ہندوی کے انگریزی پر لسانیاتی اثرات

Page 1


‫ہندوی کے انگریزی پر لسانیاتی اثرات‬ ‫مقصود حسنی‬ ‫ابوزر برقی کتب خانہ‬ ‫مئی ‪6102‬‬


‫ہندوی کے انگریزی پر لسانیاتی اثرات‬ ‫مختلف عالقوں کے لوگوں کی زبان' میں حیرت انگیز‬ ‫لسانیاتی مماثلتوں کا پایا جانا' اتفاقیہ نہیں ہو سکتا۔ اس‬ ‫کے پس منظر میں' کسی سطع پر کوئی ناکوئی واقعہ'‬ ‫معاملہ' حادثہ' بات یا کچھ ناکچھ ضرور وقوع میں آیا ہوتا‬ ‫ہے' چاہے اس کی حیثیت معمولی ہی کیوں نہ رہی ہو' اس‬ ‫کا اثر ضرور مرتب ہوا ہوتا ہے۔‬ ‫ایک دیسی یا بدیسی شخص' بازار میں کچھ خریدنے' کسی‬ ‫سے ملنے یا کسی اور کام سے آتا ہے۔ وہ اپنے اس‬ ‫ٹھہراؤ کے مختصر دورانیے میں' کوئی اصطالح' کوئی‬ ‫ضرب المثل' کوئی محاورہ یا کوئی لفظ چھوڑ جاتا ہے۔ اس‬ ‫کا بوال' ایک شخص استعمال میں التا ہے' پھر دوسرا' ان‬ ‫کی دیکھا دیکھی میں وہ مہارت میں آ جاتا ہے۔ اب یہ الزم‬ ‫نہیں کہ وہ اصل تلفظ' اصل معنوں یا پھر اصل استعمال کے‬ ‫مطابق' استعمال میں آ جائے۔ وہ اپنی اصل سے کہیں دور'‬


‫بل کہ بہت دور جا سکتا ہے۔ معنوی اعتبار سے اصل سے‬ ‫برعکس استعمال میں آ سکتا ہے۔ کئی معنی اور استعمال‬ ‫سامنے آ سکتے ہیں اور پھر اس کے غیر ہونے کا گمان‬ ‫تک نہیں گزرتا۔‬ ‫یونانیوں کا سیاسی' علمی' ادبی اور ثقافتی حوالہ سے' دنیا‬ ‫بھر میں ٹہکا تھا۔ آتے وقتوں کی عظیم سیاسی' عسکری‬ ‫اور مکار قوت' برطانیہ ان کی دسترس سے باہر نہ تھی۔‬ ‫اسی طرح برصغیر بھی یونانیوں کے زیر اثر رہا۔ یونان کا‬ ‫لٹیرا اعظم' برصغیر پر بھی حملہ ہوا۔ یہاں پٹ گیا۔ زخمی‬ ‫ہوا اور یہاں سے دم دبا کر بھاگ گیا۔ ایک یونانی قبیلہ‬ ‫یہاں رک گیا۔ کیالش میں ان کا پڑاؤ ٹھہرا۔ یہ یونانی کئی‬ ‫والئیتوں پر حکومت کرتے رہے۔ اس یونانی عسکری‬ ‫قبیلے کی نسل' آج بھی' یہاں بہت ساری اپنی یونانی‬ ‫روایات کے ساتھ موجود ہے۔‬ ‫رومن برٹن‪ :‬بریطانیہ' بریٹن' برطانیہ۔ آئی لینڈ کا عالقہ تھا'‬ ‫جو کہ رومن ایمپائر کی حکومت میں تھا۔ برصغیر رومن‬ ‫شہنشاہت سے باہر نہ تھا۔ برصغیر میں ان کے ہونے کے‬


‫بہت سے اثار انٹرنیٹ پر تالشے جا سکتے ہیں۔ انگریزی‬ ‫کا رسم الخط آج بھی رومن ہے۔ اس رسم الخط میں لکھی‬ ‫اردو کو رومن اردو کا نام دیا جاتا ہے۔‬ ‫برطانیہ والے ‪ 0581‬سے بہت پہلے' برصغیر میں وارد ہو‬ ‫گیے تھے' تاہم ‪ 0581‬سے ‪ 0491‬تک برصغیر ان کا رہا۔‬ ‫محسن آزادی ہٹلر کی عنایت اور مہربانی سے' برطانیہ کے‬ ‫ہاتھ' پاؤں اور کمر کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں اور سونے کی‬ ‫چڑیا' اس کی دسترس میں نہ رہی۔ اس کے بعد امریکہ کی‬ ‫گڈی چڑھی اور آج تک چڑھی ہوئی ہے۔ گویا دونوں‬ ‫یونیوں کے زیر تسلط تھے' اس کے بعد رومیوں کے رہے۔‬ ‫اس کے بعد برصغیر پر برطانیہ کا کھرا کھوٹا سکا چال اور‬ ‫اب حضرت امریکہ بہادر کی خداوندی کا دور دورہ ہے۔‬ ‫اسم کی ترکیب کے لیے' انگریزی یں الحقہ موجود نہیں۔‬ ‫یہ خالص برصغیر سے متعلق ہے۔ مثال دیوارکا' پریمیکا'‬ ‫انومیکا' کامولیکا وغیرہ گویا امریکا' برصغیر کا لفظ ہے۔‬ ‫مثال امبڑیکا‪ .‬اگر کسی شخص کا نام ہے' تو اس کا برصغیر‬ ‫سے کوئی ناکوئی رشتہ' ضرور رہا ہو گا۔ امریکہ میں بھی‬


‫انگریزی زبان استعمال میں آتی ہے۔‬ ‫صاف ظاہر ہے' ان عالقوں کے لوگ یہاں آئے۔ ان عالقوں‬ ‫سے' جس حوالہ سے بھی سہی' یہاں سے لوگ گیے۔‬ ‫مزے کی بات یہ کہ آج بھی الکھوں کی تعداد میں مغرب‬ ‫کے مختلف عالقوں میں برصغیر کے لوگ' عارضی اور‬ ‫مستقل اقامت رکھتے ہیں۔ یہ کہنا کہ برصغیر والے ہی‬ ‫متاثر ہوئے' سراسر زیادتی کے مترادف ہو گا۔ حاکم ہو کہ‬ ‫محکوم' ایک والیت میں اقامت رکھنے کے سبب' ایک‬ ‫دوسرے سے متاثر ہوتے ہیں۔ ہندوی' جوآل ہند کی زبان‬ ‫ہے' نے دنیا کی تمام زبانوں کو' لسانی' فکری اور اسلوبی‬ ‫حوالہ سے متاثر کیا‪ .‬اسی طرح یہ بھی اپنی بےپناہ لچک‬ ‫پذیری کے باعث' ان سے متاثر ہوئی۔ مختلف زبانوں کے‬ ‫الفاظ' اس کے ذخیرہءاستعمال میں داخل ہیں۔‬ ‫متاثر کرنے کی' کئی صورتیں اور سطحیں ہوسکتی ہیں۔‬ ‫‪1‬‬ ‫کلچر زیادہ تر خواتین کے زیر اثر رہا ہے۔‬


‫زیورات' لباس' بناؤ سنگار کے اطوار' ناز و نخرہ وغیرہ‬ ‫کے چلن' ایک دوسرے کے اختیار کرتی ہیں۔‬ ‫نشت و برخواست کے اصول اختیار کرتی ہیں۔‬ ‫گفت گو میں' ایک دوسرے کی طرز اختیار کرتی ہیں۔‬ ‫گھر میں سامان کی درآمد اور اس کے رکھنے اور سجانے‬ ‫کے طور' اپناتی ہیں۔‬ ‫کچن اور اس سے متعلقہ امور میں' نقالی کرتی ہیں۔‬ ‫اشیائے اور اطوار پکوان اپناتی ہیں۔‬ ‫فقط یہ امور ہی انجام نہیں پاتے' بل کہ ان کے حوالہ سے‬ ‫اسما' صفات' سابقے' الحقے' اسلوب بھی اس گھر میں‬ ‫منتقل ہوتے ہیں۔‬ ‫‪2‬‬ ‫کم زوروں کی ہنرمندی اور ہنرمندوں پر ڈاکے پڑتے ہیں‬ ‫ان کے وسائل قدرت پر قبضہ جمایا جاتا ہے‬ ‫ان کے علمی و ادبی ورثے کو غارت کرنے کے ساتھ اس‬ ‫کی بڑی بےدردی سے لوٹ مار کی جاتی ہے۔‬ ‫ان تینوں امور کے حوالہ سے ان کی زبان میں بہت کچھ‬


‫بدیسی داخل ہو جاتا ہے۔‬ ‫‪3‬‬ ‫اس کے عالوہ معاشرتوں کے انسالک سے‬ ‫بہت سے معاشرتی اطوار‬ ‫انسانی رویے‬ ‫رسم و رواج‬ ‫مذہبی اور نظریاتی اصول‬ ‫سیاسی' معاشی اور ارضیاتی طور طریقے اور خصوصی و‬ ‫عمومی چلن‬ ‫ایک دوسرے کے ہاں منتقل ہوتے ہیں اور صدیوں کا سفر‬ ‫کرتے ہیں۔ آتے وقتوں میں کچھ کے کچھ ہو جاتے ہیں'‬ ‫لیکن باقی رہتے ہیں۔ بعض کی' ہزاروں سال بعد بھی'‬ ‫بازگشت باقی رہتی ہے۔ یہ امور زبان سے باال باال نہیں‬ ‫ہوتے۔ ان سب کا زبان سے اٹوٹ رشتہ استوار ہوتا ہے۔‬ ‫اشیائے خوردنی اور اشیائے استعمال مثال کپڑے' برتن‬ ‫وغیرہ‬


‫اشیائے حرب اور حربی ضوابط‬ ‫طرز تعمیر وغیرہ‬ ‫قبریں بنانے کے انداز‬ ‫کا تبادلہ ہوتا ہے' ان کے حوالہ سے زبان کو بہت کچھ‬ ‫میسر آتا ہے۔ میں نے یہاں' محض گنتی کے دو چار‬ ‫اموردرج کیے ہیں' ورنہ ایسی بیسیوں چیزیں ہیں' جو‬ ‫وقوع میں آتی ہیں اور ان کا زبانوں پر اثر مرتب ہوتا ہے۔‬ ‫اس ذیل میں' قرتہ العین حیدر کی تحریروں کا مطالعہ مفید‬ ‫رہے گا۔ انگریزی بھی' برصغیر کی زبان ہندوی سے' متاثر‬ ‫ہوتی آئی ہے جس کے لیے' ان کی شاعری کا مطالعہ کیا‬ ‫جا سکتا ہے۔‬ ‫بعض اردو اور انگریزی کی ضمیروں میں' صوتی مماثلت‬ ‫موجود ہے۔ مثال‬ ‫‪Of fortune’s favoured sons, not me.‬‬ ‫‪: Wish‬نظم‬


‫‪: Matthew Arnold‬شاعر‬ ‫‪To die: and the quick leaf tore me‬‬ ‫‪me‬‬ ‫کے لیے اردو میں مجھے مستعمل ہے۔ پوٹھوہار میں‬ ‫ضمیر می آج بھی بول چال میں ہے۔‬ ‫‪........‬‬ ‫‪My feeble faith still clings to Thee,‬‬ ‫!‪: My God! O Let Me Call Thee Mine‬نظم‬ ‫‪: Anne Bronte‬شاعر‬ ‫‪my‬‬ ‫انگریزی میں عام استعمال کی ضمیر اردو میں اس ضمیر‬ ‫کے میرا مستعمل ہے۔‬ ‫‪........‬‬


‫‪when all about you‬‬

‫‪you can keep your head‬‬ ‫‪: If‬نظم‬

‫‪: Rudyard Kipling‬شاعر‬ ‫اردو میں تو عام بول چال میں موجود ہے۔‬ ‫‪........‬‬ ‫بہت سے الفاظ آوازوں کے تبادل یا کسی اور صورت میں‬ ‫انگریزی میں مستعمل ہیں۔ مثال‬ ‫اردو میں دن انگریزی میں ڈان‬ ‫‪ more‬مور‬ ‫‪ m‬اور الف کی آواز میم یعنی‬ ‫‪ m‬میں بدلی ہے۔‬ ‫کو حشوی قرار دیا جا سکتا ہے۔‬


