1
2
پ نچ اختص ریے مقصود حسنی ابوزر برقی کت خ نہ فروری ٧
3
فہرست میں مولوی بنوں گ
منس نہ
ایس کیوں ہے
لوک نہ
یہ اچھ ہی ہوا
لوک نہ
وہی پرانا چاا
منس نہ
سدھر ج ؤ
منس نہ
4
میں مولوی بنوں گ منس نہ میں نے تنویر کے مستقبل کے بڑے سنہرے خوا دیکھ رکھے تھے۔ ًمیں اسے بہت بڑا آدمی بن ن چ ہت تھ ۔ اس نے میٹرک میں اچھے نمبر ح صل کرکے دل خوش کر دی ۔ اسے کھیل کود سے ک کت سے زی دہ دلچسپی تھی۔ ج کبھی اسکول گی است د اس کی ت یمی ح لت کی ت ریف کرتے۔ ان کے منہ سے اپنے بیٹے کی ت ریف سن کر دل خوشی سے ب ب ہو ج ت ۔ منہ سے اس کے اچھے مستقبل کے لیے بےاختی ر ڈھیر س ری دع ئیں نکل ج تیں۔ ایف اے میں بھی ت یمی م م ہ میں اچھ رہ ۔ تھرڈ ایئر میں آی تو اس نے چھوٹی چھوٹی داڑھی رکھ لی۔ نم ز روزے ک بھی پ بند ہو گی ۔ یہ دیکھ کر اور بھی خوشی ہوئی کہ چ و ت ی میں بہتر ک رگزاری کے س تھ س تھ نیک راہ پر بھی چل نکا ہے ورنہ آج کے م حول میں بےراہروی ہی لڑکی لڑکوں ک وتیرہ بن گی ہے۔ یہ بےراہروی انہیں بدتمیز بھی بن رہی ہے۔ بڑے چھوٹے ک کوئی پ س لح ظ ہی نہیں رہ ۔ تھرڈ ایئر تو خیر سے گزر گئی اور اس نے اچھے نمبر بھی ح صل کیے۔ فورتھ ائیر ہ س کے لیے قی مت ث بت ہوئی۔ اس نے داڑھی بڑھ دی اور ایک
5
دن ک لج کی پڑھ ئی چھوڑنے ک اعان کر دی ۔ اس ک یہ اعان میرے دل و دم پر اٹی ب بن کر گرا۔ مجھے پریش نی کے س تھ س تھ حیرانی بھی ہوئی کہ آخر اسے اچ نک یہ کی ہو گی ہے۔ اس نے یہ فیص ہ کیوں کی ہے کہ میں دینی مدرسے میں داخل ہو کر مستند مولوی بنوں گ ۔ کہ ں ک لج کی پڑھ ئی کہ ں مولوی بننے ک اعان‘ عج مخمصے میں پڑ گی ۔ میں دو تین دن اس کے پیچھے پڑا رہ کہ آخر اس نے مولوی بننے ک کیوں ارادہ کی ہے۔ کچھ بت ت ہی نہ تھ ۔ چوتھے دن اس نے بڑے غصے اور اکت ئے ہوئے لہجے میں کہ کہ میں ک ر کے فتوے ج ری کرنے کے لیے مستند مولوی بنن چ ہت ہوں۔ ک ر کے فتوے۔۔۔ کس پر۔۔۔۔ مگر کیوں۔ میں پہا ک ر ک فتوی آپ کے خاف ج ری کروں گ ۔ یہ سن کر میرے طور پہوں گئے۔ میرے خاف ی نی ب پ کے خاف۔ میں اس ک کھا اعان سن کر د بہ خود رہ گی ۔ پھر میں نے پوچھ :می ں آخر ت نے مجھ میں کون سی ایسی ک ریہ ب ت دیکھ لی ہے۔ کہنے لگ :میری م ں آپ کی خ لہ زاد ہے آپ انہیں خو خو ج نتے تھے کہ بڑی بوار ہے تو ش دی کیوں کی۔ کی اور لڑکی ں مر گئی تھیں۔ آپ دونوں نے لڑ لڑ کر ہ س ک جین حرا کر دی ہے۔ غ طی آپ کی ہے کہ آپ اسے بولنے ک موقع دیتے ہیں۔
6
