مقصود حسنی کے چ لیس افس نوں ک تجزی تی مط ل ہ
تجزیہ نگ ر وی بی جی اردو انجمن ڈااٹ ک پیش ک ر پروفیسر نی مت ع ی ابوزر برقی کت خ نہ مئی ٧
ا
زیر تجزیہ افس نے 1دروازے سے دروازے تک 2یہ کوئی نئی ب ت نہ تھی اسے پی س ہی رہن ہے3 پہال قد 4 موازنہ5 6عاللتی است رے 7اسال اگ ی نشت پر 8دوسری ب ر 9سوچ کے دائرے 10ادریس شرلی 11الٹری 12کردہ ن کردہ 13دیکھتے ج ؤ‘ سوچتے ج ؤ 14بیوہ طوائف
15بڑا آدمی 16شیدا حرا دا 17دو دھ ری ت وار 18پٹھی ب ب 19جوا ک سکتہ 20م سٹر جی 21بڑے اب 22گن ہ گ ر 23ان کی تسکین 24چوتھی مرغی 25انگریزی فیل 26تن زعہ کے دروازے پر 27ک من 28اب جی ک ہ زاد 29م لجہ 30کریمو دو نمبری
31ابھی وہ زندہ تھ 32سچ ئی کی زمین 33الروا اور انڈے بچے 34ان پڑھ 35پ خ نہ خور مخ و 36میں ابھی اس ہی تھ 37هللا ج نے 38دائیں ہ تھ ک کھیل 39پنگ 40وہ کون تھے
دروازے سے دروازے تک محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال
بہت ہی دلسوز تحریر ہے جن ۔ کی خو ق چالئی۔ یقین ج نیے تحریر پڑھ کر اپ کے ق کی ت ریف کرنے کی بج ئے ،رونے ک دل چ ہت ہے۔ تحریر ک پہال حصہ جس موضوع پر ق ری ک دل نر کرت ہے، اس پر کچھ کہتے بھی شر محسوس ہوتی ہے لیکن اس دلسوز حقیقت کو ج ن لینے کے ب د تحریر ک دوسرا حصہ صحیح طور سے سمجھ بھی ات ہے اور دل پر اثر کرت ہے۔ مس م ن م شرہ اتنی بیم ریوں ک شک ر ہو چک ہے کہ بندہ کی کہے اور کی نہ کہے۔ لوگ اس قدر بےحس ہو چکے ہیں کہ ہر م م ہ کو حکومت کی زمہ داری قرار دے کر ،پہ و تہی کر ج تے ہیں۔ یہ ں تک کہ کبھی کبھی ہمیں لگت ہے کہ لوگ چ ہتے ہیں وہ گھروں میں سکون سے بیٹھے رہ کریں اور حکومت س کو گھر گھر ہر مہینے پیسوں کی بوری دے ج ی کرے۔ انہیں سمجھ نہیں ات کہ ان ج نہیں اگ ئیں گے تو نہیں کھ ئیں گے۔ ریڑھی پر لوگوں کو دھوکے سے گندے ٹم ٹر بیچنے واال خود حکومت سے رنجیدہ ہے کہ وہ دھوکے ب ز ہے۔ لوگ نہیں سمجھتے کہ وہ ایج دات ،ت ی ،زراعت وغیرہ میں محنت کر کہ دنی کو کچھ
دیں گے نہیں تو دنی انہیں موب ئل اور کمپوٹر م ت فراہ نہیں کرے گی۔ مذہبی م مالت میں انتہ پسندی یہی ہے کہ ایک فرقہ قبر کو سجدے تک کرنے پر راضی ہے تو دوسرا قبروں کو التیں م رت پھرت ہے۔ برداشت خت ہو چکی ہے۔ ایک انگریز بوڑھی سی خ تون ایک دن ٹی وی پر کسی پروگرا میں بہت پی ر اور حیرت بھرے لہجے میں فرم رہی تھیں کہ اخر مس م نوں کو کیوں کمیونٹی بن کر رہن نہیں ا رہ ہے۔ وہ نہیں سیکھ رہے اور نقص ن بھی وہ اپن ہی کرتے ج رہے ہیں۔ اس کے نزدیک یہ بہت م مولی سی ب ت تھی کہ اتنی سی ب ت نہیں سمجھ ا رہی۔ خیر ہمیں تو ا اپنے اپ سے ڈر لگنے لگ گی ہے کہ اگر ہ اپنے ق پر ق بو نہ پ سکے تو ہم را ح ل وہی ہو گ جو س حر اور ج ل ک ہؤا تھ ۔ لیکن خیر ،ابھی ہمیں اپنے اندر موجود، اس بے حسی پر بھروسہ ہے ،جو اس م شرہ نے ہمیں تح ہ میں دی ہے۔ تحریر پر ہ اپ کو ایک ب ر پھر بھرپور داد دیتے ہیں۔ دع گو وی بی جی =http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic 8987.0
یہ کوئی نئی ب ت نہ تھی
محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال
کی ہی ب ت ہے جن ۔ بہت خو ۔ بہت ب ریک م م ے پر ق اٹھ ی ہے اور کی ہی خو اٹھ ی ہے۔ یہ انداز بھی بہت پسند ای جس طرح اپنے م م ے کو ایک مق لمہ کی شکل دی اور ب ت واضح سے واضح طور تر ہوتی چ ی گئی۔ ہمیں سو فی صد ات ہے اپ کی اس ب ت سے۔ م م ے کو تھوڑا وسیع کر کے دیکھیں تو ب ت وہیں جنون و خرد کی لڑائی پر اتی ہے۔ ہم را ذاتی خی ل ہے کہ جنوں اورد کی طرح ہے اور عموم ً کسی چیز ک حقیقی اور حتمی احس س ہوت ہے۔ خرد کو دالئل چ ہیئں۔ وہی فر جو وک لت اور ن سی ت ک اپ کی تحریر میں جھ کت محسوس ہوت ہے۔ ن سی ت چونکہ اس چیز ک مط ل ہ کرتی ہے :جو ہے ،:اس لیئے حقیقت کے قری تر ہے۔ جبکہ وک لت ک زی دہ تر زور اس پر ہے کہ :کی ہون چ ہیئے :ح النکہ ہم رے نذدیک :کی ہون چ ہیئے :ک اس وقت تک ت ین ہی نہیں کی ج سکت ج تک یہ مکمل طور پر ج ن نہ لی ج ئے :جو ہے: اپ نے بج فرم ی کہ ہم را م شرہ ،اکہرے نہیں ب کہ دوہرے
م ی ر ک شک ر ہے ب کہ ہ تو کہیں گے کہ کئی ہرے م ی روں ک شک ر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بقول شخصے :ہر شخص چ ہت ہے کہ اس کی بیوی وہ کچھ نہ کرے جو وہ چ ہت ہے کہ پڑوسی کی بیوی کرے اس کی وجہ ہمیں جو محسوس ہوتی ہے وہ بھی اپ نے بی ن فرم ہی دی ہے ،کہ ہ لوگوں نے اسال کو اپنی ہندوست نی تہذی کے س تھ ہ اہنگ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسال میں غیرت ک ایس تصور ہمیں کہیں نہیں م ت ،وہ ں ک فی ب تیں کچھ مخت ف انداز میں ہیں۔ لیکن خیر یہ واق ی کوئی نئی ب ت نہیں ہے ،لیکن اپ نے اسے اپنے ق کے زور سے نی بن دی ہے۔ مق لمہ بہت اچھ لکھ ہے اپ نے۔ ہمیں تو پڑھ کر بہت مزا ای جن ۔ ایک ب ر پھر بھرپور داد کے س تھ ۔۔۔ دع گو وی بی جی ttp://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=90 00.0
اسے پی س ہی رہن ہے محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال
بہت ہی ش ندار تحریر ہے۔ ایک تو جس طرح یہ کہ نی کوے کے پی سے ہونے کی تشریح کرتی ہے بہت ہی خو ہے اور پھر اختت تو سبھ ن هللا ۔۔ ہم ری طرف سے بھرپور داد۔ محتر سرور ع ل راز سرور ص ح کی ب توں سے بھی است ضہ ح صل کی ۔ اپ کی ب تیں بج ہیں۔ ح ک ہمیشہ محکو کی کی وجہ سے ح ک رہ ہے اور رہے گ ۔ ہمیں اس سے کی کہ ہم ری ت ریخ میں کی کچھ بھرا پڑا ہے۔ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ہ رون الرشید اور م مون الرشید کے دور میں فرقہ م تض ہ کی کی حیثیت تھی۔ خ ندان برامکہ کے س تھ کی ہؤا۔ کیس کی الش ب زار میں کتنے دن لٹکی رہی۔ اور حضرت ام احمد بن حنبل کے س تھ کی کی گی ۔ ہمیں صرف ان کے دور حکومت کی ت ریف کرنی ہے کیونکہ وہ مس م ن خ تھے۔ ہمیں مغ یہ دور کی بھی ت ریف کرنی ہے ہ کیوں ج نیں ی م نیں کہ نور جہ ں شیر افغن کی بیوی تھی یا نہیں۔ اسے کس نے کیوں قتل کروای ۔ ہمیں ان کی ت ریف ہی کرنی ہے۔ اپ کئی ب ر کہہ چکے ہیں کہ مورخین نے بہت ظ کی ہے۔ ب لکل درست کہتے ہیں اپ۔
جن کوا پی س رہے گ ۔ درست۔ لیکن کوے کو پ نی کی تالش ج ری رکھنی چ ہیئے اور ہ اس کے لیئے کوش ں رہیں گے۔ قدرت ک کھیل ہی ایس ہے۔ کوے کو پی س دی ہے اور امتح ن یہی ہے کہ اسے پ نی پال کر دکھ ؤ تو ت ک می ۔ یہی جہت ہے یہی جہ د۔ ہم ری نظر میں یہ اپ کی زور دار تحریروں میں سے ایک ہے۔ ش ندار ہے۔ ہم ری طرف سے بھرپور داد کت کی اش عت مب رک ہو۔ ہم رے خی ل میں اپ قصور میں رہ ئش پذیر ہیں۔ ہم را مس ئہ کچھ ایسے ہے کہ ہم را کوئی پتہ نہیں ہے۔ ج د دری فت کریں گے اور اپ کو ضرور مط ع فرم ئیں گے۔ ہم ری دلی خواہش ہے کہ ہ :خوشبو کے امین :پڑھ کر اپ جیسے ق ک ر سے است ضہ ح صل کر سکیں۔ ایک ب ر پھر بھرپور داد کے س تھ دع گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9012.0
پہال قد
محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال
بہت عمدہ جن ۔ بہت ہی اع ی تحریر ہے۔ بھرپور داد۔ اپ کو ب ت کہنے ک فن ات ہے ،اور ظ ہر ہے کہ یہی ایک ق ک ر کے فن ک مظہر ہے۔ یہ تحریر جس راستے پر چ نے ک سب دے رہی ہے جن ،وہ بہت ہی مشکل راستہ ہے۔ اس قدر مشکل کے تصور کرن بھی مح ل۔ ک ش کہ ہ لوگ اس مق تک پہنچ سکیں۔ مشکالت صرف یہی نہیں جو تحریر سے عی ں ہیں ،ب کہ کچھ برعکس بھی ہیں۔ اپ نے ت ریخ میں سے کچھ مث لیں ق مبند کی ہیں ،لیکن سچ پوچھیں تو ہ ایسی ہزاروں مث لیں پیش کر سکتے ہیں ،جہ ں برا کرنے والے کو اس کے کیئے کے برابر سزا نہیں م ی۔ کئی ایسی مث لیں بھی ہیں جن میں سرے سے سزا م ی ہی نہیں ،ب کہ ظ کرنے والے اخری س نس تک عی شی اور ظ کرتے رہے۔ کئی مث لیں تو ہم رے س منے ہی موجود ہیں جہ ں شرف مہینوں چ رپ ئی پر کھ نس کھ نس کر اور ایڑی ں رگڑ رگڑ کر مرتے ہیں ،جبکہ ظ ل لوگوں کے لیئے قدرت نے قدرے اس ن طریقہ موت بھی ایج د کر رکھ ہے جیسے دل ک
دورہ پڑنے سے اچ نک دنی سے اٹھ گی ۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر دنی میں انص ف ہو رہ ہوت اور ہر ظ ل کو ح کے مط ب سزا مل رہی ہوتی ،تو ،نہ تو یہ ں ظ ع ہوت ،اور نہ ہی جنت اور دوزخ کے وجود کی کوئی ضرورت تھی۔ ج یہ س انس ن دیکھت ہے ،کہ دنی میں انص ف نہیں ہے۔ اچھ کرت اور برا نتیجہ لیت ہے تو ظ ہر ہے کہ قد ڈگمگ ج تے ہیں۔ هللا پر اعتم د بھی کہنے کو تو بہت ہوت ہے ،لیکن دل میں کمزور پڑ ج ت ہے۔ ایسی صورت میں اس راستہ پر چ ن اور بھی مشکل ہو ج ت ہے۔ ب قی جن اپ کی تحریر اس قدر خوبصورتی سے کئی پہ و سمجھ رہی ہے کہ مذید کچھ کہنے کو رہ ہی نہیں ج ت ۔ ہم ری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ امید ہے کہ پڑھنے والے جس قدر ہو سک ،اثر لیتے ہوئے ،سچ ئی کے راستہ پر ڈٹے رہیں گے۔ ایک ب ر پھر بھرپور داد کے س تھ دع گو وی بی جی
shukarriya janab aap ki baat main kham samait dam hai aur gehri soch main par gya hoon kya likhoon, kya karoon aur kya na karoon Allah zaroor rahnamaee farma'ay ga haan basaat bhat 40- 50 saal se issi tara ka likh raha hoon apni haad tak qadre amal bhi karta hoon. aap bhi dua farma'ay Allah restay khool de aap ka likha her lafz maire liay bari hi ehmiat ka hamil hai.
محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال
ہ م ذرت خواہ ہیں کہ ہم ری ب توں نے اپ کو کل سے عجی سی کشمکش اور بے چینی میں مبتال کر رکھ ہے۔ ہ نے کوشش کی کہ ج د سے ج د ح ضر ہو سکیں سو ح ضر ہو گئے ہ ی ں۔ پہ ے تو ہ یہ بت تے چ یں کہ جو اپ 40 - 50س ل سے کر رہے ہیں وہ بہت بڑا ک ہے۔ ہ نے بھی ایسی ہی تحریریں پڑھی ہیں اور ہمیں ی د تک نہیں کہ وہ کون لکھتے تھے۔ اور بھی کئی لوگ ہیں جو اس ع می خزانے سے است ضہ ح صل کرتے ہیں۔ اپ کی تحریروں نے کئی لوگوں کو اگہی بخشی ہو گی۔ ہو سکت ہے کہ انہیں اپ ک ن بھی یاد نہ رہے ،اور تحریروں کو سرسری پڑھ کر چ ے ج ئیں۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ یہی وہ تحریریں ہیں جو ان کے الش ور میں پیوست ہو ج تی ہیں۔ اور پھر اہستہ اہستہ ش ور ک حصہ بنتی چ ی ج تی ہیں۔ اپ ج نتے ہی ہیں کہ ہ ق ک ر نہیں ہیں سو کچھ بھی لکھتے ہیں تو وہ بکھرا بکھرا اور کئی ب ر بے ربط س ہو ج ت ہے۔ کچھ ایس ہی یہ ں بھی ہؤا۔ اصل میں ب ت پیر ص ح کی تھی ،سو ہ اسے پیری میں ہی لے گئے۔ جو طرز عمل پیر ص ح ک اس تحریر میں تھ وہ ہم رے خی ل سے صرف پیروں کے ہی بس کی سی ب ت ہے۔ سو ہ نے اس میں پیش انے والی مشکالت کو ذرا س بی ن کر دی اپنی
محدود عقل کے حس سے۔ مشکالت تو اس بھی کہیں ذی دہ بڑھ کر ہیں۔ اس سے ایک درجہ اوپر کی مشکل بھی موجود ہے جسے ال ظ بھی دئیے ج سکتے ہیں ،لیکن اس کے ب د کی مشکالت کو تو ال ظ بھی دین ممکن نظر نہیں ات ہمیں۔ ہ اس میں ذی دہ نہیں ج تے ،وگرنہ ش ید ہ اپنی بے تکی ب توں سے اپ کو مذید الجھ ہی نہ دیں۔ هللا پ ک ہ س کو ط قت دے کہ ہر مشکل برداشت کریں لیکن نیکی کے راستے سے قد نہ بہکیں۔ دع گو وی بی جی هللا پ ک ہ س کو ط قت دے کہ ہر مشکل برداشت کریں لیکن نیکی کے راستے سے قد نہ بہکیں۔ =http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic 9019.0
موازنہ محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال
جن عزت افزائی ک بہت شکریہ۔ ہم رے لیئے اعزاز کی ب ت ہے کہ اپ کے ق نے ہمیں اس الئ سمجھ ہے۔ لیکن ایک گزارش کرن چ ہیں گے کہ ص ح ! یہ ت ری یں ہ سے برداشت نہیں ہوتیں۔ سمجھ لیجے کہ ت ری یں وی بی جی کی موت ہیں۔ ہمیں اچھی طرح م و ہے کہ اپ نے کس قدر خ وص اور محبت سے ہم رے ب رے میں اپنے خی الت ک اظہ ر فرم ی ہے۔ اور یقین ً اپ نے ح گوئی ک مظ ہرہ کی ہو گ ۔ جیس محسوس ہؤا ویس بی ن کی ہو گ ۔ ہ شکر گزار ہیں کہ اس الئ سمجھ اپ نے۔ اپ نے بہت ہی خوبصورت انداز میں جوا عن یت فرم ی ہے۔ اپ ق ک ر ہیں سو اپ ب ت کہنے ک فن ج نتے ہیں۔ لیکن اس گہرائی سے مش ہدہ کرن ظ ہر ہے کہ گہری سوچ اور س جھ ہؤا ذہن چ ہت ہے۔ ہم ری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ جوا بھی ہمیں بہت پسند ای ہے۔ دراصل کئی ایسے سوال ہوتے ہیں ،جن کے ذہن میں اتے ہی ،لوگ انہیں جھٹالن شروع کر دیتے ہیں کہ یہ تو سوچن بھی گن ہ ہے۔ اور اس طرح گوی یہ تس ی کر لیتے ہیں کہ ان سوالوں ک کوئی جوا نہیں ہے جو انس ن دے سکے۔ اور نتیجہ یہ کہ اپنے اپ کو دھوکہ دیتے رہتے ہیں اور ایم ن
کی کمزوری ک شک ر رہتے ہیں۔ ہم رے خی ل میں تم سواالت کے جوا موجود ہوتے ہیں۔ هللا پ ک اور اس دنی ک وجود ہمیں غیر منطقی نہیں نظر ات ۔ اگر ہ سوچنے پر ہی پ بندی لگ دیں، تو جوا کہ ں سے ائیں گے۔ ایم ن پختہ ہون چ ہیئے ،راز کھ تے چ ے ج تے ہیں۔ تحریر پر ایک ب ر پھر بھرپور داد۔۔۔ بہت ہی عمدہ تحریر ہے۔ ظ ہر ہے کہ کئی سوالوں کے جوا دیتی ہے۔ س جھ ہؤا انداز تحریر ہے۔ ایک ب ر پھر بھرپور داد کے س تھ ۔۔ دع گو =http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic 9044.0
عاللتی است رے محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال مسنون
کچھ عرصہ غیر ح ضر رہے۔ اپ ج نتے ہی ہیں کہ رمض ن میں ہ ایسوں کو قید ہی کر لی ج ت ہے جن کی ہی اچھ مضمون ہے۔ ہم ری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ درست فرم ی اپ نے کہ اخالقی اور روح نی بیم ریوں کی کسی کو فکر نہیں۔ ہ تو پہ ے سے ہی ق ئل ہیں کہ اپ کی نظر بہت گہرائی میں م شرتی روویوں پر ٹکی ہے۔ م ش هللا بہت وس ت دی ہے اپ کے خی ل کو قدرت نے۔ ویسے زی دہ تر یہ خودس ختہ بیم ری ں خواتین کو الح ہوتی ہیں ،لیکن کئی مرد حضرات بھی اس ک شک ر ہو ج تے ہیں۔ ہر وقت یہی رون روتے رہتے ہیں۔ ان س بیم ریوں کی اہ ب ت یہ ہوتی ہے کہ یہ کسی ڈاکٹر کو سمجھ نہیں اتیں اور ان میں اف قہ نہیں ہوت ۔ گھر میں اتنی اقس کی دوائی ں ہوتی ہیں کہ توبہ اور ایک وقت میں کھ نے کے ب د اتنی گولی ں کھ ئی ج تی ہیں کہ س لن کی بج ئے ،چند ن ن فقط گولیوں کے س تھ کھ ئے ج سکتے ہیں۔ اگر کوئی ان کو یہ کہے کہ خدا نہ خواستہ ا وہ ہش ش بش ش نظر ا رہے ہیں تو وہ اس شخص کے دشمن ہو ج تے ہیں۔ ایک جیسے چند لوگ مل کر بیٹھ ج تے ہیں تو
مرغوں کی طرح بیم ریوں ک مق ب ہ کراتے ہیں۔ ہر کوئی دوسرے سے بڑھ کر اور حیران کن بیم ری بت ت ہے۔ ایک دوسرے کی ب ت سنتے ک ہیں اور دوسرے کی ب ت ک ٹ کر اپنی بیم ری بی ن کرنے ک انتظ ر کرتے رہتے ہیں۔ انہیں دوسروں کی کچھ بیم ری ں سن کر افسوس بھی ہوت دکھ ئی دیت ہے کہ یہ بیم ری انہیں کیوں نہ ہوئی۔ اخر میں ب ت اپ کے بی ن پر ہی خت ہوتی ہے کہ یہ خود ایک روح نی و اخالقی بیم ری ہی ہے۔ تحریر پر ایک ب ر پھر بھرپور داد دع گو وی بی جی =http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic 9097.0
اسال اگ ی نشت پر محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال
م ذرت چ ہتے ہیں کہ دیر سے ح ضر ہوئے۔ اگر سمجھیں تو روال یہ ں بھی روٹی ک ہی ہے۔ تحریر بہت ہی اع ی ہے۔ ہمیں اپ کے ب توں سے حرف بہ حرف ات ہے۔ اور یہ اپ کی ہی نظر ہے کہ جس سے یہ ب تیں ڈھکی چھپی نہیں رہ پ تیں۔ وگرنہ ہ جیسے انکھوں والے اندھے س کچھ دیکھتے بھی ہیں لیکن کچھ نظر بھی نہیں ات ۔ کچھ دن سے اپ نظر نہیں ا رہے ہیں۔ امید ہے کہ خیریت سے ہونگے۔ دع گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9033.0
دوسری ب ر محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال
جن کیسے ممکن ہے کہ یہ افس نہ پسند نہ ای ہو۔ م ش هللا نئے موضوع پر ہے اور ہم رے اپنے خی الت کی ت ئید کرت ہے سو پسند نہ ان تو ممکن نہ تھ ۔ البتہ کچھ لکھتے ہوئے ذرا س ہچکچ ئے تھے کہ محتر سرور ع ل راز سرور ص ح نے ایک ادھ ایسی ب ت کی جس سے ہمیں مکمل ات نہیں۔ سوچ کچھ لکھیں گے تو یہ اختالف س منے ا ج ئے گ اور ہ اپنی ک عق ی اور ک ع می کے ب عث کہیں انہیں خ نہ کر دیں۔ ا چونکہ کچھ کہن الز ہو گی ہے تو عرض کئیے دیتے ہیں۔ ہم رے ن قص ع اور ک تجربہ ک ری کی روشنی میں افس نہ ہوت ہی ایس ہے کہ تشنگی چھوڑ ج ت ہے۔ افس نے کے مق صد اور انداز ،مضمون سے قط ی مخت ف ہوتے ہیں۔ اس ک مقصد کسی کہ نی کو مکمل کرن بھی نہیں ہوت ۔ مضمون ک ک تو ش ید یہی ہوت ہے کہ وہ پہ ے کسی مسئ ہ کی طرف توجہ دالئے ،پھر اس کی اص یت کو پرکھے ،فوائد نقص ن ت ،اثرات ،اور پھر اخر میں کہیں ج کر ان کے حل کو واضح کرے۔ لیکن افس نہ اپن ک اس چھوٹی سی تقریب ً ن مکمل کہ نی میں کر گی ہے۔ م شرے کی کسی ایک تصور سے روشن س کروا گی ہے۔ وہ تصور مثبت بھی ہو سکت ہے اور من ی بھی۔
اسی خوبصورت افس نہ کے حوالے سے ،اپ نے پڑھنے والوں کے ذہنوں کو ان کرداروں کو پہچ نن سکھ ی ہے جو مذہبی فرقہ واریت میں مبتال ہوتے ہیں۔ دوسروں کے ذہنوں میں ن رت بھرتے ہیں۔ لوگ اگر اس ن رت سے ات نہ بھی کریں تو کھل کر اظہ ر سے ہچکچ تے ہیں کہ کہیں ان کو بھی مذہبی طور پر لوگ دھتک ر نہ دیں۔ ال ظ ک چن ؤ اور کہ نی ک بی ن یہ ایسے عن صر سے پڑھنے والے کے دل میں ن رت پیدا کر رہ ہے اور درزی ک کردار ان تک لیف ک شک ر ہونے والوں کے لیئے دل میں احترا پیدا کر رہ ہے۔ افس نہ اپن ک کر چک ہے اور اس ک حل کوئی واضح ک یہ نہیں ہو سکت ۔ ب کہ یہی اس ک حل ہے کہ ایسے مولوی سے ن رت کی ج ئے اور اسے دھتک ر دی ج ئے اور ایسے درزی ک خی ل رکھ ج ئے جو اس طرح کے مسئ ہ ک شک ر ہو۔ اس خوبصورت اختت پر بھی ہ اپ کو داد پیش کریں گے۔ ہ کی سی تشنگی ک احس س جو ق ری کو اس پر مجبور کرت رہے گ کہ افس نہ کچھ عرصہ یا وقت تک ذہن میں گردش کرت رہے۔ اور پھر اس ک پیغ اہستہ اہستہ خود ہی ال ش ور ک حصہ بن ج ئے گ اور وقت پر ش ور میں ا کر م شرے کو ف ئدہ دے گ ۔ افس نہ کو اس سے غرض نہیں کہ کہ نی کے ہیرو نے اسے چیرا یا نہیں۔ لیکن ہمیں یقین کے کہ ایسے کرداروں کو ق ری ک ذہن خود بخود چیر کر رکھ دے گ ۔
ہم ری طرف سے داد قبول کیجے۔ اور محتر سرور ع ل راز سرور ص ح سے بھی م ذرت چ ہیں گے اگر ہ کچھ بے سرے ہو گئے ہوں۔ جو ح ل سو ح ضر دع گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9162.0
سوچ کے دائرے محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال
تحریر پڑھ لی تھی ،ب کہ کئی ب ر پڑھی۔ ہمیشہ کی طرح بہترین۔ اور پھر اہ ب ت یہ کہ اس میں اپ ک انداز ہمیں مخت ف نظر ای ۔ اپ نے ج بج ال ظ کے بہترین چن ؤ کے ذری ے ،اس میں بہت ہی خوبصورت تصویر کشی کی ہے۔ افس نہ ک اصل پیغ گرچہ تحریر کے اخر میں م ت ہے ،لیکن وہ ں تک پہنچتے پہنچتے پڑھنے والے کے دل پر جو گزر ج تی ہے ،بی ن سے ب ہر ہے۔ اور یہی خصوصیت ہے افس نہ کی۔ کہ پیغ نہ دیتے بھی ق ری کو بہت کچھ سکھ ج ت ہے۔ اور اس ن چیز جیسے لوگوں کو ائینہ میں اپنی شکل ص ف دکھ ئی دیتی ہے۔ ہم ری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ یقین ج نئیے اس ب ر ہم ری داد اپ کے اس ق کی ط قت کو ہے ،جس نے یہ تصوری کشی کی ہے۔ پیغ البتہ واضح ہے۔ درست فرم ی کہ یہی ح ل ہے عوا و خواص ک ۔ ہ نے اکثر لوگوں کو یہی کہتے دیکھ کہ ،بکرا ،دنبہ اس لیئے الئے کیونکہ بچے ضد کر رہے تھے۔ گوی اس سے ان کی ن ک اونچی ہو گئی۔ کبھی تو خی ل ات ہے کہ ذکوۃ اور ٹیکس کی ادائیگی ک بھی ایس ہی کوئی طریقہ کی ج ئے جس کی خو
تشہیر ہو ،اور لوگوں کو اس میں بھی اپنی ن ک کی طرف دھی ن ج ئے ت کہ کسی بھی بہ نے سے سہی ،لوگ یہ ک کریں تو سہی۔ لیکن خ موش اس لیئے ہو ج تے ہیں کہ ص ح ،زکوۃ تو چھپ کر ہی دینی ہے۔ اس ضمن میں ایک اور چیز بھی ہم رے تجزیہ میں اتی ہے کہ لوگ مح ہ میں لوگوں ک ج نتے ہی نہیں۔ اور اکثر یہ بھی نہیں ج نتے کہ کس کو کی مشکالت ہیں۔ اگر لوگوں میں ایک دوسرے کے س تھ پی ر اور خ وص ک رشتہ ہو ،تو ہم رے خی ل میں مخیر لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ ہ س ہی ایک دوسرے کی مدد کے لیئے ج ن کی ب زی لگ نے کو تی ر ہیں۔ لیکن ہوت یہ ہے کہ ایک تو ضرورت مند ک پتہ ہی نہیں کہ کہ ں ہے ،اور پھر جو ضرورت مند مل بھی ج ئے تو یقین نہیں ات کہ یہ واق ی ضرورت مند ہے۔ ہ مث ل دیتے ہیں۔ ہم ری اہ یہ (جس کے ہ اہل تو نہ تھے) ک فی عرصہ تک ایک گھر میں مکمل زکوۃ دیتی رہیں۔ ان لوگوں کے نہ بچے سکول میں ،نہ پہننے کو کپڑے۔ گھر میں اکثر ف قہ۔ کچھ س ل ب د یہ م و ہؤا کہ ہم رے گھر سے م حقہ بہت بڑا پالٹ جس کی م لیت کروڑوں میں ہے ،انہی ک ہے۔ ہم ری اہ یہ نے تو وہ ں امداد دینی بند کر دی ،لیکن ہ سوچتے ہی رہ گئے ،کبھی ان کے پالٹ کو دیکھتے ہیں تو کبھی ان کے بچوں کو جن کو واق ی امداد کی ضرورت ہے۔
ہ اپنی مث ل لے کر بیٹھ گئے۔ ہم ری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے جن ۔ بہت ہی عمدہ افس نہ ہے۔ اور ہمیں یقین ہے کہ پڑھنے والے اگر افس نہ کے اخری پیغ کو نہ بھی اپن سکے تو بھی یہ افس نہ ان کے دل میں گھر کر ج ئے گ ۔ اسال سمجھ میں ائے نہ ائے ،انس نیت ہی سمجھ ا ج ئے گی۔ شکریہ کے س تھ دع گو وی بی جی
محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال
جن ج ن کہ ں ہے ہ نے۔ دراصل فرنگیوں کے ف س ہ کی رو سے ہم رے تین عدد ق نونی بھ ئیوں کے جم ہ حقو مح وظ کرنے ک س س ہ چل نکال۔ عید سے ایک دن پہ ے تک ہ سخت گرمی مین ٹ ئی لگ ئے تم رسوم ت میں شرکت کرتے رہے اور پھر عید پر قرب نی۔ قرب نی میں مح ہ کے لوگوں کے س تھ حصہ تھ ،سو چھری تو ہ نے پولیس کے اہ ک ر مح ہ دار سے پھروا لی اور پھر بیل کی کھ ل بھی ایک واپڈا کے ک رندے نے کھینچ لی ،لیکن پھر جتنی محنت خود ہمیں کرنی پڑی ا تک جس دکھت ہے۔ ا ہ نے اپنے بینک اک ؤنٹ پر غور کی تو پیسے کچھ زی دہ محسوس ہوئے۔ ایک ص ح نے مشورہ دی کہ پیسے زی دہ ہو ج ئیں تو مک ن بن ن شروع کر دین چ ہیے۔ خو اف قہ ہو گ ۔ سو ا یہ مصروفیت بھی ہم رے س تھ ہے۔ جس ک پی میں کبھی ش ر لکھ کرتے تھے ا اس میں کھنگر ،ریت ،بجری ،روڑا، اینٹ اور خ کہ کے بھ ؤ ت ؤ لکھ رہے ہیں۔ دفتر کی مجبوری ں الگ۔ سو ایسے ح الت میں ہ یہ ں چکر تو لگ لیتے ہیں لیکن مط وبہ حد تک یکسوئی اور سکون میثر نہیں سو خ مشی پر اکت کر رہے ہیں۔ )ہم ری اہ یہ (جس کے ہ اہل تو نہ تھے ہم رے دم کی اتنی اوق ت کہ ں جن کہ کچھ تخ ی ہو سکے۔ ایک ش ر کہیں سن تھ ۔ سو یہ خی ل وہ ں سے ای ۔
میں تو اہل ہوں کسی اور ک ،مری اہ یہ کوئی اور ہے میں ردیف مصرع عش ہوں ،مرا ق فیہ کوئی اور ہے ب قی زندہ ہیں تو یہیں ہیں جن اور اپ کی بہترین تحریروں سے محظوظ بھی ہوتے رہیں گے اور اپ کے خ وص اور محبت سے بھی فیضی ہوتے رہیں گے۔ عزت افزائی پر شکر گزار ہ ی ں۔ دع گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9247.0
ادریس شرلی محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال مسنون
