مقصود حسنی کے چودہ اسلامی مقالات

Page 1

‫مقصود حسنی کے چودہ اسالمی مقاالت‬ ‫پیش کار‬ ‫پروفیسر نیامت علی مرتضائی‬ ‫ابوزر برقی کتب خانہ‬ ‫نومبر ‪٦١٠٢‬‬


‫فہرست‬ ‫مذاہب اور حقوق العباد کی اہمیت ‪٠-‬‬ ‫زندگی کی درستی کرتے جان دینا انبیاء کی سنت ہے ‪٦-‬‬ ‫ہم اسالم کے ماننے والے ہیں' پیروکار نہیں ‪٣-‬‬ ‫نماز کا سو سے زیادہ سال کا پرانا اردو ترجمہ ‪٤-‬‬ ‫اسالمی سزائیں اور اسالمی و غیراسالمی انسان ‪٥-‬‬ ‫ترجمہ سورتہ فاتحہ ‪٢-‬‬ ‫منظوم شجرہ عالیہ حضور کریم‪....‬عہد جہانگیر ‪٧-‬‬ ‫شجرہ قادریہ ۔۔۔۔۔ ایک جائزہ ‪٨-‬‬ ‫ایک قدیم یادگار۔۔۔۔بارہ امام ‪٩-‬‬ ‫حضور کریم لملسو ہلص اور تخلیق کائنات ‪٠١-‬‬ ‫میں ناہیں سبھ توں۔۔۔۔۔۔۔چند معروضات ‪٠٠-‬‬ ‫بابا جی شکرهللا ‪٠٦-‬‬ ‫قصہءآدم ‪٠٣-‬‬ ‫خودی اور اس کے حدود ‪٠٤-‬‬


‫مذاہب اور حقوق العباد کی اہمیت‬ ‫ہر شخص جس کنبے میں جنم لیتا ہے اس کنبے کا مذہب' نظریہ‬ ‫اور اصول وضوابط لے کر بڑا ہوتا ہے‪ .‬اس مذہب یا نظریے‬ ‫سےاس کا قلبی تعلق ہوتا ہے۔ وہ اس مذہب یا نظریے کو دینا کا‬ ‫سچا اور برحق مانتا ہے۔ اپنے مذہب یا نظریے پر فخر کرتا ہے۔‬ ‫دوسرے مذاہب وغیرہ سے متعلق دالئل اسے الیعنی لگتے ہیں۔‬ ‫میں کہتا ہوں جو ماں باپ کنبہ یا قبیلہ کی طرف سے پیدایشی‬ ‫نظریہ یا مدہب ملتا ہے اس پر اترانے والی ایسی کون سی بات‬ ‫ہے۔ اس میں شخص کا اپنا کیا کمال ہے۔ مزا تب ہے جب وہ‬ ‫اپنے مذہب یا نظریے کا غیر جانب دار ہو کر جائزہ کرے۔‬


‫دوسرے مذاہب اور نظریات کے امور سے موازنہ کرے اور‬ ‫اندازہ کرے کون سے اور کس مذہب یا نظریے کے امور انسانی‬ ‫فطرت کے قریب ہیں۔ اس کے مذہب یا نظریے پر اٹھائے گئے‬ ‫اعتراضات واقعی درست ہیں یا کس سطع پر بددیانتی اور‬ ‫جانبداری کا عنصر موجود ہے۔ جو غلط ہے' وہ غلط ہے‪ .‬اس پر‬ ‫مادری پدری عصبیت کے حوالہ سے ڈٹے رہنا کسی طرح درست‬ ‫نہیں۔ میں نہ مانوں کی ہٹ کسی طرح ٹھیک نہیں۔ یا یہ کہ فالں‬ ‫کی کہی ہوئ بات فالں مذہب یا نظریے سے تعلق رکھتی ہے اس‬ ‫لیے درست نہیں ہو سکتی۔ اس قسم کے طرز عمل یا سوچ کی‬ ‫تحسین نہیں کی جا سکتی۔‬ ‫ہر مذہب دو چیزوں سے جڑا ہوا ہوتا ہے‬ ‫اس مذہب کے پوجیور کے حقوق ‪1.‬‬ ‫مخلوق کے حقوق ‪2.‬‬ ‫پوجیور کے حقوق میں عبادات ہیں۔ عبادات پوجیور کو پوجیور‬ ‫تسلیم کرنے کا عملی ذریعہ ہوتی ہیں۔ وہ پوجیور ہی کیا جو اپنی‬ ‫مخلوق کا کسی بھی حوالہ سے محتاج ہو یا اس کا وجود مخلوق‬ ‫کی عبادات کی وجہ سے برقرار ہو۔ مخلوق کی عبادات اسے اس‬ ‫کی حالت پر برقرار رکھتی ہوں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ مخلوق‬ ‫کی عبادات یا اس کا کوئ منفی یا مثبت فعل پوجیور کی صحت پر‬


‫رائی بھر اثرانداز نہیں ہوتا۔ وہ ہمیشہ اپنی حالت پر رہتا ہے۔‬ ‫کسی بھی سطع پر اس کی حالت میں کسی نوعیت کی تبدیلی‬ ‫واقع نہیں ہوتی۔ وہ ناقابل تغیروتبدل ہوتا ہے۔ وہ قائم بذات ہوتا‬ ‫ہے۔ پوجیور کسی کا محتاج نہیں ہوتا سب اس کے محتاج ہوتے‬ ‫ہیں۔ کوئ اس کو مانے یا نہ مانےاس پر اس کا کوئی اثر مرتب‬ ‫نہیں ہوتا۔ ادنی ہو کہ اعلی' باآلخر اسی کی طرف پھرنے والے‬ ‫ہیں۔ کوئی برا ہو کہ اچھا پالنے واال وہی ہے۔ وہ ہر کسی کو اس‬ ‫کے قول و فعل سے باال ہو کر رزق فراہم کرتا ہے۔ کسی کے فعل‬ ‫بد کے سبب وہ اس کے رب ہونے سے انکار نہیں کر دیتا۔‬ ‫عبادات دراصل مخلوق کا اپنے پوجیور سے اظہار تعلق کا طور‬ ‫ہونے کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کی عملی تیاری‬ ‫ہے۔ اس سے مخلوق کی خدمت کرنے کا موقع میسر آتا ہے۔‬ ‫مخلوق کی خدمت کا ڈھنگ بھی آتا ہے۔ باجماعت نماز کی‬ ‫ادائیگی سے شخص' شخص کے قریب تر رہتا ہے۔ اس طرح‬ ‫شخص' شخص کے دکھ سکھ سے آگاہ رہتاہے۔ اچھے برے‬ ‫وقت میں اس کا ساتھ دیتا ہے۔ کاروباری لین دین کرتا ہے۔جمعہ‬ ‫عیدین اور حج روزمرہ کے اجتماعات سے بڑے اجتماعات ہوتے‬ ‫ہیں۔ اس طرح اس کے تعلق کا حلقہ وسیع ہو جاتا ہے۔ اس سے‬ ‫سانجھیں وسیع پیمانے پر بڑھتی ہیں۔ ان وسیع اجتماعات میں‬ ‫دوستوں دشمنوں کے حوالہ سے مذاکرات ہوتے ہیں۔ دشمن کی‬


‫شر سے بچنے کے لیے تدابیر پر تبادلہ خیال ہوتا ہے۔ مناسق‬ ‫حج عہد رفتہ کے اصولوں کی یاد تازہ کرنے کے لیے ادا کیے‬ ‫جاتے ہیں ورنہ بھاگ دوڑ کنکر باری سے هللا کریم‪/‬پوجیور کی‬ ‫ذات عالیہ پر کیا فرق پڑتا ہے۔ خانہ کعبہ هللا نہیں' مسلمانوں کا‬ ‫نقطہ اجتماع ہے۔ هللا کا چونے گارے سے کیا تعلق یا یہ کہ وہ‬ ‫اس چونے گارے کے مکان میں اقامت رکھتا ہے۔ وہ تو ہر جگہ‬ ‫پر ہے یہاں تک کہ آسمان کے اس پار اور آسمان کی سرحدوں‬ ‫سے باہر بھی اپنے کامل وجود کے ساتھ موجود ہے۔ وہ الہ ہی‬ ‫کیا جو زمان و مکان کا پابند ہے۔ ہاں مخلوق زمان و مکان کی‬ ‫پابند ہوتی ہے۔‬ ‫بڑی عید پر جانور ذبح کئے جاتے ہیں۔ یہ حضرت ابراہیم اور ان‬ ‫کے صاحبزادے حضرت اسماعیل کی قربانی کو یاد رکھنے کا‬ ‫ذریعہ ہے۔ سوال پیدا ہے هللا کو خون گوشت وغیرہ کی کیا‬ ‫حاجت ہے۔ یہ تو انسان اپنے ہم جنس انسان کی عظمت کا‬ ‫اعتراف کر رہا ہوتا ہے۔ هللا پر کیا احسان کر رہا ہوتا ہے۔ گوشت‬ ‫اور کھال وغیرہ اپنے تصرف میں التا ہے۔ ان تمام چیزوں سے‬ ‫هللا پر کیا فرق پڑ رہا ہوتا ہے۔ جانور وغیرہ جیب اجازت دیتی‬ ‫ہے تو ہی زمین کے عظیم انسانوں کی یاد تازہ کی جاتی ہے۔‬ ‫انسان کی عظمت کے اعتراف کو هللا قدر کی نگاہ سے دیکھتا‬ ‫ہے۔‬


‫زکواتہ کو دیکھ لیں انسان' انسان کو پیسے دے رہا ہوتا ہے‬ ‫اپنے پوجیور کو نہیں اور نہ ہی اس کو اس کی کوئی حاجت ہے۔‬ ‫انسان پلے سے کچھ نہیں دے رہا ہوتا بلکہ رب کے دیے ہوئے‬ ‫میں سے دے رہا ہوتا۔ جب انسان اس حوالہ سے کسی کی‬ ‫ضرورت پوری کرتا ہے توانسان کا انسان سے معاشی تعاون هللا‬ ‫کو اچھا لگتا ہے۔ انسان' انسان سے معاشی تعاون نہ کرے تو‬ ‫رب گریب نہیں وہ حاجت مند کے لیے کوئی دوسرا دروازہ کھول‬ ‫دیتا ہے۔ اس کے آنےاور دینے کے ان حد رستے ہیں۔‬ ‫تمام عبادات کا تجزیہ کر لیں یہ درحقیقت انسان کا انسان سے‬ ‫تعلق جوڑنے کا عملی ذریعہ ہیں۔ ایک شخص نےنماز پڑھ لی یا‬ ‫حج کر لیا یا روزہ رکھ لیا اور وہ سمجھتا ہے سیدھا جنت میں‬ ‫جائے گا۔ اسےعبادات کے عوض سیر کا تین پاؤ تولنے کی‬ ‫اجازت مل گئی ہے۔ حج کرنے کے بعد حاجی صاحب اور سر پر‬ ‫مکی ٹوپی رکھنے کے اعزاز میں ہر منفی فعل سر انجام دینے‬ ‫کی چھٹی مل گئ ہے تو اس سے زیادہ کوئی غلط بات ہو ہی‬ ‫نہیں سکتی۔ کوئ شخص بکرا ذبح نہیں کر سکتا حج کے لیے‬ ‫جا ہی نہیں سکتا اگر اس کے رشتہ داروں یا ارد گرد کے‬ ‫مقیموں میں کوئ حاجت مند موجود ہے۔ ہمسایہ میں جوان لڑکی‬ ‫باپ کی گربت کے سبب ڈولی نہیں چڑھتی یا کوئی کینسر کے‬


‫مرض میں مبتال ہے اور اس کے گھر والے عالج نہیں کرا‬ ‫سکتے ایسی صورت میں حج پر جانا یا بکرا ذبح کرنا معنویت‬ ‫اور اجر سے تہی رہتا ہے۔ یہ عبادات اسی وقت معنویت اور اجر‬ ‫کی حامل ہوں گی جب خوشحالی اور ہر طرح سے سماجی فرغت‬ ‫‪.‬ہوگی‬ ‫گھر یا قرب و جوار میں کوئ زندگی اور موت کی کشمکش میں‬ ‫مبتال ہے۔ ہر گزرتا لمحہ اس کو بچانے کے لیے بڑا اہم ہے۔ اس‬ ‫صورت حال میں نماز یا اور کوئ عبادت موآخر کرکے مریض کو‬ ‫یہ دیکھے بغیر کہ وہ کون ہے ہیاں تک کہ وہ دشمن ہی کیوں‬ ‫نہ ہو' معالج کے پاس لے جانا ضروری ہو گا۔ کسی کی جان‬ ‫بچانا یا اس کے مشکل وقت میں کام آنا بھی عبادت کے زمرے‬ ‫میں آتا ہے۔ یہ اس کا شخصی اور سماجی حق ہے کہ اس کی‬ ‫جان بچائ جائے۔ نظر انداز کرنے کی صورت میں یہ قرض گردن‬ ‫پر رہے گا۔ قرض تو شہید کو بھی معاف نہیں کیا جائے گا۔‬ ‫عبادات مذہب کا ایک حصہ ہے پورا مذہب نہیں۔ عبادات کو مذہب‬ ‫کا ایک جز الزم سمجھ کر ادا کرنا ضروری ہے لیکن عبادات کو‬ ‫مکمل مذہب سمجھ لینا اور ان کے حوالہ سے جنت االٹ کرا‬ ‫لینے کی سوج کا جنم لینا بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ پورا تولنا' بال‬ ‫تمیز وامتیاز انصاف کرنا سچی گواہی دینا حقدار کی مدد کرنا سچ‬


‫بولنا معاف کرنا وغیرہ کو کس طرح مذہب سے الگ کیا جا سکتا‬ ‫۔ پوجیور انسان کی فالح اور ظفر مندی چاہتا ہے‬ ‫ایک بوڑھا اور کمزور شخص اس پار جانے کے لیے مدد چاہتا‬ ‫ہے۔ پیدل یا کار پر بیٹھے شخص کو مذہب آگے بڑھ جانے کی‬ ‫اجازت نہیں دیتا۔ اگر بڑھ جاتا ہے تو وہ اس بوڑھے شخص کا‬ ‫مقروض مرے گا۔ پوجیور اس سے اس بوڑھے شخص کے‬ ‫قرض کو نظرانداز نہیں کرے گا۔‬ ‫ایک شخص کے ایک سو ایک حج سات نمازیں اور دیگر عبادات‬ ‫هللا کے ہاں یقینا بڑا اعتبار رکھتی ہیں لیکن اس کی رائی بھر کی‬ ‫بددیانتی کی مثل ایسی ہی ہے کہ کوئی دس من خالص دودھ کے‬ ‫کڑاھے میں دو بوند پیشاب کی ڈال دے۔ دو بوند پیشاب دس من‬ ‫خالص دودھ کو غارت کرکے رکھ دے گا۔ گویا رائی بھر بددیانتی‬ ‫اور ہیرا پھیری ان خوبصورت عبادات کے ماتھے پر رسوائی کا‬ ‫کلنک ہو گا۔‬ ‫حضرت ابراہیم حضرت رام چندر دیو حضرت زرتشت حضرت‬ ‫مہاتما بدھ حضرت کرشن مہاراج حضرت موسی کلیم هللا حضرت‬ ‫عیسی ابن مریم سکھ مت کے حضرت گرو نانک دیو یقینا اپنے‬


‫عہد کے بے مثل اور بےبدل لوگ تھے ۔ ان کی حیات کا دیانت‬ ‫داری سے مطالعہ کریں۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ انسان کی‬ ‫خدمت میں گزرا‪ .‬انہوں اپنے بدترین دشمن کی بھی بہتری اور‬ ‫بھالئی چاہی۔ اس کے لیے دعائیں مانگیں۔ اس کا برے وقت میں‬ ‫بال مطلب ساتھ دیا۔ اس کے زخموں پر مرہم رکھا۔ وہ میرے‬ ‫سامنے نہیں ہیں جو میں ان کی ٹی سی کر رہا ہوں۔ وہ اپنے‬ ‫کردار کے حوالہ سے سالم و پرنام کے مستحق ہیں‪ .‬اگر کوئی‬ ‫اس ذیل میں بخل سے کام لے گا تو بددیانتی کا مرتکب ہو گ‬ ‫حضرت دمحم آپ کی خدمت میں مجھ ناچیز کی طرف سے ان حد‬ ‫درود و سالم انسانی تاریخ کے الثانی کردار ہیں۔ ان کی زندگی کا‬ ‫ایک لمحہ بھی دستاب نہیں جو انسان کی خدمت کے سوا گزرا‬ ‫ہو۔ آپ سجدہ میں گئے حضرت حسین ابن علی ان کی پشت پر‬ ‫سوار ہو گئے‪ .‬آپ کریم نے اس وقت تک سر سجدہ سے نہیں‬ ‫اٹھایا جب تک وہ نیچے اتر نہیں گئے۔ اگر آپ کریم سر اٹھاتے‬ ‫تو حضرت حسین ابن علی کو گرنے سے چوٹ لگ سکتی تھی۔‬ ‫یہ کسی گریب ترین کا بچہ بھی ہوتا تو آپ کریم کا رویہ اس‬ ‫سے مختلف نہ ہوتا۔ اس سے بڑھ کر انسان کی خدمت اور عزت‬ ‫کیا ہو سکتی ہے۔ آپ کریم نے انسان کے لیے سجدہ التوا میں‬ ‫کیا‪ .‬انسان کے معتبر ہونے کے وصف کو نمایاں فرمایا۔‬


‫درج باال شخصیات کے بلند مرتبہ ہونے میں کسی قسم کے شک‬ ‫و شبہ کی گنجائش ممکن ہی نہیں۔ ان میں سے کوئی ہم میں‬ ‫موجود نہیں۔ آج جو موجود ہیں ان میں سے بھی کوئی باقی نہیں‬ ‫رہے گا۔ بقا صرف اور صرف هللا کی ذات گرامی کے لیے ہے۔‬ ‫دمحم علی جناح دوہائی کے بیرسٹر تھے لیاقت علی خان نواب آف‬ ‫کاال باغ زیڈ اے بھٹو میجر جرنل سکندر مرزا جرنل ایوب خان‬ ‫جرنل آغا دمحم یحی خان جرنل ضیاءالحق جرنل موسی خان وغیرہ‬ ‫اپنے عہد کے بڑے پھنے خاں تھے' کہاں اور کدھر ہیں‬ ‫اپنے ساتھ کیا کچھ لے کر گیے‬ ‫بےشک رتی بھر دنیا کا مال اپنے ساتھ لے کر نہیں گئے۔‬ ‫آج کے لوگ بھی پہلوں کی طرح خالی ہاتھ جائیں گے۔ یہی‬ ‫زندگی اور موت کا رواج ہے۔ آج گزرے کل کا سچ باقی ہے۔‬ ‫مورخ ڈنڈی مار لے ادب اگلی نسلوں کو سچ پنچا دیتا ہے۔ یہ‬ ‫بھی کہ هللا تو سب جاننے واال ہے۔ اس سے کوئی کس طرح‬ ‫حقیقت کو چھپا سکے گا۔ میرا اصرار ہے حقوق العباد ایسا‬ ‫قرض ہے جس سے صرف نظر نہیں ہو گا۔ حاجی نمازی یا‬ ‫زکاتی حقوق العباد سے باالتر نہیں ہیں۔ ان کا حج یا ان کی‬ ‫نمازیں انھیں اس قرض سے مکتی نہیں دال سکیں گے بلکہ‬ ‫عبادات اس کے باطن کی خباثت کو کھول کر رکھ دیں گی۔‬ ‫عبادات کا خلوص انسان کو برائی کی طرف پھرنے نہیں دیتا۔‬


‫بددیانت شخص کی عبادات میں کھراپن ہو ہی نہیں سکتا۔‬ ‫کسی اللچ میں کی گئ عبادت کس کام کی۔ جنت کے حصول کے‬ ‫لیے کی گئ عبادت هللا کی عبادت تو نہ ہوئی جنت کی عبادت ہو‬ ‫ہوئی۔ عبادت تو یہ ہے کہ هللا کی عبادت کی جائے کیونکہ وہ‬ ‫عبادت کا حق رکھتا ہے۔ جنت تو انسان کا گھر ہے لہذا وہ اس‬ ‫گھر سےاس گھر هللا کی عطا سے جایے گا ہی۔‬ ‫جو مذہب یا نظریہ انسان کی خدمت انسان سے پیار کرنا اور‬ ‫شخص کے شخصی اور سماجی حقوق پورے کرنا نہیں سکھاتا‬ ‫وہ مذہب یا نظریہ سچا ہو ہی نہیں سکتا۔ جو پوجیور صرف اور‬ ‫صرف اپنی پوجا پارٹ سے راضی ہو جاتا ہے اور حقوق العباد‬ ‫کو ثانوی درجہ دیتا ہے وہ سچا اور حقیقی پوجیور ہو ہی نہیں‬ ‫سکتا لہذا ایسے مذہب سے جڑے رہنا درست نہیں۔ جب انسان'‬ ‫انسان کے لیے اپنا مال اور خون پیش کرتا ہے' اس کے لیے‬ ‫فکرمند ہوتا ہے' دل سے اس کی بہتری اور بہبود کے لیے دعا‬ ‫کرتا ہے تو پوجیور اس پر راضی ہو جاتا ہے حاالنکہ شخص‬ ‫نے اپنے ہی بھائی بند کی خدمت کی ہوتی ہے ۔ پوجیور کی دیا‬ ‫اور عطا انسان تک ہی محدود نہیں۔ ایک چونٹی بھی اس کی‬ ‫مخلوق ہے اور اسے عزیز ہے۔ اگر انسان ایک چونٹی کو سکھ‬ ‫فراہم کرتا ہے تو گویا اپنے اسان ہونے کا حق ادا کر دیتا ہے۔‬


‫‪CaLmInG MeLoDy‬‬

‫مقصود حسنی صاحب آپ نے اس عنوان کو بہت عمدگی سے‬ ‫اپنے الفاظ میں پرویا ہے‪ .‬اور بال شبہ بہت اچھے طریقے سے‬ ‫آپ نے ایک ایک بات کو دنیا کے ہر فعل کا موازنہ ایک عام‬ ‫انسان کی سوچ میں ڈھالتے ہوئے مذہب کے ساتھ کیا ہے‪ .‬اور‬ ‫کوئی سمجھدار ہو تو ان باتوں کو ضرور سمجھے اور دینی‬ ‫کمزوری اگر اسکے ذہن میں ہے بھی تو اسے جھٹک دے‪.‬‬ ‫بہت عمدہ تحریر‬ ‫‪http://www.friendskorner.com/forum/showthread.php/292208-%D9%85%D8%B0%D8%A7%DB%81%D8%A8-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AD%D9%82%D9%88%D9%82-%D8%A7%D9%84%D8%‬‬ ‫‪B9%D8%A8%D8%A7%D8%AF-%DA%A9%DB%8C-%D8%A7%DB%81%D9%85%DB%8C%D8%AA‬‬

‫زندگی کی درستی کرتے جان دینا انبیاء کی سنت ہے‬ ‫بلور ذاتی طور پر کیسے ہیں‘ ان پر عدالت میں کتنے اور کس‬ ‫نوعیت کے کیس ہیں میں نہیں جانتا اور میرے موضوع کا اس‬


‫سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا بیان سیاسی ہے مجھے اس کی خبر‬ ‫نہیں کیونکہ دلوں کے حال صرف اور صرف هللا ہی جانتا ہے۔‬ ‫میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ ان کا بیان ایک سچے اور کھرے‬ ‫مسلمان کا ہے یہاں تک کہ ان کے مطابق وہ ناموس رسالت کے‬ ‫لیے جان سے بھی گزرنے کے لیے تیار ہے۔ مجھے تو بہر‬ ‫طور ان کے ہر لفظ میں آقا کریم کی سچی محبت نظر آتی ہے۔ان‬ ‫کا کہنا ہے کہ سیاست وزرات امارت کی اس ذیل میں کی کوئ‬ ‫پرواہ نہیں۔‬ ‫جن دلوں میں شیطان وسوسے ڈالتا ہے ان کا کیا کیا جا سکتا‬ ‫ہے۔ ان کے بیان سے حکومتی حلقوں کو پوٹیاں لگ گئ ہیں اور‬ ‫ان کے بیان کو ان کا ذاتی بیان قرار دیا جا رہا ہے۔ کیا عجیب‬ ‫لوجک ہے۔ کیا وہ موجودہ سرکار سے متعلق نہیں۔ سرکاری ذمہ‬ ‫دار عہدے دار کی کوئی بات ذاتی نہیں ہوتی اسے سرکاری ہی‬ ‫سمجھا جاتا ہے اور سمجھا بھی جانا چاہیے۔‬ ‫امام کعبہ فلم بنانے والے کو دوسرا سلمان رشدی قرار دے‬ ‫چکے ہیں۔ سلمان رشدی کے لیے دیا گیا فتوی ریکارڈ میں ہے۔‬ ‫اس حوالہ وفاقی وزیر ریلوے کا بیان کس طرح غلط ہے۔ انھوں‬ ‫نے عین شرع کے مطابق کام کیا ہے۔‬ ‫جعمہ کے روز سرکاری چھٹی دی گئ تاکہ لوگ مغربی قیادت‬ ‫کے اس فعل کی اپنے اپنے انداز سے مذمت کر سکیں اور سراپا‬ ‫احتجاج کا رستہ اختیار کریں۔ احتجاج کس طرح ہوا یہ باالکل‬


‫الگ سے بحث ہے۔‬ ‫وہ چھٹی کا اعالن محض ٹوپی ڈرامہ اور سیاست چمکانے کا‬ ‫ذریعہ سمجھا گیا اور اپنی حکومت کے وزیر کی کہی بات کو‬ ‫غیر سرکاری کہا جا رہا ہے۔‬ ‫هللا کا ڈر اور آقا کریم کی محبت پر غیر هللا کا ڈر غالب آ گیا ہے۔‬ ‫زمینی خدا عزت نہیں دے سکتے ہاں ذلت کی دلدل میں ضرور‬ ‫دھکیل سکتے ہیں۔ رزق بھی ان کے ہاتھ میں نہیں۔ رازق صرف‬ ‫اور صرف هللا کی ذات گرامی ہے۔ ماں کے پیٹ میں زمینی خدا‬ ‫رزق بھجواتے ہیں۔ پیدایش کے فورا بعد دودھ اور شہد کی دو‬ ‫نہریں جاری کرنے وا ال صرف اور صرف هللا ہی ہے۔ جب عزت‬ ‫ذلت رزق هللا کے ہاتھ میں ہے تو ڈنڈی مار زمینی خدا کی خدائی‬ ‫کو ماننا کیا خود اپنے ساتھ ظلم نہیں ہے۔‬ ‫مسلمانی کے لیے هللا کو هللا ماننا اور آقا کریم کی رسا لت کو دل‬ ‫و جان سے تسلیم کرنا الزم ہے تو یہ کس طرح کی مسلمانی ہے‬ ‫جو ان جعلی خداؤں کی گھرکی سے لوٹا ان کے ہاتھ سے نہیں‬ ‫چھوٹ رہا۔ یہ لوٹا ہولڈر شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ ہمیشہ‬ ‫کے لیے موجودہ پوزیشن کے ساتھ قائم دائم رہیں گے۔ کوئی‬ ‫ہمیشہ کے لیے نہیں ہے۔ کوئ آج تو کوئی کل یہاں سے جانے‬ ‫واال ہے۔ ٹیپو نے کہا تھا شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی‬ ‫سو سالہ زندی سے بہتر ہے۔ وہ آج بھی زندہ ہے اور کل بھی‬ ‫دلوں میں زندہ رہے گا۔ بزدل اور پیٹ کا بندہ زندہ ہو کر بھی‬


‫زندہ نہیں ہوتا۔ بلور صاحب دلوں کے صاحب بن کر ابھرے ہیں‬ ‫اور یہی زمین کی سرخروئ ہے۔‬ ‫مغرب کی قیادت انسانی حقوق اور آزادی کا روال ڈالتی رہتی ہے۔‬ ‫یہ کیسی انسانی حقوق کی پاسداری ہے جو کرڑوں انسانوں کو‬ ‫ڈسٹرب کرتی ہے۔ ان کے جذبات مجروع کرتی ہے۔ یہ کیسی‬ ‫آزادی ہے جو اوروں کے نظریات اور جذبات کا قتل کرتی ہے۔‬ ‫ڈسٹرب کرنے اور امن وسکون برباد کرنے والے پر کوئ گرفت‬ ‫نہیں۔ اس کے خالف بات کرنے واال مجرم ہے۔ اگر اسے کھلی‬ ‫چھٹی دیے رکھنا ہے تو مذمتی بیان داغنے کی کیا ضرورت ہے۔‬ ‫برطانیہ کا کہنا ہے انتہا پسند کو بردشت نہیں کریں گے۔ انتہا‬ ‫پسندی کی یہ دہری تعریف سمجھ سے باالتر ہے۔ زمین کا امن و‬ ‫سکون برباد کرنے واال انتہا پسند نہیں اور وہ ہر قسم کی تعزیر‬ ‫سے باالتر ہے۔ گویا تھپڑ مارنے واال درست ہے جوابی کاروائی‬ ‫کرنے واال مجرم یعنی انتہا پسند ہے۔ آتی نسلیں اس دہری تعریف‬ ‫کو لعنتی قرار دیں گی۔ ڈراون حملوں سے لوگوں سے زندگیاں‬ ‫چھین لینے واال انتہا پسند نہیں۔ اس کے فعل بد کی مذمت کرنے‬ ‫واال انتہا پسند ہے۔‬ ‫جب چور درست اور گھر واال مجرم ٹھہرے گا تو زندگی کا پہیہ‬ ‫الٹا چلنے لگے گا۔ کچھ بھی درست نہیں رہے گا۔ انبیاء کرام‬ ‫زندگی کے پہیے کی درستی کے لیے تشریف التے رہے۔ انھیں‬ ‫صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ بہت سے شہید بھی ہوئے۔ گویا‬


‫زندگی کے پہیے کی درستی کے کام کے حوالہ سے مرنا انبیاء‬ ‫کی سنت ہے۔ اگر آج پیٹھ دکھائی گئی تو حقیقی اتہا پسندوں کے‬ ‫حوصلے بلند ہوں گے۔ وہ اس سے بڑھ کر ایسی مذموم حرکتیں‬ ‫کریں گے۔ آج ہماری لیڈر شپ کو شیر بننا پڑے گا اور بلور‬ ‫صاحب کے بیان کو سرکاری بیان تسلیم کرنے میں کوئی عار‬ ‫نہیں سمجھنی چاہیے۔ ان کے باہر اقامت رکھنے والے بچوں کو‬ ‫کچھ نہیں ہو گا کیونکہ هللا سے زیادہ حفاظت کرنے واال کوئی‬ ‫نہیں۔‬ ‫اسی طرح ادھر پڑی قوم کی لوٹی اور اب ان کی رقوم کو خطرہ‬ ‫ہے۔ هللا سے زیادہ دینے واال کون ہو سکتا ہے۔ اس کے دینے‬ ‫کے ان حد رستے ہیں۔ آقا کریم کی شان اور قومی عزت سے‬ ‫بڑھ کر دولت اور زندگی کیسے باالتر ہو سکتی ہے۔ اصل مسلہ‬ ‫یہ ہے کہ وہ خود کو اس قوم کا سمجھیں وہ اپنا شمار مغربی‬ ‫دنیا میں کرتے ہیں۔‬ ‫ن لیگ کی قیادت نے معاملے کو بین اال قومی عدالت میں لے‬ ‫جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ قابل تحسین فیصلہ ہے۔ اپنا نقطہ نظر تو‬ ‫پیش ہونا چاہیے۔ اس حوالہ سے مجرم کو انسانی حقوق کا قاتل‬ ‫تو قرار دینے کی سعی کی جا سکتی ہے۔ اس سے آئندہ اس قسم‬ ‫کی مذموم حرکات کی راہ میں دیوار کھڑی کی جا سکتی ہے۔‬


