1
پ کست ن میں اردو کے س ر کی مختصر کہ نی
مقصود حسنی فری ابوزر برقی کت خ نہ اگست
2
پ کست ن میں اردو کے س ر کی مختصر کہ نی
اردو‘ دنی کی دوسری بڑی است م ل میں آنے والی زب ن ہے لیکن اپنے س ؤنڈ سسٹ کے حوالہ سے‘ دنی کی س سے بڑی اور مضبوط ترین زب ن ہے۔ اس ک شروع سے‘ دیسی تو دیسی‘ بدیسی زب نوں سے بھی‘ مخت ف حوالوں سے ت واسطہ رہ ہے۔ ش ید ہی کوئی زب ن ہو گی‘ جس کے ال ظ اس کے ذخیرہ ء ال ط میں داخل نہ ہوں گے۔ یہ الگ ب ت ہے‘ کہ وہ ال ظ ان زب نوں کے لیے قط ی اجنبی ہو گیے ہیں اور وہ اپنی اصل م نویت‘ ل و لہجہ‘ ت ظ اور است م لی اطوار ہی کھو بیٹھے ہیں۔ اس کی مخت ف صورتیں ہیں۔ اردو کے جمع بن نے کے بہت سے اطوار ہیں۔ مرک آوازیں دوسری زب نوں سے زی دہ ہیں۔
3
س بقے الحقے دوسری زب نوں سے زی دہ ہیں رشتوں کے لیے بہت سے ل ظ است م ل میں آتے ہیں۔ ال ظ گھڑنے میں اپن جوا نہیں رکھتی۔ دوسری زب نوں سے ت رکھتی۔
استوار کرنے سے پرہیز نہیں
عالق ئی ل و لہجہ‘ اطوار اور م حول اختی ر کر لیتی ہے۔ ہر مزاج کے شخص کی انگ ی پکڑ لیتی ہے اور اس ک اظہ ر میں س تھ دیتی ہے۔ ہر است م ل کرنے واال اس ک اپن ہوت ہے۔ ایس اور ای ایس کے سے اض فوں سے ب التر ہے۔ غرض ایسی بہت سی ب تیں ہیں‘ جن کے ب عث یہ دوسری زب نوں سے الگ تر ہے۔ دنی ک ش ید ہی کوئی ایس خطہ ہو گ ‘ جہ ں اردو کے است م ل کرنے واال کوئی نہ ہو گ ۔ امریکہ‘ برط نیہ اور کنیڈا میں اس ک است م ل دوسرے نمبر پر ہے۔ پ کست ن کی قومی زب ن اردو قرار دی گئی تھی۔ یہ ت د تحریر صرف قرار دینے کی حد تک ہے۔ ایک طرح سے‘ اچھ ہی ہوا کہ
4
اسے سرک ری سرپرستی ح صل نہیں ہو پ ئی‘ ورنہ یہ قصیدوں ک پ ندہ ہوتی۔ ا فقط ت ریخ ہی سرک ری اور ش ہی رہ گئی ہے۔ ش عر ادی وسی کی شہ دتیں پیش کرتے آ رہے ہیں۔ پ کست ن اس کی جن بھومی نہیں ہے‘ لیکن اس کے است م ل کرنے والے‘ ہر عالقہ میں کثرت کے س تھ موجود ہیں۔ مزے کی ب ت یہ کہ اس کی خدمت بھی‘ دوسری زب ن والوں نے کی ہے اور اس کے دامن کو‘ مخت ف اصن ف اد سے م ال م ل کی ہے۔ ان س کے ہ ں‘ ان کی اپنی زب ن کے ال ظ اردوائے گئے ہیں‘ اجنبیت ک گم ن تک نہیں گزرت ۔ قرتہ ال ین حیدر‘ انگریز سرک ر کے مالز کی بیٹی تھی۔ ان کے گھر ک م حول انگریزی تھ ۔ ان کے ہ ں انگریزی ل ظوں ک برجستہ است م ل م ت ہے۔ ان سے پہ ے‘ اکبرآلہ آب دی کے ہ ں بڑی ک می بی اور خو صورتی سے‘ انگریزی ال ظ ک است م ل م ت ہے۔ انہوں نے اردو ل ظوں کو اردو لہجہ بھی دی ہے۔ جمع اور مذکر بن نے کے لیے اردو اصول برتے ہیں۔ اردو اپنی اصل میں‘ آل ہند کی زب ن ہے۔ اس نے مخت ف حوالوں سے‘ صدیوں ک س ر طے کی ہے اور ان گنت
5
نشی و فراز دیکھے ہیں۔ اندرونی و بیرونی تغیرات سے نبرد آزم ہوئی۔ دیسی و بدیسی حکمرانوں کی ترجیح ت سے سمجھوت کی ۔ اس کے کئی ایک خط رہے ہیں‘ جن ک دری فت کرن ابھی ب قی ہے۔ را کے ڈراموں ک ترجمہ کی گی تو م و ہوا کہ گجراتی خط میں اردو ہی لکھی گئی ہے۔ آج اس کے تین خط رئج ہیں۔ تینوں بھرپور انداز سے اظہ ر ک ذری ہ ہیں۔ خط کتنے بھی ہوں‘ اس سے اظہ ری دائرے کو وس ت ہی م تی ہے۔ ایک ط ل ع نے‘ م ئی بیسٹ فرینڈ مضمون اچھی طرح ی د کر لی اور خوش تھ کہ ایک ہی مضمون‘ م ئی بیسٹ ٹیچر اور م ئی بیسٹ نیبر کے لیے ک آ ج ئے گ ‘ لیکن پرچہ میں‘ مضمون م ئی ف در آ گی ۔ وہ خوش ہوا کہ وہ ہی مضمون یہ ں بھی ک آ ج ئے گ ۔ اس نے جو لکھ اس کے دو تین جم ے مالحظہ فرم ئیں۔ آئی ہیو مینی ف درز بٹ مسٹر اکبر از م ئی بیسٹ ف در۔ م ئی م م الئ ہ ویری مچ۔ ون ہو لیونگ مین گو آؤٹ‘ ہی ک ٹو آور ہو ۔ ہی گیو می مینی تھنگز۔
6
ا یہ جم ے مالحظہ ہوں۔ abhi mehfal se oth ke na jao faraz
thori dair main chawal batnay walay hain اردو رس الخط میں لکھے گئے انگریزی جم ے‘ اردو نہیں کہال سکتے۔ اسی طرح‘ انگریزی خط میں لکھے گئے اردو جم ے‘ انگریزی کے کھ تے میں نہیں ڈالے ج سکتے۔ ب لکل اسی طرح‘ رومن ی دیون گری میں لکھی گئی تحریر کو‘ الگ زب ن کس طرح کہ ج سکت ہے۔ پنج بی اور اردو دنی کی دو ایسی زب نیں ہیں‘ جو تین رس الخط رکھتی ہیں۔ انگریز کی س زش سے‘ ڈیوائڈ اینڈ رول کے تحت اس کے دو خط ہوئے۔ تیسرا بھی اسی کی ضرورت کے تحت وجود میں آی ۔ آج یہ اردو سمجھنے والوں کے لئے‘ ن مت ث بت ہو رہ ہے۔ اسی طرح دیون گری والے اردو اور اردو والے دیون گری والوں سے رابطے میں‘ دقت محسوس نہیں کرتے۔ پ کست ن میں‘ اردو اور رومن رس الخط رائج ہیں ج کہ بھ رت میں اردو‘ دیون گری اور رومن رس الخط است م ل میں آ رہے ہیں۔ دیگر مم لک میں‘ زی دہ تر اردو اور رومن
