1
اردو میں نثری نظ
پیش ک ر مقصود حسنی ابوزر برقی کت خ نہ جنوری ٧
2
مندرج ت نثری نظ ک تخ یقی جواز نثری نظ دراصل نث ہے کرن ٹک میں جدید نظ کی صورت ح ل نثری نظ نئی صدی میں نثری ش عری
اردو میں نثری نظ عرصہ دراز تک متن زعہ رہی۔ اس کے وجود سے انک ر کی ج ت رہ ۔ اس پر ہزار طرح کے اعتراض کیے ج تے رہے۔ بہت کچھ ہوا اور ہوت رہ ۔ ان تم ن خوشگوار ح الت میں بھی اس صنف ش ر نے اپن س ر ج ری رکھ ۔ لوگ بہت کچھ کہتے رہے لیکن اس کے ش را اپنی موج مستی میں نثری نظمیں لکھتے رہے۔ اردو میں اچھ خ ص ذخیرہ داخل ہو گی ۔ آج ایس وقت آی ہے کہ یہ صنف اد متن زع نہیں رہی۔ اسے قبول کر لی گی ہے۔ ٩٩میں اس کے جواز میں مجھ ن چیز کی ایک کت ۔۔۔ اردو میں نئی نظ ۔۔۔ ش ئع ہوئی۔ اسے پذیرائی بھی ح صل ہوئی۔ آج یہ صنف اد
3
متن زعیہ نہیں رہی۔ اس سے مت چند بڑے اہ مض مین میرے ہ تھ لگے ہیں جو اس پر ک کرنے والوں کے لیے ک کے ث بت ہو سکتے ہیں۔ انہیں بال کسی ترمی کے پیش کر رہ ہوں ت کہ اس صنف پر ک ی ب ت کرتے ان ک مط ل ہ ازبس کہ م ید ث بت ہو سکت ہے۔ ف نی مقصود حسنی
نثری نظ ک تخ یقی جواز اداریہ تسطیر ،جنوری 1998 نصیر احمد ن صر نثری نظ اور اس پر بحث ا کوئی نی موضوع نہیں رہ ۔ تم تر مخ ل توں کے ب وجود ا یہ ایک ب ق عدہ اور مستحک صنف سخن ہے اور زی دہ تر ادبی جرائد اسے اہتم سے ش ئع کرتے ہیں ،کچھ "نثری نظ " کے ن سے الگ صنف سخن کے تحت اور کچھ اسے "نظ " کے خ نے میں رکھتے ہیں ی نی پ بند ،آزاد اور م ری نظ کے س تھ ۔ لیکن اس کے ب وجود کچھ ایسے ادبی رس ئل بھی ہیں جن کے مدیران سرے سے اسے تس ی ہی نہیں کرتے اور نہ اپنے رس ئل میں ش ئع کرتے ہیں۔ گزشتہ چ لیس س لوں کے دوران نثری نظ پر بہت بحث ہو چکی ہے ،مت دد مض مین ،طویل اور ج مع مق لہ ج ت لکھے ج چکے ہیں اور سچی ب ت تو یہ ہے کہ ا اس موضوع پر کوئی نئی ب ت کرن ، نئے جوازات تالش کرن اور نئے مب حث ابھ رن مشکل ہے۔ ا تو اس
4
کے جواز پر کچھ کہنے کی بج ئے اس پر عم ی تنقید کی ضرورت ہے۔ البتہ کچھ عرصہ پہ ے تک صورت ح ل مخت ف تھی اور اردو میں آزاد اور م ری نظ کے ہوتے ہوئے نثری نظ کو اپن جواز فراہ کرنے میں بڑی دشواری ں ح ئل تھیں۔ راق نے "تسطیر" جنوری1998،ء میں "نثری نظ ک تخ یقی جواز" کے عنوان سے ایک مختصر مگر ج مع اداریہ تحریر کی تھ ۔ اس اداریے پر نہ صرف "تسطیر" کے اگ ے کئی شم روں میں طویل بحث ہوئی ب کہ تسطیر سے ب ہر بھی عرصہ تک اس کی گونج سن ئی دیتی رہی اور اس کے حوالے سے دیگر ادبی جرائد میں بھی مض مین لکھے گئے۔ اس بحث میں اردو کے ک و بیش تم اہ اور مقتدر ش عروں ،ادیبوں نے حصہ لی تھ ۔ چند س ل پہ ے ج اکیڈمی ادبی ت نے "ادبی ت" ک نثری نظ نمبر ش ئع کی تو اس کے لیے راق کو تسطیر میں نثری نظ پر ہونے والی س رے مب حث کو مرت کرنے کے لیے کہ گی ۔ ان مب حث کی ضخ مت سو سے زائد ص ح ت تھی۔ افسوس کہ کسی "ن م و " وجہ کے ب عث وہ یکج کی گئی س ری بحث ش ئع نہ ہو سکی اور اکیڈمی کے ک رپردازوں نے آج تک اس ک مسودہ بھی واپس نہیں کی ۔ یہ ں ق رئین کی دلچسپی کے لیے "تسطیر" ک اداریہ ،چند م مولی ترامی کے س تھ ،پیش ہے جو آج بھی نثری نظ سے مت بنی دی مب حث سے پوری طرح مت ہے۔ ت ہ واضح رہے کہ یہ 1998ء میں ایک مدیر کی حیثیت سے لکھ گی ایک مجموعی صورت ح ل ک ج مع اظہ ریہ تھ اور اس کو اسی تن ظر میں پڑھ ج ئے۔۔۔۔ نصیر احمد ن صر نثری نظ کے شجرہ نس کی جڑیں دنی کے قدی اد سے م تی ہیں۔
5
بہت سی دیوم الئیں ،لوک داست نیں اور قبل مسیح کے طویل رزمیے اپنے ش عرانہ آہنگ ،ہیئت اور اس و میں نثری نظ کے قری تر ہیں۔ قدی ویدوں اور سنسکرت اد سے بھی اس کے ڈانڈے مالئے ج تے ہیں۔ مغر میں نثری نظ ک آغ ز انیسویں صدی میں ہوا۔ ابتدا فرانس میں اور ب دہ امریکہ میں اسے بہت فرو ح صل ہوا۔ اردو میں مخت ف ہیئتوں اور ن موں سے نثری نظ کی مث لیں بیسویں صدی کی تیسری دہ ئی سے م ن شروع ہو ج تی ہیں۔ ایک ادبی تحریک کے طور پر اس ک ب ق عدہ آغ ز س ٹھ کی دہ ئی سے ہوا۔ لیکن لگ بھگ تین دہ ئی ں گزر ج نے کے ب د بھی نثری ش عری ک یہ تجربہ اردو ش ری ت میں کسی واضح قبولیت کے مق تک نہ پہنچ سک اور م سوا چند تخ ی ک روں کی ذاتی ک وشوں کے نثری نظ ک "دور اول" ب ل مو ک می بی سے ہمکن ر نہ ہو سک ۔ اس کی بڑی وجہ غ لب سکہ بند قس کی ادبی تحریکوں کے خالف ردعمل اور اردو کی ش ری روای ت سے یک د اور یکسر بغ وت تھی۔ اس کے عالوہ اس دور کے نثری نظ نگ روں کی ضرورت سے زی دہ جدت و تجردپسندی ،مغر پرستی اور ش ری کی ی ت و تجرب ت کو داخ ی ص ف گری کے عمل سے گزارے بغیر خ شکل میں پیش کر دینے واال ت خ رویہ بھی اس صنف کی ابتدائی ن ک می ک سب بن ۔ دلچسپ ب ت یہ ہے کہ امریکہ ،جہ ں نثری نظ کو یہ ں تک فرو ح صل ہے کہ ب ض یونیورسٹیوں میں اد کے ط ب کو رائ لکھنے سے منع کی ج ت ہے ،وہ ں بھی یہ صنف ابھی تک ردوقبول ہی کے مرح ے میں ہے۔ اس ک اندازہ ب ض امریکی جرائد کے اداریوں اور تحریروں سے بخوبی لگ ی ج سکت ہے۔ نثری نظ کے شجرہ نس کی جڑیں دنی کے قدی اد سے م تی ہیں۔
6
بہت سی دیوم الئیں ،لوک داست نیں اور قبل مسیح کے طویل رزمیے اپنے ش عرانہ آہنگ ،ہیئت اور اس و میں نثری نظ کے قری تر ہیں۔ گزشتہ دس پندرہ برسوں سے اردو نثری نظ ایک نئے فن من سے گزر رہی ہے۔ اسے نثری نظ ک "دور ث نی" بھی کہ ج سکت ہے۔ اس ب ر میدان قرط س میں زی دہ تر وہ ش را ہیں جو جدید تر ش ری حسی ت اور عصری ادبی ش ور رکھنے کے س تھ س تھ اردو کی کالسیکی ش ری روای ت سے بھی مربوط و منس ک ہیں اور فن ش ر گوئی یعنی اوزان و بحور پر بھی گرفت رکھتے ہیں۔ نثری نظ نگ روں کی اس کھیپ کی ش ری ترجیح ت و ترغیب ت کسی خ ص ادبی تحریک کے ت بع ی خالف نہیں ب کہ اد کے ان جدید اور پس جدید متنوع تخ یقی رویوں سے عب رت ہیں جو اس صنف میں نت نئے اس لی اور موضوع ت کے اض فے ک ب عث ہیں۔ بالشبہ اس زمرے میں وہ ش را اور ن رسیدہ و ن پختہ ک ر خ مہ فرس شم ر نہیں کیے ج سکتے جو اردو کی ش ری و عروضی روای ت سے آگ ہی ح صل کیے بغیر الٹی سیدھی سطروں میں سطحی اور خ ش ری مواد کو نثری نظ ی نظ کے ن سے پیش کر دیتے ہیں۔ دراصل احس س ت و خی الت کے بہ ؤ کو محض ش وری طور پر کسی مخصوص س نچے میں ڈھ لن مشکل ہوت ہے۔ ایس کرنے سے تخ ی کی خوبصورتی ،بے س ختگی اور بین السطور بہنے والی اداسی اور آگہی کی رو مت ثر ہوتی ہے۔ دراصل ہر نظ اپنی ہیئت ی س خت خود لے کر آتی ہے۔ تخ ی کے ب د اس کی تراش خراش تو کی ج سکتی ہے لیکن تخ یقی عمل کے دوران اسے زبردستی "نظ " ی "نثری نظ " نہیں بن ی ج سکت ۔ نثری نظ کہن ایس آس ن بھی نہیں جیس کہ کچھ
7
لوگ سمجھتے ہیں اور نہ نثری نظ کے ن پر ش ئع ہونے والی چھوٹی بڑی چند سطروں پر مشتمل ہر تخ ی کو نثری نظ کہ ج سکت ہے۔ اس کے لئے گہرے تہذیبی ش ور ،آگہی ،عرف ن ذات ،جدید طرز احس س ،عمی مط ل ے ،مش ہدے ،ری ضت ،تخ یقی مزاج کی موزونیت اور عالمتوں ،است روں ،تشبیہوں اور پیکروں کے پیچیدہ مگر ق بل فہ نظ کے عالوہ ن می تی وحدت اور پس ال ظ اور بین السطور ایک اندرونی آہنگ جیسے لوازم ت درک ر ہوتے ہیں۔ دراصل ہر نظ اپنی ہیئت ی س خت خود لے کر آتی ہے۔ تخ ی کے ب د اس کی تراش خراش تو کی ج سکتی ہے لیکن تخ یقی عمل کے دوران اسے زبردستی "نظ " ی "نثری نظ " نہیں بن ی ج سکت ۔ اردو نثری نظ پر ا تک کئی مب حثے و مک لمے ہو چکے ہیں اور طویل مض مین رق کیے گئے ہیں جن میں اس کے ن ،پس منظر، مزاج ،آہنگ ،عالمتی و است راتی نظ ،فنی و فکری جواز اور شن خت پر ت صیل دار بحث کی گئی ہے۔ لیکن اس کے ب وجود ایک اہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ ب ض ش را اظہ ر کے مخت ف س نچوں مثال غزل ،پ بند نظ ،م ری نظ ،آزاد نظ اور دیگر اصن ف سخن پر قدرت رکھتے ہوئے بھی نثری نظ ک اور کیوں کہتے ہیں۔ میرے خی ل اور تجربے کے مط ب نثری نظ اس وقت سرزد ہوتی ہے ج تخ یقی اداسی اور آگہی انس نی بس سے ب ہر ہو کر وجود کی حدیں پ ر کرنے لگتی ہے اور ش عری کے مروج پیم نے ی س نچے اس کے اظہ ر کے لئے ن ک فی ہو ج تے ہیں۔ ش ید انس ن کی ازلی و ابدی تنہ ئی کسی ایسے ش ری نظ اور لس نی آہنگ کی متق ضی و متالشی ہے جسے ابھی تک دری فت نہیں کی ج سک ۔ ش ید نثری نظ اظہ ر کی اسی بے
8
بسی ک غیر مرئی تخ یقی جواز ہے۔ نثری نظ کو پ ک و ہند کے مخت ف مک ت فکر نثری نظ ،نثر لطیف، نثرین ،نث ،نثر پ رے ،نثرانے ،نثم نے ،نظ کہ نی ،نظمیے ،امک ن ت وغیرہ کے ن سے قبول کرتے اور اپنے اپنے رس ئل میں ش ئع کرتے ہیں۔ بیشتر اسے نظ کے خ نے ہی میں رکھتے ہیں۔ گوی اس صنف میں اظہ ر پر تو کوئی اعتراض نہیں لیکن اس کے ن ک مسئ ہ درپیش ہے۔ کچھ مک ت فکر ایسے بھی ہیں جو اپنے افک ر و نظری ت میں ج مد ی بہت زی دہ قدامت پسند ہونے کے ب عث اس صنف کو ا تک تس ی نہیں کرتے۔ یہ رویہ بھی ادبی اعتب ر سے ق بل تحسین نہیں۔ ت ہ یہ احتی ط برح ہے کہ نئی نسل کی ش ری تربیت اور نص بی ضرورت کے تحت نثری نظ کو م ری اور آزاد نظ سے الگ رکھ ج ئے۔ ش رواد ک م خذ چ ہے کسی بھی زب ن سے نسبت رکھت ہو ،حتمی تخ یقی م ی ر کی قدر و ت ین کے لئے اسے ب آلخر اسی زب ن کے حوالے سے دیکھ اور پرکھ ج ن چ ہیئے جس میں وہ تخ ی کی گی ہو۔ ش رواد ک م خذ چ ہے کسی بھی زب ن سے نسبت رکھت ہو ،حتمی تخ یقی م ی ر کی قدر و ت ین کے لئے اسے ب آلخر اسی زب ن کے حوالے سے دیکھ اور پرکھ ج ن چ ہیئے جس میں وہ تخ ی کی گی ہو۔ چن نچہ اردو نثری نظ کو بھی سنسکرت ،ہندی ،فرانسیسی اور انگریزی زب ن و اد کی کسوٹی پر پرکھنے کی بج ئے ،اردو زب ن کی کٹھ لی میں پگھال کر ،اسے اپنے س نچوں میں ڈھ ل کر دیکھن ضروری ہے۔ اردو نثری نظ س ٹھ اور ستر کی دہ ئیوں کے عبوری
9
دورانیے (دور اول) سے گزر کر ا اس مق پر ہے جہ ں اس کے م خذات اور اس میں اولیت جیسے نزاعی م مالت ضمنی نوعیت کے رہ ج تے ہیں اور تخ یقیت زی دہ اہ ہو ج تی ہے۔ ب لخصوص بیسویں صدی کی آخری دہ ئی میں تخ ی ہونے والی اردو نثری نظ اپنی ہیئت، اس و ،موضوع ت ،زب ن و بی ن ،ل ظی ت ،کثیر م نویت ،حس سیت اور عصر آفرینی کے اعتب ر سے ارتق اور خود مخت ری کی روشن دلیل ہے۔ جو لوگ اسے ک یتہ رد کرتے ہیں وہ دراصل اپنی ش ری و ادبی ن رس ئی ک اظہ ر کرتے ہیں۔ یقین دیگر اصن ف اد کی طرح اس میں بھی رط و ی بس اور ن ش عری در آئی ہو گی ،اہل نقد و نظر کو چ ہیئے کہ وہ ژرف نگ ہی سے ک لیتے ہوئے اس کی چھ ن پھٹک کریں اور اس کی صحیح ش رات ترتی دیں۔ ا وقت آ گی ہے کہ وسیع تر تخ یقی امک ن ت کی ح مل اس صنف سخن پر کوئی سنجیدہ اور مت قہ الئحہ عمل اختی ر کی ج ئے ،اس کی ارتق ئی پیش رفت کو تس ی کرتے ہوئے برسوں پہ ے کے عبوری خی الت و نظری ت پر نظر ث نی کی ج ئے اور اسے برزخ کے ع ل سے نک ال ج ئے۔ )نصیر احمد ن صر ،اداریہ تسطیر ،جنوری (1998 http://www.laaltain.com/%D9%86%D8%AB%D8%B1%DB%8C-%D9%86%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%D8%AA%D8 %AE%D9%84%DB%8C%D9%82%DB%8C-%D8%AC%D9%88%D8%A7%D8%B2/
10
نثری نظ دراصل نث ہے محمد حمید ش ہد محمد حمید ش ہد بحیثیت افس نہ نگ ر ،ن ول نگ ر اور نق د کے ایک واضح شن خت رکھتے ہیں ۔ ح ل ہی میں ان ک افس نہ ”لوتھ“ بھ رت میں اردو نثرکی نص بی کت میں ش مل کی گی ہے۔ یہ پ کست ن کے دوسرے ادی ہیں ان سے قبل انتظ ر حسین ک افس نہ ”ب دل“ اس نص بی کت کی زینت بن ۔ ان کے انداز بی ن میں س دگی ،خ وص اور خی الت میں نی پن اور ت زگی ہے ۔وہ کہ نی کہنے کے فن پر حیرت انگیز طور پر ح وی ہیں۔ ان کے ہ ں صورت ح ل کوجرات سے دےکھنے اور مزاحمت سے تخ یقی سطح پر برتنے ک رویہ بھی م ت ہے اور خی الت کو لگی لپٹی رکھے بغیر ص ف گوئی سے بی ن کرنے ک حوص ہ بھی ۔ جہ ں تک طرز تحریر ک ت ہے وہ ص ف ستھری اور رواں نثر لکھنے پر قدرت رکھتے ہیں ۔ انہوں نے تنقید نگ ری میں جو غیر مت صب نہ انداز اختی ر کی ہے اس سے ان کی م روضیت اور ذمہ داری کو تس ی کرن ہی پڑت ہے۔
11
محمد حمید ش ہد کی تص نیف میں بند آنکھوں سے پرے ،جن جہن ، مرگ زار،محمد حمید ش ہد کے پچ س افس نے،مٹی آد کھ تی ہے ،ادبی تن زع ت،اردو افس نہ صورت و م نی،اش احمد شخصیت اور فن، پیکر جمیل ،لمحوں ک لمس ،الف سے اٹکھی ی ں،سمندر اور سمندر، ش مل ہیں۔ حمید ش ہد کو ان کی ادبی خدم ت کے اعتراف میں سیدہ ظہیرہ النس ت یمی ایوارڈ ،این سی سی گولڈن جوب ی ایوارڈ اور می ں محمد بخش ایوارڈ سے نوازا گی ۔ ------------------------------------س :آپ کے افس نوں کی کت بیں بند آنکھوں سے پرے ،جن جہن اور مرگ زار کے ب د ا تو پچ س افس نوں ک انتخ بھی چھپ چک ہے ،آپ مٹی آد کھ تی ہے کے ن سے م روف ن ول لکھ اور فکشن کی تنقید میں اردو افس نہ صورت و م نی جیسی اہ کت دی تو پھر اس نثری نظ جسے آپ نث کہتے ہیں ،میں آپ کی دلچسپی کے کی م نی ہیں ؟ محمد حمیدش ہد :مینکہت آےا ہوں کہ میں فکشن کی طرف دوسری اصن ف سے ہو کر آی ہوں ،ش عری ،نث ،حتی کہ انش ئیہ بھی میری بھی ایک زم نے میں میری دلچسپی ں کھینچتے رہے ہیں ۔ ت ہ مینسمجھت ہوں کہ وہ صنف جس نے مجھے تخ یقی سطح پر اپنے حص ر میں لے لی وہ فکشن ہی ہے۔تخ یقی عمل ٹوٹنے والے ست رے کی طرح چمک کر نظر سے اوجھل نہیں ہوج ت یہ تو آپ کی روح میں عج طرح ک اضطرا بھر دےت ہے ۔ انوکھی سی بے ک ی کہ آپ مس سل اندر ہی اندر سے ٹوٹتے اور بنتے چ ے ج تے ہیں ۔ کہ نی