اییسی ب ت کیوں کرتے ہیں کہ وہ س را س را دن اور پھر رات گئے تک بولتی رہے۔ اس کی اس ب ت نے مجھے پریش ن کر دی ۔ میں نے فیض ں کو ب وای اور کہ بیٹے کے ارادے سنے ہیں ن ۔ ہ ں میں نے س کچھ سن لی ہے۔ ٹھیک ہی تو کہہ رہ ہے۔ ایسی ب ت کیوں کرتے ہیں جس سے مجھے غصہ آئے اور میں بولنے لگوں۔ چ و میں کسی دوسری جگہ تب دلہ کروا لیت ہوں لہذا ت ک لج کی پڑھ ئی ج ری رکھو۔ ہ ں ہ ں اچھ فیص ہ ہے کہ پھر ہم رے س تھ ڈٹ کر بول بوارا کرتی رہے۔ وہ ت خ اور طنز آمیز لہجے میں بوا م ں آپ فکر نہ کرو آپ بھی میرے فتوے کی زد میں آؤ گی۔ خ وند کی اتنی بےعزتی اسا میں ج ئز نہیں۔ بیٹے کی یہ ب ت سن کر وہ ہک بک رہ گئی۔ اسے امید نہ تھی کہ تنویر ایسی ب ت کرے۔ پھر ہ دونوں می ں بیوی کی نظریں م یں۔ ہ دونوں کی آنکھوں میں دکھ اور پریش نی کے ب دل تیر رہے تھے۔ ہ اسے بہت بڑا آدمی بن نے کے خوا دیکھ رہے تھے کہ بیٹ کچھ ک کچھ سوچ رہ تھ ۔ پھر ہ دونوں کے منہ سے بےاختی ر نکل گی ۔ بیٹ ت ک لج کی پڑھ ئی نہ چھوڑو ہ آگے
7
سے نہیں لڑیں گے بل کہ م مات ب ت چیت سے طے کر لی کریں گے۔ تنویر م ن ہی نہیں رہ تھ ۔ اس ک اصرار تھ کہ وہ مولوی ہی بنے گ ۔ وہ کہے ج رہ تھ کہ آپ وعدہ پر پورا نہیں اترو گے۔ ک فی دیر تکرار و اصرار ک س س ہ ج ری رہ ۔ تنویر کو آخر ہم رے تکرار اصرار کے س منے ہتھی ر ڈالن ہی پڑے اور وہ ک لج کی کت لے کر بیٹھ گی اور ہ چپ چ پ اس کے کمرے سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چ ے گیے۔
8
ایس کیوں ہے لوک نہ میں عقیدت‘ پی ر‘ محبت اور کچھ موسمی سوغ ت کی پنڈ اٹھ ئے پیر ص ح کے در دولت پر ح ضر ہوا۔ دروازے پر دستک دی۔ اندر سے ان کی بےغ ص ح دروازے پر آئیں۔ میں نے انہیں اپن ت رف کراتے ہوئے بت ی کہ میں ان ک م ننے واا خ د ہوں اور یہ سوغ ت ب طور نذرانہ لے کر ح ضر ہوا ہوں۔ بےغ ص ح نے سوغ ت کی پنڈ لے لی اور کہ :تمہ را ج ی پیر ادھر ادھر ہی کہیں دھکے کھ ت پھرت ہو گ ۔ ج ؤ ج کر تاش لو۔ اس کے انداز اور رویے پر مجھے حیرت اور پریش نی ہوئی۔ اس کے خ وند کو ایک زم نہ م نت تھ لیکن یہ ان کے لیے رائی بھر دل میں عزت نہ رکھتی تھی۔ اس ک لہجہ انتہ ئی ذلت آمیز طنز میں م وف تھ ۔ بڑا ہی حیران کن تجربہ تھ ۔ سوغ ت ح صل کرنے میں ایک منٹ کی دیر نہ کی۔ پ نی دھ نی ایک طرف اس ک اپنے خ وند کے ب رے انداز قط ی افسوس ن ک تھ ۔ کی کہت ‘ وہ میری عزت کی ج تھی۔ میں چپ چ پ وہ ں سے افسوسیہ سوچ لے کر چل دی ۔ سوچوں میں غ ط ں میں یوں ہی ایک طرف کو چل دی ۔ ابھی تھوڑی ہی دور گی ہوں گ کہ حضرت پیر ص ح آتے دکھ ئی
