زب ن‘ حدود اور اصالح زب ن مقصود حسنی
Tum liay phirtay ho dastar e fazilat log rehtay hain yahaan sar'burida Qazi Jarar Hasni 1972
ابوزر برقی کت خ نہ ٧ جوالئی
1
زب ن‘ حدود اور اصالح زب ن اصالح زب ن اور اسے ٹھیٹھ بن نے کے لیے ہر دور میں ان رادی اور اجتم عی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ آج بھی اس ذیل میں کسی ن کسی سطع پر شدت موجود ہے۔ لغت ترتی دیتے وقت حرف اور ل ظ کی ت صیالت بڑے اہتم کے س تھ درج کی ج تی ہیں۔ لغت نویس یہ درج کرن نہیں بھولت کہ وہ کس زب ن ک ل ظ ہے۔ یہ ں ان کی مس عی سے انک ر کرن ی کیڑے نک لن سرے سے مراد نہیں۔ بالشبہ ان کی کوششیں الئ صد آفرین ہیں۔ لغت مط ل ہ میں ک ید ک درجہ رکھتی ہے۔ اس کی ضرورت واہمیت سے انک ر نہیں کی ج سکت ت ہ چ ر امور کے پیش نظر ان پر غور کرنے :کی ضرورت ہے ۔ ح الت اور وقت ک تق ض کی ہے۔ فکر ضرورت اور رفت ر زم نہ کی ہے۔ اصالح زب ن ہو سکی ہے‘ ہو سکتی ہے ی ہو سکے گی۔ یہ عمل‘ سوچ اور رویہ درست بھی ہے ی نہیں۔ 1
2
۔ جو ک ہوا درست ہوا‘ وقت اور ضرورت ک س تھ دینے کے لیے ک فی ہے ی نہیں۔ ۔ ک کی اور کس طرح ہون چ ہے۔ زندگی کے م مالت مختصر محدود س دہ اورع فہ نہیں رہے۔ ہر لمحہ پچیدگی میں اض فہ ہو رہ ہے۔ حقیقی‘ خ نگی مس ط اور خود س ختہ ضرورتوں میں اض فہ ہو رہ ہے۔ جبر کی شک یں اور انداز و اطوار بدل رہے ہیں۔ پچھ ڑ کر اگے اور آگے بڑھنے کی خواہش جنونی ہو گئی ہے۔ ردعمل ک س یقہ ب لکل الگ ہو گی ہے۔ انس ن دکھ سکھ ضرورت ح الت پروگرا ردعمل وغیرہ ک اظہ ر کرن چ ہت ہے۔ اس ذیل میں خواہش رکھت ہے کہ اصل کے مط ب کہہ سکے۔ اصل اور س رے کے س رے کے لیے زب ن کی ابالغی وس ت بھی ن گزیر ٹھہرتی ہے۔ ایسے ح الت میں زب ن کو ٹھیٹھ بن نے کی کوشش زب ن دوستی نہیں‘ زب ن دشمنی کے مترادف ہے۔ اس قس کی پہ ی کوششیں اور خواہشیں زب ن کے ابالغی حوالوں کو محدود کرنے کے مترادف تھیں۔ زب نیں اس قس کی کوششوں کو‘ خواہ پرخ وص ہی کیوں نہ ہوں خ طر 2
3