12
لکھن ،محض وقوعہ لکھ لینے ک ن نہیں ہے،اسی تخ یقی عمل کے تس سل اور بے پن ہی سے جڑ ج نے ک ن ہے۔ س :آپ ک ادبی ف س ہ کی ہے؟ محمد حمید ش ہد:دیکھئے ہر آدمی کی فکر ک اپن عالقہ ہوت ہے ،اور وہ جو کسی نے کہ ہے کہ جس ک نقطہ نظر نہیں ہوت اس کے پ س نظر ہی نہیں ہوتی درست ہی کہ ہے ،ت ہ اس امر کو نہیں بھولن چ ہیئے کہ ہر فرد تخ یقی سطح پر مخت ف ہوج ت ہے ۔ آپ ایک گروہ ،ایک جم عت اور ایک بھیڑ کو ایک وقت میں ایک ہی ن رہ لگ تے ہوئے دیکھ سکتے ہیں تخ یقی مزاج کے اعتب ر سے دو آدمی بھی آپ کو ایک جیسے نہ م ےہوں گے ،جو جینوئن ہوں اور ایک جیس لکھ رہے ہوں ۔ ب لکل ایسے ہی جس طرح دست ویزات پرہر انگوٹھ لگ نے واال الگ سے پہچ ن ج سکت ہے ب لکل اسی طرح سچ تخ ی ک ر دوسروں سے الگ کھڑا نظر آت ہے ۔ یہ بج کہ تخ یقی عمل م نی کی تکثیریت اور جم ل کی ہمہ گیری کے امک ن ت کی تالش ک ن ہے مگر یہ بھی تس ی شدہ حقیقت ہے کہ ہر تخ ی ک ر کے ہ ں م نی اور جم ل کی ایک الگ ک ئن ت بنتی ہے ۔ س :تخ یقی عمل کو آپ اس م شرتی فض سے ک ٹ کر تو نہیں دیکھ سکتے جس میں اد رہ رہ ہوت ہے؟ محمد حمید ش ہد :یہ بج کہ لگ بھگ ایک سی فض میں رہنے والے اد کی ایک ہی نہج میں سوچنے لگیں ،ت ہ تخ یقی عمل کے دوران م نی کی تکثیریت اور جم ل کی ہمہ گیری ک جو عالقہ بنت ہے وہ فن پ رے کی خ رجی ہیئت سے کہیں زی دہ اس کے ب طنی امیج سے بنت
13
ہے۔ میں سمجھت ہوں کہ تخ یقیت ک بھید اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ متن کس طرح اور کس حد تک ل ظوں کے ب طنی امیج کے روشن کن روں سے ج کر جڑ ج ت ہے۔ انس ن ک ش ور دو حصوں میں بٹ ہوا ہوت ہے ‘ وجدان اور ذہ نت۔ تخ یقی عمل کے دوران وجدان اور ذہ نت دونوں کو دو مخت ف اورمتض د اب د پر موجود رہن چ ہیے ۔ جس طرح کوئی حس س انس نی وجود ایک زندگی سم جی سطح پر جی رہ ہوت ہے اور ایک ب طنی سطح پر ،ب لکل اسی طرح ل ظ کی ایک حیثیت عب رت کے اندر بنتی ہے اور دوسری م نی تی سطح پر ۔اور یہ ں مراد محض وہ م نی نہیں ہیں جو لغت میں درج ہوتے ہیں ‘ نہ وہ م نی مراد ہیں جو جم ے کی عمومی ترتی بدل دینے سے اس میں آ ج تے ہیں‘جو عصری حسیت اس میں ڈال دیتی ہے ی پھر جو ق ری ک بدلت ش ور اس سے برآمد کرت رہت ہے۔میں تو تخ یقی عمل کے دوران کے امک نی م نوں کی ب ت کر رہ ہوں جو ایک تخ ی ک ر کی دسترس میں ت آتے ہیں ج وہ خیر اور سچ ئی کے جذبے کے س تھ تخ یقی عمل کے پراسرار عالقے میں اندر تک گھس ج ت ہے۔ میں اپنے تخ یقی تجربے اور ادبی ت ریخ کو س منے رکھ بڑے وثو سے کہت ہوں کہ تخ ی عمل کے دورانیے میں فرد ک ذاتی جوہر مقد رہت ہے ب قی س رے خ رجی سہ رے پسپ ہو ج تے ہیں ۔ س :تو پھر یہ نثری نظ کی ہے؟ کی اسے ادبی صنف کہ ج سکت ہے ؟ ج :جی ،یہ اپنی تخ یقیت کے وصف کی وجہ سے خ لص ادبی صنف ہے ۔ ت ہ میں کہت آی ہوں کہ اس صنف کو ش عری کی مروجہ اصن ف سے خ ط م ط کرن من س نہ ہوگ ۔ یہی سب ہے کہ میں اسے الگ ن
14
”نث “ سے پک رنے پر اصرار کرنے والوں ک س تھ دیت آی ہوں ۔ لطف کی ب ت دیکھئے کہ یہ ل ظ جدید ف رسی لغت ک حصہ ہوگی ہے اور انہی م نوں میں قبول کرلی گی ہے جن میں ہ اسے اردو میں است م ل کرنے کے لئے تجویز دے رہے تھے ۔ گذشتہ دنوں ری ض مجید ایران گئے تو وہ لغ ت بھی لیتے آئے اور اس ک ایک ص حہ فوٹو اسٹیٹ کرکے مجھے بھیج جس میں ”نث “ ک ل ظ ایسی صنف کے لیے قبول کرلی گی تھ جس ک خ رج تو نثر کے پیرائے میں ہو مگر اپنے مواد کے اعتب ر سے ش عری ہو۔ خیر یہ تو ن ک جھگڑا ہوا جسے ا طے ہوج ن چ ہئے۔ س :میرا سوال یہ ہے کہ موزونیت سے آزادی کی ش ریت کو مت ثر نہیں کرتی ؟ محمد حمید ش ہد:ہوتی ہے ،مگر سوال یہ ہے کہ کون سی ش ریت؟، وہی ن ،جو فن پ رے کے خ رج میں بن رہی ہوتی ہے ،اپنے خ رجی وسی وں سے ۔ ظ ر اقب ل کی ایک ح ل ہی میں نظ چھپی ہے ”آدمی ن مہ“ اس میں وہ کہت ہے:کچھ گھ س ہوں تو ب قی/س پھوس آدمی ہوں/نکال ہوا خود اپن /کی جوس آدمی ہوں“ ظ ر اقب ل ہم رے عہد کے نم ےاں ترےن ش را میں سے ہے مگر اس کے ہ ں خ رجی ش ریت ک اہتم بھی اس جم لی تی اور م نی تی قرینے سے م م ہ کرت نظر نہیں آت جس پر نث اصرار کی کرتی ہے ۔ سچ پوچھیں تو نث لکھنے والے سے وہ س رے خ رجی سہ رے چھوٹ ج تے ہیں جو ایک ع می نہ اورکمتر سطح کی تحریر میں موزونیت جیسی خ رجی بیس کھی سے ش ریت ک التب س پیدا کر رہے ہوتے ہیں ۔
15
س:ش عری اور افس نے کو قری النے سے کی ش عری کو نقص ن نہیں پہنچ ؟ محمد حمید ش ہد:ش عری تو اپنے آغ ز سے ہی کہ نی کی طرف لپکتی رہی ہے ۔ ش عری کی قدی ت ریخ کھنگ ل کر دیکھ لیں ،جی یون ن کے ن بین ش عر ہومر کی ای یڈ اور اوڈیسی ہی کو دیکھ لیں کہ نی اس میں بھی آپ کو مل ج ئے گی۔ کہ ج ت ہے کہ جو کچھ ہو مر نے ان میں لکھ وہ تو اس سے بھی پہ ے کہ نی اور داست ن کی صورت ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوت آی تھ تو گوی کہ نی توازل سے ش عری کے اندر روح بن کردوڑتی رہی ہے ،روح جو زندگی ک است رہ ہے ۔ س ٹھ اور ستر کی دہ ئی میں کہ نی کے بہ ؤ میں ش عرانہ جم وں کے رخنے رکھ دینے کے چ ن سے اصل نقص ن تو افس نے ک ہوا ہے ۔ ت ہ ا افس نہ اپنے تخ یقی آہنگ میں آچک ہے۔ جہ ں تک نث اور افس نے ک م م ہ ہے تو یوں ہے کہ دونوں اصن ف اپن الگ مزاج رکھتی ہیں کوئی بھی ان ڑی اگر انہے سمجھے بغیر گڈمڈ کرے گ م را ج ئے گ ۔ ت ہ میں سمجھت ہوں کہ ایک سچ تخ ی ک راصن ف کی حد بندیوں کواپنے تخ یقی جواز کے س تھ توڑت رہت ہے اور اسی سے نئی راہیں کھ تی ہیں۔ س :کچھ ترقی پسند افس نے کی روایت کے ب رے میں کہیں ،اور کی اس روایت سے کٹنے کی وجہ سے اردو افس نہ غیر ف ل نہیں ہو گےا؟ محمد حمید ش ہد :پہ ے تو اس حقیقت کو م نن ہوگ کہ ترقی پسندوں کے ایک جتھے کی صورت متحرک ہونے سے پہ ے ہم رے ہ ں
16
افس نے کی مغربی روایت خ صی مستحک ہو چکی تھی اور یہ بھی کہ اردو میں افس نے ک آغ ز وہ ں سے ہوا جہ ں تک مغر میں افس نہ پہنچ چک تھ ۔ پری چند ک م روف افس نہ ”ک ن“ ( 1953 ٩ءمیں منظر ع پر آی تھ ۔ یہی وہ س ل بنت ہے ج دنی بھر کے مخت ف مم لک میں ترقی پسندوں کی تنظی س زی ہوئی۔ سید سج د ظہیر ت ی کی غرض سے لندن میں تھے۔ سرم یہ داری اور اشتراکیت کی کشمکش کے اس عہد میں اس کے رابطے اشتراکیوں کے س تھ تھے ۔ اسی س ل اس نے پیرس میں من قد ہونے والی” ورلڈ ک نگریس آف رائٹرز ف ر ڈی نس آف ک چر“ میں شرکت کی اور اگ ے برس کیمونسٹ پ رٹی آف انگ ینڈ ک رکن ہو کرہندوست ن آی تو انجمن ترقی پسند مصن ین وجود میں آگئی۔ ٩ءہی وہ س ل بنت ہے جس میں اردو کے پہ ے افس نہ نگ ر عالمہ راشد الخیری اور اردو کے پہ ے اہ افس نہ نگ ر منشی پری چند دونوں نے وف ت پ ئی۔ مگر یہیں مجھے اس سے چند برس پہ ے کے ایک اہ واق ے ک ذکر کرن ہے جس کے اردو افس نے پر اثرات کو نظر انداز نہیں کی ج سکت ۔ سج د ظہیر جو لندن میں تھ ‘ ٩ 1923ءمیں ت طیالت کے دوران ہندوست ن آی اور احمدع ی‘ محمودالظ راور رشید جہ ں کی مش ورت اور شراکت سے چند تحریروں ک انتخ ”انگ رے“ کے ن سے ش ئع کردی ۔ ”انگ رے“ سچ مچ ک دہکت ہواانگ رہ ث بت ہوا کہ جہ ں پڑا وہ ں سے س کت ادبی م حول کے بھوسے سے ش ے اٹھنے لگے ۔ س رے جہ ن میں ایک ہ چل سی مچ گئی تھی۔ ڈیڑھ سو سے بھی ک ص ح ت پر مشتمل اس اہ کت کی تحریروں میں سج د ظہیر کے پ نچ ،احمد ع ی کے دو اور رشید جہ ں اور محمودالظ ر ک ایک ایک افس نہ ش مل تھ ۔گوی بغیر دیب چے کے اس انتخ میں کل نو افس نے ش مل تھے ۔
17
ان افس نوں کی اس انتخ کی صورت میں اش عت سے کہیں زی دہ اہ ردعمل اور ہنگ مہ وہ بنت ہے جو ب د میں اٹھ ی گی ۔ ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ ب د میں صرف احمد ع ی ہی افس نہ نگ ر کی حیثیت سے شن خت بن نے واال تھ ج کہ انتخ میں ش مل اس ک افس نہ ” مہ وٹوں کی رات“ پہ ے ہی ”ہم یوں “ میں ش ئع ہو چک تھ اور اس ک دوسرا افس نہ ”ب دل نہیں آئے“ عج ت میں لکھی ہوئی ایک تحریر لگتی تھی۔ خیر”انگ رے “ کو فحش ‘دل آزار‘اخال سوز اور ش ئر اسال کے خالف س زش قرار دی گی ۔ ”±انگ رے“ کی تحریروں میں ان الزام ت کو سچ ث بت کرنے لیے خ ص مواد موجود بھی تھ ۔ تو یوں ہے کہ وہ ک جو یہ افس نے ہر گز نہ کر سکتے تھے ہو گی تھ کہ افس نے نہیں تھے‘ شدید Topnoutchبقول جوگندر پ ل یہ کوئی مخ ل ت کے طوف ن اور ”انگ رے“ کی ضبطی نے وہ ک کر دکھ ی تھ ۔ انجمن ترقی پسند مصن ین کی پہ ی ک ن رنس کے اعالن ن مے پر جن افس نہ نگ روں نے دستخط کیے تھے ان میں پری چند‘ موالن نی ز فتح پوری‘ ق ضی عبدالغ ر‘ اور ع ی عب س حسینی کے ن بھی آتے ہیں ۔ نی ز فتح پوری ک م م ہ یہ رہ ہے کہ اردو افس نے کو وہ کوئی نی رجح ن نہ دے سک ت ہ اس کے افس نوں میں مذہبی رہنم ؤں اور پیشواؤں کے کھوکھ ے پن پر شدید چوٹیں لگ ئی گئیں۔ مجموعی طور پر نی ز ک رویہ روم نوی بنت ہے ۔ ق ضی عبدالغ ر ک رویہ بھی لگ بھگ نی ز اور مجنوں گورکھپوری ہی ک س رہ ہے ۔ وہ بہت سے مق م ت پر عورت کی ن سی ت کھنگ لت اور پھراسی میں الجھت ہوا نظرا ٓت ہے ۔ روم نویت ک وہ تصور جو ی در کے افس نوں سے پھوٹ تھ اور حقیقت پسندی ک وہ ہیوال جو پری چند نے بن ی تھ ‘ اردو افس نے میں رواج پ چک تھ لہذا ع ی عب س حسینی بھی اسی کی
18
پیروی کر رہے تھے۔ ب ت ےہ ہے کہ عین آغ ز میں ہی اچھ افس نہ لکھنے والوں ک ایک گروہ ترقی پسندوں کے س تھ ہو لی ۔ ان س افس نہ نگ روں کے تخ یقی رجح ن ت قط ًایک رخ پر نہیں تھے۔ کرشن چندر کے افس نوں کو پڑھ ج ئیے‘ اس کے ہ ں ان رادی کردار ‘ اجتم عی م مالت سے کہیں زی دہ توجہ پ تے ہیں۔ میرے اس دعوی کی فوری مث لیں ”متی “اور ” ک لوبھنگی“ ہیں۔اوپندر ن تھ اشک کی ترقی پسندی اور حقیقت نگ ری بج مگر اس کی روم ن پسندی اور ن سی تی ٹریٹمنٹ بھی کہیں م ت نہیں کھ تی۔ دیوندر ستی رتھی کی پہچ ن بالشبہ اس کی ترقی پسندی تھی مگر جنسی اور ن سی تی الجھنوں پر لکھن اور نس ئی کرداروں کے پیکر تراشن اسے مرغو تھ ۔م نن ہوگ کہ خ رج میں اٹھنے والے ایسے فکری ابھ روں اور ادبی تحریکوں کے زیر اثر ایک رجح ن بن ج ت ہے جو تخ ی کے دھیمے مزاج ک آہنگ بگ ڑ دےت ہے ۔ تخ یقی عمل ایسی کیمسٹری ہے جو لکھتے ہوئے تخ ی ک ر کوفن پ رے کے فنی لواز سے جوڑ دیتی ہے ۔ مثالراجندر سنگھ بیدی اور س دت حسن منٹو کے ن ذہن میں رکھیں جنہوں نے اردو افس نے کے ن تواں جسد میں نئی روح پھونک دی تھی تو کی اسے خ رج میں چ نے والی تحریکوں ک ش خس نہ کہ ج سکت ہے ؟ نہیں ب لکل نہیں ،بیدی کو ف رموال کہ نی لکھنے والوں پر طیش آت تھ ۔ اس نے ج ہر طرف ایک جیسی ف رموال کہ نیوں ک ڈھیر دیکھ تو کہ تھ ” کہ نی تو لکھی ہی نہیں ج رہی ہے ۔ وہی گھسی پٹی ب تیں ‘ وہی سی سی خی الت‘ کچھ امیر غری کے جھگڑے ۔ بس یہی کچھ لے دے کر کہ نی مکمل ہو ج تی ہے ۔ بہت ہوا تو کہ نی ک پس منظر بدل دی ۔ “ ہم رے ن قدین کہتے نہیں ہچکچ تے کہ ترقی پسند تحریک کی س سے بڑی عط یہ ہے کہ اس نے اردو اد کو بیدی
19
جیس بڑا افس نہ نگ ر دی ۔ بیدی بھی اس تحریک کو بہت م نت تھ ت ہ نریش کم ر ش د کو انٹرویو دیتے ہوئے اس نے کہ تھ ” :میرے نزدیک ترقی پسندی ک وہ م ہو نہیں جو میرے چنددوستوں ک ہے ۔ میں کسی کو اس ب ت کی اج زت نہیں دے سکت کہ وہ میرے لیے ق نون وضع کرے ی کسی طرح سے میری حد بندی کرے۔ “ بیدی نے حد بندی ں توڑیں اور سرخرو ہوا ۔ منٹو ک قصہ یہ ہے کہ اسے تو خود ترقی پسندوں نے رج ت پرست قرار دی تھ ۔ منٹو شروع میں انقالبی حقیقت نگ ری کی طرف ضرور متوجہ رہ مگر بہت ج د وہ زندگی کے سنگین حق ئ کے مق بل ہو گی تھ ۔ منٹو نے ” چغد“ کے دیپ چے مین کھ تھ کہ ”ب بو گوپی ن تھ“ ج ”اد لطیف“ میں ش ئع ہوا تو تم ترقی پسند مصن ین نے اس کی ت ریف کرتے نہ تھکتے تھے ۔ ع ی سردار ج ری ‘ عصمت چغت ئی اور کرشن چندر نے خصوص ً اس کو بہت سراہ ۔ مگرب د میں س اس افس نے کی عظمت سے منحرف ہو گئے پہ ے دبی زب ن میں اس پر تنقید شروع ہوئی ‘ سرگوشیوں میں اس کوبرا بھال کہ گی اور ب د میں بھ رت اور پ کست ن کے تم ترقی پسند ممٹیوں پر چڑھ کر اس افس نے کو رج ت پسند‘ اخال سے گرا ہوا ‘ گھن ؤن اور شر انگیز قرار دےنے لگے ۔ پھر وہ وقت بھی آی ج ترقی پسندوں نے منٹو ک ب ئیک ٹ کر دی ۔ تو یہ ہے منٹو کی ترقی پسندی ک قصہ۔ مگر یوں ہے کہ منٹو صف اول ک افس نہ نگ ر تس ی کی ج چک اور ج تک اردو افس نے ک قصہ چ ے گ کوئی منٹو کو اس منص سے الگ نہ کر پ ئے گ ۔تو یوں ہے کہ وہ مض مین جو ترقی پسندوں کو مرغو تھے ،شروع ہی سے اد ک موضوع رہے ہیں ،خرابی انہیں ن رہ بن نے سے ہوئی ۔ جسے ا آپ غیر ف ل ہون