9
دیے۔ وہ ببر شیر پر سوار تھے۔ شیر کو لگ ڈالی ہوئی تھی ببر شیر بڑی ت ب داری سے ان کے حک کی ت میل میں قد اٹھ رہ تھ ۔ انہوں نے میری طرف دیکھ اور مسکرائے۔ فرم نے لگے: بیٹ شیر کو لگ ڈالن آس ن ک ہے مگر گھروالی کو ت بع رکھن ممکن نہیں۔ دیکھو سیدن نوح ع یہ السا کتنے بڑے انس ن تھے لیکن بیگ انہیں نہیں پہچ نتی تھی ت ہی تو ن فرم ن تھی۔ سقراط کو لے لو من رد اور ن ی شخص تھ ۔ س ری دنی عزت کرتی تھی لیکن گھروالی اسے نہیں پہچ نتی تھی‘ ت ہی تو گست خ تھی۔ یہ بھی ی د رکھو! پیٹ نواز ح ظ مرات ج ن لیں تو زندگی نکھر نہ ج ئے۔ بیٹ دل میں مال نہ اؤ۔ جو ت نے دیکھ وہ اس کی کرنی ہے برداشت ہ کے احس ن سے میرا ف ل ہے۔ میں درحقیقت اپنی گھر والی کی شک یت لے کر گی تھ اور چ ہت تھ کہ وہ دع فرم ئیں ت کہ اس ک منہ بند ہو ج ئے۔ واپسی پر سوچت سوچت آ رہ تھ کہ ہ تو م مولی لوگ ہیں‘ پیر ص ح سے بڑے لوگ ان بیبیوں کے س منے بےبس ہیں۔ میں سوچ رہ تھ کہ ایس کیوں ہے۔ پھر خی ل گزرا کہ ان بیبیوں کے س منے رات تنہ ئی میں ف ل مخصوص انج دینے کے دوران کمل م رنے واا شخص ہوت ہے اور وہ اسی تن ظر میں صبح انج پ نے والے امور کو دیکھتی ہیں اور وہ س انہیں خودس ختہ س
10
محسوس ہوت ہے ح اں کہ وہ ہر اچھ ہ کی رض کے لیے انج دے رہے ہوتے ہیں۔ ممکن ہے یہ سوچ غ ط اور بےبنی د ہو لیکن کہیں ن کہیں اور کسی سطح پر اس امر ک عمل دخل ضرور ہوت ہے۔
11
یہ اچھ ہی ہوا لوک نہ عاقے کے مولوی ص ح دھنیے دک ن دار سے ادھ ر سودا لی کرتے تھے۔ چوں کہ مولوی ص ح تھے اس لیے وہ بڑی برداشت اور لح ظ مروت سے ادھ ر سودا دیت رہ ۔ ادھ ر کی رق ک فی ہو گئی اور م م ہ دھنیے کی بس ت و برداشت سے ب ہر ہو گی تو اس نے ادھ ر سودا دینے سے ص ف انک ر کر دی ۔ مولوی ص ح نے کہ :اگر ت نے سودا نہ دی تو یہ تمہ رے لیے اچھ نہ ہو گ ۔ دھنیے نے کہ :ٹھیک ہے جو ہو گ دیکھ ج ئے گ ۔ مولوی ص ح نے اس کی ج ن طنز آمیز غصے سے دیکھ ۔ دھنیے کے چہرے پر کسی قس کی فکرمندی ی مال نہ تھ ۔ گوی یہ ہی ت ثر تھ کہ جو ہو گ دیکھ ج ئے گ ۔ مولوی ص ح کو تین قول پورے کرن چ ہیے تھے لیکن انہوں نے دوسری ب ر کچھ کہنے ی وارننگ کو مذید زوردار اور سخت بن نے کی زحمت ہی نہ اٹھ ئی اور پیر پٹکتے ہوئے وہ ں سے روانہ ہو گئے۔ ج تے ہیں تو ج ئیں دھین بڑبڑای اور اس نے ان کی ج ن سرسری نظر سے بھی نہ دیکھ ۔
12
