی صوتی اور معنوی اعتبار سے بڑے کمال کا ہے۔ نظر و نظری کرن نہال دو نئے مہاورے بھی دیے ہیں۔ دو مصرعے خالص پنجابی کے نہیں ہیں۔
زہد کمایا تاج الدین نے زہد کمایا 'رہبر پایا
لہجے کے اعتبار سے اردو کا نہیں ہے۔ ورنہ اس مصرعے کے اردو ہونے میں کوئی شک نہیں۔ شرف الدین نے رہبر پایا اردو :شرف الدین کو رہبرمال پنجابی :شرف الدین نوں رہبر ملیا شرف الدین نے رہبر پایا.....غیر فصیح نہیں ہے۔ صوتی حوالہ سے بھی' ہر زبان بولنے والوں کے لئے' سماعتی گرانی کا سبب نہیں بنتا۔ پورے شجرے میں' مصرعوں میں ایک آدھ لفظ کی تبدیلی سے' اردو وجود حاصل کر لیتی ہے۔ اگر اسے اردو پر پنجابی کے اثرات کا نام دیا جائے' تو بھی بات یکسر غلط معلوم نہیں ہوتی۔ شجرہ مالحظہ ہو
شجرہ قادریہ هللا هللا ہر دم آکھ تن من اپنا کرکے پاک نبی دمحم دے قربان یا رب مشکل کریں آسان هللا هللا ہر دم آکھ آکھ کا استعمال قافیہ کی مجبوری ہے۔ نبی دمحم دے قربان دے کی بجائے کے نبی دمحم کے قربان یا رب مشکل کریں آسان
کریں کی بجائے کرنا یا رب مشکل کرنا آسان ......... خاص خدا دا نبی پیارا امت نوں بخشاون ہارا اس پر میرا تکیہ مان یا رب مشکل کریں آسان خاص خدا دا نبی پیارا دا کی جگہ کا خاص خدا کا نبی پیارا امت نوں بخشاون ہارا نوں کی جگہ پرانی اردو کے مطابق کوں امت کوں بخشاون ہارا ..........
بی بی زہرہ بنت رسول علی ولی ہیں زوج بتول میں عاجز دا سر قربان یا رب مشکل کریں آسان میں عاجز دا سر قربان دا کی جگہ کا میں عاجز کا سر قربان .......... صاحبزادے نور العین یعنی حضرت حسن حسین صدقے حضرت عابد جان یا رب مشکل کریں آسان باقروجعفروموسی کاظم
موسی رضا دی الفت الزم تقی نقی دے میں قربان یا رب مشکل کریں آسان موسی رضا دی الفت الزم دی کی جگہ کی موسی رضا کی الفت الزم تقی نقی دے میں قربان دے کی جگہ کے تقی نقی کے میں قربان ......... حسن عسکری نورالنور مہدی زمان کا جان ظہور ہر دم میرا ایہو دھیان
یا رب مشکل کریں آسان ہر دم میرا ایہو دھیان ایہو کی جگہ یہ ہی ہر دم میرا یہ ہی دھیان ......... پنج بارہ ہور چودہ جان اہل بیت دے حب ایمان صفت نہ کیتی جا بیان یا رب مشکل کریں آسان پنج بارہ ہور چودہ جان ہور کی جگہ اور۔ گویا صرف آواز ہ کو ا میں بدلنا ہے۔ پنج بارہ اور چودہ جان ..........
شاہ مرداں ہیں شیر خدا راہ خدا ہیں جان فدا خواجہ حسن بصری دل جان یا رب مشکل کریں آسان
حبیب عجمی دے گھول گھماواں داؤد طائی دے صدقے جاواں خواجہ کرخی در بیان یا رب مشکل کریں آسان حبیب عجمی دے گھول گھماواں داؤد طائی دے صدقے جاواں دے کی جگہ کے حبیب عجمی کے گھول گھماواں داؤد طائی کے صدقے جاواں
........ خواجہ سری سقطی ہادی شاہ جنید پیر بغدادی ابوبکر شبلی دا مان یا رب مشکل کریں آسان ابوبکر شبلی دا مان دا کی جگہ کا ابوبکر شبلی کا مان ........ ابوالعباس احمد دل شاداں عبدالعزیز ہیں یمنی ہادی شیخ یوسف دے میں قربان یا رب مشکل کریں آسان
شیخ یوسف دے میں قربان دے کی جگہ کے شیخ یوسف کے میں قربان ....... ابوالفرح طرطوسی قاری ابوالحسن علی ہنکاری ابوسعید مخدومی جان یا رب مشکل کریں آسان ابودمحم عبدالقادر غوث قطب سب در پر حاضر طالب جسدا کل جہان یا رب مشکل کریں آسان
طالب جسدا کل جہان دا کی جگہ کا طالب جسکا کل جہان ......... عبدالوہاب فضل الہی عبدالرحیم دی پشت پناہی سید وہاب رکھ حفظ امان یا رب مشکل کریں آسان عبدالرحیم دی پشت پناہی دی کی گہ کی عبدالرحیم کی پشت پناہی ......... حضرت یحیی رہبر کامل
جمال الدین ہیں ہر دم شامل نور الدین دے پیر۔۔۔۔۔۔۔ یا رب مشکل کریں آسان نور الدین دے پیر۔۔۔۔۔۔۔ دے کی جگہ کے نور الدین کے پیر۔۔۔۔۔۔۔ ....... تاج الدین نے زہد کمایا شرف الدین نے رہبر پایا دمحم یاسین ہیں فیض رسان یا رب مشکل کریں آسان سید طالح اہل حضور سید صالح نور النور
ہر دم میرا ورد زبان یا رب مشکل کریں آسان سید یحیی الحق جب آئے سید عثمان رہبر پائے سید عبدهللا دے پیر نوں جاوے یا رب مشکل کریں آسان سید عبدهللا دے پیر نوں جاوے دے کی جگہ کے اور نوں کی جگہ کوں رکھ دیں سید عبدهللا کے پیر کوں جاوے .........
سید غالم مصطفے جانو ہادی نام لیاں دل ہووے شادی
سید احمد ہیں اہل ۔۔۔۔۔۔ یا رب مشکل کریں آسان سید غالم مصطفے جانو ہادی جانو' جاننا کے لئے ہے تاہم سمجھو رکھ دیں۔ سید غالم مصطفےسمجھو ہادی ........ سید علی معظم قادر وچ حضوری ہر دم حاضر عارف فاضل کامل جان یا رب مشکل کریں آسان وچ حضوری ہر دم حاضر وچ کو میں بدل دیں حضوری میں ہر دم حاضر
......... حضرت قادر بخش کمال نظر و نظری کرن نہال دوئیں تھائیں روشن جان یا رب مشکل کریں آسان نظر و نظری کرن نہال کرن کو کریں کر دیں نظر و نظری کریں نہال ........ حضرت پیر غالم جیالنی قادر بخش نے ہوئے نورانی گڑھ شنکر وچ تخت مکان یا رب مشکل کریں آسان
گڑھ شنکر وچ تخت مکان وچ کو میں بدل دیں گڑھ شنکر میں تخت مکان ....... حضرت دے دو بھائی پیارے قادر بخش دے ہی دالرے عطا دمحم ہیں دربان یا رب مشکل کریں آسان حضرت دے دو بھائی پیارے قادر بخش دے ہی دالرے دے کی جگہ کے حضرت کے دو بھائی پیارے قادر بخش کے ہی دالرے
......... غالم غوث دے قربان بیٹے جس دے ست عیان هللا دتے ہو رحمان یا رب مشکل کریں آسان غالم غوث دے قربان بیٹے جس دے ست عیان دے کی جگہ کے غالم غوث کے قربان بیٹے جس کے ست عیان ........ لنگر رکھ دے ہر دم جاری وچ دربار رہے گلزاری
آئے سوالی خالی نہ جان یا رب مشکل کریں آسان لنگر رکھ دے ہر دم جاری وچ دربار رہے گلزاری .رکھ دے کی جگہ رکھتے اور وچ کی جگہ میں رکھ دیں لنگر رکھتے ہر دم جاری دربار میں رہے گلزاری ........ شجرہ شریف میں کہیا سارا مینوں بخشیں پروردگارا ہر دم تیرا شکر احسان یا رب مشکل کریں آسان مینوں بخشیں پروردگارا
مینوں کو مجھے کر دیں مجھے بخشیں پروردگارا ........ حضرت پیر غالم جیالنی مہر علی دے رہبر جانی ہر دم وسن وچ دھیان یا رب مشکل کریں آسان مہر علی دے رہبر جانی دے کی جگہ کے رکھ دیں مہر علی کے رہبر جانی ........ مہر علی ہے عاجز خاکی توں ساقیاں دا ہیں ساقی
شاہ جیالنی دے ایمان یا رب مشکل کریں آسان توں ساقیاں دا ہیں ساقی شاہ جیالنی دے ایمان تبدیلی تو ہے ساقیوں کا ساقی شاہ جیالنی کے ایمان ....... شجرہ شریف پڑھیں بھائی قلب تہاڈے دی ہو گی صفائی جو ہیں قادری خاندان یا رب مشکل کریں آسان قلب تہاڈے دی ہو گی صفائی
تہاڈے کو تہارے دی کی جگہ کی قلب تہارے کی ہو گی صفائی ..........
پڑھنے دا وقت صبح و شام پڑھ لیا جس پیتا جام پیر سوہنے دا ہے قربان یا رب مشکل کریں آسان پڑھنے دا وقت صبح و شام دا کی جگہ کا پڑھنے کا وقت صبح و شام پیر سوہنے دا ہے قربان دا کی جگہ کا پیر سوہنے کا ہے قربان
....... !محب مکرم حسنی صاحب :سالم مسنون سبحان هللا! آپ نے بہت کمال کی باتیں بیان کی ہیں اس مضمون میں۔ ایک طرف تو یہ ہمارے اسالف کے ورثے کی بازیافت ہے، نہایت لطیف،نہایت علم افروز اور نہایت قیمتی اور دوسری جانب الفاظ اور تراکیب کا وہ خزانہ ہے جو اب نایاب ہوتا جا رہا ہے بلکہ ہو گیا ہے۔ میں پنجابی کی بہت معمولی شد بد رکھتا ہوں۔ آپ کی تحریر سے معلوم ہوا کہ اردو اورپنجابی ایک دوسرے سے کتنی متاثر ہوئی ہیں۔ بیشتر پنجابی میری سمجھ میں آئی۔ایک آدھ ہی جگہ مشکل پیش آئی لیکن وہ آپ کی تشریح نے حل کر دی۔جزاک هللا خیرا۔ اپنی عنایات ایسے ہی قائم رکھئے۔ هللا آپ کو طویل عمر عطا فرمائے۔ رہ گیا راوی تو وہ بھی چین بولتا ہے۔ سرور عالم راز http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9786.0
ایک قدیم یاد گار بارہ امام
بچپن ہی سے' اپنی والدہ ماجدہ محترمہ سیدہ سردار بیگم دختر سید برکت علی سابقہ اقامتی ننگلی' امرتسر سے' میں صبح سویرے بارہ امام سنتا آ رہا تھا۔ ان میں سے پہلے تین' آج تک مجھے زبانی یاد تھے۔ جس مسودے سے وہ یہ پڑھتی تھیں' انتہائی بوسیدہ تھا۔ انیس سو ستاون یا اٹھاون میں' انہوں نے یہ کسی سے ایک پاکٹ ڈائری پر نقل کروایا۔ ناقل کوئی زیادہ پڑھا لکھا نہ تھا۔ چوں کہ انہیں یہ زبانی ازبر تھا' اس لیے لکھائی کے اچھا یا برا ہونے سے کوئی فرق نہ پڑا۔ اصل مسودہ انہوں نے ایک چھوٹے سے بکس میں محفوظ کر دیا ' جو ان کے مرحوم والد کی نشانی تھا ۔ میں جب ان کا انتقال پرمالل ہوا' تو بڑے بھائی صاحب 1996 مرحوم مکان سامان پر قابض ہو گئے' ان سے چھوٹی کے
حصہ میں جھاڑ پونچھ آ گیا۔ میں نے قیافہ سے' چھوٹی نصرت شگفتہ سے کہا ممکن ہے وہ بکس' جس میں مسودہ تھا' آپا کے ہاں سے مل جائے۔ آپا عمر رسیدہ ہونے کے سبب' حواس میں نہیں ہیں' اس لیے چھوٹی ہی کو' آپا کے گھر سے کوڑ کباڑ پھرولنا پڑا۔ بےچاری کو کچھ نہ مال۔ میں نے پھر ہمت بندھائی۔ میری درخواست پر دوبارہ سے سفر کی صعوبت اٹھا کر آپا کے گاؤں گئی اور ابا مرحوم کے کالم کا ایک رجسٹر تالشنے میں کامیاب ہو گئی اور یہ دفتر' اپنے پیار کے تحفے کے طور پر' اپنے بوڑھے بھائی کو بھجوا دیا۔ یقین مانیئے' اس کی کامیابی پر دل گلالب گالب اور آنکھیں کلی کلی ہو گئیں۔ وہ بےچاری کیا جانے' میری سوئی' اس مسودے اور پاکٹ ڈائری پر رکی ہوئی تھی۔ اسے پھر سے' کوشش کرنا پڑی۔ آخر اس نے پاکٹ ڈائری ڈھونڈ ہی نکالی۔ یہ وہاں سے ملی' جہاں اس کے ہونے کا گمان بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس کی حالت بڑی خستہ اور قابل رحم ہے۔ میں نے پوری توجہ سے اسے پڑھ کر یہاں درج کیا ہے۔ اپنی اصل میں یہ اردو میں ہے لیکن اس پر پنجابی کے گہرے اثرات ملتے ہیں۔ یہ کوئی ایسی نئی بات نہیں۔ قوافی میں ر کے ساتھ ڑ کے قوافی بھی ملتے ہیں
جب گوشہ پکڑا علی نے تو ہوئی کڑ کڑ .......... کیوں سٹاں فلک فرش تے زمین جائے سڑ .......... ر کے ساتھ بھاری آوازوں کے قوافی کا بھی استعمال ہوئے ہیں۔ ڑھ جب معراج ہوا امام کو تب سیس نیزے چڑھ گھ کوفی وڈے لعنتی پلید جھوٹا گھر بھ شریعت طریقت دا اوہ دیوے جام بھر ان مرکبات کو ایک نظر دیکھیئے' پرلطف ہی نہیں' فصحیح و بلیغ بھی ہیں۔
مکر زن' خوشی چین' سردار صادقین' صدق سیتی' نبی کے رتن' رب کا رفیق جھوٹا گھر' کہہ کر بہت بڑا عالقہ مراد لیا گیا ہے۔ کمال کا معنوی وسعت کے حوالہ سے' یہ مرکب ہے۔ مجھے اس کالم سے' دل چسپی تھی اور ہے۔ صدیوں پرانی بزرگوں کی نشانی ہے۔ اس میں پہلے امام میں' جو معلومات فراہم کی گئی ہیں' مروجہ تاریخی قصص سے' قطعی ہٹ کر ہیں' تاہم انہیں یہ کہہ کر رد کر دینا' کہ کسی شعیہ کا کہا ہے' مبنی برانصاف نہیں۔ ان سے ہٹ کر لوگ بھی کب ہل پر نہایت ہوئے ہیں۔ جدھر دیکھو 'سب عین غین صورت نظر آئے گی۔ پیٹ' ضد اور شاہ گماشتگی میں مصروف ہیں۔ خصوصا مولوی تو بےیقینا اور تقسیم کے دروازے کھولنے واال رہا ہے۔ اصحابہ کرام کی گلبرگہ وغیرہ میں آمد اور موجودگی کے آثار ملتے ہیں۔ قراتہ العین حیدر کے ہاں سادات کی لڑائیوں کا ذکر ملتا ہے۔ اسی طرح حضرت امیر معاویہ کے عہد میں 44ہجری میں بھی حملے کا سراغ ملتا ہے۔ قاضی نجیب کے ہاں منصورہ میں فاطمی حکومت کا بھی پتا ملتا ہے۔ ابن قاسم اسی کو نابود کرنے آیا