20
کہہ رہی ہیں فی االصل اس کے اندرسے اس ن رہ ب زی کی منہ ئی ہے جس نے اد کو خبر بن نے کی بج ئے تخ یقیت سے جوڑ دی ہے۔ س :س ٹھ اور ستر کی دہ ئی میں عالمت اور تجرید ک چرچہ رہ اور ا افس نے میں کہ نی کی واپسی کی ب ت ہو رہی ہے اس ب میں آپ کی کہیں گے؟ محمد حمید ش ہد:لطف کی ب ت یہ ہے کہ افس نے میں کہ نی کی واپسی کی خوش خبری بھی وہی سن رہے ہیں جو کل تک افس نے میں کسی مربوط کہ نی کی موجودگی کو روایت زدگی ک ش خس نہ قرار دے رہے تھے ۔ جن عالمت نگ روں کی طرف آپ نے اش رہ کی ہے ان میں سے بیشتر بس ایک ہی طرح کی تحریروں کو انش ئی اس و میں لکھ کر ی ش عرانہ جم وں ک قرےنہ اپن کر افس نے ک التب س پیدا کرتے رہے ۔ اپنے موضوع کے اعتب ر سے یہ ترقی پسندوں کے اثرات سے بچ نہیں پ ئے ہیں ت ہ انہوں نے اس اس و کو رد کر دی تھ جو ترقی پسندوں کو مرغو تھ ب کہ فی االصل جو افس نے کی مستحک روایت بھی تھ ۔ میں اسے غ ط فہمی ہی کہوں گ کہ تخ یقی عمل میں خ رجی جبر فن پ رے کی متنی سطح کو بھی کھردراا ور غیر مربوط کردینے ک جواز بن ج ت ہے ۔ صورت واق ہ یہ ہے کہ تخ یقی عمل میں متن کی سطح بھی اپنے ب طن کی طرح اپنی کل کے س تھ ایک متن س آہنگ سے جڑی ہوتی ہے۔ اسی تن س ک مرک فن پ رے کے حسن ک مظہر بنت ہے ۔ یہ بھی غ ط فہمی ہے کہ کردار ی واق ہ اپنی مکمل صورت کے س تھ عالمت اور تمثیل کی سطح کو نہیں پہنچ سکت اور یہ بھی انتہ ئی گمراہ کن ب ت ہے کہ کردار اور کہ نی سے تخ یقی سطح پروف کے رشتے میں جڑی ہوئی زب ن لس نی سطح پر عالمتی م ہی ادا
21
کرنے سے ق صر ہو ج تی ہے۔ ا اگر ہ ان غ ط فہمیوں کو رفع کر لیتے ہیں تو ہم رے لیے بی نیہ توڑ توڑ کر عالمت کی پھ نس لگ نے کے جتن کرن تخ یقی عمل کے رخنوں کے مترادف ہو ج ئے گ اور ہ تخ ی پ رے کو ک ی صورت میں دیکھنے لگےں گے۔ ستر کی کے ب د س منے آنے والے افس نہ نگ روں کو کوئی ایسی درفنتنی نہیں سوجھتی جو افس نے کو م مہ بن ڈالتی ہے۔ ب کہ صورت واق ہ یہ ہے کہ ا کہ نی تخ یقیت کے داخ ی تجربے سے جڑ گئی ہے ۔ ا روم ن ہو ی حقیقت‘ احتج ج ہو ی انجذا اور امتزاج س ایک تخ یقی تجربے کی اک ئی میں ڈھل کر فن پ رہ بنتے ہیں ‘ یوں کہ الگ الگ ان کے کوئی م نی نہیں ہوتے مگر اپنی کل میں ان ک اظہ ر خ رجی سطح پر مربوط اور مرصوص کہ نی کی صورت ظ ہر ہوت ہے جو اپنی عصریت کے س تھ وابستہ اور پیوستہ ہوتی ہے اورب طنی سطح پر پوری کہ نی ایک کل کی صورت میں ایک بڑی اور حقیقت کی عالمت بن ج تی ہے ۔ س :آپ کی تخ یق ت ک بنی دی محور آپ کی نظر میں کی ہے ؟ ج :ص ح ہمیں یہ ب ور کرای ج رہ ہے کہ مدت ہوئی خدا‘انس ن اور ک ئن ت کی مث ث تو ک کی ٹوٹ چکی ۔اور اصرار کی ج ت ہے کہ وہ جو ژاں پ ل س رتر نے تصور خدا کے ب میں جوہر کو وجود پر مقد بت ی تھ ا اسے م ن لی گی ہے ۔ اور یہ کہ وہ س جھوٹے تھے جوانس ن کو ک ئن ت کے مرکز میں رکھتے تو اور انس ن کے سینے میں اس عز کوبس ن چ ہتے تھے کہ وہ ک ئن ت کو تسخیر کرے ۔ تخ ی ا تک اپنے آپ کو بڑی توپ سمجھت رہ لس نی تھیوریوں نے اس کے پڑخچے اڑا کر رکھ دیے ہیں ۔ ا ص ف ص ف کہ ج رہ ہے کہ تخ یقی عمل کچھ بھی نہیں ہے لکھنے واال محض محرر ہوت ہے
22
عب رتوں کی تشکیل نو کرنے واال اور تحریر کے مکمل ہوتے ہی موت سے ہ کن ر ہو ج نے واال۔ ک ئن ت کے بھی وہ م نی نہیں رہے جو تخ یقی عمل کو مہمیز لگ تے تھے ی لگ سکتے تھے ا یہ محض م دی حقیقت ہے گوی ایس جس جس میں روح ہیں ہے ۔ نظری مب حث کی اس دھول میں کہ جہ ں خدا نہیں ہے‘ مصنف مر گی ہے‘ تخ ی پ رہ پہ ے سے موجود متن ک عکس نو ہو گی ہے‘ م نی بے دخل ہو چکے ہیں اور انس ن اپنے منص سے م زول ہو چک ہے میرے جیسے تخ ی ک رک ‘ جو کہ ان بنی دی اقدار سے س تھ اپنے وجود کے پورے اخالص کے س تھ جڑا ہوا ہے ‘ اورکی مقصد ہو سکت ہے کہ تخ یقی عمل کو زندہ رکھ ج ئے ۔ میرے ہ ں خدا موجود ہے اور اس کی خدائی بھی ۔ اور اس کی خدائی کے مرکز میں انس ن موجود ہے اپنے پورے وق ر کے س تھ۔ میری نظر میں ہر نئی مگر خ لص ادبی تخ ی پہ ے سے موجود ادبی متون ک چربہ نہیں ہوتی ب کہ اس کے لیے توسی ی عالقہ فراہ کرتی ہے۔ اس تن ظر میں دیکھ ج ئے تو ش وری عمل سے بچ کر اور ایک بے خودی کے آہنگ میں رہ کر نئے م نی کی تالش کو جم لی تی ہمہ گیری کے وصف کے س تھ ممکن بن نے کو ہی میں اپنی تخ یق ت ک محور کہہ سکت ہوں ۔ س:مزاحمتی اد کے ب رے میں آپ ک نقطہ نظر؟ محمد حمید ش ہد :میرا خی ل ہے ‘ یہ م ننے میں کوئی مض ئقہ نہیں کہ اد اپنی نہ د میں ہوت ہی مزاحمتی ہے۔ وہ م ہمتی تو ب لکل نہیں ہوت اور اسٹیس کو بھی اس کے لیے مردود عالقہ ہے ۔ ہم رے ہ ں کے اد میں بھی یہ وصف مستقالً موجود رہ ہے ۔ ت ہ ج ج اس رویے کو ن رے لگ لگ کر بڑھ وا دینے کی کوشش کی گئی اد پ رے ک اور
23
مزاحمت پ رے زی دہ س منے آئے ۔ مزاحمت پ رے وجود میں النے ک عمل خ رجی محرک ت سے جڑا ہوت ہے جس کے دب ؤ میں تخ یقی عمل اپنے بھید بھرے عالقے میں پوری طرح متحرک نہیں ہوسکت ۔ جس صورت ح ل کے خالف مزاحمت مقصود ہے اس کے خالف ن رت کو اپنے تخ یقی وجود ک حصہ بن لینے والے سچے تخ ی ک ر کو اس اعالن کی ضرورت ہی نہیں رہتی کہ ا وہ مزاحمتی اد لکھنے ج رہ ہے ۔ اس وقت س سے زےادہ ن رت ان داخ ی اور بین االقوامی است م ری قوتوں ک مقدر ہو گئی ہے جنہوں نے اپنے م دات اور پیداواری وس ئل کر قبضے کے لیے دنی کو جہن زار بن کر رکھ دےا ہے اےسے ادے جو اس ن رت کو فن پ رے میں ڈھ ل لینے کی توفی نہ رکھتے ہوں اور چھوٹی چھوٹی اچٹتی ہوئی مزاحمت کو ہی اپن وظی ہ بن ئے ہوئے ہوں ،انہیں مزاحمتی ادے تو کی سچ ادی بھی نہیں سمجھن چ ہے ۔ سچ ادے کبھی ظ ل ،غ ص ،مک ر اور ج بر ک س تھی نہیں ہوسکت ہے ،ایسی من ی قوتوں کے مق بل بہر ح ل آن ہی ہوت ہے۔ س :کہ ج ت ہے کہ مذہبی رجح ن ت تخ یقی صالحیتوں کو مت ثر کرتے ہیں ،اس ب میں آپ کی کہیں گے؟ محمد حمید ش ہد :فکری ت ک اد پر اثر انہونی ب ت نہیں ہے ،اسی طر ح اعتق دات کو موضوع بن ن بھی اد کے لیے ممنوعہ عالقہ نہیں ۔ ج جنس کو مرغو رکھنے والے اد لکھ سکتے ہیں اور جتنی دلدل بن ن چ ہیں بن سکتے ہیں۔ ج اشتراکیت کو محبو رکھنے والے بھی تخ یقی عالقے سے ب ہر نہیں نک لے گئے۔ روم ن پرست ہوں ےا ترقی پسند س اد کی آنکھ ک ت را رہے تو آخر مذہبی رجح ن رکھنے
24
والوں پر اس ب میں قد غن کیوں کر لگ ئی ج سکتی ہے ۔ ت ہ ج نن چ ہیے کہ بڑھی ہوئی لذت پرستی ہو ،ےا اپنے نظرےاتی جتھے کے افک ر اور طے شدہ طریقہ ک ر کے مط ب لکھنے ک چ ن ،ن رے ب زی ہو ےا وعظ اور نصےحت ،یہ س اد کو اد نہیں رہنے دےتے ۔ جسے ادبی مزاج ودےعت ہوت ہے وہ مذہبی رجح ن رکھتے ہوئے بھی اقب ل بن ج ت ہے ،م شرے کی ٹھکرائی ہوئے اور جنس میں لتھڑی ہوئی عورت کے کردار کو محبو رکھنے واال منٹو بن ج ت ہے ،اپنے انقالبی نظرےات کے لیے روم نی رویے تو ترک کیے بغیر گنج ئشیں نک ل لیت ہے اور فےض بن ج ت ہے ۔ س :ہم رے ہ ں تنقید میں تخ ی کو نظر انداز کر دی ج ت ہے ،کیوں ؟ محمد حمید ش ہد :جہ ں تخ ی فن کے لیے زےست ک ش ور چ ہئیے ہوت ہے ،زب ن اور فنون سے آگہی اور تہذےبی ش ور درک ر ہوت ہے ، تخ یقی عمل سے جرن اور مس سل اس سے وابستہ رہنے کے جتن کر نے ہوتے ہیں ،وہیں اد کے ن قدین پر بھی الز ہے کہ وہ اس وسیع اور عمی تجربے کو سمجھنے کے قرےنے م حوظ خ طر رکھیں ۔ اےسی تنقید جو فقط ال ظ ک گورکھ دھندہ بن کر رہ ج ئے ےا محض تھیوریوں کی ف س ی نہ توجیہہ پر تم ہوج ئے اور کچھ ہو تو ہو ادبی تنقید نہیں ہو سکتی ۔ وہ س رے لس نی اور ف س ی نہ مب حث جو اد پ روں کی تخ ی ،توجیہہ ،ت بےر اور ت ہی سے کو ئی عالقہ نہیں رکھتے تنقید کے ن پر ب نجھ مشقت کے سوا اور کچھ نہیں ہیں ۔ ت ہ یہ امر خوش آئند ہے کہ کچھ عرصے سے تبدےلی آرہی ہے ا اد کے اس لی ،جم لی ت اور فنی اقدار پر گ تگو ک آغ ز ہو چک ہے۔ اور
25
اس س مراجی س زش کو بھی سمجھ ج نے لگ ہے جس کے تحت فکری اور تخ یقی رویے غےر م مولی دب ؤ ک شک ر ہو گئے تھے ۔ س :کی اد کے اثرات محدود پیم نے پر مرت ہوتے ہیں؟ محمد حمید ش ہد :کہنے کو اد کے اثرات محدود ہوتے ہوئے لیکن یہ گہری تبدی ی پیدا کرتے ہیں اور بس اوق ت یہ تبدی ی المحدود وقت میں ایک تس سل سے ج ری رہتی ہے۔ ےوں اپنی اثر انگیزی کے اعتب ر سے اد بق کے راستے پر چل رہ ہوت ہے ۔ س :اد کے فرو و ترویج کے لیے کی کرن چ ہیئے؟ محمد حمید ش ہد :اگر آپ یہ کہیں کہ عصر رواں ک س سے بڑا المیہ کی ہے تو میں اس ب میں کہوں گ ادبی اور ع می اقدار کی م دے کے ہ تھوں پسپ ئی ۔ م دے کی طمع میں بوالئے پھرنے ک رجح ن جس گذشتہ کچھ زم نے میں ع ہوا ہے اس نے م وم ت کی تجمیع کو ع سے غ ط طور پر گڈمڈ کر دی ہے۔ کتنے دکھ کی ب ت ہے کہ ہم رے ت یمی اداروں سے سم جی ع و کے ش بے ی تو خت ہو رہے ہیں ےا پھر انہیں بے دلی سے چالی ج رہ ہے ۔ اد اور سم جی ع و کو قومی ترجیح ت میں ج تک بہتر مق نہیں دی ج ت یہ صورت بدلنے والی نہیں ہے ۔ ت یمی اداروں سے لے کر ع اور اد سے وابستہ اداروں تک ہر کہیں بہتری ک بے پن ہ ک کرنے واال ہے ۔ اد کی ترویج کے ذری ے قومی مزاج کو اعتدال پر الی ج سکت ہے ۔ اور اگر خ وص نیت سے سوچ ج ئے تو اس ڈھ پر کو ئی بھی قد قومی خدمت سے ک نہ ہوگ ۔ انی ہ محمود
26
http://adbistan.blogspot.com/2010/08/blog-post_12.html
کرن ٹک میں جدید نظ کی صورت ح ل ڈاکٹر بی محمد داؤد محسن غزل آج تک اردو زب ن کی س سے مقبول صنف سمجھی ج تی ہے۔مگر ہمینیہ نہیں بھولن چ ہئیے کہ غزل کی تنگ دامنی ک شکوہ بھی شروع ہی سے ہو رہ تھ ۔چن نچہ غزل سے الگ کسی زی دہ وسیع اور آزاد صنف کی کھوج اور اختراع کے ب رے میں اردو ش را بہت پہ ے سے سوچنے لگے تھے۔اسم یل میرٹھی اور اس قبیل کے چند ایک ش را نے تجربے بھی کئے۔مگر یہ تجربہ صرف تجربہ کی حد تک محدود رہ کیونکہ غزل ک تربیت ی فتہ ذہن آزاد نظ اور نثری نظ کو
27
قبول کرنے سے ق صر تھ ۔ج کہ پ بند نظ اور م ری نظ کے وہی مس ئل تھے جو غزل کے تھے۔ مگر وق ہ وق ہ سے آزاد نظمیں بھی س منے آرہی تھیں اور کسی حد تک توجہ بھی ح صل کر رہی تھیں۔آزاد نظ اور نثری نظ کو اس وقت بہت مقبولیت اور اعتب ر ح صل ہوا۔ج میراجی اور ن۔ راشد نے اپنی ان رادیت ک لوہ منوای ۔یہی وہ زم نہ تھ ج جدیدیت کے زیر اثرکرن ٹک میں بھی نئی نظ پر توجہ دی گئی اور کرن ٹک کے کئی ش را نے نظ نگ ری کے میدان میں اپنی ان رادیت ک احس س دالی ۔اس س س ہ میں س یم ن خطی ،محمود ای ز ،حمید الم س ،حمید سہروردی ،خ یل م مون ،س جد حمید اور اکرا ک وش وغیرہ ک ن لی ج سکت ہے۔یہ وہ ش را ہیں جو صرف کرن ٹک کی حد تک ہی نہیں ب کہ پوری اردو دنی میں اپنی تخ یقی توان ئی اور نظ نگ ری کی جدت اور ندرت کے حوالے سے ی د کئے ج تے ہیں۔ س یم ن خطی کو نظ نگ ری کی بدولت جو مق اور مرتبہ اردو میں ح صل ہے وہ بہت ک ش را کو نصی ہوا دراصل ان کی یہ شہرت دکنی ش عری کے م نوس لہجہ کی بدولت ہے۔یہ کہ ج ئے تو غ ط نہ ہوگ کہ کرن ٹک میں اردو نظ کی ت ریخ س یم ن خطی کے بغیر ن مکمل ہے۔ جن کی ش عری ک اف دی پہ و نہ صرف طنز و مزاح ہے ب کہ اس میں م شرے کی خ می ں ،بے اعتدالی ں اور ن ہمواری ں پ ئی ج تی ہیں۔مزاحیہ نظمیں سنجیدہ موڑ لیتی ہیں تو ان ک طنز زہر ن کی کی حدوں میں داخل ہو ج ت ہے۔
28
محمود ای ز کو کئی اعتب ر سے اردو اد میں اہمیت ح صل ہے۔وہ ایک اع ی پ یہ کے مدیر اور ایک اچھے مبصر ہونے کے س تھ س تھ ایک عمدہ ش عر بھی تھے۔انہیں نظموں اورغزلوں دونوں سے دلچسپی تھی ۔مگر وہ نظ میں زی دہ ک می نظر آتے ہیں اور اختر االیم ن سے ق بی محبت رکھنے سے اختر االیم ن کے رنگ میں اچھی نظمیں کہنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ایس بھی نہیں ہے کہ ان ک رنگ نہیں چھ کت ہے۔ محمود ای ز کی بیشتر نظمیں روم نی مزاج کی ح مل ہوتی ہیں ۔جو کبھی کبھی ان کے تجربہ کی سچ ئی اور مش ہدہ کی گہرائی کی وجہ سے حقیقت کی عک س بن ج تی ہیں ۔انہوں نے اپنی ایک نظ ’نی س ر‘میں داخ ی اور خ رجی دونوں کی ی ت کو ب ہ آمیز کرکے نی ذائقہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جوق ری کی نظری اور فکری دونوں سطح کو مت ثر کرت ہے۔ خ وص و مہر و عداوت کی س ری زنجیریں /پ ک جھپکنے کی مہ ت میں جل کے راکھ ہوئیں /نہ کٹنے والے کٹھن دن خی ل و خو ہوئے/نہ آنے والے جو دن تھے وہ آ کے بیت گئے نظ کے اس ٹکڑے میں گذرے ہوئے ای کی کسک اور کسی چیز کے گ ہوج نے کی کسک کو محسوس کی ج سکت ہے۔وہ آگے مزید کہتے ہیں کہ وہ ایک ی د کے مہر و وف کی ض من ہے/مجھے کش کش ہستی سے کھینچ الئی ہے/ہر ایک قر کی راحت ہر ایک س عت دید /خی ل و خوا کی وادی سے لوٹ آئی ہے