‫‪Once more before my dying eyes‬‬ ‫‪Wish: Matthew Arnold‬‬ ‫ودوا اپنی اص میں ود اور وا کا مرکب ہے۔ بےوا مستعمل‬ ‫صورت بیوہ۔‬ ‫بے نہی کا سابقہ ہے‬ ‫بہت سے لفظ اس طور سے لکھے جاتے ہیں۔ مثال‬ ‫بیچارہ بجائے بےچارہ‬ ‫بیدل بجائے بےدل‬ ‫بیہوش بجائے بےہوش‬ ‫بیکار بجائے بےکار‬ ‫بیوہ بےوا بمعنی جس کا ور نہ رہا ہو ر کی آواز گر گئی‬ ‫ہے‪ .‬ودوا بےوا کے لیے بوال جاتا ہے۔‬ ‫انگریزی میں وڈو۔ وڈ او‬ ‫‪widow‬‬


‫وڈ آؤٹ اس کے' یعنی ور' او ۔ ور‬ ‫‪...............‬‬ ‫کئی ایک لفظ انگریزی کی صوتیات کے پیش نظر' معمولی‬ ‫سی تبدیلی کے ساتھ' انگریزی میں داخل ہو گئے ہیں۔‬ ‫‪no‬‬ ‫انگریزی میں نفی کے لیے استعمال ہوتا ہے اردو میں نہ‬ ‫جب کہ انگریزی میں نو‬ ‫نو' باطور نہی کا سابقہ‬ ‫نوسر نوٹنکی‬ ‫نو‪ .‬سر‪ .‬باز‬ ‫باطور سابقہ نا ناکافی نازیبا ناچیز‬ ‫نہ باطور سابقہ نہ جاؤ' نہ چھیڑو' نہ کرو' نہ مارو‬ ‫ان بولتے لفظوں کو‘ ہم سن نہ سکے‬ ‫آنکھوں سے‘ چن نہ سکے‬


‫ مقصود حسنی‬:‫کس منہ سے‬ ‫نہ کڑا نہ کھارا‬ ‫ مقصود حسنی‬:‫چل' دمحم کے در پر چل‬ I have no wit, no words, no tears; A Better Resurrection: Christina Rossetti No motion has she now, no force; A Slumber Did My Spirit Seal: William Wordsworth Thou hast no reason why ! Thou canst have none ; Human Life: Samuel Taylor Coleridge ............ ‫رشتوں کے حوالہ سے بھی انگریزی میں کچھ الفاظ داخل‬ ‫ہوئے ہیں۔ مثال‬


‫پنجابی میں بھرا‬ ‫فارسی میں برادر‬ ‫اردو میں بھی برادر مستعمل ہے‬ ‫انگریزی میں‬ ‫‪brother‬‬ ‫اصل لفظ برا۔ بھرا ہی ہے جب کہ در باطور الحقہ داخل ہوا‬ ‫ہے۔ ایک پہلے ہے تب ہی دوسرا برا یا بھرا ہے۔ دونوں کا‬ ‫برابر کا رشتہ ہے۔ انگریزی میں واؤ الف کا تبادل ہے۔ یہ‬ ‫رویہ طور میواتی اور راجھستانی میں موجود ہے۔ برا سے‬ ‫برو بامعنی بھائی۔‬ ‫در کا الحقہ‬ ‫‪father, mother‬‬ ‫میں بھی موجود ہے‬ ‫در' باطور سابقہ اور الحقہ اردو میں بھی رواج رکھتا ہے‪.‬‬ ‫مثال‬


‫درگزر' درحقیقت' درکنار‬ ‫چادر چا در‬ ‫‪His brother doctor of the soul,‬‬ ‫‪Wish: Matthew Arnold‬‬ ‫فارسی میں' ماں کے لیے مادر مستعمل ہے۔ اردو میں مادر‬ ‫پدر آزاد عام بول چال میں ہے۔ اصل لفظ ما ہی ہے۔ ں‬ ‫حشوی ہے‪ .‬یہ ہی صورت فارسی کے ساتھ ہے۔ انگریزی‬ ‫میں‬ ‫‪mother‬‬ ‫بولتے ہیں۔ اس میں اصل لفظ مو ہی ہے' فارسی کی طرح‬ ‫در الحاقی یعنی خارجی ہے۔‬

‫ہر برتن کی زبان پہ‬ ‫اس کی مرحوم ماں کا نوحہ‬ ‫باپ کی بےحسی اور‬


‫جنسی تسکین کا بین تھا‬ ‫نوحہ‪ :‬مقصود حسنی‬ ‫‪............‬‬ ‫مرکبات حسن شعر میں داخل ہیں۔ یہ شخصی اور مجموعی‬ ‫رویوں کے عکاس اور شاعر کی اختراعی فکر کےغماز‬ ‫ہوتے ہیں۔ یہ ہی نہیں' زبان کی وسعت بیانی کی بھی‬ ‫گواہی دیتے ہیں۔ اردو اس ذیل میں کمال کی شکتی رکھتی‬ ‫ہے۔ انگریزی میں بھی مرکبات ملتے ہیں۔ اس ذیل میں‬ ‫اردو کے پائے کے مرکبات کی حامل ناسہی' لیکن اس کا‬ ‫دامن اس کمال زبان سے تہی نہیں۔ اردو اور انگریزی سے‬ ‫چند مثالیں مالحظہ فرمائیں۔‬ ‫موسم گل ابھی محو کالم تھا کہ‬ ‫‪..........‬‬ ‫پریت پرندہ‬ ‫‪..........‬‬ ‫اس کی بینائی کا دیا بجھ گیا‬


......... ‫پھر اک درویش مینار آگہی پر چڑھا‬ ...... ‫یتیمی کا ذوق لٹیا ڈبو دیتا ہے‬ ‫من کے موسم دبوچ لیتا ہے‬ ‫ مقصود حسنی‬:‫حیرت تو یہ ہے‬

greedy heirs, ceremonious air, hideous show, poor sinner, undiscovered mystery, death’s winnowing wings, dying eyes, dew of morn, generous sun, silent moves, ruddy eyes, tears of gold, clouds of gloom, golden wings, trembling soul, make dreams, worth of distance, Shadows of the world, golden Galaxy, happy hours, sun in flight,


Wish: Matthew Arnold From bands of greedy heirs be free; The ceremonious air of gloom – All which makes death a hideous show! ‫پوشیدہ نمائش‬ Of the poor sinner bound for death, ‫بےچارہ گناہ گار مفلس گناہ گار‬ That undiscovered mystery Which one who feels death’s winnowing wings Once more before my dying eyes ‫ڈوبتی آنکھیں‬


Bathed in the sacred dew of morn ‫تاسف کی بوندیں‬ But lit for all its generous sun, Where lambs have nibbled, silent moves They look in every thoughtless nest, ‫فکر سے عاری گھروندا‬ Seeking to drive their thirst away, ‫ہانکتی پیاس‬ And there the lion’s ruddy eyes ‫مغرور نگاہیں‬ Shall flow with tears of gold, Night: William Blake


Sometimes there are clouds of gloom Still buoyant are her Life: Charlotte Bronte My trembling soul would fain be Thine ‫لرزتی روح‬ My God! O Let Me Call Thee Mine! Anne Bronte If you can dream – and not make dreams your master; ‫خواب بننا‬ With sixty seconds’ worth of distance run If: Rudyard Kipling Shadows of the world appear.


Hung in the golden Galaxy. The Lady Of Shalott: Alfred Tennyson Now stand you on the top of happy hours, ‫مسرور لمحے‬ But wherefore do not you a mightier way Shakespeare And then, O what a glorious sight Address To A Haggis: Robert Burns Wild men who caught and sang the sun in flight,

‫مرکبات تحریر کے اختصاری معاملے میں' حد درجہ معاون‬ ‫ہوتے ہیں' بعینہ تشبیہات ناصرف اسم کو نمایاں کرتی ہیں' بل کہ‬ '‫اسم کی کائنات میں مماثلتیں بھی تالشتی ہیں۔ یہ ہی نہیں‬


‫اختصاری عمل میں بھی' اپنے حصہ کا کردار ادا کرتی ہیں۔ میر‬ ‫کا یہ معروف ترین شعر مالحظہ ہو۔‬ ‫نازکی اس کے لب کی کیا کہیے‬ ‫پنکھڑی اک گالب سی ہے‬ ‫اس سے ناصرف لبوں کی نازکی سامنے آئی ہے' بل کہ چند‬ ‫لفظوں میں کئی صفحات پر محیط کام سمیٹ دیا گیا ہے۔ تشبیہات‬ ‫کے معاملہ میں' انگریزی اردو کے قریب تر ہے۔ ماضی بعید‬ ‫اورانگریز کے برصغیری عہد میں' اس زبان نے انگریزی کو‬ ‫متاثر کیا ہو گا۔ اردو اور انگریزی سے چند مثالیں مالحظہ‬ ‫فرمائیں۔‬

‫سلوٹ سے پاک سہی‬ ‫پھر بھی‬ ‫حنطل سے کڑوا‬ ‫اترن کا پھل‬


‫ مقصود حسنی‬:‫چل' دمحم کے در پر چل‬ ‫ساون رت میں‬ ‫آنکھوں کی برکھا کیسے ہوتی ہے‬ ‫ مقصود حسنی‬:‫مت پوچھو‬

My life is like a faded leaf My life is like a frozen thing, My life is like a broken bowl, Can make you live yourself in eyes of men. But wherefore do not you a mightier way Shakespeare ........


A Better Resurrection: Christina Rossetti Blind eyes could blaze like meteors and be gay, ........ Do Not Go Gentle Into That Good Night Dylan Thomas The moon like a flower Night: William Blake ........ And Joy shall overtake us as a flood, On Time: Milton ........


Blind eyes could blaze like meteors and be gay, Do Not Go Gentle Into That Good Night Dylan Thomas ........ Made snow of all the blossoms; at my feet Like silver moons the pale narcissi lay Holy Week At Genoa: Oscar Wilde ........ Shall shine like the gold Night: William Blake ........


‫‪Hops like a frog before me.‬‬ ‫‪Brooding Grief: D.H.Lawrence‬‬ ‫حسن واختصار' موازنہ' تاریخ اور علوم سے راوبط کی ذیل میں‬ ‫تلمیح کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اردو شاعری میں اس کا عام'‬ ‫برمحل اور بالتکلف استعمال ملتا ہے۔ مثال‬ ‫سنا ہے‬ ‫یوسف کی قیمت‬ ‫سوت کی اک انٹی لگی تھی‬ ‫عصر حاضر کا مرد آزاد‬ ‫دھویں کے عوض‬ ‫ضمیر اپنا بیچ دیتا ہے‬ ‫نظم‪ :‬سنا ہے' مقصود حسنی‬


‫وہ آگ‬ ‫عزازئیل کی جو سرشت میں تھی‬ ‫اس آگ کو نمرود نے ہوا دی‬ ‫اس آگ کا ایندھن‬ ‫قارون نے پھر خرید کیا‬ ‫اس آگ کو فرعون پی گیا‬ ‫اس آگ کو حر نے اگل دیا‬ ‫یزید مگر نگل گیا‬ ‫صبح ہی سے‪ :‬مقصود حسنی‬ ‫انگریزی میں باکثرت ناسہی' اس سے کام ضرور لیا گیا ہے۔‬ ‫مثال‬

‫;‪To feel the universe my home‬‬ ‫‪Wish: Matthew Arnold‬‬


In heaven’s high bower, The angels, most heedful, Night: William Blake

And flamed upon the brazen greaves Of bold Sir Lancelot.