7
ک است م ل ہو رہ ہے۔ دیون گری صرف مخصوص طبقہ ہی است م ل کر رہ ہے۔ تقسی ہند کے ب د‘ ان تینوں خطوں میں ہر صنف اد میں بہت لکھ گی ہے۔ اردو اور دیون گری میں ہونے واال ک جمع ہوا ہے اور ہو رہ ہے لیکن رومن خط میں ہونے واال ک ‘ جمع نہیں ہوا ی ہو رہ ۔ بذات خود میں نے اس خط میں‘ سیکڑوں ص ح ت تحریر کیے ہیں۔ پ کست ن‘ مخت ف نشی و فراز سے گزرا ہے اور گزر رہ ہے۔ اس کی شہ دتیں‘ پ کست نی اد میں ص ف اور عالمتی انداز میں موجود ہیں۔ نئی اور پرانی اصن ف اد میں‘ ق بل رشک ک ہوا ہے۔ مزے کی ب ت یہ کہ یہ س ذاتی سطع پر ہوا ہے۔ س را تو مح وظ نہیں ہوا‘ لیکن جتن بھی مح وظ ہو سک ہے‘ آت کل اس سے‘ آج کی شخصی اور سم جی ت ریخ مرت کر سکے گ ۔ فرو اردو میں‘ ادبی انجمنؤں نے بڑی ذمہ داری اور ذاتی س ی و جہد سے ک لی ہے۔ اس ذیل میں‘ ترقی پسند تحریک‘ ح قہء ارب ذو ‘ اسالمی اد کی تحریک‘ ح قہءتصنیف اد کے کردار کو کسی طور پر نظر انداز نہیں کی ج سکت ۔
8
ن ذ اردو کے س س ہ میں ڈکٹر سید عبد ہللا اور ان کے رفق ک ر نے بہت ک کی ۔ تحریک اردو پ کست ن کے پ یٹ ف ر پر بہت ک ہوا۔ اسی طرح‘ اردو سوس ئٹی پ کست ن نے ن ذ اردو کی ذیل میں‘ بڑا حیرت انگیز ک کی ۔ اصن ف اد کو دیکھیے تو قط م یوسی نہیں ہوتی۔ اردو کے دیوانوں کی کوششوں کو دیکھتے ہوئے‘ بڑے وثو سے کہ ج سکت ہے‘ کہ اردو زب ن اور اس ک اد دنی کی کسی بھی زب ن سے ک تر نہیں اور ن ہی ت دادی اعتب ر سے تھوڑا ہے۔ پ کست ن کے رس ئل و جرید نے‘ اس زب ن کی ترقی کے لیے بڑا حوص ہ افزا ک کی ہے۔ جن میں‘ درج ذیل کی خدم ت کو کبھی فراموش نہیں کی ج سکے گ ۔ م ہ ن مہ اردو ڈائجسٹ الہور‘ م ہ ن مہ سی رہ ڈائجسٹ الہور‘ م ہ ن مہ سخن ور کراچی‘ م ہ ن مہ قومی زب ن کراچی‘ م ہ ن مہ صریر کراچی‘ م ہ ن مہ اخب ر اردو اسال آب د‘ م ہ ن مہ اردو اد اسال آب د‘ م ہ ن مہ تجدید نو الہور‘ م ہ ن مہ اد لطیف الہور‘ م ہ ن مہ م ہ نو الہور‘ م ہ ن مہ رشح ت الہور‘ م ہ ن مہ تحریریں الہور‘ اہل ق م ت ن‘ نیرنگ خی ل راولپنڈی وغیرہ
