1
مقصود حسنی بطور تجزیہ نگ ر تحریر پروفیسر نی مت ع ی مرتض ئی
ابوزر برقی کت خ نہ مئی ٧
ا
2
مقصود حسنی بطور تجزیہ نگ ر
کچھ لوگوں ک وجود ہر کسی کے لئے مس ود ہوت ہے۔ وہ م ہ و مہر کی طرح ہر کسی کو نہ صرف نور ب نٹے ہیں ب کہ ان کی ہر طرح سے رہنم ئی بھی کرتے ہیں۔ ان کے اندر آ حی ت کے ایسے چشمے اب تے ہیں کہ جو بھی ان کی قربت ک ج نوش کرت ہے عمر ج وداں ک سرور پ ت ہے۔ آسم ن ع و اد ک ایک ایس ہی ت بندہ ست رہ مقصود حسنی کے ن سے ع لمی سطح پر اپنی کرنیں بکھیر رہ ہے۔وہ راہ اد کے ہزاروں تشنہ لبوں کی منزل مقصود ہیں۔ ان کی ادبی زندگی ک س ر نصف صدی سے زی دہ عرصے پر محیط ہے جس میں انہوں نے اپنی ذہ نت کے تیشے کو فرہ د کے جذبے سے آشن رکھ کر اد کے کوہ گراں سے جوئے شیر نک لنے کی ب مراد س ی فرم ئی ہے۔انہوں نے اردو اد ک دامن نت نئے موضوع ت اور اصن ف سے بھرنے کے س تھ س تھ بہت سے دوسرے شہسواران اد کے لئے خضر راہ ک ک بھی کی ۔ عالوہ ازیں انہوں نے تنقید جیسے حس س اور س ئنس مزاج
3
میدان میں بھی اپن لوہ منوای ہے۔ بال شبہ تنقید ایک مشکل فی ڈ ہے۔ اس میں ج نبداری سے اپن دامن بچ ن مشکل ہی نہیں ب ض اوق ت ن ممکن بھی ہو ج ت ہے۔ ’سچ آکھی ں بھ نبڑ مچدا اے‘ کی مصدا یہ صنف اد بہت سوں کو سچ کے قری پھٹکنے کی اج زت بھی نہیں دیتی۔ اور وہ کسی ت کے محور کے گرد ایسے گھومتے ہیں کہ تنقید بچ ری ہ تھ م تے رہ ج تی ہے۔ق ضی ک عہدہ اگر انص ف کی ج ئے تو سولوں کی سیج سے کسی طرح بھی ک نہیں ہوت اور اگر ن انص فی کرنی ہو اس جیسی موج بھی کہیں نہیں م تی۔مقصود حسنی نے پہال رستہ اپن ی ہے۔جس میں تنقید ک اصل کردار زندہ رہت ہے ی نی کسی چیز کو اس کی اچھ ئی ،برائی کے س تھ بی ن کرن ۔ اگرچہ تکری انس نیت ان ک مذہ ہے لیکن وہ کسی اد پ رے کی ت ریف و تحسین ن من س انداز میں کرنے سے مکمل طور پر اجتن برتتے ہیں۔ وہ اصول رکھتے ہیں کہ تنقید کی حیثیت ام نت جیسی ہے اس میں ن ج ئز ت ریف ی تنقیص انس ن کو توازن اور اعتد ال سے کوسوں دور کر دیتی ہے۔
4
وہ جہ ں تخ ی کے میدان میں سیم بی مزاج کے م لک ہیں وہ ں تنقید میں بھی وہ کسی منزل کو آخری منزل نہیں سمجھتے۔ اگرچہ وہ بہت سی من زل طے کر چکے ہیں لیکن وہ اکت کہیں بھی نہیں کر رہے۔ اور کسی تخ ی ی تنقید کو اپنی آخری پیش کش نہیں گردانتے۔ کیوں کہ وہ یہ ک اس لئے نہیں کرتے کہ ان ک مزاج ادبی ہے ب کہ وہ یہ ک اس لئے کرتے ہیں کہ ان کی روح ادبی ہے جو کہیں تھک کر بیٹھ ج نے کی ق ئل نہیں۔ان کی انتھک ک وش ہی ک ثمر ہے کہ آج ان پر کتنے ہی ای فل اور پی ایچ۔ڈی کے مق لے ہو رہے ہیں۔ ان ک ک صرف یہ نہیں کہ مقدار میں ق رون ک خزانہ لگت ہے ب کہ تخیل اور م ی ر میں بھی ح ت ط ئی کی سخ وت سے فزوں تر ہے۔ یہ س کرشمے ان کی بے ت روح کے ہیں جو ان کے ذہن کو نت نئے خی الت سے لبریز رکھتی ہے اور ان ک ذہن ،ان کے ق کو محو پرواز رہنے پر راضی رکھت ہے۔ لکھن ان کی زندگی ہے۔ وہ لکھے بغیر وقت گزارن م یو سمجھتے ہیں۔ وقت ک تق ض ہے کہ اس گ وبل ولیج ی ع لمی گ ؤں کے م ی رات تحقی و تنقید سے بھی واق یت ح صل ہو ۔ جن