The Lady Of Shalott: Alfred Tennyson


Shall I compare thee to a summer’s day? So are you to my thoughts That God Forbid That time of year Against My Love: Shakespeare

Cast in the fire the perish’d thing; Melt and remould it, till it be A royal cup for Him, my King: O Jesus, drink of me A Better Resurrection: Christina Rossetti


‘Jesus the son of Mary has been slain, Holy Week At Genoa: Oscar Wilde

I long for scenes where man hath never trod A place where woman never smiled or wept there to abide with my creator God, ‫خالق‬ I am: John Clare

If even a soul like Milton’s can know death ; Human Life: Samuel Taylor Coleridge


‫‪Biting my truant pen, beating myself for spite:‬‬ ‫"‪"Fool," said my Muse to me, "look in thy heart, and write.‬‬ ‫‪Loving in truth: Phlip Sidney‬‬

‫ضدین پر کائنات استوار ہے۔ یہ شناخت کا کلیدی وسیلہ‬ ‫ہیں۔ اردو شاعری میں' صنعت تضاد کا استعمال ملتا ہے۔‬ ‫خوبی کی بات یہ کہ ضدین ایک دوسرے سے متعلق ہوتی‬ ‫ہیں۔ مثال‬ ‫وہ قیدی نہ تھا‬ ‫خیر وشر سے بے خبر‬ ‫معصوم‬ ‫فرشتوں کی طرح‬ ‫نظم‪ :‬نوحہ' مقصود حسنی‬


‫ایندھن‬ ‫دیکھتا اندھا سنتا بہرا‬ ‫سکنے کی منزل سے دور کھڑا‬ ‫ظلم دیکھتا ہے‬ ‫آہیں سنتا ہے‬ ‫بولتا نہیں کہتا نہیں‬ ‫جہنم ضرور جائے گا‬ ‫نظم‪ :‬نوحہ' مقصود حسنی‬ ‫اس صنعت کا' انگریزی شاعری میں بھی ملتا ہے اور‬ ‫استعمال کا طریقہ اردو سے قطعی مختلف نہیں۔ چند مثالیں‬ ‫مالحظہ فرمائیں‬

‫‪And up and down the people go,‬‬


The Lady Of Shalott: Alfred Tennyson

The friends who come, and gape, and go; Wish: Matthew Arnold

And by his health, sickness Night: William Blake

A place where woman never smiled or wept I am: John Clare '‫ہم صوت الفظ کا استعمال' غنا اور آہنگ کی حصولی میں‬


‫بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اردو غزل میں شگفتگی'‬ ‫شائستگی اور وارفتگی اسی کی مرہون منت ہے۔ نظم کے‬ ‫شعرا نے بھی اس صنعت کو بال تکلف استعمال میں رکھا‬ ‫ہے۔ مثال‬ ‫عہد شہاب میں بےحجاب بےکسی بھی عجب قیامت تھی۔‬ ‫صبح اٹھتے مشقت اٹھاتےعوضوانے کو ہاتھ بڑھاتے بے‬ ‫نقط سنتے۔ سانسیں اکھڑ جاتیں مہر بہ لب جیتے کہ‬ ‫سانسیں باقی تھیں۔ جینا تو تھا ہی لہو تو پینا تھا ہی۔‬ ‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا‪ :‬مقصود حسنی‬ ‫مضمون ایک طرف' یہ ہم صوت الفاظ ہی' اس پہرے کو نثر‬ ‫کا سرمایا رہنے نہیں دیتے۔ انگریزی شاعری میں بھی' یہ‬ ‫صنعت دیکھنے کو ملتی ہے۔ مثال‬

‫!‪Must need read clearer, sure, than he‬‬ ‫‪Bring none of these; but let me be,‬‬


Nor bring, to see me cease to live, To work or wait elsewhere or here! Wish: Matthew Arnold

Still strong to bear us well. Manfully, fearlessly, The day of trial bear, For gloriously, victoriously, Can courage quell despair! Life: Charlotte Bronte ‫صنعت تکرار لفظی' جہاں آہنگ کے لیے ناگزیر ہے' وہاں‬


‫بات میں زور اور وضاحت کا سبب بنتی بھی ہے۔ اردو میں‬ ‫اس صنعت کا استعمال عام ملتا ہے۔ مثال‬

‫وہ قتل ہو گیا‬ ‫پھر قتل ہوا‬ ‫ایک بار پھر قتل ہوا‬ ‫اس کے بعد بھی قتل ہوا‬ ‫وہ مسلسل قتل ہوتا رہا‬ ‫جب تک سیٹھوں کی بھوک‘ نہیں مٹ جاتی‬ ‫جب تک خواہشوں کا‘ جنازہ نہیں اٹھ جا‬ ‫وہ قتل ہوتا رہے گا‬ ‫وہ قتل ہوتا رہے گا‬ ‫جب تک‪ :‬مقصود حسنی‬ ‫اب انگریزی شاعری سے چند مثالیں مالحظہ فرمائیں۔‬


If you can wait and not be tired by waiting, Or, being lied about, don’t deal in lies, Or, being hated, don’t give way to hating, And yet don’t look too good, nor talk too wise; .................. If you can dream – and not make dreams your master; If: Rudyard Kipling

If you can bear to hear the truth you’ve spoken Life: Charlotte Bronte


Four grey walls, and four grey towers, ......... The knights come riding two and two: ........ The helmet and the helmet-feather Burned like one burning flame together, The Lady Of Shalott: Alfred Tennyson

Then, horn for horn, they stretch an strive: Address To A Haggis: Robert Burns

A little while, a little while,


‫‪The weary task is put away,‬‬ ‫‪And I can sing and I can smile,‬‬ ‫‪Alike, while I have holiday.‬‬ ‫‪A Little While: Emily Bronte‬‬ ‫نوٹ‬ ‫انگریزی میں غزل نہیں اسی لیے مثالیں نظم سے لی گئی‬ ‫ہیں۔‬ ‫‪..............................................‬‬

‫وقت کیسا انقالب الیا ہے‬ ‫وقت کیسا عذاب الیا ہے‬ ‫تم کب الئق محبت ہو‬


‫آئینے میں اپنی شکل تو دیکھو‬ ‫قاصد یہی جواب الیا ہے‬ ‫گویا خط میں عتاب الیا ہے‬ ‫جو سر کے بل چلے تھے‬ ‫ناکام ٹھہرے‬ ‫پت جھڑ گالب الیا ہے‬ ‫ذلیخا کا عشق سچا سہی‬ ‫وہ برہنہ پا کب چلی تھی‬ ‫پہیہ عمودی چال چال ہے‬ ‫زندہ قبر میں اتر گیا ہے‬ ‫آنکھ دیکھتی نہیں‬ ‫کان سنتے نہیں‬ ‫وقت کیسا انقالب الیا ہے‬ ‫بارش قرض دار بادلوں کی‬ ‫بادل بینائی کو ترسیں‬


‫زخمی زخمی‬ ‫ہر سہاگن کی کالئی‬ ‫بیوہ سولہ سنگار سے ہے‬ ‫وقت کیسا انقالب الیا ہے‬ ‫وقت کیسا عذاب الیا ہے‬ ‫مقصود حسنی‬ ‫جناب مقصود حسنی صاحب سالم مسنون‬ ‫واہ واہ بہت خوب چبھتی ہوئی نظم ہے۔ اپ نے چہرہ کو‬ ‫گرد سے صاف کرنے کو کہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ‬ ‫ہمارا چہرہ اتنا مسخ ہو چکا ہے کہ اس کو صاف کرنے‬ ‫کی نہیں بلکہ ایک بڑے اپریشن کی ضرورت ہے کہ جس‬ ‫سے وہ چہرہ نکھرے جو کہ ہمارا اصلی اور بے مثالی‬ ‫چہرہ سامنے ائے۔‬ ‫ایک دفع پھر داد۔‬


‫طالب دعا‬ ‫کفیل احمد‬

‫حیرت تو یہ ہے‬ ‫موسم گل ابھی محو کالم تھا کہ‬ ‫مہتاب بادلوں میں جا چھپا‬ ‫اندھیرا چھا گیا‬ ‫پریت پرندہ‬ ‫ہوس کے جنگلوں میں کھو گیا‬ ‫اس کی بینائی کا دیا بجھ گیا‬ ‫کوئی ذات سے‘ کوئی حاالت سے الجھ گیا‬ ‫کیا اپنا ہے‘ کیا بیگانہ‘ یاد میں نہ رہا‬


‫بادل چھٹنے کو تھے کہ‬ ‫افق لہو اگلنے لگا‬ ‫دو بم ادھر دو ادھر گرے‬ ‫پھر تو‬ ‫ہر سو دھواں ہی دھواں تھا‬ ‫چہرے جب دھول میں اٹے تو‬ ‫ظلم کا اندھیر مچ گیا‬ ‫پھر اک درویش مینار آگہی پر چڑھا‬ ‫کہنے لگا سنو سنو‬ ‫دامن سب سمو لیتا ہے‬ ‫اپنے دامن سے چہرے صاف کرو‬ ‫شاید کہ تم میں سے کوئی‬ ‫ابھی یتیم نہ ہوا ہو‬ ‫یتیمی کا ذوق لٹیا ڈبو دیتا ہے‬ ‫من کے موسم دبوچ لیتا ہے‬


‫کون سنتا پھٹی پرانی آواز کو‬ ‫حیرت تو یہ ہے‬ ‫موسم گل کا سب کو انتظار ہے‬ ‫گرد سے اپنا دامن بھی بچاتا ہے‬ ‫اوروں سے کہے جاتا ہے‬ ‫چہرہ اپنا صاف کرو‘ چہرہ اپنا صاف کرو‬

‫جناب مقصود حسنی صاحب سالم مسنون‬ ‫واہ واہ بہت خوب چبھتی ہوئی نظم ہے۔ اپ نے چہرہ کو‬ ‫گرد سے صاف کرنے کو کہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ‬ ‫ہمارا چہرہ اتنا مسخ ہو چکا ہے کہ اس کو صاف کرنے‬ ‫کی نہیں بلکہ ایک بڑے اپریشن کی ضرورت ہے کہ جس‬ ‫سے وہ چہرہ نکھرے جو کہ ہمارا اصلی اور بے مثالی‬ ‫چہرہ سامنے ائے۔‬


‫ایک دفعہ پھر داد۔‬ ‫طالب دعا‬ ‫کفیل احمد‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9121.0‬‬

‫کس منہ سے‬ ‫چلم بھرتے ہات‘ اٹھ نہیں سکتے‬ ‫ہونٹوں پر فقیہ عصر نے‬ ‫چپ رکھ دی ہے‬ ‫کتنا عظیم تھا وہ شخص‬ ‫گلیوں میں‬ ‫رسولوں کے لفظ بانٹتا رہا‬


‫ان بولتے لفظوں کو‘ ہم سن نہ سکے‬ ‫آنکھوں سے‘ چن نہ سکے‬ ‫ہمارے کانوں میں‘ جبر کی پوریں رہیں‬ ‫آنکھوں میں خوف نے پتھر رکھ دیے‬ ‫ہم جانتے ہیں‘ وہ سچا تھا‬ ‫قول کا پکا تھا‬ ‫مرنا تو ہے‘ ہمیں یاد نہ رہا‬ ‫ہم جانتے ہیں اس نے جو کیا‬ ‫ہمارے لیے کیا‬ ‫جیا تو ہمارے لیے جیا‬ ‫کتنا عجیب تھا‬ ‫زندہ الشوں کا دم بھرتا رہا‬ ‫مصلوب ہوا ہم دیکھتے رہے‬ ‫نیزے چڑھا ہم دیکھتے رہے‬ ‫مرا جال راکھ اڑی ہم دیکھتے رہے‬


‫اس کے کہے پر دو گام تو چال ہوتا‬ ‫کس منہ سے اب‬ ‫اس کی راہ دیکھتے ہیں‬ ‫ہم خاموش تماشائی‬ ‫مظلومیت کا فقط ڈھونگ رچاتے ہیں‬ ‫بے جان جیون کے دامن میں‬ ‫غیرت کہاں جو رن میں اترے‬ ‫یا پھر‬ ‫پس لب اس کی مدح ہی کر سکے‬ ‫چلو دنیا چاری ہی سہی‬ ‫آؤ‬ ‫اندرون لب دعا کریں‬ ‫ان مول سی مدح کہیں‬ ‫پیغام میں ترمیم کیجیے‬


‫شبنم نبضوں میں‬

‫عشق پلکوں پر‬ ‫پروانے اترے‬ ‫دیوانے تھے جو پر جالنے اترے‬ ‫لمس کی حدت نے‬ ‫خوشبو کی شدت نے‬ ‫آئین کے سینے پر پتھر رکھا‬ ‫گالب آنکھیں پتھر‬ ‫ہر رہگزر خوف کا گھر‬ ‫سوچ دریچے برف ہوئے‬ ‫بہری دیواروں پر‬ ‫گونگے خواب اگے‬


‫اندھے چراغ جلے‬ ‫ئشبنم نبضوں میں‬ ‫موت کا شعلہ تھا‬ ‫شہر میں کہرام مچا‬ ‫پروانے تو دیوانے تھے‬ ‫پر جالنے اترے‬

‫جب تک‬ ‫وہ قتل ہو گیا‬ ‫پھر قتل ہوا‬ ‫ایک بار پھر قتل ہوا‬ ‫اس کے بعد بھی قتل ہوا‬ ‫وہ مسلسل قتل ہوتا رہا‬