مولوی ص ح نے مسجد میں آ کر سپیکر کھوا اور دکھ بھری آواز میں اعان کی ۔ حضرات ایک ضروری اعان سنیے۔ بڑے دکھ اور افسوس کی ب ت ہے کہ دھنی دک ن دار وہ بی ہو گی ہے لہذا اس سے کسی قس کی سودا نہ خریدا ج ئے اور نہ کسی قس ک لین دین ی بول چ ل رکھ ج ئے جو اس سے سودا خریدے گ ی کسی قس ک لین دین کرے گ ی بول چ ل رکھے گ سیدھ جہن کی بھڑکتی آگ میں ج ئے گ ۔ لوگوں نے دھنیے سے ہر قس کی خریداری بول چ ل اور لین دین بند کر دی ۔ اس کے ب د دھنی س را دن ہ تھ پہ ہ تھ دھرے بیٹھ بدنصیبی کی مکھی ں م رت رہت ۔ کوئی اس کی دک ن کے نزدیک سے بھی نہ گزرت ۔ کچھ دن تو اس نے برداشت سے ک لی ج ب ئیک ٹ میں کسی قس کی لچک پیدا نہ ہوئی تو وہ مولوی ص ح کے در دولت پر ح ضر ہوا اور ہتھی ر ڈالتے ہوئے کہنے لگ :مولوی ص ح آپ جتن جی چ ہے سودا لے لیں لیکن یہ کٹھور پ بندی اٹھ لیں۔ مولوی ص ح اس کی دک ن پر گئے اور اچھ خ ص سودا لی ۔ سودا گھر پر چھوڑ کر مسجد میں ج کر اعان کی ۔ حضرات آپ کے لیے خوشی کی یہ ہے ب ت کہ دھنی دک ن دار ت ئ ہو گی ہے ا اسی سے سودا خرید کی کریں کہیں اور سے سودا نہ
13
خریدیں ۔ اپن قریبی دک ن دار چھوڑ کر کسی اور سے سودا خریدنے سے پ پ لگت ہے۔ دھنیے نے ایشور ک شکریہ ادا کی اور چھری پہ ے سے تیز کر دی۔ اپنی اصل میں ب لوسطہ دھنیے کے لیے یہ اچھ ہی ہوا کہ اس کے من فع کی شرح میں ہرچند اض فہ ہی ہوا۔
14
وہی پرانا چاا منس نہ بیٹی کو رخصتی کے وقت یہ سختی سے ہداہت کی ج نی چ ہیے کہ وہ میکہ کی کوئی من ی ب ت سسرال میں ی سسرال کی کوئی من ی ب ت میکہ میں شیئر نہ کرے۔ اس ع ت بد کے سب غ ط فہمی ں جن لیتی ہیں جو ب د میں ت خیوں ک سب بن ج تی ہیں۔ ہنستی مسکراتی زندگی پریش نیوں میں بدل ج تی ہے۔ بدقسمتی سے گھر کے گھر اس بیم ری کے ب عث تب ہ ہو ج تے ہیں۔ یہ ہی لوتی ں ب د میں کورٹ کچہری والوں کی کھٹی ک ذری ہ بن ج تی ہیں۔ ڈاکٹر ہوں کہ یہ کورٹ کچہری والے‘ ہنستے مسکراتے چ تے پھرتے لوگ انہیں بھ ے نہں لگتے۔ حنیف گربت کی چکی میں پس رہ تھ ۔ س را دن مشقت میں کٹ ج ت ۔ رات می ں بیوی کی ای نی چخ چخ میں گزر ج تی۔ دونوں می ں بیوی کو پچھ وں میں چھوٹی چھوٹی ب ت شیئر کرنے کی ع دت بد اح تھی۔ پچھ ے کوئی م لی مدد تو نہ کرتے ہ ں دونوں می ں بیوی میں غ ط فہمی ں پیدا کرنے والے سب ضرور پڑھ تے رہتے تھے۔ یہ تھے کہ اس ع دت سے ب ز ہی نہیں آ رہے تھے۔ پچھ وں کے پڑھ ئے گئے اسب کی وجہ سے ان کے درمی ن ن رتوں میں ہرچند اض فہ ہی ہوت چا ج رہ تھ ۔