تھا۔ یہ ہی سچ اور یہ ہی حقیقت ہے۔ اب یہ نئی بات سامنے آئی .ہے اول کے امام موال علی صفدر جو ملک سندھ کافراں سب لیے زیر کر جب گوشہ پکڑا علی نے تو ہوئی کڑ کڑ تب نعرہ ہوا حیدری سب کافر گئے ڈر یا پیر مینوں عاجز دی مشکل آسان کر جب گوشہ پکڑا علی نے تو ہوئی کڑ کڑ یہ مصرع کھولتا ہے کہ امام علی یہاں خود تشریف الئے۔ خیبر تک آنے کا تو مروجہ تاریخ میں' واضح ثبوت ملتا ہے۔ اس مصرعے میں کہے گئے کو رد کرنا' باالشبہ زیادتی ہو گی۔ تاہم کوئی غیر مسلم یا پھر مورکھ نہیں' مورخ ہی کام کر سکے گا۔ اول کے امام موال علی صفدر
جو ملک سندھ کافراں سب لیے زیر کر جب گوشہ پکڑا علی نے تو ہوئی کڑ کڑ تب نعرہ ہوا حیدری سب کافر گئے ڈر یا پیر مینوں عاجز دی مشکل آسان کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسرے امام بیٹے علی کے حسن جو زہر آندی کافراں اور دی مکر زن جب حسن دیکھے زہر کو تقدیر لئی من کیوں سٹاں فلک فرش تے زمین جائے سڑ یا پیر مینوں عاجز دی مشکل آسان کر ....... تیسرے امام بیٹے علی کے حسین تقصیر کرو معاف پکاراں دن رین میں منگتا ہوں حسین کا دکھاؤ خوشی چین
جب معراج ہوا امام کو تب سیس نیزے چڑھ یا پیر مینوں عاجز دی مشکل آسان کر ....... چوتھے امام بیٹے سخی زین العابدین بیٹے ہیں حسین کے سید مرسلین جب زیر کیتے کوفیاں سردار صادقین کوفی وڈے لعنتی پلید جھوٹا گھر یا پیر مینوں عاجز دی مشکل آسان کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پانچویں امام تھے دمحم باقر ضرور امام منوں پانچواں وہ پاک ذاتی نور کلمہ کہو رسول کا سب کفر ہووے دور شریعت طریقت دا اوہ دیوے جام بھر یا پیر مینوں عاجز دی مشکل آسان کر
........ چھیویں امام جعفر صادق مذہب جن کا پاک والد جن کا دمحم باقر سردار عالی ذات تیجے اوتھے خود کرشن پھر حشر دے میدان ۔۔۔۔۔ تے یقین سوال اسے در یا پیر مینوں عاجز دی مشکل آسان کر ...... امام کاظم ساتویں صدق سیتی من کلمے سے دل پاک صاف ہوا تن سخی جعفر کے فرزند اور نبی کے رتن جو غیر کو امام کہے تو کاٹو اس کا سر یا پیر مینوں عاجز دی مشکل آسان کر ...... آٹھویں امام موسی علی رضا
رب دیا ہے لوالک اہل بیت نوں جو رب کی بات قربان قربان میں حسین تھیں جس کیا ہے صبر یا پیر مینوں عاجز دی مشکل آسان کر ....... نویں امام تقی نقی خدا کا امام منوں اس کو آل نبی اوالد مرتضے کا حیدر بنے ساقی کوثر وارث ہے شفا کا جو دشمن ہووے غیر تھیں چا کاٹو اس کا سر یا پیر مینوں عاجز دی مشکل آسان کر ....... دسویں امام توں قربان کراں سیس نقی امام نام جس کا وہ رب کا رفیق
منوں اس کو مومنوں یہ نبی کی حدیث کیا یہ رسول نے عزیز ممبر چڑھ یا پیر مینوں عاجز دی مشکل آسان کر ....... گیارویں امام حسن عسکری علیہ السالم تیری پشت پاک تم بخشو چا انعام ایتھے اوتھے مدد ہو پھر حشر کے میدان فقیر کا سوال بخشو دین ایمان زر یا پیر مینوں عاجز دی مشکل آسان کر ....... بارہویں امام کو رب دیا ہے زور مہدی نام اس کا نہیں ثانی اس کا ہور مارے گا دجال کو جب موزی پایا زور فتح ہے امام کو جب۔۔۔۔۔۔
یا پیر مینوں عاجز دی مشکل آسان کر
حضور کریم لملسو ہلص اور تخلیق کائنات
مرشدی قبلہ حضرت سید غالم حضور المعروف بابا جی شکرهللا ۔۔۔۔ پ 7091م7011۔۔۔۔۔ کے ذخیرہ کتب سے' جہاں مختلف موضوعات پر مجھ ناچیز کو کتب میسر آسکی ہیں' وہاں ان میں قلمی نسخے بھی ملے ہیں‘ جو انہیں‘ ان کے والد گرامی‘ یعنی مجھ فانی کے دادا جان‘ حضرت سید علی احمد ۔۔۔۔۔۔ م 7077۔۔۔۔۔۔۔ ولد سید عبدالرحمن اور ننھیال' جو ان کا سسرال بھی تھا' سے ورثہ میں ملے۔ حضرت سید علی احمد نوشہرہ' امرت سر کے رہائشی تھے۔ وہ عربی اور فارسی کے عالم فاضل تھے۔ ان کی دو بیویوں میں' چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں .سیدہ جنت بی بی سے' سید ملک'
سید فلک شیر اور سیدہ کرامت بی بی' جب کہ سیدہ گوہر بی بی سے سید غالم غنی' سید غالم حضوراور سیدہ زینب بی بی تھیں۔ سید ملک' سید فلک شیر اور سیدہ کرامت بی بی کا کچھ حال معلوم نہیں۔ مرشدی حضرت سید غالم حضور تادم مرگ' ان کی تالش میں رہے۔ راقم کو بھی' ان کا کچھ پتا نہیں چل سکا۔ ان کی آل اوالد سے مالقات کی خواہش' روز اول کی طرح' آج بھی اپنی پہلی سی شدت رکھتی ہے۔ حضرت سید علی احمد کی وفات کے وقت' زینب بی بی سات برس' سید غالم غنی چھے برس' جب کہ سید غالم حضور چار برس کے تھے .زمین پہانڈے والے تھے۔ دمحم اکبر فقیر' جو حضرت سید علی احمد کا خدمت گار تھا' نے دیکھ بھال کے بہانے' مائی گوہر بی بی ' زوجہ حضرت سید علی احمد ولد سید عبدالرحمن کو اعتماد میں لے لیا۔۔ دمحم اکبر فقیر کی بیوی کھیواں' دہلیز کے اندر' جب کہ دمحم اکبر فقیر گھر سے باہر کے امور انجام دینے لگا۔ مائی صاحب کے بچے چھوٹے تھے۔ انہوں نے دمحم اکبر فقیر پر اعتماد کیا۔ دمحم اکبر فقیر کی بیوی کھیواں سے' دو بیٹے' دمحم امین اور قائم علی کو بھی' بیٹوں کی طرح سمجھا۔ دمحم اکبر فقیر کی موت کے بعد' اس کے بڑے بیٹے دمحم امین نے انتظام
سمبھال لیا۔ بعد ازاں خود کو' حضرت سید علی احمد ولد سید عبدالرحمن کا وارث قرار دے کر' ہر چیز پر قبضہ جما لیا۔ خوش حال گھرانہ' دنوں میں مفلس ہو گیا۔ یہ ہی نہیں' دمحم امین اور قائم علی' بدسلوکی سے کام لینے لگے۔ وہ ہی' جنہیں اوالد کی طرح سمجھا اور گھر داخل ہونے کی اجازت دی' جان کے دشمن بن گیے۔ مائی صاحب کے منہ سے آہیں نکل نکل گئیں۔ دمحم امین کے ہاتھوں ایک قتل ہوا۔ جیلوں میں سڑا اور پھر' دماغی توازن کھو بیٹھا۔ سنگلوں سے باندھا گیا اوراسی حالت میں چل بسا۔ دمحم امین کے دونوں بیٹے والیوڑ نکلے' انہوں نے باپ کا ہتھیایا' سب اجاڑ دیا۔ دمحم خالق فقیر ہو گیا' جب کہ ووسرے نے' گاؤں میں چھوٹی موٹی پرچون کی دوکان ڈال لی۔ قائم علی کی بیٹی تاج' اپنی ماں رقیاں کے قدموں پر تھی۔ اس کی بدچلنی کے ہاتھوں مجبور ہو کر' اس نے چھت پر سے چھالنگ لگا کر' خودکشی کر لی۔ حرف بہ حرف اسی طرح ہوا' جس طرح سے مائی گوہر بی بی نے دم دیتے وقت کہا تھا۔ زمین کا مال زمین پر ہی رہ گیا۔ دمحم امین اور قائم علی دونوں' دنیا سے خالی ہاتھ چلے گیے۔ رقیاں کا عاشق سردار کرتار سنگھ' 7041کے ہنگاموں کی نذر ہو گیا۔ دمحم امین کے باپ کا ہڑپا ضائع ہو گیا' کچھ باقی نہ رہا۔
مرشدی حضرت سید غالم حضور کی شادی' ماموں زاد سیدہ سردار بیگم بنت سید برکت علی سے ہوئی۔ اس لیے دوسروں کی نسبت' ان کی ننھیال سے زیادہ قربت رہی۔ یہ گاؤں نگلی' امرت سر سے تعلق رکھتے تھے۔ سید گوہر علی اور سید برکت علی' دونوں بھائی علم دوست تھے۔ کھاتے پیٹے اور خوش حال لوگ تھے۔ دونوں بھائیوں کی' بتیس کھوہ زمین تھی۔ اوالد میں' دونوں کے پاس' صرف سیدہ سردار بیگم تھی۔ الڈ پیار سے پلی بڑھی۔ یہ گھرانہ اہل تشیع تھا۔ ان کے ہاں' مجلسیں ہوتی رہتی تھیں۔ کتابوں اور قلمی نسخوں کے' انبار لگے ہوئے تھے۔ مرشدی حضرت سید غالم حضور 7090یا 7097میں' سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر' قصور اٹھ آئے۔ محنت مزدوری پیشہ بنایا' بعد ازاں سرکاری مالزمت اختیار کر لی۔ لوگ دنیا کی اشیا ساتھ رکھتے ہیں' انہوں نے کتابوں اور کاغذوں کو سامان سفر و حیات بنایا۔ سید غالم غنی کو' کتابوں کاغذوں سے کوئی دل چسپی نہ تھی۔ مرشدی قبلہ حضرت سید غالم حضور کتابوں کے عاشق تھے انہوں نے' ان بوسیدہ کاغذوں کو سینے سے لگا لیا۔ 7011 میں' ان کا انتقال ہوا' تو مائی صاحب سردار بیگم نے' اپنے خاوند حضرت سید غالم حضور کا' یہ اثاثہ سینے سے لگا لیا۔
7001میں' وہ بھی چل بسیں۔ ان کا بڑا بیٹا' سید منظور حسین' جو ہمیشہ سے' عورتوں کا شوقین رہا تھا۔ خان دان کی عورت کو طالق دے کر' ایک نہیں' دو چلتی پھرتی عورتیں لے آیا تھا' مکان اور سامان پر قابض ہو گیا۔ اس سے چھوٹا' سید محبوب حسین اسی کا بگاڑا ہوا تھا' ردی سے دل چسپی نہ رکھتا تھا مکان اور سامان کے لیے بھاگا دوڑا لیکن شیر کے منہ سے' ایک لقمہ بھی نہ نکال سکا۔ پھر تھک ہار کر بیٹھ گیا۔ چوروں کو پڑے مور کے مصداق سید منظور حسین کے بڑے سے چھوٹے بیٹے' مطلوب حسین نے مکان پر قبضہ کر لیا۔ ذاتی مکان بھی زوجانی سازشوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ سید منظور حسین کو قضا نے لے لیا اور یہ ضرب المثل' چوروں کو پڑے مور' موروں کو پڑیں قضائیں' منزل مقصود کو پہنچا۔ مکان اب بھی مطلوب حسین کے قبضہ اور تصرف میں ہے۔ حضرت سید غالم حضور' اپنے سب سے چھوٹے بیٹے مقصود صفدر المعروف مقصود حسنی کو' کچھ چیزیں مرتے وقت دے گیے تھے۔ کچھ قبضے کے غدر کے دوران' دستیاب ہو گیئں' کچھ کوڑا سمجھ کر جال دی گیئں .صاف اور جاندار کتابیں اور کاغذ ردی چڑھ گیئں۔ اس طرح' بابا جی حضرت سید غالم حضور کا کالم اور ان کی آواز بھرے کیسٹ بھی ضائع ہو گیے۔ حضرت سید غالم حضور کی شاعری پر مشتمل رجسٹر وغیرہ باطور
نشانی' ان کی بڑی بیٹی فضال بیگم لے گئی۔ یہ چیزیں ان کے بیٹے شفقث رسول نے' اپنی دکان میں استعمال کر لیں۔ وقتی طور پر ان کے نصیب میں مٹھائی ہوئی اور پھر' سڑکوں پر گر' کر ہمیشہ کے لیے نابود ہو گئیں میرے پاس ان کا اپنا کالم رف بکھرے کاغذوں اور تین قصوں کی صورت میں موجود ہے۔ چوتھا قصہ دستیاب نہیں ہو رہا۔ کوشش میں ہوں ضرور کہیں ناکہیں سے مل جائے گا۔ قدیم کاغذات صاف ظاہر ہے 7077یا اس سے پہلے کے ہیں۔ کچھ پر سن اور تاریخ درج نہیں۔ یہاں تک کہ مصنف کا نام بھی درج نہیں۔ کچھ بہت پرانے ہیں اور بوسیدہ ہو چکے ہیں۔ یہ اردو پنجابی میں ہیں۔ ان میں سے ایک نہ اردو ہے اور نہ پنجابی ہے۔ اسے گالبی اردو یا گالبی پنجابی کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ کاغذ کی حالت اچھی نہیں تاہم نہیں بآسانی پڑھا جا سکتا ہے۔ اس کی عمر سو سال سے زیادہ ہے۔ مصنف کا کچھ پتا نہیں۔ یہ حضرت سید علی احمد کا ہینڈ راٹنگ بھی نہیں ہے۔ تحریر پر کوئی عنوان درج نہیں۔ مندرجات کے حوالہ سے' اسے۔۔۔۔۔ حضور کریم لملسو ہلص اور تخلیق کائنات۔۔۔۔۔ عنوان دیا جا سکتا ہے۔ اس مختصر سی تحریر کے لیے' مصنف نے گیارہ معروف' مستند اور متفق علیہ کتب مشکوتہ' قسطالنی' احمد' بزار'