بہت عمدہ جن ۔ ایسی تحریروں کی م شرے کو بہت شدت سے ضرورت ہے۔ لوگوں کو ہر پہ و سے ائنہ دکھ تے رہن ہی اپ کی تحریروں ک مقصد ہے اور وہ اپ بہترین طریقے سے کر رہے ہ ی ں۔ ادریس ص ح میں وہ وہ خص تیں پ ئی ج تی ہیں جو اکثر عورتوں میں پ ئی ج تی ہیں ،لیکن کچھ مردوں میں بھی یہ خص تیں پ ئی ج تی ہی ہیں۔ ہم را ذاتی خی ل کچھ اس ب رے میں یہ ہے کہ ہمیں نیکی اور بدی کے فر کو بہتر طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کئی ایسی ن نہ د نیکی ں م شرے میں ع ہیں جس سے بہت نقص ن ہو رہ ہے۔ جس کی مث ل ہ کچھ یوں دیں گے کہ کئی غیر ق نونی سرک ری مراع ت یہ کہہ کہ ج ئز قرار دے دی ج تی ہیں :چھوڑیں جی ،یہ غری ادمی ہے ،اس ک بھال ہو ج ئے گ :۔۔۔ سرک ری م ل ،م ل م ت اور دل بے رح ۔ دوسری مث ل ان عمر رسیدہ لوگوں کی بھی ہے جنہیں ہ اپنے بچوں سے چ چ اور انکل کہ واتے ہیں۔ بچوں کو یہ احس س ضرور ہون چ ہیئے کہ عمر کے س تھ الزم ً زندگی ک وسیع تجربہ
منس ک ہوت ہے ،لیکن اس ک ہر گز یہ مط نہیں ہوت کہ ہر ب ت میں وہ درست ہوں۔ بقول ہم رے دیرینہ دوست شیخ س دی مرحو کے: ،بزرگی بہ عقل ہست ،نہ بہ س ل:۔ اندھی تق ید چ ہے مذہ کی ہی کیوں نہ ہو ،ہ ذاتی طور پر اس کے ح میں نہیں ہیں۔ سو ہم رے خی ل میں کہ نی کے مرکزی کردار جیسے لوگوں کو ان کے منہ پر اپنے دل کی ب ت من س انداز میں بت دینی چ ہیئے اور ہر کسی کی عزت اتنی ہی کرنی چ ہیئے جتنے اس کے اعم ل ک ح ہو۔ ہم رے ہ ں تو اپ ج نتے ہی ہیں کہ کسی کی ت ظی اور اس ک مق ،اج بھی لوگ ،یا تو اس کی دولت کے حس سے کرتے ہیں یا پھر عمر کے حس سے۔ ہم ری نظرمیں یہ پیم نہ درست نہیں۔ بڑی گ ڑی سے اترے والے شخص کی خدمت بھ گ بھ گ کر کی ج تی ہے ،چ ہے وہ خود نہ بھی چ ہے ،جبکہ اس ن چیز جیس کوئی شخص سنی رے کی دک ن میں ج ن چ ہے تو مح فظ دروازے پر ہی روک کر پوچھ گچھ شروع کر دیت ہے۔ دوسری طرف اگر کوئی بزرگ ،بقول اپ ہی کے ،اپن لچ بیچ میں ت نے کی کوشش کرے (ویسے یہ مح ورہ بھی کی ہی خو کسی نے بن ی ہے ،ہمیں بہت پسند ہے) تو اس پر خ موشی اختی ر کر لی ج تی ہے۔ سو ہم رے خی ل میں ج تک ت ظی ک م ی ر درست نہیں ہوت ، م شرتی ن انص فی ں بڑھتی ہی چ ی ج ئیں گی۔ لوگوں کو ہر پہ و سے ائنہ اپ خو دکھ تے رہتے ہیں ت کہ لوگ اپنے گریب ن میں
جھ نک کر اپنے اندر موجود برائی کو ج ن پ ئیں۔ اور اگر وہ ج ن گئے تو اس میں س ک بھال ہو گ ۔ ایک ب ت ہ سے کہن رہ گئی تھی۔ اپ کی تحریروں میں مح وراتی زب ن ک عنصر نم ی ں ہے۔ اسے پڑھ کر ہم رے ع میں بہت اض فہ ہوت ہے اور یقین ً اس کے اثر سے ہ بھی اپنی ب ت کو بہتر ،پر اثر اور ب م نی بن سک کریں گے۔ جس پر شکر گزار ہ ی ں۔ ایک ب ر پھر بھرپور داد کے س تھ۔ دع گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9023.0
الٹری محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال
شرمدہ ہیں کہ ح ضری میں دیر ہوئی۔ ایک بہ نہ تو اپ ج نتے ہی ہیں کہ دنی داری وقت نہیں دیتی۔ لیکن ایک وجہ اور بھی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ہ کچھ موڈی قس کے شخص واقع ہوئے ہیں۔ کبھی کبھی ،اکت ئے سے پھرتے ہیں اور کچھ دن ایسے ہی الغر گزر ج تے ہیں۔ اپ کی تحریریں تو فوری پڑھتے ہیں ،لیکن کچھ لکھنے پر ذہن م ئل نہیں ہوت ۔ فطری سی ب ت ہے سو جو ح ل سو ح ضر کر دی ہے۔ ہمیں تحریر ک یہ انداز بہت پسند ہے۔ واق ت کو ایک خ ص انداز میں پرو کر پیش کر دین ۔ ظ ہر ہے کہ لکھنے والے کے ال ظ ، واق ت میں پوشیدہ احس س ت کو عی ں ضرور کر دیتے ہیں لیکن تحریر کو کسی خ ص عنوان کی طرف مکمل طور پر نہیں جھک ی ج ت ۔ ال ظ ک ج دو چل چک ہوت ہے اور ق ری کی سوچ انہیں احس س ت کے بیچ ہی رہتی ہے۔ اس کے ب وجود ق ری کے پ س سوچ کے گھوڑے دوڑانے کے لیئے بہت کھال میدان ہوت ہے۔ انس ن کو کچھ سمجھ دین ی بت دین اس ن ہے ،لیکن ق ری کو اس پر مجبور کرن کہ وہ خود یہ س سوچنے کے ق بل ہو ج ئے اور نت ئج کو خود ہی ڈھونڈ نک لے ،یہ اپ جیسے ق ک ر
ہی کے بس کی ب ت ہے۔ ہم ری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ دع گو وی بی جی =http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic 9288.0
کردہ ن کردہ محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال
بہت خو جن ۔ اس ب ر بھی اپ نے ایک ن زک س نقطہ چن ہے اور ب ریک بینی کے س تھ تجزیہ فرم ی ہے۔ ہمیں مکمل ات ہے کہ شیط ن پر الزا دھر کر گوی ہ خود جر و گن ہ سے بری ہو ج تے ہیں۔ لیکن ہم را مش ہدہ کہت ہے کہ صرف شیط ن کو ہی اس پر شکوہ نہیں ہون چ ہیئے۔ انس ن کی خص ت ہے کہ وہ غ طی کوت ہی، اپنے زمے نہیں لگ ت ۔ اس کی کئی مث لیں ہم رے مش ہدے میں ہیں۔ مثالً دروازے میں سر م را ج ت ہے اور کہ ج ت ہے کہ :دروازہ سر میں لگ گی :۔۔۔ چ تے پھرتے ،پتھر میں پ ؤں م ر کر زخمی کر دی ج ت ہے اور کہ ج ت کہ :پ ؤں میں پتھر لگ گی ، :کوئی پوچھے ص ح ،پتھر ،جس ک ن ہی جمود ہے، ک ہے پ ؤں سے ا ٹکرای ہوگ ۔ ب ت مزحقہ خیز ہوتی چ ی ج تی ہے ،یہ ں تک کہ ایک محترمہ یہ فرم تی ہوئی پ ئی گئیں کہ :میں سڑک پر ک ر لئیے ج رہی تھی ،کہ اچ نک س منے درخت ا گی :۔۔۔ حد ہو گئی۔ انس ن کی کوشش ہوتی ہے کہ اسے یہ نہ کہن پڑے کہ اس نے خود کچھ کی ہے۔ کسی ک قتل بھی کر ڈالے تو کہت ہے کہ :قتل ہو گی :۔۔ چھری سے ہ تھ زخمی کر لے تو کہت ہے کہ :چھری ہ تھ میں لگ گئی :۔۔۔ واہ رے انس ن
تو جن یہ حضرت انس ن چھوٹی موٹی غ طی گست خی ہی اپنے سر نہیں لیت تو اتنے بڑے گن ہ بھال کیوں اپنے سر لے گ ۔ اپکی یہ تحریر بھی بہت اع ی ہے۔ موضوع کوئی ڈھک چھپ نہیں ہے ،لیکن اپ کے بی ن نے اسے ب لکل س دہ اور ص ف ال ظ میں سمجھ ی ہے۔ اس لیئے امید ہے کہ کئی پڑھنے والے اس سے اثر بھی لیں گے۔
دع گو وی بی جی =http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic 9293.0
دیکھتے ج ؤ‘ سوچتے ج ؤ محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! اسال ع یک
اپ ک یہ چھوٹ س افس نہ پڑھ ۔ بہت اچھ لگ ۔ اپ کی تحریریں م ش هللا بہت ج ندار ہوتی ہیں۔ اور اپ کے احس س ت کی وس ت کو سموئے ہوتی ہیں۔ زندگی کو اس قدر قری سے دیکھنے اور محسوس کرنے ک فن اپ کی تحریروں سے واضح ہے۔ هللا پ ک اپ کو ہمیشہ خوش و خر رکھے۔ دع گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8580.0
بیوہ طوائف محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! اسال ع یک
اپ ک یہ چھوٹ س افس نہ پڑھ ۔ بہت اچھ لگ ۔ اپ کی تحریریں م ش هللا بہت ج ندار ہوتی ہیں۔ اور اپ کے احس س ت کی وس ت کو سموئے ہوتی ہیں۔ زندگی کو اس قدر قری سے دیکھنے اور محسوس کرنے ک فن اپ کی تحریروں سے واضح ہے۔ هللا پ ک اپ کو ہمیشہ خوش و خر رکھے۔ دع گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8580.0
بڑا آدمی محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال مسنون
یہ تحریر واق ی میں بہت کر رکھتی ہے۔ اور پھر اپ کے لکھنے کے انداز نے اسے بیش قیمت بن دی ہے۔ ق ری کو ایسے جہ ن کی سیر کروا کر نتیجہ کی طرف التی ہے اثر روح تک اتر ج ت ہے۔ پھر جس قدر اپ نے ح الت و واق ت لکھے ہیں اپ کے تجزیئے کی ط قت اور احس س کی وس ت اس سے ظ ہر ہے کہ جیسے م و نہیں کتن ہی قری سے اپ نے یہ س دیکھ ہے۔ ہمیں وقت کی کمی رہتی ہے ،لیکن اپ کے مض مین اور افس نے پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور بہت پسند ات ہے ہمیں اپ ک لکھ ۔ وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8673.0
شیدا حرا دا محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال مسنون
اپ کی یہ تحریر ک فی دن پہ ے پڑھ لی تھی ،لیکن اپ کی تحریرں کچھ ایسی ہوتی ہیں کہ ان ک جھٹ سے جوا دین ن انص فی م و ہوت ہے۔ اسے تحمل سے پڑھن ،اس پر سوچتے رہن اور پھر کہیں ج کر کچھ کہ ج سکت ہے۔ ہ تو پڑھ کر ایسے جذب تی ہوئے تھے کہ اگر اسی وقت لکھنے بیٹھ ج تے تو ج نے اس م شرے پر کی کی لکھ ج تے۔ بہت ج ندار تحریر ہے اور اتنے بڑے م شرتی مس ئل کو اپ ک اس چھوٹی سی تحریر میں بی ن کر دین الئ صد تحسین ہے۔ ہم ری ن چیز داد قبول کیجے۔ اس تحیر سے مت لکھن تو بہت کچھ تھ کہ :ہزار نکتہ ب ریک تر زمو ایں ج ہست :لیکن ا ق کو سنبھ ل لی ہے ہ نے۔ اتن کہن چ ہیں گے کہ ہم رے ہ ں یہ تصور کر لی گی ہے کہ ت ی سے تہذی اور کردار س زی ہوتی ہے۔ ح النکہ ہم را خی ل ہے کہ ا ایس نہیں رہ ۔ ہزاروں س ل پہ ے سے لے کر ش ئید تھوڑا عرصہ پہ ے ی نی شیخ س دی مرحو کے زم نے تک ش ئید، کردار س زی ت ی کی اولین ترجیح ہوتی تھی۔ ا صرف رٹہ رہ گی ہے۔ اتنی فضولی ت ت ی ک حصہ بن گئی ہے۔ کردار س زی کے لیئے چند گھسی پٹی حک ی ت پڑھ دی ج تی ہیں جن میں
:پی س کوا :ج کنکری ں ڈالت ہے تو ہم را پہ ی جم عت ک 6 س لہ بچہ بھی ہنست ہے کہ کوا ایس نہیں کر سکت ۔ پڑھ لکھ لینے سے کچھ نہیں ہوت ،اہ یہ ہے کہ کی پڑھ ہے۔ ہم را تو خی ل ہے کہ مس م ن سؤر بھی صرف اس لیئے نہیں کھ ت کہ کئی صدیوں سے نہیں کھ ی اور ا کھ کر مت ی ہو گی وگرنہ تو شرا و سود بھی حرا ہیں۔ اور ہم را یہ خی ل بھی ہے کہ ا صرف ادی ہی یہ کوششیں کر رہے ہیں ،اور انہیں بھی بہت ک کرنے کی ضرورت ہے۔ ہ نے اپ ک بہت وقت لے لی ۔ جس پر م ذرت چ ہیں گے۔ تحریر پر ایک ب ر پھر بھرپور داد کے س تھ۔۔۔ دع گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8719.0
دو دھ ری ت وار محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! اسال ع یک
بہت ج ندار تحریر ہے اور پھر اپ ک انداز بی ں ،منظر کشی بہت ہی ج ندار اور خوبصورت ہے۔ ہ سمجھتے ہیں کہ ایسی تحریریں کردار س زی کے لیئے بہت ضروری ہیں۔ نہ صرف یہ کہ اچھے برے کی تمیز سکھ تی ہیں ،ب کہ اچھ ئی کو پسند کرنے اور برائی سے ن رت کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ اپ کے انداز بی ں مشکل پسندی سے دور ہے اس لیئے ق ری کے ذہن پر اثر چھوڑت ہے۔ اپ نے ڈارون کی ب ت کی ،ہم را تو خی ل ہے کہ ان کے نظریہ میں ایک م مولی سی تبدلی کر لی ج ئے تو ب لکل درست ہے۔ اور وہ تبدی ی یہ ہے کہ نظریہ کی مشہور تصویر میں دکھ ئے گئے قط ر میں موجود تم کے تم اراکین اپن رخ موڑ کر پیچھے کی طرف کر لیں۔ انس ن کی پریش ن ح ل زندگی کو دیکھ کر لگت ہے کہ اصل میں انس ن ترقی کرتے کرتے بندر بن گئے ہیں۔ مغربی مم لک کے تیزی سے ترقی کرتے ہوئے لوگوں میں یہ ترقی ص ف دکھ ئی بھی دیتی ہے۔ ان کی بڑھتی ہوئی م صومیت دیکھ کر ہمیں وہ ج نور ہی لگنے لگ گئے ہیں۔ اس وقت جو ڈارون ک نظریہ موجود ہے اس میں ایک س سے
بڑا سوال یہ ہے کہ اگر بندر ترقی کر کہ انس ن بن ہے تو پھر ابھی تک ہم ری دنی میں اتنے بندر کیوں ہیں اور ان کی ترقی میں کی رک وٹ ہے؟ ہم را ذاتی خی ل یہ ہے کہ ج نوروں کے خ ندان ہوتے ہیں جیسے ،گھوڑا ،گدھ ،خچر ،زیبرا وغیرہ۔ خرگوش ،چوہ ،گ ہری ،نیوال وغیرہ۔ ایسے ہی انس ن ک خ ندان بندروں ک ہی ہے ،لیکن یہ ع یحدہ نسل ہے۔ اور جس چیز نے انہیں اتنی ترقی دی ہے وہ صرف زب ن ہے۔ جس نے انہیں ایک دوسرے کے تجرب ت سے بھی سیکھنے کی ط قت دی۔ خیر ،اپ کی تحریر ک صرف ایک حصہ ہے ڈارون ک نظریہ، اصل تو یہی ہے کہ انس ن کو انس نوں اور ج نوروں میں فر رکھن چ ہیئے۔ اپ کی تحریر بہت پسند ائی۔ بہت شکریہ کہ اپ یہ ں رق کر دیتے ہیں اور ہ فیضی ہو پ تے ہیں۔ دع گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8770.0
پٹھی ب ب محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال مسنون
بہت عمدہ جن ۔ اچھی تحریر ہے۔ ہم رے خی ل کے مط ب ،یہ تو ایک ع س م شرتی رویہ ہے کہ ہر :ع ش پتر :کو م ں، بہن ی د کروائی ج تی ہے ،لیکن اپ نے اسی ب ت کو قدرے مخت ف رنگ دی ہے۔ جہ ں :ب ب ح ، :ن صرف دالئل کے س تھ، دھیدو ،سکندر اور محمود کی ب ت کرت ہے ،ب کہ کچھ غ ط ال پیم نوں کی طرف بھی اش رہ کرت ہے جن کے ذری ے دنی اچھ برا پہچ نتی ہے۔ اپ کی بیش تر ب توں سے ہمیں ات ہے۔ رانجھے ک قصہ (ہر وارث ش ہ) پڑھیں تو حضرت رانجھ ص ح ک ،ب میں ہیر اور اس کی سہی یوں کے س تھ س وک ک ،جو ذکر م ت ہے ،وہ اپ کی ب ت کی تصدی ہے۔ سکندر اعظ کے ب رے بھی ہمیں اپ سے ات ہے ،اور یہ ب ت درست ہے کہ راجہ پورس کی اپنے ہی ہ تھیوں کے ب عث شکست صرف اس لیئے سراہی ج تی ہے کہ ،ایک ہندو راجہ تھ ،یہ کوئی نہیں کہت کہ اس کی فوج نے اس کے ب د مذید اگے ج نے سے انک ر کیوں کی ۔ محمود کے ب رے ہ ذی دہ نہیں ج نتے اس لیئے کچھ کہہ نہیں سکتے ،لیکن ج اتن کچھ اپ نے درست کہ ہے تو یقین ً اس کی ت ریخ پر بھی اپ کی نظر ہو گی۔ دنی وی عش کے ب رے ہم را خی ل ہے کہ ،بقول ب ب ئے ن سی ت،
فرائڈ کے ہر انس نی خواہش ،جنسی ہوس اور بھوک وغیرہ س ایک ہی اشتہ ک ن ہے۔ ج تک دنی میں بھوک ہے ،اور ج تک شیر ،ہرن کو کھ ت رہے گ ،اس کو خت نہیں کر سکتے۔ ج تک خواہشیں ہیں ،تکمیل کی کوشش انس ن کرت رہے گ اور یہی ترقی ک دوسرا ن بھی ہے۔ ا رہ یہی ج ت ہے ،کہ خواہشیں اگرچہ تم ہی بری ہیں ،لیکن ان کو اچھی اور بری اقس میں تقسی کی ج ئے۔ بری خواہشوں کو ک سے ک کی ج ئے ،ی ک از ک ان کی تکمیل کرنے کی ک وش سے انس ن کو روک ج ئے۔ یہی اپ نے کی ہے ،اور خو کی ہے۔ ہم را خی ل ہے کہ دنی وی محبت ،عش وغیرہ اپ کے کہنے کے مط ب ہی اصل میں جنسی ہوس ہی ہے ،یہی فرائڈ بھی کہت ہے ،لیکن ہم را خی ل ہے کہ انس ن نے یہ دیکھتے ہوئے کہ ،اس گھوڑے کو روک نہیں ج سکت ،اسے محبت اور عش جیسے پ کیزہ ن دے کر ،اس کی ب گ موڑنے کی کوشش کی ہے۔ اور بہت حد تک ک می بھی ہؤا ہے۔ یہ وہ طریقہ ہے جو مرد کو عورت اور عورت کو مرد پسند کرنے کی اج زت بھی دیت ہے ،اور غالظت سے دور بھی رکھت ہے۔ ہم رے نذدیک وہ تم کہ نی ں جو عش و محبت کی پ کیزگی بی ن کرتی ہیں اور انس ن کو اس ب ت پر ام دہ کر دیتی ہیں کہ وہ انہیں خوبصورت جذبے ک ن دے کر ،برائی سے دور رہے ،وہ اس قدر غ ط نہیں ہیں۔ سوائے اس ایک ب ت کے ،کہ وہ عش اور محبت کی ن ک می کی صورت میں ،انس ن کو الغر اور بےک ر بن ج نے کی ترغی دیتی ہیں۔