‫جب تک سیٹھوں کی بھوک‘ نہیں مٹ جاتی‬ ‫جب تک خواہشوں کا‘ جنازہ نہیں اٹھ جا‬ ‫وہ قتل ہوتا رہے گا‬ ‫وہ قتل ہوتا رہے گا‬ ‫محترمی ڈاکٹر حسنی صاحب‪:‬آداب عرض‬ ‫آپ کی نثری نظم پڑھی اور مستفید ہوا۔ نثری نظم کی‬ ‫ضرورت میری سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ نثری نظم دراصل‬ ‫اچھی نثر کو چھوٹے بڑے ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کا‬ ‫دوسرا نام ہے۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہے۔ مجھ کو آپ کی‬ ‫یہ نثری نظم اس لئے اچھی لگی کہ اس کا موضوع وقت‬ ‫کی پکار ہے۔ جس طرح ساری دنیا میں اور خاص طور‬ ‫سے دنیائے اسالم میں ‪:‬سیٹھوں‪ ،‬وڈیروں‪ :‬کے ہاتھوں‬ ‫عوام کا استحصال ہو رہا ہے وہ بہت عبرتناک ہے۔ افسوس‬ ‫کہ اس کا عالج سمجھ میں نہیں آتا۔ ایک سوال دل میں‬ ‫اٹھتا ہے کہ اس قدر ظلم ہو رہا ہے تو وہ ہستی جس کو ہم‬ ‫‪:‬ہللا‪ ،‬خدا‪ ،‬بھگوان‪ ،‬گاڈ‪ :‬کہتے ہیں کیوں خاموش ہے؟ اگر‬


‫سب کچھ اس کے ہاتھ میں ہے تو پھر وہ کچھ کرتی کیوں‬ ‫نہیں؟ آپ نے بھی اس پر سوچا ہوگا۔ مناسب جانیں تو اس‬ ‫پر لکھیں۔ شکریہ۔‬ ‫خادم‬ ‫مشیر شمسی‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8503.0‬‬

‫صبح ہی سے‬

‫وہ آگ‬ ‫عزازئیل کی جو سرشت میں تھی‬ ‫اس آگ کو نمرود نے ہوا دی‬ ‫اس آگ کا ایندھن‬


‫قارون نے پھر خرید کیا‬ ‫اس آگ کو فرعون پی گیا‬ ‫اس آگ کو حر نے اگل دیا‬ ‫یزید مگر نگل گیا‬ ‫اس آگ کو‬ ‫میر جعفر نے سجدہ کیا‬ ‫میر قاسم نے مشعل ہوس روشن کی‬ ‫اس آگ کے شعلے‬ ‫پھر بلند ہیں‬ ‫مخلوق ارضی‬ ‫ڈر سے سہم گئی ہے‬ ‫ابر باراں کی راہ دیکھ رہی ہے‬ ‫کوئی بادل کا ٹکڑا نہیں‬ ‫صبح ہی سے تو‬ ‫آسمان نکھر گیا ہے‬


‫‪1980‬‬

‫نوحہ‬ ‫وہ قیدی نہ تھا‬ ‫خیر وشر سے بے خبر‬ ‫معصوم‬ ‫فرشتوں کی طرح‬ ‫جھوٹے برتنوں کے گرد‬ ‫انگلیاں محو رقص تھیں اس کی‬ ‫ہر برتن کی زبان پہ‬ ‫اس کی مرحوم ماں کا نوحہ‬ ‫باپ کی بےحسی اور‬ ‫جنسی تسکین کا بین تھا‬


‫آنکھوں کی زبان پہ‬ ‫اک سوال تھا‬ ‫‘اس کو زندگی کہتے ہیں‬ ‫یہی زندگی ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟‬

‫محترمی جناب حسنی صاحب ‪:‬آداب عرض‬ ‫میں شاعر نہیں ہوں بس ادب کا شوق ضرور ہے مجھ کو۔‬ ‫اس لئے اگر کوئی غلط بات کہہ جائوں تو معاف کر دیجئے‬ ‫گا۔ آپ کی نظم "نوحہ" میری سمجھ میں نہیں آئی۔ ایسا‬ ‫محسوس ہوا جیسے اپ کا مطلب الفاظ کے پیچ و خم میں‬ ‫کہیں گم ہو گیا۔ کئی مرتبہ نظم پڑھی اور غور کیا لیکن بات‬ ‫پوری طرح واضح نہیں ہوئی۔۔ یہ ضرور میری کوتاہی ہے۔‬ ‫بڑی عنایت ہوگی اگر آپ اپنے خیال اور طرز بیان پر کچھ‬ ‫روشنی ڈآلیں۔ میرا خیال ہے کہ اس سے کچھ اور دوستوں‬ ‫کابھی فائدہ ہو گا۔ شکریہ پیشگی قبول کیجئے۔ آپ کی‬ ‫وضاحت کا انتظار رہے گا۔‬


‫خادم ‪ :‬مشیر شمسی‬ ‫محترم سید صاحب‬ ‫آپ نے توجہ فرمائ‘ دل و جان سے احسان مند ہوں۔‬ ‫ہللا آپ کو خوش رکھے۔‬ ‫آپ کی تحریر بتاتی ہے‘ آپ ہللا کے فضل سے آسوددہ حال‬ ‫ہیں۔ آپ کو تیسرے اور چوتھے درجے کے کسی ہوٹل میں‬ ‫بیٹھ کر‘ چائے سے شغل فرمانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ آپ نے‬ ‫کسی بڑے گھر میں‘ کسی معصوم بچے کو برتن صاف‬ ‫کرتے نہیں دیکھا۔ اگر یہ آپ نے مالحظہ فرمایا ہوتا‘ تو‬ ‫سب سمجھ میں آ جاتا۔‬ ‫قبلہ میں نے دیکھا ہے اور دیکھتا رہتا ہوں۔ میں گلی میں‬ ‫دس بارہ برس کے بچوں کی‘ رات گیے‘ گرم انڈے کی‬ ‫آوازیں سنتا ہوں۔‬ ‫اگر جناب پر مطلب واضع نہ ہوا ہو‘ تو چشم تصور میں‘‬ ‫میری بھیگی پلکوں کو دیکھ لیں‘ ممکن ہے‘ مطلب واضع‬ ‫ہو جائے۔‬


‫واہ‪ ...‬ڈاکٹر صاحب ! آپ نے ہمارے معاشرے کے اس‬ ‫نوحے‬ ‫کو بہت عمدگی سے بیان کیا ہے‬‫باپ کی بے حسی اور‬ ‫جنسی تسکین کا بین‬ ‫بہت کم الفاظ میں آپ نے اشارہ دیا ہے کہ قصور صرف‬ ‫معاشرے یا‬ ‫ب اختیار کا نہیں ہے بلکہ اس جرم میں وہ لوگ بھی‬ ‫اربا ِ‬ ‫برابر کے شریک ہیں جو اپنے وسائل کو دیکھے بنأ ہی‬ ‫اپنی نفسانی خواہشات کا‬ ‫گھوڑا سرپٹ سرپٹ دوڑائے چلے جاتے ہیں اور ساتھ میں‬ ‫اپنی (مذہبی) جاہلیت کی وجہ سے بچوں کی ایک قطار‬ ‫کھڑی‬


‫کر دیتے ہیں‬ ‫فیصل فارانی‬

‫ایندھن‬

‫دیکھتا اندھا سنتا بہرا‬ ‫سکنے کی منزل سے دور کھڑا‬ ‫ظلم دیکھتا ہے‬ ‫آہیں سنتا ہے‬ ‫بولتا نہیں کہتا نہیں‬ ‫جہنم ضرور جائے گا‬


‫عاری‬ ‫جبرائیل ادراک‬ ‫شاہین پرواز لے گیا‬ ‫سیماب بےقراری‬ ‫گالب خوشبو لے گیا‬ ‫مہتاب چاندنی‬ ‫خورشید حدت لے گیا‬ ‫جو جس کو پسند آیا‬ ‫لے گیا‬ ‫تیرے پاس کیا رہا‬ ‫دو ہات‘ خالی‬ ‫دو آنکھیں‘ بے نور‬ ‫راتوں کے خواب‬ ‫بے رونق‘ بےزار‬


‫دن کے اجالے‬ ‫خاموش‘ اداس‬ ‫ہمالہ‘ مٹی کا ڈھیر‬ ‫حرکت سے عاری‬ ‫تو‘ مٹی کا ڈھیر‬ ‫حرکت سے عاری‬ ‫ُمحترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! اسالم علیکم‬ ‫اپ کی نظموں پر اج پہلی بار نظر پڑی۔ ہم نے اِنھیں بُہت‬ ‫ہی فِکر انگیز اور ولولہ انگیز پایا۔ یہ نظم ہمیں بُہت پسند‬ ‫ائی ہے۔ اگرچہ ہم اپ کے ِعلم کے ُمقابلے میں شائید اِسے‬ ‫اُن معنوں تک سمجھ نہ پائے ہوں۔ جہاں تک ہم سمجھے‬ ‫خاطب ہیں اور کہہ رہے ہیں‬ ‫ہیں اپ اِس میں اِنسان سے ُم ِ‬ ‫کہ اِنسان صرف قُدرت کی عطا کی ہوئی چیزوں سے کُچھ‬ ‫حاصل کرتا ہے۔ اگر اِس سے سب کُچھ چھین لیا جائے تو‬ ‫اِنسان کے اپنے پاس کُچھ بھی نہیں‪ ،‬فقط مٹی کا ڈھیر ہے۔‬


‫اِنسان کو قُدرت کی تراشی چیزیں بُہت کُچھ دیتی ہیں‪ ،‬لیکن‬ ‫اِنسان اِن مخلوقات کو کُچھ نہیں دے سکتا۔ البتہ جبرائیل‬ ‫والی بات ہم سمجھ نہیں سکے ہیں اور اپنی کم ِعلمی پر‬ ‫نادم ہیں۔‬ ‫اگر ہم سمجھنے میں کُلی یا ُجزوی طور پر غلط ہوں تو‬ ‫مہربانی فرما کر اِس ناچیز کی بات پر خفا نہ ہوئیے گا۔‬ ‫ہمارا ِعلم و ادراک فقط اِتنا ہی ہے‪ِ ،‬جس پر ہم مجبور ہیں‬ ‫اور شرمسار بھی۔‬ ‫ب دُعا‬ ‫طال ِ‬ ‫وی بی جی‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8506.0‬‬

‫دروازہ کھولو‬


‫وڈیائی کا سرطان‬ ‫بھیجے کے ریشوں میں‬ ‫جب بھی گردش کرتا ہے‬ ‫بھوک کا چارا‬ ‫میتھی میں‬ ‫کرونڈ سا لگتا ہے‬ ‫موڈ کی تکڑی کے پلڑے‬ ‫خالی رہتے ہیں‬ ‫حرکت کرتے ہونٹ‬ ‫دنبی سٹی اور امریکن سنڈی سے‬ ‫بدتر لگتے ہیں‬ ‫قتل پہ روتی آنکھیں‬ ‫قاتل کو گالی بکتی آنکھیں‬ ‫نفرت برساتی آنکھیں‬ ‫بدلے کی بھاونا رکھتی آنکھیں‬


‫مسور میں کوڑکو لگتی ہیں‬ ‫حق سچ کے قاتل بولوں پر‬ ‫جئے جئے کار سے عاری جھیبا‬ ‫تالی سے خالی ہاتھ‬ ‫بیکار نکمے‬ ‫روڑی کا کچرا لگتے ہیں‬ ‫انگلی کے اشارے پر‬ ‫لرزیں نہ کانپیں‬ ‫ڈھیٹوں کی بھاتی‬ ‫دھرتی نہ چھوڑیں‬ ‫ایسے پاؤں‬ ‫کنبھ کرن کے وارث لگتے ہیں‬ ‫دھونس ڈپٹ کے کالے کلمے‬ ‫سننے سے عاری‬ ‫سماعی آلے‬


‫راون غلیل کا چدا لگتے ہیں‬ ‫پھولوں سے کومل‬ ‫کہتے سنتے‬ ‫ممتا جذبے‬ ‫ڈوبتی کشتی کا ہچکوال لگتے ہیں‬ ‫یثرب کی مٹی پہ مر مٹنے والو‬ ‫کالے یرقان‬ ‫یا پھر‬ ‫قطر بررید سے پہلے‬ ‫کل نفس کا انجکشن‬ ‫ال الہ کا وٹمن‬ ‫حبل الوورید میں رکھ دو‬ ‫کلکیریا فلور کے قطرے‬ ‫لیزر شعاعیں‬ ‫ان کے بھیجے کی‬


‫پیپ آلودہ گلٹی کا تریاق نہیں ہیں‬ ‫من مندر کا دروازہ کھولو‬ ‫آتے کل کی راہ مت دیکھو‬ ‫آتا کل کب اکال کا گھر ہے‬ ‫جناب محترم ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب‬ ‫آپ کا یہ کالم پڑھن کے نال ہی دماغ کے بوہے پہ جینویں‬ ‫کسی نے آکر دستک دینڑ کے بجائے کُسھن ماریا ‪،‬وجا جا‬ ‫کے ٹھا کرکے بڑا ای سواد آیا ‪ ،‬کیا ای بات ہے ہماری‬ ‫طرف سے ایس سوہنی تے من موہنی تحریر سے فیض‬ ‫یاب فرمانڑ کے واسطے چوہلیاں پرھ پرھ داد پیش ہےگی‬ ‫تواڈا چاہنے واال‬ ‫اسماعیل اعجاز‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=7988.0‬‬