طبرانی' حاکم' بیہقی' حافظ ابن حجر' ابن حبان رحمہم الرحمان' فتوحات مکیہ' کتاب التشریفات کی ورق گردانی کی ہے' اس سے مصنف کی علمی اہلیت کا' باخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مصنف نے' چند پنجابی کے لفظ تحریر میں داخل کرکے' پنجابی میں لکھنے کا غالبا تجربہ کیا ہے اور یہ تجربہ' کامیاب تجربہ نہیں ہے۔ دونوں زبانوں کا نحوی سیٹ اپ الگ تر ہے' لہجہ اور اسلوب مختلف ہیں۔ مصنف بھلے پنجابی رہا ہو گا' لیکن لکھنا اور بولنا قطعی الگ ہنر ہیں۔ تحریر بتاتی ہے' کہ اس کا لکھنے واال' بنیادی طور پر اردو میں لکھنے واال ہے۔ درج ذیل امور' تحریر میں نمایاں ہیں ساری تحریر ایک ہی پیرے میں ہے۔ نئے پیرے کے لیے 1- لفظ اور استعمال میں الیا گیا ہے۔ رموز کا استعمال نہیں کیا گیا۔ نئے پوائنٹ کے لیے اور' جب 2- کہ باقی کے لیے' محض سکتہ کا استعمال کیا گیا ہے۔ لفظ مال کر لکھے گیے ہیں۔ یہ ہی طور مستعمل تھا۔ 3- دو چشمی حے کے لیے' حے مقصورہ استعمال میں الئی 4-
گئی ہے۔ جس لفظ کے لیے' آج حے مقصورہ مستعمل ہے' اس کے 5- لیے' دو چشمی حے استعمال کی گئی ہے۔ نون غنہ کی جگہ' نون استعمال میں الئی گئی ہے۔ 6- تیار کو طیار لکھا جاتا تھا' اس تحریر میں بھی طیار ہی 7- لکھا گیا ہے ے کی بجائے ی استعمال کی گئی ہے۔ اس عہد میں یہ ہی 8- عمومی چلن تھا۔ ترمیمی متن اول ما خلق هللا نوری۔ مشکوتہ' قسطالنی '.احمد' بزار' طبرانی' حاکم' بیہقی' حافظ ابن حجر' ابن حبان رحمہم الرحمان :قال رسول هللا لملسو ہلص انی عندهللا مکتوب خاتم النبیین وان آدم لمنجدل فی طینتہ و ساخبرکم باول امری دعوتہ ابراھیم وبشارتہ عیسی ورؤیا امی
التی راءات حین وضعتنی وقدخرخرج لہا نورافاء لہامنہ قصور الشام اور حضرت موالنا وسیددنا محی الدین بن عربی اپنی کتاب فتوحات مکیہ کے 1باب کے خلقت کی پیدائش کے بیان میں :لکھتے ہیں ہین فاکان مبتدالعالم بائزہ و اول ظاھر فی وجود یعنی حضرت لملسو ہلص تمام جہان کا شروع اور وجود اغی پیدایش میں ظاہر اول ہیں۔ کتاب التشریفات میں حضرت ابوھریرہ رضی هللا تعالی عنہ سے مروی ہے' جو سرور کائنات صلےهللا علیہ وسلم نے حضرت جبرائیل سے پوچھا' عمر آپ کی کتنے برسوں کی ہے حضرت جبرائیل علیہ السالم نے عرض کیا :یا حبیب هللا لملسو ہلص مجھے برسوں کا حال کچھ معلوم نہیں اتنا حال معلوم ہے .جو چوتھی حجاب میں ایک ستارہ ستر ہزار برس سے ظاہر ہوتا ہے اور میں نے وہ ستارہ بہتر ہزار مرتبہ دیکھا ہے۔ فقال لملسو ہلص یا جبرائیل وعزت ربی انا ذلک النجم۔ اور آں حضرت لملسو ہلص کی اولیت یعنی سب پیدایش سے افضل ہوونا
اور اصل اصول سب مخلوقات کا قرار پاونا اور اولویت اعنی سب سے بہتر ہونا اور افضل ہونا بہت احادیث مبارکہ و آثار شریفہ سے ثابت ہے اور حاصل ان سب کا یہ ہی ہے جو هللا تبارک و تعالی نے آسمانان۔ زمینان اور عرش۔ کرسی۔ لوح۔ قلم۔ بہشت۔ دوزخ۔ فرشتے۔ جن اور بشر بلکہ تمام مخلوقات کی پیدایش سے پہلے کئی ہزار برس نور مظہر سرور آں حضرت لملسو ہلص کا پیدا فرمایا اور جہان کے میدان میں هللا جل شانہ اس نور مبارک کی تربیت فرما دی۔ کبھی اس کو سجود خشوع آمود سے مامور فرماتے اور کبھی تسبیح و تقدیس میں مشغول رکھتے۔ اور اس پاک نور کی رہایش کے واسطے بہت پردے بنائے۔ ہر پردے میں بہت مدت تک خاص تسبیح کے ساتھ مشغول فرمایا۔ تمام پردوں والی جب مدت گزر گئی تب اس نور مبارک نے باہر رونق افزا ہو کے سانس لینا شروع فرمایا۔ ان متبرک سانسوں سے فرشتے' ارواح انبیا واولیا وصدیقین وسائرمؤمنین کو پیدا فرمایا۔ اور اس جوہر نور سے عرش' کرسی' لوح' قلم' بہشت' دوژخ اور اصول مادی آسمان و زمین اور سورج' چند ستارے' دریا' پہاڑ وغیرہ پیدا فرمائے .پھر زمین اور آسمان کو پھیال کے سات سات طبقے بنائے اور ہر ایک طبقہ میں اک اک پیدایش کا
مقام مقرر فرمایا۔ اور دوسری روایت میں اس طرح آیا ہے' کہ جب اس نور مبارک الظہور نے سانس لینا شروع کیا۔ ان سانسوں سے' پیغبران علیہم الصحورت واال سلمہ من خالق البریہ اور اولیا' شہیدان' عارفان' عالمان' عابدان' زاھدان۔ اور عام مومنان کی ارواح پیدا ہوئے۔ پھر اس نور طاہر و طہور کو دس حصوں پر تقسیم فرمایا۔ اور دسویں حصہ سے' خدائے تبارک و تعالی نےاک جوہر بنایا' طول اور عرض جس کا اعنی لمبائی چوڑان' چار چار ہزار برس کا رستہ تھا .اس جوہر اعلے گوہر میں' رحمت کی اک نظر فرمائی۔ بسبب حیا' وہ جوہر مبارک کانپا اور ادھا پانی بن گیا اور ادھا اگ ہو گیا۔ اس پانی سے' دریا پیدا ہوئے اور ان دریاوں کی ٹھاٹھیں شروع ہو گئیں اور ان کی حرکت اور ھلنے کے سبب سے' ہوایں چلنا شروع ہو گئیں اور ان ہواو ں خلو اغی جگہیں مقرر ہوئیں اور زمین سے آسمان کی طرف' بارہ کوہان تک' ہوا کا مقام ہے اور اس اوپر زمہریر' دریا وغیرھما اور قریب آسمان کے' اگ کا کرہ موجود ہے اور پھر اگ کو پانی پر' غالب فرمایا اور پانی نے اگ کی گرمی کے سبب' جب جوش کھایا' تو اسی ( سے( جھاگ پیدا ہو گئی اور اس جھاگ سے زمین بنائی گئی'
پھر اس جھاگ سے جو بخارات پیدا ہوئے' ان سے اصل مادہ آسمان کا بنا اور موجوں کے سمٹ جانے کے سبب 'پہاڑ پیدا ہوئے۔ زمین از تب لرزہ آمدہ۔۔۔۔۔۔۔۔ فرو کوفت بردانش میخ کوہ۔۔۔۔۔۔ زمین پر پانی کھڑا ہونے کے سبب' ہر وقت ہلتی تھی .هللا تبارک وتعالی نے اس کی بےقراری دور کرنے کے واسطے' ان ٹھاٹھوں اور سمٹاو سے' پہاڑ پیدا فرما کے زمین پر قائم فرمائے اور اک بجلی پہاڑوں میں پہنچی' اسے معادن یعنی کھانا پیدا ہوا اور جب لوہا پتھر سے ٹکرایا' اس سے چنگاڑی پیدا ہو کے' اگ ابل اٹھی اور اس اگ سے' دوزخ کا مادہ طیارہوا۔ بعد ازاں' زمین کو پھیالیا۔ واالرض بعد ذلک دجہہا تا کہ حیوانات' وحشی جانور اور درندے اور چوپائے' اس میں مقام کریں۔ پھر زمین کے سات طبقے بنائے اور ہر طبقے میں' الگ الگ مخلوقات کے مقام ٹھرائے اور اگ کے شعلوں سے' جنوں کو بنایا اور زمین پر ان کو مسلط فرمایا۔
بہشت کو' ستاویں آسمان پر بلندی بخشی اور دوزخ ستاویں زمین کے تلے' قائم فرمائی اور جن کی روشنی کے واسطے سورج' چاند اور ستارے چمکائے۔ فوائد نجوم۔ نور اور ظلمت کے مادوں سے' دن اور رات' پھر تمام پیدایش اور مخلوقات کو اپنے حبیب قریب پر قربان فرمایا۔ وافدیت لکی علیک یا دمحم صلے هللا علیہ وسلم ترمیمی الفاظ اور حروف سانس' کانپا' ساتھ جب' تب' کبھی میں' پر' اور ان' جس' وہ کا' کے' کی' کو تھا' گئیں تے' تی ئیں' وں' یا' یں
ا' تھ' ں' و' ہ' ے تحریر کا اصل متن اول ما خلق هللا نوری۔ مشکوتہ .قسطالنی .احمد .بزار۔ طبرانی۔ حاکم۔ بیہقی۔ حافظ ابن حجر۔ ابن حبان رحمہم الرحمان قال رسول هللا لملسو ہلص انی عندهللا مکتوب خاتم النبیین وان آدم لمنجدل فی طینتہ و ساخبرکم باول امری دعوتہ ابراھیم وبشارتہ عیسی ورؤیا امی التی راءات حین وضعتنی وقدخرخرج لہا نورافاء لہامنہ قصور الشام اور حضرت موالنا وسیددنا محی الدین بن عربی اپنی کتاب فتوحات مکیہ دی 1باب وچ خلقت دی پیدائش دی بیان وچ لکہدے ہین فاکان مبتدالعالم بائزہ و اول ظاھر فی وجود یعنی حضرت لملسو ہلص تمام جہان دا شروع اور وجود اغی پیدایش وچ ظاہر اول ہیں۔ کتاب التشریفات وچ حضرت ابوھریرہ رضی هللا تعالی عنہ سے مروی ہے جو سرور کائنات صلےهللا علیہ وسلم نے حضرت جبرائیل سے پوچھیا عمر تہاڈی کتنے برسان دی ہے حضرت جبرائیل علیہ السالم نے عرض کیتا یا حبیب هللا لملسو ہلص مینوں برساندا حال کچھ معلوم نہیں اتنا حال معلوم ہے جو چوتہی حجاب وچ ایک ستارہ ستر ہزار برس توں پچھے ظاہر ہوندا ہے اور مینی اوہ ستارہ بہتر ہزار مرتبہ دیکہیا ہے۔ فقال لملسو ہلص یا جبرائیل وعزت ربی انا ذلک النجم۔۔۔۔۔۔۔۔اور آن حضرت لملسو ہلص
دی اولیت یعنی سب پیدایش سے افضل ہوونا اور اصل اصول سب مخلوقات دا قرار پاونا اتے اولویت اعنی سب سے بہتر ہونا اور افضل ہونا بہت احادیث مبارکہ و آثار شریفہ سے ثابت ہےاور حاصل انہاں سبناندا ایہو ہے جو هللا تبارک و تعالی نے آسمانان۔ زمینان اور عرش۔ کرسی۔ لوح۔ قلم۔ بہشت۔ دوزخ۔ فرشتے۔ جن اور بشر بلکہ تمام مخلوقات دی پیدایش سے پہلے کئی ہزار برس نور مظہر سرور آن حضرت لملسو ہلص دا پیدا فرمایا اور جہان دے میدان وچ هللا جل شانہ اس نور مبارک دی تربیت فرماندی۔ کدے اس نو سجود خشوع آمود سے مامور فرماندی اور کدے تسبیح و تقدیس وچ مشغول رکھدی۔ اور اس پاک نور دی رہایش دے واسطے بہت پردے بنائے۔ ہر پردے وچ بہت مدت تک خاص تسبیح دے نال مشغول فرمایا۔۔۔تمام پردیان والی جد مدت گزر گئی تد اس نور مبارک نے باہر رونق افزا ہو کے سانہہ لینا شروع فرمایا۔ انہاں متبرک سانہان وچوں فرشتے۔ ارواح انبیا واولیا۔ وصدیقین وسائرمؤمنین نو پیدا فرمایا۔ اور اس جوہر نور سے عرش۔ کرسی۔ لوح۔ قلم۔ بہشت۔ دوژخ اور اصول مادی آسمان وزمین اور سورج۔ چند ستارے۔ دریا۔ پہاڑ وغیرہ پیدا فرمائے پھر زمین اور آسمان نو پھیال کے ست ست طبقے بنائے اور ہر ایک طبقہ وچ اک اک پیدایش دا مقام مقرر فرمایا۔۔۔۔ اور دوسری روایت وچ اس طرح آیا ہے کہ جد اس نور مبارک الظہور نے سانس لینا شروع لینا شروع کیتا۔ انہان سانہان وچوں پیغبران علیہم الصحورت واال سلمہ من خالق البریہ
اور اولیا۔ شہیدان عارفان۔ عالمان۔ عابدان۔ زاھدان۔ اور عام مومنان دی ارواح پیدا ہوئے۔ پھر اس نور طاہر و طہور نو دس حصیاں پر تقسیم فرمایا۔ اور دسوین حصہ سے خدائے تبارک و تعالی نےاک جوہر بنا طول اور عرض جسدا اعنی لمبائی چوڑان چار چار ہزار برس دا رستہ سی اس جوھر اعلے گوھر وچ رحمت دی اک نظر فرمائی۔ بسبب حیا اہ جوھر مبارک کمبیا اور ادھا پانی بن گیا اور ادھا اگ ہو گیا۔ اس پانی سے دریا پیدا ہوئے اور انہان دریاوان دیان ٹھاٹھان شروع ہویاں اور انہاں دی حرکت اور ھلنے دے سبب سے ہواوان چلنیا شروع ہویان اور انہاں ہواون خلو اغی جگہان مقرر ہویاں اور زمین سے آسمان دی طرف باران کوہان تک ہوا دا مقام ہے اور اس اوپر زمہریر۔ دریا وغیرھما اور قریب آسمان دے اگ دا کرہ موجود ہے اورپھر اگ نو پانی پر غالب فرمایا اور پانی نے اگ دی گرمی دے سبب جد جوش کھادا تو اسی ( سے( جھگ پیدا ہو گئی اور اس جھگ سے زمین بنائی گئی پھر اس جھگ سے جو بخارات پیدا ہوئے انہان سے اصل مادہ آسمان دا بنیا اور موجان دے سمٹ جاندے سببوں پہاڑ پیدا ہوئے۔ زمین از تب لرزہ آمدہ۔۔۔۔۔۔۔۔ فرو کوفت بردانش میخ کوہ۔۔۔۔۔۔ زمین پرپانی کھڑا ہوندے سبب ہر وقت ھلدی سی هللا تبارک وتعالی نے اسدی بےقراری دور کرن واسطے انہان ٹھاٹھاندی اور سمٹاو سے پہاڑ پیدافرما کے زمین پر قائم فرمائے اور اک بجلی پہاڑان وچ پہنچی اسے معادن یعنی کھانا پیدا ہویان اور جد لوہا پتھر سے ٹکرایا اس سے
