اردو میں نثری نظم

Page 1

‫‪1‬‬

‫اردو میں نثری نظ‬

‫پیش ک ر‬ ‫مقصود حسنی‬ ‫ابوزر برقی کت خ نہ‬ ‫جنوری ‪٧‬‬


‫‪2‬‬

‫مندرج ت‬ ‫نثری نظ ک تخ یقی جواز‬ ‫نثری نظ دراصل نث ہے‬ ‫کرن ٹک میں جدید نظ کی صورت ح ل‬ ‫نثری نظ‬ ‫نئی صدی میں نثری ش عری‬

‫اردو میں نثری نظ عرصہ دراز تک متن زعہ رہی۔ اس کے وجود سے‬ ‫انک ر کی ج ت رہ ۔ اس پر ہزار طرح کے اعتراض کیے ج تے رہے۔‬ ‫بہت کچھ ہوا اور ہوت رہ ۔ ان تم ن خوشگوار ح الت میں بھی اس‬ ‫صنف ش ر نے اپن س ر ج ری رکھ ۔ لوگ بہت کچھ کہتے رہے لیکن‬ ‫اس کے ش را اپنی موج مستی میں نثری نظمیں لکھتے رہے۔ اردو‬ ‫میں اچھ خ ص ذخیرہ داخل ہو گی ۔ آج ایس وقت آی ہے کہ یہ صنف‬ ‫اد متن زع نہیں رہی۔ اسے قبول کر لی گی ہے۔‬ ‫‪ ٩٩‬میں اس کے جواز میں مجھ ن چیز کی ایک کت ۔۔۔ اردو میں‬ ‫نئی نظ ۔۔۔ ش ئع ہوئی۔ اسے پذیرائی بھی ح صل ہوئی۔ آج یہ صنف اد‬


‫‪3‬‬

‫متن زعیہ نہیں رہی۔ اس سے مت چند بڑے اہ مض مین میرے ہ تھ‬ ‫لگے ہیں جو اس پر ک کرنے والوں کے لیے ک کے ث بت ہو سکتے‬ ‫ہیں۔ انہیں بال کسی ترمی کے پیش کر رہ ہوں ت کہ اس صنف پر ک ی‬ ‫ب ت کرتے ان ک مط ل ہ ازبس کہ م ید ث بت ہو سکت ہے۔‬ ‫ف نی مقصود حسنی‬

‫نثری نظ ک تخ یقی جواز‬ ‫اداریہ تسطیر‪ ،‬جنوری ‪1998‬‬ ‫نصیر احمد ن صر‬ ‫نثری نظ اور اس پر بحث ا کوئی نی موضوع نہیں رہ ۔ تم تر‬ ‫مخ ل توں کے ب وجود ا یہ ایک ب ق عدہ اور مستحک صنف سخن ہے‬ ‫اور زی دہ تر ادبی جرائد اسے اہتم سے ش ئع کرتے ہیں‪ ،‬کچھ "نثری‬ ‫نظ " کے ن سے الگ صنف سخن کے تحت اور کچھ اسے "نظ "‬ ‫کے خ نے میں رکھتے ہیں ی نی پ بند‪ ،‬آزاد اور م ری نظ کے س تھ ۔‬ ‫لیکن اس کے ب وجود کچھ ایسے ادبی رس ئل بھی ہیں جن کے مدیران‬ ‫سرے سے اسے تس ی ہی نہیں کرتے اور نہ اپنے رس ئل میں ش ئع‬ ‫کرتے ہیں۔ گزشتہ چ لیس س لوں کے دوران نثری نظ پر بہت بحث ہو‬ ‫چکی ہے‪ ،‬مت دد مض مین‪ ،‬طویل اور ج مع مق لہ ج ت لکھے ج چکے‬ ‫ہیں اور سچی ب ت تو یہ ہے کہ ا اس موضوع پر کوئی نئی ب ت کرن ‪،‬‬ ‫نئے جوازات تالش کرن اور نئے مب حث ابھ رن مشکل ہے۔ ا تو اس‬


‫‪4‬‬

‫کے جواز پر کچھ کہنے کی بج ئے اس پر عم ی تنقید کی ضرورت ہے۔‬ ‫البتہ کچھ عرصہ پہ ے تک صورت ح ل مخت ف تھی اور اردو میں آزاد‬ ‫اور م ری نظ کے ہوتے ہوئے نثری نظ کو اپن جواز فراہ کرنے میں‬ ‫بڑی دشواری ں ح ئل تھیں۔ راق نے "تسطیر" جنوری‪1998،‬ء میں‬ ‫"نثری نظ ک تخ یقی جواز" کے عنوان سے ایک مختصر مگر ج مع‬ ‫اداریہ تحریر کی تھ ۔ اس اداریے پر نہ صرف "تسطیر" کے اگ ے کئی‬ ‫شم روں میں طویل بحث ہوئی ب کہ تسطیر سے ب ہر بھی عرصہ تک‬ ‫اس کی گونج سن ئی دیتی رہی اور اس کے حوالے سے دیگر ادبی‬ ‫جرائد میں بھی مض مین لکھے گئے۔ اس بحث میں اردو کے ک و بیش‬ ‫تم اہ اور مقتدر ش عروں‪ ،‬ادیبوں نے حصہ لی تھ ۔ چند س ل پہ ے‬ ‫ج اکیڈمی ادبی ت نے "ادبی ت" ک نثری نظ نمبر ش ئع کی تو اس کے‬ ‫لیے راق کو تسطیر میں نثری نظ پر ہونے والی س رے مب حث کو‬ ‫مرت کرنے کے لیے کہ گی ۔ ان مب حث کی ضخ مت سو سے زائد‬ ‫ص ح ت تھی۔ افسوس کہ کسی "ن م و " وجہ کے ب عث وہ یکج کی‬ ‫گئی س ری بحث ش ئع نہ ہو سکی اور اکیڈمی کے ک رپردازوں نے آج‬ ‫تک اس ک مسودہ بھی واپس نہیں کی ۔ یہ ں ق رئین کی دلچسپی کے‬ ‫لیے "تسطیر" ک اداریہ‪ ،‬چند م مولی ترامی کے س تھ‪ ،‬پیش ہے جو آج‬ ‫بھی نثری نظ سے مت بنی دی مب حث سے پوری طرح مت ہے۔‬ ‫ت ہ واضح رہے کہ یہ ‪1998‬ء میں ایک مدیر کی حیثیت سے لکھ گی‬ ‫ایک مجموعی صورت ح ل ک ج مع اظہ ریہ تھ اور اس کو اسی تن ظر‬ ‫میں پڑھ ج ئے۔۔۔۔‬ ‫نصیر احمد ن صر‬ ‫نثری نظ کے شجرہ نس کی جڑیں دنی کے قدی اد سے م تی ہیں۔‬


‫‪5‬‬

‫بہت سی دیوم الئیں‪ ،‬لوک داست نیں اور قبل مسیح کے طویل رزمیے‬ ‫اپنے ش عرانہ آہنگ‪ ،‬ہیئت اور اس و میں نثری نظ کے قری تر ہیں۔‬ ‫قدی ویدوں اور سنسکرت اد سے بھی اس کے ڈانڈے مالئے ج تے‬ ‫ہیں۔ مغر میں نثری نظ ک آغ ز انیسویں صدی میں ہوا۔ ابتدا فرانس‬ ‫میں اور ب دہ امریکہ میں اسے بہت فرو ح صل ہوا۔ اردو میں مخت ف‬ ‫ہیئتوں اور ن موں سے نثری نظ کی مث لیں بیسویں صدی کی تیسری‬ ‫دہ ئی سے م ن شروع ہو ج تی ہیں۔ ایک ادبی تحریک کے طور پر اس‬ ‫ک ب ق عدہ آغ ز س ٹھ کی دہ ئی سے ہوا۔ لیکن لگ بھگ تین دہ ئی ں‬ ‫گزر ج نے کے ب د بھی نثری ش عری ک یہ تجربہ اردو ش ری ت میں‬ ‫کسی واضح قبولیت کے مق تک نہ پہنچ سک اور م سوا چند تخ ی‬ ‫ک روں کی ذاتی ک وشوں کے نثری نظ ک "دور اول" ب ل مو ک می بی‬ ‫سے ہمکن ر نہ ہو سک ۔ اس کی بڑی وجہ غ لب سکہ بند قس کی ادبی‬ ‫تحریکوں کے خالف ردعمل اور اردو کی ش ری روای ت سے یک د‬ ‫اور یکسر بغ وت تھی۔ اس کے عالوہ اس دور کے نثری نظ نگ روں‬ ‫کی ضرورت سے زی دہ جدت و تجردپسندی‪ ،‬مغر پرستی اور ش ری‬ ‫کی ی ت و تجرب ت کو داخ ی ص ف گری کے عمل سے گزارے بغیر خ‬ ‫شکل میں پیش کر دینے واال ت خ رویہ بھی اس صنف کی ابتدائی‬ ‫ن ک می ک سب بن ۔ دلچسپ ب ت یہ ہے کہ امریکہ‪ ،‬جہ ں نثری نظ کو‬ ‫یہ ں تک فرو ح صل ہے کہ ب ض یونیورسٹیوں میں اد کے ط ب کو‬ ‫رائ لکھنے سے منع کی ج ت ہے‪ ،‬وہ ں بھی یہ صنف ابھی تک‬ ‫ردوقبول ہی کے مرح ے میں ہے۔ اس ک اندازہ ب ض امریکی جرائد‬ ‫کے اداریوں اور تحریروں سے بخوبی لگ ی ج سکت ہے۔‬ ‫نثری نظ کے شجرہ نس کی جڑیں دنی کے قدی اد سے م تی ہیں۔‬


‫‪6‬‬

‫بہت سی دیوم الئیں‪ ،‬لوک داست نیں اور قبل مسیح کے طویل رزمیے‬ ‫اپنے ش عرانہ آہنگ‪ ،‬ہیئت اور اس و میں نثری نظ کے قری تر ہیں۔‬ ‫گزشتہ دس پندرہ برسوں سے اردو نثری نظ ایک نئے فن من سے گزر‬ ‫رہی ہے۔ اسے نثری نظ ک "دور ث نی" بھی کہ ج سکت ہے۔ اس ب ر‬ ‫میدان قرط س میں زی دہ تر وہ ش را ہیں جو جدید تر ش ری حسی ت‬ ‫اور عصری ادبی ش ور رکھنے کے س تھ س تھ اردو کی کالسیکی‬ ‫ش ری روای ت سے بھی مربوط و منس ک ہیں اور فن ش ر گوئی یعنی‬ ‫اوزان و بحور پر بھی گرفت رکھتے ہیں۔ نثری نظ نگ روں کی اس‬ ‫کھیپ کی ش ری ترجیح ت و ترغیب ت کسی خ ص ادبی تحریک کے ت بع‬ ‫ی خالف نہیں ب کہ اد کے ان جدید اور پس جدید متنوع تخ یقی‬ ‫رویوں سے عب رت ہیں جو اس صنف میں نت نئے اس لی اور‬ ‫موضوع ت کے اض فے ک ب عث ہیں۔ بالشبہ اس زمرے میں وہ ش را‬ ‫اور ن رسیدہ و ن پختہ ک ر خ مہ فرس شم ر نہیں کیے ج سکتے جو‬ ‫اردو کی ش ری و عروضی روای ت سے آگ ہی ح صل کیے بغیر الٹی‬ ‫سیدھی سطروں میں سطحی اور خ ش ری مواد کو نثری نظ ی نظ‬ ‫کے ن سے پیش کر دیتے ہیں۔‬ ‫دراصل احس س ت و خی الت کے بہ ؤ کو محض ش وری طور پر کسی‬ ‫مخصوص س نچے میں ڈھ لن مشکل ہوت ہے۔ ایس کرنے سے تخ ی‬ ‫کی خوبصورتی‪ ،‬بے س ختگی اور بین السطور بہنے والی اداسی اور‬ ‫آگہی کی رو مت ثر ہوتی ہے۔ دراصل ہر نظ اپنی ہیئت ی س خت خود لے‬ ‫کر آتی ہے۔ تخ ی کے ب د اس کی تراش خراش تو کی ج سکتی ہے‬ ‫لیکن تخ یقی عمل کے دوران اسے زبردستی "نظ " ی "نثری نظ "‬ ‫نہیں بن ی ج سکت ۔ نثری نظ کہن ایس آس ن بھی نہیں جیس کہ کچھ‬


‫‪7‬‬

‫لوگ سمجھتے ہیں اور نہ نثری نظ کے ن پر ش ئع ہونے والی‬ ‫چھوٹی بڑی چند سطروں پر مشتمل ہر تخ ی کو نثری نظ کہ ج سکت‬ ‫ہے۔ اس کے لئے گہرے تہذیبی ش ور‪ ،‬آگہی‪ ،‬عرف ن ذات‪ ،‬جدید طرز‬ ‫احس س‪ ،‬عمی مط ل ے‪ ،‬مش ہدے‪ ،‬ری ضت‪ ،‬تخ یقی مزاج کی موزونیت‬ ‫اور عالمتوں‪ ،‬است روں‪ ،‬تشبیہوں اور پیکروں کے پیچیدہ مگر ق بل‬ ‫فہ نظ کے عالوہ ن می تی وحدت اور پس ال ظ اور بین السطور ایک‬ ‫اندرونی آہنگ جیسے لوازم ت درک ر ہوتے ہیں۔‬ ‫دراصل ہر نظ اپنی ہیئت ی س خت خود لے کر آتی ہے۔ تخ ی کے ب د‬ ‫اس کی تراش خراش تو کی ج سکتی ہے لیکن تخ یقی عمل کے دوران‬ ‫اسے زبردستی "نظ " ی "نثری نظ " نہیں بن ی ج سکت ۔‬ ‫اردو نثری نظ پر ا تک کئی مب حثے و مک لمے ہو چکے ہیں اور‬ ‫طویل مض مین رق کیے گئے ہیں جن میں اس کے ن ‪ ،‬پس منظر‪،‬‬ ‫مزاج‪ ،‬آہنگ‪ ،‬عالمتی و است راتی نظ ‪ ،‬فنی و فکری جواز اور شن خت‬ ‫پر ت صیل دار بحث کی گئی ہے۔ لیکن اس کے ب وجود ایک اہ سوال‬ ‫اپنی جگہ برقرار ہے کہ ب ض ش را اظہ ر کے مخت ف س نچوں مثال‬ ‫غزل‪ ،‬پ بند نظ ‪ ،‬م ری نظ ‪ ،‬آزاد نظ اور دیگر اصن ف سخن پر قدرت‬ ‫رکھتے ہوئے بھی نثری نظ ک اور کیوں کہتے ہیں۔ میرے خی ل اور‬ ‫تجربے کے مط ب نثری نظ اس وقت سرزد ہوتی ہے ج تخ یقی‬ ‫اداسی اور آگہی انس نی بس سے ب ہر ہو کر وجود کی حدیں پ ر کرنے‬ ‫لگتی ہے اور ش عری کے مروج پیم نے ی س نچے اس کے اظہ ر کے‬ ‫لئے ن ک فی ہو ج تے ہیں۔ ش ید انس ن کی ازلی و ابدی تنہ ئی کسی‬ ‫ایسے ش ری نظ اور لس نی آہنگ کی متق ضی و متالشی ہے جسے‬ ‫ابھی تک دری فت نہیں کی ج سک ۔ ش ید نثری نظ اظہ ر کی اسی بے‬


‫‪8‬‬

‫بسی ک غیر مرئی تخ یقی جواز ہے۔‬ ‫نثری نظ کو پ ک و ہند کے مخت ف مک ت فکر نثری نظ ‪ ،‬نثر لطیف‪،‬‬ ‫نثرین‪ ،‬نث ‪ ،‬نثر پ رے‪ ،‬نثرانے‪ ،‬نثم نے‪ ،‬نظ کہ نی‪ ،‬نظمیے‪ ،‬امک ن ت‬ ‫وغیرہ کے ن سے قبول کرتے اور اپنے اپنے رس ئل میں ش ئع کرتے‬ ‫ہیں۔ بیشتر اسے نظ کے خ نے ہی میں رکھتے ہیں۔ گوی اس صنف‬ ‫میں اظہ ر پر تو کوئی اعتراض نہیں لیکن اس کے ن ک مسئ ہ درپیش‬ ‫ہے۔ کچھ مک ت فکر ایسے بھی ہیں جو اپنے افک ر و نظری ت میں‬ ‫ج مد ی بہت زی دہ قدامت پسند ہونے کے ب عث اس صنف کو ا تک‬ ‫تس ی نہیں کرتے۔ یہ رویہ بھی ادبی اعتب ر سے ق بل تحسین نہیں۔ ت ہ‬ ‫یہ احتی ط برح ہے کہ نئی نسل کی ش ری تربیت اور نص بی ضرورت‬ ‫کے تحت نثری نظ کو م ری اور آزاد نظ سے الگ رکھ ج ئے۔‬ ‫ش رواد ک م خذ چ ہے کسی بھی زب ن سے نسبت رکھت ہو‪ ،‬حتمی‬ ‫تخ یقی م ی ر کی قدر و ت ین کے لئے اسے ب آلخر اسی زب ن کے‬ ‫حوالے سے دیکھ اور پرکھ ج ن چ ہیئے جس میں وہ تخ ی کی گی‬ ‫ہو۔‬ ‫ش رواد ک م خذ چ ہے کسی بھی زب ن سے نسبت رکھت ہو‪ ،‬حتمی‬ ‫تخ یقی م ی ر کی قدر و ت ین کے لئے اسے ب آلخر اسی زب ن کے‬ ‫حوالے سے دیکھ اور پرکھ ج ن چ ہیئے جس میں وہ تخ ی کی گی‬ ‫ہو۔ چن نچہ اردو نثری نظ کو بھی سنسکرت‪ ،‬ہندی‪ ،‬فرانسیسی اور‬ ‫انگریزی زب ن و اد کی کسوٹی پر پرکھنے کی بج ئے‪ ،‬اردو زب ن کی‬ ‫کٹھ لی میں پگھال کر‪ ،‬اسے اپنے س نچوں میں ڈھ ل کر دیکھن‬ ‫ضروری ہے۔ اردو نثری نظ س ٹھ اور ستر کی دہ ئیوں کے عبوری‬


‫‪9‬‬

‫دورانیے (دور اول) سے گزر کر ا اس مق پر ہے جہ ں اس کے‬ ‫م خذات اور اس میں اولیت جیسے نزاعی م مالت ضمنی نوعیت کے‬ ‫رہ ج تے ہیں اور تخ یقیت زی دہ اہ ہو ج تی ہے۔ ب لخصوص بیسویں‬ ‫صدی کی آخری دہ ئی میں تخ ی ہونے والی اردو نثری نظ اپنی ہیئت‪،‬‬ ‫اس و ‪ ،‬موضوع ت‪ ،‬زب ن و بی ن‪ ،‬ل ظی ت‪ ،‬کثیر م نویت‪ ،‬حس سیت اور‬ ‫عصر آفرینی کے اعتب ر سے ارتق اور خود مخت ری کی روشن دلیل‬ ‫ہے۔ جو لوگ اسے ک یتہ رد کرتے ہیں وہ دراصل اپنی ش ری و ادبی‬ ‫ن رس ئی ک اظہ ر کرتے ہیں۔ یقین دیگر اصن ف اد کی طرح اس میں‬ ‫بھی رط و ی بس اور ن ش عری در آئی ہو گی‪ ،‬اہل نقد و نظر کو‬ ‫چ ہیئے کہ وہ ژرف نگ ہی سے ک لیتے ہوئے اس کی چھ ن پھٹک‬ ‫کریں اور اس کی صحیح ش رات ترتی دیں۔ ا وقت آ گی ہے کہ وسیع‬ ‫تر تخ یقی امک ن ت کی ح مل اس صنف سخن پر کوئی سنجیدہ اور‬ ‫مت قہ الئحہ عمل اختی ر کی ج ئے‪ ،‬اس کی ارتق ئی پیش رفت کو تس ی‬ ‫کرتے ہوئے برسوں پہ ے کے عبوری خی الت و نظری ت پر نظر ث نی‬ ‫کی ج ئے اور اسے برزخ کے ع ل سے نک ال ج ئے۔‬ ‫)نصیر احمد ن صر‪ ،‬اداریہ تسطیر‪ ،‬جنوری ‪(1998‬‬ ‫‪http://www.laaltain.com/%D9%86%D8%AB%D8%B1%DB%8C-%D9%86%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%D8%AA%D8‬‬ ‫‪%AE%D9%84%DB%8C%D9%82%DB%8C-%D8%AC%D9%88%D8%A7%D8%B2/‬‬


‫‪10‬‬

‫نثری نظ دراصل نث ہے‬ ‫محمد حمید ش ہد‬ ‫محمد حمید ش ہد بحیثیت افس نہ نگ ر‪ ،‬ن ول نگ ر اور نق د کے ایک‬ ‫واضح شن خت رکھتے ہیں ۔ ح ل ہی میں ان ک افس نہ ”لوتھ“ بھ رت‬ ‫میں اردو نثرکی نص بی کت میں ش مل کی گی ہے۔ یہ پ کست ن کے‬ ‫دوسرے ادی ہیں ان سے قبل انتظ ر حسین ک افس نہ ”ب دل“ اس‬ ‫نص بی کت کی زینت بن ۔ ان کے انداز بی ن میں س دگی ‪ ،‬خ وص اور‬ ‫خی الت میں نی پن اور ت زگی ہے ۔وہ کہ نی کہنے کے فن پر حیرت‬ ‫انگیز طور پر ح وی ہیں۔ ان کے ہ ں صورت ح ل کوجرات سے‬ ‫دےکھنے اور مزاحمت سے تخ یقی سطح پر برتنے ک رویہ بھی م ت‬ ‫ہے اور خی الت کو لگی لپٹی رکھے بغیر ص ف گوئی سے بی ن کرنے‬ ‫ک حوص ہ بھی ۔ جہ ں تک طرز تحریر ک ت ہے وہ ص ف ستھری‬ ‫اور رواں نثر لکھنے پر قدرت رکھتے ہیں ۔ انہوں نے تنقید نگ ری‬ ‫میں جو غیر مت صب نہ انداز اختی ر کی ہے اس سے ان کی م روضیت‬ ‫اور ذمہ داری کو تس ی کرن ہی پڑت ہے۔‬


‫‪11‬‬

‫محمد حمید ش ہد کی تص نیف میں بند آنکھوں سے پرے‪ ،‬جن جہن ‪،‬‬ ‫مرگ زار‪،‬محمد حمید ش ہد کے پچ س افس نے‪،‬مٹی آد کھ تی ہے‪ ،‬ادبی‬ ‫تن زع ت‪،‬اردو افس نہ صورت و م نی‪،‬اش احمد شخصیت اور فن‪،‬‬ ‫پیکر جمیل‪ ،‬لمحوں ک لمس‪ ،‬الف سے اٹکھی ی ں‪،‬سمندر اور سمندر‪،‬‬ ‫ش مل ہیں۔ حمید ش ہد کو ان کی ادبی خدم ت کے اعتراف میں سیدہ‬ ‫ظہیرہ النس ت یمی ایوارڈ‪ ،‬این سی سی گولڈن جوب ی ایوارڈ اور می ں‬ ‫محمد بخش ایوارڈ سے نوازا گی ۔‬ ‫‪------------------------------------‬‬‫س ‪ :‬آپ کے افس نوں کی کت بیں بند آنکھوں سے پرے‪ ،‬جن جہن اور‬ ‫مرگ زار کے ب د ا تو پچ س افس نوں ک‬ ‫انتخ بھی چھپ چک ہے‪ ،‬آپ مٹی آد کھ تی ہے کے ن سے م روف‬ ‫ن ول لکھ اور فکشن کی تنقید میں اردو افس نہ صورت و م نی جیسی‬ ‫اہ کت دی تو پھر اس نثری نظ جسے آپ نث کہتے ہیں‪ ،‬میں آپ کی‬ ‫دلچسپی کے کی م نی ہیں ؟‬ ‫محمد حمیدش ہد‪ :‬مینکہت آےا ہوں کہ میں فکشن کی طرف دوسری‬ ‫اصن ف سے ہو کر آی ہوں ‪ ،‬ش عری ‪ ،‬نث ‪ ،‬حتی کہ انش ئیہ بھی میری‬ ‫بھی ایک زم نے میں میری دلچسپی ں کھینچتے رہے ہیں ۔ ت ہ‬ ‫مینسمجھت ہوں کہ وہ صنف جس نے مجھے تخ یقی سطح پر اپنے‬ ‫حص ر میں لے لی وہ فکشن ہی ہے۔تخ یقی عمل ٹوٹنے والے ست رے‬ ‫کی طرح چمک کر نظر سے اوجھل نہیں ہوج ت یہ تو آپ کی روح میں‬ ‫عج طرح ک اضطرا بھر دےت ہے ۔ انوکھی سی بے ک ی کہ آپ‬ ‫مس سل اندر ہی اندر سے ٹوٹتے اور بنتے چ ے ج تے ہیں ۔ کہ نی‬