‫ہم اسالم کے ماننے والے ہیں' پیروکار نہیں‬ ‫میں عرصہ سے حیران تھا کہ مسلمان دنیا کی ایک کثیر آبادی‬ ‫ہونے کے باوجود ذلت وخواری زیردستی اور قرض کے چنگل‬ ‫میں کیوں گرفتار ہیں۔ اگر کوئی سر اٹھاتا ہے تو اٹھنے واال سر‬ ‫کلسڑ سے قلم کر دیا جاتا ہے یا پھر پابندیاں لگا دی جاتی ہیں۔‬ ‫کوئی اس قہر و غصب پر چوں بھی نہیں کر پاتا۔‬ ‫میرے ذہن میں یہ سوال بھی اٹھا کیا اکثریت کی کوئی معنویت‬ ‫نہیں۔ اگر اکثریت معنویت سے تہی ہے تو پھر جمہوریت محض‬ ‫ایک پاکھنڈ ہے۔ اگر جمہوریت ایک ڈرامہ ہے تو ہم اس میں اپنی‬ ‫بقا کیوں خیال کرتے ہیں۔‬ ‫ایک سوال نے پھر جنم لیا‘ کیا جمہوریت کوئی پروگرام بھی‬ ‫دیتی ہے۔ اس کا جواب یقینا نفی میں ہے۔ اگر جمہوریت کوئی‬ ‫پروگرام نہیں دیتی یا اس کا اپنا ذاتی کوئی پروگرام نہیں ہے تو‬ ‫کیا جمہوریت میں ترقی کی تالش کھلی حماقت نہیں۔ غیر مسلم‬ ‫جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں تو یہ ان کے سماجی اور مذہبی‬


‫سٹ اپ سے لگا رکھتی ہو گی وہ اسے شوق سے گلے کا ہار‬ ‫بنائیں۔ کسی مسلم کو اس پر اعتراض کرنے کا بھال کیا حق ہے۔‬ ‫انھیں اپنی مرضی اور ضرورت کی زندگی گزارنے کا حق ہے۔‬ ‫اسالم میں تقوی پرہیزگاری اور عمل صالح کو اہمیت حاصل ہے۔‬ ‫اگر کوئی مزدور ہے لیکن یہ تینوں امور رکھتا ہے تو ریاستی‬ ‫امارت کا اس شخص سے زیادہ کون مستحق ہے۔ جو بے پناہ‬ ‫دولت طاقت یا ڈرانے دھمکانے اور دباؤ ڈالنے کی پوزیشن میں‬ ‫ہے لیکن قول و فعل کے حوالہ سے فاسق و فاجر ہے وہ یہ حق‬ ‫نہیں رکھتا۔ گویا اس کی دولت اور طاقت کوئی معنوت نہیں‬ ‫رکھتی۔‬ ‫میں نے بڑا غور کیا ہے اکثریت کی کوئی معنویت نہیں۔ انسانی‬ ‫ترقی اور بقا کی ضامن کوئی اور چیز ہے۔ اؤل اؤل مسمان تعداد‬ ‫میں ناہونے کے برابر تھے لیکن کامیابی سے ہم کنار ہوتے‬ ‫تھے۔ نماز روزہ حج زکوتہ وغیرہ واجبات وہ بھی انجام دیتے‬ ‫تھے ہم بھی ان واجبات کی ادائیگی سے سرخرو ہونے کی‬ ‫کوشش کرتے ہیں قربانی بھی بڑے جوش و جذبے سے دیتے‬ ‫ہیں تو پھر ناکام ونامراد کیوں ہیں؟‬ ‫موجودہ صورت حال کے حوالہ سے سوال اٹھتا ہے کیا مسلمان‬


‫ہونے کے معاملہ میں ان امور کی ادائیگی کافی نہیں؟!‬ ‫اگر مسلمان ہونے کے لیے یہ واجبات کافی ہوتے تو آج ہم دنیا‬ ‫میں سربلند ناسہی باعزت ضرور ہوتے۔‬ ‫اسالم کا تعلق عملی زندگی سے ہے۔ اسالم کا تقاضا ہے کہ‬ ‫تمام مسلمان بال کسی تمیز وامتیاز آپس میں بھائی بھائی ہیں‬ ‫لیکن ہم میں بھائی چارہ سرے سے موجود نہیں۔ رنگ نسل‬ ‫زمین زبان اور عقیدہ کے حوالہ سے ایک دوسرے سے کوسوں‬ ‫دور ہیں۔ ہمارے معاشی اور نظریاتی مفادات ایک دوسرے سے‬ ‫الگ ہیں۔ کوئی ظالم کسی مسلمان کو پھڑکاتا ہے تو ہم ساتھ‬ ‫دینے یا کم از کم بچ بچاؤ کرانے کی بجائے ظالم کی طرف داری‬ ‫ہی نہیں مسلمان کو مزید ازیت دینے کے لیے ظالم کا ساتھ دیتے‬ ‫ہیں اور اس کے فعل بد کو درست ثابت کرنے کے وہ وہ دالئل‬ ‫گزارتے ہیں جن کا خود ظالمکو علم نہیں ہوتا۔‬ ‫اسالم میں کسی کو زبان یا ہاتھ سے دکھ اور تکلیف دینے کی‬ ‫اجازت نہیں لیکن ہمیں اوروں کو ان دونوں حوالوں سے دکھ‬ ‫اور تکیف دے کر خوشی ہی نہیں سرشاری ہوتی ہے۔‬


‫اسالم میں بدال لینے کی ممانعت نہیں اور ناہی دوسرا گال پیش‬ ‫کر دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ بدال لینے کا پورا پورا ہر کسی کو‬ ‫حق حاصل ہے ہاں معاف کر دینے میں بڑھ کر اجر رکھ دیا گیا‬ ‫ہے۔ ہمارے پاس معافی نام کی چیز ہی نہیں۔ ہم ناکردہ جرم کی‬ ‫سزا دینے کے بھی قائل ہیں۔ ایک شخص جرم نہیں کرتا یہ اس‬ ‫کا قصور ہے اس میں اذیت پسند کا کیا قصور ہے۔ چونکہ وہ‬ ‫کمزور ہے لہذا اسے بہرطور سزا اور ازیت سے باالتر نہیں‬ ‫رکھا جا سکتا۔‬ ‫اسالم میں رشتہ دار تو الگ دشمن اور غیر مسلم ہمسایہ بھی‬ ‫بھوکا نہیں سو سکتا اس کے بارے میں ہم سے روز حشر سوال‬ ‫ہو گا۔ ہم اپنے سوا کسی اور کو پیٹ بھر کھاتا دیکھ ہی نہیں‬ ‫سکتے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ اس کے منہ کا لقمہ بھی‬ ‫چھین لیں۔ رہ گئی قیامت کی بات وہ ہمیں یاد تک نہیں۔ ہم‬ ‫موجودہ حیات ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں۔‬ ‫اسالم چوری کی اجازت نہیں دیتا۔ ہر بڑا آدمی ٹیکس کی چوری‬ ‫اپنا بنیادی حق سمجھتا ہے۔ یہ چیز گریبوں سے متعلق ہے۔‬ ‫بڑے قرضوں کی معافی کو اپنا قانونی حق سمجھتے ہیں جبکہ‬ ‫گریب کی سنگی پر انگوٹھا رکھ کر قرض وصول کر لیا جاتا ہے۔‬ ‫طاقتور بجلی کی چوری کو چوری نہیں سمجھتا۔ خود واپڈا والے‬


‫اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ کیا کریں اپنے‬ ‫پیٹ کے عالوہ باال افسروں کے پیٹ کی ذمہ داری بھی ان کے‬ ‫سر پر ہوتی ہے۔‬ ‫اسالم جھوٹ اور جھوٹے پر لعنت بھیجتا ہے۔ ہم اور ہماری‬ ‫جمہوریت سچ اور سچے کو مجرم ٹھہراتی ہے۔ سچ بولنا یا سچ‬ ‫کی حمایت کرنا آج کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔‬ ‫اسالم حق دار کو اس کا حق دینے کی تاکید کرتا ہے۔ یہاں حق‬ ‫دار کو حق دینا حق نہیں رہا۔ حق دار وہی ہوتا ہے جو پال‬ ‫جھاڑتا ہے۔ ہسپتال ہو یا کوئی بھی دفتر بال دے داال کے حق مل‬ ‫نہیں سکتا۔ ستم یہ کہ دے داال ناحق کو حق کے درجے پر فائز‬ ‫کر دیتا ہے۔‬ ‫میں نے یہاں محض چند باتوں کا ذکر کیا ہے ورنہ اسالم انسان‬ ‫کی زندگی سے متعلق ہر معاملے میں اپنا پروگرام دیتا ہے۔ اس‬ ‫حوالہ سے دیکھا جائے تو یہ بات کھلتی ہے نماز روزہ حج‬ ‫زکواتہ قربانی وغیرہ کی ادائگی مسلمان ہونے کے لیے کافی‬ ‫نہیں۔ مسمان ہونے کے لیے اسالم کے دیے پروگرام کو عملی‬ ‫زندگی کا حصہ بنانا بھی ضروری ہے۔ ہم اسالم اور اس کے‬


‫متعلقات کو ماننے والے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح ہم قدیم‬ ‫انبیاء اور تمام الہامی کتب کو مانتے ہیں۔ ماننا اور عمل کرنا دو‬ ‫الگ باتیں ہیں۔ ماننے والے کو کوئی بھی نام دے دیں۔ ہم اسالم‬ ‫اور اس کے متعلقات کے پیروکار نہیں ہیں۔ میں کوئی عالم فاضل‬ ‫شخص نہیں ہوں سیدھی سادی کلیے کی بات کر رہا ہوں۔ میرا‬ ‫اصرار ہے کہ ہم اسالم کو ماننے والے لوگ ہیں اسالم کی‬ ‫پیروی سے ہمارا دور کا بھی رشتہ نہیں۔ ہماری کامیاب اور‬ ‫ظفرمندی کی زندگی کا آغاز اس وقت ہو گا جب ہم اسالم کے‬ ‫پروگرام کو ماننے کے ساتھ ساتھ اس کی پوری دیانت داری‬ ‫سےپیروی کریں گے۔‬

‫نماز کا سو سے زیادہ سال کا پرانا اردو ترجمہ‬ ‫مخدومی و مرشدی حضرت سید غالم حضور شاہ المعروف بہ‬ ‫باباجی شکرهللا کے ذخیرہءکتب سے' ایک کتاب‪.......‬نماز مترجم‬ ‫منظوم۔۔۔۔۔۔۔۔ بزبان پنجابی' دستیاب ہوئی ہے۔ اس کے مولف‬


‫مولوی دمحم فیروز الدین ڈسکوی' منشی فاضل' مدرس ایم بی ہائی‬ ‫سکول' سیالکوٹ ہیں۔ انہیں اس کتاب کی تالیف کا اعزاز' رائے‬ ‫صاحب منشی گالب سنگھ اینڈ سنز' تاجران کتب' الہور نے دیا۔‬ ‫اس کتاب کا سن اشاعت ‪ 7091‬ہے اور یہ ہی سال' مخدومی و‬ ‫مرشدی حضرت باباجی شکرهللا کا سن پیدائش ہے۔ یہ کتاب‬ ‫بالشبہ' حضرت سید علی احمد شاہ کے کتب خانے کی' باقیات‬ ‫میں سے ہے۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ کتاب کے صفحہ‬ ‫نمبر ‪ 71‬پر' ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک شعر موجود ہے۔‬ ‫ہم زیادہ تر شاعری یا پھر مخصوص اصناف نثر کو' ادب کا نام‬ ‫دیتے ہیں اور انہیں ہی' زبان کی ترقی کا ذریعہ خیال کرتے ہیں۔‬ ‫اس قسم کی ہر سوچ' حقیقت سے کوئی عالقہ نہیں۔ ہر اظہار'‬ ‫اس کا تعلق کسی بھی شعبہ سے متعلق ہو' زبان کی نشوونما‬ ‫اور اس کی ابالغی قوتوں کو' ترقی دینے کا ذریعہ اور سبب بنتا‬ ‫ہے۔ مروجہ ادبی اصناف شعر ونثر کو اٹھا کر دیکھ لیجیے' شاید‬ ‫ہی' زندگی کا کوئی شعبہ نظرانداز ہوا ہو گا۔ یہاں تک کہ سائنس‬ ‫اور حکمت کے امور بھی' نظر آئیں گے۔ ریاضی اور شمایات‬ ‫جیسے شعبے' اس کی دسترس سے باہر نہیں رہے۔ جب ایسی‬ ‫صورت ہے' تو زبان کی ابالغی اور لسانی ترقی کے حوالہ سے'‬ ‫دیگر علوم و فنون کی کاوش ہا کو' کیوں صرف نظر کیا جائے۔‬


‫علوم اسالمی سے متعلق' اردو میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ دیگر‬ ‫زبانوں سے بھی' اسالمی علوم کی کتب کے تراجم ہوئے ہیں۔‬ ‫اس حوالہ سے' اردو میں بہت سی مختلف شعبوں سے متعلق'‬ ‫اصطالحات داخل ہو کر رواج عام بنی ہیں۔ ان گنت تلمیحات' اردو‬ ‫شعروادب کا گہنا بنی ہیں۔ بات یہاں تک ہی محدود نہیں رہی' بہت‬ ‫سے عربی الفاظ' اردو کے ذخیرہءالفاظ میں داخل ہو کر' اردو‬ ‫کی ابالغی ثروت کا ذریعہ بنے ہیں۔ بچوں کے لیے' التعداد‬ ‫اسالمی لڑیچر کاشت ہوا ہے۔ غیر مسلم بھی' اس ذیل میں‬ ‫نظرانداز نہیں کیے جا سکتے۔ ان کا مذہبی اثاثہ بھی' اس زبان‬ ‫کا زیور بنا ہے۔ گویا ان مساعی کو' لسانی حوالہ سے نظرانداز‬ ‫نہیں کیا جانا چاہیے۔ ماہرین لسانیات کو' صرف اور صرف اردو‬ ‫اصناف شعرونثر کو ہی' لسانیاتی مطالعہ میں نہیں رکھنا چاہیے۔‬ ‫سب شعبوں سے متعلق کتب کا' اس ذیل میں' پیش نظر رہنا از‬ ‫بس ضروری ہے۔‬ ‫زیر تجزیہ کتاب میں نماز کے عالوہ' منظوم پنجابی میں' مختلف‬ ‫مسائل بھی بیان کیے گیے ہیں۔ نماز سے معلقات' پہلے عربی‬ ‫میں' بعد ازاں اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے' اس کے بعد پنجابی‬ ‫میں منظوم ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس وقت میرے پیش نظر' کئی‬ ‫تراجم ہیں' خدا لگتی بات تو یہ ہی ہے' سادہ اور عام فہم ہونے‬ ‫کے ساتھ ساتھ' ترچمہ اور محاورہ کے اعتبار سے' یہ ترجمہ‬


‫اپنی ہی نوعیت کا ہے۔ بریکٹوں میں کچھ نہیں لکھا گیا۔ اس‬ ‫لحاظ سے بھی' یہ ترجمہ خوب تر ہے۔ لسانی اعتبار سے' اس‬ ‫کی فصاحت اور بالغت کا اقرار نہ کرنا' سراسر زیادتی کے‬ ‫مترادف ہو گا۔ میں اس ذیل میں مزید کچھ عرض کرنے کی‬ ‫بجائے' ترجمہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں۔‬ ‫هللا بہت بڑا ہے‬ ‫اے هللا تیری ذات پاک ہے خوبیوں والی اور تیرا نام مبارک ہے‬ ‫اور تیری شان اونچی ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں‬ ‫میں مردود شیطان سے خدا کی پناہ لیتا ہوں‬ ‫خدائے رحمن و رحیم کے نام سےشروع‬ ‫سب خوبیاں هللا کو جو سارے جہان کا رب ہے‬ ‫بڑا مہربان نہایت رحم واال‬


‫انصاف کے دن کا مالک‬ ‫ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں‬ ‫ہم کو سیدھی راہ دکھا‬ ‫ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے اپنا فضل کیا‬ ‫ان کی نہیں جن پر غضب ہوا‬ ‫اور نہ گمراہوں کی‬ ‫ایسا ہی ہو‬ ‫تو کہہ وہ هللا ایک ہے‬ ‫هللا بےنیاز ہے‬ ‫نہ کسی کو جنا نہ کسی سے جنا گیا‬ ‫اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے‬ ‫هللا سب سے بڑا ہے‬ ‫میرا عظمت واال رب قدوس ہے‬


‫ہے جو اس کی خوبی بیان کرے‪......‬‬ ‫اے هللا تجھے ہی سب خوبیاں ہیں‬ ‫میرا عالی شان رب قدوس ہے‬ ‫سب زبانی بدنی اور مالی عبادتیں هللا ہی کے لیے ہیں‬ ‫اے هللا کے نبی تجھپہ سالم اور خدا کی رحمت اور اسکی برکات‬ ‫نازل ہوں‬ ‫ہم پراور خدا کے نیک بخت بندوں پر سالم‬ ‫‪ .....‬میں اقرار کرتا ہوں کہ هللا کے سوا‬ ‫اور میں اقرار کرتا ہوں کہ دمحم اسکا بندہ اور رسول ہے‬ ‫اے هللا حضرت دمحم اور حضرت دمحم کی آل پر رحمت نازل فرما‬ ‫جیسا کہ تو نے حضرت ابراہیم اور ان کی آل پر رحمت نازل کی‬ ‫یقینا تو خوبیوں واال بزرگی واال ہے‬ ‫اے هللا مجھے نمازوں کا قائم کرنے واال بنا دے‬


‫اوالد کو بھی اور خدایا میری دعا منظور فرما‪.....‬‬ ‫اے هللا اور میرے ماں باپ اور سب مومنوں کو بخشدے جب‬ ‫قیامت قائم ہو‬ ‫اے هللا ہمارا دنیا میں بھی بھال کر اورآخرت میں بھی بھال اور‬ ‫ہم کو عذاب دوزخ سے نجات دے‬ ‫تم پر سالم اور هللا کی رحمت‬ ‫دو جگہ نقطے لگائے گیے ہیں' وہاں سے صفحہ پھٹا ہوا ہے۔‬ ‫میں نے اپنی طرف سے' ایک لفظ کم یا زیادہ نہیں کیا۔ ٹائپ بھی‬ ‫اسی خط کے مطابق کیا ہے۔‬

‫اسالمی سزائیں اور اسالمی و غیراسالمی انسان‬


‫مجھ سے سوال کیا گیا کہ مغرب میں اسالمی سزاؤں کو‬ ‫غیرانسانی سمجھا جاتا ہے۔ یہ سوال کسی اسالم پرعمل پیرا‬ ‫مولوی مفتی یا شیخ سے کیا جاتا تو وہ یقینا درست جواب دیتا۔‬ ‫میں دوسروں کی طرح اسالم کو ماننے واال ہوں ہاں رائ کے‬ ‫دانے برابر سہی عمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ چونکہ سوال‬ ‫کیا گیا ہے اس لیے جواب عرض کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔‬ ‫مغرب کا موقف سولہ آنے درست ہے۔ اسالم کی سزاءیں ان کے‬ ‫حوالہ سے ظلمانہ اورغیرانسانی ہیں ان پر عمل نہ ہونا ہی بہتر‬ ‫اور انصاف ہے۔ یہ سزاءیں اسالم کے انسان کے لیے ہیں۔ اسالم‬ ‫کے انسان کا خدا هللا ہے۔ اسالم زبانی کالمی کی چیز نہیں۔ نماز‬ ‫پڑھ لی رزہ رکھ لیا حج کر لیا شلوار اوپر کر لی فرقے کی شرع‬ ‫کے مطابق دازھی رکھ لی تو سمچھ لیا گیا کہ جی میں مسلمان‬ ‫ہو گیا۔ یہ سب کچھ اسالم میں ہے اسالم نہیں۔ اسالم اول تا آخر‬ ‫عمل کا نام ہے۔ اسالم کا انسان مغرب اور اس کے پیروکاروں‬ ‫سے قطعی الگ تر اور مختلف انسان ہے۔ اسالم کا انسان کسی‬ ‫کی حق تلفی نہیں کرتا اور ناہی وہ کسی جان پر ظلم اور زیادتی‬ ‫کرتا ہے۔‬


‫اسالم کا انسان هللا پر پختہ یقین رکھتا ہے۔ اس کا هللا الہ اور وہ‬ ‫اپنی ذات میں یکتا اور مختار کل ہے۔‬ ‫اس کی مخلوق بھوکی نہیں سوتی۔ وہ جیسی اور جہاں بھی ہے‘‬ ‫اسے رزق ہر حال میں فراہم ہوتا ہے۔ زمین پر موجود ہر چیز‬ ‫کسی کی ملکیت نہیں۔ ایک باپ اپنی اوالد کو دانہ دنکا فراہم کرتا‬ ‫ہے یا بیٹا باپ کی خدمت کرتا ہے یا کوئ کسی کی معاشی مدد‬ ‫کرتا ہے تو پلے سے نہیں کرتا هللا کے دیے میں سے کرتا ہے۔‬ ‫وہ صرف اور صرف ذریعہ ہے۔ اگر اس ذیل میں بددیانتی کرتا‬ ‫ہے تو هللا کوئ اور ذریعہ پیدا کر دیتا ہے۔ هللا نے اس کا ہاتھ‬ ‫اوپر رکھا تھا یہ اعزاز اس سے چھن گیا۔ یہ بہت بڑی بدنصیبی‬ ‫ہوتی ہے۔‬ ‫اسالم کا انسان صبر شکر اور قناعت کی دولت سے ماال مال ہوتا‬ ‫ہے۔ اس کے پاس جو بھی کچھ ہوتا ہے خیر اور بالتفریق و‬ ‫امتیاز دوسروں کی بھالئ کے لیے ہوتا ہے۔ اسالم کے انسان کا‬ ‫جینا اور مرنا هللا کی مرضی اور رضا کے لیے ہوتا ہے۔ وہ دست‬ ‫سوال دراز نہیں کرتا کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ هللا اسے‬ ‫اور اس کی حاجات کو اس سے زیادہ جانتا ہے۔ اس کے ایک‬ ‫دروازہ سے اتنا مل جاتا ہے کہ اس کی نسلوں کا رج ہو جاتا‬ ‫ہے۔ وہ جانتا ہے اس کے هللا کے آنے کے ان حد رستے ہیں۔ وہ‬ ‫عطا واال ہے۔ اس کا قہر وغضب بھی عطاؤں سے خالی نہیں‬


‫ہوتا۔ ان وجوہ کے حوالہ سے دیانت اور خوداری اس کی‬ ‫شخصیت کا الزمہ ٹھہرتا ہے۔ اسالم کا انسان ظلم زیادتی ہیرا‬ ‫پھیری بددیانتی کرتا ہی نہیں۔‬ ‫وہ صرف اتنا جانتا ہے کہ اسے اچھا اور اچھے کے سوا کچھ‬ ‫نہیں کرنا۔ انصاف اور بانٹ میں اپنے پراءے رنگ نسل عالقہ‬ ‫زبان مذہب وغیرہ کے امتیازات سے اسے کسی سطع پر علم ہی‬ ‫نہیں ہوتا۔ وہ اوروں کو ان کا حق دے رہا ہوتا ہے۔ اسالم کے‬ ‫انسان کو اپنے سے زیاددہ دوسروں کی فکر ہوتی ہے۔ خرابی‬ ‫میں دانستگی کی صورت میں سزا کے لیے خود کو پیش کر دیتا‬ ‫ہے۔ وہ اس میں ذات کا اطمینان خیال کرتا ہے۔ وہ تامرگ اپنی‬ ‫ذات هللا اور سوساءٹی کے سامنے سرخرو رہنے میں کامیابی‬ ‫سمجھتا ہے۔‬ ‫ہر مسلمان کا دعوی ہے کہ وہ آپ کریم سے محبت کرتا ہے۔ یہ‬ ‫کیسی محبت ہے ہر وہ کچھ کرتا ہے جس سے آپ کریم نے منع‬ ‫فرمایا تھا۔ پہلے رشوت چوری کا دھندا تھا اب برسرعام ہوتا‬ ‫ہے۔ جانتے ہوئے کہ حق کیا ہے‘ ناحق کا ساتھ دیتا ہے۔ پیسے‬ ‫اللچ اور طمع میں آ کر جھوٹی گواہی دیتا ہے۔ یہ هللا سے نہیں‘‬ ‫بندوں سے ڈرتا ہے۔ حج کرکے سیر کا تین پاؤ‘ تین پاؤ میں‬ ‫بھی آدھ پاؤ مالوٹ کرتا ہے۔ روزہ رکھ کر جھوٹ بولتا ہے۔ غیر‬


‫تو غیر اپنوں سے بھی بددیانتی کرتا ہے۔ نکاح کی اجازت ہونے‬ ‫کے باوجود زنا کا مرتکب ہوتا ہے۔ یہ حضور کریم سے کس‬ ‫طرح کی محبت ہے‘ سمجھ سے باالتر ہے۔‬ ‫اسالم اور اسالم کا انسان جھوٹ اور منافقت سے نفرت کرتے‬ ‫ہیں۔ وہ جو کہتا ہے کرتا ہے۔ جتنا کرتا ہے اتنا ہی بتاتا ہے۔ اس‬ ‫کا اندر باہر ایک ہوتا ہے۔ اس کے کہنے میں فطری توازن ہوتا‬ ‫ہے۔ اس کے ہاتھ سے کسی کو ضر نہیں پہنچتا۔ وہ ایک ہاتھ‬ ‫سے اس طرح سے دیتا ہے کہ دوسرے ہاتھ کو علم تک نہیں‬ ‫ہونے دیتا۔ وہ حرام گوشت کے تکے نہیں بناتا۔ سبزیانی کو‬ ‫بریانی کا نام نہیں دیتا۔ اس کا لنگرخانہ مقاصد سے مشروط نہیں‬ ‫ہوتا۔ وہ بانٹ کر آسودگی محسوس کرتا ہے۔‬ ‫مغرب کا انسان اسالم کو نہیں مانتا اس لیے اسالمی سزائیں اس‬ ‫کے لیے واجب نہیں ہیں۔ اس کے ماننے والوں کے لیے بھی یہ‬ ‫سزائیں نامناسب ہیں۔ وہ تو قرآن مجید کے ساتھ ساتھ تورات‬ ‫زبور انجیل کو بھی مانتے ہیں۔ نہیں مانیں گے تو مسلمانی کے‬ ‫لیبل سے محروم ہو جائیں گے۔ اسالم جب تک ان کی عملی‬ ‫زندگی کا جزو نہیں بن جاتا انہیں اسالم کا پیروکار نہیں کہا جا‬ ‫سکتا۔ مسلمانی کا لیبل ان کے لیے خوش فہمی اور ناماننے‬ ‫والوں کے لیے محض غلط فہمی ہے۔ اگر یہ اسالم کے انسان‬


‫ہوتے تو زمانہ ان کے قول و کردار کے قدم نہ لیتا؟! ذلت‬ ‫وخواری اسالم کے انسان کا مقدر بن ہی نہیں سکتی۔‬

‫ترجمہ سورتہ فاتحہ‬ ‫مترجم‬ ‫شاہ فضل الرحمن گنج مرادآبادی‬ ‫ترجمہ ‪٠٦١٠‬ھ‬ ‫ہدیہ کار‬ ‫مقصود حسنی‬ ‫ابوزر برقی کتب خانہ‬ ‫اپریل ‪٦١٠٢‬‬


‫ہندی اردو سے کوئی الگ سے زبان نہیں۔ زبانوں کا دیگر‬ ‫سماجی حوالوں کے ساتھ ساتھ‘ مذہبی کلچر بھی ہوتا۔ مذہبی‬ ‫کلچر سے متعلق الفاظ‘ روزمرہ زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں۔‬ ‫مثال‬ ‫اس کام میں کوئی بچت بامعنی نفع بھی ہوا‬ ‫جی ہاں هللا کے فضل سے دس ہزار بچت نکلی ہے۔‬ ‫رستے میں سب ٹھیک رہا‬ ‫جی هللا کا شکر ہے خیریت سے لوٹ آیا ہوں۔‬ ‫حادثے میں کوئی زیادہ نقصان تو نہیں ہوا‬ ‫هللا کی مہربانی ہوئی ورنہ جان جا سکتی تھی۔‬ ‫ولیمے میں کھانا کم تو نہیں پڑا‬ ‫مالک کا احسان تھا کہ سب کچھ وافر رہا۔‬


‫آؤ کھانا کھا لو۔‬ ‫بسم هللا کریں میں کھا کر آیا ہوں۔‬ ‫قرآن ایمان کی کہنا کہ کون سچا اور کون جھوٹا ہے۔‬ ‫هللا نے چاہا تو کل ساری رقم ادا کر دوں گا۔‬ ‫هللا حافظ اب کل مالقات ہو گی۔‬ ‫ماشاءهللا آج تو حوروں کو بھی مات دے رہی ہو۔‬ ‫قسم لے لو جو میں نے کسی چیز کو ہاتھ بھی لگایا ہو‬ ‫آج کل کفن دفن کا خرچہ بھی کوئی کم نہیں رہا۔‬ ‫یہ سب بھگوان کی کرپا ہے ورنہ میں اس قابل کب ہوں۔‬ ‫یہ سب ایشور کی کرپا تھی جو نپٹ آیا ہوں۔‬ ‫پرمیشور بڑا دیالو ہے جو آج الکھوں میں کھیل رہا ہوں۔‬ ‫ایسے سیکڑوں مذہبی لفظ یا مرکبات روزمرہ کی عمومی و‬ ‫خصوصی‘ شخصی و اجتماعی‘ رسمی و غیر رسمی‘ ذاتی یا‬ ‫پوشیدہ زندگی کی گفت گو کا حصہ بن گیے ہوتے ہیں۔ کوشش‬


‫سے بھی‘ انہیں اس سماج کی بول چال سے‘ الگ نہیں کیا جا‬ ‫سکتا۔ ہندو مذہب سے متعلق الفاظ زبان میں داخل ہو جاتے ہیں‘‬ ‫تو اس میں ایسی کوئی حیرت والی بات نہیں۔ ان الفاظ کے داخل‬ ‫ہونے سے‘ یہ کوئی نئی زبان نہیں ہو گئی۔ عیسائی مذہب کے‬ ‫الفاظ داخل ہو جانے سے‘ زبان عیسائی نہیں ہو جاتی۔ زبان وہ‬ ‫ہی رہتی ہے‘ ہاں وہ اس کلچر کے مذہب کی‘ نمائندگی کر رہی‬ ‫ہوتی ہے۔‬ ‫گلف سے شائع ہونے والے‘ رسالہ ماہ نامہ واسطہ کا صفحہ‬ ‫نمبر‪ ٤‬انٹر نیٹ سے میسر آیا ہے۔ اس صفحے پر‘ شاہ فضل‬ ‫الرحمن گنج مرادآبادی کا سورتہ فاتحہ کا ترجمہ شائع ہوا ہے۔‬ ‫یہ ترجمہ ‪٠٦١٠‬ھ سے تعلق رکھتا ہے۔ سورتہ فاتحہ کے بعد‬ ‫سورتہ بقر کی کچھ آیات کا ترجمہ‘ اسی اسلوب و طور کے ساتھ‬ ‫کیا گیا ہے اور اس ذیل میں کوئی نوٹ نہیں دیا گیا۔ اسے بھی‬ ‫سورتہ فاتحہ کے ترجمے کے ساتھ مال دیا گیا ہے۔ عین ممکن‬ ‫ہے‘ پورے کالم کا ترجمہ اس طور سے کیا گیا ہو۔ دیگر ترجم‬ ‫سے یہ قطعی الگ تر اور ہٹ کر ہے۔ ایسا ترجمہ‘ اس سے‬ ‫پہلے دیکھنے اور پڑھنے سننے میں نہیں آیا۔ شاہ فضل الرحمن‬ ‫گنج مرادآبادی کی اس کاوش کی داد نہ دینا‘ بدیانتی ہو گی۔ زبان‬ ‫وطور کی مانوسیت بڑی معنویت کی حامل ہوتی۔ ہندو دھرم سے‬ ‫متعلق لوگ‘ اس کو پڑھتے ہوئے‘ غیریت محسوس نہیں کرتے۔‬


‫اس سے رغبت کا دروازہ کھلتا ہے اور اجنبت کی دیوار گرتی‬ ‫ہے۔‬ ‫شاہ فضل الرحمن گنج مرادآبادی کے مزید ترجمے کی تالش‬ ‫میں؛ چینی‘ جاپانی اور انگریزی انداز عربی کیلوگرافی دیکھنے‬ ‫کی سعادت حاصل ہو گئی۔ یہ طور‘ غیرمسلم لوگوں کی توجہ‬ ‫حاصل کرنے کا‘ انتہائی کامیاب ذریعہ ہے۔ اچھائی پھیالنے کے‬ ‫لیے‘ عرب مسلمانوں نے مقامیوں کا لباس‘ انداز‘ زبان وغیرہ‬ ‫اختیار کی اور بات ریکارڈ میں موجود ہے۔ شاہ فضل الرحمن‬ ‫گنج مرادآبادی نے‘ ہندو کلچر سے متعلق‘ ترجمے کی زبان‬ ‫اختیار کی‘ یہ امر الئق تحسین ہے۔ بےشک هللا بہتر اجر سے‬ ‫نوازنے واال ہے۔‬ ‫شاہ فضل الرحمن گنج مرادآبادی کے اس ترجمے کو اس کے‬ ‫طور و اسلوب اور زبان کے حوالہ سے‘ اولیت تو حاصل ہے‬ ‫ہی‘ لیکن انہوں نے معروف سے ہٹ کر‘ لفظوں کو معنویت عطا‬ ‫کی ہے۔‬ ‫هللا‪ :‬اسم ذات ہے۔ اس کے مترداف کوئی لفظ ہے ہی نہیں۔‬ ‫مرحوم نے‘ اس کا ترجمہ من موہن کیا ہے۔ یہ ترجمہ محسوس‬