چنگاڑی پیدا ہو کے اگ ابل اٹھی اور اس اگ سے دوزخ کا مادہ طیارہوا۔ بعد ازاں زمین نو پھیالیا۔ واالرض بعد ذلک دجہہا تا کہ حیوانات۔ وحشی جانور اور درندے اتے چوپائے اس وچ مقام کرن۔ پھر زمین دے ست طبقے بنائےاتے ہرطبقے وچ الگ الگ مخلوقات مقام ٹھرائےاور اگ دے شعلیان سے جنان نو بنایا اور زمین پر اہنان نو مسلط فرمایا۔ بہشت ستوین آسمان تے بلندی بخشی اور دوزخ ستوین زمین دے تلے قائم فرمائی اور جہان دی روشنی دے واسطے سورج۔ چند اور ستارے چمکائے۔ فوائد نجوم۔ نور اور ظلمت دے مادیاں سے دن اور رات پھر تمام پیدایش اتے مخلوقات نو اپنے حبیب قریب پر قربان فرمایا۔ وافدیت لکی علیک یا دمحم صلے هللا علیہ وسلم آخری بات اگر هللا نے توفیق عطا فرمائی' تو دیگر قدیم و نایاب تحریریں بھی پیش کروں گا۔ یہ تحریریں بالشبہ اردو کا سرمایہ ہیں۔
میں ناہیں سبھ توں۔۔۔۔۔۔۔چند معروضات
‘میں ناہیں سبھ توں فقرا کی زندگی کا پہال اور آخری اصول ہوتا ہے۔ جو فقیر اس نظریے پر‘ فکری‘ قلبی اور عملی سطح پر قائم رہتا ہے‘ وہ ہی صالحین کی صف میں کھڑا ہوتا ہے۔ عموما بلکہ اکثر‘ اختالف اس کی تعبیر و تشریح پر ہوتا ہے۔ کچھ کا کہنا ہے‘کہ یہ نظریہ‘ ترک دنیا کی طرف لے جاتا ہے۔ ترک دنیا کے رویے کو‘ کسی طرح مستحسن قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دوسرے لفظوں میں‘ یہ ذمہ داریوں سے فرار کے مترادف ہے۔ ایک طبقہ اسے الحاد کی طرف بڑھنے کا رستہ سمجھتا ہے۔ کچھ کہتے ہیں‘ اس کے نتیجہ میں‘ ایک سطح پر جا کر‘ خدائی کا دعوی سامنے آتا ہے۔ اس کے عالوہ بھی‘ اس نظریے کی تشریحات کی جاتی ہیں۔ جو
اس ذیل میں تشریحات سامنے آتی ہیں‘ ان کا حقیقت سے‘ دور کا بھی تعلق واسطہ نہیں۔ عجز اور انکساری شخص کو بے وجود نہیں کرتی۔ اگر وہ بےوجود ہوتا ہے‘ تو دنیا‘ زندگی اور زندگی کے متعلقات سے‘ رشتہ ہی ختم ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف شخصی حاجات‘ اپنی جگہ پراستحقام رکھتی ہیں۔ پاخانہ اور پیشاب کی حاجت پر‘ کیسے قابو پایا جا سکتا ہے۔ سانس آئے گا‘ تو ہی زندگی کی سانسیں برقرار رہ پائیں گی۔ لہذا ذات کا تیاگ‘ ممکن ہی نہیں‘ بلکہ یہ فطری امر ہے۔ فطری امر سے انکار‘ سورج کو مغرب سے‘ طلوع کرنے کے مترادف ہے۔ ‘میں ناہیں سبھ توں درحقیقت انبیا کا طور ہے۔ نبی اپنی طرف سے‘ کچھ نہیں کرتا اور ناہی‘ اپنی مرضی کا کلمہ‘ منہ سے نکالتا ہے‘ کیوں کہ اس کا کہا‘ اور کیا‘ زندگی کا طور اور حوالہ ٹھہرتا ہے۔ نبی کا رستہ موجود ہوتا ہے‘ فقیر ہر حالت میں‘ اس رستے پر چلتا ہے۔ اس رستے پر چلنا‘ هللا کے حکم کی اطاعت کرنا ہے۔ جہاں اپنا حکم نافذ کرنے خواہش جاگتی ہے‘ وہاں شرک کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ گویا هللا کے سوا‘ کسی اور کا بھی حکم چلتا ہے۔ شخصی
حکم میں۔۔۔۔۔۔۔ توں نہیں سبھ میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واضح طور موجود ہوتی ہے‘ اور یہ ہی ناانصافی اور ظلم ہے۔ آدمی کوئی بھی‘ اور کسی بھی سطح کا ہو‘ هللا کے قانون سے باہر جانے کا‘ استحقاق نہیں رکھتا۔ قانون کے معاملے میں استثنائی صورت موجود ہی نہیں ہوتی۔ استثنائی صورت نکالنا‘ شرک ہے۔ فقیر هللا کے قانون کے معاملے میں‘ کیوں کیسے یا اس طور کی خرافات کے بارے میں‘ سوچنا بھی‘ جرم عظیم یا دوسرے لفطوں میں‘ گناہ کبیرہ سمجھتا ہے۔ جو هللا نے کہہ دیا‘ وہی درست ہے‘ اس کے سوا‘ کچھ بھی درست نہیں۔ ہر تخلیق کار کو‘ اپنی تخلیق سے پیار ہوتا ہے۔ هللا بھی اپنی مخلوق سے‘ بےگانہ اور التعلق نہیں۔ جو بھی‘ اس کی مخلوق سے پیار کرتا ہے‘ احسان کرتا ہے‘ اس کے لیے بہتری سوچتا ہے‘ انصاف کرتا ہے‘ گویا وہ هللا کی محبت کا دم بھرتا ہے۔ فقیر‘ هللا کی رضا اور خوشنودی کے لیے‘ هللا کی مخلوق پر احسان کرتا ہے۔ وہ اپنے منہ کا لقمہ‘ هللا کی مخلوق کے‘ حوالے کرکے خوشی محسوس کرتا ہے۔ هللا کی مخلوق کی سیری‘ دراصل اس کی اپنی سیری ہوتی ہے۔ مخلوق کی خیر اور بھالئی‘ اس کی زندگی کا اصول اور مشن ہوتا ہے۔ اپنا خیال رکھیے‘ کیا ہوا‘ یہ تو کھلی خودغرضی ہوئی۔ اس کے نزدیک سب کا خیال رکھو‘ یہ سنت هللا ہے‘ تمہارا خیال رکھنے کے
لیے‘ هللا ہی کافی ہے۔ فقیر یہاں بھی‘ میں ناہیں سبھ توں کو‘ اپالئی کرتا ہے۔ اسے کسی مادی شے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسے هللا کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سب‘ اپنی ذات کی نفی کے بغیر‘ ممکن نہیں۔ جب عقیدہ میں ناہیں سبھ توں‘ سے دوری اختیار کرے گا تو هللا پر ایمان سے دور ہو جائے گا۔ اپنی ذات کو مقدم رکھے گا۔ بانٹ میں خیانت کرے گا۔ وسائل پر قابض ہونے کو زندگی کا مقصد ٹھہرائے گا۔ درج باال معروضات کے حوالہ سے‘ ذات کا تیاگ ممکن نہیں۔ یہ وتیرہ‘ اہل جاہ اور اہل ثروت کو کس طرح خوش آ سکتا ہے۔ حق اور انصاف کی باتیں‘ اور هللا کے حکم کے خالف انجام پانے والے امور پر تنقید اور برآت‘ کسی بادشاہ یا اہل ثروت کو‘ کس طرح خوش آ سکتی ہے۔ صاف ظاہر ہے‘ ایسے لوگوں کو ظاہر پالیا جائے گا۔ بادشاہ یا اہل ثروت بھول جاتے ہیں‘ کہ میں ناہیں سب توں‘ کے حامل مر نہیں سکتے۔ دوسرا وہ پہلے ہی کب ہوتے ہیں۔ موت تو ہونے کو آتی ہے۔ میں کو موت آتی ہے‘ تو کے لیے موت نہیں۔ میں مخلوق ہے‘ تو مخلوق نہیں۔
بابا جی شکرهللا پیر فقیر درویش صوفی لوگ بھی‘ بڑے ہی عجیب اور پراسرار قسم کے ہوتے ہیں۔ انہیں سمجھنا آسان کام نہیں ہوتا۔ ان کا ہر کام‘ عموم اور مروجہ سماجی رویات سے‘ ہٹ کر یا قطعی برعکس ہوتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے‘ کہ یہ لوگ معاشی غیرآسودگی کو ایک طرف رکھیے‘ یہ کوئی بڑی بات نہیں‘ یہ تو کم زور طبقوں کا مقدر رہی ہے‘ یہ لوگ تو اپنی برعکس کرنی کے سبب‘ کانٹوں پر زندگی کرتے آئے ہیں۔ یہ زندگی سماجی وسیاسی جبر کا نتیجہ نہیں ہوتی ہے‘ بلکہ ان کی خود سے‘ اختیار کی ہوئی ہوتی ہے۔ گویا یہ ان کی اپنی ذات کے جبر کا‘ ثمرہ ہوتی ہے۔ اب دیکھیے‘ جو بھی اہل ثروت اور اہل جاہ کی بدمعاشیوں اور بدکاریوں کو‘ طاقت کا استحاق سمجھتے ہوئے‘ تحسین کرتے
ہوئے ان کے قدم لیتے رہے ہیں‘ ناصرف تمغوں‘ ایواڑوں اور خطابات سے نوازے جاتے رہے ہیں بلکہ ان کی گھتلی‘ منہ تک لبریز رہی ہے۔ سرکار انہیں‘ جائیدیں اور مراعات سے نوازتی رہی ہے۔ معیار زندگی کی سربلندی کے ساتھ ساتھ‘ عوامی سطح پر‘ انہیں عزت و توقیر ملی ہے۔ بےشمار جی حضرریے میسر آئے ہیں۔ سالموں اور پرناموں کی کوئی تھوڑ نہیں رہی‘ حاالں کہ ان جی حضرریوں کو محض ہڈی پر ٹرخایا جاتا رہا ہے۔ بعض اوقات‘ یہ ہڈی بھی انہیں ترسا ترسا کر دی جاتی رہی ہے۔ اپنی زبان کے لہو کو ہی‘ انہوں نے سووگی طعام شرین سمجھا ہے۔ اس کے برعکس‘ ان درویشوں کو دیکھیے‘ وہ اہل ثروت کے ہر الٹے چالے پر‘ انگلی رکھتےآئے ہیں۔ پہلوں کے انجام سے‘ انہوں نے کبھی بھی عبرت نہیں پکڑی۔ حاالت کی ناگواری اور طاقت کے بگڑے تیور‘ ان کی راہیں بدل نہیں سکے ہیں۔ وہ‘ وہ ہی کرتے رہے ہیں‘ جو ان سے پہلوں نے کیا۔ ہر درویش کو طاقت وارننگ دیتی رہی ہے۔ حرام ہے‘ جو انہوں نے کبھی کسی واننگ کو کوئی حیثیت دی ہو۔ طاقت کی اپنی مجبوری ہوتی ہے‘ آخر وہ کہاں اور کس حد تک‘ برداشت سے کام لے۔ برداشت اور درگزر یا لحاظ اور مروت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ ایکشن میں نہ آنے کی صورت میں‘ بغاوت رہ پکڑ سکتی ہے۔ لوگ درویشوں کے کہے میں آ کر‘ طاقت کا جینا حرام کرسکتے ہیں۔
ریاستی امن وسکون تباہ ہو سکتا ہے۔ سید غالم حضورالمعروف بابا شکر هللا بھی‘ عجیب عادت اور مزاج کے مالک تھے۔ لوگ کسی کو حضرت کا سالم کہہ کر یا سالم کا جواب دے کر‘ اپنی جانب سے‘ عظیم کرم فرمائی سمجھتے ہیں۔ چھوٹی بڑی رقم‘ کوئی استعمال یا خوردنی چیز عنایت کر دینا‘ تو بڑی دور اور مشکل کی بات ہے۔ یہ حاتم کی قبر پر الت مرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ وصول کنندہ‘ گویا ان کا کانا ہو جاتا ہے۔ سالم کہتے رہنا‘ ان کی کوئی ناکوی مشقت اٹھانا‘ گاہے لوگوں میں‘ ان کی دریا دلی کے چرچا کرنا اور وقتا فوقتا احسان مندی کا اظہار کرنا‘ ان کے فرض منصبی میں داخل ہو جاتا ہے۔ بابا شکر هللا بڑے عجیب تھے۔ ان کا موقف تھا‘ کسی کو کچھ دے کر‘ یاد رکھنا بھی درست نہیں‘ بلکہ هللا اور لینے والے کا‘ شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ هللا کا شکر اس لیے کہ اس نے‘ تمہیں حاجت مند کی حاجب پوری کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور سائل کو تمہاری طرف پھیرا۔ حاجت مند کا اس لیے کہ اس نے‘ تمہیں حاجت پوری کرنے کےاہل سمھجا۔ اوالد تو اوالد‘ سائل بھی‘ بابا جی کی ہتھیلی پر سےاٹھاتے اور اسے‘ هللا کا شکر ادا کرنے کی تاکید کرتے۔ بابا جی امیر آدمی نہ تھے تاہم سائل کی حاجت پوری کرنے میں‘ کسی عذر بہانے
:سے کام نہ لیتے تھے۔ ایک بار کسی نے کہا بابا جی! دینے والے کا تو ہاتھ اوپر ہوتا ہے‘ اس لیے آپ سائل کی ہتھیلی پر کیوں نہیں رکھتے‘ بلکہ لینے واال‘ آپ کی ہتھیلی پر سے اٹھاتا ہے۔ آپ کے ہاں یہ معاملہ الٹ کیوں ہے۔ بھائی‘ میں دینے واال کون ہوتا ہوں‘ میرا تو ابنی سانسوں پر اختیار نہیں۔ مالک کے دیے میں سے دیتا ہوں‘ کون سا احسان کرتا ہوں۔ سائل کو مالک نے بھیجا ہوتا ہے‘ بھیجنے واال مالک ہے‘ اس لیے سائل کا ہاتھ کیوں نیچے ہو۔ مالک بھیجتا ہے‘ کیا ‘مالک کے بھیجے کا ہاتھ نیچے ہونا چاہیے ایک بار ایک صاحب تشریف الئے‘ کچھ کہنا چاہتے تھے‘ لیکن کہہ نہیں پا رہے تھے۔ بابا شکرهللا نے‘ انہیں کہا آپ بیٹھیں‘ میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔ بابا جی اندر چلے گیے۔ کچھ دیر بعد واپس آ گیے اور انہیں بیٹھک سے باہر آنے کا اشارہ کیا۔ انہیں باہر ہی سے فارغ کر دیا اور پھر‘ ہمارے پاس آ کر بیٹھ گیے۔ ذکر تک نہ کیا‘ کہ آنے واال حاجت مند تھا اور انہوں نے اس کی کس طرح مدد کی۔ اس انداز سے‘ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو‘ بات وہیں سے شروع کر دی‘ جہاں سے چھوڑی تھی۔ ایک مرتبہ ان کے ایک ملنے والےآئے‘ بال سالم دعا برس ہی