میں التیں۔ زب ن شخص کے خی ل جذبے ضرورت اور م تحتی کی پ بند ہے۔ اظہ ر کے م م ے میں ت ظ است م ل م ہو اورگرائمر ث نوی ہو کر رہ ج تے ہیں۔ گھڑنے مست ر لینے اشک لی تبدی ی کے م م ہ میں تھوڑدلی سے ک نہیں لیتی۔ زب ن نے تو ہر است م ل کرنے والے کی انگی پکڑن ہوتی ہے۔ یہ ہر است م ل کرنے والے کی ب ندی ہوتی ہے۔ زب ن کو دائرے اور حدود و قیود میں رکھن زب ن دوستی نہیں‘ زب ن دشمنی کے مترادف ہے۔ یہ پ بند رہ بھی پ بند نہیں سکتی۔ یہ زب ن کی سم جی مجبوری ہے۔ اسے استم ل کرنے والے ک س تھ دین ہی ہوت ہے۔ یہ اپنے است م ل کنندہ ک اس کی مرضی اور ضرورت ک س تھ دینے کی پ بند ہے۔ مس ہو ی غیر مس اپن ہو کہ پرای اس کے لیے ایک سے اور ایک ہی مرتبے کے ح مل ہوتے ہیں۔ اس میں گرنتھ بھگوت گیت رام ئن ی شرح قرآن لکھی ج سکتی ہے۔ اس ک است م ل کنندہ کسی مخصوص فی ڈ سے مت نہیں ہوت ۔ وہ س ئنسدان‘ سی ست دان‘ ک شت ک ر‘ ب غب ن‘ امور م شی ت غرض کہ کسی بھی فی ڈ سے مت ہو سکت ہے۔ اس کی زب ن پر انک ر آ ہی نہیں سکت ۔ است م ل کرنے 3
4
واال گ لی نک لے ی کوئی الہ می کال پڑھے‘ اس کی مرضی‘ آالت نط ‘ م ون آالت نط اور ضرورت پر انحص ر کرت ہے۔ حضور اور ہجور‘ دونوں طرح سے است م ل ہون ہوت ہے۔ حضور اور ہجور‘ اس کے لیے دونوں ٹھیک ہیں۔ بولتے وقت عین بولنے میں آئے ی ن آئے‘ اسے کچھ فر نہیں پڑت ۔ اصالح زب ن یہی ہے لکھنے میں آئے۔ لکھنے میں نہ آئے تو بھی غ ط نہ ہو گ ۔ یہ بولنے کے قری ہو گ ۔ ت لکھن گوی اصالحی است م ل ہو گ ج کہ ت بولنے ک ت ظ ہو گ ۔ زب نوں میں مق می و غیرمق می زب نوں کی آوازوں اور ال ظ ک دخول ع سی ب ت ہے اور یہ عمل دوچ ر صدیوں تک محدود نہیں بل کہ ہمیشہ سے ج ری ہے۔ ان کی شکل و صورت کو دیکھ کر انھیں ان کی اص ی زب ن ک ل ظ قرار دین کسی طرح درست نہیں۔ نئی زب ن میں وارد ہو کر یہ نئی زب ن کے ال ظ ہو ج تے ہیں انھیں کسی دوسری زب ن ک ل ظ سمجھن بہت بڑی غ طی کے مترادف ہے کیونکہ ان ک است م ل م ہو ت ظ کچھ ک کچھ ہو ج ت ہے۔ ل ظ ی آواز 4
5
ک ک چر ہی اختی ری زب ن ک ہو ج ت ہے تو اسے کسی دوسری زب ن ک ل ظ قرار دین سراسر زی دتی کے مترادف ہے۔ راشی اردو میں رشوت لینے والے کے لیے مست مل ہے۔ مذا کو ٹھٹھ کے م نوں میں لی ج ت ہے۔ نقل چوری سرقہ وغیرہ کے لیے است م ل ہوت ہے۔ خت خ تمے کے عالوہ بھی م ہو رکھت ہے۔ اس می حور اوق ت واحد ستم ل ہوتے ہیں۔ ار حضرت نوع کے پوتے ک ن ہے‘ ہم رے ہہ رے ہ ں لڑکیوں ک ن رکھ ج ت ہے۔ ہند حضرت ح کے بیٹے ک ن ہے‘ عر میں عورت کے لیے مستمل ہے۔ ت بع کے س تھ دار مست مل ہے۔ ت بع کے س تتھ کسی الحقے کی ضرورت ہی نہیں۔ دار بدیسی نہیں داری سے ہے۔ ک واس کی سواری کے لیے است م ل ہوت ہے۔ ک می ک کرنے والی کے لیے است م ل ہوت ہے جبکہ ج پ ن میں س ن کے اض فے کے س تھ بیوی کے لیے بوال اور لکھ ج ت ہے۔ س ن ک الحقہ عزت کے لیے ہے ورنہ اصل ل ظ ک می ہی ہے۔ اوال پر ح کی بڑھوتی ہوئ ہے۔ عین کے س تھ نک ک 5