‫‪12‬‬

‫لکھن ‪ ،‬محض وقوعہ لکھ لینے ک ن نہیں ہے‪،‬اسی تخ یقی عمل کے‬ ‫تس سل اور بے پن ہی سے جڑ ج نے ک ن ہے۔‬ ‫س‪ :‬آپ ک ادبی ف س ہ کی ہے؟‬ ‫محمد حمید ش ہد‪:‬دیکھئے ہر آدمی کی فکر ک اپن عالقہ ہوت ہے ‪ ،‬اور‬ ‫وہ جو کسی نے کہ ہے کہ جس ک نقطہ نظر نہیں ہوت اس کے پ س‬ ‫نظر ہی نہیں ہوتی درست ہی کہ ہے ‪ ،‬ت ہ اس امر کو نہیں بھولن‬ ‫چ ہیئے کہ ہر فرد تخ یقی سطح پر مخت ف ہوج ت ہے ۔ آپ ایک گروہ‬ ‫‪،‬ایک جم عت اور ایک بھیڑ کو ایک وقت میں ایک ہی ن رہ لگ تے‬ ‫ہوئے دیکھ سکتے ہیں تخ یقی مزاج کے اعتب ر سے دو آدمی بھی آپ‬ ‫کو ایک جیسے نہ م ےہوں گے ‪ ،‬جو جینوئن ہوں اور ایک جیس لکھ‬ ‫رہے ہوں ۔ ب لکل ایسے ہی جس طرح دست ویزات پرہر انگوٹھ لگ نے‬ ‫واال الگ سے پہچ ن ج سکت ہے ب لکل اسی طرح سچ تخ ی ک ر‬ ‫دوسروں سے الگ کھڑا نظر آت ہے ۔ یہ بج کہ تخ یقی عمل م نی کی‬ ‫تکثیریت اور جم ل کی ہمہ گیری کے امک ن ت کی تالش ک ن ہے مگر‬ ‫یہ بھی تس ی شدہ حقیقت ہے کہ ہر تخ ی ک ر کے ہ ں م نی اور جم ل‬ ‫کی ایک الگ ک ئن ت بنتی ہے ۔‬ ‫س‪ :‬تخ یقی عمل کو آپ اس م شرتی فض سے ک ٹ کر تو نہیں دیکھ‬ ‫سکتے جس میں اد رہ رہ ہوت ہے؟‬ ‫محمد حمید ش ہد‪ :‬یہ بج کہ لگ بھگ ایک سی فض میں رہنے والے‬ ‫اد کی ایک ہی نہج میں سوچنے لگیں ‪،‬ت ہ تخ یقی عمل کے دوران‬ ‫م نی کی تکثیریت اور جم ل کی ہمہ گیری ک جو عالقہ بنت ہے وہ فن‬ ‫پ رے کی خ رجی ہیئت سے کہیں زی دہ اس کے ب طنی امیج سے بنت‬


‫‪13‬‬

‫ہے۔ میں سمجھت ہوں کہ تخ یقیت ک بھید اس کے سوا اور کچھ نہیں‬ ‫ہے کہ متن کس طرح اور کس حد تک ل ظوں کے ب طنی امیج کے‬ ‫روشن کن روں سے ج کر جڑ ج ت ہے۔ انس ن ک ش ور دو حصوں میں‬ ‫بٹ ہوا ہوت ہے ‘ وجدان اور ذہ نت۔ تخ یقی عمل کے دوران وجدان اور‬ ‫ذہ نت دونوں کو دو مخت ف اورمتض د اب د پر موجود رہن چ ہیے ۔ جس‬ ‫طرح کوئی حس س انس نی وجود ایک زندگی سم جی سطح پر جی رہ‬ ‫ہوت ہے اور ایک ب طنی سطح پر‪ ،‬ب لکل اسی طرح ل ظ کی ایک حیثیت‬ ‫عب رت کے اندر بنتی ہے اور دوسری م نی تی سطح پر ۔اور یہ ں مراد‬ ‫محض وہ م نی نہیں ہیں جو لغت میں درج ہوتے ہیں ‘ نہ وہ م نی‬ ‫مراد ہیں جو جم ے کی عمومی ترتی بدل دینے سے اس میں آ ج تے‬ ‫ہیں‘جو عصری حسیت اس میں ڈال دیتی ہے ی پھر جو ق ری ک بدلت‬ ‫ش ور اس سے برآمد کرت رہت ہے۔میں تو تخ یقی عمل کے دوران کے‬ ‫امک نی م نوں کی ب ت کر رہ ہوں جو ایک تخ ی ک ر کی دسترس میں‬ ‫ت آتے ہیں ج وہ خیر اور سچ ئی کے جذبے کے س تھ تخ یقی عمل‬ ‫کے پراسرار عالقے میں اندر تک گھس ج ت ہے۔ میں اپنے تخ یقی‬ ‫تجربے اور ادبی ت ریخ کو س منے رکھ بڑے وثو سے کہت ہوں کہ‬ ‫تخ ی عمل کے دورانیے میں فرد ک ذاتی جوہر مقد رہت ہے ب قی‬ ‫س رے خ رجی سہ رے پسپ ہو ج تے ہیں ۔‬ ‫س‪ :‬تو پھر یہ نثری نظ کی ہے؟ کی اسے ادبی صنف کہ ج سکت ہے‬ ‫؟‬ ‫ج‪ :‬جی ‪ ،‬یہ اپنی تخ یقیت کے وصف کی وجہ سے خ لص ادبی صنف‬ ‫ہے ۔ ت ہ میں کہت آی ہوں کہ اس صنف کو ش عری کی مروجہ اصن ف‬ ‫سے خ ط م ط کرن من س نہ ہوگ ۔ یہی سب ہے کہ میں اسے الگ ن‬


‫‪14‬‬

‫”نث “ سے پک رنے پر اصرار کرنے والوں ک س تھ دیت آی ہوں ۔ لطف‬ ‫کی ب ت دیکھئے کہ یہ ل ظ جدید ف رسی لغت ک حصہ ہوگی ہے اور‬ ‫انہی م نوں میں قبول کرلی گی ہے جن میں ہ اسے اردو میں است م ل‬ ‫کرنے کے لئے تجویز دے رہے تھے ۔ گذشتہ دنوں ری ض مجید ایران‬ ‫گئے تو وہ لغ ت بھی لیتے آئے اور اس ک ایک ص حہ فوٹو اسٹیٹ‬ ‫کرکے مجھے بھیج جس میں ”نث “ ک ل ظ ایسی صنف کے لیے قبول‬ ‫کرلی گی تھ جس ک خ رج تو نثر کے پیرائے میں ہو مگر اپنے مواد‬ ‫کے اعتب ر سے ش عری ہو۔ خیر یہ تو ن ک جھگڑا ہوا جسے ا طے‬ ‫ہوج ن چ ہئے۔‬ ‫س ‪ :‬میرا سوال یہ ہے کہ موزونیت سے آزادی کی ش ریت کو مت ثر‬ ‫نہیں کرتی ؟‬ ‫محمد حمید ش ہد‪:‬ہوتی ہے‪ ،‬مگر سوال یہ ہے کہ کون سی ش ریت؟‪،‬‬ ‫وہی ن ‪ ،‬جو فن پ رے کے خ رج میں بن رہی ہوتی ہے ‪ ،‬اپنے خ رجی‬ ‫وسی وں سے ۔ ظ ر اقب ل کی ایک ح ل ہی میں نظ چھپی ہے ”آدمی‬ ‫ن مہ“ اس میں وہ کہت ہے‪:‬کچھ گھ س ہوں تو ب قی‪/‬س پھوس آدمی‬ ‫ہوں‪/‬نکال ہوا خود اپن ‪/‬کی جوس آدمی ہوں“ ظ ر اقب ل ہم رے عہد کے‬ ‫نم ےاں ترےن ش را میں سے ہے مگر اس کے ہ ں خ رجی ش ریت ک‬ ‫اہتم بھی اس جم لی تی اور م نی تی قرینے سے م م ہ کرت نظر نہیں‬ ‫آت جس پر نث اصرار کی کرتی ہے ۔ سچ پوچھیں تو نث لکھنے والے‬ ‫سے وہ س رے خ رجی سہ رے چھوٹ ج تے ہیں جو ایک ع می نہ‬ ‫اورکمتر سطح کی تحریر میں موزونیت جیسی خ رجی بیس کھی سے‬ ‫ش ریت ک التب س پیدا کر رہے ہوتے ہیں ۔‬


‫‪15‬‬

‫س‪:‬ش عری اور افس نے کو قری النے سے کی ش عری کو نقص ن‬ ‫نہیں پہنچ ؟‬ ‫محمد حمید ش ہد‪:‬ش عری تو اپنے آغ ز سے ہی کہ نی کی طرف لپکتی‬ ‫رہی ہے ۔ ش عری کی قدی ت ریخ کھنگ ل کر دیکھ لیں ‪ ،‬جی یون ن کے‬ ‫ن بین ش عر ہومر کی ای یڈ اور اوڈیسی ہی کو دیکھ لیں کہ نی اس میں‬ ‫بھی آپ کو مل ج ئے گی۔ کہ ج ت ہے کہ جو کچھ ہو مر نے ان میں‬ ‫لکھ وہ تو اس سے بھی پہ ے کہ نی اور داست ن کی صورت ایک نسل‬ ‫سے دوسری نسل تک منتقل ہوت آی تھ تو گوی کہ نی توازل سے‬ ‫ش عری کے اندر روح بن کردوڑتی رہی ہے ‪ ،‬روح جو زندگی ک‬ ‫است رہ ہے ۔ س ٹھ اور ستر کی دہ ئی میں کہ نی کے بہ ؤ میں ش عرانہ‬ ‫جم وں کے رخنے رکھ دینے کے چ ن سے اصل نقص ن تو افس نے ک‬ ‫ہوا ہے ۔ ت ہ ا افس نہ اپنے تخ یقی آہنگ میں آچک ہے۔ جہ ں تک نث‬ ‫اور افس نے ک م م ہ ہے تو یوں ہے کہ دونوں اصن ف اپن الگ مزاج‬ ‫رکھتی ہیں کوئی بھی ان ڑی اگر انہے سمجھے بغیر گڈمڈ کرے گ م را‬ ‫ج ئے گ ۔ ت ہ میں سمجھت ہوں کہ ایک سچ تخ ی ک راصن ف کی حد‬ ‫بندیوں کواپنے تخ یقی جواز کے س تھ توڑت رہت ہے اور اسی سے نئی‬ ‫راہیں کھ تی ہیں۔‬ ‫س‪ :‬کچھ ترقی پسند افس نے کی روایت کے ب رے میں کہیں‪ ،‬اور کی‬ ‫اس روایت سے کٹنے کی وجہ سے اردو افس نہ غیر ف ل نہیں ہو‬ ‫گےا؟‬ ‫محمد حمید ش ہد‪ :‬پہ ے تو اس حقیقت کو م نن ہوگ کہ ترقی پسندوں‬ ‫کے ایک جتھے کی صورت متحرک ہونے سے پہ ے ہم رے ہ ں‬


‫‪16‬‬

‫افس نے کی مغربی روایت خ صی مستحک ہو چکی تھی اور یہ بھی کہ‬ ‫اردو میں افس نے ک آغ ز وہ ں سے ہوا جہ ں تک مغر میں افس نہ‬ ‫پہنچ چک تھ ۔ پری چند ک م روف افس نہ ”ک ن“ ( ‪1953 ٩‬ءمیں‬ ‫منظر ع پر آی تھ ۔ یہی وہ س ل بنت ہے ج دنی بھر کے مخت ف‬ ‫مم لک میں ترقی پسندوں کی تنظی س زی ہوئی۔ سید سج د ظہیر ت ی‬ ‫کی غرض سے لندن میں تھے۔ سرم یہ داری اور اشتراکیت کی‬ ‫کشمکش کے اس عہد میں اس کے رابطے اشتراکیوں کے س تھ تھے ۔‬ ‫اسی س ل اس نے پیرس میں من قد ہونے والی” ورلڈ ک نگریس آف‬ ‫رائٹرز ف ر ڈی نس آف ک چر“ میں شرکت کی اور اگ ے برس کیمونسٹ‬ ‫پ رٹی آف انگ ینڈ ک رکن ہو کرہندوست ن آی تو انجمن ترقی پسند‬ ‫مصن ین وجود میں آگئی۔ ‪ ٩‬ءہی وہ س ل بنت ہے جس میں اردو‬ ‫کے پہ ے افس نہ نگ ر عالمہ راشد الخیری اور اردو کے پہ ے اہ‬ ‫افس نہ نگ ر منشی پری چند دونوں نے وف ت پ ئی۔ مگر یہیں مجھے‬ ‫اس سے چند برس پہ ے کے ایک اہ واق ے ک ذکر کرن ہے جس کے‬ ‫اردو افس نے پر اثرات کو نظر انداز نہیں کی ج سکت ۔ سج د ظہیر جو‬ ‫لندن میں تھ ‘‪ ٩ 1923‬ءمیں ت طیالت کے دوران ہندوست ن آی اور‬ ‫احمدع ی‘ محمودالظ راور رشید جہ ں کی مش ورت اور شراکت سے‬ ‫چند تحریروں ک انتخ ”انگ رے“ کے ن سے ش ئع کردی ۔‬ ‫”انگ رے“ سچ مچ ک دہکت ہواانگ رہ ث بت ہوا کہ جہ ں پڑا وہ ں سے‬ ‫س کت ادبی م حول کے بھوسے سے ش ے اٹھنے لگے ۔ س رے جہ ن‬ ‫میں ایک ہ چل سی مچ گئی تھی۔ ڈیڑھ سو سے بھی ک ص ح ت پر‬ ‫مشتمل اس اہ کت کی تحریروں میں سج د ظہیر کے پ نچ‪ ،‬احمد ع ی‬ ‫کے دو اور رشید جہ ں اور محمودالظ ر ک ایک ایک افس نہ ش مل‬ ‫تھ ۔گوی بغیر دیب چے کے اس انتخ میں کل نو افس نے ش مل تھے ۔‬


‫‪17‬‬

‫ان افس نوں کی اس انتخ کی صورت میں اش عت سے کہیں زی دہ اہ‬ ‫ردعمل اور ہنگ مہ وہ بنت ہے جو ب د میں اٹھ ی گی ۔ ورنہ حقیقت تو‬ ‫یہ ہے کہ ب د میں صرف احمد ع ی ہی افس نہ نگ ر کی حیثیت سے‬ ‫شن خت بن نے واال تھ ج کہ انتخ میں ش مل اس ک افس نہ ”‬ ‫مہ وٹوں کی رات“ پہ ے ہی ”ہم یوں “ میں ش ئع ہو چک تھ اور اس ک‬ ‫دوسرا افس نہ ”ب دل نہیں آئے“ عج ت میں لکھی ہوئی ایک تحریر‬ ‫لگتی تھی۔ خیر”انگ رے “ کو فحش ‘دل آزار‘اخال سوز اور ش ئر‬ ‫اسال کے خالف س زش قرار دی گی ۔ ‪”±‬انگ رے“ کی تحریروں میں ان‬ ‫الزام ت کو سچ ث بت کرنے لیے خ ص مواد موجود بھی تھ ۔ تو یوں‬ ‫ہے کہ وہ ک جو یہ افس نے ہر گز نہ کر سکتے تھے ہو گی تھ کہ‬ ‫افس نے نہیں تھے‘ شدید ‪ Topnoutch‬بقول جوگندر پ ل یہ کوئی‬ ‫مخ ل ت کے طوف ن اور ”انگ رے“ کی ضبطی نے وہ ک کر دکھ ی تھ ۔‬ ‫انجمن ترقی پسند مصن ین کی پہ ی ک ن رنس کے اعالن ن مے پر جن‬ ‫افس نہ نگ روں نے دستخط کیے تھے ان میں پری چند‘ موالن نی ز فتح‬ ‫پوری‘ ق ضی عبدالغ ر‘ اور ع ی عب س حسینی کے ن بھی آتے ہیں ۔‬ ‫نی ز فتح پوری ک م م ہ یہ رہ ہے کہ اردو افس نے کو وہ کوئی نی‬ ‫رجح ن نہ دے سک ت ہ اس کے افس نوں میں مذہبی رہنم ؤں اور‬ ‫پیشواؤں کے کھوکھ ے پن پر شدید چوٹیں لگ ئی گئیں۔ مجموعی طور‬ ‫پر نی ز ک رویہ روم نوی بنت ہے ۔ ق ضی عبدالغ ر ک رویہ بھی لگ‬ ‫بھگ نی ز اور مجنوں گورکھپوری ہی ک س رہ ہے ۔ وہ بہت سے‬ ‫مق م ت پر عورت کی ن سی ت کھنگ لت اور پھراسی میں الجھت ہوا‬ ‫نظرا ٓت ہے ۔ روم نویت ک وہ تصور جو ی در کے افس نوں سے پھوٹ‬ ‫تھ اور حقیقت پسندی ک وہ ہیوال جو پری چند نے بن ی تھ ‘ اردو‬ ‫افس نے میں رواج پ چک تھ لہذا ع ی عب س حسینی بھی اسی کی‬


‫‪18‬‬

‫پیروی کر رہے تھے۔ ب ت ےہ ہے کہ عین آغ ز میں ہی اچھ افس نہ‬ ‫لکھنے والوں ک ایک گروہ ترقی پسندوں کے س تھ ہو لی ۔ ان س‬ ‫افس نہ نگ روں کے تخ یقی رجح ن ت قط ًایک رخ پر نہیں تھے۔ کرشن‬ ‫چندر کے افس نوں کو پڑھ ج ئیے‘ اس کے ہ ں ان رادی کردار ‘‬ ‫اجتم عی م مالت سے کہیں زی دہ توجہ پ تے ہیں۔ میرے اس دعوی‬ ‫کی فوری مث لیں ”متی “اور ” ک لوبھنگی“ ہیں۔اوپندر ن تھ اشک کی‬ ‫ترقی پسندی اور حقیقت نگ ری بج مگر اس کی روم ن پسندی اور‬ ‫ن سی تی ٹریٹمنٹ بھی کہیں م ت نہیں کھ تی۔ دیوندر ستی رتھی کی‬ ‫پہچ ن بالشبہ اس کی ترقی پسندی تھی مگر جنسی اور ن سی تی‬ ‫الجھنوں پر لکھن اور نس ئی کرداروں کے پیکر تراشن اسے مرغو‬ ‫تھ ۔م نن ہوگ کہ خ رج میں اٹھنے والے ایسے فکری ابھ روں اور ادبی‬ ‫تحریکوں کے زیر اثر ایک رجح ن بن ج ت ہے جو تخ ی کے دھیمے‬ ‫مزاج ک آہنگ بگ ڑ دےت ہے ۔ تخ یقی عمل ایسی کیمسٹری ہے جو‬ ‫لکھتے ہوئے تخ ی ک ر کوفن پ رے کے فنی لواز سے جوڑ دیتی ہے‬ ‫۔ مثالراجندر سنگھ بیدی اور س دت حسن منٹو کے ن ذہن میں رکھیں‬ ‫جنہوں نے اردو افس نے کے ن تواں جسد میں نئی روح پھونک دی‬ ‫تھی تو کی اسے خ رج میں چ نے والی تحریکوں ک ش خس نہ کہ ج‬ ‫سکت ہے ؟ نہیں ب لکل نہیں‪ ،‬بیدی کو ف رموال کہ نی لکھنے والوں پر‬ ‫طیش آت تھ ۔ اس نے ج ہر طرف ایک جیسی ف رموال کہ نیوں ک ڈھیر‬ ‫دیکھ تو کہ تھ ” کہ نی تو لکھی ہی نہیں ج رہی ہے ۔ وہی گھسی پٹی‬ ‫ب تیں ‘ وہی سی سی خی الت‘ کچھ امیر غری کے جھگڑے ۔ بس یہی‬ ‫کچھ لے دے کر کہ نی مکمل ہو ج تی ہے ۔ بہت ہوا تو کہ نی ک پس‬ ‫منظر بدل دی ۔ “ ہم رے ن قدین کہتے نہیں ہچکچ تے کہ ترقی پسند‬ ‫تحریک کی س سے بڑی عط یہ ہے کہ اس نے اردو اد کو بیدی‬


‫‪19‬‬

‫جیس بڑا افس نہ نگ ر دی ۔ بیدی بھی اس تحریک کو بہت م نت تھ ت ہ‬ ‫نریش کم ر ش د کو انٹرویو دیتے ہوئے اس نے کہ تھ ‪ ” :‬میرے‬ ‫نزدیک ترقی پسندی ک وہ م ہو نہیں جو میرے چنددوستوں ک ہے ۔‬ ‫میں کسی کو اس ب ت کی اج زت نہیں دے سکت کہ وہ میرے لیے‬ ‫ق نون وضع کرے ی کسی طرح سے میری حد بندی کرے۔ “ بیدی نے‬ ‫حد بندی ں توڑیں اور سرخرو ہوا ۔ منٹو ک قصہ یہ ہے کہ اسے تو خود‬ ‫ترقی پسندوں نے رج ت پرست قرار دی تھ ۔ منٹو شروع میں انقالبی‬ ‫حقیقت نگ ری کی طرف ضرور متوجہ رہ مگر بہت ج د وہ زندگی کے‬ ‫سنگین حق ئ کے مق بل ہو گی تھ ۔ منٹو نے ” چغد“ کے دیپ چے‬ ‫مین کھ تھ کہ ”ب بو گوپی ن تھ“ ج ”اد لطیف“ میں ش ئع ہوا تو‬ ‫تم ترقی پسند مصن ین نے اس کی ت ریف کرتے نہ تھکتے تھے ۔‬ ‫ع ی سردار ج ری ‘ عصمت چغت ئی اور کرشن چندر نے خصوص ً اس‬ ‫کو بہت سراہ ۔ مگرب د میں س اس افس نے کی عظمت سے منحرف ہو‬ ‫گئے پہ ے دبی زب ن میں اس پر تنقید شروع ہوئی ‘ سرگوشیوں میں‬ ‫اس کوبرا بھال کہ گی اور ب د میں بھ رت اور پ کست ن کے تم ترقی‬ ‫پسند ممٹیوں پر چڑھ کر اس افس نے کو رج ت پسند‘ اخال سے گرا‬ ‫ہوا ‘ گھن ؤن اور شر انگیز قرار دےنے لگے ۔ پھر وہ وقت بھی آی‬ ‫ج ترقی پسندوں نے منٹو ک ب ئیک ٹ کر دی ۔ تو یہ ہے منٹو کی ترقی‬ ‫پسندی ک قصہ۔ مگر یوں ہے کہ منٹو صف اول ک افس نہ نگ ر تس ی‬ ‫کی ج چک اور ج تک اردو افس نے ک قصہ چ ے گ کوئی منٹو کو‬ ‫اس منص سے الگ نہ کر پ ئے گ ۔تو یوں ہے کہ وہ مض مین جو‬ ‫ترقی پسندوں کو مرغو تھے ‪ ،‬شروع ہی سے اد ک موضوع رہے‬ ‫ہیں ‪ ،‬خرابی انہیں ن رہ بن نے سے ہوئی ۔ جسے ا آپ غیر ف ل ہون‬