پڑے۔ وہ صاحب بولتے رہے‘ ان کے گرجنے برسنے کے دوران‘ بابا جی شرمندہ سی مسکراہٹ کی خوش بو پھیالتے :رہے۔ جب وہ بول چکے‘ تو بابا جی نے فرمایا بھائی میں نبی نہیں جو مجھ پر وحی آ جاتی کہ آپ کسی مسلے سے دوچار ہیں۔ اس شخص نے کہا‘ آپ سید پاک ہیں آپ کو لوگوں کے دکھ سکھ سے آگاہی رکھنی چاہیے۔ فرمانے لگے‘ ہاں یہ درست ہے۔ پھر ان کی آنکھوں سے اشکوں کا راوی ہہنے لگا۔ فرمانے لگے بھائی‘ بھائی ان کا تکیہءکالم تھا‘ میں تو سنا سنایا سید ہوں۔ سید تو حسین ابن علی تھے‘ جنہوں نے نانا کی امت کے لیے‘ اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ ایک مرتبہ ایک سائل آیا۔ بابا جی نے اس کی طرف دیکھا اور پھر‘ ایک بچے کے ہاتھ ایک سکہ بھجوا دیا۔ کسی نے پوچھا: بابا جی یہ کیا۔ انہوں نے فرمایا :یہ مالک کا بھیجا ہوا نہیں تھا۔ یہ مالک کا ناشکرا تھا۔ سب کچھ پلے ہوتے ہوئے بھی‘ ہر کسی کے سامنے‘ دست سوال کرکے اپنے ضمیر کا قتل کرتا پھر رہا تھا۔ کسی نے سوال کیا :حضور پھر آپ نے بچے کے ہاتھ سکہ کیوں بجھوایا۔
کہنے لگے :وہ میرے دروازے پر چل کر آیا تھا‘ میں اسے خالی کیسے بھیج سکتا تھا۔ اس کا عمل اس کے ساتھ ہے اور میرا میرے ساتھ ہے۔ ایک بار ایک بڑے معزز سے شخص آئے اور دعا فرمانے کے لیے کہہ دیا۔ بابا جی نے اچھا خاصا لیکچر پال دیا۔ بابا جی ماسٹر کریم الدین ہی لگ رہے تھے۔ان کے لیکچر میں بال کی روانی گرمی اور جوش و خروش تھی۔ رومی‘ سعدی‘ حافظ‘ بلھے شاہ‘ شاہ حسین الہوری وغیرہ ایک ہی نشت میں بیٹھا دیے۔ اس نے بابا جی کے پلے سے کچھ نہ مانگا تھا‘ محض دعا کے لیے ہی تو کہا تھا۔ ضرورت‘ ضروری ہو یا اختیاری ہو‘ ضرورت ہوتی ہے۔ بابا جی کی باتوں سے ایک بات ضرور واضح تھی کہ جس چیز کے بغیر کام چل سکتا ہو یا وہ اضافی نوعیت کی ہو‘ اس کے لیے بےچین ہونا یا دو نمبری رستہ اختیار کرنا‘ درست نہیں۔ ہم سائے میں‘ کوئی نئے ماڈل کی چیز آ گئی ہےاورآپ کے ہاں پرانے ماڈل کی ہے‘ اس سے کیا فرق پڑتا ہے‘ کام تو چل رہا ہے۔ کسی عزیز نے گاڑی لے لی ہے تو یہ خوشی کی بات ہے‘ آپ خواہ مخواہ پریشان ہوتے ہیں۔ ناک کے لیے گاڑی کے حصول کے لیے بھاگ دوڑ کرنا‘ کہاں کی دانش مندی ہے۔ اگر
کام چل رہا ہے اور کوئی دقت محسوس نہیں ہو رہی‘ تو بس ٹھیک ہے۔ مہندی گانے پر پہنے گیے ملبوسات‘ شادی اور ولیمے میں‘ پہن لینے میں کون سی قباحت ہے۔ مرگ پر آدمی پرسا دینے جاتا‘ وہاں کے لیے بن ٹھن کی‘ آخر کیا ضرورت ہے۔ بابا جی کی تمام باتیں سولہ آنے ٹھیک تھیں مگر کیا جائے‘ زندگی کا چلن یی ایسا ہو گیا ہے‘ کیا کریں۔ زندگی کی موجودہ روش کے مطابق‘ چلنا پڑتا ہے۔ بابا جی درویش تھے‘ ان کا تو گزارہ ہو سکتا تھا‘ ساری دنیا درویش نہیں۔
اردو کے داستانی ادب میں ایک اہم اضافہ ‘قصہءآدم میرے والد محترم قبلہ سید غالم حضور المعروف بابا شکرهللا‘ کتاب دوستی میں اپنی مثال آپ تھے۔ ان کے ذخیرہء کتب میں‘ جہاں مطبوعہ کتب تھیں‘ وہاں ان کے بڑوں کے ہاتھ سے لکھے‘ قلمی نسخے بھی تھے۔ وہ یہ سب‘ جان سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ ان کے انتقال پرمالل کے بعد‘ یہ سب حاالت زمانہ
کا شکار ہو گیا۔ میرے ہاتھ بس دوایک ڈبے لگے۔ اب عمر کے آخری ایام میں‘ مجھے اس سرمائے کو محفوظ کرنے کا خیال آیا۔ کیوں آیا‘ یہ الگ سے کہانی ہے۔ اگر زندگی نے مہلت دی‘ تو یہ سب انٹرنیٹ پر رکھنے کی سعی کروں گا ورنہ ردی چڑھ جائے گا یا ڈاکٹر مس کال جیسے شخص کے ہاتھ لگ جائے گا‘ جو میرے ہی گھر والوں سے‘ رقم بٹور‘ کر اپنے نام سے چھاپ لے گا۔ اردو‘ پنجابی قلمی نسخےاور میرا لکھا اس کے تصرف میں آ سکے گا‘ لیکن سیکزوں سال پرانے پرانے فارسی نسخوں کا کیا بنے گا۔ خیر جو ہو گا‘ بہتر ہی ہو گا۔ زندہ رہا تو ضرور کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش کروں گا۔ مجھے میری جہالت نے ہیشہ خوار کیا ہے۔ اہل قلم کو‘ جہالت کے سبب‘ میری بےپسی سے سبق لینا چاہیے۔ انہیں حال میں موجود کو‘ اسی طرح کسی منفی یا ذات سے جڑی غرض کو باالئے طاق رکھ کر‘ مستقبل کو منتقل کر دینا چاہیے۔ دیر بعد سہی میں نے آغاز کر تو دیا ہے۔ اردو کے داستانی ادب میں‘ فورٹ ولیم کالج کی داستانیں‘ زیادہ تر ریکارڈ میں آئی ہیں۔ بیرون میں رجب علی بیگ سرور کی داستان کو شمار میں رکھا گیا ہے۔ بابائے اردو نے مال وجہی کی نثری داستان‘ سب رس کو داستانی ادب کا حصہ بنایا ہے۔ یہ اردو میں ہے یا نہیں‘ قطعی الگ سے بحث ہے۔ سرکاری
کارخانوں سے ہٹ کر بھی کام ہوتا رہا ہے۔ محقق حضرات کی نظر‘ اس جانب بہت ہی کم گئی ہے۔ عالمہ اقبال کو باطور شاعر سب جانتے ہیں‘ لیکن عالمہ مشرقی بھی شاعر تھے‘ کوئی نہیں جانتا۔ یہ ہی صورت فارسی کے فردوسی کی ہے۔ غیر سرکاری شخص‘ خواہ اس کی علمی وادبی حیثیت کچھ بھی رہی ہو‘ ریکارڈ میں نہیں آ سکا۔ کاغذ پر لکھا معمولی پرزہ بھی‘ اپنی حیثیت میں بےکار محض نہیں ہوتا۔ زبان کی ورائٹی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے بدن پر معلومات سجائے اور بچھائے ہوتا ہے۔ ابا حضور کے کتابی ورثے سے‘ ایک اٹھائیس صفحات کا رسالہ دستیاب ہوا ہے۔ اس کے پہلے دس صفحے پھٹے ہوئے ہیں۔ صفحہ گیارہ سے‘ تخلیق آدم کا قصہ شروع ہوتا ہے اور یہ صفحہ ستائیس پر ختم ہوتا ہے۔ صفحہ ٦٨پر کتابوں کی فہرست اور آخر میں ناشر کا اتا پتا درج ہے۔ اسی لیے میں اسے‘ قصہ آدم کا نام دینے کی جسارت کر رہا ہوں۔ یہ دراصل فارسی سے اردو ترجمہ کیا ہوا ہے۔ اس کی اصل خوبی یہ ہے کہ یہ دو کالمی ہے۔ پہلے کالم میں‘ اصل متن درج ہے‘ جب کہ دوسرے کالم میں اردو ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔ صفحہ ستائیس پر جہاں قصہ تمام ہوتا ہے‘ وہاں ناشر نے اپنی طرف سے فقط چار سطور میں کچھ لکھا ہے اور اس کے بعد اپنا پنجابی میں‘ آٹھ اشعار پر مشتمل حمدیہ
کالم درج کیا ہے۔ :ناشر کی چار سطور مالحظہ فرمائیں حمد وشکر کے بعد واضح ہو کہ یہ کتاب بعد الجہان پورانی قلمی کوشش ہےاسکو تالش کی۔ اور اسکا ترجمہ کرا کے۔ آدھے کالم میں فارسی اور آدھے کالم میں اردو بڑی کوشش کے ساتھ چھپائی۔ هللا صاحب اس عاجز کی کوشش کو قبول فرمائے۔ اسکا کوشش کرنیواال فقیر فضل حق ابن حاجی دمحم عالؤالدین صفحہ ٦٨سے معلوم ہوتا ہے یہ تاجرکتب ہیں اور ان کا کتب خانہ پتو منڈی نوآباد ضلع الہور تحصیل چونیاں میں تھا۔ گویا اس کتاب کا نام بعد الجہان تھا۔ قلمی نسخہ تھا جو پرانا تھا۔ دستیاب نہ تھا۔ فقیر فضل حق کے علم میں یہ کتاب تھی اور وہ اس سے دل چسپی رکھتے تھے اسی لیے اس کا کھوج لگایا اور شائع کی۔ اس جگہ کا موجودہ نام پتوکی ہے۔ گزٹ ٠٨٨٥کے مطابق یہ بہت بڑی کاٹن کی منڈی تھی اور معروف تھی‘ نوآباد نہ تھی۔ گویا کتاب کی طباعت نوآباد کے حوالہ سے‘ ٠٨٨٥سے پہلے کی ٹھہرتی ہے۔ اس حساب سے‘ اصل فارسی تخلیق سو پچاس
سال اس سے پیچھے جاتی ہے۔ فارسی اسلوب تکلم حیرت انگیز طور پر سادہ اور عام فہم ہے۔ مثال یہ جملے باطور نمونہ مالظہ :ہوں مار سیاہ دہن کشادہ ابلیس جست زدہ در دہن او جا کرد۔ بمجرد رفتن لعاب در دہن ابلیس کرد۔ کہ ازاں زہر پیدا شد چوں طاؤس گفت خوب کردی۔ ازیں سخن پائے او سیاہ شدند۔ :مترجم کے متعلق آخر میں معلومات موجود ہیں دمحم حسن۔ ساکن نشیب لبیہ۔ ضلع مظفر گڑہ۔ حال مدرس مترجم نے‘ کلی طور پر لفظی اور بامحاورہ ترجمہ نہیں کیا ہے‘ تاہم ترجمہ بے لذت اور بے ذائقہ بھی نہیں ہے۔ مترجم نے‘ اردو فارسی اشعار‘ حکایات اور موقع کے مطابق احکامات کا اضافہ کیا ہے۔ ترجمے میں ایک دو جگہ پر‘ عجلت کا گمان گزرتا ہے۔ وقفے کے عالوہ‘ کسی عالمت کا استعمال نہیں ہوا ہے۔ عالمتیں ان کے ہاں مستمل نہیں ہوں گی یا اصل کی ییروی میں‘ صرف سکتے سے کام لیا گیا ہے۔
اس قصے کے بعض مندرجات سے کوئی متفق ہو یا ناہو‘ اس میں داستانی لوازمات بہرطور موجود ہیں۔ تمام کردار‘ اپنے ہونے اور اپنے کیے کا احساس دالتے ہیں۔ کہانی میں دل چسپی کا عنصر موجود ہے۔ رائٹر موقع ملتے ہی‘ موقع کے مطابق اخالقی پیغام بھی چھوڑتا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ باقاعدہ ایک پالٹ پر استوار ہےاور اس میں ایک باربط کہانی موجود ہے۔ اسے اردو کے داستانی ادب میں‘ ایک اہم اضافہ قرار دینا غلط نہ ہو گا۔ اس قصے کے مطالعہ سے‘ قابل غور اور الگ سے معلومات بھی میسرآتی ہیں۔ معروف یہ ہی چال آتا ہے‘ کہ دانہءگندم پہلے حضرت آدم علیہ السالم نے کھایا‘ جب کہ اس قصہ سے معلوم ہوتا ہے‘ کہ دانہءگندم پہلے اماں حوا نے کھایا۔ اسی طرح یہ بھی پتا چلتا ہے‘ کہ حضرت آدم علیہ السالم کی پانچ سو جفت یعنی ہزار اوالدیں تھیں۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے‘ کہ بت پرستی کا آغاز قابیل سے ہوا۔ مزید چند ایک مثالیں مالحظہ ہوں۔ جب فرشتوں نے سر اٹھایا۔ تو شیطان کے گلے میں ستر ٧١من لعنت کا طوق پڑ گیا۔ جہٹ فرشتوں نے دوسرا سجدہ کیا۔ پہال کلمہ هللا واحد الشریک ہے آدم صفی هللا کا ہے۔ دوسرا کلمہ
هللا تعالے واحد اسکا کوئی شریک نہیں دمحم بندہ هللا کا ہے پیغمبر ہے جن کا۔ آدم اور حوا کو آسمان پر باغ عدن بہشت میں الؤ۔ اسوقت بہشت سے باہر جانا بغیر گندم کہانے کے محال تھا۔ حوا نے کہا لیا۔ مگر ادھا دانہ نہ کہایا تھا۔ آدم نے بھی دانہ باقیماندہ نصف کہا لیا بوجہ۔۔۔۔ تو اسکو پاخانہ کی حاجت پڑ گئی۔ آخر بعد ستر برس کے حوا اور آدم کی مالقات ہوئی۔ کابیل کو چونکہ محبت تہی الش کو پھینکنا ناگوار سمجہکر اپنی پشت پر اٹھا لیا۔ چنانچہ چھ ماہ کا عرصہ گذر گیا۔ جبرائل بحکم رب جلیل انکو بہشت میں لیگیا۔ تین ہزار برس عدن میں آدم علیہ السالم رہے کہتے ہیں کہ حضرت آدم فرزند پانچسو جفت تھے۔ عورتیں دین اورعقل میں دسترس نہیں کر سکتیں۔ اور کہا کہ ہر صبح نہا کر طعام کھانا اور اس بت کو سجدہ کرتے رہنا۔ لفظوں کی امال مختلف تھی۔ مثال
خود میں ان کا سر طیار کروں گا۔ نوں غنہ کا حشوی استعمال موجود نہ تھا۔ مثال دونو کوے قابیل کے روبرو لڑتے ہوئے ما باپ بیٹا ایکدوسرے کو دور کر دے گا۔ نون غنہ کی جگہ‘ لون کا استعمال بھی کیا جاتا تھا۔ مثال میں اس زمانہ عیش و عشرت کر لون۔ لفظوں کو مال کر استعمال کرنا عمومی اور مستعمل رویہ تھا۔ مثال نیچے سے تمکو دکھائی دیگا سوچکر کہنے لگا۔ اس گھر رحمت نہیں اتریگی۔ گندم کہانیکی وجہ سے اپنا ہی ہر ایک بوجھ اوٹھائیگا۔ ایکدفعہ بہشت میں جانے دو
قابیل نے دیکہکر ویسا کیا۔ بعض لفظوں کا استعمال اور تفہیم‘ آج سے الگ تر ہے۔ مٹال آدم کا برحال رہا۔ قبر کے کھودنے کی تجویز کابیل کو معلوم نہ تہی۔ شیطان پروردگار جل عزاسمد کے مخالف اصالح کرنے لگا۔ فرشتوں نے خدائے عزوجل کے حکم سے آدم کے قد کو بنایا زمین پر ڈالدے تا کہ میرے قد کا معائنہ کریں۔ انہوں نے مٹی بودار دم کی تجہے موت کیچاشنی دونگا۔ اسواسطے کہ میں نہائت رضامند ہوں آدم سے۔ دونوں کلمہ کا حفظ کیا کرو میوہ وغیرہ کا ناشتہ کرو شیطان نےسانپ کے ہاں کہا تھا بہشت کے باہر آدم کی جستجو کریں۔ دین اورعقل میں دسترس نہیں کر سکتیں