29
اختر االیم ن کی طرح ان کی ش عری میں بھی حسرت و ی س ک رنگ گھال ہوا ہے اور حرم ں نصیبی کی یہی کی یت ش عری میں ت ثیر پیداکرتی ہے جس میں ایک طرح ک طنز بھی ہوت ہے۔ان کی نظمیں ’’انتظ ر ،ب ز گشت ،اے جوئے آ ،نوحہ اور ہسپت ل ک کمرہ وغیرہ پر ت ثیر نظمیں ہیں۔ نظ انتظ ر ک ایک ٹکڑا مالحظہ ہو۔ یہ دل جو زندگئ نو کے خوا دیکھت ہے/یہ غ جو روح کی تنہ ئیوں میں ج گت ہے /تری نگ ہ سے چھٹ کر سکون ج ں نہ مال/ن س ن س میں امیدوں نے زہر گھوال ہے خ موشی رینگتی ہے راہوں پر /ایک افسوں خوا لئے /رات رک رک ) کے س نس لیتی ہے/اپنی ظ مت ک بوجھ اٹھ ئے ہوئے ( ب ز گشت تم ش کی دکھن بے ک ی سبک خوابی/نمود صبح کو درم ں سمجھ کے ک ٹی ہے/رگوں میں دوڑتے پھرتے لہو کی ہر آہٹ/اجل گرفتہ خی لوں کو آس دیتی ہے/مگر وہ آنکھ جو س کچھ دیکھتی ہے/ہنستی ) ہے (ہسپت ل ک کمرہ آپ نے محسوس کی ہوگ کہ نظموں کے ان تم ٹکڑوں میں حزن اور مالل کی ایک کی یت ہے جو نظ کی فض پر چھ ئی ہوئی ہے۔یہی حزنیہ لہجہ محمود ای ز کی ش عری کی اس س اور ان کی شن خت ہے۔ جہ ں تک نثری نظموں ک م م ہ ہے تو اس س س ہ میں حمید الم س اور حمید سہروردی کو خ ص امتی ز ح صل ہے۔حمید الم س س ری اردو دنی میں شہرت ی فتہ ش عر ہیں۔ ان کے یہ ں روم ن بھی ہے اور زندگی کی ت خی ں بھی موجود ہیں۔ان ک لہجہ اور اس و ان ک اپن ہے ۔جسے ان رادیت ح صل ہے۔حمید الم س نظ کے ش عر ہیں۔ع طور پروہ اپنی
30
مختصر نظموں میں اپن احتج ج درج کرانے کی کوشش کرتے ہیں اور بہت حد تک ک می بھی رہتے ہیں۔ان کی ایک بالعنوان مختصر نظ دیکھئے۔ میں نے کل تک /پتھروں سے جو تراشے تھے صن /آج وہ محو دع ہیں کہ /انہیں س نس کی دولت م ے اس نظ میں بغیر کسی تمہید کے جبر و قدر کے خالف ایک طرح ک احتج ج ہے جو بہت واضح ہے۔دراصل یہی احتج ج ،توان ئی اور فنک رانہ ہنر مندی حمید الم س کی پہچ ن ہے۔ایک دو ٹکڑے اور مالحظہ کیجئے۔ ریگ س حل پر/گر سنہ بچے/کھینچتے ہیں پھ وں کی تصویریں/ی /شہریوں سے پوچھتے ہیں /گ ؤں گ ؤں کے کس ن /کن کے کپڑوں میں جڑی ہے /ان کے کھیتوں کی کپ س ظ ہر ہے کہ ان تم نظموں میں استحص ل غریبی اور ظ کے خالف ایک طرح ک احتج ج پ ی ج ت ہے مگر اس طرح کہ فن مجروح نہیں ہوت ہے۔ اس سبیل میں ایک اور اہ ن حمید سہروردی ک ہے ۔جن کے یہ ں جدیدیت ک نہ صرف ایک وق ر پ ی ج ت ہے ب کہ اس میں اض فہ ک متق ضی بھی ہے۔ حمید سہر وردی کی نظمیں ع طور پر عالمتی ہوتی ہیں ۔ح النکہ ان کے افس نے مبہ اور پیچیدہ ہوتے ہیں کیونکہ وہ کوئی بھی ب ت سیدھے س دے انداز میں نہیں کہتے ہیں۔مگر ان کی نظموں میں یہ ابہ تھوڑا ک ہی دکھ ئی دیت ہے۔ اس کے ب وجود زندگی کے الجھے ہوئے مس ئل سے مت ق ری کو سوچنے پر
31
ضرور مجبور کر دیتے ہیں۔ان کی ایک نظ ہے۔کیوں ہ ایس سوچتے ہیں،اس نظ کے چند مصرعے مالحظہ فرم ئیے۔ الل سنگھ سن پر بیٹھے /سرخ سے طوطہ کی آنکھوں میں/ک ال دھبہ بن کے عالمت ہنست ہے ا یہ ق ری کی صوابدید پر ہے کہ وہ الل سنگھ سن سے کی مراد لیت ہے ا سرخ طوطہ کی تمثیل کو کس طرح سمجھت ہے اور یہ کہ ک لے دھبہ کو دور کرنے کے لئے کی کچھ کرت ی کر سکت ہے۔کسی بھی ش عر کی یہ بڑی ک می بی سمجھی ج تی ہے کہ وہ کچھ نہ کہتے ہوئے بھی بہت کچھ کہہ دے اور ق ری کو سوچنے پر مجبور کردے۔اسی طرح کی ایک نظ ’’ اک ئی ‘‘ بھی بہت ہی مشہور ہے۔جس میں ص ر ہی ص ر ہیں ۔یہ ں وہ اپن منش و مدع ق ری پر چھوڑ دیتے ہیں۔ خ یل م مون بھی گہری م نویت کی ح مل نظمیں کہتے ہیں۔مگر ان کی نظموں میں محض عالمت و است رہ کی مدد سے نہیں ب کہ زندگی کے گہرے ف س ہ کی وجہ سے ج ذبیت اور گہرائی پیدا ہوتی ہے۔جوایک خ ص طرح کی بصیرت عط کرتی ہے۔میری ب ت کی تصدی کے لئے ان کی نظمیں بن ب س ک جھوٹ،آف کی طرف ،سر برہنہ شہر ک پچھت وا،س نحہ ،اندر اور ب ہر ک منظر اور ید بیض وغیرہ دیکھی ج سکتی ہیں۔فی الوقت جالوطن شہزاد گ ن ک ایک ٹکڑا دیکھئے۔ قبر کی مٹی چرا کر بھ گنے والوں میں ہ افضل نہیں/ہ کوئی ق تل نہیں /بسمل نہیں /منجمد خونی چٹ نوں پر دو زانو بیٹھ کر/گھومتی سوئی کے رستے کی ص یبوں سے ٹپکتے /قطرہ قطرہ سرخ رو سی ل کو انگ یوں پر گن رہے ہیں/چن رہے ہیں۔
32
ظ ہر ہے کہ نظ میں جہ ں بی نیہ ک تنوع ہے وہیں زندگی اور ت ریخ اور انس نی ع و و افک ر کی گہری بصیرت ک احس س بھی پ ی ج ت ہے۔اس طرح ہ انہیں زندگی ک رمز شن س ش عر بھی کہہ سکتے ہیں۔ س جد حمید آج کے ف ل،ت زہ ک ر اور متحرک ش عر ہیں۔وہ ع طور پر بڑے غور و فکر کے ب د ہی ش ر کہتے اور نظمیں لکھتے ہیں ۔ان کی نظمیں بنت اور بی نیہ کے اعتب ر سے الجھی ہوئی اور پیچیدہ نہیں ہوتی ہیں اس کے ب وجود گہری بصیرت کی ح مل اور م نویت سے بھرپور ہوتی ہیں۔وہ نظ اور غزل دونوں پر یکس ں قدرت رکھتے ہیں ان کے ب رے میں فیص ہ کرن مشکل ہے کہ وہ نظ کے اچھے ش عر ہیں ی غزل کے۔سچ تو یہ ہے کہ دونوں ہی اصن ف میں انہیں ان رادیت اور امتی ز ح صل ہے۔وہ بظ ہر چھوٹی اور ص ف ستھری نظمیں کہتے ہیں۔مگر اپنے خی ل کی ندرت سے ق ری کو چونک دیتے ہیں۔اس ب ت کی تصدی کے لئے ان کی نظمیں مک ن ت ،بھید ،سمجھوتہ،تری ،کینواس اور زندگ نی وغیرہ دیکھی ج سکتی ہیں وہ رج ئیت پسند ش عر ہیں۔اس لئے ان کے یہ ں زندگی ک شدید احس س پ ی ج ت ہے۔ان کی نظ ’’ہر ن س برسر پیک ر ہے‘‘ ک ایک ٹکڑا دیکھئے۔ ہر ن س بر سر پیک ر ہمہ وقت ہے/ششت جہتوں سے /زندگی/موت سے بہتر نہ سہی /موت سے بدتر بھی نہیں اکرا ک وش کی نظمیں ش عری میں توان ئی کے احس س سے مم و جرات مندانہ ش عری کی عمدہ مث ل پیش کرتی ہیں۔ان کے یہ ں عالمت ،است رے اور تشبیہ ت ک است م ل نہ یت خود شن سی کے احس س کے
33
س تھ ہوت ہے۔ان کی نظمیں پڑھنے سے ص ف واضح ہوت ہے کہ ش عر پوری خود آگ ہی کے س تھ نظموں کو برت رہ ہے اور وہ خو ج نت ہے کہ کی کہہ رہ ہے اور کس کے لئے کہہ رہ ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کی نظمیں ق ری کو حیرت ن ک مسرت سے ہمکن ر کرتی ہیں اور ایک نئے جذبے سے زندگی کے رن میں ش مل ہوج نے ک جذبہ بخشتی ہیں۔ان کی نظمیں نظ رہ،ن س ام رہ اور نی رشتہ وغیرہ ک مط ل ہ میری ب توں کی دلیل کے لئے ک فی ہے۔یہ ں پر ان کی بس ایک مختصر نظ ’’ کہ ں تک چ و گے ‘‘پیش کررہ ہوں جس سے ان کے اس و اور انداز بی ن کے س یقے ک اندازہ لگ ی ج سکت ہے۔نظ دیکھئے۔ کہ ں تک/ت میرے س تھ چ و گے/میں ہوں اک صحرا نورد/میرے قدموں ت ے /س را ع ل س نس لے رہ ہے۔ اس نظ میں خودی ک ایک ب ند آہنگ ہے جس میں ش عر خود اعتم دی سے س رے ع ل کو اپنے قدموں کی دھول بت ت ہے۔دراصل یہی اعتم د اور خود شن سی اکرا ک وش کی شن خت ہے۔ ضی میر کی کئی حیثیتیں تھیں ۔وہ ش عر تھے ،افس نہ نگ ر تھے اورن قد و مبصر بھی تھے۔مگر وہ ع طور پر ش عر کی حیثیت سے ی د کئے ج تے ہیں۔ان کے یہ ں موضوع تی نظموں کی جو کثرت ہے اس سے اندازہ ہوت ہے کہ وہ سچے جذب ت کے مخ ص ش عر تھے۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جہ ں ن راشد کی ی د میں جیسی نظ لکھی وہیں بیج پور کے کھنڈرات میں ایک ش ،نوائے روح شہید ،شہید جنت کے دروازہ پر ،میرا جی کی ی د میں ،مرحو محمود ای ز
34
سے خط ،س جد حمید کے لئے ایک نظ اور نق د کے روپ میں ایک ش عر جیسی نظمیں لکھیں ۔کہنے کی ضرورت نہیں رہ ج تی ہے کہ راشد اور میراجی کے لئے مکمل نظموں میں ان سے محبت اور ان کے ش عرانہ کم الت کے اعتراف کی خو صورت کوشش کی گئی ہے تو بیج پور کی ت ریخ پر بھی م ضی کے جھروکے سے روشنی ڈالی ہے اور محمود ای ز سے رفی دیرینہ کی طرح مک لمہ کی ہے تو س جد حمید کی ش عری کے روشن امک ن ت ک بھی اعتراف کی ہے۔ہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ کل وقتی ش عر نہیں تھے مگر ج بھی کسی موضوع پر نظ کہتے تھے تو اپنی ان رادیت ک نقش ق ئ کردیتے تھے۔چند مث لیں دیکھئے۔ نگری نگری پھرا ہے ش عر/زخموں کی ب رات لئے /اس کے بدن پر گھ ؤ تھے کتنے /ان زخموں کی گنتی کرن /اس کے بس ک روگ نہیں۔ اس نظ میں ضی میر نے میراجی کی زندگی کے دکھ درد اور ان کی ش عری کے عالئ وغیرہ کو خوبی کے س تھ پیش کی ہے اور میراجی کے کردار کو پیش کرتے ہوئے اس کے فن ک رانہ امتی زات کو بھی واضح کر دی ہے۔وہ بھی اس طرح کہ خود ان ک فنک رانہ کم ل بھی واضح ہو گی ہے۔ راز امتی ز ش عر ،صح فی ،ادی اور نق د تھے ،ترقی پسند رجح ن رکھتے تھے انہوں نے زی دہ تر جدیدیت کو قبول کی ۔ان کی نظموں میں ایک خوشگوار آہنگ پ ی ج ت ہے۔ح النکہ ان کے موضوع ت ہ کے پھ کے ہوتے ہیں مگر وہ زندگی سے ربط رکھتے ہیں اور یہ ربط کمزور نہیں پڑت ۔ان کے اندر انس ن دوستی ک جذبہ ک رفرم تھ اور وہ
35
کسی کو ن راض کرن ی اپنے آپ پر فخر کرن نہیں ج نتے تھے۔ان کی نظموں میں ان ک مزاج پ ی ج ت ہے۔کہتے ہیں کبھی عشرت دنی پہ اکڑے نہیں ہ کبھی رنج پ ی تو سکڑے نہیں ہ اسی طرح ایک اور نظ میں یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہمیں اپنے چھوٹوں سے ن رت نہیں ہے /بڑائی بھی کچھ وجہ بہجت نہیں ہے /یہ ں کوئی اپن پرای نہیں ہے مدن منظر بھی مشہور و م روف ش را میں شم ر ہوتے ہیں۔جنہوں نے اپنی نظموں میں قومی ،م شرتی ،سی سی اور صوفی نہ موضوع ت کو اختی ر کی اور زندگی کے مہذ اور ش ئستہ اقدار کو اپن ی ۔انس ن دوستی اور اخوت و بھ ئی چ رگی کو ش ری پیرہن عط کی ۔ن تیں اور منقبتیں لکھیں۔ پیشہ سے طبی تھے لیکن ع جزی اور انکس ری کے س تھ سچ ئی بھی ان کے یہ ں ک رفرم ہے۔ب رگ ہ یزدی میں ان ک خ وص دیکھئے۔ مسیح ئی میرا منص نہیں /وہ ک ر یزداں ہے /خدا نے مجھ کو اس منص پر ف ئز کرکے /اپنے دست پنہ ں سے /ش بخشی مریضوں کو /یہ س احس ن ہے اس ک تنہ تم پوری کے فن میں روایت اور جدیدیت ک امتزاج م ت ہے۔مگر ان کے یہ ں تخیل ک حقیقت کی ک رفرم ئی زی دہ ہے۔ان کے یہ ں زندگی کے کئی روپ اور اس کی کئی جہتیں م تی ہیں۔وہ اپنی نظموں میں عالمتوں ک است م ل بکثرت کرتے ہیں جو بس اوق ت ق ری کے ذہن کو بوجھل بھی بن دیتی ہیں اور اس کی قوت فہ کو چی ینج بھی کرتی
36
ہیں۔’’ چھ نی چھ نی س ئب ں‘‘ کی بیشتر نظمیں اس ب ت ک ثبوت ہیں۔اسی نظ ک ایک ٹکڑا دیکھئے۔ تم زت سے محرو افک ر کے زرد سورج اگل کر/سبھی اپنے اسالف کی کھوپڑیوں کی م الئیں پہنے /اجمنے ہوئے اپنے بچوں کی شک وں کو /ب رود کی ڈھیر پر رکھ رہے ہیں۔ حسنی سرور ک مق نظ نگ ر کی حیثیت سے بھی ہے۔زم نے نے ان کو جو درد و غ دی اسے انہوں نے ش عری کے روپ میں لوٹ دی ہے ۔ان کی نثری نظمیں متوجہ کن اور وقیع اور گراں م یہ ہیں۔ان کی نظموں ک ڈھنگ گیتوں جیس ہے۔اسون جیوتی،دیکھو سجن ت روٹھ نہ ج ن ،برہن روتی ہے،سون چ ندی ہیرا موتی وغیرہ نظمیں گیتوں کے قری ہیں۔ ان میں ہندی ل ظی ت کی بہت ت ہے۔جن میں چونک دینے ی است ج میں ڈال دینے واال کوئی پہ و نہیں ہوت ہے۔ سون چ ندی ہیرا موتی /پل دو پل تن ک سنگھ ر /پ پی می ی اس کی )آتم /کیسے کروں گی میں سنگھ ر (سون چ ندی ہیرا موتی ج یل تنویر کو بھی نظ ک نم ئندہ ش عر قرا دی ج سکت ہے جن کی نظموں میں داخ یت اور خ رجیت ک رفرم ہے ۔ان کی ہر نظ میں ل ظی ت س دہ ترین اور چست ترین ہیں۔وہ آس ن ل ظوں میں اپنے جذب ت کو اس طرح پیش کرتے ہیں جس سے بے س ختہ پن آج ت ہے اور وہ کسی بھی ب ت کو طوالت نہیں دیتے ب کہ س دگی سے پیش کر دیتے ہیں۔ان کی نظ ’’ حص ر‘‘ ک یہ حصہ دیکھئے۔
37
کوئی آہٹ نہیں /کوئی قد اٹھت نہیں /ا صرف میں ہوں /اور تنہ ئی ک لمب حص ر۔۔۔۔پھر نہ ج نے کیوں /کسی آشن کی گونج /ہر د میرے ح قہ بگوش رہتی ہے انور دا ایک فطری ش عر ہیں۔جن کی ش عری ک ب طنی اضطرا ق ری کو مم کت م کوتی نہیں اس ل ترین مق م ت کی سیر کرات ہے ۔وہ ایسے ش عر ہیں جن کی نظموں میں افس نوی اور ڈرام ئی انداز پ ی ج ت ہے۔نظ شروع تو ہوتی ہے مگر آگے بڑھتی ہوئی ڈرام ئی موڑ لیتی ہے اور انج چونک دینے واال ہوج ت ہے۔وہ ال ط میں اس طرح ج ن ڈال دیتے ہیں کہ ان میں نئے م نی اورم ہو پیدا ہوج تے ہیں اور اس کے بین السطور بہت س م ہو پوشیدہ رہ ج ت ہے ان کی نظموں می جذبہ اور آگہی ک امتزاج م ت ہے۔ کی یہ دروازے امین بن کر کھڑے ہیں /کی یہ رشتے دل کی دنی نے گھڑے ہیں /میں زمیں ک آدمی ہوں آسم نوں کو نہ م نوں /گندی ن لی میں پڑا ہوں پ ک مری میں کی ج نوں /میں مگر تھ سر بہ زانو سوچ میں ڈوب ہوا /سوچت تھ روشنی سے رنگ الگ ہوج ئے گ /سوچت تھ خوں س ید احس س ک ہوج ئے گ /میں کہ پھر بھی سر بہ زانو بوجھ سے گھبرا گی /میں سرابوں میں حسیں دھوکوں میں واپس آگی ۔خم ر قریشی کوبھی نظ ک ش عر قرار دی ج سکت ہے جن کے یہ ں نظموں میں بحروں کی ترمیم ت ک ش وری عمل پ ی ج ت ہے ۔ان کی س ری نظمیں صوتی آہنگ سے ہ کن ر ہیں اور وہ جدید اظہ ر ،ل ظی ت اور موضوع ت اختراع کرنے کے ق ئل ہیں۔ان کی نظموں کے ب ض
38