‫‪20‬‬

‫کہہ رہی ہیں فی االصل اس کے اندرسے اس ن رہ ب زی کی منہ ئی ہے‬ ‫جس نے اد کو خبر بن نے کی بج ئے تخ یقیت سے جوڑ دی ہے۔‬ ‫س‪ :‬س ٹھ اور ستر کی دہ ئی میں عالمت اور تجرید ک چرچہ رہ اور ا‬ ‫افس نے میں کہ نی کی واپسی کی ب ت ہو رہی ہے اس ب میں آپ کی‬ ‫کہیں گے؟‬ ‫محمد حمید ش ہد‪:‬لطف کی ب ت یہ ہے کہ افس نے میں کہ نی کی واپسی‬ ‫کی خوش خبری بھی وہی سن رہے ہیں جو کل تک افس نے میں کسی‬ ‫مربوط کہ نی کی موجودگی کو روایت زدگی ک ش خس نہ قرار دے رہے‬ ‫تھے ۔ جن عالمت نگ روں کی طرف آپ نے اش رہ کی ہے ان میں سے‬ ‫بیشتر بس ایک ہی طرح کی تحریروں کو انش ئی اس و میں لکھ کر ی‬ ‫ش عرانہ جم وں ک قرےنہ اپن کر افس نے ک التب س پیدا کرتے رہے ۔‬ ‫اپنے موضوع کے اعتب ر سے یہ ترقی پسندوں کے اثرات سے بچ‬ ‫نہیں پ ئے ہیں ت ہ انہوں نے اس اس و کو رد کر دی تھ جو ترقی‬ ‫پسندوں کو مرغو تھ ب کہ فی االصل جو افس نے کی مستحک روایت‬ ‫بھی تھ ۔ میں اسے غ ط فہمی ہی کہوں گ کہ تخ یقی عمل میں خ رجی‬ ‫جبر فن پ رے کی متنی سطح کو بھی کھردراا ور غیر مربوط کردینے‬ ‫ک جواز بن ج ت ہے ۔ صورت واق ہ یہ ہے کہ تخ یقی عمل میں متن کی‬ ‫سطح بھی اپنے ب طن کی طرح اپنی کل کے س تھ ایک متن س آہنگ‬ ‫سے جڑی ہوتی ہے۔ اسی تن س ک مرک فن پ رے کے حسن ک مظہر‬ ‫بنت ہے ۔ یہ بھی غ ط فہمی ہے کہ کردار ی واق ہ اپنی مکمل صورت‬ ‫کے س تھ عالمت اور تمثیل کی سطح کو نہیں پہنچ سکت اور یہ بھی‬ ‫انتہ ئی گمراہ کن ب ت ہے کہ کردار اور کہ نی سے تخ یقی سطح‬ ‫پروف کے رشتے میں جڑی ہوئی زب ن لس نی سطح پر عالمتی م ہی ادا‬


‫‪21‬‬

‫کرنے سے ق صر ہو ج تی ہے۔ ا اگر ہ ان غ ط فہمیوں کو رفع کر‬ ‫لیتے ہیں تو ہم رے لیے بی نیہ توڑ توڑ کر عالمت کی پھ نس لگ نے‬ ‫کے جتن کرن تخ یقی عمل کے رخنوں کے مترادف ہو ج ئے گ اور ہ‬ ‫تخ ی پ رے کو ک ی صورت میں دیکھنے لگےں گے۔ ستر کی کے ب د‬ ‫س منے آنے والے افس نہ نگ روں کو کوئی ایسی درفنتنی نہیں‬ ‫سوجھتی جو افس نے کو م مہ بن ڈالتی ہے۔ ب کہ صورت واق ہ یہ ہے‬ ‫کہ ا کہ نی تخ یقیت کے داخ ی تجربے سے جڑ گئی ہے ۔ ا روم ن‬ ‫ہو ی حقیقت‘ احتج ج ہو ی انجذا اور امتزاج س ایک تخ یقی تجربے‬ ‫کی اک ئی میں ڈھل کر فن پ رہ بنتے ہیں ‘ یوں کہ الگ الگ ان کے‬ ‫کوئی م نی نہیں ہوتے مگر اپنی کل میں ان ک اظہ ر خ رجی سطح پر‬ ‫مربوط اور مرصوص کہ نی کی صورت ظ ہر ہوت ہے جو اپنی عصریت‬ ‫کے س تھ وابستہ اور پیوستہ ہوتی ہے اورب طنی سطح پر پوری کہ نی‬ ‫ایک کل کی صورت میں ایک بڑی اور حقیقت کی عالمت بن ج تی ہے ۔‬ ‫س‪ :‬آپ کی تخ یق ت ک بنی دی محور آپ کی نظر میں کی ہے ؟‬ ‫ج‪ :‬ص ح ہمیں یہ ب ور کرای ج رہ ہے کہ مدت ہوئی خدا‘انس ن اور‬ ‫ک ئن ت کی مث ث تو ک کی ٹوٹ چکی ۔اور اصرار کی ج ت ہے کہ وہ‬ ‫جو ژاں پ ل س رتر نے تصور خدا کے ب میں جوہر کو وجود پر مقد‬ ‫بت ی تھ ا اسے م ن لی گی ہے ۔ اور یہ کہ وہ س جھوٹے تھے‬ ‫جوانس ن کو ک ئن ت کے مرکز میں رکھتے تو اور انس ن کے سینے‬ ‫میں اس عز کوبس ن چ ہتے تھے کہ وہ ک ئن ت کو تسخیر کرے ۔‬ ‫تخ ی ا تک اپنے آپ کو بڑی توپ سمجھت رہ لس نی تھیوریوں نے‬ ‫اس کے پڑخچے اڑا کر رکھ دیے ہیں ۔ ا ص ف ص ف کہ ج رہ ہے‬ ‫کہ تخ یقی عمل کچھ بھی نہیں ہے لکھنے واال محض محرر ہوت ہے‬


‫‪22‬‬

‫عب رتوں کی تشکیل نو کرنے واال اور تحریر کے مکمل ہوتے ہی موت‬ ‫سے ہ کن ر ہو ج نے واال۔ ک ئن ت کے بھی وہ م نی نہیں رہے جو‬ ‫تخ یقی عمل کو مہمیز لگ تے تھے ی لگ سکتے تھے ا یہ محض‬ ‫م دی حقیقت ہے گوی ایس جس جس میں روح ہیں ہے ۔ نظری مب حث‬ ‫کی اس دھول میں کہ جہ ں خدا نہیں ہے‘ مصنف مر گی ہے‘ تخ ی‬ ‫پ رہ پہ ے سے موجود متن ک عکس نو ہو گی ہے‘ م نی بے دخل ہو‬ ‫چکے ہیں اور انس ن اپنے منص سے م زول ہو چک ہے میرے‬ ‫جیسے تخ ی ک رک ‘ جو کہ ان بنی دی اقدار سے س تھ اپنے وجود‬ ‫کے پورے اخالص کے س تھ جڑا ہوا ہے ‘ اورکی مقصد ہو سکت ہے‬ ‫کہ تخ یقی عمل کو زندہ رکھ ج ئے ۔ میرے ہ ں خدا موجود ہے اور‬ ‫اس کی خدائی بھی ۔ اور اس کی خدائی کے مرکز میں انس ن موجود‬ ‫ہے اپنے پورے وق ر کے س تھ۔ میری نظر میں ہر نئی مگر خ لص‬ ‫ادبی تخ ی پہ ے سے موجود ادبی متون ک چربہ نہیں ہوتی ب کہ اس‬ ‫کے لیے توسی ی عالقہ فراہ کرتی ہے۔ اس تن ظر میں دیکھ ج ئے تو‬ ‫ش وری عمل سے بچ کر اور ایک بے خودی کے آہنگ میں رہ کر نئے‬ ‫م نی کی تالش کو جم لی تی ہمہ گیری کے وصف کے س تھ ممکن‬ ‫بن نے کو ہی میں اپنی تخ یق ت ک محور کہہ سکت ہوں ۔‬ ‫س‪:‬مزاحمتی اد کے ب رے میں آپ ک نقطہ نظر؟‬ ‫محمد حمید ش ہد‪ :‬میرا خی ل ہے ‘ یہ م ننے میں کوئی مض ئقہ نہیں کہ‬ ‫اد اپنی نہ د میں ہوت ہی مزاحمتی ہے۔ وہ م ہمتی تو ب لکل نہیں ہوت‬ ‫اور اسٹیس کو بھی اس کے لیے مردود عالقہ ہے ۔ ہم رے ہ ں کے‬ ‫اد میں بھی یہ وصف مستقالً موجود رہ ہے ۔ ت ہ ج ج اس رویے‬ ‫کو ن رے لگ لگ کر بڑھ وا دینے کی کوشش کی گئی اد پ رے ک اور‬


‫‪23‬‬

‫مزاحمت پ رے زی دہ س منے آئے ۔ مزاحمت پ رے وجود میں النے ک‬ ‫عمل خ رجی محرک ت سے جڑا ہوت ہے جس کے دب ؤ میں تخ یقی عمل‬ ‫اپنے بھید بھرے عالقے میں پوری طرح متحرک نہیں ہوسکت ۔ جس‬ ‫صورت ح ل کے خالف مزاحمت مقصود ہے اس کے خالف ن رت کو‬ ‫اپنے تخ یقی وجود ک حصہ بن لینے والے سچے تخ ی ک ر کو اس‬ ‫اعالن کی ضرورت ہی نہیں رہتی کہ ا وہ مزاحمتی اد لکھنے ج رہ‬ ‫ہے ۔ اس وقت س سے زےادہ ن رت ان داخ ی اور بین االقوامی‬ ‫است م ری قوتوں ک مقدر ہو گئی ہے جنہوں نے اپنے م دات اور‬ ‫پیداواری وس ئل کر قبضے کے لیے دنی کو جہن زار بن کر رکھ دےا‬ ‫ہے اےسے ادے جو اس ن رت کو فن پ رے میں ڈھ ل لینے کی‬ ‫توفی نہ رکھتے ہوں اور چھوٹی چھوٹی اچٹتی ہوئی مزاحمت کو ہی‬ ‫اپن وظی ہ بن ئے ہوئے ہوں ‪،‬انہیں مزاحمتی ادے تو کی سچ ادی‬ ‫بھی نہیں سمجھن چ ہے ۔ سچ ادے کبھی ظ ل ‪ ،‬غ ص ‪ ،‬مک ر اور‬ ‫ج بر ک س تھی نہیں ہوسکت ہے ‪،‬ایسی من ی قوتوں کے مق بل بہر ح ل‬ ‫آن ہی ہوت ہے۔‬ ‫س‪ :‬کہ ج ت ہے کہ مذہبی رجح ن ت تخ یقی صالحیتوں کو مت ثر کرتے‬ ‫ہیں ‪ ،‬اس ب میں آپ کی کہیں گے؟‬ ‫محمد حمید ش ہد‪ :‬فکری ت ک اد پر اثر انہونی ب ت نہیں ہے ‪ ،‬اسی طر‬ ‫ح اعتق دات کو موضوع بن ن بھی اد کے لیے ممنوعہ عالقہ نہیں ۔‬ ‫ج جنس کو مرغو رکھنے والے اد لکھ سکتے ہیں اور جتنی دلدل‬ ‫بن ن چ ہیں بن سکتے ہیں۔ ج اشتراکیت کو محبو رکھنے والے بھی‬ ‫تخ یقی عالقے سے ب ہر نہیں نک لے گئے۔ روم ن پرست ہوں ےا ترقی‬ ‫پسند س اد کی آنکھ ک ت را رہے تو آخر مذہبی رجح ن رکھنے‬


‫‪24‬‬

‫والوں پر اس ب میں قد غن کیوں کر لگ ئی ج سکتی ہے ۔ ت ہ ج نن‬ ‫چ ہیے کہ بڑھی ہوئی لذت پرستی ہو‪ ،‬ےا اپنے نظرےاتی جتھے کے‬ ‫افک ر اور طے شدہ طریقہ ک ر کے مط ب لکھنے ک چ ن‪ ،‬ن رے ب زی‬ ‫ہو ےا وعظ اور نصےحت ‪ ،‬یہ س اد کو اد نہیں رہنے دےتے ۔‬ ‫جسے ادبی مزاج ودےعت ہوت ہے وہ مذہبی رجح ن رکھتے ہوئے‬ ‫بھی اقب ل بن ج ت ہے ‪ ،‬م شرے کی ٹھکرائی ہوئے اور جنس میں‬ ‫لتھڑی ہوئی عورت کے کردار کو محبو رکھنے واال منٹو بن ج ت ہے‬ ‫‪ ،‬اپنے انقالبی نظرےات کے لیے روم نی رویے تو ترک کیے بغیر‬ ‫گنج ئشیں نک ل لیت ہے اور فےض بن ج ت ہے ۔‬ ‫س‪ :‬ہم رے ہ ں تنقید میں تخ ی کو نظر انداز کر دی ج ت ہے ‪،‬کیوں ؟‬ ‫محمد حمید ش ہد‪ :‬جہ ں تخ ی فن کے لیے زےست ک ش ور چ ہئیے‬ ‫ہوت ہے‪ ،‬زب ن اور فنون سے آگہی اور تہذےبی ش ور درک ر ہوت ہے ‪،‬‬ ‫تخ یقی عمل سے جرن اور مس سل اس سے وابستہ رہنے کے جتن کر‬ ‫نے ہوتے ہیں ‪ ،‬وہیں اد کے ن قدین پر بھی الز ہے کہ وہ اس وسیع‬ ‫اور عمی تجربے کو سمجھنے کے قرےنے م حوظ خ طر رکھیں ۔‬ ‫اےسی تنقید جو فقط ال ظ ک گورکھ دھندہ بن کر رہ ج ئے ےا محض‬ ‫تھیوریوں کی ف س ی نہ توجیہہ پر تم ہوج ئے اور کچھ ہو تو ہو ادبی‬ ‫تنقید نہیں ہو سکتی ۔ وہ س رے لس نی اور ف س ی نہ مب حث جو اد‬ ‫پ روں کی تخ ی ‪ ،‬توجیہہ‪ ،‬ت بےر اور ت ہی سے کو ئی عالقہ نہیں‬ ‫رکھتے تنقید کے ن پر ب نجھ مشقت کے سوا اور کچھ نہیں ہیں ۔ ت ہ‬ ‫یہ امر خوش آئند ہے کہ کچھ عرصے سے تبدےلی آرہی ہے ا اد‬ ‫کے اس لی ‪ ،‬جم لی ت اور فنی اقدار پر گ تگو ک آغ ز ہو چک ہے۔ اور‬


‫‪25‬‬

‫اس س مراجی س زش کو بھی سمجھ ج نے لگ ہے جس کے تحت‬ ‫فکری اور تخ یقی رویے غےر م مولی دب ؤ ک شک ر ہو گئے تھے ۔‬ ‫س‪ :‬کی اد کے اثرات محدود پیم نے پر مرت ہوتے ہیں؟‬ ‫محمد حمید ش ہد‪ :‬کہنے کو اد کے اثرات محدود ہوتے ہوئے لیکن یہ‬ ‫گہری تبدی ی پیدا کرتے ہیں اور بس اوق ت یہ تبدی ی المحدود وقت میں‬ ‫ایک تس سل سے ج ری رہتی ہے۔ ےوں اپنی اثر انگیزی کے اعتب ر‬ ‫سے اد بق کے راستے پر چل رہ ہوت ہے ۔‬ ‫س‪ :‬اد کے فرو و ترویج کے لیے کی کرن چ ہیئے؟‬ ‫محمد حمید ش ہد‪ :‬اگر آپ یہ کہیں کہ عصر رواں ک س سے بڑا المیہ‬ ‫کی ہے تو میں اس ب میں کہوں گ ادبی اور ع می اقدار کی م دے‬ ‫کے ہ تھوں پسپ ئی ۔ م دے کی طمع میں بوالئے پھرنے ک رجح ن جس‬ ‫گذشتہ کچھ زم نے میں ع ہوا ہے اس نے م وم ت کی تجمیع کو ع‬ ‫سے غ ط طور پر گڈمڈ کر دی ہے۔ کتنے دکھ کی ب ت ہے کہ ہم رے‬ ‫ت یمی اداروں سے سم جی ع و کے ش بے ی تو خت ہو رہے ہیں ےا‬ ‫پھر انہیں بے دلی سے چالی ج رہ ہے ۔ اد اور سم جی ع و کو‬ ‫قومی ترجیح ت میں ج تک بہتر مق نہیں دی ج ت یہ صورت بدلنے‬ ‫والی نہیں ہے ۔ ت یمی اداروں سے لے کر ع اور اد سے وابستہ‬ ‫اداروں تک ہر کہیں بہتری ک بے پن ہ ک کرنے واال ہے ۔ اد کی‬ ‫ترویج کے ذری ے قومی مزاج کو اعتدال پر الی ج سکت ہے ۔ اور اگر‬ ‫خ وص نیت سے سوچ ج ئے تو اس ڈھ پر کو ئی بھی قد قومی‬ ‫خدمت سے ک نہ ہوگ ۔‬ ‫انی ہ محمود‬


‫‪26‬‬

‫‪http://adbistan.blogspot.com/2010/08/blog-post_12.html‬‬

‫کرن ٹک میں جدید نظ کی صورت ح ل‬ ‫ڈاکٹر بی محمد داؤد محسن‬ ‫غزل آج تک اردو زب ن کی س سے مقبول صنف سمجھی ج تی‬ ‫ہے۔مگر ہمینیہ نہیں بھولن چ ہئیے کہ غزل کی تنگ دامنی ک شکوہ‬ ‫بھی شروع ہی سے ہو رہ تھ ۔چن نچہ غزل سے الگ کسی زی دہ وسیع‬ ‫اور آزاد صنف کی کھوج اور اختراع کے ب رے میں اردو ش را بہت‬ ‫پہ ے سے سوچنے لگے تھے۔اسم یل میرٹھی اور اس قبیل کے چند‬ ‫ایک ش را نے تجربے بھی کئے۔مگر یہ تجربہ صرف تجربہ کی حد تک‬ ‫محدود رہ کیونکہ غزل ک تربیت ی فتہ ذہن آزاد نظ اور نثری نظ کو‬


‫‪27‬‬

‫قبول کرنے سے ق صر تھ ۔ج کہ پ بند نظ اور م ری نظ کے وہی‬ ‫مس ئل تھے جو غزل کے تھے۔‬ ‫مگر وق ہ وق ہ سے آزاد نظمیں بھی س منے آرہی تھیں اور کسی حد‬ ‫تک توجہ بھی ح صل کر رہی تھیں۔آزاد نظ اور نثری نظ کو اس وقت‬ ‫بہت مقبولیت اور اعتب ر ح صل ہوا۔ج میراجی اور ن۔ راشد نے اپنی‬ ‫ان رادیت ک لوہ منوای ۔یہی وہ زم نہ تھ ج جدیدیت کے زیر‬ ‫اثرکرن ٹک میں بھی نئی نظ پر توجہ دی گئی اور کرن ٹک کے کئی‬ ‫ش را نے نظ نگ ری کے میدان میں اپنی ان رادیت ک احس س دالی ۔اس‬ ‫س س ہ میں س یم ن خطی ‪ ،‬محمود ای ز ‪،‬حمید الم س ‪،‬حمید سہروردی‬ ‫‪،‬خ یل م مون ‪،‬س جد حمید اور اکرا ک وش وغیرہ ک ن لی ج سکت‬ ‫ہے۔یہ وہ ش را ہیں جو صرف کرن ٹک کی حد تک ہی نہیں ب کہ پوری‬ ‫اردو دنی میں اپنی تخ یقی توان ئی اور نظ نگ ری کی جدت اور ندرت‬ ‫کے حوالے سے ی د کئے ج تے ہیں۔‬ ‫س یم ن خطی کو نظ نگ ری کی بدولت جو مق اور مرتبہ اردو میں‬ ‫ح صل ہے وہ بہت ک ش را کو نصی ہوا دراصل ان کی یہ شہرت دکنی‬ ‫ش عری کے م نوس لہجہ کی بدولت ہے۔یہ کہ ج ئے تو غ ط نہ ہوگ کہ‬ ‫کرن ٹک میں اردو نظ کی ت ریخ س یم ن خطی کے بغیر ن مکمل ہے۔‬ ‫جن کی ش عری ک اف دی پہ و نہ صرف طنز و مزاح ہے ب کہ اس میں‬ ‫م شرے کی خ می ں ‪ ،‬بے اعتدالی ں اور ن ہمواری ں پ ئی ج تی‬ ‫ہیں۔مزاحیہ نظمیں سنجیدہ موڑ لیتی ہیں تو ان ک طنز زہر ن کی کی‬ ‫حدوں میں داخل ہو ج ت ہے۔‬


‫‪28‬‬

‫محمود ای ز کو کئی اعتب ر سے اردو اد میں اہمیت ح صل ہے۔وہ ایک‬ ‫اع ی پ یہ کے مدیر اور ایک اچھے مبصر ہونے کے س تھ س تھ ایک‬ ‫عمدہ ش عر بھی تھے۔انہیں نظموں اورغزلوں دونوں سے دلچسپی تھی‬ ‫۔مگر وہ نظ میں زی دہ ک می نظر آتے ہیں اور اختر االیم ن سے ق بی‬ ‫محبت رکھنے سے اختر االیم ن کے رنگ میں اچھی نظمیں کہنے کی‬ ‫کوشش کرتے ہیں لیکن ایس بھی نہیں ہے کہ ان ک رنگ نہیں چھ کت‬ ‫ہے۔‬ ‫محمود ای ز کی بیشتر نظمیں روم نی مزاج کی ح مل ہوتی ہیں ۔جو‬ ‫کبھی کبھی ان کے تجربہ کی سچ ئی اور مش ہدہ کی گہرائی کی وجہ‬ ‫سے حقیقت کی عک س بن ج تی ہیں ۔انہوں نے اپنی ایک نظ ’نی‬ ‫س ر‘میں داخ ی اور خ رجی دونوں کی ی ت کو ب ہ آمیز کرکے نی ذائقہ‬ ‫پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جوق ری کی نظری اور فکری دونوں‬ ‫سطح کو مت ثر کرت ہے۔‬ ‫خ وص و مہر و عداوت کی س ری زنجیریں ‪/‬پ ک جھپکنے کی مہ ت‬ ‫میں جل کے راکھ ہوئیں ‪/‬نہ کٹنے والے کٹھن دن خی ل و خو‬ ‫ہوئے‪/‬نہ آنے والے جو دن تھے وہ آ کے بیت گئے‬ ‫نظ کے اس ٹکڑے میں گذرے ہوئے ای کی کسک اور کسی چیز کے‬ ‫گ ہوج نے کی کسک کو محسوس کی ج سکت ہے۔وہ آگے مزید کہتے‬ ‫ہیں کہ‬ ‫وہ ایک ی د کے مہر و وف کی ض من ہے‪/‬مجھے کش کش ہستی سے‬ ‫کھینچ الئی ہے‪/‬ہر ایک قر کی راحت ہر ایک س عت دید ‪/‬خی ل و‬ ‫خوا کی وادی سے لوٹ آئی ہے‬


‫‪29‬‬

‫اختر االیم ن کی طرح ان کی ش عری میں بھی حسرت و ی س ک رنگ‬ ‫گھال ہوا ہے اور حرم ں نصیبی کی یہی کی یت ش عری میں ت ثیر‬ ‫پیداکرتی ہے جس میں ایک طرح ک طنز بھی ہوت ہے۔ان کی نظمیں‬ ‫’’انتظ ر‪ ،‬ب ز گشت ‪،‬اے جوئے آ ‪،‬نوحہ اور ہسپت ل ک کمرہ وغیرہ پر‬ ‫ت ثیر نظمیں ہیں۔ نظ انتظ ر ک ایک ٹکڑا مالحظہ ہو۔‬ ‫یہ دل جو زندگئ نو کے خوا دیکھت ہے‪/‬یہ غ جو روح کی تنہ ئیوں‬ ‫میں ج گت ہے ‪/‬تری نگ ہ سے چھٹ کر سکون ج ں نہ مال‪/‬ن س ن س‬ ‫میں امیدوں نے زہر گھوال ہے‬ ‫خ موشی رینگتی ہے راہوں پر ‪/‬ایک افسوں خوا لئے ‪/‬رات رک رک‬ ‫) کے س نس لیتی ہے‪/‬اپنی ظ مت ک بوجھ اٹھ ئے ہوئے ( ب ز گشت‬ ‫تم ش کی دکھن بے ک ی سبک خوابی‪/‬نمود صبح کو درم ں سمجھ‬ ‫کے ک ٹی ہے‪/‬رگوں میں دوڑتے پھرتے لہو کی ہر آہٹ‪/‬اجل گرفتہ‬ ‫خی لوں کو آس دیتی ہے‪/‬مگر وہ آنکھ جو س کچھ دیکھتی ہے‪/‬ہنستی‬ ‫) ہے (ہسپت ل ک کمرہ‬ ‫آپ نے محسوس کی ہوگ کہ نظموں کے ان تم ٹکڑوں میں حزن اور‬ ‫مالل کی ایک کی یت ہے جو نظ کی فض پر چھ ئی ہوئی ہے۔یہی حزنیہ‬ ‫لہجہ محمود ای ز کی ش عری کی اس س اور ان کی شن خت ہے۔‬ ‫جہ ں تک نثری نظموں ک م م ہ ہے تو اس س س ہ میں حمید الم س‬ ‫اور حمید سہروردی کو خ ص امتی ز ح صل ہے۔حمید الم س س ری اردو‬ ‫دنی میں شہرت ی فتہ ش عر ہیں۔ ان کے یہ ں روم ن بھی ہے اور زندگی‬ ‫کی ت خی ں بھی موجود ہیں۔ان ک لہجہ اور اس و ان ک اپن ہے ۔جسے‬ ‫ان رادیت ح صل ہے۔حمید الم س نظ کے ش عر ہیں۔ع طور پروہ اپنی‬