6
اض فہ کر دی گی ۔ گوی اس قس کی ہزاروں مث لیں درج کی ج سکتی ہیں۔ ت ہیمی اور است م لی حوالہ سے انھیں کیسے اور کس طرح بدیسی کہ ج سکت ہے۔ ت ظ اور لہجہ بھی بدلت ہے۔ اصالح زب ن ی کسی عصبیت کے جنوں میں ان کی آمد ک رستہ روکن اس کے ابالغی حوالوں اور کروں کو محدود کرن ہے۔ زب ن کو اس کے فطری پھیالؤ کے ح ل پر چھوڑ دین ‘ زب ن دوستی ہے۔ ل ظ ج سمجھ میں آت ہے اور اپنے م نی دیت ہے تو اسے زب ن کے ذخیرہ میں جگہ پ نے ک پورا پورا ح ہے۔ ممکن ٹی ٹربالت وٹروں سپٹروں لیڈی ں ٹیب یں وغیرہ ک است م ل انگریزی بولنے والوں کے لیے نہیں ہو رہ ہوت ۔ یہ ال ظ ہئیتی است م لی اور ت ہیمی حوالہ سے انگریزی کے ہیں ہی نہیں اور کوئی انگریز انھیں بھول کر بھی نہیں ق بولے گ تو اصالح زب ن ک سوال ہی نہیں اٹھت ۔ ہونس و ف س و عر سے درآمد ہوئے لیکن میواتی میں آ کر عربی نہیں رہے۔ ذمہ کو پیش سے بولنے واال عربی نہیں بول رہ ہوت ۔ ق ی بول کر ق ی م نی مست ل ہیں اور ابال میں کوئی کجی نہیں تو غ ط کی ہے۔ 6
7
زب ن اور اس کے است م ل کرنے والوں کے س تھ خیرخواہی اسی میں ہے کہ اسے اس کے فطری انداز میں پھی نے پھولنے دی ج ئے۔ زب ن وہی بڑی اور مضبوط ہے جو ابال کے حوالہ سے وس ت رکھتی ہے۔
پھوپھ نسرین کیڈھر گی ہے۔ الل خ ن ادھر بیٹھی تھی۔ ت کو ص ح بوالت ہے۔ حجور میں کل جرور ح جر ہوں گ ۔ ب ج ر سے چ رجل لیتے آن ۔ برہم بردان دینے میں بخل نہیں کرت ۔ برہم وردان دینے میں بخل نہیں کرت ۔ ان جم وں میں ابالغی حوالہ سے کوئی کجی موجود نہیں۔ کہ ٹھیک سے سمجھ میں آ رہ ہو تو زب ن درست ہے۔ یہ زب ن کے لہجے ہیں۔ ان میں اصالح کی ضرورت نہیں۔ کسی زب ن ک ایک لہجہ ت ین ہی نہیں کی ج سکت ۔ یہ ن ممکن ت میں ہے۔ اس ذیل میں آخری ب ت یہ ہے کہ ہندی الگ سے زب ن نہیں۔ جو زب ن آپ پڑھ رہے ہیں اس کے تین رس الخط ہیں نست دیو ن گری اور رومن‘ جو بولنے اور سمجھنے میں ایک ہیں۔ اسی حوالہ سے سوچن اور تحقی وتنقید ک ک ہونے سے ہی اس کی خدمت ہو سکتی ہے۔ 7
8
>>>>>>>>>>>>>>>>> 8