‫سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ لفظ صوری لحاظ سے بالشبہ دل کو موہ‬ ‫لیتا ہے۔‬ ‫حمد‪ :‬حمد کے معنی تعریف اور ثنا لیے جاتے ہیں‘ لیکن حضرت‬ ‫شاہ صاحب نے‘ اس لفظ کو ال کے لیے‘ سب جب کہ حمد بمعنی‬ ‫راحت‘ یعنی خوشی کے معنے دیے ہیں۔ گویا وہ سراپا خوشی‬ ‫ہے۔ اس کا نام لینے سے‘ رگ وپے میں خوشی کی لہر دوڑ‬ ‫جاتی ہے کیوں کہ وہ اول و آخر راحت ہے۔ یا یہ کہ خوشی جو‬ ‫اچھائی سے وابستہ ہوتی ہے یا یہ کہ اچھائی خوشی میسر کرتی‬ ‫ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں اچھائی خوشی ہے یعنی‬ ‫اچھائی باطنی راحت فراہم کرتی ہے۔ اس حوالہ سے‘ سب راحت‬ ‫یعنی راحتیں اسی کی ذات کے لیے ہیں۔ عالمتی حوالہ سے‬ ‫مفاہیم اچھائی بہتری وغیرہ کی طرف پھرتے ہیں۔‬ ‫رب ‪ :‬پالن ہار‬ ‫ال‪ :‬بڑی‬ ‫علمین‪ :‬سنسار‬ ‫اردو میں پالنا‘ جب کہ پنجابی میں پالن مصدر ہے۔ پالنے واال‬ ‫کے‘ مترداف پالن ہار غیرمانوس نہیں۔ حضرت شاہ صاحب نے‘‬


‫رب کے معنی پالن ہار لیے ہیں۔ علمین بذات خود جمع ہے۔ ال‬ ‫سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ عالم جو سامنے اورعلم میں‬ ‫وہ ہی نہیں وہ بھی جو سامنے اورعلم میں نہیں۔ جب ہی سارے‬ ‫سنسار معنی دیے ہیں۔ گویا سارے سنسار کا پالن ہار یعنی‬ ‫عالموں کا بال کسی تخصیص پالنے واال۔ صوری اور معنوی‬ ‫اعتبار سے‘ خوب صورت ترجمہ ہے۔ ہندو کلچر کے لیے بھی‬ ‫مانوس ترین ہے۔‬ ‫الرحمن‪ :‬نیاہ موہ‬ ‫الرحمن‪ :‬نیاہ موہ ترجمے میں‘ جہاں مالئمیت اور ریشمیت سی‬ ‫محسوس ہوتی ہے‘ وہاں صوتی حوالہ سے‘ کانوں میں رس‬ ‫گھولتا محسوس ہوتا ہے۔ اس میں پیار محبت اور شفقت و عطا‬ ‫کا عنصر غلبہ رکھتا ہے۔ اسے اس کے متعلقہ متن میں‘ مالحظہ‬ ‫فرمائیں‘ میرے کہے کی سچائی واضح ہو جائے گی۔ تکلیف دہ‬ ‫حالت میں تشفی‘ بالشبہ معامالت حیات میں‘ بڑی معنویت کی‬ ‫حامل ہوتی ہے۔ نیاہ موہ کی اصل تفیم یہ ہی ٹھہرتی ہے۔ اس کا‬ ‫احسان اور فضل بھی‘ نیاہ باانصاف اور حسب حاجت ہوتا ہے۔‬ ‫الرحیم‪ :‬مہر واال‬


‫الرحیم‪ :‬مہر واال یعنی وہ جو کسی کی تکیلف نہ دیکھ سکتا ہو۔‬ ‫کسی کو دکھ تکلیف میں دیکھ کر‘ محبت‘ احسان اور رحم میں آ‬ ‫جائے اور اس کے مداوے کا ان ہی لمحوں میں چارہ کرئے۔‬ ‫من موہن‘ کسی کو تکیف میں مبتال نہیں کرتا۔ تاریخ اٹھا کر‬ ‫دیکھ لیں‘ نمرود‘ فرعون یزید وغیرہ‘ اپنی ہی کرنی کی پکڑ میں‬ ‫آئے ہیں۔ یہاں ہو کہ روز آخرت‘ ہر کوئی اپنے کیے کی گرفت‬ ‫میں آئے گا۔‬ ‫مالک‪ :‬بس میں‬ ‫مالک کو بس میں یعنی اختیار میں‘ کے معنوں میں لیا گیا ہے۔‬ ‫وہ جس کے اختیار میں ہو اور کسی اور کے اختیار میں نہ ہو‘‬ ‫ملکیت کے زمرے میں آتا ہے۔ اس میں کسی اور کا بس نہ چلتا‬ ‫ہو یا یوں کہہ لیں کہ اس کے سوا‘ وہاں ہر کوئی مجبور و‬ ‫بےبس ہو۔ ہر کرنا اسی کی مرضی پر مبنی ہو۔ وہ جیسے چاہے‬ ‫اور جس طرح چاہے کرئے یا کرنے پر قادر ہو۔ یہ الگ بات ہے‘‬ ‫کہ وہ حق اور حق کے سوا نہیں کرتا۔ اس کا ہر کیا‘ عدل و‬ ‫انصاف پر استوار ہوتا ہے۔‬


‫یوم ‪ :‬دن‬ ‫یوم ‪ :‬دن‘ دن اردو میں عام استعمال کا لفظ ہے۔‬ ‫الدین‪ :‬چکوتی‬ ‫چک وتی‬ ‫یہ انصاف اور فیصے کا دن ہو گا۔ زندگی کے دنوں میں‘ دنیا‬ ‫کے بادشاہ فیصلے کرتے آئے ہیں لیکن اس دن‘ وہ بےبس ہوں‬ ‫گے۔ انہیں خود اس عمل سے گزرنا ہو گا۔ گویا یہ دن بادشاہوں‬ ‫کے بادشاہ کا ہو گا۔ اس دن سوائے اس بادشاہ کے کوئی بادشاہ‬ ‫نہیں ہو گا۔ صرف اور صرف اسی کا حکم چلے گا۔ مفہوم یہ ہی‬ ‫ٹھہرے گا۔‬ ‫یوم الدین‪ :‬بادشاہوں کے بادشاہ کا دن‬ ‫نعبد‪ :‬پوجتے‘ عبادت کے لیے ہندو لفظ پوجا استعمال کرتے ہیں۔‬ ‫جس کی پوجا کی جائے اسے پوجیور کہا جاتا ہے۔‬ ‫و‪ :‬اور‬ ‫و‪ :‬اور‘ اردو میں واؤ اور کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں‬ ‫واؤ مرکبات میں اور کے معنوں میں مستعمل ہے۔ مثال شب‬


‫وروز‘ شادی و غم‘ سیاہ و سفید وغیرہ۔‬ ‫نستعین‪ :‬آسرا‬ ‫لفظ نستعین اردو میں مستعمل نہیں۔‬ ‫آسرا سہارا‘ گرتے کو تھامنا‘ گرے کو اٹھانا۔ چھت میسر آنا۔‬ ‫معاش کی صورت‘ کسی کے حوالہ سے پیدا ہونا۔ یہ لفظ‘ صوری‬ ‫و معنوی اعتبار سے‘ فصیح و بلیغ ہے۔ اسی طرح انسانی زندگی‬ ‫کے‘ ہر گوشے سے‘ کسی ناکسی حوالہ سے‘ منسلک ہے۔ اردو‬ ‫والوں کے لیے‘ یہ لفظ قطعی غیرمانوس نہیں۔‬ ‫صراط ‪ :‬راہ‬ ‫لفظ صراط اردو میں مستعمل نہیں۔‬ ‫اہل زبان نے‘ اس کا ترجمہ راہ‘ رستہ کیا ہے۔ حضرت شاہ‬ ‫صاحب نے بھی یہ ہی ترجمہ کیا ہے‘ جو غیرمانوس نہیں۔‬ ‫مستقیم ‪ :‬سیدھی‬ ‫لفظ مستقیم اردو والوں کے لیے اجنبی نہیں اور یہ تفہیمی‬ ‫اعتبار سے سیدھا یا سیدھی رواج رکھتا ہے۔ جیسے‬ ‫خط مستقیم‬


‫انعمت‪ :‬دیا‬ ‫انعمت‪ :‬دیا‘ نعمت اردو میں مستعمل ہے۔ دیا کے لغوی معنی‬ ‫محبت‘ عنایت‘ شفقت‘ رحم‘ مہربانی‘ ترس‘ بخشش وغیرہ ہیں۔‬ ‫متن کے لحاظ سے مفہوم بخشش کے قریب تر ہیں اس لیے دان‬ ‫دینے واال۔ تاہم دان کی نوعیت دیگر دیالو حضرات سے الگ تر‬ ‫ہے۔ وہ ایسا دان دینے واال ہے‘ کہ اس سا دان دینے واال کوئی‬ ‫نہیں۔ ناہی اوروں کے پاس اس سا دان ہے۔ اس دان میں‘ اس‬ ‫کی محبت‘ عنایت‘ شفقت‘ رحم‘ مہربانی‘ ترس شامل ہوتے ہیں۔‬ ‫گویا اس کی دیا اوروں سے الگ ترین ہے۔‬ ‫المغضوب‪ :‬جھنجالہٹ‬ ‫جھنجالہٹ‘ غصہ اور خفگی کے لیے مستعمل ہے۔ جھنجل سخت‬ ‫آندھی کے لیے ہے۔ ہٹ کا الحقہ قائم ہونے کے لیے ہے‘ یعنی‬ ‫سخت آندھی کا آنا۔ دریا کا حد سے بڑے مدوجر۔ یہ اپنی حقیقت‬ ‫میں غضب ہی کی صورت ہے۔ یہاں غصہ اور خفگی کی گرفت‬ ‫میں آئے مراد ہے۔ خفگی خفا سے اور خفا غصہ اور ناراضگی‬ ‫ہی تو ہے۔‬


‫الضآلین‪ :‬کوراہوں کی‬ ‫الضآلین‪ :‬کوراہوں کی‘ یعنی جو اصل راہ سے ہٹ گیا ہو۔ کوراہ‬ ‫غیر مانوس نہیں۔ کو‘ منفی مفہوم کا حامل ہے۔ مثال کو‪ -‬تاہ‘ کو‪-‬‬ ‫تاہی‘ کو۔ ہڈ‘ کو۔ سنگ‘ کو۔ ریت وغیرہ۔ یہ سابقہ اپنی اصل میں‘‬ ‫مکمل یا جزوی غلطی‘ خرابی‘ کجی‘ کمی‘ خامی‘ بدنمائی‘‬ ‫بدنامی‘ بدکاری وغیرہ کے لیے مخصوص ہے۔ یہاں بھی ان ہی‬ ‫معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ کو۔ راہ یعنی راہ سے ہٹا ہوا۔‬ ‫‪.................................‬‬ ‫ترجمہ سورتہ‬ ‫پہلے ہی پہل نام لیتا ہوں من موہن کا جوہ بڑی نیاہ موہ واال ہے‬ ‫سب راحت من موہن کو ہے جو سارے سنسار کا پالن ہار بڑی‬ ‫نیاہ موہ کا مہر واال ہے جس کے بس میں چکوتی کا دن ہے۔ ہم‬ ‫تیرا ہی آسرا چاہتے ہیں اور تجہی کو پوجتے ہیں چال ہم کو‬ ‫سیدھی راہ ڈگ مگ نہیں۔ ان لوگوں کی جن پر تیری دیا ہوگی۔‬ ‫نہ ان کی جن پر تیری جھنجالہٹ ہوئی نہ راہ کوراہوں کی۔ اور‬ ‫نہ راہ کھوئے ہووں کی۔ اور راہ بھٹکے ہووں کی۔ اس مہابید‬ ‫کے پرمیشور ہونے میں کوئی وگدھا نہیں۔ وہ بھگتوں کو بھلی‬ ‫راہ پر التا ہے۔ جو اندیکھے دھرم التے ہیں اور پوجا کو‬ ‫سنوارتے ہیں اور ہمارے دیئے کا دان بھی کرتے ہیں۔ اور جو‬ ‫جو تیرے بل اترا اس کو اور جو تجھ سے پہلے اتارا گیا اس کو‬ ‫جی سے مانتے ہیں اورپچھلے جگ کو بھی جی میں ٹھیک‬


‫جانتے ہیں۔ یہی لوگ اپنے پالن ہار کی راہ پر ہیں۔ اور یہی اپنی‬ ‫امنگ پاون ہار ہیں۔ اس میں کوئی وگدھا نہیں کہ ملیچھوں کو تو‬ ‫کیسا ہی ڈراوے یا نہ ڈراوے وہ دھرم نہیں الویں گے۔ من موہن‬ ‫نے ان کے جی اور کانوں پر ٹھپا لگا دیا ہے اور ان کے نینوں‬ ‫میں موتیا پھرا ہوا ہے اور کے لیے بھاری مار ہے۔‬ ‫شاہ فضل الرحمن گنج مرادآبای‬ ‫‪٠٦١٠‬‬ ‫فرہنگ سورتہ فاتحہ‬ ‫ال‬ ‫سب‬ ‫حمد‬ ‫راحت‬ ‫هللا‬ ‫من موہن‬ ‫رب‬


‫پالن ہار‬ ‫ال‬ ‫سارے‬ ‫علمین‬ ‫سنسار‬ ‫ال‬ ‫بڑی‬ ‫رحمن‬ ‫نیاہ موہ‬ ‫الرحیم‬ ‫مہر واال‬ ‫مالک‬ ‫بس میں‬ ‫یوم‬ ‫دن‬ ‫الدین‬


‫چکوتی‬ ‫ایاک‬ ‫تجہی کو‬ ‫نعبد‬ ‫پوجتے‬ ‫و‬ ‫اور‬ ‫ایاک‬ ‫تیرا‬ ‫نستعین‬ ‫آسرا‬ ‫اھدنا‬ ‫ہم کو‬ ‫الصراط‬ ‫راہ‬ ‫المستقیم‬


‫سیدھی‬ ‫انعمت‬ ‫دیا‬ ‫علیھم‬ ‫جن پر‬ ‫غیر‬ ‫جن پر‬ ‫المغضوب‬ ‫جھنجالہٹ‬ ‫علیھم‬ ‫ان کی‬ ‫و‬ ‫اور‬ ‫الضآلین‬ ‫کوراہوں کی‬ ‫‪.................................‬‬


‫پہلے ہی پہل نام لیتا ہوں من موہن کا جوہ بڑی نیاہ موہ واال ہے‬ ‫الحمد هلل‬ ‫سب راحت من موہن کو ہے‬ ‫رب العلمین‬ ‫جو سارے سنسار کا پالن ہار‬ ‫الرحمن الرحیم‬ ‫بڑی نیاہ موہ کا مہر واال ہے‬ ‫ملک یوم الدین‬ ‫جس کے بس میں چکوتی کا دن ہے۔‬ ‫ایاک نعبد و ایاک نستعین‬ ‫ہم تیرا ہی آسرا چاہتے ہیں اور تجہی کو پوجتے ہیں‬ ‫لفظی و ترتیبی‬ ‫تجہی کو پوجتے ہیں اور ہم تیرا ہی آسرا چاہتے ہیں‬ ‫اھدناالصراط المستقیم انعمت علیھم‬


‫چال ہم کو سیدھی راہ ڈگ مگ نہیں۔ ان لوگوں کی جن پر تیری‬ ‫دیا ہوگی۔‬ ‫چال ہم کو سیدھی راہ ڈگ مگ نہیں ان لوگوں کی جن پر تیری‬ ‫دیا ہوگی۔‬ ‫چال ہم کو سیدھی راہ‘ ڈگ مگ نہیں ان لوگوں کی جن پر تیری‬ ‫دیا ہوگی۔‬ ‫وضاحتی‬ ‫ڈگ مگ نہیں‬ ‫غیرالمغضوب علیھم والضآلین‬ ‫نہ ان کی جن پر تیری جھنجالہٹ ہوئی نہ راہ کوراہوں کی۔‬ ‫آمین‬ ‫‪................‬‬ ‫یہ سورتہ فاتحہ کا ترجمہ نہیں‘ سورتہ البقر کی کچھ آیات کا‬ ‫ترجمہ ہے۔‬ ‫اس مہابید کے پرمیشور ہونے میں کوئی وگدھا نہیں۔ وہ بھگتوں‬ ‫کو بھلی راہ پر التا ہے۔ جو اندیکھے دھرم التے ہیں اور پوجا‬ ‫کو سنوارتے ہیں اور ہمارے دیئے کا دان بھی کرتے ہیں۔ اور‬ ‫جو جو تیرے بل اترا اس کو اور جو تجھ سے پہلے اتارا گیا اس‬


‫کو جی سے مانتے ہیں اورپچھلے جگ کو بھی جی میں ٹھیک‬ ‫جانتے ہیں۔ یہی لوگ اپنے پالن ہار کی راہ پر ہیں۔ اور یہی اپنی‬ ‫امنگ پاون ہار ہیں۔ اس میں کوئی وگدھا نہیں کہ ملیچھوں کو تو‬ ‫کیسا ہی ڈراوے یا نہ ڈراوے وہ دھرم نہیں الویں گے۔ من موہن‬ ‫نے ان کے جی اور کانوں پر ٹھپا لگا دیا ہے اور ان کے نینوں‬ ‫میں موتیا پھرا ہوا ہے اور کے لیے بھاری مار ہے۔‬ ‫‪...........‬‬ ‫مکرمی و محترمی جناب حسنی صاحب‪ :‬سالم علیکم‬ ‫آپ کی یہ تحریر دیکھ کر انتہائی مسرت ہوئی۔ یہ زبان الکھ‬ ‫پرانی سہی لیکن اس کی ضرورت آج بھی ویسی ہی ہے جیسے‬ ‫ماضی میں تھی۔ دوسری قوموں کے عالوہ خود مسلمانوں کے‬ ‫ایک طبقے میں بھی اس کی ضرورت ہے۔ جہاں تک مجھ کو یاد‬ ‫ہے شاہ ولی هللا صاحب نے بھی "پالن ہار" کی قبیل کے الفاظ‬ ‫استعمال کئے ہیں۔ یقینا "رب" کا لفظ ایسا جامع اور مکمل ہے‬ ‫کہ اس کا صحیح ترجمہ کرنا نہایت مشکل ہے۔ "پالن ہار" سے‬ ‫اس کے کئی پہلو واضح ہوجاتے ہیں اور یہ لفظ آج بھی عوام‬ ‫میں مستعمل ہے۔ ایسا ہی بہت سے الفاظ کے متعلق بھی کہا‬ ‫جاسکتا ہے جو موالنا فضل الرحمن گنج مرادآبادی نے اپنے‬ ‫ترجمے میں استعمال کئے ہیں۔ هللا ان کو جزائے خیر سے‬ ‫سرفراز فرمائے۔ اب ایسے بزرگ اور وسیع القلب علما کہاں رہ‬


‫گئے ہیں۔ آپ کی محنت اور محبت آپ کی تحریر سے صاف ظاہر‬ ‫ہے۔ هللا سے دعا ہے کہ اپ ہمارے سروں پر قایم رہیں اور یہ‬ ‫کام اسی طرح انجام دیتے رہیں۔ آپ کا دم بہت غنیمت ہے۔‬ ‫مہر افروز‬

‫منظوم شجرہ عالیہ حضور کریم‪....‬عہد جہانگیر‬ ‫شاعر‪ :‬غالم حسین‬ ‫مخدومی ومرشدی قبلہ حضرت سید غالم حضور حسنی کے‬ ‫ذخیرہءکتب سے' ایک تین سو سے زائد صفحات کا' مخطوطہ‬ ‫دستیاب ہوا ہے۔ اس کی حالت بڑی خستہ و خراب ہے۔ اوپر‬ ‫سے' یہ کہ صفحات بےترتیب ہیں۔ یہ مخطوطہ پنجابی عربی اور‬ ‫فارسی میں ہے۔ اس میں اردو' آقا کریم ان پر ان حد درود‬ ‫وسالم' کا شجرہ ہے۔ یہ کل' آٹھ اوپر ستر اشعار پر مشتمل ہے۔‬ ‫اس میں سے' ایک شعر کاٹا ہوا ہے۔ یہ قلمی مسودہ حکمت' علم‬ ‫جعفر' تعویزات اور حمد و نعت سے متعلق ہے۔ اس میں فارسی‬ ‫نثر بھی موجود ہے۔ بے ترتیب ہونے کے باعث پڑھنے میں ہر‬


‫چند دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‬ ‫داخلی شہادت کے مطابق' اس کے لکھنے والے غالم حسین ولد‬ ‫پیر دمحم متین ہیں اور اس کی تاریخ نوشت‬ ‫بروزے چہار شنبہ شداند تمام‬ ‫نام‬

‫بتاریخ ہشتم کہ زالحج‬

‫ہے۔‬ ‫یہ صاحب' پیر بہار شاہ کی خانقاہ سے متعلق ہیں۔‬ ‫خدایا بتوفیق خود راہ دہ‬ ‫کہ تاہید ازین بندہءہیچ بہ‬ ‫خدایا مقصد بکار آمدم‬ ‫تہے دستے امیدوار امیدم‬ ‫بپوش ازسر لطف غیبے نوشیے‬ ‫شعار بزرکان شوہ عیب نوشیے‬ ‫سخنی بتوک قلم بند کنے‬ ‫صر از یادکارں جہان چند کنے‬


‫نوشت ست نامہءغالم حسین‬ ‫صر پسر ست پیرے دمحم متین‬ ‫بروزے چہار شنبہ شداند تمام‬ ‫بتاریخ ہشتم کہ زالحج نام‬ ‫بدر خانقاہ پیر بہار شاہ مدام‬ ‫کوہ دہ است دینہہ ثبام‬ ‫‪............‬‬ ‫اس مخطوطہ میں' ایک قصیدہ جہانگیر بادشاہ کا ہے۔ قصیدہ‬ ‫میں' جہانگیر سے عیاش اور عیش کوش بادشاہ کو' دو چار انچ‬ ‫ہی' کسی جلیل القدر نبی سے کم رکھا گیا ہے۔ دو چار سال اور‬ ‫زندہ رہتا تو' شاید وہ نبی ہو ہی جاتا۔‬ ‫قصیدہ مالحظہ ہو۔‬ ‫باال فرخندہء بر جہان ساالر‬ ‫صاحب التاج احسن اآلآثار‬ ‫روشن آئینہ ضمیر‬ ‫بحر عرفان لجہء تدبیر‬


‫داور دہر رستم دوران‬ ‫سالک حق بہادر میدان‬ ‫مطلع آفتاب علم و عمل‬ ‫مظہر نور عین فیض ازل‬ ‫شمس ایوان بارکاہ جالل‬ ‫قطب دوران کمال نور جمال‬ ‫والی ء دہر رستم جم جاہ‬ ‫شہہ جہانکیر ابن اکبر شاہ‬ ‫اکمل هللا روح عظمتہہ‬ ‫شرف اوالدہ بدرجتہہ‬ ‫لطف حق بر ہزاریان باال‬ ‫کز رہ عشق پر صفا باال‬ ‫مست باال از جم لم یزلیے‬ ‫ہست باال ہسستنے ازلے‬ ‫شجرے کے آغاز کے پچھلے صفحے پر' سات دعائیہ اشعار‬ ‫ہیں۔ صفحہ کے چاروں طرف حاشیہ میں' فارسی میں منظوم‬


‫فارسی لکھا مٹا' کٹا یا پھٹا ہوا ہے۔ اشعار میں نام یا تخلص کا‬ ‫استعمال نہیں ہوا۔ شجرہ 'جو پانچ صفحات میں تمام ہوا ہے‪ .‬دعا‬ ‫کا آغاز تو اوپر سے ہوا ہے' اسے پڑھنا ممکن نہیں' جو پڑھا‬ ‫جا سکتا ہے پیش خدمت ہے۔ان دعائیہ اشعار کے آخر میں‬ ‫جہانگیر کے قصیدے کا راز کھلتا ہے' کہ یہ صاحب جہانگیر کے‬ ‫قاضی تھے۔ اشعار میں ایک نام شمس الدین بھی ملتا ہے۔ اشعار‬ ‫‪:‬مالحظہ فرمائیں‬ ‫یا خداوندا بحق قدسمع‬ ‫از کرم ہار بکن خاطر جمع‬ ‫یا خداوندا بحق سورتہ تبار‬ ‫جملہ عصیان بندہ عاصے درکذر‬ ‫یا خداوندا بحق سورہ عم‬ ‫در دو عالم رفع کردن ہم زغم‬ ‫یا خداوندا بحق دعوت چنین‬ ‫باسالمت دار ایمان شمش الدین‬ ‫تمام شد‬


‫غالم حسین‬ ‫قاضے‬

‫زبان پر پنجابی اور فارسی کے اثرات غالب ہیں۔ مثال‬ ‫پنجابی‬ ‫بوالیا ہے اپنے نکہت نور سین‬ ‫‪............‬‬ ‫دیا تاج لوالک کا سیس پر‬ ‫‪............‬‬ ‫جو مطلب کے ہاشم کے کہر میں ہویا‬ ‫‪..........‬‬ ‫عمر ہوک کر چہوڑ دنیا چال‬ ‫‪..........‬‬ ‫قیامت کون دیوندیں خالصی مجہے‬


‫فارسی‬ ‫ولد اوسکا تہا ابرہیمش خلیل‬ ‫‪..........‬‬ ‫زغفلت ہمیشہ کفر مون مواء‬ ‫‪............‬‬ ‫نبیے باپ قنیان کا یونس است‬ ‫‪........‬‬ ‫پتا اوسکے کا نام مستوسبخ است‬ ‫‪.........‬‬ ‫کریں عدل و انصاف در ہر زمان‬ ‫فارسی میں کہے مصرعے اور شعر شامل کیے گیے ہیں۔‬ ‫امیدم چنان است بر مصطفے‬


‫بدنیا و دینم دہد مدعا‬ ‫‪.........‬‬ ‫نہ پیغمبر و شاہ او کافر است‬ ‫‪.........‬‬ ‫کیا ذکر دربطن ماہے نشت‬ ‫ولدیت کے لیے باپ' پتا' پدر اور ولد الفاظ استعمال کیے گیے‬ ‫ہیں۔‬ ‫نبیے باپ قنیان کا یونس است‬ ‫‪...........‬‬ ‫پتا اوسکا یلمرد پہیا درجہان‬ ‫‪............‬‬ ‫پدر ویی لود است نامش ضوح‬ ‫‪............‬‬ ‫پہر اوسکا ولد ہود لکہیا کتاب‬


‫لفظ مال کر لکھے گیے ہیں۔ مثال‬ ‫دمحم کے دادایکا مطلب ہے نام‬ ‫‪..........‬‬ ‫شاہ لویکا شاہ غالب سالد‬ ‫‪..........‬‬ ‫پہر اوسکا پتا جان لیجو فرید‬ ‫‪........‬‬ ‫گاف گ کی بجائے کاف کا استعمال کیا گیا ہے‬ ‫دہر و کوش مو مذہب خاص و عام‬ ‫کوش بجائے گوش‬ ‫میں کاؤں دمحم کون ہر صبح و شام‬ ‫کاؤں بجائے گاؤں‬ ‫کریزان ہوا خوف جنکے سو پاپ‬


‫کریزان بجائے گریزاں‬ ‫جو مطلب کے ہاشم کے کہر میں ہویا‬ ‫کہر بجائے گھر‬ ‫بدیی عدل و انصاف کے بارکاہ‬ ‫کاہ بجائے گاہ‬ ‫مہاپران یعنی بھاری آوزوں کا سرے سے استعمال نہیں ہوا۔ اس‬ ‫کی جگہ' حے مقصورہ ہ استعمال میں الئی گئی ہے۔ مثال‬ ‫دمحم سین آدم تلک سبہہ کہول‬ ‫‪.............‬‬ ‫کہ شہنشاہ تہا وہ در کوو قاف‬ ‫‪...............‬‬ ‫پہر اوسکا پتا نام ترار ہے‬ ‫‪................‬‬ ‫کتابان مین لکہیا جہنم پیا‬ ‫‪..........‬‬


‫عمر ہوک کر چہوڑ دنیا چال‬ ‫شین کے لیے صعاد کا استعمال بھی ملتا ہے‬ ‫کریی نصر دنیانمیں پیغمبرے‬ ‫نشر سے نصر‬ ‫لفظوں کی' اشکالی اور اصواتی تبدیلیاں بھی ملتی ہیں۔ مثال‬ ‫جس کی جگہ جن‬ ‫سے کے لیے سین‬ ‫کو کے لیے کون‬ ‫بہت کے لیے بہتہ‬ ‫سب کے لیے سبہہ‬ ‫دینا کے لے دیوند‬ ‫اس کے لیے اوس‬


‫میں کے لیے مون‬ ‫ڑ کی جگھ' د کا استعمال کیا گیا ہے۔ مثال‬ ‫کریی بادشاہی بدے باصواب‬ ‫‪.........‬‬ ‫بدا کفر مین وہ ہویا جیون یزید‬ ‫چھوٹی ے کی جگہ بڑی ے کا استعمال کیا گیا ہے۔ مثال‬ ‫رمان شاہ کا باپ برحق نبے‬ ‫الفاظ کے ساتھ ء کا استعمال ملتا ہے۔‬ ‫پیغمبر کے کہر میں جو پیدا ہواء‬ ‫پہوالد۔۔۔۔ کون کفر مین وہ مویاء‬


‫نون غنہ کے لیے نون استعمال کی گئی ہے۔‬ ‫کہون شاہ کالب کا جو پتا‬ ‫‪........‬‬ ‫بدا کفر مین وہ ہویا جیون یزید‬ ‫جو بھی سہی' اس شعر پارے کے حوالہ سے' قدیم زبان کا طور‬ ‫و چلن میسر آتا ہے اوراس کے ہونے کا' ثبوت ملتا ہے۔ آئیے‬ ‫اب' اس شعر پارے کے مطالعہ سے' لطف لیتے ہیں۔‬ ‫بسم هللا الرحمن الرحیم‬ ‫تو سنو اب خدا کے کالم‬ ‫کیا جن دمحم علیہ‬ ‫کیا ہے دمحم خدا نور سین‬ ‫بوالیا ہے اپنے نکہت نور سین‬


‫دیا تاج لوالک کا سیس پر‬ ‫سنایا ہمہ راز خود سر بسر‬ ‫سنو اب دمحم کے کرسے تمام‬ ‫دہر و کوش مو مذہب خاص و عام‬ ‫میرے حق مین اب دعا یار ہوء‬ ‫تواضع سیتے بہتہ دلشاد ہوء‬ ‫سنو شجرہ مصطفے ہر ہمہ‬ ‫مکن از بال ہچکس داعہ‬ ‫دمحم سین آدم تلک سبہہ کہول‬ ‫لہون اجر بسیار کہون جب رسول‬ ‫چودہاد ہی خلق کا سو پاوں انعام‬ ‫میں کاؤں دمحم کون ہر صبح و شام‬ ‫قیامت کون دیوندیں خالصی مجہے‬ ‫یہے بات برحق سناؤں تجہے‬ ‫سرانجام دینا عین سبہہ کام کا‬ ‫برا حق دیا صدقہ اس نام کا‬


‫امیدم چنان است بر مصطفے‬ ‫بدنیا و دینم دہد مدعا‬ ‫دمحم کے باپ کا جو نام ہے‬ ‫سو عبدهللا ہے نام ہر کر نہ لے‬ ‫دمحم کے دادایکا مطلب ہے نام‬ ‫اوسے دین کوجہ ہنین غض کام‬ ‫جو مطلب کے ہاشم کے کہر میں ہویا‬ ‫کریں بادشاہے سو ہاشم مواء‬ ‫پتا شاہ ہاشم کا عبدمناف‬ ‫کہ شہنشاہ تہا وہ در کوو قاف‬ ‫قصے شاہ تہا باپ عبد المناف‬ ‫اوسے بادشاہے کرن خوب صاف‬ ‫قصے کا پتا شاہ سن لے کالب‬ ‫کریی بادشاہی بدے باصواب‬ ‫کہون شاہ کالب کا جو پتا‬ ‫سومرہات جانون جسے جک جیتا‬