9
اسی طرح اور بہت سے رس ئل و جرائد نے مخت ف اصن ف ش ئع کرکے اردو کی ترقی میں اپنے حصہ ک کردار ادا کی ۔ اخب رات نے ہ تہ میں ایک دن ادبی ص حے کی اش عت ک اہتم کی ۔ مثال روزن مہ امروز الہور‘ روزن مہ جنگ الہور‘ روزن مہ مشر الہور‘ روزن مہ نوائے وقت وغیرہ پ ک ٹی ہ ؤس ک اردو کی ترقی میں کردار اردو کی ترقی میں‘ پ ک ٹی ہ ؤس کے کردار کو نظرانداز کرن ‘ زی دتی کے مترادف ہو گ ۔ اگرچہ یہ بہت بڑا ہوٹل نہ تھ ‘ لیکن اس ک اردو کی ترقی میں بہت بڑا حصہ ہے۔ یہ ں الہور کے ہی نہیں‘ دیگر امرجہ کے ش عر ادی جمع ہوتے۔ چ ئے پیتے گپ شپ کرتے‘ گپ شپ کے س تھ س تھ بہت کچھ چ ت ۔ کچھ لوگ اپن کال سن تے۔ مخت ف ادبی امور پر تب دلہءخی ل کرتے۔ نئے نئے نقطے ح فظے میں لے کر ج تے۔ کچھ اصالح لیتے۔ غرض پ ک ٹی ہ ؤس کو اد گ ہ ہی ک درجہ ح صل نہیں تھ ‘ بل کہ یہ بہت بڑی تربیت گ ہ بھی رہ ہے۔ اردو زب ن کے س ر کی ج بھی ب ت چ ے گی‘ پ ک ٹی ہ ؤس ک ذکر ضرور آت رہے گ ۔
10
تقسی نے زندگی کو کئی روپ اور رنگ دیئے۔ یہ س رے اور اس کے ب د کی ش عری میں بڑے واضح رنگ نظر آتے ہیں۔ ش عر تو بہت منظر ع پر آئے‘ لیکن بہت سے ش را کی ش عری حوادث ح الت ک شک ر ہو گئی۔ اس ت خ حقیقت کے ب وجود‘ اردو ش عری ک دامن ہر رنگ اور ہر طور کی خوش بو سے بھرا نظر آت ہے۔ چند ش را کے اسم ئے گرامی ب طور نمونہ درج خدمت ہیں۔ احس ن دانش‘ احمد شج ع‘ احمد فراز‘ احمد ندی ق سمی‘ اختراالیم ن‘ اختر شم ر‘ اختر شیرانی‘ ادا ج ری‘ اقب ل سحر انب لوی‘ بہزاد لکھنوی‘ بیخود دہ وی‘ بیدل حیدری‘ بسمل س یدی‘ پروین ش کر‘ ج ن نث ر اختر‘ جگر مرادآب دی‘ جمیل الدین ع لی‘ جوش م یح آب دی‘ جون ای ی ‘ جی کے ت ج‘ ح یظ صدیقی‘ حکی حم یت ع ی ش عر‘ خوشتر گرامی‘ ر نواز م ئل‘ رئیس امروہوی‘ سج د ظہیر‘ س غر نظ می‘ س غر صدیقی‘ سیم اکبر آب دی‘ ش د اعظ آب دی‘ ش ن الح حقی‘ شکی جاللی‘ شورش ک شمیری‘ ط ل جوہری‘ ع بد انص ری‘ ع بد ع ی ع بد‘ عبدالحمید عد ‘ عالمہ عن یت ہللا خ ں المشرقی‘ فض اعظمی‘ فیض اخمد فیض‘ قتیل ش ئی‘ قمر جاللوی‘ مجروع س ط ن پوری‘
11