قدیم اور جدید اردو میں‘ مونث اور مذکر کا استعمال مختلف ہے‘ یہ استعمال اپنی اصل میں درست ہے‘ لیکن آج رائج نہیں۔ مثال تجہکو خوف نہیں آئی تو ملعون ہوا ہے۔ بہشت کے دربان کے پاس امانت جا رکھا۔ جب حوروں نے آواز سنا محاوروں کا استعمال اور معنوی بعد بھی موجود ہے۔ سب کو ہاتھ افسوس ملنا پڑے گا۔ اسنے کوے کو وہیں گاڈ دیا۔ ایک سنگ راست کرکے انکو دیدیا حیض کی بیماری عارض ہو گئی۔ ہر صبح نہا کر طعام کھانا آدم کو بہی جستجو کیا تو نہ پایا۔ اپنی جگہ کرتے ہی سانپ کے منہ میں لعاب ڈالدی۔ تم زمین پر جا ٹھہرنا یہ عمل درآمد کرکے آسمان جانا کیا۔
بولنا بھی صلیب کو پہونچاتا ہے گردن موڑنا موجب غضب ہے۔ خواب نہیں کرتا تھا پاخانہ کی حاجت پڑ گئی۔ تسبیحیں کہتے تھے۔ حور سے پرہیز کر گیا ہے پرہیز کر گیا کو تعلق کی استواری کے لیے لیا گیا۔ سابقوں اور الحقوں کا استعمال آج سے قطعی مختلف ہے۔ مثال جبرائیل نے غصہ ناک ہو کر بیفرمانی کے بہشت سے بہت اہانت کے ساتھ نکالنے والے ہیں۔ کابیل۔ تو بیفرمان ہو گیا ہے ضمائر میں واؤ کی بڑھوتی کر دی جاتی تھی۔ مثال متکبر اونکو پست سمجھے۔ اونہوں نے کہا
اوس نے کہا مجہکو اتنی طاقت ہے۔ اون کی ناف پر اپنے منہ سے لعاب نکالکر لگا لی مصادر میں بھی‘ واؤ کی بڑھوتی موجود تھی اور یہ عمومی اور مستعمل چلن تھا۔ مثال جسوقت نیند میں ہووے خطا پاوے جو وہ ناری ہے آدم بہشت میں جاویگا۔ پرانی اردو میں‘ بھاری آوازوں سے زیادہ‘ ہلکی آوازوں کا استعمال کیا جاتا تھا۔ اس کتاب سے‘ اس ذیل میں‘ چند ایک :مثالینمالحظہ ہوں تم مسلمان کبہی نہیں ہو گے بھ تہوڑے دنوں کے بعد تھ ایک روز حوا رضی هللا عنہا بیٹہے تھے ٹھ مجہے اس بت سے بدبو آتی ہے۔ جھ جہٹ فرشتوں نے دوسرا سجدہ کیا۔ جھ
اونہوں نے پوچہا تمہارا کیا نام ہے۔ چھ ورنہ پچہتانا پڑیگا۔ چھ یہ نہائت اندہیر کوٹھا ہے۔ دھ ال حول پڑہتا رہے ڑھ پھر بہشت کو دیکہوں گا۔ کھ جب اندر گہس گیا گھ بھاری آوازیں بھی استعمال میں تھیں۔ مثال افسوس میں کوے سے بھی کمتر ہوں۔ بھ پھر جب ناک کو روح پہونچی پھ پہلے نار ہی سے تھا تھ فرشتوں نے سر اٹھایا ٹھ اونکو پست سمجھے۔ جھ پوچھنے لگے وہ کہاں ہے۔ چھ مثال ہاتھ دھونا۔ منہ دھونا۔ دھ دربان کے پاس امانت جا رکھا۔ کھ
سو جس گھر کتا ہو گا گھ فصل در بیان مہتر آدم علیہ السالم اور ہابیل اور کابیل کے بیانمیں فرماتا ہے پروردگار۔ اے آدم خبر دی اونکو شیطان کے نام سے جب آدم نے نام بتالئے تو حکم سجدہ کا ہوا۔ جب چوتھی قرن کی آمد ہوئی تو خداوند تعالی نے حکم دیا جبرائیل میکائیل اسرافیل عزرائیل عزازیل کو کہ تم زمین پر جا ٹھہرنا۔ فرشتوں نے حسب فرماں رب الجلیل زمین پر آتے ہی حکم سنا ایک مرد دریا کے نیچے سے تمکو دکھائی دیگا وہ نوردمحم علیہ السالم ہو گا۔ اور گل آدم ہو گی اوسکو لیکر آدم کا اعصا راست کرنا۔ اگر تمکو کچھ راست کرنیکی تجویرید ہو۔ تو ستارہ جو آدم کے قد موافق ہیں انکے برابر بنانا۔ اور خود میں ان کا سر طیار کروں گا۔ فرشتوں نےیہ عمل درآمد کرکے آسمان جانا کیا۔ بعد اسکے عزازیل کے دلمیں آیا۔ کہ کل کو یہ گل آدم بہشت میں جاویگا۔ ہم کیا کرینگے۔ اس حالت اسکے غم پیدا ہوا۔ چاہا کہ کسی اٹکل سے اسکو الئق بہشت کے نہونے دیں۔ سوچنے کی بات ہے۔ تکبر یہ ہے کہ جسکا مرتبہ خدا عزجل نے علو کو پہونچایا ہو۔ متکبر اونکو پست سمجھے۔ فی الحقیقت وہ حق کے مخالف کرنیکی وجہ سے متکبر خدایتعالی کا مقابل بن گیا ہے۔ ۔۔۔۔چاہیے
کہ حکم خدا کے سرکشی سے باز رہیں۔ ورنہ تکبر یہی ہے بعینہ اس غدر سے خطا پاوے جو وہ ناری ہے ۔۔۔۔۔ وہ طوق عزازیل اسکے گلے ہو۔ خبیث اور ملعون کہینگے۔ ص٠٠ - یہی سوچ کر کہ بہشت کے الئق نہو۔ گھوڑوں کی طرف گیا۔ انکے ہاں کہنے لگا کہ تم خوشی کر رہے ہو۔ اور تمہارے واسطےآدم پیدا ہو چکا ہے۔ کل تمہاری پیٹھ پر سواری کریگا۔ تمکو تکیف پہونچا دے گا۔ اونہوں نے جواب دیا کہ ہمارے مالک کی خوشنودی اسی میں ہے تو ہم نہایت رضامندی سے انکا محکوم ہونا پسند کرینگے۔ شیطان نے سوچا میرا داؤ یہ تو نہ لگا۔ کوئی اور تجویز کرنی چاہیے۔ سوچکر کہنے لگا۔ عجب ہے کہ تم اورآدم ایک خالق کی پیدائش ہیں۔ وہ آدم تم پر سواری کر۔ الیعقل گھوڑوں نے داؤ کھا لیا۔ پوچھنے لگے وہ کہاں ہے۔ ابلیس ملعون نے کہا کہ جو ناف زمین کا ہے وہاں ہے۔ جھٹ دوڑ کر پاش پاش کر دیا۔ پھر بارہ سال کے عرصےکے بعد سب فرشتوں کو حکم ہوا۔ کہ دوسری دفعہ آدم کا بت بناؤ۔ شیطان پروردگار جل عز اسمد کے مخالف اصالح کرنے لگا۔ اور کہا اے میرے رب اگر حکم ہو تو نور یا نار یا ہوا یا پانی سےآدم کا بت بنائیں۔ اسواسطے کہ زمین مین بےزبان جانور ہیں۔ انکو توڑ ڈالتے ہیں۔ خطاب عزوجل ہوا۔ اال یہ میں خوب جانتا ہوں تمکو خبر بہی نہیں۔ آدم کا قد پہلی طرح بناؤ۔ دیکہو یہ اصالح مخالف
رب تعالے ابلیس کر رہا ہے۔ یہی مرحبا ہو ہے۔ ص۔ ٠٦ مخالف حکم رب الجلیل اپنی رائے اور اصالح کو دخل دینا موجب ہالکت ہے۔ اس سے پرہیز کرنا۔ شیخ سعدی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں۔ بیت اگر شاہ روز را گوند شب است ایں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ببائید گفت اینک مہ پرویں مخالف صالح کو کہاں۔ بولنا بھی صلیب کو پہونچاتا ہے۔ فرشتوں نے خدائے عزوجل کے حکم سے آدم کے قد کو بنایا۔ لکن بنا کر واپس آسمان پر اپنے اپنے مکان پر چلے گئے۔ ابلیس اکیال آدم کے پاس رہا۔ جب آدم اکیال ہوا تو اون کی ناف پر اپنے منہ سے لعاب نکالکر لگا لی پھر آسمان پر چال گیا۔ پھر دس برس کے بعد هللا تعالی کا حکم ہواکہ اے جبرائیل میکائیل سب جا کر علیتیں جو مقام چوتھے آسمان پر ہے وہاں سے روح آدم علیہ السالم کا لیکر انکے بدن میں ڈالو۔ جب فرشتے پروردگار کے حکم سے روح پاک کو پردہ میں لیکر بت کے قریب الئے۔ تو روح القدس کو جسوقت ڈالنے لگے اس نے کہا کہ مجہے اس بت سے بدبو آتی ہے۔ خدا کی جناب میں آدم نے عرض کی اے بار خدایا مجہے بدبو آتی ہے۔ اس سے مجہے پناہ میں رکھ۔ خدا مہربان نے حکم دیا کہ اے جبرائیل جو
جگہ بدبودر ہے اونکو دور کر دے۔ جب انہوں نے مٹی بودار دم کی تو اس مٹی لعاب شیطان سے کتا پیدا ہوا۔ وہ کتا آواز کرتا بت کے قریب بیٹھ گیا۔ وہ فرشتے روح مقدس کو ساتھ لیکر آسمان پر چلے گئے۔ حتے کہ ستر برس کے عرصہ تک قد آدم بمعہ سگ وہاں رہا۔ یعنی فرشتوں کو آنے نہیں دیتا تھا۔ ص٠٣- اور وہ کتا کسی فرشتہ اور حیوان کو ساتھ گزرنے نہ دیتا تھا۔ خواب نہیں کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کتا ابلیس کی لعاب سے دارمٹی سے ہے۔ شیطان مردودورحمت سے محروم ہے بلکہ جس جگہ شیطان ہو رحمت نہیں ہو گی۔ سو جس گھر کتا ہو گا بغیر ضرورت حفاظت یا شکار خواص کے اس گھر رحمت نہیں اتریگی۔ اتفاقا اراوت ازلی اسکو نیند آ گئی۔ فرشتوں کو حکم ہوا شتابی روح قدس آدم کے بدن میں ڈالو۔ جب جرائیل حسب فرمان رب تعالے بمعہ مقربان پردہ سے روح مقدس کو لیکر آئے تو روح مقدس نزدیک بت کے پہونچکر کہا کہ یہ نہائت اندہیر کوٹھا ہے۔ یا رب تعالے مجہےاپنے فضل سے ایکدفعہ اسی جگہ سے مجہے نکالنا۔ تا کہ میں اس زمانہ عیش و عشرت کر لون۔ هللا تعالے نے حکم دیا کہ تجہے ضرور ایکدفعہ اس بدن سے نکالوں گا۔ اور وہ نکالنا تمہاری موت ہو گا۔ پروردگار فرماتا ہے سب چیز کو مرنا ہے مگر هللا کو نہیں ہے۔ تجہے موت کیچاشنی دونگا۔ اورآدم کا سر خدایتعالے نے سنگ مرمر سے راست کیا
تھا۔ اسی وجہ سے آدمی کا سر سخت ہوتا ہے۔ اورجب روح مقدس میں ڈالی گئی۔ تو سر کے راستہ ڈالی گئی۔ ص۔ ٠٤ اور ارشاد فرماتا ہے هللا تعالے میں نے روح مقدس کو ڈالکر بدن میں آدم کے کہ اسکوسجدہ کرو۔ جب آدم نے آنکھ کہولی تو روح نے آنکھ کے ذریعہ سے جہان کو دیکھ کر خوشی حاصل کی۔ پھر جب ناک کو روح پہونچی تو آدم علیہ السالم کو چھینک آئی۔ تو کہا سب تعریف هللا تعالے کی ذات کو ہے جو رب العلمین ہے جب روح منہ میں آئی تو ہر قسم کی چاشنی گیر ہوئی۔ آدم علیہ السالم نے ویسی ہی خدائے خالق کی حمد کہی۔ پھر خداے یتعالے نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم علیہ السالم کو سجدہ کرو۔ اسواسطے کہ میں نہائت رضامند ہوں آدم سے۔ بمجرد حکم حاکم تعالے کےسب فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس مردود نے کہا۔ کل میں نے اپنے ہاتھ سے بنایا ہےیہ مجہے درجہ میں بھی ہے۔ اسی وجہ حقیر جانا۔ اور احکم الحاکمین کے حکم سے عدول کیا۔ مامون مقہور ہوا۔ حاکم حقیقی کے حکم سے گردن موڑنا موجب غضب ہے۔ جب غالم حبشی درجہ میں بڑھ جائے تو اسکا حکم عین پروردگار کا ہوتا ہے۔ اس سے سرکش نہونا ورنہ پچہتانا پڑیگا۔ کسی نے سچ کہا ہے۔ بیت حکمران ہو کوئی بچاپنا ہو یا بیگانہ ہو
دی خدا نے جسے عزت اسکی عزت چاہئے ص٠٥ - عزتدار کی ذلت کرنا اپنی ذلت کا موجب ہے۔ جب فرشتوں نے سر اٹھایا۔ تو شیطان کے گلے میں ستر ٧١من لعنت کا طوق پڑ گیا۔ معلوم ہوا کہ هللا تعالے کے حکم سے سرکش ہوا ہے۔ جہٹ فرشتوں نے دوسرا سجدہ کیا۔ ابلیس نے عرض کیا آپ کا حکم ایک سجدہ کا تھا۔ یہ دوسرا سجدہ کیوں کر رہے ہیں۔ حکم ہوا میرے خوف سے سجدہ میں پڑے ہیں۔ تجہکو خوف نہیں آئی تو ملعون ہوا ہے۔ میرے حکم کو پس پشت کر دیا ہے۔ میں نے تجہے مردود کیا ہے۔ تیری عبادت دنیا میں تجہے دوں گا اور آخرت میں تو عذاب الیم کا مستحق ہو گا۔ پھر عزازئیل کہ نام انکا پہلے نار ہی سے تھا۔ آدم علیہ السالم سے بھاگ گیا۔ تہوڑے دنوں کے بعد جبرائیل نے آدم علیہ السالم کو یہ کلمے سکھائے وہ یہ ہیں۔ پہال کلمہ هللا واحد الشریک ہے آدم صفی هللا کا ہے۔ دوسرا کلمہ هللا تعالے واحد اسکا کوئی شریک نہیں دمحم بندہ هللا کا ہے پیغمبر ہے جن کا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سمجہایا کہ ان دونوں کلمہ کا حفظ کیا کرو جب آدم علیہ السالم زمین پر سو گئے تو انکے بائیں کروٹ سے حوا رضی
هللا عنہا پیدا ہوئی۔ پھر جلدی خدا کا حکم ہوا کہ اے جبرائیل آدم اور حوا کو آسمان پر باغ عدن بہشت میں الؤ۔ جبرائل بحکم رب جلیل انکو بہشت میں لیگیا۔ تین ہزار برس عدن میں آدم علیہ السالم رہے جبکہ رب تعالے ارشاد فرماتا ہے یاد کرو اے دمحم کیا ہمنے اے آدم بمہ اپنی جورو بہشت میں رہ ص ٠٢ میوہ وغیرہ کا ناشتہ کرو اور اس درخت کے قریب ہرگز نہ جانا۔ نہیں تو ظالم ہو جاؤ گے۔ جب گذرنے کو مدت پہونچی تو ایکدن عزازئیل ایک گوسفند لیکر بہشت کے دربان کے پاس امانت جا رکھا۔ اور کہا حسب ضرورت تمسے لے لوں گا۔ دربان نے کہا بہت اچھا۔ لکھتے ہیں۔ کہ آدم اور حوا نے دربان سے پوچھا یہ دنبہ کہاں سے آیا ہے۔ انہوں نے کہا عزازئیل کی امانت ہے۔ آدم علیہ السالم نے جھٹ ذبح کرکے کھا لیا۔ ابلیس چند ایام کے بعد آیا۔ ابلیس نے فرشتوں سے امانت طلب کی۔انہوں نے کہا۔ کہ آدم علیہ السالم نے نوشجاں فرمایا ہے۔ ابلیس خوش ہو کر آواز کرنے لگا۔ اے بیٹے واسوس کہاں گیے ہو۔ جواب دیا کہ میں آدم اور حوا کے سینے میں گھر بنائے بیٹھا ہوں۔ شیطان نے کہا رحمت ہو تمکو۔ کہ پہال نفس آدم کا تو بنا ہے۔ جیسا کہ رب تعالے ارشاد فرماتا ہے یعنے وہ انسان کے سینے میں وسوسہ ڈالنے واال آدمی اور جن سے ہے۔ جب تین ہزار برس تمام ہوئے۔ تو شیطان بہشت کے دروازے پر ایکدن پہونچا۔