‫بدا شاہ مرہات حکمین ہویا‬ ‫نہ قایم رہا ایک دن وہ مویا‬ ‫سنون باپ مرہات کا ہے کعب‬ ‫کریی خلق مین بادشاہے عجب‬ ‫کعب کا پتا لویی شاہ جہان‬ ‫زوارالفنا رفت دارالمان‬ ‫شاہ لویکا شاہ غالب سالد‬ ‫عمر ہوک کر چہوڑ دنیا چال‬ ‫پہر اوسکا پتا جان لیجو فرید‬ ‫بدا کفر مین وہ ہویا جیون یزید‬ ‫سنون باپ اوسکا ہویا حکمین شاہ‬ ‫بدا نام مالک سو عالم پناہ‬ ‫پتا شاہ مالک کا تہا وہ نبیے‬ ‫کریی نصر دنیا نمیں پیغمبرے‬ ‫کیا شاہ ہو کفر کون جن تباہ‬ ‫کریی سلطنت ہم کتابت کے باپ‬


‫زجوخش زمین ظالمان کشت‬ ‫سنو مدارک اوس شاہ کا باپ تہا‬ ‫اوسے کفر مون جک سون لینا‬ ‫او تہا نبیے باپ اوسکا سو الیاس نام‬ ‫عجب خداوند مولیعکے کام‬ ‫عدو او حزیمت شد اندر جہان‬ ‫حزیمت کا سن نام نصرت نشان‬ ‫کفر مون خدا نے پیغمبر کئے‬ ‫لطف کر بوال پاس اپنے لئے‬ ‫پیغمبر کے کہر میں جو پیدا ہواء‬ ‫پہوالد۔۔۔۔ کون کفر مین وہ مویاء‬ ‫کئے شاہ کیتے پیغمبر ہزار‬ ‫کئے کافران کا نہ آدمی شمار‬ ‫خدا دست قدرت سون کردا۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫ہزراں مخنث نساہاں مرد‬ ‫جو بہاوی کون سوئی کوچہ کرتے‬


‫ہنین ہاتہہ بند کے جو لکو کرے‬ ‫نبیے باپ الیاس کا ھوجوکا‬ ‫کتابان مضر نام اوسکا لکہا‬ ‫سنو کوش دہر کے جوتکرار نے‬ ‫پہر اوسکا پتا نام ترار ہے‬ ‫اوسے۔۔۔۔۔سون کام مطلب ہنین‬ ‫کریں بت پرستیے ستے ہن کہلن‬ ‫معد ولد او شاہ اندر جہان‬ ‫کریں عدل و انصاف در ہر زمان‬ ‫معد کا پتا شاہ عدنان تہا‬ ‫کریں بادشاہے نہ حکمبین رہا‬ ‫ولد اوسکا یسرب کفر مون کیا‬ ‫کتابان مین لکہیا جہنم پیا‬ ‫کہون باپ یسرب کا اب نام مین‬ ‫بدا کفر مین نام نامن کہلین‬ ‫سنو نام نامن کی اب باپ کا‬


‫یسع نام تہا شجر وہ باپ کا‬ ‫یسع کا جو تہا باپ اورد شاہ‬ ‫بدیی عدل و انصاف کے بارکاہ‬ ‫ہمیش کرے کفر نامش ہمیش‬ ‫پتا شاہ اورد کا کفر کیش‬ ‫جو تہا باپ اوسکا ہو اندر جہان‬ ‫سنو نام ان شاہ ازمن رمان‬ ‫رمان شاہ کا باپ برحق نبے‬ ‫مبلت شدہ نام او در صیح‬ ‫مبلت نبے کا کہاوں جو باپ‬ ‫لئے نام ہمکت کا ہونا ہی بات‬ ‫کفر مون رہا کفر ہے سون مواء‬ ‫کیا ہار دنیا سون بازی جواء‬ ‫جو اوسکا پتا تہا سو قیدار نام‬ ‫ہوا وہ نبیے خاص بروں سالم‬ ‫زبیح هللا اوسکا پتا اسماعیل‬


‫ولد اوسکا تہا ابرہیمش خلیل‬ ‫پیغمبر سے تین اہ نام دار‬ ‫چہ طاقت کہ آریم و صفتیں شمار‬ ‫ہویا جد پیغمبرابراہیم‬ ‫چکہا سین رکہی حق تی ذالیش کریم‬ ‫جو باپ اوسکا اذر بدا بت تراش‬ ‫ہمیشہ بتون کی نبادیں وہ الش‬ ‫ہویا کفر کی بیچ سردار خوب‬ ‫بتون کیی پرستے مین رہتا غروب‬ ‫جو تہا باپ کا آزر کا تارخ سو نام‬ ‫کریں بادشاہے سو بدنیا تمام‬ ‫پتا شاہ تارخ فازح ہواء‬ ‫زغفلت ہمیشہ کفر مون مواء‬ ‫جو تہا باپ اوسکا سو یعقوب نام‬ ‫پیغمبر سنا ہی سو عالم تمام‬ ‫جو یعقوب کا باپ غایر بہال‬


‫دیا کفر کون خاک مین جز مال‬ ‫سنو صالح ہی غایر کا باپ‬ ‫کریزان ہوا خوف جنکے سو پاپ‬ ‫پہر اوسکا ولد ہود لکہیا کتاب‬ ‫کفر کون کیا آن چہاروں خراب‬ ‫پیغمبر ہوئی جازاہ جان لے‬ ‫کہیا سہبہ کتابون کا تون مان لے‬ ‫کہو شاہ ارفخشد اوسکا پتاء‬ ‫بدا شاہ عالم کون جسنے جتا‬ ‫پہر اوس کا پتا سام کافر کہوء‬ ‫جیو نام اوسکا نہہ کر رہوء‬ ‫یہیا نوح آدم کا ثانی نبیے‬ ‫پتا سام کا جان لیجو۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫کہنہ کار ہوئی خلق بیشمار‬ ‫بطوفان میں غرق کیتے ہزار‬ ‫بنائی بدیی نوح کشتے کالں‬


‫رکہی بیچ ہر جفت کے درمیان‬ ‫جہان ازسر نو ہویدا شدہ‬ ‫طفیل نبیے نوح پیدا شدہ‬ ‫کہین نوح کون ثانی آدم ہویا‬ ‫زوارالفناہ آخر اوہ بہےمویا‬ ‫پتا اوسکے کا نام مستوسبخ است‬ ‫نہ پیغمبر و شاہ او کافر است‬ ‫پدر ویی لود است نامش ضوح‬ ‫شدہ کفرمین‪........‬بدکا صبوح‬ ‫پتا اوسکا یلمرد پہیا درجہان‬ ‫بدا کفر او کافریمین عیان‬ ‫کریی باپ مہالن کے کافر ہے‬ ‫سنو نام قنیان او در کتاب‬ ‫بروز حشر کافران اہ عذاب‬ ‫نبیے باپ قنیان کا یونس است‬ ‫کیا ذکر دربطن ماہے نشت‬


‫تولد شدہ یونس از عم شیش‬ ‫مبارک ز پیغمبریشیش ریش‬ ‫پتا شیش کا آدم اندر کتاب‬ ‫خدا کرو صلوات او بےحساب‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫نوٹ‪ :‬یہ شعر کاٹا ہوا ہے‬ ‫سو کافر نہ آیا ہے دہر میں‬ ‫اوسے یاد کر نا ہنین مین نہ مین‬

‫شجرہ قادریہ ۔۔۔۔۔ ایک جائزہ‬ ‫جنت مکانی حضرت سیدہ سردار بی بی' دختر حضرت سید‬ ‫برکت علی زوج مخدومی ومرشدی حضرت سید غالم‬ ‫حضور'سابق اقامتی ننگلی' امرت سر' بھارت' متوفی ‪ 7001‬کی‬


‫پاکٹ ڈائری کا' کس حد تک' اپنے کسی مضون میں ذکر کر چکا‬ ‫ہوں۔ اس ڈائری میں شجرہ قادریہ بھی درج ہے۔ اس کی بڑی‬ ‫خوبی یہ ہے کہ شاعر کا نام اور قادریہ خاندان سے تعلق بھی'‬ ‫داخلی شہادت کے طور مل جاتا ہے۔ یہ پیر سید غالم جیالنی کے‬ ‫مرید تھے جو گڑھ شنکر پنجاب بھارت میں' رہائش پذیر تھے۔‬ ‫اس ذیل میں شجرے کا یہ بند مالحظہ ہو۔‬ ‫حضرت پیر غالم جیالنی‬ ‫مہر علی دے رہبر جانی‬ ‫ہر دم وسن وچ دھیان‬ ‫یا رب مشکل کریں آسان‬ ‫یہ شجرہ کل ستائس بندوں پر مشتمل ہے۔ شجرے کے پہلے نو‬ ‫بند کمال کی روانی رکھتے ہیں۔ اس میں شخصی تعارف کے لئے‬ ‫صفتی کلمات سے کام لیا گیا ہے۔ مثال‬ ‫علی ولی ہیں زوج بتول‬


‫شاہ مرداں ہیں شیر خدا‬ ‫بی بی زہرہ بنت رسول‬ ‫حسن عسکری نورالنور‬ ‫عبدالعزیز ہیں یمنی ہادی‬ ‫عبدالوہاب فضل الہی‬ ‫حضرت یحیی رہبر کامل‬ ‫تاج الدین نے زہد کمایا‬ ‫حضرت پیر غالم جیالنی‬ ‫گڑھ شنکر وچ تخت مکان‬


‫عموما پڑھنے اور سننے میں بھی آیا ہے کہ اردو پر پنجابی‬ ‫اثرات پائے جاتے ہیں۔ پنجابی بھی اردو کے اثرات سے محفوظ‬ ‫نہیں۔ اس شجرہ کے حوالہ سے اردو کے اثرات مالحظہ‬ ‫فرمائیں۔‬ ‫نحوی‬ ‫اس پر میرا تکیہ مان‬ ‫مہدی زمان کا جان ظہور‬ ‫کچھ مصرعے لسانی اعتبار سے اردو اور پنجابی کے نہیں ہیں۔‬ ‫اسلوبی اعتبار سے اردو کے ضرور ہیں مستعمل اور قابل فہم‬ ‫بھی ہیں۔‬ ‫باقر وجعفر و موسی کاظم‬ ‫حسن عسکری نورالنور‬ ‫خواجہ کرخی در بیان‬ ‫ابوالعباس احمد دل شاداں‬ ‫حضرت یحیی رہبر کامل‬


‫شاہ جنید پیر بغدادی‬ ‫ہمارے ہمارے ہاں بیوی کے لئے لفظ زوجہ استعمال کیا جاتا‬ ‫ہے۔ خاوند کے لئے یہ یا اس کی کوئی شکل مستعمل نہیں ہے۔‬ ‫شاعر نے خاوند کے لئے لفظ زوج استعمال کیا ہے۔ یہ استعمال‬ ‫کے حوالہ سے غیرمانوس ہے حاالں کہ درست اور فصیح ہے۔‬ ‫علی ولی ہیں زوج بتول‬ ‫مہر علی نے ان ستائیں بندوں میں خوب صورت مرکبات بھی‬ ‫دئیے ہیں۔ مثال‬ ‫سید طالح اہل حضور‬ ‫ہر دم تیرا شکر احسان‬ ‫مہر علی ہے عاجز خاکی‬ ‫راہ خدا ہیں جان فدا‬ ‫حضرت یحیی رہبر کامل‬


‫اس پر میرا تکیہ مان‬ ‫ایک مرکب تو لسانی صوتی اور معنوی اعتبار سے بڑے کمال کا‬ ‫ہے۔‬ ‫نظر و نظری کرن نہال‬ ‫دو نئے مہاورے بھی دیے ہیں۔ دو مصرعے خالص پنجابی کے‬ ‫نہیں ہیں۔‬

‫زہد کمایا‬ ‫تاج الدین نے زہد کمایا‬ ‫'رہبر پایا‬


‫لہجے کے اعتبار سے اردو کا نہیں ہے۔ ورنہ اس مصرعے کے‬ ‫اردو ہونے میں کوئی شک نہیں۔‬ ‫شرف الدین نے رہبر پایا‬ ‫اردو ‪ :‬شرف الدین کو رہبرمال‬ ‫پنجابی‪ :‬شرف الدین نوں رہبر ملیا‬ ‫شرف الدین نے رہبر پایا‪.....‬غیر فصیح نہیں ہے۔ صوتی حوالہ‬ ‫سے بھی' ہر زبان بولنے والوں کے لئے' سماعتی گرانی کا‬ ‫سبب نہیں بنتا۔‬ ‫پورے شجرے میں' مصرعوں میں ایک آدھ لفظ کی تبدیلی سے'‬ ‫اردو وجود حاصل کر لیتی ہے۔‬ ‫اگر اسے اردو پر پنجابی کے اثرات کا نام دیا جائے' تو بھی بات‬ ‫یکسر غلط معلوم نہیں ہوتی۔‬ ‫شجرہ مالحظہ ہو‬


‫شجرہ قادریہ‬ ‫هللا هللا ہر دم آکھ‬ ‫تن من اپنا کرکے پاک‬ ‫نبی دمحم دے قربان‬ ‫یا رب مشکل کریں آسان‬ ‫هللا هللا ہر دم آکھ‬ ‫آکھ کا استعمال قافیہ کی مجبوری ہے۔‬ ‫نبی دمحم دے قربان‬ ‫دے کی بجائے کے‬ ‫نبی دمحم کے قربان‬ ‫یا رب مشکل کریں آسان‬


‫کریں کی بجائے کرنا‬ ‫یا رب مشکل کرنا آسان‬ ‫‪.........‬‬ ‫خاص خدا دا نبی پیارا‬ ‫امت نوں بخشاون ہارا‬ ‫اس پر میرا تکیہ مان‬ ‫یا رب مشکل کریں آسان‬ ‫خاص خدا دا نبی پیارا‬ ‫دا کی جگہ کا‬ ‫خاص خدا کا نبی پیارا‬ ‫امت نوں بخشاون ہارا‬ ‫نوں کی جگہ پرانی اردو کے مطابق کوں‬ ‫امت کوں بخشاون ہارا‬ ‫‪..........‬‬


‫بی بی زہرہ بنت رسول‬ ‫علی ولی ہیں زوج بتول‬ ‫میں عاجز دا سر قربان‬ ‫یا رب مشکل کریں آسان‬ ‫میں عاجز دا سر قربان‬ ‫دا کی جگہ کا‬ ‫میں عاجز کا سر قربان‬ ‫‪..........‬‬ ‫صاحبزادے نور العین‬ ‫یعنی حضرت حسن حسین‬ ‫صدقے حضرت عابد جان‬ ‫یا رب مشکل کریں آسان‬ ‫باقروجعفروموسی کاظم‬


‫موسی رضا دی الفت الزم‬ ‫تقی نقی دے میں قربان‬ ‫یا رب مشکل کریں آسان‬ ‫موسی رضا دی الفت الزم‬ ‫دی کی جگہ کی‬ ‫موسی رضا کی الفت الزم‬ ‫تقی نقی دے میں قربان‬ ‫دے کی جگہ کے‬ ‫تقی نقی کے میں قربان‬ ‫‪.........‬‬ ‫حسن عسکری نورالنور‬ ‫مہدی زمان کا جان ظہور‬ ‫ہر دم میرا ایہو دھیان‬


‫یا رب مشکل کریں آسان‬ ‫ہر دم میرا ایہو دھیان‬ ‫ایہو کی جگہ یہ ہی‬ ‫ہر دم میرا یہ ہی دھیان‬ ‫‪.........‬‬ ‫پنج بارہ ہور چودہ جان‬ ‫اہل بیت دے حب ایمان‬ ‫صفت نہ کیتی جا بیان‬ ‫یا رب مشکل کریں آسان‬ ‫پنج بارہ ہور چودہ جان‬ ‫ہور کی جگہ اور۔ گویا صرف آواز ہ کو ا میں بدلنا ہے۔‬ ‫پنج بارہ اور چودہ جان‬ ‫‪..........‬‬


‫شاہ مرداں ہیں شیر خدا‬ ‫راہ خدا ہیں جان فدا‬ ‫خواجہ حسن بصری دل جان‬ ‫یا رب مشکل کریں آسان‬

‫حبیب عجمی دے گھول گھماواں‬ ‫داؤد طائی دے صدقے جاواں‬ ‫خواجہ کرخی در بیان‬ ‫یا رب مشکل کریں آسان‬ ‫حبیب عجمی دے گھول گھماواں‬ ‫داؤد طائی دے صدقے جاواں‬ ‫دے کی جگہ کے‬ ‫حبیب عجمی کے گھول گھماواں‬ ‫داؤد طائی کے صدقے جاواں‬


‫‪........‬‬ ‫خواجہ سری سقطی ہادی‬ ‫شاہ جنید پیر بغدادی‬ ‫ابوبکر شبلی دا مان‬ ‫یا رب مشکل کریں آسان‬ ‫ابوبکر شبلی دا مان‬ ‫دا کی جگہ کا‬ ‫ابوبکر شبلی کا مان‬ ‫‪........‬‬ ‫ابوالعباس احمد دل شاداں‬ ‫عبدالعزیز ہیں یمنی ہادی‬ ‫شیخ یوسف دے میں قربان‬ ‫یا رب مشکل کریں آسان‬


‫شیخ یوسف دے میں قربان‬ ‫دے کی جگہ کے‬ ‫شیخ یوسف کے میں قربان‬ ‫‪.......‬‬ ‫ابوالفرح طرطوسی قاری‬ ‫ابوالحسن علی ہنکاری‬ ‫ابوسعید مخدومی جان‬ ‫یا رب مشکل کریں آسان‬ ‫ابودمحم عبدالقادر‬ ‫غوث قطب سب در پر حاضر‬ ‫طالب جسدا کل جہان‬ ‫یا رب مشکل کریں آسان‬


‫طالب جسدا کل جہان‬ ‫دا کی جگہ کا‬ ‫طالب جسکا کل جہان‬ ‫‪.........‬‬ ‫عبدالوہاب فضل الہی‬ ‫عبدالرحیم دی پشت پناہی‬ ‫سید وہاب رکھ حفظ امان‬ ‫یا رب مشکل کریں آسان‬ ‫عبدالرحیم دی پشت پناہی‬ ‫دی کی گہ کی‬ ‫عبدالرحیم کی پشت پناہی‬ ‫‪.........‬‬ ‫حضرت یحیی رہبر کامل‬


‫جمال الدین ہیں ہر دم شامل‬ ‫نور الدین دے پیر۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫یا رب مشکل کریں آسان‬ ‫نور الدین دے پیر۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫دے کی جگہ کے‬ ‫نور الدین کے پیر۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫‪.......‬‬ ‫تاج الدین نے زہد کمایا‬ ‫شرف الدین نے رہبر پایا‬ ‫دمحم یاسین ہیں فیض رسان‬ ‫یا رب مشکل کریں آسان‬ ‫سید طالح اہل حضور‬ ‫سید صالح نور النور‬


‫ہر دم میرا ورد زبان‬ ‫یا رب مشکل کریں آسان‬ ‫سید یحیی الحق جب آئے‬ ‫سید عثمان رہبر پائے‬ ‫سید عبدهللا دے پیر نوں جاوے‬ ‫یا رب مشکل کریں آسان‬ ‫سید عبدهللا دے پیر نوں جاوے‬ ‫دے کی جگہ کے اور نوں کی جگہ کوں رکھ دیں‬ ‫سید عبدهللا کے پیر کوں جاوے‬ ‫‪.........‬‬

‫سید غالم مصطفے جانو ہادی‬ ‫نام لیاں دل ہووے شادی‬


‫سید احمد ہیں اہل ۔۔۔۔۔۔‬ ‫یا رب مشکل کریں آسان‬ ‫سید غالم مصطفے جانو ہادی‬ ‫جانو' جاننا کے لئے ہے تاہم سمجھو رکھ دیں۔‬ ‫سید غالم مصطفےسمجھو ہادی‬ ‫‪........‬‬ ‫سید علی معظم قادر‬ ‫وچ حضوری ہر دم حاضر‬ ‫عارف فاضل کامل جان‬ ‫یا رب مشکل کریں آسان‬ ‫وچ حضوری ہر دم حاضر‬ ‫وچ کو میں بدل دیں‬ ‫حضوری میں ہر دم حاضر‬


‫‪.........‬‬ ‫حضرت قادر بخش کمال‬ ‫نظر و نظری کرن نہال‬ ‫دوئیں تھائیں روشن جان‬ ‫یا رب مشکل کریں آسان‬ ‫نظر و نظری کرن نہال‬ ‫کرن کو کریں کر دیں‬ ‫نظر و نظری کریں نہال‬ ‫‪........‬‬ ‫حضرت پیر غالم جیالنی‬ ‫قادر بخش نے ہوئے نورانی‬ ‫گڑھ شنکر وچ تخت مکان‬ ‫یا رب مشکل کریں آسان‬


‫گڑھ شنکر وچ تخت مکان‬ ‫وچ کو میں بدل دیں‬ ‫گڑھ شنکر میں تخت مکان‬ ‫‪.......‬‬ ‫حضرت دے دو بھائی پیارے‬ ‫قادر بخش دے ہی دالرے‬ ‫عطا دمحم ہیں دربان‬ ‫یا رب مشکل کریں آسان‬ ‫حضرت دے دو بھائی پیارے‬ ‫قادر بخش دے ہی دالرے‬ ‫دے کی جگہ کے‬ ‫حضرت کے دو بھائی پیارے‬ ‫قادر بخش کے ہی دالرے‬


‫‪.........‬‬ ‫غالم غوث دے قربان‬ ‫بیٹے جس دے ست عیان‬ ‫هللا دتے ہو رحمان‬ ‫یا رب مشکل کریں آسان‬ ‫غالم غوث دے قربان‬ ‫بیٹے جس دے ست عیان‬ ‫دے کی جگہ کے‬ ‫غالم غوث کے قربان‬ ‫بیٹے جس کے ست عیان‬ ‫‪........‬‬ ‫لنگر رکھ دے ہر دم جاری‬ ‫وچ دربار رہے گلزاری‬


‫آئے سوالی خالی نہ جان‬ ‫یا رب مشکل کریں آسان‬ ‫لنگر رکھ دے ہر دم جاری‬ ‫وچ دربار رہے گلزاری‬ ‫‪.‬رکھ دے کی جگہ رکھتے اور وچ کی جگہ میں رکھ دیں‬ ‫لنگر رکھتے ہر دم جاری‬ ‫دربار میں رہے گلزاری‬ ‫‪........‬‬ ‫شجرہ شریف میں کہیا سارا‬ ‫مینوں بخشیں پروردگارا‬ ‫ہر دم تیرا شکر احسان‬ ‫یا رب مشکل کریں آسان‬ ‫مینوں بخشیں پروردگارا‬


‫مینوں کو مجھے کر دیں‬ ‫مجھے بخشیں پروردگارا‬ ‫‪........‬‬ ‫حضرت پیر غالم جیالنی‬ ‫مہر علی دے رہبر جانی‬ ‫ہر دم وسن وچ دھیان‬ ‫یا رب مشکل کریں آسان‬ ‫مہر علی دے رہبر جانی‬ ‫دے کی جگہ کے رکھ دیں‬ ‫مہر علی کے رہبر جانی‬ ‫‪........‬‬ ‫مہر علی ہے عاجز خاکی‬ ‫توں ساقیاں دا ہیں ساقی‬


‫شاہ جیالنی دے ایمان‬ ‫یا رب مشکل کریں آسان‬ ‫توں ساقیاں دا ہیں ساقی‬ ‫شاہ جیالنی دے ایمان‬ ‫تبدیلی‬ ‫تو ہے ساقیوں کا ساقی‬ ‫شاہ جیالنی کے ایمان‬ ‫‪.......‬‬ ‫شجرہ شریف پڑھیں بھائی‬ ‫قلب تہاڈے دی ہو گی صفائی‬ ‫جو ہیں قادری خاندان‬ ‫یا رب مشکل کریں آسان‬ ‫قلب تہاڈے دی ہو گی صفائی‬


‫تہاڈے کو تہارے دی کی جگہ کی‬ ‫قلب تہارے کی ہو گی صفائی‬ ‫‪..........‬‬

‫پڑھنے دا وقت صبح و شام‬ ‫پڑھ لیا جس پیتا جام‬ ‫پیر سوہنے دا ہے قربان‬ ‫یا رب مشکل کریں آسان‬ ‫پڑھنے دا وقت صبح و شام‬ ‫دا کی جگہ کا‬ ‫پڑھنے کا وقت صبح و شام‬ ‫پیر سوہنے دا ہے قربان‬ ‫دا کی جگہ کا‬ ‫پیر سوہنے کا ہے قربان‬


‫‪.......‬‬ ‫!محب مکرم حسنی صاحب‪ :‬سالم مسنون‬ ‫سبحان هللا! آپ نے بہت کمال کی باتیں بیان کی ہیں اس مضمون‬ ‫میں۔ ایک طرف تو یہ ہمارے اسالف کے ورثے کی بازیافت ہے‪،‬‬ ‫نہایت لطیف‪،‬نہایت علم افروز اور نہایت قیمتی اور دوسری جانب‬ ‫الفاظ اور تراکیب کا وہ خزانہ ہے جو اب نایاب ہوتا جا رہا ہے‬ ‫بلکہ ہو گیا ہے۔ میں پنجابی کی بہت معمولی شد بد رکھتا ہوں۔‬ ‫آپ کی تحریر سے معلوم ہوا کہ اردو اورپنجابی ایک دوسرے‬ ‫سے کتنی متاثر ہوئی ہیں۔ بیشتر پنجابی میری سمجھ میں‬ ‫آئی۔ایک آدھ ہی جگہ مشکل پیش آئی لیکن وہ آپ کی تشریح نے‬ ‫حل کر دی۔جزاک هللا خیرا۔‬ ‫اپنی عنایات ایسے ہی قائم رکھئے۔ هللا آپ کو طویل عمر عطا‬ ‫فرمائے۔ رہ گیا راوی تو وہ بھی چین بولتا ہے۔‬ ‫سرور عالم راز‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9786.0‬‬


‫ایک قدیم یاد گار‬ ‫بارہ امام‬

‫بچپن ہی سے' اپنی والدہ ماجدہ محترمہ سیدہ سردار بیگم دختر‬ ‫سید برکت علی سابقہ اقامتی ننگلی' امرتسر سے' میں صبح‬ ‫سویرے بارہ امام سنتا آ رہا تھا۔ ان میں سے پہلے تین' آج تک‬ ‫مجھے زبانی یاد تھے۔ جس مسودے سے وہ یہ پڑھتی تھیں'‬ ‫انتہائی بوسیدہ تھا۔ انیس سو ستاون یا اٹھاون میں' انہوں نے یہ‬ ‫کسی سے ایک پاکٹ ڈائری پر نقل کروایا۔ ناقل کوئی زیادہ پڑھا‬ ‫لکھا نہ تھا۔ چوں کہ انہیں یہ زبانی ازبر تھا' اس لیے لکھائی‬ ‫کے اچھا یا برا ہونے سے کوئی فرق نہ پڑا۔ اصل مسودہ انہوں‬ ‫نے ایک چھوٹے سے بکس میں محفوظ کر دیا ' جو ان کے‬ ‫مرحوم والد کی نشانی تھا ۔‬ ‫میں جب ان کا انتقال پرمالل ہوا' تو بڑے بھائی صاحب ‪1996‬‬ ‫مرحوم مکان سامان پر قابض ہو گئے' ان سے چھوٹی کے‬


‫حصہ میں جھاڑ پونچھ آ گیا۔‬ ‫میں نے قیافہ سے' چھوٹی نصرت شگفتہ سے کہا ممکن ہے وہ‬ ‫بکس' جس میں مسودہ تھا' آپا کے ہاں سے مل جائے۔ آپا عمر‬ ‫رسیدہ ہونے کے سبب' حواس میں نہیں ہیں' اس لیے چھوٹی‬ ‫ہی کو' آپا کے گھر سے کوڑ کباڑ پھرولنا پڑا۔ بےچاری کو کچھ‬ ‫نہ مال۔ میں نے پھر ہمت بندھائی۔ میری درخواست پر دوبارہ‬ ‫سے سفر کی صعوبت اٹھا کر آپا کے گاؤں گئی اور ابا مرحوم‬ ‫کے کالم کا ایک رجسٹر تالشنے میں کامیاب ہو گئی اور یہ دفتر'‬ ‫اپنے پیار کے تحفے کے طور پر' اپنے بوڑھے بھائی کو بھجوا‬ ‫دیا۔ یقین مانیئے' اس کی کامیابی پر دل گلالب گالب اور آنکھیں‬ ‫کلی کلی ہو گئیں۔ وہ بےچاری کیا جانے' میری سوئی' اس‬ ‫مسودے اور پاکٹ ڈائری پر رکی ہوئی تھی۔ اسے پھر سے'‬ ‫کوشش کرنا پڑی۔ آخر اس نے پاکٹ ڈائری ڈھونڈ ہی نکالی۔ یہ‬ ‫وہاں سے ملی' جہاں اس کے ہونے کا گمان بھی نہیں کیا جا‬ ‫سکتا تھا۔ اس کی حالت بڑی خستہ اور قابل رحم ہے۔ میں نے‬ ‫پوری توجہ سے اسے پڑھ کر یہاں درج کیا ہے۔‬ ‫اپنی اصل میں یہ اردو میں ہے لیکن اس پر پنجابی کے گہرے‬ ‫اثرات ملتے ہیں۔ یہ کوئی ایسی نئی بات نہیں۔ قوافی میں ر کے‬ ‫ساتھ ڑ کے قوافی بھی ملتے ہیں‬


‫جب گوشہ پکڑا علی نے تو ہوئی کڑ کڑ‬ ‫‪..........‬‬ ‫کیوں سٹاں فلک فرش تے زمین جائے سڑ‬ ‫‪..........‬‬ ‫ر کے ساتھ بھاری آوازوں کے قوافی کا بھی استعمال ہوئے ہیں۔‬ ‫ڑھ‬ ‫جب معراج ہوا امام کو تب سیس نیزے چڑھ‬ ‫گھ‬ ‫کوفی وڈے لعنتی پلید جھوٹا گھر‬ ‫بھ‬ ‫شریعت طریقت دا اوہ دیوے جام بھر‬ ‫ان مرکبات کو ایک نظر دیکھیئے' پرلطف ہی نہیں' فصحیح و‬ ‫بلیغ بھی ہیں۔‬


‫مکر زن' خوشی چین' سردار صادقین' صدق سیتی' نبی کے‬ ‫رتن' رب کا رفیق‬ ‫جھوٹا گھر' کہہ کر بہت بڑا عالقہ مراد لیا گیا ہے۔ کمال کا‬ ‫معنوی وسعت کے حوالہ سے' یہ مرکب ہے۔‬ ‫مجھے اس کالم سے' دل چسپی تھی اور ہے۔ صدیوں پرانی‬ ‫بزرگوں کی نشانی ہے۔ اس میں پہلے امام میں' جو معلومات‬ ‫فراہم کی گئی ہیں' مروجہ تاریخی قصص سے' قطعی ہٹ کر ہیں'‬ ‫تاہم انہیں یہ کہہ کر رد کر دینا' کہ کسی شعیہ کا کہا ہے' مبنی‬ ‫برانصاف نہیں۔ ان سے ہٹ کر لوگ بھی کب ہل پر نہایت ہوئے‬ ‫ہیں۔ جدھر دیکھو 'سب عین غین صورت نظر آئے گی۔ پیٹ' ضد‬ ‫اور شاہ گماشتگی میں مصروف ہیں۔ خصوصا مولوی تو بےیقینا‬ ‫اور تقسیم کے دروازے کھولنے واال رہا ہے۔ اصحابہ کرام کی‬ ‫گلبرگہ وغیرہ میں آمد اور موجودگی کے آثار ملتے ہیں۔ قراتہ‬ ‫العین حیدر کے ہاں سادات کی لڑائیوں کا ذکر ملتا ہے۔ اسی طرح‬ ‫حضرت امیر معاویہ کے عہد میں ‪ 44‬ہجری میں بھی حملے کا‬ ‫سراغ ملتا ہے۔ قاضی نجیب کے ہاں منصورہ میں فاطمی‬ ‫حکومت کا بھی پتا ملتا ہے۔ ابن قاسم اسی کو نابود کرنے آیا‬