محسن نقوی‘ مرتضی برالس‘ مظ ر وارثی‘ مقصود حسنی‘ منیر نی زی‘ ن صر ک ظمی‘ ندا ف ض ی‘ ن ی ہ شمی‘ نوشی گیالنی‘ نی ز فتح پوری‘ وحید اختر‘ یگ نہ ی س چنگیزی وغیرہ آزاد نظ اختر حسین ج ری‘ ڈاکٹر تبس ک شمیری‘ عبدال زیز خ لد‘ فیض احمد فیض‘ مجید امجد‘ مقصود حسنی‘ میرا جی‘ ن راشد وغیرہ نثری نظ انیس ن گی‘ ڈاکٹر س دت س ید‘ مب رک احمد‘ مقصود حسنی‘ نسرین انج بھٹی وغیرہ ہ ئیکو نگ ر ادا ج ری‘ اختر شم ر‘ بشیر سی ی‘ حیدر گردیزی ،عز راہی‘ ع ی ی سر‘ ڈاکٹر محمد امین‘ محمد ع ی فرشی‘ مقصود حسنی‘ ندی اس وغیرہ ترئی ے
12
خواجہ غضن ر ندی ‘ سیکرٹری ح قہ تصنیف اد سینکونین مقصود حسنی س ئنیٹ اختر جون گڑھی‘ اختر شیرانی‘ ن راشد‘ ضی فتح آب دی‘ وزیر آغ وغیرہ اردو فیکشن میں کم ل کے لوگ پیدا ہوئے۔ انھوں نے زندگی کے ہر گوشے کی تصویر کشی کی ہے۔ آت کل‘ اس کے حوالہ سے سی سی‘ سم جی اور شخصی ت ریخ مرت کرنے میں کوئی دقت محسوس نہیں کرے گ ۔ آج کو ج ننے کے لیے‘ ش ہی ت ریخ کے مط ل ہ سے‘ چھٹک رہ ح صل کر سکے گ ۔ چند افس نہ نگ ر آغ س ی ‘ آغ سہیل‘ احمد ندی ق سمی‘ اختر حسین‘ ادریس آزاد‘ اش احمد‘ الط ف م ک نی‘ انوار احمد‘ رض ع ی ع بدی‘ رضیہ بٹ‘ خ ق ن س جد‘ خدیجہ مستور‘ س دت حسن منٹو‘ سیف الدین بوہرہ‘ شوکت تھ نوی‘ ط ر
13
رحم ن‘ ط ہر نقوی‘ ع مر ج یل‘ ع مر حسین‘ عبدہللا حسین‘ ع ی اکبر ن ط ‘ عثم ن ٹی م ک‘ غال عب س‘ غال الثق ین نقوی‘ قدرت ہللا شہ ‘ محمد ع ص بٹ‘ محمد منش ی د‘ مرزا ادی ‘ نسی کھرل‘ مقصود حسنی‘ مظہر ابرو‘ مظہر السال ‘ ممت ز م تی‘ منیر احمد م نک‘ ہ جرہ مسرور وغیرہ کہ نی ک ر اعظ ی د‘ ای اے ع ی‘ ف رو تسنی ‘ ق ضی جرار حسنی‘ کوک مظہر خ ن‘ م ک ش ہ سوار ع ی ن صر‘ نیر زیدی وغیرہ چند ن ول نگ ر ابن ص ی‘ اس راہی‘ اشتی احمد‘ اش احمد‘ انتظ ر حسین‘ ای اے راحت‘ اے حمید‘ ط ہر ج وید مغل‘ عبدہللا حسین‘ عصمت چغت ئی‘ ع ی الح حقی‘ غال عب س‘ ممت ز م تی‘ نسی حج زی‘ ہ ش ندی وغیرہ خواتین ن ول نگ ر آص ہ عنبرین ق ضی‘ ترن ری ض‘ حسینہ م ین‘ راحی ہ خ ں س دیہ‘ رخس نہ نگ ر‘ رضیہ بٹ‘ رضیہ مہدی‘ رف ت سراج‘
14
