1
دیگچہ تہی دامن تھ لوک نہ
مقصود حسنی ابوزر برقی کت خ نہ جنوری ٧
2
دیگچہ تہی دامن تھ بہت پہ ے کی ن سہی لیکن اتن ضرور طے ہے کہ یہ ب ت پہ ے کی ہے۔ ا کہ دو نمبری کے لیے اتنی مشقت نہیں اٹھ ن پڑتی۔ دو نمبری ک س م ن س می خود اپنے ہ تھ سے فراہ کرتی ہے۔ ہ ں یہ ب ت حتمی طور پر نہیں کہی ج سکتی کہ دو نمبری کے لیے دو نمبر ک س م ن فراہ کی ج ت ہے۔ یہ بھی کہ چھین لینے ک رواج ع ہو گی ہے۔ ہتھی ر آکڑ خ ن کے لیے اٹھ ن پڑت ہے ورنہ قدرے شریف کو آنکھیں دیکھ کر اس کی گرہ ص ف کر لی ج تی ہے۔ اسی طرح قدرے شریف‘ شریف سے اونچی ی گال پھ ڑ آواز سے ک لے کر اس کی گرہ خ لی کرنے ک ڈھنگ خو خو ج نت ہے۔ اس روز ان چ روں کو ک فی مشقت سے ک لین پڑا ت ج کر ڈوموں کی مرغی ہ تھ لگی۔ مرغی پ ی پالئی ن یس اور بڑی نخرے والی تھی۔ جھ نسہ دینے میں بھی بڑی ط تھی۔ ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر آنے ج نے میں اسے م کہ ح صل تھ ۔ وہ بھی ہٹ کے پکے تھے۔ ان ک روز ک ک تھ کیسے بچ کر نکل ج تی۔ س تھ کے گ ؤں کے مولوی ص ح سے تکبر پڑھ ئی اور اسے ڈکرے ڈکرے کرکے دیگچے کے حوالے کر
3
دی ۔ پکنے کے بعد حس مع ہدہ چوتھ ئی مولوی ص ح کی خدمت میں نذرانہ پیش کر دی ۔ یہ ان ک یقین بہت بڑا احس ن تھ وہ حرا کو حالل میں تبدیل کرنے میں ک یدی کردار ادا کرتے آ رہے تھے ت ہ حالل کو حرا قرار دین بھی ان کے لیے قطع دشوار نہ تھ ۔ کھ نے لگے تو انہیں ایک انوکھ طور سوجھ ۔ ان میں سے ایک کہنے لگ ۔ اس پکوان کو کل صبح وہ کھ ئے جو س سے اچھ اور بڑھی خوا دیکھے۔ یہ تجویز س کو بھ ئی۔ پھر وہ آرا اور سکون کی نیند سو گئے۔ اگ ی صبح اٹھے اور اپن اپن خوا سن نے لگے۔ ایک نے اپن خوا سن ی کہ وہ س ری رات پیرس کے ب زاروں میں پھرا اور خو خریداری کی۔ پیرس کی نخری ی چھوریوں کے س تھ آنکھ مٹک کرت رہ ۔ ایک دو تو اس کی ب ہوں میں بھی رہیں۔ س نے واہ واہ کی اور اس کے خوا کی اچھی خ صی داد دی۔ دوسرے نے خوا سن ی کہ اسے خوا میں امریکی صدر کی
4
ج ن سے امریکہ آنے کی دعوت م ی۔ وہ خوشی خوشی ہوائی جہ ز پر بیٹھ کر امریکہ گی ۔ امریکی صدر اور اس کے اع ی عہدےدار ہوائی اڈے پر اس ک استقب ل کرنے آئے۔ اس کے بعد وہ امریکی صدر کے س تھ بھ ری پہرے میں امریکہ کی سیر کرت رہ ۔ ایک دو جگہ پر اسے خط کرنے ک موقع بھی مال۔ خوا کے اچھ نہیں‘ بہت اچھ ہونے میں رائی پھر شک نہ تھ ۔ زمینی خدا کے س تھ ہون اور پھر اتنی عزت م ن کوئی ع ب ت نہ تھی۔ ا تیسرے کی ب ری تھی۔ اس نے کہ خوا میں آسم نی گھوڑا اسے اسم نوں کی سیر کرانے کے لیے آ گی ۔ اس نے دل بھر کر چ ند ست روں کی سیر کی۔ حوریں اور فرشتے قط ر در قط ر اس کے س تھ رہے۔ پھر اس نے جنت کی سیر کی۔ بڑے بڑے بزرگوں سے بھی مالق ت ہوئی۔ یہ خوا پہ ے دونوں کو کٹ کر رہ تھ ۔ پکوان پر اسی ک ح ٹھہرت تھ ۔ چوتھے نے کہ ی ر رات کو میرے س تھ بڑا دھرو ہو گی ۔ س پریش ن ہو گئے اور یک زب ن ہو کر بولے کیوں کی ہوا۔ بوال ی ر
5
ہون کی تھ میں گہری نیند سو رہ تھ کہ ایک حبشی جس کے ہ تھ میں تیز دھ ر ت وار تھی۔ اس نے مجھے زور سے جھنجھوڑا۔ میں ڈر کر اٹھ بیٹھ ۔ اس نے ت وار دیکھ تے ہوئے کہ :یہ تمہ رے دوست ہیں تمہیں یہ ں اکیال چھوڑ کر موج مستی کر رہے ہیں۔ چل اٹھ اور تو مرغی کھ کر دیگچہ خ لی کر۔ میں نے ج پس وپیش کی تو اس نے مجھے ت وار دیکھ تے ہوئے کہ اگر نہیں کھ ئے گ تو تمہ را سر اڑا دوں گ ۔ زور دبردستی کے س منے ک کسی کی چ ی ہے‘ مجبورا مجھے س را دیگچہ خ لی کرن پڑا۔ یقین م نیں پریش نی اور بدہضمی کے سب اس کے بعد مجھے نیند نہ آ سکی۔ تینوں ج دی سے دیگچے کی ج ن بڑے‘ دیکھ دیگچہ اپنی تہی دامنی پر خون کے آنسو بہ رہ تھ ۔
6
دیگچہ تہی دامن تھ لوک نہ
مقصود حسنی ابوزر برقی کت خ نہ جنوری ٧