‫تھا۔ یہ ہی سچ اور یہ ہی حقیقت ہے۔ اب یہ نئی بات سامنے آئی‬ ‫‪.‬ہے‬ ‫اول کے امام موال علی صفدر‬ ‫جو ملک سندھ کافراں سب لیے زیر کر‬ ‫جب گوشہ پکڑا علی نے تو ہوئی کڑ کڑ‬ ‫تب نعرہ ہوا حیدری سب کافر گئے ڈر‬ ‫یا پیر مینوں عاجز دی مشکل آسان کر‬ ‫جب گوشہ پکڑا علی نے تو ہوئی کڑ کڑ‬ ‫یہ مصرع کھولتا ہے کہ امام علی یہاں خود تشریف الئے۔ خیبر‬ ‫تک آنے کا تو مروجہ تاریخ میں' واضح ثبوت ملتا ہے۔ اس‬ ‫مصرعے میں کہے گئے کو رد کرنا' باالشبہ زیادتی ہو گی۔ تاہم‬ ‫کوئی غیر مسلم یا پھر مورکھ نہیں' مورخ ہی کام کر سکے گا۔‬ ‫اول کے امام موال علی صفدر‬


‫جو ملک سندھ کافراں سب لیے زیر کر‬ ‫جب گوشہ پکڑا علی نے تو ہوئی کڑ کڑ‬ ‫تب نعرہ ہوا حیدری سب کافر گئے ڈر‬ ‫یا پیر مینوں عاجز دی مشکل آسان کر‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫دوسرے امام بیٹے علی کے حسن‬ ‫جو زہر آندی کافراں اور دی مکر زن‬ ‫جب حسن دیکھے زہر کو تقدیر لئی من‬ ‫کیوں سٹاں فلک فرش تے زمین جائے سڑ‬ ‫یا پیر مینوں عاجز دی مشکل آسان کر‬ ‫‪.......‬‬ ‫تیسرے امام بیٹے علی کے حسین‬ ‫تقصیر کرو معاف پکاراں دن رین‬ ‫میں منگتا ہوں حسین کا دکھاؤ خوشی چین‬


‫جب معراج ہوا امام کو تب سیس نیزے چڑھ‬ ‫یا پیر مینوں عاجز دی مشکل آسان کر‬ ‫‪.......‬‬ ‫چوتھے امام بیٹے سخی زین العابدین‬ ‫بیٹے ہیں حسین کے سید مرسلین‬ ‫جب زیر کیتے کوفیاں سردار صادقین‬ ‫کوفی وڈے لعنتی پلید جھوٹا گھر‬ ‫یا پیر مینوں عاجز دی مشکل آسان کر‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫پانچویں امام تھے دمحم باقر ضرور‬ ‫امام منوں پانچواں وہ پاک ذاتی نور‬ ‫کلمہ کہو رسول کا سب کفر ہووے دور‬ ‫شریعت طریقت دا اوہ دیوے جام بھر‬ ‫یا پیر مینوں عاجز دی مشکل آسان کر‬


‫‪........‬‬ ‫چھیویں امام جعفر صادق مذہب جن کا پاک‬ ‫والد جن کا دمحم باقر سردار عالی ذات‬ ‫تیجے اوتھے خود کرشن پھر حشر دے میدان‬ ‫۔۔۔۔۔ تے یقین سوال اسے در‬ ‫یا پیر مینوں عاجز دی مشکل آسان کر‬ ‫‪......‬‬ ‫امام کاظم ساتویں صدق سیتی من‬ ‫کلمے سے دل پاک صاف ہوا تن‬ ‫سخی جعفر کے فرزند اور نبی کے رتن‬ ‫جو غیر کو امام کہے تو کاٹو اس کا سر‬ ‫یا پیر مینوں عاجز دی مشکل آسان کر‬ ‫‪......‬‬ ‫آٹھویں امام موسی علی رضا‬


‫رب دیا ہے لوالک اہل بیت نوں‬ ‫جو رب کی بات‬ ‫قربان قربان میں حسین تھیں‬ ‫جس کیا ہے صبر‬ ‫یا پیر مینوں عاجز دی مشکل آسان کر‬ ‫‪.......‬‬ ‫نویں امام تقی نقی خدا کا‬ ‫امام منوں اس کو آل نبی اوالد مرتضے کا‬ ‫حیدر بنے ساقی کوثر وارث ہے شفا کا‬ ‫جو دشمن ہووے غیر تھیں چا کاٹو اس کا سر‬ ‫یا پیر مینوں عاجز دی مشکل آسان کر‬ ‫‪.......‬‬ ‫دسویں امام توں قربان کراں سیس‬ ‫نقی امام نام جس کا وہ رب کا رفیق‬


‫منوں اس کو مومنوں یہ نبی کی حدیث‬ ‫کیا یہ رسول نے عزیز ممبر چڑھ‬ ‫یا پیر مینوں عاجز دی مشکل آسان کر‬ ‫‪.......‬‬ ‫گیارویں امام حسن عسکری علیہ السالم‬ ‫تیری پشت پاک تم بخشو چا انعام‬ ‫ایتھے اوتھے مدد ہو پھر حشر کے میدان‬ ‫فقیر کا سوال بخشو دین ایمان زر‬ ‫یا پیر مینوں عاجز دی مشکل آسان کر‬ ‫‪.......‬‬ ‫بارہویں امام کو رب دیا ہے زور‬ ‫مہدی نام اس کا نہیں ثانی اس کا ہور‬ ‫مارے گا دجال کو جب موزی پایا زور‬ ‫فتح ہے امام کو جب۔۔۔۔۔۔‬


‫یا پیر مینوں عاجز دی مشکل آسان کر‬

‫حضور کریم لملسو ہلص اور تخلیق کائنات‬

‫مرشدی قبلہ حضرت سید غالم حضور المعروف بابا جی شکرهللا‬ ‫۔۔۔۔ پ ‪ 7091‬م‪7011‬۔۔۔۔۔ کے ذخیرہ کتب سے' جہاں مختلف‬ ‫موضوعات پر مجھ ناچیز کو کتب میسر آسکی ہیں' وہاں ان میں‬ ‫قلمی نسخے بھی ملے ہیں‘ جو انہیں‘ ان کے والد گرامی‘ یعنی‬ ‫مجھ فانی کے دادا جان‘ حضرت سید علی احمد ۔۔۔۔۔۔ م‬ ‫‪7077‬۔۔۔۔۔۔۔ ولد سید عبدالرحمن اور ننھیال' جو ان کا سسرال‬ ‫بھی تھا' سے ورثہ میں ملے۔‬ ‫حضرت سید علی احمد نوشہرہ' امرت سر کے رہائشی تھے۔ وہ‬ ‫عربی اور فارسی کے عالم فاضل تھے۔ ان کی دو بیویوں میں'‬ ‫چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں‪ .‬سیدہ جنت بی بی سے' سید ملک'‬


‫سید فلک شیر اور سیدہ کرامت بی بی' جب کہ سیدہ گوہر بی بی‬ ‫سے سید غالم غنی' سید غالم حضوراور سیدہ زینب بی بی تھیں۔‬ ‫سید ملک' سید فلک شیر اور سیدہ کرامت بی بی کا کچھ حال‬ ‫معلوم نہیں۔ مرشدی حضرت سید غالم حضور تادم مرگ' ان کی‬ ‫تالش میں رہے۔ راقم کو بھی' ان کا کچھ پتا نہیں چل سکا۔ ان‬ ‫کی آل اوالد سے مالقات کی خواہش' روز اول کی طرح' آج بھی‬ ‫اپنی پہلی سی شدت رکھتی ہے۔‬ ‫حضرت سید علی احمد کی وفات کے وقت' زینب بی بی سات‬ ‫برس' سید غالم غنی چھے برس' جب کہ سید غالم حضور چار‬ ‫برس کے تھے‪ .‬زمین پہانڈے والے تھے۔ دمحم اکبر فقیر' جو‬ ‫حضرت سید علی احمد کا خدمت گار تھا' نے دیکھ بھال کے‬ ‫بہانے' مائی گوہر بی بی ' زوجہ حضرت سید علی احمد ولد سید‬ ‫عبدالرحمن کو اعتماد میں لے لیا۔۔ دمحم اکبر فقیر کی بیوی‬ ‫کھیواں' دہلیز کے اندر' جب کہ دمحم اکبر فقیر گھر سے باہر کے‬ ‫امور انجام دینے لگا۔‬ ‫مائی صاحب کے بچے چھوٹے تھے۔ انہوں نے دمحم اکبر فقیر پر‬ ‫اعتماد کیا۔ دمحم اکبر فقیر کی بیوی کھیواں سے' دو بیٹے' دمحم‬ ‫امین اور قائم علی کو بھی' بیٹوں کی طرح سمجھا۔ دمحم اکبر فقیر‬ ‫کی موت کے بعد' اس کے بڑے بیٹے دمحم امین نے انتظام‬


‫سمبھال لیا۔ بعد ازاں خود کو' حضرت سید علی احمد ولد سید‬ ‫عبدالرحمن کا وارث قرار دے کر' ہر چیز پر قبضہ جما لیا۔ خوش‬ ‫حال گھرانہ' دنوں میں مفلس ہو گیا۔ یہ ہی نہیں' دمحم امین اور‬ ‫قائم علی' بدسلوکی سے کام لینے لگے۔ وہ ہی' جنہیں اوالد کی‬ ‫طرح سمجھا اور گھر داخل ہونے کی اجازت دی' جان کے دشمن‬ ‫بن گیے۔ مائی صاحب کے منہ سے آہیں نکل نکل گئیں۔ دمحم امین‬ ‫کے ہاتھوں ایک قتل ہوا۔ جیلوں میں سڑا اور پھر' دماغی توازن‬ ‫کھو بیٹھا۔ سنگلوں سے باندھا گیا اوراسی حالت میں چل بسا۔‬ ‫دمحم امین کے دونوں بیٹے والیوڑ نکلے' انہوں نے باپ کا‬ ‫ہتھیایا' سب اجاڑ دیا۔ دمحم خالق فقیر ہو گیا' جب کہ ووسرے نے'‬ ‫گاؤں میں چھوٹی موٹی پرچون کی دوکان ڈال لی۔‬ ‫قائم علی کی بیٹی تاج' اپنی ماں رقیاں کے قدموں پر تھی۔ اس‬ ‫کی بدچلنی کے ہاتھوں مجبور ہو کر' اس نے چھت پر سے‬ ‫چھالنگ لگا کر' خودکشی کر لی۔ حرف بہ حرف اسی طرح ہوا'‬ ‫جس طرح سے مائی گوہر بی بی نے دم دیتے وقت کہا تھا۔ زمین‬ ‫کا مال زمین پر ہی رہ گیا۔ دمحم امین اور قائم علی دونوں' دنیا‬ ‫سے خالی ہاتھ چلے گیے۔ رقیاں کا عاشق سردار کرتار سنگھ'‬ ‫‪ 7041‬کے ہنگاموں کی نذر ہو گیا۔ دمحم امین کے باپ کا ہڑپا‬ ‫ضائع ہو گیا' کچھ باقی نہ رہا۔‬


‫مرشدی حضرت سید غالم حضور کی شادی' ماموں زاد سیدہ‬ ‫سردار بیگم بنت سید برکت علی سے ہوئی۔ اس لیے دوسروں‬ ‫کی نسبت' ان کی ننھیال سے زیادہ قربت رہی۔ یہ گاؤں نگلی'‬ ‫امرت سر سے تعلق رکھتے تھے۔ سید گوہر علی اور سید برکت‬ ‫علی' دونوں بھائی علم دوست تھے۔ کھاتے پیٹے اور خوش حال‬ ‫لوگ تھے۔ دونوں بھائیوں کی' بتیس کھوہ زمین تھی۔ اوالد میں'‬ ‫دونوں کے پاس' صرف سیدہ سردار بیگم تھی۔ الڈ پیار سے پلی‬ ‫بڑھی۔ یہ گھرانہ اہل تشیع تھا۔ ان کے ہاں' مجلسیں ہوتی رہتی‬ ‫تھیں۔ کتابوں اور قلمی نسخوں کے' انبار لگے ہوئے تھے۔‬ ‫مرشدی حضرت سید غالم حضور ‪ 7090‬یا ‪ 7097‬میں' سب‬ ‫کچھ چھوڑ چھاڑ کر' قصور اٹھ آئے۔ محنت مزدوری پیشہ بنایا'‬ ‫بعد ازاں سرکاری مالزمت اختیار کر لی۔ لوگ دنیا کی اشیا ساتھ‬ ‫رکھتے ہیں' انہوں نے کتابوں اور کاغذوں کو سامان سفر و‬ ‫حیات بنایا۔‬ ‫سید غالم غنی کو' کتابوں کاغذوں سے کوئی دل چسپی نہ تھی۔‬ ‫مرشدی قبلہ حضرت سید غالم حضور کتابوں کے عاشق تھے‬ ‫انہوں نے' ان بوسیدہ کاغذوں کو سینے سے لگا لیا۔ ‪7011‬‬ ‫میں' ان کا انتقال ہوا' تو مائی صاحب سردار بیگم نے' اپنے‬ ‫خاوند حضرت سید غالم حضور کا' یہ اثاثہ سینے سے لگا لیا۔‬


‫‪ 7001‬میں' وہ بھی چل بسیں۔ ان کا بڑا بیٹا' سید منظور حسین'‬ ‫جو ہمیشہ سے' عورتوں کا شوقین رہا تھا۔ خان دان کی عورت‬ ‫کو طالق دے کر' ایک نہیں' دو چلتی پھرتی عورتیں لے آیا تھا'‬ ‫مکان اور سامان پر قابض ہو گیا۔ اس سے چھوٹا' سید محبوب‬ ‫حسین اسی کا بگاڑا ہوا تھا' ردی سے دل چسپی نہ رکھتا تھا‬ ‫مکان اور سامان کے لیے بھاگا دوڑا لیکن شیر کے منہ سے'‬ ‫ایک لقمہ بھی نہ نکال سکا۔ پھر تھک ہار کر بیٹھ گیا۔ چوروں‬ ‫کو پڑے مور کے مصداق سید منظور حسین کے بڑے سے‬ ‫چھوٹے بیٹے' مطلوب حسین نے مکان پر قبضہ کر لیا۔ ذاتی‬ ‫مکان بھی زوجانی سازشوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ سید منظور‬ ‫حسین کو قضا نے لے لیا اور یہ ضرب المثل' چوروں کو پڑے‬ ‫مور' موروں کو پڑیں قضائیں' منزل مقصود کو پہنچا۔ مکان اب‬ ‫بھی مطلوب حسین کے قبضہ اور تصرف میں ہے۔‬ ‫حضرت سید غالم حضور' اپنے سب سے چھوٹے بیٹے مقصود‬ ‫صفدر المعروف مقصود حسنی کو' کچھ چیزیں مرتے وقت دے‬ ‫گیے تھے۔ کچھ قبضے کے غدر کے دوران' دستیاب ہو گیئں'‬ ‫کچھ کوڑا سمجھ کر جال دی گیئں‪ .‬صاف اور جاندار کتابیں اور‬ ‫کاغذ ردی چڑھ گیئں۔ اس طرح' بابا جی حضرت سید غالم حضور‬ ‫کا کالم اور ان کی آواز بھرے کیسٹ بھی ضائع ہو گیے۔ حضرت‬ ‫سید غالم حضور کی شاعری پر مشتمل رجسٹر وغیرہ باطور‬


‫نشانی' ان کی بڑی بیٹی فضال بیگم لے گئی۔ یہ چیزیں ان کے‬ ‫بیٹے شفقث رسول نے' اپنی دکان میں استعمال کر لیں۔ وقتی‬ ‫طور پر ان کے نصیب میں مٹھائی ہوئی اور پھر' سڑکوں پر گر'‬ ‫کر ہمیشہ کے لیے نابود ہو گئیں‬ ‫میرے پاس ان کا اپنا کالم رف بکھرے کاغذوں اور تین قصوں‬ ‫کی صورت میں موجود ہے۔ چوتھا قصہ دستیاب نہیں ہو رہا۔‬ ‫کوشش میں ہوں ضرور کہیں ناکہیں سے مل جائے گا۔ قدیم‬ ‫کاغذات صاف ظاہر ہے ‪ 7077‬یا اس سے پہلے کے ہیں۔ کچھ‬ ‫پر سن اور تاریخ درج نہیں۔ یہاں تک کہ مصنف کا نام بھی درج‬ ‫نہیں۔ کچھ بہت پرانے ہیں اور بوسیدہ ہو چکے ہیں۔ یہ اردو‬ ‫پنجابی میں ہیں۔ ان میں سے ایک نہ اردو ہے اور نہ پنجابی‬ ‫ہے۔ اسے گالبی اردو یا گالبی پنجابی کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔‬ ‫کاغذ کی حالت اچھی نہیں تاہم نہیں بآسانی پڑھا جا سکتا ہے۔‬ ‫اس کی عمر سو سال سے زیادہ ہے۔ مصنف کا کچھ پتا نہیں۔ یہ‬ ‫حضرت سید علی احمد کا ہینڈ راٹنگ بھی نہیں ہے۔‬ ‫تحریر پر کوئی عنوان درج نہیں۔ مندرجات کے حوالہ سے'‬ ‫اسے۔۔۔۔۔ حضور کریم لملسو ہلص اور تخلیق کائنات۔۔۔۔۔ عنوان دیا جا سکتا‬ ‫ہے۔ اس مختصر سی تحریر کے لیے' مصنف نے گیارہ معروف'‬ ‫مستند اور متفق علیہ کتب مشکوتہ' قسطالنی' احمد' بزار'‬


‫طبرانی' حاکم' بیہقی' حافظ ابن حجر' ابن حبان رحمہم الرحمان'‬ ‫فتوحات مکیہ' کتاب التشریفات کی ورق گردانی کی ہے' اس سے‬ ‫مصنف کی علمی اہلیت کا' باخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔‬ ‫مصنف نے' چند پنجابی کے لفظ تحریر میں داخل کرکے' پنجابی‬ ‫میں لکھنے کا غالبا تجربہ کیا ہے اور یہ تجربہ' کامیاب تجربہ‬ ‫نہیں ہے۔ دونوں زبانوں کا نحوی سیٹ اپ الگ تر ہے' لہجہ اور‬ ‫اسلوب مختلف ہیں۔ مصنف بھلے پنجابی رہا ہو گا' لیکن لکھنا‬ ‫اور بولنا قطعی الگ ہنر ہیں۔ تحریر بتاتی ہے' کہ اس کا لکھنے‬ ‫واال' بنیادی طور پر اردو میں لکھنے واال ہے۔‬ ‫درج ذیل امور' تحریر میں نمایاں ہیں‬ ‫ساری تحریر ایک ہی پیرے میں ہے۔ نئے پیرے کے لیے ‪1-‬‬ ‫لفظ اور استعمال میں الیا گیا ہے۔‬ ‫رموز کا استعمال نہیں کیا گیا۔ نئے پوائنٹ کے لیے اور' جب ‪2-‬‬ ‫کہ باقی کے لیے' محض سکتہ کا استعمال کیا گیا ہے۔‬ ‫لفظ مال کر لکھے گیے ہیں۔ یہ ہی طور مستعمل تھا۔ ‪3-‬‬ ‫دو چشمی حے کے لیے' حے مقصورہ استعمال میں الئی ‪4-‬‬


‫گئی ہے۔‬ ‫جس لفظ کے لیے' آج حے مقصورہ مستعمل ہے' اس کے ‪5-‬‬ ‫لیے' دو چشمی حے استعمال کی گئی ہے۔‬ ‫نون غنہ کی جگہ' نون استعمال میں الئی گئی ہے۔ ‪6-‬‬ ‫تیار کو طیار لکھا جاتا تھا' اس تحریر میں بھی طیار ہی ‪7-‬‬ ‫لکھا گیا ہے‬ ‫ے کی بجائے ی استعمال کی گئی ہے۔ اس عہد میں یہ ہی ‪8-‬‬ ‫عمومی چلن تھا۔‬ ‫ترمیمی متن‬ ‫اول ما خلق هللا نوری۔‬ ‫مشکوتہ' قسطالنی‪ '.‬احمد' بزار' طبرانی' حاکم' بیہقی' حافظ ابن‬ ‫حجر' ابن حبان رحمہم الرحمان‬ ‫‪:‬قال رسول هللا لملسو ہلص‬ ‫انی عندهللا مکتوب خاتم النبیین وان آدم لمنجدل فی طینتہ و‬ ‫ساخبرکم باول امری دعوتہ ابراھیم وبشارتہ عیسی ورؤیا امی‬


‫التی راءات حین وضعتنی وقدخرخرج لہا نورافاء لہامنہ قصور‬ ‫الشام‬ ‫اور حضرت موالنا وسیددنا محی الدین بن عربی اپنی کتاب‬ ‫فتوحات مکیہ کے ‪ 1‬باب کے خلقت کی پیدائش کے بیان میں‬ ‫‪:‬لکھتے ہیں‬ ‫ہین فاکان مبتدالعالم بائزہ و اول ظاھر فی وجود‬ ‫یعنی حضرت لملسو ہلص تمام جہان کا شروع اور وجود اغی پیدایش میں‬ ‫ظاہر اول ہیں۔‬ ‫کتاب التشریفات میں حضرت ابوھریرہ رضی هللا تعالی عنہ سے‬ ‫مروی ہے' جو سرور کائنات صلےهللا علیہ وسلم نے حضرت‬ ‫جبرائیل سے پوچھا' عمر آپ کی کتنے برسوں کی ہے‬ ‫حضرت جبرائیل علیہ السالم نے عرض کیا‪ :‬یا حبیب هللا لملسو ہلص‬ ‫مجھے برسوں کا حال کچھ معلوم نہیں اتنا حال معلوم ہے‪ .‬جو‬ ‫چوتھی حجاب میں ایک ستارہ ستر ہزار برس سے ظاہر ہوتا ہے‬ ‫اور میں نے وہ ستارہ بہتر ہزار مرتبہ دیکھا ہے۔‬ ‫فقال لملسو ہلص یا جبرائیل وعزت ربی انا ذلک النجم۔‬ ‫اور آں حضرت لملسو ہلص کی اولیت یعنی سب پیدایش سے افضل ہوونا‬


‫اور اصل اصول سب مخلوقات کا قرار پاونا اور اولویت اعنی سب‬ ‫سے بہتر ہونا اور افضل ہونا بہت احادیث مبارکہ و آثار شریفہ‬ ‫سے ثابت ہے اور حاصل ان سب کا یہ ہی ہے جو هللا تبارک و‬ ‫تعالی نے آسمانان۔ زمینان اور عرش۔ کرسی۔ لوح۔ قلم۔ بہشت۔‬ ‫دوزخ۔ فرشتے۔ جن اور بشر بلکہ تمام مخلوقات کی پیدایش سے‬ ‫پہلے کئی ہزار برس نور مظہر سرور آں حضرت لملسو ہلص کا پیدا‬ ‫فرمایا اور جہان کے میدان میں هللا جل شانہ اس نور مبارک کی‬ ‫تربیت فرما دی۔‬ ‫کبھی اس کو سجود خشوع آمود سے مامور فرماتے اور کبھی‬ ‫تسبیح و تقدیس میں مشغول رکھتے۔ اور اس پاک نور کی‬ ‫رہایش کے واسطے بہت پردے بنائے۔ ہر پردے میں بہت مدت‬ ‫تک خاص تسبیح کے ساتھ مشغول فرمایا۔‬ ‫تمام پردوں والی جب مدت گزر گئی تب اس نور مبارک نے باہر‬ ‫رونق افزا ہو کے سانس لینا شروع فرمایا۔ ان متبرک سانسوں‬ ‫سے فرشتے' ارواح انبیا واولیا وصدیقین وسائرمؤمنین کو پیدا‬ ‫فرمایا۔ اور اس جوہر نور سے عرش' کرسی' لوح' قلم' بہشت'‬ ‫دوژخ اور اصول مادی آسمان و زمین اور سورج' چند ستارے'‬ ‫دریا' پہاڑ وغیرہ پیدا فرمائے‪ .‬پھر زمین اور آسمان کو پھیال کے‬ ‫سات سات طبقے بنائے اور ہر ایک طبقہ میں اک اک پیدایش کا‬


‫مقام مقرر فرمایا۔‬ ‫اور دوسری روایت میں اس طرح آیا ہے' کہ جب اس نور مبارک‬ ‫الظہور نے سانس لینا شروع کیا۔ ان سانسوں سے' پیغبران‬ ‫علیہم الصحورت واال سلمہ من خالق البریہ اور اولیا' شہیدان'‬ ‫عارفان' عالمان' عابدان' زاھدان۔ اور عام مومنان کی ارواح پیدا‬ ‫ہوئے۔‬ ‫پھر اس نور طاہر و طہور کو دس حصوں پر تقسیم فرمایا۔ اور‬ ‫دسویں حصہ سے' خدائے تبارک و تعالی نےاک جوہر بنایا' طول‬ ‫اور عرض جس کا اعنی لمبائی چوڑان' چار چار ہزار برس کا‬ ‫رستہ تھا‪ .‬اس جوہر اعلے گوہر میں' رحمت کی اک نظر فرمائی۔‬ ‫بسبب حیا' وہ جوہر مبارک کانپا اور ادھا پانی بن گیا اور ادھا‬ ‫اگ ہو گیا۔ اس پانی سے' دریا پیدا ہوئے اور ان دریاوں کی‬ ‫ٹھاٹھیں شروع ہو گئیں اور ان کی حرکت اور ھلنے کے سبب‬ ‫سے' ہوایں چلنا شروع ہو گئیں اور ان ہواو ں خلو اغی جگہیں‬ ‫مقرر ہوئیں اور زمین سے آسمان کی طرف' بارہ کوہان تک' ہوا‬ ‫کا مقام ہے اور اس اوپر زمہریر' دریا وغیرھما اور قریب آسمان‬ ‫کے' اگ کا کرہ موجود ہے اور پھر اگ کو پانی پر' غالب فرمایا‬ ‫اور پانی نے اگ کی گرمی کے سبب' جب جوش کھایا' تو اسی (‬ ‫سے( جھاگ پیدا ہو گئی اور اس جھاگ سے زمین بنائی گئی'‬


‫پھر اس جھاگ سے جو بخارات پیدا ہوئے' ان سے اصل مادہ‬ ‫آسمان کا بنا اور موجوں کے سمٹ جانے کے سبب 'پہاڑ پیدا‬ ‫ہوئے۔ زمین از تب لرزہ آمدہ۔۔۔۔۔۔۔۔ فرو کوفت بردانش میخ‬ ‫کوہ۔۔۔۔۔۔‬ ‫زمین پر پانی کھڑا ہونے کے سبب' ہر وقت ہلتی تھی ‪ .‬هللا‬ ‫تبارک وتعالی نے اس کی بےقراری دور کرنے کے واسطے' ان‬ ‫ٹھاٹھوں اور سمٹاو سے' پہاڑ پیدا فرما کے زمین پر قائم‬ ‫فرمائے‬ ‫اور اک بجلی پہاڑوں میں پہنچی' اسے معادن یعنی کھانا پیدا ہوا‬ ‫اور جب لوہا پتھر سے ٹکرایا' اس سے چنگاڑی پیدا ہو کے' اگ‬ ‫ابل اٹھی اور اس اگ سے' دوزخ کا مادہ طیارہوا۔‬ ‫بعد ازاں' زمین کو پھیالیا۔ واالرض بعد ذلک دجہہا تا کہ‬ ‫حیوانات' وحشی جانور اور درندے اور چوپائے' اس میں مقام‬ ‫کریں۔ پھر زمین کے سات طبقے بنائے اور ہر طبقے میں' الگ‬ ‫الگ مخلوقات کے مقام ٹھرائے اور اگ کے شعلوں سے' جنوں‬ ‫کو بنایا اور زمین پر ان کو مسلط فرمایا۔‬


‫بہشت کو' ستاویں آسمان پر بلندی بخشی اور دوزخ ستاویں‬ ‫زمین کے تلے' قائم فرمائی اور جن کی روشنی کے واسطے‬ ‫سورج' چاند اور ستارے چمکائے۔ فوائد نجوم۔ نور اور ظلمت‬ ‫کے مادوں سے' دن اور رات' پھر تمام پیدایش اور مخلوقات کو‬ ‫اپنے حبیب قریب پر قربان فرمایا۔‬ ‫وافدیت لکی علیک یا دمحم صلے هللا علیہ وسلم‬ ‫ترمیمی الفاظ اور حروف‬ ‫سانس' کانپا' ساتھ‬ ‫جب' تب' کبھی‬ ‫میں' پر' اور‬ ‫ان' جس' وہ‬ ‫کا' کے' کی' کو‬ ‫تھا' گئیں‬ ‫تے' تی‬ ‫ئیں' وں' یا' یں‬


‫ا' تھ' ں' و' ہ' ے‬ ‫تحریر کا اصل متن‬ ‫اول ما خلق هللا نوری۔ مشکوتہ‪ .‬قسطالنی‪ .‬احمد‪ .‬بزار۔ طبرانی۔‬ ‫حاکم۔ بیہقی۔ حافظ ابن حجر۔ ابن حبان رحمہم الرحمان قال رسول‬ ‫هللا لملسو ہلص انی عندهللا مکتوب خاتم النبیین وان آدم لمنجدل فی طینتہ و‬ ‫ساخبرکم باول امری دعوتہ ابراھیم وبشارتہ عیسی ورؤیا امی‬ ‫التی راءات حین وضعتنی وقدخرخرج لہا نورافاء لہامنہ قصور‬ ‫الشام اور حضرت موالنا وسیددنا محی الدین بن عربی اپنی کتاب‬ ‫فتوحات مکیہ دی ‪ 1‬باب وچ خلقت دی پیدائش دی بیان وچ‬ ‫لکہدے ہین فاکان مبتدالعالم بائزہ و اول ظاھر فی وجود یعنی‬ ‫حضرت لملسو ہلص تمام جہان دا شروع اور وجود اغی پیدایش وچ ظاہر‬ ‫اول ہیں۔ کتاب التشریفات وچ حضرت ابوھریرہ رضی هللا تعالی‬ ‫عنہ سے مروی ہے جو سرور کائنات صلےهللا علیہ وسلم نے‬ ‫حضرت جبرائیل سے پوچھیا عمر تہاڈی کتنے برسان دی ہے‬ ‫حضرت جبرائیل علیہ السالم نے عرض کیتا یا حبیب هللا لملسو ہلص‬ ‫مینوں برساندا حال کچھ معلوم نہیں اتنا حال معلوم ہے جو‬ ‫چوتہی حجاب وچ ایک ستارہ ستر ہزار برس توں پچھے ظاہر‬ ‫ہوندا ہے اور مینی اوہ ستارہ بہتر ہزار مرتبہ دیکہیا ہے۔ فقال‬ ‫لملسو ہلص یا جبرائیل وعزت ربی انا ذلک النجم۔۔۔۔۔۔۔۔اور آن حضرت لملسو ہلص‬


‫دی اولیت یعنی سب پیدایش سے افضل ہوونا اور اصل اصول‬ ‫سب مخلوقات دا قرار پاونا اتے اولویت اعنی سب سے بہتر ہونا‬ ‫اور افضل ہونا بہت احادیث مبارکہ و آثار شریفہ سے ثابت‬ ‫ہےاور حاصل انہاں سبناندا ایہو ہے جو هللا تبارک و تعالی نے‬ ‫آسمانان۔ زمینان اور عرش۔ کرسی۔ لوح۔ قلم۔ بہشت۔ دوزخ۔‬ ‫فرشتے۔ جن اور بشر بلکہ تمام مخلوقات دی پیدایش سے پہلے‬ ‫کئی ہزار برس نور مظہر سرور آن حضرت لملسو ہلص دا پیدا فرمایا اور‬ ‫جہان دے میدان وچ هللا جل شانہ اس نور مبارک دی تربیت‬ ‫فرماندی۔ کدے اس نو سجود خشوع آمود سے مامور فرماندی‬ ‫اور کدے تسبیح و تقدیس وچ مشغول رکھدی۔ اور اس پاک نور‬ ‫دی رہایش دے واسطے بہت پردے بنائے۔ ہر پردے وچ بہت‬ ‫مدت تک خاص تسبیح دے نال مشغول فرمایا۔۔۔تمام پردیان والی‬ ‫جد مدت گزر گئی تد اس نور مبارک نے باہر رونق افزا ہو کے‬ ‫سانہہ لینا شروع فرمایا۔ انہاں متبرک سانہان وچوں فرشتے۔‬ ‫ارواح انبیا واولیا۔ وصدیقین وسائرمؤمنین نو پیدا فرمایا۔ اور اس‬ ‫جوہر نور سے عرش۔ کرسی۔ لوح۔ قلم۔ بہشت۔ دوژخ اور اصول‬ ‫مادی آسمان وزمین اور سورج۔ چند ستارے۔ دریا۔ پہاڑ وغیرہ‬ ‫پیدا فرمائے پھر زمین اور آسمان نو پھیال کے ست ست طبقے‬ ‫بنائے اور ہر ایک طبقہ وچ اک اک پیدایش دا مقام مقرر‬ ‫فرمایا۔۔۔۔ اور دوسری روایت وچ اس طرح آیا ہے کہ جد اس نور‬ ‫مبارک الظہور نے سانس لینا شروع لینا شروع کیتا۔ انہان‬ ‫سانہان وچوں پیغبران علیہم الصحورت واال سلمہ من خالق البریہ‬