5
سے شن س ئی کے بغیر ب ت مشر و مغر میں یکس ں طور پر پذیرائی مشکل ہے۔آج کی سوچ اورا ادراک عالق ئی نہیں ب کہ بین االقوامی ہیں۔ اس لئے آج کے ش ور کو مشر و مغر کی ت ہی رکھن ن گزیر ہے۔ مقصود حسنی اس حقیقت سے کئی س ل پہ ے ہی آگ ہی ح صل کر چکے تھے۔ انہوں نے مشر کے س تھ س تھ مغر ک بھی بھرپور مط ل ہ کی ہے۔ اور اس طرح وہ صراط مشرقین و مغربین ہیں۔ ان کی تجزی تی اپروچ انہی افقوں سے ابھرتی ہوئی نصف النہ ر تک ج پہنچتی ہے جہ ں ان سے اختالف کی گنج ئش تو رہ سکتی ہے لیکن انک ر کی گنج ئش نہیں رہتی۔ ان کی تجزی تی تحریریں قریب ً قریب ً ہر اس صنف پر ہیں جن کو اد ایک صنف ک درجہ دیت ہے۔ وہ ش عری اور نثر دونوں میں کم ل کی مہ رت اور بصیرت رکھتے ہیں۔اگرچہ کسی ایک صنف ک نق د اس میں کہنہ مش ہو کر ایک بہتری رائے ق ئ کرت ہے ،لیکن مقصود حسنی ک کم ل یہ ہے کہ وہ ہر صنف میں ہی کہنہ مش اور ب کم ل لگتے ہیں۔ وہ نثرپ روں کی تجزی تی توجیح کر رہے ہوں ی
6
ش عری کی رمز آفرینی سے حظ اٹھ رہے ہوں ان کی ب ریک نگ ہی سے کسی عی و ہنر ک بچ نک ن مح ل ہے۔ وہ سرسری ب ت میں بھی گہرائی تک رس ئی کی دسترس رکھتے ہیں۔ اور ج وہ کسی ادبی ک وش کو تجزیہ نگ ری کی خوردبین میں دیکھ رہے ہوتے ہیں تو ان ک فوکس کوئی ایک نقطہ ی مرکز نہیں ہوت وہ اس اد پ رے کو م ضی ،ح ل اور مستقبل ہر زاویئے سے پرکھنے اور ج نچنے ک فریضہ ادا کرتے ہیں۔ کی سی حیثیت رکھت ہے وہ ) (tannarایک نق د ایک ٹینر اس اد پ رے کی کھ ل سے جیسے چ ہے چمڑے تی ر کر سکت ہے ۔ وہ اس کو جیسے چ ہے رنگوں میں ڈھ ل کر دکھ سکت ہے۔ لیکن یہ مہ رت ہر ٹینر میں نہیں ہوتی۔ مقصود حسنی ک بال شبہ ایس دب کہ ج سکت ہے جو کسی اد پ رے کی جیسی چ ہے تجزی کر کے دکھ سکت ہے۔ لیکن ایک ب ت ضرور ہے کہ وہ ام نت اور دی نت ک دامن ہ تھ سے کسی قیمت پر نہیں چھوڑتے۔ وہ اپنے مخ لف خی ل لوگوں کی تخ یق ت کو بھی انہی عدسوں کے ذری ے پرکھتے ہیں جن عدسوں سے وہ اپنے ہ خی ل
7
احب کی تحریروں پر اظہ ر خی ل کرتے ہیں۔ان کے میزان عدل ان کو غیر م قول کرنے ہی نہیں دیت ۔ ان کی طرف سے کہی ی لکھی ج نے والی ہر ب ت اپنے س تھ م قولیت اور توازن رکھتی ہے۔وہ ضرورت سے زی دہ ایک ل ظ ک است م ل بھی ادبی فضول خرچی سمجھتے ہیں اوراس سے مکمل اجتن کرتے ہیں۔وہ جو اصول و ضوابط اپنی تحریروں پر ن فذ کرتے ہیں انہیں دوسروں کی تخ یق ت میں بھی تالش کرتے ہیں۔ وہ دوہرے م ی ر سے ک لینے کے ق ئل نہیں۔ ان ج ئزوں سے یہ ب ت ق ری پر یوں منکشف ہوتی ہے جیسے صبح ک اج الاپنے آپ کو منوا ت ہے۔ان کے ج ئزے حوص ہ شکنی کی ڈگر پر نہیں چ تے ب کہ وہ بڑوں ک احترا اور چھوٹوں سے محبت کی پ لیسی اختی ر کرتے ہوئے تنقید ک کٹھن فریضہ انج دیتے ہیں۔ وہ اد پرور اور اد افزاتجزیہ نگ ر ہیں۔ وہ اصالح برائے بق نہ کہ اصالح برائے فن کے ع مبردار ہیں۔ ان کے ادبی ج ئزوں نے بہت سوں میں نی جوش و خروش لیکن پہ ے سے زی دہ ہوش کے س تھ پیدا کی ہے۔ وہ کسی نووارد ک رستہ
