ہاں البتہ افسانہ مقصود حسنی
1
ہ ں البتہ نئی نسل اسے جدی پشتی امیر کبیر سمجھتی تھی۔ وہ بھی یہ ہی بت ت اور ظ ہر کرت تھ ۔ جو ج نتے تھے وہ بھی اس کے اثر و رسوخ سے خوف زدہ ہو کر اس جھوٹ کو حقیقت کہتے تھے۔ کون اس خواہ مخواہ کے مع م ے میں پڑ کر گر ریت سے اپنی پس یوں کی ٹکور کرت ۔ ہ ں البتہ یہ حقی سچی ب ت ہے کہ اس نے کوٹھی ں‘ ک ریں‘ بنک بی نس‘ عزت‘ شہرت اور ش ہی اثر و رسوخ ش ہی گم شتگی کے حوالہ سے نہیں کم ی تھ ۔ ش ہی اداروں کے ک رکن چوری کے لیے خود اس کے قری آئے تھے۔ ان کی قربت ک اسے یہ ف ئدہ ہوا تھ کہ بہت سی سرک ی کٹوتیوں سے نج ت پ گی تھ ۔ ا نئے زم نے میں اسے بج ی پ نی اور گیس کی سہولت م ت میں ح صل ہو گئی تھی۔ متع قہ اہل ک ر کھ نے پینے کے لیے ح ضر ہوتے رہتے تھے۔ منتھ ی کی ت ریخ طے تھی۔ مقررہ ت ریخ پر آتے جی گر کرتے اور وہ ج تے۔ میٹر آگے پیچھے کرنے کو اس کے منشی کو کہن نہیں پڑت تھ بل کہ وہ خود ہی بڑی ذمہ داری سے اپن فرض نبھ تے۔ وہ ج نتے تھے کوت ہی ی بغ وت کی
2
صورت میں رسی ان کے تکیے کی زینت بن ج ئے گی۔ ہر موجود شے اس کے من ی عمل اور ی بئی م نیے تیرا آسرا ک ثمرہ تھی۔ یہ ہی کوئی پچپن س ل پہ ے وہ م ک بدرالدین سیٹھ نہیں بدرا م چھی تھ ۔ وہ اللہ جی را ک ب اعتم د گھری و مالز تھ ۔ اللہ جی را کو یقین تھ کہ وہ حد درجہ ایم ن دار ہے اور ہیرا پھیری سے کوسوں دور ہے۔ وہ بڑی چ بکدسی سے اللہ جی را کی چیزوں پر پالس ڈالت تھ ح الں کہ اللہ چ ر آنکھوں واال تھ ۔ اس نے پہ ے پہل نظرانداز چیزیں کم ل ہوشی ری سے اینٹی کیں اس کے بعد اس نے زیر تصرف اشی پر ب ری ب ری ہ تھ ڈاال۔ ہ ں البتہ فوری استعم ل کی چیزوں سے دور رہ ۔ کبھی کھب ر استعم ل میں آنے والی اشی کی حیثیت سہی لیکن فوری کی سی حیثیت نہیں ہوتی۔ دونوں می ں بیوی ہوشی ر چالک تھے اس لیے انہوں نے گھر ک خرچہ م ہ نہ عوض نے پر چالی ‘ انع کون اور چورائی گئی اشی سے موصولہ رق کو پس انداز کی ۔ یہ رق ایک عرصے کے بعد معقولیت اختی ر کر گئی۔ اللہ جی را سورگ ب سی ہوئے تو اس نے مالزمت چھوڑ دی اور اپنے اب ئی گ ؤں جیج پور ج کر پرچون کی دوک ن ڈال لی۔
3