‫سننے میں آیا ہے‬


‫سننے میں آیا ہے‬ ‫ہم آگے بڑھ گئے ہیں‬ ‫ترقی کر گئے ہیں‬ ‫سرج اب شرق سے اٹھتا ہے‬ ‫واشنگٹن کے مندر کا بت‬ ‫کس محمود نے توڑا ہے‬ ‫سکندر کے گھوڑوں کا منہ‬ ‫کس بیاس نے موڑا ہے‬ ‫اس کی گردن کا سریا‬ ‫کس ٹیپو نے توڑا ہے‬ ‫سو کا بیلنس‬ ‫اب سو ہی چڑھتا ہے‬ ‫پونڈ سٹرلنگ اور ڈالر‬ ‫روپیے کے دو ملتے ہیں‬


‫سننے میں آیا ہے‬ ‫ہم آگے بڑھ گئے ہیں‬ ‫ترقی کر گئے ہیں‬ ‫'بیوہ کو ٹک ملتا ہے‬ ‫وہ پیٹ بھر کھاتی ہے‬ ‫گریب کی بیٹیا‬ ‫بن دہیج‬ ‫?اب ڈولی چڑھتی ہے‬ ‫جو جیون دان کرے‬ ‫دارو کی وہ شیشی‬ ‫?اب مفت میں ملتی ہے‬ ‫سننے میں آیا ہے‬ ‫ہم آگے بڑھ گئے ہیں‬ ‫ترقی کر گئے ہیں‬ ‫موسی اور عیسی‬


‫گرجے اور ہیکل سے‬ ‫?مکت ہوئے ہیں‬ ‫بدھ رام بہا‬ ‫کہ نانک کے پیرو ہوں‬ ‫یا پھر‬ ‫چیراٹ شریف کے باسی‬ ‫?اپنا جیون جیتے ہیں‬ ‫سننے میں آیا ہے‬ ‫ہم آگے بڑھ گئے ہیں‬ ‫ترقی کر گئے ہیں‬ ‫گوئٹے اور بالی‬ ‫ٹیگور تے جامی‬ ‫سیوفنگ اور شیلی‬ ‫?سب کے ٹھہرے ہیں‬ ‫مالں پنڈت اور گرجے کا وارث‬


‫انسانوں کو انسانوں کے‬ ‫?کام آنے کی کہتا ہے‬ ‫سننے میں آیا ہے‬ ‫ہم آگے بڑھ گئے ہیں‬ ‫ترقی کر گئے ہیں‬ ‫شیر اور بکری‬ ‫'اک گھاٹ پر پانی پیتے ہیں‬ ‫?اک کچھ میں رہتے ہیں‬ ‫سیٹھوں کی بستی میں‬ ‫مل بانٹ کر‬ ‫?کھانے کی چرچا ہے‬ ‫رشوت کا کھیل‬ ‫?ناکام ہوا ہے‬ ‫منصف‬ ‫?ایمان قرآن کی کہتتا ہے‬


‫سننے میں آیا ہے‬ ‫ہم آگے بڑھ گئے ہیں‬ ‫ترقی کر گئے ہیں‬ ‫من تن کا وارث‬ ‫تن من کا بھیدی‬ ‫جب بھی ٹھہرے گا‬ ‫جیون کا ہر سکھ‬ ‫قدموں کی ٹھوکر‬ ‫امبر کے اس پار‬ ‫انسان کا گھر ہو گا‬ ‫'پرتھوی کیا‬ ‫ہللا کی ہر تخلیق کا‬ ‫ماما نہیں‬ ‫موچی درزی نائی بھی‬ ‫وارث ہوگا‬


‫'شخص‬ ‫شخص کا بھائی ہوگا‬

‫چل' دمحم کے در پر چل‬ ‫اک پل‬ ‫آکاش اور دھرتی کو‬ ‫اک دھاگے میں بن کر‬ ‫رنگ دھنک اچھالے‬ ‫دوجا پل‬ ‫جو بھیک تھا پہلے کل کی‬ ‫کاسے سے اترا‬ ‫ماتھے کی ریکھا ٹھہرا‬ ‫کرپا اور دان کا پل‬


‫پھن چکر مارا‬ ‫گرتا ہے منہ کے بل‬ ‫سلوٹ سے پاک سہی‬ ‫پھر بھی‬ ‫حنطل سے کڑوا‬ ‫اترن کا پھل‬ ‫الفت میں کچھ دے کر‬ ‫پانے کی اچھا‬ ‫حاتم سے ہے چھل‬ ‫غیرت سے عاری‬ ‫حلق میں ٹپکا‬ ‫وہ قطرہ‬ ‫سقراط کا زہر‬ ‫نہ گنگا جل‬ ‫مہر محبت سے بھرپور‬


‫نیم کا پانی‬ ‫نہ کڑا نہ کھارا‬ ‫وہ تو ہے‬ ‫آب زم زم‬ ‫اس میں رام کا بل‬ ‫ہر فرزانہ‬ ‫عہد سے مکتی چاہے‬ ‫ہر دیوانہ عہد کا بندی‬ ‫مر مٹنے کی باتیں‬ ‫ٹالتے رہنا‬ ‫کل تا کل‬ ‫جب بھی‬ ‫پل کی بگڑی کل‬ ‫در نانک کے‬ ‫بیٹھا بےکل‬


‫وید حکیم‬ ‫مالں پنڈٹ‬ ‫پیر فقیر‬ ‫جب تھک ہاریں‬ ‫جس ہتھ میں وقت کی نبضیں‬ ‫چل‬ ‫دمحم کے در پر چل‬

‫میں نے دیکھا‬

‫پانیوں پر‬ ‫میں اشک لکھنے چال تھا‬ ‫دیدہءخوں دیکھ کر‬


‫ہر بوند‬ ‫ہوا کے سفر بر نکل گئی‬ ‫منصف کے پاس گیا‬ ‫شاہ کی مجبوریوں میں‬ ‫وہ جکڑا ہوا تھا‬ ‫سوچا‬ ‫پانیوں کی بےمروتی کا‬ ‫فتوی ہی لے لیتا ہوں‬ ‫مالں شاہ کے دستر خوان پر‬ ‫مدہوش پڑا ہوا تھا‬ ‫دیکھا‘ شیخ کا در کھال ہوا ہے‬ ‫سوچا‬ ‫شاید یہاں داد رسی کا‬ ‫کوئی سامان ہو جائے گا‬ ‫وہ بچارہ تو‬


‫پریوں کے غول میں گھرا ہوا تھا‬ ‫کیا کرتا کدھر کو جاتا‬ ‫دل دروازہ کھال‬ ‫خدا جو میرے قریب تھا‬ ‫بوال‬ ‫کتنے عجیب ہو تم بھی‬ ‫کیا میں کافی نہیں‬ ‫جو ہوس کے اسیروں کے پاس جاتے ہو‬ ‫میرے پاس آؤ‬ ‫ادھر ادھر نہ جاؤ‬ ‫میری آغوش میں‬ ‫تمہارے اشکوں کو پناہ ملے گی‬ ‫ہر بوند‬ ‫رشک لعل فردوس بریں ہو گی‬ ‫اک قظرہ مری آنکھ سے ٹپکا‬


‫میں نے دیکھا‬ ‫شاہ اور شاہ والوں کی گردن میں‬ ‫بے نصیبی کی زنجیر پڑی ہوئی تھی‬

‫مکرم بندہ جناب حسنی صاحب‪ :‬سالم مسنون‬ ‫آزاد شاعری عام طور پر میرے سر پر سے گزر جاتی ہے۔‬ ‫جب تک میں اس کے تانے بانے سلجھاتا ہوں پچھلے‬ ‫پڑھے ہوئے مصرعے ذہن کی تہوں میں کہیں گم ہو جاتے‬ ‫ہیں اور میں پھر نظم پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش میں‬ ‫گرفتار ہو جاتا ہوں۔ آپ کی اس نظم کے مطالعہ میں ایسا‬ ‫صرف ایک بار ہوا اور میں جلد ہی منزل مقصود تک پہنچ‬ ‫گیا۔ یہ شاید اس لئے ہوا کہ آپ کی نظم پر دلسوزی اور‬ ‫خلوص دل کی مہر لگی ہوئی ہے جیسے آپ اپنی آپ بیتی‬ ‫بیان کر رہے ہوں۔ نظم پڑھ کر متاثر ہوا۔ نظم کا پیغام عام‬ ‫سہی لیکن اہم ضرور ہے۔ ہم اہل دنیا بے تحاشہ اہل اقتدار‬ ‫کی جانب بھاگتے ہیں اور اس تگ و دو میں بھول جاتے‬ ‫ہیں کہ دینے واال تو کوئی اور ہی ہے۔ ہللا رحم کرے۔ ایسے‬


‫ہی لکھتے رہئے۔ ہللا آپ کو ہمت اور طاقت عطا فرمائے۔‬ ‫صالحیت اور توفیق سے تو اپ بھر پور ہیں ہی۔ باقی راوی‬ ‫سب چین بولتا ہے۔‬ ‫"سرور عالم راز "سرور‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9132.0‬‬

‫ہر گھر سے‬

‫دن کے اجالوں میں‬ ‫خداہائے کفر ساز و کفر نواز‬ ‫پیتے ہیں سچ کا لہو‬ ‫کہ وہ اجالوں کی بستی میں‬ ‫زندہ رہیں‬ ‫شرق سے اب تمہیں‬ ‫کوئی شب بیدار کرنا ہو گی‬


‫کہ سچ اسے دکھنے ہی نہ پائے‬ ‫تمہیں بھی تو‬ ‫اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں‬ ‫یا پھر‬ ‫آتی نسلوں کے لیے ہی سہی‬ ‫دن کے اجالوں میں‬ ‫روح حیدر رکھنا ہوگی‬ ‫سسی فس کا جیون‬ ‫جیون نہیں‬ ‫سقراط کی مرتیو‬ ‫مرتیو نہیں‬ ‫جینا ہے تو‬ ‫حسین کا جیون جیو‬ ‫کہ جب ارتھی اٹھے‬ ‫خون کے آنسووں میں‬


‫راکھ اڑے‬ ‫خون کے آنسووں میں‬ ‫شاعر کا قلم‬ ‫روشنی بکھیرے گا‬ ‫زندگی‘ آکاش کی محتاج نہ رہے گی‬ ‫ہر گھر سے چاند ہر گھر سے سورج‬ ‫طلوع ہو گا‬ ‫غروب کی ہر پگ پر‬ ‫کہیں سقراط کہیں منصور‬ ‫تو کہیں سرمد کھڑا ہو گا‬

‫حیات کے برزخ میں‬ ‫تالش معنویت کے سب لمحے‬


‫صدیاں ڈکار گئیں‬ ‫چیتھڑوں میں ملبوس معنویت کا سفر‬ ‫اس کنارے کو چھو نہ سکا‬ ‫تاسف کے دو آنسو‬ ‫کاسہءمحرومی کا مقدر نہ بن سکے‬ ‫کیا ہو پاتا کہ شب کشف‬ ‫دو رانوں کی مشقت میں کٹ گئی‬ ‫صبح دھیان‬ ‫نان نارسا کی نذر ہوئی‬ ‫شاعر کا کہا‬ ‫بےحواسی کا ہم نوا ہوا‬ ‫دفتر رفتہ شاہ کے گیت گاتا رہا‬ ‫وسیبی حکائتیں بےوقار ہوئیں‬ ‫قرطاس فکر پہ نہ چڑھ سکیں‬ ‫گویا روایت کا جنازہ اٹھ گیا‬


‫ضمیر بھی چاندی میں تل گیا‬ ‫مجذوب کے خواب میں گرہ پڑی‬ ‫مکیش کے نغموں سے طبلہ پھسل گیا‬ ‫درویش کے حواس بیدار نقطے‬ ‫ترقی کا ڈرم نگل گیا‬ ‫نہ مشرق رہا نہ مغرب اپنا بنا‬ ‫آخر کب تک یتیم جیون‬ ‫حیات کے برزخ میں‬ ‫شناخت کے لیے بھٹکتا رہے‬

