1
2
اس کے ب وجود منس نہ مقصود حسنی مح ہ کے اک وتے عط ئی ڈاکٹر کے پ س‘ میرے اکی ے ک ہی نہیں‘ س ک آن ج ن رہت ہے۔ ک فی تجربہ ک ر ہو گی ہے۔ دوسری س سے بڑی ب ت یہ کہ کچھ ن کچھ مدد مل ج تی ہے اور چمڑی برقرار رہتی ہے۔ تس ی کی ب ت یہ کہ بڑے ڈاکٹروں کی طرح مکمل چیک اپ کرت ہے لیکن چیک اپ کروائی نہیں لیت اور ن ہی ٹستوں کے چکروں میں ڈالت ہے۔ بڑے ڈاکٹر چیک اپ ک ٹسٹ زی دہ لکھتے ہیں۔ اس روز سے سمجھو اج ڑہ شروع ہو ج ت ہے۔ ان کے اپنے ٹسٹ کدے موجود ہوتے ہیں۔ اگر ب ہر سے کروائیں تو وہ ں ان ک بھی فی صد مقرر ہوت ہے۔ ایک ک رزلٹ دوسرے سے قط ی الگ تر ہوت ہے۔ کبھی ایک اور کبھی کبھی ایک س تھ تین چ ر بیم ری ں گھیر لیتی ہیں۔ مج ل ہے جو اس کے م تھے پر کبھی کوئی تری ی آئی ہو۔ بڑی تس ی سے دوائی دینے کے س تھ س تھ ہ دردی ک اظہ ر بھی کرت ہے۔ آدھی بیم ری تو اس کے حسن س وک ہی سے کٹ ج تی ہے۔
3
اس کی دواگ ہ پر ج تے ہوئے کئی س ل بیت گیے ہیں۔ ایک س تھ دو دو چ ر چ ر بیم ری ں الح ہوئی ہیں۔ ہللا نے ش بھی دی۔ ش ید اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نیت ک کھوت نہیں۔ اسے ضرورت بھر ہللا رز دیے ج رہ ہے اسی لیے مریض کی ش کی خواہش کرت ہے۔ مریض کی دیر تک آنی ں ج نی ں اسے خوش نہیں آتیں۔ اگر کوئی تین چ ر ب ر ایک ہی بیم ری کے لیے آت ہے تو پریش ن ہو ج ت ہے‘ ہ ں کسی دوسری بیم ری کے لیے آت ہے تو سو بس ہللا ہزار ب ر آئے کوئی ب ت نہیں۔ یہ تو خوش گوار چیز ہوتی ہے۔ اسی بہ نے مالق ت ہو ج تی ہے‘ دوا دارو ک ک بھی چ ت رہت ہے۔ کھرک کو میں نے ہمیشہ خوش گوار اور پرلطف بیم ری سمجھ ہے لیکن یہ اس ب ر ایسی جگہ الح ہوئی جہ ں سم جی سطع پر متواتر کھرکے ج ن م یو سمجھ ج ت ہے۔ گھر میں بہو بیٹی ں ہیں۔ بڑی ہی حی آتی تھی۔ مجبورا مجھے دوا کے لیے ج ن پڑا۔ میں نے ڈاکٹر سے براہ راست حقیقت کہہ دی۔ دریں اثن ایک اور ص ح آ گئے اور انہوں نے کھرک کو الرجی ک ن دیتے ہوئے دوا ط کی۔ ا میں کچھ ٹھیک سے نہیں کہہ سکت کہ انہیں کہ ں کھرک پڑی ہوئی تھی۔ میرے منہ سے بےس ختہ نکل گی : ی ہللا تیرا الکھ الکھ شکر ہے۔ میں نے بقیہ جم ہ کہ میں اس حم میں اکیال ہی نہیں ہوں‘ کو پس زب ن ہی رکھ ۔
4
انہوں نے کھ ج نے کے انداز کی گھرکی سے میری ج ن دیکھ ۔ ڈاکٹر نے بھی بڑی سنجیدگی سے میری طرف دیکھ ۔ میں نے خطرہ محسوس کر لی کہ کچھ بھی ہو سکت ہے‘ ت ہ میرے لیے یہ کوئی غیرمتوقع ردعمل نہ تھ ۔ میں ج نت تھ کہ کی ردعمل ہو سکت ہے۔ اس سے پہ ے کہ وہ مجھے ایک دو جڑ دیتے‘ میں نے ان کی ج ن دیکھتے ہوئے کہ :محت جی بری بال ہے۔ ہللا اپنے پ ؤں پر ہی رکھے۔ آج کل تو سگی اوالد تک نہیں پوچھتی۔ غیر کو کی پڑی جو دکھ میں س تھ دیت پھرے۔ ہللا ک شکر ہے جو اپنے پ ؤں پر چل رہے ہیں۔ میں نے احتی ط ان کی ہ ں بھی م وائی ت کہ ت خی کے خت ہونے ک یقین ہو ج ئے۔ انہوں نے میری ہ ں میں ہ ں مالئی‘ اس کے ب وجود کسی ن گواری کی صورت سے بچنے کے لیے‘ ڈاکٹر نے انہیں پہ ے ف ر کر دی ح الں کہ پہ ے میں آی تھ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کت بت کی غ طی ہے ٹ کی بج ئے ت درج ہو گی ہے۔
ابوزر برقی کت خ نہ م رچ ٧