ص۔ ٠٧ اسوقت کاال سانپ اور ایک مور دربانی کر رہے تہے۔ انکے ہاں جا کر کہنے لگا مجہے ایکدفعہ بہشت میں جانے دو میں تجہکو تین ہزار فریب انعام کروں گا۔ اونہوں نے پوچہا تمہارا کیا نام ہے۔ جواب دیا۔ کہ میرا نام عزازیل ہے۔ اونہوں نے کہا کہ تجہکو اندر جانے کا حکم نہیں۔ اسواسطے کہ تو ملعون ہوا ہے۔ الئق بہشت تو نہیں ہے۔ اوس نے کہا مجہکو اتنی طاقت ہے۔ اگر تم مجہکو اپنی آنکھ جگہ دیویں تو غائب ہو جاؤں گا پھر بہشت کو دیکہوں گا۔ اسوقت مار و کوا دربان تھے۔ اور مور اندر تھا۔ سانپ نے کہا اگر تم جلدی باہر آؤ گے۔ تو تمکو لے جاتا ہوں۔ سانپ نے وعدہ کیا جلدی باہر آؤنگا۔ سانپ نے منہ کھوال۔ جھٹ شیطان اسکے منہ میں گھس گیا۔ اپنی جگہ کرتے ہی سانپ کے منہ میں لعاب ڈالدی۔ کہ اس سے یہی زہر پیدا ہوا ہے۔ اوسوقت مور نے کہا۔ تمنے بہت اچہا کیا۔ اس بات کے کہنے سے اس کے پاؤں سیاہ ہو گئے۔ لیکن شیطان نےسانپ کے ہاں کہا تھا کہ اندر میں جو کچہ میں کروں تم چپ چاپ رہنا چنانچہ سانپ نے ایسا ہی کیا۔ جب اندر گہس گیا تو شیطان رونے پیٹنے لگا۔ ص۔ ٠٨ جب حوروں نے آواز سنا تو حیران ہو کر خازن بہشت کو کہنے لگیں کہ تمکو کیا ہوا کہ ابلیس کو تم نے اندر آنے دیا۔ اور
تمہارے منہ سے آواز کر رہا ہے۔ کہ اے حوا سنو آدم اور حوا گندم سے محروم ہیں۔ اوہ اچھا طعام ہے۔ اور دوسرا یہ کہ آدم ایک حور پر عاشق ہو گیا ہے۔ اور حور سے پرہیز کر گیا ہے۔ وہ اس حور کے ساتھ مزے اڑا رہا ہے۔ جب حوا نے یہ بات سنی تو بہت پریشان ہوئی۔ آدم کو بہی جستجو کیا تو نہ پایا۔ اسوقت حوا کو اس لعین کے مکروفریب کا خیال بھول گیا تھا۔ جھٹ حوا کو خیال آیا کہ بہشت کے باہر آدم کی جستجو کریں۔ اسوقت بہشت سے باہر جانا بغیر گندم کہانے کے محال تھا۔ حوا نے کہا لیا۔ مگر ادھا دانہ نہ کہایا تھا۔ اس حیض کی بیماری عارض ہو گئی۔ کہتے ہیں عورتیں دین اورعقل میں دسترس نہیں کر سکتیں۔ اسوقت سے حیا اور شرم شروع ہو گیا ہے۔ بعد اسکے جبرائیل امین کو حکم سرکار اعظم سے ہوا کہ حوا کو بمعہ سانپ اور کبودک اور مور باہر نکالیں اور زمین پر ڈالدے تا کہ میرے قد کا معائنہ کریں۔ جبرئیل علیہ السالم حسب الحکم کاروائی شروع کرکے نکالدیا۔ جب آدم کو خبر گذری کہ حوا کو گندم کہانیکی وجہ سے هللا تعالے نے بہشت سے نکالکر زمین پر ڈالدیا۔ جھٹ آدم نے بھی دانہ باقیماندہ نصف کہا لیا بوجہ۔۔۔۔ تو اسکو پاخانہ کی حاجت پڑ گئی۔ اسوقت حکم ہوا کہ اے جبرائیل جا کر بہشت سے آدم کو برہنہ کرکے نکالدے۔ بوجہ اسکے کہ میرا نافرمان ہوا ہے اور یہاں ناپاکی کرتا ہے اور بہشت پاک جگہ ہے۔ ص۔ ٠٩
جب جبرائیل هللا کے حکم سے بہشت میں گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ آدم علیہ السالم گندم سے اپنا پیٹ بھرے کھڑا ہے۔ جبرائیل نے غصہ ناک ہو کر تمام کپڑے مثال جامہ دستار ٹوپی وغیرہ چھین لئے۔ جب سر سے کالہ اتاری تو آدم علیہ السالم نے اپنے ہاتھوں کو سر پر کر لیا۔ اس وجہ سے سر کا مسح فرض ہے یعنے چہارفرض اسوقت کے بہی ہیں۔ مثال ہاتھ دھونا۔ منہ دھونا۔ سر کا مسح کرنا۔ پاؤں کا دھونا۔ پھر کپڑے اوتار کر آدم جو ہمارے باپ ہیں پیغبر خدا۔ مقبول خدا کہ بوجہ مذکور کے پکڑ زمین پر ڈالدیا۔ کل شی مرجع اے اصلہ خاکی آدم خاک کیطرف گیا ہے۔ وہ کوہ قاف میں رہے۔ ستر برس تک حوا علیہ السالم سے جدا رہے۔ آدم کے رونے سے فلفل بیدا ہوئی۔ اور حوا کے رونے سے مروارید بنگئے۔ وہ جبرائیل جو پہلے تعظیم و تکریم کرنے واال تھا۔ وہی بوجہ ایک بیفرمانی کے بہشت سے بہت اہانت کے ساتھ نکالنے والے ہیں۔ مولوی روم صاحب فرماتے ہیں۔ یک گناہ چوں کرد گفتندش تمام مذہنی مذہنی بیروں خرام تو طمع میداری چندیں گناہ داخل جنت شوی اے روسیاہ
ص۔ ٦١ آخر بعد ستر برس کے حوا اور آدم کی مالقات ہوئی۔ کسی نے کہا ہے۔ بیت ہر دم دعا ہا میکنم بر خاک مے عالم جبیں جمع کن باد و ستم یا جامع المتفرقیں پھر حکم جبرائیل کو ہوا کہ ایک جوڑا اور کچہ گندم بہشت سے لیکر آدم کو دیدے۔ جبرائیل نے آدم کو جوڑا اور کچہ گندم حوا کو دیدی اور کچہ آدم کو دی۔ خدا کے حکم سے ہل جوت کر بیج ڈاال۔ آدم کے بیج سے گندم اور حوا کے بیج سے جو پیدا ہوئے۔ حکایت ایک روز حوا رضی هللا عنہا بیٹہے تھے متفکر ہو کر۔ بہشت کی نعمتیں یاد کر رہے تھے۔ تسبیحیں کہتے تھے۔ کہ رب جلیل رحمن۔ غفورالرحیم منان تیرا ہر وقت احسان بہشت میں عجیب نعمتیں تو دیتا تہا۔ شربت پالتا تھا۔ شیر شہد سے عجیب تھے۔ اب آپنے کبھی نہیں عنایت فرمائی میرا بخت سیاہ ہے تیری نافرمانی سے ناگاہ خندق میں گر گئی ہوں۔ کوئی پوچھتا نہیں۔ بیت یاد میں نعمت کے رہے ہر دم
کھاتے تھے بہشت ذوق سے پیہم حاشیہ :ہندوانہ اور خربوزہ وہاں کے ہیں ص۔ ٦٠ فریاد سن کر هللا تعالے فرمایا۔ کہ اے جبریل دو خربوزہ لیکر ایک حوا کو دوسرا کو دیدے جبریل ویسا ہی کیا۔ حوا حاملہ تھیں۔ اسوجہ سے حوا کا خربوزہ ہندوانہ بن گیا۔ اور آدم کا برحال رہا۔ ایکدن جبریل کو حکم ہوا کہ حوا کے ہاں دو بچے صبح اور دو بچے شام ہونگے اور دو بچے پہلے پیدا ہوں انکو شتابی جدا کرنا اور انکا نام ہابیل اور کابیل رکہنا۔ اور جو لڑکیاں شام کو پیدا ہوں پہلی ہابیل کو اور دوسری کابیل کو بیاہ دینا۔ اتفاقا دوسری لڑکی ایک آنیکھ سے دیکھ نہ سکتی تہی۔ کابیل نے منظور نہ کیا۔ اور ہابیل کی عورت کو لیا۔ جب آدم علیہ السالم تہوڑی دیر کے بعد آئے تو کہا۔ اے کابیل۔ تو بیفرمان ہو گیا ہے اور غضبناک ہو کر کابیل کو کہا۔ تو نے برا کیا۔ اور تو کافر بن گیا ہے۔ مجھ سے تم دونو دور ہو جاؤ۔ اور کہیں اور زراعتکاری کرو اور اپنا بسیرا کرو۔ ندا آید درانگہ دور شو دور قیامت کے روز جسطرح حضرت آدم علیہ السالم اپنے مقرب بیٹے کو نافرمانی کی وجہ سے دور کر رہا ہے۔ اسی طرح ما
باپ بیٹا ایکدوسرے کو دور کر دے گا۔ اور اپنا ہی ہر ایک بوجھ اوٹھائیگا۔ ص۔ ٦٦ االئیہ۔ بغیر عمل توحید کے رسول بھی شفاعت نہ کرینگے۔ سب کو ہاتھ افسوس ملنا پڑے گا۔ شیخ عطار فرماتے ہیں۔ بیت۔ ہست سلطانی مسلم مرا درا نیست کس را زہر چوں وچرا عذر معذرت کچہ کام نہ آئیگی۔ چنانچہ آدم و حوا بغیر پرسش نکالے گئے۔ بیفرمان کا بغیر پرسش دوزخ جانا پڑیگا۔ اعان هللا وابوانا و استاذنا و سائرالمسلمین امیں۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں۔ ستم بر ضعیفان مسکین مکن۔۔۔۔۔کہ ظالم دوزخ رود بےسخن۔ اور کسی نے کہا ہے۔ وہ سنت نبی جسکو پیاری نہیں۔۔نبی بھی اس سے بیزار ہو جاتا ہے۔ جب آدم علیہ السالم سے کابیل کسی اور جگہ رہنے لگے تو ایکدن عزازیل نے آ کر کہا کہ تو اپنے بھائی ہابیل کو مار ڈال کیونکہ یہ تجھ سے بڑا ہے۔ پھر تو تمام زمین کی بادشاہی کریگا۔ کابیل نے کہا مجہے قتل کرنا معلوم نہیں ہے۔ عزازیل نے کہا جسوقت نیند میں ہووے تب ایک بٹہ لیکر اسکے سر خوب لگا۔ اس نے حسب کہنے عزازیل کے کا کیا۔ اور ہابیل مر گیا انا هلل و انا الیہ راجعون۔ کابیل کو چونکہ محبت تہی الش کو پھینکنا ناگوار سمجہکر اپنی پشت پر اٹھا لیا۔ چنانچہ چھ ماہ کا عرصہ گذر گیا۔ قبر کے کھودنے کی تجویز کابیل کو معلوم نہ تہی۔ ایکدن دو فرشتے کوے کی صورت پر
گھڑا کھودا اور اسنے کوے کو وہیں گاڈ دیا۔ پھر کابیل نے بھی ان کو دیکہکر اپنے بھائی کو دبایا۔ جیسا کہ هللا تعالے اپنی کالم پاک میں فرماتا ہے۔ بھیجا هللا نے کوے کو زمین کھود کر اپنے بھائی کوے کی الش کو دفن کرتا تھا دیکہکر کابیل نے کہا افسوس میں کوے سے بھی کمتر ہوں۔ اگر کوے جیسا ہوتا تو اپنے بھائی کی الش کو دفن کرتا۔ یہ کہہکر شرمسار ہوا۔ دونو کوے قابیل کےروبرو لڑتے ہوئے ص۔ ٦٣ایک کوے نے دوسرے کوے کو مار ڈاال پھر اپنے چونچ اور پنجوں سے گڑہا کھود کر کوے ک دبا۔ قابیل نے دکھکر غم کھایا۔ اور کہا کہ میں کوے جیسا ہوتا تو اپنے ہاتھ گڑہا کھودتا۔ اوراپنے بھائی کو دباتا۔ پھر قابیل نے دیکہکر ویسا کیا۔ یہ طریقہ گور۔۔۔ قبر بنانے کا۔۔۔ یہاں سے شروع ہوا ہے۔ اور ہایل کی سب قوم مسلمان ہیں۔ ایک دن آدم نےقابیل سے پوچھا ہابیل کہاں ہے کہا مجہے معلوم نہیں۔ بہت دن سے مجہسے رخصت ہو گیا ہے۔ آدم علیہ السالم حیران ہوا۔ خد ا کی جناب سے ندا آئی کہ تیرے بیٹے قابیل نے قتل کر ڈاال ہے۔ تا کہ تجہے معلوم ہو۔ کہ میرے ایسے بیٹے ہیں۔ تو نہینجانتا شیطان انسان کا دشمن ہے۔ جب آدم نے جواب سنا تو قابیل پر غصہ ہوا۔ اور کہا کہ تو نہایت پرلے درجہ کا کافر ہے۔ تم مسلمان کبہی نہیں ہو گے۔ جیسا کہ قابیل حران ہوا۔ اسوقت سے شیطان انسان کا دشمن چال
آتا ہے اور مرتے وقت انسان کےساتھ بیجا حرکتیں کرتا رہتا ہے۔ مومن کو چاہئے کہ اس کے فریب سے بچے ال حول پڑہتا رہے۔ ص۔٦٤ تھوڑے دنوں کے بعد ابلیس نے قابیل کے پاس آ کر کہا کہ میں جبرائیل ہوں خدا یتعالے نے تمہاری طرف بھیجا ہے۔ اور کہا ہے کہ اور طریقہ آدم کا باقی ہے۔ وہ اب تجہکو سیکہاتا ہوں۔ قابیل نے خوش ہو کر کہا۔ بہت اچھا۔ تو عزازیل نے خوش ہو کر تسلی اپنی کر لی کہ ابھی اسکو کافر کر لوں گا پھر عزازیل نے کہا تجھکو خدا کے نام سکھاتا ہوں۔ انکو ہر وقت ضبط رکھنا پھر شیطان نے مذکورہ نام مردوں اور عورتوں کے بتالئے اور کہا کہ ایک اور بھی امانت ہے۔ وہ یہ ہے ایک سنگ راست کرکے انکو دیدیا۔ اور کہا کہ ہر صبح نہا کر طعام کھانا اور اس بت کو سجدہ کرتے رہنا۔ اوراپنا منھ مشرق کو کرنا۔ اور تمہارے ماں باپ آدم حوا نہیں۔ بلکہ پاربتی اورمہادیو ہیں۔ اوراسی راہ پر چلنا۔ اورتمکو جالئینگے۔ یہ قوم کافروں کی اسی جگہ سے شروع ہوئی ہے۔ یہ نہیں جانتے کہ شیطان نے اپنے پھندے میں اسکو ڈالدیا ہے اور دوزخ کا ساکن بنا دیا ہے۔ خدا نے فرمایا ہے سب چیزوں کو اپنی عبادت کے واسطے پیدا کیا۔ اسکے خالف چل رہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت آدم فرزند پانچسو جفت تھے۔ ص۔ ٦٥