ٹکڑے ق ری کو اپنی طرف م ئل کرتے ہیں اور ق ری ان سے پوری طرح لطف اندوز ہوت ہے۔ پہ ے پہ ے ! /رت جگے کتنے گراں تھے /ا مگر /ان کی ارزانی ک ) کی م ت کریں ( رت جگے ح مد اکمل کی نظموں ک ایک خ ص رنگ ہے۔ ان کی نظموں میں ل ظی ت کے س تھ س تھ گہری سوچ اور فکرہوتی ہے اور اظہ ر ک طریقہ بھی نراال ہوت ہے۔وہ بھی م مولی ب ت کو گھم پھرا کر پیش کرنے میں مہ رت رکھتے ہیں۔ان کی مختصر نظمیں نہ یت م نی خیز ہوتی ہیں۔بس ہللا ،ج ت ،میں تمہ رے لئے کوئی گیت نہیں لکھوں گ ،دع ،رات کے ن ،آد زاد ک ایک غ ہی نہیں وغیرہ مختصر نظموں میں ح مد اکمل ک ایک خ ص رنگ چھ کت ہے۔ح مد اکمل طویل نظموں میں ل ظی ت ک است م ل بکثرت کرتے ہیں جس سے وہ موضوع سے بہکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اگر اس سے گریز کریں تو انہیں نظموں کے ش عروں کے زمرہ میں رکھ ج سکت ہے۔’’ج ت ‘‘ ان کی بہترین نظ ہے جس میں وہ اپنے اظہ ر میں ک می ہیں ۔اس نظ میں م ضی سے ح ل کی طرف اورح ل سے مستقبل کی طرف نظر بڑی عمدگی سے ہوئی ہے۔ ج سر پر چ ندنی پھی نے لگے گی تو /ان چ ہتوں پر روئیں گے /جن پر ہنس کرتے ہیں /جیسے بچپن کی غمگیں ی دوں پر /جوانی میں ہنستے تھے /جوانی کی المن کی بڑھ پے میں ہنس ئے گی نہیں۔رالئے گی /پھر اس کے ب د ان آنسوؤں کی بے م ئیگی پر /ہنسنے ک موقع / !ش ید کبھی نہیں مل سکے گ
39
ش ئستہ یوسف ک ن بھی ک فی اہمیت رکھت ہے جنہوں نے اپنے ان رادی لہجہ ،ش ری رویہ اوراس و کی وجہ سے ادبی مق ح صل کی ہے۔ ان کے یہ ں نس ئی تحریک کے خد وخ ل م تے ہیں۔انہوں نے است روں ،اش روں اور کن یوں سے ک لیتے ہوئے عورتوں کے جذب ت ،احس س ت اور ان کے م شرتی مس ئل کو اج گر کرنے کی ک می س ی کی ہے۔ان کی نظموں میں فکر اور حسیت ک احس س پ ی ج ت ہے۔ ان کے یہ ں عالمتی انداز بھی دیکھ ج سکت ہے۔ان کی مشہور نظ ’’ بند مٹھیوں میں پھر کچھ نئی لکیریں ہیں ‘‘ ہے جس میں ان کی سوچ اور فکر کی پرواز بہت ب ند ہے۔جس ک ایک حصہ مالحظہ فرم ئیں۔ آ ہنی دریچے بھی /آگ سے پریش ں تھے /ادھ ج ی چوکھٹ /خوف سے لرزتی تھی /لمحہ لمحہ روتی تھی اس حصہ میں آہنی دریچے اورادھ ج ی چوکھٹ ،ایک طرح ک پیکر تراشتے ہیں جس سے دونوں کی پریش نی ولرزانی واضح ہوتی ہے۔ نظموں کے اس س ر میں ایک ن ڈاکٹر آف ع ل صدیقی ک ہے جنہوں نے نظ گوئی کے میدان میں اپنی ایک شن خت بن لی ہے۔جن کی نظموں میں ت میح ت کی بھرم ر ہوتی ہے ۔ وہ روای ت ک ج ئزہ بھی لیتے ہیں مگر جدیدلہجہ اور انداز میں کیونکہ وہ جدیدیت سے واقف ہیں اور جدت پسند بھی ہیں۔وہ اپنی نظموں میں موضوع کی بھرپور وض حت کرتے ہیں مگر ت صیل میں ج نے سے گریز کرتے ہیں۔ان کی نظمیں واق ت پر مشتمل ہوتی ہیں۔ان کی فکر اور اختراع سے نئے نئے موضوع ت اج گر ہوتے ہیں جن میں م صومیت پ ئی ج تی ہے ۔
40
نیزہ پر ٹنگ سر /اور اس دار کی بھیڑیں /جس ک چرواہ کہیں کھو گی /ہ سے کی کہہ رہی ہیں۔۔۔شک م ہی سے پیمبر ک تولد /ی خود ح ظتی کے لئے /ت ریک گپھ ؤں پ ش ری یہ ں نیزہ پر ٹنگ سر سے کربال،شک م ہی سے پیمبر ک تولد سے حضرت یونس ؑ اور ت ریک گپھ ؤں کی پ ش ری سے مراد اصح کہف ی غ ر ثور میں حضور اکر ﷺ اور حضرت ابو بکر صدی کے قی کی طرف اش رے م تے ہیں۔ جب ر جمیل کی نظموں ک ایک خ ص وصف اختت پر چونک دینے واال ہوت ہے۔ان کی نظمیں مختصر ہوتی ہیں جس میں وہ ایک ت ثر اور اچھوت پن پیدا کر دیتے ہیں ان کی زب ن اور انداز بی ن س دہ ہوت ہے۔ان کے خی الت اور موضوع ت میں کوئی نی پن نہیں دکھ ئی دیت ہے۔مگر ان ک اظہ ر ان کی نظموں کو ج ندار بن دیت ہے۔وداع ،وقت ،آمنت ب ہلل ،مشغ ہ ان کی مشہور مختصر نظمیں ہیں۔نظ ’’آمنت ب ہلل ‘‘ک اختص ر ق بل توجہ ہے اور اظہ ر اس سے زی دہ ق بل توجہ ہے۔ ح دثوں کی زب نی /جو اس کے ق صد ہیں /وقت نے ایک چھوٹ س پیغ بھیج ہے /میری ب یت کو تس ی کرلو م ہر منصور کی نظموں میں جدید خی الت پ ئے ج تے ہیں ی نی وہ نظموں میں دور ح ضرہ کی میک نکی و س ئنسی اختراع ت اور ایج دات کو سموکر اپنے احس س ت برقرا رکھتے ہیں ۔یہ چیزیں بطور تمثیل اس طرح لے آتے ہیں کہ ان کے درمی ن کوئی اہ ربط اور ت نہیں رہت ۔ان کے یہ ں تیز روی اور سیم بیت ک عنصر پ ی ج ت ہے۔ان کی اکثر نظموں میں ان ک اپن پرتودکھ ئی دیت ہے۔ان کی نظموں کے ال ظ
41
ان کے لئے آئینہ ہیں جس میں ان ک اپن عکس موجود ہوت ہے۔انہوں نے ان نظموں میں کوئی نی تجربہ تو نہیں کی البتہ ان میں بے س ختگی پ ئی ج تی ہے اور اس میں عالمتی اور تمثی ی انداز بھی م ت ہے۔مری نظمیں ،ن گ تگی ،زخ ن دیدہ،درس روز ازل وغیرہ ان کی اچھی نظمیں ہیں۔’ مری نظمیں‘ک یہ حصہ دیکھئے۔ کبھی ل ظوں کے آئینوں کو /ت جو غور سے دیکھو /تو ش ید اپن پرتو ہی نظر آئے /بشرطیکہ /تمہ ری آنکھ روشن ہو رزا اثر کی نظمیں جدیدیت اور روایت کی پ سدار ہیں جن کے موضوع ت ذاتی تجرب ت اور مش ہدات پر مشتمل ہیں۔عالوہ ازیں سی سی ،سم جی اور تہذیبی زندگی کو اس طرح نظموں میں پیش کرتے ہیں جو ذہنوں کو مت ثر کرتے ہینآدمی ،ش خون اور زوال ان کی مشہور نظمیں ہیں۔جن میں وہ ل ظی ت کو اس طرح برتتے ہیں جس سے موضوع بہ آس نی ق ری کے ذہنوں میں اتر ج ت ہے۔’آدمی ‘نظ میں آج ک آدمی کس طرح مخت ف خ نوں میں بٹ ہے اسے ت ش کے ب ون پتوں میں پیش کرتے ہیں۔جس ک ایک ٹکڑا مالحظہ ہو۔ ت ش کے ب ون پتوں کی طرح /آدمی تقسی ہے /مخت ف رنگوں کے نمبروں میں /چ ر مخت ف سمتوں میں /ہر ایک رنگ میں چ ر مخت ف نمبر /غال ،بیگ ب دش ہ /مخت ف رنگوں کے نمبروں میں تقسی ہیں عوا /ص رجوکر ہے۔ س غر کرن ٹکی نے ک می نظمیں لکھی ہیں ۔انہیں نئے زم نے کے انس ن کے درد ک احس س ہے۔انہیں اس ب ت ک ع ہے کہ دور ح ضر میں کوئی بھی رشتہ اپن ئیت کی کسوٹی پر کھرا نہیں اترت ،ہر چیز اپنی
42
قدر و قیمت کھوتی ج رہی ہے ،محبت م د بن گئی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ محبو بھی جذب ت کی م رکیٹنگ کرت ہے ۔تغزل اور تقدس کو پ م ل کرت ہے۔س غر کرن ٹکی نئی زندگی کے عالئ وغیرہ کو نہ یت س دگی اورعمدگی کے س تھ اپنی نظموں میں سموتے ہیں۔ان کی نظموں ک ایک خ ص وصف ان ک اختص ر ہے۔ان کی مکمل تین نظمیں دیکھئے۔ مجھے ا اپنے قد کی /فکر کرنی ضروری ہے /میرا بیٹ /میرے قد کے برابر آگی ہے عج محبو ہے /میرے جذب ت و احس س ت کو /غزل کی شکل دیت ہے /تغزل چھین لیت ہے دور م ضی ہو گی /ک ک شہید /دور ح ضر کی /لبوں پر ج ن ہے / دور مستقبل ابھی سے /خود کشی کی مش میں مصروف ہے ڈاکٹر یس ی عقیل کوری ست کرن ٹک میں یہ امتی ز ح صل ہے کہ ’’ ردائے رحمت‘‘ آزاد ن توں پر مشتمل واحد ن تیہ مجموعہ ہے۔جس میں ترسٹھ آزاد ن تیں ہیں جن میں حضور اکر ﷺ کی سیرت کے ن در پہ و ؤں کو پیش کی گی ہے۔ اس کے عالوہ بھی انہوں نے ک فی نظمیں لکھی ہیں جو ان کے مش ہدات ،احس س ت اور تجرب ت کی غم ز ہیں ان کی نظموں میں متحرک زندگی اور زم نے کے س گتے اور سنگین مس ئل کو دیکھ ج سکت ہے۔ س تھ ہی زم نے کی بے ثب تی اور گ ہوتے ہوئے اقدار کو بھی محسوس کی ج سکت ہے۔ان کے یہ ں بھی ایج ز و اختص ر نظ ک بنی دی وصف ہے۔نظ ’’ وائے مجبوری‘‘مالحظہ فرم ئیں۔جس میں ان کے گہرے مش ہدہ ک بخوبی اندازہ ہو ج ت ہے۔
43
ہوس آلود نظروں سے /بچ پ ؤ گی ت کیسے /بدن اپن /یہ نظریں ہر جگہ ہیں /میں س کچھ دیکھت ہوں /پھر بھی ت سے کہہ نہیں سکت /کہ ت ا /ترک کر دو نوکری اپنی /مجھے غیرت نہیں آتی /مجھے م و ہے /غیرت محض انس ں ک حصہ ہے /میں انس ں ہی کہ ں ہوں /میں تو م س ہوں۔ اسی طرح ایک اور بال عنوان نظ میں رشتوں کے کٹ ج نے سے پیدا ہونے والے درد و کر اور احس س ک انداز دیکھئے۔ س ر میں زندگی کے /س تھ تیرا اس طرح چھوٹ /کہ تری ی د کے س رے دریچے /ہوگئے ویراں /تصور بھی ترا ب قی نہیں ہے /تیری تقریر ک ج دو /بڑا ہی بے اثر نکال /کوئی رشتہ نہیں ب قی ۔۔۔۔کسی گمن افس نہ کے /ایک انج ن ص حہ پر /میں تیرا ن پڑھت ہوں /تو پ کوں کے کن رے بھیگ ج تے ہیں /نہ ج نے کیوں ؟ س یم ن خم ر کی نظموں میں گہرائی اور گیرائی پ ئی ج تی ہے اور ان میں زندگی کی بے رحمیوں ،س کیوں ،ست ظری یوں اور دست درازیوں کو دیکھ ج سکت ہے۔انہوں نے زندگی کے حق ئ کو عمدگی کے س تھ پیش کی ہے۔ان کی نظ ’’ جدید نسل ک المیہ‘‘ ک یہ حصہ دیکھئے۔ ت مجھے چ ہتے ہو ،غ ط /میں تمہیں پی ر کرت ہوں /س جھوٹ ہے /سچ تو یہ ہے /کہ ہ اپنی اپنی ضرورت کے پیچھے پڑے ہیں۔ خ لد س ید کی نظموں میں ایک تیکھ پن پ ی ج ت ہے جسے ہ زم نے کی سرد مہری اور زندگی کی بے توجہی ک رد عمل کہہ سکتے ہیں۔خ لد س ید جدید رجح ن ت اختی رکرتے ہیں لیکن ش ر و اد کی
44
صحت مند قدروں ک لح ظ رکھتے ہیں۔زب ن و بی ن پر انہیں قدرت ح صل ہے۔پی س آش تہ ،گھل ج نے کے ب د ،درندہ پچھ ی س عت ک ،خستگی اور ہ کہ اکھڑے ہوئے پیڑ سمجھے گئے ان کی مشہور نظمیں ہیں۔نظ ’درندہ پچھ ی س عت ک ‘ ک آخری ٹکڑا دیکھئے۔ میری س نسوں کے ش خوں پہ بیٹھے ہوئے تشنگی کے پرندے اڑے/ اپنی منق ر بھر پی س کے واسطے /مگر۔۔۔۔آسم نوں میں بھی کوئی قطرہ نہیں اور سمندر سرا /ایک بے بوند دل ہے کہ ٹ ت نہیں /دن سرکت نہیں۔ رزا افسر کی نظموں میں زندگی کی حقیقتیں ،اس ک ادراک اور تجزیہ پ ی ج ت ہے۔جس میں انس ن دوستی ،درد مندی اور ہمدردی ک عنصر ہوت ہے جس سے نظموں میں دلکشی پیدا ہوج تی ہے۔وہ نظموں میں اپنے جذب ت ک اظہ ر ہی نہیں کرتے ب کہ فکر بھی تپ تے ہیں۔ان کی نظ ’’ فر ‘‘ ک یہ ٹکڑا اس ب ت ک ثبوت ہے۔ تختی ں ،جنگل کی سر حد پر لگی ہیں :جن میں سرخی سے لکھ ہے،انتب ہ! /ہر درندہ ،ہر چرندہ ،کل پرندے /جو بھی اس جنگل میں ہیں آب د وہ /س کے س ہیں م کیت ا سرک ر کی /جر ہے ان میں کسی ک بھی شک ر /اور ح ظت الزمی /ان س کی خ ص و ع پر / م م ہ بر عکس اس کے /شہر و بستی میں کہیں بھی /ٹوکنے والی کوئی تختی نہیں /صبح زہرا فن /ش ہے رقص اجل /ٹھیک ہے / جنگل و بستی میں کچھ تو فر ہون چ ہیئے۔ مظہر محی الدین نے بھی خوبصورت،م نی خیز اورک می نظمیں لکھی ہیں۔ ان کی نظموں میں اخالقی قدروں ک زوال ،فرد کے
45
کھوکھ ے پن ک رنگ اور زندگی کی بے م نویت پ ئی ج تی ہے مگر اس میں انتہ پسندی نہیں ہے۔دراصل ان میں زندگی کی تصویر اور ت سیر موجودہے ۔استق مت ،تیسرا زینہ ،مت عدانش،کی کی ا تک ،کبھی سوچ بھی ہے ت نے ،سوچ ،فری د ان کی اچھی نظمیں ہیں۔نظ ’’سوچ‘‘ ک ح ل دیکھئے۔ سوچ ج بگڑتی ہے /گہری نیند سوتی ہے/یہ اٹل حقیقت ہے/زیست اپنی منزل سے /دور ہوتی ج تی ہے/سمت بھول ج تی ہے/ذلتوں کی !! وادی میں/در بدر بھٹکتی ہے کرن ٹک کے جدید نظ گو ش را کے اس سرسری مط ل ہ سے یہ احس س بہر ح ل ہوج ت ہے کہ کرن ٹک میں جدید نظ ک س ر ق بل ست ئش ہے اور یہ کہ اسے اردو دنی کے کسی بھی عالقہ کے اہ ترین ش را اور کسی بھی رجح ن کے تحت لکھی ج نے والی نظموں کے عمدہ انتخ کے مق ب ے میں اعتم د کے س تھ رکھ ج سکت ہے۔ ح ل ہی میں ع ی صب نویدی نے’’ کرن ٹک میں جدید اردونظ ‘‘کے ن سے جو کت لکھی ہے اس میں محمود ای ز سے لے کر آف ع ل صدیقی تک انیس ش عروں ک انتخ کی ہے۔جس سے واضح ہوت ہے کہ کرن ٹک میں جدید اردونظ کی صورت ح ل ک فی تش ی بخش ہے ۔ کرن ٹک کے نظ گو ش را میں بہت سے ن ک فی اہمیت کے ح مل ہیں۔جن میں شکیل مظہری ،شیدا روم نی ،ری ض احمد خم ر ،الف احمد بر ،ڈاکٹر بی محمد داؤد محسن،ذاکرہ شبن ،مہ جبین نج ،ڈاکٹر فرزانہ فرح وغیرہ ک فی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس مختصر سے مضمون میں س کے کال ک ج ئزہ لین ممکن نہیں ہے لیکن میں نے نم ئندہ ش را اور ان کی نظموں پر بحث ضرور کی ہے مگر ایک دوسرے سے
46
موازنہ کرتے ہوئے کسی کوکسی پر فوقیت دینے اور مق مت ین کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔البتہ نظموں کے مط ل ے سے جو امیج بنت ہے اس کو پیش کی ہے۔ جس سے ری ست کرن ٹک میں نظ کی صورت ح ل س منے آسکے ۔یہ صورتح ل بھی ت ج خیز ل ظ ہے جس کی کرن مشکل ہے کیونکہ ’’صورتح ل Defineت ریف کرن ی اسے ‘‘تو ہمیشہ ’’ صورتح ل ‘‘ ہی رہے گی۔ http://www.fikrokhabar.com/index.php/enlightenment-news-article/item/5162-karnatak-me-jadee d-nazam-ki-soorate-haal
نثری نظ
47
سید نجی ع ی ش ہ نثری نظ کے شجرہ نس کی جڑیں دنی کے قدی اد سے م تی ہیں۔ بہت سی دیوم الئیں ،لوک داست نیں اور قبل مسیح کے طویل رزمیے اپنے ش عرانہ آہنگ ،ہیئت اور اس و میں نثری نظ کے قری تر ہیں۔ قدی ویدوں اور سنسکرت اد سے بھی اس کے ڈانڈے مالئے ج تے ہیں۔ مغر میں نثری نظ ک آغ ز انیسویں صدی میں ہوا۔ ابتدا فرانس میں اور ب دہ امریکہ میں اسے بہت فرو ح صل ہوا۔ اردو میں مخت ف ہیئتوں اور ن موں سے نثری نظ کی مث لیں بیسویں صدی کی تیسری دہ ئی سے م ن شروع ہو ج تی ہیں۔ ت ہ ایک ادبی تحریک کے طور پر اس ک ب ق عدہ آغ ز س ٹھ کی دہ ئی سے ہوا۔ لیکن لگ بھگ تین دہ ئی ں گزر ج نے کے ب د بھی نثری ش عری ک یہ تجربہ اردو ش ری ت میں کسی واضح قبولیت کے مق تک نہ پہنچ سک اور م سوا چند تخ ی ک روں کی ذاتی ک وشوں کے نثری نظ ک " دور اول " ب ل مو ک می بی سے ہمکن ر نہ ہو سک ۔ اس کی بڑی وجہ غ لب سکہ بند قس کی ادبی تحریکوں کے خالف ردعمل اور اردو کی ش ری روای ت سے یک د اور یکسر بغ وت تھی۔ اس کے عالوہ اس دور کے نثری نظ نگ روں کی ضرورت سے زی دہ جدت و تجردپسندی اور ش ری کی ی ت و تجرب ت کو داخ ی ص ف گری کے عمل سے گزارے بغیر خ شکل میں پیش کر دینے واال ت خ رویہ بھی اس صنف کی ابتدائی ن ک می ک سب بن ۔ یہ ب ت اردو ق رئین کے لیےدلچسپی ک ب عث ہو گی کہ نثری