‫مت پوچھو‬ ‫بن ترے کیسے جیتا ہوں‬ ‫مت پوچھو‬


‫اڈیکوں کے ظالم موسم میں‬ ‫سانسوں کا آنا جانا کیسے ہوتا ہے‬ ‫مت پوچھو‬ ‫ساون رت میں‬ ‫آنکھوں کی برکھا کیسے ہوتی ہے‬ ‫مت پوچھو‬ ‫خود غرضی کا لیبل جب بھی لگتا ہے‬ ‫راتوں کی نیندیں ڈر جاتی ہیں‬ ‫آشکوں کے تارے‬ ‫سارے کے سارے‬ ‫گنتی میں کم پڑ جاتے ہیں‬ ‫آس کی کومل کرنیں‬ ‫یاس کی اگنی میں‬ ‫جب جلتی ہیں‬ ‫تب روح کی ارتھی اٹھتی ہے‬


‫یادوں کی نم آنکھوں کی بیپتا‬ ‫مت پوچھو‬ ‫چھوڑ کر جانے کے موسم پر‬ ‫بچھڑے موسم کا اک پل بھاری ہوتا ہے‬ ‫پھر کہتا ہوں‬ ‫کالے موسم تم کو کھا جائیں گے‬ ‫تری ہستی کی کوئی کرچی‬ ‫میں کیسے دیکھ سکوں گا‬ ‫چہرے گھاءل‬ ‫مرے دل کے کتنے ٹکڑے کرتے ہیں‬ ‫مت پوچھو‬

‫میں مٹھی کیوں کھولوں‬


‫میں مٹھی کیوں کھولوں‬ ‫بند مٹھی میں کیا ہے‬ ‫کوئ کیا جانے‬ ‫مٹھی کھولوں تو‬ ‫تم مرے کب رہ پاؤ گے‬ ‫ہر سیٹھ کی سیٹھی‬ ‫اس کی گھتلی کے دم سے ہے‬ ‫میں مٹھی کیوں کھولوں‬ ‫تری یاد کی خوشبو‬ ‫مری ہے مری ہے‬ ‫اس یاد کے باطن میں‬ ‫ترے ہونٹوں پر کھلتی کلیاں‬ ‫تری آنکھوں کی مسکانیں‬ ‫بھیگی سانسوں کی مہکیں‬ ‫جھوٹے بہالوے‬


‫کچھ بے موسم وعدے‬ ‫ساتھ نبھانے کی قسمیں‬ ‫دکھ کے نوحے‬ ‫شراب سپنوں کی قوس و قزاح‬ ‫مری ہے مری ہے‬ ‫میں مٹھی کیوں کھولوں‬

‫سچ کے آنگن میں‬

‫جب بھوک کا استر‬ ‫حرص کی بستی میں جا بستا ہے‬ ‫اوپر کی نیچے‘ نیچے کی اوپر آ جاتی ہے‬ ‫چھاج کی تو بات بڑی‬


‫چھلنی پنچ بن جاتی ہے‬ ‫بکری ہنس چال چلنے لگتی ہے‬ ‫کوے کے سر پر‬ ‫سر گرو کی پگڑی سج جاتی ہے‬ ‫دہقان بو کر گندم‬ ‫فصل جو کی کاٹتے ہیں‬ ‫صبح کا اترن لے کر‬ ‫کالی راتیں‬ ‫سچ کے آنگن میں جا بستی ہیں‬ ‫مارچ ‪٩١٩١ ‘٩١‬‬

‫پانچ ہائیکو‬ ‫کسی کی آنکھ میں سمائی ظلمت شب‬


‫کسی کی آنکھ میں تسکین کا جادو‬ ‫گلیوں کے ہونٹوں پر سجی عید مبارک‬ ‫‪...........‬‬ ‫شب ہجر ہم سفر ہوئے‬ ‫تری آنکھوں کے مست پیالے‬ ‫پیاس میں ڈوبے بادلوں کے‬ ‫‪...........‬‬ ‫بھوک جب بھی ستاتی ہے‬ ‫دریچے اخالص کے سب‬ ‫بہرے ہو جاتے ہیں‬ ‫‪............‬‬ ‫شام کے ہاتھوں میں پتھر‬ ‫صبح کی آنکھ میں خنجر‬ ‫بچہ مرا پوچھے ہے آج کا موسم‬ ‫‪...............‬‬


‫مچھرے کی پلکوں پر شبنم‬ ‫تڑپ بےآب ماہی کی‬ ‫یا یہ جلتی آنکھوں کا دھواں‬ ‫‪..........‬‬ ‫‪1995‬‬

‫سوچ کے گھروندوں میں‬ ‫علم و فن کے‬ ‫کالے سویروں سے‬ ‫مجھے ڈر لگتا ہے‬ ‫ان کے بطن سے‬ ‫ہوس کے ناگ جنم لیتے ہیں‬ ‫سچ کی آواز کو‬


‫جو ڈس لیتے ہیں‬ ‫سہاگنوں کی پیاسی آتما سے‬ ‫ہوس کی آگ بجھاتے ہیں‬ ‫صالحیتوں کے چراغوں کی روشنی کو‬ ‫دھندال دیتے ہیں‬ ‫بجھا دیتے ہیں‬ ‫حق کے ایوانوں میں‬ ‫اندھیر مچا دیتے ہیں‬ ‫حقیقتوں کا ہم زاد‬ ‫اداس لفظوں کے جنگلوں کا‬ ‫آس سے‬ ‫ٹھکانہ پوچھتا ہے‬ ‫انا اور آس کو‬ ‫جب یہ ڈستے ہیں‬ ‫آدمیت کی آرتھی اٹھتی ہے‬


‫کم کوسی' بےہمتی بےاعتنائی کے شراپ کے سائے‬ ‫ابلیس کے قدم لیتے ہیں‬ ‫شخص کبھی جیتا کبھی مرتا ہے‬ ‫کھانے کو عذاب ٹکڑے‬ ‫پینے کو تیزاب بوندیں ملتی ہیں‬ ‫خود کشی حرام سہی‬ ‫مگر جینا بھی تو جرم ٹھہرا ہے‬ ‫ستاروں سے لبریز چھت کا‬ ‫دور تک اتا پتا نہیں‬ ‫ہوا ادھر سے گزرتے ڈرتی ہے‬ ‫بدلتے موسموں کا تصور‬ ‫شیخ چلی کا خواب ٹھہرا ہے‬ ‫یہاں اگر کچھ ہے‬ ‫تو‪'...........‬‬ ‫منہ میں زہر بجھی تلواریں ہیں‬


‫پیٹ سوچ کا گھر‬ ‫ہات بھیک کا کٹورا ہوئے ہیں‬ ‫بچوں کے کانچ بدن‬ ‫بھوک سے‬ ‫کبھی نیلے کبھی پیلے پڑتے ہیں‬ ‫اے صبح بصیرت!‬ ‫تو ہی لوٹ آ‬ ‫کہ ناگوں کے پہرے‬ ‫کرب زخموں سے‬ ‫رستا برف لہو‬ ‫تو نہ دیکھ سکوں گا‬ ‫سچ کے اجالوں کی حسین تمنا‬ ‫مجھے مرنے نہ دے گی‬ ‫اور میں‬ ‫اس بےوضو تمنا کے سہارے‬


‫کچھ تو سوچ سکوں گا‬ ‫سوچ کے گھروندوں میں‬ ‫زیست کے سارے موسم بستے ہیں‬ ‫قاضی جرار حسنی‬

‫‪1974‬‬

‫بد قسمتی‬ ‫شاعر‪ :‬فینگ سیو فینگ مترجم‪ :‬مقصود حسنی‬ ‫میں بد قسمتی پہ اک نظم لکھنے کو تھا‬ ‫مری آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے‬


‫کاغذ بھر گیا‬ ‫اور میں نے قلم نیچے رکھ دیا‬ ‫کیا اشکوں سے تر کاغذ‬ ‫لوگوں کو دکھا سکتا تھا؟‬ ‫وہ سمجھ پاتے‬ ‫یہی تو بد قسمتی ہے‬ ‫ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب السالم علیکم‬ ‫بہترین نظم کا بہترین ترجمہ۔۔۔۔۔ یہی تو بدقسمتی ہے۔ کیا‬ ‫کہنے۔‬ ‫اپ کی تمام تحریریں جنھیں میں نے پڑھا کمال کی ہیں‬ ‫صاحب۔ معلوماتی‪ ،‬تاریخی شاہکار‪ ،‬بہت خوب۔‬ ‫ہللا اپ مزید توفیق دے۔‬ ‫ب دعا‬ ‫طال ِ‬ ‫کفیل احمد‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10128.0‬‬


‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا‬ ‫عہد شہاب میں بےحجاب بےکسی بھی عجب قیامت تھی۔ صبح‬ ‫اٹھتے مشقت اٹھاتےعوضوانے کو ہاتھ بڑھاتے بے نقط سنتے۔‬ ‫سانسیں اکھڑ جاتیں مہر بہ لب جیتے کہ سانسیں باقی تھیں۔ جینا‬ ‫تو تھا ہی لہو تو پینا تھا ہی۔‬ ‫ادھر ایونوں میں آزادی کی صدائیں گونج رہی تھیں ادھر گلیوں‬ ‫میں خوف کا پہرا تھا کہ شاہ بہرا تھا۔ شاہ والے گلیوں میں‬ ‫بےچنت کرپانیں لیے پھرتے تھے۔ نقاہت ہاتھ باندھے شکم میں‬ ‫بھوک آنکھوں میں پیاس لیے کھڑی تھی ہاں مگر شاہ کی دیا کا‬ ‫بول باال تھا۔‬ ‫پنڈت کے ہونٹوں پر شانتی بغل میں درانتی مالں بھی من میں‬ ‫تفریق کا بارود بھرے امن امن امن کیے جا رہا تھا۔‬


‫اب جب کہ پیری پہ شنی کا پہرا ہے بھوک کا گھاؤ گہرا ہے۔‬ ‫جیب میں دمڑی نہیں امبڑی نہیں کہ وید حکیموں کے دام‬ ‫چکائے بڑے شفاخانے کے در پر الئے مایوسی کی کالک مٹائے‬ ‫آہیں سنے تشفی کی لوری سنائے۔ ہونٹوں پہ گالب سجائے دل‬ ‫میں کرب اٹھائے اب کون ہے جو مرے مرنے سے مر جائے۔‬ ‫بیٹے کو اپنی پتنی سے فرصت نہیں بیٹی کی ساس کپتی ہے‬ ‫بھائی کے گھر تیل نہ بتی ہے مری بہن کی کون سنتا ہے سیٹھ‬ ‫کے برتن دھو سیٹھنی کے کوسنے سن کر پیٹ بھرتی ہے۔‬ ‫بیگم روتی ہے نہ ہنسی ہے سوچتی ہے کفن دفن کے لیے‬ ‫پیسے کہاں سے آئیں گے کہیں اس کے بھائیوں کی چمڑے نہ‬ ‫ادھڑ جائے وہ تو بہنوئی کی کھاتے تھے جب بھی آتے تھے‬ ‫کچھ ناکچھ لے جاتے تھے۔‬ ‫جیتا ہوں تو مصیبت مرتا ہوں تو مصیبت۔ میں وہ ہی ہوں‬ ‫جواندھیروں میں رہ کر ایونوں کے دیپ جالتا رہا دوا دور رہی‬ ‫مری گرہ میں تو اس اجڑے گلستان کا کرایہ نہیں۔‬


‫گھر میں روشنی نہیں ناسہی شاید کوئی فرشتہ مری لحد میں‬ ‫بوند بھر روشنی لے کر آ جائے عمر بھر خود کو نہ دیکھ سکا‬ ‫سوچ سکا واں سکوں ہو گا خود کو دیکھ سکوں گا سوچ سکوں‬ ‫گا خود کو دیکھنے سوچنے کی حسرت بر آئے گی۔‬ ‫خود کو دیکھ کر سوچ کر ارضی خدائی سے مکتی قلبی خدا کی‬ ‫بےکراں عظمتوں کا اسرار کھل جائے گا وہ میرا تھا میرا ہے‬ ‫مجھے مل جائے گا۔ سردست کفن و دفن کے سامان کی فکر ہے۔‬ ‫کفن ملے ناملے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ عمر بھر اس نے‬ ‫مری پردہ پوشی کی ہے اب بھی کرئے گا۔‬ ‫ایونوں میں بستے سفیدی میں لپٹے شیطانوں کا نگر مرا نہیں‬ ‫مرا نہیں گورنگر مرا ہو گا مرا خدا کچھ لیتا نہیں دیتا ہے۔ لینا‬ ‫مری عادت دینا اس کی فطرت روٹی کی فکر کیسی کرائے کی‬ ‫چنتا میں کیوں کروں مری جان میں آ رہا ہوں تو مختصر سہی‬ ‫مرے لیے مری حسرتوں کے لیے سات زمینوں سے بڑھ کر‬ ‫وسعت رکھتی ہے میں بھول میں رہا کہ یہاں کچھ بھی مرا نہ تھا‬ ‫زیست کے کچھ لمحوں کی دیری تھی تو ہی تو مری تھی‬


‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا‬ ‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا‬ ‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا۔‬

.................................. Poets Matthew Arnold William Blake Milton Charlotte Bronte D.H.Lawrence Anne Bronte Rudyard Kipling Alfred Tennyson Geoffrey Chaucer Shakespeare


Robert Burns Christina Rossetti Elizabeth Browning Wilfred Owen Emily Bronte Ted Hughes William Wordsworth John Donne Oscar Wilde Robert Browning J.R.R.Tolkien John Clare Samuel Taylor Coleridge Dylan Thomas

Loving in truth


Wish Matthew Arnold

I ask not that my bed of death From bands of greedy heirs be free; For these besiege the latest breath Of fortune’s favoured sons, not me.