مک ن آب ئی تھ اس لیے کوئی کرایہ بھ ڑا نہ دین پڑت تھ ۔ نم ز روزے کی پ بندی کرنے لگ لوگ اسے نم زی پرہیزی سمجھ کر ایم ن دار خی ل کرتے تھے۔ وہ نہیں ج نتے تھے کہ وہ سیر میں آدھ پ ؤ کی ڈنڈی لگ ت ہے۔ عمرہ کرکے آنے کے بعد آدھ پ ؤ مالوٹ بھی کرنے لگ ۔ ا کہ ہ تھ میں تسبیح سر پر ٹوپی بھی سج گئی تھی۔ گٹھ مٹھ داڑھی رکھنے سے اس ک چہرا تقدسی س ہو گی تھ ۔ پھر اس نے دوک ن پر دودھ رکھن شروع کر دی ۔ دودھ پ س کھڑے ہو کر ح صل کرت ۔ قطرہ پ نی ک نہ ڈالنے دیت ۔ خود بھی ایم ن داری کے تق ضے کو پورا کرنے کے لیے دودھ میں پ نی نہ ڈالت بل کہ پ نی میں دودھ ڈال کر اس کی طہ رت ک اہتم ضرور کرت ۔ گ ؤں کو قصبہ اور قصبہ کو شہر ہونے میں س ل کے س ل لگ گیے کرث کنجوسی اور دونمبری رنگ الئی۔ اس کم ئی سے اس نے تھوڑے داموں کئی مک ن اور کئی ایکڑ زمین سستے اور اونے پونے داموں میں خرید کر لی۔ گ ؤں ج قصبہ بن تو اس ج ئیداد کی قیمت بڑھ گئی۔ ج قصبہ شہر ہوا تو قیمتیں آسم ن سے ب تیں کرنے لگیں۔ اس نے تعمیرات کے س تھ س تھ زمین کو چھوٹے چھوٹے رہ ئشی
4
پالٹوں کی شکل دے دی۔ اس کی بیوی بھی ہیرا پھیری کی شطرنج کی زبردست کھالڑی تھی۔ بدقسمتی سے وہ ہیراپھری کی راہ میں اس کے س تھ آخر تک س ر نہ کر سکی اور موت کی آغوش میں چ ی گئی۔ پہ ے وہ یک مکھی تھ ج کہ ع ش ں سہ موکھی تھی۔ ا وہ اکیال چومکھی ہیرا پھیری ک گتک چال رہ تھ ۔ دولت کے انب ر لگ چکے تھے۔ ہر کوئی اس سے سال دع میں فخر محسوس کرت تھ ۔ مقتدرہ اداروں کے اہل ک ر اس کے اپنے ہو چکے تھے۔ شہر میں اس کی اپنی م رکیٹیں تھیں۔ ہر طرف سے نوٹ اس کے کھیسے لگتے تھے۔ دوسری راتوں کی طرح اس رات بھی وہ حس کت کرکے چ رپ ئی پر بالع ش ں آ رہ ۔ دھندہ ک ر عورتوں میں ع ش ں ک س مزا نہ تھ ۔ ان ک مزا اور پی ر جع ی اور ع رضی تھ ۔ وہ کسی دھندہ ک ر عورت کو مستقل سر پر سوار کرکے م ل ک اج ڑا نہیں کرن چ ہت تھ ۔ ج ضرورت پڑتی اس رات کے لیے کسی دھندہ ک ر کو ب وا لیت ۔ اس رات وہ اداس اور کسی وجہ سے غ گین تھ ۔ کوئی دھندہ ک ر بھی نہ ب وائی تھی۔ دیر تک بےچینی کی کروٹیں بدلت
5
رہ ۔ آخر نیند نے آ گھیرا۔ خوا میں کی دیکھت ہے کہ وہ مر رہ ہے اور ج ن نک نے سے بڑی خوف ن ک ازیت میں مبتال ہے۔ آخر شدید ازیت ن کی کے بعد ج ن نکل ہی گئی۔ اسے س ید لب س میں خ لی ہ تھوں لحد میں ات ر دی گی ۔ چند پھول ہی ا کہ اس ک اث ثہ تھ ۔ کوئی دیر تک وہ ں نہ ٹھہرا۔ اس کی اپنی اوالد بھی اسے اکیال چھوڑ کر چ تی بنی۔ ہر کسی کو سیٹھ ص ح کے دستر خواں پر پڑے کھ نے پر ٹوٹ پڑنے کی ج دی تھی۔ نئی رہ ئش ک اک متی ہوئے اسے زی دہ دیر نہ ہوئی ہو گی کہ حس کت کرنے والے فرشتے آ دھمکے یہ ہی نہیں عج طرح کے کیڑے مکوڑے بچھو اور س نپ بھی اس کی خبر گیری کو آ گیے۔ وہ دونمبری س کے لیے کرت تھ لیکن بھگتن اس اکی ے کو پڑ رہ تھ ۔ اسے بڑا دکھ ہوا کہ کوئی ایک آدھ گھنٹہ بھی اس ک س تھ نہ دے سک ۔ وہ ان سے کتن پی ر کرت تھ ۔ ان کے منہ سے نک ی کو ٹھکرات نہ تھ ا ج کہ وقت پڑا تھ کوئی اس کے س تھ نہ تھ ۔ یہ کیسی اوالد تھی۔ جھک کر سال کرنے والے س تھ دینے ک وعدہ کرنے والے سکرین سے ہٹ گیے