‫‪30‬‬

‫مختصر نظموں میں اپن احتج ج درج کرانے کی کوشش کرتے ہیں اور‬ ‫بہت حد تک ک می بھی رہتے ہیں۔ان کی ایک بالعنوان مختصر نظ‬ ‫دیکھئے۔‬ ‫میں نے کل تک ‪/‬پتھروں سے جو تراشے تھے صن ‪/‬آج وہ محو دع‬ ‫ہیں کہ ‪/‬انہیں س نس کی دولت م ے‬ ‫اس نظ میں بغیر کسی تمہید کے جبر و قدر کے خالف ایک طرح ک‬ ‫احتج ج ہے جو بہت واضح ہے۔دراصل یہی احتج ج ‪،‬توان ئی اور‬ ‫فنک رانہ ہنر مندی حمید الم س کی پہچ ن ہے۔ایک دو ٹکڑے اور‬ ‫مالحظہ کیجئے۔‬ ‫ریگ س حل پر‪/‬گر سنہ بچے‪/‬کھینچتے ہیں پھ وں کی‬ ‫تصویریں‪/‬ی ‪/‬شہریوں سے پوچھتے ہیں ‪/‬گ ؤں گ ؤں کے کس ن ‪/‬کن کے‬ ‫کپڑوں میں جڑی ہے ‪/‬ان کے کھیتوں کی کپ س‬ ‫ظ ہر ہے کہ ان تم نظموں میں استحص ل غریبی اور ظ کے خالف‬ ‫ایک طرح ک احتج ج پ ی ج ت ہے مگر اس طرح کہ فن مجروح نہیں‬ ‫ہوت ہے۔‬ ‫اس سبیل میں ایک اور اہ ن حمید سہروردی ک ہے ۔جن کے یہ ں‬ ‫جدیدیت ک نہ صرف ایک وق ر پ ی ج ت ہے ب کہ اس میں اض فہ ک‬ ‫متق ضی بھی ہے۔ حمید سہر وردی کی نظمیں ع طور پر عالمتی ہوتی‬ ‫ہیں ۔ح النکہ ان کے افس نے مبہ اور پیچیدہ ہوتے ہیں کیونکہ وہ‬ ‫کوئی بھی ب ت سیدھے س دے انداز میں نہیں کہتے ہیں۔مگر ان کی‬ ‫نظموں میں یہ ابہ تھوڑا ک ہی دکھ ئی دیت ہے۔ اس کے ب وجود‬ ‫زندگی کے الجھے ہوئے مس ئل سے مت ق ری کو سوچنے پر‬


‫‪31‬‬

‫ضرور مجبور کر دیتے ہیں۔ان کی ایک نظ ہے۔کیوں ہ ایس سوچتے‬ ‫ہیں‪،‬اس نظ کے چند مصرعے مالحظہ فرم ئیے۔‬ ‫الل سنگھ سن پر بیٹھے ‪/‬سرخ سے طوطہ کی آنکھوں میں‪/‬ک ال دھبہ‬ ‫بن کے عالمت ہنست ہے‬ ‫ا یہ ق ری کی صوابدید پر ہے کہ وہ الل سنگھ سن سے کی مراد لیت‬ ‫ہے ا سرخ طوطہ کی تمثیل کو کس طرح سمجھت ہے اور یہ کہ ک لے‬ ‫دھبہ کو دور کرنے کے لئے کی کچھ کرت ی کر سکت ہے۔کسی بھی‬ ‫ش عر کی یہ بڑی ک می بی سمجھی ج تی ہے کہ وہ کچھ نہ کہتے ہوئے‬ ‫بھی بہت کچھ کہہ دے اور ق ری کو سوچنے پر مجبور کردے۔اسی‬ ‫طرح کی ایک نظ ’’ اک ئی ‘‘ بھی بہت ہی مشہور ہے۔جس میں ص ر‬ ‫ہی ص ر ہیں ۔یہ ں وہ اپن منش و مدع ق ری پر چھوڑ دیتے ہیں۔‬ ‫خ یل م مون بھی گہری م نویت کی ح مل نظمیں کہتے ہیں۔مگر ان کی‬ ‫نظموں میں محض عالمت و است رہ کی مدد سے نہیں ب کہ زندگی کے‬ ‫گہرے ف س ہ کی وجہ سے ج ذبیت اور گہرائی پیدا ہوتی ہے۔جوایک خ‬ ‫ص طرح کی بصیرت عط کرتی ہے۔میری ب ت کی تصدی کے لئے ان‬ ‫کی نظمیں بن ب س ک جھوٹ‪،‬آف کی طرف ‪،‬سر برہنہ شہر ک‬ ‫پچھت وا‪،‬س نحہ‪ ،‬اندر اور ب ہر ک منظر اور ید بیض وغیرہ دیکھی‬ ‫ج سکتی ہیں۔فی الوقت جالوطن شہزاد گ ن ک ایک ٹکڑا دیکھئے۔‬ ‫قبر کی مٹی چرا کر بھ گنے والوں میں ہ افضل نہیں‪/‬ہ کوئی ق تل نہیں‬ ‫‪/‬بسمل نہیں ‪/‬منجمد خونی چٹ نوں پر دو زانو بیٹھ کر‪/‬گھومتی سوئی‬ ‫کے رستے کی ص یبوں سے ٹپکتے‪ /‬قطرہ قطرہ سرخ رو سی ل کو‬ ‫انگ یوں پر گن رہے ہیں‪/‬چن رہے ہیں۔‬


‫‪32‬‬

‫ظ ہر ہے کہ نظ میں جہ ں بی نیہ ک تنوع ہے وہیں زندگی اور ت ریخ‬ ‫اور انس نی ع و و افک ر کی گہری بصیرت ک احس س بھی پ ی ج ت‬ ‫ہے۔اس طرح ہ انہیں زندگی ک رمز شن س ش عر بھی کہہ سکتے ہیں۔‬ ‫س جد حمید آج کے ف ل‪،‬ت زہ ک ر اور متحرک ش عر ہیں۔وہ ع طور پر‬ ‫بڑے غور و فکر کے ب د ہی ش ر کہتے اور نظمیں لکھتے ہیں ۔ان کی‬ ‫نظمیں بنت اور بی نیہ کے اعتب ر سے الجھی ہوئی اور پیچیدہ نہیں‬ ‫ہوتی ہیں اس کے ب وجود گہری بصیرت کی ح مل اور م نویت سے‬ ‫بھرپور ہوتی ہیں۔وہ نظ اور غزل دونوں پر یکس ں قدرت رکھتے ہیں‬ ‫ان کے ب رے میں فیص ہ کرن مشکل ہے کہ وہ نظ کے اچھے ش عر‬ ‫ہیں ی غزل کے۔سچ تو یہ ہے کہ دونوں ہی اصن ف میں انہیں ان رادیت‬ ‫اور امتی ز ح صل ہے۔وہ بظ ہر چھوٹی اور ص ف ستھری نظمیں کہتے‬ ‫ہیں۔مگر اپنے خی ل کی ندرت سے ق ری کو چونک دیتے ہیں۔اس ب ت‬ ‫کی تصدی کے لئے ان کی نظمیں مک ن ت‪ ،‬بھید‬ ‫‪،‬سمجھوتہ‪،‬تری ‪،‬کینواس اور زندگ نی وغیرہ دیکھی ج سکتی ہیں وہ‬ ‫رج ئیت پسند ش عر ہیں۔اس لئے ان کے یہ ں زندگی ک شدید احس س‬ ‫پ ی ج ت ہے۔ان کی نظ ’’ہر ن س برسر پیک ر ہے‘‘ ک ایک ٹکڑا‬ ‫دیکھئے۔‬ ‫ہر ن س بر سر پیک ر ہمہ وقت ہے‪/‬ششت جہتوں سے ‪/‬زندگی‪/‬موت‬ ‫سے بہتر نہ سہی ‪/‬موت سے بدتر بھی نہیں‬ ‫اکرا ک وش کی نظمیں ش عری میں توان ئی کے احس س سے مم و‬ ‫جرات مندانہ ش عری کی عمدہ مث ل پیش کرتی ہیں۔ان کے یہ ں عالمت‬ ‫‪ ،‬است رے اور تشبیہ ت ک است م ل نہ یت خود شن سی کے احس س کے‬


‫‪33‬‬

‫س تھ ہوت ہے۔ان کی نظمیں پڑھنے سے ص ف واضح ہوت ہے کہ‬ ‫ش عر پوری خود آگ ہی کے س تھ نظموں کو برت رہ ہے اور وہ خو‬ ‫ج نت ہے کہ کی کہہ رہ ہے اور کس کے لئے کہہ رہ ہے ۔یہی وجہ‬ ‫ہے کہ ان کی نظمیں ق ری کو حیرت ن ک مسرت سے ہمکن ر کرتی ہیں‬ ‫اور ایک نئے جذبے سے زندگی کے رن میں ش مل ہوج نے ک جذبہ‬ ‫بخشتی ہیں۔ان کی نظمیں نظ رہ‪،‬ن س ام رہ اور نی رشتہ وغیرہ ک‬ ‫مط ل ہ میری ب توں کی دلیل کے لئے ک فی ہے۔یہ ں پر ان کی بس ایک‬ ‫مختصر نظ ’’ کہ ں تک چ و گے ‘‘پیش کررہ ہوں جس سے ان کے‬ ‫اس و اور انداز بی ن کے س یقے ک اندازہ لگ ی ج سکت ہے۔نظ‬ ‫دیکھئے۔‬ ‫کہ ں تک‪/‬ت میرے س تھ چ و گے‪/‬میں ہوں اک صحرا نورد‪/‬میرے‬ ‫قدموں ت ے ‪/‬س را ع ل س نس لے رہ ہے۔‬ ‫اس نظ میں خودی ک ایک ب ند آہنگ ہے جس میں ش عر خود اعتم دی‬ ‫سے س رے ع ل کو اپنے قدموں کی دھول بت ت ہے۔دراصل یہی اعتم د‬ ‫اور خود شن سی اکرا ک وش کی شن خت ہے۔‬ ‫ضی میر کی کئی حیثیتیں تھیں ۔وہ ش عر تھے ‪،‬افس نہ نگ ر تھے‬ ‫اورن قد و مبصر بھی تھے۔مگر وہ ع طور پر ش عر کی حیثیت سے‬ ‫ی د کئے ج تے ہیں۔ان کے یہ ں موضوع تی نظموں کی جو کثرت ہے‬ ‫اس سے اندازہ ہوت ہے کہ وہ سچے جذب ت کے مخ ص ش عر‬ ‫تھے۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جہ ں ن راشد کی ی د میں جیسی نظ‬ ‫لکھی وہیں بیج پور کے کھنڈرات میں ایک ش ‪ ،‬نوائے روح شہید‬ ‫‪،‬شہید جنت کے دروازہ پر ‪ ،‬میرا جی کی ی د میں ‪ ،‬مرحو محمود ای ز‬


‫‪34‬‬

‫سے خط ‪،‬س جد حمید کے لئے ایک نظ اور نق د کے روپ میں ایک‬ ‫ش عر جیسی نظمیں لکھیں ۔کہنے کی ضرورت نہیں رہ ج تی ہے کہ‬ ‫راشد اور میراجی کے لئے مکمل نظموں میں ان سے محبت اور ان‬ ‫کے ش عرانہ کم الت کے اعتراف کی خو صورت کوشش کی گئی ہے‬ ‫تو بیج پور کی ت ریخ پر بھی م ضی کے جھروکے سے روشنی ڈالی‬ ‫ہے اور محمود ای ز سے رفی دیرینہ کی طرح مک لمہ کی ہے تو س جد‬ ‫حمید کی ش عری کے روشن امک ن ت ک بھی اعتراف کی ہے۔ہ کہہ‬ ‫سکتے ہیں کہ وہ کل وقتی ش عر نہیں تھے مگر ج بھی کسی‬ ‫موضوع پر نظ کہتے تھے تو اپنی ان رادیت ک نقش ق ئ کردیتے‬ ‫تھے۔چند مث لیں دیکھئے۔‬ ‫نگری نگری پھرا ہے ش عر‪/‬زخموں کی ب رات لئے ‪/‬اس کے بدن پر‬ ‫گھ ؤ تھے کتنے ‪/‬ان زخموں کی گنتی کرن ‪ /‬اس کے بس ک روگ نہیں۔‬ ‫اس نظ میں ضی میر نے میراجی کی زندگی کے دکھ درد اور ان کی‬ ‫ش عری کے عالئ وغیرہ کو خوبی کے س تھ پیش کی ہے اور میراجی‬ ‫کے کردار کو پیش کرتے ہوئے اس کے فن ک رانہ امتی زات کو بھی‬ ‫واضح کر دی ہے۔وہ بھی اس طرح کہ خود ان ک فنک رانہ کم ل بھی‬ ‫واضح ہو گی ہے۔‬ ‫راز امتی ز ش عر‪ ،‬صح فی ‪،‬ادی اور نق د تھے ‪،‬ترقی پسند رجح ن‬ ‫رکھتے تھے انہوں نے زی دہ تر جدیدیت کو قبول کی ۔ان کی نظموں میں‬ ‫ایک خوشگوار آہنگ پ ی ج ت ہے۔ح النکہ ان کے موضوع ت ہ کے‬ ‫پھ کے ہوتے ہیں مگر وہ زندگی سے ربط رکھتے ہیں اور یہ ربط‬ ‫کمزور نہیں پڑت ۔ان کے اندر انس ن دوستی ک جذبہ ک رفرم تھ اور وہ‬


‫‪35‬‬

‫کسی کو ن راض کرن ی اپنے آپ پر فخر کرن نہیں ج نتے تھے۔ان کی‬ ‫نظموں میں ان ک مزاج پ ی ج ت ہے۔کہتے ہیں‬ ‫کبھی عشرت دنی پہ اکڑے نہیں ہ کبھی رنج پ ی تو سکڑے نہیں ہ‬ ‫اسی طرح ایک اور نظ میں یہ اعتراف کرتے ہیں کہ‬ ‫ہمیں اپنے چھوٹوں سے ن رت نہیں ہے ‪ /‬بڑائی بھی کچھ وجہ بہجت‬ ‫نہیں ہے ‪ /‬یہ ں کوئی اپن پرای نہیں ہے‬ ‫مدن منظر بھی مشہور و م روف ش را میں شم ر ہوتے ہیں۔جنہوں نے‬ ‫اپنی نظموں میں قومی‪ ،‬م شرتی‪ ،‬سی سی اور صوفی نہ موضوع ت کو‬ ‫اختی ر کی اور زندگی کے مہذ اور ش ئستہ اقدار کو اپن ی ۔انس ن دوستی‬ ‫اور اخوت و بھ ئی چ رگی کو ش ری پیرہن عط کی ۔ن تیں اور منقبتیں‬ ‫لکھیں۔ پیشہ سے طبی تھے لیکن ع جزی اور انکس ری کے س تھ‬ ‫سچ ئی بھی ان کے یہ ں ک رفرم ہے۔ب رگ ہ یزدی میں ان ک خ وص‬ ‫دیکھئے۔‬ ‫مسیح ئی میرا منص نہیں ‪ /‬وہ ک ر یزداں ہے‪ /‬خدا نے مجھ کو اس‬ ‫منص پر ف ئز کرکے ‪ /‬اپنے دست پنہ ں سے‪ /‬ش بخشی مریضوں کو‬ ‫‪ /‬یہ س احس ن ہے اس ک‬ ‫تنہ تم پوری کے فن میں روایت اور جدیدیت ک امتزاج م ت ہے۔مگر ان‬ ‫کے یہ ں تخیل ک حقیقت کی ک رفرم ئی زی دہ ہے۔ان کے یہ ں زندگی‬ ‫کے کئی روپ اور اس کی کئی جہتیں م تی ہیں۔وہ اپنی نظموں میں‬ ‫عالمتوں ک است م ل بکثرت کرتے ہیں جو بس اوق ت ق ری کے ذہن کو‬ ‫بوجھل بھی بن دیتی ہیں اور اس کی قوت فہ کو چی ینج بھی کرتی‬


‫‪36‬‬

‫ہیں۔’’ چھ نی چھ نی س ئب ں‘‘ کی بیشتر نظمیں اس ب ت ک ثبوت‬ ‫ہیں۔اسی نظ ک ایک ٹکڑا دیکھئے۔‬ ‫تم زت سے محرو افک ر کے زرد سورج اگل کر‪/‬سبھی اپنے اسالف‬ ‫کی کھوپڑیوں کی م الئیں پہنے ‪ /‬اجمنے ہوئے اپنے بچوں کی شک وں‬ ‫کو ‪ /‬ب رود کی ڈھیر پر رکھ رہے ہیں۔‬ ‫حسنی سرور ک مق نظ نگ ر کی حیثیت سے بھی ہے۔زم نے نے ان‬ ‫کو جو درد و غ دی اسے انہوں نے ش عری کے روپ میں لوٹ دی ہے‬ ‫۔ان کی نثری نظمیں متوجہ کن اور وقیع اور گراں م یہ ہیں۔ان کی‬ ‫نظموں ک ڈھنگ گیتوں جیس ہے۔اسون جیوتی‪،‬دیکھو سجن ت روٹھ نہ‬ ‫ج ن ‪ ،‬برہن روتی ہے‪،‬سون چ ندی ہیرا موتی وغیرہ نظمیں گیتوں کے‬ ‫قری ہیں۔ ان میں ہندی ل ظی ت کی بہت ت ہے۔جن میں چونک دینے ی‬ ‫است ج میں ڈال دینے واال کوئی پہ و نہیں ہوت ہے۔‬ ‫سون چ ندی ہیرا موتی ‪ /‬پل دو پل تن ک سنگھ ر ‪ /‬پ پی می ی اس کی‬ ‫)آتم ‪ /‬کیسے کروں گی میں سنگھ ر (سون چ ندی ہیرا موتی‬ ‫ج یل تنویر کو بھی نظ ک نم ئندہ ش عر قرا دی ج سکت ہے جن کی‬ ‫نظموں میں داخ یت اور خ رجیت ک رفرم ہے ۔ان کی ہر نظ میں‬ ‫ل ظی ت س دہ ترین اور چست ترین ہیں۔وہ آس ن ل ظوں میں اپنے جذب ت‬ ‫کو اس طرح پیش کرتے ہیں جس سے بے س ختہ پن آج ت ہے اور وہ‬ ‫کسی بھی ب ت کو طوالت نہیں دیتے ب کہ س دگی سے پیش کر دیتے‬ ‫ہیں۔ان کی نظ ’’ حص ر‘‘ ک یہ حصہ دیکھئے۔‬


‫‪37‬‬

‫کوئی آہٹ نہیں ‪ /‬کوئی قد اٹھت نہیں ‪ /‬ا صرف میں ہوں ‪ /‬اور تنہ ئی‬ ‫ک لمب حص ر۔۔۔۔پھر نہ ج نے کیوں ‪ /‬کسی آشن کی گونج ‪ /‬ہر د میرے‬ ‫ح قہ بگوش رہتی ہے‬ ‫انور دا ایک فطری ش عر ہیں۔جن کی ش عری ک ب طنی اضطرا ق ری‬ ‫کو مم کت م کوتی نہیں اس ل ترین مق م ت کی سیر کرات ہے ۔وہ ایسے‬ ‫ش عر ہیں جن کی نظموں میں افس نوی اور ڈرام ئی انداز پ ی ج ت‬ ‫ہے۔نظ شروع تو ہوتی ہے مگر آگے بڑھتی ہوئی ڈرام ئی موڑ لیتی‬ ‫ہے اور انج چونک دینے واال ہوج ت ہے۔وہ ال ط میں اس طرح ج ن‬ ‫ڈال دیتے ہیں کہ ان میں نئے م نی اورم ہو پیدا ہوج تے ہیں اور اس‬ ‫کے بین السطور بہت س م ہو پوشیدہ رہ ج ت ہے ان کی نظموں می‬ ‫جذبہ اور آگہی ک امتزاج م ت ہے۔‬ ‫کی یہ دروازے امین بن کر کھڑے ہیں ‪/‬کی یہ رشتے دل کی دنی نے‬ ‫گھڑے ہیں ‪/‬میں زمیں ک آدمی ہوں آسم نوں کو نہ م نوں ‪ /‬گندی ن لی‬ ‫میں پڑا ہوں پ ک مری میں کی ج نوں‪ /‬میں مگر تھ سر بہ زانو سوچ‬ ‫میں ڈوب ہوا ‪ /‬سوچت تھ روشنی سے رنگ الگ ہوج ئے گ ‪ /‬سوچت‬ ‫تھ خوں س ید احس س ک ہوج ئے گ ‪ /‬میں کہ پھر بھی سر بہ زانو‬ ‫بوجھ سے گھبرا گی ‪ /‬میں سرابوں میں حسیں دھوکوں میں واپس آگی‬ ‫۔خم ر قریشی کوبھی نظ ک ش عر قرار دی ج سکت ہے جن کے یہ ں‬ ‫نظموں میں بحروں کی ترمیم ت ک ش وری عمل پ ی ج ت ہے ۔ان کی‬ ‫س ری نظمیں صوتی آہنگ سے ہ کن ر ہیں اور وہ جدید اظہ ر ‪ ،‬ل ظی ت‬ ‫اور موضوع ت اختراع کرنے کے ق ئل ہیں۔ان کی نظموں کے ب ض‬


‫‪38‬‬

‫ٹکڑے ق ری کو اپنی طرف م ئل کرتے ہیں اور ق ری ان سے پوری‬ ‫طرح لطف اندوز ہوت ہے۔‬ ‫پہ ے پہ ے ! ‪ /‬رت جگے کتنے گراں تھے ‪/‬ا مگر ‪ /‬ان کی ارزانی ک‬ ‫) کی م ت کریں ( رت جگے‬ ‫ح مد اکمل کی نظموں ک ایک خ ص رنگ ہے۔ ان کی نظموں میں‬ ‫ل ظی ت کے س تھ س تھ گہری سوچ اور فکرہوتی ہے اور اظہ ر ک‬ ‫طریقہ بھی نراال ہوت ہے۔وہ بھی م مولی ب ت کو گھم پھرا کر پیش‬ ‫کرنے میں مہ رت رکھتے ہیں۔ان کی مختصر نظمیں نہ یت م نی خیز‬ ‫ہوتی ہیں۔بس ہللا ‪ ،‬ج ت ‪ ،‬میں تمہ رے لئے کوئی گیت نہیں لکھوں‬ ‫گ ‪ ،‬دع ‪،‬رات کے ن ‪ ،‬آد زاد ک ایک غ ہی نہیں وغیرہ مختصر‬ ‫نظموں میں ح مد اکمل ک ایک خ ص رنگ چھ کت ہے۔ح مد اکمل طویل‬ ‫نظموں میں ل ظی ت ک است م ل بکثرت کرتے ہیں جس سے وہ‬ ‫موضوع سے بہکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اگر اس سے گریز کریں تو‬ ‫انہیں نظموں کے ش عروں کے زمرہ میں رکھ ج سکت ہے۔’’ج ت ‘‘‬ ‫ان کی بہترین نظ ہے جس میں وہ اپنے اظہ ر میں ک می ہیں ۔اس‬ ‫نظ میں م ضی سے ح ل کی طرف اورح ل سے مستقبل کی طرف نظر‬ ‫بڑی عمدگی سے ہوئی ہے۔‬ ‫ج سر پر چ ندنی پھی نے لگے گی تو ‪ /‬ان چ ہتوں پر روئیں گے ‪ /‬جن‬ ‫پر ہنس کرتے ہیں ‪ /‬جیسے بچپن کی غمگیں ی دوں پر ‪ /‬جوانی میں‬ ‫ہنستے تھے ‪ /‬جوانی کی المن کی بڑھ پے میں ہنس ئے گی نہیں۔رالئے‬ ‫گی ‪ /‬پھر اس کے ب د ان آنسوؤں کی بے م ئیگی پر ‪ /‬ہنسنے ک موقع ‪/‬‬ ‫!ش ید کبھی نہیں مل سکے گ‬