‫اور اولیا۔ شہیدان عارفان۔ عالمان۔ عابدان۔ زاھدان۔ اور عام‬ ‫مومنان دی ارواح پیدا ہوئے۔ پھر اس نور طاہر و طہور نو دس‬ ‫حصیاں پر تقسیم فرمایا۔ اور دسوین حصہ سے خدائے تبارک و‬ ‫تعالی نےاک جوہر بنا طول اور عرض جسدا اعنی لمبائی چوڑان‬ ‫چار چار ہزار برس دا رستہ سی اس جوھر اعلے گوھر وچ‬ ‫رحمت دی اک نظر فرمائی۔ بسبب حیا اہ جوھر مبارک کمبیا اور‬ ‫ادھا پانی بن گیا اور ادھا اگ ہو گیا۔ اس پانی سے دریا پیدا‬ ‫ہوئے اور انہان دریاوان دیان ٹھاٹھان شروع ہویاں اور انہاں دی‬ ‫حرکت اور ھلنے دے سبب سے ہواوان چلنیا شروع ہویان اور‬ ‫انہاں ہواون خلو اغی جگہان مقرر ہویاں اور زمین سے آسمان‬ ‫دی طرف باران کوہان تک ہوا دا مقام ہے اور اس اوپر زمہریر۔‬ ‫دریا وغیرھما اور قریب آسمان دے اگ دا کرہ موجود ہے‬ ‫اورپھر اگ نو پانی پر غالب فرمایا اور پانی نے اگ دی گرمی‬ ‫دے سبب جد جوش کھادا تو اسی ( سے( جھگ پیدا ہو گئی اور‬ ‫اس جھگ سے زمین بنائی گئی پھر اس جھگ سے جو بخارات‬ ‫پیدا ہوئے انہان سے اصل مادہ آسمان دا بنیا اور موجان دے‬ ‫سمٹ جاندے سببوں پہاڑ پیدا ہوئے۔ زمین از تب لرزہ آمدہ۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫فرو کوفت بردانش میخ کوہ۔۔۔۔۔۔ زمین پرپانی کھڑا ہوندے سبب‬ ‫ہر وقت ھلدی سی هللا تبارک وتعالی نے اسدی بےقراری دور‬ ‫کرن واسطے انہان ٹھاٹھاندی اور سمٹاو سے پہاڑ پیدافرما کے‬ ‫زمین پر قائم فرمائے اور اک بجلی پہاڑان وچ پہنچی اسے معادن‬ ‫یعنی کھانا پیدا ہویان اور جد لوہا پتھر سے ٹکرایا اس سے‬


‫چنگاڑی پیدا ہو کے اگ ابل اٹھی اور اس اگ سے دوزخ کا مادہ‬ ‫طیارہوا۔ بعد ازاں زمین نو پھیالیا۔ واالرض بعد ذلک دجہہا تا کہ‬ ‫حیوانات۔ وحشی جانور اور درندے اتے چوپائے اس وچ مقام‬ ‫کرن۔ پھر زمین دے ست طبقے بنائےاتے ہرطبقے وچ الگ الگ‬ ‫مخلوقات مقام ٹھرائےاور اگ دے شعلیان سے جنان نو بنایا اور‬ ‫زمین پر اہنان نو مسلط فرمایا۔ بہشت ستوین آسمان تے بلندی‬ ‫بخشی اور دوزخ ستوین زمین دے تلے قائم فرمائی اور جہان‬ ‫دی روشنی دے واسطے سورج۔ چند اور ستارے چمکائے۔ فوائد‬ ‫نجوم۔ نور اور ظلمت دے مادیاں سے دن اور رات پھر تمام‬ ‫پیدایش اتے مخلوقات نو اپنے حبیب قریب پر قربان فرمایا۔‬ ‫وافدیت لکی علیک یا دمحم صلے هللا علیہ وسلم‬ ‫آخری بات‬ ‫اگر هللا نے توفیق عطا فرمائی' تو دیگر قدیم و نایاب تحریریں‬ ‫بھی پیش کروں گا۔ یہ تحریریں بالشبہ اردو کا سرمایہ ہیں۔‬

‫میں ناہیں سبھ توں۔۔۔۔۔۔۔چند معروضات‬


‫‘میں ناہیں سبھ توں‬ ‫فقرا کی زندگی کا پہال اور آخری اصول ہوتا ہے۔ جو فقیر اس‬ ‫نظریے پر‘ فکری‘ قلبی اور عملی سطح پر قائم رہتا ہے‘ وہ ہی‬ ‫صالحین کی صف میں کھڑا ہوتا ہے۔ عموما بلکہ اکثر‘ اختالف‬ ‫اس کی تعبیر و تشریح پر ہوتا ہے۔‬ ‫کچھ کا کہنا ہے‘کہ یہ نظریہ‘ ترک دنیا کی طرف لے جاتا ہے۔‬ ‫ترک دنیا کے رویے کو‘ کسی طرح مستحسن قرار نہیں دیا جا‬ ‫سکتا۔ دوسرے لفظوں میں‘ یہ ذمہ داریوں سے فرار کے‬ ‫مترادف ہے۔‬ ‫ایک طبقہ اسے الحاد کی طرف بڑھنے کا رستہ سمجھتا ہے۔‬ ‫کچھ کہتے ہیں‘ اس کے نتیجہ میں‘ ایک سطح پر جا کر‘ خدائی‬ ‫کا دعوی سامنے آتا ہے۔‬ ‫اس کے عالوہ بھی‘ اس نظریے کی تشریحات کی جاتی ہیں۔ جو‬


‫اس ذیل میں تشریحات سامنے آتی ہیں‘ ان کا حقیقت سے‘ دور‬ ‫کا بھی تعلق واسطہ نہیں۔‬ ‫عجز اور انکساری شخص کو بے وجود نہیں کرتی۔ اگر وہ‬ ‫بےوجود ہوتا ہے‘ تو دنیا‘ زندگی اور زندگی کے متعلقات سے‘‬ ‫رشتہ ہی ختم ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف شخصی حاجات‘ اپنی‬ ‫جگہ پراستحقام رکھتی ہیں۔ پاخانہ اور پیشاب کی حاجت پر‘‬ ‫کیسے قابو پایا جا سکتا ہے۔ سانس آئے گا‘ تو ہی زندگی کی‬ ‫سانسیں برقرار رہ پائیں گی۔ لہذا ذات کا تیاگ‘ ممکن ہی نہیں‘‬ ‫بلکہ یہ فطری امر ہے۔ فطری امر سے انکار‘ سورج کو مغرب‬ ‫سے‘ طلوع کرنے کے مترادف ہے۔‬ ‫‘میں ناہیں سبھ توں‬ ‫درحقیقت انبیا کا طور ہے۔ نبی اپنی طرف سے‘ کچھ نہیں کرتا‬ ‫اور ناہی‘ اپنی مرضی کا کلمہ‘ منہ سے نکالتا ہے‘ کیوں کہ اس‬ ‫کا کہا‘ اور کیا‘ زندگی کا طور اور حوالہ ٹھہرتا ہے۔ نبی کا رستہ‬ ‫موجود ہوتا ہے‘ فقیر ہر حالت میں‘ اس رستے پر چلتا ہے۔ اس‬ ‫رستے پر چلنا‘ هللا کے حکم کی اطاعت کرنا ہے۔ جہاں اپنا حکم‬ ‫نافذ کرنے خواہش جاگتی ہے‘ وہاں شرک کا دروازہ کھل جاتا‬ ‫ہے۔ گویا هللا کے سوا‘ کسی اور کا بھی حکم چلتا ہے۔ شخصی‬


‫حکم میں۔۔۔۔۔۔۔ توں نہیں سبھ میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واضح طور موجود ہوتی‬ ‫ہے‘ اور یہ ہی ناانصافی اور ظلم ہے۔ آدمی کوئی بھی‘ اور کسی‬ ‫بھی سطح کا ہو‘ هللا کے قانون سے باہر جانے کا‘ استحقاق نہیں‬ ‫رکھتا۔ قانون کے معاملے میں استثنائی صورت موجود ہی نہیں‬ ‫ہوتی۔ استثنائی صورت نکالنا‘ شرک ہے۔ فقیر هللا کے قانون کے‬ ‫معاملے میں‘ کیوں کیسے یا اس طور کی خرافات کے بارے‬ ‫میں‘ سوچنا بھی‘ جرم عظیم یا دوسرے لفطوں میں‘ گناہ کبیرہ‬ ‫سمجھتا ہے۔ جو هللا نے کہہ دیا‘ وہی درست ہے‘ اس کے سوا‘‬ ‫کچھ بھی درست نہیں۔‬ ‫ہر تخلیق کار کو‘ اپنی تخلیق سے پیار ہوتا ہے۔ هللا بھی اپنی‬ ‫مخلوق سے‘ بےگانہ اور التعلق نہیں۔ جو بھی‘ اس کی مخلوق‬ ‫سے پیار کرتا ہے‘ احسان کرتا ہے‘ اس کے لیے بہتری سوچتا‬ ‫ہے‘ انصاف کرتا ہے‘ گویا وہ هللا کی محبت کا دم بھرتا ہے۔‬ ‫فقیر‘ هللا کی رضا اور خوشنودی کے لیے‘ هللا کی مخلوق پر‬ ‫احسان کرتا ہے۔ وہ اپنے منہ کا لقمہ‘ هللا کی مخلوق کے‘‬ ‫حوالے کرکے خوشی محسوس کرتا ہے۔ هللا کی مخلوق کی‬ ‫سیری‘ دراصل اس کی اپنی سیری ہوتی ہے۔ مخلوق کی خیر اور‬ ‫بھالئی‘ اس کی زندگی کا اصول اور مشن ہوتا ہے۔ اپنا خیال‬ ‫رکھیے‘ کیا ہوا‘ یہ تو کھلی خودغرضی ہوئی۔ اس کے نزدیک‬ ‫سب کا خیال رکھو‘ یہ سنت هللا ہے‘ تمہارا خیال رکھنے کے‬


‫لیے‘ هللا ہی کافی ہے۔ فقیر یہاں بھی‘ میں ناہیں سبھ توں کو‘‬ ‫اپالئی کرتا ہے۔ اسے کسی مادی شے کی ضرورت نہیں ہوتی۔‬ ‫اسے هللا کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سب‘ اپنی ذات کی نفی کے‬ ‫بغیر‘ ممکن نہیں۔ جب عقیدہ میں ناہیں سبھ توں‘ سے دوری‬ ‫اختیار کرے گا تو‬ ‫هللا پر ایمان سے دور ہو جائے گا۔‬ ‫اپنی ذات کو مقدم رکھے گا۔‬ ‫بانٹ میں خیانت کرے گا۔‬ ‫وسائل پر قابض ہونے کو زندگی کا مقصد ٹھہرائے گا۔‬ ‫درج باال معروضات کے حوالہ سے‘ ذات کا تیاگ ممکن نہیں۔ یہ‬ ‫وتیرہ‘ اہل جاہ اور اہل ثروت کو کس طرح خوش آ سکتا ہے۔‬ ‫حق اور انصاف کی باتیں‘ اور هللا کے حکم کے خالف انجام‬ ‫پانے والے امور پر تنقید اور برآت‘ کسی بادشاہ یا اہل ثروت کو‘‬ ‫کس طرح خوش آ سکتی ہے۔ صاف ظاہر ہے‘ ایسے لوگوں کو‬ ‫ظاہر پالیا جائے گا۔ بادشاہ یا اہل ثروت بھول جاتے ہیں‘ کہ میں‬ ‫ناہیں سب توں‘ کے حامل مر نہیں سکتے۔ دوسرا وہ پہلے ہی‬ ‫کب ہوتے ہیں۔ موت تو ہونے کو آتی ہے۔ میں کو موت آتی ہے‘‬ ‫تو کے لیے موت نہیں۔ میں مخلوق ہے‘ تو مخلوق نہیں۔‬


‫بابا جی شکرهللا‬ ‫پیر فقیر درویش صوفی لوگ بھی‘ بڑے ہی عجیب اور پراسرار‬ ‫قسم کے ہوتے ہیں۔ انہیں سمجھنا آسان کام نہیں ہوتا۔ ان کا ہر‬ ‫کام‘ عموم اور مروجہ سماجی رویات سے‘ ہٹ کر یا قطعی‬ ‫برعکس ہوتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے‘ کہ یہ لوگ معاشی‬ ‫غیرآسودگی کو ایک طرف رکھیے‘ یہ کوئی بڑی بات نہیں‘ یہ تو‬ ‫کم زور طبقوں کا مقدر رہی ہے‘ یہ لوگ تو اپنی برعکس کرنی‬ ‫کے سبب‘ کانٹوں پر زندگی کرتے آئے ہیں۔ یہ زندگی سماجی‬ ‫وسیاسی جبر کا نتیجہ نہیں ہوتی ہے‘ بلکہ ان کی خود سے‘‬ ‫اختیار کی ہوئی ہوتی ہے۔ گویا یہ ان کی اپنی ذات کے جبر کا‘‬ ‫ثمرہ ہوتی ہے۔‬ ‫اب دیکھیے‘ جو بھی اہل ثروت اور اہل جاہ کی بدمعاشیوں اور‬ ‫بدکاریوں کو‘ طاقت کا استحاق سمجھتے ہوئے‘ تحسین کرتے‬


‫ہوئے ان کے قدم لیتے رہے ہیں‘ ناصرف تمغوں‘ ایواڑوں اور‬ ‫خطابات سے نوازے جاتے رہے ہیں بلکہ ان کی گھتلی‘ منہ تک‬ ‫لبریز رہی ہے۔ سرکار انہیں‘ جائیدیں اور مراعات سے نوازتی‬ ‫رہی ہے۔ معیار زندگی کی سربلندی کے ساتھ ساتھ‘ عوامی سطح‬ ‫پر‘ انہیں عزت و توقیر ملی ہے۔ بےشمار جی حضرریے میسر‬ ‫آئے ہیں۔ سالموں اور پرناموں کی کوئی تھوڑ نہیں رہی‘ حاالں‬ ‫کہ ان جی حضرریوں کو محض ہڈی پر ٹرخایا جاتا رہا ہے۔ بعض‬ ‫اوقات‘ یہ ہڈی بھی انہیں ترسا ترسا کر دی جاتی رہی ہے۔ اپنی‬ ‫زبان کے لہو کو ہی‘ انہوں نے سووگی طعام شرین سمجھا ہے۔‬ ‫اس کے برعکس‘ ان درویشوں کو دیکھیے‘ وہ اہل ثروت کے‬ ‫ہر الٹے چالے پر‘ انگلی رکھتےآئے ہیں۔ پہلوں کے انجام سے‘‬ ‫انہوں نے کبھی بھی عبرت نہیں پکڑی۔ حاالت کی ناگواری اور‬ ‫طاقت کے بگڑے تیور‘ ان کی راہیں بدل نہیں سکے ہیں۔ وہ‘ وہ‬ ‫ہی کرتے رہے ہیں‘ جو ان سے پہلوں نے کیا۔ ہر درویش کو‬ ‫طاقت وارننگ دیتی رہی ہے۔ حرام ہے‘ جو انہوں نے کبھی کسی‬ ‫واننگ کو کوئی حیثیت دی ہو۔ طاقت کی اپنی مجبوری ہوتی ہے‘‬ ‫آخر وہ کہاں اور کس حد تک‘ برداشت سے کام لے۔ برداشت اور‬ ‫درگزر یا لحاظ اور مروت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ ایکشن‬ ‫میں نہ آنے کی صورت میں‘ بغاوت رہ پکڑ سکتی ہے۔ لوگ‬ ‫درویشوں کے کہے میں آ کر‘ طاقت کا جینا حرام کرسکتے ہیں۔‬


‫ریاستی امن وسکون تباہ ہو سکتا ہے۔‬ ‫سید غالم حضورالمعروف بابا شکر هللا بھی‘ عجیب عادت اور‬ ‫مزاج کے مالک تھے۔ لوگ کسی کو حضرت کا سالم کہہ کر یا‬ ‫سالم کا جواب دے کر‘ اپنی جانب سے‘ عظیم کرم فرمائی‬ ‫سمجھتے ہیں۔ چھوٹی بڑی رقم‘ کوئی استعمال یا خوردنی چیز‬ ‫عنایت کر دینا‘ تو بڑی دور اور مشکل کی بات ہے۔ یہ حاتم کی‬ ‫قبر پر الت مرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ وصول کنندہ‘ گویا ان کا‬ ‫کانا ہو جاتا ہے۔ سالم کہتے رہنا‘ ان کی کوئی ناکوی مشقت‬ ‫اٹھانا‘ گاہے لوگوں میں‘ ان کی دریا دلی کے چرچا کرنا اور وقتا‬ ‫فوقتا احسان مندی کا اظہار کرنا‘ ان کے فرض منصبی میں داخل‬ ‫ہو جاتا ہے۔ بابا شکر هللا بڑے عجیب تھے۔ ان کا موقف تھا‘‬ ‫کسی کو کچھ دے کر‘ یاد رکھنا بھی درست نہیں‘ بلکہ هللا اور‬ ‫لینے والے کا‘ شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ هللا کا شکر اس لیے کہ‬ ‫اس نے‘ تمہیں حاجت مند کی حاجب پوری کرنے کی توفیق عطا‬ ‫فرمائی اور سائل کو تمہاری طرف پھیرا۔ حاجت مند کا اس لیے‬ ‫کہ اس نے‘ تمہیں حاجت پوری کرنے کےاہل سمھجا۔‬ ‫اوالد تو اوالد‘ سائل بھی‘ بابا جی کی ہتھیلی پر سےاٹھاتے اور‬ ‫اسے‘ هللا کا شکر ادا کرنے کی تاکید کرتے۔ بابا جی امیر آدمی‬ ‫نہ تھے تاہم سائل کی حاجت پوری کرنے میں‘ کسی عذر بہانے‬


‫‪:‬سے کام نہ لیتے تھے۔ ایک بار کسی نے کہا‬ ‫بابا جی! دینے والے کا تو ہاتھ اوپر ہوتا ہے‘ اس لیے آپ سائل‬ ‫کی ہتھیلی پر کیوں نہیں رکھتے‘ بلکہ لینے واال‘ آپ کی ہتھیلی‬ ‫پر سے اٹھاتا ہے۔ آپ کے ہاں یہ معاملہ الٹ کیوں ہے۔‬ ‫بھائی‘ میں دینے واال کون ہوتا ہوں‘ میرا تو ابنی سانسوں پر‬ ‫اختیار نہیں۔ مالک کے دیے میں سے دیتا ہوں‘ کون سا احسان‬ ‫کرتا ہوں۔ سائل کو مالک نے بھیجا ہوتا ہے‘ بھیجنے واال مالک‬ ‫ہے‘ اس لیے سائل کا ہاتھ کیوں نیچے ہو۔ مالک بھیجتا ہے‘ کیا‬ ‫‘مالک کے بھیجے کا ہاتھ نیچے ہونا چاہیے‬ ‫ایک بار ایک صاحب تشریف الئے‘ کچھ کہنا چاہتے تھے‘ لیکن‬ ‫کہہ نہیں پا رہے تھے۔ بابا شکرهللا نے‘ انہیں کہا آپ بیٹھیں‘‬ ‫میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔ بابا جی اندر چلے گیے۔ کچھ دیر‬ ‫بعد واپس آ گیے اور انہیں بیٹھک سے باہر آنے کا اشارہ کیا۔‬ ‫انہیں باہر ہی سے فارغ کر دیا اور پھر‘ ہمارے پاس آ کر بیٹھ‬ ‫گیے۔ ذکر تک نہ کیا‘ کہ آنے واال حاجت مند تھا اور انہوں نے‬ ‫اس کی کس طرح مدد کی۔ اس انداز سے‘ جیسے کچھ ہوا ہی نہ‬ ‫ہو‘ بات وہیں سے شروع کر دی‘ جہاں سے چھوڑی تھی۔‬ ‫ایک مرتبہ ان کے ایک ملنے والےآئے‘ بال سالم دعا برس ہی‬


‫پڑے۔ وہ صاحب بولتے رہے‘ ان کے گرجنے برسنے کے‬ ‫دوران‘ بابا جی شرمندہ سی مسکراہٹ کی خوش بو پھیالتے‬ ‫‪:‬رہے۔ جب وہ بول چکے‘ تو بابا جی نے فرمایا‬ ‫بھائی میں نبی نہیں جو مجھ پر وحی آ جاتی کہ آپ کسی مسلے‬ ‫سے دوچار ہیں۔‬ ‫اس شخص نے کہا‘ آپ سید پاک ہیں آپ کو لوگوں کے دکھ‬ ‫سکھ سے آگاہی رکھنی چاہیے۔‬ ‫فرمانے لگے‘ ہاں یہ درست ہے۔ پھر ان کی آنکھوں سے‬ ‫اشکوں کا راوی ہہنے لگا۔ فرمانے لگے بھائی‘ بھائی ان کا‬ ‫تکیہءکالم تھا‘ میں تو سنا سنایا سید ہوں۔ سید تو حسین ابن‬ ‫علی تھے‘ جنہوں نے نانا کی امت کے لیے‘ اپنا سب کچھ قربان‬ ‫کر دیا۔‬ ‫ایک مرتبہ ایک سائل آیا۔ بابا جی نے اس کی طرف دیکھا اور‬ ‫پھر‘ ایک بچے کے ہاتھ ایک سکہ بھجوا دیا۔ کسی نے پوچھا‪:‬‬ ‫بابا جی یہ کیا۔‬ ‫انہوں نے فرمایا‪ :‬یہ مالک کا بھیجا ہوا نہیں تھا۔ یہ مالک کا‬ ‫ناشکرا تھا۔ سب کچھ پلے ہوتے ہوئے بھی‘ ہر کسی کے‬ ‫سامنے‘ دست سوال کرکے اپنے ضمیر کا قتل کرتا پھر رہا تھا۔‬ ‫کسی نے سوال کیا‪ :‬حضور پھر آپ نے بچے کے ہاتھ سکہ‬ ‫کیوں بجھوایا۔‬


‫کہنے لگے‪ :‬وہ میرے دروازے پر چل کر آیا تھا‘ میں اسے‬ ‫خالی کیسے بھیج سکتا تھا۔ اس کا عمل اس کے ساتھ ہے اور‬ ‫میرا میرے ساتھ ہے۔‬ ‫ایک بار ایک بڑے معزز سے شخص آئے اور دعا فرمانے کے‬ ‫لیے کہہ دیا۔ بابا جی نے اچھا خاصا لیکچر پال دیا۔ بابا جی‬ ‫ماسٹر کریم الدین ہی لگ رہے تھے۔ان کے لیکچر میں بال کی‬ ‫روانی گرمی اور جوش و خروش تھی۔ رومی‘ سعدی‘ حافظ‘‬ ‫بلھے شاہ‘ شاہ حسین الہوری وغیرہ ایک ہی نشت میں بیٹھا‬ ‫دیے۔ اس نے بابا جی کے پلے سے کچھ نہ مانگا تھا‘ محض‬ ‫دعا کے لیے ہی تو کہا تھا۔ ضرورت‘ ضروری ہو یا اختیاری ہو‘‬ ‫ضرورت ہوتی ہے۔ بابا جی کی باتوں سے ایک بات ضرور‬ ‫واضح تھی کہ جس چیز کے بغیر کام چل سکتا ہو یا وہ اضافی‬ ‫نوعیت کی ہو‘ اس کے لیے بےچین ہونا یا دو نمبری رستہ‬ ‫اختیار کرنا‘ درست نہیں۔‬ ‫ہم سائے میں‘ کوئی نئے ماڈل کی چیز آ گئی ہےاورآپ کے ہاں‬ ‫پرانے ماڈل کی ہے‘ اس سے کیا فرق پڑتا ہے‘ کام تو چل رہا‬ ‫ہے۔ کسی عزیز نے گاڑی لے لی ہے تو یہ خوشی کی بات ہے‘‬ ‫آپ خواہ مخواہ پریشان ہوتے ہیں۔ ناک کے لیے گاڑی کے‬ ‫حصول کے لیے بھاگ دوڑ کرنا‘ کہاں کی دانش مندی ہے۔ اگر‬


‫کام چل رہا ہے اور کوئی دقت محسوس نہیں ہو رہی‘ تو بس‬ ‫ٹھیک ہے۔ مہندی گانے پر پہنے گیے ملبوسات‘ شادی اور‬ ‫ولیمے میں‘ پہن لینے میں کون سی قباحت ہے۔ مرگ پر آدمی‬ ‫پرسا دینے جاتا‘ وہاں کے لیے بن ٹھن کی‘ آخر کیا ضرورت‬ ‫ہے۔‬ ‫بابا جی کی تمام باتیں سولہ آنے ٹھیک تھیں مگر کیا جائے‘‬ ‫زندگی کا چلن یی ایسا ہو گیا ہے‘ کیا کریں۔ زندگی کی موجودہ‬ ‫روش کے مطابق‘ چلنا پڑتا ہے۔ بابا جی درویش تھے‘ ان کا تو‬ ‫گزارہ ہو سکتا تھا‘ ساری دنیا درویش نہیں۔‬

‫اردو کے داستانی ادب میں ایک اہم اضافہ ‘قصہءآدم‬ ‫میرے والد محترم قبلہ سید غالم حضور المعروف بابا شکرهللا‘‬ ‫کتاب دوستی میں اپنی مثال آپ تھے۔ ان کے ذخیرہء کتب میں‘‬ ‫جہاں مطبوعہ کتب تھیں‘ وہاں ان کے بڑوں کے ہاتھ سے‬ ‫لکھے‘ قلمی نسخے بھی تھے۔ وہ یہ سب‘ جان سے زیادہ عزیز‬ ‫رکھتے تھے۔ ان کے انتقال پرمالل کے بعد‘ یہ سب حاالت زمانہ‬


‫کا شکار ہو گیا۔ میرے ہاتھ بس دوایک ڈبے لگے۔ اب عمر کے‬ ‫آخری ایام میں‘ مجھے اس سرمائے کو محفوظ کرنے کا خیال‬ ‫آیا۔ کیوں آیا‘ یہ الگ سے کہانی ہے۔ اگر زندگی نے مہلت دی‘‬ ‫تو یہ سب انٹرنیٹ پر رکھنے کی سعی کروں گا ورنہ ردی چڑھ‬ ‫جائے گا یا ڈاکٹر مس کال جیسے شخص کے ہاتھ لگ جائے گا‘‬ ‫جو میرے ہی گھر والوں سے‘ رقم بٹور‘ کر اپنے نام سے چھاپ‬ ‫لے گا۔ اردو‘ پنجابی قلمی نسخےاور میرا لکھا اس کے تصرف‬ ‫میں آ سکے گا‘ لیکن سیکزوں سال پرانے پرانے فارسی‬ ‫نسخوں کا کیا بنے گا۔ خیر جو ہو گا‘ بہتر ہی ہو گا۔ زندہ رہا تو‬ ‫ضرور کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش کروں گا۔ مجھے میری‬ ‫جہالت نے ہیشہ خوار کیا ہے۔ اہل قلم کو‘ جہالت کے سبب‘‬ ‫میری بےپسی سے سبق لینا چاہیے۔ انہیں حال میں موجود کو‘‬ ‫اسی طرح کسی منفی یا ذات سے جڑی غرض کو باالئے طاق‬ ‫رکھ کر‘ مستقبل کو منتقل کر دینا چاہیے۔ دیر بعد سہی میں نے‬ ‫آغاز کر تو دیا ہے۔‬ ‫اردو کے داستانی ادب میں‘ فورٹ ولیم کالج کی داستانیں‘ زیادہ‬ ‫تر ریکارڈ میں آئی ہیں۔ بیرون میں رجب علی بیگ سرور کی‬ ‫داستان کو شمار میں رکھا گیا ہے۔ بابائے اردو نے مال وجہی کی‬ ‫نثری داستان‘ سب رس کو داستانی ادب کا حصہ بنایا ہے۔ یہ‬ ‫اردو میں ہے یا نہیں‘ قطعی الگ سے بحث ہے۔ سرکاری‬


‫کارخانوں سے ہٹ کر بھی کام ہوتا رہا ہے۔ محقق حضرات کی‬ ‫نظر‘ اس جانب بہت ہی کم گئی ہے۔ عالمہ اقبال کو باطور شاعر‬ ‫سب جانتے ہیں‘ لیکن عالمہ مشرقی بھی شاعر تھے‘ کوئی نہیں‬ ‫جانتا۔ یہ ہی صورت فارسی کے فردوسی کی ہے۔ غیر سرکاری‬ ‫شخص‘ خواہ اس کی علمی وادبی حیثیت کچھ بھی رہی ہو‘‬ ‫ریکارڈ میں نہیں آ سکا۔‬ ‫کاغذ پر لکھا معمولی پرزہ بھی‘ اپنی حیثیت میں بےکار محض‬ ‫نہیں ہوتا۔ زبان کی ورائٹی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے بدن‬ ‫پر معلومات سجائے اور بچھائے ہوتا ہے۔ ابا حضور کے کتابی‬ ‫ورثے سے‘ ایک اٹھائیس صفحات کا رسالہ دستیاب ہوا ہے۔ اس‬ ‫کے پہلے دس صفحے پھٹے ہوئے ہیں۔ صفحہ گیارہ سے‘‬ ‫تخلیق آدم کا قصہ شروع ہوتا ہے اور یہ صفحہ ستائیس پر ختم‬ ‫ہوتا ہے۔ صفحہ‪ ٦٨‬پر کتابوں کی فہرست اور آخر میں ناشر کا‬ ‫اتا پتا درج ہے۔ اسی لیے میں اسے‘ قصہ آدم کا نام دینے کی‬ ‫جسارت کر رہا ہوں۔ یہ دراصل فارسی سے اردو ترجمہ کیا ہوا‬ ‫ہے۔ اس کی اصل خوبی یہ ہے کہ یہ دو کالمی ہے۔ پہلے کالم‬ ‫میں‘ اصل متن درج ہے‘ جب کہ دوسرے کالم میں اردو ترجمہ‬ ‫پیش کیا گیا ہے۔ صفحہ ستائیس پر جہاں قصہ تمام ہوتا ہے‘‬ ‫وہاں ناشر نے اپنی طرف سے فقط چار سطور میں کچھ لکھا‬ ‫ہے اور اس کے بعد اپنا پنجابی میں‘ آٹھ اشعار پر مشتمل حمدیہ‬


‫کالم درج کیا ہے۔‬ ‫‪:‬ناشر کی چار سطور مالحظہ فرمائیں‬ ‫حمد وشکر کے بعد واضح ہو کہ یہ کتاب بعد الجہان پورانی قلمی‬ ‫کوشش ہےاسکو تالش کی۔ اور اسکا ترجمہ کرا کے۔ آدھے کالم‬ ‫میں فارسی اور آدھے کالم میں اردو بڑی کوشش کے ساتھ‬ ‫چھپائی۔ هللا صاحب اس عاجز کی کوشش کو قبول فرمائے۔ اسکا‬ ‫کوشش کرنیواال فقیر فضل حق ابن حاجی دمحم عالؤالدین‬ ‫صفحہ ‪ ٦٨‬سے معلوم ہوتا ہے یہ تاجرکتب ہیں اور ان کا کتب‬ ‫خانہ پتو منڈی نوآباد ضلع الہور تحصیل چونیاں میں تھا۔ گویا‬ ‫اس کتاب کا نام بعد الجہان تھا۔‬ ‫قلمی نسخہ تھا جو پرانا تھا۔‬ ‫دستیاب نہ تھا۔‬ ‫فقیر فضل حق کے علم میں یہ کتاب تھی اور وہ اس سے دل‬ ‫چسپی رکھتے تھے اسی لیے اس کا کھوج لگایا اور شائع کی۔‬ ‫اس جگہ کا موجودہ نام پتوکی ہے۔ گزٹ ‪ ٠٨٨٥‬کے مطابق یہ‬ ‫بہت بڑی کاٹن کی منڈی تھی اور معروف تھی‘ نوآباد نہ تھی۔‬ ‫گویا کتاب کی طباعت نوآباد کے حوالہ سے‘ ‪ ٠٨٨٥‬سے پہلے‬ ‫کی ٹھہرتی ہے۔ اس حساب سے‘ اصل فارسی تخلیق سو پچاس‬