15
انہوں نے کبھی سر جوڑ کر ح ات سے لڑنے کی مش ورت کی ضرورت ہی محسوس نہ کی تھی ح اں کہ ایسے ح ات میں سر جوڑ کر مش ورت بہت ضروری ہوتی ہے۔ خدا م و حنیف کی کس طرح درک لگ گئی کہ اس کی بیرون م ک میں سرک ری نوکری لگ گئی۔ پھر کی تھ ‘ نوٹ آن شروع ہو گئے۔ جہ ں بھوک بھنگڑے ڈالتی تھی وہ ں رج کے نق رے بجن شروع ہو گئے۔ جو بیوی کو رق بھجت اس کی خبریں پچھ وں کو بھجوا دیت ۔ ادھر اس کی بیوی میکہ اور ارد گرد میں یہ مشہور کرنے بیٹھ گئی جو کم ت ہے اپنے پچھ وں کو بھجوا دیت ہے اور ہ اسی طرح گربت کی زندگی گزارتے ہیں۔ ج کہ حقیقت یہ تھی کہ جو حنیف بھجوات اس سے اس کے میکہ کی بھوک نک نے لگی تھی۔ اس غ طی کے سب دونوں خ ندانوں میں اٹ کتے ک بیر چل نکا۔ وہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے بھی روادار نہ رہے۔ حنیف چھٹی پر آی تو اطراف سے خو لون مرچ مح لحہ لگ کر اسے خبریں دی گئیں۔ بج ئے چھٹی کے دن ہنس کھیڈ کر گزارے ج تے جنگ جدل کی عم ی کی یتں ط ری رہیں۔ ان کی اس ب ہمی بکواس کے سب بچے بڑے ڈسٹر ہوتے۔ ج چھٹی ک ٹ کر ج نے لگ تو اس نے عن ئت ں کو گھر سے نک ل دی ۔
16
چند دن تو اس نے بھ ئیوں کے ہ ں گزارے۔ ب ہر سے آئی رق سے اس نے پ ئی بھی جمع نہ کی تھی۔ کھ نے والے ک کھا سکتے ہیں۔ وہ ں اس کی زندگی عذا ہو گئی۔ بچے کھ نے پینے کی چیزوں تک کو ترسنے لگے۔ حنیف نے رق بھجوان بند کر دی۔ حنیف کے بڑے بھ ئی نے بچوں کی یہ ح لت دیکھی تو بڑا افسردہ ہوا۔ اس نے بچوں کو کچھ کھ نے پینے کی چیزیں بھجوان شروع کر دیں۔ اپنے ہی لوگوں کو یہ برداشت نہ ہوا۔ اس امر کی بڑھ چڑھ کر حنیف کو خبریں بیجھن شروع کر دیں۔ حنیف کو بھ ئی کی اس حرکت پر سخت غصہ آی ۔ اس نے ٹی ی فون پر اپنے بڑے بھ ئی کی بڑی بےعزتی کی۔ اس نے کسی الزا سے بچنے کے لیے عن ئت ں اور بچوں کو کچھ بیجھن بند کر دی ۔ پھر ہون کی تھ ‘ ب پ کی بھری جی ہوتے بچے بھوکوں مرنے لگے۔ ہ تو ن فرم ن سے ن فرم ن ک رز بند نہیں کرت بل کہ اسے سدھرنے کے مواقع مسیر کرت ہے اگر نہ سمجھے تو وہ اپنی ہی کسی کرنی میں پھنس ج ت ہے۔ حنیف کے دم میں اوق ت سے ب ہر میسر ک فتور آ گی تھ اور وہ یہ سوچنے سے ع ری ہو گی تھ کہ رز تو ہ ک دی ہوا ہے اور اس کی جی میں پڑا بھی ہ ہی ک ہے۔ وہ تو اپنے س نس ک بھی م لک و وارث نہیں۔
17
