1
من ر زیست پر منظومہ
مقصود حسنی فری ابوزر برقی کت خ نہ اگست ٧
2
یہ صبح‘ ہر صبح سی نہیں لہو اشکوں میں نہ ئی اس صبح کی آنکھ کی خوشی ں برسوں پس زنداں رہیں جبر کی بھ میں ج تی رہیں ظ کی چکی میں پستی رہیں ی س اندھی روں کے قہر میں روشنی کے سپنے بنتی رہیں اس آنکھ نے میر ج ر دیکھے اس آنکھ کے روبرو بخت بھی آی بآلخر جن ح کی فراست ک آئی
3
اس صبح کے سر پر آزادی کی ردا آئی یہ صبح خوشیوں کے کنول الئی اس صبح کی سم عت میں یہ ن رہ بھی آی پ کست ن ک مط
کی ال الہ اال ہللا
مہ جرت کے دروازے کھل گئے گ ی ں ب زار سرخ لہو سے بھر گئے بچے یتی ہوئے کچھ گ یوں کی خ ک بنے پست ن کٹے سہ گنیں بیوہ ہوئیں بہنوں سے بھ ئی م ؤں سے بیٹے
4
چھنے یہ س تو ہون ہی تھ آزادی کے لیے کچھ تو دین ہی تھ غالمی ک طو ٹوٹن م مولی ب ت نہ تھی ی س کی قب چ ک ہون م مولی ب ت نہ تھی خرابے کی آغوش میں خوشی آن م مولی ب ت نہ تھی چڑھتی اس صبح کے سنگ دھو مچ ن یتیمی بیوگی غربت اٹھ تی اس نسل ک
5
ح ہے چودہ اگست بہت آئے تھے مگر ایس ک آی تھ یہ صبح خوش ہونے کو کہتی ہے ہ ں یہ بھی تو کہتی ہے اٹھو‘ پھر سے مشقت اٹھ ؤ اس دھرتی کے چپے چپے کو ال الہ اال ہللا ک غسل دو خو سجو خو سج ؤ کہ یہ صبح تمہیں ورثہ میں م ی ہے م مع مٹ ؤ کھرا ل صبح الؤ
6
جھوٹ کو اور جینے نہ دو کہ ج بھی یہ صبح آئے گی آتی نس یں تمہ رے گیت گ ئیں گی تمہ ری قبر پر تشکر کے چرا جالئیں گی تمہ ری ی د کو سچ کی پ کوں پر سج ئیں گی حضور کی نی پر بیٹھے لوگو! اٹھو اٹھو اٹھو چودہ اگست کی صبح آ گئی ہے ہ تھ سے ہ تھ کندھے سے کندھ مال کر
7
من ر زیست پر ال الہ اال ہللا ک پرچ لہرا دو >>>>>>>>>>>>>>>