‫‪39‬‬

‫ش ئستہ یوسف ک ن بھی ک فی اہمیت رکھت ہے جنہوں نے اپنے‬ ‫ان رادی لہجہ ‪ ،‬ش ری رویہ اوراس و کی وجہ سے ادبی مق ح صل‬ ‫کی ہے۔ ان کے یہ ں نس ئی تحریک کے خد وخ ل م تے ہیں۔انہوں نے‬ ‫است روں‪ ،‬اش روں اور کن یوں سے ک لیتے ہوئے عورتوں کے‬ ‫جذب ت ‪ ،‬احس س ت اور ان کے م شرتی مس ئل کو اج گر کرنے کی‬ ‫ک می س ی کی ہے۔ان کی نظموں میں فکر اور حسیت ک احس س پ ی‬ ‫ج ت ہے۔ ان کے یہ ں عالمتی انداز بھی دیکھ ج سکت ہے۔ان کی‬ ‫مشہور نظ ’’ بند مٹھیوں میں پھر کچھ نئی لکیریں ہیں ‘‘ ہے جس‬ ‫میں ان کی سوچ اور فکر کی پرواز بہت ب ند ہے۔جس ک ایک حصہ‬ ‫مالحظہ فرم ئیں۔‬ ‫آ ہنی دریچے بھی‪ /‬آگ سے پریش ں تھے‪ /‬ادھ ج ی چوکھٹ ‪ /‬خوف‬ ‫سے لرزتی تھی ‪ /‬لمحہ لمحہ روتی تھی‬ ‫اس حصہ میں آہنی دریچے اورادھ ج ی چوکھٹ‪ ،‬ایک طرح ک پیکر‬ ‫تراشتے ہیں جس سے دونوں کی پریش نی ولرزانی واضح ہوتی ہے۔‬ ‫نظموں کے اس س ر میں ایک ن ڈاکٹر آف ع ل صدیقی ک ہے جنہوں‬ ‫نے نظ گوئی کے میدان میں اپنی ایک شن خت بن لی ہے۔جن کی نظموں‬ ‫میں ت میح ت کی بھرم ر ہوتی ہے ۔ وہ روای ت ک ج ئزہ بھی لیتے ہیں‬ ‫مگر جدیدلہجہ اور انداز میں کیونکہ وہ جدیدیت سے واقف ہیں اور‬ ‫جدت پسند بھی ہیں۔وہ اپنی نظموں میں موضوع کی بھرپور وض حت‬ ‫کرتے ہیں مگر ت صیل میں ج نے سے گریز کرتے ہیں۔ان کی نظمیں‬ ‫واق ت پر مشتمل ہوتی ہیں۔ان کی فکر اور اختراع سے نئے نئے‬ ‫موضوع ت اج گر ہوتے ہیں جن میں م صومیت پ ئی ج تی ہے ۔‬


‫‪40‬‬

‫نیزہ پر ٹنگ سر‪ /‬اور اس دار کی بھیڑیں ‪ /‬جس ک چرواہ کہیں کھو‬ ‫گی ‪ /‬ہ سے کی کہہ رہی ہیں۔۔۔شک م ہی سے پیمبر ک تولد‪ /‬ی خود‬ ‫ح ظتی کے لئے ‪ /‬ت ریک گپھ ؤں پ ش ری‬ ‫یہ ں نیزہ پر ٹنگ سر سے کربال‪،‬شک م ہی سے پیمبر ک تولد سے‬ ‫حضرت یونس ؑ اور ت ریک گپھ ؤں کی پ ش ری سے مراد اصح کہف‬ ‫ی غ ر ثور میں حضور اکر ﷺ اور حضرت ابو بکر صدی کے قی‬ ‫کی طرف اش رے م تے ہیں۔‬ ‫جب ر جمیل کی نظموں ک ایک خ ص وصف اختت پر چونک دینے واال‬ ‫ہوت ہے۔ان کی نظمیں مختصر ہوتی ہیں جس میں وہ ایک ت ثر اور‬ ‫اچھوت پن پیدا کر دیتے ہیں ان کی زب ن اور انداز بی ن س دہ ہوت ہے۔ان‬ ‫کے خی الت اور موضوع ت میں کوئی نی پن نہیں دکھ ئی دیت ہے۔مگر‬ ‫ان ک اظہ ر ان کی نظموں کو ج ندار بن دیت ہے۔وداع‪ ،‬وقت ‪ ،‬آمنت ب ہلل‬ ‫‪،‬مشغ ہ ان کی مشہور مختصر نظمیں ہیں۔نظ ’’آمنت ب ہلل ‘‘ک اختص ر‬ ‫ق بل توجہ ہے اور اظہ ر اس سے زی دہ ق بل توجہ ہے۔‬ ‫ح دثوں کی زب نی ‪ /‬جو اس کے ق صد ہیں ‪ /‬وقت نے ایک چھوٹ س‬ ‫پیغ بھیج ہے ‪ /‬میری ب یت کو تس ی کرلو‬ ‫م ہر منصور کی نظموں میں جدید خی الت پ ئے ج تے ہیں ی نی وہ‬ ‫نظموں میں دور ح ضرہ کی میک نکی و س ئنسی اختراع ت اور ایج دات‬ ‫کو سموکر اپنے احس س ت برقرا رکھتے ہیں ۔یہ چیزیں بطور تمثیل اس‬ ‫طرح لے آتے ہیں کہ ان کے درمی ن کوئی اہ ربط اور ت نہیں‬ ‫رہت ۔ان کے یہ ں تیز روی اور سیم بیت ک عنصر پ ی ج ت ہے۔ان کی‬ ‫اکثر نظموں میں ان ک اپن پرتودکھ ئی دیت ہے۔ان کی نظموں کے ال ظ‬


‫‪41‬‬

‫ان کے لئے آئینہ ہیں جس میں ان ک اپن عکس موجود ہوت ہے۔انہوں‬ ‫نے ان نظموں میں کوئی نی تجربہ تو نہیں کی البتہ ان میں بے‬ ‫س ختگی پ ئی ج تی ہے اور اس میں عالمتی اور تمثی ی انداز بھی م ت‬ ‫ہے۔مری نظمیں‪ ،‬ن گ تگی ‪ ،‬زخ ن دیدہ‪،‬درس روز ازل وغیرہ ان کی‬ ‫اچھی نظمیں ہیں۔’ مری نظمیں‘ک یہ حصہ دیکھئے۔‬ ‫کبھی ل ظوں کے آئینوں کو ‪ /‬ت جو غور سے دیکھو ‪ /‬تو ش ید اپن‬ ‫پرتو ہی نظر آئے ‪ /‬بشرطیکہ ‪ /‬تمہ ری آنکھ روشن ہو‬ ‫رزا اثر کی نظمیں جدیدیت اور روایت کی پ سدار ہیں جن کے‬ ‫موضوع ت ذاتی تجرب ت اور مش ہدات پر مشتمل ہیں۔عالوہ ازیں سی سی‬ ‫‪ ،‬سم جی اور تہذیبی زندگی کو اس طرح نظموں میں پیش کرتے ہیں‬ ‫جو ذہنوں کو مت ثر کرتے ہینآدمی‪ ،‬ش خون اور زوال ان کی مشہور‬ ‫نظمیں ہیں۔جن میں وہ ل ظی ت کو اس طرح برتتے ہیں جس سے‬ ‫موضوع بہ آس نی ق ری کے ذہنوں میں اتر ج ت ہے۔’آدمی ‘نظ میں آج‬ ‫ک آدمی کس طرح مخت ف خ نوں میں بٹ ہے اسے ت ش کے ب ون پتوں‬ ‫میں پیش کرتے ہیں۔جس ک ایک ٹکڑا مالحظہ ہو۔‬ ‫ت ش کے ب ون پتوں کی طرح ‪ /‬آدمی تقسی ہے ‪ /‬مخت ف رنگوں کے‬ ‫نمبروں میں ‪ /‬چ ر مخت ف سمتوں میں ‪ /‬ہر ایک رنگ میں چ ر مخت ف‬ ‫نمبر ‪ /‬غال ‪ ،‬بیگ ب دش ہ ‪ /‬مخت ف رنگوں کے نمبروں میں تقسی ہیں‬ ‫عوا ‪ /‬ص رجوکر ہے۔‬ ‫س غر کرن ٹکی نے ک می نظمیں لکھی ہیں ۔انہیں نئے زم نے کے‬ ‫انس ن کے درد ک احس س ہے۔انہیں اس ب ت ک ع ہے کہ دور ح ضر‬ ‫میں کوئی بھی رشتہ اپن ئیت کی کسوٹی پر کھرا نہیں اترت ‪،‬ہر چیز اپنی‬


‫‪42‬‬

‫قدر و قیمت کھوتی ج رہی ہے ‪ ،‬محبت م د بن گئی ہے ۔یہی وجہ ہے‬ ‫کہ محبو بھی جذب ت کی م رکیٹنگ کرت ہے ۔تغزل اور تقدس کو پ م ل‬ ‫کرت ہے۔س غر کرن ٹکی نئی زندگی کے عالئ وغیرہ کو نہ یت س دگی‬ ‫اورعمدگی کے س تھ اپنی نظموں میں سموتے ہیں۔ان کی نظموں ک‬ ‫ایک خ ص وصف ان ک اختص ر ہے۔ان کی مکمل تین نظمیں دیکھئے۔‬ ‫مجھے ا اپنے قد کی ‪ /‬فکر کرنی ضروری ہے ‪ /‬میرا بیٹ ‪ /‬میرے قد‬ ‫کے برابر آگی ہے‬ ‫عج محبو ہے ‪ /‬میرے جذب ت و احس س ت کو ‪ /‬غزل کی شکل دیت‬ ‫ہے ‪ /‬تغزل چھین لیت ہے‬ ‫دور م ضی ہو گی ‪/‬ک ک شہید ‪ /‬دور ح ضر کی ‪ /‬لبوں پر ج ن ہے ‪/‬‬ ‫دور مستقبل ابھی سے ‪ /‬خود کشی کی مش میں مصروف ہے‬ ‫ڈاکٹر یس ی عقیل کوری ست کرن ٹک میں یہ امتی ز ح صل ہے کہ ’’‬ ‫ردائے رحمت‘‘ آزاد ن توں پر مشتمل واحد ن تیہ مجموعہ ہے۔جس میں‬ ‫ترسٹھ آزاد ن تیں ہیں جن میں حضور اکر ﷺ کی سیرت کے ن در‬ ‫پہ و ؤں کو پیش کی گی ہے۔ اس کے عالوہ بھی انہوں نے ک فی نظمیں‬ ‫لکھی ہیں جو ان کے مش ہدات ‪ ،‬احس س ت اور تجرب ت کی غم ز ہیں ان‬ ‫کی نظموں میں متحرک زندگی اور زم نے کے س گتے اور سنگین‬ ‫مس ئل کو دیکھ ج سکت ہے۔ س تھ ہی زم نے کی بے ثب تی اور گ‬ ‫ہوتے ہوئے اقدار کو بھی محسوس کی ج سکت ہے۔ان کے یہ ں بھی‬ ‫ایج ز و اختص ر نظ ک بنی دی وصف ہے۔نظ ’’ وائے‬ ‫مجبوری‘‘مالحظہ فرم ئیں۔جس میں ان کے گہرے مش ہدہ ک بخوبی‬ ‫اندازہ ہو ج ت ہے۔‬


‫‪43‬‬

‫ہوس آلود نظروں سے ‪ /‬بچ پ ؤ گی ت کیسے ‪ /‬بدن اپن ‪ /‬یہ نظریں ہر‬ ‫جگہ ہیں‪ /‬میں س کچھ دیکھت ہوں ‪/‬پھر بھی ت سے کہہ نہیں سکت‬ ‫‪/‬کہ ت ا ‪/‬ترک کر دو نوکری اپنی ‪ /‬مجھے غیرت نہیں آتی ‪/‬مجھے‬ ‫م و ہے ‪ /‬غیرت محض انس ں ک حصہ ہے ‪ /‬میں انس ں ہی کہ ں ہوں‬ ‫‪ /‬میں تو م س ہوں۔‬ ‫اسی طرح ایک اور بال عنوان نظ میں رشتوں کے کٹ ج نے سے پیدا‬ ‫ہونے والے درد و کر اور احس س ک انداز دیکھئے۔‬ ‫س ر میں زندگی کے ‪ /‬س تھ تیرا اس طرح چھوٹ ‪ /‬کہ تری ی د کے‬ ‫س رے دریچے ‪ /‬ہوگئے ویراں ‪ /‬تصور بھی ترا ب قی نہیں ہے ‪ /‬تیری‬ ‫تقریر ک ج دو ‪ /‬بڑا ہی بے اثر نکال‪ /‬کوئی رشتہ نہیں ب قی ۔۔۔۔کسی‬ ‫گمن افس نہ کے ‪ /‬ایک انج ن ص حہ پر ‪ /‬میں تیرا ن پڑھت ہوں ‪ /‬تو‬ ‫پ کوں کے کن رے بھیگ ج تے ہیں ‪ /‬نہ ج نے کیوں ؟‬ ‫س یم ن خم ر کی نظموں میں گہرائی اور گیرائی پ ئی ج تی ہے اور ان‬ ‫میں زندگی کی بے رحمیوں ‪ ،‬س کیوں‪ ،‬ست ظری یوں اور دست‬ ‫درازیوں کو دیکھ ج سکت ہے۔انہوں نے زندگی کے حق ئ کو عمدگی‬ ‫کے س تھ پیش کی ہے۔ان کی نظ ’’ جدید نسل ک المیہ‘‘ ک یہ حصہ‬ ‫دیکھئے۔‬ ‫ت مجھے چ ہتے ہو ‪ ،‬غ ط ‪ /‬میں تمہیں پی ر کرت ہوں ‪ /‬س جھوٹ ہے‬ ‫‪ /‬سچ تو یہ ہے ‪/‬کہ ہ اپنی اپنی ضرورت کے پیچھے پڑے ہیں۔‬ ‫خ لد س ید کی نظموں میں ایک تیکھ پن پ ی ج ت ہے جسے ہ زم نے‬ ‫کی سرد مہری اور زندگی کی بے توجہی ک رد عمل کہہ سکتے‬ ‫ہیں۔خ لد س ید جدید رجح ن ت اختی رکرتے ہیں لیکن ش ر و اد کی‬


‫‪44‬‬

‫صحت مند قدروں ک لح ظ رکھتے ہیں۔زب ن و بی ن پر انہیں قدرت ح صل‬ ‫ہے۔پی س آش تہ‪ ،‬گھل ج نے کے ب د‪ ،‬درندہ پچھ ی س عت ک ‪،‬خستگی‬ ‫اور ہ کہ اکھڑے ہوئے پیڑ سمجھے گئے ان کی مشہور نظمیں‬ ‫ہیں۔نظ ’درندہ پچھ ی س عت ک ‘ ک آخری ٹکڑا دیکھئے۔‬ ‫میری س نسوں کے ش خوں پہ بیٹھے ہوئے تشنگی کے پرندے اڑے‪/‬‬ ‫اپنی منق ر بھر پی س کے واسطے ‪ /‬مگر۔۔۔۔آسم نوں میں بھی کوئی‬ ‫قطرہ نہیں اور سمندر سرا ‪ /‬ایک بے بوند دل ہے کہ ٹ ت نہیں ‪ /‬دن‬ ‫سرکت نہیں۔‬ ‫رزا افسر کی نظموں میں زندگی کی حقیقتیں‪ ،‬اس ک ادراک اور تجزیہ‬ ‫پ ی ج ت ہے۔جس میں انس ن دوستی‪ ،‬درد مندی اور ہمدردی ک عنصر‬ ‫ہوت ہے جس سے نظموں میں دلکشی پیدا ہوج تی ہے۔وہ نظموں میں‬ ‫اپنے جذب ت ک اظہ ر ہی نہیں کرتے ب کہ فکر بھی تپ تے ہیں۔ان کی‬ ‫نظ ’’ فر ‘‘ ک یہ ٹکڑا اس ب ت ک ثبوت ہے۔‬ ‫تختی ں ‪ ،‬جنگل کی سر حد پر لگی ہیں‪ :‬جن میں سرخی سے لکھ‬ ‫ہے‪،‬انتب ہ! ‪ /‬ہر درندہ‪ ،‬ہر چرندہ ‪،‬کل پرندے ‪ /‬جو بھی اس جنگل میں‬ ‫ہیں آب د وہ ‪ /‬س کے س ہیں م کیت ا سرک ر کی‪ /‬جر ہے ان میں‬ ‫کسی ک بھی شک ر‪ /‬اور ح ظت الزمی‪ /‬ان س کی خ ص و ع پر ‪/‬‬ ‫م م ہ بر عکس اس کے‪ /‬شہر و بستی میں کہیں بھی ‪/‬ٹوکنے والی‬ ‫کوئی تختی نہیں‪ /‬صبح زہرا فن ‪/‬ش ہے رقص اجل‪ /‬ٹھیک ہے ‪/‬‬ ‫جنگل و بستی میں کچھ تو فر ہون چ ہیئے۔‬ ‫مظہر محی الدین نے بھی خوبصورت‪،‬م نی خیز اورک می نظمیں‬ ‫لکھی ہیں۔ ان کی نظموں میں اخالقی قدروں ک زوال ‪،‬فرد کے‬


‫‪45‬‬

‫کھوکھ ے پن ک رنگ اور زندگی کی بے م نویت پ ئی ج تی ہے مگر‬ ‫اس میں انتہ پسندی نہیں ہے۔دراصل ان میں زندگی کی تصویر اور‬ ‫ت سیر موجودہے ۔استق مت‪ ،‬تیسرا زینہ ‪ ،‬مت عدانش‪،‬کی کی ا تک‬ ‫‪،‬کبھی سوچ بھی ہے ت نے ‪،‬سوچ‪ ،‬فری د ان کی اچھی نظمیں ہیں۔نظ‬ ‫’’سوچ‘‘ ک ح ل دیکھئے۔‬ ‫سوچ ج بگڑتی ہے ‪/‬گہری نیند سوتی ہے‪/‬یہ اٹل حقیقت ہے‪/‬زیست‬ ‫اپنی منزل سے ‪/‬دور ہوتی ج تی ہے‪/‬سمت بھول ج تی ہے‪/‬ذلتوں کی‬ ‫!! وادی میں‪/‬در بدر بھٹکتی ہے‬ ‫کرن ٹک کے جدید نظ گو ش را کے اس سرسری مط ل ہ سے یہ‬ ‫احس س بہر ح ل ہوج ت ہے کہ کرن ٹک میں جدید نظ ک س ر ق بل‬ ‫ست ئش ہے اور یہ کہ اسے اردو دنی کے کسی بھی عالقہ کے اہ ترین‬ ‫ش را اور کسی بھی رجح ن کے تحت لکھی ج نے والی نظموں کے‬ ‫عمدہ انتخ کے مق ب ے میں اعتم د کے س تھ رکھ ج سکت ہے۔ ح ل‬ ‫ہی میں ع ی صب نویدی نے’’ کرن ٹک میں جدید اردونظ ‘‘کے ن‬ ‫سے جو کت لکھی ہے اس میں محمود ای ز سے لے کر آف ع ل‬ ‫صدیقی تک انیس ش عروں ک انتخ کی ہے۔جس سے واضح ہوت ہے‬ ‫کہ کرن ٹک میں جدید اردونظ کی صورت ح ل ک فی تش ی بخش ہے ۔‬ ‫کرن ٹک کے نظ گو ش را میں بہت سے ن ک فی اہمیت کے ح مل‬ ‫ہیں۔جن میں شکیل مظہری ‪،‬شیدا روم نی ‪،‬ری ض احمد خم ر‪ ،‬الف احمد‬ ‫بر ‪،‬ڈاکٹر بی محمد داؤد محسن‪،‬ذاکرہ شبن ‪ ،‬مہ جبین نج ‪ ،‬ڈاکٹر‬ ‫فرزانہ فرح وغیرہ ک فی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس مختصر سے مضمون‬ ‫میں س کے کال ک ج ئزہ لین ممکن نہیں ہے لیکن میں نے نم ئندہ‬ ‫ش را اور ان کی نظموں پر بحث ضرور کی ہے مگر ایک دوسرے سے‬


‫‪46‬‬

‫موازنہ کرتے ہوئے کسی کوکسی پر فوقیت دینے اور مق مت ین کرنے‬ ‫کی کوشش نہیں کی ہے۔البتہ نظموں کے مط ل ے سے جو امیج بنت‬ ‫ہے اس کو پیش کی ہے۔ جس سے ری ست کرن ٹک میں نظ کی صورت‬ ‫ح ل س منے آسکے ۔یہ صورتح ل بھی ت ج خیز ل ظ ہے جس کی‬ ‫کرن مشکل ہے کیونکہ ’’صورتح ل ‪ Define‬ت ریف کرن ی اسے‬ ‫‘‘تو ہمیشہ ’’ صورتح ل ‘‘ ہی رہے گی۔‬ ‫‪http://www.fikrokhabar.com/index.php/enlightenment-news-article/item/5162-karnatak-me-jadee‬‬ ‫‪d-nazam-ki-soorate-haal‬‬

‫نثری نظ‬


‫‪47‬‬

‫سید نجی ع ی ش ہ‬ ‫نثری نظ کے شجرہ نس کی جڑیں دنی کے قدی اد سے م تی ہیں۔‬ ‫بہت سی دیوم الئیں‪ ،‬لوک داست نیں اور قبل مسیح کے طویل رزمیے‬ ‫اپنے ش عرانہ آہنگ‪ ،‬ہیئت اور اس و میں نثری نظ کے قری تر ہیں۔‬ ‫قدی ویدوں اور سنسکرت اد سے بھی اس کے ڈانڈے مالئے ج تے‬ ‫ہیں۔ مغر میں نثری نظ ک آغ ز انیسویں صدی میں ہوا۔ ابتدا فرانس‬ ‫میں اور ب دہ امریکہ میں اسے بہت فرو ح صل ہوا۔ اردو میں مخت ف‬ ‫ہیئتوں اور ن موں سے نثری نظ کی مث لیں بیسویں صدی کی تیسری‬ ‫دہ ئی سے م ن شروع ہو ج تی ہیں۔ ت ہ ایک ادبی تحریک کے طور پر‬ ‫اس ک ب ق عدہ آغ ز س ٹھ کی دہ ئی سے ہوا۔ لیکن لگ بھگ تین دہ ئی ں‬ ‫گزر ج نے کے ب د بھی نثری ش عری ک یہ تجربہ اردو ش ری ت میں‬ ‫کسی واضح قبولیت کے مق تک نہ پہنچ سک اور م سوا چند تخ ی‬ ‫ک روں کی ذاتی ک وشوں کے نثری نظ ک " دور اول " ب ل مو ک می بی‬ ‫سے ہمکن ر نہ ہو سک ۔ اس کی بڑی وجہ غ لب سکہ بند قس کی ادبی‬ ‫تحریکوں کے خالف ردعمل اور اردو کی ش ری روای ت سے یک د‬ ‫اور یکسر بغ وت تھی۔ اس کے عالوہ اس دور کے نثری نظ نگ روں‬ ‫کی ضرورت سے زی دہ جدت و تجردپسندی اور ش ری کی ی ت و‬ ‫تجرب ت کو داخ ی ص ف گری کے عمل سے گزارے بغیر خ شکل میں‬ ‫پیش کر دینے واال ت خ رویہ بھی اس صنف کی ابتدائی ن ک می ک سب‬ ‫بن ۔ یہ ب ت اردو ق رئین کے لیےدلچسپی ک ب عث ہو گی کہ نثری‬