پت نہیں اس سے کی ہو گی اور وہ نوکری سے نک ل ب ہر کر دی گی ۔ جوتے چٹخ ت ہوا واپس لوٹ آی ۔ اس نے عن ئت ں سے چھٹک رے کے لیے عدالت میں مقدمہ دائر کر دی ۔ جو س تھ ای تھ کورٹ کچہری کی نذر ہو گی ۔ دوب رہ سے مشقت کی ج ن راغ ہوا۔ اس سے پہ ے کی طرح ک نہیں ہو پ رہ تھ ۔ بڑے بھ ئی نے ک فی بھ گ دوڑ کی اور دونوں می ں بیوی کی صاح کروا دی۔ ان دنوں دونوں می ں بیوی ایک چھت کے نیچے رہ رہے تھے لیکن اتن بڑا جھٹک لگنے کے ب وجود انہیں عقل نہیں آئی تھی اور ا بھی ان ک چ ا وہ ہی پران تھ ۔
18
سدھر ج ؤ منس نہ خوش ح ل زندگی کون گزارن نہیں چ ہت ۔ خوش ح ل زندگی کے لیے ہر کوئی کوشش اور محنت کرت ہے۔ اٹھتے بیٹھتے چ تے پھرتے سوتے ج تے سوچت اور سو طرح کے منصوبے بن ت ہے۔ یہ الگ ب ت ہے کہ اس کی کوشش اور سوچ ک ثمرہ محدود رہت ہے اور ان حد دولت اس کے پ س آ نہیں پ تی۔ آنکھ کی سیری نہ ہونے کے ب عث پریش نی بےسکونی اور گھر میں ب ہمی غ ط فہمیوں کے س ئے خت ہونے ک ن ہی نہیں لیتے۔ س کچھ میسر ہونے کے ب وجود م یوسی کی فض ط ری رہتی ہے۔ قن عت ک آئینہ اندھ ہو ج ت ہے اور شخص اپنی حقیقی صورت دیکھنے سے بھی م ذور ہو ج ت ہے۔ الے کر دین کے شریف اور بھام نس ہونے میں قط ی شبہ نہیں کی ج سکت ۔ زبردست مشقتی تھ ۔ وہ میسر پر گزارا کرنے واا شخص تھ لیکن اس کے بیوی بچے اس قم ش کے نہ تھے۔ وہ دنی کی س ری دولت گرہ کر لینے کی ہوس رکھتے تھے۔ اس ک محنت نہ ان کی ہوس کے پ سنگ نہ تھ ۔ ان کی اس ہوس کے ب عث گھر میں ہر وقت بےچینی اور بےسکونی کی کی یت ط ری رہتی۔
19
وہ اکثر سوچت آخر اس ک جر کی ہے جو اس کے اپنے گھر والے اسے سزا دے رہے ہیں۔ ف ر تو نہیں رہت ۔۔۔۔ جوا نہیں کھ ت ۔۔۔۔ شرا نہیں پیت ۔۔۔۔ عورتوں کے پیچھے نہیں ج ت ۔۔۔۔ س را دن مشقت کرت ہے اور جو میسر آت ہے ان لوگوں پر خرچ کر دیت ہے۔ یہ ہیں کہ خوش ہی نہیں ہوتے۔ خدمت تو دور رہی‘ ان کے پ س تو اس کے لیے ایک مسکراہٹ تک نہیں۔ ج دیکھو گ ے شکوے‘ بول بوارا۔ آخر اس ک جر کی ہے۔ اس نے کی کی ہے جس کی یہ لوگ اسے سزا دے رہے ہیں۔ اس روز اس نے طے کر لی کہ شیداں سے ضرور پوچھے گ کہ اس ک جر کی ہے اور وہ کی کرے کہ اس کی زب ن بند ہو ج ئے۔ قدرتی ب ت تھی کہ اس روز ج نے کیوں شیداں ک موڈ خوشگوار تھ ۔ اس نے موقع کو غنیمت ج ن اور شیداں سے پوچھ ہی لی کہ اس میں کی پرائی اور خرابی ہے کہ وہ ہر وقت ٹکوا لے کر اس کے پیچھے پڑی رہتی ہے اور وہ کی کرے جس سے گھر میں سکھ اورش نتی کی فض ق ئ ہو۔ شیداں نے جواب کہ کہ وہ سدھر ج ئے اپنی ان حرکتوں سے ب ز آ ج ئے۔ اس نے کہ یہ ہی تو میں ج نن چ ہت ہوں کہ کن حرکتوں سے ب ز آ ج ؤں۔