48
ش عری ،جس ک آغ ز انیسویں صدی کے اوائل میں فرانس سے ہوا اور صدی کے آخر تک دیگر مغربی مم لک میں ،وہ ں بیسویں صدی کی پ نچویں اور چھٹی دہ ئی تک آتے آتے اس ک د خ ٹوٹ چک تھ ت وقتیکہ نم ی ں امریکی ش عروں نے اسے نئی زندگی دی اور اسے دنی بھر میں قبولیت م ی۔ جبکہ اردو میں عین اس وقت اس ک آغ ز ہو رہ تھ ۔ اوکت ویو پ ز نے اس ف ر کو ہسپ نوی زب ن میں است م ل کی ۔ روس اور ج پ ن میں بھی اس صنف میں خ ص ک ہوا۔ اینے م ری رلکے ،فرانز ک فک ،ج رج لوئیس بورخیس ،پ ب و نیرودا ،اوکت ویو پ ز، ولی ک رلوس ولی ان س ن مور لکھ ریوں نے نثری نظ کی ف ر کو نہ صرف اپن ی ب کہ اپنے اپنے انداز میں اس کی توضیح و توصیف کی اور اس کی ہیئت اور دکشن میں خ طر خواہ اض فے بھی کیے۔ اسی ( )۸کی دہ ئی کے آخر سے دنی بھر میں ،بشمول اردو ،اس صنف کو بہت مقبولیت ح صل ہوئی ہے اور ا یہ بڑی حد تک رد و قبول کے مرح ے سے آگے نکل آئی ہے۔ امریکہ میں تو نثری نظ کو یہ ں تک فرو ح صل ہے کہ ب ض یونیورسٹیوں میں اد کے ط ب کو رائ لکھنے سے منع کی ج ت ہے۔ گزشتہ پچیس تیس برسوں سے اردو نثری نظ ایک نئے فن من سے گزر رہی ہے۔ اسے نثری نظ ک " دور ث نی " بھی کہ ج سکت ہے۔ اس ب ر میدان قرط س میں زی دہ تر وہ ش را ہیں جو جدید تر ش ری حسی ت اور عصری ادبی ش ور رکھنے کے س تھ س تھ اردو کی کالسیکی ش ری روای ت سے بھی مربوط و منس ک ہیں اور فن ش ر گوئی ی نی اوزان و بحور پر بھی گرفت رکھتے ہیں۔ نثری نظ نگ روں کی اس کھیپ کی ش ری ترجیح ت و ترغیب ت کسی خ ص ادبی تحریک
49
کے ت بع ی خالف نہیں ب کہ اد کے ان جدید اور پس جدید متنوع تخ یقی رویوں سے عب رت ہیں جو اس صنف میں نت نئے اس لی اور موضوع ت کے اض فے ک ب عث ہیں۔ بالشبہ اس زمرے میں وہ ش را اور ن رسیدہ و ن پختہ ک ر خ مہ فرس ش مل نہیں کیے ج سکتے جو اردو کی ش ری و عروضی روای ت سے آگ ہی ح صل کیے بغیر الٹی سیدھی سطروں میں سطحی اور خ ش ری مواد کو نثری نظ ی نظ کے ن سے پیش کر دیتے ہیں۔ احس س ت و خی الت کے بہ ؤ کو محض ش وری طور پر کسی مخصوص س نچے میں ڈھ لن مشکل ہوت ہے۔ ایس کرنے سے تخ ی کی خوبصورتی ،بے س ختگی اور نظ میں بین السطور بہنے والی اداسی اور آگہی کی رو مت ثر ہوتی ہے۔ دراصل ہر نظ اپنی ہیئت ی س خت خود لے کر آتی ہے۔ تخ ی کے ب د اس کی تراش خراش تو کی ج سکتی ہے لیکن تخ یقی عمل کے دوران اسے زبردستی "نظ " ی "نثری نظ " نہیں بن ی ج سکت ۔ نثری نظ کہن ایس آس ن بھی نہیں جیس کہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں اور نہ نثری نظ کے ن پر ش ئع ہونے والی چھوٹی بڑی چند سطروں پر مشتمل ہر تخ ی کو نثری نظ کہ ج سکت ہے۔ اس کے لئے گہرے تہزیبی ش ور ،آگہی ،عرف ن ذات، جدید طرز احس س ،عمی مط ل ے ،مش ہدے ،تخ یقی مزاج کی موزونیت اور عالمتوں ،است روں ،تشبیہوں اور پیکروں کے پیچیدہ مگر ق بل فہ نظ کے عالوہ ش ری عن صر ،ن می تی وحدت اور پس ال ظ اور بین السطور ایک اندرونی آہنگ جیسے لوازم ت ک ہون ضروری ہے۔
50
اردو نثری نظ پر ا تک بے شم ر مب حثے و مک لمے ہو چکے ہیں اور طویل مض مین رق کیے گئے ہیں جن میں اس کے ن ،پس منظر، مزاج ،آہنگ ،عالمتی و است راتی نظ ،فنی و فکری جواز اور شن خت پر ت صیل دار بحث کی گئی ہے۔ لیکن اس کے ب وجود ایک اہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ ب ض ش را اظہ ر کے مخت ف س نچوں مثال غزل ،پ بند نظ ،م ری نظ ،آزاد نظ اور دیگر اصن ف سخن پر قدرت رکھتے ہوئے بھی نثری نظ ک اور کیوں کہتے ہیں۔ دراصل نثری نظ اس وقت سرزد ہوتی ہے ج تخ یقی اداسی اور آگہی انس نی بس سے ب ہر ہو کر وجود کی حدیں پ ر کرنے لگتی ہے اور ش عری کے مروج پیم نے ی س نچے اس کے اظہ ر کے لئے ن ک فی ہو ج تے ہیں۔ ش ید انس ن کی ازلی و ابدی تنہ ئی اور فکری اپج کسی ایسے ش ری نظ اور لس نی آہنگ کی متق ضی و متالشی ہے جسے ابھی تک دری فت نہیں کی ج سک ی جسے ابھی تک کوئی ن نہیں دی ج سک ۔ ش ید نثری نظ اظہ ر کی اسی بے بسی ک غیر مرئی تخ یقی جواز ہے۔ نثری نظ کو پ ک و ہند کے مخت ف مک ت فکر نثری نظ ،نثر لطیف، نثرین ،نث ،نثر پ رے ،نثرانے ،نث ،نثم نے ،نظ کہ نی ،نظمیے، امک ن ت ،نظ نو ،غیر عروضی نظ وغیرہ وغیرہ کے ن سے قبول کرتے اور اپنے اپنے رس ئل میں ش ئع کرتے ہیں۔ بیشتر اسے ’نثری نظ ‘ کے ن سے الگ ش ئع کرتے ہیں ی نظ کے خ نے ہی میں رکھتے ہیں۔ گوی اس صنف میں اظہ ر پر تو کوئی اعتراض نہیں لیکن اس کے ن ک مسئ ہ درپیش ہے۔ کچھ مک ت فکر ایسے بھی ہیں جو اپنے افک ر و نظری ت میں ج مد ی بہت زی دہ قدامت پسند ہونے کے ب عث اس صنف کو سرے سے تس ی ہی نہیں کرتے۔ یہ رویہ بھی ادبی
51
اعتب ر سے ق بل تحسین نہیں۔ ت ہ یہ احتی ط برح ہے کہ نئی نسل کی ش ری تربیت اور نص بی ضرورت کے تحت نثری نظ کو م ری اور آزاد نظ سے الگ رکھ ج ئے۔ ش ر و اد ک م خذ چ ہے کسی بھی زب ن سے نسبت رکھت ہو ،حتمی تخ یقی م ی ر کی قدر ت ین کے لئے اسے ب آلخر اسی زب ن کے حوالے سے دیکھ اور پرکھ ج ن چ ہیئے جس میں وہ تخ ی کی گی ہو۔ چن نچہ اردو نثری نظ کو بھی سنسکرت ،ہندی ،فرانسیسی اور انگریزی زب ن و اد کی کسوٹی پر پرکھنے کی بج ئے ،اردو زب ن کی کٹھ لی میں پگھال کر ،اسے اپنے س نچوں میں ڈھ ل کر دیکھن ضروری ہے۔ اردو نثری نظ س ٹھ اور ستر کی دہ ئیوں پہ مشتمل عبوری دورانیے (دور اول ) سے گزر کر ا اس مق پر ہے جہ ں اس کے م خذات اور اس میں اولیت جیسے نزاعی م مالت ضمنی نوعیت کے رہ ج تے ہیں اور تخ یقیت زی دہ اہ ہو ج تی ہے۔ ب لخصوص بیسویں صدی کی آخری دہ ئی اور اس کے ب د میں تخ ی ہونے والی اردو نثری نظ اپنی ہیئت ،اس و ،موضوع ت ،زب ن و بی ن ،ل ظی ت، کثیر م نویت ،حس سیت اور عصر آفرینی کے اعتب ر سے ارتق اور خود انحص ری کی روشن دلیل ہے۔ جو لوگ اسے ک یتہ رد کرتے ہیں وہ دراصل اپنی ش ر و ادبی ن رس ئی ک اظہ ر کرتے ہیں۔ یقین دیگر اصن ف اد کی طرح اس میں بھی رط و ی بس اور ن ش عری در آئی ہے لیکن اہل نقد و نظر کو چ ہیئے کہ وہ ژرف نگ ہی سے ک لیتے ہوئے اس کی چھ ن پھٹک کریں اور اس کی صحیح ش ری ت ترتی دیں۔ ا وقت آ گی ہے کہ وسیع تر تخ یقی امک ن ت کی ح مل اس صنف سخن پر کوئی سنجیدہ اور مت قہ الئحہ عمل اختی ر کی ج ئے ،اس کی
52
ارتق ئی پیش رفت کو تس ی کرتے ہوئے برسوں پہ ے کے عبوری خی الت و نظری ت پر نظر ث نی کی ج ئے اور اسے برزخ کے ع ل سے نک ال ج ئے۔ https://www.facebook.com/permalink.php?id=1470928719809973&story_fbid=1621401268096050
53
نئی صدی میں نثری ش عری مشرف ع ل ذوقی مطبوعه نظ نو شم رہ اول اپرل نثری ش عری کی اہمیت میرے نزدیک بہت زی دہ ہے۔ اس ک ایک جواز تو یہ سمجھ میں آت ہے کہ اپنے خی الت کو پیش کرنے کی جوآزادی یہ ں میسر ہے وہ غزلیہ ش عری میں نہیں۔ ممکن ہے ش راءی ش ر پر تنقید کرنے والے اسی آزادی کو نثری ش عری ک عی تصور کریں ،یہ ح ان کو ح صل ہے اور اس ک است م ل پچھ ی دو ایک دہ ئیونسے کی بھی ج رہ ہے۔ ہرحگہ نثری ش عری پر نہ صرف شروع سے ہی اعتراض ت ہوتے رہے ہیں ب کہ وقت گزرنے کے س تھ اعتراض ت کرنے الوں کی قط ر بھی بڑھتی رہی ہے۔ ان میں آج بھی ایسے لوگوں کی ت داد زی دہ ہے جو نہ صرف نرگسیت اور محبوبیت کے درمی ن جھولتے ہوئے ال ظ کی چ شنی ،ری ک ری اور مک ری میں ڈوبے رہے ہیں۔ ب کہ بقول شخصے ،صحرا میں اذاں کی طرح ش عری کی تخی ی اڑان اور الہ می طبی ت کولے کر طرح طرح کی خوش فہمیوں ک شک ر بھی رہے ہیں۔ گوی ش عری نہیں ہوئی کوئی آسم نی صحی ہ ی غیبی صدا ہوگئی اور ش عری سے الہ ک رشتہ تو روز ازل سے جوڑا ج ت رہ ہے۔ جہ ں
54
تک فکری اف کو چھونے اور نئے جہ ن کی ب زی فت ک سوال ہے تو اس غیبی صدای آسم ن سے صحی ہ کی صورت اتری ہوئی شئے ی نی غزل نے نہ صرف تنگ دام نی کے فض ق ئ کی ہے ب کہ ب ور کرای ہے کہ صحی ہ ،صحی ہ ہوت ہے ،مشینی رویے ،مشینی رویے ہوتے ہیں۔کسی صحی ہ کو مشینی رویوں پر مس ط نہیں کی ج سکت ۔ اردو کی ش عرانہ طبی ت میں روزاول سے ہی یہ ب ت ڈال دی گئی کہ ش عر تو ن موجود کی تخ ی کرت ہے۔ نتیجت ً ___ن موجود کی تخ ی میں ،ایک بڑے طبقے نے اپنی عمریں وقف کردیں۔ یہی نہیں___ ن موجودکی کی یتوں ک خم را بھی بھی ب قی ہے۔ ن موجود کی تخ ی کے سوتے ابھی بھی سوکھے نہیں ہیں ،پوری شدت سے ج ری وس ری ہیں اور کہ ج سکت ہے کہ ہم را اردو ک ش عر ن موجود چھوڑ کر موجود چیزوں کی بحث میں پڑت ہی نہیں،تخ ی ک سوال تو ب د میں پیدا ہوت ہے۔ غزلیہ ش عری جہ ں ن موجود کے احس س کے بطن سے جن لیتی ہے، وہیں نثری ش عری ک مزاج جداگ نہ ہے۔ ی نی ہ کہہ سکتے ہیں ،نثری ش عری بالواسطہ ی ب لواسطہ موجود سے اس طرح جڑی ہوئی ہے کہ وہ بھولے بھٹکے بھی ن موجود پن ہ گ ہوں ،میں پن ہ نہیں لے سکتی۔ نثری ش عری کو ،تنقیدی ش ور رکھنے والوں کے عذا سے بھی اسی لئے گزرن پڑا کہ نہ وہ ابہ کے تق ضوں کو تس ی کرتی ہے ،نہ وہ مبہ قس کی جدیدیت ی تجریدیت کے م بین کوئی راستہ نک لتی ہے۔ وہ آوارہ ندی جیسی ہے۔ کبھی خی لوں کے ب ندھ کو توڑا ،کبھی کسی سے ج ٹکرائی ....پتھروں میں شگ ف کی ،تیز رواں دواں لہروں مینراستہ بن ی ۔ ندی کبھی گرجی ،کبھی چیخی ،کبھی خ موش
55
ہوئی،کبھی اس طرح چنگھ ڑی کہ سرکش لہرونسے ایک جہ ں میں اضطرا ی ہ چل پیدا ہوگئی۔ نثری ش عری کی انہی خوبیوں نے مجھے اس ک م ترف ومداح بن ی ہے۔ کی کیجئے کہ مجھے آوارگی کی اس شدت میں لطف آت ہے۔ مجھے اس ک ب نکپن پسند ہے۔ اس کی سرکشی اور ب غی نہ فطرت میں مجھے اپن اوراپنے عہد ک چہرہ نظر آت ہے۔ میں ان سرکش آوارہ لہرونکی آغوش میں سکون محسوس کرت ہوں اور ایک خ ص طرح کی طم نیت ک احس س ہوت ہے۔ نثری ش عری کے مخ ل ین ک س سے سخت ردعمل یہ ہے ،کہ آپ اسے صنف ش عری میں کیوں ش مل کرن چ ہتے ہیں؟ ”نی ش عر مرثیہ گو“ کے طرز پر جنھیں ش عری میں اپنے خی الت پیش کرنے ک س یقہ نہیں آت ،وہی اسے م تبر ٹھہرانے کی صف میں پیش پیش رہے ہیں۔ احمد فراز نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں کہ تھ ۔ لیکن ایک خرابی جو در آئی ہے۔ وہ ہے ....نثری نظ ،جو سہل ” نگ ری ک نتیجہ ہے۔ پہ ے آپ پ بند ش عری میں اپنے آپ کو منوائیں، اس میں تنگ دام نی ک احس س ہو تو نثری ش عری ک تجربہ کریں ورنہ یہ ں تو م جرا یہ ہے کہ جو بھی اٹھت ہے ،نثری ش عری کرلیت ہی نہیں ہے۔ ا تو ایسی نثری ش عری ہورہی ہے جس میں کوئی “ہے۔ فراز نے جو ب ت نثری ش عری کرنے والوں کے لئے کہی ہے ،کچھ دنوں پہ ے تک وہی ب ت کیڑے مکوڑوں کی طرح پیدا ہونے و الے ش عروں کے ب رے میں ب ر ب ر دہرائی ج تی رہی ہے اور حقیقت یہ ہے
56
کہ آج کی ت ریخ میں بھی نثری ش عری نظر نہیں آئی ،جتنی بڑی ت داد میں ش عردکھ ئی دے ج تے ہیں اور آپ مذا مذا میں کہہ دیتے ہیں۔ ’بس پتھر چال کر دیکھئے ،جس گھر میں گرے گ وہ ں دو چ ر ش عر کی ن موجودگی ک سوال ہے Content ،ضرور ہوں گے اور جہ ں تک نثری ش عری کرنے والوں کے یہ ں تو پھر بھی یہ مل ج ئے گ اور کے مستقل ہی جن لیتی رہی ہے۔ Contentش عری تو بغیر ن م ن شو سے احمد فراز تک نثری ش عری کے ب رے میں جو رائے بنی ہے ،وہ ک وبیش یہی ہے۔ پ کست ن سے نک نے والے ایک خوبصورت رس لے آث ر(مدیر:فیصل عجمی ،ثمینہ راجہ) کے س لن مہ میں شہزاد منظر ک ایک مضمون ش ئع ہوا ۔ قرة ال ین حیدر کے س تھ چند لمحے۔ میں شہزاد منظر اور مس حیدر کے درمی ن مک لمے ک ایک دلچسپ حصہ مندرجہ ذیل سطور میں نقل کررہ ہوں۔ عینی ....” :فس د برابر ہورہے ہیں ،لوگ لکھتے نہیں ہیں اتنے بے حس ہوگئے ہیں۔ لیکن میں لکھ رہی ہو۔ اس کے ب رے میں برابر۔ ابھی بھی میں نے لکھ تھ اس ب رے میں۔ ’ع ل آشو ‘لکھ تھ ،جسے آپ نے پڑھ ہوگ ۔ اس ک عنوان تھ ۔ قیدخ نے میں تالط ہے کہ ہند آتی “ہے۔ شہزاد :اس افس نے کے ب رے میں تھوڑی سی ب ت کرن چ ہت ہوں۔ عینی :وہ افس نہ ہے ہی نہیں۔ وہ تو ع ل آشو ہے۔ شہزاد :ع ل آشو تو ہے لیکن آپ اسے کس صنف میں رکھیں گے؟
57