‫سال اس سے پیچھے جاتی ہے۔ فارسی اسلوب تکلم حیرت انگیز‬ ‫طور پر سادہ اور عام فہم ہے۔ مثال یہ جملے باطور نمونہ مالظہ‬ ‫‪:‬ہوں‬ ‫مار سیاہ دہن کشادہ ابلیس جست زدہ در دہن او جا کرد۔ بمجرد‬ ‫رفتن لعاب در دہن ابلیس کرد۔ کہ ازاں زہر پیدا شد چوں طاؤس‬ ‫گفت خوب کردی۔ ازیں سخن پائے او سیاہ شدند۔‬ ‫‪:‬مترجم کے متعلق آخر میں معلومات موجود ہیں‬ ‫دمحم حسن۔‬ ‫ساکن نشیب لبیہ۔ ضلع مظفر گڑہ۔‬ ‫حال مدرس‬ ‫مترجم نے‘ کلی طور پر لفظی اور بامحاورہ ترجمہ نہیں کیا ہے‘‬ ‫تاہم ترجمہ بے لذت اور بے ذائقہ بھی نہیں ہے۔ مترجم نے‘‬ ‫اردو فارسی اشعار‘ حکایات اور موقع کے مطابق احکامات کا‬ ‫اضافہ کیا ہے۔ ترجمے میں ایک دو جگہ پر‘ عجلت کا گمان‬ ‫گزرتا ہے۔ وقفے کے عالوہ‘ کسی عالمت کا استعمال نہیں ہوا‬ ‫ہے۔ عالمتیں ان کے ہاں مستمل نہیں ہوں گی یا اصل کی ییروی‬ ‫میں‘ صرف سکتے سے کام لیا گیا ہے۔‬


‫اس قصے کے بعض مندرجات سے کوئی متفق ہو یا ناہو‘ اس‬ ‫میں داستانی لوازمات بہرطور موجود ہیں۔ تمام کردار‘ اپنے‬ ‫ہونے اور اپنے کیے کا احساس دالتے ہیں۔ کہانی میں دل چسپی‬ ‫کا عنصر موجود ہے۔ رائٹر موقع ملتے ہی‘ موقع کے مطابق‬ ‫اخالقی پیغام بھی چھوڑتا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ‬ ‫باقاعدہ ایک پالٹ پر استوار ہےاور اس میں ایک باربط کہانی‬ ‫موجود ہے۔ اسے اردو کے داستانی ادب میں‘ ایک اہم اضافہ‬ ‫قرار دینا غلط نہ ہو گا۔‬ ‫اس قصے کے مطالعہ سے‘ قابل غور اور الگ سے معلومات‬ ‫بھی میسرآتی ہیں۔ معروف یہ ہی چال آتا ہے‘ کہ دانہءگندم پہلے‬ ‫حضرت آدم علیہ السالم نے کھایا‘ جب کہ اس قصہ سے معلوم‬ ‫ہوتا ہے‘ کہ دانہءگندم پہلے اماں حوا نے کھایا۔ اسی طرح یہ‬ ‫بھی پتا چلتا ہے‘ کہ حضرت آدم علیہ السالم کی پانچ سو جفت‬ ‫یعنی ہزار اوالدیں تھیں۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے‘ کہ بت پرستی کا‬ ‫آغاز قابیل سے ہوا۔ مزید چند ایک مثالیں مالحظہ ہوں۔‬ ‫جب فرشتوں نے سر اٹھایا۔ تو شیطان کے گلے میں ستر‪ ٧١‬من‬ ‫لعنت کا طوق پڑ گیا۔‬ ‫جہٹ فرشتوں نے دوسرا سجدہ کیا۔‬ ‫پہال کلمہ هللا واحد الشریک ہے آدم صفی هللا کا ہے۔ دوسرا کلمہ‬


‫هللا تعالے واحد اسکا کوئی شریک نہیں دمحم بندہ هللا کا ہے پیغمبر‬ ‫ہے جن کا۔‬ ‫آدم اور حوا کو آسمان پر باغ عدن بہشت میں الؤ۔‬ ‫اسوقت بہشت سے باہر جانا بغیر گندم کہانے کے محال تھا۔ حوا‬ ‫نے کہا لیا۔ مگر ادھا دانہ نہ کہایا تھا۔‬ ‫آدم نے بھی دانہ باقیماندہ نصف کہا لیا بوجہ۔۔۔۔ تو اسکو پاخانہ‬ ‫کی حاجت پڑ گئی۔‬ ‫آخر بعد ستر برس کے حوا اور آدم کی مالقات ہوئی۔‬ ‫کابیل کو چونکہ محبت تہی الش کو پھینکنا ناگوار سمجہکر اپنی‬ ‫پشت پر اٹھا لیا۔ چنانچہ چھ ماہ کا عرصہ گذر گیا۔‬ ‫جبرائل بحکم رب جلیل انکو بہشت میں لیگیا۔ تین ہزار برس عدن‬ ‫میں آدم علیہ السالم رہے‬ ‫کہتے ہیں کہ حضرت آدم فرزند پانچسو جفت تھے۔‬ ‫عورتیں دین اورعقل میں دسترس نہیں کر سکتیں۔‬ ‫اور کہا کہ ہر صبح نہا کر طعام کھانا اور اس بت کو سجدہ کرتے‬ ‫رہنا۔‬ ‫لفظوں کی امال مختلف تھی۔ مثال‬


‫خود میں ان کا سر طیار کروں گا۔‬ ‫نوں غنہ کا حشوی استعمال موجود نہ تھا۔ مثال‬ ‫دونو کوے قابیل کے روبرو لڑتے ہوئے‬ ‫ما باپ بیٹا ایکدوسرے کو دور کر دے گا۔‬ ‫نون غنہ کی جگہ‘ لون کا استعمال بھی کیا جاتا تھا۔ مثال‬ ‫میں اس زمانہ عیش و عشرت کر لون۔‬ ‫لفظوں کو مال کر استعمال کرنا عمومی اور مستعمل رویہ تھا۔‬ ‫مثال‬ ‫نیچے سے تمکو دکھائی دیگا‬ ‫سوچکر کہنے لگا۔‬ ‫اس گھر رحمت نہیں اتریگی۔‬ ‫گندم کہانیکی وجہ سے‬ ‫اپنا ہی ہر ایک بوجھ اوٹھائیگا۔‬ ‫ایکدفعہ بہشت میں جانے دو‬


‫قابیل نے دیکہکر ویسا کیا۔‬ ‫بعض لفظوں کا استعمال اور تفہیم‘ آج سے الگ تر ہے۔ مٹال‬ ‫آدم کا برحال رہا۔‬ ‫قبر کے کھودنے کی تجویز کابیل کو معلوم نہ تہی۔‬ ‫شیطان پروردگار جل عزاسمد کے مخالف اصالح کرنے لگا۔‬ ‫فرشتوں نے خدائے عزوجل کے حکم سے آدم کے قد کو بنایا‬ ‫زمین پر ڈالدے تا کہ میرے قد کا معائنہ کریں۔‬ ‫انہوں نے مٹی بودار دم کی‬ ‫تجہے موت کیچاشنی دونگا۔‬ ‫اسواسطے کہ میں نہائت رضامند ہوں آدم سے۔‬ ‫دونوں کلمہ کا حفظ کیا کرو‬ ‫میوہ وغیرہ کا ناشتہ کرو‬ ‫شیطان نےسانپ کے ہاں کہا تھا‬ ‫بہشت کے باہر آدم کی جستجو کریں۔‬ ‫دین اورعقل میں دسترس نہیں کر سکتیں‬


‫قدیم اور جدید اردو میں‘ مونث اور مذکر کا استعمال مختلف ہے‘‬ ‫یہ استعمال اپنی اصل میں درست ہے‘ لیکن آج رائج نہیں۔ مثال‬ ‫تجہکو خوف نہیں آئی تو ملعون ہوا ہے۔‬ ‫بہشت کے دربان کے پاس امانت جا رکھا۔‬ ‫جب حوروں نے آواز سنا‬ ‫محاوروں کا استعمال اور معنوی بعد بھی موجود ہے۔‬ ‫سب کو ہاتھ افسوس ملنا پڑے گا۔‬ ‫اسنے کوے کو وہیں گاڈ دیا۔‬ ‫ایک سنگ راست کرکے انکو دیدیا‬ ‫حیض کی بیماری عارض ہو گئی۔‬ ‫ہر صبح نہا کر طعام کھانا‬ ‫آدم کو بہی جستجو کیا تو نہ پایا۔‬ ‫اپنی جگہ کرتے ہی سانپ کے منہ میں لعاب ڈالدی۔‬ ‫تم زمین پر جا ٹھہرنا‬ ‫یہ عمل درآمد کرکے آسمان جانا کیا۔‬


‫بولنا بھی صلیب کو پہونچاتا ہے‬ ‫گردن موڑنا موجب غضب ہے۔‬ ‫خواب نہیں کرتا تھا‬ ‫پاخانہ کی حاجت پڑ گئی۔‬ ‫تسبیحیں کہتے تھے۔‬ ‫حور سے پرہیز کر گیا ہے‬ ‫پرہیز کر گیا کو تعلق کی استواری کے لیے لیا گیا۔‬ ‫سابقوں اور الحقوں کا استعمال آج سے قطعی مختلف ہے۔ مثال‬ ‫جبرائیل نے غصہ ناک ہو کر‬ ‫بیفرمانی کے بہشت سے بہت اہانت کے ساتھ نکالنے والے ہیں۔‬ ‫کابیل۔ تو بیفرمان ہو گیا ہے‬ ‫ضمائر میں واؤ کی بڑھوتی کر دی جاتی تھی۔ مثال‬ ‫متکبر اونکو پست سمجھے۔‬ ‫اونہوں نے کہا‬


‫اوس نے کہا مجہکو اتنی طاقت ہے۔‬ ‫اون کی ناف پر اپنے منہ سے لعاب نکالکر لگا لی‬ ‫مصادر میں بھی‘ واؤ کی بڑھوتی موجود تھی اور یہ عمومی اور‬ ‫مستعمل چلن تھا۔ مثال‬ ‫جسوقت نیند میں ہووے‬ ‫خطا پاوے جو وہ ناری ہے‬ ‫آدم بہشت میں جاویگا۔‬ ‫پرانی اردو میں‘ بھاری آوازوں سے زیادہ‘ ہلکی آوازوں کا‬ ‫استعمال کیا جاتا تھا۔ اس کتاب سے‘ اس ذیل میں‘ چند ایک‬ ‫‪:‬مثالینمالحظہ ہوں‬ ‫تم مسلمان کبہی نہیں ہو گے بھ‬ ‫تہوڑے دنوں کے بعد تھ‬ ‫ایک روز حوا رضی هللا عنہا بیٹہے تھے ٹھ‬ ‫مجہے اس بت سے بدبو آتی ہے۔ جھ‬ ‫جہٹ فرشتوں نے دوسرا سجدہ کیا۔ جھ‬


‫اونہوں نے پوچہا تمہارا کیا نام ہے۔ چھ‬ ‫ورنہ پچہتانا پڑیگا۔ چھ‬ ‫یہ نہائت اندہیر کوٹھا ہے۔ دھ‬ ‫ال حول پڑہتا رہے ڑھ‬ ‫پھر بہشت کو دیکہوں گا۔ کھ‬ ‫جب اندر گہس گیا گھ‬ ‫بھاری آوازیں بھی استعمال میں تھیں۔ مثال‬ ‫افسوس میں کوے سے بھی کمتر ہوں۔ بھ‬ ‫پھر جب ناک کو روح پہونچی پھ‬ ‫پہلے نار ہی سے تھا تھ‬ ‫فرشتوں نے سر اٹھایا ٹھ‬ ‫اونکو پست سمجھے۔ جھ‬ ‫پوچھنے لگے وہ کہاں ہے۔ چھ‬ ‫مثال ہاتھ دھونا۔ منہ دھونا۔ دھ‬ ‫دربان کے پاس امانت جا رکھا۔ کھ‬


‫سو جس گھر کتا ہو گا گھ‬ ‫فصل در بیان مہتر آدم علیہ السالم اور ہابیل اور کابیل کے‬ ‫بیانمیں‬ ‫فرماتا ہے پروردگار۔ اے آدم خبر دی اونکو شیطان کے نام سے‬ ‫جب آدم نے نام بتالئے تو حکم سجدہ کا ہوا۔ جب چوتھی قرن کی‬ ‫آمد ہوئی تو خداوند تعالی نے حکم دیا جبرائیل میکائیل اسرافیل‬ ‫عزرائیل عزازیل کو کہ تم زمین پر جا ٹھہرنا۔ فرشتوں نے حسب‬ ‫فرماں رب الجلیل زمین پر آتے ہی حکم سنا ایک مرد دریا کے‬ ‫نیچے سے تمکو دکھائی دیگا وہ نوردمحم علیہ السالم ہو گا۔ اور‬ ‫گل آدم ہو گی اوسکو لیکر آدم کا اعصا راست کرنا۔ اگر تمکو‬ ‫کچھ راست کرنیکی تجویرید ہو۔ تو ستارہ جو آدم کے قد موافق‬ ‫ہیں انکے برابر بنانا۔ اور خود میں ان کا سر طیار کروں گا۔‬ ‫فرشتوں نےیہ عمل درآمد کرکے آسمان جانا کیا۔ بعد اسکے‬ ‫عزازیل کے دلمیں آیا۔ کہ کل کو یہ گل آدم بہشت میں جاویگا۔ ہم‬ ‫کیا کرینگے۔ اس حالت اسکے غم پیدا ہوا۔ چاہا کہ کسی اٹکل‬ ‫سے اسکو الئق بہشت کے نہونے دیں۔ سوچنے کی بات ہے۔‬ ‫تکبر یہ ہے کہ جسکا مرتبہ خدا عزجل نے علو کو پہونچایا ہو۔‬ ‫متکبر اونکو پست سمجھے۔ فی الحقیقت وہ حق کے مخالف‬ ‫کرنیکی وجہ سے متکبر خدایتعالی کا مقابل بن گیا ہے۔ ۔۔۔۔چاہیے‬


‫کہ حکم خدا کے سرکشی سے باز رہیں۔ ورنہ تکبر یہی ہے بعینہ‬ ‫اس غدر سے خطا پاوے جو وہ ناری ہے ۔۔۔۔۔ وہ طوق عزازیل‬ ‫اسکے گلے ہو۔ خبیث اور ملعون کہینگے۔ ص‪٠٠ -‬‬ ‫یہی سوچ کر کہ بہشت کے الئق نہو۔ گھوڑوں کی طرف گیا۔‬ ‫انکے ہاں کہنے لگا کہ تم خوشی کر رہے ہو۔ اور تمہارے‬ ‫واسطےآدم پیدا ہو چکا ہے۔ کل تمہاری پیٹھ پر سواری کریگا۔‬ ‫تمکو تکیف پہونچا دے گا۔ اونہوں نے جواب دیا کہ ہمارے‬ ‫مالک کی خوشنودی اسی میں ہے تو ہم نہایت رضامندی سے‬ ‫انکا محکوم ہونا پسند کرینگے۔ شیطان نے سوچا میرا داؤ یہ تو‬ ‫نہ لگا۔ کوئی اور تجویز کرنی چاہیے۔ سوچکر کہنے لگا۔ عجب‬ ‫ہے کہ تم اورآدم ایک خالق کی پیدائش ہیں۔ وہ آدم تم پر سواری‬ ‫کر۔ الیعقل گھوڑوں نے داؤ کھا لیا۔ پوچھنے لگے وہ کہاں ہے۔‬ ‫ابلیس ملعون نے کہا کہ جو ناف زمین کا ہے وہاں ہے۔ جھٹ‬ ‫دوڑ کر پاش پاش کر دیا۔ پھر بارہ سال کے عرصےکے بعد سب‬ ‫فرشتوں کو حکم ہوا۔ کہ دوسری دفعہ آدم کا بت بناؤ۔ شیطان‬ ‫پروردگار جل عز اسمد کے مخالف اصالح کرنے لگا۔ اور کہا اے‬ ‫میرے رب اگر حکم ہو تو نور یا نار یا ہوا یا پانی سےآدم کا بت‬ ‫بنائیں۔ اسواسطے کہ زمین مین بےزبان جانور ہیں۔ انکو توڑ‬ ‫ڈالتے ہیں۔ خطاب عزوجل ہوا۔ اال یہ میں خوب جانتا ہوں تمکو‬ ‫خبر بہی نہیں۔ آدم کا قد پہلی طرح بناؤ۔ دیکہو یہ اصالح مخالف‬


‫رب تعالے ابلیس کر رہا ہے۔ یہی مرحبا ہو ہے۔ ص۔ ‪٠٦‬‬ ‫مخالف حکم رب الجلیل اپنی رائے اور اصالح کو دخل دینا موجب‬ ‫ہالکت ہے۔ اس سے پرہیز کرنا۔ شیخ سعدی علیہ الرحمتہ‬ ‫فرماتے ہیں۔ بیت‬ ‫اگر شاہ روز را گوند شب است ایں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ببائید گفت اینک مہ‬ ‫پرویں‬ ‫مخالف صالح کو کہاں۔ بولنا بھی صلیب کو پہونچاتا ہے۔ فرشتوں‬ ‫نے خدائے عزوجل کے حکم سے آدم کے قد کو بنایا۔ لکن بنا کر‬ ‫واپس آسمان پر اپنے اپنے مکان پر چلے گئے۔ ابلیس اکیال آدم‬ ‫کے پاس رہا۔ جب آدم اکیال ہوا تو اون کی ناف پر اپنے منہ سے‬ ‫لعاب نکالکر لگا لی پھر آسمان پر چال گیا۔ پھر دس برس کے‬ ‫بعد هللا تعالی کا حکم ہواکہ اے جبرائیل میکائیل سب جا کر‬ ‫علیتیں جو مقام چوتھے آسمان پر ہے وہاں سے روح آدم علیہ‬ ‫السالم کا لیکر انکے بدن میں ڈالو۔‬ ‫جب فرشتے پروردگار کے حکم سے روح پاک کو پردہ میں لیکر‬ ‫بت کے قریب الئے۔ تو روح القدس کو جسوقت ڈالنے لگے اس‬ ‫نے کہا کہ مجہے اس بت سے بدبو آتی ہے۔ خدا کی جناب میں‬ ‫آدم نے عرض کی اے بار خدایا مجہے بدبو آتی ہے۔ اس سے‬ ‫مجہے پناہ میں رکھ۔ خدا مہربان نے حکم دیا کہ اے جبرائیل جو‬


‫جگہ بدبودر ہے اونکو دور کر دے۔ جب انہوں نے مٹی بودار دم‬ ‫کی تو اس مٹی لعاب شیطان سے کتا پیدا ہوا۔ وہ کتا آواز کرتا‬ ‫بت کے قریب بیٹھ گیا۔ وہ فرشتے روح مقدس کو ساتھ لیکر‬ ‫آسمان پر چلے گئے۔ حتے کہ ستر برس کے عرصہ تک قد آدم‬ ‫بمعہ سگ وہاں رہا۔ یعنی فرشتوں کو آنے نہیں دیتا تھا۔ ص‪٠٣-‬‬ ‫اور وہ کتا کسی فرشتہ اور حیوان کو ساتھ گزرنے نہ دیتا تھا۔‬ ‫خواب نہیں کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کتا ابلیس کی لعاب سے‬ ‫دارمٹی سے ہے۔ شیطان مردودورحمت سے محروم ہے بلکہ‬ ‫جس جگہ شیطان ہو رحمت نہیں ہو گی۔ سو جس گھر کتا ہو گا‬ ‫بغیر ضرورت حفاظت یا شکار خواص کے اس گھر رحمت نہیں‬ ‫اتریگی۔ اتفاقا اراوت ازلی اسکو نیند آ گئی۔ فرشتوں کو حکم ہوا‬ ‫شتابی روح قدس آدم کے بدن میں ڈالو۔ جب جرائیل حسب فرمان‬ ‫رب تعالے بمعہ مقربان پردہ سے روح مقدس کو لیکر آئے تو‬ ‫روح مقدس نزدیک بت کے پہونچکر کہا کہ یہ نہائت اندہیر کوٹھا‬ ‫ہے۔ یا رب تعالے مجہےاپنے فضل سے ایکدفعہ اسی جگہ سے‬ ‫مجہے نکالنا۔ تا کہ میں اس زمانہ عیش و عشرت کر لون۔ هللا‬ ‫تعالے نے حکم دیا کہ تجہے ضرور ایکدفعہ اس بدن سے‬ ‫نکالوں گا۔ اور وہ نکالنا تمہاری موت ہو گا۔ پروردگار فرماتا ہے‬ ‫سب چیز کو مرنا ہے مگر هللا کو نہیں ہے۔ تجہے موت کیچاشنی‬ ‫دونگا۔ اورآدم کا سر خدایتعالے نے سنگ مرمر سے راست کیا‬


‫تھا۔ اسی وجہ سے آدمی کا سر سخت ہوتا ہے۔ اورجب روح‬ ‫مقدس میں ڈالی گئی۔ تو سر کے راستہ ڈالی گئی۔ ص۔ ‪٠٤‬‬ ‫اور ارشاد فرماتا ہے هللا تعالے میں نے روح مقدس کو ڈالکر‬ ‫بدن میں آدم کے کہ اسکوسجدہ کرو۔ جب آدم نے آنکھ کہولی تو‬ ‫روح نے آنکھ کے ذریعہ سے جہان کو دیکھ کر خوشی حاصل‬ ‫کی۔ پھر جب ناک کو روح پہونچی تو آدم علیہ السالم کو چھینک‬ ‫آئی۔ تو کہا سب تعریف هللا تعالے کی ذات کو ہے جو رب العلمین‬ ‫ہے جب روح منہ میں آئی تو ہر قسم کی چاشنی گیر ہوئی۔ آدم‬ ‫علیہ السالم نے ویسی ہی خدائے خالق کی حمد کہی۔ پھر خداے‬ ‫یتعالے نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم علیہ السالم کو سجدہ‬ ‫کرو۔ اسواسطے کہ میں نہائت رضامند ہوں آدم سے۔ بمجرد حکم‬ ‫حاکم تعالے کےسب فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس مردود‬ ‫نے کہا۔ کل میں نے اپنے ہاتھ سے بنایا ہےیہ مجہے درجہ میں‬ ‫بھی ہے۔ اسی وجہ حقیر جانا۔ اور احکم الحاکمین کے حکم سے‬ ‫عدول کیا۔ مامون مقہور ہوا۔ حاکم حقیقی کے حکم سے گردن‬ ‫موڑنا موجب غضب ہے۔ جب غالم حبشی درجہ میں بڑھ جائے‬ ‫تو اسکا حکم عین پروردگار کا ہوتا ہے۔‬ ‫اس سے سرکش نہونا ورنہ پچہتانا پڑیگا۔ کسی نے سچ کہا ہے۔‬ ‫بیت‬ ‫حکمران ہو کوئی بچاپنا ہو یا بیگانہ ہو‬


‫دی خدا نے جسے عزت اسکی عزت چاہئے‬ ‫ص‪٠٥ -‬‬ ‫عزتدار کی ذلت کرنا اپنی ذلت کا موجب ہے۔ جب فرشتوں نے‬ ‫سر اٹھایا۔ تو شیطان کے گلے میں ستر‪ ٧١‬من لعنت کا طوق پڑ‬ ‫گیا۔ معلوم ہوا کہ هللا تعالے کے حکم سے سرکش ہوا ہے۔ جہٹ‬ ‫فرشتوں نے دوسرا سجدہ کیا۔ ابلیس نے عرض کیا آپ کا حکم‬ ‫ایک سجدہ کا تھا۔ یہ دوسرا سجدہ کیوں کر رہے ہیں۔ حکم ہوا‬ ‫میرے خوف سے سجدہ میں پڑے ہیں۔ تجہکو خوف نہیں آئی تو‬ ‫ملعون ہوا ہے۔ میرے حکم کو پس پشت کر دیا ہے۔ میں نے‬ ‫تجہے مردود کیا ہے۔ تیری عبادت دنیا میں تجہے دوں گا اور‬ ‫آخرت میں تو عذاب الیم کا مستحق ہو گا۔ پھر عزازئیل کہ نام‬ ‫انکا پہلے نار ہی سے تھا۔ آدم علیہ السالم سے بھاگ گیا۔‬ ‫تہوڑے دنوں کے بعد جبرائیل نے آدم علیہ السالم کو یہ کلمے‬ ‫سکھائے وہ یہ ہیں۔ پہال کلمہ هللا واحد الشریک ہے آدم صفی هللا‬ ‫کا ہے۔ دوسرا کلمہ هللا تعالے واحد اسکا کوئی شریک نہیں دمحم‬ ‫بندہ هللا کا ہے پیغمبر ہے جن کا۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫اور سمجہایا کہ ان دونوں کلمہ کا حفظ کیا کرو جب آدم علیہ‬ ‫السالم زمین پر سو گئے تو انکے بائیں کروٹ سے حوا رضی‬


‫هللا عنہا پیدا ہوئی۔ پھر جلدی خدا کا حکم ہوا کہ اے جبرائیل آدم‬ ‫اور حوا کو آسمان پر باغ عدن بہشت میں الؤ۔ جبرائل بحکم رب‬ ‫جلیل انکو بہشت میں لیگیا۔ تین ہزار برس عدن میں آدم علیہ‬ ‫السالم رہے جبکہ رب تعالے ارشاد فرماتا ہے یاد کرو اے دمحم‬ ‫کیا ہمنے اے آدم بمہ اپنی جورو بہشت میں رہ ص ‪٠٢‬‬ ‫میوہ وغیرہ کا ناشتہ کرو اور اس درخت کے قریب ہرگز نہ جانا۔‬ ‫نہیں تو ظالم ہو جاؤ گے۔ جب گذرنے کو مدت پہونچی تو ایکدن‬ ‫عزازئیل ایک گوسفند لیکر بہشت کے دربان کے پاس امانت جا‬ ‫رکھا۔ اور کہا حسب ضرورت تمسے لے لوں گا۔ دربان نے کہا‬ ‫بہت اچھا۔ لکھتے ہیں۔ کہ آدم اور حوا نے دربان سے پوچھا یہ‬ ‫دنبہ کہاں سے آیا ہے۔ انہوں نے کہا عزازئیل کی امانت ہے۔ آدم‬ ‫علیہ السالم نے جھٹ ذبح کرکے کھا لیا۔ ابلیس چند ایام کے بعد‬ ‫آیا۔ ابلیس نے فرشتوں سے امانت طلب کی۔انہوں نے کہا۔ کہ آدم‬ ‫علیہ السالم نے نوشجاں فرمایا ہے۔ ابلیس خوش ہو کر آواز‬ ‫کرنے لگا۔ اے بیٹے واسوس کہاں گیے ہو۔ جواب دیا کہ میں آدم‬ ‫اور حوا کے سینے میں گھر بنائے بیٹھا ہوں۔ شیطان نے کہا‬ ‫رحمت ہو تمکو۔ کہ پہال نفس آدم کا تو بنا ہے۔ جیسا کہ رب‬ ‫تعالے ارشاد فرماتا ہے یعنے وہ انسان کے سینے میں وسوسہ‬ ‫ڈالنے واال آدمی اور جن سے ہے۔ جب تین ہزار برس تمام‬ ‫ہوئے۔ تو شیطان بہشت کے دروازے پر ایکدن پہونچا۔‬


‫ص۔ ‪٠٧‬‬ ‫اسوقت کاال سانپ اور ایک مور دربانی کر رہے تہے۔ انکے ہاں‬ ‫جا کر کہنے لگا مجہے ایکدفعہ بہشت میں جانے دو میں تجہکو‬ ‫تین ہزار فریب انعام کروں گا۔ اونہوں نے پوچہا تمہارا کیا نام‬ ‫ہے۔ جواب دیا۔ کہ میرا نام عزازیل ہے۔ اونہوں نے کہا کہ تجہکو‬ ‫اندر جانے کا حکم نہیں۔ اسواسطے کہ تو ملعون ہوا ہے۔ الئق‬ ‫بہشت تو نہیں ہے۔ اوس نے کہا مجہکو اتنی طاقت ہے۔ اگر تم‬ ‫مجہکو اپنی آنکھ جگہ دیویں تو غائب ہو جاؤں گا پھر بہشت کو‬ ‫دیکہوں گا۔ اسوقت مار و کوا دربان تھے۔ اور مور اندر تھا۔‬ ‫سانپ نے کہا اگر تم جلدی باہر آؤ گے۔ تو تمکو لے جاتا ہوں۔‬ ‫سانپ نے وعدہ کیا جلدی باہر آؤنگا۔ سانپ نے منہ کھوال۔ جھٹ‬ ‫شیطان اسکے منہ میں گھس گیا۔ اپنی جگہ کرتے ہی سانپ کے‬ ‫منہ میں لعاب ڈالدی۔ کہ اس سے یہی زہر پیدا ہوا ہے۔ اوسوقت‬ ‫مور نے کہا۔ تمنے بہت اچہا کیا۔ اس بات کے کہنے سے اس‬ ‫کے پاؤں سیاہ ہو گئے۔ لیکن شیطان نےسانپ کے ہاں کہا تھا‬ ‫کہ اندر میں جو کچہ میں کروں تم چپ چاپ رہنا چنانچہ سانپ‬ ‫نے ایسا ہی کیا۔ جب اندر گہس گیا تو شیطان رونے پیٹنے لگا۔‬ ‫ص۔ ‪٠٨‬‬ ‫جب حوروں نے آواز سنا تو حیران ہو کر خازن بہشت کو کہنے‬ ‫لگیں کہ تمکو کیا ہوا کہ ابلیس کو تم نے اندر آنے دیا۔ اور‬


‫تمہارے منہ سے آواز کر رہا ہے۔ کہ اے حوا سنو آدم اور حوا‬ ‫گندم سے محروم ہیں۔ اوہ اچھا طعام ہے۔ اور دوسرا یہ کہ آدم‬ ‫ایک حور پر عاشق ہو گیا ہے۔ اور حور سے پرہیز کر گیا ہے۔‬ ‫وہ اس حور کے ساتھ مزے اڑا رہا ہے۔ جب حوا نے یہ بات‬ ‫سنی تو بہت پریشان ہوئی۔ آدم کو بہی جستجو کیا تو نہ پایا۔‬ ‫اسوقت حوا کو اس لعین کے مکروفریب کا خیال بھول گیا تھا۔‬ ‫جھٹ حوا کو خیال آیا کہ بہشت کے باہر آدم کی جستجو کریں۔‬ ‫اسوقت بہشت سے باہر جانا بغیر گندم کہانے کے محال تھا۔ حوا‬ ‫نے کہا لیا۔ مگر ادھا دانہ نہ کہایا تھا۔ اس حیض کی بیماری‬ ‫عارض ہو گئی۔‬ ‫کہتے ہیں عورتیں دین اورعقل میں دسترس نہیں کر سکتیں۔‬ ‫اسوقت سے حیا اور شرم شروع ہو گیا ہے۔ بعد اسکے جبرائیل‬ ‫امین کو حکم سرکار اعظم سے ہوا کہ حوا کو بمعہ سانپ اور‬ ‫کبودک اور مور باہر نکالیں اور زمین پر ڈالدے تا کہ میرے قد‬ ‫کا معائنہ کریں۔ جبرئیل علیہ السالم حسب الحکم کاروائی شروع‬ ‫کرکے نکالدیا۔ جب آدم کو خبر گذری کہ حوا کو گندم کہانیکی‬ ‫وجہ سے هللا تعالے نے بہشت سے نکالکر زمین پر ڈالدیا۔ جھٹ‬ ‫آدم نے بھی دانہ باقیماندہ نصف کہا لیا بوجہ۔۔۔۔ تو اسکو پاخانہ‬ ‫کی حاجت پڑ گئی۔ اسوقت حکم ہوا کہ اے جبرائیل جا کر بہشت‬ ‫سے آدم کو برہنہ کرکے نکالدے۔ بوجہ اسکے کہ میرا نافرمان‬ ‫ہوا ہے اور یہاں ناپاکی کرتا ہے اور بہشت پاک جگہ ہے۔ ص۔‬ ‫‪٠٩‬‬