20
اپنی کم ئی غیروں پر خرچ کرن بند کر دو۔ اپنے بچوں ک ح نہ م رو۔ ت کن غیروں کی ب ت کر رہی ہو جن پر میں اپنی کم ئی ض ئع کر رہ ہوں۔ کہنے لگی بڑے بھولے بنتے ہو۔ س کچھ م ں ف ےکٹن اور اپنی کمینی بہن کو کھا رہے ہو۔ ہمیں دیتے ہی کی ہو۔ وہ ج نت تھ کہ شیداں کو کی پیڑ ہے اور وہ کیوں روا ڈالتی ہے۔ وہ م ں کو دیت ہی کی تھ ۔ ہ تے عشرے ب د چند ٹکے اور بیوہ بہن اور اس کے بچوں کو عید شبرات پر سستے قس کے ک ُپڑے بن دیت تھ اور بس۔ یہ ہی اسے کھٹکتے تھے۔ م ں اور بہن ک اس پر ح تھ ۔ شیداں ج بھی بولتی اس کی م ں کو ف ےکٹن کہتی ج کہ اپنی م ں کو ہمیشہ امی ج ن کہتی۔ ج اس کی م ں آتی تو بوتھ ٹیڑھ کر لیتی پ نی تک نہ پوچھتی۔ ج اس کی م ں آتی تو امی ج ن امی ج ن کرتی اس کے آگے پیچھے ہوتی۔ خو خدمت تواضح کرتی۔ یہ ہی نہیں اچھ پک تک ان کے گھر بھجوا کر س نس لیتی۔ بچت کرکے اس کی چوری چھپے مٹھی بھی گر کرتی رہتی تھی۔ بھ ئی کے بیٹے ک اسکول ک خرچ اٹھ ی ہوا تھ ۔ بھ ئی تھ کہ سیدھے منہ سے حضرت ک سا بان پسند نہیں کرت تھ ۔
21
اگر کبھی کبھ ر م ں کو پنج دس روپے دے دیت ہے تو اس سے کی فر پڑت ہے۔ کون س روز روز دیت ہے۔ رہ گئی بہن اس کو کی دیت ہے۔ عید شبرات پر تیسرے درجے کے کپڑے اور بس۔ وہ کہتی تو پھر اتنی کم ئی کہ ں ج تی ہے۔ اتنی پر اسے بڑا ت ؤ آت جیسے اس کے ب پ نے دو مرب ے زمین اس کے ن کر دی ہو ی جہیز میں م یں ائی تھی۔ کم ئی کی تھی وہ ہی دن بھر ک محنت نہ جو وہ ان پر خرچ کر دیت تھ ۔ وہ سوچت رہ کہ دنی کوئی آرا دہ مق نہیں ہے۔ ب ہر دنی اور گھر میں اپنے لوگ زمین پر پ ؤں نہیں آنے دیتے۔ کتن بھی کچھ کر لو‘ خوش نہیں ہوتے۔ ایک ہ ہی ہے جو م مولی سی اچھ ئی پر خوش ہو ج ت ہے۔ اس روز وہ بڑا ہی ڈس ہ رٹ ہوا تھ ۔ کچھ بھی کر لے‘ کتنی قسمیں کھ لے‘ گھر میں کوئی یقین کرنے واا نہیں تھ ۔ اس کے سوچ کے ح قے گہرے ہوتے چ ے گئے۔ اسے ی د آی شیداں نے کہ تھ کہ سدھر ج ؤ۔ اس نے سوچ یہ سدھرن کی ہے۔ ہ کی طرف پھرن ہی تو اپنی حقیقت میں سدھرن ہے۔ اس نے پہ ی ب ر ہ کو دل سے پ د کی اور درود پ ک پڑھنے لگ ۔ ابھی آدھ بھی نہیں پڑھ پ ی ہو گ کہ گہری اور پرسکون نیند نے اسے اپنی آغوش میں لے لی ۔
22
بےشک ہ اور اس کے رسول کے ہ ں ہی سکھ اور چین کی دنی آب د ہے۔ اگر موت جو لمبی نیند ہے‘ میسر نہ ہوتی تو دنی میں پ گ وں اور وحشیوں کے سوا کے سوا کچھ نہ ہوت ۔
23