I ask not each kind soul to keep Tearless, when of my death he hears; Let those who will, if any, weep! There are worse plagues on earth than tears.

I ask but that my death may find The freedom to my life denied; Ask but the folly of mankind, Then, at last, to quit my side.


Spare me the whispering, crowded room, The friends who come, and gape, and go; The ceremonious air of gloom – All which makes death a hideous show! Nor bring, to see me cease to live, Some doctor full of phrase and fame, To shake his sapient head and give The ill he cannot cure a name.

Nor fetch, to take the accustomed toll Of the poor sinner bound for death, His brother doctor of the soul, To canvass with official breath

The future and its viewless things – That undiscovered mystery


Which one who feels death’s winnowing wings Must need read clearer, sure, than he!

Bring none of these; but let me be, While all around in silence lies, Moved to the window near, and see Once more before my dying eyes Bathed in the sacred dew of morn The wide aerial landscape spread – The world which was ere I was born, The world which lasts when I am dead.

Which never was the friend of one, Nor promised love it could not give, But lit for all its generous sun, And lived itself, and made us live.


There let me gaze, till I become In soul with what I gaze on wed! To feel the universe my home; To have before my mind -instead

Of the sick-room, the mortal strife, The turmoil for a little breath – The pure eternal course of life, Not human combatings with death.

Thus feeling, gazing, let me grow Composed, refreshed, ennobled, clear; Then willing let my spirit go To work or wait elsewhere or here!

Night


William Blake

The sun descending in the west, The evening star does shine; The birds are silent in their nest, And I must seek for mine. The moon like a flower

In heaven’s high bower, With silent delight Sits and smiles on the night.

Farewell, green fields and happy groves, Where flocks have took delight. Where lambs have nibbled, silent moves The feet of angels bright; Unseen they pour blessing


And joy without ceasing, On each bud and blossom, And each sleeping bosom.

They look in every thoughtless nest, Where birds are cover’d warm; They visit caves of every beast, To keep them all from harm. If they see any weeping That should have been sleeping, They pour sleep on their head, And sit down by their bed.

When wolves and tygers howl for prey, They pitying stand and weep; Seeking to drive their thirst away,


And keep them from the sheep; But if they rush dreadful, The angels, most heedful, Receive each mild spirit, New worlds to inherit.

And there the lion’s ruddy eyes Shall flow with tears of gold, And pitying the tender cries, And walking round the fold, Saying “Wrath, by his meekness, And by his health, sickness Is driven away From our immortal day.

`And now beside thee, bleating lamb, I can lie down and sleep;


Or think on him who bore thy name, Graze after thee and weep. For, wash’d in life’s river, My bright mane for ever Shall shine like the gold As I guard o’er the fold.”

On Time Milton FLy envious Time, till thou run out thy race, Call on the lazy leaden-stepping hours, Whose speed is but the heavy Plummets pace; And glut thy self with what thy womb devours, Which is no more then what is false and vain, [ 5 ]

And meerly mortal dross;


So little is our loss, So little is thy gain. For when as each thing bad thou hast entomb’d, And last of all, thy greedy self consum’d, [ 10 ]

Then long Eternity shall greet our bliss With an individual kiss; And Joy shall overtake us as a flood, When every thing that is sincerely good And perfectly divine, [ 15 ]

With Truth, and Peace, and Love shall ever shine About the supreme Throne Of him, t’ whose happy-making sight alone, When once our heav’nly-guided soul shall clime, Then all this Earthy grosnes quit,


Life Charlotte Bronte

LIFE, believe, is not a dream So dark as sages say; Oft a little morning rain Foretells a pleasant day. Sometimes there are clouds of gloom, But these are transient all; If the shower will make the roses bloom, O why lament its fall? Rapidly, merrily, Life’s sunny hours flit by, Gratefully, cheerily Enjoy them as they fly! What though Death at times steps in,


And calls our Best away? What though sorrow seems to win, O’er hope, a heavy sway? Yet Hope again elastic springs, Unconquered, though she fell; Still buoyant are her golden wings, Still strong to bear us well. Manfully, fearlessly, The day of trial bear, For gloriously, victoriously, Can courage quell despair!

Brooding Grief D.H.Lawrence

A yellow leaf from the darkness


Hops like a frog before me. Why should I start and stand still? I was watching the woman that bore me Stretched in the brindled darkness Of the sick-room, rigid with will To die: and the quick leaf tore me Back to this rainy swill Of leaves and lamps and traffic mingled before me.

My God! O Let Me Call Thee Mine! Anne Bronte ‫میرے خدا‬ ‘My God! O let me call Thee mine! Weak wretched sinner though I be, My trembling soul would fain be Thine,


My feeble faith still clings to Thee, My feeble faith still clings to Thee. Not only for the past I grieve, The future fills me with dismay; Unless Thou hasten to relieve, I know my heart will fall away, I know my heart will fall away.

I cannot say my faith is strong, I dare not hope my love is great; But strength and love to Thee belong, O, do not leave me desolate! O, do not leave me desolate!

I know I owe my all to Thee, O, take this heart I cannot give. Do Thou my Strength my Saviour be;


And make me to Thy glory live! And make me to Thy glory live!

If Rudyard Kipling

If you can keep your head when all about you Are losing theirs and blaming it on you; If you can trust yourself when all men doubt you, But make allowance for their doubting too; If you can wait and not be tired by waiting, Or, being lied about, don’t deal in lies, Or, being hated, don’t give way to hating, And yet don’t look too good, nor talk too wise;

If you can dream – and not make dreams your master;


If you can think – and not make thoughts your aim; If you can meet with triumph and disaster And treat those two imposters just the same; If you can bear to hear the truth you’ve spoken Twisted by knaves to make a trap for fools, Or watch the things you gave your life to broken, And stoop and build ‘em up with wornout tools;

If you can make one heap of all your winnings And risk it on one turn of pitch-and-toss, And lose, and start again at your beginnings And never breath a word about your loss; If you can force your heart and nerve and sinew To serve your turn long after they are gone, And so hold on when there is nothing in you Except the Will which says to them: “Hold on”;


If you can talk with crowds and keep your virtue, Or walk with kings – nor lose the common touch; If neither foes nor loving friends can hurt you; If all men count with you, but none too much; If you can fill the unforgiving minute With sixty seconds’ worth of distance run Yours is the Earth and everything that’s in it, And – which is more – you’ll be a Man my son!

The Lady Of Shalott Alfred Tennyson

On either side the river lie Long fields of barley and of rye, That clothe the wold and meet the sky;


And through the field the road runs by To many-towered Camelot; And up and down the people go, Gazing where the lilies blow Round an island there below, The island of Shalott.

Willows whiten, aspens quiver, Little breezes dusk and shiver Through the wave that runs for ever By the island in the river Flowing down to Camelot. Four grey walls, and four grey towers, Overlook a space of flowers, And the silent isle imbowers The Lady of Shalott.


By the margin, willow-veiled, Slide the heavy barges trailed By slow horses; and unhailed The shallop flitteth silken-sailed Skimming down to Camelot: But who hath seen her wave her hand? Or at the casement seen her stand? Or is she known in all the land, The Lady of Shalott?

Only reapers, reaping early In among the bearded barley, Hear a song that echoes cheerly From the river winding clearly, Down to towered Camelot: And by the moon the reaper weary, Piling sheaves in uplands airy,


Listening, whispers “‘Tis the fairy Lady of Shalott.”

Part II

There she weaves by night and day A magic web with colours gay. She has heard a whisper say, A curse is on her if she stay To look down to Camelot. She knows not what the curse may be, And so she weaveth steadily, And little other care hath she, The Lady of Shalott.

And moving through a mirror clear That hangs before her all the year,


Shadows of the world appear. There she sees the highway near Winding down to Camelot: There the river eddy whirls, And there the surly village-churls, And the red cloaks of market girls, Pass onward from Shalott.

Sometimes a troop of damsels glad, An abbot on an ambling pad, Sometimes a curly shepherd-lad, Or long-haired page in crimson clad, Goes by to towered Camelot; And sometimes through the mirror blue The knights come riding two and two: She hath no loyal knight and true, The Lady of Shalott.


But in her web she still delights To weave the mirror’s magic sights, For often through the silent nights A funeral, with plumes and lights And music, went to Camelot: Or when the moon was overhead, Came two young lovers lately wed; “I am half sick of shadows,” said The Lady of Shalott.

Part III

A bow-shot from her bower-eaves, He rode between the barley-sheaves, The sun came dazzling through the leaves, And flamed upon the brazen greaves


Of bold Sir Lancelot.

A red-cross knight for ever kneeled To a lady in his shield, That sparkled on the yellow field, Beside remote Shalott.

The gemmy bridle glittered free, Like to some branch of stars we see Hung in the golden Galaxy. The bridle bells rang merrily As he rode down to Camelot:


And from his blazoned baldric slung A mighty silver bugle hung, And as he rode his armour rung, Beside remote Shalott.

All in the blue unclouded weather Thick-jewelled shone the saddle-leather, The helmet and the helmet-feather Burned like one burning flame together, As he rode down to Camelot. As often through the purple night, Below the starry clusters bright, Some bearded meteor, trailing light, Moves over still Shalott.

His broad clear brow in sunlight glowed; On burnished hooves his war-horse trode;


From underneath his helmet flowed His coal-black curls as on he rode, As he rode down to Camelot. From the bank and from the river He flashed into the crystal mirror, “Tirra lirra,” by the river Sang Sir Lancelot.

She left the web, she left the loom, She made three paces through the room, She saw the water-lily bloom, She saw the helmet and the plume, She looked down to Camelot. Out flew the web and floated wide; The mirror cracked from side to side; “The curse is come upon me,” cried The Lady of Shalott.


Part IV

In the stormy east-wind straining, The pale yellow woods were waning, The broad stream in his banks complaining, Heavily the low sky raining Over towered Camelot; Down she came and found a boat Beneath a willow left afloat, And round about the prow she wrote The Lady of Shalott.

And down the river’s dim expanse, Like some bold seer in a trance Seeing all his own mischance, With a glassy countenance


Did she look to Camelot. And at the closing of the day She loosed the chain, and down she lay; The broad stream bore her far away, The Lady of Shalott.

Lying, robed in snowy white That loosely flew to left and right – The leaves upon her falling light – Through the noises of the night She floated down to Camelot: And as the boat-head wound along The willowy hills and fields among, They heard her singing her last song, The Lady of Shalott.

Heard a carol, mournful, holy,


Chanted loudly, chanted lowly, Till her blood was frozen slowly, And her eyes were darkened wholly, Turned to towered Camelot. For ere she reached upon the tide The first house by the water-side, Singing in her song she died, The Lady of Shalott.

Under tower and balcony, By garden-wall and gallery, A gleaming shape she floated by, Dead-pale between the houses high, Silent into Camelot. Out upon the wharfs they came, Knight and burgher, lord and dame, And round the prow they read her name,


The Lady of Shalott.

Who is this? and what is here? And in the lighted palace near Died the sound of royal cheer; And they crossed themselves for fear, All the knights at Camelot: But Lancelot mused a little space; He said, “She has a lovely face; God in his mercy lend her grace, The Lady of Shalott.�

................

But wherefore do not you a mightier way Shakespeare


But wherefore do not you a mightier way Make war upon this bloody tyrant, Time? And fortify yourself in your decay With means more blessed than my barren rhyme? Now stand you on the top of happy hours, And many maiden gardens yet unset With virtuous wish would bear your living flowers, Much liker than your painted counterfeit: So should the lines of life that life repair, Which this, Time’s pencil, or my pupil pen, Neither in inward worth nor outward fair, Can make you live yourself in eyes of men. To give away yourself keeps yourself still, And you must live, drawn by your own sweet skill.