عینی :میں بس اتن کہہ سکتی ہوں کہ یہ ع ل آشو ہے۔ ب ض اوق ت مصنف جو کچھ لکھت ہے ،اس ک کوئی ف ر نہیں ہوت ۔ مصنف کو کچھ “کہن ہے تو ضروری نہیں کہ وہ مخصوص صنف میں ہی کہے۔ قرة ال ین حیدر کی یہ رائے ق بل غور ہی نہیں ،ب کہ اس رائے کو نثری نظ کی حم یت میں بھی کی ج سکت ہے۔ تخ یقیت ک مسئ ہ بھی عجی ہے۔ کوئی کوئی موضوع ایس ہوت ہے کہ مصنف الجھن ک شک ر ہو ج ت ہے کہ اسے کس طرح برت ج ئے۔ بہت ممکن ہے کہ اسی تخ یقی کن یوژن سے آزاد غزل بھی م رض وجود میں آئی ہو۔ گو آزاد غزل ک چ ن ان دنو نکچھ ک ہوا ہے مگر آزاد نظ ،نثری نظ کی طرح آزاد غزل کی اہمیت سے بھی انک ر نہینکی ج سکت ۔ اس لئے بھی کہ ش عری آج فقط ن موجود ،ک حصہ نہیں ہے۔ وہ پورے ”وجود“ کے س تھ عہد ح ضر کے مس ئل کی دیواروں پر دھوپ کی طرح پھیل ج ن چ ہتی ہے۔ ی دوسرے ل ظوں میں پھیل چکی ہے__ شدت سے پھی تی ج رہی ہے۔ سے ت بیر Feelingنثری نظ کو آپ ایک خوبصورت احس س کرسکتے ہیں۔ لیکن اس احس س کی جڑیں دور دور تک پھی ی ہوئی ہیں یہ احس س کسی ایک نقطہ ی لمحے سے شروع ہو کر مکمل ک ئن ت ک اح طہ کرلیت ہے۔ ع طور پر نظ ک ش عر،نثری نظ کی تخ ی کے دوران اپنے احس س کو آوارہ لہروں کی طرح چھوڑ دیت ہے۔ اس طرح ایک لہر سے کتنی لہریں بنتی چ ی ج تی ہیں اور ش عر لہروں کی ان لڑیوں سے اپنے خی الت ک ت ن ب ن بنت چال ج ت ہے۔ صنف غزل ہو ی آزاد نظ ،وہ ں یہ لہریں اتنی آوارہ ی آزاد نہیں رہ
58
سکتیں۔ غزل ایک خ ص طرح کی بندش ی ڈسپ ن ک ن بھی ہے۔ کہ ج سکت ہے کہ غزل کے الگ الگ اش ر ان آوارہ لہروں ی کی ی ت کو سمیٹنے ک ہنر ج نتے ہیں ،تو اس صداقت سے انک ر نہیں کی ج سکت ۔ لیکن الگ الگ رنگوں سے ’کی ی ت‘ کی فض مکدر بھی ہوسکتی ہے جبکہ نثری نظ اپنی تم تر جزئی ت کے س تھ ان آوارہ لہرو نکو قبول کرلیتی ہے پھر اس سے انحراف ی انک ر کیوں؟ مث ل کے طور پر میں کچھ نظمیں پیش کرن چ ہوں گ ۔ تکمیل بس آنکھیں چ ہئیں مجھے آنسوؤں کی پرورش کرن ہے انتظ ر ک بیج بون ہے آنکھیں چ ہئیں ت کہ میرے بے آواز آنسوؤں کو کوئی راہ مل سکے آنکھیں چ ہئیں ت کہ میں سوختہ خوابوں کو اکٹھ کرسکوں کہینسے مجھے ڈھونڈھ کر آنکھیں الدو بس، ایک جس کی ضرورت ہے
59
دکھوں کو پروان چڑھ ن ہے جس چ ہئے ت کہ دنی کی نگ ہوں سے دکھ چھپ ج ئیں دکھوں کو اپنے لئے گھر چ ہئے جس چ ہئے کہیں سے مجھے ڈھونڈھ کر الدو بس ایک روح چ ہئے آگہی سے لبریز جنوں سے پر چ ہئیں زی ں کی خواہش رکھنے والی ایک روح چ ہیے فکر فردا جس کی ہمرک
ہو
محبت کی جسے خواہش ہو اور اس کی خ طر سرگرداں ایک روح چ ہئے کہیں سے مجھے یہ ڈھونڈکر الدو مجھے آنسوؤں ک تق ض کرنے والی آنکھیں دکھوں کو پروان چڑھ نے کے لئے جس
60
اور آگہی کی روح چ ہئے مجھے انس ن بنن ہے ن جیہ احمد یہ ایک خوبصورت نظ ہے۔ انس ن کی تکمیل میں کن عن صر کی ضرورت پڑتی ہے۔ آنکھیں ،دکھوں کو پروان چڑھ نے کے لئے ایک جس ،دکھ کو چھپ نے کے لئے ایک گھر ،آگہی سے لبریز روح، آنسوؤں کی پرورش کرنے اور آنکھوں میں رکھنے کے لئے انتظ ر۔ اس نثری نظ میں بیک وقت کئی کی ی ت ہیں۔ دکھ سکھ کے س رے ”انس نی موس “ ہ آہنگ ہیں۔ مجھے لگت ہے۔ انس ن کی تکمیل ک یہ خی ل جس طرح نثری نظ کے ذری ہ ابھر کر س منے آی ہے ،ممکن ہے ن جیہ اس صوتی آہنگ کو کسی بھی دوسری صنف میں برتنے میں ش ید اتنی ک می نہیں ہو پ تیں۔ ا ایک اور نظ مالحظہ کیجئے۔ شرعی سرکس کل تک ضرور مجھے یقین تھ کہ بہرح ل ق ضی کی مدد سے ایک شرعی اور انتہ ئی مح وظ ترین لو اسٹوری شروع کی ج سکتی ہے
61
اور میرے یقین نے آخر مجھے میری زندگی کے س سے بڑے ایڈونچر سے دوچ ر کردی اور آج ایک خطرن ک رسی پر اونٹنی کی طرح چ تے چ تے میں گ رہی ہوں ی ر ،یہ شرعی عش تو سچ مچ ایک سرکس کی طرح ہے جس میں دو جس چ ہے ان چ ہے ن نہ د وف کی رسی پر سرکس نہ مش قی سے چ تے آرہے ہیں صدیوں سے اور ا خوابونمیں بھی ہنسنے کے س رستے ایک ق ضی بند کرکے چال گی ہے عذرا پروین
62
محسوس کیجئے تو عذرا کی اس نظ میں ت خی ں ہی ت خی ں پیوست ہیں۔ یہ نظ ازدواجی زندگی کے بحران سے گزرتی ہے اور کئی سوالیہ نش ن چھوڑ ج تی ہے۔ ق ضی کی مدد سے شرعی اور انتہ ئی مح وظ ترین لو اسٹوری شروع کرنے ک مط سیدھ اور ص ف ہے۔ ی نی رشتہ ¿ ازدواج میں منس ک ہو ج ن ۔ عذرا اسے ایک خطرن ک ایڈونچر سے ت بیر کرتی ہیں ،جیسے کوئی نٹنی رسی پر چل رہی ہو۔ ی نی ذرا س بھی توازن میں فر آی اور کھیل بگڑا۔ عذرا اسے شرعی سرکس سے ت بیر کرتی ہیں کہ صدیوں سے ایک ق ضی کے کہے پر یہ Irony of thoughtسرکس مس سل اپن تم شہ دکھ ئے ج رہ ہے۔ ا کی مستح میرے نزدیک صرف اور صرف نثری نظ ہی ہوسکتی ہے۔ عذرا کی دوسری بہت س ری نظموں کے بیچ ،یہ نثری نظ اس لئے بھی اپنی خ ص چھ پ چھوڑنے میں ک می ہے کہ رشتہ ¿ ازدواج کو سرکس کی جزئی ت کے س تھ جوڑ کر عذرا نے نشہ ¿ تخیل کو دو آتشہ بن دی ہے۔ پ کست ن میں ان دنوں بڑی ت داد میں نثری نظمیں لکھی ج رہی ہیں۔ کچھ نثری نظموں کے نمونے مالحظہ کیجئے۔ لیکن اس سے قبل نصیر احمد ن صر ک تذکرہ ضروری ہے۔ان کی نثری نظمیں نہ صرف قبولیت کے دور سے گزرچکی ہیں ب کہ ابھی بھی ان نظموں پر گ تگو ک س س ہ ج ری ہے۔ احمد ہمیش نے نصیر احمد ن صر کی نظموں کے ب رے میں لکھ ۔ نصیر احمد ن صر کے خوا مس سل کو م مولی است رہ سمجھ لین ” اس عہد کی س سے بڑی ش ری ن رس ئی اور ادبی بددی نتی ہوگی۔
63
ن صر کے خوا کی ت بیر وت ہی کے لئے محض اس خ کی کرے پر ارتق ئے حی ت ہی ک نہیں ،بس ط ک ئن ت کی المتن ہیت میں وجود آد کی بے بس طی ک ش ور والش ور رکھن بھی ضروری ہے۔ دورون ذات کے قدی آ زاردوں اور فرد کے انتہ ئی گہرے داخ ی منطقوں سے پھوٹت ہوا ن صری خوا ،ازل وابد کی حدوں سے م وراءالوہی نیند تک پھیال “ہوا ہے۔ )تشکیل (احمدہمیش حقیقت ً نصیر کی ”خوا س س ے“ کی نظمیں اد میں گرانقدر اض فہ جس تس سل کے Shadesکی حیثیت رکھتی ہیں اور خوا کے یہ س تھ فرد کی ذات سے نکل کر بس ط ک ئن ت پر پھی تے ہیں۔ میرے خی ل میں اس کے لئے موزوں ترین صنف صرف اور صرف نثری ش عری ہے۔ ان خوا زدہ نظموں میں تم تر ش ری کی ی ت اس خوبصورتی سے سموئی گئی ہیں کہ ان نظمونسے گزرتے ہوئے خوابوں کے ن آفریدہ گوشے بھی خود بخود آپ کے س منے کھ تے چ ے ج تے ہیں۔ مث ل کے طور پر ایک نظ دیکھئے۔ ”خوا اور محبت کی کوئی عمر “نہیں ہوتی۔ ہم رے درمی ن بے خبری کی دھند پھی ی ہوئی ہے’ تالش کے راستے پر چ تے ہوئے ہم رے قد اپنی منزل نہیں دیکھ پ تے تمہ را اندر ،میری نظموں سے زی دہ خوبصورت اور اجال ہے مگر میری عینک کے شیشے روز بروز دبیر ہوتے ج رہے ہیں
64
پتہ ہے ہمیں لکھتے ہوئے نظمیں اور کہ نی ں بے ل ظ کیوں ہو ج تی ہیں وہ ہم ری ج ئے پیدائش ،ت ریخ اور عمر ج نن چ ہتے ہیں انھیں کی م و خوا نہ پیدا ہوتے ہیں نہ مرتے ہیں ان ک اندراج کسی رجسٹر میں نہیں ہوت میں نہیں ج نت ت نے ک خوا کی انگ ی تھ مے ہوئے نیند میں چ ن سیکھ لیکن میں وہ خوا ہوں جسے آج تک کسی نے نہیں دیکھ میں تو اس روز ہی مر گی تھ جس روز ب پ نے م ں کے ح م ہ پیٹ پر ٹھوکر لگ ئی تھی مگر میں قبر کے اندر بڑا ہوت گی اتن بڑا کہ م ں مجھے سر جھک ئے بغیر دیکھ سکتی
65
ایک ب ر کسی کی تصویر کھینچتے ہوئے کیمرہ میرے ہ تھ سے گر کر ٹوٹ گی تھ ت مجھے پتہ چال کہ خوا روشنی میں سیہ کیوں ہو ج تے ہیں انھیں ایکسپوز کرنے کے لئے اندھیرے ک مح ول کیوں ضروری ہے روشنی ت ریکی میں ہی نظر آتی ہے بہتے پ نی کی کوئی شکل نہیں ہوتی شک یں ہم ری آنکھ میں ہوتی ہیں خوا دیکھنے کے لئے نیندوں کی نہیں ،آنکھوں کی ضرورت ہوتی ہے سے منش تک Protozoan کئی ہزار م ین س لوں کی ارتق ئی نیند محض آنکھیں کھولنے ک عرصہ ہے موت اور زندگی میں محبت ک ف ص ہ ہے جسے ن پنے کے لئے ہ عمر ک پیم نہ است م ل کرتے ہیں اورجینے ک ڈھونگ رچ تے ہیں لیکن محبت کی کوئی عمر نہیں ہوتی
66
یہ تو ایک ن م و انت ہے جو دوسرے ن م و انت تک موجود ہے ہ جہ ں اسے دری فت کرتے ہیں وہیں پر اپنی اپنی حد مقرر کرلیتے ہیں اور اسے ن مون ور رشتے میں تقسی کردینے میں اداسی ہم رے ع اور تجربے سے کہیں زی د ہ ہے اسے پھی نے دو رنگوں ،پھولوں اور تت یوں کو ل طوں میں بی ن نہیں کی ج سکت پرندوں ،پودوں اور اچھے لوگوں سے ب تیں کرنے کے لئے خ موشی سے بہتر کوئی اظہ ر نہیں کوئی ب ت اپنی عمر سے بڑی نہیں ہوتی کی خبر ہ کسی عظی خوا کی بیداری میں ہیں اور کوئی ہمیں ک ئن تی آنکھ سے دیکھ رہ ہے پر آتم کو خوا دیکھتے ہوئے ڈسٹر مت کرو نصیر احمد ن صر میں نے ج ن بوجھ کر یہ ں ایک طویل نظ ک انتخ کی ہے ،آپ کہہ سکتے ہیں۔ اس میں خ ص ب ت کی ہے۔ آپ خوا اور نیند پر ہزاروں
67
عمدہ اش ر سن سکتے ہیں۔ آپ میر اور غ ل کے حوالے سے ،خوا ، نیند،زندگی اورموت کے ف س ے پر ب تیں کرتے ہوئے بڑے آرا سے کہہ سکتے ہیں کہ جو کی یت دو مصرعے کے ایک ش ر میں سموئی ج سکتی ہے ،اس کے لئے اس قدر بھٹکی ہوئی نظ لکھنے کی کی ضرورت تھی۔ ش عر کے ”ذہ نت“ سے لبریز دو مصرعے کسی بھی کی یت کی عک سی کے لئے بہت ہےں۔ ممکن ہے آپ ق لے کر نظ کی خ می ننک لن شروع کردیں کہ یہ نظ یہ ں بھی خت ہوسکتی تھی یہ ں بھی اور یہ بھی کہ نظ کی س سے بڑی خ می یہ ہے کہ یہ نہیں ہے۔ Compact ک خوشگوار ہوا ) (Stream of Consciousnesش ور کی رو کی طرح مستقل بہتے ج ن ہی اس نظ کی اور نثری نظ کی س سے بڑی خوبصورتی ہے۔ یہ ں آزاد نظ کی طرح ہ ”خی ل“ کو یک موضوعی دھ رے میں نہیں بہنے دیتے۔ ہ اسے مخت ف سے گزارتے ہیں۔ ہ خوابوں کی ب ت Shadesی Varitions کرتے ہیں تو ج گتی آنکھوں ،بند آنکھوں اور نیند سے گزرتے ہیں۔ نیند سے گزرتے ہیں تو ہمیں فوٹو گرافی ک عمل ی د آج ت ہے۔ ت مجھے پتہ چال کہ خوا روشنی میں سیہ کیوں ہو ج تے ہیں۔” “انھیں ایکسپوز کرنے کے لئے اندھیرے ک مح ول کیوں ضروری ہے۔ خوا ی ترا سے مس سل گزرتے ہوئے ہ پر ایک خ ص طرح کی اداسی مس ط ہونے لگتی ہے۔ انتراتم سے پرم تم تک ک یہ س رہمیں نہ صرف ذہنی اور روح نی کربن کی سے گزارت ہے ب کہ ایک طرح سے اندرہی اندر ہمیں نچوڑ بھی لیت ہے۔ پھر جیسے یک یک ہ کسی
68
وجدانی کی یت سے گزرتے چ ے ج تے ہیں۔ ا یہ نق دوں کی ش ری ن رس ئی ہی کہی ج ئے گی کہ اسے ا تک سندوقبولیت ک درجہ نہیں مال ہے۔ کچھ نمونے اور مالحظہ کیجئے۔ پ کست ن کے ع ی محمد فرشی سے لے کر ،مستقل نثری نظ سے اختالف رائے رکھنے والے ن م ن شو تک ،نثری نظ لکھنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ نثری نظ کے ش عر ک کینوس اور وژن ک فی بڑا ہوت ہے یہ سچ ہے کہ نثری نظ کے لئے ا تک کوئی پیم نہ مت ین نہیں کی گی ۔ ممکن ہے ،یہی اس ک س سے بڑا وصف ی عی ہو ،مگر موضوع کے لح ظ سے جتنے ڈائمنشن میں تالش کرسکت ہے ،کسی دوسری Prose Poetryش عر اس _ش ری صنف میں نہیں کچھ نثری نظمیں مالحظہ کیجئے۔ کل رات میرے خوا میں دومک ن تھے ایک بڑا گھر تھ جس ک ن وقت تھ ایک اور گھر تھ جو بڑے گھر سے چھوٹ تھ ن اس ک بھی وقت تھ ہ دونوں ان دونوں گھروں کی طرف ج رہے تھے ہنستے ،کھی تے
69
میرے س تھ ایک دب ی سی شوخ وشنگ لڑکی تھی جو عمر میں مجھ سے چھوٹی تھی مگر ج وہ میری طرف دیکھتی تھی تو مجھے میری عمر سے بڑی لگتی تھی پھر بھی ہ دنوں نوخیز ہ عمروں کی طرح ہنستے کھی تے ج رہے تھے بڑے گھر کی طرف ی چھوٹے گھر کی طرف منیر نی زی آنکھیں Safet Valves ہیں میں اپنی ذات کے پریشر ککر میں پکتی ہوں اور ج اندر ہی اندر بھ پ زی دہ ہو ج تی ہے تو آنکھوں سے بہہ نک تی ہوں۔ فوزیہ چودھری
70
بن م نس لڑکی اس کے چہرے پر جنگل اگ رہے تھے اس کی ٹ نگوں پر جنگل اگ ہوا تھ ا سکی ابھرتی ہوئی چھ تی ں رین ف رسٹ بن رہی تھیں ایک خوبصورت لڑک اسے دیکھ کر بے ہوش ہوگی وہ اسے اٹھ کر اپنے گھر لے آئی لڑکے کے جس پر کوئی ب ل نہیں تھ انھوں نے آپس میں ش دی کرلی افتخ ر نسی اسے زندگی ک راز م و ہوگی تھ چمڑہ پوش دوپ ئے بوڑھے ب پ کو تیروں سے دھکی تے ہوئے دری ئے عظی کے مقدس پ نیوں سے بہت دور لے گئے دمکتے ہوئے صحرا میں زندگی دیر تک اس کی منتیں کرتی رہی
71
لیکن اس نے اپنے گن ہوں کی م فی نہیں م نگی اس کے س تھ بڑے گن ہوں میں پہال گن ہ یہ تھ کہ اس نے مقدس مٹی میں سو رس وئی ک شت کرنے سے انک ر کی اس نے زمین کی ہری کوکھ سے کپ س ک اجال پھول اگ ی مقدس ریشے سے اس نے ستر بن ی اور جس کے را چھپ لیے اس نے تیر کے بج ئے ق اور ڈھ ل کے بج ئے تختی بن ئی وہ زب ن کو بولنے اور انگ یوں کو لکھنے کے لئے است م ل کرت تھ اس نے انس نوں کی پشت پر تیر برس نے والوں کو خدا ک دشمن اور چمڑہ پوش ف تحین کے ت وے چ ٹنے الوں کو کتوں ک آخری جن قرار دی
72