‫جب جبرائیل هللا کے حکم سے بہشت میں گئے تو کیا دیکھتے‬ ‫ہیں کہ آدم علیہ السالم گندم سے اپنا پیٹ بھرے کھڑا ہے۔‬ ‫جبرائیل نے غصہ ناک ہو کر تمام کپڑے مثال جامہ دستار ٹوپی‬ ‫وغیرہ چھین لئے۔ جب سر سے کالہ اتاری تو آدم علیہ السالم‬ ‫نے اپنے ہاتھوں کو سر پر کر لیا۔ اس وجہ سے سر کا مسح‬ ‫فرض ہے یعنے چہارفرض اسوقت کے بہی ہیں۔ مثال ہاتھ دھونا۔‬ ‫منہ دھونا۔ سر کا مسح کرنا۔ پاؤں کا دھونا۔ پھر کپڑے اوتار کر‬ ‫آدم جو ہمارے باپ ہیں پیغبر خدا۔ مقبول خدا کہ بوجہ مذکور کے‬ ‫پکڑ زمین پر ڈالدیا۔ کل شی مرجع اے اصلہ خاکی آدم خاک‬ ‫کیطرف گیا ہے۔ وہ کوہ قاف میں رہے۔ ستر برس تک حوا علیہ‬ ‫السالم سے جدا رہے۔ آدم کے رونے سے فلفل بیدا ہوئی۔ اور‬ ‫حوا کے رونے سے مروارید بنگئے۔ وہ جبرائیل جو پہلے تعظیم‬ ‫و تکریم کرنے واال تھا۔ وہی بوجہ ایک بیفرمانی کے بہشت سے‬ ‫بہت اہانت کے ساتھ نکالنے والے ہیں۔ مولوی روم صاحب‬ ‫فرماتے ہیں۔‬ ‫یک گناہ چوں کرد گفتندش تمام‬ ‫مذہنی مذہنی بیروں خرام‬ ‫تو طمع میداری چندیں گناہ‬ ‫داخل جنت شوی اے روسیاہ‬


‫ص۔ ‪٦١‬‬ ‫آخر بعد ستر برس کے حوا اور آدم کی مالقات ہوئی۔ کسی نے‬ ‫کہا ہے۔ بیت‬ ‫ہر دم دعا ہا میکنم بر خاک مے عالم جبیں‬ ‫جمع کن باد و ستم یا جامع المتفرقیں‬ ‫پھر حکم جبرائیل کو ہوا کہ ایک جوڑا اور کچہ گندم بہشت سے‬ ‫لیکر آدم کو دیدے۔ جبرائیل نے آدم کو جوڑا اور کچہ گندم حوا‬ ‫کو دیدی اور کچہ آدم کو دی۔ خدا کے حکم سے ہل جوت کر بیج‬ ‫ڈاال۔ آدم کے بیج سے گندم اور حوا کے بیج سے جو پیدا ہوئے۔‬ ‫حکایت‬ ‫ایک روز حوا رضی هللا عنہا بیٹہے تھے متفکر ہو کر۔ بہشت کی‬ ‫نعمتیں یاد کر رہے تھے۔ تسبیحیں کہتے تھے۔ کہ رب جلیل‬ ‫رحمن۔ غفورالرحیم منان تیرا ہر وقت احسان بہشت میں عجیب‬ ‫نعمتیں تو دیتا تہا۔ شربت پالتا تھا۔ شیر شہد سے عجیب تھے۔‬ ‫اب آپنے کبھی نہیں عنایت فرمائی میرا بخت سیاہ ہے تیری‬ ‫نافرمانی سے ناگاہ خندق میں گر گئی ہوں۔ کوئی پوچھتا نہیں۔‬ ‫بیت‬ ‫یاد میں نعمت کے رہے ہر دم‬


‫کھاتے تھے بہشت ذوق سے پیہم‬ ‫حاشیہ‪ :‬ہندوانہ اور خربوزہ وہاں کے ہیں‬ ‫ص۔ ‪٦٠‬‬ ‫فریاد سن کر هللا تعالے فرمایا۔ کہ اے جبریل دو خربوزہ لیکر‬ ‫ایک حوا کو دوسرا کو دیدے جبریل ویسا ہی کیا۔ حوا حاملہ‬ ‫تھیں۔ اسوجہ سے حوا کا خربوزہ ہندوانہ بن گیا۔ اور آدم کا‬ ‫برحال رہا۔ ایکدن جبریل کو حکم ہوا کہ حوا کے ہاں دو بچے‬ ‫صبح اور دو بچے شام ہونگے اور دو بچے پہلے پیدا ہوں انکو‬ ‫شتابی جدا کرنا اور انکا نام ہابیل اور کابیل رکہنا۔ اور جو لڑکیاں‬ ‫شام کو پیدا ہوں پہلی ہابیل کو اور دوسری کابیل کو بیاہ دینا۔‬ ‫اتفاقا دوسری لڑکی ایک آنیکھ سے دیکھ نہ سکتی تہی۔ کابیل‬ ‫نے منظور نہ کیا۔ اور ہابیل کی عورت کو لیا۔ جب آدم علیہ‬ ‫السالم تہوڑی دیر کے بعد آئے تو کہا۔ اے کابیل۔ تو بیفرمان ہو‬ ‫گیا ہے اور غضبناک ہو کر کابیل کو کہا۔ تو نے برا کیا۔ اور تو‬ ‫کافر بن گیا ہے۔ مجھ سے تم دونو دور ہو جاؤ۔ اور کہیں اور‬ ‫زراعتکاری کرو اور اپنا بسیرا کرو۔‬ ‫ندا آید درانگہ دور شو دور‬ ‫قیامت کے روز جسطرح حضرت آدم علیہ السالم اپنے مقرب‬ ‫بیٹے کو نافرمانی کی وجہ سے دور کر رہا ہے۔ اسی طرح ما‬


‫باپ بیٹا ایکدوسرے کو دور کر دے گا۔ اور اپنا ہی ہر ایک بوجھ‬ ‫اوٹھائیگا۔ ص۔ ‪٦٦‬‬ ‫االئیہ۔ بغیر عمل توحید کے رسول بھی شفاعت نہ کرینگے۔ سب‬ ‫کو ہاتھ افسوس ملنا پڑے گا۔ شیخ عطار فرماتے ہیں۔ بیت۔ ہست‬ ‫سلطانی مسلم مرا درا نیست کس را زہر چوں وچرا‬ ‫عذر معذرت کچہ کام نہ آئیگی۔ چنانچہ آدم و حوا بغیر پرسش‬ ‫نکالے گئے۔ بیفرمان کا بغیر پرسش دوزخ جانا پڑیگا۔ اعان هللا‬ ‫وابوانا و استاذنا و سائرالمسلمین امیں۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں۔‬ ‫ستم بر ضعیفان مسکین مکن۔۔۔۔۔کہ ظالم دوزخ رود بےسخن۔ اور‬ ‫کسی نے کہا ہے۔ وہ سنت نبی جسکو پیاری نہیں۔۔نبی بھی اس‬ ‫سے بیزار ہو جاتا ہے۔ جب آدم علیہ السالم سے کابیل کسی اور‬ ‫جگہ رہنے لگے تو ایکدن عزازیل نے آ کر کہا کہ تو اپنے‬ ‫بھائی ہابیل کو مار ڈال کیونکہ یہ تجھ سے بڑا ہے۔ پھر تو تمام‬ ‫زمین کی بادشاہی کریگا۔ کابیل نے کہا مجہے قتل کرنا معلوم‬ ‫نہیں ہے۔ عزازیل نے کہا جسوقت نیند میں ہووے تب ایک بٹہ‬ ‫لیکر اسکے سر خوب لگا۔ اس نے حسب کہنے عزازیل کے کا‬ ‫کیا۔ اور ہابیل مر گیا انا هلل و انا الیہ راجعون۔ کابیل کو چونکہ‬ ‫محبت تہی الش کو پھینکنا ناگوار سمجہکر اپنی پشت پر اٹھا لیا۔‬ ‫چنانچہ چھ ماہ کا عرصہ گذر گیا۔ قبر کے کھودنے کی تجویز‬ ‫کابیل کو معلوم نہ تہی۔ ایکدن دو فرشتے کوے کی صورت پر‬


‫گھڑا کھودا اور اسنے کوے کو وہیں گاڈ دیا۔ پھر کابیل نے بھی‬ ‫ان کو دیکہکر اپنے بھائی کو دبایا۔‬ ‫جیسا کہ هللا تعالے اپنی کالم پاک میں فرماتا ہے۔ بھیجا هللا نے‬ ‫کوے کو زمین کھود کر اپنے بھائی کوے کی الش کو دفن کرتا‬ ‫تھا دیکہکر کابیل نے کہا افسوس میں کوے سے بھی کمتر ہوں۔‬ ‫اگر کوے جیسا ہوتا تو اپنے بھائی کی الش کو دفن کرتا۔ یہ‬ ‫کہہکر شرمسار ہوا۔ دونو کوے قابیل کےروبرو لڑتے ہوئے ص۔‬ ‫‪ ٦٣‬ایک کوے نے دوسرے کوے کو مار ڈاال پھر اپنے چونچ‬ ‫اور پنجوں سے گڑہا کھود کر کوے ک دبا۔ قابیل نے دکھکر غم‬ ‫کھایا۔ اور کہا کہ میں کوے جیسا ہوتا تو اپنے ہاتھ گڑہا کھودتا۔‬ ‫اوراپنے بھائی کو دباتا۔ پھر قابیل نے دیکہکر ویسا کیا۔ یہ‬ ‫طریقہ گور۔۔۔ قبر بنانے کا۔۔۔ یہاں سے شروع ہوا ہے۔ اور ہایل‬ ‫کی سب قوم مسلمان ہیں۔ ایک دن آدم نےقابیل سے پوچھا ہابیل‬ ‫کہاں ہے کہا مجہے معلوم نہیں۔ بہت دن سے مجہسے رخصت‬ ‫ہو گیا ہے۔ آدم علیہ السالم حیران ہوا۔ خد ا کی جناب سے ندا آئی‬ ‫کہ تیرے بیٹے قابیل نے قتل کر ڈاال ہے۔ تا کہ تجہے معلوم ہو۔‬ ‫کہ میرے ایسے بیٹے ہیں۔ تو نہینجانتا شیطان انسان کا دشمن‬ ‫ہے۔ جب آدم نے جواب سنا تو قابیل پر غصہ ہوا۔ اور کہا کہ تو‬ ‫نہایت پرلے درجہ کا کافر ہے۔ تم مسلمان کبہی نہیں ہو گے۔‬ ‫جیسا کہ قابیل حران ہوا۔ اسوقت سے شیطان انسان کا دشمن چال‬


‫آتا ہے اور مرتے وقت انسان کےساتھ بیجا حرکتیں کرتا رہتا‬ ‫ہے۔ مومن کو چاہئے کہ اس کے فریب سے بچے ال حول پڑہتا‬ ‫رہے۔ ص۔‪٦٤‬‬ ‫تھوڑے دنوں کے بعد ابلیس نے قابیل کے پاس آ کر کہا کہ میں‬ ‫جبرائیل ہوں خدا یتعالے نے تمہاری طرف بھیجا ہے۔ اور کہا‬ ‫ہے کہ اور طریقہ آدم کا باقی ہے۔ وہ اب تجہکو سیکہاتا ہوں۔‬ ‫قابیل نے خوش ہو کر کہا۔ بہت اچھا۔ تو عزازیل نے خوش ہو کر‬ ‫تسلی اپنی کر لی کہ ابھی اسکو کافر کر لوں گا پھر عزازیل نے‬ ‫کہا تجھکو خدا کے نام سکھاتا ہوں۔ انکو ہر وقت ضبط رکھنا‬ ‫پھر شیطان نے مذکورہ نام مردوں اور عورتوں کے بتالئے اور‬ ‫کہا کہ ایک اور بھی امانت ہے۔ وہ یہ ہے ایک سنگ راست‬ ‫کرکے انکو دیدیا۔ اور کہا کہ ہر صبح نہا کر طعام کھانا اور اس‬ ‫بت کو سجدہ کرتے رہنا۔ اوراپنا منھ مشرق کو کرنا۔ اور تمہارے‬ ‫ماں باپ آدم حوا نہیں۔ بلکہ پاربتی اورمہادیو ہیں۔ اوراسی راہ پر‬ ‫چلنا۔ اورتمکو جالئینگے۔ یہ قوم کافروں کی اسی جگہ سے‬ ‫شروع ہوئی ہے۔ یہ نہیں جانتے کہ شیطان نے اپنے پھندے میں‬ ‫اسکو ڈالدیا ہے اور دوزخ کا ساکن بنا دیا ہے۔ خدا نے فرمایا‬ ‫ہے سب چیزوں کو اپنی عبادت کے واسطے پیدا کیا۔ اسکے‬ ‫خالف چل رہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت آدم فرزند پانچسو جفت‬ ‫تھے۔ ص۔ ‪٦٥‬‬


‫نقل ۔۔۔۔ ایک روز حضرت آدم کے فرزند جمع ہو کر آپس میں‬ ‫صالح کرنے لگے کہ باپ کو مار ڈالئے اور بادشاہ اور پیغمبر‬ ‫ہمارے واسطے نازل ہو جائیگا۔ اسی مشورہ میں تھے کہ هللا‬ ‫تعالے آدم کو خبر دی کہ تمہیں فرزند مارنا چاہتے ہیں۔ اگر تم‬ ‫چاہو۔ تو اونکو مار ڈالو اورپھر انکار آپکا کبھی نہو۔ آدم نے کہا‬ ‫یا خدایا کوئی اور تدبر کرو۔ تو هللا تعالے نے جبریل کو حکم کیا‬ ‫کہ بہشت میں بانگ دو۔ جبریل حسب الحکم رب الجلیل بانگ‬ ‫دیدی تو اونکو آواز سنتے ہی انکی زبانیں بدل گئیں۔ جیسا کہ‬ ‫عربی فارسی وغیرہ جو آپسمیں مشہور ہیں۔ ایکدوسریکا سخن‬ ‫نہیں سمجہتے تہے۔ اس وجہ سےمشورہ باطل ہو گیا۔ یہ زبانیں‬ ‫اس زمانہ سے شروع ہیں۔ اوسوقت سے زبانیں مختلف پھر‬ ‫مارنے کی مشورہ بدل گئی۔ وازیں وجہ مسلمان اور ہندو ہونا ہو‬ ‫گیا۔ جب آدمی بادشاہی کرنے لگے تو انہوں نے شہر کا نام ملتاں‬ ‫رکھا۔ آدم علیہ السالم کیوقت سے اسکا نام ملتان شہر ہے۔‬ ‫اوراسوقت سے یہ شہرآباد ہے۔ اس شہر میں بڑے بڑے بزرگوں‬ ‫کی خانقا ہیں ایک بہاؤلحق صاحب ایک شمس تبریز صاحب کی‬ ‫ایک موسے پاک شہید کی عالوہ اور بہت ہیں۔ ص۔‪ ٦٢‬اور یہ‬ ‫کافر کی اوالد ہیں۔ اور مسلمان بمعہ جمیع پیغبران شیث سے دمحم‬ ‫علیہ السالم تک ہابیل کی اوالد ہیں۔ ص۔‪٦٧‬‬


‫خودی اور اس کے حدود‬ ‫استعدادی قوت کا نام ہے‘ جو کسی چیز یا ذی روح ‘خودی‬ ‫وغیرہ سے مخصوص کر دی گئی ہوتی ہے۔ تاہم یہ اضافہ پذیر‬ ‫ہے۔ اسی طرح اس میں کمی بھی آتی رہتی ہے۔ اس میں اضافہ‬ ‫یا کمی کی بھی‘ حدود مخصوص ہوتی ہیں۔ کمی‘ اضافے کی راہ‬ ‫لے سکتی ہےاور اضافہ زوال کا رستہ اختیار کر سکتا ہے۔‬ ‫اضافے اور کمی کی صورت میں‘ اس کی استعداد کار میں فرق آ‬ ‫جاتا ہے۔ یہ استعداد کار ہی فرد واحد‘ قوموں یہاں تک‘ کہ پوری‬ ‫انسانی زندگی برادری کی موجودہ صورت حال کو تبدیل کر‬ ‫سکتی ہے۔ کائنات کی کوئی شے‘ ایک دوسرے سے غیرمتعلق‬ ‫نہیں۔ ایک کا کیا‘ دوسرے اور دوسرے سے دوسروں کو متاثر‬ ‫کرتا ہے۔ یا اس میں دوسروں کو متاثر کرنے کی صالحیت‬ ‫موجود ہوتی ہے۔‬ ‫اس میں اضافے کی بہت سی صورتیں موجود ہوتی ہیں یا ہو‬ ‫سکتی ہیں۔‬


‫کسی حاجت‘ ضرورت‘ مفاد یا غرض کے تحت‘ دو یا دو ‪٠-‬‬ ‫سے زائد افراد ایک پلیٹ فارم بنا سکتے ہیں۔ یہ اجتماع وقتی یا‬ ‫دیرپا بھی ہو سکتا ہے۔‬ ‫کاز‘ کسی بھی نوعیت کا ہو‘ اس کے زیر اثر لوگوں کا ‪٦-‬‬ ‫باہمی انسالک ممکن ہوتا ہے۔ اس کے لیے افراد اکٹھے کر لیے‬ ‫جاتے ہیں یا ہو جاتے ہیں۔‬ ‫ردعملی صورتیں بھی شخص کو‘ شخص کے قریب لے آتی ‪٣-‬‬ ‫ہیں۔‬ ‫‪٤‬۔ ہنر متحرک زندگی کا بڑا اہم عنصر ہے۔‬ ‫ا۔ایک ہنر سے متعلق شخص ایک دوسرے کے قریب رہتے ہیں‬ ‫یا آ سکتے ہیں۔‬ ‫ب۔ مقابلہ بازی راہ پاتی ہے۔‬ ‫ج۔ سیکھنے والے میدان میں اترتے ہیں۔‬ ‫د۔اس ہنر کے ضرورت مند ان سے رابطہ میں رہتے ہیں۔‬


‫مذہب اور نظریہ‘ بڑے مضبوط عناصر ہیں۔ یہ اشحاص کے ‪٥-‬‬ ‫اتحاد کا ذریعہ بننے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔‬ ‫‪٢‬۔ رنگ‘ نسل عالقہ اور زبان‘ انسانی زندگی میں بڑی اہمیت‬ ‫کے حامل ہیں۔ جہاں ان کے حوالہ سے عصبیت جنم لیتی ہے‘‬ ‫وہاں باہمی تعلق اور رابطہ بھی جگہ پاتا ہے۔‬ ‫‪٧‬۔ سیاسی‘ فالحی اور سماجی گروپ تشکیل پاتے رہتے ہیں۔ یہ‬ ‫شخص کو‘ بہت سے حوالوں سے‘ دوسرے اشخاس سے‬ ‫پیوست کرتے ہیں۔‬ ‫قبیلہ اور قوم‘ شخص کو شخص سے نتھی رکھتے ہیں۔ ‪٨-‬‬ ‫‪٩‬۔ مزاجوں میں ملتی مماثلتیں شخصی قربت کا سبب بنتی ہیں۔‬ ‫‪٠١‬۔ ہم مزاج اور ہم خیال ہونے کی وجہ سے‘ چاہے ان کی‬ ‫صورت وقتی اورلمحاتی ہی کیوں نہ ہو‘ شخص کا شخص سے‘‬


‫ارتباط پیدا کرتی ہیں۔‬ ‫‪٠٠‬۔ دو غیر جنس بھی ہم رکاب چل سکتےہیں۔‬ ‫‪٠٦‬۔ ہم عمری بھی اس ذیل میں بڑا معتبرذریعہ ہے۔‬ ‫سماجی رسم و رواج او ہم شغلی اس ضمن میں بڑا اہم ‪٠٣-‬‬ ‫ذریعہ ہے۔‬ ‫درج باال سطور میں چند ایک کا ذکر کیا گیا ہے ورنہ اس کی‬ ‫بہت سی صورتیں موجود ہیں۔ یہاں تک کہ باہمی اختالفات کو‬ ‫بھی نظر انداذ نہیں کیا جا سکتا۔ ان تمام صورتوں میں آگہی‘‬ ‫اعتماد‘ حوصلہ‘ کچھ کرنے کا جذبہ‘ ہنر‘ تجربہ‘ عادات‘ اطوار‬ ‫اور کسی دوسرے کی شخصیت میں پوشیدہ خاص جوہر اور‬ ‫کمال‘ جو وہ استعمال میں نہیں ال رہا ہوتا‘ ہاتھ لگتے ہیں۔ ان‬ ‫عناصر سے شخصی خودی کو توانائی میسر آتی ہے اور شخص‬ ‫کا وجود استحقام پکڑتا ہے۔ اس میں‘ میں ہوں‘ کو تقویت میسر‬ ‫آتی ہے۔‬


‫بالکل اسی طرح‘ خودی زوال کا شکار بھی ہوتی ہے۔ اس کی‬ ‫بہت سی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ان میں تنہائی سب سے مہلک‬ ‫ہے۔ وہ خود الگ تھلگ ہو جاتا ہے۔ سوسائٹی اس کو الگ تھلگ‬ ‫کر دیتی ہے۔ کوئی بھی صورت ہو سکتی ہے۔‬ ‫خودی زوال کا شکار ہو یا ترقی کی منازل طے کر رہی ہو‘ صفر‬ ‫پر نہیں آتی۔ یہ بھی کہ وہ المحدود نہیں ہوتی۔ فرش‘ عرش‘‬ ‫کرسی غرض سب کچھ اس زد یا دسترس میں آ جائے‘ تو بھی‬ ‫اسے المحدود نہیں کہا جا سکتا‘ کیونکہ پوری کائنات حددوں‬ ‫میں ہے۔ جب اسے المحدود ہونے کا گمان گزرتا ہے‘ نابود ہو‬ ‫جاتی ہے۔ نمرود فرعون اور سکندر کو یہی گمان گزرا‘ تو ہی‬ ‫ہالکت سے دوچار ہوئے‘ کیوں کہ کائنات المحدود نہیں۔ دوسرا‬ ‫فنا کا عنصر‘ ہر کسی سے منسلک ہے۔ المحدود صرف اور‬ ‫صرف هللا کی ذات گرامی ہے‘ جس کا فنا کے ساتھ تعلق نہیں۔‬ ‫فنا اس کی تخلیق کردہ ہے۔ خودی کے المحدود ہونے کے لیے‬ ‫دو رستے ہیں۔‬ ‫میں ہوں کو المحدود کے تابع کر دے۔ اس ذیل میں بالل اور عمر‬ ‫بن عبدالعزیز کو بطور مثال لیا جا سکتا ہے۔ وہ عملی طور پر‬ ‫اپنا مستحکم وجود رکھتے تھے‬


‫میں ہوں کو ختم کرکے‘ المحدود میں مدغم کر دے۔ منصور اور‬ ‫سرمد‘ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ یہ دونوں‘ عملی طور پر‘‬ ‫موجود کی حاجت سے باالتر تھے۔‬ ‫ساری کائنات کی خودی مجتمع ہو جائے‘ تو بھی وہ المحدود‬ ‫نہیں ہو پاتی۔ انسان هللا کی اشرف اور احسن مخلوق ہے۔ کائنات‬ ‫میں موجود ہر شے اور ذی روح کی خودی‘ اس کے برابر نہیں‬ ‫اور یہ ان کی گرفت سے باہر ہے۔ اس کی سوچ کے حلقے‘‬ ‫کائنات کے حوالہ سے المحدود ہیں۔ یہ کیا کر ڈالے یا کروٹ لے‘‬ ‫کوئی نہیں جان پاتا۔ یہ سب کچھ ہو کر بھی‘ مخصوص حدوں‬ ‫میں ہے۔ منصور اور سرمد سے لوگوں کو اس میں نہ رکھیے۔‬ ‫اسی طرح‘ اس محترم خاتون کو بھی الگ رکھیے‘ جسے خاوند‬ ‫اور اپنی اوالد کی شہادت کی فکر نہیں۔ اس کی خودی‘ نبوت‬ ‫سے منسلک تھی۔ نبوت هللا سے منسلک تھی۔ اگر اس کی خودی‬ ‫کائنات کے دائرہ میں ہوتی‘ تو اسے خاوند‘ بچوں کے ساتھ‬ ‫ساتھ نبی کی بھی چنتا ہوتی۔‬ ‫اس سطع کی تخصیص کی صورت نہ ہوتی۔ یہ بھی کہ جبلی اور‬ ‫ممتا کے حوالہ سے‘ وہ سب سے پہلے اپنے بچوں کا پوچھتی۔‬


‫اس کے بعد خاوند اور اس ذیل میں تسلی پا کر نبی کا پوچھتی۔‬ ‫بیٹوں کی شہادت کا سن کر‘ اپنے آپے میں نہ رہتی۔ آج اگر‬ ‫بیٹوں کی عید پر قربانی کا حکم یا سنت موجود ہوتی‘ تو سچ‬ ‫یہی ہے‘ میرے سمیت‘ کوئی مسلمان ہی نہ ہوتا۔ زبانی کالمی‬ ‫کہہ دینا اور بات ہے‘ اس کہے پر عمل کرنا اس سے قطعی الگ‬ ‫بات ہے۔ اس حوالہ غور کیا جائے تو‘ خودی کا ایک دائرہ اور‬ ‫حلقہ مخصوص و محدود ہو جاتا ہے۔‬ ‫اقبال کا یہ شعر‘ بڑا واضح ہے اور اس میں کوئی عالمت اور‬ ‫استعارہ موجود نہیں۔‬ ‫خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے‬ ‫خدا بندے سے خود پوچھے‘ بتا تیری رضا کیا ہے‬ ‫خودی کو کر بلند‬ ‫اتنا کہ‬ ‫ہر تقدیر سے پہلے‬ ‫خدا بندے سے‬


‫خود پوچھے‬ ‫بتا تیری رضا کیا ہے‬ ‫اس شعر کی تفہیم کی ذیل میں یہ عناصر پیش نظر رکھیں۔‬ ‫خدا خالق اور بندہ مخلوق ہے۔ ‪٠-‬‬ ‫‪٦‬۔ دونوں ہم مرتبہ اور ہم جنس نہیں ہیں۔‬ ‫دونوں کی آگہی کی سطع ایک نہیں۔ ‪٣-‬‬ ‫‪٤‬۔ بندے کا علم عطائی ہے۔ خدا کا علم ذاتی ہے۔‬ ‫خدا قائم بذات ہے۔ بندہ قائم بذات نہیں۔ ‪٥-‬‬ ‫خدا ہر حوالہ سے بےنیاز ہے۔ ‪٢-‬‬ ‫بندے کا ذاتی کچھ نہیں‘ جو ہے خدا کا دیا ہوا ہے۔ خدا کے ‪٧-‬‬ ‫پاس جو کچھ ہے‘ بالشرک غیرے اس کا اپنا ہے۔‬ ‫خدا کو اس کی حدوں کے حوالہ سے کوئی نئیں جانتا اور ‪٨-‬‬ ‫ناہی جاننے کی بساط رکھتا ہے۔ اس کے برعکس‘ خدا بندے کو‘‬ ‫اس سے کہیں زیادہ جانتا ہے۔۔‬ ‫کسی کار کا‘ کتنا عوضانہ کتنا بنتا ہے‘ وہ کرنے والے سے‘ ‪٩-‬‬ ‫کہیں بہتر اور زیادہ جانتا ہے۔‬


‫وہ دینے کے حوالہ سے‘ محتاج اور زیردست نہیں۔ ‪٠١-‬‬ ‫وہ فضل واال ہے اور توقع سے زائد دے سکتا ہے۔ توقع ‪٠٠-‬‬ ‫سے زائد دیا بالشبہ فضل هللا ہے۔‬ ‫وہ عطا کے معاملہ میں‘ بخیل نہیں‘ غنی ہے۔ ‪٠٦-‬‬ ‫انسان کی مرضی‘ خدا کی مرضی کے ماتحت ہے۔ خدا کی ‪٠٣-‬‬ ‫مرضی‘ انسان کی مرضی کے ماتحت نہیں۔‬ ‫ڈاکٹر اقبال کا یہ شعر‘ شرک سے لبریز ہے اور میں ہوں‘ کو‬ ‫اجاگر کرتے کرتے‘ فرعونیت کی طرف لے جاتا ہے۔ فرعون بھی‬ ‫یہی گمان رکھتا تھا‘ اپنی اس کج فہمی کی وجہ سے‘ ہالکت سے‬ ‫دوچار ہوا۔ ایک عام آدمی کیا‘ نبی رسول بھی‘ اس طرح کی‬ ‫سوچ‘ نہیں سوچ سکتا۔ وہ اپنی مرضی تابع رکھنے اور ازن پر‬ ‫سربہ خم کرنے‘ کی صورت میں ہی‘ نبی ہے۔ بندہ بھی‘ تب بندہ‬ ‫ہے‘ جب وہ خدا کی مرضی کو ہی‘ حرف آخر‘ دل و دل و جان‬ ‫سے جانتا ہے۔‬ ‫ڈاکٹر اقبال کا ایک اور شعر ہے۔‬ ‫عبث ہے شکوہءتقدیر یزداں‬


‫تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے‬ ‫خودی کی سربلندی کے حوالہ سے‘ یہ شعر پہلے شعر سے‬ ‫قربت رکھا ہے۔ میں ناہیں سبھ توں‘ کے حوالہ سے‘ یہ درست‬ ‫ہے۔ ڈاکٹر اقبال اس نظریہ کے قائل نیہں ہیں اس لیے‘ اس پر‘‬ ‫میں ہوں کا اطالق ہوتا ہے۔ خودی کے تابع ہونے کی صورت‬ ‫میں‘ یزداں کی مرضی کا تابع ہے۔ کیسا‘ کس طرح اور کتنا طے‬ ‫کرنے کا حق‘ یزداں کے پاس ہی رہتا ہے۔ یہ شعر اس مفہوم کی‬ ‫طرف لے جاتا ہے کہ یزداں تقدیر کا معاملہ اپنی نہیں‘ اس کی‬ ‫مرضی اور ایما پر طے کرے۔‬ ‫ڈاکٹر اقبال یہ شعر بھی مالحظہ فرمائیں‘ کھال آمریت کا پرچار‬ ‫ہے۔‬ ‫نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ اسمان کے لیے‬ ‫جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے‬ ‫ہر چیز‘ دوسری سے‘ فطری طور پر‘ وابستہ اور انحصار ‪٠-‬‬ ‫کرتی ہے۔‬


‫یہ تو یزداں کو مکلف و مقلد کرنا ہے۔ ‪٦-‬‬ ‫اس سے‘ خود غرضی کا پہلو سامنے آتا ہے۔ ‪٣-‬‬ ‫خدمت میں‘ عظمت پوشیدہ ہے۔ ‪٤-‬‬ ‫لو سب‘ دو کچھ نہ‘ میں خودداری کی موت ہے اور یہ مومن ‪٥-‬‬ ‫کا طور اور وتیرہ ہو ہی نہیں سکتا۔‬ ‫آپ کریم سے بڑھ کر کون ہو سکتا ہے۔ آپ کریم سب کے ‪٢-‬‬ ‫لیے تھے۔‬ ‫دے کر ہی حاصل ہوتا ہے۔ ‪٧-‬‬ ‫دینے میں جو لطف پوشیدہ ہے‘ وہ لینے میں نہیں۔ ‪٨-‬‬ ‫ا جہاں ہے تیرے لیے ‪٩-‬‬ ‫ب تو نہیں جہاں کے لیے‬ ‫جہاں خدمت گزار ہو‪ -‬اس سے خدمت لینا تیرا حق ہے۔ خدمت‬ ‫تیرے فرائض میں نہیں‘ سے زیادہ غیر معقول کوئی بات نہیں ہو‬ ‫گی۔‬ ‫اقبال کے فلسفہءخودی میں‘ سارتر اور نٹشے کے‘ قدم لیتا نظر‬ ‫آتا ہے۔ یہ بھی کہ وہ تذبذب کا شکار ہیں۔ کوئی بات‘ اس وقت‬ ‫تک بااثر نہیں ہوتی‘ جب تک کہنے واال عامل نہ ہو۔ اس ذیل کی‬


‫زندگی کا دیانت دارانہ مطالعہ ضروری ٹھہرتا ہے۔ علما کرام‘‬ ‫تحریر تقریر میں‘ ڈاکٹر اقبال کا حوا لہ دینے سے پہلے‘ ان کے‬ ‫کہے پر غور فرا لیا کریں۔ یہ انداز درست نہیں‘ چونکہ یہ بات‬ ‫ڈاکٹر اقبال کی کہی ہوئی ہے‘ اس لیے غلط نہیں ہو سکتی یا اس‬ ‫میں خامی ہو ہی نہیں سکتی۔‬

‫ابوزر برقی کتب خانہ‬ ‫ترتیب و تشکیل‬ ‫کنور عباس حسنی پی ایچ ڈی‬ ‫ڈیکن یونی ورسٹی‬ ‫اسٹریلیا‬



Turn static files into dynamic content formats.

Create a flipbook
Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.