اس کو روکن بہت ضروری ہے۔ ا اس پر ب قی کچھ ہ کہہ نہیں سکتے ،کیونکہ ہ خود ان لوگوں میں سے ہیں جو بقول شخصے یہ چ ہتے ہیں کہ ہم ری بیوی وہ کچھ نہ کرے جو وہ چ ہتے ہیں کہ پڑوسی کی بیوی کرے تحریر پر ایک ب ر پھر بھرپور داد۔ رواں رکھیں۔ انہیں پڑھ کر ہمیں بہت ف ئدہ ہوت ہے۔ کچھ دیر سوچنے ک موقع م ت ہے اور اپنے اپ کو پرکھنے ک بھی۔ دع گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8863.0
جوا ک سکتہ محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال
م فی چ ہتے ہیں کہ اپ کو ی د دہ نی کروانی پڑی۔ ایس نہیں کہ ہ نے یہ افس نہ پہ ے نہ پڑھ ہو ،لیکن اپ کی کچھ تحریریں ایسی ہوتی ہیں ،کہ انہیں پڑھ کر انس ن کو لگت ہے کہ ابھی اور اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ اور کبھی ایس بھی ہوت ہے کہ کچھ پڑھ کر انس ن جو کچھ محسوس کرت ہے اسے ال ظ نہیں دے پ ت ۔ کئی افس نے اپ کے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ کہتے کچھ نظر اتے ہیں لیکن کہہ کچھ اور رہے ہوتے ہیں۔ :نق د :تو بہت اونچ مرتبہ ہے ،ہ تو صرف ایک ع ادمی کی سی عقل کے ح مل ہیں اور صرف یہ سوچ کر اپنی رائے ک اظہ ر کرتے ہیں کہ جو ہ نے محسوس کی وہ اپ تک پہنچ ج ئے۔ ایس بھی ممکن ہے کہ جو کچھ اپ اپنی تحریر میں کہہ رہے ہوتے ہیں، ہ جزوی ی پھر ہو سکت ہے کہ ک ی طور پر بھی نہ سمجھ پ ئے ہوں۔ ہم رے بی ن سے اپ کو اتن تو ع ہو ہی ج ئے گ کہ ایک ع شخص نے پڑھ کر کی محسوس کی ۔ یہ تحریر بھی سوال چھوڑ ج تی ہے ،افس نے ک ہیرو چونکہ خود ایک اس می ں پھنس نے واال شخص ہے اس لیے اس کے اپنی بیوی کے ب رے جو بھی خی الت ہیں وہ مشکوک ہیں اور بھروسے کے الئ نہیں۔ دوسری طرف بیویوں کے ع رویوں
کی طرف اش رہ ہے کہ اپنے بچے اسے اپنے بچے ہی ہوتے ہیں جبکہ شوہر کسی اور ک بچہ ہوت ہے۔ دوسری طرف یہ بھی محسوس ہوت ہے کہ ہو سکت ہے کہ رقیہ کو م و ہو کہ اس ک شوہر ب ہر کے کھ نے پسند کرت ہے سو اس نے پہ ے دن ہی اس کو خوش کر دی ہو)۔ یہ بھی اخض نہیں کی ج سکت کہ وہ اپنے بچوں کو حرا نہیں کھالن چ ہتی تھی کیونکہ گھر ک کھ ن بھی تو اسی کم ئی ک ہو گ ۔ ویسے بیوی کے م م ے میں زی دہ سوچن نہیں چ ہیئے کیونکہ اس کے کئی ک عقل سے ب ہر ہی ہوتے ہیں ):اور عورتوں ک منطقی طرز ع مردوں سے یکسر مخت ف ہوت ہے۔ اس م مے کو م شرتی طرز عمل سے دری فت کرنے اور پھر ال ظ دینے پر داد قبول کیجے۔ دع گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8753.0
م سٹر جی محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال مسنون
بہت اچھی تحریر جن ۔ ہم ری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ اپ ب ت کرنے ک فن ج نتے ہیں۔ خوبی یہ ہے کہ م شرے کے ایک ت خ رویئے کو اپ نے ایک چھوٹی سی کہ نی میں سمو دی ہے۔ اور پھر پر اثر بھی ہے۔ پڑھ کر ہمیں کچھ کچھ محسوس ہؤا کہ م سٹر جی شکل ہ سے کچھ م تی ج تی سی ہے۔ لیکن مسئ ہ یہ ہے کہ لوگوں کو ت قین کرن م سٹر جی ک اص ی روپ ،ی اص ی چہرہ تھ ۔ اور اس پر کتنے ہی نق ڈال لیئے ج ئیں وہ اس سے بچ نہیں سکتے تھے۔ مذہ واال نقطہ فی صد درست ہے ،کہ اس میں ویسے ہی عقل کو بھی ایک طرف رکھ دی ج ن ہوت ہے سو ان م م وں میں سمجھ کی ضرورت تو ہوتی نہیں۔ مولوی ص ح کے س تھ بھی یہی ہؤا کہ ایک دن اص ی چہرہ س منے ا ہی گی ۔ ہم ری طرف سے بھروپر داد قبول کیجے۔ دع گو وی بی جی
shukarriya janab sachi baat to yah hai kah aap ke lafz mujhy bara hosla daite hain aur mein type karne baith jata hoon warna mare baad yah sab khuch raddi bikta. ab chalo kisi haad tak mehfooz to ho gya hai. mein ne socha hai afsanoon ka majmoa kayoon na lay a'oon yah chota ho ga pehla 1991 main, dosra 1992 jab'kah tisra 1993 main shya howa tha. on main 1969 se 1978 tak ke afsane shamil thay. pehloon ke naam zard khjil woh akaili thi jis hath main lathi khuch ka angraizi tarjama najam ne kya tha. ab prof arshad nadeem sahib tarjama ke kaam main masroof hain.khair mein kya bai'fazool batain lay kar baith gya hoon Allah aap ko asanioon main rakhe
محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال
اپ کی مہرب نی جو یہ ں پر اپنی تخ یق ت پیش کرتے رہتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو ہ شروع میں یہ ں ائے تھے تو اپ کے لکھے کی طرف ان دشوار س لگت تھ کہ لمبی تحریروں کو کون پڑھے اور وہ بھی توجہ م نگتی ہیں۔ پھر ایک ادھ ب ر پڑھ تو دل کو بہت بھ ی ۔ پھر ان پر لکھنے کی ہمت نہ پڑتی تھی کہ ص ح ہم ری داد کس الئ ہے اس قدر ت کر امیز تحریروں کے س منے ،لیکن پھر ہ سے رہ نہیں گی ۔ اپ نے 1993کے ب د کوئی کت ش ئع نہیں کروائی ،وجوہ ت بھی ہونگی۔ لیکن ہم ری درخواست یہی رہے گی کہ جہ ں تک ہو سکے ،ہمیں ان سے مست یض ہونے ک شرف دیتے رہیئے گ ۔ داد و تحسین ،اپ ج نتے ہی ہیں ،کہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ :ہ تو پکھی واس ہوویں :سو ج نے یہ ں ک تک ہیں ،لیکن یہ س س ہ ج ری رہے تو اچھ ہے۔ کوئی نہ کوئی ان سے است ضہ ح صل کرت رہے لوگ گ ۔ اپ ج نتے ہی ہیں کہ انٹرنیٹ پر اگر کوئی چیز لوگ پسند بھی کرتے ہیں ،لیکن اپنی پسند پڑھتے ہیں تو ک اظہ ر فقط کوئی ایک ادھ شخص ہی کرت ہے۔ بہ ر اتی ہے کویل کوکتی ہے ،کوئی سنے نہ سنے۔ ایسے ہی اپ کے یہ خوبصورت احس س ت ہیں ،جو پڑھنے والوں کے زہنوں کو پختگی دیتے ہیں۔ مردہ ضمیر کو زندہ کرتے ہیں۔ اپ کو قدرت نے یہ صالحیت دی ہے کہ اپ کی تحریر صرف ایک قول کی
طرح اچھ ی برا بت نہیں دیتی ،ب کہ ضمیر کو جگ تی ہے۔ صرف اچھ ئی کی تغی اور برائی چھوڑنے کی ت قین نہیں کرتی ،ب کہ اچھ ئی کرواتی ہے اور برائی کی طرف بڑھت ہ تھ روکتی ہے۔ بقول ہم رے ہی کھولے نہ کھولے در کوئی ،ہے مجھ کو اس سے کی میں چیخت رہوں گ تیرے در کے س منے هللا پ ک ک ہمیشہ کر رہے اپ پر۔ دع گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8855.0
بڑے اب محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال
بہت ہی خوبصورت تحریر ہے۔ جہ ں اپ نے انس ن کے بٹتے چ ے ج نے کی ب ت کی ہے وہ ں یہ تحریر ایک دوسرے کے س تھ محبتوں کے س تھ جینے ک بھی سب دیتی ہے۔ تحریر میں موجود کر ک احس س اسے اور زی دہ ج ندار کر رہ ہے۔ واق ی ص ر ک ہندسہ بہت ط قت رکھت ہے ،اور اپ نے اسے اپنے انداز میں بہت خوبصورتی سے م م ے کے س تھ جوڑا ہے۔ ص ر کے س تھ صرف ایک ک اض فہ اسے بہت ط قتور کر دیت ہے اور خود بھی بہت ط قتور ہو ج ت ہے بشرطیکہ کہ :صحیح سمت :میں اض فہ ہو۔ غ ط سمت میں اگر ایک ک اض فہ ہو تو ایک ،ایک ہی رہت ہے لیکن ص ر اپن وجود بھی کھو دیت ہے۔ ایک کو چ ہیئے کہ کوشش کرے کہ کئی ص روں کے س تھ لگ ج ئے اور اسی طرح اپنی اور دوسروں کی قیمت میں اض فہ کرے۔ ہم ری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ بہت ہی عمدہ تحریر ہے۔ ہ نے انس ن کے بٹنے کے عمل کو ایک اور نقطہ نظر سے بھی دیکھ ہے۔ شیکسپئر کے مط ب :ال دا ورلڈ از سٹیج :۔ انہوں نے انس ن کی زندگی کے ادوار کو کردار دیئے ہیں ،جبکہ ہم را خی ل ہے کہ انس ن ایک ہی وقت میں کئی کردار بھی نبھ ت ہے۔ ب پ بھی ہے بیٹ بھی۔ دفتر میں ایک چہرہ تو رشتہ داروں کے س منے کوئی اور چہرہ۔ کہیں ادا بھری مح ل میں ایک
مؤد شخص تو دوستوں کے س منے ایک گ ل گ وچ والے انس ن ک چہرہ۔ کہیں چ الک اور مک ر تو مولوی ص ح کے س منے عجز و انکس ر۔ کہیں خوشی نہ ہوتے بھی ہنسن پڑت ہے تو کہیں کسی کو موت پر زبردستی رونے کی کوشش کرت ہے۔ کردار نبھ ت ہے۔ اور انہیں کرداروں میں بٹت بٹت ،اپن اص ی چہرہ بھول ج ت ہے۔ ایس ہی ایک کردار یہ :وی بی :ہے جس میں ہمیں اپن چہرہ نظر ات ہے اور ہ اس کے س تھ وقت گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہ نے اپ کی تحریر پڑھ کر زی دہ وقت نہیں لی ،سو جذب تی سی چند ب تیں جو ذہن میں ابھریں بی ن کر گئے ہیں ،جس پر م ذرت بھی چ ہتے ہیں۔ ائندہ کوشش کریں گے کہ اپ کی تحریر کے س تھ زی دہ وقت گزاریں ت کہ جذب ت کچھ ٹھنڈے ہو ج ئیں اور ہ کچھ عقل کو لگتی کہہ سکیں۔ اپ کی یہ تحریر بھی بہت خو ہے ،اور ہمیں یقین ہے کہ پڑھنے والے اس سے ضرور اثر لیں گے۔ کیونکہ یہ جذب ت اور احس س ت سے لبریز ہے۔ ایک ب ر پھر بھرپور داد کے س تھ۔۔ دع گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8844.0
گن ہ گ ر محتر جن
مقصود حسنی ص ح ! سال مسنون
م ش هللا جن یہ تحریر بھی بہت خو ہے۔ کم ل یہ ہے کہ اپ اس قدر وس ت رکھتے ہیں کہ اپ ک لکھ ج پڑھ ب لکل مخت ف س ہی ہوت ہے اور یہ ان رادیت اپ کے ق کی پہچ ن ہے۔ ہر ب ر ایک نئی اور ع یحدہ دنی کی ہی سیر کرواتے ہیں۔ اس کے لیئے شکر گزار بھی ہیں ہ اور اپنے س تھ بھرپور داد بھی الئے ہیں جو پیش خدمت ہے۔ رز سے مت چونکہ ب ت ہو رہی تھی سو ہ نے بہت غور سے پڑھ اپ کے خی الت کو۔ لیکن ایک فقرہ ہے جس کی تشریح ہ ٹھیک سے نہیں کر پ رہے ہیں۔ وجہ ش ئید اس فقرے میں موجود یہ ال ظ ہیں :تو وہ اس شخص کے اندر رز فراہ کرنے کی قدرت رکھت ہے :۔ فقرہ درج ذیل ہے۔ انہوں نے‘ اس سے آگے فرم ی ‘ کہ اگر انس ن سے زمینی : استحص ل پسند قوتیں‘ رز چھین لیں‘ تو وہ اس شخص کے اندر‘ رز فراہ کرنے کی قدرت رکھت ہے‘ اور کوئی نہیں‘ جو :مزاح آ سکے ممکن ہے کت بت کی چھوٹی سی کوئی غ طی ہو لیکن چونکہ ہ خود ک فہ قس کے شخص ہیں تو ذی دہ تر امک ن اسی ب ت ک
ہے کہ ہ اپ کے م ہو تک نہ پہنچ پ رہے ہیں۔ موالن ازاد ص ح بہت مثبت سوچ رکھنے والے شخص تھے، سنتے ہیں کہ ایک ب ر کسی نے ان سے کہ کہ فالں ب دش ہ کے دور میں عورتیں کپڑے نہیں پہنتی تھیں ب کہ اپنے جس پر کپڑوں کی سی تصویر (پینٹنگ) بنوا لی کرتی تھیں۔ موالن ص ح ک مثبت جوا دیکھیئے کہ فرم ی کہ اس ب ت سے اس زم نے کے مصوروں کی فنی صالحیتوں ک پتہ چ ت ہے کہ کس قدر مہ رت رکھتے تھے۔ تو ص ح رز اور خدا سے مت بھی ہم را ایس ہی مثبت اور س دہ وطیرہ ہے۔ اگر رز مل ج ئے تو هللا نے دی ،نہ مال تو حکومت ی مس م نوں کی دین سے دوری ذمہ دار۔ اگر ان می ب نڈ نکل ای تو هللا ک شکر ،نہ مال تو اسی میں بھالئی تھی ،اپ ہی کی مث ل سے دونوں پست نوں ک دودھ ‘ ذائقہ اور ت ثیر میں‘ ایک س نہیں ہوت تو واہ کی ہی خو قدرت ک کم ل ہے اگر ایک س ہے تو بھی واہ کی ہی خو قدرت ک کم ل ہے کہ دو الگ الگ پست نوں سے ایک س دودھ ۔ دنی کو دیکھ کر اندازہ لگ تے رہتے ہیں کہ فالں ک اچھ ہؤا ی برا۔ اگر اچھ ہؤا ہے تو واہ هللا تیرا کم ل ،اگر برا ہؤا تو شیط ن مردود۔ هللا ک خوف ہے کہ کہیں کچھ غ ط منہ سے نکال تو نقص ن نہ اٹھ ن پڑے اس لیئے ہمیں کی ضرورت پڑی ہے ،کہ سوچتے پھریں کہ دنی میں جو جتن ک ال ہے اتن بدح ل اور جو جتن گورا ہے اتن خوشح ل کیوں ہے۔
ی یہ کہ ان کے ح الت ک ذمہ دار ان ک رنگ ہے ی ان کی رنگت ان کی خوشح لی کی نسبت ٹھہری ہے۔ اپ کے خی الت اس م م ے میں بہت اچھے ہیں اور مثبت ہیں، یہ اچھی ب ت ہے۔ افس نہ بھی بہت خوبصورت ہے۔ هللا پ ک اپ کے ق کو مذید وس ت دے۔ ایک چھوٹی سی شک یت بھی ہے کہ اپ داد وصول کرنے کی بج ئے داد دینے لگ گئے ہیں ):۔۔۔ ہمیں احتی ط کرنی پڑے گی۔ دع گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8840.0
ان کی تسکین محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال
بہت اچھی تحریر ہے ،داد قبول کیجے۔ (ہ :تحریر :اس لیئے کہتے ہیں کہ ک ع می کے سب ،ہ :انش ئیہ: ،:افس نہ :وغیرہ )میں ت ری کرنے سے ق صر ہیں اپ نے فرم ی تھ کہ ہ خصوصی برت ؤ رکھتے ہیں تو جن ایس ہرگز نہیں ہے۔ ہ تو جیس پڑھتے ہیں ویس بی ن کرتے ہیں۔ یہ اپ کی تحریریں ہیں جو ہمیں یہ ں التی ہیں۔ اگرچہ اپ ج نتے ہی ہیں کہ مصروفی ت اج کے دور میں بہت زی دہ ہو چکی ہیں۔ ایک وقت تھ کہ ایک :اب جی :کم تے تھے اور س را :ٹبر :کھ ت تھ ،اور ایک یہ وقت ہے کہ :س را :ٹبر :کم ت ہے اور ایک :اب جی :کو نہیں کھال سکت ۔ سو ہم ری ح ضری ک رہتی ہے ،وجہ یہ بھی ہے کہ اپ کی تحریر کو سرسری نظر سے دیکھن ،ہ سے ممکن نہیں۔ یہ خود ہی توجہ چھین لیتی ہے۔ اپ کے شکر گزار ہیں ہ کہ احب اگر ک توجہ بھی دیں تو اپ ان تحریروں کو یہ ں پیش کرتے رہتے ہیں ،اور ک از ک ہ اس سے است دہ کرتے رہتے ہیں۔ یہ تحریر بہت ت خ محسوس ہوئی ،اور ایس ہی ہون چ ہیئے تھ ۔ اس قدر ال ظ میں ن رت بھری ہے کہ جیسے ص ح ق کو خود
بھی چوٹ پڑی ہو۔ ایک جم ہ ہے اپ ک ،اس پر داد بھی قبول کیجے۔ اقتب س بڑی اور شہرت ی فتہ دک ن سے‘ کھالنے پالنے کی صورت میں‘ ف ئل کی ب ند پروازی پر‘ ش ہین بھی شرمندہ ہو ج ت ہے۔ ہ لوگوں نے :حرا :پر تحقی کی اور اس کی بھی کئی اقس مرت کیں۔ اقس بھی دو قس کے نقطہ نظر سے کی گئی ہیں۔ پہال نقطہ نظر۔ ایک تو :اپنے لیئے حرا ،دوسرے کے لیئے حالل :اور :دوسرا :اپنے لیئے حالل ،دوسرے کے لیئے حرا جیس کہ اپ کی تحریر نے بھی وض حت کی ہے۔ دوسرا نقطہ نظر اگرچہ یہ اقس بہت ہیں لیکن ہ چیدہ چیدہ ک ذکر کئیے دیتے ہ ی ں۔ پہ ی قس :اسے کبھی مس م ن اپنے لیئے حالل نہیں سمجھتے۔ : جیسے سور اور کتے ک گوشت۔ دوسری قس :اسے حس طبی یت است م ل کی ج سکت ہے۔ :
جیسے شرا ،جؤا۔ تیسری قس :ایسی چیزیں جنہیں کہن تو حرا ہوت ہے لیکن ان : کے است م ل پر کوئی پ بندی نہیں ،ب کہ ترغی دی ج تی ہے۔ جیسے سود ،کسی دوسرے مس م ن بھ ئی ک م ل و زن۔ کچھ م تی حضرات کے بھی ہ احس نمند ہیں کہ انہوں نے اس کو کئی اور ن دے کر نہ صرف عوا کو سہولت مہی کی ب کہ خود بھی الکھوں روپے م ہ نہ لے کر دین کی خدمت کر رہے ہیں۔ (ویسے ہ خود بھی ایسے ہی کسی ضمیر فروش م تی کی تالش میں ہیں جو ہمیں روزہ میں سگریٹ پینے کی اج زت ک فتوی دے دے)۔ اپ کی تحریریں ایسی ہوتی ہیں کہ ہ اپن رونے بیٹھ ج تے ہیں۔ اس پر م ذرت بھی چ ہتے ہیں۔ یہ تحریر پڑھ کر ہم را نہیں خی ل کہ کوئی پڑھے گ اور اثر نہ لے گ ۔ ایک ب ر پھر بھرپور داد کے س تھ۔ دع گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8809.0