س دیہ ع بد‘ س مہ ی سمین سمیرا گل‘ ش زیہ چودھری‘ ص یہ س ط نہ صدیقی‘ ع ئشہ خ ں‘ عمیرہ احمد‘ عنیقہ محمد بیگ‘ ف طمہ ثری بجی ‘ فرحت اشتی ‘ قرتہ ال ین حیدر‘ م ہ م لی‘ م مونہ خورشید ع ی‘ ن زیہ کنول نی زی‘ نبی ہ ابرار راج ‘ نبی ہ وغیرہ چند ن ول اور ت وار ٹوٹ گئی نسی حج زی ع ی پور ک ای ی ممت ز م تی راج گدھ ب نو قدسیہ ج نگ وس شوکت صدیقی ابھی کچھ دن لگیں گے فرحت اشتی صدیوں کی پی س ای اے راحت ن جیہ رضیہ بٹ سونے ک جہ ز اشتی
احمد
دل ن دان ا مری خدا کی بستی شوکت صدیقی
15
اک لڑکی چھوٹی سی آمنہ اقب ل احمد جپسی مستنصر حسین ت رڑ خ لی بوت یں خ لی ڈبے س دت حسن منٹو کوئی رنجشیں کوئی مالل نہیں ہم ع مر پچھ ے پہر کی چ ندنی بشری رحم ن عمبر بیل عمرہ احمد ش ع ن درہ خ تون رشتوں کے سنگ راہی نگہت عبدہللا اپ لو ڈاکٹر س بر ع ی ہ شمی م روف پ کست ن اردو ڈرامہ نگ ر اش احمد‘ امتی ز ع ی ت ج‘ امجد اسال امجد‘ ب نو قدسیہ‘ حسینہ م ین‘ حکی احمد شج ع‘ خواجہ م ین الدین‘ سمیرا ف ضل‘ ش ہد محمود ندی ‘ ط ر عزیز‘ عمیرہ احمد‘ ف طمہ ثری بجی ‘ ف ئزہ افتخ ر‘ مخت ر احمد‘ منش ی د‘ ہ ش ندی ‘ یونس ج وید بٹ وغیرہ
16
چند ڈرامے ان رک ی ت ی ب لغ ں خدا کی بستی الف نون پرچھ ی ں وارث ان کہی بمالحظہ ہوشی ر سون چ ندی تنہ ئی ں دھوپ کن رے عینک واال جن
17
مالل ‘ میری ان سنی کہ نی‘ خدا زمین سے گی نہیں‘ جنت‘ نورپور کی رانی ‘ من و س وی‘ داست ن‘ آشتی عش گ شدہ‘ مجھے ہے حک ازاں ‘ بےب ک ‘ وصل ‘ نور ب نو‘ میری ج ن ‘ دا ہ س ر‘ آخری ب رش‘ مت ع ج ن ہے تو‘ خدا اور محبت شہرذات‘ جہیز‘ عکس‘ زندگی گ زار ہے‘ پ لکی‘ دل مضطر تنہ ئی‘ کنکر‘ اترن‘ آسم نوں پہ لکھ ہے‘ ہ نشین دوسری بیوی‘ محر ‘ ضد‘ جن ‘ ت میرے ہی رہن ‘ نک ح‘ صدقے تمہ رے‘ دی ر دل
18
دل لگی‘ من م ئل‘ آبرو‘ بھیگی پ کیں‘ انتظ ر‘ آپ کے لیے‘ بےشر ‘ ب و کی عید‘ ج نے سے پہ ے‘ جھوٹ واال لو‘ نہ گھر کے نہ گھ ٹ کے‘ بٹی ہم رے زم نے میں‘ صبح پ کست ن مزاح‘ زندگی ک اہ ترین الزمہ اور لوازمہ رہ ہے۔ اردو میں‘ مزاح نگ ری کی رویت ک زور نہیں۔ اس میں‘ اچھے اچھے مزاحیے پڑھنے کو م تے ہیں۔ چند اک مزاح نگ روں کے ن ‘ ب طور نمونہ مالحظہ ہوں۔ پطرس بخ ری‘ ش ی الرحمن‘ کرنل محمد خ ں‘ مقصود حسنی مزاحیہ ش را خ لد عرف ن‘ دالور فگ ر‘ انور مس ود‘ ص بر آف قی‘ ضمیر ج ری وغیرہ ت ریخ اردو اد ڈاکٹر تبس ک شمیری‘ ڈاکٹر جمیل ج لبی‘ ڈاکٹر س ی اختر‘ ص یر احمد ج ن ادبی تحریکیں