‫‪48‬‬

‫ش عری‪ ،‬جس ک آغ ز انیسویں صدی کے اوائل میں فرانس سے ہوا‬ ‫اور صدی کے آخر تک دیگر مغربی مم لک میں‪ ،‬وہ ں بیسویں صدی‬ ‫کی پ نچویں اور چھٹی دہ ئی تک آتے آتے اس ک د خ ٹوٹ چک تھ‬ ‫ت وقتیکہ نم ی ں امریکی ش عروں نے اسے نئی زندگی دی اور اسے‬ ‫دنی بھر میں قبولیت م ی۔ جبکہ اردو میں عین اس وقت اس ک آغ ز ہو‬ ‫رہ تھ ۔ اوکت ویو پ ز نے اس ف ر کو ہسپ نوی زب ن میں است م ل کی ۔‬ ‫روس اور ج پ ن میں بھی اس صنف میں خ ص ک ہوا۔ اینے م ری‬ ‫رلکے‪ ،‬فرانز ک فک ‪ ،‬ج رج لوئیس بورخیس‪ ،‬پ ب و نیرودا‪ ،‬اوکت ویو پ ز‪،‬‬ ‫ولی ک رلوس ولی ان س ن مور لکھ ریوں نے نثری نظ کی ف ر کو‬ ‫نہ صرف اپن ی ب کہ اپنے اپنے انداز میں اس کی توضیح و توصیف کی‬ ‫اور اس کی ہیئت اور دکشن میں خ طر خواہ اض فے بھی کیے۔ اسی‬ ‫( ‪ )۸‬کی دہ ئی کے آخر سے دنی بھر میں‪ ،‬بشمول اردو‪ ،‬اس صنف کو‬ ‫بہت مقبولیت ح صل ہوئی ہے اور ا یہ بڑی حد تک رد و قبول کے‬ ‫مرح ے سے آگے نکل آئی ہے۔ امریکہ میں تو نثری نظ کو یہ ں تک‬ ‫فرو ح صل ہے کہ ب ض یونیورسٹیوں میں اد کے ط ب کو رائ‬ ‫لکھنے سے منع کی ج ت ہے۔‬ ‫گزشتہ پچیس تیس برسوں سے اردو نثری نظ ایک نئے فن من سے‬ ‫گزر رہی ہے۔ اسے نثری نظ ک " دور ث نی " بھی کہ ج سکت ہے۔‬ ‫اس ب ر میدان قرط س میں زی دہ تر وہ ش را ہیں جو جدید تر ش ری‬ ‫حسی ت اور عصری ادبی ش ور رکھنے کے س تھ س تھ اردو کی‬ ‫کالسیکی ش ری روای ت سے بھی مربوط و منس ک ہیں اور فن ش ر‬ ‫گوئی ی نی اوزان و بحور پر بھی گرفت رکھتے ہیں۔ نثری نظ نگ روں‬ ‫کی اس کھیپ کی ش ری ترجیح ت و ترغیب ت کسی خ ص ادبی تحریک‬


‫‪49‬‬

‫کے ت بع ی خالف نہیں ب کہ اد کے ان جدید اور پس جدید متنوع‬ ‫تخ یقی رویوں سے عب رت ہیں جو اس صنف میں نت نئے اس لی اور‬ ‫موضوع ت کے اض فے ک ب عث ہیں۔ بالشبہ اس زمرے میں وہ ش را‬ ‫اور ن رسیدہ و ن پختہ ک ر خ مہ فرس ش مل نہیں کیے ج سکتے جو‬ ‫اردو کی ش ری و عروضی روای ت سے آگ ہی ح صل کیے بغیر الٹی‬ ‫سیدھی سطروں میں سطحی اور خ ش ری مواد کو نثری نظ ی نظ‬ ‫کے ن سے پیش کر دیتے ہیں۔‬ ‫احس س ت و خی الت کے بہ ؤ کو محض ش وری طور پر کسی مخصوص‬ ‫س نچے میں ڈھ لن مشکل ہوت ہے۔ ایس کرنے سے تخ ی کی‬ ‫خوبصورتی‪ ،‬بے س ختگی اور نظ میں بین السطور بہنے والی اداسی‬ ‫اور آگہی کی رو مت ثر ہوتی ہے۔ دراصل ہر نظ اپنی ہیئت ی س خت‬ ‫خود لے کر آتی ہے۔ تخ ی کے ب د اس کی تراش خراش تو کی ج‬ ‫سکتی ہے لیکن تخ یقی عمل کے دوران اسے زبردستی "نظ " ی‬ ‫"نثری نظ " نہیں بن ی ج سکت ۔ نثری نظ کہن ایس آس ن بھی نہیں‬ ‫جیس کہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں اور نہ نثری نظ کے ن پر ش ئع‬ ‫ہونے والی چھوٹی بڑی چند سطروں پر مشتمل ہر تخ ی کو نثری نظ‬ ‫کہ ج سکت ہے۔ اس کے لئے گہرے تہزیبی ش ور‪ ،‬آگہی‪ ،‬عرف ن ذات‪،‬‬ ‫جدید طرز احس س‪ ،‬عمی مط ل ے‪ ،‬مش ہدے‪ ،‬تخ یقی مزاج کی‬ ‫موزونیت اور عالمتوں‪ ،‬است روں‪ ،‬تشبیہوں اور پیکروں کے پیچیدہ‬ ‫مگر ق بل فہ نظ کے عالوہ ش ری عن صر‪ ،‬ن می تی وحدت اور پس‬ ‫ال ظ اور بین السطور ایک اندرونی آہنگ جیسے لوازم ت ک ہون‬ ‫ضروری ہے۔‬


‫‪50‬‬

‫اردو نثری نظ پر ا تک بے شم ر مب حثے و مک لمے ہو چکے ہیں‬ ‫اور طویل مض مین رق کیے گئے ہیں جن میں اس کے ن ‪ ،‬پس منظر‪،‬‬ ‫مزاج‪ ،‬آہنگ‪ ،‬عالمتی و است راتی نظ ‪ ،‬فنی و فکری جواز اور شن خت‬ ‫پر ت صیل دار بحث کی گئی ہے۔ لیکن اس کے ب وجود ایک اہ سوال‬ ‫اپنی جگہ برقرار ہے کہ ب ض ش را اظہ ر کے مخت ف س نچوں مثال‬ ‫غزل‪ ،‬پ بند نظ ‪ ،‬م ری نظ ‪ ،‬آزاد نظ اور دیگر اصن ف سخن پر قدرت‬ ‫رکھتے ہوئے بھی نثری نظ ک اور کیوں کہتے ہیں۔ دراصل نثری نظ‬ ‫اس وقت سرزد ہوتی ہے ج تخ یقی اداسی اور آگہی انس نی بس سے‬ ‫ب ہر ہو کر وجود کی حدیں پ ر کرنے لگتی ہے اور ش عری کے مروج‬ ‫پیم نے ی س نچے اس کے اظہ ر کے لئے ن ک فی ہو ج تے ہیں۔ ش ید‬ ‫انس ن کی ازلی و ابدی تنہ ئی اور فکری اپج کسی ایسے ش ری نظ‬ ‫اور لس نی آہنگ کی متق ضی و متالشی ہے جسے ابھی تک دری فت‬ ‫نہیں کی ج سک ی جسے ابھی تک کوئی ن نہیں دی ج سک ۔ ش ید‬ ‫نثری نظ اظہ ر کی اسی بے بسی ک غیر مرئی تخ یقی جواز ہے۔‬ ‫نثری نظ کو پ ک و ہند کے مخت ف مک ت فکر نثری نظ ‪ ،‬نثر لطیف‪،‬‬ ‫نثرین‪ ،‬نث ‪ ،‬نثر پ رے‪ ،‬نثرانے‪ ،‬نث ‪ ،‬نثم نے‪ ،‬نظ کہ نی‪ ،‬نظمیے‪،‬‬ ‫امک ن ت‪ ،‬نظ نو‪ ،‬غیر عروضی نظ وغیرہ وغیرہ کے ن سے قبول‬ ‫کرتے اور اپنے اپنے رس ئل میں ش ئع کرتے ہیں۔ بیشتر اسے ’نثری‬ ‫نظ ‘ کے ن سے الگ ش ئع کرتے ہیں ی نظ کے خ نے ہی میں‬ ‫رکھتے ہیں۔ گوی اس صنف میں اظہ ر پر تو کوئی اعتراض نہیں لیکن‬ ‫اس کے ن ک مسئ ہ درپیش ہے۔ کچھ مک ت فکر ایسے بھی ہیں جو‬ ‫اپنے افک ر و نظری ت میں ج مد ی بہت زی دہ قدامت پسند ہونے کے‬ ‫ب عث اس صنف کو سرے سے تس ی ہی نہیں کرتے۔ یہ رویہ بھی ادبی‬


‫‪51‬‬

‫اعتب ر سے ق بل تحسین نہیں۔ ت ہ یہ احتی ط برح ہے کہ نئی نسل کی‬ ‫ش ری تربیت اور نص بی ضرورت کے تحت نثری نظ کو م ری اور‬ ‫آزاد نظ سے الگ رکھ ج ئے۔‬ ‫ش ر و اد ک م خذ چ ہے کسی بھی زب ن سے نسبت رکھت ہو‪ ،‬حتمی‬ ‫تخ یقی م ی ر کی قدر ت ین کے لئے اسے ب آلخر اسی زب ن کے حوالے‬ ‫سے دیکھ اور پرکھ ج ن چ ہیئے جس میں وہ تخ ی کی گی ہو۔‬ ‫چن نچہ اردو نثری نظ کو بھی سنسکرت‪ ،‬ہندی‪ ،‬فرانسیسی اور‬ ‫انگریزی زب ن و اد کی کسوٹی پر پرکھنے کی بج ئے‪ ،‬اردو زب ن کی‬ ‫کٹھ لی میں پگھال کر‪ ،‬اسے اپنے س نچوں میں ڈھ ل کر دیکھن‬ ‫ضروری ہے۔ اردو نثری نظ س ٹھ اور ستر کی دہ ئیوں پہ مشتمل‬ ‫عبوری دورانیے (دور اول ) سے گزر کر ا اس مق پر ہے جہ ں اس‬ ‫کے م خذات اور اس میں اولیت جیسے نزاعی م مالت ضمنی نوعیت‬ ‫کے رہ ج تے ہیں اور تخ یقیت زی دہ اہ ہو ج تی ہے۔ ب لخصوص‬ ‫بیسویں صدی کی آخری دہ ئی اور اس کے ب د میں تخ ی ہونے والی‬ ‫اردو نثری نظ اپنی ہیئت‪ ،‬اس و ‪ ،‬موضوع ت‪ ،‬زب ن و بی ن‪ ،‬ل ظی ت‪،‬‬ ‫کثیر م نویت‪ ،‬حس سیت اور عصر آفرینی کے اعتب ر سے ارتق اور خود‬ ‫انحص ری کی روشن دلیل ہے۔ جو لوگ اسے ک یتہ رد کرتے ہیں وہ‬ ‫دراصل اپنی ش ر و ادبی ن رس ئی ک اظہ ر کرتے ہیں۔ یقین دیگر‬ ‫اصن ف اد کی طرح اس میں بھی رط و ی بس اور ن ش عری در آئی‬ ‫ہے لیکن اہل نقد و نظر کو چ ہیئے کہ وہ ژرف نگ ہی سے ک لیتے‬ ‫ہوئے اس کی چھ ن پھٹک کریں اور اس کی صحیح ش ری ت ترتی‬ ‫دیں۔ ا وقت آ گی ہے کہ وسیع تر تخ یقی امک ن ت کی ح مل اس صنف‬ ‫سخن پر کوئی سنجیدہ اور مت قہ الئحہ عمل اختی ر کی ج ئے‪ ،‬اس کی‬


‫‪52‬‬

‫ارتق ئی پیش رفت کو تس ی کرتے ہوئے برسوں پہ ے کے عبوری‬ ‫خی الت و نظری ت پر نظر ث نی کی ج ئے اور اسے برزخ کے ع ل سے‬ ‫نک ال ج ئے۔‬ ‫‪https://www.facebook.com/permalink.php?id=1470928719809973&story_fbid=1621401268096050‬‬


‫‪53‬‬

‫نئی صدی میں نثری ش عری‬ ‫مشرف ع ل ذوقی‬ ‫مطبوعه نظ نو‬ ‫شم رہ اول اپرل‬ ‫نثری ش عری کی اہمیت میرے نزدیک بہت زی دہ ہے۔ اس ک ایک جواز‬ ‫تو یہ سمجھ میں آت ہے کہ اپنے خی الت کو پیش کرنے کی جوآزادی‬ ‫یہ ں میسر ہے وہ غزلیہ ش عری میں نہیں۔ ممکن ہے ش راءی ش ر پر‬ ‫تنقید کرنے والے اسی آزادی کو نثری ش عری ک عی تصور کریں‪ ،‬یہ‬ ‫ح ان کو ح صل ہے اور اس ک است م ل پچھ ی دو ایک دہ ئیونسے کی‬ ‫بھی ج رہ ہے۔‬ ‫ہرحگہ نثری ش عری پر نہ صرف شروع سے ہی اعتراض ت ہوتے‬ ‫رہے ہیں ب کہ وقت گزرنے کے س تھ اعتراض ت کرنے الوں کی قط ر‬ ‫بھی بڑھتی رہی ہے۔ ان میں آج بھی ایسے لوگوں کی ت داد زی دہ ہے‬ ‫جو نہ صرف نرگسیت اور محبوبیت کے درمی ن جھولتے ہوئے ال ظ‬ ‫کی چ شنی‪ ،‬ری ک ری اور مک ری میں ڈوبے رہے ہیں۔ ب کہ بقول‬ ‫شخصے‪ ،‬صحرا میں اذاں کی طرح ش عری کی تخی ی اڑان اور الہ می‬ ‫طبی ت کولے کر طرح طرح کی خوش فہمیوں ک شک ر بھی رہے ہیں۔‬ ‫گوی ش عری نہیں ہوئی کوئی آسم نی صحی ہ ی غیبی صدا ہوگئی اور‬ ‫ش عری سے الہ ک رشتہ تو روز ازل سے جوڑا ج ت رہ ہے۔ جہ ں‬


‫‪54‬‬

‫تک فکری اف کو چھونے اور نئے جہ ن کی ب زی فت ک سوال ہے تو‬ ‫اس غیبی صدای آسم ن سے صحی ہ کی صورت اتری ہوئی شئے ی نی‬ ‫غزل نے نہ صرف تنگ دام نی کے فض ق ئ کی ہے ب کہ ب ور کرای‬ ‫ہے کہ صحی ہ‪ ،‬صحی ہ ہوت ہے‪ ،‬مشینی رویے‪ ،‬مشینی رویے ہوتے‬ ‫ہیں۔کسی صحی ہ کو مشینی رویوں پر مس ط نہیں کی ج سکت ۔‬ ‫اردو کی ش عرانہ طبی ت میں روزاول سے ہی یہ ب ت ڈال دی گئی کہ‬ ‫ش عر تو ن موجود کی تخ ی کرت ہے۔ نتیجت ً ___ن موجود کی تخ ی‬ ‫میں‪ ،‬ایک بڑے طبقے نے اپنی عمریں وقف کردیں۔ یہی نہیں___‬ ‫ن موجودکی کی یتوں ک خم را بھی بھی ب قی ہے۔ ن موجود کی تخ ی‬ ‫کے سوتے ابھی بھی سوکھے نہیں ہیں‪ ،‬پوری شدت سے ج ری‬ ‫وس ری ہیں اور کہ ج سکت ہے کہ ہم را اردو ک ش عر ن موجود چھوڑ‬ ‫کر موجود چیزوں کی بحث میں پڑت ہی نہیں‪،‬تخ ی ک سوال تو ب د میں‬ ‫پیدا ہوت ہے۔‬ ‫غزلیہ ش عری جہ ں ن موجود کے احس س کے بطن سے جن لیتی ہے‪،‬‬ ‫وہیں نثری ش عری ک مزاج جداگ نہ ہے۔ ی نی ہ کہہ سکتے ہیں‪ ،‬نثری‬ ‫ش عری بالواسطہ ی ب لواسطہ موجود سے اس طرح جڑی ہوئی ہے کہ‬ ‫وہ بھولے بھٹکے بھی ن موجود پن ہ گ ہوں‪ ،‬میں پن ہ نہیں لے سکتی۔‬ ‫نثری ش عری کو‪ ،‬تنقیدی ش ور رکھنے والوں کے عذا سے بھی‬ ‫اسی لئے گزرن پڑا کہ نہ وہ ابہ کے تق ضوں کو تس ی کرتی ہے‪ ،‬نہ‬ ‫وہ مبہ قس کی جدیدیت ی تجریدیت کے م بین کوئی راستہ نک لتی ہے۔‬ ‫وہ آوارہ ندی جیسی ہے۔ کبھی خی لوں کے ب ندھ کو توڑا‪ ،‬کبھی کسی‬ ‫سے ج ٹکرائی‪ ....‬پتھروں میں شگ ف کی ‪ ،‬تیز رواں دواں لہروں‬ ‫مینراستہ بن ی ۔ ندی کبھی گرجی‪ ،‬کبھی چیخی‪ ،‬کبھی خ موش‬


‫‪55‬‬

‫ہوئی‪،‬کبھی اس طرح چنگھ ڑی کہ سرکش لہرونسے ایک جہ ں میں‬ ‫اضطرا ی ہ چل پیدا ہوگئی۔‬ ‫نثری ش عری کی انہی خوبیوں نے مجھے اس ک م ترف ومداح بن ی‬ ‫ہے۔ کی کیجئے کہ مجھے آوارگی کی اس شدت میں لطف آت ہے۔‬ ‫مجھے اس ک ب نکپن پسند ہے۔ اس کی سرکشی اور ب غی نہ فطرت میں‬ ‫مجھے اپن اوراپنے عہد ک چہرہ نظر آت ہے۔ میں ان سرکش آوارہ‬ ‫لہرونکی آغوش میں سکون محسوس کرت ہوں اور ایک خ ص طرح‬ ‫کی طم نیت ک احس س ہوت ہے۔‬ ‫نثری ش عری کے مخ ل ین ک س سے سخت ردعمل یہ ہے‪ ،‬کہ آپ‬ ‫اسے صنف ش عری میں کیوں ش مل کرن چ ہتے ہیں؟ ”نی ش عر مرثیہ‬ ‫گو“ کے طرز پر جنھیں ش عری میں اپنے خی الت پیش کرنے ک س یقہ‬ ‫نہیں آت ‪ ،‬وہی اسے م تبر ٹھہرانے کی صف میں پیش پیش رہے ہیں۔‬ ‫احمد فراز نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں کہ تھ ۔‬ ‫لیکن ایک خرابی جو در آئی ہے۔ وہ ہے‪ ....‬نثری نظ ‪،‬جو سہل ”‬ ‫نگ ری ک نتیجہ ہے۔ پہ ے آپ پ بند ش عری میں اپنے آپ کو منوائیں‪،‬‬ ‫اس میں تنگ دام نی ک احس س ہو تو نثری ش عری ک تجربہ کریں‬ ‫ورنہ یہ ں تو م جرا یہ ہے کہ جو بھی اٹھت ہے‪ ،‬نثری ش عری کرلیت‬ ‫ہی نہیں ہے۔ ا تو ایسی نثری ش عری ہورہی ہے جس میں کوئی‬ ‫“ہے۔‬ ‫فراز نے جو ب ت نثری ش عری کرنے والوں کے لئے کہی ہے‪ ،‬کچھ‬ ‫دنوں پہ ے تک وہی ب ت کیڑے مکوڑوں کی طرح پیدا ہونے و الے‬ ‫ش عروں کے ب رے میں ب ر ب ر دہرائی ج تی رہی ہے اور حقیقت یہ ہے‬


‫‪56‬‬

‫کہ آج کی ت ریخ میں بھی نثری ش عری نظر نہیں آئی‪ ،‬جتنی بڑی ت داد‬ ‫میں ش عردکھ ئی دے ج تے ہیں اور آپ مذا مذا میں کہہ دیتے ہیں۔‬ ‫’بس پتھر چال کر دیکھئے‪ ،‬جس گھر میں گرے گ وہ ں دو چ ر ش عر‬ ‫کی ن موجودگی ک سوال ہے‪ Content ،‬ضرور ہوں گے اور جہ ں تک‬ ‫نثری ش عری کرنے والوں کے یہ ں تو پھر بھی یہ مل ج ئے گ اور‬ ‫کے مستقل ہی جن لیتی رہی ہے۔ ‪ Content‬ش عری تو بغیر‬ ‫ن م ن شو سے احمد فراز تک نثری ش عری کے ب رے میں جو‬ ‫رائے بنی ہے‪ ،‬وہ ک وبیش یہی ہے۔ پ کست ن سے نک نے والے ایک‬ ‫خوبصورت رس لے آث ر(مدیر‪:‬فیصل عجمی‪ ،‬ثمینہ راجہ) کے س لن مہ‬ ‫میں شہزاد منظر ک ایک مضمون ش ئع ہوا ۔ قرة ال ین حیدر کے س تھ‬ ‫چند لمحے۔‬ ‫میں شہزاد منظر اور مس حیدر کے درمی ن مک لمے ک ایک دلچسپ‬ ‫حصہ مندرجہ ذیل سطور میں نقل کررہ ہوں۔‬ ‫عینی ‪....” :‬فس د برابر ہورہے ہیں‪ ،‬لوگ لکھتے نہیں ہیں اتنے بے‬ ‫حس ہوگئے ہیں۔ لیکن میں لکھ رہی ہو۔ اس کے ب رے میں برابر۔ ابھی‬ ‫بھی میں نے لکھ تھ اس ب رے میں۔ ’ع ل آشو ‘لکھ تھ ‪ ،‬جسے آپ‬ ‫نے پڑھ ہوگ ۔ اس ک عنوان تھ ۔ قیدخ نے میں تالط ہے کہ ہند آتی‬ ‫“ہے۔‬ ‫شہزاد‪ :‬اس افس نے کے ب رے میں تھوڑی سی ب ت کرن چ ہت ہوں۔‬ ‫عینی‪ :‬وہ افس نہ ہے ہی نہیں۔ وہ تو ع ل آشو ہے۔‬ ‫شہزاد‪ :‬ع ل آشو تو ہے لیکن آپ اسے کس صنف میں رکھیں گے؟‬


‫‪57‬‬

‫عینی‪ :‬میں بس اتن کہہ سکتی ہوں کہ یہ ع ل آشو ہے۔ ب ض اوق ت‬ ‫مصنف جو کچھ لکھت ہے‪ ،‬اس ک کوئی ف ر نہیں ہوت ۔ مصنف کو کچھ‬ ‫“کہن ہے تو ضروری نہیں کہ وہ مخصوص صنف میں ہی کہے۔‬ ‫قرة ال ین حیدر کی یہ رائے ق بل غور ہی نہیں‪ ،‬ب کہ اس رائے کو‬ ‫نثری نظ کی حم یت میں بھی کی ج سکت ہے۔ تخ یقیت ک مسئ ہ بھی‬ ‫عجی ہے۔ کوئی کوئی موضوع ایس ہوت ہے کہ مصنف الجھن ک‬ ‫شک ر ہو ج ت ہے کہ اسے کس طرح برت ج ئے۔‬ ‫بہت ممکن ہے کہ اسی تخ یقی کن یوژن سے آزاد غزل بھی م رض‬ ‫وجود میں آئی ہو۔ گو آزاد غزل ک چ ن ان دنو نکچھ ک ہوا ہے مگر‬ ‫آزاد نظ ‪ ،‬نثری نظ کی طرح آزاد غزل کی اہمیت سے بھی انک ر‬ ‫نہینکی ج سکت ۔ اس لئے بھی کہ ش عری آج فقط ن موجود‪ ،‬ک حصہ‬ ‫نہیں ہے۔ وہ پورے ”وجود“ کے س تھ عہد ح ضر کے مس ئل کی‬ ‫دیواروں پر دھوپ کی طرح پھیل ج ن چ ہتی ہے۔ ی دوسرے ل ظوں‬ ‫میں پھیل چکی ہے__ شدت سے پھی تی ج رہی ہے۔‬ ‫سے ت بیر ‪ Feeling‬نثری نظ کو آپ ایک خوبصورت احس س‬ ‫کرسکتے ہیں۔ لیکن اس احس س کی جڑیں دور دور تک پھی ی ہوئی‬ ‫ہیں یہ احس س کسی ایک نقطہ ی لمحے سے شروع ہو کر مکمل‬ ‫ک ئن ت ک اح طہ کرلیت ہے۔ ع طور پر نظ ک ش عر‪،‬نثری نظ کی‬ ‫تخ ی کے دوران اپنے احس س کو آوارہ لہروں کی طرح چھوڑ دیت‬ ‫ہے۔ اس طرح ایک لہر سے کتنی لہریں بنتی چ ی ج تی ہیں اور ش عر‬ ‫لہروں کی ان لڑیوں سے اپنے خی الت ک ت ن ب ن بنت چال ج ت ہے۔‬ ‫صنف غزل ہو ی آزاد نظ ‪ ،‬وہ ں یہ لہریں اتنی آوارہ ی آزاد نہیں رہ‬