چوتھی مرغی محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال مسنون
بہت ہی خوبصورت تحریر ہے۔ اپ م ش هللا بہت ہی گہری نظر رکھتے ہیں۔ اور پھر اپ کے پ س نہ صرف خی الت کو ال ظ دینے ک ہنر ہے ب کہ وہ ط قت بھی ہے کہ اپ کی تحریر پڑھنے واال نہ صرف ق ئل ہو ج ت ہے ب کہ ہمیں یقین ہے کہ اثر بھی لیت ہے۔ ایک م شرتی مسئ ہ کہ اپ نے کہ ں مرغی سے شروع کی ہے اور کیسے تم کہ نی کے ب د اسے وہیں سمیٹ ہے۔ ہم ری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ اپ کہ ں :اسیل :مرغی پر چھری پھروا رہے تھے جن یہ تو مرغے لڑانے والوں کی نظر میں :ک ر :سے ک نہیں۔ اپ کی تحریر پڑھ کر کچھ ب تیں ذہن میں ائی ہیں ایک تو یہ کہ ع خی ل ہہی ہے کہ پڑھنے لکھنے ک مط ہے رز میں اض فہ اور یقین دہ نی۔ ایک ف رموال کہہ لیجے کہ جتن ذی دہ پڑھ لکھ ہو گ انس ن ،اتن ہی ذی دہ اس ک رز ہون چ ہیئے۔ اور دوسری ب ت یہ کہ جنگل ک ق نون برا ہوت ہے ،انس نوں کے قوانین اچھے ہوتے ہیں اور انہیں ہی رائج ہون چ ہیئے۔ رز کے ب رے تو ہم را خی ل ہے کہ اس ک کوئی ف رموال نہیں ہے۔ ہ نے تو یہی دیکھ کہ اگر کوئی شخص ہم ری طرح اپنی
ت یمی اخراج ت کی رسیدیں جنہیں ڈگری ں بھی کہتے ہیں لیئے پھرے ،چ ہے کوئی بڑا س ئنس دان ہو ،چ ہے ع ل ہو ش طر ہو، رز ک حقدار اس ن طے سے نہیں ٹھہرت ۔ اس کو ب نٹنے ک قدرت ک اگر کوئی ف رموال ہے تو ہمیں ٹھیک سے سمجھ نہیں ای اج تک۔ ایک طرف تو دین کہت ہے کہ رز صرف هللا کے بچے بھوکے مر ج تے ہیں۔ ہ تھ میں ہے ،دوسری طرف الزا کسے دیں؟ لے دے کر اگر رز ک کوئی ف رموال ہمیں دین سے مال ہے تو یہی ہے کہ صدقہ خیرات دو کہ یہ دوگن ہو کر واپس م ے گ ۔ جس کے پ س کچھ نہ ہو وہ کی کرے یہ کہیں نہیں مال۔ دوسری طرف اگر رز هللا کے ہ تھ نہ ہو تو پورے م ک کو وہ بیرونی کمپنی ں کھ ج ئیں ،جو ایک ہی وقت میں نہ صرف کئی قس کے ص بن بن کر اشتہ روں میں اپس میں لڑ کر دکھ تی ہیں ب کہ انہیں ص بنوں کے دو نمبر بھی خود ہی بن تی ہیں کہ کوئی دوسرا فری کیوں بن کر کم ئے۔ جنگل کے ق نون سے مت ہم را خی ل ہے کہ یہ انس ن کی ت ص سے بھری ہوئی سوچ ہے کہ خود کو ج نوروں سے بہتر سمجھت ہے۔ انس ن اشرف المخ وق ت ہے لیکن یہ ں انس ن کی جو :ت ریف :ہے وہ کچھ اور ہے۔ اپ خود ہی سوچئیے کونسی ایسی برائی ہے جو ج نوروں نے کی ہوں اور انس نوں نے وہ برائی نہ کی ہو۔ اچھ ئی ں برائیں دونوں سوچ لیجے۔ ایک بھی ایسی نہ م ے گی۔ انس ن ،انس نوں تک ک گوشت محوارت ً نہیں ب کہ حقیقت ً کھ رہ ہے۔ ادھر انس نوں کی وہ برائیں دیکھ لیجے
جو ج نوروں نے کبھی نہ کی ہوں۔ اتنی لمبی فہرست نک ے گی کہ خدا کی پن ہ۔ سو ہم را خی ل ہے کہ اگر ت ص کو تھوڑا س ایک طرف رکھ کر سوچ ج ئے تو ج نور بدرجح بہتر نظر ائیں گے۔ وہ تو م صو نظر اتے ہیں ہمیں۔ جنگل کے قوانین میں شک ر تبھی ہوت ہے ج بھوک لگے۔ یہ ں الٹ م م ہ ہے، بھوک لگنے سے پہ ے انتظ کرن ہوت ہے۔ بھیڑیے کی خص ت تھی کہ وہ کمزور پڑ ج نے والے بھیڑیئے کو مل کھ ج تے ہیں۔ لیکن یہ ں مل ب نٹ کر بھی نہیں کھ تے۔ واہ رے انس ن۔۔ سو ص ح ج تک دنی میں کمزور اور ط قتور موجود ہیں، کمزور کی گردن ط قتور کی دو انگ یوں میں رہے گی۔ یہ اصول ہ نے صرف انس نوں کے گھٹی م شرے اور قوانین سے ہی نہیں اخذ کی ب کہ ج نوروں کے س جھے ہوئے اور مہذ م شرے اور جنگل کے قوانین سے بھی ث بت ہے۔ اپ کی تحریر بہت خو ہے۔ امید ہے اگر ن انص فی کو دنی سے ہ مٹ نہیں سکتے تو کسی حد تک ک کرنے کی جستجو تو کر سکتے ہیں۔ اور یہی اپ کر رہے ہیں۔ اپ کی یہ تحریر بھی اسی ک وش ک حصہ ہے اور مق رکھتی ہے۔ ایک ب ر پھر بھرپور داد کے س تھ ۔ ۔ ۔ دع گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8841.0
انگریزی فیل محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال مسنون
م ذرت خواہ ہیں کہ دیر سے ح ضر ہوئے۔ یہ موضوع اگرچہ اس قدر انوکھ نہیں ہے ،لیکن اپ کے ق نے اسے اپنی طرز سے بی ن کی ہے اور بہت ہی خو کی ہے۔ ہکے پھ کے انداز میں اپ نے کہ نی بی ن کی ہے جو پڑھنے والے کو کسی ذہنی دب ؤ میں نہیں ڈالتی۔ اس ک ف ئدہ یہ ہے کہ وہ ق رئین جو گہرے ف س وں سے کتراتے ہیں ی سمجھ نہیں پ تے وہ بھی اس سے محظوظ ہو پ تے ہیں اور کچھ نہ کچھ ب ت ک اثر ضرور لے کر ج تے ہیں۔ ہم ری طرف سے بھپور داد قبول کیجے۔ ویسے ہم را خی ل اس سے مت تو یہ ہے کہ ایک تو جو ش گرد رٹہ نہیں لگ سکتے ان کو اس تذہ سے ش ب ش بھی ش ز و ن در ہی م تی ہے ،وگرنہ نہیں م تی۔ ہم را اپن المیہ یہی رہ ہے۔ دوسری ب ت یہ کہ اس میں صرف انگریزی ہی ک رفرم نہیں ہے ،ب کہ کئی ایسی چیزیں ہم رے نص ک حصہ ہیں جس کی کوئی تک نہیں م تی۔ یقین ج نئیے اج تک ہمیں الجبرا ،جسے جبراً پڑھ ی ج ت ہے ،کو است م ل کرنے ک کوئی موقع زندگی نے نہیں دی ۔ ہ ایکسوں میں سے وائی ں ت ری کیئے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔ نہ مرہٹوں کی لڑائیوں کی ت ریخوں کی کہیں ضرورت پڑی ہے۔ اور تو اور ق ئداعظ کے چودہ نق ط جسے ہ
چوتھی جم عت سے لے کر مس سل چودھویں جم عت تک ی د کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں ،نہ تو اج تک کبھی ی د ہوئے ہیں اور نہ کبھی اس کی ضرورت پڑی ہے۔ یہ ں کسی ک کو کرنے کے لیئے اس ک لیئے موزوں ترین شخص بھی تالش کرنے ک کوئی اصول درست نہیں ہے۔ ہ جہ ں ک کر رہے ہیں وہ ں بھی صرف اس لیئے کہ ہمیں :ڈائریکٹ، ان ڈائریکٹ: ،:ایکٹو ،پیسو: ،:دع ئے قنوت ،:اور اپنے وزیر اطالع ت ک ن ی د تھ ۔ ہ اس سے بھی اچھ عہدہ پ سکتے تھے لیکن چونکہ ہمیں نہ صرف :امریکہ کے صدر کینڈی :کے ق تل ک ن ی د نہیں تھ ب کہ یہ تک م و نہ تھ کہ :ب بل :کی اوسط عمر کتنی ہوتی ہے ،اس لیئے ہ اس عہدے کے الئ نہ تھے۔ اس لیئے ہ سمجھتے ہیں کہ نہ صرف یہ ش ور دین ضروری ہے کہ ت ی ک مقصد کی ہے اور اس میں کردار س زی کی کی اہمیت ہے۔ ب کہ یہ بھی کہ کسی ک کو کرنے کے لیئے موزوں ترین شخص ک انتخ کیسے کرن چ ہیئے۔ اگر ہم رے بس میں ہو تو ،ح فظ ،س دی اور عرفی جیسے لوگوں ک کال ،ب کہ قصہ چہ ر درویش کو نص ک حصہ بن ئیں اور بہت سی خراف ت کو اس میں سے نک ل پھینکیں۔ ورنہ ہم را تو یہی ح ل ہے بقول س دی کہ اگر کوئی شخص ع ح صل کرے اور پھر اسے است م ل نہ کرے تو ایسے ہی ہے جیسے کسی گدھے پر کت بوں
ک بوجھ لدا ہو۔ تحریر پر ایک ب ر پھر داد کے س تھ۔ دع گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8808.0
تن زعہ کے دروازے پر محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال مسنون
واہ جن یہ پہ و بھی اپ نہیں چھوڑا۔ بہت اچھی تحریر ہے۔ داد ح ضر ہے۔ ا ب ت یہ ہے کہ جو کہ نی اپ نے لکھی ہے وہ ت ریخ میں قد قد پر دہرائی گئی ہے۔ سو سچ پوچھیں تو ہ ان کرداروں کی شن خت میں ن ک رہے ہیں۔ اس کی ہم رے خی ل سے دو وجوہ ت ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہ اپنی کمزور سی سی بصیرت کی وجہ سے کئی ت ریخی نق ط سے ن واقف ہیں سو ایس ہون الز ہے۔ دوسری ب ت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اپ نے کئی کہ نیوں کے کردار اپنی تحریر میں ایک واحد کردار میں سمو دیئے ہوں۔ جس کی وجہ سے اصل تک نہ پہنچ پ رہے ہوں۔ ہ م ذرت بھی چ ہیں گے کہ اپنی ک ع می کی وجہ سے اپ کی تحریر کو وہ خراج نہیں پیش کر پ ئے جس کی یقین ً یہ مستح ہو گی۔ اپ کی تم گزشتہ تحریروں کو نظر میں رکھتے ہوئے ہمیں یقین ہے کہ یہ ہم ری ن سمجھی کی وجہ سے ہے۔ لیکن جس پہ و سے بھی ہ دیکھ سکے ہیں اور جہ ں تک سمجھ سکے ہیں تحریر اچھی ہے اور داد اپ ک ح ۔
بھرپور داد کے س تھ دع گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8798.0
ک من محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال مسنون
واہ جن واہ۔ اپ کی نظر کہ ں کہ ں تک ہے ،یہ تحریر پڑھ کر پتہ چال۔ پھر اپ کہتے ہیں کہ ریشم ں جوان نہیں رہی۔ ص ح اس تحریر کے اخر میں اپ نے مرہٹوں کی سرکوبی کی ت ریخ رق نہیں کی سو ہم را خی ل ہے کہ تحریر نئی بھی ہے اور ریشم ں کی جوانی کی سند بھی۔ اور ص ح ہم رے خی ل سے ریشم ں کبھی بوڑھی نہیں ہوتی ،اس پر مرنے والی انکھیں بوڑھی ہو ج تی ہیں۔ اس تحریر نے ہمیں جیت لی ہے۔ ایک تو اس سے یہ پتہ چ ت ہے کہ اپ کی نظر کہ ں کہ ں تک ہے۔ ظ ہر ہے کہ یہ موضوع کوئی بچوں ک کھیل نہیں ہے۔ اور اس پر لکھنے ک خی ل تک ان ،بہت بڑی ب ت ہے۔ دوسرا اپ کے ع ک بھی پتہ چ ت ہے کہ کس گہرائی سے اپ نے مش ہدہ کی ہے۔ اگر اس موضوع سے مت ب ریک چیزوں ک ع نہ ہو تو ظ ہر ہے کہ چند ٹوٹے پھوٹے فقروں کے سوا کوئی اس پر کچھ نہیں لکھ سکت ۔ اور اپ نے تو کم ل حک یت بی ن کی۔ دل عش عش کر اٹھت ہے۔ اسے پہ ے پڑھ تو کئی ب تیں ذہن میں ائیں لیکن اسے دوب رہ پڑھ اور پھر ایس محسوس ہؤا کہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں
رہ ج تی۔ اپ نے کوئی کونہ خ لی نہ چھوڑا ہے۔ ویدی ک ویدان ہم رے اپنے خی ل سے مت بھی یہی ہے۔ ج تک دنی ق ئ ہے کوئی نہ کوئی گی نی کہیں نہ کہیں ایک ٹ نگ پر کھڑا ہوت رہے گ ۔ اور ش ئید ذات ب ری ت لی بھی نہیں چ ہتی کہ اذان کے ہوتے ہی س :مسیت :میں ج پڑیں۔ کچھ لوگ سیمن گھروں میں بھی نظر اتے رہیں گے۔ ہم ری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ بہت ہی عمدہ تحریر ہے۔ اپ جیسے ص حب ن ع اس دنی ک سرم ی ہیں ،جسے بے قدرے لوگ صرف عی شی پر خرچ کرن چ ہتے ہیں۔ هللا پ ک اپ کے ع اور صحت میں برکت عط فرم ئیں۔ دع گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8794.0
اب جی ک ہ زاد محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال مسنون
اپ کی یہ ش ندار تحریر پڑھی۔ بہت زوراور ہے اور اس میں اپ ک ایک نی انداز نظر ای ۔ ی من رد انداز کہہ لیجے۔ یقین ج نیئے کہ رشک ای پڑھ کر اور دل سے داد نک ی۔ اپ نے ایک جگہ کہ کہ ہ کچھ زی دہ ت ریف کر ج تے ہیں لیکن ایس نہیں ہے۔ اس تحریر کو ہی دیکھیئے۔ جتنی ت یف کی ج ئے ک ہے۔ اس موضوع کو اس انداس سے سوچن ہر کسی کے بس کی ب ت نہیں۔ ہ ایسے کئی لوگ ج کسی مسئ ہ میں ہوتے ہیں تو ویس ہی کرنے کی کوشش کرتے ہیں جیس کہ ان کے والد ایسے موقع پر کی کرتے تھے ،اور اگر کچھ لوگوں کو ایس خی ل نہیں ای تو انہیں بھی ایس ہی کرن چ ہیئے۔ یہ ہم را خی ل ہے اور ایس ہی ہ نے اس تحریر سے بھی اخذ کی ہے۔ اپ کی تحریر اگرچہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے ،اور ہر شخص اپنی سوچ کے حس سے نتیجہ ی نت ئج اخذ کر سکت ہے ،لیکن ہمیں ایس ہی محسوس ہؤا۔ ہم رے گھر میں کئی قسموں کے کردار تھے اور ہ انہی کو محسوس کرتے رہے۔ ب ب ،م ں ،بہنیں ،بھ ئی وغیرہ ،لیکن دو
ایسے کردار تھے جنہیں ہ نے کبھی محسوس نہیں کی ۔ اور وہ تھے ایک می ں اور ایک بیوی۔ یہ کردار پس پردہ رہتے ہیں اور انس ن کی ش دی ہو ج نے تک کبھی محسوس نہیں ہوتے۔ ی پھر ہمیں نہیں محسوس ہؤے۔ اپ نے کہ ں سے ب ت شروع کی اور کہ ں ال چھوڑی ،ق بل تحیسن ہے۔ ہم ری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ اس ب ت ک شکریہ بھی کہ ہمیں اپ کی تحریر کے توسط سے پتہ چال ہے کہ ہ بہت سے ک کیوں کرتے ہیں۔ ایک چھوٹی سی عرض بھی کرن چ ہیں گے کہ ی تو اپ نے :مق لموں :کو زی دہ توجہ نہیں دی ی پھر ہمیں افس نے اور کہ نی ں وغیرہ پڑھنے کی ع دت نہیں رہی۔ ہمیں مق لموں کو پڑھنے اور سمجھنے میں کچھ دقت ہوئی ہے۔ یہ ب ت بی ن کرن اس لیئے ضروری سمجھ ت کہ اپ کے ع میں ہو کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہو سکتے ہیں جنہیں اس قس کی مشکالت بھی پیش ا سکتی ہیں۔ ایک ب ر پھر بھرپور داد کے س تھ ۔۔ دع گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8787.0
م لجہ محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال مسنون
ہمیشہ کی طرح بہت خوبصورت تحریر ہے۔ ایک ع سی کہ نی سے اپ نے فکر امیز نت ئج اخذ کیے ہیں ،ب کہ سوچ کو اس ڈگر تک پہنچ دی ہے کہ انس ن خود سوچ سکے ان ب توں پر۔ ہم ری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ جیسے کہ ریت ٹھہری ہے کہ ہ اپنی سی رائے دیتے رہتے ہیں۔ خی الت ہم رے بیک ر سہی لیکن اپ کو اندازہ ہو ج ت ہو گ کہ کچھ لوگ ایس بھی سوچتے ہیں۔ تو اسی حوالے سے ہ اس تحریر کے اخری پیرائے کی طرف اتے ہیں۔ اقتب س ب یو کیمک اصول کے مط ب ‘ من ی کی درستی کے لیے‘ من ی رستہ ہی اختی ر کرن پڑے گ ۔ من ی ک ‘ اس کے سوا‘ کوئی اور م لجہ میری سمجھ میں نہیں آ رہ ۔ ہم را تجزیہ اس ب رے یہ کہت ہے کہ من ی ک عالج من ی سے ممکن ضرور ہے لیکن بہت ہی کٹھن ہے۔ من ی اور من ی اپس میں مل کر بھی مثبت نہیں بن سکتے ،اور جیس کہ ری ضی ک اصول ہے انہیں اپس میں :ضربیں :کھ نی پڑتی ہیں اور نتیجہ
ت ہی مثبت نک ت ہے۔ من ی کو شکست صرف مثبت ہی سے ہوتی ہے ،لیکن اس کی شرط اول مثبت ک مکمل مثبت ہون ہے۔ وگرنہ شکست الز ہے۔ ہمیں ی د نہیں پڑت کہ یہ کونسے مرزا ص ح تھے ،لیکن ان سے کسی نے کہ تھ کہ ص ح ! اپ کے ب رے میں فالں ص ح نے بہت سخت ب تیں لکھی ہیں اپ کیوں خ موش ہیں ،اپ بھی لکھیئے کچھ ،تو انہوں نے فرم ی تھ کہ :بھ ئی! اگر گدھ تمہیں :الت م رے تو ت کی کرو گے ہ نے اس پر ک فی غور کی ۔ الت ک جوا الت سے دین درست نہیں ہو گ کیونکہ الت م رن گدھے کی خص ت ہے ،انس ن التوں کے مق ب ہ میں اس سے جیت نہیں سکت ۔ ایسے ہی من ی ک مق ب ہ کرنے کے لیئے من ی ہو ج ن بہت مشکل ہے۔ ہٹ ر کی اپ نے مث ل دی ہے۔ اگر اس کو الکھوں لوگوں کے مرنے پر رح نہ ا ج ت تو دنی ک نقشہ کچھ اور ہوت ۔ اخر اس کے اندر کی اچھ ئی کہیں سے ابھر ہی ائی ،اور شکست کھ ن پڑی۔ ایک مثبت ک من ی کے مقب لے میں مکمل من ی ہو ج ن بہت مشکل ہے۔ اس کی ایک اور مث ل ہم رے دیرینہ دوست مرحو شیخ س دی کی ایک حک یت ہے کہ ایک ب ر ایک شخص کو پ ؤں میں کتے نے ک ٹ لی ۔ بیچ رہ رات بھر تک یف میں چیخت رہ ۔ اس کی م صو اور ننھی سی بیٹی نے اس سے کہ کہ ب ب اگر کتے نے اپ کو ک ٹ تھ تو اپ بھی