نقل ۔۔۔۔ ایک روز حضرت آدم کے فرزند جمع ہو کر آپس میں صالح کرنے لگے کہ باپ کو مار ڈالئے اور بادشاہ اور پیغمبر ہمارے واسطے نازل ہو جائیگا۔ اسی مشورہ میں تھے کہ هللا تعالے آدم کو خبر دی کہ تمہیں فرزند مارنا چاہتے ہیں۔ اگر تم چاہو۔ تو اونکو مار ڈالو اورپھر انکار آپکا کبھی نہو۔ آدم نے کہا یا خدایا کوئی اور تدبر کرو۔ تو هللا تعالے نے جبریل کو حکم کیا کہ بہشت میں بانگ دو۔ جبریل حسب الحکم رب الجلیل بانگ دیدی تو اونکو آواز سنتے ہی انکی زبانیں بدل گئیں۔ جیسا کہ عربی فارسی وغیرہ جو آپسمیں مشہور ہیں۔ ایکدوسریکا سخن نہیں سمجہتے تہے۔ اس وجہ سےمشورہ باطل ہو گیا۔ یہ زبانیں اس زمانہ سے شروع ہیں۔ اوسوقت سے زبانیں مختلف پھر مارنے کی مشورہ بدل گئی۔ وازیں وجہ مسلمان اور ہندو ہونا ہو گیا۔ جب آدمی بادشاہی کرنے لگے تو انہوں نے شہر کا نام ملتاں رکھا۔ آدم علیہ السالم کیوقت سے اسکا نام ملتان شہر ہے۔ اوراسوقت سے یہ شہرآباد ہے۔ اس شہر میں بڑے بڑے بزرگوں کی خانقا ہیں ایک بہاؤلحق صاحب ایک شمس تبریز صاحب کی ایک موسے پاک شہید کی عالوہ اور بہت ہیں۔ ص۔ ٦٢اور یہ کافر کی اوالد ہیں۔ اور مسلمان بمعہ جمیع پیغبران شیث سے دمحم علیہ السالم تک ہابیل کی اوالد ہیں۔ ص۔٦٧
خودی اور اس کے حدود استعدادی قوت کا نام ہے‘ جو کسی چیز یا ذی روح ‘خودی وغیرہ سے مخصوص کر دی گئی ہوتی ہے۔ تاہم یہ اضافہ پذیر ہے۔ اسی طرح اس میں کمی بھی آتی رہتی ہے۔ اس میں اضافہ یا کمی کی بھی‘ حدود مخصوص ہوتی ہیں۔ کمی‘ اضافے کی راہ لے سکتی ہےاور اضافہ زوال کا رستہ اختیار کر سکتا ہے۔ اضافے اور کمی کی صورت میں‘ اس کی استعداد کار میں فرق آ جاتا ہے۔ یہ استعداد کار ہی فرد واحد‘ قوموں یہاں تک‘ کہ پوری انسانی زندگی برادری کی موجودہ صورت حال کو تبدیل کر سکتی ہے۔ کائنات کی کوئی شے‘ ایک دوسرے سے غیرمتعلق نہیں۔ ایک کا کیا‘ دوسرے اور دوسرے سے دوسروں کو متاثر کرتا ہے۔ یا اس میں دوسروں کو متاثر کرنے کی صالحیت موجود ہوتی ہے۔ اس میں اضافے کی بہت سی صورتیں موجود ہوتی ہیں یا ہو سکتی ہیں۔
کسی حاجت‘ ضرورت‘ مفاد یا غرض کے تحت‘ دو یا دو ٠- سے زائد افراد ایک پلیٹ فارم بنا سکتے ہیں۔ یہ اجتماع وقتی یا دیرپا بھی ہو سکتا ہے۔ کاز‘ کسی بھی نوعیت کا ہو‘ اس کے زیر اثر لوگوں کا ٦- باہمی انسالک ممکن ہوتا ہے۔ اس کے لیے افراد اکٹھے کر لیے جاتے ہیں یا ہو جاتے ہیں۔ ردعملی صورتیں بھی شخص کو‘ شخص کے قریب لے آتی ٣- ہیں۔ ٤۔ ہنر متحرک زندگی کا بڑا اہم عنصر ہے۔ ا۔ایک ہنر سے متعلق شخص ایک دوسرے کے قریب رہتے ہیں یا آ سکتے ہیں۔ ب۔ مقابلہ بازی راہ پاتی ہے۔ ج۔ سیکھنے والے میدان میں اترتے ہیں۔ د۔اس ہنر کے ضرورت مند ان سے رابطہ میں رہتے ہیں۔
مذہب اور نظریہ‘ بڑے مضبوط عناصر ہیں۔ یہ اشحاص کے ٥- اتحاد کا ذریعہ بننے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ٢۔ رنگ‘ نسل عالقہ اور زبان‘ انسانی زندگی میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ جہاں ان کے حوالہ سے عصبیت جنم لیتی ہے‘ وہاں باہمی تعلق اور رابطہ بھی جگہ پاتا ہے۔ ٧۔ سیاسی‘ فالحی اور سماجی گروپ تشکیل پاتے رہتے ہیں۔ یہ شخص کو‘ بہت سے حوالوں سے‘ دوسرے اشخاس سے پیوست کرتے ہیں۔ قبیلہ اور قوم‘ شخص کو شخص سے نتھی رکھتے ہیں۔ ٨- ٩۔ مزاجوں میں ملتی مماثلتیں شخصی قربت کا سبب بنتی ہیں۔ ٠١۔ ہم مزاج اور ہم خیال ہونے کی وجہ سے‘ چاہے ان کی صورت وقتی اورلمحاتی ہی کیوں نہ ہو‘ شخص کا شخص سے‘
ارتباط پیدا کرتی ہیں۔ ٠٠۔ دو غیر جنس بھی ہم رکاب چل سکتےہیں۔ ٠٦۔ ہم عمری بھی اس ذیل میں بڑا معتبرذریعہ ہے۔ سماجی رسم و رواج او ہم شغلی اس ضمن میں بڑا اہم ٠٣- ذریعہ ہے۔ درج باال سطور میں چند ایک کا ذکر کیا گیا ہے ورنہ اس کی بہت سی صورتیں موجود ہیں۔ یہاں تک کہ باہمی اختالفات کو بھی نظر انداذ نہیں کیا جا سکتا۔ ان تمام صورتوں میں آگہی‘ اعتماد‘ حوصلہ‘ کچھ کرنے کا جذبہ‘ ہنر‘ تجربہ‘ عادات‘ اطوار اور کسی دوسرے کی شخصیت میں پوشیدہ خاص جوہر اور کمال‘ جو وہ استعمال میں نہیں ال رہا ہوتا‘ ہاتھ لگتے ہیں۔ ان عناصر سے شخصی خودی کو توانائی میسر آتی ہے اور شخص کا وجود استحقام پکڑتا ہے۔ اس میں‘ میں ہوں‘ کو تقویت میسر آتی ہے۔
بالکل اسی طرح‘ خودی زوال کا شکار بھی ہوتی ہے۔ اس کی بہت سی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ان میں تنہائی سب سے مہلک ہے۔ وہ خود الگ تھلگ ہو جاتا ہے۔ سوسائٹی اس کو الگ تھلگ کر دیتی ہے۔ کوئی بھی صورت ہو سکتی ہے۔ خودی زوال کا شکار ہو یا ترقی کی منازل طے کر رہی ہو‘ صفر پر نہیں آتی۔ یہ بھی کہ وہ المحدود نہیں ہوتی۔ فرش‘ عرش‘ کرسی غرض سب کچھ اس زد یا دسترس میں آ جائے‘ تو بھی اسے المحدود نہیں کہا جا سکتا‘ کیونکہ پوری کائنات حددوں میں ہے۔ جب اسے المحدود ہونے کا گمان گزرتا ہے‘ نابود ہو جاتی ہے۔ نمرود فرعون اور سکندر کو یہی گمان گزرا‘ تو ہی ہالکت سے دوچار ہوئے‘ کیوں کہ کائنات المحدود نہیں۔ دوسرا فنا کا عنصر‘ ہر کسی سے منسلک ہے۔ المحدود صرف اور صرف هللا کی ذات گرامی ہے‘ جس کا فنا کے ساتھ تعلق نہیں۔ فنا اس کی تخلیق کردہ ہے۔ خودی کے المحدود ہونے کے لیے دو رستے ہیں۔ میں ہوں کو المحدود کے تابع کر دے۔ اس ذیل میں بالل اور عمر بن عبدالعزیز کو بطور مثال لیا جا سکتا ہے۔ وہ عملی طور پر اپنا مستحکم وجود رکھتے تھے
میں ہوں کو ختم کرکے‘ المحدود میں مدغم کر دے۔ منصور اور سرمد‘ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ یہ دونوں‘ عملی طور پر‘ موجود کی حاجت سے باالتر تھے۔ ساری کائنات کی خودی مجتمع ہو جائے‘ تو بھی وہ المحدود نہیں ہو پاتی۔ انسان هللا کی اشرف اور احسن مخلوق ہے۔ کائنات میں موجود ہر شے اور ذی روح کی خودی‘ اس کے برابر نہیں اور یہ ان کی گرفت سے باہر ہے۔ اس کی سوچ کے حلقے‘ کائنات کے حوالہ سے المحدود ہیں۔ یہ کیا کر ڈالے یا کروٹ لے‘ کوئی نہیں جان پاتا۔ یہ سب کچھ ہو کر بھی‘ مخصوص حدوں میں ہے۔ منصور اور سرمد سے لوگوں کو اس میں نہ رکھیے۔ اسی طرح‘ اس محترم خاتون کو بھی الگ رکھیے‘ جسے خاوند اور اپنی اوالد کی شہادت کی فکر نہیں۔ اس کی خودی‘ نبوت سے منسلک تھی۔ نبوت هللا سے منسلک تھی۔ اگر اس کی خودی کائنات کے دائرہ میں ہوتی‘ تو اسے خاوند‘ بچوں کے ساتھ ساتھ نبی کی بھی چنتا ہوتی۔ اس سطع کی تخصیص کی صورت نہ ہوتی۔ یہ بھی کہ جبلی اور ممتا کے حوالہ سے‘ وہ سب سے پہلے اپنے بچوں کا پوچھتی۔
اس کے بعد خاوند اور اس ذیل میں تسلی پا کر نبی کا پوچھتی۔ بیٹوں کی شہادت کا سن کر‘ اپنے آپے میں نہ رہتی۔ آج اگر بیٹوں کی عید پر قربانی کا حکم یا سنت موجود ہوتی‘ تو سچ یہی ہے‘ میرے سمیت‘ کوئی مسلمان ہی نہ ہوتا۔ زبانی کالمی کہہ دینا اور بات ہے‘ اس کہے پر عمل کرنا اس سے قطعی الگ بات ہے۔ اس حوالہ غور کیا جائے تو‘ خودی کا ایک دائرہ اور حلقہ مخصوص و محدود ہو جاتا ہے۔ اقبال کا یہ شعر‘ بڑا واضح ہے اور اس میں کوئی عالمت اور استعارہ موجود نہیں۔ خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے‘ بتا تیری رضا کیا ہے خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے
خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے اس شعر کی تفہیم کی ذیل میں یہ عناصر پیش نظر رکھیں۔ خدا خالق اور بندہ مخلوق ہے۔ ٠- ٦۔ دونوں ہم مرتبہ اور ہم جنس نہیں ہیں۔ دونوں کی آگہی کی سطع ایک نہیں۔ ٣- ٤۔ بندے کا علم عطائی ہے۔ خدا کا علم ذاتی ہے۔ خدا قائم بذات ہے۔ بندہ قائم بذات نہیں۔ ٥- خدا ہر حوالہ سے بےنیاز ہے۔ ٢- بندے کا ذاتی کچھ نہیں‘ جو ہے خدا کا دیا ہوا ہے۔ خدا کے ٧- پاس جو کچھ ہے‘ بالشرک غیرے اس کا اپنا ہے۔ خدا کو اس کی حدوں کے حوالہ سے کوئی نئیں جانتا اور ٨- ناہی جاننے کی بساط رکھتا ہے۔ اس کے برعکس‘ خدا بندے کو‘ اس سے کہیں زیادہ جانتا ہے۔۔ کسی کار کا‘ کتنا عوضانہ کتنا بنتا ہے‘ وہ کرنے والے سے‘ ٩- کہیں بہتر اور زیادہ جانتا ہے۔
وہ دینے کے حوالہ سے‘ محتاج اور زیردست نہیں۔ ٠١- وہ فضل واال ہے اور توقع سے زائد دے سکتا ہے۔ توقع ٠٠- سے زائد دیا بالشبہ فضل هللا ہے۔ وہ عطا کے معاملہ میں‘ بخیل نہیں‘ غنی ہے۔ ٠٦- انسان کی مرضی‘ خدا کی مرضی کے ماتحت ہے۔ خدا کی ٠٣- مرضی‘ انسان کی مرضی کے ماتحت نہیں۔ ڈاکٹر اقبال کا یہ شعر‘ شرک سے لبریز ہے اور میں ہوں‘ کو اجاگر کرتے کرتے‘ فرعونیت کی طرف لے جاتا ہے۔ فرعون بھی یہی گمان رکھتا تھا‘ اپنی اس کج فہمی کی وجہ سے‘ ہالکت سے دوچار ہوا۔ ایک عام آدمی کیا‘ نبی رسول بھی‘ اس طرح کی سوچ‘ نہیں سوچ سکتا۔ وہ اپنی مرضی تابع رکھنے اور ازن پر سربہ خم کرنے‘ کی صورت میں ہی‘ نبی ہے۔ بندہ بھی‘ تب بندہ ہے‘ جب وہ خدا کی مرضی کو ہی‘ حرف آخر‘ دل و دل و جان سے جانتا ہے۔ ڈاکٹر اقبال کا ایک اور شعر ہے۔ عبث ہے شکوہءتقدیر یزداں
تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے خودی کی سربلندی کے حوالہ سے‘ یہ شعر پہلے شعر سے قربت رکھا ہے۔ میں ناہیں سبھ توں‘ کے حوالہ سے‘ یہ درست ہے۔ ڈاکٹر اقبال اس نظریہ کے قائل نیہں ہیں اس لیے‘ اس پر‘ میں ہوں کا اطالق ہوتا ہے۔ خودی کے تابع ہونے کی صورت میں‘ یزداں کی مرضی کا تابع ہے۔ کیسا‘ کس طرح اور کتنا طے کرنے کا حق‘ یزداں کے پاس ہی رہتا ہے۔ یہ شعر اس مفہوم کی طرف لے جاتا ہے کہ یزداں تقدیر کا معاملہ اپنی نہیں‘ اس کی مرضی اور ایما پر طے کرے۔ ڈاکٹر اقبال یہ شعر بھی مالحظہ فرمائیں‘ کھال آمریت کا پرچار ہے۔ نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ اسمان کے لیے جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے ہر چیز‘ دوسری سے‘ فطری طور پر‘ وابستہ اور انحصار ٠- کرتی ہے۔
یہ تو یزداں کو مکلف و مقلد کرنا ہے۔ ٦- اس سے‘ خود غرضی کا پہلو سامنے آتا ہے۔ ٣- خدمت میں‘ عظمت پوشیدہ ہے۔ ٤- لو سب‘ دو کچھ نہ‘ میں خودداری کی موت ہے اور یہ مومن ٥- کا طور اور وتیرہ ہو ہی نہیں سکتا۔ آپ کریم سے بڑھ کر کون ہو سکتا ہے۔ آپ کریم سب کے ٢- لیے تھے۔ دے کر ہی حاصل ہوتا ہے۔ ٧- دینے میں جو لطف پوشیدہ ہے‘ وہ لینے میں نہیں۔ ٨- ا جہاں ہے تیرے لیے ٩- ب تو نہیں جہاں کے لیے جہاں خدمت گزار ہو -اس سے خدمت لینا تیرا حق ہے۔ خدمت تیرے فرائض میں نہیں‘ سے زیادہ غیر معقول کوئی بات نہیں ہو گی۔ اقبال کے فلسفہءخودی میں‘ سارتر اور نٹشے کے‘ قدم لیتا نظر آتا ہے۔ یہ بھی کہ وہ تذبذب کا شکار ہیں۔ کوئی بات‘ اس وقت تک بااثر نہیں ہوتی‘ جب تک کہنے واال عامل نہ ہو۔ اس ذیل کی
زندگی کا دیانت دارانہ مطالعہ ضروری ٹھہرتا ہے۔ علما کرام‘ تحریر تقریر میں‘ ڈاکٹر اقبال کا حوا لہ دینے سے پہلے‘ ان کے کہے پر غور فرا لیا کریں۔ یہ انداز درست نہیں‘ چونکہ یہ بات ڈاکٹر اقبال کی کہی ہوئی ہے‘ اس لیے غلط نہیں ہو سکتی یا اس میں خامی ہو ہی نہیں سکتی۔
ابوزر برقی کتب خانہ ترتیب و تشکیل کنور عباس حسنی پی ایچ ڈی ڈیکن یونی ورسٹی اسٹریلیا