‫‪58‬‬

‫سکتیں۔ غزل ایک خ ص طرح کی بندش ی ڈسپ ن ک ن بھی ہے۔ کہ‬ ‫ج سکت ہے کہ غزل کے الگ الگ اش ر ان آوارہ لہروں ی کی ی ت کو‬ ‫سمیٹنے ک ہنر ج نتے ہیں‪ ،‬تو اس صداقت سے انک ر نہیں کی ج سکت ۔‬ ‫لیکن الگ الگ رنگوں سے ’کی ی ت‘ کی فض مکدر بھی ہوسکتی ہے‬ ‫جبکہ نثری نظ اپنی تم تر جزئی ت کے س تھ ان آوارہ لہرو نکو قبول‬ ‫کرلیتی ہے پھر اس سے انحراف ی انک ر کیوں؟‬ ‫مث ل کے طور پر میں کچھ نظمیں پیش کرن چ ہوں گ ۔‬ ‫تکمیل‬ ‫بس آنکھیں چ ہئیں‬ ‫مجھے آنسوؤں کی پرورش کرن ہے‬ ‫انتظ ر ک بیج بون ہے‬ ‫آنکھیں چ ہئیں ت کہ میرے بے آواز آنسوؤں کو‬ ‫کوئی راہ مل سکے‬ ‫آنکھیں چ ہئیں ت کہ میں سوختہ خوابوں کو‬ ‫اکٹھ کرسکوں‬ ‫کہینسے مجھے ڈھونڈھ کر‬ ‫آنکھیں الدو‬ ‫بس‪،‬‬ ‫ایک جس کی ضرورت ہے‬


‫‪59‬‬

‫دکھوں کو پروان چڑھ ن ہے‬ ‫جس چ ہئے‬ ‫ت کہ دنی کی نگ ہوں سے‬ ‫دکھ چھپ ج ئیں‬ ‫دکھوں کو اپنے لئے گھر چ ہئے‬ ‫جس چ ہئے‬ ‫کہیں سے مجھے ڈھونڈھ کر الدو‬ ‫بس ایک روح چ ہئے‬ ‫آگہی سے لبریز‬ ‫جنوں سے پر چ ہئیں‬ ‫زی ں کی خواہش رکھنے والی ایک روح چ ہیے‬ ‫فکر فردا جس کی ہمرک‬

‫ہو‬

‫محبت کی جسے خواہش ہو‬ ‫اور اس کی خ طر سرگرداں ایک روح چ ہئے‬ ‫کہیں سے مجھے یہ ڈھونڈکر الدو‬ ‫مجھے آنسوؤں ک تق ض کرنے والی آنکھیں‬ ‫دکھوں کو پروان چڑھ نے کے لئے جس‬


‫‪60‬‬

‫اور آگہی کی روح چ ہئے‬ ‫مجھے انس ن بنن ہے‬ ‫ن جیہ احمد‬ ‫یہ ایک خوبصورت نظ ہے۔ انس ن کی تکمیل میں کن عن صر کی‬ ‫ضرورت پڑتی ہے۔ آنکھیں‪ ،‬دکھوں کو پروان چڑھ نے کے لئے ایک‬ ‫جس ‪ ،‬دکھ کو چھپ نے کے لئے ایک گھر‪ ،‬آگہی سے لبریز روح‪،‬‬ ‫آنسوؤں کی پرورش کرنے اور آنکھوں میں رکھنے کے لئے انتظ ر۔‬ ‫اس نثری نظ میں بیک وقت کئی کی ی ت ہیں۔ دکھ سکھ کے س رے‬ ‫”انس نی موس “ ہ آہنگ ہیں۔ مجھے لگت ہے۔ انس ن کی تکمیل ک یہ‬ ‫خی ل جس طرح نثری نظ کے ذری ہ ابھر کر س منے آی ہے‪ ،‬ممکن‬ ‫ہے ن جیہ اس صوتی آہنگ کو کسی بھی دوسری صنف میں برتنے میں‬ ‫ش ید اتنی ک می نہیں ہو پ تیں۔ ا ایک اور نظ مالحظہ کیجئے۔‬ ‫شرعی سرکس‬ ‫کل تک‬ ‫ضرور مجھے یقین تھ کہ‬ ‫بہرح ل ق ضی کی مدد سے‬ ‫ایک شرعی‬ ‫اور انتہ ئی مح وظ ترین لو اسٹوری‬ ‫شروع کی ج سکتی ہے‬


‫‪61‬‬

‫اور میرے یقین نے آخر مجھے‬ ‫میری زندگی کے س سے بڑے ایڈونچر سے‬ ‫دوچ ر کردی‬ ‫اور آج‬ ‫ایک خطرن ک رسی پر‬ ‫اونٹنی کی طرح چ تے چ تے‬ ‫میں گ رہی ہوں‬ ‫ی ر ‪ ،‬یہ شرعی عش تو سچ مچ‬ ‫ایک سرکس کی طرح ہے‬ ‫جس میں دو جس چ ہے ان چ ہے‬ ‫ن نہ د وف کی رسی پر‬ ‫سرکس نہ مش قی سے چ تے آرہے ہیں‬ ‫صدیوں سے‬ ‫اور ا خوابونمیں بھی ہنسنے کے س رستے‬ ‫ایک ق ضی بند کرکے چال گی ہے‬ ‫عذرا پروین‬


‫‪62‬‬

‫محسوس کیجئے تو عذرا کی اس نظ میں ت خی ں ہی ت خی ں پیوست‬ ‫ہیں۔ یہ نظ ازدواجی زندگی کے بحران سے گزرتی ہے اور کئی سوالیہ‬ ‫نش ن چھوڑ ج تی ہے۔ ق ضی کی مدد سے شرعی اور انتہ ئی مح وظ‬ ‫ترین لو اسٹوری شروع کرنے ک مط سیدھ اور ص ف ہے۔ ی نی‬ ‫رشتہ ¿ ازدواج میں منس ک ہو ج ن ۔ عذرا اسے ایک خطرن ک ایڈونچر‬ ‫سے ت بیر کرتی ہیں‪ ،‬جیسے کوئی نٹنی رسی پر چل رہی ہو۔ ی نی ذرا‬ ‫س بھی توازن میں فر آی اور کھیل بگڑا۔ عذرا اسے شرعی سرکس‬ ‫سے ت بیر کرتی ہیں کہ صدیوں سے ایک ق ضی کے کہے پر یہ‬ ‫‪ Irony of thought‬سرکس مس سل اپن تم شہ دکھ ئے ج رہ ہے۔ ا‬ ‫کی مستح میرے نزدیک صرف اور صرف نثری نظ ہی ہوسکتی ہے۔‬ ‫عذرا کی دوسری بہت س ری نظموں کے بیچ‪ ،‬یہ نثری نظ اس لئے‬ ‫بھی اپنی خ ص چھ پ چھوڑنے میں ک می ہے کہ رشتہ ¿ ازدواج کو‬ ‫سرکس کی جزئی ت کے س تھ جوڑ کر عذرا نے نشہ ¿ تخیل کو دو‬ ‫آتشہ بن دی ہے۔‬ ‫پ کست ن میں ان دنوں بڑی ت داد میں نثری نظمیں لکھی ج رہی ہیں۔‬ ‫کچھ نثری نظموں کے نمونے مالحظہ کیجئے۔ لیکن اس سے قبل نصیر‬ ‫احمد ن صر ک تذکرہ ضروری ہے۔ان کی نثری نظمیں نہ صرف قبولیت‬ ‫کے دور سے گزرچکی ہیں ب کہ ابھی بھی ان نظموں پر گ تگو ک‬ ‫س س ہ ج ری ہے۔‬ ‫احمد ہمیش نے نصیر احمد ن صر کی نظموں کے ب رے میں لکھ ۔‬ ‫نصیر احمد ن صر کے خوا مس سل کو م مولی است رہ سمجھ لین ”‬ ‫اس عہد کی س سے بڑی ش ری ن رس ئی اور ادبی بددی نتی ہوگی۔‬


‫‪63‬‬

‫ن صر کے خوا کی ت بیر وت ہی کے لئے محض اس خ کی کرے پر‬ ‫ارتق ئے حی ت ہی ک نہیں‪ ،‬بس ط ک ئن ت کی المتن ہیت میں وجود آد کی‬ ‫بے بس طی ک ش ور والش ور رکھن بھی ضروری ہے۔ دورون ذات کے‬ ‫قدی آ زاردوں اور فرد کے انتہ ئی گہرے داخ ی منطقوں سے پھوٹت‬ ‫ہوا ن صری خوا ‪ ،‬ازل وابد کی حدوں سے م وراءالوہی نیند تک پھیال‬ ‫“ہوا ہے۔‬ ‫)تشکیل (احمدہمیش‬ ‫حقیقت ً نصیر کی ”خوا س س ے“ کی نظمیں اد میں گرانقدر اض فہ‬ ‫جس تس سل کے ‪ Shades‬کی حیثیت رکھتی ہیں اور خوا کے یہ‬ ‫س تھ فرد کی ذات سے نکل کر بس ط ک ئن ت پر پھی تے ہیں۔ میرے خی ل‬ ‫میں اس کے لئے موزوں ترین صنف صرف اور صرف نثری ش عری‬ ‫ہے۔ ان خوا زدہ نظموں میں تم تر ش ری کی ی ت اس خوبصورتی‬ ‫سے سموئی گئی ہیں کہ ان نظمونسے گزرتے ہوئے خوابوں کے‬ ‫ن آفریدہ گوشے بھی خود بخود آپ کے س منے کھ تے چ ے ج تے ہیں۔‬ ‫مث ل کے طور پر ایک نظ دیکھئے۔ ”خوا اور محبت کی کوئی عمر‬ ‫“نہیں ہوتی۔‬ ‫ہم رے درمی ن بے خبری کی دھند پھی ی ہوئی ہے’‬ ‫تالش کے راستے پر چ تے ہوئے‬ ‫ہم رے قد اپنی منزل نہیں دیکھ پ تے‬ ‫تمہ را اندر‪ ،‬میری نظموں سے زی دہ خوبصورت اور اجال ہے‬ ‫مگر میری عینک کے شیشے روز بروز دبیر ہوتے ج رہے ہیں‬


‫‪64‬‬

‫پتہ ہے ہمیں لکھتے ہوئے‬ ‫نظمیں اور کہ نی ں بے ل ظ کیوں ہو ج تی ہیں‬ ‫وہ ہم ری ج ئے پیدائش‪ ،‬ت ریخ اور عمر ج نن چ ہتے ہیں‬ ‫انھیں کی م و‬ ‫خوا نہ پیدا ہوتے ہیں نہ مرتے ہیں‬ ‫ان ک اندراج کسی رجسٹر میں نہیں ہوت‬ ‫میں نہیں ج نت‬ ‫ت نے ک خوا کی انگ ی تھ مے ہوئے‬ ‫نیند میں چ ن سیکھ‬ ‫لیکن میں وہ خوا ہوں‬ ‫جسے آج تک کسی نے نہیں دیکھ‬ ‫میں تو اس روز ہی مر گی تھ‬ ‫جس روز ب پ نے م ں کے ح م ہ پیٹ پر ٹھوکر لگ ئی تھی‬ ‫مگر میں قبر کے اندر بڑا ہوت گی‬ ‫اتن بڑا کہ م ں مجھے سر جھک ئے بغیر دیکھ سکتی‬


‫‪65‬‬

‫ایک ب ر کسی کی تصویر کھینچتے ہوئے‬ ‫کیمرہ میرے ہ تھ سے گر کر ٹوٹ گی تھ‬ ‫ت مجھے پتہ چال‬ ‫کہ خوا روشنی میں سیہ کیوں ہو ج تے ہیں‬ ‫انھیں ایکسپوز کرنے کے لئے اندھیرے ک مح ول کیوں ضروری ہے‬ ‫روشنی ت ریکی میں ہی نظر آتی ہے‬ ‫بہتے پ نی کی کوئی شکل نہیں ہوتی‬ ‫شک یں ہم ری آنکھ میں ہوتی ہیں‬ ‫خوا دیکھنے کے لئے‬ ‫نیندوں کی نہیں‪ ،‬آنکھوں کی ضرورت ہوتی ہے‬ ‫سے منش تک ‪Protozoan‬‬ ‫کئی ہزار م ین س لوں کی ارتق ئی نیند‬ ‫محض آنکھیں کھولنے ک عرصہ ہے‬ ‫موت اور زندگی میں محبت ک ف ص ہ ہے‬ ‫جسے ن پنے کے لئے ہ عمر ک پیم نہ است م ل کرتے ہیں‬ ‫اورجینے ک ڈھونگ رچ تے ہیں‬ ‫لیکن محبت کی کوئی عمر نہیں ہوتی‬


‫‪66‬‬

‫یہ تو ایک ن م و انت ہے‬ ‫جو دوسرے ن م و انت تک موجود ہے‬ ‫ہ جہ ں اسے دری فت کرتے ہیں‬ ‫وہیں پر اپنی اپنی حد مقرر کرلیتے ہیں‬ ‫اور اسے ن مون ور رشتے میں تقسی کردینے میں‬ ‫اداسی ہم رے ع اور تجربے سے کہیں زی د ہ ہے‬ ‫اسے پھی نے دو‬ ‫رنگوں‪ ،‬پھولوں اور تت یوں کو ل طوں میں بی ن نہیں کی ج سکت‬ ‫پرندوں‪ ،‬پودوں اور اچھے لوگوں سے ب تیں کرنے کے لئے‬ ‫خ موشی سے بہتر کوئی اظہ ر نہیں‬ ‫کوئی ب ت اپنی عمر سے بڑی نہیں ہوتی‬ ‫کی خبر ہ کسی عظی خوا کی بیداری میں ہیں‬ ‫اور کوئی ہمیں ک ئن تی آنکھ سے دیکھ رہ ہے‬ ‫پر آتم کو خوا دیکھتے ہوئے ڈسٹر مت کرو‬ ‫نصیر احمد ن صر‬ ‫میں نے ج ن بوجھ کر یہ ں ایک طویل نظ ک انتخ کی ہے‪ ،‬آپ کہہ‬ ‫سکتے ہیں۔ اس میں خ ص ب ت کی ہے۔ آپ خوا اور نیند پر ہزاروں‬


‫‪67‬‬

‫عمدہ اش ر سن سکتے ہیں۔ آپ میر اور غ ل کے حوالے سے‪ ،‬خوا ‪،‬‬ ‫نیند‪،‬زندگی اورموت کے ف س ے پر ب تیں کرتے ہوئے بڑے آرا سے‬ ‫کہہ سکتے ہیں کہ جو کی یت دو مصرعے کے ایک ش ر میں سموئی‬ ‫ج سکتی ہے‪ ،‬اس کے لئے اس قدر بھٹکی ہوئی نظ لکھنے کی کی‬ ‫ضرورت تھی۔ ش عر کے ”ذہ نت“ سے لبریز دو مصرعے کسی بھی‬ ‫کی یت کی عک سی کے لئے بہت ہےں۔ ممکن ہے آپ ق لے کر نظ‬ ‫کی خ می ننک لن شروع کردیں کہ یہ نظ یہ ں بھی خت ہوسکتی تھی‬ ‫یہ ں بھی اور یہ بھی کہ نظ کی س سے بڑی خ می یہ ہے کہ یہ‬ ‫نہیں ہے۔ ‪Compact‬‬ ‫ک خوشگوار ہوا )‪ (Stream of Consciousnes‬ش ور کی رو‬ ‫کی طرح مستقل بہتے ج ن ہی اس نظ کی اور نثری نظ کی س سے‬ ‫بڑی خوبصورتی ہے۔ یہ ں آزاد نظ کی طرح ہ ”خی ل“ کو یک‬ ‫موضوعی دھ رے میں نہیں بہنے دیتے۔ ہ اسے مخت ف‬ ‫سے گزارتے ہیں۔ ہ خوابوں کی ب ت ‪ Shades‬ی ‪Varitions‬‬ ‫کرتے ہیں تو ج گتی آنکھوں‪ ،‬بند آنکھوں اور نیند سے گزرتے ہیں۔‬ ‫نیند سے گزرتے ہیں تو ہمیں فوٹو گرافی ک عمل ی د آج ت ہے۔‬ ‫ت مجھے پتہ چال کہ خوا روشنی میں سیہ کیوں ہو ج تے ہیں۔”‬ ‫“انھیں ایکسپوز کرنے کے لئے اندھیرے ک مح ول کیوں ضروری ہے۔‬ ‫خوا ی ترا سے مس سل گزرتے ہوئے ہ پر ایک خ ص طرح کی اداسی‬ ‫مس ط ہونے لگتی ہے۔ انتراتم سے پرم تم تک ک یہ س رہمیں نہ‬ ‫صرف ذہنی اور روح نی کربن کی سے گزارت ہے ب کہ ایک طرح سے‬ ‫اندرہی اندر ہمیں نچوڑ بھی لیت ہے۔ پھر جیسے یک یک ہ کسی‬


‫‪68‬‬

‫وجدانی کی یت سے گزرتے چ ے ج تے ہیں۔ ا یہ نق دوں کی ش ری‬ ‫ن رس ئی ہی کہی ج ئے گی کہ اسے ا تک سندوقبولیت ک درجہ نہیں‬ ‫مال ہے۔‬ ‫کچھ نمونے اور مالحظہ کیجئے۔ پ کست ن کے ع ی محمد فرشی سے‬ ‫لے کر‪ ،‬مستقل نثری نظ سے اختالف رائے رکھنے والے ن م ن شو‬ ‫تک‪ ،‬نثری نظ لکھنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ نثری نظ کے ش عر ک‬ ‫کینوس اور وژن ک فی بڑا ہوت ہے یہ سچ ہے کہ نثری نظ کے لئے‬ ‫ا تک کوئی پیم نہ مت ین نہیں کی گی ۔ ممکن ہے‪ ،‬یہی اس ک س‬ ‫سے بڑا وصف ی عی ہو‪ ،‬مگر موضوع کے لح ظ سے جتنے ڈائمنشن‬ ‫میں تالش کرسکت ہے‪ ،‬کسی دوسری ‪ Prose Poetry‬ش عر اس‬ ‫_ش ری صنف میں نہیں‬ ‫کچھ نثری نظمیں مالحظہ کیجئے۔‬ ‫کل رات میرے خوا میں دومک ن تھے‬ ‫ایک بڑا گھر تھ‬ ‫جس ک ن وقت تھ‬ ‫ایک اور گھر تھ جو بڑے گھر سے چھوٹ تھ‬ ‫ن اس ک بھی وقت تھ‬ ‫ہ دونوں ان دونوں گھروں کی طرف ج رہے تھے‬ ‫ہنستے‪ ،‬کھی تے‬


‫‪69‬‬

‫میرے س تھ ایک دب ی سی شوخ وشنگ لڑکی تھی‬ ‫جو عمر میں مجھ سے چھوٹی تھی‬ ‫مگر ج وہ میری طرف دیکھتی تھی تو مجھے‬ ‫میری عمر سے بڑی لگتی تھی‬ ‫پھر بھی ہ دنوں نوخیز ہ عمروں کی طرح‬ ‫ہنستے کھی تے ج رہے تھے‬ ‫بڑے گھر کی طرف ی چھوٹے گھر کی طرف‬ ‫منیر نی زی‬ ‫آنکھیں‬ ‫‪Safet Valves‬‬ ‫ہیں‬ ‫میں اپنی ذات کے پریشر ککر میں پکتی ہوں‬ ‫اور ج اندر ہی اندر‬ ‫بھ پ زی دہ ہو ج تی ہے تو‬ ‫آنکھوں سے بہہ نک تی ہوں۔‬ ‫فوزیہ چودھری‬


‫‪70‬‬

‫بن م نس لڑکی‬ ‫اس کے چہرے پر جنگل اگ رہے تھے‬ ‫اس کی ٹ نگوں پر جنگل اگ ہوا تھ‬ ‫ا سکی ابھرتی ہوئی چھ تی ں‬ ‫رین ف رسٹ بن رہی تھیں‬ ‫ایک خوبصورت لڑک اسے دیکھ کر‬ ‫بے ہوش ہوگی‬ ‫وہ اسے اٹھ کر اپنے گھر لے آئی‬ ‫لڑکے کے جس پر کوئی ب ل نہیں تھ‬ ‫انھوں نے آپس میں ش دی کرلی‬ ‫افتخ ر نسی‬ ‫اسے زندگی ک راز م و ہوگی تھ‬ ‫چمڑہ پوش دوپ ئے‬ ‫بوڑھے ب پ کو تیروں سے دھکی تے ہوئے‬ ‫دری ئے عظی کے مقدس پ نیوں سے بہت دور لے گئے‬ ‫دمکتے ہوئے صحرا میں زندگی دیر تک اس کی منتیں کرتی رہی‬


‫‪71‬‬

‫لیکن اس نے اپنے گن ہوں کی م فی نہیں م نگی‬ ‫اس کے س تھ بڑے گن ہوں میں‬ ‫پہال گن ہ یہ تھ‬ ‫کہ اس نے مقدس مٹی میں‬ ‫سو رس وئی ک شت کرنے سے انک ر کی‬ ‫اس نے زمین کی ہری کوکھ سے‬ ‫کپ س ک اجال پھول اگ ی‬ ‫مقدس ریشے سے اس نے ستر بن ی‬ ‫اور جس کے را چھپ لیے‬ ‫اس نے تیر کے بج ئے ق‬ ‫اور ڈھ ل کے بج ئے تختی بن ئی‬ ‫وہ زب ن کو بولنے‬ ‫اور انگ یوں کو لکھنے کے لئے است م ل کرت تھ‬ ‫اس نے انس نوں کی پشت پر‬ ‫تیر برس نے والوں کو خدا ک دشمن‬ ‫اور چمڑہ پوش ف تحین کے ت وے چ ٹنے الوں کو‬ ‫کتوں ک آخری جن قرار دی‬


‫‪72‬‬

‫اس ک ایم ن تھ کہ موت اسے نہیں م رسکتی‬ ‫کیونکہ اس نے لکھنے ک راز ایک اپ ہج بیٹے کو بت دی تھ‬ ‫اسی لئے آ میں‬ ‫یہ نظ لکھتے ہوئے ادا نہیں ہوں‬ ‫ع ی محمد فرشی‬ ‫ان میں کئی نظمیں انتہ ئی ف یٹ ہین ور کہیں کہیں ان ک کھردراپن ی‬ ‫کی ‪Content‬سپ ٹ بی نیہ ذہن ودم پر کچوکے بھی لگت ہے لیکن‬ ‫م نویت سے انک ر نہیں کی ج سکت ۔جس طرح بہت سے ش عر‪ ،‬اچھی‬ ‫ش عری نہیں کر پ رہے ہیں‪ ،‬اسی طرح ہ کہہ سکتے ہیں کہ کچھ‬ ‫ایسے لوگ بھی نثری نظ کہنے کی کوششیں کررہے ہیں‪ ،‬جو نثری‬ ‫ش عری کے فن سے ابھی آگ ہ بھی نہیں ہیں۔ پھر بھی نصیر‪ ،‬فرشی‬ ‫وغیرہ کی نظمیں اپنے بین السطور اورم نی آفرینی کی وجہ سے‬ ‫سیدھے دلوں میں اتر ج تی ہیں۔‬ ‫ن م ن شو غزل کے ش عر ہیں۔ نئی نسل کے ش عروں میں ن م ن ک‬ ‫قد اور رنگ دوسروں سے مخت ف اور ان رادی ہے۔ن م ن کی زندگی‬ ‫کے س تھ ایک ن ق بل فراموش س نحہ بھی جڑا ہوا ہے۔ ن م ن نے ج‬ ‫ان ی دونکو لکھن چ ہ ‪ ،‬تو اس کے لئے ان کے پ س موزوں ترین‬ ‫ہتھی ر سوائے نثری ش عری کے کوئی اور نہیں تھ ۔ ی نی نثری‬ ‫ش عری سے انحراف ک رویہ اپن تے ہوئے بھی‪ ،‬وہ اس کے ق ئل نظر‬ ‫آئے۔‬