6
تھے جیسے وہ ان ک اس سے کوئی رشتہ ن ت ہی نہ رہ ہو۔ فرشتے کیڑے مکوڑے بچھو اور س نپ ہی کی دونمبری ک شک ر ہونے اور موت کی آغوش میں چ ے ج نے والے چھینے کی واپسی کے لیے آ دھمکے تھے۔ وہ تو خ لی ہ تھ اکیال ہی اس گورکوٹھری میں ح الت کے رح کر پر چھوڑ دی گی تھ ۔ اس خوف ن کی نے اس کی نیند چرا لی اور وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھ ۔ وہ کئی لوگوں کو مرتے دیکھ چک تھ ۔ ان کی آخری رسوم ت میں ش مل ہو چک تھ ۔ مرگ سوئ اور چ لیسموں کے پکوان بھی اڑا چک تھ ۔ اس نے کئی ب ر دیکھ کہ مردہ خ لی ہ تھ منوں مٹی ت ے دب کر لوگ اپنی راہ لیتے تھے۔ دور کی ج ن ہے وہ خود بھی اپنے م ئی ب پ کی قبر پر وقت کی ق ت کے سب نہ ج سک تھ ۔ ع ش ں سے پی ر کے بڑے دعوے ب ندھت تھ قبر پکی کروان تو بڑی تھی کہ اس پر دا اٹھتے تھے دع ف تحہ کے لیے بھی اس کی قبر پر نہ ج سک تھ ۔ ح الں کہ اسے پیدل نہیں ج ن تھ ۔ اس نے ارادہ کی کہ س کچھ غریبوں مسکینوں میں ب نٹ دے گ اور ت مرگ توبہ کے دروازے پر دستک دیت رہے گ ۔
7
وہ ن شتے کے لیے طع گ ہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ سیٹھ بدرالدین نے گزری رات ک خوا اپنے بیٹوں اک وتی بیٹی اور بہوؤں کو سن ی ۔ س نے سن اور اس پر کوئی غور نہ کی ۔ ج اس نے اپن ارادہ ظ ہر کی تو ان کے ہ تھوں کے لقمے منہ تک رس ئی ح صل نہ کر سکے۔ س نے ایک دوسرے کی طرف دیکھ اور گ تگو کدے کی ج ن بڑھ گئے۔ کچھ دیر بعد واپس لوٹے اور انہوں نے ب پ کو س تھ آنے ک اش رہ دی ۔ وہ کچھ سمجھ نہ پ ی اور ان کے س تھ ہو لی ۔ کوئی کچھ نہ بوال۔ س ر بڑی خ موشی سے کٹ رہ تھ ۔ پہ ے وہ ایک درب ر پر گئے۔ کچھ دیر رکے پھر چل دیے۔ ش ید وہ اسے وہ ں چھوڑن چ ہتے تھے لیکن واپسی کے ڈر سے دور کے شہر کے بڈھ ہ ؤس کے دروازے پر آ رکے۔ وہ ان کی اس حرکت سے حیران رہ گی ۔ انہوں نے وہ ں اس ک ن رجسٹر کروای اور بال سال دع لیے اسے اکیال چھوڑ کر چ ے گئے۔ اس عمل میں اس کی الڈلی بیٹی اور انتہ ئی وف در ڈرائیور شوکی بھی ش مل تھ ۔ اسے اپنی اوالد کے فیص ے پر بڑی حیرانی ہوئی لیکن یہ سوچ کر بڈھ ہ ؤس میں
8
داخل ہو گی کہ آخر اسے اکی ے ہون ہی تھ ہ ں البتہ قبر اور بڈھ ہ ؤس کے لب س میں فر موجود تھ ۔
ابوزر برقی کت خ نہ جوالئی ٧