19
ڈاکٹر انور سدید‘ مقصود حسنی لس نی ت ڈاکٹر آغ سہیل‘ ڈاکٹر سہیل بخ ری‘ غال محی الدین زور‘ مقصود حسنی تحقی و تنقید ک ش بہ بھی‘ ہر حوالہ سے بھرپور رہ ہے۔ اردو میں‘ بڑے قدآور لوگ‘ اس میدان میں دیکھنے کو م تے بیں۔ کچھ ن درج خدمت ہیں۔ ابو س دت ج ی ی‘ ڈاکٹر جمیل ج لبی‘ پروفیسر حسن عسکری‘ خواجہ حمید یزدانی‘ ڈاکٹر س دت س ید‘ ڈاکٹر س ی اختر‘ ڈاکٹر سہیل احمد خ ں‘ سید ع بد ع ی ع بد‘ ڈاکٹر عبد ال زیز س حر‘ ڈاکٹر غال شبیر ران ‘ ڈاکٹر گوہر نوش ہی‘ ڈاکٹر محمد امین‘ ڈاکٹر سید محمد عبدہللا‘ مقصود حسنی‘ ڈاکٹر سید م ین الرحمن‘ ڈاکٹر نجی جم ل‘ پروفیسر نظیر صدیقی‘ ڈاکٹر وف راشدی‘ ڈاکٹر سید وق ر احمد رضوی‘ پروفیسر وق ر عظی ‘ ڈاکٹر ن صر عب س نیر وغیرہ لغت نویسی بڑا اہ اور حس س ک ہوت ہے۔ ڈکشنری بورڑ
20
کراچی نے‘ ب ئیس ج دوں پر مشتمل‘ جس میں تین الکھ ال ظ ہیں‘ لغت تی ر کی۔ یقین سے کہ ج سکت ہے کہ آج اور آتے وقتوں میں‘ یہ ک اہل ق اور اہل مط ل ہ کے بہت ک آئے گ ۔ چھوٹی موٹی اور بھی لغت تی ر ہوئی ہیں‘ ان میں آئینہءاردو کی اپنی ہی حیثیت ہے۔ یقین یہ بڑے ک کی چیز ہے۔ مقصود حسنی نے فرہنگ غ ل تی ر کی‘ اس میں پ نچ سو سے زی دہ ال ظ ہیں۔ ہر ل ظ کو کئی حوالوں سے دیکھ گی ہے۔ مثال لغت ہ میں م ہی ‘ ش رحین کے ہ ں کے ہ ں م ہی ‘ اس ل ظ کے غ ل سے پہ ے‘ عہد غ ل میں‘ عہد غ ل کے ب د کی م نی رہے ہیں۔ مخت ف اصن ف اد میں‘ اس ل ظ کے کی م نی م تے ہیں۔ یہ ں تک کہ ف می ش عری کو بھی نظر انداز نہیں کی گی ۔ اسالمی اور دیگر مذاہ کی کت ‘ اردو میں ترجمہ ہوئی ہیں۔ ع و و فنون کی کت کے عالوہ‘ س ئنسز کی بہت سی کت ترجمہ ہو کر‘ اردو میں داخل ہوئی ہیں۔ اسی طرح‘ مخت ف اصن ف اد کی کت ک اردو میں ترجمہ ہوا ہے۔ یقین یہ اردو زب ن کی بہت بڑی خدمت ہے۔ اس سے‘ بہت
21