اسے ک ٹ لیتے۔ وہ اس تک یف میں بھی ہنس پڑا اور کہ کہ بیٹی۔ میں یہ تو برداشت کر لوں گ کہ میرے سر میں ت وار گھس ج ئے لیکن یہ مجھ سے نہ ہوت کہ کتے کے غ یظ پ ؤں میں میرے دانت گھستے۔ سو ص ح مثبت کے لیئے یہ بہت مشکل ی تقریب ً ن ممکن ہوت ہے کہ وہ من ی ک مق ب ہ من ی ہو کر کر سکے۔ ہ ں ،اسے شکل بدلنی پڑتی ہے اور اس بدلی شکل کو من ی نہیں کہ ج ت ،ب کہ مثبت کہ ج ت ہے۔ اگر شکل نہ بدلے تو من ی اور من ی ایک صورت ہو ج تے ہیں۔ قسمت بڑی مزاحیہ ہوتی ہے ص ح ! کہ نی کے ہیرو کے دادا نے بھی اپنی سی کوشش کی تھی۔ کی ج نئیے ،کہ اس کی کوشش ک می ہو کر بھی ن ک ہو ج ئے اور ح ل ویس ہی ہو جیس کہ اس کے دادا ج ن ک ہؤا۔ پھر بھی ہ ان کو یہی مشورہ دیں گے کہ چ ہے من ی ہی کیوں نہ ہون پڑے ،انہیں اپنی ب ت منوانی چ ہیئے۔ کل کو اس کی سزا بھگتتے ہوئے یہ احس س تو نہ ہوگ کہ کسی اور کے کیے کی سزا بھگتنی پڑی۔ ایک اور مشورہ بھی ہے کہ ایک ب ر من ی ہونے کے ب د ک می بی اسی میں ہے کہ ہمیشہ من ی رہ ج ئے کیونکہ قدرت ،مثبت کی طرف لوٹنے والے کو کبھی م ف نہیں کرتی۔
ایک ب ر پھر بھرپور داد کے س تھ۔ دع گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8885.0
کریمو دو نمبری محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال مسنون
م ذرت چ ہتے ہیں کہ دیر سے ح ضری ہوئی۔ بہت خوبصورت تحریر ہے ،اور اپ کی ان بہترین تحریروں میں سے ایک ہے جن میں اپ کی اس صالحیت ک بھی پتہ چ ت ہے کہ اپ ڈرامہ بھی بہت خو لکھ سکتے ہیں۔ کہ نی لکھن جتن اس ن دکھ ئی دیت ہے اتن اس ن ہوت نہیں۔ اپ کی خصوصی ت ہیں کہ اپ ک ق کسی دائرے میں مقید نہیں ہے۔ یہ صدیوں سے روایت چ ی اتی ہے کہ برا ک انج برا ہوت ہے، کئی تحریرں لکھی گئی ہیں ،جن سے یہ ت ی دی ج تی ہے۔ لیکن ذاتی طور پر ہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایس ہوت نہیں ہے۔ ہ اوائل میں بچوں کو یہ سب سکھ نے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن بڑے ہوتے ہی وہ تجرب ت سے سیکھ ہی ج تے ہیں کہ نیکی ک انج اچھ تو ہوت ہے لیکن صرف اس کے ح میں جس کے س تھ نیکی کی ج تی ہے۔ ہ مث لیں ڈھونڈتے ہیں ایسے لوگوں کی جن ک انج برا ہؤا ہو ،اور ان لوگوں کو بھول ج تے ہیں ،جو نیکی کی بھینٹ چڑھ ج تے ہیں ،ی وہ جو برائی کر کہ ت حی ت ک می ہی رہتے ہیں۔ ہ خود بھی یہی کرتے ہیں ،کسی ب ت کو قدرت کی طرف سے ازم ئیش کے زمرے میں ڈال دیتے
ہیں ،کسی نیک کے س تھ برا ہو تو اسے اس کی کسی ن م و برائی ک نتیجہ قرار دے لیتے ہیں ،اگر کوئی برا دنی میں ک می رہے تو اس کی سزا اخرت پر موقوف کر دیتے ہیں۔ کی کیجے، هللا کے م م ے میں بھی جھوٹ کے بغیر چ رہ نہیں۔ اگر ہم ری کسی ب ت سے دل ازاری ہوئی ہو تو م ذرت چ ہتے ہیں۔ لیکن جو ح ل سو ح ضر ہے۔ تحریر پر ایک ب ر پھر بھرپور داد کے س تھ دع گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8880.0
ابھی وہ زندہ تھ محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال
واہ واہ واہ جن ،کی ہی ب ت ہے۔ ہمیں تو ایس لگ کہ ہم رے منہ کی ب ت ہی چھین لی ہو اپ نے۔ بے شک اپ کو ب ت بی ن کرنے ک فن ات ہے۔ جن ال ظ میں اپ نے ان ت خ حقیقتوں کو بی ن کی ہے وہ الئ صد تحسین ہیں۔ ہم ری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ یہ وہ حقیقتیں ہیں جو تم لوگ ج نتے اور سمجھتے ہیں ،لیکن انہیں زب ن پر التے ہوئے شرم تے ہیں۔ ح النکہ وہ حم والی ضرب لمثل خو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ اپ نے کسی ٹوپی سالر ک ذکر بھی کی ہے ،اور خو کی ہے۔ ا اپ ک کس طرف اش رہ ہے یہ کوئی سمجھے نہ سمجھے لیکن حقیقت اپنی جگہ ٹھوس حقیقت ہی ہوتی ہے۔ تحریر زبردست ہے اور طنز جس انداز میں کی گی ہے ،ہمیں یقین ہے کہ کئی لوگوں ک ضمیر جگ سکتی ہے۔ اس تحریر پر ہ ذی دہ اس لیئے بھی نہیں لکھ سکتے کہ اپ نے اس میں ہم رے کہنے والی ہر ب ت ہ سے کہیں بہتر انداز میں کہہ دی ہے۔
ہم ری طرف سے بھرپور داد ۔۔۔ جن ۔۔۔ دع گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8895.0
سچ ئی کی زمین محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال
جن بہت عمدہ تحریر ہے۔ اپ نے کہ نی کو نی رخ دی ہے اور کی ہی خو دی ہے۔ یہ ب ت سچ ہے کہ قدرت ک نظ اپنے اپ کو خود ہی برقرار رکھت ہے ،لیکن یہ ب ت بھی بج ہے کہ انس ن اس میں بہت بگ ڑ پیدا کرنے کے درپے ہے۔ اگرچہ اس ب ت ک یہ ں تذکرہ کچھ ضرری نہیں لیکن ہم را طریقہ کچھ ایسے ہے کہ قدرتی نظ میں ک سے ک دخل اندازی کرتے ہیں۔ لوگ بھ گ کر ب ی کے منہ سے چڑی ک بچہ چھین لیتے ہیں ،جبکہ ہ صرف خ موشی اور خ لی الذہن ہو کر دیکھتے رہتے ہیں۔ اگرچہ اس سے ہم رے اندر بہت حد تک س کی پیدا کر دی ہے ،لیکن ہ نے قدرتی نظ کو اس قدر س ک پ ی ہے ،کہ بی ن سے ب ہر ہے۔ جس نظ میں ایک کی موت دوسرے کی زندگی ہو ،اس ک عالج ہم رے پ س تو ہو نہیں سکت ۔ کئی ب ر خود کو سمجھ تے ہیں ،لیکن اکثر اپنی ب توں میں اتے نہیں ہیں ہ ۔ دخل اندازی صرف اس وقت روا ج نتے ہیں ،ج کسی کی موت کسی کی زندگی نہ ہو۔
تحریر ج ن دار ہے ،سچ ئی اور اچھ ئی ک س تھ دینے ک جذبہ پیدا کرتی ہے۔ ہم ری طرف سے ایک ب ر پھر داد قبول کیجے۔ دع گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8904.0
الروا اور انڈے بچے محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال
م فی چ ہتے ہیں کہ بروقت ح ضری نہیں دے سکے ،اور کچھ ت خیر ہوئی۔ پڑھ تو ہ فوراً ہی لیتے ہیں ،لیکن سمجھنے اور پھر کچھ کہنے کے الئ ہونے میں وقت لگ ج ت ہے۔ اور سچ پوچھیے تو اس تحریر کے آخر میں جس طرح اس ک اختت ہوت ہے ،ک فی سوچ بچ ر کرنی پڑتی ہے ،کہ الروے اور انڈے بچے سے مراد کی ہے۔ برائی کے خالف تو کہ نی ک ہیرہ نکال ہی تھ ، اور انہیں الرووں ک خ تمہ چ ہت تھ ،پھر آخر یہ کی کہ نی ہوئی۔ کہ نی لکھنے میں تو ویسے آپ ک جوا نہیں۔ اس میں تو پیچیدہ صورتیں بھی نظر آئیں ،جہ ں لکھنے واال راستہ بھٹک کر کسی اور سمت نکل سکت تھ ،لیکن بہت خوبصورتی سے آپ نے اسے اپنے مقصد کے محور میں رکھ ہے۔ ہ جہ ں تک سمجھ سکے ہیں وہ یہی ہے کہ برائی انس ن خود ہی ہے ،اور اسی ک خ تمہ برائی کو خت کر سکت ہے۔ شیط ن کی غیر موجودگی کی مث ل بھی خو دی آپ نے کہ اس کی غیر موجودگی میں کس حد تک برائی بڑھ ج تی ہے۔ ایسی تحریروں کی جگہ ہ تو سمجھتے ہیں ،کہ نص بی کت بوں میں ہونی چ ہیئے ،جہ ں کردار س زی کی بہت ضرورت ہے۔
اچھے بھ ے پڑھے لکھے لوگ جتن نقص ن پہنچ رہے ہیں ،ہ نہیں سمجھتے کہ ان پڑھ اتن نقص ن پہنچ بھی سکتے ہیں۔ پڑھ لکھ کر صرف ت یمی اسن د ح صل ہوتی ہیں ،اور اس کے ب د بھی ایسی حرکتیں کرتے ہیں ،کہ شر ن کی چیز پ س نہیں پھٹکتی۔ ہم ری دع ہے کہ آپ کی کوششیں رنگ الئیں۔ ہم ری طرف سے ایک ب ر پھر بھرپور داد قبول کیجے۔ دع گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8916.0
ان پڑھ محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال
ہم رے منہ کی ب ت چھین لی اپ نے۔ بہت ہی اچھی تحریر ہے۔ ب لکل درست ہے کہ جو اچھی ص ت ی ضمیر رکھت ہے ،وہ اس سے انحراف کر ہی نہیں سکت ۔ اور ہم را خی ل ہے کہ یہ بچپن میں والدین ی م حول سے انس ن سیکھت ہے۔ اگر اس کی ت ی اس کے دل میں برائی کی ن رت ڈال دے تو زندگی بھر اس سے برا ک سرزد نہیں ہوت ۔ ہم رے نذدیک اس میں ان چھوٹی چھوٹی کہ نیوں ی حک ی ت کی بھی بہت اہمیت ہے ،جو دادی ں بچوں کو سن تی ہیں۔ ہمیں ی د ہے کہ ہم ری دادی ہمیں ایسی کئی حک ی ت سن تی تھیں ،اور کئی اس قدر جذب تی ہوتی تھیں کہ رون ا ج ت تھ ۔ ان کہ نیوں میں برا کبھی ہیرو نہیں ہو سکت تھ ۔ ہمیشہ اچھ ئی کی جیت ہوتی تھی۔ عالوہ ازیں ،ایسے حس س اور سوچنے پر مجبور کر دینے والے موضوع ت ہوتے تھے کہ ننھی سی عمر میں ہی سوچنے اور ب توں کو سمجھنے کی طرف رجح ن رہ ۔ جذب تی ہونے کے نقص ن ت سے اگہی ہوئی ،اور ہر م م ے کو انص ف کے ترازو میں تولن ا گی ۔ سچ پوچھیں تو ہ نے کچھ ب ر بھرپور کوشش کی کہ رشوت لے لیں ،لیکن اس ذات پ ک کی قس ،ہ :اس می :سے انکھ نہ مال سکے۔ اپنے اپ سے ایسی گھن اتی تھی ،کہ ایک ل ظ بھی نہ کہہ سکے۔ یہ بھی
حقیقت ہے کہ ہمیں یہ احس س نہ تھ کہ هللا ن راض ہو گ ،ہمیں مسئ ہ یہ پیش تھ کہ غیرت اور ان اج زت نہ دیتی تھی۔ ہ اپنی کہ نی لے کر بیٹھ گئے۔ کہن یہی چ ہتے تھے ،کہ تبھی ہم ری خواہش رہی ہے کہ ایسی چیزوں کو ت ی ک حصہ ہون چ ہیئے جو کردار س زی کریں۔ ہم رے بچوں کو رٹے لگ نے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تم ع و اس کے محت ج ہیں۔ جس میں کردار نہیں اس کی کوئی س ئنسدانی کسی ک کی نہیں۔ اور بقول اپ کی اس تحریر کے ہی ،حکومتیں کچھ نہیں کر سکتیں ،س کچھ کرنے والی عوا ہی ہے۔ حکومت کو کوسنے واال سبزی فروش خود نگ ہ بچ کر گندے ٹم ٹر بیچت ہے۔ لوگ گند نہیں اگ ئیں گے ،تو اٹ مہنگ ہوگ ،حکومت روٹی پک کہ نہ کبھی کسی کو دے سکی ہے ،نہ کبھی دے سکے گی۔ اس تحریر پر ایک ب ر پھر بھرپور داد قبول کیجے۔۔۔ ہمیں بہت پسند ائی ہے اپ کی تحریر۔ دع گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8934.0
پ خ نہ خور مخ و محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال مسنون
بہت اع ی تحریر ہے جن ،کی ہی ب ت ہے۔ ن زک مسئ ے کو چھیڑ دی اپ نے۔ البتہ اپن ح رائے دہی ازاد ج ن کر اور اپ کی پرخ وص طب یت کو دیکھتے ہوئے درخواست کریں گے کہ اس ک عنوان کچھ تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہمیں۔ ہم را خی ل ہے کہ عنوان ایس ہون چ ہیئے کہ پڑھنے والے کی طب یت کو م ئل کرے۔ دوسری طرف ،اس تحریر کے الجوا ہونے میں کوئی کال نہیں۔ عوا کو ایسے مض مین پڑھنے کی اشد ضرورت ہے، ش ئید کسی ک ضمیر ج گے۔ ش ہ عبدالطیف بھٹ ئی ص ح ایک جگہ فرم تے ہیں کہ اے خدا ،تو نے میرے ہ تھ ب ندھ کر مجھے دری میں پھینک دی ہے اور حک دی ہے کہ کپڑے گی ے نہ ہوں۔ تو جن حم ہے یہ تو۔ ہمیں ی د پڑت ہے ،کہ بچپن میں ہ :زم نہ قبل از اسال میں ک ر کی جہ لت :پر نوٹ لکھ کرتے تھے ،اور جن کی کی برائی نہ ان کے سر لگ تے تھے ،اور خو نمبر سمیٹ کرتے تھے۔ یہ ں تک کہ یہ بھی لکھ دیتے تھے کہ :قبل از اسال ،ک ر ک یہ ع ل تھ کہ ن ک میں انگ ی تک ڈالتے تھے :۔ لیکن ص ح ! ا
سوچتے ہیں ،کہ اسال سے کی سیکھ ہے مس م نوں نے تو حیرت ہوتی ہے۔ ابھی تک دو ایسی چیزیں دری فت ہو پ ئی ہیں جو اسال سے سیکھی ہیں ہ نے اور س اس پر مت بھی ہیں۔ ایک تو یہ کہ کسی بت کی پوج نہیں کرتے ،اور دوسری یہ کہ خنزیر نہیں کھ تے۔ اخر الزکر اگرچہ مشکوک ہے کہ یہ ں تو مح ورت ً نہیں ب کہ حقیقت ً انس ن انس ن کو کھ ج ت ہے۔ کی اسال نے اتن ہی سکھ ی ہمیں؟ ہ نے غور کی تو م و ہؤا کہ انس ن کو امن میں رہنے کے طریقے سمجھ نے والے مذاہ کی وجہ سے دنی میں س سے زی دہ قتل و غ رت ہوئی ہے۔ مذہ کی بنی د پر جتن نقص ن انس ن نے کی ہے ،کسی اور چیز کی وجہ سے نہیں کی ۔ توبہ ہے ص ح ۔ خیر یہ تو تھے ہم رے کچھ بکھرے ہوئے خی الت۔ اپ کی تحریر ہم ری نظر میں بہت اع ی اور عمدہ ہے۔ ہم ری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ دع گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8944.0
میں ابھی اس ہی تھ محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال
واہ واہ واہ واہ ۔۔ جن
کی ہی ب ت ہے۔ واہ
کہ ں کہ ں نظر ہے جن اپ کی ،یہ حالج اور حم دی کے فتوے کو کہ ں لے ائے اپ۔ اپ ب ت کہ ں سے شروع کرتے ہیں اور کیسے اپن مقصد بی ن کر ج تے ہیں اس کے تو ہ ق ئل ہیں ہی۔ لیکن یہ جو لکھ ہے ن اپ نے کہ:۔ میرے اندر بھی‘ ارت ش پیدا ہوا تھ ‘ لیکن میں رقص نہ کر : سک ‘ میں اپنے آپے میں تھ ۔ میں ابھی اس ہی تھ ‘ ریح نہ نہیں ہوا تھ ۔ اگر ریح نہ ہو گی ہوت ‘ تو دنی کی پرواہ کیے بغیر‘ :م نگ ب بے کے س تھ رقص کر رہ ہوت ۔ کم ل ہے جن ۔ ڈھیروں داد قبول کیجے۔ سچ ہے ،اگر منصور بھی ریح نہ نہ ہو گی ہوت تو حم دی ک بھی کہیں ن و نش ن نہ ہوت ۔ یہ بھی درست ہے کہ منصور بھی اسی م نگ ب بے کی طرح اپے میں نہ رہ ۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ احمد سرہندی الم روف مجدد الف ث نی اپنی کت میں لکھتے ہیں کہ منصور کو اخری وقت پر پتہ چل گی تھ کہ وہ بھی :اس ہی تھ ،ریح نہ نہیں ہؤا تھ اور نہ ہو سکت تھ :اور یہ خود کو ریح نہ سمجھنے سے اوپر ک درجہ تھ ۔۔
ہم ری طرف سے اس خوبصورت تحریر پر ایک ب ر پھر بھرپور داد جن ۔ دع گو وی بی جی
shukarriya janab Hussain al'maroof mansoor ne to dawa kya hi na tha aur yah baat rikard main mojood hai. aata aur hanif os ke pas qaid'khane gay aur kaha ya sheikh mazrat kar lo mansoor ne kaha jis ne kaha mazrat woh kare mein kayoon karoon agar mansoor yah dawa karta to woh yaqinun faraoon hota. yah kaifiat dowani nahain hoti dawam to siraf aur siraf Allah ki zaat-e-garami ko hasil hai. insan ka her sanas pehle se mukhtalif hota hai. os ke jism main her lamha tabdili aati hai. issi tara soch aur jazbe bhi pehli halat par nahain rehte. os ki zoban main tabdili aati hai. phir yah kaise kaha ja sakta hai kah mansoor sa alim fazal shakhas is tara ka dawa kar sakta tha aur yah bhi kah woh hamaisha ossi kaifiat main raha. ilm main abu umr jaise log to os ki khak tak nahain ponchte. woh bala ka moqarrar nasar ustad aur shaer tha.
محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال مسنون
اپ ک ع می مراس ہ پڑھ اور خوشی ہوئی کچھ ت ریخی پس منظر ج ن کر اس کے لیئے شکریہ قبول کیجے۔ اپ جس قدر ع رکھتے ہیں اور اپ ک جس قدر مط ل ہ ہے اس میں کوئی شک کی گنج ئش نہیں ہے۔ ہ اس ب رے میں جو خی ل رکھتے ہیں وہ تھوڑا س بی ن کر دیتے ہیں ،کہ اپ ک وقت بھی نہ ذائع ہو اور خی ل بھی اپ تک پہنچ ج ئے۔ اس پر غور کریں تو م م ہ :وحدت الوجود :اور :وحدت الشہود: کے نظری ت کی طرف چال ج ت ہے۔ ہمیں وحدت الوجود کے ق ئل صوفی کرا کی اس قدر بڑی ت داد م تی ہے کہ بی ن سے ب ہر ہے۔ اپ ج نتے ہی ہونگے لیکن ب ت کے تواتر کے لیئے تھوڑا س بی ن کر دیتے ہیں کہ :وحدت الوجود :ک نظریہ ی نی "ایک ہو ج ن " ی نی هللا ت لی کی ہستی میں گ ہو ج ن ۔ ۔اور :وحدت الشہود :سے مراد :ایک دیکھن ہے :ی نی چ روں طرف :تو ہی تو :ہے واال م م ہ ہو ج ت ہے ۔ س لک ہر چیز میں ج وہ ب ری ت لی دیکھت ہے۔ حضرت ام غزالی اور اس کے ب د کے کئی صوفی نے جو س لک کے لیئے من زل بی ن کی ہیں ی :طریقت :بی ن کی ہے اس میں انس ن خود کو ہر ن س نی خواہش سے پ ک کر کہ ج اس راہ چ ت ہے تو وہ ذکر کے دوران ایک بہت بڑا منبع نور دیکھت ہے ،اور خود کو اہستہ اہستہ اس میں جذ ہوت محسوس کرت
ہے۔ اخر ک ر وہ خود کو مکمل طور پر اس ک حصہ محسوس کرت ہے۔ تم صوفی اس پر مت ہیں کہ انس ن خود کو ذات ب ری ت لی میں ض ہوت محسوس کرت ہے اور خود کو خدا محسوس کرت ہے۔ حضرت مجدد الف ث نی سے پہ ے تک یہی نظریہ :وحدت الوجود :تھ اور اس مق کو اخری اور س سے اونچ مق سمجھ ج ت تھ ۔ اس نظریئے نے کئی مس ے پیدا کیئے کہ کئی لوگ راہ بھٹکے اور خود کو خدا سمجھنے لگ گئے۔ پھر مجدد الف ث نی نے :نظریہ وحدت الشہود :پیش کی کہ ص ح اس سے اونچ مق بھی موجود ہے۔ اس میں انس ن خود کو ذات ب ری ت لی سے الگ ہوت محسوس کرت ہے اور اخر اسے ہر طرف خدا نظر ات ہے ،اور وہ خود کو خدا محسوس نہیں کرت ۔ حضرت مجدد الف ث نی فرم تے ہیں کہ کئی صوفی اس درجے پر نہیں گئے اور انہیں ت مرگ م و تک نہ ہؤا کہ وہ غ طی کر رہے ہیں۔ صرف منصور کے ب رے وہ لکھتے ہیں کہ اخری ای میں اسے ع ہو گی تھ ۔ ان ب توں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہ نے جو اخذ کر رکھ ہے وہ یہ ہے کہ منصور چونکہ :وحدت الوجود :ک م تقد تھ اور :وحدت الشہود :ک نظریہ بہت ب د میں ای ،سو اس ک خود کو خدا سمجھن ی کہہ دین عین ممکن نظر ات ہے۔ یہ اور ب ت ہے کہ ع ل وجد میں کہی گئی ب ت سے اس ک کی مراد تھ ،وہ س
کو سمجھ پ ت ی نہیں۔ اس ک ع الہ می تھ اور اس کے لیئے دالئل نہیں ہؤا کرتے۔ یہ ہم را خی ل ہے۔ ظ ہر ہے کہ اس سے ات ضروری نہیں۔ امید ہے اسی طرح اپ ہمیں بھی ت ریخ کی کچھ نہ کچھ ت ی دیتے رہیں گے۔ دع گو وی بی جی =http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?action=post;msg 55125;topic=8872.0
هللا ج نے
محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال
جن کی ہی ب ت ہے۔ بہت عمدہ تحریر ہے۔ داد داد داد ۔۔ اپ کی تحریروں ک خ صہ ہے کہ ب ت کو ایسے زاویوں سے گھم کر التے ہیں کہ وہ و گم ن میں نہیں ہوت کہ یہ ت ن کہ ں ج کر خت ہو گی۔ اور اختت بھی ش ندار ہوت ہے۔ یہ ں بھی اپ نے جس طرح زرینہ کو تشبیہہ دی ہے ،بہت ہی خو ہے۔ عوا کی سمجھ بھی کچھ بڑھ نے کی ضرورت ہے ،ت کہ وہ ایسی تحریروں ک درست رخ سمجھ سکیں اور نت ئج اخذ کر سکیں۔ دراصل ایسی کم ئی جس میں مزدوری سے زی دہ مل ج ئے ی بغیر مزدوری کے مل ج ئے ہم رے اپنے خی ل کے مط ب سود ہے۔ انس ن کی ارا پسندی یہی چ ہتی ہے کہ ک سے ک محنت سے زی دہ سے زی دہ کم ئی ہو اور ک می بی کی صورت میں انس ن مذید ارا پسند ہوت چال ج ت ہے۔ یہی ح ل اس قرض پر پ ے والی عوا ک ہو گی ہے۔ قرض حکومتی خزانے میں ج ت ہے ،اور حکومتی خزانے ک کوئی م لک نہیں ہوت جس کی وجہ سے اس کی ح ظت کی کوشش بھی نہیں کی ج سکتی وگرنہ یہی سنن پڑت ہے کہ :تمہ رے ب پ ک ہے کی :۔۔ یہ کسی کے ب پ ک نہیں ہوت اور ویس ہی اس کے س تھ س وک کی ج ت ہے۔ اللچ
ایسی ہی چیز ہے کہ اگر پیٹ بھرا بھی ہو تو بقول غ ل گو ہ تھ کو جنبش نہیں ،انکھوں میں تو د ہے رہنے دو ابھی س غر و مین میرے اگے سو مذید سے مذید کی اللچ کبھی ج ن نہیں چھوڑتی۔ اپ کی تحریریں ،امید کی کرن ہیں۔ جتنے لوگ پڑھیں گے اپنے کردار میں ضرور جھ نک کر دیکھیں گے۔ انہیں کردار کی خرابیوں کو عوا تک پہنچ نے اور سمجھ نے کی ضرورت ہے۔ ہم ری طرف سے ایک ب ر پھر بھرپور داد جن
۔
دع گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8976.0
دائیں ہ تھ ک کھیل
محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال مسنون
تحریر ہ کئی ب ر پڑھ چکے ہیں ،لیکن یکسوئی نصی نہ ہو سکی۔ ہر ب ر دھی ن ادھر ادھر کرن پڑا اور ہ کچھ کہنے کے الئ نہ ہو سکے۔ بہت خو تحریر ہے جن ۔ کی ہی ب ت ہے۔ بھر پور داد قبول کیجے۔ دین ایسی چیز ہے کہ اس کو حوالہ بن کر جو چ ہے کی ج سکت ہے۔ اس سے اشت ل پھیالن بھی بہت اس ن س ک ہو گی ہے۔ چند لوگ اشت ل سچ مچ میں محسوس کرتے ہیں ،ب قی کی کثیر ت داد صرف مشت ل نظر ا کر ثوا ح صل کرن چ ہتی ہے۔ ایسے ہی جس پہ و کی طرف اپ نے اش رہ فرم ی ہے ،وہ ں بھی زوجہ کے صرف حقو ہوتے ہیں اور خ وند کے صرف فرائض۔ ہمیں تو یہ بھی سمجھ نہیں اتی کہ صرف م ں کو اس قدر درجہ دے دی ج ت ہے کہ جیسے ب پ کی کوئی حیثیت ہی نہ ہو۔ ح النکہ عموم ً ب پ ،صرف اور صرف اپنے بچوں کے لیئے، اپنی بیوی کی کئی غ ط ب تیں بھی برداشت کرت رہت ہے۔ اور عموم ً کوئی اور چیز طال سے م نع نہیں ہوتی۔ لیکن بچے چونکہ اپنی م ں کے پ س زی دہ وقت گزارتے ہیں ،تو ظ ہر ہے ہمیشہ چندا م موں ہی ہوتے ہیں ،کبھی چندا چ چو نہیں ہوتے۔
اپ نے لکھ ہے حقو ک م م ہ ذات سے‘ هللا کی طرف پھرت ہے۔ یہ ب ت سمجھن ،بہت مشکل ک ہے۔ اور ش ئید اس کے لیئے کئی تحریریں لکھنی پڑیں۔ لوگوں کی سمجھ کو اس مق تک الن ،اہل ق کی ذمہ دارہ ہے اور ہمیں خوشی ہے کہ اپ کوش ں ہیں۔ اگر ایسی تربیتی تحریریں لوگوں کو پڑھنے کو م یں ی ٹی وی ڈرامہ وغیرہ میں م تی رہیں ،تو لوگوں کی سمجھ بڑھ سکتی ہے۔ ہمیں تو محتر اش احمد کے ب د کوئی ایس ڈرامہ نگ ر نہیں نظر ای ،جو ان ب توں کو اس گہرائی میں نہ صرف محسوس کرے ،ب کہ لوگوں کو بھی سمجھ ئے۔ اج کل کے دور کی فضول اور کردار کشی سے بھرپور کہ نیوں کے س تھ ٹکرانے کی اشد ضرورت ہے اور اپ یہ ک کر رہے ہیں۔ ہزار دع ئیں جن اپ کے لیئے۔ تحریر پر بہت بہت داد جن ۔ ہزار داد دع گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8952.0
پنگ محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال
بہت خو تحریر ہے۔ ہمیشہ کی طرح داد ح ضر۔ م ذرت بھی چ ہتے ہیں کہ فوری ح ضری نہیں دے پ تے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ اپ کی تحریر کو ل ظ ل ظ پڑھن ہوت ہے ،اور اسے انہم ک سے پڑھتے وقت یکسوئی ضروری ہوتی ہے۔ جبکہ ک روب ر زندگی اس کی اج زت ہی نہیں دیت ۔ جیسے ہی فرصت پ تے ہیں تو ح ضر ہو ج تے ہیں۔ ج ن کر بہت خوشی ہوئی کہ طب عت ک ک ج ری ہے ،اور ج د اپ کی کت بیں ش ئع ہونے والی ہیں۔ اپ کی تحریر بہت ج ندار ہے ،البتہ جن پنگے کے بغیر تو دنی میں کوئی تبدی ی نہیں ا سکی۔ چ ہے تبدی ی اچھی ہو ی بری ،اس کے بغیر ممکن نظر نہیں اتی۔ اگرچہ ہم را یہ بی ن بھی پنگ لینے کے مترادف ہے ،لیکن چونکہ ہ پنگ لینے کے خو ح میں ہیں ،سو یہ اعالمیہ ج ری کرن ج ئز سمجھتے ہیں۔ تقدیر کسی کے پنگ لینے ی نہ لینے کو دیکھتی ہی نہیں۔ ٹ ئگر کی ہی مث ل لیجے ،تحریر کہیں نہیں کہتی کہ اس کو خ رش لگنے ک سب بھی کوئی پنگ ہی تھ جو ٹ ئگر سے سرزد ہؤا۔ وہ بغیر پنگ لیئے ہی خ رش کی نظر ہو گی ۔ دوسری طرف پنگ
لینے واال ن گ خود تو اپنے پنگے کی سزا بھگت گی ،لیکن س تھ میں ٹ ئگر کو بھی لے گی ۔ ہٹ ر نے جو پنگ لی سو لی ،لیکن ان الکھوں لوگوں نے کی پنگ لی تھ کہ بیچ رے ،ایٹ ب کی نذر ہو گئے۔ ایسے ہی سکندر کو تو جہ کے مچھروں نے سزا دی، لیکن اس ہ تھی بیچ رے ک کی قصور تھ جس کی سونڈ ک ٹ گی ۔ نہ ہی راجہ پورس کی فوجوں نے کوئی پنگ لی تھ کہ لت ڑی گئیں۔ سو ص ح جس نے پنگ لی ،اس نے دوسروں کو بھی بڑا نقص ن پہنچ ی ۔ دوسری طرف خود پنگ نہ لو تو کسی دوسرے کے پنگے ک شک ر ہو ج ن پڑت ہے۔ مشت احمد یوس ی ص ح اپنی ایک کت میں لکھتے ہیں کہ ایک ب ر انہیں کچھ دوستوں کے س تھ خچروں پر دشوار گزار پہ ڑی راستوں پر س ر کرن پڑا۔ ایک ص ح تھے ،کہ ج بھی خچر کسی دشوار اور خطرن ک جگہ سے پہ ر پر چڑھت تو وہ ص ح ،خچر سے نیچے اتر ج تے اور خود چڑھتے۔ کسی نے کہ کہ ص ح ،یہ خچر م ہر ہیں یہ ں پہ ڑوں پر چڑھنے کے۔ اپ ک پ ؤں پھسال تو اپ بے موت گہری کھ ئی میں م رے ج ئیں گے۔ ان ص ح نے جوا دی کہ حضرت ج نت ہوں ،لیکن میں اپنی غ طی کی موت مرن چ ہت ہوں ،نہ کہ اس خچر کی غ طی کی سزا میں مروں۔ تو ص ح اس سے پہ ے کہ کوئی اور پنگ لے کر ہم ری زندگی میں خ ل ڈالے ،ہ خود پنگ لے لین من ست سمجھتے ہیں۔
مزاح برطرف۔ اس ب ت سے انک ر نہیں کہ قدرت سے پنگ لینے والے ک انج بہت برا ہے۔ احتی ط الز ہے۔ ایک ب ر پھر بھرپور داد کے س تھ ۔۔ دع گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8972.0
وہ کون تھے محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال مسنون
تحریر ایسی ہے ،کہ پڑھنے کے فوراً ب د دل چ ہت ہے کہ بس اس پر کچھ لکھتے چ ے ج ئیں۔ ہ نے پڑھ لی تھی ،اور پھر لکھنے چ ے تو محتر س جد پرویز انس ص ح نے کچھ وض حت کے لیئے درخواست کر دی۔ ہ رک گئے کہ ا اپ سے مذید کچھ سیکھنے سمجھنے کو م ے گ ۔ جن ب لکل بج ہے ،بندو کے زور پر فتح ،فتح نہیں ہوتی۔ ب کہ ط قت ک است م ل ہی ہم رے نذدیک بزدلی ہے۔ کی ہی اچھ ہوت کہ وہ تصویر بھی ہمیں دیکھنے کو مل ج تی۔ درست ہے کہ کسی مذہ نے ،چ ہے ہ اسے کتن ہی جھوٹ کیوں نہ ث بت کریں ،کبھی جبر کو پسند نہیں ،کی ۔ ہر مذہ نے نیکی اور بدی کے فر کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ نیکی کرنے اور بدی سے پرہیز ک درس دی ہے۔ سدھ رتو ک اپ نے ذکر کی ۔ ایک ب ر فرم رہے تھے کہ دو ط قتیں وجود رکھتی ہیں۔ نیکی کی اور بدی کی۔ نیکی پر چ و اور بدی سے رکو۔ تو کسی نے پوچھ کہ نیکی اور بدی ک کیسے پتہ چ ے گ کہ کونسی نیکی ہے اور کونسی بدی۔ مسکرا کر فرم ی کہ اپنے اپ سے پوچھو۔ کی تمہیں نہیں م و کہ کی نیکی ہے اور کی بدی۔ پھر فرم ی کہ
نیکی کی ط قت سے س کچھ وجود میں ای ہے۔ ہر مخ و کی مٹی میں نیکی اور بدی کی ت ری ک ع موجود ہے۔ ان ک مق واق ی بہت اونچ تھ ۔ ا اس طرح کی ت یم ت کوئی ع شخص نہیں دے سکت ۔ س ج نتے ہیں کہ انہوں نے تخت ش ہی چھوڑ کر جنگل میں کتنے ہی دن چ ہ ک ٹ وہ بھی صرف اس لیئے کہ انس ن کے دکھوں ک حل ج ن سکیں۔ کوئی خدا کو اس طرح پک رے اور اسے جوا نہ م ے ایس تو ہوت نہیں۔ اپ نے سقراط ک ذکر کی ۔ ان کی ت یم ت کو ہمیں ت صیل سے پڑھنے کی ضرورت ہے۔ البتہ سری گرو گرنتھ ص ح کو تو ہ نے بھی پڑھ ہے۔ چونکہ ب ب گرو ن نک کی امد انبی کے ب د ہوئی ہے ،سو ان کے ب رے یقین ً کہ ج سکت ہے کہ وہ پیغمبر نہ تھے۔ لیکن ان کی ت یم ت بھی ویسی ہی ہیں جو نیکی کی ترغی دیتی ہیں۔ ہم رے خی ل سے تو ب ب گرو ن نک ص ح راہ بھٹکے ہوئے س لک تھے۔ ہمیں راسپوٹین کے مذہ کے ب رے بھی پڑھنے ک ات ہؤا۔ جن وہ ں بھی تشدد برطرف ہے اور وہ بھی بچوں پر۔ خدا کی پن ہ۔ اپ کی یہ تحریر خصوصی طور پر اہ ہے۔ اس کی ت ی وقت کی اشد ضرورت ہے۔ ہر کوئی صرف اپنی بیوی کے بچے کو اپن بچہ سمجھت ہے اور یہ ع ل ج نوروں پرندوں ک بھی ہے۔ لیکن ہ سمجھتے ہیں کہ بچے س نجھے ہونے چ ہیئں۔ پچھ ے دونوں ایک ص ح نے فیس بک پر کسی بھوکے ننگے