Against My Love Shakespeare

But wherefore do not you a mightier way Cupid laid by his brand From fairest creatures I Love Thee not I never saw that you In loving thee Is it Thy Will Lake as the Waves Let me not to the marriage of true minds Let Not My Love be called idolatry Like as the Waves Love is my Sin No Longer Mourn for Me Shall I compare thee to a summer’s day?


So are you to my thoughts That God Forbid That time of year That time of year thou mayst in me behold The little Love-god lying They that have power to hurt Tired with all these When thou shalt be disposed When, in disgrace with fortune Where Art Thou Muse

................

Address To A Haggis Robert Burns

Fair fa’ your honest, sonsie face,


Great chieftain o the puddin’-race! Aboon them a’ ye tak your place, Painch, tripe, or thairm: Weel are ye wordy of a grace As lang’s my arm. The groaning trencher there ye fill, Your hurdies like a distant hill, Your pin wad help to mend a mill In time o need, While thro your pores the dews distil Like amber bead. His knife see rustic Labour dight, An cut you up wi ready slight, Trenching your gushing entrails bright, Like onie ditch; And then, O what a glorious sight, Warm-reekin, rich!


Then, horn for horn, they stretch an strive: Deil tak the hindmost, on they drive, Till a’ their weel-swall’d kytes belyve Are bent like drums; The auld Guidman, maist like to rive, ‘Bethankit’ hums. Is there that owre his French ragout, Or olio that wad staw a sow, Or fricassee wad mak her spew Wi perfect sconner, Looks down wi sneering, scornfu view On sic a dinner? Poor devil! see him owre his trash, As feckless as a wither’d rash, His spindle shank a guid whip-lash, His nieve a nit: Thro bloody flood or field to dash,


O how unfit! But mark the Rustic, haggis-fed, The trembling earth resounds his tread, Clap in his walie nieve a blade, He’ll make it whissle; An legs an arms, an heads will sned, Like taps o thrissle. Ye Pow’rs, wha mak mankind your care, And dish them out their bill o fare, Auld Scotland wants nae skinking ware That jaups in luggies: But, if ye wish her gratefu prayer, Gie her a Haggis!

.................

A Better Resurrection


Christina Rossetti

I have no wit, no words, no tears; My heart within me like a stone Is numb’d too much for hopes or fears; Look right, look left, I dwell alone; I lift mine eyes, but dimm’d with grief No everlasting hills I see; My life is in the falling leaf: O Jesus, quicken me. My life is like a faded leaf, My harvest dwindled to a husk: Truly my life is void and brief And tedious in the barren dusk; My life is like a frozen thing, No bud nor greenness can I see: Yet rise it shall–the sap of Spring;


O Jesus, rise in me. My life is like a broken bowl, A broken bowl that cannot hold One drop of water for my soul Or cordial in the searching cold; Cast in the fire the perish’d thing; Melt and remould it, till it be A royal cup for Him, my King: O Jesus, drink of me ......................

My Heavy Heart Elizabeth Browning

I lift my heavy heart up solemnly, As once Electra her sepulchral urn,


And, looking in thine eyes, I over-turn The ashes at thy feet. Behold and see What a great heap of grief lay hid in me, And how the red wild sparkles dimly burn Through the ashen greyness. If thy foot in scorn Could tread them out to darkness utterly, It might be well perhaps. But if instead Thou wait beside me for the wind to blow The grey dust up, . . . those laurels on thine head, O my Beloved, will not shield thee so, That none of all the fires shall scorch and shred The hair beneath.

Stand further off then! go!

The End Wilfred Owen


After the blast of lightning from the east, The flourish of loud clouds, the Chariot throne, After the drums of time have rolled and ceased And from the bronze west long retreat is blown,

Shall Life renew these bodies? Of a truth All death will he annul, all tears assuage? Or fill these void veins full again with youth And wash with an immortal water age?

When I do ask white Age, he saith not so, – “My head hangs weighed with snow.” And when I hearken to the Earth she saith My fiery heart sinks aching. It is death. Mine ancient scars shall not be glorified Nor my titanic tears the seas be dried.”


A Little While Emily Bronte

A little while, a little while, The weary task is put away, And I can sing and I can smile, Alike, while I have holiday. Why wilt thou go, my harassed heart, What thought, what scene invites thee now? What spot, or near or far, Has rest for thee, my weary brow?

There is a spot, mid barren hills, Where winter howls, and driving rain; But if the dreary tempest chills, There is a light that warms again.


The house is old, the trees are bare, Moonless above bends twilight’s dome; But what on earth is half so dear, So longed for, as the hearth of home?

The mute bird sitting on the stone, The dank moss dripping from the wall, The thorn-trees gaunt, the walks o’ergrown, I love them, how I love them all!

Still, as I mused, the naked room, The alien firelight died away, And from the midst of cheerless gloom I passed to bright unclouded day.

A little and a lone green lane


That opened on a common wide; A distant, dreamy, dim blue chain Of mountains circling every side;

A heaven so clear, an earth so calm, So sweet, so soft, so hushed an air; And, deepening still the dream-like charm, Wild moor-sheep feeding everywhere.

That was the scene, I knew it well; I knew the turfy pathway’s sweep That, winding o’er each billowy swell, Marked out the tracks of wandering sheep.

Even as I stood with raptured eye, Absorbed in bliss so deep and dear, My hour of rest had fleeted by,


And back came labour, bondage, care.

Old Age Gets Up Ted Hughes

Stirs its ashes and embers, its burnt sticks

An eye powdered over, half melted and solid again Ponders Ideas that collapse At the first touch of attention

The light at the window, so square and so same So full-strong as ever, the window frame A scaffold in space, for eyes to lean on


Supporting the body, shaped to its old work Making small movements in gray air Numbed from the blurred accident Of having lived, the fatal, real injury Under the amnesia

Something tries to save itself-searches For defenses-but words evade Like flies with their own notions

Old age slowly gets dressed Heavily dosed with death’s night Sits on the bed’s edge

Pulls its pieces together Loosely tucks in its shirt


A Slumber Did My Spirit Seal William Wordsworth

A slumber did my spirit seal; I had no human fears: She seemed a thing that could not feel The touch of earthly years.

No motion has she now, no force; She neither hears nor sees; Rolled round in earth’s diurnal course, With rocks, and stones, and trees.

Holy Sonnet ? John Donne


Thou hast made me, and shall thy work decay? Repair me now, for now mine end doth haste, I run to death, and death meets me as fast, And all my pleasures are like yesterday; I dare not move my dim eyes any way, Despair behind, and death before doth cast Such terror, and my feebled flesh doth waste By sin in it, which it t’wards hell doth weigh. Only thou art above, and when towards thee By thy leave I can look, I rise again; But our old subtle foe so tempteth me, That not one hour I can myself sustain; Thy grace may wing me to prevent his art, And thou like adamant draw mine iron heart.


Holy Week At Genoa Oscar Wilde

I wandered through Scoglietto’s far retreat, The oranges on each o’erhanging spray Burned as bright lamps of gold to shame the day; Some startled bird with fluttering wings and fleet Made snow of all the blossoms; at my feet Like silver moons the pale narcissi lay: And the curved waves that streaked the great green bay Laughed i’ the sun, and life seemed very sweet. Outside the young boy-priest passed singing clear, ‘Jesus the son of Mary has been slain, O come and fill His sepulchre with flowers.’ Ah, God! Ah, God! those dear Hellenic hours Had drowned all memory of Thy bitter pain,


The Cross, the Crown, the Soldiers and the Spear.

Saul Chapter 18 Robert Browning

“I believe it! ‘Tis Thou, God, that givest, ’tis I who receive: In the first is the last, in thy will is my power to believe. All ‘s one gift: thou canst grant it moreover, as prompt to my prayer As I breathe out this breath, as I open these arms to the air. From thy will stream the worlds, life and nature, thy dread Sabaoth: I will?–the mere atoms despise me! Why am I not loth


To look that, even that in the face too? Why is it I dare Think but lightly of such impuissance? What stops my despair? This;–’tis not what man Does which exalts him, but what man Would do! See the King–I would help him but cannot, the wishes fall through. Could I wrestle to raise him from sorrow, grow poor to enrich, To fill up his life, starve my own out, I would–knowing which, I know that my service is perfect. Oh, speak through me now! Would I suffer for him that I love? So wouldst thou–so wilt thou! So shall crown thee the topmost, ineffablest, uttermost crown– And thy love fill infinitude wholly, nor leave up nor down


One spot for the creature to stand in! It is by no breath, Turn of eye, wave of hand, that salvation joins issue with death! As thy Love is discovered almighty, almighty be proved Thy power, that exists with and for it, of being Beloved! He who did most, shall bear most; the strongest shall stand the most weak. ‘Tis the weakness in strength, that I cry for! my flesh, that I seek In the Godhead! I seek and I find it. O Saul, it shall be A Face like my face that receives thee; a Man like to me, Thou shalt love and be loved by, forever: a Hand like this hand Shall throw open the gates of new life to thee! See the Christ stand!�

All That is Gold


J.R.R.Tolkien

All that is gold does not glitter, Not all those who wander are lost; The old that is strong does not wither, Deep roots are not reached by the frost. From the ashes a fire shall be woken, A light from the shadows shall spring; Renewed shall be blade that was broken, The crownless again shall be king.

I am John Clare

I am – yet what I am, none cares or knows: My friends forsake me like a memory lost:


I am the self-consumer of my woes – They rise and vanish in oblivious host, Like shadows in love’s frenzied stifled throes And yet I am, and live-like vapours tost

Into the nothingness of scorn and noise, Into the living sea of waking dreams, Where there is neither sense of life or joys, But the vast shipwreck of my life’s esteem: Even the dearest that I love the best Are strange-nay, rather, stranger than the rest.

I long for scenes where man hath never trod A place where woman never smiled or wept there to abide with my creator God, And sleep as I in childhood sweetly slept, Untroubling and untroubled where I lie


The grass below, above, the vaulted sky.

Human Life

Samuel Taylor Coleridge

If dead, we cease to be ; if total gloom Swallow up life’s brief flash for aye, we fare As summer-gusts, of sudden birth and doom, Whose sound and motion not alone declare, But are their whole of being ! If the breath Be Life itself, and not its task and tent, If even a soul like Milton’s can know death ; O Man ! thou vessel purposeless, unmeant, Yet drone-hive strange of phantom purposes ! Surplus of Nature’s dread activity,


Which, as she gazed on some nigh-finished vase, Retreating slow, with meditative pause, She formed with restless hands unconsciously. Blank accident ! nothing’s anomaly ! If rootless thus, thus substanceless thy state, Go, weigh thy dreams, and be thy hopes, thy fears, The counter-weights !–Thy laughter and thy tears Mean but themselves, each fittest to create And to repay the other ! Why rejoices Thy heart with hollow joy for hollow good ? Why cowl thy face beneath the mourner’s hood ? Why waste thy sighs, and thy lamenting voices, Image of Image, Ghost of Ghostly Elf, That such a thing as thou feel’st warm or cold ? Yet what and whence thy gain, if thou withhold These costless shadows of thy shadowy self ? Be sad ! be glad ! be neither ! seek, or shun !


Thou hast no reason why ! Thou canst have none ; Thy being’s being is contradiction.

Do Not Go Gentle Into That Good Night Dylan Thomas

Do not go gentle into that good night, Old age should burn and rave at close of day; Rage, rage against the dying of the light. Though wise men at their end know dark is right, Because their words had forked no lightning they Do not go gentle into that good night. Good men, the last wave by, crying how bright Their frail deeds might have danced in a green bay, Rage, rage against the dying of the light.


Wild men who caught and sang the sun in flight, And learn, too late, they grieved it on its way, Do not go gentle into that good night.

Grave men, near death, who see with blinding sight Blind eyes could blaze like meteors and be gay, Rage, rage against the dying of the light.

And you, my father, there on the sad height, Curse, bless me now with your fierce tears, I pray. Do not go gentle into that good night. Rage, rage against the dying of the light.

Loving in truth Phlip Sidney


Loving in truth, and fain in verse my love to show, That the dear she might take some pleasure of my pain, Pleasure might cause her read, reading might make her know, Knowledge might pity win, and pity grace obtain, I sought fit words to paint the blackest face of woe: Studying inventions fine, her wits to entertain, Oft turning others' leaves, to see if thence would flow Some fresh and fruitful showers upon my sunburned brain. But words came halting forth, wanting Invention's stay; Invention, Nature's child, fled stepdame Study's


blows; And others' feet still seemed but strangers in my way. Thus, great with child to speak, and helpless in my throes, Biting my truant pen, beating myself for spite: "Fool," said my Muse to me, "look in thy heart, and write."



Turn static files into dynamic content formats.

Create a flipbook
Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.