اس ک ایم ن تھ کہ موت اسے نہیں م رسکتی کیونکہ اس نے لکھنے ک راز ایک اپ ہج بیٹے کو بت دی تھ اسی لئے آ میں یہ نظ لکھتے ہوئے ادا نہیں ہوں ع ی محمد فرشی ان میں کئی نظمیں انتہ ئی ف یٹ ہین ور کہیں کہیں ان ک کھردراپن ی کی Contentسپ ٹ بی نیہ ذہن ودم پر کچوکے بھی لگت ہے لیکن م نویت سے انک ر نہیں کی ج سکت ۔جس طرح بہت سے ش عر ،اچھی ش عری نہیں کر پ رہے ہیں ،اسی طرح ہ کہہ سکتے ہیں کہ کچھ ایسے لوگ بھی نثری نظ کہنے کی کوششیں کررہے ہیں ،جو نثری ش عری کے فن سے ابھی آگ ہ بھی نہیں ہیں۔ پھر بھی نصیر ،فرشی وغیرہ کی نظمیں اپنے بین السطور اورم نی آفرینی کی وجہ سے سیدھے دلوں میں اتر ج تی ہیں۔ ن م ن شو غزل کے ش عر ہیں۔ نئی نسل کے ش عروں میں ن م ن ک قد اور رنگ دوسروں سے مخت ف اور ان رادی ہے۔ن م ن کی زندگی کے س تھ ایک ن ق بل فراموش س نحہ بھی جڑا ہوا ہے۔ ن م ن نے ج ان ی دونکو لکھن چ ہ ،تو اس کے لئے ان کے پ س موزوں ترین ہتھی ر سوائے نثری ش عری کے کوئی اور نہیں تھ ۔ ی نی نثری ش عری سے انحراف ک رویہ اپن تے ہوئے بھی ،وہ اس کے ق ئل نظر آئے۔
73
ن م ن شو کی یہ نظ (نثری) مالحظہ کیجئے۔ عنوان ہے۔ جنوری241990 ت نے اندھیری رات چنی اور رسی چنی اپنے لئے اور میرے لئے بند کریئے عذا م ہ وس ل سے بچ نک نے کے تم راستے میں نے م ں کو م ں کہ /ت سے پہ ے رو کر اور چیخ کر میں نے توڑی خ موشی کی برفی ی چٹ ن اور اپنی ہستی ک اعالن کی ت سے پہ ے ج تی سیخوں میں داغ گی میرا احس س ت سے پہ ے
74
آتی ج تی س نسوں نے آگ بھری میری ہڈیو نمیں گہری ک لی رات نے بسیرا کرلی تھ مجھ میں ت سے پہ ے میں نے بھی چن رکھی تھی___ ایک رات بھی نک ،منحوس اور ک لی رات اپنے لئے میں نے بھی ایک رسی چن رکھی تھی اس تنگ وت ریک گھ ٹی میں اترنے کے لئے جس میں ت اتر گئے مجھ سے پہ ے !ت میرے جیسے تھے ن ایک ہی م مت کی مہرب ن ش خ پر جھولے ڈالے تھے
75
میں نے اور ت نے ایک سے تھے میرے اور تمہ رے دکھ میری اور تمہ ری آنکھو سے بہنے والے آنسو اور ان آنسوؤں میں بھیگ کر ایک س لگت تھ ،میرا اور تمہ را چہرہ !ت میرے جیسے تھے ن ش ید اسی لئے کسی نے آج پھر پک ر لی ہے مجھے ،تمہ رے ن سے اور اچ نک خوا سے چونک پڑا ہوں میں ی پھر کہیں ایس تونہیں اپنے ہونے کے بھر میں تمہ رے نہ ہونے پر اصرار کرت رہ ہوں میں تو کی سچ مچ یہ میں نہیں یہ میرے ہ تھ پ ؤں ،آنکھیں س ت ہی ت ہو تو کی وہ میں تھ
76
جس نے تھوک دی تھ اس رات دنی کے کریہہ چہرے پر تو کی وہ میں تھ جس نے رسی کے ایک ٹکڑے سے ن پ لی تھی اپنی بچی کھچی عمر تو کی ت ہو جو اتنی رات گئے ،نظ لکھ رہے ہو ،میرے لئے ن م ن شو ___ Prose-Poemی Story-Poemگو اردو میں اس جدید ترین کی ارتق ئی پیش رفت ک ثبوت فراہ کرنے کے لئے یہ نظمیں ک فی ہیں۔ ک یشے سے پ ک متنوع موضوع ت پر لکھی گئی یہ نظمیں نہ صرف زندگی کے مخت ف پہ وؤں ک اح طہ کرتی ہیں ،ب کہ ایک طرف جہ ں خوبصورت امیجز ابھر کر س منے آتے ہیں ،وہیں بین السطور کی گہری م نویت بھی ،غوروفکر کے لئے آپ ک راستہ روک کر کھڑی ہو ج تی ہے۔ ہ فکشن میں ش عری نہیں کرسکتے ہیں۔ زی دہ جذب ت نگ ری کو بھی Janeکچھ نق دوں نے اچھے فکشن ک عی بت ی ہے۔ اس لئے سے امرت پریت تک ،ان کی ش ہک ر تخ یق ت پر بھی بے ج Austin جذب ت نگ ری ک الزا لگت رہ ہے۔ خود جوائس ک قول تھ ،کہ آپ کسی کو بری طرح رالدیتے ہیں ی چونک دیتے ہیں تو یہ کوئی بڑی
77
ب ت نہیں ہے۔ یہ ک تو ایک م مولی شرارتی بچہ بھی کرسکت ہے۔ جس طرح فکشن میں آپ کو جذب ت سے دامن بچ ن ہوت ہے ،اسی کی فض پیدا نہیں Storyی Proseطرح ش عری میں آپ کہ نی کرسکتے۔ ی نی ش عری کو سخت پتھری ی ،ن ہموار راہوں سے گزارنے ک خی ل بھی ،ش عری کی تم ترجم لی ت کو رد کرکے ہی آسکت ہے۔ نتیجہ جو ک آپ ش عری سے نہیں لے سکتے ،فکشن میں جس جذب ت نگ ری کو آپ فرو نہیں دے سکتے ،یہ ں نثری ش عری ،ی میں یہ س رے دروازے آپ کے لئے کھ ے رکھے Story-Poem گئے ہیں۔ ی نی آپ موضوع سے بندھے ہوئے نہیں ہیں۔ نہ یہ ں ق فیہ آپ کی Frame-workردیف کی پ بندی ہے نہ ایک مخصوص کرافٹ مین شپ کو مت ثر کرت ہے۔ آپ آزاد ہیں اور بج طور پر آپ اپنی آزادی ک است م ل کرسکتے ہیں۔ ش ید یہی وجہ ہے کہ آہستہ آہستہ اس کی ادبی کشش میں اض فہ ہوت ج رہ ہے۔ نصیر احمد ن صر تسطیر کے اداریہ میں لکھتے ہیں۔ س ٹھ کی دہ ئی میں ک شت کئے ج نے واال یہ پودا (نثری نظ ) ارتق ئی ” تبدی یوں اور نئی نئی پیوندک ریوں کے ب د اپنے دور ث نی میں عمدہ ثمرداری ک اہل ہوگی ہے اور ا نئی نثری نظ ک ذائقہ پہ ے کی طرح ت خ وترش نہیں رہ ۔ لیکن ہم رے کئی ادیبوں اور نق دوں کی سوئی ابھی تک س ٹھ کی دہ ئی پر اٹکی ہوئی ہے اور وہ آج بھی اسے چکھے اور محسوس کئے بغیر کڑواہٹ سے منہ بگ ڑ لینے کی پ لیسی “پر عمل پیرا ہیں۔ تسطیر،ستمبر77ئ
78
نثری نظ کے ب رے میں ع غ ط فہمی ں ابھی بھی ق ئ ہیں۔ جیسے آس نی سے یہ کہ ج ت ہے کہ آپ کسی بھی کہ نی ک کوئی اقتب س اٹھ ئیے ،اسے نثری نظ کے ف ر میں ٹکڑے ٹکڑے کر کے سج لیجئے۔ لیجئے آپ کی نظ تی ر ہے۔ دراصل ایسے نق دوں نے کبھی نثری نظ کو سنجیدگی سے لی ہی نہیں۔ میری طویل نظ لیپروسی کیمپ ،کے دیب چے میں برادر ن م ن شو نے مجموعی طور پر یہی اعتراض ت دہرائے ہیں اور دلچسپ ب ت یہ ہے کہ میری کہ نیو نسے نثری نظ کے جو ٹکڑے نقل کئے ہیں ،حقیقت ً وہ میری پرانی نثری نظمیں ہی ہیں میں نے شروع تی دور میں بھی اپنی کئی کہ نیو نمیں ان نثری نظموں کے لئے جگہ نک لی ہے۔ دراصل کہ نیو نکے درمی ن ان نثری نظموں کے ذری ہ میں ایک خ ص طرح کی فض پیدا کرنے کی کوشش کرت ہوں اور بقول نصیراحمد ن صر ،ش ید انس ن کی ازلی وابدی تنہ ئی کسی ایسے ش ری نظ اور لس نی آہنگ کی متق ضی ہے، ش ید ابھی تک جسے کوئی ن نہیں دی ج سک ۔ ش ید نثری نظ اظہ ر کی اسی بے بسی ک غیرمرئی تخ یقی جواز ہے۔ مجھے لگت ہے ،یہی ب ت کبھی کبھی فکشن پر بھی ص د آتی ہے فکشن کی تخ ی کے دوران بھی کبھی کبھی یہی بے بسی راستہ روک کر کھڑی ہو ج تی ہے اور کہ نیوں کے درمی ن بھی کبھی کبھی نثری نظ کے سوتے پھوٹ سکتے ہیں۔ مگر حیرت ت ہوتی ہے ج کہ ج ت ہے۔ کسی بھی کہ نی کے اقتب س کی کئی حصوں میں تقسی کر ڈالیے اور آپ کی نثری نظ تی ر ہے۔ چ ئے۔ یہ قد بھی اٹھ کر دیکھتے ہیں۔
79
میری ایک کہ نی ہے۔ غال بخش۔ میرے افس نوی مجموعہ ”غال بخش اور دیگر کہ نی ں“ کی یہ پہ ی کہ نی ہے۔ غور کیجئے۔ لیکن ص حب ن۔ذرا ٹھہرئے۔ اس داست ن کو شروع کرنے سے پہ ے ” میں ایک چھوٹ س واق ہ بت دوں۔ ہوا یوں کہ جیس میں نے شروع میں بت ی ہے کہ ج بھی میں نوین پب شنگ ہ ؤس ج ت کوشش کرت کہ “نظریں بچ کر زی دہ سے زی دہ غال بخش ک ج ئزہ لیت رہوں۔ ا اسی اقتب س کو نثری نظ ف ر میں سج نے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ص حب ن” ٹھہریے ذرا اس داست ن کو شروع کرنے سے پہ ے میں بت دون یک چھوٹ س واق ہ ہوا یوں کہ جیس میں نے بت ی ہے شروع میں کہ جیسے ہی میں ج ت تھ ، نوین پب شنگ ہ ؤس کوشش کرت
80
کہ بچ کر نظریں زی دہ سے زی دہ ج ئزہ لیت رہوں “غال بخش ک ممکن ہے ،آپ یہ کہیں کہ میں نے ج ن بوجھ کر کہ نی ک ایس اقتب س اٹھ ی ہے جسے نثری نظ ف ر میں منتقل کرن آس ن نہینہے اور میرا س را زور محض اسی ب ت پر ہے کہ کہ نی کے کسی بھی اقتب س ی Contentٹکڑے کو نثری نظ نہیں کہ ج سکت ۔ نثری نظ ک اپنے کے س تھ نزول ہوت Feelingsمیں تح یل ہوئی Contentاور ہے۔ آپ غور کریں تو اس کے نثری مواد میں بھی ایک خ ص طرح ک ش ری آہنگ چھپ ہوت ہے اور حقیقت یہ ہے کہ آج ہیئت ک یہ تجربہ نہ صرف ک می ہوچک ہے ب کہ ”ب ل مو روایت ک ایک حصہ بھی بن “چک ہے۔ _وزیرآغ نے کی ٹھیک کہ ہے اصالًاصن ف اد انس نی س ئیکی کے مخت ف مق م ت کو منکشف کرنے کے لئے ن گزیر ہیں اور اسی لئے یہ وجود میں آتی ہیں۔
نثری نظ ک تخ یقی جواز
81
اردو میں نثری نظ کے موجد احمد ہمیش کی یہ رائے بھی خ صی اہمیت رکھتی ہے۔ خی ل رہے کہ ٹیگور کی” گیت نج ی“ میں سنسکرت ن ٹک کے ” مک لموں کے زیر اثر نثری ش عری ک آہنگ برت گی ہے۔ ٹیگور کی” گیت نج ی“ کے توسط سے ہی انگریزی ش عروں کے یہ ں نثری ش عری آئی۔ ا بدقسمتی کو کی کہ ج ئے کہ عالمہ نی ز فتح پوری کی زیر ادارت ایک عرصہ تک م ہن مہ نگ ر میں ٹیگور کی ش عری کے جو تراج نثر لطیف اور انش ءلطیف کی اصطالح سے ش ئع ہوتے رہے ،وہ راست بنگ ہ سے نہیں ب کہ انگریزی سے اردو میں کئے گئے۔ جبکہ عالمہ نی ز فتح پوری بنگ ہ نہیں ج نتے تھے۔ اسی لئے نثر لطیف اور انش ءلطیف ن قص اردو تراج کے س سنسکرت نژاد بنگ ہ نثری ش عری کے آہنگ کو قبول نہ کرسکے۔ وہ لوگ اس پس منظر سے آگ ہ نہیں جو اردو ش عری کے ڈانڈے نثر لطیف اور انش ءلطیف “سے مالتے ہیں۔ یہی نہیں ،نثری نظ پر بے ج اعتراض کرنے والو کے لئے احمد ہمیش نے ان غ ط فہمیوں ک ازالہ کچھ اس ڈھنگ سے کی ہے۔ اسی طرح جو لوگ سج د ظہیر کے ش ری مجموعہ پگھال نی ”)(1 منظو کی گئی )( (Prosaicمطبوعہ )1964میں ش مل کچھ سطروں کو نثری ش عری سمجھتے ہیں،وہ نثری ش عری کے آہنگ “اور اس میں پ ئی ج نے والی اصل ش عری کی ت ہی نہیں رکھتے۔ میری طویل نثری نظ ”لیپروسی کیمپ“ پر ع اعتراض یہ کی گی ہے کہ اس ک ل ولہجہ ہندی ہے ی ہندی کے زیر اثر یہ وجود میں آئی
82
ہے۔ یہ ں مجھے یہ تس ی کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہے کہ ہندی کے اثرات کو ہ یوں بھی زائل نہیں کرسکتے کہ اردومیں وہ صنف ہندی کے وسی ے سے پہنچی ہے۔ ہندی نثری ش عری کے مخصوص آہنگ کی شرکت ی شمولیت اس زب ن میں قصداً نہیں ب کہ ضرورت ً بھی ہوئی ہے۔ میں نے ہندی نثری ش عری کے زیر اثر ہی پہ ی ب ر اردو میں ”)(2 “1960ءکے دوران نثری نظمیں لکھیں۔ احمد ہمیش ک ورد کرنے والوں کو ا “ ”This is not poetryاس لئے سنجیدگی سے اس صنف کی طرف توجہ دینی چ ہئے۔ اس میں زی دہ امک ن ت ہیں۔ ب ت کہنے کی زی دہ گنج ئش ہے۔ نثری نظ سے ”کھ واڑ“ کی کوششیں بھی بہت ہوچکیں ،ا اس کے مق ک ت ین ہو ج ن بہت ضروری ہے۔ اد میں ج کبھی بھی کوئی تجربہ ک می ہوا ہے۔ اس میں اچھے اور سنجیدہ لوگوں کے س تھ چند شوقین حضرات ک کو دپڑن بھی ج ری رہ ہے۔ اس لئے نثری نظ پر سنجیدہ ب تیں کرتے ہوئے ایسے غیر اہ نک ت کو نظر اندازکرکے آگے بڑھ ج ن ضروری ہے۔ اسی لئے اپنی نئی کت ،طویل نثری نظ ’لیپروسی کیمپ‘ کے پیش :ل ظ میں میں نے لکھ ی احس س ت کو کہ نیوں میں ات رن Feelingsمیرے لئے اپنی ان” دشوار تھ ۔ سو میں نے نثری نظ ک انتخ کی ۔ نثری نظ کے توسط سے مجھے اپنی ب ت کہنے میں زی دہ آس نی ہورہی تھی۔ میں اس نظ
83
میں کچھ کرداروں کو بھی ش مل کرن چ ہت تھ ۔ لیکن یہ خطرہ بھی بدستور بن ہوا تھ کہ پھر ی ر لوگ کہیں گے۔ ”یہ نظ رہی کہ ں۔ دوسروں کی طرح ت بھی کہیں نثری نظ لکھنے والوں کی حوص ہ افزائی کرنے الوں کی س زش میں توش مل نہیں ہوگئے۔ مثالً تمہیں انھیں کہ نی کہنے میں کی اعتراض ہے؟ جم ے ذرا سیدھے کرلو تو یہ کہ نی ہے۔ پھر ت اسے نثری نظ کہنے پر بضد کیو نہو؟ دوستوں ک یہ بھی خی ل تھ کہ جو غزل نہیں کہہ سکتے ،وہی لوگ ایسی اوٹ پٹ نگ حرکتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ نثری نظ کے ت سے میں نے اپنے ش عر دوستوں کی آنکھوں میں جو جھالہٹ ی ن رت دیکھی ہے ،اس ک اظہ ر ممکن نہیں ہے۔ )یہ ں میں ان کے عقیدے کو رد کرن نہیں چ ہت ( میں سوچت ہوں ،فکری سطح پر بہت سی ب تیں ایسی ہیں ،جن ک اظہ ر غزلوں میں نہیں ہوسکت ۔ کسی کسی کی یت کو نظ ی آزاد نظ میں نہیں سموی ج سکت ۔ کچھ کی یتیں اتنی بے ہنگ اور الجھی ہوئی ہوتی ہیں کہ آپ ان کے لئے صنف ڈرامہ کو بھی موزوں نہیں ٹھہراسکتے۔ کچھ خی الت اتنے پرپیچ ہوتے ہیں کہ ان کو لے کر کہ نی ں نہیں لکھی ج سکتیں۔ ی ن ول ک موضوع نہیں بن ی ج سکت ۔ Shadesزندگی مجموعہ ¿ سواالت ہے۔ ذہن میں آوارہ خی لوں کے ایسے نہیں ہوتے کہ ہ Shadesچ تے رہتے ہیں لیکن یہ س رے
84
انھیں لکھنے کی ضرورت محسوس کرتے ہوں۔ ذہن پر ج کوئی خی ل ن زل ہوت ہے تو وہ اپنے پورے ت جھ ،تکنیک ،اس و کے س تھ ___ جن لیت ہے اور الش ور میں ہی یہ طے ہوچک ہوت ہے کہ الف:اسے نظ کے طور پر لکھن ہے :اس کے لئے کہ نی موزوں ترین چیز ہے ج :یہ خی ل نظ میں در آئے تو بہتر ہے کی Prose-Poemلیکن حقیقت ً کچھ چیزیں سی ل کی صورت میں شکل میں ہی ڈھل کر س منے آتی ہیں۔ پھر نثری نظ سے انک ر “کیوں؟ )لیپروسی کیمپ“(پیس ل ظ سے” نئی ال ی ی نئی صدی میں قد رکھتے ہوئے آج یہ مقولہ ہر جگہ زیر بحث ہے کہ س ئنس کچھ بھی کرسکتی ہے۔ ہر قد ایک نی تجربہ ،ہر قد ایک نی انکش ف ،کوئی ایسی صورت اگر اد میں بھی نظر آئے تو حیرت واست ج کے چشمہ کو ات ر کر چونکنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہ یہ سوچ کر بھی ایم ن لے آئیں کہ انس نی س ئیکی کے مخت ف مق کو منکشف کرنے کے لئے ممکن ہے اس صنف نوکی ضرورت پیش آگئی ہو اور ا نئی صدی میں ،جبکہ نثری نظ ،تکنیک اور ہیئت کے تجزیوں سے گزرتی ہوئی آہستہ آہستہ ہم ری روایت ک ایک حصہ بھی بننے لگی ہے ،اس کے ادبی مق ک ت ین کی ج ن ضروری ہے۔ اور ا ،محض اس سے آنکھیں چرانے سے ک نہیں چ ے گ شکریہ
85
ع ی س حل نظ نو:مدیر 923003003033 https://groups.google.com/group/nazm-e-nau/subscribe?hl=en
86
اردو میں نثری نظ
پیش ک ر مقصود حسنی ابوزر برقی کت خ نہ جنوری ٧