سے نئے ال ظ ترکی پ ئے ہیں۔ اردو کو نئی اصطالح ت مسیر آئی ہیں۔ دو چ ر کت ب طور نمونہ مالحظہ فرم ئیں۔ فرعون و ک ی مترج مظہرالح ع وی فرعون کی آپ بیتی مترج مظہرالح ع وی سو عظی آدمی مترج محمد ع ص بٹ غربت کے کئی چہرے مترج ق ضی ج وید جنگل واال ص ح مترج محمد عمر میمن وقت ک س ر مترج ن ظر محمود پیرس ک کر مترج ڈاکٹر لئی ب بری آگ کی دہ یز مترج مصط ے نذیر بون آدمی مترج مس ود اش ر ش ری ت خی مترج مقصود حسنی ست رے بنتی آنکھیں مترج مقصود حسنی یہ در یہ آست نے مترج ک یت ہللا مدنی ابراہی لنکن مترج اس کھوکھر
22
ک ن دج ل مترج ق ری محمد ی سین ق دری غصہ مترج ط ہر مس ود ف روقی بچوی کی ت ی اور تربیت کی غرض سے بچوں کی بھی ہر نوعیت کی کت تخ ی ہوئی ہیں۔ یہ اقدا بالشبہ الئ تحسین ہے۔ چند مترجمین کے ن مالحظہ ہوں۔ اشتی احمد‘ ای اے راحت‘ رئیس ف طمہ‘ زبیدہ س ط نہ‘ صوفی تبس ‘ پروفیسر قیو نظر‘ ک شف فراز‘ مرزا ادی ‘ مشرف ع ی ف روقی‘ م ظ ج وید‘ محمد یونس حسرت وغیرہ ا ب طور نمونہ بچوں کی چند کت مالحظہ ہوں۔ سندھ کی کہ نی از حمیدہ کھوڑو کہ نہ م ننے کی سزا از م ظ ج وید بخ ری پھ واری از امجد مرزا امجد شیخ چ ی اور جن از ظہیر احمد عمرو اور خزانہء ط س از ظہیر احمد گگو می ں از فرحت اشتی
23
جھوٹ چور از الی س ق دری گھڑی ک گھر از م ظ ج وید بخ ری والدین از عبد الم ک مج ہد ح فظ جی از س ید لخت گڈو کی س ئیکل از غزالہ ج وید شیخ چ ی اورک الجنگل از خ لد نور شیخ چ ی اور ن گ رانی از ظہیر احمد چھوٹ بنگ ہ نہیں ب کہ ایک۔۔۔۔۔ از عن یت حسین عیدن موتی از فوزیہ احس ن ف روقی ٹ رزن کے شک ری از مظہر ک ی عی روں کی حکومت از مقبول جہ نگیر شہزادہ شہری ر از مقبول جہ نگیر س یم نی خزانہ از س ی الرحمن بھوتوں ک راز از ج بر توقیر ٹ رزن اور سہنری ڈھ نچے از ص در ش ہین
24
قبر ک بیٹ از شہزاد احمد صدیقی ن فرم نی کی سزا از م ظ ج وید بخ ری ت خیر ک نقص ن از م ظ ج وید بخ ری ٹ رزن از مظہر انص ری ب رہ بھ ئی از محمد یونس بچوں کے پروگرا اور ڈرامے بھی ٹی وی پر اکثر نشر ہوتے رہتے ہیں۔ درج ب ال مختصر ترین ج ئزے سے‘ ب خوبی اندازہ لگ ی ج سکت ہے کہ اردو زب ن نے‘ اظہ ری حوالہ سے‘ کس قدر اور کس سطع کی ترقی کی ہے اور اس کی ترقی کی رفت ر کی ہے۔ اس امر ک بھی تجزیہ ممکن ہے‘ کہ آتے وقتوں میں اس ک ن ک نقشہ کی اور کس نوعیت ک ہو گ ۔