بچے کی تصویر پر اپنے خی الت ک اظہ ر ان ال ظ میں فرم ی کہ :یہ خدا ص ح ک بچہ ہے۔ اسے کہو سنبھ لت کیوں نہیں اپن بچہ :۔۔۔ ہ نے جواب ً عرض کی تھی کہ :ص ح ! یہ خدا ص ح ک بچہ نہیں ہے۔ یہ میرا بچہ ہے۔ اج اپ اپنی بیوی کے بچوں کے منہ میں تو اس بچہ کے س منے خود ائس کری کے چمچے ڈالتے ہیں اور یہ نہیں کہتے کہ خدا ا کر ڈالے ،لیکن اسے خدا ک بچہ کہہ کر اس کے حوالے کرتے ہیں۔ میرا وعدہ ہے اپ سے کہ کل یہ بچہ اپ کے بچوں کو بموں کی بھینٹ چڑھ ئے گ :اور ت اپ کہیں گے کہ یہ خدا ک نہیں شیط ن ک بچہ ہے کچھ زی دہ ہی جذب تی کر دی اپ کی تحریر نے۔ دع ہے کہ اپ کی اس تحریر سے زی دہ سے زی دہ لوگ است ضہ ح صل کر سکیں۔ دع گو وی بی جی bila shuba A1 izhar-e-khayaal yah dehshast'gard hain ke onwan se acha khasa mazmoon aap ko www.scribd.com par mil ja'ay ga. wahaan mein ne tasaveer bhi di hain. sikhism par maira eak mazmoon hai aap bhi daikh lain
محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال
بہت خو جن ۔ اندازہ ہوت ہے کہ اپ کی نگ ہ کہ ں کہ ں تک پہنچی ہے۔ اور کونس م شرتی ،سی سی ،دینی م م ہ نہ ہوگ کہ جہ ں اپ نے اس قدر ع ح صل کر رکھ ہے اور ہ تو یہ سمجھتے ہیں کہ فقط م مالت پر ع ح صل کر لین ہی ک فی نہیں ہوت ،ب کہ اپ کی تحریریں ص ف بت تی ہیں کہ کس قدر غور بھی کرن پڑا ہو گ اور پھر کسی نتیجہ کی طرف ذہن راغ ہؤا۔ ہم ری طرف سے اس مضمون پر بھی داد قبول کیجے۔ در اصل ایک ہی منظر کو دیکھنے کے مخت ف مق م ت ہو سکتے ہیں۔ اپ نے جس مق سے اس منظر کو دیکھ اسے بہت ہی خوبصورت انداز میں بی ن بھی کر دی ۔ اپ کے ق کو قدرت نے زور بخش ہے ،کہ ہمیں وہ من ظر ص ف دکھ ئے ب کہ سیر کروائی۔ ہ اس م م ہ کو ایک اور نقطہ نگ ہ سے دیکھتے ہیں۔ اس ک مقصد اپ کے ب ت سے غیر مت ہون ہر گز نہیں ہے۔ ب کہ ایک نقطہ نگ ہ سمجھ لیجے جو ہ اپنے ال ظ میں اپ تک پہنچ نے کی کوشش کرتے ہیں ،اگرچہ ہم رے ہ تھ میں ایک کمزور ق ہے۔ اہ نقطہ سے ابتدا کرتے ہیں کہ حضرت موسی کی قو یہودی، عیسی کی قو عیس ئی ،اور محمد کی قو مس م ن کہالتی ہے۔ اگر مس م ن کی پہچ ن ک مہ کے پہ ے حصہ تک سمجھی ج ئے تو دنی کی تقریب ً ۹فی صد اب دی مس م ن نظر ائے گی۔ ی نی
توحید پر ق ئ ۔ اگر نیک اور اچھے اعم ل دیکھے ج ئیں تو بھی ایک بہت بڑی ت داد ک مہ کو م نے ی نہ م نے ،مس م ن نظر ائے گی۔ مس م ن کی پہچ ن ی تشخص کو ک مہ کے دوسرے حصے سے ہی پہچ ن ج ت ہے۔ اپ نے جو ب تیں بی ن فرم ئی ہیں وہ بھی ب لکل بج ہیں۔ سکھ فی صد مت مذہ صوفی نہ طرز ہے۔ اس سے ہ بھی ہیں۔ پھر سوچنے کی ب ت یہ اتی ہے ،کہ صوفی نہ طرز ع اسال سے الگ کیسے اور کیوں۔ ہ نے اس ب ت ک جوا جہ ں پ ی ی جسے ہ نے جوا سمجھ وہ صوفی کے کت بوں میں موجود ہے۔ اور خ ص طور پر مجدد الف ث نی ص ح نے یہ نقطہ واضح کر رکھ ہے۔ فرم تے ہیں کہ صوفی کے رستے پر ہر شخص ،چ ہے ہو مس م ن ہو ی نہ ہو ،چل سکت ہے ،اور درج ت پ سکت ہے۔ ایسے کئی صوفی ہندوست ن میں بھی مل ج تے ہیں جو ہندو ہیں، لیکن نہ صرف س دھو ب بے بن گئے ہیں ،ب کہ چھوٹے موٹے ایسے م جزے بھی کر دکھ تے ہیں جن کو دیکھ کر لوگ دنگ رہ ج تے ہیں اور ان کے پیروک ر ہیں۔ البتہ چونکہ وہ اسال کے راستے پر نہیں ہوتے سو راہ بھٹک سکتے ہیں۔ یہ راستہ بہت کٹھن ہے اور ہر قد راستہ بھولنے ک اندیشہ ہوت ہے۔ ایسی صورت میں ضروری ہے کہ ایک است د ی مرشد بھی ہو جو اپ کو راستہ بھٹکنے سے بچ ئے رکھے۔ مدد الف ث نی ص ح
فرم تے ہیں کہ است د کی غیر موجودگی میں ی پھر اسال کے راستہ سے ہٹ کر کسی نے شدھ گی ن کی وہ راستہ ضرور بھول ج ت ہے۔ اور ایس ش ید ہی کبھی ہؤا ہو کہ کوئی ان دو الزمی چیزوں سے قطع نظر رستے پر چل کر منزل پ سک ہو۔ ان کے نذدیک کئی صوفی راستہ بھٹک گئے ہیں۔ اور ہ نے اس ب ت سے سکھوں سے مت یہ نتیجہ اخذ کر لی کہ ممکن ہے کہ ب ب گرو ن نک کہیں راستہ بھٹکے ہوں۔ ان کے عمل میں نم ز ،روزہ ،وغیرہ جیسے اسالمی احک م ت کی پ بندی نہیں نظر ائی ،لیکن ان ک طرز زندگی ،ان کی ت یم ت اسال ہی کی ت یم ت ہیں۔ ان کی زندگی کے اخری دن اسال پر زی دہ پ بند ہوتے چ ے گئے۔ ش ید ی پھر یقین ً انہوں نے اسال کو دری فت کر لی تھ لیکن ان کی ت یم ت نے ایک ع یحدہ مذہ کی بنی د رکھ دی۔ جس کی وجہ ہم رے ذہن میں یہی اتی ہے ،کہ اسال ایک دین ہے جو هللا نے بن بن ی مس م نوں کے حوالے کر دی ۔ لیکن کوئی شخص محنت سے ی گی ن سے اس ک ایک ایک رکن اور ایک ایک ایت قرانی کو دری فت نہیں کر سکت ۔ یہ ہم رے خی الت ہیں اور جو چھوٹی موٹی سی اور محدود عقل ہے اس ک بی ن ہے۔ ہ سکھوں کو مس م ن نہیں سمجھ سکتے ،لیکن ان ک احترا اپنی جگہ ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ مس م نوں ک طرز عمل انہیں کبھی مس م ن ہونے نہیں دے گ اور نہ وہ خود کو مس م ن کہ وا کر اپنی رہی سہی عزت گنوان چ ہیں گے۔ لیکن س تھ یہ بھی یقین ہے کہ انہیں تھوڑی ہی ت ی کی ضرورت ہے۔ وہ دور نہیں ہیں۔
امید ہے اسے اپ اختالف رائے نہ سمجھیں گے۔ اور اپنی محبتوں سے اس ن چیز کو محرو نہ فرم ویں گے۔ کہ ہ فقط جو ح ل سو ح ضر کے ف رمولے پر عمل کرتے ہیں۔ دع گو
وی بی جی
bari hi khoob'surat malomaat aap ne farahum farmaee hain is ke liay ehsan'mand hoon. Allah aap ko khush rakhe. namaz roza haj waghera ki adaegi mosalman honay ke liay zarori hai laikin islam ka amli zindgi se ta'alaq hai balkah yah zindgi kay atwaar aur saliqay ka naam hai. is zael main yah mazmoon parhain ge to ehsan ho ga. zarori nahain kah aap is se itfaq farmaein. dosra darwazay se darwazay tak par aap ki ra'ay baqi ha
محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال مسنون
کی ہی خوبصورت مضمون پیش کی اپ نے۔ کئی ب ر سنتے کہتے رہے کہ ہ لوگ کیسے مس م ن ہیں کہ عمل نہیں سے ع ری ہیں۔ لیکن جن ال ظ اور انداز میں اپ نے یہی ب ت کہی ہے۔ دل میں چبھ سی گئی ہے۔ بہت ہی ش ندار جن ۔ بھرپور داد۔ اپ نے ہم ری ع دت خرا کر دی ہے کہ اپنے خی الت ک اظہ ر اس طرح کھل کر کرنے لگ گئے ہیں ،گوی بڑے ع ل ف ضل ہوں۔ ح النکہ ہ خ موشی اختی ر کی کرتے رہے ہیں ،کہ ص ح اپنے خی الت کی ہمیں خود اتنی سمجھ نہیں تو انہیں کی بی ن کی ج ئے۔ دنی میں اتنے سمجھ رکھنے والے لوگ ہیں۔ ہم ری فضولی ت کی یہ ں کی ضرورت، لیکن ا اہستہ اہستہ اپ نے ہمیں ع دت ڈال دی ہے کہ جو من میں ائے لکھے چ ے ج تے ہیں۔ سو اسی ضمن میں ہم رے ذہن میں کچھ خی الت :جمہوریت :کے حوالے سے گزرے ہیں۔ پیش کرنے کی جس رت کر رہے ہیں۔ ہم رے خی ل میں جمہوریت کی اس س کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے سی سی ت ب ت یہ ں سے شروع کرتی ہے ،کہ دنی میں ج کوئی بچہ پیدا ہوت ہے تو اس دنی کی ہر چیز پر اتن ہی ح لے کر پیدا ہوت ہے ،جتن کسی اور ک ۔ یہ ں ہر کسی کو اتنی ہی ازادی ح صل ہے جتنی کسی اور کو۔ جمہوریت کسی مذہ ،تنگ ،نسل کو نہیں م نتی ،ب کہ ایس نظ ہے جو لوگوں کو یہ ح دیتی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جو چ ہیں کریں۔ عیس یوں کے م ک میں عیس یت اور مس م نوں کے م ک میں اسال ۔ ا ب ت ائی کہ اختالف رائے ک کی کی ج ئے۔ ایسی صورت میں یہ طے پ ی کہ ،زی دہ لوگ جو چ ہتے ہونگے
وہ ہوگ ۔ مثالً گھر میں وہی پکے گ ،جو زی دہ لوگوں کی رض مندی ہوگی۔ اس ک ف ئدہ یہ کہ زی دہ سے زی دہ لوگ کھ نے سے اف دہ ح صل کر سکیں گے۔ ک لوگ بدمزہ ہونگے۔ ایک خی ل یہ بھی ہے کہ کسی مرض ک عالج تو ڈاکٹر ہی بت سکتے ہیں۔ ع لوگوں کی رائے تو غ ط ہی ہو گی۔ ان کی ب ت بج ہے۔ لیکن اس طرح ب ت ا ج تی ہے ڈاکٹروں کی کہ وہ کتنے ع ل ف ضل ہیں۔ دوسری ب ت کہ اسی ڈاکٹر نے صرف ڈاکٹری نہیں کرنی ب کہ اسے موچی ،مستری ،درزی اور ج نے کی کی کرن ہے۔ وہ س میں م ہر نہیں ہو سکت ۔ ایسی صورت میں ایس شخص چ ہیے جو ص ف نیت رکھت ہو۔ اور اس کو الیکٹ کرنے کے لیئے ہمیں صرف پڑھے لکھے لوگوں کو ووٹ ک ح نہیں دین ہوت ۔ ایک ح قہ یہ بھی کہت ہے کہ لوگ اپنی ن لی پکی کرانے کے لیئے ووٹ دے دیتے ہیں۔ جبکہ ہم را یہ خی ل ہے کہ وہ درست کرتے ہیں۔ م ک کی ترقی اسی میں ہے کہ ن لی ں پکی ہو ج ئیں۔ اگر ہم رے مح ے گھروں کی ن لی پکی نہیں ہوتی تو کوئی ب ت نہیں ۳گھروں کے کی ن لی ں پکی ہو ج ئیں یہ بہتر ہے۔ س لوگ اپنے عالقہ کی ترقی ک م د دیکھتے ہوئے ووٹ دیں تو یقین ً ک می امیدوار جس عالقہ ک ہوگ وہ ں زی دہ اب دی اس کے مثبت ک سے ف ئدہ ح صل کر سکے گی۔ بندو دلوں کو فتح نہیں کر سکتی اور نہ ط قت کے ذری ے کچھ کسی پر مس ط کی ج ن چ ہیئے۔ ا کچھ لوگ اسال کی ت ریف میں اسے دنی کی ہر چیز ک عالج کہتے ہیں ،جبکہ ہمیں ذاتی طور پر اس سے اختالف ہے۔ جیسے اسال میں کہیں بھنڈی گوشت بن نے ک نسخہ موجود نہیں ایسے ہی نظ حکومت اسال ک مضمون نہیں ہے۔ وہ ان رادی طور پر ہر شخص کو ت ی دیت ہے جو مل کر ایک س طنت بن
سکتے ہیں۔ اسال ہم ری نظر میں جمہوریت ہی ک درس دیت ہے۔ کیونکہ دنی میں دو ہی طریقے ہیں حکومت کے۔ ایک یہ کہ کوئی جبراً ح ک بن ج ئے اور کسی کو جوابدہ نہ ہو ،اور دوسرا یہ کہ لوگ خود ح ک ط ین ت کریں۔ جمہوریت کی روح یہ ہے کہ عوا ک نم ئندہ چ ہے خود اختالف ہی کیوں نہ رکھت ہو۔ ہر مسئ ہ اپنے لوگوں کے س منے پیش کرے گ اور جو کچھ لوگ اسے کہیں گے ی چ ہتے ہونگے ،وہ وہی اعوان میں بی ن کرے گ ۔ لیکن ایس ہوت نہیں ہے۔ جس کی وجہ جمہوریت کی کمزوری ہے۔ جمہوریت کو صدی ں لگ ج تی ہیں پ تے ہوئے۔ جمہوریت لوگوں کو سکھ تی چ ی ج تی ہے کہ کیسے انہوں نے اپن نم ئندہ الیکٹ کرن ہے۔ سو اسے وقت دین ہوت ہے۔ ہم ری قو ہمیشہ سے غالمی میں ہی رہے ہے ،سو اج بھی ووٹ اسی کو دیتی ہے جو لمبی گ ڑی سے اترے اور اس کے س تھ بندو بردار لوگ ہوں۔ امیر کی بال وجہ بہت عزت کرتی ہے اور غری سے ن رت کرتی ہے۔ غری کو ووٹ نہیں دیتی ،ب کہ اس پر ہنستی ہے ،اور امیر نہ بھی چ ہے تو اس کی خ د بننے کی کوشش کرتی ہے۔ ہم رے ذاتی خی ل میں جمہوریت انہیں س کچھ سکھ دے گی۔ کچھ وقت لگے گ ۔ ہ نے کچھ زی دہ ہی لکھ دی ۔ م ذرت کے س تھ کہ اپ ک وقت برب د کرتے ہیں۔ اپ کی تص ویر دیکھ کر بھی خوشی ہوئی کہ جن دکھ ئی کیسے دیتے ہیں۔
مضمون پر ایک ب ر پھر داد کہ جس طرح مس م نوں کو ائینہ دکھ نے امید ہے کہ کچھ سر شر سے جھکیں گے،کی کوشش کی ہے اپ نے ضرور۔
دع گو وی بی جی
shukarriya janab aap ko nasar likhte daikh kar yaqein manain mujhy bohat khushi hoti hai. zarori nahain log aap se motfiq hoon yah aap darust keh rahe hoon aap apna noqta e nazar to paish kar rahe hote hain. behtri ki rahain khulti hain. mera ab bhi moaqaf hai aap acha likhte hain acha likh sakte hai issi tara likhte rehe to kamal ke nasaar ho jaein ge. Allah aap ke qalam ko barkat de
محتر جن
ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سال
اپ ک بیحد شکریہ کہ اس قدر ش قت سے پیش اتے ہیں ،وگرنہ ہ اس ب ر کچھ سہمے ہوئے تھے کہ کہیں کچھ گراں ن گزرے۔ اپ کی ب ت بج ہے کہ اختالف رائے ہمیشہ سے ہوتی ہی ہے۔ بقول جن ج ن ای ی ص ح :اؤ اختالف رائے پر ات کریں :۔۔ ہ اپ کو داد دینے اتے ہیں ،لیکن اپ ویسی کی ویسی ہمیں ہی لوٹ دیتے ہیں۔ هللا پ ک اپ کو ہمیشہ صحتمند اور خوش رکھیں۔ ہ :دروازے سے دروازے تک :کو دو سے تین ب ر پڑھ چکے ہیں ،لیکن انہم ک سے پڑھنے ک موقع نہیں مل سک ۔ اپ کی تحریریں ایسے ہی نظر سے گزار لین ہمیں گوارا نہیں۔ ج د بغور اور توجہ کے س تھ پڑھ کر ح ضر ہونگے۔
دع گو وی بی جی kisi tehreer ko baar baar parhnay ya kisi cheez ko bar bar malahza karnay ki adat bohat hi achi hai. is se mahaheem ke dar wa hotay chalay jatay hain. http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8981.0