8
مسدود نہیں کرتے ب کہ اسے ایک گھنے برگد کی چھ ؤں میں بیٹھ کر اپنی صالحیتوں کو چ ر چ ند اور اپنے تیشہء تخ ی کو نئے پیکر تراشنے ک بھرپور موقع فراہ کرتے ہیں۔ ان کے تجزیئے اپنی زب ن کے لح ظ سے بھی ق بل ت ریف ٹھہرتے ہیں۔ وہ زب ن کو کبھی بھی ق ری ک مسئ ہ نہیں بننے دیتے اور نہ ہی اسے ع می نہ ہونے کی کھ ی چھٹی دیتے ہیں۔ وہ ایسی نپی ت ی زب ن ک است م ل کرتے ہیں کہ اد کی حالوت بھی رہتی ہے اور ابال ک فریضہ بھی ادا ہوت ہے۔ وہ پر ک ری سے بھری س دگی ک خو است م ل کرتے ہیں کہ اس س دگی پہ کون نہ مر ج ئے اے خدا اد کے س تھ س تھ ادبی ح قوں میں ایک اور اجنبی م نوس ہوت ج رہ ہے۔ اور اس اجنبی ک ع ت رف لس نی ت کے ن سے کروای ج ت ہے۔ مقصود حسنی کی دور رس نگ ہوں نے بہت پہ ے ہی اس اجنبی کے قدموں
9
کی چ پ سن لی تھی اور اسے شیشے میں ات رنے کی بھرپور کوشش بھی کر لی تھی اور کسی حد تک ات ر بھی لی تھ ۔ انہوں نے لس نی ت کے میدان کو بھی اپنے فیض سے محرو نہیں رکھ ۔ب کہ اس میں بہت س ک کر دکھ ی اور اپنے ہ عصروں کو ورطہء حیرت میں ڈال دی کہ وہ یہ بھی کر سکتے ہیں۔ یہی نہیں انہوں نے لس نی تی تجزیئے بھی کر ڈالے اور اد پ روں کی لس نی ت پر یوں کھل کر ب ت کی کہ اد کی بہت سی ن نہ د بڑی شخصی ت انگشت بہ دنداں ہو گئیں۔ ان کے لس نی تجزیئے لس نی ت پر ک کرنے والوں کے لئے مین ر نور ہیں ۔ الغرض مقصود حسنی کے ادبی اور لس نی تجزیوں کے ج ئزے سے یہ ب ت کھل کر س منے آتی ہے کہ وہ اپنے اندر ایک اچھے نق د سے زی دہ ایک اچھ انس ن رکھتے ہیں۔ وہ عی چھپ تے ہیں لیکن کسی ک ح نہیں م رتے۔ وہ تجزیئے میں مروت ک دامن بھی تھ مے رکھتے ہیں۔وہ اصول و ضوابط کی حرمت کو پ م ل نہیں کرتے لیکن انس ن کو ان سے ب ال تر بھی سمجھتے ہیں۔ وہ ل ظ کوشخص ک ت بع قرار دیتے ہیں۔وہ اد اور انس نیت کو ایک قرار دیتے
10
ہیں ب کہ انس نیت کو اد پر ترجیح دیتے ہیں اور یہی اصول وہ اپنے تجزیوں میں بھی اپالئی کرتے نظر آتے ہیں۔
11
Alsalam o Alaikum It is my good fortune that I had an opportunity to talk about a great legend of world literature .Dr, Prof Syyed Maqsood Hasni is a great critic of linguistics.H e inaugorated a wonderful polyphonic signifier to understand Ghalib.He rejected older terminology of criticism.The methods of literary scholarship introduced by this great scholar will be remembered for ever .I think respected critic believes in dialectical materialism .His services for bringing awareness about synthesis of philosophical
12
orientation of style ,discourse and language is worth mentioning.The mastery of material diversity in this article has impressed me .I pray for you.Pay my complements to the great legend of linguistics Dr. Prof,Syyed Maqsood Hasni.May God Almighty bless you all. Thank you very much sir ,I appreciate your genius. By: Snober Khan, Rangoon Jan, 21 2016 1 Like