‫‪73‬‬

‫ن م ن شو کی یہ نظ (نثری) مالحظہ کیجئے۔‬ ‫عنوان ہے۔‬ ‫جنوری‪241990‬‬ ‫ت نے اندھیری رات چنی‬ ‫اور رسی چنی اپنے لئے‬ ‫اور میرے لئے بند کریئے‬ ‫عذا م ہ وس ل سے‬ ‫بچ نک نے کے تم راستے‬ ‫میں نے م ں کو م ں کہ ‪/‬ت سے پہ ے‬ ‫رو کر اور چیخ کر‬ ‫میں نے توڑی خ موشی کی برفی ی چٹ ن‬ ‫اور اپنی ہستی ک اعالن کی‬ ‫ت سے پہ ے‬ ‫ج تی سیخوں میں‬ ‫داغ گی میرا احس س‬ ‫ت سے پہ ے‬


‫‪74‬‬

‫آتی ج تی س نسوں نے‬ ‫آگ بھری میری ہڈیو نمیں‬ ‫گہری ک لی رات نے‬ ‫بسیرا کرلی تھ مجھ میں‬ ‫ت سے پہ ے‬ ‫میں نے بھی‬ ‫چن رکھی تھی___ ایک رات‬ ‫بھی نک‪ ،‬منحوس اور ک لی رات‬ ‫اپنے لئے‬ ‫میں نے بھی‬ ‫ایک رسی چن رکھی تھی‬ ‫اس تنگ وت ریک گھ ٹی میں اترنے کے لئے‬ ‫جس میں ت اتر گئے‬ ‫مجھ سے پہ ے‬ ‫!ت میرے جیسے تھے ن‬ ‫ایک ہی م مت کی مہرب ن ش خ پر‬ ‫جھولے ڈالے تھے‬


‫‪75‬‬

‫میں نے اور ت نے‬ ‫ایک سے تھے میرے اور تمہ رے دکھ‬ ‫میری اور تمہ ری آنکھو سے بہنے والے آنسو‬ ‫اور ان آنسوؤں میں بھیگ کر‬ ‫ایک س لگت تھ ‪،‬میرا اور تمہ را چہرہ‬ ‫!ت میرے جیسے تھے ن‬ ‫ش ید اسی لئے کسی نے آج پھر‬ ‫پک ر لی ہے مجھے‪ ،‬تمہ رے ن سے‬ ‫اور اچ نک‬ ‫خوا سے چونک پڑا ہوں میں‬ ‫ی پھر کہیں ایس تونہیں‬ ‫اپنے ہونے کے بھر میں‬ ‫تمہ رے نہ ہونے پر اصرار کرت رہ ہوں میں‬ ‫تو کی سچ مچ یہ میں نہیں‬ ‫یہ میرے ہ تھ پ ؤں‪ ،‬آنکھیں‬ ‫س ت ہی ت ہو‬ ‫تو کی وہ میں تھ‬


‫‪76‬‬

‫جس نے تھوک دی تھ اس رات‬ ‫دنی کے کریہہ چہرے پر‬ ‫تو کی وہ میں تھ‬ ‫جس نے رسی کے ایک ٹکڑے سے‬ ‫ن پ لی تھی اپنی بچی کھچی عمر‬ ‫تو کی ت ہو‬ ‫جو اتنی رات گئے‪ ،‬نظ لکھ رہے ہو‪ ،‬میرے لئے‬ ‫ن م ن شو ___‬ ‫‪ Prose-Poem‬ی ‪ Story-Poem‬گو اردو میں اس جدید ترین‬ ‫کی ارتق ئی پیش رفت ک ثبوت فراہ کرنے کے لئے یہ نظمیں ک فی ہیں۔‬ ‫ک یشے سے پ ک متنوع موضوع ت پر لکھی گئی یہ نظمیں نہ صرف‬ ‫زندگی کے مخت ف پہ وؤں ک اح طہ کرتی ہیں‪ ،‬ب کہ ایک طرف جہ ں‬ ‫خوبصورت امیجز ابھر کر س منے آتے ہیں‪ ،‬وہیں بین السطور کی‬ ‫گہری م نویت بھی‪ ،‬غوروفکر کے لئے آپ ک راستہ روک کر کھڑی ہو‬ ‫ج تی ہے۔‬ ‫ہ فکشن میں ش عری نہیں کرسکتے ہیں۔ زی دہ جذب ت نگ ری کو بھی‬ ‫‪ Jane‬کچھ نق دوں نے اچھے فکشن ک عی بت ی ہے۔ اس لئے‬ ‫سے امرت پریت تک‪ ،‬ان کی ش ہک ر تخ یق ت پر بھی بے ج ‪Austin‬‬ ‫جذب ت نگ ری ک الزا لگت رہ ہے۔ خود جوائس ک قول تھ ‪ ،‬کہ آپ‬ ‫کسی کو بری طرح رالدیتے ہیں ی چونک دیتے ہیں تو یہ کوئی بڑی‬


‫‪77‬‬

‫ب ت نہیں ہے۔ یہ ک تو ایک م مولی شرارتی بچہ بھی کرسکت ہے۔‬ ‫جس طرح فکشن میں آپ کو جذب ت سے دامن بچ ن ہوت ہے‪ ،‬اسی‬ ‫کی فض پیدا نہیں ‪ Story‬ی ‪ Prose‬طرح ش عری میں آپ کہ نی‬ ‫کرسکتے۔ ی نی ش عری کو سخت پتھری ی‪ ،‬ن ہموار راہوں سے گزارنے‬ ‫ک خی ل بھی‪ ،‬ش عری کی تم ترجم لی ت کو رد کرکے ہی آسکت ہے۔‬ ‫نتیجہ جو ک آپ ش عری سے نہیں لے سکتے‪ ،‬فکشن میں جس‬ ‫جذب ت نگ ری کو آپ فرو نہیں دے سکتے‪ ،‬یہ ں نثری ش عری‪ ،‬ی‬ ‫میں یہ س رے دروازے آپ کے لئے کھ ے رکھے ‪Story-Poem‬‬ ‫گئے ہیں۔ ی نی آپ موضوع سے بندھے ہوئے نہیں ہیں۔ نہ یہ ں ق فیہ‬ ‫آپ کی ‪ Frame-work‬ردیف کی پ بندی ہے نہ ایک مخصوص‬ ‫کرافٹ مین شپ کو مت ثر کرت ہے۔ آپ آزاد ہیں اور بج طور پر آپ اپنی‬ ‫آزادی ک است م ل کرسکتے ہیں۔ ش ید یہی وجہ ہے کہ آہستہ آہستہ اس‬ ‫کی ادبی کشش میں اض فہ ہوت ج رہ ہے۔‬ ‫نصیر احمد ن صر تسطیر کے اداریہ میں لکھتے ہیں۔‬ ‫س ٹھ کی دہ ئی میں ک شت کئے ج نے واال یہ پودا (نثری نظ ) ارتق ئی ”‬ ‫تبدی یوں اور نئی نئی پیوندک ریوں کے ب د اپنے دور ث نی میں عمدہ‬ ‫ثمرداری ک اہل ہوگی ہے اور ا نئی نثری نظ ک ذائقہ پہ ے کی طرح‬ ‫ت خ وترش نہیں رہ ۔ لیکن ہم رے کئی ادیبوں اور نق دوں کی سوئی‬ ‫ابھی تک س ٹھ کی دہ ئی پر اٹکی ہوئی ہے اور وہ آج بھی اسے‬ ‫چکھے اور محسوس کئے بغیر کڑواہٹ سے منہ بگ ڑ لینے کی پ لیسی‬ ‫“پر عمل پیرا ہیں۔‬ ‫تسطیر‪،‬ستمبر‪77‬ئ‬


‫‪78‬‬

‫نثری نظ کے ب رے میں ع غ ط فہمی ں ابھی بھی ق ئ ہیں۔ جیسے‬ ‫آس نی سے یہ کہ ج ت ہے کہ آپ کسی بھی کہ نی ک کوئی اقتب س‬ ‫اٹھ ئیے‪ ،‬اسے نثری نظ کے ف ر میں ٹکڑے ٹکڑے کر کے‬ ‫سج لیجئے۔ لیجئے آپ کی نظ تی ر ہے۔ دراصل ایسے نق دوں نے کبھی‬ ‫نثری نظ کو سنجیدگی سے لی ہی نہیں۔ میری طویل نظ لیپروسی‬ ‫کیمپ‪ ،‬کے دیب چے میں برادر ن م ن شو نے مجموعی طور پر یہی‬ ‫اعتراض ت دہرائے ہیں اور دلچسپ ب ت یہ ہے کہ میری کہ نیو نسے‬ ‫نثری نظ کے جو ٹکڑے نقل کئے ہیں‪ ،‬حقیقت ً وہ میری پرانی نثری‬ ‫نظمیں ہی ہیں میں نے شروع تی دور میں بھی اپنی کئی کہ نیو نمیں ان‬ ‫نثری نظموں کے لئے جگہ نک لی ہے۔ دراصل کہ نیو نکے درمی ن ان‬ ‫نثری نظموں کے ذری ہ میں ایک خ ص طرح کی فض پیدا کرنے کی‬ ‫کوشش کرت ہوں اور بقول نصیراحمد ن صر‪ ،‬ش ید انس ن کی ازلی‬ ‫وابدی تنہ ئی کسی ایسے ش ری نظ اور لس نی آہنگ کی متق ضی ہے‪،‬‬ ‫ش ید ابھی تک جسے کوئی ن نہیں دی ج سک ۔ ش ید نثری نظ اظہ ر‬ ‫کی اسی بے بسی ک غیرمرئی تخ یقی جواز ہے۔‬ ‫مجھے لگت ہے‪ ،‬یہی ب ت کبھی کبھی فکشن پر بھی ص د آتی ہے‬ ‫فکشن کی تخ ی کے دوران بھی کبھی کبھی یہی بے بسی راستہ روک‬ ‫کر کھڑی ہو ج تی ہے اور کہ نیوں کے درمی ن بھی کبھی کبھی نثری‬ ‫نظ کے سوتے پھوٹ سکتے ہیں۔ مگر حیرت ت ہوتی ہے ج کہ‬ ‫ج ت ہے۔ کسی بھی کہ نی کے اقتب س کی کئی حصوں میں تقسی کر‬ ‫ڈالیے اور آپ کی نثری نظ تی ر ہے۔‬ ‫چ ئے۔ یہ قد بھی اٹھ کر دیکھتے ہیں۔‬


‫‪79‬‬

‫میری ایک کہ نی ہے۔ غال بخش۔ میرے افس نوی مجموعہ ”غال بخش‬ ‫اور دیگر کہ نی ں“ کی یہ پہ ی کہ نی ہے۔ غور کیجئے۔‬ ‫لیکن ص حب ن۔ذرا ٹھہرئے۔ اس داست ن کو شروع کرنے سے پہ ے ”‬ ‫میں ایک چھوٹ س واق ہ بت دوں۔ ہوا یوں کہ جیس میں نے شروع میں‬ ‫بت ی ہے کہ ج بھی میں نوین پب شنگ ہ ؤس ج ت کوشش کرت کہ‬ ‫“نظریں بچ کر زی دہ سے زی دہ غال بخش ک ج ئزہ لیت رہوں۔‬ ‫ا اسی اقتب س کو نثری نظ ف ر میں سج نے کی کوشش کرتے ہیں۔‬ ‫لیکن ص حب ن”‬ ‫ٹھہریے ذرا‬ ‫اس داست ن کو‬ ‫شروع کرنے سے پہ ے‬ ‫میں بت دون یک چھوٹ س واق ہ‬ ‫ہوا یوں‬ ‫کہ جیس میں نے بت ی ہے شروع میں‬ ‫کہ جیسے ہی میں ج ت تھ ‪،‬‬ ‫نوین پب شنگ ہ ؤس‬ ‫کوشش کرت‬


‫‪80‬‬

‫کہ بچ کر نظریں‬ ‫زی دہ سے زی دہ‬ ‫ج ئزہ لیت رہوں‬ ‫“غال بخش ک‬ ‫ممکن ہے‪ ،‬آپ یہ کہیں کہ میں نے ج ن بوجھ کر کہ نی ک ایس اقتب س‬ ‫اٹھ ی ہے جسے نثری نظ ف ر میں منتقل کرن آس ن نہینہے اور میرا‬ ‫س را زور محض اسی ب ت پر ہے کہ کہ نی کے کسی بھی اقتب س ی‬ ‫‪ Content‬ٹکڑے کو نثری نظ نہیں کہ ج سکت ۔ نثری نظ ک اپنے‬ ‫کے س تھ نزول ہوت ‪ Feelings‬میں تح یل ہوئی ‪ Content‬اور‬ ‫ہے۔ آپ غور کریں تو اس کے نثری مواد میں بھی ایک خ ص طرح ک‬ ‫ش ری آہنگ چھپ ہوت ہے اور حقیقت یہ ہے کہ آج ہیئت ک یہ تجربہ‬ ‫نہ صرف ک می ہوچک ہے ب کہ ”ب ل مو روایت ک ایک حصہ بھی بن‬ ‫“چک ہے۔‬ ‫_وزیرآغ نے کی ٹھیک کہ ہے‬ ‫اصالًاصن ف اد انس نی س ئیکی کے مخت ف مق م ت کو منکشف کرنے‬ ‫کے لئے ن گزیر ہیں اور اسی لئے یہ وجود میں آتی ہیں۔‬

‫نثری نظ ک تخ یقی جواز‬


‫‪81‬‬

‫اردو میں نثری نظ کے موجد احمد ہمیش کی یہ رائے بھی خ صی‬ ‫اہمیت رکھتی ہے۔‬ ‫خی ل رہے کہ ٹیگور کی” گیت نج ی“ میں سنسکرت ن ٹک کے ”‬ ‫مک لموں کے زیر اثر نثری ش عری ک آہنگ برت گی ہے۔ ٹیگور کی”‬ ‫گیت نج ی“ کے توسط سے ہی انگریزی ش عروں کے یہ ں نثری‬ ‫ش عری آئی۔ ا بدقسمتی کو کی کہ ج ئے کہ عالمہ نی ز فتح پوری کی‬ ‫زیر ادارت ایک عرصہ تک م ہن مہ نگ ر میں ٹیگور کی ش عری کے‬ ‫جو تراج نثر لطیف اور انش ءلطیف کی اصطالح سے ش ئع ہوتے‬ ‫رہے‪ ،‬وہ راست بنگ ہ سے نہیں ب کہ انگریزی سے اردو میں کئے‬ ‫گئے۔ جبکہ عالمہ نی ز فتح پوری بنگ ہ نہیں ج نتے تھے۔ اسی لئے نثر‬ ‫لطیف اور انش ءلطیف ن قص اردو تراج کے س سنسکرت نژاد بنگ ہ‬ ‫نثری ش عری کے آہنگ کو قبول نہ کرسکے۔ وہ لوگ اس پس منظر‬ ‫سے آگ ہ نہیں جو اردو ش عری کے ڈانڈے نثر لطیف اور انش ءلطیف‬ ‫“سے مالتے ہیں۔‬ ‫یہی نہیں‪ ،‬نثری نظ پر بے ج اعتراض کرنے والو کے لئے احمد‬ ‫ہمیش نے ان غ ط فہمیوں ک ازالہ کچھ اس ڈھنگ سے کی ہے۔‬ ‫اسی طرح جو لوگ سج د ظہیر کے ش ری مجموعہ پگھال نی ”)‪(1‬‬ ‫منظو کی گئی )‪( (Prosaic‬مطبوعہ ‪ )1964‬میں ش مل کچھ‬ ‫سطروں کو نثری ش عری سمجھتے ہیں‪،‬وہ نثری ش عری کے آہنگ‬ ‫“اور اس میں پ ئی ج نے والی اصل ش عری کی ت ہی نہیں رکھتے۔‬ ‫میری طویل نثری نظ ”لیپروسی کیمپ“ پر ع اعتراض یہ کی گی ہے‬ ‫کہ اس ک ل ولہجہ ہندی ہے ی ہندی کے زیر اثر یہ وجود میں آئی‬


‫‪82‬‬

‫ہے۔ یہ ں مجھے یہ تس ی کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہے کہ ہندی‬ ‫کے اثرات کو ہ یوں بھی زائل نہیں کرسکتے کہ اردومیں وہ صنف‬ ‫ہندی کے وسی ے سے پہنچی ہے۔ ہندی نثری ش عری کے مخصوص‬ ‫آہنگ کی شرکت ی شمولیت اس زب ن میں قصداً نہیں ب کہ ضرورت ً بھی‬ ‫ہوئی ہے۔‬ ‫میں نے ہندی نثری ش عری کے زیر اثر ہی پہ ی ب ر اردو میں ”)‪(2‬‬ ‫“‪1960‬ءکے دوران نثری نظمیں لکھیں۔‬ ‫احمد ہمیش‬ ‫ک ورد کرنے والوں کو ا “‪ ”This is not poetry‬اس لئے‬ ‫سنجیدگی سے اس صنف کی طرف توجہ دینی چ ہئے۔ اس میں زی دہ‬ ‫امک ن ت ہیں۔ ب ت کہنے کی زی دہ گنج ئش ہے۔ نثری نظ سے‬ ‫”کھ واڑ“ کی کوششیں بھی بہت ہوچکیں‪ ،‬ا اس کے مق ک ت ین ہو‬ ‫ج ن بہت ضروری ہے۔ اد میں ج کبھی بھی کوئی تجربہ ک می ہوا‬ ‫ہے۔ اس میں اچھے اور سنجیدہ لوگوں کے س تھ چند شوقین حضرات‬ ‫ک کو دپڑن بھی ج ری رہ ہے۔ اس لئے نثری نظ پر سنجیدہ ب تیں‬ ‫کرتے ہوئے ایسے غیر اہ نک ت کو نظر اندازکرکے آگے بڑھ ج ن‬ ‫ضروری ہے۔‬ ‫اسی لئے اپنی نئی کت ‪ ،‬طویل نثری نظ ’لیپروسی کیمپ‘ کے پیش‬ ‫‪:‬ل ظ میں میں نے لکھ‬ ‫ی احس س ت کو کہ نیوں میں ات رن ‪ Feelings‬میرے لئے اپنی ان”‬ ‫دشوار تھ ۔ سو میں نے نثری نظ ک انتخ کی ۔ نثری نظ کے توسط‬ ‫سے مجھے اپنی ب ت کہنے میں زی دہ آس نی ہورہی تھی۔ میں اس نظ‬


‫‪83‬‬

‫میں کچھ کرداروں کو بھی ش مل کرن چ ہت تھ ۔ لیکن یہ خطرہ بھی‬ ‫بدستور بن ہوا تھ کہ پھر ی ر لوگ کہیں گے۔ ”یہ نظ رہی کہ ں۔‬ ‫دوسروں کی طرح ت بھی کہیں نثری نظ لکھنے والوں کی حوص ہ‬ ‫افزائی کرنے الوں کی س زش میں توش مل نہیں ہوگئے۔‬ ‫مثالً تمہیں انھیں کہ نی کہنے میں کی اعتراض ہے؟‬ ‫جم ے ذرا سیدھے کرلو تو یہ کہ نی ہے۔ پھر ت اسے نثری نظ کہنے‬ ‫پر بضد کیو نہو؟‬ ‫دوستوں ک یہ بھی خی ل تھ کہ جو غزل نہیں کہہ سکتے‪ ،‬وہی لوگ‬ ‫ایسی اوٹ پٹ نگ حرکتیں کرتے نظر آتے ہیں۔‬ ‫نثری نظ کے ت سے میں نے اپنے ش عر دوستوں کی آنکھوں میں‬ ‫جو جھالہٹ ی ن رت دیکھی ہے‪ ،‬اس ک اظہ ر ممکن نہیں ہے۔‬ ‫)یہ ں میں ان کے عقیدے کو رد کرن نہیں چ ہت (‬ ‫میں سوچت ہوں‪ ،‬فکری سطح پر بہت سی ب تیں ایسی ہیں‪ ،‬جن ک اظہ ر‬ ‫غزلوں میں نہیں ہوسکت ۔ کسی کسی کی یت کو نظ ی آزاد نظ میں‬ ‫نہیں سموی ج سکت ۔‬ ‫کچھ کی یتیں اتنی بے ہنگ اور الجھی ہوئی ہوتی ہیں کہ آپ ان کے‬ ‫لئے صنف ڈرامہ کو بھی موزوں نہیں ٹھہراسکتے۔ کچھ خی الت اتنے‬ ‫پرپیچ ہوتے ہیں کہ ان کو لے کر کہ نی ں نہیں لکھی ج سکتیں۔ ی ن ول‬ ‫ک موضوع نہیں بن ی ج سکت ۔‬ ‫‪ Shades‬زندگی مجموعہ ¿ سواالت ہے۔ ذہن میں آوارہ خی لوں کے‬ ‫ایسے نہیں ہوتے کہ ہ ‪ Shades‬چ تے رہتے ہیں لیکن یہ س رے‬


‫‪84‬‬

‫انھیں لکھنے کی ضرورت محسوس کرتے ہوں۔ ذہن پر ج کوئی خی ل‬ ‫ن زل ہوت ہے تو وہ اپنے پورے ت جھ ‪ ،‬تکنیک‪ ،‬اس و کے س تھ‬ ‫___ جن لیت ہے اور الش ور میں ہی یہ طے ہوچک ہوت ہے کہ‬ ‫الف‪:‬اسے نظ کے طور پر لکھن ہے‬ ‫‪:‬اس کے لئے کہ نی موزوں ترین چیز ہے‬ ‫ج‪ :‬یہ خی ل نظ میں در آئے تو بہتر ہے‬ ‫کی ‪ Prose-Poem‬لیکن حقیقت ً کچھ چیزیں سی ل کی صورت میں‬ ‫شکل میں ہی ڈھل کر س منے آتی ہیں۔ پھر نثری نظ سے انک ر‬ ‫“کیوں؟‬ ‫)لیپروسی کیمپ“(پیس ل ظ سے”‬ ‫نئی ال ی ی نئی صدی میں قد رکھتے ہوئے آج یہ مقولہ ہر جگہ زیر‬ ‫بحث ہے کہ س ئنس کچھ بھی کرسکتی ہے۔ ہر قد ایک نی تجربہ‪ ،‬ہر‬ ‫قد ایک نی انکش ف‪ ،‬کوئی ایسی صورت اگر اد میں بھی نظر آئے تو‬ ‫حیرت واست ج کے چشمہ کو ات ر کر چونکنے کی ضرورت نہیں ہے۔‬ ‫ہ یہ سوچ کر بھی ایم ن لے آئیں کہ انس نی س ئیکی کے مخت ف مق‬ ‫کو منکشف کرنے کے لئے ممکن ہے اس صنف نوکی ضرورت پیش‬ ‫آگئی ہو اور ا نئی صدی میں‪ ،‬جبکہ نثری نظ ‪ ،‬تکنیک اور ہیئت کے‬ ‫تجزیوں سے گزرتی ہوئی آہستہ آہستہ ہم ری روایت ک ایک حصہ بھی‬ ‫بننے لگی ہے‪ ،‬اس کے ادبی مق ک ت ین کی ج ن ضروری ہے۔‬ ‫اور ا ‪ ،‬محض اس سے آنکھیں چرانے سے ک نہیں چ ے گ‬ ‫شکریہ‬


85

‫ع ی س حل‬ ‫ نظ نو‬:‫مدیر‬ 923003003033 https://groups.google.com/group/nazm-e-nau/subscribe?hl=en


‫‪86‬‬

‫اردو میں نثری نظ‬

‫پیش ک ر‬ ‫مقصود حسنی‬ ‫ابوزر برقی کت خ نہ‬ ‫جنوری ‪٧‬‬


Turn static files into dynamic content formats.

Create a flipbook
Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.