13
bohat shukarya keh ap ne meri is kawash ko kabl e tehsin samjha. maqsood hasni be shak aik bara nam hy, us per kush likhna bohat ehtiat aur wakt ka mutkazi hy. Thanks a lot! By: Niamat Ali, Kasur Jan, 21 2016 1 Like
14
میڈا س ئیں جہوندے رہو تے پل پل سکھ ں دے ن ل پئے وسو السال ع یک پیر تے مرشد پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی اد دی کہکش ں دا الٹ ں م ردا خورشید اے۔غ لبی ت اقب لی ت ،افس نے ،تنقید ،تحقی ،تدریس تے ف س ہ دے ش بت وچ پیر ہوراں دے اشہ ق دی ں جو النی ں تو س ری دنی واقف اے۔میڈے گویڑ وچ ایہہ گل آندی اے کہ س ئیں ہوریں قصور دے اسالمیہ ک لج وچ اردو دے است دسن۔اوہن ں کے ش گرد اپنے محسن است د دا ذکر بہوں عقیدت ن ل کرد ے نیں،ٹورنٹو وچ اوہن ں دی ہک مداح م ی،جہڑی اوہن ں دی ں لکھت ں انٹرنیٹ تے مط ل ہ کردی سی۔میں وی ایہہ لکھت ں پڑھی ں نیں۔چودہ طب روشن ہو ج ندے نیں۔روشن خ یل،جدت ،تنوع ،حریت فکر ،حریت ضمیر دا ایہہ ب ند م ی ر میکوں بھ گی ۔میڈے ولوں ڈھیر مبھ رکھ ں۔ مضمون بہوں چنگ لگ اے ۔سچ لکھی ای بھراوا توں اج دا گ من سچی ر تیرے منھ وچ گھیو تے کھنڈ
15
عمر دراز ہووی ش ال سدا ش د ،آب د تے آزاد پی وسیں او سوہن س نوال۔ دل خوش کر دت ای۔ By: sher Khan, Toronto Jan, 20 2016 1 Like
16
bohat bohat meharbani aur nawazish ap ne hamari is koshish ko saraha. Allah ap ko khush rakhey aur ap hum jeso pe meharbani fermatey rahin. Thanks a lot ! By: Niamat Ali, Kasur Jan, 21 2016 1 Like
17
tosaan de khlous mohabat tay ais bharvein tovajo da shukarriya ada karna mushkil ee naein na'momkin vi ay. maray tay lissay banday wal tohaday jay vaday zaraf walay bandy ee tovajo kar sakday ne. dua ay: Allah sohna tohanoon ki khush rakhe tay kisay da vi mahtay na karay. Ohdi janab tohanoon rang bhag laee rakhe. By: maqsood hasni, kasur Jan, 20 2016 1 Like
18
Thank you Sir .It is your wisdom and greatness that you gave your wise opinion on my humble .comments.You are a legend of world literature By: sujawal Khan, D.G Khan Jan, 20 2016 1 Like
19
س ئیں جیوے ش ال سدا سکھی پئے وسو پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی ع تے اد دا ہک سورج اے جس دی الٹ ن ن ل پوری دنی منور ہو گئی اے ۔تس ں ایہہ مضمون لکھ کے دنی دے ہک مہ ن لکھ ری نو چنگ خرج تحسین پیش کیت اے ۔ہللا کری تس نوں ایس دا اجر عظی عط فرم ئے۔پ کست تے ب ہر دے م ک ں وچ ایس اچے پدھر دے لکھ ری ب رے کسے رع رد دی ضرورت نہیں۔ہزار توں ودھ مضمون لکھن وال تے پنج ہ تو ودھ کت ب ں دا مصنف س ڈ ا م ن تران اے۔ ایس کہ ں سے الئیں کہ تجھ س کہیں جسے میں تے ایہہ گل کرا ں گ کون ست رے چھو سکت ہے راہ میں س نس اکھڑ ج تی ہے Khan,
Sujawal
By:
D.G.Khan Jan, 12 201 http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=70024
20